hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Ibn Abi Shaybah

6. زکوۃ کا بیان

ابن أبي شيبة

9895

(۹۸۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہِلاَلٍ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَثَّنَا عَلَی الصَّدَقَۃِ ، فَأَبْطَؤُوا حَتَّی رُئِیَ فِی وَجْہِہِ الْغَضَبُ ، ثُمَّ إنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ جَائَ بِصُرَّۃٍ فَأَعْطَاہَا ، فَتَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّی رُئِیَ فِی وَجْہِہِ السُّرُورُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً کَانَ لَہُ أَجْرُہَا ، وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا ، وَمَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا ، وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْتَقِصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئًا۔
(٩٨٩٥) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے صدقہ کرنے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور پہ غصہ کے آثار دکھائی دینے لگے۔ پھر ایک انصاری شخص ایک تھیلی لے کر آیا اور وہ تھیلی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی، باقی لوگوں نے بھی اس انصاری شخص کی پیروی کی یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور پہ خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص اچھائی کا راستہ اور طریقہ جاری کرے گا تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور جتنے بھی لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی اس کو ملے گا ان لوگوں کے اجر میں کمی کیے بغیر، اور جو شخص برائی کا طریقہ جاری کرے گا تو اس کا گناہ اسی پر ہے اور جتنے لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی اسی پر ہوگا ان لوگوں کے گناہ میں کمی کیے بغیر۔

9896

(۹۸۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ: حدَّثَنِی عَوْنُ بْنُ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْمُنْذِرَ بْنَ جَرِیرٍ یَذْکُرُ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَ النَّہَارِ ، قَالَ : فَجَائَہُ قَوْمٌ حُفَاۃٌ ، مُجْتَابِی النِّمَارِ ، عَلَیْہِمُ السُّیُوفُ وَالْعَمَائِمُ ، عَامَّتُہُمْ مِنْ مُضَرَ ، بَلْ کُلُّہُمْ مِنْ مُضَرَ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ تَغَیُّرًا لِمَا رَأَی بِہِمْ مِنَ الْفَاقَۃِ ، قَالَ : ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ ، ثُمَّ أَمَرَ بِلاَلاً فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی ، ثُمَّ قَالَ : {یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ} ، ثُمَّ قَرَأَ إلَی آخِرِ الآیَۃِ : {وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ} ، {اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ} تَصَدَّقَ امْرُؤٌ مِنْ دِینَارِہِ وَمِنْ دِرْہَمِہِ ، وَمِنْ ثَوْبِہِ وَمِنْ صَاعِ بُرِّہِ ، یَعْنِی الْحِنْطَۃَ ، وَمِنْ صَاعِ تَمْرِہِ حَتَّی قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ، قَالَ : فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ قَدْ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجَزُ عَنْہَا ، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ ، قَالَ : ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّی رَأَیْت کَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ ، قَالَ : فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَہَلَّلُ، کَأَنَّہُ مُذْہَبَۃٌ ، فَقَالَ: مَنْ سَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً ، أَوْ صَالِحَۃً فَاسْتُنَّ بِہَا بَعْدَہُ ، کَانَ لَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ، لاَ یَنْتَقِصُ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا، وَمَنِ اسْتَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَاسْتُنَّ بِہَا بَعْدَہُ، کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہ وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ، لاَ یَنْتَقِصُ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئًا۔(مسلم ۷۰۶۔ احمد ۴/۳۵۹)
(٩٨٩٦) حضرت جریر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں صبح کے وقت حاضر تھے کہ آپ کی خدمت میں ایک قوم حاضر ہوئی جو تنگ دست تھے سفید اور کالے لباس میں ملبوس تھے، ان پر تلواریں تھیں اور عمامے تھے، اکثر کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا بلکہ میں تو کہوں گا سب کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا، ان کی تنگ دستی کی حالت کو دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور کا رنگ متغیر ہونا شروع ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا، اس کے بعد لوگوں کو نماز پڑھائی، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” اے لوگو ! ڈرو اس رب سے جس نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا “ پھر آیت کے آخر تک تلاوت فرمائی، اور اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَد۔ کی تلاوت فرمائی۔ (اور حکم دیا کہ) لوگو ! صدقہ کرو دینار میں سے، درھم میں سے، کپڑوں میں سے، گندم میں سے اور کھجور میں سے یہاں تک کہ اگرچہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔
اتنے میں ایک انصاری شخص تھیلی اٹھا کر آیا اور اس کی ہتھیلی اس کے اٹھانے سے عاجز آرہی تھی بلکہ میں تو کہوں گا کہ اس کے ہاتھ عاجز آگئے تھے، پھر باقی لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء کے دو ڈھیر لگ لئے۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ انور سونے کی طرح چمکنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” جو شخص اسلام میں کوئی اچھا اور نیک طریقہ جاری کرے گا، اور بعد میں لوگ اس پر عمل کریں تو اس کو اپنے اجر کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا اجر بھی ملے گا اور ان کے اجر میں بھی کمی نہیں کی جائے گی، اور جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کرے اور بعد میں لوگ اس پر عمل کریں تو اس پر اپنے گناہ کے علاوہ ان لوگوں کا گناہ بھی ہوگا جو بعد میں اس پر عمل کریں گے ان لوگوں کے گناہوں میں کمی کئے بغیر “ ، ،

9897

(۹۸۹۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَائً ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : أَشْہَدُ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَصَلَّی قَبْلَ الْخُطْبَۃِ ، ثُمَّ خَطَبَ ، فَرَأَی أَنَّہُ لَمْ یُسْمِعِ النِّسَائَ ، فَأَتَاہُنَّ ، فَذَکَّرَہُنَّ، وَوَعَظَہُنَّ ، وَأَمَرَہُنَّ بِالصَّدَقَۃِ ، وَبِلاَلٌ قَائِلٌ بِثَوْبِہِ ، قَالَ : فَجَعَلَتِ الْمَرْأَۃُ تُلْقِی الْخَاتَمَ وَالْخُرْصَ وَالشَّیْئَ۔
(٩٨٩٧) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نماز کیلئے خطبہ سے قبل حاضر ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ عورتوں نے خطبہ نہیں سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی اور صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اور حضرت بلال اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے، عورتوں نے اپنی انگوٹھیاں اور کنگن اور دوسری اشیاء صدقہ کیلئے دیں۔

9898

(۹۸۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مُہَانَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَصَدَّقْنَ یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ ، فَإِنَّکُنَّ أَکْثَرُ أَہْلِ جَہَنَّمَ ، فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ لَیْسَتْ مِنْ عِلْیَۃِ النِّسَائِ: مِمَّ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: لأَنَّکُنَّ تُکْثِرْنَ اللَّعَنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیرَ۔ (احمد ۱/۳۷۶۔ طیالسی ۳۸۴)
(٩٨٩٨) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت صدقہ کیا کرو، بیشک تم میں سے جہنم میں جانے والی زیادہ ہیں، ایک خاتون نے عرض کیا جو برسر آوردہ خواتین میں سے نہیں تھی ایسا کیوں اور کس وجہ سے ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیونکہ تم لعن طعن بہت زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوند کی نا شکری ونا فرمانی کرتی ہو۔

9899

(۹۸۹۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ : ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّارَ فَأَعْرَضَ بِوَجْہِہِ وَأَشَاحَ ، ثُمَّ ذَکَرَ النَّارَ فَأَعْرَضَ وَأَشَاحَ ، حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ کَأَنَّمَا یَنْظُرُ إلَیْہَا ، ثُمَّ قَالَ : اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ۔ (بخاری ۶۵۴۰۔ مسلم ۶۸)
(٩٨٩٩) حضرت عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگ (جہنم) کا تذکرہ فرمایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا چہرہ مبارک پھیرا گویا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں، پھر دوبارہ جہنم کا تذکرہ فرمایا اور اپنا چہرہ مبارک پھیرا گویا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہنم کو دیکھ رہے ہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ کھجور کے ایک دانہ صدقہ کرنے سے ہو اور جو شعخص یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے (بیشک اچھی بات بھی صدقہ ہے) ۔

9900

(۹۹۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ۔ (بخاری ۱۴۱۷۔ مسلم ۷۰۳)
(٩٩٠٠) حضرت عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا (صدقہ کرنا) ہی کیوں نہ ہو۔

9901

(۹۹۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَیْسٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عِیَاضُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ یَوْمَ الْعِیدِ ، یَوْمَ الْفِطْرِ فَیُصَلِّی بِالنَّاسِ تَیْنِکَ الرَّکْعَتَیْنِ ، ثُمَّ یُسَلِّمُ ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَسْتَقْبِلُ النَّاسَ وَہُمْ جُلُوسٌ فَیَقُولُ : تَصَدَّقُوا ، تَصَدَّقُوا : فَکَانَ أَکْثَرَ مَنْ تَصَدَّقَ النِّسَائُ بِالْقُرْطِ وَالْخَاتَمِ وَالشَّیْئِ۔ (بخاری ۱۴۶۲۔ مسلم ۶۰۵)
(٩٩٠١) حضرت ابو سعید خدی سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الفطر کے دن نکلے (عید گاہ کی طرف) اور لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ نے سلام پھیرا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہوگئے جب کہ لوگ سارے بیٹھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” صدقہ کرو، صدقہ کرو “۔ پس عورتوں نے اپنی انگوٹھیاں اور کان کی بالیاں سب سے زیادہ صدقہ کیں۔

9902

(۹۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِیقٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِاللہِ، قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : تَصَدَّقْنَ یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ۔(بخاری ۱۴۶۶۔ ترمذی ۶۳۶)
(٩٩٠٢) حضرت عبداللہ کی زوجہ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ ہمیں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : اے عورتوں کی جماعت صدقہ کیا کرو۔

9903

(۹۹۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَیَّانَ ، عَنِ ابْنِ بِجَادٍ ، عَنْ جَدَّتِہِ ، قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، یَأْتِینِی السَّائِلُ ، لَیْسَ عِنْدِی شَیْئٌ أُعْطِیہ ، قَالَتْ : فَقَالَ : لاَ تَرُدِّی سَائِلَکِ إِلاَّ بِشَیْئٍ ، وَلَوْ بِظِلْفٍ۔ (بخاری ۸۴۵۔ طبرانی ۵۶۱)
(٩٩٠٣) حضرت ابن بجاد اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! بعض اوقات میرے پاس سائل آتا ہے لیکن میرے پاس اس کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے سائل کو کچھ دیئے بغیر نہ لٹایا کر اگرچہ گائے، بکری یا ہرن کا ایک کھر (پھٹا ہوا ناخن) ہی کیوں نہ ہو۔

9904

(۹۹۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ وَہْبٍ الْخُزَاعِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَصَدَّقُوا ، فَإِنَّہُ یُوشِکُ أَنْ یَخْرُجَ الرَّجُلُ بِصَدَقَتِہِ فَلاَ یَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہَا۔ (بخاری ۱۴۱۱۔ مسلم ۷۰۰)
(٩٩٠٤) حضرت حارثہ بن وھب الخزاعی سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صدقہ کیا کرو، بیشک ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی صدقہ کرنے کیلئے نکلے گا لیکن وہ کسی کو نہ پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کرے۔

9905

(۹۹۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمَّارٍ ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ صَدَقَۃٍ تَخْرُجُ ، حَتَّی یُفکَّ عَنْہَا لَحْیَا سَبْعِینَ شَیْطَانًا ، کُلُّہُمْ یَنْہَاہُ عَنْہَا۔ (ابن خزیمۃ ۲۴۵۷۔ حاکم ۴۱۷)
(٩٩٠٥) حضرت ابو ذر نے ارشاد فرمایا : صدقہ سے زیادہ طاقتور کوئی چیز اس زمین پر نہیں یہاں تک کہ اس کی وجہ سے انسان کو ستر شیطانوں سے خلاصی دی جاتی ہے، وہ سب اس کو اس سے روکتے ہیں۔

9906

(۹۹۰۶) حَدَّثَنَا عُمَر بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الزَّعْرَائِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ رَاہِبًا عَبَدَ اللَّہَ فِی صَوْمَعَۃ سِتِّینَ سَنَۃً ، فَجَائَتِ امْرَأَۃٌ فَنَزَلَتْ إلَی جَنْبِہِ ، فَنَزَلَ إلَیْہَا فَوَاقَعَہَا سِتَّ لَیَالٍ ، ثُمَّ أُسقِط فِی یَدِہِ ، ثُمَّ ہَرَبَ ، فَأَتَی مَسْجِدًا فَأَوَی فِیہِ ، فَمَکَثَ ثَلاَثًا لاَ یَطْعَمُ شَیْئًا ، فَأُتِیَ بِرَغِیفٍ فَکَسَرَ نِصْفَہُ ، فَأَعْطَاہُ رَجُلاً عَنْ یَمِینِہِ ، وَأَعْطَی الآخَرَ عَنْ یَسَارِہِ ، ثُمَّ بُعِثَ إلَیْہِ مَلَکٌ فَقَبَضَ رُوحَہُ ، فَوُضِعَ عَمَلُ سِتِّینَ سَنَۃً فِی کِفَّۃٍ ، وَوُضِعَتِ السَّیِّئَۃُ فِی أُخْرَی ، فَرَجَحَتْ ، ثُمَّ جِیئَ بِالرَّغِیفِ ، فَرَجَحَ بِالسَّیِّئَۃِ۔
(٩٩٠٦) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک راہب ساٹھ سال تک اپنے عبادت خانے میں (عبادت میں مصروف) رہا، اس کے پڑوس میں ایک عورت آئی تو وہ راہب چھ راتوں تک اس کے پاس جاتا رہا پھر اپنے اس عمل کی پشیمانی کی وجہ سے وہاں سے بھاگ کر ایک مسجد میں پناہ لے لی اور تین دن تک مسجد میں کچھ کھائے پیئے بغیر رہا، (تین دن بعد) اس کے پاس ایک روٹی لائی گئی تو اس نے اس کے دو حصے کر کے آدھی دائیں جانب والے شخص کو دیدی اور آدھی روٹی بائیں جانب والے شخص کو دیدی۔ پھر ملک الموت نے آ کر اس راہب کی روح قبض کرلی اور اس کے ساٹھ سال کے اعمال ایک ترازو میں رکھے گئے اور گناہ دوسرے پلڑے میں تو وہ گناہوں والا پلڑا جھک گیا، پھر وہ روٹی لائی گئی (جو اس نے صدقہ کی تھی) اس روٹی کے رکھنے سے نیکیوں والا پلڑا گناہوں والے پلڑے سے جھک گیا۔

9907

(۹۹۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : إنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ الصَّدَقَۃَ ، وَیَأْخُذُہَا بِیَمِینِہِ فَیُرَبِّیہَا لِصَاحِبِہَا ، کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ، أَوْ فَصِیلَہُ حَتَّی إنَّ اللُّقْمَۃَ لَتَصِیرُ مِثْلَ أُحُدٍ ، وَتَصْدِیقُ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ : {ہُوَ الذی یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} ، وَ{یَمْحَقُ اللَّہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ} ۔ (ترمذی ۶۶۲۔ ابن خزیمۃ ۲۴۲۷)
(٩٩٠٧) حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اسے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے اور اس کو بڑھاتا ہے صدقہ دینے والے کیلئے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی ایک تربیت کرتا ہے (بڑھاتا ہے) چھوٹے بچے یا کنبے کو، یہاں تک کہ ایک لقمہ صدقہ کا (ثواب) احد پہاڑ کے برابر کردیتا ہے اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے، اللہ فرماتے ہیں کہ وہی اللہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے صدقات کو لیتا ہے (قبول کرتا ہے) دوسری جگہ ارشاد فرمایا : اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

9908

(۹۹۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ قَطُّ ، فَتَصَدَّقُوا۔ (احمد ۱/۱۹۳۔ ابویعلی ۸۴۵)
(٩٩٠٨) حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صدقہ کرنے سے مال میں بالکل کمی نہیں ہوتی، پس تم صدقہ کیا کرو۔

9909

(۹۹۰۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : أُہْدِیَتْ لَنَا شَاۃٌ مَشْوِیَّۃٌ ، فَقَسَّمْتُہَا کُلَّہَا إِلاَّ کَتِفَہَا ، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْت ذَلِکَ لَہُ ، فَقَالَ: لاَ ، کُلُّہَا لَکُمْ إِلاَّ کَتِفَہَا۔ (ترمذی ۲۴۷۰۔ احمد ۶/۵۰)
(٩٩٠٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس ھدیہ میں بھنی ہوئی بکری آئی تو میں نے کندھے کے گوشت کے علاوہ باقی ساری بکری صدقہ کر کے تقسیم کردی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں باقی ساری بکری تمہارے لیے ہے سوائے ایک کندھے کے گوشت کے جو تم نے صدقہ نہیں کیا۔

9910

(۹۹۱۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَطِیَّۃَ مَوْلَی بَنِی عَامِرٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بِشْرٍ السَّکْسَکِیِّ ، قَالَ: بَعَثَہُ یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بِکُِسْوَۃٍ إلَی الْکَعْبَۃِ ، فَلَمَّا أَتَی تَیْمَائَ جَائَہُ سَائِلٌ فَسَأَلَ ، قَالَ : فَقَالَ : تَصَدَّقُوا ، فَإِنَّ الصَّدَقَۃَ تُنْجِی مِنْ سَبْعِینَ بَابًا مِنَ الشَّرِّ ، قَالَ : فَقُلْتُ : مَنْ ہَاہُنَا أَفْقَہُ ؟ قَالُوا : نُسَیٌّ ، رَجُلٌ مِنَ الْیَہُودِ ، فَأَتَیْتُ الدَّارَ ، فَقُلْتُ : ثَمَّ نُسَیٌّ ؟ فَأَشْرَفَتْ عَلَیَّ امْرَأَتُہُ ، فَأَذِنَتْ لِی فَدخلتُ عَلَیْہِ ، فَلَمَّا رَآنِی تَوَضَّأَ ، فَقُلْتُ لَہُ : مَا شَأْنُکَ حِینَ رَأَیْتَنِی تَوَضَّأْتَ ؟ قَالَ : إنَّ اللَّہَ تَعَالَی قَالَ : یَا مُوسَی ، تَوَضَّأْ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَأَصَابَتْک مُصِیبَۃٌ فَلاَ تَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَک ۔ قَالَ : قُلْتُ : إنَّ سَائِلاً یَسْأَلُ ، فَقَالَ : تَصَدَّقُوا ، فَإِنَّ الصَّدَقَۃَ تُنْجِی مِنْ سَبْعِینَ بَابًا مِنَ الشَّرِّ، قَالَ : صَدَقَ ، فَذَکَرَ أَشیائَ مِنَ الْمَنَایَا ، وَہَدْمِ الْحَائِطِ ، وَوَقْصِ الدَّابَّۃِ ، وَالْغَرَقِ مِمَّا شَائَ اللَّہ مِمَّا عُدَّ مِنَ الْمَنَایَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَتُنَجِّی مِنَ النَّارِ۔
(٩٩١٠) حضرت یزید بن بشر السکسکی فرماتے ہیں کہ یزید بن عبد الملک نے مجھے ایک کپڑا دے کر کعبہ کی طرف بھیجا، جب میں مقام تیماء میں پہنچا تو ایک سائل آیا اور کہنے لگا۔ صدقہ کرو بیشک صدقہ شر کے ستر دروازوں سے انسان کو نجات دیتا ہے، میں نے پوچھا (لوگوں سے) یہاں پر سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ انھوں نے جواب دیا نُسیّ نامی یہود میں سے ایک شخص ہے۔ میں اس کے مکان پر آیا اور آواز دی کہ نسی ہے ؟ ایک عورت نے جھانکا اور مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت دیدی، جب اس نے مجھے دیکھا تو اس نے وضو کیا۔ میں نے اس سے پوچھا جب تو نے مجھے دیکھا تو وضو کیا، اس کی کیا وجہ ہے ؟ کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے فرمایا تھا اے موسیٰ ! وضو کیا کر اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو تجھے بہت سی مصیبت پہنچے گی پھر تو اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ ایک سائل سوال کرتے ہوئے یوں کہہ رہا تھا کہ صدقہ کرو بیشک صدقہ شر کے ستر دروازوں سے انسان کو نجات دیتا ہے۔
کہنے لگا اس نے سچ کہا ہے پھر موت، دیوار کا گرنا، جانور کا ہلاک ہونا اور غرق ہونا اور بہت سی چیزوں کا ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ چاہے جو شمار کرے موتوں میں سے، میں نے عرض کیا اور صدقہ نجات دیتا ہے جہنم کی آگ سے۔

9911

(۹۹۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْیَزَنِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : صَدَقَۃُ الْمُؤْمِنِ ظِلُّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۲۳۳)
(٩٩١١) حضرت مرثد بن عبداللہ الیزنی فرماتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : مومن آدمی کا صدقہ قیامت کے دن اس پر سایہ ہوگا۔

9912

(۹۹۱۲) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : (قدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّی) ، قَالَ : مَنْ رَضَخ۔
(٩٩١٢) حضرت علی بن الاقمر سے مروی ہے کہ حضرت ابو الاحوص نے فرمایا : قد افلح من تزکی، تحقیق وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، فرمایا جس کو تھوڑا عطاء کیا گیا۔

9913

(۹۹۱۳) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِی مَدَیْنَۃَ ؛ أَنَّ سَائِلاً سَأَلَ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنِ عَوْفٍ وَبَیْنَ یَدَیْہِ عِنَبٌ ، فَنَاوَلَہُ حَبَّۃً ، فَکَأَنَّہُمْ أَنْکَرُوا ذَلِکَ ، فَقَالَ : فِی ہَذِہِ مِثْقَالُ ذَرٍّ کَثِیرٌ۔
(٩٩١٣) حضرت ابو مدینہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف کے پاس ایک سائل آیا۔ آپ کے سامنے انگور رکھے ہوئے تھے، آپ نے سائل کو انگور کا ایک دانہ دیدیا، تو لوگوں نے اس کو ناپسند کیا، آپ نے فرمایا یہ چھوٹا سا ذرہ بہت زیادہ ہوگا (قیامت کے دن)

9914

(۹۹۱۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ خُلَیْدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إیَاسٍ یُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَجَائَ مَسَاکِینُ ، فَقَالَتْ : أُخْرِجُہُنّ ؟ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ : مَا بِہَذَا أمِرنَا ، أَبِدِّیہنَّ بِتَمْرَۃٍ تَمْرَۃٍ۔
(٩٩١٤) حضرت ام حسن فرماتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس تھی ایک مسکین آیا میں نے حضرت ام سلمہ سے پوچھا کہ اس کو باہر نکال دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا اس کو کھجور میں سے کچھ کھجوریں دیدو۔

9915

(۹۹۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ الْمُخْتَارِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : کَانَ یُقَالُ : رُدُّوا السَّائِلَ وَلَوْ بِمِثْلِ رَأْسِ الْقَطَاۃ۔
(٩٩١٥) حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ حضرت حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ : سائل کو کچھ نہ کچھ دو اگرچہ چڑیا (فاختہ) کے سر کے بقدر ہی کیوں نہ ہو۔

9916

(۹۹۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ أَبِی یَحْیَی ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ ، عَنْ أَبِیہَا ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَائَ عَلَی فَرَسٍ۔ (ابوداؤد ۱۶۶۳۔ احمد ۱/۲۰۱)
(٩٩١٦) حضرت فاطمہ بنت حسین اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سائل کا تم پر حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پہ سوار ہو کر آئے۔

9917

(۹۹۱۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ ، قَالَ : قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ : لِلسَّائِلِ حَقٌّ ، وَإِنْ جَائَ عَلَی فَرَسٍ مُطَوَّقٍ بِالْفِضَّۃِ۔
(٩٩١٧) حضرت سالم بن ابو جعد فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کا قول ہے کہ سائل کا تم پر حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پہ سوار ہو کر آئے اور اس کے گلے میں چاندی کا ہار ہو۔

9918

(۹۹۱۸) حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : إذَا أَتَی أَحَدَکُمُ السَّائِلُ ، وَہُوَ یُرِیدُ الصَّلاَۃَ ، أَوَ قَالَ : یُرِیدُ أَنْ یُصَلِّیَ ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَتَصَدَّقَ فَلْیَفْعَلْ ، فَإِنَّ اللَّہَ یَقُولُ : {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی} ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یُقَدِّمَ بَیْنَ یَدَیْ صَلاَتِہِ صَدَقَۃً فَلْیَفْعَلْ۔
(٩٩١٨) حضرت ابو الاحوص فرماتے ہیں کہ جب تمہارے پاس کوئی سائل آئے اور وہ نماز کا ارادہ کررہا ہو یا فرمایا (راوی کو شک ہے) ارادہ کرتا ہے کہ نماز پڑھے، پس اگر تم طاقت رکھو تو صدقہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، تحقیق وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی، اور اگر نماز سے پہلے صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ صدقہ کرے۔

9919

(۹۹۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَنْ لَمْ یُؤَدِّ الزَّکَاۃَ ، فَلاَ صَلاَۃَ لَہُ۔
(٩٩١٩) حضرت ابو الاحوص سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص زکوۃ ادا نہ کرے اس کی نماز قبول نہیں ہے۔

9920

(۹۹۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ صَلاَۃَ إِلاَّ بِزَکَاۃٍ۔
(٩٩٢٠) حضرت سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ نماز قبول نہیں مگر زکوۃ ادا کرنے کے ساتھ۔

9921

(۹۹۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی الأَحْوَصِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللہِ : مَا مَانِعُ الزَّکَاۃِ بِمُسْلِمٍ۔
(٩٩٢١) حضرت ابو الاحوص سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا : مؤمن زکوۃ ادا کرنے کو ترک نہیں کرتا۔

9922

(۹۹۲۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : لَوْ مَنَعُونِی وَلَوْ عِقَالاً مِمَّا أَعْطَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَجَاہَدْتُہمْ ۔ قَالَ ، ثُمَّ تَلاَ : {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَئِنْ مَاتَ ، أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ}۔
(٩٩٢٢) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ارشاد فرمایا : اگر وہ لوگ مجھے رسی کا ایک ٹکڑا ادا کرنے سے بھی انکار کریں جو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے میں ان سے ضرور جہاد کروں گا، پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہیں مگر رسول، تحقیق ان سے پہلے بھی رسول گذر چکے، کیا اگر یہ مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تم اپنی ایڑیوں کے بل واپس پلٹ جاؤ گے “۔

9923

(۹۹۲۳) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ إذَا أَدَّیْتَ زَکَاۃَ مَالِکَ ، أَذْہَبْتَ عَنْک شَرَّہُ۔
(٩٩٢٣) حضرت ابو زبیر سے مروی ہے کہ حضرت جابر نے ارشاد فرمایا : جب تو نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی تو تجھ سے اس کا شر دور ہوگیا۔

9924

(۹۹۲۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَکِّیِّ ، قَالَ : حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إنَّکَ تَأْتِی قَوْمًا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ، فَادْعُہُمْ إلَی شَہَادَۃِ أَنْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْہُمْ ، أَنَّ اللَّہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ، فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللَّہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ صَدَقَۃً فِی أَمْوَالِہِمْ ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ فِی فُقَرَائِہِمْ ، فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ ، فَإِیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ ، وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ ، فَإِنَّہَا لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللہِ حِجَابٌ۔ (بخاری ۲۴۴۸۔ ابوداؤد ۱۵۷۹)
(٩٩٢٤) حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے (یمن) کی طرف بھیجا تو مجھ سے فرمایا : بیشک تیرے پاس اہل کتاب کے لوگ آئیں گے تو تم ان کو لا الہ الا اللہ کی شہادت اور میری رسالت کی دعوت دینا، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر زکوۃ فرض کی ہے، ان کے مال داروں سے لینا اور ان کے فقراء پر خرچ کرنا، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو پس تو بچنا ان کے عمدہ اور قیمتی مال سے، اور مظلوم کی بددعا سے اپنے آپکو بچانا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب نہیں ہوتا۔

9925

(۹۹۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابن أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَۃِ۔ (ترمذی ۱۱۱۹۔ ابوداؤد ۲۰۶۹)
(٩٩٢٥) حضرت حارث سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا : زکوۃ ادا نہ کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔

9926

(۹۹۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ مِثْلَہُ۔
(٩٩٢٦) حضرت حارث نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اسی طرح کا قول نقل کیا ہے۔

9927

(۹۹۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لاَوِی الصَّدَقَۃِ ، یَعْنِی : مَانِعَہَا ، مَلْعُونٌ عَلَی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (احمد ۱/۴۳۰۔ ابن حبان ۳۲۵۲)
(٩٩٢٧) حضرت حارث بن عبداللہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے نقل فرماتے ہیں کہ زکوۃ ادا نہ کرنے والے قیامت کے دن ملعون ہوں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر۔

9928

(۹۹۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا وَشَکَا إلَیْہِ قَوْمٌ مِنَ الأَعْرَابِ الصَّدَقَۃَ ، فَقَالَ : اجْمَعُوہَا وَأَدُّوہَا لِوَقْتِہَا ، فَمَا أُخِذَ مِنْکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ فَہُوَ ظُلْمٌ ظُلِمْتُمُوہُ۔
(٩٩٢٨) حضرت مثنی بن سعید فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت انس سے کہ دیہاتیوں کی ایک قوم نے زکوۃ کے بارے میں شک کیا تو حضرت انس نے فرمایا تم زکوۃ کو اکٹھا کرو اور اس کے وقت میں ادا کرو پس جو کچھ وقت کے بعد تم سے لیا گیا وہ ظلم ہے جو تم پر کیا گیا اس میں جو تم نے سپرد کیا۔

9929

(۹۹۲۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِبَنِیَّ : یَا بَنِیَّ ، إذَا جَائَکُمُ الْمُصَدِّقُ فَلاَ تَکْتُمُوہُ مِنْ نَعَمِکُمْ شَیْئًا۔
(٩٩٢٩) حضرت جریر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹوں سے کہا : اے بیٹو ! جب تمہارے پاس زکوۃ وصول کرنے والا آئے تو اس سے اپنے اموال میں سے کوئی چیز بھی نہ چھپانا۔

9930

(۹۹۳۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : إذَا جَائَکَ الْمُصَدِّقُ ، فَقَالَ: أَخْرِجْ صَدَقَتَکَ ، فَأَخْرِجْہَا ، فَإِنْ قَبِلَ فَبِہَا وَنَعِمَتْ ، فَإِنْ أَبَی فَوَلِّہ ظَہْرَک ، وَقُلَ : اللَّہُمَّ إنِّی أَحْتَسِبُ عِنْدَکَ مَا یَأْخُذُ مِنِّی ، وَلاَ تَلْعَنہُ۔
(٩٩٣٠) حضرت ابو عثمان سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے ارشاد فرمایا : جب زکوۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آ کر کہے کہ اپنی زکوۃ نکالو تو تمہیں چاہیے کہ تم (فورا) زکوۃ نکال لو اور اگر وہ اس کو قبول کرلے تو بہت اچھا ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو تو اپنی پیٹھ اس سے پھیر لے اور اس سے بحث نہ کر اور یوں کہہ : اے اللہ ! میں تجھ سے ثواب کی امید رکھتا ہوں جو اس نے مجھ سے وصول کیا، اور اس شخص کو لعن طعن نہ کر۔

9931

(۹۹۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ جَرِیرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِیَصْدُرَ الْمُصَدِّقُ عَنْکُمْ حِینَ یُصْدِرُ وَہُوَ رَاضٍ ۔ وَقَالَ الشَّعْبِیُّ : الْمُعْتَدِی فِی الصَّدَقَۃِ کَمَانِعِہَا۔ (ترمذی ۶۴۸۔ احمد ۴/۳۶۵)
(٩٩٣١) حضرت جریر سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زکوۃ وصول کرنے والا جب تمہارے پاس سے لوٹے تو وہ اس حال میں لوٹے کہ وہ تم سے راضی ہو۔

9932

(۹۹۳۲) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْن قَیْسٍ ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : سَیَأْتِیکُمْ رَکْبٌ مُبْغَضُونَ ، فَإِنْ جَاؤُوکُمْ فَرَحِّبُوا بِہِمْ ، وَخَلُّوا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَبْغُونَ ، فَإِنْ عَدَلُوا فَلأَنْفُسِہِمْ وَإِنْ ظَلَمُوا فَعَلَیْہِمْ ، وَأَرْضُوہُمْ فَإِنَّ تَمَامَ زَکَاتِکُمْ رِضَاہُمْ ، وَلْیَدْعُوا لَکُمْ۔
(٩٩٣٢) حضرت جابر بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب تمہارے پاس ناپسندیدہ سوار آئیں گے، لیکن جب وہ تمہارے پاس (زکوۃ وصول کرنے کیلئے) آئیں تو تم ان کو خوش آمدید کہو اور ان کیلئے کشادگی کرو، اور چھوڑ دو ان کے درمائن وہ چیز جس میں وہ زیادتی کریں، پس اگر وہ انصاف کریں گے تو اپنے نفسوں کیلئے اور اگر ظلم کریں تو ان کا وبال خود ان پر ہے اور تمہیں چاہیے کہ تم ان کو راضی کردو بیشک تمہاری زکوۃ کا اتمام (مکمل ہونا) ان کی رضا مندی ہے اور ان کو بھی چاہیے کہ وہ تمہارے لیے دعا کریں۔

9933

(۹۹۳۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّازِیّ ، عَنْ أَبِی سَنان ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إذَا ظَہَرَ عَلَی مَالٍ قَدْ غُیِّبَ عَنِ الصَّدَقَۃِ ، خَمَّسَہُ۔
(٩٩٣٣) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب کو جب معلوم ہوتا کہ (فلاں) مال چھپایا گیا ہے زکوۃ سے تو وہ اس کا پانچ گنا وصول فرماتے۔

9934

(۹۹۳۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ عُبَیْدِاللہِ بْنِ رُزَیْقٍ، أَنَّہُ سَمِعَ الْحَسَنَ، قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَدَّی زَکَاۃَ مَالِہِ أَدَّی الْحَقَّ الَّذِی عَلَیْہِ، وَمَنْ زَادَ فَہُوَ خَیْرٌ لَہُ۔ (ابوداؤد ۱۳۰)
(٩٩٣٤) حضرت عبید اللہ بن رزیق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی اس نے اپنا حق جو اس پر تھا ادا کردیا اور جو شخص زیادہ ادا کرے تو وہ اس کیلئے بہتر ہے (اس زیادہ دینے کا اسی کو ثواب ہے) ۔

9935

(۹۹۳۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ أَدَّی زَکَاۃَ مَالِہِ ، فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَتَصَدَّقَ۔ (بخاری ۱۴۵۴۔ عبدالرزاق ۷۰۸۵)
(٩٩٣٥) حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی تو اب اگر وہ صدقہ نہ بھی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

9936

(۹۹۳۶) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا بَلَغَ الْمَالُ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، فَفِیہِ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٣٦) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب مال دو سو درھم تک پہنچ جائے تو اس پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہیں۔

9937

(۹۹۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : أَنْ خُذْ مِمَّنْ مَرَّ بِکَ مِنْ تُجَّارِ الْمُسْلِمِینَ مِنْ کُلِّ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٣٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا کہ : مسلمان تاجروں میں سے جو بھی تمہارے پاس سے گذرے تو اس کے دو سو دراھم میں سے پانچ درھم (زکوۃ ) وصول کرلو۔

9938

(۹۹۳۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ جَابِرِ الْحَذَّائِ ، وَکَانَ عَبْدًا لِبَنِی مُجَاشِعٍ ، قَالَ : قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ : ہَلْ عَلَی الْعَبْدِ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : أَمُسْلِمٌ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : عَلَیْہِ فِی کُلِّ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٣٨) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت جابر بن الحذاء جو بنی مجاشع کے غلام تھے انھوں نے حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ کیا غلام پر بھی زکوۃ ہے ؟ حضرت ابن عمر نے دریافت کیا کہ کیا غلام مسلمان ہے ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں، حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : ہر دو سو دراھم پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہے۔

9939

(۹۹۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ؛ قَالَ : تَحِلُّ عَلَیْہِ الزَّکَاۃُ مِنْ یَوْمِ مَلَکَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، ثُمَّ یَحُولُ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(٩٩٣٩) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ : مباح ہے تم پر زکوۃ اس دن جس دن تم دو سو دراہم کے مالک بن گئے، یہاں تک کہ پھر اس پر پورا سال گذر جائے۔

9940

(۹۹۴۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی کُلِّ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٤٠) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں : ہر دو سو دراہم پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہے۔

9941

(۹۹۴۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، رَفَعَہُ ، قَالَ : إذَا بَلَغَتْ خَمْسَ أَوَاقٍ فَفِیہَا خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمٌ۔
(٩٩٤١) حضرت جعفر اپنے والد سے مرفوعا روایت فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب چاندی پانچ اوقیہ ہوجائے (دو سو درھم) تو اس پر پانچ درھم زکوۃ ہے اور ہر چالیس درھموں پہ ایک درھم ہے۔

9942

(۹۹۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی ابْنُ حُجَیْرٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : فِی مِئَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٤٢) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ : دو سو درھم ہوجائیں تو ان پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہیں۔

9943

(۹۹۴۳) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا کَانَتْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ،فَفِیہَا خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٤٣) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب دو سو درھم ہوجائیں تو ان پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہیں۔

9944

(۹۹۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ : فِی الْمَعَادِنِ مِنْ کُلِّ مِئَتَیْنِ خَمْسَۃٌ۔
(٩٩٤٤) حضرت عمر بن عبد العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ : معادن میں ہر دو سو پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہیں۔

9945

(۹۹۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا بَلَغَتْ مِئَتَیْنِ فَفِیہَا خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٤٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ : جب دراہم دو سو تک پہنچ جائیں تو ان پر پانچ درھم (زکوۃ ) ہیں۔

9946

(۹۹۴۶) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَکُونُ فِی الدَّرَاہِمِ زَکَاۃٌ حَتَّی تَبْلُغَ خَمْسَ أَوَاقٍ۔
(٩٩٤٦) حضرت جعفر اپنے والد سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دراہم میں زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ اوقیہ (دو سو) ہوجائیں۔

9947

(۹۹۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِنْ لَمْ تَکُنْ لَکَ إِلاَّ تِسْعَۃٌ وَتِسْعِینَ وَمِئَۃٌ ، فَلَیْسَ فِیہَا زَکَاۃٌ۔
(٩٩٤٧) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں : جب تمہارے پاس ایک سو ننانوے درھم ہوں تو ان پر زکوۃ نہیں ہے۔

9948

(۹۹۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ زَکَاۃٌ۔
(٩٩٤٨) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں : دو سو دراہم سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

9949

(۹۹۴۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ دُونَ الْمِئَتَیْنِ نَفَقَۃٌ۔
(٩٩٤٩) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ : دو سو سے کم میں ہر چیز نفقہ ہے۔

9950

(۹۹۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ ؛ أَنَّ أَبَاہُ یَحْیَی بْنَ عُمَارَۃَ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ ، یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَۃٌ ، وَکَانَتْ تُقَوَّمُ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ۔ (بخاری ۱۴۴۷۔ مسلم ۶۷۴)
(٩٩٥٠) حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پانچ اوقیہ سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ دو سو درھم بنتے ہیں۔

9951

(۹۹۵۱) حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِیمِ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ أَنَّہُ قَالَ: لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ فِضَّۃٍ صَدَقَۃٌ۔
(٩٩٥١) حضرت شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ : پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

9952

(۹۹۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ قَالَ : لَیْسَ فِی الشَّنْقِ شَیْئٌ ، قَالَ : الشَّنْقُ : مَالٌ لَمْ یَبْلُغْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ۔
(٩٩٥٢) حضرت شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ : شنق کچھ نہیں ہے (زکوۃ نہیں ہے) اور شنق وہ مال کہلاتا ہے جو دو سو درھم سے کم ہو۔

9953

(۹۹۵۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ شَیْئٌ۔ (دارقطنی ۹۳)
(٩٩٥٣) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو سو دراہم سے کم میں (زکوۃ ) نہیں ہے۔

9954

(۹۹۵۴) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ شَیْئٌ۔ (ترمذی ۶۲۰۔ ابوداؤد ۱۵۶۶)
(٩٩٥٤) حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو سو دراہم سے کم میں (زکوۃ ) نہیں ہے۔

9955

(۹۹۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَمَّارُ بْنُ رُزَیْقٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ مِثْلَہ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ شَیْئٌ۔
(٩٩٥٥) حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دو سو دراہم سے کم میں (زکوۃ ) نہیں ہے۔

9956

(۹۹۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی فِیمَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ شَیْئٌ ، حَتَّی یَبْلُغَ أَرْبَعِینَ۔
(٩٩٥٦) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ امام شعبی دو سو دراہم سے زائد پر کچھ بھی واجب نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ چالیس تک پہنچ جائے۔

9957

(۹۹۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : فَمَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ ، فَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ دِرْہَماً دِرْہَم۔
(٩٩٥٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا تھا کہ : دو سو دراہم سے زائد ہوجائیں تو پھر ہر چالیس دراہم پر ایک درھم (زکوۃ ) ہے۔

9958

(۹۹۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ شَیْئٌ ، حَتَّی یَکُونَ أَرْبَعِینَ دِرْہَماً۔
(٩٩٥٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ دو سو دراہم سے زائد پر کچھ نہیں آئے گا یہاں تک کہ وہ چالیس ہوجائیں۔

9959

(۹۹۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِِیٍّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ شَیْئٌ ، حَتَّی یَبْلُغَ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا۔
(٩٩٥٩) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ دو سو دراہم سے زائد پر کچھ نہیں آئے گا یہاں تک کہ وہ زائد چالیس ہوجائیں۔

9960

(۹۹۶۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : حَتَّی یَبْلُغَ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا نَیِّفًا عَلَی الْمِئَتَیْنِ فَہِیَ حِینَئِذٍ سِتَّۃُ دَرَاہِمَ ، ثُمَّ لاَ شَیْئَ حَتَّی تَبْلُغَ ثَمَانِینَ وَمِئَتَیْ دِرْہَمٍ ، فَہِیَ سَبْعَۃُ دَرَاہِمَ ، ثُمَّ کَذَلِکَ۔
(٩٩٦٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ یہاں تک کہ دو سو سے زائد چالیس درہم ہوجائیں تو پھر اس پر چھ درہم (زکوۃ ) ہے پھر کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ ان کی تعداد دو سو اسی ہوجائیں تو ان پر سات درھم (زکوۃ ) ہیں، پھر اسی طرح حساب کرتے جائیں۔

9961

(۹۹۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ شَیْئٌ ، فَمَا زَادَ فَبِالْحِسَابِ۔
(٩٩٦١) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ دو سو دراہم سے کم میں زکوۃ نہیں ہے اور جو اس پر زائد ہو اس پر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔

9962

(۹۹۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ جَابِر الْحَذَّائِ ، وَکَانَ عَبْدًا لِبَنِی مُجَاشِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ ، فَبِالْحِسَابِ۔
(٩٩٦٢) حضرت جابر الحذاء جو بنی مجاشع کے غلام تھے سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر نے ارشاد فرمایا : دو سو سے زائد جتنے درھم ہوجائیں ان پر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔

9963

(۹۹۶۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : مَا زَادَ عَلَی الْمِئَتَیْنِ فَبِحِسَابٍ۔
(٩٩٦٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ دو سو دراہم سے جتنے زائد ہوجائیں ان پر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔

9964

(۹۹۶۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ وُہَیْبٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا زَادَ فَبِالْحِسَابِ۔
(٩٩٦٤) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ : (دو سو سے زائد دراہم پر) اسی کے حساب سے زکوۃ آئے گی۔

9965

(۹۹۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : مَا زَادَ فَبِالْحِسَابِ۔
(٩٩٦٥) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ دو سو سے زائد پر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔

9966

(۹۹۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنَ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ عِشْرِینَ دِینَارًا شَیْئٌ ، وَفِی عِشْرِینَ دِینَارًا نِصْفُ دِینَارٍ ، وَفِی أَرْبَعِینَ دِینَارًا دِینَارٌ ، فَمَا زَادَ فَبِالْحِسَابِ۔
(٩٩٦٦) حضرت علی فرماتے ہیں کہ بیس دیناروں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے اور بیس دینار پر نصف دینار اور چالیس دیناروں پر ایک دینار زکوۃ ہے اور جتنے اس سے زائد ہوں ان پر اسی حساب سے زکوۃ ہے۔

9967

(۹۹۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی عِشْرِینَ مِثْقَالاً نِصْفُ مِثْقَالٍ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مِثْقَالاً مِثْقَالٌ۔
(٩٩٦٧) امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ بیس مثقالوں پر نصف مثقال اور چالیس مثقالوں پر ایک مثقال زکوۃ ہے۔

9968

(۹۹۶۸) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : فِی أَرْبَعِینَ دِینَارًا دِینَارٌ ، وَفِی عِشْرِینَ دِینَارًا نِصْفُ دِینَارٍ۔
(٩٩٦٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ چالیس دینار پر ایک دینار اور بیس دینار پر نصف دینار زکوۃ ہے۔

9969

(۹۹۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی عِشْرِینَ دِینَارًا نِصْفُ دِینَارٍ۔
(٩٩٦٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ بیس دینار پر نصف دینار زکوۃ ہے۔

9970

(۹۹۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ عِشْرِینَ مِثْقَالاً شَیْئٌ ، وَفِی عِشْرِینَ نِصْفُ مِثْقَالٍ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مِثْقَالاً مِثْقَالٌ۔
(٩٩٧٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ : بیس مثقال سے کم میں کچھ نہیں ہے (زکوۃ نہیں ہے) ۔ اور بیس مثقال پر نصف مثقال اور چالیس مثقال پر ایک مثقال زکوۃ ہے۔

9971

(۹۹۷۱) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ رُزَیْقٍ مَوْلَی بَنِی فَزَارَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ إلَیْہِ حِینَ اُسْتُخْلِفَ : خُذْ مِمَّنْ مَرَّ بِکَ مِنْ تُجَّارِ الْمُسْلِمِینَ فِیمَا یُدِیرُونَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ ، مِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ دِینَارًا دِینَارًا ، فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ مَا نَقَصَ حَتَّی یَبْلُغَ عشرین ، فَإِذَا نَقَصَتْ ثُلُثَ دِینَارٍ فَدَعْہَا ، لاَ تَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا ، وَاکْتُبْ لَہُمْ بَرَائَۃً بِمَا تَأْخُذُ مِنْہُمْ إلَی مِثْلِہَا مِنَ الْحَوْلِ ، وَخُذْ مِمَّنْ مَرَّ بِکَ مِنْ تُجَّارِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ ، فِیمَا یُظْہِرُونَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَیُدِیرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ ، مِنْ کُلِّ عِشْرِینَ دِینَارًا دِینَارًا ، فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ مَا نَقَصَ حَتَّی یَبْلُغَ عَشَرَۃَ دَنَانِیرَ ، فَإِذَا نَقَصَتْ ثُلُثَ دِینَارٍ فَدَعْہَا ، لاَ تَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا ، وَاکْتُبْ لَہُمْ بَرَائَۃً إلَی مِثْلِہَا مِنَ الْحَوْلِ بِمَا تَأْخُذُ مِنْہُمْ۔
(٩٩٧١) حضرت رزیق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے مجھے خلیفہ بنایا تو مجھے خط لکھا کہ مسلمان تاجروں میں سے جو کوئی تیرے پاس سے اپنا مال لے کر گذرے تو ہر چالیس دینار پر ایک دینار زکوۃ لینا، اور جو اس سے کم ہو تو اس میں اس حساب سے یہاں تک کہ بیس درہم ہوجائیں اور جب اس سے ثلث دینار کم ہوجائے تو پھر کچھ نہ لینا چھوڑ دینا اور جو کچھ تو نے ان سے لیا ہے اس میں ان کیلئے سال کیلئے بری ہونا لکھ دے۔ اور اہل ذمہ میں سے کوئی تاجر تیرے پاس سے گذرے وہ مال لے کر جس کو ظاہر کیا جاتا ہے اور تجارت میں لگایا جاتا ہے تو ہر بیس دینار پر ایک دینار زکوۃ وصول کرنا، اور جو اس سے کم ہو اس پر اسی حساب سے یہاں تک کہ دس دینار رہ جائیں اور جب اس میں ثلث دینار کم ہوجائے تو چھوڑ دے اس پر کچھ وصول نہ کر، اور ان کیلئے بھی جو تو نے وصول کیا ہے اس میں سال کیلئے برأت لکھ دے۔

9972

(۹۹۷۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللہِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَیْسَ فِیمَا دُونَ أَرْبَعِینَ مِثْقَالاً مِنَ الذَّہَبِ صَدَقَۃٌ۔
(٩٩٧٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ چالیس مثقال سے کم سونے پہ زکوۃ نہیں ہے۔

9973

(۹۹۷۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی عِشْرِینَ دِینَارًا زَکَاۃً ، حَتَّی تَکُونَ عِشْرِینَ مِثْقَالاً ، فَیَکُون فِیہَا نِصْفُ مِثْقَالٍ۔
(٩٩٧٣) حضرت ابو غنیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکم بیس دینار سے کم پر زکوۃ نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ بیس مثقال ہوجائیں تو ان پر نصف مثقال ہے۔

9974

(۹۹۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ قَالَ : کَانَ لِاِمْرَأَۃِ عَبْدِ اللہِ طَوْقٌ فِیہِ عِشْرُونَ مِثْقَالاً ، فَأَمَرَہَا أَنْ تُخْرِجَ مِنْہُ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ۔
(٩٩٧٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کی اہلیہ کا ہار بیس مثقال کا تھا، تو اس کو حکم دیا کہ اس کی زکوۃ پانچ درھم ادا کرو۔

9975

(۹۹۷۵) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ أَشعث ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی عِشْرِینَ دِینَارًا نِصْفُ دِینَارٍ ، وَفِی أَرْبَعِینَ دِینَارًا دِینَارٌ۔
(٩٩٧٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ بیس دینار پر نصف دینار اور چالیس دینار پر ایک دینار زکوۃ ہے۔

9976

(۹۹۷۶) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِینَ دِینَارًا شَیْئٌ۔
(٩٩٧٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ چالیس دینار سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

9977

(۹۹۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : لاَ یَکُونُ فِی مَالٍ صَدَقَۃٌ حَتَّی یَبْلُغَ عِشْرِینَ دِینَارًا ، فَإِذَا بَلَغَتْ عِشْرِینَ دِینَارًا فَفِیہَا نِصْفُ دِینَارٍ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعَۃِ دَنَانِیرَ یَزِیدُہَا الْمَالُ دِرْہَمٌ ، حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعِینَ دِینَارًا ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ دِینَارًا دِینَارٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعَۃٍ وَعِشْرِینَ دِینَارًا نِصْفُ دِینَارٍ وَدِرْہَمٌ۔
(٩٩٧٧) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں آئے گی یہاں تک کہ وہ بیس دینار ہوجائیں، جب بیس دینار ہوجائیں تو ان پر نصف دینار زکوۃ ہے اور ہر چار دیناروں پر جو اس سے زائد ہو ایک درہم آتا رہے گا یہاں تک کہ وہ چالیس ہوجائیں اور ہر چالیس پر ایک دینار ہے اور چوبیس دینار پر نصف دینار اور ایک درھم ہے۔

9978

(۹۹۷۸) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَن رَجُلٍ لَہُ مِئَۃ دِرْہَمٍ وَعَشَرَۃُ دَنَانِیرَ ؟ قَالَ : یُزَکِّی مِنَ الْمِئَۃِ دِرْہَم دِرْہَمَیْنِ وَنصفًا ، وَمِنَ الدَّنَانِیرِ بِرُبْعِ دِینَارٍ ۔ قَالَ : وَسَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ ، فَقَالَ : یُحْمَلُ الأَکْثَرُ عَلَی الأَقَلِّ ۔ أَوَ قَالَ : الأَقَلُّ عَلَی الأَکْثَرِ ، فَإِذَا بَلَغَتْ فِیہِ الزَّکَاۃُ زَکَّاہ۔
(٩٩٧٨) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس سو درھم اور دس دینار ہوں تو اس پر کتنی زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا : سو دراہم میں اڑھائی درہم اور دینار میں ربع دینار زکوۃ ادا کرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ کہ پھر میں نے امام شعبی سے یہی سوال کیا ! انھوں نے فرمایا : اکثر کو اقل پر محمول کریں گے یا فرمایا (راوی کو شک ہے) اقل کو اکثر پر محمول کریں گے، اور جب وہ نصاب زکوۃ کی مقدار کو پہنچ جائیں تو اس میں زکوۃ ہے۔

9979

(۹۹۷۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَکْحُولٍ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، إنَّ لِی سَیْفًا فِیہِ خَمْسُونَ وَمِئَۃُ دِرْہَمٍ ، فَہَلْ عَلَیَّ فِیہِ زَکَاۃٌ ، قَالَ : أَضِفْ إلَیْہِ مَا کَانَ لَکَ مِنْ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ ، فَإِذَا بَلَغَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ ، فَعَلَیْک فِیہِ الزَّکَاۃُ۔
(٩٩٧٩) حضرت عبید اللہ بن عبید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول سے سوال کیا کہ اے ابو عبداللہ میرے پاس ایک تلوار ہے اس میں ایک سو پچاس درہم ہیں کہ کیا اس پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ ملا لے اگر تیرے پاس سونا یا چاندی ہو، اور جب وہ دو سو درہم سونے کے اور چاندی کے ہوجائیں تب ان میں زکوۃ ہے۔

9980

(۹۹۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَنْصَارِیُّ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا کَانَتْ لَہُ ثَلاَثُونَ دِینَارًا وَمِئَۃُ دِرْہَمٍ کَانَ عَلَیْہِ فِیہَا الصَّدَقَۃُ ، وَکَانَ یَرَی الدَّرَاہِمَ وَالدَّنَانِیرَ عَیْنًا کُلَّہُ۔
(٩٩٨٠) حضرت اشعث سے مروی ہے کہ حضرت حسن فرماتے تھے کہ جب تمہارے پاس تیس دینار اور سو درہم ہوجائیں تو اس پر زکوۃ ہے، اور حضرت حسن درہم اور دینار کو سب کا سب عین شمار کرتے تھے۔

9981

(۹۹۸۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ کِتَابَ الصَّدَقَۃِ فَقَرَنَہُ بِسَیْفِہِ ، أَوَ قَالَ : بِوَصِیَّتِہِ ، وَلَمْ یُخْرِجْہُ حَتَّی قُبِضَ ، فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی ہَلَکَ ، ثُمَّ عَمِلَ بِہِ عُمَرُ ، فَکَانَ فِیہِ : فِی خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاۃٌ ، وَفِی عَشْرٍ شَاتَانِ ، وَفِی خَمْسَۃَ عَشَرَ ثَلاَثُ شِیَاہٍ ، وَفِی عِشْرِینَ أَرْبَعُ شِیَاہٍ ، وَفِی خَمْسٍ وَعِشْرِینَ بِنْتُ مَخَاضٍ إلَی خَمْسٍ وَثَلاَثِینَ ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِیہَا بِنْتُ لَبُونٍ إلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ ، فَإِذَا زَادَتْ فَحِقَّۃٌ إلَی سِتِّینَ ، فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَۃٌ إلَی خَمْسٍ وَسَبْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ فَابْنَتَا لَبُونٍ إلَی تِسْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ فَحِقَّتَانِ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِنْ زَادَتْ عَلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ ، لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیطَیْنِ ، فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِیَّۃِ۔ (ترمذی ۶۲۱۔ ابوداؤد ۱۵۶۲)
(٩٩٨١) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ کے احکام لکھوائے اور ان کو تلوار کے ساتھ ملا کررکھایا (راوی کو شک ہے) وصیت کیساتھ، اور اس کو نکالا نہیں یہاں تک کہ آپ کی روح مبارک قبض کرلی گئی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے تشریف لے گئے تو اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے عمل کیا یہاں تک کہ صدیق اکبر بھی دنیا سے چلے گئے پھر اس پر حضرت عمر نے عمل کیا، اس میں لکھا ہوا تھا کہ پانچ اونٹوں پہ ایک بکری ہے، دس پر دو بکریاں، پندرہ پہ تین بکریاں، بیس پہ چار بکریاں، پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض (ایک سال کا اونٹ جس کا دوسرا سال چل رہا ہو) ہے پینتیس تک، اور جب پینتیس سے زائد ہوجائیں تو ان پر ایک بنت لبون (دو سال کا اونٹ جس کا تیسرا چل رہا ہو) ہے پینتالیس تک، اور جب پینتالیس سے زائد ہوجائیں تو ان پر ساٹھ تک ایک حقہ ہے (تین سال کا اونٹ جس کا چوتھا چل رہا ہو) اور جب ساٹھ سے زائد ہوجائیں تو ان پر جذعہ (چار سال کا اونٹ جس کا پانچواں سال چل رہا ہو) ہے پچھتر تک، پھر جب پچھتر سے زائد ہوجائیں تو نوے تک دو بنت لبون ہیں۔ اور پھر نوے سے زائد ہوجائیں تو ایک سو بیس تک اس پر دو حقے ہیں، اور جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون ہے، متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اور جمع کو متفرق نہیں کیا جائے گا (اگر مویشی متفرق اور متعدد جگہوں میں ہیں تو انھیں زکوۃ لیتے وقت یا دیتے وقت ایک جگہ جمع نہیں کیا جائے گا اور ایک جگہ ہیں تو انھیں متعدد جگہوں اور چراگاہوں مں ع تقسیم نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے یہاں مکان اور چراگاہ کے مختلف اور متعدد ہونے سے زکوۃ میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے ہاں صرف ملک کا اختلاف اور تعدد زکوۃ پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے اس حدیث کی تفریق و اجتماع سے صرف ملکیت کی حد تک تعدد اور اجتماع مراد ہے) ، اور دو شریک اپنا حساب خود آپس میں برابر کرلیں گے (یعنی دو آدمی کسی کام تجارت وغیرہ میں شریک ہیں تو جب زکوۃ وصول کرنے والا افسر آئے گا تو وہ اس کا انتظار نہیں کرے گا کہ یہ شرکاء اپنے مال کو تقسیم کرلیں اور پھر ان کے سرمایہ سے الگ الگ زکوۃ لی جائے بلکہ پورے سرمایہ میں جو زکوۃ واجب ہوگی افسر اس واجب زکوۃ کو لے لے گا، اب یہ شرکاء کا کام ہے کہ حساب کے مطابق واجب شدہ زکوۃ کے حصے تقسیم کریں) ۔

9982

(۹۹۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، وَزِیَادِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عْن عَبْدِ اللہِ قَالَ : فِی خَمْسٍ وَعِشْرِینَ مِنَ الإِبِلِ بِنْتُ مَخَاضٍ۔
(٩٩٨٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ پچیس اونٹوں پر بنت مخاض واجب ہے۔

9983

(۹۹۸۳) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فِی خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاۃٌ إلَی تِسْعٍ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا شَاتَانِ إلَی أَرْبَعَ عَشْرَۃَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی تِسْعَ عَشْرَۃَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا أَرْبَعٌ إلَی أَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا خَمْسُ شِیَاہٍ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتُ مَخَاضٍ ، أَوِ ابْنُ لَبُونٍ ذَکَرٌ ، أَکْبَرُ مِنْہَا بِعَامٍ إلَی خَمْسٍ وَثَلاَثِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتُ لَبُونٍ إلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا حِقَّۃٌ طَرُوقَۃُ الْفَحْلِ إلَی سِتِّینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا جَذَعَۃٌ إلَی خَمْسٍ وَسَبْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتَا لَبُونٍ إلَی تِسْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا حِقَّتَانِ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ مِنَ الإِبِلِ حِقَّۃٌ ، وَلاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ۔
(٩٩٨٣) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ پانچ اونٹوں پہ ایک بکری ہے نو تک، جب نو سے ایک زائد ہوجائے تو چودہ تک دو بکریاں ہیں، جب اس پر ایک زائد ہوجائے تو انیس تک تین بکریاں ہیں، اور جب انیس سے ایک زائد ہوجائے تو چوبیس تک چار بکریاں ہیں، اور اس پر ایک اونٹ زائد ہوجائے تو پانچ بکریاں ہیں، اور جب پچیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو اس پر بنت مخاض یا ابن لبون جو مذکر ہو اور جو اس سے ایک سال بڑا ہوتا ہے وہ دینا پڑے گا پینتیس تک، اور جب پینتیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو اس پر ایک بنت لبون آئے گا پینتالیس تک، اور جب پینتالیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو ساٹھ تک ایک طاقتور نر حقہ آئے گا، اور جب ساٹھ سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو پچھتر تک ایک جذعہ آئے گا، اور جب پچھتر سے ایک زائد ہوجائے تو نوے تک دو بنت لبون آئیں گے اور جب نوے سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو ایک سو بیس تک دو حقے آئیں گے۔ اور جب اونٹ ایک سو بیس سے بھی زائد ہوجائیں تو ہر پچاس اونٹوں پر ایک حقہ ہے جمع کو متفرق نہیں کیا جائے گا اور متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

9984

(۹۹۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : وُجِدَ فِی وَصِیَّۃِ عُمَرَ : فِی خَمْسٍ وَعِشْرِینَ مِنَ الإِبِلِ بِنْتُ مَخَاضٍ۔
(٩٩٨٤) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کی وصیت میں یہ لکھا ہوا پایا گیا تھا کہ پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض ہے۔

9985

(۹۹۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ (ح) وَعَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : فِی خَمْسٍ وَعِشْرِینَ بِنْتُ مَخَاضٍ۔
(٩٩٨٥) حضرت فضیل اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض اونٹ زکوۃ ہے۔

9986

(۹۹۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ بَہزِ بْنِ حَکِیمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : فِی کُلِّ إبِلٍ سَائِمَۃٍ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ ، لاَ یُفَرَّقُ إبِلٌ عَنْ حِسَابِہَا ، مَنْ أَعْطَاہَا مُؤْتَجِرًا فَلَہُ أَجْرُہُ ، عَزْمَۃٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا ، لاَ یَحِلُّ لآلِ مُحَمَّدٍ مِنْہَا شَیْئٌ۔ (ابوداؤد ۱۵۶۹۔ احمد ۵/۴)
(٩٩٨٦) حضرت بہز بن حکیم اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چرنے والے اونٹ اگر چالیس ہوجائیں تو اس پر ایک بنت لبون زکوۃ ہے، اونٹ کو اس کے حساب سے جدا نہیں کریں گے، اور جو شخص زکوۃ ادا کرے اللہ تعالیٰ سے اجر طلب کرتے ہوئے تو اس کے لیے اس کا اجر ہے، عزیمۃ ہے ہمارے رب کی عزیمتوں میں سے۔ ال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے زکوۃ میں سے کوئی چیز بھی حلال نہیں ہے۔

9987

(۹۹۸۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ۔
(٩٩٨٧) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جب اونٹ زیادہ ہوجاتے تو حضرت عمر ہر پچاس پر ایک حقہ وصول فرماتے اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون وصول فرماتے۔

9988

(۹۹۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی کُلِّ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ بِنْتُ مَخَاضٍ۔
(٩٩٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض زکوۃ ہے۔

9989

(۹۹۸۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ، قَالَ: کَانَ فِی الْکِتَابِ الَّذِی کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حِینَ بَعَثَہُمْ یُصَدِّقُونَ فِی الإِبِلِ : إذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِینَ فَفِیہَا بِنْتُ مَخَاضٍ ، فَإِنْ زَادَتْ فَابْنُ لَبُونٍ ذَکَرٌ۔
(٩٩٨٩) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان سے زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تو ان کو ایک خط لکھا، آپ نے لکھا کہ پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض زکوۃ ہے اور جب اس سے زائد ہوجائیں تو ایک مذکر ابن لبون زکوۃ ہے۔

9990

(۹۹۹۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : فِی خَمْسٍ وَعِشْرِینَ بِنْتُ مَخَاضٍ۔
(٩٩٩٠) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ پچیس اونٹوں پر ایک بنت مخاض زکوۃ ہے۔

9991

(۹۹۹۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْیَمَنِ أَنْ یُؤْخَذَ مِنَ الإِبِلِ مِنْ کُلِّ خَمْسٍ شَاۃٌ ، وَمِنْ کُلِّ عَشْرٍ شَاتَانِ ، وَمِنْ خَمْسَۃَ عَشَرَ ثَلاَثُ شِیَاہٍ ، وَمِنْ عِشْرِینَ أَرْبَعُ شِیَاہٍ ، وَمِنْ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ خَمْسُ شِیَاہٍ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتُ مَخَاضٍ إلَی خَمْسٍ وَثَلاَثِینَ ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی الإِبِلِ بِنْتَ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَکَرٌ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتُ لَبُونٍ إلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا حِقَّۃٌ إلَی سِتِّینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا جَذَعَۃٌ إلَی خَمْسٍ وَسَبْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا بِنْتَا لَبُونٍ إلَی تِسْعِینَ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا حِقَّتَانِ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ ، وَلاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ تَیْسٌ ، وَلاَ ہَرِمَۃٌ ، وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ ۔ قَالَ الأَجْلَحُ : فَقُلْتُ لِلشَّعْبِیِّ : مَا یَعْنِی بِقَوْلِہِ : لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ ؟ قَالَ : الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْغَنَمُ فَلاَ یُفَرِّقُہَا کَیْ لاَ یُؤْخَذَ مِنْہَا صَدَقَۃٌ ، وَلاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ الْقَوْمُ تَکُونُ لَہُمَ الْغَنَمُ لاَ تَجِبُ فِیہَا الزَّکَاۃُ ، فَلاَ تُجْمَعُ فَتُؤْخَذُ مِنْہَا الصَّدَقَۃُ۔
(٩٩٩١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن (کے قاضی کو) لکھا : پانچ اونٹوں پر ایک بکری زکوۃ ہے، اور دس اونٹوں پر دو بکریاں، اور پندرہ اونٹوں پہ تین بکریاں اور بیس اونٹوں پہ چار اور پچیس اونٹوں پہ پانچ بکریاں اور پچیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو اس پر بنت مخاض ہے پینتیس اونٹوں تک، اور اگر زکوۃ میں دینے کیلئے بنت مخاض نہ پائے تو مذکر ابن لبون دیدے۔ اور جب پینتیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو پینتالیس تک ایک بنت لبون ہے، جب پینتالیس سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو ساٹھ تک ایک حقہ ہے، جب ساٹھ اونٹوں سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو پچھتر اونٹوں تک ایک جذعہ ہے اور جب پچھتر سے ایک زائد ہوجائے تو اس پر دو بنت لبون ہیں۔ نوے تک اسی طرح ہے، جب نوے سے ایک اونٹ زائد ہوجائے تو ایک سو بیس تک دو حقے ہیں، پھر جب اونٹ ایک سے بیس سے بھی زائد ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون آئے گا، اور متفرق کو جمع اور جمع کو متفرق نہیں کیا جائے گا اور زکوۃ وصول کرتے وقت بہت چھوٹا یا بہت بوڑھا جانور وصول نہیں کیا جائے گا (بلکہ درمیانہ وصول کیا جائے گا) اور نہ کانا اور بہت کمزور جانور وصول کیا جائے گا۔
اجلح راوی فرماتے ہیں کہ میں نے امام شعبی سے پوچھا کہ لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی کے پاس چوپائے ہوں تو وہ اس نیت سے ان کو متفرق نہ کرے تاکہ متفرق (جب نصاب زکوۃ نہ پہنچے تو اس پر) پر زکوۃ نہ آئے اور نہ ہی متفرق کو جمع کرے یعنی کسی قوم کے پاس چوپائے تو ہوں لیکن ان پہ زکوۃ نہ آرہی ہو تو مصدق (زکوۃ وصول کرنے والا) ان سب کو ایک ساتھ جمع کر کے زکوۃ وصول نہ کرے۔

9992

(۹۹۹۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِنْ لَمْ تَکُنْ إِلاَّ أَرْبَعٌ مِنَ الذَّوْدِ فَلَیْسَ فِیہَا صَدَقَۃٌ۔
(٩٩٩٢) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تمہارے پاس چار ذود اونٹوں کے علاوہ کچھ نہ ہو (وہ اونٹ جن کی عمر تین سے لیکر دس تک ہو) تو ان پر زکوۃ نہیں ہے۔

9993

(۹۹۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ ، أَنَّہُمَا قَالاَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسٍ مِنْ الإِبِلِ صَدَقَۃٌ۔
(٩٩٩٣) حضرت علی اور حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

9994

(۹۹۹۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ کَانَ یَقُولُ : عِنْدَنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِی صَدَقَۃِ الإِبِلِ ، فَلَمْ یَسْأَلْنَا عَنْہُ أَحَدٌ ، حَتَّی قَدِمَ عَلَیْنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَأَرْسَلْنَا بِہِ إلَیْہِ ، فَکَانَ فِی الْکِتَابِ الَّذِی کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حِینَ بَعَثَہُمْ یُصَدِّقُونَ : أَنْ لَیْسَ فِی الإِبِلِ صَدَقَۃٌ حَتَّی تَبْلُغَ خَمْسًا۔
(٩٩٩٤) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت سالم بن عبداللہ فرماتے تھے کہ ہمارے پاس اونٹوں کی زکوۃ سے متعلق حضرت عمر بن خطاب کا لکھا ہوا فرمان موجود ہے، ہم سے کسی شخص نے بھی سوال نہیں کیا یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور آگیا۔ تو ہم نے وہ مکتوب ان کو ارسال کردیا تو وہ مکتوب جس میں لکھا تھا حضرت عمر بن عبد العزیز نے جب ان کو زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا کہ ” اونٹوں پر تب تک زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ پانچ نہ ہوجائیں۔

9995

(۹۹۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَۃٌ۔
(٩٩٩٥) حضرت ابو سعید الخدری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

9996

(۹۹۹۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسِ ذَوْدٍ شَیْئٌ۔
(٩٩٩٦) حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

9997

(۹۹۹۷) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ شَیْبَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَۃٌ۔ (احمد ۲/۹۲۔ بزار ۸۸۸)
(٩٩٩٧) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

9998

(۹۹۹۸) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَۃٌ۔ (احمد ۲/۴۰۳۔ طحاوی ۳۵)
(٩٩٩٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

9999

(۹۹۹۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ کِتَابَ الصَّدَقَۃِ ، فَقَرَنَہُ بِسَیْفِہِ ، أَوَ قَالَ : بِوَصِیَّتِہِ فَلَمْ یُخْرِجْہُ حَتَّی قُبِضَ ، عَمِلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی ہَلَکَ ، ثُمَّ عَمِلَ بِہِ عُمَرُ حَتَّی ہَلَکَ ، فَکَانَ فِیہِ : فِی الإِبِلِ إذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ ابْنَۃُ لَبُونٍ۔
(٩٩٩٩) حضرت ابن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ کے بارے میں لکھا تو اس کو اپنی تلوار کے ساتھ رکھ دیا یا (راوی کو شک ہے) وصیت کے ساتھ اس لکھے ہوئے کو نہیں نکالا مرنے تک پھر آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اس پر مرنے تک عمل کرتے رہے پھر آپ کے بعد حضرت عمر مرنے تک اس پر عمل کرتے رہے۔ اس میں لکھا ہوا تھا : اونٹ جب ایک سو سے بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون زکوۃ ہے۔

10000

(۱۰۰۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ۔
(١٠٠٠٠) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اونٹ زیادہ ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ زکوۃ ہے۔

10001

(۱۰۰۰۱) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْیَمَنِ : إذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ۔
(١٠٠٠١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن (کے قاضی کی طرف) لکھا تھا کہ جب اونٹ زیادہ ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون آئے گا۔

10002

(۱۰۰۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: وُجِدَ فِی وَصِیَّۃِ عُمَرَ: مَا زَادَ عَلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ ، وَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ۔
(١٠٠٠٢) نافع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کی وصیت میں یہ بات پائی تھی کہ جب اونٹ ایک سو بیس سے زیادہ ہوجائیں تو ہر چالیس پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حقہ زکوۃ ہے۔

10003

(۱۰۰۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا کَثُرَتِ الإِبِلُ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ۔
(١٠٠٠٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب اونٹ (ایک سو بیس سے) زیادہ ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ آئے گا۔

10004

(۱۰۰۰۴) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّ سَالِمًا کَانَ یَقُولُ : عِنْدَنَا کِتَابُ عُمَرَ فِی صَدَقَۃِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ ، حَتَّی قَدِمَ عَلَیْنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ ، فَکَانَ فِی الْکِتَابِ الَّذِی کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ حِینَ بَعَثَہُمْ یُصْدِقُونَ : إِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ فَفِی کُلِّ خَمْسِینَ حِقَّۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بِنْتُ لَبُونٍ۔
(١٠٠٠٤) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر پہنچی ہے کہ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اونٹوں اور بکریوں کی زکوۃ سے متعلق حضرت عمر کا مکتوب موجود تھا یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور خلافت آگیا۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز نے زکوۃ وصول کرنے والوں کو بھیجا تو لکھا کہ جب اونٹ ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس پر ایک حقہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون زکوۃ ہے۔

10005

(۱۰۰۰۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ اسْتَقْبَلَ بِہَا الْفَرِیضَۃَ.
(١٠٠٠٥) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے بڑھ جائے تو زکوۃ کے فریضے کو از سر نو شروع کیا جائے گا۔

10006

(۱۰۰۰۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ مِثْلَہُ.
(١٠٠٠٦) حضرت ابراہیم سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

10007

(۱۰۰۰۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِیِّ الأَحْمَسِیِّ ، قَالَ: أَبْصَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَۃً حَسَنَۃً فِی إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ ؟ قَالَ صَاحِبُ الصَّدَقَۃِ : إنِّی ارْتَجَعْتہَا بِبَعِیرَیْنِ مِنْ حَوَاشِی الإِبِلِ ، قَالَ : فَقَالَ : فَنَعَمْ إذًا. (احمد ۴/۳۴۹۔ طبرانی ۷۴۱۷)
(١٠٠٠٧) حضرت صنابحی احمسی فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر زکوۃ کے اونٹوں میں سے ایک حسین اور خوبصورت اونٹ پر ٹھہری۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ زکوۃ وصول کرنے والے عرض کیا کہ میں نے دو چھوٹے اونٹ واپس کر کے یہ اونٹ لیا ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا پھر ٹھیک ہے۔

10008

(۱۰۰۰۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ ہِلاَلِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ مَیْسَرَۃَ أَبِی صَالِحٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُوَیْد بْنُ غَفَلَۃَ ، قَالَ : أَتَانَا مُصَدِّقُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَتَیْتَہُ فَجَلَسْتُ إلَیْہِ ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : إنَّ فِی عَہْدِی أَنْ لاَ آخُذَ مِنْ رَاضِعِ لَبَنٍ ، وَلاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَرِّقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ ، قَالَ : وَأَتَاہُ رَجُلٌ بِنَاقَۃٍ کَوْمَائَ ، فَأَبَی أَنْ یَأْخُذَہَا. (ابوداؤد ۱۵۷۳۔ طبرانی ۶۴۷۳)
(١٠٠٠٨) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہمارے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زکوۃ کی وصول یابی کے مقرر کردہ شخص آیا۔ میں اس کے پاس بیٹھا، وہ کہہ رہا تھا کہ بیشک میں نے دودھ پینے والا جانور وصول نہیں کیا، اور متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اور جمع کو متفرق نہیں کیا جائے گا ۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص بڑے والے کو ہان والا اونٹ لیکر آیا تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔

10009

(۱۰۰۰۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُصَدِّقًا ، فَقَالَ : لاَ تَأْخُذْ مِنْ حَزَرَاتِ أَنْفُسِ النَّاسِ شَیْئًا ، وَخُذِ الشَّارِفَ ، وَذَاتَ الْعَیْبِ. (بیہد ۱۰۲)
(١٠٠٠٩) حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ وصول کرنے والے کو بھیجا تو اس کو فرمایا کہ : لوگوں کے بہترین مال کو وصول نہ کرنا بلکہ ان کے بوڑھے اور عیب والے جانور وصول کرنا۔

10010

(۱۰۰۱۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ قَیْسٍ ، قَالَ : أَبْصَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاقَۃً حَسَنَۃً فِی إبِلِ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : مَا أَمْرُ ہَذِہِ النَّاقَۃِ ؟ فَقَالَ صَاحِبُ الصَّدَقَۃِ : یَا رَسُولَ اللہِ ، عَرَفْتُ حَاجَتَکَ إلَی الظَّہْرِ ، فَارْتَجَعْتہَا بِبَعِیرَیْنِ مِنَ الصَّدَقَۃِ.
(١٠٠١٠) حضرت قیس فرماتے ہیں کہ زکوۃ کے اونٹوں میں سے ایک خوبصورت اونٹ پہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر پڑی تو آپ نے فرمایا اس اونٹنی کا کیا معاملہ ہے ؟ تو زکوۃ وصول کرنے والے نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ کو سواری کی ضرورت ہے تو میں نے دو اونٹوں کے بدلے اسے لے لیا۔

10011

(۱۰۰۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ عُمَرَ مَرَّتْ بِہِ غَنَمُ مِنْ غَنَمِ الصَّدَقَۃِ ، فَرَأَی فِیہَا شَاۃً ذَاتَ ضَرْعٍ ، فَقَالَ : مَا ہَذِہِ ؟ قَالُوا : مِنْ غَنَمِ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : مَا أَعْطَی ہَذِہِ أَہْلُہَا وَہُمْ طَائِعُونَ ، لاَ تَفْتِنُوا النَّاسَ ، لاَ تَأْخُذُوا حَزَرَاتِ النَّاسِ ، نُکِبُوا عَنِ الطَّعَامِ.
(١٠٠١١) حضرت قاسم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر زکوۃ میں وصول شدہ بکریوں کے پاس سے گذرے تو آپ نے ایک دودھ پیتا بکری کا بچہ دیکھا، فرمایا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا زکوۃ کی بکریاں ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا : یہ نہیں دیا اس کے مالکوں نے اس حال میں کہ وہ خوش ہوں، لوگوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرو اور زکوۃ وصول کرتے وقت بہترین مال وصول نہ کیا کرو۔ اس کے کھانے سے دور رہو۔

10012

(۱۰۰۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَیْفِیٍّ ، عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مُعَاذٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إیَّاکَ وَکَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ ، حِینَ بَعَثَہُ إلَی الْیَمَنِ.
(١٠٠١٢) حضرت معاذ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا : (زکوۃ وصول کرتے وقت) لوگوں کے بہترین مال سے بچنا۔

10013

(۱۰۰۱۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ. (ترمذی ۶۲۲۔ احمد ۱/۴۱۱)
(١٠٠١٣) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیس گائے ہوجائیں تو اس پر زکوۃ ایک تبیع (ایک سالہ نر) یا تبیعہ (یا ایک سال کا مادہ) ہے اور چالیس گائے پہ ایک مسنہ (گائے کا بچہ جو دو سال کا ہوجائے) ہے۔

10014

(۱۰۰۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مَسْرُوقٍ ، قَالَ : لَمَّا بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ ، أَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعًا ، أَوْ تَبِیعَۃً ، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃً ، وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا ، أَوْ عَدْلَہُ مَعَافِرَ. (ابوداؤد ۱۵۷۱)
(١٠٠١٤) حضرت مسروق سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو جب یمن بھیجا تو ان کو حکم دیا کہ تیس گائیوں پہ ایک تبیع یا تبیعہ زکوۃ وصول کرنا اور چالیس پر ایک مسنہ وصول کرنا اور ہر بالغ شخص سے ایک دینار لینا یا دینار کے بدلے کوئی اور چیز وصول کرنا جس کی قتمْ معافر کے کپڑوں کے برابر ہو۔ (معافر یمن کے ایک مقام کا نام ہے اس کی طرف نسبت ہے) ۔

10015

(۱۰۰۱۵) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْیَمَنِ : أَنْ یُؤْخَذَ مِنْ ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠١٥) حضرت شعبی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن لکھ کر بھیجا کہ : تیس گائے پر ایک تبیع یا تبیعہ وصول کرو اور چالیس پر مسنہ وصول کرو۔

10016

(۱۰۰۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَأَبِی وَائِلٍ ، قَالاَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ ، وَأَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعًا ، أَوْ تَبِیعَۃً ، وَمِنْ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃً ، وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا، أَوْ عَدْلَہُ مِنَ الْمَعَافِرِ. (ابوداؤد ۱۵۷۰۔ نسائی ۲۲۳۲)
(١٠٠١٦) حضرت ابراہیم اور حضرت ابو وائل سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو جب یمن بھیجا تو ان کو حکم دیا کہ تیس گائیوں پہ ایک تبیع یا تبیعہ زکوۃ وصول کرنا اور چالیس پر ایک مسنہ وصول کرنا اور ہر بالغ شخص سے ایک دینار لینا یا دینار کے بدلے کوئی اور چزچ وصول کرنا جس کی قیمت معافر کے کپڑوں کے برابر ہو۔ (معافر یمن کے ایک مقام کا نام ہے اس کی طرف نسبت ہے)

10017

(۱۰۰۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إذَا بَلَغَتْ ثَلاَثِینَ فَفِیہَا تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ حَوْلِیٌّ ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیہَا مُسِنَّۃٌ ، ثَنِیَّۃٌ فَصَاعِدًا.
(١٠٠١٧) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تیس گائے ہوجائیں تو ایک تبیع یا تبیعہ جو ایک سالہ ہو دے گا اور جب چالیس ہوجائیں تو مسنہ جو دو سالہ یا اس سے بڑا ہو دے گا۔ (جس کے اوپر یا نیچے والے دو دانت ظاہر ہوں)

10018

(۱۰۰۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ مُعَاذًا قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ بَقَرَۃٌ.
(١٠٠١٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ مجھ تک حضرت معاذ کا یہ قول پہنچا ہے کہ تیس گائے پر ایک تبیع اور چالیس پر ایک بقرہ ہے۔

10019

(۱۰۰۱۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ جَذَعٌ ، أَوْ جَذعَۃٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠١٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ تیس گائے پہ ایک تبیع یا تبیعہ، جذع (گائے کا بچہ جو تین سال کا ہو) جذعہ (مادہ) اور چالیس پر ایک مسنہ زکوۃ دے گا۔

10020

(۱۰۰۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ شَہْرٍ ، قَالَ : فِی سَائِمَۃِ الْبَقَرِ ، فِی کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢٠) حضرت شہر فرماتے ہیں کہ چرنے والے گائے پر جب تیس ہوجائیں تو تبیع یا تبیعہ آئے گا اور چالیس پر مسنہ آئے گا۔

10021

(۱۰۰۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢١) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ تیس گائے پر ایک تبیع یا تبیعہ ہے اور چالیس پر ایک مسنہ ہے۔

10022

(۱۰۰۲۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : اُسْتُعْمِلْتُ عَلَی صَدَقَاتِ عَکٍّ ، فَلَقِیتُ أَشْیَاخًا مِمَّنْ صَدَّقَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَاخْتَلَفُوا عَلَیَّ ، فَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ اجْعَلْہَا مِثْلَ صَدَقَۃِ الإِبِلِ ، وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ فِی ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ ، وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ فِی أَرْبَعِینَ بَقَرَۃٍ بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ
(١٠٠٢٢) حضرت عکرمہ بن خالد فرماتے ہیں کہ مجھے زکوۃ کی وصول یابی کا فریضہ سونپا گیا، میں ان بزرگوں سے ملا جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں زکوۃ دیا کرتے تھے۔ ان حضرات نے اختلاف کیا، بعض نے فرمایا کہ اونٹوں کی زکوۃ کے مثل وصول کرو، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ تیس گائے پر ایک تبیع وصول کرو اور بعض نے کہا چالیس گائے پر ایک مسنہ وصول کرو۔

10023

(۱۰۰۲۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ جَذَعٌ ، أَوْ جَذَعَۃٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ تیس گائے پر تبیع یا تبیعہ، جذع یا جذعہ ہے اور چالیس پر مسنہ ہے۔

10024

(۱۰۰۲۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : إذَا بَلَغَتْ ثَلاَثِینَ فَفِیہَا تَبِیعٌ ، أَوْ تَبِیعَۃٌ ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیہَا مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢٤) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جب تیس ہوجائیں تو اس پر ایک تبیع یا تبیعہ ہے اور جب چالیس ہوجائیں تو اس پر ایک مسنہ ہے۔

10025

(۱۰۰۲۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ قَالَ : فِی ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ جَذَعٌ ، أَوْ جَذَعَۃٌ ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً بَقَرَۃٌ.
(١٠٠٢٥) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ تیس گائے پر ایک تبیع، جذع یا جذعہ ہے اور چالیس گائے پر ایک بقرہ ہے۔

10026

(۱۰۰۲۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ دِینَارٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ إلَی عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی سُوَیْد : أَنْ یَأْخُذَ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ بَقَرَۃً تَبِیعًا ، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً بَقَرَۃً ، وَلَمْ یَزِدْ عَلَی ذَلِکَ.
(١٠٠٢٦) حضرت صالح بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے حضرت عثمان بن محمد بن ابی سوید کو لکھا کہ تیس گائے پر ایک تبیع لینا، اور چالیس گائیوں پر ایک بقرہ وصول کرنا اور اس سے زیادہ وصول نہ کرنا۔

10027

(۱۰۰۲۷) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ؟ فَقَالاَ : فِی ثَلاَثِینَ جَذَعٌ ، أَوْ جَذَعَۃٌ ، وَفِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢٧) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حاکم اور حضرت حماد سے (گائے کی زکوۃ کے بارے میں) دریافت کیا تو انھوں نے نے فرمایا : تیس پر ایک جذع یا جذعہ ہے اور چالیس پر مسنہ ہے۔

10028

(۱۰۰۲۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرٌو ، قَالَ : کَانَ عُثْمانُ بْنُ الزُّبَیْرِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ وَغَیْرُہُ یَأْخُذُونَ مِنْ کُلِّ خَمْسِینَ بَقَرَۃً بَقَرَۃً.
(١٠٠٢٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ : مجھے حضرت عمرو نے خبر دی کہ حضرت عثمان بن زبیر بن ابو عوف وغیرہ پچاس گائیوں پر ایک بقرہ وصول کیا کرتے تھے۔

10029

(۱۰۰۲۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : إذَا بَلَغَتِ الْبَقَرُ ثَلاَثِینَ فَفِیہَا تَبِیعٌ ، أَوْ جَذَعٌ ، أَوْ جَذَعَۃٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعِینَ ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیہَا بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ.
(١٠٠٢٩) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ : جب تیس گائیں ہوجائیں تو ان پر زکوۃ ایک تبیع ہے، جذع یا جذعہ یہاں تک کہ چالیس ہوجائیں، جب چالیس گائیں ہوجائیں تو ان پر زکوۃ مسنہ ہے۔

10030

(۱۰۰۳۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ؛ أَنَّ نُعَیْمَ بْنَ سَلاَمَۃَ أَخْبَرَہُ، وَہُوَ الَّذِی کَانَ خَاتَمُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی یَدِہِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ دَعَا بِصَحِیفَۃٍ ، زَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ بِہَا إلَی مُعَاذٍ ، فَقَالَ نُعَیْمٌ : فَقُرِئَتْ وَأَنَا حَاضِرٌ ، فَإِذَا فِیہَا : مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعًا جَذَعٌ ، أَوْ جَذَعَۃٌ ، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ ، قَالَ نُعَیْمٌ : فَقُلْتُ : تَبِیعُ الْجَذَعِ ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ تَبِیعٌ جَذَعٌ.
(١٠٠٣٠) حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان فرماتے ہیں کہ نعیم بن سلامہ نے مجھے خبر دی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی مہر ان کے پاس تھی، حضرت عمر بن عبد العزیز نے ایک صحیفہ منگوایا، لوگوں نے گمان کیا کہ یہ وہی صحیفہ ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو لکھا تھا، حضرت نعمم فرماتے ہیں وہ صحیفہ آپ کے سامنے پڑھا گیا میں بھی اس موقع پر حاضر تھا اس میں لکھا تھا : تیس گائیوں پر ایک تبیع جذع یا جذعہ ہے، اور چالیس گائیں پر ایک مسنہ ہے۔ نعیم فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا تبیع الجذع حضرت عمر نے فرمایا تبیع جذع۔

10031

(۱۰۰۳۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ الثَّلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ شَیْئٌ.
(١٠٠٣١) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ تیس سے کم گائیوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10032

(۱۰۰۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ الثَّلاَثِینَ بَقَرَۃً شَیْئٌ.
(١٠٠٣٢) حضرت سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ تیس گائے سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

10033

(۱۰۰۳۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ، عَنْ زَکَرِیَّا، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَیْسَ فِیہَا شَیْئٌ.
(١٠٠٣٣) حضرت علی فرماتے ہیں کہ (تیس سے کم پر) کچھ نہیں ہے۔

10034

(۱۰۰۳۴) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃً ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ الثَّلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ شَیْئٌ.
(١٠٠٣٤) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ تیس گائیوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

10035

(۱۰۰۳۵) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ ابْن أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعًا ، أَوْ تَبِیعَۃً ، وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃً ، فَسَأَلُوہُ عَنْ فَضْلِ مَا بَیْنَہُمَا ؟ فَأَبَی أَنْ یَأْخُذَ حَتَّی سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لاَ تَأْخُذْ شَیْئًا. (احمد ۵/۲۴۰۔ مالک ۲۴)
(١٠٠٣٥) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو ان کو حکم فرمایا کہ تیس گائے پر ایک تبیع یا تبیعہ لینا اور چالیس پر ایک مسنہ، لوگوں نے سوال کیا کہ تیس اور چالیس کے درمیان جو زیادتی ہو اس پر کیا ہے ؟ آپ اس پر کچھ وصول کرنے سے رکے رہے یہاں تک کہ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس زیادتی پر کچھ وصول نہ کرنا۔

10036

(۱۰۰۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الأَوْقَاصِ شَیْئٌ.
(١٠٠٣٦) حضرت معاذ ارشاد فرماتے ہیں کہ اوقاص میں کچھ نہیں ہے۔ (اوقاص یہ وقص کی جمع ہے، دو فریضوں کے درمیانی عدد مراد ہے، جیسے چالیس اور تیس کے درمیان)

10037

(۱۰۰۳۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الأَشْنَاقِ شَیْئٌ.
(١٠٠٣٧) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ اشناق میں کچھ نہیں ہے۔ (اشناق یہ شنق کی جمع ہے، دو فریضوں کے درمیانی عدد پر بولا جاتا ہے۔ لیکن دونوں لفظوں میں فرق اس طرح ہے کہ وقص خاص ہے گائے کے ساتھ اور شنق خاص ہے اونٹ کے ساتھ) ۔

10038

(۱۰۰۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فِی أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃٌ ، وَفِی ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ ، وَلَیْسَ فِی النَّیِّفِ شَیْئٌ.
(١٠٠٣٨) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ چالیس گائے پر ایک مسنہ ہے اور تیس پر ایک تبیع ہے اور دو فریضوں کے درمیانی عدد پر کچھ نہیں ہے۔

10039

(۱۰۰۳۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ، قُلْتُ : إِنْ کَانَتْ خَمْسِینَ بَقَرَۃً ؟ فَقَالَ الْحَکَمُ : فِیہَا مُسِنَّۃٌ ، وَقَالَ حَمَّادٌ : بِحِسَابِ ذَلِکَ.
(١٠٠٣٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے سوال کیا کہ پچاس گائے پر کتنی زکوۃ ہے ؟ حضرت حکم نے فرمایا ایک مسنہ ہے اور حضرت حماد نے فرمایا اسی کے حساب سے آئے گی۔

10040

(۱۰۰۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : صَاحِبُ الْبَقَرِ بِمَا فَوْقَ الْفَرِیضَۃِ.
(١٠٠٤٠) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ فریضہ سے اوپر جو کچھ ہے وہ گائے والے کا ہے (یہاں تک کہ دوسرے فریضے تک پہنچ جائے) ۔

10041

(۱۰۰۴۱) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : مَا زَادَ فَبِالْحِسَابِ.
(١٠٠٤١) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جو (فریضہ سے) زیادہ ہو اس پر اسی کے حساب سے زکوۃ ہے۔

10042

(۱۰۰۴۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْفُضُولِ شَیْئٌ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ تَأْلِیفٌ.
(١٠٠٤٢) حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ نصاب سے زائد پر کچھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ زائد بھی نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے۔

10043

(۱۰۰۴۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : التَّبِیعُ : الَّذِی قَدِ اسْتَوَی قَرْنَاہُ وَأُذُنَاہُ ، وَالْمُسِنُّ : الثَّنِیُّ فَصَاعِدًا.
(١٠٠٤٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ تبیع وہ ہے جس کے سینگ اور کان برابر ہوں اور مسن وہ ہے جو دو سال کا یا اس سے بڑا ہو۔

10044

(۱۰۰۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ ، قَالَ : قُلْتُ لأَبِی قِلاَبَۃَ : کَمِ السَّائِمَۃُ ؟ قَالَ : مِئَۃ.
(١٠٠٤٤) حضرت خالد الحذاء فرماتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا : سائمہ کتنے ہیں ؟ آپ نے فرمایا سو۔

10045

(۱۰۰۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ السَّوَائِمِ صَدَقَۃٌ ، إِلاَّ إنَاثِ الإِبِلِ ، وَإِنَاثِ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ.
(١٠٠٤٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ چرنے والے جانوروں پر زکوۃ نہیں ہے، مگر یہ کہ مونث پر جو اونٹ، گائے اور بکری میں سے ہو۔

10046

(۱۰۰۴۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٤٦) حضرت علی کا ارشاد ہے کہ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10047

(۱۰۰۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنْ مُعَاذٍ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَأْخُذُ مِنَ الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃً.
(١٠٠٤٧) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ وصول نہیں فرماتے تھے۔

10048

(۱۰۰۴۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَمُجَاہِدٍ ، قَالاَ : لَیْسَ فِی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٤٨) حضرت مجاہد اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10049

(۱۰۰۴۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ، قَالَ: لَیْسَ فِی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٤٩) حضرت عمر بن عبد العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی اور دوسرے کاموں میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10050

(۱۰۰۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی جَمَلٍ ظَعِینَۃٍ ، وَلاَ عَلَی ثَوْرٍ عَامِلٍ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٥٠) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ بار برداری کرنے والے اونٹوں پر اور ہل چلانے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10051

(۱۰۰۵۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی عَوَامِلِ الْبَقَرِ شَیْئٌ ، إِلاَّ مَا کَانَ سَائِمًا ، وَذَلِکَ فِی الإِبِلِ.
(١٠٠٥١) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونے والی گائے پہ زکوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ سائمہ ہوں۔ اور یہی حکم اونٹوں کا بھی ہے۔

10052

(۱۰۰۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ شَہْرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٥٢) حضرت شہر فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10053

(۱۰۰۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٥٣) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والی گائے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10054

(۱۰۰۵۴) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ ، وَلاَ عَلَی الإِبِلِ الَّتِی یُسْتَقَی عَلَیْہَا النَّوَاضِحِ ، وَیُغْزَی عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللہِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٥٤) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ کھیتی باڑی کیلئے استعمال ہونے والی گائے پہ زکوۃ نہیں ہے اور اس طرح وہ اونٹ جس کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے اور جسے اللہ کے راستہ میں جہاد کیلئے استعمال ہوتا ہو اس پہ بھی زکوۃ نہیں ہے۔

10055

(۱۰۰۵۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی زِیَادٌ ، أَنَّ أَبَا الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہُ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لاَ صَدَقَۃَ فِی الْمُثِیرَۃِ.
(١٠٠٥٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہل چلانے والے جانوروں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10056

(۱۰۰۵۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : الْحَمُولَۃُ وَالْمُثِیرَۃُ فِیہَا الصَّدَقَۃ ؟ قَالَ : لاَ ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : سَمِعْنَا ذَلِکَ.
(١٠٠٥٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں حضرت عطاء سے پوچھا : سامان اٹھانے والے اور ہل چلانے والے جانوروں پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں، حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ ہم نے بھی اسی طرح سنا ہے۔

10057

(۱۰۰۵۷) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابَ الصَّدَقَۃِ فَقَرَنَہُ بِسَیْفِہِ ، أَوَ قَالَ : بِوَصِیَّتِہِ وَلَمْ یُخْرِجْہُ إلَی عُمَّالِہِ حَتَّی قُبِضَ ، عمِلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی ہَلَکَ ، وَعَمِلَ بِہِ عُمَرُ : فِی صَدَقَۃِ الْغَنَمِ فِی کُلِّ أَرْبَعِینَ شَاۃً شَاۃٌ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِنْ زَادَتْ فَشَاتَانِ إلَی مِئَتَیْنِ ، فَإِنْ زَادَتْ فَثَلاَثٌ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ ، فَإِنْ زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ ، لَیْسَ فِیہَا شَیْئٌ حَتَّی تَبْلُغَ الْمِئَۃَ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ ، وَلاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَمَا کَانَ مِنْ خَلِیطَیْنِ ، فَإِنَّہُمَا یَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِیَّۃِ.
(١٠٠٥٧) حضرت ابن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ کے احکامات لکھے اور ان کو اپنی تلوار کے ساتھ رکھ لیا اور اس کو زکوۃ وصول کرنے والوں کیلئے نہیں نکالا یہاں تک کہ آپ دار فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کر گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صدیق اکبر اس پر عمل پیرا رہے یہاں کہ وہ دار فانی سے ہجرت کر گئے، اور آپ کے بعد پھر حضرت عمر اس پر عمل پیرا رہے۔ اس میں بکریوں کی زکوۃ سے متعلق تحریر تھا کہ چالیس بکریوں پر ایک بکری زکوۃ ہے ایک سو بیس بکریوں تک، پھر اگر ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو اس پر دو بکریاں ہیں دو سو تک۔ پھر اگر دو سو سے زائد ہوجائیں تو تین سو تک تین بکریاں ہیں۔ پھر اگر اس پر ایک بکری زائد ہوجائے تو ہر سو بکریوں پہ ایک بکری ہے اور پھر کچھ نہیں ہے (درمیانی عدد پر) یہاں تک کہ پھر سو ہوجائیں۔ اور مجتمع کو الگ الگ نہیں کیا جائے گا اور الگ الگ کو مجتمع نہیں کیا جائے گا، اور اگر دو شریک ہوں تو وہ بعد میں آپس میں ایک دوسرے سے برابر رجوع کرلیں گے۔

10058

(۱۰۰۵۸) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فِی کُلِّ أَرْبَعِینَ شَاۃً شَاۃٌ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِنْ زَادَتْ فَفِیہَا شَاتَانِ إلَی مِئَتَیْنِ ، فَإِنْ زَادَتْ فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ ، فَإِنْ کَثُرَتِ الْغَنَمُ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ.
(١٠٠٥٨) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ چالیس بکریوں پر ایک بکری زکوۃ ہے ایک سو بیس تک، اگر اس سے زائد ہو جائں ٨ تو دو بکریاں ہیں دو سو تک، پھر اگر دو سو سے زائد ہوجائیں تو تین بکریاں ہیں تین سو تک، پھر اگر بکریاں (اس سے بھی) زیادہ ہوجائیں تو ہر سو پر ایک بکری واجب ہے۔

10059

(۱۰۰۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: فِی کُلِّ أَرْبَعِینَ شَاۃً شَاۃٌ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا شَاتَانِ إلَی مِئَتَیْنِ ، فَإِنْ زَادَتْ شَاۃً وَاحِدَۃً فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ فِی کُلِّ مِئَۃ شَاۃٍ شَاۃٌ.
(١٠٠٥٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ چالیس بکریوں پہ زکوۃ ایک بکری ہے ایک سو بیس تک (ایک ہی بکری ہے) پھر جب ایک سو بیس سے بکریاں زائد ہوجائیں تو دو بکریاں ہیں دو سو تک، اور جب دو سو سے ایک بکری زائد ہوگی تو تین بکریاں ہیں تین سو تک، اس کے بعد ہر سو پر ایک بکری ہے۔

10060

(۱۰۰۶۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إلَی أَرْبَعِ مِئَۃٍ ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃً فَإِلَی خَمْسِ مِئَۃٍ ، ثُمَّ عَلَی ہَذَا الْحِسَابِ.
(١٠٠٦٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ چار سو تک (یہی ہے) پھر اگر چار سو سے ایک بکری زائد ہوجائے تو پانچ بکریاں ہیں، پھر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔

10061

(۱۰۰۶۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی أَرْبَعِینَ شَاۃً شَاۃٌ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِذَا جَاوَزَتِ الْعِشْرِینَ وَمِئَۃ فَشَاتَانِ حَتَّی تَبْلُغَ الْمِئَتَیْنِ، وَإِذَا جَاوَزَ الْمِئَتَیْنِ فَثَلاَثُ شِیَاہٍ حَتَّی تَبْلُغَ الثَّلاَثَ مِئَۃ.
(١٠٠٦١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ چالیس بکریوں پہ ایک بکری زکوۃ ہے ایک سو بیس تک، پھر جب ایک سو بیس سے بکریاں زائد ہوجائیں تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، پھر جب دو سو سے زائد ہوجائیں تو تین بکریاں ہیں یہاں تک کہ تین سو بکریاں ہوجائیں۔

10062

(۱۰۰۶۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، فِی صَدَقَۃِ الْغَنَمِ ، قَالَ: إذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیہَا شَاۃٌ إلَی عِشْرِینَ وَمِئَۃٍ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا شَاتَانِ إلَی مِئَتَیْنِ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ وَکَثُرَتْ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ ، وَقَالَ عَبْدُ اللہِ مِثْلَ قَوْلِ عَلِیٍّ حَتَّی تَبْلُغَ ثَلاَثَ مِئَۃٍ ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللہِ : فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً عَلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ فَفِیہَا أَرْبَعٌ إلَی أَرْبَعِ مِئَۃٍ ، ثُمَّ عَلَی ہَذَا الْحِسَابِ. قَالَ مُحَمَّدٌ : أَخْبَرَنَا عَامِرٌ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ ، قَالاَ : لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ مُفْتَرِقٍ ، وَلاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ مُجْتَمِعٍ.
(١٠٠٦٢) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ چالیس سے لیکر ایک سو بیس بکریوں تک زکوۃ ایک بکری ہے اور جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو دو سو تک دو بکریاں ہیں اور پھر دو سو سے زائد ہوجائیں تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، پھر جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو ہر سو پر ایک بکری ہے، حضرت عبداللہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ تین سو تک۔ پھر جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو چار سو تک چار بکریاں ہیں۔ پھر اسی حساب سے زکوۃ آئے گی۔ راوی حدیث محمد فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عامر نے بتایا کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ متفرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اور جمع کو متفرق نہیں کیا جائے گا۔

10063

(۱۰۰۶۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِینَ فَفِیہَا شَاۃٌ حَتَّی تَبْلُغَ عِشْرِینَ وَمِئَۃ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا شَاتَانِ إلَی مِئَتَیْنِ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃً فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ ، وَسَقَطَتِ الأَرْبَعُونَ.
(١٠٠٦٣) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں پہ ایک بکری زکوۃ ہے، پھر جب ایک سو بیس سے زائد ہوجائیں تو اس پر دو بکریاں ہیں دو سو تک پھر اگر دو سو سے زائد ہوجائیں تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر بکریاں اس سے بھی زائد ہوجائیں تو ہر سو پر ایک بکری زکوۃ ہے، اور چالیس (سے کم) ساقط ہے۔

10064

(۱۰۰۶۴) حُدِّثَنَا حَفْص ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ إذَا بَعَثَ الْمُصَدِّقَ بَعَثَ مَعَہُ بِکِتَابٍ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِینَ شَاۃٍ شَیْئٌ.
(١٠٠٦٤) حضرت ابن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جب زکوۃ وصول کرنے والے کو روانہ فرماتے تو ساتھ لکھی ہوئی کتاب (جس میں زکوۃ کے احکام تھے) بھی بھیجتے، جس میں لکھا تھا کہ چالیس سے کم بکریوں پہ زکوۃ نہیں ہے۔

10065

(۱۰۰۶۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکَ إِلاَّ تِسْعٌ وَثَلاَثُونَ شَاۃً ، فَلَیْسَ فِیہَا صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٦٥) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب آپ کے پاس صرف انتالیس بکریاں موجود ہوں تو ان پر زکوۃ نہیں ہے۔

10066

(۱۰۰۶۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِینَ شَیْئٌ.
(١٠٠٦٦) حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چالیس بکریوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

10067

(۱۰۰۶۷) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : کَانَ الْکِتَابُ الَّذِی کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حِینَ بَعَثَہُمْ یُصَدِّقُونَ : لاَ صَدَقَۃَ فِی الْغَنَمِ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعِینَ.
(١٠٠٦٧) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز جب زکوۃ وصول کرنے والوں کو بھیجتے تو آپ کے پاس ایک کتاب تھی (جس میں احکام زکوۃ تحریر تھے) وہ دے دیتے (اس میں تحریر تھا) کہ بکریوں پر تب تک زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ چالیس نہ ہوجائیں۔

10068

(۱۰۰۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ أَرْبَعِینَ مِنَ الشَّائِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٦٨) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ چالیس بکریوں سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

10069

(۱۰۰۶۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا زَادَ عَلَی الثَّلاَثِ مِئَۃٍ شَیْئٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِئَۃٍ.
(١٠٠٦٩) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ جب بکریاں تین سو سے زائد ہوجائیں تو ان پر کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ چار سو ہوجائیں۔

10070

(۱۰۰۷۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَمْزَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا زَادَ عَلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ شَیْئٌ ، حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِئَۃٍ ، یَعْنِی الْغَنَمَ.
(١٠٠٧٠) حضرت حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ بکریاں جب تین سو سے زائد ہوجائیں تو جب تک وہ چار سو نہ ہوجائیں ان پر کچھ نہیں ہے۔

10071

(۱۰۰۷۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَتَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابَ الصَّدَقَۃِ فَقَرَنَہُ بِسَیْفِہِ ، أَوَ قَالَ : بِوَصِیَّتِہِ فَلَمْ یُخْرِجْہُ إلَی عُمَّالِہِ حَتَّی قُبِضَ ، عَمِلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی ہَلَکَ ، ثُمَّ عَمِلَ بِہِ عُمَرُ ، قَالَ : فِی الْغَنَمِ فِی ثَلاَثِ مِئَۃِ شَاۃٍ ثَلاَثُ شِیَاہٍ ، فَإِنْ زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ ، وَلَیْسَ فِیہَا شَیْئٌ حَتَّی تَبْلُغَ الْمِئَۃَ.
(١٠٠٧١) حضرت سالم اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ کے احکام تحریر فرمائے اور ان کو اپنی تلوار کے ساتھ رکھ دیا یا (راوی کو شک ہے) وصیت کے ساتھ، اور آپ نے اس کو عمال کی طرف نہیں نکالا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دار فانی سے کوچ کر گئے۔ پھر اس پر حضرت صدیق اکبر مرتے دم تک عمل پیرا رہے، پھر حضرت عمر اس پہ عمل پیرا رہے، اس میں بکریوں کی زکوۃ سے متعلق تحریر تھا کہ تین سو بکریوں پہ تین بکری زکوۃ ہیں، اور اگر بکریاں اس سے زائد ہوجائیں تو پھر سو بکریوں پہ ایک بکری ادا کرے گا۔ اور اگر بکریاں اس سے زائد ہوجائیں تو پھر سو بکریوں پہ ایک بکری ادا کرے گا۔ اس پر سو سے کم پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔

10072

(۱۰۰۷۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا زَادَتْ عَلَی الْمِائَتَیْنِ وَاحِدَۃً فَفِیہَا ثَلاَثُ شِیَاہٍ إلَی ثَلاَثِ مِئَۃٍ ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِئَۃِ شَاۃٍ شَاۃٌ ، وَسَقَطَتِ الأَرْبَعُونَ.
(١٠٠٧٢) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ جب دو سو سے ایک بکری بھی زائد ہوجائے تو ان پر تین سو تک تین بکریاں ہں ر اور اگر بکریاں تین سو سے بھی زائد ہوجائیں تو پھر ہر سو پہ زکوۃ ایک بکری ہے، اور چالیس بکریوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

10073

(۱۰۰۷۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا زَادَتْ عَلَی الثَّلاَثِ مِئَۃٍ فَفِی کُلِّ مِئَۃٍ شَاۃٌ.
(١٠٠٧٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب بکریاں تین سو سے زائد ہوجائیں تو پھر ہر سو پہ ایک بکری زکوۃ ہے۔

10074

(۱۰۰۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی الرَّجُلِ تَکُونُ لَہُ أَرْبَعُونَ شَاۃً فِی الْمِصْرِ یَحْلِبُہَا ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٧٤) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شہر میں چالیس بکریاں پالی ہوں اور ان کا دودھ استعمال کرتا ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

10075

(۱۰۰۷۵) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی غَنَمِ الرَّبَائِبِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٧٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ وہ بکریاں جو گھر میں رہتی ہوں اور سائمہ (چرنے والی) بھی نہ ہوں تو ان بکریوں پہ زکوۃ نہیں ہے۔

10076

(۱۰۰۷۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالاَ : لاَ یُعْتَدُّ بِالسَّخْلَۃِ ، وَلاَ تُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ.
(١٠٠٧٦) حضرت یونس اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ بھیڑ کے بچہ کو نہیں گنا جائے گا اور اس کو زکوۃ میں وصول نہیں کیا جائے گا۔

10077

(۱۰۰۷۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: أَیُعْتَدُّ بِالصِّغَارِ أَوْلاَدِ الشَّائِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
(١٠٠٧٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کیا بکری کے چھوٹے بچوں کو (بھی زکوۃ وصول کرتے وقت) شمار کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔

10078

(۱۰۰۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یُعْتَدُّ بِالصَّغِیرِ حِینَ تُنْتِجُہُ أُمُّہُ.
(١٠٠٧٨) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ شمار کیا جائے گا بکری کے چھوٹے بچوں کو جس وقت اس کی ماں نے اس کو جنم (پیدا) دیا ہو۔

10079

(۱۰۰۷۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ؛ اسْتَعْمَلَ أَبَاہُ عَلَی الطَّائِفِ وَمَخَالیفہا ، فَکَانَ یُصَدِّقُ فَاعْتَدَّ عَلَیْہِمْ بِالْغِذَائِ ، فَقَالَ لَہُ النَّاسُ : إِنْ کُنْت مُعْتَدًّا بِالْغِذَائِ فَخُذْ مِنْہُ ، فَأَمْسَکَ عَنْہُمْ حَتَّی لَقِیَ عُمَرَ ، فَأَخْبَرَہُ بِالَّذِی قَالُوا ، فَقَالَ : اعْتَدْ عَلَیْہِمْ بِالْغِذَائِ ، وَإِنْ جَائَ بِہَا الرَّاعِی یَحْمِلُہَا عَلَی یَدِہِ ، وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّک تَدَعُ لَہُمَ الرُّبَّی وَالْمَاخِضَ وَالأَکِیلَۃَ وَفَحْلَ الْغَنَمِ ، وَخُذِ الْعَنَاقَ وَالْجَذَعَۃَ وَالثَّنِیَّۃَ ، فَذَلِکَ عَدْلٌ بَیْنَ خِیَارِ الْمَالِ وَالْغِذَائِ.
(١٠٠٧٩) حضرت بشر بن عاصم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے میرے والد کو طائف کے علاقوں میں زکوۃ وصول کرنے کا فریضہ سونپا، (میرے والد نے) ان کی بکریوں کو چھوٹے بچوں کو ملا کر شمار کیا، لوگوں نے میرے والد سے کہا : اگر آپ زکوۃ وصول کرتے وقت اس چھوٹے بچے کو بھی شمار کر رہے ہیں تو پھر زکوۃ میں بھی اسی چھوٹے کو وصول کرلو۔ وہ رک گئے ان سے یہاں تک کہ ان کی حضرت عمر سے ملاقات ہوئی، تو انھوں نے حضرت عمر کے سامنے سارا ماجرا بیان کیا، آپ نے فرمایا : ان کی بکریوں کو شمار کرتے وقت چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ شمار کرو اگرچہ (وہ اتنا چھوٹا ہو کہ) چرواہا اس کو اپنے ہاتھوں پہ اٹھا کر لائے، اور ان کو بتادو کہ بیشک تمہارے لیے چھوٹا دودھ پیتا بچہ، حاملہ بکری، وہ بکری جس کو ذبح کرنے کی غرض موٹا اور فربہ کیا ہو اور سانڈ (نر) جانور چھوڑ دیا گیا ہے (یعنی زکوۃ لیتے وقت ان کا شمار نہیں ہوگا) ہاں البتہ لیا جائے گا وہ بچہ جس پر ابھی سال مکمل نہ گذرا ہو اور اسی طرح بکری کا آٹھ ماہ کا بچہ اور وہ بکری جس کے سامنے والے چار دانتوں میں سے دو ظاہر ہوگئے ہوں۔ اس طرح کرنے سے بہترین مال اور چھوٹے مال کے درمیان انصاف اور مساوات ہوجائے گی۔

10080

(۱۰۰۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنِ النَّہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ، قَالَ: حدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُفْیَانَ بْنَ عَبْدِ اللہِ عَلَی الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : خُذْ مَا بَیْنَ الْغَذِیَّۃِ ، وَالْہَرِمَۃِ ، یَعْنِی بِالْغَذِیَّۃِ السَّخْلَۃَ.
(١٠٠٨٠) حضرت حسن بن مسلم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سفیان بن عبداللہ کو زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تو ان کو فرمایا : بہت چھوٹے جانور اور بوڑھے جانور کے درمیان (جو درمیانے عمر والا) جانور ہو اس کو وصول کرنا۔

10081

(۱۰۰۸۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ : فِی أَیِّ الْمَالِ صَدَقَۃٌ ؟ فَقَالَ : فِی الثُّلُثِ الأَوْسَطِ ، فَإِذَا أَتَاک الْمُصَدِّقُ فَأَخْرِجْ لَہُ الْجَذَعَۃَ وَالثَّنِیَّۃَ.
(١٠٠٨١) حضرت ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ بنو ثقیف کے ایک شخص نے حضرت ابوہریرہ سے سوال کیا کہ کونسے مال پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ درمیانے مال کے تہائی میں، جب تمہارے پاس زکوۃ وصول کرنے والا آئے تو اس کے لیے جذعہ اور ثنیہ جانور نکال دو ۔

10082

(۱۰۰۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ ، أَو شِہَابِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ سَعِیدٍ الأَعْرَجِ، قَالَ: خَرَجْت أُرِیدُ الْجِہَادَ ، فَلَقِیتُ عُمَرَ بِمَکَّۃَ ، فَقَالَ: بإِذْنِ صَاحِبِکَ خَرَجتَ؟ یَعْنِی یَعْلَی بْنَ أُمَیَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ : لاَ ، قَالَ : فَارْجِعْ إلَی صَاحِبِکَ ، فَإِذَا أَوْقَفَ الرَّجُلُ عَلَیْکُمْ غَنَمَہُ ، فَاصْدَعُوہَا صَدْعَیْنِ ، ثُمَّ اخْتَارُوا مِنَ النِّصْفِ الآخَرَ.
(١٠٠٨٢) حضرت سعید اعرج فرماتے ہیں کہ میں جہاد کیلئے نکلا تو مکہ میں میری حضرت عمر سے ملاقات ہوگئی، حضرت عمر نے پوچھا کہ تم یعلی بن امیہ کی اجازت سے نکلے ہو ؟ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ساتھی کے پاس واپس جاؤ جب آدمی تمہارے پاس بکریوں کی زکوۃ وصول کرنے کیلئے ٹھہرے تو تم اس کو دو حصوں میں تقسیم کردو، پھر نصف آخر (ادنی حصہ) کو اختیار کریں۔

10083

(۱۰۰۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِی وَغَیْرَہُ یَذْکُرُونَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ : أَنْ تُقَسَّمَ الْغَنَمُ أَثْلاَثًا ، ثُمَّ یَخْتَارُ سَیِّدُہَا ثُلُثًا ، وَیَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الثُّلُثِ الأَوْسَطِ.
(١٠٠٨٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد اور دوسرے حضرات سے سنا وہ ذکر کرتے تھے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے لکھا کہ تم بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرو۔ پھر مالک ایک تہائی کو اختیار کرے اور زکوۃ وصول کرنے والا درمیانے تہائی میں سے وصول کرے۔

10084

(۱۰۰۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : تُقْسَمُ الْغَنَمُ أَثْلاَثًا.
(١٠٠٨٤) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ تم بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرو۔

10085

(۱۰۰۸۵) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : إذَا جَائَ الْمُصَدِّقُ قُسِمَتِ الْغَنَمُ أَثْلاَثًا : ثُلُثٌ خِیَارٌ ، وَثُلُثٌ شِرَارٌ، وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ ، وَیَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ.
(١٠٠٨٥) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ جب زکوۃ وصول کرنے والا آئے تو بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ثلث خیار، ثلث شرار اور ثلث اوساط میں، زکوۃ وصول کرنے والا درمیانی تہائی میں سے وصول کرے گا۔

10086

(۱۰۰۸۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَانَ الْمُصَدِّقُ یَصْدَعُ الْغَنَمَ صَدْعَیْنِ ، فَیَخْتَارُ صَاحِبُ الْغَنَمِ خَیْرَ الصَّدْعَیْنِ.
(١٠٠٨٦) حضرت حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا بکریوں کو دو حصوں میں بانٹ لے گا اور بکریوں کا مالک بہتر والے حصے کو اختیار کرے گا۔ (دوسرے حصے کو زکوۃ وصول کرنے والا لے گا)

10087

(۱۰۰۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : یَقْسِمُ الْغَنَمَ قِسْمَیْنِ ، فَیَخْتَارُ صَاحِبُ الْغَنَمِ خَیْرَ الْقِسْمَیْنِ ، وَیَخْتَارُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْقَسَمِ الأَخرَ.
(١٠٠٨٧) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ بکریوں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیں گے، بکریوں کا مالک بہتر والے حصے کو لے لے گا اور دوسرے حصے کو زکوۃ وصول کرنے والا لے گا۔

10088

(۱۰۰۸۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَجْمَعُ الشَّائَ فَیَأْخُذُ صَاحِبُ الْغَنَمِ الثُّلُثَ مِنْ خِیَارِہِ ، وَیَأْخُذُ صَاحِبُ الصَّدَقَۃِ مِنَ الثُّلُثَیْنِ حَقَّہُ.
(١٠٠٨٨) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ بکریوں کو جمع کیا جائے گا اور بکریوں کا مالک بہتر بکریوں والی تہائی کو اپنے پاس رکھے گا اور زکوۃ وصول کرنے والا باقی دو تہائیوں میں سے اپنا حصہ (حق) وصول کرے گا۔

10089

(۱۰۰۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : تُفَرَّقُ فِرْقَتَیْنِ.
(١٠٠٨٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ (بکریوں کو) دو حصوں مںَ تقسیم کیا جائے گا۔

10090

(۱۰۰۹۰) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ نَحْوَہُ.
(١٠٠٩٠) حضرت عطاء سے اسی طرح کا ایک اور قول منقول ہے۔

10091

(۱۰۰۹۱) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابَ الصَّدَقَۃِ فَقَرَنَہُ بِسَیْفِہِ ، أَوَ قَالَ : بِوَصِیَّتِہِ ثُمَّ لَمْ یُخْرِجْہُ إلَی عُمَّالِہِ حَتَّی قُبِضَ ، فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِہِ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی ہَلَکَ ، ثُمَّ عَمِلَ بِہِ عُمَرُ : لاَ یُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ ہَرِمَۃٌ ، وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ.
(١٠٠٩١) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ کے احکامات لکھوائے اور ان اپنی تلوار کے ساتھ رکھا یا وصیت کے ساتھ، پھر ان کو دوبارہ زکوۃ وصول کرنے والوں کیلئے نہیں نکالا یہاں تک کہ آپ دار فانی سے کوچ کر گئے، آپ کی وفات کے بعد حضرت صدیق اکبر اس پر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ آپ بھی رخصت ہوگئے، پھر حضرت عمر اس پر عمل پیرا رہے۔ (اس میں لکھا تھا کہ) زکوۃ وصول کرنے والا بوڑھا اور عیب دار جانور وصول نہ کرے۔

10092

(۱۰۰۹۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لاَ یَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ ہَرِمَۃً ، وَلاَ ذَاتَ عَوَارٍ ، وَلاَ تَیْسًا إِلاَّ أَنْ یَشَائَ الْمُصَدِّقُ.
(١٠٠٩٢) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا بوڑھا اور عیب دار (کانا) جانور وصول نہ کرے اور نہ ہی وہ بکری کا بچہ جو بکرا بن گیا ہو ہاں اگر زکوۃ وصول کرنے والا چاہے تو (ان کو وصول کرسکتا ہے) ۔

10093

(۱۰۰۹۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : لَیْسَ لِلْمُصَدِّقِ ہَرِمَۃٌ ، وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ ، وَلاَ جَدَّائَ.
(١٠٠٩٣) حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا بوڑھا اور عیب دار جانور وصول نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ جانور جس کا دودھ نہ آتا ہو۔

10094

(۱۰۰۹۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ لِلْمُصَدِّقِ ہَرِمَۃٌ ، وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ ، وَلاَ جَدَّائُ إِلاَّ أَنْ یَشَائَ الْمُصَدِّقُ.
(١٠٠٩٤) حضرت ابن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا بوڑھا جانور عیب دار جانور اور وہ جانور جس کا دودھ نہ آتا ہو وہ وصول نہیں کرے گا ہاں اگر وہ خود چاہے تو لے سکتا ہے۔

10095

(۱۰۰۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ سُلَیْمَانَ بْنَ یَسَارٍ ، قَالَ : لاَ یُجْزِء فِی الصَّدَقَۃِ ذَاتُ عَوَارٍ.
(١٠٠٩٥) حضرت موسیٰ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے سنا وہ ارشاد فرماتے تھے کہ زکوۃ وصول کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ عیب دار جانور وصول کرے۔

10096

(۱۰۰۹۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لاَ یُؤْخَذُ فِی الصَّدَقَۃِ الْعَجْفَائُ ، وَلاَ الْعَوْرَائُ ، وَلاَ الْجَرْبَائُ ، وَلاَ الْعَرْجَائُ الَّتِی لاَ تَتْبَعُ الْغَنَمَ.
(١٠٠٩٦) حضرت جعفر بن میمون ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ (وصول کرنے والا) کمزور جانور کو، عیب دار جانور کو، خارشی جانور کو اور اس طرح لنگڑا جانور جو بکریوں کے پیچھے نہ چل سکتا ہو ان کو وصول نہیں کرے گا۔

10097

(۱۰۰۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی بن عُمَارَۃَ ، أَنَّ أَبَاہُ یَحْیَی بْنَ عُمَارَۃَ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ کَانَ یَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٩٧) حضرت یحییٰ بن عمارہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو سعید حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔ (وسق ساٹھ صاع کے ایک پیمانے کا نام ہے اور ایک صاع پانچ رطل ایک ثلث کا ہوتا ہے) ۔

10098

(۱۰۰۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ تَمْرٍ، وَلاَ حَبٍّ صَدَقَۃٌ. (مسلم ۶۷۴۔ احمد ۳/۹۷)
(١٠٠٩٨) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : کھجور میں پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں ہے اور کھیتی کے دانوں پر بھی پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں ہے۔

10099

(۱۰۰۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ صَدَقَۃٌ.
(١٠٠٩٩) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔ ”(وسق ساٹھ صاع کے ایک پیمانے کا نام ہے اور ایک صاع پانچ رطل ایک ثلث کا ہوتا ہے) “۔

10100

(۱۰۱۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ (ح) وَعَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ صَدَقَۃٌ. (عبدالرزاق ۷۲۵۱۔ احمد ۳/۲۹۶)
(١٠١٠٠) جابر ارشاد فرماتے ہیں کہ : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

10101

(۱۰۱۰۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إذَا بَلَغَ الطَّعَامُ خَمْسَۃَ أَوْسُقٍ فَفِیہِ الصَّدَقَۃُ.
(١٠١٠١) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کھانے کی مقدار پانچ وسق تک پہنچ جائے تب اس پر زکوۃ ہے۔

10102

(۱۰۱۰۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ صَدَقَۃٌ.
(١٠١٠٢) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

10103

(۱۰۱۰۳) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالاَ : لاَ تَجِبُ الصَّدَقَۃُ حَتَّی تَبْلُغَ ثَلاَثَ مِئَۃِ صَاعٍ.
(١٠١٠٣) حضرت یونس اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ (طعام میں) زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ تین سو صاع تک پہنچ جائے۔

10104

(۱۰۱۰۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی أَقَلَّ مِنْ خَمْسَۃِ أَوْسُقٍ شَیْئٌ.
(١٠١٠٤) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پانچ وسق سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

10105

(۱۰۱۰۵) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١٠٥) حضرت ابو سعید ارشاد فرماتے ہیں کہ وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10106

(۱۰۱۰۶) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَمُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١٠٦) حضرت مغیرہ اور حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔

10107

(۱۰۱۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١٠٧) حضرت ابن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔

10108

(۱۰۱۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١٠٨) حضرت ابو قلابہ ارشاد فرماتے ہیں کہ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔

10109

(۱۰۱۰۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ (ح) وَمُغِیرَۃُ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قاَلَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١٠٩) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔

10110

(۱۰۱۱۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ قَالاَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١٠) حضرت محمد اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10111

(۱۰۱۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَر ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ (ح) وَعَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالاَ: الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١١) حضرت ابو زبیر اور حضرت جابر ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10112

(۱۰۱۱۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١٢) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10113

(۱۰۱۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١٣) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10114

(۱۰۱۱۴) حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ جَرَّاحٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١٤) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10115

(۱۰۱۱۵) حَدَّثَنَا بَعض أَصْحَابِنَا ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ، عَنْ یَعْقُوبَ، عَنْ عَطَائٍ ، وَعَنْ قَتَادَۃ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ، قَالَ: الْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا.
(١٠١١٥) حضرت سعد بن مسیب ارشاد فرماتے ہیں کہ : وسق ساٹھ (٦٠) صاع کا ہوتا ہے۔

10116

(۱۰۱۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْعُشْرُ فِی التَّمْرِ وَالزَّبِیبِ ، وَالْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیرِ. (دارقطنی )
(١٠١١٦) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کھجور، کشمش، گندم اور جو میں عشر (دسواں حصہ) ہے۔

10117

(۱۰۱۱۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ؛ أَنَّ مُعَاذًا لَمَّا قَدِمَ الْیَمَنَ لَمْ یَأْخُذِ الزَّکَاۃَ إِلاَّ مِنَ الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ. (احمد ۵/۲۲۸۔ دارقطنی ۸)
(١٠١١٧) حضرت موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ جب یمن تشریف لائے تو آپ صرف گندم، جو، کھجور اور کشمش پر زکوۃ وصول فرماتے تھے۔

10118

(۱۰۱۱۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ ؛ أَنَّہُ لَمْ یَأْخُذْہَا إِلاَّ مِنَ الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ.
(١٠١١٨) حضرت ابو بردہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری گندم، جو، کھجور اور کشمش پر زکوۃ وصول فرمایا کرتے تھے۔

10119

(۱۰۱۱۹) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الصَّدَقَۃُ مِنْ أَرْبَعٍ : مِنَ الْبُرِّ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ بُرٌّ فَتَمْرٌ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ تَمْرٌ فَزَبِیبٌ ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ زَبِیبٌ فَشَعِیرٌ.
(١٠١١٩) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ صرف چار چیزوں پر ہے۔ گندم میں، اگر گندم موجود نہ ہو تو کھجور پر ہے، اور اگر کھجور بھی نہ ہو تو کشمش پر ہے اور کشمش نہ ہو تو جو پر ہے۔

10120

(۱۰۱۲۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی ، قَالَ : سَأَلَ عَبْدُ الْحَمِیدِ مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَ عَنْہَا ؟ فَقَالَ : إنَّمَا الصَّدَقَۃُ فِی الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ.
(١٠١٢٠) حضرت طلحہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الحمید موسیٰ بن طلحہ سے زکوۃ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : زکوۃ گندم، جو، کھجور اور کشمش پر ہے۔

10121

(۱۰۱۲۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَطَائٌ : لاَ صَدَقَۃَ إِلاَّ فِی نَخْلٍ ، أَوْ عِنَبٍ، أَوْ حَبٍّ، وَقَالَ لِی ذَلِکَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ.
(١٠١٢١) حضرت ابن جریج ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء نے مجھ سے فرمایا : زکوۃ صرف کھجور، انگور اور دانے پر ہے۔ اور یہی بات مجھ سے حضرت عمرو بن دینار نے بھی فرمائی۔

10122

(۱۰۱۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الزَّکَاۃُ فِی الْبُرِّ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ.
(١٠١٢٢) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ گندم، جو، کھجور اور کشمش پر ہے۔

10123

(۱۰۱۲۳) حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الرَّقِّیُّ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : فِیمَا أَخْرَجَتِ الأَرْضُ فِیمَا قَلَّ مِنْہُ ، أَوْ کَثُرَ الْعُشْرُ ، أَوْ نِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٢٣) حضرت مجاہد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو کچھ زمین سے اگے خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر اس پر عشر یا نصف عشر ہے۔

10124

(۱۰۱۲۴) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : فِی کُلِّ شَیْئٍ أَخْرَجَتِ الأَرْضُ الْعُشْرُ ، أَوْ نِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٢٤) حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو چیز زمین سے نکلے (اگے) اس پر عشر یا نصف عشر ہے۔

10125

(۱۰۱۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی کُلِّ شَیْئٍ أَخْرَجَتِ الأَرْضُ زَکَاۃٌ ، حَتَّی فِی عَشْرِ دَسْتَجَات ِدَسْتَجَۃ بَقْلٍ.
(١٠١٢٥) حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں کہ جو چیز زمین سے نکلے اس پر زکوۃ ہے۔ یہاں تک کہ دس بنڈل پر (سبزیوں کے) ایک بنڈل سبزی ہے۔

10126

(۱۰۱۲۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَقِّتُ فِی الثَّمَرَۃِ شَیْئًا ، وَقَالَ : الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٢٦) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ پھلوں میں کچھ بھی مؤقت نہیں کریں گے، اور فرمایا عشر یا نصف عشر آئے گا۔

10127

(۱۰۱۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ مِثْلَہُ.
(١٠١٢٧) حضرت مجاہد سے بھی اس طرح مروی ہے۔

10128

(۱۰۱۲۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : کَتَبَ بِذَلِکَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی أَہْلِ الْیَمَنِ.
(١٠١٢٨) حضرت معمر ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے یمن والوں کو بھی اس طرح لکھ کر بھیجا تھا۔

10129

(۱۰۱۲۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی کُلِّ شَیْئٍ أَخْرَجَتِ الأَرْضُ زَکَاۃٌ.
(١٠١٢٩) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ : زمین جو کچھ بھی اگائے اس پر زکوۃ ہے۔

10130

(۱۰۱۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : فِی الْخَضِرَاوَاتِ زَکَاۃٌ.
(١٠١٣٠) حضرت ابن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ : سبزیوں پہ زکوۃ نہیں ہے۔

10131

(۱۰۱۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ قَیْسٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَیْسَ فِی الْخَضِرِ شَیْئٌ.
(١٠١٣١) حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ : سبزیوں پہ کچھ نہیں ہے۔

10132

(۱۰۱۳۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ: لَیْسَ فِی الْبُقُولِ؛ الْخِیَارِ، وَالْقِثَّائِ، وَنَحْوِہِ صَدَقَۃٌ.
(١٠١٣٢) حضرت امام شعبی ارشاد فرماتے ہیں کہ : سبزیوں میں، اور اس طرح کھیرا اور ککڑی پر زکوۃ نہیں ہے۔

10133

(۱۰۱۳۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی غَلَّۃِ الصَّیْفِ صَدَقَۃٌ.
(١٠١٣٣) حضرت عامر ارشاد فرماتے ہیں کہ گرمیوں کے غلہ پر زکوۃ نہیں ہے۔

10134

(۱۰۱۳۴) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَضِرِ زَکَاۃٌ ، إِلاَّ أَنْ یَصِیرَ مَالاً ، فَیَکُونَ فِیہِ زَکَاۃٌ.
(١٠١٣٤) حضرت مکحول ارشاد فرماتے ہیں کہ : سبزیوں پر زکوۃ نہیں ہے، ہاں البتہ جب وہ مال بن جائے تو اس پر زکوۃ ہے۔

10135

(۱۰۱۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا ، وَإِبْرَاہِیمَ جَالِسٌ یَقُولُ : لَیْسَ فِی الْبُقُولِ ، وَلاَ فِی التُّفَّاحِ ، وَلاَ فِی الْخَضِرِ زَکَاۃٌ.
(١٠١٣٥) حضرت مغیرہ ارشاد فرما سے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد سے سنا اس وقت حضرت ابراہیم تشریف فرما تھے، وہ فرماتے ہیں کہ : ترکاری پر، پھل پر اور سبزیوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10136

(۱۰۱۳۶) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَضِرَاوَاتِ صَدَقَۃٌ.
(١٠١٣٦) حضرت حکم ارشاد فرماتے ہیں کہ : سبزیوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10137

(۱۰۱۳۷) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَکَمَ عَنِ الْفَصَافِصِ ، وَالأَقْطَانِ ، وَالسَّمَاسِمِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ فِیہَا شَیْئٌ . قَالَ الْحَکَمُ : فِیمَا حَفِظْنَا عَنْ أَصْحَابِنَا أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ : لَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنْ ہَذَا شَیْئٌ ، إِلاَّ فِی الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ.
(١٠١٣٧) حضرت مطرف ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت حکم سے گھاس، دالوں اور تل سے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا ان میں کچھ نہیں ہے۔ حضرت حکم فرماتے ہیں کہ جو ہم نے اپنے اصحاب سے یاد کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان میں کچھ نہیں ہے سوائے گندم، جو، کھجور اور کشمش کے (ان پر زکوۃ ہے) ۔

10138

(۱۰۱۳۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْفَاکِہَۃِ عُشُورٌ ؛الْجَوْزُ ، وَاللَّوْزُ ، وَالْبُقُولُ کُلُّہَا ، وَالْخَضِرُ ، وَلَکِنْ مَا بِیعَ مِنْہُ فَبَلَغَ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ فَصَاعِدًا ، فَفِیہِ الزَّکَاۃُ.
(١٠١٣٨) حضرت عطاء خراسانی ارشاد فرماتے ہیں کہ پھلوں پر عشر نہیں ہے، اخروٹ، بادام، ترکاری اور سبزیوں پر بھی، ہاں اگر ان کو فروخت کیا جائے اور ان کی قیمت دو سو درھم یا اس سے زائد ہوجائے تو پھر اس پر زکوۃ ہے۔

10139

(۱۰۱۳۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قَالَ عَطَائٌ: لَیْسَ فِی الْبُقُولِ، وَالْقَصَبِ، وَالْخِرْبَزِ، وَالْقِثَّائِ، وَالْکُرْسُفِ ، وَالْفَوَاکِہِ ، وَالأُتْرُجِّ ، وَالتُّفَّاحِ ، وَالتِّینِ ، وَالرُّمَّانِ ، وَالْفَرْسَکِ ، وَالْفَاکِہَۃِ تُعَدُّ کُلُّہَا صَدَقَۃٌ.
(١٠١٣٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ترکاری، بانس، خربوزہ، ککڑی، روئی اور پھلوں پر کچھ نہیں ہے۔ مالٹا، سیب، زیتون، انار اور آڑو، اور پھلوں کو شمار کیا جائے گا سب میں زکوۃ ہے۔

10140

(۱۰۱۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ بْنِ الشِّخِّیرِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الأَعْلاَفِ ، وَلاَ فِی الْبُقُولِ صَدَقَۃٌ.
(١٠١٤٠) حضرت ابو العلاء بن شخیر فرماتے ہیں کہ گھاس اور ترکاری پر زکوۃ نہیں ہے۔

10141

(۱۰۱۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ فِی الزَّیْتُونِ ، قَالَ : ہُوَ یُکَالُ فِیہِ الْعُشْرُ.
(١٠١٤١) حضرت امام زہری زیتون سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کو کیل کیا جائے گا اور اس میں عشر ہے۔

10142

(۱۰۱۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فِی الزَّیْتُونِ الْعُشْرُ.
(١٠١٤٢) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ : زیتون میں عشر ہے۔

10143

(۱۰۱۴۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ رَجَائِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ یَزِیدَ بْنَ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ عَنِ الزَّیْتُونِ ؟ فَقَالَ : عَشَّرَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالشَّامِ.
(١٠١٤٣) حضرت رجاء بن ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت یزید بن یزید بن جابر سے زیتون کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر نے شام والوں سے عشر لیا تھا۔

10144

(۱۰۱۴۴) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ رَجَائٍ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، قَالَ : فِیہِ الْعُشْرُ.
(١٠١٤٤) حضرت عطاء خراسانی ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں عشر ہے۔

10145

(۱۰۱۴۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ، عَنْ أَبِی سَیَّارَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، إنَّ لِی نَحْلاً ، قَالَ : أَدِّیَنَّ الْعُشْرُ ؟ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللہِ ، احْمِہَا لِی ، قَالَ : فَحَمَاہَا لِی. (احمد ۲۳۶۔ ابن ماجہ ۱۸۲۳)
(١٠١٤٥) حضرت ابو سیارۃ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں (شہید ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر عشر ادا کرو۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول تو وہ آپ مجھ سے وصول فرما لیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصول فرما لیا۔

10146

(۱۰۱۴۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ؛ أَنَّ أَمِیرَ الطَّائِفِ کَتَبَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : إِنَّ أَہْلَ الْعَسَلِ مَنَعُونَا مَا کَانُوا یُعْطُونَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا ، قَالَ : فَکَتَبَ إلَیْہِ إِنْ أَعْطَوْک مَا کَانُوا یُعْطُونَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحْمِ لَہُمْ ، وَإِلاَّ فَلاَ تَحْمِہَا لَہُمْ ، قَالَ : وَزَعَمَ عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ أَنَّہُمْ کَانُوا یُعْطُونَ مِنْ کُلِّ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَۃً. (ابوداؤد ۱۵۹۷)
(١٠١٤٦) حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو امیر طائف نے خط لکھا کہ شہد والوں نے ہم سے روک لیا ہے جو وہ ہم سے پہلے والوں کو دیا کرتے تھے، حضرت عمر نے ان کو لکھا کہ اگر تو وہ اتنا ہی ادا کریں جتنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادا کرتے تھے تو ان سے وصول کرلو وگرنہ نہ وصول کرو، راوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمروبن شعیب کا گمان یہ تھا کہ وہ ہر دس مشکیزوں پہ ایک مشکیزہ دیا کرتے تھے۔

10147

(۱۰۱۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : فِی الْعَسَلِ عُشْرٌ.
(١٠١٤٧) حضرت عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ شہد میں عشر ہے۔

10148

(۱۰۱۴۸) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُنِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ ؛ أَنَّہُ قَدِمَ عَلَی قَوْمِہِ فَقَالَ لَہُم : فِی الْعَسَلِ زَکَاۃٌ ، فَإِنَّہُ لاَ خَیْرَ فِی مَالٍ لاَ یُزَکَّی ، قَالَ : قَالُوا : فَکَمْ تَرَی ؟ قُلْتُ : الْعُشْرُ ، قَالَ : فَأَخَذَ مِنْہُمَ الْعُشْرَ ، فَقَدِمَ بِہِ عَلَی عُمَرَ وَأَخْبَرَہُ بِمَا فِیہِ ، قَالَ : فَأَخَذَہُ عُمَرُ وَجَعَلَہُ فِی صَدَقَاتِ الْمُسْلِمِینَ.
(١٠١٤٨) حضرت سعد بن ابو ذباب اپنی قوم کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا : شہد میں زکوۃ ہے اور اس مال میں کوئی خیر نہیں جس کی زکوۃ نہ ادا کی گئی ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ قوم والوں نے عرض کیا کہ کتنا ہے ؟ آپ نے فرمایا عشر۔ پھر آپ نے ان سے عشر وصول فرمایا اور وہ لے کر حضرت عمر کی خدمت میں پہنچے اور ان کو اس کے بارے میں بتایا، حضرت عمر نے وہ وصول شدہ عشر ان سے لے کر مسلمانوں کے زکوۃ (میں جمع شدہ میں) رکھ لیا۔

10149

(۱۰۱۴۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : فِی الْعَسَلِ الْعُشْرُ.
(١٠١٤٩) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ شہد میں عشر ہے۔

10150

(۱۰۱۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّ مُعَاذًا لَمَّا أَتَی الْیَمَنَ أُتَیَ بِالْعَسَلِ وَأَوْقَاصِ الْغَنَمِ ، فَقَالَ : لَمْ أُومَر فِیہَا بِشَیْئٍ. (عبدالرزاق ۶۹۶۴۔ بیہقی ۱۲۸)
(١٠١٥٠) حضرت طاوس ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ جب یمن تشریف لائے تو ان کے پاس لوگ شہد اور بکریوں کے دو فریضوں کے درمیانی عدد کو لے کر آئے (اونٹ پانچ ہوں تو زکوۃ صرف ایک بکری ہے اور جب تک ان کی تعداد دس نہ ہو کوئی اضافہ نہ ہوگا پس پانچ سے دس تک وقص کہلاتا ہے) آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے ان کے (وصول کرنے کے) بارے میں حکم نہیں دیا گیا۔

10151

(۱۰۱۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَلَی الْیَمَنِ ، فَأَرَدْت أَنْ آخُذَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ ، قَالَ مُغِیرَۃُ بْنُ حَکِیمٍ الصَّنْعَانِیُّ : لَیْسَ فِیہِ شَیْئٌ ، فَکَتَبْتُ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَقَالَ : صَدَقَ ، وَہُوَ عَدْلٌ رضا.
(١٠١٥١) حضرت نافع ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر بن عبد العزیز نے یمن بھیجا، میں نے شہد میں عشر لینے کا ارادہ کیا تو مجھے مغیرہ بن حکیم الصنعانی نے منع فرمایا کہ اس میں عشر نہیں ہے۔ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو صورت حال لکھی، آپ نے ارشاد فرمایا انھوں نے ٹھیک کہا ہے وہ عادل ہیں۔

10152

(۱۰۱۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : سَأَلَنِی عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ صَدَقَۃِ الْعَسَلِ ؟ فَقُلْتُ : أَخْبَرَنِی الْمُغِیرَۃُ بْنُ حَکِیمٍ ، أَنَّہُ لَیْسَ فِیہِ صَدَقَۃٌ ، فَقَالَ عُمَرُ : عَدْلٌ مُصَدَّقٌ.
(١٠١٥٢) حضرت نافع ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے مجھ سے شہد کی زکوۃ کے بارے میں دریافت کیا، میں نے عرض کیا کہ حضرت مغیرہ بن حکیم نے مجھے بتایا ہے کہ اس میں کچھ نہیں ہے۔ (زکوۃ نہیں ہے) حضرت عمر بن عبد العزیز نے ارشاد فرمایا کہ وہ عادل ہیں ان کی تصدیق کی جائے گی۔

10153

(۱۰۱۵۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أُذَیْنَۃَ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَیْسَ الْعَنْبَرُ بِرِکَازٍ ، وَإِنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ دَسَرَہُ الْبَحْرُ ، لَیْسَ فِیہِ شَیْئٌ.
(١٠١٥٣) حضرت اذینہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ عنبر خزانہ نہیں ہے، بیشک عنبر وہ چیز ہے جس کو سمندر ساحل پہ پھینک دے، اس میں کچھ لازم نہیں۔

10154

(۱۰۱۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أُذَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْعَنْبَرِ زَکَاۃٌ ، إنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ دَسَرَہُ الْبَحْرُ.
(١٠١٥٤) حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے۔ عنبر وہ ہے جسے سمندر ساحل پر پھینک دے۔

10155

(۱۰۱۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الَعَنَبَرِ زَکَاۃٌ ، إنَّمَا ہُوَ غَنِیمَۃٌ لِمَنْ أَخَذَہُ.
(١٠١٥٥) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے۔ یہ تو جو اس کو حاصل کرلے اس کے لیے غنیمت ہے۔

10156

(۱۰۱۵۶) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ؛ أَنَّ عُرْوَۃَ بْنَ مُحَمَّدٍ کَتَبَ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فِی عَنْبَرَۃٍ فِیہَا سَبْعُمِئَۃِ رِطْلٍ ، قَالَ : فِیہَا الْخُمُسُ.
(١٠١٥٦) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت عروہ بن محمد نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ عنبر میں سات سو رطل ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس پر خمس (پانچواں حصہ) لیا جائے گا۔

10157

(۱۰۱۵۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ خَمَّسَ الْعَنْبَرَ.
(١٠١٥٧) حضرت لیث سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز عنبر پر خمس وصول فرماتے تھے۔

10158

(۱۰۱۵۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : فِی الْعَنْبَرِ الْخُمُسُ ، وَکَذَلِکَ کَانَ یَقُولُ فِی اللُّؤْلُؤِ.
(١٠١٥٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ عنبر میں خمس ہے اور ہیروں سے متعلق بھی یہی فرماتے ہیں۔

10159

(۱۰۱۵۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَأَلَ إبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الْعَنْبَرِ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ فِیہِ شَیْئٌ ، فَفِیہِ الْخُمُسُ.
(١٠١٥٩) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن سعد نے حضرت ابن عباس سے عنبر کے متعلق دریافت فرمایا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس پر خمس ہے۔

10160

(۱۰۱۶۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ سُئِلَ عَنِ الْعَنْبَرِ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ فِیہِ شَیْئٌ ، فَفِیہِ الْخُمُسُ.
(١٠١٦٠) حضرت طاوس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے عنبر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا اس میں خمس ہے۔

10161

(۱۰۱۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : کَانَ سُفْیَانُ یَقُولُ : لَیْسَ فِی الْعَنْبَرِ ، وَلاَ فِی الْعَسَلِ ، وَلاَ فِی الأَوْقَاصِ زَکَاۃٌ.
(١٠١٦١) حضرت سفیان ارشاد فرماتے ہیں کہ عنبر میں، شہد میں اور اوقاص میں (درمیانی عدد میں) زکوۃ نہیں ہے۔

10162

(۱۰۱۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ خُصَیْفٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ: لَیْسَ فِی حَجَرِ اللُّؤْلُؤِ ، وَلاَ حَجَرِ الزُّمُرُّدِ زَکَاۃٌ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَا لِتِجَارَۃٍ ، فَإِنْ کَانَا لِتِجَارَۃٍ فَفِیہِمَا زَکَاۃٌ.
(١٠١٦٢) حضرت عکرمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہیرے اور زمرد کے پتھر میں زکوۃ نہیں ہے، ہاں اگر تجارت کے لیے ہوں تو پھر ان پر زکوۃ ہے۔

10163

(۱۰۱۶۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: لَیْسَ فِی الْخَرَزِ وَاللُّؤْلُؤِ زَکَاۃٌ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَا لِتِجَارَۃٍ.
(١٠١٦٣) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ نگینہ اور ہیرے پر زکوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تجارت کیلئے ہوں (تو پھر زکوۃ ہے) ۔

10164

(۱۰۱۶۴) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ مِثْلَہُ.
(١٠١٦٤) حضرت عکرمہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

10165

(۱۰۱۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَرَزِ وَاللُّؤْلُؤِ زَکَاۃٌ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ لِتِجَارَۃٍ.
(١٠١٦٥) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ نگینہ اور ہیرے پر زکوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تجارت کیلئے ہوں (تو پھر زکوۃ ہے) ۔

10166

(۱۰۱۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَالزُّہْرِیِّ ، وَمَکْحُولٍ ، قَالُوا : لَیْسَ فِی الْجَوْہَرِ شَیْئٌ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ لِتِجَارَۃٍ.
(١٠١٦٦) حضرت حجاج، حضرت عطائ، حضرت زہری اور حضرت مکحول یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ جواہر پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ تجارت کیلئے نہ ہوں۔

10167

(۱۰۱۶۷) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃً ، إِلاَّ فِی الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، وَلاَ یَرَاہُ فِی الْجَوْہَرِ ، وَاللُّؤْلُؤِ وَہَذَا النَّحْوِ.
(١٠١٦٧) حضرت شعبہ سے مروی ہے کہ حضرت حکم زیور پر زکوۃ کو واجب نہیں سمجھتے تھے سوائے سونے اور چاندی کے، اور اس طرح جواہر اور ہیرے پر بھی زکوۃ کو واجب نہیں سمجھتے تھے۔

10168

(۱۰۱۶۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ أُرِیدَ بِہِ التِّجَارَۃُ فَفِیہِ الزَّکَاۃُ ، وَإِنْ کَانَ لَبَنٌ ، أَوْ طِینٌ . قَالَ : وَکَانَ الْحَکَمُ یَرَی ذَلِکَ.
(١٠١٦٨) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو تجارت کیلئے ہو اس پر زکوۃ ہے خواہ وہ دودھ اور مٹی کا گارا ہی کیوں نہ ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ حضرت حکم کی بھی یہی رائے تھی۔

10169

(۱۰۱۶۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْجَوْہَرِ زَکَاۃٌ ، إِلاَّ أَنْ یُشْتَرَی لِتِجَارَۃٍ.
(١٠١٦٩) حضرت حماد ارشاد فرماتے ہیں کہ جواہر میں زکوۃ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ تجارت کیلئے ہوں۔

10170

(۱۰۱۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَطَائٌ : لاَ صَدَقَۃَ فِی لُؤْلُؤٍ ، وَلاَ زَبَرْجَدٍ ، وَلاَ یَاقُوتٍ ، وَلاَ فُصُوصٍ ، وَلاَ عَرْضٍ ، وَلاَ شَیْئٍ لاَ یُدَارُ ، وَإِنْ کَانَ شَیْئٌ مِنْ ذَلِکَ یُدَارُ فَفِیہِ الصَّدَقَۃُ ، فِی ثَمَنِہِ حِینَ یُبَاعُ.
(١٠١٧٠) حضرت ابن جریج ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عطاء نے فرمایا کہ ہیرے، زبرجد (قیمتی پتھر) یاقوت، نگینہ اور سامان اور ہر وہ چیز جو گھومتی نہ ہو (تجارت میں) ان پر زکوۃ نہیں ہے اور جو چیز تجارت کیلئے ہو تو اس کو فروخت کرنے کے بعد اس کے ثمن پر زکوۃ ہے۔

10171

(۱۰۱۷۱) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْقَاسِمَ عَنِ اللُّؤْلُؤِ : ہَلْ فِیہِ زَکَاۃٌ ؟ فَقَالَ : مَا کَانَ مِنْہُ یُلْبَسُ کَالْحُلِیِّ لَیْسَ لِتِجَارَۃٍ ، فَلاَ زَکَاۃَ فِیہِ ، وَمَا کَانَ مِنْ ذَلِکَ لِلتِّجَارَۃِ فَفِیہِ الزَّکَاۃُ.
(١٠١٧١) حضرت اسامہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے ہیرے کی زکوۃ کے بارے میں دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ جو پہنتے ہیں جیسے زیور وغیرہ اور وہ تجارت کیلئے نہ ہو ان پر زکوۃ نہیں ہے۔ اور جو تجارت کیلئے ہو اس پر زکوۃ ہے۔

10172

(۱۰۱۷۲) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ ، فِی حَدِیثٍ ذَکَرَہُ ؛ کَأَنَّہُ یَرَی فِیہِ الزَّکَاۃَ ، یَعْنِی اللُّؤْلُؤَ.
(١٠١٧٢) حضرت ابو الملیح ہیرے پر زکوۃ کے قائل تھے۔

10173

(۱۰۱۷۳) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَا سُقِیَ سَیْحًا فَفِیہِ الْعُشْرُ ، وَمَا سُقِیَ بِالْغُرْبِ فَفِیہِ نِصْفُ الْعُشْرِ. (دارقطنی ۷)
(١٠١٧٣) حضرت عمروبن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس زمین کو جاری پانی سے سیراب کیا ہو اس پر عشر ہے اور جس زمین کو اونٹوں سے پانی نکال کر سیراب کیا ہو اس پر نصف عشر ہے۔

10174

(۱۰۱۷۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْیَمَنِ : یُؤْخَذُ مِمَّا سَقَتِ السَّمَائُ ، وَسُقِیَ بِالْغَیْلِ مِنَ الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالزَّبِیبِ الْعُشْرُ ، وَمَا سُقِیَ بِالسَّوَانِی نِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٧٤) حضرت امام شعبی سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن والوں کو لکھا کہ : جس زمین کو آسمان سیراب کرے یا جاری پانی سیراب کرے، گندم، جو، کشمش اور کھجور ہوں تو اس پر عشر ہے اور جس زمین کو اونٹوں کے ذریعہ پانی نکال کر سیراب کیا گیا ہو اس پر نصف عشر ہے۔

10175

(۱۰۱۷۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی مُعَاذٍ بِالْیَمَنِ ، إِنَّ فِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ ، أَوْ سُقِیَ غَیْلاً الْعُشْرَ ، وَفِیمَا سُقِیَ بِالْغُرْبِ وَالدَّالِیَۃِ نِصْفَ الْعُشْرِ.
(١٠١٧٥) حضرت حکم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن میں لکھا : جس زمین کو آسمان یا جاری پانی سیراب کرے اس پر عشر ہے اور جس زمین کو اونٹوں کے ذریعہ یا ڈولوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر ہے۔

10176

(۱۰۱۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہَمَّامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ صَالِحٍ أَبِی الْخَلِیلِ ، قَالَ : سَنَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا سَقَت السَّمَائُ ، أَوِ الْعَیْنُ السَّائِحَۃُ وَمَائُ الْغَیْلِ ، أَوْ کَانَ بَعْلاً الْعُشْرُ کَامِلاً ، وَمَا سُقِیَ بِالرِّشَائِ فَنِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٧٦) حضرت صالح بن ابو الخلیل سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طریقہ جاری فرمایا کہ جس زمین کو آسمان کا پانی، یا جاری چشمہ، اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے یا پھر اس زمین کو پانی کی ضرورت نہیں ہے وہ زمین کی تری سے پانی حاصل کرتی ہے ان سب پر کامل عشر ہے اور جس زمین کو رسی (ڈول) کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس زمین پر نصف عشر ہے۔

10177

(۱۰۱۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : فِیمَا سقَت السَّمَائُ ، أَوْ کَانَ سَیْحًا الْعُشْرُ ، وَمَا سُقِیَ بِالدَّالِیَۃِ فَنِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٧٧) حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس زمین کو آسمان کا پانی یا جاری پانی سیراب کرے اس پر عشر ہے اور جس زمین کو ڈول کے ساتھ سیراب کیا جائے اس پر نصف عشر ہے۔

10178

(۱۰۱۷۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ : سَنَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا سَقَت السَّمَائُ ، أَوْ سَقَی الْغَیْلُ ، وَکَانَ بَعْلاً الْعُشْرُ کَامِلاً ، وَمَا سُقِیَ بِالرِّشَائِ فَنِصْفُ الْعُشْرِ . قَالَ : وَقَالَ قَتَادَۃُ : وَکَانَ یُقَالُ : فِیمَا یُکَالُ مِنَ الثَّمَرَۃِ الْعُشْرُ ، وَنِصْفُ الْعُشْرِ. (مسلم ۱۵۷۱)
(١٠١٧٨) حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طریقہ جاری فرمایا کہ جس زمین کو بارش یا جاری چشمہ یا اونٹوں کے ذریعہ سیراب کیا جائے یا پھر اس زمین کو پانی کی ضرورت نہیں ہے وہ زمین کی تری سے پانی حاصل کرتی ہے ان سب پر کامل عشر ہے اور جس زمین کو رسی (ڈول) کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس زمین پر نصف عشر ہے اور حضرت قتادہ کہا کرتے تھے کہ جن پھلوں کو کیل کیا جاتا ہے ان میں عشر یا نصف عشر ہے۔

10179

(۱۰۱۷۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : صَدَقَۃُ الثمَّارِ ، وَالزَّرْعِ ، وَمَا کَانَ مِنْ نَخْلٍ ، أَوْ زَرْعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ ، أَوْ شَعِیرٍ ، أَوْ سُلْتٍ مِمَّا کَانَ بَعْلاً، أَوْ یُسْقَی بِنَہَرٍ ، أَوْ یُسْقَی بِالْعَیْنِ ، أَوْ عَثَرِیًّا یُسْقَی بِالْمَطَرِ فَفِیہِ الْعُشْرُ ، مِنْ کُلِّ عَشَرَۃٍ وَاحِدٌ ، وَمَا کَانَ مِنْہُ یُسْقَی بِالنَّضْحِ فَفِیہِ نِصْفُ الْعُشْرِ ، فِی کُلِّ عِشْرِینَ وَاحِدٌ ، وَکَتَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی أَہْلِ الْیَمَنِ، إلَی الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ کُلاَلٍ ، وَمَنْ مَعَہُ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ مِنْ مَعَافِرَ وَہَمْدَانَ : أَنَّ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ مِنْ صَدَقَۃِ أَمْوَالِہِمْ عُشُورَ ، مَا سَقَتِ الْعَیْنُ ، وَسَقَتِ السَّمَائُ الْعُشْرُ ، وَعَلَی مَا یُسْقَی بِالْغُرْبِ نِصْفُ الْعُشْرِ. (دارقطنی ۱۳۰۔ بیہقی ۱۳۰)
(١٠١٧٩) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ پھلوں پر زکوۃ اور کھیتی کی زکوۃ خواہ وہ کھجور ہو، گندم ہو یا جو ہو یا جو کی ہی کوئی نوع، یا پھر اس کو نہر سے سیراب کیا جاتا ہو یا چشمے کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو یا اس کو بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہو ان پر عشر ہے یعنی دس پر ایک، اور جس زمین کو ڈول سے سیراب کیا جاتا ہو اس پر نصف عشر ہے یعنی بیس پر ایک، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حارث بن عبد کلال اور دوسرے حضرات کو یمن میں لکھ کر بھیجا تھا کہ مؤمنین کے وہ اموال (زمین) جن کو چشمہ کے پانی سے سیراب کیا جائے یا آسمان کے پانی سے سیراب کیا جائے اس پر عشر ہے اور جس کو سیراب کیا جائے ڈول سے اس پر نصف عشر ہے۔

10180

(۱۰۱۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : فِیمَا یُسْقَی بِالْکَظَائِمِ مِنْ نَخْلٍ ، أَوْ عِنَبٍ ، أَوْ حَبٍّ ، قَالَ : الْعُشْرُ.
(١٠١٨٠) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ جس زمین کو کنوؤں کے پانی سے نالی نکال کر سیراب کیا جائے کھجور ہو، انگور ہو یا دوسری کھیتی (دانے) ہو اس کا ایک حکم ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا اس پر عشر ہے۔

10181

(۱۰۱۸۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ: فِیہَا الْعُشْرُ.
(١٠١٨١) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر سے سنا ہے کہ اس میں عشر ہے۔

10182

(۱۰۱۸۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : فَکَمْ فِیمَا کَانَ بَعْلاً مِنْ نَخْلٍ ، أَوْ عَثری مِن حَبٍّ ، أَوْ حَرْثٍ ؟ قَالَ : الْعُشْرُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : فَکَمْ فِیمَا یُسْقَی غَیْلاً مِنْ نَخْلٍ ، أَوْ عِنَبٍ ، أَوْ حَبٍّ ؟ قَالَ : الْعُشْرُ ، قُلْتُ : فِیمَا یُسْقَی بِالدَّلْوِ وَبِالْمَنَاضِحِ ؟ قَالَ : نِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٨٢) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ جس کھجور (کے باغ کو) کو بغیر مشقت کے سیراب کیا جائے یا کھیتی اور دانے کو بارش کے پانی سے سیراب کیا جائے اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ عشر۔ میں نے عرض کیا کہ کھجور، انگور اور دانے کو اگر جاری پانی سے سیراب کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ عشر ہے، میں نے عرض کیا کہ جس زمین کو ڈول اور اونٹوں سے سیراب کیا جائے اس کا حکم ہے ؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ نصف عشر۔

10183

(۱۰۱۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّہُ قَالَ : نِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٨٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ ابو زبیر نے مجھے خبر دی کہ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نصف عشر ہے۔

10184

(۱۰۱۸۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُوَقِّتُ فِی الثَّمَرَۃِ شَیْئًا ، وَیَقُولُ : الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ.
(١٠١٨٤) حضرت معمر سے مروی ہے کہ حضرت امام زہری پھلوں میں کوئی چیز موقت نہیں فرماتے۔ فرماتے ہیں کہ عشر یا نصف عشر ہے۔

10185

(۱۰۱۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ مِثْلَہُ.
(١٠١٨٥) حضرت مجاہد سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

10186

(۱۰۱۸۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ : کَتَبَ بِذَلِکَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ إلَی أَہْلِ الْیَمَنِ.
(١٠١٨٦) حضرت معمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے یمن والوں کو بھی اسی طرح (کا حکم) لکھا تھا۔

10187

(۱۰۱۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی الْبُرِّ ، وَالشَّعِیرِ ، وَالتَّمْرِ ، وَالْعِنَبِ ، إذَا کَانَ خَمْسَۃَ أَوْسَاقٍ ، وَذَلِکَ ثَلاَثُ مِئَۃِ صَاعٍ فَفِیہِ نِصْفُ الْعُشْرِ ، إذَا کَانَ یُسْقَی ، وَمَا سَقَت السَّمَائُ وَالْعَیْنُ فَفِیہِ الْعُشْرُ.
(١٠١٨٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ گندم، جو، کھجور اور انگور جب پانچ وسق ہوں، پانچ وسق تین سو صاع بنتے ہیں تو اگر ان کو خود سیراب کیا جاتا ہو تو ان پر نصف عشر ہے اور اگر آسمان یا چشمہ کے پانی سے سیراب ہوتے ہوں تو اس پر عشر ہے۔

10188

(۱۰۱۸۸) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، عَنْ لَیْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ عَبْدَ اللہِ کَانَ یُفْتِی فِی صَدَقَۃِ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ، مَا کَانَ فِیہِمَا یَشْرَبُ بِالنَّہَرِ ، أَوْ بِالْعیون ، أَوْ عَثَرِیًّا ، أَوْ بَعْلٍ ، فَإِنَّ صَدَقَتَہُ الْعُشُورُ ، مِنْ کُلِّ عَشْرَۃٍ وَاحِدٌ، وَمَا کَانَ مِنْہَا یُسْقَی بِالأَنْضَاحِ ، فَإِنَّ صَدَقَتَہُ نِصْفُ الْعُشُورِ ، وَفِی کُلِّ عِشْرِینَ وَاحِدٌ.
(١٠١٨٨) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ پھلوں اور کھیتی کی زکوۃ کے بارے میں فتوٰی دیا کرتے تھے کہ جس کو نہر یا چشمہ کے پانی یا بارش کے پانی سے یا اونٹ کے ذریعہ سیراب کیا جائے اس پر زکوۃ عشر ہے یعنی ہر دس پر ایک اور جس کو تالاب کے ذریعہ سے سیراب کیا جائے (پانی اٹھا اٹھا کر لا کر سیراب کیا جائے) تو اس پر زکوۃ نصف عشر ہے یعنی ہر بیس پر ایک ہے۔

10189

(۱۰۱۸۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الزَّرْعِ یَکُونُ عَلَی السَّیْحِ الزَّمَانِ ، ثُمَّ یُسْقَی بِالْبِئْرِ، یَعْنِی بِالدَّالِیَۃِ ؟ قَالَ : یُصَدَّقُ عَلَی أَکْثَرِ ذَلِکَ أَنْ یُسْقَی بِہِ.
(١٠١٨٩) حضرت ابن جریج سے مروی ہے کہ حضرت عطاء سے سوال کیا گیا کہ جس کھیتی کو کچھ عرصہ جاری پانی سے سیراب کیا جائے پھر اس کو کنویں سے ڈول نکال نکال کر سیراب کیا جائے تو اس زمین پر زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ : جس طریقہ سے زیادہ مدت سرْاب کیا گیا ہے اسی کا اعتبار ہوگا۔

10190

(۱۰۱۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : إنَّمَا یَکُونُ عَلَی الْعَیْنِ عَامَّۃَ الزَّمَانِ ، ثُمَّ یَحْتَاجُ إلَی الْبِئْرِ فِی الْقِطعَۃِ یُسْقَی بِہَا ، ثُمَّ الْقِطْعَۃِ ، ثُمَّ یَصِیرُ إلَی الْعَیْنِ ، کَیْفَ صَدَقَتُہُ ؟ قَالَ : الْعُشْرُ ، قَالَ : یَکُونُ ذَلِکَ عَلَی أَکْثَرِ ذَلِکَ أَنْ یُسْقَی بِہِ ، إِنْ کَانَ یُسْقَی بِالْعَیْنِ أَکْثَرَ مِمَّا یُسْقَی بِالدَّلْوِ ، فَفِیہِ الْعُشْرُ، وَإِنْ کَانَ یُسْقَی بِالدَّلْوِ ، أَکْثَرَ مِمَّا یُسْقَی بِالنَّجْلِ ، فَفِیہِ نِصْفُ الْعُشْرِ ، قُلْتُ : ہُوَ بِمَنْزِلَۃِ ذَلِکَ أَیْضًا الْمَالُ یَکُونُ بَعْلاً ، أَوْ عَثَرِیًّا عَامَّۃَ الزَّمَانِ ، ثُمَّ یَحْتَاجُ إلَی الْبِئْرِ ؟ قَالَ : نَعَمْ . قَالَ أَبُو الزُّبَیْرِ : وَسَمِعْت ابْنَ عُمَیرَ یَقُولُ ہَذَا الْقَوْلَ ، ثُمَّ سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ؟ فَقَالَ : مِثْلَ قَوْلِ عُبَیدِِ.
(١٠١٩٠) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ : کسی زمین کو کچھ عرصہ تک جاری (چشمہ وغیرہ) پانی سے سیراب کیا جائے پھر اس کے کسی حصہ کو کنویں کے پانی سے سیراب کرنے کی ضرورت پیش آجائے پھر کسی دوسرے حصے کو چشمہ کے پانی سے سیراب کیا جائے تو اس کی زکوۃ کس طرح نکالی جائے گی ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عشر ہے۔ فرمایا کہ جس طریقہ سے زیادہ عرصہ سیراب کیا گیا ہے حکم اسی کے تابع ہوگا کہ اگر ڈول کی بجائے چشمہ کے پانی سے زیادہ عرصہ سیراب کیا گیا ہو تو اس پر عشر ہے۔ اور اگر چشمہ کی بجائے ڈول سے زیادہ عرصہ سیراب کیا گیا ہو تو اس پر نصف عشر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جس مال کو (زمین) کو کچھ عرصہ اونٹ اور آسمان کی بارش سے سیراب کیا جائے پھر کنویں سے سیراب کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : جی ہاں۔ ابو زبیر راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمیر کو بھی اسی طرح فرماتے ہوئے سنا، پھر میں نے سالم ابن عبداللہ سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے عبید کی طرح جواب دیا۔

10191

(۱۰۱۹۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ حَبِیبٍ الْمُعَلِّمِ ، قَالَ : کَانَ عَطَائٌ یَقُولُ : فِی الزَّرْعِ إذَا أَعْطَی صَاحِبُہُ أَجْرَ الْحَصَّادِینَ ، وَالَّذِینَ یَذُرُّونَ ، ہَلْ عَلَیْہِ فِیمَا أَعْطَاہُمْ صَدَقَۃٌ ؟ قَالَ : لاَ ، إنَّمَا الصَّدَقَۃُ فِیمَا حَصَلَ فِی یَدِک.
(١٠١٩١) حضرت حبیب بن معلم فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء فرمایا کرتے تھے کہ : کھیتی کا مالک جب بیچ ڈالنے والے اور کھیتی کا دیگر کام کرنے والوں کو اجرت دیتا ہے تو کیا اس اجرت پر بھی زکوۃ آئے گی ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں، زکوۃ تو اس پر ہے جو تیرے ہاتھ میں باقی بچا ہے (منافع بچا ہے) ۔

10192

(۱۰۱۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یُنْفِقُ عَلَی ثَمَرَتِہِ ؟ فَقَالَ أَحَدُہُمَا : یُزَکِّیہَا ، وَقَالَ الآخَرُ : یَرْفَعُ النَّفَقَۃَ ، وَیُزَکِّی مَا بَقِیَ.
(١٠١٩٢) حضرت جابر بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ : جو آدمی اپنے پھلوں پر خرچ کرتا ہے اس پر بھی زکوۃ ہے ؟ تو ایک نے ارشاد فرمایا کہ زکوۃ ہے۔ دوسرے نے ارشاد فرمایا کہ جو خرچ کیا ہے اس کو الگ کرے گا اور باقی پر زکوۃ ہے۔

10193

(۱۰۱۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : اِرْفَعِ الْبذْرَ ، وَالنَّفَقَۃَ ، وَزَکِّ مَا بَقِیَ.
(١٠١٩٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ بیج اور جو خرچ کیا ہے اس کو الگ کرلو اور باقی پر زکوۃ ادا کرو۔

10194

(۱۰۱۹۴) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَاعِیًا عَلَی الصَّدَقَۃِ فَأَتَی الْعَبَّاسَ یَسْتَسْلِفہُ ، فَقَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ : إنِّی أَسْلَفْتُ صَدَقَۃَ مَالِی إِلَی سَنَتَیْنِ ، فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ : صَدَقَ عَمِّی. (ترمذی ۶۷۸۔ ابوداؤد ۱۶۲۱)
(١٠١٩٤) حضرت حکم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ وصول کرنے والے کو زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا۔ وہ حضرت عباس کے پاس آیا اور ان سے زکوۃ طلب کی۔ حضرت عباس نے ان سے فرمایا کہ میں تو اپنے مال کی دو سال کی زکوۃ پہلے ہی ادا کرچکا ہوں۔ وہ زکوۃ وصول کرنے والا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ” میرے چچا نے سچ کہا ہے “۔

10195

(۱۰۱۹۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ یُوسُفَ بْنِ عَبْدَۃَ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُعَجِّلَہَا.
(١٠١٩٥) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ زکوۃ جلدی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10196

(۱۰۱۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ بِتَعْجِیلِ الزَّکَاۃِ.
(١٠١٩٦) حضرت سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

10197

(۱۰۱۹۷) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، أَوْ عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تُعَجِّلَ زَکَاۃَ مَالِکَ ، وَتَحْتَسِبَ بِہَا فِیمَا یَسْتَقْبِلُ.
(١٠١٩٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تو اپنے مال کی زکوۃ جلدی (پہلے ہی) ادا کر دے اور اس میں مستقبل کا حساب کرلے۔

10198

(۱۰۱۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ بَأْسَ بِتَعْجِیلِ الزَّکَاۃِ إذَا أَخْرَجہَا جَمِیعًا.
(١٠١٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب تو ساری زکوۃ ہی جلدی ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10199

(۱۰۱۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ رَجُلٍ أَخْرَجَ زَکَاۃَ ثَلاَثَ سِنِینَ ضَرْبَۃً ؟ قَالَ : یُجْزِیہِ.
(١٠١٩٩) حضرت حفص بن سلیمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے پوچھا کہ ایک شخص نے تین سالوں کی زکوۃ اکٹھی ایک ساتھ نکال دی ہے (تو کیا ٹھیک ہے) ؟ آپ نے فرمایا : اس کیلئے یہ کافی ہے (اس طرح کرنا جائز ہے)

10200

(۱۰۲۰۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُعَجِّلَہَا قَبْلَ مَحِلِّہَا.
(١٠٢٠٠) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ سال مکمل ہونے سے قبل ہی زکوۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10201

(۱۰۲۰۱) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُعَجِّلَہَا.
(١٠٢٠١) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ زکوۃ جلدی ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10202

(۱۰۲۰۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ یُونُسَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُعَجِّلَ الرَّجُلُ زَکَاتَہُ قَبْلَ الْحِلِّ.
(١٠٢٠٢) حضرت عمر بن یونس فرماتے ہیں کہ کوئی شخص سال مکمل ہونے سے پہلے ہی زکوۃ ادا کر دے تو حضرت زہری اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

10203

(۱۰۲۰۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : مَا أَدْرِی مَا ہَذَا ، فِی تَعْجِیلِ الزَّکَاۃِ قَبْلَ الْحِلِّ بِشَہْرٍ ، أَوْ شَہْرَیْنِ ؟.
(١٠٢٠٣) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا ہے ؟ زکوۃ فرض ہونے سے پہلے ہی زکوۃ ادا کردینا ایک مہینہ یا دو مہینے پہلے۔

10204

(۱۰۲۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَک ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُخْرِجُ لَہُ الطَّعَامَ مِنْ أَرْضِہِ فَیُزَکِّیہِ ، ثُمَّ یَمْکُثُ عِنْدَہُ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلاَثَ فَلاَ یُزَکِّیہ ، وَہُوَ یُرِیدُ أَنْ یَبِیعَہُ.
(١٠٢٠٤) حضرت ابن طاوس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ زمین کی کھیتی جب نکالی جاتی تو وہ اس میں سے زکوۃ ادا کردیتے پھر اس کے بعد دو تین سال تک اس کو فروخت کرنے کے ارادے سے زکوۃ نہ نکالتے بلکہ ٹھہرے رہتے۔

10205

(۱۰۲۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ: إذَا أُخِذَ مِنَ الزَّرْعِ الْعُشْرُ ، فَلَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ ، وَإنْ مَکَثَ عَشْرَ سِنِینَ.
(١٠٢٠٥) حضرت عبداللہ بن ابی جعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے (زکوۃ وصول کرنے والوں کو) لکھا جب کھیتی سے عشر وصول کرلیا جائے تو پھر اس پر زکوۃ نہیں ہے اگرچہ وہ دس سال تک ٹھہری رہے (باقی رہے) ۔

10206

(۱۰۲۰۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا أَخْرَجَ صَدَقَۃَ الزَّرْعِ ، وَالتَّمْرِ ، وَکُلِّ شَیْئٍ أَنْبَتَتِ الأَرْضُ ، فَلَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ.
(١٠٢٠٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب کھیتی، کھجور اور ہر وہ چیز جو زمین اگاتی ہے اس پر عشر وصول کرلیا جائے تو پھر اس پر زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر سال گذر جائے۔

10207

(۱۰۲۰۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : طَعَامٌ أُمْسِکُہُ أُرِیدُ أَکْلَہُ ، فَیَحُولُ عَلَیْہِ الْحَوْلُ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْک فِیہِ صَدَقَۃٌ ، لَعَمْرِی إنَّا لَنَفْعَلُ ذَلِکَ ، نَبْتَاعُ الطَّعَامَ ، وَمَا نُزَکِّیہِ ، فَإِنْ کُنْت تُرِیدُ بَیْعَہُ فَزَکِّہِ إذَا بِعْتَہُ.
(١٠٢٠٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ : ہم کھانا اپنے پاس جمع رکھتے ہیں کھانے کی نیت سے اس پر سال گذر جاتا ہے (اس کا کیا حکم ہے) ؟ آپ نے فرمایا اس کا آپ پر زکوۃ نہیں ہے پھر فرمایا میری زندگی کی قسم ہم لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ کھانا خریدتے ہیں اور اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتے، جب آپ کھانا فروخت کرنے کی نیت سے خریدو تو اس پر زکوۃ ادا کرو۔

10208

(۱۰۲۰۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ الْکَرِیمِ فِی الْحَرْثِ : إذَا أَعْطَیْت زَکَاتَہُ أَوَّلَ مَرَّۃٍ فَحَالَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ عِنْدَکَ ، فَلاَ تُزَکِّہِ حَسْبُک الأُولَی.
(١٠٢٠٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے عبد الکریم نے فرمایا : جب تم کھیتی کی زکوۃ ایک بار ادا کردو پھر تمہارے پاس پڑی پڑی اس پر سال گذر جائے تو اس پر دوبارہ زکوۃ ادا مت کرنا بلکہ وہ پہلی زکوۃ ہی آپ کیلئے کافی ہے۔

10209

(۱۰۲۰۹) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی الْیَقْظَانِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ؛ أَنَّ عَلِیًّا زَکَّی أمْوَالَ بَنِی أَبِی رَافِعٍ ، أَیْتَامٍ فِی حِجْرِہِ ، وَقَالَ : تُرَوْنَ کُنْتُ أَلِی مَالاً لاَ أُزَکِّیہِ ؟!.
(١٠٢٠٩) حضرت ابن ابی لیلیٰ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ابو رافع کے یتیم بیٹے جو ان کی پرورش میں تھے ان کے مال کی زکوۃ نکالی اور فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنی اولاد کو ایسا مال کھلاؤں گا جسے پاک نہیں کروں گا۔

10210

(۱۰۲۱۰) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : کُنَّا أَیْتَامًا فِی حِجْرِ عَائِشَۃَ ، فَکَانَتْ تُزَکِّی أَمْوَالَنَا وَنُبْضِعُہَا فِی الْبَحْرِ.
(١٠٢١٠) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ ہم یتیم تھے اور حضرت عائشہ کی پرورش میں تھے آپ ہمارے مال کی زکوۃ نکالا کرتی تھیں اور اس مال کو سمندر میں تجارت میں لگایا کرتی تھیں۔

10211

(۱۰۲۱۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃٌ.
(١٠٢١١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال پر زکوۃ ہے۔

10212

(۱۰۲۱۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُزَکِّی مَالَ الْیَتِیمِ.
(١٠٢١٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر یتیم کے مال زکوۃ نکالا کرتے تھے۔

10213

(۱۰۲۱۳) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : ابْتَغُوْا لِلْیَتَامَی فِی أَمْوَالِہِمْ، لاَ تَسْتَغْرِقُہَا الزَّکَاۃُ.
(١٠٢١٣) حضرت امام زہری سے مروی ہے حضرت عمر فاروق نے ارشاد فرمایا : کوشش کر کے یتیموں کے مال کی زکوۃ اس طرح ادا کرو کہ زکوۃ ان کے مال کا پورا احاطہ ہی نہ کرے (زکوۃ میں ان کا سارا مال ہی ادا نہ کردو) ۔

10214

(۱۰۲۱۴) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی ، وَحَنْظَلَۃَ ، وَحُمَیْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّ عَائِشَۃَ کَانَتْ تُبْضِعُ أَمْوَالَہُمْ فِی الْبَحْرِ ، وَتُزَکِّیہَا.
(١٠٢١٤) حضرت قاسم سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ یتیموں کے مال کو تجارت پر لگایا کرتی تھیں اور اس پر زکوۃ ادا فرمایا کرتی تھیں۔

10215

(۱۰۲۱۵) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، عَنْ مَکْحُولٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: ابْتَغُوا بِأَمْوَالِ الْیَتَامَی، لاَ تَسْتَغْرِقُہَا الصَّدَقَۃُ.
(١٠٢١٥) حضرت امام زہری سے مروی ہے حضرت عمر فاروق نے ارشاد فرمایا : کوشش کر کے یتیموں کے مال کی زکوۃ اس طرح ادا کرو کہ زکوۃ ان کے مال کا پورا احاطہ ہی نہ کرے (زکوۃ میں ان کا سارا مال ہی ادا نہ کردو) ۔

10216

(۱۰۲۱۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنِ أَبِی فَرْوَۃَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃٌ.
(١٠٢١٦) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال پر زکوۃ ہے۔

10217

(۱۰۲۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ فِی مَالِ الْیَتِیمِ : لَہُ حَقٌّ وَعَلَیْہِ حَقٌّ ، وَلاَ أَقُولُ إِلاَّ مَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی.
(١٠٢١٧) حضرت ابن سیرین یتیم کے مال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : اس کیلئے بھی کچھ حق ہیں اور اس پر بھی کچھ حق ہیں۔ اور میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا میں تو وہی کہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

10218

(۱۰۲۱۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ طَاوُوسٍ، قَالَ: زَکِّ مَالَ الْیَتِیمِ، وَإِلاَّ فَہُوَ دَیْنٌ فِی عُنُقِکَ.
(١٠٢١٨) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال کی زکوۃ ادا کر ورنہ وہ تیرے ذمہ قرض باقی رہے گا۔

10219

(۱۰۲۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : دُعِی ابْنُ عُمَرَ إلَی مَالِ یَتِیمٍ ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتُمْ وَلَّیْتُہُ عَلَی أَنْ أُزَکِّیَہُ حَوْلاً إلَی حَوْلٍ.
(١٠٢١٩) حضرت عبداللہ بن دینار سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر کو یتیم کے مال کا ولی بننے کیلئے کہا گیا تو آپ نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو کہ میں اس کا ولی بن جاؤں اور ہر سال اس کی زکوۃ ادا کروں (تو ٹھیک ہے وگرنہ نہیں) ۔

10220

(۱۰۲۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ رَأَی فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃً.
(١٠٢٢٠) حضرت مالک بن مغول فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء یتیم کے مال پر زکوۃ کو فرض سمجھتے تھے۔

10221

(۱۰۲۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : أَحْصِ مَا یَجِبُ فِی مَالِ الْیَتِیمِ مِنَ الزَّکَاۃِ ، فَإِذَا بَلَغَ وَأُونِسَ مِنْہُ رُشْدُہُ فَأَعْلِمْہُ ، فَإِنْ شَائَ زَکَّاہُ ، وَإِنْ شَائَ تَرَکَہُ.
(١٠٢٢١) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال پر جو زکوۃ واجب ہے اس کا حساب لگاتے رہو پھر جب وہ بالغ ہوجائے اور سن بلوغ کو پہنچ جائے تو اس کو بتادو اگر وہ چاہے تو زکوۃ ادا کر دے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔

10222

(۱۰۲۲۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحْتَلِمَ.
(١٠٢٢٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ یتیم جب تک بالغ نہ ہوجائے اس کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10223

(۱۰۲۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، مِثْلَہُ.
(١٠٢٢٣) حضرت ابراہیم سے اسی طرح منقول ہے۔

10224

(۱۰۲۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحْتَلِمَ.
(١٠٢٢٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ یتیم جب تک بالغ نہ ہوجائے اس کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10225

(۱۰۲۲۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ عِنْدَہُ مَالٌ لِبَنِی أَخٍ لَہُ أَیْتَامٍ ، فَلاَ یُزَکِّیہ.
(١٠٢٢٥) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کے پاس بھائی کی یتیم اولاد کا مال تھا لیکن وہ اس پر زکوۃ نہیں نکالا کرتے تھے۔

10226

(۱۰۲۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ شُرَیْحٍ ، فِی مَالِ الْیَتِیمِ قَالَ : أَوْشَکَ إِذَا أَخَذْتَ مِنْہُ الذَوْدَ وَالذَوْدَین لاَ یَبْقَی مِنْہُ شَیْء .
(١٠٢٢٦) حضرت شریح فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال کے بارے میں کہ لازمی بات ہے کہ جب تو تھوڑی چیز نکالتا رہے گا تو اس کے پاس کچھ نہ بچے گا۔

10227

(۱۰۲۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْیَتِیمِ زَکَاۃٌ.
(١٠٢٢٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال پر (بلوغت سے پہلے) زکوۃ نہیں ہے۔

10228

(۱۰۲۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعبیَِّ عَنْ مَالِ الْیَتِیمِ ، فِیہِ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَلَوْ کَانَ عِنْدِی مَا زَکَّیْتُہُ.
(١٠٢٢٨) حضرت سعید بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے یتیم کے مال کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا اس پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں۔ اگر وہ میرے پاس ہوتا تو میں اس کی زکوۃ نہ دیتا۔

10229

(۱۰۲۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَمَانٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاہِدًا یَقُولُ : أَحْصِہِ ، فَإِذَا عَلِمْت فَزَکِّہِ.
(١٠٢٢٩) حضرت حسن بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مجاہد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ (یتیم کا مال) شمار کرتے رہو۔ جب آپکو معلوم ہوجائے (کہ زکوۃ کو پہنچ گیا ہے) تو زکوۃ ادا کردو۔

10230

(۱۰۲۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُؤْخَذُ مِنَ النَّخْلِ وَالْمَاشِیَۃِ ، فَأَمَّا الْمَالُ فَحَتَّی یَحْتَلِمَ . یَعْنِی مَالَ الْیَتِیمِ.
(١٠٢٣٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کھجور کے درخت اور جانوروں پر زکوۃ لی جائے گی باقی رہا یتیم کا مال تو اس پر تب تک زکوۃ نہیں ہے جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔

10231

(۱۰۲۳۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ؛ أَنَّ أَبَا وَائِلٍ قَالَ : کَانَ فِی حِجْرِی یَتِیمٌ لَہُ ثَمَانیَۃُ آلاَفٍ ، فَلَمْ أُزَکِّہَا حَتَّی لَمَّا بَلَغَ دَفَعْتہَا إلَیْہِ.
(١٠٢٣١) حضرت عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ میری پرورش میں ایک یتیم تھا اس کی ملکیت میں آٹھ ہزار (درھم یا دینار) تھے میں نے اس کی زکوۃ نہ دی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگیا تو میں نے مال اس کو واپس کردیا۔

10232

(۱۰۲۳۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ مَالُ یَتِیمٍ ، فَاسْتَسْلَفَ مَالَہُ حَتَّی لاَ یُؤَدِّیَ زَکَاتَہُ.
(١٠٢٣٢) حضرت عبد الرحمن بن السائب سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس یتیم کا مال تھا، بطور ادھار وہ مال دے دیا تاکہ اس کی زکوۃ ادا نہ کریں۔

10233

(۱۰۲۳۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ، عَنْ خُثَیْمِ بْنِ عِرَاکٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ : سَمِعْت أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لاَ صَدَقَۃَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِی عَبْدِہِ ، وَلاَ فَرَسِہِ.(بخاری ۱۴۶۴۔ مسلم ۶۷۶)
(١٠٢٣٣) حضرت عراک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوۃ نہیں ہے۔

10234

(۱۰۲۳۴) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، إِنَّہُ لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِی فَرَسِہِ ، وَلاَ عَبْدِہِ صَدَقَۃٌ. (بخاری ۱۴۶۳۔ ابوداؤد ۱۵۹۱)
(١٣٢٣٤) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوۃ نہیں ہے۔

10235

(۱۰۲۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أُسَامَۃَ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إِنَّہُ لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِی عَبْدِہِ ، وَلاَ فَرَسِہِ ، وَلاَ وَلِیدَتِہِ صَدَقَۃٌ. (دارقطنی ۸)
(١٠٢٣٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا مسلمان پر اس کے غلام، اس کے گھوڑے اور باندی کی زکوۃ نہیں ہے۔

10236

(۱۰۲۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، وسُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ ، عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِی فَرَسِہِ ، وَلاَ عَبْدِہِ صَدَقَۃٌ. (ترمذی ۶۲۸۔ احمد ۲/۴۷۷)
(١٠٢٣٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوۃ نہیں ہے۔

10237

(۱۰۲۳۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، رَفَعَہُ ، قَالَ : قَدْ تَجَاوَزْتُ لَکُمْ عَنْ صَدَقَۃِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ. (ابن ماجہ ۱۸۱۳۔ ابویعلی ۲۹۴)
(١٠٢٣٧) حضرت علی سے مرفوعا مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تحقیق تمہیں گھوڑوں اور غلام کی زکوۃ معاف کردی گئی ہے۔

10238

(۱۰۲۳۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَمَّا الْخَیْلُ وَالرَّقِیقُ فَقَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَاتِہَا. (احمد ۱/۱۲۱)
(١٠٢٣٨) حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ معاف کردی گئی ہے۔

10239

(۱۰۲۳۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنْ شُبَیْلِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : وَقَدْ کَانَ أَدْرَکَ الْجَاہِلِیَّۃَ ، قَالَ : أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ النَّاسَ بِالصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ النَّاسُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، خَیْلٌ لَنَا وَرَقِیقٌ ، افْرِضْ عَلَیْنَا عَشَرَۃً عَشَرَۃً ، قَالَ : أَمَّا أَنَا فَلاَ أَفْرِضُ ذَلِکَ عَلَیْکُمْ.
(١٠٢٣٩) حضرت شبیل بن عوف انھوں نے جاہلیت کا زمانہ پایا تھا فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے لوگوں کو زکوۃ ادا کرنے کا حکم فرمایا : تو لوگوں نے عرض کیا اے امیر المؤمنین ھمارے پاس گھوڑے اور غلام بھی ہیں آپ ھمارے لیے ان پر دس دس فرض فرما دیجئے آپ نے فرمایا کہ میں تم پر فرض نہیں کرسکتا۔

10240

(۱۰۲۴۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِی حُسَیْنٍ ، أَنَّ ابْنَ شِہَابٍ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ یُصَدِّقُ الْخَیْلَ ، وَأَنَّ السَّائِبَ ابْنَ أُخْتِ نَمِرٍ أَخْبَرَہُ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَأْتِی عُمَرَ بِصَدَقَۃِ الْخَیْلِ.
(١٠٢٤٠) حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان گھوڑوں کی زکوۃ نکالا کرتے تھے، اور حضرت سائب ابن اخت نمر فرماتے ہیں کہ وہ گھوڑے کی زکوۃ حضرت عمر کے پاس لے کر آتے تھے۔

10241

(۱۰۲۴۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَیْسَ عَلَی الْفَرَسِ الْغَازِی فِی سَبِیلِ اللہِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٤١) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کے گھوڑے پر زکوۃ نہیں ہے۔

10242

(۱۰۲۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : سُئِلَ ابْنُ الْمُسَیَّبِ : أَفِی الْبَرَاذِینِ صَدَقَۃٌ ؟ قَالَ : أَوَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٤٢) حضرت عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن المسیب سے عرض کیا کہ کیا عربی النسل گھوڑوں پر زکوۃ ہے ؟ انھوں نے (تعجب کرتے ہوئے) فرمایا کیا ! گھوڑوں پر زکوۃ ! ! !

10243

(۱۰۲۴۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِینَارٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنْ صَدَقَۃِ الْبَرَاذِینِ ؟ فَقَالَ لِی : أَوَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ ؟ أَوَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ ؟.
(١٠٢٤٣) حضرت عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے پوچھا کہ کیا عربی النسل گھوڑوں پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا (تعجب کرتے ہوئے) کیا گھوڑوں پر زکوۃ ؟ آپ نے یہ جملہ دو بار ارشاد فرمایا۔

10244

(۱۰۲۴۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٤٤) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ گھوڑوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10245

(۱۰۲۴۵) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَیْلِ وَلاَ الرَّقِیقِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٤٥) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ گھوڑوں اور غلاموں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10246

(۱۰۲۴۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَیْلِ السَّائِمَۃِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٤٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ چرنے والے گھوڑوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10247

(۱۰۲۴۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الأَجْلَحِ ، قَالَ : سَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ عَنْ صَدَقَۃِ الْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ فِیہا زَکَاۃٌ.
(١٠٢٤٧) حضرت اجلح فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوۃ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ان پر زکوۃ نہیں ہے۔

10248

(۱۰۲۴۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الرَّقِیقِ إذَا کَانُوا لِلتِّجَارَۃِ صَدَقَۃَ الْفِطْرَ ، وَلَکِنْ یُقَوِّمُہُمْ فَیُؤَدِّی عَنْہُمُ الزَّکَاۃَ.
(١٠٢٤٨) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم جو غلام تجارت کیلئے ہوں ان پر صدقۃ الفطر کو فرض نہیں سمجھتے تھے، لیکن (فرماتے تھے کہ) ان کی قیمت لگائی جائے گی اور اس قیمت پر زکوۃ ادا کی جائے گی۔

10249

(۱۰۲۴۹) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ.
(١٠٢٤٩) حضرت حسن سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

10250

(۱۰۲۵۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَیْلِ وَالْبَرَاذِینِ وَالْحَمِیرِ صَدَقَۃٌ.
(١٠٢٥٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ (عجمی) گھوڑوں پر اور عجمی النسل گھوڑوں پر اور اسی طرح گدھوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10251

(۱۰۲۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ؛ فِی الْعَبْدِ لِلتِّجَارَۃِ، قَالَ: لَیْسَ عَلَیْہِ زَکَاۃُ الْفِطْرُ.
(١٠٢٥١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جو غلام تجارت کیلئے ہو اس پر صدقۃ الفطر نہیں ہے۔

10252

(۱۰۲۵۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْبَہِیمَۃِ ، وَلاَ عَلَی الْمَمْلُوکِ زَکَاۃٌ ، إِلاَّ أَنْ تَکُونَ لِلتِّجَارَۃِ.
(١٠٢٥٢) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ چوپاؤں اور غلاموں پر تب تک زکوۃ نہیں ہے جب تک وہ تجارت کیلئے نہ ہوں، (اگر تجارت کیلئے ہوں تو پھر زکوۃ ہے) ۔

10253

(۱۰۲۵۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْخَیْلِ صَدَقَۃٌ ۔ قَالَ : حَمَّادٌ فِیہَا۔
(١٠٢٥٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10254

(۱۰۲۵۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ عَنِ الْحَمِیرِ ، فِیہَا زَکَاۃٌ أَمْ لاَ ؟ قَالَ : أَمَّا أَنَا فَأُشَبِّہُہَا بِالْبَقَرِ ، وَلاَ نَعْلَمُ فِیہَا شَیْئًا۔
(١٠٢٥٤) حضرت منصور فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے پوچھا کہ گدھوں پر زکوۃ ہے کہ نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کو گائے کے مشابہ سمجھتا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ اس پر کیا ہے۔

10255

(۱۰۲۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُبَارَکٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْحَمِیرِ صَدَقَۃٌ۔
(١٠٢٥٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ گدھوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10256

(۱۰۲۵۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ؛ أَنَّ امْرَأَتَیْنِ أَتَتَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِی أَیْدِیہِمَا أَسْوِرَۃٌ مِنَ الذَّہَبِ ، فَقَالَ لَہُمَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَتُحِبَّانِ أَنْ یُسَوِّرَکُمَا رَبُّکُمَا بِأَسْوِرَۃٍ مِنْ نَارٍ ؟ قَالَتَا : لاَ ، قَالَ : فَأَدِّیَا حَقَّ ہَذَا فِی أَیْدِیکُمَا۔ (احمد ۲/۱۷۸۔ دارقطنی ۱۰۸)
(١٠٢٥٦) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو عورتیں آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمہیں آگ کے کنگن پہنائے ؟ انھوں نے عرض کیا نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پھر جو تم نے اپنے ہاتھوں میں پہن رکھا ہے اس کا حق (زکوۃ ) ادا کرو۔

10257

(۱۰۲۵۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ ، عَنْ شُعَیْبٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ إلَی أَبِی مُوسَی : أَنْ مُرْ مَنْ قِبَلَک مِنْ نِسَائِ الْمُسْلِمِینَ أَنْ یُصَدِّقْنَ حُلِیَّہنَّ ، وَلاَ یَجْعَلْنَ الْہَدِیَّۃَ وَالزِّیَادَۃَ تَقَارُضًا بَیْنَہُنَّ۔
(١٠٢٥٧) حضرت شعیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ : اپنی قریبی عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنے زیورات کی زکوۃ ادا کیا کریں۔ اور ھدیہ اور منہ بند کو اپنے درمیان لین دین نہ کریں۔

10258

(۱۰۲۵۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : یُزَکَّی مَرَّۃً۔
(١٠٢٥٨) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ زکوۃ ادا کی جائے گی۔

10259

(۱۰۲۵۹) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃً۔
(١٠٢٥٩) حضرت عبداللہ بن شداد زیورات پر زکوۃ کو فرض سمجھتے تھے۔

10260

(۱۰۲۶۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٦٠) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے۔

10261

(۱۰۲۶۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ ، قَالَ : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٦١) حضرت سعید فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے۔

10262

(۱۰۲۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : فِی حُلِیِّ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ زَکَاۃٌ۔ قَالَ: وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ۔
(١٠٢٦٢) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ سونے اور چاندی کے زیورات پر زکوۃ ہے اور یہی سفیان کا بھی قول ہے۔

10263

(۱۰۲۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرو ؛ أَنَّہُ کَانَ یَأْمُرُ نِسَائَہُ أَنْ یُزَکِّینَ حُلِیَّہُنَّ۔
(١٠٢٦٣) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو عورتوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ زیورات پر زکوۃ ادا کرو۔

10264

(۱۰۲۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مَالِکٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٦٤) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے۔

10265

(۱۰۲۶۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٦٥) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے۔

10266

(۱۰۲۶۶) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، قَالَ : سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَیْدٍ : ہَلْ فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إذَا کَانَ عِشْرِینَ مِثْقَالاً ، أَوْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ۔
(١٠٢٦٦) حضرت عمرو بن ھرم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے زیورات پر زکوۃ کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں جب وہ بیس مثقال یا دو سو درھم کے بقدر ہوں تو پھر زکوۃ ہے۔

10267

(۱۰۲۶۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، وَالزُّہْرِیِّ ، وَمَکْحُولٍ قَالُوا : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ ۔ وَقَالُوا : مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنَّ فِی الْحُلِیِّ ، الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ، زَکَاۃً۔
(١٠٢٦٧) حضرت ابو خالد الاحمر سے مروی ہے کہ حضرت حجاج، حضرت عطائ، حضرت زہری اور حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے، فرماتے ہیں کہ سنت میں یہ بات گذر چکی ہے کہ سونے چاندی کے زیورات پر زکوۃ ہے۔

10268

(۱۰۲۶۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ الْفَرَّائِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ : فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ ، حَتَّی فِی الْخَاتَمِ۔
(١٠٢٦٨) حضرت عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ ہے یہاں تک کہ انگوٹھی پر بھی ہے۔

10269

(۱۰۲۶۹) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ عِنْدَنَا طَوْقٌ قَدْ زَکَّیْنَاہُ ، حَتَّی أُرَاہُ قَدْ أَتَی عَلَی ثَمَنِہِ۔
(١٠٢٦٩) حضرت جعفر بن میمون فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہار تھا اور ہم نے اس کی زکوۃ ادا کردی تھی یہاں تک کہ اس کو دیکھا کہ وہ اپنی قیمت پر آگئی تھی۔

10270

(۱۰۲۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُسَیْنٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إذَا بَلَغَ الْحُلِیُّ مَا تَجِبُ فِیہِ الزَّکَاۃُ ، فَفِیہِ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٢٧٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب زیورات اس مقدار کو پہنچ جائیں جس پر زکوۃ آتی ہے تو پھر ان (زیورات پر بھی) زکوۃ آئے گی۔

10271

(۱۰۲۷۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃً۔
(١٠٢٧١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر زیورات پر زکوۃ فرض نہ سمجھتے تھے۔

10272

(۱۰۲۷۲) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ذَکْوَانَ ، وَعَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : کَانَ مَالُنَا عِنْدَ عَائِشَۃَ ، فَکَانَتْ تُزَکِّیہ إِلاَّ الْحُلِیَّ۔
(١٠٢٧٢) حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ ہمارا مال حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تھا آپ نے اس پر زکوۃ ادا کی سوائے زیورات کے (کہ ان پر زکوۃ ادا نہ کی) ۔

10273

(۱۰۲۷۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ لاَ تُزَکِّیہ۔
(١٠٢٧٣) حضرت عائشہ زیورات کی زکوۃ ادا نہیں کرتی تھیں۔

10274

(۱۰۲۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ دَلْہَمِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَ: کَانَ لِبَنَاتِ أَخِیہَا حُلِیٌّ، فَلَمْ تَکُنْ تُزَکِّیہ۔
(١٠٢٧٤) حضرت عائشہ کے پاس بھتیجی کا زیور موجود تھا لیکن آپ اس پر زکوۃ نہ ادا فرماتی تھیں۔

10275

(۱۰۲۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لاَ زَکَاۃَ فِی الْحُلِیِّ ، قُلْتُ : إِنَّہ یَکُونُ فِیہِ أَلْفُ دِینَارٍ ، قَالَ : یُعَارُ وَیُلْبَسُ۔
(١٠٢٧٥) حضرت ابو زبیر سے مروی ہے کہ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر وہ ہزار دینار ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا : اس کو عاریت پر دیا جائے گا اور پہنا جائے گا ۔

10276

(۱۰۲۷۶) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ لاَ تُزَکِّی الْحُلِیَّ۔
(١٠٢٧٦) حضرت فاطمہ بنت المنذر فرماتی ہیں کہ حضرت اسماء زیورات پر زکوۃ ادا نہیں فرمایا کرتی تھیں۔

10277

(۱۰۲۷۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تُحَلِّی بَنََاتہَا الذَّہَبَ ، وَلاَ تُزَکِّیہ۔
(١٠٢٧٧) حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ حضرت اسماء اپنی بیٹیوں کو سونے کا زیور پہناتی تھیں، لیکن وہ اس پر زکوۃ ادا نہ فرمایا کرتی تھیں۔

10278

(۱۰۲۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَمْرَۃَ عَنْ زَکَاۃِ الْحُلِیِّ ؟ فَقَالَتْ : مَا رَأَیْت أَحَدًا یُزَکِّیِہِ۔
(١٠٢٧٨) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ سے زیورات پر زکوۃ سے متعلق دریافت کیا ؟ انھوں نے فرمایا : میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو زیورات پر زکوۃ کا قائل ہو۔

10279

(۱۰۲۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْخُلَفَائِ قَالَ فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٧٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میں خلفائے راشدین میں کسی کو بھی جانتا کہ وہ زیورات پر زکوۃ کا قائل ہو۔

10280

(۱۰۲۸۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ ، یُعَارُ وَیَلْبَسُ۔
(١٠٢٨٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ نہیں ہے ان کو عاریۃ دیا جائے گا اور خود بھی پہنا جائے گا۔

10281

(۱۰۲۸۱) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَخِلاسٍ ، قَالَ : لاَ زَکَاۃَ فِی الْحُلِیّ۔
(١٠٢٨١) حضرت حسن اور حضرت خلاس فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ نہیں ہے۔

10282

(۱۰۲۸۲) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ (ح) وَأَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : زَکَاۃُ الْحُلِیِّ عَارِیَّتُہُ۔
(١٠٢٨٢) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ زیورات کی زکوۃ اس کو عاریت پر دینا ہے۔

10283

(۱۰۲۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ یَقُولُ : لَیْسَ فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ ، ثُمَّ قَرَأَ : {وَتَسْتَخْرِجُونَ مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُونَہَا}۔
(١٠٢٨٣) حضرت اسماعیل بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ نہیں ہے، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا }۔

10284

(۱۰۲۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حُسَیْنٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْحُلِیِّ زَکَاۃٌ۔
(١٠٢٨٤) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ زیورات پر زکوۃ نہیں ہے۔

10285

(۱۰۲۸۵) وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : زَکَاۃُ الْحُلِیِّ یُعَارُ وَیُلْبَسُ۔
(١٠٢٨٥) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ زیورات کی زکوۃ ان کا عاریت پر دینا اور خود پہننا ہے۔

10286

(۱۰۲۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ قَالَتْ : کُنَّا أَیْتَامًا فِی حِجْرِ عَائِشَۃَ ، وَکَانَ لَنَا حُلِیٌّ ، فَکَانَتْ لاَ تُزَکِّیہ۔
(١٠٢٨٦) حضرت عمرہ فرماتی ہیں کہ ہم یتیم تھے اور حضرت عائشہ کی پرورش میں تھی اور ہمارا زیور آپ کے پاس تھا۔ آپ اس میں سے زکوۃ نہ نکالا کرتی تھیں۔

10287

(۱۰۲۸۷) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ سُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعْدًا ، وَابْنَ عُمَرَ ، وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ ، وَأَبَا سَعِیدٍ ، فَقُلْتُ : إنَّ لِی مَالاً ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أُعْطِیَ زَکَاتَہُ ، وَلاَ أَجِدُ لَہُ مَوْضِعًا ، وَہَؤُلاَئِ یَصْنَعُونَ فِیہَا مَا تَرَوْنَ ؟ فَقَالَ : کُلُّہُمْ أَمَرُونِی أَنْ أَدْفَعَہَا إلَیْہِمْ۔
(١٠٢٨٧) حضرت سہیل سے مروی ہے کہ ان کے والد نے حضرت سعد، حضرت ابن عمر حضرت ابوہریرہ اور حضرت سعید سے سوال کیا کہ میرے پاس مال ہے اور میں اس کی زکوۃ ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن میں کوئی جگہ نہیں پا رہا جہاں زکوۃ ادا کروں، اور یہ سب لوگ اس میں جو کام کرتے ہیں وہ تو آپ جانتے ہیں۔ آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟ سب حضرات نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو ادا کروں۔

10288

(۱۰۲۸۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : ادْفَعُوا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ إلَی مَنْ وَلاَّہُ اللَّہُ أَمْرَکُمْ ، فَمَنْ بَرَّ فَلِنَفْسِہِ ، وَمِنْ أَثِمَ فَعَلَیْہَا۔
(١٠٢٨٨) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے ولی (بادشاہ) بنانے کا تمہیں حکم دیا ہے، پس جو شخص نیکی کرے گا اس کا ثواب اسی کیلئے ہے اور جو گناہ کا کام کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔

10289

(۱۰۲۸۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِی صَغِیرَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی رِیَاحُ بْنُ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ قَزَعَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِاِبْنِ عُمَرَ : إنَّ لِی مَالاً ، فَإِلَی مَنْ أَدْفَعُ زَکَاتَہُ ؟ قَالَ : ادْفَعْہَا إلَی ہَؤُلاَئِ الْقَوْمِ ، یَعْنِی الأُمَرَائَ ، قُلْتُ : إذًا یَتَّخِذُونَ بِہَا ثِیَابًا وَطِیبًا ، قَالَ : وَإِنِ اتَّخَذُوا ثِیَابًا وَطِیبًا ، وَلَکِنْ فِی مَالِکَ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ ، یَا قَزَعَۃَ۔
(١٠٢٨٩) حضرت قزعہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے عرض کیا : میرے پاس مال ہے میں زکوۃ کس کو ادا کروں ؟ آپ نے فرمایا اس قوم کو یعنی امراء کو (بادشاہوں کو) میں نے عرض کیا پھر تو وہ اس کے کپڑے اور خوشبو بنالیں گے (اور خود استعمال کریں گے) آپ نے فرمایا اگرچہ وہ کپڑے اور خوشبو بنالیں، اے قزعہ تیرے مال پر زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔

10290

(۱۰۲۹۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الْحَکَمِ بْنِ الأَعْرَجِ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ؟ فَقَالَ : ادْفَعْہَا إلَیْہِمْ ، وَإِنْ أَکَلُوا بِہَا لُحُومَ الْکِلاَبِ ، فَلَمَّا عَادُوا عَلَیْہِ ، قَالَ : ادْفَعْہَا إلَیْہِمْ۔
(١٠٢٩٠) حضرت حکم بن اعرج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے (اس بارے میں) سوال کیا ؟ آپ نے فرمایا ان کو دیدو۔ اگرچہ وہ اس سے کتے کا گوشت کھائیں جب لوگوں نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان کو دیدو۔

10291

(۱۰۲۹۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُثَنَّی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ أَبِی التَّیَّاحِ ، عَنْ نُعَیْمٍ بن مُجَالِدٍ ؛ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْہَا ؟ فَقَالَ: ادْفَعْہَا إلَیْہِمْ وَإِنْ أَکَلُوا بِہَا البَیْشِیَارَجات۔
(١٠٢٩١) حضرت نعیم بن مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کے متعلق دریافت کیا، آپ نے فرمایا ان کو (بادشاہوں) ادا کردو اگرچہ وہ اس سے لذیذ چیز کھائیں۔ (البیشیار جات : وہ چیز جو مہمان کو کھانے سے پہلے پیش کی جائے۔ )

10292

(۱۰۲۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یُونُسَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی عَاصِمٍ ، عَنِ الْمُغِیرَۃَ بْنِ شُعْبَۃَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَبْعَثُ بِصَدَقَتِہِ إلَی الأُمَرَائِ۔
(١٠٢٩٢) حضرت داؤد بن عاصم فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ اپنی زکوۃ امراء (بادشاہوں) کی طرف بھیجا کرتے تھے۔

10293

(۱۰۲۹۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ ، أَنَّ حُذَیْفَۃَ ، وَسَعِیدَ بْنَ عُمَیْرٍ کَانُوا یَرَوْنَ أَنْ تُدْفَعَ الزَّکَاۃُ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٠٢٩٣) حضرت یحییٰ بن ابو کثیر سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ اور حضرت سعید بن عمیر فرمایا کرتے تھے کہ زکوۃ نکال کر بادشاہوں کو دینی چاہیے۔

10294

(۱۰۲۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَتِ الصَّدَقَۃُ تُدْفَعُ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ أَمَرَ بِہِ ، وَإِلَی أَبِی بَکْرٍ وَمَنْ أَمَرَ بِہِ ، وَإِلَی عُمَرَ وَمَنْ أَمَرَ بِہِ ، وَإِلَی عُثْمَانَ وَمَنْ أَمَرَ بِہِ ، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ اخْتَلَفُوا ، فَمِنْہُمْ مَنْ رَأَی أَنْ یَدْفَعَہَا إلَیْہِمْ ، وَمِنْہُمْ مِنْ رَأَی أَنْ یَقْسِمَہَا ہُوَ ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : فَلْیَتَّقِ اللَّہَ مَنِ اخْتَارَ أَنْ یَقْسِمَہَا ہُوَ ، وَلاَ یَکُونَ یَعِیبُ عَلَیْہِمْ شَیْئًا ، یَأْتِی مِثْلُ الَّذِی یَعِیبُ عَلَیْہِمْ۔
(١٠٢٩٤) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ زکوۃ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی جاتی تھی اور جس کو آپ نے وصول کرنے کا حکم دیا تھا اس کو پھر حضرت ابوبکر کو اور جن کو انھوں نے حکم دیا ہوا تھا ان کو، پھر حضرت عمر کو اور جن کو انھوں نے حکم فرمایا ہوا تھا ان کو، پھر حضرت عثمان کو اور جن کو آپ نے حکم فرمایا تھا ان کو، جب حضرت عثمان شہید ہوگئے تو لوگوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا۔ بعض کی رائے یہ تھی کہ اب بھی ان کو دی جائے (امراء کو) اور بعض حضرات کی رائے تھی کہ خود تقسیم کی جائے۔ حضرت محمد نے فرمایا : جو لوگ زکوۃ خود تقسیم کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور نہ عیب لگائیں ان پر کسی چیز کا مثل اس کے جو وہ عیب وہ ان پر لگاتے ہیں۔

10295

(۱۰۲۹۵) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ أَبِی الرِّجَالِ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَمْرَۃَ عَنِ الزَّکَاۃِ ؟ فَقَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : ادْفَعُوہَا إلَی أُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ۔
(١٠٢٩٥) حضرت حاثہ بن ابی رجال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ سے زکوۃ ادا کرنے کے بارے میں سوال کیا ؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ زکوۃ اپنے امراء کو ادا کرو۔

10296

(۱۰۲۹۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَبِیبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ الزَّکَاۃِ ، أَدْفَعُہَا إلَی الْوُلاَۃِ ؟ فَقَالَ : ادْفَعْہَا إلَیْہِمْ۔
(١٠٢٩٦) حضرت عبداللہ بن حبیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے زکوۃ سے متعلق دریافت کیا کہ کیا زکوۃ امراء کو ادا کی جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں امراء کو ادا کی جائے۔

10297

(۱۰۲۹۷) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَرْبَعٌ إلَی السُّلْطَانِ ؛ الصَّلاَۃُ ، وَالزَّکَاۃُ ، وَالْحُدُودُ ، وَالْقَضَائُ۔
(١٠٢٩٧) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ چار چیزیں بادشاہوں کا حق ہے۔ نماز (امامت) زکوۃ ، حدود (قائم کرنا) اور فیصلہ کرنا۔

10298

(۱۰۲۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : ضَمِنَ ، أَوْ ضُمِنَ ہَؤُلاَء الْقَوْمُ أَرْبَعًا ؛ الصَّلاَۃَ ، وَالزَّکَاۃَ ، وَالْحُدُودَ ، وَالْحُکْمَ۔
(١٠٢٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو (بادشاہوں کو) چار چیزوں کا ضامن بنایا گیا ہے۔ نماز، زکوۃ ، حدود اور فیصلہ کا۔

10299

(۱۰۲۹۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الزَّکَاۃِ ؟ قَالَ : ادْفَعْہَا إلَی السُّلْطَانِ ، فَقِیلَ : إنَّہُمْ یَفْعَلُونَ فِیہَا وَیَفْعَلُونَ ، مَرَّتَیْنِ ، قَالَ : فَتَسْتَطِیعُونَ أَنْ تَضَعُوہَا مَوَاضِعَہَا ؟ قَالُوا : لاَ ، قَالَ : فَادْفَعُوہَا إلَیْہِمْ۔
(٩٩ ١٠٢) حضرت خالد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ سے زکوۃ کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا بادشاہ کو ادا کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ بیشک وہ اس کے ساتھ (ناجائز کام) کرتے ہیں دو بار یہی بات کہی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس کو اسی کے صحیح مصرف میں رکھنے کی طاقت رکھتے ہو ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا پھر اپنی زکوۃ بادشاہوں کو ادا کرو۔

10300

(۱۰۳۰۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : أَعْطُوہَا الأُمَرَائَ مَا صَلَّوْا ۔ قَالَ : وَقَالَ خَیْثَمَۃُ : مَا صَلَّوا الصَّلاَۃَ لِوَقْتِہَا۔
(١٠٣٠٠) حضرت خیثمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ارشاد فرمایا : اپنی زکوۃ ان امراء کو بھی ادا کرو جو نماز نہیں پڑھتے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کے اس فرمان کا مطلب ہے کہ ان امراء کو بھی ادا کرو جو نماز کو وقت پر نہیں پڑھتے۔

10301

(۱۰۳۰۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ کُلْثُومِ بْنِ جَبْرٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ ، أَنَّہُ قَالَ : {وَأَقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ} ، قَالَ : ہَذِہِ الْفَرِیضَۃُ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٠٣٠١) حضرت مسلم بن یسار فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { وَأَقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ } (نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو) اس فریضہ کا تعلق بادشاہ کے ساتھ ہے۔

10302

(۱۰۳۰۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی أَنْ تُدْفَعَ الزَّکَاۃُ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٠٣٠٢) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ زکوۃ بادشاہ کو دی جائے گی۔

10303

(۱۰۳۰۳) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ، قَالَ: حدَّثَنَا ہِشَامٌ، عَنْ یَحْیَی، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَیْلَمَانِیِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ فِیمَا یُوصِی بِہِ عُمَرَ: مَنْ أَدَّی الزَّکَاۃَ إلَی غَیْرِ وُلاَتِہَا لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ صَدَقَتُہُ، وَلَوْ تَصَدَّقَ بِالدُّنْیَا جَمِیعًا۔
(١٠٣٠٣) حضرت عبد الرحمن بن البیلمانی سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے حضرت عمر کو جو وصیت فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ جو شخص امراء کے علاوہ کسی اور کو زکوۃ ادا کرے اس کی زکوۃ قبول نہیں اگرچہ وہ پوری دنیا زکوۃ میں ادا کر دے۔

10304

(۱۰۳۰۴) حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : أَدِّ زَکَاۃَ مَالِکَ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٠٣٠٤) حضرت مجاہد اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اپنے مال کی زکوۃ سلطان کو ادا کر۔

10305

(۱۰۳۰۵) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ الدَّیْلَمِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، وَابْنِ عُمَرَ قَالاَ : ادْفَعْ زَکَاۃَ مَالِکَ إلَی السُّلْطَانِ۔
(١٠٣٠٥) حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اپنے مال کی زکوۃ بادشاہ کو ادا کرو۔

10306

(۱۰۳۰۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ ، عَنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : سَأَلَہُ رَجُلٌ عَنِ الزَّکَاۃِ ؟ فَقَالَ : ادْفَعْہَا إلَی الإِمَامِ ۔ وَقَالَ : الإِمَامُ الْقُرْآنُ ، وَکَانَ یُخْفِی ذَلِکَ۔
(١٠٣٠٦) حضرت نعمان فرماتے ہیں کہ حضرت مکحول سے ایک شخص نے زکوۃ کے متعلق دریافت فرمایا (کہ کس کو زکوۃ ادا کروں ؟ ) آپ نے فرمایا بادشاہ اور امام کو جس کے اوصاف قرآن میں ہیں اور وہ اس ادائے زکوۃ کو مخفی رکھتے تھے۔

10307

(۱۰۳۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : ضَعْہَا مَوَاضِعَہَا وَأَخْفِہَا۔
(١٠٣٠٧) حضرت ابراہیم اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ زکوۃ کو ان کے مواضع (ادا کرنے کی جگہ) پر ادا کرو اور اس کو مخفی رکھو۔

10308

(۱۰۳۰۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عُتْبَۃَ الْکِنْدِیِّ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : ضَعْہَا فِی الْفُقَرَائِ۔
(١٠٣٠٨) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ زکوۃ فقراء کو ادا کرو۔

10309

(۱۰۳۰۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ أَبِی یَحْیَی ، قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الصَّدَقَۃِ ؟ قَالَ : ہِیَ إلَی وُلاَۃِ الأَمْرِ ۔ قَالَ : فَإِنَّ الْحَجَّاجَ یَبْنِی بِہَا الْقُصُورَ ، وَیَضَعُہَا فِی غَیْرِ مَوَاضِعِہَا ، قَالَ : ضَعْہَا حَیْثُ أُمِرْت بِہِ۔
(١٠٣٠٩) حضرت حسان بن ابو یحییٰ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ زکوۃ کس کو ادا کریں ؟ آپ نے فرمایا اولی الامر کو (امراء اور بادشاہوں کو) سوال کرنے والے نے عرض کیا کہ حجاج بن یوسف تو (جو کہ امیر ہے) ان پیسوں سے اپنے لیے محل تعمیر کروائے گا اور اس کو موقع محل کے علاوہ (اپنی خواہشات کے مطابق) استعمال کرے گا ؟ آپ نے جوابا ارشاد فرمایا : تمہیں جس طرح حکم دیا گیا ہے تم اس پر عمل کرو (اسکا وبال اس پر ہے) ۔

10310

(۱۰۳۱۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إِنْ دَفَعَہَا إلَیْہِمْ أَجْزَأَ عَنْہُ ، وَإِنْ قَسَمَہَا أَجْزَأَ عَنْہُ۔
(١٠٣١٠) حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تو زکوۃ (امرائ) کو ادا کر دے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر تو خود (مستحقین کو) تقسیم کر دے تو بھی ٹھیک ہے۔

10311

(۱۰۳۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ خَیْثَمَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الزَّکَاۃِ ؟ فَقَالَ : ادْفَعْہَا إلَیْہِمْ ، ثُمَّ سَأَلْتُہُ بَعْدُ ، فَقَالَ : لاَ تَدْفَعْہَا إلَیْہِمْ ، فَإِنَّہُمْ قَدْ أَضَاعُوا الصَّلاَۃَ۔
(١٠٣١١) حضرت خیثمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت فرمایا کہ زکوۃ کس کو ادا کروں ؟ آپ نے فرمایا امراء کو ادا کرو۔ پھر میں نے کچھ عرصہ بعد دوبارہ یہی سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ امراء کو ادا نہ کرو وہ نمازوں کا خیال نہیں رکھتے اور نمازوں کو ضائع (قضا) کردیتے ہیں۔

10312

(۱۰۳۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ بِزَکَاۃِ مَالِہِ إلَی عَلِیٍّ ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : تَأْخُذُ مِنْ عَطَائِنَا شَیْئًا ؟ قَالَ : لاَ ، قَالَ : لاَ نَجْمَعُ عَلَیْک أَنْ لاَ نُعْطِیَک وَنَأْخُذُ مِنْک ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَقْسِمَہَا۔
(١٠٣١٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ایک شخص زکوۃ کا مال لے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا تو حضرت علی نے اس سے فرمایا تو ہماری عطا میں سے کچھ لیتا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ ہم تجھے تو کچھ نہ دیں لیکن تجھ سے لیں۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا کہ زکوۃ کو تقسیم کر دے۔

10313

(۱۰۳۱۳) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ۔
(١٠٣١٣) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا :

10314

(۱۰۳۱۴) وحَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَیْسَ فِی مَالٍ زَکَاۃٌ، حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٤) حضرت عاصم روایت فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ جب تک مال پر سال نہ گذرے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

10315

(۱۰۳۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالٍ زَکَاۃٌ ، حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٥) حضرت عاصم سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ جب تک مال پر سال نہ گذرے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

10316

(۱۰۳۱۶) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : مَنْ أَصَابَ مَالاً فَلاَ زَکَاۃَ عَلَیْہِ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٦) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ارشاد فرمایا کہ : جس کو مال ملے (دوران سال) اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10317

(۱۰۳۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی بَکْر ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٧) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ جب تک مال پر سال نہ گذر جائے اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

10318

(۱۰۳۱۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : أَیُّمَا رَجُلٍ أَفَادَ مَالاً فَلاَ زَکَاۃَ عَلَیْہِ ، حَتَّی یَعُودَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٨) حضرت حمید سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے (اپنے عمال کو) لکھا کہ : جس شخص کو (دوران سال) مال ملے اس پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ اس مال پر پورا سال نہ گذر جائے۔

10319

(۱۰۳۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣١٩) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں کہ جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10320

(۱۰۳۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالٍ زَکَاۃٌ ، حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣٢٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں کہ جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10321

(۱۰۳۲۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، أَوْ غَیْرِہِ، عَنْ َإِبْرَاہِیمَ قَالَ: لاَ زَکَاۃَ فِیہِ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣٢١) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں کہ جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10322

(۱۰۳۲۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ،قَالَتْ : لَیْسَ فِی مَالٍ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣٢٢) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں کہ جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10323

(۱۰۳۲۳) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ۔
(١٠٣٢٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ نہیں کہ جب تک کہ اس پر سال نہ گذر جائے۔

10324

(۱۰۳۲۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی التَّیْمِیُّ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ نُعْمَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ حَوْلٌ ، مِنْ حِینَ یَسْتَفِیدُہُ۔
(١٠٣٢٤) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ مال پر اس وقت تک زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر پورا سال نہ گذر جائے جس وقت سے کہ اس پر نفع ہوا ہے (کچھ مال کا اضافہ ہوا ہے) ۔

10325

(۱۰۳۲۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِر ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ لِلرَّجُلِ شَہْرٌ یُزَکِّی فِیہِ فَأَصَابَ مَالاً فَأَنْفَقَہُ ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ زَکَاۃُ مَا أَنْفَقَ ، وَلَکِنْ مَا وَافَی الشَّہْرَ الَّذِی یُزَکِّی فِیہِ مَالَہُ زَکَّاہُ ، فَإِنْ کَانَ لَیْسَ لَہُ شَہْرٌ یُزَکِّی فِیہِ فَاسْتَفَادَ مَالاً ، فَلْیُزَکِّہِ حِینَ یَسْتَفِیدُہُ۔
(١٠٣٢٥) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی مہینے میں زکوۃ ادا کرے پھر اسی مہینے اس کو کچھ اور مال ملے اور وہ اس کو خرچ کر دے تو جو مال اس نے خرچ کیا ہے اس پر زکوۃ نہیں ہے۔ لیکن جس مہینے اس نے زکوۃ ادا کی اور اس کو کچھ مال ملا جو پورا مہینہ اس کے پاس رہا تو اس پر زکوۃ ادا کرنی پڑے گی۔ اور اگر جس مہینے اس نے زکوۃ ادا نہیں کی اس مہینے اس کو کچھ مال ملا تو جس وقت اس کو فائدہ ہوا اسی وقت اس پر زکوۃ ادا کرنا پڑے گی۔ (اس پر سال گذرنا شرط نہیں ہے) ۔

10326

(۱۰۳۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَسْتَفِیدُ مَالاً ؟ قَالَ : یُزَکِّیہ حِینَ یَسْتَفِیدُہُ۔
(١٠٣٢٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ کسی آدمی کو کچھ مال ملتا ہے (دوران سال اس پر زکوۃ ہے کہ نہیں ؟ ) آپ نے فرمایا جس وقت اس کو فائدہ ہو اسی وقت زکوۃ ہے۔

10327

(۱۰۳۲۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا اسْتَفَادَ الرَّجُلُ مَالاً فَأَرَادَ أَنْ یُنْفِقَہُ قَبْلَ مَجِیئِ شَہْرِ زَکَاتِہِ فَلْیُزَکِّہِ ، ثُمَّ لْیُنْفِقْہُ ، وَإِنْ کَانَ لاَ یُرِیدُ أَنْ یُنْفِقَ فَلْیُزَکِّہِ مَعَ مَالِہِ۔
(١٠٣٢٧) حضرت امام زہری ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کو مال ملے اور جس مہینے وہ زکوۃ ادا کرتا ہے اس سے قبل ہی اس مال کو خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ پہلے اس کی زکوۃ ادا کر دے پھر خرچ کرے اور اگر زکوۃ کے مہینے سے قبل خرچ کرنے کا ارادہ نہ ہو تو اس مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر اکٹھے ہی وقت پر زکوۃ ادا کرے۔ (اس مال پر سال گزرنے کا انتظار نہ کرے) ۔

10328

(۱۰۳۲۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْمُکَاتَبِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٢٨) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مکاتب غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10329

(۱۰۳۲۹) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْمُکَاتَبِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٢٩) حضرت حکم سے مروی ہے کہ حضرت عبد العزیز فرماتے ہیں کہ مکاتب کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10330

(۱۰۳۳۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ صُبَیْحٍ أَبِی الْجَہْمِ مَوْلَی بَنِی عَبْسٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، وَابْنَ الْمُسَیَّبِ عَنْ رَجُلٍ مُکَاتَبٍ لَہُ مَالٌ ، أَعَلَی مَالِہِ زَکَاۃٌ ؟ قَالاَ : لاَ۔
(١٠٣٣٠) حضرت صبیح ابی جہم جو بنو عبس کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر اور حضرت سعید بن مسیب سے دریافت فرمایا کہ مکاتب کے پاس اگر مال ہو تو اس کے مال پر زکوۃ ہے ؟ دونوں حضرات نے جواب دیا کہ نہیں۔

10331

(۱۰۳۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، عَنْ أَبِیہِ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ جَدَّتِہِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: لَیْسَ فِی مَالِ الْمُکَاتَبِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣١) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ مکاتب کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10332

(۱۰۳۳۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْمُکَاتَبِ ، وَلاَ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ حَتَّی یُعْتَقَا۔
(١٠٣٣٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ مکاتب اور غلام پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ وہ آزاد نہ ہوجائیں۔ (آزادی کے بعد زکوۃ ہے) ۔

10333

(۱۰۳۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْمُکَاتَبِ ، وَلاَ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣٣) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ مکاتب اور غلام پر زکوۃ نہیں ہے۔

10334

(۱۰۳۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِی صَخْرٍ ، عَنْ کَیْسَانَ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ ، قَالَ : أَتَیْتُ عُمَرَ بِزَکَاۃِ مَالِی ، مِئَتَیْ دِرْہَمٍ وَأَنَا مُکَاتَبٌ ، فَقَالَ : ہَلْ عُتِقْتَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : اذْہَبْ فَاقْسِمْہَا۔
(١٠٣٣٤) حضرت کیسان ابو سعید المقبری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر کے پاس دو سو درھم اپنے مال کی زکوۃ لے کر حاضر ہوا اور میں مکاتب تھا، حضرت عمر نے فرمایا کیا تو آزاد ہوگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، آپ نے فرمایا تو پھر یہ مال لے کر جا اور (فقراء میں) تقسیم کر دے۔

10335

(۱۰۳۳۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی ؛ مِثْلَ قَوْلِ جَابِرٍ۔
(١٠٣٣٥) حضرت سلیمان بن موسیٰ نے بھی حضرت جابر کے قول کے مثل فرمایا ہے۔

10336

(۱۰۳۳۶) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣٦) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10337

(۱۰۳۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣٧) حضرت عبداللہ بن نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10338

(۱۰۳۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣٨) حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں ک غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10339

(۱۰۳۳۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الْعَبْدُ وَمَالُہُ لِسَیِّدِہِ ، الزَّکَاۃُ عَلَی الْمَوْلَی ، وَلَیْسَ عَلَی الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٣٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ غلام اور اس کا مال آقا کی ملکیت ہے۔ آقا پر زکوۃ ہے غلام پر زکوۃ نہیں ہے۔

10340

(۱۰۳۴۰) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حَبَّابٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٤٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10341

(۱۰۳۴۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٤١) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10342

(۱۰۳۴۲) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِی غَنِیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٤٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ نہیں ہے۔

10343

(۱۰۳۴۳) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِیَاثٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ : ہَلْ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : ہَلْ عَلَیْہِ صَلاَۃٌ ؟۔
(١٠٣٤٣) حضرت عکرمہ سے پوچھا گیا کہ کیا غلام پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے (بطور تعجب کے) فرمایا کیا اس پر نماز فرض ہے ؟ (جب نماز فرض ہے تو زکوۃ بھی فرض ہے) ۔

10344

(۱۰۳۴۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ زَمْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٤٤) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ غلام کے مال پر زکوۃ ہے۔

10345

(۱۰۳۴۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ جَابِرٍ الْحَذَّائِ ، قَالَ : قُلْتُ لِاِبْنِ عُمَرَ : فِی مَالِ الْعَبْدِ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : مُسْلِمٌ ہُوَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فِی مِئَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ۔
(١٠٣٤٥) حضرت جابر الحذائ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ کیا غلام کے مال پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے دریافت فرمایا : کیا وہ مسلمان ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، آپ نے ارشاد فرمایا : دو سو درہموں پر پانچ درہم زکوۃ واجب ہے۔

10346

(۱۰۳۴۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ لَہُ الدَّیْنُ عَلَی الرَّجُلِ ؟ قَالَ : یُزَکِّیہ صَاحِبُ الْمَالِ ، فَإِنْ تَوَی مَا عَلَیْہِ وَخَشِیَ أَنْ لاَ یَقْضِیَ ، فَإِنَّہُ یُمْہِلُ ، فَإِذَا خَرَجَ أَدَّی زَکَاۃَ مَا مَضَیِ۔
(١٠٣٤٦) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت علی سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص کے ذمہ قرض ہے (تو زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا جس کا مال ہے وہ زکوۃ ادا کرے گا۔ اگر وہ مال ہلاک ہوجائے اور اس کو خوف ہو کہ وہ ادا نہ کرے گا تو اس کو مہلت دے اور نرمی برتے، جب وہ نکال کر ادا کر دے تو جتنا عرصہ گذر گیا ہے اس کی زکوۃ ادا کر دے۔

10347

(۱۰۳۴۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : نُبِّئْت أَنَّ عَلِیًّا قَالَ : إِنْ کَانَ صَادِقًا ، فَلْیُزَکِّ إذَا قَبَضَ، یَعْنِی الدَّیْنَ۔
(١٠٣٤٧) حضرت محمد فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ حضرت علی یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب وہ مدیون سچا ہو تو جب دین پر قبضہ کرلے تو زکوۃ ادا کرے۔

10348

(۱۰۳۴۸) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ لَکَ دَیْنٌ فَزَکِّہِ۔
(١٠٣٤٨) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اگر تیرا قرض (کسی پر ہے) تو تو اس کی زکوۃ ادا کر۔

10349

(۱۰۳۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لِیَنْظُرْ مَا کَانَ عَلَیْہِ مِنْ دَیْنٍ فَلْیَعْزِلْہُ ، وَمَا کَانَ لَہُ مِنْ دَیْنٍ ثِقَۃٍ فَلْیُزَکِّہِ ، وَمَا کَانَ لاَ یَسْتَقِرّ یُعْطِیہ الْیَوْمَ وَیَأْخُذْہُ إِلَی یَوْمَینِ فَلْیُزَکِّہِ۔
(١٠٣٤٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مقروض ہو تو قرض کو زکوۃ سے منہا کر دے۔ اور کسی بااعتماد شخص نے اس کا قرضہ دینا ہے تو اس قرضے کی رقم کو شامل کر کے زکوۃ دے۔ اگر کسی ٹال مٹول کرنے والے شخص نے قرضہ دینا ہے تو بھی اس کی زکوۃ دے۔

10350

(۱۰۳۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : یُزَکِّیہِ۔
(١٠٣٥٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ وہ زکوۃ ادا کرے گا۔

10351

(۱۰۳۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : زَکَاۃُ أَمْوَالِکُمْ حَوْلٌ إلَی حَوْلٍ ، فَمَا کَانَ مِنْ دَیْنٍ ثِقَۃٍ فَزَکُّوہ ، وَمَا کَانَ مِنْ دَیْنِ ظُنُون فَلاَ زَکَاۃَ فِیہِ ، حَتَّی یَقْضِیَہُ صَاحِبُہُ۔
(١٠٣٥١) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے اموال پر زکوۃ سال مکمل ہونے کے بعد ہے۔ پس جو قرض ایسا ہو کہ اس کا ملنا یقینی ہو تو اس پر بھی زکوۃ ادا کر دینی چاہیے اور جس قرض کے بارے میں شک ہو اس پر زکوۃ ادا نہ کرے جب تک مقروض قرض ادا نہ کر دے۔

10352

(۱۰۳۵۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : یُزَکِّیہِ۔
(١٠٣٥٢) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ زکوۃ ادا کرے۔

10353

(۱۰۳۵۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ ؛ أَنَّ عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ أَبِی بَکْرٍ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ عُمَرَ قَالَ لِرَجُلٍ : إذَا حَلَّتْ فَاحْسُبْ دَیْنَک ، وَمَا عِنْدَک ، فَاجْمَعْ ذَلِکَ جَمِیعًا ، ثُمَّ زَکِّہِ۔
(١٠٣٥٣) حضرت عبد الملک بن ابوبکر سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص سے فرمایا : جب سال مکمل ہوجائے تو اپنے مال اور جو قرض تیرا لوگوں پر ہے اس کا حساب لگا اور ان دونوں کو جمع کر کے ان کے مجموعے پر زکوۃ ادا کر۔

10354

(۱۰۳۵۴) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : مَا کَانَ مِنْ دَیْنٍ فِیمَا لاَ تَرْجُوہُ فَاحْسُبْہُ ، ثُمَّ أَخْرِجْ مَا عَلَیْک ، ثُمَّ زَکِّ مَا بَقِیَ۔
(١٠٣٥٤) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ جو قرض ایسا ہو کہ اس کی امید نہ ہو تو اس کو حساب کر پھر اس کو الگ کر جو تیرے اوپر قرض ہے اور جو باقی بچے اس پر زکوۃ ادا کر۔

10355

(۱۰۳۵۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : إذَا کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّہُ خَارِجٌ فَزَکِّہِ۔
(١٠٣٥٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر تجھے معلوم ہو کہ قرض نکال کر تجھے دینے والا ہے تو اس پر زکوۃ ادا کر۔

10356

(۱۰۳۵۶) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ عَلِیٌّ عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ لَہُ الدَّیْنُ الظَّنُونُ أَیُزَکِّیہِ ؟ فَقَالَ : إِنْ کَانَ صَادِقًا فَلْیُزَکِّہِ لِمَا مَضَی إذَا قَبَضَہُ۔
(١٠٣٥٦) حضرت عبیدہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی سے پوچھا گیا کہ آدمی کا کسی پر قرض ہو لیکن واپسی یقینی نہ ہو تو کیا وہ اس کی زکوۃ ادا کرے گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا اگر مدیون سچا ہو تو قبضہ کے بعد جتنی مدت گذر گئی ہے اس کی زکوۃ ادا کر دے۔

10357

(۱۰۳۵۷) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ : إنَّ لَنَا قَرْضًا وَقَرْضًا وَدَیْنًا ، فَنُزَکِّیہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، کَانَتْ عَائِشَۃُ تَأْمُرُنَا نُزَکِّیَ مَا فِی الْبَحْرِ ۔ وَسَأَلْتُ سَالِمًا؟ فَقَالَ : مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٠٣٥٧) حضرت عثمان بن ابو عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم بن محمد سے دریافت فرمایا : میرا کچھ قرضہ معین مدت کیلئے ہے اور کچھ کا وقت معین نہیں تو کیا ہم زکوۃ ادا کریں اس پر ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں، حضرت عائشہ نے ہمیں حکم فرمایا تھا کہ جو کچھ سمندر میں ہو اس پر زکوۃ ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے بھی یہی سوال پوچھا تو آپ نے بھی اسی طرح جواب ارشاد فرمایا۔

10358

(۱۰۳۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الدَّیْنِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٥٨) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ قرض پر زکوۃ نہیں ہے۔

10359

(۱۰۳۵۹) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمِّلِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، عَنْ عَائِشَۃَ ،قَالَتْ : لَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَقْبِضَہُ۔
(١٠٣٥٩) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرض پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ اس کو واپس وصول کر کے اس پر قبضہ نہ کرلے۔

10360

(۱۰۳۶۰) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یُزَکِّیہِ حَتَّی یَقْبِضَہُ۔
(١٠٣٦٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ قرض پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ اس کو واپس وصول کر کے اس پر قبضہ نہ کرلے۔

10361

(۱۰۳۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی صَاحِبِ الدَّیْنِ الَّذِی ہُوَ لَہُ ، وَلاَ الَّذِی ہُوَ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٦١) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جس کا قرض ہے اس پر اور جو مقروض ہے دونوں پر زکوۃ نہیں ہے۔

10362

(۱۰۳۶۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : لَیْسَ فِیہِ زَکَاۃٌ حَتَّی یَقْبِضَہُ۔
(١٠٣٦٢) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ قرض پر زکوۃ نہیں ہے جب تک کہ اس کو واپس وصول کر کے اس پر قبضہ نہ کرلے۔

10363

(۱۰۳۶۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنِ الْحَکَمِ، قَالَ: خَالَفَنِی إبْرَاہِیمُ فِیہِ، فَقُلْتُ: لاَ یُزَکِّی، ثُمَّ رَجَعَ إلَی قَوْلِی۔
(١٠٣٦٣) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے پہلے میری مخالفت کی میں نے کہا تھا کہ زکوۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ پھر انھوں نے میرے قول کی طرف رجوع فرما لیا کہ زکوۃ واجب نہیں ہے۔

10364

(۱۰۳۶۴) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ الْعُمَرِیِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : لَیْسَ فِی الدَّیْنِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٣٦٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرض پر زکوۃ نہیں ہے۔

10365

(۱۰۳۶۵) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ یُکَافِیَٔ الْعَبْدُ أَصْحَابَہُ ، وَأَنْ یَتَصَدَّقَ مِنَ الْفَضْلِ کَذَلِکَ۔
(١٠٣٦٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ غلام اپنے اصحاب (آقا) کو بدلہ دے اور جو زائد بچے اس میں سے صدقہ ادا کرے۔

10366

(۱۰۳۶۶) حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ الْعَبْدُ مِنْ قُوتِہِ بِالشَّیْئِ لاَ یُضَرُّ بِہِ۔
(١٠٣٦٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ غلام اپنے مال سے اتنا صدقہ (زکوۃ ) ادا کرے گا جو کہ اس کو نقصان نہ پہنچائے۔

10367

(۱۰۳۶۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ؛ أَنَّہُ سَأَلَہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : أَنَا رَجُلٌ مَمْلُوکٌ وَمَعِی مَالٌ ، فَأَتَصَدَّقُ مِنْہُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، بِثَلاَثَۃِ دَرَاہِمَ ، أَرْبَعَۃِ۔
(١٠٣٦٧) حضرت سعید بن جبیر سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میں غلام ہوں لیکن میرے پاس مال موجود ہے کیا میں صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جی ہاں تین درہم یا چار درہم۔ (اس سے زیادہ نہیں) ۔

10368

(۱۰۳۶۸) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ : مَا یَتَصَدَّقُ بِہِ الْعَبْدُ مِنْ مَالِہِ ؟ قَالَ : الصَّاعُ وَشَبَہُہُ۔
(١٠٣٦٨) حضرت داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب سے دریافت فرمایا کہ غلام اپنے مال میں سے کتنا صدقہ کرے گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ایک صاع یا اس کے مشابہ (اس سے زائد نہیں) ۔

10369

(۱۰۳۶۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ الْعَبْدُ بِمَا دُونَ الدِّرْہَمِ۔
(١٠٣٦٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ غلام ایک درہم سے کم صدقہ کرے گا۔

10370

(۱۰۳۷۰) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، وَکَانَ مَمْلُوکًا لِبَنِی ہَاشِمٍ ؛ أَنَّہُ سَأَلَ عُمَرَ أَیَتَصَدَّقُ ؟ قَالَ : بِالدِّرْہَمِ وَالرَّغِیفِ۔
(١٠٣٧٠) حضرت عبداللہ بن نافع کے والد بنو ہاشم کے غلام تھے۔ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ صدقہ کرسکتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جی ہاں ایک درہم یا روٹی کا ٹکڑا۔

10371

(۱۰۳۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَیْسٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : یَتَقَرَّبُ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ خَیْرٍ۔
(١٠٣٧١) حضرت سالم فرماتے ہیں کہ غلام (اللہ کا) قرب حاصل کرے گا جتنے مال کی وہ استطاعت و طاقت رکھتا ہے (وہ صدقہ کر کے) ۔

10372

(۱۰۳۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، وَخَیْثَمَۃَ ؛ فِی الْعَبْدِ یَتَصَدَّقُ ؟ قَالاَ : لاَ یَتَصَدَّقُ بِمَا فَوْقَ الدِّرْہَمِ۔
(١٠٣٧٢) حضرت عامر اور حضرت خیثمہ سے سوال کیا گیا کہ کیا غلام بھی صدقہ کرسکتا ہے ؟ دونوں حضرات نے فرمایا ایک درہم سے زائد صدقہ نہیں کرے گا۔

10373

(۱۰۳۷۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ بِالشَّیْئِ لَیْسَ بِذِی بَالٍ۔
(١٠٣٧٣) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ غلام صدقہ کرے گا اس چیز کا جو کہ زیادہ قیمتی نہ ہو۔

10374

(۱۰۳۷۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ ، قَالَ : کُنْتُ عَبْدًا مَمْلُوکًا ، وَکُنْت أَتَصَدَّقُ ، فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مَوْلاَیَ یَنْہَانِی ، أَوْ سَأَلَہُ ، فَقَالَ : الأَجْرُ بَیْنَکُمَا۔ (مسلم ۷۱۱۔ ابن ماجہ ۲۲۹۷)
(١٠٣٧٤) حضرت عمیر جو کہ آبی اللحم کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ میں غلام تھا اور میں صدقہ کیا کرتا تھا، میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمایا کہ کیا میں صدقہ کرسکتا ہوں جبکہ میرا آقا مجھے روکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو تم صدقہ کرو گے اس کا اجر تم دونوں کیلئے ہے۔

10375

(۱۰۳۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : یَتَصَدَّقُ بِالدِّرْہَمِ۔
(١٠٣٧٥) حضرت حکم سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ غلام ایک درہم صدقہ کرے گا۔

10376

(۱۰۳۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجِیبُ دَعْوَۃَ الْمَمْلُوکِ۔ (ابن سعد ۳۷۰)
(١٠٣٧٦) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلام کی دعوت قبول فرما لیا کرتے تھے۔

10377

(۱۰۳۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجِیبُ دَعْوَۃَ الْمَمْلُوکِ۔ (ترمذی ۱۰۱۷۔ ابن ماجہ ۴۱۷۸)
(١٠٣٧٧) حضرت انس سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلام کی دعوت قبول فرما لیا کرتے تھے۔

10378

(۱۰۳۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ سَلْمَانَ ، عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : لاَ یَتَصَدَّقُ الْعَبْدُ عَلَی وَالِدِہِ ، وَلاَ عَلَی أُمِّہِ إِلاَّ بِإِذْنِ سَیِّدِہِ۔
(١٠٣٧٨) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ غلام اپنے والد اور والدہ پر آقا کی اجازت کے بغیر صدقہ نہ کرے۔

10379

(۱۰۳۷۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ دِرْہمٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ ، قُلْتُ : إِنَّہُ قَدْ جَعَلَ عَلَیَّ مَوْلاَیَ دِرْہَمًا فِی الْیَوْمِ ، فَأَتَصَدَّقُ ؟ قَالَ : لاَ یَحِلُّ لَکَ مِنْ دَمِکَ ، وَلاَ مِنْ مَالِکَ شَیْئٌ إِلاَّ بِإِذْنِہِ ، تُنَاوِلُ الْمِسْکِینَ اللُّقْمَۃَ۔
(١٠٣٧٩) حضرت درہم فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ سے دریافت فرمایا کہ میرے آقا مجھے ایک دن کا ایک درہم دیتے ہیں۔ کیا میں صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : تیرے لیے تیرے خون اور تیرے مال میں آقا کی اجازت کے بغیر کچھ بھی (صدقہ کرنا) جائز نہیں ہے۔ تو مسکین کو لقمہ کھلا دیا کر (تیرے لیے یہی کافی ہے) ۔

10380

(۱۰۳۸۰) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لاَ یَتَصَدَّقُ الْعَبْدُ بِشَیْئٍ مِنْ مَالِہِ ، إِلاَّ بِإِذْنِ مَوْلاَہُ۔
(١٠٣٨٠) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ غلام آقا کی اجازت کے بغیر صدقہ نہیں کرے گا۔

10381

(۱۰۳۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سُلَیْمَانَ ، قَالَ : شَہِدْت الشَّعْبِیَّ ، وَسَأَلَہُ مَمْلُوکٌ ، قَالَ : إنِّی اکْتَسَبْتُ کَذَا وَکَذَا ، فَیَأْخُذُ مَوْلاَیَ کَذَا وَکَذَا ، فَأَتَصَدَّقُ ؟ قَالَ : إِذَنْ یَکُونُ الأَجْرُ لِمَوَالِیک۔
(١٠٣٨١) حضرت اسماعیل بن سلیمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت شعبی کے پاس حاضر تھا کہ ایک غلام نے آپ سے سوال کیا کہ میں اتنا اتنا کماتا ہوں اور اس میں سے اتنا اتنا میرا آقا لے لیتا ہے۔ کیا میں صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا (تو صدقہ کرے بھی تو) اس کا اجر تیرے آقا کیلئے ہے۔

10382

(۱۰۳۸۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ؛ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ کَانَ یَأْمُرُ لِلْمِسْکِینِ بِالشَّیْئِ ، فَإِذَا لَمْ یُوجَدْ وُضِعَ حَتَّی یُعْطِیَہُ غَیْرَہُ۔
(١٠٣٨٢) حضرت عمرو بن عاص مسکین کو کوئی چیز دینے کے لیے حکم دیتے پھر اگر وہ نہ ملتی تو اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ کوئی دوسری عنایت فرما دیتے۔

10383

(۱۰۳۸۳) حَدَّثَنَا الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ؛ إِنَّہُ کَرِہَ إذَا أُمِرَ لِلسَّائِلِ بِطَعَامٍ فَلَمْ یَقْدِرْ عَلَیْہِ ، أَنْ یَأْکُلَہُ حَتَّی یَتَصَدَّقَ بِہِ۔
(١٠٣٨٣) حضرت عکرمہ کسی مسکین کو کوئی کھانے کی چیز دینے کا حکم دیتے پھر اگر وہ نہ ملتی تو خود بھی اس کو تناول نہ فرماتے بلکہ صدقہ کردیتے۔

10384

(۱۰۳۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ؛ أَنَّ سَائِلاً سَأَلَ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ؟ فَقَالَ لَہُ حمَیْدٌ : إنَّک ضَالٌّ ، وَکَأَنَّہُ عِبَادِیٌّ ، فَأَمَرَ لَہُ بِشَیْئٍ فَاسْتَقَلَّہُ وَأَبَی أَنْ یَقْبَلَہُ ، فَقَالَ لَہُ حُمَیْدٌ : مَا شِئْت إِنْ قَبِلْتَہُ ، وَإِلاَّ أَعْطَیْنَاہُ غَیْرَک ، ثُمَّ قَالَ : کَانَ یُقَالُ : رُدُّوا السَّائِلَ وَلَوْ بِمِثْلِ رَأْسِ الْقَطَاۃِ۔
(١٠٣٨٤) حضرت عمرو بن سعید فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت حمید بن عبد الرحمن سے کچھ مانگا، حضرت حمید نے اس سے فرمایا کہ تو گمراہ لگتا ہے اور تو مجھے نصرانی معلوم ہوتا ہے۔ (عرب کا قبیلہ جو گمراہ ہو کر نصرانیت اختیار کرلے ان کو عبادی کہا جاتا ہے) پھر اس کو کچھ دینے کا حکم فرمایا تو اس نے اس کو کم سمجھا اور لینے سے انکار کردیا۔ حضرت حمید نے فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے تو قبول کرلے ورنہ ہم کسی اور کو دے دیں گے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا سائل کو عطاء کرو (دیدو) اگرچہ پرندہ (چکور) کا معمولی سر ہی کیوں نہ ہو۔

10385

(۱۰۳۸۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَخْرُجُ بِالصَّدَقَۃِ إلَی السَّائل فَیَفُوتُ مِنْہُ فَلاَ یَجِدُہُ ؟ قَالَ : یَصْرِفُہَا إلَی غَیْرِہِ۔
(١٠٣٨٥) حضرت طاؤس سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کوئی شخص سائل کو کچھ دینے کیلئے نکالتا ہے لیکن وہ سائل اس سے گم ہوجاتا ہے بعد میں اس کو نہیں پاتا تو کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا اس کے علاوہ کسی اور کو دیدے۔

10386

(۱۰۳۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُخْرِجُ الصَّدَقَۃَ إلَی الْمِسْکِینَ فَیَفُوتُہُ ، قَالَ : یَحْبِسُہَا حَتَّی یُعْطِیَہَا مِسْکِینًا غَیْرَہُ ، وَلاَ یَرْجِعُ فِی شَیْئٍ جَعَلَہُ لِلَّہِ۔
(١٠٣٨٦) حضرت ابراہیم سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کسی مسکین کو صدقہ دینے کیلئے نکالتا ہے لیکن وہ مسکین اس سے فوت ہوجاتا ہے تو اب وہ کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ کسی اور مسکین کو دیدے تو یہ بھی کافی ہے۔ اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے بنائی ہے (مقرر کی ہے) اس کو نہ لوٹائے۔

10387

(۱۰۳۸۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ فِی السَّائِلِ إذَا خَرَجَ إلَیْہِ بِالْکِسْرَۃِ فَلَمْ یَجِدْہُ ، احْبِسْہَا حَتَّی یَجِیئَ غَیْرُہُ۔
(١٠٣٨٧) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ جب تو سائل کی طرف کوئی چیز (ٹکڑا) لیکر نکلے اور اس کو نہ پائے تو اس چیز کو روکے رکھ یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور آجائے۔

10388

(۱۰۳۸۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ الْعَاصِ یَقُولُ : إذَا خَرَجَ إلَیْہِ بِالْکِسْرَۃِ فَلَمْ یُوجَدْ ، حَبَسوہَا حَتَّی یَجِیئَ غَیْرُہُ۔
(١٠٣٨٨) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب تو سائل کی طرف کوئی چیز (ٹکڑا) لے کر نکلے اور اس کو نہ پائے تو اس چیز کو روکے رکھ یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور آجائے۔

10389

(۱۰۳۸۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : یَضَعُہَا حَتَّی یَجِیئَ غَیْرُہُ۔
(١٠٣٨٩) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا کہ اس کو اپنے پاس رکھ لے یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور سائل آجائے۔

10390

(۱۰۳۹۰) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ بَکْرٍ ، قَالاَ: یَحْبِسُہَا حَتَّی یُعْطِیَہَا غَیْرَہُ۔
(١٠٣٩٠) حضرت حمید اور حضرت بکر فرماتے ہیں کہ اس کو اپنے پاس روکے رکھے یہاں تک کہ کسی اور کو عطا کر دے۔

10391

(۱۰۳۹۱) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یَصْنَعُ بِہَا مَا شَائَ۔
(١٠٣٩١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو کرنا چاہے کرے۔

10392

(۱۰۳۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، وَعَامِرٍ ، وَعَطَائٍ ، قَالُوا : إِنْ شَائَ أَمْضَاہَا ، وَإِنْ شَائَ أَمْسَکَہَا۔
(١٠٣٩٢) حضرت اسرائیل، حضرت جابر، حضرت ابو جعفر، حضرت عامر اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو ان کو خرچ کرلے اور اگر چاہے تو اپنے پاس روکے رکھے۔

10393

(۱۰۳۹۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَالْحَسَنِ قَالاَ : مَا أُخِذَ مِنْک عَلَی الْجُسُورِ وَالْقَنَاطِیرِ ، فَتِلْکَ زَکَاۃٌ مَاضِیَۃٌ۔
(١٠٣٩٣) حضرت انس اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ : جو کچھ پلوں پر آپ سے وصول کیا گیا وہ ماضی کی زکوۃ شمار ہوگی۔

10394

(۱۰۳۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، وَأَبُو بَکْرٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : احْتَسِبْ مَا أَخَذَ مِنْکَ الْعَشَّارُونَ مِنْ زَکَاۃِ مَالِک۔
(١٠٣٩٤) حضرت ابراہیم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو عشر وصول کرنے والے آپ سے لیں اس کو بھی اپنے مال کی زکوۃ میں شمار کر۔

10395

(۱۰۳۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، قَالَ : سَأَلْتُ أَبَا رَزِینٍ : مَا یَأْخُذُ الْعَشَّارُ مِنَ التُّجَّارِ ؟ قَالَ : یَحْتَسِبُ بِہِ مِنْ زَکَاتِہِ۔
(١٠٣٩٥) حضرت زبرقان سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو رزین سے دریافت فرمایا کہ جو تاجروں سے عشر وصول کیا جاتا ہے (اس کا کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو زکوۃ میں شمار کیا جائے گا۔

10396

(۱۰۳۹۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، وَالْحَسَنِ ، قَالاَ : مَا أَخَذَ مِنْک الْعَاشِرُ ، فَاحْتَسِبْ بِہِ مِنَ الزَّکَاۃِ۔
(١٠٣٩٦) حضرت ابراہیم اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مال عشر وصول کرنے والا آپ سے وصول کرے تو اس کو زکوۃ میں سے شمار کرو۔

10397

(۱۰۳۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یَحْتَسِبُ بِہِ۔
(١٠٣٩٧) حضرت منصور سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس کو زکوۃ میں شمار کیا جائے گا ۔

10398

(۱۰۳۹۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا مَرَّ عَلَی الْعَاشِرِ فَأَخَذَ مِنْہُ ، احْتَسَبَ بِہِ مِنْ زَکَاتِہِ۔
(١٠٣٩٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب تو عاشر کے پاس سے گذرے اور وہ تجھ سے عشر وصول کرے تو اس کو زکوۃ میں شمار کر۔

10399

(۱۰۳۹۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : فِی الرَّجُلِ یَمُرُّ بِالْعَاشِرِ فَیَأْخُذُ مِنْہُ ؟ قَالَ : یَحْتَسِبُ مَا أَخَذُوا مِنْہُ مِنْ زَکَاۃِ مَالِہِ۔
(٩٩ ١٠٣) حضرت عبد العزیز بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام شعبی سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی عاشر کے پاس سے گذرتا ہے اور وہ اس سے عشر وصول کرتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو اس سے وصول کیا گیا ہے اس کو بھی مال کی زکوۃ میں شمار کرے۔

10400

(۱۰۴۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قَیْسٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یَحْتَسِبُ بِہِ۔
(١٠٤٠٠) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ اس مال کو بھی زکوۃ میں شمار کیا جائے گا۔

10401

(۱۰۴۰۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ ؟ فَقَالَ : احْتَسِبْ بِمَا أَخَذَ مِنْک الْعَاشِرُ۔
(١٠٤٠١) حضرت اسماعیل بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے اس کے متعلق دریافت فرمایا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو عاشر وصول کرے اس کو بھی (زکوۃ ) میں شمار کیا جائے گا۔

10402

(۱۰۴۰۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : لاَ تَحْتَسِبْ بِمَا أَخَذَ مِنْک الْعَاشِرُ۔
(١٠٤٠٢) حضرت ابو قلابہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو عاشر آپ سے وصول کرے اس کو زکوۃ میں شمار نہ کرنا۔

10403

(۱۰۴۰۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ الْمَوْصِلِیِّ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : لاَ یَحْتَسِبُ بِہِ۔
(١٠٤٠٣) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ اس کو زکوۃ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

10404

(۱۰۴۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُوسٍ قَالاَ : لاَ تَحْتَسِبْ مَا أَخَذَ مِنْکَ الْعَاشِرُ۔
(١٠٤٠٤) حضرت مجاہد اور حضرت طاؤس ارشاد فرماتے ہیں کہ جو عاشر آپ سے وصول کرے اس کو زکوۃ میں شمار نہیں کریں گے۔

10405

(۱۰۴۰۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ ثُوَیْرٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ یَحْتَسِبُ بِہِ۔
(١٠٤٠٥) حضرت عبداللہ بن عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کو زکوۃ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

10406

(۱۰۴۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ سُدَیرٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ: لاَ تَحْتَسِبْ بِمَا أَخَذَ مِنْک الْعَاشِرُ۔
(١٠٤٠٦) حضرت ابو جعفر ارشاد فرماتے ہیں کہ جو عاشر آپ سے وصول کرے اس کو زکوۃ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

10407

(۱۰۴۰۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ ہِشَامٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُمَا کَانَا یَکْرَہَانِ أَنْ تُخْرِجَ الزَّکَاۃَ مِنْ بَلَدٍ إلَی بَلَدٍ۔
(١٠٤٠٧) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور دوسرے حضرات زکوۃ کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کو ناپسند فرماتے ہیں۔

10408

(۱۰۴۰۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ تُحْمَلَ الصَّدَقَۃُ مِنْ بَلَدٍ إلَی بَلَدٍ۔
(١٠٤٠٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ زکوۃ کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانا ناپسندیدہ ہے۔

10409

(۱۰۴۰۹) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی رَوَّادٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ بُعِثَ إلَیْہِ بِزَکَاۃٍ مِنَ الْعِرَاقِ إلَی الشَّامِ ، فَرَدَّہَا إلَی الْعِرَاقِ۔
(١٠٤٠٩) حضرت عبد العزیز بن ابو رواد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس عراق اور شام کی زکوۃ وصول کر کے ارسال کی گئی تو آپ نے وہ زکوۃ کا مال واپس عراق بھجوا دیا۔

10410

(۱۰۴۱۰) حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُرَّۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ امْرَأَۃَ الْقَاسِمِ ؟ فَقَالَتْ : اجْتَمَعَ عِنْدَنَا دَرَاہِمُ مِنْ زَکَاتِنَا ، فَبَعَثْت بِہَا إلَی الشَّامِ ، فَقَالَ : ادْفَعُوہَا إلَی الأَمِیرِ الَّذِی بِالْمَدِینَۃِ۔
(١٠٤١٠) حضرت عثمان بن مرہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت قاسم سے دریافت فرمایا کہ ہمارے پاس زکوۃ کے کچھ دراہم موجود ہیں کیا ہم انھیں شام بھیج دیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ میں جو امیر اور حاکم ہے اس کو ادا کرو۔ (شہر سے دوسرے شہر منتقل نہ کرو) ۔

10411

(۱۰۴۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی لَیْنۃ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : ضَعِ الزَّکَاۃَ فِی الْقَرْیَۃِ الَّتِی أَنْتَ فِیہَا ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہَا فُقَراء فَإِلَی الَّتِی تَلِیہَا۔
(١٠٤١١) حضرت ضحاک ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شہر میں آپ ہیں زکوۃ کو اسی شہر میں رکھیں۔ اور اگر اس شہر میں فقراء (اور مستحقین ) نہ ہوں تو جو شہر اس کے قریب ہے وہاں لے جاؤ۔

10412

(۱۰۴۱۲) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ وَلَیْسَ بِالأَحْمَرِ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ فَرْقَدٍ السَبَخِیِّ ، قَالَ : بُعِثَ مَعِیَ بِزَکَاۃٍ إلَی مَکَّۃَ ، فَلَقِیت سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ ، فَقَالَ : رُدَّہَا إلَی الأَرْضِ الَّتِی حَمَلْتہَا مِنْہَا۔
(١٠٤١٢) حضرت فرقد السبخی فرماتے ہیں کہ مجھے زکوۃ دے کر مکہ بھیجا گیا تو میری حضرت سعید بن جبیر سے ملاقات ہوگئی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جس شہر سے یہ وصول کی گئی ہے واپس اسی شہر اس کو لے جاؤ۔

10413

(۱۰۴۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی خَلدۃ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ؛ أَنَّہُ بَعَثَ بِصَدَقَۃِ مَالِہِ إلَی الْمَدِینَۃِ۔
(١٠٤١٣) حضرت ابو خلدہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو العالیہ اپنے مال کی زکوۃ (دوسرے شہر سے) مدینہ بھیجی۔

10414

(۱۰۴۱۴) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ أَبِی سَاسَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : ہُمُ الْمُسْلِمُونَ فَأَعْطِہِ حَیْثُ شِئْت۔
(١٠٤١٤) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ سب مسلمان ہیں تو جس کو چاہے اپنی زکوۃ عطا کر۔

10415

(۱۰۴۱۵) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : کَانَ یَسْتَحِبُّ أَنْ یُرْسِلَ بِالصَّدَقَۃِ إلَی أَبْنَائِ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ الَّذِینَ بِالْمَدِینَۃِ۔
(١٠٤١٥) حضرت جعفر سے مروی ہے حضرت میمون زکوۃ مدینہ میں مہاجرین اور انصار کی اولاد کو بھیجا کرتے تھے۔

10416

(۱۰۴۱۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کَانَ طَاوُوس یَرَی أَنْ یَجْلِسَ الْمُصَدِّقُ ، فَإِنْ أُعْطِیَ شَیْئًا أَخَذَ ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ شَیْئًا سَکَتَ۔
(١٠٤١٦) حضرت معتمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت طاؤس کی رائے یہ تھی کہ زکوۃ وصول کرنے والا (ایک جگہ) بیٹھ جائے گا۔ اس کو جو (زکوۃ ) دی جائے وہ وصول کرلے گا اور جو اس کو نہ دے تو وہ خاموش رہے گا۔ (کسی کے ساتھ تکرار نہ کرے گا) ۔

10417

(۱۰۴۱۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ ؛ أَنَّ شَیْخَیْنِ مِنْ أَشْجَعَ أَخْبَرَاہُ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ الأَنْصَارِیَّ ، مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ کَانَ یَقدم عَلَیْہِمْ فَیُصَدِّقُ مَاشِیَتَہُمْ فِی زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَکَانَ یَجْلِسُ ، فَمَنْ أَتَاہُ بِشَاۃٍ فِیہَا وَفَائً مِنْ حَقِّہِ قَبِلَہَا مِنْہُ۔
(١٠٤١٧) حضرت محمد بن مسلمہ انصاری جو اصحاب بدر میں سے ہیں۔ حضرت عمر کے زمانہ میں وہ قبیلہ اشجع کے لوگوں کے پاس آ کر جانوروں کی زکوۃ وصول کیا کرتے تھے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ جاتے پس جو ان کے پاس بکری لے کر آتا اپنا حق زکوۃ ادا کرنے کے لیے تو وہ اس سے وصول فرما لیتے۔

10418

(۱۰۴۱۸) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِی حَارِثَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنَا عُمَرُ مُصَدِّقِینَ ، فَکُنَّا إذَا أُوْتیْنَا بِشَیْئٍ فِیہِ وَفَائٌ مِنْ حَقِّنَا قَبِلْنَاہُ مِنْہُ۔
(١٠٤١٨) حضرت ابو حارثہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے ہمیں زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا۔ پس ہمارے پاس جو کچھ لے کر آتا جس میں ہمارا حق ہوتا ہم وہ اس سے وصول کرلیتے۔

10419

(۱۰۴۱۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : یَأْتِیہِمُ الْمُصَدِّقُ عَلَی مِیَاہِہِمْ ، وَلاَ یَسْتَحْلِفُہُمْ۔
(١٠٤١٩) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا لوگوں کے پاس ان کی پانی کی گھاٹ (یا کوئی ایسی جگہ جہاں سب جمع ہوسکتے ہوں) پر آئے اور ان کو کسی قسم کی قسم یا عہد و پیمان نہ دلوائے (یعنی کسی کام پر مجبور نہ کرے) ۔

10420

(۱۰۴۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : کَانَ الْمُصَدِّقُ یَجِیئُ ، فَإِنْ رَأَی إبِلاً قَائِمَۃً وَغَنَمًا صَدَّقَہَا ، وَلَمْ یَنْتَظِرْ۔
(١٠٤٢٠) حضرت محمد ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ وصول کرنے والا آتا تھا۔ پس اگر وہ اونٹ اور بکریوں کو دیکھتا تو ان کی زکوۃ وصول کرنے لگتا اور وہ (کسی کا) انتظار نہیں کرتا تھا۔

10421

(۱۰۴۲۱) حدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : أَمَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِإِخْرَاجِ زَکَاۃِ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلاَۃِ۔ (بخاری ۱۵۰۹۔ مسلم ۶۷۹)
(١٠٤٢١) حضرت امام زہری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر نماز عید سے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

10422

(۱۰۴۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُخْرِجُہَا قَبْلَ الصَّلاَۃِ۔
(١٠٤٢٢) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر صدقۃ الفطر نماز سے پہلے ادا فرمایا کرتے تھے۔

10423

(۱۰۴۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ (ح) وَعَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٠٤٢٣) حضرت ابن عمر سے اسی کے مثل منقول ہے۔

10424

(۱۰۴۲۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : إنَّ السُّنَّۃَ أَنْ یُخْرِجَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلاَۃِ۔ (دارقطنی ۷۰)
(١٠٤٢٤) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ بیشک سنت طریقہ یہ ہے کہ صدقۃ الفطر کو نماز سے پہلے ادا کیا جائے۔

10425

(۱۰۴۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یُخْرِجَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إلَی الْجَبَّانَۃِ۔
(١٠٤٢٥) حضرت ابو معشر سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم صدقۃ الفطر عید گاہ (کھلا میدان) جانے سے پہلے ادا کرنے کو پسند کرتے تھے۔

10426

(۱۰۴۲۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِم بْن یَسَارٍ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی صَدَقَۃَ الْفِطْرِ قَبْلَ الصَّلاَۃِ۔
(١٠٤٢٦) حضرت عبداللہ بن مسلم بن یسار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ صدقۃ الفطر نماز عید سے قبل ادا فرمایا کرتے تھے۔

10427

(۱۰۴۲۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَفْلَحَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ؛ أَنَّہُ کَان یُخْرِجہَا قَبْلَ الصَّلاَۃِ۔
(١٠٤٢٧) حضرت افلح سے مروی ہے کہ حضرت قاسم نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے۔

10428

(۱۰۴۲۸) حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو نَضْرَۃَ یَقْعُدُ یَوْمَ الْفِطْرِ فِی مَسْجِدِ الْحَیِّ ، فَیُؤْتَی بِزَکوَاتِہِمْ وَیُرْسِلُ فِی مَنْ بَقِیَ ، فَیُؤْتَی بِزَکَاتِہِ فَیَقْسِمُہَا فِی فُقَرَائِ الْحَیِّ ، ثُمَّ یَخْرُجُ۔
(١٠٤٢٨) حضرت سعید بن یزید سے مروی ہے کہ حضرت ابو نضرہ محلہ کی مسجد میں یوم الفطر کے دن بیٹھ جاتے، ان کے پاس زکوۃ (وغیرہ) لائی جاتی تو اور جو باقی رہ جاتے ان کی طرف قاصد روانہ کرتے ان کی زکوۃ بھی آجاتی وہ اس کو محلہ کے فقراء کے درمیان تقسیم فرماتے پھر مسجد سے نکلتے۔

10429

(۱۰۴۲۹) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : لاَ یَخْرُجُ الرَّجُلُ یَوْمَ الْفِطْرِ إلَی الْمُصَلَّی ، حَتَّی یُؤَدِّیَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ ، وَمَا عَلَی أَہْلِہِ۔
(١٠٤٢٩) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ آدمی عید الفطر کے دن عید گاہ کی طرف تب تک نہ جائے جب تک کہ صدقۃ الفطر ادا نہ کرے اور جو اس کے اہل پر واجب ہے وہ ادا نہ کرلے۔

10430

(۱۰۴۳۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : قَدِّمْ زَکَاتَکَ قَبْلَ صَلاَتِک۔
(١٠٤٣٠) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اپنی نماز سے قبل (نماز عید) زکوۃ (صدقۃ الفطر) ادا کرو۔

10431

(۱۰۴۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ إخْرَاجَہَا قَبْلَ الصَّلاَۃِ ۔ وَقَالَ عَامِرٌ : إِنْ شَائَ عَجَّلَہَا ، وَإِنْ شَائَ أَخَّرَہَا۔
(١٠٤٣١) حضرت حکم سے مروی ہے کہ فقہاء کرام صدقۃ الفطر نماز سے قبل ادا کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ جب کہ حضرت عامر فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو صدقۃ الفطر نماز سے پہلے ادا کرے اور اگر چاہے تو بعد میں ادا کرلے۔

10432

(۱۰۴۳۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی صَدَقَۃَ الْفِطْرِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ۔
(١٠٤٣٢) حضرت ابن عون سے مروی ہے کہ حضرت ابن سیرین صدقۃ الفطر نماز کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے۔

10433

(۱۰۴۳۳) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی خَتْنُ مُجَاہِدٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ یَوْمَ الْفِطْرِ زَکَاۃٌ ، وَمَنْ أَعْطَاہَا بَعْدَ ذَلِکَ ، فَہِیَ صَدَقَۃٌ۔
(١٠٤٣٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر یوم الفطر کی زکوۃ ہے۔ اور جو اس کو نماز کے بعد ادا کرے تو یہ اس کے حق میں صدقہ ہے۔

10434

(۱۰۴۳۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ أَبُو مَیْسَرَۃَ یُطْعِمُ بَعْد َمَا یُصَلِّی۔
(١٣١٣٤) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ابو میسرہ نماز کے بعد کھانا کھلاتے تھے۔

10435

(۱۰۴۳۵) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، وَیَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ عَلَی کُلِّ حُرٍّ ، أَوْ عَبْدٍ ، صَغِیرٍ ، أَوْ کَبِیرٍ ، ذَکَرٍ ، أَوْ أُنْثَی ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ شَعِیرٍ ، أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ۔ (ابوداؤد ۱۶۱۹۔ نسائی ۲۲۸۷)
(١٠٤٣٥) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر آزاد و غلام چھوٹے، بڑے، مرد اور عورت پر صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور، یا جو یا نصف صاع گندم مقرر فرمایا۔

10436

(۱۰۴۳۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، عَنْ عُثْمَانَ ، قَالَ : صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ۔
(١٠٤٣٦) حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا نصف صاع گندم ہے۔

10437

(۱۰۴۳۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مَنْ أَدَّی إلَی أَبِی بَکْرٍ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ ، نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ۔
(١٠٤٣٧) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتایا جس نے حضرت صدیق اکبر کو صدقۃ الفطر ادا کیا تھا کہ وہ نصف صاع کھانا (گندم) ہے۔

10438

(۱۰۴۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ سُفْیَانَ بْنِ حُسَیْنٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، یَرْفَعُہُ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ ؟ فَقَالَ : عَنِ الصَّغِیرِ ، وَالْکَبِیرِ ، وَالْحُرِّ ، وَالْمَمْلُوکِ ، نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ، أَوْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٣٨) حضرت سعید بن المسیب سے مرفوعا مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدقۃ الفطر کے متعلق دریافت کیا گیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور اور جو ہے۔

10439

(۱۰۴۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَنِ الصَّغِیرِ ، وَالْکَبِیرِ ، وَالْحُرِّ ، وَالْعَبْدِ، عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ۔
(١٠٤٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور ہر انسان پر نصف صاع گیہوں ہے۔

10440

(۱۰۴۴۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ ، وَمَنْ خَالَفَ الْقَمْحَ ، مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ زَبِیبٍ ، أَوْ أَقِطٍ ، أَوْ شَعِیرٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، فَصَاعٌ تَامٌّ۔
(١٠٤٤٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ہر شخص نصف صاع گیہوں صدقۃ الفطر ادا کرے گا۔ اور جو گیہوں کے علاوہ دینا چاہے تو وہ کھجور، کشمش، پنیر اور جو یا اس کے علاوہ کوئی چزف ہو تو پورا صاع ادا کرے گا۔

10441

(۱۰۴۴۱) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ سَالِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَمَّنْ صَامَ مِنَ الأَحْرَارِ ، وَعَنِ الرَّقِیقِ مَنْ صَامَ مِنْہُمْ ، وَمَنْ لَمْ یَصُمْ ، نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٤١) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر اس آزاد شخص پر ہے جو رمضان کے روزے رکھے اور ہر غلام پر ہے خواہ وہ روزے رکھے یا نہ رکھے اور وہ نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جو ہے۔

10442

(۱۰۴۴۲) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ قَالَ مِثْلَ قَوْلِ الشَّعْبِیِّ فِیمَنْ لَمْ یَصُمْ مِنَ الأَحْرَارِ۔
(١٠٤٤٢) حضرت حسن نے بھی امام شعبی کے مثل فرمایا ہے کہ آزاد لوگوں میں سے جنہوں نے روزہ نہیں رکھا۔

10443

(۱۰۴۴۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ وَالأَسْوَد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٤٣) حضرت عبداللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ (صدقۃ الفطر) دو مد گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو ہے۔

10444

(۱۰۴۴۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ مِثْلَہُ۔
(١٠٤٤٤) حضرت جابر سے بھی اسی طرح منقول ہے۔

10445

(۱۰۴۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرِ۔
(١٠٤٤٥) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (صدقۃ الفطر) نصف صاع گیہوں ہے یا ایک صاع کھجور ہے۔

10446

(۱۰۴۴۶) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ؛ أَنَّہُ قَالَ : صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٤٦) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہے۔

10447

(۱۰۴۴۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٤٧) حضرت عطاء فرماتے ہیں صدقۃ الفطر دومد گیہوں یا ایک صاع کھجور یا کشمش ہے۔

10448

(۱۰۴۴۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَمْرٍو ؛ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ الزُّبَیْرِ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ ، یَقُولُ : مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، أَوْ تَمْرٍ۔
(١٠٤٤٨) حضرت عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ صدقۃ الفطر دو مد گیہوں ہے، یا ایک صاع کھجور یا کشمش۔

10449

(۱۰۴۴۹) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ؛ أَنَّہُ سَأَلَ الْحَکَمَ ، وَحَمَّادًا ؟ فَقَالاَ : نِصْفُ صَاعِ حِنْطَۃٍ ۔ قَالَ : وَسَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ الْقَاسِمِ ، وَسَعْدَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ؟ فَقَالاَ مِثْلَ ذَلِکَ۔
(١٠٤٤٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حکم اور حضرت حماد سے صدقۃ الفطر کے متعلق دریافت فرمایا ؟ تو دونوں حضرات نے فرمایا کہ نصف صاع گندم ہے۔ پھر میں نے حضرت عبد الرحمن بن قاسم اور حضرت سعد بن ابراہیم سے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو انھوں نے بھی اسی کے مثل جواب ارشاد فرمایا۔

10450

(۱۰۴۵۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُلَیْمَانَ الشَّیْبَانِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبُو حَبِیبٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ شَدَّادٍ عَنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ ؟ فَقَالَ : نِصْفُ صَاعٍ مِنْ حِنْطَۃٍ ، أَوْ دَقِیقٍ۔
(١٠٤٥٠) حضرت ابو حبیب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن شداد سے صدقۃ الفطر کے متعلق دریافت فرمایا ؟ آپ نے فرمایا کہ نصف صاع گندم یا آٹا ہے۔

10451

(۱۰۴۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ شَعِیرٍ ، أَوْ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ۔
(١٠٤٥١) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا نصف صاع گندم ہے۔

10452

(۱۰۴۵۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تُعْطِی زَکَاۃَ الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمُونُ مِنْ أَہْلِہَا الشَّاہِدِ ، وَالْغَائِبِ ، نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ شَعِیرٍ۔
(١٠٤٥٢) حضرت فاطمہ سے مروی ہے کہ حضرت اسمائ اپنے اہل جن کی کفالت فرماتی تھیں چاہے وہ موجود ہوں یا غائب یعنی سفر میں ہوں ان کا صدقۃ الفطر نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جو ادا فرمایا کرتی تھیں۔

10453

(۱۰۴۵۳) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ کِتَابَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ إلَی عَدِیٍّ یُقْرَأُ بِالْبَصْرَۃِ فِی صَدَقَۃِ رَمَضَانَ: عَلَی کُلِّ صَغِیرٍ، أَوَ کَبِیرٍ ، حُرٍّ ، أَوْ عَبْدٍ ، ذَکَرٍ ، أَوْ أُنْثَی ، نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ ، أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ۔
(١٠٤٥٣) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے حضرت عدی کو لکھا جو انھوں نے بصرہ میں پڑھ کر سنایا جو میں نے خود سنا، اس میں تحریر تھا کہ صدقۃ الفطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد و غلام، مذکر اور مونث پر نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور ہے۔

10454

(۱۰۴۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیم بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: الصَّدَقَۃُ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ، أَوْ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ۔
(١٠٤٥٤) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا نصف صاع گندم ہے۔

10455

(۱۰۴۵۵) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یُعْطِیہِ عَمَّنْ یَعُولُ مِنْ نِسَائِہِ ، وَمَمَالِیکِ نِسَائِہِ ، إِلاَّ عَبْدَیْنِ کَانَا مُکَاتَبَیْنِ ، فَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ یُعْطِی عَنْہُمَا۔ (بخاری ۱۵۰۳۔ مسلم ۱۲)
(١٠٤٥٥) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر فرمایا۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے خاندان کی ان عورتوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرتے تھے جو آپ کی کفالت میں تھیں اور ان کے غلاموں کی طرف سے سوائے دو مکاتب غلاموں کے، کہ ان کی طرف سے ادا نہ فرماتے تھے۔

10456

(۱۰۴۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَر ، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ : صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ ، عَلَی کُلِّ عَبْدٍ ، أَوْ حُرٍّ صَغِیرٍ ، أَوْ کَبِیرٍ۔ (بخاری ۱۵۱۲۔ ابوداؤد ۱۶۰۹)
(١٠٤٥٦) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر ہر آزاد اور غلام، چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش مقرر فرمایا۔

10457

(۱۰۴۵۷) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی سَرْحٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ ؛ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ ، قَالَ : إنِّی وَاللَّہِ لاَ أُخْرِجُ إِلاَّ مَا کُنَّا نُخْرِجُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ ، أَوْ صَاعَ زَبِیبٍ ، أَوْ صَاعَ أَقِطٍ۔ (بخاری ۱۵۰۶۔ ابوداؤد ۱۶۱۲)
(١٠٤٥٧) حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم صدقۃ الفطر نہیں ادا کرتے مگر جتنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے، اور وہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر ہے۔

10458

(۱۰۴۵۸) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، عَنِ الأَسْوَد ، عَنْ عَائِشَۃَ ، قَالَتْ : أحبَّ إِلَیَّ أَنَّ إذَا وَسَّعَ اللَّہُ عَلَی النَّاسِ ، أَنْ یُتِمُّوا صَاعًا مِنْ قَمْحٍ عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ۔
(١٠٤٥٨) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں یہ بات پسند کرتی ہوں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے وسعت عطاء فرمائی ہوئی ہے وہ ہر شخص کی طرف سے مکمل ایک صاع گیہوں صدقۃ الفطر ادا کرے۔

10459

(۱۰۴۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ صَاعٌ مِنْ قَمْحٍ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٥٩) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں ہر شخص صدقۃ الفطر مکمل ایک صاع گیہوں ادا کرے۔

10460

(۱۰۴۶۰) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْرُوقًا یَقُولُ: صَدَقَۃُ الْفِطْرِ: صَاعٌ ، صَاعٌ۔
(١٠٤٦٠) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مسروق سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک ایک صاع ہے۔

10461

(۱۰۴۶۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ یَقُولُ : صَاعٌ ، صَاعٌ ، عَنْ کُلِّ صَغِیرٍ ، وَکَبِیرٍ مَکْتُوبٍ۔
(١٠٤٦١) حضرت اسحاق فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد الرحمن سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ ہر چھوٹے، بڑے پر صدقۃ الفطر ایک ایک صاع واجب ہے۔

10462

(۱۰۴۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَتَبَ إلَیْنَا ابْنُ الزُّبَیْرِ : {بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِیمَانِ} صَدَقَۃُ الْفِطْرِ : صَاعٌ ، صَاعٌ۔
(١٠٤٦٢) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے ہماری طرف لکھا اور اسمیں آیت { بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ } تحریر تھی اور یہ بھی تحریر تھا کہ صدقۃ الفطر ایک ایک صاع ہے۔

10463

(۱۰۴۶۳) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ أَیُّوبَ ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ ، قَالَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَنِ الصَّغِیرِ ، وَالْکَبِیرِ ، وَالْحُرِّ ، وَالْمَمْلُوکِ ، وَالذَّکَرِ ، وَالأُنْثَی ، قَالَ : إِنْ کَانُوا یُعْطُونَ حَتَّی یُعْطُونَ عَنِ الْحَبْلِ۔
(١٠٤٦٣) حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ہر چھوٹے، بڑے پر، ہر آزاد و غلام پر اور ہر مرد اور عورت پر ہے۔ تحقیق وہ ادا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ حمل کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔

10464

(۱۰۴۶۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، وَأَبِی الْعَالِیَۃِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالُوا : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَنِ الصَّغِیرِ، وَالْکَبِیرِ ، وَالْحُرِّ ، وَالْعَبْدِ ، وَالشَّاہِدِ ، وَالْغَائِبِ ، وَالذَّکَرِ ، وَالأُنْثَی ، وَالْغَنِیِّ ، وَالْفَقِیرِ۔
(١٠٤٦٤) حضرت امام شعبی ، حضرت ابو العالیہ اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ہر چھوٹے، بڑے پر، ہر آزاد و غلام پر، ہر حاضر و غائب پر اور ہر مرد اور عورت اور ہر فقیر اور غنی پر لازم ہے۔

10465

(۱۰۴۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: ہِیَ عَلَی مَنْ أَطَاقَ الصَّوْمَ۔
(١٠٤٦٥) حضرت علی فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ان پر ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں۔

10466

(۱۰۴۶۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَلَی مَنْ تُجْرِی عَلَیْہِ نَفَقَتُک۔
(١٠٤٦٦) صدقہ فطر ہر اس شخص کی طرف سے ہے جس کا نفقہ تجھ پر ہے۔

10467

(۱۰۴۶۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَسْتَحِبُّ التَّمْرَ فِی زَکَاۃِ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٦٧) حضرت ابو مجلز فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ صدقۃ الفطر میں کھجور ادا کی جائے۔

10468

(۱۰۴۶۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، قَالَ : تُجْزِئُ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ الْحِنْطَۃُ ، وَالشَّعِیرُ ، وَالتَّمْرُ ، وَالزَّبِیبُ ، وَالسُّلْتُ ، وَشَکَّ فِی الدَّقِیقِ وَالسَّوِیقِ ، وَقَالَ : مِنْ کُلِّ ہَذَا سَوَائٌ۔
(١٠٤٦٨) حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر گندم، جو، کھجور کشمش اور گیہوں سے ادا کرسکتے ہیں۔ اور انھوں نے آٹے اور ستو کے متعلق شک فرمایا۔ راوی فرماتے ہیں کہ یہ سب کے سب برابر ہیں۔ (جس سے مرضی صدقۃ الفطر ادا کر دے) ۔

10469

(۱۰۴۶۹) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنِ عَوْفٍ، قَالَ : سَمِعْتُ کِتَابَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ یُقْرَأُ إلَی عَدِیٍّ بِالْبَصْرَۃِ : یُؤْخَذُ مِنْ أَہْلِ الدِّیوَانِ مِنْ أَعْطِیَّاتِہِمْ ، عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ نِصْفُ دِرْہَمٍ۔
(١٠٤٦٩) حضرت عوف فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے بصرہ میں حضرت عدی کی جانب (خط) لکھا تو جب وہ پڑھا گیا تو میں نے سنا اس میں تحریر تھا کہ : اہل دیوان سے ان عطایا، (بخشش، صدقۃ الفطر) سے ہر شخص سے نصف درہم وصول کریں گے۔

10470

(۱۰۴۷۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ قُرَّۃَ ، قَالَ : جَائَنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ : نِصْفُ صَاعٍ عَنْ کُلِّ إنْسَانٍ ، أَوْ قِیمَتُہُ نِصْفُ دِرْہَمٍ۔
(١٠٤٧٠) حضرت قرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن عبد العزیز کا مکتوب لایا گیا جس میں صدقۃ الفطر سے متعلق تحریر تھا کہ : صدقۃ الفطر ہر شخص سے نصف صاع یا اس کی قیمت نصف درہم وصول کی جائے گی۔

10471

(۱۰۴۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تُعْطِیَ الدَّرَاہِمَ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٧١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر میں دراہم دے دئیے جائیں اسمیں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔

10472

(۱۰۴۷۲) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ یَقُولُ : أَدْرَکْتُہُمْ وَہُمْ یُعْطُونَ فِی صَدَقَۃِ رَمَضَانَ ، الدَّرَاہِمَ بِقِیمَۃِ الطَّعَامِ۔
(١٠٤٧٢) حضرت زہیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اسحاق کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ” میں نے اپنے سے پہلے والوں کو پایا (صحابہ کرام ) کہ وہ صدقۃ الفطر میں گندم کی قیمت دراھم دیا کرتے تھے۔

10473

(۱۰۴۷۳) حَدَّثَنَا عُمَرُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُعْطِیَ فِی صَدَقَۃِ الْفِطْرِ وَرِقًا۔
(١٠٤٧٣) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء صدقۃ الفطر میں چاندی کے سکے (دراھم) دینے کو ناپسند فرماتے تھے۔

10474

(۱۰۴۷۴) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : سَمِعْتُہ یَقُولُ : یُؤَدِّی الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ عَنْ مَمْلُوکِہِ النَّصْرَانِیِّ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٧٤) حضرت عمر بن عبد العزیز ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمان شخص اپنے نصرانی غلام کی جانب سے بھی صدقۃ الفطر ادا کرے گا۔

10475

(۱۰۴۷۵) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُد ، عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، قَالَ : بَلَغَنِی عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی عَنْ مَمْلُوکِہِ النَّصْرَانِیِّ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٧٥) حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے نصرانی غلام کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے۔

10476

(۱۰۴۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی، قَالَ: کَتَبَ إلَی عَطَائٍ یَسْأَلُہُ عَنْ عَبِیدِ یَہُودٍ وَنَصَارَی، أُطْعِمُ عَنْہُمْ زَکَاۃَ الْفِطْرِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٤٧٦) حضرت بن موسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت عطاء سے یہودی اور عیسائی غلاموں کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا ان کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے گا ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ” جی ہاں “۔

10477

(۱۰۴۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ۔
(١٠٤٧٧) حضرت ابراہیم سے بھی حضرت عمر بن عبد العزیز کے قول کے مثل منقول ہے۔

10478

(۱۰۴۷۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : إذَا کَانَ لَکَ عَبِیدٌ نَصَارَی لاَ یُدَارُونَ ، یَعْنِی لِلتِّجَارَۃِ ، فَزَکِّ عَنْہُمْ یَوْمَ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٧٨) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جب آپ کے کچھ نصرانی غلام جو تجارت کیلئے نہ ہوں تو ان کی جانب سے بھی صدقۃ الفطر ادا کرو۔

10479

(۱۰۴۷۹) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ذُبَابٍ ، عَنْ نَافِعٍ ؛ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُعْطِی عَنْ غِلْمَانٍ لَہُ فِی أَرْضِ عُمَرَ الصَّدَقَۃَ۔
(١٠٤٧٩) حضرت نافع سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے ان غلاموں کی جانب سے بھی صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے جو حضرت عمر کی زمین میں تھے (یعنی ان سے غائب تھے) ۔

10480

(۱۰۴۸۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ؛ أَنَّہَا کَانَتْ تُعْطِی صَدَقَۃَ الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمُونُ مِنْ أَہْلِہَا ؛ الشَّاہِدِ وَالْغَائِبِ۔
(١٠٤٨٠) حضرت فاطمہ سے مروی ہے کہ حضرت اسمائ ان سب کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتی تھیں جو ان کی زیر کفالت تھے خواہ وہ حاضر ہوں یا غائب ہوں۔

10481

(۱۰۴۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَیْطٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، وَعَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، وَأَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالُوا : مَنْ کَانَ لَہُ عَبْدٌ فِی زَرْعٍ ، أَوْ ضَرْعٍ ، فَعَلَیْہِ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ
(١٠٤٨١) حضرت محمد بن عبد الرحمن، حضرت سعید بن المسیب، حضرت عطاء بن یسار اور حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ : جس کے پاس غلام ہوں خواہ وہ کھیتی میں ہوں یا جانور کا دودھ نکال رہے ہوں (یعنی غائب ہوں) اس پر بھی صدقۃ الفطر ہے۔

10482

(۱۰۴۸۲) وَرُوِیَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : حدَّثَنِی نَافِعٌ ؛ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یُخْرِجُ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ عَنْ أَہْلِ بَیْتِہِ کُلِّہِمْ ؛ حُرِّہِمْ وَعَبْدِہِمْ ، صَغِیرِہِمْ وَکَبِیرِہِمْ ، وَمُسْلِمِہِمْ وَکَافِرِہِمْ مِنَ الرَّقِیقِ۔
(١٠٤٨٢) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنے تمام گھر والوں کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے۔ آزاد ہوں یا غلام، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان ہوں یا کافر۔

10483

(۱۰۴۸۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی عَنْ عُمَّالِ أَرْضِہِ۔
(١٠٤٨٣) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنی زمین میں کام کرنے والے غلاموں کی جانب سے بھی صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے۔

10484

(۱۰۴۸۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : ہَلْ عَلَی غُلاَمِ مَاشِیَۃٍ ، أَوْ حَرْثٍ زَکَاۃٌ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٠٤٨٤) حضر ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت فرمایا کہ وہ غلام جو مویشیوں کے پاس ہوں اور وہ غلام جو کھیتی میں ہوں کیا ان کی جانب سے بھی صدقۃ الفطر ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

10485

(۱۰۴۸۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ، وَالشَّعْبِیِّ، وَابْنِ سِیرِینَ، قَالُوا: ہِیَ عَلَی الشَّاہِدِ وَالْغَائِبِ۔
(١٠٤٨٥) حضرت ابو العالیہ، حضرت امام شعبی اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ : صدقۃ الفطر ہر حاضر اور غائب کی جانب سے ہے۔

10486

(۱۰۴۸۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أُمَیَّۃُ بْنُ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ أُمَیَّۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَلْقَمَۃَ کَتَبَ إلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ یَسْأَلُہُ عَنِ الْعَبْدِ فِی الْحَائِطِ وَالْمَاشِیَۃِ ، عَلَیْہِ زَکَاۃُ یَوْمِ الْفِطْرِ ؟ قَالَ : لاَ ، مِنْ أَجْلِ أَنَّ الْحَائِطَ وَالْمَاشِیَۃَ الَّذِی ہُوَ فِیہَا إنَّمَا صَدَّقْتَ بِہِ ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٤٨٦) حضرت امیہ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت نافع بن علقمہ نے عبد الملک بن مروان کو لکھا کہ کیا جو غلام باغ میں (کام کرتا ہو) اور جو غلام مویشوں کے ساتھ ہو اس پر بھی صدقۃ الفطر ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ کیونکہ وہ غلام جو باغ میں ہو یا مویشوں کے ساتھ ہو تو نے ان کی زکوۃ تو ادا کر ہی دی ہے اس لیے اس پر صدقۃ الفطر نہیں ہے۔

10487

(۱۰۴۸۷) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: کَانَ لَہُ مُکَاتَبَانِ فَلَمْ یُعْطِ عَنْہُمَا۔
(١٠٤٨٧) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر کے دو مکاتب غلام تھے آپ ان کا صدقۃ الفطر نہ ادا فرماتے تھے۔

10488

(۱۰۴۸۸) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَرَی عَنِ الْمُکَاتَبِ صَدَقَۃَ رَمَضَانَ۔
(١٠٤٨٨) حضرت عمرو سے مروی ہے کہ حضرت حسن مکاتب پر صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

10489

(۱۰۴۸۹) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : بَلَغَنِی أَنَّ مَیْمُونًا کَانَ یُؤَدِّی عَنِ الْمُکَاتَبِ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٨٩) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ حضرت میمون مکاتب کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا فرمایا کرتے تھے۔

10490

(۱۰۴۹۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ کَانَ مُکَاتَبًا وَطَرَحَ عَنْ نَفْسِہِ فَقَد کَفَی نَفْسَہُ ، وَإِنْ لَمْ یَطْرَحْ عَنْ نَفْسِہِ فَیُطْعِم عَنْہُ سَیِّدُہُ۔
(١٠٤٩٠) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ اگر تو مکاتب کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہو تو ہ اپنے نفس کا خود کفیل اور ذمہ دار ہے۔ اور اگر اس کو آزاد نہ چھوڑا گیا ہو تو پھر آقا اس کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا۔

10491

(۱۰۴۹۱) حَدَّثَنَا ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی عَلَی الْمُکَاتَبِ زَکَاۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٤٩١) حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر مکاتب پر صدقۃ الفطر کو ضروری نہ سمجھتے تھے۔

10492

(۱۰۴۹۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ بُرْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : یُعْطِی کُلَّ قَوْمٍ بِصَاعِ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ۔
(١٠٤٩٢) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ہر قوم مدینہ منورہ کے صاع سے صدقۃ الفطر ادا کرے گی۔

10493

(۱۰۴۹۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : بِالْمُدِّ الَّذِی تَقُوتُ بِہِ أَہْلَک۔
(١٠٤٩٣) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اس مد سے ادا کریں گے جس سے اپنے اہل و عیال کو خوراک وغذا دیتے ہو۔

10494

(۱۰۴۹۴) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : کَانَ سَالِمٌ یُخْرِجُ زَکَاۃَ الْفِطْرِ بِصَاعِ السُّوقِ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ أَنْ یَغْدُوَ ، وَلاَ یُخْرِجُ إِلاَّ تَمْرًا۔
(١٠٤٩٤) حضرت خالد بن ابوبکر سے مروی ہے کہ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ اس دن بازار میں جو صاع رائج ہے اس سے صدقۃ الفطر ناشتہ سے قبل ادا کیا جائے گا۔ اور صرف صدقۃ الفطر میں کھجور ہی ادا کی جائے گی۔

10495

(۱۰۴۹۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُعْطِی کُلُّ قَوْمٍ بِصَاعِہِمْ۔
(١٠٤٩٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ہر قوم اپنے ہی صاع سے صدقۃ الفطر ادا کرے گی۔

10496

(۱۰۴۹۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَوْ عَنْ فَاطِمَۃَ ، عَنْ أَسْمَائَ ، قَالَتْ : بِالْمُدِّ وَالصَّاعِ الَّذِی یَمْتَارُونَ بِہِ۔
(١٠٤٩٦) حضرت اسمائ فرماتی ہیں کہ اس مد اور صاع سے صدقۃ الفطر نکالیں گے جو ان کے درمیان رائج (گھومتا) ہو۔

10497

(۱۰۴۹۷) حَدَّثَنَا عُمَر ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : إِنْ أَعْطَیْتَ بِمُدِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَجْزَأَ عَنْک ، وَإِنْ أَعْطَیْتَ بِالْمُدِّ الَّذِی تَقُوتُ بِہِ أَہْلَک أَجْزَأَ عَنْک۔
(١٠٤٩٧) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ اگر تم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مد دیدو تو وہ بھی تمہارے لیے کافی ہے۔ اور اگر وہ مد دیدو جس سے تم اپنے اہل و عیال کو خوراک دے دیتے ہو تو وہ بھی تمہارے لیے کافی ہے۔ (دونوں مد برابر ہیں) ۔

10498

(۱۰۴۹۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ عَطَائٌ : أَحَبُّ إلَیَّ أَنْ تُعْطِیَ بِمِکْیَالِکَ الْیَوْمَ بِمِکْیَالٍ تَأْخُذُ بِہِ وَتَقْتَاتُ بِہِ۔
(١٠٤٩٨) حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ مجھے تو یہ پسند ہے کہ تم صدقۃ الفطر ادا کرو اس کیل کے ساتھ جس کے ساتھ تم لیتے ہو اور دوسروں کو (خوراک) دیتے ہو۔

10499

(۱۰۴۹۹) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَصَدَّقُوا إِلاَّ عَلَی أَہْلِ دِینِکُمْ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {لَیْسَ عَلَیْک ہُدَاہُمْ} ، إلَی قَوْلِہِ : {وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ إلَیْکُمْ} ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : تَصَدَّقُوا عَلَی أَہْلِ الأَدْیَانِ۔ (نسائی ۱۱۰۵۲۔ حاکم ۲۸۵)
(١٠٤٩٩) حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم زکوۃ مت دو مگر اپنے دین والوں کو (مسلمانوں کو) تو قرآن پاک کی آیت { لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُم } سے لیکر { وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُم } نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم زکوۃ خرچ کیا کرو تمام اہل ادیان پر۔ (غیر مسلموں پر بھی) ۔

10500

(۱۰۵۰۰) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ سَالِمٍ الْمَکِّیِّ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : کَرِہَ النَّاسُ أَنْ یَتَصَدَّقُوا عَلَی الْمُشْرِکِینَ ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی : {لَیْسَ عَلَیْک ہُدَاہُمْ} ، قَالَ : فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَیْہِمْ۔
(١٠٥٠٠) حضرت ابن حنفیہ فرماتے ہیں کہ (شروع میں) لوگ مشرکین کو زکوۃ دینے کو ناپسند کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت { لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُم } نازل فرمائی تو لوگوں نے ان کو (مشرکین) کو بھی زکوۃ دینا شروع کردو۔

10501

(۱۰۵۰۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ: لاَ تَصَدَّقْ عَلَی یَہُودِیٍّ ، وَلاَ نَصْرَانِیٍّ إِلاَّ أَنْ لاَ تَجِدَ غَیْرَہُ۔
(١٠٥٠١) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کہ یہودیوں اور نصرانیوں کو زکوۃ نہ دو مگر تب جب ان کے علاوہ کسی کو نہ پاؤ۔

10502

(۱۰۵۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ السَّرَّاجِ ، عَنْ أَبِی رَزِینٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ شَقِیق بْنِ سَلَمَۃَ ، فَمَرَّ عَلَیْہِ أُسَارَی مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَأَمَرَنِی أَنْ أَتَصَدَّقَ عَلَیْہِمْ ، ثُمَّ تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ : {وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا}۔
(١٠٥٠٢) حضرت ابو رزین فرماتے ہیں کہ میں حضرت شقیق بن سلمہ کے ساتھ تھا کہ ان کے پاس سے مشرک قیدی گذرے تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ ان کو صدقہ دوں اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ { وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا }۔

10503

(۱۰۵۰۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : أَطْعِمْہُ ، وَلاَ تُعْطِہِ نَفَقَتَہُ۔
(١٠٥٠٣) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ان کو کھلاؤ (صدقہ دو ) ان کو نفقہ مت دو ۔

10504

(۱۰۵۰۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی الرُّہْبَانَ مِنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ۔
(١٠٥٠٤) حضرت ابو اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت ابو میسرہ گوشہ نشین نصرانیوں کو صدقۃ الفطر دیا کرتے تھے۔

10505

(۱۰۵۰۵) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لاَ تَصَدَّقْ عَلَی الْیَہُودِی وَالنَّصْرَانِیِّ بِنَفَقَۃٍ۔
(١٠٥٠٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کو نفقہ زکوۃ نہ دو ۔

10506

(۱۰۵۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ (ح) وَعَنْ حجَّاج ، عَنْ عَطَائٍ ؛ {وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا} ، قَالاَ : مِنْ أَہْلِ الْقِبْلَۃِ وَغَیْرِہِمْ۔
(١٠٥٠٦) حضرت حجاج، حضرت عمرو بن مرہ حضرت سعید بن جبیر اور حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ { وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا }۔ سے مراد اہل قبلہ اور دوسرے مشرکین ہیں۔

10507

(۱۰۵۰۷) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرٍ الْعَبْسِیِّ ، عَنْ عُمَرَ ؛ فِی قولہ تعالی : {إنَّمَا الصَّدَقَات لِلْفُقَرَائِ} ، قَالَ : ہُمْ زَمْنَی أَہْلِ الْکِتَابِ۔
(١٠٥٠٧) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول {إنَّمَا الصَّدَقَات لِلْفُقَرَائِ } سے مراد ہمارے وقت کے اہل کتاب ہیں۔

10508

(۱۰۵۰۸) حَدَّثَنَا حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَسَنٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَطَاوُسٍ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا الصَّدَقَۃَ عَلَی النَّصْرَانِیِّ۔
(١٠٥٠٨) حضرت لیث فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد اور حضرت طاؤس نصرانیوں کو زکوۃ دینے کو ناپسند فرماتے تھے۔

10509

(۱۰۵۰۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ ، قَالَ : حدَّثَنَا شُعْبَۃُ ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّیِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی قولہ تعالی : {وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا} قَالَ : الأَسْرَی مِنْ أَہْلِ الشِّرْکِ۔
(١٠٥٠٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کے قول، { وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا } سے مراد مشرکین قیدی ہیں۔

10510

(۱۰۵۱۰) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سُئِلَ عَنِ الصَّدَقَۃِ فِی مَنْ تُوضَعُ ؟ فَقَالَ : فِی أَہْلِ الْمَسْکَنَۃِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَہْلِ ذِمَّتِہِمْ ، وَقَالَ : قَدْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقْسِمُ فِی أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالْخُمُسِ۔ (ابوعبید ۱۹۹۲۔ ابن زنجویہ ۲۲۹۱)
(١٠٥١٠) حضرت عمرو بن ھرم فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن زید سے دریافت کیا گیا کہ صدقہ کس کو دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا مسلمان اور اہل ذمی جو مسکین ہوں ان کو، اور فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ذمہ پر صدقات اور خمس تقسیم فرمایا کرتے تھے۔

10511

(۱۰۵۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنِ الصَّدَقَۃِ عَلَی غَیْرِ أَہْلِ الإِسْلاَمِ؟ فَقَالَ : أَمَّا الزَّکَاۃُ فَلاَ ، وَأَمَّا إِنْ شَائَ رَجُلٌ أَنْ یَتَصَدَّقَ ، فَلاَ بَأْسَ۔
(١٠٥١١) حضرت ابراہیم بن مہاجر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے دریافت فرمایا کہ غیر مسلموں پر صدقہ کرنا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا زکوۃ تو نہیں دے سکتے ہاں البتہ اگر ان میں سے کسی کو صدقہ دینا چاہو تو دے سکتے ہو۔

10512

(۱۰۵۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تُعْطِہِمْ مِنَ الزَّکَاۃِ ، وَأَعْطِہِمْ مِنَ التَّطَوُّعِ۔
(١٠٥١٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اہل ذمہ کو زکوۃ مت دو ، ان کو صدقات نافلہ دے دیا کرو۔

10513

(۱۰۵۱۳) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ إیَاسٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُعْطَی الْمُشْرِکُونَ مِنَ الزَّکَاۃِ شَیْئًا۔
(١٠٥١٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ مشرکین کو زکوۃ میں سے کچھ بھی نہیں دیا جائے گا۔

10514

(۱۰۵۱۴) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : لاَ تُعْطِ الْیَہُودِیَّ وَالنَّصْرَانِیَّ مِنَ الزَّکَاۃِ ، وَلاَ بَأْسَ أَنْ تََتَصَدَّقَ عَلَیْہِمْ۔
(١٠٥١٤) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کو زکوۃ مت دو ہاں البتہ صدقات نافلہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10515

(۱۰۵۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لاَ یُعْطَی الْمُشْرِکُونَ مِنَ الزَّکَاۃِ ، وَلاَ مِنْ شَیْئٍ مِنَ الْکَفَّارَاتِ۔
(١٠٥١٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مشرکین کو زکوۃ اور کفارات میں سے کچھ نہیں دیا جائے گا۔

10516

(۱۰۵۱۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : یُعْطَی مِنَ الزَّکَاۃِ مَنْ لَہُ الدَّارُ وَالْخَادِمُ وَالْفَرَسُ۔
(١٠٥١٦) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جس کے پاس گھر، اور خادم اور گھوڑا (سواری) ہو اس کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔

10517

(۱۰۵۱۷) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا لاَ یَمْنَعُونَ الزَّکَاۃَ مَنْ لَہُ الْبَیْتُ وَالْخَادِمُ۔
(١٠٥١٧) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جس کے پاس گھر اور خادم ہوں اس کو زکوۃ دینے سے منع نہیں فرماتے تھے۔

10518

(۱۰۵۱۸) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُعْطَی مِنْہَا مَنْ لَہُ الْخَادِمُ وَالْمَسْکَنُ ، إذَا کَانَ مُحْتَاجًا۔
(١٠٥١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جس کے پاس اپنا گھر اور خادم ہوں اس کو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر وہ محتاج ہے۔

10519

(۱۰۵۱۹) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ شَبِیبِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : سَأَلْتُ مُقَاتِلَ بْنَ حَیَّانَ عَنْ رَجُلٍ فِی الدِّیوَانِ لَہُ عَطَائٌ وَفَرَسٌ ، وَہُوَ مُحْتَاجٌ ، أُعْطِیہ مِنَ الزَّکَاۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٥١٩) حضرت شبیب بن عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مقاتل بن حیان سے دریافت فرمایا کہ اہل دیوان میں سے ایک شخص کے پاس اگر کچھ مال اور سواری ہو تو اس کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” جی ہاں “۔

10520

(۱۰۵۲۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَشْتَرِیَ مِنْ زَکَاۃِ مَالِہِ رَقَبَۃً یُعْتِقُہَا۔
(١٠٥٢٠) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ زکوۃ کے مال سے غلام خرید کر اس کو آزاد کیا جائے۔

10521

(۱۰۵۲۱) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَشْتَرِیَ مِنَ الزَّکَاۃِ رَقَبَۃً یُعْتِقُہَا۔
(١٠٥٢١) حضرت مغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ زکوۃ کے مال سے غلام خرید کر اس کو آزاد کیا جائے۔

10522

(۱۰۵۲۲) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَشْتَرِیَ مِنَ الزَّکَاۃِ رَقَبَۃً یُعْتِقُہَا۔
(١٠٥٢٢) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضرت عامر اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ زکوۃ کے مال سے غلام خرید کر اس کو آزاد کیا جائے۔

10523

(۱۰۵۲۳) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہُرَیْمٌ ، وَجَعْفَرٌ الأَحْمَر ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، قَالَ : لاَ تُعْتِقْ مِنَ الزَّکَاۃِ ۔ زَادَ جَعْفَرٌ : مَخَافَۃَ جَرِّ الْوَلاَئِ۔
(١٠٥٢٣) حضرت سعید بن جبیر ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ سے غلام آزاد نہیں کیا جائے گا حضرت جعفر نے اس پر اضافہ فرمایا ہے کہ ولاء جاری کرنے کے خوف سے۔

10524

(۱۰۵۲۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَنُ عَنْ رَجُلٍ اشْتَرَی أَبَاہُ مِنَ الزَّکَاۃِ فَأَعْتَقَہُ ؟ قَالَ : اشْتَرَی خَیْرَ الرِّقَابِ۔
(١٠٥٢٤) حضرت حسن سے ایک شخص نے دریافت فرمایا کہ میں نے زکوۃ کے مال سے اپنے والد کو خرید کر آزاد کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا تو نے بہترین غلام خریدا۔

10525

(۱۰۵۲۵) حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ حَسَّانَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُعْطِی الرَّجُلُ مِنْ زَکَاتِہِ فِی الْحَجِّ ، وَأَنْ یُعْتِقَ مِنْہَا النَّسَمَۃَ۔
(١٠٥٢٥) حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس زکوۃ کے مال سے حج کرنے کو اور غلام خرید کر آزاد کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

10526

(۱۰۵۲۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: إذَا أَعْطَیْتُمْ فَأَغْنُوا۔ یَعْنِی: مِنَ الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٢٦) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب تم کسی کو عطا کرو تو اس کو غنی کردو صدقہ سے۔

10527

(۱۰۵۲۷) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَکْرَہُونَ أَنْ یُعْطُوا مِنَ الزَّکَاۃِ مَا یَکُونُ رَأْسَ المَالِ۔
(١٠٥٢٧) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام ناپسند فرماتے تھے کہ زکوۃ سے اتنا مال دیا جائے جو کہ رأس المال بن جائے۔

10528

(۱۰۵۲۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَرَ أَبِی حَمْزَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یَسُدَّ بِہَا حَاجَۃَ أَہْلِ الْبَیْتِ ، یَعْنِی بِالزَّکَاۃِ۔
(١٠٥٢٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ یہ بات پسندیدہ ہے کہ زکوۃ سے گھر والوں کی حاجت پوری کی جائے۔

10529

(۱۰۵۲۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ أَبِی حَیَّانَ، عَنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: یُعْطَی مِنْہَا مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمِئَتَیْنِ۔
(١٠٥٢٩) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوۃ عطا کی جائے گی (ایک شخص کو) دو سو تک۔

10530

(۱۰۵۳۰) حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ حَبِیبٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ : یُعْطَی مِنْہَا مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْمِئَتَیْنِ۔
(١٠٥٣٠) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ زکوۃ عطاء کی جائے گی (ایک شخص کو) دو سو تک۔

10531

(۱۰۵۳۱) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ زُرْعَۃَ ، عَنِ ابْنِ سَالِمٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : أَعْطِ مِنَ الزَّکَاۃِ مَا دُونَ أَنْ یَحِلَّ عَلَی مَنْ تُعْطِیہِ الزَّکَاۃَ۔
(١٠٥٣١) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ زکوۃ اتنی دو کہ جس کو زکوۃ دی ہے اس پر زکو ۃ نہ آجائے۔ (یعنی آپ کے دینے کی وجہ سے وہ صاحب نصاب بن جائے) ۔

10532

(۱۰۵۳۲) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، وَعَبْدِ اللہِ، قَالاَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِمَنْ لَہُ خَمْسُونَ دِرْہَمًا ، أَوْ عَرْضُہَا مِنَ الذَّہَبِ۔
(١٠٥٣٢) حضرت علی اور حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم یا سونے کا کچھ سامان موجود ہو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔

10533

(۱۰۵۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بن یَزِیدَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَأَلَ وَلَہُ مَا یُغْنِیہِ کَانَ خُدُوشًا ، أَوْ کُدُوحًا یَوْمَ الْقِیَامۃِ ، قِیلَ : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَمَا غِنَاؤُہُ ؟ قَالَ : خَمْسُونَ دِرْہَمًا ، أَوْ حِسَابُہَا مِنَ الذَّہَبِ۔ (ترمذی ۶۵۱۔ ابوداؤد ۱۶۲۳)
(١٠٥٣٣) حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے غنی ہونے کے باوجود سوال کیا قیامت کے دن وہ اپنے چہرے اور جسم کو نوچتا ہوا حاضر ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ غناء کی مقدار کتنی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پچاس درہم یا اس کی بقدر سونا (جس کے پاس ہو وہ غنی ہے) ۔

10534

(۱۰۵۳۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ یُعْطَی مِنَ الزَّکَاۃِ مَنْ لَہُ خَمْسُونَ دِرْہَمًا ، وَلاَ یُعْطَی مِنْہَا أَکْثَرَ مِنْ خَمْسِینَ دِرْہَمًا۔
(١٣١٣٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم موجود ہوں اس کو زکوۃ نہیں دی جائے گی اور نہ ہی پچاس درہم سے زائد کسی کو دیا جائے گا۔

10535

(۱۰۵۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : کَانَ سُفْیَانُ ، وَحَسَنٌ ، یَقُولاَنِ : لاَ یُعْطَی مِنْہَا مَنْ لَہُ خَمْسُونَ دِرْہَمًا ، وَلاَ یُعْطَی مِنْہَا أَکْثَرَ مِنْ خَمْسِینَ ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَیُقْضَی دَیْنُہُ ، وَیُعْطَی بَعْدَ خَمْسِینَ۔
(١٠٥٣٥) حضرت سفیان اور حضرت حسن ارشاد فرماتے ہیں کہ جس کے پاس پچاس درہم موجود ہوں اس کو زکوۃ نہیں دی جائے گی اور نہ ہی پچاس دراھم سے زائد کسی کو دیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی پر قرض ہو اور وہ اس سے قرض ادا کرے تو تو پھر پچاس دراہم سے زائد دے سکتے ہیں۔

10536

(۱۰۵۳۶) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَمَّادًا یَقُولُ : مَنْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَہُ مَالٌ یَبْلُغُ فِیہِ الزَّکَاۃَ، أُعْطِیَ مِنَ الزَّکَاۃِ۔
(١٠٥٣٦) حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے پاس اتنا مال نہ ہو جس پر زکوۃ آتی ہے اس کو زکوۃ دے سکتے ہو۔

10537

(۱۰۵۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنْ أَصْحَابِ الأَہْوَائِ ؟ قَالَ : مَا کَانُوا یَسْأَلُونَ إِلاَّ عَنِ الْحَاجَۃِ۔
(١٠٥٣٧) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے اہل اہواء کو زکوۃ دینے کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا وہ لوگ سوال نہیں کرتے مگر حاجت کے وقت۔

10538

(۱۰۵۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُعَاذًا إلَی الْیَمَنِ ، وَأَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ الصَّدَقَۃَ مِنَ الْحِنْطَۃِ ، وَالشَّعِیرِ ۔ فَأَخَذَ الْعُرُوضَ الثِّیَابَ مِنَ الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیرِ۔
(١٠٥٣٨) حضرت طاؤس سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا اور حکم فرمایا کہ گندم اور جو میں سے زکوۃ و صدقات وصول کرنا۔ پس انھوں نے سامان، کپڑے، گندم اور جو میں سے وصول فرمایا۔

10539

(۱۰۵۳۹) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَأْخُذُ الْعُرُوضَ فِی الصَّدَقَۃِ مِنَ الْوَرِقِ وَغَیْرِہَا۔
(١٠٥٣٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عمر صدقات و زکوۃ میں وصول فرماتے تھے سامان اور سکے (چاندی) اور اس کے علاوہ دوسری اشیائ۔

10540

(۱۰۵۴۰) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : قَالَ مُعَاذٌ : ائْتُونِی بِخَمِیس ، أَوْ لَبِیسٍ آخذ مِنْکُمْ۔
(١٠٥٤٠) حضرت طاؤس سے مروی ہے کہ حضرت معاذ نے فرمایا : تم لوگ میرے پاس وہ کپڑے جو پانچ گز لمبے ہیں اور وہ کپڑے جو تم استعمال کرتے ہو لے کر آؤ تاکہ میں تم سے وصول کروں۔

10541

(۱۰۵۴۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ أَنَّ مُعَاذًا کَانَ یَأْخُذُ الْعُرُوضَ فِی الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٤١) حضرت طاؤس سے مروی ہے کہ حضرت معاذ زکوۃ و صدقات میں سامان وصول فرمایا کرتے تھے۔

10542

(۱۰۵۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ أَبِی سِنَانٍ ، عَنْ عَنْتَرَۃَ ؛ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یَأْخُذُ الْعُرُوضَ فِی الْجِزْیَۃِ مِنْ أَہْلِ الإِبَرِ الإِبَرَ، وَمِنْ أَہْلِ الْمَسالِّ الْمَسالَّ ، وَمِنْ أَہْلِ الْحِبَالِ الْحِبَالَ۔
(١٠٥٤٢) حضرت عنترہ سے مروی ہے حضرت علی جزیہ میں سامان وصول فرمایا کرتے تھے سوئی (کا کاروبار کرنے) والوں سے سوئی اور ٹوکری والوں سے ٹوکری اور رسی والوں سے رسی۔

10543

(۱۰۵۴۳) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ: کَانُوا یَسْتَحِبُّونَ زَکَاۃَ کُلِّ شَیْئٍ مِنْہُ ؛ الْوَرِقُ مِنَ الْوَرِقِ، وَالذَّہَبُ مِنَ الذَّہَبِ ، وَالْبَقَرُ مِنَ الْبَقَرِ ، وَالْغَنَمُ مِنَ الْغَنَمِ۔
(١٠٥٤٣) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام پسند فرماتے تھے کہ ہر چیز کی زکوۃ اسی میں سے ادا کی جائے۔ چاندی کی زکوۃ چاندی سے، سونے کی سونے سے، گائے کی زکوۃ گائے سے اور بکریوں کی زکوۃ بکریوں سے۔

10544

(۱۰۵۴۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ الْعَرْضَ فِی الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٤٤) حضرت حسن ناپسند فرماتے تھے کہ زکوۃ میں سامان وصول کیا جائے۔

10545

(۱۰۵۴۵) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی نَجِیحٍ ، یَزْعُمُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ فِی صَدَقَۃِ التَّمْرِ : أَنْ یُؤْخَذَ الْبَرْنِیُّ مِنَ الْبَرْنِیِّ ، وَاللَّوْنُ مِنَ اللَّوْنِ ، وَلاَ یُؤْخَذُ اللَّوْنُ مِنَ الْبَرْنِیِّ۔
(١٠٥٤٥) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی نجیح سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کھجور کی زکوۃ کے متعلق تحریر فرمایا کہ : برنی کھجور (خاص قسم کی کھجور) کی زکوۃ برنی کھجور سے ادا کی جائے اور لون کھجور (خاص کھجور) کی زکوۃ اسی کھجور سے ادا کی جائے۔ لون کھجور کی زکوۃ پر برنی کھجور نہیں وصول کی جائے گی۔

10546

(۱۰۵۴۶) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : إِنْ أَعْطَاہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنَ الأَصْنَافِ الثَمَانِیَۃِ الَّتِی سَمَّی اللَّہُ تَعَالَی أَجْزَأَہُ۔
(١٠٥٤٦) حضرت حذیفہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آٹھ مصارف زکوۃ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں کسی ایک مصرف کو زکوۃ دینا بھی کافی ہے۔

10547

(۱۰۵۴۷) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : قَالَ حُذَیْفَۃُ : إذَا وَضَعْتَ فِی أَیِّ الأَصْنَافِ شِئْتَ ، أَجْزَأَکَ إذَا لَمْ تَجِدْ غَیْرَہُ۔
(١٠٥٤٧) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ جس مرضی مصرف کو زکوۃ ادا کرنا چاہے تو کرسکتا ہے جب تو اس کے علاوہ کسی اور کو نہ پائے۔

10548

(۱۰۵۴۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنِ الْمِنْہَالِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ حُذَیْفَۃَ ، قَالَ : إِنْ جَعَلَہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَہُ۔
(١٠٥٤٨) حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ کسی ایک مصرف کو زکوۃ ادا کردیں تو یہ آپ کی طرف سے کافی ہے۔

10549

(۱۰۵۴۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَأْخُذُ الْعَرْضَ فِی الصَّدَقَۃِ ، وَیُعْطِیہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِمَّا سَمَّی اللَّہُ تَعَالَی۔
(١٠٥٤٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق زکوۃ میں سامان وصول فرمایا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو مصارف زکوۃ بیان فرمائے ہیں ان میں سے کسی کو دے دیا کرتے تھے۔

10550

(۱۰۵۵۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ (ح) وَعَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالاَ : یُجْزِئکَ أَنْ تَضَعَ الصَّدَقَۃَ فِی صِنْفٍ مِنَ الأَصْنَافِ الَّتِی سَمَّی اللَّہُ تَعَالَی۔
(١٠٥٥٠) حضرت مغیرہ اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف زکوۃ بیان فرمائے ہیں ان میں سے کسی ایک مصرف کو دے دینا آپ کیلئے کافی ہے۔

10551

(۱۰۵۵۱) حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، عَنِ الرَّبِیعِ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَجْعَلَہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِمَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی۔
(١٠٥٥١) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف بیان فرمائے ہیں ان میں سے کسی ایک کو دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10552

(۱۰۵۵۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ : أُعْطِی الصَّدَقَۃَ فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنَ الأَصْنَافِ الثَمَانِیَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٥٥٢) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف کو ہی زکوۃ دے سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں۔

10553

(۱۰۵۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ یَزِیدَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لاَ بَأْسَ أَنْ تَجْعَلَہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنَ الأَصْنَافِ الثَمَانِیَۃِ۔
(١٠٥٥٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف کو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10554

(۱۰۵۵۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَجْعَلَہَا فِی صِنْفٍ وَاحِدٍ مِمَّا سَمَّی اللَّہُ تَعَالَی۔
(١٠٥٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف مقرر فرمائے ہیں ان میں سے کسی ایک کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10555

(۱۰۵۵۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : صَرِّفْہَا فِی الأَصْنَافِ ۔ وَقَالَ الْحَسَنُ : فِی أَیِّہَا وَضَعْتَ أَجْزَأَکَ۔
(١٠٥٥٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ (بہتر ہے کہ) تو زکوۃ تمام مصارف کو دے اور حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جس کو مرضی دے دو کافی ہے۔ (سب کو دینا ضروری نہیں ہے) ۔

10556

(۱۰۵۵۶) حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : سَمِعْتُہُ یَقُولُ : لَوْ وَضَعْتُ الزَّکَاۃَ فِی ہَذَیْنِ الصِّنْفَیْنِ ؛ الْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ لَرَأَیْتُ أَنَّ ذَلِکَ یُجْزِء عَنِّی۔
(١٠٥٥٦) حضرت جعفر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت میمون سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں دو مصارف فقراء اور مساکین کو زکوۃ ادا کر دوں تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ میری طرف سے کافی ہے۔

10557

(۱۰۵۵۷) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، أَنْ أَبَا عَمْرِو بْنَ حِمَاسٍ أَخْبَرَہُ ، أَنَّ أَبَاہُ حِمَاسًا کَانَ یَبِیعُ الأَدَمَ وَالْجِعَابَ ، وَأَنَّ عُمَرَ قَالَ لَہُ : یَا حِمَاسُ ، أَدِّ زَکَاۃَ مَالَک ، فَقَالَ : وَاللَّہِ مَا لِی مَالٌ ، إنَّمَا أَبِیعُ الأَدَمَ وَالْجِعَابَ ، فَقَالَ : قَوِّمْہُ وَأَدِّ زَکَاتَہُ۔
(١٠٥٥٧) حضرت ابو عمرو بن حماس فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت حماس سالن اور تیروں کے تھیلوں کی بیع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر نے ان سے فرمایا : اے حماس اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو۔ انھوں نے عرض کیا خدا کی قسم میرے پاس تو کوئی مال نہیں ہے۔ میں تو سالن اور تیروں کا ترکش بیچتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ان کی قیمت لگاؤ اور اس پر زکوۃ ادا کرو۔

10558

(۱۰۵۵۸) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، وَعَبْدَۃُ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ ، عَنْ أَبِی عَمْرِو بْنِ حِمَاسٍ ، أَنَّ أَبَاہُ حِمَاسًا کَانَ یَبِیعُ الأَدَمَ وَالْجِعَابَ ، وَأَنَّ عُمَرَ قَالَ لَہُ : ثُمَّ ذَکَرَ مِثْلَہُ ، أَوْ نَحْوَہُ۔
(١٠٥٥٨) حضرت عمرو بن حماس سے مروی ہے کہ میرے والد حضرت حماس سالن اور ترکش بیچا کرتے تھے۔ باقی حدیث اسی طرح منقول ہے۔

10559

(۱۰۵۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ اشْتَرَی مَتَاعًا فَحَلَّتْ فِیہِ الزَّکَاۃُ ؟ فَقَالَ : یُزَکِّیہ بِقِیمَتِہِ یَوْمَ حَلَّتْ۔
(١٠٥٥٩) حضرت یونس فرماتے ہیں کہ حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص نے سامان خریدا کیا اس پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کی قیمت کا حساب لگا کر اس دن سے زکوۃ ادا کی جائے گی جس دن اس پر زکوۃ آئی تھی۔

10560

(۱۰۵۶۰) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْعُرُوضِ زَکَاۃٌ ، إِلاَّ عُرْضٍ فِی تِجَارَۃٍ ، فَإِنَّ فِیہِ زَکَاۃٌ۔
(١٠٥٦٠) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ سامان پر زکوۃ تب تک نہیں ہے جب تک کہ وہ سامان تجارت کے لیے نہ ہو۔

10561

(۱۰۵۶۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ أَبِی ہِلاَلٍ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، قَالَ فِی الْمَتَاعِ: یُقَوَّمُ، ثُمَّ تُؤَدَّی زَکَاتُہُ۔
(١٠٥٦١) حضرت ابن سیرین ارشاد فرماتے ہیں کہ سامان کی قیمت لگائی جائے گی پھر اس پر زکوۃ ادا کی جائے گی۔

10562

(۱۰۵۶۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَشْتَرِی الْمَتَاعَ فَیَمْکُثُ السِّنِینَ ، یُزَکِّیِہِ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٠٥٦٢) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ حضرت عطاء سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص نے سامان خریدا پھر وہ سامان دو سال تک اس کے پاس رہا کیا اس پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

10563

(۱۰۵۶۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کُلُّ شَیْئٍ أُرِیدَ بِہِ التِّجَارَۃُ فَفِیہِ الزَّکَاۃُ ، وَإِنْ کَانَ لَبَنًا ، أَوْ طِینًا ۔ قَالَ : وَکَانَ الْحَکَمُ یَرَی ذَلِکَ۔
(١٠٥٦٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو تجارت کیلئے ہو اس پر زکوۃ ہے خواہ وہ دودھ ہو یا مٹی ہو۔ اور حضرت حکم سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

10564

(۱۰۵۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إذَا أَعْطَی النَّاسَ الْعَطَائَ سَأَلَ الرَّجُلَ : أَلَکَ مَالٌ ؟ فَإِنْ قَالَ : نَعَمْ ، زَکَّی مَالَہُ مِنْ عَطَائِہِ ، وَإِلاَّ سَلَّمَ لَہُ عَطَائَہُ۔
(١٠٥٦٤) حضرت قاسم سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر جب بیت المال سے کسی کو وظیفہ دیتے تو اس سے دریافت فرماتے کہ کیا تیرے پاس مال موجود ہے ؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہوتا تو آپ اس کے وظیفہ کے مال میں سے زکوۃ نکال لیتے وگرنہ اس کے سپرد کردیتے۔

10565

(۱۰۵۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : کَانَ یُعْطِینَا العَطَائَ فِی الرَّسَلِ فَنُزَکِّیِہِ۔
(١٠٥٦٥) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بیت المال سے عطاء (وظیفہ) میں دس سے پچیس اونٹ یا بکریاں ملتیں تو ہم اس پر زکوۃ ادا کرتے تھے۔

10566

(۱۰۵۶۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ زَکَرِیَّا ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ ہُبَیْرَۃَ ، قَالَ : کَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ یُزَکِّی أَعْطِیَّاتِہِمْ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ خَمْسَۃً وَعِشْرِینَ۔
(١٠٥٦٦) حضرت ہبیرہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود وظائف پر زکوۃ ادا فرماتے وہ ہر ہزار پر پچیس ہوتی تھی۔

10567

(۱۰۵۶۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِی ، وَکَانَ عَلَی بَیْتِ الْمَالِ فِی زَمَنِ عُمَرَ مَعَ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَرْقَمِ ، فَکَانَ إِذَا خَرَجَ الْعَطَائُ جَمَعَ عُمَرُ أَمْوَالَ التِّجَارَۃِ ، فَحَسَبَ عَاجِلَہَا وَآجِلَہَا ، ثُمَّ یَأْخُذُ الزَّکَاۃَ مِنَ الشَّاہِدِ وَالْغَائِبِ۔
(١٠٥٦٧) حضرت حمید بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری حضرت عبداللہ بن ارقم کے ساتھ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں بیت المال پر (نگران) مقرر تھے۔ جب بیت المال سے وظائف نکالے جاتے تو حضرت عمر تاجروں کے مال کو جمع فرماتے پھر نقد اور ادھار کا حساب لگاتے اور پھر ہر حاضر و غائب سے زکوۃ وصول فرماتے۔

10568

(۱۰۵۶۸) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ إذَا أَعْطَی الرَّجُلَ الْعَطَائَ سَأَلَہُ ، ثُمَّ ذَکَرَ نَحْوَ حَدِیثِ وَکِیعٍ۔
(١٠٥٦٨) حضرت قاسم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق جب کسی شخص کو وظیفہ عطا فرماتے تو اس سے دریافت فرماتے۔ باقی حدیث اسی طرح بیان فرمائی۔

10569

(۱۰۵۶۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، وَوَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ مُخَارِقٍ ، عَنْ طَارِقٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ یُعْطِیہِمُ الْعَطَائَ وَلاَ یُزَکِّیہِ۔
(١٠٥٦٩) حضرت طارق سے مروی ہے حضرت عمر فاروق جب کسی شخص کو بیت المال میں سے وظیفہ (بخشش) عطا فرماتے تو اس پر زکوۃ نہ نکالتے۔

10570

(۱۰۵۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : رَأَیْتُ الأُمَرَائَ إذَا أُعْطَوُا الْعَطَائَ زَکَّوْہُ۔
(١٠٥٧٠) حضرت محمد سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے امراء (صحابہ کرام ) کو دیکھا ہے جب ان کو عطایا ملتے ہیں تو اس پر زکوۃ بھی ادا فرماتے ہیں۔

10571

(۱۰۵۷۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیزِ؛ أَنَّہُ کَانَ یُزَکِّی الْعَطَائَ وَالْجَائِزَۃَ۔
(١٠٥٧١) حضرت جعفر بن برقان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز عطاء (وظیفہ) اور انعامات پر زکوۃ ادا کرتے تھے۔

10572

(۱۰۵۷۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ یُعْطِی الْعَطَائَ وَیُزَکِّیہِ۔
(١٠٥٧٢) حضرت عبداللہ بن مسعود جب کسی کو وظیفہ عطا فرماتے تو اس پر زکوۃ بھی ادا فرماتے۔

10573

(۱۰۵۷۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وَعَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ؛ فِی قولہ تعالی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالاَ : نَسَخَتْہَا الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ۔
(١٠٥٧٣) حضرت سالم اور حضرت ابن حنفیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } کو عشر اور نصف عشر نے منسوخ کردیا ہے۔

10574

(۱۰۵۷۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ شِبَاکٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : نَسَخَتْہَا الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ۔
(١٠٥٧٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اس آیت کو عشر اور نصف عشر نے منسوخ کردیا ہے۔

10575

(۱۰۵۷۵) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، قَالَ : کَانُوا یُعْطُونَ شَیْئًا غَیْرَ الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٧٥) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام صدقات کے علاوہ بھی لوگوں کو عطا فرمایا کرتے تھے۔

10576

(۱۰۵۷۶) حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ ، عَنْ حَیَّانَ الأَعْرَجِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛فِی قولہ تعالی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ}قَالَ : الزَّکَاۃُ۔
(١٠٥٧٦) حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } سے مراد زکوۃ ہے۔

10577

(۱۰۵۷۷) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : الزَّکَاۃُ۔
(١٠٥٧٧) حضرت طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ ہے۔

10578

(۱۰۵۷۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، وَنَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالَ : کَانُوا یُعْطُونَ مَن اعْتَرَاہم شَیئًا سِوَی الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٧٨) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } (اس آیت کے نزول کے بعد) صحابہ کرام صدقات اور زکوۃ کے علاوہ بھی کوئی طالب اور سائل آجاتا تو اس کو عطا فرماتے۔

10579

(۱۰۵۷۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَطَاء ؛ فِی قولہ : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالَ : مَنْ حَضَرَک یَوْمَئِذٍ أَنْ تُعْطِیَہُ الْقَبَضَاتِ ، وَلَیْسَ بِزَکَاۃٍ۔
(١٠٥٧٩) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قول { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } جو تیرے پاس اس دن حاضر ہو تو جو تیرے قبضہ میں ہے اس کو عطا کر دے اور یہ زکوۃ کے علاوہ ہے۔

10580

(۱۰۵۸۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ فِی قولہ تعالی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالَ : إذَا حَصَدْتَہُ فَحَضَرَک الْمَسَاکِینُ طَرَحْتَ لَہُمْ مِنْہُ ، وَإِذَا طَبَنْتَہُ طَرَحْتَ لَہُمْ مِنْہُ ، وَإِذَا کَدَّسْتَہُ طَرَحْتَ لَہُمْ مِنْہُ ، وَإِذَا نَقَّیْتَہُ وَأَخَذْتَ فِی کَیْلِہِ حَثَوْتَ لَہُمْ مِنْہُ ، وَإِذَا عَلِمْتَ کَیْلَہُ عَزَلْتَ زَکَاتَہُ ، وَإِذَا أَخَذْتَ فِی جُذَاذِ النَّخْلِ طَرَحْتَ لَہُمْ مِنَ الثَّفَارِیقِ وَالتَّمْرِ ، وَإِذَا أَخَذْتَ فِی کَیْلِہِ حَثَوْت لَہُمْ مِنْہُ ، وَإِذَا عَلِمْتَ کَیْلَہُ عَزَلْتَ زَکَاتَہُ۔ (۱۰۵۸۰ م) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی قولہ تعالی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالَ: زَکَاتُہُ یَوْمَ کَیْلِہِ۔
(١٠٥٨٠) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } جب تو کھیتی کاٹے اور تیرے پاس مسکین آئیں تو ان کیلئے بھی کچھ ڈالدے اور جب تو جمع کرے (کھیتی وغیرہ کو) تو ان کیلئے کچھ ڈال دے اور جب تو اس کو ڈھیر لگائے تو کچھ ان کے لیے ڈال دے اور جب تو اس کو صاف کرے اور کیل کرنے لگے تو کچھ (بھوسہ وغیرہ) ان کے لیے ڈال دے۔ اور جب تو کیل کرلے اور معلوم ہوجائے کہ کتنا ہے تو زکوۃ ادا کر اور جب تو کھجور کے درخت سے کھجور توڑے تو کچھ ہلکی اور پکی کھجوریں ان کیلئے چھوڑ دے اور جب ان کو کیل کرنے لگے تب بھی کچھ ان کیلئے ڈال دے اور جب اس کا وزن معلوم ہوجائے تو اس کی زکوۃ ادا کر۔
(١٠٥٨٠ م) حضرت ضحاک سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس کی زکوۃ کا حساب اس فصل کے کیل کرنے کے دن ہوگا۔

10581

(۱۰۵۸۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، قَالَ : ہَذِہِ مَدَنِیَّۃٌ مَکِّیَّۃٌ ، نَسَخَتْہَا الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ ، قُلْتُ : عَمَّنْ ؟ قَالَ : عَنِ الْفُقَہَائِ ۔ یَعْنِی قَوْلَہُ تَعَالَی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ}۔
(١٠٥٨١) حضرت سدی فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی اور مکی ہے۔ اس کو عشر اور نصف عشر نے منسوخ کردیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کس نے منسوخ قرار دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فقہاء کرام نے۔

10582

(۱۰۵۸۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ (ح) وَعَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالاَ : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالاَ : یُعْطِی ضِغْثًا۔
(١٠٥٨٢) حضرت حماد اور حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } فرماتے ہیں ان کو جو میسر ہو خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو وہ عطا کرتے ہیں۔

10583

(۱۰۵۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : نَحْوَ الضِّغْثِ۔
(١٠٥٨٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جو میسر ہو وہ عطا کرتے ہیں۔

10584

(۱۰۵۸۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : نَسَخَتْہَا الزَّکَاۃُ۔
(١٠٥٨٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس آیت کو زکوۃ نے منسوخ کردیا ہے۔

10585

(۱۰۵۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : نَسَخَتِ الزَّکَاۃُ کُلَّ صَدَقَۃٍ فِی الْقُرْآنِ۔
(١٠٥٨٥) ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوۃ نے قرآن پاک میں موجود تمام صدقات کو منسوخ کردیا۔

10586

(۱۰۵۸۶) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، قَالَ : نَسَخَتْہَا الْعُشْرُ ، وَنِصْفُ الْعُشْرِ۔
(١٠٥٨٦) حضرت عطیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو عشر اور نصف عشر نے منسوخ کردیا۔

10587

(۱۰۵۸۷) حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ؛ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی : {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} قَالَ: زَکَاتُہُ یَوْمَ کَیْلِہِ۔
(١٠٥٨٧) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کا کلام { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جس وقت کیل کرے اس کی زکوۃ ہے۔

10588

(۱۰۵۸۸) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ {وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ} نَسَخَتْہَا الْعُشْرُ ، وَنِصْفُ الْعُشْرِ۔
(١٠٥٨٨) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت { وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ } کو عشر اور نصف عشر نے منسوخ کردیا ہے۔

10589

(۱۰۵۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُخْرِجُ مَکَانَہَا۔
(١٠٥٨٩) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس کی جگہ دوبارہ زکوۃ ادا کرے گا۔

10590

(۱۰۵۹۰) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ أَصْحَابِہِ قَالُوا : إذَا أَخْرَجَ زَکَاۃَ مَالِہِ فَضَاعَتْ ، فَلْیُزَکِّ مَرَّۃً أُخْرَی۔
(١٠٥٩٠) حضرت مغیرہ اپنے اصحاب سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب مال کی زکوۃ نکالی جائے اور وہ ضائع ہوجائے تو اس کی جگہ دوبارہ زکوۃ نکالنا پڑے گی۔

10591

(۱۰۵۹۱) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ حَمَّادٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَبْعَثُ بِصَدَقَتِہِ فَتَہْلِکُ قَبْلَ أَنْ تَصِلَ إلَی أَہْلِہَا ، قَالَ : ہِیَ بِمَنْزِلَۃِ رَجُلٍ بَعَثَ إلَی غَرِیمِہِ بِدَیْنٍ ، فَلَمْ یَصِلْ إلَیْہِ الْمَالُ حَتَّی ہَلَکَ۔
(١٠٥٩١) حضرت حماد فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی زکوۃ نکال کر مصرف پر خرچ کرنے سے پہلے ہی وہ ہلاک ہوجائے تو یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح آدمی پیسے اپنے قرض خواہ کی طرف بھیجے لیکن وہ اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک ہوجائیں۔

10592

(۱۰۵۹۲) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : لاَ تُجْزِیئُ۔
(١٠٥٩٢) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے (دوبارہ ادا کرنا پڑے گی) ۔

10593

(۱۰۵۹۳) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ إبْرَاہِیمَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ الصَّائِغِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ إذَا أَخْرَجَ زَکَاۃَ مَالِہِ فَضَاعَتْ ، أَنَّہَا تُجْزِیئُ عَنْہُ۔
(١٠٥٩٣) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ آدمی مال پر زکوۃ نکالے لیکن وہ ہلاک ہوجائے تو وہ اس کی طرف سے کافی ہے۔ (دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے)

10594

(۱۰۵۹۴) حَدَّثْنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ أَخْرَجَ زَکَاۃَ مَالِہِ فَضَاعَتْ ، قَالَ : لاَ تُجْزِیئُ عَنْہُ حَتَّی یَضَعَہَا مَوَاضِعَہَا۔
(١٠٥٩٤) حضرت ابراہیم سے دریافت فرمایا گیا کہ آدمی مال کی زکوۃ نکالے لیکن وہ ہلاک ہوجائے، آپ نے فرمایا یہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ دوبارہ زکوۃ ادا کرنا پڑے گی۔

10595

(۱۰۵۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ الْبَکْرَاوِیُّ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُخْرِجُ مَکَانَہَا۔
(١٠٥٩٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس کی جگہ دوبارہ زکوۃ ادا کی جائے گی۔

10596

(۱۰۵۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْن جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ قَالاَ : إذَا کَانَ الْخَلِیطَانِ یَعْمَلاَنِ فِی أَمْوَالِہِمَا ، فَلاَ تُجْمَعُ أَمْوَالُہُمَا فِی الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٥٩٦) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ جب دو شخصوں کا مال آپس میں ملا ہو تو زکوۃ میں ان کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

10597

(۱۰۵۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرْت عَطَائً عَنْ قَوْلِ طَاوُوس ، فَقَالَ : مَا أُرَاہُ إِلاَّ حَقًّا۔
(١٠٥٩٧) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء کو طاؤس کے قول کی خبر دی تو انھوں نے فرمایا کہ میں بھی اسی کو صحیح سمجھتا ہوں۔

10598

(۱۰۵۹۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : إذَا کَانَ لِلرَّجُلِ عِشْرُونَ شَاۃ ، وَلِرَجُلٍ آخَر عِشْرُونَ شَاۃ ، وَرَاعِیہِمَا وَاحِدٌ ، یَشْرَعَانِ مَعًا وَیَرِدَانِ مَعًا ، قَالَ : فِیہَا الزَّکَاۃُ۔
(١٠٥٩٨) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ جب ایک شخص کے پاس بیس بکریاں ہوں اور دوسرے شخص کے پاس بھی بیس بکریاں ہوں اور دونوں شخصوں کا چرواہا بھی ایک ہو جو ان کو ساتھ لے کرجاتا ہو اور ایک ساتھ ہی واپس لے کر آتا ہو تو ان پر زکوۃ ہے۔ (دونوں کے مجموعے پر زکوۃ ہے) ۔

10599

(۱۰۵۹۹) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی سَلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ یُعْرَضُ عَلَی سَلَمَۃَ صَدَقَۃُ إبِلِہِ فَیَأْبَی أَنْ یَشْتَرِیَہَا۔
(٩٩ ١٠٥) حضرت یزید جو حضرت سلمہ کے غلام ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ کے پاس زکوۃ کا اونٹ لایا گیا آپ نے اس کے خریدنے سے انکار فرما دیا۔

10600

(۱۰۶۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَائٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ تَشْتَرِی طُہرَۃَ مَالِک۔
(١٠٦٠٠) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اپنے مال کی طہارت کو نہ خریدو۔

10601

(۱۰۶۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : إذَا جَائَ الْمُصَدِّقُ فَادْفَعْ إلَیْہِ صَدَقَتَکَ ، وَلاَ تَبْتَعْہَا ، قَالَ : فَإِنَّہُمَ یَقُولُونَ ابْتَعْہَا فَأَقُولُ : لاَ ، إنَّمَا ہِیَ لِلَّہِ۔
(١٠٦٠١) حضرت ابو زبیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب زکوۃ وصول کرنے والا آئے تو اس کو اپنی زکوۃ ادا کردو۔ اور اس سے نہ خریدو وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے خرید لو۔ میں کہتا ہوں کہ بیشک وہ تو اب اللہ کا ہوگیا ہے۔

10602

(۱۰۶۰۲) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : سَأَلْتُہُ : أَیَشْتَرِی الرَّجُلُ صَدَقَتَہُ ؟ فَقَالَ : لاَ یَشْتَرِیہَا مِنَ الْمُصَدِّقِ حَتَّی یُخْرِجَہَا ، وَلاَ یَشْتَرِیہَا إذَا أَخْرَجَہَا حَتَّی تَخْتَلِطَ بِغَنَمٍ کَثِیرٍ۔
(١٠٦٠٢) حضرت امام زہری سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا آدمی اپنی ادا شدہ زکوۃ کو خرید سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا زکوۃ وصول کرنے والے سے نہیں خرید سکتا۔ یہاں تک کہ وہ چلا جائے۔ اور جانے کے بعد نہ خریدے یہاں تک وہ کثیر بکریوں میں مل جائے۔

10603

(۱۰۶۰۳) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ أَنَّ مَنْ مَضَی کَانُوا یَکْرَہُونَ ابْتِیَاعَ صَدَقَاتِہِمْ ، قَالَ : وَإِنْ فَعَلْتَ بَعْدَ مَا تُقْبَضَ مِنْک فَلاَ بَأْسَ بِہِ۔
(١٠٦٠٣) حضرت عطائ سے مروی ہے کہ بیشک پہلے صحابہ کرام زکوۃ کے خریدنے کو ناپسند فرماتے تھے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ زکوۃ پر اگر تیرے بعد کسی اور کا قبضہ ہوجائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

10604

(۱۰۶۰۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عْن أَبِیہِ ، قَالَ : حُمِلَ عُمَرُ عَلَی فَرَسٍ فِی سَبِیلِ اللہِ فَرَآہُ ، أَوْ شَیْئًا مِنْ ثِیَابِہِ تُبَاعُ فِی السُّوقِ ، فَأَرَادَ أَنْ یَشْتَرِیَہُ فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : اُتْرُکْہُ حَتَّی تُوَافِیَک یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (مسلم ۱۲۳۹۔ احمد ۱/۲۵)
(١٠٦٠٤) حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے گھوڑے کو اللہ کے راستے میں صدقہ کیا اور مجاہد کو سوار فرمایا یا کچھ کپڑے اللہ کی راہ میں صدقہ کیئے۔ بعد میں بازار میں ان کو دیکھا اور خود ہی دوبارہ خریدنے کا ارادہ فرمایا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر اس کے متعلق دریافت فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو تاکہ قیامت کے دن اس کا (پورا) بدلہ تجھے عطاء کیا جائے۔

10605

(۱۰۶۰۵) حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ ، عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ، عَنْ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ ، عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ؛ أَنَّ رَجُلاً حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَرَأَی فَرَسًا ، أَوْ مُہْرَۃً تُبَاعُ یُنْسَبُ إلَی فَرَسِہِ ، فنہیَ عَنْہَا۔ (ابن ماجہ ۲۳۹۳۔ احمد ۱/۱۶۴)
(١٠٦٠٥) حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کی راہ میں گھوڑا صدقہ کیا۔ اور پھر اس گھوڑے کو یا اس کے مہرے کو بازار میں فروخت ہوتے دیکھ کر خریدنے کا ارادہ کیا۔ تو حضرت زبیر بن عوام نے اس سے منع فرمادیا۔

10606

(۱۰۶۰۶) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیم (ح) وَعَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ؛ أَنَّ أَبَا أُسَامَۃَ حَمَلَ عَلَی مُہْرٍ لَہُ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَرَآہُ بَعْدَ ذَلِکَ نِضْوًا یُبَاعُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ عَرَفْتُ عُرْفَہُ ، فَنَہَانِی عَنْہُ۔ (طبرانی ۴۶۶۸)
(١٠٦٠٦) حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو اسامہ نے اللہ کی راہ میں گھوڑا (بچھڑا) صدقہ فرمایا، پھر بعد میں اسی جانور کو دیکھا کہ وہ (بازار میں) بیچا جا رہا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے اس کو پہچان لیا ہے (کیا اس کو خرید لوں ؟ ) آپ نے مجھے اس سے منع فرما دیا۔

10607

(۱۰۶۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : إذَا تَحَوَّلَتِ الصَّدَقَۃُ إلَی غَیْرِ الَّذِی تُصُدِّقَ عَلَیْہِ ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ یَشْتَرِیَہَا۔
(١٠٦٠٧) حضرت عمر فاروق ارشاد فرماتے ہیں کہ جس کو آپ نے زکوۃ (صدقہ) دیا ہے اس سے نکل کر کسی اور کے پاس پہنچ جائے تو پھر اس کو خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10608

(۱۰۶۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ فِی سَبِیلِ اللہِ ، فَرَآہَا فِی السُّوقِ تُبَاعُ ، فَسَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَشْتَرِیَہَا ، فَقَالَ : لاَ ، دَعْہَا حَتَّی تُوَافِیَک یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (بخاری ۲۷۷۵۔ مسلم ۴)
(١٠٦٠٨) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے گھوڑا اللہ کے راستے میں صدقہ کیا اور مجاہد کو سوار فرمایا بعد میں بازار میں ان کو دیکھا اور خود ہی دوبارہ خریدنے کا ارادہ فرمایا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا کر اس کے متعلق دریافت فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو چھوڑ دو تاکہ قیامت کے دن اس کا (پورا) بدلہ تجھے عطاء کیا جائے۔

10609

(۱۰۶۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، نَحْوًا مِنْ حَدِیثِ أُسَامَۃَ۔
(١٠٦٠٩) حضرت زید بن حاثہ سے بھی حضرت ابو اسامہ کی حدیث کے مثل منقول ہے۔

10610

(۱۰۶۱۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ یُصِیبُ مِنْ صَدَقَتِہِ ؟ قَالَ : یَنْقُصُ مِنْ أَجْرِہِ بِقَدْرِ مَا أَصَابَ مِنْہَا۔
(١٠٦١٠) حضرت عمران بن حصین سے ایک شخص نے دریافت فرمایا کہ صدقہ (زکوۃ ) ادا کرنے کے بعد آدمی کو کچھ حصہ واپس مل جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جتنی مقدار اس کو پہنچا ہے اس کے بقدر اجر کم کردیا جائے گا۔

10611

(۱۰۶۱۱) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَہْضَمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ شِرَائِ الصَّدَقَاتِ حَتَّی تُقْبَضَ۔ (ابن ماجہ ۲۱۹۶۔ دارقطنی ۴۴)
(١٠٦١١) حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات کو خریدنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان پر قبضہ کرلیا جائے۔

10612

(۱۰۶۱۲) حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ؛ سُئِلَ : أَیَشْتَرِی صَدَقَتَہُ قَبْلَ أَنْ تُعْقَلَ؟ فَکَرِہَہُ۔
(١٠٦١٢) حضرت طاؤس سے دریافت کیا گیا کہ کیا صدقہ کو قبضہ سے قبل خریدا جاسکتا ہے ؟ آپ نے اس کو ناپسند فرمایا۔

10613

(۱۰۶۱۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الشُّعَیثیِّ ، عَنْ مَکْحُولٍ قَالَ : لاَ تُشْتَرَی الصَّدَقَۃُ حَتَّی تُوسَمَ وَتُعْقَلَ۔
(١٠٦١٣) حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ صدقہ کو نہ خریدو یہاں تک کہ نشان لگا لیا جائے اور تم سے قبضہ کرلیا جائے۔

10614

(۱۰۶۱۴) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تُشْتَرَی الصَّدَقَۃُ حَتَّی تُوسَمَ۔
(١٠٦١٤) حضرت مکحول سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صدقہ کو دوبارہ مت خریدو یہاں تک کہ نشان لگا لیا جائے۔

10615

(۱۰۶۱۵) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَمُحَمَّدٍ ؛ أَنَّہُمَا کَرِہَا أَنْ یَشْتَرِیَ الرَّجُلُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ مَالِہِ ، حَتَّی یَحُولَ مِنْ عِنْدِ الْمُصَدِّقِ۔
(١٠٦١٥) حضرت ہشام سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حضرت محمد ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی اپنے مال سے ادا شدہ صدقات خرید لے یہاں تک کہ صدقہ وصول کرنے والے کے پاس سے پھیرلیا جائے۔

10616

(۱۰۶۱۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ؛ أَنَّہُ سَمِعَہُ یَنْہَی عَنْ بَیْعِ الصَّدَقَۃِ قَبْلَ أَنْ تُخْرَج۔
(١٠٦١٦) حضرت جابر سے مروی ہے کہ صدقہ کی بیع سے منع کیا گیا ہے یہاں تک کہ تم سے نکال لیا جائے۔

10617

(۱۰۶۱۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ ، عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی أَنْ تُبَاعَ الصَّدَقَۃُ حَتَّی تُعْقَلَ وَتُوسَمَ۔
(١٠٦١٧) حضرت موسیٰ بن عقبہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ قبضہ کرلیا جائے اور نشان لگا لیا جائے۔

10618

(۱۰۶۱۸) حَدَّثَنَا ابْن عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ ، أَنَّ عُمَرَ سَأَلَ رَجُلاً عَنْ أَرْضٍ لَہُ بَاعَہَا ؟ فَقَالَ لَہُ : احْرُزْ مَالَک ، وَاحْفِرْ لَہُ تَحْتَ فِرَاشِ امْرَأَتِکَ ، قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ، أَلَیْسَ بِکَنْزٍ ؟ فَقَالَ : لَیْسَ بِکَنْزٍ مَا أُدِّیَ زَکَاتُہُ۔
(١٠٦١٨) حضرت عمر نے ایک شخص سے اس زمین کے بارے میں جس کو اس نے بیچ دیا تھا دریافت فرمایا، اور اس سے فرمایا : اپنے مال کو جمع کر اور اس کے لیے اپنی بیوی کی چار پائی کے نیچے جگہ کھود، اس شخص نے عرض کیا اے امیر المؤمنین کیا یہ خزانہ شمار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جس کی زکوۃ ادا کردی گئی ہو وہ خزانہ شمار نہیں ہوگا۔

10619

(۱۰۶۱۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی حَرْمَلَۃَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : مَا أُدِّیَ زَکَاتُہُ فَلَیْسَ بِکَنْزٍ۔
(١٠٦١٩) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ جس کی زکوۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ نہیں ہے۔

10620

(۱۰۶۲۰) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَیُّ مَالٍ أُدِّیَ زَکَاتُہُ فَلَیْسَ بِکَنْزٍ۔
(١٠٦٢٠) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہر وہ مال جس پر زکوۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ نہیں ہے۔

10621

(۱۰۶۲۱) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، مِثْلَہُ۔
(١٠٦٢١) حضرت ابن عمر سے اسی کے مثل منقول ہے۔

10622

(۱۰۶۲۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَا أُدِّیَ زَکَاتُہُ فَلَیْسَ بِکَنْزٍ۔
(١٠٦٢٢) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر وہ مال جس پر زکوۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ نہیں ہے۔

10623

(۱۰۶۲۳) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، وَعَطَائٍ قَالاَ : لَیْسَ مَالٌ بِکَنْزٍ أُدِّیَ زَکَاتُہُ ، وَإِنْ کَانَ تَحْتَ الأَرْضِ ، وَإِنْ کَانَ لاَ یُؤَدَّی زَکَاتُہُ فَہُوَ کَنْزٌ ، وَإِنْ کَانَ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ۔
(١٠٦٢٣) حضرت مجاہد اور حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ جس مال پر زکوۃ ادا کردی جائے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ مال زمین کے نیچے دفن ہو۔ اور جس مال پر زکوۃ ادا نہیں کی گئی وہ کنز ہے اگرچہ زمین کے اوپر ہی کیوں نہ موجود ہو۔

10624

(۱۰۶۲۴) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وُجِدَ لِرَجُلٍ عَشَرَۃُ آلاَفٍ بَعْدَ مَوْتِہِ مَدْفُونَۃً ، قَالَ : فَقَالُوا : ہَذَا کَنْزٌ ، مَا کَانَ یُؤَدِّی زَکَاتَہُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَعَلَّہُ کَانَ یُؤَدِّی عَنْہَا مِنْ غَیْرِہَا۔
(١٠٦٢٤) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے مرنے کے بعد دس ہزار درہم اس کا خزانہ (مدفون) نکلا۔ لوگوں نے کہا یہ وہ خزانہ ہے جس پر زکوۃ نہیں ادا کی گئی۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے وہ اس کے علاوہ مال سے اس کی زکوۃ ادا کرتا ہو۔

10625

(۱۰۶۲۵) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا یَرَوْنَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ۔
(١٠٦٢٥) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ صحابہ کرام مال پر زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق سمجھتے تھے۔

10626

(۱۰۶۲۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ؛ {فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} ، قَالَ : سِوَی الزَّکَاۃِ۔
(١٠٦٢٦) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت { فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} یہ زکوۃ کے علاوہ حقوق ہیں۔

10627

(۱۰۶۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ بَیَانٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ۔
(١٠٦٢٧) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ مال پر زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔

10628

(۱۰۶۲۸) حَدَّثَنَا مُعَاذٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِی صَغِیرَۃَ أَبُو یُونُسَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا رِیَاحُ بنُ عَبِیْدَۃَ ، عَنْ قَزَعَۃَ ، قَالَ : قُلْتُ لِاِبْنِ عُمَرَ : إنَّ لِی مَالاً ، فَمَا تَأْمُرُنِی إلَی مَنْ أَدْفَعُ زَکَاتَہُ ؟ قَالَ : ادْفَعْہَا إلَی وَلِیِّ الْقَوْمِ ، یَعْنِی الأُمَرَائَ ، وَلَکِنْ فِی مَالِکَ حَقٌّ سِوَی ذَلِکَ یَا قَزَعَۃُ۔
(١٠٦٢٨) حضرت قزعہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت فرمایا کہ میرے پاس کچھ مال ہے آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں کہ میں زکوۃ کس کو ادا کروں ؟ آپ نے فرمایا قوم کے امراء (امیر) کو۔ لیکن اے قزعہ تیرے مال پر زکوۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں۔

10629

(۱۰۶۲۹) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنِ أَبِی حَیَّانَ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُزَاحِمُ بْنُ زُفَرَ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَطَائٍ ، فَأَتَاہُ أَعْرَابِیٌّ فَسَأَلَہُ : إنَّ لِی إبِلاً ، فَہَلْ عَلَیَّ فِیہَا حَقٌّ بَعْدَ الصَّدَقَۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٦٢٩) حضرت مزاحم بن زفر فرماتے ہیں کہ میں حصرت عطاء کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور دریافت کیا کہ میرے پاس اونٹ ہیں کیا مجھ پر زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

10630

(۱۰۶۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : مَنْ أَدَّی زَکَاۃَ مَالِہِ فَلَیْسَ عَلَیْہِ جُنَاحٌ أَنْ لاَ یَتَصَدَّقَ۔
(١٠٦٣٠) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جس شخص نے مال پر زکوۃ ادا کردی ہے وہ صدقہ نہ بھی کرے تو کوئی حرج (گناہ) نہیں ہے۔

10631

(۱۰۶۳۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ۔
(١٠٦٣١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔

10632

(۱۰۶۳۲) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَائَتِ امْرَأَۃُ عَبْدِ اللہِ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : إنَّ فِی حِجْرِی بَنِی أَخٍ لِی کَلاَلَۃً ، فَیُجْزِینِی أَنْ أَجْعَلَ زَکَاۃَ حُلِیِّی فِیہِمْ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ (بخاری ۱۴۶۶۔ مسلم ۴۵)
(١٠٦٣٢) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ کی اہلیہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئیں اور عرض کی کہ میری پرورش میں میرا ایک بھتیجا ہے کیا میں اپنے زیورات کی زکوۃ اس کو دے سکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

10633

(۱۰۶۳۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لاَ بَأْسَ أَنْ تَجْعَلَ زَکَاتَکَ فِی ذَوِی قَرَابَتِکَ ، مَا لَمْ یَکُونُوا فِی عِیَالِک۔
(١٠٦٣٣) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ قرابت دار جو تمہارے عیال نہیں ہیں ان کو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

10634

(۱۰۶۳۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : إنَّ أَحَقَّ مَنْ دَفَعْتُ إلَیْہِ زَکَاتِی یَتِیمِی وَذُو قَرَابَتِی۔
(١٣١٣٤) حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ میری زکوۃ کا سب سے زیادہ مستحق میرے یتیم اور قرابت دار ہیں۔

10635

(۱۰۶۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَلْقَمَۃَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ؛ أَنَّ امْرَأَتَہُ سَأَلَتْہُ عَنْ بَنِی أَخٍ لَہَا أَیْتَامٍ فِی حِجْرِہَا ، تُعْطِیہِمْ مِنَ الزَّکَاۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٦٣٥) حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ کی بیوی نے حضرت عبداللہ سے دریافت فرمایا کہ میرے بھائی کا یتیم لڑکا میری پرورش میں ہے، کیا میں اس کو زکوۃ دے سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

10636

(۱۰۶۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنِ الْخَالَۃِ ، تُعْطَی مِنَ الزَّکَاۃِ ؟ فَقَالَ سَعِید : مَا لَمْ یُغْلَقُ عَلَیْکُمْ بَابٌ۔
(١٠٦٣٦) حضرت ابراہیم بن ابو حفصہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر سے خالہ کے متعلق دریافت کیا کہ کیا ان کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ؟ حضرت سعید نے فرمایا : جب تک تم پر دروازہ بند نہ کردیا جائے۔

10637

(۱۰۶۳۷) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ (ح) وَعَنْ ہِشَامٍ ، أَوْ غَیْرِہِ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُمَا رَخَّصَا فِی ذِی الْقَرَابَۃِ۔
(١٠٦٣٧) حضرت ابراہیم ، حضرت ہشام اور حضرت حسن یہ سب حضرات قرابت داروں کو زکوۃ دینے کی اجازت دیتے ہیں۔

10638

(۱۰۶۳۸) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : أَیَجْزِی الرَّجُلَ أَنْ یَضَعَ زَکَاتَہُ فِی أَقَارِبِہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، إذَا لَمْ یَکُونُوا فِی عِیَالِہِ۔
(١٠٦٣٨) حضرت عبد الملک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا : کیا آدمی اپنے قرابت داروں کو زکوۃ ادا کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب کہ وہ تمہارے اہل خانہ میں سے نہ ہوں۔

10639

(۱۰۶۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُبَیْطٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : إذَا کَانَ لَکَ أَقَارِبُ فُقَرَائُ فَہُمْ أَحَقُّ بِزَکَاتِکَ مِنْ غَیْرِہِمْ۔
(١٠٦٣٩) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے قرابت دار فقیر ہوں تو وہ دوسروں کی نسبت تمہاری زکوۃ کے زیادہ حق دار ہیں۔

10640

(۱۰۶۴۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زُبَیْدٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاہِیمَ عَنِ الأُخْتِ ، تُعْطَی مِنَ الزَّکَاۃِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٦٤٠) حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم سے بہن کو زکوۃ دینے کے متعلق دریافت کیا کہ کیا ان کو زکوۃ دی جاسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔

10641

(۱۰۶۴۱) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطِی زَکَاتَہُ ذَوِی قَرَابَتِہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، مَا لَمْ یَکُونُوا فِی عِیَالِہِ۔
(١٠٦٤١) حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ : کیا آدمی اپنے قرابت داروں کو زکوۃ ادا کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب کہ وہ تمہارے اہل خانہ میں سے نہ ہوں۔

10642

(۱۰۶۴۲) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ حَنْظَلَۃَ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ: سَأَلَہُ رَجُلٌ ، فَقَالَ: إنَّ عِنْدِی نَاسًا مِنْ أَہْلِی فُقَرَائَ؟ فَقَالَ : أَخْرِجْہَا مِنْک وَمِنْ أَہْلِک۔
(١٠٦٤٢) حضرت حنظلہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت طاؤس سے دریافت کیا کہ میرے اہل میں سے کچھ فقراء میرے پاس رہتے ہیں (ان کو زکوۃ دے سکتا ہوں ؟ ) آپ نے فرمایا اپنے اور اپنے اہل کی طرف سے ان کو ادا کرو۔

10643

(۱۰۶۴۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ ابْنَۃِ سِیرِینَ ، عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَیْعٍ ، عَنْ عَمِّہَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّیِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الصَّدَقَۃُ عَلَی غَیْرِ ذِی الرَّحِمِ صَدَقَۃٌ ، وَعَلَی ذِی الرَّحِمِ اثْنَتَانِ ؛ صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ۔ (ترمذی ۶۵۸۔ نسائی ۲۳۶۳)
(١٠٦٤٣) حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : غیر ذی رحم کو صدقہ (زکوۃ ) دینا صرف صدقہ ہے (صرف صدقہ کرنے کا ثواب ہے) اور ذی رحم کو دینے میں دو ثواب ہیں۔ صدقہ کا اور صلہ رحمی کا۔

10644

(۱۰۶۴۴) قَالَ أَبُو بَکْرٍ : وَسَمِعْتُ وَکِیعًا یَذْکُرُ ، عَنْ سُفْیَانَ ، أَنَّہُ قَالَ : لاَ یُعْطِیہَا مَنْ یُجْبَر عَلَی نَفَقَتِہِ۔
(١٠٦٤٤) حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ جن کا نفقہ تم پر لازم ہے ان کو نہیں دیا جائے گا۔

10645

(۱۰۶۴۵) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ تُقْبَلُ وَرَحِمٌ مُحْتَاجَۃٌ۔
(١٠٦٤٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں تمہارا صدقہ (زکوۃ ) قبول نہیں ہوگا (جبکہ تم غیروں کو ادا کرو) اور تمہارے ذی رحم محتاج ہوں۔

10646

(۱۰۶۴۶) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطِی زَکَاتَہُ إلَی فَقِیرٍ ، ثُمَّ یَتَبَیَّنُ لَہُ أَنَّہُ غَنِیٌّ ؟ قَالَ : أَجْزَأَ عَنْہُ۔
(١٠٦٤٦) حضرت حسن سے پوچھا گیا کہ آدمی کسی فقیر کو زکوۃ ادا کر دے بعد میں معلوم ہو کہ وہ تو غنی ہے (تو کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا اس کی طرف سے کافی ہے۔

10647

(۱۰۶۴۷) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْطِی مِنْ زَکَاتِہِ الْغَنِیَّ ، وَہُوَ لاَ یَعْلَمُ ؟ قَالَ : لاَ یُجْزئہُ۔
(١٠٦٤٧) حضرت ابراہیم سے پوچھا گیا کہ آدمی کسی غنی کو نہ جانتے ہوئے زکوۃ ادا کر دے تو ؟ آپ نے فرمایا یہ کافی نہیں ہے۔ (دوبارہ ادا کرنا ہوگی) ۔

10648

(۱۰۶۴۸) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الأَلْہَانِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیَّ یَقُولُ : حِلْیَۃُ السَّیْفِ مِنَ الْکُنُوزِ۔
(١٠٦٤٨) حضرت محمد بن زیاد الالھانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ باہلی سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ : تلوار کا زیور خزانہ میں سے ہے۔

10649

(۱۰۶۴۹) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُبَیْدٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِمَکْحُولٍ : یَا أَبَا عَبْدِ اللہِ ، إنَّ لِی سَیْفًا فِیہِ خَمْسُونَ وَمِئَۃُ دِرْہَمٍ ، عَلَیَّ فِیہَا زَکَاۃٌ ؟ فَقَالَ : أَضِفْ إلَیْہَا مَا کَانَ لَکَ مِنْ ذَہَبٍ وَفِضَّۃٍ ، فَعَلَیْک فِیہِ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٦٤٩) حضرت عبید اللہ بن عبید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مکحول سے کہا : اے ابو عبداللہ ! میرے پاس ایک تلوار ہے جو ایک سو پچاس درہم کی ہے۔ کیا اس کی زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیرے پاس جو سو نا چاندی ہے اس کے ساتھ ملا لے اور پھر اس میں زکوۃ ہے وہ ادا کر دے۔

10650

(۱۰۶۵۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَطَائً ، وَحَمَّادًا ، وَإِبْرَاہِیمَ عَنِ الْقَدَحِ الْمُفَضَّضِ ، وَالسَّیْفِ الْمُحَلَّی ، وَالْمِنْطَقَۃِ الْمُحَلاَّۃِ ، إِذَا جَمَعْتُہُ فَکَانَ فِیہِ مِئَتَا دِرْہَمٍ ، أُزَکِّیہِ ؟ قَالُوا : لاَ۔
(١٠٦٥٠) حضرت حجاج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ، حضرت حماد اور حضرت ابراہیم سے دریافت کیا کہ میرے پاس ایک برتن ہے جس پر پانی (سونے یا چاندی کا) چڑھا ہوا ہے اور زیور والی تلوار ہے اور زیور والا پٹکا ہے۔ جب میں سب کو جمع کرتا ہوں تو ان کی قیمت دو سو درہم بن جاتی ہے، کیا میں اس پر زکوۃ ادا کروں گا ؟ سب حضرات نے فرمایا کہ نہیں۔

10651

(۱۰۶۵۱) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْکِلاَعِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ مِغْوَلٍ یَقُولُ : حِلْیَۃُ السَّیْفِ مِنَ الْکُنُوزِ۔
(١٠٦٥١) حضرت مالک بن عبداللہ الکلاعی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مالک بن مغول کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تلوار کا زیور (حکم میں) خزانہ میں سے ہے۔

10652

(۱۰۶۵۲) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : إذَا کَانَ عَلَیْک دَیْنٌ فَلاَ تُزَکِّہِ۔
(١٠٦٥٢) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ جب آپ پر قرضہ ہو تو آپ زکوۃ ادا نہ کرو۔

10653

(۱۰۶۵۳) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ ، عَنْ عَطَائٍ ؛ فِی الرَّجُلِ یَکُونُ عَلَیْہِ الدَّیْنُ السَّنَۃَ وَالسَّنَتَیْنِ ، أَیُزَکِّیہِ ؟ قَالَ : لاَ۔
(١٠٦٥٣) حضرت عطائ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص پر ایک سال یا دو سالوں سے قرض ہے کیا وہ زکوۃ ادا کرے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

10654

(۱۰۶۵۴) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا کَانَ حِینَ یُزَکِّی الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ مَالَہُ ، نَظَرَ مَا لِلنَّاسِ عَلَیْہِ فَیَعْزِلُہُ۔
(١٠٦٥٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص مال کی زکوۃ ادا کرنے لگے تو پہلے دیکھ لے کہ لوگوں کا جو اس پر (قرض) ہے اس کو الگ کرلے۔

10655

(۱۰۶۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، قَالَ : لاَ تُزَکِّ مَا لِلنَّاسِ عَلَیْک۔
(١٠٦٥٥) حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ جو لوگوں کا تجھ پر قرض ہے اس پر تو زکوۃ ادا نہیں کرے گا۔

10656

(۱۰۶۵۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لِلزَّکَاۃِ حَدٌّ مَعْلُومٌ ، فَإِذَا جَائَ ذَلِکَ حَسَبَ مَالَہُ الشَّاہِدَ وَالْغَائِبَ ، فَیُؤَدِّی عَنْہُ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ دَیْنٍ عَلَیْہِ۔
(١٠٦٥٦) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ زکوۃ کی مقدار اور حد معلوم ہے، جب وہ مقدار آجائے تو جو مال موجود ہے اور جو غائب ہے ان سب کا حساب کر اور اس پر زکوۃ ادا کر، ہاں مگر جو تجھ پر قرض ہے اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

10657

(۱۰۶۵۷) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَیُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ، قَالَ : اطْرَحْ مَا کَانَ عَلَیْک مِنَ الدَّیْنِ ، ثُمَّ زَکِّ مَا بَقِیَ۔
(١٠٦٥٧) حضرت میمون فرماتے ہیں کہ جو تجھ پر قرض ہے اس کو (پہلے) الگ کرلے پھر جو بچے (اگر وہ نصاب کے برابر ہو) تو اس پر زکوۃ ادا کر۔

10658

(۱۰۶۵۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ یَقُولُ : ہَذَا شَہْرُ زَکَاتِکُمْ ، فَمَنْ کَانَ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَلْیَقْضِہِ ، وَزَکُّوا بَقِیَّۃَ أَمْوَالِکُمْ۔
(١٠٦٥٨) حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ تمہارا زکوۃ کا مہینہ ہے، جس پر قرض ہے اس کو چاہیے کہ اس قرض کو ادا کرے اور اپنے بقیہ مال پر زکوۃ ادا کرے۔

10659

(۱۰۶۵۹) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ حَمَّادًا عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ عَلَیْہِ الدَّیْنُ وَفِی یَدِہِ مَالٌ ، أَیُزَکِّیہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، عَلَیْہِ زَکَاتُہُ ، أَلاَ تَرَی أَنَّہُ ضَامِنٌ ۔ وَسَأَلْت رَبِیعَۃَ ؟ فَقَالَ : مِثْلَ قَوْلِ حَمَّادٍ۔
(١٠٦٥٩) حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حماد سے دریافت کیا کہ ایک شخص پر کچھ قرض ہے اور اس کے پاس کچھ مال بھی موجود ہے کیا وہ زکوۃ ادا کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر زکوۃ ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ ضامن ہے، حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت ربیعہ سے یہی سوال پوچھا تو انھوں نے بھی حضرت حماد کی طرح جواب ارشاد فرمایا۔

10660

(۱۰۶۶۰) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَۃَ إلَی الْیَمَنِ یَخْرُصُ عَلَیْہِمُ النَّخْلَ ۔ قَالَ : فَسَأَلْتُ الشَّعْبِیَّ : أَفَعَلَہُ ؟ قَالَ : لاَ۔ (طبرانی ۲۱۳۶)
(١٠٦٦٠) حضرت شعبی سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کو یمن بھیجا کہ وہ تخمینہ لگائیں ان پر کھجوروں کا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت شعبی سے پوچھا کیا انھوں نے ایسا کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔

10661

(۱۰۶۶۱) حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَکٍ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ ابْنِ طَاوُوس ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَزْمٍ ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ الْخَارِصَ ، أَمَرَہُ أَنْ لاَ یَخْرُصَ النَّخْلَ الْعَرَایَا۔ (عبدالرزاق ۷۲۱)
(١٠٦٦١) حضرت ابوبکر بن حزم سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی تخمینہ لگانے والے کو بھیجتے تو اس کو حکم فرماتے کہ ان کھجوروں کا تخمینہ نہ لگائے جو مالک نے کسی محتاج کو دی ہوئی ہیں۔

10662

(۱۰۶۶۲) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، وَغُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَن بْنَ مَسْعُودٍ یَقُولُ : جَائَ سَہْلُ بْنُ أَبِی حَثْمَۃَ إلَی مَجْلِسَنا ، فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا الثُّلُثَ فَالرُّبْعَ۔ (ترمذی ۶۴۳۔ ابوداؤد ۱۶۰۱)
(١٠٦٦٢) حضرت عبد الرحمن بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت سھل بن ابو حثمہ ہماری مجلس میں تشریف لائے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہمیں سنائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم تخمینہ لگاؤ تو لے لو اور ایک تہائی چھوڑ دو ، اگر تم تہائی نہ پاؤ تو چوتھائی چھوڑ دو ۔

10663

(۱۰۶۶۳) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرِِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ کَانَ یَبْعَثُ أَبَا خَیْثَمَۃَ خَارِصًا لِلنَّخْلِ ، فَقَالَ : إذَا أَتَیْتَ أَہْلَ الْبَیْتِ فِی حَائِطِہِمْ فَلاَ تَخْرُصْ عَلَیْہِمْ قَدْرَ مَا یَأْکُلُونَ۔
(١٠٦٦٣) حضرت بشیر بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت ابو خیثمہ کو کھجوروں کا تخمینہ لگانے کے لیے بھیجا تو ان سے فرمایا کہ جب تم گھر والوں کے پاس ان کی چاردیواری میں آؤ تو جتنی مقدار وہ کھاتے ہیں اس کا تخمینہ نہ لگاؤ۔

10664

(۱۰۶۶۴) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُولُ : خَرَصَہَا ابْنُ رَوَاحَۃَ ، یَعْنِی خَیْبَرَ أَرْبَعِینَ أَلْفَ وَسْقٍ ، وَزَعَمَ أَنَّ الْیَہُودَ لَمَّا خَیَّرَہُمُ ابْنُ رَوَاحَۃَ أَخَذُوا التَّمْرَ وَعَلَیْہِمْ عِشْرُونَ أَلْفَ وَسْقٍ۔
(١٠٦٦٤) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے خیبر کی کھجوروں کا تخمینہ لگایا تو وہ چالیس ہزار وسق تھے۔ حضرت جابر کا خیال تھا کہ حضرت ابن رواحہ نے جب یہودیوں کو اختیار دیا تو انھوں نے کھجور لی اور ان پر ٢٠ ہزار وسق لازم تھے۔

10665

(۱۰۶۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مَکْحُولٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَفِّفْ عَلَی النَّاسِ فِی الْخَرْصِ ، فَإِنَّ فِی الْمَالِ الْعَرِیَّۃَ وَالْوَطِیَّۃَ۔ قَالَ : الْعَرِیَّۃُ النَّخْلَۃُ یَرِثُہَا الرَّجُلُ فِی حَائِطِ الرَّجُلِ ۔ وَالْوَطِیَّۃُ الرَّجُلُ یُوصِی بِالْوَطِیَّۃِ لِلْمَسَاکِینِ۔ (ابوعبید ۱۴۵۳)
(١٠٦٦٥) حضرت مکحول سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں پر تخمینہ لگانے میں تخفیف کا معاملہ کرو۔ بیشک لوگوں کے مال میں کچھ کھجوریں محتاجوں کیلئے ہوتی ہیں اور کچھ گری ہوئی ہوتی ہیں جنہیں لوگ روندتے ہیں۔

10666

(۱۰۶۶۶) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَتَّابَ بْنَ أُسَیْدٍ أَنْ یَخْرُصَ الْعِنَبَ کَمَا یُخْرَصُ النَّخْلَ ، فَتُؤَدَّی زَکَاتُہُ زَبِیبًا ، کَمَا تُؤَدَّی زَکَاۃُ النَّخْلِ تَمْرًا ، فَتِلْکَ سُنَّۃُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّخْلِ وَالْعِنَبِ۔ (ترمذی ۶۴۴۔ ابوداؤد ۱۵۹۹)
(١٠٦٦٦) حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عتاب بن اسید کو حکم فرمایا کہ وہ تخمینہ لگائیں انگوروں کا جیسا کہ کھجوروں کا لگایا جاتا ہے۔ پھر کشمش سے اس کی زکوۃ ادا کی جائے۔ جیسے کہ کھجور کی زکوۃ خشک کھجور سے ادا کی جاتی ہے۔ کھجور اور انگور میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی طریقہ ہے۔

10667

(۱۰۶۶۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قَالَ لِی عَبْدُ الْکَرِیمِ ، وَعَمْرُو بْنُ دِینَارٍ : یُخْرَصُ النَّخْلَ وَالْعِنَبَ ، وَلاَ یُخْرُصُ الْحَبَّ۔
(١٠٦٦٧) حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ کھجوروں اور انگوروں کا تخمینہ لگایا جائے گا لیکن دانوں کا تخمینہ نہیں لگایا جائے گا۔

10668

(۱۰۶۶۸) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : مَتَی یُخْرَصُ النَّخْلُ ؟ قَالَ : حینَ یُطْعَمُ۔
(١٠٦٦٨) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ کھجوروں کا تخمینہ کب لگایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا جب وہ کھانے کے قابل ہوجائیں اور کھائی جانے لگیں۔

10669

(۱۰۶۶۹) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، قَالَ : قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ : کَذَلِکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ فُلاَنٍ ؛ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِخَرْصِ خَیْبَرَ حِینَ طَابَ تَمْرُہُمْ ۔ فَقَالَ : وَقَالَ ابْنُ شِہَابٍ : أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُخَرْصَ خَیْبَرَ حِینَ یَطِیب أَوَّلُ التَّمْرِ۔ (عبدالرزاق ۷۲۱۶)
(١٠٦٦٩) حضرت عبداللہ بن فلاں سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر میں تخمینہ لگانے والے کو حکم فرمایا جب ان کی کھجوریں پک کر اچھی ہو جائں اس وقت تخمینہ لگاؤ۔ حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ خیبر والوں کیلئے تخمینہ لگایا جائے جب ان کی پہلی کھجوریں پک جائیں۔

10670

(۱۰۶۷۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَائٍ : حَرْثٌ لِرَجُلٍ دَیْنُہُ أَکْثَرُ مِنْ مَالِہِ فَحُصِدَ ، أَیُؤَدِّی حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ ؟ فَقَالَ : مَا نَرَی عَلَی الرَّجُلِ دَیْنُہُ أَکْثَرُ مِنْ مَالِہِ مِنْ صَدَقَۃٍ فِی مَاشِیَۃٍ ، وَلاَ فِی أَصْلٍ ، إِلاَّ أَنْ یُؤَدِّیَ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ ، یَوْمَ یَحْصُدُہُ۔
(١٠٦٧٠) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ آدمی کی کھیتی ہے لیکن اس کے مال سے زیادہ اس پر قرض ہے۔ پھر اس کی کھیتی کاٹی گئی کیا جس دن کھیتی کاٹی گئی اس کا حق ادا کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : جس پر اس کے مال سے زیادہ قرض ہو ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے مویشوں پر اور مستقل سرمایہ پر زکوۃ ہے۔ مگر جس دن اس کی کھیتی کاٹی گئی ہے اس دن جو اس پر حق ہے وہ ادا کرے گا۔

10671

(۱۰۶۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ: قَالَ لِی أَبُو الزُّبَیْرِ: سَمِعْتُ طَاوُوسًا یَقُولُ: لَیْسَ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ۔
(١٠٦٧١) حضرت ابو زبیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اس پر زکوۃ نہیں ہے۔

10672

(۱۰۶۷۲) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الزِّبْرِقَانِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مِعْقَلٍ ؛ أَنَّہُ کَانَ عَلَی الْعُشُورِ ، فَکَانَ یَسْتَحْلِفُہُمْ ، فَمَرَّ بِہِ أَبُو وَائِلٍ ، فَقَالَ : لِمَ تَسْتَحْلِفُ النَّاسَ عَلَی أَمْوَالِہِمْ ، تَرْمِی بِہِمْ فِی جَہَنَّمَ ؟ فَقَالَ : إنِّی لَوْ لَمْ أَسْتَحْلِفْہُمْ لَمْ یُعْطُوا شَیْئًا ، قَالَ : إنَّہُمْ أَنْ لاَ یُعْطُوک خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَسْتَحْلِفَہُمْ۔
(١٠٦٧٢) حضرت عبداللہ بن معقل عشر وصول کرنے پر مقرر تھے، وہ ان سے قسم لیا کرتے تھے۔ حضرت ابو وائل ان کے پاس سے گذرے تو ان سے فرمایا لوگوں سے قسم نہ لیا کرو ان کے مال کے بارے میں کیوں ان کو جہنم میں پھینکتے ہو ؟ حضرت عبداللہ بن معقل نے فرمایا کہ اگر میں قسم نہ لوں تو وہ کچھ بھی ادا نہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ ان کا کچھ نہ ادا کرنا اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان سے قسم اٹھواؤ۔

10673

(۱۰۶۷۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، قَالَ : کَانَ مَسْرُوقٌ عَلَی السَّلْسَلَۃِ ، فَکَانَ مَنْ مَرَّ بِہِ أَعْطَاہُ شَیْئًا قَبِلَ مِنْہُ وَیَقُولُ : مَعَکَ شَیْئٌ لَنَا فِیہِ حَقٌّ ؟ فَإِنْ قَالَ نَعَمْ ، وَإِلاَّ قَالَ لہ : اذْہَبْ۔
(١٠٦٧٣) حضرت ابو اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت مسروق سلسلہ نامی مقام پر تھے۔ جو شخص بھی آپ کے پاس سے گذرتا تو وہ جو کچھ آپ کو دیتا آپ قبول فرما لیتے اور فرماتے کہ تیرے پاس جو ہے کیا اس میں ہمارا حق ہے ؟ اگر وہ کہتا کہ ہاں (تو وصول فرما لیتے) وگرنہ اس کو فرماتے کہ چلا جا۔

10674

(۱۰۶۷۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِر ، عَنْ قُرَّۃَ ، عَمَّنْ حَدَّثَہُ ، قَالَ : مَرَرْت عَلَی حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِسَفِینَۃٍ ، فَمَا تَرَکَنِی حَتَّی اسْتَحْلَفَنِی مَا فِیہَا۔
(١٠٦٧٤) حضرت قرہ سے مروی ہے کہ میں حضرت حمید بن عبد الرحمن کے پاس سے کشتی میں گذرا۔ فرماتے ہیں کہ جب تک مجھ سے قسم نہ اٹھوائی کہ اس میں کیا ہے مجھے نہیں چھوڑا۔

10675

(۱۰۶۷۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ عَلَی الْعُشُورِ ، وَأَمَرَنِی أَنْ لاَ أُفَتِّشَ أَحَدًا۔
(١٠٦٧٥) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر فاروق نے عشر وصول کرنے کیلئے بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ کسی سے تفتیش نہ کرنا۔

10676

(۱۰۶۷۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَ الْعَاشِرُ یُرْشِدُ ابْنَ السَّبِیلِ ، وَمَنْ أَتَاہُ بِشَیْئٍ قَبِلَہُ۔
(١٠٦٧٦) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ عشر وصول کرنے والا تو مسافر کو مشورہ دے گا اور رہنمائی کرے گا، اور جو شخص اس کے پاس کچھ لے کر آئے گا وہ اس سے وصول کرلے گا۔

10677

(۱۰۶۷۷) حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ جَدِّہِ أَبِی أُمہِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ ، إنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی۔ (ابوداؤد ۳۰۴۱)
(١٠٦٧٧) حضرت حرب بن عبید اللہ سے مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عشر مسلمانوں پر نہیں ہے۔ بیشک عشر تو یہود و نصاریٰ پر ہے۔

10678

(۱۰۶۷۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، عَنْ خَالِہ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَ حَدِیثِ أَبِی الأَحْوَصِ۔ (ابوداؤد ۳۰۴۲۔ احمد ۳/۴۷۴)
(١٠٦٧٨) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابوالاحوص کی حدیث کی مثل مروی ہے۔

10679

(۱۰۶۷۹) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، قَالَ : حدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ عَمْرَو بْنَ حُرَیْثٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ ، احْمَدُوا اللَّہَ الَّذِی وَضَعَ عَنْکُمَ الْعُشُورَ۔ (احمد ۱/۱۹۰۔ ابویعلی ۹۶۴)
(١٠٦٧٩) حضرت سعید بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : اے معشر عربٖ اللہ کی تعریف اور حمد بیان کرو کہ اس نے تم پر سے عشر اٹھا لیا ہے۔

10680

(۱۰۶۸۰) حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِی أَرْضٍ ، وَلَیْسَ عَلَی مُسْلِمٍ جِزْیَۃٌ۔ (ابوداؤد ۳۰۴۸۔ احمد ۱/۲۲۳)
(١٠٦٨٠) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایک زمین دو قبلوں کی صلاحیت نہیں رکھتی اور مسلمان پر جزیہ نہیں ہے۔

10681

(۱۰۶۸۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ عَلَی السَّوَادِ ، وَنَہَانِی أَنْ أُعَشِّرَ مُسْلِمًا ، أَوْ ذَا ذِمَّۃٍ یُؤَدِّی الْخَرَاجَ۔
(١٠٦٨١) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے مجھے گاؤں والوں کی طرف بھیجا اور مجھے منع فرمایا کہ میں مسلمانوں سے عشر وصول کروں یا ذمیوں سے جو خراج ادا کرتے ہیں۔

10682

(۱۰۶۸۲) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ ؛ أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لاَ یُحْشَرُوا ، وَلاَ یُعْشَرُوا ، وَلاَ یُجَبُّوا ، فَقالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَکُم أَنْ لاَ تُحْشَرُوا ، وَلاَ تُعْشَرُوا ، وَلاَ یُسْتَعْمَلَ عَلَیْکُمْ غَیْرُکُمْ۔ (ابوداؤد ۳۰۲۰۔ احمد ۴/۲۱۸)
(١٠٦٨٢) حضرت عثمان بن ابو العاص سے مروی ہے کہ ثقیف کا وفد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھوں نے (اسلام لانے کیلئے) شرط لگائی کہ ہم سے ٹیکس، عشر اور خراج نہ وصول کیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سے ٹیکس (محصل) وصول نہیں کیا جائے گا، تم سے عشر نہیں وصول کیا جائے گا اور نہ ہی تم پر کسی غیر کو حاکم بنایا جائے گا۔

10683

(۱۰۶۸۳) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ إلَی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ ، وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ نِصْفَ عُشْرِ أَمْوَالِہِمْ۔
(١٠٦٨٣) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے مجھے بنو تغلب کے نصاریٰ کے پاس بھیجا اور حکم فرمایا کہ میں ان سے ان کے اموال کا نصف عشر وصول کروں۔

10684

(۱۰۶۸۴) حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنِ السَّفَّاحِ بْنِ مَطَرٍ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ کُرْدُوسٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؛ أَنَّہُ صَالَحَ نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ عَلَی أَنْ تُضَعَّفَ عَلَیْہِمُ الزَّکَاۃُ مَرَّتَیْنِ ، وَعَلَی أَنْ لاَ یُنَصِّرُوا صَغِیرًا ، وَعَلَی أَنْ لاَ یُکْرَہُوا عَلَی دِینِ غَیْرِہِمْ ۔ قَالَ دَاوُد : لَیْسَتْ لَہُمْ ذِمَّۃٌ ، قَدْ نَصَّرُوا۔
(١٠٦٨٤) حضرت داؤد بن کردوس سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق نے بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ (اس شرط پہ) صلح فرمائی تھی کہ ان سے زکوۃ کا دو گنا وصول کیا جائے گا۔ اور ان کے چھوٹوں کو نصاریٰ نہیں بنایا جائے گا، اور نہ ہی ان کو کسی غیر دین پر مجبور کیا جائے گا۔ داؤد راوی فرماتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی ذمہ نہیں ہے، تحقیق وہ نصرانی ہوگئے۔

10685

(۱۰۶۸۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ جَدِّی فَمَرَّ عَلَی نَصْرَانِیٍّ بِفَرَسٍ قِیمَتُہُ عِشْرُونَ أَلْفًا ، فَقَالَ لَہُ : إِنْ شِئْتَ أَعْطَیْتَ أَلْفَیْنِ ، وَإِنْ شِئْتَ أَخَذْتُ الْفَرَسَ وَأَعْطَیْنَاک قِیمَتَہُ ، ثَمَانیَۃَ عَشَرَ أَلْفًا۔
(١٠٦٨٥) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں اپنے دادا کے ساتھ تھا، ہمارے پاس سے ایک نصرانی گھوڑے پر سوار ہو کر گزرا اور اس کے گھوڑے کی قیمت بیس ہزار (درہم) تھی، انھوں نے اس نصرانی سے کہا اگر تو چاہے تو دو ہزار دے دیں، اور اگر تو چاہے تو میں گھوڑا لے لوں اور ہم تجھے اس کی قیمت اٹھارہ ہزار (درہم) دے دیں۔

10686

(۱۰۶۸۶) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ؛ أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ ، فَجَعَلَ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ فِی أَمْوَالِہِمَ الَّتِی یَخْتَلِفُونَ بِہَا فِی کُلِّ عِشْرِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمًا ، وَکَتَبَ بِذَلِکَ إلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَرَضِیَ وَأَجَازَہُ ، وَقَالَ لِعُمَرَ : کَمْ تَأْمُرُنَا أَنْ نَأْخُذَ مِنْ تُجَّارِ أَہْلِ الْحَرْبِ ؟ قَالَ : کَمْ یَأْخُذُونَ مِنْکُمْ إذَا أَتَیْتُمْ بِلاَدَہُمْ ؟ قَالُوا : الْعُشْرَ ، قَالَ : فَکَذَلِکَ فَخُذُوا مِنْہُمْ۔
(١٠٦٨٦) حضرت ابو مجلز سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت عثمان بن حنیف کو (عشر وغیرہ وصول کرنے کیلئے) بھیجا، انھوں نے ذمیوں کے اموال پر جو دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے تھے اور تجارت کرتے تھے ہر بیس درہم پر ایک درہم مقرر کردیا، اور حضرت عمر فاروق کو یہ لکھ کر بھیج دیا۔ آپ اس پر راضی ہوگئے اور اس کی اجازت دے دی۔ پھر حضرت عمر فاروق سے عرض کیا کہ : آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں کہ ہم اہل حرب کے تاجروں سے کتنا وصول کریں ؟ آپ نے فرمایا جب تم ان کے شہروں میں جاتے ہو تو تم سے کتنا وصول کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا عشر، تو آپ نے فرمایا اتنا ہی تم ان سے وصول کرو۔

10687

(۱۰۶۸۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اسْتَعْمَلَ أَبَاہُ وَرَجُلاً آخَرَ عَلَی صَدَقَاتِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِمَّا یَخْتَلِفُونَ بِہِ إلَی الْمَدِینَۃِ ، فَکَانَ یَأْمُرُہُمْ أَنْ یَأْخُذُوا مِنَ الْقَمْحِ نِصْفَ الْعُشْرِ ، تَخْفِیفًا عَلَیْہِمْ ، لِیَحْمِلُوا إلَی الْمَدِینَۃِ ، وَمِنَ الْقُطْنِیَّۃِ ، وَہِیَ الْحُبُوبُ الْعُشْرَ۔
(١٠٦٨٧) حضرت عبید اللہ بن عبداللہ سے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے میرے والد اور ایک دوسرے شخص کو ذمیوں سے صدقات (عشر وغیرہ) وصول کرنے کا عامل مقرر فرمایا جو مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے تھے اور وہاں کاروبار کرتے تھے، اور آپ نے ہمیں حکم فرمایا کہ گیہوں میں سے ان پر تخفیف کرتے ہوئے نصف عشر وصول کرنا تاکہ وہ شہر کی طرف اس کو اٹھائیں۔ اور دالوں وغیرہ پر عشر وصول کرنا۔

10688

(۱۰۶۸۸) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : یُؤْخَذُ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ کُلِّ عِشْرِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمٌ ، وَمِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ مِنْ کُلِّ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ دِرْہَمٌ ، وَمِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ إذَا اتَّجَرُوا فِی الْخَمْرِ ، مِنْ کُلِّ عَشَرَۃِ دَرَاہِمَ دِرْہَمٌ۔
(١٠٦٨٨) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ ذمیوں سے ہر بیس درہم کے بدلے ایک درہم وصول کیا جائے گا اور حربیوں سے دس درہم کے بدلے ایک درہم وصول کیا جائے گا، اور جو ذمی شراب کا کاروبار کرتے ہیں ان سے ہر دس درہم پر ایک درہم وصول کیا جائے گا۔

10689

(۱۰۶۸۹) حَدَّثَنَا یَعْلَی ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ رُزَیْقٍ مَوْلَی بَنِی فَزَارَۃَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ إلَیْہِ : خُذْ مِمَّنْ مَرَّ بِکَ مِنْ تُجَّارِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ فِیمَا یُظْہِرُونَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَیُدِیرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ ، مِنْ کُلِّ عِشْرِینَ دِینَارًا دِینَارًا ، فَمَا نَقَصَ مِنْہَا فَبِحِسَابِ مَا نَقَصَ ، حَتَّی تَبْلُغَ عَشَرَۃً ، فَإِذَا نَقَصَتْ ثَلاَثَۃَ دَنَانِیرَ فَدَعْہَا لاَ تَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا ، وَاکْتُبْ لَہُمْ بَرَائَۃً إلَی مِثْلِہَا مِنَ الْحَوْلِ بِمَا تَأْخُذُ مِنْہُمْ۔
(١٠٦٨٩) حضرت رزیق فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے میری طرف لکھ کر بھیجا کہ : ذمی تاجر جو تیرے پاس سے گذریں اور جو مال ان کا ظاہر کیا جاتا ہے اور تجارت میں گھومتا ہے تو ہر بیس دینار پر ایک دینار وصول کرنا، اور جو اس سے کم ہو تو اس سے اسی کمی کے حساب سے وصول کرنا، یہاں تک کہ دس تک پہنچ جائے، پھر جب اس سے بھی تین دینار کم ہوجائیں تو پھر چھوڑ دے کچھ بھی وصول نہ کرو اور ان کیلئے ان سے برأت لکھ دو جو (آگے) وصول کرنے والے ہیں۔

10690

(۱۰۶۹۰) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، قَالَ : وَسَأَلْت الزُّہْرِیَّ عَنْ جِزْیَۃِ نَصَارَی کَلْبٍ وَتَغْلِبَ ؟ فَقَالَ : بَلَغَنَا أَنَّہُ یُؤْخَذُ مِنْہُمْ نِصْفُ الْعُشْرِ مِنْ مَوَاشِیہِمْ۔
(١٠٦٩٠) حضرت ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام زہری سے بنو کلب اور بنو تغلب کے جزیہ سے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ان کے مویشوں پر نصف عشر لیا جائے گا۔

10691

(۱۰۶۹۱) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : اسْتَعْمَلَنِی عُمَرُ عَلَی الْمَاصِر ، فَکُنْتُ أُعَشِّرُ مَنْ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ ، فَخَرَجَ إلَیْہِ رَجُلٌ فَأَعْلَمَہُ ، فَکَتَبَ إلَیَّ : أَنْ لاَ تُعَشِّرْ إِلاَّ مَرَّۃً وَاحِدَۃً ، یَعْنِی فِی السَّنَۃِ۔
(١٠٦٩١) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر فاروق نے عامل مقرر فرمایا کہ میں کشتیوں والوں سے (عشر) وغیرہ وصول کروں، میں ہر آنے اور جانے والے سے عشر وصول کرتا تھا، حضرت عمر کی طرف ایک آدمی گیا اور اس نے ان کو بتایا، انھوں نے میری طرف لکھا کہ : عشر صرف سال میں ایک بار وصول کیا کرو۔

10692

(۱۰۶۹۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ غَالِبِ بْنِ الْہُذَیْلِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : جَائَ نَصْرَانِیٌّ إلَی عُمَرَ ، فَقَالَ: إنَّ عَامِلَک عَشَّرَ فِی السَّنَۃِ مَرَّتَیْنِ ، فَقَالَ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقَالَ : أَنَا الشَّیْخُ النَّصْرَانِیُّ ، فَقَالَ عُمَرُ : وَأَنَا الشَّیْخُ الْحَنِیفِی ، فَکَتَبَ إلَی عَامِلِہِ : أَنْ لاَ تُعَشِّرْ فِی السَّنَۃِ إِلاَّ مَرَّۃً۔
(١٠٦٩٢) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق کے پاس نصرانیوں کا شیخ آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا عامل سال میں دو بار عشر وصول کرتا ہے، آپ نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہا نصرانیوں کا شیخ (امیر) ، حضرت عمر فاروق نے فرمایا میں دین حنیف کا شیخ (امیر) ہوں۔ پھر آپ نے اپنے عامل کو لکھا کہ سال میں صرف ایک بار عشر وصول کیا کرو۔

10693

(۱۰۶۹۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ ، قَالَ : أَنَا أَوَّلُ مَنْ عَشَّرَ فِی الإِسْلاَمِ۔
(١٠٦٩٣) حضرت زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اسلام میں عشر وصول کیا۔

10694

(۱۰۶۹۴) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی رَجُلٌ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ ؛ أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ ؟ فَقَالَ : الْفُقَرَائُ : الْمُتَعَفِّفُونَ ، وَالْمَسَاکِینُ : الَّذِین یَسْأَلُونَ۔
(١٠٦٩٤) حضرت جابر بن زید سے دریافت کیا گیا کہ فقراء اور مساکین کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ فقراء وہ ہیں جو (سوال کرنے سے) پاک دامن رہیں اور مساکین وہ لوگ ہیں جو سوال کرتے ہیں۔

10695

(۱۰۶۹۵) حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ بْنَ مُزَاحِمٍ یَقُولُ: {إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاکِینِ} ، قَالَ : الْفُقَرَائُ : الَّذِینَ ہَاجَرُوا ، وَالْمَسَاکِینُ : الَّذِینَ لَمْ یُہَاجِرُوا۔
(١٠٦٩٥) حضرت علی بن حکم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ضحاک بن مزاحم سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت انما الصدقات للفقراء والمساکین میں فقراء سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے ہجرت کی اور مساکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہجرت نہیں کی۔

10696

(۱۰۶۹۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْقَلٌ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ عَنْ قَوْلِ اللہِ تَعَالَی : {إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ} ؟ قَالَ : الْفُقَرَائُ : الَّذِینَ فِی بُیُوتِہِمْ وَلاَ یَسْأَلُونَ ، وَالْمَسَاکِینُ : الَّذِینَ یَخْرُجُونَ فَیَسْأَلُونَ۔
(١٠٦٩٦) حضرت معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام زہری سے دریافت فرمایا کہ {إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ } سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا فقراء وہ ہیں جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور کسی سے سوال نہیں کرتے اور مسکین وہ لوگ ہیں جو گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔

10697

(۱۰۶۹۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ زَمْعَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ یُحَنَّسَ ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : عَلَی الأَعْرَابِ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ۔
(١٠٦٩٧) حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ دیہاتیوں پر صدقۃ الفطر ہے۔

10698

(۱۰۶۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَی الأَعْرَابِ زَکَاۃُ الْفِطْرِ۔
(٩٨ ١٠٦) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ دیہاتیوں پر صدقہ الفطر نہیں ہے۔

10699

(۱۰۶۹۹) حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَۃَ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ یَأْخُذُ مِنَ الأَعْرَابِ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ الأَقِطَ۔
(١٠٦٩٩) حضرت اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر دیہاتیوں سے صدقات الفطر میں پنیر وصول فرمایا کرتے تھے۔

10700

(۱۰۷۰۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : یُعْطُونَ مِنَ اللَّبَنِ۔
(١٠٧٠٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ وہ دودھ میں سے ادا کریں گے۔

10701

(۱۰۷۰۱) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، عَنْ أَبِی حُرَّۃَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ : عَلَی الأَعْرَابِ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ ، صَاعٌ مِنْ لَبَنٍ۔
(١٠٧٠١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ دیہاتیوں پر صدقۃ الفطر ہے، اور وہ دودھ کا ایک صاع ادا کریں گے۔

10702

(۱۰۷۰۲) حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ ابن أَبِی خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِیِّ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْتِقُ الْعَبْدَ النَّصْرَانِیَّ، قَالَ: ذِمَّتُہُ ذِمَّۃُ مَوَالِیہ۔
(١٠٧٠٢) حضرت شعبی سے دریافت کیا گیا کہ آدمی نصرانی غلام کو آزاد کر دے (تو کیا حکم ہے ؟ ) آپ نے فرمایا اس غلام کا ذمہ اس کے آقا کے ذمہ ہے۔

10703

(۱۰۷۰۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ۔
(١٠٧٠٣) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس پر جزیہ نہیں ہے۔

10704

(۱۰۷۰۴) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ؛ فِی الرَّجُلِ یُعْتِقُ الْعَبْدَ النَّصْرَانِیَّ ، قَالَ : عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ۔
(١٠٧٠٤) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ آدمی اگر نصرانی غلام کو آزاد کر دے تو اس پر جزیہ ہے۔

10705

(۱۰۷۰۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ سِنَانٍ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِیزِ أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ نَصْرَانِیٍّ أَعْتَقَہُ مُسْلِمٌ۔
(١٠٧٠٥) حضرت سنان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز اس نصرانی غلام سے جزیہ وصول فرمایا کرتے تھے جس کو کسی مسلمان نے آزاد کیا ہو۔

10706

(۱۰۷۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ، عَلَیْہَا زَکَاۃٌ ؟ فَقَالَ : الْخَرَاجُ عَلَی الأَرْضِ ، وَالزَّکَاۃُ عَلَی الْحَبِّ۔
(١٠٧٠٦) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز سے خراجی زمین کے متعلق دریافت فرمایا کہ کیا اس پر زکوۃ (بھی) ہے ؟ آپ نے فرمایا خراج زمین پر ہے اور زکوۃ تو اس کے دانوں (کھیتی وغیرہ) پر ہے۔

10707

(۱۰۷۰۷) حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : الْخَرَاجُ عَلَی الأَرْضِ ، وَالْعُشْرُ عَلَی الْحَبِّ۔
(١٠٧٠٧) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ خراج تو زمین پر ہے اور عشر دانوں پر ہے۔

10708

(۱۰۷۰۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : کَانَ یَقُولُ : لَیْسَ فِی التَّمْرِ زَکَاۃٌ إذَا کَانَ یُؤْخَذُ مِنْہُ الْعُشْرُ ، وَإِنْ کَانَ بِمِئَۃِ أَلْفٍ۔
(١٠٧٠٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ کھجوروں پر زکوۃ نہیں ہے اگر اس پر عشر وصول کرلیا گیا ہو، اگرچہ وہ سو ہزار (ایک لاکھ) ہی کیوں نہ ہوں۔

10709

(۱۰۷۰۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : کَانَ حَسَنٌ وَسُفْیَانُ یَقُولاَنِ : عَلَیْہِ۔
(١٠٧٠٩) حضرت حسن اور حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ اس پر (زکوۃ ) ہے۔

10710

(۱۰۷۱۰) حَدَّثَنَا إبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ خَتَنٌ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَکِ ، عَنْ أَبِی حَمْزَۃَ السَّکُرِیِّ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لاَ یَجْتَمِعُ خَرَاجٌ وَعُشْرٌ فِی أَرْضٍ وَاحِدٍ۔
(١٠٧١٠) حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ ایک ہی زمین سے خراج اور عشر وصول نہیں کیا جائے گا۔

10711

(۱۰۷۱۱) حَدَّثَنَا أَبُو تُمَیْلَۃَ یَحْیَی بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ أَبِی الْمُنِیبِ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، قَالَ: لاَ یَجْتَمِعُ خَرَاجٌ وَعُشْرٌ فِی مَالٍ۔
(١٠٧١١) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ خراج اور عشر ایک مال میں جمع نہیں کئے جائیں گے۔

10712

(۱۰۷۱۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : کَانَ أَبُو حَنِیفَۃَ یَقُولُ : لاَ یَجْتَمِعُ خَرَاجٌ وَزَکَاۃٌ عَلَی رَجُلٍ۔
(١٠٧١٢) حضرت ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی شخص پر خراج اور زکوۃ کو جمع نہیں کیا جائے گا۔

10713

(۱۰۷۱۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ؛ فِی قَوْلِہِ : {وَالَّذِینَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} ، قَالَ : الزَّکَاۃُ۔
(١٠٧١٣) حضرت عاصم بن محمد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول { وَالَّذِینَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} سے مراد زکوۃ ہے۔

10714

(۱۰۷۱۴) حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ {وَالَّذِینَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} ، قَالَ : الزَّکَاۃُ الْمَفْرُوضَۃُ۔
(١٠٧١٤) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول { وَالَّذِینَ فِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ} سے مراد فرض زکوۃ ہے۔

10715

(۱۰۷۱۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی الْہَیْثُمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : کَانُوا إذَا خَرَجَتْ أَعْطِیَاتُہُمْ تَصَدَّقُوا مِنْہَا۔
(١٠٧١٥) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام ) جب نکالے جاتے ان کیلئے بخشش (عطایا) تو اس میں سے صدقہ کرتے۔

10716

(۱۰۷۱۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : أَخَذَ الوَلِیدُ بن عَبْدِ الْمَلِکِ مَالَ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الرَّقَّۃِ یُقَالُ لَہُ : أَبُو عَائِشَۃَ عِشْرِینَ أَلْفًا ، فَأَلقَاہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ ، فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَتَاہُ وَلَدُہُ ، فَرَفَعُوا مَظْلِمَتَہُمْ إلَیْہِ ، فَکَتَبَ إلَی مَیْمُونٍ : ادْفَعُوا إلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ ، وَخُذُوا زَکَاۃَ عَامِہِ ہَذَا ، فَلَوْلا أَنَّہُ کَانَ مَالاً ضِمَارًا أَخَذْنَا مِنْہُ زَکَاۃَ مَا مَضَی۔
(١٠٧١٦) حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک نے اہل ذمہ میں سے ایک شخص جس کی کنیت ابوعائشہ تھی اس کے بیس ہزار (درہم) لیے اور بیت المال میں داخل کردیئے۔ پھر جب حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے اس کا بیٹا آپ کے پاس آیا اور اپنی مظلومیت کی داستان آپ تک پہنچائی۔ آپ نے میمون کو لکھا کہ اس کا مال اس کو واپس لوٹا دو اور اس سال کی زکوۃ بھی وصول کرلو۔ اگر یہ مال ضمار (وہ مال اور قرض جس کے واپس ملنے کی امید نہ ہو) نہ ہوتا تو میں گزرے ہوئے سالوں کی زکوۃ بھی وصول کرتا۔

10717

(۱۰۷۱۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ مَیْمُونٍ ؛ أَنَّ رَجُلاً ذَہَبَ لَہُ مَالٌ فِی بَعْضِ الْمَظَالِمِ ، فَوَقَعَ فِی بَیْتِ الْمَالِ ، فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ رُفِعَ إلَیْہِ ، فَکَتَبَ عُمَرُ : أَنِ ادْفَعُوا إلَیْہِ ، وَخُذُوا مِنْہُ زَکَاۃَ مَا مَضَی ، ثُمَّ تَبعَہُمْ بَعْدُ کِتَاب : أَنِ ادْفَعُوا إلَیْہِ مَالَہُ ، ثُمَّ خُذُوا مِنْہُ زَکَاۃَ ذَلِکَ الْعَامِ ، فَإِنَّہُ کَانَ مَالاً ضِمَارًا۔
(١٠٧١٧) حضرت میمون سے مروی ہے کہ ایک شخص کا مال بعض مظالم کی وجہ سے اس سے لے کر بیت المال میں داخل کردیا گیا۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے، تو اس نے یہ بات آپ تک پہنچائی، حضرت عمر بن عبد العزیز نے لکھا اس کا مال اس کو واپس کردو اور گذرے ہوئے سالوں کی زکوۃ بھی وصول کرلو پھر اس کے بعد دوبارہ لکھا کہ اس کا مال اس کو واپس کردو اور اس کی زکوۃ اس سال کی وصول کرلو کیونکہ یہ ایسا مال ہے جس کی واپسی کی امید نہ تھی۔

10718

(۱۰۷۱۸) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : عَلَیْہِ زَکَاۃُ ذَلِکَ الْعَامِ۔
(١٠٧١٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس پر صرف اسی سال کی زکوۃ ہے۔

10719

(۱۰۷۱۹) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَیْد ، عَنْ عَبْدِ اللہِ : {وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ}، قَالَ : ہُوَ مَا تَعَاوَر النَّاسُ بَیْنَہُمَ ؛ الْفَأْسُ ، وَالْقِدْرُ ، وَالدَّلْوُ ، وَأَشْبَاہُہُ۔
(١٠٧١٩) حضرت عبداللہ سے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ } کا مصداق وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے درمیان عاریۃ کدال، دیگچی، ڈول اور اس جیسے اشیاء نہیں دیتے ہیں۔

10720

(۱۰۷۲۰) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ أَبِی الْعُبَیْدَیْنِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : ہُوَ مَا تَعَاوَر النَّاسُ بَیْنَہُمْ۔
(١٠٧٢٠) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو عاریۃ بھی نہیں دیتے۔

10721

(۱۰۷۲۱) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ؛ {وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ} قَالَ : الزَّکَاۃُ الْمَفْرُوضَۃُ ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : عَارِیَۃُ الْمَتَاعِ۔
(١٠٧٢١) حضرت علی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَیَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ } سے مراد فرض زکوۃ ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ عاریت کا سامان مراد ہے۔

10722

(۱۰۷۲۲) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الْمَاعُونُ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٧٢٢) حضرت علی فرماتے ہیں کہ الماعون کا مطلب زکوۃ ہے۔

10723

(۱۰۷۲۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ہُوَ الْمَالُ الَّذِی لاَ یُعْطَی حَقُّہُ۔
(١٠٧٢٣) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ وہ مال جس کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔

10724

(۱۰۷۲۴) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ عُبَیْدٍ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبِیعَۃَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ہُوَ الْمَالُ الَّذِی لاَ یُؤَدَّی حَقُّہُ۔
(١٠٧٢٤) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ وہ مال جس کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔

10725

(۱۰۷۲۵) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ سُفْیَانَ (ح) وَغُنْدَرٍ ، عَنْ َشُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عِیَاضٍ ، عَنْ أصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ قَالُوا : الْمَاعُونُ مَنْعُ الْفَأْسِ وَالْقِدْرِ وَالدَّلْوِ۔
(١٠٧٢٥) حضرت سعد اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ الماعون کدال، دیگچی اور ڈول کا نہ دینا ہے۔

10726

(۱۰۷۲۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ صُبْحٍ ، عَنْ أُمِّ شَرَاحِیلَ ، عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ : الْمَہْنَۃُ۔
(١٠٧٢٦) حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد پیشہ ہے۔

10727

(۱۰۷۲۷) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ : الْمَاعُونُ مَنْعُ الْفَأْسِ وَالْقِدْرِ وَالدَّلْوِ۔
(١٠٧٢٧) حضرت علی فرماتے ہیں کہ الماعون کدال، دیگچی اور ڈول کا نہ دینا ہے۔

10728

(۱۰۷۲۸) حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمْ یَجِیْٔ أَہْلُہَا بَعْد۔
(١٠٧٢٨) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نہ لوٹا اس کے اھل اس کے بعد۔

10729

(۱۰۷۲۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْقِدْرُ وَالرَّحَی ۔ وَقَالَ بَعْضُہُمْ : الْفَأْسُ۔
(١٠٧٢٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ دیگچی اور پن چکی ہے، اور بعض حضرات فرماتے ہیں اس سے مراد کدال ہے۔

10730

(۱۰۷۳۰) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُبَیْطٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، قَالَ : الزَّکَاۃُ۔
(١٠٧٣٠) حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زکوۃ ہے۔

10731

(۱۰۷۳۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : الْقِدْرُ وَالدَّلْوُ۔
(١٠٧٣١) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ دیگچی اور ڈول مراد ہیں۔

10732

(۱۰۷۳۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، مِثْلَہُ۔
(١٠٧٣٢) حضرت عبداللہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

10733

(۱۰۷۳۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ ، عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : ہِیَ الزَّکَاۃُ۔
(١٣١٣٣) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اس سے مراد زکوۃ ہے۔

10734

(۱۰۷۳۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مِثْلَ حَدِیثِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔
(١٠٧٣٤) حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث کی مثل منقول ہے۔

10735

(۱۰۷۳۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ ؛ أَنَّ أَبَا العُبَیدِین سَأَلَ عَبْدَ اللہِ عَنِ الْمَاعُونِ ؟ قَالَ : ہُوَ الْفَأْسُ وَالْقِدْرُ وَالدَّلْوُ۔
(١٠٧٣٥) حضرت یحییٰ بن الجزار فرماتے ہیں کہ ابو العبیدین نے حضرت عبداللہ سے الماعون کے متعلق دریافت فرمایا، آپ نے فرمایا اس سے مراد کدال، دیگچی اور ڈول ہے۔

10736

(۱۰۷۳۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ أَبِی عُمَر ، عَنْ یَحْیَی ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ ، قَالَ : الْمَاعُونُ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٧٣٦) حضرت ابن الحنفیہ سے مروی ہے کہ الماعون سے مراد زکوۃ ہے۔

10737

(۱۰۷۳۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : الْمَاعُونُ ہُوَ الْمَالُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ۔
(١٠٧٣٧) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ الماعون سے قریش کی زبان میں مال ہے۔

10738

(۱۰۷۳۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ بسَّامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عِکْرِمَۃَ عَنِ الْمَاعُونِ ؟ فَقَالَ : الْفَأْسُ وَالْقِدْرُ وَالدَّلْوُ۔
(١٠٧٣٨) حضرت بسام فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ سے الماعون کے متعلق دریافت فرمایا۔ آپ نے فرمایا وہ کدال، دیگچی اور ڈول ہے۔

10739

(۱۰۷۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : ہُوَ الْمَتَاعُ ۔ وَقَالَ عَلِیٌّ : ہُوَ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٧٣٩) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سامان ہے، اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ زکوۃ مراد ہے۔

10740

(۱۰۷۴۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ : الْمَاعُونُ الزَّکَاۃُ الْمَفْرُوضَۃُ۔
(١٠٧٤٠) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ الماعون سے مراد فرض زکوۃ ہے۔

10741

(۱۰۷۴۱) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : عَیَّرْنَا صَاعَ الْمَدِینَۃِ فَوَجَدْنَاہُ یَزِیدُ مِکْیَالاً عَلَی الْحَجَّاجِیِّ۔
(١٠٧٤١) حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے مدینہ منورہ کے صاع کی پیمائش کی تو اس کو صاع حجاجی (حجاج بن یوسف کا صاع) سے کیل میں زیادہ پایا۔

10742

(۱۰۷۴۲) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَۃَ ، قَالَ : الْحَجَّاجِیُّ صَاعُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔
(١٠٧٤٢) حضرت موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں کہ صاع حجاجی حضرت عمربن خطاب کا صاع (کے مثل) تھا۔

10743

(۱۰۷۴۳) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَنْ أَبِی شِہَابٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ فُضَیْلٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : الْقَفِیزُ الْحَجَّاجِیُّ ہُوَ الصَّاعُ۔
(١٠٧٤٣) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ قفیز حجاجی ایک صاع تھا۔

10744

(۱۰۷۴۴) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ، عَنْ مُغِیرَۃَ، قَالَ: مَا کَانَ یُفْتِی فِیہِ إبْرَاہِیمُ فِی کَفَّارَۃِ یَمِینٍ ، أَوْ فِی الشِّرَائِ ، أَوْ فِی إطْعَامِ سِتِّینَ مِسْکِینًا، وَفِیمَا قَالَ فِیہِ: الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ، قَالَ: کَانَ یُفْتِی بِقَفِیزِ الْحَجَّاجِیِّ، قَالَ: ہُوَ الصَّاعُ۔
(١٠٧٤٤) حضرت مغیرہ فرماتے ہیں کہ کفارہ یمین، خریدو فروخت، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا، عشر اور نصف عشر کی ادائیگی کے بارے میں حضرت ابراہیم کا فتویٰ قفیز حجاجی تھا جو کہ ایک صاع کا تھا۔

10745

(۱۰۷۴۵) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حَسَنًا یَقُولُ : صَاعُ عُمَرَ ثَمَانیَۃُ أَرْطَالٍ ۔ وَقَالَ شَرِیکٌ : أَکْثَرُ مِنْ سَبْعَۃِ أَرْطَالٍ وَأَقَلُّ مِنْ ثَمَانِیَۃٍ۔
(١٠٧٤٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کا صاع آٹھ رطل کا تھا۔ حضرت شریک فرماتے ہیں کہ سات رطل سے زیادہ اور آٹھ سے کم تھا۔

10746

(۱۰۷۴۶) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِی جُحَیْفَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِینَا سَاعِیًا ، فَأَخَذَ الصَّدَقَۃَ مِنْ أَغْنِیَائِنَا ، فَقَسَمَہَا فِی فُقَرَائِنَا ، وَکُنْت غُلاَمًا یَتِیمًا فَأَعْطَانِی مِنْہَا قَلُوصًا۔ (ترمذی ۶۴۹۔ دارقطنی ۷)
(١٠٧٤٦) حضرت ابو جحیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے پاس صدقات وصول کرنے والا بھیجا، انھوں نے ہمارے اغنیاء سے زکوۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کردیا۔ اس وقت میں ایک یتیم لڑکا تھا انھوں نے مجھے بھی ایک جوان اونٹنی عطا کی۔

10747

(۱۰۷۴۷) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : سُئِلَ عُمَرُ عَمَّا یُؤْخَذُ مِنْ صَدَقَاتِ الأَعْرَابِ ، کَیْفَ یُصْنَعُ بِہَا ؟ فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّہِ ، لأَرُدَّنَّ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ ، حَتَّی تَرُوحَ عَلَی أَحَدِہِمْ مِئَۃ نَاقَۃٍ ، أَوْ مِئَۃ بَعِیرٍ۔
(١٠٧٤٧) حضرت عمر فاروق سے دریافت کیا گیا کہ دیہاتیوں کے صدقات کے ساتھ کیا کیا جائے۔ (کہاں خرچ کیے جائیں ؟ ) آپ نے فرمایا خدا کی قسم میں صدقات کو ان پر لوٹاتا رہوں گا یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس شام کے وقت سو اونٹنیاں یا سو اونٹ ہوں۔

10748

(۱۰۷۴۸) حَدَّثَنَا جَرِیر بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ مُغِیرَۃَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ؛ أَخَذَ نِصْفَ صَدَقَاتِ الأَعْرَابِ ، وَرَدَّ نِصْفَہَا فِی فُقَرَائنَا۔
(١٠٧٤٨) حضرت مغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز دیہاتیوں سے نصف صدقات وصول فرماتے اور نصف لوٹا دیتے ان کے فقراء میں۔

10749

(۱۰۷۴۹) حَدَّثَنَا أَزْہَرُ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ : کَانَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ یَقْسِمُ صَدَقَۃَ عُمَرَ ، فَیَأْتِیہِ الرَّجُلُ ذُو ہِیئَۃٍ قَدْ أَعْطَاہُ ، فَیَقُولُ : أَعْطِنِی ، فَیُعْطِیہ وَلاَ یَسْأَلُہُ۔
(١٠٧٤٩) حضرت سالم بن عبداللہ حضرت عمر فاروق کے صدقات تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ ان کے پاس جب کوئی (فقیروں کی) ہیئت والا شخص آتا تو وہ اس کو عطا فرماتے۔ وہ کہتا کہ مجھے عطا کرو تو وہ اس کو عطا فرماتے اور اس سے سوال نہ فرماتے۔

10750

(۱۰۷۵۰) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُفَضَّلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَہلٍ، قَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُ عُثْمَانَ فِی طَرِیقِ مَکَّۃَ ، وَإِنَّ الصَّدَقَاتِ لَتُسَاقُ مَعَہُ ، فَیَحْمِلُ عَلَیْہَا الرَّاجِلَ المُنْقَطِع بِہِ۔
(١٠٧٥٠) حضرت عبد الرحمن بن عمرو بن سھل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان کو مکہ کے راستہ میں دیکھا۔ اور زکوۃ کے مویشی ان کے ساتھ ہانکے جا رہے تھے۔ حضرت عثمان جدا ہونے والے پیادے کو اس پر سوار کردیتے۔

10751

(۱۰۷۵۱) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ شَرِیکِ بْنِ نَمْلَۃَ ، قَالَ : بَعَثَنِی عَلِیٌّ سَاعِیًا عَلَی الصَّدَقَۃِ ، قَالَ : فَصَحِبَنِی أَخِی ، فَتَصَدَّقْت ، قَالَ : فَحَمَلْت أَخِی عَلَی بَعِیرٍ ، فَقُلْتُ : إِنْ أَجَازَہُ عَلِیٌّ ، وَإِلاَّ فَہُوَ مِنْ مَالِی ، فَلَمَّا قَدِمْت عَلَیْہِ قَصَصْت عَلَیْہِ قِصَّۃَ أَخِی ، فَقَالَ : لَکَ فِیہِ نَصِیبٌ۔
(١٠٧٥١) حضرت شریک بن نملہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھے صدقات و زکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا، میرا بھائی بھی میرے ساتھ ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کو اونٹ پر سوار کردیا، میں نے کہا اگر حضرت علی نے اجازت دیدی تو ٹھیک ہے وگرنہ یہ میرے مال مں ے سے ہے۔ جب میں واپس تو حضرت علی کو اپنے بھائی کا قصہ سنایا آپ نے فرمایا : اس میں تیرا بھی حصہ ہے۔

10752

(۱۰۷۵۲) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَسْلَمَ ؛ أَنَّ عُمَرَ بَعَثَہُ بِإِبِلٍ مِنَ الصَّدَقَۃِ إلَی الْحِمَی ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَصْدُرَ ، قَالَ : اعْرِضْہَا عَلَیَّ ، فَعَرَضْتہَا عَلَیْہِ وَقَدْ جَعَلْتُ جَہَازِی عَلَی نَاقَۃٍ مِنْہَا ، فَقَالَ : لاَ أُمَّ لَکَ ، عَمَدْت إلَی نَاقَۃٍ تُحْیِی أَہْلَ بَیْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ تَحْمِلُ عَلَیْہَا جَہَازَک ؟ أَفَلاَ ابْنَ لَبُونٍ بَوَّالاً ، أَوْ نَاقَۃً شَصُوصًا۔
(١٠٧٥٢) حضرت سالم سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت اسلم کو زکوۃ کے اونٹ دے کر حمی مقام کی طرف بھیجا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں واپس لوٹنے لگا تو فرمایا ان کو میرے سامنے پیش کر، میں نے اس حال میں پیش کیا کہ ان میں سے ایک اونٹنی پر میرا سامان تھا۔ آپ نے (غصہ میں) فرمایا تیری ماں نہ رہے۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اونٹنی کے ذریعہ مسلمانوں کے اہل بیت کو زندہ کیا جائے تو نے اس پر اپنا سامان لاد دیا کیا بہت زیادہ پیشاب کرنے والا ابن لبون یا کم دودھ دینے والی اونٹنی نہ تھی (اس کام کیلئے) ۔

10753

(۱۰۷۵۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ أَبِی الْحُوَیْرِثِ ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : لَیْسَ فِی الْمَمْلُوکِ زَکَاۃٌ إِلاَّ مَمْلُوکٌ تَمْلِکُہُ۔
(١٠٧٥٣) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ غلاموں پر صدقہ نہیں ہے مگر وہ غلام جس کا (تنہا) تو مالک ہے۔

10754

(۱۰۷۵۴) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ ، عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ أَتَیْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الأَرْقَمِ ، قَالَ وَکَانَ عَلَی بَیْتِ الْمَالِ فِی إمْرَۃِ عُمَر وَفِی إمْرَۃِ عُثْمَانَ وَہُوَ یَقْسِمُ صَدَقَۃً بِالْمَدِینَۃِ ، فَلَمَّا رَآنِی ، قَالَ : مَا جَائَ بِکَ یَا أُمَّ زِیَادٍ ، قَالَتْ قُلْتُ لَہُ : لِمَا جَائَ لَہُ النَّاسُ ، قَالَ ہَلْ عَتَقْتِ بَعْدُ ؟ قُلْتُ : لاَ ، فَبَعَثَ إلَی بَیْتِہِ فَأُتِیَ بِبُرْدٍ فَأَمَرَ لِی بِہِ ، وَلَمْ یَأْمُرْ لِی مِنَ الصَّدَقَۃِ بِشَیْئٍ لأَنِّی کُنْت مَمْلُوکَۃً۔
(١٠٧٥٤) حضرت زیاد بن ابو مریم اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ حضرت عبداللہ بن ارقم کے پاس آئیں۔ وہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی امارت میں بیت المال (کے نگران) تھے۔ اور وہ صدقہ (زکوۃ ) تقسیم فرما رہے تھے مدینہ والوں کے ساتھ، جب انھوں نے مجھے دیکھا تو فرمایا : اے ام زیاد تو یہاں کیوں آئی ؟ تو میں نے جواب دیا کہ جس مقصد کے لیے باقی لوگ آئے ہیں میں بھی اس ہی مقصد سے آئی ہوں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا تو آزاد ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں، تو انھوں نے کسی کو گھر بھیجا جو چادر لے کر آیا۔ آپ نے وہ مجھے دے دی۔ لیکن صدقہ (زکوۃ ) میں سے کچھ نہ دیا۔ کیونکہ میں اس وقت مملوکہ تھی۔

10755

(۱۰۷۵۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ عُمَر بْنِ ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : لاَ تُطْعِمُوا ہَؤُلاَئِ السُّودَانِ مِنْ أَضَاحِیکُمْ فَإِنَّمَا ہِیَ أَمْوَالُ أَہْلِ مَکَّۃَ۔
(١٠٧٥٥) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ مت کھلاؤ ان کالے (غلاموں کو) اپنی قربانیوں میں سے۔ یہ تو اہل مکہ کے اموال ہے۔

10756

(۱۰۷۵۶) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُتَصَدَّقَ عَلَی عَبِیدِ الأَعْرَابِ۔ (طبرانی ۳۲۳۳)
(١٠٧٥٦) حضرت لیث سے مروی ہے کہ حضرت سالم بدو غلاموں پر صدقہ کرنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

10757

(۱۰۷۵۷) حَدَّثَنَا عبد الرحمن وَ وَکِیعٌ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَیْدَۃَ ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَدَنِیِّ ، قَالَ خَصْلَتَانِ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکِلُہُمَا إلَی أَحَدٍ مِنْ أَہْلِہِ کَانَ یُنَاوِلُ الْمِسْکِینَ بِیَدِہِ وَیَضَعُ الطَّہُورَ لِنَفْسِہِ۔
(١٠٧٥٧) حضرت عباس بن عبد الرحمن المدنی فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو عادتیں اپنے اہل میں سے کسی کے سپرد نہ فرماتے تھے۔ ایک یہ کہ مسکین کو اپنے ہاتھ سے عطا فرماتے تھے، اور دوسرا اپنے وضو کا پانی خود رکھتے تھے۔

10758

(۱۰۷۵۸) وَکِیعٌ، عَنْ أَبِی الْمِنْہَالِ، قَالَ: رَأَیْتُ عَلِیَّ بْنَ حُسَیْنٍ لَہُ جُمَّۃٌ وَعَلَیْہِ مِلْحَفَۃٌ وَرَأَیْتُہ یُنَاوِلُ الْمِسْکِینَ بِیَدِہِ۔
(١٠٧٥٨) حضرت ابو المنہال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن حسین کو دیکھا آپ کے بال کندھوں تک تھے اور آپ پر چادر تھی، اور میں نے آپ کو دیکھا آپ اپنے ہاتھ سے مسکین کو عطا کر رہے تھے۔

10759

(۱۰۷۵۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُہ عَنِ الرَّجُلِ یُسَلِّفُ إلَی أَہْلِ الأَرْضِ أو یَکُونُ لَہُ الدَّیْنُ أَیُزَکِّیہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ۔
(١٠٧٥٩) حضرت جابر سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے مال کو بطور مضاربت کسی کو دے رکھا ہے یا اس کا قرض کس نے دینا ہے تو کیا وہ زکوۃ ادا کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ” جی ہاں “۔

10760

(۱۰۷۶۰) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : لَیْسَ فِی مُضَارَبَۃٍ زَکَاۃٌ لأَنَّہُ لاَ یَدْرِی مَا صُنِعَ۔
(١٠٧٦٠) حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ مضاربۃ (مال) پر زکوۃ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا کیا گیا۔

10761

(۱۰۷۶۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ (وَالْغَارِمِینَ) ، قَالَ : الْمُنْفِقِینَ فِی غَیْرِ فَسَادٍ ، (وَابْنِ السَّبِیلِ) الْمُجْتَازُ عَلَی الأَرْضِ إلَی الأَرْضِ۔
(١٠٧٦١) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (والغارمین) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بغیر فساد کے خرچ کرتے ہیں اور ابن السبیل سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک زمین سے دوسری زمین (ایک جگہ سے دوسری جگہ) کی طرف چلتے ہیں (سفر کرتے ہیں) ۔

10762

(۱۰۷۶۲) عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَد ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ ثَلاَثَۃٌ مِنَ الْغَارِمِینَ: رَجُلٌ ذَہَبَ السَّیْلُ بِمَالِہِ وَرَجُلٌ أَصَابَہُ حَرِیقٌ فَذَہَبَ بِمَالِہِ , وَرَجُلٌ لَہُ عِیَالٌ وَلَیْسَ لَہُ مَالٌ, فَہُوَ یَدَّانُ وَیُنْفِقُ عَلَی عِیَالِہِ۔
(١٠٧٦٢) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تین طرح کے لوگ غارمین میں سے ہیں۔ ایک وہ شخص جس کا مال سیلاب میں چلا گیا، دوسرا وہ شخص جس کے مال کو آگ لگ گئی، اور تیسرا وہ شخص جس کے اہل و عیال تو ہیں لیکن اس کے پاس مال نہیں ہے۔ اور وہ ادھار لے کر اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے۔

10763

(۱۰۷۶۳) وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ لِلْغَارِمِ : یَنْبَغِی الإِمَامُ أَنْ یَقْضِیَ عَنْہُ۔
(١٠٧٦٣) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ امام کو چاہیے کہ غارم کیلئے کچھ (مال کا) فیصلہ کرے۔

10764

(۱۰۷۶۴) الزُّبَیْرِیُّ أَبُو أَحْمَدَ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ ، عَنِ الْغَارِمِینَ : قَالَ أَصْحَابُ الدَّیْنِ ، وَابْنُ السَّبِیلِ ، وَإِنْ کَانَ غَنِیًّا۔
(١٠٧٦٤) حضرت معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام زہری سے غارمین کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا اس سے مراد قرض والے لوگ اور مسافر ہیں اگرچہ وہ غنی ہو۔

10765

(۱۰۷۶۵) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ، عَن رَیْحَانَ بْنِ یَزِیدَ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ ، وَلاَ لِذِی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔ (ترمذی ۶۵۲۔ ابوداؤد ۱۶۳۱)
(١٠٧٦٥) حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : غنی اور قوی کیلئے صدقہ (زکوۃ ) حلال نہیں ہے۔

10766

(۱۰۷۶۶) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی حَصِینٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ ، وَلاَ لِذِی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔
(١٠٧٦٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صدقہ غنی اور قوی کیلئے حلال نہیں۔

10767

(۱۰۷۶۷) عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ حُبْشِیِّ بْنِ جُنَادَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْمَسْأَلَۃُ لاَ تَحِلُّ لِغَنِیٍّ ، وَلاَ لِذِی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔
(١٠٧٦٧) حضرت حبشی بن جنادہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ سوال کرنا غنی اور قوی کے لیے جائز نہیں۔

10768

(۱۰۷۶۸) عَبْدُ الرَّحِیمِ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی رَجُلاَنِ أَنَّہُمَا أَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلاَنِہِ الصَّدَقَۃَ ، قَالَ فَرَفَّعَ فِیہِم الْبَصَرَ وَصَوَّبَہُ ، وَقَالَ : إنَّکُمَا لَجَلْدَانِ ، فَقَالَ : أَمَا إِنْ شِئْتُمَا أَعْطَیْتُکُمَا وَلاَ حَظَّ فِیہَا لِغَنِیٍّ ، وَلاَ لِقَوِیٍّ مُکْتَسِبٍ۔ (ابوداؤد ۱۶۳۰۔ احمد ۵/۳۶۲)
(١٠٧٦٨) حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار فرماتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے خبر دی کہ وہ دونوں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صدقہ (زکوۃ ) کا سوال کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ راوی فرماتے ہیں کہ آپ نے تیزی سے نظروں کو ان کے لیے اٹھایا اور ان کو درست کیا اور فرمایا تم دونوں تو قوی اور صحت مند ہو۔ پھر فرمایا اگر تم چاہو تو میں تم دونوں کو عطا کر دوں، (لیکن) غنی اور کمانے والے قوی کے لیے کوئی حصہ (صدقات و زکوۃ میں) نہیں ہے۔

10769

(۱۰۷۶۹) ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : لاَ تَنْبَغِی الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ ، وَلاَ لِذِی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔
(١٠٧٦٩) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ غنی اور قوت والے کے لیے صدقہ (زکوۃ ) لینا مناسب نہیں ہے۔

10770

(۱۰۷۷۰) حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِی الزُّہْرِیِّ ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ تَزَالُ الْمَسْأَلَۃُ بِأَحَدِکُمْ حَتَّی یَلْقَی اللَّہَ وَلَیْسَ فِی وَجْہِہِ مُزْعَۃُ لَحْمٍ۔ (بخاری ۱۴۷۴۔ مسلم ۱۰۳)
(١٠٧٧٠) حضرت حمزہ بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص جو ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایک حال میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔

10771

(۱۰۷۷۱) جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ لَوْ یَعْلَمُ صَاحِبُ الْمَسْأَلَۃِ مَا فِیہَا مَا سَأَلَ۔ (طبرانی ۱۲۶۱۶)
(١٠٧٧١) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اگر سوال کرنے والا (مانگنے والا) جان لے جو اس پر وعیدیں ہیں تو وہ (کبھی بھی) سوال نہ کرے۔

10772

(۱۰۷۷۲) أَبُو الأَحْوَصِِ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : مَنْ سَأَلَ النَّاسَ مِنْ غَیْرِ فَاقَۃٍ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَفِی وَجْہِہِ خُدُوشٌ ، أَوْ خُمُوشٌ۔
(١٠٧٧٢) حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ جو لوگ بغیر فاقہ کے سوال کرتے ہیں وہ لوگ قیامت کے دن اس حال میں ہوں گے کہ اپنے چہرے کو لکڑی یا ناخون سے چھیل رہے ہوں (کھرچ رہے ہوں) گے۔

10773

(۱۰۷۷۳) ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، قَالَ : قَالَتْ أُمُّ الدَّرْدَائِ لأَبِی الدَّرْدَائِ : إِنِ احْتَجْتُ بَعْدَکَ آکُلُ الصَّدَقَۃَ؟ قَالَ: لاَ ، اعْمَلِی وَکُلِی قَالَتْ: إِنْ ضَعُفْت عَنِ الْعَمَلِ ، قَالَ: الْتَقِطِی السُّنْبُلَ، وَلاَ تَأْکُلِی الصَّدَقَۃَ۔
(١٠٧٧٣) حضرت عمرو بن میمون سے مروی ہے حضرت ام الدردائ نے حضرت ابو الدردائ سے فرمایا کہ اگر میں آپ کے بعد محتاج ہوگئی تو کیا میں صدقہ و زکوۃ (سوال کر کے) کھا سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں، کام کرنا اور کھانا، انھوں نے پھر فرمایا اگر میں کام کرنے عاجز آگئی ضعف کی وجہ سے تو ؟ آپ نے فرمایا گیہوں کے خوشے چن لینا لیکن صدقہ و زکوۃ (ہرگز سوال کر کے) نہ کھانا۔

10774

(۱۰۷۷۴) جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکَ بْنِ عُمَیْرٍ ، عَنْ عُقْبَۃَ ، أَوْ فُلاَنِ بْنِ عُقْبَۃَ ، عَنِ ابْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کُلُّ الْمَسْأَلَۃِ کَدٌّ فِی وَجْہِ الرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ أَنْ یَسْأَلَ سُلْطَانًا، أَوْ فِی أَمْرٍ لاَ بُدَّ مِنْہُ۔ (ترمذی ۶۸۱۔ ابوداؤد ۱۶۳۶)
(١٠٧٧٤) آدمی کا ہر سوال قیامت کے دن اس کے چہرہ میں ایک نشان ہوگا الا یہ کہ وہ بادشاہ سے یا کسی بہت ضروری حاجت کی وجہ سے سوال کرے۔

10775

(۱۰۷۷۵) ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَہُمْ تَکَثُّرًا فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرَۃً فَلْیَسْتَقِلَّ مِنْہُ ، أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ۔ (مسلم ۱۰۵۔ احمد ۲/۲۳۱)
(١٠٧٧٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شخص لوگوں سے ان کے مال کا سوال کرے مال کی زیادتی کے لیے تو بیشک وہ انگارے کا سوال کررہا ہے پس چاہے تو اس انگارے کو کم کرلے یا چاہے تو زیادہ کرلے۔

10776

(۱۰۷۷۶) ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، عَنْ حُبْشِیِّ السَّلُولِیِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : مَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِیُثْرِیَ بِہِ مَالَہُ ، فَإِنَّہُ خُمُوشٌ فِی وَجْہِہِ وَرَضْفٌ مِنْ جَہَنَّمَ یَأْکُلُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ , وَذَلِکَ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ۔
(١٠٧٧٦) حضرت حبشی السلولی فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص لوگوں سے اپنا مال زیادہ کرنے کے لیے سوال کرتا ہے تو یہ سوال اس کے چہرہ میں خراش اور جہنم کا گرم پتھر ہے جس کو بروز قیامت کھائے گا۔

10777

(۱۰۷۷۷) أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِیَثْرَی بِہِ مَالَہُ فَإِنَّمَا ہُوَ رُضَفٌ مِنْ جَہَنَّمَ , فَمَنْ شَائَ فَلْیُقِلَّ وَمَنْ شَائَ فَلْیُکْثِرْ۔
(١٠٧٧٧) حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جو لوگوں سے سوال کرے تاکہ ان کے مال سے مالدار ہوجائے بیشک اس کیلئے جہنم کے گرم پتھر ہیں، پس جو چاہے تو پتھر کم کرلے اور جو چاہے تو زیادہ کرلے۔

10778

(۱۰۷۷۸) ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ أَحْبُلاً فَیَأْتِیَ الْجَبَلَ , فَیَحْتَطِبَ مِنْہُ فَیَبِیعَہُ , وَیَأْکُلَ وَیَتَصَدَّقَ , خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ۔ (بخاری ۱۴۸۰۔ مسلم ۱۰۷)
(١٠٧٧٨) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص رسی لے کر پہاڑ پر آئے اور لکڑیاں جمع کر کے ان کو فروخت کرے اور اس میں سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ سوال کرے۔

10779

(۱۰۷۷۹) ابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنِ الزُّبَیْرِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ أَحْبُلاً فَیَذْہَبَ فَیَأْتِیَ بِحُزْمَۃٍ مِنْ حَطَبٍ عَلَی ظَہْرِہِ فَیَبِیعَہَا فَیَکُفَّ اللَّہُ بِہَا وَجْہَہُ , خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ شَیْئًا , أَعْطَوْہُ ، أَوْ مَنَعُوہُ۔ (بخاری ۳۰۷۵۔ احمد ۱/۱۶۷)
(١٠٧٧٩) حضرت زبیر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص رسی لے کر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لے کر آئے اور ان کو فروخت کرے پس اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے اس کے چہرے کو روکے گا، بہتر ہے اس کیلئے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال کرے پھر وہ اس کو عطا کریں یا نہ کریں۔

10780

(۱۰۷۸۰) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ وَالْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ مَنْ سَأَلَ تَکَثُّرًا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَفِی وَجْہِہِ خُمُوشٌ۔
(١٠٧٨٠) حضرت ابن معقل فرماتے ہیں کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرے کثرت کے لیے وہ قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ اپنے چہرے کو نوچ رہا ہوگا۔

10781

(۱۰۷۸۱) حَفْصٌ وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : جَائَ سَائِلٌ فَسَأَلَ فَأَعْطَاہُ شَیْئًا ، فَقِیلَ لَہُ : تُعْطِیہ وَہُوَ مُوسِرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ سَائِلٌ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ وَلَیَتَمَنَّیَنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، أَنَّہَا کَانَتْ رَضْفَۃً فِی یَدِہِ۔
(١٠٧٨١) حضرت ابن ابی لیلیٰ سے مروی ہے کہ حضرت ابو ذر کے پاس ایک سائل آیا تو آپ نے اس کو کچھ عطا فرمایا، آپ کو (لوگوں نے) کہا آپ نے اس کو (کیوں) دیا حالانکہ وہ تو خوشحال ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ سائل ہے اور ہر سوال کرنے والوں کا حق ہوتا ہے اور وہ قیامت کے دن ضرور تمنا کریں گے (کہ وہ سوال نہ کرتے) بیشک ان کے ہاتھ میں (قیامت کے دن) گرم پتھر ہوگا۔

10782

(۱۰۷۸۲) ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَأَلَ وَلَہُ أُوقِیَّۃٌ ، أَوْ عَدْلُہَا فَہُوَ یَسْأَلُ النَّاسَ إلْحَافًا۔ (ابوداؤد ۱۶۲۴۔ مالک ۱۱)
(١٠٧٨٢) حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان پہنچا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اس حال میں سوال کرے کہ اس کے پاس چالیس درہم یا اس کے برابر مال ہو پس وہ لوگوں سے چمٹ کر، پیچھے پڑ کر سوال کرنے والا ہے۔

10783

(۱۰۷۸۳) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ عَطِیَّۃَ ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِغَنِیٍّ إِلاَّ لِثَلاَثَۃٍ : فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوِ ابْنِ السَّبِیلِ ، أَوْ رَجُلٍ کَانَ لَہُ جَارٌ فَتُصُدِّقَ عَلَیْہِ فَأَہْدَی لَہُ۔ (ابوداؤد ۱۶۳۴۔ بیہقی ۲۳)
(١٠٧٨٣) حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا زکوۃ کسی غنی کے لیے حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے، یا تو وہ اللہ کے راستہ میں ہو، یا وہ مسافر ہو، یا اس کے کسی پڑوسی کو زکوۃ دی گئی ہو اور وہ س کو ہدیہ کر دے۔

10784

(۱۰۷۸۴) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ إِلاَّ لِخَمْسَۃٍ : رَجُلٍ اشْتَرَاہَا بِمَالِہِ ، أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ عَلَیْہَا ، أَوِ ابْنِ السَّبِیلِ ، أَوْ فِی سَبِیلِ اللہِ ، أَوْ رَجُلٍ کَانَ لَہُ جَارٌ فَتُصُدِّقَ عَلَیْہِ فَأَہْدَی لَہُ۔ (مالک ۲۹)
(١٠٧٨٤) حضرت عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صدقہ پانچ اشخاص کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے، اس شخص کیلئے جو اس کو اپنے مال سے خریدتا ہے یا وہ شخص جو اس پر کام کرتا ہو، یا مسافر کیلئے، یا وہ شخص جو اللہ کی راہ میں ہے، یا اس کے کسی پڑوسی کو زکوۃ دی گئی ہو اور وہ اس کو ہدیہ کر دے۔

10785

(۱۰۷۸۵) ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنِ الْمُجَالِدِ، عَنِ الشَّعْبِیِّ، عَنْ حُبْشِیِّ بْنِ جُنَادَۃَ السَّلُولِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ وَأَتَاہُ أَعْرَابِیٌّ فَسَأَلَہُ ، فَقَالَ : إنَّ الْمَسْأَلَۃَ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ لِفَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ۔
(١٠٧٨٥) حضرت حبشی بن جنادہ السلولی سے مروی ہے کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی سوال کرتا ہوا آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوال کرنا جائز نہیں ہے مگر اس فقر میں جو شدید اور سخت ہو اور اس قرض میں جو بھیانک اور شدید ہو۔

10786

(۱۰۷۸۶) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، أَنَّ سَائِلاً سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ ، وَعَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ فَقَالُوا : إِنْ کُنْت تَسْأَلُ لِدَیْنٍ مُفْظِعٍ ، أَوْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوَ قَالَ دَمٍ مُوجِعٍ فَإِنَّ الصَّدَقَۃَ تَحِلُّ لَک۔
(١٠٧٨٦) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک سائل نے حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر سے سوال کیا، سب حضرات نے اس کو فرمایا : اگر تو سوال کرتا ہے کہ تیرے اوپر بھیانک اور شدید قرض ہے یا بہت سخت فقر ہے یا تو نے خون بہا ادا کرنا ہے ورنہ تو قتل کردیا جائے گا تو پھر تیرے لیے سوال کرنا جائز ہے (وگرنہ نہیں) ۔

10787

(۱۰۷۸۷) الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ ، عَنْ ہَارُونَ بْنِ رِئَابٍ ، عَنْ کِنَانَۃَ بْنِ نُعَیْمٍ ، عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ الْمُخَارِقِ الْہِلاَلِیِّ ، قَالَ تَحَمَّلْت حَمَالَۃً فَأَتَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُہُ فِیہَا ، فَقَالَ : أَقِمْ یَا قَبِیصَۃُ ، حَتَّی تَأْتِیَنَا الصَّدَقَۃُ نَأْمُرْ لَکَ بِہَا ، قَالَ : قَالَ لِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا قَبِیصَۃُ ، إنَّ الْمَسْأَلَۃَ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ لأَحَدِ ثَلاَثَۃٍ : رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَۃً فَحَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتَّی یُصِیبَہَا ، ثُمَّ یُمْسِکُ , وَرَجُلٍ أَصَابَتْہُ جَائِحَۃٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَہُ فَحَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتَّی یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ ، ثُمَّ یُمْسِکُ , وَرَجُلٍ أَصَابَتْہُ فَاقَۃٌ حَتَّی یَقُولَ ثَلاَثَۃٌ مِنْ ذَوِی الْحِجَا مِنْ قَوْمِہِ قَدْ أَصَابَتْ فُلاَنًا فَاقَۃٌ , فَحَلَّتْ لَہُ الْمَسْأَلَۃُ حَتَّی یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ ، ثُمَّ یُمْسِکُ ، یَا قَبِیصَۃُ ، مَا سِوَاہُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَۃِ سُحْتٌ یَأْکُلُہَا صَاحِبُہَا۔ (مسلم ۱۰۹۔ ابوداؤد ۱۶۳۷)
(١٠٧٨٧) حضرت قبیصہ بن المخارق الھلالی فرماتے ہیں کہ میں مقروض ہوگیا تو میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سوال کرنے کی غرض سے حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے قبیصہ ٹھہر جا یہاں تک کہ ہمارے پاس صدقہ (کا مال) آجائے تو ہم اس میں سے تیرے لیے حکم فرمائیں۔ پھر مجھ سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سوال کرنا تین اشخاص کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ ایک وہ شخص جو مقروض ہوگیا ہو توا س کیلئے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس سے ادا کر دے اور پھر (سوال کرنے سے) رک جائے، دوسرا وہ شخص جس کو کوئی آفت پہنچے اور وہ اس کے مال کو ھلاک کر دے تو اس کیلئے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے رہن سہن کی زندگی کو کچھ تقویت پہنچے اور وہ پھر (سوال کرنے سے) رک جائے، اور تسرہا وہ شخص جس کو فاقہ پہنچے یہاں تک کہ تین صاحب رائے شخص اس کے قبیلہ کے یہ کہیں کہ تحقیق فلاں کو فاقہ پہنچا ہے، تو اس کئے نچ سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے رہن سہن کو تقویت ملے پھر وہ (سوال کرنے سے) رک جائے، اے قبیصہ ان کے علاوہ سوال کرنے والا حرام کھانے والا ہے۔

10788

(۱۰۷۸۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ فِی رَجُلٍ سَافَرَ وَہُوَ غَنِیٌّ فَنَفِدَ مَا مَعَہُ فِی سَفَرِہِ وَاحْتَاجَ ؟ قَالَ : یُعْطَی مِنَ الصَّدَقَۃِ فِی سَفَرِہِ لأَنَّہُ ابْنُ السَّبِیلِ۔
(١٠٧٨٨) حضرت ضحاک سے دریافت کیا گیا کہ ایک غنی شخص سفر میں ہو اور اس کا سارا مال حالت سفر میں ختم ہوجائے اور وہ محتاج ہوجائے تو اس کیلئے سوال کرنا کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کو حالت سفر میں صدقہ عطا کیا جائے گا کیونکہ وہ مسافر ہے۔

10789

(۱۰۷۸۹) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللَّہُ , وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللَّہُ , وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی۔ (بخاری ۱۴۲۷۔ مسلم ۹۵)
(١٠٧٨٩) حضرت حکیم بن حزام سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو مستغنی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو غنی فرما دیتا ہے، اور جو پاک دامنی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پاک دامن فرما دیتا ہے، اور اوپر والا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے۔

10790

(۱۰۷۹۰) ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدٍ وَعُرْوَۃَ ، عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی۔ (بخاری ۲۷۵۰۔ ترمذی ۲۴۶۳)
(١٠٧٩٠) حضرت حکیم بن حزام سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

10791

(۱۰۷۹۱) حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَۃَ یُحَدِّثُ عَنْ ہِلاَلِ بْنِ حِصْنٍ ، قَالَ : نَزَلْتُ دَارَ أَبِی سَعِیدٍ فَضَمَّنِی وَإِیَّاہُ الْمَجْلِسُ فَحَدَّثَنِی ، أَنَّہُ أَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ وَقَدْ عَصَبَ عَلَی بَطْنِہِ مِنَ الْجُوعِ ، قَالَ : فَأَتَیْت النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَکْتُ مِنْ قَوْلِہِ وَہُوَ یَقُولُ : مَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفُّہُ اللَّہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللَّہُ وَمَنْ سَأَلَنَا إمَّا أَنْ نَبْذُلَ لَہُ , وَإِمَّا أَنْ نُوَاسِیَہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ ، أَو یَسْتَعْفِفْ عَنَّا خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَنَا ، قَالَ : فَرَجَعْت فَمَا سَأَلْتُہُ شَیْئًا۔ (نسائی ۲۳۶۹۔ احمد ۳/۴۴)
(١٠٧٩١) حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ ایک دن بھوک کی وجہ سے میں نے اپنے پیٹ پر پٹی باندھ لی، پھر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص پاکدامنی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پاکدامن رکھتا ہے اور جو استغناء چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی فرما دیتا ہے اور جس نے ہم سے سوال کیا یا تو ہم اس کو خرچہ دے دیں گے یا اس کی امداد کردیں گے۔ (لیکن) جو مستغنی اور (سوال کرنے سے) پاکدامن رہا ہم سے یہ بہتر ہے اس سے کہ ہم سے سوال کرے۔ راوی فرماتے ہیں کہ میں واپس لوٹ گیا اور کسی چیز کا سوال نہ کیا۔

10792

(۱۰۷۹۲) عَلِیُّ بْنُ ہَاشِمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اسْتَغْنِ عَنِ النَّاسِ وَلَوْ بِقِصْمَۃِ سِوَاکٍ۔ (بزار ۹۱۳)
(١٠٧٩٢) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لوگوں سے سوال کرنے سے مستغنی رہو اگرچہ مسواک کا وہ ریزہ ہی کیوں نہ ہو جو دانتوں میں پھنسا ہو۔

10793

(۱۰۷۹۳) أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، وَابْنُ نُمَیْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْحَکَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، بِمِثْلِہِ، وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
(١٠٧٩٣) حضرت عبد الرحمن بن لیلیٰ سے اسی کے مثل منقول ہے لیکن انھوں نے مرفوعا روایت نہیں کیا۔

10794

(۱۰۷۹۴) وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ دِینَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ الْیَدَ الْعُلْیَا ہِیَ الْمُتَعَفِّفَۃُ۔
(١٠٧٩٤) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ اوپر والے ہاتھ سے مراد وہ ہاتھ ہے جو سوال کرنے سے بچا رہا۔

10795

(۱۰۷۹۵) ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : الْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَی وَخَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا أَبْقَتْ غِنًی وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ۔
(١٠٧٩٥) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور بہتر صدقہ وہ ہے جو غنیٰ کو باقی رکھے اور ان لوگوں سے ابتدا کر جو تیری کفالت میں ہیں۔

10796

(۱۰۷۹۶) حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَائِ ، عَنْ أَسْوَدَ بْنِ ہِلاَلٍ ، عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ زَہْدَمٍ ، قَالَ : انْتَہَی قَوْمٌ مِن ثَعْلَبَۃَ إلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَخْطُبُ وَہُوَ یَقُولُ : یَدُ الْمُعْطِی : الْعُلْیَا وَیَدُ السَّائِلِ : السُّفْلَی , وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ : أُمَّک وَأَبَاک وَأُخْتَکَ وَأَخَاک وَأَدْنَاک فَأَدْنَاک۔ (طیالسی ۱۲۵۷۔ مسندہ ۶۳۴)
(١٠٧٩٦) حضرت ثعلبہ بن زھدم سے مروی ہے کہ ثعلبہ کی قوم حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچی اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ دینے والا ہاتھ اوپر والا ہے اور لینے والا ہاتھ نیچے والا ہے اور دینے میں ان لوگوں سے ابتدا کر جو تیری کفالت میں ہیں۔ تیری ماں، تیرا باپ، تیری بہن، تیرا بھائی، جو تیرا قریبی ہے اور جو اس سے قریبی ہے۔

10797

(۱۰۷۹۷) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ النُّعْمَانِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الأَقْنَعِ الْبَاہِلِیِّ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ ، قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا فِی مَجْلِسٍ فِی الْمَدِینَۃِ , فَأَقْبَلَ رَجُلٌ لاَ تَرَی حَلْقَۃٌ إِلاَّ فَرُّوا مِنْہُ حَتَّی انْتَہَی إلَی الْحَلْقَۃِ الَّتِی کُنْت فِیہَا , فَثَبَتُّ وَفَرُّوا ، فَقُلْت : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَبُو ذَرٍّ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَقُلْت : مَا یَفِرُّ النَّاسُ مِنْک ؟ قَالَ : إنِّی أَنْہَاہُمْ ، عَنِ الْکُنُوزِ ، قَالَ : قُلْتُ : إنَّ أَعْطِیَاتِنَا قَدْ بَلَغَتْ وَارْتَفَعَتْ فَتَخَافُ عَلَیْنَا مِنْہَا ، قَالَ : أَمَّا الْیَوْمُ فَلاَ وَلَکِنَّہَا یُوشِکُ أَنْ تَکُونَ أَثْمَانَ دِینِکُمْ فَدَعُوہُمْ وَإِیَّاہَا۔
(١٠٧٩٧) حضرت احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی شریف میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ایک شخص مسجد میں آیا، مسجد میں موجود جو حلقہ بھی اسے دیکھتا اس سے بھاگتا۔ یہاں تک وہ آخری تک پہنچا کہ جس میں، میں تھا، لوگ تو بھاگ گئے لیکن میں وہاں ہی ثابت قدم موجود رہا۔ میں ان سے پوچھا آپ کون ہیں ؟ وہ فرمانے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ابو ذر ، میں نے عرض کیا کہ لوگ آپ سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ فرمایا اس لیے کہ میں ان کو خزانے (جمع کرنے سے) روکتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ کیا آپ ہمارے مالوں اور خزانوں کے زیادہ ہونے سے پریشان ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں البتہ ہوسکتا ہے کہ یہ مال و دولت ایک دن تمہارے لیے دین سے دوری کا باعث بن جائے۔

10798

(۱۰۷۹۸) ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ حُصَیْنٍ ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ ، قَالَ مَرَرْنَا عَلَی أَبِی ذَرٍّ بِالرَّبَذَۃِ فَسَأَلْنَاہ عَنْ مَنْزِلِہِ ، قَالَ: کُنْتُ بِالشَّامِ فَقَرَأَتْ ہَذِہِ الآیَۃَ (وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ ، وَلاَ یُنْفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ) ، فَقَالَ : مُعَاوِیَۃُ إنَّمَا ہِیَ فِی أَہْلِ الْکِتَابِ فَقُلْنَا : إِنَّہَا لَفِینَا وَفِیہِمْ۔
(٩٨ ١٠٧) حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو ذر کے پاس سے ربذہ مقام پر گذرے۔ ہم نے ان سے ان کی منزل کے بارے میں سوال کیا۔ فرمانے لگے کہ میں شام میں تھا میں نے یہ آیت پڑھی ! { وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْم } حضرت معاویہ نے فرمایا : بیشک اس کا مصداق اہل کتاب کے لوگ ہیں۔ ہم نے عرض کیا بیشک یہ ہم میں ہے اور ان میں بھی ہے۔

10799

(۱۰۷۹۹) ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّۃَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ ، قَالَ : وَالَّذِی لاَ إلَہَ غَیْرُہُ لاَ یُعَذِّبُ اللَّہُ رَجُلاً یَکْنِزُ فَیَمَسُّ دِرْہَمٌ دِرْہَمًا ، وَلاَ دِینَارٌ دِینَارًا , وَلَکِنْ یُوَسِّعُ جِلْدَہُ حَتَّی یُوضَعَ کُلُّ دِرْہَمٍ وَدِینَارٍ عَلَی حِدَتِہِ۔
(١٠٧٩٩) حضرت مسروق سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ تعالیٰ اس شخص کو عام عذاب نہیں دے گا جو مال یوں جمع کرتا ہے بلکہ اس کی کھال کو پھیلا جائے گا اور ہر درہم اور دینار کو اس کی کھال پر رکھا جائے گا کہ کوئی درہم درہم کو نہ چھوئے اور دینار دینار کو نہ چھوئے۔

10800

(۱۰۸۰۰) أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ یَقُولُ فِی قولہ تعالی : {سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ} قَالَ {یُطَوَّقُونَ} ثُعْبَانًا بِفِیہِ زَبِیبَتَانِ یَنْہَشُہُ یَقُولُ أَنَا مَالُکَ الَّذِی بَخِلْتَ بِہِ۔
(١٠٨٠٠) حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ سے سنا وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک اژدھا کو طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا، اس کے منبر پر دو سیاہ نشان ہوں گے وہ پھنکارے گا اور کہے گا میں تیرا وہی مال ہوں جس میں تو بخل کرتا تھا۔

10801

(۱۰۸۰۲) یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْ صَاحِبِ إبِلٍ ، وَلاَ بَقَرٍ ، وَلاَ غَنَمٍ لاَ یُؤَدِّی حَقَّہَا إِلاَّ قَعَدَ لَہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ , تَطَؤُہُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِہَا , وَتَنْطَحُہُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِہَا , وَلَیْسَ فِیہَا یَوْمَئِذٍ جَمَّائُ ، وَلاَ مَکْسُورَۃُ الْقَرْنِ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللہِ ، وَمَا حَقُّہَا ؟ قَالَ إطْرَاقُ فَحْلِہَا , وَإِعَارَۃُ دَلْوِہَا , وَمَنِیحَتُہَا وَحَلْبُہَا عَلَی الْمَاء وَحَمْلٌ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللہِ۔ (مسلم ۲۷۔ احمد ۳/۳۲۱)
(١٠٨٠٢) حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی اونٹوں، گائے اور بکریوں والا شخص جس نے ان کا حق ادا نہیں کیا رکھا جائے گا قیامت کے دن برابر اور چٹیل میدان میں، جہاں ہر کھر والا جانور اس کو کھروں سے روندے گا اور ہر سینگ والا جانور اس کو سینگ سے مارے گا، اس دن کوئی جانور ایسا نہ ہوگا جس کے سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ان کا حق کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جفتی کیلئے اونٹ کسی کو (عاریۃ) دے دینا، اور اس کے ڈول کا عاریۃ دینا، اور اس کو کسی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے عاریۃ دینا، اور اونٹنی کا دودھ پانی کے گھاٹ کے پاس نکالنا (تاکہ مساکین بھی پی سکیں) اس کے دودھ کو پانی سے دور رکھنا، اور اس پر اللہ تعالیٰ کے راستہ میں سواری کرنا۔

10802

(۱۰۸۰۳) زَیْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی مُوسَی بْنُ عُبَیْدَۃَ ، قَالَ : حَدَّثَنِی عِمْرَانُ بْنُ أَبِی أُنَیْسٍ ، عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَوْ حَبِیبِی یَقُولُ : فِی الإِبِلِ صَدَقَتُہَا مَنْ جَمَعَ دِینَارًا ، أَوْ دِرْہَمًا ، أَوْ تِبْرًا ، أَوْ فِضَّۃً ، لاَ یُعِدُّہُ لِغَرِیمٍ ، وَلاَ یُنْفِقُہُ فِی سَبِیلِ اللہِ فَہُوَ کَیٌّ یُکْوَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (دارقطنی ۲۷۔ بیہقی ۱۴۷)
(١٠٨٠٣) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنایا فرمایا کہ میں نے اپنے محبوب سے سنا وہ فرماتے ہیں : اونٹ (کا حق) اس کا صدقہ کرنا ہے، جس نے دینار یا درہم جمع کیا یا چاندی جمع کی خواہ ڈلی ہو یا ثابت اور اس کو مہیا نہیں کیا گیا قرض خواہ کیلئے اور نہ ہی اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا تو وہ داغنے (کا آلہ ہے) قیامت کے دن اس سے داغا جائے گا۔

10803

(۱۰۸۰۴) جَرِیرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ فِی قولہ تعالی : {سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ} قَالَ : طَوْقٌ مِنْ نَارٍ۔
(١٠٨٠٤) حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے ارشاد { سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ آگ کا طوق ہوگا۔

10804

(۱۰۸۰۵) خَلَفُ بْنُ خَلِیفَۃَ ، عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ ، عَنْ أَبِی وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ فِی قولہ تعالی : (سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) قَالَ : ہُوَ الرَّجُلُ یَرْزُقُہُ اللَّہُ الْمَالَ فَیَمْنَعُ قَرَابَتَہُ الْحَقَّ الَّذِی فِیہِ فَیُجْعَلُ حَیَّۃً فَیُطَوَّقُہَا فَیَقُولُ : مَا لِی وَمَا لَکَ ؟ فَیَقُولُ الْحَیَّۃُ : أَنَا مَالُک۔
(١٠٨٠٥) حضرت مسروق اللہ پاک کے ارشاد { سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے وہ شخص مراد ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی لیکن اس نے قرابت دار کو اس کا حق ادا نہ کیا، تو وہ مال اس کے لیے سانپ بنادیا جائے گا جس کا اس کو طوق پہنایا جائے گا، تو وہ کہے گا، میرے اور تیرے درمیان کیا تعلق ہے ؟ (یعنی تو مجھ کو کیوں چمٹ گیا ہے ؟ ) سانپ اس سے کہے گا میں تیرا مال ہوں۔

10805

(۱۰۸۰۶) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أُتِیَ بِتَمْرٍ مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ فَتَنَاوَلَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ تَمْرَۃً فَلاَکَہَا فِی فِیہِ ، فَقَالَ لَہُ : رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : کَخٍْ کَخٍْ إنَّا لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔ (بخاری ۱۴۹۱۔ مسلم ۱۶۱)
(١٠٨٠٦) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صدقات (زکوۃ ) کی کھجوریں آئیں تو حضرت حسن بن علی نے اس میں سے ایک کھجور کھالی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو (پیار سے) ڈانٹا اور فرمایا ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

10806

(۱۰۸۰۷) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ وَأَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَۃَ ، عَنْ شَیْخٍ یُقَالُ لَہُ رَبِیعَۃُ بْنُ شَیْبَانَ ، قَالَ : قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رضی اللَّہُ عَنْہُما مَا تَذْکُرُ ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا تَعْقِلُ عَنْہُ ، قَالَ أَخَذْت تَمْرَۃً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ فَلُکْتہَا ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّا لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔ (احمد ۱/۲۰۰۔ طبرانی ۲۷۴۱)
(١٠٨٠٧) حضرت ربیعہ بن شہبان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بن علی سے دریافت کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس بات پر آپ کو نصیحت (تنبیہ) فرمائی تھی اور کس بات سے آپ کو روکا تھا ؟ حضرت حسن نے فرمایا میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی تھی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارے لیے صدقہ (کھانا) حلال نہیں ہے۔

10807

(۱۰۸۰۸) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَۃَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَدَ تَمْرَۃً ، فَقَالَ : لَوْلاَ أَنْ تَکُونَ مِنَ الصَّدَقَۃِ لأَکَلْتہَا۔ (بخاری ۲۰۵۵۔ مسلم ۱۶۶)
(١٠٨٠٨) حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کھجور ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اس میں سے ضرور تناول کرتا۔

10808

(۱۰۸۰۹) حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لِبَنِی ہَاشِمٍ ، وَلاَ لِمَوَالِیہِمْ۔
(١٠٨٠٩) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم اور غلاموں کیلئے صدقہ حلال نہیں ہے۔

10809

(۱۰۸۱۰) غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی رَافِعٍ ، عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلاً مِنْ بَنِی مَخْزُومٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ لأَبِی رَافِعٍ تَصْحَبُنِی کَیْمَا تُصِیبَ مِنْہَا ، فَقَالَ : لاَ حَتَّی آتِیَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَہُ فَقَالَ لَہُ : إنَّ الصَّدَقَۃَ لاَ تَحِلُّ لَنَا , وَمَوْلَی الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔ (ترمذی ۶۵۷۔ ابوداؤد ۱۶۴۷)
(١٠٨١٠) حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مخزوم کی طرف صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ اس شخص نے حضرت ابو رافع سے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ چلو تاکہ آپ کو بھی اس میں سے کچھ حصہ مل جائے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور قوم کے موالی بھی انہی میں سے ہیں۔ (ان کا بھی وہی حکم ہے) ۔

10810

(۱۰۸۱۱) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَرِیکٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ سَعِیدٍ بَعَثَ إلَی عَائِشَۃَ بِبَقَرَۃٍ مِنَ الصَّدَقَۃِ فَرَدَّتْہَا وَقَالَتْ إنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔
(١٠٨١١) حضرت ابن ابو ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن سعید نے حضرت عائشہ کی خدمت میں صدقہ (زکوۃ ) کی گائے بھیجی تو آپ نے یہ کہتے ہوئے وہ واپس بھیج دی کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل ہیں ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

10811

(۱۰۸۱۲) عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ احْتَطَبْت حَطَبًا فَبِعْتُہُ ، فَأَتَیْت بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ ، فَقَالَ : مَا ہَذَا قُلْتُ صَدَقَۃٌ، فَقَالَ لأَصْحَابِہِ کُلُوا ، وَلَمْ یَأْکُلْ۔ (احمد ۵/۴۳۸۔ حاکم ۱۰۸)
(١٠٨١٢) حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ لکڑیاں جمع کیں اور ان کو فروخت کر کے (ان کا منافع) لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا صدقہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کھاؤ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس میں سے تناول نہیں فرمایا۔

10812

(۱۰۸۱۳) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : أَتَیْتُ أُمَّ کُلْثُومٍ ابْنَۃَ عَلِیٍّ بِشَیْئٍ مِنَ الصَّدَقَۃِ فَرَدَّتْہَا وَقَالَتْ حَدَّثَنِی مَوْلًی لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَالُ لَہُ مِہْرَانُ ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّا آلَ مُحَمَّدٍ لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ وَمَوْلَی الْقَوْمِ مِنْہُمْ۔ (احمد ۳/۴۴۸۔ عبدالرزاق ۶۹۴۲)
(١٠٨١٣) حضرت عطاء بن السائب فرماتے ہیں کہ میں حضرت ام کلثوم بنت علی کی خدمت میں صدقہ کی چیز لے کر حاضر ہوا، آپ نے اس کو واپس کردیا اور فرمایا کہ مجھ سے حضرت مہران نے بیان کیا ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور قوم کے غلام بھی انہی میں سے ہیں۔

10813

(۱۰۸۱۴) الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی ، عَنْ زُہَیْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِیسَی ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ الصَّدَقَۃِ ، قَالَ : فَجَائَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ فَأَخَذَ تَمْرَۃً فَأَخَذَہَا مِنْہُ فَاسْتَخْرَجَہَا ، وَقَالَ : إنَّا لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔ (احمد ۴/۳۴۸۔ دارمی ۱۶۴۳)
(١٠٨١٤) حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صدقہ کے گھر (جہاں پر صدقہ کا مال موجود تھا) میں تھا، حضرت حسن بن علی تشریف لائے اور ایک کھجور اٹھا لی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ ان سے واپس لے لی اور فرمایا : ہمارے لیے صدقہ جائز نہیں ہے۔

10814

(۱۰۸۱۵) ابْنُ فُضَیْلٍ ، عَنْ أَبِی حَیَّانَ ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ حَیَّانَ ، قَالَ : انْطَلَقْت أَنَا وَحُصَیْنُ بْنُ عُقْبَۃَ إلَی زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَقَالَ لَہُ یَزِیدُ وَحُصَیْنٌ مَنْ أَہْلُ بَیْتِہِ , أَلَیْسَ نِسَاؤُہُ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ ؟ قَالَ : نِسَاؤُہُ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ , وَلَکِنْ أَہْلُ بَیْتِہِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ بعدہ، فَقَالَ لَہُ حُصَیْنٌ : وَمَنْ ہُمْ ؟ قَالَ : ہُمْ آلُ عَبَّاسٍ ، وَآلُ عَلِیٍّ ، وَآلُ جَعْفَرٍ ، وَآلُ عَقِیلٍ، فَقَالَ لَہُ حُصَیْنٌ عَلَی ہَؤُلاَئِ تَحْرُمُ الصَّدَقَۃُ ، قَالَ نَعَمْ۔ (مسلم ۳۶۔ احمد ۴/۳۶۷)
(١٠٨١٥) حضرت یزید بن حیان فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت حصین بن عقبہ حضرت زید بن ارقم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم دونوں نے ان سے عرض کیا اہل بیت میں سے کون (لوگ) ہیں ؟ کیا ان کی عورتیں بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کی عورتیں بھی اہل بیت میں سے ہیں۔ لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر بعد میں صدقہ حرام کردیا گیا۔ حضرت حصین نے عرض کیا وہ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : آل عباس، آل علی، آل جعفر، آل عقیل ان میں سے ہیں۔ حضرت حصین نے پھر عرض کیا ان پر صدقہ حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں۔

10815

(۱۰۸۱۶) کَثِیرُ بْنُ ہِشَامٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ ، قَالَ : حدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، قَالَ بَلَغَنِی ، أَنَّ رَجُلَیْنِ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلاَنِہِ مِنَ الصَّدَقَۃِ ، فَقَالَ : لاَ وَلَکِنْ إذَا رَأَیْتُمَا عِنْدِی شَیْئًا مِنَ الْخُمُسِ فَأْتِیَانِی۔
(١٠٨١٦) حضرت ثابت بن الحجاج سے مروی ہے کہ بنو عبد المطلب کے دو شخص حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو انکار فرما دیا اور فرمایا کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ میرے پاس خمس کا مال آیا ہے تو تم میرے پاس آنا (میں تمہیں اس میں سے حصہ دوں گا) ۔

10816

(۱۰۸۱۷) وَکِیعٌ ، عَنْ شَرِیکٍ ، عَنْ خُصَیْفٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، قَالَ : کَانَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَحِلُّ لَہُمُ الصَّدَقَۃُ فَجَعَلَ لَہُمْ خُمُسَ الْخُمْسِ۔ (نسائی ۴۴۴۹)
(١٠٨١٧) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے صدقہ حلال نہیں ہے۔ ان کیلئے خمس کا خمس ہے۔

10817

(۱۰۸۱۸) الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُعَرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ ، قَالَ حَدَّثَتْنِی حَفْصَۃُ بِنْتُ طَلْقٍ قَالَتْ حَدَّثَنِی جَدِّی رُشَیْدُ بْنُ مَالِکٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إنَّا لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَۃُ۔ (بخاری ۱۱۳۱۔ احمد ۳/۴۸۹)
(١٠٨١٨) حضرت رشید بن مالک سے مروی ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔

10818

(۱۰۸۱۹) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : الْعَامِلُ عَلَی الصَّدَقَۃِ بِالْحَقِّ کَالْغَازِی فِی سَبِیلِ اللہِ حَتَّی یَرْجِعَ إلَی بَیْتِہِ۔ (ترمذی ۶۴۵۔ ابوداؤد ۲۹۲۹)
(١٠٨١٩) حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : عامل (زکوۃ و صدقات وصول کرنے والا) کا صدقہ میں حق ہے جیسا کہ غازی کا اللہ کی راہ میں جب تک کہ وہ واپس گھر نہ لوٹ آئے۔

10819

(۱۰۸۲۰) أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ بُرِیدِ بْنِ عبد اللہِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنْ أَبِی مُوسَی ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : إنَّ الْخَازِنَ الأَمِینَ الَّذِی یُعْطِی مَا أُمِرَ بِہِ کَامِلاً مُوَفَّرًا طَیِّبَۃً بِہِ نَفْسُہُ حِینَ یَدْفَعُہُ إلَی الَّذِی أُمِرَ لہ بِہِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَیْنِ۔ (بخاری ۱۴۳۸۔ ابوداؤد ۱۶۸۱)
(١٠٨٢٠) حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک امانت دار خازن وہ ہے جو عطا کرے کہ جس کو جس چیز کے دینے کا حکم ہو تو وہ اس چیز کو مکمل وافر اور طیب خاطر سے اس متصدق کو دے دے کہ جس کو دینے کا اس کو حکم ملا ہے۔

10820

(۱۰۸۲۱) غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَکِّیِّ ، قَالَ بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَجُلاً مِنْ ثَقِیفٍ عَلَی الصَّدَقَۃِ فَرَآہُ بَعْدَ ذَلِکَ الْیَوْمِ ، فَقَالَ : أَلاَ أَرَاک وَلَکَ کَأَجْرِ الْغَازِی فِی سَبِیلِ اللہِ۔
(١٠٨٢١) حضرت حسن بن مسلم المکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے بنو ثقیف میں سے ایک شخص کو صدقات (وصول کرنے کیلئے) بھیجا، پھر اس کے بعد آپ نے اس کو دیکھا تو اس سے فرمایا : کیا تو نہیں دیکھتا کہ تیرے لیے بھی اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والے) غازی کی مثل اجر ہے۔

10821

(۱۰۸۲۲) أَبُو أُسَامَۃَ وَوَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ زِیَادِ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ مَنْ دُفِعَتْ إلَیْہِ الصَّدَقَۃُ فَوَضَعَہَا مَوَاضِعَہَا فَلَہُ أَجْرُ صَاحِبِہَا۔
(١٠٨٢٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جس شخص کو صدقہ دیا گیا پھر اس نے اس کو، اس کی جگہ پر رکھ دیا تو اس کے لیے بھی اس کے مالک جتنا اجر ہے۔

10822

(۱۰۸۲۳) حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، أن عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ جَعَلَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ قَفِیزًا وَدِرْہَمًا۔
(١٠٨٢٣) حضرت عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے عراق والوں پر ہر جریب (زمین) پر ایک قفیز اور درہم مقرر فرمایا تھا۔

10823

(۱۰۸۲۴) حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ، أَنَّ عُمَرَ جَعَلَ عَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ۔
(١٠٨٢٤) حضرت ابو مجلز سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کھجوروں کے باغات کے جریب پر آٹھ درہم مقرر فرمائے تھے۔

10824

(۱۰۸۲۵) عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ الثَّقَفِیِّ ، قَالَ وَضَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرضٍ یَبْلُغُہُ الْمَائُ عَامِرًا وَغَامِرًا دِرْہَمًا وَقَفِیزًا مِنْ طَعَامٍ , وَعَلَی الْبَسَاتِینِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرضٍ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشَرَۃَ أَقْفِزَۃً من طَعَامٍ وَعَلَی الْکُرُومِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَشَرَۃَ أَقْفِزَۃً طَعَامٍ , وَعَلَی الرِّطَابِ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ , وَخَمْسَۃَ أَقْفِزَۃَ طَعَامٍ ، وَلَمْ یَضَعْ عَلَی النَّخْلِ شَیْئًا , وَجَعَلَہُ تَبَعًا لِلأَرْضِ , وَعَلَی رُؤُوسِ الرِّجَالِ عَلَی الْغَنِیِّ ثَمَانِیَۃً وَأَرْبَعِینَ دِرْہَمًا , وَعَلَی الْوَسَطِ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ دِرْہَمًا , وَعَلَی الْفَقِیرِ اثْنَیْ عَشَرَ دِرْہَمًا۔
(١٠٨٢٥) حضرت ابو عون محمد بن عبید اللہ الثقفی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے عراق والوں پر جریب زمین پر جس کو پانی پہنچتا ہو خواہ وہ زمین آباد ہو یا غیر آباد ایک درہم اور طعام میں سے ایک قفیز مقرر فرمایا، اور باغات والوں پر ہر جریب زمین پر دس درہم اور دس قفیز کھانے میں سے، اور انگور والوں پر ہر جریب زمین پر دس درہم اور قفیز کھانے میں سے، اور تر کھجوروں میں ہر جریب زمین پر پانچ درہم اور پانچ قفیز کھانے میں سے مقرر فرمایا۔ اور جس درخت پر کچھ نہ لگتا تھا اس کو زمین کے تابع کردیا، اور مردوں میں مالداروں پر اڑتالیس درہم خراج، درمیانے درجے کے لوگوں پر چوبیس درہم اور فقیروں پر بارہ درہم خراج مقرر فرمایا۔

10825

(۱۰۸۲۶) أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الشَّیْبَانِیِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ ، قَالَ وَضَعَ عُمَرُ عَلَی السَّوَادِ فَذَکَرَ مِثْلَ حَدِیثِ ابْنِ مُسْہِرٍ۔ (ابو عبید ۱۷۴)
(١٠٨٢٦) حضرت محمد بن عبید اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق نے عراق والوں پر مقرر فرمایا پھر ابن مسہر کی حدیث کے مثل ذکر فرمایا۔

10826

(۱۰۸۲۷) أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ سَعِیدٍ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ ، قَالَ بَعَثَ عُمَرُ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ عَلَی مِسَاحَۃِ الأَرْضِ فَوَضَعَ عُثْمَانُ عَلَی الْجَرِیبِ مِنَ الْکَرْمِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ ثَمَانیَۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ الشَّعِیرِ دِرْہَمَیْنِ، وَجَعَلَ عَلَی کُلِّ رَأْسٍ فِی السَّنَۃِ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ دِرْہَمًا، وَعَطَّلَ النِّسَائَ وَالصِّبْیَانَ۔
(١٠٨٢٧) حضرت ابو مجلز سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عثمان بن حنیف کو زمین کے رقبہ کی پیمائش کے لیے بھیجا۔ حضرت عثمان بن حنیف نے انگوروں والی زمین کے ہر جریب پر دس درہم مقرر فرمائے اور کھجور والی زمین کے جریب پر آٹھ درہم مقرر فرمائے اور جو والی زمین کے جریب پر دو درہم مقرر فرمائے اور ہر شخص پر سال میں چوبیس درہم خراج مقرر فرمایا اور عورتوں اور بچوں سے خراج کو معطل کردیا۔

10827

(۱۰۸۲۸) وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ بَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ عَلَی السَّوَادِ فَوَضَعَ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ عَامِرًا وَغَامِرًا یَنَالُہُ الْمَائُ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا , یَعْنِی الْحِنْطَۃَ وَالشَّعِیرَ , وَعَلَی کُلِّ جَرِیبِ الْکَرْمِ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ , وَعَلَی کُلِّ جَرِیبِ الرَّطْبِ خَمْسَۃً۔
(١٠٨٢٨) حضرت حکم سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عثمان بن حنیف کو عراق بھیجا تو انھوں نے ہر وہ زمین جہاں پانی پہنچتا ہو خواہ آباد ہو یا غیر آباد اور گندم والی ہو یا اس میں جو ہو اس کے ہر جریب پر ایک درہم مقرر فرمایا اور انگور والی زمین کے جریب پر دس درہم اور تر کھجور کے جریب پر پانچ درہم مقرر فرمائے۔

10828

(۱۰۸۲۹) وَکِیعٌ ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عُمَرَ ، أَنَّہُ وَضَع عَلَی النَّخْلِ عَلَی الرَّقْلَتَیْنِ دِرہَمًا وَعَلَی الْفَارِسِیَّۃِ دِرْہَمًا۔ وَقَالَ وَکِیعٌ مَرَّۃً : عَنْ أَبَانَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ۔
(١٠٨٢٩) حضرت ابان بن تغلب سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے کھجوروں پر مقرر فرمایا : بڑی کھجوروں پر ایک درہم اور فارسی کھجوروں (چھوٹی کھجوروں) پر بھی ایک درہم۔

10829

(۱۰۸۳۰) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ ، عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ ؛ فِی الرَّجُلِ إذَا أُعْطِیَ مِنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ ، قَالَ : إذَا اجْتَمَعَتْ عِنْدَہُ الآصع أَعْطَی۔
(١٠٨٣٠) حضرت حسن ایسے آدمی کے بارے میں جسے صدقہ فطر دیا گیا فرماتے ہیں کہ جب اس کے پاس گراں قدر مالیت ہوجائے تو وہ صدقہ فطر ادا کرے۔

10830

(۱۰۸۳۱) حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ وَالشَّعْبِیِّ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالُوا : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ عَلَی الْغَنِیِّ وَالْفَقِیرِ۔
(١٠٨٣١) حضرت ابو العالیہ، حضرت شعبی اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ غنی اور فقیر پر صدقہ فطر ہے۔

10831

(۱۰۸۳۲) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ مُثَنًّی ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ یَأْخُذُ وَیُعْطِی۔
(١٠٨٣٢) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ لے گا اور عطا کرے گا۔

10832

(۱۰۸۳۳) مَالِکُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ مِنْدَلٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : لاَ تُعْطِی صَدَقَۃَ الْفِطْرِ مَنْ تَحِلُّ لَہُ الصَّدَقَۃُ ، قَالَ : وَقَالَ الزُّہْرِیُّ یُؤَدِّی حَقَّ اللہِ وَیَأْخُذُ۔
(١٠٨٣٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ جس شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔ حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ اللہ کا حق ادا کرے گا اور وہ لے گا۔

10833

(۱۰۸۳۴) عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ ، عَنْ قَتَادَۃَ ، قَالَ یُعْطِی۔
(١٣١٣٤) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ دے گا۔

10834

(۱۰۸۳۵) حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِیسَی ، عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ لَمْ یَبْلُغْنَا أن أَحَدا مِنْ وُلاَۃِ ہَذِہِ الأُمَّۃِ الَّذِینَ کَانُوا بِالْمَدِینَۃِ , أَبُو بَکْرٍ ، وَعُمَرُ , وَعُثْمَانَ , أَنَّہُمْ کَانُوا یَثْنُونَ الصَّدَقَۃَ لَکِنْ یَبْعَثُونَ عَلَیْہَا کُلَّ عَامٍ فِی الْخِصْبِ وَالْجَدْبِ لأَنَّ أَخْذَہَا سُنَّۃٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(١٠٨٣٥) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ اس امت کے امراء جو مدینہ میں تھے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان میں سے کسی کے متعلق ہمیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ انھوں نے سال میں دو بار زکوۃ وصول کی ہو۔ لیکن وہ ہر سال سرسبز اور خشک کی طرف بھیجا کرتے تھے (لوگوں کو) تاکہ ان سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق وصول کیا جائے۔

10835

(۱۰۸۳۶) مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ الأَحْوَلُ ، عَنْ طَاوُوسٍ ، أَنَّہُ قَالَ إذْ تَدَارَکَتِ الصَّدَقَتَانِ فَلاَ یُؤْخَذُ الأُولَی کَالْجِزْیَۃِ۔
(١٠٨٣٦) حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ جب تم دو صدقوں کو پالو تو پہلے کو وصول مت کرو جزیہ کی طرح۔

10836

(۱۰۸۳۷) سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ ، عَنْ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ ، عَنْ أُمِّہِ فَاطِمَۃَ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لاَ ثِنَا فِی الصَّدَقَۃِ۔
(١٠٨٣٧) حضرت فاطمہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : زکوۃ سال میں دو بار ادا کرنا نہیں ہے۔

10837

(۱۰۸۳۸) حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ، عَنْ رَہْطٍ ثَلاَثَۃٍ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ بِالصَّدَقَۃِ مِنْ بَنِی ہَاشِمٍ بَعْضِہِمْ عَلَی بَعْضٍ۔
(١٠٨٣٨) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم میں سے بعض کے بعض کو زکوۃ دینے میں کوئی حرج نہیں۔

10838

(۱۰۸۳۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاہِیمَ قَالَ: کَانَ یُقَالُ إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمُہَاجِرِینَ۔
(١٠٨٣٩) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ زکوۃ فقراء اور مہاجرین کیلئے ہے۔

10839

(۱۰۸۴۰) حَدَّثَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ ، عَن حُمَیْدٍ ، عَن بَکر : أَنَّ عُثْمَانَ کَانَ یُعْطِی صَدَقَۃَ الْفِطْرِ ، عَنِ الْحَبَلِ۔
(١٠٨٤٠) حضرت بکر فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان حمل کی طرف سے بھی صدقہ الفطر ادا فرماتے تھے۔

10840

(۱۰۸۴۱) عَبْدُالْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ، قَالَ: کَانُوا یُعْطُونَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ حَتَّی یُعْطُونَ، عَنِ الْحَبَلِ۔
(١٠٨٤١) حضرت ابو قلابہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام صدقہ ادا فرماتے تھے اور حمل کی جانب سے بھی صدقہ الفطر ادا فرماتے۔

10841

(۱۰۸۴۲) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : إذَا أَخَذَ الْمُصَدِّقُ سِنًّا فَوْقَ سِنٍّ رَدَّ عَلَیْہِمْ شَاتَیْنِ ، أَوْ عِشْرِینَ دِرْہَمًا ، وَإِذَا أَخَذَ سِنًّا دُونَ سِنٍّ رَدُّوا عَلَیْہِ شَاتَیْنِ ، أَوْ عِشْرِینَ دِرْہَمًا۔
(١٠٨٤٢) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ اگر زکوۃ وصول کرنے والا مقررہ جانور سے بڑا کوئی جانور لے لے تو وہ دو بکریاں یا بیس درہم واپس کرے گا۔ اور اگر وہ مقررہ جانور سے کم عمر کا جانور وصول کرے تو زکوۃ دینے والے دو بکریاں یا بیس درہم مزید ادا کریں گے۔

10842

(۱۰۸۴۳) مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِی خَلاَّدٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ ، أَنَّہُ قَالَ لَہُ ، فَإِنْ لَمْ تَجِدِ السِّنَّ الَّذِی دُونَہَا أَخَذْت السِّنَّ الَّذِی فَوْقَہَا وَرَدَدْت إلَی صَاحِبِ الْمَاشِیَۃِ شَاتَیْنِ ، أَوْ عِشْرِینَ دِرْہَمًا۔
(١٠٨٤٣) حضرت عمرو بن شعیب فرماتے ہیں کہ اگر مقررہ جانور سے کم عمر کا جانور نہ ملے تو زیادہ عمر والا جانور وصول کرے اور جانوروں کے مالک کو دو بکریاں یا بیس درہم واپس کر دے۔

10843

(۱۰۸۴۴) مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِیِّ ، أَنَّ عُمَرَ کَتَبَ إلَی بَعْضِ عُمَّالِہِ أَنْ لاَ تَأْخُذُوا مِنْ رَجُلٍ لَمْ تَجِدُوا فِی إبِلِہِ السِّنَّ الَّتِی عَلَیْہِ إِلاَّ تِلْکَ السِّنَّ خُذُوا شَروی إبِلِہِ ، أَوْ قِیمَۃَ عَدْلٍ۔
(١٠٨٤٤) حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن انصاری فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو یہ خط لکھا کہ اگر کسی کے پاس زکوۃ کی ادائیگی میں جو جانور فرض ہے اس کے پاس صرف اس طرح کا ایک ہی جانور ہے تو اس کو وصول نہ کیا جائے بلکہ اس کی مثل یا اس کی قیمت وصول کرلی جائے۔

10844

(۱۰۸۴۵) غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ حَمَّادٍ فِی رَجُلٍ وَجَبَتْ عَلَیْہِ فَرِیضَۃٌ فِی إبِلِہِ لَمْ تَکُنْ عِنْدَہُ ، قَالَ : فَقَالَ : یَتَرَادَّانِ الْفَضْلَ فِیمَا بَیْنَہُمَا۔
(١٠٨٤٥) حضرت حماد فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں کہ جس کے مال پر زکوۃ جو واجب ہوئی ہے وہ اس کے پاس نہیں ہے تو دونوں آپس میں زیادتی کو لوٹا لیں گے۔ (یعنی جو زائد لے گا وہ اس کے بدلہ میں کچھ واپس لوٹائے گا) ۔

10845

(۱۰۸۴۶) الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْیَانُ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ ، عَنْ عَلِیٍّ ، قَالَ إِنْ أَخَذَ سِنًّا دُونَ سِنٍّ رَدَّ شَاتَیْنِ ، أَوْ عَشَرَۃَ دَرَاہِمَ۔
(١٠٨٤٦) حضرت علی فرماتے ہیں اگر زکوۃ وصول کرنے والا مقررہ جانور سے بڑا جانور لے تو دو بکریاں یا بیس درہم واپس کرے گا۔

10846

(۱۰۸۴۷) حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُسْتَوْرِدِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا قِلاَبَۃَ یُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، قَالَ : بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ الْمُصَدِّقِینَ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَبِیعُوا الْجَذَعَۃَ بِأَرْبَعِینَ وَالْحِقَّۃَ بِثَلاَثِینَ ، وَابْنَ لَبُونٍ بِعِشْرِینَ , وَبِنْتَ مَخَاضٍ بِعَشَرَۃٍ , فَانْطَلَقُوا فَبَاعُوا مَا بَاعُوا بِقِیمَۃِ أَبِی بَکْرٍ ، ثُمَّ رَجَعُوا حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ بَعَثَہُمْ فَقَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، فَقَالَ : زِیدُوا فِی کُلِّ سِنٍّ عَشَرَۃً ، فَلَمَّا أن کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ بَعَثَہُمْ فَقَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا شَیْئًا ، فَلَمَّا وَلِیَ عُمَرُ بَعَثَ عُمَّالَہُ بِقِیمَۃِ أَبِی بَکْرٍ الآخِرَۃِ حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ ، قَالَ الْعُمَّالُ لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، فَقَالَ : زِیدُوا فِی کُلِّ سِنٍّ عَشْرَۃً حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ بَعَثَہُمْ بِالْقِیمَۃِ الآخِرَۃِ فَقَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، قَالَ : لاَ حَتَّی إذَا وَلِیَ عُثْمَانُ بَعَثَ بِقِیمَۃِ عُمَرَ الآخِرَۃِ حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، قَالَ : زِیدُوا فِی کُلِّ سِنٍّ عَشَرَۃً حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، قَالَ : لاَ , فَلَمَّا وَلِیَ مُعَاوِیَۃُ بَعَثَ بِقِیمَۃِ عُثْمَانَ الآخِرَۃِ ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، قَالَ : زِیدُوا فِی کُلِّ سِنٍّ عَشَرَۃً , حَتَّی إذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوا : لَوْ شِئْنَا أَنْ نَزْدَادَ ازْدَدْنَا ، قَالَ : خُذُوا الْفَرَائِضَ بِأَسْنَانِہَا ، ثُمَّ سَمُّوہَا وَأَعْلِنُوہَا ، ثُمَّ خالِسُوہُمْ لِلْبَیْعِ فَمَا اسْتَطَاعُوا أن ینتقصوا وَمَا اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَازْدَادُوا ، قَالَ عَبْدُ اللہِ : فَرَأَیْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَأَنَّہُ لَمْ یَرَ بِذَلِکَ بَأْسًا ، فَقَالَ لأَبِی قِلاَبَۃَ : فَکَیْفَ کَانَتْ صَدَقَۃُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : کَانَتِ الصَّدَقَۃُ تُؤْخَذُ فَتُقْسَمُ فِی فُقَرَائِ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ حَتَّی إذْ کَانَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ أَمَرَ بِہَا فَقُسِمَتْ أَخْمَاسًا فَجَعَلَ لِلْمِسْکِینَۃِ خُمُسًا مِنْہَا ، ثُمَّ لَمْ یَزَلْ ذَلِکَ إلَی الْیَوْمِ۔
(١٠٨٤٧) حضرت عبداللہ بن المستورد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو قلابہ کو حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ : حضرت صدیق اکبر نے صدقہ وصول کرنے والوں کو (مختلف شہروں کی طرف) بھیجا تو ان سے فرمایا کہ وہ جذعہ کو چالیس، حقہ کو تیس، ابن لبون کو بیس اور بنت مخاض کو عشرۃ کے بدلے فروخت کردو۔ چنانچہ صدقہ وصول کرنے والے چل پڑے اور انھوں نے اس قیمت پر ان کو فروخت کیا جو حضرت ابوبکر نے مقرر فرمائی تھی پھر واپس آگئے پھر جب آئندہ سال ان کو دوبارہ بھیجنے لگے تو انھوں نے عرض کیا کہ اگر ہم چاہیں تو ہم اس قیمت میں کچھ اضافہ کرلیں، آپ نے فرمایا ہر سال دس کا اضافہ کرلینا۔ پھر آئندہ سال جب ان کو بھیجنے لگے تو انھوں نے عرض کیا : اگر ہم چاہیں تو اس میں اضافہ کرلیں۔
پھر جب حضرت عمر فاروق خلیفہ بنے تو آپ نے حضرت صدیق اکبر کی مقرر کردہ آخری قیمت پر عاملوں کو (مختلف شہروں میں) بھیجا۔ پھر آئندہ سال آیا تو عاملوں نے عرض کیا : اگر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو اضافہ کرلیں گے۔ آپ نے فرمایا ہر سال دس کا اضافہ کرلیا کرو۔ پھر جب اگلے سال ان عاملوں کو بھیجا تو وہ پھر کہنے لگے اگر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو اضافہ کرلیں آپ نے فرمایا نہیں اب اضافہ نہیں کرنا۔
پھر جب حضرت عثمان غنی خلیفہ بنے تو آپ نے حضرت عمر کی مقرر کردہ آخری قیمت پر اپنے عامل روانہ فرمائے پھر جب اگلا سال آیا تو عامل کہنے لگے کہ اگر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو اضافہ کرلیں، آپ نے فرمایا ہر سال دس کا اضافہ کرلو۔ پھر آئندہ سال جب آیا تو انھوں نے (پھر) عرض کیا کہ اگر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو اضافہ کرلیں آپ نے فرمایا نہیں۔
پھر جب حضرت امیر معاویہ امیر مقرر ہوئے تو انھوں نے حضرت عثمان غنی کی مقرر کردہ آخری قیمت پر بھیجے۔ پھر جب اگلا سال آیا تو عامل کہنے لگے اگر ہم اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو کرلیں۔ آپ نے فرمایا ہر سال دس کا اضافہ کرلو۔ پھر آئندہ سال انھوں نے کہا اگر ہم کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو اضافہ کرلیں۔ آپ نے فرمایا فرائض کو ان کی عمر کے حساب سے لے لو پھر ان کے نام رکھو اور ان کا اعلان (مشہور کردو) کرواؤ۔ پھر ان کو فوراً بیچ دو ۔ اگر تو کم کرنے کی طاقت رکھو (تو کم کردو) اور اگر تم قیمت زیادہ کرنے کی طاقت رکھو تو زیادہ کرلو۔
راوی حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو دیکھا کہ وہ اس میں کچھ بھی حرج نہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے حضرت ابو قلابہ سے فرمایا کہ بکریوں کی زکوۃ کیسے وصول کریں ؟ آپ نے فرمایا زکوۃ وصول کر کے دیہات (اور جنگل) کے فقراء میں تقسیم کردو۔ پھر حضرت عبد الملک بن مروان نے اس کا حکم دیا اور خمس خمس کر کے اس کو تقسیم کیا۔ اور (ہر) مسکین کے لیے اس میں خمس رکھا جو آج تک مسلسل جاری ہے۔

10847

(۱۰۸۴۸) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أنَّہُ کَانَ یقول : الجوامیس بمنزلۃ البقر۔
(١٠٨٤٨) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ بھینس بھی گائے کے مرتبہ میں ہے۔ (زکوۃ ادا کرنے کے حکم میں) ۔

10848

(۱۰۸۴۹) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ فَرَّطَ فِی زَکَاتِہِ حَتَّی ذَہَبَ مَالُہُ ، قَالَ ہُوَ دَیْنٌ عَلَیْہِ حَتَّی یَقْضِیَہُ۔
(١٠٨٤٩) حضرت حسن سے دریافت کیا کہ کسی شخص نے زکوۃ ادا کرنے میں غفلت کی وجہ سے تاخیر کردی اور اس کا مال ضائع اور ہلاک ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا یہ زکوۃ اس کے ذمہ قرض ہے اس کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔

10849

(۱۰۸۵۰) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ : إذَا کَانَ فِی الأَرْضِ بُرٌّ وَشَعِیرٌ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَۃِ أَوْسَاقٍ فَإِذَا جَمَعَہُمَا کَانَ فیہِمَا خَمْسَۃُ أَوْسَاقٍ ، أَوْ أَکْثَرُ کَانَ فِیہِمَا الصَّدَقَۃُ لأَنَّ کُلَّہُ زَرْعٌ فَإِذَا کَانَ بُرٌّ وَزَبِیبٌ وَہُوَ لاَ یَبْلُغُ خَمْسَۃَ أَوْسَاقٍ فَلَیْسَ فِیہِ شَیْئٌ حَتَّی یَبْلُغَ مِنْ کُلِّ صِنْفٍ خَمْسَۃَ أَوْسَاقٍ فَإِذَا بَلَغَ فَفِیہِ الْعُشْرُ۔
(١٠٨٥٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب زمین سے گندم یا جو نکلے اور دونوں میں سے ہر ایک پانچ وسق (خاص مقدار) سے کم ہو اور جب ان دونوں کو جمع کریں پانچ وسق یا اس سے زائد بنتے ہوں تو دونوں پر زکوۃ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کھیتی ہے۔ اور اگر گندم اور کشمش ہوں اور وہ پانچ وسق نہ بنتے ہوں تو ان پر اس وقت تک کچھ نہیں ہے جب تک کہ ان میں سے ہر ایک پانچ وسق کی مقدار کو پہنچ جائیں۔ جب پانچ وسق ہوجائیں تو اس میں پھر عشر ہے۔

10850

(۱۰۸۵۱) عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، قَالَ : فِی کُلِّ عَشَرَۃٍ مِنَ الْبَقَرِ شَاۃٌ , وَفِی کُلِّ عِشْرِینَ شَاتَانِ وَفِی کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ۔
(١٠٨٥١) حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ دس گائیوں پر ایک بکری زکوۃ ہے اور بیس پر دو بکریاں اور تیس پر ایک تبیعہ ہے۔ (گائے کا وہ بچہ جو ایک سال کا ہو) ۔

10851

(۱۰۸۵۲) عَبْدُ الأَعْلَی ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ : اسْتُعْمِلْت عَلَی صَدَقَاتِ عَکٍّ , فَلَقِیت أَشْیَاخًا مِمَّنْ صَدَّقَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ البقر , وَسَأَلْتُہُمْ فَاخْتَلَفُوا عَلَیَّ , فَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ اجْعَلْہَا مِثْلَ صَدَقَۃِ الإِبِلِ , وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ فِی ثَلاَثِینَ تَبِیعٌ , وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ فِی أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ۔
(١٠٨٥٢) حضرت عکرمہ بن خالد فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ان بزرگوں سے ہوئی جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں گائے کی زکوۃ وصول فرمایا کرتے تھے۔ ان سب نے مجھ سے اختلاف کیا (ہر ایک نے دوسرے سے علیحدہ بات کی) ان میں سے بعض حضرات نے فرمایا : اونٹوں کی مثل اس میں وصول کرو۔ اور بعض نے فرمایا تین گائیوں پر ایک تبیع وصول کرو اور بعض حضرات نے فرمایا چالیس گائیوں پر ایک مسنہ (وہ گائے کا بچہ جو تین سال کا ہو) وصول کرو۔

10852

(۱۰۸۵۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ قَالَ فِی رَجُلٍ اشْتَرَی مِنْ زَکَاتِہِ نَسَمَۃً فَأَعْتَقَہَا فَمَاتَتِ النَّسَمَۃُ وَتَرَکَتْ مِیرَاثًا ، قَالَ یُوَجِّہُہَا فِی مَوَاضِعِ الزَّکَاۃِ۔
(١٠٨٥٣) حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص نے زکوۃ کے مال سے غلام (باندی) خریدا اور اس کو آزاد کردیا تو وہ باندی (غلام) مرگئی اور اس نے کچھ میراث چھوڑی تو اس میراث کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کو زکوۃ کے مصارف پر خرچ کیا جائے گا۔

10853

(۱۰۸۵۴) حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ ، قَالَ : سُئِلَ الْحَسَن ہَلْ عَلَی الْمَرْأَۃِ زَکَاۃٌ فِی مَالِہَا عَلَی ظَہْرِ زَوْجِہَا ، قَالَ إِنْ کَانَ مَلِیًّا فَعَلَیْہَا زَکَاتُہُ۔
(١٠٨٥٤) حضرت عمران بن القطان سے مروی ہے کہ حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ عورت کا مہر مرد کے ذمہ ہو تو کیا عورت پر زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر اس کے پاس عرصہ دراز سے ہو تو پھر عورت پر زکوۃ ہے۔

10854

(۱۰۸۵۵) إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ جُوَیْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاکِ ، أَنَّہُ قَالَ : عَلَی الْمَرْأَۃِ أَنْ تُزْکِیَ مَہْرَہَا إذَا کَانَ عَلَی زَوْجِہَا إِنْ کَانَ مُوسِرًا ، وَإِنْ کَانَ فَقِیرًا فَلَیْسَ عَلَیْہَا شَیْئٌ۔
(١٠٨٥٥) حضرت علی فرماتے ہیں کہ عورت اگر امیر ہے تو اپنے مہر پر زکوۃ ادا کرے گی اور اگر فقیر ہے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے۔

10855

(۱۰۸۵۶) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، قَالَ : قُلْتُ لَہُ لَوْ کَانَتْ لِرَجُلٍ تِسْعَۃَ عَشَرَ دِینَارًا لَیْسَ لَہُ غَیْرُہَا وَالصَّرْفُ اثْنا عَشَرَ ، أَوْ ثَلاَثَۃَ عَشَرَ فِیہَا صَدَقَۃٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ , إذَا کَانَتْ لَوْ صُرِفَتْ مِئَتَیْ دِرْہَمٍ إنَّمَا کَانَ إذْ ذَاکَ الْوَرِقُ ، وَلَمْ یَکُنِ الذَّہَبُ۔
(١٠٨٥٦) حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطائ سے دریافت فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس انیس دینار ہوں اور اس کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ ہو اور ان کو تبدیل کروایا جائے بارہ تیرہ سے تو اس میں زکوۃ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگر اس کو تبدیل کیا جائے دو سو دراہم کے ساتھ اور یہ تب ہے کہ جب وہ چاندی کے ہوں سونے کے نہ ہوں۔

10856

(۱۰۸۵۷) عَبْدُ السَّلاَمِ ، قَالَ : حدَّثَنَا یَحیی بْنُ سَعِیدٍ ، قَالَ : مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّدَقَۃِ أَنْ یُؤْخَذَ مَعَ کُلِّ بَعِیرٍ عِقَالٌ ، وَمَعَ کُلِّ بَعِیرَیْنِ عِقَالین وَقِرَانًا۔
(١٠٨٥٧) حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ زکوۃ وصول کرنے والا ہر اونٹ کے ساتھ رسی (جس کے ساتھ اس کو باندھا جاتا ہے) بھی لے گا اور دو اونٹوں کے ساتھ دو پاؤں باندھنے والی رسیاں اور ایک دوسری رسی۔

10857

(۱۰۸۵۸) حَدَّثَنَا شَرِیکٌ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو بَکْرٍ : لَوْ مَنَعُونِی عِقَالاً مِمَّا أَعْطَوْا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَجَاہَدْتہمْ علیہ۔
(١٠٨٥٨) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ارشاد فرمایا : اگر وہ لوگ مجھے رسی کا ایک ٹکڑا ادا کرنے سے بھی انکار کردیں جو وہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔

10858

(۱۰۸۵۹) حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ، عَنِ أَبِی حَیَّانَ ، عَنِ الْحَارِثِ فِی قولہ تعالی : (وَأَقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ) قَالَ : عَنَی بِہِ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٨٥٩) حضرت حارث فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد { وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ } کا مصداق صدقۃ الفطر ہے۔

10859

(۱۰۸۶۰) غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ صَاعًا مَکْتُوبٌ۔
(١٠٨٦٠) حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ایک صاع فرض ہے۔

10860

(۱۰۸۶۱) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ ، وَابْنِ سِیرِینَ قَالاَ : صَدَقَۃُ الْفِطْرِ فَرِیضَۃٌ۔
(١٠٨٦١) حضرت ابو العالیہ اور حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں کہ صدقۃ الفطر فرض ہے۔

10861

(۱۰۸۶۲) أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔ (بخاری ۱۵۰۴۔ ابوداؤد ۱۶۰۷)
(١٠٨٦٢) حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر کو فرض فرمایا ہے۔

10862

(۱۰۸۶۳) یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ وَسَہْلُ بْنُ یُوسُفَ ، عَنْ حُمَیْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ۔
(١٠٨٦٣) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر کو فرض فرمایا ہے۔

10863

(۱۰۸۶۴) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ : إنَّمَا کَانَتِ الْمُؤَلَّفَۃُ قُلُوبُہُمْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا وَلِیَ أَبُو بَکْرٍ انْقَطَعَتْ۔
(١٠٨٦٤) حضرت عامر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کافروں کا دل نرم کرنے کے لیے ان کو زکوۃ دی جاتی تھی۔ جب حضرت صدیق اکبر خلیفہ بنے آپ نے اس کو ختم فرما دیا۔

10864

(۱۰۸۶۵) وَکِیعٌ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ، قَالَ الْیَوْمَ مُؤَلَّفَۃٌ۔
(١٠٨٦٥) حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ آج کل بھی مؤلفۃ قلوب کو زکوۃ دیں گے۔

10865

(۱۰۸۶۶) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : سُئِلَ حَمَّادٌ ، عَنِ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ فحَدَّثَنَا عَنْ یُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ الَّذِینَ یَدْخُلُونَ فِی الإِسْلاَمِ۔
(١٠٨٦٦) حضرت عفان فرماتے ہیں کہ حضرت حماد سے مؤلفۃ القلوب کے متعلق دریافت کیا گیا ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔

10866

(۱۰۸۶۷) مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الأَسَدِیِّ ، قَالَ : حدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، قَالَ : سَأَلْتُ الزُّہْرِیَّ : عَنِ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ ، قَالَ : ہُوَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَہُودِیٍّ ، أَوْ نَصْرَانِیٍّ قُلْتُ : وَإِنْ کَانَ غَنِیًّا ، قَالَ : وَإِنْ کَانَ غَنِیًّا۔
(١٠٨٦٧) حضرت معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام زہری سے مؤلفۃ القلوب کے متعلق دریافت کیا ؟ آپ نے فرمایا یہودیوں و نصاریٰ میں سے جو اسلام لائے وہ مراد ہیں۔ میں نے عرض کیا اگرچہ وہ مال دار ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ وہ مال دار ہوں۔

10867

(۱۰۸۶۸) عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا حُمَیْدٌ ، عَنْ حَیَّانَ السُّلَمِیِّ ، قَالَ : قُلْتُ لِاِبْنِ عُمَرَ یَجِیئُنِی مُصَدِّقُوا ابْنِ الزُّبَیْرِ فَیَأْخُذُونَ صَدَقَۃَ مالی وَیَجِیئُ مُصَدِّقُوا نَجْدۃَ فَیَأْخُذُونَ ؟ قَالَ : أَیُّہُمَا أَعْطَیْت أَجْزَأَک۔
(١٠٨٦٨) حضرت حیان السلمی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ میرے پاس حضرت عبداللہ بن زبیر کے زکوۃ وصول کرنے والے آتے ہیں اور میرے مال میں سے زکوۃ وصول کرتے ہیں۔ اور نجدہ کے مصدق آتے ہیں اور وہ وصول کرتے ہیں (میں کیا کروں ؟ ) آپ نے فرمایا کہ تو جس مرضی کو ادا کر دے تیری طرف سے کافی ہے۔

10868

(۱۰۸۶۹) حَدَّثَنَا ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا۔
(١٠٨٦٩) حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوسیوں کے ہر بالغ سے ایک دینار جزیہ وصول فرمایا۔

10869

(۱۰۸۷۰) حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ وَہُوَ فِی مَجْلِسٍ بَیْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ مَا أَدْرِی کَیْفَ أَصْنَعُ بِالْمَجُوسِ وَلَیْسُوا بِأَہْلِ کِتَابٍ ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : سُنُّوا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ۔ (مالک ۴۲۔ عبدالرزاق ۱۰۰۲۵)
(١٠٨٧٠) حضرت جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور منبر رسول کے درمیان مجلس میں تشریف فرما تھے، فرمانے لگے مجھے نہیں معلوم کہ مجوسیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے حالانکہ وہ اہل کتاب میں سے بھی نہیں ہیں ؟ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے فرمایا کہ میں نے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان کے ساتھ اہل کتاب والا معاملہ کرو۔

10870

(۱۰۸۷۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِیُّ ، قَالَ : حدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعد ، قَالَ : حَدَّثَنِی عمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ یَا رَسُولَ اللہِ مَا کَانَ فِی الطَّرِیقِ غَیرِ المِیتَائِ ، أَوْ فِی الْقَرْیَۃِ الْمَسْکُونَۃِ ، قَالَ فِیہِ، وَفِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔ (احمد ۲/۱۸۰۔ حمیدی ۵۹۷)
(١٠٨٧١) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! جو چیز ہمیں غیر آباد راستے اور غیر آباد جگہ (گاؤں وغیرہ) سے ملے اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس میں اور مدفون خزینے میں خمس ہے۔

10871

(۱۰۸۷۲) عَبْدُ الْوَہَّابِ ، عَن أَیُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، قَالَ : فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔
(١٠٨٧٢) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مدفون خزانے میں خمس ہے۔

10872

(۱۰۸۷۳) وَکِیعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ مِثْلُہُ۔
(١٠٨٧٣) حضرت ابوہریرہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

10873

(۱۰۸۷۴) عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ وَزَکَرِیَّا ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔ (احمد ۲/۴۹۳)
(١٠٨٧٤) حضرت شعبی سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مدفون خزینے میں خمس ہے۔

10874

(۱۰۸۷۵) عَبْدُ الرَّحِیمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُہُ۔
(١٠٨٧٥) حضرت ابوہریرہ سے اسی کے مثل منقول ہے۔

10875

(۱۰۸۷۶) أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ غُلاَمًا مِنَ الْعَرَبِ وَجَدَ سَتُّوقَۃً فِیہَا عَشَرَۃُ آلاَفٍ فَأَتَی بِہَا عُمَرَ فَأَخَذَ مِنْہَا خُمْسَہَا أَلْفَیْنِ وَأَعْطَاہُ ثَمَانیَۃَ آلاَفٍ۔
(١٠٨٧٦) حضرت امام شعبی سے مروی ہے کہ عرب کے ایک غلام کو کچھ پیسے ملے جن کی مالیت دس ہزار تھی، وہ غلام وہ پیسے لے کر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس میں سے دو ہزار خمس وصول فرما لیا اور باقی آٹھ ہزار اس کو واپس کردیئے۔

10876

(۱۰۸۷۷) وَکِیعٌ ، عَنْ إسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِیِّ ، أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ فِی خَرِبَۃٍ أَلْفًا وَخَمْسَمِئَۃٍ فَأَتَی عَلِیًّا، فَقَالَ : أَدِّ خُمْسَہَا وَلَک ثَلاَثَۃُ أَخْمَاسِہَا وَسَنُطَیِّبُ لَکَ الْخُمْسَ الْبَاقِیَ۔
(١٠٨٧٧) حضرت امام شعبی سے مروی ہے کہ ایک شخص کو ویران جگہ سے پندرہ سو (درہم) ملے وہ لے کر حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا اس کا خمس ادا کرو اور اس کے تین خمس تیرے لیے ہیں۔ اور عنقریب ہم باقی خمس تیرے لیے پاک کردیں گے۔

10877

(۱۰۸۷۸) مُعْتَمِرٌ ، عَنْ مَعْمَرٍ الضَّبِّیِّ ، قَالَ بَیْنَمَا قَوْمٌ عِنْدِی بِسَابُور یُلَیّنون ، أَوْ یُثِیرُونَ الأَرْضَ إذْ أَصَابُوا کَنْزًا وَعَلَیْہَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ الرَّاسِبِیُّ ، فَکَتَبَ فِیہِ إلَی عَدِیٍّ , فَکَتَبَ عَدِیٌّ إلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، فَکَتَبَ عُمَرُ أَنْ خُذُوا مِنْہُ الْخُمْسَ ، وَاکْتُبُوا لَہُمُ الْبَرَائَۃَ , وَدَعُوا سَائرہ لہم فدفع إلیہم الماء وأخذ منہم الخمس۔
(١٠٨٧٨) حضرت عمر الضبی فرماتے ہیں کہ ہمارے مقام سابور میں کسی قوم کے کچھ لوگ زمین کھود رہے تھے، اچانک خزانہ ان کے ہاتھ لگا، ان کے نگران محمد بن جابر الراسبی تھے۔ انھوں نے اس کے بارے میں حضرت عدی کو لکھا، حضرت عدی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو لکھا، حضرت عمر بن عبد العزیز نے لکھا کہ اس میں سے خمس وصول کرلو اور ان کیلئے برأت لکھ دو اور باقی سب ان کا ہے ان کیلئے چھوڑ دو ۔ (جب یہ مکتوب موصول ہوا تو) انھوں نے مال واپس کردیا اور اس میں سے خمس وصول کرلیا۔

10878

(۱۰۸۷۹) ہُشَیْمٌ ، عَنْ حُصَیْنٍ عَمَّنْ شَہِدَ الْقَادِسِیَّۃَ قَالَ : بَیْنَمَا رَجُلٌ یَغْتَسِلُ إذْ فَحَصَ لَہُ الْمَائُ التُّرَابَ عَنْ لَبِنَۃٍ مِنْ ذَہَبٍ فَأَتَی سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ فَأَخْبَرَہُ ، فَقَالَ : اجْعَلْہَا فِی غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔
(١٠٨٧٩) حضرت حصین روایت کرتے ہیں کہ اس شخص سے جو جنگ قادسیہ میں موجود تھے فرماتے ہیں کہ ہم میں ایک شخص تھا وہ غسل کررہا تھا جب پانی نے زمین پر گر کر اس میں گڑا کھود دیا تو اس میں سے سونے کی اینٹ نکلی۔ وہ شخص وہ لے کر حضرت سعد بن ابی وقاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ نے فرمایا اس کو مسلمانوں کی غنیمت میں شامل کرلو۔

10879

(۱۰۸۸۰) ابْنُ إدْرِیسَ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی قَیْسٍ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ ، عَنْ ہُزَیْلٍ ، قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إلَی عَبْدِ اللہِ ، فَقَالَ : إنِّی وَجَدْت مِئِینَ مِنَ دَرَاہِمٍ ، فَقَالَ عَبْدُ اللہِ : لاَ أَرَی الْمُسْلِمِینَ بَلَغَتْ أَمْوَالُہُمْ ہَذَا , أُرَاہُ رِکَازَ مَالٍ عَادِیٍّ , فَأَدِّ خُمْسَہُ فِی بَیْتِ الْمَالِ , وَلَکَ مَا بَقِیَ۔
(١٠٨٨٠) حضرت ھزیل سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے دو سو دراھم ملے ہیں، حضرت عبداللہ نے ان سے فرمایا کہ میرا خیال نہیں ہے مسلمانوں کا مال تجھے ملا ہو بلکہ میرا خیال ہے کہ یہ قدیم مدفون مال ہے تو اس میں سے خمس بیت المال مں ادا کر دے اور باقی سارا مال تیرا ہے۔

10880

(۱۰۸۸۱) عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ ہِشَامٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : الرِّکَازُ الْکَنْزُ الْعَادِیُّ , وَفِیہِ الْخُمْسُ۔
(١٠٨٨١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ رکاز بھی قدیم خزانہ ہے اور اسمیں بھی خمس ہے۔

10881

(۱۰۸۸۲) أَبُو مُعَاوِیَۃَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : إذَا وُجِدَ الْکَنْزُ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ فَفِیہِ الْخُمْسُ ، وَإِذَا وُجِدَ فِی أَرْضِ الْعَرَبِ فَفِیہِ الزَّکَاۃُ۔
(١٠٨٨٢) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر خزانہ دشمن کی زمین سے ملے تو اس میں خمس ہے اور اگر عرب کی زمین سے ملے تو اس میں زکوۃ ہے۔

10882

(۱۰۸۸۳) غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِیہِ ، أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ عَائِشَۃَ ، فَقَالَ : إنِّی وَجَدْت کَنْزًا فَدَفَعْتُہُ إلَی السُّلْطَانِ ، فَقَالَتْ فِی فِیک الْکَِثْکَِتِ ، أَوْ کَلِمَۃٍ نَحْوِہَا , الشَّکُّ مِنِّی۔
(١٠٨٨٣) حضرت ابراہیم بن المنتشر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا کہ مجھے خزانہ ملے تو کیا میں وہ حکمران کے سپرد کر دوں ؟ آپ نے فرمایا تیرے منہ میں خاک یا اس سے ملتا جلتا کلمہ ارشاد فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ شک میری طرف سے ہے۔

10883

(۱۰۸۸۴) حَدَّثَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ ، عَنِ الزُّہْرِیِّ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔ (بخاری ۱۴۹۹۔ مسلم ۱۳۳۵)
(١٠٨٨٤) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رکاز میں (بھی) خمس ہے۔

10884

(۱۰۸۸۵) خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ کَثِیرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ ، عَنْ أَبِیہِ ، عَنْ جَدِّہِ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔ (ابن ماجہ ۲۶۷۴۔ طبرانی ۶)
(١٠٨٨٥) حضرت عبداللہ المزنی اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : رکاز میں خمس ہے۔

10885

(۱۰۸۸۶) الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنْ سِمَاکٍ ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَضَی النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الرِّکَازِ الْخُمْسُ۔ (احمد ۳۱۴)
(١٠٨٨٦) حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکاز میں خمس کا فیصلہ فرمایا۔

10886

(۱۰۸۸۷) الْفَضْلُ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِیدِ الشَّنِّی ، عَنْ عِکْرِمَۃَ ، قَالَ : سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ وَجَدَ مَطْمُورَۃً ، قَالَ أَدِّ خُمُسَہَا۔
(١٠٨٨٧) حضرت عکرمہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے زمین سے زخیرہ شدہ مال پایا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کا خمس ادا کرو۔

10887

(۱۰۸۸۸) حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إسْمَاعِیلَ ، عَنْ حُمَیْدِ بْنِ صَخْرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِی بَکْرٍ ، قَالَ : حدَّثَنِی أَبِی ، قَالَ : دَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ وَأَقْنَائٌ فِی الْمَسْجِدِ مُعَلَّقَۃٌ ، وَإِذَا فِیہِ قِنْوٌ فِیہِ جَدَرٌ، وَمَعَہُ عُرْجُونٌ ، أَوْ عَصًا ، فَطَعَنَ فِیہِ ، وَقَالَ : مَنْ جَائَ بِہَذَا ؟ قَالُوا : فُلاَنٌ ، قَالَ : بَؤُسَ أُنَاسٌ یُمْسِکُونَ صَدَقَاتِہِمْ، ثُمَّ یُطْرَحُ بِالْعَرَائِ فَلاَ تَأْکُلُہَا الْعَافِیَۃُ یہَاجر کَل بَرْقِۃ وَرَعْدَۃ إلَی الشَّامِ۔(ابوداؤد ۱۶۰۴۔ احمد ۶/۲۸)
(١٠٨٨٨) حضرت عمر ابن ابی بکر کے والد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لائے تو کھجوروں کے گچھے مسجد میں لٹکے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک گچھے پر کچھ خراب کھجوریں تھیں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک لاٹھی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ گچھے پر ماری اور فرمایا یہ کون لایا ہے ؟ لوگوں نے بتایا فلاں آدمی لایا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو پہلے اپنے صدقات روک کر رکھتے ہیں (حدیث کے آخری حصہ کا معنیٰ محقق محمد عوامہ کے لیے بھی واضح نہیں ہوسکا، دیکھیے حاشیہ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ ص ٧٩)

10888

(۱۰۸۸۹) أَبُو أُسَامَۃَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی حَفْصَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ ، عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ ، قَالَ : کَانَ نَاسٌ یَتَصَدَّقُونَ بِشِرَارِ ثِمَارِہِمْ حَتَّی نَزَلَتْ {وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ}۔
(١٠٨٨٩) حضرت ابو امامہ بن سہل فرماتے ہیں کہ لوگوں سب سے گھٹیا مال صدقہ کیا کرتے تھے پھر یہ آیت نازل ہوئی { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ }۔ (ابوداؤد ١٦٠٣۔ ابن خزیمۃ ٢٣١٣)

10889

(۱۰۸۹۰) ابْنُ عُلَیَّۃَ ، عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَلْقَمَۃَ ، عَنِ ابْنِ سِیرِینَ ، أَنَّہُ سَأَلَ عَبِیدَۃَ ، عَنْ قولہ تعالی : (وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ) إنَّمَا ذَلِکَ فِی الزَّکَاۃِ , وَالدَّرَاہِمُ الزَّیْفُ أَحَبُّ إلَیَّ مِنَ التَّمْرِ۔
(١٠٨٩٠) حضرت ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت عبیدہ سے سوال کیا گیا کہ اللہ کا ارشاد { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہ } کا نزول کیوں ہوا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زکوۃ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

10890

(۱۰۸۹۱) وَکِیعٌ ، عَنْ یَزِیدَ ، عَنِ الْحَسَنِ {وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ} قَالَ : کَانَ الرَّجُلُ یَتَصَدَّقُ بِرَذَاذَۃِ مَالِہِ۔
(١٠٨٩١) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ } اس شخص سے متعلق نازل ہوئی ہے جو گھٹیا اور ہلکا مال اللہ کی راہ میں صدقہ (زکوۃ ) کرتا ہے۔

10891

(۱۰۸۹۲) عُبَیْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی ، عَنْ إسْرَائِیلَ ، عَنِ السُّدِّیِّ ، عَنْ أَبِی مَالِکٍ ، عَنِ الْبَرَائِ فِی قولہ تعالی : {وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ} قَالَ : نَزَلَتْ فِینَا کُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ ، فَکَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی مِنْ نَخْلِہِ کَقَدْرِ قِلَّتِہِ وَکَثْرَتِہِ ، قَالَ : فَکَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی بِالْقِنْوِ وَالرَّجُلُ یَأْتِی بِالْقِنْوَیْنِ , فَیُعَلِّقُہُ فِی الْمَسْجِدِ ، قَالَ وَکَانَ أَہْلُ الصُّفَّۃِ لَیْسَ لَہُمْ طَعَامٌ، فَکَانَ أَحَدُہُمْ إذَا جَائَ أتی الْقِنْوِ فَضَرَبَہُ بِعَصًا فَیَسْقُطُ مِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ فَیَأْکُلُ وَکَانَ أُنَاسٌ مِمَّنْ لاَ یَرْغَبُ فِی الْخَیْرِ فَیَأْتِی أَحَدُہُمْ بِالْقِنْوَ فِیہِ الْحَشَفُ , وَفِیہِ الشِّیصُ , وَیَأْتِی بِالْقِنْوِ قَدِ انْکَسَرَ فَیُعَلِّقُہُ ، قَالَ : فَأَنْزَلَ اللَّہُ تعالی: {وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ} قَالَ : لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أُہْدِیَ إلَیْہِ مِثْلُ مَا أَعْطَی لَمْ یَأْخُذْہُ إِلاَّ عَلَی إغْمَاضٍ وَحَیَائٍ ، قَالَ : فَکَانَ بَعْدَ ذَلِکَ یَأْتِی الرَّجُلُ بِصَالِحِ مَا عِنْدَہُ۔ (ترمذی ۲۹۸۷۔ ابن ماجہ ۱۸۲۲)
(١٠٨٩٢) حضرت برائ فرماتے ہیں کہ { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ } ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ ہماری قوم کھجوروں والی تھی۔ ہم میں سے (ہر شخص) قلت اور کثرت کی بقدر کھجوریں لایا کرتا۔ پس کوئی شخص ایک خوشہ اور کوئی دو خوشے لا کر مسجد میں لٹکا دیتا، اصحاب صفہ کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا ان میں سے کوئی شخص آتا اور لاٹھی سے کھجور کے خوشہ پر ضرب لگاتا تو اس میں خشک اور تر کھجوریں گرتیں جن کو وہ کھا لیتا، کچھ لوگ (ہم میں سے) خیر کے کاموں کی طرف راغب نہ تھے وہ خراب اور فاسد کھجوروں کا خوشہ لے کر آتے اور اس کو مسجد میں لٹکا دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت { وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہ } نازل فرمائی۔ اور فرمایا تم میں سے کوئی شخص جو کچھ ادا کرتا ہے اگر اس کے مثل اس کو ہدیہ کیا جائے تو وہ اس کو ہلکا سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے حیاء کی وجہ سے لیتا ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہر شخص ہم میں سے عمدہ اور اچھا مال صدقہ کرتا۔

10892

(۱۰۸۹۳) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ فِی رَجُلٍ خُرِصَتْ عَلَیْہِ ثَمَرَتُہُ ، فَکَانَ فِیہَا فَضل عَلَی مَا خُرِصَ عَلَیْہِ ، قَالَ : مَا زَادَ فَلَہُ وَمَا نَقَصَ فَعَلَیْہِ۔
(١٠٨٩٣) حضرت حسن سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کے پھلوں کا تخمینہ لگایا گیا تو جتنا تخمینہ لگایا گیا اس سے زیادہ پایا گیا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا جو زیادتی ہے وہ اس کیلئے ہے اور جو کم ہے وہ اس کے ذمہ واجب ہے۔

10893

(۱۰۸۹۴) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ ، عَنْ شُعْبَۃَ ، عَنِ الْحَکَمِ ، قَالَ : سَأَلَنَا لإبْرَاہِیمَ مَرَّتَیْنِ الزَّکَاۃَ۔
(١٠٨٩٤) حضرت حکم فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابراہیم کیلئے دو مرتبہ زکوۃ کا سوال کیا۔

10894

(۱۰۸۹۵) ہُشَیْمٌ، عَنْ عُبَیْدَۃَ، عَنْ إبْرَاہِیمَ، قَالَ: أَتَیْتُہ بِزَکَاۃٍ فَقَبِلَہَا، قَالَ: وَأَخْبَرَنِی أَنَّ بَعْضَ أَہْلِ بَدْرٍ کَانَ یَقْبَلُہَا۔
(١٠٨٩٥) حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ ان کے پاس زکوۃ لائی گی جس کو انھوں نے قبول فرما لیا۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی ہے کہ بعض اہل بدر صحابہ بھی قبول فرما لیا کرتے تھے۔

10895

(۱۰۸۹۶) عَبْدُ السَّلاَمِ ، عَنْ عَمرو بْنِ مُسَاوِرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یُعَجِّلَ الرَّجُلُ صَدَقَۃَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ ، أَوْ یَوْمَیْنِ۔
(١٠٨٩٦) حضرت عمرو بن مساور سے مروی ہے کہ حضرت حسن صدقۃ الفطر کو یوم عید سے ایک دو دن قبل ادا کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھتے تھے۔

10896

(۱۰۸۹۷) أَبُو أُسَامَۃَ ، قَالَ : حدَّثَنَا عُبَیْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّہُ کَانَ إذَا جَلَسَ مَنْ یَقْبِضُ الْفِطْرَ قَبْلَ الفطر بیَوْمَیْنِ ، أَوْ یَوْمٍ أَعْطَاہَا إِیاہ قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ ، أَوْ یَوْمَیْنِ ، وَلاَ یَرَی بِذَلِکَ بَأْسًا۔
(١٠٨٩٧) حضرت نافع سے مروی ہے کہ یوم فطر سے ایک دو دن پہلے صدقۃ الفطر لینے والا بیٹھ جاتا تو اس کو ایک دو دن پہلے ہی صدقۃ الفطر ادا کیا جاتا۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر اس میں کوئی حرج والی بات نہ سمجھتے۔

10897

(۱۰۸۹۸) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ ، عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَنْ سُئِلَ بِاللَّہِ فَأَعْطَی فَلَہُ سَبْعُونَ أَجْرًا۔ (بیہقی ۳۵۴۰)
(١٠٨٩٨) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس شخص سے اللہ کا واسطہ دے کر سوال کیا گیا اور اس نے سوال کرنے والے کو عطا کردیا تو اس کے لیے ستر ٧٠ اجر ہیں۔

10898

(۱۰۸۹۹) حَدَّثَنَا وَکِیعٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ، عَنْ عَطَائٍ ، أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یُسْأَلَ بِوَجْہِ اللہِ ، أَوْ بِالْقُرْآنِ لِشَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الدُّنْیَا۔
(٩٩ ١٠٨) حضرت ابن جریج سے مروی ہے کہ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ کا یا قرآن کا واسطہ دے کر کسی دنیا کی چیز کا سوال کرنے کو ناپسند سمجھتے تھے۔

10899

(۱۰۹۰۰) حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَۃَ ، عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی سَلَمَۃَ ، قَالَ : کَانَ سَلَمَۃُ لاَ یَسْأَلُہُ إنْسَانٌ بِوَجْہِ اللہِ شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَاہُ وَیَکْرَہُہَا وَیَقُولُ ہِیَ إلْحَافٌ۔
(١٠٩٠٠) حضرت یزید جو حضرت سلمہ کے غلام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمہ سے جو شخص بھی اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا اس کو عطا فرماتے، لیکن اس کو ناپسند سمجھتے اور فرماتے یہ (فاقے پر صبر نہ کرنا اور لوگوں سے سوال کرنا) الحاف ہے۔

10900

(۱۰۹۰۱) عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ ، عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ مُجَاہِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَأَلَ بِاَللَّہِ فَأَعْطُوہُ۔ (ابوداؤد ۵۰۶۸۔ طبرانی ۱۳۵۴۰)
(١٠٩٠١) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرے اس کو عطا کردینا چاہیے۔

10901

(۱۰۹۰۲) حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ ، عَنِ الْمُثَنَّی ، قَالَ قُرِئَ عَلَیْنَا کِتَابُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ، وَلاَ یُعَشِّرُ الْخَمْرَ مُسْلِمٌ۔
(١٠٩٠٢) حضرت مثنیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا مکتوب ہمارے سامنے پڑھا گیا (اس میں تحریر تھا) مسلمان شراب پر عشر وصول نہیں کرے گا۔

10902

(۱۰۹۰۳) وَکِیعٌ ، عَنْ سُفْیَانَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إبْرَاہِیمَ ، قَالَ یُعَشِّرُ الْخَمْرَ وَیُضَاعِفُ عَلَیْہِ۔
(١٠٩٠٣) حضرت ابراہیم فرماتے ہیں کہ شراب پر عشر وصول کیا جائے گا اور دو گنا وصول کیا جائے گا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔