hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

16. طب کا بیان

ابن أبي شيبة

23879

(۲۳۸۸۰) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَِسَافٍ قَالَ : جُرِحَ رَجُلٌ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : اُدْعُوا لَہُ الطَّبِیبَ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، ہَلْ یُغْنِی عَنْہُ الطَّبِیبُ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لَمْ یُنْزِلْ دَائً ، إِلاَّ أَنْزَلَ مَعَہُ شِفَائً۔ (احمد ۵/۳۷۱)
(٢٣٨٨٠) حضرت ہلال بن یساف سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک آدمی زخمی ہوگیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” اس کے لیے طبیب کو بلاؤ “ صحابہ نے عرض کیا۔ کیا طبیب اس کو فائدہ دے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کی شفاء بھی اتاری ہے۔ “

23880

(۲۳۸۸۱) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَیْمُونٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِمْرَانَ الْعَمِّیَّ ، یَقُولُ : سَمِعْتُ أَنَسًا رضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ اللَّہَ حَیْثُ خَلَقَ الدَّائَ خَلَقَ الدَّوَائَ ، فَتَدَاوَوْا۔ (احمد ۳/۱۵۶)
(٢٣٨٨١) حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یقیناً اللہ تعالیٰ نے جہاں بیماری پیدا کی ہے۔ دوائی بھی پیدا کی ہے۔ پس تم دواء استعمال کرو۔ “

23881

(۲۳۸۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی حُسَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَطَائٌ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنْ دَائٍ إِلاَّ أَنْزَلَ لَہُ شِفَائً۔ (بخاری ۵۶۷۸۔ ابن ماجہ ۳۴۳۹)
(٢٣٨٨٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نازل نہیں کی مگر یہ کہ اس کے لیے شفاء بھی پیدا کی ہے۔ “

23882

(۲۳۸۸۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ ، عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ شَرِیکٍ ، قَالَ : شَہِدْتُ الأَعْرَابَ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : تَدَاوَوْا عِبَادَ اللہِ ، فَإِنَّ اللَّہَ لَمْ یَضَعْ دَائً إِلاَّ وَضَعَ مَعَہُ شِفَائً ، إِلاَّ الْہِرَمَ۔ (ابوداؤد ۳۸۵۱۔ ترمذی ۲۰۳۸)
(٢٣٨٨٣) حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ کچھ دیہاتیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” اے اللہ کے بندو ! دوائی ، استعمال کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا کوئی بھی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کے ساتھ شفاء بھی نازل کی ہے۔ “

23883

(۲۳۸۸۴) حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَبِیبُ بْنُ شَیْبَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ اللَّہَ لَمْ یُنْزِلْ دَائً ، أَوْ لَمْ یَخْلُقْ دَائً إِلاَّ وَقَدْ أَنْزَلَ ، أَوْ خَلَقَ لَہُ دَوَائً ، عَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ ، وَجَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ ، إِلاَّ السَّامَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَمَا السَّامُ ؟ قَالَ : الْمَوْتُ۔ (طبرانی ۹۲)
(٢٣٨٨٤) حضرت ابو سعید خدری ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نازل نہیں فرمائی یا کوئی بیماری پیدا نہیں کی مگر یہ کہ اس کے لیے دوائی نازل کی ہے یا پیدا کی ہے۔ جس نے اس کو جان لیا سو جان لیا اور جو اس سے جاہل رہا وہ جاہل رہا سوائے سام کے ۔ “ صحابہ نے پوچھا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سام کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” موت “۔

23884

(۲۳۸۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : لَمْ یُنْزِلِ اللَّہُ دَائً، أَوْ لَمْ یَخْلُقْ دَائً إِلاَّ وَقَدْ أَنْزَلَ مَعَہُ شِفَائً، جَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ ، وَعَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ۔ (احمد ۱/۴۱۳)
(٢٣٨٨٥) حضرت ابو عبد الرحمن سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری یا بیماری نہیں پیدا کی مگر یہ کہ اس کے ساتھ شفاء بھی اتاری ہے۔ جو اس سے جاہل رہا وہ جاہل رہا اور جس نے اس کو جان لیا، اس نے جان لیا۔

23885

(۲۳۸۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَصَابَہُ جُرْحٌ ، فَاحْتَقَنَ الدَّمُ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا لَہُ رَجُلَیْنِ مِنْ بَنِی أَنْمَارٍ فَقَالَ : أیَّکُمَا أَطَبَّ ؟ فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَوَفِی الطِّبِّ خَیْرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ الَّذِی أَنْزَلَ الدَّائَ أَنْزَلَ الدَّوَائَ۔ (مالک ۹۴۳)
(٢٣٨٨٦) حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو زخم لگ گیا پس خون منجمد ہوگیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے بنو انمار کے دو آدمیوں کو بلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” تم میں سے کون بڑا طبیب ہے ؟ “ ایک آدمی نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا طب میں بھی کوئی خیر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یقیناً جس ذات نے بیماری اتاری ہے اس نے دوائی بھی اتاری ہے۔ “

23886

(۲۳۸۸۷) حدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ شَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ؛ (وَقِیلَ مَنْ رَاقٍ) ، قَالَ : مَنْ طَبِیبٌ۔
(٢٣٨٨٧) حضرت ابو قلابہ سے ” وقیل من راقٍ “ کے بارے میں روایت ہے کہتے ہیں۔ اس سے مراد طبیب ہے۔

23887

(۲۳۸۸۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ کَعْبٍ ، قَالَ : إِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : أَنَا الَّذِی أُصِحَّ وَأُدَاوِی۔
(٢٣٨٨٨) حضرت کعب سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حق جل شانہ ٔ کا فرمان ہے۔ میں ہی وہ ذات ہوں جو صحت دیتا ہوں اور علاج کرتا ہوں۔

23888

(۲۳۸۸۹) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ إِیَادِ بْنِ لَقِیطٍ ، عَنْ أَبِی رِمْثَۃَ ، قَالَ : انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِی وَأَنَا غُلاَمٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ أَبِی : إِنِّی رَجُلٌ طَبِیبٌ ، فَأَرِنِی ہَذِہِ السِّلْعَۃَ الَّتِی بِظَہْرِکَ ، قَالَ : مَا تَصْنَعُ بِہَا ؟ قَالَ : أَقْطَعُہَا ، قَالَ : لَسْتَ بِطَبِیبٍ وَلَکِنَّک رَفِیقٌ ، طَبِیبُہَا الَّذِی وَضَعَہَا ، وَقَالَ غَیْرُہُ : الَّذِی خَلَقَہَا۔ (ابوداؤد ۴۲۰۴۔ ترمذی ۲۸۱۲)
(٢٣٨٨٩) حضرت ابو رمثہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا اور اپنے والد کے ہمراہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ابو رمثہ کہتے ہیں۔ میرے والد نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔ میں حکیم آدمی ہوں لہٰذا آپ کی پشت پر جو ابھرا ہوا گوشت ہے۔ وہ آپ مجھے دکھائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ’ ’ تم اس کو کیا کرو گے ؟ “ میرے والد نے جواب دیا، میں اس کو کاٹ دوں گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” تم طبیب نہیں ہو، ہاں مگر تم دوست ہو۔ اس کا طبیب وہی ہے جس نے اس کو بنایا ہے۔ یا فرمایا۔ جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔

23889

(۲۳۸۹۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ شُرْبَ الأَدْوِیَۃِ کُلِّہَا ، إِلاَّ اللَّبَنَ وَالْعَسَلَ۔
(٢٣٨٩٠) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ دودھ اور شہد کے علاوہ تمام ادویات کے پینے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23890

(۲۳۸۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ شُرْبَ الأَدْوِیَۃِ الْمَعْجُونَۃِ إِلاَّ شَیْئًا یَعْرِفُہُ ، وَکَانَ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا مِنْہُ وَلِیَہُ بِنَفْسِہِ۔
(٢٣٨٩١) حضرت محمد کے بارے میں روایت ہے کہ وہ مرکب دواؤں کے پینے کو ناپسند سمجھتے تھے۔ ہاں مگر جس دوائی کو وہ پہچانتے تھے (اس کو ناپسند نہیں سمجھتے تھے) اور آپ جب کوئی ایسی دوائی لینا چاہتے تو بذات خود اس کا انتظام کرتے۔

23891

(۲۳۸۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِل ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الدَّوَائَ الْخَبِیثَ الَّذِی إِذَا عُلِقَ قَتَلَ صَاحِبَہُ۔
(٢٣٨٩٢) حضرت بن معقل کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ایسی خبیث دوائی (کے استعمال) کو ناپسند سمجھتے تھے کہ جب وہ آدمی کی عادت بن جائے تو اس کو مار ڈالے۔

23892

(۲۳۸۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّوَائِ الْخَبِیثِ۔ (ابن ماجہ ۳۴۵۹۔ احمد ۲/۴۴۶)
(٢٣٨٩٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیث دوا سے منع فرمایا۔

23893

(۲۳۸۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قیلَ لِلرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ فِی مَرَضِہِ : أَلاَ نَدْعُو لَکَ الطَّبِیبَ ؟ فَقَالَ : أَنْظِرُونِی ، ثُمَّ تَفَکَّرَ فَقَالَ : {وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا وَکَُلاًّ ضَرَبْنَا لَہُ الأَمْثَالَ وَکُلاًّ تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا} فَذَکَرَ مِنْ حِرْصِہِمْ عَلَی الدُّنْیَا وَرَغْبَتِہِمْ فِیہَا ، قَالَ : فَقَدْ کَانَتْ مَرْضَی ، وَکَانَ فِیہِمْ أَطِبَّائُ ، فَلاَ الْمُدَاوِی ، وَلاَ الْمُدَاوَی ، ہَلَکَ النَّاعِتُ وَالْمَنْعُوتُ لَہُ ، وَاللَّہِ لاَ تَدْعُوا لِی طَبِیبًا۔
(٢٣٨٩٤) حضرت عبد الملک بن عمیر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ربیع بن خثیم کو ان کی بیماری میں پوچھا گیا کہ کیا ہم آپ کے لیے طبیب کو بُلائیں ؟ انھوں نے فرمایا۔ تم مجھے مہلت دے دو ، پھر انھوں نے غور و فکر فرمایا اور کہا : { وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَیْنَ ذَلِکَ کَثِیرًا وَکَُلاًّ ضَرَبْنَا لَہُ الأَمْثَالَ وَکُلاًّ تَبَّرْنَا تَتْبِیرًا } پھر انھوں نے ان لوگوں دنیا پر حرص اور ان کی دنیا میں دلچسپی کا ذکر کیا، فرمایا : یہ لوگ بھی مریض تھے۔ اور ان میں اطباء بھی تھے۔ پس نہ کوئی دوائی لینے والا ہے نہ کوئی دوائی دینے والا ہے۔ تعریف کرنے والا بھی ہلاک ہوگیا اور جس کی تعریف کی گئی وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ خدا کی قسم ! تم لوگ میرے لیے طبیب کو نہ بلاؤ۔

23894

(۲۳۸۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ السَّکَرَ وَیَأْبَاہُ۔
(٢٣٨٩٥) حضرت محمد کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کھجور کے عرق کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے انکار کرتے تھے۔

23895

(۲۳۸۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ قُرَّۃَ ، قَالَ : مَرِضَ أَبُو الدَّرْدَائِ فَعَادُوہُ ، فَقَالُوا لَہُ : نَدْعُو لَکَ الطَّبِیبَ ؟ فَقَالَ : ہُوَ أَضْجَعَنِی۔
(٢٣٨٩٦) حضرت معاویہ بن قرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدرداء بیمار ہوئے تو لوگ ان کی عیادت کو گئے۔ لوگوں نے ان سے کہا۔ ہم آپ کے لیے طبیب نہ بُلائیں ؟ حضرت ابو الدردائ نے فرمایا۔ اس نے تو مجھے بستر پر ڈالا ہے۔

23896

(۲۳۸۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا لاَ یَرَوْنَ بِالاسْتِمْشَائِ بَأْسًا ، قَالَ : وَإِنَّمَا کَرِہُوا مِنْہُ مَخَافَۃَ أَنْ یُضْعِفَہُمْ۔
(٢٣٨٩٧) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرات اہل علم مسہل دوائی لینے میں کوئی حرج نیں و سمجھتے تھے۔ راوی کہتے ہیں۔ صرف اسی وجہ سے کچھ اہل علم اس کو ناپسند کرتے تھے کہ کہیں یہ مسہل دواء آدمی کو کمزور نہ کر دے۔

23897

(۲۳۸۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَسْتَمْشِیَ الْمُحْرِمُ۔
(٢٣٨٩٨) حضرت عطاء سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ احرام باندھے ہوئے آدمی کے لیے دست آور دواء استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

23898

(۲۳۸۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : خَیْرُ الدَّوَائِ ؛ اللَّدُودُ ، وَالسَّعُوطُ ، وَالْمَشِیُّ ، وَالْحِجَامَۃُ ، وَالْعَلقُ۔ (ترمذی ۲۰۵۳)
(٢٣٨٩٩) حضرت شعبی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ ” بہترین دواء وہ ہے جو منہ کے گوشہ میں ڈال کر استعمال کی جائے اور وہ دواء جو ناک کے راستے سے لی جائے اور مسہل دواء اور پچھنے لگوانا اور عَلَق ۔ جونک لگانا ۔ ہے۔

23899

(۲۳۹۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، بِمِثْلِہِ۔
(٢٣٩٠٠) حضرت شعبی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔

23900

(۲۳۹۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ زُرْعَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَوْلًی لِمَعْمَرٍ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : بِمَاذَا کُنْتِ تَسْتَمْشِینَ ؟ قُلْتُ : بِالشَّبْرُمِ ، قَالَ : حَارٌّ جَارٌّ ، ثُمَّ اسْتَمْشَیْتُ بِالسَّنَا ، فَقَالَ : لَوْ کَانَ شَیْئٌ یَشْفِی مِنَ الْمَوْتِ کَانَ السَّنَا ، أَوِ السَّنَا شِفَائٌ مِنَ الْمَوْتِ۔ (طبرانی ۳۹۷۔ ترمذی ۲۰۸۱)
(٢٣٩٠١) حضرت اسماء بنت عمیس سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مجھ سے) پوچھا۔ ” تم کس چیز سے جُلاب لیتی تھی۔ ؟ “ میں نے جواب دیا۔ شُبُرم کے ذریعہ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یہ تو گرم کھینچنے والی چیز ہے “۔ پھر میں نے سَنَا کے ذریعہ جلاب لیئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” اگر موت سے کوئی چیز شفاء دیتی تو سنا ہوتی “۔ یا فرمایا : ” سنا موت سے بھی شفا ہے “۔

23901

(۲۳۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ أُمِّ قَیْسٍ ابْنَۃِ مِحْصَنٍ ، قَالَتْ: دَخَلْتُ بِابْنٍ لِی عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ أَعْلَقْتُ عَلَیْہِ مِنَ الْعُذْرَۃِ ، فَقَالَ : عَلاَمَ تَدْغَرْنَ أَوْلاَدَکُنَّ ؟ عَلَیکُنَّ بِہَذَا الْعِلاَقِ ، عَلَیْکُنَّ بِہَذَا الْعُودِ الْہِنْدِیِّ ، فَإِنَّ فِیہِ سَبْعَۃَ أَشْفِیَۃٍ ، یُسْعَطُ بِہِ مِنَ الْعُذْرَۃِ ، وَیُلَدُّ بِہِ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ۔ (بخاری ۵۶۹۲۔ مسلم ۱۷۳۴)
(٢٣٩٠٢) حضرت ام قیس بنت محصن سے روایت ہے۔ کہتی ہیں : کہ میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے حلق کے درد کی وجہ سے اس کو جونک لگا رکھی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اپنی کا گلا کیوں گھونٹ رہی ہو ؟ تم یہ علاج کرو۔ تم یہ عود ہندی کو استعمال کرو۔ کیونکہ اس میں سات بیماریوں سے شفاء ہے۔ حلق کا درد ہو تو اس کو بذریعہ ناک کھینچا جائے اور ذات الجنب ہو تو اس کو منہ کے گوشہ سے استعمال کیا جائے۔

23902

(۲۳۹۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ وَعِنْدَہَا صَبِیٌّ یَبْتَدِرُ مَنْخَرَاہُ دَمًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا ہَذَا ؟ قَالُوا : بِہِ الْعُذْرَۃُ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلاَمَ تُعَذِّبْنَ أَوْلاَدَکُنَّ ؟ إِنَّمَا یَکْفِی إِحْدَاکُنَّ أَنْ تَأْخُذَ قُسْطًا ہِنْدِیًّا ، فَتَحُکَّہُ بِمَائٍ سَبْعَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ تُوجِرَہُ إِیَّاہُ ، قَالَ : فَفَعَلُوہُ فَبَرَأَ۔ (احمد ۳/۳۱۵۔ بزار ۳۰۲۴)
(٢٣٩٠٣) حضرت جابر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے پاس ایک بچہ تھا جس کے نتھنون سے خون جاری تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” یہ کیا ہے ؟ “ لوگوں نے بتایا۔ اس کو حلق کی بیماری ہے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم عورتیں کس بات پر اپنی اولادوں کو عذاب دیتی ہو ؟ تم میں سے کسی ایک کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ وہ ہندی لکڑی لے لے اور اس کو سات مرتبہ پانی میں رگڑ لے پھر اس کو بچے کے حلق میں ٹپکا دے “ راوی کہتے ہیں۔ لوگوں نے اس بچہ کے ساتھ ایسا ہی کیا اور وہ بچہ صحت یاب ہوگیا۔

23903

(۲۳۹۰۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَیْتُمْ بِہِ الْحِجَامَۃُ ، وَالْقُسْطُ الْعَرَبِیُّ لِصِبْیَانِکُمْ مِنَ الْعُذْرَۃِ ، وَلاَ تُعَذِّبُوہُمْ بِالْغَمْزِ۔ (بخاری ۵۶۹۶۔ مسلم ۶۴)
(٢٣٩٠٤) حضرت انس ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” جو تم دوائیاں استعمال کرتے ہو ان میں سے بہترین دوائی حجامت (پچھنے لگوانا) ، اور عربی لکڑی ہے۔ تمہارے بچوں کے حلق کی تکلیف کے لئے۔ اور تم بچوں کو گھونٹ کر عذاب نہ دو ۔ “

23904

(۲۳۹۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِہَذِہِ الْحَبَّۃِ السَّوْدَائِ ، فَإِنَّ فِیہَا شِفَائً مِنْ کُلِّ دَائٍ، قِیلَ لَہُ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسلم ۸۸۔ احمد ۲/۲۶۸)
(٢٣٩٠٥) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ” تم ان سیاہ دانوں (کلونجی) کو لازمی استعمال کرو کیونکہ ان میں ہر بیماری سے شفاء ہے “ ابوہریرہ سے پوچھا گیا۔ یہ بات آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کر کے کہہ رہے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : ہاں۔

23905

(۲۳۹۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ قتَادَۃَ ، وَمَطَرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الشَّونِیزُ فِیہِ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ إِلاَّ السَّامَ ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، مَا السَّامُ ؟ قَالَ : الْمَوْتُ۔ (احمد ۵/۳۴۶)
(٢٣٩٠٦) حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد کے واسطہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” کلونجی میں سام کے سوا ہر بیماری کی شفاء ہے “ لوگوں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سام کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” موت “۔

23906

(۲۳۹۰۷) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَتِیقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : عَلَیْکُمْ بِہَذِہِ الْحَبَّۃِ السَّوْدَائِ ، فَإِنَّ فِیہِ شِفَائً مِنْ کُلِّ دَائٍ ، یَعْنِی الشَّونِیزَ۔ (بخاری ۵۶۸۷۔ احمد ۶/۱۳۸)
(٢٣٩٠٧) حضرت عائشہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم پر سیاہ دانے (کلونجی) لازم ہیں۔ کیونکہ اس میں ہر بیماری سے شفاء ہے۔

23907

(۲۳۹۰۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی الْحُقْنَۃِ أَشَدَّ الْقَوْلِ۔
(٢٣٩٠٨) حضرت علی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حقنہ کے بارے میں سخت ترین بات کہا کرتے تھے۔ (حقنہ کا مطلب ہے : مقعد سے دوائی چڑھانا) ۔

23908

(۲۳۹۰۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُہَا۔
(٢٣٩٠٩) حضرت مجاہد کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حقنہ (مقعد سے دوائی چڑھانا) کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23909

(۲۳۹۱۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، وَعَبَّادٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إِنِّی لأَتَفَحَّشُہَا۔
(٢٣٩١٠) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں حقنہ کو بُرا قرار دیتا ہوں۔

23910

(۲۳۹۱۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سُئِلَ عَامِرٌ عَنِ الْحُقْنَۃِ لِلصَّائِمِ؟ فَقَالَ: إِنِّی لأَکْرَہُہَا لِلْمُفْطِرِ، فَکَیْفَ لِلصَّائِمِ؟
(٢٣٩١١) حضرت جابر کہتے ہیں کہ حضرت عامر سے روزہ دار کے لیے حقنہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا۔ میں تو غیر روزہ دار کے لیے بھی حقنہ کو ناپسند سمجھتا ہوں۔ تو روزہ دار کے لیے کیسے اجازت دے سکتا ہوں ؟

23911

(۲۳۹۱۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إِنِّی لأَتَفَحَّشُہَا۔
(٢٣٩١٢) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں حقنہ کو بُرا قرار دیتا ہوں۔

23912

(۲۳۹۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، وَالْحَسَنِ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا الْحُقْنَۃَ۔
(٢٣٩١٣) حضرت قتادہ اور حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دونوں حقنہ کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23913

(۲۳۹۱۴) حَدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ الْمَعْرُورِ، عَنْ عَلِیٍّ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الْحُقْنَۃَ۔
(٢٣٩١٤) حضرت علی کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حقنہ کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23914

(۲۳۹۱۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : ہِیَ طَرَفٌ مِنْ عَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ ، یَعْنِی الْحُقْنَۃَ۔
(٢٣٩١٥) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہتے ہیں کہ یہ قوم لوط کے کام کا ایک کنارہ ہے یعنی حقنہ کا عمل۔

23915

(۲۳۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُوسٍ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا الْحُقْنَۃَ۔
(٢٣٩١٦) حضرت مجاہد اور طاؤس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دونوں حقنہ کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23916

(۲۳۹۱۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا۔
(٢٣٩١٧) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حقنہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔

23917

(۲۳۹۱۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : ہِیَ دَوَائٌ۔
(٢٣٩١٨) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ حقنہ تو ایک دوائی ہے۔

23918

(۲۳۹۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ احْتَقَنَ۔
(٢٣٩١٩) حضرت حکم کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے حقنہ کروایا تھا۔

23919

(۲۳۹۲۰) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِالْحُقْنَۃِ بَأْسًا۔
(٢٣٩٢٠) حضرت عطاء کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حقنہ میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے۔

23920

(۲۳۹۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَبُو مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِالْحُقْنَۃِ بَأْسًا۔
(٢٣٩٢١) حضرت ابراہیم کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حقنہ کروانے میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے۔

23921

(۲۳۹۲۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، وَمُعْتَمِرٌ ، عَنِ الرُّکَیْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانٍ ، عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ عَقْدَ التَّمَائِمِ۔ (احمد ۳۹۷۔ حاکم ۱۹۵)
(٢٣٩٢٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈورے باندھنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23922

(۲۳۹۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عِیسَی ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُکَیْمٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَعَلَّقَ عَلاَقَۃً وُکِلَ إِلَیْہَا۔ (احمد ۴/۳۱۰۔ بیہقی ۳۵۱)
(٢٣٩٢٣) حضرت عبداللہ بن حکیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس نے کوئی چیز : دھا کہ وغیرہ لٹکائی تو وہ اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے “۔

23923

(۲۳۹۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : دَخَلَ عَبْدُ اللہِ عَلَی امْرَأَتِہِ وَہِیَ مَرِیضَۃٌ ، فَإِذَا فِی عُنُقِہَا خَیْطٌ مُعَلَّقٌ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ فَقَالَتْ : شَیْئٌ رُقِیَ لِی فِیہِ مِنَ الْحُمَّی ، فَقَطَعَہُ وَقَالَ : إِنَّ آلَ إِبْرَاہِیمَ أَغْنِیَائُ عَنِ الشِّرْکِ۔
(٢٣٩٢٤) حضرت ابو عبیدہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ، اپنی بیوی کے پاس گئے اور وہ (اس وقت) بامجر تھیں۔ حضرت عبداللہ کو ان کی گردن میں ایک دھاگہ لٹکا ہوا نظر آیا تو آپ نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ بیوی نے جواب دیا۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں بخار کا دم کان گیا ہے۔ پس حضرت عبداللہ نے اس کو توڑ دیا اور فرمایا۔ بیشک آل ابراہیم شرک سے بری ہیں۔

23924

(۲۳۹۲۵) حَدَّثَنَا ہُشَیمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : رَأَی ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَی بَعْضِ أَہْلِہِ شَیْئًا قَدْ تَعَلَّقَہُ ، فَنَزَعَہُ مِنْہُ نَزْعًا عَنِیفًا ، وَقَالَ : إِنَّ آلَ ابْنِ مَسْعُودٍ أَغْنِیَائُ عَنِ الشِّرْکِ۔
(٢٣٩٢٥) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے اپنے بعض اہل خانہ پر کوئی چیز لٹکی ہوئی دیکھی تو آپ نے اس کو غصہ سے کھینچ دیا اور فرمایا : بیشک ابن مسعود کے گھر والے شرک سے بے پروا ہیں۔

23925

(۲۳۹۲۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ ، أَنَّہُ رَأَی فِی یَدِ رَجُلٍ حَلْقَۃً مِنْ صُفْرٍ ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ ؟ قَالَ : مِنَ الْوَاہِنَۃِ ، قَالَ : لَمْ یَزِدْکَ إِلاَّ وَہْنًا ، لَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تَرَاہَا نَافِعَتَکَ لَمِتَّ عَلَی غَیْرِ الْفِطْرَۃِ۔ (ابن ماجہ ۳۵۳۱۔ احمد ۴/۴۴۵)
(٢٣٩٢٦) حضرت عمران بن حصین کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا۔ تو آپ نے (اس سے) پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ اس آدمی نے جواب دیا۔ یہ واہنہ (بازو کی بیماری) کی وجہ سے پہنا ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ تو تم میں ضعف کو مزید بڑھائے گا۔ اور اگر تم اس حالت میں مرے کہ تم اس کو نافع خیال کرتے ہو تو یقیناً تم خلاف فطرت موت مرو گے۔

23926

(۲۳۹۲۷) حَدَّثَنَا ہُشَیمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ ؛ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(٢٣٩٢٧) حضرت حسن نے حضرت عمران بن حصین سے ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔

23927

(۲۳۹۲۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ وَہْبٍ ، قَالَ : انْطَلَقَ حُذَیْفَۃُ إِلَی رَجُلٍ مِنَ النَّخَعِ یَعُودُہُ ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ مَعَہُ ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ وَدَخَلْتُ مَعَہُ ، فَلَمَسَ عَضُدَہُ ، فَرَأَی فِیہِ خَیْطًا ، فَأَخَذَہُ فَقَطَعَہُ ، ثُمَّ قَالَ : لَوْ مِتَّ وَہَذَا فِی عَضُدِکَ مَا صَلَّیْتُ عَلَیْکَ۔
(٢٣٩٢٨) حضرت زید سے روایت ہے کہتے ہیں : کہ مجھے زید بن وہب نے بتایا کہ حضرت حذیفہ ایک آدمی کی بلغم کی مرض میں عیادت کرنے کے لیے گئے۔ وہ چلے تو میں بھی ان کے ہمراہ چل پڑا ۔ پس وہ اس کے پاس پہنچے تو میں بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔ پھر حضرت حذیفہ نے اس کی کلائی کو چھوا تو اس میں انھوں نے ایک دھاگہ دیکھا۔ آپ نے اس دھاگہ کو پکڑا اور توڑ دیا۔ پھر آپ نے فرمایا۔ اگر تم اس حالت میں مرجاتے کہ یہ دھاگہ تمہاری کلائی میں ہوتا تو میں تمہارا جنازہ نہ پڑھتا۔

23928

(۲۳۹۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِی ظِبْیَانَ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ: دَخَلَ عَلِیٌّ عَلَی رَجُلٍ یَعُودُہُ، فَوَجَدَ فِی عَضُدِہِ خَیْطًا، قَالَ: فَقَالَ: مَا ہَذَا؟ قَالَ : خَیْطٌ رُقِیَ لِی فِیہِ ، فَقَطَعَہُ ، ثُمَّ قَالَ : لَوْ مِتَّ مَا صَلَّیْتُ عَلَیْکَ۔
(٢٣٩٢٩) حضرت حذیفہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت علی ایک آدمی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ تو آپ نے اس کی کلائی میں دھاگہ دیکھا۔ آپ نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا۔ یہ ایک دھاگہ ہے جس میں مجھے دم کر کے دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت علی نے اس کو توڑ دیا۔ پھر فرمایا : اگر تم مرجاتے تو میں تمہارا جنازہ نہ پڑھتا۔

23929

(۲۳۹۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ تَعْلِیقَ شَیْئٍ مِنَ الْقُرْآنِ۔
(٢٣٩٣٠) حضرت عبداللہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قرآن مجد میں سے بھی کچھ (آیت وغیرہ) لٹکانے کو ناپسند کرتے تھے۔

23930

(۲۳۹۳۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنْ أَبِی الْخَیْرِ ، عنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ : مَوْضِعُ التَّمِیمَۃِ مِنَ الإِِنْسَان وَالطِّفْلِ شِرْکٌ۔
(٢٣٩٣١) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان اور بچے کے تعویذ کی جگہ شرک (کا ذریعہ) ہے۔

23931

(۲۳۹۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : مَنْ تَعَلَّقَ عَلاَقَۃً وُکِلَ إِلَیْہَا۔
(٢٣٩٣٢) حضرت ابو مجلز سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جس کسی نے کوئی شئی ۔ دھاگہ وغیرہ۔ لٹکایا تو اس کو اسی شئی کے سپرد کردیا جائے گا۔

23932

(۲۳۹۳۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ التَّمَائِمَ کُلَّہَا ، مِنَ الْقُرْآنِ وَغَیْرِ الْقُرْآنِ۔
(٢٣٩٣٣) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ (پہلے) اہل علم ہر قسم کے تعویذات کو ناپسند سمجھتے تھے چاہے وہ قرآن سے ہوں یا غیر قرآن سے۔

23933

(۲۳۹۳۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا یُونُسُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ ذَلِکَ۔
(٢٣٩٣٤) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ان (تعویذات) کو ناپسند سمجھتے تھے۔

23934

(۲۳۹۳۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاہِیمَ : أُعَلِّقُ فِی عَضُدِی ہَذِہِ الآیَۃَ : {یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلَی إِبْرَاہِیمَ} مِنْ حُمَّی کَانَتْ بِی ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٣٩٣٥) حضرت مغیرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا۔ مجھے جو بخار ہوتا ہے میں اس سے (بچاؤ کے لئے) یہ آیت : { یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلَی إِبْرَاہِیمَ } اپنی کلائی پر (لکھ کر) لٹکا لوں ؟ تو حضرت ابراہیم نے اس کو ناپسند کا ۔

23935

(۲۳۹۳۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ ہِلاَلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ عَلَّقَ التَّمَائِمَ وَعَقَدَ الرَّقَی ، فَہُوَ عَلَی شُعْبَۃٍ مِنَ الشِّرْکِ۔
(٢٣٩٣٦) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے تعویذات لٹکائے اور ڈورے باندھے تو یہ شخص شرک کے ایک شعبہ پر عمل پیرا ہے۔

23936

(۲۳۹۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ التَّمَائِمَ وَالرَّقَی وَالنَّشَرَ۔
(٢٣٩٣٧) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ (پہلے) اہل علم تعویذات ، ڈوروں اور آب زدہ کے تعویذ کو پسند نہیں کرتے تھے۔

23937

(۲۳۹۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ؛ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ رَأَی إِنْسَانًا یَطُوفُ بِالْبَیْتِ فِی عُنُقِہِ خَرَزَۃٌ فَقَطَعَہَا۔
(٢٣٩٣٨) حضرت محمد بن سوقہ سے روایت ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے ایک آدمی کو بیت اللہ کے گرد طواف کرتے دیکھا کہ اس کی گردن میں ڈورا تھا تو آپ نے اس ڈورے کو توڑ ڈالا۔

23938

(۲۳۹۳۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : مَنْ قَطَعَ تَمِیمَۃً عَنْ إِنْسَانٍ کَانَ کَعِدْلِ رَقَبَۃٍ۔
(٢٣٩٣٩) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جس آدمی نے کسی انسان سے ڈورے کو توڑا تو یہ (ثواب میں) ایک غلام کی آزادی کے برابر ہے۔

23939

(۲۳۹۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: مَنْ عَلَّقَ شَیْئًا وُکِلَ إِلَیْہِ۔
(٢٣٩٤٠) حضرت واقع بن سحبان سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ جو آدمی کوئی چیز لٹکاتا ہے تو وہ اس کے سپرد کردیا جاتا ہے۔

23940

(۲۳۹۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ أَبِی شِہَابٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : کَانَتْ بِہِ شَقِیقَۃٌ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : أَرْقِیکَ مِنْہَا ؟ قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی بِالرَّقَی۔
(٢٣٩٤١) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ انھیں درد سر تھا۔ بتاتے ہیں کہ ان سے ایک آدمی نے کہا۔ میں آپ کو اس درد کا تعویذ دیتا ہوں ؟ حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا۔ مجھے تعویذ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

23941

(۲۳۹۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الْمَعَاذَۃَ لِلصِّبْیَانِ ، وَیَقُولُ : إِنَّہُمْ یَدْخُلُونَ بِہِ الْخَلاَئَ۔
(٢٣٩٤٢) حضرت ابراہیم کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بچوں کے لیے تعویذ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ بچے تعویذ کے ہمراہ ہی بیت الخلاء میں چلے جاتے ہیں۔

23942

(۲۳۹۴۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہَاشِمٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ یَقُولُ : سَمِعْتُ سَعْدًا یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ تَصَبَّحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتِ عَجْوَۃٍ ، لَمْ یَضُرَّہُ ذَلِکَ الْیَوْمَ سَمٌّ ، وَلاَ سِحْرٌ۔ (بخاری ۵۴۴۵۔ مسلم ۱۵۴)
(٢٣٩٤٣) حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سُنا کہ ” جو شخص بوقت صبح سات عجوہ کھجوریں کھالے گا تو اس کو اس دن میں کوئی زہر یا جادو نقصان نہیں دے گا۔

23943

(۲۳۹۴۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْعَجْوَۃُ مِنَ الْجَنَّۃِ ، وَہِیَ شِفَائٌ مِنَ السَّمِّ۔ (ترمذی ۲۰۶۸۔ احمد ۳/۴۸)
(٢٣٩٤٤) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” عجوہ کھجور جنت سے ہے اور یہ زہر سے بھی شفاء ہے۔ “

23944

(۲۳۹۴۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تَأْمُرُ مِنَ الدَّوَامِ ، أَوِ الدَّوَارِ بِسَبْعِ تَمَرَاتٍ عَجْوَۃٍ ، فِی سَبْعِ غَدَوَاتٍ عَلَی الرِّیقِ۔
(٢٣٩٤٥) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد کے واسطے سے حضرت عائشہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ دورانِ سر سے افاقہ کے لیے سات صبح نہار منہ عجوہ کھجور کے ساتھ دانے کھانے کا فرمایا کرتی تھیں۔

23945

(۲۳۹۴۶) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَرِیکُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَمِرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عَتِیقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فِی عَجْوَۃِ الْعَالِیَۃِ شِفَائٌ أَوْ : إِنَّہَا تِرْیَاقٌ فِی أَوَّلِ الْبُکْرَۃِ عَلَی الرِّیقِ۔ (مسلم ۱۶۱۹۔ نسائی ۶۷۱۴)
(٢٣٩٤٦) حضرت عائشہ سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : ” عجوہ عالیہ میں شفا ہے۔ “ یا ارشاد فرمایا : ’ ’ عجوہ عالیہ، صبح کے وقت نہار منہ تریاق ہے۔ “

23946

(۲۳۹۴۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّ أُمَّ سُلَیْمٍ وَلَدَتْ غُلاَمًا ، فَقَالَ لِی أَبُو طَلْحَۃَ : احْمِلْہُ حَتَّی تَأْتِیَ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَی بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَبَعَثَ مَعَہُ بِتَمَرَاتٍ ، فَأَخَذَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : مَعَہُ شَیْئٌ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، تَمَرَاتٌ ، فَأَخَذَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَضَغَہَا ، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ فِیہِ فَجَعَلَہُ فِی فِیِّ الصَّبِیِّ ، ثُمَّ حَنَّکَہُ بِہِ ، وَسَمَّاہُ عَبْدَ اللہِ۔ (بخاری ۵۴۷۰۔ مسلم ۱۶۸۹)
(٢٣٩٤٧) حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم کا ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھے ابو طلحہ نے کہا۔ اس بچہ کو نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جاؤ۔ پس یہ بچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا اور اس بچہ کے ہمراہ چند کھجوریں بھی بھیجی گئی تھیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچہ کو لیا اور فرمایا ” اس کے ساتھ کوئی چیز ہے ؟ “ لوگوں نے جواب دیا۔ جی ہاں ! کھجوریں ہیں۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجوریں لیں اور ان کو چبایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ مبارک سے (چبائی ہوئی کھجور) لی اور اس کو بچہ کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے تالو کو ملا اور اس کا نام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ رکھا۔

23947

(۲۳۹۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ بُرَیدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : وُلِدَ لِی غُلاَمٌ ، فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمَّاہُ إِبْرَاہِیمَ ، وَحَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ۔ (بخاری ۶۱۹۸۔ مسلم ۲۴)
(٢٣٩٤٨) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میرے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ میں (اسے لے کر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اس کو اپنی کھجور سے گٹھی دی۔

23948

(۲۳۹۴۹) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ مُسْہِرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ ؛ أَنَّہَا أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِابْنِ الزُّبَیْرِ حِینَ وَضَعَتْہُ ، وَطَلَبُوا تَمْرَۃً حَتَّی وَجَدُوہَا فَحَنَّکَہُ بِہَا ، فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ دَخَلَ بَطْنَہُ رِیقُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (بخاری ۳۹۰۹۔ مسلم ۱۶۹۱)
(٢٣٩٤٩) حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ابن زبیر کو ۔۔۔ جب حضرت اسماء نے ان کو جنا ۔۔۔لے کر حاضر ہوئیں۔ اور صحابہ نے کھجور کی تلاش کی یہاں تک کہ مل گئی تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن زبیر کو کھجور کی گٹھی دی۔ پس جو چیز حضرت ابن زبیر کے پیٹ میں گئی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعاب مبارک تھا۔

23949

(۲۳۹۵۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُؤْتَی بِالصِّبْیَانِ فَیُبَرِّکُ عَلَیْہِمْ وَیُحَنِّکُہُمْ۔ (بخاری ۶۰۰۲۔ مسلم ۱۶۹۱)
(٢٣٩٥٠) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بچوں کو لایا جاتا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے برکت کی دعاء فرماتے اور ان کو گٹھی دیتے تھے۔

23950

(۲۳۹۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: عَلَیْکُمْ بِالإِثْمِدِ عِنْدَ النَّوْمِ، فَإِنَّہُ یَشُدُّ الْبَصَرَ وَیُنْبِتُ الشَّعْرَ۔ (ابن ماجہ ۳۴۹۶)
(٢٣٩٥١) حضرت جابر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سُنا کہ : ” سونے کے وقت اثمد (سرمہ) کو لازمی استعمال کرو۔ کیونکہ یہ نگاہ کو تیز کرتا ہے۔ اور بالوں کو اگاتا ہے۔ “

23951

(۲۳۹۵۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: خَیْرُ أَکْحَالِکُمُ الإِثْمِدُ، یَجْلُو الْبَصَرَ، وَیُنْبِتُ الشَّعْرَ۔
(٢٣٩٥٢) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تمہارے سرموں میں سے بہترین سرمہ اثمد ہے۔ نگاہ کو تیز کرتا ہے۔ اور بالوں کو اگاتا ہے۔ “

23952

(۲۳۹۵۳) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْتَحِلُ بِالإِثْمِدِ ، وَیَکْحَلُ الْیُمْنَی ثَلاَثَ مَرَاوِد ، وَالْیُسْرَی مِرْوَدَیْنِ۔ (ابن سعد ۴۸۴)
(٢٣٩٥٣) حضرت عمران بن ابی انس سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اثمد سرمہ لگایا کرتے تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں آنکھ میں تین سلائیاں سرمہ لگاتے تھے اور بائیں آنکھ میں دو سلائیاں سرمہ لگاتے تھے۔

23953

(۲۳۹۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ حَفْصَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْتَحِلُ ثَلاَثًا فِی کُلِّ عَیْنٍ۔
(٢٣٩٥٤) حضرت انس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ہر آنکھ میں تین تین مرتبہ سرمہ لگایا کرتے تھے۔

23954

(۲۳۹۵۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْتَحِلُ اثْنَتَیْنِ فِی ذِہِ ، وَاثْنَتَیْنِ فِی ذِہِ ، وَوَاحِدَۃً بَیْنَہُمَا۔
(٢٣٩٥٥) حضرت ابن سیرین کے بارے میں روایت ہے کہ وہ دو سلائیاں اس آنکھ میں اور دو سلائیاں اس آنکھ میں سرمہ لگایا کرتے تھے اور ایک سلائی دونوں آنکھوں کے درمیان لگاتے تھے۔

23955

(۲۳۹۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُکْحُلَۃٌ یَکْتَحِلُ بِہَا ثَلاَثًا فِی کُلِّ عَیْنٍ۔ (ترمذی ۲۰۴۸۔ ابن ماجہ ۳۴۹۹)
(٢٣٩٥٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آنکھ میں تین تین سلائیاں سرمہ لگاتے تھے۔

23956

(۲۳۹۵۷) حَدَّثَنَا شَبَابَۃ قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنْ جُعْفَی ، یُقَالَ لَہُ : سُوَیْد بْنُ طَارِقٍ ، سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَمْرِ ؟ فَنَہَاہُ عَنْہَا ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّمَا نَصْنَعہَا لِدَوَائٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہَا دَائٌ وَلَیْسَتْ بِدَوَائٍ۔
(٢٣٩٥٧) حضرت علقمہ بن وائل، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جعفی کا ایک شخص جس کو سوید بن طارق کہا جاتا تھا۔ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کے بارے میں سوال کیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس سے منع کردیا۔ اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تو اس کو دوائی کے لیے بناتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ” یہ تو بیماری ہے۔ یہ دوائی نہیں ہے۔ “

23957

(۲۳۹۵۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً أَصَابَہُ الصَّفْرُ ، فَنُعِتَ لَہُ السَّکَرُ ، فَسَأَلَ عَبْدَ اللہِ عَنْ ذَلِکَ ؟ فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَکُمْ فِیمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ۔
(٢٣٩٥٨) حضرت ابو وائل سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو پیٹ کا وہ مرض لاحق ہوا جس میں چہرہ زرد ہوجاتا ہے تو کسی نے اس کے سامنے عرق کھجور کی تعریف کی۔ اس مریض نے حضرت عبداللہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تم پر حرام کیا ہے اس چیز میں تمہاری شفا نہیں رکھی۔

23958

(۲۳۹۵۹) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : کَانَتْ لابْنِ عُمَرَ بُخْتِیَّۃٌ ، وَإِنَّہَا مَرِضَتْ ، فَوُصِفَ لِی أَنْ أُدَاوِیَہَا بِالْخَمْرِ ، فَدَاوَیْتُہَا ، ثُمَّ قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ : إِنَّہُمْ وَصَفُوا لِی أَنْ أُدَاوِیَہَا بِالْخَمْرِ ، قَالَ : فَفَعَلْتَ ؟ قُلْتُ : لاَ ، وَقَدْ کُنْتُ فَعَلْتُ ، قَالَ : أَمَا إِنَّک لَوْ فَعَلْتَ عَاقَبْتُکَ۔
(٢٣٩٥٩) حضرت نافع سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کے پاس ایک بختی اونٹ تھا۔ وہ بیمار ہوگیا، مجھے کسی نے کہا کہ میں اس کا شراب کے ذریعہ علاج کروں۔ چنانچہ میں نے اس کا علاج کیا۔ پھر میں نے حضرت ابن عمر سے کہا۔ لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ میں اس کا شراب کے ذریعہ علاج کروں ! حضرت ابن عمر نے پوچھا۔ پھر تم نے کیا ؟ میں نے کہا۔ نہیں۔ حالانکہ میں تو علاج کرچکا تھا۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا۔ اگر تم نے یہ کام کیا ہوتا تو میں تمہیں سزا دیتا۔

23959

(۲۳۹۶۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَامِرٍ ، وَابْنُ زِیَادٍ : لاَ أُوتَی بِأَحَدٍ سَقَی صَبِیًّا خَمْرًا إِلاَّ جَلَدْتُہُ ۔ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ : وَحِفْظِی : ابْنُ زِیَادٍ۔
(٢٣٩٦٠) حضرت حسن سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ابن عامر اور ابن زیاد نے کہا کہ : میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا گیا جس نے کسی بچے کو شراب پلائی ہو تو میں اس کو ضرور کوڑے لگاؤں گا۔

23960

(۲۳۹۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ تُسْقَی الْبَہَائِمُ الْخَمْرَ۔
(٢٣٩٦١) حضرت ابن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس بات کو (بھی) ناپسند کرتے تھے کہ جانوروں کو شراب پلائی جائے۔

23961

(۲۳۹۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُتَدَاوَی بِالْخَمْرِ، وَبِدَمِ الْحَلَمِ، وَبِالنَّارِ۔
(٢٣٩٦٢) حضرت ابراہیم کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند سمجھتے تھے کہ شراب اور چیچڑ کے خون کے ساتھ اور آگ کے ذریعہ سے علاج کیا جائے۔

23962

(۲۳۹۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَسُئِلَ عَنْ صَبِیٍّ یَشْتَکِی ، نُعِتَ لَہُ قَطْرَۃٌ مِنْ خَمْرٍ ؟ قَالَ : لاَ۔
(٢٣٩٦٣) حضرت حکم بن عطہڈ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت حسن سے سوال کیا گیا کہ ایک بچہ تکلیف میں مبتلا ہے، کیا اسے شراب کا ایک قطرہ دیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا نہیں۔

23963

(۲۳۹۶۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَقُولُ : مَنْ تَدَاوَی بِالْخَمْرِ فَلاَ شَفَاہُ اللَّہُ۔
(٢٣٩٦٤) حضرت زہری سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ کہا کرتی تھیں کہ جو شخص شراب کے ذریعہ سے علاج کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو شفا ہی نصیب نہ کریں۔

23964

(۲۳۹۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عَامِرٍ : مَنْ سَقَی صَبِیًّا خَمْرًا جَلَدْنَا الَّذِی سَقَاہُ۔
(٢٣٩٦٥) حضرت عامر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عامر نے فرمایا : جو شخص کسی بچے کو شراب پلائے گا تو ہم پلانے والے کو کوڑے ماریں گے۔

23965

(۲۳۹۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَرِہَ أَنْ یُدَاوَی دَبَرُ الإِبِلِ بِالْخَمْرِ۔
(٢٣٩٦٦) حضرت سعد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اونٹ کی پشت پر جو زخم لگا ہے اس کا علاج شراب سے کیا جائے۔

23966

(۲۳۹۶۷) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَیْمَنُ بْنُ نَابِلٍ ، عَنْ أُمِّ کُلْثُومِ ابْنَۃِ عَمْرٍو ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلَیْکُمْ بِالْبَغِیضِ النَّافِعِ ، یَعْنِی التَّلْبِینَۃَ ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ ، إِنَّہُ لَیَغْسِلُ بَطْنَ أَحَدِکُمْ کَمَا یَغْسِلُ أَحَدُکُمْ وَجْہَہُ مِنَ الْوَسَخِ ، وَکَانَ إِذَا اشْتَکَی أَحَدٌ مِنْ أَہْلِہِ ، لَمْ تَزَلِ الْبُرْمَۃُ عَلَی النَّارِ حَتَّی یَأْتِیَ عَلَی أَحَدِ طَرَفَیْہِ۔ (ترمذی ۲۰۳۹۔ احمد ۶/۳۲)
(٢٣٩٦٧) حضرت عائشہ سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم لوگ مبغوض لیکن نافع چیز یعنی تلبینہ (بھوسے اور شہد کا حریرہ) کو لازم پکڑو۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ یقیناً یہ چیز تمہارے پیٹ کو اس طرح دھو ڈالتی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی ایک اپنے چہرہ سے میل کو دھو ڈالتا ہے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں میں سے جب کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو ہانڈی مسلسل آگ پر دھری رہتی یہاں تک کہ مریض کسی ایک جانب ۔۔۔ موت یا حیات۔۔۔ کی طرف آجاتا۔

23967

(۲۳۹۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْتَجِمُ أَسْفَلَ مِنَ الذُّؤَابَۃِ ، وَیُسَمِّیہَا مُنْقِذًا۔
(٢٣٩٦٨) حضرت مکحول سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اپنی) پیشانی کے بالوں کے نچلے حصہ میں پچھنے لگواتے تھے اور اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منقذ کا نام دیتے تھے۔

23968

(۲۳۹۶۹) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : احْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا عَلَی الأَخْدَعَیْنِ ، وَعَلَی الْکَاہِلِ وَاحِدَۃً۔ (ترمذی ۲۰۵۱۔ ابوداؤد ۳۸۵۶)
(٢٣٩٦٩) حضرت انس سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین جگہ پر پچھنے لگوائے، دو رگیں گردن کے دونوں جانب اور ایک دو کندھوں کے درمیان۔

23969

(۲۳۹۷۰) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ أَبِی عَلْقَمَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن الأَعْرَجَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ بُحَیْنَۃَ یَقُولُ : احْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَحْیِ جَمَلٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ ، وَسَطَ رَأْسِہِ۔ (بخاری ۱۸۳۶۔ ابن ماجہ ۳۴۸۱)
(٢٣٩٧٠) حضرت عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام لَحَیْ جمل میں پچھنے لگوائے اور (اس وقت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں تھے اور سر کے درمیان لگوائے۔

23970

(۲۳۹۷۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَزِیدَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ بِمَکَانٍ بِطَرِیقِ مَکَّۃَ ، بِمَعْدِنٍ یُدْعَی لَحْیَ جَمَلٍ وَہُوَ مُحْرِمٌ فَوْقَ رَأْسِہِ۔
(٢٣٩٧١) حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے عدن والے راستہ میں ایک مقام پر جس کا نام لحی جمل تھا۔ اس حالت میں اپنے سر مبارک پر پچھنے لگوائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں تھے۔

23971

(۲۳۹۷۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُجَاہِدٍ : احْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : إِلاَّ أَنَّ رِجْلَہُ وُثِئَتْ فَحَجَمَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٣٩٧٢) حضرت منصور سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد سے پوچھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھنے لگوائے تھے ؟ انھوں نے جواب دیا۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پاؤں مبارک کمزور ہوگیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سینگی لگوائی تھی۔

23972

(۲۳۹۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ فِی رَأْسِہِ ، مِنْ أَذًی کَانَ بِہِ۔ (بخاری ۵۶۹۹۔ ابوداؤد ۱۸۳۲)
(٢٣٩٧٣) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر مبارک پر بوجہ تکلیف کے پچھنے لگوائے تھے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت احرام میں تھے۔

23973

(۲۳۹۷۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إِذَا عَسِرَ عَلَی الْمَرْأَۃِ وَلَدُہَا ، فَیَکْتُبُ ہَاتَیْنِ الآیَتَیْنِ وَالْکَلِمَاتِ فِی صَحْفَۃٍ ، ثُمَّ تُغْسَلُ فَتُسْقَی مِنْہَا : بِسْمِ اللہِ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ ، سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ: {کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِیَّۃً ، أَوْ ضُحَاہَا} ، {کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوعَدُونَ لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ بَلاَغٌ فَہَلْ یُہْلَکُ إلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ}۔
(٢٣٩٧٤) حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جب کسی عورت کو بچہ کی ولادت میں تنگی ہو تو ان دو آیتوں اور کلمات کو ایک صفحہ پر لکھ دیا جائے پھر اس کو دھو کر یہ پانی عورت کو پلایا جائے۔ (الفاظ کا ترجمہ یہ ہے) شروع اس خدا کے نام سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو بہت بردبار اور کرم کرنے والا ہے۔ پاک ہے اللہ ، جو رب ہے ساتوں آسمانوں کا اور جو رب ہے عرش عظیم کا۔ { کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِیَّۃً ، أَوْ ضُحَاہَا } اور { کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوعَدُونَ لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ بَلاَغٌ فَہَلْ یُہْلَکُ إلاَّ الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ }۔

23974

(۲۳۹۷۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ لاَ تَرَی بَأْسًا أَنْ یُعَوَّذَ فِی الْمَائِ ، ثُمَّ یُصَبَّ عَلَی الْمَرِیضِ۔
(٢٣٩٧٥) حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ پانی میں دم وغیرہ کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی تھیں کہ پھر وہ پانی مریض پر بہا دیا جائے۔

23975

(۲۳۹۷۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ (ح) وَلَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّہُمَا لَمْ یَرَیَا بَأْسًا أَنْ یَکْتُبَ آیَۃً مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ یُسْقَاہُ صَاحِبُ الْفَزَعِ۔
(٢٣٩٧٦) حضرت ابو قلابہ اور حضرت مجاہد کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دونوں حضرات اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت لکھی جائے اور پھر ڈرے ہوئے آدمی کو پلائی جائے۔

23976

(۲۳۹۷۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَی سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَکْتُبُ التَّعْوِیذَ لِمَنْ أَتَاہُ ، قَالَ حَجَّاجٌ : وَسَأَلْتُ عَطَائً ؟ فَقَالَ : مَا سَمِعْنَا بِکَرَاہِیَتِہِ إِلاَّ مِنْ قِبَلِکُمْ أَہْل الْعِرَاقِ۔
(٢٣٩٧٧) حضرت حجاج کہتے ہیں کہ مجھ سے اس آدمی نے بیان کیا جس نے حضرت سعید بن جبیر کو دیکھا تھا کہ جو ان کے پاس (بغرض تعویذ) آتا وہ اس کے لیے تعویذ لکھتے تھے۔ حجاج کہتے ہیں۔ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا : تو انھوں نے جواباً ارشاد فرمایا : اے اہل عراق ! ہم نے تو تمہارے علاوہ کسی سے اس کا ناپسند ہونا نہیں سُنا۔

23977

(۲۳۹۷۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا قَتَادَۃُ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : سَأَلْتُُہُ عَنِ النَّشَرِ ، فَأَمَرَنِی بِہَا ، قُلْتُ : أَرْوِیہَا عَنْکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٣٩٧٨) حضرت قتادہ ، سعید بن المسیب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں نے ان سے آسیب کے تعویذ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے مجھے اس کی اجازت دی۔ میں نے (ان سے) کہا۔ میں اس (تعویذ) کو آپ کی نسبت سے روایت کروں ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں۔

23978

(۲۳۹۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ؛ أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ عَائِشَۃَ سُئِلَتْ عَنِ النَّشَرِ ؟ فَقَالَتْ : مَا تَصْنَعُونَ بِہَذَا ؟ ہَذَا الْفُرَاتُ إِلَی جَانِبِکُمْ ، یَسْتَنْقِعُ فِیہِ أَحَدُکُمْ سَبْعًا یَسْتَقْبِلُ الْجِرْیَۃَ۔
(٢٣٩٧٩) حضرت اسود سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ سے آسیب کے تعویذات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواباً ارشاد فرمایا : تم لوگ اس سے کیا بناتے ہو ؟ یہ تمہارے قریب فرات کا دریا ہے۔ اس میں (آ کر) تم میں سے کوئی ایک پانی کے بہاؤ کی طرف منہ کرکے سات مرتبہ غوطہ لگا لے۔

23979

(۲۳۹۸۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ کَانَ بِالْکُوفَۃِ یَکْتُبُ مِن الفَزَع آیَاتٍ مِنَ الْقُرْآنِ ، فَیُسْقَاہُ الْمَرِیضُ ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٣٩٨٠) حضرت ابراہیم کے بارے میں روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو آدمی کوفہ میں تھا اور ڈرے ہوئے لوگوں کو قرآن کی آیات لکھ کردیتا اور پھر ان آیات کو وہ مریض کو پلاتا تھا ؟ تو حضرت ابراہیم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔

23980

(۲۳۹۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَسُئِلَ عَنِ النَّشَرِ ؟ فَقَالَ : سِحْرٌ۔
(٢٣٩٨١) حضرت حکم بن عطیہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن کو سُنا جبکہ ان سے آسیب کے تعویذات کے بارے میں پوچھا گیا ؟ تو انھوں نے جواب دیا۔ یہ جادو ہے۔

23981

(۲۳۹۸۲) حَدَّثَنَاَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی رَجَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنِ النَّشَرِ ؟ فَذَکَرَ لِی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ہِیَ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ۔ (بزار ۳۰۳۴)
(٢٣٩٨٢) حضرت ابو رجاء سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے آسیب کے تعویذات کے بارے میں سوال کیا ؟ تو انھوں نے میرے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متصل ایک حدیث ذکر فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ اعمال شیطانیہ میں سے ہے۔ “

23982

(۲۳۹۸۳) حَدَّثَنَا عَثَّام بْنُ عَلِیٍّ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عائِشَۃَ ، قَالَتْ: مَنْ أَصَابَہُ نُشْرَۃٌ، أَوْ سَمٌّ ، أَوْ سِحْرٌ ، فَلْیَأْتِ الْفُرَاتَ ، فَلْیَسْتَقْبِلِ الْجِرْیَۃَ ، فَیَغْتَمِسَ فِیہِ سَبْعَ مَرَّاتٍ۔
(٢٣٩٨٣) حضرت عائشہ سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ جس آدمی کو آسیب، جادو یا نہر چڑھ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ فرات دریا پر آئے اور پانی کے بہاؤ کے رُخ کرے اور دریا میں سات مرتبہ غوطہ لگائے۔

23983

(۲۳۹۸۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : سَحَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْیَہُودِ ، فَاشْتَکَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذَلِکَ أَیَّامًا ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ : إِنَّ رَجُلاً کَذَا مِنَ الْیَہُودِ سَحَرَکَ ، عَقَدَ لَکَ عُقَدًا ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا ، فَاسْتَخْرَجَہَا ، فَجَائَ بِہِ ، فَجَعَلَ کُلَّمَا حَلَّ عُقْدَۃً وَجَدَ لِذَلِکَ خِفَّۃً ، قَالَ : فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ ، فَمَا ذُکِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ الْیَہُودِیَّ ، وَلاَ رَآہُ فِی وَجْہِہِ قَطُّ۔ (احمد ۴/۳۶۷۔ حاکم ۳۶۰)
(٢٣٩٨٤) حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک یہودی آدمی نے جادو کیا۔ جس کی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چند دن تک شکایت رہی لیکن پھر حضرت جبرائیل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ” یہود کے فلاں شخص نے آپ پر جادو کیا ہے اور اس نے آپ کے لیے چند گرہیں لگائی ہیں “ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان گرہوں (والے دھاگہ) کی طرف حضرت علی کو بھیجا اور حضرت علی ، اس کو نکال کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان گرہوں میں سے کوئی گرہ کھولتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے ہلکا پن محسوس کرتے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں کھڑے ہوئے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی بندش سے کھول دیا گیا ہے۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی آدمی سے اس بات کا کبھی ذکر نہیں فرمایا اور نہ ہی اس یہودی نے کبھی اس بات کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ سے پہچانا۔

23984

(۲۳۹۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : سَحَرَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہُودِیٌّ مِنْ یَہُودِ بَنِی زُرَیْقٍ ، یُقَالَ لَہُ : لَبِیدُ بْنُ الأَعْصَمِ ، حَتَّی کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَیَّلُ إِلَیْہِ أَنَّہُ یَفْعَلُ الشَّیْئَ وَلاَ یَفْعَلُہُ ، حَتَّی إِذَا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ ، أَوْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، دَعَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ دَعَا ، ثُمَّ قَالَ : یَا عَائِشَۃُ ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَفْتَانِی فِیمَا اسْتَفْتیہ فِیہِ ؟ جَائَنِی رَجُلاَنِ ، فَجَلَسَ أَحَدُہُمَا عِنْدَ رَأْسِی ، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلِی ، فَقَالَ الَّذِی عِنْدَ رَأْسِی لِلَّذِی عِنْدَ رِجْلِی ، أَوِ الَّذِی عِنْدَ رِجْلِی لِلَّذِی عِنْدَ رَأْسِی : مَا وَجَعُ الرَّجُلِ ؟ قَالُوا : مَطْبُوبٌ ، قَالَ : مَنْ طَبَّہُ ؟ قَالَ : لَبِیدُ بْنُ الأَعْصَمِ ، قَالَ : فِی أَیِّ شَیْئٍ ؟ قَالَ : فِی مُشْطٍ وَمُشَاطَۃٍ ، وَجُفِّ طَلْعَۃِ ذَکَرٍ ، قَالَ : وَأَیْنَ ہُوَ ؟ قَالَ : فِی بِئْرِ ذِی أَرْوَانَ ، فَأَتَاہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ ، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ : یَا عَائِشَۃُ ، کَأَنَّمَا مَاؤُہَا نُقَاعَۃُ الْحِنَّائِ ، وَلَکَأَنَّ نَخْلَہَا رُؤُوسُ الشَّیَاطِینِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، أَفَلاَ أَخْرَجْتَہُ ؟ فَقَالَ : لاَ ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِی اللَّہُ ، وَکَرِہْتُ أَنْ أُثِیرَ عَلَی النَّاسِ مِنْہُ شَرًّا ، فَأَمَرَ بِہَا فَدُفِنَتْ۔ (بخاری ۳۱۷۵۔ مسلم ۱۷۱۹)
(٢٣٩٨٥) حضرت عائشہ سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ بنو زریق کے یہودیوں میں سے ایک یہودی نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا۔ جس کا نام لبید بن اعصم تھا۔ (اس کا اثر) یہاں تک (تھا) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیال ہوتا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کام کرلیا ہے۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ دن کا وقت تھا یا رات کا وقت تھا۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی۔ پھر دوبارہ آواز دی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے عائشہ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ سے معلوم کی تھی ؟ میرے پاس دو آدمی آئے اور ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے قدموں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر اس آدمی نے جو میرے سر کے پاس بیٹھا تھا اس آدمی سے جو میرے قدموں کے پاس بیٹھا تھا۔ کہا : یا جو آدمی میرے قدموں کے پاس تھا اس نے میرے سر کے پاس بیٹھے ہوئے سے کہا۔ اس آدمی کی تکلیف کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پھر پوچھا۔ اس پر کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے کہا لبید بن اعصم نے۔ پہلے نے پھر پوچھا۔ کس چیز میں جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا۔ کنگھی میں اور اس میں آنے والے بالوں میں اور نر کھجور کی جڑ سے بنے ہوئے برتن میں۔ پہلے نے پھر پوچھا۔ یہ چیزیں کہاں ہیں ؟ دوسرے نے کہا۔ بیئر ذی اروان میں “ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کنویں کے پاس اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آئے اور فرمایا : ” اے عائشہ ! گویا کہ اس کا پانی مہندی بھگویا ہوا پانی ہے اور اس کے کھجور تو گویا شیطانوں کے سر ہیں۔ “ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ان چیزوں کو باہر کیوں نہ نکلوایا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہ “ کیونکہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے صحت بخش دی ہے اور میں نے اس بات کو ناپسند سمجھا کہ میں اس کے ذریعہ سے لوگوں میں کوئی شر بھڑکاؤں۔ “ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں حکم دیا اور انھیں دفن کردیا گیا۔

23985

(۲۳۹۸۶) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ ، أُہْدِیَتْ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاۃٌ فِیہَا سَمٌّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْمَعُوا لِی مَنْ کَانَ ہَاہُنَا مِنَ الْیَہُودِ ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ جَعَلْتُمْ فِی ہَذِہِ الشَّاۃِ سُمًّا ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، قَالَ : مَا حَمَلَکُمْ عَلَی ذَلِکَ ؟ قَالُوا : أَرَدْنَا إِنْ کُنْتَ کَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِیحُ مِنْکَ ، وَإِنْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمْ یَضُرَّکَ۔ (بخاری ۳۱۶۹۔ ابوداؤد ۴۵۰۱)
(٢٣٩٨٦) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کی گئی جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا۔ ” یہاں جتنے یہودی ہں ان سب کو میرے پاس اکٹھا کرو۔ “ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا۔ ” کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے ؟ “۔ انھوں نے جواب دیا۔ جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” تمہیں اس کام پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ “ انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے یہ چاہا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمں آپ سے آرام مل جائے گا اور اگر آپ (واقعی) نبی ہوئے تو یہ بات (زہر ملانا) آپ کو نقصان نہیں دے گا۔

23986

(۲۳۹۸۷) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَأْتِیَ الْمُؤْخَذُ عَنْ أَہْلِہِ ، وَالْمَسْحُورُ ، مَنْ یُطْلِقُ عَنْہُ۔
(٢٣٩٨٧) حضرت عطاء کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے کہ جادو کیا ہو اشخص اور وہ شخص کو اہل خانہ کی طرف سے جادو کیا گیا ہو۔ یہ (دونوں) اس کے پاس جائیں جو اس کو ختم کر دے (سحر کو) ۔

23987

(۲۳۹۸۸) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً الْخُرَاسَانِیَّ عَنِ الْمُؤْخَذِ وَالْمَسْحُورِ ، یَأْتِی مَنْ یُطْلِقُ عَنْہُ ؟ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِذَلِکَ إِذَا اضْطُرَّ إِلَیْہِ۔
(٢٣٩٨٨) حضرت اسماعیل بن عیاش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی سے مسحور اور سحر میں گرفتار کے بارے میں پوچھا کہ اگر وہ کسی علاج کرنے والے کے پاس جائیں ؟ حضرت عطاء نے فرمایا : جب آدمی اس درجہ مجبور ہوجائے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

23988

(۲۳۹۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ : رَجُلٌ طُبَّ بِسِحْرٍ ، یُحَلَّ عَنْہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ۔
(٢٣٩٨٩) حضرت قتادہ، حضرت سعید بن مسیب کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا۔ ایک آدمی ہے جس کو جادو کیا گیا ہے کیا اس کا علاج کیا جاسکتا ہے ؟ سعید نے جواب دیا۔ ہاں۔ جو آدمی اپنے بھائی کو نفع دے سکے تو اسے نفع دینا چاہیے۔

23989

(۲۳۹۹۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ أَبِی مَیْمُونَۃَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ الْحَکَمِ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاہِلِیَّۃٍ ، وَقَدْ جَائَ اللَّہُ بِالإِسْلاَمِ ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالاً یَأْتُونَ الْکُہَّانَ ، قَالَ : فَلاَ تَأْتِہمْ۔ (مسلم ۳۸۱۔ ابوداؤد ۹۲۷)
(٢٣٩٩٠) حضرت معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں جاہلیت میں عہد قریب ہی میں (اسلام کی طرف) آیا ہوں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام عطا فرمایا ہے۔ اور ہم میں کچھ لوگ نجومیوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو نجومیوں کے پاس نہ جانا۔ “

23990

(۲۳۹۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا الشَّیْبَانِیُّ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ہِلاَلٍ ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: إِنَّ ہَؤُلاَئِ الْعَرَّافِینَ کُہَّانُ الْعَجَمِ ، فَمَنْ أَتَی کَاہِنًا یُؤْمِنُ بِمَا یَقُولُ ، فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٣٩٩١) حضرت اسود بن ہلال سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت علی کا ارشاد ہے۔ یقیناً یہ نجومی لوگ عجم کے کاہن ہیں۔ پس جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی تو تحقیق اس نے ان باتوں سے اظہارِ برأت کیا جو اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہیں۔

23991

(۲۳۹۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَدِرْہَمُ مِینٍ خَیْرٌ مِنْ قَلْبِ رَجُلٍ یَأْتِی الْعَرَّافَ۔
(٢٣٩٩٢) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ جھوٹ کا درہم اس آدمی کے دل سے بہتر ہے جو کسی نجومی کے پاس آتا ہے۔

23992

(۲۳۹۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ ؛ أَنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ حُلْوَانِ الْکَاہِنِ۔
(٢٣٩٩٣) حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاہن کے معاوضہ سے منع فرمایا۔

23993

(۲۳۹۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، وَوَکِیعٌ ، قَالاَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مَنْ مَشَی إِلَی سَاحِرٍ ، أَوْ کَاہِنٍ ، أَوْ عَرَّافٍ فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُولُ ، فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(٢٣٩٩٤) حضرت عبداللہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جو شخص کسی جادو گر، کاہن یا نجومی کے پاس چل کر گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی۔ تو تحقیق اس آدمی نے اس دین سے انکار کیا جو اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا۔

23994

(۲۳۹۹۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَ: سَأَلْتُہَا عَنِ الرُّقْیَۃِ مِنَ الْحُمَۃِ ؟ فَقَالَتْ : رَخَّصَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّقْیَۃِ مِنْ کُلِّ ذِی حُمَۃٍ۔ (بخاری ۵۷۴۱۔ مسلم ۱۷۲۴)
(٢٣٩٩٥) حضرت عبد الرحمن بن اسود، اپنے والد کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے زہر کے تعویذ کے بارے میں سوال کیا ؟ تو حضرت عائشہ نے فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر زہر کے لیے تعویذ کی اجازت عطا فرمائی ہے۔

23995

(۲۳۹۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَی ، وَکَانَ عِنْدَ آلِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ رُقْیَۃٌ یَرْقُونَ بِہَا مِنَ الْعَقْرَبِ ، قَالَ : فَأَتَوُا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَرَضُوہَا عَلَیْہِ ، وَقَالُوا : إِنَّکَ نَہَیْتَ عَنِ الرُّقَی ، فَقَالَ : مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَنْفَعَ أَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ۔ (مسلم ۱۷۲۶۔ احمد ۳/۳۱۵)
(٢٣٩٩٦) حضرت جابر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعویذات سے منع فرمایا تھا اور عمرو بن حزم کے گھر والوں کے پاس ایک تعویذ تھا جس سے وہ بچھو کا تعویذ کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں، پس یہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور انھوں نے یہ تعویذ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا، آپ نے تو تعویذات سے منع کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے چاہیے کہ وہ نفع پہنچائے۔ “

23996

(۲۳۹۹۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ رُقْیَۃَ إِلاَّ مِنْ عَیْنٍ ، أَوْ حُمَۃٍ۔ (ابوداؤد ۳۸۸۰۔ ترمذی ۲۰۵۷)
(٢٣٩٩٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض صحابہ میں سے کسی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” نظر اور زہر کے علاوہ کسی شئی کا تعویذ (درست) نہیں ہے۔ “

23997

(۲۳۹۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَدَغَتْنِی عَقْرَبٌ ، فَابْتَدَرَ مَنْخَرَایَ دَمًا ، فَرَقَانِی الأَسْوَدُ فَبَرَأْتُ۔
(٢٣٩٩٨) حضرت ابراہیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھے ایک بچھو نے ڈس لیا تھا اور میرے نتھنوں سے خون بہنا شروع ہوگیا تھا مجھے اسود نے تعویذ دیا تو میں صحت یاب ہوگیا۔

23998

(۲۳۹۹۹) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِرُقْیَۃِ الْحُمَۃِ بَأْسًا۔
(٢٣٩٩٩) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ زہر کے لیے تعویذ کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔

23999

(۲۴۰۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : رُخِّصَ فِی الرُّقَی مِنَ الْحُمَۃِ ، وَالنَّمْلَۃِ ، وَالنَّفْسِ۔
(٢٤٠٠٠) حضرت محمد سے روایت ہے کہتے ہیں کہ زہر ، پہلو کے دانہ اور نظر کے بارے میں تعویذ کرنے کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

24000

(۲۴۰۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّ خَالِدَۃَ بِنْتَ أَنَسٍ أُمَّ بَنِی حَزْمٍ السَّاعِدِی جَائَ تْ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَتْ عَلَیْہِ الرُّقَی ، فَأَمَرَہَا بِہَا۔
(٢٤٠٠١) حضرت ابوبکر بن محمد سے روایت ہے کہ بنو حزم ساعدی کی والدہ، حضرت خالدہ بنت انس ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک تعویذ پیش کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس تعویذ کی اجازت عطا فرمائی۔

24001

(۲۴۰۰۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : رَخَّصَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّقْیَۃِ مِنَ الْعَیْنِ وَالْحُمَۃِ۔ (مسلم ۱۷۲۵۔ ترمذی ۲۰۵۶)
(٢٤٠٠٢) حضرت انس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر اور زہر کے تعویذ کی اجازت عنایت فرمائی تھی۔

24002

(۲۴۰۰۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: رَأَی ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَی ابْنِہِ قَصَبَۃً مِنَ الْحُمَّی ، فَقَطَعَہَا، فَقَالَ : لاَ رُقْیَۃَ إِلاَّ مِنْ عَیْنٍ ، أَوْ حُمَۃٍ۔
(٢٤٠٠٣) حضرت عامر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے اپنے بیٹے پر بخار کے (تعویذ کے طور پر) بانس کی نلکی دیکھی تو آپ نے اس کو توڑ دیا اور ارشاد فرمایا : نظر اور زہر کے سوا کسی شئی کا تعویذ (درست) نہیں ہے۔

24003

(۲۴۰۰۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ اسْتَرْقَی مِنَ الْعَقْرَبِ۔
(٢٤٠٠٤) حضرت ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے بچھو کے (ڈسنے پر) تعویذ حاصل کیا تھا۔

24004

(۲۴۰۰۵) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانَ لآلِ الأَسْوَدِ رُقْیَۃٌ یَرْقُونَ بِہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مِنَ الْحُمَۃِ ، قَالَ : فَعَرَضَہَا الأَسْوَدُ عَلَی عَائِشَۃَ ، قَالَ : فَأَمَرَتْہُمْ أَنْ یَرْقُوا بِہَا ، قَالَ : وَقَالَتْ عَائِشَۃُ : لاَ رُقْیَۃَ إِلاَّ مِنْ عَیْنٍ ، أَوْ حُمَۃٍ۔
(٢٤٠٠٥) حضرت ابراہیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ آل سعود کے پاس زمانہ جاہلیت ہی سے زہر کا ایک تعویذ تھا، جو وہ لوگوں کو دیتے تھے۔ راوی کہتے ہیں، پس حضرت اسود نے وہ تعویذ حضرت عائشہ کے سامنے پیش کیا، راوی کہتے ہیں، حضرت عائشہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ اس تعویذ کے ذریعہ سے علاج کیا کریں۔ راوی کہتے ہیں، حضرت عائشہ نے یہ بھی فرمایا : نظر اور زہر کے علاوہ کسی شئی کا تعویذ (درست) نہیں ہے۔

24005

(۲۴۰۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِجَدَّتِہِ الشِّفَائِ بِنْتِ عَبْدِ اللہِ : عَلِّمِی حَفْصَۃَ رُقْیَتَکِ ، قَالَ أَبُو بِشْر : یَعْنِی إِسْمَاعِیلَ ابْنَ عُلَیَّۃَ : فَقُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : مَا رُقْیَتُہَا ؟ قَالَ : رُقْیَۃُ النَّمْلَۃِ۔ (احمد ۶/۲۸۶)
(٢٤٠٠٦) حضرت ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دادی حضرت شفاء بنت عبداللہ سے فرمایا تھا۔ ” تم حفصہ کو اپنا تعویذ بھی سکھا دو “۔ ابو بشر سلیمان ابن علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے پوچھا، ان کا تعویذ کون سا تھا ؟ محمد نے جواب دیا، پہلو کے پھوڑے کا تعویذ تھا۔

24006

(۲۴۰۰۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : رَخَّصَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرُّقْیَۃِ مِنَ النَّمْلَۃِ۔
(٢٤٠٠٧) حضرت انس سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلو کے پھوڑے کے تعویذ کی اجازت عنایت فرمائی ہے۔

24007

(۲۴۰۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی صَالِحُ بْنُ کَیْسَانَ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ ، أَنَّ الشِّفَائَ ابْنَۃَ عَبْدِ اللہِ ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدَۃٌ عِنْدَ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا یَمْنَعُکِ أَنْ تُعَلِّمِی ہَذِہِ رُقْیَۃَ النَّمْلَۃِ کَمَا عَلَّمْتِیہَا الْکِتَابَۃَ۔ (ابوداؤد ۳۸۸۳۔ احمد ۳۷۲)
(٢٤٠٠٨) حضرت ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ حضرت شفا بنت عبداللہ فرماتی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس بیٹھی ہوئی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” تمہارے لیے اس بات سے کیا چیز مانع ہے کہ تم نے جس طرح حضرت حفصہ کو لکھنا سکھایا ہے اسی طرح تم اس کو یہ پہلو کے پھوڑے کا تعویذ بھی سکھا دو ۔ “

24008

(۲۴۰۰۹) حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی عِصْمَۃَ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنِ التَّعْوِیذِ؟ فَقَالَ: لاَ بَأْسَ بِہِ إِذَا کَانَ فِی أَدِیمٍ۔
(٢٤٠٠٩) حضرت ابو عصمہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : جب تعویذ چمڑے میں بند ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

24009

(۲۴۰۱۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْحَائِضِ یَکُونُ علَیْہَا التَّعْوِیذُ ، قَالَ : إِنْ کَانَ فِی أَدِیمٍ ، فَلْتَنْزِعْہُ ، وَإِنْ کَانَ فِی قَصَبَۃِ فِضَّۃٍ ، فَإِنْ شَائَ تْ وَضَعَتْہُ ، وَإِنْ شَائَ تْ لَمْ تَضَعْہُ۔
(٢٤٠١٠) حضرت عطاء سے اس حائضہ کے بارے میں جس نے تعویذ لٹکایا ہو ، روایت ہے، فرماتے ہیں کہ اگر تعویذ چمڑے میں ہو تو عورت کو چاہیے کہ اس کو اتار دے اور اگر چاندی کے خول میں ہو تو پھر چاہے تو اتار دے اور چاہے نہ اتارے۔

24010

(۲۴۰۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ ثُوَیْرٍ ، قَالَ : کَانَ مُجَاہِدٌ یَکْتُبُ للنَّاسِ التَّعْوِیذَ فَیُعَلِّقُہُ عَلَیْہِمْ۔
(٢٤٠١١) حضرت ثویر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت مجاہد، لوگوں کو تعویذ لکھ کردیتے تھے اور پھر وہ تعویذ لوگوں کو پہناتے بھی تھے۔

24011

(۲۴۰۱۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَکْتُبَ الْقُرْآنَ فِی أَدِیمٍ ، ثُمَّ یُعَلِّقُہُ۔
(٢٤٠١٢) حضرت جعفر، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ قرآن مجید کو چمڑے میں لکھا جائے اور پھر اس کو (گلے میں) لٹکایا جائے۔

24012

(۲۴۰۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا فَزِعَ أَحَدُکُمْ فِی نَوْمِہِ فَلْیَقُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہِ وَسُوئِ عِقَابِہِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّیَاطِینِ وَمَا یَحْضُرُون ، فَکَانَ عَبْدُ اللہِ یُعَلِّمُہَا وَلَدَہُ مَنْ أَدْرَکَ مِنْہُمْ ، وَمَنْ لَمْ یُدْرِکْ ، کَتَبَہَا وَعَلَّقَہَا عَلَیْہِ۔ (ابوداؤد ۳۸۸۹۔ ترمذی ۳۵۲۸)
(٢٤٠١٣) حضرت عمرو بن شعیب ، اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی آدمی اپنی نیند میں ڈر جائے تو اسے چاہیے کہ وہ (یوں) کہے : (ترجمہ): میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ساتھ ، اللہ کے غصہ اور بُری سزا سے پناہ مانگتا ہوں اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانوں کے شر سے اور جو کچھ حاضر ہیں ان کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں۔ “ چنانچہ حضرت عبداللہ، یہ کلمات اپنے سمجھدار بچوں کو سکھا دیتے تھے اور جو بچے ناسمجھ تھے، ان کے لیے یہ کلمات حضرت عبداللہ لکھ کر ان کے (گلوں میں) لٹا دیتے تھے۔

24013

(۲۴۰۱۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا بِالشَّیْئِ مِنَ الْقُرْآنِ۔
(٢٤٠١٤) حضرت ابن سیرین کے بارے میں روایت ہے کہ وہ قرآن کے کسی حصہ (کو تعویذ بنانے) پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔

24014

(۲۴۰۱۵) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَیُّوبُ ؛ أَنَّہُ رَأَی فِی عَضُدِ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ خَیْطًا۔
(٢٤٠١٥) حضرت ایوب بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر کے ہاتھ (کلائی) میں دھاگہ بندھا ہوا دیکھا۔

24015

(۲۴۰۱۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَسَنٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُعَلَّقَ الْقُرْآنُ۔
(٢٤٠١٦) حضرت عطاء سے روایت ہے کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی قرآن مجید کو (لکھ کر) لٹکائے۔

24016

(۲۴۰۱۷) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ ثَعْلَبٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ التَّعْوِیذِ یُعَلَّقُ عَلَی الصِّبْیَانِ ؟ فَرَخَّصَ فِیہِ۔
(٢٤٠١٧) حضرت یونس بن خباب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے اس تعویذ کے بارے میں سوال کیا جو بچوں پر لٹکائے جاتے ہیں ؟ تو انھوں نے اس کی اجازت دی۔

24017

(۲۴۰۱۸) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُعَلِّقَ الرَّجُلُ الشَّیْئَ مِنْ کِتَابِ اللہِ ، إِذَا وَضَعَہُ عِنْدَ الْغُسْلِ وَعِنْدَ الْغَائِطِ۔
(٢٤٠١٨) حضرت ضحاک کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے کہ آدمی کتاب اللہ میں سے کچھ (لکھ کر) لٹکائے بشرطیکہ غسل اور قضائے حاجت کے وقت اس کو اتار دے۔

24018

(۲۴۰۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : بَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ یُصَلِّی ، فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ فَلَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ ، فَتَنَاوَلَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَعْلِہِ فَقَتَلَہَا ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : لَعَنَ اللَّہُ الْعَقْرَبَ ، لاَ تَدَعُ مُصَلِّیًا ، وَلاَ غَیْرَہُ ، أَوْ نَبِیًّا ، وَلاَ غَیْرَہُ ، ثُمَّ دَعَا بِمِلْحٍ وَمَائٍ فَجَعَلَہُ فِی إِنَائٍ ، ثُمَّ جَعَلَ یَصُبُّہُ عَلَی إِصْبَعِہِ حَیْثُ لَدَغَتْہُ ، وَیَمْسَحُہَا وَیُعَوِّذُہَا بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ۔ (طبرانی ۸۳۰)
(٢٤٠١٩) حضرت علی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے کہ اس دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مبارک زمین پر رکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی بچھو نے ڈس لیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچھو کو اپنے جوتے سے قابو کرلیا اور مار ڈالا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا : ” اللہ کی لعنت ہو بچھو پر، نہ نمازی کو چھوڑتا ہے اور نہ غیر نمازی کو۔ “ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نمک اور پانی منگوایا اور اس کو ایک برتن میں رکھ دیا۔ پھر جس جگہ بچھو نے ڈسا تھا اس جگہ یہ پانی ڈالنا شروع کیا اور اس کو ملنے لگے اور اس پر معوذتین پڑھ کر دم فرمایا۔

24019

(۲۴۰۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبیدِاللہِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: کَانَ یَرْقَی بِالْحِمْیَرِیَّۃِ۔
(٢٤٠٢٠) حضرت اسود کے بارے میں روایت ہے کہ وہ حمیریۃ کے ذریعہ تعویذ کیا کرتے تھے۔

24020

(۲۴۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ، قَالَ: رُقْیَۃُ الْعَقْرَبِ: شَجَّۃ قَرَنیۃ مِلْحَۃِ بَحْرٍ قفْطا۔ (طبرانی ۸۶۸۱)
(٢٤٠٢١) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہتے ہیں کہ بچھوکا تعویذ یہ ہے۔ شَجَّۃ قَرَنیۃ مِلْحَۃِ بَحْرٍ قفْطا۔

24021

(۲۴۰۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : عَرَضْتُہَا عَلَی عَائِشَۃَ ، فَقَالَتْ : ہَذِہِ مَوَاثِیقُ۔
(٢٤٠٢٢) حضرت اسود سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے تعویذ حضرت عائشہ کے سامنے پیش کال تو انھوں نے فرمایا یہ مضبوط باتیں ہیں۔

24022

(۲۴۰۲۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ أَبِی مُخَاشِنٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ لَدَغَتْہُ عَقْرَبٌ ، فَقَالَ : أَمَا إِنَّہُ لَوْ قَالَ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ، لَمْ یُلْدَغْ ، أَوْ لَمْ یَضُرَّہُ۔ (مسلم ۲۰۸۱۔ ابن حبان ۱۰۲۱)
(٢٤٠٢٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک ایسا آدمی لایا گیا جس کو بچھو نے ڈسا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” اگر یہ آدمی یوں کہتا (ترجمہ) میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعے مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، تو یہ نہ ڈسا جاتا “ یا فرمایا : ” یہ بچھو اس کو نقصان نہ دیتا۔ “

24023

(۲۴۰۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَرْقُونَ ، وَیَکْرَہُونَ النَّفْثَ فِی الرَّقَی۔
(٢٤٠٢٤) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلے لوگ دم تعویذ کرتے تھے لیکن تعویذات میں پھونک مارنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔

24024

(۲۴۰۲۵) حَدَّثَنَا عَرْعَرَۃُ بْنُ الْبِرِنْدِ ، عَنْ أَبِی الْہَزْہَازِ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی الضَّحَّاکِ وَہُوَ وَجِعٌ ، فَقُلْتُ : أَلاَ أُعَوِّذُک یَا أَبَا مُحَمَّدٍ ؟ قَالَ : بَلَی ، وَلاَ تَنْفُثْ ، قَالَ : فَعَوَّذْتہ بِالْمُعَوِّذَتَیْنِ۔
(٢٤٠٢٥) حضرت ابو الہزہاز سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں حضرت ضحاک کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ تکلیف میں تھے، میں نے (ان سے) عرض کیا اے ابو محمد ! کیا میں آپ کو دم نہ کروں ؟ انھوں نے فرمایا : کیوں نہیں (بلکہ کرو) لیکن پھونک نہ مارنا، ابوالہزہاز کہتے ہیں : پس میں نے ان کو معوذتین کے ذریعہ دم کیا۔

24025

(۲۴۰۲۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : قَالَ عِکْرِمَۃُ : أَکْرَہُ أَنْ أَقُولَ فِی الرُّقْیَۃِ ، بِسْمِ اللہِ ، أُفْ۔
(٢٤٠٢٦) حضرت ایوب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت عکرمہ کا ارشاد ہے، مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں تعویذ ، دم میں یوں کہوں، بسم اللہ ! اُف۔

24026

(۲۴۰۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو قَطْنٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، وَحَمَّادٍ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا التَّفْلَ فِی الرَّقَی۔
(٢٤٠٢٧) حضرت حکم اور حضرت حماد دونوں کے بارے میں روایت ہے کہ وہ دم ، تعویذات میں تھتھکارنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔

24027

(۲۴۰۲۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ : دَبَبْتُ إِلَی قِدْرٍ لَنَا فَاحْتَرَقَتْ یَدَیَّ ، فَأَتَتْ بِی أُمِّی إِلَی شَیْخٍ بِالْبَطْحَائِ ، فَقَالَتْ : ہَذَا مُحَمَّدٌ ، قَدِ احْتَرَقَتْ یَدُہُ ، فَجَعَلَ یَنْفُثُ عَلَیْہَا وَیَتَکَلَّمُ بِکَلاَمٍ لاَ أَحْفَظُہُ ، فَلَمَّا کَانَ فِی إِمْرَۃِ عُثْمَانَ ، قُلْتُ : مَنِ الشَّیْخُ الَّذِی ذَہَبْتِ بِی إِلَیْہِ ؟ قَالَتْ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (احمد ۳/۲۵۹۔ ابن حبان ۲۹۷۶)
(٢٤٠٢٨) حضرت محمد بن حاطب سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں (بچپن میں) اپنی ایک ہانڈی کی طرف رینگتے ہوئے جا پہنچا اور میرا ہاتھ جل گیا، تو میری والدہ مجھے لے کر مقام بطحاء میں ایک شخص کے پاس آئیں اور عرض کیا یہ محمد ہے، اس کا ہاتھ جل گیا ہے، پس اس شیخ نے ہاتھ پر پھونکنا شروع کیا اور کچھ کلمات بھی پڑھے جن کو میں یاد نہ رکھ سکا، پھر جب حضرت عثمان کی امارت کا زمانہ تھا تو میں نے (والدہ سے) کہا، وہ کون شیخ تھے جن کے پاس آپ مجھے لے کرگئی تھیں ؟ والدہ نے کہا، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔

24028

(۲۴۰۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلاَمَانِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أُمِّہِ ؛ أَنَّ خَالَہَا حَبِیبَ بْنَ فُوَیْکٍ حَدَّثَہَا ، أَنَّ أَبَاہُ خَرَجَ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَیْنَاہُ مُبْیَضَّتَانِ ، لاَ یُبْصِرُ بِہِمَا شَیْئًا ، فَسَأَلَہُ مَا أَصَابَہُ ؟ فَأَخْبَرَہُ ، فَنَفَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عَیْنَیْہِ ، فَرَأَیْتُہُ یُدْخِلُ الْخَیْطَ فِی الإِبْرَۃِ ، وَإِنَّہُ لاَبْنُ ثَمَانِینَ ، وَإِنَّ عَیْنَیْہِ لَمُبْیَضَّتَانِ۔ (طبرانی ۳۵۴۶)
(٢٤٠٢٩) بنو سلامان بن سعد کے ایک آدمی، اپنی والدہ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے ماموں حبیب بن فویک نے ان کی والدہ سے بیان کیا کہ ان (حبیب) کے والد انھیں لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ ان کی آنکھیں بےنور تھیں، ان سے کوئی چیز دکھائی نہیں س دیتی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اُن (والد) سے پوچھا کہ اس (حبیب) کو کیا ہوا ہے ؟ والد نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس (حبیب) کی آنکھوں میں پھونک ماری۔ پس میں نے (حبیب) کو دیکھا کہ وہ سوئی میں دھاگہ ڈال رہے تھے جبکہ ان کی عمر اسّی سال تھی اور ان کی آنکھیں سفید تھیں۔

24029

(۲۴۰۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ عُرْوَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَنْفُثُ فِی الرُّقْیَۃِ۔ (بخاری ۱۳۱۔ مسلم ۱۷۲۳)
(٢٤٠٣٠) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعویذ، دم میں پھونک مارا کرتے تھے۔

24030

(۲۴۰۳۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَان بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَتِ امْرَأَۃٌ إِلَیْہِ صَبِیًّا ، فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ فَغَرَ فَاہُ ، فَنَفَثَ فِیہِ۔ (حاکم ۶۱۷)
(٢٤٠٣١) حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عورت نے بچہ کو اوپر اٹھایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچہ کا کجاوہ اور اپنے درمیان کرلیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا منہ کھولا اور اس میں پھونک ماری۔

24031

(۲۴۰۳۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الأَشْعَثِ ، قَالَ : ذُہِبَ بِی إِلَی عَائِشَۃَ وَفِی عَیْنَیَّ سُوئٌ ، فَرَقَتْنِی وَنَفَثَتْ۔
(٢٤٠٣٢) حضرت قیس بن محمد بن اشعث سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ کی خدمت میں لے جایا گیا جبکہ میری آنکھوں میں تکلیف تھی تو حضرت عائشہ نے مجھے دم کیا اور پھونک ماری۔

24032

(۲۴۰۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ الرُّقْیَۃِ یُنْفَثُ فِیہَا ؟ فَقَالَ : لاَ أَعْلَمُ بِہَا بَأْسًا۔
(٢٤٠٣٣) حضرت ابن عون سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے محمد سے اس دم کے بارے میں سوال کیا جس میں پھونک (بھی) ماری جاتی ہے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : میں اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔

24033

(۲۴۰۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ ثُوَیْبٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَشْتَکِی ، فَقَالَ : أَلاَ أَرْقِیکَ بِرُقْیَۃٍ عَلَّمَنِیہَا جِبْرِیلُ ، بِسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ ، وَاللَّہُ یَشْفِیکَ ، مِنْ کُلِّ إِربٍ یُؤْذِیکَ ، وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ۔ (احمد ۲/۴۴۶۔ ابن ماجہ ۳۵۲۴)
(٢٤٠٣٤) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے جبکہ مجھے کوئی تکلیف تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” کیا میں تمہیں اس رقیہ کے ذریعہ دم نہ کروں جو مجھے جبرائیل نے سکھایا تھا، اللہ کے نام سے میں تمہیں دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہں شفاء دے ہر اس مصیبت سے جو تمہیں اذیت دے اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔ “

24034

(۲۴۰۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ ، عَنْ عَمْرَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مِمَّا یَقُولُ لِلْمَرِیضِ بِبُزَاقِہِ بِإِصْبَعِہِ : بِسْمِ اللہِ ، تُرْبَۃُ أَرْضِنَا ، بِرِیقَۃِ بَعْضِنَا ، یُشْفَی سَقِیمُنَا ، بِإِذْنِ رَبِّنَا۔ (بخاری ۵۷۴۵۔ مسلم ۱۷۲۴)
(٢٤٠٣٥) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مریض کے لیئے (بطور دم) جو پڑھتے تھے اس میں یہ الفاظ بھی تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تھوک کو انگلی کے ساتھ لگا کر کہتے تھے۔”(ترجمہ) اللہ کے نام سے، ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے بعض کی تھوک کے ساتھ مل کر ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارے بیمار کو شفا دیتی ہے۔ “

24035

(۲۴۰۳۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ بِہَذِہِ الْکَلِمَاتِ : أَذْہِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی ، لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُکَ ، شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا ، قَالَتْ : فَلَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ ، أَخَذْتُ بِیَدِہِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُہَا وَأَقُولُہَا ، قَالَتْ : فَنَزَعَ یَدَہُ مِنْ یَدِی ، وَقَالَ : اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی ، وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ الأَعْلَی ، قَالَتْ : فَکَانَ ہَذَا آخَرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلاَمِہِ۔ (مسلم ۱۷۲۲۔ ابن ماجہ ۱۶۱۹)
(٢٤٠٣٦) حضرت عائشہ سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ تعویذ (پناہ) دیا کرتے تھے۔ ’ ’ اے لوگو کے پروردگار ! تکلیف دور کر دے، اور شفاء عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے اور ایسی شفا دے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے ‘ ‘ حضرت عائشہ کہتی ہیں، پس جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنے مرض الموت میں حالت زیادہ بوجھل ہوگئی تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑا اور اس کو مسح کر کے یہ کلمات کہنے لگی، حضرت عائشہ کہتی ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا : ” اے اللہ ! تو میری مغفرت فرما اور مجھے توُ رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے “ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ پس یہ آخری بات تھی جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سُنی تھی۔

24036

(۲۴۰۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : اشْتَکَیْتُ فَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ : إِنْ کَانَ أَجَلِی قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِی ، وَإِنْ کَانَ مُتَأَخِّرًا فَاشْفِنِی ، أَوْ عَافِنِی ، وَإِنْ کَانَ بَلاَئً فَصَبِّرْنِی ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَیْفَ قُلْتَ ؟ قَالَ : فَقُلْتُ لَہُ ، قَالَ : فَمَسَحَنِی بِیَدِہِ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ اشْفِہِ ، أَوْ عَافِہِ ، فَمَا اشْتَکَیْتُ ذَلِکَ الْوَجَعَ بَعْدُ۔ (ترمذی ۳۵۶۴۔ ابن حبان ۶۹۴۰)
(٢٤٠٣٧) حضرت علی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھے کچھ شکایت تھی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے اور میں (اس وقت) کہہ رہا تھا۔ اگر میری موت کا وقت آچکا ہے تو تُو مجھے راحت دے دے اور اگر میری موت کا وقت ابھی دیر سے ہے تو پھر تو مجھے شفا دے دے یا عافیت بخش دے اور اگر یہ آزمائش ہے تو پھر تو مجھے صبر کی توفیق دے دے۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا ” تم کیا کہہ رہے ہو ؟ “ حضرت علی کہتے ہیں، میں نے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بھی کہی۔ حضرت علی کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ مجھ پر پھیرا پھر فرمایا : ’ ’ اے اللہ ! اس کو شفا دے دے۔ “ یا فرمایا، اس کو عافیت دے دے، پس اس کے بعد مجھے یہ تکلیف کبھی نہ ہوئی۔

24037

(۲۴۰۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَنْ دَخَلَ عَلَی مَرِیضٍ لَمْ تَحْضُرْ وَفَاتُہُ ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللَّہَ الْعَظِیمَ ، رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ أَنْ یَشْفِیَک ، سَبْعَ مَرَّاتٍ ، شُفِیَ۔ (احمد ۱/۲۳۹۔ ابوداؤد ۳۰۹۹)
(٢٤٠٣٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص کسی ایسے مریض کے پاس حاضر ہو جس کی وفات کا وقت نہیں آیا اور یہ آدمی (جانے والا) سات مرتبہ یہ الفاظ کہے۔ (ترجمہ) : ” میں عظمت والے اللہ سے جو عرش عظیم کا مالک ہے، یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفاء عطا کرے۔ “ تو مریض کو شفاء مل جاتی ہے۔

24038

(۲۴۰۳۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عُمَیْرُ بْنُ ہَانِئٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ جُنَادَۃَ بْنَ أَبِی أُمَیَّۃَ یَقُولُ : سَمِعْتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّ جِبْرِیلَ رَقَاہُ وَہُوَ یُوعَکُ ، فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ ، مِنْ کُلِّ دَائٍ یُؤْذِیکَ ، مِنْ کُلِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ ، وَاسْمُ اللہِ یَشْفِیکَ۔ (احمد ۵/۳۲۳۔ ابن حبان ۹۵۳)
(٢٤٠٣٩) حضرت عبادہ بن صامت ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنداً روایت کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دم کیا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف زیادہ تھی، پس جبرائیل نے کہا (ترجمہ) اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس بیماری سے جو آپ کو تکلیف دے اور ہر حاسد سے جب وہ حسد کرنے لگے اور ہر نظر سے ، اور اللہ کا نام آپ کو شفا دے گا۔

24039

(۲۴۰۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَی مَرِیضٍ ، قَالَ : أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی ، لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُکَ۔ (ترمذی ۳۵۶۵)
(٢٤٠٤٠) حضرت علی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے تو فرماتے : (ترجمہ) ” اے لوگو کے پروردگار ! تکلیف دور فرما دے اور شفا دے دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بغیر کوئی شفا نہیں ہے۔

24040

(۲۴۰۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ: حدَّثَنَا زَکَرِیَّا ، قَالَ : حَدَّثَنِی سِمَاکٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ: تَنَاوَلْتُ قِدْرًا لَنَا فَاحْتَرَقَتْ یَدَیَّ ، فَانْطَلَقَتْ بِی أُمِّی إِلَی رَجُلٍ جَالِسٍ فِی الْجَبَّانَۃِ ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللہِ، فَقَالَ: لَبَّیْکِ وَسَعْدَیْکِ ، ثُمَّ أَدْنَتْنِی مِنْہُ ، فَجَعَلَ یَنْفُثُ وَیَتَکَلَّمُ بِکَلاَمٍ لاَ أَدْرِی مَا ہُوَ، فَسَأَلْتُ أُمِّی بَعْدَ ذَلِکَ: مَا کَانَ یَقُولُ؟ فَقَالَتْ: کَانَ یَقُولُ: أَذْہِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی، لاَ شَافِیَ إِلاَّ أَنْتَ۔ (ابن سعد ۶۵۰)
(٢٤٠٤١) حضرت محمد بن حاطب سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ایک ہانڈی کو پکڑ لیا تھا اور میرا ہاتھ جل گیا تھا تو میری والدہ مجھے لے کر ایک آدمی کے پاس چلی گئی جو ایک ہموار زمین میں بیٹھا ہوا تھا، اور میری والدہ نے کہا، یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انھوں نے جواب دیا : ” حاضر ہوں “ پھر میری والدہ نے مجھے ان کے قریب کیا، پس انھوں نے کچھ کلمات کہنا شروع کیے، مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کلمات کیا ہیں اور پھونک مارنا شروع کیا، پھر میں نے اس کے بعد اپنی والدہ سے پوچھا کہ وہ کیا پڑھ رہے تھے ؟ تو والدہ نے بتایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھ رہے تھے۔ (ترجمہ) ” اے لوگو کے پروردگار ! تکلیف کو دور کر دے اور شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے۔ “

24041

(۲۴۰۴۲) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو شِہَابٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : اشْتَکَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَقَاہُ جِبْرِیلُ ، فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ ، مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیکَ ، مِنْ کُلِّ حَاسِدٍ وَعَیْنٍ ، وَاللَّہُ یَشْفِیکَ۔ (مسلم ۱۷۱۸۔ ترمذی ۹۸۲)
(٢٤٠٤٢) حضرت ابو سعید سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی تکلیف ہوگئی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جبرائیل نے دم کیا، پس انھوں نے کہا۔ ” اللہ کے نام سے میں آپ کو ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے اور ہر حاسد سے اور نظر سے دم کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ ہی آپ کو شفا دیں گے۔ “

24042

(۲۴۰۴۳) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ، یَقُولُ : أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَمَّۃٍ ، وَیَقُولُ ، ہَکَذَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یُعَوِّذُ ابْنَیْہِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ۔ (ترمذی ۲۰۶۰۔ ابوداؤد ۴۷۰۴)
(٢٤٠٤٣) حضرت ابن عباس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن اور حضرت حسین کو ان کلمات کے ساتھ تعویذ دیتے تھے، فرماتے تھے : (ترجمہ) ” میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعہ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر بری نظر سے پناہ میں دیتا ہوں اور فرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم بھی اپنے دونوں بیٹوں، اسماعیل اور اسحاق ، کو اسی طرح تعویذ (دم) دیا کرتے تھے۔

24043

(۲۴۰۴۴) حَدَّثَنَا عَبِیْدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ بِمِثْلِہِ ، أَوْ نَحْوِہِ۔
(٢٤٠٤٤) حضرت ابن عباس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔

24044

(۲۴۰۴۵) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَبِیبَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی دَاوُدُ بْنُ الْحُصَیْنِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا مِنَ الأَوْجَاعِ کُلِّہَا وَمِنَ الْحُمَّی ہَذَا الدُّعَائَ : بِسْمِ اللہِ الْکَبِیرِ ، أَعُوذُ بِاللَّہِ الْعَظِیمِ ، مِنْ شَرِّ کُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ۔ (ترمذی ۲۰۷۵۔ ابن ماجہ ۳۵۲۶)
(٢٤٠٤٥) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ہمیں ہر طرح کی تکالیف اور بخار کے لیے یہ دعا سکھایا کرتے تھے ” اللہ کے نام سے جو بہت بڑا ہے، میں پناہ پکڑتا ہوں اس اللہ سے جو بہت عظمت والا ہے، ہر تیز رگ سے اور ہر آگ کی شدت کے شر سے۔ “

24045

(۲۴۰۴۶) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ امْرَأَۃً جَائَ تْ بِابْنٍ لَہَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ جُنُونٌ ، وَإِنَّہُ یَأْخُذُہُ عِنْدَ عَشَائِنَا وَغَدَائِنَا ، فَیَخْبُثُ ، قَالَ : فَمَسَحَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ وَدَعَا لَہُ ، فَثَعَّ ثَعَّۃً ، فَخَرَجَ مِنْ جَوْفِہِ مِثْلُ الْجَرْوِ الأَسْوَدِ۔ (احمد ۱/۲۳۹۔ طبرانی ۱۲)
(٢٤٠٤٦) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنا ایک بیٹا لے کر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا، یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے اس بیٹے پر جنوں (کا اثر) ہے، اور یہ دورہ بچہ کو صبح و شام پڑتا ہے اور بہت بُرا منظر ہوتا ہے، راوی کہتے ہیں، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچہ کے سینہ کو ملا اور اس کے لیے دعا کی تو اس نے ایک مرتبہ الٹی (قے) کی اور اس کے پیٹ سے سیاہ ککڑی کی طرح کوئی چیز نکلی۔

24046

(۲۴۰۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ ابْنَۃِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَتْ : اشْتَکَتْ عَائِشَۃُ أُمُّ الْمُؤْمِنِینَ ، وَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَیْہَا وَیَہُودِیَّۃٌ تَرْقِیہَا ، فَقَالَ : اِرْقِیہَا بِکِتَابِ اللہِ۔
(٢٤٠٤٧) حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے۔ کہتی ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کو کوئی تکلیف تھی۔ حضرت ابوبکر ان کے پاس تشریف لائے تو (دیکھا) ایک یہودی عورت حضرت عائشہ کو دم کر رہی ہے تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : اس کو اللہ کی کتاب کے ذریعہ دم کرو۔

24047

(۲۴۰۴۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ فُضَیْلِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ : إِنَّ فُلاَنًا شَاکٍ ، قَالَ : فَیَسُرَّکَ أَنْ یَبْرَأ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : قُلْ یَا حَلِیمُ یَا کَرِیمُ ، اشْفِ فُلاَنًا۔
(٢٤٠٤٨) حضرت فضیل بن عمرو سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس آیا اور اس نے کہا، فلاں آدمی کو تکلیف ہے، حضرت علی نے پوچھا، تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائے ؟ آنے والے نے کہا۔ جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تم یوں کہو، اے حلیم ! اے کریم ! فلاں آدمی کو شفا عطا فرما۔

24048

(۲۴۰۴۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَعْبٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ : قَدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِی وَجَعٌ قَدْ کَادَ یُبْطِلُنِی ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اجْعَلْ یَدَکَ الْیُمْنَی عَلَیْہِ ، ثُمَّ قُلْ : بِسْمِ اللہِ ، أَعُوذُ بِعِزَّۃِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ ، سَبْعَ مَرَّاتٍ ، فَفَعَلْتُ ذَلِکَ ، فَشَفَانِی اللَّہُ۔ (مسلم ۶۷۔ احمد ۴/۲۱۷)
(٢٤٠٤٩) حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوا کہ مجھے ایسی تکلیف تھی جو قریب تھا کہ مجھے ہلاک کردیتی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ” تم اپنے داہنے ہاتھ کو اس درد کی جگہ پر رکھ دو ، پھر یہ الفاظ کہو ” میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور ان کی قدرت کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکلیف سے جو میں محسوس کررہا ہوں، سات مرتبہ کہو “ پس میں نے یہ عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرما دی۔

24049

(۲۴۰۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَص ، عَنْ أُمِّہِ أُمِّ جُنْدَبٍ ، قَالَتْ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَبِعَتْہُ امْرَأَۃٌ مِنْ خَثْعَمَ مَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا بِہِ بَلاَئٌ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ ہَذَا ابْنِی وَبَقِیَّۃُ أَہْلِی ، وَبِہِ بَلاَئٌ لاَ یَتَکَلَّمُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اِئْتُونِی بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ ، فَأُتِیَ بِہِ فَغَسَلَ فِیہِ یَدَیْہِ ، وَمَضْمَضَ فَاہُ ، ثُمَّ أَعْطَاہَا ، فَقَالَ : اسْقِیہِ مِنْہُ ، وَصُبِّی عَلَیْہِ مِنْہُ ، وَاسْتَشْفِی اللَّہَ لَہُ ۔ فَلَقِیتُ الْمَرْأَۃَ فَقُلْتُ : لَوْ وَہَبْتِ لِی مِنْہُ ، فَقَالَتْ : إِنَّمَا ہُوَ لِہَذَا الْمُبْتَلَی ، فَلَقِیتُ الْمَرْأَۃَ مِنَ الْحَوْلِ ، فَسَأَلْتُہَا عَنِ الْغُلاَمِ ؟ فَقَالَتْ : بَرَأَ ، وَعَقَلَ عَقْلاً لَیْسَ کَعُقُولِ النَّاسِ۔ (ابن ماجہ ۳۵۳۲۔ طبرانی ۲۵)
(٢٤٠٥٠) حضرت سلیمان بن عمرو بن احوص اپنی والدہ ام جندب سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے ایک عورت آرہی تھی اور اس کے پاس اس کا بچہ تھا جس کو کوئی بیماری تھی، یہ عورت کہہ رہی تھی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ میرا بٹاپ ہے اور یہی میرے خاندان کا بقیہ (بچا ہوا) ہے، لیکن اس کو کوئی بیماری ہے کہ یہ گفتگو نہیں کرتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میرے پاس تھوڑا سا پانی لاؤ “ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پانی لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور کلی کی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ پانی عورت کو دے کر ارشاد فرمایا : ” اس پانی میں سے کچھ اس بچہ کو پلا دو اور کچھ پانی اس بچہ پر انڈیل دو اور اللہ تعالیٰ سے اس بچہ کے لیے شفا مانگو “ (راویہ کہتی ہیں) میں اس عورت سے ملی تھی اور میں نے اس سے کہا تھا۔ اگر تم یہ بچہ مجھے ہدیہ کردو ؟ اس عورت نے کہا یہ بچہ تو اسی مصیبت کا ہے پھر میں اس عورت سے اگلے سال ملی اور میں نے اس سے بچہ کے بارے میں پوچھا ؟ تو اس نے کہا وہ صحت یاب ہوگیا اور وہ ایسی عقل کا مالک ہے کہ وہ عام لوگوں کی عقلوں سے جدا ہے۔

24050

(۲۴۰۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی حَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ رُفَیْعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی الْحُسَیْنِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : نَزَلَ مَلَکَانِ ، فَجَلَسَ أَحَدُہُمَا عِنْدَ رَأْسِی وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلِی ، فَقَالَ الَّذِی عِنْدَ رِجْلِی لِلَّذِی عِنْدَ رَأْسِی : مَا بِہِ ؟ قَالَ : حُمَّی شَدِیدَۃٌ، قَالَ: عَوِّذْہُ ، قَالَ : فَمَا نَفَثَ ، وَلاَ نَفَخَ ، فَقَالَ : بِسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ ، وَاللَّہُ یَشْفِیکَ ، خُذْہَا فَلْتَہْنِیْکَ۔ (طبرانی ۱۰۹۳)
(٢٤٠٥١) حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” دو فرشتے نیچے آئے اور ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، جو فرشتہ میرے پاؤں کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نے میرے سر کی طرف بیٹھے ہوئے فرشتے سے پوچھا اس آدمی کو کیا ہوا ہے ؟ اس نے جواب دیا، سخت بخار ہے، پہلے نے کہا، اس کو دم کرو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں، اس نے پھونک نہیں ماری ۔۔۔ چنانچہ اس نے کہا، اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں اور اللہ ہی آپ کو شفا دے گا، یہ دم لو اور تمہیں مبارک ہو۔ “

24051

(۲۴۰۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی خَارِجَۃُ بْنُ الصَّلْتِ ؛ أَنَّ عَمَّہ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَجَعَ مَرَّ عَلَی أَعْرَابِیٍّ مَجْنُونٍ مُوثَقٍ فِی الْحَدِیدِ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : أَعِنْدَکَ شَیْئٌ تُدَاوِیہِ بِہِ ؟ فَإِنَّ صَاحِبَکُمْ قَدْ جَائَ بِخَیْرٍ ، فَرَقَیْتُہُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ، کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ ، فَبَرَأَ ، فَأَعْطَوْنِی مِئَۃ شَاۃٍ ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ : أَقُلْتَ غَیْرَ ہَذَا ؟ فَقُلْتُ : لاَ ، قَالَ : کُلْہَا بِسْمِ اللہِ ، فَلَعَمْرِی لِمَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ ، لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ۔ (ابوداؤد ۳۸۹۳۔ احمد ۵/۲۱۰)
(٢٤٠٥٢) حضرت خارجہ بن صلت بیان کرتے ہیں کہ ان کے چچا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر جب وہ واپس ہوئے تو ان کا گزر ایک ایسے دیہاتی پر ہوا جس کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا کچھ لوگوں نے (ان کے چچا سے) کہا۔ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے۔ جس کے ذریعے تم اس کا علاج کرسکو ؟ کیونکہ تمہارا ساتھی (مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خیر کی بات لے کر آیا ہے۔ پس میں نے اس دیہاتی کو تین مرتبہ سورة فاتحہ پڑھ کردو دن مسلسل دم کیا تو وہ صحت یا ب ہوگیا۔ اس پر ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں عطیہ میں دیں۔ پھر جب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بتائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” کیا تم نے اس کے علاوہ کچھ پڑھا تھا ؟ “ میں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں ارشاد فرمایا : ” ان بکریوں کو کھاؤ، بسم اللہ کرو۔ میری عمر کی قسم ! جس کسی نے باطل تعویذ کے ذریعہ کھایا (سو کھایا) لیکن تم یقیناً برحق تعویذ کے ذریعہ کھاؤ گے۔ “

24052

(۲۴۰۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِیَاسٍ ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : بَعَثَنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثِینَ رَاکِبًا فِی سَرِیَّۃٍ ، قَالَ : فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ فَسَأَلْنَاہُمَ الْقِرَی ، فَلَمْ یَقْرُونَا ، قَالَ : فَلُدِغَ سَیِّدُہُمْ ، قَالَ : فَأَتَوْنَا فَقَالُوا : أَفِیکُمْ أَحَدٌ یَرْقِی مِنَ الْعَقْرَبِ ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ، لَکِنِی لاَ أَرْقِیہِ حَتَّی تُعْطُونَا غَنَمًا ، قَالَ : فَقَالُوا : فَإِنَّا نُعْطِیکُمْ ثَلاَثِینَ شَاۃً ، قَالَ : فَقَبِلْنَا ، قَالَ : فَقَرَأْتُ فَاتِحَۃَ الکتاب سَبْعَ مَرَّاتٍ ، قَالَ : فَبَرَأَ ، فَقُلْنَا : لاَ تَعْجَلُوا حَتَّی تَأْتُوا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَیْہِ، قَالَ : فَذَکَرْتُ لَہُ الَّذِی صَنَعْتُ ، قَالَ : أَوَ مَا عَلِمْتَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ ؟ اقْسِمُوا الْغَنَمَ ، وَاضْرِبُوا لِی مَعَکُمْ بِسَہْمٍ۔ (ترمذی ۲۰۶۳۔ احمد ۳/۱۰)
(٢٤٠٥٣) حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تیس سواروں کو ایک سریہ میں بھیجا۔ فرماتے ہیں : پس ہم کچھ لوگوں کے پاس اترے اور ہم نے ان سے مہمان نوازی کا کہا تو انھوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی۔ کہتے ہیں (اسی دوران) ن کے سردار کو ڈسا گیا۔ چنانچہ وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو بچھو کو دم کرسکتا ہو ؟ ابو سعید کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا۔ ہاں۔ لیکن اس کو تب تک دم نہیں کروں گا جب تک تم ہمیں بکریاں نہ دو ۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا۔ ہم آپ لوگوں کو تیس بکریاں دیں گے۔ کہتے ہیں۔ (اس سے) وہ صحت یاب ہوگیا تو ہم نے (آپس میں) کہا۔ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ تم جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ جاؤ۔ راوی کہتے ہیں۔ پس جب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ میں نے جو کچھ کیا تھا اس کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تو جانتا تھا کہ یہ دم (بھی) ہے ؟ بکریاں تقسیم کرلو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی نکالو۔ “

24053

(۲۴۰۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : أَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنِّی رَقَیْتُ فُلاَنًا ، وَکَانَ بِہِ جُنُونٌ ، فَأُعْطِیتُ قَطِیعًا مِنْ غَنَمٍ ، وَإِنَّمَا رَقَیْتُہُ بِالْقُرْآنِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَخَذَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ ، فَقَدْ أَخَذْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ۔
(٢٤٠٥٤) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں ایک آدمی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا۔ میں نے فلاں شخص کو دم کیا تھا اور اس آدمی کو جنون تھا۔ مجھے (عوض میں) بکریوں کا ایک ریوڑد یا گیا ہے۔ جبکہ میں نے صرف قرآن مجید کے ذریعہ سے دم کیا تھا۔ تو اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس کسی نے باطل تعویذ کے ذریعہ لیا (تو وہ جانے) لیکن یقیناً تو نے تو برحق تعویذ دم پر لیا ہے۔ “

24054

(۲۴۰۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَکِیمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ حَتَّی إِذَا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ مَرَرْنَا بِامْرَأَۃٍ جَالِسَۃٍ وَمَعَہَا صَبِیٌّ لَہَا ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللہِ ، ابْنِی ہَذَا بِہِ بَلاَئٌ ، وَأَصَابَنَا مِنْہُ بَلاَئٌ ، یُؤْخَذُ فِی الْیَوْمِ لاَ أَدْرِی کَمْ مَرَّۃً ؟ فَقَالَ : نَاوِلِینِیہِ ، فَرَفَعَتْہُ إِلَیْہِ ، فَجَعَلَہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ وَاسِطَۃِ الرَّحْلِ ، ثُمَّ فَغَرَ فَاہُ ، ثُمَّ نَفَثَ فِیہِ ثَلاَثًا : بِسْمِ اللہِ ، أَنَا عَبْدُ اللہِ ، إِخْسَأْ عَدُوَّ اللہِ ، ثُمَّ نَاوَلَہَا إِیَّاہُ ، ثُمَّ قَالَ : اِلْقَیْنَا فِی الرَّجْعَۃِ فِی ہَذَا الْمَکَانِ ، فَأَخْبِرِینَا مَا فَعَلَ ؟ قَالَ : فَذَہَبْنَا ثُمَّ رَجَعْنَا فَوَجَدْنَاہَا فِی ذَلِکَ الْمَکَانِ مَعَہَا شِیَاہٌ ثَلاَثٌ ، فَقَالَ : مَا فَعَلَ صَبِیُّکِ ؟ فَقَالَتْ : وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ ، مَا أَحَسَسْنَا مِنْہُ بِشَیْئٍ حَتَّی السَّاعَۃِ ، فَاجْتَزرْ ہَذِہِ الْغَنَمَ ، قَالَ : انْزِلْ فَخُذْ مِنْہَا وَاحِدَۃً ، وَرُدَّ الْبَقِیَّۃَ۔
(٢٤٠٥٥) حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ایک سفر میں گیا یہاں تک کہ جب ہم راستہ کے درمیان ہی میں تھے تو ہمارا گزر ایک ایسی عورت پر ہو اجو بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہمراہ اس کا ایک بچہ تھا۔ اس عورت نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا یہ بچہ ہے اور اس کو کوئی بلاء ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی تکلیف ہے۔ نامعلوم دن میں کتنی مرتبہ اس کو وہ بلاء تنگ کرتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ بچہ مجھے پکڑاؤ۔ “ چنانچہ عورت نے وہ بچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلند کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بچہ کو اپنے اور سواری کے کجاوہ کے درمیان بٹھایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا منہ کھولا اور اس میں تین مرتبہ یہ الفاظ کہہ کر پھونکے : ” اللہ کے نام سے، میں اللہ کا بندہ ہوں، اے دشمن خدا دفع ہوجا۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ بچہ اس عورت کو پکڑا دیا اور فرمایا : ” ہمارے اس جگہ واپسی پر تم ہمیں ملو اور بتاؤ کیا ہوا ؟ “ راوی کہتے ہیں۔ پس ہم وہاں سے چل پڑے پھر ہم جب لوٹے تو ہم نے اس عورت کو اسی جگہ پایا اور اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” تیرے بچہ کا کیا بنا ؟ “ اس عورت نے عرض کیا۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ ہم نے ابھی تک اس بچہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی ہے۔ پس آپ یہ بکریاں لے لیں اور ذبح کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اُترو ! اور ان میں سے ایک بکری لے لو اور باقی بکریاں واپس کردو۔ “

24055

(۲۴۰۵۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَبْدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ رُقْیَۃَ إِلاَّ مِمَا أَخَذَ سُلَیْمَانُ مِنْہ الْمِیثَاقَ۔
(٢٤٠٥٦) حضرت علی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کے سوا جن سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے میثاق لیا تھا کسی سے دم، تعویذ جائز نہیں ہے۔

24056

(۲۴۰۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ عَامِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ رِفَاعَۃَ الزُّرَقِیِّ ، قَالَ : قالَتْ أَسْمَائُ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ بَنِی جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَیْہِمُ الْعَیْنُ ، فَأَسْتَرْقِی لَہُمْ مِنَ الْعَیْنِ ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابِقَ الْقَدَرِ لَسَبَقَتْہُ الْعَیْنُ۔ (ترمذی ۲۰۵۹۔ ابن ماجہ ۳۵۱۰)
(٢٤٠٥٧) حضرت عبید بن رفاعہ زرقی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت اسماء نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ جعفر کے بچوں کو نظر بہت جلد لگ جاتی ہے۔ تو کیا میں ان کو نظر کا دم، تعویذ کر وا لیا کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت پاتی تو نظر ہی تقدپر پر سبقت پاتی۔ “

24057

(۲۴۰۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَیْتَ أُمِّ سَلَمَۃَ ، فَإِذَا صَبِیٌّ فِی الْبَیْتِ یَشْتَکِی ، فَسَأَلَہُمْ عَنْہُ؟ فَقَالُوا: نَظُنُّ أَنَّ بِہِ الْعَیْنَ، فَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَلاَ تَسْتَرْقُونَ لَہُ مِنَ الْعَیْنِ۔ (بخاری ۵۷۳۹۔ مالک ۴)
(٢٤٠٥٨) حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر میں ایک بچہ کو دیکھا جس کو تکلیف تھی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر والوں سے اس کے بارے میں پوچھا ؟ لوگوں نے بتایا کہ ہمارے خیال میں اس کو نظر لگ گئی ہے، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے اس کو نظر کا دم کیوں نہیں کروایا ؟ “۔

24058

(۲۴۰۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَیْہ ، مَوْلَی جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ : قالَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ الْعَیْنَ تُسْرِعُ إِلَی بَنِی جَعْفَرٍ ، فَأَسْتَرْقِی لَہُمْ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، فَلَوْ قُلْتُ لِشَیْئٍ یَسْبِقُ الْقَدَرَ ، لَقُلْتُ : إِنَّ الْعَیْنَ تَسْبِقُہُ۔
(٢٤٠٥٩) حضرت جبیر بن مطعم کے آزاد کردہ غلام ، عبداللہ بن بابیہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس بتاتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جعفر کے بچوں کو نظر بہت جلدی لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروا لوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں “ اور اگر مں کہتا کہ کوئی چیز تقدیر پر بھی سبقت پاسکتی ہے تو میں کہتا کہ نظر ، تقدیر پر سبقت پاسکتی ہے۔ “

24059

(۲۴۰۶۰) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ أُمَیَّۃَ بْنِ ہِنْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : انْطَلَقْتُ أَنَا وَسَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ نَلْتَمِسُ الْخَمِرَ ، فَوَجَدْنَا خَمِرًا، أَوْ غَدِیرًا ، وَکَانَ أَحَدُنَا یَسْتَحْیِی أَنْ یَغْتَسِلَ وَأَحَدٌ یَرَاہُ ، فَاسْتَتَرَ مِنِّی حَتَّی إِذَا رَأَی أَنْ قَدْ فَعَلَ ، نَزَعَ جُبَّۃً عَلَیْہِ مِنْ کِسَائٍ ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَائَ ، فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ فَأَعْجَبَنِی خَلْقُہُ ، فَأَصَبْتُہُ مِنْہَا بِعَیْنٍ ، فَأَخَذَتْہُ قَفْقَفَۃٌ وَہُوَ فِی الْمَائِ، فَدَعَوْتُہُ فَلَمْ یُجِبْنِی، فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قُومُوا، فَأَتَاہُ، فَرَفَعَ عَنْ سَاقِہِ، ثُمَّ دَخَلَ إِلَیْہِ الْمَائَ، فَلَمَّا أَتَاہُ ضَرَبَ صَدْرَہُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ أَذْہِبْ حَرَّہَا وَبَرْدَہَا وَوَصَبَہَا ، ثُمَّ قَالَ : قُمْ ، فَقَامَ : فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ نَفْسِہِ، أَوْ مَالِہِ ، أَوْ أَخِیہِ ، مَا یُعْجِبُہُ ، فَلْیَدْعُ بِالْبَرَکَۃِ ، فَإِنَّ الْعَیْنَ حَقٌّ۔ (احمد ۴۴۷۔ حاکم ۲۱۵)
(٢٤٠٦٠) حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اور سہل بن حنیف چلے اور ہم کسی اوٹ کی تلاش میں تھے۔ چنانچہ ہم نے کوئی اوٹ یا کنواں پایا اور ہم میں سے ہر ایک اس بات سے شرماتا تھا کہ وہ غسل کرے اور اسے کوئی دیکھے۔ چنانچہ انھوں نے میرے آگے پردہ کیا یہاں تک کہ جب انھوں نے یہ دیکھا کہ میں غسل کرچکا ہوں تو انھوں نے وہ چادر کا جبہ اتار دیا جو انھوں نے پہنا ہوا تھا۔ اور پھر وہ پانی میں داخل ہوگئے۔ پس میں نے ان کی طرف دیکھا تو مجھے ان کی ساخت بہت خوبصورت لگی جس کی وجہ سے انہں امیری نظر لگ گئی۔ پس انھوں نے پانی میں ہی خوب کپکپانا شروع کیا۔ میں نے انھیں بلایا لیکن انھوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ چنانچہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلا گیا اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری بات بتائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اٹھو “۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان (سہل) کے پاس تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پنڈلی مبارک سے (کپڑا) اٹھایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف پانی میں داخل ہوگئے۔ پس جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سینہ پر مارا اور پھر فرمایا : ” اے اللہ ! اس کی سردی، گرمی اور درد کو دور کر دے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اٹھ کھڑا ہو “ چنانچہ وہ کھڑے ہوگئے، اس پر سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی اپنے آپ یا اپنے مال یا اپنے بھائی سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اس کو بہت پیاری لگے تو اسے برکت کی دعا کرنی چاہیے کیونکہ نظر برحق ہے۔ “

24060

(۲۴۰۶۱) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ بن حُنَیفٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ عَامِرًا مَرَّ بِہِ وَہُوَ یَغْتَسِلُ ، فَقَالَ : مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمِ قَطُّ ، وَلاَ جِلْدَ مُخَبَّأَۃٍ ، فَلُبِطَ بِہِ حَتَّی مَا یَعْقِلُ لِشِدَّۃِ الْوَجَعِ ، فَأَخْبَرَ بِذَلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ ، وَقَالَ : قَتَلْتَہُ ، عَلاَمَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ ؟ أَلاَ بَرَّکْتَ ؟ فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِذَلِکَ ، فَقَالَ : اغْسِلُوہُ ، فَاغْتَسَلَ فَخَرَجَ مَعَ الرَّکْبِ۔ وَقَالَ الزُّہْرِیُّ : إِنَّ ہَذَا مِنَ الْعِلْمِ ، غَسَلَ الَّذِی عَانَہُ ، قَالَ : یُؤْتَی بِقَدَحِ مَائٍ ، فَیُدْخِلُ یَدَہُ فِی الْقَدَحِ ، فَیُمَضْمِضُ وَیَمُجَّہُ فِی الْقَدَحِ ، وَیَغْسِلُ وَجْہَہُ فِی الْقَدَحِ ، ثُمَّ یَصُبُّ بِیَدِہِ الْیُسْرَی عَلَی کَفِّہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی عَلَی کَفِّہِ الْیُسْرَی ، وَیُدْخِلُ یَدَہُ الْیُسْرَی فَیَصُبُّ عَلَی مِرْفَقِ یَدِہِ الْیُمْنَی ، وَبِیَدِہِ الْیُمْنَی عَلَی مِرْفَقِ یَدِہِ الْیُسْرَی ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمہ الْیُمْنَی ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَہُ الْیُمْنَی ، فَیَغْسِلُ قَدَمہ الْیُسْرَی ، ثُمَّ یَدَہُ الْیُمْنَی فَیَغْسِلُ الرُّکْبَتَیْنِ ، وَیَأْخُذُ دَاخِلَۃ إِزَارِہِ ، فَیَصُبُّ عَلَی رَأْسِہِ صَبَّۃً وَاحِدَۃً ، وَلاَ یَدَعُ الْقَدَحَ حَتَّی یَفْرُغَ۔ (احمد ۳/۴۸۶۔ ابن حبان ۶۱۰۶)
(٢٤٠٦١) حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر ، سہل کے پاس سے گذرے جبکہ سہل غسل کر رہے تھے۔ حضرت عامر نے کہا۔ میں نے آج کے دن (دکھائی دینے والے شخص کی طرح کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی اس قدر سفید چمڑی دیکھی۔ پس (اتنے میں) حضرت سہل زمین پر گرگئے۔ یہاں تک کہ بوجہ شدت تکلیف کے انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی اطلاع کی گئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عامر کو بلایا اور ان پر غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا : ” تم نے اس کو قتل کردیا ہے۔ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کس بنیاد پر قتل کرتا ہے ؟ تم نے اس کے لیے دعائے برکت کیوں نہیں کی ؟ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (عامر ) کو حکم دیا اور فرمایا۔ ” اس کو غسل دو “ چنانچہ انھوں نے غسل کیا اور قافلہ کے ہمراہ چلے گئے۔ حضرت زہری فرماتے ہیں۔ علم کی بات یہ ہے کہ غسل وہ شخص کرتا ہے جس نے نظر لگائی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک پیالہ میں پانی لایا جائے اور پھر یہ اس پیالہ میں دھوئے۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے دائیں ہاتھ پر پانی ڈالے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالے اور پھر اپنا بایاں ہاتھ ڈالے اور اپنی دائیں کہنی پر پانی ڈالے اور دایاں ہاتھ ڈالے اور اپنی بائیں کہنی پر پانی ڈالے پھر اپنا دایاں قدم دھوئے پھر اپنا دایاں ہاتھ دھوئے پھر اپنا بایاں قدم دھوئے۔ پھر دایاں ہاتھ ڈالے اور دونوں گھٹنے دھوئے۔ اور اس کے ازار کو پکڑ لے اور اس کے سر پر ایک ہی مرتبہ یہ پانی انڈیل دے۔ پیالے کو خالی ہونے تک انڈیلے رکھے۔

24061

(۲۴۰۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تَأْمُرُ الْمَعِینَ أَنْ یَتَوَضَّأَ ، فَیَغْتَسِلَ الَّذِی أَصَابَتْہُ الْعَیْنُ۔
(٢٤٠٦٢) حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ نظر لگانے والے کو حکم دیتی تھیں کہ وہ وضو کرے اور پھر جس کو نظر لگی ہے اس کے بچے ہوئے پانی سے اسے غسل دیا جائے۔

24062

(۲۴۰۶۳) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنَا وُہَیْبٌ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْعَیْنُ حَقٌّ ، وَإِذَا اسْتُغْسِلَ فَلْیَغْتَسِلْ۔ (مسلم ۴۲۔ ابن حبان ۶۱۰۸)
(٢٤٠٦٣) حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” نظر برحق ہے اور جب کسی کو نظر کی وجہ سے غسل کرنے کا کہا جائے تو اس کو غسل کرنا چاہیے۔ “

24063

(۲۴۰۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی ؛ أَنَّ الْوَلِیدَ بْنَ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ الْمَخْزُومِیَّ شَکَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدِیثَ نَفْسٍ وَجَدَہ ، وَإِنَّہُ قَالَ : إِذَا أَتَیْتَ فِرَاشِکَ فَقُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ ، وَعِقَابِہِ ، وَشَرِّ عِبَادِہِ ، وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ ، وَأَنْ یَحْضُرُونِ ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَ یَضُرُّک شَیْئٌ حَتَّی تُصْبِحَ۔ (ترمذی ۳۵۲۸۔ احمد ۴/۵۷)
(٢٤٠٦٤) حضرت محمد بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ولید بن ولید بن مغیرہ مخزومی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خیالات کے بارے میں جو انھیں آتے تھے، شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ’ ’ تم اپنے بستر پر آؤ تو یوں کہو۔ میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعہ سے اس کے غضب اور سزا اور اس کے بندوں کے شر سے پناہ میں آتا ہوں۔ اور شیطانی وساوس سے بھی پناہ میں آتا ہوں۔ اور اس بات سے بھی پناہ میں آتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ پس قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تمہیں صبح تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ “

24064

(۲۴۰۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَیْبَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ جَعْدَۃَ ، قَالَ : کَانَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ یفْزَعُ مِنَ اللَّیْلِ حَتَّی یَخْرُجَ وَمَعَہُ سَیْفُہُ ، فَخُشِیَ عَلَیْہِ أَنْ یُصِیبَ أَحَدًا ، فَشَکَا ذَلِکَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنَّ جِبْرِیلَ قَالَ لِی : إِنَّ عِفْرِیتًا مِنَ الْجِنِّ یَکِیدُکَ ، فَقُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہنَّ بَرٌّ ، وَلاَ فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِی الأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ ، فَقَالَہُنَّ خَالِد ، فَذَہَب ذَلِکَ عَنہُ۔
(٢٤٠٦٥) حضرت یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ خالد بن ولید رات کے وقت ڈر جاتے تھے اور ان کے پاس تلوار بھی ہوتی تھی اور وہ اس حال میں باہر نکل جاتے تھے، پھر انھوں نے یہ خوف محسوس کیا کہ یہ کسی کو زخمی نہ کردیں تو انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :” مجھے جبرائیل نے کہا تھا کہ ایک بڑا جن آپ کے لیئے برائی کا ارادہ رکھتا ہے پس آپ (یہ) پڑھیں :” میں اللہ تعالیٰ کے ان کلمات تامہ کے ذریعے سے پناہ پکڑتا ہوں جن سے کوئی نیک اور بد تجاوز نہیں کرسکتا، ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترے اور جو آسمان میں چڑھے اور ہر اس چیز سے جو زمین میں داخل ہو اور جو زمین سے خارج ہو اور رات، دن کے فتنوں سے اور ہر رات کو آنے والی ہر چیز کے شر سے مگر وہ رات کو آنے والی چیز جو خیر کے ساتھ آئے، اے رحمن “ چنانچہ حضرت خالد نے یہ جملے کہے تو ان کی یہ حالت ختم ہوگئی۔

24065

(۲۴۰۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَکْحُولٌ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ تَلَقَّتْہُ الْجِنُّ بِالشَّرَرِ یَرْمُونَہُ ، فَقَالَ جِبْرِیل : یَا مُحَمَّدُ ، تَعَوَّذ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ : فَزُجِرُوا عَنْہُ ، فَقَالَ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزہُنَّ بَرٌّ ، وَلاَ فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا بُثَّ فِی الأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ۔
(٢٤٠٦٦) حضرت مکحول روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو جنات آپ کو اس حالت میں ملے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف شعلہ زنی کر رہے تھے۔ اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ ” اے محمد ! آپ ان کلمات کے ذریعہ پناہ حاصل کرلیں۔ ‘ ‘ چنانچہ جنات کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ کلمات) کہے تھے۔” میں اللہ تعالیٰ کے ان کلمات تامہ کے ذریعہ ، جن سے کوئی نیک اور بد تجاوز نہیں کرسکتا، آسمان سے اترنے والی اور آسمان پر چڑھنے والی ہر چیز کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں اور ہر اس چیز سے پناہ پکڑتا ہوں جو زمین میں پھیلی ہوئی ہے اور جو زمین سے نکلتی ہے۔ اور رات، دن کے فتنوں کے شر سے اور رات کو آنے والی ہر چیز کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں سوائے رات کو آنے والی اس چیز کے جو خیر لے کر آئے۔ اے رحمن۔ “

24066

(۲۴۰۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ ؛ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ حَالَ بَیْنَ صَلاَتِی وَبَیْنَ قِرَائَ تِی ، قَالَ : ذَلِکَ شَیْطَانٌ یُقَالُ لَہُ : خِنْزَبٌ ، فَإِذَا مَا أَحْسَسْتَہُ فَاتْفِلْ عَلَی یَسَارِکَ ثَلاَثًا ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّہِ مِنْ شَرِّہِ۔ (مسلم ۱۷۲۹۔ احمد ۴/۲۱۶)
(٢٤٠٦٧) حضرت عثمان بن ابوالعاص کے بارے میں روایت ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور انھوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تحقیق شیطان میری نماز اور میری تلاوت کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ وہ شیطان ہے۔ جس کو خنزب کہا جاتا ہے۔ پس جب اس کو محسوس کرو تو تم اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر کی پناہ مانگو۔ “

24067

(۲۴۰۶۸) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ عَبْدَ اللہِ بْنَ خَنْبَشٍ : کَیْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ کَادَتْہُ الشَّیَاطِینُ ؟ قَالَ : جَائَ تِ الشَّیَاطِینُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَوْدِیَۃِ ، وَتَحَدَّرَتْ عَلَیْہِ مِنَ الْجِبَالِ ، وَفِیہِمْ شَیْطَانٌ مَعَہُ شُعْلَۃٌ مِنْ نَارٍ ، یُرِیدُ أَنْ یُحَرِّقَ بِہَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأُرْعِبَ مِنْہُ ؟ قَالَ جَعْفَرٌ : أَحْسَبُہُ جَعَلَ یَتَأَخَّرُ ، وَجَائَ جِبْرِیلُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ ، قُلْ ، قَالَ : وَمَا أَقُولُ ؟ قَالَ : قُلْ : أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ الَّتِی لاَ یُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ ، وَلاَ فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ ، وَمِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ فِیہَا ، وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِی الأَرْضِ ، وَمِنْ شَرِّ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا ، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ ، وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ إِلاَّ طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ، قَالَ : فَطُفِئَتْ نَارُ الشَّیَاطِینَ ، وَہَزَمَہُمَ اللَّہُ۔ (احمد ۳/۴۱۹۔ ابویعلی ۶۸۴۴)
(٢٤٠٦٨) حضرت ابو التیاح بیان کرتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضرت عبداللہ بن خنبش سے پوچھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب شیاطین نے مکر کرنا چاہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا کیا تھا ؟ عبداللہ نے جواب دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مختلف وادیوں سے اور مختلف پہاڑوں سے اتر کر شیاطین آئے اور ان میں ایک ایسا شیطان بھی تھا جس کے پاس آگ کا ایک بڑا انگارہ تھا۔ اور اس کے ذریعہ سے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلانا چاہتا تھا۔ لیکن پھر وہ شیطان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرعوب ہوگیا۔ جعفر راوی کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور انھوں نے فرمایا : ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کہو “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ ” میں کیا کہوں ؟ “ جبرائیل نے کہا۔ ” آپ یہ کہو : میں اللہ تعالیٰ کے ان کلماتِ تامہ کے ذریعہ پناہ پکڑتا ہوں کہ جب کلمات سے مخلوق میں سے کوئی فاجر یا نیک تجاوز نہیں کرسکتا۔ اور کوئی پیدا ہونے والا اور نکلنے والا تجاوز نہیں کرسکتا۔ اور میں ہر اس چیز کے شر سے پناہ حاصل کرتا ہوں جو آسمان سے اترے اور آسمان میں چڑھے اور ہر اس چیز کے شر سے جو زمین میں داخل ہو اور زمین سے باہر آئے ، اور رات ، دن کے فتنوں کے شر سے اور رات کو آنے والی کسی بھی چیز کے شر سے مگر رات کو آنے والی وہ چیز جو خیر کے ساتھ آئے، اے رحمن “۔ راوی کہتے ہیں۔ پس شیطانوں کی آگ بجھ گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ناکام کردیا۔

24068

(۲۴۰۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کُنْتُ أَلْقَی مِنْ رُؤْیَۃِ الْغُولِ وَالشَّیَاطِینِ بَلاَئً وَأَرَی خَیَالاً ، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ؟ فَقَالَ : أَخْبِرنِی عَلَی مَا رَأَیْتَ ، وَلاَ تُفْرَقنَّ مِنْہُ ، فَإِنَّہُ یَفْرَقُ مِنْکَ کَمَا تَفْرَقُ مِنْہُ ، وَلاَ تَکُنْ أَجْبَنَ السَّوَادَیْنِ ، قَالَ مُجَاہِدٌ : فَرَأَیْتُہُ فَأَسْنَدْتُ عَلَیْہِ بِعَصَا حَتَّی سَمِعْتُ وَقْعَتَہُ۔
(٢٤٠٦٩) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مجھے شیاطین وغیرہ کی طرف برے برے خیالات و تصورات آتے تھے۔ میں نے حضرت ابن عباس سے (اس کے بارے میں) پوچھا۔ تو انھوں نے فرمایا : تم نے جو کچھ دیکھا ہے وہ مجھے بھی بتاؤ۔ اس سے ڈرو نہیں۔ کیونکہ جس طرح تم اس سے ڈرتے ہو وہ بھی تم سے ڈرتے ہیں۔ تم اس سے بھی زیادہ ڈرپوک نہ بنو۔ حضرت مجاہد کہتے ہیں۔ میں نے پھر دوبارہ یہ دیکھا تو میں نے اس کو لاٹھی ماری یہاں تک کہ میں نے ضرب کی آواز بھی سُنی۔

24069

(۲۴۰۷۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنَ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ النَّخَعِیِّ ، قَالَ : کَانُوا إِذَا رَأَی أَحَدُہُمْ فِی مَنَامِہِ مَا یَکْرَہُ ، قَالَ : أَعُوذُ بِمَا عَاذَتْ بِہِ مَلاَئِکَۃُ اللہِ وَرُسُلُہُ مِنْ شَرِّ مَا رَأَیْتُ فِی مَنَامِی ، أَنْ یُصِیبَنِیَ مِنْہُ شَیْئٌ أَکْرَہُہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔
(٢٤٠٧٠) حضرت ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں سے جب کوئی خواب کی حالت میں ناپسندیدہ چیز دیکھتا تو یہ کہتا تھا۔ (ترجمہ) میں اس ذریعہ سے پناہ پکڑتا ہوں جس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور رسول پناہ پکڑتے ہیں ہر اس چیز کے شر سے جو میں نے اپنی خواب میں دیکھی کہ مجھے اس کی وجہ سے کوئی ایسی بات دنیا یا آخرت میں پہنچے جس کو میں پسند نہیں کرتا۔

24070

(۲۴۰۷۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِذَا فَزِعَ أَحَدُکُمْ فِی نَوْمِہِ ، فَلْیَقُلْ : بِسْمِ اللہِ ، أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ ، وَسوء عِقَابِہِ ، وَشَرِّ عِبَادِہِ ، وَمِنْ شَرِّ الشَّیَاطِینِ وَمَا یَحْضُرُونِ۔
(٢٤٠٧١) حضرت عمرو بن شعیب ، اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے جب کوئی اپنی نیند میں ڈر جائے تو اس کو یہ کہنا چاہیے۔ (ترجمہ) ” میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعہ سے اس کے غضب اور اس کے سخت انتقام اور اس کے شریر بندوں اور شیطانوں کی شرارت اور جو کچھ یہ شیطان میرے پاس لائیں (ان سب) سے پناہ میں آتا ہوں۔

24071

(۲۴۰۷۲) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَخِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : إِذَا حَسَّ أَحَدُکُمْ بِالشَّیْطَانِ ، فَلْیَنْظُرْ إِلَی الأَرْضِ وَلْیَتَعَوَّذْ۔
(٢٤٠٧٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی شیطان (کے اثرات) کو محسوس کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ زمین کو دیکھے اور اعوذ باللہ پڑھے۔

24072

(۲۴۰۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَوَی سَعْدًا فِی أَکْحَلِہِ مَرَّتَیْنِ۔ (ابوداؤد ۳۸۶۲۔ ابن ماجہ ۳۴۹۴)
(٢٤٠٧٣) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد کو ان کے ان کے بازو کی ایک رگ میں داغ دیا تھا۔

24073

(۲۴۰۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی خَبَّابٍ نَعُودُہُ ، وَقَدِ اکْتَوَی سَبْعًا فِی بَطْنِہِ۔ (بخاری ۵۶۷۲۔ ترمذی ۹۷۰)
(٢٤٠٧٤) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم حضرت خباب کی عیادت کرنے کے لیے ان کے ہاں گئے۔ انھوں نے اپنے پیٹ میں سات مرتبہ داغا ہو اتھا۔

24074

(۲۴۰۷۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ اکْتَوَی مِنَ اللَّقْوَۃِ ، وَاسْتَرْقَی مِنَ الْعَقْرَبِ۔
(٢٤٠٧٥) حضرت ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے لقوہ کے مرض کی وجہ سے اپنے بدن پر داغا اور بچھو کے ڈسنے پر دم کیا ۔

24075

(۲۴۰۷۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ سَیَّارٍ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ: أَقْسَمَ عَلَیَّ عُمَرُ لأَکْتَوِیَنَّ۔
(٢٤٠٧٦) حضرت جریر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے مجھے قسم دے کر کہا کہ میں ضرور اپنے بدن کو داغوں۔

24076

(۲۴۰۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ؛ أَنَّہُ اکْتَوَی مِنَ اللَّقْوَۃِ۔
(٢٤٠٧٧) حضرت انس کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے لقوہ کے مرض کی وجہ سے (اپنے بدن پر) داغا تھا۔

24077

(۲۴۰۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: کَوَانِی أَبُو طَلْحَۃَ، وَاکْتَوَی مِنَ اللَّقْوَۃِ۔
(٢٤٠٧٨) حضرت انس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھے ابو طلحہ نے داغا اور انھوں نے بوجہ لقوہ کے مرض کے داغا۔

24078

(۲۴۰۷۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعْد بْنِ زُرَارَۃَ، سَمِعْتُ عَمِّی یَحْیَی، وَمَا أَدرَکتُ رَجلاً مِنَّا بِہِ شَبیہًا ، یُحَدِّث ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَۃَ أَخَذَہُ وَجَعٌ فِی حَلْقِہِ ، یُقَالُ لَہُ : الذَّبْحُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأُبْلِغَنَّ ، أَوْ لأُبْلِیَنَّ فِی أَبِی أُمَامَۃَ عُذْرًا ، فَکَوَاہُ بِیَدِہِ ، فَمَاتَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : میتَۃُ سَوْئٍ لِلْیَہُودِ ، یَقُولُونَ : فَہَلاَّ دَفَعَ عَنْ صَاحِبِہِ ، وَمَا أَمْلِکُ لَہُ وَلاَ لِنَفْسِی شَیْئًا۔ (ابن ماجہ ۳۴۹۲۔ حاکم ۲۱۴)
(٢٤٠٧٩) حضرت محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے چچا حضرت یحییٰ ۔۔۔ اپنے میں سے کسی آدمی کو میں نے ان کے مشابہ نہیں پایا ۔۔۔کو بیان کرتے سُنا کہ حضرت سعد بن زرارہ کو حلق میں ایک بیماری پیدا ہوگئی جس کو ذبح (سوزش) کہا جاتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میں ضرور بالضرور ابو امامہ میں عذر کو پہنچاؤں گا یا فرمایا : میں ضرور بالضرور آزماؤں گا، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے ہاتھ سے داغا اور وہ انتقال کر گئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہود کے لیے یہ (واقعہ) بری موت ہے، وہ کہیں گے، محمد نے اپنے ساتھی سے تکلیف کیوں نہ دور کی، حالانکہ میں تو اپنی جان کا مالک نہیں ہوں۔ “

24079

(۲۴۰۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، عَنْ شَیْبَانَ اللَّحَّامِ ، قَالَ : کَوَانِی ابْنُ الْحَنَفِیَّۃِ فِی رَأْسِی۔
(٢٤٠٨٠) حضرت شیبان لحام سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت ابن الحنفیہ نے میرے سر میں داغا تھا۔

24080

(۲۴۰۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؛ أَنَّہُ دَخَلَ عَلَیْہِ وَقَدْ کَوَی غُلاَمًا۔
(٢٤٠٨١) حضرت عطاء بن سائب ، ابو عبد الرحمن کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ عطائ، ابو عبد الرحمن کے ہاں گئے اور انھوں نے ایک غلام کو داغا تھا۔

24081

(۲۴۰۸۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ شِخِّیرٍ ، قَالَ : کَانَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ یَنْہَی عَنِ الْکَیِّ ، ثُمَّ اکْتَوَی بَعْدُ۔
(٢٤٠٨٢) حضرت مطرف بن شخیر سے روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصین داغنے سے روکا کرتے تھے، لیکن پھر انھوں نے بعد میں اپنے بدن پر داغ لگوایا۔

24082

(۲۴۰۸۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : کَانَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ یَنْہَی عَنِ الْکَیِّ ، فَابْتُلِیَ فَاکْتَوَی ، فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِکَ یَعَجُّ ، وَیَقُولُ : اکْتَوَیْتُ کَیَّۃً بِنَارٍ ، مَا أَبْرَأَتْ مِنْ أَلَمٍ ، وَلاَ أَشْفَتْ مِنْ سَقَمٍ۔
(٢٤٠٨٣) حضرت ابو مجلز سے روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصین داغنے سے روکا کرتے تھے لیکن پھر وہ (مرض میں) مبتلا ہوئے تو انھوں نے خود کو داغ لگایا۔ پھر اس کے بعد وہ اونچی آواز سے کہا کرتے تھے کہ میں نے خود کو آگ کے ذریعہ سے داغا ہے لیکن اس نے نہ تو تکلیف ختم کی اور نہ ہی بیماری میں شفا دی۔

24083

(۲۴۰۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَص ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ نُعِتَ لَہُ الْکَیُّ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اُکْوُوہُ ، أَوْ ارْضِفُوہُ۔ (احمد ۱/۳۹۰۔ طبرانی ۱۰)
(٢٤٠٨٤) حضرت عبداللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص کو لایا گیا جس کے بارے میں داغنے کو کہا گیا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : ” اس کو داغو یا فرمایا ، اس کو گرم پتھر سے داغو۔ “

24084

(۲۴۰۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنْ سَیَّارٍ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : أَقْسَمَ عَلَیَّ عُمَرُ لأَکْتَوِیَنَّ۔
(٢٤٠٨٥) حضرت جریر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے مجھے قسم کھا کر کہا کہ میں ضرور بالضرور خود کو داغوں گا۔

24085

(۲۴۰۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَبِی الْعُمَیْسِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَتْ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ بُخْتِیَّۃٌ ، قَدْ مَالَ سَنَامُہَا عَلَی جَنْبِہَا ، فَأَمَرَنِی أَنْ أَقْطَعَہُ وَأَکْوِیَہُ۔
(٢٤٠٨٦) حضرت حسن بن سعد، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : حضرت حسن بن علی کے پاس ایک بختی اونٹنی تھی جس کا کوہان ایک جانب گرگیا تھا چنانچہ انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو کاٹ دوں اور داغ دوں۔

24086

(۲۴۰۸۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَوَی ابْنًا لَہُ وَہُوَ مُحْرِمٌ۔
(٢٤٠٨٧) حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے اپنے ایک بیٹے کو حالت احرام میں داغ دیا تھا۔

24087

(۲۴۰۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عُرِضَتْ عَلَیَّ الأُمَمُ ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِیمٌ ، فَقُلْتُ : ہَذِہِ أُمَّتِی ؟ فَقِیلَ : ہَذَا مُوسَی وَقَوْمُہُ ، قَالَ : ثُمَّ قِیلَ لِی : اُنْظُرْ إِلَی الأُفُقِ ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ قَدْ مَلأَ الأُفُقَ ، قَالَ : فَقِیلَ : ہَذِہِ أُمَّتُکَ ، وَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ سِوَاہَا سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُبَیِّنْ لَہُمْ ، فَأَفَاضَ الْقَوْمُ ، فَقَالُوا : نَحْنُ الَّذِینَ آمَنَّا بِاللَّہِ وَاتَّبَعْنَا رَسُولَہُ ، فَنَحْنُ ہُمْ ، أَوْ أَوْلاَدُنَا الَّذِینَ وُلِدُوا فِی الإِسْلاَمِ ، قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ہُمُ الَّذِینَ لاَ یَسْتَرْقُونَ ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ ، وَلاَ یَکْتَوُونَ ، وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (بخاری ۶۵۴۱۔ مسلم ۳۷۴)
(٢٤٠٨٨) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” مجھ پر اُمّتوں کو پیش کیا گیا۔ پس ایک بہت بڑی تعداد نظر آئی تو میں نے پوچھا۔ یہ میری امت ہے ؟ کہا گیا۔ یہ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ پھر مجھے کہا گیا۔ آسمان کی طرف دیکھو۔ چنانچہ میں نے دیکھا تو ایک بڑی تعداد تھی جس نے افق کو بھر دیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ کہا گیا۔ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں سے ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ “ پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر تشریف لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں مزید بیان نہیں کیا۔ تو لوگ افاض اور کہنے لگے۔ ہم لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اس کے رسول کی اتباع کی ہے۔ پس ہم ہی وہ لوگ ہیں۔ یا اس کا مصداق ہمارے وہ بچے ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ بات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہوں گے جو تعویذ نہیں کروائیں گے اور فال نہیں نکالیں گے اور نہ داغیں گے بلکہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کریں گے۔ “

24088

(۲۴۰۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : اشْتَکَی رَجُلٌ مِنَّا شَکْوَی شَدِیدَۃً ، فَقَالَ الأَطِبَّائُ : لاَ یَبْرَأُ إِلاَّ بِالْکَیِّ ، فَأَرَادَ أَہْلُہُ أَنْ یَکْوُوہُ ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : لاَ ، حَتَّی نَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَأْمَرُوہُ ، فَقَالَ : لاَ ، فَبَرِأَ الرَّجُلُ ، فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ہَذَا صَاحِبُ بَنِی فُلاَنٍ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ ہَذَا لَوْ کُوِیَ ، قَالَ النَّاسُ : إِنَّمَا أَبْرَأَہُ الْکَیُّ۔
(٢٤٠٨٩) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک آدمی کو (کسی مرض کی) شدید شکایت ہوگئی تو اطباء نے کہا۔ یہ آدمی صرف داغنے سے صحیح ہوگا۔ اس کے گھر والوں نے ارادہ کیا کہ وہ اس کو داغ لگوا دیں۔ لیکن پھر بعض نے کہا۔ نہیں۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیں۔ چنانچہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں “ پھر وہ آدمی ٹھیک ہوگیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو ارشاد فرمایا : ” یہ فلاں قبیلہ کا آدمی ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ آدمی اگر داغا جاتا تو لوگ یہی کہتے کہ اس کو داغنے نے صحت یاب کردیا ہے۔ “

24089

(۲۴۰۹۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ أَبِی وَجْزَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَقَّارٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ أَنَّہُ قَالَ : لَمْ یَتَوَکَّلْ مَنِ اسْتَرْقَی وَاکْتَوَی۔ (ترمذی ۲۰۵۵۔ احمد ۴/۲۵۱)
(٢٤٠٩٠) حضرت عقّار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص تعویذ کروائے یا داغ لگوائے اس آدمی نے توکل نہیں کیا۔ “

24090

(۲۴۰۹۱) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : حدَّثَنَا شَیْبَانُ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : قَالَ : تَحَدَّثْنَا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: سَبْعُونَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ لاَ حِسَابَ عَلَیْہِمْ : الَّذِینَ لاَ یَکْتَوُونَ ، وَلاَ یَسْتَرْقُونَ ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ ، وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (بخاری ۹۱۱۔ طبرانی ۹۷۶۹)
(٢٤٠٩١) حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گفتگو کر رہے تھے۔ اس دوران نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” ستر ہزار لوگ جنت میں یوں داخل ہوں گے کہ ان پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ نہیں لگوائیں گے اور نہ ہی تعویذ کروائیں گے اور نہ ہی بدفالی کریں گے بلکہ وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کریں گے۔

24091

(۲۴۰۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ : مَنِ اکْتَوَی کَیَّۃً بِنَارٍ خَاصَمَ فِیہِ الشَّیْطَانُ۔
(٢٤٠٩٢) حضرت ابو مجلز سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جس آدمی نے آگ سے داغ لگوایا تو اس میں شیطان جھگڑے گا۔

24092

(۲۴۰۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : أَخَذَتْنِی ذَاتُ الْجَنْبِ فِی زَمَنِ عُمَرَ ، فَدُعِی رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ أَنْ یَکْوِیَنِی ، فَأَبَی إِلاَّ أَنْ یَأْذَنَ لَہُ عُمَرُ ، فَذَہَبَ أَبِی إِلَی عُمَرَ ، فَأَخْبَرَہُ الْقِصَّۃَ ، فَقَالَ عُمَرُ : لاَ تَقْربِ النَّارَ ، فَإِنَّ لَہُ أَجَلاً لَنْ یَعْدُوَہُ ، وَلَنْ یَقْصُرَ عَنْہُ۔
(٢٤٠٩٣) حضرت محمد بن عمرو، اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر کے زمانہ میں ذات الجنب ہوگیا۔ تو ایک اعرابی کو مجھے داغنے کے لیے بلایا گیا۔ اس نے حضرت عمر کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر میرے والد حضرت عمر کی خدمت میں گئے اور انھیں یہ واقعہ بتایا تو حضرت عمر نے کہا۔ تم آگ کے قریب نہ جانا کیونکہ اس مریض کا ایک وقت مقرر ہے جس سے یہ مریض نہ تو آگے ہوسکتا ہے اور نہ ہی پھے ت رہ سکتا ہے۔

24093

(۲۴۰۹۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنْہَی عَنِ الْحَمِیمِ ، وَأَکْرَہُ الْکَیَّ۔ (احمد ۴/۱۵۶۔ طبرانی ۱۷)
(٢٤٠٩٤) حضرت عمران بن ابی انس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” میں کھولتے ہوئے پانی سے منع کرتا ہوں اور داغنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ “

24094

(۲۴۰۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ طَبِیبًا ، فَقَطَعَ مِنْہُ عِرْقًا ، ثُمَّ کَوَاہُ عَلَیْہِ۔ (مسلم ۷۳۔ ابوداؤد ۳۸۶۰)
(٢٤٠٩٥) حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابی ّ بن کعب کی طرف ایک طبیب بھیجا۔ اس نے حضرت ابی کی رگ کاٹ دی اور اس نے اس رگ پر داغ دیا۔

24095

(۲۴۰۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؛ أَنَّہُ قَطَعَ الْعُرُوقَ۔
(٢٤٠٩٦) حضرت عمران بن حصین کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے رگوں کو کاٹا۔

24096

(۲۴۰۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی مَکِینٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ ابْنَ سِیرِینَ عِنْدَ مَائِی ، فَقُلْتُ لَہُ : أَیَّ شَیْئٍ تَصْنَعُ ہَاہُنَا ؟ فَقَالَ : أَقَطْعُ عِرْقَ کَذَا لابْنِ أَخِی۔
(٢٤٠٩٧) حضرت ابو مکین سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن سیرین کو اپنے پانی کے پاس دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ انھوں نے جواب میں کہا۔ میں اپنے برادرزادہ کی فلاں رگ کو کاٹ رہا ہوں۔

24097

(۲۴۰۹۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُولُ : قُطِعَتْ مِنِّی عِرْقٌ ، أَوْ عُرُوقٌ۔
(٢٤٠٩٨) حضرت عبد الملک بن ابی سلیمان سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد کو کہتے سُنا کہ میری ایک رگ یا کئی رگیں کٹی ہوئی ہیں۔

24098

(۲۴۰۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : رَأَیْتُ عُرْوَۃَ أَصَابَہُ ہَذَا الدَّائُ ، یَعْنِی الأَکِلَۃَ ، فَقَطَعَ رِجْلَہُ مِنَ الرُّکْبَۃِ۔
(٢٤٠٩٩) حضرت سعد بن ابراہیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ کو دیکھا کہ انھیں یہ بیماری لگ گئی تھی ۔۔۔یعنی عضو کو ختم کردینے والی بیماری ۔۔۔ تو انھوں نے اپنا پاؤں ٹخنہ سے کٹوا دیا تھا۔

24099

(۲۴۱۰۰) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنِ ابْنِ أَبْجَر ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : یُمْسَحُ عَلَی الْعِرقِ۔
(٢٤١٠٠) حضرت عامر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رگ پر ہاتھ پھیر کر صاف کیا جائے گا۔

24100

(۲۴۱۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الْبَطَّ ، وَقَطْعَ الْعُرُوقِ۔
(٢٤١٠١) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ پھوڑے میں شگاف دینے اور رگوں کے کاٹنے کو ناپسند کرتے تھے۔

24101

(۲۴۱۰۲) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنِ أَبِی رَافِعٍ ، قَالَ : رَآنِی عُمَرُ مَعْصُوبَۃً یَدَیَّ ، أَوْ رِجْلِیَّ ، فَانْطَلَقَ بِی إِلَی الطَّبِیبِ ، فَقَالَ : بُطَّہُ ، فَإِنَّ الْمِدَّۃَ إِذَا تُرِکَتْ بَیْنَ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ أَکَلَتْہُ ، قَالَ : فَکَانَ الْحَسَنُ یَکْرَہُ الْبَطَّ۔
(٢٤١٠٢) حضرت ابو رافع سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے میرے ہاتھ یا میرے پاؤں پر پٹی باندھے ہوئے دیکھا تو مجھے لے کر ایک طبیب کے پاس چل پڑے اور کہا اس کو (دانہ کو) کاٹ دو ، کیونکہ جب پیپ کو ہڈی اور گوشت کے مابین چھوڑ دیا جائے تو وہ اس کو کھا جاتی ہے۔ راوی کہتے ہیں، حضرت حسن پھوڑے میں شگاف لگانے کو ناپسند کرتے تھے۔

24102

(۲۴۱۰۳) حَدَّثَنَا مُعْتَمر، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَبُطَّ الْجُرْحَ ، وَیَقُولُ: یُوضَعُ عَلَیْہِ دَوَائٌ۔
(٢٤١٠٣) حضرت حسن کے بارے میں منقول ہے کہ وہ زخم میں شگاف لگانے کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے، زخم پر دوائی رکھی جائے۔

24103

(۲۴۱۰۴) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یَکْرَہُ قَطْعَ اللَّہَاۃِ ، وَلاَ أُرَاہُ کَرِہَہُ لِشَیْئٍ مِنَ الدِّینِ۔
(٢٤١٠٤) حضرت ابن عون سے روایت ہے کہتے ہیں کہ حضرت محمد حلق کے کوے کو کاٹنے کو ناپسند کرتے تھے اور میرے خیال میں ان کی ناپسندیدگی کی کوئی دینی وجہ نہیں تھی۔

24104

(۲۴۱۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِیِّ ، عَنْ سَہْلٍ أَبِی الأَسَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ ، قَالَ : جَائَ ظِِئْرٌ لَنَا إِلَی عَبْدِ اللہِ بِصَبِیٍّ لَہُمْ قَدْ سَقَطَتْ لَہَاتُہُ ، فَأَرَادُوا أَنْ یَقْطَعُوہَا ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : لاَ تَقْطَعُوہَا ، وَلَکِنْ إِنْ کَانَ فِی أَجَلِہِ تَأْخِیرٌ بَرَأَ ، وَإِلاَّ لَمْ تَکُونُوا قَطَعْتُمُوہَا۔
(٢٤١٠٥) حضرت عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ہماری ایک دائی ، حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس اپنا ایک بچہ لے کر حاضر ہوئی جس کے حلق کا کوا گر چکا تھا اور ان لوگوں کا ارادہ اس گرے ہوئے کوے کو کاٹنے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تم اس کو نہ کاٹو۔ ہاں اگر اس کی موت میں کچھ تاخیر ہوئی تو یہ صحت یاب ہوجائے گا بصورت دیگر تم نے اس کو کاٹا تو نہیں ہوگا۔

24105

(۲۴۱۰۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ أَلْبَانِ الأُتُنِ ؟ فَقَالَ : حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لُحُومَہَا وَأَلْبَانَہَا۔
(٢٤١٠٦) حضرت عبداللہ بن مختار سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت حسن بصری سے گدھیوں کے دودھ کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھیوں کے گوشت اور ان کے دودھ کو حرام قرار دیا ہے۔

24106

(۲۴۱۰۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لُحُومُ الحُمُرِ وَأَلْبَانُہَا حَرَامٌ۔
(٢٤١٠٧) حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ گدھیوں کے گوشت اور ان کے دودھ حرام ہیں۔

24107

(۲۴۱۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِشُرْبِ أَلْبَانِ الأُتُنِ بَأْسًا۔
(٢٤١٠٨) حضرت عطاء کے بارے میں روایت ہے کہ وہ گدھیوں کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے۔

24108

(۲۴۱۰۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ یُتَدَاوَی بِأَلْبَانِ الأُتُنِ ، وَقَالاَ : ہِیَ حَرَامٌ۔
(٢٤١٠٩) حضرت حسن اور حضرت محمد کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دونوں گدھیوں کے دودھ کو بطور دواء استعمال کرنے کو (بھی) مکروہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ حرام ہے۔

24109

(۲۴۱۱۰) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُُہُ عَنْ شُرْبِ أَلْبَانِ الأُتُنِ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٤١١٠) حضرت عثمان بن اسود، حضرت مجاہد کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے گدھیوں کے دودھ کے پینے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اس کو ناپسند بیان کیا۔

24110

(۲۴۱۱۱) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ مَجْزَأَۃَ بْنِ زَاہِرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ اشْتَکَی رُکْبَتَیْہِ ،فَنُعِتَ لَہُ أَنْ یَسْتَنْقِعَ فِی أَلْبَانِ الأُتُنِ ، فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٤١١١) حضرت مجزأۃ بن زاہر، اپنے والد کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انھیں اپنے گھٹنوں میں شکایت ہوئی تو ان کے لیے گدھیوں کے دودھ میں ٹھہرنا تجویز کیا گیا تو انھوں نے اس بات کو ناپسند سمجھا۔

24111

(۲۴۱۱۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ الطَّائِفِیُّ ، عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بِأَلْبَانِ الأُتُنِ بَأْسًا أَنْ یُتَدَاوَی بِہَا۔
(٢٤١١٢) حضرت اسماعیل بن امیہ، حضرت عطاء کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ وہ گدھیوں کے دودھ میں اس لحاظ سے کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے کہ گدھیوں کے دودھ سے علاج معالجہ کیا جائے۔

24112

(۲۴۱۱۳) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا عَنْ أَلْبَانِ الأُتُنِ ؟ فَقَالاَ : مَنْ کَرِہَ لُحُومَہَا کَرِہَ أَلْبَانَہَا۔
(٢٤١١٣) حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے گدھیوں کے دودھ کے متعلق سوال کیا تو ان دونوں حضرات نے جواب دیا، جو علماء ان کے گوشت کو مکروہ سمجھتے ہیں وہ ان کے دودھ کو بھی مکروہ سمجھتے ہیں۔

24113

(۲۴۱۱۴) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ مِثْلَہُ۔
(٢٤١١٤) حضرت شعبہ نے حضرت ابراہیم سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

24114

(۲۴۱۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو رَجَائٍ ، مَوْلَی أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، قَالَ : حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ؛ أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُکَلٍ ثَمَانِیَۃً قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَایَعُوہُ عَلَی الإِسْلاَمِ ، فَاسْتَوْخَمُوا الأَرْضَ ، وَسَقِمَتْ أَجْسَادُہُمْ ، فَشَکَوْا ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَلاَ تَخْرُجُون مَعَ رَاعِینَا فِی إِبِلِہِ فَتُصِیبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا ؟ قَالُوا : بَلَی ، فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا۔ (بخاری ۶۸۹۹۔ مسلم ۱۲)
(٢٤١١٥) حضرت ابو قلابہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک نے مجھ سے بیان کیا کہ قبیلہ رعل کے آٹھ افراد کا ایک گروہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام پر بیعت کی۔ لیکن انھیں (مدینہ کی) زمین موافق نہیں آئی چنانچہ ان کے جسم بیمار پڑگئے اور انھوں نے اس بات کی شکایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم لوگ ہمارے چرواہے کے ہمراہ اس کے اونٹوں میں کیوں نہیں چلے جاتے کہ تم ان اونٹوں کے دودھ اور پیشاب کو استعمال کرو ؟ “ انھوں نے کہا : کیوں نہیں، چنانچہ وہ لوگ چلے گئے اور انھوں نے اونٹوں کے پیشاب اور دودھ کو پیا۔

24115

(۲۴۱۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِیُّ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یَشْرَبُ أَبْوَالَ الإِبِلِ وَیَتَدَاوَی بِہَا۔
(٢٤١١٦) حضرت ابن طاؤس سے روایت ہے کہ ان کے والد اونٹوں کے پیشاب کو پیتے تھے اور اس کے ذریعہ علاج معالجہ کرتے تھے۔

24116

(۲۴۱۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِأَبْوَالِ الإِبِلِ أَنْ یُتَدَاوَی بِہَا۔
(٢٤١١٧) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں، اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اونٹوں کے پیشاب کے ذریعہ علاج معالجہ کیا جائے۔

24117

(۲۴۱۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہَا۔
(٢٤١١٨) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اونٹوں کے پیشاب کو ناپسند سمجھتے تھے۔

24118

(۲۴۱۱۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ مُحَمَّدٌ یُسْأَلُ عَنْ شُرْبِ أَبْوَالِ الإِبِلِ ؟ فَیَقُولُ : لاَ أَدْرِی مَا ہَذَا ؟۔
(٢٤١١٩) حضرت ابن عون سے روایت ہے کہتے ہیں کہ محمد سے اونٹوں کا پیشاب پینے کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا ؟ تو انھوں نے جواب دیا، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا چیز ہے۔

24119

(۲۴۱۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إِسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : کَانَ جُبَارٌ الْمَشْرَقِیُّ یَصِفُ أَبْوَالَ الإِبِلِ ، وَلَوْ کَانَ بِہِ بَأْسٌ لَمْ یَصِفْہَا۔
(٢٤١٢٠) حضرت عامر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جبار المشرقی اونٹوں کے پیشاب کی تعریف کرتے تھے۔ اگر اس میں کوئی (غلط) بات ہوتی تو وہ اس کی تعریف نہ کرتے۔

24120

(۲۴۱۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یَسْتَنْشَقَ أَبْوَالَ الإِبِلِ۔
(٢٤١٢١) حضرت ابراہیم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی اونٹوں کے پیشاب کو ناک صاف کرنے میں استعمال کرے۔

24121

(۲۴۱۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَبِیبَۃَ بِنْتِ یَسَارٍ ، عَنْ أُمِّہَا ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا سُئِلَتْ عَنِ الصَّبِیِّ یُنقَعُ فِی الْبَوْلِ ، أَوْ یُوْجَرُ ؟ فَکَرِہَتْہُ۔
(٢٤١٢٢) حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ ان سے اس بچہ کے بارے میں سوال کیا گیا جس کو اونٹوں کے پیشاب میں بٹھایا جائے یا پیشاب کو ٹپکایا جائے ؟ تو حضرت عائشہ نے اس کو ناپسند فرمایا۔

24122

(۲۴۱۲۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : کَانَ رَجُلٌ بِہِ خَنَازِیرٌ ، فَتَدَاوی بِأَبْوَالِ الإِبِلِ وَالأَرَاکِ ، تُطْبَخُ أَبْوَالُ الإِبِلِ وَالأَرَاکُ ، فَأَخَذَ النَّاسُ یَسْأَلُونَہُ فَیَأْبَی ، فَلَقِیَ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ : أَخْبِرِ النَّاسَ بِہِ۔
(٢٤١٢٣) حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو گردن پر دانے نکلے تھے، تو اس نے اونٹوں کے پیشاب اور پیلو کے ذریعے علاج کیا۔ (اس طرح کہ) اونٹوں کے پیشاب اور پیلو کو پکایا گیا۔ تو لوگوں نے اس مریض سے علاج کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ اس آدمی نے بتانے سے انکار کردیا۔ پھر وہ آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود کو ملا تو انھوں نے فرمایا، لوگوں کو اس علاج کے بارے میں بتادو۔

24123

(۲۴۱۲۴) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، وَعَبْدَۃُ ، عَنْ أُمِّ عَبْدِ اللہِ ابْنَۃِ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ أَبِیہَا ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بِشُرْبِ التِّرْیَاقِ بَأْسًا۔
(٢٤١٢٤) حضرت ام عبداللہ بنت خالد بن معدان، اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ وہ تریاق پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔

24124

(۲۴۱۲۵) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو السَّکْسَکِیِّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ لَمَّا وَلَّی الْوَلِیدَ بْنَ ہِشَامٍ الْقُرَشِیَّ ، وَعَمْرَو بْنَ قَیْسٍ السَّکُونِیَّ بَعَثَ الصَّائِفَۃَ ، زَوَّدَہُمَا التِّرْیَاقَ مِنَ الْخَزَائِنِ ، وَأَمَرَہُمَا أَنَّ مَنْ جَائَ یَلْتَمِسُ التِّرْیَاقَ أَنْ یُعْطُوہُ إِیَّاہُ۔
(٢٤١٢٥) حضرت صفوان بن عمرو السکسکی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے جب ولید بن ہشام قرشی اور عمرو بن قیس سکونی کو موسم گرما کے حملہ کے لیے جماعت بھیجنے کی ذمہ داری دی تو آپ نے ان دونوں کو بیت المال میں سے تریاق بھی مہیا کیا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ جو آدمی تریاق مانگنے کے لیے (تمہارے پاس) آئے تو تم اس کو یہ تریاق دے دو ۔

24125

(۲۴۱۲۶) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، قَالَ : وَصَفَ لِی أَبُو قِلاَبَۃَ صِفَۃَ التِّرْیَاقِ ، فَقَالَ : یَخْرُجُ رِجَالٌ عَلَیْہِمْ خِفَافٌ مِنْ خَشَبٍ ، وَبِأَیْدِیہِمْ شَیْئٌ قَدْ ذَکَرَہُ ، فَیَصِیدُونَ الْحَیَّاتِ ، فَیَمْسَحُونَ مَا یَلِی رُؤُوسَہَا وَأَذْنَابَہَا ، لِیَجْمع مَا کَانَ مِنْ دَمٍ ، ثُمَّ یَطْرَحُونَہَا فِی الْقِدْرِ فَیَطْبُخُونَہَا ، فَذَاکَ أَجْوَدُ التِّرْیَاقِ۔
(٢٤١٢٦) حضرت خالد حذاء سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ابو قلابہ نے مجھے تریاق کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے کہا، کچھ لوگ نکلتے ہیں انھوں نے لکڑی کی جوتیاں پہنی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ابو قلابہ نے اس چیز کا ذکر بھی کیا تھا، پس یہ لوگ سانپوں کو شکار کرتے ہیں اور ان کے سروں اور دموں پر جو کچھ ہوتا ہے۔ اس کو صاف کرتے ہیں تاکہ جو خون وغیرہ وہ جمع ہوجائے، پھر وہ سانپوں کو ہانڈی میں ڈال دیتے ہیں اور اس کو پکاتے ہیں، پس یہ بہترین تریاق ہوتا ہے۔

24126

(۲۴۱۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : ذَکَرْتُہُ لَہُ ، فَقَالَ : أَوَلَیْسَ قَدْ نُہِیَ عَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ ؟ فَہِیَ ذَاتُ أَنْیَابٍ وَحُمَۃٍ۔
(٢٤١٢٧) حضرت خالد، ابن سیرین کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ ہر کچلی والے جانور سے منع کیا گیا ہے ؟ جبکہ یہ تو کچلی والے بھی ہیں اور زہر والے بھی ہیں۔

24127

(۲۴۱۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : أَمَرَ ابْنُ عُمَرَ بِالتِّرْیَاقِ فَسُقِیَ ، وَلَوْ عَلِمَ مَا فِیہِ مَا أَمَرَ بِہِ۔
(٢٤١٢٨) حضرت ابن سیرین سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے تریاق کے بارے میں حکم فرمایا تو اس کو پیا گیا۔ اور اگر وہ اس میں جو کچھ ہے اس کو جانتے تو اس کا حکم نہ فرماتے۔

24128

(۲۴۱۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَہُ ، یَعْنِی التِّرْیَاقَ۔
(٢٤١٢٩) امام محمد تریاق کو ناپسند خیال کرتے تھے۔

24129

(۲۴۱۳۰) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ وَسُئِلَ عَنِ التِّرْیَاقِ ، وَقِیلَ لَہُ: إِنَّہُ یُجْعَلُ فِیہِ الأَوْزَاغُ ؟ فَکَرِہَہُ۔
(٢٤١٣٠) حضرت جریر بن حازم ، حسن کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان کو سُنا جبکہ ان سے تریاق کے بارے میں سوال کیا جا رہا تھا اور ان سے کہا گیا کہ اس تریاق میں چھپکلیاں ڈالی جاتی ہیں ؟ انھوں نے اس تریاق کو مکروہ سمجھا۔

24130

(۲۴۱۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی أَیُّوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شرَاحْیلُ بْنُ یزید الْمَعَافِرِیُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ رَافِعٍ التَّنُوخِیَّ یَقُولُ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَا أُبَالِی مَا أَتَیْتُ ، وَمَا ارْتَکَبْتُ إِنْ أَنَا شَرِبْتُ تِرْیَاقًا ، أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِیمَۃً ، أَوْ قُلْتُ شِعْرًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِی۔ (احمد ۲/۲۲۳۔ ابوداؤد ۳۸۶۵)
(٢٤١٣١) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سُنا : ” مجھے کوئی پروا نہیں ہے جو کچھ میں نے کیا اور جس کا ارتکاب کیا۔ اپنی طرف سے میں نے نہ تو تریاق پیا ہے اور نہ تعویذ لٹکایا ہے اور نہ شعر کہا ہے۔ “

24131

(۲۴۱۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ رِزَامِ بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی الْمَعَارِکِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یَمْنَعنَّ أَحَدُکُمْ مَرِیضًا طَعَامًا یَشْتَہِیہِ ، لَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَشْفِیَہُ ، فَإِنَّ اللَّہَ یَجْعَلُ شِفَائَ ہُ حَیْثُ شَائَ ۔
(٢٤١٣٢) حضرت ابن عمر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ تم میں کوئی مریض کو وہ کھانا کھانے سے نہ روکے جس کو کھانے کا مریض کو دل کررہا ہو، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو شفاء دے دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جہاں چاہے شفاء پیدا فرما دیتے ہیں۔

24132

(۲۴۱۳۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی صَعْصَعَۃَ ، عَنْ یَعْقُوب بْن أَبِی یَعْقُوب ، عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ الْعَدَوِیَّۃِ ، قَالَتْ : دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ عَلِیٌّ وَہُوَ نَاقِہٌ ، وَلَنَا دَوَالِی مُعَلَّقَۃٌ ، قَالَتْ : فَقَامَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَکَلَ ، وَقَامَ عَلِیٌّ فَأَکَلَ ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَہْلاً فَإِنَّک نَاقِہٌ ، قَالَ : فَجَلَسَ عَلِیٌّ ، وَأَکَلَ مِنْہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ صَنَعْتُ لَہُمْ سِلْقًا وَشَعِیرًا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ : مِنْ ہَذَا أَصِبْ۔ (ابوداؤد ۳۸۵۲۔ ترمذی ۲۰۳۷)
(٢٤١٣٣) حضرت ام منذر عدویہ سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت علی بھی تھے اور وہ صحت یابی کے بعد کمزور تھے۔ ہماری نیم پختہ کھجوریں لٹکی ہوئی تھیں۔ حضرت ام منذر کہتی ہیں۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجوریں تناول فرمائیں اور حضرت علی بھی کھڑے ہوئے اور کھانے لگے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم رہنے دو کیونکہ تم کمزور ہو “ راوی کہتے ہیں۔ پس حضرت علی بیٹھ گئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کھجوروں میں سے تناول فرماتے رہے، پھر میں (ام منذر) نے ان کے لیے سبزی اور جو پکائے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا : ” اس میں سے تناول کرو۔ “

24133

(۲۴۱۳۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : أُہْدِیَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِنَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، وَعَلِیٌّ مَحْمُومٌ ، قَالَ : فَنَبَذَ إِلَیْہِ تَمْرَۃً ، ثُمَّ أُخْرَی ، حَتَّی نَاوَلَہُ سَبْعًا ، ثُمَّ کَفَّ یَدَہُ ، وَقَالَ : حَسْبُکَ۔
(٢٤١٣٤) حضرت جعفر، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ میں کھجوروں کا ایک طشت پیش کیا گیا اور حضرت علی تب بخار میں تھے۔ راوی کہتے ہیں، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کی طرف ایک کھجور پھینکی پھر دوسری پھینکی۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سات کھجوریں دیں اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ روک دیا اور فرمایا : ” تمہیں یہ کافی ہیں۔ “

24134

(۲۴۱۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْحُمَّی مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ ، فَأَبْرِدُوہَا بِالْمَائِ ۔ (بخاری ۳۲۶۳۔ مسلم ۸۱)
(٢٤١٣٥) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بخار، جہنم کی لپٹ مں ١ سے ہے۔ پس تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ “

24135

(۲۴۱۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تُؤْتَی بِالْمَرْأَۃِ الْمَوْعُوکَۃِ ، فَتَدْعُو بِالْمَائِ فَتَصُبَّہُ فِی جَیْبِہَا ، وَتَقُولُ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَبْرِدُوہَا بِالْمَائِ ، فَإِنَّہَا مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ۔ (ابن ماجہ ۳۴۷۴۔ مسلم ۱۷۳۲)
(٢٤١٣٦) حضرت اسماء کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے پاس (بخار سے) تڑپتی عورت کو لایا جاتا تھا اور وہ پانی منگواتی اور اس پانی کو اس کے گریبان میں بہاد یتی اور فرماتی۔ بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ” اس بخار کو پانی سے ٹھنڈا کرو، کیونکہ یہ جہنم کی شدت میں سے ہے۔ “

24136

(۲۴۱۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْحُمَّی مِنْ فَوْرِ جَہَنَّمَ ، فَأَبْرِدُوہَا بِالْمَائِ ۔ (مسلم ۱۷۳۳۔ بخاری ۵۷۲۶)
(٢٤١٣٧) حضرت رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” بخار، جہنم کی شدت میں سے ہے پس تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ “

24137

(۲۴۱۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالاَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ شِدَّۃَ الْحُمَّی مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ ، فَأَبْرِدُوہَا بِالْمَائِ ۔ (بخاری ۳۲۶۴۔ مسلم ۷۸)
(٢٤١٣٨) حضرت ابن عمر ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ’ ’ بلاشبہ بخار کی شدت جہنم کی لپٹ میں سے ہے، پس تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ “

24138

(۲۴۱۳۹) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ ، قَالَ : کُنْتُ أَدْفَعُ النَّاسَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَاحْتُبِسْتُ أَیَّامًا ، فَقَالَ : مَا حَبَسَکَ ؟ قُلْتُ : الْحُمَّی ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ الْحُمَّی مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ ، فَأَبْرِدُوہَا بِمَائِ زَمْزَمَ۔ (احمد ۱/۲۹۱۔ حاکم ۴۰۳)
(٢٤١٣٩) حضرت ابو جمرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کے ہاں سب سے زیادہ آنے والا تھا۔ چند دن تک میں محبوس رہا تو انھوں نے پوچھا، تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ میں نے عرض کیا، بُخار نے۔ انھوں نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” یقیناً بخار جہنم کی لپٹ میں سے ہے پس تم اس کو زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کرو۔ “

24139

(۲۴۱۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنِ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ إِذَا حُمَّ بَلَّ ثَوْبَہُ ، ثُمَّ لَبِسَہُ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّہَا مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ ، فَأَبْرِدُوہَا بِالْمَائِ ۔
(٢٤١٤٠) حضرت ابن عباس کے بارے میں روایت کیا گیا ہے کہ انھیں جب بخار آتا تو وہ اپنے کپڑوں کو تر کرلیتے اور پھر ان کپڑوں کو پہن لیتے پھر فرماتے، یقیناً یہ بخار جہنم کی شدت میں سے ہے، پس تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔

24140

(۲۴۱۴۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خَیْرُ یَوْمٍ تَحْتَجِمُونَ فِیہِ سَبْعَ عَشْرَۃَ ، وَتِسْعَ عَشْرَۃَ ، وَإِحْدَی وَعِشْرِینَ۔ (ترمذی ۲۰۵۳۔ احمد ۱/۳۵۴)
(٢٤١٤١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” وہ سب سے بہتر دن جس میں تم حجامت کرواؤ ، سترہ، انیس اور اکیسویں تاریخ ہے۔ “

24141

(۲۴۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَان یُعْجبُہُ أَن یَحْتَجِم مِنَ السَبْع عَشرَۃَ إِلَی العِشْرِینَ۔
(٢٤١٤٢) حضرت ابن سیرین کے بارے میں روایت ہے، کہتے ہیں کہ انھیں سترہ سے بیس تک کی تاریخ میں حجامت کروانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔

24142

(۲۴۱۴۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنِ احْتَجَمَ یَوْمَ الأَرْبِعَائِ ، وَیَوْمَ السَّبْتِ ، فَأَصَابَہُ وَضَحٌ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ۔ (حاکم ۴۰۹۔ ابن ماجہ ۳۴۸۷)
(٢٤١٤٣) حضرت مکحول سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جس آدمی نے بدھ والے دن یا ہفتہ والے دن حجامت کروائی اور پھر اس کو مرگی ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔

24143

(۲۴۱۴۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ کَانَ مُحْتَجِمًا ، فَلْیَحْتَجِمْ یَوْمَ السَّبْتِ۔
(٢٤١٤٤) حضرت حجاج سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جو شخص حجامت (پچھنے) کروانا چاہے اس کو چاہیے کہ وہ ہفتہ کو حجامت کروائے۔ “

24144

(۲۴۱۴۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَیْتُمْ بِہِ ، الْحِجَامَۃُ ، وَالْقُسْطُ الْہِنْدِیُّ لِصِبْیَانِکُمْ۔
(٢٤١٤٥) حضرت انس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم جو کچھ بطور دواء کے اختیار کرتے ہو اس میں سے بہترین شئے حجامت (پچھنے لگوانا) ہے اور تمہارے بچوں کے لیے عود ہندی ہے۔

24145

(۲۴۱۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ یُسَیْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فِی الْحَجْمِ شِفَائٌ۔
(٢٤١٤٦) حضرت یسیر بن عمرو سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” حجامت (پچھنے لگوانے) میں شفاء ہے۔ “

24146

(۲۴۱۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالُوا : طُبَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَبَعَثَ إِلَی رَجُلٍ فَحَجَمَہُ۔
(٢٤١٤٧) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ صحابہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی طرف کسی کو بھیجا پس اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچھنے لگائے۔

24147

(۲۴۱۴۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : دَخَلَ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنٍ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَحْتَجِم ، فَقَالَ : مَا ہَذَا ؟ قَالَ : خَیْرُ مَا تَدَاوَتْ بِہِ الْعَرَبُ۔
(٢٤١٤٨) حضرت ابراہیم سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عیینہ بن حصن، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجامت (پچھنے) لگوا رہے تھے۔ حضرت عیینہ نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اہل عرب جن طریقوں سے علاج کرتے ہیں یہ ان میں سے بہترین طریقہ ہے۔ “

24148

(۲۴۱۴۹) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنْ کَانَ فِی شَیْئٍ مِمَّا تُدَاوَوْا بِہِ خَیْرٌ ، فَفِی الْحِجَامَۃِ۔ (ابوداؤد ۲۰۹۵۔ احمد ۲/۴۲۳)
(٢٤١٤٩) حضرت ابوہریرہ ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم جن طریقوں سے علاج کرتے ہو ان میں سے اگر کسی میں بہتری ہے تو حجامت (پچھنے لگوانے) میں ہے۔

24149

(۲۴۱۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی حُصَیْنُ بْنُ أَبِی الْحُرِّ ، عَنْ سَمُرَۃَََ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَا حَجَّامًا ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَحْجُمَہُ ، فَأَخْرَجَ مَحَاجِمَ مِنْ قُرُونٍ ، فَأَلْزَمَہَا إِیَّاہُ ، وَشَرَطَہُ بِطَرَفِ شَفْرَۃٍ ، فَصَبَّ الدَّمُ وَأَنَا عِنْدَہُ ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی فَزَارَۃَ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا یَا رَسُولَ اللہِ ؟ عَلاَمَ تُمَکِّنُ ہَذَا مِنْ جِلْدِکَ یَقْطَعُہُ ، قَالَ : فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ہَذَا الْحَجْمُ ، قَالَ : وَمَا الْحَجْمُ ؟ قَالَ : مِن خَیْرِ مَا تَدَاوَی بِہِ النَّاسُ۔ (حاکم ۲۰۸۔ احمد ۵/۹ )
(٢٤١٥٠) حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حجام کو بلوایا اور اس کو حکم دیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچھنے لگائے چنانچہ اس نے سینگوں کی سینگیاں نکالیں اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چپکا دیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بلیڈ کے کنارے سے چیرے لگانے لگا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خون بہہ پڑا اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا۔ اس دوران بنو فزارہ کا ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کیا ہے ؟۔ کس بات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو اپنی کھال پر قدرت دے رکھی ہے کہ یہ اس کو کاٹ رہا ہے۔ حضرت سمرہ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سُنا : ” یہ حجامت (پچھنے لگوانا) ہے۔ ‘ ‘ اس آدمی نے پوچھا، حجامت کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جن چیزوں سے لوگ علاج کرتے ہیں یہ ان میں سے بہترین چیز ہے۔ “

24150

(۲۴۱۵۱) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مَرَرْتُ بِمَلَاٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی إِلاَّ قَالُوا : عَلَیْکَ بِالْحِجَامَۃِ یَا مُحَمَّدُ۔ (ترمذی ۲۰۵۳۔ ابن ماجہ ۳۴۷۷)
(٢٤١٥١) حضرت ابن عباس سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” معراج کی رات میں فرشتوں کی جماعتوں میں سے جس جماعت کے پاس سے بھی گزرا تو انھوں نے مجھے یہ ہی کہا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ضرور حجامت (پچھنے لگوائیں) کروائیں۔ “

24151

(۲۴۱۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنْ کَانَ فِی شَیْئٍ مِمَّا تُعَالِجُونَ بِہِ شِفَائٌ ، فَفِی شَرْطَۃٍ مِنْ مِحْجَمٍ ، أَوْ فِی شَرْبَۃٍ مِنْ عَسَلٍ ، أَوْ لَذْعَۃٍ مِنْ نَارٍ یُصِیبُ بِہَا أَلْمًا ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَکْتَوِیَ۔
(٢٤١٥٢) بنو سلمہ کے ایک انصاری سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” جن چیزوں کے ذریعہ تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی چیز میں شفاء ہے تو وہ سینگی کے چیرنے میں ہے یا شہد کے پینے میں ہے یا آگ سے داغنے میں ہے۔ جو داغنا تکلیف کے موافق ہو۔ اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں داغ لگواؤں۔ “

24152

(۲۴۱۵۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِیلِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إِنْ کَانَ فِی شَیْئٍ مِنْ أَدْوِیَتِکُمْ خَیْرٌ ، فَفِی شَرْطَۃِ مِحْجَمٍ ، أَوْ فِی شَرْبَۃٍ مِنْ عَسَلٍ ، أَوْ لَذْعَۃٍ بِنَارٍ تُوَافِقُ الدَّائَ ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ أَکْتَوِیَ۔ (بخاری ۵۶۸۳۔ مسلم ۷۱)
(٢٤١٥٣) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سُنا : ” اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی میں خیر ہے تو سینگی کے چیرے میں ہے یا شہد کے پینے میں ہے۔ یا آگ کے داغ لگانے میں ہے جو کہ بیماری کے موافق ہو۔ لیکن مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں داغ لگواؤں۔

24153

(۲۴۱۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنَّ أَخِی اسْتَطْلَقَ بَطْنُہُ ، قَالَ : اسْقِہِ عَسَلاً ، فَسَقَاہُ ، فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی سَقَیْتُہُ فَلَمْ یَزِدْہُ إِلاَّ اسْتِطْلاَقًا ، قَالَ : اسْقِہِ عَسَلاً ، فَسَقَاہُ ، فَأَتَی رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إِنِّی سَقَیْتُہُ فَلَمْ یَزِدْہُ إِلاَّ اسْتِطْلاَقًا ، قَالَ: اسْقِہِ عَسَلاً ، فَإِمَّا فِی الثَّالِثَۃِ ، وَإِمَّا فِی الرَّابِعَۃِ حَسِبْتَہُ قَالَ: فَشُفِیَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ اللَّہُ ، وَکَذَبَ بَطْنُ أَخِیکَ۔ (بخاری ۵۶۸۴۔ مسلم ۹۱)
(٢٤١٥٤) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک آدمی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم اس کو شہد پلاؤ۔ “ چنانچہ اس آدمی نے اپنے بھائی کو شہد پلایا۔ پھر (دوبارہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے اس کو شہد پلایا ہے لیکن شہد نے اس کے دست میں اور اضافہ کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تم اس کو شہد پلاؤ۔ “ چنانچہ اس آدمی نے (دوبارہ) اپنے بھائی کو شہد پلایا۔ اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے اس کو شہد پلایا ہے لیکن شہد نے تو اس کے دست میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (پھر) ارشاد فرمایا : ” تم اس کو شہد پلاؤ “۔ پھر تیسری بار یا چوتھی بار تھی (میرے خیال میں) کہ اس آدمی نے بتایا۔ وہ مریض صحت یاب ہوگیا ہے۔ اس پر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کی بات سچی ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ “

24154

(۲۴۱۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ یَعْفُور بْنِ الْمُغِیرَۃ ، عَنْ علِیٍّ ، قَالَ : إِذَا اشْتَکَی أَحَدُکُمْ شَیْئًا فَلْیَسْأَلِ امْرَأَتَہُ ثَلاَثَۃَ دَرَاہِمَ مِنْ صَدَاقِہَا ، فَیَشْتَرِی بِہِ عَسَلاً ، فَیَشْرَبْہُ بِمَائِ السَّمَائِ ، فَیَجْمَعُ اللَّہُ الْہَنِیئَ الْمَرِیئَ ، وَالْمَائَ الْمُبَارَکَ ، وَالشِّفَائَ ۔
(٢٤١٥٥) حضرت علی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی سے اس کے مہر میں سے تین درہم مانگ لے اور ان سے شہد خرید لے پھر اس کو آسمان کے پانی سے ملا کر پی لے پس اللہ تعالیٰ خوش حالی، مبارک پانی اور شفا کو اکٹھا کردیں گے۔

24155

(۲۴۱۵۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ نُسَیرٍ ، عَنْ بَکْرِ بْنِ مَاعِزٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ خُثَیْمٍ ، قَالَ : مَا لِلنُّفَسَائِ عِنْدِی إِلاَّ التَّمْرُ ، وَلاَ لِلْمَرِیضِ إِلاَّ الْعَسَلُ۔
(٢٤١٥٦) حضرت ربیع بن خثیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میرے پاس نفاس والی عورتوں کے لیے کھجور اور عام مریض کے لیے شہد کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے۔

24156

(۲۴۱۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : عَلَیْکُمْ بِالشِّفَائَ یْنِ : الْقُرْآنِ وَالْعَسَلِ۔ (ابن ماجہ ۳۴۵۲۔ حاکم ۲۰۰)
(٢٤١٥٧) حضرت اسود سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ تم دو شفاؤں کو لازم پکڑو۔ قرآن اور شہد۔

24157

(۲۴۱۵۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَتَی رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَکَا إِلَیْہِ بَطْنَ أَخِیہِ ، فَقَالَ: عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ، ثُمَّ عَادَ إِلَیْہِ فَقَالَ: کَأَنَّہُ، فَقَالَ: کَذَبَ بَطْنُ أَخِیک، وَصَدَقَ الْقُرْآنُ، عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ۔
(٢٤١٥٨) حضرت ابن جریج سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنے بھائی کے پیٹ خراب ہونے کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم پر شہد لازم ہے۔ “ وہ آدمی دوبارہ شکایت لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ وہ ویسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور قرآن سچا ہے۔ تم ضرور شہد کو استعمال کرو۔ “

24158

(۲۴۱۵۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ لِلنُّفَسَائِ الرَّطبَ۔
(٢٤١٥٩) حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہتے ہیں کہ پہلے لوگ نفا سوالی عورتوں کے لیے تر کھجوروں کو اچھا سمجھتے تھے۔

24159

(۲۴۱۶۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : مَا لِلنُّفَسَائِ إِلاَّ الرَّطبُ ، لأِنَّ اللَّہَ تَعَالَی جَعَلَہُ رِزْقًا لِمَرْیَمَ۔
(٢٤١٦٠) حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نفاس والی عورتوں کے لیے تر کھجور ہی (سب سے بہتر) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرت مریم (علیہ السلام) کے لیے رزق بنایا تھا۔

24160

(۲۴۱۶۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ ، وَہِیَ شِفَائٌ لِلْعَیْنِ۔ (بخاری ۴۴۷۸۔ مسلم ۱۵۷)
(٢٤١٦١) حضرت سعید بن زید سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” کھمبی منّ میں سے ہے اور یہ آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ “

24161

(۲۴۱۶۲) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِی یَدِہِ أَکْمُؤٌ ، فَقَالَ : ہَؤُلاَئِ مِنَ الْمَنِّ ، وَہِیَ شِفَائٌ لِلْعَیْنِ۔ (ابن ماجہ ۳۴۵۳۔ احمد ۳/۴۸)
(٢٤١٦٢) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک میں کھمبیاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” یہ کھمبیاں منّ میں سے ہیں اور یہ آنکھ کے لے شفاء ہیں۔ “

24162

(۲۴۱۶۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ ، وَہِیَ شِفَائٌ لِلْعَیْنِ۔ (دارمی ۲۸۴۰)
(٢٤١٦٣) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ’ ’ کھمبی ( ) میں سے ہے اور یہ آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ “

24163

(۲۴۱۶۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عن رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ حُذَیْفَۃَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ ، وَمَاؤُہَا شِفَائٌ لِلْعَیْنِ۔
(٢٤١٦٤) حضرت عامر سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کھمبی منّ میں سے ہے اور یہ آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ “

24164

(۲۴۱۶۵) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ ، وَمَاؤُہَا شِفَائٌ لِلْعَیْنِ۔
(٢٤١٦٥) حضرت سعد بن زید سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” کھمبی منّ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ “

24165

(۲۴۱۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ شَیْخٍ مِنْ أَہْلِ وَاسِطٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا عِیَاضٍ عَنْ شَعْرِ الْخِنْزِیرِ یُوضَعُ عَلَی جُرْحِ الدَّابَّۃِ ؟ فَکَرِہَہُ۔
(٢٤١٦٦) اہل واسط کے ایک شیخ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عیاض سے جانور کے زخم پر خنزیر کا بال رکھنے کے بارے میں سوال کیا ؟ تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔

24166

(۲۴۱۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ یُطْلَی رَأْسُ الصَّبِیِّ مِنْ دَمِ الْعَقِیقَۃ ، وَقَالَ الْحَسَنُ : رِجْسٌ۔
(٢٤١٦٧) حضرت حسن اور حضرت محمد کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دونوں اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ بچہ کا سر، عقیقہ کے خون سے مالش کیا جائے اور حضرت حسن کہتے ہیں۔ ناپاک چیز ہے۔

24167

(۲۴۱۶۸) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ مَرَارَۃَ الذِّئْبِ۔
(٢٤١٦٨) حضرت سعید بن جبیر کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بھیڑیے کے پتے (کے استعمال) کو مکروہ سمجھتے تھے۔

24168

(۲۴۱۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ عُقْبَۃَ النَّاجِی ، قَالَ : سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ قَطْعِ الْبَوَاسِیرِ ؟ فَکَرِہَہُ ، وَقَالَ : اجْعَلْ عَلَیْہِ دُہْنَ خَلٍّ۔
(٢٤١٦٩) حضرت بشیر بن عقبہ ناجی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے بواسیر کاٹنے کے بارے میں سوال کیا ؟ تو انھوں نے اس کو ناپسند کیا۔ اور فرمایا : بلکہ اس پر تم سرکہ کا تیل ڈالو۔

24169

(۲۴۱۷۰) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ : الرَّجُلُ یَسْطُو عَلَی النَّاقَۃِ ؟ قَالَ : مَا أَرَی ذَلِکَ إِلاَّ مِنَ الْفَسَادِ۔
(٢٤١٧٠) حضرت ابن عون سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد سے کہا۔ ایک آدمی نے اونٹنی پر غلبہ پایا (علاج کے لئے) ؟ انھوں نے جواب دیا۔ میں تو اس کو فساد کا ذریعہ دیکھتا ہوں۔

24170

(۲۴۱۷۱) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُہُ۔
(٢٤١٧١) حضرت حسن سے روایت ہے کہ وہ اس عمل کو مکروہ سمجھتے تھے۔

24171

(۲۴۱۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنِ الْحَارِثِ، قَالَ: إِذَا کَانَ الْجُنْدبَادسْتَر ذَکِیًّا، فَلاَ بَأْسَ۔
(٢٤١٧٢) حضرت حارث سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ جب جند باد ستر ہوشیار ہو تو اس کے (استعمال میں) کوئی حرج نہیں ہے۔

24172

(۲۴۱۷۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْجُنْدبَادسْتَر ؟ فَقَالَ : إِذَا کَانَ ذَکِیًّا فَلاَ بَأْسَ بِہِ ، وَکَانَ یَکْرَہُ غَیْرَ الذَّکِیِّ۔
(٢٤١٧٣) حضرت محمد کے بارے میں روایت ہے کہ ان سے جند باد ستر کے بارے میں پوچھا گیا ؟ تو انھوں نے کہا۔ جب یہ ہوشیار ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ غیر ہوشا ر کے بارے میں کراہت کے قائل تھے۔

24173

(۲۴۱۷۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، قَالَ : سُئِلَ الشَّعْبِیُّ عَنْ رَجُلٍ یَتَدَاوَی بِلَحْمِ کَلْبٍ ؟ فَقَالَ : إِنْ تَدَاوَی بِہِ فَلاَ شَفَاہُ اللَّہُ۔
(٢٤١٧٤) حضرت داؤد سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت شعبی سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص کتے کے گوشت کے ذریعہ علاج کرتا ہے ؟ تو حضرت شعبی نے جواب دیا۔ یہ آدمی اگر کتے کے گوشت سے علاج کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شفاء ہی نہ دے۔

24174

(۲۴۱۷۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ أَصَابَتْہُ حُمَّی رِبْعٍ ، فَنُعِتَ لَہُ جَنْبُ ثَعْلَبٍ ، فَأَبَی أَنْ یَأْکُلَہُ۔
(٢٤١٧٥) حضرت ابراہیم کے بارے میں روایت ہے کہ انھیں چوتھے دن آنے والا بخار ہوا تو ان کے سامنے لومڑی کے پہلو کی تعریف کی گئی تو انھوں نے اس کو کھانے سے انکار کردیا۔

24175

(۲۴۱۷۶) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ذَکْوَانَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : إِذَا کَانَتْ حُمَّی رِبْعٍ فَلْیَأْخُذْ ثَلاَثَۃَ أَرْبَاعٍ مِنْ سَمْنٍ ، وَرُبُعًا مِنْ لَبَنٍ ، ثُمَّ یَشْرَبْہُ۔
(٢٤١٧٦) حضرت عائشہ سے روایت ہے، کہتی ہیں کہ جب چوتھے دن والا بخار ہو تو چاہیے کہ چار حصوں میں تین حصے گھی اور ایک حصہ دودھ لیا جائے پھر آدمی اس کو پی لے۔

24176

(۲۴۱۷۷) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ ، قَالَ : ذَکَرَ طَبِیبٌ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَوَائً یُجْعَلُ فِیہِ الضِّفْدَعُ ، فَنَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الضِّفْدِعِ۔ (ابوداؤد ۵۲۲۷۔ احمد ۳/۴۹۹)
(٢٤١٧٧) حضرت عبد الرحمن بن عثمان سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ایک طبیب نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک ایسی دواء کا ذکر کیا جس میں مینڈک ڈالے جاتے تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔

24177

(۲۴۱۷۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ زُرَارَۃَ بْنِ أَوْفَی ، عَنْ أَبِی الْحَکَمِ الْبَجَلِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا الضَّفَادِعَ ، فَإِنَّ نَقِیقَہَا الَّذِی تَسْمَعُونَ ، تَسْبِیحٌ۔
(٢٤١٧٨) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ تم مینڈکوں کو قتل نہ کرو کیونکہ تم ان کی جو آواز سنتے ہو وہ تسبیح ہے۔

24178

(۲۴۱۷۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہَمَّامٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الثَّعْلَبُ مِنَ السِّبَاعِ۔
(٢٤١٧٩) حضرت حسن سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ لومڑی کا شمار درندوں میں ہوتا ہے۔

24179

(۲۴۱۸۰) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ یَزِیدَ ، وَکَانَ ثِقَۃً ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ وُجِعَ کَبِدُہُ ، فَنُعِتَ لَہُ أَنْ یُسْرَم عَلَی کَبِدِہِ ، وَأَنْ یَشْرَبَ مِنْ دَمِہِ ؟ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ ، ہِیَ ضَرُورَۃٌ ۔ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ : قُلْتُ لَہُ : أَلَیْسَ الدَّمُ حَرَامًا ؟ قَالَ : ذَلِکَ مِنْ ضَرُورَۃٍ۔
(٢٤١٨٠) حضرت عطاء کے بارے میں روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جس کے جگر میں بیماری تھی اور اس کے لیے یہ علاج تجویز کیا گیا کہ وہ اپنے جگر کو کاٹے اور اس کا خون پئے ؟ تو حضرت عطاء نے کہا۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں یہ ضرورت ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں۔ میں نے حضرت عطاء سے کہا۔ کیا خون حرام نہیں ہے ؟ انھوں نے فرمایا : یہ پینا بوجہ ضرورت کے ہے۔

24180

(۲۴۱۸۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ: إِذَا اضْطُرَّ إِلَی مَا حَرُمَ عَلَیْہِ فَمَا حَرُمَ عَلَیْہِ، فَہُوَ لَہُ حَلاَلٌ۔
(٢٤١٨١) حضرت ابو جعفر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جب آدمی اس چیز کے استعمال میں مجبور ہوجائے تو جو چیز آدمی پر حرام ہو وہ حلال ہوجاتی ہے۔

24181

(۲۴۱۸۲) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَطَائٌ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَمُوتُ وَفِی بَطْنِہَا وَلَدٌ ، یَسْطُو عَلَیْہِ الرَّجُلُ فَیَسْتَخْرِجُہُ ؟ فَکَرِہَ ذَلِکَ۔
(٢٤١٨٢) حضرت ابن جریج سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت عطاء سے ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جو اس حال میں مری کہ اس کے پیٹ میں بچہ تھا۔ (کیا) آدمی اس عورت پر غلبہ پاکر بچہ کو نکال سکتا ہے ؟ تو حضرت عطائ نے اس کو ناپسند کیا۔

24182

(۲۴۱۸۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَسْطُوَ الرَّجُلُ عَلَی الْمَرْأَۃِ ، إِذَا لَمْ یَقْدِرُوا عَلَی امْرَأَۃٍ تُعَالِجُ۔
(٢٤١٨٣) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں دیکھتے تھے کہ جب کوئی عورت علاج کے لیے نہ مل سکے تو کوئی مرد عورت پر غلبہ پا کر بچہ نکالے۔

24183

(۲۴۱۸۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : قَالَتْ أُمُّ سِنَانٍ : إِذَا أَنَا مِتُّ فَشُقُّوا بَطْنِی ، فَإِنَّ فِیہِ سَیِّدَ غَطَفَانَ ، قَالَ : فَلَمَّا مَاتَتْ شَقُّوا بَطْنَہَا فَاسْتَخْرَجُوا سِنَانًا۔
(٢٤١٨٤) حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سنان نے کہا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو تم میرے پیٹ کو پھاڑ دینا کیونکہ میرے پیٹ میں غطفان کا سردار ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر جب وہ مرگئی تو لوگوں نے ان کا پیٹ پھاڑا اور سنان کو باہر نکالا۔

24184

(۲۴۱۸۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ الْحَارِثُ بْنُ کَلَدَۃَ ، وَکَانَ طَبِیبَ الْعَرَبِ ؛ أَکْرَہُ الشَّمْسَ لِثَلاث ، تُثْقلُ الرِّیحَ ، وَتُبْلِی الثَّوْبَ ، وَتُخْرِجُ الدَّائَ الدَّفِینَ۔
(٢٤١٨٥) حضرت عبد الملک بن عمیر سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حارث بن کلدہ جو کہ پر عرب کے طبیب تھے۔ کہتے ہیں۔ میں سورج کو تین وجہ سے ناپسند کرتا ہوں۔ ہوا کو بوجھل کردیتا ہے۔ کپڑے کو پرانا کردیتا ہے۔ اور دبی ہوئی بیماری کو باہر نکال دیتا ہے۔

24185

(۲۴۱۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ مَحْفُوظِ بن عَلْقَمَۃَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَی رَجُلاً فِی الشَّمْسِ ، فَقَالَ : تَحَوَّلْ إِلَی الظِّلِّ فَإِنَّہُ مُبَارَکٌ۔
(٢٤١٨٦) حضرت محفوظ بن علقمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دھوپ میں (کھڑے) دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم سایہ کی طرف چلے جاؤ۔ پس بلاشبہ وہ بابرکت چیز ہے۔ “

24186

(۲۴۱۸۷) حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ ، وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْمَاعِیل ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : جَائَ أَبِی وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ ، فَقَامَ بَیْنَ یَدَیْہِ فِی الشَّمْسِ ، فَأَمَرَ بِہِ ، فَحُوِّلَ إِلَی الظِّلِّ۔
(٢٤١٨٧) حضرت قیس سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میرے والد اس حالت میں تشریف لائے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اور (آ کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دھوپ میں کھڑے ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا تو وہ سایہ کی طرف چل دئیے۔

24187

(۲۴۱۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَمُرَۃََ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : اسْتَقْبِلُوا الشَّمْسَ بِجِبَاہِکُمْ ، فَإِنَّہَا حَمَّامُ الْعَرَبِ۔
(٢٤١٨٨) حضرت سمرہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا : ” دھوپ کی طرف اپنی پیشانیوں کو کرو۔ کیونکہ یہ عرب کا حمام ہے۔

24188

(۲۴۱۸۹) حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجاہِد ؛ قَالَ : مَائُ زَمْزَمَ شِفَائٌ لِمَا شُرِبَ لَہُ۔
(٢٤١٨٩) حضرت مجاہد سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ آب زم زم، ہر اس چیز کے لیے شفاء ہے جس کے لیے اس کو پیا جائے۔

24189

(۲۴۱۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی مَائِ زَمْزَمَ یُخْرج بِہِ مِنَ الْحَرَمِ ، فَقَالَ : انْتَقَلَ کَعْبٌ بِثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَاوِیَۃٍ إِلَی الشَّام یَسْتَشفُونَ بِہَا۔
(٢٤١٩٠) حضرت عطاء سے آب زم زم کو حرم سے باہر لے جانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : کعب نے بارہ عدد راویۃً کو شام کی طرف بھیجا اور وہ اس کے ذریعہ شفاء حاصل کرتے ہیں۔

24190

(۲۴۱۹۱) حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَکَرِیَّا ، وَزَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمِّلِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہُ۔
(٢٤١٩١) حضرت جابر سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” آب زم زم ہر اس مقصد کو پورا کرتا ہے۔ جس کے لیے اس کو پیا جائے۔ “

24191

(۲۴۱۹۲) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَزَا بِأَصْحَابِہِ ، فَمَرَّ قَوْمٌ مُسْغِبُونَ ، یَعْنِی جِیَاعًا ، بِشَجَرَۃٍ خَضْرَائَ فَأَکَلُوا مِنْہَا ، فَکَأَنَّمَا مَرَّتْ بِہِمْ رِیحٌ فَأَخْمَدَتْہُمْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قرِّسُوا الْمَائَ فِی الشِّنَانِ ، ثُمَّ صُبُّوہُ عَلَیْکُمْ فِیمَا بَیْنَ الأَذَانَیْنِ مِنَ الصُّبْحِ ، وَاحْدُرُوا الْمَائَ حَدْرًا ، وَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہِ ، فَفَعَلُوا ذَلِکَ ، فَکَأَنَّمَا نَشِطُوا مِنْ عُقْلٍ۔
(٢٤١٩٢) حضرت ابو عثمان نہدی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کے ہمراہ ایک غزوہ کا سفر کیا۔ اس دوران کچھ لوگ بھوک کی حالت میں ایک سرسبز درخت کے پاس سے گزرے تو انھوں نے اس درخت کو کھانا شروع کیا۔ پس یوں محسوس ہوا کہ ان پر کوئی ہوا آئی اور انھیں بجھا ہوا کرگئی ہے۔ اس پر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” چھوٹے مشکیزے میں پانی کو ٹھنڈا کرو اور پھر صبح کی دو اذانوں کے درمیان تم اس پانی کو اپنے اوپر بہا ڈالو اور پانی کو اور اللہ کا نام یاد کرو۔ ‘ ‘ چنانچہ صحابہ کرام (رض) نے یہ عمل کیا تو (اس کا اثر یہ ہوا کہ) گویا وہ لوگ بندھن سے کھول دئیے گئے ہیں۔

24192

(۲۴۱۹۳) حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ ، قَالَ : أَکَلَ ابْنُ سِیرِینَ یَوْمًا ثُمَّ اتَّکَأَ عَلَی یَمِینِہِ ، قَالَ : فَقُلْتُ : إِنَّ الأَطِبَّائَ یَکْرَہُونَ أَنْ یَأْکُلَ الرَّجُلُ وَیَتَّکِئَ عَلَی یَمِینِہِ ، فَقَالَ : إِنَّ کَعْبًا لَمْ یَکُنْ یَکْرَہُ ذَلِکَ ، کَانَ یَقُولُ : تَوَسَّدْ یَمِینَک ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ ، فَإِنَّہَا وَفَاؤُہُ۔
(٢٤١٩٣) حضرت عاصم بن احوص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن سیرین نے ایک دن کھانا کھایا اور پھر دائیں کروٹ پر تکیہ لگا لیا۔ عاصم کہتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا۔ اطباء اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آدمی کھانا کھائے اور دائیں کروٹ پر تکیہ لگائے۔ تو حضرت ابن سیرین نے فرمایا۔ حضرت کعب اس کو مکروہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے۔ تم اپنے دائیں پہلو پر تکیہ لگاؤ پھر قبلہ رُخ ہو جاؤ۔

24193

(۲۴۱۹۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، قَالَ : مَرِضَ رَجُلٌ بِالْمَدَائِنِ، قَالَ : أُرَاہُ مِنَ الْمُنَافِقِینَ ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ : احْمِلُوہُ عَلَی مَائَ الْفُرَاتِ ، فَإِنَّ مَائِ الْفُرَاتِ أَخَفَّ مِنْ مَائِ دِجْلَۃَ ، قَالَ : فَحُمِلَ فَمَاتَ۔
(٢٤١٩٤) حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مقام مدائن میں ایک آدمی بیمار ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں : میرے خیال میں وہ منافق تھا تو حضرت حذیفہ نے فرمایا : اس آدمی کو فرات کے پانی میں لے جاؤ۔ کیونکہ فرات کا پانی دجلہ کے پانی سے ہلکا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ پس اس آدمی کو لے جایا گیا تو وہ مرگیا۔

24194

(۲۴۱۹۵) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ الدَّوَائَ یُجْعَلُ فِیہِ الْبَوْلُ ، وَیَنْہَی عَنْہُ۔
(٢٤١٩٥) حضرت حسن کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ایسی دواء کو ناپسند کرتے تھے جس میں پیشاب ڈالا جائے اور اس سے منع کرتے تھے۔

24195

(۲۴۱۹۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْن خُثَیْمٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَنْکَسِرُ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُجَبِّرَہَا الرَّجُلُ۔
(٢٤١٩٦) حضرت عطاء سے اس عورت کے بارے میں جس کی ہڈی ٹوٹ جائے، مروی ہے، کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آدمی اس کی ہڈی جوڑے۔

24196

(۲۴۱۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِیدِ الْمَزَنِیِّ ، عَنِ امْرَأَۃٍ مِنْ أَہْلِہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ فِی امْرَأَۃٍ بِہَا جُرْحٌ : یُجْعَلُ نِطْعٌ ، ثُمَّ یُقَوِّرُہُ ، ثُمَّ یُدَاوِیہَا۔
(٢٤١٩٧) حضرت عبداللہ بن مغفل کے بارے میں روایت ہے کہ انھوں نے اس عورت کے بارے میں جس کو زخم لگا ہوا ہو۔ فرمایا : ایک چمڑا لے کر اس کو سوراخ کرلیا جائے اور پھر آدمی اس عورت کا علاج کرے۔

24197

(۲۴۱۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ زَیْدٍ : الْمَرْأَۃُ یَنْکَسِرُ مِنْہَا الْفَخِذُ ، أَوِ الذِّرَاعُ ، أَجْبُرُہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(٢٤١٩٨) حضرت قتادہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے پوچھا کہ ایک عورت کی ران یا کہنی ٹوٹ جاتی ہے تو کیا میں اس کو جوڑ سکتا ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں۔

24198

(۲۴۱۹۹) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ غُرَابٍ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ وَہْرَامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ طَاوُوسًا عَنِ الْمَرْأَۃِ یَکُونُ بِہَا الْجُرْحُ ، کَیْفَ یُدَاوِیہَا الطَّبِیبُ ؟ قَالَ : یُجِیبُ مَوْضِعَ الْجُرْحِ مِنَ الثَّوْبِ ، ثُمَّ یُدَاوِیہَا الطَّبِیبُ۔
(٢٤١٩٩) حضرت سلمہ بن وہرام سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس سے زخمی عورت کے بارے میں سوال کیا کہ طبیب اس کا علاج کیسے کرے گا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ زخم کے مقام پر کپڑے کو شگاف دے دے اور پھر عورت کا علاج کرے۔

24199

(۲۴۲۰۰) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَۃِ یَکُونُ بِہَا الْجُرْحُ ؟ قَالَ : یُخْرَقُ مَوْضِعُہُ، ثُمَّ یُدَاوِیہَا الرَّجُلُ۔
(٢٤٢٠٠) حضرت شعبی سے روایت ہے کہ ان سے زخمی عورت کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ انھوں نے فرمایا : زخم کے مقام پر (کپڑے کو) شگاف دے کر مرد طبیب اس کا علاج کرے گا۔

24200

(۲۴۲۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَامِرٍ؛ فِی الْمَرْأَۃِ تَنْکَسِرُ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُجَبِّرہَا الرَّجُلُ۔
(٢٤٢٠١) حضرت عامر سے ایسی عورت کے بارے میں جس کی ہڈی ٹوٹ جائے روایت ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کو مرد پٹی کرے۔

24201

(۲۴۲۰۲) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبْجَرَ یَقُولُ : دَعْ عَشَائَ اللَّیْلِ ، إِلاَّ أَنْ تَکُونَ صَائِمًا۔
(٢٤٢٠٢) حضرت حسین بن علی سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں ابن ابحر کو کہتے سُنا کہ تم رات کو کھانا چھوڑ دو الا یہ کہ تم دن کو روزے سے ہو۔

24202

(۲۴۲۰۳) حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبْجَرَ ، یَقُولُ : اللَّحْمُ کُلُّہُ حَارٌّ۔
(٢٤٢٠٣) حضرت حسین بن علی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابجر کو کہتے سُنا کہ سارے گوشت گرم ہیں۔

24203

(۲۴۲۰۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ: حدَّثَنِی مَرْزُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو حَسَّانِ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ؛ أَنَّ نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَائِ شَکَا إِلَی اللہِ الضَّعْفَ ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَطْبُخَ اللَّحْمَ بِاللَّبَنِ ، فَإِنَّ الْقُوَّۃَ فِیہِمَا۔
(٢٤٢٠٤) حضرت مطر الوراق بیان کرتے ہیں کہ سابقہ انبیاء میں سے کسی نبی نے اللہ تعالیٰ سے ضعف کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ گوشت کو دودھ کے ساتھ پکائیں کیونکہ ان دونوں میں طاقت ہے۔

24204

(۲۴۲۰۵) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ صُبَیْحٍ مَوْلَی بَنِی مَرْوَانَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ فِی الرَّہْصَۃِ: بِسْمِ اللہِ ، اللَّہُمَّ أَنْتَ الْوَاقِی ، وَأَنْتَ الْبَاقِی ، وَأَنْتَ الشَّافِی ، قَالَ : ثُمَّ یَعْقِدُ خَیْطًا فِیہِ حَدِیدٌ ، أَوْ شَعْرٌ ، ثُمَّ یَرْبِطُ بِہِ الرَّہْصَۃَ۔
(٢٤٢٠٥) حضرت مکحول کے بارے میں روایت ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے سُنا کہ وہ گھوڑے کے سم کے زخم کے بارے کہتے تھے کہ ” اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ ! تو بچانے والا ہے۔ اور تو ہی باقی رہنے والا ہے۔ اور تو ہی شفا دینے والا ہے۔ “ راوی کہتے ہیں۔ پھر وہ ایک دھاگہ میں گرہ لگاتے تھے جس میں لوہا یا بال ہوتا پھر اس کے ذریعہ وہ سُم کو زخم کو باندھ دیتے تھے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔