hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

11. پرورش کا بیان

كنز العمال

14007

14007- ادفعوها إلى خالتها فإن الخالة أم. "ك عن علي".
14007 اس (بچی ) کو اس کی خالہ کے سپرد کرو۔ بیشک خالہ بھی ماں کی جگہ ہے۔
مستدرک الحاکم عن علی (رض)

14008

14008- الخالة بمنزلة الأم. "ق ت عن البراء" "د عن علي"
14008 خالہ ماں کی جگہ ہے۔ السنن للبیہقی، الترمذی عن البراء ابوداؤد عن علی (رض)
کلام : الاتقان 689 ۔

14009

14009- يا غلام هذا أبوك، وهذه أمك، فخذ بيد أيهما شئت. "ن هـ ك عن أبي هريرة".
14009 اے لڑکے : یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں۔ اب جس کا چاہے تو ہاتھ تھام لے۔
النسائی، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

14010

14010- ادفعوها إلى خالتها، إن الخالة أم. "ك عن علي".
14010 اس کو اس کی خالہ کے سپرد کردو بیشک خالہ ماں ہے۔ مستدرک الحاکم عن علی (رض)

14011

14011- المرأة أحق بولدها ما لم تزوج. "قط عن ابن عمرو".
14011 عورت اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ (دوسری) شادی نہ کرے۔
الدار قطنی فی السنن عن ابن عمرو

14020

14020- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن عكرمة قال: خاصمت امرأة عمر عمر إلى أبي بكر وكان طلقها فقال أبو بكر: هي أعطف وألطف وأرحم وأحن وأرأف، وهي أحق بولدها ما لم تتزوج أو يكبر فيختار لنفسه. "عب".
14020 (مسند صدیق (رض)) عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کی بیوی نے (اپنے سابق شوہر) عمر کی حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی بارگاہ خلافت میں شکایت کی (حضرت عمر (رض)) اپنی اس بیوی کو طلاق دے چکے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے عمر کو فرمایا : یہ (عورت) زیادہ نرم، مہربان، شفیق اور محبت گسار ہے اور یہ اپنی اولاد کی زیادہ حقدار ہے جب تک شادی نہ کرے یا وہ بچہ بڑا نہ ہوجائے پھر وہ خود اپنے لیے تم میں سے کسی ایک کو پسند کرے گا۔ مصنف عبدالرزاق

14021

14021- عن ابن عباس قال: طلق عمر بن الخطاب امرأته الأنصارية أم ابنه عاصم فلقيها تحمله وقد فطم ومشى، فأخذ بيده لينزعه منها، وقال: أنا أحق بابني منك، فاختصما إلى أبي بكر فقضى لها به، وقال: ريحها وحرها وفراشها خير له منك حتى يشب ويختار لنفسه. "عب".
14021 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے بیٹے عاصم کی ماں اپنی انصاری بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ان سے ملاقات کی تو وہ اپنے بیٹے کو اٹھائے ہوئے تھیں اور بیٹے کا دودھ چھڑا چکی تھیں اور وہ چلنے پھرنے بھی لگا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے بچہ کو ماں سے چھیننا چاہا اور بولے : میں اپنے بیٹے کا زیادہ حقدار ہوں۔ آخر دونوں اپنا فیصلہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس لے گئے۔ حضرت ابوبکر (رض) بچے کا فیصلہ ماں کے حق میں کردیا اور فرمایا : ماں کی خوشبو، اس کی گرمی اور اس کا بستر بچے کے لیے تم سے زیادہ بہتر ہے۔ جب تک کہ وہ جوان نہ ہوجائے اور اپنے لیے تم میں سے کسی کو پسند نہ کرلے۔ الجامع لعبد الرزاق

14022

14022- عن القاسم بن محمد قال: بصر عمر عاصما ابنه مع جدته أم أمه فكأنه جاذبها إياه فلما رآه أبو بكر مقبلا قال أبو بكر: مه مه هي أحق به، فما راجعه عمر الكلام. "مالك عب وابن سعد ش ق".
14022 قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے بیٹے عاصم کو اس کی نانی کے ساتھ دیکھا (حضرت عمر (رض)) اس کو چھیننے کے لیے لپکے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو ایسا کرتے دیکھ لیا اور فرمایا : رک جاؤ، رک جاؤ، یہ تم سے زیادہ اس کی حقدار ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) (پیچھے ہٹ گئے اور انہوں) نے پلٹ کر کوئی جواب نہ دیا۔
موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق، ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

14023

14023- عن زيد بن إسحاق عن حارثة الأنصاري أن عمر بن الخطاب خاصم إلى أبي بكر في ابنه فقضى به أبو بكر لأمه ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا توله والدة عن ولدها. "ق".
14023 زیدبن اسحاق سے مروی ہے، وہ حارثہ الانصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے بیٹے عاصم کا قضیہ حضرت ابوبکر (رض) کے سامنے پیش کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے بیٹے کا فیصلہ اس کی ماں کے حق میں دیدیا اور پھر ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : کوئی عورت اپنی اولاد سے جدائی (کے غم) میں ن ڈالی جائے۔
السنن للبیہقی

14024

14024- عن أبي الزناد عن الفقهاء الذين ينتهى إلى قولهم من أهل المدينة أنهم كانوا يقولون: قضى أبو بكر الصديق على عمر بن الخطاب لجدة ابنه عاصم بحضانته، وأم عاصم يومئذ حية متزوجة. "ق".
14024 ابوال زنا سے مروی ہے اور وہ ان فقہاء سے روایت کرتے ہیں جو اہل مدینہ کے لیے حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ فقہا کرام فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عمر بن خطاب کے بیٹے عاصم کی پرورش کے مسئلہ میں بچے کے باپ کے بجائے بچے کی نانی کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ اس وقت بچے کی ماں زندہ تھیں لیکن وہ (دوسری) شادی شدہ تھیں۔ السنن للبیہقی

14025

14025- عن مسروق أن عمر طلق أم عاصم فخاصمته جدته إلى أبي بكر فقضى أن يكون الولد مع جدته، والنفقة على عمر وقال: هي أحق به. "ق".
14025 مسروق (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) ام عاصم کو طلاق دیدی ۔ عاصم کی نانی نے حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں فیصلہ دائر کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے بچے کی نانی کے حق میں فیصلہ دیا کہ وہ بچے کی پرورش کریں اور نان نفقہ (بچے کا) عمر کے ذمہ ہوگا اور فرمایا : وہ بچے کی زیادہ حقدار ہیں۔
السنن للبیہقی

14026

14026- "مسند عمر" عن عبد الرحمن بن غنم، قال: اختصم إلى عمر في صبي فقال: هو مع أمه حتى تعرب عنه لسانه فيختار. "عب".
14026 (مسند عمر (رض)) عبدالرحمن بن غنم (رض) سے مروی ہے کہ ایک بچہ کا قضیہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہے گا جب تک کہ وہ بولنے نہ لگ جائے پھر وہ دونوں میں سے جس کو چاہے پسند کرے۔ الجامع لعبد الرزاق

14027

14027- عن أبي الوليد قال: اختصم عم وأم إلى عمر قال عمر: جدب أمك خير لك من خصب عمك. "عب".
14027 ابوالولید سے مروی ہے کہ چچا اور ماں نے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں بچے کا قضیہ پیش کیا۔ حضرت عمر (رض) نے بچے کو فرمایا : تو اپنی ماں کے ساتھ بھوکا رہے یہ تیرے لیے اپنے چچا کے ساتھ خوشحالی میں رہنے سے بہتر ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

14028

14028- عن عبد الرحمن بن غنم أن عمر خير غلاما بين أبيه وأمه. "الشافعي في القديم".
14028 عبدالرحمن بن غنم (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک لڑکے کو اس کی ماں اور اس کے باپ کے درمیان اختیار دیا۔ الشافعی فی القدیم

14029

14029- عن علي قال: خرجنا من مكة تبعتنا ابنة حمزة تنادي يا عم يا عم فتناولتها بيدها فرفعتها إلى فاطمة، فقلت: دونك ابنة عمك، فلما قدمنا المدينة اختصمنا فيها أنا وجعفر وزيد بن حارثة فقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي يعني أسماء بنت عميس، فقال زيد: ابنة أخي، فقلت: أنا أخذتها وهي ابنة عمي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما أنت يا جعفر فأشبهت خلقي وخلقي، وأما أنت يا زيد فمني وأنا منك وأخونا ومولانا، والجارية عند خالتها، فإن الخالة والدة، فقلت يا رسول الله ألا تزوجها؟ قال: إنها ابنة أخي من الرضاعة. "حم د وابن جرير وصححه حب ك"
14029 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ہم جب مکہ سے نکلے تو ہمارے پیچھے بنت حمزہ (رض) یا عم ! یاعم ! اے چچا ! اے چچا ! پکارتی ہوئی پیچھے چلی آئی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور فاطمہ کے حوالے کردیا اور کہا کہ لو اپنے چچا (حمزہ) کی بیٹی کو سنبھالو۔ جب ہم مدینہ پہنچ گئے تو اس کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہوا میرا، جعفر (طیار بن ابی طالب) کا اور زید بن حارثہ کا۔ جعفر بولے : میرے چچا (حمزہ) کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ اسماء بنت عمیس میرے ہاں ہے۔ زید بولے : یہ میرے (اسلامی ) بھائی کی بیٹی ہے۔ میں نے کہا : میں نے اس کو پکڑا ہے اور یہ میرے چچا (حمزہ) کی بیٹی ہے۔ آخر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے جعفر تو شکل اور عادات میں میرے مشابہ ہے اور اے زید ! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے اور تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولا ہے۔ لیکن لڑکی اپنی خالہ کے پاس بہتر ہے۔ کیونکہ خالہ والدہ ہے۔
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ اس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔
مسند احمد، ابوداؤد ، ابن جریر، وصححہ ابن حبان، مستدرک الحاکم
فائدہ : لڑکی کا چچا چچا کہنا معروف عادت کے مطابق تھا۔ ان کے والد اس سے قبل جنگ احد میں شہید ہوچکے تھے ۔ اور وہ حضرت علی، حضرت جعفر اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حمزہ کی بیٹی تھی۔ اگر رشتہ یہاں تک موقوف رہتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے شادی کرنا جائز ہوتا لیکن ثوبیہ نامی ایک باندی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو دودھ پلایا تھا جس کی وجہ سے یہ لڑکی آپ کی بھتیجی ثابت ہوئی۔

14030

14030- عن علي: خرج زيد بن حارثة إلى مكة، فقدم ببنت حمزة بن عبد المطلب فقال جعفر بن أبي طالب: أنا آخذها وأنا أحق بها بنت عمي وعندي خالتها وإنما الخالة أم وهي أحق بها، وقال علي: بل أنا أحق بها هي ابنة عمي وعندي بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي أحق بها وإني لأرفع صوتي ليسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجتي قبل أن يخرج وقال زيد: أنا أحق بها خرجت إليها وسافرت وجئت بها فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما شأنكم؟ قال علي: بنت عمي وأنا أحق بها وعندي ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون معها أحق بها من غيرها، وقال جعفر: أنا أحق بها يا رسول الله ابنة عمي وعندي خالتها والخالة أم وهي أحق بها من غيرها، وقال زيد: بل أنا أحق بها يا رسول الله خرجت إليها وتجشمت السفر وأنفقت فأنا احق بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سأقضي بينكم في هذا وغيره، قال علي: فلما قال: وفي غيره، قلت نزل القرآن في رفعنا أصواتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما أنت يا زيد بن حارثة فمولاي ومولاها قال: قد رضيت يا رسول الله، قال: وأما أنت ياجعفر فأشبهت خلقي وخلقي، وأنت من شجرتي التي خلقت منها، قال: رضيت يا رسول الله قال: وأما أنت يا علي فصفيي وأميني وأنت مني وأنا منك قلت: رضيت يا رسول الله، قال: وأما الجارية فقد رضيت بها لجعفر تكون مع خالتها والخالة أم، قالوا: سلمنا يا رسول الله. "العدني والبزار وابن جرير ك م"
14030 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ زید بن حارثہ مکہ کی طرف نکلے تو بنت حمزہ بن عبدالمطلب کو ساتھ لے کر آئے۔ جعفر بن ابی طالب نے فرمایا : اس کو میں رکھوں گا میں اس کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ ایک تو یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور (بڑی وجہ یہ ہے کہ) اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ اور خالہ ماں ہے اس وجہ سے وہ اس کی زیادہ حقدار ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں نے کہا : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور میرے گھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ہے، میں اپنی آواز بلند کررہا تھا تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلنے سے قبل میری دلیل سن لیں۔ زید بولے : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں میں اس کے پاس سفر کرکے گیا اور اس کو لے کر آیا۔ آخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر سے نکلے اور پوچھا : تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟ حضرت علی فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ میرے ہاں بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، یہ اس کے پاس رہے تو دوسروں کے پاس رہنے سے کہیں زیادہ اس کے لیے بہتر ہے۔ جعفر (رض) بولے : یارسول اللہ ! میں اس کا زیادہ حقدار ہوں یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے گھر ہے۔ اور خالہ بھی ماں ہوتی ہے اور وہ دسوروں کی نسبت اس کی زیادہ حقدار ہے۔
زید (رض) بولے : یارسول اللہ ! بلکہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، میں اس کے پاس سفر کرکے گیا سفر کی مشقت اٹھائی اور اپنا مال خرچ کیا لہٰذا میں اس کا زیادہ حقدار ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں اس مسئلہ اور دوسرے مسئلہ کا فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : جب آپ نے دوسرے مسئلے کا ذکر فرمایا تو میں نے کہا ضرور ہمارے اونچے بولنے کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے زید بن حارثہ ! تو میرا مولا ہے اور اس لڑکی کا مولا ہے۔ زید بولے : یارسول اللہ ! میں اس پر راضی ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا : اے جعفر تو شکل و صورت اور اخلاق و عادات میں میرا مشابہ ہے، نیز تو اس شجرہ سے تعلق رکھتا ہے جس سے میری پیدائش ہوئی ہے۔ جعفر نے جواب دیا : یارسول اللہ ! میں راضی ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا : اے علی ! تو میرا صفی (خالص دوست) میری آرزو ہے ، تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں راضی ہوں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لیکن لڑکی کے لیے میں جعفر کے پاس چھوڑنے پر راضی ہوں کیونکہ وہاں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں ہے۔ پھر سب نے کہا : ہمیں قبول ہے یارسول اللہ !
العدنی، البزار، ابن جریر، مستدرک الحاکم، مسلم

14031

14031- عن عمارة بن ربيعة الجرمي قال: خاصمت في أمي عمي إلى علي فقال علي: أمك أحب إليك أم عمك؟ قلت: بل أمي ثلاث مرات، قال: وكانوا يستحبون الثلاث في كل شيء، فقال لي: أنت مع أمك، وأخوك هذا إذا بلغ ما بلغت خير كما خيرت، قال: وأنا غلام. "عب".
14031 عمارۃ بن ربیعہ الجرمی سے مروی ہے کہ (میرے بچپن میں) میری ماں نے میرے بارے میں میرے چچا کے خلاف حضرت علی (رض) کی بارگاہ میں قضیہ پیش کیا۔ حضرت علی (رض) نے خود مجھ سے دریافت فرمایا : تیری ماں تجھے پسند ہے یا تیرا چچا ؟ میں نے کہا : ماں آپ نے تین مرتبہ سوال کیا کیونکہ وہ ہر چیز میں تین بار کو پسند کرتے تھے۔ میں نے بھی ہر بار یہی جواب دیا۔ پھر آپ (رض) نے مجھے فرمایا : تو اپنی ماں کے ساتھ جاسکتا ہے۔ پھر میرے چھوٹے بھائی کے متعلق فرمایا جب یہ بھی تیری عمر تک پہنچ جائے تو اس کی بھی مرضی پوچھی جائے گی جس طرح تیری مرضی پوچھی گئی۔ عمارۃ فرماتے ہیں : میں اس وقت (چھوٹا) لڑکا تھا۔ الجامع لعبد الرزاق

14032

14032- عن عمارة الجرمي قال خيرني علي بين أمي وعمي، ثم قال لأخ لي أصغر مني وهذا أيضا لو قد بلغ مبلغ هذا لخيرته. "ق".
14032 عمارۃ الجرمی سے مروی ہے کہ مجھے حضرت علی (رض) نے میری ماں اور میرے چچا کے درمیان اختیار دیا، پھر میرے چھوٹے بھائی کے متعلق فرمایا : یہ بھی جب اس عمر کو پہنچے گا اس کو بھی اسی طرح اختیار ملے گا۔ السنن للبیہقی

14033

14033- عن ابن عباس قال: إن عمارة بنت حمزة بن عبد المطلب وأمها سلمى بنت عميس كانت بمكة فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم كلم علي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: علام تركت بنت عمنا يتيمة بين ظهور المشركين، فلم ينهه النبي صلى الله عليه وسلم عن إخراجها، فخرج بها وتكلم زيد بن حارثة وكان وصي حمزة وكان النبي صلى الله عليه وسلم آخى بينهما حين آخى بين المهاجرين، فقال: أنا أحق بها ابنة أخي فلما سمع ذلك جعفر قال: الخالة والدة وأنا أحق بها لمكان خالتها عندي أسماء بنت عميس، فقال علي: ألا أخبركم في ابنة عمي، وأنا أخرجتها من بين أظهر المشركين، وليس لكم إليها نسب دوني وأنا أحق بها منكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنا أحكم بينكم، أما انت يا زيد فمولى الله ورسوله، وأما أنت يا علي فأخي وصاحبي، وأما أنت يا جعفر فشبه خلقي وخلقي وأنت يا جعفر أولى تحتك خالتها، ولا تنكح المرأة على خالتها، ولا على عمتها، فقضى بها لجعفر، فقام فحجل حول رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ما هذا يا جعفر؟ فقال: يا رسول الله كان النجاشي إذا رضى أحدا قام فحجل حوله، فقيل للنبي صلى الله عليه وسلم: تزوجها فقال: ابنة أخي من الرضاعة، فزوجها رسول الله صلى الله عليه وسلم سلمة بن أبي سلمة، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: هل حرثت سلمة. "كر" ورجاله ثقات سوى الواقدي.
14033 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عمارۃ بنت حمزہ بن عبدالمطلب اور ان کی ماں سلمہ بنت عمیس مکہ میں تھیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے تشریف لے آئے تو حضرت علی (رض) نے حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت کی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنے چچا کی یتیم بیٹی کو مشرکین کے درمیان کیوں چھوڑ دیا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو وہاں سے ان کو نکال لانے سے منع نہ فرمایا۔ پھر حضرت زید بن حارثہ (رض) نے بھی آپ سے بات چیت کی۔ زید (رض) حضرت حمزہ (رض) کے وصی تھے (یعنی زید (رض)) کو اپنے بعد اپنے بعد اپنا پیچھے کا نگہبان مقرر کر گئے تھے چونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مہاجرین اور انصاریوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا اس وقت حمزہ اور زید کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے جعفر نے یہ سنا تو وہ بولے : خالہ ماں ہوتی ہے اور اس لیے میں اس کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اس کی خالہ اسماء بنت عمیس میرے ہاں ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں تم کو اپنی چچا کی بیٹی کے بارے میں بتاتا ہوں، میں اس کو مشرکین کے درمیان سے نکال کر لایا ہوں اور اس سے قریب ترین نسب اور رشتہ داری تم سے زیادہ میری ہے اس وجہ سے میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ اے زید ! تو اللہ اس کے رسول کا مولا (دوست) ہے۔ اور اے علی ! تو میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے اور اے جعفر ! تو میرا ہم شکل اور ہم اخلاق ہے اور اے جعفر ! تو اس کو رکھنے کا زیادہ مستحق ہے کیونکہ اس کی خالہ تیرے پاس ہے۔ اور کسی عورت سے اس کی خالہ کے ہوتے ہوئے یا پھوپھی کے ہوتے ہوئے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی جب کسی کے عقد میں پہلے سے خالہ یا پھوپھی ہو تو ان کی بھانجی یا بھتیجی سے اس آدمی کا نکاح جائز نہیں چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمارۃ کا فیصلہ جعفر کے حق میں دیدیا۔
حضرت جعفر (رض) خوشی سے اٹھے اور حضور کے قریب ایک پاؤ کھڑا کرکے دوسر پر چکر کاٹنے لگے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے جعفر ! یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا : نجاشی جب کسی سے خوش ہوتا تھا تو اٹھ کر اس کے گرد اس طرح چکر کاٹتا تھا۔
پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا گیا ک ہ آپ اس سے شادی فرمالیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلمۃ بن ابی سلمہ سے لڑکی کی شادی کردی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلمہ کو فرمایا کرتے تھے۔ سلمۃ کما گیا۔ ابن عساکرروایت کے تمام راوی سوائے واقدی کے ثقہ ہیں۔

14034

14034- عن عبد الله بن عمرو أن امرأة طلقها زوجها، وأراد أن ينتزع ولدها منها فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم بابنها، فقالت: يا رسول الله كان بطني له وعاء، وثديي له سقاء، وحجري له حواء3 أراد أبوه أن ينزعه مني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنت أحق به ما لم تزوجي. "عب".
14034 عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ ایک عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دیدی۔ پھر اس سے بچہ چھیننے کا ارادہ کیا ۔ وہ عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اور بولی : یارسول اللہ ! میرا پیٹ اس بچے کے لیے برتن بنارہا (اب) میرے پستان اس کے لیے مشکیزہ ہیں۔ جن سے یہ سیر ہوتا ہے اور میری گود اس کے لیے پناہ گاہ ہے۔ لیکن اس کا باپ چاہتا ہے کہ اس کو مجھ سے چھین لے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : تو ہی اس کی زیادہ حقدار ہے جب تک کہ شادی نہ کرلے۔ الجامع لعبد الرزاق

14035

14035- عن ابن عمرو قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أتته امرأة بابن لها، فقالت يا رسول الله ابني كان بطني له وعاء وثديي له سقاء وحجري له حواء، وأن أباه يزعم أنه أحق به مني، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: أنت أحق به ما لم تنكحي، قال عمرو بن شعيب: وقضى أبو بكر الصديق في عاصم ابن عمر أن أمه أحق به ما لم تنكح. "ابن جرير".
14035 ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عورت اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا شکم میرے بیٹے کے لیے برتن ہے، میرے پستان اس کے لیے مشکیزے ہیں اور میری گود اس کے لیے پناہ گاہ ہے۔ لیکن اس کا باپ گمان کرتا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ اس کا حقدار ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو فرمایا : تو اس کی زیادہ حقدار ہے جب تک شادی نہ کرے۔
عمرو بن شعیب (رح) فرماتے ہیں : حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے عاصم بن عمر کے متعلق بھی یہی فیصلہ فرمایا کہ اس کی ماں اس کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ دوسرا نکاح نہ کرے۔ ابن جریر

14036

14036- عن أبي هريرة قال: جاء أم وأب يختصمان إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ابن لهما، فقالت للنبي صلى الله عليه وسلم: فداك أبي وأمي يريد أن يذهب بابني، وقد سقاني من بئر أبي عنبة ونفعني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: استهما عليه، فقال زوجها: من يحاقني2 في ولدي يا رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا غلام هذا أبوك وهذه أمك، فأخذ بيد أمه فانطلقت به. "عب".
14036 ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک ماں اور باپ اپنے بیٹے کے بارے میں جھگڑتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے ۔ عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، یہ شخص میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے، حالانکہ یہ مجھے ابوعنبہ کے کنوئیں سے پانی لاکر دیتا ہے اور میرے دوسرے کام کرتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دونوں قرعہ اندازی کرلو۔ مگر شوہر بولا : یارسول اللہ ! میری اولاد کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑ سکتا ہے ؟ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لڑکے ! دیکھ ! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے (جس کا چاہے ہاتھ تھام لے) لڑکے نے ماں کا ہاتھ تھام لیا اور ماں اس کو لے کر چلی گئی۔ الجامع لعبد الرزاق

14037

14037- عن عبد الحميد الأنصاري عن أبيه عن جده أن جده أسلم وأبت امرأته أن تسلم فجاء ابن له صغير لم يبلغ فأجلس النبي صلى الله عليه وسلم الأب ها هنا، والأم ها هنا، ثم خيره، وقال: اللهم اهده فذهب إلى أبيه. "عب".
14037 عبدالحمید الانصاری اپنے والد سے وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں ، اس کے دادا اسلم (مسلمان ہوچکے تھے) لیکن ان کی بیوی نے اسلام لانے سے انکار کردیا ان کا بیٹا ابھی چھوٹا تھا جو ابھی سن بلوغت کو نہ پہنچا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ کو ایک طرف بٹھایا اور ماں کو دوسری طرف پھر لڑکے کو اختیار دیا اور ساتھ میں دعا کی اے اللہ ! اس کو سیدھی راہ سمجھا۔ چنانچہ لڑکا اپنے والد کی طرف چلا گیا۔ الجامع لعبد الرزاق

14038

14038- عن عبد الحميد بن سلمة عن أبيه عن جده أن أبويه اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم: أحدهما مسلم والآخر كافر فخيره فرده إلى الكافر فقال: اللهم اهده فتوجه إلى المسلم فقضى له به. "ش".
14038 عبدالحمید بن سلمۃ اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اس کے والدین نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دربار میں اپنا جھگڑا پیش کیا ایک مسلمان تھا دوسرا کافر۔ آپ نے لڑکے کو اختیار دیا اور کافر کی طرف لوٹا دیا ساتھ میں دعا کی : اے اللہ اس کو ہدایت دے۔ چنانچہ لڑکا خود ہی مسلمان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مسلمان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔