hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

8. جہاد کا بیان

كنز العمال

10481

10481 الجهاد واجب عليكم مع أمير برا كان أو فاجرا ، وإن هو عمل الكبائر ، والصلاة واجبة عليكم خلف كل مسلم برا كان أو فاجرا ، وإن هو عمل الكبائر ، والصلاة واجبة عليكم على كل مسلم يموت برا كان أو فاجرا ، وإن كان هو يعمل الكبائر.(د ع عن أبي هريرة).
10477 ۔۔۔ فرمایا۔۔۔ تم پر تمہارے امیر کے ساتھ جہاد واجب ہے چاہے امیر نیک ہو یا فاجر اور اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو، اور تم پر نماز واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے چاہے وہ نیک ہو یا برا، اور تم پر ہر مرنے والے مسلمان کی نماز جنازہ واجب ہے چاہے وہ مرنے والا نیک ہو یا فاجر ہو اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو۔ (ابوداؤد، مسند ابی یعلی بروایت حضرت ابوھریرۃ )

10482

10482 الجنة تحت ظلال السيوف.(ك عن أبي موسى).
10478 ۔۔۔ فرمایا۔۔۔ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ابو موسیٰ (رض))

10483

10483 إن الجنة تحت ظلال السيوف.(م ت عن أبي موسى).
10479 ۔۔۔ فرمایا۔۔۔ بیشک جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ مسلم ترمذی، بروایت حضرت ابو موسیٰ (رض))

10484

10484 إذا حرم أحدكم الزوجة والولد فعليه بالجهاد.(طب عن محمد بن حاطب).
10480 ۔۔۔ فرمایا۔۔۔ اگر کسی شخص پر بیوی اور اولاد کی ذمہ داری نہیں توا سے چاہیے جہاد میں لگ جائے۔ (طبرانی، کبیر بروایت حضرت محمد بن حاطب (رض))

10485

10485 إذا رجف قلب المؤمن في سبيل الله تحاتت خطاياه كما تحات عذق النخلقة. (طب حل عن سلمان).
10481 ۔۔۔ فرمایا ” جب مومن کا دل اللہ کے راستے میں لرزتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے کھجور کے خوشے درختوں سے جھڑتے ہیں “۔ (طبرانی کبیر حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت سلمان (رض))

10486

10486 من راح روحة في سبيل الله كان له بمثل ما أصابه من الغبار مسكا يوم القيامة.(ه والضياء عن أنس).
10482 ۔۔۔” جو شخص ایک شام اللہ کے راستے میں لگادے تو جس قدر غبار اس پر لگا ہے اس کے بقدر مشک اس کو قیامت کے دن ملے گی۔ (ابن ماجہ والضیاء بروایت حضرت انس (رض))

10487

10487 من رمى بسهم في سبيل الله فهو له عدل محرر.(ت ك عن أبي نجيح).
10483 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں ایک تیر چلائے گویا اس نے ایک غلام کو آزاد کردیا “۔ (ترمذی مستدرک بروایت ابو تجیح)

10488

10488 من رمى العدو بسهمب في سبيل الله فبلغ سهمه العدو أصاب أو أخطأ فعدل رقبة.(حم ن ه طب ك عن عمرو بن عبسة).
10484 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں دشمن پر ایک تیر چلائے اور اس کا تیر دشمن تک پہنچ جائے پھر چاہے اس کا تیر کام دکھائے یا نہ دکھائے اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے “۔ (مسند احمد، نسائی ابن ماجہ، طبرانی کبیر ، مستدرک حاکم بروایت عمروبن عبسہ (رض))

10489

10489 من سل سيفه في سبيل الله فقد بايع الله.(ابن مردويه عن أبي هريرة).
10485 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں اپنی تلوار سونتے تو گویا اس نے اللہ سے بیعت کرلی “۔ (ابن مردویہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10490

10490 من صدع رأسه في سبيل الله فاحتسب غفر له ما كان قبل ذلك من ذبن.(طب عن ابن عمرو).
10486 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں اگر کسی سر میں درد ہو اور وہ اس پر ثواب کی امید رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں “۔ (طبرانی کبیر بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

10491

10491 من فاته الغزو معي فليغز في البحر.(طس عن واثلة).
10487 ۔۔۔ فرمایا ” جو میرے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوسکا ہو اس کو چاہیے کہ وہ سمندر میں جہاد کرے “۔ (طبرانی اوسط بروایت واثلۃ (رض))

10492

10492 من فدى أسيرا من أيدي العدو فأنا ذلك الاسير.(طص عن ابن عباس).
10488 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص کسی قیدی کو دشمن کے ہاتھوں سے چھرائے تو گویا کہ اس نے مجھے آزاد کیا “۔ (طبران، صغیربروایت حضرت ابن عباس (رض))

10493

10493 من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله.(حم عن أبي موسى).
10489 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص اللہ کے دین کو بلند کرنے کی خاطر لڑے وہ اللہ کے راستے میں نکلا ہوا ہے۔ (مسند احمد ، ھولاء الاربعۃ، متفق علیہ بروایت حضرت ابوموسیٰ (رض))

10494

10494 من قاتل في سبيل الله فواق ناقة حرم الله وجهه على النار.(حم عن عمرو بن عبسة)
10490 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں صرف اتنی دیر لڑے جتنی دیر میں اونٹنی کا دودھ نکالاجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ پر حرام فرما دیتے ہیں۔ “ (مسند احمد، بروایت حضرت عمرو ابن عبسۃ)

10495

10495 من لقي الله بغير أثر من جهاد لقي الله وفيه ثلمة.(ت د ك عن أبي هريرة).
10491 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس پر جہاد کسی قسم کا اثر نہ ہو تو وہ اس سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے دین میں کمی ہوگی “۔ (ترمذی، ابوداؤد، مستدرک حاکم، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10496

10496 من لقي العدو فصبر حتى يقتل أو يغلب لم يفتن في قبره.(طب ك عن أبي أيوب).
10492 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص دشمن سے جہاد کرے اور ثابت قدم رہے یہاں تک کہ شہید ہوجائے یا فتح ہوجائے تو وہ شخص قبر میں آزمایا نہیں جائے گا “۔ (طبرانی کبیر مستدرک حاکم بروایت حضرت ابو ایوب (رض))

10497

10497 من مات مرابطا في سبيل الله أمنه الله من فتنة القبر.(طب عن أبي أمامة).
10493 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے پایا جائے اللہ پاک اس کو قبر کے فتنوں سے امن بخشیں گے۔ “ (طبرانی کبیر بروایت حضرت ابوامامہ (رض))

10498

10498 وفد الله ثلاثة الغازي والحاج والمعتمر.(ن حب ك عن أبي هريرة).
10494 ۔۔۔ فرمایا ” تین لوگ اللہ کی جماعت میں سے ہیں، جہاد سے کامیاب لوٹنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا۔ (نسائی، لابن حبان، مستدرک حاکم بروایت ابوھریرۃ (رض))

10499

10499 لا يجتمع كافر وقاتله في النار أبدا.(م د عن أبي هريرة).
10495 ۔۔۔ فرمایا ” کافر اور اس کو قتل کرنے والا آگ میں کبھی جمع نہ ہوں گے “۔ (مسلم، ابوداؤد، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10500

10500 بعثت مرحمة وملحمة ولم أبعث تاجرا ولا زارعا ، ألا وإن شرار الامة التجار والزارعون إلا من شح على دينه.(حل عن ابن عباس)
10496 ۔۔۔ فرمایا ” مجھے مہربانی کرنے والا اور جہاد کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے تاجر یا کھیتی باڑی والا نہیں بنایا گیا، یاد رکھوامت کے بدترین لوگ تاجر اور کھیتی باڑی کرنے والے ہیں مگر وہ شخص جو اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ہو “۔ (حلیہ ابونعیم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10501

10501 إن الله تعالى بعثني ملحمة ومرحمة ، ولم يبعثني تاجرا ولا زارعا وإن شرار الامة يوم القيامة التجار والزارعون إلا من شح على دينه.(قط في الافراد حل وابن عساكر عن ابن عباس).
10497 ۔۔۔ فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے رحم کرنے والا اور جہاد کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور مجھے تاجر اور زراعت والا بناکر نہیں بھیجا ہے بیشک قیامت میں بدترین لوگ وہ ہوں گے جو تاجر اور کھیتی باڑی کرنے والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ (سنن دارقطنی فی الازار، حلیہ ابونعیم وابن عساکر)

10502

10502 ما من أهل بيت يغدو عليهم فدان إلا ذلوا.(طب عن أبي أمامة).
10498 ۔۔۔ فرمایا ” کوئی گھروالے ایسے نہیں جن کے پاس صبح دوبیلوں کی جوڑی آتی ہو مگر یہ کہ وہ ذلیل ہوں گے “ (مراد کھیتی باڑی والے لوگ ہیں) ۔ (طبرانی، کبیر بروایت حضرت ابوامامہ، (رض))

10503

10503 إذا تبايعتم بالعينة وأخذتم أذناب البقر ورضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم.(د عن ابن عمر).
10499 ۔۔۔ فرمایا ” جب تم بیع عینہ کرنے لگو “۔ (ابوداؤد، بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10504

10504 إذا ضن الناس بالدينار والدرهم ، وتبايعوا بالعينة ، وتبعوا أذناب البقر ، وتركوا الجهاد في سبيل الله أدخل الله عليهم ذلا لا يرفعه عنهم حتى يراجعوا دينهم. (حم طب هب عن ابن عمر).
10500 ۔۔۔ فرمایا ” جب لوگ دینار اور درھم میں بخل کرنے لگیں، بیع عینیہ کرنے لگیں اور جانوروں کے پیچھے مشغول ہوجائیں گے اور اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑ بیٹھیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی ذلت ڈال دیں گے جس کو اس وقت تک نہیں ہٹائیں گے جب تک یہ لوگ اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آئیں “۔ (مسند احمد، طبرانی کبیر، شعب الایمان، بیھقی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10505

10505 أفضل الصدقات ظل فسطاط في سبيل الله عزوجل أو منحة خادم في سبيل الله عزوجل ، أو طروقة فحل في سبيل الله.(حم ت عن أبي أمامة) (ت عن عدي بن حاتم).
10501 ۔۔۔ فرمایا ” سب سے افضل صدقہ ایک خیمہ کا سایہ اللہ کے راستے میں مہیا کرنا یا ایک غلام کا اللہ کے راستے میں دینا، جوان اونٹنی اللہ کے راستے میں دینا “۔ (مسند احمد، ترمذی، بروایت حضرت ابوامامۃ (رض) ، ترمذی بروایت حضرت عدی بن حاتم (رض))

10506

10506 أيكم خلف الخارج في أهله وماله بخير كان له مثل نصف أجر الخارج.(م د عن أبي سعيد).
10502 ۔۔۔ فرمایا ” تم میں سے جو شخص اللہ کے راستے میں نکلنے والے کے پیچھے اس کے گھر اور مال کا بھلائی کے ساتھ خیال رکھے اس کو نکلنے والے کے اجر آدھے حصے جتنا ملے گا “۔ (مسلم، ابوداؤد، بروایت حضرت ابو سعید (رض))

10507

10507 ما تغبرت الاقدام في مشي أحب إلى الله تعالى من رفع صف.(ص عن ابن سابط) مرسلا.
10503 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کو غبار آلود قدموں میں سے کوئی قدم اتنا محبوب نہیں جتنے وہ قدم جو جہاد کی صفیں سیدھی کرتے وقت غبار آلود ہوئے ہوں۔ (سنن سعید بن منصور بروایت ابن سابط (رض) ، مرسلاً )

10508

10508 رباط يوم في سبيل الله خير من الدنيا وما عليها ، وموضع سوط أحدكم من الجنة خير من الدنيا وما عليها ، والروحة يروحهاالعبد في سبيل الله أو الغدوة خير من الدنيا وما عليها.(حم خ ت عن سهل بن سعد).
10504 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں ایک دن کا جہاد دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے، اور جنت میں تمہارے کوڑے کے رکھنے کی جتنی جگہ ہے وہ جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں ایک شام یا ایک صبح لگا دینا اور دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ان سب سے بہتر ہے۔ “ (مسند احمد، بخاری، ترمذی، بروایت حضرت سھل بن سعد (رض))

10509

10509 رباط يوم وليلة خير من صيام شهر وقيامه ، وإن مات مرابطا جريعليه عمله وأجري عليه روزقه وأمن من الفتان.(م عن سلمان).
10505 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں ایک دن سرحد کی حفاظت ایک مہینہ کے روزوں اور رات کی عبادت سے بہتر ہے اور اگر کوئی شخص سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے مرگیا تو اس کے اعمال کا ثواب لکھاجاتا رہے گا اور اس کا رزق بھی جاری رہے گا اور وہ فتنوں سے محفوظ ہوجائے گا “۔ (مسلم بروایت حضرت سلمات (رض))

10510

10510 رباط يوم خير من صيام شهر وقيامه (حم عن ابن عمرو).
10506 ۔۔۔ فرمایا ” سرحد کی ایک دن کی حفاظت ایک مہینہ کے روزوں اور راتوں کی عبادت سے افضل ہے “۔ (مسند احمد، بروایت ابن عمرو (رض))

10511

10511 رباط يوم في سبيل الله ير من ألف يوم فيما سواه من المنازل.(ت ن ك عن عثمان).
10507 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں سرحد کی ایک دن کی حفاظت اس کے علاوہ دوسری جگہوں کی ہزار دن حفاظت کرنے سے بہتر ہے “۔ (ترمذی ، نسائی، مستدرک حاکم، بروایت حضرت عثمان (رض)

10512

10512 رباط شهر خير من صيام دهر ، ومن مات مرابطا في سبيل الله أمن من الفزع الاكبر ، وغدي عليه برزقه ، وريح من الجنة ويجري عليه أجر المرابط حتى يبعثه الله. (طب عن أبي الدرداء)
10508 ۔۔۔ فرمایا ایک دن کی سرحد کی حفاظت زمانہ دراز تک روزے رکھنے سے بہتر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے شہید جائے وہ بہت بڑے خوف سے امن پاجائے گا اور اس کا رزق اس تک پہنچایا جائے گا اور وہ جنت کی خوشبو پائے گا اور اس کے لیے قیامت تک حفاطت کرنے کا اجر لکھا جاتا رہے گا “۔ طبرانی کبیر بروایت ابوالدرداء (رض))

10513

10513 رباط يم في سبيل الله يعدل عبادة شهر أو سنة صيامها وقيامها ، ومن مات مرابطا في سبيل الله أعاذه الله من عذاب القبر وأجري له أجر رباطه ما قامت الدنيا. (الحارث عن عبادة).
10509 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں ایک دن کی سرحد کی حفاظت ایک مہینہ یا ایک سال کی عبادت یعنی اس کے روزے اور رات کے قیام جتنا ثواب رکھتی ہے اور جو اللہ کے راستے میں سرحد کی حفاظت کرتا ہو اور وہ شہید ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کو قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں اور اس کے لیے اس حفاظت کا ثواب اس وقت تک لکھا جاتا رہے گا جب تک دنیا باقی رہے “۔ بروایت حضرت حارث (رض) حضرت عبادۃ (رض))

10514

10514 تمام الرباط أربعون يوما ، ومن رابط أربعين يوما ولم يشتر ولم يحدث حدثا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه.(طب) عن أبي أمامة).
10510 ۔۔۔ فرمایا ” سرحد کی حفاظت چالیس سال تک ہے، جس نے چالیس دن تک حفاظت کی اور اس دوران نہ کچھ خریدو فروخت کی نہ کوئی گناہ کیا تو وہ اپنی خطاؤں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے کہ اپنی پیدائش کے دن تھا۔ “ (طبرانی کبیر بروایت ابوامامۃ (رض))

10515

10515 إذا انتاط غزوكم ، وكثرت العزائم ، واستحلت الغنائم فخير جهادكم الرباط.(طب وابن منده خط والديلمي عن عتبة بن الندر).
10511 ۔۔۔ جب تمہاری جنگیں ختم ہوجائیں اور ارادے بڑھ جائیں اور غنیمت اتارلی جائیں تو تمہارا بہترین جہاد جہاد کی تیار ہے۔ (الشیرازی فی الالقاب عن ابن عباس (رض))

10516

10516 أطيب كسب المسلم سهمه في سبيل الله.(الشيرازي في الالقاب عن ابن عباس).
10512 ۔۔۔ فرمایا مسلمان کی بہترین کمائی اس کو اللہ کے راستے میں ملنے والا مال ہے۔ شیرازی فی الالقاب بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10517

10517 أفضل الغزاة في سبيل الله خادمهم ، ثم الذي يأتيهم بالاخبار وأخصهم عند الله منزلة الصائم.(طس عن أبي هريرة).
10513 ۔۔۔ سب سے بہترین جہاد کرنے والا وہ ہے جو ساتھیوں کی خدمت کرنے والا ہو اور وہ شخص جو ان کے پاس دشمن کی خبر لائے اور اللہ کے نزدیک ان میں سب سے خاص مرتبہ والا روزہ دار ہے “۔ (طبرانی اوسط بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10518

10518 أقرب العمل إلى الله عزوجل الجهاد في سبيل الله ، ولا يقاربه شئ.(تخ عن فضالة بن عبيد).
10514 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے نزدیک سب سے مقرب عمل اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہوسکتی “۔ (بخاری فی التاریخ بروایت حضرت فضالۃ بن عبید (رض))

10519

10519 الزموا الجهاد تصحوا وتستغنوا.(عد عن أبي هريرة).
10515 ۔۔۔ فرمایا ” جہاد کو لازم پکڑلو صحت مند رہو گے اور مالدار ہوجاؤ گے “۔ (کامل ابن عدی بروایت حضرت ابوھریرۃ )

10520

10520 إن الله تعالى جعل عذاب هذه الامة في الدنيا القتل.(حل عن عبد الله بن يزيد الانصاري).
10516 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ نے اس امت کے لیے دنیا کا عذاب قفل ہونے میں رکھا ہے۔ حلیہ ابونعیم بروایت عبداللہ بن یزید الارضاعی (رض))

10521

10521 عقوبة هذه الامة بالسيف.(طب عن رجل) (خط عن عقبة بن مالك).
10517 ۔۔۔ فرمایا ” اس امت کو تلوار کے ذریعے سزادی گئی ہے “۔ (طبرانی کبیر عن رجل)

10522

10522 عذاب هذه الامن جعل بأيديها في دنياها.(ك عن عبد الله بن يزيد).
10518 ۔۔۔ حضرت عقبۃ بن مالک (رض) کی طرف سے خط فرمایا ” اس امت کا دنیا کا عذاب ان کے اپنے ہاتھوں میں رکھ دیا ہے “۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت عبداللہ بن یزید (رض))

10523

10523 جعل الله عذاب هذه الامة في دنياها.(طب عن عبد الله بن يزيد).
10519 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ نے اس امت کا عذاب اس کی دنیا میں رکھ دیا “ (طبرانی کبیر بروایت حضرت عبداللہ بن یزید (رض))

10524

10524 عذاب أمتي في دنياها.(ك عنه).
10520 ۔۔۔ فرمایا ” میری امت کا عذاب اس کی دنیا میں ہے “۔ (مستدرک حاکم بروایت عبداللہ بن یزید (رض))

10525

10225 أن أفضل عمل المؤمنين الجهاد في سبيل الله.(طب عن بلال).
10521 ۔۔۔ فرمایا بیشک مومنین کے لیے سب سے بہتر عمل اللہ کے راستے میں جہاد ہے “۔ (طبرانی کبیر بروایت حضرت بلال (رض))

10526

10526 إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله.(د ك هب عن أبي أمامة).
10522 ۔۔۔ فرمایا ” میری امت کی سیاحت اللہ کے راستے کا جہاد ہے “۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم، شعب الایمان بیھقی بروایت ابی امامۃ (رض))

10527

10527 إن لكل أمة سياحة ، وسياحة أمتي الجهاد في سبيل الله ، وإن لكل أمة رهبانية ، ورهبانية أمتي الرباط في نحور العدو (طب عن أبي أمامة).
10523 ۔۔۔ فرمایا بیشک ہر امت کے لیے ایک سیاحت ہوتی ہے اور میری امت کی سیاحت اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے اور بیشک ہر امت کے لیے رھبانیت ہوتی ہے میری امت کی رھبانیت دشمنوں کے ٹھکانوں سے سرحد کی حفاظت کرنا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابوامامۃ (رض))

10528

10528 بعثت بين يدي الساعة بالسيف ، حتى تعبدوا الله وحده لا شريك له ، وجعل رزقي تحت ظل رمحي وجعل الذل والصغارعلى من خالف أمري ، ومن تشبه بقوم فهو منهم.(حم ع طب عن ابن عمر).
10524 ۔۔۔ فرمایا ” میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں تاکہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں اور میرا رزق میرے نیزے کے نیچے ہے اور حقارت اور ذلت ڈال دی گئی اس شخص پر جو میرے دین کی مخالفت کرے اور جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انھیں میں سے ہوگا “۔ (مسند احمد، مسند ابی یعلی، طبرانی کبیر بروایت ابن عمر (رض))

10529

10529 أفضل الناس رجلان ، رجل غزا في سبيل الله حتى يهبط موضعا يسوء العدو ، ورجل ناحية البادعية يقيم الصلوات الخمس ، ويؤدي حق ماله ، ويعبد ربه ، حتى يأتيه اليقين.(حم عن أبي هريرة).
10525 ۔۔۔ فرمایا “ لوگوں میں سے بہترین دو شخص ہیں ایک وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہے یہاں تک کہ ایسی جگہ تک جا پہنچے جہاں سے دشمن کو خطرہ ہوجائے اور دوسرا وہ شخص جو آبادی کے کنارے پر رہتا ہو اور پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتا رہے، اپنے مال کا حق دیتا رہے اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہے یہاں تک کہ اس کو موت آجائے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10530

10530 ألا أخبركم بخير الناس منزله ؟ رجل ممسك بعنان فرسه في سبيل الله حتى يموت أو يقتل ، ألا أخبركم بالذي يتلوه ؟ رجل معتزل في شعب يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة ويعتزل شرور الناس ، ألا إن شر الناس رجلا يسأل بالله ولا يعطي.(حم ت ن حب عن ابن عباس).
10526 ۔۔۔ فرمایا ” کیا میں تمہیں لوگوں میں سب سے بہترین مرتبہ والا نہ بتاؤں یہ وہ شخص ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اللہ کے راستے میں چلتا رہے یہاں تک کہ مرجائے یا شہید کردیا جائے، اور کیا میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس کے پیچھے چلنے والا ہے ؟ یہ وہ شخص ہے جو ایک گھاٹی میں گوشہ نشین ہو کر نماز پڑھتا رہے زکوۃ ادا کرتا رہے اور برے لوگوں سے دور رہے “ خوب سن لو سب سے بدترین شخص وہ ہے جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا اور وہ پھر بھی عطا نہ کرے “۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، لابن حبان، بروایت ابن عباس (رض))

10531

10531 أكمل المؤمنين إيمانا رجل يجاهد في سبيل الله بنفسه وماله ، ورجل عبد الله في شعب من الشعاب ، قد كفى الناس شره.(د ك ن أبي سعيد).
10527 ۔۔۔ فرمایا ” سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے اور وہ شخص جو ایک گھاٹی میں اللہ کی عبادت کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں “۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت ابو سعید )

10532

10532 أفضل الناس مؤمن يجاهد في سبيل الله بنفسه وماله ، ثم مؤمن في شعب من الشعاب يتقي الله ويدع الناس من شره.(م ق ت ن د ه عن أبي سعيد).
10528 ۔۔۔ فرمایا ” سب سے بہتر مومن وہ ہے جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرلے پھر وہ مومن جو ایک گھاٹی میں رہ کر اللہ سے ڈرتا رہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کردے۔ (مسلم متفق علیہ، ترمذی، نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت ابوسعید (رض))

10533

10533 المرابط في سبيل الله أعظم أجرا من رجل جمع كعبيه بوفاد شهر صامه وقامه.(هب عن أبي أمامة).
10529 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں سرحد کی حفاظت کرنے والا اس شخص سے زیادہ اجر حاصل کرنے والا ہے جو اپنے آپ کو چست کر کے ایک مہینہ کے روزے اور راتوں کی عبادت کرے “۔ (شعب الایمان بیھقی بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10534

10534 إن المنفق على الخيل في سبيل الله كالباسط يديه بالصدقة لا يقبضهما. (طب عن سهل بن الحنظلية).
10530 ۔۔۔ فرمایا ” بیشک اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے پر خرچ کرنے والا ایسا ہے جیسے اپنے ہاتھوں کو صدقہ دینے کے لیے کھول ڈالے اور پھر ان کو بند نہ کرے “۔ (طبرانی کبیر بروایت سھل ابن حنظلۃ)

10535

10535 إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ، ما بين الدرجتين كما بين السماء والارض فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس فانه أوسط الجنة ، وأعلى الجنة ، وفوقه عرش الرحمن ، ومنه تفجر أنهارالجنة.(حم خ عن أبي هريرة).
10531 ۔۔۔ فرمایا ” بیشک جنت میں سودرجے ہیں جن کو اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، ہر دو درجوں کے بیچ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان پس جب تم اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ وہ جنت کے بیچ میں ہے اور جنت کا اعلیٰ درجہ ہے اور اس کے ا وپر رحمن کا عرش ہے، اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں “۔ (مسند احمد بخاری، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10536

10536 انتدب الله لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا إيمان بي وتصديق برسلي أن أرجعه بما نال من أجر أو غنيمة ، أو أدخله الجنة ، ولو لا أن أشق على أمتي ما قعدت خلف سرية ، ولوددت أني أقتل في سبيل الله ، ثم أحيا ، ثم أقتل ، ثم أحيا ، ثم أقتل ، ثم أحيا ، ثم أقتل.(حم ق ن عن أبي هريرة).
10532 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اسے اللہ پکارتا ہے کہ اسے مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں پر تصدیق نے نکالا ہے۔ مجھ پر اس کا حق ہے کہ میں اسے اس کے اجر اور ساتھ لائی ہوئی غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا دوں یا اسے جنت میں داخل کروں “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہوتا تو میں کسی سریے (وہ جنگ جس میں آپ خود شریک نہ ہوتے تھے) سے پیچھے نہ رہوں حالانکہ میری خواہش ہے کہ مجھے اللہ کے راستے جہاد (میں شہید ) کیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کیا جائے۔ تین مرتبہ فرمایا۔ (مسند احمد متفق علیہ نسائی عن ابوہریرہ (رض))

10537

10537 رباط يوم في سبيل الله أفضل من صيام شهر وقيامه ، ومن مات فيه وقي فتنة القبر ، ونمي له عمله إلى يوم القيامة.(ت عن سلمان).
10533 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں سرحد کی ایک دن کی حفاظت ایک مہینہ کے روزے اور راتوں کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اس حفاظت کے دوران مرجائے وہ قبر کے فتنہ سے محفوظ کردیا جائے گا اور اس کے عمل کا اجر قیامت تک لکھا جاتا رہے گا “۔ (ترمذی بروایت سلمان (رض))

10538

10538 لان أشيع مجاهدا في سبيل الله ، فأكفه على رحله غدوة أو روحة أحب إلي من الدنيا وما فيها.(حم ه ك عن معاذ بن أنس)
10534 ۔۔۔ فرمایا ” میں اللہ کے راستے میں ایک جہاد کرنے والے کے لیے سامان سفر کی تیار کردوں “۔

10539

10539 ما من مجروح يجرح في سبيل الله والله أعلم بمن يجرح في سبيله إلا جاء يوم القيامة وجرحه يثعب دما ، اللون لون الدم ، والريح ريح المسك.(ه عن أبي هريرة)
10535 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں کسی زخمی کو کوئی زخم نہیں لگتا اور اللہ خوب معلوم ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوا ہے مگر یہ کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا جس کا رنگ خون جیسا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ہریرہ (رض))

10540

10540 لا يكلم أحد في سبيل الله ، والله أعلم بمن يكلم في سبيله إلا جاء يوم القيامة وجرحه يثعب دما ، اللون لون الدم ، والريح ريح المسك.(ت ن عن أبي هريرة).
10536 ۔۔۔ فرمایا ” کوئی شخص اللہ کے راستے میں زخمی نہیں ہوتا اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کون شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوا ہے مگر یہ کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا جس کا رنگ خون جیسا ہوگا اور خوشبو مشک جیسی ہوگی “۔ (ترمذی، نسائی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10541

10541 ما من مكلوم يكلم في سبيل الله إلا جاء يوم القيامة وكلمه يدمي ، اللون لون الدم ، والريح ريح المسك.(خ عن أبي هريرة)
10537 ۔۔۔ فرمایا ” کوئی زخمی اللہ کے راستے میں زخم نہیں کھاتا مگر یہ کہ وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہوگا جس کا رنگ خون جیسا ہوگا اور خوشبو مشک جیسی۔ (بخاری بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10542

10542 ما من نفس تموت ، لها عند الله خير يسرها أن ترجع إلى الدنيا ، وأن لها الدنيا وما فيها ، إلا الشهيد ، فانه يتمنى أن يرجع إلى الدنيا فيقتل مرة أخرى ، لما يرى من فضل الشهادة.(حم ق ت عن أنس).
10538 ۔۔۔ فرمایا ” کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس کو موت آئے اور اللہ کے پاس اس کے لیے بھلائی ہو کہ وہ دنیا میں لوٹنا پسند کرتا ہو اگرچہ اس کو دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ سب مل جائے سوائے شہید کے کہ وہ یہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں لوٹ جائے تاکہ اس کو دوبارہ شہید کردیا جائے یہ اس وجہ سے کہ اس کو شہادت کی فضیلت کا پتہ چل چکا ہوگا “۔ (مسند احمد متفق علیہ ترمذی بروایت انس (رض))

10543

10543 ناس من أمتي عرضوا علي غزاة في سبيل الله يركبون ثبج البحر ملوكا على الاسرة.(ق ت ن عن أنس) (حم م ن ه عن أم حرام بنت ملحان).
10539 ۔۔۔ فرمایا ” میری امت کے بعض لوگ مجھ پر پیش کئے گئے جو اللہ کے راستے میں جہاد کررہے تھے اور سمندر کے بیچ میں اس طرح سوار تھے جیسے بادشاہ تختوں پر ہوتے ہیں “۔ (متفق علیہ ترمذی ، نسائی ، بروایت حضرت انس (رض) مسند احمد، مسلم، نسائی ابن ماجہ بروایت حضرت ام حرام بن ملحان (رض))

10544

10544 رأيت قوما ممن يركب ظهر هذا البحر كالملوك على الاسرة.(د عن أم حرام).
10540 ۔۔۔ فرمایا ” میں نے سمندر پر سوار ہونے والے لوگوں میں سے ایک ایسی جماعت دیکھی جو اس طرح تھی جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں “۔ مراد جہاد کرنے والے لوگ ہیں۔ (ابوداؤد بروایت ام حرام (رض))

10545

10545 عجبت من قوم من أمتي يركبون البحر كالملوك على الاسرة.(خ عن أم حرام).
10540 ۔۔۔ فرمایا ” میں نے سمندر پر سوار ہونے والے لوگوں میں سے ایک ایسی جماعت دیکھی جو اس طرح تھی جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں “۔ مراد جہاد کرنے والے لوگ ہیں۔ (ابوداؤد بروایت ام حرام (رض))

10546

10546 أريت قوما من أمتي يركبون البحر كالملوك على الاسرة (م عن جابر)
10541 ۔۔۔ فرمایا ” میں اپنی امت میں سے ایک ایسی جماعت سے متعجب ہوا جو سمندر پر اس طرح سوار تھی جیسے بادشاہ تختوں پر ہوتے ہیں “۔ (مسلم بروایت ام حرام (رض))

10547

10547 أيها الناس لا تتمنوا لقاء العدو ، واسألوا الله العافية ، فإذا لقيتم فاصبروا ، واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف ، اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب ، وهازم الاحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم.(ق د عن عبد الله بن أبي أوفى).
10542 ۔۔۔ فرمایا ” اے لوگو ! دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو اور جب تمہارا دشمن سے سامنا ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے اے اللہ جو کتاب کو نازل کرنے والے ہیں اور بادلوں کو چلانے والے ہیں اور دشمنوں کو شکست دینے والے ہیں ان لوگوں کو شکست دے دیں اور ہمیں ان پر فتح نصیب فرمائیں “۔ (متفق علیہ، ابوداؤد بروایت حضرت عبداللہ بن ابی او فی (رض))

10548

10548 من احتبس فرسا في سبيل الله إيمانا بالله وتصديقا بوعده كان شبعه وريه وروثه وبوله حسنات في ميزانه.(حم خ ن عن أبي هريرة).
10544 ۔۔۔ فرمایا ” جو شخص اللہ کے راستے میں ایک گھوڑا دے دے اس حال میں کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے وعدے کو سچ جانتا ہو تو اس گھوڑے کے کھانے پینے، پاخانہ اور پیشاب کے بدلے میں اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی “۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، نسائی بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

10549

10549 من ارتبط فرسا في سبيل الله ، ثم عالج علفه بيده كان له بكل حبة حسنة.(ه حب عن تميم الداري).
10545 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستہ میں ایک گھوڑا عطاکردے پھر اپنے ہاتھ سے اس کا چارہ بنائے تو ہر دانہ کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی ہے “۔ (ابن ماجہ ابن حبان بروایت تیمم داری (رض))

10550

10550 إن لله تعالى ملائكة ينزلون في كل ليلة يحسبون دواب الغزاة إلا دابة في عنقها جرس.(طب عن أبي الدرداء).
10546 ۔۔۔ فرمایا ” بیشک اللہ کے بعض ملائکہ ایسے ہیں جو ہر رات کو نازل ہوتے ہیں اور جنگ میں استعمال ہونے والے جانوروں کو گنتے ہیں سوائے اس جانور کے جس کے گلے میں گھنٹی ہو “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابودرداء (رض))

10551

10551 من أرسل بنفقته في سبيل الله وأقام في بيته فله بكل درهم سبعمائة درهم ، ومن غزا بنفسه في سبيل الله وانفق في وجهه ذلك فله بكل درهم سبعمائة ألف درهم.(ه عن الحسن بن على وأبي الدرداء وأبي هريرة وأبي أمامة وابن عمر وابن عمرو وجابر وعمران بن حصين).
10547 ۔۔۔ فرمایا ” جو اپنے خرچ پر کسی شخص کو اللہ کے راستے میں بھیج دے اور خود گھر رہے تو اس کے لیے ہر درھم کے بدلے ساٹھ سو درہم کا ثواب ہے، اور جو خود اللہ کے راستے میں لڑے اور اس میں مال خرچ کرے تو اس کے لیے ہر درھم کے بدلے ساٹھ لاکھ درھم ہوں گے “۔ ابن ماجہ بروایت حسن بن علی ابو درداء (رض) ابوھریرۃ (رض) ، ابوامامہ، ابن عمر، جابر، عمران بن حصین (رض))

10552

10552 من بلغ بسهم في سبيل الله فهو له درجة في الجنة.(د ن حب ك عن أبي نجيح).
10548 ۔۔۔ فرمایا ” جس کو اللہ کے راستے میں کچھ حصہ ملے تو وہ اس کے لیے جنت کا ایک درجہ ہے “۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن حبان، مستدرک بروایت حضرت ابی نجیح)

10553

10553 من جهز غازيا في سبيل الله فقد غزا ، ومن خلف غازيا في سبيل الله في أهله بخير فقد غزا.(حم ق عن زيد بن خالد).
10549 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستے میں جانے کے لیے کسی کو تیار کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جو کسی جہاد کرنے والے کے پیچھے اس کے گھر والوں کا اچھی طرح سے خیال رکھے تو گویا اس نے خود جہاد کیا “۔ (مسند احمد، متفق علیہ، ابن ماجہ بروایت حضرت زید بن خالد (رض))

10554

10554 من جهز غازيا في سبيل الله كان له مثل أجره من غير أن ينقص من أجر الغازي شيئا.(ه عن زيد بن خالد الجهني)
10550 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستے میں جانے کے لیے کسی کو تیار کرے تو اس کے لیے اس جانے والے کے جتنا اجر ہے اور اس جانے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت زید بن خالد الجھنی (رض))

10555

10555 من فصل في سبيل الله فمات أو قتل أو وقصته فرسه أو بعيره أو لدغته هامة أو مات على فراشه بأي حتف شاء الله فانه شهيد وأن له الجنة.(د ك عن أبي مالك الاشعري).
10551 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستے کے لیے نکلے اور اس دوران مرجائے یا شہید کردیا جائے یا اس کا گھوڑا یا اونٹ اسے کچل ڈالے یا اس کے بستر پر کوئی زہریلا جانور اسے ڈس لے یا جس طریقے سے بھی اللہ چاہے وہ انتقال کرجائے تو وہ شہید ہوگا اور اس کے لیے جنت ہوگی “۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابو مالک الاشعری (رض))

10556

10556 من قاتل في سبيل الله من رجل مسلم فواق ناقة فقد وجبت له الجنة ، ومن سأل الله القتل في نفسه صادقا ثم مات أو قتل فان له أجر شهيد ، ومن جرح جرحا في سبيل الله أو نكب نكبة فانها تجئ يوم القيامة كأغزر ما كانت لونها لون الزعفران وريحها ريح المسك ، ومن جرح به جراح في سبيل الله كان عليه طابع الشهداء. (حم حب عن معاذ).
10552 ۔۔۔ فرمایا ” جو مسلمان اللہ کے راستے میں اتنی دیر بھی قتال کرے جتنی دیر میں اونٹنی کا دودھ نکالا جاتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جو اللہ سے سچے دل کے ساتھ شہادت مانگے پھر وہ مرجائے یا قتل کردیا جائے تو بیشک اس کے لیے شہید جتنا اجر ہے اور جس شخص کو اللہ کے راستے میں کوئی زخم لگ جائے یا کوئی چوٹ پہنچے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا اس رنگ زعفران جیسا ہوگا اور خوشبو مشک جیسی اور جس شخص کو اللہ کے راستے میں کوئی زخم لگے تو اس پر شہیدوں کی مہرہوگی۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، ابن حبان بروایت حضرت معاذ (رض))

10557

10557 من لم يغز أو يجهز غازيا أو يخلف غازيا في أهله بخير أصابه الله بقارعة قبل يوم القيامة.(د ه عن أبي أمامة).
10553 ۔۔۔ فرمایا ” جو نہ جہاد کرے نہ کسی کو جہاد کے لیے تیار کرے نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کا خیال رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت سے پہلے پہلے کسی مصیبت میں مبتلا کردیں گے “۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت حضرت ابو امامہ (رض))

10558

10558 من مات ولم يغز ولم يحدث نفسه بغزو مات على شعبة من نفاق.(حم م د ن عن أبي هريرة).
10554 ۔۔۔ فرمایا ” جو اس حال میں دنیا سے رخصت ہو کہ اس نے نہ کبھی جہاد کیا ہو نہ کبھی اپنے دل میں اس کا ارادہ کیا ہو تو وہ ایک طرح کے نفاق پر دنیا سے رخصت ہوا “۔
فائدہ :۔۔۔ یعنی مومن کی تو شان یہی ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں نکلے یا پھر نکلنے کا خواہش مند رہے “۔ (مسند احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10559

10559 من مات مرابطا في سبيل الله أجرى الله عليه أجر عمله لصالح الذي كان يعمل ، وأجرى عليه رزقه ، وأمن من الفتان ، وبعثه الله يوم القيامة آمنا من الفزع.(ه عن أبي هريرة)
10555 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستے میں سرحد کی حفاظت کرتا ہوا جان دے دے تو اللہ اس کے نیک اعمال کا ثواب اس کے لیے جاری رکھتے ہیں اور اس کا رزق اس کو اسی طرح ملتا رہتا ہے اور وہ فتنوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس حال میں اٹھائیں گے کہ وہ خوف سے امن میں ہوگا۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10560

10560 موقف ساعة في سبيل الله خير من قيام ليلة القدر عند الحجر الاسود.(حب هب عن أبي هريرة).
10556 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں ایک گھڑی کا جہاد لیلۃ القدر میں حجر اسود کے پاس عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ (ابن حبان، شعب الایمان بیھقی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10561

10561 المنفق على الخيل في سبيل الله كباسط يديه بالصدقة لا يقبضها.(حم د ك عن ابن الحنظلية).
10557 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کے لیے اپنے گھوڑے پر خرچ کرنے والا ایسا ہے جیسے صدقہ دینے کے لیے ہاتھ کھولے رکھے اور ان کو بند نہ کرے “۔ (مسند احمد ابو داؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن الحنظلۃ (رض))

10562

10562 يقول الله تعالى : المجاهد في سبيل الله هو علي ضامن إن قبضته أورثته الجنة ، وإن رجعته رجعته بأجر أو غنيمة.(ت عن أنس) وقال : صحيح غريب. ص.
10558 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی میں ضمانت لیتا ہوں کہ اگر میں نے اس کو موت دے دی تو اس کو جنت عطا فرماؤں گا اور اگر اس کو واپس لوٹایا تو اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاؤں گا “۔ (ترمذی بروایت حضرت انس (رض))

10563

10563 من رابط يوما وليلة في سبيل الله كان له كأجر صيام شهر وقيامه ، ومن مات مرابطا أجري له مثل ذلك من الاجر ، وأجري عليه الرزق ، وأمن الفتان. (ت ك عن سلمان).
10559 ۔۔۔ فرمایا ” جو اللہ کے راستے میں ایک دن اور رات کی حفاظت کرنے کے دوران انتقال کرجائے اس کے لیے اتنا ہی اجر لکھا جاتا رہے گا اور اس کا رزق اس کو ملتا رہے گا اور وہ فتنوں سے محفوظ ہوجائے گا “۔ (ترمذی، مستدرک حاکم بروایت حضرت سلمان (رض))

10564

10564 والذي نفسي بيده لولا أن رجالا من المؤمنين لاتطيب أنفسهم أن يتخلفوا عني ، ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله ، والذي نفسي بيده لوددت أني أقتل في سبيل الله ، ثم أحيا ، ثم أقتل ، ثم أحيا ، ثم أقتل ، ثم أحيا ، ثم أقتل.(حم ق ن عن أبي هريرة).
10560 ۔۔۔ فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مومنین میں سے کچھ لوگ ایسے نہ ہوتے جن کو یہ گوارا نہیں کہ وہ جہاد میں میرے سے پیچھے رہ جائیں اور نہ ہی میرے پاس اتنا مال ہے کہ میں ان کو سواری دے سکوں تو میں اللہ کے راستے میں لڑی جانے والی کسی جنگ میں بھی پیچھے نہ رہوں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر دوبارہ زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں “۔ (مسند احمد، متفق علیہ نسائی، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10565

10565 لا يجتمع غبار في سبيل الله ، ودخان جهنم في منخري مسلم أبدا.(ن ه حب عن أبي هريرة).
10561 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی بھی مسلمان کے نتھنوں میں جمع نہیں ہوسکتا۔ (نسائی ابن ماجہ، ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10566

10566 لا يجتمع غبار في سبيل الله ، ودخان جهنم في جوف عبد أبدا ، ولا يجتمع الشح والايمان في قلب عبد أبدا.(د ك عن أبي هريرة).
10562 ۔۔۔ فرمایا ” کسی بندے کے اندر اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں ساتھ جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کسی انسان کے اندر ایمان اور بخل کبھی ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں “۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10567

10567 لا يجتمعان في النار مسلم قتل كافرا ، ثم سدد وقارب ، ولا يجتمعان في جوف مؤمن غبار في سبيل الله وفيح جهنم ، ولا يجتمعان في قلب عبد الايمان والحسد.(حم ن ك عن أبي هريرة).
10563 ۔۔۔ فرمایا ” دوزخ میں کافر اور وہ مسلمان جس نے اس کافر کو قتل کیا ہو پھر سیدھا چلا ہو اور میانہ روی اختیار کی ہو جمع نہیں ہوسکتے، اور کسی مسلمان کے اندر اللہ کے راستے کا غبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی بندے کے اندر ایمان اور حسد ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں “۔ (مسند احمد، نسائی، مستدرک حاکم، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10568

10568 لا يجتمعان في النار اجتماعا يضر أحدهما الآخر ، مؤمن قتل كافرا ثم سدد. (حم م عن أبي هريرة).
10564 ۔۔۔ فرمایا ” دوزخ میں دو ایسے لوگ جمع نہیں ہوسکتے جن میں سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہو ایسا مومن جو کافر کو قتل کرے پھر سیدھے راستے پر چلتا رہے۔ (مسند احمد، مسلم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10569

10569 إن الشيطان قعد لابن آدم بأطرقه ، فقعد له بطريق الاسلام ، فقال : تسلم وتذر دينك ودين آبائك وآباء آبائك ؟ فعصاه فاسلم ، ثم قعد له بطريق الهجرة ، وقال : تهاجر وتدع أرضك وسماءك ؟ وإنما مثل المهاجر كمثل الفرس في الطول ، فعصاه فهاجر ، ثم قعد له بطريق الجهاد ، فقال : تجاهد في جهد النفس والمال ، فتقاتل فتقتل فتنكح المرأة وتقسم الاموال ؟ فعصاه فجاهد ، فمن فعل ذلك كان حقا على الله أن يدخله الجنة ، وإن غرق كان حقا على الله أن يدخله الجنة ، وإن وقصته دابته كان حقا على الله أن يدخله الجنة.(حم ن حب عن سبرة ابن أبي فاكه)
10565 ۔۔۔ فرمایا ” بیشک شیطان نے ابن آدم کے مختلف راستوں میں گھات لگائی ہے، پس اس کے اسلام کے راستے میں بیٹھا ہے اور کہتا ہے تم اسلام لاتے ہو اور اپنا اور اپنے باپ دادوں کا دین چھوڑتے ہو لیکن وہ اس کی بات نہیں مانتا اور اسلام لے آیا ہے پھر وہ اس کے ہجرت کے راستے میں بیٹھا اور کہا تم ہجرت کررہے ہو اور اپنی زمین اور اپنا آسمان چھوڑ رہے ہو (مراد اپنا وطن ہے) جبکہ مہاجر کی مثال تو ایسی ہے جیسے گھوڑے کی چراگاہ میں ہے لیکن اس نے شیطان کی نہ مانی اور ہجرت کرلی پھر وہ اس کے جہاد کے راستے میں بیٹھا اور کہا تم مال اور جان کو مشقت میں ڈال کر جہاد کررہے ہو پھر اگر تم شہید کردئیے جاؤ گے تو تمہاری بیوی سے کوئی اور نکاح کرلے گا اور تمہارے مال کو تقسیم کردیا جائے گا لیکن اس نے شیطان کی بات نہیں مانی اور جہاد کیا، تو جو شخص اس طرح کرے تو اللہ پر واجب ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے، اور اگر وہ غرق ہوجائے تو اللہ پر واجب ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اور اگر اس کا جانور اس کی گردن توڑ دے تو اللہ پر واجب ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے “۔ (مسند احمد، نسائی ابن حبان، بروایت حضرت سبرۃ بن ابی فاکھہ (رض))

10570

10570 من خير معاش الناس لهم رجل ممسك عنان فرسه في سبيل الله ، يطير على متنه كلما سمع هيعة أو فزعة طار ععليه يبتغي القتل والموت مظانه ، أو رجل في غنيمة في شعفة من هذه الشعف ، أو بطن واد من هذه الاودية ، يقيم الصلات ، ويؤتي الزكاة ، ويعبد ربه حتى يأتيه اليقين ليس من الناس إلا في خير.(م ه عن أبي هريرة)
10566 ۔۔۔ فرمایا ” لوگوں میں سے سب سے بہتر زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے بلندی پر اڑتا جارہا ہو جب بھی کوئی پکار یا چیخ سنتا ہے اسی تک جاپہنچتا ہے لڑائی اور قتل کے مواقع تلاش کرتے ہوئے یا وہ شخص جو گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں یا وادیوں میں سے ایک وادی کے بیچ میں اپنی بکریوں کے چھوٹے سے ریوڑ کے ساتھ ہو، نماز پڑھتا رہے، زکوۃ ادا کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہے یہاں تک کہ اس کو موت آپہنچے، اور لوگوں سے اس کا تعلق بھلائی کے علاوہ کوئی نہ ہو “۔ (مسلم، ابن ماجہ، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10571

10571 جاهدوا المشركين باموالكم وأنفسكم وألسنتكم.(حم د ن حب ك عن أنس).
10567 ۔۔۔ فرمایا ” مشرکین سے اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی لابن حبان، مستدرک حاکم بروایت حضرت انس (رض))

10572

10572 حرس ليلة في سبيل الله على ساحل البحر أفضل من صيام رجل وقيامه في أهله ألف سنة السنة ثلثمائة يوم ، اليوم كألف سنة.(ه عن أنس).
10568 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں سمندر کے ساحل پر ایک رات کی حفاظت اس شخص کی عبادت سے بہتر ہے جو اپنے گھر میں رہ کر ایک ہزار برس تک روزے رکھے اور راتوں کو عبادت کرتا رہے اور ہر برس تین سو دن کا اور ہر دن ہزار برس کا “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت انس (رض))

10573

10573 حرس ليلة في سبيل الله عزوجل أفضل من ألف ليلة يقام ليلها ويصام نهارها. (طب ك هب عن عثمان).
فرمایا اللہ کے راستے کی ایک رات کی حفاظت بہتر ہے ایک ہزار ایسی راتوں سے جن میں عبادت کی جائے اور ان کے دنوں میں روزے رکھے جائیں۔ طبرانی

10574

10574 حرم على عينين أن تنالهما النار : عين بكتمن خشية الله ، وعين باتت تحرس الاسلام وأهله من أهل الكفر.(ك هب عن أبي هريرة).
10569 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کی ایک رات کی حفاظت بہتر ہے ایک ہزار ایسی راتوں سے جن میں عبادت کی جائے اور ان کے دنوں میں روزے رکھے جائیں “۔ (طبرانی کبیر، مستدرک حاکم شعب الایمان بیھقی بروایت حضرت عثمان (رض)

10575

10575 حرمت النار على عين بكت من خشية الله ، وحرمت النار على عين سهرت في سبيل الله ، وحرمت النار على عين غضت عن محارم الله ، أو عين فقئت في سبيل الله.(طب ك عن أبي ريحانة).
10570 ۔۔۔ فرمایا ” آگ حرام کردی گئی اس آنکھ پر جو اللہ کے ڈر سے روئے اور آگ حرام کردی گئی اس آنکھ پر جو اللہ کے راستے میں جاگی ہو اور آگ حرام کردی گئی اس آنکھ پر جو اللہ کے منع کردہ چیزوں سے رک گئی ہو یا وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں ضائع ہوگئی ہو “۔ (طبرانی کبیر، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوریحانہ (رض))

10576

10576 حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة أمهاتهم وما من رجل من القاعدين يخلف رجلا من المجاهدين في أهله فيخونه فيهم إلا وقف له يوم القيامة ، فقيل له : هذا قد خلفك في أهلك بسوء فخذ من حسناته ما شئت ، فيأخذ من عمله ما شاء ، فما ظنكم ؟ ما أرى يدع من حسناته شيئا.(حم م د ن عن بريدة).
10572 ۔۔۔ مجاہدین کی عورتیں پیچھے رہ جانے والوں پر اس طرح حرام ہیں جیسے ان کی اپنی مائیں اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے مجاہدین میں سے کسی کے گھر والوں کا رکھوالا بنے اور پھر ان میں خیانت کرے مگر یہ کہ قیامت کے دن مجاہد کو اس کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ شخص جس نے تمہارے پیچھے تمہارے گھر والوں کے ساتھ برائی کی سو تم اس کی نیکیوں سے جو چاہو لے لو پس وہ اس کے اعمال میں سے جو چاہے گالے لے گا تو تمہارا کیا گمان ہے میرا نہیں خیال کہ وہ اس کی نیکیوں میں سے کچھ چھوڑ دے گا۔ (مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی بروایت حضرت ابو بریدۃ (رض))

10577

10577 ذروة الاسلام الجهاد في سبيل الله ، لا يناله إلا أفضلهم (طب عن أمامة).
10573 ۔۔۔ فرمایا ” اسلام کی چوٹی اللہ کے راستے میں جہاد ہے اس کو وہی حاصل کرسکتا ہے جو لوگوں میں سب سے افضل ہو۔ (طبرانی، کبیر بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10578

10578 رحم الله حارس الحرس.(ه ك عن عقبة بن عامر).
10574 ۔ فرمایا ” اللہ رحم کرے چوکیداری کے چوکیدار پر (ابن ماجہ، مستدرک حاکم بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

10579

10579 ساعات في سبيل الله خير من خمسين حجة.(فر عن ابن عمر).
10575 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کی چند گھڑیاں پچاس حجوں سے بہتر ہیں۔ (مسند فردوس دیلمی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10580

10580 السيوف مفاتيح الجنة.(أبو بكر في الغيلانيات وابن عساكر عن يزيد بن شجرة).
10576 ۔۔۔ فرمایا ” تلواریں جنت کی چابیاں ہیں “۔ (حضرت ابوبکر (رض) فی العلانیات وابن عساکر بروایت حضرت یزید بن شجرۃ (رض))

10581

10581 كفى بالسيف شاهدا.(ه عن سلمة بن المحبق).
10577 ۔۔۔ فرمایا ” تلوار گواہی کے لیے کافی ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت سلمۃ بن المحبق (رض) )
تلواریں گواہ دیں گی
فائدہ :۔۔۔ یعنی تلواریں قیامت کے دن اپنے استعمال کرنے والوں کے لیے گواہی دیں گی کہ انھوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا تھا “۔

10582

10582 السيوف أردية المجاهدين.(فر عن أبي أيوب) (المحاملي في أماليه عن زيد بن ثابت).
10578 ۔۔۔ فرمایا ” تلواریں مجاہدین کی چادریں ہیں “۔ (مسند فردوس دیلمی بروایت حضرت ابوایوب (رض) ، المحاملی فی امالیہ، بروایت حضرت زید بن ثابت (رض))

10583

10583 صاحب الصف ، وصاحب الجمعة لا يفضل هذا على هذا ولا هذا على هذا.(أبو النصر القزويني في مشيخته عن ثوبان).
10579 ۔۔۔ فرمایا ” جہاد میں شریک ہونے والا اور جمعہ کی نماز میں شریک ہونے والا دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے پر زیادہ فضیلت نہیں رکھتا “۔ (یعنی دونوں فضیلت میں برابر ہیں) ۔ (ابو النضر الغذدینی فی مشختہ بروایت حضرت ثعبان (رض))

10584

10584 طوبى لمن أكثر الجهاد في سبيل الله ، من ذكر الله ، فان له بكل كلمة سبعين ألف حسنة ، منها عشرة أضعاف مع الذي له عند الله من المزيد والنفقة على قدر ذلك.(طب عن معاذ) (.
10580 ۔۔۔ فرمایا ” خوشخبری اس کے لیے جو اللہ کے راستے میں کثرت سے جہاد کرے گا جو اللہ کا ذکر کرے تو اس کے لیے ہر کلمہ کے بدلے ستر ہزار نیکیاں ہیں جو دس گنابڑھا دی جائیں گی اس کے ساتھ ہی اللہ کے پاس اس کے لیے اس سے بھی زیادہ بہت کچھ ہے “۔ (طبرانی کبیر بروایت حضرت معاذ (رض))

10585

10585 الروحة والغدوة في سبيل الله أفضل من الدنيا وما فيها (ق ن عن سهل بن سعد).
10581 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کی ایک صبح اور ایک شام دنیا اور دنیا اور میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے “۔ (متفق علیہ، نسائی بروایت سھل بن سعد (رض))

10586

10586 عجب ربنا من قوم يقادون إلى الجنة في السلاسل. (حم خ د عن أبي هريرة).
10582 ۔۔۔ فرمایا ” ہمارے رب اس قوم پر تعجب فرماتے ہیں جن کو زنجیروں سے باندھ کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ہے “۔ (مسند احمد، بخاری، ابوالدرداء بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10587

10587 ضحكت من ناس يأتونكم من قبل المشرق يساقون إلى الجنة وهم له كارهون.(حم طب عن سهل بن سعد).
10583 ۔۔۔ فرمایا ” مجھے ہنسی آتی ہے ان لوگوں پر جو تمہارے پاس مشرق کی سمت سے آئیں گے ان کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ اس بات کو ناپسند کررہے ہوں گے “۔ (مسند احمد، طبرانی کبیر بروایت سھل بن سعد (رض))

10588

10588 ضحكت من قوم يساقون إلى الجنة مقرنين في السلاسل (حم عن أبي أمامة).
10584 ۔۔۔ فرمایا ” مجھے ہنسی آتی ہے ان قوموں پر جو زنجیروں سے باندھ کر جنت کی طرف لے جائے جائیں گے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10589

10589 عجبت لاقوام يساقون إلى الجنة في السلاسل وهم كارهون.(طب عن أبي أمامة) (حل عن أبي هريرة).
10585 ۔۔۔ فرمایا ” مجھے تعجب ہوتا ہے اس قوم پر جو زنجیروں میں باندھ کر جنت کی طرف لے جائے جائیں گے وہ اس چیز کو ناپسند کررہے ہوں گے “۔ (طبرانی کبیر بروایت حضرت ابوامامۃ (رض) ، حلیہ ابونعیم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض)

10590

10590 عجب ربنا من رجل غزا في سبيل الله ، فانهزم اصحابه فعلم ما عليه فرجع حتى أهريق دمه ، فيقول الله عزوجل لملائكته : انظروا إلى عبدي رجع رغبة فيما عندي وشفقة مما عندي حتى أهريق دمه.(د عن ابن مسعود).
10586 ۔۔۔ فرمایا ” ہمارے رب نے اس شخص پر تعجب فرمایا جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے پھر اس کے ساتھیوں کو شکست ہوجائے تو وہ اپنی ذمہ داری پہچانے اور لڑتا رہے یہاں تک کہ شہید ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں دیکھو میرے بندے کی طرف یہ شخص اس لیے لڑتا رہا کیونکہ اس کو میری نعمتوں کی خواہش تھی اور میرے عذاب سے خوف تھا یہاں تک کہ اس کو شہید کردیا گیا۔ (ابو داؤد، بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10591

10591 عليكم بالجهاد في سبيل الله فانه باب من أبواب الجنة يذهب الله به الهم والغم.(طب عن أبي أمامة).
10587 ۔۔۔ فرمایا ” تم پر اللہ کے راستے میں جہاد فرض ہے کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تمہارے غم اور پریشانی کو دور فرماتے ہیں “۔ (طبرانی کبیر بروایت حضرت ابوامہ (رض))

10592

10592 عمل هذا قليلا وأجر كثيرا.(ق عن البراء).
10588 ۔۔۔ فرمایا ” اس شخص کے اعمال کم ہیں اور اجر زیادہ “۔
فائدہ :۔۔۔ یہ ان صحابی کے بارے میں فرمایا ہے جو ایمان لائے اور ایمان لاتے ہی جہاد میں چلے گئے اور وہاں شہید ہوگئے اس لیے فرمایا کہ انھوں نے ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ بہت کم کئے ہیں لیکن پھر بھی اجر بہت لے گئے کیونکہ ان کو شہادت کا مرتبہ عطا ہوا تھا۔ (متفق علیہ بروایت حضرت براء (رض))

10593

10593 غدوة في سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها.(حم ق ه عن أنس) (ق ت ن ه عن سهل بن سعد) (م ه عن أبي هريرة) (ت عن ابن عباس).
10589 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے کی ایک صبح یا ایک شام دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہے “۔ (مسند احمد متفق علیہ ابن ماجہ بروایت ، حضرت انس (رض)، متفق علیہ، ترمذی، نسائی ابن حاتم بروایت سھل بن سعد، مسلم، ابن ماجہ بروایت ابوھریرۃ (رض))

10594

10594 غدوة في سبيل الله أو روحة خير مما طلعت عليه الشمس وغربت.(حم م ن عن أبي أيوب).
10590 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام بہتر ہے ہر اس چیز سے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب “۔ (مسند احمد، نسائی، بروایت حضرت ابوایوب (رض) )
فائدہ :۔۔۔ یعنی تمام مخلوقات سے افضل ہے۔

10595

10595 غزوة في البحر مثل عشر غزوات في البر ، والذي يسدر في البحر كالمتشحط في دمه في سبيل الله.(ه عن أم الدرداء).
10591 ۔۔۔ فرمایا ” سمندر میں ایک جہاد کرنا خشکی کے دس جہادوں سے بہتر ہے اور جس شخص کا سمندر میں سرچکرائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے خون سے لت پت ہوجائے “۔
فائدہ :۔۔۔ یعنی اس کو شہادت کا ثواب ملے گا۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ام درداء (رض))

10596

10596 غزوة في البحر خير من عشر غزوات في البر ، ومن أجاز البحر فكأنما أجاز الاودية كلها ، والمائد فيه كالمتشحط في دمه في سبيل الله.(طب هب عن ابن عمر).
10592 ۔۔۔ فرمایا ” سمندر میں ایک جہاد خشکی میں دس جہادوں سے بہتر ہے اور جو سمندر کو عبور کرلے گویا اس نے تمام وادیوں کو عبور کرلیا اور سمندر میں جس شخص کا سرچکرائے وہ ایسا ہے جیسا اللہ کے راستے میں اپنے خون میں لت پت ہونے والا “۔ (طبرانی، کبیر، شعب الایمان بیھقی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10597

10597 حجة لمن يحج خير من عشر غزوات ، وغزوة لمن قد حج خير من عشر حجج ، وغزوة في البحر خير من عشر غزوات في البر ومن أجاز البحر فكأنما أجاز الاودية كلها ، والمائد فيه كالمتشحط في دمه.(طب هب عن ابن عمر).
10593 ۔۔۔ جس شخص نے پہلے حج نہ کیا ہو اس کا حج کرنا دس جہادوں سے بڑھ کر ہے اور جو پہلے حج کرچکا ہو اس کے لیے جہاد میں شریک ہونا دس حجوں سے بہتر ہے اور سمندر میں ایک جہاد خشکی کے دس جہادوں سے بڑھ کر ہے اور جو سمندر کو پار کرلے گویا اس نے ساری بستیاں پار کرلیں اور سمندر کے سفر میں جس کا سر گھومنے لگے وہ ایسا ہے جیسے اللہ کے راستے میں اپنے خون سے لتھڑ گیا ہو “۔ (طبرانی کبیر شعب الایمان بیھقی بروایت ابن عمر (رض))

10598

10598 أول جيش من أمتي يركبون البحر قد أوجبوا ، وأول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم.(خ عن أم حرام بنت ملحان).
10594 ۔۔۔ فرمایا ” میری امت کی سب سے پہلی فوج جو سمندر میں سوار ہوگی انھوں نے اپنے لیے جنت واجب کر والی اور میری امت میں سے جو پہلی فوج قیصر بادشاہ کے شہر پر حملہ کرے گی ان کی مغفرت کردی گئی “۔ (بخاری بروایت ام حرام بنت سلمان (رض))

10599

10599 حجة خير من أربعين غزوة ، وغزوة خير من أربعين حجة.(البزار عن ابن عباس).
10595 ۔۔۔ فرمایا ” ایک حج چالیس جہادوں سے بہتر ہے اور ایک جہاد چالیس حجوں سے بہتر ہے “۔ (البزار بروایت ابن عباس (رض))
فائدہ :۔۔۔ پہلی صورت اس شخص کے لیے ہے جس پر حج فرض ہو اور دوسری صورت اس کے لیے جس پر حج فرض نہ ہو “۔

10600

10600 الحجة أفضل من عشرا غزوات ، والغزوة أفضل منعشر حجات.(هب عن أبي هريرة).
10596 ۔۔۔ فرمایا ” ایک حج چالیس جہادوں سے بڑھ کر ہے اور ایک جہاد چالیس حجوں سے بڑھ کر ہے “۔ (شعب الایمان بیھقی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10601

10601 حجة قبل غزوة أفضل من خمسين غزوة ، وغزوة بعد حجة أفضل من خمسين حجت ، ولموقف ساعة في سبيل الله أفضل من خمسين حجة. (حل عن ابن عمر).
10597 ۔۔۔ فرمایا ” جہاد سے پہلے حج کرنا پچاس جہادوں سے افضل ہے اور حج کے بعد جہاد کرنا پچاس حجوں سے بڑھ کر ہے اور اللہ کے راستے میں ایک گھڑی کا جہاد پچاس حجوں سے بڑھ کر ہے “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت ابن عمر (رض))

10602

10602 الغازي في سبيل الله عزوجل ، والحاج والمعتمر وفد الله دعاهم فأجابوه ، وسأله فأعطاهم.(ه ب عن ابن عمر).
10598 ۔۔۔ فرمایا ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والایہ سب اللہ کے وفد ہیں اللہ نے ان کو بلایا تو انھوں نے اطاعت کی اور انھوں نے اللہ سے سوال کیا تو اللہ نے ان کو عطا فرمایا “۔ (ابن ماجہ، لابن حبان بروایت حضرت انس (رض))

10603

10603 الغبار في سبيل الله إسفار الوجوه يوم القيامة.(حل عن أنس).
اللہ کے راستے کا غبار قیامت کے دن چہرے کی رونق ہے ، حلیۃ ابی درداء عن انس

10604

10604 الغزو خير لوديك (فر عن أبي الدرداء).
10600 ۔۔۔ فرمایا جہاد تیری دونوں خواہشوں کے لیے بہتر ہے۔ (مسند فردوس عن ابی درداء (رض))

10605

10605 الغزو غزوان : فأما من غزا ابتغاء وجه الله تعالى ، وأطاع الامام وأنفق الكريمة ، وياسر الشريك ، واجتنب الفساد في الارض فان نومه ونبهه أجر كله ، وأما من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصا الامام وأفسد في الارض فانه لن يرجع بالكفاف.(حم د ن ك هب عن معاذ).
10601 ۔۔۔ فرمایا ” جہاد دو طرح کے ہیں سو جو شخص اللہ کی رضاء کی خاطر جہاد کرے اور امیر کی اطاعت کرے اور بہترین مال خرچ کرے۔ ساتھی کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے زمین میں فساد سے بچے توبےشک اس کی نیند اور بیداری سب اجر کی مستحق ہیں اور جو شخص فخر اور ریاء جتلانے کے لیے کرے اور امیر کی نافرمانی کرے زمین میں فساد کرے تو بیشک وہ خوشحالی کے ساتھ واپس نہیں آئے گا “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، مستدرک بیھقی عن معاذ (رض))

10606

10606 في الخيل وأبوالها وأرواثها كف من مسك الجنة.(ابن أبي عاصم في الجهاد عن عريب المليكي).
گھوڑے پر جہاد کرنے میں اس کے پیشاب اور لید کے بدلے ہتھیلی بھر جنت کی مشک ہے ، ابن ابی عاصم فی الجہاد

10607

10607 قال الله تعالى : أيما عبد من عبادي ، يخرج مجاهدا في سبيل الله ابتغاء مرضاتي ضمنت أن أرجعه إن رجعته بما أصاب من أجر أو غنيمة ، وإن قبضته أن أغفر له وأرحمه وأدخله الجنة.(حل عن ابن عمر).
10602 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا جو بندہ جہاد کے لیے اللہ کے راستے میں نکلتا ہے میری رضاء کی خاطر تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ میں اسے اگر واپس لایا تو اس کے اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لاؤں گا اور اسے اپنے پاس بلا لیا تو معاف کر کے رحم کرکے جنت میں داخل کردوں گا “۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابن عمر (رض))

10608

10608 قفلة كغزوة.(حم د ك عن ابن عمر).
10604 ۔۔۔ فرمایا ” جہاد سے لوٹنا جہاد کی طرح ہی ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد مستدرک عن ابن عمر (رض))

10609

10609 قيام ساعة في الصف للقتال في سبيل الله خير من قيام ستين سنة.(عد وابن عساكر عن أبي هريرة).
10605 ۔۔۔ فرمایا ” ایک گھڑی کا اللہ کے راستے میں قتال کی صف میں کھڑا ہونا بہتر ہے سال بھر کے کھڑے ہونے سے “۔ (ابن عدی وابن عساکر ابوہریرہ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ یعنی اگر مسلمان اپنے گھر پر ہزاروں سال عبادت کرتا رہے یہ اللہ کے راستے میں قتال کی صف میں ایک گھڑی کے کھڑے ہونے کے برابر نہیں ہوسکتا۔

10610

10610 كفى ببارقة السيوف على رأسه فتنة.(ن عن رجل).
10606 ۔۔۔ فرمایا اس کے سر پر تلواروں کی چمک اسے آزمانے کے لیے کافی ہے۔ (نسائی عن رجل)
فائدہ :۔۔۔ یعنی مومن کے امتحانات کے لیے اتنا کافی ہے کہ موت اس کے سامنے ہو اور تلواریں چل رہی ہوں۔

10611

10611 كل عمل منقطع عن صاحبه إذا مات إلا المرابط في سبيل الله فانه ينمى له عمله ويجرى عليه رزقه إلى يوم القيامة.(طب حل عن العرباض).
10607 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر عمل کا تعلق عمل کرنے والے سے مرتے وقت ختم ہوجاتا ہے علاوہ اس کے جو اللہ کے راستے میں کمر باندھے ہوئے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے عمل کی نشوونما کرتے ہیں اور قیامت تک اس کو اس کا رزق دیا جاتا ہے “۔ (طبرانی، حلیہ بروایت عمر۔۔۔ )

10612

10612 كل كلم يكلمه المسلم في سبيل الله يكون يوم القيامة ، كهيئتها إذ طعنت تفجر دما ، واللون لون الدم ، والعرف عرف المسك.(ق عن أبي هريرة).
10608 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر وہ زخم جو کسی مسلمان کو اللہ کے راستے میں لگا وہ قیامت کے دن ایسا ہوگا جیسے اس میں نیزہ لگا ہو اور اس میں سے خون بہہ رہا ہو، رنگ تو خون کا ہی ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10613

10613 كل ميت يختم على عمله إلا الذي مات مرابطا في سبيل الله فانه ينمو عمله إلى يوم القيامة ، ويؤمن من فتان القبر.(د ت ك عن فضالة بن عبيد) (حم عن عقبة بن عامر).
10609 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ یہیں ختم ہونے والا ہے علاوہ اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں کمر باندھے ہوئے ہو، کیونکہ اس کا عمل اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تک بڑھاتے رہتے ہیں اور وہ قبر کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے “۔ (ابوداؤد، ترمذی، مستدرک حاکم بروایت فضالۃ بن عبید (رض) اور مسند احمد بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10614

10614 لسفرة في سبيل الله خير من خمسين حجة.(أبو الحسين الصيقلي في الاربعين عن أبي المضاء).
10610 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک سفر پچاس مرتبہ حج کرنے سے بہتر ہے (ابو الحسن الصیقلی فی الاربعین عن ابی المضاء

10615

10615 لغدوة أو روحة في سبيل الله خير مما تطلع عليه الشمس وتغرب ، ولقاب قوس في الجنة خير مما تطلع عليه الشمس وتغرب.(خ عن أبي هريرة).
10611 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام لگا دینا ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور یقیناً جنت کی ایک کمان بھی ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے “۔ (بخاری بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10616

10616 لغدوة في سبيل الله عزوجل أو روحة خير من الدنيا وما فيها ، ولقاب قوس أحدكم أو موضع قده في الجنة خير من الدنيا وما فيها ، ولو اطلعت امرأة من نساء أهل الجنه إلى الارض لملات ما بينهما ريحا ولاضاءت ما بينهما ، ولنصيفها على رأسها خير من الدنيا وما فهيا. (حم ق ت عن أنس).
10612 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ عزوجل کے راستے میں ایک صبح لگا دینا یا ایک شام لگا دینا ہر اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے، اور تم میں سے کسی کی کمان یا کسی کے قد کے برابر جگہ جنت میں سے دینا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے اور اگر اہل جنت میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو جنت اور دنیا کے درمیان کی جگہ اس کی خوشبو سے بھرجائے اور اس کی روشنی سے روشن ہوجائے، اور یقیناً اس کے سر پر موجود اوڑھنی بھی دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے “۔ (مسند احمد، متفق علیہ، ترمذی بروایت حضرت انس (رض))

10617

10617 لغزوة في سبيل الله أحب إلي من أربعين حجة.(عبد الجبار الخولاني في تاريخ داريا عن مكحول) مرسلا.
10613 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک غزوہ مجھے چالیس مرتبہ حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے “۔ (عبد الجبار الخولانی فی تاریخ داریا عن مکحول مرسلاً )

10618

10618 لقيام رجل في الصف في سبيل الله ساعة أفضل من عبادة ستين سنة.(عق خط عن عمران بن حصين).
10614 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک ساعت بھی کسی شخص کا کھڑے ہوجانا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے “۔ (الضعفاء للعقیلی بروایت حضرت عمران ابن حصین (رض))

10619

10619 لكل نبي رهبانية ، ورهبانية هذه الامة الجهاد في سبيل الله.(حم عن أنس).
10615 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر نبی کے لیے رھبانیت ہوتی ہے اور اسی امت کی رھبانیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت انس (رض))

10620

10620 للغازي أجره ، وللجاعل أجره ، وأجر الغازي.(د عن ابن عمرو).
10616 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غازی کو اس کا اجر ملے گا، اور غازی کو تیار کر کے بھیجنے والے کو اپنا بھی اور غازی کا بھی (دونوں کا ) اجر ملے گا “۔ ابو داؤد، بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10621

10621 للمائد أجر شهيد ، وللغريب أجر شهيدين.طب عن أم حرام).
10617 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گرکر مرنے والے کے لیے شہید کا اجر ہے اور ڈوبنے والے کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے “

10622

10622 ما ثقل ميزان عبد كدابة تنفق له في سبيل الله أو يحمل عليها في سبيل الله.(طب عن معاذ).
(فرمایا کہ) کسی بندے کا میزان عدل (قیامت میں) بھاری نہیں ہوگا جتنا کہ اس جانور سے بھاری ہوگا جسے اللہ کے راستے میں استعمال کیا جاتا ہو یا اس پر اللہ کے راستے میں سواری کی جاتی ہو۔ (طبرانی کبیر عن جابر (رض))

10623

10623 ما خاطل قلب امرئ رهج في سبيل الله إلا حرم الله عليه النار.(حم عن عائشة).
10619 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس شخص کے دل میں اللہ کے راستے میں جانے کا شوق پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام کردیں گے “۔ (مسند احمد بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10624

10624 ما من امرئ مسلم ينقي لفرسه شعيرا ثم يعلقه عليه إلا كتب له بكل حبة حسنة.(حم هب عن تميم).
10620 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو اپنے گھوڑے کے لیے جو صاف کرے اور پھر اس کی گردن میں لٹکادے مگر یہ کہ اس کو ہر دانے کے بدلے ایک نیکی دی جاتی ہے “۔ (مسند احمد، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت تمیم (رض))

10625

10625 ما من غازية تغزو في سبيل الله فيصيبون الغنيمة إلا تعجلوا ثلثي أجرهم من الآخرة ويبقى لهم الثلث ، فان لم يصيبوا غنيمة تم لهم أجرهم.(حم م د ن ه عن ابن عمرو).
10621 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی غازی ایسا نہیں جو اللہ کے راستے میں ہو اور پھر ان کو مال غنیمت ملے مگر یہ کہ ان کو ان کے آخرت کے اجر کا دو تہائی فوراً دے دیا جاتا ہے، اور ایک تہائی باقی رہتا ہے اور اگر مال غنیمت نہ ملے تو ان کا اجر مکمل کردیا جاتا ہے “۔ (مسند احمد، مسلم ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

10626

10626 مثل المجاهد في سبيل الله والله أعلم بمن يجاهد في سبيله كمثل الصائم القائم الدائم الذي لا يفتر من صيام ولا صدقة ، حتى يرجع وتوكل الله تعالى للمجاهد في سبيله إن توفاه أن يدخله الجنة أو يرجعه سالما مع أجر أو غنيمة. (ق ت ن عن أبي هريرة).
10622 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال (اور اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے ) اس شخص کی طرح ہے جو روزہ رکھنے والا ہو، ہمیشہ کھڑا رہنے والا ہو، روزے اور صدقے سے ڈھیلا نہیں پڑتا، یہاں تک کہ (مجاہد) واپس نہ لوٹ آئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرے کہ اگر اس کے راستے میں جان سے گیا تو جنت میں داخل ہوگا یا صحیح سلامت واپس آگیا اور اجر اور مال غنیمت کے ساتھ واپس آئے گا “۔ (متفق علیہ، ترمذی، نسائی، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10627

10627 مثل المجاهد في سبيل الله والله أعلم بمن يجاهد في سبيله كمثل الصائم القائم الخاشع الراكع الساجد.(ن عن أبي هريرة).
10623 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال (اور اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرنے والا ہے) اس روزے دار کی طرح ہے جو کھڑا ہونے والا ہو، ڈرنے والا، رکوع اور سجدہ کرنے والا ہو “۔ (نسائی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10628

10628 مقام الرجل في الصف في سبيل الله أفضل من عبادة ستين سنة.(طب ك عن عمران).
10624 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں صف میں کسی شخص کا کھڑا ہونا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمران (رض))

10629

10629 من أسلم على يديه رجل وجبت له الجنة.(طب عن عقبة بن عامر).
10625 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی کے ہاتھ پر کوئی مسلمان ہوگیا تو جنت اس (مسلمان کرنے والے پر واجب ہوگئی) “۔ (طبرانی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10630

10630 من اعتقل رمحا في سبيل الله عقله الله من الذنوب يوم القيامة.(طب عن أبي هريرة).
10626 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں نیزہ باندھا تو اللہ قیامت کے دن اس کو گناہوں سے آزاد کردیں گے “۔ (عبدان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10631

10631 من اغتاب غازيا فكأنما قتل مؤمنا.(الشيرازي عن ابن مسعود).
10627 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے غازی کی غیبت کی گویا کہ اس نے ایک مومن کو قتل کیا “۔ (الشیرازی بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10632

10632 من أنفق نفقة في سبيل الله كتبت له سبعمائة ضعف.(حم ت ن ك عن خريم بن فاتك).
10628 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں کچھ مال خرچ کرے تو اس کے لیے سات سو گنا لکھ دیا جاتا ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، مستدرک حاکم بروایت حریم بن فاتک)

10633

10633 من جهز غازيا حتى يستقل كان له مثل أجره حتى يموت أو يرجع.(ه عن عمر).
10629 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی شخص نے کسی غازی کو تیار کروایا یہاں تک کہ وہ ثابت قدمی سے جہاد میں چلا گیا تو اس (تیار کروانے والے) کے لیے بھی غازی جیسا ہی اجر ہوگا یہاں تک کہ غازی کی موت واقع ہوجائے تو واپس آجائے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت عمر (رض))

10634

10634 من رابط فواق ناقة حرمه الله على النار.(عق عن عائشة).
10630 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے جہاد کے لیے اپنی اونٹنی کے تھنوں کو باندھ دیا اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام قرار دے دیں گے “۔ (الضعفاء للعقیلی بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10635

10635 من رابط ليلة في سبيل الله كانت له كألف ليلة ، صيامها وقيامها.(ه عن عثمان).
10631 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے ایک رات بھی اللہ کے راستے میں گزاری تو اس کے لیے ہزار راتوں کے روزے اور قیام کی طرح ہوگی “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت عثمان (رض)

10636

10636 أفضل الجهاد من أصبح لا يهم بظلم أحد (فر عن علي).
10632 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ کوئی اس حال میں صبح کرے کہ اس نے عزم کیا ہو کہ کسی پر ظلم نہ کروں گا “۔ (فردوس بروایت حضرت علی (رض))

10637

10637 لا تفعل فان مقام أحدكم في سبيل الله أفضل من صلاته في بيته سبعين عاما ، ألا تحبون أن يغفر الله لكم ويدخلكم الجنة ؟ اغزوا في سبيل الله ، من قاتل في سبيل الله فواق ناقة وجبت له الجنة. (ت ك عن أبي هريرة).
10633 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایسا مت کرو، کیونکہ اللہ کے راستے میں تم سے کسی کے کھڑے ہونے کی جگہ، گھر پر اس کے ستر سال تک نماز پڑھنے سے افضل ہے، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمادے اور جنت میں داخل کرے، اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس نے اللہ کے راستے میں اونٹنی کے دودھ دوہنے کے درمیان جتنے وقت برابر بھی جہاد کیا، اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی “۔ (ترمذی، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10638

10638 يا جابر ألا أبشرك بما لقي الله به أباك ؟ ما كلم الله أحدا قط إلا من وراء حجاب ، وكلم أباك كفاحا ، فقال : يا عبد الله تمن على أعطك ، قال : يا رب تحييني ، فأقتل فيك ثانية ، فقال الرب تبارك وتعالى : إنه سبق مني أنهم إليها لا يرجعون ، قال : يا رب فأبلغ من ورائي.(ت عن جابر)
10634 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے جابر ! کیا میں تمہیں خوشخبری نہ سناؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے ساتھ کیسے ملاقات کی ؟ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی سے بغیر حجاب کے بات نہیں کی لیکن آپ کے والد کے ساتھ بغیر حجاب کے ملاقات فرمائی اور فرمایا کہ اے عبداللہ ! تمناکرو، جس چیز کی تمناکرو گے میں عطا کروں گا، تمہارے والد نے فرمایا، اے میرے رب ! مجھے زندہ کر دیجئے میں دوسری مرتبہ آپ کے راستے میں قتال کروں گا، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بات میری طرف سے طے شدہ ہے کہ کوئی ان میں سے واپس نہ جائے گا، تو تمہارے والد نے عرض کیا کہ اے میرے رب پھر جو میرے پیچھے (زندہ) ہیں ان تک میرا حال پہنچا دیجئے “۔ (ترمذی بروایت حضرت جابر (رض))

10639

10639 لما أصيب إخوانكم بأحد جعل الله أرواحهم في جوف طير خضر ترد أنهار الجنة ، تأكل من ثمارها ، وتأول إلى قناديل من ذهب معلقة في ظل العرش ، فلما وجدوا طيب مأكلهم ومشربهم ومقيلهم ، قالوا : من يبلغ اخواننا عنا أنا أحياء في الجنة نرزق لئلا يزهدوا في الجهاد ولا يتكلوا عند الحرب ، فقال الله تعالى : أنا أبلغهم عنكم.(حم د ك عن ابن عباس).
10635 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب احد میں تمہارے بھائی شہید ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں رکھ دیا جو جنت کی نہروں پر آتے جاتے ہیں، اور جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش کے سائے میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں رہتے ہیں، جب ان شہیدوں نے اپنا کھانا پینا اور اپنے رہنے کی جگہ نہایت عمدہ پائی تو کہنے لگے کہ کون ہمارے بھائیوں تک یہ بات پہنچائے کہ ہم زندہ ہیں جنت میں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے، تاکہ جہاد میں زاہد نہ بن جائیں اور جنگ کے وقت توکل کرکے نہ بیٹھے رہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ بات پہنچاؤں گا “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10640

10640 أعد الله لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا الجهاد في سبيلي وإيمان ربي ، وتصديق برسلي فهو علي ضامن أن أدخله الجنة ، أو أرجعه إلى مسكنه الذي خرج منه نائلا ما نال من أجر أو غنيمة ، والذي نفسي بيده لو لا أن أشق على المسلمين ما قعدت خلاف سرية تخرج في سبيل الله أبدا ، ولكن لا أجد سعة فاحملهم ، ولا يجدون سعة فيتبعوني ولا تطيب أنفسهم فيتخلفون بعدي ، والذي نفس محمد بيده لوددت أن اغزو في سبيل الله فأقتل ، ثم أغزوا في سبيل الله فأقتل ، ثم اغزوا فأقتل ،ثم أغزو فأقتل.(ه عن أبي هريرة)
10636 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے تیار کررکھا جو میرے راستے میں نکلے اور اسے میرے راستے میں صرف جہاد نے اور مجھ پر ایمان نے اور میرے رسولوں پر تصدیق نے نکالا ہو تو اس کا ذمہ دار میں ہوں کہ اس کو جنت میں داخل کروں، یا اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچادوں جہاں سے وہ نکلا تھا مال غنیمت اور اجر حاصل کرتے ہوئے، اور قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مسلمانوں پر گراں نہ ہوتا میں کبھی کسی سریے سے بھی پیچھے نہیں رہتا اور ہمیشہ اللہ کے راستے میں نکلتا لیکن مجھے اس میں گنجائش نہیں دکھائی دیتی کہ میں ان (مسلمانوں) کو اس پر مجبور کروں، ان کے پاس بھی گنجائش نہیں کہ وہ میرا اتباع کرتے اور نہ وہ مجھے چھوڑ کر پیچھے رہ کر خوش ہوتے ہیں، اور قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے یقیناً اس بات کو بہت پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور مجھے قتل کیا جائے، پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور مجھے قتل کیا جائے، پھر میں جہاد کروں اور مجھے قتل کیا جائے، پھر میں جہاد کروں اور مجھے قتل کیا جائے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10641

10641 عمل هذا قليلا وأجر كثيرا.(خ م عن البراء) أن رجلا أسلم ، ثم قاتل فقتل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره.
10637 ۔۔۔ ایک شخص مسلمان ہوا اور قتال کرنے لگا اور قتل ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس نے عمل تو کم کیا لیکن اس کو اجر بہت زیادہ دیا گیا “۔ (بخاری، مسلم بروایت حضرت براء (رض))

10642

10642 إن الله أعد للمجاهدين في سبيله مائة درجة ، ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض ، فلو كان عندي ما أتقوى به وأوقي المسلمين أو بأيديهم ما يتقوون به ما انطلقت سرية إلا كنت صاحبها ، ولكن ليس ذلك بيدي ولا بأيديهم ، ولو خرجت ما بقي أحد فيه خير إلا انطلق معي ، وذلك يشق علي وعليهم ، فلوددت أن أغزو فأقتل ، ثم حيا ، ثم أغزوا فأقتل ، ثم أحيا فاقتل. (طب عن أبي مالك الاشعري)
10638 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے سو درجے تیار کر رکھے ہیں، ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان، لہٰذا اگر میرے پاس کوئی ایسی چیز ہوتی جس سے میں قوت حاصل کرتا اور مسلمانوں کو قوت فراہم کرتا اور یا مسلمانوں کے پاس کچھ ہوتا جس سے وہ قوت حاصل کرتے تو کوئی سریہ میں ایسا نہ بھیجتا جس کے ساتھ میں خود نہ جاتا لیکن نہ تو یہ میرے لیے ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے، اور اگر میں نکلتا تو کوئی ایسا نہ رہتا جس میں میرے ساتھ جائے بغیر کوئی خیر اور بھلائی رہتی، اور یہ بات میرے لیے بھی سخت ہے اور ان کے لیے بھی، لہٰذا مجھے تو یہ بات پسند ہے کہ میں جہاد کروں اور مجھے قتل کیا جائے اور پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر میں جہاد کرو اور مجھے قتل کیا جائے پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جاؤں “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو مالک الاشعری (رض))

10643

10643 إن الله تعالى قال : من انتدب خارجا في سبيلي غازيا ابتغاء وجهي وتصديق وعدي ، وإيمانا برسلي فهو ضامن على الله عزوجل إما يتوفاه في الجيش بأي حتف شاء فيدخله الجنة ، وإما يصبح من ضمان الله ، وإن طالت غيبته حتى يرده إلى أهله مع ما نال من أجر وغنيمة.(طب عن أبي مالك الاشعري).
10639 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو پکار کا جواب دیتے ہوئے میرے راستے میں نکلا، میری رضا کی خاطر جہاد کرتے ہوئے اور میرے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اور میرے رسولوں پر ایمان رکھتے ہوئے، تو اس کی ذمہ داری اللہ عزوجل پر ہے یا تو اس کو لشکر میں وفات دے دے جس طرح چاہے اور پھر اسے جنت میں داخل کرے، اور یا وہ اللہ کی ضمانت میں ہوگا، اگرچہ اس کی غیر حاضر گھر والوں سے طویل ہوجائے یہاں تک کہ وہ مال غنیمت اور اجر وثواب لے کر اپنے گھر والوں میں واپس آجائے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابومالک الاشعری (رض))

10644

10644 من انتدب خارجا في سبيل الله ابتغاء وجهه ، وتصديق وعده وايمانا برسالاته على الله ضامن ، فاما أن يتوفى في الجيش بأي حتف شاء فيدخله الجنت ، وإما أن يصبح في ضمان الله وإن طالت غيبته ، ثم يرده إلى أهله سالما مع ما نال من أجر أو غنيمة ، ومن خرج في سبيل الله فمات أو قتل فهو شهيد ، أو وقصته فرسه أو بعيره أو لدغته هامة أو منات على فراشه بأي حتف شاء الله ، فانه شهيد ، وله الجنة. (ق عن أبي مالك الاشعري).
10640 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو کفار کا جواب دیتے ہوئے اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے راستے میں نکلا، اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہوئے تو وہ اللہ کی ضمانت میں ہے، سویا تو اللہ تعالیٰ اس کو لشکر میں ہی وفات دے دے جیسے چاہے اور پھر اس کو جنت میں داخل کردے یا وہ اللہ کی ضمانت میں ہوجائے اگرچہ اس کی عدم موجودگی طویل ہوجائے پھر وہ صحیح سلامت اجر وثواب اور مال غنیمت لے کر اپنے گھروالوں کے پاس آئے، اور جو اللہ کے راستے میں نکلا اور مرگیا یا قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے یا اس کو اس کا گھوڑا یا اس کا اونٹ گرادے جس سے اس کی گردن ٹوٹ جائے، یا اس کو کوئی چیز ڈس لے یا وہ اپنے بستر پر کسی بھی طرح مرجائے تو وہ شہید ہے اور جنت اس کے لیے ہے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابو مالک الاشعری (رض))

10645

10645 الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين.(كر عن أبي الدرداء).
10641 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنت کے سودرجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیے تیار کر رکھے ہیں “۔ (بروایت حضرت ابو الدرداء (رض))

10646

10646 مائة درجة في الجنة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض أو أبعد للمجاهدين في سبيل الله.(عبد بن حميد عن أبي سعيد).
10642 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنت میں سودرجے ہیں ہر دودرجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے یا اس سے بھی زیادہ، یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے ہے “۔ (مسند عبد بن حمید بروایت حضرت ابو سعید (رض)

10647

10647 أقرب الناس من درجة النبوة أهل الجهاد وأهل العلم لان أهل الجهاد يجاهدون على ما جاءت به الرسل ، وأما أهل العلم فدلوا الناس على ما جاءت به الانبياء.(الديلمي عن ابن عباس).
10643 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوگوں میں سے درجہ نبوت سے قریب ترین لوگ مجاہدین اور اہل علم ہیں، کیونکہ مجاہدین ان تعلیمات کی خاطر جہاد کرتے ہیں جو رسول لے کر آئے، اور رہے اہل علم تو وہ اس لیے کہ وہ انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10648

10648 إن إدنى روعات المجاهدين في سبيل الله عدل صيام سنة وقيامها ، قيل : وما أدنى روعات المجاهدين ؟ قال : يسقط سوطه ، وهو ناعس فينزل فيأخذه. (ابن أبي عاصم في الصحابة وأبو نعيم عن صابت ابن أبي عاصم).
10644 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ کے راستے میں مجاہدین کا کیا ہے، فرمایا کہ اونگھتے ہوئے اس کا کوڑا (چابک) گرجائے اور وہ (گھوڑے) سے اتر کر اس کو اٹھالے “۔ (ابن ابی عاصم فی الصحابہ اور ابو نعیم بروایت حضرت ثابت بن ابی عاصم (رض) )
فائدہ :۔۔۔ اس روایت میں لفظ ” ڈر “ سے مراد خوف زدہ ہونے نہیں بلکہ صرف چونکنا مراد ہے، یعنی اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے سرحد پر پہرہ دیتے ہوئے مسلمان مجاہد اگر ذرا سا اونگھ جائے اور اس حال میں اس کا چابک اس سے چھوٹ کر گرجائے اور وہ اس کی وجہ سے ذرا سا چونک جائے، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10649

10649 إن لكل أمة رهبانية ، ورهبانية هذه الامة الجهادد في سبيل الله.(هب عن أنس).
10645 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر امت کے لیے رہبانیت ہوتی ہے اور میری امت کی رہبانیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت انس (رض))

10650

10650 مثل المجاهد في سبيل الله مثل الصائم نهاره ، القائم ليله حتى يرجع متى يرجع.(حم طب عن النعمان بن بشير).
10646 ۔۔۔ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھے رات کو کھڑا نماز پڑھتا رہے یہاں تک کہ واپس آجائے جب واپس آئے “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت نعمان بن بشیر (رض))

10651

10651 مثل المجاهد في سبيل الله كالصائم القائم بآيات الله آناء الليل وآناء النهار مثل هذه الاسطوانة.(حل عن أبي هريرة).
10647 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو روزہ رکھنے والا ہو رات کو پھر کھڑا ہو کر اللہ کی آیات (نماز میں) پڑھتا رہے دن کو بھی اور رات کو بھی اس ستون کی طرح “۔ (حلیہ ابو نعیم بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

10652

10652 مثل المجاهد في سبيل الله كمثل الصائم القائم القانت بآيات الله لا يفتر من صوم ولا صدقة حتى يرجع المجاهد إلى أهله.(حب عن أبي هريرة).
10648 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو روزہ رکھنے والا ہو، کھڑا ہونے والا ہو، اللہ کی آیات کے ساتھ قنوت پڑھنے والا ہو، اور روزے اور صدقے سے ڈھیلا نہ پڑے، (یہ مثال اس وقت تک ہے جب تک) مجاہد اپنے گھر والوں کے پاس نہ آجائے “۔ (ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10653

10653 ألا أخبركم بخير الناس منزلة ؟ رجل آخذ بعنان فرسه في سبيل الله حتى يقتل أو يموت ، ألا أخبركم بالذي يلى ؟ رجل معتزل في شعب يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة. ويشهد أن لا إله إلا الله.(ك عن أبي هريرة).
10649 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں مقام و مرتبے کے اعتبار سے سب سے بہتر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہو یہاں تک کہ قتل کیا جائے یا جان سے جائے، کیا میں تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس سے ملا ہوا ہے ؟ وہ شخص جو ایک گھاٹی میں الگ تھلگ نماز ادا کرتا رہتا ہے اور زکوۃ ادا کرتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

10654

10654 ألا أخبركم بخير الناس منزله ؟ رجل ممسك بعنان فرسه في سبيل الله حتى يموت أو يقتل ، ألا أخبركم بالذي يتلوه ؟ رجل معتزل في غنيمة له ، يؤدي حق الله فيها ، ألا أخبركم بشر الناس ؟ رجل يسأل بالله ولا يعطي.(ط حم ت حسن غريب ن حب طب هب عن ابن عباس).
10650 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں مقام و مرتبے کے اعتبار سے سب سے بہتر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اللہ کے راستے میں ہو یہاں تک کہ جان سے جائے یا قتل کیا جائے، کیا میں تمہیں اس کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس کے بعد ہے ؟ کیا میں تمہیں بدترین آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے “۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن حبان، طبرانی، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10655

10655 ألا أخبركم بخير البرية ؟ رجل آخذ بعنان فرسه في سبيل الله كلما كانت هيعة استوى عليه ، ألا أخبركم بالذي يليه ؟ رجل في ثلة من غنم يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة ، ألا أخبركم بشر البرية ؟ الذي يسأل بالله ولا يعطي.(حم عن أبي هريرة).
10651 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں تمام مخلوقات میں سے سب سے بہتر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہے جب بھی معرکے کا موقع ہوتا ہے اس پر سیدھا ہوجاتا ہے، کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس کے بعد ہے ؟ وہ شخص جو چند بکریوں کے ساتھ رہتا ہے نماز ادا کرتا ہے زکوۃ دیتا ہے کیا میں تمہیں بدترین مخلوق کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور نہ دے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10656

10656 ألا أخبركم بخير الناس رجلا ؟ قالوا : بلى ، قال : رجل آخذ بعنان فرسه في سبيل الله ، ينتظر أن يغير أو يغار عليه ، ألا أخبركم بخير الناس رجلا بعده ؟ قالوا : بلى ، قال : رجل في غنيمة يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة ، يعلم ما حق الله في ماله ، قد اعتزل شرور الناس.(طب عن أم مبشر).
10652 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں لوگوں میں سے سب سے بہترین آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا، جی ضرور، فرمایا وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہے اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے ہے اس انتظار میں ہے کہ وہ حملہ کرے یا اس پر حملہ کیا جائے، کیا میں تمہیں اس کے بعد سب سے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں، عرض کیا، جی ہاں ضرور، فرمایا وہ شخص جو چند بکریاں لیے نماز ادا کرتا ہے اور زکوۃ دیتا ہے جانتا ہے کہ اس کے مال میں اللہ کا کیا حق ہے، اور لوگوں کے شر سے الگ تھلگ ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ام مبشر (رض))

10657

10657 خير الناس منزلة رجل على متن فرسه يخيف العدو ويخيفونه.(هب عن أم مبشر).
10653 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوگوں میں سے سب سے بہتر مرتبے کا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی کمر پر بیٹھا ہوا ہے دشمن کو ڈراتا ہے اور دشمن اس کو ڈراتا ہے “۔ بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ام مبشر (رض))

10658

10658 الاسلام ثلاثة أبيات : سفلى وعليا وغفرة ، فأما السفلى فالاسلام دخل فيها عامة المسلمين ، فلا تسأل أحدا منهم إلا قال : أنا مسلم ، وأما العليا فتفاضل أعمالهم ، بعض المسلمين أفضل من بعض ،وأما الغرفة العليا فالجهاد في سبيل الله لا ينالها إلا أفضلهم.(طب عن فضالة بن عبيد).
10654 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اسلام تین کمرے ہیں، نیچے والا، اوپر والا، اور ایک اور کمرہ، رہا نیچے والا تو وہ اسلام ہے اس میں تمام مسلمان داخل ہیں لہٰذا تو ان کے بارے میں نہ پوچھ کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں، رہا اوپر والا سو ان کے اعمال ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، بعض مسلمان بعض دیگر مسلمانوں سے بڑھ کر ہیں، اور وہ جو سب سے اوپر والا کمرہ ہے تو وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے ہے یہاں تک وہی پہنچ سکتا ہے جو ان میں سب سے افضل ہے (طبرانی بروایت حضرت فضالۃ بن عبید (رض)

10659

10659 من خرج من بيته مجاهدا في سبيل الله ، وأين المجاهدون ؟ فخر عن دابته فمات فقد وقع أجره على الله ، ومن قتل قعصا فقد استوجب المآب.(حم وابن سعد طب ك ق وبأو نعيم عن محمد بن عبد الله بن عتيك عن أبيه).
10655 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہوا اپنے گھر سے نکلا، اور مجاہدین کہاں ہیں ؟ اور اپنی سواری سے گرپڑا اور مرگیا تو اب اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور جو اپنی جگہ پر ہی قتل کیا گیا سو اس نے واپسی کا ٹھکانا واجب کرلیا “۔ (مسند احمد، ابن سعد، طبرانی، مستدرک حاکم متفق علیہ ابونعیم بروایت محمد بن عبداللہ بن عتیک عن ابیہ)

10660

10660 من خرج مجاهدا في سبيل الله فأصابه جائحة أو لسعة دابة فمات ، فهو شهيد ، ومن مات حتف أنفه فقد وقع أجره على الله ، ومن قتل قعصا فقد استوجب المآب.(العسكري في الامثال عنه).
10656 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے نکلا پھر اسے کوئی آفت پہنچی یا کسی جانور نے ڈس لیا اور وہ مرگیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنی موت پر مرا تو اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو اپنی جگہ پر ہی مارا گیا تو اس نے ٹھکانا واجب کرلیا (العسکر فی الامثال

10661

10661 من غزا غزوة في سبيل الله فقد أدى إلى الله جميع طاعته (الديلمي عن أنس).
10657 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک غزوہ (معرکہ ) بھی لڑا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی طاعات ادا کردیں “۔ (دیلمی بروایت حضرت انس (رض))

10662

10662 من لقي العود فصبر حتى يقتل أو يغلب لم يفتن في قبره.(طب ك وتعقب عن أبي أيواب).
10658 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو دشمن سے ملا (جنگ کی ) اور صبر سے کام لیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا یا غالب آگیا تو اس کو قبر میں تکلیف نہ دی جائے گی “۔ (طبرانی، مستدرک حاکم بروایت ابوایوب (رض))

10663

10663 من لم يعرف حرمة الغازي فهو منافق ، ومن أبغض غازيا فقد أبغضني ، ومن أبغضني فقد برئ من الاسلام ، ومن آذى غازيا فقد آذاني ، ومن آذاني فقد حرم الله عليه الجنة ومأواه النار.(الرافعي عن أنس) وقال : حديث منكر.
10659 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو غازی کی حرمت نہیں جانتا تو وہ منافق ہے، اور جو کسی غازی سے بغض رکھتا ہے سو وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اور جو مجھ سے بغض رکھتا ہے تو وہ اسلام سے بری (آزاد) ہوگیا، اور اگر کسی نے کسی غازی کو تکلیف دی تو اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیں گے اور اس کا ٹھکانا آگ ہوگی “۔ (رافعی بروایت حضرت انس (رض))

10664

10664 إتقوا أذى المجاهدين في سبيل الله ، فان الله يغضب لهم كما يغضب للرسل ، ويستجيب لهم كما يستجيب لهم.(قط في الافراد والديلمي عن علي).
10660 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے لیے بددعا کی اجازت دی تو فرشتوں نے امین کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ کی دعا قبول کی گئی اور اس کی بھی جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجاہدین کو تکلیف دینے سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی حمایت میں بھی ایسے ہی غصے ہوتے ہیں جیسے اپنے رسولوں کی حمایت میں، اور ان کی دعا بھی ایسے ہی قبول کرتے ہیں جیسے اپنے رسولوں کی “۔ (ابو الفتح ازدی فی الصحابہ اور ابوموسیٰ فی الذیل بروایت جمانۃ باھلی (رض))

10665

10665 لما أذن الله تعالى لموسى بالدعاء على فرعون أمنت الملائكة فقال الله تعالى : قد استجيب لك ، ودعاء من جاهد في سبيل الله ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اتقوا أذى المجاهدين ، فان الله تعالى يغضب لهم كما يغضب للرسل ، ويستجيب لهم كما يستجيب [ دعاء ] للرسل (أبو الفتح الازدي في الصحابة وأبو موسى في الذيل عن جمانة الباهلي).
10661 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو تکلیف دینے سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی حمایت میں بھی ایسے ہی غصے ہوتے ہیں جیسے اپنے رسولوں کی حمایت میں، اور ان کی دعا بھی ایسے ہی قبول فرماتے ہیں جیسے اپنے رسولوں کی دعا قبول فرماتے ہیں “۔ (دارقطنی فی الافراد، دیلمی بروایت حضرت علی (رض))

10666

10666 الجهاد ماض منذ بعثني الله تعالى إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال لا يبطله جور جائر ، ولا عدل عادل.(الديلمي عن أنس).
10662 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جہاد جاری رہے گا جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس وقت تک جب تک میری امت کا آخری فرد دجال سے لڑے گا، کسی ظالم کا ظلم اس (جہاد) کو ختم نہ کرسکے گا اور نہ ہی کسی منصف کا انصاف “۔ (دیلمی بروایت حضرت انس (رض))

10667

10667 عجب الله من قوم يدخلون الجنة بالسلاسل.(خ عن أبي هريرة).
10663 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اس قوم سے جو جنت میں زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے داخل ہوں گے “۔ (بخاری، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10668

10668 إني لارى مما يقاد بالسلاسل إلى الجنة.(الحاكم في الكنى عن أبي هريرة).
10664 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً میں دیکھ رہا ہوں ان لوگوں کو جن کو زنجیروں میں جنت کی طرف لے جایا جارہا ہے “۔ (حاکم فی الکنی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10669

10669 ألا تسألوني مم ضحكت ؟ رأيت ناسا من أمتي يساقون إلى الجنة في السلاسل كرها ، قيل : يا رسول الله من هم ؟ قال : قوم من العجم يسبيهم المجاهدون فيدخلونهم الاسلام.(طب عن أبي الطفيل).
10665 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ؟ میں نے اپنی امت میں سے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہیں زنجیروں میں باندھ کر زبردستی جنت کی طرف لے جایا رہا ہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون ہوں گے ؟ فرمایا کہ وہ عجمی قوم کے لوگ ہوں گے جنہیں مجاہدین گرفتار کریں گے اور اسلام میں داخل کرلیں گے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو الطفیل (رض))

10670

10670 المجاهد في سبيل الله مضمون على الله ، إما أن يكفته إلى مغفرته ورحمتهن ، وإما أن يرجع بأجر وغنيمة ، ومثل المجاهد في سبيل الله كمثل الصائم القائم لا يفتر حتى يرجع.(ه ع عن أبى سعيد).
10666 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی ذمہ داری اللہ پر ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت و مغفرت کی طرف قبول کرلے یا وہ اجر وثواب اور مال غنیمت لے کر واپس پہنچ جائے، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس روزے دار کی طرح ہے جو کھڑا عبادت کرتا رہتا ہے اور سست نہیں پڑتا یہاں تک کہ (مجاہد) واپس آجائے “۔ (ابن ماجہ مسند ابی یعلی بروایت حضرت ابو سعید (رض))

10671

10671 النائم في سبيل الله كالصائم لا يفطر ، والقائم لا يفتر.(أبو الشيخ عن عمرو بن حريث).
10667 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں سونے والا اس روزے دار کی طرح ہے جو کبھی افطار نہیں کرتا اور کھڑا عبادت کرتا ہے اور سست نہیں پڑتا “۔ (ابوالشیخ بروایت حضرت عمروبن حریث (رض))

10672

10672 طرف الغازي إذا طرف بعينه حسنة له ، والحسنة بسبعمائة.(أبو نعيم عن جابر).
10668 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غازی کا آنکھ چھپکانا جب وہ آنکھیں چھپکاتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے نیکی ہے اور ایک نیکی سات گنا کے برابر ہے “۔ (ابو نعیم بروایت حضرت جابر (رض))

10673

10673 من مرض يوما في سبيل الله أو بعض يوم أو ساعة ،غفرت له ذنوبه ، وكتب له من الاجر عدد عتق مائة ألف رقبة ، قيمة كل رقبة مائة ألف.(ابن زنجويه عن رجل من أهل الحجاز) مرسلا.
10669 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص ایک دن بھی اللہ کے راستے میں بیمار ہو، یا دن کا کچھ حصہ یا ایک گھنٹہ، تو اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور اس کے لیے سو غلام آزاد کرنے کے برابر اجر وثواب لکھ دیاجاتا ہے اور غلام بھی ایسے جن میں سے ہر ایک کی قیمت ایک لاکھ ہو “۔ (ابن زنجویہ بروایت رجل من اھل الحجاز مرسلا)

10674

10674 جميع أعمال بني آدم تحضرها الملائكة الكرام الكاتبون إلا خيار المجاهدين في سبيل الله فان الملائكة الذين خلقهم الله يعجزون عن علم إحصاء حسنات أدناهم.(أبو الشيخ في الثواب عن ابن عباس).
10670 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بنی آدم کے تمام اعمال کو کراماً کاتبین لے کر آتے ہیں علاوہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے نیک اعمال کے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے پیدا کئے ہیں وہ ان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو گننے سے عاجز ہیں “۔ (ابو الشیخ فی الثواب بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10675

10675 لا أجده هل تستطيع إذا خرج المجاهد ، أن تدخل مسجدك فتقوم ولا تفتر ، وتصوم ولا تفطر ؟ (خ عن أبي هريرة) أن رجلا قال : يا رسول الله دلني على عمل يعدل بالجهاد قال : فذكره.
10671 ۔۔۔ فرمایا ” ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں تو نہیں پاتا، کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ جب مجاہد نکلے تو تو اپنی مسجد میں داخل ہو اور کھڑا عبادت کرنے لگے اور سست نہ پڑے اور روزہ رکھے اور افطار نہ کرے ؟ “ (بخاری بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

10676

10676 يقرب من الجهاد طيب الكلام وادامة الصيام والحج كل عام ، ولا يقرب منه شئ بعد.(هب عن رجل من الصحابة).
10672 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نیک بات، ہمیشہ روزہ رکھنا اور ہر سال حج کرنا جہاد کے قریب ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی چیز جہاد کے قریب نہیں ہوسکتی “۔ (بیھقی فی شعب الایمان عن رجل من الصحابہ (رض))

10677

10677 دعنا منك يا ابن الخطاب ، من جاهد في سبيل الله ، وجبت له الجنة.(طب عن أبي المنذر).
10673 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہمیں کہنے دیجئے اے ابن الخطاب ! جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی “۔ (طبرانی بروایت ابی المنذر)

10678

10678 عليكم بالجهاد في سبيل الله ، فانه باب من أبواب الجنة يذهب الله به الهم والغم وجاهدوا في سبيل الله القريب والبعيد ، وأقيموا حدود الله في القريب والبعيد ، ولا تأخذكم في الله لومة لائم.(ك ق عن عبادة بن الصامت).
10674 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کو لازم پکڑو کیونکہ یہ بھی جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہر طرح کے غموم وجموم ختم کردیں گے، اور دور نزدیک اللہ کے راستے میں جہاد کرو اور دور و نزدیک اللہ تعالیٰ کی حدود قائم کرو اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے مت ڈرو “۔ (مستدرک حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

10679

10679 يأتي على الناس زمان يكون خير الناس فيه منزلة رجل آخذ بعنان فرسه في سبيل الله ، كلما سمع بهيعة استوى على متنه ثم يطلب لموت في مظانه ورجل في شعب من هذه الشعاب يقم الصلاة ويؤتي الزكاة ، ويدع الناس إلا من خير. (حب عن أبي هريرة).
10675 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے جس میں سب سے بہتر آدمی وہ ہوگا جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اللہ کے راستے میں ہو، جب بھی کسی معرکے کا سنے اپنے گھوڑے کی پشت پر سیدھا ہوجائے اور اپنے گمان کے مطابق موت کو تلاش کرنے لگے، اور وہ شخص جو ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں نماز ادا کرے اور زکوۃ دے اور لوگوں کو صرف بھلائی کی حالت میں ملے “۔ (ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10680

10680 ما أعمال العباد كلهم عند المجاهدين في سبيل الله إلا كمثل خطاف أخذ بمنقاره من ماء البحر.(أبو الشيخ عن أنس).
10676 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بندوں کے سب کے سب اعمال کی مثال اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے سامنے ایسی ہے جیسے خطاف (ایک ننھا پرندہ) جو اپنی چونچ میں سمندر سے (ذرا سا) پانی لیتا ہے “۔ (ابو الشیخ بروایت حضرت انس (رض))

10681

10681 ما عمل أحب إلى الله تعالى من جهاد في سبيله وحجة مبرورة متقبلة ، لا رفث فيها ، ولا فسوق ولا جدال.(حل عن ابن عمر).
10677 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی عمل اللہ کے نزدیک اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے اور ایسے حج کرنے سے جو جھوٹ اور خیانت سے پاک ہو قبول شدہ ہو، اس میں نہ کوئی گناہ ہو نہ جھگڑا اور نہ کوئی نہ مناسب حرکت، سے زیادہ محبوب نہیں “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10682

10682 ما في الناس مثل رجل آخذ برأس فرسه يجاهد في سبيل الله ، ويحبس شره عن الناس ، ومثل رجل باد في غنمه يقري ضيفه ويعطي حقه.(حم طب حل ك عن ابن عباس).
10678 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس شخص جیسا لوگوں میں کوئی نہیں جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے اللہ کے راستے میں جہاد کرے، اور اپنی برائی سے لوگوں کو محفوظ رکھے، اور اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کے ساتھ دیہات میں رہے، مہمان کی مہمان نوازی کرے اور اس کا حق ادا کرے “۔ (مسند احمد، طبرانی، حلیہ ابی نعیم، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10683

10683 أعجبكم صدقة ابن عوف ، لروعة صعلوك من صعاليك المهاجرين يجر سوطه في سبيل الله أفضل من صدقة ابن عوف.(كر عن سعيد بن أبي هلال أنه بلغه أن عبد الرحمن بن عوف تصدق بصدقة فأعجب لها الناس حتى ذكرت عند النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : فذكره.
10679 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ ابن عوف کا ہے، مہاجر فقراء میں سے کسی فقیر کا ذرا سا ڈر جانا جو اللہ کے راستے میں اپنا چابک گھسیٹ رہا ہو ابن عوف کے صدقے سے زیادہ افضل ہے “۔
یہ روایت سعید بن ابی ھلال سے ہے کہ انھیں معلوم ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے صدقہ دیا جس سے لوگ بہت خوش ہوئے یہاں تک کہ یہ بات جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا “۔

10684

10684 أقروا على سكنتكم فقد انقطعت الهجرة ، ولكن جهاد ونية وإذا استنفرتم فانفروا.(طب عن ابن عباس).
10680 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اپنے اپنے ٹھکانوں پر اطمینان سے رہو کیونکہ اب ہجرت ختم ہوچکی، البتہ جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمہیں نکالا جائے تو نکل پڑو “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10685

10685 انها مشية يبغضها الله تعالى إلا في هذا الموضع.(طب عن خالد بن سليمان بن عبد الله بن خالد بن سماك بن خرشة عن أبيه عن جده) أن أبا دجانة يوم أحد أعلم بعصابة حمراء فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يختال في مشيه بين الصفين قال : فذكره.
10681 ۔۔۔ حضرت ابودجانہ (رض) نے غزوہ احد میں ایک سرخ جماعت کی نشاندہی کی جو دوصفوں کے درمیان متکبرانہ انداز میں چل رہی تھی، جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جماعت کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ وہ چال ہے جسے اللہ تعالیٰ اس جگہ (میدان جہاد) کے علاوہ (کسی بھی اور جگہ پر) شدید ناپسند کرتے ہیں “۔ (طبرانی بروایت خالدبن سلیمان بن عبداللہ بن خالد بن خرشتہ عن ابی عن جدہ)

10686

10686 مقام أحدكم في سبيل الله ساعة خير له من عمله في أهله عمره.(ابن عساكر عن أبي سعيد بن أبي فضالة بن سعد) (ك عنه عن سهل بن عمرو).
10682 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے کسی کا ایک ساعت بھی اللہ کے راستے میں کھڑا ہونا اپنے گھر پر اس کی زندگی بھر کے عمل سے بہتر ہے “ (ابن عساکر بروایت ابو سعید بن ابی فضالۃ بن سعد اور مستدرک حاکم بروایت ابو سعید بن ابی فضالۃ عن سھل بن عمرو)

10687

10687 مقام الرجل في الصف في سبيل الله أفضل عند الله من عبادة رجل ستين سنة.(طب ك ق عن عمران بن حصين).
10683 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں کسی شخص کے کھڑے ہونے کی جگہ اللہ کے نزدیک اس کی ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے “۔ (طبرانی، مستدرک حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت عمران بن حصین (رض))

10688

10688 مقام رجل في صف في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ، ومن رمى بسهم في سبيل الله فبلغ ، أخطأ أو أصاب فبعتق رقبة ، ومن شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة.(طب عنه).
10684 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں کسی شخص کا صف میں کھڑے ہونا دنیا اور ہر اس چیز سے جو دنیا میں سے بہتر ہے، اور جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تو وہ پہنچ گیا، خواہ تیر نشان پر لگا ہو یا خطا کرگیا ہو تو اس کو غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا، اور جو اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوگیا تو وہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے نور ہوگا “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمران بن حصین)

10689

10689 إني لم أبعث باليهودية ، ولا بالنصرانية ولكني بعثت بالحنيفية السمحة ، والذي نفسي بيده لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ، ولمقام أحدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة.(حم طب عن أبي أمامة).
10685 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجھے یہودیت یا نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ واضح اور روشن شریعت دے کر بھیجا گیا ہوں، اور قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو اس میں ہے، اور تم میں سے کسی کا صف میں کھڑے ہونا، اس کے ساٹھ سال تک نماز پڑھنے سے بہتر ہے “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت ابوامامۃ (رض))

10690

10690 روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما عليها ، وغدوة في سبيل الله خير من الدنيا وما عليها ، وإن المؤمن على المؤمن عرضه وماله ونفسه حرمه كما حرم هذا اليوم.(حم هب عن سفيان بن وهب الخولاني).
10686 ۔۔ فرمایا کہ ” ایک شام اللہ کے راستے میں لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو اس میں ہے اور ایک صبح اللہ کے راستے میں لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو اس میں ہے، اور ایک مومن کی جان، مال اور عزت دوسرے مومن پر اسی طرح حرام کردی گئی ہے جس طرح اس دن کو حرام کیا گیا ہے “۔ (مسند احمد، بیھقی فی شعب الایمان بروایت سفیان بن وھب الخولانی)

10691

10691 ساعة في سبيل الله خير من خمسين حجة.(الديلمي عن ابن عمر).
10687 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک ساعت بھی پچاس مرتبہ حج کرنے سے بہتر ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10692

10692 غدوة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها.(ابن قانع عن سفيان بن وهب الخولاني).
10688 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک صبح کا لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو اس میں ہے “۔ (ابن قانع عن سفیان بن وھب الخولانی)

10693

10693 لغدوة في سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها.(ط حم طب عن ابن عباس) (ق عن عمر).
10689 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو اس میں ہے “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض) اور متفق علیہ بروایت حضرت عمر (رض))

10694

10694 لغزوة في سبيل الله أحب إلي من أربعين حجة.(عبد الجبار الخولاني في تاريخ داريا عن مكحول) قال : كثر المستأذنون إلى الحج في غزوة تبوك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره.
10690 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غزوہ تبوک کے موقع پر جب حج کے لیے اجازت لینے والے لوگ بہت ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک غزوہ میں شریک ہونا مجھے چالیس مرتبہ حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے “۔ (عبدالجبار الخولانی فی تاریخ داریا بروایت مکحول)

10695

10695 يوم في سبيل الله خير من ألف يوم فيما سواه.(ط ك ق عن عثمان).
10691 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن لگا دینا باقی ہزار دنوں سے بہتر ہے “۔ (مسند حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت عثمان (رض)

10696

10696 لمقام أحدكم في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها.(طب ص عن سهل بن سعد).
10692 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے کسی کا اللہ کے راستے میں کھڑے ہونا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہے “۔ (طبرانی، سنن سعید بن منصور بروایت حضرت سھل بن سعد (رض))

10697

10697 لموقف في سبيل الله لا يسل فيه بسيف ، ولا يطعن فيه برمح ولا يرمى بسهم أفضل من عبادة ستين سنة لا يعصى الله فيها طرفة عين.(ابن النجار عن ابن عمر).
10693 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایسا ٹھہرنا جس میں تلوار بھی نہ سونتی گئی ہو اور نہ نیزہ چلایا ہو اور نہ ہی کوئی تیر چلایا ہو ایس ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے جس میں ایک لمحے کے لیے بھی اللہ کی نافرمانی نہ کی ہو “۔ (ابن النجار بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10698

10698 ما تقدم رجل خطوة في سبيل الله عزوجل إلا أطلعن عليه الحور العين ، وإن تأخر خطوة استحيين منه ، واستترن منه ، فان استشهد كانت أول شجة من دمه كفارة لخطاياه ، وينزل عليه اثنتان من الحور العين فينفضان التراب عن وجهه ، ويقولان مرحبا فقد آن لك ، ويقول هو مرحبا فقد آن لكما.(هناد طب عن يزيد بن شجرة).
10694 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی شخص اگر اللہ کے راستے میں ایک قدم بھی اٹھاتا ہے تو ” حورعین “ اسے جھانک کر دیکھتی ہیں اور اگر وہ قدم اٹھانے میں تاخیر کرے تو وہ اس سے حیا کرتی ہیں اور پردہ کرلیتی ہیں، اور اگر وہ شہید ہوجائے تو پہلا زخم جو اس کے سر میں لگے اور خون بہے تو وہ اس کی خطاؤں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور دو حورعن اس پر نازل ہوتی ہیں اس کے چہرے سے مٹی جھاڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خوش آمدید، اب تمہارا وقت آپہنچا اور وہ بھی کہتا ہے کہ خوش آمدید تم دونوں کا وقت بھی آپہنچا “۔ (ھناد، طبرانی بروایت یزید بن شجرۃ)
فائدہ :۔۔۔ ” سرکازخم “ اتفاقی قید ہے احترازی نہیں اور وقت آپہنچنے سے مراد جنت میں جانے کا وقت ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10699

10699 لا تلثموا في سبيل الله ، فانما غبار في سبيل الله فتات مسك أهل الجنة.(أبوالشييخ عن أبي الدرداء).
10695 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں (جب نکلو تو ) منہ پر کپڑا وغیرہ نہ باندھا کرو، یہ تو صرف غبار ہے جو اللہ کے راستے میں ہے اور اہل جنت کی مشک کا چورا ہے “۔ (ابوالشیخ بروایت حضرت ابو الدرداء (رض))

10700

10700 لا تنح عنه ، فو الذي نفسي بيته لذريرة الجنة يعني الغبار.(الباوردي والبغوي وابن منده ن عن ربيع بن زياد).
10696 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس سے پیچھے نہ رہو، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، کیونکہ یہ تو جنت کی خوشبو ہے یعنی غبار “۔ (باوردی اور بغوی اور ابن ھندہ اور نسائی بروایت ربیع بن زیاد (رض))

10701

10701 لا يجتمع غبار في منخري عبد في سبيل الله فتمسه النار أبدا.(الشيرازي في الالقاب عن عثمان).
10697 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص اللہ کے راستے میں ہو اور اس کے نرخرے میں غبار ہو اور اسے آگ چھو جائے “۔ (الشیرازی فی الالقاب بروایت حضرت عثمان (رض)

10702

10702 لا يجتمع غبار في سبيل الله ودخان جهنم في جوف عبدأبدا.(ابن زنجويه عن أبي هريرة) (ابن زنجويه عن عائشة).
10698 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بندے کے پیٹ میں اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں جمع ہو “۔ (ابن زنجویہ بروایت حضرت ابوھریرۃ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10703

10703 لا يجتمع في جوف عبد مؤمن غبار في سبيل الله وفيح جهنم ، ولا يجتمع في جوف عبد الايمان والحسد.(حب عن أبي هريرة).
10699 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بندے کے پیٹ میں اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں اور ایمان اور حسد جمع ہو “۔ (ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10704

10704 من اغبرت قدماه في سبيل الله فهما حرام على النار.(ط حم والباوردي ق عن جابر) (ابن زنجويه كر عن رجل) (ابن عساكر عن أبي بكر الصديق).
10700 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے تو وہ پیر آگ پر حرام ہیں “۔ (مسند احمد، باوردی متفق علیہ بروایت حضرت جابر (رض)، ابن زنجویہ عن رجل اور ابن عساکر بروایت حضرت ابوبکر صدیق (رض))

10705

10705 لا تعتزله فو الذي نفسي بيده إنه لذريرة الجنة.(د في المراسيل ن في الكنى والبغوي طب عن ربيعة بن زيد) أن النبي صلى الله عليه وسلم أبصر شابا يسير معتزلا ، فقال : ما لك اعتزلت الطريق ؟ قال : كرهت الغبار قال : فذكره.
10701 ۔۔۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک نوجوان کو دیکھا جو راستے سے ہٹ کر چل رہا تھا تو اس سے دریافت فرمایا کہ تجھے کیا ہوا جو راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے ؟ اس نے جواباً عرض کیا کہ مجھے گرد و غبار ناپسند ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے الگ مت ہو سو قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ تو جنت کی خوشبو ہے “۔ (ابوداؤد، فی المراسیل، نسائی فی الکنی اور بغوی طبرانی بروایت ربعۃ بن زید (رض))

10706

10706 ما اغبرت قدما عبد في سبيل الله إلا حرم الله عليه النار ، (ع وابن عساكر عن مالك بن عبد الله الخثعمي) (الشيرازي في الالقاب عن عثمان)
10702 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کسی بندے کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود نہیں ہوئے مگر یہ کہ وہ آگ پر حرام ہوگئے ہیں “۔ (مسند ابی یعلی، ابن عساکر بروایت حضرت مالک بن عبداللہ الخثعمی (رض) اور الشیرازی فی الالقاب بروایت حضرت عثمان)

10707

10707 ما من رجل يغبار وجهه في سبيل الله إلا أمن الله تعالى وجهه يوم القيامة ، وما من رجل تغبار قدماه في سبيل الله إلا أمن الله قدميه من النار يوم القيامة. (هب عن أبي أمامة).
10703 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی شخص ایسا نہیں جس کا چہرہ اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس چہرے کو امن میں رکھیں گے اور کوئی شخص ایسا نہیں جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوئے ہوں مگر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو آگ سے محفوظ رکھیں گے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10708

10708 من اغبرت قدماه في سبيل الله حرمها الله على النار.(ابن زنجويه وسمويه والعمار وابن عساكر عن أبي بكر الصديق).
10704 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کے قدم اللہ کے رستے میں غبار آلود ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان کو آگ پر حرام کردیں گے “۔ (ابن زنجویہ اور سمویہ اور عمار اور ابن عساکر بروایت حضرت ابوبکر صدیق (رض))

10709

10709 من أظل رأس غاز أظله الله عزوجل يوم القيامة ، ومن جهز غازيا في سبيل الله حتى يستقل بجهازه كان له مثل أجره حتى يموت أو يقتل أو يرجع ، ومن بنى مسجدا يذكر فيه اسم الله بنى الله له بيتا في الجنة.(حم والعدني ع حب ك ق ص عن عمر).
10705 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے غازی کو سامان فراہم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو سایہ فراہم کریں گے، اور جس نے غازی کو سامان فراہم کیا یہاں تک کہ وہ اس سامان کے ساتھ طاقتور ہوگیا تو اس (سامان فراہم کرنے والے ) کے لیے بھی ایسا ہی اجر ہوگا یہاں تک کہ (غازی) مرجائے یا قتل کردیا جائے یا واپس آجائے، اور جس نے مسجد بنائی جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائیں گے “۔ (مسند احمد، عدنی، مسند ابی یعلی، ابن حبان، مستدرک حاکم، متفق علیہ، سعید بن منصور بروایت حضرت عمر (رض))

10710

10710 من جهز غازيا في سبيل الله فله مثل أجره ، ومن خلف غازيا في سبيل الله في أهله بخير وأنفق فله مثل أجره.(الدارمي حب طب عن زيد بن خالد الجهني).
10706 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں لڑنے والے کو سامان فراہم کیا تو اس (سامان دینے والے) کا اجر بھی اس (غازی) کی طرح ہے اور جس نے اللہ کے راستے میں لڑنے والے کی (عدم موجودگی میں) اس کے گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ رکھا اور ان پر خرچ کیا تو اس (خرچ کرنے والے اور نگرانی کرنے والے) کا اجر بھی غازی کی طرح ہوگا “۔ (دارمی، ابن حبان، طبرانی، بروایت زید بن خالد الجھنی (رض))

10711

10711 من جهز غازيا أو خلفه في أهله بخير فانه معنا.(حم ط ب عن معاذ).
10707 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے غازی کو سامان فراہم کیا یا اس کے گھر کی بھلائی کے ساتھ خبر گیری کی تو وہ ہمارے ساتھ ہوگئے “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت معاد (رض))

10712

10712 من جهز حاجا أو جهز غازيا أو خلفه في أهله أو فطر صائما فله مثل أجره من غير أن ينقص من أجره شيئا.(هب عن زيد بن خالد).
10708 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے حاجی کو سامان فراہم کیا، یا غازی کو سامان فراہم کیا یا اس کے گھر کی بھلائی کے ساتھ خبر گیری کی یا کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے بھی ایسا ہی اجر ہوگا جیسا عمل کرنے والے کو ہوگا اور اس کے اجر میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت زید بن خالد (رض))

10713

10713 فضل نساء المجاهدين على القاعدين في الحرمة كأمهاتهم ، وما أحد من القاعدين بمخلف أحدا من المجاهدين في أهله فيخون فيهم إلا وقف له يوم القيامة ، فقيل له : إن هذا خانك في أهلك فخذ من عمله ما شئت.(طب عن ابن بريدة عن أبيه).
10709 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عزت و احترام کے لحاظ سے جہاد کرنے والی عورتوں کی فضیلت بیٹھ رہنے والوں پر ایسی ہے کہ جیسے وہ ان کی مائیں ہوں، اور کوئی شخص ایسا نہیں جس نے کسی مجاہد کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کے ساتھ خیانت کی ہو مگر یہ کہ اس کو قیامت کے دن اس کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا، اس مجاہد سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ شخص جس نے تیرے گھر میں خیانت کی سو اس کے اعمال میں سے جتنے چاہے لے لے “۔ (طبرانی بروایت ابن بریدۃ (رض))

10714

10714 إن صلاة المرابط تعدل خمسمائة صلاة ، ونفقة الدينار والدرهم منه أفضل من تسعمائة دينار ينفقه في غيره من غيره.(أبو الشيخ هب عن أبي أمامة).
10710 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ سپاہی جو رباط میں شامل ہو، اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے اور ایک دینار کا خرچ تو سو دیناروں کے خرچ سے افضل ہے جو کوئی شخص کسی اور جگہ میں خرچ کرے “۔ (ابو الشیخ، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابو امامۃ
(رض))

10715

10715 أول هذا الامر نبوة ورحمة ، ثم يكون خلافة ، ثم يكون ملكا ورحمة ، ثم يكون إمارة ورحمت ، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمير ، فعليكم بالجهاد فان أفضل جهادكم الرباط وأن أفضل رباطكم عسقلان.(طب عن ابن عباس).
10711 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس معاملے کی ابتداء نبوت ورحمت ہے، اس کے بعد خلافت ہوگی، اس کے بعد ملوکیت اور رحمت پھر امارت اور رحمت ، پھر اس پر ایک دوسرے کو ایسے دانتوں سے کاٹیں گے جیسے گدھ ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں، لہٰذا تم لوگ جہاد کو لازم پکڑنا، تمہارا سب سے افضل جہاد رباط ہوگا اور تمہارا سب سے افضل رباط، عسقلان ہوگا۔ “ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))
فائدہ :۔۔۔ عسقلان آج کل فلسطین میں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10716

10716 ألا أنبئكم بليلة أفضل من ليلة القدر ؟ حارس حرس في أرض خوف لعله أن لا يرجع إلى أهله.(ك ق عن ابن عمر).
10712 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تمہیں ایسی رات کے بارے میں نہ بتاؤں جو لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے (وہ رات ) جس میں پہرے دار نے ایسے خوف کے عالم میں پہرہ دیا ہو کہ گویا کہ اب وہ اپنے گھر والوں میں نہ لوٹ سکے گا “۔ (مستدرک حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10717

10717 من حرس وراء المسلمين في سبيل الله متطوعا لا يأخذه سلطان لم يرا النار بعينه إلا تحلة القسم ، فان الله تعالى يقول : (وإن منكم إلا واردها).(حم خ في تاريخه ع طب عن معاذ بن أنس).
10713 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس شخص نے اللہ کے راستے میں مسلمانوں کی پہرے داری کی رضا کارانہ طور پر سلطان نے اس کو کچھ نہ دیا ہو وہ اپنی آنکھوں سے آگ کو نہ دیکھے گا البتہ قسم کو حلال کرنے کی صورت میں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (تم میں سے کوئی نہیں جو اس تک آنے والا نہیں) (مسند احمدبخاری فی تاریخہ مسند ابی یعلی، طبرانی، بروایت حضرت معاذ بن جبل (رض)

10718

10718 من حرس ليلة على ساحل البحر كان أفضل من عبادة رجل في أهله ألف سنة السنة ثلثمائة وستون يوما ، كل يوم ألف سنة (ع كر عن أنس) وفيه محمد بن شعيب عن سابور عن سعيد بن خالد بن أبي الطويل.
10714 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس شخص نے سمندر کے ساحل پر ایک رات پہرہ دیا تو اس کا یہ پہرہ دینا اپنے گھر پر ہزار سال تک عبادت کرنے والے کی عبادت سے افضل ہے اور سال بھی ایسا جس میں تین سو ساٹھ دن ہوں اور ہر دن ہزار سال کے برابر ہو “۔ (مسند ابی یعلی بروایت حضرت انس (رض))

10719

10819 من رابط يوما في سبيل الله أو ليلة كان كعدل شهر صيامه وقيامه.(البغوي وابن قانع عن السميط البجلي).
10715 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص ایک دن یا ایک رات اللہ کے راستے میں پہرہ دے تو اس کا یہ پہرہ دینا مہینہ بھر کے روزوں یا مہینہ بھر کی نفل نمازوں کے برابر ہے “۔ (بغوی اور ابن قانع بروایت سمیط العجلی)

10720

10720 من رابط ليلة حارسا من وراء المسلمين كان له مثل أجر منخلفه ممن صام وصلى.(ابن زنجويه قط في الافرد عن أنس).
10716 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے ایک رات مورچے میں مسلمانوں کی چوکیداری کرتے ہوئے گزاری تو اس کا اجر جو اس سے پیچھے (یعنی گھر پر بیٹھا ) روزے رکھنے والے اور نماز پڑھنے والے کی طرح ہے “۔ (ابن زنجویہ، دارقطنی فی الافراد بروایت حضرت انس (رض))

10721

10721 من رابط فواق ناقة وجبت له الجنة.(الخطيب عن عائشة).
10717 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اونٹنی کا دودھ نکالنے کے وقت تک بھی پہرہ دیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی “۔ (خطیب بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10722

10722 من شهد عيدا من أعياد المسلمين في ثغر من ثغور المسلمين كتب الله له من الحسنات عدد كل مشرك ومشركة وراء ظهره.(ابن زنجويه عن أنس).
10718 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر مسلمانوں کی عیدوں میں سے کسی عید پر شریک ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کی غیر موجودگی میں تمام مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کی تعداد کے برابر نیکیاں اس کو عطا فرمائیں گے “۔ (ابن زنجویہ بروایت حضرت انس (رض))

10723

10723 من مات مرابطا في سبيل الله أو من عذاب القبر ، ونمي له أجره إلى يوم القيامة.(البغوي حب كر عن سلمان).
10719 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے ہلاک ہوا وہ قبر کے عذاب سے محفوظ ہوگیا اور اس کے لیے قیامت تک اس کا اجر بڑھتا رہے گا “۔ (بغوی، ابن حبان، بروایت حضرت سلمان (رض))

10724

10724 من رابط ليلة في سبيل الله كان أفضل من صيام رجل وقيامه شهرا في أهله.(ابن عساكر عن سعيد بن خالد بن أبي الطويل عن أنس) وسعيد منكر الحديث.
10720 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے ایک رات اللہ کے راستے میں پہرہ دیا تو اس کا یہ پہرہ دینا اپنے گھر والوں میں مہینہ بھرروزے رکھنے والے اور عبادت کے لیے کھڑے رہنے والے سے بہتر ہے “۔ (ابن عساکر بروایت سعید بن خالد بن ابی الطویل بروایت حضرت انس (رض))

10725

10725 من شهد عيدا من أعياد المسلمين في ثغر من ثغور المسلمين كان له من الحسنات عدد ريش كل طير في حريم الاسلام.(ابن زنجويه عن يحيى ابن أبي كثير) مرسلا.
10721 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر مسلمانوں کی عیدوں میں سے کسی عید میں شرکت کی تو اس کے لیے اسلام کے حرام موجود تمام پرندوں کے پروں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی “۔ (ابن زنجویہ بروایت یحییٰ بن ابی کثیر مرسلاً )

10726

10726 من مات مرابطا في سبيل الله أجير من فتنة القبر ، وجرى عليه صالح عمله الذي كان يعمل إلى يوم القيامة.(الحكيم عن سلمان).
10722 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے وفات پا گیا سو وہ قبر کے فتنہ سے محفوظ ہوگیا اور اس کے نیک عمل جو وہ کرتا تھا (ان کا ثواب اس کو قیامت کے دن تک ملتا رہے گا) ۔ (الحکیم بروایت حضرت انس (رض))

10727

10727 من مات على مرتبة من هذه المراتب بعث علها يوم القيامة رباط أو حج أو غير ذلك.(طب عن فضالة بن عبيد).
10723 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو کوئی ان مرتبوں میں سے کسی مرتبے پر وفات پا گیا قیامت کے دن تک انہی پر اٹھایا جائے گا جن پر اس کی وفات ہوئی تھی، پہرہ، یا حج وغیرہ “۔ (طبرانی بروایت فضالۃ بن عبید (رض))

10728

10728 ن مات مرابطا وقي فتنة القبر وأومن من الفزع الاكبر وغدي عليه وريح برزقه من الجنة ، وكتب له أجر المرابط إلى يوم القيامة.(حم عن أبي هريرة).
10724 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو پہرے کی حالت میں وفات پا گیا وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا “۔ اور بڑی گھبراہٹ سے محفوظ ہوگیا اور اس کو جنت کی ٹھنڈی ہوا اور رزق دیا جائے گا اور اس کے لیے قیامت تک اللہ کے راستے میں پہرہ دینے کا اجر لکھا جاتا رہے گا “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10729

10729 المرابطون بقزوين والروم وسائر المرابطين في البلاد يختم لكل من رابط منهم في كل يوم وليلة أجر قتيل في سبيل الله متشحط في دمه (الخطيب في فضائل قزوين والرافعي عن أبي الدرداء).
10725 ۔۔۔ فرمایا کہ ” قزوین اور روم پہرہ دینے والے اور تمام شہروں میں پہرہ دینے والوں میں سے ہر ایک کے لیے ایسے شہید کا ثواب لکھا جائے گا جو اللہ کے راستے میں خون میں لت پت ہو کر شہید ہوا “۔ (خطیب فی فضائل قزوین اور رافعی بروایت حضرت ابو الدرداء (رض))

10730

10730 حرس ليلة في سبيل الله عزوجل أفضل من ألف ليلة يقام ليلها ويصام نهارها.(حم طب أبو نعيم في المعرفة ك هب عن عثمان).
10726 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ عزوجل کے راستے میں ایک رات کی پہرے داری ایسی ہزار راتوں سے افضل ہے جن میں رات بھر کھڑے ہو کر عبادت کی گئی اور دن بھر روزہ رکھا گیا۔ (مسند احمد، طبرانی، ابو نعیم فی المعرفۃ، مستدرک حاکم، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت عثمان (رض)

10731

10731 حرمت عين على النار سهرت في سبيل الله.(ن عن أبي ريحانة).
10727 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ آنکھ آگ پر حرام ہوگی جو ایک رات اللہ کی راہ میں جاگی ہوگی “۔ (نسائی بروایت حضرت ابو ریحانہ (رض))

10732

10732 رباط يوم في سبيل الله خير ، من صيام شهر وقيامه ، ومن مات مرابطا في سبيل الله كان له أجر مجاهد إلى يوم القيامة.(ابن زنجويه عن سلمان).
10728 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن کا پہرہ مہینے بھر کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں مورچے میں وفات پا گیا تو اس کو قیامت کے دن تک جہاد کا اجر ملتا رہے گا “۔ (ابن زنجویہ بروایت حضرت سلمان (رض))

10733

10733 رباط يوم وليلة خير من صيام شهر وقيامه صائما لا يفطر وقائما لا يفتر ، فإذا مات مرابطا جرى له صالح ما كان يعمل حتى يبعث ووقي عذاب القبر.(حم طب وابن عساكر عن سلمان).
10729 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کہ ایک دن رات مورچے میں رہنا مہینے بھر کے ایسے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے جن میں نہ افطار ہو اور نہ سستی اور اگر مورچے میں وفات پا گیا تو اس کے لیے دوبارہ زندہ ہونے تک اس کے بہترین عمل کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا “۔ (مسند احمد، طبرانی، ابن عساکر بروایت حضرت سلمان (رض))

10734

10734 رباط يوم في سبيل الله خير من قيام شهر وصيامه ، ومن مات مرابطا في سبيل الله جرى له أجر المجاهدين إلى يوم القيامة.(الروياني كر عن سلمان).
10730 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن مورچے میں گزارنا مہینے کے روزہ اور نمازوں سے بہتر ہے اور جو اللہ کے راستے میں مورچے میں وفات پا گیا تو قیامت کے دن تک اس کو مجاہد کا اجر ملتا رہے گا (رویانی بروایت حضرت سلمان (رض))

10735

10735 رباط يوم في سبيل الله خير من الدنيا وما عليها وموضع سوط أحدكم من الجنة خير من الدنيا وما عليها ؟ والروحة يروحها العبد في سبيل الله أو الغدوة خير من الدنيا وما عليها.(حم خ ن عن سهل بن سعد).
10731 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن مورچے میں گزارنا دنیا اور اس پر موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے، اور جنت میں تم سے کسی ایک کا کوڑا (چابک) رکھنے کی جگہ بھی پوری دنیا اور اس پر موجود چیزوں سے بہتر ہے، اور ایک شام جو بندہ اللہ کے راستے میں لگاتا ہے یا ایک صبح دنیا اور اس پر موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے “۔ (مسند احمد، بخاری، نسائی، بروایت سھل بن سعد (رض))

10736

10736 رباط يوم وليلة في سبيل الله خير من صيام شهر وقيامه فان مات جرى له أجر المرابط ، ويؤمن من الفتان ، ويقطع له برزق من الجنة.(البغوي عن سلمان الفارسي).
10732 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک دن اور رات اللہ کے راستے میں مورچے میں رہنا مہینے بھر کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے سو اگر اس کی وفات ہوگئی تو اس کو مورچہ بند کا اجر ملے گا اور آزمانے والوں (منکرنکیر) سے محفوظ رہے گا اور اس کے لیے جنت سے رزق مقرر کیا جائے گا “۔ (بغوی بروایت حضرت سلمان (رض))

10737

10737 رباط يوم في سبيل الله أفضل من صيام شهر وقيامه ، ومن مات مرابطا في سبيل الله أجير من فتنة القبر ، ويجرى له صالح ما كان يعمل إلى يوم القيامة. (ابن زنجويه عن سلمان).
10733 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن مورچے میں رہنا مہینے بھر کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے، اور جو اللہ کے راستے میں مورچہ بند حالت میں مرگیا تو اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھاجائے گا اور اس کو اس کے بہترین عمل کا قیامت تک اجر ملتا رہے گا جو وہ کرتا تھا “۔ (ابن زنجویہ بروایت حضرت سلمان (رض))

10738

10738 رباط يوم في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ، ولقاب قوس أحدكم في الجنة خير من الدنيا وما فيها.(طب عن سلمان).
10734 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن مورچے میں رہنا، دنیا اور اس میں موجود چیزوں سے بہتر ہے اور یقیناً جنت میں تم سے کسی کی کمان رکھنے کی جگہ بھی دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے (طبرانی بروایت حضرت سلمان (رض))

10739

10739 رباط يوم في سبيل الله كصيام شهر وقيامه ، ومن مات مرابطا جرى ليه عمله الذي كان يعمل ، وأومن من الفتان ، ويبعث يوم القيامة شهيدا.(طب عنه).
10735 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ایک دن رات مورچے میں رہنا مہینے بھرکے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے اور جو اسی مورچہ بندی کی حالت میں وفات پا گیا تو اس کو اس کے بہترین عمل کا اجر ملتا رہے گا جو وہ کرتا تھا اور وہ آزمانے والوں سے محفوظ ہوجائے گا اور قیامت کے دن شہید اٹھایا جائے گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت سلمان (رض))

10740

10740 رباط يوم وليلة يعدل صيام شهر وقيامه ، ويجرى عليه رزقه ويبقى له عمله ويوقى الفتان.(طب عن أبي الدرداء).
10736 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک دن رات مورچے میں رہنا مہینے بھر کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے “ اس کے لیے اس کا رزق جاری کیا جائے گا، اور اس کا عمل اس کے لیے باقی رکھا جائے گا اور وہ آزمانے والوں سے محفوظ ہوجائے گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابوالدرداء (رض))

10741

10741 لا تفعل ولا يفعله أحد منكم فلصبر ساعة في بعض مواطن المسلمين خير من عبادة أربعين عاما خاليا.(ط ق عن عسعس ابن سلامة).
10737 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایسا مت کرو ! اور تم میں سے کوئی ایک بھی اس کام کو نہ کرے یقیناً مسلمانوں کے بعض مقامات پر صبر کرنا ایسے چالیس سال کی عبادت سے بہتر ہے جو خالی ہوں “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت عسعص بن سلامۃ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ خالی سال سے مراد وہ سال بھی ہوسکتے ہیں جن میں صبر کرنے کا موقع نہیں ملا اور وہ سال بھی مراد ہوسکتے ہیں جن میں جہاد کرنے کا موقع نہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ روایت میں کہیں رباط اور کہیں مرابط کا لفظ آیا اس کے کئی معنی ہیں مثلاً گھوڑا، اسلامی ممالک کی سرحدیں، قلعہ وغیرہ لہٰذا مذکورہ روایات میں پس مورچہ بند کا اور کہیں پہرے دار کا ترجمہ کیا گیا ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10742

10742 لا يزال الجهاد حلوا خضرا ما أمطرت السماء وأنتبتت الارض وسينظأ نشؤ من قبل المشرق يقولون : لا جهاد ولا رباط ، أولئك هم وقود النار ، رباط يوم في سبيل الله خير من عتق ألف رقبة ، ومن صدقة أهل الارض جميعا.) ابن عساكر وضعف عن أنس).
10738 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جہاد اس وقت تک سرسبز و شاداب میٹھا تروتازہ رہے گا جب تک آسمان بارش برساتا ہے اور زمین سے نباتا
اگتی ہیں ؟ اور عنقریب مشرق کی جانب سے ایسے لوگ اٹھیں گے جو یہ کہیں گے کہ نہ جہاد کوئی چیز ہے نہ رباط، یہی لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے، اللہ کے راستے میں ایک دن مورچے میں بیٹھنا ایک ہزار غلام آزاد کرنے سے زیادہ افضل ہے اور پوری کی پوری دنیا کے صدقے سے افضل ہے۔ (ابن عساکر ضعف عن انس (رض))

10743

10743 كل ميت إذا مات ختم على عمله إلا المرابط في سبيل الله ، فانه يجرى عليه حتى يبعث.(طب عن عقبة بن عامر).
10739 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر مرنے والا جب مرجاتا ہے تو اس کے اعمال پر مہرلگا دی جاتی ہے علاوہ اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں مورچہ بند ہو کیونکہ اس کا عمل قیامت کے دن تک اس کے لیے لکھا جاتا رہتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10744

10744 لان أحرس ثلاث ليال مرابطا من وراء بيضة المسلمين أحب إلى من أن تصيبني ليلة القدر في أحد المسجدين المدينة أو بيت المقدس.(أبو الشيخ عن أنس) (ابن شاهين هب عن أبي أمامة).
10740 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجھے مدینہ کی مسجد (مسجد نبوی) یا بیت المقدس میں سے کسی میں بھی لیلۃ القدر مل جانے سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میں تین راتیں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے مورچہ بند پہرہ دوں “۔ (ابو الشیخ بروایت حضرت انس (رض) اور ابن شاھین، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10745

10745 لرباط يوم في سبيل الله من وراء عورة المسلمين محتسبا من غير شهر رمضان أعظم أجرا من عبادة مائة سنة صيامها وقيامها ورباط يوم في سبيل الله من وراء عورة المسلمين محتسبا من شهر رمضان أفضل عند الله وأعظم أجرا من عبادة ألف سنة صيامها وقيامها فان رده الله إلى أهله سالما لم يكتب عليه سيئة ألف سنة ويكتب له الحسنات ويجرى له أجر الرباط إلى يوم القيامة. (د عن أبي بن كعب) قال المنذري في الترغيب آثار الوضع عليه لائحة وكيف لا وهو في رواية عمر بن صبيح وقال ابن كثير : أخلق بهذاا الحديث أن يكون موضوعا لما فيه من المجازفة ولانه من رواية عمر بن صبيح أحد الكذابين بين المعروفين بوضع الحديث.
10741 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ کے راستے میں مسلمانوں کی شرمگاہ کی حفاظت کے لیے ایک دن کی مورچہ بندی جو رمضان المبارک کے مہینے میں نہ ہو وہ سو سال کی عبادت روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے، اور کچھ شک نہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ کے راستے میں مسلمانوں کی شرمگاہ کی حفاظت کے لیے ایک دن کی مورچہ بندی اللہ کے ہاں ہزار سال کی عبادت اور روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے اور افضل ہے، پھر اگر اللہ تعالیٰ اسے (مجاہد کو ) صحیح سالم اپنے گھر والوں میں واپس بھیج دیں تو ہزار سال تک اس کی کوئی برائی نہیں لکھی جاتی بلکہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور قیامت تک کے لیے اس کے لیے مورچہ بندی کا اجر لکھا جاتا رہتا ہے “۔ (ابو داؤد، بروایت حضرت ابی بن کعب (رض))
منذر نے ترغیب میں کہا ہے کہ یہ روایت موضوع من گھڑت ہے اور موضوع ہونے کی علامات چمک رہی ہیں اور کیوں نہ ہو اس لیے کہ اس کی سند میں عمر بن صحیح ہے۔

10746

10746 ليبعثن اله أقواما يوم القيامة تلالا وجوههم ، يمرون بالناس كهيئة الريح ، يدخلون الجنة بغير حساب ، قيل : من هم يا رسول الله ؟ قال : أولئك قوم أدركهم الموت وهم في الرباط.(عق وقال منكر عن أبي هريرة).
10742 ۔۔۔ فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی قوموں کو کھڑا کریں گے جن کے چہرے چمک رہے ہوں گے لوگوں کے پاس سے ہوا کی طرح گزرجائیں گے، بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے، عرض کیا گیا وہ کون لوگ ہوں گے یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ وہ وہ لوگ ہوں گے جو مورچے (یا پہرے) کی حالت میں وفات پاگئے۔ (بروایت حضرت ابوھریرۃ )

10747

10747 ربا ثلاث ثم قل للعاملين والعالمين فليذكروني.(حل عن عمرو بن عبسة).
10743 ۔۔۔ فرمایا ” تین دن تیار کرو پھر عمل کرنے والوں اور علم رکھنے والوں سے کہہ دو کہ انھیں چاہیے کہ مجھے یاد کریں “۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابی الدرداء (رض))

10748

10748 من أصابه شيب في سبيل الله جعله الله نورا يوم القيامة.(ص عن عمرو بن عبسة).
10744 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کو قیامت کے دن نور بنادیں گے “۔ (سنن سعید بن منصور بروایت حضرت عمرو بن عبسۃ (رض))

10749

10749 من شاب شيبة في سبيل الله كانت له نورا يوم القيامة ، قيل : فان رجالا ينتفون الشيب ، قال : من شاء فلينتف نوره.(طب عن فضالة بن عبيد).
10745 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر اللہ کے راستے میں کسی پر ذرا بھی بڑھاپا آگیا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا، عرض کیا گیا کہ بعض لوگ بڑھاپے (سفید بالوں) کو نوچ دیتے ہیں ؟ فرمایا کہ جو چاہے اپنے نور کو نوچ پھینکے “۔ (طبرانی بروایت حضرت فضالۃ بن عبید (رض))

10750

10750 من شاب شيبة في سبيل الله كان له نورا يوم القيامة ، ومن رمى بسهم في سبيل الله بلغ العدو أو لم يبلغ كان له كعتق رقبة ومن أعتق رقبة مؤمنة كانت فداءه من النار.(عبد الرزاق حم ن ق عن عمرو بن عبسة) (طب عن أبي أمامة).
10746 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر اللہ کے راستے میں کسی پر ذرا بھی بڑھاپا آگیا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا، اور جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا خواہ تیر نشانے پر لگایا نہیں، تو وہ ایسے ہے جیسے ایک غلام آزاد کرنا اور جس نے ایک مسلمان غلام آزاد کیا تو وہ اس کے لیے جہنم سے کافی ہوجائے گا “۔ (مصنف عبدالرزاق، مسند احمد، نسائی، متفق علیہ بروایت حضرت عمر وبن طیبۃ (رض) اور طبرانی بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10751

10751 إذا ضن الناس بالدينار والدرهم وتبايعوا بالعينة وأخذتم أذناب البقر ، ورضيتم بالزرع ، وتركتم الجهاد في سبيل الله بعث الله عليكم ذلا لا ينزعه منكم حتى تراجعوا أمر دينكم ، فان الرجل ليتعلق بجاره يوم القيامة ، فيقول : إن هذا أغلق بابه وضن عني بماله.(ابن جرير عن ابن عمر).
10747 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب لوگ دیناروں اور درہموں کے ساتھ بخل کرنے لگیں گے اور سود کو حیلے کے ساتھ خریدو فروخت کرنے لگیں اور تم لوگ گائے کی دموں کو پکڑلوگے اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑدوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائیں گے جو تم سے اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک تم اپنے دین کے کام کی طرف واپس نہ چلے جاؤ، لہٰذا ایک شخص قیامت کے دن اپنے پڑوسی کے پیچھے پڑا ہوگا اور کہہ رہا ہوگا کہ اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تھا اور میرے ساتھ اپنے مال میں کنجوسی کی تھی “۔ (ابن جریر بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10752

10752 إذا أنتم اتبعتم أذناب البقر وتبايعتم بالعينة ، وتركتم الجهاد في سبيل الله ليذلنكم الله بذلة في أعناقكم ثم لا ينزع منكم حتى ترجعوا إلى ما كنتم عليه ، وتتوبوا إلى الله تعالى.(حم عن ابن عمر).
10748 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم گائے کی دموں کے پیچھے لگ جاؤ گے اور سود کے حیلے کے ساتھ خریدو فروخت کرنے لگو گے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کو چھوڑ دوگے تو اللہ تعالیٰ بالضرور تمہارے گردنوں پر ذلت مسلط کردیں گے پھر وہ ذلت اور رسوائی تم سے اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک تم واپس اس چیز کی طرف لوٹ نہ جاؤ جس پر پہلے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرلو “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابن عمر (رض))
فائدہ :۔۔۔ فرمایا کہ ” جس پر پہلے تھے سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10753

10753 إن العرب إذا ابتعت أذناب البقر صب عليهم الذلة وسلط عليهم ولد فارس فيدعون فلا يستجاب لهم.(تمام عن مساور ابن شهاب بن مسرور عن أبيه عن جده سعد بن أبي العادية عن أبيه).
10749 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب عرب گائے کے دموں کے پیچھے لگ جائیں گے تو ان پر ذلت ڈال دی جائے گی اور ان پر اہل فارس کا بیٹا مسلط کردیا جائے گا پھر وہ دعا مانگا کریں گے لیکن قبول نہ ہوگی “۔ (تمام عن سادر بن شھاب بن مسرور عن ابیہ عن جدہ سعد بن ابی العادیہ عن ابیہ)

10754

10754 يا بشير لا جهاد ولا صدقة فبم ذا تدخل الجنة.(حم والحسن بن سفيان وابن قانع طب ك ص عن بشير بن الخصاصية)
10750 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے بشیر ! نہ جہاد نہ صدقہ جنت میں کسی چیز کے ساتھ داخل ہوگے “۔ (مسند احمد، حسن بن سفیان، ابن قانع، طبرانی مستدرک حاکم، سعید بن منصور بروایت حضرت بشیر بن الخصاصیۃ (رض))

10755

10755 لا صدقة ولا جهاد فبم تدخل الجنة.(طس ق ك عن بشير بن الخصاصية).
10751 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نہ صدقہ نہ جہاد تو جنت میں کس چیز کے ساتھ داخل ہوگے ؟ (طبرانی معجم اوسط، متفق علیہ، مستدرک حاکم بروایت حضرت بشیر بن الخصاصیۃ (رض))

10756

10756 مثل المنفق على الخيل كالمتكفف بالصدقة.(حب عن أبي هريرة).
10752 ۔۔۔ فرمایا کہ گھوڑے پر خرچہ کرنے والے کی مثال ایسے ہے جیسے صدقہ کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے شخص۔ (ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10757

10757 من حبس فرسا في سبيل الله ان ستره من النار.(عبد ابن حميد عن زيد بن ثابت).
10753 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا روک رکھا تو وہ (گھوڑا) اس شخص کے لیے آگ سے بچاؤ ہوگا “۔ (عبد بن حمید بروایت حضرت زید بن ثابت (رض))

10758

10758 من ربط فرسا في سبيل الله ، ثم ولي حسه ومسحه ونقى شعيره كان له بعدد كل شعيرة وكل حبة حسنة تكتب له ، وسيئة تمحى عنه.(ابن عساكر عن تميم).
10754 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھا پھر پیچھے سے کھر کھرا کیا اور ہاتھ پھیرا اور گھوڑے کے لیے جو اوصاف کئے تو اس کے لیے ہر جو اور ہر دانے کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی اور برائیاں مٹائی جائیں گی “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت تمیم (رض))

10759

10759 المنفق على الخيل كباسط يده بالصدقة ، ويقبضها ، وأبوالها وأوراثها عند الله يوم القيامة كذكي المسك.(ابن سعد طب عن يزيد بن عبد الله بن عريب عن أبيه عن جده).
10755 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑے پر خرچہ کرنے والا ایسا ہے جیسے صدقہ کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے کوئی شخص جو صدقہ لیتا ہے، اور اس (گھوڑے) کا پیشاب اور لید وغیرہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں پاکیزہ مشک کی مانند ہوگا “۔ (ابن سعد، طبرانی، بروایت یزید بن عبداللہ بن غریب عن ابیہ عن جدہ )
فائدہ :۔۔۔” صدقے کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے شخص جو صدقہ لے لیتا ہے “ اس جملے سے مرادیہ ہے کہ خرچہ کرنے والا بظاہر تو اپنے گھوڑے پر خرچہ کررہا ہے جو اس نے جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے پالا ہے، لیکن درحقیقت وہ اس ہاتھ سے بےانتہاء اجر وثواب لے رہا ہوتا ہے تو اس اجرو ثواب لینے کو یہاں صدقہ لینے سے تشبیہ دی، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10760

10760 من نقى لفرسه شعيرا ثم قام به حتى يعلقه عليه كتب الله له بكل شعيرة حسنة.(ابن زنجويه والحاكم في الكنى عن تميم)
10756 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنے گھوڑے کے لیے جو صاف کئے پھر جو لے کر کھڑا ہوا اور گھوڑے کی گردن میں لٹکادئیے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جو کے ہر دانے کے بدلے نیکی لکھ دیتے ہیں “ (ابن زنجویہ والحاکم فی الکنی بروایت حضرت تمیم (رض)

10761

10761 ما من امرئ مسلم يربط فرسا في سبيل الله إلا يكتب الله له بكل حبة توافيه حسنة ويحط عنه بكل حبة سيئة.(ابن عساكر عن عائشة).
10757 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمانوں میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھا ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر دانے کے بدلے اس کے لیے نیکی لکھ دیتے ہیں اور ہر دانے کے بدلے اس کی ایک برائی مٹا دیتے ہیں “۔ (ابن عساکر بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10762

10762 الخيل ثلاثة ، فرجل ارتبط فرسا في سبيل الله ، فروثها ولحمها في ميزان صاحبها يوم القيامة ، ورجل ارتبط فرسا يريد بطنها ، ورجل ارتبط فرسا رياء وسمعة فهو في النار.(أبو الشيخ في الثواب عن أنس).
10758 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑے تو تین ہیں، ایک تو وہ جو کسی شخص نے اللہ کی رضا کے لیے باندھا ہو دوسرا گھوڑا جو کسی شخص نے سواری اور باربرداری کے لیے باندھ رکھا ہو، اور ایک وہ جو کسی شخص نے دیا اور دکھاوے کے لیے باندھا ہو تو وہ آگ میں ہے “۔ (ابوالشیخ فی التواب بروایت حضرت انس (رض))

10763

10763 الخيل ثلاثة ، ففرس للرحمن ، وفرس للانسان ، وفرس للشيطان ، فأما فرس الرحمن فما اتخذ في سبيل الله وقتل عليه أعداء الله ،وأما فرس الانسان فما استبطن وتحمل عليه ، وأما فرس الشيطان فما روهن عليه وقومر عليه.(طب عن خباب).
10759 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑے تو تین ہی ہیں، ایک گھوڑا رحمن کے لیے ایک گھوڑا انسان کے لیے اور ایک گھوڑا شیطان کے لئے، رحمن کا گھوڑا تو وہ ہے جو کسی نے اللہ کی رضا کے لیے رکھا ہو اور اس پر بیٹھ کر اللہ کے دشمنوں سے قتال کرے، اور انسان کا گھوڑا وہ ہے جس کے پیٹھ کو وہ اپنے (سواری کے) لیے رکھے اور اس پر بوجھ اٹھائے، اور شیطان کا گھوڑا جو گروی رکھنے رکھانے میں اور جوئے میں استعمال ہو “۔ (طبرانی بروایت حضرت خباب (رض))

10764

10764 الخيل ثلاثة : فرس يربطها الرجل في سبيل الله فثمنه أجر وعاريته أجر وعلفه أجر وفرس يغالق فيه الرجل ويراهن فثمنه وزر وعلفه وزر وركوبه وزر ، وفرس للبطنة فعسى أن يكون سدادا من الفقر إن شاء الله تعالى. (حم عن رجل من الانصار)
10760 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑے تو تین ہیں، ایک وہ گھوڑا جسے کسی نے اللہ کی رضا کے لیے باندھا ہو، سو اس کی قیمت اس کا اجر ہے اور اس کی عاریت بھی اجر ہے اور اس کو گھاس دانہ ڈالنا بھی اجر ہے اور ایک گھوڑا وہ ہے جس میں کوئی شخص شرط لگائے اور رھن رکھے، سو اس کی قیمت بھی بوجھ ہے اس کو گھاس ڈالنا بھی بوجھ ہے اور اس پر سواری بھی بوجھ ہے، اور ایک گھوڑا وہ ہے جسے پیٹ کے لیے رکھا ہو سو ہوسکتا ہے کہ وہ فقر وفاقہ دور کرنے کا باعث ہو اگر اللہ چاہے “۔ (مسند احمد عن رجل بن الانصار)
فائدہ :۔۔۔ عاریت سے مراد کوئی چیز کسی دوسرے کو بلامعاوضہ کچھ وقت کے استعمال کے لیے دینا، اور پیٹ کے لیے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس سے باربرداری کا کام لے گا اور کچھ کما کھائے چنانچہ اسی لیے آگے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ فقروفاقہ دور کرنے کا باعث ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10765

10765 ما ثقل ميزان عبد كدابة تنفق في سبيل الله ، أو يحمل عليها في سبيل الله.(طب عن معاذ).
10761 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر اپنے چوپائے پر خرچہ کرتا ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر اس پر اٹھاتا ہے تو اس کا میزان بھی اس چوپائے کی طرح بھاری ہوگا “۔ (طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

10766

10766 دينار أنفقته على نفسك ، ودينار أنفقته على والديك ، ودينار أنفقته على ابن لك ، ودينار أنفقته على أهلك ، ودينار أنفقته في سبيل الله وهو أحسنها أجرا. (قط في الافراد عن أبي هريرة).
10762 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک دینار وہ ہے جسے تو اپنے آپ پر خرچ کرتا ہے اور ایک دینار وہ ہے جسے تو اپنے والدین پر خرچ کرتا ہے، ایک دینار وہ ہے جسے تو اپنے بیٹے پر خرچ کرتا ہے، ایک دینار وہ ہے جسے تو اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے اور ایک دینار وہ ہے جسے تو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اجر کے لحاظ سے ان سب سے زیادہ اچھا ہے “۔ (دارقطنی فی الافراد بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10767

10767 من جلس على البحر احتسابا ونية احتياطا للمسلمين كتب الله له بكل قطرة في البحر حسنة.(طب عن أبي الدرداء).
10763 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص سمندر کے کنارے احتساب اور مسلمانوں کی حفاظت کی نیت سے بیٹھا، تو اللہ تعالیٰ سمندر کے ہر قطرے کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں “۔ طبرانی بروایت حضرت ابو الدرداء (رض))

10768

10768 لان أمرض على ساحل البحر أحب إلي من أن أصبح فأعتق مائة رجل ، ثم أجهزهم ودوابهم في سبيل الله.(أبو الشيخ عن علي).
10764 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سمندر کے ساحل پر بیمار ہوجانا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں صبح سو غلام آزاد کروں پھر ان کو اور ان کی سواریوں کو تیار کروا کے اللہ کے راستے میں بھیج دوں “۔ (ابوالشیخ بروایت حضرت علی (رض))

10769

10769 من رابط في شئ من سواحل المسلمين ثلاثة أيام أجزأت عنه رباط سنة.(حم طب عن أم الدرداء).
10765 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کسی نے مسلمانوں کے ساحلوں میں سے کسی ساحل پر تین دن مورچہ بندی کی تو وہ اس کے لیے سال بھر کی مورچہ بندی کے برابر ہوجائے گا “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت ام الدرداء (رض))

10770

10770 من مرض يوما في البحر كان أفضل من عتق ألف رقبة يجهزهم وينفق عليهم إلى يوم القيامة ، ومن علم رجلا في سبيل الله آية من كتاب الله أو كلمة من سنة حثا الله له من الثواب يوم القيامة حتى لا يكون شئ من الثواب أفضل مما يحثي الله له. (حل عن علي).
10766 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص سمندر میں ایک دن بیمار ہوا تو یہ ایسے ہزار غلام آزاد کرنے سے توافضل ہے جن کو تیار کروا کر قیامت تک ان پر خرچہ کیا جاتا رہے، اور جس نے اللہ کی رضا کی خاطر کسی کو ایک آیت سکھائی یا سنت میں سے ایک کلمہ سنایا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے مٹھی بھر ثواب دیں گے یہاں تک کہ جو ثواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے افضل ثواب کوئی نہ رہے “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت علی (رض))

10771

10771 من كبر تكبيرة عند الغروب على ساحل البحر رافعا صوته اعطاه الله من الاجر بعدد كل قطرة في البحر عشر حسنات ، ومحا عنه عشر سيأت ، ورفع له عشر درجات ما بين كل درجتين مسيرة مائة عام للفرس المسرع. (طب حل ك عن اياس بن معاوية بن قرة عن أبيه عن جده) قال الذهبي هذا منكر جدا وفي اسناده من يتهم.
10767 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے مغرب کے وقت ساحل سمندر پر اپنی آواز بلند کرتے وقت ایک تکبیر کہی تو اللہ تعالیٰ اس کو سمندر کے ہر قطرے کے بدلے دس نیکیاں عطا فرمائیں گے اور دس برائیاں مٹادیں گے اور اس کے دس درجات بلند فرمائیں گے اور وہ بھی ایسے کہ ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا کہ ایک تیز رفتار گھوڑا سو سال میں طے کرے “۔ (طبرانی، حلیہ ابی نعیم، مستدرک حکم بروایت ایاس بن معاویۃ (رض) بن قرۃ عن ابیہ عن جدہ وقال الذھبی ھذا منکر ھذا وفی اسنادہ من یتھم

10772

10772 من غزا في البحر غزوة في سبيل الله والله أعلم بمن يغزو في سبيل الله فقد أدى إلى الله طاعته كلها ، وطلب الجنة كل مطلب وهرب من النار كل مهرب. (طب وابن عساكر عن عمران بن حصين) وفيه عمر بن صبح كذاب.
10768 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے سمندر میں ایک جنگ بھی اللہ کی رضا کے لیے لڑی اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کی رضا کے لیے جنگ لڑتا ہے (تو تحقیق) اس نے اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی فرمان برداری ادا کردی اور جنت کو ایسے طلب کیا جیسے کہ اس کو طلب کرنے کا حق تھا اور جہنم سے ایسے بھاگا جیسے اس سے بھاگنا چاہیے “۔ (طبرانی اور ابن عساکر بروایت حضرت عمران بن حصین (رض) ، وفیہ عمر بن صبح کذاب)

10773

10773 من غزا البحر في سبيل الله كان له فيما بين الموجتين كمن قطع الدنيا في طاعة عزوجل.(أبو الشيخ عن أبي هريرة).
10769 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کی رضا کے لیے سمندر میں جنگ لڑی تو اس کے لیے وہ ہوگا جو دو موجوں کے درمیان ہوتا ہے جیسے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کے لیے دنیا سے کٹ گیا ہو “۔ (ابوالشیخ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ دنیا سے کٹ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک سے بالکل قطع تعلق کر کے تنہائی میں عبادات وغیرہ میں مصروف ہوجائے بلکہ مراد یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا اور دین کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور فرمان برداری کا اتنا خیال رکھے کہ گویا کہ اسے اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اور دوموجوں کے درمیان سے مراد دو موجوں کے درمیان پانی کے قطروں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملنا ہوسکتا ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10774

10774 من لم يدرك الغزو معي فليغز في البحر ، فان قتال يوم في البحر خير من قتال يومين في البر ، وإن أجر الشهيد في البحر كأجر الشهيدين في البر وإن خيار الشهداء أصحاب الاكفء قيل : يا رسول الله ومن أصحا بالاكفء ؟ قال : قوم تكفأ عليهم مراكبهم في البحر.(كر عن علقمة بن شهاب القسري) مرسلا.
10770 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے میرے ساتھ مل کر (کافروں کے خلاف) جنگ نہیں کی تو اسے چاہیے کہ سمندری جنگ میں حصہ لے کیونکہ سمندر میں ایک دن قتال کرنا خشکی پر دو دن قتال سے (اجر کے اعتبار سے) بہتر ہے، اور سمندر جنگ کے ایک شہید کا اجر خشکی کے دوشہیدوں کی طرح ہے، اور سب سے بہتر شہداء اصحاب اکف ہیں۔ عرض کیا گیا، یا رسول اللہ ! یہ اصحاب کہف کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ جن کی کشتیاں وغیرہ سمندر میں اپنے سواروں سمیت الٹ گئیں “۔ (بروایت علقمہ بن شھاب القسری مرسلاً )

10775

10775 من لم يدرك الغزو معي فليغز في البحر.(طس كرعن علقمة بن شهاب).
10771 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے میرے شانہ بشانہ کافروں سے جنگ نہیں کی تو اسے چاہیے کہ سمندری جنگ میں حصہ لے “۔ (معجم اوسط طبرانی بروایت علقمہ بن شھاب)

10776

10776 المائد في البحر الذي يصيبه القئ له أجر شهيد ، والغريق له أجر شهيدين.(د ق عن أم حرام) فصل في صدق النية
10772 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سمندر میں کھانا کھانے والا جسے قے ہوگئی ہو تو اس کے لیے شہید جیسا اجر ہے، اور ڈوبنے والے کے لیے دوشہیدوں کا اجر ہے “۔ (سنن ابی داؤد، متفق علیہ بروایت حضرت ام حرام (رض))

10777

10777 من غزا في سبيل الله ولم ينو إلا عقالا فله ما نوى.(حم ن ك عن عباد).
10773 ۔۔۔ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، اس کی نیت صرف مال غنیمت ہے بس اس کے لیے وہ مال غنیمت اجر ہے “۔ (مسند احمد، نسائی، مستدرک حاکم بروایت عباد (رض))

10778

10778 إنما يبعث الله المقتتلين على النيات.(ابن عساكر عن عمر).
10774 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً اللہ تعالیٰ قتل و قتال میں مرنے والوں کو ان کی نیتوں پر اٹھائیں گے “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت عمر (رض))

10779

10779 مثل الذين يغزون من أمتي ويأخذون الجعل يتقوون على عدوهم مثل أم موسى ترضع ولدها وتأخذ أجرها.(د في مراسيله وأبو نعيم ق عن جبير بن نفير) مرسلا.
10775 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کہ وہ لوگ جو میری امت میں سے جہاد کرتے ہیں اور کچھ مقرر وظیفہ لیتے ہیں اور دشمن کے خلاف قوت حاصل کرتے ہیں ان کی مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرح ہے جو اپنے بیٹے کو دودھ پلاتی تھیں اور معاوضہ لیا کرتی تھیں “۔ (سنن ابی داؤد، فی مراسیلہ اور ابونعیم متفق علیہ بروایت جبیر بن نضیر مرسلا)

10780

10780 سبحان الله لا بأس أن يؤجر ويحمد.(حم د عن سهل بن الحنظلية).
10776 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سبحان اللہ۔ پاک ہے اللہ کی ذات اس میں کچھ حرج نہیں کہ اجر لیا جائے اور حمد کی جائے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، بروایت حضرت سھل بن الحنظلۃ)
فائدہ :۔۔۔ اس سے پہلے والی روایت کی روشنی میں اگر اس روایت کو دیکھاجائے تو اس کی مرادیہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر جہاد
کرتے ہوئے کچھ مقرر اجر لیا جائے اور ان کی کچھ تعریف بھی کردی جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں کیونکہ مقررہ وظیفہ لینا بھی ضروری ہے جسے دشمن کے خلاف قوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور تعریف سے مجاہدین کی حوصلہ افزائی ہوجائے اور وہ اور زیادہ ذوق وشوق سے جہاد کریں گے “۔
یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ دیا جائے کہ اگر جہاد کے دوران مجاہدین کو کچھ وظائف بھی دے دئیے جائیں اور ان کی تعریف بھی کی جاتی رہے تو اس کی وجہ سے ان کی نیت پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10781

10781 ما أجد له في غزوته هذه في الدنيا والآخرة إلا دنانيره التي سمى.(د ك عن يعلى بن منية).
10777 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں نے نہیں پایا اس کے لیے اس جنگ کے بدلے میں کوئی اجر اس دنیا میں یا آخرت میں علاوہ ان دنانیر کے جو اس نے مقرر کئے تھے “۔ (سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت یعلی)

10782

10782 يا عبد اله بن عمرو إن قاتلت صابرا محتسبا بعثك الله صابرا محتسبا ، وإن قاتلت مرائيا مكاثرا بعثك الله مرائيا مكاثرا ، يا عبد الله ابن عمرو عل أي حال قاتلت أو قتلت بعثك الله على تلك الحال.(د ك ق عن ابن عمرو).
10778 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے عبداللہ بن عمرو “ اگر تم نے صبر کرتے ہوئے احتساب کی نیت سے قتال کیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی طرح صبر کرنے والا اور احتساب کی نیت کرنے والا بنا کر اٹھائیں گے، اور اگر تم نے دکھاوے اور تکاثر کی نیت سے قتال کیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس دکھاوے تکاثر، تفاخر، بڑھائی ظاہر کرنے کی حالت پر اٹھائیں گے اے عبداللہ بن عمرو ! تم نے جس حال میں بھی قتال کیا یا تمہیں قتل کیا گیا اللہ تعالیٰ اس حال میں تمہیں اٹھائیں گے “۔ (سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

10783

10783 ستفتح عليكم الامصار ، وستكون جنود مجندة ، يقطع عليكم فيها بعثو ، فيكره الرجل منكم البعث ، فيتخلص من قومه ، ثم يتصفح القبائل يعرض نفسه عليهم ، يقول : من أكفه بعث كذا ؟ من أكفه بعث كذا ؟ أذا وذلك الاجير إلى آخر قطرة من دمه.(حم د هق عن أبي يوب).
10779 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عنقریب تم پر شہر فتح ہوتے چلے جائیں گے اور عنقریب تم زبردست لشکر جرار بن جاؤگے، پھر تمہارے اس معرکے میں مختلف دستے بنائے جائیں گے سو تم میں سے ایک شخص ایک دستے سے ناپسندیدگی کا اظہار کرے گا اور اپنی قوم میں رہے گا پھر باقی قبیلوں سے الگ ہوجائے گا اور خود کو ان کے سامنے پیش کرے گا اور کہے گا کہ کون ہے وہ جس کے لیے میں اس وفد کے بدلے کافی ہوجاؤں ؟ کون ہے وہ جس کے لیے میں اس وفد سے کافی ہوجاؤں ؟ سنو ! یہ وہ شخص ہے جو اپنے خون کے آخری قطرے تک کو کرائے پردے رہاہو “۔ (مسند احمد، سنن ابی داؤد، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابوایوب (رض))

10784

10784 إن أقواما بالمدنية خلفنا ، ما سلكنا شعبا ولا واديا إلا وهم معنا حسبهم العذر.(خ عن أنس).
10780 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بعض قومیں مدینہ میں ہمارے پیچھے ہیں، ہم جس گھاٹی اور جس وادی سے گزرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، انھیں کسی عذر نے روک لیا ہے “۔ (بخاری بروایت حضرت انس (رض))

10785

10785 إن بالمدينة أقواما ما سرتم مسيرا ولا أنفقتم من نفقة ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم فيه ، وهم بالمدينة حبسهم العذر.(حم خ د ه عن أنس) (م ه عن جابر).
10781 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً مدینہ میں ایسی قومیں بھی ہیں کہ تم جتنا بھی چلے اور جو کچھ بھی خرچ کیا اور جس وادی سے گزرے وہ اس میں تمہارے ساتھ تھے حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں کسی عذر کی وجہ سے نہیں آسکے “۔ (مسند احمد، بخاری ابوداؤد ابن ماجہ بروایت حضرت انس (رض) اور مسلم، ابن ماجہ بروایت حضرت جابر (رض))
فائدہ :۔۔۔ ہمارے پیچھے رہنے سے مرادیہ ہے کہ وہ لوگ مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرے رہے ہیں اور ہمارے ساتھ جہاد میں شرکت کے لیے نہیں آسکے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10786

10786 أعطها إياه فانها حظه من غزاته.(ك هق عن يعلى بن منية).
10782 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ خاتون اس کے حوالے کردو کیونکہ وہ (خاتون) ان جنگوں میں اس کا حصہ ہے “۔ (مستدرک حاکم، بیھقی فی شعب الایمان بروایت یعلی بن منیہ (رض))

10787

10787 إن الله عزوجل يباهي بالمتقلد سيفه في سبيل الله ملائكته وهم يصلون عليه ما دام متقلده.(الخطيب عن علي).
10783 ۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ اپنی رضا کی خاطر تلوار لٹکانے والے پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں اور وہ (فرشتے) ان کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ لوگ تلوار لٹکائے ہوئے رہتے ہیں ”۔ (خطیب بروایت حضرت علی (رض))

10788

10788 من تلقد سيفا في سبيل الله قلده الله وشاحا في الجنة لا تقوم لها الدنيا منذ خلقها اله إلى يوم يفنيها ، وإن الله ليباهي بسيف الغازي ورمحه وسلاحه ، وإذا باهى الله بعد لم يعذبه أبدا.(أبو الشيخ والمخلص في فوائده عن أبي هريرة) وهو واه.
10784 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کی رضا کی خاطر گلے میں تلوار لٹکائی اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ایسا ہار پہنائیں گے جو دنیا کی ابتداء سے لے کر آخری دن تک نہ بنا ہوگا، بیشک اللہ تعالیٰ غازی کی تلوار نیزے اور اسلحہ پر فخر کرتے ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر فخرکریں تو اس کو کبھی عذاب نہ دیں گے “۔ (ابو الشیخ اور المخلص فی فوائدہ بروایت حضرت ابوہریرہ )

10789

10789 من تقلد سيفا في سبييل الله قلده الله يوم القيامة وشاحين من الجنة لا تقوم لهما الدنيا وما فيها ، من يوم خلقها إلى يوم يفنيها ، وصلت عليه الملائكة حتى يضعه عنه ، وان الله ليباهي ملائكته بسيف الغازي ورمحه وسلاحه ، وإذا باهى الله بعبد من عباده لم يعذبه بعد ذلك أبدا.(ابن النجار عن أبي هريرة).
10785 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے گلے میں تلوار لٹکائی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے ہار پہنائیں گے، دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ ان دوہاروں کے برابر نہ ہوگا، دنیا کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک اور فرشتے اس وقت تک اس کے لیے رحمت کی دعا مانگتے ہیں جب تک وہ تلوار اتار کر رکھ نہ دے، اور بیشک اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے غازی کی تلوار نیزہ اور (دیگر) اسلحے پر فخر کرتے ہیں اور جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی پر فخر کریں تو اس کو کبھی بھی عذاب نہ دیں گے “۔ (ابن النجار بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10790

10790 من سل سيفه في سبيل الله فقد بايع الله.(ابن مردويه عن أبي هريرة)
10786 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں اپنی تلوار سونتی تو تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ سے بیعت کرلی “۔ (ابن مردویہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10791

10791 صلاة الرجل متقلدا بسيفه تفضل على صلاته غير متقلد بسبعمائة ضعف.(الخطيب عن علي).
10787 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گلے میں تلوار لٹکا کر نماز ادا کرنا بغیر تلوار لٹکائے نماز ادا کرنے سے سات سو گنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے “۔ (خطیب بروایت حضرت علی (رض))

10792

10792 من يأخذ هذا السيف بحقه ؟ قيل : وما حقه ؟ قال : لا يقتل به مسلما ، ولا يفر به عن كافر.(ك عن هشام بن عروة عن أبيه عن الزبير).
10788 ۔۔۔ دریافت فرمایا کہ ” کون ہے وہ شخص جو اس تلوار کو لے اور اس کا حق اداکرے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا کہ ” اس سے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور اس کو لے کر کافر کے سامنے فرار نہ ہوجائے “۔ (مستدرک حاکم بروایت ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن الزبیر (رض))

10793

10793 من يأخذ هذا السيف بحقه.(حم وعبد بن حميد م وأبو عوانة ك عن أنس)
10789 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کون ہے وہ شخص جو اس تلوار کو لے اور اس کا حق ادا کرے ؟ (مسند احمد عبدبن حمید، مسلم، ابوعوانہ، مستدرک حاکم بروایت حضرت انس (رض))

10794

10794 لا تضرب بهذا ، ولكن اطعن به طعنا.(طب عن عتبة بن عبد السلمي) قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أرني سيفك ، فسله فإذا هو سيف فيه دقة وضعف قال : فذكره.
10790 ۔۔۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک صحابی سے فرمایا کہ مجھے اپنی تلوار دکھاؤ، انھوں نے پیش، تلوار پتلی اور کمزور تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے بطور تلوار استعمال نہ کرو اس کو نیزہ بناؤ۔ یعنی نیزہ کی طرح استعمال کرو۔ (طبرانی بروایت عتبۃ بن عبد اسلمی (رض))

10795

10795 لا تغالوا في أثمان السيوف ، فانها مأمورة.(الديلمي عن عبد الله بن بسر).
تلوار کی قیمتیں نہ بڑھاؤ کیونکہ ہم کو (اسے رکھنے کا) حکم دیا گیا ہے ، دیلمی عن عبداللہ بن بسر

10796

10796 من اتخذ مغفرا لمجاهدته في سبيل الله غفر الله له ، ومن اتخذ بيضة بيض الله وجهه يوم القيامة ، ومن اتخذ درعا كانت له سترا من النار يوم القيامة.(الخطيب عن الحسن) وسنده ضعيف.
10792 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے جنگی ٹوپی تیار کر رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے ار جس نے انڈا رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو سفید (چمکتا دمکتا) کردیں گے، اور جس نے زرہ تیار کررکھی تو یہ زرہ قیامت کے دن اس کے لیے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہوگی “۔ (خطیب بروایت حسن (رض))

10797

10797 التسبيح من الغازي سبعون ألف حسنة ، والحسنة بعشر أمثالها.(الديلمي عن معاذ).
10793 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غازی کی تسبیح پڑھنے سے ستر ہزار نیکیاں ملتی ہیں اور ایک نیکی دس گنا کے برابر ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت معاذ (رض))

10798

10798 طوبى لمن أكثر في الجهاد في سبيل الله من ذكر الله ، فان له بكل كلمة سبعين ألف حسنة ، كل حسنة منها بعشرة أضعاف مع الذي له عند الهل من المزيد والنفقة على قدر ذلك.(طب عن معاذ).
10794 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے کثرت سے اللہ کا ذکر کرے، اس کو ہر کلمہ کے بدلے ستر ہزار نیکیاں ملیں گی، ان میں سے ہر نیکی دس گنا کے برابر ہوگی اور یہ نیکیاں ان نیکیوں کے علاوہ ہوں گی جو اللہ کے ہاں اس شخص کے لیے ہیں اور نفقہ بھی اتنا ہی “۔ (طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

10799

10799 صلاة الرجل وحده في سبيل الله بخمس وعشرين صلاة وصلاته في رفقة بسبعمائة صلاة ، وصلاته في الجماعة بتسع وأربعين ألف صلاة. (الديلمي عن أبي أمامة).
10795 ۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں کسی شخص کا اکیلے نماز پڑھنا بھی پچیس نمازوں کے برابر ہے، اور ساتھیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز سات سو نمازوں کے برابر ہے، اور جماعت کے ساتھ ادا کی ہوئی نماز انچاس ہزار (49000) نمازوں کے برابر ہے “۔

10800

10800 من صام يوما في سبيل الله فريضة باعد الله تعالى عنه جهنم كما بين السموات والارضين السبع ، ومن صام يوما تطوعا باعد الله عنه جهنم مسيرة ما بين السماء.(طب عن عتبة بن عبد السلمي).
10796 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک فرض روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا فرمادیں گے جتنا سات آسمانوں اور زمینوں میں ہے، اور جس نے نفل روزہ اللہ کے راستے میں رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا فرمادیں گے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عتبۃ (رض) بن عبدالسلمی (رض))

10801

10801 من طام يوما في سبيل الله تعالى باعد الله وجهه عن النار مسيرة مائة عام.(طب عن عمرو بن عبسة).
10797 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ سے سو سال کی مسافت تک دور کردیں گے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمروبن عبسۃ (رض))

10802

10802 من صام يوما في سبيل الله تعالى بعد الله وجهه عن النار مسيرة مائة عام ركض الفرس الجواد المضمر.(طب هب عن أبي أمامة).
10798 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو آگ سے اتنی دور کردیں گے کہ ایک بہت پھرتیلا تیز رفتار گھڑ سوار سو سال تک وہ فاصلہ طے کرسکے گا “۔ (طبرانی، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابوامامۃ (رض))

10803

10803 من صام يوما في سبيل الله تعالى باعده الله عن النار مقدار مائة عام.(ابن منده عن خطام بن قيس).
10799 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو سو سال کی مسافت کی مقدار کے برابر جہنم سے دور کردیں گے “۔ (ابن مندہ بروایت حضرت خطام بن قیس (رض))

10804

10804 من صام يوما في سبيل الله جعل الله بينه وبين النار سبع خنادق بين كل خندق كما بين سبع سموات وسبع أرضين.(كر عن جابر).
10800 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقیں بنادیں گے، ہر خندق کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا سات زمینوں اور آسمانوں کے درمیان ہے (بروایت حضرت جابر (رض)

10805

10805 من صام يوما في سبيل الله باعد الله بينه وبين النار بذلك اليوم سبعين خريفا.(ط حم خ م ق (1) عن أبي سعيد).
10801 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقیں بنادیں گے ہر خندق کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا سات زمینوں اور آسمانوں کے درمیان ہے “۔ (بروایت حضرت جابر (رض))

10806

10806 من صام يوما في سبيل الله تطوعا جعل الله بينه وبين النار خندقا كما بين السماء والارض.(ابن زنجويه ت ، غريب ، طب عن أبي أمامة).
10802 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک نفل روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک خندق بنادیں گے جس کا فاصلہ آسمان اور زمین کے برابر ہوگا “۔ (ابن زنجویہ، ترمذی، طبرانی، بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

10807

10807 من صام يوما في سبيل الله باعد الله وجهه من جهنم سبعين عاما.(ن عن أبي سعيد).
10803 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کے فاصلے کے بقدر دور فرمادیں گے “۔ (نسائی بروایت حضرت ابوسعید (رض))

10808

10808 من صام يوما في سبيل الله باعد الله بذلك اليوم حر جهنم عن وجهه سبعين خريفا.(ن عن أبي سعيد).
10804 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے جہنم کی گرمی کو اس کے چہرے سے ستر سال کے فاصلے کے برابر دور فرمادیں گے “۔ (نسائی بروایت حضرت ابو سعید (رض))

10809

10809 لا يصوم عبد يوما في سبيل الله إلا باعد الله بذلك اليوم وجهه عن النار سبعين خريفا.(حب عن أبي سعيد).
10805 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو بندہ بھی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے جہنم کی آگ کو اس کے چہرے سے ستر سال کے فاصلے کے برابر دور فرما دیتے ہیں۔ ابن حبان بروایت حضرت ابو سعید (رض))

10810

10810 ما من عبد صام يوما في سبيل الله إلا زوج حورا من الحور العين في خيمة من درة مجوفة ، عليها سبعون حلت ، ليس منها حلة تشبه صاحبتها ، على سرير من ياقوتة حمراء موشحة بالدر ، عليها سبعون ألف فراش ، بطائنها من استبرق ، ولها سبعون ألف وصيفة لحاجاتها ، وسبعون ألفا لبعلها ، مع كل وصيفة منهن سبعون ألف صحفة من ذهب ليس منها صحفة إلا وفيها لون من الطعام ما ليس في الاخرى ، يجد لذة آخرها كلذة أولها.(ابن عساكر عن ابن عباس) وفيه الوليد بن الوليد بن زيد الدمشقي القلانسي ، منكر الحديث.
10806 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو بندہ بھی اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھتا ہے تو اس کی شادی حورعین میں سے ایک حور سے کردی جاتی ہے، جو کھوکھلے موتی کے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے، اس نے سترجنتی لباس پہنے ہوتے ہیں ان میں سے ایک لباس بھی (خوبصورتی وغیرہ میں) اس حور سے مشابہت نہیں رکھتا، حورسرخ یاقوت کے بنے ہوئے ایسے پلنگ پر ہوتی ہے جس میں موتی جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس پلنگ پر ستر ہزار بستر بچھے ہوئے ہوتے جو اندر سے موٹ ریشم کے بنے ہوتے ہیں، اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ستر ہزار خادمائیں ہوتی ہیں اور ستر ہزار اس کے شوہر کے لئے، ہر خادمہ کے پاس سونے کے ستر ہزار تھال ہوتے ہیں ان میں سے کوئی تھال ایسا نہیں ہوتا جس میں دوسرے سے مختلف کھانا نہ ہو، وہ شخص (یعنی روزہ دار) آخری کھانے کی لذت بھی ویسے ہی پائے گا جیسے پہلے کھانے کی “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت ابن عباس (رض))
کلام : اس روایت کی سند میں ولید بن زید دمشقی منکر الحدیث ہے۔
فائدہ :۔۔۔ جہنم سے دوری کا فاصلہ مختلف روایات میں مختلف ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ روزے دار کے ایمان اور اخلاص میں تفاوت ہو جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا بھی صدقہ کردو تو میرے صحابہ کے ایک مد کے برابر بھی نہیں۔ (او کما قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم))
تویہاں بھی اتنی بڑی مقدار میں سونا صدقہ کرنے کے باوجود جو ثواب صحابہ کرام (رض) کے ایک مد سے بھی کم ہے تو وہ تمام مسلمانوں اور حضرت صحابہ کرام (رض) کے ایمان میں تفاوت کی وجہ سے ہے بھلا عام مسلمانوں کے ایمان کو حضرات صحابہ کرام (رض) کے ایمان سے کیا نسبت ؟ چہ نسبت خاک راباعالم پاک۔ (مترجم)
فرمایا جو بندہ اللہ کے راستے میں روزہ رکھتا ہے اللہ اس کی حورعین سے موتی کے اندر بنے ہوئے خیمے میں شادی کرائیں گے، اس کے ستر لباس ہوں گے اور کوئی لباس اس کی دوسری ساتھ کے لباس سے ملتا جلتا نہ ہوگا ان کی مسہری سرخ یاقوت سے بنی ہوگی جس پر سچے موتی جڑے ہوں گے اس پر ستر ہزار بستر ہوں جو ان کے استبرق (اعلیٰ ریشم) کے بنے ہوں گے اور اس کے ستر ہزار خادمائیں اس کی ضرورت کے لیے ہوں گی ستر ہزار ہی اس کے شوہر کی ہوں گی ہر خادمہ کے ساتھ ستر ہزار پلیٹیں سونے کی ہوں گی ہر پلیٹ میں الگ الگ کھانا ہوگا اور ہر دوسرے کھانے کی لذت پہلے کھانے جیسی ہی ہوگی ابن عساکر عن ابن عباس (رض)
کلام : اس روایت میں ولید بن زید ومشقی قلانسی ہے جو کہ منکر الحدیث ہے۔ اس لیے یہ روایت مشکوک ہے۔

10811

10811 ما من رجل يصوم يوما في سبيل الله إلا باعده الله عن النار مقدار مائة عام.(سمويه طب ص عن عبد الله بن سفيان الازدي).
10807 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو کوئی شخص بھی اللہ کی رضیا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے سو سال کے فاصلے کے برابر دور لے جاتے ہیں۔
سمویہ طبرانی

10812

10812 أحب اللهو إلى الله تعالى إجراء الخيل والرمي.(عد عن ابن عمر).
10808 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل گھوڑا دوڑانا اور تیر اندازی ہے۔ (کامل ابن عدی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10813

10813 إذا أردت أن تغزو فاشتر فرسا أغر محجلا مطلق اليد اليمنى فانك تسلم وتغنم.(طب ك هق عن عقبة بن عامر).
10809 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تیرا جہاد کا ارادہ ہو تو ایسا گھوڑا خریدو جس کی پیشانی روشن اور چمکدار ہو اس کا دائیں ہاتھ میں سفیدی نہ ہو تو تم سلامت رہو گے اور مال غنیمت حاصل کرو گے “۔ (طبرانی، مستدرک حاکم بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10814

10814 استعتبوا الخيل تعتب.(عد وابن عساكر عن أبي أمامة).
10810 ۔ فرمایا کہ ” گھوڑوں کو راضی رکھا کرو وہ راضی رہیں گے “ (کامل ابن عدی ابن عساکر بروایت حضرت ابو امامۃ (رض)

10815

10815 رهان الخيل طلق (سمويه والضياء عن رفاعة بن رافع).
10811 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑا دوڑانے کے لیے شرط لگانا جائز ہے “۔ (سمویہ اور الضیاء بروایت حضرت رفاعۃ بن رافع (رض))

10816

10816 عاتبوا الخيل فانها تعتب (طب والضياء عن أبي أمامة).
10812 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑوں کو راضی رکھا کرو کیونکہ وہ راضی ہوجاتے ہیں “۔ (طبرانی اور الضیاء بروایت حضرت ابو امامۃ)

10817

10817 من جلب عن الخيل يوم الرهان فليس منا.(طب عن ابن عبا س).
10813 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے گھر دوڑ کے دن کمائی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض)

10818

10818 لا سبق إلا في خف أو حافر أو نصل.(حم عن أبي هريرة).
10814 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مقابلہ نہیں مگر دوڑ کا گھڑ سواری اور نشانے بازی کا “۔ (مسند احمد، سنن اربعہ عن ابوہریرہ (رض))

10819

10819 لا تركبوا الخز والنمار.(د عن معاوية).
10815 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ریشم اور نمار (ایک خاص دھاری دار چادر) پر نہ بیٹھو “ (سنن ابی داؤد، بروایت حضرت معاویۃ (رض)

10820

10820 من أدخل فرسا بين فرسين وهو لا يأمن أن يسبق فليس بقمار ، ومن أدخل فرسا بين فرسى وقد أمن أن يسبق فهو قمار.(حم د ه عن أبي هريرة).
10816 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے گھوڑوں کے درمیان گھوڑا داخل کیا حالانکہ وہ مقابلہ کرنے سے خود کو محفوظ نہ سمجھتا تھا تو جو انھیں ہے، اور جس نے دو گھوڑوں میں گھوڑا داخل کیا اور وہ مقابلہ کرنے سے خود کو محفوظ سمجھتا تھا تو اب یہ جوا (قمار) ہے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

10821

10821 لا جلب ولا جنب في الرهان.(د عن عمران ابن حصين).
10817 ۔۔۔ گھوڑ دوڑ کے معاملے میں جلب اور جنب بن کر شرکت نہ کرے (یعنی کسی طرح معاون بننا درست نہیں)

10822

10822 لا جلب ولا جنب ، ولا شغار في الاسلام ، ومن انتهب نهبة فليس منا.(حم ت ه عن عمران بن حصين).
10818 ۔۔۔ اسلام میں جلب اور جنب اور نکاح شغار جائز نہیں اور جس نے نقب لگائی وہ ہم میں سے نہیں ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ بروایت حضرت عمران بن حصین (رض) )
فائدہ :۔۔۔ شغار نکاح کی ایک قسم ہے جس میں کوئی شخص کسی شخص کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور دوسرا شخص اس پہلے والے کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور دونوں اپنی اپنی بیویوں (یعنی ایک دوسرے کی بیٹی) کے مہر کے طور پر اپنی بیٹی دوسرے کے نکاح میں دیتا ہے یعنی الف بےکی بیٹی سے اس شرط پر نکاح کرتا ہے کہ حق مہر کے طور پر اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے گا اور ب نے بھی الف کے نکاح میں جو بیٹی دی ہے وہ الف کی بیٹی کے نکاح کے حق مہر کے طور پر ہے، اس کو شغار کہتے ہیں اور یہ حنفیہ کے ہاں جائز ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ اس کو ظاہر نص پر عمل کرتے ہوئے ناجائز ٹھہراتے ہیں، تفصیل کے لیے کسی مستند مفتی یا مستند دارالافتاء سے رجوع کیا جاسکتا ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10823

10823 إنه ليس من فرس عربي إلا يؤذن مع كل فجر يدعو بدعوتين يقول : اللهم إنك خولتني من خولتني من بني آدم فاجعلني من أحب أهله وماله إليه.(حم ن ك عن أبي ذر).
10819 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی عربی گھوڑا ایسا نہیں جو ہر روز فجر کے وقت دو مرتبہ یہ نہ پکارے کہ ” اے میرے اللہ ! تو نے مجھے جسے بھی عطا فرمایا ہے مجھے اس کے لیے اس کے پسندیدہ اہل و مال میں سے بنادے “۔ (مسند احمد، نسائی مستدرک حاکم بروایت حضرت ابو ذر (رض))

10824

10824 تبد الخيل يوم وردها.(ه عن ابن عمر وابن عواف)
10820 ۔۔۔ فرمایا کہ ” گھوڑوں کو ان کے آنے کے دن ہی تقسیم کردو “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عوف (رض))

10825

10825 لا تقصوا نواصي الخيل ولا معارفها ولا أذنابها ، فان أذنابها مذابها ومعارفها دفاؤها ، ونواصيها معقود فيها الخير.(د عن بن عبد السلمي)
10821 ۔۔۔ گھوڑے کی پیشانی کے بال مٹ کاٹو نہ اون کو اور نہ اس کے دم کو کیونکہ ان کی دم دفاع کا ذریعہ ہے اور اون ان کی گرمی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ (ابو داؤد عن عتبہ ابن عبدالسلمی)

10826

10826 تكون إبل للشياطين ، وبيوت اللشياطين.(د عن أبي هريرة).
10822 ۔ فرمایا کہ ” اونٹ شیطانوں کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے گھر ہوتے ہیں “ (ابوداؤد، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض)

10827

10827 ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا.(د عن أنس).
10823 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہم نے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں دیکھی اور بیشک ہم نے اسے سمندر پایا “۔ (ابوداؤد، بروایت حضرت انس (رض))

10828

10828 ألا لا تبقين في رقبة بعير قلادة من وتر إلا قطعت.(د عن أبي بشير).
10824 ۔ فرمایا کہ ” سنو ! کسی اونٹ کی گردن میں تار کا ہار باقی نہ رہے توڑ دیا جائے (ابوداؤد، بروایت حضرت ابو بشیر (رض)

10829

10829 اركبوا وانتضلوا (1)) وأن تنتضلوا أحب إلي ، وإن الله ليدخل بالسهم الواحد الجنة صانعه يحتسب فيه ، والممد به ، والرامي به ، وإن الله ليدخل بلقمة الخبز وقبضة التمر ومثله مما ينتفع به المسكين ثلاثة الجنة رب البيت الآمر به ، والزوجة تصلحه ، والخادم الذي يناول المسكين.(طب عن عمرو بن عطية).
10825 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سوار ہوجاؤ اور تیر اندازی کا مقابلہ کرو اور اگر تم تیر اندازی کا مقابلہ کرو تو میرے نزدیک پسندیدہ ہے، اور یقیناً اللہ تعالیٰ ایک تیر سے اس کے بنانے والے کو جنت میں داخل فرمائیں گے جو اس میں ثواب کی امید رکھتا تھا اور تیر چلانے والے کو بھی اور اللہ تعالیٰ روٹی کے ایک ٹکڑے اور مٹھی بھر کھجوروں کے بدلے یا ایسی ہی کسی چیز کے بدلے جس سے مساکین فائدہ اٹھاتے ہیں تین افراد کو جنت میں داخل کریں گے گھر والا جس نے اس کا حکم دیا ہے، اس کی بیوی جو اس کو تیار کرتی ہے اور وہ خادم جو اس چیز کو مسکین تک پہنچاتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمرو بن عطیۃ (رض))

10830

10830 إن الارض ستفتح لكم وتكفون الدنيا ، فلا يعجز أحدكم أن يلهو بأسهمه.(طب عن عمرو بن عطية).
10826 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کچھ شک نہیں کہ زمین عنقریب تم پر فتح ہوتی چلی جائیں گی اور دنیا کافی ہوجائے گی لہٰذا تم میں سے کوئی ایک بھی اپنے تیروں سے کھیلنے سے عاجز نہ رہے “۔ (طبرانی بروایت عمروبن عطیہ (رض))

10831

10831 ستفتح عليكم أرضون ، ويكفيكم الله ، فلا يعجز أحدكم أن يلهو بأسهمه.(حم م عن عقبة بن عامر).
10827 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عنقریب زمینیں تم پر فتح ہوتی چلی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کافی ہوجائیں گے لہٰذا تم میں سے کوئی ایک بھی اپنے تیروں سے کھیلنے سے عاجز نہ رہے “۔ (مسند احمد، مسلم بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10832

10832 ألا إن القوة الرمي ، ألا إن القوة الرمي ، ألا أن القوة الرمي.(حم د ت ه عن عقبة بن عامر) زاد (ت) ألا إن الله سيفتح لكم الارض وستكفون المؤنة ، فلا يعجزن أحدكم أن يلهو بأسهمه.
10828 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سنو ! قوت پھینکنے میں ہے، سنو ! قوت پھینکنے میں ہے، قوت پھینکنے میں ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض) )
اور ترمذی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ سنو ! عنقریب اللہ تعالیٰ زمین تمہارے لیے فتح کردیں گے اور سختی میں تمہارے لیے کافی ہوجائیں گے لہٰذا ہرگز عاجز نہ رہے تم میں کوئی ایک بھی اپنے تیروں سے کھیلنے سے “۔

10833

10833 ألا إني أبرأ إلى كل خل من خلته ، ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا ، وإن صاحبكم خليل الله.(م ت ه عن ابن مسعود).
10829 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سنو ! میں ہر دوست خلیل کی دوستی سے بری ہوں اور اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر صدیق (رض) کو دوست بناتا اور (لیکن) تمہارا ساتھ یعنی جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو خود اللہ کا خلیل ہے “۔ (مسلم، ترمذی ابن ماجہ بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10834

10834 ارموا واركبوا وأن ترموا أحب ألي من أن تركبوا كل شئ يلهو به الرجل باطل إلى رمى الرجل بقوسه أو تأديبه فرسه ، أو ملاعبته أمرأته ، فانهن من الحق ، ومن ترك الرمي بعد ما علمه ، فقد كفر الذي علمه.(حم ت هب عن عقبة بن عامر).
10830 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پھینکو (مارو) اور سوار ہوجاؤ، اور تمہارا تیر اندازی کرنا مجھے سوار ہونے سے زیادہ پسند ہے ہر وہ چیز جس سے آدمی کھیلے وہ باطل ہے علاوہ اس کے کہ کوئی شخص اپنے کمان سے تیر چلائے یا اپنے گھوڑے کی تربیت کرے یا اپنی بیوی سے کھیلے کیونکہ یہ چیزیں حق ہیں اور جس شخص نے تیر اندازی سیکھنے کے بعد چھوڑ دی تو اس نے اس چیز کی ناشکری کی جو سیکھا تھا “۔ (مسند احمد، ترمذی، سنن کبیری بیھقی، بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10835

10835 إن الله تعالى يدخل بالسه ثلاثة نفر الجنة : صانعه يحتسب في صنعته الخير ، والرامي به ومنبله (حم عن عقبة بن عامر).
10831 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ ایک تیر سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریں گے “۔ ایک اس تیر کو بنانے والا جو ثواب کی نیت رکھتا تھا، دوسرا تیر انداز اور تیسرا تیر دینے والا “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض))

10836

10836 من مشى بين الغرضين كان له بكل خطوة حسنة.(طب عن أبي الدرداء).
10832 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص دونشانوں کے درمیان چلا تو اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھی جائے گی “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو الدرداء (رض))

10837

10837 من حسن الرمي ثم تركه فقد ترك نعمة من النعم [ القراب في الرمي ] (عن يحيى بن سعيد) مرسلا.
10833 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر اندازی اچھی طرح جان لی، پھر اسے چھوڑ دیا تو تحقیق اس نے نعمتوں میں سے ایک نعمت چھوڑ دی۔ (القرب فی الرمی بروایت یحییٰ بن سعید مرسلاً )

10838

10838 رميا بني اسماعيل فان أباكم كان راميا.(حم ه ك عن ابن عباس).
10834 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیر اندازی کروائے اسماعیل (علیہ السلام) کے بیٹو ! کیونکہ تمہارے والد بھی تیر انداز تھے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ مستدرک حاکم بروایت ابن عباس (رض))
فائدہ :۔۔۔ یہاں والد سے مراد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10839

10839 الرمي خير ما لهوتم به.(عن ابن عمر).
10835 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیر اندازی وہ بہترین کھیل ہے جو تم کھیلتے ہو “۔ (بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10840

10840 إذا مر أحدكم في مسجدنا أوفى سوقنا ومعه نبل فليسمك على نصاله بكفه لا يعقر مسلا.(ق د ه عن أبي موسى).
10836 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد میں آئے یا ہمارے بازار سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو اپنے ہاتھ سے ان تیروں کی نوکوں کو سنبھال لے، کہیں کوئی مسلمان زخمی نہ ہوجائے۔ (متفق علیہ، ابو داؤد، ابن ماجہ بروایت حضرت ابو موسیٰ (رض))

10841

10841 عليكم بالرمي ، فانه من خير لهوكم.(البزار عن سعد).
10837 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم پر تیر اندازی لازم ہے، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کھیلوں میں سے ہے۔ “ (بزار بروایت حضرت سعد (رض))

10842

10842 عليكم بالرمي ، فانه من خير لعبكم.(طس عن سعد).
10838 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم پر تیر اندازی لازم ہے، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کھیلوں میں سے ہے “۔ (معجم اوسط طبرانی بروایت حضرت سعد (رض))

10843

10843 إياكم والخذف فانها تكسر السن ، ولا تنكئ العدو.(طب عن عبد الله بن مغفل).
10839 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پتھر مارنے سے بچو، کیونکہ اس سے دانت ٹوٹتے ہیں اور دشمن میں خونزیزی بھی ہوتی ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عبداللہ بن معقل (رض))

10844

10844 من ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه فانها نعمة كفرها (طب عن عقبة بن عامر).
10840 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر اندازی سیکھ لینے کے بعد اس میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ترک کردیا تو تحقیق اس نے ناشکری کی اس چیز کی جو ایک نعمت تھی۔ “۔ (طبرانی بروایت حضرت عقبہ بن عامر (رض))

10845

10845 نهى أن يتخذ شئ فيه الروح غرضا.(حم ت ن عن ابن عباس).
10841 ۔۔۔ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی چیز کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا جس میں روح ہو۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10846

10846 لا تتخذوا شيئا فيه الروح غرضا (م ن ه عن ابن عباس).
10842 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کسی ایسی چیز کو نشانہ نہ بنایا جائے جس میں روح ہو “۔ (مسلم، نسائی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10847

10847 من تعلم الرمي ثم تركه فقد عصاني.(ه عن عقبة ابن عامر).
10843 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو اس نے میری نافرمانی کی “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت عقبہ بن عامر (رض))

10848

10848 من علم الرمي ثم تركه فليس منا (م عن عقبن بن عامر).
10844 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کو تیر اندازی سکھائی گئی اور پھر اس نے چھوڑ دی تو وہ ہم میں سے نہیں۔ “۔ (مسلم بروایت حضرت عقبہ بن عامر (رض))

10849

10849 إرم بها يعني القوس الفارسية عليكم بهذه يعني القوس العربية وأمثالها ورماح القنا ، فان بهذه يمكن اله لكم في البلاد ويزيد لكم في النصر.(ط ق عن علي).
10845 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس کو پھینک دو یعنی فارسی کمان کو اور ان کو لازم پکڑو، یعنی عربی کمانوں کو اور ان جیسی دوسری کمانوں کو اور نیزوں کی انیوں کو، کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ تم کو شہروں میں غلبہ عطا فرمائیں گے اور تمہاری مدد میں اضافہ فرمائیں گے۔ (طبرانی، متفق علیہ بروایت حضرت علی (رض))

10850

10850 بهذه وبرماح القنا يمكن الله لكم في البلاد ، وينصركم على عدوكم.(ق عن عويمر بن ساعدت).
10846 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس سے اور نیزوں کی انیوں سے اللہ تعالیٰ تمہیں غلبہ عطا فرمائیں گے شہروں پر اور تمہارے دشمن کے خلاف تمہاری مدد فرمائیں گے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت عویمر بن ساعدۃ (رض))

10851

10851 ملعون من حملها يعني القوس الفارسية عليكم بهذه يعني القوس العربية ، وبرماح القنا يمكن الله لكم في البلاد ، وينصركم على عدوكم.(ق عن عويمر بن ساعدة).
10847 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لعنتی ہے جو اسے اٹھائے یعنی فارسی کمان کو، تم پر لازم ہے کہ یہ کمانیں پکڑو، یعنی عربی کمانیں اور ان نیزوں کی انیوں سے اللہ تعالیٰ تم کو شہروں میں غلبہ عطا فرمائیں گے اور تمہارے دشمن کے خلاف تمہاری مدد فرمائیں گے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت عویمر بن ساعدۃ (رض))

10852

10852 ارموا يا بني اسماعيل ، فان أباكم كان راميا ، وأنا مع محجن بن الادرع ، قالوا : من كنت معه غلب ، قال : فارموا وأنا معكم كلكم.(طب عن حمزة بن عمرو الاسلمي).
10848 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیر اندازی کروائے اسماعیل (علیہ السلام ) کی اولاد، کیونکہ تمہارے والد بھی تیر انداز تھے اور میں حجن بن الادرع کے ساتھ ہوں، عرض کیا کہ آپ جس کے ساتھ ہوں وہ غالب ہوجائے، فرمایا کہ تم تیر چلاؤ میں تم سب لوگوں کے ساتھ ہوں “۔ (طبرانی بروایت حمزہ بن عمرو الاسلمی (رض))

10853

10853 ارموا ، من بلغ العدو بسهم رفعه الله به درجة ، أما إنها ليست بعتبة أمك ، ولكن ما بين الدرجتين مائة عام.(ن عن كعب بن مرة).
10849 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مارو، جو تیر کے ساتھ دشمن تک پہنچ گیا، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرمائیں گے۔ یہ کوئی تمہاری ماؤں کی زمین (کا حساب) نہیں بلکہ ہر دودرجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے “۔ (نسائی بروایت حضرت کعب بن عمرۃ (رض))

10854

10854 من بلغ بسهم فله درجة ، قيل يا رسول الله : ما الدرجة ؟ قال : أما إنها ليست بعتبة أمك ، ما بين الدرجتين مائة عام.(ابن أبي حاتم وابن مردويه عن ابن مسعود).
10850 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر چلایا تو اس کے لیے درجہ ہے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! درجہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ یہ کوئی تمہاری ماؤں کی زمین (کا ناپ) نہیں دودرجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے “۔ (ابن ابی حاتم وابن مردویہ بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10855

10855 من بلغ العدو بسهم رفعه الله به درجة ما بين الدرجتين مائة عام ، ومن يرمي بسهم في سبيل الله كان كمن يعتق رقبة.(حم حب عن كعب بن مرة).
10851 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے دشمن پر تیر چلایا تو اللہ تعالیٰ اس سے درجہ بلند فرمائیں گے، اور دو درجوں کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے اور جو اللہ کے راستے میں تیر چلاتا ہے تو وہ ایسے ہے جیسے غلام آزاد کرتا ہو “۔ (مسند احمد، ابن حبان بروایت حضرت کعب بن مرۃ (رض))

10856

10856 من بلغ بسهم في سبيل الله فهو له عدل محرر.(ط ق عن أبي نجيح).
فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تو وہ اس کے لیے ایک عادل محرر ہے۔ طبرانی ، متفق علیہ

10857

10857 من رمى بسهم في سبيل الله كان كمن أعتق رقبة.(حب عن كعب بن مرة).
10852 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تو وہ اس کے لیے غلام آزاد کرنے کی طرح ہے “۔ (طبرانی متفق علیہ بروایت حضرت ابو النجیح (رض))

10858

10858 من رمى بسهم في سبيل الله فقصر أو بلغ كان ذلك له نورا يوم القيامة.(طب عن أبي عمرو الانصاري).
10853 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا جو نشانے سے چوک گیا یا نشانے پر جالگایہ (تیر چلانا) قیامت کے دن اس شخص کے لیے نور ہوگا “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو عمروالانصاری (رض))

10859

10859 ما من رجل من المسلمين يرمي بسهم في سبيل الله في العدو أصاب أو أخطأ إلا كان له أجر ذلك السهم كعدل نسمت ، وما من رجل من المسلمين ابيضت شعرة منه في سبيل الله إلا كانت له نورا يوم القيامة يسعى بين يديه ، وما من رجل من المسلمين أعتق صغيرا أو كبيرا إلا كان حقا على الله أن يجزيه بكل عضو منه أضعافا مضاعفة.(عبد بن حميد وابن عساكر عن محمد بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه).
10855 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر وہ مسلمان جس نے اللہ کے راستے میں دشمن پر تیر چلایا تو اس کو اتنا اجر ملے گا جتنا ایک غلام کو آزاد کرنے کا، خواہ تیر نشانے پر لگا ہو یا نہ، ہر وہ مسلمان جس کا ایک بال بھی اللہ کے راستے میں سفید ہوگیا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا جو اس کے آگے آگے دوڑے گا اور ہر وہ مسلمان جس نے کسی چھوٹے یا بڑے کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یہ ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ اس آزاد ہونے والے ہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کو کئی گنا زیادہ اجر دے گا “۔ (عبد بن حمید اور ابن عساکر بروایت محمد بن سعد بن ابی وقاص عن ابیہ (رض))

10860

10860 إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة : صانعه يحتسب في صنعته الخير ، والرامي به ، والممد به ، اركبوا ولان ترموا أحب إلي من أن تركبوا ، كل ما يلهو به الرجل باطل ، إلا رميه بقوسه ، أو تأديبه فرسه ، أو ملاعبته أهله ، فانهن من الحق ، ومن علم الرمي ثم تركه فهي نعمة كفرها.(ط حم ن ت حسن ك ق عن عقبة بن عامر) (ت عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي حسين) مرسلا.
10856 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریں گے، تیر کو بنانے والا جو اس کے بنانے میں بھلائی کی نیت رکھتا تھا اور تیر چلانے والا اور اس کو تیر انداز تک پہنچانے والا، سوار ہوجاؤ اور تمہارا تیر چلانا مجھے تمہارے سوار ہونے سے زیادہ پسند ہے، ہر وہ کھیل جو آدمی کھیلتا ہے وہ باطل ہے علاوہ کمان سے تیر چلانے، گھوڑے کی تربیت کرنے اور اپنی گھر والی سے کھیلنے کے، کیونکہ یہ (کھیل) حق ہیں، اور جس کو تیر اندازی سکھائی گئی اور پھر اس نے چھوڑ دی تو اس نے کفر کیا اس چیز کا جو نعمت تھی “۔ (طبرانی، مسند احمد، نسائی، ترمذی، حسن، مستدرک حاکم، متفق علیہ بروایت حضرت عقبہ بن عامر (رض))

10861

10861 إن الله تعالى ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة : صانعه محتسا به ، والمعين به ، والرامي في سبيل الله.(الخطيب عن أبي هريرة).
10857 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ ایک تیر کے بدلے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائیں گے، اس کو بنانے والا جو ثواب کی نیت رکھتا تھا اور مددگار اور اللہ کے راستے میں اس تیر کو چلانے والا “۔ (خطیب بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10862

10862 إن الله تعالى يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة : صانعه يحتسب في صنعته الخير ، والرامي به ، ومنبله ، وارموا واركبوا ، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا ، ليس من اللهو محمود إلا ثلاث : تأديب الرجل فرسه ، وملاعبته أهله ، ورميه بقوسه ونبله ، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه فانها نعمة تركها.(د ن عن عقبة بن عامر).
10858 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ ایک تیر کے بدلے تین افراد کو جنت میں داخل فرمائیں گے، تیر کو بنانے والا جو اس کے بنانے میں بھلائی کی نیت رکھتا تھا اور چلانے والا اور اس کی نوک بنانے والا اور تیر چلاؤ اور سوار ہوجاؤ اور تمہارا تیر چلانا مجھے سوار ہونے سے زیادہ پسند ہے، کوئی کھیل قابل تعریف نہیں علاوہ تین کھیلوں کے۔ کسی شخص کا اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا، اپنی گھر والی سے کھیلنا اور اپنے تیر کمان سے تیر چلانا، اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی تو اس نے ایک نعمت کی ناشکری کی “۔ (ابوداؤد، نسائی، بروایت حضرت عقبہ بن عامر (رض))

10863

10863 كل شئ من لهو الدنيا باطل إلا ثلاثة : انتضالك بقوسك ، وتأديبك فرسك ، وملاعبتك أهلك ، فانها من الحق ، انتضلوا واركبوا ، وأن تنتضلوا أحب إلي ، إن الله ليدخل بالسهم الواحد ثلاثة الجنة : صانعه يحتسب فيه الخير ، والممد به ، والرامي به.(ك عن أبي هريرة).
10859 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دنیا کے کھیلوں میں سے ہر کھیل باطل ہے علاوہ تین کھیلوں کے، تیرے اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، تیرا اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا اور تیرا اپنی گھر والی سے کھیلنا، کیونکہ یہ بھی حق ہے، تیر اندازی کرو اور سوار ہوجاؤ اور تمہاری تیری اندازی کرنا مجھے زیادہ پسند ہے، بیشک اللہ تعالیٰ ایک تیر کے بدلے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے، تیر بنانے والا جو اس کے بنانے میں ثواب اور بھلائی کی نیت رکھتا تھا، مددگار اور تیر چلانے والا “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10864

10864 من اتخذ قوسا في بيته نفى الله عنه الفقر أربعين سنة.الشيرازي في الالقاب والخطيب عن أنس).
10860 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنے گھر میں کمان رکھی، اللہ تعالیٰ اس گھر سے چالیس سال تک فقر کو دور رکھتے ہیں “۔ (الشیرازی فی الالقاب والخطیب بروایت حضرت انس (رض))

10865

10865 من تعلم الرمي فنسيه كان نعمة أنعمها الله عليه فتركها.(القراب في فضل الرمي عن أبي هريرة وعن ابن عمر).
10861 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر اندازی سیکھی، پھر اس کو بھلادیا تو یہ ایک نعمت تھی جو اللہ نے دی تھی اور اس نے اس نعمت کو چھوڑ دیا “۔ (القرب فی فضل الدمی بروایت حضرت ابوہریرہ وحضرت ابن عمر (رض))

10866

10866 من تعلم الرمي ثم نسيه فهي نعمة جحدها.(ابن النجار عن أبي هريرة).
10862 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے تیر اندازی سیکھی اور پھر بھلادی تو یہ نعمت تھی جس کا اس نے انکار کیا “۔ (ابن النجار بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10867

10867 من علم الرمي ونسيه فهي نعمة جحدها.(الخطيب عن أبي هريرة).
10863 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جسے تیر اندازی سکھائی گئی اور پھر اس نے بھلادیا تو یہ ایک نعمت تھی جس کا اس نے انکار کیا “۔ (خطیب بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10868

10868 نعم لهو المؤمن الرمي ، ومن تعلم الرمي ثم تركه فقد عصاني.(أبو نعيم عن ابن عمرو).
10864 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مومن کے لیے تیر اندازی کیا ہی عمدہ کھیل ہے اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی تو اس نے میری نافرمانی کی “۔ (ابونعیم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10869

10869 من رمي رمية في سبيل الله.(طس ص عن أنس).
10865 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا۔۔۔ “(معجم الاوسط طبرانی، سنن سعید بن منصور، بروایت حضرت انس (رض))

10870

10870 من رمى بالليل فليس منا ، ومن رقد على سطح لا جدار له فسقط فمات فدمه هدر.(طب عن عبد الله بن جعفر).
10866 ۔۔۔ جس نے رات کو نشانے بازی کی (تیر چلائے) وہ ہم میں سے نہیں اور جو کوئی ایسی چھت پر سویا جس کی چار دیواری نہیں تھی اور گر کر مرگیا تو اس کا خون بیکار گیا۔ (طبرانی عن عبداللہ بن جعفر (رض) )
مطلب یہ ہے کہ اندھیرے میں رات کو تیر کسی کو بھی لگ سکتا ہے، اندھیرے میں نشانہ درست نہیں ہوسکتا۔

10871

10871 تعلموا الرمي والقرآن ، وخير ساعات المؤمن حين يذكر الله عزوجل.(الديلمي عن أبى سعيد).
10867 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیر اندازی اور قرآن سیکھو اور مومن کا بہترین وقت وہ ہے جس میں وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابو سعید (رض))

10872

10872 تعلموا الرمي فان ما بين الهدفين روضة من رياض الجنة (الديلمي عن أبي هريرة).
10868 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیر اندازی سیکھو کیونکہ دونشانوں کے درمیان جنت کے باغوں میں سے باغ ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10873

10873 من وضع رداءه فمشى بين الهدفين كان له بكل خطوة عتق رقبة.(قط في الافراد عن أبي هريرة).
10869 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنی چادر رکھ دی اور دونشانوں کے درمیان چلا تو اس کے لیے ہر قدم کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا “۔ (دارقطنی فی الافراد بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10874

10874 ما مد الناس أيديهم إلى شئ من السلاح إلى وللقوس عليه فضل.(الديلمي عن ابن عباس)
10870 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوگ سلامتی اور بھلائی کی جس چیز کی طرف بھی ہاتھ بڑھاتے ہیں ان میں کمان کو فضیلت حاصل ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10875

10875 إذا أكثبوكم فعليكم بالنبل.(خ عن حمزة بن أسيد عن أبيه).
10871 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب دشمن تم سے قریب ہوجائیں تو تیر اندازی کو لازم پکڑو “۔ (بخاری بروایت حضرت حمزۃ بن اسید عن ابیہ (رض))

10876

10876 إذا أكثبوكم فارموهم بالنبل ولا تسلوا السيوف حتى يغشوكم.(د ق عن مالك بن حمزة بن أسيد الساعدي عن أبيه عن جده).
10872 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب دشمن تم سے قریب ہوجائیں تو ان کو تیر سے مارو اور اس وقت تک تلواریں نہ کھینچو جب تک وہ تمہیں ڈھانپ نہ لیں “۔ (ابوداؤد، متفق علیہ، بروایت حضرت مالک بن حمزۃ بن اسید الساعدی عن ابیہ عن جدہ)

10877

10877 لا تخذفوا فانه لا يصاد به الصيد ولا ينكأ به العدو ويكسر السن ويفقأ العين.(طب عن عبد الله بن مغفل).
10873 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پتھر مت برساؤ، کیونکہ اس سے شکار نہیں کیا جاتا، نہ دشمن میں خونریزی ہوسکتی ہے اس سے دانت ٹوٹتے ہیں اور آنکھ پھوٹتی ہے “۔ (طبرانی بروای حضرت عبداللہ بن مفضل (رض))

10878

10878 إذا كان الجهاد على باب أحدكم فلا يخرج إلا باذن أبويه.(عد عن ابن عمر).
10874 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب جہاد تم میں سے کسی کے دروازے پر آپہنچے تو وہ اپنے والدین کی اجازت کے بغیر نہ نکلے “۔ (کامل ابن عدی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10879

10879 إن الذكر في سبيل الله يضعف فوق النفقة بسبعمائة ضعف.(حم طب عن معاذ بن أنس).
10875 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ذکر کرنا خرچے میں سات سو گنا اضافے کا باعث ہے “۔ (مسند احمد، طبرانی، بروایت حضرت معاذ بن انس (رض))

10880

10880 إن الله تعالى يقول إن عبدي كل عبدي الذي يذكرني وهو ملاق قرنه.(ت عن عمارة بن زعكرة)
10876 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : بیشک میرا بندہ ہر وہ بندہ ہے جو اپنے دوستوں سے ملاقات کے وقت بھی مجھے یاد رکھتا ہے “۔ (ترمذی عن عمارہ بن زعکرہ)

10881

10881 طوبى لمن أكثر في الجهاد في سبيل الله من ذكر الله ، فان له بكل كلمة سبعين ألف حسنة كل حسنة منها عشرة أضعاف مع الذي له عند الله من المزيد ، والنفقة على قدر ذلك.(طب عن معاذ).
10877 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کے راستے میں جہاد کے دوران کثرت سے ذکر کرے، چنانچہ اس کے لیے ہر کلمہ کے بدلے ستر ہزار نیکیاں ملیں گی، اور ہر نیکی اس نیکی کے دس گنا کے برابر ملے گی جو مزید اللہ تعالیٰ کے پاس ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

10882

10882 إذا بعثت سرية فلا تنتقهم واقتطعهم ، فان الله ينصر القوم بأضعفهم.(الحارث في مسنده عن ابن عباس).
10878 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب کوئی فوجہ دستہ بھیجو تو کمزوروں کو اپنے سے الگ نہ کرو بلکہ ان کو بھی ساتھ لے لو، کیونکہ بیشک اللہ تعالیٰ کمزوروں سے بھی قوم کی مدد فرماتے ہیں۔ “ (الحارث فی مسندہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10883

10883 أبغوني الضعفاء فانما ترزقون وتنصرون بضعفائكم.(حم م ك حب عن أبي الدرداء).
10879 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کمزوروں کو تلاش کر کے لاؤ کیونکہ تمہارا رزق اور مدد تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے ہوتی ہے “۔ (مسند احمد، مسلم، مستدرک حاکم، ابن حبان بروایت حضرت ابوالدرداء (رض))

10884

10884 إذا نصر القوم بسلاحهم وأنفسهم فألسنتهم أحق.(ابن سعد عن ابن عوف) (هق عن محمد) مرسلا.
10880 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب کسی قوم کی مددان کے اسلحے اور نفوس سے کی جائے تو ان کی زبانیں زیادہ حقدار ہیں “۔ (ابن سعد بروایت حضرت ابن عوف (رض) ، بیھقی فی شعب الایمان بروایت محمد مرسلا)

10885

10885 إن المؤمن يجاهد بسيفه ولسانه.(حم طب عن كعب بن مالك).
10881 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت کعب بن مالک (رض))

10886

10886 أردية الغزاة السيوف.(عب عن الحسن) مرسلا.
10882 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تلواریں ہی غازیوں کی چادریں ہیں “۔ (مصنف عبدالرزاق بروایت حسن مرسلا)

10887

10887 إنا لا نستعين بمشرك.(حم د ه عن عائشة).
10883 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً ہم کسی مشرک سے مدد طلب نہیں کرتے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10888

10888 إنا لا نستعين بالمشركين على المشركين.(حم تخ عن خبيب بن يساف).
10884 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناًہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے ہی مدد نہیں مانگتے “۔ (مسند احمد، بخاری فی التاریخ بروایت حضرت خبیب بن یساف (رض))

10889

10889 إنكم ستلقون العدو غدا فليكم شعاركم حم لا ينصرون (حم ن ك عن البراء).
10885 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک عنقریب کل تم لوگ دشمن سے ملنے والے ہو تو (ایسی حالت میں) تمہارا شعاریہ ہونا چاہیے کہ تم کثرت سے حمۤ لاینصرون کی تلاوت کرتے رہو “۔ (مسند احمد، نسائی، مستدرک حاکم بروایت حضرت براء (رض))

10890

10890 إن بيتم فليكن شعاركم حم لا ينصرون.(د ت ك عن رجل من الصحابة).
10886 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تم پر رات کو حملہ کیا جائے تو تمہارا شعار حمۤ لا ینصرون ہونا چاہیے “۔ (سنن ابی داود، ترمذی، مستدرک حاکم بروایت رجل من الصحابہ (رض))

10891

10891 الحرب خدعة.(حم ق د ت عن جابر) (ق عن أبي هريرة) (حم عن أنس) (د عن كعب بن مالك) (ه عن ابن عباس وعن عائشة) (البزار عن الحسن) (طب عن الحسن وعن زيد ابن ثابت وعن عبد الله بن سلام وعن عوف بن مالك وعن نعيم بن مسعود وعن النواس بن سمعان) (ابن عساكر عن خالد بن الوليد).
10887 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنگ تو دھوکا ہے “۔ (مسند احمد، متفق علیہ، ابو داؤد، ترمذی بروایت حضرت جابر (رض) اور متفق علیہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض) اور مسند احمد بروایت حضرت انس (رض) اور سنن ابی داؤد بروایت کعب بن مالک (رض) اور ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عباس (رض) اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور بزار بروایت حضرت حسن (رض) اور طبرانی بروایت حسن اور حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت عوف بن مالک اور حضرت نعیم بن مسعود اور حضرت نواس بن سمعان (رض) اور ابن عساکر بروایت خالد بن ولید (رض))

10892

10892 قل ما بدا لك فان الحرب خدعة.(طب عن ابن عباس).
10888 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو سمجھ میں آئے کہہ دو کیونکہ جنگ تو دھوکا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10893

10893 خذل عنا في الحرب خدعة.(الشيرازي في الالقاب عن نعيم الاشجعي).
10889 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہماری مدد چھوڑدو، کیونکہ جنگ تو دھوکا ہے “۔ (الشیرازی فی الالقاب بروایت نعیم الاشجعی)

10894

10894 يا أكثم اعغز مع غير قومك تحسن خلقك ، وتكرم على رفقائك ، يا أكثم خير الرفقاء أربعة ، وخير الطلائع أربعون ، وخيرالسرايا أربعمائة ، وخير الجيوش أربعة آلاف ولن يغلب اثنا عشر ألفا من قلة.(ه عن أنس)
10890 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے اکثم ! اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوم کے شانہ بشانہ ہو کر جنگ کیا کر، اپنے اخلاق اچھے کر اور اپنے ساتھیوں کا اکرام کر، اے اکثم ! بہترین ساتھی اور دوست چار ہیں، اور بہترین گشتی نمائندے بھی چار ہیں اور بہترین۔۔۔ بھی چار سو ہیں اور بہترین لشکر وہ ہے جو چار ہزار پر مشتمل ہو اور بارہ ہزار پر کوئی غالب نہیں آسکتا کم میں سے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت انس (رض))

10895

10895 خير الصحابة أربعة ، وخير السرايا أربعمائة ، وخير الجيوش أربعة آلاف ولا تهزم اثنا عشر ألفا من قلت.(د ت ك عن ابن عباس).
10891 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بہترین ساتھی چار ہیں، اور بہترین دستہ وہ ہے جو چار سو پر مشتمل ہو اور بہترین دینی لشکر وہ ہے جو بارہ ہزار پر مشتمل ہو اور بارہ ہزار پر مشتمل لشکر قلت کی بناء پر شکست نہیں کھاسکتا “۔ سنن ابی داؤد، ترمذی، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10896

10896 عليكم بالقنا وبالقسي العربية ، فان بها يعزو الله دينكم ، ويفتح لكم البلاد.(طب عن عبد الله بن بسر).
10892 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نیزوں اور عربی کمانوں کو لازم پکڑو، کیونکہ اسی سے اللہ تعالیٰ تمہارے دین کو عزت دیتا ہے اور تمہارے لیے شہر فتح کرتا ہے “۔ (طبرانی، بروایت عبداللہ بن بسر (رض))

10897

10897 أمال هذه ألقها ، وعليك بهذه وأشباهها ورماح اقنا ، وإنما يؤيد الله لكم بهاذ في الدين ويمكن لكم في البلاد.(ه عن علي).
10893 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ جو ہے تو اس کو پھینک دو اور اس کو اس جیسی دوسری کمانوں کو اور نوک دار نیزوں کو لازم پکڑو، کیونکہ انہی سے اللہ تعالیٰ تمہارے دین کی تائید کرتا ہے اور تمہیں شہروں میں ٹھکانا دیتا ہے (ابن ماجہ بروایت حضرت علی (رض)

10898

10898 إذا أكثبوم فارموهم بالنبل واستبقوا نبلكم.(خ د عن أسيد).
10894 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر چلاؤ اور اپنے تیروں کو پہلے استعمال کرو “۔ (بخاری، سنن ابی داؤد بروایت حضرت اسید (رض))

10899

10899 إياكم والخيل المنعلت ، فانها إن تلق العدو تفر ، وإن تغنم تغل.(حم عن أبي هريرة).
10895 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بچو نعل والے گھوڑے استعمال کرنے سے، کیونکہ یہ جب دشمن سے ملتے ہیں تو بھاگ جاتے ہیں۔ اگر مال غنیمت ملے تو خیانت کرتے ہیں “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10900

10900 إياكم والسرية التي إذا لقيت فرت وإذا غنمت غلت (ابغوي عن أبي الورد).
10896 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بچو اس دستے سے جو جب دشمن سے ملے تو بھاگ جائے اور جب غنیمت ملے تو خیانت کرے “۔ (بغوی بروایت ابی داؤد)

10901

10901 من ضيق طريقا فلا جهاد له (ابن عساكر عن علي).
10897 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس پر راستہ تنگ ہوگیا تو اس کے لیے کوئی جہاد نہیں “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت علی (رض))

10902

10902 يا أكثم لا يصحبك إلا أمين ، ولا يأكل طعامك إلا أمين وخير السرايا أربعمائة ، وخير الجيوش أربعة آلاف ، ولن يغلب قوم يبلغون اثنى عشر ألفا. (أبو نعيم عن أكثم بن الجون).
10898 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے اکثم ! تمہاری صحبت میں صرف امانت دار ہی بیٹھے اور تیرا کھانا بھی امانت دار ہی کھائے اور بہترین دستہ وہ ہے جو چار سو پر مشتمل ہو اور بہترین لشکر وہ ہے جو چار ہزار پر مشتمل ہے اور جو بارہ ہزار پر مشتمل ہو تو اس کو شکست نہیں ہوسکتی “۔ (ابو نعیم بروایت حضرت اکثم بن الجون رضی اللہ عنہ )

10903

10903 خير الصحابة أربعة ، وخير السرايا أربعمائة ، وخير الجيوش أربعة آلاف ، ولا يهزم اثنا عشر ألفا من قلة (زاد ابن عساكر (إذا صبروا وصدقوا).(حم د ت حسن غريب ق ك ابن عساكر عن ابن عباس).
10899 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بہترین ساتھ وہ ہیں جو چارہوں، بہترین دستہ وہ ہے جو چار سو پر مشتمل ہو اور بہترین لشکر وہ ہے جو چار ہزار پر مشتمل ہو اور جو بارہ ہزار پر مشتمل ہو وہ کم سے شکست نہیں کھاسکتا “۔ (اور ابن عسا کرنے یہ اضافہ کیا ہے کہ ) جب وہ صبرکریں اور سچ بولیں۔ (مسند احمد، سنن ابی داؤد، ترمذی حسن غریب، متفق علیہ، مستدرک حاکم ابن عساکر بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10904

10904 يا مالك يوم الدين إياك نعبد وإياك نستعين.(البغوي عن أبي طلحة) قال : كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة ، فلقي العدو فسمعته يقوله ، (ذكره ابن السني في عمل اليوم والليلة والديلمي عن أنس مثله).
10900 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے انصاف، قانون اور فیصلے کے دن کے مالک ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں “۔ (بغوی عن ابی طلحۃ (رض) )
فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب دشمن سے سامنا ہوا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذکورہ بالا کلمات فرماتے سنا۔ (ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ اور دیلمی بروایت حضرت انس (رض))

10905

10905 لا تتمنوا لقاء العدو ، وسلوا الله العافية ، فإذا لقيتموهم فاثبتوا واذكروا الله كثيرا ، افن أجلبوا وصيحوا فعليكم بالصمت.(ش طب ك عن ابن عمرو).
10901 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دشمن سے سامنا ہونے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، اور جب دشمن سے سامنا ہوجائے تو ڈٹے رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور اگر وہ ہانکا کریں اور چیخیں تو تم خاموشی کو لازم پکڑو “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، طبرانی، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10906

10906 لا تتمنوا لقاء العدو ، واسألوا الله العافية ، فانكم لا تدرون ما تبتلون منهم فإذا لقيتموهم فقولوا : اللهم ربنا وربهم ونواصينا ونواصيهم بيدك ، وإنما تفشلهم أنت ثم الزموا الارض جلوسا فإذا غشوكم فانهضوا وكبروا.(ك عن جابر).
10902 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دشمن سے سامنا ہونے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ تم ان سے کس آزمائش میں پڑو گے، سو جب ان سے سامنا ہوجائے تو کہو کہ : اے ہمارے اللہ ! تو ہی ہمارا بھی اور ان کا بھی رب ہے، ہماری پیشانیاں اور ان کی پیشانیاں بھی آپ ہی کے دست قدرت میں ہیں۔ سو جب وہ تمہیں گھیر لیں تو اٹھ کھڑے ہوا ور تکبیر کہو “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت جابر (رض))

10907

10907 لا تتمنوا لقاء العدو ، فانكم لا تدرون ما تبتلون به منهم ، فإذا لقيتموهم فقولوا : اللهم أنت ربنا وربهم وقلوبنا وقلوبهم بيدك ، وانما تغلبهم أنت ، والزموا الارض جلوسا ، فإذا غشوكم فثوروا وكبروا.(ابن السني في عمل يوم وليلة عن جابر).
10903 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دشمن سے سامنا ہونے کی تمنا نہ کرو، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان کی طرف سے تم کس آزمائش میں مبتلا کئے جاؤ گے۔ لہٰذا جب دشمن سے سامنا ہوجائے تو کہو : اے اللہ ! آپ ہی ہمارے رب ہیں اور ان کے بھی، ہماری دل اور ان کے دل آپ کے ہاتھ میں ہیں اور آپ ہی ان پر غالب ہوسکتے ہیں “۔ اور زمین پر بیٹھے رہو اور جب وہ تمہیں گھیر لیں تو اٹھ کر حملہ کردو اور تکبیر کہو “۔ (ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ بروایت حضرت جابر (رض))

10908

10908 إنا مصبحوهم بغارة فأفطروا وتقووا.(طب عن أبي أمامة).
10904 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً ہم صبح ان پر حملہ آور ہونے والے ہیں، لہٰذا کھاؤ پیو اور قوت حاصل کرو “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابواسامۃ (رض))

10909

10909 إذا أمنك الرجل على دمه فلا تقتله.(حم ه عن سليمان بن صرد).
10905 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب کوئی شخص تجھ سے اپنے خون کی حفاظت چاہے تو تو اس کو قتل مت کر “۔ (مسند احمد، ابن ماجہ بروایت حضرت سلیمان بن صرد (رض))

10910

10910 ذمة المسلمين واحدة فإذا جارت عليهم جائرة فلا تخفروها فان لكل غادر لواء يوم القيامة يعرف به.(ك عن عائشة).
10906 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، سو جب ان پر ظالم ظلم کرے تو اس کو پناہ نہ دو ، کیونکہ قیامت کے دن ہر غدار کے پاس ایک جھنڈا ہوگا، جس سے وہ پہچانا جائے گا (مستدرک حاکم بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض)

10911

10911 لقد أجرنا من أجرت يا أم هانئ.(ق عن أم هانئ) زاد (د ت) وآمنا من آمنت.
10907 ۔ فرمایا کہ ” اے ام ہانی ! جسے آپ نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی “ (متفق علیہ بروایت حضرت ام ھانی (رض)) اور ابوداؤد اور ترمذی نے یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں کہ ” اور جسے آپ نے امان دی اسے ہم نے بھی امان دی “۔

10912

10912 إن المرأة لتأخذ على القوم.(ت عن أبي هريرة).
10908 ۔۔۔ فرمایا ” بیشک عورت کو اس کی قوم کی بنیاد پر پکڑا جائے گا “۔ (ترمذی عن ابوہریرہ (رض))

10913

10913 من آذى رميا فأنا خصمه ، ومن كنت خصمه خصمته يوم القيامة.(خط عن ابن مسعود).
10909 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی نے کسی ذمی کو تکلیف پہنچائی تو میں اس کے لیے لڑوں گا اور جس کے لیے میں لڑوں گا تو قیامت کے دن بھی اس کے لیے لڑوں گا “۔ (خطیب فی التاریخ بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10914

10914 من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة ، وأن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عاما.(حم خ ن ه عن ابن عمرو).
10910 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا اور کچھ شک نہیں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے بھی آتی ہے “۔ (مسند احمد، بخاری، نسائی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10915

10915 من قتل معاهدا في غير كهنه حرم الله عليه الجنة.(حم د ن ك عن أبي بكرة).
10911 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی معاہد (حلیف یا ذمی) کو بلاوجہ قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیں گے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوبکرۃ (رض))

10916

10916 منعني ربي أن أظلم معاهدا ولا غيره.(ك عن علي).
10912 ۔ فرمایا کہ ” مجھے میرے رب نے منع کیا کہ کسی معاہد وغیرہ پر ظلم کروں (مستدرک حاکم بروایت حضرت علی (رض)

10917

10917 المسلمون على شروطهم.(د ك عن أبي هريرة).
10913 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں “۔ (سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10918

10918 المسلمن عند شروطهم ما وافق الحق من ذلك.(ك عن أنس وعن عائشة).
10914 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمان اپنی شرطوں کے پاس ہیں جو حق کے مطابق ہیں “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت انس (رض) اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض))

10919

10919 المسلون عند شروطهم فيما أحل.(طب عن رافع ابن خديج).
10915 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمان اپنی ان شرطوں کے پاس ہیں جو حلال ہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت رافع بن خدیج (رض)

10920

10920 أنا أكرم من وفى بذمته.(هق عن ابن عمر).
10916 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں ان میں سے سب سے زیادہ شریف ہوں جو اپنے ذمہ کو پورا کرتے ہیں “۔ (بیھقی فی الشعب الایمان بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10921

10921 أيها الناس إنكم قد أسرعتم في حظائر يهود ، ألا لا تحل أموال المعاهدين إلا بحقها ، وحرام عليكم لحوم الحمر الاهلية وخيلها وبغالها ، وكل ذي ناب من السباع ، وكل ذي مخلب من الطير.(حم د عن خالد بن الوليد).
10917 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! یقیناً تم نے یہودیوں کے باڑوں کی طرف جلدی کی، سنو ! معاہدین کا مال اس کے حق کے علاوہ جائز نہیں اور گھریلو گدھوں، خچروں اور گھوڑوں کا گوشت تم پر حرام ہے اور ہر پھاڑ کھانے والے جانور اور پنجے والے پرندے کا گوشت بھی “۔ (مسند احمد، ابوداؤد بروایت حضرت خالد بن ولید (رض) )
فائدہ :۔۔۔ حق کے علاوہ جائز نہ ہونے سے مرادیہ ہے کہ معاہدین یعنی ذمیوں پر جو سالانہ ٹیکس مقرر کیا گیا ہے اس کے علاوہ کچھ لینا جائز نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10922

10922 من كان بينه وبين قوم عهد لا يشد عقدة ولا يحلها حتى ينقضي أمرها أو ينبذ إليه على سواء.(حم د عن عمرو بن عبسة).
10918 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی شخص نے کسی قوم سے کوئی عہد کر رکھا تھا تو نہ وہ کوئی گرہ باندھے اور نہ کھولے، یہاں تک کہ اس کا معاہدہ ختم ہوجائے۔ (مسند احمد، ابوداؤد بروایت حضرت عمروبن عبسۃ (رض))

10923

10923 يا معشر اليهود أسلموا تسلموا ، اعلموا أن الارض لله ولرسوله ، وإني أريد أن أجليكم من هذه الارض ، فمن وجد منكم بماله شيئا فليبعه ، وإلا فاعلموا أنما الارض لله ولرسوله.(ق د عن أبي هريرة).
10919 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے یہودیو کے گروہ ! مسلمان ہوجاؤ محفوظ ہوجاؤگے، جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اس سرزمین سے جلا وطن کردوں، سو اگر تم میں سے کوئی اپنے مال میں سے کچھ پائے تو اس کو بیچ دے، وگرنہ یہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے “۔ (متفق علیہ، ابوداؤد بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10924

10924 ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس منه فأنا حجيجه يوم القيامة.(د هق عن صفوان بن سليم عن عدة من أبناء الصحابة عن آبائهم دنية).
10920 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سنو ! اگر کسی نے معاہد پر ظلم کیا یا نقض عہد کیا یا اس کی حیثیت سے بڑھ کر کسی کام میں مبتلا کیا یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے لڑوں گا “۔ (ابوداؤد، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت صفوان بن سلم عن عدۃ من ابناء الصحابہ عن آبائھم (رض))

10925

10925 ألا من قتل نفسا معاهدة له ذمة الله وذمة رسوله فقد أخفر بذمة الله فلا يرح رائحة الجنة ، وإن الجنة ليوجد ريحها من مسيرة سبعين خريفا.(ت عن أبي هريرة).
10921 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سنو ! اگر کسی نے کسی ایسے انسان کو قتل کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے ذمے پر تھا تو تحقیق اس نے اللہ کے ذمہ کی وعدہ خلافی کی سو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا اور جنت کی خوشبو ستر سال کے فاصلے سے بھی محسوس ہوتی ہے “۔ (ترمذی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10926

10926 لعلكم تقاتلون قوما فتظهرون عليهم فيقونكم بأموالهم دون أنفسهم وأبنائهم ، فيصالحونكم على صلح فلا تصيبوا منهم فوق ذلك فانه لا يصلح لكم.(د عن رجل).
10922 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شاید کہ تم جب کسی قوم سے جنگ کرتے ہو اور ان پر غالب آجاتے ہو تو ان کے لوگوں اور بیٹوں کے بجائے ان کے اموال سے طاقت حاصل کرتے ہو اور پھر وہ تم سے کسی بات پر صلح کرتے ہیں، سو تمہیں اس سے زیادہ ان سے کچھ نہ پہنچے کیونکہ تمہارے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے “۔ (ابوداؤد عن رجل)

10927

10927 من قتل معاهدا له ذمة الله وذمة رسوله فقد خفر ذمة الله ولا يرح رائحة الجنة وأن ريحها ليوجد من مسيرة سبعين عاما.(ه ك عن أبي هريرة).
10923 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی نے کسی معاہد کو قتل کردیا جو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ پر تھا تو اس نے اللہ کے ذمہ کے خلاف ورزی کی، وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور اس کی خوشبو توسترسال کے فاصلے سے بھی محسوس ہوتی ہے “۔ (ابن ماجہ، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10928

10928 من قتل رجلا من أهل الذمة لم يجد ريح الجنة وأن ريحها ليوجد من مسيرة سبعين عاما.(حم ن عن رجل).
10924 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی نے اہل ذمہ میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا اور اس کی خوشبو ستر سال کے فاصلے سے بھی محسوس ہوتی ہے “۔ (مسند احمد، نسائی بروایت رجل)

10929

10929 من قتل نفسا معاهدة بغير حلها حرم الله عليه الجنة أن يشم ريحها.(حم ن عن أبي بكرة).
10925 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی معاہد کو حرام قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ اس پر نہ صرف جنت حرام کردیتے ہیں بلکہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتا “۔ (مسند احمد، نسائی بروایت حضرت ابوبکرۃ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ حرام قتل کردینے سے مراد یہ ہے کہ اس ذمی کو قصاصاً یا حرباً نہ قتل کیا ہو بلکہ اپنی ذات کی وجہ سے قتل کردیا ہو جو شرعی قوانین کی رو سے جائز نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10930

10930 من أمن رجلا على دمه فقتله فأنا برئ من القاتل ، وإن كان المقتول كافرا.(تخ ن عن عمرو بن الحمق).
10926 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کسی شخص نے کسی کو امان دی اور پھر اس کو قتل کردیا تو میں قاتل سے بری ہوں خواہ مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو “۔ (بخاری فی التاریخ ، نسائی بروایت حضرت عمرو بن الحمق (رض))

10931

10931 من يخفر ذمتي كنت خصمه ، ومن خاصمته خصمته.(طب عن جندب).
10927 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے میرے ذمہ کی خلاف ورزی کی میں اس سے جھگڑا کروں گا، اور جس سے جھگڑا کروں گا اس سے جھگڑوں گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت جندب (رض))

10932

10932 يجير على أمتي أدناهم.(حم ك عن أبي هريرة).
10928 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ان میں سے ادنیٰ ترین شخص میری امت کو پناہ دے گا “۔ (مسند احمد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرہ (رض))

10933

10933 الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا. (حم د ك عن أبي هريرة) (ت ه عن ابن عمرو بن عوف).
10929 ۔ فرمایا کہ ” مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے علاوہ اس صلح کے جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کردے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرہ (رض) ، ترمذی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمروبن عوف (رض)

10934

10934 اتركوا الترك ما تركوكم ، فان أول من يسلب أمتي ملكهم وما خولهم الله بنو قنطوراء.(طب عن ابن مسعود).
10930 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چھوڑدوترکوں کو جب تک وہ تمہیں نہ چھیڑیں، کیونکہ سب سے پہلے میری امت سے جو ملک چھینے گا اور حالانکہ اللہ نے انھیں عطا نہیں کی ہوگی وہ بنو قنطوراء ہے “۔ (طبرانی، بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

10935

10935 اتركوا الحبشة ما تركوكم ، فانه لا يستخرج كنز الكعبة إذا ذو السويقتين من الحبشة.(د ك عن ابن عمرو).
10931 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اہل حبشہ کو چھوڑدو جب تک وہ تمہیں نہ چھیڑیں کیونکہ سب سے پہلے کعبہ کا خزانہ ذوالسویقتین نکالے گا جو اہل حبشہ میں سے ہوگا “۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عمر (رض))
فائدہ :۔۔۔ سو یقتین تشبیہ ہے سویق کا اور سویق ستو کو کہتے ہیں، قرب قیامت میں ایک حبشی شخص دوصاع یا دو کلو ستوؤں کے بدلے خانہ کعبہ کو منہدم کردے گا اور اس کالقب ذوالسویقین ہی ہوگا یعنی دو ستوؤں والا، شاید یہاں وہی مراد ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10936

10936 إني لا أخيس بالعهد ، ولا أحبس البرد.(حم د ن حب ك عن أبي رافع).
10932 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نہ میں وعدہ خلافی کرتا ہوں اور نہ ہی چادروں کو قید کرتا ہوں “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن حبان، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابورافع (رض))

10937

10937 حسن العهد من الايمان.(ك عن عائشة).
10933 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اچھا وعدہ ایمان میں سے ہے “۔ (مستدرک حاکم بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض)

10938

10938 دعوا الحبشة ما ودعوكم واتركوا الترك ما تركوكم.(د عن رجل).
10934 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چھوڑدواہل حبشہ کو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں اور نہ چھیڑیں ترکوں کو جب تک وہ نہ تمہیں چھیڑیں۔ (ابو داؤد عن رجل )

10939

10939 فوالهم ونستعين بالله عليهم.(حم عن حذيفة).
10935 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ان کے ساتھ وعدہ پورا کرو، ہم ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگتے ہیں “۔ (مسند احمد بروایت حضرت حذیفہ (رض))

10940

10940 نفي بعدهم ونستعين الله عليهم.(م عن حذيفة).
10936 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہم ان کے ساتھ وعدہ پورا کرتے ہیں اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگتے ہیں “۔ (مسلم بروایت حضرت حذیفہ (رض))

10941

10941 إن خيار عباد الله الموفون المطيبون.(طب حل عن أبي حميد الساعدي) (حم عن عائشة).
10937 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً اللہ کے بندوں میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور پرسکون رہتے ہیں “۔ (طبرانی، حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت ابو حمید الساعدی (رض) اور مسند احمد بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

10942

10942 من أمن رجلا على دمه فقتله وجبت له النار ، وإن المقتول كافرا.(طب عن معاذ).
10938 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی شخص کو امان دی پھر اسے قتل کردیا تو جہنم اس کے لیے واجب ہوگئی اگرچہ وہ مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو “۔ (طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

10943

10943 من أمن رجلا على دمه فقتله فانه يحمل لواء غدر يوم القيامة.(ط ه طب ق عن عمرو بن الحمق).
10939 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی شخص کو امان دی اور پھر اسے قتل کردیا تو وہ قیامت کے دن غداروں کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوگا “۔ (ابن ماجہ، طبرانی، متفق علیہ بروایت حضرت محمد بن الحمق (رض))

10944

10944 من أتاهم منا فابعده الله ومن أتانا منهم فرددناه إليهم جعل الله له فرجا ومخرجا.(ع عن أنس).
10940 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر ہم میں سے کوئی ان کے پاس چلا گیا تو اللہ نے اس کو کردیا جو ان میں سے ہمارے پاس آگیا ہم اس کو واپس کردیں گے اللہ تعالیٰ اس کے لیے خلاصی کی کوئی سبیل بنائیں گے “۔ (مسند ابی یعلی بروایت حضرت انس (رض))

10945

10945 من يخفر ذمتي كنت خصمه ، ومن خاصمته خصمته. (طب عن أبي السوار العدوي) بلاغا.
10941 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے میرے ذمہ کی خلاف ورزی کی میں اس سے جھگڑوں گا اور جس سے میں جھگڑا تو۔۔۔ (طبرانی بروایت ابواسوار العددی (رض))

10946

10946 أيها الناس إنكم قد أسرعتم في حظائر اليهود ألا لا تحل أموال المعاهدين إلا بحقها ، وحرام عليكم لحوم الحمر الاهلية وخيلها وبغالها وكل ذي ناب من السباع وذي مخلب من الطير.(حم د والباوردي عن خالد بن الوليد) طب وزاد : ألا لا يقول رجل متكئ على أريكته : وما وجدنا في كتاب الله من حلال أحللناه ، وما وجدنا في كتاب الله من حرام حرمناه ، ألا وإني حرمت عليكم أموال المعاهدين بغير حقها ألا من ظلم معاهدا أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس فأنا حجيجه يوم القيامة.(عن صفوان بن سليم عن عدة من أبناء الصحابة عن آبادنيه) زاد ق : ألا ومن قتل معاهدا له ذمة الله وذمة رسوله حرم عليه ريح الجنة ، وان ريحها ليوجد من مسيرة سبعين خريفا.
10942 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! یقیناً تم نے یہودیوں کے اموال میں جلدی کی، سنو ! معاہدین کا مال ناحق لے لینا حلال نہیں، اور تم پر گھریلو گدھوں، گھوڑوں ! اور خچروں کا گوشت حرام ہے، اور ہر پھاڑ کھانے والے جانور کا بھی اور پنجے والے پرندوں کا گوشت بھی حرام ہے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، باوردی، بروایت حضرت خالد بن ولید (رض) )
طبرانی یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ ” فرمایا کہ ” سنو ! کوئی شخص اپنے تخت پر تکیہ لگائے یہ نہ کہے کہ جو ہم نے کتاب اللہ میں سے حلال پایا اسے حلال کیا اور جو کتاب اللہ میں حرام پایا اسے حرام قرار دیا، سنو ! میں بھی تم پر معاہدین کا مال ناحق لینا حرام قرار دیتا ہوں، سنو ! جس کی وہ طاقت نہ رکھتا تھا یا اس سے اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز لے لی، تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں لڑوں گا۔ (بروایت صفوان بن سلم عن من ابناء الصحابۃ من آبادنیۃ (رض) )
اور بخاری مسلم میں یہ اضافہ ہے، کہ ” سنو ! جس نے کسی معاہد کو قتل کردیا جو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ پر تھا تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کردی جاتی ہے حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے آتی ہے “۔

10947

10947 من ظلم معادها مقرا بذمته موديا لجزيته كنت خصمه يوم القيامة. (ابن منده وأبو نعيم في املعرفة عن عبد الله بن جراد).
10943 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کسی نے ایسے معاہد کو قتل کردیا جو اپنے ذمی ہونے کو مانتا تھا اور اپنا مقررہ جزیہ بھی ادا کرتا تھا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے جھگڑوں گا “۔ (ابن مندہ اور ابو نعیم فی المعرفۃ بروایت حضرت عبداللہ بن جراد)

10948

10948 المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما ، والصلح بين الناس جائز إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا.(طب عد ق عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده) والصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا أحل حلالا أو حرم حراما. (د ق ك عن أبي هريرة ت حسن صحيح ه ق عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني عن أبيه عن جده (ك عنه) وزاد : والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا.
10944 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہیں علاوہ ان شرطوں کے جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردیں، اور لوگوں کے درمیان صلح بھی جائز ہے علاوہ اس صلح کے جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کردیں “۔ (طبرانی، کامل ابن عدی، متفق علیہ بروایت کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ (رض) )
اور صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے علاوہ اس صلح کے جو حرام کو حلال کردے اور حلال کو حرام کردے “۔ (ابوداؤد، متفق علیہ، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض) ، ترمذی، ابن ماجہ، متفق علیہ بروایت کثیر بن عبداللہ بن عمروبن عوف المدنی عن ابیہ عن جدہ، مستدرک حاکم عنہ)
اور یہ اضافہ کیا ہے اور مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں علاوہ اس شرط کے جو حلال کو حرام کردے۔

10949

10949 بسم الله الرحمن الرحيم ، هذا كتاب من محمد رسول الله إلى زهير بن أقيش سلام على من ابتع الهدى ، إني أحد اليكم الله الذي لا إله إلا هو ، أما بعد إن شهدتم أن لا إله إلا الله وأقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وفارقتم المشركين واعطيتم من المغانم الخمس وسهم النبي والصفي فانتم آمنون بأمان الله وأمان رسول الله.(ه حم د ك والبغوي والباوردي طب ق عن النعمان بن لولب).
10945 ۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ خط اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے زبیر بن اقیش کی طرف ہے سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کا پیروکارہو، میں تمہارے سامنے اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں، وہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں علاوہ اس کے امابعد۔ اگر تم گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور مشرکوں سے جدا ہوجاؤ اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اور نبی اور صفی کا حصہ الگ کرو تو تم لوگ محفوط رہو گے اللہ اور اس کے رسول کی امان میں “۔ (ابن ماجہ، مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک حاکم، بغوی، باوردی طبرانی، متفق علیہ بروایت حضرت نعمان بن لولب (رض))

10950

10950 قد أجرنا من أجرت وآمنا من آم نت.(د ق [ ت ] حسن صحيح عن أم هانئ)
10946 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو آپ نے پناہ دی اور ہم نے بھی اس کو امان دی جس کو آپ نے امان دی “۔ (ابوداؤد، متفق علیہ، ترمذی بروایت حضرت ام ھانثی (رض))

10951

10951 اتركوا الترك ما تركوكم.(طب عن ذي الكلاع).
10947 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ترکوں کو نہ چھیڑو جب تک وہ تمہیں نہ چھیڑیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت ذی الکلاع (رض))

10952

10952 اتركوا الترك ما تركوكم.(طب عن معاذ).
10948 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ترکوں کو نہ چھیڑو جب تک وہ تمہیں نہ چھیڑیں “۔ (طبرانی بروای حضرت معاذ (رض))

10953

10953 إنما العشور على اليهود والنصارى ، وليس على المسلمين عشور.(د عن رجل).
10949 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عشر تو صرف یہودیوں اور عیسائیوں پر ہے اور مسلمانوں پر عشر نہیں ہے “۔ (ابوداؤد، بروایت رجل)

10954

10954 فيما سقت السماء والانهار والعيون أو كان عثريا العشر وفيما سقي بالسواني أو النضح نصف العرش.(حم خ عن ابن عمر).
10950 ۔۔۔ فرماا کہ ” وہ زمین جو بارانی ہوں، یانہروں اور چشموں سے سیراب ہوتی ہوں، یاعشری ہوں تو ان میں عشر ہے اور وہ زمینیں جو راھٹ کے ذریعے یا چھڑکاؤ کے ذریعے سیراب کی جاتی ہیں تو ان میں نصف عشر ہے “۔ (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، بروایت ابن عمر (رض))

10955

10955 فيما سقت السماء والانهار والعيون العشر وفيما سقت السانية نصف العشر.(حم م د ن هق عن جابر)
10951 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ زمینیں جو بارانی ہوں یا نہری یا چشموں سے سیراب ہونے والی ہوں تو ان میں عشر ہے اور وہ زمینیں جو راھٹ کے ذریعے سیراب کی جائیں اس میں نصف عشر ہے “۔ (مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت جابر (رض))

10956

10956 فيما سقت السماء والعيون العشر وفيما سقي بالنضح نصف العرش.(ت ه د عن أبي هريرة).
10952 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ زمینیں جو بارانی ہوں یا چشموں کے ذریعے سیراب کی جاتی ہوں ان میں عشر ہے اور وہ زمینیں جو چھڑکاؤ کے ذریعے سیراب کی جائیں ان میں نصف عشر ہے “۔ (ترمذی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10957

10957 ليس على المسلمين عشور ، إنما العشور على اليهود والنصارى.(ابن سعد حم عن حرب بن هلال الثقفي عن جده أبي أمية رجل من تغلب)
10953 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمانوں پر عشر نہیں ہے، عشر تو صرف یہودیوں اور عیسائیوں پر ہے “۔ (ابن سعد، مسند احمد بروایت حرب بن ھلال الثقفی بروایت عن جدہ ابی امیۃ رجل من تغلب )

10958

10958 إنما العشور على اليهود والنصارى ، وليس على المسلمين عشور.(ابن سعد والبغوي وابن قانع ق عن حرب بن عبيد الله عن جده أبي أمية عن أبيه) قال البغوي : رواه جماعة عن عطاء بن السائب عن حرب عن جده ولم يقل فيه أحد عن أبيه غير أبي الاحوص.(حم د ق عن رجل من بكر بن وائل عن خاله) (البغوي عن حرب ابن عبيد الله الثقفي عن خاله) (البغوي عن حرب بن هلال الثقفي عن رجل من بني تغلب).
10954 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عشر تو صرف یہودیوں اور عیسائیوں پر ہے اور مسلمانوں پر عشر نہیں ہے “۔ (ابن سعد، بغوی، ابن قانع، متفق علیہ، بروایت حرب بن عبید اللہ عن جہ ابی امیۃ عن ابیہ)
اور بغوی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ایک جماعت نے عطاء بن السائب عن حرب عن جدہ کی سند سے روایت کیا ہے اور کسی ایک نے بھی اس میں عن ابیہ نہیں کہا علاوہ ابوالاحرص کے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، متفق علیہ عن رجل من بکر بن وائل عن خالہ اور بغوی عن حرب بن عبید اللہ الثقفی عن خالہ اور بغوی عن حرب بن ھلال الثقفی عن رجل من بی تغلب)

10959

10959 السائمة جبار والمعدن جبار ، وفي الركاز الخمس (حم عن جابر).
10955 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چرنے والے جانور معاف ہیں، معدنیات معاف ہیں اور خود گاڑے ہوئے مال میں خمس ہے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت جابر (رض))
فائدہ :۔۔۔ اس روایت کے ذیل میں کچھ خالص علمی بحث ہے جس کے لیے کسی مستند دارالافتاء یا مفتی کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے عوام الناس کے لیے یہ تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے بقول شخصے :
ان مسائل میں کچھ زرف نگاہی ہے درکار یہ مسائل ہیں کوئی تماشہ لب بام نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10960

10960 إن الله عزوجل إذا أطعم نبيا طعمة فهي للذي يقوم من بعده.(د عن أبي بكر).
10956 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نبی کو کچھ کھلاتے ہیں تو یہ کھلانا اس کے لیے ہوتا ہے جو ان کے بعد کھڑا ہوگا “۔ (ابوداؤد، بروایت حضرت ابوبکر صدیق (رض))

10961

10961 الركاز الذي ينبت في الارض.(هق عن أبي هريرة).
10957 ۔ فرمایا کہ ” رکاز وہ مال ہے جو زمین کے اندر پیدا ہوتا ہے (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض)

10962

10962 الركاز الذهب والفضة الذي خلقه الله في الارض يوم خلقت.(هق عن أبي هريرة).
10958 ۔۔۔ فرمایا کہ ” رکازوہ سونا اور چاندی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس دن زمین میں پیدا فرمایا تھا جب زمین کو پیدا فرمایا تھا “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10963

10963 العنبر ليس بركاز ، بل هو لمن وجده.(ابن النجار عن جابر).
10959 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عنبر رکاز نہیں بلکہ اسی کے لیے ہے جو اس کو پالے “۔ (ابن النجار بروایت حضرت جابر (رض))

10964

10964 في الركاز الخمس.(ه عن ابن عباس) (طب عن ثعلبة) (طس عن جابر وعن ابن مسعود).
10960 ۔۔۔ فرمایا کہ رکاز میں خمس ہے۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عباس (رض) اور طبرانی بروایت حضرت ثعلبہ (رض) اور معجم اوسط بروایت حضرت جابر (رض) ابن مسعود (رض))

10965

10965 في الركاز العشر.(أبو بكر بن أبي داود في جزء من حديثه عن ابن عمر).
10961 ۔۔۔ فرمایا کہ ” رکاز میں عشر ہے “۔ (ابوبکر بن ابی داؤد فی جزء من حدیثہ عن ابن عمر (رض))

10966

10966 لا نفل إلا بعد الخمس.(حم عن معن بن يزيد).
10962 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اضافی مال انھیں خمس کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے “۔ (مسند احمد بروایت حضرت معن بن یزید (رض))

10967

10967 لا يحل لي من غنائمكم مثل هذا إلا الخمس ، والخمس مردود فيكم. (د عن عمرو بن عبسة).
10963 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میرے لیے تمہارے مال غنیمت میں سے اس جیسی کوئی چیز حلال نہیں علاوہ خمس کے اور خمس تم میں لوٹا دیا جائے گا “۔ (ابوداؤد بروایت حضرت عمروبن عبسۃ (رض))

10968

10968 يا أيها الناس إنه ليس لي من هذا الفئ شئ لا هذا ، وأشار إلى وبرة من سنام بعير إلا الخمس ، والخمس مردود عليكم فادوا الخيط والمخيط.(د ن عن ابن عمرو).
10964 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! میرے لیے اس مال میں سے کوئی چیز نہیں اور نہ یہ (اور اونٹ کے کوہان کے بالوں کے گچھے کی طرف اشارہ ہے) علاوہ خمس کے اور خمس تمہاری ہی طرف لوٹایا جائے گا سودھاگہ اور سوئی تک ادا کردو “۔ (ابو داؤد، نسائی، بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

10969

10969 يا أيها الناس ردوا علي ردائي ، فو الله لو أن لي بعدد شجر تهامة نعما لقسمته عليكم ، ثم لا تلقوني بخيلا ولا جبانا ولا كذوبا ، يا أيها الناس ليس لي من هذا الفئ ولا هذه الوبرة إلا الخمس ، والخمس مردود فيكم فادوا الخياط (1) والمخيط فان الغلول يكون على أهله عارا ونارا وشنارا إلى يوم القيامة (حم ن عن ابن عمرو).
10965 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! میری چادر مجھے واپس دے دو ، خدا کی قسم اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر بھی کوئی چیز ہوتی تو میں تم لوگوں میں تقسیم کردیتا ، پھر تم مجھے نہ کنجوس پاتے، نہ بزدل نہ جھوٹا، اے لوگو ! اس میں سے میرے لیے کچھ نہیں نہ ہی بالوں کے اس گچھے میں سے علاوہ خمس کے اور خمس تم میں ہی لوٹایا جائے گا، سودھاگہ اور سوئی جیسی چیزیں بھی ادا کردو کیونکہ خیانت، خیانت کرنے والے کے لیے قیامت کے دن صرف عار اور شرمندگی بلکہ عیب اور آگ کا باعث ہوگی “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت ابن عمر (رض))

10970

10970 يا أيها الناس إني لا يحل لي مما أفاء الله عليكم قدر هذه إلا الخمس والخمس مردود عليكم.(ن عن عبادة بن الصامت).
10966 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! بیشک حلال نہیں ہے میرے لیے اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اتنا بھی علاوہ خمس کے اور خمس تم میں ہی لوٹایا جائے گا “۔ (نسائی بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

10971

10971 أيما قرية اتيتموها وأقمتم فيها فسهمكم فيها ، وأيما قرية عصت الله ورسوله فان خمسها لله ولرسوله ، ثم هي لكم.(حم م د عن أبي هريرة).
10967 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس علاقے میں تم پہنچو اور قیام کروتو تمہارا حصہ اسی میں ہے، اور ہر وہ علاقہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا ہے پھر یہ تمہارا ہے “۔ (مسند احمد مسلم ابوداؤد، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10972

10972 عربوا العربي وهجنوا الهجين.(عد هق عن مكحول) مرسلا.
10968 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عربی کو عربی اور کھجین کو کھجین سمجھو “۔ (کامل ابن عدی، بیھقی فی شعب الایمان عن مکحول مرسلاً )
فائدہ :۔۔۔ بھیجیں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا باپ عرب اور ماں لونڈی باندی ہو “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10973

10973 عربوا العربي وهجنوا الهجين للعربي سهمان وللهجين سهم (عد هق عن مكحول عن زياد بن جارية عن حبيب بن مسلمة).
10969 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عربی کو عربی اور بھجین کو بھجین سمجھو، عربی کے دوحصے اور بھجین کے لیے ایک حصہ ہے “۔ (کامل ابن عدی بیھقی فی شعب الایمان عن مکحول عن زیاد بن حاریہ حبیب بن مسلمۃ )

10974

10974 كل قسم في الجاهلية فهو على ما قسم ، وكل قسم أدركه الاسلام فانه على قسم الاسلام.(د ه عن عبادة).
10970 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہر وہ تقسیم جو زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی تو وہ اسی تقسیم پر ہے اور ہر وہ تقسیم جو اسلام کے زمانے میں ہوئی تو وہ اسلام ہی کے حساب سے ہوگی “۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت حضرت عبادۃ (رض))

10975

10975 إني لاعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم ، أما ترضون أن تذهب الناس بالاموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فو الله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به ، إنكم سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله فاني على الحوض.(خ عن أنس).
10971 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں ایسے لوگوں کو ضرور دیتا ہوں جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اپنا مال لے کر چلے جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کے رسول کو لے جاؤ، سو خدا کی قسم جس چیز کے ساتھ تم لوٹتے ہو وہ بہت بہتر ہے اس سے جس کے ساتھ وہ لوٹتے ہیں، یقیناً تم میرے بعد شدید حالت دیکھو گے، سو صبر کرنا یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول سے آملو بیشک میں حوض پر ہوں گا “۔ (بخاری بروایت حضرت انس (رض)

10976

10976 كييف أنت وأئمة من بعدي يستأثرون بهذا الفئ ، اصبر حتى تلقاني. (حم عن أبي ذر).
10972 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تیرا کیا حال ہوگا جب میرے بعد آنے والے حکمران اس مال سے اپنے لیے مخصوص کرلیں گے، سو صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابو ذر (رض))

10977

10977 لم تحل الغنائم لاحد سود الرؤس ممن قبلكم ، كانت تجمع وتنزل نار من السماء فتأكلها.(ت عن أبي هريرة).
10973 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم سے پہلے سرداروں میں سے کسی سردار کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا، وہ جمع کیا جاتا تھا اور آگ آکر اس کو کھالیتی تھی “۔ (ترمذی، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10978

10978 إني أعطي قريشا أتألفهم لانهم حديث عهد بجاهلية (خ عن أنس).
10974 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں قریش کو دیتا ہوں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے کیونکہ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اور زمانہ جاہلیت سے قریب ہیں “۔

10979

10979 كيف وأئمة من بعدي يستأثرون بهذا الفئ ؟ قال : أضع سيفي على عاتقي ، ثم أضرب به حتى ألقاك ، قال : أفلا أدلك على خير من ذلك ؟ اصبر حتى تلقاني. (حم د وابن سعد والروياني عن أبي ذر).
10975 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا حال ہوگا جب میرے بعد والے حکمران اس مال کو اپنے لیے مخصوص کرلیں ؟ فرمایا میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھتا ہوں پھر اس سے مار ڈالتا ہوں حتی کہ دکھ دیتا ہوں تو فرمایا کہ کیا میں تیری راہنمائی اس سے زیادہ چیز کی طرف نہ کروں ؟ صبر کرو یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔ (مسند احمد، ابوداود، ابن سعد، رویانی بروایت حضرت ابو ذر (رض) )
فائدہ :۔۔۔ دوسری مرتبہ جو لفظ فرمایا استعمال ہوا ہے وہ حضرت ابو ذر (رض) کے لیے ہے یعنی حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

10980

10980 لم تحل الغنائم لاحد سود الرؤس ممن قبلكم ، كانت تجمع وتنزل نار من السماء فتأكلها.(ت حسن صحيح ق عن أبي هريرة).
10976 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم سے پہلے سرداروں میں سے کسی سردار کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا وہ جمع کیا جاتا تھا اور آگ آسمان سے آتی اور اس مال کو کھاجاتی “۔ (ترمذی، متفق علیہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10981

10981 إني جعلت للفرس سهمين ، وللفارس سهمين ، فمن نقصهانقصه الله.(طب عن أبي كبشة).
10977 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں نے گھوڑے کے دو حصے مقرر کئے ہیں اور سوار کے بھی دو حصے، سو جو اس میں سے کم کرے اللہ تعالیٰ اس کو کم کرے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو کبشہ (رض))

10982

10982 العبد لا يعطي من الغنيمة شيئا ، ويعطي من خرثي المتاع وأمانه جائز.(ق وضعفه عن ابن عباس).
10978 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غلام کو مال غنیمت میں سے کچھ نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کو ردی اور گھٹیا سامان میں سے دیا جائے گا اور اس کا امان دینا جائز ہے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10983

10983 ليس للعبد في الغنيمة إلا خرثي المتاع وأمانه جائز ، وأمان المرأة جائز إذا هي أعطت القوم الامان.(ق عن علي).
10979 ۔۔۔ فرمایا کہ ” غلام کے لیے غنیمت میں کوئی حصہ نہیں غلام کم قیمت مال لے البتہ اس کا امان دینا جائز ہے اور اگر کوئی عورت کسی قوم کو امان دے تو وہ بھی جائز ہے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت علی (رض))

10984

10984 من وجد ماله في الفئ قبل أن يقسم فهو له.ومن وجده بعد ما قسم فليس له شئ.(الخطيب عن ابن عمر).
10980 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر کوئی شخص مال کے تقسیم ہونے سے پہلے اس میں اپنا مال پائے تو اسی کا ہے اور اگر تقسیم کے بعد پائے تو اب اس کے لیے اس میں سے کچھ نہیں “۔ (خطیب بروایت حضرت بن عمر (رض))

10985

10985 لا يحل لاحد من المسلمين شئ من غنائم المشركين قليل ولا كثير خيط ولا مخيط ، لا آخذ ولا معط إلا بحق.(ع عن ثوبان).
10981 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مشرکوں کی غنیمت میں سے مسلمانوں کے لیے کچھ جائز نہیں، نہ کم نہ زیادہ، نہ دھاگہ نہ سوئی، نہ لینے والے کے لیے نہ دینے والے کے لیے مگر اس کے حق کے ساتھ “ (مسند ابی یعلی بروایت حضرت ثوبان (رض))

10986

10986 لله خمس ، وأربعة أخماس للجيش ، قيل : فما أحد أحق من أحد ؟ قال : ولا السه تستخرجه من جنبك فلست أحق به من أخيك المسلم.(البغوي عن رجل من بلقين) قال قلت يا رسول الله ما تقول في الغنيمة قال فذكره.
10982 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک خمس اللہ کے لیے اور باقی چار خمس لشکر کے لئے، عرض کیا گیا کہ کیا کوئی ایک دوسرے سے زیادہ حق دا رہے ؟ فرمایا، اس تیر کا بھیج تو اپنے پہلو سے نکالتا ہے اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق دار نہیں (بغوی عن رجل عن بلقین

10987

10987 لعلك أن تدرك أموالا لا تقسم بين أقوام ، وإنما يكفيك من جمع المال مركب في سبيل الله ، وخادم.(طب والبغوي وابن عساكر عن أبي هاشم بن شيبة بن عتبة).
10983 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شاید تو ایسا مال پائے جو ابھی لوگوں میں تقسیم نہیں ہوا، اور تیرے لیے تو سارے مال سے اللہ کے راستے میں ایک سواری ایک خادم ہی کافی ہے “۔ (طبرانی، بغوی، ابن عساکر، بروایت ابو ہاشم بن شیبہ بن عتبہ)

10988

10988 ليس لاعراب المسلمين في الفئ والغنيمة شئ ، إلا ن يجاهدوا مع المسلمين.(ابن النجار عن بريدة)
10984 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عرب مسلمانوں کے لیے مال فئ اور غنیمت میں کوئی حصہ نہیں جب تک وہ اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد نہ کریں “۔ (ابن النجار بروایت حضرت بریدۃ (رض))

10989

10989 عشر مباحة لكم في الغزو : الطعام والادام ، والثمار ، والشجر والخل ، والزيت والتراب ، والحجر ، والعود غير منحوت ، والجلد الطري.(طب وابن عساكر عن عائشة) وفيه أبو مسلمة العاملي متروك.
10985 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دس چیزیں جنگ میں مباح ہیں۔
1 ۔۔۔ کھانا۔ 2 ۔۔۔ سالن۔ 3 ۔۔۔ پھل۔ 4 ۔۔۔ درخت۔ 5 ۔۔۔ سرکہ۔ 6 ۔۔۔ تیل۔ 7 ۔۔۔ مٹی۔ 8 ۔۔۔ پتھر۔ 9 ۔۔۔ بےچھلی لکڑی۔ 10 ۔ تازہ کھال۔ (طبرانی ابن عساکر بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض)

10990

10990 أعطوني ردائي فلو كان لي عدد هذه العضاه نعما لقسمته بينكم ثم لا تجدوني كذابا ولا بخيلا ولا جبانا.(حم خ حب عن جبير ابن مطعم) (طب عن ابن عباس).
10986 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میری چادر مجھے دے دو اگر میرے پاس ان کانٹوں کی تعداد کے برابر نعمتیں ہوتی تو میں سب تمہارے درمیان تقسیم کردیتا پھر تم مجھے نہ جھوٹا پاؤ گے نہ کنجوس اور نہ بزدل “۔ (مسند احمد، بخاری، ابن حبان بروایت حضرت جبیر بن معجم (رض) ، اور طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

10991

10991 والله لا أزال بين ظهرانيهم ينازعوني ردائي ويصيبني غبارهم حتى يكون الله يريحني منهم.(ابن سعد عن عكرمة) قال : قال العباس : يا رسول الله لو اتخذت عرشا فان الناس قد آذوك قال : فذكره.
10987 ۔۔۔ حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ اپنے لیے تخت بنالیں تو (کیسا ہوگا ؟ ) کیونکہ لوگ آپ کو تکلیف دیتے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان کے درمیان موجود رہوں گا، میری چادر مجھ سے چھینی جاتی رہے گی اور ان کا غبار مجھ تک پہنچتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان سے راحت دے “۔ (ابن سعد بروایت عکرمہ)

10992

10992 لا أزال بين أظهرهم يطؤن عقبي وينازعوني ردائي ويصيبني غبارهم حتى يكون الله هو الذي يريحني منهم.(طب عن العباس بن عبد المطلب).
10988 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں ان کے درمیان موجود رہوں گا وہ میرے نقش قدم کو روندتے رہیں گے اور مجھ سے میری چادر چھینتے رہیں گے اور ان کا غبار مجھ تک پہنچتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ ہی وہ ہوگا جو مجھے ان سے راحت دے گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت عباس (رض) بن عبدالمطلب)

10993

10993 لا أزال بينكم تطؤن عقبي حتى يكون الله يرفعني ، لا ترفعوني فوق حقي ، فان الله اتخذني عبدا قبل أن يتخذني نبيا.(ابن عساكر عن علي بن الحسين) وقال مرسل حسن ن الاسناد.
10989 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں تمہارے درمیان رہوں گا اور تم لوگ میرے نقش قدم پر چلتے رہو گے یہاں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اٹھائیں گے، مجھے میرے حق سے زیادہ بلند نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایا ہے “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت علی بن الحسین، زین العابدین (رض) ، وقال رسل حسن الاسناد)

10994

10994 إن هذه من غنائمكم ، وإنه ليس يحل لي منها إلا نصيبي معكم ، إلا الخمس ، والخمس مردود عليكم ، فادوا الخيط والمخيط أو أكبر من ذلك أو أصغر ، ولا تغلوا ، فان الغلول نار وعار على أصحابه في الدنيا والآخرة ، وجاهدوا الناس في الله تعالى القريب والبعيد ، ولا تبالوا في الله لومة لائم ، وأقيموا حدود الله في الحضر والسفر ، وجاهدوا في سبيل الله تعالى فان الجهاد بابا من أبواب لجنة عظيم ، وإنه ينجي الله به من الهم والم.(حم والشاشي طب ك ص عن عبادة بن الصامت).
10990 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ تمہاری غنیمتوں میں سے ہے ، اور اس میں سے میرے لیے کچھ بھی حلال نہیں علاوہ میرے حصے کے جو تمہارے ساتھ ہے علاوہ خمس کے اور خمس تم پر لوٹایا جائے سودھاگہ اور سوئی یا اس سے بڑی کوئی چیز یا چھوٹی، ادا کردو اور غلول نہ کرو، کیونکہ غلول (خیانت) جہنم ہے اور دنیا اور آخرت میں غلول کرنے والوں کے لیے عار اور شرمندگی ہے، اور اللہ کی رضا کے لیے دور نزدیک لوگوں سے جہاد کرو اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرو، سفر میں ہو یا حضر میں اللہ کی حدود قائم کرو، اللہ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ جنت کے دروازوں میں سے ایک عظیم دروازہ ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ غم اور پریشانیوں سے نجات عطا فرماتے ہیں “۔ (مسند احمد، شاشی، طبرانی مستدرک حاکم سعید بن منصور بروایت حضرت عبادۃ بن صامت (رض))

10995

10995 إنه لا يحل لي من غنائمكم ما يزن هذه بعد الخمس وهو مردود فيكم.(الباوردي عن عبادة بن الصامت وبأى الدرداء والحارث بن معاوية الكندي) (طب عن عمرو بن عبسة).
فرمایا میرے لیے خمس لینے کے بعد غنائم میں سے اس وزن کے برابر بھی جائز نہیں، خمس کے لیے علاوہ تمام چیزیں تمہاری طرف لوٹادی جائیں گی، الباوردی عن عبادہ بن صامت)

10996

10996 إنه لا يحل لي مما أفاء الله عليكم مثل هذه الشعرات إلا الخمس ثم هو مردود عليكم.(عبد الرزاق عن الحسن) مرسال.
10992 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک میرے لیے اس مال میں سے کچھ حلال نہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے ان بالوں کی طرح علاوہ خمس کے پھر وہ تم میں لوٹا دیا جائے گا “۔ (مصنف عبد الرزاق حضرت حسن (رض) مرسلا)

10997

10997 ألا إن هذا من غنائمكم ، وليس لي منه إلا الخمس والخمس مردود عليكم ، فأدوا الخيط والمخيط وأصغر من ذلك وأكبر ، فان الغلول عار على أهله في الدنيا والآخرة ، جاهدوا الناس في الله القريب والبعيد ،ولا تبالوا في الله لومة لائم ، وأقيموا حدود الله في الحضر والسفر ، وعليكم بالجهاد فانه بابا من أبواب الجنة عظيم ينجي الله به من الغم والهم.(ق وابن عساكر عن عبادة بن الصامت).
10993 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سنو ! بیشک یہ تمہارے مال غنیمت میں سے ہے اور میرے لیے اس میں سے صرف خمس حلال ہے اور خمس تم پر لوٹایا جائے گا چنانچہ ایک دھاگہ، اور سوئی اور اس سے چھوٹی کوئی چیز اور اس سے بڑی کوئی چیز (ہو تو) ادا کردو، کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، خیانت کرنے والے کے لیے دنیا اور آخرت میں عار اور شرمندگی کا باعث ہوگی، اللہ کی رضا کے لیے دورونزدیک لوگوں سے جہاد کرو اور اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا مت کرو، اور سفر میں ہو یا حضر میں اللہ کی حدود قائم کرو اور تم پر جہاد لازم ہے کیونکہ جہاد جنت کے درازوں میں سے ایک عظیم دروازہ ہے، اس سے اللہ تعالیٰ غم اور رنج سے نجات عطا فرماتے ہیں “۔ (متفق علیہ، ابن عساکر بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

10998

10998 أيما قرية افتتحها الله ورسوله فهي لله ورسوله ، وأيما قرية افتتحا المسلمون عنوة فخمسها لله ولرسوله ، وبقيتها لمن قاتل عليها.(ق عن أبي هريرة).
10994 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو علاقہ بھی اللہ اور اس کے رسول فتح کریں وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور جس علاقے کو مسلمان جنگ کرکے فتح کریں تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور باقی سارا ان لوگوں کا ہے جنہوں نے جنگ کی ہے “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

10999

10999 أيها الناس لا يحل لي ولا لاحد من مغانم المسلمين ما يزن هذه الوبرة بعد الذي فرض الله لي.(طب عن أبن ابن عمرو بن خارجة).
10995 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! نہ میرے لیے اور نہ کسی اور کے لیے مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے کچھ حلال ہے اس اونٹ کی پشت کے بال برابر بھی کوئی چیز حلال نہیں علاوہ اس کے جو اللہ نے میرے لیے فرض کیا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمروبن خارجہ (رض))

11000

11000 ما أنا بأحق بهذه الوبرة من رجل من المسلمين.(حم عن علي).
10996 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں مسلمانوں میں سے کسی شخص سے زیادہ اس بال کا حق دار نہیں ہوں۔ (مسند احمد بروایت حضرت علی (رض))

11001

11001 يا أيها الناس لا يحل لي مما أفاء الله عليكم إلا الخمس ، والخمس مردود عليكم ، فأدوا الخياط والمخيط ، وإياكم والغلول ، فانه عار على أهله يوم القيامت ، وعليكم بالجهاد في سبيل الله ، فانه باب من أبواب الجنة يذهب الله به الغم والهم.(طب ك عن عبادة الصامت).
10997 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بخشا ہے اس میں سے میرے لیے خمس کے علاوہ کچھ حلال نہیں، اور خمس تم پر لوٹایا جائے گا، لہٰذا دھاگہ اور سوئی (سب) ادا کردو، اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، خیانت کرنے والے کے لیے قیامت کے دن عار اور شرمندگی ہے اور تم پر اللہ کی رضا کی خاطر جہاد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک عظیم دروازہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے رنج وغم دور کردیتے ہیں “۔ (طبرانی، مستدرک حاکم بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

11002

11002 ما لي من هذا المال إلا مثل ما لاحدكم إلا الخمس وهو مردود عليكم ، فادوا الخياط والمخيط فما فوقهما ، وإياكم والغلول ، فانه عار ونار وشنار على صاحبه يوم القيامة.(حم طب عن العرباض).
10998 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس مال میں میرا کوئی حصہ نہیں سوائے تم میں سے کسی ایک شخص کے حصے کی طرح علاوہ خمس کے اور وہ تم پر لوٹایا جائے گا، لہٰذا ایک دھاگہ اور سوئی یا ان سے بڑی کوئی چیز بھی ادا کردو، اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو کیونکہ وہ خیانت کرنے والے کے لیے قیامت کے دن نہ صرف عار اور شرمندگی ہوگی بلکہ آگ اور بدترین عیب بھی ہوگا “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت عرباض (رض))

11003

11003 ليس على مسلم جزية.(حم د عن ابن عباس).
10999 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمان پر جزیہ نہیں ہے “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11004

11004 لا تصلح قبلتان في أرض واحدة ، وليس على المسلمين جزية.(حم ت عن ابن عباس).
11000 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک سرزمین پر دوقبلے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی مسلمان پر جزیہ ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11005

11005 لا تكون قبلتان في بلدة واحدة.(د عن ابن عباس)
11001 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک شہر میں دو قبلے نہ ہوں گے “۔ (سنن ابی داؤد بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11006

11006 من أخذ أرضا بجزيتها فقد استقال هجرته ، ومن نزع صغار كافر من عنقه فجعله في عنقه فقد ولى الاسلام ظهره.(د عن أبي الدرداء)
11002 ۔۔ فرمایا کہ ” جس نے زمین کا کوئی حصہ اس کے جزیہ کے بدلے لیا تو اس نے اپنی ہجرت کو ختم کردیا اور جس نے کافر کے گلے سے اتار کر اپنے گلے میں ڈالی تو اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا “ (سنن ابی داؤد، بروایت حضرت ابوالدرداء (رض)

11007

11007 المجوس طائفة من أهل الكتاب فاحملوهم على ما تحملون أهل الكتاب. (أبو نعيم في المعرفة عن عبد الرحمن بن عوف).
11003 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجوسی بھی اہل کتاب ہی کا ایک گروہ ہے لہٰذا ان کو بھی اسی مقام پر رکھو جس پر اہل کتاب کو رکھتے ہو “۔ (ابونعیم فی المعرفہ بروایت حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض))

11008

11008 اغزوا بسم الله ، وفي سبيل الله ، وقاتلوا من كفر بالله اغزوا ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ، ولا تقتلوا وليدا ، وإذ لقيت عدوك من المشركين فادعهم إلى ثلاث خصال ، فايتهن ما أجابوك فاقبل منهم ، وكف عنهم ، ثم ادعهم إلى الاسلام فان أجابوك فاقبل منهم ، وكف عنهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين وأخبرهم أنهم إن فعلوا ذلك فلهم ما للمهاجرين ، وعليهم ما على المهاجرين ، فان أبوا أن يتحولوا منها ، فأخبرهم انهم يكونون كأعراب المسلمين يجري عليه حكم الله الذي يحري على المؤمنين ، ولا يكون لهم في الغنيمة والفئ شئ ، إلا أن يجاهدوا مع المسلمين ، فان أبوا فسلهم الجزية فان أجابوك فاقبل منهم ، وكف عنهم ، فان هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم ، فإذا حاصرت أهل حصن وأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه ، ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة أصحابك ، فانكم إن تخفروا ذمتكم وذمة أصحابكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وذمة رسوله ، وإذاحاصرت أهل حصن فارادوك أن تنزلهم على حكم الله فلا تنزلهم على حكم الله ولكن أنزلهم على حكمك ، فانك لا تدري أتصيب حكم الله فيهم أم لا. (حم م عن بريدة).المتفرقة
11004 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور قتال کرو اس کے ساتھ جو اللہ کا انکار کرے، غزوہ (جنگ) کرو، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو نہ ہی غداری کرو نہ ہی ڈھاٹا باندھو، نومولود بچے کو قتل مت کرو، اور جب تو مشرکین میں سے اپنے دشمن سے ملے تو اس کو تین باتوں کی دعوت دے، ان میں سے جس کا بھی وہ جواب دے قبول کرلے اور ان سے ہاتھ روک لے، پھر ان کو اسلام کی دعوت دے سو اگر وہ جواب دیں تو قبول کرلے تو ان سے ہاتھ روک لے پھر ان کو ان کے علاقوں اور گھروں سے مہاجرین کے علاقے کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دے اور ان کو بتادے کہ اگر انھوں نے اس پر عمل کیا تو اس پر عمل کیا تو ان کے لیے بھی وہی (سہولیات) ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان پر وہی (ذمہ داریاں) ہیں جو مہاجرین پر ہیں، سو اگر وہ اپنے علاقوں سے منتقل ہونے سے انکار کردیں تو ان کو بتادے کہ (اس صورت میں) وہ عام عرب مسلمانوں کی طرح ہوں گے ان پر بھی اللہ کا حکم اس طرح جاری ہوگا جس طرح (عام) مومنین پر جاری ہوتا ہے اور ان کے لیے مال غنیمت اور مال فے میں سے کوئی حصہ نہ ہوگا، علاوہ اس (صورت) کے کہ وہ (بھی) مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، اور اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیہ مانگا گروہ جواب دیں تو قبول کرلے اور ان سے ہاتھ روک لے اور اگر وہ اس سے بھی انکار کردیں تو اللہ سے مدد طلب کر اور ان سے قتل کر، اور جب تو کسی قلعے والوں کا محاصرہ کرلے اور وہ تجھ سے چاہیں کہ تو ان کو اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری پر ڈال دے تو ان کو ہرگز اللہ کے اور اس کے نبی کی ذمہ داری پر نہ ڈال البتہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ذمہ داری پر ان کو امان دے دے کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے نام پر کئے گئے عہد کی عہد شکنی کرو گے تو یہ اس سے ہلکا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کئے گئے عہد کی عہد شن کی کرو، اور جب تو کسی قلعے والوں کا محاصرہ کرے اور وہ تجھ سے چاہیں کہ تو انھیں اللہ کے حکم پر امان دے دے تو ان کو اللہ کے حکم پر امان نہ دے بلکہ اپنے حکم پر امان دے کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان کے معاملے میں اللہ کے حکم کا پاس رکھ سکے گا یا نہیں “۔ (مسند احمد، مسلم، بخاری، نسائی، ابوداؤد، بروایت حضرت بریدۃ (رض))

11009

11009 اقتلوا شيوخ المشركين ، واستبقوا شرخهم.(حم د ت عن سمرة)
11005 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مشرکوں کے بوڑھوں کو قتل کرو اور ان میں سے بھی پہلے ان کو مارو جو نسبتاً کم عمر ہیں “۔ (مسند احمد ابوداؤد، ترمذی بروایت حضرت سمرۃ (رض))

11010

11010 إذا لقيتم عاشرا فاقتلوه (2) (حم عن مالك بن عتاهية).
11006 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم دسویں سے ملو تو اسے قتل کردو “۔ (مسند احمد بروایت حضرت مالک بن عتاھیۃ)

11011

11011 اذهبوا بهذا الماء ، فإذا قدمتم بلدكم فاكسروا بيعتكم وانضحوا مكانها من هذا الماء ، واتخذوها مسجدا.(حم حب عن طلق ابن علي).
11007 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ پانے لے جاؤ، اور جب تم اپنے شہر آؤ تو اپنے گرجے توڑ دو اور ان کی جگہ اس پانی سے اچھی طرح سے دھولو اور پھر اس جگہ کو مسجد بنالو “۔ (مسند احمد، ابن حبان، بروایت حضرت طلق بن علی (رض))

11012

11012 لا تدع تمثالا إلا طمسته ، ولا قبرا مشرفا إلا سويته (م ن عن علي).
11008 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کسی صورت (تصویر) کو مٹائے بغیر مت چھوڑتا اور نہ کسی بلند (اٹھی ہوئی) قبر کو برابر کئے بغیر چھوڑنا “۔ (مسلم، نسائی بروایت حضرت علی (رض))

11013

11013 انطلقوا بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله ، لا تقتلوا شيخا فانيا ، ولا طفلا صغيرا ولا امرأة ولا تغلوا وضموا غنائمكم وأصلحوا وأحسنوا إن الله يحب المحسنين. (د عن أنس).
11009 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چلو اللہ اور اس کے نام کے ساتھ اور اس کے رسول کی ملت پر، شیخ فانی کو قتل نہ کرنا، نہ چھوٹے بڑے بچے کو اور نہ کسی عورت کو، اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور اپنے مال غنیمت کو ملالو اور اصلاح کرو اور اچھا سلوک کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اچھا سلوک کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “۔ (سنن ابی داؤد بروایت حضرت انس (رض))

11014

11014 ما بال أقوام جاوز بهم القتل اليوم حتى قتلوا الذرية ، ألا إن خياركم أبناء المشركين ، ألا لا تقتلوا ذرية ، ألا لا تقتلوا ذرية ، كل نسمة تولد على الفطرة فما تزال عليها حتى يعرب عنها لسانها فأبواها يهودانها أو ينصرانها.(حم ن حب ك عن الاسود بن سريع).
11010 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا ہوا ان قوموں کو کہ قتال ان کا حد سے آگے بڑھ گیا یہاں تک کہ ننھے بچوں کو قتل کردیا۔ سنو ! تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو مشرکوں کے بیٹے ہیں، سنو ! اولادوں کو قتل نہ کرو، سنو ! اولادوں کو قتل نہ کرو، ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اسی فطرت (فطری طریقے) پر ہی رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے اس کی زبان کا توتلاپن ختم کردیا جائے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں (مسند احمد، نسائی، ابن حبان، مستدرک حاکم بروایت اسود بن سریع (رض)

11015

11015 اخرجوا اليهود والنصارى من جزيرة العرب.(م عن عمر).
11011 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرۃ عرب سے نکال دو “۔ (مسلم بروایت حضرت عمر (رض))

11016

11016 أخرجوا يهود الحجاز وأهل نجران من جزيرة العرب اعلموا أن شر الناس الذيت اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد. (حم ع حل والضياء عن أبي عبيدة بن الجراح).
11012 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہودیوں کو حجاز سے نکال دو اور اہل نجران کو جزیرۃ عرب سے نکال دو اور جان لو کہ بدترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا “۔ (مسند احمد، مسند ابی یعلی، حلیہ ابی نعیم، ضیاء بروایت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض))

11017

11017 أخرجوا المشركين من جزيرة العرب وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم.(خ د عن ابن عباس).
فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو اور ٹھکانا دو وفد کو جیسا کہ میں ان کو ٹھکانا دیتا ہوں۔ خرائطی سن ابوداؤد

11018

11018 إن الهجرة لا تنقطع ما دام الجهاد.(حم عن جنادة).
11013 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہجرت اس وقت منقطع نہ ہوگی جب تک جہاد جاری رہے گا “ (مسند احمد بروایت حضرت جنادۃ (رض)

11019

11019 حليف القوم منهم ، وابن أخت القوم منهم.(طب عن عمرو بن عوف)
11015 ۔۔۔ فرمایا کہ ” قوم کا حلیف (ساتھی) انہی میں سے ہے اور کسی قوم کی لڑکی کا بیٹا بھی انہی (اسی قوم) میں سے ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمروبن عوف (رض))

11020

11020 من أسلم على شئ فهو له.(عد هق عن أبي هريرة).
جو شخص کسی چیز پر مسلمان ہوا وہ اس کے لیے ہے۔ بیہقی عن ابوہریرہ

11021

11021 من أسلم من فارس فهو قرشي (ابن النجار عن ابن عمر)
11017 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اہل فارس میں سے جو مسلمان ہوگیا تو وہ قرشی ہے “۔ (ابن النجار بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11022

11022 من أقام البينة على أسير فله سلبه (هق عن أبي قتادة).
11018 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے کسی قیدی کو گرفتار کرنے پر گواہی قائم کردی تو اس قیدی سے چھینا ہوا مال گرفتار کرنے والے کا ہوگا “۔ بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابوقتادۃ (رض))

11023

11023 من قتل كافرا فله سلبه.(ق د ت عن أبي قتادة) (حم د عن أنس) (حم ه عن سمرة).
11019 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا اور اس مقتول کافر کا مال قتل کرنے والے کا ہوگا “۔ (متفق علیہ، ابو داؤد، ترمذی بروایت حضرت ابو قتادہ (رض) اور مسند احمد، ابوداؤد ، بروایت حضرت انس (رض) اور مسند احمد، ابن ماجہ بروایت حضرت سمرۃ (رض))

11024

11024 لا حمى إلا لله ولرسوله.(حم خ د عن الصعب ابن جثامة).
11020 ۔۔۔ فرمایا کہ ” حمیٰ اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کی (نہیں) ۔ (مسند احمد بخاری، ابو دوؤد، عن صعب بن جثامہ)
حمیٰ دراصل زمین کا وہ حصہ ہے جو لوگ اپنی زمینوں کے آس پاس کے حصے کو روک کر اپنی جائیداد کا ایک طرح سے حصہ قرار دے دیتے تھے لیکن اسے حمیٰ کہتے تھے گویا ان کی جائیداد کا بفرزون ہوتا تھا اسلام نے اس ناجائز قبضے کا سد باب فرمایا کہ اس قسم کی زمین اللہ اور اس کے رسولوں کی ہیں اور کسی کی نہیں۔

11025

11025 لا حمى في الاسلام ولا مناجشة.(طب عن عصمة بن مالك).
11021 ۔۔۔ حمیٰ کا (تصور) اسلام میں نہیں اور نہ ہی مناجشہ ہے۔ (طبرانی کبیر عن عصمہ بن مالک)
فائدہ :۔۔۔ مناجشہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز خریدنے آئے تو دوسرا محض دام بڑھاتا رہے تاکہ اصل خریدنے والا زیادہ داموں پر خریدنے پر مجبور ہوجائے، جیسا کہ مروجہ نیلامی میں ہوتا ہے۔

11026

11026 لا حمى في الاراك.(د حب عن أبيض بن حمال).
پیلو کے درخت میں حمیٰ نہیں ہے۔

11027

11027 أسلم ثم قاتل.(خ عن البراء).
11023 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پہلے اسلام لاؤ پھر قتال کرو “۔ (بخاری بروایت حضرت براء (رض))

11028

11028 من أقام مع المشركين فقد برئت منه الذمة.(طب هق عن جرير).
11024 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے مشرکوں کے ساتھ رہائش اختیار کی تو اس کی ذمہ داری ختم ہوگئی “۔ (طبرانی، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت جریر (رض))

11029

11029 من جامع المشرك وسكن معه فانه مثله.(د عن سمرة).
11025 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے مشرک کی ہم نشینی اختیار کی اور اس کے ساتھ رہا تو وہ اسی کی طرح ہے “۔ (سنن ابی داؤد، بروایت حضرت سمرۃ (رض))

11030

11030 برئت الذمة ممن أقام مع المشركين في ديارهم.(طب عن جرير).
11026 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اس کی ذمہ داری ختم ہوگئی جس نے مشرکوں کے ساتھ ان کے علاقوں میں رہائش اختیار کی “۔ (طبرانی بروایت حضرت جریر (رض))

11031

11031 أنا برئ من كل مسلم مقيم بين أظهر المشركين ، قالوا : يا رسول الله ولم قال : لا ترايا نارهما.(د ت والضياء عن جرير).
11027 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ کیوں ؟ فرمایا، ان دونوں کی آگ ایک ساتھ نہ ہو “۔ (ابوداؤد، ترمذی، ضیاء عن جریر (رض))

11032

11032 لينبعث من كل رجلين أحدهما والاجر بينهما.(حم م عن أبي سعيد).
11028 فرمایا کہ ” ہر دو میں سے ایک شخص کو بھیج دو اور اجر دونوں کے درمیان تقسیم ہو (مسند احمد مسلم عن ابی سعید (رض)

11033

11033 لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل الفلاح.(د م عن عمران بن حصين).
11029 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تو نے وہ بات کی اس حال میں کہ تو اپنے معاملے کا مالک ہے تو تو مکمل طور پر کامیاب ہوگیا “۔ (ابوداؤد مسلم بروایت حضرت عمر بن حصین (رض))

11034

11034 إن الله تعالى إذا جعل لقوم عمادا أعانهم بالنصرة.(ابن قانع عن صفوان بن صفوان بن أسيد).
11030 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے لیے عماد بنادیتے ہیں تو ان کی اعانت ومدد فرماتے ہیں “۔ (ابن قانع بروایت حضرت صفوان بن اسید (رض))

11035

11035 بسم الله الرحمن الرحيم من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم ، سلام على من ابتع الهدى أما بعد فاني ادعوك بدعاية الاسلام ، أسلم تسلم يؤتك الله أجرك مرتين ، فان توليت فانما عليك اثم الاريسيين ، ويا أهل الكتاب تعاليوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ، ولا نشرك به شيئا ، ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فان تولوا فقولوا : اشهدوا بأنا مسلمون.(حم ق ن عن أبي سفيان).
11031 ۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے روم کے سب سے بڑے، ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جس نے حق کی اتباع کی، امابعد، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کرلو محفوظ ہوجاؤگے، اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارا اجر دو مرتبہ عطا فرمائیں، لہٰذا اگر تم نے منہ موڑ لیا تو اریسین کا گناہ تم پر ہوگا، اور اے اہل کتاب آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں گے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں گے اور نہ ہی ایک دوسرے میں سے کسی کو ایک دوسرے کا رب بنائیں گے علاوہ اللہ کے، سو اگر تم منہ موڑتے ہو تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں (مسند احمد، متفق علیہ نسائی بروایت حضرت ابو سفیان (رض)

11036

11036 استوصوا بالاسارى خيرا.(طب عن أبي عزيز).
11032 ۔۔۔ فرمایا کہ ” قیدیوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کرو “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو عزیز (رض))

11037

11037 أتدري لم بعثت إليك ؟ لا تصيبن شيئا بغير إذني ، فانه غلول ، ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة لهذا دعوتك فامض لعملك.(ت حسن غريب طب عن معاذ).
11033 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری طرف کیوں بھیجا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ تو میری اجازت کے بغیر کچھ اٹھالے، کیونکہ یہ خیانت ہے اور جس نے خیانت کی اس کو قیامت کے دن اسی چیز کے ساتھ لایا جائے گا میں نے تمہیں اسی لیے بلایا تھا اب اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ۔ (ترمذی حسن غریب، طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

11038

11038 أما سمعت بلالا ينادي ثلاثا فما منعك أن تجئ به ؟ كن أنت الذي يجئ به يوم القيامة فلن أقبله منك.(طب عن عمرو).
11034 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا تو نے بلال کو تین مرتبہ پکارتے نہیں سنا ؟ تو پھر کس چیز نے تجھے اس کے ساتھ آنے سے روکے رکھا،
تو وہی ہوجا جسے قیامت کے دن لایا جائے گا سو میں ہرگز تجھ سے قبول نہ کروں گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمر (رض))

11039

11039 إني لن أقبله منك حتى تكون أنت الذي توافي به يوم القيامة.(حم عن ابن عمرو).
11035 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک میں اس کو تجھ سے قیامت کے دن ہرگز قبول نہ کروں گا جب تک تو ہی وہ نہ ہو جو قیامت کے دن پورا پورا ادا کردے گا “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11040

11040 قد غللته.(طب عن ابن مسعود).
11036 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تحقیق تو نے مال غنیمت میں خیانت کی “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

11041

11041 إن هذا الفي لا يحل منه خيط ولا مخيط لآخذ ولا معط.(هب عن ثوبان).
11037 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ جو مال ہے اس میں سے کچھ لینے والے کے لیے حلال ہے نہ دینے والے کے لیے نہ دھاگہ نہ سوئی “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ثوبان (رض))

11042

11042 إن نبيا من الانبياء قاتل أهل مدينة حتى إذا كاد أن يفتحها خشي أن تغرب الشمس ، فقال لها : أيتها الشمس إنك مأمورة ، وإنا مأمورون بحرمتي عليك إلا ركدت ساعة من النهار ، فحبسها الله حتى افتتح المدينة ، وكانوا إذا أصابوا الغنائم قربوها من القربان ، فجاءتها النار فاكلتها ، فلما أصابوا وضعوا القربان ، فلم تجئ النار تأكله ، فقالوا يا نبي الله ما لنا لا يقبل قرباننا ؟ قال : فيكم غلول ، قالوا : وكيف لنا أن نعلم من عنده الغلول وهم اثنا عشر سبطا ؟ قال : يبايعني رأس كل سبط منكم ، فببايعه رأس كل سبط ، فلزقت كف النبي صلى الله عليه وسلم بكف رجل منهم ، فقال له : عندك الغلول ، قال : كيف لي أن أعلم أي سبط هو ؟ قال : تدعو سبطك فنبايعهم رجلا رجلا ، ففعل ، فلزقت كفه بكف رجل منهم ، قال : عندك الغلول ، قال : نعم عندي الغلول ، قال : وما هو ؟ قال : رأس ثور من ذهب أعجبني فغللته ، فجاء به فوضعه في الغنائم ، فجاءت النار فأكلته. (عبد الرزاق في المصنف ك عن أبي هريرة).
11038 ۔۔۔ فرمایا کہ ” انبیاء کرام میں سے ایک نبی نے ایک شہر والوں سے قتال کیا، جب شہر فتح ہونے والا تھا تو انھیں ڈر ہوا کہ کہیں سورج غروب نہ ہوجائے، تو انھوں نے سورج سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے سورج تو بھی مامور ہے اور ہم بھی مامور ہیں تجھے میری عزت کی قسم دن میں کچھ دیر اور ٹھہرارہ، تو اللہ تعالیٰ نے سورج کو اسی جگہ روک دیا یہاں تک کہ شہر فتح ہوگیا اور وہ لوگ جب مال غنیمت حاصل کیا کرتے تھے تو اس کو ایک جگہ جمع کردیا کرتے تھے تو آگ آتی اور اس کو جلا دیتی، چنانچہ اس بار بھی انھوں نے مال غنیمت جمع کرکے رکھ دیا لیکن آگ اس مال کو جلانے نہ آئی، تو ان لوگوں نے نبی سے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ! کیا ہوا کہ ہماری قربانی قبول نہیں ہوئی، انھوں نے فرمایا کہ تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، عرض کیا کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم میں سے کوئی خائن ہے، وہ بارہ قبیلے تھے تو اس نبی نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار میرے ہاتھ پر بیعت کرے گا، چنانچہ تمام قبیلوں کے سرداروں نے بیعت کی تو اس نبی کے ہاتھ میں ایک سردار کا ہاتھ پھسل گیا، تو انھوں نے اس سے فرمایا کہ تیرے پاس خیانت ہے، اس نے عرض کیا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں کیسے معلوم ہوگا کہ قبیلے میں سے وہ کون ہے ؟ فرمایا کہ تو اپنے قبیلے کو بلا ہم تمام لوگوں کو فرداً فرداً بیعت کریں گے، ایسا ہی کیا تو ان میں سے ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں پھسل گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تیرے پاس خیانت ہے، اس نے کہا جی ہاں میرے پاس خیانت ہے، دریافت فرمایا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ کہا کہ ایک بیل کا سر ہے جو سونے کا بنا ہوا ہے مجھے اچھا لگا تو میں نے لے لیا ؟ پھر وہ اسے لے آیا اور مال غنیمت میں شامل کردیا، تو آگ آئی اور اس مال کو جلادیا “۔ (مصنف عبدالرزاق، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11043

11043 من أخذ بعيرا بغير حقه جاء به يوم القيامة على عنقه له رغاء ، ومن أخذ بقرة بغير حقها جاء بها يوم القيامة على عنقه لها خوار ، ومن أخذ شاة بغير حقها جاء بها يوم القيامة على عنقه لها يعار.(ابن جرير عن أبي هريرة).
11039 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے ناحق کسی کا اونٹ لیا تو وہ قیامت کے دن آئے گا اور اونٹ اس کی گردن پر سوار ہوگا اور آواز نکالتا ہوگا، اور اگر کسی نے ناحق کسی کی گائے لی تھی تو وہ قیامت کے دن آئے گا اور وہ گائے اس گردن پر سوار ہوگی اور آواز نکالتی ہوگی اور اگر کسی ناحق کسی کی بکری لی ہوگی تو اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور بکر اس کی گردن پر سوار ہوگی اور آواز نکال رہی ہوگی “۔ (ابن جریر بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11044

11044 إذا لم تغل أمتي لم يقل لها عدو أبدا.(الديلمي عن أبي ذر).
11040 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب میرے امتی مال غنیمت میں خیانت نہ کریں گے ان کا کوئی دشمن نہ ہوگا “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابوذر (رض))

11045

11045 لو لم تغل أمتي لم يقم لها عدو أبدا.(الديلمي عن أبي ذر).
11041 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر میرے امتی مال غنیمت میں خیانت نہ کرے تو اس کا کبھی کوئی دشمن نہ ہوگا “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابوذر (رض))

11046

11046 إياك يا سعد أن تجئ يوم القيامة ببعير تحمله له رغاء.(ابن عساكر عن ابن عمر) أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث سعد بن عبادة مصدقا وقال : فذكره.
11042 ۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن عبادۃ (رض) کو صدقہ وصول کرنے بھیجا تو فرمایا کہ اے سعد ! اس سے بچو کہ تم قیامت کے دن اس حال میں آؤ کہ اونٹ تمہاری گردن پر سوار ہو اور آواز نکال رہا ہو “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11047

11047 إياكم والغلول ، الرجل يغشى المرأة قبل أن تقسم ، ثم يردها إلى المقسم.(كر في تاريخه والحسن بن سفيان وابن منده وابن السكن وأبو نعيم في المعرفة عن ثابت بن رفيع الانصاري).
11043 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تمہارے ذمہ لازم ہے کہ تم مال غنیمت میں خیانت سے بچو، کوئی شخص کسی عورت پر قبضہ کرلیتا ہے مال تقسیم ہونے سے پہلے اور پھر تقسیم کرنے والے کو واپس کردیتا ہے “۔ (حسن بن سفیان اور ابن مندہ اور ابن السکن اور ابو نعیم فی المعرفہ بروایت حضرت ثابت بن رفیع الانصاری (رض))

11048

11048 إياكم والغلول ، الرجل ينكح المرأة ، أو يركب الدابة قبل أن تخمس. (خ في التاريخ والبغوي والباوردي وابن منده وابن السكن وابن قانع عن ثابت بن رفيع ويقال ابن رويفع الانصاري).
11044 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ مال غنیمت میں خیانت سے بچو، ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے یا خمس نکالنے سے پہلے کسی جانور پر سوار ہوجاتا ہے “۔ (بخاری فی التاریخ اور بغوی اور باوردی اور ابن مندہ اور ابن السکن اور ابن قانع بروایت حضرت ثابت بن رفیع (رض) )
اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ روایت ابن رویفع الانصاری (رض) سے ہے۔

11049

11049 إياي والغلول ، الرجل ينكح امرأة قبل أن يقسم الفئ ، ثم يردها إلى المقسم ويلبس الثوب حتى يخلق ثم يرده إلى المقسم.(طب عن رويفع بن ثابت).
11045 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مال غنیمت میں خیانت سے بچو، کوئی شخص مال فے تقسیم ہونے سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے اور پھر اسے تقسیم کار کے حوالے کردیتا ہے اور پھر ایک کپڑا پہن لیتا ہے اور پرانا کردیتا ہے اور پھر تقسیم کار کو واپس کردیتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت رویفع بن ثابت (رض))

11050

11050 إياي وربا الغلول أن يركب الرجل الدابة حتى تحسر قبل أن تؤدي إلى المغنم ، أو يلبس الثوب حتى يخلق قبل أن يؤدي إلى المغنم.(ش عن الاوزاعي عن بعض الصحابة).
11046 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ایک شخص ایک چوپائے پر سوار ہوجاتا ہے یہاں تک کہ واپس کرنے سے پہلے اس جانور کو چلاچلا کر تھکا دیتا ہے یا کوئی کپڑا پہن لیتا ہے اور واپس کرنے سے پہلے پرانا کردیتا ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ بروایت اوزاعن بعض الصحابہ)

11051

11051 أيها الناس من كان عنده شئ فليردده ولا يقل : فضوح الدنيا ، ألا وإن فضوح الدنيا أيسر من فضوح الآخرة.(طب عن الفضل بن عباس).
11047 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! اگر کسی کے پاس کوئی چیز ہو تو واپس کردے اور یہ نہ کہے کہ دنیا کی شرمندگی، سنو ! دنیا کی شرمندگی آخرت کی شرمندگی سے زیادہ آسان ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت فضل بن عباس (رض))

11052

11052 من وجدتموه غل فاضربوه وأحرقوا متاعه.(حم والعدني والدارمي حب ع والشاشي ك وتعقب ص وتعب عن سالم بن عبد الله بن عمر عن جده).
11048 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تم کسی کو پاؤ کہ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے تو اس کی پٹائی کرو اور اس کا سامان جلادو (مسند احمد عدنی، دارمی، ابن حبان، ابی یعلی، شاشی، مستدرک حاکم، سعید بن منصور بروایت سالم بن عبداللہ بن عرض جدہ (رض))

11053

11053 لا إسلال ولا غلول ، ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة.(طب عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده).
11049 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو اور جس نے خیانت کی اس کو قیمت کے دن (اس چیز کے ساتھ لایا جائے گا) ۔ (طبرانی بروایت کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ (رض))

11054

11054 لا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل شاة لها ثغاء ينادي يا محمد يا محمد فأقول لا أملك لك من الله شيئا قد بلغتك ولا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل جملا له رغاء يقولم يا محمد يا محمد فأقول لا أملك لك من الله شيئا قد بلغتك ، ولا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل فرسا له حمحمة ينادي يا محمد يا محمد فأقول لا أملك لك من الله شيئا قد بلغتك ولا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل قشعا من آدم ينادي يا محمد يا محمد فأقول لا أملك لك من الله شيئا قد بلغتك.(ابن جرير عن ابن عباس).
11050 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں ہرگز تم میں سے کسی ایسے شخص کو نہ پہچانوں گا کہ جو قیامت کے دن آئے گا اور بکری اس کے کندھوں پر سوار ہوگی اور آواز نکال رہی ہوگی اور وہ شخص پکار رہا ہوگا یا محمد یامحمد، تو میں اس سے کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تیرے لیے بالکل کچھ نہیں کروا سکتا میں نے تو تجھے بتادیا تھا اور میں ہرگز تم میں سے کسی ایسے شخص کو نہ پہچانوں گا جو قیامت کے دن اونٹ اٹھائے ہوئے آئے گا اور وہ آواز نکال رہا ہوگا اور وہ شخص پکار رہا ہوگا یا محمد یامحمد تو میں اس سے کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تیرے لیے بالکل کچھ نہیں کروسکتا میں نے تجھے بتادیا تھا، اور نہ میں تم میں سے ایسے کسی شخص کو پہچانوں گا جو قیامت کے دن گھوڑا اٹھائے ہوئے آئے گا وہ گھوڑا آواز نکال رہا ہوگا اور وہ شخص پکار رہا ہوگا یامحمد یامحمد تو میں اس سے کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تیرے لیے بالکل کچھ نہیں کرواسکتا میں نے تو تجھے بتادیا تھا، اور میں ہرگز اس شخص کو بھی نہ پہچانوں گا جو قیامت کے دن چمڑے کا پرانا ٹکڑا اٹھائے ہوئے آئے گا اور پکارے گایامحمد یا محمد تو اس سے کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تیرے لیے بالکل کچھ نہیں کرواسکتا، میں نے تجھ کو بتادیا تھا “۔ (ابن جریر بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11055

11055 رأيت قرمان متلفعا في خميلة من النار يريد اسود التي غل يوم خيبر. (ابن أبي عاصم وأبو نعيم في المعرفة عن خالد بن مغيث).
11051 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں نے ۔۔۔ کو آگ کی چادر میں لیٹے ہوئے دیکھا وہ کالی چادر مراد ہے جو خیبر کے دن مال غنیمت میں سے خیانت کرکے حاصل کی تھی “۔ (ابن ابی عاصم اور ابو نعیم فی المعرفۃ بروایت خالد بن مغیث (رض))

11056

11056 يا سعد إياك أن تجئ يوم القيامة ببعير تحمله له رغاء (ابن جرير ك عن ابن عمر).
11052 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے سعد ! بچو اس سے کہ قیامت کے دن اونٹ اٹھائے ہوئے آؤ اور وہ آواز نکال رہا ہو “۔ (ابن جریر، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11057

11057 من لك بعقال من نار ؟ (ابن عساكر عن أبي هريرة) أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عقالا من المغنم قال : فذكره وضعف.
11053 ۔۔۔ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال غنیمت میں سے ایک رسی کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تجھے اس رسی کے بدلے آگ سے کون بچائے گا ؟ (ابن عساکر بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11058

11058 يا أيها الناس من عمل منكم لنا عملا فكتمنا منه مخيطا فما فوقه كان غلولا يأتي به يوم القيامة ، من استعملناه منكم على عمل فليجئ بقليله وكثيره ، فما أوتي منه أخذه ، وما نهى عنه انتهى.(حم ع ق عن عدي بن عميرة الكندي)
11054 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! تم میں سے ہمارے لیے اگر کسی نے کچھ کام کیا اور ہم نے اس میں سے سوئی یا اس سے بڑی کوئی چیز چھپالی تو یہ خیانت ہوگی جو قیامت کے دن لائی جائے گی، تم میں سے اگر کسی کو ہم کسی کام پر مقرر کریں توا سے چاہیے کہ کم زیادہ پورا کرے، سو جو اسے دیا جائے لے لے اور جس سے منع کیا جائے باز آجائے “۔ (مسند احمد، مسند ابی یعلی، متفق علیہ، بروایت حضرت عدی بن عمرۃ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ مال غنیمت اس کو مال کو کہتے ہیں جو جنگ لڑ کر اور دشمن کو شکست دے کر حاصل کیا جائے اور مال فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے جنگ کئے بغیر ان سے وصول کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11059

11059 إن النهبة لا تحل.(ه حب ك عن ثعلبة بن الحكم).
11055 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نقب زنی یقیناً حلال نہیں ہے “۔ (ابن ماجہ، ابن حبان، مستدرک حاکم بروایت حضرت ثعلبہ بن الحکم)

11060

11060 إن النهبة ليس بأحل من الميتة.(د عن رجل).
11056 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک نقب زنی مردار سے زیادہ حلال نہیں “۔ (سنن ابی داؤد عن رجل)

11061

11061 اذهب فان في البيت ثلاثة منهم غلام قد صلى فخذه ولا تضربه ، فانا قد نهينا عن ضرب أهل الصلاة.(هب عن أبي أمامة).
11057 ۔ فرمایا کہ ” جاؤ یقیناً گھر میں تین قسم کے لوگ ہوں گے ان میں سے ایک غلام ہوگا جس نے نماز پڑھی ہوگی اس کو لے لو اور پٹائی مت کرو کیونکہ ہمیں اہل عبادت کو مارنے سے منع کیا گیا ہے “ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت ابی امامۃ (رض)

11062

11062 إني نهيت عن قتل المصلين.(د عن أبي هريرة).
11058 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجھے نماز پڑھنے والوں (عبادت گزاروں) کے قتل سے منع کیا گیا ہے “۔ (سنن ابی داؤد، بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11063

11063 نهيت عن المصلين.(طب عن أنس).
11059 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجھے نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت انس (رض))

11064

11064 ليس منا من انتهب وسلب ، أو أشار بالسلب.(طب ك عن ابن عباس).
11060 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو نقب زنی کرے اور چھپے یا چھپنے کا اشارہ کرے وہ ہم میں سے نہیں “۔ (طبرانی مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11065

11065 من انتهب فليس منا.(حم ت عن أنس) (حم د ه والضياء عن جابر).
11061 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے نقب زنی کی وہ ہم میں سے نہیں “۔ (مسند احمد ترمذی بروایت حضرت انس (رض) اور مسند احمد ابوداؤد، ابن ماجہ اور ضیاء بروایت حضرت جابر (رض))

11066

11066 لا تتمنوا لقاء العدو فإذا لقيتموه فاصبروا.(ق عن أبي هريرة).
11062 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دشمن کا سامنا ہونے کی تمنا نہ کرو، اور جب سامنا ہوجائے تو صبر کرو “۔ (متفق علیہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11067

11067 لا غصب ولان نهبة.(طب عن عمرو بن عوف).
11063 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نہ غضب ہے نہ نقب زنی “۔ (طبرانی بروایت حضرت عمروبن عوف (رض))

11068

11068 نهى عن المثلة (ك عن عمران) (طب عن ابن عمرو عن المغيرة)
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا “۔

11069

11069 نهى عن النهبى وعن المثلة.(حم خ عبد الله بن زيد).
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقب زنی اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا “۔

11070

11070 نهى عن النهبة والمثلة.(حم عن زيد بن خالد).
11064 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت زید بن خالد (رض))

11071

11071 نهى عن قتل النساء والصبيان.(ق ه عن ابن عمر).
11067 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا “۔ (متفق علیہ ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11072

11072 من ضيق منزلا أو قطع طريقا أو آذى مؤمنا فلا جهاد له.(حم د عن معاذ بن أنس).
11068 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے گھر تنگ کیا یا راہزنی کی یا کسی مومن کو تکلیف دی تو اس کا کوئی جہاد نہیں “۔ (مسند احمد، ابوداؤد بروایت حضرت معاذ بن انس (رض))

11073

11073 من فر فليس منا.(طب على معقل بن يسار).
11069 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو بھاگ کھڑا ہوا وہ ہم میں سے نہیں ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت معقل بن یسار (رض) )
فائدہ :۔۔۔ مذکورہ بعض روایات میں مثلہ کا لفظ آیا ہے دشمن کو قتل کرنے کے بعد اس کی ناک کان وغیرہ کاٹ کر چہرہ بگاڑ دینا مثلہ کہلاتا ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11074

11074 إذا وجدتم الرجل قد غل فأحرقوا متاعه واضربوه.(د ك هق عن عمر).
11070 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم کسی شخص کو پاؤ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تو اس کا مال و متاع جلادو اور اس کی پٹائی لگا دو “۔ (سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم، بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت عمر (رض))

11075

11075 انطلق أبا مسعود لا ألفينك يوم القيامة تجئ وعلى ظهرك بعير من إبل الصدقة له رغاء قد غللته.(د عن أبي مسعود).
11071 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چلے جاؤ، اے ابو مسعود ! میں ضرور تجھے پاؤں گا قیامت کے دن، تو آئے گا اور تیری بیٹھ پر صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ ہوگا جو آواز نکال رہا ہوگا جسے تو نے خیانت کرتے ہوئے لیا تھا “۔ (ابوداؤد بروایت حضرت ابو مسعود (رض))

11076

11076 صلوا على صاحبكم ، إن صاحبكم غل في سبيل الله.(حم د ك حب ه عن زيد بن خالد).
فرمایا اپنے ساتھی کے لیے مغفرت طلب کرو اس لیے کہ تمہارے ساتھی نے اللہ کے راستے میں خیانت کی تھی۔ مسنداحمد، ابوداؤد

11077

11077 غزا نبي من الانبياء ، فقال لقوم : لا يتبعني منكم رجل ملك بضع امرأة وهو يريد أن يبني بها ولما يبن بها ، ولا أحد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها ، ولا أحد اشترى غنما أو خلفات وهو ينتظر أولادها ، فغزا فدنا من القرية صلاة العصر ، أو قريبا من ذلك فقال للشمس : إنك مأمورة ، وأنا مأمور ، اللهم احبسها علينا ، فحبست حتى فتح الله عليه ، فجمع الغنائم فجاءت النار لتأكلها فلم تطعمها ، فقال : إن فيكم غلولا ، فليبايعني من كل قبيلة رجل فلزقت يد رجل بيده فقال : فيكم الغلول فلتبايعني قبيلتك ، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده فقال : فيكم الغلول ، فجاؤوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب ، فوضعوها فجاءت النار فأكلتها ، ثم أحل الله لنا الغنائم رأى ضعفنا وعجزنا ، فأحلها لنا. (حم ق عن أبي هريرة).
11073 ۔۔۔ انبیاء میں سے ایک نبی نے جنگ کی اور اپنی قوم سے کہا کہ وہ شخص میرے پیچھے نہ آئے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور رخصتی کا ارادہ رکھتی ہو اور اب تک رخصتی نہ کی تھی، اور وہ شخص بھی نہ آئے۔ جس نے بکری یا اس کے بچے خریدے ہوں اور ان کی اولاد کا منتظر ہو، پھر انھوں نے جنگ کی اور شہر کے قریب عصر کی نماز کا وقت آ پہنچایا اس کے قریب قریب تو انھوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی اللہ کی طرف سے مامور ہے اور میں بھی، اے اللہ اس کو ہمارے لیے روک دیجئے چنانچہ سورج کو روک دیا گیا یہاں تک کہ شہر فتح ہوگیا اور مال غنیمت جمع کیا گیا اور آگ اس کو جلانے آئی مگر نہ جلایا، تو انھوں نے فرمایا کہ یقیناً تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے سو تم میں سے ہر قبیلے کا ایک فرد میرے ہاتھ پر بیعت کرے چنانچہ ان کے ہاتھ میں ایک شخص کا ہاتھ پھسل گیا، فرمایا تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے لہٰذا تمہارے قبیلے کو میرے ہاتھ پر بیعت کرلی ہوگی، چنانچہ دویاتین آدمیوں کے ہاتھ ان کے دست مبارک میں پھسلے تو انھوں نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے چنانچہ وہ لوگ ایک سرلائے جو گائے کے سر کی طرح تھا اور سونے کا بنا ہوا تھا اور اس کو مال غنیمت میں رکھا تو آگ آئی اور اس نے سارا مال غنیمت کھا (جلا) لیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عاجزی کو دیکھتے ہوئے مال غنیمت کو حلال کردیا “۔ (مسند احمد۔ متفق علیہ)

11078

11078 من وجدتموه غل في سبيل الله فأحرقوا متاعه.(ن عن ابن عمر).
11074 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جسے تم مال غنیمت میں خیانت کرتے ہوئے پکڑو تو اس کا مال و متاع جلا دو “۔ (نسائی بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11079

11079 هذا قبر فلان بعثته ساعا على آل فلان فغل نمرة فدرع الآن مثلها من نار. (حم ن عن أبي رافع).
11075 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یہ فلاں فلاں کی قبر ہے جسے میں نے فلاں کی اولاد کی طرف دستہ دے کر بھیجا تھا تو اس نے مال غنیمت میں سے ایک چتکبری چادر اٹھالی چنانچہ اب اسی جیسے آگ سے بنی ہوئی چادر اس کو پہنائی جارہی ہے “۔ (مسند احمد، نسائی بروایت ابو رافع (رض))

11080

11080 والذي نفسي بيده إن الشملة التي أصابها يوم خيبر من الغنائم لم تصبها المقاسم لتشتغل عليه نارا.(ق د ن عن أبي هريرة).
11076 ۔۔۔ فرمایا کہ ” قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ چھوٹی چادر جو جنگ خیبر کے دن اس نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے لی تھی وہ اس پر آگ دھکارہی ہے “۔ (متفق علیہ ابو داؤد، نسائی بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

11081

11081 يا أيها الناس إن هذا من غنائمكم ، أدوا الخيط والمخيط فما فوق ذلك ، فما دون ذلك فان الغلول عار على أهله يوم القيامة وشنار ونار.(ه عن عبادة).
11077 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! یہ تمہارے مال غنیمت ہیں چنانچہ دھاگہ اور سوئی یا اس سے بڑی کوئی چیز یا اس سے چھوٹی ادا کردو کیونکہ مال غنیمت میں خیانت کرنا خیانت کرنے والے کے لیے قیامت کے دن نہ صرف عار اور شرمندگی کا باعث ہوگی بلکہ عیب اور آگ کا باعث بھی ہوگی “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت عبادۃ (رض))

11082

11082 من غل بعيرا أو شاة أتى به يحمله يوم القيامة.(حم والضياء عن عبد الله بن أنيس).
11078 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اونٹ یا بکری بطور خیانت لے لیا تو قیامت کے دن وہ اسے (اس جانور کو) اٹھائے ہوئے آئے گا “۔ (مسند احمد، والضیاء بروایت حضرت عبداللہ بن انس (رض))

11083

11083 ردوا المخيط والخياط ، من غل مخيطا أو خياطا كلف يوم القيامة أن يجئ به وليس بجاء.(طب عن المستورد).
11079 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوٹادوسوئی اور دھاگہ اگر کسی نے سوئی یادھاگہ کی بھی خیانت کی تو قیامت کے دن اس سے کہا جائے گا کہ وہ لے کر آئے لیکن وہ نہ لاسکے گا “۔ (طبرانی عن المستورد)

11084

11084 من استعملناه على عمل فرزقناه رزقا فما أخذ بعد ذلك فهو غلول.(د ك عن بريدة).
11080 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جسے ہم کسی کام پر مقرر کرتے ہیں اس کے لیے کچھ وظیفہ بھی مقرر کرتے ہیں اس کے بعد اگر اس نے کچھ لیا تو وہ خیانت ہے “۔ (سنن ابی داؤد، مستدرک حاکم بروایت حضرت بریدۃ (رض))

11085

11085 من استعملناه منكم على عمل فكتمنا مخيطا فما فوقه كان ذلك غلولا يأتي به يوم القيامة.(م د عن عدي بن عميرة).
11081 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے جس کو ہم کسی کام پر مقرر کریں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی چھوٹی کوئی چیز چھپالے تو یہ خیانت ہوگی اور یہ چیز قیامت کے دن اس کو لانا ہوگی “۔ (مسلم ابوداؤد، بروایت عدی بن عمیرۃ (رض))

11086

11086 من كنتم على غال فهو مثله.(د عن بن سمرة).
11082 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے خیانت کرنے والے کو چھپایا تو وہ بھی اسی جیسا ہے “۔ (ابوداؤد بروایت حضرت سمرۃ (رض)

11087

11087 لا إسلال ولا غلول.(طب عن عمرو بن عوف).
11083 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اسلام میں نہ چوری ہے اور نہ خیانت “۔ (طبرانی بروایت عمروبن عوف (رض))

11088

11088 لا يغل مؤمن.(طب عن ابن عباس).
11084 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مومن مال غنیمت میں خیانت نہیں کرتا “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11089

11089 أما بعد فما بال العالم نستعمله فيأتينا ، فيقول : هذا من عملكم ، وهذا أهدي إلي ، أفلا قعد في بيت أبيه وأمه ؟ فينظر هل يهدى له أم لا ؟ فو الذي نفس محمد بيده لا يغل أحدكم منها شيئا إلا جاء يوم القيامة يحمله في عنقه ، إن كان بعيرا جاء به وله رغاء ، وإن كانت بقرة جاء بها ولها خوار ، وإن كانت شاة جاء بها تيعر فقد بلغت.(حم ق د عن أبي حميد الساعدي).
11085 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا ہوا اس کا رکن کو جسے ہم مقرر کرتے ہیں اور پھر وہ ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارے کام میں سے ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے کیا وہ اپنے ماں باپ کے گھر نہیں بیٹھ جاتا کہ دیکھے کوئی اسے ہدیہ دیتا ہے یا نہیں سو قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، تم میں سے جو بھی خیانت کرے گا وہ اس چیز کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا، اگر وہ اونٹ ہوا تو وہ اس کو گردن پر اٹھا کر لائے گا اور وہ آواز نکال رہا ہوگا اور اگر وہ گائے ہوئی تو اسے بھی لائے گا اور وہ آواز نکال رہی ہوگی اور اگر وہ بکری ہوگی تو اسے بھی اٹھا کر لائے گا اور وہ آواز نکال رہی ہوگی میں نے تو تم تک یہ بات پہنچا دی۔ (مسند احمد، متفق علیہ، ابوداؤد، بروایت حضرت ابو حمید الساعدی (رض))

11090

11090 من كان لنا عاملا فلم يكن له زوجة فليكتسب زوجة ، فان لم يكن له خادم فليكتسب خادما ، فان لم يكن له مسكن فليكتسب مسكنا من اكتسب غير ذلك فهو غال أو سارق.(د ك عن المستورد بن شداد).
11086 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو ہمارا کارکن تھا اور اس کی بیوی نہ تھی تو اسے چاہیے کہ بیوی حاصل کرلے اور اگر اس کے پاس خادم نہ تھا تو اسے چاہیے کہ خادم حاصل کرلے اگر اس کے پاس گھر نہیں توا سے چاہیے کہ گھر حاصل کرلے، اور اگر کسی نے اس کے علاوہ کوئی چیز حاصل کی تو وہ خائن یا چور ہے “۔ (سنن ابی داؤد بروایت حضرت مستور بن شداد (رض))

11091

11091 من استعملناه منكم على عمل فليجئ بقليله وكثيره فما أوتى منه أخذ ، وما نهى عنه انتهى.(م د عن عدي بن عميرة).
11087 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے جس کو ہم کسی کام پر مقرر کریں تو اس کو چاہیے کہ اس کام کو کرے کم ہو یا زیادہ، اور جو چیز اس کو دی جائے وہ لے لے اور جس چیز سے منع کیا جائے تو وہ باز آجائے “۔ (مسلم، ابوداؤد، بروایت حضرت عدی بن عمیرۃ (رض))

11092

11092 إنه لا تصلح النهبة.(ك عن ابن عباس).
11088 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً وہ (یعنی جہاد) میں نقب زنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11093

11093 النهب لا يحل فاكفؤا القدور.(ك عن ثعلبة ابن الحكم).
11089 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نقب زنی حلال نہیں لہٰذا ہانڈیاں الٹ دو “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ثعلبۃ بن الحکم (رض))

11094

11094 لا تحل النهبة.(طب عن ابن عباس) (طب عن أبي بردة).
11090 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نقب زنی حلال نہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض) ابوبردۃ (رض))

11095

11095 ما حملكم على قتل الذرية ؟ وهل خياركم إلا أولاد المشركين ؟ والذي نفس محمد بيده ما من نفس تولد إلى على الفطرة حتى يعرب عنها لسانها. (ك عن الاسود بن سريع).
11091 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تمہیں کس چیز نے بچوں کے قتل پر ابھارا ؟ کیا آج تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کی اولاد میں سے نہیں ہیں ؟ اور قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے کوئی انسان ایسا نہیں جو فطرت پر نہ پیدا ہوتاہو یہاں تک کہ اس سے اس کی زبان “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت اسود بن سریع (رض))

11096

11096 ويل لمن قتل اللاهين ، قيل : و ما اللاهون ؟ قال :الولدان.(ك في تاريخه عن أبي هريرة).
11092 ۔۔۔ فرمایا ” کہ تباہی ہو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کھیلنے کودنے والوں کو قتل کیا، عرض کیا گیا کہ کھیلنے کودنے والے کون ہیں ؟ فرمایا بچے “۔ (حاکم فی تاریخہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11097

11097 ما كانت هذه تقاتل فيمن يقاتل ، أدرك خالدا فقل له : إن رسول الله يأمرك أن لا تقتل ذرية ، في لفظ : امرأة ولا عسيفا.(حم ن ه والطحاوي حب والباوردي وابن قانع طب ص عن المرقع بن صيفي عن حنظلة الكاتب) قال : غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمررنا على امرأة مقتولة فقال : فذكره. (حم د ن ه والطحاوي والبغوي حب ك عن المرقع بن صيفي بن رباح عن جده رباح بن الربيع أخي حنظلة الكاتب) قال ابن حجر في أطرافه وهو المحفوظ وادعى (حب) أن الطريقين محفوظان
11093 ۔۔۔ یہ عورت قتال کرنے والی نہ تھی ان لوگوں میں سے جو قتال کرتے ہیں، حضرت خالد (رض) کو پایا تو فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو حکم دیتے ہیں کہ بچوں کو قتل مت کیجئے “۔ اور ایک روایت میں ہے نہ عورتوں کو اور نہ مردوں کو “۔ (مسند احمد، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی، ابن حبان باوردی، ابن قانع، طبرانی، سعید بن منصور بروایت حضرت موقع بن صیفی بروایت حضرت حنظلۃ الکاتب (رض) )
فرمایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنگ میں شریک تھے کہ ہم ایک مقتول عورت کے پاس سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا “۔ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی، بغوی، ابن حبان، مستدرک حاکم بروایت مرقع بن صیفی بن رباح عن جدہ رباح بن الربیع اخی حنظلۃ الکاتب (رض))

11098

11098 الشهادة تكفر كل شئ إلا الدين ، والغرق يكفر ذلك كله.(الشيرازي في الالقاب عن ابن عمرو).
11094 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہادت قرض کے علاوہ ہر چیز کا کفارہ ہوجاتی ہے اور ڈوبنا ہر چیز کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (شیرازی فی الالقاب بروایت حضرت ابن عمرو (رض) )
فائدہ :۔۔۔ یعنی اگر شہادت بحری جنگ میں ڈوب کر ہوئی ہے تو وہ ان چیزوں کا کفارہ بھی ہوجاتی ہے جو عام خشکی کی جنگ کی شہادت نہیں ہوسکتی جیسے قرض “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11099

11099 الشهداء على بارق نهر بباب الجنة في قبة خضراء ،يخرج عليهم رزقهم من الجنة بكرة وعشيا.(حم طب ك عن ابن عباس).
11095 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہداء جنت کے دروازے پر واقع نہر کے کنارے پر سبز قصبوں میں ہوں گے صبح شام ان کو ان کا رزق ملاکرے گا “۔ (مسند احمد، طبرانی، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11100

11100 الشهداء عند الله على منابر من ياقوت في ظل عرش الله يوم لا ظل إلا ظله ، على كثيب من مسك ، فيقول لهم الرب : ألم أوف لكم وأصدقكم ؟ فيقولون : بلى وربنا.(عق عن أبي هريرة).
11096 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہداء اللہ تعالیٰ کے پاس یاقوت کے بنے ہوئے منبروں پر عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا مشک کے ٹیلوں پر، تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ کیا میں نے تم کو پورا پورا نہیں دے دیا اور تم کو سچا نہیں کردیا ؟ وہ لوگ کہیں گے جی ہاں اے ہمارے رب، “۔ عقیلی فی الضعفاء بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

11101

11101 الشهيد يغفر له في أول دفعة من دمه ويزوج حوراوين ويشفع في سبعين من أهل بيته ، والمرابط إذا مات في رباطه كتب له أجره إلى يوم القيامة ، وغذي عليه ، وريح برزقه ، ويزوج سبعين حوراء ، وقيل له : قف فاشفع إلى أن يفرغ من الحساب.(طس عن أبي هريرة).
11097 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پہلی بار جب شہید کا خون نکلتا ہے اسی وقت اس کی مغفرت ہوجاتی ہے اور حوروں سے اس کا نکاح کردیا جاتا ہے اور اپنے گھر والوں میں سے ستر افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے اور مورچہ بند جب اپنے مورچہ میں مرجائے تو اس کا اجر قیامت تک اس کے لیے لکھا جاتا رہتا ہے اور اس کو غذا دی جاتی ہے۔۔۔ اور ستر حوروں سے اس کا نکاح کروایا دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ ٹھہرو اور سفارش کرو یہاں تک کہ اس کو حساب سے فارغ کردیا جاتا ہے “۔ (معجم اوسط طبرانی حضرت ابوھریرۃ (رض))

11102

11102 الشهيد لا يجد مس القتل إلا كما يجد أحدكم مس القرصة يقرصها.(ن عن أبي هريرة).
11098 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید قتل کی تکلیف اتنی ہی محسوس کرتا ہے جسے تم میں سے کوئی شخص اپنے پھوڑے کو پھوڑ دے “۔ (نسائی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11103

11103 الشهيد لا يجد ألم القتل إلا كما يجد أحدكم مس القرصة (طس عن أبي قتادة).
11099 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کو قتل کی تکلیف اتنی ہی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اپنے دانے کی “۔ (معجم اوسط طبرانی بروایت حضرت ابوقتادہ (رض))

11104

11104 الشهداء الذين يقاتلون في سبيل الله في الصف الاول ولا يلتفتون بوجوهم حتى يقتلوا فأولئك يلتقون في الغرب العلى من الجنة ، يضحك إليهم ربك ، إن الله إذا ضحك إلى عبده المؤمن فلا حساب عليه.(طس عن نعيم بن هبار ويقال عمار).
11100 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید وہ لوگ ہیں جو پہلی صف میں اللہ کی رضا کی خاطر قتال کرتے ہیں اور ادھر ادھر نہیں دیکھتے یہاں تک کہ قتل ہوجاتے ہیں سو وہ یہی لوگ ہیں جو جنت میں اونچے اونچے کمروں میں ملیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف ہنس کر دیکھیں گے اور یقیناً جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کی طرف ہنس کر دیکھیں تو اس کا کوئی حساب نہیں “۔ (معجم اوسط طبرانی، بروایت حضرت نعیم بن ھبار ویقال عمار رضی للہ عنہ )

11105

11105 الشهداء أربعة : رجل مؤمن جيد الايمان لقي العدو فصدق الله حتى قتل ، فذلك الذي يرفع الناس إليه أعينهم يوم القيامة هكذا ، ورجل مؤمن جيد الايمان لقي العدو كأنما ضرب جلده بشوك طلح من الجبن ، أتاه سهم غرب ، فقتله فهو في الدرجة الثانية ، ورجل مؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا لقي العدو فصدق الله حتى قتل ، فذلك في الدرجة الثالثة ، ورجل مؤمن أشرف على نفسه لقي العدو فصدق الله حتى قتل فذاك في الدرجة الرابعة.(حم ت عن عمر).
11101 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید تو چار ہیں۔
(1) ۔۔۔ وہ مومن شخص جس کا ایمان بہت اچھا ہو اور اللہ سچائی بیان کرلے یہاں تک قتل ہوجائے سو یہی وہ ہے جس کی طرف لوگ قیامت کے دن ایسے آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے “
(2) ۔۔۔ اور وہ مومن شخص جس کا ایمان اچھا تھا وہ دشمن سے ایسے ایسے ملا جیسے اس کی جلد پر کیکر کا کانٹا چبھو دیا گیا ہو بزدلی سے کہ اچانک ایک تیرنامعلوم سمت سے آیا اور اس کو قتل کردیا تو یہ دوسرے درجے میں ہے۔
(3) ۔۔۔ وہ مومن شخص جس نے اچھے اور برے دونوں اعمال کئے ہیں اور دشمن سے ملا اور اللہ کو سچا جانا یہاں تک کہ یہ قتل ہوگیا تو یہ تیسرے درجے میں ہے۔
(4) ۔۔۔ اور وہ مومن شخص جو اپنے نفس سے آگاہ ہوا، دشمن کا سامنا اور اللہ تعالیٰ کو سچا جانا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا تو یہ چوتھے درجے میں ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی بروایت حضرت عمر (رض))

11106

11106 أفضل الشهداء من سفك دمه وعقر جواده.(طب عن أبي أمامة).
11102 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل شہید وہ ہے جس کا خون بہایا جائے اور گھوڑا ماردیا جائے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابوامامۃ (رض))

11107

11107 إن أرواح الشهداء في طير خضر تعلق من ثمر الجنة.(ت عن كعب بن مالك).
11103 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک شہیدوں کی ارواح سبز رنگ کے پرندوں کے اندر جنت کے پھلوں سے لٹکی ہوئی ہیں “۔ (ترمذی بروایت حضرت کعب بن مالک (رض))

11108

11108 إن شهداء البحر أفضل عند الله من شهداء البر.(طب عن سعد بن جنادة).
11104 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً سمندر کے شہید اللہ کے ہاں خشکی کے شہداء سے افضل ہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت سعد بن جنادۃ (رض))

11109

11109 أول ما يهراق من دم الشهيد يغفر له ذنبه كله إذا الدين.(طب ك عن سهل بن حنيف).
11105 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پہلا قطرہ جو شہید کے خون کا بہتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں علاوہ قرض کے “۔ (طبرانی مستدرک حاکم بروایت حضرت سھل بن حنیف (رض))

11110

11110 يغفر للشهيد كل ذنب إلا الدين.(حم م عن ابن عمرو).
11106 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں علاوہ قرض کے “۔ (مسند احمد، مسلم بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11111

11111 سألت جبريل عن هذه الآية (ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الارض إلا من شاء الله) من الذين لم يشأ الله أن يصعقهم قال : هم الشهداء ثنية الله ، متقلدون أسيافهم حول عرشه. (ك في الافراد وابن مردويه والبيهقي في البعث عن أبي هريرة).
11107 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا : ” ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الامن شاء اللہ “۔ سورة الزمر آیت 69 کہ اس میں یہ کون لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بجلی کی کڑک سے بےہوش ہونے سے محفوظ رکھے گا تو جبرائیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ شہداء جو اللہ کے ثنا خوان ہیں اور اپنی تلواریں لٹکائے عرش کے اردگرد کھڑے ہیں “۔ (مستدرک حاکم فی الافراد ابن مردویہ اور بیھقی فی البعث بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11112

11112 شهيد البر يغفر له كل ذنب إلا الدين والامانة ، وشهيد البحر يغفر له كل ذنب والدين و الامانة.(حل عن عمة النبي صلى الله عليه وسلم).
11108 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خشکی کے شہید کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں علاوہ قرض اور امانت کے، اور سمندر کے شہید کے تمام گناہ شمول قرض اور امانت معاف ہوجاتے ہیں “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی کے ۔

11113

11113 شهيد البحر مثل شهيد البر ، والمائد في البحر كالمتشحط في دمه في ابر ، وما بين الموجتين في البحر كقاطع الدنيا في طاعة الله ، وأن الله عزوجل وكل ملك الموت يقبض الارواح ، إلا شهداء البحر فانه يتولى قبض أرواحهم ويغفر لشهيد البر الذنوب كلها إلا الدين ، ويغفر لشهيد البحر الذنوب كلها والدين. (ه طب عن أبي أمامة).
11109 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سمندر کا شہید بھی خشکی کے شہیدوں کی طرح ہے اور سمندر میں جہاد کرنے والا ایسا ہے جیسے خشکی میں اپنے خون میں لت پت ہونے والا، اور سمندر میں جو دوموجوں کے درمیان ہے وہ ایسے ہے جیسے اللہ کی اطاعت کی خاطر دنیا سے قطع تعلق کرنے والا اور یقیناًاللہ تعالیٰ نے موت کے فرشتے کو روحیں قبض کرنے پر مقرر کیا ہے علاوہ سمندری شہداء کے کیونک ان کی روحوں کو قبض کرنے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لیا ہے اور خشکی کے شہید کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں علاوہ قرضے کے اور سمندر کے شہید کے قرض سمیت تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں (ابن ماجہ، طبرانی، بروایت حضرت ابوامامہ (رض)

11114

11114 المائد في البحر الذي يصيبه القئ له أجر شهيد ، والغريق له أجر شهيدين.(د عن أم حرام).
11110 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سمندر میں کھانا کھانے والے کو جیسے ہی قے ہوئی تو اس کے لیے ایک شہید کا اجر ہے اور ڈوبنے والے کے لیے دو شہید کا اجر ہے “۔ (ابوداؤد بروایت حضرت ام خزام (رض))

11115

11115 القتل في سبيل الله يكفر كل خطيئة إلا الدين.(م عن ابن عمرو) (ت عن أنس).
11111 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل کرنا تمام خطاؤں کا کفارہ ہوجاتا ہے علاوہ قرض کے “۔ (مسلم بروایت حضرت ابن عمر (رض) اور ترمذی بروایت حضرت انس (رض))

11116

11116 القتل في سبيل الله يكفر الذنوب كلها إلا الامانة ، والامانة في الصلاة ، والامانة في الصوم ، والامانة في الحديث ، وأشد ذلك الودائع.(طب حل عن ابن مسعود).
11112 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کی راہ میں قتل کرنا تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور ان میں سب سے سخت (امانت ودیعت ہے) ۔ (طبرانی حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت ابن مسعود (رض))
فائدہ :۔۔۔ ودیعت کہتے ہیں اپنی کوئی چیز کسی دوسرے کے پاس حفاظت کے لیے یا کسی اور غرض سے رکھوا دینا، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11117

11117 من سأل الله الشهادة بصدق بلغه الله منازل الشهداء ، وإن مات على فراشه.(م عن سهل بن حنيف).
11113 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کے مقام تک پہنچاتے ہیں اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو (مسلم ، اور بخاری، مسلم ابو داؤد، نسائی بروایت حضرت سھل بن حنیف (رض)

11118

11118 من طلب الشهادة أعطيها ولو لم تصبه.(حم م عن أنس).
11114 ۔ فرمایا کہ ” جو شہادت مانگتا ہے اس کو دی جاتی ہے اگرچہ وہ شہید نہ ہو “ (مسند احمد، مسلم بروایت حضرت انس (رض)

11119

11119 يشفع الشهيد في سبعين من أهل بيته.(د عن أبي الدرداء)
11115 ۔ فرمایا کہ ” شہید اپنے گھر والوں میں سے ستر افراد کی شفاعت کرے گا “۔ (ابوداؤد، بروایت حضرت ابو الدرداء (رض)

11120

11120 أفضل الشهداء الذين يقاتون في الصف الاول ، فلا يلفتون وجوههم حتى يقتلوا ، أولئك يتلبطون في الغرف العلى من الجنة ، يضحك إليهم ربك ، فإذا ضحك ربك إلى عبد في موطن فلا ساب عليه.(حم طب عن نعيم بن همار).
11116 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل شہید وہ ہیں جو پہلی صف میں قتال کرتے ہیں اور اپنے چیزوں سے ادھر ادھر نہیں دیکھتے یہاں تک کہ قتل ہوجاتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی اونچے اونچے کمروں میں حیران ہو رہے ہوں گے “۔ تمہارا رب ان کی طرف دیکھ کر ہن سے گا، اور جب تمہارا رب کسی جگہ اپنے کسی بندے کی طرف ہنس کر دیکھے تو اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا “۔ (مسند احمد، طبرانی، بروایت حضرت نعیم بن حماد (رض))

11121

11121 من سأل الله القتل في سبيله صادقا من قلبه أعطاه الله أجر الشهادة وإن مات على فراشه.(ت عن معاذ) (ك عن أنس).
11117 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے سچے دل سے اس کے راستے میں قتل ہونے کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کو شہداء کا اجر دیں گے اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہوئی ہو “۔ (ترمذی، بروایت حضرت معاذ (رض) اور مستدرک حاکم بروایت حضرت انس (رض))

11122

11122 لا تجف الارض من دم الشهيد حتى يبتدره زوجتاه كأنهما ظئران أضلتا فصيلهما في براح من الارض ، وفي يد كل واحدة حلة خير من الدنيا وما فيها. (حم ه عن أبي هريرة)
11118 ۔۔۔ فرمایا کہ ” زمین شہید کے خون سے خشک نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کی دو بیویاں اس کی طرف ایسے متوجہ ہوجاتی ہیں، گویا کہ وہ دونوں دودھ پلانے والی اونٹنیاں ہوں جن کا بچہ وسیع و عریض زمین میں گم ہوگیا تھا، دونوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لباس ہوتا ہے جو دنیا اور اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے “ (مسند احمد، ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض)

11123

11123 ضحك الله من رجلين قتل أحدهما صاحبه ، كلاهما في الجنة.(حب عن أبي هريرة).
11119 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوش ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں کو دیکھ کر جنہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا اور دونوں جنت میں ہیں “۔ (ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11124

11124 يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر ، كلاهما يدخلان الجنة ، يقاتل هذا في سبيل الله ، فيقتل ، ثم يتوب الله على القاتل فيسلم ، فيقاتل في سبيل الله فيستشهد.(حم ق ن ه عن أبي هريرة).
11120 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوش ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں کو دیکھ کر جنہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا، دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں یہ اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہوا شہید کیا گیا، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی اور وہ مسلمان ہوگیا اور اللہ کے راستے میں قتال کرنے لگا اور شہید کردیا گیا “۔ (مسند احمد، متفق علیہ، نسائی، ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11125

11125 ما يجد الشهيد من مس القتل إلا كما يجد من مس القرصة.(ت حب عن أبي هريرة).
11121 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کو قتل ہوتے ہوئے اس سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی جتنی دانہ نکلنے سے ہوتی ہے “۔ (ترمذی، ابن حبان بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11126

11126 أفضل الموت القتل في سبيل الله ، ثم أن تموت مرابطا ثم أن تموت حاجا أو معتمرا ، وإن استطعت أن لا تموت باديا ولا تاجرا ؟ (حل عن أبي يزيد الغوثي) مرسلا.
11122 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل اللہ کی راہ میں قتل ہونا ہے، پھر یہ کہ تیری وفات ہو مورچہ بندی کی حالت میں پھر یہ کہ تیری وفات ہو حج ہو عمرہ کرتے ہوئے اور اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ دیہاتی اور تاجر ہو کر نہ مرے ؟ (حلیہ ابی نعیم بروایت ابویزید (رض))

11127

11127 إن أرواح الشهداء في جوف طير خضر ، لها قناديل ملقة بالعرش تسرح من الجنة حيث شاءت ، ثم تأوى إلى تلك القناديل فاطلع إليهم ربهم اطلاعة ، فقال : هل تشتهون شيئا ؟ قالوا : أي شئ نشتهى ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا ؟ فيفعل ذلك بهم ثلاث مرات فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا قالوا : يا رب نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى ترجع إلى الدنيا فنقتل في سبيل مرة أخرى ، فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا. (م ت عن ابن مسعود)
11123 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کچھ شک نہیں کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہے ان کے لیے عرش کے ساتھ قندلیں لٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔ اڑتے پھرتے جنت میں جہاں چاہتے ہیں اور پھر اپنی قندیلوں میں آ بیٹھتے ہیں، پھر ان کا رب ان کی طرف توجہ فرماتا ہے اور دریافت فرماتا ہے کہ کیا تم کسی چیز کی خواہش رکھتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں ہمیں کس چیز کی خواہش ہوگی جبکہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں ؟ ان سے تین مرتبہ اس طرح پوچھا جاتا ہے اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان سے یہ سوال ہوتا رہے گا تو وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم دنیا کی طرف لوٹ جائیں اور تیرے راستے میں ایک بار پھر قتل کردئیے جائیں، اور جب رب دیکھتا ہے کہ ان کو کسی چیز کی ضرورت نہیں تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے “۔ (مسلم، ترمذی بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

11128

11128 أن يحسبكم القتل.(د عن سعيد بن زيد).
فرمایا کہ تمہارے لیے قتال کافی ہوجائے۔ ابوداؤد عن سعید بن زید

11129

11129 إن قتلت في سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر كفر الله عنك خطاياك إلا الدين ، كذلك قال لي جبريل آنفا.(حم م ت ن عن أبي قتادة) (ن عن أبي هريرة).
11125 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تو اللہ کے راستے میں صبر کرتے ہوئے احتساب کی نیت سے اور پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھتے ہوئے قتل کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ اس کو تیری تمام خطاؤں کا کفارہ بنادیں گے علاوہ قرض کے، اسی طرح جبرائیل نے بھی مجھے بتایا ہے “۔ (مسنداحمد مسلم ترمذی، نسائی بروایت حضرت ابو قتادۃ (رض) اور نسائی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11130

11130 الشهيد يشع في سبين من أهل بيته.(حب عن أبي الدرداء).
11126 ۔ فرمایا کہ ” شہید اپنے گھر والوں میں سے ستر افراد کی شفاعت کرے گا “ (ابن حبان بروایت حضرت ابو الدرداء (رض)

11131

11136 عضة نملة أشد على الشهيد من مسح السلاح ، بل هي أشهى عنده من شراب ماء بارد لذيذ في يوم صائف.(أبو الشيخ عن ابن عباس).
11127 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چیونٹی کا کاٹنا شہید کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے بہ نسبت اسلحہ لگنے کے، بلکہ یہ اس کے نزدیک گرمی کے دن میں ٹھنڈے میٹھے لذیذ پانی کے مشروب سے زیادہ قابل اشتہا ہے “۔ (ابوالشیبہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11132

11132 للشهيد عند الله سبع صخال : يغفر له في أول دفعة من دمه ، ويرى مقعده في الجنة ، ويحلى حلة الايمان ، ويزوج اثنين وسبعين زوجة من الحور العين ، ويجار من عذاب القبر ، ويؤمن من الفزع الاكبر ، ويوضع على رأسه تاج الوقار ، الياقوتة منه خير من الدنيا وما فيها ، ويشفع في سبعين انسانا من أهل بيته. (حم ت ه عن تالمقدام بن معد يكرب).
11128 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے ہاں شہید کی سات خوبیاں ہیں۔
1 ۔۔۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ نکلتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
2 ۔۔۔ اور جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے، اور اس کو ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔
3 ۔۔۔ حورعین میں سے بہترین حوروں کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جاتا ہے۔
4 ۔۔۔ قبر کے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
5 ۔۔۔ بڑا ی گھبراہٹ کے دن محفوظ رہے گا۔
6 ۔۔۔ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت بھی دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے۔
7 ۔۔۔ اور اس کی شفاعت اس کے گھر کے ستر افراد کے حق میں قبول کی جاتی ہے “۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، بروایت حضرت مقدام بن معدیکرب (رض))

11133

11133 ما أحد يدخل الجنة يحب أن يرجع إلى الدنيا وأن له ما على الارض من شئ ، غير الشهيد فانه يتمنى أن يرجع فيقتل عشر مرات لما يرى من الكرامة. (ق ت عن أنس).
11129 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنت میں داخل ہونے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو یہ نہ چاہتا ہو کہ وہ دنیا کی طرف واپس آئے اور اس کے پاس دنیا کی کوئی چیز ہو علاوہ شہید کے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ واپس آئے اور قتل کیا جائے دس مرتبہ، جب عزت و اکرام دیکھتا ہے “۔ (متفق علیہ ترمذی، بروایت حضرت انس (رض))

11134

11134 ما على الارض من نفس تموت ولها عند اله خير تحب أن ترجع اليكم ولها الدنيا إلا القتيل في سبيل الله فانه يحب أن يرجع إلى الدنيا فيقتل مرة أخرى لما يرى من ثواب الله له.(حم ن عن عبادة بن الصامت).
11130 ۔۔۔ فرمایا کہ ” زمین پر کوئی نفس ایسا نہیں جس کی وفات ہو اور اللہ کے پاس اس کی کوئی بھلائی ہو اور وہ یہ پسند کرے کہ تمہاری طرف لوٹ آئے اور اس کی دنیا بھی ہو علاوہ اس مقتول کے جو اللہ کے راستے میں قتل ہوا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ واپس لوٹ آئے دنیا کی طرف اور دوسری مرتبہ قتال کرے اس ثواب کی وجہ سے جو اس نے اپنے لیے اللہ کے پاس دیکھا “۔ (مسند احمد، نسائی، بروایت حضرت عبادۃ (رض))

11135

11135 يؤتى بالرجل يوم القيامة من أهل الجنة ، فيقول الله له : يا ابن آدم كيف وجدت منزلك ؟ فيقول : أي رب خير منزل ، فيقول : سل وتمن ، فيقول : يا رب ما أسأل وأتمنى إلا أن تردني إلى الدنيا فاقتل في سبيلك عشر مرات لما يرى من فضل الشهادة ، ويؤتى بالرجل من أهل النار ، فيقول له : يا ابن آدم كيف وجدت منزلك ؟ فيقول : أي رب شر منزل ، فيقول : أتفتدي منه بطلاع الارض ذهبا ؟ فيقول : أي رب نعم ، فيقول : كذبت قد سألت أقل من ذلك وأيسر فلم تفعل ، فيرده إلى النار. (حم م ن عن أنس).
11131 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اہل جنت میں سے قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا “ اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے اے ابن آدم ! تو نے اپنی منزل کیسی پائی ؟ وہ کہے گا اے میرے رب بہترین منزل، پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے مانگ اور خواہش کر، وہ کہے گا کہ اے میرے رب کیا مانگوں اور کیا خواہش کروں علاوہ اس کے کہ آپ مجھے دنیا کی طرف لوٹا دیں تو میں آپ کے راستے میں دس مرتبہ قتال کروں، اس فضیلت کی وجہ سے جو اس شہادت کے بدلے دیکھی ہے، اور اہل جہنم میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا، اے ابن آدم، تو نے اپنا ٹھکانا کیسا پایا ؟ وہ کہے گا، اے رب ! بدترین ٹھکانا ، پھر اللہ تعالیٰ دریافت فرمائیں گے کہ کیا تو اس کے فدیے میں زمین کی مقدار بھر سونا دے سکتا ہے ؟ وہ کہے گا جی ہاں اے میرے رب، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے جھوٹ بولا، میں نے تجھ سے اس سے کم اور اس سے آسان چیز مانگی مگر تو نے اس پر عمل نہ کیا، پھر اس کو جہنم کی طرف واپس لے جائے گا “۔ (مسند احمد، مسلم، نسائی بروایت حضرت انس (رض))

11136

11136 ما من نفس تموت لها عند الله خير يسرها أن ترجع إلى الدنيا وأن لها الدنيا وما فيها إلا الشهيد فانه يتمنى أن يرجع إلى الدنيا فيقتل مرة أخرى لما يرى من فضل الشهادة.(حم ق ت عن أنس).
11132 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی انسان ایسا نہیں، اس کے لیے اللہ کے پاس بھلائی ہو وہ اس سے خوش ہو کر دنیا کی طرف واپس آجائے (خواہ ) دنیا اور وہ سب جو دنیا میں ہے وہ بھی اس کا ہو علاوہ شہید کے کیونکہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا کی طرف واپس آئے اور ایک مرتبہ پھر قتل ہوجائے اس فضیلت کی وجہ سے جو اس نے شہادت کی دیکھی ہے “۔ (مسند احمد، متفق علیہ، ترمذی بروایت حضرت انس (رض))

11137

11137 ما من الناس نفس مسلمة يقبضها ربها تحب أن ترجع اليكم وأن لها الدنيا وما فيها غير الشهيد ولان أقتل في سبيل الله أحب إلي من أن يكون لي أهل الوبر وامدر. (حم ن عن محمد بن أبي عميرة) وماله غيره.
11133 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو اس کا رب وفات دے اور وہ یہ پسند کرے کہ لوٹ کر تمہارے پاس آجائے اور پوری دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی اس کا ہو علاوہ شہید کے، اور یقیناً مجھے اللہ کے راستے میں قتل ہونا زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ تمام دنیا کے گھر بار میرے ہوجائیں “۔ (مسند احمد، نسائی بروایت محمد بن ابی عمیرۃ (رض))

11138

11138 كفى ببارقة السيوف على رأسه فتنة.(ن والحكيم عن راشد بن سعد عن رجل من لصحابة) أن رجلا قال : يا رسول الله ما بال المؤمنين يفتنون في قبورهم إلا الشهيد ؟ قال فذكره.
11134 ۔۔۔ صحابہ میں سے کسی نے عرض کیا یارسول اللہ ! مومنین کو کیا ہوا کہ شہداء کے علاوہ سب قبروں میں آزمائے جائیں گے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” شہید کے سر پر چمکتی تلواریں ہی ایک آزمائش ہیں “۔ (نسائی، حکیم عن راشد بن سعد عن رجل من الصحابہ (رض))

11139

11139 ابنك له أجر شهيدين لانه قتله أهل الكتاب.(د عن عبد الخبير بن قيس بن ثابت بن قيس بن شماس عن أبيه عن جده) قال : جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه سلم تسأل عن ابنها قتل في سبيل الله ؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : ابنك له أجر شهيدين ، قالت ولم ؟ قال : لانه قتله أهل الكتاب
11135 ۔۔۔ ایک خاتون اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی جو اللہ کے راستے میں شہید ہوچکا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تیرے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے کیونکہ اسے اہل کتاب نے قتل کیا ہے “۔ (ابوداؤد، عن عبد بن قیس ثابت بن قیس بن شماس عن ابی عن جدہ (رض))

11140

11140 يسبق المقتول في سبيل الله مقبلا غير مدبر على المقتول مدبرا إلى الجنة بسبعين خريفا ، ومرضى أمتي قبل أصحائهم بسبعين خريفا ، والانبياء قبل سليمان بن داود بأربعين خريفا لما كان فيه من الملك.(طب عن ابن عباس) وضعف.
11136 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ شخص جو اللہ کی راہ میں پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوا، اس شہید سے جو پیچھے ہٹتے ہوئے شہید ہوا تھا سال کی مسافت کے مقابلے میں آگے ہوگا، اور یہ میری امت کے مریض صحت یابوں سے ستر سال آگے ہوں گے اور انبیاء حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) سے چالیس سال پہلے آگے بڑھ جائیں گے کیونکہ ان میں بادشاہت تھی “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11141

11141 إن أول قطرة تنزل من دم الشهيد يكفر بها ذنوبه والثانية : يكسى من حلل الايمان ، والثالثة : يزوج من حور العين.(طب عن أبي أمامة).
11137 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کے خون کا پہلا قطرہ جو گرتا ہے وہ اس کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے اور دوسرا قطرہ اس کو ایمان کا جوڑا پہنا دیتا ہے اور تیسرا قطرہ اس کا نکاح حورعین سے کروا دیتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو امامۃ (رض))

11142

11142 إن يحسبكم القتل.(د عن أبي سعيد).
فرمایا کہ تمہارے لیے قتال کافی ہوجائے۔ ابوداؤد عن سعید بن زید

11143

11143 إن للقتيل عند الله ست خصال : يغفر له خطيئته في أول دفعة من دمه ، ويجار من عذاب القبر ، ويحلى حلة الكرامة ، ويرى مقعده من الجنة ، ويؤمن من الفزع الا بكر ، ويزوج من الحور العين. (هب عن قيس الجذامي).
11139 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کی اللہ تعالیٰ کے ہاں چھ خصوصیات ہوتی ہیں “۔
1 ۔۔۔ اس کی تمام خطائیں اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی معاف ہوجاتی ہیں۔
2 ۔۔۔ وہ قبر کے عذاب سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔
3 ۔۔۔ اور اس کو عزت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔
4 ۔۔۔ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے۔
5 ۔۔۔ وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
6 ۔۔۔ اس کا نکاح حورعین سے کرایا جاتا ہے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان بروایت حضرت قیس الجذامی (رض) )
فائدہ :۔۔۔ بڑی گھبراہٹ سے مراد قیامت کے دن کی افراتفری ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11144

11144 من جرح في سبيل الله جاء يوم القيامة ريحه كريح المسك ، ولونه لون الزعفران ، عليه طابع الشهداء ، ومن سأل الله الشهادة مخلصا أعطاه الله أجر شهيد وإن مات على فراشه. (طب عن معاذ).
11140 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں زخمی کیا گیا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی اور اس کا رنگ زعفران کے رنگ کی طرح ہوگا اس پر شہیدوں کی مہر ہوگی، اور جس نے خلوص سے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کو شہید کا اجر دیں گے اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہوئی ہو “۔ (طبرانی بروایت حضرت معاذ (رض))

11145

11145 من سأل الله القتل في سبيله صادقا من نفسه ثم مات أو قتل فله أجر شهيد ، ومن جرح جرحا في سبيل الله ، أو نكب نكبة في سبيل الله فانها تأتي يوم القيامة كاغزر ما كانت ، لونها كالزعفران وريحا كريح المسك ، ومن خرج به خراج في سبيل الله كان عليه طابع الشهداء. (ابن زنجويه طب عن أبي مالك الاشعري).
11141 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے سچے دل سے اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی دعا مانگی، پھر مرگیا یا قتل ہوگیا تو اس کے لیے شہید کا اجر ہوگا، اور جو اللہ کے راستے میں زخمی ہوا یا اسے اللہ کی کوئی مصیبت پہنچائی گئی تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے جیسے وہ بہت حسین شکل و صورت میں تھا اس کا رنگ زعفران کے رنگ کی مانند اور اس کی خوشبو مشک کی طرح ہوگی، اور جس کو اللہ کی راہ میں کوئی پھوڑا پھنسی نکلا تو وہ اس پر شہداء کی مہر ہوگا “۔ (ابن زنجویہ، طبرانی بروایت حضرت ابومالک الاشعری (رض))

11146

11146 - من قتل مكم صابرا مقبلا في سبيل الله فهو في الجنة.(الحميدي حم والعدني ع حب ك ق ص عن عمر).
11142 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو کوئی تم میں سے صبر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہوا اللہ کی راہ میں قتل ہوگیا تو وہ جنت میں ہے “۔ (حمیدی، مسند احمد، عدنی، ابی یعلی، ابن حبان، مستدرک حاکم، متفق علیہ ، سنن سعید بن منصور بروایت حضرت عمر (رض))

11147

11147 من قتل منكم صابرا مقبلا في سبيل الله فانه في الجنة.(طب ص عن سمرة).
11143 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے جو کوئی صبر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہوا اللہ کے راستے میں قتل ہوگیا تو وہ جنت میں ہے “۔ (طبرانی، سعید بن منصور بروایت حضرت سمرۃ (رض))

11148

11148 الشهداء أمناء الله قتلوا أو ماتوا على فراشهم.(الحكيم عن راشد بن سعد).
11144 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید اللہ اللہ کے امین ہوتے ہیں، قتل ہوجائیں یا اپنے بستروں پر ان کی موت آئے “۔ (الحکیم عن راشد بن سعد (رض))

11149

11149 إن شهداء الله في الارض أمناء الله من خلقه ، قتلوا أو ماتوا على فرشهم.(البغوي عن أبي عتبة الخولاني حدثنا أصحاب نبينا).
11145 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید زمین پر اللہ کی مخلوق میں اس کے امین ہوتے ہیں قتل ہوجائیں یا اپنے پر ان کی وفات ہوجائے “۔ (بغوی عن ابی عتبۃ الخولانی قال حدثنا اصحاب نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم))

11150

11150 يا أيها الناس إنكم قد أصبحتم وعليكم من الله نعم فيما بين خضراء وصفراء وحمراء ، وفي البيوت ما فيها ، فإذا لقيتم عدوكم فقدما قدما فانه ليس أحد منكم يحمل في سبيل الله إلا ابتدرت إليه ثنتان من الحور العين فإذا تأخر استترتا منه فإذا استشهد فأول قطرة تقع من دمه يكفر الله عنه بها كل خطيئة له ، ثم يجيئان فيجلسان عند رأسه ويمسحان الغبار عن وجهه ، فيقولان له : مرحبا فقد آن لك ، فيقول : هو مرحبا فقد آن لكما.(ابن أبي عاصم والبغوي والباوردي وابن قانع وابن منده طب عن الزهري عن يزيد بن شجرة عن جدار) وقال ابن منده : غريب ، وقال ابن الجوزي عن النسائي : هذا حديث باطل ، وقال البغوي : ليس هو عندي بصحيح ، وروى عن الزهري عن يزيد بن شجرة مرفوعا ولم يذكر جدارا وأورده منصور عن مجاهد عن يزيد بن شجرة موقوفا من كلام يزيد وهو الصواب ، وكذا قال (قط) في العلل : هكذا هو الصواب والاول ليس بالمحفوظ.
11146 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے لوگو ! تم نے صبح کی اور تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی ہر طرح کی نعمتیں ہیں سبز، زرد اور سرخ گھروں میں بھی جو کچھ ہے، سو دشمن سے جب تمہارا سامنا ہو تو قدم بقدم آگے بڑھتے رہو کیونکہ تم میں جو بھی اللہ کے راستے میں نکلتا ہے تو حورعین میں سے دو اس کی طرف بڑھتی ہیں، سو اگر وہ تاخیر کرتا ہے تو وہ اس سے چھپ جاتی ہیں اور جب وہ شہید ہوجاتا ہے تو اس کے خون کے پہلے قطرے سے ہی اس کی تمام خطائیں معاف ہوجاتی ہیں پھر وہ دونوں حوریں اس کے پاس آتی ہیں اور اس کے سر پاس بیٹھتی ہیں اور اس کے چہرے سے غبار جھاڑتی ہیں اور اس سے کہتی ہیں کہ مرحبا تمہارا وقت آپہنچا “۔ (ابن ابی عاصم اور البغوی اور الباوردی اور ابن قانع اور ابن مندہ، طبرانی، عن الزھری عن یزید بن شجرۃ عن جدار (رض))

11151

11151 يشفع الشهيد في سبعين من أهل بيته يوم القيامة.(د طب ق عن أبي الدرداء).
11147 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید اپنے خاندان کے ستر افراد کے لیے قیامت کے دن شفاعت کرے گا “۔ (ابوداؤد، طبرانی، متفق علیہ بروایت حضرت ابوالدرداء (رض))

11152

11152 يعطى الشهيد ست خصال : عند أول قطرة من دمه يكفر عنه ، كل خطيئة ، ويرى مقعده من الجنة ، ويزوج من حور العين ، ويؤمن من الفزع الاكبر ومن عذاب القرر ، ويحلى حلة الايمان. (حم وابن سعد عن قيس الجذامي).
11148 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کو چھ خاصیات دی جائیں گی۔
1 ۔۔۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ نکلتے ہی اس کے تمام خطاؤں کا کفارہ ہوجائے گا۔
2 ۔۔۔ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا “۔
3 ۔۔۔ اس کا نکاح حورعین سے کردیا جائے گا “۔
4 ۔۔۔ وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
5 ۔۔۔ وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا “۔
6 ۔۔۔ اور اس کو ایمان کا جوڑا پہنایا جائے گا “۔ (مسند احمد، ابن سعد عن قیس الجزامی)

11153

11153 يعطى الشهيد ثلاثا : أول دفعة من دمه يغفر له ذنوبه ، وأول من يمسح التراب عن وجهه زوجته من الحور العين ، وإذا وجب جنبه في الارض وقع في الجنة. (قط في الافراد والديلمي والرافعي عن أنس).
11149 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کو تین چیزیں دی جاتی ہیں۔
1 ۔۔۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ نکلتے ہی اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
2 ۔۔۔ اور سب سے پہلے اس کے چہرے سے مٹی جھاڑیں گی وہ حورعین میں سے اس کی بیوی ہوگی۔
3 ۔۔۔ اور جب اس کا پہلو زمین سے لگتا ہے تو وہ جنت میں لگتا ہے ؟ (دارقطنی فی الافراد اور دیلمی اور رافعی بروایت حضرت انس (رض))

11154

11154 للشهيد ست خصال : يغفر له بأول دفعة من دمه ، ويؤمن من الفزع الاكبر ، ويرى مقعده من الجنة ، ويزوج من الحور العين ، ويجار من عذاب القبر. (طب عن ابن عمرو).
11150 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہید کی چھ خوبیاں ہوتی ہیں۔
1 ۔۔۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ نکلتے ہی اس کی بخشش ہوجاتی ہے۔
2 ۔۔۔ وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا “۔
3 ۔۔۔ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لیتا ہے۔
4 ۔۔۔ حورعین سے اس کا نکاح کردیا جاتا ہے۔
5 ۔۔۔ وہ عذاب قبر سے محفوظ ہوجاتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11155

11155 ما قطر في الارض قطرة أحب إلى الله تعالى من دم رجل مسلم في سبيل الله ، أو قطرة دمع في سواد الليل من خشية الله حيث لا يراه أحد إلا الله عزوجل. (الديلمي عن أبي أمامة).
11151 ۔۔۔ فرمایا کہ ” زمین پر گرنے والے قطروں میں سے اللہ کے نزدیک ایک قطرہ سب سے زیادہ پسندیدہ قطرہ وہ ہے جو مسلمان مرد کے خون کا ہو جو اللہ کے راستے میں نکلا تھا یا وہ آنسوجو رات کی تاریکی میں اللہ کے خوف سے نکلا ایسی تنہائی میں جس میں اس کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں دیکھتا “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابوامامۃ (رض))

11156

11156 ما من أحد يدخل الجنة يسره أن يرج إلى الدنيا إلا الشهيد ، فانه يحب أن يرجع ليقتل مرة أخرى. (حب عن أنس).
11152 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنت میں جانے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو دنیا میں واپس آنے کی خواہش کرے علاوہ شہید کے کیونکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ واپس آئے تاکہ دوبارہ قتل ہو “۔ (ابن حبان بروایت حضرت انس (رض))

11157

11157 ما من أحد يدخل الجنة يحب أن يرجع إلى الدنيا وله ما على الارض من شئ إلا الشهيد ، فانه يتمنى أن يرجع إلى الدنيا فيقتل عشر مرات ، لما يرى من الكرامة. (ابن زنجويه حب عن أنس).
11153 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنت میں جانے والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو دنیا میں واپس آنے کو پسند کرے باوجود اس کے کہ دنیا کی سب چیزیں اس کی ہوجائیں علاوہ شہید کے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں واپس جائے اور دس مرتبہ قتل ہو، اس اعزاز کی وجہ سے جو اس نے شہید کا دیکھا ہے “۔ (ابن زنجویہ، ابن حبان بروایت حضرت انس (رض))

11158

11158 ما من الناس نفس مسلمة يقبضها ربها تحب أن ترجع اليكم وأن لها الدنيا وما فيها غير الشهداء ، ولان أقتل في سبيل الله أبح إلي من أن يكون لي أهل الوبر والمدر.(حم ن والبغوي عن محمد بن أبي عميرة) وقال البغوي : ماله غيره.
11154 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مسلمانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو اس کا باپ اپنے پاس بلالے اور وہ دنیا میں واپس آنے کو پسند کرنے اور دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کا ہو علاوہ شہداء کے، اور اللہ کے راستے میں قتل ہوجانا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ دنیا بھر کے گھر بار میرے ہوں “۔ (مسند احمد، نسائی، بغوی بروایت محمد بن ابی عمیرۃ (رض))

11159

11159 ما من أهل الجنة أحد يسره أن يرجع إلى الدنيا وله عشرة أمثالها إلا الشهيد فانه يود أنه يرد إلى الدنيا عشر مرات فيستشهد لما يرى من الفضل. (هب عن أنس).
11155 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اہل جنت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے دنیا میں واپس آنا اچھا لگے خواہ دنیا اس کے لیے دس گناہ ہو علاوہ شہداء کے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ دس مرتبہ دنیا میں واپس آئیں اور شہید ہوں، اس اعزاز کی وجہ سے جو انھوں نے دیکھا ہے “۔ (بیھقی بروایت حضرت انس (رض))

11160

11160 يا جابر أما علمت أن الله تعالى أحيا أباك ؟ فقال له :تمن على الله ما أحببت ، فقال : أرد إلى الدنيا فاقتل مرة أخرى ، فقال : إني قضيت أنهم لا يرجعون. (حم وعبد بن حميد ع والشاشي طب ص عن جابر).
11156 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے جابر ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا ؟ اور کہا جو چاہو اللہ کے سامنے تمنا کرو تو انھوں نے کہا مجھے دنیا کی طرف لوٹا دیجئے میں دوبارہ قتل ہوجاؤں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ واپس نہیں جاسکتے “۔ (مسند احمد، اور عبد بن حمید، ابویعلی، شاشی، سعید بن منصور بروایت حضرت جابر (رض))

11161

11161 يا جابر ألا أبشرك ببشارة من الله ورسوله ؟ إن الله تعالى أحيا أباك وعمك ، فعرض عليهما ، وسألا ربهما أن يردهما إلى الدنيا ، فقال : إني قضيت في الكتاب أنهم إليها لا يرجعون.(طب عن جابر).
11157 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے جابر ! کیا میں تمہیں خوشخبری نہ دوں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ؟ بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد اور چچا کو زندہ کیا اور ان پر پیش کیا، ان دونوں نے دنیا میں واپس جانے کی اجازت مانگی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے کتاب میں فیصلہ لکھ رکھا ہے کہ وہ واپس نہیں جاسکتے “۔ (طبرانی بروایت حضرت جابر (رض))

11162

11162 يا جابر إن الله تعالى أحيا أباك وكلمه فقال له : تمن تمن فقال : أتمنى أن ترد روحي وتنشر خلقي كما كان ، وترجعني إلى نبيك فأقاتل في سبيلك مرة أخرى ، فقال : إني قضيت أنهم لا يرجعون (ك عن جابر).
11158 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے جابر ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے بات کی اور کہا کہ تمنا کرو تمنا کرو، انھوں نے عرض کیا میری تمنا یہ ہے کہ آپ میری روح لوٹا دیں اور مجھے دوبارہ ویسا ہی بنادیں جیسا میں تھا اور مجھے اپنے بنی کے پاس بھیج دیجئے کہ میں ایک مرتبہ پھر آپ کے راستے میں قتال کرسکوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ واپس نہیں جاسکتے “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت جابر (رض))

11163

11163 يا جابر أبشر بخير إن الله تعالى أحيا أباك فأقعده بين يديه فقال : تمن علي عبدي ما شئت أعطكه ، قال : يا ربما عبدتك حق عبادتك أتمنى عليك أن تردني إلى الدنيا فأقاتل مع نبيك فأقتل فيك مرة ، قال : إنه قد سلف مني أنك إليها لا ترجع.(حل عن عائشة).
11159 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے جابر ! میں تمہیں بھلائی کی خوشخبری دیتا ہوں، بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ میرے سامنے تمنا کرو جو تم چاہو گے وہ میں تمہیں دوں گا تو انھوں نے عرض کیا ! اے میرے رب میں آپ کی اس طرح عبادت نہیں کرسکا جس طرح اس کا حق تھا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے دنیا کی طرف واپس بھیج دیجئے میں آپ کے نبی کے ساتھ مل کر آپ کے راستے میں ایک بار پھر قتال کروں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ پہلے ہی طے کرچکا کہ تو واپس (دنیا) کی طرف نہ جائے گا “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

11164

11164 ألا أبشرك ؟ أشعرت أن الله تعالى أحيا أباك فأقعده بين يديه ؟ فقال : تمن علي عبدي ما شئت أعطكه ، قال : يا رب ما عبدتك حق عبادتك ، أتمنى عليك أن تردني إلى الدنيا فأقتل مع نبيك مرة أخرى ، قال : سبق مني أنك إليها لا ترجع.(ك وتعقب عن عائشة).
11160 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میں تجھے خوشخبری نہ دوں ؟ کیا تجھے پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کو زندہ کیا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ اے میرے بندے ! تمنا کر میرے سامنے، جو تو چاہے گا میں وہ تجھ کو دوں گا، تو انھوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں آپ کی ایسی عبادت نہیں کرسکا جیسے مجھے کرنی چاہیے تھی میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے دنیا کی طرف واپس بھیج دیں میں آپ کے نبی کے ساتھ مل کر ایک بار پھر قتال کروں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری طرف سے یہ پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ تو اس کی طرف واپس نہ جائے “۔ (مستدرک حاکم بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

11165

11165 إن أصحابك يظنون أنك من أهل النار ، وأنا أشهد أنك من أهل الجنة. (طب عن أبي عطية).
11161 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً تیرے ساتھ تجھے دوزخیوں میں سے سمجھتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اہل جنت میں سے ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو عطیہ (رض))

11166

11166 اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا في سبيلك ، فقتل شهيدا فأنا عليه شهيد. (ك عن شداد بن الهاد).
11162 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے میرے رب ! یہ تیرا بندہ ہے جو ہجرت کرتے ہوئے آپ کے راستے میں نکلا اور قتل ہو کر شہید ہوگیا اور میں اس پر گواہ ہوں “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت شداد بن الھاد (رض))

11167

11167 يا عمر إنك لا تسئل عن أعمال الناس ، إنما تسئل عن الفطرة. (أبو نعيم هب عن أبي عطية عبد الرحمن بن قيس).
11163 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے عمر ! لوگوں کے اعمال کے بارے میں تم سے نہ پوچھا جائے گا، تم سے تو صرف فطرت کے بارے میں پوچھا جائے گا “۔ (ابونعیم، سنن کبیر بیھقی بروایت ابو عطیہ عبدالرحمن بن قیس)

11168

11168 ها يا عمر إنك تحب الحديث ، وإن للشهداء سادة وأشرافا وملوكا ، وإن هذا يا عمر منهم.(ك عن كعب بن عجرة).
11164 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے عمر ! تم اس بات کو پسند کرتے ہو اور یقیناً شہداء کے لیے سرداری شرافت اور بادشاہت ہے اور اے عمر ! یہ بھی یقیناً ان میں سے ہے “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت کعب بن عجرۃ (رض))

11169

11169 إن أرواح الشهداء في طير خضر تعلق حيث شاءت.(طب عن كعب بن مالك).
11165 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کچھ شک نہیں کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے اندر ہوتی ہیں جیسا چاہتی ہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت کعب بن مالک (رض))

11170

11170 أرواح الشهداء في حواصل طير خضر معلقة في قناديل تحت العرش تسرح في الجنة حيث تشاء ، فيقول جل جلاله : لكم حاجة ؟ فيقولون : ربنا ردنا إلى أجسادنا حتى نستشهد في سبيلك. (ابن زنجويه عن نعيم بن سالم عن أنس).
11166 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہداء کی ارواح سبزرنگ کے پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹکی ہوئی قندیلوں میں رہتے ہیں، جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے ؟ تو وہ عرش کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! ہمیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیجئے تاکہ ہم دوبارہ آپ کے راستے میں شہید ہوں “۔ (ابن زنجویہ عن نعیم بن سالم بروایت حضرت انس (رض))

11171

11171 إن أرواح الشهداء في حواصل طير خضر ترعى من رياض الجنة ، ثم تكون مأواها إلى قناديل معلقة بالعرش ، فيقول الرب عز وجل : تعلمون كرامة أكرم من كرامة أكرمتكم بها ؟ فيقولون : لا ، إلا أنا وددنا أنك رددت أرواحنا إلى أجسادنا حتى نقاتل في سبيلك. (هناد عن أبي سعيد)
11167 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ہیں جو جنت کے باغوں میں چگتے ہیں پھر ان کا ٹھکانا ان قندیلوں میں ہوتا ہے جو عرش کے نیچے لٹکی ہوئی ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا تم نے اس سے زیادہ عزت دیکھی جتنی میں نے تمہیں دی ؟ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں، مگر یہ کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحوں کو ہمارے جسم میں لوٹادیں یہاں تک کہ ہم پھر آپ کے راستے میں قتال کریں “۔ (ھناد بروایت حضرت ابو سعید (رض))

11172

11172 الغريق شهيد ، والحريق شهيد ، والغريب شهيد ، والملدوغ شهيد ، والمبطون شهيد ، ومن يقع عليه البيت فهو شهيد ، ومن يقع من فوق البيت فتندق رجله أو عنقه فيموت فهو شهيد ، ومن تقع عليه الصخرة فهو شهيد ، والغيري على زوجها كالمجاهد في سبيل الله فلها أجر شهيد ، ومن قتل دون ماله فهو شهيد ، ومن قتل دون نفسه فهو شهيد ، ومن قتل دون أخيه فهو شهيد ، ومن قتل دون جاره فهو شهيد ، والآمر بالمعروف والناهي عن المنكر شهيد. (ابن عساكر عن علي).
11168 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ڈوبنے والا شہید ہے، جلنے والا شہید ہے، اجنبی شہید ہے، ڈسا ہوا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے اور جو گھر میں دب کر مرا وہ بھی شہید ہے، اور جو گھر کے چھت پر سے گرا اور اس کی ٹانگ یا گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا تو وہ بھی شہید ہے اور جس پر چٹان گر پڑی وہ بھی شہید ہے، اور اپنے شوہر پر غیرت کھانے والی ایسی ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہد تو اس عورت کے لیے بھی شہید کا اجر ہے، اور جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا وہ بھی شہید ہے، اور جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ بھی شہید ہے، اور جو اپنے بھائی کی حفاطت کی خاطر مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے پڑوسی کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور اچھی بات کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا بھی شہید ہے “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت عمر (رض))

11173

11173 فناء أمتي بالطعن ، والطاعون وخز أعدائكم من الجن ، وفي كل شهادة. (حم طب عن أبي موسى) (طس عن ابن عمر).
11169 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میری امت کی فنا نیزے سے ہوگی، اور طاعون تمہارے دشمن جنات کی طرف سے چوکا ہے اور سب میں شہادت ہے “ (مسند احمد طبرانی بروایت حضرت ابوموسیٰ (رض) اور معجم اوسط طبرانی بروایت حضرت ابن عمر (رض)

11174

11174 قاتل دون مالك حتى تحوز مالك أو تقتل فتكون من شهداء الآخرة.(حم طب عن مخارق).
11170 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑ، یہاں تک کہ تو اپنے مال کو بچالے یا تو قتل کردیا جائے، تو تو آخرت کے شہیدوں میں سے ہوگا “۔ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت مخارق (رض))

11175

11175 القتل في سبيل الله شهادة والطاعون شهادة ، والبطن شهادة ، والغرق شهادة ، والحرق والسيل والنفساء يجرها ولدها بسررها إلى الجنة. (حم عن راشد بن حبيش).
11171 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے، طاعون شہادت ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنا شہادت ہے، ڈوبنا شہادت ہے، جلنا اور بہہ جانا اور وہ عورت جس کو ولادت کے بعد خون آتا ہے اس کا بچہ اس کی ناف سے اس کو جنت کی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت راشد بن حسین (رض))

11176

11176 الطعن والطاعون والهدم وأكل السبع والغرق والحرق والبطن وذات الجنب شهادة.(ابن قانع عن ربيع الانصاري).
11172 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نیزہ اور طاعون اور دن کر مرنا اور درندے کا لقمہ بن جانا اور ڈوبنا اور جلنا اور پیٹ کی بیماری میں مرنا اور ذات الجنب کی بیماری میں مرنا شہادت ہے “۔ (ابن قانع بروایت حضرت ربیع الانصاری (رض))

11177

11177 السيل شهادة.(أبو الشيخ عن عبادة بن الصامت)
11173 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بہہ جانا بھی شہادت ہے “۔ (ابو الشیخ بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

11178

11178 من صرع عن دابته فهو شهيد.(طب عن عقبة ابن عامر).
11174 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اپنے جانور کے ہاتھوں پچھاڑ دیا گیا تو وہ شہید ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

11179

11179 من عشق فعف ، ثم مات ، مات شهيدا.(خط عن عائشة).
11175 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے عشق کیا اور پھر پاک دامن ہوگیا اور مرگیا تو وہ شہادت کی موت مرا “۔ (خطیب بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

11180

11180 من قتل دون ماله فهو شهيد ، ومن قتل دون دمه فهو شهيد ، ومن قتل دون دينه فهو شهيد ، ومن قتل دون أهله فهو شهيد.(حم حب عن سعيد بن زيد).
11176 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اپنے مال کی خاطر قتل ہوا تو وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے دین کی خاطر قتل ہوا وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں کی خاطر قتل ہوا وہ بھی شہید ہے “۔ (مسند احمد، نسائی، ابوداؤد، ترمذی ابن حبان بروایت حضرت سعید بن زید (رض))

11181

11181 الحمى شهادة.(فر عن أنس).
11177 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بخار میں مرنا شہادت ہے “۔ (فردو بروایت حضرت انس (رض))

11182

11182 شهداء الله في الارض أمناء الله على خلقه قتلوا أو ماتوا. (حم ك عن رجال).
11178 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شہداء اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے امین ہیں اس کی مخلوق میں قتل ہوجائیں یا ویسے وفات پاجائیں “۔ (مسند احمد، مستدرک حاکم بروایت رجال)

11183

11183 الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله : المقتول في سبيل الله شهيد ، والمطعون شهيد ، والغريق شهيد ، وصاحب ذات الجنب شهيد ، والمبطون شهيد ، وصاحب الحريق هيد ، والذي يموت تحت الهدم شهيد ، والمرأة تموت بجمع شهيد.(مالك حم د ن حب ك عن جابر بن عتيك).
11179 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے علاوہ شہادت سات طرح کی ہے۔
1 ۔۔۔ اللہ راہ کی قتل ہونے والا بھی شہید ہے۔
2 ۔۔۔ نیزے سے وفات پانے والا بھی شہید ہے۔
3 ۔۔۔ ڈوبنے والا بھی شہید ہے۔
4 ۔۔۔ ذات الجنب کی بیماری میں وفات پانے والا بھی شہید ہے۔
5 ۔۔۔ پیٹ کی بیماری میں وفات پانے والا بھی شہید ہے۔
(6) ۔۔۔ جل کر مرنے والا بھی شہید ہے۔
(7) ۔۔۔ اور کسی چیز کے نیچے دب کر مرنے والا بھی شہید ہے۔
(8) ۔۔۔ اور وہ عورت جو بچے کی پیدائش کی وجہ سے وفات پائے وہ بھی شہید ہے “۔ (مالک، مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن حبان مستدرک حاکم بروایت حضرت جابر بن عتیک (رض))

11184

11184 الشهداء خمسة : المطعون ، والمبطون ، والغريق ، وصاحب الهدم ، والشهيد في سبيل الله.(مالك قط عن أبي هريرة).
شہداء پانچ قسم کے ہیں نیزے سے مرنے والا، پیٹ کے مرض میں مرنے والا، ڈوبنے والا، دب کر مرنے والا، اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا، مالک

11185

11185 إن أكثر شهداء أمتي لاصحاب الفرش ، ورب قتيل بين الصفين الله أعلم بنيته. (حم عن ابن مسعود).
11180 ۔۔۔ فرمایا کہ ” میری امت کے اکثر شہداء وہ ہیں جو بستروں پر وفات پائیں گے اور بعض صفوں میں قتل ہونے والوں کی نیتوں کے بارے میں بھی اللہ زیادہ جانتے ہیں “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

11186

11186 البطن والغرق شهادة.(طس عن أبي هريرة).
پیٹ کی بیماری اور ڈوب کر مرنے والا شہید ہے۔

11187

11187 خمس من قبض في شئ منهن فهو شهيد : المقتول في سبيل الله شهيد ، والغريق في سبيل الله شهيد ، والمبطون في سبيل الله شهيد ، والمطعون في سبيل الله شهيد ، والنفساء في سبيل الله شهيدة.(ن عن عقبة بن عامر).
11182 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پانچ چیزیں ایسی ہیں جن میں اگر کوئی آدمی مرجائے تو وہ شہید ہے۔
1 ۔۔۔ اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید۔
2 ۔۔۔ اللہ کے راستے میں ڈوب کر مرنے والا شہید۔
3 ۔۔۔ اللہ کے راستے میں پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید ہے۔
4 ۔۔۔ اور اللہ کے راستے میں طاعون کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے۔
5 ۔۔۔ اور وہ خاتون جو نفاس سے ہو اللہ کے راستے میں تو وہ بھی شہید ہے۔ (نسائی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

11188

11188 الطاعون والغرق والبطن والحرق والنفساء شهادة لامتي.(حم طب والضياء عن صفوان بن أمية).
11184 ۔۔۔ فرمایا کہ ” طاعون، ڈوبنا، پیٹ کی بیماری، جلنا اور نفاس میں وفات پانے والی خاتون بھی شہید ہے “۔ (مسند احمد، طبرانی، الضیاء ، بروایت حضرت صفوان بن امیۃ (رض))

11189

11189 الغريق في سبيل الله شهيد.(تخ عن عقبة بن عامر).
11185 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں ڈوبنے والا بھی شہید ہے “ (بخاری فی التاریخ بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

11190

11190 إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ القتل في سبيل الله شهادة والمطعون شهادة ، والمرأة تموت بجمع شهادة ، والغرق والحرق والمجنوب شهادة. (ه عن جابر بن عتيك)
11186 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا میری امت کے شہداء کم ہوں گے ؟ اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید ہے، طاعون کی بیماری میں قتل ہونے والا شہید ہے، اور نفاس میں وفات پانے والی خاتون بھی شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا، جل کر مرنے والا اور ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت جابر بن عتیک (رض))

11191

11191 القتيل في سبيل الله شهيد ، والمبطون شهيد ، والمطعون شهيد ، والغريق شهيد ، والنفساء شهيدة.(طب عن عبد الله بن بسر).
11187 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید ہے اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے، اور طاعون میں مرنے والا شہید ہے، ڈوبنے والا بھی شہید ہے اور وہ خاتون جو نفاس میں مری ہو وہ بھی شہید ہے “۔ (طبرانی بروایت عبداللہ بن بسر (رض) )
فائدہ :۔۔۔ نفاس وہ خون ہے جو بچے کی ولادت کے بعد خاتون کو آتا ہے، اس کی کم سے کم مدت کوئی نہیں جبکہ زیادہ زیادہ مدت چالیس دن ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11192

11192 من أتي عند ماله فقوتل فقتل فهو شهيد.(ه عن ابن عمر).
11188 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جسے اپنے مال کے پاس لایا گیا اور قتال کیا گیا اور وہ قتل ہوگیا تو وہ شہید ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11193

11193 من مات مرابطا مات شهيدا ، ووقي فتنة القبر ، وغدي عليه وريح عليه برزقه من الجنة.(ه عن أبي هريرة).
11189 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو مورچہ بندی کی حالت میں مرا وہ شہید ہے، اور قبر کے فتنے سے بچادیا گیا ہے اور اسے غذا دی جاتی ہے اور اس کا رزق جنت سے جاری کیا جاتا ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11194

11194 ما تقولون في الشهيد فيكم ؟ قالوا : القتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ من قتل في سبيل الله فهو شهيد ، ومن مات في سبيل الله فهو شهيد ، والمبطون شهيد ، والمطعون شهيد ، والغريق شهيد. (ه عن أبي هريرة).
11190 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم اپنے شہید کے بارے میں کیا کہتے ہو، عرض کیا جو اللہ کی راہ میں قتل ہو، فرمایا کہ اس طرح تو میری امت کے شہداء کم ہوجائیں گے، جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے اور جو اللہ کی راہ میں مرجائے وہ بھی شہید ہے اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے اور جل کر مرنے والا بھی شہید ہے، اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11195

11195 وما تعدون الشهادة إلا من قتل في سبيل الله ؟ إن شهداءكم إذا لقليل ؟ القتل في سبيل الله شهادة ، والبطن شهادة ، والحرق شهادة ، والغرق شهادة ، والمغموم يعني الهدم شهادة والمحفور شهادة ، والمرأة تمون بجمع شهادة. (ن عبد الله بن جبير).
11191 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے اس کے علاوہ تم شہید کس کو سمجھتے ہو ؟ اس طرح تو تمہارے شہید کم ہوجائیں گے، اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے بھی شہید اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید اور جل کر مرنے والا بھی شہید اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور کسی منہدم کے نیچے دب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور گڑھے میں دب کر مرنے والا شہید ہے اور وہ خاتون جو نفاس میں وفات پاگئی ہو وہ بھی شہید ہے “۔ (نسائی بروایت حضرت عبداللہ بن جبیر (رض))

11196

11196 من قتل في سبيل الله فهو شهيد ، ومن مات في سبيل الله فهو شهيد ، ومن مات في الطاعون فهو شهيد ، ومن مات في البطن فهو شهيد ، ومن غرق فهو شهيد. (م عن أبي هريرة).
11192 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجائے تو وہ شہید ہے ، اور جو اللہ کے راستے میں مرجائے وہ بھی شہید ہے اور جو طاعون میں مرجائے وہ بھی شہید ہے اور جو پیٹ کی بیماری میں مرے وہ بھی شہید ہے اور جو ڈوب کر مرے وہ بھی شہید ہے “۔ (مسلم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11197

11197 من قتل دون ماله فهو شهيد.(حم ق ت ن عن ابن عمر) (ن ه حب سعيد بن زيد) (ن عن بريدة).
11193 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اپنے مال کی خاطر قتل کیا جائے تو وہ بھی شہید ہے “۔ (مسند احمد متفق علیہ، ترمذی، نسائی بروایت حضرت ابن عمر (رض) اور نسائی ابن ماجہ ابن حبان بروایت حضرت سعید بن زید (رض) اور نسائی بروایت حضرت بریدۃ (رض))

11198

11198 من قتل دون ماله مظلوما فله الجنة.(ن عن ابن عمرو).
11194 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اپنے مال کی خاطر مظلوماً قتل ہوا تو اس کے لیے جنت ہے “۔ (نسائی بروایت حضرت ابن عمر (رض)

11199

11199 القتل في سبيل الله شهادت ، والطاعون شهادة ، والبطن شهادت ، والغرق شهادت ، والنفساء شهادة.(حم والضياء عن عبادة ابن الصامت).
11195 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل ہونا شہادت ہے طاعون میں مرنا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنا شہادت ہے ڈوب کر مرنا شہادت ہے، اور نفاس میں مرنا شہادت ہے۔ (مسند احمد اور ضیاء بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

11200

11200 كم ممن أصابه السلاح ليس بشهيد ولا حميد ، وكحم ممن قد مات على فراشه حتف أنفه عند الله صديق شهيد.(حل عن أبي ذر).
11196 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کہتے ہیں ایسے لوگ ہیں جو اسلحہ سے مرے لیکن نہ وہ شہید ہیں نہ ان کی تعریف کی جاتی ہے اور کتنے ہی اپنے بستروں پر اپنی موت آپ مرجانے والے ہیں اور اللہ کے ہاں صدیق اور شہید ہیں (حلیہ ابو نعیم بروایت حضرت ابوذر)

11201

11201 ما من مسلم يظلم مظلمة فيقالت إلا قتل شهيدا.(حم عن ابن عمرو).
11197 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی مسلمان ایسا نہیں جو ظلماً قتل کیا گیا ہو اور وہ شہید نہ ہو (مسند احمد بروایت حضرت ابن عمرو (رض)

11202

11202 من أريد ماله بغير حق فقاتل فقتل فهو شهيد.( عن ابن عمر).
11198 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کے مال کا ناحق ارادہ کیا گیا اور اس نے قتال کیا اور وہ قتل ہوگیا تو وہ شہید ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11203

11203 من عشق فكتم وعف فمات فهو شهيد.(خط عن ابن عباس).
11199 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے عشق کیا اور چھپایا اور پاک دامن ہوگیا اور مرگیا تو وہ شہید ہے “۔ (خطیب بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11204

11204 من قتله بطنه لم يعذب في قبره.(حم ت ن حب عن خالد بن عرفطة وسليمان بن صرد).
11200 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جسے اس کے پیٹ نے قتل کیا ہوا سے قبر میں عذاب نہ ہوگا “۔ (مسند احمد، ترمذی نسائی، ابن حبان بروایت خالد بن عرفطہ سلیمان بن صرد)

11205

11205 من قتل دون مظلمته فهو شهيد.(ن والضياء عن سويد بن مقرن).
11201 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو کسی ظلم کو سہتے ہوئے مارا گیا وہ بھی شہید ہے “ (نسائی، ضیاء بروایت حضرت سوید بن مقرن (رض)

11206

11206 موت الغريب شهادة.(ه عن ابن عباس).
11202 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص اپنے گھر بار سے دور وفات پاجائے تو اس کی موت بھی شہادت ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11207

11207 إن الرجل إذا مات بغير مولده قيس له من مولده إلى منقطع أثره في الجنة. (ن ه عن ابن عمرو).
11203 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی شخص جب اپنی جائے پیدائش کے علاوہ کسی جگہ مرگیا تو اس کی وفات کی جگہ سے لے کر جائے پیدائش تک ناپی جاتی ہے اور جنت میں بھی اتنی جگہ دی جاتی ہے “۔ (نسائی ابن ماجہ، بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11208

11208 الميت من ذات الجنب شهيد.(حم طب عن عقبة ابن عامر).
11204 ۔ فرمایا کہ ” ذات الجنب کی بیماری میں مرا ہوا بھی شہید ہے “ (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

11209

11209 نعم الميتة أن يموت الرجل دون حقه (حم عن سعد).
11205 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا ہی اچھی موت ہے اس شخص کی جو ناحق قتل کیا گیا “۔ (مسند احمد، بروایت حضرت سعد (رض))

11210

11210 من طلب الشهادة صادقا أعطيها ولو لم تصبه.(حم م عن أنس).
11206 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو سچے دل سے شہادت طلب کرے تو اس کو دے دی جاتی ہے اگرچہ وہ شہید نہ ہوا ہو “۔ (مسند احمد، مسلم بروایت حضرت انس (رض))

11211

11211 من سأل الشهادة بصدق بلغه الله منازل الشهداء ، وإن مات على فراشه. (م عن سهل بن حنيف).
11207 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے سچے دل سے شہادت طلب کی تو اللہ تعالیٰ اس کو شہداء کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں خواہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو “۔ (مسلم، ابوداؤد نسائی ترمذی، ابن ماجہ بروایت حضرت سھل بن حنیف (رض))

11212

11212 من سأل الله القتل في سبيل الله صادقا من قلبه أعطاه الله أجر شهيد ، وإن مات على فراشه (ت عن معاذ) (ك عن أنس).
11208 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے دل کی سچائی کے ساتھ اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کو شہید کا اجر عطا فرما دیتے ہیں چاہے وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو “۔ (ترمذی، بروایت حضرت معاذ (رض) اور مستدرک حاکم بروایت حضرت انس (رض))

11213

11213 أتدرون من شهداء أمتي ؟ قالوا : قتل المسلم شهادة ، قال : إن شهداء أمتي إذا قليل ؟ قتل المسلم شهادة ، والبطن شهادة ، والغرق شهادة ، والمرأة يقتلها ولدها جمعا شهادة.(ابن سعد عن عبادة بن الصامت).
11209 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کیا تم جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون ہیں ؟ عرض کیا کہ مسلمان کا قتل ہونا شہادت ہے، فرمایا کہ پھر تو میری امت کے شہید بہت کم ہوں گے ؟ مسلمان کا قتل ہونا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنا شہادت ہے، ڈوب کر مرنا شہادت ہے، اور وہ عورت جس کا بچہ اس کو قتل کردے تو وہ موت بھی شہادت ہے “۔ ابن سعد بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض) )
فائدہ :۔۔۔ بچے کے ہاتھوں قتل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی عورت بچے کی ولادت کے وقت ہونے والی تکلیف برداشت نہ کرسکی اور وفات پاگئی تو وہ بھی شہید ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11214

11214 ما تعدون الشهيد فيكم ؟ قالوا : الذي يقتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ القتل في سبيل الله شهادة ، والطاعون شهادة والنفساء شهادة ، والحرق شهادة ، والغرق شهادة ، والسيل شهادة ، والبطن شهادة. (طب عن سلمان) (ط عن عبادة بن الصامت) مثله غير أنه قال بدل السيل : والمرأة يقتلها ولدها جمعا شهادة.
11210 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم لوگ اپنے میں سے شہید کس کو سمجھتے ہو ؟ عرض کیا گیا وہ جو اللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا ہو فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء یقیناً کم ہوجائیں گے “۔ اللہ کے راستے میں قتل ہونا بھی شہادت ہے، طاعون کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے، نفاس میں مرنا بھی شہادت ہے، جل کر مرنا بھی شہادت ہے، ڈوب کر مرنا بھی شہادت ہے بہہ کر مرنا بھی شہادت ہے اور پیٹ کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت سلمان (رض)، حضرت عبادۃ بن الصامت (رض) )
” البتہ حضرت عبادۃ (رض) نے ریلے میں بہہ جانے کے بجائے یہ فرمایا کہ بچے کی ولادت کے دوران اگر کوئی عورت مرجائے تو یہ بھی شہادت ہے “۔

11215

11215 ما تعدون الشهداء فيكم ؟ قالوا : من قتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ من قتل في سبيل الله فهو شهيد ، والمتردي شهيد ، والنفساء شهيدة ، والغريق شهيد ، والسل شهيد ، والحريق شهيد ، والغريب شهيد. (طب عن عبد الملك بن هارون عن عنترة عن أبيه عن جده).
11211 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم اپنے میں سے شہید کس کو سمجھتے ہو ؟ عرض کی گیا کہ جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو، فرمایا کہ اس طرح تو میری امت کے شہداء یقیناً کم ہوجائیں گے، جو اللہ کے راستے میں قتل کیا گیا ہو وہ بھی شہید ہے اور بلندی سے گرکرمرنے والا بھی شہید ہے، اور نفاس میں وفات پانے والی خاتون بھی شہید ہے اور ڈوب کر مرنے والا بھی ہے اور یہ کہ مرنے والا بھی شہید ہے، اور جل کر مرنے والا بھی شہید ہے اور گھربار سے دور اجنبی بھی شہید ہے “۔ (طبرانی عن عبد الملک بن ہارون عن عشرۃ بن ابیہ عن جدہ)

11216

11216 ما تعدون فيكم ؟ قالوا : من قتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي لقليل ؟ القتل في سبيل الله شهادة ، والبطن شهادة ، والغرق شهادة ، والطاعون شهادة ، والنفساء شهادة.(حم عن أبي هريرة).
تم اپنے میں شہید کس کو سمجھتے ہو، جواب دیا کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے فرمایا تب تو میری امت کے شہید کم ہوجائیں گے ، جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے ، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، طاعون سے مرنے والا شہید ہے ، حالت نفاس میں مرنے والی عورت شہید ہے۔

11217

11217 ما تعدون الشهداء فيكم ؟ قالوا : من يقتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ المقتول في سبيل الله شهيد ، والمرء يموت على فراشه في سبيل الله شيهد ، والمبطون شهيد ، والملدوغ شهيد ، والغريق شهيد ، والشريق شهيد ، ولذي يفترسه السبع شهيد ، والخار عن دابته شهيد ، وصاحب الهدم شهيد ، وصاحب ذات الجنب شهيد ، والنفساء يقتلها ولدها يجرها بسرره إلى الجنة. (طب عن ابن عباس).
11213 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم لوگ آپس میں شہید کس کو سمجھتے ہو ؟ عرض کیا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں قتل ہوجائے، فرمایا کہ پھر تو میری امت کے شہداء بہت کم ہوں گے اللہ کی راہ میں قتل شدہ بھی شہید ہے اور وہ شخص جو اللہ کی راہ میں اپنے بستر پر مرگیا ہو وہ بھی شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے ڈسا ہوا بھی شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے دم گھٹنے سے مرنے والا بھی شہید ہے “ اور جس کو درندے نے چیر پھاڑ دیا ہو وہ بھی شہید ہے، اپنی سواری سے گرکر مرنے والا بھی شہید ہے کسی منہدم چیز کے نیچے دب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، اور وہ خاتون جو نفاس میں ہو اور بچے کی ولادت کی وجہ سے شہید ہوگئی ہو وہ اس کو ناف سے پکڑ کر جنت کی طرف کھینچتا ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11218

11218 ما تقولون في الشهيد فيكم ؟ قالوا : القتل في سبيل الله ، قال : إن شهداء أمتي إذا لقليل ؟ من قتل في سبيل الله فهو شهيد ، ومن مات في سبيل الله فهو شهيد ، والمبطون شهيد ، والمطعون شهيد ، والغريق شهيد. (ه عن أبي هريرة).
11214 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم آپس میں شہید کے بارے کیا کہتے ہو ؟ عرض کیا گیا کہ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوجائے، فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت کم ہوجائیں گے ؟ جو اللہ کے راستے میں قتل کیا گیا ہو وہ بھی شہید ہے اور جو اللہ کی راہ میں مرگیا ہو وہ بھی شہید ہے اور پیٹ کی بیماری میں وفات پانے والا بھی شہید ہے اور طاعون کی بیماری میں وفات پانے والا بھی شہید ہے اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابوہریرہ (رض))

11219

11219 القتل في سبيل الله شهيد ، والمبطون شهيد ، والمطعون شهيد ، والنفساء شهيدة يجرها ولدها بسررها إلى الجنة.(عب عن عبادة بن الصامت).
11215 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید ہے، اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے اور ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور طاعون کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے اور نفاس میں جو خاتون بچے کی ولادت کی وجہ سے وہ بچہ اس کو ناف سے جنت کی طرف لے جارہا ہوتا ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

11220

11220 القتيل في سبيل الله شهيد ، والمبطون شهيد ، والغريق شهيد ، والطاعون شهادة ، والغريب شهيد ، والنفساء يجرها ولدها بسررها إلى الجنة. (سمويه عن عبادة بن الصامت).
11216 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید ہے اور پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور طاعون کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، گھر سے دور اجنبی بھی شہید ہے اور نفاس میں بچے کی ولادت کی وجہ سے مرنے والی خاتون بھی شہید ہے اس کا بچہ ناف سے اس کو جنت کی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے “۔ (سمویہ بروایت حضرت عبادۃ بن الصامت (رض))

11221

11221 المطعون شهيد ، والمبطون شهيد ، والغريق شهيد ، والحريق شهيد ، والهدم شهيد ، والمرأة تموت بجمع شهيدة ، وذات الجنب شهيد.(ابن سعد عن عرباض بن سارية عن أبي عبيدة بن الجراح).
11217 ۔۔۔ فرمایا کہ ” طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے پیٹ کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے جل کر مرنے والا شہید ہے، دب کر مرنے والا شہید ہے اور بچے کی ولادت کی وجہ سے مرنے والی خاتون بھی شہید ہے اور ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے “۔ (ابن سعد بروایت عریاض بن ساریہ عن ابن عبیدۃ بن الجراح )

11222

11222 الطاعون والمبطون والغريق والنفساء شهادة.(حم والدارمي ن ص والبغوي وابن اقنع عن صفوان بن أمية).
11218 ۔۔۔ فرمایا کہ ” طاعون کی بیماری، پیٹ کی بیماری ڈوب کر مرنے والا اور نفاس میں مرنے والی خاتون سب شہید ہیں “۔ (مسند احمد، دارمی، نسائی، سعید بن منصور، بغوی ، ابن قانع بروایت حضرت صفوان بن امیۃ (رض))

11223

11223 من مات مرابطا مات شهيدا ، ووقي فتنة القبر وغدي وريح عليه برزقه من الجنة.(حل عن أبي هريرة).
11219 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو شخص مورچہ بندی کی حالت میں وفات پا گیا تو وہ شہادت کی موت مرا اور قبر کے فتنے سے بچالیا گیا اور صبح و شام اس کا زق جنت میں اس کو پہنچایا جاتا ہے “۔ (حلیہ ابی نعیم بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11224

11224 من قتل في سبيل الله فهو شهيد ، ومن غرق في سبيل الله فهو شهيد ، ومن قتله البطن فهو شهيد ، والمرأة يقتلها نفاسها شهيدة. (م طب عن ابن عمرو).
11220 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں قتل ہوا تو وہ شہید ہے اور جس نے اللہ کے راستے میں ڈوب کر جان دی وہ بھی شہید ہے اور جس کو اس کے پیٹ نے قتل کیا وہ بھی شہید ہے اور وہ عورت جس کو اس کے نفاس نے قتل کیا وہ بھی شہید ہے “۔ (مسلم، طبرانی بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11225

11225 الغريق شهيد.(أبو الشيخ عن جابر).
11221 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ڈوب کر مرنے والا شہید ہے “۔ (ابو الشیخ بروایت حضرت جابر (رض))

11226

11226 المحموم شهيد.(الديلمي عن أنس).
11222 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بخار میں مرنے والا شہید ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت انس (رض))

11227

11227 الميت من ذات الجنب شهيد.(حم طب عن عقبة ابن عامر).
11223 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ذات الجنب میں بیماری میں مرا ہوا شہید ہے (مسند احمد، طبرانی بروایت حضرت عقبۃ بن عامر (رض)

11228

11228 المطعون شهيد.(ابن شاهين عن علي بن الارقم الوادعي عن أبيه).
11224 ۔۔۔ فرمایا کہ ” طاعون کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے “ (ابن شاہین عن علی بن الارقم الوادعی عن ابیہ (رض)

11229

11229 صاحب البطن شهيد لا يعذب في قبره.(طب عن سليمان بن صدر وخالد بن عرفطة).
11225 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے اس کو قبر میں عذاب نہ ہوگا “۔ (طبرانی بروایت حضرت سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفطہ (رض))

11230

11230 لا يعذب في القبر صاحب البطن.(طب عن سليمان ابن صرد وخالد بن عرفطة معا).
11226 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پیٹ کی بیماری میں مرنے والے کو قبر میں عذاب نہ دیا جائے گا “۔ (طبرانی بروایت حضرت سلیمان بن صرف اور خالد بن عرفطۃ معاً )

11231

11231 موت الرجل في الغربة شهادة ، وإذا احتضر فرمى ببصره عن يمينه وعن يساره فلم ير إلا غريبا وذكر أهله وولده وتنفس فله بكل نفس يتنفس به يمحوا الله به ألفي ألف سيئة ، ويكتب له ألفي ألف حسنة ، ويطبع بطابق الشهداء إذا خرجت نفسه.(طب والرافعي عن وهب بن منبه عن ابن عباس).
11227 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اپنے گھر بار سے دور کس شخص کا مرجانا شہادت ہے اور جب کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ اپنے دائیں بائیں کسی اپنے کو نہ پائے اپنے گھر والوں اور اولاد کو یاد کرے اور آہیں بھرے تو ہر آہ جو وہ بھرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے بیس لاکھ برائیاں مٹاتے ہیں اور بیس لاکھ نیکیاں اس کے لیے لکھی جاتی ہیں اور جب اس کا سانس نکل جاتا ہے تو اس پر شہداء کی مہر لگا دی جاتی ہے “۔ (طبرانی، رافعی عن وھب بن منبہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11232

11232 إن قتلك فأنت في الجنة ، وإن قتلته فهو في النار. (طب عن فهيد بن مطرف الغفاري) ان رجلا قال : يا رسول الله إن عدا علي عاد قال : فذكره.
11228 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر اس نے تجھے قتل کردیا تو جنت میں جائے گا اور اگر تو نے اس کو قتل کردیا تو وہ جہنم میں جائے گا “۔ (طبرانی بروایت فھید بن مطرف الغفاری (رض) )
ایک شخص نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمایا کہ اگر دشمن مجھ پر چڑھائی کرے تو ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا۔

11233

11233 ناشده الله ثلاث مرات فان أبى فقاتله ، فان قتلك دخلت الجنة ، وإن قتلته دخل النار.(عبد بن حميد عن أبي سعيد) أن رجلا قال : يا رسول الله أرأيت من لقيني يريد أن يأخذ مالي ، قال : فذكره.
11229 ۔۔۔ ایک شخص نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمایا کہ اگر کوئی شخص مجھ سے ملے اس طرح کہ وہ میرا مال ہتھیانا چاہے تو آپ اس سلسلے میں کیا سمجھتے ہیں ؟ تو اس کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس کو تین مرتبہ اللہ کا واسطہ دو اگر وہ انکار کرے تو اس کے ساتھ قتال کرو پھر اگر اس نے تجھے قتل کردیا تو تو جنت میں جائے گا اور اگر تو نے اس کو قتل کردیا تو وہ جہنم میں جائے گا۔ (عبد بن حمید بروایت حضرت ابو سعید (رض))

11234

11234 من أعطى حق ماله فتعدي عليه فقاتله فقوتل ثم قتل فهو شهيد.(الحكيم وابن النجار عن ابن عمرو).
11230 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنے مال کا حق ادا کردیا اور پھر اس کے ساتھ حد سے تجاوز کیا گیا اور قتال کیا گیا اور اس نے بھی قتال کیا اور قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہے “۔ (الحکم وابن النجار بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11235

11235 من قاتل دون ماله حتى يقتل فهو شهيد.(طب عن سعيد بن زيد).
11231 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنے مال کی خاطر قتال کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت سعید بن زید (رض))

11236

11236 من قاتل دون نفسه حتى يقتل فهو شهيد ، ومن قتل دون ماله فهو شهيد ، ومن قاتل دون أهله حتى يقتل فهو شهيد ، ومن قتل في جنب الله فهو شهيد. (عب عن ابن عباس).
11232 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس نے اپنی جان کی خاطر قتال کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہے اور جسے اپنے مال کی خاطر قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے اور جس نے اپنے گھر والوں کی خاطر قتال کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا تو وہ بھی شہید ہے، اور جو اللہ کے راستے میں قتل کیا گیا تو وہ بھی شہید ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق بروایت حضرت ابن عباس رضی عنہ)

11237

11237 من قتل دون أهله ظلما فهو شهيد ، ومن قتل دون ماله ظلما فهو شهيد ، ومن قتل دون جاره ظلما فهو شهيد ، ومن قتل في ذات الله عزوجل فهو شهيد. (ابن النجاتر عن ابن عباس).
فرمایا کہ جو اپنے گھر والوں کی خاطر ظلما قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے اور جو اپنے مال کی خاطر ظلما قتل کیا گیا تو وہ بھی شہید ہے اور جو اپنے پڑوسی کی خاطر ظلما شہید کیا گیا تو وہ بھی شہید ہے اور جو اللہ کی ذات میں قتل کیا گیا تو وہ بھی شہید ہے۔

11238

11238 المقتول دون ماله شهيد ، والمقتول دون أهله شهيد ،والمقتول دون نفسه شهيد.(طب عن ابن عباس).
11233 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اپنے مال کی خاطر کیا جانے والا شہید ہے اور اپنے گھر والوں کی خاطر قتل کیا جانے والا شہید ہے اور اپنی جان کی خاطر قتل کیا جانے والا بھی شہید ہے “ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11239

11239 من قتل على ماله فهو شهيد.(عب عن ابن عمر).
11235 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اپنے مال کی خاطر قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق بروایت حضرت ابن عمر (رض)

11240

11240 من طلب الشهادة صادقا أعطيها وإن مات على فراشه. (أبوعوانهة عن أنس).
11236 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو اللہ کے راستے میں صدق دل سے شہادت طلب کرے تو اس کو دے دی جاتی ہے خواہ اس کی وفات اپنے بستر پر ہی ہو “۔ (ابو عوانۃ بروایت حضرت انس (رض))

11241

11241 إن لله عبدا يضن بهم عن القتل ويطيل أعمارهم في حسن العمل ، ويحسن أرزاقهم ويحييهم في عافية ، ويقبض أرواحهم في عافية على الفرش ، فيعطيهم منازل الشهداء. (طب عن ابن مسعود).
11237 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مخلوق میں بعض اللہ تعالیٰ کے بہت خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قتل سے دور رکھتے ہیں اور ان کی عمر لمبی کردیتے ہیں اچھے اعمال میں، ان کا رزق اچھا کردیتے ہیں، اور انھیں عافیت کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں اور خیرو عافیت کے ساتھ ان کے بستروں پر ان کی روح قبض فرماتے ہیں اور پھر انھیں شہداء کا مقام و مرتبہ عطا فرماتے ہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن مسعود (رض))

11242

11242 إن لله ضنائن من خلقه يغذوهم في رحمته محياهم في عافية ومماتهم في عافية ، وإذا توفاهم توفاهم إلى جنته أولئك الذين تمر عليهم الفتن كقطع الليل المظلم وهم منها في عافية. (الحكيم طب حل عن ابن عمر).
11238 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کی مخلوق میں بعض بہت خاص بندے ہوتے ہیں، اپنی رحمت میں ان کو غذا فراہم کرتے ہیں، ان کی زندگی بھی خیروعافیت میں گزرتی ہے اور ان کی وفات بھی خیروعافیت کے ساتھ ہوتی ہے اور جب ان کو اللہ تعالیٰ اٹھاتے ہیں تو اٹھا کر جنت کی طرف لے جاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر سے فتنے ایسے گزرتے ہیں جیسے اندھیری رات کے حصے لحظہ بلحظہ اور وہ اس سے عافیت میں ہوتے ہیں “۔ (الحکیم، طبرانی، حلیہ ابونعیم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11243

11243 لله أضن بعبده المؤمن من أحدكم بكريمة ماله حتى يقبض على فراشه. (الحكيم عن ابن عمر).
11239 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً اللہ تعالیٰ تم میں سے اپنے خاص مومن بندے کو اس کے اچھے مال کے ساتھ بچارکھتے ہیں یہاں تک کہ بستر پر اس کی روح قبض فرماتے ہیں “۔ (الحکیم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11244

11244 ليذكرن الله عزوجل قوم في الدنيا على الفرش الممهدة يدخلهم الدرجات العلى. (ع حب عن أبي سعيد).
11240 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ ضرور یاد رکھتے ہیں ایسی قوم کو جو دنیا میں بچھے ہوئے بستروں پر تھی اور انھیں بلند درجات میں داخل کرتے ہیں “۔ (مسند ابی یعلی بروایت حضرت ابو سعید (رض))

11245

11245 إن لله تعالى عبادا يضن بهم عن الامراض والاسقام في الدنيا يحييهم في عافية ، ويميتهم في عافية ويدخلهم الجنة في عافية. (الحكيم عن شهر بن حوشب) مرسلا.
11241 ۔۔۔ فرمایا کہ ” یقیناً اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بیماریوں وغیرہ سے اس دنیا میں دور رکھتے ہیں خیرو عافیت کے ساتھ ان کو زندہ رکھتے ہیں اور خیرو عافیت کے ساتھ ان کی وفات ہوتی ہے اور خیرو عافیت کے ساتھ ان کو جنت میں داخل کرتے ہیں “۔ (حکیم بروایت حضرت شہر بن حوشب (رض))

11246

11246 إن لله عزوجل عبادا يضن بهم عن البلاء يحييهم في عافية ويدخلهم الجنة في عافية.(ابن النجار عن أنس).
11242 ۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بلاء وغیرہ سے دور رکھتے ہیں انھیں خیرو عافیت کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں اور خیرو عافیت کے ساتھ جنت میں داخل کرتے ہیں “۔ (ابن النجار بروایت حضرت انس (رض)

11247

11247 إن لله تعالى عبادا يحييهم في عافية ، ويميتهم في عافية ، ويدخلهم الجنة في عافية.(طس عن أبي مسعود الانصاري).
11243 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ کے بعض خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں خیرو عافیت کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں اور خیرو عافیت کے ساتھ ان کو وفات دیتے ہیں اور خیرو عافیت کے ساتھ ان کو جنت میں داخل کرتے ہیں “۔ (معجم اوسط طبرانی بروایت حضرت ابو مسعود الانصاری (رض))

11248

11248 ليس من أحد إلا وله كرائم من ماله يأبى لهم الذبح ، وإن لله خلقا يأبى لهم الذبح ، قوم يجعل الله موتهم على فرشهم ويقسم لهم أجور الشهداء. (الحكيم عن ابن عمر).
11244 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی شخص ایسا نہیں جس کے مال میں بہترین حصہ نہ ہو جو خرچ ہونے سے محفوظ رہا ہو، اور بیشک اللہ کی خاص مخلوق ہے اس کی مخلوق میں سے ایسی قوم ہے جن کی ارواح کو اللہ تعالیٰ ان کے بستروں پر قبض فرماتے ہیں اور ان کے لیے شہداء کا اجر تقسیم کیا جاتا ہے “۔ (الحکیم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11249

1249 ردوا التقلى إلى مضاجعها. (ت حب عن جابر)
11245 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مقتولوں کو ان کے لیٹنے کی جگہ پر پہنچا دو “۔ (ترمذی، ابن حبان بروایت حضرت جابر (رض))
فائدہ :۔۔۔ شہید چونکہ زندہ ہوتا ہے اس لیے اس کی قبر کو لیٹنے کی جگہ سے تعبیر فرمایا “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11250

1250 زملوهم بدمائهم ، فانه ليس من كلم يكلم في الله إلا وهو يأتي يوم القيامة يدمى.لونه لون الدم ، وريحه ريح المسك. (ن عن عبد الله ثعلبة).
11246 ۔۔۔ فرمایا کہ ” انھیں ان کے خون کا کمبل ہی اوڑھادو کیونکہ ہر وہ زخم جو اللہ کی راہ میں لگا تھا وہ قیامت کے دن اس کی خوشبو مشک کی مانند ہوگی۔ (نسائی بروایت حضرت عبداللہ بن ثعلبہ (رض))

11251

11251 ادفنوا القتلى في مصارعهم. (عن جابر).
11247 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مقتولوں کو اسی جگہ دفن کردو جہاں وہ قتل ہوئے “۔ (سنن اربعہ بروایت حضرت جابر (رض))

11252

الاكمال (11252) - ادفنوهم بدمائهم يعنى يوم أحد.(خ عن جابر).
11248 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جنگ احد کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان (شہیدوں) کو ان کے خون کے ساتھ ہی دفن کردو “۔ (بخاری بروایت حضرت جابر (رض))

11253

11253 ادفنوهم بدمائهم وثيابهم.(حم عن ابن عباس).
11249 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ان کو ان کے خون اور کپڑوں سمیت دفن کردو “۔ (مسند احمد بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11254

11254 زملوهم في ثيابهم بكلومهم ودمائهم ، فاني قد شهدت عليهم وقدموا أكثرهم قرآنا.(حم وابن منده ك وابن عساكر عن عبد الله ابن ثعلبة بن أبي)
11250 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لپیٹ دو ان کو ان کے کپڑوں میں ان کے زخموں اور خون سمیت کیونکہ میں نے ان پر گواہی دی ہے ان میں سے اکثر قرآن پڑھتے ہوئے آئے “۔ (مسند احمد، ابن منذہ، مستدرک حاکم، ابن عساکر بروایت حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی

11255

11255 لا تغسلوهم يعني قتلى أحد فان كل جرح أو كل دم يفوح مسكا يوم القيامة. (حم ص عن جابر).
11251 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ان کو غسل مت دو یعنی غزوہ احد کے شہداء کو کیونکہ ہر زخم یا ہر خون کا قطرہ قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے مہک رہا ہوگا “۔ (مسند احمد، سعید بن منصور بروایت حضرت جابر (رض))

11256

11256 إن الله إذا جعل لقوم عمادا أعانهم بالنصرة. (ابن قانع عن صفوان بن أسيد).
11252 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کے لیے کوئی سہارا مقرر فرما دیتے ہیں تو ان کو اپنی مدد سے نوازتے ہیں “۔ (ابن قانع بروایت صفوان بن اسید)

11257

11257 الآن نغزوهم ولا يغزونا.(حم خ عن سليمان بن صرد).
11253 ۔ فرمایا کہ ” اب تم ان سے جنگ کرو گے اور وہ ہم سے جنگ نہیں کریں گے (مسند احمد، بخاری بروایت سلیمان بن صرد

11258

11258 ذهبت العزى فلا عزى بعد اليوم.(ابن عساكر عن قتادة) مرسلا.
11254 ۔۔۔ فرمایا کہ ” عزی ختم ہوگیا، آج کے بعد کوئی عزی نہیں “۔ ابن عساکر بروایت قتادۃ مرسلاً )
فائدہ :۔۔۔ عزی زمانہ جاہلیت کے مشہور بت کا نام ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11259

11259 ما خلا يهودي بمسلم قط إلا حدث نفسه بقتله.(خط عن أبي هريرة).
11255 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب بھی کوئی یہودی مسلمان کے ساتھ تنہا ہوتا ہے تو اسے مسلمان کے قتل کرنے کا خیال ضرور آتا ہے “۔ (خطیب بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11260

11260 قدمتم خير مقدم وقدمتم من الجهاد الاصغر إلى الجهاد الاكبر مجاهدة العبد هواه.(خط عن جابر).
11256 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوش آمدید ! تم لوگ واپس آگے چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف جس میں بندہ اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرتا ہے “۔ (خطیب بروایت حضرت جابر (رض))

11261

11261 المجاهد من جاهد نفسه في الله.(ت حب عن فضالة ابن عبيد).
11257 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے “۔ (ترمذی، ابن حبان، بروایت حضرت فضالۃ بن عبید (رض))

11262

11262 أفضل الجهاد أن يجاهد الرجل نفسه في الله وهواه.(ابن النجار عن أبي ذر).
11258 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل مجاہد وہ ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے نفس اور خواہش سے مقابلہ (جہاد ) کرے “۔ (ابن النجار بروایت حضرت ابو ذر (رض))

11263

11263 ليس عدوك الذي يقتلك فيدخلك الله به الجنة ، وإن قتلته كان لك نورا ، ولكن أعدى الاعداء نفسك التي بين جنبيك ، وامرأتك التي تضاجعك. (العسكري في الامثال عن سعيد بن أبي هلال) مرسلا.
11259 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ تیرا دشمن نہیں کہ اگر وہ تجھے قتل کردے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل فرمادیں اور اگر تو اس کو قتل کردے تو تیرے لیے نور ہو، بلکہ دشمنوں کا دشمن تیرا نفس جو تیرے دو پہلوؤں کے درمیان ہے اور تیری بیوی جو تیرے ساتھ لیٹتی ہے “۔ (العسکری فی الامثال عن سعید بن ھلال مرسلاً

11264

11264 ليس عدوك الذي إن قتلك أدخلك الله الجنة ، وإن قتلته كان لك نورا ، ولكن عدوك نفسك التي بين جنبيك ، وامرأتك التي تضاجعك على فراشك ، وولدك الذي من صلبك فهؤلاء أعدى عدو هو لك. (الديلمي عن أبي مالك الاشعري).
11260 ۔۔۔ فرمایا کہ ” وہ تیرا دشمن نہیں ہے کہ اگر وہ تجھے قتل کردے تو اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں داخل کردے اور اگر تو اس کو قتل کردے تو اس کا قتل تیرے لیے نور ہو، بلکہ تیرا دشمن تو تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے اور تیری بیوی جو تیرے بستر پر تیرے ساتھ لیٹتی ہے اور تیرا بیٹا جو تیری صلب سے پید اہوا ہے سو یہ دشمن نہیں۔ (دیلمی بروایت حضرت ابو مالک اشعری (رض))

11265

11265 أفضل الجهاد أن تجاهد نفسك وهواك في ذات الله تعالى.(الديلمي عن أبي ذر).
11261 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ تو اللہ کی خاطر اپنے نفس اور خواہش سے مقابلہ (جہاد ) کرے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابو ذر (رض))

11266

11266 المجاهد من جاهد نفسه في الله تعالى.(ت حسن صحيح حب و العسكري في الامثال عن فضل بن عبيد)
11262 ۔۔۔ فرمایا کہ ” مجاہد وہ ہے جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس سے جہاد کرے “۔ (ترمذی، حسن صحیح ابن حبان، عسکری فی الامثال بروایت حضرت فضالۃ بن عبید (رض))

11267

11267 اجلسي لا يتحدث الناس أن محمدا يغزو بامرأة.(ابن سعد عن أم كبشة).
11263 ۔۔۔ خاتون سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ (بیٹھ جاؤ ! ) کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد عورت کو ساتھ لے کر جنگ کرتا ہے “۔ (ابن سعد بروایت حضرت ام کبشہ (رض))

11268

11268 إذا أبق العبد فلحق بالعدو فمات فهو كافر.(حم وابن خزيمة طب عن جابر).
11264 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب غلام بھاگ جائے اور دشمن سے جاملے اور مرجائے تو وہ کافر ہے “۔ (مسند احمد، ابن خزیمہ، طبرانی بروایت حضرت جابر (رض))

11269

11269 إذا أبق العبد فقد برئت منه ذمة الله ورسوله.(طب عن جابر) (عد عن أبي هريرة).
11265 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب غلام بھاگ جائے تو اللہ اور اس کے رسول اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں “۔ (طبرانی بروایت حضرت جابر (رض)، کامل ابن عدی بروایت حضرت ابوھریرۃ (رض))

11270

11270 إذا استنفرتم فانفروا.(ه عن ابن عباس).
11266 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تمہیں دوڑایا جائے تو دوڑ پڑو “۔ (ابن ماجہ بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11271

11271 إذا خرج العبد من دار الشرك قبل سيده فهو حر ، وإذا خرج بعده رد إليه وإذا خرجت المرأة من دار الشرك قبل زوجها تزوجت من شاءت ، وإذا خرجت بعده ردت إليه.(قط في الافراد والديلمي).
11267 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب غلام مشرکین کے علاقے سے آپنے آقا سے پہلے نکل جائے تو وہ آزاد ہے “ اور بیوی شوہر سے پہلے نکل جائے تو جس سے چاہے نکاح کرلے، لیکن اگر اپنے شوہر کے بعد نکلے تو اسی کی طرف لوٹا جائے گی “۔ (دارقطنی فی الافراد اور دیلمی)

11272

11272 إذا قاتلتم المشركين فاقتلوا شرخهم فان ألينهم قلوبا شرخهم.(طب عن حبيب بن سليمان بن سمرة عن أبيه عن جده).
11268 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم مشرکین سے قتال کرو تو ان کے جوانوں کو قتل کرو کیونکہ سب سے زیادہ نرم دل ان کے جوان ہوتے ہیں “۔ (طبرانی بروایت حسیب بن سلیمان سحرۃ عن ابی عن جدہ)

11273

11273 الحق بخالد بن الوليد فلا يقتلن ذرية ولا عسيفا.(ك عن رباح).
11269 ۔ فرمایا کہ ” خالد بن ولید کے پاس پہنچو کہیں وہ بچوں اور مزدوروں کو قتل نہ کرنے لگے “۔ (مستدرک حاکم بروایت رباح

11274

11274 لا تقتل ذرية ولا عسفيا.(ه طب عن حنظلة الكاتب).
11270 ۔۔۔ فرمایا کہ ” نہ بچوں کو قتل کرو نہ مزدوروں کو “۔ (ابن ماجہ طبرانی بروایت حنظلہ الکاتب)

11275

11275 انظروا فان كان أنبت الشعر فاقتلوه ، وإلا فلا تقتلوه.(حب عن عطية القرظي).
11271 ۔۔۔ فرمایا کہ ” دیکھ لو، اگر اس کے بال اگ چکے ہیں تو اس کو قتل کردو ورنہ پھر قتل نہ کرو “ (ابن حبان بروایت حضرت عطیۃ القرظی (رض))

11276

11276 إذا رأيتم مسجدا أو سمعتم مؤذنا فلا تقتلوا أحدا.(حم د عن ابن عصام المزني عن أبيه).
11272 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب تم کوئی مسند دیکھو یا کسی موذن کی آواز سنو تو کسی کو قتل نہ کرو “۔ مسند احمد، ابوداؤد، بروایت ابن عصام المزنی عن ابیہ)

11277

11277 من فر من اثنين فقد فر ، ومن فر من ثلاثة فلم يفر (طب عن ابن عباس).
11273 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جو دو کے مقابلے سے بھاگا تو یقیناً وہ بھاگ کھڑا ہوا اور جو تین کے مقابلے سے بھاگا تو تحقیق وہ نہیں بھاگا “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابن عباس (رض))
فائدہ :۔۔۔ یعنی تین دشمنوں کے مقابلے سے بھاگنے والا بھگوڑا نہیں کہلائے گا “۔ واللہ اعلم بالصواب۔

11278

11278 من منحه المشركون أرضا فلا أرض له.(الخطابي عن عمر).
11274 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جس کو مشرکوں نے زمین دی ہو تو اس کی کوئی زمین نہیں “۔ (الخطابی بروایت حضرت عمر (رض))

11279

11279 من وجدتموه يقطع من الحمى شيئا فلكم سلبة.(ابن سعيد عن أبي بشير المازني).
11275 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تم کسی کو دیکھو کہ چراگاہ میں سے کچھ کاٹ رہا ہے تو اس کو پکڑلے تو اس سے حاصل ہونے والا مال اسی پکڑنے والے کا ہے “۔ (ابن سعید بروایت حضرت ابو البشر المازنی (رض))

11280

11280 من وجدتموه يصيد في شئ من هذه الحدود فمن أخذه فله سلبه. (ابن جرير عن سعد بن أبي وقاص).
11276 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر ان حدود میں تم کسی کو کچھ شکار کرتے دیکھو تو شکاری سے حاصل ہونے والا مال وغیرہ اسی کو دیا جائے گا جو اس کو پکڑے “۔ (ابن جریر بروایت حضرت سعد بن ابی وقاص (رض))

11281

11281 فاغز في سبيل الله ، فقاتلوا من كفر الله ، لا تغلوا ولا تمثوا ولا تقتلوا وليدا فهذا عهد الله وسيرة نبيه.(ك عن ابن عمر).
11277 ۔۔۔ فرمایا کہ ” پکڑو، اور اللہ کے راستے میں جنگ کرو اور قتال کرو اس سے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، ڈھاٹا نہ باندھو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو، کیونکہ یہی اللہ کا عہد ہے اور اس کے نبی کی سیرت “۔ (مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11282

11282 سيروا بسم الله ، واغزوا في سبيل الله ، قاتلوا أعداء الله ، ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تنفروا ، ولا تمثلوا ، ولا تقتلوا وليدا وليمسح أحدكم إذا كان مسافرا على خفيه إذا أدخلهما طاهرتين ثلاثة أيام ولياليهن ،وإذا كان مقيما فيوما وليلة. (القاضي عبد الجبار بن أحمد في أماليه عن صفوان بن عسال) وروى (ه) صدره إلى قوله وليدا.
11278 ۔۔۔ فرمایا کہ ” چل پڑو اللہ کے نام کے ساتھ اور جنگ کرو اللہ کے راستے میں قتال کرو اللہ کے دشمنوں کے ساتھ اور خیانت نہ کرو، غداری نہ کردو، اور ڈھاٹا نہ باندھو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو، اور تم میں سے جب کوئی مسافر ہو اور اس نے پاکی کی حالت میں خفین (موزے) پہنے ہوں تو تین دن اور تین رات تک موزوں پر مسح کرلیا کرے اور اگر مقیم ہو تو ایک دن اور ایک رات تک “۔ (الفاضی عبدالجبار ابن احمد فی او الیہ بروایت حضرت صفوان بن عسال (رض) اور ابن ماجہ نے اس روایت کا ابتدائی حصہ بچے کے قتل تک روایت کیا ہے۔
فائدہ :۔۔۔ روایت میں ذکر کردہ موزوں سے تمام کپڑے دھاگے وغیرہ کے موزے مراد نہیں بلکہ خفین مراد ہیں اور ان کی سات شرائط ہیں جو نور الایضاح میں مسح علی الخفین کے باب میں مذکور ہیں وہیں دیکھ لی جائیں البتہ یہ مسئلہ، سمجھ لیا جائے کہ اگر کوئی شخص مسافر ہو تو اس کو تین دن اور تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے اور مقیم ہو تو صرف ایک دن اور ایک رات، ان مسائل کی تفصیل کے لیے کسی مستند دارالافتاء یا مفتی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11283

11283 لا تجبن إلا لقيت ، ولا تغلل إذا غنمت ، ولا تقتلن شيخا كبيرا ، ولا صبيا صغيرا.(ابن عساكر عن ثوبان).
11279 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب دشمن سے سامنا ہو تو بزدلی مت دکھاؤ، اور مال غنیمت حاصل کرو تو اس میں خیانت نہ کرو اور ہرگز بوڑھوں کو قتل نہ کرو نہ چھوٹے بچوں کو “۔ (ابن عساکر بروایت حضرت ثوبان (رض))

11284

11284 لا يعترض أحدكم أسير صاحبه فيأخذه فيقتله.(عد وابن عساكر عن سمرة) وفيه اسحاق بن ثعلبة منكر الحديث.
11280 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی ایک بھی اپنے ساتھ کے قیدی سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے کہ اس کو پکڑ کر قتل کردے “۔ (ابن عدی اور ابن عساکر بروایت حضرت سمرۃ (رض))

11285

11285 لا يتعاط أحدكم أسير صاحبه فيقتله.(حم طب ص عن سمرة).
11281 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی اپنے ساتھ کے قیدی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے کہ اسے قتل کردے “۔ (مسند احمد، طبرانی، سنن سعید بن منصور بروایت سمرۃ (رض))

11286

11286 لا تبنى بيعة في الاسلام ، ولا يجدد ما خرب منها.(الديلمي وابن عسارك عن ابن عمر)
11282 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اسلام میں کوئی گرجا وغیرہ نہ بنایا جائے گا اور جو تباہ ہوچکا ہے اس کو نئے سرے سے کبھی نہ بنایا جائے گا “۔ (دیلمی، ابن عساکر بروایت حضرت ابن عمر (رض))

11287

11287 لا تحدثوا في الاسلام كنيسة ولا تجددوا ما ذهب منها (الديلمي عن ابن عمر).
11283 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اسلام کے زمانے میں نئے گرجے مت بناؤ اور تباہ شدہ کی تعمیر نہ کرو “۔

11288

11288 لا تعمدوا ذلك ولا حرج فان أولادهم منهم.(طب عن الصعب بن جثامة) أنه قال : يا رسول الله أطفال المشركين نصيبهم في الغارة بالليل قال : فذكره.
11284 ۔۔۔ عرض کیا گیا ” یارسول اللہ ! رات کے حملوں میں مشرکوں کے بچے مارے جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جان بوجھ کر ایسا مت کرو بے خبری میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ان کی اولاد انہی میں سے ہے “۔ (طبرانی بروایت صعب بن جثامہ (رض))

11289

11289 لا يقتل مؤمن بكافر ، ولا ذو عهد في عهده ، والمسلمون يد على من سواهم تتكافأ دماؤهم.(ق عن معقل بن يسار).
11285 ۔۔۔ فرمایا کہ ” کوئی مومن کافر کے ہاتھوں قتل نہ کیا جائے اور نہ کوئی ذمی اپنے ذمہ میں اور مسلمان اپنے سوا دوسروں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح ہیں ان کے خون برابر ہیں۔ (متفق علیہ بروایت حضرت معقل بن یسار (رض) )
یعنی ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔

11290

11290 قضى بالسلب للقاتل.(د عن خالد بن الوليد) (طب عن عوف بن مالك).
11286 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (کافر) کا مال وغیرہ مسلمان قاتل کو دینے کا فیصلہ فرمایا “۔ (ابو داؤد، بروایت حضرت خالد بن ولید (رض) اور طبرانی بروایت حضرت عوف بن مالک (رض) )
فائدہ :۔۔۔ یہ ھال جنگ کا بیان ہے اور مقصد مسلمان سپاہیوں کی حوصلہ افزائی ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11291

11291 لينبعث من كل رجلين أحدهما والاجر بينهما.(ط حم ش م حب عن أبي سعيد) أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث بعثا إلى بني لحيان قال : فذكره.
11287 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو لحیان کی طرف ایک دستہ بھیجا اور فرمایا کہ ہر دو آدمیوں میں سے ایک جائے اور دوسرا ان کے درمیان میں رہے “۔ (مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ مسلم، ابن حبان بروایت حضرت ابو سعید (رض))

11292

11292 إذا نصر القوم بسلاحهم وأنفسهم فالسنتهم أحق. (ابن سعد عن ابن عون عن محمد) مرسلا.
11288 ۔۔۔ فرمایا کہ ” جب کسی قوم کی مدد اس کے افراد اور اسلحہ کے ساتھ کی جائے تو ان کی زبانیں زیادہ حق دار ہیں “۔ (ابن سعد عن ابن عون عن محمد مرسلاً )

11293

11293 ارجع فلن استعين بمشرك. (م ت عن عائشة).
11289 ۔۔۔ فرمایا کہ ” واپس لوٹ جا، ہم ہرگز کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے “۔ (مسلم، ترمذی، بروایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض))

11294

11294 مروهم فليرجعوا فانا لا نستعين بالمشركين على المشركين (طب ك عن أبي حميد الساعدي).
11290 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ان کو حکم دو کہ وہ واپس چلے جائیں کیونکہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین ہی سے مدد نہیں لیتے “۔ (طبرانی، مستدرک حاکم بروایت ابو حمید الساعدی (رض))

11295

11295 أفضل الجهاد من عقر جواده ، وأهريق دمه. (طب عن أبي موسى) (ه عن عمرو بن عبسة).
11291 ۔۔۔ فرمایا کہ ” سب سے افضل جہاد وہ ہے کہ جس میں مجاہد کا گھوڑا بھی مارا جائے اور اس کا خون بھی بہایا جائے “۔ (طبرانی بروایت حضرت ابو موسیٰ (رض) اور ابن ماجہ بروایت حضرت عمرو بن عبسۃ (رض))

11296

11296 أفضل الجهاد أن يعقر جوادك ويهراق دمك. (ط حم وعبد بن حميد والدارمي ع حب طس ص عن جابر).
11292 ۔۔۔ فرمایا کہ ” افضل ترین جہاد یہ ہے کہ تیرے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور تیرا خون بہایا جائے “۔ (مسند احمد، عبد بن حمید، دارمی، ابویعلی ، ابن حبان، معجم اوسط طبرانی، سعید بن منصور بروایت حضرت جابر (رض))

11297

11297 أفضل الشهداء أن يعقر جوادك ويهريق دمك.(ط عن ابن عمرو).
11293 ۔۔۔ فرمایا کہ ” افضل ترین شہادت یہ ہے کہ تیرے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں اور تیرا خون بہایا جائے “۔ (بروایت حضرت ابن عمرو (رض))

11298

11298 للجبان أجران.(ش عن أبي عمران الجوني) مرسلا.
11294 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بزدل کے لیے دو اجر ہیں “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ بروایت ابوعمران الجونی مرسلاً

11299

11299 القتال قتالان : فقتال المشركين حتى يؤمنوا أو يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون ، وقتال الفئة الباغية حتى تفئ إلى أمر الله ، فان فاءت أعطيت العدل. (ابن عساكر عن بشر بن عون عن بكار بن تميم عن زكحول عن أبي أمامة) قال الذهبي في الميزان : بكار مجهول وذا سند نسخة باطلة
11295 ۔۔۔ فرمایا کہ ” قتال تودوہی ہیں :
1 ۔۔۔ مشرکوں کے ساتھ جنگ کرنا یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا اپنے ہاتھ سے یہ سمجھتے ہوئے جزیہ دیں کہ حقیر ہیں۔
2 ۔۔۔ اور باغی گروپ سے قتال کرنا یہاں تک کہ اللہ کے حکم کو پورا کرے، سو اگر پورا کرے تو ان کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا جائے۔ (ابن عساکر بروایت بشیر بن عون عن بکار بن تمیم عن مکحول عن ابی امامۃ (رض)) ذھبی نے میزان الاعتدال میں
کہا ہے کہ بکار مجہول ہے۔

11300

11300 تألفوا الناس وتأنوهم ولا تغيروا عليهم حتى تدعوهم فما على الارض من أهل بيت مدر ولا وبر إلا تأتوني بهم مسلمين أحب إلي من أن تأتوني بنسائهم وأولادهم وتقتلوا رجالهم.(ابن منده وابن عساكر عن عبد الرحمن بن عائذ) قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث بعثا قال : فذكره.
11296 ۔۔۔ فرمایا کہ ” لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو اور ان کو مہلت دو اور ان پر اس وقت تک حملہ نہ کرو جب تک دعوت نہ دے لو، سو دنیا میں جو گھر یا جھونپڑا ہو اس تک سلامتی لے کر پہنچو، مجھے یہ زیادہ پہننا پسند ہے بنسبت اس کے کہ تم میرے پاس ان کی عورتیں اور بچے لے کر آؤ اور ان کے مردوں کو قتل کرو “۔ (ابن مندہ، ابن عساکر بروایت حضرت عبدالرحمن بن عائد (رض) )
جب جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ بھیجا تو مذکورہ ارشاد فرمایا۔

11301

11301 من محمد رسول الله إلى بكر بن وائل : أسلموا تسلموا.(ع طب ص عن أنس) (حم عن مرثد بن ظبيان)
11297 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے رسول محمد کی طرف سے بکربن وائل کے لئے، اسلام قبول کرلو محفوظ ہوجاؤ گے “۔ (مسند احمد ابی یعلی طبرانی سعید بن منصور بروایت حضرت انس (رض) مسند احمد بروایت حضرت مرثد بن ظبیان)

11302

11302 من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس أن أسلم تسلم ، من شهد شهادتنا وساتقبل قبلتنا وأكل ذبيحتنا فله ذمة الذله وذمة رسوله. (الخطيب عن أبي معشر عن بعض المشيخة).
11298 ۔۔۔ اللہ کے رسول محمد کی طرف سے فارس کے سب سے بڑے (شخص) کسریٰ کی طرف یہ کہ اسلام قبول کرلو محفوظ ہوجاؤ گے جس نے ہماری گواہی کی طرح گواہی دی اور ہمارے قبلے کو اپنا قبلہ بنایا اور ہمارے ہاتھوں ذبح شدہ جانور کھایا تو اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے “۔ (خطیب عن ابی معشر عن بعض المشیخۃ)

11303

11303 من محمد رسول الله لقيلة والنسوة الثلاث : لا يظلمن حقا ولا تستكرهن على نكاح وكل مؤمن أو مسلم لهن ولي وناصرأحسن ولا تسئن. (طب عن قيلة بنت مخرمة).
11299 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اللہ کے رسول محمد کی طرف سے قیلہ اور تینوں عورتوں کی طرف، ان پر ظلم نہ کیا جائے گا، ان کو نکاح پر مجبور نہ کیا جائے گا، اور ہر مومن یا مسلم ان کا ذمہ دار و مددگار ہوگا، اچھائیاں کرو اور برائیاں نہ کرو “۔ (طبرانی بروایت حضرت قیلہ بنت مخرمۃ (رض))

11304

11304 والله لاغزون قريشا ، والله لاغزون قريشا إن شاء الله. (طب عن ابن عباس)
فرمایا کہ اللہ کی قسم میں قریش سے ضرور جنگ کروں گا، اللہ کی قسم میں قریش سے ضرور جنگ کروں گا، ان شاء اللہ

11305

11305 يا معشر قريش أما والذي نفسي بيده ما أرسلت اليكم إلا بالذبح.(طب عن عمرو).
11300 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اے قریش کے گروہ ! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہاری طرف صرف پاک کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں “۔ طبرانی بروایت حضرت عمرو (رض))

11306

11306 إن الله تعالى أمرني أن أعلمكم ما جهلتم ، مما علمني في يومي هذا ، فاتنه قال : إن كل مال نحلته عبادي فهو حلال ، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم فافتنتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ، وحرمت عليهم ما أحللت لهم ، وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا ، وإن الله نظر إلى أهل الارض فمقتهم عربيهم وعجميهم إلا بقايا من أهل الكتاب وإن الله أمرني أن أغزو قريشا فقلت : يا رب إنهم إذا يثلغوا رأسي حتى يدعوه خبزت ، فقال : إنما بعثتكك لابتليك ، وابتلى بك ، وقد أنزلت عليك كتابا لا يغسله الماء تقرؤه في المنام واليقظة ، فاغزوهم نغزك وأنفق ينفق عليك ، وابعث جيشا نمدك بخمسة أمثالهم ، وقاتل بمن أطاعك من عصاك. (طب عن عياض بن حمار)
11302 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم لوگوں کو وہ کچھ سکھاؤں جو تم نہیں جانتے ان علوم میں سے جو آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھائے ، سو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر وہ مال جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے تو وہ حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو یکسو پیدا کیا ہے لیکن شیاطین نے انھیں فتنے میں مبتلا کردیا اور ان کو ان کے دین سے دوسری طرف پھیر دیا اور وہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو میں نے حلال کی تھیں اور ان کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دینے لگے جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کی طرف دیکھا تو غریب ہوں یا عجم سب کو پسند کردیا علاوہ بقیہ اہل کتاب کے اور بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ قریش سے جنگ کروں تو میں نے عرض کیا کہ اے میرے رب ! پھر تو وہ میرے سر کا پچکا دیں گے اور اس کو (سرکے بجائے) روٹی کہیں گے توا للہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ آپ کو آزماؤں اور آپ کے ۔۔۔ آزماؤں اور میں نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں دھوسکتا آپ اس کو سوتے جاگتے پڑھیں گے، سو ان سے جنگ کیجئے ہم آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے اور خرچ کیجئے آپ پر خرچ کیا جائے ، اور آپ لشکر بھیجئے، اس جیسے پانچ گنا کے ساتھ ہم آپ کی مدد کریں گے اور اپنے فرمان برداروں کو شانہ بشانہ لے کر اپنے نافرمانوں کے ساتھ قتال کیجئے “۔ (طبرانی بروایت حضرت عبادۃ بن عمار (رض))

11307

11307 يا ويح قريش لقد أكلتهم الحرب فماذا عليهم لو خلوا بيني وبين سائر العرب ؟ فان أصابوني كان الذي أرادوا ، وإن الله أظهرني عليه دخلوا في الاسلام وافرين ، وإن لم يقبلوا قاتلوا وبهم قوة ، فما تظن قريش ؟ فو الله لا أزال أجاهدهم على الذي بعثني الله به حتى يظهرني الله أو تنفرد هذه السالفة. (طب عن المسور بن مخرمة ومروان ابن الحكم).
11303 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ہائے قریش کی بربادی، جنگ انھیں کھا گئی، بھلا اگر وہ میرے اور باقی عربوں کے درمیان سے نکل جائیں تو ان کو کیا ہوجائے گا، پھر اگر میرے ساتھ انھوں نے وہ معاملہ کردیا جو وہ چاہتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان پر غلبہ عطا فرمادیا تو وہ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوں گے اور اگر وہ قبول نہ کریں گے تو ان کے ساتھ قتال کرو اور ان کے پاس طاقت بھی ہے، اور تم قریش کو کیا سمجھتے ہو ؟ سو اللہ کی قسم میں ان سے جہاد کرتا ہی رہوں گا اس پر جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان پر غلبہ عطا فرمائیں یا یہ جماعت الگ ہوجائے “۔

11308

11308 لعلك أن تمر بمسجدي وقبري وقد بعثتك إلى قوم رقيقة قلوبهم يقاتلون على الحق ، فقاتل بمن أطاعك منهم من عصاك ، ثم يفيئون إلى الاسلام حتى تبادر المرأة زوجا والولد والده والاخ أخاه ، وانزل بين الحيين السكاسك والسكون. (حم طب ق عن معاذ).
11304 ۔۔۔ فرمایا کہ ” شاید کہ تو میری مسجد اور قبر کے پاس سے گزرے اور میں نے تجھے ایسی نرم دل قوم کی طرف بھیجا ہے جو حق پر قتال کرتے ہیں سو ان میں سے جو تیرے فرمان بردار ہیں ان کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ قتال کر جو تیرے نافرمان ہیں پھر وہ اسلام کی طرف آئیں گے یہاں تک کہ عورت اپنے شوہر سے پہلے اسلام کی طرف بڑھے گی اور بیٹا باپ سے پہلے اور بھائی بھائی سے پہلے اور دونوں عملوں سے گلیوں میں سکون پھیلا “۔ (مسند احمد، طبرانی متفق علیہ بروایت حضرت معاذ (رض))

11309

11309 أما بعد ذلك فانه قد وقع بنا رسولكم مقفلنا من أرض الروم بالمدينة فبلغ ما أرسلتهم به وخبر عما كان قبلكم وأنبأنا باسلامكم وقتلكم المشركين ، فان الله قد هداكم بهداه ، إن أصلحتم وأطعتم الله ورسوله وأقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وأعطيتم من المغنم خمس الله وسهم النبي وصفيه وما كتب على المؤمنين من الصدقة. (ابن سعد عن شهاب ابن عبد الله الخولاني عن رجل من حمير وفد على رسول الله صلى الله عليه وسلم موضع فسطاط المسلمين في الملاحم أرض يقال لها الغوطة) (د في مراسيله كر عن مكحول) مرسلا.
11305 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اما بعد ! سرزمین روم سے مدینہ کی طرف واپس لوٹتے ہوئے تمہارا نمائندہ ہم تک پہنچا اور وہ چیز پہنچائی جو تم نے اسے دے کر بھیجا تھا اور تمہارے بارے میں اطلاع دی اور ہمیں تمہارے اسلام اور مشرکوں کو قتل کرنے کے بارے میں بتایا، تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی ہدایت سے نوازا اگر تم نے اصلاح کی، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ، نماز قائم کی زکوۃ ادا کی اور مال غنیمت میں سے اللہ کا خمس اور اس کے نبی اور صفی کا حصہ نکالا اور وہ صدقہ بھی نکالو جس کی ادائیگی مومنین پر ضروری ہے “۔ (ابن سعید بروایت شھاب بن عبداللہ الخولانی عن رجل) یہ روایت اس شخص سے ہے جو فساط میں غوطہ نامی جگہ پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملا اور حمیر والوں کا پیغام پہنچایا تو جواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ تحریر لکھوائی۔ علاوہ ازیں دیکھیں مراسیل ابو داؤد۔

11310

11310 بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلى بديل ابن ورقاء وبشر وسروات بني عمرو سلام عليكم فاني أحمد الله اليكم الذي لا إله إلا هو ، أما بعد فاني لم أثم بالكم ولم أضع في جنبكم وإن أكرم أهل تهامة علي لانتم وأقربهم رحما ، ومن تبعكم من المطيبين وإني قد أخذت لمن هاجر منكم مثل ما أخذت لنفسي ولو هاجر بأرضه غير سكن مكة إلا معتمرا أو حاجا وإني لم أضع فيكم إذا سلمتم وإنكم غير خائفين ممن قبلي ولا محضورين ، أما بعد فانه قد أسلم علقمة بن عبله وابنا هوذة وهاجرا وبايعا على من تبعهم عن عكرمة وأخذ لمن تبعه منكم مثل ما أخذ لنفسه ، وإن بعضنا من بعض في الحل والحرم ، وإني والله ما كذبتكم وليحيكم ربكم. (ابن سعد عن قبيصة بن ذوئب) (الباوردي والفاكهي في أخبار مكة طب وأبو نعيم ص) وروى (ش) بعضه من وجه آخر.
11306 ۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے بدیل بن ورقاء اور بشر اور بنی عمرو کے سرداروں کی طرف، سلامتی ہو تم پر سو میں تمہارے سامنے اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اما بعد، سو میں نے کبھی چھپا کر کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ کبھی تمہارے پہلو میں رکھا اور اہل تہامہ میں سے میرے نزدیک سب سے معزز یقیناً تم لوگ ہو اور رشتے داری کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ قریب تم ہو اور وہ جو تمہاری اتباع کریں نیکوکاروں میں سے، اور تم میں سے جنہوں نے ہجرت کی ہے ان کے لیے بھی میں نے ویسا ہی لیا ہے جیسا اپنے لیے لیا ہے اگرچہ اس نے اپنی سرزمین سے ہجرت کی ہو بجائے مکہ کے اور کبھی حج و عمرۃ کے علاوہ مکہ گیا بھی نہ ہو، اور جب تم نے اسلام قبول کرلیا تو میں نے نہیں رکھا تم میں کچھ، اور تم میری طرف سے خوفزدہ بھی نہ تھے اور نہ تم میرے پاس حاضر کئے گئے تھے۔ اما بعد، بیشک علقمہ بن عبلہ اور ھوذۃ کے دونوں بیٹے اسلام قبول کرچکے اور انھوں نے ہجرت کی اور تمہارے متبعین میں سے عکرمہ وغیرہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور تم میں سے اپنے تابع کے لیے بھی وہی پسند کیا جو اپنے لیے کیا تھا اور بیشک ہم میں سے بعض حل وحرم میں ہیں، اور اللہ کی قسم میں نے کبھی تمہیں نہیں جھٹلایا، اللہ تعالیٰ تم پر سلامتی بھیجیں۔ (ابن سعد بروایت قبیصہ بن ذوئب، اور باوردی فاکھی فی اخبار مکہ، طبرانی، ابو نعیم، سعید بن منصور اور مصنف بن ابی شیبہ ایک دوسرے طریق سے۔

11311

11311 لينتهين بنو رابعة أو لابعثن إليهم رجلا كنفسي فيمضي فيهم أمري فيقتل المقاتلة ويسبي الذرية.(ش والروياني ص عن أبي ذر).
11307 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ضرور بنو رابعہ باز آجائیں گے ورنہ میں ان کی طرف ایسا شخص بھیجوں گا جیسے میں خود سو وہ ان میں میرا حکم جاری کرے گا اور زبردست قتال کرے گا اور بچوں کو قیدی بنائے گا “۔ (ابن ابی شیبہ، رویانی، سعید بن منصور بروایت حضرت ابو ذر (رض))

11312

11312 أيما رجل عرف ابنه فأخذه ففكاكه رقبته.(بقي بن مخلد وابن جرير في التهذيب والباوردي عن.).
11308 ۔۔۔ فرمایا ” ہر وہ شخص جس نے اپنے بیٹے کو پہچان لیا اور اس کو لے لیا تو اس بیٹے کا مالک بننا ہی اس کی آزادی ہے “۔ (بقی بن مخلد، وابن جریری فی التھذیب اور باوردی)

11313

11313 فهلا قلت خذها وأنا الغلام الانصاري.(البغوي عن أبي عقبة الفارسي).
11309 ۔۔۔ فرمایا کہ ” تو نے اس سے یہ کیوں نہیں کہا کہ اس (لڑکی یا عورت) کو پکڑلے میں تو انصاری لڑکا ہوں “۔ (بغوی عن ابی عقبۃ الفارسی)

11314

11314 لئن كنت أحسنت القتال لقد أحسنه سهل بن حنيف وأبو دجانة سماك بن خرشة.(طب ك عن ابن عباس).
11310 ۔۔۔ فرمایا کہ ” اگر تو نے بہت اچھا اور زبردست قتال کیا ہے تو سہل بن حنیف اور ابودجانہ اور سماک بن خرشہ نے بھی بہت عمدۃ قتال کیا ہے “۔ (طبرانی ، مستدرک حاکم بروایت حضرت ابن عباس (رض))

11315

11315 ما أتى بمولى فله سلبه.(ه عن رجل من الصحابة).
11311 ۔ فرمایا کہ ” جو کسی غلام کو لے کر آئے تو اس غلام کا مال اس لانے والے کا ہوگا (ابن ماجہ عن رجل عن الصحابہ (رض))

11316

11316 إن عقوبة هذه الامة السيف ، وموعدهم الساعة ، والساعة أدهى وأمر.(طب عن معقل بن يسار).
11312 ۔۔۔ فرمایا کہ ” بیشک اس امت کا انجام تلوار ہے ، اور اس کے لیے مقررہ وقت قیامت ہے اور قیامت بہت اندھیری اور کڑوی ہے “۔ (طبرانی بروایت حضرت معقل بن یسار (رض))

11317

11317 ما التقى الصفان منذ كانت الدنيا إلى أن تقوم الساعة إلا كان يد الرحمن بينهما ، فإذا أرد نصر عبد قال بيده هكذا فينهزمون كطرف العين.(الديلمي عن أبي أمامة) (العسكري في الامثال عن سعيد بن أبي هلال) مرسلا.
11313 ۔۔۔ فرمایا کہ ” ابتداء دنیا سے لے کر قیامت تک جب بھی دو صفیں (جنگ کے لئے) آپس میں ملتی ہیں تو اللہ الرحمن کا ہاتھ ان کے درمیان میں ہوتا ہے، سو جب وہ اپنے کسی بندے کی مدد کا ارادہ فرماتا ہے تو اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرما دیتا ہے کہ ” اس طرح “ اور پھر پلک جھپکتے ہی دوسری جانب کو شکست ہوجاتی ہے “۔ (دیلمی بروایت حضرت ابوامامۃ (رض) اور عسکری فی الامثال عن سعید بن ابی ھلال مرسلا)

11318

11318 يعجب ربنا من رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة. (ابن خزيمة عن أنس).
11314 ۔۔۔ فرمایا کہ ” خوشی ہوتی ہے ہمارے رب کو ان دو آدمیوں سے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا اور دونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں “۔ (ابن خزیمہ بروایت حضرت انس (رض))

11319

11319 عن علي رضي الله عنه قال : أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أضع له وضوءا ، ثم قال : استرني بثوبك وولني ظهرك ، ثم قال : والله لاغزون قريشا ، والله لاغزون قريشا.(ن في مسند علي).
11315 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ ان کے لیے میں وضو کا پانی رکھوں ، پھر فرمایا کہ اپنے کپڑے سے مجھے چھپاؤ اور میری طرف سے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلو، پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم میں قریش سے ضرور جنگ کروں گا اللہ کی قسم میں قریش سے ضرور جنگ کروں گا “۔ (نسائی فی مسند علی (رض))

11320

11320 عن سعيد بن جبير الرعيني عن أبيه أن أبا بكر شيع جيشا فمشى معهم فقال : الحمد لله الذي اغبرت أقدامنا في سبيل الله ، فقال رجل : إنما يشعناهم ، فقال : جهزناهم وشيعناهم ودعونا لهم. (ش ق).
11316 ۔۔۔ حضرت سعید بن جبیر الرعینی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لشکر کے ساتھ مشایعت کی اور ان کے ساتھ چلے اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمارے قدموں کو اپنے راستے میں غبار آلود فرمایا، ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت ہم نے تو صرف مشایعت کی ہے تو فرمایا کہ ہم نے ان کو تیار کیا، ہم نے ان کے ساتھ مشایعت کی اور ہم نے ان کے لیے دعا کی “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ اور متفق علیہ)
فائدہ :۔۔۔ لشکر کی روانگی یا کسی جانے والے شخص کے ساتھ روانہ ہوتے ہوئے کچھ دور تک جانے کو مشایعت کہتے ہیں “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11321

11321 عن قيس بن أبي حاتم قال : بعث أبو بكر جيشا إلى الشام فخرج يشيعهم على رجليه ، فقالوا : يا خليفة رسول الله لو ربكت ؟ قال : إني أحتسب خطاي في سبيل الله.(ش).
11317 ۔۔۔ حضرت قیس بن ابی حازم (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شام کی طرف لشکر روانہ فرمایا اور کچھ دور تک ان کے ساتھ پیدل تشریف کے گئے تو اہل لشکر نے عرض کیا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اگر آپ سوار ہوجاتے تو (اچھا ہوتا ؟ تو فرمایا کہ میں اللہ کے راستے میں خطاؤں کا احتساب کرنا چاہتا ہوں “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11322

11322 عن عمر قال : كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده قبض من الناس فأتاه رجل فقال : يا رسول الله أي الناس خير منزلة عند الله يوم القيامة بعد أنبيائه وأصفيائه ؟ فقال : المجاهد في سبيل الله بنفسه وماله حتى تأتيه دعوة الله وهو على متن فرسه آخذ بعنانه ، قال : ثم من ، قال : وامرؤ بناحية أحسن عبادة ربه وترك الناس من شره ، قال : يا رسول الله فأي الناس شر منزلة عند الله يوم القيامة ؟ قال : المشرك ، قال : ثم من ؟ قال : والامام الجائر يجود عن الحل وقد مكن وخص رسول الله صلى الله عليه وسلم أبواب الفتن ، فقال : سلوني ولا تسألوني عن شئ إلا أنبأتكم به ، فقلت رضينا بالله ربنا وبالاسلام دينا وبك نبيا وحسنا ما أتانا فسري عنه. (ط).
11318 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا اور تھوڑے سے لوگ بھی وہاں موجود تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیاء کرام اور اصفیاء کے بعد سب سے زیادہ بلند رتبہ انسان کون ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا بلاوا اس تک آپہنچے اور وہ اپنے گھوڑے کی پشت پر لگام تھامے پیٹھا ہو، اس نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کس کا درجہ ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ شخص جو ایک کونے میں ہو خوب اچھے طریقے سے اپنے رب کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے۔
اس نے پھر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! قامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سب سے زیادہ بدترین شخص ہوگا ؟ فرمایا کہ مشرک ، اس نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد ؟ تو فرمایا کہ ظالم حکمران جو حلال جائز جگہوں پر ظلم کرتا ہے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص کردیے اور بتادیئے ہیں فتنوں کے موقع پر فرمایا کہ پوچھو مجھ سے (جوچاہو) اور کسی چیز کے بارے میں اس وقت تک نہ پوچھو جب تک میں خود نہ بتادوں ، تو میں نے کہا کہ ہم راضی ہوگئے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اسلام کو بحیثیت دین مان کر اور آپ کو نبی ماننے پر اور کافی ہے ہمارے لیے جو آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غصے کے اثرات زائل ہوگئے “۔

11323

11323 عن زيد بن أبي حبيب قال : جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال : أين كنت ؟ قال : كنت في الرباط ، قال : كم رابطت ؟ قال : ثلاثين ، قال : فهلا أتممت أربعين. (عب).
11319 ۔۔۔ حضرت زید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس آیا تو حضرت عمر (رض) نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں تھے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں پہرہ داری پر تھا، آپ (رض) نے دربارہ دریافت فرمایا کہ ” کتنی عرصہ پہرے داری کی ؟ تو اس نے عرض کیا تیس۔ (غالبا دن، مترجم) تو فرمایا چالیس کیوں نہیں مکمل کئے ؟ (مصنف عبدالرزاق)

11324

11324 عن عمر قال : لو لا ثلاث لاحببت أن أكون لحقت بالله لو لا أن أسير في سبيل الله أو أضع جبهتي لله في التراب ساجدا وأجالس قوما يلتقطون طيب الكلام كما يلتقط طيب الثمر.(ابن المبارك وابن سعد ص ش حم في الزهد وهناد حل كر).
11320 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتی تو میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کو پسند کرتا، اگر میں اللہ کے راستے میں نہ چلتا یا میں اگر اللہ کے راستے میں سجدہ کرتے ہوئے اپنی پشانی مٹی میں نہ رکھتا یا ایسی قوم کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا جو پاکیزہ کلام سنتے ہیں جیسے پاکیزہ اور اچھے چنے جاتے ہیں “۔ (ابن المبارک ، ابن سعید ، سعید بن ، منصور، ابن ابی شیبہ، مسند احمد فی الزھد اور ھناد اور حلیہ ابی نعیم)

11325

11325 عن عمر قال : عليكم بالحج فانه عمل صالح ، أمر الله به ، والجهاد أفضل منه.(ش).
11321 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حج کرنا تمہارے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ایک نیک عمل ہے اور
اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور جہاد اس سے بھی زیادہ افضل ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11326

11326 عن عمر قال : حجة ههنا ، ثم احدج ههنا حتى تفنى(أبو عبيد).
11322 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ” حج یہاں ہے نشان لگاؤ، یہاں تک کہ تو فنا ہوجائے۔ (ابوعبید)

11327

11327 عن مدرك بن عوف الاحمسي أنه كان جالسا عند عمر فذكروا رجلا شرى نفسه يوم نهاوند ، فقال : ذاك خالي زعم الناس أنه ألقى بيده إلى التهلكة ، فقال عمر : كذب أولئك بل هو من الذين اشتروا الآخرة بالدنيا.(ق).
11323 ۔۔۔ حضرت ملک بن العوف الاحمسی فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص کا ذکر ہوا جس نے نہاوند کی جنگ میں اپنے آپ کو خرید لیا تھا ایک شخص کہنے لگا کہ وہ میرا ماموں تھا لوگوں نے یہ سمجھا کہ اس نے خود کو ہلاکت میں ڈالا تھا، تو حضرت عمر (رض) عنی نے فرمایا کہ ان سب سے جھوٹ کہا بلکہ وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے آخرت کو دنیا کے بدلے خرید لیا تھا “۔ (متفق علیہ)

11328

11328 عن المغيرة بن شعبة قال : كنا في غزاة فتقدم رجل فقاتل حتى قتل : فقالوا : ألقى بيده إلى التهلكة ، فكتب فيه إلى عمر ، فكتب عمر لئن كان كما قالوا هو من الذين قال الله فيهم : (ومن الناس من يشري نفسه ابتغاء مرضات الله) (وكيع والفريابي وعبد بن حميد وابن جرير وابن أبي حاتم).
11324 ۔۔۔ حضرت مغیرۃ بن شعبۃ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوے میں تھے تو ایک شخص آگے بڑھا اور قتال کیا یہاں تک کہ قتل ہوگیا تو لوگوں نے کہا کہ اس نے خود کو ہلاکت میں ڈال دیا، لہٰذا یہ معاملہ حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجا گیا تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ اگر معاملہ اسی طرح ہے جیسے انھوں نے کہا تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” کہ “ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دے دیتے ہیں جان اللہ کی رضا جوئی میں “۔ (سورة بقرۃ آیت 207 ۔ وکیع فریابی اور عبد بن حمید اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم)

11329

11329 عن عمر قال : عليكم بالجهاد ما دام حلوا خضرا قبل أن يكون رماما حطاما فإذا تناطت المغازي وأكلت الغنائم واستحلت الحرم فعليكم بالرباط فانه أفضل غزوكم.(عب)
11325 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ تم پر جہاد ضروری ہے جب تک سرسبز ومزے دار ہے، اس سے پہلے کہ پرانی لگام کی مانند ہوجائے سو جب جنگیں اور مال غنیمت کو کھایا جانے لگے اور حرام کو حلال کیا جانے لگے تو تم پر پہرے داری (یامورچہ بندی) لازم ہے کیونکہ یہ تمہاری سب سے افضل جنگ ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11330

11330 عن أنس قال جاء رجل إلى عمر ، فقال : يا أمير المؤمنين احملني فاني أريد الجهاد ، فقال عمر لرجل : خذ بيده فأدخله بيت المال يأخذ ما شاء ، فدخل فإذا بيضاء وصفراء ، فقال : ما هذا ؟ ما لي في هذا حاجة ، إنما أردت زادا وراحلة ، فردوه إلى عمر ، فأخبروه بما قال ، فأمر له بزاد وراحلة ، وجعل عمر يرحل له بيده ، فلما ركب رفع يده فحمد الله وأثنى عليه بما صنع واعطاه ، وعمر يمشي خلفه يتمنى أن يدعو له ، فلما فرغ قال : اللهم وعمر فاجزه خيرا.(هناد).
11326 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا اے امیرالمؤمین مجھے کچھ دیجئے میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے تو حضرت عمر (رض) نے ایک اور شخص سے کہا کہ اس کا ہاتھ پکڑو اور بیت المال لے جاؤ اس کا جو جی چاہے لے لے سو وہ داخل ہوا تو وہاں بہت سی زردوسفید چیزیں تھیں اس نے کہا یہ کیا ہے مجھے ان کی ضرورت نہیں مجھے تو سواری اور سفر کا توشہ چاہیے تو وہ اس شخص کو واپس حضرت عمر (رض) کے پاس لے گئے اور اس نے جو کہا تھا بتادیاتو حضرت عمر (رض) نے اس کے لیے سواری اور زادراہ مہیا کرنے کا حکم دیا اور اس کو خود اپنے ہاتھ سے سوار کرنے لگے، جب وہ سوار ہوگیا تو اس نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور حضرت عمر (رض) نے اس کے ساتھ جو معاملہ کیا تھا اور جو دیا تھا اس پر اللہ کی حمد وثناء کی اور حضرت عمر (رض) اس خواہش میں اس کے پیچھے چل رہے تھے کہ وہ ان کے لیے دعا کرے گا تو جب وہ فارغ ہوا تو اس نے کہا اے میرے اللہ ! حضرت عمر (رض) کو بہترین بدلہ عطا فرما “۔ (ھناد)

11331

11331 عن سفيان بن عيينة قال : جاء رجل إلى عمر ، فقال : احملني فو الله لئن حملتني لاحمدنك ، ولئن منعتني لا أذمنك قال : إذا والله لاحملنك فلما حمله جعل يحمد الله ويشكره ويثني على الله تعالى وعمر خلفه يسمع ولا يذكر عمر بشئ ، فلما هبط قال : اللهم سدد عمر فقال عمر : قد أتا لك. (هناد).
11327 ۔۔۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے سوار کروا دیجئے سو خدا کی قسم اگر آپ نے مجھے سوار کرادیا تو میں آپ کی تعریف کروں گا اور اگر آپ نے مجھے منع کردیا تو میں آپ کی مذمت کروں گا، فرمایا کہ خدا کی قسم پھر تو میں تجھے ضرور سوار کراؤں گا، سو جب اس کو سوار کرادیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے لگا اور شکر کرنے لگا اور حضرت عمر (رض) اس کے پیچھے سن رہے تھے، اس نے حضرت عمر (رض) کا بالکل ذکر نہ کیا اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری دعا قبول کی “۔ (ھناد)

11332

11332 عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير قال : بعث عمر بن الخطاب جيشا وفيهم معاذ بن جبل ، فلما ساروا رأى ماذا ، فقال : ما حبسك قال أردت أن أصلي الجمعة ثم أخرج ، فقال عمر : أما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : الغدوة أو الروحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ؟ (ابن راهويه ق).
11328 ۔۔۔ حضرت ابی زرعۃ بن عمرو بن جریر سے مروی ہے کہ فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے ایک لشکر بھیجا ان میں حضرت معاذ بن الجبل (رض) بھی تھے، جب لشکر چل پڑا تو حضرت معاذ (رض) کو دیکھا تو پوچھا، کیوں رکے ہوئے ہو، حضرت معاذ (رض) نے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ جمعہ پڑھ لوں پھر نکلوں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا آپ نے سنا نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا ؟ اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام لگا دینا دنیا اور ہر اس چیز سے بہتر ہے جو دنیا میں ہے ؟ (ابن راھویہ، متفق علیہ)

11333

11333 عن صالح أبي الخليل قال : سمع عمر إنسانا يقرأ هذه الآية : (وإذا قيل له اتق اله أخذته العزة بالاثم) إلى قوله (ومن الناس من يشري نفسه ابتغاء مرضات الله) فاسترجع ، ثم قال : قام الرجل يأمر بالمعروف وينهى عن المنكر فقتل. (وكيع وعبد بن حميد وابن جرير).
11329 ۔۔۔ حضرت صالح بن ابی الخلیل سے مرویہ ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے ایک شخص کو سنا جو اس آیت کی تلاوت کررہا تھا : واذاقیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم۔ الی قولہ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ
ترجمہ :۔۔۔ اور جب کہا جائے اس کو اللہ سے ڈرو تو برائی اس کو گناہ پر ابھارتی ہے، اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کر ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں “۔ (سورة بقرۃ آیت 206، 206)
یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور پھر فرمایا کہ ایک شخص کھڑا ہوا، نیکی کا حکم دیا برائی سے منع کیا اور قتل کردیا گیا۔ (وکیع ، عبد بن حمید وابن جریر)

11334

11334 عن حسان بن كريب أن عمر بن الخطاب سأله كيف تحتسبون نفقاتكم ؟ قال : كنا إذا قفلنا من الغزو وعددناها بسبعمائت ، وإذا كنا في أهلينا عددناها بعشرة ، فقال : عمر : قد استوجبتموها بسبعمائة إن كنتم في الغزو وإن كنتم في أهليكم.(كر).
11330 ۔۔۔ حضرت حسان بن کریب سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا کہ تم اپنے خرچوں کا حساب کیسے کرتے ہو ؟ کہا کہ ہم جب کسی جنگ سے واپسی آرہے ہوتے ہیں تو اس کو سات سو کے حساب سے گنتے ہیں اور جب ہم اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو دس کے حساب سے گنتے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تحقیق تم نے تو اپنے خرچے کو سات سو کے حساب سے واجب کروالیا ہے خواہ تم جنگ میں ہو یا اپنے گھر میں۔

11335

11335 عن سعد قال : سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يقول : اللهم آتني ما تؤتي عبادك الصالحين ، فقال : إذا يعقر جوادك وتهراق مهجتك في سبيل الله. (العدني وابن أبي عاصم ع وابن أبي خزيمة حب ك وابن السني في عمل يوم وليلة).
11331 ۔۔۔ حضرت سعد (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ایک شخص کہہ رہا تھا کہ اے اللہ ! آپ مجھے وہ دیجئے جو آپ نے اپنے نیک اور صالح بندوں کو دیتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر تو اللہ کے راستے میں تیرے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گی اور تیرا خون بہادیا جائے گا۔ (عدی ، ابن ابی عاصم ، ابویعلی ، اب ابی خزیمۃ ابن حبان ، مستدرک حاکم اور ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ)

11336

11336 عن أسامة بن زيد قال : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لاصحابه : ألا هل مشمر للجنة ؟ فان الجنة لا خطر لها هي ورب الكعبة نور يتلالا كلها وريحانة تهتز ، وقصر مشيد ، ونهر مطرد وثمرة ناضجة وزوجة حسناء جميلة ، وحلل كثيرة ، وملك كبير في مقام أبدا في حبرة ونعمة ونضرة في دار عالية سليمة بهية ، قالوا : نعم يا رسول الله نحن المشمرون لها ، قالوا إن شاء الله ، فقال القوم : إن شاء الله ، قال : ثم ذكر الجهاد وحض عليه.(ه والبزار ع وابن أبي داود في البعث والروياني والرامهرمزي في الامثال طب ق في البعث كرحل).
11332 ۔۔۔ حضرت اسامۃ بن ابی خزیمہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے سنا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے لیے فرما رہے تھے کہ سنو ! کیا کوئی تیار ہے جنت کے لیے ؟ بیشک جنت میں کوئی خطرہ نہیں اور وہ رب کعبہ کی قسم ایک نور ہے چمکتا دمکتا ہوا، اور پھول ہے لہلہاتا ہوا ، اور پر محل اور بےباری نہر ہے، اور پکا ہوا پھل ہے، اور حسین و جمیل بیوی ہے اور بہت سے جوڑے ہیں، اور بہت بڑا ملک ہے ایسی جگہ جو ہمیشہ کی خوشی اور تازگی کے ساتھ اونچے ، سلامتی والے پر رونق گھر میں ہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا ، جی ہاں ، یارسول اللہ ! ہم جنت کے لیے تیار ہیں فرمایا ، تو کہو انشاء اللہ، تو سب نے کہا انشاء اللہ ، فرمایا کہ پھر جہاد کا تذکرہ کیا اور اس کی ترغیب دی “۔ (ابن ماجہ ، بزار ، ابی یعلی ، ابن ابی داؤددفی البعث رویانی، رامھر مزی فی الامثال ، طبرانی ، متفق علیہ فی البعث اور حلیہ ابی نعیم)

11337

11337 عن محمد بن زنبور عن الحارث بن عمير عن حميد عن أنس قال : سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أحب الرباط ؟ فقال : من رابط ليلة حارسا من وراء المسلمين فان له مثل أجر من خلفه ممن صلى وصام (ابن النجار).
11333 ۔۔۔ محمد بن زنبور حارث بن عمیر سے اور وہ حمید سے اور وہ حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سب سے زیادہ پسندیدہ مورچہ بندی کی بارے میں پوچھا کہ کون سی ہے ؟ تو فرمایا کہ جس نے ایک رات میں مسلمانوں کی پہرے دار کرتے ہوئے مورچہ بندی کی تو اس کے لیے ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر اس کے پیچھے نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں “۔ (ابن النجار)

11338

11338 عن أرطاة بن المنذر أن عمر قال لجلسائه : أي الناس أعظم أجرا ؟ فجعلوا يذكرون له الصوم والصلاة ويقولون : فلان وفلان بعد أمير المؤمنين ، فقال : ألا أخبركم بأعظم الناس أجرا ممن ذكرتم ومن أمير المؤمنين ؟ قالوا : بلى ، قال رويجل بالشام آخذ بلجام فرسه يكلا من وراء بيضة المسلمين ، لا يدري أسبع يفترسه ، أم هامة تلدغه ؟ أو عدو يغشاه ؟ فذلك أعظم أجرا ممن ذكرتم ومن أمير المؤمنين. (كر).
11334 ۔۔۔ حضرت ارطاۃ بن المنذر سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اجروالا کون ہے، لوگ نمازی اور روزے وغیرہ کا ذکر کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فلاں اور فلاں امیر المومنین کے بعد ، تو فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو ان سب سے زیادہ اجروالا ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے اور امیر المومنین سے بھی ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ، فرمایا شام میں ایک چھوٹا سا آدمی جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے مسلمانوں کی حفاظت کرتا اور نہیں جانتا کہ آیا اس کو کوئی درندہ پھاڑ کھائے گا یا کوئی زہریلا جانور اسے ڈسے گا صبح اس کو ڈھانپے گی، سویہی وہ شخص ہے جو ان سب سے زیادہ اجر والا ہے جن کا تم نے ذکر کیا اور امیرالمومنین سے بھی زیادہ اجر ہے۔

11339

11339 عن ثعلبة بن مسلم عن ثابت بن أبي عاصم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : إن أدنى روعات المجاهدين في سبيل الله عدل صيام سنة وقيامها ،فقال قائل : يا رسول الله وما أدنى روعات المجاهدين ؟ قال : يسقط سيفه وهو ناعس فينزل فيأخذه.(ابن أبي عاصم وأبو نعيم).
11335 ۔۔۔ حضرت ثعلبہ بن مسلم روایت کرتے ہیں حضرت ثابت بن ابی عاصم سے کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ کی راہ میں مجاہدین کا ذرا ساڈرجانا بھی سال بھر کے روزوں اور کھڑے ہو کر عبادت کرنے کے برابر ہے۔ کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! مجاہدین کا ذرا ساڈر کیا ہے ؟ تو فرمایا کہ اونگھتے ہوئے اس کی تلوار گرجائے اور وہ اسے اٹھالے “۔ (ابن ابی عاصم اور ابونعیم)

11340

11340 عن سالم بن أبي الجعد ، قال : حدثني جابر بن سبرة الاسدي ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : وهو يذكر الجهاد ، فقال : إن الشيطان جلس لابن آدم بطرقه ، فجلس على طريق الاسلام ، فقال : تسلم وتدع دينك ودين آبائك ؟ فعصاه فأسلم ، ثم أتاه من قبل الهجرة ، فقال : تهاجر وتدع أرضك ومنماك ومولدك ؟ وتضيع عيالك ؟ فعصاه فهاجر ، ثم أتاه من قبل الجهاد ، فقال : تجاهد وتهراق دمك وتنكح زوجتك ويقسم مالك وتضيع عيالك ؟ فعصاه فجاهد ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فحق على الله من فعل ذلك فخر من دابته فمات فوقع أجره على الله ، وإن لسعته دابة فمات فقد وقع أجره على الله ، وإن قتل فقضى فحق على الله أن يدخله الجنة. (أبو نعيم) وقال : هذا مما وهم فيه طارق بن عبد العزيز بن طارق تفرد بذكر جابر ورواه ابن فضيل عن موسى بن أبي جعفر عن سالم عن سبرة بن أبي فاكه وهو المشهور.ومر برقم [ 10569 ].
11336 ۔۔۔ سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں کہ ہم سے جابربن سبرۃ الاسدی نے حدیث بیان کی اور فرمایا کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے، جہاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک شیطان ابن آدم کو گھیرنے کے لیے اس کے راستوں میں بیٹھا سو اسلام کے راستے میں بھی بیٹھا اور کہا کہ تو مسلمان ہوتا ہے اور اپنا اور اپنے بزرگوں کا دین چھوڑتا ہے ؟ لیکن اس نے شیطان کی نافرمانی کی اور مسلمان ہوگیا، پھر اس (ابن آدم) کے پاس ہجرت سے پہلے آیا اور کہا کہ تو ہجرت کررہا ہے اور اپنی زمین اور اپنی جائے نشوونما اور جائے پیدائش چھوڑرہا ہے ؟ اور اپنے گھر والوں کو ضائع کررہا ہے ؟ لیکن اس نے شیطان کی نافرمانی کی اور ہجرت کرلی، پھر اس کے پاس جہاد سے پہلے آیا، اور کہا اس نے اس کی نافرمانی کی اور جہاد کیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ جس نے یہ سب کیا اور سواری سے گرا اور مرگیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور اگر قتل ہوگیا اور گرز گیا تو اللہ کے ذمے ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے “۔ (ابونعیم)

11341

11341 عن حمزة الاسلمي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : رباط شهر في سبيل الله خير من عبادة ألف.(أبو نعيم).
11337 ۔۔۔ حضرت حمزۃ اسلمی سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ایک مہینے کی مورچہ بندی بہتر ہے ہزار۔۔۔ کی عبادت سے “۔ (ابونعیم)
فائدہ :۔۔۔ ہزار کے بعد کتاب میں بھی جگہ خالی ہے سال ماہ کی تعین نہیں ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11342

11342 عن ربيع بن زيد قال : بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يسر إذ أبصر شابا من قريش يسير معتزلا ، فقال : أليس ذلك فلان ؟ قالوا : نعم ، قال : فادعوه ، فجاء فقال له النبي صلى الله عليه وسلم : ما لك اعتزلت عن الطريق ؟ فقال : كرهت الغبار ، فقال : لا تعتزله في الذي نفسي بيده إوه لذريرة الجنة.(الديلمي). هو : نوع من الطيب.
11338 ۔۔۔ حضرت ربیع ابن زید سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے جارہے تھے کہ اسی دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قریشی نوجوان کو دیکھا جو الگ ہٹ کر چل رہا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ فلاں نہیں ہے ؟ عرض کیا گیا جی ہاں فرمایا کہ اس کو بلاؤ، وہ آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کیا ہوا تمہیں راستے سے ہٹ کر چل رہے ہو ؟ تو اس نے عرض کیا کہ مجھے یہ غبار پسند نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، غبار سے الگ ہٹ کر نہ چل سو قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ (یعنی غبار) تو جنت کی ایک قسم کی خوشبو ہے “۔ (دیلمی)
فائدہ :۔۔۔ روایت میں لفظ “ ذریرۃ “ جو ایک قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11343

11343 عن سملة بن نفيل الحضرمي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : إني سيب الخيل ، وألقيت السلاح ، وقلت : لا قتال ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : الآن جاء القتال ، لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الناس يزيغ الله بهم قلوب أقوام فيقاتلونهم ، ويرزقهم الله منهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك ، ألا إن عقر دار المؤمنين الشام ، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة. (حم وابن جرير).
11339 ۔۔۔ حضرت سلمۃ بن نفیل الحضرمی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے گھوڑے کو آزاد چھوڑ دیا ہے اور اسلحے کو رکھ دیا اور کہا کہ اب قتال نہیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب ہی تو قتال کا وقت آیا ہے، میری امت میں سے ایک جماعت لوگوں پر غالب رہے گی، اللہ تعالیٰ ان سے قوموں کے دلوں ٹیڑھا کردیں گے سو وہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان سے رزق دیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچے اور وہ اسی حال پر ہوں، سنو ! مسلمانوں کے گھر کا درمیانی علاقہ شام ہے، اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں خبر بندھی ہوئی ہے قیامت تک “۔ (مسند احمد ، اور ابن جریر)

11344

11344 عن سلمة بن نفيل الكندي وكان قومه بعثوه وافدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم : قال : بينا أنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم تمس ركبتي ركبته مستقبل الشام بوجهه موليا إلى اليمن ظهره ، إذ أتاه رجل فقال : يا رسول الله أذال الناس الخيل ، ووضعوا السلاح ، وزعموا أن الحرب قد وضعت أوزارها ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كذبوا ، بل الآن جاء القتال ، لا تزال فرقة ، وفي لفظ : لا يزال قوم من أمتي يقاتلون عن أمر الله يزيغ الله بهم قلوب أقوام وينصرهم عليهم حتى تقوم الساعة أو حتى يأتي أمر الله ، الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة وهو يوحي إلي اني مقبوض غير ملبث وأنكم متبعي أفنادا يضرب بعضكم رقاب بعض ، وعقر دار المؤمنين بالشام. (كر).
11340 ۔۔۔ حضرت سلمۃ بن نفیل الحضرمی (رض) سے مروی ہے کہ ان کو ان کی قوم نے نمائندہ بنا کر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں بھیجا تھا، فرمایا کہ اس دوران کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور میرا گھٹنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک گٹھنے سے چھورہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رخ مبارک شامم کی طرف اور پشت مبارک یمن کی طرف تھی، کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! لوگوں نے گھوڑوں کو لاپروائی کی وجہ سے دبلا کردیا اور اسلحہ رکھ دیا اور یہ سمجھنے لگے کہ جنگ اپنے کیل کانٹے سے فارغ ہوگئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ “ انھوں نے جھوٹ کہا بلکہ اب ہی تو قتال کا وقت آیا ہے میری امت میں سے ایک گروہ (اور ایک طریق میں ہے کہ) میری امت میں سے ایک قوم اللہ کے لیے قتال کرتی رہے گی ان سے اللہ تعالیٰ قوموں کے دل ٹیڑھے کردیں گے اور ان کی ان قوموں کی خلاف مدد کریں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے یا اللہ کا حکم آجائے، گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر قیامت تک بندھی ہوئی ہے اور یہی میری طرف وحی کیا گیا ہے کہ مجھے واپس بلایا جانے ولا ہے، بلاتاخیر اور تم اتباع کرنے والے ہو، ماریں گے تم میں سے بعض کی گردنیں اور مسلمانوں کے گھر کا درمیانی علاقہ شام ہے “۔

11345

11345 عن سلمة بن نفل الحضرمي ، قال : فتح الله عزوجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فتحا ، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فدنوت منه حتى كادت ثيابي تمس ثيابه ، فقلت : يا رسول الله سيبت الخيل ، وعطلت السلاح ، وقالوا : وضعت الحرب أوزارها ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كذبوا الآن جاء القتال الآخر والقتال الاول ، لا يزال الله يزيغ قلوب أقوام تقاتلونهم ، ويرزقكم الله منهم حتى يأتي أمر الله على ذلك وعقر دار المسلمين يومئذ بالشام. (كر).
11341 ۔۔۔ حضرت سلمۃ بن نفیل الحضری سے مروی ہے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح سے نوازا، تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ان سے قریب ہوگیا یہاں تک کہ قریب تھا کہ میرے کپڑے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑوں کو چھوجائیں، تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میں نے گھوڑے کو آزاد چھوڑ دیا اور اسلحہ کو ایک طرف رکھ دیا اور انھوں نے کہا ہے کہ جنگ اپنے کیل کانٹے سے فارغ ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انھوں نے جھوٹ کہا اب تو دوسرے قتال کا وقت آیا ہے اور پہلے کا بھی اللہ تعالیٰ قوموں کے دل ٹیڑھے کرتے رہیں گے اور تم ان سے قتال کرتے رہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے رزق دیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس پر آجائے اور اس دن مسلمانوں کے گھر کا درمیانی علاقہ شام ہوگا۔

11346

11346 عن ابن عباس قال : خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم تبوك فقال : ما من الناس رجل آخ ذ بعنان فرسه فيجاهد في سبيل الله ويجتنب شرور الناس ومثل رجل يأوي في غنمه يقري ضيفه ، ويؤدي حقه. (هب).
11342 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جنگ تبوک کے دن جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سے کوئی اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتا جو اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور لوگوں کے شر سے بچارہتا ہے، اور نہ اس شخص کی طرح کوئی ہوسکتا ہے جو اپنی بکریوں میں مصروف رہے، مہمان کی مہمان نوازی کرے اور اس کا حق ادا کرے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان)

11347

11347 عن ابن عمر قال : الناس في الغزو جزآن : فجزء خرجوا يكثرون ذكر الله والتذكر به ويجتنبون الفساد في السير ، ويواسون الصاحب ، وينفقون كرائم أموالهم فهم أشد اغتباطا بما أنفقوا من أموالهم منهم بما استفادوا من دنياهم ، فإذا كانوا في مواطن القتال استحيوا من الله في تلك المواطن أن يطلع على ريبة في قلوبهم أو خذلان للمسلمين فإذا قدروا على الغلو طهروا منه قلوبهم وأعمالهم ، فلم يستطع الشيطان أن يفتنهم ، ولا يكلم قلوبهم ، فبهم يعز الله دينه ، ويكبت عدوه ، وأما الجزء الآخر فخرجوا فلم يكثروا ذكر الله ولا التذكر به ولم يجتنبوا الفساد ، ولم ينفقوا أموالهم إلا وهم كارهون ، وما أنفقوا من أموالهم رأوه مغرما وحدثهم به الشيطان ، فإذا كانوا عند مواطن القتال كانوا مع الآخر الآخر ، والخاذل الخاذل ، واعتصموا برؤس الجبال ينظرون ما يصنع الناس ، فإذا فتح الله للمسلمين كانوا أشدهم تخاطبا بالكذب ، فإذا قدروا على الغلول اجتروا فيه على الله ، وحدثهم الشيطان أنها غنيمة ، وإن أصابهم رخاء بطروا ، وإن أصابهم حبس فتنهم الشيطان بالعرض فليس لهم من أجر المؤمنين شء ، غير أن أجسادهم مع أجسادهم ومسيرهم مع مسيره ، ونياتهم وأعمالهم شتى حتى يجمعهم الله يوم القيامة ثم يفرق بينهم. (كر).
11343 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جنگ میں لوگوں کی دوقسمیں ہیں سو ایک گروہ (قسم) تو وہ ہے جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اور اس کو یاد کرتے ہوئے نکلے ، اور چلنے میں فساد سے بچے اور ساتھی کے ساتھ آہستہ گفتگو کرتے ہیں اور اپنا بہترین مال خرچ کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن سے ان کے اس مال کی بدولت جس سے وہ دنیا میں استفادہ کرتے ہیں زبردست غبطہ کیا جاسکتا ہے اور جب وہ قتل و قتال کی جگہوں میں ہوتے ہیں تو حیاء کرتے ہیں ان جگہوں میں اللہ تعالیٰ سے اس بات پر کہ کہیں وہ ان کے دلوں کے شک پر مطلع نہ ہوجائے یا مسلمانوں کی ناکامی کے خیالات پر آگاہ ہوجائے (یعنی وہ اسی طرح کی باتیں سوچتے ہی نہیں بلکہ پرہیز کرتے ہیں۔ (مترجم)
اور جب وہ مال غنیمت پر قادر ہوتے ہیں تو اس سے اپنے دل اور اعمال کو پاک کرلیتے ہیں سو شیطان طاقت نہیں رکھتا کہ ان کو فتنے میں مبتلا کرسکے اور نہ ان کے دلوں سے بول سکتا ہے سو انہی سے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو عزت دیتا ہے اور اپنے دشمن کو ذلیل کردیتا ہے۔
رہا دوسرا گروہ سو وہ اس طرح نکلے کہ نہ تو انھوں نے اللہ کا ذکر کثرت سے کیا نہ اس کو یاد کیا اور نہ فساد سے کنارہ کشی کی اور انھوں نے بادل نخواستہ ہی اپنا خرچ کیا اور جو کچھ بھی انھوں نے اپنے مال میں سے خرچ کیا اس کو بوجھ اور تاوان سمجھا اور شیطان نے ان سے گفتگو کی، اور جب وہ قتال کی جگہوں پر پہنچے تو آخری آخری اور ناکام ناکام لوگوں میں تھے اور انھوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ حاصل کی اور دیکھتے رہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں اور جب اللہ غنیمت پر قادر ہوئے تو اس میں اللہ پر جرات کی اور شیطان نے ان کو یہ سمجھایا کہ یہ غنیمت ہے اور ان کو کچھ سہولت ملی تو اکڑنے لگے اور انھیں تنگی ہوئی تو شیطان نے انھیں فتنے میں مبتلا کیا پیش کر کرکے، سو ان کے لیے مومنین کے اجر میں سے کوئی چیز نہیں علاوہ اس کے کہ ان کے جسم ان کے جسموں کے ساتھ ہوں کے اور ان کا چلنا ان کے چلنے کے ساتھ ہوگا، اور ان کی نیتیں اور اعمال بکھرے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن جمع فرمائیں گے اور پھر ان کو جدا کردیا جائے گا۔

11348

11348 عن معاذ قال : ينادي مناد : أين المفجعون في سبيل الله ؟ فا يقوم إلا المجاهدون.(كر)
11344 ۔۔۔ حضرت معاذ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ایک پکارنے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جن کو اللہ کے راستے میں تکلیف دی گئی ، تو صرف مجاہدین ہی کھڑے ہوں گے۔

11349

11349 عن النواس بن سمعان قال : فتح على رسول الله صلى الله عليه وسلم فتح ، فأتيته فقلت : يا رسول الله سيبت الخيل ، ووضع السلاح ، وقد وضعت الحرب أوزارها ، وقالوا : لا قتال ، فقال رسول اله صلى الله عليه وسلم : كذبوا الآن جاء القتال ، يزيغ قلوب أقوام تقاتلونهم فيرزقكم الله منهم حتى يأتي أمر الله على ذلك ، وعقر دار المؤمنين بالشام.(ع كر).
11345 ۔۔۔ حضرت نواس بن سمعان (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے نواز تو میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! گھوڑوں کو آزاد کردیا گیا، اسلحہ رکھ دیا گیا اور جنگ اپنے کیل کانٹے سے فارغ ہوگئی اور لوگوں نے کہا کہ اب قتال ختم ہوگیا ہے، تو جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انھوں نے جھوٹ کہا اب ہی توقتال کا وقت آیا ہے، قوموں کے دل ٹیڑھے ہوجاتے ہیں تو ان سے قتال کرتے ہو سو اللہ تعالیٰ تمہیں انسے رزق دیتا ہے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اس پر اور مسلمانوں کے گھر کا درمیانی علاقہ شام ہوگا (مسند ابی یعلی)

11350

11350 عن أبي أمامة أن رجلا استأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم في السياحت ، فقال : إن سياحة أمتي الجهاد في سبيل الله.(ه كر).
11346 ۔۔۔ حضرت ابوامامۃ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہی میری امت کی سیاحت ہے “۔ (ابن ماجہ)

11351

11351 عن أبي الدرداء ، قال : إن شئتم أقسمت لكم بالله إن من خير أعمالكم الغزو والرواح إلى المساجد.(ابن زنجويه).
11347 ۔۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ کی قسم کھالوں کہ بیشک تمہارے سب سے بہتر اعمال میں جہاد اور مسجدوں کی طرف جانا ہے “۔ (ابن زنجویہ)

11352

11352 عن أبي الددرداء قال : لا يجمع الله عزوجل في جوف رجل غبارا في سبيل الله ودخان جهنم ، ومن اغبرت قدماه في سبيل الله حرم الله سائر جسده على النار ، ومن صام يوما في سبيل الله باعد الله عنه النار مسيرة ألف سنة ، للراكب المستعجل ، ومن جرح جراحة في سبيل الله ختم له بخاتم الشهداء تأتي يوم القيامة لونها مثل لون الزعفران ، وريحها مثل ريح المسك ، يعرفه بها الاولون والآخرون يقولون : فلان عليه طابع الشهداء ، ومن قاتل في سبيل الله فواق ناقت ،وجبت له الجنة. (حم).
11348 ۔۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کے پیٹ میں وہ غبار جو اللہ کے راستے میں اس کے پیٹ میں گیا اور جہنم کا دھواں جمع نہ کریں گے، اور جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے تو اس کے سارے جسم کو اللہ تعالیٰ آگ پر حرام کردیں گے، اور جس نے ایک دن اللہ کے راستے میں روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ سے ایک ہزار سال کی مسافت کے بقدر دور کردیں گے جو نہایت تیز رفتار مسافر طے کرلے، اور جس کو اللہ کے راستے میں ایک زخم لگا اس کو شہداء کی مہر لگادی جائے گی وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا رنگ تو زعفران کے رنگ کی مانند ہوگا اور اس کی خوشبو مشک کی طرح ہوگی ، اس خوشبو سے اس کو پہلے اور بعد والے سب پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ فلاں پر شہداء کی مہر ہے اور جس نے ایک اونٹ کی ہچکی کے برابر بھی اللہ کے راستے میں قتال کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی “۔ (مسند احمد)

11353

11353 عن أبي الدرداء ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل من بني حارثة : ألا تغزو يا فلان ؟ قال : يا رسول الله غرست وديا لي وإني أخاف إن غزوت أن يضيع ، فقال : الغزو خير لوديك ، قال : فغزا الرجل فوجد وديه كأحسن الودي واجوده. (الديلمي).
11349 ۔۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوحارثہ میں سے ایک شخص سے فرمایا کہ اے فلاں ! کیا تو غزوے میں حصہ نہ لے گا ؟ تو اس نے عرض کای یارسول اللہ ! میں نے کھجور کا چھوٹا پودا لگایا (بویا) ہے اور اگر میں نے غزوے میں شرکت کی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ضائع نہ ہوجائے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ غزوہ میں شرکت تیرے پودے کے لیے بہتر ہے، فرمایا کہ پھر اس شخص نے غزوہ میں شرکت کی، اور اپنے پودے کو پہلے سے بہتر اور عمدہ پایا “۔ (دیلمی)

11354

11354 عن شعبة عن الازرق بن قيس عن عسعس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد رجلا ، فسأل عنه فجاء ، فقال : يا رسول الله إني أردت أن آتي هذا الجبل فأخلوا فيه واتعبد ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يصبر أحدكم ساعة على ما يكره في بعض مواطن الاسلام خير من عبادته خاليا أربعين سنة.(هب) وقال ورواه حماد بن سلمة عن الازرق بن قيس عن عسعس عن أبي حاضر عن النبي صلى الله عليه وسلم وقال : ستين سنة.
11350 ۔۔۔ حضرت شعبہ ، اذرق بن قیس سے اور وہ عسعس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک شخص کی عدم موجودگی کے بارے میں علم ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو وہ آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں چاہتا تھا کہ اس پہاڑ پر چلا جاؤں اور تنہارہوں اور عبادت کروں ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اسلام میں کسی میدان جنگ پر تم میں سے جب کوئی ناپسندیدہ کام پر گھڑی بھر صبر کرتا ہے تو وہ صبر تنہائی میں چالیس سال عبادت کرنے سے بہتر ہے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان)
اور فرمایا کہ اسی روایت کو حماد بن سلمہ نے ازرق بن قیس سے اور انھوں نے عسعس سے اور انھوں نے ابوحاضر سے اور انھوں کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت فرمایا اور اس میں ساٹھ سال کا ذکر ہے۔

11355

11355 عن أبس حماس عن عسعس بن سلامة قال : كنا في الجبانة ومعنا أبو حاضر الاسدي ، فقال رجل من القوم : وددت أن لنا في هذا الجبانة قصرا فيه من الطعام واللباس ما يكفينا حتى الموت ، فقال أبو حاضر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد بعض أصحابه ، فسأل عنه فقيل له :أنه قد تفرد في بعض هذه القفران يتعبد فبعث إليه فأتي به ، فقال : ما حملك على ما صنعت ؟ فقال : يا رسول الله كبرت سني ورق عظمي ، وقرب أجلي ، فأحببت أن أخلو بعبادة ربي ، فنادى رسول الله صلى الله عليه وسلم بأعلى صوته وكان إذا أراد أن يعلم الناس أمرا نادى به فينا ، ألا إن موطنا من مواطن المسلمين أفضل من عبادة الرجل وحده ستين سنة نادى بها ثلاثا.(هب).
11351 ۔۔۔ ابوحماس روایت کرتے ہیں عسعس بن سلامۃ سے فرمایا کہ ہم جبابہ میں تھے اور حضرت ابوحاضر الاسدی (رض) بھی ہمارے ساتھ تھے، تو قوم میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ہمارا اس وادی حبانہ میں ایک محل ہو جس میں اتنا کھانا اور لباس ہو ایک مرتبہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعض صحابہ کو موجود نہ پایا اور ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ وہ اس علاقے کے کسی حصے میں الگ تھلگ ہو کر عبادت کرتے ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلوا بھیجا وہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ تمہیں اس حرکت پر کس نے اکسایا ؟ عرض کیا ، یارسول اللہ ! میری عمر زیادہ ہوگئی، ہٖڈیاں نرم ہوگئیں اور وقت قریب آگیا تو میں نے یہپ پسند کیا کہ میں تنہا ہوجاؤں اور اپنے رب کی عبادت کروں، سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے پکارا (اور جب) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے کہ لوگوں کو کوئی بات بتائیں تو اسی طرح ہمارے اندر بلند آواز کرتے تھے۔
سنو ! مسلمانوں کے میدان جنگ میں سے ایک میدان جنگ بھی کسی شخص کی تنہا ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے، اس جملے کو تین مرتبہ پکارکر فرمایا “۔ (بیھقی فی شعب الایمان)

11356

11356 عن أبي عطية أن رجلا توفي على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم : يا رسول لله لا تصل عليه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : هل رآه أحد منكم على شئ من أعمال الخير ؟ فقال رجل : حرس معنا ليلة كذا وكذا ، فصلى عليه ، ثم مشى إلى قبره ، فجعل يحثو عليه ويقول : إن أصحابك يظنون أنك من أهل النار ، وأنا أشهد أنك من أهل الجنة ، ثم قال : يا عمر إنك لا تسأل عن أعمال الناس وإنما تسأل عن الفطرة. (كر).
11352 ۔۔۔ حضرت ابوعطیہ سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک شخص وفات پا گیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس کو خیر کا کوئی کام کرتے دیکھا ہے ؟ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ اس نے فلاں فلاں رات ہمارے ساتھ چوکیداری کی تھی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ پڑھی پھر اس کی قبر کی طرف تشریف لے گئے ، اور اس پر مٹی ڈالتے جاتے تھے اور فرماتے کہ تیرے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ تو اہل جہنم میں سے ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اہل جنت میں سے ہے، پھر فرمایا کہ اے عمر ! بیشک تم سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا تم سے تو صرف فطرت کے بارے میں پوچھا جائے گا “۔

11357

11357 عن أم حرام قالت : أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : أين أبو الوليد ؟ فقلت الساعة يأتيك ، فألقيت له وسادة فجلس عليها فضحك ، فقلت ما اضحكك يا رسول الله ؟ قال رأيت أول جيش من أمتي يركبون البحر قد أوجبوا ، فقلت يا رسول الله أدع الله لي أن أكون منهم ، فقال : اللهم اجعلنا منهم ، ثم ضحك ، فقلت ما الذي أضحكك ؟ قال : أول جيش من أمتي يرابطون مدينة قيصر مغفور لهم. (كر).
11353 ۔۔۔ حضرت ام حرام (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ ابوالولید کہا ہیں ؟ تو میں نے عرض کیا کہ ابھی آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں گے ، پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تکیہ رکھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر تشریف فرما ہوئے اور ہنسے ، میں عرض کیا کہ آپ کس بات پر ہنسے یا رسول اللہ ؟ فرمایا کہ میں نے اپنی امت کا پہلا لشکر دیکھا، جو سمندر میں سوار ہیں اور انھوں نے اپنے لیے جنت واجب کردی ، میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ ! میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنادے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے میرے اللہ آپ اس کو انہی میں سے بنادیجئے ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے ، پھر میں نے عرض کیا آپ کس بات پر ہنسے ؟ فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر کا محاصرہ کئے ہوئے ہے اور اس کی مغفرت ہوگئی “۔

11358

11358 عن عائشة قالت : ما أعجز الرجال ؟ لو كنت رجلا ماصنعت شئا إلا الرباط في سبيل الله ، من رابط في سبيل الله فواق ناقة حر الله عليه النار ، ومن اغبرت قدماه في سبيل الله لم يصبه لهم النار. (ابن زنجويه).
11354 ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے فرمایا کہ مردوں کو کس چیز نے عاجز کردیا، اگر میں مرد ہوتی تو میں صرف اللہ کی راہ میں مورچہ بندی ومحاصرہ بندی کرتی، جس نے اونٹنی کی ایک ہچکی برابر بھی مورچہ بندی کی تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کردیتے ہیں اور جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے تو اس کو آگ کی لپیٹ نہ پہنچ سکے گی “۔ (ابن زبجویہ)

11359

11359 عن عائشة قالت لو كتب الجهاد على النساء لاخترن الرباط.(ابن زنجويه).
11355 ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اگر جہاد عورتوں پر فرض کیا جاتا تو وہ ضرور مورچہ بندی کو اختیار کرتیں “۔ (ابن زنجویہ)

11360

11360 عن عائشة قالت : خرجت فإذا أنا برسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح بردائه عن ظهر فرسه ، فقلت : بأبي وأمي يا رسول الله أبثوبك تمسح عن فرسك ؟ قال : نعم يا عائشة ، وما يدريك لعل ربي أمرني بذلك ؟ مع أني لقريب ، وإن الملائكة لتعاتبني في حس الخيل ومسحها ، فقلت له : يا نبي الله فولنيه فأكون أنا التي ألي القيام عليه ، فقال : لا أفعل لقد أخبرني خليلي جبريل أن ربي يكتب لي بكل حبة أوافيه بها حسنة ، وأن ربي يحط عني بكل حبة سيئت ، ما من امرئ م ن المسلمين يربط فرسا في سبيل الله إلا يكتب له بكل حبة يوافيه بها حسنة ويحط عنه بكل حبة سيئة. (كر) وسنده لا بأس به.
11356 ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ایک مرتبہ نکلی تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مبارک چادر سے اپنے گھوڑے کی پشت کو صاف فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ ! کیا آپ اپنے کپڑوں سے اپنے گھوڑے کو صاف فرما رہے ہیں ؟ فرمایا کہ ہاں اے عائشہ ! تمہیں کیا معلوم شاید یہ حکم مجھے میرے رب نے دیا ہو ؟ باوجود اس کے کہ میں قرب رکھتا ہوں “ اور بیشک فرشتے مجھ سے ناراض ہوتے ہیں گھوڑے کو چھونے اور صاف کرنے پر، تو میں نے عرض کیا کہ، اے اللہ کے نبی ! آپ مجھے مقرر فرمایئے کہ آپ کا یہ کام میں کردوں، تو فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، تحقیق مجھے میرے دوست جبرائیل نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے ہر دانے کے بدلے جو میں اس کو دوں گا ایک نیکی لکھیں گے اور میرا رب ہر دانے کے بدلے کے بدلے مجھ سے ایک برائی دور فرمائیں گے، ہر مسلمان جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھا تو اس کے لیے ہر دانے کے بدلے جو وہ اس کو دے گا نیکی لکھیں گے اور ہر دانے کے بدلے ایک برائی دور فرمادیں گے “۔

11361

11361 عن الزهري حدثني عطاء بن يزيد أنه حدثه بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : قيل يا رسول الله : أي الناس أفضل ؟ قال : من جاهد بنفسه وماله في سبيل الله ، قالوا : ثم من يا رسول الله ؟ قال : مؤمن في شعب من الشعاب يتقي الله ويدع الناس من شره.(كر ه)
11357 ۔۔۔ زھری فرماتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی عطاء بن یزید نے کہ ان کو بعض صحابہ (رض) نے حدیث بیان کی فرمایا، عرض کیا گیا، یا رسول اللہ ! لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا کہ جس نے اپنے نفس اور مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا، پھر عرض کیا، اس کے بعد کون ہے یارسول اللہ ؟ فرمایا کہ وہ مومن جو گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں رہے اللہ سے ڈرتا رہے اور لوگوں کو اپنی برائی سے محفوظ رکھئے۔ (ابن ماجہ)

11362

11362 عن مكحول قال : إن روعة البعوث روضة من رياض الجنة.(كر).
11358 ۔۔۔ مکحول سے مروی ہے فرمایا کہ لشکر کا ذرا سا گھبراجانا جنگ کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

11363

11363 وعنه قال : اشتروا بروعات البعوث روضات الجنات.(كر).
11359 ۔۔۔ اور مکحول ہی سے مروی ہے فرمایا کہ لشکروں کے ذرا سے گھبراجانے سے جنت کے باغ خرید لو۔
فائدہ :۔۔۔ ذرا سے گھبراجانے کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11364

11364 (مسند عمر رضي الله عنه) عن مالك بن أوس بن الحدثان قال : تحدثنا بيننا عن سرية أصيبت في سبيل الله على عهد عمر ، فقال قائلنا : عمال الله في سبيل الله ، وقع أجرهم على الله ، وقال قائلنا : يبعثهم الله على ما أماتهم عليه ، فقال عمر : أجل والذي نفسي بيده ليبعثهم الله على ما أماتهم عليه ، إن من الناس من يقاتل رياء وسمعت ، ومنهم من يقاتل ينوي الدنيا ، ومنهم من يلجمه القتال فلا يجد من ذلك بدا ، ومنهم من يقاتل صابرا محتسبا فأولئك هم الشهداء مع أنى لا أدري ما هو مفعول بي ولا بكم غير أني أعلم أن صاحب هذا القبر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم غفر له ما تقدم من ذنبه. (تمام).
11360 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے مالک بن اوس بن الحدثان فرماتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک ایسے معرکہ کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی جو حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں اللہ کے راستے میں لڑا گیا تھا، تو ایک کہنے والے نے کہا اللہ کے کارکن اللہ کے راستے میں ہیں، ان کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور ایک کہنے والے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انھیں اسی حالت میں دوبارہ اٹھائیں گے جن میں ان کی وفات دی گئی تھی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ، ہاں، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ایسی حالت میں اٹھائیں گے جس حالت میں ان کو وفات دی تھی، بیشک کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دکھاوے اور شہرت کی خاطر قتال کرتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کی خاطر قتال کرتے ہیں اور ان میں سے ایسے ہوتے ہیں جن کو قتال کی لگام پہنائی جاتی ہے ان کو اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ملتا ، اور بعض ایسے ہیں جو صبر کرتے ہوئے احتساب کی نیت سے قتال کرتے ہیں سو یہی ہیں شہداء، اس کے باوجود مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ کہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس قبر میں جو ہیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں جن کے پہلے تمام گناہ معاف کیے جاچکے ہیں “۔

11365

11365 عن عمر قال : إن من الناس ناسا يقاتلون رياء وسمعة ، ومن الناس ناسا يقاتلون إذ رهبهم القتال فلم يجدوا غيره ، ومن الناس من يقاتل ابتغاء وجه الله فأولئك هم الشهداء ، وإن كل نفس تبعث على ما تموت عليه. (عب).
11361 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مردی ہے فرمایا کہ بیشک بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دکھاعے اور شہرت کی خاطر جہاد کرتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے کہ انھیں قتال ڈراتا ہے تو وہ اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں پاتے ، اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی رضامندی کی کا خاطر قتال کرتے ہیں سو یہی شہید ہیں اور بیشک ہر نفس اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت میں اس کی وفات ہوئی تھی “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11366

11366 عن مسروق قال : إن الشهداء ذكروا عند عمر بن الخطاب فقال عمر للقوم : ما ترون الشهداء ؟ قال القوم : يا أمير المؤمنين هم من يقتل في هذه المغازي ، فقال عند ذلك : إن شهداءكم إذا لقليل ، إني أخبركم عن ذلك إن الشجاعة والجبن غرائز في الناس يضعها الله حيث يشاء ، فالشجاع يقاتل من وراء من لا يبالي أن يوؤب إلى أهله ، والجبان فار عن حليلته ، ولكن الشهيد من احتسب بنفسه ، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه ، والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده. (ش).
11362 ۔۔۔ حضرت مسروق سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے سامنے شہداء کا ذکر ہوا، تو حضرت عمر (رض) نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تم شہید کسے سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا، اے امیر المومنین ! وہ جو ان جنگوں میں قتل ہوتے ہیں، تو اسی وقت حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس طرح تو تمہارے شہید بہت کم ہوجائیں گے، میں تمہیں اس کے بارے میں بتاتا ہوں ، بیشک یہادری اور بزدلی دوفطری حالتیں ہیں جو لوگوں میں گاڑھی (ودیعت فرمائی) گئی ہیں، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے جیسی چاہتا ہے عطا فرمایا دیتا ہے ، سو بہادر تو اس طرح جنگ لڑتا ہے کہ کوئی اس کو پروا نہیں ہوتی کہ وہ واپس اپنے گھر بھی پہنچ سکے گا یا نہیں اور بزدل تو اپنی بیوی سے بھی بھاگتا ہے ، لیکن شہید وہ ہے جو اپنے نفس کا احتساب کرے، اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور مسلمان وہ ہے جس کی زباں اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں “۔ (ابن ابی شیبہ)

11367

11367 عن أبي البحتري الطائي أن ناسا كانوا بالكوفة مع أبي المختار يعني والد المختار ابن أبي عبيد حيث قتل بجسر أبي عبيد قال : فقتلوا إلا رجلين حملا على العدو بأسيافهما فأفرجوا لهما فنجيا أو ثلاثة فاتوا المدينة ، فخرج عمر وهم قعود يذكرونهم ، فقال عمر : عم قلتم لهم ؟ قالوا : استغفرنا لهم ، ودعونا لهم ، قال : لتحدثني بما قلتم لهم أو لتلقون مني برحاء قالوا : إنا قلنا لهم : إنهم شهداء ، قال : والذي لا إله غيره والذي بعث محمدا بالحق لا تقوم الساعة إلا باذنه لا تعلم نفس حية ماذا عند الله لنفس ميتة إلا نبي الله ، فان الله غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، والذي لا إله غيره والذي بعث محمدا بالحق والهدى ، لا تقوم الساعة إذا بانه إن الرجل يقاتل رياء ويقاتل حمية ويقاتل يريد الدنيا ويقاتل يريد المال ، وما للذين يقاتلون عند الله إلا ما في أنفسهم. (الحارث) قال الحافظ ابن حجر : رجاله ثقات إلا أنه منقطع.
11363 ۔۔۔ ابوالبختری فرماتے ہیں کہ لوگ کوفہ میں ابوالمختار کے ساتھ تھے یعنی مختار بن ابی عبید کے والد کے ساتھ اس طرح کہ جسدابی عبید پر قتل ہوگیا تھا، سو دو آدمیوں کے علاوہ سب قتل ہوگئے اور انھیں بچنے کا موقع مل گیا وہ تین تھے سو وہ مدینہ منورہ آئے ، پھر حضرت عمر (رض) نکلے اور وہ لوگ بیٹھے انہی کا ذکر کررہے تھے حضرت عمر (رض) نے دریافت فرمایا کہ تم نے ان سے کیا کہا تھا ؟ عرض کیا کہ ہم نے ان کے لیے مغفرت مانگی اور دعا مانگی، فرمایا کہ یا تو تم لوگ وہ بات صاف صاف بتادوگے جو تم نے کہی ورنہ میری طرف سے سخت مشکل میں پڑ جاؤگے، انھوں نے عرض کیا کہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ وہ لوگ شہداء ہیں فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور قسم اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بھیجا قیامت بھی اس کے حکم سے قائم ہوگی کوئی زندہ انسان نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کسی مرنے والے کے لیے کیا ہے علاوہ اللہ کے نبی کے کیونکہ ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوتے ہیں ، اور قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور قیامت بی اس کے حکم سے قائم ہوگی بیشک ایک شخص دکھاوے کی نیت سے قتال کرتا ہے اور ایک شخص غیرت میں قتال کرتا ہے اور ایک شخص دنیا کے لیے قتال کرتا ہے اور ایک شخص مال کے لیے قتال کرتا ہے اور نہیں ہے ان لوگوں کے لیے اللہ کے ہاں کچھ علاوہ ان نیتوں کے جو وہ کرتے تھے “ (الحارث)
ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کے روای ثقات ہیں مگر سند منقطع ہے۔

11368

11368 عن ابن أبي ذئب عن القاسم بن عباس عن بكير بن عبد الله الاشج عن أبي مكرز رجل من أهل الشام عن أبي هريرة أن رجلا قال : يا رسول الله رجل يريد الجهاد في سبيل الله وهو يبتغي عرضا من الدنيا ؟ فقال : لا أجر له ، فأعظم الناس ذلك ، فقالوا للرجل : عد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلعلك لم تفهمه ، فقال الرجل : يا رسول الله الرجل يريد الجهاد في سبيل الله وهو يبتغي من عرض الدنيا ؟ فقال : لا أجر له فأعظم ذلك الناس ، فقالوا للرجل : عد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال له الثالثت : رجل يريد الجهاد في سبيل الله ووهو يبتغي من عرض الدنيا ؟ فقال : لا أجر له. (كر) وقال : قال ابن المديني أبو مكرز مجهول ، لم يرو عنه غير ابن الاضج ، والقاسم مجهول لم يرو عنه غير ابن أبي ذئب.
11364 ۔۔۔ ابن ابی ذئب ، روایت کرتے ہیں قاسم بن عباس سے اور وہ بکیر بن عبداللہ الاشج سے اور وہ ابومکر زبامی شام کے ایک شخص سے اور وہ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے فرمایا کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ! ایک شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چاہتا ہے، اور وہ دنیا کا مال مانگتا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے، لوگوں نے اس بات کو بہت برا سمجھا اور اس شخص سے کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس جاؤ شاید تو ٹھیک سمجھا نہ ہو، تو اس شخص نے کہا کہ یارسول اللہ ایک شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چاہتا ہے اور وہ دنیا کا بھی کچھ مال چاہتا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں، تو لوگوں نے اس بات کو بہت برا سمجھا ، اور شخص سے کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس جاؤ، چنانچہ اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا کہ ایک شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنا چاہتا ہے اور دنیا کے مال میں سے کچھ چاہتا ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔

11369

11369 عن عمر قال : ارموا فان ارمي عدة وجلادة. (ش).
11365 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ تیر اندازی کرو، کیونکہ تیراندازی اور قوت دکھانے کا موقع ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11370

11370 عن عبد الرحمن بن عجلان أن عمر بن الخطاب مر بقوم يرتمون ، فقال أحدهم : أسألت فقال عمر : سوء اللحن أسوأ من سوء الرمي (ابن سعد).
11366 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن عجلان سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) ایک ایسی قوم کے پاس سے گرزے جو تیراندازی کررہے تھے تو کسی نے کہا کہ تو نے برا کیا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ برا لہجہ بری تیر اندازی سے زیادہ برا ہے “۔ (ابن سعید)

11371

11371 عن حيفة قال : كتب عمر إلى أهل الشام أيها الناس ارموا واركبوا ، والرمي أحب إلي من الركوب ، فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الله يدخل بالسهم الواحد الجنة من عمله في سبيله ، ومن قوي به في سبيل الله. (القراب في فضل الرمي).
11367 ۔۔۔ حضرت حذیفہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے اہل شام کو لکھا کہ اے لوگو ! تیراندازی کرو اور سوار ہوجاؤ، اور تیراندازی مجھے سوار ہونے سے زیادہ پسند ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائیں گے اس کو جس نے اس کے راستے میں کام کیا اور جس نے اللہ کے راستے میں طاقت پہنچائی “۔ (القراب فی فضل الرمی)

11372

11372 عن النزال بن سبرة قال : كتب الينا عمر بن الخطاب ثلاثا تعلموا المشي حفاة واحتلفوا وشمروا الازر ، وتعلموا الرمي.(بكر ابن بكرا في جزئه).
11368 ۔۔۔ حضرت نزال بن سبرۃ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے ہماری طرف تین باتیں لکھ بھیجیں۔
1 ۔۔۔ ننگے پیر چلنا سیکھو اور چلو۔
2 ۔۔۔ تہبند (شلوار) کو ٹخنوں سے اوپر رکھو۔
3 ۔۔۔ اور تیراندازی سیکھو۔ (بکرابن بکاری فی جزئیہ)

11373

11373 عن علي قال : كان بيد النبي صلى الله عليه وسلم قوس عريبة فرأس رجلا بيده قوس فارسية ، فقال : ما هذه ؟ ألقها وعليكم بهذه وأشباهها ورماح القنا ، فانما يزيد الله لكم بها في الدين ، ويمكن لكم في البلاد.(ه).
11369 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ مبارک میں عربی کمان تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں فارسی کمان ہے تو دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ اسے پھینک دو ، تمہارے لیے یہ اور اس جیسی دوسری چیزیں اور نیزے ضروری ہیں، کیونکہ صرف انہی سے اللہ تعالیٰ تمہارے دین میں اضافہ فرمائیں گے اور تمہیں شہروں میں ٹھکانا دیں گے “۔ (ابن ماجہ)
فائدہ :۔۔۔ یہ اور اس جیسی مراد عربی کمان اور دیگر چیزیں تیر نیزے وغیرہ ہیں اور شہروں میں ٹھکانا دینے سے مراد ہے کہ شہروں کو فتح کردیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11374

11374 عن أبي نجيح السلمي قال : حاصرت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قصر الطائف ، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : من رمى بسهم فبلغه فله درجة في الجنة ، قال رجل : يا نبي الله إن رميت فبلغت فلى درجة ؟ قال : نعم ، قال : فرمى فبلغ ، قال : فبلغت يومئذ ستة عشر سهما. (كر).
11370 ۔۔۔ حضرت ابی سجیح (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طائف کے قلعے کا محاصرہ کیا، تو میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ جس نے تیرچلایا اور وہ نشانے پر جاپہنچا تو وہ شخص جنت میں جائے گا، ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں نے تیرچلایا اور نشانے پر لگا تو مجھے درجہ ملے گا ؟ فرمایا ہاں حضرت ابو نجیح فرماتے ہیں کہ پھر اس شخص نے تیر چلایا اور نشانے پر لگا ، اور میں نے اس دن سولہ نشانے لگائے

11375

11375 عن أبي أسيد الساعدي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر حين صففنا لقريش : وصفوا لنا إذا أكثبوكم فارموهم بالنبل.(ش).
11371 ۔۔۔ حضرت ابواسید الساعدی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جنگ بدر کے دن ہم نے صفیں باندھ لیں قریش سے مقابلہ کرنے کے لیے اور انھوں نے ہمارے مخالف صفیں باندھ لیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب وہ تمہیں گھیر لیں تو ان پر تیر چلاؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11376

11376 عن عتبة بن عبد قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقتال فرمى رجل منهم العدو ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : من صاحب هذا السهم فقد أوجب. (ابن النجار).
11372 ۔۔۔ حضرت عتبہ بن عبید (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں قتال کا حکم فرمایا، تو ایک شخص نے دشمن پر تیر چلایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کون ہے یہ تیر چلانے والا تحقیق اس نے واجب کرلیا “۔ (ابن النجار)

11377

11377 عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم افتقد رجلا فقال : أين فلان ؟ فقال قائل : ذهب يلعب ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما لنا وللعب ؟ فقال رجل : يا رسول الله ذهب يرمي ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :ليس الرمي بلعب ، الرمي خير ما لهوتم به. (الديلمي).
11373 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو موجود نہ پایا کہ فلاں شخص کہاں ہے ؟ تو کسی نے عرض کیا کہ کھیلنے گیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارا کھیل سے کیا تعلق ؟ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تیزاندازی کرنے گیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تیراندازی کھیل نہیں ہے بلکہ تیراندازی ان سب سے بہتر ہے جو تم کھیلتے ہو “۔ (دیلمی)

11378

11378 (مسند عمر رضي الله عنه) عن نافع ، عن ابن عمر ، عن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم سبق بين الخيل ، فأرسل الخيل الممرة إلى مسجد بني زريق.(أبو الحسن البكائي).
11374 ۔۔۔ مسند عمر ر (رض) سے حضرت نافع حضرت ابن عمر (رض) سے بیان فرماتے ہیں اور وہ حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں کا مقابلہ کروایا اور پتلے دبلے چھڑپڑے گھوڑے کو مسجد نبی زریف کی طرف بھیجا “۔ (ابوالحسن البکائی)

11379

11379 عن عبد الله بن ميمون المرائي عن عوف عن الحسن أو خلاس شك ابن ميمون عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له : يا علي قد جعلت اليك هذه السبقة بين الناس ، فخرج علي ودعا سراقة بن مالك ، فقال : يا سراقة إني قد جعلت اليك ما جعل النبي صلى الله عليه وسلم في عنقي من هذه السبقة في عنقك ، فإذا أتيت الميطار قال أبو عبد الرحمن : والميطار مرسلها من الغاية ، فصف الخيل ، ثم ناد هل مصل للجام ، أو حامل لغلام ، أو طارح لجل ؟ فإذا لم يجبك أحد فكبره ثلاثا ، ثم خلها عند الثالثة يسعد الله بسبقه من شاء من خلقه ، وكان علي يقعد عند منتهى الغاية ، ويخط خطا يقيم رجلين متقابلين عند طرف الخط طرفه بين إبهام أرجلهما ، وتمر الخيل بين الرجلين ، ويقول لهما : إذا خرج أحد الفرسين على صاحبه بطرف أذنيه أو اذن أو عذاب ، فاجعلوا السبقة له فان شككتما فاجعلا سبقتهما نصفين ، فإذا قرنتم الشيئين فاجعلوا الغاية من غاية أصغر الشيئين ، ولا جلب ولا جنب ولا شغار في السلام. (هق) وقال هذا اسناد ضعيف
11375 ۔۔۔ عبداللہ بن میمون المرائی روایت کرتے ہیں عوف سے اور عوف حسن سے یا خلاس سے (ابن میمون کو شک ہوگیا)
اور وہ حضرت علی (رض) سے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (حضرت علی (رض)) سے فرمایا کہ اے علی میں لوگوں کے درمیان اس مقابلے کو آپ کے حوالے کرتا ہوں تو حضرت علی اللہ عنہ نکلے اور حضرت سراقۃ بن مالک (رض) کو بلایا اور فرمایا کہ اے سراقہ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کام میرے ذمے لگایا وہ میں تمہارے ذمے لگاتا ہوں، سو جب تم میطار تک پہنچو۔ (ابوعبدالرحمن کہتے ہیں کہ میطار اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے گھڑ دوڑ شروع ہوتی ہے) تو گھوڑوں کی صفیں درست کرواؤ۔ پھر پکارو، کیا کوئی لگام تھامنے والا ہے ؟ کیا کوئی لڑکے کو اٹھانے والا ہے اور کیا کوئی جھول پھیکنے والا ہے ؟ سو اگر کوئی بھی تمہیں جواب نہ دے تو تین مرتبہ تکبیر کہو اور تیسری مرتبہ میں اک کو چھوڑ دو ، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جسے چاہے گا اس دوڑ سے نیک بخت کرے گا، اور حضرت علی (رض) اس انتہاء پر تشریف فرماہوا کرتے تھے جہاں دوڑ ختم ہوتی ہے، اور ایک لکیر لگا کر دو آدمیوں کو آمنے سامنے لکیر کے دونوں کناروں پر کھڑا کردیتے تھے اس طرح کہ لکیر ان کے پیروں کے انگوٹھوں کے درمیان ہوتی ہے، اور گھوڑے ان دونوں کناروں کے بیچ میں دوڑتے حضرت علی (رض) ان دونوں آدمیوں سے کہتے، کہ جب کوئی سوار اپنے ساتھی کے گھوڑے کے کان کے کنارے سے یا کان سے یا باگ دوا سے آگے نکل جائے تو جیت کا انعام اس کے لیے مقرر کردینا ، اگر تمہیں شک ہو تو جیت کا انعام آدھا آدھا تقسیم کردینا، اور جب تم دو چیزوں کو ملاؤ تو انتہاء ان میں سے چھوٹی چیز کو بنانا ، اور اسلام میں نہ جلب ہے نہ جنب اور نہ شعار “۔ (سنن کبری بیھقی)

11380

11380 (مسند أبي هريرة رضي الله عنه) كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكره الشكال من الخيل. (ش).
11376 ۔۔۔ مسند ابوہریرہ (رض) میں ہے کہ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑوں میں سے ایسے گھوڑوں کو ناپسند فرماتے تھے جس کی تین ٹانگیں ایک رنگ کی اور چوتھی ٹانگ باوی تین سے الگ کسی اور رنگ کی ہوتی تھی “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11381

11381 عن الزهري قال : كانوا يتراهنون على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأول من أعطى فيه عمر بن الخطاب. (ش).
11377 ۔۔۔ امام زہری سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں لوگ گھڑدوڑ کی شرطیں لگایا کرتے تھے اور سب سے پہلے اس میں حضرت عمر (رض) نے دیا “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11382

11382 عن علي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما أراد الله أن يخلق الخيل قال : لريح الجنوب إني خالق منك خلقا اجعله عزا لاوليائي ومذلة على أعدائي ، وجمالا لاهل طاعتي ، فقالت الريح : اخلق ، فقبض منها قبضة فخلق فرسا ، فقال : خلقتك فرسا ، وجعلتك عربيا ، وجعلت الخير معقودا بناصيتك ، والغنائم محتازة على ظهرك ، وجعلتك تطير بلا جناح ، فأنت للطلب ، وأنت للهرب ، وسأجعل على ظهرك ،رجالا يسبحوني ويحمدوني ويهللوني ويكبروني ، فلما سمعت الملائكة الصفة وخلق الفرس قالت الملائكة : يا رب نحن ملائكتك نسبح لك ونحمدك ونهللك فماذا لنا ؟ فخلق الله خيلا بلقا ، أعناقها كأعناق البخت يمد بها من يشاء من أنبيائه ورسله ، وأرسل الفرس في الارض ، فلما استوت قدماه على الارض مسح الرحمن بيده على عرف ظهره ، قال : أذل بصهيلك المشركين ، إملا منه آذانهم ، وأذل به أعناقهم وأرعب به قلوبهم ، فلما عرض الله على آدم من كل شئ ما خلقك ، قال له : اختر من خلقي ما شئت ، فاختار الفرس فقيل له : اخترت عزك وعز ولدك خالدا ما خلدوا ، وباقيا ما بقوا ، يلقح فينتج مه أولادا أبد الآبدين ، ودهر الداهرين ، بركتي عليك وعليهم ، ما خلقت خلقا أحب إلي منك.(ك في تاريخه والثعلبي في تفسيره والديلمي) وأورده ابن الجوزي في الموضوعات وأعله بالحسن بن زيد بن الحسن بن علي بن أبي طالب ضعيف روى عن أبيه معضلات ومناكير قلت ذكره (حب) : في الثقات وهو والد السيدة نفسية وله شواهد تأتي.
11378 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو جنوب کی ہوا سے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہوں جسے میں اپنے دوستوں کے لیے اپنے دشمنوں کے لیے ذلت اور اپنے فرمان برداروں کے لیے جمال بناؤں گا، تو ہوا نے عرض کیا کہ تخلیق فرما دیجئے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس ہوا سے ایک مٹھی بھرلے کر گھوڑا پیدا فرمایا اور فرمایا کہ میں نے تجھے گھوڑا بنایا، اور تجھے عربی بنایا اور بھلائی کو تیری پیشانی کے ساتھ باندھ دیا اور غنارم کو تیری پشت پر جمع کردیا (اور تجھے) بغیر پروں کے اڑنے والا بنایا، سو تو طلب کے لیے ہے اور تو دوڑنے کے لیے ہے، اور عنقریب میں تیری پشت پر ایسے لوگوں کو سوارکروں گا تو میری پاکی اور تعریف بیان کریں گے اور میری تہلیل اور تکبیر بیان کریں گے ، سو جب فرشتوں نے یہ صفات اور گھوڑوں کی پیدائش کا سنا تو عرض کیا، اے ہمارے رب ! ہم آپ کے فرشتے ہیں، آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور آپ کی تعریف کرتے ہیں اور آپ کی تھلیل بیان کرتے ہیں تو پھر ہمیں کیا ہوا ؟۔ تو اللہ تعالیٰ نے سیاہ رنگ کا گھوڑا پیدا فرمایا ، اس کی گردن لمبی اونٹ کی مانند تھی انبیاء اور رسولوں میں سے جسے چاہے گا ممیز کرے گا، اور گھوڑے کو زمین پر بھیجا جب گھوڑے کے قدم زمین پر ٹک گئے تو اللہ نے اپنا دست قدرت گھوڑے کی پشت کی عیال پر پھیرا اور فرمایا کہ اپنی ہنہناہٹ سے مشرکوں کو ذلیل کردے، ان کے کان اپنی ہنہناہٹ سے بھردے، ان کی گردنیں جھکادے، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیش فرمائیں تو فرمایا کہ میری مخلوقات میں سے جس کو چاہو اختیار کرلو، حضرت آدم (علیہ السلام) نے گھوڑے کو اختار فرمایا تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے اپنی اور اپنے بیٹے کی عزت کو ہمیشہ کے لیے اختیار فرمایا، باقی رہے گی جب تک وہ باقی رہیں گے گھوڑیاں حاملہ ہوتی ہیں اور پھر ان سے اولاد پیدا ہوتی رہے گی ہمیشہ ہمیشہ تمام زمانوں میں ، میری برکت پر اور ان پر ہے، میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو مجھے تجھ سے زیادہ محبوب ہو “۔ (حاکم فی تاریخیہ اور ثعلبی فی تفسیرہ اور دیلمی)

11383

11383 (مسند أبي بكر رضي الله عنه) قال المدائني : إن أبا بكر الصديق أوصى يزيد بن أبي سفيان حين وجهه إلى الشام ، فقال : سر على بركة الله فإذا دخلت بلاد العدو فكن بعيدا من الحملة ، فاني لا آمن عليك الجولة ، واستظهر في الزاد ، وسر بالآدلاء ، ولا تقاتل بمجروح ، فان بعضه ليس معه ، واحترس من البيات ، فان في العرب غرة ، وأقلل من الكلام ، فانما لك ما وعي عنك ، فإذا أتاك كتابي فانفذه فانما أعمل على حسب انفاذه ، وإذا قدمت وفود العجم فانزلهم معظم عسكرك ، واسبغ عليهم النفقة ، وامنع الناس من محادثتهم ليخرجوا جاهلين ولا تلجن في عقوبة ، ولا تسرعن إليها ، وأنت تكتفي بغيرها ، وأقبل من الناس علانيتهم ، وكلهم إلى الله في سرائرهم ، ولا تجسس عسكرك فتفضحه ، ولا تهمله فتفسده ، واستودعك الله الذي لا يضيع ودائعه. (الدينوري).
11379 ۔۔۔ مسند ابی بکر (رض) سے مروی ہے مدائنی فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق (رض) نے یزید بن ابی دفیان کو شام کی طرف بھیجا تو وصیت کی اور فرمایا کہ چلو اللہ کی برکت کے ساتھ سو جب دشمن کے شہر میں داخل ہوجاؤ تو حملے سے دور رہو، کیونکہ میں تمہارے بارے میں حملے سے بےخوف نہیں ہوں، زادراہ میں احتیاط کرو، وقار کے ساتھ چلو، کسی زخمی سے قتال نہ کر تو کیونکہ اس کا بعض اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ شب خون سے بچنے کے لیے پہرے دار کا اہتمام کرو کیونکہ عرب میں دھوکے بازی ہے ، باتیں بہت کم کرو کیونکہ تیرے لیے وہی ہے جو تجھ ست محفوظ رکھا جائے اور جب تیرے پاس میرا مکتوب تو اس کو نافذ کردے کیونکہ میں اس کے نفاذ کے مطابق ہی عمل کرتا ہوں ، اور جب عجمیوں کے وفود آئیں تو ان کو لشکر کے بڑے حصے میں ٹھہراؤ اور ان کو نفقہ دو ، اور لوگوں کو ان سے گفتگو سے منع کردو، تاکہ جاہل نکل جائیں ، اور سزا دینے میں جلدی نہ کرو اور جلدی ان کی طرف مت بڑھو اس کے علاوہ آپ کافی ہیں اور اعلانیہ لوگوں کے سامنے آ، اور تنہائی میں ان کو اللہ کے حوالے کردے اور لشکر میں تجسس سے کام نہ لے تو اس کو شرمندہ کردے گا اور نہ اس کو مہلت دے ورنہ اس کو خراب کردے گا اور میں تجھے اللہ کی حفاظت میں دیتا ہوں جو اپنی حفاظت میں موجودچیزوں کو ضائع نہیں کرتا “۔ (دینوری)

11384

11384 عن عمر قال : وفروا أظفاركم في أرض العدو ، فانها سلاح.(مسدد).
11380 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جب تم دشمن کی سرزمین میں ہوتے ہو تو اپنے ناخن بڑھاؤ کیونکہ یہ بھی اسلحہ ہے “۔ (مسدد)

11385

11385 عن حرام بن معاوية قال : كتب إلينا عمر بن الخطاب أن لا يجاورنكم خنزير ، ولا يرفع فيكم صليب ، ولا تأكلوا على مائدة يشرب عليها الخمر وادبوا الخيل وامشوا بين الغرضين.(عب هب).
11381 ۔۔۔ حضرت حرام بن معاویہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں بذریعہ خط حکم فرمایا کہ خنزیر تمہارے آس پاس بھی نہ آئیں ، اور نہ تم میں صلیب بلند کی جائے اور نہ کسی ایسے دسترخوان پر کھانا کھاؤ جہاں شراب پی جارہی ہو اور گھوڑوں کی تربیت کر اور دونشانوں کے بیچ میں چلو۔ (مصنف عبدالرزاق اور سنن کبری بیھقی)

11386

11386 عن مكحول أن عمر بن الخطاب كتب إلى أهل الشام أن علموا أولادكم السباحة والرمي والفروسية.
11382 ۔۔۔ حضرت مکحول سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے اہل شام کی طرف لکھا کہ اپنی اولاد کو تیراکی ، تیراندازی اور گھڑ سواری سکھائیں۔ (القراب فی فضائل انرمی)

11387

11387 عن زيد بن حارثة أن عمر بن الخطاب كتب إلى امراء الشام أن يتعلموا الرمي ويمشوا بين الغرضين حفاة وعلموا أولادكم الكتابة والسباحة.(عب).
11383 ۔۔۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے شام کے امراء کو بذریعہ
حکم فرمایا کہ تیراندازی سیکھیں اور دونشانوں کے درمیان ننگے پیر چلو اور اپنی اولاد کو تحریر اور ترا کی سکھاؤ “ (مصنف عبد الرزاق)

11388

11388 عن كليب قال : أبطأ على عمر خبر نهاوند وخبر النعمان بن مقرن فجعل يستنصر.(ش).
11384 ۔۔۔ حضرت کلیب (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) تک نہادند اور نعمان بن مقرن کی اطلاع پہنچنے میں تاخیر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے مدد کی دعا فرمانے لگے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11389

11389 عن سعيد بن جبير أن عمر بن الخطاب جاء إلى قوم محاصرين فأمر أن يفطروا.(مسدد)
11385 ۔۔۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) ایک ایسی قوم کے پاس آئے جنہوں نے محاصرہ کررکھا تھا تو حکم دیا کہ روزے توڑدو۔ (مسدد)

11390

22390 عن لي قال : كان شعار النبي صلى الله عليه وسلم : ياكل خير. (ع ص كر).
11386 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ دوران جنگ یہ فرمانے کی تھی ” اے تمام بھلائی کے مالک “۔ (ابویعلی، سعید بن منصور)

11391

11391 عن علي قال : إن الله تعالى سمى الحرب خدعة على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم.(ط حم ع وابن جرير والدورقي).
11387 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارکہ سے جنگ کا نام ” دھوکا “ رکھوایا “۔ (مسند احمد، عبد الرزاق، ابن جریر اور دورقی)

11392

11392 عن أنس قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بسيسة عينا. (م وأبو نعيم)
11388 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بسیسہ (رض) کو جاسوس بنا کر بھیجا “۔ (مسلم ابونعیم)

11393

11393 عن أبي لبابة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم بدر كيف تقاتلون القوم ؟ إذا لقيتموهم ، فقام عصام بن ثابت ، فقال : يا رسول الله إذا كان القوم منا ينالهم النبل كانت المراماة بالنبل ، فإذا اقتربوا حتى تنالنا وإياهم الحجارة كانت المراضخة بالحجارة فاخذ ثلاثة أحجار حجرا في يده وحجرين في حجزته ، فإذا اقتربوا حتى تنالهم وإيانا الرماح كانت المداعسة بالرماح حتى تقصف فإذا تقصفت الرماح كان الجلاد بالسيوف ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : هكذا نزلت الحرب من قاتل فليقاتل قتال عاصم. (طب).
11389 ۔۔۔ حضرت ابولبابہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جنگ بدر کے دن جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کسی قوم سے قتال کس طرح کرتے ہو جب ان سے سامنا ہوجائے تو حضرت عاصم بن ثابت (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یارسول اللہ ! جب دشمن ہم سے اتنی دور ہو کہ وہاں تک تیرہی پہنچ سکتا ہو جنگ تیراندازی سے ہوتی ہے، اور جب فاصلی اتنا کم ہوجاتا ہے آپس میں پتھروں سے جنگ ہوسکے تو پھر ایک دوسرے پر پتھراؤ ہوتا ہے۔ اور یہ کہہ کر ایک پتھر ہاتھ میں اور دوپتھرگود میں اٹھالئے (اور جب دشمن ہم) سے اتنا فریب ہوجاتا ہے کہ نیزے ایک دوسرے تک پہنچ سکیں تو پھر اس وقت تک آپس میں نیزے چلتے ہیں جب تک ٹوٹ نہ جائیں اور جب نیزے ٹوٹ جاتے ہیں تو تلواروں سے کاٹ چھانٹ شروع ہوتی ہے، تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ، جنگ اسی طرح نازل ہوئی ہے جو قتال کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ عاصم کے طریقے سے قتال کرے “۔ (طبرانی)

11394

11394 عن سهل بن الحنظلة قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فالتقوا هم والعدو فحمل رجل من بني غفار ، فقال خذها وأنا الفتنى الغفاري ، فقال رجل : بطل أجره ، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : سبحان الله لا بأس ، وفي لفظ : وما بأس أن يحمد ويؤجر (ع كر).
11390 ۔۔۔ حضرت سہل بن الحنظلیۃ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ روانہ فرمایا جب دشمن سے سامنا ہوا تو قبیلہ بنوغفار کے ایک شخص نے حملہ کیا اور کہا کہ لو (میرے حملے کا جواب دو ) میں ایک غفاری نوجوان ہوں یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ اس کا اجر ضائع ہوگیا، یہ واقعہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سبحان اللہ ، کوئی حرج نہیں ؟ اور ایک روایت میں الفاظ یوں ہیں کہ کوئی حرج نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے اور اجر دیا جائے “۔ (مسند ابی یعلی)

11395

11395 عن ابن عباس قال : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من أصحابه إلى رجل من اليهود فأمره بقتله ، فقال له : يا رسول الله إني لا أستطيع ذلك إلا أن تأذن لي ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنما الحرب خدعة فاصنع ما تريد. (ابن جرير).
11391 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ میں سے ایک صحابی کو ایک یہودی کے قتل کا حکم دے کر روانہ فرمایا، صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب تک آپ مجھے کچھ اجازت نہ دیں گے تو میں کچھ نہیں کرسکتا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنگ تو ہے ہی دھوکا جو چاہے کرو “۔ (ابن جریر)
فائدہ :۔۔۔ اجازت لینے سے مراد یہ ہے کہ حکمت علمی کے طور پر اس یہودی تک رسائی کے لیے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کچھ کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں یا نہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت مرحت فرمائی “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11396

11396 عن عبد الرحمن بن عائذ قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث بعثا قال : تألفوا الناس ، ولا تغيروا عليهم حتى تدعوهم فما على الارض من أهل بيت ولا مدر ولا وبر إلا تأتوني بهم مسلمين أحب إلي من أن تأتوني بنسائهم وأولادهم وتقتلوا رجالهم. (ابن منده كر).
11392 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن عائد (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی دستہ روانہ فرماتے تو یہ فرمایا کرتے کہ لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو، اور ان پر اس وقت تک حملہ نہ کرو جب تک ان کو دعوت نامہ نہ دے دو اس لیے کہ مجھے تمام اہل زمین کا خواہ وہ گھر میں رہنے والا ہو یا خیمہ میں مسلمان ہو کر آنا زیادہ پسند ہے بنسبت اس کے کہ تم ان کے مردوں کو قتل کردو اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالاؤ۔ (ابن مندہ)

11397

11397 عن إبراهيم بن صابر الاشجعي عن أبيه عن أمه ابنة نعيم ابن مسعود عن أبيها ، قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق خذل عنا فان الحرب خدعة (ابن جرير).
11393 ۔۔۔ ابراھیم بن صابر الاشجعی اپنے والا سے اور وہ اپنی والدہ بنت نعیم بن مسعود سے اور وہ اپنے والد نعیم بن مسعود (رض) سے روایت کرتی ہیں فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خندق کے دن مجھ سے فرمایا کہ ہماری مدد چھوڑنے پر اکساؤ کیونکہ جنگ تو ہے ہی دھوکا “۔ (ابن جریر)

11398

11398 عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم سمى الحرب خدعة.(العسكري في الامثال).
11394 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ کا نام دھوکا رکھا “۔ (العسکری فی الامثال)

11399

11399 عن عبد الله بن المبارك عن أبي بكر بن عثمان قال : سمعت أبا أمامة حدث أن سهلا وعامر بن ربيعة قال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم : اخرج يا سهل بن حنيف ويا عامر بن ربيعة حتى تكونوا لنا عينا. (كر).
11395 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن المبارک ابوبکر بن عثمان سے روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوامامۃ (رض) کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہل اور عامر بن ربیعہ (رض) سے فرمایا کہ اے سہل بن حنیف اور اے عامر بن ربیعہ ہمارے لیے جاسوس بن کر نکلو “۔

11400

11400 عن عروة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم قريظة : الحرب خدعه. (ش).
11396 ۔۔۔ حضرت عروۃ سے مروی ہے کہ بنوقریظہ سے جنگ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنگ تو دھوکا ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11401

11401 عن عطاء أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم الخندق قالوا : كذا ، وفعلوا كذا ، وصنعوا كذا ، فذهب العين فأخبرهم فهزموا ولم يكذب ولكن قال : افعلوا كذا ؟ اصنعوا كذا ؟ استفهام. (ابن جرير).
11397 ۔۔۔ حضرت عطاء سے مروی ہے فرمایا کہ جنگ خندق کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں اور ایسا کرتے ہیں اور ایسے ایسے ارادے ہیں تو جاسوس نے (جاکر ان دشمنوں ) کو خبر دی تو انھیں شکست ہوگئی، حالانکہ اس نے جھوٹ نہیں کہا تھا بلکہ اسی بات کو سوالیہ انداز سے کہا کہ کیا انھوں نے ایسا کیا ؟ اور کیا انھوں نے ایسا ایسا کیا ؟ “(ابن جریر)

11402

11402 عن عروة قال : كان في أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل يقال له مسعود وكان نماما فلما كان يوم الخندق بعث أهل قريظة إلى أبي سفيان أن ابعث الينا رجلا يكون في آطمنا حتى نقاتل محمدا مما يلي المدينة وتقاتل أنت مما يلي الخندق ، فشق ذلك على النبي صلى الله عليه وسلم أن يقاتل من وجهين فقال لمسعود : يا مسعود إنا نحن بعثنا إلى بني قريظة أن يرسلوا إلى أبي سفيان فيرسل إليهم رجالا فإذا أتوهم قتلوهم ، قال فما عدا أن سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما تمالك حتى أتى أبا سفيان فأخبره ، فقال : صدق والله محمد ما كذب قط فلم يبعث إليهم أحدا. (ش).
11398 ۔۔۔ حضرت عروۃ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام میں ایک شخص تھا جن کا نام مسعود تھا اور وہ ادھر کی بات ادھر لگانے میں ماہر تھا، سو جنگ خندق کے دن بنو قریظہ کے لوگوں نے حضرت ابوسفیان (رض) کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ ہمارے پاس ایک ایسا شخص بھیجئے جو ہمارے قلعوں میں رہے حتی کہ ہم محمد سے مدینہ کی طرف سے قتال کریں اور آپ خندق کی طرف سے یہ بات جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناگوار گزاری کہ دو جانب سے قتال کریں چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسعود (رض) سے فرمایا کہ اے مسعود ! ہم نے نبوقریظہ والوں کے پاس ایک بندہ بھیجا ہے کہ ابوسفیان کے پاس نمائندہ بھیج کر مددگار منگوالیں اور جب ابوسفیان کے مددگار بنوقریظہ کے یہودیوں کے پاس پہنچیں گے تو بنوقریظہ والے انھیں قتل کردیں گے، مسعود کا یہ سننا تھا کہ وہ برداشت نہ کرسکا اور جاکر ابو سفیان کو ساری بات سنادی تو حضرت ابوسفیان (رض) نے فرمایا کہ سچ کہا، خدا کی قسم محمد نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، اور جب بنوقریظہ والے ابوسفیان کے پاس مددگار مانگنے آئے تو ابوسفیان نے کوئی آدمی ان کے ساتھ نہ بھیجا “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
فائدہ :۔۔۔ یہ جنگ خندق کا واقعہ ہے جو مکہ کے مشرکین کے ساتھ لڑی گئی، اس وقت تک حضرت ابوسفیان (رض) مسلمان نہیں ہوئے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہود تھے ان کے ساتھ اگرچہ مسلمانوں کا معاہدہ ہوچکا تھا لیکن وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے اور پھر غزوہ خندق کا موقع جس میں مسلمانوں کی شکست بظاہر واضح تھی، جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہودیوں کی اس سازش کا علم ہوا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ کے مسلمانوں کو تہس نہس کردیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگی حکمت عملی کے طور پر یہودیوں کی چال کا جواب دیتے ہوئے اپنا منصوبہ مسعود نامی شخص کے سامنے بیان کردیا جولائی بجھائی میں ماہر تھا یعنی ادھر کی ادھر لگاکر لڑائی جھگڑے کرواتا تھا چنانچہ یہ منصوبہ سن کر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے جاکر حضرت ابوسفیان (رض) کو اطلاع دے دی ، وہ یہ سمجھے کہ یہ یہود مدینہ مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور انھوں نے کفار مکہ کو قتل کرنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی ہے۔ لہٰذا جب بنوقریظہ کے یہودی اپنے منصوبہ کے تحت حضرت ابوسفیان مانگنے آئے تو انھوں نے انکار کردیا یہودیوں کا منصوبہ دھرارہ گیا، زیادہ تفصیل کے لیے کتب سیر کا مطالعہ مستند عالم کی زیر نگرانی مفید ہوگا، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11403

11403 عن سعيد بن جبير قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سافر يكثر أن يسأل الله العافية ، فقال له بعض أصحابه : يا نبي الله تكثر أن تسأل الله العافية ؟ ونحن بين خيرتين : إما أن يفتح علينا ، وإما أن نستشهد ، فقال : أخشى عليكم ما بين ذلك يعني الهزيمة. (ابن جرير).
11399 ۔۔۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر نکلے تو کثرت سے اللہ تعالیٰ سے عافیت بہت کثرت سے مانگتے ہیں حالانکہ ہمم دو بھلائیوں کے درمیان ہیں یا تو ہماری فتح ہوگی یا ہم شہید ہوجائیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے اس چیز سے ڈرتا ہوں جو ان دونوں کے درمیان ہے یعنی شکست “۔ (ابن جریر)

11404

11404 عن الحسن أن رجلا قال : يا نبي الله ألا أحمل عليهم ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم : لا ، أتريد أن تقتلهم كلهم ؟ فكره ذلك وقال : اجلس حتى تنهض مع أصحابك ، فكان الحسن يكره أن يبادر الرجل في الصف من أجل هذا الحديث.(ابن جرير).
11400 ۔۔۔ حضرت حسن سے مروی ہے فرمایا کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں ان پر حملہ نہ کرو ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کای تو ان سب کو قتل کرنا چاہتا ہے اور بات کو ناپسند کیا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانا، تو حضرت حسن بھی اس چیز کو ناپسند فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص صف سے آگے بڑھے اس حدیث کی وجہ دے “۔ (ابن جریر)

11405

11405 عن عائشة قالت : إن نعيم بن مسعود قال : يا نبي الله إني أسلمت ولم أعلم قومي باسلامي ، فمرني بما شئت ، فقال : إنما أنت فينا كرجل واحد ، فخادع إن شئت فان الحرب خدعة. (العسكري في الامثال).
11401 ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ نعم بن مسعود (رض) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ! میں مسلمان ہوگیا ہوں لیکن میری قوم کو میرے اسلام کا علم نہیں ہے سو مجھے جو چاہیں حکم فرمائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو ہمارے ہاں ایک شخص کی طرح ہے سو اگر چاہے تو ان کو دھوکا دے کیونکہ جنگ تو ہے ہی دھوکا “۔ (العسکری فی الامثال)

11406

11406 (مسند الصديق رضي الله عنه) عن يحيى بن سعيد أن أبا بكر الصديق بعث الجيوش إلى الشام ، وبعث يزيد بن أبي سفيان أميرا فقال له وهو يمشي : إما أن تركب ، وإما أن أنزل ، قال أبو بكر : ما أنا براكب ، وما أنت بنازل ، إني احتسب خطاي هذه في سبيل الله ، إنك ستجد قوما زعموا أنهم حبسوا أنفسهم في الصوامع فدعهم وما زعموا ، وستجد قوما قد فحصوا عن أوساط رؤسهم من الشعر ، وتركوا منها أمثال العصائب ، فاضربوا ما فحصوا عنها بالسيف ، وإني موصيك بعشر : لا تقتلن امرأة ولا صبيا ، ولا كبيرا هرما ، ولا تقطعن شجرا مثمرا ، ولا نخلا ولا تحرقها ، ولا تخربن عامرا ولا تعقرن شاة ولا بقرة إلا لمأكلة ، ولا تجبنن ، ولا تغلل. (مالك عب ش هق)
11402 ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی مسند سے یحییٰ بن سعید روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابوبکر (رض)
نے شام کی طرف لشکر بھیجا اور یزید بن ابی سفیان کو اس کا امیر بنایا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، یزید بن ابی سفیان نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ یا تو آپ سوار ہوجائیں یا میں اتر جاؤں ، فرمایا نہ ہی میں سوار ہونے والا ہوں اور نہ تم اترنے والے ہو میں اپنے ان قدموں کو اللہ کے راستے میں گن رہا ہوں، عن قریب تم ایک ایسی قوم سے ملنے والے ہو جن کا یہ خیال ہے کہ انھوں نے خود کو گرجوں میں بند کر رکھا ہے سو ان کو اور ان کے خیالات کو وہیں رہنے دو ، اور عنقریب تم ایک ایسی سے ملو گے جنہوں نے اپنے سروں کے بیچ میں سے بالوں کو کھود رکھا ہے اور ان میں سے پیٹیوں کی طرح کچھ باقی چھوڑا رکھا ہے سو ماروان کے ان حصوں کو تلواروں سے، اور میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں کسی عورت کو قتل نہ کرنا ورنہ کسی بچے کو اور نہ ہی کسی بوڑھے کھوسٹ کو ، اور کسی پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹنا اور نہ کسی کھجور کے درخت کو اور نہ جلانا، اور نہ کسی آبادی کو تباہ کرنا، اور نہ کسی گائے بکری وغیرہ کو کھانے کے علاوہ مارنا، اور نہ بزدلی کا مظاہرہ کرنا اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرنا “۔ (مالک ، عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن کبری بیھقی)

11407

1407 عن ثابت بن الحجاج الكلابي قال : قام أبو بكر في الناس ، فحمد الله وأثنى عليه ، ثم قال : ألا لا يقتل الراهب الذي في الصومعة. (ش).
11403 ۔۔۔ حضرت ثابت بن الحجاج الکلابی روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر فرمایا کہ سنو ! گرجے میں موجودراھب کو نہ قتل کیا جائے “۔ (منصف ابن ابی شیبہ)

11408

11408- عن سعيد بن المسيب أن أبا بكر لما بعث الجنود نحو الشام، أمر يزيد بن أبي سفيان وعمرو بن العاص وشرحبيل بن حسنة، قال: لما ركبوا مشى أبو بكر مع أمراء جنوده يودعهم حتى بلغ ثنية الوداع، فقالوا: يا خليفة رسول الله أتمشي ونحن ركبان؟ إني أحتسب خطاي هذه في سبيل الله، ثم جعل يوصيهم، فقال: أوصيكم بتقوى الله، اغزوا في سبيل الله، فقاتلوا من كفر بالله، فإن الله ناصر دينه، ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تجبنوا ولا تفسدوا في الأرض، ولا تعصوا ما تؤمرون فإذا لقيتم العدو من المشركين إن شاء الله فادعوهم إلى ثلاث، فإن هم أجابوكم فاقبلوا منهم، وكفوا عنهم، ثم ادعوهم إلى الإسلام فإن هم أجابوكم فاقبلوا منهم وكفوا عنهم ثم ادعوهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، فإن هم فعلوا فأخبروهم أن لهم مثل ما للمهاجرين، وعليهم ما على المهاجرين، وإن هم دخلوا في الإسلام واختاروا دارهم على دار المهاجرين، فأخبروهم أنهم كأعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي فرض على المؤمنين، وليس لهم في الفيء والغنائم شيء، حتى يجاهدوا مع المسلمين فإن هم أبوا أن يدخلوا في الإسلام فادعوهم إلى الجزية، فإن هم فعلوا فاقبلوا منهم وكفوا عنهم، وإن هم أبوا فاستعينوا بالله عليهم، فقاتلوهم إن شاء الله، ولا تغرقن نخلا ولا تحرقنها، ولا تعقروا بهيمة ولا شجرة تثمر، ولا تهدموا بيعة، ولا تقتلوا الولدان ولا الشيوخ ولا النساء، وستجدون أقواما حبسوا أنفسهم في الصوامع فدعوهم وما حبسوا أنفسهم له، وستجدون آخرين اتخذوا للشيطان في أوساط رؤسهم أفحاصا، فإذا وجدتموهم أولئك فاضربوا أعناقهم إن شاء الله". "هق كر".
11404 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو بزید بن ابی سفیان ، عمرو بن العاص اور شرجیل بن حسنۃ (رض) جب سوار ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) لشکر کے امراء کے ساتھ ساتھ ان کو رخصت کرنے کے لیے چلنے لگے اور ثنیۃ الوادع تک آپہنچے ، تو لوگوں نے عرض کیا، اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! آپ پیدل چل رہے ہیں اور ہم سوار ہیں ؟ فرمایا کہ میں اپنے ان قدموں کو اللہ کے راستے میں گن رہا ہوں ، پھر انھیں وصیت کرنے لگے سو فرمایا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، اور قتال کرو ان سے جو اللہ سے کفر کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرنے والے ہیں، اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا غداری نہ کرنا، بزدلی نہ کرنا اور زمین میں فساد نہ کرنا اور جو تمہیں حکم دیا جائے اس میں نافرمانی نہ کرنا، اور جب مشرکین دشمنوں سے سامنا ہوجائے انشاء اللہ تو انھیں تین چیزوں کی دعوت دینا اگر وہ مثبت جواب دیں تو قبول کرلینا اور ان سے رک جانا اور (اس صورت میں) انھیں کفر کی سر زمین سے مسلمانوں کی سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کا کہنا اگر وہ کرلیں تو ان کو بتانا کہ تمہارے لیے بھی وہی سہولتیں ہیں جو مہاجرین پر ہیں ، اور اگر وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجرین کے علاقے میں آجائیں تو انھیں بتادو کہ ان کا حکم بھی دیگر عرب مسلمانوں کا سا ہے ان پر بھی اللہ کا حکم اسی طرح نافذ العمل ہوگا جو مومنوں پر ہے اور ان کے لیے مال فے اور مال غنیمت میں سے کوئی چیز نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ مل کر جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام قبول سے انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کرنا اگر وہ قبول کرلیں تو تم بھی قبول کرلینا اور ان سے اپنے ہاتھوں کو روک لینا اور اگر وہ انکار کریں تو ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگو اور ان کے ساتھ قتال کرو انشاء اللہ ، اور کسی درخت کو نہ کاٹنا نہ جلانا اور کسی جانور کو نہ کاٹنا اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا، کسی گرجے کو نہ گرانا بچوں کو قتل نہ کرنا اور نہ بزرگوں اور نہ عورتوں کو اور تم عنقریب ایسی قوم سے ملوگے جنہوں نے خود کو گرجوں میں بند کررکھا ہے سو ان کو اور ان کے خیالات کو چھوڑ دینا ، اور تمہیں ایک قوم ایسی بھی ملے گی جنہوں نے شیطان کے لیے اپنے سروں میں جگہ بنا رکھی ہے جب ایسے لوگ تمہیں ملیں تو ان کی گردنیں اڑادو انشاء اللہ “۔ (سنن کبری بیھقی)

11409

11409- عن أبي إسحاق: حدثني صالح بن كيسان قال: لما بعث أبو بكر يزيد بن أبي سفيان إلى الشام خرج أبو بكر معه يوصيه ويزيد راكب، وأبو بكر يمشي، فقال يزيد: يا خليفة رسول الله إما أن تركب وإما أن أنزل، فقال: ما أنت بنازل وما أنا براكب، إني أحتسب خطاي هذه في سبيل الله، يا يزيد إنكم ستقدمون بلادا تؤتون فيها بأصناف من الطعام، فسموا الله على أولها، وسموه على آخرها، وإنكم ستجدون أقواما قد حبسوا أنفسهم في هذه الصوامع، فاتركوهم وما حبسوا له أنفسهم، وستجدون أقواما قد اتخذ الشيطان على رؤسهم مقاعد يعني الشمامسة فاضربوا تلك الأعناق، ولا تقتلوا كبيرا هرما ولا امرأة ولا وليدا ولا مريضا ولا راهبا، ولا تخربوا عمرانا ولا تقطعوا شجرة إلا لنفع، ولا تعقرن بهيمة إلا لنفع، ولا تحرقن نخلا ولا تغرقنه ولا تمثل ولا تجبن ولا تغلل ولينصرن الله من ينصره ورسله بالغيب إن الله قوي عزيز استودعك الله وأقرئك السلام ثم انصرف. "هق".
11405 ۔۔۔ ابواسحق کہتے ہیں کہ صالح بن کسی ان نے مجھ سے بیان کیا فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یزید بن ابی سفیان کو شام بھیجا تو وصیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلنے لگے اور یزید سوار تھے اور حضرت ابوبکر صدیق اللہ عنہ چل رہے تھے تو یزید نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ کے خلیفہ ! یا تو آپ سوار ہوجائیں یا میں اترنا ہوں تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ نہ تو تو اترے گا اور نہ میں سوار ہوں گا ، میں اپنے ان قدموں کو اللہ کے راستے میں گن رہا ہوں ، اے یزید ! تم عنقریب ایسے شہروں میں پہنچوگے، جہاں تمہیں طرح طرح کے کھانے دیئے جائیں گے تو ان میں سے پہلے پر بھی اللہ کا نام لینا اور آخری پر بھی اور تم عنقریب ایسی قوموں کو پاؤگے جنہوں نے خود کو گرجوں میں بند کررکھا ہے سو ان کو اور ان کے مقاصد وہیں چھوڑ دینا جن کے لیے وہ گرجوں میں بند ہوئے ہیں، اور تم اس قوم سے بھی ملوگے کہ شیطان نے ان کے سروں میں اپنے بیٹھنے کے لیے جگہیں بنا رکھی ہیں یعنی چھتریاں سو ایسی گردنوں کو کاٹ ڈالوں، اور بڈھے کھوسٹ کو قتل نہ کرنا نہ عورتوں کو نہ بچوں کو نہ بیماروں کو اور نہ راھبوں کو ، آبادیوں کو تباہ نہ کرنا اور نہ بلا ضرورت کسی درخت کو کاٹنا، اور نہ بلاضرورت کسی جانور کو کاٹنا، اور کھجور کے کسی درخت کو بھی نہ کاٹنا اور نہ انھیں ضائع کرنا، اور ڈھانہ باندھنا، اور نہ بزدلی دکھانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور یقیناً ضرور بالضرور اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں گے غیب سے اس کی جو اس (اللہ) کی اور اس کے رسول مدد کرے بیشک اللہ تعالیٰ طاقت والا اور زبردست ہے اور میں ، تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلامتی ہو، پھر ابوبکر صدیق (رض) واپس روانہ ہوگئے “۔ (سنن کبری بیھقی)

11410

11410- عن ابن شهاب عن حنظلة بن علي بن الأسقع أن أبا بكر بعث خالد بن الوليد، وأمره أن يقاتل الناس على خمس، فمن ترك واحدة من الخمس يقاتله عليها كما يقاتل على الخمس: شهادة ألا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، والحج. "حم في السنة".
11406 ۔۔۔ ابن شہاب زہری، حنظلۃ بن علی بن الاسقع سے اور وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ (رض) جب حضرت خالد بن ولید (رض) کو لشکر دے کر بھیجا تو ان کو حکم فرمایا کہ پانچ باتوں پر لوگوں سے جنگ کرنا اور اگر کوئی ان پانچ میں سے کوئی ایک بات بھی چھوڑے تو اس سے ایسے ہی جنگ کرنا جیسے پانچوں چھوڑنے والے سے جنگ کی جائے گی۔ یعنی اگر وہ ان باتوں کا اقرار کریں کہ :
1 ۔۔۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ 2 ۔۔۔ اور نماز قائم کریں۔
3 ۔۔۔ اور زکوۃ ادا کریں۔ 4 ۔۔۔ اور رمضان کے روزے رکھیں گے۔
5 ۔۔۔ اور حج کریں گے “۔ (مسند احمد فی السنۃ)
فائدہ :۔۔۔ یعنی قتال اسی صورت میں ہوگا جب وہ لوگ ان پانچوں چیزوں کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردیں (اور اگر) وہ ان پانچوں چیزوں کو قبول کرلیں تو قتال نہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11411

11411- عن ابن عمر أن أبا بكر الصديق بعث يزيد بن أبي سفيان إلى الشام، فمشى معهم نحوا من ميلين، فقيل له: يا خليفة رسول الله لو انصرفت، فقال: لا، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اغبرت قدماه في سبيل الله حرمهما الله على النار، ثم بدا له في الإنصراف إلى المدينة، فقام في الجيش فقال: أوصيكم بتقوى، ولا تعصوا ولا تغلوا ولا تجبنوا، ولا تهدموا بيعة، ولا تغرقوا نخلا ولا تحرقوا زرعا، ولا تجسدوا بهيمة، ولا تقطعوا شجرة مثمرة، ولا تقتلوا شيخا كبيرا ولا صبيا ولا صغيرا ولا امرأة، وستجدون أقواما قد حبسوا أنفسهم في الصوامع فدعوهم وما حبسوا أنفسهم له، وستجدون أقواما قد اتخذت الشياطين من أوساط رؤسهم أفحاصا فاضربوا أعناقهم، وستردون بلدا تغدو وتروح عليهم فيه ألوان الطعام فلا يأتينكم لون إلا ذكرتم اسم الله عليه، ولا يرفع لون إلا حمدتم الله عليه. "ابن زنجويه".
11407 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یزید بن ابی سفیان کو لشکر دے کر شام کی طرف روانہ فرمایا اور ان کے ساتھ پیدل تقریبا دومیل تک گئے، عرض کیا گیا کہ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ۔ (اتنی تکلیف برداشت کرنے کے بجائے) اگر آپ واپس تشریف لے جائیں (تو بہتر نہ ہوگا ؟ ) تو آپ (رض) نے فرمایا کہ ” نہیں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا فرمایا کہ جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان کو آگ پر حرام کردیں گے، پھر جب ابوبکر صدیق (رض) واپس روانہ ہونے لگے تو لشکر میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور نافرمانی نہ کرنا ، اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرنا، اور بزدلی نہ کرنا، اور نہ کسی گرجے کو منہدم کرنا اور نہ کسی درخت کو کاٹنا اور نہ کسی کھیتی کو جلانا اور نہ کسی جانور کو مارنا ، اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا، اور نہ کسی بٖڈھے کھوسٹ کو قتل کرنا نہ بچے کو ، نہ چھوٹے کو اور نہ کسی عورت کو ، تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے کو خود کو بند کررکھا ہوگا ان کو وہیں چھوڑدیں، اور تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے کہ جن کے سروں میں شیطانوں نے اپنے بیٹھنے کے لیے جگہیں بنا رکھی ہیں سو ایسے لوگوں کی گردنیں اڑا دینا اور تم ایسے شہروں میں پہنچنے والے ہو جہاں صبح شام تمہارے پاس رنگ رنگ کے کھانے آئیں گے سو کوئی کھانا تمہارے پاس ایسا نہ آئے جس پر تم اللہ کا نام نہ لو اور کوئی کھانا تمہارے سامنے سے ایسا نہ اٹھایا جائے جس پر تم نے اللہ کی حمد نہ کی ہو۔ (ابن زنجویہ)

11412

11412- "مسند عمر رضي الله عنه" عن أسلم أن عمر بن الخطاب كتب إلى امراء الأجناد: أن لا تضربوا الجزية على النساء ولا على الصبيان وأن تضربوا الجزية على من جرت عليه الموسى من الرجال، وأن تحتموا في أعناقهم وتجزوا نواصيهم، من اتخذ منهم شعرا وتلزموهم المناطق يعني الزنانير، وتمنعوهم الركوب إلا على الأكف عرضا، ولا يركبوا كما يركب المسلمون. "عب وأبو عبيد في كتاب الأموال وابن زنجويه معا ش ق".
11408 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے حضرت اسلم روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امراء کو لکھا کہ عورتوں اور بچوں پر جزیہ مقرر نہ کرنا اور نہ مردوں میں ان پر جزیہ مقرر کرنا جو استرا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ان کی گردنوں کو نشان زدہ کردو اور ان کے آگے کے بالوں کو کاٹ دینا جنہوں نے بال رکھے ہوں اور زنانیر ان پر لازم قرار دینا اور ان کو سوار ہونے سے منع کردینا ہاں البتہ سوار ہوسکتے ہیں اور اس طرح سوار نہ ہوں جس طرح مسلمان سوار ہوتے ہیں “۔ یعنی اسکوٹر پر خواتین کے بیٹھنے کی طرح گھوڑوں پر وہ بیٹھ سکتے ہیں۔ (عبدالرزاق، ابوعبید فی کتاب الامثال ابن زنجویھی، مصنف ابن ابی شیبہ ، متفق علیہ)

11413

11413- عن عمر بن قرة قال: جاءنا كتاب عمر بن الخطاب أن أناسا يأخذون من هذا المال ليجاهدوا في سبيل الله، ثم يخالفون ولا يجاهدون، فمن فعل ذلك منهم فنحن أحق بماله حتى نأخذ منه ما أخذ. "ش والحسن بن سفيان ق".
11409 ۔۔۔ حضرت عمر بن قرہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا کہ وہ لوگ جو جہاد کرنے کے لیے اس مال (بیت المال) سے لیتے ہیں اور پھر مخالفت کرتے ہیں اور جہاد نہیں کرتے ، اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو ہم اس مال کے زیادہ حق دار ہیں کہ لے لیں اس سے وہ جو لیا ہے اس نے بیت المال سے “۔ (ابن ابی شیبہ حسن بن سفیان متفق علیہ)

11414

11414- عن ابن عمر قال: كتب عمر إلى أمراء الأجناد: أن لا يقتلوا امرأة ولا صبيا، وأن لا يقتلوا إلا من جرت عليه الموسى. "ش" ورواه أبو عبيد في كتاب الأموال عن أم سلمة.
11410 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امراء کو لکھا کہ کسی
عورت کو قتل نہ کریں اور نہ کسی بچے کو اور صرف اسی کو قتل کریں جو استرا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو “۔ (ابن ابی شیبہ اور ابوعبید فی کتاب اور الاحوال بروایت ام المومنین حضرت ام سلمۃ (رض) )
فائدہ :۔۔۔ استرا استعمال کرنے کی صلاحیت سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص عمر کے لحاظ سے اس حد تک پہنچ چکا ہو کہ اگر استرا استعمال کرنا چاہے تو کرسکے یعنی بالغ ہوچکا ہو “۔ واللہ اعلم بالصواب

11415

11415- عن زيد بن وهب قال: أتانا كتاب عمر: لا تغلوا ولا تغدروا ولا تقتلوا وليدا واتقوا الله في الفلاحين". "ش".
11411 ۔۔۔ حضرت زید بن وھب (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط پہنچا کہ مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور نہ غداری کرنا اور نہ کسی ننھے بچے کو قتل کرنا اور کسانوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11416

11416- عن عمر قال: اتقوا الله في الفلاحين فلا تقتلوهم إلا أن ينصبوا لكم الحرب. "ق".
11412 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ کسانوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان کو قتل نہ کرنا ، البتہ اگر وہ تمہارے مقابلے پر آئیں تو قتل کرسکتے ہو۔ (متفق علیہ)

11417

11417- عن حكيم بن عمير قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أمراء الأجناد أيما رفقة من المهاجرين آواهم الليل إلى قرية من قرى المعاهدين من المسافرين فلم يأتوهم فقد بالقرى فقد برئت منهم الذمة. "أبو عبيد في الأموال ق".
11413 ۔۔۔ حضرت حکیم بن عمیر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امراء کو لکھا کہ دوران سفر اگر مہاجرین میں سے کچھ لوگوں کو ذمیوں کے علاقے میں رات ہوجائے اور وہ ان علاقوں میں رات نہ گزاریں تو ان کی کوئی ذمہ داری نہیں “۔ (ابوعبید فی الاموال ، متفق علیہ)

11418

11418- عن أبي عثمان النهدي أن عمر بن الخطاب كان يغزي الأعزب عن ذي الحليلة ويغزي الفارس عن القاعد. "ابن سعد".
11414 ۔۔۔ حضرت عثمان النہدی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب کنواے شخص کو شادی شدہ کے مقابلے میں اور سوار کو پیدل کے مقابلے میں لڑنے کے لیے بھیجتے تھے۔ (ابن سعد)

11419

11419- عن عبد الله بن كعب أن عمر بن الخطاب كان يعقب بين الغزاة وينهى أن تحمل الذرية إلى الثغور. "ابن سعد".
11415 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن کعب (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نمازیوں کی نگرانی فرمایا کرتے تھے اور چھوٹے بچوں کو جنگوں پر لے جانے سے منع فرمایا کرتے تھے “۔ (ابن سعد)

11420

11420- عن ابن عمر أن عمر أمر عماله فكتبوا أموالهم منهم سعد بن أبي وقاص، فشاطرهم عمر أموالهم، فأخذ نصفا وأعطاهم نصفا. "ابن سعد".
11416 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) اپنے گورنرون کو حکم فرمایا تو انھوں نے اپنے مال کی تفصیلات لکھ بھیجیں انہی میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بھی تھے، تو حضرت عمر (رض) نے مال کو آدھا آدھا تقسیم کرلیا اور آدھا خود لے لیا اور آدھا انہی کو عطا فرمادیا “۔ (ابن سعد)

11421

11421- عن الشعبي أن عمر كان إذا استعمل عاملا كتب ماله. "ابن سعد".
11417 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب کسی کو گورنر بناتے تو اس کا مال لکھ لیتے “۔ (ابن سعد)

11422

11422- عن أسلم أن عمر بن الخطاب إلى عماله ينهاهم عن قتل النساء والصبيان من المشركين، ويأمرهم بقتل من جرت عليهم الموسى منهم. "ابن زنجويه".
11418 ۔۔۔ حضرت اسلم سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ مشرکوں کی عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا اور حکم دیا کہ جو لوگ استرا استعمال کرسکتے ہیں ان کو قتل کردینا “۔ (ابن زنجویہ)

11423

11423- عن علي قال: لا يذفف على جريح، ولا يقتل أسير ولا يتبع مدبر. "الشافعي عب ش ق".
11419 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ کسی زخمی کو فورا مت مارو، اور نہ کسی قیدی کو قتل کرو اور نہ کسی پیچھے رہنے والے کا پیچھا کرو “۔ (مسند شافعی ، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11424

11424- عن امرأة من بني أسد قالت: سمعت عمارا بعد ما فرغ علي من أصحاب الجمل ينادي: لا تقتلوا مقبلا ولا مدبرا ولا تذففوا على جريح ولا تدخلوا دارا، ومن ألقى السلاح فهو آمن ومن أغلق بابه فهو آمن. "عب".
11420 ۔۔۔ قبیلہ بنواسد کی ایک خاتون سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ جب حضرت علی (رض) کے جنگ جمل سے فارغ ہونے کے بعد سنا حضرت عمر (رض) فرما رہے تھے کہ کسی آگے بڑھنے والے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی پیچھے رہنے والے کو اور کسی زخمی کو فورا قتل نہ کرنا اور کسی گھر میں داخل نہ ہونا اور جس نے اسلحہ پھینک دیا تو وہ محفوظ ہے اور جس نے اپنا دروازہ بند کرلیا وہ بھی محفوظ ہے “۔ (مصنف عبدالرازق)

11425

11425- عن علي قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا بعث جيشا من المسلمين إلى المشركين قال: انطلقوا بسم الله فذكر الحديث وفيه لا تقتلوا وليدا طفلا ولا امرأة ولا شيخا كبيرا، ولا تغورن عينا ولا تعقرن شجرا إلا شجر يمنعكم قتالا أو يحجز بينكم وبين المشركين، ولا تمثلوا بآدمي ولا بهيمة ولا تغدروا ولا تغلوا. "هق" قال: إسناده ضعيف إلا أنه يتقوى بشواهد.
11421 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کو بھیجتے مشرکین کی طرف تو۔ فرماتے کہ ” چل پڑو اللہ کے نام کے ساتھ اور پھر حدیث ذکر کی اور اس میں یہ بھی ہے کہ فرمایا کہ ” کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا نہ کسی عورت کسی بوڑھے کو “۔ (اور کسی درخت کو بھی نہ کاٹنا) ۔ علاوہ اس درخت کے جس سے تمہاری جنگ میں رکاوٹ ہو یا جو تمہارے اور مشرکین کے درمیان حائل ہو، اور کسی آدمی کا مثلہ نہ کرنا اور نہ کسی جانور کا، اور غداری بھی نہ کرنا اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرنا “۔ (سنن کبری بیھقی)

11426

11426- بعث النبي صلى الله عليه وسلم إلى اللات والعزى بعثا فأغاروا على حي من العرب فسبوا مقاتلتهم وذريتهم، فقالوا: يا رسول الله أغاروا علينا بغير دعاء، فسأل النبي صلى الله عليه وسلم أهل السرية؟ فصدقوهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ردوهم إلى مأمنهم، ثم ادعوهم. "الحارث" وفيه الواقدي.
11422 ۔۔۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لات ، وعزیٰ کی طرف ایک لشکر بھیجا تو انھوں نے عربوں کے ایک محلے پر حملہ کیا اور ان کے لڑاکوں اور اولادوں کو گرفتار کرلیا، تو انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! انھوں نے ہمیں بغیر دعوت دیئے حملہ کردیا، تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دستے والوں سے دریافت فرمایا ؟ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کو ان کے ٹھکانوں کی طرف لوٹا دو ، اور پھر دعوت دو “۔ (الی رشد)

11427

11427- عن يزيد بن أبي حبيب قال: كتب عمر بن الخطاب إلى سعد بن أبي وقاص، إني قد كنت كتبت إليك أن تدعو الناس إلى الإسلام ثلاثة أيام، فمن استجاب لك قبل القتال فهو رجل من المسلمين، له ما للمسلمين، وله سهم في الإسلام، ومن استجاب لك بعد القتال أو بعد الهزيمة فما له فيء للمسلمين، لأنهم كانوا قد أحرزوه قبل إسلامه فهذا أمري وكتابي إليك. "أبو عبيد".
11423 ۔۔۔ حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو لکھا کہ میں نے آپ کو لکھا تھا کہ آپ تین دن تک لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں، اگر کوئی قتال سے پہلے آپ کی بات مان لے تو وہ بھی مسلمانوں میں سے ایک شخص ہے اس کے لیے بھی وہ سب کچھ ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے اور اسلام میں اس کا حصہ ہے، اور اگر کوئی آپ کی دعوت کو قتال کے بعد قبول کرے یا شکست کے بعد قبول کرے تو مسلمانوں کے مال فے میں سے اس کے لیے کچھ نہیں کیونکہ مسلمان اس مال کو اس کے اسلام سے پہلے ہی جمع کرچکے ہیں سو یہی میرا حکم ہے آپ کی طرف “۔ (ابوعبید)

11428

11428- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه وجها ثم قال لرجل: الحقه ولا تدعه من خلفه، فقل: إن النبي صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تنتظره، وقل له: لا تقاتل قوما حتى تدعوهم. "ابن راهويه".
11424 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو نمائندہ بنا کر بھیجا، پھر ایک شخص سے فرمایا کہ علی کے پیچھے جاؤ اور پیچھے سے ان کی حفاظت نہ چھوڑنا اور ان سے کہنا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو حکم دیتے ہیں آپ میرا انتظار کیجئے گا اور یہ بھی کہنا کہ کسی قوم سے اس وقت تک قتال نہ کرنا جب تک ان کو دعوت نہ دے دو “۔ (ابن راھویہ)

11429

11429- عن بريدة: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث أميرا إلى سرية أو جيش أوصاه فقال: إذا لقيت عدوك من المشركين فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال فأيتهن أجابوك فكف عنهم، واقبل منهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، فإن أجابوك فاقبل منهم، فكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، وأعلمهم أنهم إن فعلوا ذلك أن لهم ما للمهاجرين، وإن أبو واختاروا دارهم فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب، إلا أن يجاهدوا مع المسلمين، فإن أبوا فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن أجابوا فاقبل منهم، وإن أبوا فاستعن بالله وقاتلهم. "ش".
11425 ۔۔۔ حضرت بریدۃ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی امیر کو کسی دستہ یا لشکر کی طرف روانہ فرماتے تو ان کو وصیت فرماتے اور فرماتے کہ جب اپنے مشرک دشمن سے ملوتو اسے تین میں سے ایک بات کی دعوت دو ، اگر وہ ان میں سے ایک بات کو بھی مان لیں تو اس سے ہاتھ روک لینا اور قبول کرلینا، انھیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ مان لیں تو قبول کرلیں اور ان سے ہاتھ روک لینا، پھر انھیں اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجرین کے علاقوں کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دینا اور انھیں بتا دینا کہ اگر انھوں نے اس بات کو مان لیا تو ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو مہاجرین کے لیے ہے اور اگر وہ انکار علاقوں میں ہی رہیں تو انھیں بتا دینا کہ وہ عرب مسلمانوں کی طرح ہوں گے ان پر بھی اللہ کا حکم اسی طرح نافذ ہوگا جس طرح اور مسلمانوں پر نافذ ہوتا ہے لیکن مال غنیمت اور مال فے میں سے ان کو اس وقت تک حصہ نہ ملے گا جب تک وہ مسلمانوں کاشانہ بشانہ جہاد نہ کرلیں ، اگر وہ انکار کریں تو ان کو جزیہ دینے کی طرف بلانا اگر وہ مان لیں تو قبول کرلیں اور اگر انکار کردیں تو اللہ سے مدد مانگنا اور ان سے قتال کرنا “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11430

11430- عن بريدة اغزوا بسم الله في سبيل الله، وقاتلوا من كفر بالله ولا تغلوا ولا تغدروا، ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا، وإذا لقيت عدوك من المشركين فادعهم إلى ثلاث خصال فأيتهن أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، ثم ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم، وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، وأخبرهم أنهم إن فعلوا ذلك فلهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين، فإن أبوا أن يتحولوا منها فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا أن يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم أبوا فسلهم الجزية فإن هم أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، فإن هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم، وإذا حاصرت أهل حصن وأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه، فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه، ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة أصحابك، فإنكم إن تخفروا ذممكم وذمم أصحابكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وذمة رسوله،فإذا حاصرت أهل الحصن فأرادوك أن تنزلهم على حكم الله فلا تنزلهم على حكم الله، ولكن أنزلهم على حكمك، فإنك لا تدري أتصيب حكم الله فيهم أم لا؟ "الشافعي حم م د ت ن هـ والدارمي وابن الجارود والطحاوي حب هق".
11426 ۔۔۔ حضرت بریدہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو اور جو اللہ کے ساتھ کرنے کے اس کے ساتھ جہاد کرو اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور مثلہ نہ کرنا، کسی بچے کو قتل نہ کرنا اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں سے ملوتو ان کو تین باتوں کی دعوت دینا، ان میں سے جو بھی وہ مان لیں تو تم بھی قبول کرلینا اور ان سے ہاتھ روک لینا ، انھیں اسلام کی دعوت دینا، سو اگر وہ اس سے انکار کر دین تو ان کو بتا دینا کہ ان کا حکم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہوگا ان پر بھی اللہ کا حکم اسی طرح نافذ ہوگا جس طرح دیگر مسلمانوں پر نافذہوتا ہے، اور جب تک وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد نہ کریں گے، غنیمت اور فے میں سے ان کو حصہ نہ ملے گا اگر وہ اس سے انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کرنا اگر وہ مان لیں تو قبول کرنا چاہیں تو ان کو اللہ اور رسول اللہ اور ذمہ قبول کرنا چاہیں تو ان کو اللہ اور رسول کا ذمہ نہ دینا، بلکہ ان کو اپنا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دینا، کیونکہ اگر تم اپنے ساتھیوں کے ذمہ کی وعدہ خلافی کروگے تو یہ آسان ہوگا بسنت اس کے کہ تم بےوفائی کرو اللہ اور اس کے رسول کے ذمے کی، اور اگر تم کسی قلعے کا محاصرہ کرو اور اھل قلعہ یہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے حکم پر امان دو تو انھیں اللہ کے حکم پر امان نہ دو بلکہ ان کو اپنے حکم پر امان دو ، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس معاملے میں تم اللہ کا حکم پورا کرسکتے ہو یا نہیں (مسندالشافعی، مسنداحمد، مسلم ، ابوداؤد، تزمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، ابن الجارود، طحاوی، ابن حبان اور سنن کبری بیھقی)

11431

11431- عن سليمان بن بريدة عن أبيه بريدة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في أعراب المسلمين: ليس لهم في الفيء والغنيمة شيء، إلا أن يجاهدوا مع المسلمين. "ابن النجار".
11427 ۔۔۔ سلیمان بن بریدۃ اپنے والد حضرت بریدۃ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیہاتی مسلمانوں کے بارے میں فرمایا کہ جب تک وہ ہمارے ساتھ مل کر جہاد نہ کریں اس وقت تک ان کو غنیمت اور فے میں سے حصہ نہیں ملے گا “۔ (ابن النجار)

11432

11432- عن الفضل بن تميم بن غيلان بن سلمة الثقفي عن أبيه تميم ابن غيلان، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا سفيان بن حرب والمغيرة بن شعبة ورجلا آخر إما أنصاري، وإما خالد بن الوليد، فأمرهم أن يكسروا طاغية ثقيف، قالوا: يا رسول الله أين نجعل مسجدهم؟ قال: حيث كانت طاغيتهم، كي يعبد الله حيث كان لا يعبد. "أبو نعيم".
11428 ۔۔۔ فضل بن تمیم اپنے والد تمیم بن غیلان ابن سلمۃ الثقفی سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان بن حرب، حضرت مغیرۃ بن شعبہ اور ایک اور شخص انصاری یا حضرت خالد بن ولید (رض) کو روانہ فرمایا کہ ثقیف کی عبادت گاہوں کو توڑ دو ، عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم ان کی مسجدیں پھر کہاں بنائیں ؟ فرمایا کہ جہاں ان کی باطل عبادت گاہیں تھیں تاکہ اس جگہ سے بھی اللہ کی عبادت کی جائے جہاں سے نہ کی جاتی تھی “۔ (ابونعیم)

11433

11433- عن جبير بن نفير قال: مر رجل بثوبان، فقال: أين تريد؟ قال: أريد الغزو في سبيل الله، قال له: لا تجبن إذا لقيت،ولا تغلل إذا غنمت ولا تقتلن شيخا كبيرا ولا صبيا، فقال له الرجل: ممن سمعت هذا؟ قال: من رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
11429 ۔۔۔ حضرت جبیرین نفیر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ایک شخص حضرت ثوبان (رض) کے پاس سے گزرا، انھوں نے دریافت فرمایا کہ کہاں کا ارادہ ہے، عرض کیا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے جارہا ہوں فرمایا کہ جب دشمن سے سامنا ہو تو بزدلی نہ دکھانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا ، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا نہ کسی بچے کو، اس شخص نے پوچھا کہ آپ نے یہ باتیں کہاں سے سنی ہیں ، فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے “۔

11434

11434- عن حنظلة قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين غزا المشركين، فمررنا بامرأة مقتولة ذات خلق اجتمع الناس عليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما كانت هذه لتقاتل، ثم قال: إلحق خالد بن الوليد فقل له: لا تقتل ذرية ولا عسيفا. "أبو نعيم".
11430 ۔۔۔ حضرت حنظلہ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ہم مشرکین سے ایک جنگ کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ تھے تو ہم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو مقتول پڑی تھی ، بہت سے لوگ اس کے اردگرد جمع تھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ جنگ کرنے والی نہ تھی پھر فرمایا کہ خالد بن ولید کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ نہ بچوں کو قتل کرے نہ مزدوروں کو “۔ (ابونعیم)

11435

11435- عن أبي البختري قال: لما غزا سلمان المشركين من أهل فارس قال: كفوا حتى أدعوهم كما كنت أسمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوهم فأتاهم فقال: إني رجل منكم، وقد ترون منزلتي من هؤلاء القوم، وإنا ندعوكم إلى الإسلام، فإن أسلمتم فلكم مثل ما لنا، وعليكم مثل ما علينا، وإن أبيتم فأعطوا الجزية عن يد وأنتم صاغرون، وإن أبيتم قاتلناكم، فأبوا عليه، فقال للناس: انهدوا إليهم. "ش".
11431 ۔۔۔ حضرت ابی البختری فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلمان فارسی (رض) ، فارس کے مشرکین سے جہاد کرنے لگے تو فرمایا کہ ٹھہرو یہاں تک کہ میں ان کو ان چیزوں کی دعوت دے دوں جیسے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دیتے ہوئے سنا کرتا تھا، پھر ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرا تعلق تمہاری قوم سے ہی ہے اور ان لوگوں نے جو مقام و مرتبہ مجھے دیا ہے تم وہ بھی دیکھ رہے ہو، اور ہم تمہیں اسلام کی طرف بلاتے ہیں اگر تم مسلمان ہوگئے تو تمہارے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جیسا ہمارے لیے ہے اگر تم انکار کرو تو جزیہ دو اپنے ہاتھوں سے خود کر حقیر سمجھتے ہوئے اور اگر پھر بھی تم انکار کروگے تو ہم تم سے قتال کریں گے، انھوں نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ حملہ کردوان پر “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11436

11436- عن ابن عباس قال: سبى رجل امرأة يوم خيبر فحملها خلفه فنازعته قائم سيفه فقتلها، فأبصرها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: من قتل هذه؟ فأخبروه فنهى عن قتل النساء. "ش".
11432 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ جنگ خبیر میں ایک شخص نے ایک عورت کو گرفتار کرلیا اور اپنے پیچھے بٹھالیا، اس عورت نے اس شخص سے تلوار چھیننے کی کوشش کی تو اس شخص نے اس عورت کو قتل کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو دیکھا تو فرمایا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے، صحابہ کرام (رض) نے واقعہ سے آگاہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے قتل سے منع فرمادیا “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11437

11437- عن عبد الرحمن بن أبي عمرة أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بامرأة مقتولة، فقال: من قتل هذه؟ فقال رجل: أنا أردفتها خلفي، فأرادت أن تقتلني فقتلها، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بدفنها. "ابن جرير".
11433 ۔۔۔ عبدالرحمن بن ابی عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مقتول عورت کے پاس سے گزرے تو دریافت فرمایا کہ اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ میں اس کو اپنے پیچھے بٹھا کر لارہا تھا تو اس نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی تو میں نے اس کو قتل کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے دفن کا حکم دے دیا “۔ (ابن جریر)

11438

11438- عن عطية القرظي قال: كنت في الذين حكم فيهم سعد بن معاذ فقدمت لأقتل، فانتزع رجل من القوم إزاري فرأوني لم أنبت الشعر فألقيت في السبي. "عب".
11434 ۔۔۔ حضرت عطیۃ القرظی فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں تھا جن کو قتل کرنے کا حکم حضرت سعد بن معاذ (رض) نے جاری کردیا تھا، سو جب مجھے قتل کرنے کے لیے پکڑ کر لایا گیا تو لوگوں میں سے ایک شخص نے میرا ازار کھینچ لیا تو صحابہ کرام (رض) کی نظر میرے زیر ناف پڑگئی جہاں کچھ بال وغیرہ نہیں اگے تھے چنانچہ مجھے قیدیوں کے ساتھ لکھا گیا “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11439

11439- عن أبي ثعلبة الخشني قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتل النساء والولدان. "كر".
11435 ۔۔۔ حضرت ثعلبہ (رض) الخشنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا “۔

11440

11440- عن أبي الدرداء قال: أوصاني خليلي أبو القاسم صلى الله عليه وسلم، فقال: لا تفر من الزحف وإن هلكت. "ابن جرير".
11436 ۔۔۔ حضرت ابولدرداء (رض) فرماتے ہیں مجھے میرے پیارے دوست ابوالقاسم (جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی کنیت ہے (نے) وصیت فرمایا کہ جنگ سے نہ بھاگنا خواہ ہلاک ہی کیوں نہ ہوجاؤ “۔ (ابن جریر)

11441

11441- عن خالد الأحول عن خالد بن سعيد عن أبيه قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن سعيد بن العاص إلى اليمن، فقال: إن مررت بقرية فلم تسمع أذانا فأصبهم، فمر ببني زبيد فلم يسمع أذانا فسباهم، فأتاه عمرو بن معد يكرب فكلمه فوهبهم له خالد. "كر".
11437 ۔۔۔ خالد الاحول روایت کرتے ہیں خالدبن سعید سے اور وہ اپنے والد سے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن سعید بن العاص (رض) کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ اگر ایسے علاقے سے گزروجہاں سے اذان کی آواز نہ سنائی دے تو ان تک پہنچو، چنانچہ جب وہ بنوزبید کے علاقے سے گزرے تو انھوں نے اذان کی آواز نہ سنی تو ان کو گرفتار کرلیا اتنے میں عمروبن معدیکرب (رض) ان کے پاس آئے اور گفتگو کی تو حضرت خالد (رض) نے تمام قیدی حضرت عمر وبن معدیکرب (رض) کو ھدیہ کردیئے “۔

11442

11442- عن ابن عباس قال: ما قاتل النبي صلى الله عليه وسلم قوما حتى يدعوهم. "ابن النجار".
11438 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی قوم سے اس وقت تک جنگ نہ کی جب تک ان کو دعوت نہ دے دی “۔ (ابن النجار)

11443

11443- "مسند عمر رضي الله عنه" عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: كتب عمر بن الخطاب: أيما رجل دعا رجلا من المشركين وأشار إلى السماء فقد آمنه الله فإنما نزل بعهد الله وميثاقه. "عب".
11439 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے حضرت طلحہ بن عبداللہ بن کریز روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ جس شخص نے بھی مشرکوں میں سے کسی کو دعوت دی اور آسمان کی طرف اشارہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو امان دے دی تو وہ اللہ ہی کے عہد اور میثاق کے عہد میں ہے “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11444

11444- عن عمر أنه كتب: إن العبد المسلم من المسلمين، أمانه أمانهم. " عب ش ق".
11440 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے لکھوایا کہ بیشک مسلمان غلام بھی مسلمانوں میں سے ہے اگر وہ امان دیدے تو یہی سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں نے امان دی ہے (مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ ، متفق علیہ)

11445

11445- عن عوف بن مالك الأشجعي أن يهوديا نخس بامرأة مسلمة ثم حثا عليها التراب يريدها على نفسها فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب، فقال عمر: إن لهؤلاء عهدا ما وفوا لكم بعهد، فإذا لم يفوا لكم بعهدهم فلا عهد لهم، فصلبه. "عب ق".
11441 ۔۔۔ حضرت عوف بن مالک الاشجعی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان خاتون کو تکلیف پہنچائی پھر اس پر مٹی ڈالنے لگا جو خود پر ڈالنا چاہ رہا تھا معاملہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ لوگ ذمی ہیں جب تک تمہارے ساتھ کیا ہوا عہد پورا نہ کریں تو ان کا کوئی عہد نہیں پھر اس کو پھانسی دے دی “۔ (عبدالرزاق ، متفق علیہ)

11446

11446- عن أبي وائل قال: جاءنا كتاب عمر إذا حاصرتم قصرا فأرادوكم أن ينزلوا على حكم الله، فلا تنزلوهم، فإنكم لا تدرون ما حكم الله فيهم، ولكن أنزلوهم على حكمهم، ثم اقضوا فيهم ما أحببتم، وإذا قال الرجل للرجل: لا تخف فقد آمنه، وإذا قال: مترس فقد آمنه،فإن الله يعلم الألسنة. "ق".
11442 ۔۔۔ حضرت ابو وائل (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا حکم مانہ ہم تک پہنچا جب تم نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا تھا، پھر انھوں نے تم سے چاہا ان کو اللہ کے حکم پر امان دو ، ان کو امان نہ دینا، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں اللہ کا حکم کیا ہے لیکن ان کو اپنی ذمہ داری پر امان دو ، پھر ان کے بارے میں وہ فیصلہ کرو جو تمہیں اچھا لگے، اور جب ایک شخص کسی دوسرے شخص سے کہدے کہ خوفزدہ مت ہونا تو تحقیق اس نے امان دے دی اس کو اور اگر کسی شخص نے دوسرے سے کہا کہ مترس تو تحقیق اس نے بھی اس کو امان دے دی کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کو جانتے ہیں “۔ (متفق علیہ)
فائدہ :۔۔۔ مترس فارسی زبان کا کلمہ ہے یعنی نہ ڈرو، واللہ اعلم نالصواب۔ (مترجم)

11447

11447- عن أنس بن مالك، قال: حاصرنا تستر فنزل الهرمزان على حكم عمر، فقدمت به على عمر، فقال له عمر: تكلم، فقال: كلام حي أم كلام ميت؟ قال تكلم لا بأس، فتكلم، فلما أحسست أن يقتله قلت: ليس إلى قتله سبيل، قد قلت له: تكلم لا بأس، فقال عمر: ارتشيت وأصبت منه؟ فقلت: والله ما ارتشيت ولا أصبت منه، فقال: لتأتين على ما شهدت به لغيرك أو لأبدأن بعقوبتك، فخرجت فلقيت الزبير بن العوام، فشهد معي وأمسك عمر رضي الله عنه، وأسلم الهرمزان وفرض له. "الشافعي ق".
11443 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ ہم نے تستر کا محاصرہ کرلیا اور ہرمزان کو حضرت عمر (رض) کے حکم پر اتارا ، اور لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت اقدس میں پہنچے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہہ تو اس نے کہا کہ وہ بات کروں جو زندہ لوگ کیا کرتے ہیں یا وہ بات کروں جو مرنے والے کیا کرتے ہیں فرمایا کہ بولو، کوئی حرج نہیں، جب میں نے محسوس کیا کہ وہ اس کو قتل کردیں گے عرض کیا کہ اسے اب قتل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آپ نے اسے کہہ دیا ہے کہ بولو کوئی حرج نہیں “ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تو نے اس سے رشوت لی ہے اور کچھ حاصل کیا ہے، میں (حضرت انس (رض) بن مالک) نے عرض کیا کہ خدا کی قسم نہ میں نے اس سے رشوت کی ہے اور نہ کچھ حاصل کیا ہے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا تو توگواہ کے کر آیا پھر تجھے سزا ملے گی، سو میں نکلا اور زبیر بن عوام سے ملاقات ہوئی انھوں نے میرے ساتھ گواہی دی اور حضرت عمر (رض) نے اسے قتل نہ کروایا سوہرمزان مسلمان ہوگیا “۔ (مسند الشافعی، متفق علیہ)

11448

11448- عن رجل من أهل الكوفة أن عمر بن الخطاب كتب إلى عامل جيش كان بعثه أنه بلغني أن رجالا منكم يطلبون العلج حتى إذا اشتد في الجبل وامتنع فقال الرجل: مترس، يقول: لا تخف فإذا أدركه قتله، وإني والذي نفسي بيده لا يبلغني أن أحدا فعل ذلك إلا ضربت عنقه. "مالك".
11444 ۔۔۔ اہل کوفہ میں ایک صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک لشکر کے سالار کو لکھا جسے جنگ کے لیے بھیجا تھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص علج کافر کو طلب کرتا ہے یہاں تک کہ پہاڑوں میں سخت لڑائی اور رکاٹ ہوتی ہے تو کہتا ہے ” مترس “ کہتا ہے کہ خوفزدہ مت ہونا پھر جب اس کو پکڑلیتا ہے تو اس کو قتل کردیتا ہے، اور قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مجھے اطلاع ملی کہ کسی نے ایسی حرکت کی ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا “۔ (امام مالک)

11449

11449- عن أبي سلمة قال: قال عمر: والذي نفسي بيده لو أن أحدكم أشار إلى السماء بأصبعه إلى مشرك ثم نزل إليه على ذلك ثم قتله لقتلته به. "ابن صاعد في حديثه واللالكائي".
11445 ۔۔۔ حضرت ابوسلمۃ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر کسی نے تم میں سے کسی مشرک کے لیے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی امان دینے کا کہا) اور جب وہ اس کے پاس آگیا تو اس نے اس کو پکڑ کر قتل کردیا تو میں اس کو اس کافر کے بدلے قتل کردوں گا “۔ (ابن صائد اور الالکائی)

11450

11450- الواقدي: حدثني أبو بكر بن عبد الله بن أبي الحويرث قال: كان يهود من بيت المقدس وكانوا عشرين رأسهم يوسف بن نون، فأخذ لهم كتاب أمان، وصالح عمر بالجابية، وكتب كتابا ووضع عليهم الجزية، وكتب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أنتم آمنون على دمائكم وأموالكم وكنائسكم ما لم تحدثوا أو تأووا محدثا فمن أحدث منكم أو آوى محدثا فقد برئت منه ذمة الله، وإني بريء من معرة الجيش شهد معاذ بن جبل وأبو عبيدة بن الجراح وكتب أبي بن كعب. "ابن عساكر".
11446 ۔۔۔ واقدی کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا ابوبکر بن عبداللہ بن ابی الحویرث نے اور فرمایا کہ بیت المقدس سے بیس یہودی آئے ان کا سردار یوسف بن نون تھا، ان کے امان کی تحریر لکھوائی اور جابیہ کے بدلے حضرت عمر (رض) کے ساتھ صلح کرلی، حضرت عمر (رض) نے ایک تحریر لکھوائی اور ان پر جزیہ مقرر کیا، اور لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ، تمہارے مال اور گرجے محفوظ ہیں جب تک تم خود شرارت نہ کرو اور نہ کسی شرارتی کو پناہ دو ، سو اگر تم میں سے کسی نے کوئی شرارت کی یا شرارتی کو پناہ دی تو اس سے اللہ کا ذمہ ختم ہوجائے گا اور لشکر کے حملے کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوگی، حضرت معاذ (رض) اور ابوعبیدہ بن الجراح (رض) اس تحریر کے گواہ بنے اور حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ معاہدہ تحریر فرمایا “۔ (ابن عساکر)

11451

11451 - عن المهلب بن أبي صفرة قال: حاصرنا مناذر فأصبنا سبيا فكتبوا إلى عمر أن مناذر قرية من قرى السواد، فردوا إليهم ما أصبتم. "أبو عبيد".
11447 ۔۔۔ مہلب بن ابی صفرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مناذرکا محاصرہ کیا اور کچھ قیدی حاصل کئے ، تو حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھا کہ مناذر بھی سواد کے علاقوں میں سے ہے جو کچھ تم نے ان سے لیا ہے ان کو واپس کردو “۔ (ابوعبید)

11452

11452- عن فضيل بن زيد وكان غزا على عهد عمر بن الخطاب غزوات، قال: لما رجعنا تخلف عبد من عبيد المسلمين فكتب إليهم أمانا في صحيفة فرماها إليهم، قال فكتبنا إلى عمر بن الخطاب، فكتب عمر إن عبد المسلمين من المسلمين، ذمته ذمتهم فأجاز عمر أمانه. "ق".
11448 ۔۔۔ حضرت فضیل بن عبید نے حضرت عمر (رض) کے عہد مبارک میں جہاد میں کئی مرتبہ حصہ لیا تھا چنانچہ فرماتے ہیں کہ ہم واپس آئے تو مسلمان غلاموں میں سے ایک غلام پیچھے رہ گیا اور ایک کاغذ پر ، دشمنوں کے لیے امان نامہ لکھ کر اقن کی طرف پھینک دیا، (آگے فرماتے ہیں کہ) واقعہ کی تفصلات ہم نے حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجیں تو حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھا کہ مسلمان غلام مسلمانوں ہی میں سے ہے، اس کی ذمہ داری مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور حضرت عمر (رض) نے اس کے امان دینے کو جائز قرار دیا “۔ (متفق علیہ)

11453

11453- عن أنس أن الهرمزان نزل على حكم عمر فقال عمر: يا أنس استحى قاتل البراء بن مالك ومجزأة بن ثور فأسلم وفرض له. "يعقوب بن سفيان ق".
11449 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہرمزان نے حضرت عمر (رض) کی ذمہ داری پر گرفتاری پیش کی، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے انس ! مجھے البراء بن مالک اور مجزاۃ بن ثور کے قاتل سے حیا آتی ہے، چنانچہ ہرمزان نے اسلام قبول کرلیا اور اس کے لیے حصہ مقرر کیا گیا “۔ (یعقوب بن سفیان ، متفق علیہ)

11454

11454- عن علي قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم حين جاءه أهل الذمة، فقالوا له: اكتب لنا كتابا بأمن لا نسأل فيه من بعدك، فقال: نعم أكتب لكم ما شئتم إلا معرة الجيش وسفه الغوغاء، فإنهم قتلة الأنبياء. "العسكري".
11450 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب ذمی آئے تو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں تھے ، ذمیوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے امن کی ایک دستاویز لکھ دیجئے ، اس کے بعد ہم اس بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ کریں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں جو تم چاہتے ہو میں تمہارے لیے لکھ دوں گا علاوہ لشکر کے سپاہیوں اور بیوقوف لیٹروں کے کیونکہ یہی لوگ انبیاء کرام کے قتل کرنے والے ہیں “۔ (العسکری)

11455

11455- عن نائل بن مطرف السلمي عن أبيه عن جده رزين بن أنس قال: لما ظهر الإسلام ولنا بئر بالدفية خفنا أن يغلبنا عليها من حولنا فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فكتب لنا كتابا بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله أما بعد فإن لهم بئرا إن كان صادقا ولهم دار إن كان صادقا، فما قاضينا فيه إلى أحد من قضاة المدينة إلا قضوا لنا به وفي كتاب النبي صلى الله عليه وسلم كان "ك ون" وزعم أنه كذا كان في كتاب النبي صلى الله عليه وسلم. "ابن أبي داود في المصاحف طب".
11451 ۔۔۔ قائل بن مطرف اپنے والد سے اور وہ اپنے والد رزین بن انس سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ہمارا دفعیہ نامی جگہ پر ایک کنواں تھا، جب اسلام ظاہر ہوا تو ہمیں کو ف ہوا کہ اس کے اردگرد کے لوگ کنواں ہم سے چھین نہ لیں، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور صورت حال بتائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے ایک دستاویز لکھوائی ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے ، امابعد ، اگر وہ سچا ہے تو ان کا ایک کنوان ہے ، اگر وہ سچا ہے تو ان کا ایک گھر ہے، چنانچہ ہم نے جب بھی کبھی اس کنویں کے سلسلے میں مدینہ کے کسی قاضی کے سامنے معاملہ اٹھایا تو اس قاضی نے فیصلہ ہمارے حق میں کیا “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دستاویز پر میں لفظ کان تھا “۔ (مستدرک حاکم اور نسائی) اور روای کا بھی یہی خیال ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دستاویزایسی ہی تھی “۔ (ابن ابی داؤد، فی المصاحف اور طبرانی)

11456

11456- عن زكريا بن أبي زائدة قال: كنت مع أبي إسحاق فيما بين مكة والمدينة فسايرنا رجل من خزاعة فقال له أبو إسحاق: كيف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد رعدت هذه السحابة بنصر بني كعب؟ فقال الخزاعي لقد تنصلت بنصر بني كعب، ثم أخرج إلينا رسالة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خزاعة، ونائبها يومئذ كان فيها: بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلى بديل وبسر وسروات بني عمرو، فإني أحمد إليكم الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد ذلكم فإني لم اثم بالكم ولم أضع في جنبكم،وإن أكرم أهل تهامة عندي أنتم واقربه رحما، ومن تبعكم من المطيبين، وإني قد أخذت لمن هاجر منكم مثل ما أخذت لنفسي ولو هاجر بأرضه غير ساكن مكة إلا حاجا أو معتمرا، وإني لم أضع فيكم إن أسلمتم فإنكم غير خائفين من قبلي ولا محصرين، أما بعد فإنه قد أسلم علقمة بن علاثة وابن هودة وهاجرا وبايعا على من اتبعهما من عكرمة وأخذا لمن اتبعهما مثل ما أخذا لأنفسهما وإن بعضنا من بعض في الحلال والحرام، وإني والله ما كذبتكم وليحيكم ربكم، قال: وبلغني عن الزهري قال: هؤلاء خزاعة وهم من أهلي فكتب إليهم النبي صلى الله عليه وسلم وهم يومئذ نزول بين عرفات ومكة لم يسلموا حيث كتب إليهم وقد كانوا حلفاء النبي صلى الله عليه وآله وسلم. "ش".
11452 ۔۔۔ ذکر بن ابی زائدۃ فرماتے ہیں کہ میں ابواسحق کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھا تو ہمارے ساتھ بنوخزاعۃ کا ایک شخص چلنے لگا تو ابواسحق نے اس سے پوچھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا تھا کہ یہ بدوی بنوکعب کی مدد سے کانپ اٹھی ؟ تو وہ خزاعی شخص بولا کہ بنوکعب کی مدد سے نکل آئی ، پھر اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دستاویز خزاعہ کے تحریر شیدہ نکالی اور ہمارے سامنے کی وہ ان دنوں ان کا نائب تھا، اس میں لکھا تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے رسول محمد کی طرف سے بدیل ، بسری اور نبی عمرو کے سرداروں کی طرف، سو میں تیرے سامنے اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں علاوہ اس کے، سو میں نے چھپا کر کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ میں نے تمہارے پہلو میں رکھا بیشک اھل تہامہ میں سب سے معزز لوگ تم ہو اور سب سے زیادہ قریبی رشتے دار بھی اور مطیبین میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارا اتباع کیا، اور تحقیق تم میں سے اس شخص کے لیے جس نے ہجرت کی میں نے وہی لیا ہے جو اپنے لیے لیا ہے خواہ اس نے مکہ میں سکونت اختیار کئے بغیر (حج و عمرے کے علاوہ) اپنی سرزمین سے ہی ہجرت کی ہو، اور میں نے تمہارے بیچ نہیں رکھا اگر تم اسلام قبول کرلو، سو قسم میری طرف سے بالکل خوفزدہ نہ ہو اور نہ ہی محاصرے میں ہو، امابعد، بیشک علقمہ بن علاثۃ اور ابن ھودۃ مسلمان ہوگئے اور انھوں نے ہجرت کی اور بیعت کی ان پر جنہوں نے ان دونوں کا اتباع کیا عکرمہ وغیرہ میں سے اور جو انھوں نے اپنے لیے لیا وہی اپنے متبعین کے لیے لیا بیشک ہم میں سے بعض بعض کے ساتھ حلال و حرام کا تعلق رکھتے ہیں اور بیشک خدا کی قسم میں نے تمہارے ساتھ جھوٹ نہیں بولا اور تم پر سلامتی ہو رب کی طرف “۔ (پھر فرمایا کہ) مجھے زہری سے معلوم ہوا فرمایا کہ یہ بنوخزاعۃ والے ہیں جو میرے اہل میں سے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نام دستاویز لکھی تو وہ عرفات اور مکہ کے درمیان ٹھہرے ہوئے تھے اور مسلمان نہ ہوئے تھے اور یہ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11457

11457- "مسند عمر رضي الله" عنه عن خالد بن يزيد بن أبي مالك عن أبيه قال: كان المسلمون بالجابية وفيهم عمر بن الخطاب فأتاه رجل من أهل الذمة يخبره ان الناس قد أسرعوا في عنبه فخرج عمر حتى لقي رجلا من أصحابه يحمل ترسا عليه عنب، فقال له عمر: وأنت أيضا، فقال يا أمير المؤمنين أصابتنا مجاعة فانصرف عمر وأمر لصاحب الكرم بقيمة عنبه. "أبو عبيد".
11453 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے حضرت خالد بن یزین بن ابی مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ مسلمان جابیہ کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے ان میں حضرت عمر (رض) بھی تھے ، تو ذمیوں میں سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور بتلایا کہ لوگ اس کے انگوروں کے باغ کو تباہ کررہے ہیں، چنانچہ حضرت عمر (رض) نکلے ہی تھے کہ انھیں ایک شخص ملا اپنے ساتھیوں میں سے جو انگوروں کے گچھے اٹھائے ہوئے تھا، اس کو دیکھ کر حضرت عمر (رض) نے پوچھا کیا تو بھی ؟ اس نے عرض کیا، اے امیر المومنین ہم بہت بھوکے تھے، تو حضرت عمر (رض) واپس تشریف لے گئے اور باغ والے کو انگوروں کی قیمت ادا کی “۔ (ابوعبید)

11458

11458- عن حكيم بن عمير أن عمر بن الخطاب تبرأ إلى أهل الذمة من معرة الجيش. "أبو عبيد".
11454 ۔۔۔ حکیم بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) اہل ذر سے برات ظاہر کردولشکر کی تکلیف سے۔

11459

11459- عن سويد بن غفلة قال: لما قدم عمر الشام قام إليه رجل من أهل الكتاب، فقال: يا أمير المؤمنين إن رجلا من المؤمنين صنع بي ما ترى، قال: وهو مشجوج مضروب، فغضب عمر غضبا شديدا، ثم قال لصهيب: انطلق وانظر من صاحبه فائتني به، فانطلق صهيب فإذا هو عوف بن مالك الأشجعي، فقال: إن أمير المؤمنين قد غضب عليك غضبا شديدا فائت معاذ بن جبل فليكلمه فإني أخاف أن يعجل إليك، فلما قضى عمر الصلاة قال: أين صهيب أجئت بالرجل؟ قال: نعم وقد كان عوف أتى معاذا فأخبره بقصته، فقام معاذ فقال: يا أمير المؤمنين إنه عوف ابن مالك فاسمع منه ولا تعجل إليه، فقال له عمر: مالك ولهذا؟ قال: يا أمير المؤمنين رأيت هذا يسوق بامرأة مسلمة عل حمار فنخس بها ليصرع بها، فلم يصرع بها فدفعها فصرعت فغشيها أو أكب عليها، فقال: له ائتني بالمرأة فلتصدق ما قلت، فأتاها عوف، فقال له أبوها وزوجها: ما أردت إلى صاحبتنا؟ قد فضحتنا، فقالت: والله لأذهبن معه، فقال أبوها وزوجها: نحن نذهب فنبلغ عنك، فأتيا عمر فأخبراه بمثل قول عوف وأمر عمر باليهودي فصلب، وقال: ما على هذا صالحناكم، ثم قال: أيها الناس اتقوا الله في ذمة محمد، فمن فعل منهم هذا فلا ذمة له، قال سويد: فذلك اليهودي أول مصلوب رأيته في الإسلام. "أبو عبيد هق كر".
11455 ۔۔۔ حضرت سوید بن غفلہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام آئے ، تو اہل کتاب میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے امیر المومنین ، مومنوں میں سے ایک شخص نے میرا یہ حال کیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں (اس شخص کا سر بھی پھٹا ہوا تھا ، اور پٹائی بھی لگی ہوئی تھی) حضرت عمر (رض) کو سخت غصہ آیا پھر حضرت صہیب (رض) سے فرمایا اور دیکھو اس کا حشر کس نے کیا ہے، حضرت صہیب (رض) گئے تو دیکھا کہ وہ حضرت عوف بن مالک الاشجعی (رض) تھے، حضرت صہیب (رض) نے فرمایا کہ امیرالمومنین تم سے سخت ناراض ہیں اور غصے میں ہیں لہٰذا حضرت معاذ بن جبل (رض) کے پاس جاؤ اور بات کرلو کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں حضرت عمر (رض) تمہارے بارے میں جلدی نہ کریں سو جب حضرت معاذ کے پاس آکر تفصیل بتا رہے تھے، پھر حضرت معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے امیرالمومنین وہ عوف بن مالک ہیں ان سے صفائی سن لیجئے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کیجئے ، حضرت عمر (رض) نے دریافت فرمایا کہ تیرا اور اس کا کیا قصہ ہے، حضرت عوف (رض) نے عرض کیا اے امیر المومنین میں نے اس شخص کو دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کو پکڑ کرلئے جارہا ہے اور ماررہا ہے تاکہ اس کو بچھاڑ دے، پھر اس نے اس عورت کو بچھاڑا نہیں بلکہ دھکادے دیا وہ گرپڑی تو اس نے اس عورت کو ڈھانپ لیا یا اس پر حاوی ہوگیا حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس عورت کو لاؤ تاکہ تمہاری بات کی تصدیق کردے، حضرت عوف (رض) اس عورت کے پاس پہنچے تو اس کے والد اور شوہر نے کہا کہ ہم جائیں گے اور تیری بات پہنچائیں گے، چنانچہ وہ دونوں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت عوف (رض) کی بات کی تائید کی چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس یہودی کو پھانسی دینے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ اس بات پر تم سے صلح نہیں کی، پھر فرمایا اے لوگو ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے میں اللہ سے ڈرو، سو اگر ان میں سے کسی نے ایسی حرکت کی تو اس کا کوئی حصہ نہیں، حضرت سوید (رض) فرماتے ہیں کہ یہی پہلا یہودی شخص ہے جسے میں نے اسلام میں پھانسی دیتے ہوئے دیکھا “۔ (ابوعبید ، سنن کبری بیھقی)

11460

11460- عن ضمرة بن حبيب قال: قال عمر بن الخطاب: في أهل الذمة سموهم، ولا تكنوهم، وأذلوهم، ولا تظلموهم، وإذا جمعتكم وإياهم طريق فألجئوهم إلى أضيقها. "كر".
11456 ۔۔۔ حضرت ضحرۃ بن حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ذمیوں کا نام رکھو کنیت نہ رکھو، ان کو ذلیل کرو (سمجھو) اور ان پر ظلم نہ کرو اور جب تم اور وہ کسی راستے پر اکٹھے ہوجائیں تو انھیں تنگ حصے کی طرف کردو “۔

11461

11461- عن الحارث بن معاوية أنه قدم على عمر بن الخطاب، فقال له: كيف تركت أهل الشام؟ فأخبره عن حالهم، فحمد الله، ثم قال: لعلكم تجالسون أهل الشرك؟ فقال: لا يا أمير المؤمنين، فقال: إنكم إن جالستموهم أكلتم معهم وشربتم معهم، ولن تزالوا بخير ما لم تفعلوا ذلك. "يعقوب بن سفيان هب كر".
11457 ۔۔۔ حضرت حارث بن معاویہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا تو انھوں نے دریافت فرمایا کہ آپ نے اہل شام کو کس حال میں چھوڑا ؟ انھوں نے تفصیل بتائی تو حضرت عمر (رض) نے اللہ کا شکرادا کیا اور تعریف بیان کی پھر فرمایا کہ شاید تم مشرکوں کے ساتھ بیٹھے رہے ہو ؟ عرض کیا، نہیں اے امیر المومنین تو فرمایا کہ اگر تم ان کے ساتھ بیٹھتے تو ان ساتھ کھاتے ، ان کے ساتھ پیتے اور تم اس وقت تک بھلائی پر رہو گے جب تک یہ کام نہ کروگے “۔ (یعقوب بن سفیان ، بیھقی فی شعب الایمان)

11462

11462- عن مكحول أن عمر بن الخطاب كان يأمر أهل الذمة أن يجزوا نواصيهم ويعقدوا أوساطهم، وأن لا يتشبهوا بالمسلمين في شيء، من أمورهم. "ابن زنجويه".
11458 ۔۔۔ مکحول فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) ذمیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ اپنی پیشانی کے بال کاٹیں اور اوساط سے خود کو باندھیں اور مسلمانوں کے معاملات میں ان کے ساتھ بالکل بھی مشابہت اختیار نہ کریں “۔ (ابن زنجویہ)

11463

11463- عن ليث بن أبي سليم أن عمر بن الخطاب كتب إلى العمال: يأمرهم بقتل الخنازير ونقص أثمانها لأهل الجزية من جزيتهم. "أبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال".
11459 ۔۔۔ حضرت لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ خنزیروں کو قتل کردو اور جو لوگ جزیہ دیتے ہیں ان کے جزیے میں سے ان خنزیروں کی قیمت ان کو واپس کردو “۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ معافی الاموال)

11464

11464- عن مجالد بن عبد الله: كتب إلينا عمر بن الخطاب: أن اعرضوا على من قبلكم من المجوس أن يدعوا نكاح إمائهم وبناتهم وإخواتهم، وان يأكلوا جميعا كيما نلحقهم بأهل الكتاب، واقتلوا كل كاهن وساحر. "ابن زنجويه في الأموال ورستة في الإيمان والمحاملي في أماليه".
11460 ۔۔۔ حضرت مجاہدین عبداللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھا کہ مجوسیوں میں سے جو تمہیں اپنی باندیوں ، بیٹیوں اور بہنوں کے نکاح پر بلائیں تو ان سے پہلوتہی کرو، اور اس سے بھی کہ وہ ایک ساتھ کھانا کھائیں تاکہ کہیں ہم ان کو اھل کتاب کے ساتھ نہ ملادیں اور ہر کاہن وساحر کو قتل کردو “ (ابن زنجویہ فی الاموال ورستہ فی الایمان اور محاملی فی امالیہ)

11465

11465- عن محمد بن عائذ قال قال الوليد: أخبرني أبو عمرو وغيره أن عمر وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أجمع رأيهم على إقرار ما كان بأيديهم من أرضهم يعمرونها ويؤدن منها خراجها إلى المسلمين، فمن أسلم منهم رفع عن رأسه الخراج، وصار ما كان في يده من الأرض وداره بين أصحابه من أهل قريته يؤدون عنها ما كان يؤدي من خراجها ويسلمون له ماله ورقيقه وحيوانه، وفرضوا له في ديوان المسلمين، وصار من المسلمين، له مالهم وعليه ما عليهم، ولا يرون أنه وإن أسلم أولى بما كان في يديه من أرضه من أصحابه من أهل بيته وقرابته، ولا يجعلونها صافية للمسلمين وسموا من ثبت منهم على دينه وقريته ذمة للمسلمين، ويرون أنه لا يصلح لأحد من المسلمين شراء ما في أيديهم من الأرضين، كرها لما احتجوا به على المسلمين من غمساكهم كان عن قتالهم وتركهم مظاهرة عدوهم من الروم عليهم، فهاب لذلك أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وولاة الأمر، قسمهم وأخذ ما في أيديهم من تلك الأرضين، وكره أيضا المسلمون شراءها طوعا لما كان من ظهور المسلمين على البلاد، وعلى ما كان يقاتلهم عنها، ولتركهم كان البعثة إلى المسلمين وولاة الأمر في طلب الأمان قبل ظهورهم عليهم، قالوا: وكرهوا شراءها منهم طوعا لما كان من إيقاف عمر وأصحاب الأرضين محبوسة على آخر الأمة من المسلمين المجاهدين، لا تباع ولا تورث قوة على جهاد من لم يظهروا عليه بعد من المشركين ولما ألزموه أنفسهم من إقامة فريضة الجهاد. "كر".
11461 ۔۔۔ محمد بن عائد فرماتے ہیں کہ ولید نے کہا کہ مجھے ابوعمرو وغیرہ نے بتایا کہ حضرت عمر (رض) وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیگر صحابہ نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ ان کے پاس جتنی زمین وغیرہ ہے وہ ان کو آباد کریں گے اور اس کا خراج مسلمانوں کو دیں گے، اور اگر کوئی ان میں سے مسلمان ہوگیا تو اس سے خراج ختم کردیا جائے گا اور اس کے پاس جو زمین وغیرہ ہوگی وہ اس کے علاقے کے لوگوں میں تقسیم کردی جائے گی اور وہ جو ادا کرتا تھا اب اس کے علاقے والے ادا کریں گے اور اس کا مال گھر والے اور جانور اس کے حوالے کردیں گے، اور اس کا نام مسلمانوں کے رجسٹر میں لکھا جائے گا اور حصہ مقرر کیا جائے گا اور وہ مسلمانوں میں سے ہوگا اور اس کو وہی سہولتیں حاصل ہوں گی جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور اس پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو دیگر مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں ، اور ان کی رائے یہ نہ ہوتی کہ خواہ کوئی مسلمان ہی کیوں نہ ہوجائے مگر اس کی زمین اس کے گھر والوں اور رشتے داروں میں تقسیم ہوجائے ، اور مسلمانوں کے لیے ۔۔۔ نہ سمجھتے تھے اور ان میں سے جو اپنے دین پر برقرار رہے اس کو ذمی پکارا جائے، اور اس پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ مسلمانوں کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں کہ ذمیوں کے پاس موجود زمینوں کی وجہ سے انھیں قتل نہیں کیا گیا تھا اور ان کو ان کے رومی دشمنوں پر غالب رکھا گیا تھا، چنانچہ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ چوکنے ہوگئے اور تمام بڑے صحابہ نے اس زمین کی خریداری کو پسند نہ کیا کیونکہ مسلمانوں کا غلبہ شہروں پر تھا اور ان علاقوں پر جن کے لیے یہ قتال کرتے تھے ، اور مسلمانوں اور ان کے سر کردہ لوگوں کے پاس اپنا وفد بھیجئے امن مانگنے کے لیے مسلمانوں کے غلبے سے پہلے ہی چھوڑ دینے کی وجہ سے چنانچہ انھوں نے کہا کہ وہ لوگ ان سے اپنی مرضی سے ہی خریدنا پسند نہ کرتے تھے کیونکہ حضرت عمر اور زمین کے مالکان نے ان زمینوں کو امت کے بعد میں آنے والے مسلمان مجاہدین کے لیے وقف کردیا تھا چنانچہ وہ نہ بیچی جاسکتی تھیں اور نہ وراثت میں تقسیم ہوسکتی تھی تاکہ بعد کے مشرکین کے خلاف جہاد میں قوت حاصل رہے اور اس وجہ سے بھی انھوں نے خود پر فریضہ جہاد کو لازمی کرلیا تھا۔ (ابن عساکر)

11466

11466- "مسند عمر رضي الله عنه" عن مسروق أن رجلا من الشعوب أسلم، فكانت تؤخذ منه الجزية، فأتى عمر، فأخبره فقال: يا أمير المؤمنين إني أسلمت والجزية تؤخذ مني، فقال: لعلك أسلمت متعوذا، فقال: أما في الإسلام من يعيذني؟ قال: بلى، فكتب أن لا تؤخذ منه الجزية. "أبو عبيد وابن زنجويه في الأموال ورسته في الإيمان هق".
11462 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے مسروق روایت کرتے ہیں کہ بعض قبیلوں میں سے ایک شخص مسلمان ہوگیا ، اور اس سے جزیہ لیا جاتا تھا چنانچہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! میں مسلمان ہوگیا ہوں اور پھر بھی مجھ سے جزیہ لیا جاتا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ شاید تو نے پناہ لینے کے لیے اسلام قبول کیا ہے، اس نے کہا کہ رہا اسلام تو اس میں مجھے کون پناہ دے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہاں، اور پھر لکھ دیا کہ اس سے جزیہ نہ لیا جائے “۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ فی الاموال اور رستہ فی الایمان اور سنن کبری بیھقی)

11467

11467- عن أسلم أن عمر بن الخطاب ضرب الجزية على أهل الذهب أربعة دنانير، وعلى أهل الورق أربعين درهما، ومع ذلك أرزاق المسلمين وضيافتهم ثلاثة أيام. "مالك وأبو عبيد في الأموال هق".
11463 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سونے والوں پر چار دینار اور چاندی والوں پر چالیس درھم جزیہ مقرر کیا اور یہ بھی کہ مسلمانوں کا رزق اور مہمان نوازی تین دن کے لیے کریں گے “۔ (امام مالک ، ابوعبید فی الاموال ، سنن کبری بیھقی)

11468

11468- عن أبي عون محمد بن عبيد الله الثقفي قال: وضع عمر بن الخطاب الجزية على رؤس الرجال، على الغني ثمانية وأربعين درهما، وعلى الوسط أربعة وعشرين درهما وعلى الفقير اثنى عشر درهما. "هق".
11464 ۔۔۔ ابوعون محمد بن عبید اللہ الثقفی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کے سرداروں پر جزیہ مقرر کیا ، مال دار پر 48 درھم ، درمیانے درجے پر 24 درھم اور فقیر پر 12 درھم۔ (سنن کبری بیھقی)

11469

11469- عن حارثة بن مضرب أن عمر بن الخطاب فرض على أهل السواد ضيافة يوم وليلة، فمن حبسه مرض أو مطر أنفق من ماله. "الشافعي وأبو عبيد وابن عبد الحكم في فتوح مصر هق".
11465 ۔۔۔ حضرت حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اھل سواد پر ایک دن اور رات کی مہمان نوازی مقرر کی ، اور جس کو کسی بیماری یابارش وغیرہ نے روک لیا ہو تو اپنا مال خرچ کرے “۔ (الشافعی ، ابوعبید، ابن عبدالحکم فی فتوح المصر، سنن کبری بیھقی)

11470

11470- عن الأحنف بن قيس أن عمر بن الخطاب كان يشترط على أهل الذمة ضيافة يوم وليلة، وأن يصلحوا القناطر وإن قتل في أرضهم قتيل من المسلمين فعليهم ديته. "أبو عبيد ومسدد ق كر".
11466 ۔۔۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ذمیوں کے ساتھ ایک دن اور رات کی مہمان نوازی کی شرط لگاتے تھے خواہ ان کے پاس کتنی ہی گنجائش ہو، اور اگر ان کے علاقوں میں کوئی مسلمان مقتول پایا گیا تو ان پر دیت کی لازم ہوگی۔ (ابوعبید اور مسدد، متفق علیہ)

11471

11471- عن أسلم أن عمر بن الخطاب كان يؤتى بنعم كثيرة من نعم الجزية، وأنه قال لعمر بن الخطاب: إن في الظهر لناقة عمياء، فقال عمر: ندفعها إلى أهل بيت ينتفعون بها، فقلت: وهي عمياء؟ قال: يقطرونها بالإبل، قلت: كيف تأكل من الأرض؟ فقال: أمن نعم الجزية هي أم من نعم الصدقة؟ فقلت من نعم الجزية، فقال: أردتم والله أكلها، فقلت: إن عليها وسم الجزية، فأمر بها فنحرت، وكان عنده صحاف تسع فلا تكون فاكهة ولا طرفة إلا جعل في تلك الصحاف منها فيبعث بها إلى أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، ويكون الذي يبعثه إلى حفصة من آخر ذلك، فإن كان فيه نقصان كان من حظ حفصة، قال فجعل في تلك الصحاف من لحم الجزور فبعث به إلى أزواج النبي صلى الله عليه وسلم وأمر بما بقي من اللحم فصنع فدعا عليه المهاجرين والأنصار. "مالك والشافعي ق".
11467 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو جزیے میں سے بہت سارا بکریوں کا ریوڑ ملا اور اسلم نے عرض کیا کہ وہاں پیچھے ایک نابینا اونٹنی ہے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم اس کو گھر والوں کے حوالے کردیں گے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے، میں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہے، تو فرمایا وہ اس کو اونٹوں کے ساتھ کھلا پلالیں گے میں نے عرض کیا کہ وہ زمین سے کیسے کھائیں گی، دریافت فرمایا کہ آیا وہ جزیہ کے جانور میں سے ہے یا صدقہ کے جانوروں میں سے فرمایا کہ خدا کی قسم تم نے اس کے کھانے کا ارادہ کرلیا ہے، میں نے عرض کیا کہ اس توجزیہ کی علامت ہے، چنانچہ آپ (رض) نے حکم فرمایا اور اس کو ذبح کردیا گیا حضرت ان تھالوں میں رکھتے جاتے تھے اور ایک ایک تھال جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے گھر بھجتے جارہے تھے، سب سے آخر میں جو تھال بھیجا وہ ام المومنین حضرت حفصہ (رض) کے گھر بھجوایا، اگر کسی تھال سے کچھ کم کرنے کی ضرورت ہوتی تو اسی تھال سے کم کرتے پھر فرمایا کہ پھر حضرت عمر (رض) نے اونٹ کا گوشت ان تھالوں میں ڈال کر امہات المومنین کے گھروں میں بھجوایا اور باقی کے بارے میں حکم دیا، اسے تیار کیا گیا اور مہاجرین اور انصار صحابہ کرام (رض) نے کھایا “۔ (مالک ، شافعی، متفق علیہ)

11472

11472- عن حارثة بن مضرب أن عمر بن الخطاب أراد أن يقسم أهل السواد بين المسلمين وأمر بهم أن يحصوا فوجد الرجل المسلم نصيبه ثلاثة من الفلاحين يعني العلوج فشاور أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، فقال علي: دعهم يكونوا مادة للمسلمين فبعث عثمان بن حنيف فوضع عليهم ثمانية وأربعين وأربعة وعشرين واثنى عشر. "أبو عبيد وابن زنجويه والخرائطي ق".
11468 ۔۔۔ حارثہ بن مضرب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ارادہ کیا کہ اہل سواد کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرمادیں چنانچہ ان کی گنتی کا حکم دیا تو ایک مسلمان شخص کے حصے میں تین کسان آئے چنانچہ صحابہ کرام (رض) نے مشورہ فرمایا حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ ان کو چھوڑ دیجئے یہ مسلمانوں کی آمدنی کا ذریعہ ہوں گے چنانچہ حضرت عثمان (رض) بن حنیف (رض) کو بھیجا گیا اور انھوں نے اڑتالیس، چوبیس اور بارو درھم کی مقدار کی “۔ (ابوعبید ، ابن زنجویہ،
خرائبی متفق علیہ)

11473

11473- عن مرة الهمداني قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لأكررن عليهم الصدقة حتى تروح على الرجل منهم المائة من الإبل. "أبو عبيد في الأموال وابن سعد".
11469 ۔۔۔ حضرت مرۃ المہدانی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عمر (رض) فرما رہے تھے کہ میں ان کو باربار صدقہ دوں گا یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس سو اونٹ جمع ہوجائیں گے۔ (ابوعبید فی الامثال اور ابن سعد)

11474

11474- عن عتبة بن فرقد قال: اشتريت عشر أجربة من أرض السواد على شاطئ الفرات لقضب دواب فذكرت ذلك لعمر، فقال: اشتريتها من أصحابها؟ قلت: نعم، قال: رح إلي؟ فرحت إليه؟ فقال: يا هؤلاء أبعتموه شيئا؟ قالوا: لا، قال: ابتغ مالك حيث وضعته. "هق".
11470 ۔۔۔ حضرت عتبہ فرقد فرماتے ہیں کہ میں نے دریائے فرات کے کنارے سواد نامی علاقے میں دس جریب زمین خریدی جانوروں کو گھاس وغیرہ کھلانے کے لئے، اور یہ بات حضرت عمر (رض) کی خدمت اقدس میں عرض کی، فرمایا کہ کیا تم نے زمین اہل زمین سے خریدی ہے، میں نے عرض کیا جی ہاں پھر فرمایا چلوگے میرے ساتھ ؟ میں ان کے ساتھ چلا تو انھوں نے پوچھا اے فلاں فلاں کیا تم نے اس کو کچھ بیچا ہے ؟ انھوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ تلاش کرکے اس بندے سے اپنا مال لے لو جسے دیا تھا۔ (سنن کبری بیھقی)

11475

11475- عن أسلم أن عمر ضرب الجزية على أهل الذهب أربعة دنانير، وأربعين درهما على أهل الورق، وأرزاق المسلمين من الحنطة مدين، وثلاثة أقساط زيت لكل إنسان منهم كل شهر، ومن كان من أهل مصر فأردب كل شهر لكل إنسان، قال: ولا أدري كم ذكر من الودك والعسل. "أبو عبيد وابن زنجويه في الأموال عق".
11471 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سونا رکھنے والوں پر چار دینار جزیہ مقرر کیا ، اور چاندی والوں ہر چالیس درھم اور کھانے پینے کی چیزوں میں سے گندم کے دومد، اور ان میں سے ہر انسان کے لیے ہر ماہ تین قسط تیل ، اور اگر وہ شہری ہو تو ہر ماہ پر شخص ایک ارب تیل دے گا اور پھر فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں شہد اور چربی میں کتنی مقدار مقرر کی “۔ (ابوعبد، ابن زنجویہ ، فی الاموال)

11476

11476- عن ابن أبي نجيح سألت مجاهدا لم وضع عمر على أهل الشام من الجزية أكثر مما وضع على أهل اليمن؟ فقال: لليسار. "أبو عبيد وابن زنجويه عق".
11472 ۔۔۔ ابن ابی نجیح فرماتے ہیں کہ میں نے مجاہد سے پوچھا کہ حضرت عمر (رض) نے اہل شام پر اہل یمن سے زیادہ جزیہ کیوں مقرر کیا تھا تو حضرت مجاہد نے فرمایا کہ سہولت کے لیے “۔ (ابوعبیدہ، ابن زبجویہ)

11477

11477- عن عمر أنه مر بشيخ من أهل الذمة يسأل على أبواب المساجد فقال: ما أنصفناك أن كنا أخذنا منك الجزية في شيبتك، ثم ضيعناك في كبرك، ثم أجرى عليه من بيت المال ما يصلحه. "أبو عبيد وابن زنجويه عق".
11473 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھے کے پاس سے گزرے جو مسجدوں کے دروازہ پر مانگا کرتا تھا تو فرمایا کہ ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ بڑھاپے کے باوجود تجھ پر جزیہ مقرر کردیا اور تجھے تیرے بڑھاپے نے ضائع کردیا، پھر بیت المال سے اس کی ضرورت کے لیے کچھ جاری فرمایا “۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ)

11478

11478- عن جبير بن نفير أن عمر بن الخطاب أتي بمال كثير من الجزية، فقال: إني لأظنكم قد أهلكتم الناس، قالوا: لا والله ما أخذنا إلا عفوا صفوا، قال: بلا سوط ولا نوط؟ قالوا: نعم، قال: الحمد لله الذي لم يجعل ذلك على يدي، ولا في سلطاني. "أبو عبيد في الأموال".
11474 ۔۔۔ حضرت جبیربن نفیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس جزیہ کا بہت سامال لایا گیا، میرا یہ خیال ہے کہ تم نے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے، عرض کیا کہ نہیں خدا کی قسم ہم نے جو بھی لیا ہے وہ نہایت آسانی سے معاف کرتے ہوئے لیا ہے ، دریافت فرمایا بغیر ڈنڈے، کوڑے کے ؟ عرض کیا جی ہاں تو فرمایا کہ تمام یقین اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے نہ یہ کام میرے ساتھ سے کروایا اور نہ میرے دور میں کروایا “۔ (ابوعبید فی الاموال )

11479

11479- عن أبي عياض قال قال عمر: لا تشتروا رقيق أهل الذمة فإنهم أهل خراج، وأرضهم فلا تبتاعوها، ولا يقرن أحدكم بالصغار بعد إذ أنجاه الله منه. "أبو عبيد في الأموال هق".
11475 ۔۔۔ ابوعیاض فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ذمیوں کے غلام نہ خریدو کیونکہ وہ خراج والے ہیں اور ان کی زمین بھی سوا نہیں نہ خریدو اور تم میں سے کوئی بھی چھوٹوں کے ساتھ نہ ملائے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے نجات دے چکے ہیں “۔ (ابوعبید فی الاموال سنن کبری)

11480

11480- عن الحكم قال: كان عمر لا يكتب الجزية على الصابئة حتى يحتلموا، فيفرض عليهم عشرة دراهم، ثم يزيد عليهم بعد ذلك على قدر ما بأيديهم وقدر أعمالهم. "ابن زنجويه في الأموال".
11476 ۔۔۔ حکم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) صائبہ پر جزیہ مقرر کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ اس قابل نہ ہوجائیں چنانچہ پھر ان پر دس درھم مقرر کرتے اور ان پر ان کی حیثیت اور کام کاج کے لحاظ سے بڑھاتے ہی رہتے “ (ابن زبجویہ فی الاموال)

11481

11481- عن ابن سيرين أن رجلا من أهل نجران الذين صالحوا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجزية أسلم على عهد عمر بن الخطاب، فجاء إلى عمر فقال: إني مسلم ليست علي جزية، فقال: بل أنت متعوذ بالإسلام من الجزية، فقال الرجل: أرأيت إن كنت متعوذا بالإسلام من الجزية كما تقول أما في الإسلام ما يعيذني؟ قال: بلى فوضع عنه الجزية. "ابن زنجويه".
11477 ۔۔۔ ابن سیرین فرماتے ہیں کہ اہل نجران میں سے جن لوگوں نے جزیہ کی شرط پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کی تھی ان میں سے ایک شخص حضرت عمر (رض) کے دور میں مسلمان ہوگیا، اور حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوں مجھ ہر جزیہ نہیں لاگو ہوتا تو فرمایا کہ بلکہ تم جزیہ سے بچنے کے لیے مسلمان ہوئے ہو، اس نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر میں جزیے سے بچنے کے لیے مسلمان ہوا ہوتا جیسے کہ آپ فرما رہے ہیں ، تو کیا اسلام میں کوئی چیز نہیں جو مجھے پناہ دے ! تو فرمایا، ہاں ، پھر اس سے جزئی معاف کردیا “۔ (ابن زنجویہ)

11482

11482- عن أسلم قال: كتب عمر إلى أمراء الأجناد: أن اختموا رقاب أهل الجزية في أعناقهم. "هق".
11478 ۔۔۔ اسلم کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امراء کو لکھا کہ اہل جزیہ کی گردنوں میں مہریں لگادیں “۔ (سنن کبری بیھقی)

11483

11483- عن بجالة بن عبيدة قال: جاءنا كتاب عمر بن الخطاب أن خذوا من المجوس الجزية، فإن عبد الرحمن بن عوف حدثني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذها من مجوس هجر. "أبو بكر محمد بن إبراهيم العاقولي في فوائده".
11479 ۔۔۔ بجالۃ بن عبیدہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا کہ مجوسیوں سے جزیہ لو، کیونکہ عبدالرحمن بن عوف نے مجھ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرمجوسیوں سے جزیہ وصول کیا “۔ (ابوبکر محمد بن ابراہیم العاقولی فی فوائدہ)

11484

11484- "مسند علي رضي الله عنه" عن نصر بن عاصم قال: قال فروة بن نوفل الأشجعي: علام تؤخذ الجزية من المجوس وليسوا أهل كتاب؟ فقام إليه المستورد فأخذ بتلبيبه، فقال: يا عدو الله أتطعن على أبي بكر وعمر؟ وذهب به إلى القصر، فخرج عليهما علي فقال: البدا ، قال سفيان يقول: اجلسا، فجلسا في ظل القصر فأخبره بقوله، فقال علي: أنا أعلم الناس بالمجوس، كان لهم علم يعلمونه، وكتاب يدرسونه، وإن ملكهم سكر يوما فوقع على ابنته وأخته، فاطلع عليه بعض أهل مملكته، فلما صحا جاؤا يقيمون عليه الحد فامتنع منهم، ودعا أهل مملكته، فقال: أتعلمون دينا خيرا من دين آدم، وقد كان ينكح بنيه بناته، وأنا على دين آدم، فما يرغب بكم عن دينه؟ فبايعوه، وقاتلوا الذين خالفوهم، فأصبحوا وقد أسري على كتابهم، فرفع من بين أظهرهم، وذهب العلم الذي في صدورهم، وهم اهل كتاب وقد أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر منهم الجزية. " الشافعي والعدني ع وابن زنجويه في الأموال هق".
11480 ۔۔۔ مسند علی (رض) سے نظر بن عاصم روایت کرتے ہیں فرمایا کہ فروۃ بن نوفل الاشجعی نے فرمایا کہ کس بناء پر مجوسیوں سے جزیہ لوگے جبکہ وہ اہل کتاب بھی نہیں ؟ تو حضرت مستورد کھڑے ہوئے اور ان سے بات کرنے لگے اور فرمایا کہ اے اللہ کے دشمن ! کیا تو حضرت ابوبکر وعمر (رض) پر طعن کرتا ہے، پھر ان کو لے کر حضرت علی (رض) کے گھر کی طرف گئے، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ میں مجوسیوں کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ، ان کی علامت ہوتی ہے جو وہ پہچانتے ہیں ان کی کتاب ہے جو وہ پڑھتے پڑھاتے ہیں اور ان کا بادشاہ ایک ایک دن نشے کی حالت میں اپنی بیٹی اور بہن سے زنا کر بیٹھا ، رعایا میں سے بعض لوگوں کو علم ہوگیا جب کہا کہ کیا تم دنیا میں آدم (علیہ السلام) کے دین سے بہتر کسی دین سے واقف ہو اور وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کی آپس میں شادی کروایا کرتے تھے اور میں آدم (علیہ السلام) کے دین پر ہوں ، سو جو لوگ اپنے دین سے برگشتہ ہو کر اس کے پیروکار ہوگئے انھوں نے مخالفوں سے جنگ کی ، سواگلے ہی دن ان سے ان کی کتاب اٹھالی گئی اور جو علم ان کے سینوں میں تھا وہ بھی اٹھالیا گیا اور وہ اہل کتاب ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) نے ان سے جزیہ لیا ہے “۔ (الشافعی ، عدنی ، ابویھلی، ابن زبجویہ فی الاموال سنن کبری بیھقی)

11485

11485- عن الزبيد بن عدي قال: أسلم دهقان على عهد علي فقال:له، إن أقمت في أرضك رفعنا عنك جزية رأسك، وإن تحولت عنها فنحن أحق بها. "أبو عبيد وابن زنجويه في الأموال هق".
11481 ۔۔۔ زبید بن عدی نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) کے زمانے میں ایک دہقان مسلمان ہوگیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر تو اپنی زمین پر ہی رہے گا تو ہم تجھ سے تیرا جزیہ معاف کردیں گے اور اگر تو اس زمین سے ہٹ گیا تو ہم اس کے زیادہ حق دار ہوں گے “۔ (ابوعبید، زنجویہ فی الاموال ، سنن کبری بیھقی)

11486

11486- عن أبي عون الثقفي محمد بن عبيد الله قال: أسلم دهقان من أهل عين التمر، فقال له علي: أما أنت فلا جزية عليك وأما أرضك فلنا، فإن شئت فرضناها لك، وإن شئت جعلنا له قهرمانا فما أخرج الله منها من شيء أتينا به. "أبو عبيد وابن زنجويه هق".
11482 ۔۔۔ ابوعون الثقفی محمد بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ عن التمر نامی جگہ کے دہقانوں میں سے ایک شخص مسلمان ہوگیا تو حضرت علی (رض) نے اس سے فرمایا کہ تجھ پر جزیہ تو کوئی نہیں لیکن وہ زمین جو تیرے پاس تھی وہ اب ہماری (اسلامی حکومت) کی ہے سو اگر تو چاہے تو ہم تیرے ہی لیے مقرر کردیتے ہیں اور اگر تو چاہے تو ہم تجھے اس کا نگران بنادیتے ہیں سو اللہ تعالیٰ جو کچھ اس مٰن پیدا فرمائیں گے “ وہ تمام پیداوارلے کر تو ہمارے پاس آئے گا “۔ (ابوعبید ، ابن زبجویہ سنن کبری بیھقی)

11487

11487- عن عنترة قال: كان علي يأخذ الجزية من كل صنع من صاحب الإبر الإبر، ومن صاحب المسال المسال، ومن صاحب الحبال حبالا، ثم يدعو العرفاء فيعطيهم الذهب والفضة فيقتسمونه ثم يقول: خذوا هذا فاقتسموه، فيقولون: لا حاجة لنا فيه، فيقول: أخذتم خياره وتركتم علي شراره لتحملنه. "أبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال".
11483 ۔۔۔ عنترۃ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) ہر ہنر مند سے جزیہ لیا کرتے تھے، سوئی والے سے سوئی اور تلوار
والے سے تلوار، رسیوں والے سے رسی ، پھر ماہرین کو بلاتے اور سونا چاندی ان کے حوالے کرتے وہ تقسیم کرتے ، پھر فرماتے ، یہ لے لو اور اس کو تقسیم کردو، وہ عرض کرتے کہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں، تو حضرت علی (رض) فرماتے کہ تم نے بہترین حصہ لیا اور برا حصہ چھوڑ دیا تمہیں ضرور لینا ہوگا “۔ (ابوعبید ، ابن زبجویہ معافی الاموال)

11488

11488- عن عبد الملك بن عمير قال: أخبرني رجل من ثقيف قال: استعملني علي بن أبي طالب على برج سابور فقال: لا تضربن رجلا سوطا في جباية درهم ولا تبيعن لهم رزقا ولا كسوة شتاء ولا صيف ولا دابة يعملون عليها، ولا تقم رجلا قائما في طلب درهم: قلت: يا أمير المؤمنين إذن أرجع إليك كما ذهبت من عندك، قال: وإن رجعت كما ذهبت، ويحك إنما أمرنا أن نأخذ منهم العفو يعني الفضل. "ص".
11484 ۔۔۔ عبدالملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ مجھے ثقیف کے ایک شخص نے اطلاع دی اور کہا کہ حضرت علی (رض) نے مجھے برج سابور پر مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ دراھم کی وصولی کے لیے پر کوڑا مت اٹھانا اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں ان کو فروخت کرنا اور سردی گرمی کا لباس اور نہ جانور جس پر وہ کام کرتے ہیں اور کوئی شخص درھم طلب کرنے کئے لیے کھڑا نہ رہے، میں نے عرض کیا، اے امیر المؤمنین، اس طرح تو میں آپ کے پاس اسی طرح آجاؤں گا جس طرح خالی ہاتھ تھا، فرمایا کہ خواہ تو اسی طرح پاس آجائے جس طرح تو گیا تھا، احمق کہیں کے، ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان سے وہ وصول کرلیں جو ان کے پاس اضافی ہے “۔ (سنن سعید بن منصور)

11489

11489- عن مجالد قال: لم يكن عمر يأخذ الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذها من مجوس هجر. "ش".
11485 ۔۔۔ حضرت مجالد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مجوسیوں سے بالکل جزیہ نہ لیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے گواہی دی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوسیوں سے بطور جزیہ وصول کیا تھا “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11490

11490- عن جعفر عن أبيه عمر بن الخطاب سأل عن جزية المجوس؟ فقال عبد الرحمن بن عوف: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سنوا بهم سنة أهل الكتاب. "ش".
11486 ۔۔۔ جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرو (رض) نے مجوسیوں سے جزیہ کے بارے میں دریافت فرمایا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا کہ میں نے سنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ ان کے ساتھ اہل کتاب والا معاملہ کرو “۔ (ابن ابی شیبہ)

11491

11491- عن عبد الله بن أبي حدرد الأسلمي، قال: لما قدمنا مع عمر بن الخطاب الجابية إذا هو بشيخ من أهل الذمة يستطعم، فسأل عنه؟ فقال: هذا رجل من أهل الذمة كبر وضعف فوضع عنه عمر الجزية التي في رقبته، وقال: كلفتموه الجزية حتى إذا ضعف تركتموه يستطعم، فأجرى عليه من بيت المال عشرة دراهم وكان له عيال. "الواقدي كر".
11487 ۔۔۔ عبداللہ بن ابی حدردالاسلمی فرماتے ہیں کہ جب ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ جابیہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا ذمی کھانا مانگ رہا ہے، اس کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا کہ یہ ذمیوں میں سے ایک شخص ہے جو بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے، تو حضرت عمر (رض) نے اس کے ذمے واجب الاداجزیہ ختم کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس پر جزیہ ذمہ داری ڈال دی اور جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس کو چھوڑ دیا اور اب وہ کھانا مانگتا ہے چنانچہ اس کے لیے بیت المال سے دن درھم وظیفہ جاری فرمادیا وہ بال بچے دار بھی تھا “۔ (واقدی)

11492

11492- عن أبي زرعة بن سيف بن ذي يزن، قال: كتب إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا هذه نسخته فذكرها، وفيه ومن يكن على يهوديته أو نصرانيته فإنه لا يفتن عنها، وعليه الجزية على كل حالم ذكر وأنثى حر أو عبد دينار أو قيمته من المعافر. "كر".
11488 ۔۔۔ ابوذرعہ بن سیف بن ذی یزن فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک میرے کام آیا یہ اس کا نسخہ ہے، پھر فرمایا کہ اس سے لکھا ہے کہ جو اپنی یہودیت کیا نصرانیت پر برقرار رہے تو اس کو مبتلانہ کیا جائے گا کسی تکلیف میں اور اس پر جزیہ کی ادائیگی لازم ہوگئی ہر بالغ ہر خواہ مرد ہو یا عورت آزاد کیا غلام ، ایک دینار دینا ہوگا یا پھر ایک دینار کی مالیت کے برابر معافر میں سے “۔

11493

11493- عن عبد الرحمن بن غنم قال: كتبت لعمر بن الخطاب حين صالح نصارى أهل الشام: بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب لعبد الله عمر أمير المؤمنين من نصاري مدينة كذا وكذا لما قدمتم علينا سألناكم الأمان لأنفسنا وذرارينا وأموالنا وأهل ملتنا وشرطنا لكم على أنفسنا أن لا نحدث في مدينتنا ولا في ما حولها ديرا ولا كنيسة ولا قلاية ولا صومعة راهب ولا نجدد ما خرب منها، ولا نحيي ما كان منها في خطط المسلمين، ولا نمنع كنائسنا أن ينزلها أحد من المسلمين في ليل ولا نهار، وأن نوسع أبوابها للمارة وابن السبيل، وأن ننزل من مر بنا من المسلمين ثلاثة أيام نطعمهم، وأن لا نؤمن في كنائسنا ولا منازلنا جاسوسا ولا نكتم عينا للمسلمين، ولا نعلم أولادنا القرآن ولا نظهر شركا ولا ندعو إليه أحدا، ولا نمنع أحدا من أهلنا الدخول في الإسلام إن أرادوه، وأن نوقر المسلمين، وأن نقوم لهم من مجالسنا إن أرادوا جلوسا، ولا نتشبه بهم في شيء من لباسهم من قلنسوة ولا عمامة ولا نعلين ولا فرق شعر، ولا نتكلم بكلامهم ولا نتكنى بكناهم، ولا نركب السروج ولا نتقلد السيوف ولا نتخذ شيئا من السلاح ولا نحمله معنا، ولا ننقش خواتمنا بالعربية، ولا نبيع الخمور وأن نجز مقاديم رؤسنا وأن نلزم زينا حيث ما كنا، وأن نشد الزنانير على أوساطنا، وأن لا نظهر صليبنا وكتبنا في شيء من طرق المسلمين ولا أسواقهم، وأن لا نظهر الصليب على كنائسنا، وأن لا نضرب بناقوس في كنائسنا بين حضرة المسلمين، وأن لا نخرج سعانين، ولا باعوثا ولا نرفع أصواتنا مع أمواتنا، ولا نظهر النيران معهم في شيء من طرق المسلمين، ولا نجاورهم موتانا، ولا نتخذ من الرقيق ما جرى عليه سهما المسلمين، وأن نرشد المسلمين، ولا نطلع عليهم في بنيان لهم، فلما أتيت عمر بالكتاب زاد فيه: وأن لا نضرب أحدا من المسلمين، شرطنا لكم ذلك على أنفسنا وأهل ملتنا وقبلنا عنهم الأمان، فإن نحن خالفنا ما شرطناه لكم فضمناه على أنفسنا فلا ذمة لنا وقد حل لكم ما يحل لكم من أهل المعاندة والشقاق. "ابن منده في غرائب شعبة وابن زبر في شروط النصارى".
11489 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن غنم فرماتے ہیں کہ جب شام کے عسائیوں کے ساتھ صلح ہوئی تو میں نے حضرت عمر (رض) کے نام خط لکھا (عیسائیوں کی طرف سے)” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ یہ خط اللہ کے بندے عمر کے لیے ہے جو امیرالمومنین ہیں فلاں فلاں شہر کے عسائیوں کی طرف جب آپ لوگ ہمارے پاس آئے تو ہم نے آپ سے اپنے لیے اپنی اولادوں کے لیے اور اپنے مال کے لیے اور اپنے اہل مذہب کے لیے امان طلب کی، اور آپ کے لیے خود پر یہ شرائط عائد کیں کہ نہ ہم اپنے شہر میں اور نہ اپنے شہر کے اردگرد کوئی گھر بنائیں گے نہ گرجہ نہ کسی راھب کا ٹھکانا اور نہ ان میں سے جو جگہیں خراب ہوجائیں ھی ان کی تعمیر نونہ کریں گے اور نہ ان جگہوں کو بنائیں گے جو مسلمانوں کے علاقے میں ہیں ، اور اگر کوئی مسلمان ہمارے گرجوں وغیرہ میں آگیا خواہ وہ دن ہو یا رات ہم منع نہیں کریں گے اور ہم اپنے گرجوں کے دروازے گذرنے والوں اور مسافروں کے لیے وسیع کردیں گے، اور اگر کوئی مسلمان گزرا تو ہم تین دن تک اس کی مہمان نوازی کریں گے اور کھانا کھلائیں گے، اور یہ کہ اپنے گرجوں اور گھروں میں کسی جاسوس کو نہ رکھیں گے اور نہ مسلمانوں کے جاسوس کو چھپائیں گے، اور نہ ہم اپنی اولاد کو قرآن سکھائیں گے اور نہ سرک کا اظہار کریں گے اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور اگر ہمارے لوگوں میں سے کوئی مسلمان ہونے کا ارادہ کرے گا تو ہم اس کو بھی منع نہ کریں گے اور ہم مسلمانوں کی عزت کریں گے اور اگر وہ ہماری مجلسوں میں بیٹھناچا ہیں تو ہم کھڑے ہوجائیں گے، اور ہم کسی بھی چیز میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے نہ لباس میں نہ ٹوپی میں ، نہ عمامہ میں اور یہ جوتوں میں اور نہ بال بنانے میں اور نہ ہم ان جیسی گفتگو کریں گے اور نہ ان جیسی کنیتیں رکھیں گے نہ ہم زین پر سوار ہوں گے اور نہ تلوار لٹکائیں گے اور نہ ہم کوئی اسلحہ وغیرہ بنائیں گے نہ اپنے پاس رکھیں گے، اور نہ اپنی مہروں میں عربی نقوش بنائیں گے اور نہ شراب بیچیں گے، اور ہم اپنی پیشانیوں کے بام کاٹیں گے، ہم اپنا حلیہ خاص رکھیں گے جہاں بھی ہوں، اور اپنے بیچ میں زنا باندھیں گے، اور مسلمانوں کے راستوں اور بازاروں میں صلیب اور اپنے کتابیں نہ ظاہر کریں گے، اور ہم اپنے گرجوں پر بھی صلیب کو ظاہر نہ کریں گے، اور مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے گرجوں میں ناقوس بھی نہیں بچائیں گے اور ہم سائبان بھی باہر نہیں نکالیں گے اور نہ بارش کے لیے اجتماع کریں گے، اور نہ اپنی موتوں پر اپنی آواز بلند کریں گے، اور نہ مسلمانوں کے راستوں میں اپنی موتوں کے ساتھ آگ ظاہر کریں گے ان کے پاس اپنی میتوں کونہ لائیں گے، اور جو مسلمانوں کے حصے میں ہو اس کو اپنا غلام نہ بنائیں گے، اور ہم مسلمانوں کی آبادیوں میں بھی نہ جائیں گے۔
اور جب حضرت عمر (رض) تک یہ خط پہنچا تو انھوں نے مندرجہ ذیل اضافہ فرمایا کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی کو نہ ماریں گے، ہم نے شرط مقرر کی ہے تمہارے لیے اپنے آپ پر اپنے اہل مذہب پر اور (مسلمانوں) سے ہم نے امان قبول کی، سو اگر ہم نے اپنی مقرر کردہ شرائط کی مخالفت کی تو ہم اس کے خود ذمہ دار ہیں ذمی نہ رہیں گے اور تمہارے لیے حلال ہوجائے گا وہ معاملہ جو شقی اور جھگڑالو لوگوں کے ساتھ کرنا حلال ہوتا ہے “۔ (ابن مندہ فی غرائب شعبہ اور ابن زبر فی شرط نصاری)

11494

11494- عن سعيد بن عبد العزيز قال قال عمر بن الخطاب لجبلة بن الأيهم: يا جبلة، فأجابه فقال: اختر مني إحدى ثلاث: إما أن تسلم فيكون لك ما للمسلمين، وعليك ما عليهم، وإما تؤدي الخراج، وإما أن تلحق بالروم، قال: فلحق بالروم. "أبو عبيد وابن زنجويه معا في كتاب الأموال".
11490 ۔۔۔ سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جبلہ بن اھیم سے فرمایا اے جبلہ ! انھوں نے عرض کیا کہ جی موجود ہوں ، تو فرمایا مجھ سے تین میں سے ایک ابت قبول کرلو، یا تو تم مسلمان ہوجاؤ تو تمہیں بھی وہی سہولتیں ملیں گے جو مسلمانوں کو ملتی ہیں اور تم پر بھی وہی ذمہ داری جو تمام مسلمانوں پر ہوتی ہے، یا پھر خراج ادا کرویا پھر تم رومیوں سے مل جاؤ فرمایا تو پھر وہ رومیوں سے مل گیا “۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ معافی کتاب الاموال)

11495

11495- عن خليفة بن قيس قال قال عمر: يا برفأ أكتب إلى أهل مصر من أهل الكتاب أن يجزوا نواصيهم وأن يربطوا الكستيجات على أوساطهم ليعرف زيهم من زي أهل الإسلام. "أبو عبيد وابن زنجويه".
11491 ۔۔۔ خلفیہ بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، اے یرفا ! مصر کے اہل کتاب کے لیے خط لکھو کہ
اپنی پیشانیوں کے بال کاٹیں اور کستیجاب نامی کپڑا وغیرہ اپنے وسط میں باندھیں ، تاکہ ان کا حلیہ مسلمانوں کے حلیے سے ممتاز ہوجائے “۔ (ابوعبید، اور ابن زنجویہ)

11496

11496- عن عمر أن الرقيل ورؤسا من أهل السواد أتوه فقالوا: يا أمير المؤمنين إنا كنا قد ظهر علينا أهل فارس فأضروا بنا وأساؤا إلينا، فلما جاء الله بكم أعجبنا مجيئكم وقد جئناكم وفرحنا فلم نصدكم عن شيء ولم نقاتلكم، حتى إذا كان باخرة بلغنا أنكم تريدون أن تسترقونا فقال له عمر: فالآن فإن شئتم فالإسلام، وإن شئتم فالجزية، وإلا قاتلناكم فاختاروا الجزية. "أبو عبيد".
11492 ۔۔۔ اہل سواد کے سردار وغیرہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے امیرالمومنین اھل فارس ہم پر غالب آگئے اور انھوں نے ہمیں تکلیف دی اور ہمارے ساتھ براسلوک کیا، سو جب اللہ تعالیٰ آپ کو لے آئے تو ہمیں آپ کے آنے سے خوشی ہوئی ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کو کسی چیز سے نہ روکیں گے اور نہ آپ سے قتال کریں گے، یہاں تک کہ ہمیں علم ہوا کہ آپ ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں، تو حضرت عمر (رض) نے جواب میں فرمایا کہ، اب تو اگر تم چاہو تو اسلام قبول کرلو ، اگر چاہو تو جزیہ ادا کرو اور اگر چاہو تو جنگ کرو، تو انھوں نے جزیہ دینا اختیار کیا “۔ (ابوعبید)

11497

11497- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عمرو بن دينار قال: سمع عمر بن الخطاب رجلا من اليهود يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: كأني بك قد وضعت كورك على بعيرك، ثم سرت ليلة بعد ليلة فقال عمر: إيه والله لا تمسوا بها. "عب".
11493 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے حضرت عمر (رض) وابن دینار روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے ایک یہودی کو یہ کہتے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ گویا میں تیرے ساتھ ہوں ، تو نے اپنا پالان اپنے اونٹ پر ڈال دیا پھر تو راتوں رات سفر کرنے لگا “ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ خدا کسی قسم اس کی باتوں پر کان نہ دھرنا “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11498

11498- عن أسلم أن عمر بن الخطاب ضرب لليهود والنصارى والمجوس بالمدينة إقامة ثلاث ليال يتسوقون بها، ويقضون حوائجهم ولا يقيم أحد منهم فوق ثلاث ليال. " مالك هق".
11494 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہودیوں ، عسائیوں اور مجوسیوں کے لیے تین دن مقرر کئے اپنی ضرورت پوری کرلیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی تین دن سے زیادہ مدینہ منورہ میں نہ رہے “۔ (مالک ، سنن کبری بیھقی)

11499

11499- عن يحيى بن سعيد أن عمر أجلى أهل نجران اليهود والنصارى واشترى بياض أرضهم وكرومهم، فعامل عمر الناس: إن هم جاؤا بالبقرة والحديد من عندهم فلهم الثلثان، ولعمر الثلث، وإن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر وعاملهم النخل على أن لهم الخمس ولعمر أربعة أخماس، وعاملهم الكرم على أن لهم الثلث، ولعمر الثلثان. "ش".
11495 ۔۔۔ یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نجران کے یہودیوں اور عسائیوں کو جلاوطن کردیا، اور ان کے زمین کا اچھا حصہ اور انگوروں کے باغات خرید لئے، اور ان زمینوں کا لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کیا کہ اگر وہ گائے اور ہل اپنے پاس سے لے کر آئیں گے تو دو تہائی ان کا اور ایک تہائی حضرت عمر (رض) کا اور اگر حضرت عمر (رض) نے بیچ اپنے پاس سے دیا تو ان کا ایک حصہ اور ہوھا، اور کھجوروں کے درختوں کا معاملہ اس طرح کیا کہ ان کے لیے ایک خمس اور حضرت عمر (رض) کے چار خمس اور انگوروں کا معاملہ اس طرح کیا کہ ایک تہائی کام کرنے والوں کے لیے اور دوتہائی حضرت عمر (رض) کیلئے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11500

11500- عن سالم بن أبي الجعد قال: كان أهل نجران بلغوا أربعين ألفا وكان عمر يخافهم أن يميلوا على المسلمين، فتحاسدوا بينهم، فأتوا عمر فقالوا: إنا قد تحاسدنا بيننا فأجلنا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كتب لهم كتابا أن لا يجلوا فاغتنمها عمر فأجلاهم، فقدموا فأتوه فقالوا: أقلنا، فأبى أن يقيلهم، فلما ولي علي أتوه فقالوا: إنا نسألك بخط يمينك وشفاعتك عند نبيك إلا أقلتنا فأبى، وقال: ويحكم إن عمر كان رشيد الأمر فلا أغير شيئا صنعه عمر، قال سالم: فكانوا يرون أن عليا لو كان طاعنا على عمر في شيء من أمره طعن عليه في أهل نجران. "ش وأبو عبيد في الأموال هق".
11496 ۔۔۔ سالم بن ابن الجعد فرماتے ہیں کہ اہل نجران کی تعداد چالیس ہزار تھی اور حضرت عمر (رض) کو اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں یہ مسلمانوں پر حملہ نہ کربیٹھیں ، لیکن اہل نجران کے درمیان آپس میں حسد ہوگیا چنانچہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہمارا آپس میں جھگڑا ہوگیا ہے ہمیں جلاوطن کر دیجئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کے لیے دستاویز لکھی تھی کہ ان کو جلاوطن کیا جائے چنانچہ حضرت عمر (رض) نے موقع غنیمت جانا اور ان کو جلاوطن کردیا پھر وہ دربارہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ پہلا والا معاملہ (یعنی جلاوطنی کا) ختم کر دیجئے، لیکن حضرت عمر (رض) نے انکار کردیا، جب حضرت علی (رض) کا دور خلافت آیا تو یہ لوگ پھر ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ سے آپ کے دائیں ہاتھ کی لکیروں کے واسطے سے اور آپ کے نبی کے ہاں آپ کی سفارش کے واسطے سے عرض کرتے ہیں کہ آپ ہم سے پہلے والا معاملہ ختم کر دیجئے ، حضرت علی (رض) نے بھی انکار کردیا اور فرمایا کہ احمقو، عمر زیادہ معاملہ فہم تھے چنانچہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے میں اس میں تبدیلی نہ کروں گا “۔
سالم کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر حضرت علی (رض) پر کسی چیز میں طعن کرنے والے والے ہوتے تو اہل نجران کے معاملے میں کرتے۔ (ابن ابی شیبہ، ابوعبید فی الاموال، سنن کبری، بیھقی)

11501

11501- عن ابن عمر أن عمر أجلى اليهود من المدينة، فقالوا: أقرنا النبي صلى الله عليه وسلم وأنت تخرجنا؟ قال: أقركم النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أرى أن أخرجكم من المدينة. "أبو بكر الشافعي في الغيلانيات".
11497 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہودیوں کو مدینے سے جلاوطن کردیا تو یہودیوں نے عرض کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ٹھہرایا ہے اور آپ ہمیں یہاں سے نکال رہے ہیں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں یہاں ٹھہرایا ہے اور اب میری رائے یہ ہے کہ تمہیں مدینے سے نکال دوں “۔ (ابوبکر الشافعی فی الغیلانیات)

11502

11502- عن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لئن عشت أو بقيت لأخرجن اليهود والنصارى من جزيرة العرب حتى لا يبقى فيها إلا مسلم. "ابن جرير في تهذيبه".
11498 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے اگر میں زندہ اور باقی رہا تو ضرور یہودیوں اور عسائیوں کو جزیزۃ عرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ کوئی زندہ نہ رہے “۔ (ابن جریر فی تھذینہ)

11503

11503- عن ابن عمر قال قال عمر: من كان له سهم من خيبر فليحضر حتى نقسمها بينهم فقسمها عمر بينهم فقال رئيسهم يعني رجلا من اليهود: لا تخرجنا يا أمير المؤمنين، دعنا نكن فيها كما أقرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، فقال عمر لرئيسهم: أتراه سقط؟ عن قول النبي صلى الله عليه وسلم كيف بك إذا رقصت بك راحلتك نحو الشام يوما ثم يوما ثم يوما ثم يوما فقسمها عمر بين من كان شهد خيبر من أهل الحديبية. "ابن جرير".
11499 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر کسی کا خبر میں حصہ ہو تو وہ لے آئے تاکہ ہم اسے ان کے درمیان تقسیم کریں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کے درمیان حصے کو تقسیم کردیا، تو ان یہودیوں کا سرادار بولا، اے امیرالمومنین ! ہمیں نہ نکالئے ، ہمیں یہیں رہنے دیجئے جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ہمیں رہنے دیا تو حضرت عمر (رض) نے ان کے سردار سے فرمایا کیا تو ابوبکر صدیق (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول سے گرا ہوا سمجھتا ہے ؟ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیری سواری تجھے لے کر رقص کرتی ہوئی شام کی طرف چلی جارہی ہوگی اور ہرگز رتے دن کے ساتھ آگے یہی بڑھتی جارہی ہوگی، پھر اہل حدیبیہ میں سے جو لوگ خیر میں موجود تھے ان لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا “۔ (ابن جریر)

11504

11504- عن ابن عمر قال: لما فدع أهل خيبر عبد الله بن عمر قام عمر خطيبا فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عامل يهود خيبر على أموالهم، وقال: نقركم ما أقركم الله، وإن عبد الله بن عمر خرج إلى مال هناك، فعدي عليه من الليل ففدعت يداه ورجلاه، وليس لنا عدو هناك غيرهم هم عدونا وتهمتنا، وقد رأيت إجلاءهم، فلما أجمع عمر على ذلك أتاه أحد بني أبي الحقيق فقال: يا أمير المؤمنين أتخرجنا وقد أقرنا محمد وعاملنا على الأموال وشرط لنا ذلك؟ فقال عمر: أظننت أني نسيت قول النبي صلى الله عليه وسلم كيف بك إذا أخرجت من خيبر تعد وبك قلوصك ليلة بعد ليلة؟ فقال: كانت هذه هزلة من أبي القاسم قال: كذبت يا عدو الله فأجلاهم عمر. "خ هق".
11500 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ عمر (رض) کے گھر والوں کو حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا ب کہ “ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیر کے یہودیوں کے ساتھ ان کے مال پر معاملہ فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ ہم تمہیں اس وقت تک اپنے پاس رہنے دیں گے جب تک اللہ تمہیں رہنے دے گا، اور عبداللہ بن عمر وہاں موجود مال کی طرف گئے تھے سو رات کے وقت ان پر حملہ کیا گیا اور ہاتھوں پیروں کو پھاڑدیا، اور وہاں ان کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں، وہی ہمارے دشمن اور تہمت ہیں، اور میری رائے ان کو وطن کرنے کی ہے چنانچہ اس معاملے پر جب حضرت عمر (رض) نے اجتماعی فیصلہ کرلیا تو بنوابی الحقیق نامی قبیلے کا ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! آپ ہمیں نکال رہے ہیں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں رہنے دیا اور ہمارے ساتھ ہمارے اموال کا معاملہ کیا اور شرط لگائی، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول مبارک کو بھول گیا ہوں (کہ) تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جب تجھے خبیر سے نکالا جائے گا اور تیری اونٹنی لے کر راتوں بھاگتی چلی جائے گی ؟ یہودی نے کہا یہ تو ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق تھا، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے، اور پھر حضرت عمر (رض) نے ان کو جلاوطن کردیا۔ (بخاری ، سنن کبری بیھقی)

11505

1505- عن يحيى بن سهل بن أبي حثمة قال: أقبل مظهر بن رافع الحارثي إلى أبي باعلاج من الشام عشرة ليعملوا في أرضه فلما نزل خيبر أقام بها ثلاثا فدخلت يهود للإعلاج وحرضوهم على قتل مظهر ودسوا لهم سكينين أو ثلاثا فلما خرجوا من خيبر، وكانوا بثبار وثبوا عليه فبعجوا بطنه فقتلوه، ثم انصرفوا إلى خيبر فزودتهم يهود وقوتهم حتى لحقوا بالشام، وجاء عمر بن الخطاب الخبر بذلك، فقال: إني خارج إلى خيبر فقاسم ما كان بها من الأموال، وحاد حدودها ومورف أرفها وجل يهود عنها، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهم: أقركم الله، وقد أذن الله في إجلائهم ففعل ذلك بهم. "ابن سعد".
11501 ۔۔۔ یحییٰ بن سہیل بن ابی حثمۃ فرماتے ہیں مظہربن رافع الحارتی میرے والد کے پاس شام سے دس موٹے تازے کافر مزدور لے کر آئے تاکہ ان سے اپنی زمین پر کام کروائیں چنانچہ جب وہ خبیر پہنچے تو تین دن ٹھہرے ، اسی دوران یہودی داخل ہوئے اور ان مزدوروں کو مظہر کے قتل پر ابھارا ، اور دو یا تین چھریاں چھپا کر ان کے لیے گئے، پھر خبیر سے نکلے اور ثباز مانی جگہ پر پہنچے تو ان مزدوروں نے مظہر پر حملہ کردیا اور پیٹ بھاڑ کر قتل کردیا اور پھر خبیر کی طرف واپس چلے گئے، چنانچہ یہودیوں نے ان کو زادراہ اور خوراک وغیرہ دی اور یہ قاتل شام پہنچ گئے، حضرت عمر (رض) کو جب یہ اطلاع ملی تو فرمایا کہ میں خبیر کی طرف نکلنے والا ہوں اور وہاں موجود اموال کو تقسیم کرنے والاہوں، اس کی حدود کو واضح کروں گا اس کے سائے کو کشادہ کروں گا اور یہودیوں کو وہاں سے جلاوطن کروں گا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ اللہ نے تم کو ٹھکانا دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اچازت دے دی ہے کہ ان کو جلاوطن کردیا جائے، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے یہی کیا “۔ (ابن سعد)

11506

11506- عن عمر أنه قال: أيها الناس إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عامل يهود خيبر على أن نخرجهم إذا شئنا، فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم. "حم د هق".
11502 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے یہودیوں کے اس شرط پر معاملہ فرمایا تھا کہ ہم جب چاہیں گے تمہیں نکال دیں گے، اگر کسی کا وہاں مال ہے تو وہ اپنے مال کے پاس پہنچ جائے کیونکہ میں یہودیوں کا و نکالنے والا ہوں، پھر انھوں نے یہودیوں کو خبیر سے جلاوطن کردیا “۔ (مسند احمد، ابوداؤد ، سنن کبری بیھقی)

11507

11507- "مسند عمر رضي الله عنه" عن مغيرة بن السفاح ابن المثنى الشيباني عن زرعة بن النعمان، أو النعمان بن زرعة أنه سأل عمر ابن الخطاب، وكلمه في نصارى بني تغلب، قال: وكان عمر قد هم أن يأخذ منهم الجزية فتفرقوا في البلاد، فقال النعمان بن زرعة لعمر: يا أمير المؤمنين إن بني تغلب قوم عرب يأنفون من الجزية، وليست لهم أموال إنما هم أصحاب حروث ومواش، ولهم نكاية في العدو، فلا تعن عدوك عليك بهم، فصالحهم عمر على أن أضعف عليهم الصدقة، واشترط عليهم أن لا ينصروا أولادهم، قال مغيرة: فحدثت أن عليا قال: لئن تفرغت لبني تغلب ليكونن لي فيهم رأي لأقتلن مقاتلتهم، ولأسبين ذراريهم، قد نقضوا العهد، وبرئت منهم الذمة حين نصروا أولادهم. "أبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال".
11503 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے مغیرہ بن سفاح بن المثنیٰ الشیبانی ، زرعۃ بن النعمان سے یا نعمان بن زرعۃ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا ، حضرت عمر (رض) ان سے بنوتغلب کے عسائیوں کے بارے کررہے تھے اور حضرت عمر (رض) کا ارادہ تھا کہ ارادہ تھا کہ ان سے جزیہ لیں اور وہ مختلف شہروں میں پھیل گئے تھے، تو نعمان بن زرعۃ نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا کہ، اے امیر المومنین ، بنوتغلب والے عرب ہیں اور جزیہ کو پسند نہیں کرتے ان کے پاس مال بھی نہیں وہ صرف کھیتی باڑی کرتے ہیں اور مویشی پالتے ہیں، اور دشمن پر غالب آجاتے ہیں ، لہٰذا ان سے لڑ کر ان کو اپنے دشمن کی مدد پر ابھاریں ، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان سے اس شرط پر صلح کرلی کہ بنوتغلب
والے دو گناہ صدقہ ادا کریں گے اور یہ بھی شرط لگائی کہ وہ اپنی اولاد کو عیسائی نہ بنائیں گے۔
۔۔۔ مغیرہ کہتے ہیں کہ مجھے بیان کیا گیا کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر میں بنوتغلب کے لیے فارغ ہوتا تو ان کے بارے میں ضرور میری بھی ایک رائے ہوتی، میں ان کے ساتھ زبردست جنگ کرتا، اور ضروران کی اولادوں کو قیدی بناتا ، جب سے انھوں نے اپنی اولاد کو عسائی بنایا ہے تو ان کا ذمہ ختم ہوگیا ہے اور انھوں نے وعدہ خلافی کی ہے ”۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ معافی الاموال)

11508

11508- عن علي قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم صالح نصارى بني تغلب على أن يثبتوا على دينهم، ولا ينصروا أولادهم، فإن فعلوا فقد برئت منهم الذمة، وقد نقضوا، فو الله لئن تم لي الأمر لأقتلن مقاتلتهم ولأسبين ذراريهم. "ع".
11504 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ انھوں نے بنوتغلب کے عسائیوں سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ لوگ اپنے دین پر برقرار رہیں گے اور اپنی اولاد کو عسائی نہ بنائیں گے، اگر انھوں نے ایسا کیا، تو ان سے ذمہ ختم ہوجائے گا، اور تحقیق انھوں نے وعدہ خلافی کی ہے سو خدا کی قسم اگر میرا کام مکمل ہوگیا تو میں ان کے ساتھ زبردست قتال کروں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بناؤں گا “۔ (مسند ابی یعلی)

11509

11509- عن عمر أنه صالح بني تغلب على أن لا يصبغوا في دينهم صبيا وعلى أن عليهم الصدقة مضاعفة. "هق".
11505 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے بنوتغلب کے عسائیوں سے اس شرط کی کہ وہ لوگ اپنے بچوں کو اپنے دین کے رنگ میں نہیں رنگیں گے اور یہ کہ ان پر دوگنے صدقے کی ادائیگی لازم ہوگی “۔ (سنن کبری بیھقی)

11510

11510- عن عبادة بن النعمان التغلبي أنه قال لعمر: يا أمير المؤمنين إن بني تغلب من قد علمت شوكتهم، وأنهم بإزاء العدو، فإن ظاهروا عليك العدو اشتد قوتهم، فإن رأيت أن تعطيهم شيئا فافعل، فصالحهم على أن لا يغمسوا أحدا من أولادهم في النصرانية ويضاعف عليهم الصدقة. "هق".
11506 ۔۔۔ حضرت عبادۃ بن نعمان التغلبی فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین ! بنوتغلب والے ان لوگوں میں سے جن کی شان و شوکت سے آپ واقف ہیں اور یہ بھی کہ وہ دشمن کے سامنے ہیں، اگر دشمن نے آپ پر حملہ کیا تو دشمن کی قوت بڑھ جائے گی، اگر آپ ان کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو دے دیجئے ، تو حضرت عمر (رض) نے ان کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ وہ اپنی اولاد کو عسائیت میں نہ ڈبوئیں گے اور صدقہ بھی دوگناادا کریں گے “۔ (سنن کبری بیھقی)

11511

11511- عن ابن عمر أنه تفلت على راهب سب النبي صلى الله عليه وسلم بالسيف، وقال: إنا لم نصالحكم على سب نبينا صلى الله عليه وسلم. "ش".
11507 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں ہے کہ وہ راہب پر تلوار لے کر حملہ آور ہوئے جس نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دی تھیں، اور فرمایا کہ ہم نے تم سے اس بات پر صلح نہیں کی کہ تم ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دو “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11512

11512- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن سيرين قال: قضى عمر بن الخطاب في أموال أهل الذمة: إذا مروا بها على أصحاب الصدقة نصف العشر، وفي أموال تجار المشركين ممن كان من أهل الذمة نصف العشر. "عب".
11508 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ ذمیوں کے مال کے بارے میں حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ جب صدقہ والوں کے پاس سے گزروتوان سے نصف عشرلو، اور وہ مشرک جو ذمی ہیں ان کے تجارت کے مال میں بھی نصف عشر ہے “۔ (عبدالرزاق)

11513

11513- عن ابن جريج قال قال عمر: وكتب أهل منبج ومن وراء بحر عدن إلى عمر بن الخطاب يعرضون عليه أن يدخلوا بتجارتهم أرض العرب ولهم العشور منها، فشاور عمر في ذلك أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فأجمعوا على ذلك، فهو أول من أخذ منهم العشور. "عب".
11509 ۔۔۔ ابن جریج روایت فرماتے ہیں کہ اہل منبج اور بجرعدن کے دوسرے طرف رہنے والے لوگوں نے حضرت عمر (رض) کو پیش کش کی کہ وہ تجارت کے لیے عرب سرزمین میں داخل ہوں گے اور اس کے بدلے عشرادا کریں گے تو حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا اور اس پر اتفاقی فیصلہ ہوگیا چنانچہ عمر (رض) ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ان سے عشر وصول کیا “۔ (عبدالرزاق)

11514

11514- عن زياد بن حدير قال: بعثني عمر على السواد ونهاني أن أعشر مسلما أو ذا ذمة يؤدي الخراج. "ش هق".
11510 ۔۔۔ زیادبن حدیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے سودا کی طرف بھیجا اور منع کیا کہ کسی مسلمان سے یا خراج ادا کرنے والے ذمی سے عشر وصول کروں “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، سنن کبری بیھقی)

11515

11515- عن أنس قال: بعثني عمر وكتب لي أن آخذ من أموال المسلمين ربع العشر ومن أموال أهل الذمة إذا اختلفوا بها للتجارة نصف العشر، ومن أموال أهل الحرث العشر. "أبو عبيد في الأموال وابن سعد".
11511 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے بھیجا اور یہ لکھ کردیا کہ مسلمانوں کے مال سے ایک چوتھائی عشر وصول کروں اور ذمیوں کے مال سے نصف عشر وصول کروں اور کھیتی کرنے والوں کے مال سے عشر وصول کروں “۔ (ابوعبید فی الاموال وابن سعد)

11516

11516- عن ابن عمر أن عمر بن الخطاب كان يأخذ من النبط والزبيب نصف العشر يريد بذلك أن يكثر الحمل إلى المدينة ويأخذ من القطنية العشر. "الشافعي وأبو عبيد ق".
11512 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کشمش اور زبیب میں نصف عشر اس ارادے سے لیا کرتے کہ زیادہ سے زیادہ مدینہ کی طرف آئے اور کپاس سے پورا عشر وصول کیا کرتے تھے “۔ (الشافعی ، ابوعبید ، متفق علیہ)

11517

11517- عن زياد بن حدير قال: ما كنا نعشر مسلما ولا معاهدا لنا بعشر أهل الحرب، وكتب إلي عمر أن لا تعشرهم في السنة إلا مرة. "أبو عبيد هق".
11513 ۔۔۔ حضرت زیادبن حدید فرماتے ہیں کہ ہم کسی مسلمان سے عشروصول نہ کیا کرتے تھے، اور نہ دس جنگجوؤں کے بدلے معاہدہ کرنے والے سے ، اور مجھے حضرت عمر (رض) نے یہ لکھ کر بھیجا کہ میں سال میں صرف ایک مرتبہ عشر وصول کروں “۔ (ابوعبید، سنن کبری بیھقی)

11518

11518- عن يعلى بن أمية قال: كتب إلي عمر أن آخذ من حلي البحر والعنبر العشر. "أبو عبيد" وقال: إسناده ضعيف غير معروف قال أبو عبيد حدثنا زائدة عن عاصم بن سليمان عن الشعبي قال: أول من وضع العشر في الإسلام عمر.
11514 ۔۔۔ یعلی بن امیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے یہ لکھ کر بھیجا کہ سمندری زیور اور عنبر میں عشر وصول کروں “۔ (ابوعبید)
اور فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے، ابوعبید کہتے ہیں کہ ہم سے زائدۃ نے عاصم بن سلمان سے اور انھوں نے امام شعبی سے روایت بیان کی فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلے حضرت عمر (رض) نے ہی عشر مقرر فرمایا۔

11519

11519- عن داود بن كردوس قال: صالحت عمر بن الخطاب عن بني تغلب بعد ما قطعوا الفرات وأرادوا اللحوق بالروم على أن لا يصبغوا صبيانهم ولا يكرهوا على دين غير دينهم وعلى أن عليهم العشر مضاعفا من كل عشرين درهما درهم. "أبو عبيد في الأموال".
11515 ۔۔۔ داؤد بن کردوس فرماتے ہیں کہ میں نے بنو تغلب کی طرف سے حضرت عمر (رض) سے صلح کی جبکہ بتو تغلب والے دریائے فراعت عبور کرکے روم کی طرف جارہے تھے اس شرط پر کہ وہ اپنے بچوں کو عسائیت کے رنگ میں نہ رنگیں گے اور نہ اپنے دین کے علاوہ کسی اور دین پر زبردستی نہ کریں گے، اور یہ کہ ان پر دوگناعشر ہو، ہر بیس درہم پر ایک درہم “۔ (ابو عبید فی الاموال)

11520

11520- عن زياد بن حدير أن أباه كان يأخذ من نصراني العشر في كل سنة مرتين، فأتى عمر بن الخطاب، فقال: يا أمير المؤمنين إن عاملك يأخذ مني العشر في كل سنة مرتين، فقال عمر: ليس ذلك له، إنما له في كل سنة مرة، ثم أتاه فقال: أنا الشيخ النصراني، فقال عمر: وأنا الشيخ الحنيف قد كتبت لك في حاجتك. "أبو عبيد هق".
11516 ۔۔۔ زیادبن حدیر کہتے ہیں کہ ان کے والد عیسائیوں سے سال میں دو مرتبہ عشر کیا کرتے تھے چنانچہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین آپ کا کارندہ کارکن مجھ سے سال میں دو مرتبہ عشر وصول کرتا ہے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس کو سال میں دو مرتبہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو سال میں ایک مرتبہ عشروصول کرنا چاہیے، پھر وہ عسائی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں عسائی شیخ ہوں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ حنیفی شیخ ہوں اور میں نے تیری ضرورت پوری کروادی ہے “۔ (ابوعبید سنن کبری ، بیھقی)

11521

11521- عن السائب بن يزيد قال: كنت عاملا على سوق المدينة زمن عمر فكنا نأخذ من النبط العشر. "الشافعي وأبو عبيد".
11517 ۔۔۔ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے زمانہ مبارکہ میں مدینہ کے بازار کا عامل تھا چنانچہ ہم کشمش میں سے عشر لیا کرتے تھے “۔ (الشافعی، ابوعبید)

11522

11522- "مسند معاذ رضي الله عنه" بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى قرى عربية فأمرني أن آخذ حظ الأرض، قال سفيان: وحظها الثلث والربع. "عب".
11518 ۔۔۔ مسند معاذ (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ مجھے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب علاقوں کی طرف روانہ فرمایا اور حکم فرمایا کہ میں زمین کا حصہ وصول کروں، سفیان کہتے ہیں کہ اس (زمین) کا حصہ تہائی اور چوتھائی تھا (عبدالرزاق

11523

11523- "مسند عمر رضي الله عنه" عن أنس قال: بارز البراء ابن مالك مرزبان الزارة، فطعنه طعنة كسرت القربوص وخلصت الطعنة إليه فقتلته، فصلى عمر الصبح، ثم أتانا فقال: إنا كنا لا نخمس الأسلاب، وإن سلب البراء قد بلغ مالا، ولا أراني إلا خامسه فقوم ثلاثين ألفا فأعطانا عمر ستة آلاف، فكان أول سلب خمس في الإسلام. "عب وأبو عبيد في كتاب الأموال ش وابن جرير وأبو عوانة والطحاوي والمحاملي في أماليه".
11519 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی مسند سے حضرت انس (رض) روایت فرماتے ہیں کہ براء بن مالک نے مرزبان الزرارۃ سے مبارزۃ (مقابلہ) کیا، اور ایسا نیزہ مارا کہ جس سے ذرہ ٹوٹ گئی اور نیزے کا پھل اندر گھس گیا اور براء بن مالک قتل ہوگیا، حضرت عمر (رض) صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہم چھینے ہوئے مال سے خمس نہ لیا کرتے تھے لیکن براء کا مسلوبہ مال بہت زیادہ ہے اور مجھے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا بھی خمس نکالوں ، چنانچہ اس کی قیمت تیس ہزار مقرر کی اور حضرت عمر (رض) نے ہمیں چھ ہزار دینار عطا فرمائے ، چنانچہ پہلی مرتبہ تھی کہ اسلام میں کسی مقتول کے چھینے ہوئے مال سے خمس وصول کیا گیا۔ (عبدالرزاق، ابوعبید فی کتاب الاموال، ابن ابی شیبہ، ابن جریر ، ابوعوانہ، طحاوی، اور محاملی فی امالیہ)

11524

11524- عن عمر قال: لا يقطع الخمس إلا في خمس. "ش وابن المنذر في الأوسط عق قط ق".
11520 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ خمس کو خمس ہی سے نکالا جائے گا “۔ (ابن ابی شیبہ ، ابن المنذر فی الاوسط ، الضعفاء للعقیلی، دار قطنی، متفق علیہ)

11525

11525- عن هانئ بن كلثوم أن صاحب جيش الشام حين فتح الشام كتب إلى عمر بن الخطاب: إنا فتحنا أرضا كثيرة الطعام والعلف فكرهت أن أتقدم في شيء من ذلك إلا بأمرك، فاكتب إلي بأمرك في ذلك، فكتب إليه عمر: أن دع الناس يأكلون ويعلفون، فمن باع شيئا بذهب أو فضة ففيه خمس الله وسهام المسلمين. "ق".
11521 ۔۔۔ ھانی بن کلثوم فرماتے ہیں کہ جب اسلامی لشکر نے شام فتح کرلیا تو سالارلشکر نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا کہ ہم نے ایسی سرزمین فتح کی ہے کہ جس پر کھانا پینا اور گھاس پھوس بہت ہے، میں نے اپنے پاس سے کوئی قدم اٹھانا نامناسب نہ سمجھا چنانچہ آپ مجھے اس معاملے میں کوئی ہدایات تحریر فرمائیں ، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ لوگوں کو کھانے پینے دو ، سو جو کوئی سونے چاندی کی خریدو فروخت کرے تو اس میں اللہ کا حصہ خمس اور مسلمانوں کا حصہ بھی ہے “۔ (متفق علیہ)

11526

11526- عن نافع قال: أصاب الناس فتحا بالشام، فيهم بلال ومعاذ ابن جبل، فكتبوا إلى عمر بن الخطاب: إن هذا الفيء الذي أصبنا خمسه لك ولنا ما بقي، وليس لأحد منه شيء، كما صنع النبي صلى الله عليه وسلم بخيبر، فكتب عمر: إنه ليس على ما قلتم، ولكنى أقفها للمسلمين، فراجعوه الكتاب، وراجعهم يأبون ويأبى، فلما أبوا، قام عمر فدعا عليهم، فقال: اللهم اكفني بلالا وأصحاب بلال، فما جاء الحول حتى ماتوا جميعا. "أبو عبيد وابن زنجويه هق".
حضرت نافع فرماتے ہیں کہ جس لشکر نے شام فتح کیا اس میں حضرت معاذ اور بلال (رض) بھی تھے چنانچہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کو لکھا کہ یہ مال فئی جو ہمیں حاصل ہوا ہے اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) آپ کا ہے اور باقی ہمارا اور اس کے علاوہ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں جیسے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر میں عمل فرمایا تھا،
تو حضرت عمر (رض) نے تحریر فرمایا کہ ایسا نہیں ہے جیسے تم سمجھتے ہو بلکہ میں اسے مسلمانوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔ سو جب انھوں نے انکار کیا تو حضرت عمر (رض) کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی کہ اے میرے اللہ میرے بلال اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کافی ہوجائیے، چنانچہ ابھی سال بھر بھی نہ گزرا تھا کہ تمام حضرات کی وفات ہوگئی،
فائدہ : اسی روایت کے آخر میں مشاجرات صحابہ کی طرف اشارہ ہے ، اہل علم کو اس کا حکم معلوم ہی ہے اور عوام کو اس کی ضرورت نہیں ، لہٰذا ایسی روایات و مسائل کو کھود کرید کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

11527

11527- عن يزيد بن هرمز أن نجدة كتب إلى ابن عباس يسأله عن سهم ذوي القربى؟ فكتب إليه: إنه لنا وقد كان عمر دعانا لننكح منه أيامى ونخدم منه عائلنا، ونعطي منه الغارمين منا، فأبينا عليه إلا أن يسلمه لنا كله، وأبى ذلك عمر علينا. "أبو عبيد وابن الأنباري في المصاحف".
11523 ۔۔۔ یزید بن ھرمز فرماتے ہیں کہ نجدۃ نے حضرت ابن عباس (رض) کے نام خط لکھ رشتے داروں کے حصے کے
بارے میں دریافت فرمایا تو حضرت ابن عباس (رض) نے لکھا کہ یہ ہمارا تھا، اور حضرت عمر (رض) نے ہمیں بلایا تاکہ نکاح کروادیں یتیموں کا ، اور ہمارے گھروالوں کو خادم دیں، اور ہم میں سے لوگ قرض دار ہیں ان کو دیں لیکن ہم نے انکار کردیا اور کہا کہ سب ہمیں دیں تو حضرت عمر (رض) نے بھی انکار فرمادیا “۔ (ابوعبید، ابن الانباری فی المصاحف)

11528

11528- عن ابن عباس قال: كان عمر يعطينا من الخمس نحوا مما كان يرى أنه لنا فرغبنا عن ذلك، فقلنا حق ذوي القربى خمس الخمس فقال عمر: إنما جعل الله الخمس في أصناف سماها فأسعدهم بها أكثرهم عددا وأشدهم فاقة فأخذ منا ناس وتركه ناس. "أبو عبيد".
11524 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ہمیں خمس میں سے اتنادیتے جتنا مناسب سمجھتے چنانچہ ہم نے اس میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتے داروں کا حق خمس کا خمس ہے تو حضرت عمر (رض) نے خمس انہی اقسام میں مقرر فرمایا ہے جن کی نشاندہی فرمائی ہے چنانچہ سب سے زیادہ خوش قسمت
وہ ہے جن کی تعداد زیادہ اور فاقہ سخت ہو چنانچہ ہم میں سے بعض نے لے لیا اور بعض نے چھوڑ دیا “۔ (ابوعبید)

11529

11529- عن الزهري أن عمر بن الخطاب قال: إن جاء خمس العراق لا أدع هاشميا إلا زوجته، ومن لا جارية له أخدمته. "أبو عبيد".
11525 ۔۔۔ زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر عراق کا خمس آگیا تو کسی ہاشمی کا نکاح کروائے بغیر نہ چھوڑوں گا اور جس کے لیے کوئی لڑکی نہ ہو اس کی میں خود خدمت کروں گا “۔ (ابوسعید)

11530

11530- عن علي قال: اجتمعت أنا وفاطمة والعباس وزيد بن حارثة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال العباس: يا رسول الله كبر سني ورق عظمي: وكثرت مؤنتي فإن رأيت يا رسول الله أن تأمر لي بكذا وسقا من طعام، فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد فعلت، فقالت فاطمة: يا رسول الله: إن رأيت أن تأمر لي كما أمرت لعمك فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفعل ذلك، ثم قال زيد بن حارثة: يا رسول الله كنت أعطيتني أرضا كانت معيشتي منها، ثم قبضتها فإن أردت أن تردها علي فافعل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفعل ذلك،فقلت: أنا يا رسول الله إن أردت أن توليني هذا الحق الذي جعله الله لنا في كتابه من الخمس فاقسمه في حياتك؟ كي لا ينازعنيه أحد بعدك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفعل ذلك، فولانيه فقسمته في حياته، ثم ولانيه أبو بكر، فقسمته في حياته، ثم ولانيه عمر فقسمته في حياته. "ش حم د ع عق ق ص م".
11526 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ فاطمہ ، عباس اور زید بن حارثہ (رض) جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے تو حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری عمر بڑھ گئی، ہڈیاں نرم ہوگئیں اور تکلیف بڑھ گئی سو اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے لیے اتنے وسق کھانے (بطور وظیفہ) کا حکم دے دیجئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے حکم دے دیا ، پھر حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اگر مناسب سمجھیں تو میرے لیے بھی ویسا ہی حکم فرمایئے جیسا اپنے چچا حضرت عباس (رض) کے لیے جاری فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یہ حکم جاری کردوں گا، پھر حضرت زید بن حارثہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے مجھے زمین مرحمت فرمائی تھی، میرا گزراوقات اسی سے تھا پھر آپ نے وہ زمین مجھ سے واپس لے لی سو اب اگر مناسب سمجھیں تو واپس کردیں ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا ہی ہوگا، پھر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ چاہیں تو اس حق پر مجھے مقرر فرمادیئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمارے لیے مقرر فرمایا ہے یعنی خمس ، تو میں اس کو آنجناب کی حیات مبارکہ ہی میں تقسیم کردوں گا تاکہ آپ کے بعد کوئی مجھ سے اس معاملے میں جھگڑا نہ کرے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم ایسا کردیں گے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس پر مقرر فرمادیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ کی حیات مبارکہ ہی میں اس کو تقسیم کردیا ، پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے مقرر فرمایا اور میں نے اسے ان کی حیات مبارکہ ہی میں تقسیم کردیا، پھر مجھے حضرت عمر (رض) نے اس پر مقرر فرمایا اور میں نے ان کی حیات مبارکہ میں ہی اسے تقسیم کردیا “۔ (ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ابوداؤد، ابویعلی ، الضعفاء، للعقیلی متفق علیہ، سعید بن منصور اور مسلم)

11531

11531- عن علي قال: ولاني رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس الخمس، فوضعته مواضعه حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحياة أبي بكر، وحياة عمر، فأتي بمال فدعاني، فقال: خذه، فقلت لا أريده، قال: خذه، فأنتم أحق به، قلت قد استغنيت، فجعله في بيت المال. "ش د".
11527 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس کے خمس پر مقرر فرمایا چنانچہ میں نے اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں تقسیم کردیا، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت فاروق (رض) کی حیات مبارکہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس مال لایا گیا، انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ لے لیجئے، میں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں، پھر فرمایا کہ لے لیجئے آپ لوگ اس کے زیادہ حق دار ہیں ، میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بےنیاز ہوں، تو انھوں نے اس مال کو بیت المال میں جمع کروادیا؛۔ (ابن ابی شیبہ ، ابوداؤد)

11532

11532- عن محمد بن إسحاق، قال: سألت أبا جعفر محمد بن علي ابن أبي طالب حيث ولي من أمر الناس ما ولي، كيف صنع في سهم ذوي القربى؟ قال: سلك به سبيل أبي بكر وعمر، قلت فما منعه؟ قال:كره أن يدعى عليه خلاف أبي بكر وعمر. "أبو عبيد وابن الأنباري في المصاحف".
11528 ۔۔۔ محمد بن اسحق کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفرمحمد بن علی بن ابی طالب سے پوچھا کہ جب ان کو اس معاملے پر مقرر کیا گیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتے داروں کے حصے کے بارے میں انھوں نے کیا معاملہ کیا تھا ؟ فرمایا کہ بالکل وہی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے کیا تھا، میں نے پھر پوچھا کی پھر کیا رکاوٹ ہوئی ؟ فرمایا کہ ان کو یہ بات پسند نہ تھی کہ کوئی ان کے بارے میں یہ کہے کہ وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کے طریقے کے خلاف چلتے تھے “۔ (ابوعبید، ابن الانباری فی المصاحف)

11533

11533- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، قال: سألت عليا فقلت: أخبرني كيف كان يصنع أبو بكر وعمر في الخمس نصيبكم؟ فقال: أما أبو بكر فلم يكن في ولايته أخماس وما كان فقد أوفاه، وأما عمر فلم يزل يدفعه في كل خمس حتى كان خمس السوس جنديسابور، فقال وأنا عنده: هذا نصيبكم أهل البيت من الخمس، وقد أخل ببعض، واشتدت حاجتهم، فإن أحببتم تركتم حقكم فجعلناه في خلة المسلمين حتى يأتينا مال فأوفيكم حقكم فيه؟ فقلت: نعم، فوثب العباس فقال: لا تعرض في الذي لنا، فقلت له: يا أبا الفضل السنا أحق من أرفق المسلمين وشفع أمير المؤمنين فقبضه، فتوفي عمر قبل أن ياتيه مال، فوالله ما قضاه، ولا قدرت عليه في ولاية عثمان، ثم أنشأ علي يحدث، فقال: إن الله حرم الصدقة على رسوله، فعوضه سهما من الخمس ما حرم عليه وحرمها على أهل بيته خاصة، دون أمته فضرب لهم مع رسول الله سهما عوضا مما حرم عليهم. "ابن المنذر".
11529 ۔۔۔ عبدالرحمن بن ابی یعلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے ہوچھا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت (رض) خمس میں آپ کے حصے کے ساتھ کیا معاملہ کرتے تھے ؟ تو حضرت علی (رض) فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانے میں خمس تھے ہی نہیں اور نہ ان کو اس کا موقع ملا، اور حضرت عمر (رض) پر خمس میں حصہ دیتے رہے جدیساپور کے خمس تک چنانچہ انھوں نے میری موجودگی میں فرمایا کہ اے اہل بیت ! یہ خمس میں سے تمہارا حصہ ہے، اور کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، ان کی ضروریات زیادہ ہوگئیں ہیں، اگر تم پسند کرو تو، اپنا حصہ چھوڑ دو ، تاکہ ہم اس کو مسلمانوں میں خرچ کریں جب دوبارہ ملے گا تو میں اس میں سے تمہارا حصہ ادا کروں گا ؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں درست ہے، لیکن حضرت عباس (رض) فوراًاٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اپنے حصے کو ہرگز نہ چھوڑنا ، تو میں نے ان سے کہا کہ اے ابوالفضل ! کیا ہمیں تمام مسلمانوں میں رحمدل نہ ہونا چاہیے ؟ امیر المومنین بھی سفارش کرتے ہیں، چنانچہ اس حصے کو لیا گیا، چنانچہ مزید مال کی آمد سے پہلے ہی حضرت عمر (رض) نے بیان کرنا شروع کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ اپنے رسول پر حرام فرمایا اور اس کے بدلے میں خمس سے حصہ مقرر فرمایا، اور صدقہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور خصوصا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں پر حرام کیا گیا امت پر نہیں چنانچہ ان پر حرام ہوا تھا اس کے بدلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کے لیے بھی حصہ مقرر فرمایا؛۔ (ابن المنذر)

11534

11534- عن ابن أبي ليلى قال: سألت عليا عن الخمس؟ فقال:إن الله حرم علينا الصدقة، وعوضنا منها الخمس، فأعطانيه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفاه الله ثم أعطانيه أبو بكر، حتى مات، ثم أعطانيه عمر حتى كان فتح السوس وجند يسابور. "أبو الحسن بن معروف في فضائل بني هاشم".
11530 ۔۔۔ ابن ابی یعلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے خمس کے بارے میں سوال کیا ؟ تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ کو ہمارے لیے حرام قرار دیا اور اس کے بدلے میں ہمیں خمس عطا فرمایا، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس پر مقرر فرمایا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی مجھے اس پر مقرر فرمایا یہاں تک کہ ان کی بھی وفات ہوگئی اور پھر حضرت عمر (رض) نے بھی مجھے اس پر مقرر فرمایا یا سوس اور جدیساپور کی فتح تک “۔ (ابوالحسن بن معروف فی فضائل بن ہاشم)

11535

11535- عن محمد بن سيرين أن أميرا أعطى أنس بن مالك شيئا من الفيء فقال أنس: أخمس؟ فقال: لا، فلم يقبله. "ابن سعد كر".
11531 ۔۔۔ ابن سیرین فرماتے ہیں کہ ایک امیرنے حضرت انس (رض) بن مالک (رض) کو مال فے میں سے کوئی چیز دی تو حضرت انس (رض) نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خمس میں سے ہے ؟ اس نے کہا نہیں تو آپ (رض) نے قبول نہ فرمایا “۔ (ابن سعد)

11536

11536- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أبي قرة مولى عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، قال: قسم أبو بكر الصديق قسما فقسمه لي كما قسم لسيدي. "ابن سعد وأبو عبيد في الأموال ش".
11532 ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی مسند سے عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام کے آزاد کردہ غلام ابوقرۃ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تقسیم فرمائی سو میرے لیے بھی اتنا ہی حصہ میرے آقا کے لیے رکھا “۔ (ابن سعد اور ابوعبید فی الاموال ، مصنف ابن ابی شیبہ)

11537

11537- عن يزيد بن عبد الله بن قسيط أن أبا بكر الصديق بعث عكرمة بن أبي جهل في خمسمائة من المسلمين مددا لزياد بن لبيد، وللمهاجر بن أبي أمية فوافقهم الجند قد فتحوا النجير باليمن فأشركهم زياد ابن لبيد في الغنيمة فكتب أبو بكر إنما الغنيمة لمن شهد الوقعة. "الشافعي هق".
11533 ۔۔۔ یزید بن عبداللہ بن قسیط فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عکرمہ (رض) بن ابی جھل کو پانچ سو مسلمانوں کے ساتھ زیادبن لبید اور مہاجرین ابی امیہ کی مدد کے لیے بھیجا، لشکر کے حالات ہوگئے اور انھوں نے یمن میں نجیرنامی علاقہ فتح کرلیا لیکن زیاد بن لبید نے مال غنیمت میں مدد کے لیے آنے والے لشکر کو بھی شریک کرلیا “۔ (جو فتح کے بعد پہنچا تھا) چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لکھا کہ مال غنیمت میں اسی کا حق ہے جو واقعہ کے دوران موجود تھا “۔ (الشافعی، سنن کبری بیھقی)

11538

11538- عن رجل أن أبا بكر الصديق قال: فيما أخذ العدو من أموال المسلمين مما غلبوا عليه أو أبق إليهم، ثم أحرزه المسلمون: مالكوه أحق به قبل القسم وبعده. "الشافعي ق".
11534 ۔۔۔ ایک صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ وہ مال جو دشمن نے مسلمانوں سے لے لیا تھا ان پر غالب آکر یا کوئی بھاگ کر دشمن سے مل گیا تھا “ اور پھر مسلمانوں نے اس کو جمع کرلیا، تو مال کے اصل مالک مال تقسیم ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اپنے مال کے زیادہ حق دار ہیں “۔ (الشافعی ، متفق علیہ)

11539

11539- عن يزيد بن أبي حبيب أن أبا بكر لما قدم عليه المال جعل الناس فيه سواء، وقال: وددت أني أتخلص مما أنا فيه من الكفاف ويخلص لي جهادي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. "أبو عبيد في الأموال".
11535 ۔۔۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس مال آتا تو اس میں لوگوں کو برابر کرتے اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے سے اپنی جان چھڑالوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنا جہاد خالص کرلوں “۔ (یعنی میرا جہاد خالص ہوجاتا) ۔ (ابوعبید فی الاموال)

11540

11540- عن ابن أبي حبيب وغيره أن أبا بكر كلم في أن يفضل بين الناس في القسم فقال: فضائلهم عند الله وأما هذا المعاش فالسوية فيه خير. "أبو عبيد".
11536 ۔۔۔ ابن ابی حبیب وغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) گفتگو کی کہ تقسیم کے دوران لوگوں میں فضیلت کو پیش نظر رکھنا چاہیے تا نہیں تو آپ (رض) نے فرمایا کہ لوگوں کے فضائل تو اللہ کے ہاں ہیں رہا یہ معاشی معاملہ تو اس میں برابر بہتر ہے “۔ (ابوعبید)

11541

11541- "مسند عمر رضي الله عنه" عن طارق بن شهاب قال: قال عمر: إنما الغنيمة لمن شهد الوقعة. "الشافعي عب ش والطحاوي هق" وصححه.
11537 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں حصہ اسی کو ملے گا جو جنگ کے دوران موجود تھا “۔ (الشافعی ، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ ، طحاوی، سنن کبری بیھقی)

11542

11542- عن عمر قال: كانت أموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة، فكان ينفق على أهله منها نفقة سنتهم، ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله. "الشافعي والحميدي ش حم والعدني حم م د ت ن وابن الجارود وابن جرير في تهذيبه وابن المنذر وابن م ردويه هق".
11538 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بنونضیر کا مال اس مال میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا جس سے مسلمانوں نے کوئی گھوڑے وغیرہ نہیں دوڑائے بلکہ یہ خاص صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سے اپنے گھر والوں پر سال بھر خرچ فرماتے تھے اور باقی ماندہ کو اسلحہ وغیرہ میں لگا دیتے کہ اللہ کے راستے میں گنا جائے “۔ (الشافعی، والحمیدی، ابن ابی شیبہ، مسند احمد، عدنی، مسلم ، ابوداؤد، تزمذی، نسائی، ابن الجارود ابن جریر فی تھذیبیہ ابن المنذر، ابن مردویہ سنن کبری بیھقی)

11543

11543- عن عمر قال: إن الله خص رسول الله صلى الله عليه وسلم بخاصية لم يخص بها أحدا من الناس، وكان الله أفاء على رسوله بني النضير، فوالله ما استأثرها عليكم، ولا أخذها دونكم، ولقد قسمها بينكم وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ منها نفقة أهله سنة ويجعل ما بقي مجعل مال الله. "عب والعدني وعبد بن حميد خ م د ت ن وابن مردويه هق".
11539 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی خاصیتوں کے ساتھ ممتاز فرمایا تھا کہ ان کے علاوہ کوئی ان خاصیات کا مالک نہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بنونضیر کا مال عطا فرمایا ، سو خدا کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال کو تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر حاصل کیا بلکہ وہ مال بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے درمیان تقسیم درمیان تقسیم کردیا اور تمہاری طرف بھیج دیا یہاں تک کہ اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سے اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچہ لیا کرتے تھے اور باقی ماندہ مال کو اللہ کے راستے میں خرچ فرمایا کرتے تھے۔ (عبدالرزاق، عدنی ، عبدبن حمید، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد، ترمذیء نسائی، ابن مردویہ، سنن کبری بیھقی)

11544

11544- عن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبيع نخل بني النضير ويحبس لأهله قوت سنتهم. "خ".
11540 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنونضیر کے کھجور کے درخت فروخت کرکے اپنے گھر والوں کے لیے سال پھر کا خرچہ رکھا کرتے تھے “۔ (بخاری)

11545

11545- عن عمر قال: كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث صفايا: بنو النضير، وخيبر، وفدك، فأما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه، وأما فدك فكانت حبسا لأبناء السبيل، وأما خيبر فجزأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أجزاء، جزئين بين المسلمين، وجزأ لنفسه ونفقة أهله فما فضل عن نفقة أهله جعله بين فقراء المهاجرين. "د وابن سعد وابن أبي عاصم وابن مردويه ق ص".
11541 ۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تین چیزیں تھیں، بنونضیر ، خبیر، اور فدک، رہا بنونضیرتو وہ اپنے نائبین کے لیے تھا رہا فدک کا باغ تو وہ مسافروں کے لیے رکھا ہوا تھا اور خبیر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین حصے کر رکھے تھے دو حصے تو مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے سال بھر کے خرچ کیلئے اور جو خرچے سے بچ جاتا اسکوفقراء مہاجرین میں تقسیم فرما دیتے (ابوداؤد، ابن سعد، ابن ابی عاصم، ابن مردویہ، متفق علیہ سنن سعیدبن منصور

11546

11546- قال عمر: ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب هذه لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة قرى عرينة فدك كذا وكذا. "د".
11542 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا اس پر تم گھوڑے وغیرہ نہیں دوڑاسکتے یہ خاص صرف جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے عرینہ، فدک اور فلاں فلاں۔ (ابوداؤد)

11547

11547- عن مالك بن أوس بن الحدثان: قال: ذكر عمر بن الخطاب يوما الفيء، فقال: والله ما أنا بأحق من هذا الفيء منكم، وما أحد منا بأحق به من أحد، ووالله ما من المسلمين أحد إلا وله في هذا المال نصيب إلا عبدا مملوكا، ولكنا على منازلنا من كتاب الله وقسم رسوله، الرجل وقدمه في الإسلام، والرجل وبلاؤه في الإسلام، والرجل وعياله وفي لفظ: وعناؤه في الإسلام، والرجل وحاجته، والله لئن بقيت لهم ليأتين الراعي بجبل صنعاء حظه من هذا المال وهو يرعى مكانه. "حم وابن سعد د ق كر ص".
11543 ۔۔۔ مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر (رض) نے مال فے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ خدا کی قسم میں اس مال کا تم سے زیادہ حق دار نہیں ہوں، اور نہ ہم میں سے کوئی اس مال کا زیادہ حق دار ہے اور خدا کی قسم مسلمانوں میں سے کوئی نہیں جس کا اس میں حصہ نہ ہو علاوہ غلام کے جو کسی کی ملکیت ہو، لیکن ہم سب میں تقسیم کتاب اللہ میں مقررہ درجات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طے کردہ حصص کے مطابق ہوگی مثلا کسی کا قدم الاسلام کسی شخص کا اسلام کی خاطر زیادہ مصیبت زدہ ہونا اور کسی شخص کا گھر باروالا ہونا۔
اور طریق میں اس طرح ہے، کسی شخص کا اسلام میں زیادہ مشقت والا ہونا، اور کسی شخص کا زیادہ ضرورت مند ہونا، اور خدا کی قسم اگر میں ان کے لیے باقی رہا تو صنعاء کے یہاڑے ایک چرواہا آئے گا اس کا بھی اس مال میں حصہ ہوگا باوجود اس کے کہ وہ اپنی جگہ پر جانور چرارہا تھا “۔ (مسند احمد ، ابن سعد، ابوداؤد ، متفقم علیہ ، سنن سعید بن منصور)

11548

11548- عن عمر قال: ما على وجه الأرض مسلم إلا وله في هذا الفيء، حق أعطيه أو منعه إلا ما ملكت أيمانكم. "الشافعي عب وأبو عبيد وابن زنجويه معا في كتاب الأموال وابن سعد ش حم وعبد ابن حميد ق".
11544 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ دنیا پر کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال فے میں حصہ نہ ہو، حق جو دیا جائے گا یا ملک لیا جائے گا، علاوہ تمہارے غلاموں کے۔ (الشافعی ، عبد الرزاق، ابوعبید ، ابن زنجویہ ، معا۔ فیء کتاب الاموال، ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ مسند احمد، عبد بن حمید، متفق علیہ)

11549

11549- عن ابن أوس بن الحدثان عن عمر بن الخطاب وطلحة ابن عبيد الله والزبير بن العوام، قالوا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسهم للفرس سهمين وللرجل سهما. "قط".
11545 ۔۔۔ اوس بن حدثان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب حضرت طلحۃ (رض) بن عبید اللہ اور حضرت زبیر العوام (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار کے لیے دوحصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ فرماتے “۔ (دارقطنی)

11550

11550- عن عمر قال: ما أصاب المشركين من مال المسلمين، ثم أصابه المسلمون بعد فإن أصابه صاحبه قبل أن تجرى عليه سهام المسلمين فهو أحق به، وإن جرت عليه سهام المسلمين فلا سبيل إليه إلا بالغنيمة. "عب ش ق".
11546 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا وہ مال جو مشرکین کے ہاتھ لگا، اور پھر دوبارہ مسلمانوں کو مل گیا تو مسلمانوں کے حصے تقسیم ہونے سے پہلے وہ مال اسی مسلمان کے ہاتھ آیا جس کا پہلے وہ تھا تواب وہی اس کا زیادہ حق دار ہے اور اگر حصے ہوگئے تو اب اس مال کو حاصل کرنے کا غنیمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ (عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ ، متفق علیہ)

11551

11551- عن عمر قال: ليس للعبد من الغنيمة شيء. "ش".
11547 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ غلام جو کسی کی ملکیت ہو اس کا مال غنیمت میں کوئی حق نہیں ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11552

11552- عن الحسن قال: كتب عمر إلى أبي موسى أن يسهم للفرس سهمين وللمقرف سهما وللبغل سهما. "عب".
11548 ۔۔۔ حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسی (رض) کو لکھا کہ سوار کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ اور خچر والے کے لیے بھی ایک حصہ “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11553

11553- عن سفيان بن وهب الخولاني قال: شهدت عمر بن الخطاب بالجابية، قال: فحمد الله، وأثنى عليه بما هو أهله، ثم قال: أما بعد فإن هذا الفيء، أفاء الله عليكم، الرفيع فيه والوضيع بمنزلة ليس أحد أحق به من أحد، إلا ما كان من هذين الحيين: لخم وجذام فإني غير قاسم لهم شيئا، فقام رجل من لخم فقال: يا ابن الخطاب أنشدك الله في العدل والسوية، فقال: إنما يريد ابن الخطاب العدل والتسوية، والله إني لأعلم لو كانت الهجرة بصنعاء ما خرج إليها من لخم وجذام إلا القليل فلا أجعل من تكلف السفر وابتاع الظهر بمنزلة قوم إنما قاتلوا في ديارهم فقام أبو حدير حينئذ فقال: يا أمير المؤمنين إن كان الله ساق إلينا الهجرة في ديارنا فنصرناها وصدقناها أذاك الذي يذهب حقنا في الإسلام؟ فقال عمر: والله لأقسمن لكم ثلاث مرات، ثم قسم بين الناس، فأصاب كل رجل منهم نصف دينار، وإذا كانت معه امرأته أعطاه دينارا، وإذا كان وحده أعطاه نصف دينار، ثم دعا ابن قاطورا صاحب الأرض، فقال: أخبرني ما يكفي الرجل من القوت في الشهر واليوم؟ فأتى بالمدي والقسط فقال يكفيه هذا المديان في الشهر وقسط زيت وقسط خل فأمر عمر بمدين من قمح فطحنا ثم عجنا ثم أدمهما بقسطين زيتا، ثم أجلس عليهما ثلاثين رجلا، فكان كفاف شبعهم، ثم أخذ عمر المدي بيمينه والقسط بيساره، ثم قال: اللهم إني لا أحل لأحد أن ينقصهما بعدي، اللهم فمن نقصهما فأنقص من عمره. "أبو عبيد في الأموال ويعقوب بن سفيان ومسدد هق كر".
11549 ۔۔۔ سفیان بن وھب الخولانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو جابیہ نامی مقام پر دیکھا ، انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد وثناء کی جس کے وہ لائق ہے پھر فرمایا امابعد، یہ مال فے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے بہت بلند مرتبہ اور عظیم الشان ہے، اس میں کوئی کسی سے زیادہ حق دار نہیں علاوہ ان دو محلوں یعنی لحکم اور جزام کے کیونکہ میں ان کے لیے کچھ تقسیم کرنے والا نہیں ہوں ، یہ سن کر بنولخم سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے ابن الخطاب ! میں اپنے معاملے میں عدل اور برابری کرنے کے لیے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ عمر بن خطاب نے عدل اور برابری کا ارادہ کیا ہے اور خدا کی قسم میں جانتا ہوں اگر ہجرت صنعاء کی طرف ہوتی تو لخم وجزام میں سے چند ایک کے علاوہ کوئی اس طرف نہ جاتا، سو میں سفر کی مشقت برداشت کرنے اور سواری خریدنے والے کو اس شخص کی طرح نہ بناؤں گا جو اپنے علاقے میں لڑتے رہے، تو اسی وقت ابطوحریر کھڑے ہوئے اور کہا اے امیرالمومنین ! اگر اللہ تعالیٰ نے ہجرت ہمارے علاقے میں بھیجی ، ہم نے اس کی مدد کی اور تصدیق کی تو کیا یہی چیز ہے جو اسلام میں ہمارا حق ختم کردے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں تمہارے لیے تین مرتبہ تقسیم کروں گا، پھر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا، چنانچہ ہر شخص کو آدھا دینار ملا، اگر اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی تو اس کو پورا دینا دیا، اور اگر اکیلا تھا تو اس کو آدھا دینار دیا، پھر زمین والے ابن قاطورا کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے بتاؤ کہ ایک شخص کے لیے ایک مہینے میں اور ایک دن میں کتنی خوراک کافی ہوجاتی ہے ؟ چنانچہ وہ دو مد اور قسط کے کر آیا اور عرض کیا یہ دو مد مہینے میں کافی ہوتی ہے اور ایک قسط زیتون کا تیل اور ایک قسط سرکہ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا اور دو مدجو کے پیسے گئے اور ان کو گوندھا گیا اور پھر اس میں دوقسط زیتون کا تیل ملا کر سالن بنایا، پھر اس پر تیس آدمی کو بیٹھایا، تو ان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوگیا ، پھر حضرت عمر (رض) نے دونوں مد اپنے دائیں ہاتھ میں اور قسط اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ اے میرے اللہ ! میں کسی کے لیے حلال نہیں کرتا تاکہ میرے بعد اس میں سے کچھ کم کرے، اے میرے اللہ ! جو ان میں سے کم کرے آپ اس کی عمر کم کر دیجئے “۔ (ابوعبید، فی الاموال ، یعقوب بن سفیان ، مسدد، سنن کبری بیھقی)

11554

11554- عن عمر قال: لا يهب الأمير من المغانم شيئا إلا بإذن أصحابه، إلا لدليل أو راع أو يكون سلبا أو نفلا، ولا نفل حتى يقسم أول مغنم. "أبو عبيد".
11550 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کوئی امیر مال غنیمت میں سے اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر کوئی چیز ھبہ نہ کرے علاوہ وہ راھبر کے یا وہ چرواہے کے یا وہ چھینا ہوا مال ہو یا وہ نفل ہو، اور جب تک غنیمت کا ابتدائی تقسیم نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی نفل نہیں “۔ (ابوعبید)

11555

11555- عن المغيرة بن النعمان النخعي قال: حدثني أشياخنا قالوا: صار في قسم النخعي رجل من أبناء الملوك يوم القادسية، فأراد سعد أن يأخذه منهم فغدوا عليه بسياطهم، فأرسلت إليهم إني كتبت إلى عمر بن الخطاب فقالوا: قد رضينا، فكتب إليه عمر بن الخطاب: إنا لا نخمس أبناء الملوك فأخذه منهم سعد، قال المغيرة: لأن فداءه أكثر من ذلك. "هق". كتاب قسم الفيء والغنيمة [6/323] .
11551 ۔۔۔ مغیرۃ بن نعمان نخعی فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے بزرگوں نے بیان کیا کہ نخعی کے حصے میں جنگ قادسیہ کے دن بادشاہ کی اولادوں میں سے کوئی شخص آیا، حضرت سعد (رض) نے چاہا کہ اسے ان سے خود لیں، چنانچہ اپنے کوڑے کے کر روانہ ہوئے ، سو میں نے ان کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ میں نے حضرت عمر (رض) کی طرف لکھا ہے ، تو انھوں نے، کہا کہ ہم راضی ہوگئے ، تو حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا کہ ہم بادشاہوں کے بیٹوں سے خمس نہیں لیتے سو حضرت سعد (رض) نے ان سے اس شہزادے کو لے لیا “ حضرت مغیرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے فدیے کا مال زیادہ تھا (سنن کبری بیھقی)

11556

11556- عن كلثوم بن الأقمر قال: أول من عرب العراب رجل منا يقال له: منيذر الوادعي كان عاملا لعمر على بعض الشام، فطلب العدو فلحقت الخيل، وتقطعت البراذين، فأسهم للخيل،وترك البراذين، فكتب إلى عمر، فكتب عمر: نعم ما رأيت فصارت سنة. "هق".
11552 ۔۔۔ کلثوم بن الاقمر فرماتے ہیں کہ سن سے پہلے جس نے ہم میں سے عربی گھوڑوں کو دیگر سے ممتاز کیا اس کا نام منیذرالوادعی تھا، اور یہ شام کے علاقوں میں حضرت عمر (رض) کے نمائندے تھے، انھوں نے دوڑ کا ایک مقابلہ کروایاجس میں عرب گھوڑے مقابلہ جیت گئے اور غیر عربی گھوڑے (ٹٹو) رہ گئے، چنانچہ انھوں نے گھوڑوں کے لیے حصہ مقرر کیا، اور ٹٹوؤں کو چھوڑ دیا، اور تفصیل حضرت عمر (رض) کی خدمت اقدس میں لکھ بھیجی، تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ کیا ہی خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے، چنانچہ اسی وقت یہ طریقہ بن گیا “۔ (سنن کبرہ بیھقی)

11557

11557- "مسند علي رضي الله عنه" عن عصمة الأسدي قال: نهش الناس إلى علي فقالوا: أقسم بيننا نساءهم وذراريهم، فقال علي: عنتني الرجال فعنيتها، وهذه ذرية قوم مسلمين، في دار هجرة لا سبيل لكم عليهم ما أدت الديار من أموالهم فهو لهم، وما أجلبوا به عليكم في عسكركم فهو لكم مغنم. "عب".
مسند علی (رض) سے عصمہ اسدی نقل کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی (رض) سے مطالبہ کیا کہ آپ ان کی اولاد اور عورتوں کو ہمارے درمیان تقسیم کردیں حضرت علی نے جواب دیا کہ لوگوں نے مجھے جھکایا میں جھک گیا، یہ تمام مسلمانوں کی اولاد ہیں جو کہ دار ہجرت میں رہتے ہیں تمہارا ان پر کوئی حق نہیں اور جو کچھ شہرون میں ان کے اموال ہیں وہ ان کی ملکیت ہیں اور جب وہ چڑھائی کریں تم پر تمہارے لشکر میں وہ تمہارے لیے غنیمت ہے۔

11558

11558- قال البيهقي: وأنبأنا أبو عبد الله الحافظ: أنبأنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان الصوفي، قال: قرئ على أبي علي محمد بن محمد ابن الأشعث الكوفي بمصر وأنا أسمع، قال: حدثني أبو الحسن موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب: حدثنا أبي إسماعيل عن أبيه عن جده جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علي بن الحسين عن أبيه الحسين عن أبيه علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس للعبد من الغنيمة إلا خرثي المتاع، وأمانه جائز وأمان المرأة جائز إذا هي أعطت القوم الأمان. قلت إيراد "هق" لهذا الحديث من ابن الأشعث عن أهل البيت فيه فائدة جليلة فإن "هق" التزم أن لا يخرج في تصانيفه حديثا يعلمه موضوعا خصوصا أنه أورده في السنن الكبرى التي هي من أجل كتبه، وهي على أبواب الأحكام التي لا يتساهل في أحاديثها، وقد كنت أتوقى الأحاديث التي في سنن ابن الأشعث لأنهم تكلموا فيه وفيها. قال الذهبي في الميزان: محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي أبو الحسن نزيل مصر قال "عد": كتبت عنه بها حمله شدة تشيعه أن أخرج إلينا نسخة قريبا من ألف حديث عن موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن آبائه بخط طري عامتها مناكير، فذكرنا ذلك للحسين بن علي بن الحسين العلوي شيخ أهل البيت بمصر، فقال: كان موسى هذا جاري بالمدينة أربعين سنة ما ذكر قط أن عنده رواية لا عن أبيه ولا عن غيره، فمن النسخة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:نعم الفص البلور" ومنها شر البقاع دور الأمراء الذين لا يقضون بالحق ومنها ثلاثة ذهبت منهم الرحمة: الصياد، والقصاب، وبائع الحيوان، ومنها لا خيل أبقى من الدهم، ولا امرأة كابنة العم، ومنها اشتد غضب الله على من أهراق دمي وآذاني في عترتي، وساق له "عد" جملة موضوعات قال السهمي: سألت "قط" عنه فقال: آية من آيات الله وضع ذلك الكتاب يعني العلويات، انتهى ما في الميزان، قال الحافظ ابن حجر في اللسان: وقد وقفت على بعض الكتاب المذكور وسماه السنن، ورتبه على الأبواب وكله بسند واحد انتهى.
11553 ۔۔۔ بیہقی کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید اللہ الحافظ نے خبردی اور کہا کہ ہمیں ابوبکر محمد بن داؤبن سلیمان العوفی نے خبردی اور کہا کہ ابوعلی محمد بن محمد بن الاشعث الکوفی کے سامنے مصر میں یہ روایت پڑھی گئی اور میں سن رہا تھا ، کہا ہم سے حدیث بیان کی ابوالحسن موسیٰ بن اسماعیل ابن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب نے اور کہا کہ ہم سے حدیث بیان کی ابواسمعیل نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے اور انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے والد علی بن الحسین سے اور انھوں نے اپنے والد حسین سے اور انھوں نے اپنے والد علی بن ابنی طالب (رض) سے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے غلام (جو کسی ملکیت ہو) کے لیے کوئی حصہ نہیں علاوہ گھیٹا مال کے، لیکن اس کا مان دینا جائز ہے اور عورت کا امان دینا بھی جائز ہے جب اس نے قوم کو امان دی ہو “۔ میں (صاحب کنزالعمال) کہتا ہوں کہ سنن کبری بیہقی کو اس روایت کو ابن الاشعث کے طریق روایت سے اہل بیت سے لانے میں ایک زبردست فائدہ ہے اور وہ یہ کہ سنن کنری میں بیہقی نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اپنی تصانیف میں کسی ایسی روایت کی تخریج نہ کریں گے جس کا موضوع ہونا معلوم ہو، خصوصا سنن کبری میں جو ان کی اجل تصنیفات میں سے ہے اور ہے بھی ابواب احکام پر مشتمل جس کی احادیث کی تخریج میں تساہل نہیں کیا جاسکتا حالانکہ میں ان احادیث کی روایت سے بچتا تھا جو سنن ابی الاشعث میں سے کیونکہ ان میں کلام کیا گیا ہے۔
ذیبی نے میزان میں کہا ہے کہ ” محمد بن محمد بن الاشعث الکوفی ابوالحسن جو مصر میں آکر مقیم ہوگئے تھے (ابن عدی) وہ کہتے ہیں میں نے اس سے احادیث لکھی ہیں اس پر شدت تشیع طاری تھی وہ ہمارے پاس ایک نسخہ لائے جس میں موسیٰ بن اسماعیل بن موسیٰ بن جعفر عن ابیہ عن جدہ عن آباء (کی سند سے) ایک ہزار کے قریب روایات تھیں خط طری میں لکھی ہوئی عام طور سے منکر روایات تھی میں نے یہ بات جناب حسین بن علی بن حسین علوی سے ذکر کردیں جو کہ مصر میں، اہل بیت کے شیخ تھے وہ کہنے لگے کہ یہ (ابن الاشعث) مدینے میں چالیس سال میرا پڑوسی رہا مگر اس نے مجھ سے کبھی ذکر کیا اس کے پاس اپنے باپ یا اور کسی کی کچھ روایات ہیں اس کے نسخے میں اس قسم کی لغوروایات بھی تھیں۔ مثلا
1 ۔۔۔ ارشاد نبوی ہے کہ بہترین نگینہ بلور ہے۔
2 ۔۔۔ بدترین زمین ان امیروں کے گھر ہیں جو حق پر فیصلے نہیں کرتے۔
3 ۔۔۔ تین قسم کے لوگوں پر سے رحمت ختم کردی گئی شکاری ، قصائی اور جانوروں کے تاجر،
4 ۔۔۔ دھم (گھوڑوں کی ایک قسم) سے بہتر کوئی گھوڑا باقی رہنے والا نہیں۔
5 ۔۔۔ چچازاد بہن کی طرح کوئی عورت نہیں۔
اللہ کے ٖغضب کے حقدار
6 ۔۔۔ اللہ کا غضب ان پر بدترین ہے جو میرا خون بہائے اور مجھے میرے خاندان کے حوالے سے تکلیف دے، ابن عدی نے اس کی موضوعات ذکر کی ہیں میں نے دارقطنی سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ اس نے ایک کتاب علویات گھڑی ہے۔
میزان کی عبارت ختم ہوئی۔
حافط ابن حجراء اللسان میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کے بعض حصے دیکھے ہیں اس نے اس کا نام سنن رکھا ہے اور ابواب پر مرتب کیا ہے اور تمام احادیث ایک سند سے ہیں۔ (انتھی)

11559

11559- عن عبد الله بن عبيد بن عمير أن عمر بن الخطاب بعث أبا قتادة، فقتل ملك فارس وعليه منطقة قيمتها خمسة عشر ألف درهم فنفلها إياه عمر. "ابن سعد".
11555 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت قتادہ (رض) کو بھیجا، تو انھوں نے فارسی کے بادشادہ کو قتل کردیا، اس نے ایک ہار یہیں رکھا تھا جس کی قیمت پندرہ ہزار درہم تھی تو حضرت عمر (رض) نے وہ ہارانہی کو دے دیا “۔ (ابن سعد)

11560

11560- عن ابن الأقمر قال: أغارت الخيل بالشام، فأدركت الخيل من يومها وأدركت الكواذن ضحى، وعلى الخيل المنذر بن أبي حمصة همداني، ففضل الخيل على الكواذن، وقال: لا أجعل ما أدرك كما لم يدرك، فبلغ ذلك عمر بن الخطاب، فقال: هبلت الوادعي أمه لقد أذكرت به أمضوها على ما قال. "الشافعي ق".
11556 ۔۔۔ ابن الاقمر کہتے ہیں کہ عرب گھوڑوں نے شام میں خوب گھمسان کا رن ڈالا اور وہ دن مارلیا اور غیر عربی گھوڑوں نے چاشت کے وقت اپنی کامیابی کے جو ھردکھائے عربی گھوڑوں کے لشکر پر منذربن ابی حمصہ ھمدانی تھے، بہرحال عربی گھوڑوں کو غیر عربی گھوڑوں پر برتری حاصل رہی، تو منذر ہے کہا میں کسی کی معمولی کارکردگی نہ ہونے کی طرح نہ سمجھوں گا یہ بات حضرت عمر (رض) کو معلوم ہوئی تو فرمایا کہ اس کی ماں اس جیسا دوسرا لانے سے عاجر ہے جو اس نے ذکر کردیا کر گزروجو وہ کہہ رہا ہے۔ (الشافعی، متفق علیہ)
فائدہ :۔۔۔ یہاں اصل عبارت میں لفظ ” ھبلت الواعی امہ “ ہے یہ جملہ عام طور پر بددعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی مدح واستحسان میں بھی استعمال ہوتا ہے (جیسے یہاں ہوا ہے) مراد یہ ہے کہ وہ کتنا بڑا عالم اور صائب الرائے ہے “۔ واللہ اعلم باالصواب۔ (مترجم) (دیکھیں مصاح اللغات بر 974 کالم مادہ ب ل)

11561

11561- عن علي قال: القسمة لمن شهد الوقعة. "عد ق".
11557 ۔۔۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ تقسیم میں اسی کا حصہ ہے جو جنگ کے دوران موجود ہے “۔ (کامل ابن عدی ، متفق علیہ)

11562

11562- عن ثابت بن الحارث الأنصاري قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر لسهلة بنت عاصم بن عدي، ولابنة لها ولدت. "ابن سعد والحسن بن سفيان والبغوي طب وأبو نعيم" وقال في الإصابة: إسناده قوي.
11558 ۔۔۔ ثابت بن حارث الانصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیر کے دن سہلۃ بنت عاصم بن عدی اور ان کو نومولود صاحبزادی کا حصہ بھی دیا “۔ (ابن سعد، حسن بن سفیان ، بغوی، طبرانی و ابونعیم)

11563

11563- عن ثعلبة بن الحكم الليثي قال: أصبنا يوم خيبر غنما فانتهبها الناس، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وقدورهم تغلى، فقال: ما هذا؟ قالوا: نهبة يا رسول الله قال: أكفؤها فإن النهبة لا تحل فكفأ وما أبقى فيها. "طب عب هـ" [د] .
11559 ۔۔۔ ثعلبہ جن حکم اللیشی کہتے ہیں کہ خبیر کے دن ہمین بکریاں ملیں ، لوگوں نے ان کو لوٹ لیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
تشریف لائے اور ان کی ہانڈیاں ابل رہی تھیں، تو دریافت فرمایا یہ کیا ہے ؟ عرض کیا کہ لوٹ کا مال ہے یارسول اللہ ! فرمایا کہ الٹ دو ان ہانڈیوں کو، کیونکہ لوٹ حلال نہیں ، چنانچہ تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں اور کچھ نہ باقی رہا “۔ (طبرانی ، عبدالرزاق، ابن ماجہ، ابوداؤد)

11564

11564- عن أبي مالك الأشعري أنه قدم هو وأصحابه في سفينة، فلما أرسوا وجدوا إبلا كثيرة من إبل المشركين، فأخذوها فأمرهم أن ينحروا منها بعيرا ليستعينوا به، ثم مضى على قدميه حتى قدم على النبي صلى الله عليه وسلم، فأخبره بسفره وأصحابه والإبل التي أصابوا، ثم رجع إلى أصحابه، فقال الذين عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعطنا يا رسول الله من هذه الإبل، فقال: اذهبوا إلى أبي مالك، فلما أتوه قسمها أخماسا خمسا بعث به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأخذ ثلث الباقي بعد الخمس، فقسمه بين أصحابه، والثلثين الباقيين بين المسلمين، فجاؤا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: ما رأينا مثل ما صنع أبو مالك بهذا المغنم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت أنا ما صنعت إلا ما صنع. "طب".
11560 ۔۔۔ حضرت ابومالک الاشعری (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں آرہے تھے، جب ایک جگہ کشتی کنارے لگی تو انھوں نے مشرکین کے بہت سے اونٹ پائے تو ان کو پکڑلیا اور حکم دیا کہ ان میں سے ایک اونٹ کو نحر کریں تاکہ اس کے ذریعے خوراک کا مسئلہ حل ہو پھر اپنے قدموں پر چل پڑے یہاں تک جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں تشریف لائے، اور اپنے ساتھیوں ، سفر اور اونٹوں کی تفصیلات بیان کیں، پھر اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گئے، جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں موجود تھے بولے کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمٰن بھی ان اونٹوں میں سے کچھ عطا فرما دیجئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابومالک کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ حضرت مالک (رض) کے پاس آئے تو انھوں نے ان اونٹوں کو پانچ پانچ کرکے تقسیم کردیا، پانچ اونٹ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں روانہ کردیئے، اور خمس کے بعد باقی تہائی روک لیا اور اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور باقی دوثلث کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا، چنانچہ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں تشریف لائے ، اور عرض کیا کہ جو کچھ ابو مالک نے اس غنیمت کے ساتھ کیا وہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو میں بھی یہی کرتا “۔ (طبرانی)

11565

11565- عن حبيب بن مسلمة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفل من المغنم في بدأته الربع، وفي رجعته الثلث. "ش وأبو نعيم".
11561 ۔۔۔ حبیب بن ملحد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت کی ابتداء میں چوتھائی چوتھائی تقسیم کرتے تھے اور بعد میں تہائی تہائی۔ (ابن ابی شیبہ، ابونعیم)

11566

11566- وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم نفل الثلث بعد الخمس. "ش".
11562 ۔۔۔ حبیب بن مسلمۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس کے بعد تہائی دیا “۔ (ابن ابی شیبہ)

11567

11567- وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينفل في بدأته الربع وفي رجعته الخمس. "أبو نعيم".
11563 ۔۔۔ حبیب بن مسلمۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شروع میں چوتھائی تقسیم فرماتے اور بعد میں خمس “۔ (ابونعیم)

11568

11568- وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينفل في الغزو الربع بعد الخمس في البدأة وينفل في القفل الثلث بعد الخمس. "أبو نعيم".
11564 ۔۔۔ حبیب بن مسلمہ ہی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ میں شروع میں خمس کے بعد چوتھائی تقسیم فرماتے اور واپسی کے دوران خمس کے بعد تہائی “۔ (ابونعیم)

11569

11569 - وعنه قال: جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم السلب للقاتل. "طب".
11565 ۔۔۔ حبیب بن مسلمۃ ہی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتول کا مال قاتل ہی کودے دہا “۔ (طبرانی)

11570

11570- عن مكحول عن الحجاج بن عبد الله البصري قال: النفل حق نفل رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ش طب والحسن بن سفيان والبغوي وأبو نعيم كر".
11566 ۔۔۔ مکحول ، حجاج بن عبداللہ البصری روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں نقل حق ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی نفل عطا فرمایا ہے “۔ (ابن ابی شیبہ، طبرانی، حسن بن سفیان ، بغوی، ابونعیم)
فائدہ :۔۔۔ یہاں نفل سے مراد مال غنیمت تقسیم کرنا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11571

11571- عن رعية السحيمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إليه كتابا فرقع به دلوه، فمرت به سرية لرسول الله صلى الله عليه وسلم فاستاقوا إبلا له فأسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما ما أدركت من مالك بعينه قبل أن يقسم فأنت أحق به. "حم عب".
11567 ۔۔ رعیہ سحیمی فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف خط لکھا تو انھوں نے اس خط کو بطور پیوند کے اپنے ڈول میں لگالیا، اسی دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھیجا ہوا دستہ وہاں سے گزرا تو انھوں نے ان کے اونٹ لے لیے اور یہ مسلمان ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ تقسیم ہونے سے پہلے پہلے جو کچھ تو اپنے مال میں سے پالے توتوہی اس کا زیادہ حق دار ہے “۔ (مسند احمد عبدالرزاق)

11572

11572- عن الشعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى رعية السحيمي بكتاب فأخذ كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقع به دلوه فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فأخذوا أهله وماله وأفلت رعية على فرس عريانا ليس عليه شيء، فأتى ابنته وكانت متزوجة في بني هلال وكانوا أسلموا وأسلمت معهم، وكان يجلس القوم بفناء بيتها، فأتى البيت من وراء ظهره، فلما رأته ابنته عريانا ألقت عليه ثوبا، وقالت: مالك؟ قال: كل الشر نزل بأبيك، ما ترك لي أهل ولا مال، قال: وأين بعلك؟ قالت:في الإبل، فأتاه فأخبره، قال: خذ راحلتي برحلي ونزودك من اللبن، قال لا حاجة لي فيه، ولكن أعطني قعود الراعي، وإداوة من ماء، فإني أبادر محمدا لا يقسم أهلي ومالي، فانطلق، وعليه ثوب إذا غطى به رأسه خرجت أسته، وإذا غطى به أسته خرج رأسه، فانطلق حتى دخل المدينة ليلا وكان بحذاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر، قال: يا رسول الله ابسط يدك فلأبايعك، فبسط رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، فلما ذهب رعية ليمسحها قبضها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: له رعية يا رسول الله ابسط يدك، قال: ومن أنت؟ قال رعية السحيمي: فأخذ بعضده رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفعها، ثم قال: أيها الناس هذا رعية السحيمي الذي كتبت إليه، فأخذ كتابي فرقع به دلوه، فأسلم، ثم قال: يا رسول الله أهلي ومالي؟ فقال: أما مالك فقسم بين المسلمين، وأما أهلك فانظر من قدرت عليه منهم، قال: فخرجت فإذا ابن لي قد عرف الراحلة، وإذا هو قائم عندها، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: هذا ابني، فأرسل معي بلالا، فقال: أبوك هو؟ قال: نعم، فدفعه إليه، قال: فأتى النبي صلى الله عليه وسلم بلال، فقال له: والله ما رأيت واحدا منهما مستعبرا "أخذته العبرة وهي البكاء. ح" إلى صاحبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:ذاك جفاء الأعراب. "ش".
11568 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رعتہ کی طرف خط لکھا ، رعیۃ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خط وک لے کر اپنے ڈول میں بطور پیوند استعمال کرلیا چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ روانہ فرمایا، اس دستے والوں نے رعیۃ سحیمی اہل و عیال اور مال کو پکڑلیا اور رعیۃ اپنے گھوڑے پر نکلنے میں کامیاب ہوگئے وہ بالکل بےلباس تھے ان کے جسم پر کچھ نہ تھا، وہ اپنی بیٹی کے گھر آئے جس کی شادی بنوھلال میں ہوئی تھی اور بنوھلال کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی بھی مسلمان ہوچکی تھی اور اس وقت قبیلے والے ان کی بیٹی ہی کے ضمن میں بیٹھے تھے، چنانچہ رعیہ گھر کی پچھلی طرف سے آئے جب ان کی بیٹی نے ان کو بےلباس دیکھا تو ایک کپڑا دیا اور پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا، انھوں نے کہا کہ تمام برائیاں تیرے باپ پر نازل ہوگئیں نہ میرا مال چھوڑا گیا اور نہ گھر والے ، پھر اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تیرا شوہر کہاں ہے ؟ کہا کہ اونٹوں میں ہے چنانچہ رعیہ اپنے داماد کے پاس آئے اور اس کو تفصیل بتائی داماد نے کہا کہ میری بیٹی سے پوچھا کہ تیرا شوہر کہاں ہے ؟ کہا کہ اونٹوں میں ہے چنانچہ رعیہ اپنے داماد کے پاس ہوگئیں نہ میرا مال چھوڑا گیا اور نہ گھر والے، پھر اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تیرا شوہر کہاں ہے ؟ کہا کہ اونٹوں میں ہے چنانچہ عریہ اپنے داماد کے پاس آئے اور اس کو تفصیل بتائی داماد نے کہا کہ میری سواری لے لیں ، زادراہ کے طور پر آپ کو دودھ بھی دیں گے، رعیہ نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے چرواہے کی لکڑی اور پانی وغیرہ کا سامان (دو میں) فوراً محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں کہیں میرے اھل اور مال کو تقسیم ہی نہ کردیں ، اور چل پڑے اور ان کے پاس جو کپڑا اس سے جب چھپائے توسرین ننگے ہوجاتی اور سرین ڈھانپتے تو سرننگا ہوجاتا ، بہرحال چل پڑے اور رات کے وقت مدینہ منورہ پہنچے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تھے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز پڑھاچکے تو رعیہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں بیعت کرلوں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بڑھایا، جب رعیہ پاتھ بڑھانے لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک واپس کھینچ لیا، رعیہ نے پھر کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنا دست مبارک بڑھایئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ تم کون ہو ؟ جواب میں عرض کیا کہ رعیہ سحیمی ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بازو سے پکڑلیا اور بلند کیا پھر فرمایا کہ اے لوگو ! یہ رعیہ سحیمی ہے جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے میرے خط کو پیوند بنالیا تھا اب مسلمان ہوگیا ہے، رعیہ نے پھر عرض کیا یارسول اللہ ! میرے گھر والے اور میرا مال ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تیرا مال تو مسلمانوں میں تقسیم ہوگیا، رہے تیرے گھر والے تو دیکھو جو ملتا ہے لے لو، رعتہ کہتے ہیں کہ میں نکلاتو میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا کھڑا ہے اور سواری کو پہچان لیا ہے اور اس کے پاس ہی کھڑا ہے، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو میرے ساتھ روانہ فرمایا، انھوں نے جاکر پوچھا کہ کیا یہی تیرا باپ ہے ؟ اس نے کو جی ہاں چنانچہ اس کو میرے حوالے کردیا ، پھر حضرت بلال (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ خدا کی قسم ان میں سے ایک کو بھی میں نے دوسرے کے لیے آنسو بہاتے نہیں دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تو دیہاتیوں کی سخت دلی ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11573

11573- عن رعية السحيمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إليه كتابا في أديم أحمر، فرقع به دلوه، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فلم يدعوا له سارحة ولا بارحة ولا أهلا ولا مالا إلا أخذوه، فأفلت عريانا، ومضى إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فأتاه مع صلاة الصبح وهو يصلي، فلما قضى صلاته قال: ابسط يدك أبايعك، فبسط رسول الله صلى الله عليه وسلم يده فلما اراد ان يضرب عليهما قبضها رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل ذلك مرارا، ثم أقبل عليه فقال: رعية السحيمي فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم بعضده، فرفعها من الأرض، وقال: هذا رعية السحيمي، كتبت إليه كتابا فرقع به دلوه، وقال رعية: مالي وولدي، فقال: أما مالك فهيهات قد قسم، وأما ولدك وأهلك فمن أصبت منهم، فمضى، ثم عاد وإذا ابنه قد عرفه، فرجع إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: هذا ابني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال اخرج معه، فإن زعم أنه ابنه فادفعه، فخرج معه، فقال: هو أبي فدفعه إليه، وأقبل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ذكر أنه ابنه،وما رأيت أحد منهما استعبر إلى صاحبه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ذاك جفاء الأعراب. "طب".
11569 ۔۔۔ رعیۃ سحیمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سرخ چمڑے پر خط لکھا تو اس کا پیوند بناکر اپنے ڈول میں لگالیا، اس بات کی اطلاع جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ روانہ فرمایا جس نے ان کے نہ دن کو جانے والے جانور چھوڑے ، نہ رات کو چرکر آنے والے ، نہ گھر والے نہ مال و اسباب بلکہ سب کچھ لے لیا، رعیۃ بےلباس کی حالت میں نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ ہوئے اور صبح کی نماز کے وقت وہاں پہنچے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز فجر اور فرما رہے تھے جب نماز مکمل فرماچکے تو رعیہ نے عرض کیا کہ، اپنا ہاتھ بڑھاپے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا، چنانچہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست مبارک پڑھایا جب رعیہ ہاتھ بڑھایا جب رعیہ ہاتھ بڑھانے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک پیچھے کھینچ لیا، چند مرتبہ اسی طرح ہوا ، پھر سامنے آئے اور عرض کیا کہ میں رعیہ سحیمی ہوں ، تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں باز و سے پکڑ کر زمین سے اٹھالیا اور فرمایا کہ یہ رعیۃ اسحیمی ہیں ، میں نے ان کو خط لکھا تھا جس کا انھوں نے پیوند بناکر ڈول میں لگالیا، رعیۃ نے عرض کیا، میرے گھر والے اور میرا مال ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مال تو تیرا تقسیم ہوچکا رہا تیرا بیٹا اور گھر والے تو دیکھ لوکون ملتا ہے ؟ چنانچہ ، وہ روانہ ہوئے پھر واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے ان کو پہچان لیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف واپس آئے اور عرض کیا یہ میرا بیٹا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے بلال ان کے ساتھ جاؤ اور اگر معلوم ہو کہ وہ ان کا بیٹا ہے تو ان کے حوالے کردو، چنانچہ حضرت بلال (رض) روانہ ہوئے تو اس لڑکے نے کہا کہ یہ میرے والد ہیں تو حضرت بلال (رض) نے بیٹا ان کے حوالے کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آئے اور عرض کیا وہ اسی کا بیٹا ہے اور میں نے دونوں میں سے ایک کو بھی دوسرے کے لیے آنسو بہاتے نہیں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تو دیہاتیوں کی سخت دلی ہے “۔ (طبرانی)

11574

11574- عن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نفل في البدأة الربع، وفي الرجعة الثلث. "ش" [هـ] .
11570 ۔۔۔ حضرت عبادۃ بن الصامت (رض) فرماتے ہیں کہ جاتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوتھائی عطا فرماتے اور واپسی کے دوران تہائی تہائی۔ (ابن ابی شیبہ ، ابن ماجہ)

11575

11575- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم جعل للفارس ثلاثة أسهم سهما له وسهمين لفرسه. "ش".
11571 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوار کے لیے تین حصے مقرر فرمائے، ایک حصہ خود اس کے لیے اور دوحصے اس کے گھوڑے کے لیے “۔ (ابن ابی شیبہ)

11576

11576- عن ابن عمر قال: خرجت في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة فلقينا العدو فشددت على رجل فطعنته فتنظرته وأخذت سلبه فنفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
11572 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک جنگ میں گئے جب دشمن سے سامنا ہوا تو میں نے ایک شخص کو نیزہ مارا اور اس کو مہلت دی اور اس کا مال چھین لیا، جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ مال مجھے ہی عنایت فرمادیا “۔

11577

11577- عن ابن عمر قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية إلى نجد، فأصبنا نعما كثيرة، فنفلنا صاحبنا الذي كان علينا بعيرا بعيرا، ثم قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بما أصبنا فكانت سهماننا بعد الخمس اثنى عشر بعيرا، فكان لكل رجل منا ثلاثة عشر بعيرا بالبعير الذي نفلنا صاحبنا وما حاسبنا به سهماننا. "ش" [د] .
11573 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک دستے کے ساتھ نجد کی طرف بھیجا تو ہمیں بہت سے چوپائے ملے تو ہمارے امیر جو ہمارے ساتھ تھے انھوں نے ہمیں ایک ایک اونٹ دیا پھر ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنے حصوں کے ساتھ پہنچے، تو ہمارا حصہ خمس کے بعد بارہ اونٹ تھے تو ان میں سے ہر شخص کے لیے تیرہ (13) اونٹ تھے بشمول اس اونٹ کے جو ہمیں ہمارے امیرنے دیئے تھے، اور ہمارا حصہ اس میں سے نہیں گنا گیا “۔ (ابن ابی شیبہ ، ابوداؤد)

11578

11578- عن ابن عمر قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية إلى نجد فبلغت سهماننا اثنى عشر بعيرا، ونفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا بعيرا. "ش".
11574 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک دستے کے ساتھ نجد کی طرف بھیجا تو ہمارا حصہ بارہ اونٹوں تک پہنچ گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ہمیں ایک ایک اونٹ دیا (ابن ابی شیبہ)

11579

11579- عن عمير مولى لأبي اللحم قال: شهدت خيبر وأنا عبد مملوك، فلما فتحوها أعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم سيفا، فقال: تقلد هذا، وأعطاني من خرثي المتاع ولم يضرب لي بسهم. "ش".
11575 ۔۔۔ ابی اللحم کے آزاد کردہ غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنے آقا کے ساتھ خبیر کی جنگ میں موجود تھا، جب فتح ہوگئی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ، کہ کیا مجھے حصہ ملے گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار فرمادیا پھر مجھے کم قیمت اور ردی مال عطا فرمایا۔

11580

11580- عن عمير مولى لأبي اللحم قال: شهدت مع سيدي خيبر فلما فتحت سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقسم لي؟ فأبى أن يقسم لي، وأعطاني من خرثي المتاع. "أبو نعيم".
11576 ۔۔۔ حضرت ابی اللحم کے آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں کہ میں جنگ خبیر میں موجود تھا جبکہ میں ایک غلام تھا اور کسی کی ملکیت تھا، جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تلوار عطا فرمائی اور فرمایا کہ اسے لٹکا اور مجھے کم قیمت مال عطا فرمایا اور میرے لیے باقاعدہ حصہ نہیں نکالا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11581

11581- عن أبي موسى قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعدما فتحت خيبر بثلاث، فأسهم لنا ولم يسهم لأحد لم يشهد الفتح غيرنا. "ش ع كر".
11577 ۔۔۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کی فتح کے تین دن بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں ہم حاضر ہوئے، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حصے عطا فرمایا اور کسی ایسے شخص کے لیے حصہ نہیں دیا جو فتح میں موجود نہ تھا “۔ (ابن ابی شیبہ، مسند ابی یعلی)

11582

11582- عن أبي هريرة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم أبان بن سعيد بن العاص على سرية من المدينة، فقدم أبان وأصحابه على رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر بعد فتحها وإن حزم خيلهم لليف، فقال أبان: اقسم لنا يا رسول الله، قال أبو هريرة: فقلت لا تقسم لهم يا رسول الله، فقال أبان أنت بها وبر تحدر من رأس ضأن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اجلس يا أبان ولم يقسم لهم. "الحسن بن سفيان وأبو نعيم".
11578 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابان بن سعید ب العاص کو مدینہ منورہ سے ایک دستہ دے کر بھیجا، چنانچہ ابان اور ان کے ساتھی خبیر کی فتح کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور ان کے گھوڑوں کے تنگ کھجور کی چھال کے تھے، حضرت ابان نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا حصہ عطا فرمایئے حضرت ابو ہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کو حصہ نہ دیجئے تو حضرت ابان نے مجھ سے کہا کہ تم بالوں کا گچھا ہو جو بھیڑے کے سر سے گرا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اے ابان تم بیٹھ جاؤ، لیکن ان کو حصہ نہیں دیا۔ (الحسن بن سفیان اور ابونعیم)

11583

11583- عن أبي هريرة قال: ما شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مغنما إلا قسم لي إلا خيبر، فإنها كانت لأهل الحديبية خاصة، وكان أبو هريرة وأبو موسى جاءا بين الحديبية وخيبر. "يعقوب بن سفيان كر".
11579 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس جنگ میں شریک ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حصہ عطا فرمایا علاوہ خبیر کے کیونکہ وہ خاص اہل حدیبیہ کے لیے تھا “ اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابوموسی (رض) حدیبیہ اور خبیر کے درمیان آئے تھے۔ (یعقوب بن سفیان)

11584

11584- عن مكحول أن النبي صلى الله عليه وسلم جعل للفارس ثلاثة أسهم سهمين لفرسه وسهما له. "ش".
11580 ۔۔۔ مکحول فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوار کے لیے تین حصے مقرر کئے ، دوحصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ سوار کے لئے۔ (ابن ابی شیبہ)

11585

11585- عن مكحول قال: أسهم النبي صلى الله عليه وسلم يوم خيبر للفرس سهمين وللرجل سهما. "ش".
11581 ۔۔۔ مکحول فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیر کے دن گھوڑے کے لیے دوحصے مقرر کئے اور اس کے سوار کے لیے ایک۔ (ابن ابی شیبہ)

11586

11586- عن سعيد بن المسيب قال: لا نفل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ش".
11582 ۔۔۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی عطا نہیں “۔ (ابن ابی شیبہ)

11587

11587- أنبأنا معمر عن قتادة قال: سألت ابن المسيب عن رجل له سهم في غنم، أيبيعه قبل أن يقسم؟ قال: نعم، فقلت قد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع المغانم حتى تقسم، قال: إن المغانم يكون فيها الذهب والفضة قال معمر: ولا يدري كم سهمه من المغنم. "عب".
11583 ۔۔۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی فرمایا کہ میں نے ابن المسیب سے پوچھا اس شخص کے بارے میں جس کا غنیمت میں حصہ تھا کہ وہ اپنے حصے کو تقسیم سے پہلے فروخت کرسکتا ہے ؟ سعید بن المسیب نے فرمایا ، کہ وہاں ، میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے، سعید نے فرمایا ہے، سعید نے فرمایا کہ غنیمت میں سونا اور چاندی بھی ہوتے ہیں، معمر کہتے ہیں کہ اور وہ نہیں جانتا کہ مال غنیمت میں اس کا حصہ کتنا ہے “۔ (عبدالرزاق)

11588

11588- عن حشرج بن زياد الأشجعي عن جدته أم أبيه أنها غزت مع النبي صلى الله عليه وسلم عام خيبر وهي سادسة ست نسوة، فبلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبعث إلينا، فقال: بأمر من خرجتن؟ ورأينا فيه الغضب، فقلنا: خرجنا ومعنا دواء نداوي به، ونناول السهام ونسقي السويق ونغزل الشعر نعين به في سبيل الله، فقال لنا: أقمن قالت: فكنا نداوي الجرحى، ونصلح لهم الطعام، ونرد لهم السهام، ونصلح لهم الدواء ونصيب منهم، فلما فتح الله عليه خيبر قسم لنا كما قسم للرجال، قلت: يا جدة وما كان ذلك؟ قالت: تمرا. "ش وابن زنجويه".
11584 ۔۔۔ حشرج بن زیادالاشجعی اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں فرماتی ہیں کہ انھوں نے خبیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کیا تھا، اور یہ چھ خواتین میں سے چھٹی تھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ معلوم ہوا چنانچہ انھوں نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ تم کس کے حکم سے نکلیں ؟ اور ہم نے محسوس کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے میں ہیں ہم نے وعرض کیا کہ ہم دوائیں وغیرہ لے کر آئیں ہیں جس سے ہم علاج کریں گی اور حصہ وصول کریں گی ، ستو پلائیں گی، اور جنگی اشعار سنائیں گی اور اللہ کے راستے میں مدد کریں گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کھڑی ہوجاؤ، فرماتی ہیں کہ ہم زخمیوں کو دوا وغیرہ دیتی تھیں اور ان کے لیے کھانا وغیرہ بناتی تھیں ، ان کو تیر وغیرہ دیتی تھیں اور دوا وغیرہ تیار رکھتیں تھیں اور جب جنگ خبیر میں فتح ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے لیے بھی اسی طرح حصہ مقرر فرمایا جس طرح مزدوری کے لیے مقرر فرمایا تھا میں نے عرض کیا کہ اے دادی اماں ! وہ حصہ کیا تھا فرمایا کہ کھجوریں “ (ابن ابی شیبہ، ابن زنجویہ)

11589

11589- عن عبد الله بن مغفل قال: دلي جراب من شحم يوم خيبر فالتزمته، وقلت هذا لا أعطي أحدا منه شيئا، فالتفت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم يتبسم فاستحييت. "ش".
11585 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ خبیر کے دن ایک چربی کا تھیلا ملا میں نے اس کا اھتمام سے اپنے پاس رکھا اور خود سے کہنے لگا کہ اس سے میں کسی کو کچھ نہ دوں گا، اتنے میں میں نے مڑ کر دیکھا تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا رہے تھے تو مجھے حیا آگئی “۔ (ابن ابی شیبہ)

11590

11590- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ذكوان مولى عائشة أن درجا أتي به عمر بن الخطاب فنظر اكثر أصحابه، فلم يعرفوا قيمته، فقال: أتأذنون ان أبعث به إلى عائشة؟ لحب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياها، قالوا: نعم فاتي به عائشة، فقالت: ماذا فتح على ابن الخطاب بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ع".
11586 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ذکوان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس خواتین کے استعمال کا سامان خوشبو وغیرہ رکھنے کا تھیلا لایا گیا “ حضرت عمر (رض) کے ساتھیوں نے بھی دیکھا لیکن اس کی قیمت کا اندازہ نہ کرسکے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر تم اجازت دو میں یہ تھیلا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس بھیجوادوں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے خصوصی محبت فرمایا کرتے تھے، ساتھیوں نے عرض کیا جی ہاں بھجوا دیجئے تو میں یہ تھیلا لے کر ام المومنین (رض) کی خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت عمر (رض) نے کیا فتح کرلیا (مسند ابی یعلی

11591

11591- عن مطرف عن بعض أصحابه قال: اشترى طلحة بن عبيد الله أرضا من نشاستج نشاستج بني طلحة فأتى عمر بن الخطاب فذكر ذلك له فقال عمر: ممن اشتريتها؟ قال: اشتريتها من أهل الكوفة، من أهل القادسية فقال طلحة: وكيف اشتريتها من أهل القادسية كلهم؟ قال إنك لم تصنع شيئا إنما هي فيء. "كر".
11587 ۔۔۔ مطرف اپنے ساتھیوں سے روایت کرتے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ طلحۃ بن عبید اللہ نے بنوطلحہ کے نشاستج میں سے کچھ خریدا پھر حضرت عمر کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور تفصل بیان کی ، حضرت عمر (رض) نے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کس سے خریدا ہے ؟ یہ میں نے کوفہ میں قادسیہ والوں سے خریدا ہے ، طلحہ نے کہا تم نے یہ سب کے سب اہل قادسیہ سے کیسے خریدلیا ؟ فرمایا کہ تم نے کچھ نہیں کیا یہ تو مال فے ہے “۔

11592

11592- عن قتادة عن رجاء بن حيوة عن قبيصة بن ذؤيب أن عمر بن الخطاب قال: فيما أحرزه المشركون ما أصابه المسلمون فعرفه صاحبه قال: إن أدركه قبل أن يقسم فهو له وأن....
11588 ۔۔۔ قتادہ سے وہ رجاء بن حیوۃ سے اور وہ قبیصہ بن ذؤیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا، کہ جو مشرکوں نے جمع کر رکھا ہے ان میں سے جو مسلمانوں کو ملا اور اس مال والے نے اس کو پہچان لیا، فرمایا کہ اگر مال کو تقسیم سے پہلے پالیا تو اسی کا ہے اور اگر۔۔۔

11593

11593- عن الوليد بن عبيد الله عن أبيه قال: بلغ عليا أن الأشتر قال: ما بال ما في العسكر يقسم ولا يقسم ما في البيوت؟ فأرسل إليه، فقال: أنت القائل كذا؟ قال: نعم، قال: أما والله ما قسمت عليكم إلا سلاحا من مال الله كان في خزانة المسلمين أجلبوا به عليكم، فنفلتكموه ولو كان لهم ما أعطيتكموه، ولرددته على من أعطاه الله إياه في كتابه، إن الحلال حلال أبدا، وإن الحرام حرام أبدا، والله لئن بثثتم لي الوشاة وبايعتموني لأسيرن فيكم سيرة تشهد لي التوراة والإنجيل والزبور أني قضيت بما في القرآن وأحسن أدبه بالدرة. "كر".
11589 ۔۔۔ ولید بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت علی (رض) کو معلوم ہوا کہ اشترنے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ جو کچھ لشکر میں ہوتا ہے وہ تقسیم کیا جاتا ہے اور جو گھروں میں ہوتا ہے وہ تقسیم نہیں ہوتا ؟ حضرت علی (رض) نے اس کو بلا بھیجا اور دریافت فرمایا کہ کیا تو نے یہ بات کہی ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں، تو فرمایا کہ واللہ میں نے تم پر اللہ کے مال میں سے اسلحہ کے علاوہ کچھ تقسیم نہیں کیا جو مسلمانوں کے خزانے میں تھا، جو وہ لے کر تمہاری طرف آئے تھے، سو وہ مال میں نے تمہیں عطا فرمایا اگر وہ ان کو ہوتا تو میں ہرگز تمہیں نہ دیتا اور اسی کی طرف لوٹا دیتا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں عطا فرمایا حلال ہوتا ہے اور حرام ہمیشہ حرام ہوتا ہے، خدا کی قسم اگر تم میرے بارے میں ملامت گروہ کی خبریں پھیلا دو اور میرے ہاتھ پر بیعت کرلو تو میں تمہارے بارے میں ایسی سیرت اختیار کروں گا کہ توریت، زبور اور انجیل بھی اس بات کی گواہی دیں گی کہ میں نے وہی فیصلہ کیا ہے کہ جو قرآن میں ہے اور کوڑے سے خوب خبرلی۔

11594

11594- عن سفيان عن رجل أن عمر أتي بسبي فأعتقهم. "ش".
11590 ۔۔۔ سفیان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس قیدی لائے گئے تو آپ (رض) نے ان کو آزاد کردیا “۔ (ابن ابی شیبہ)

11595

11595- عن سليمان بن موسى قال: قال عمر لا نفل في أول غنيمة ولا نفل بعد الغنيمة، ولا يعطى من المغنم شيء حتى يقسم، إلا لراع أو حارس أو سائق غير موليه. "ش".
11591 ۔۔۔ سبحان بن موسیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ غنیمت کے شروع میں کوئی عطا نہیں اور غنیمت کے بعد بھی کوئی عطا نہیں ، اور تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کچھ نہ دیا جائے گا علاوہ چراو ہے کے، یاچوکیدار کے یا کسی اور کے ہنکانے والے کے “۔ (ابن ابی شیبہ)

11596

11596- عن الحسن عن عمر قال: لا تشتروا رقيق أهل الذمة وأرضهم، قيل للحسن: لم؟ قال: لأنهم فيء للمسلمين. "أبو عبيد".
11592 ۔۔۔ حسن حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ ذمیوں کے غلاموں اور زمینوں کو نہ خریدو، حضرت حسن سے پوچھا گیا کہ کیوں ؟ فرمایا کیونکہ وہ مسلمانوں کے لیے مال فے کی حیثیت رکھتے ہیں “۔ (ابوعبید)

11597

11597- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن عمرو بن شعيب قال: إذا وجد الغلول عند الرجل أخذ وجلد مائة وحلق رأسه ولحيته وأحرق رحله، وما كان في رحله من شيء إلا الحيوان، ولم يأخذ سهما في المسلمين أبدا قال: وبلغني أن أبا بكر وعمر كانا يفعلانه. "ش".
11593 ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی مسند سے عمروبن شعیب روایت کرتے ہیں کہ فرمایا کہ جب کوئی شخص خائن پایا جائے اس سے مال لے لیا جائے گا اور سوکوڑے لگائے جائیں گے، اس کا سر اور داڑھی مونڈدی جائے گی اور اس کی سواری جلادی جائے، اور جو کچھ بھی اس کی سواری میں ہو علاوہ حیوان کے، اور وہ کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ کبھی بھی حصہ نہ لے سکے گا “۔ (ابن ابی شیبہ)

11598

11598- عن عمر لما كان يوم خيبر أقبل بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: فلان شهيد، فلان شهيد، حتى مروا على رجل فقالوا: فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كلا إني رأيته في النار في بردة غلها، أو عباءة، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون، فخرجت فناديت أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون. "ش حم م ت والدارمي".
11594 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن بعض صحابہ کرام (رض) تشریف لائے اور فرمایا کہ فلاں شہید ہوگئے ہیں اور فلاں شہید ہوگئے ہیں یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس سے گزرے اور کہا کہ فلاں بھی شہید ہوگیا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، میں اسے آگ کی اس چادر میں لپٹے ہوئے دیکھ رہاہوں جو اس نے بطور خیانت مال غنیمت سے اٹھالی تھی، پھر جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابن الخطاب جاؤ اور لوگوں کو بتادو کہ جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے، چنانچہ میں نکلا اور اعلان کیا کہ جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے “۔ (ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، مسلم ترمذی، دارمی)

11599

11599- عن عبد الله بن أنيس أنه تذاكر هو وعمر بن الخطاب الصدقة، فقال عمر: ألم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ذكر غلول الصدقة من غل منها بعيرا أو شاة أتي به يوم القيامة يحمله؟ فقال عبد الله بن أنيس: بلى. "هـ وابن جرير ص".
11595 ۔۔۔ حضرت عبید (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت عمر (رض) صدقہ کا تذکرہ کررہے تھے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ کیا تو نے سنا نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صدقہ میں غلول کا ذکر فرمایا کہ جس نے اونٹ کی خیانت یا بکری کی خیانت کی، قیامت کے دن وہ اس جانور کو اٹھائے ہوئے ہوگا تو حضرت عبیداللہ بن انیس (رض) نے فرمایا جی یاں “۔ (ابن ماجہ، ابن جریر، سنن سعیدبن منصور)

11600

11600- عن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني ممسك بحجزكم عن النار وأنتم تقاحمون فيها تقاحم الفراش والجنادب ويوشك أن أرسل حجزكم وأفرض لكم على الحوض فتردون علي معا وأشتاتا فأعرفكم بأسمائكم وسيماكم كما يعرف الرجل الغريبة من الإبل في إبله، فيذهب بكم ذات الشمال وأناشدكم فيه رب العالمين فأقول: يا رب أمتي، فيقول: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك، إنهم كانوا يمشون القهقرى بعدك، فلا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل شاة لها ثغاء ينادي: يا محمد يا محمد فأقول: لا أملك لك من الله شيئا، قد بلغت، ولا اعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل بعيرا له رغاء ينادي يا محمد يا محمد، فأقول لا أملك لك من الله شيئا قد بلغت، ولا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل فرسا له حمحمة ينادي يا محمد يا محمد فأقول: لا أملك لك من الله شيئا قد بلغت ولا أعرفن أحدكم يأتي يوم القيامة يحمل قشعا من أدم ينادي يا محمد يا محمد فأقول: لا أملك لك من الله شيئا قد بلغت. "الرامهرمزي في الأمثال وسيار بن حاتم في الزهد" ورجاله ثقات.
11596 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلوؤں سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچارہا ہوں اور تم اس میں اس طرح گرے جارہے ہو جیسے پتنگے اور ٹڈیاں اور قریب ہے کہ تمہارے پہلوؤں کو چھوڑدہا جائے اور تمہیں حوض پر آنے دیا جائے تو تم میرے پاس علیحدہ علیحدہ یا جماعتوں کی شکل میں آؤگے سو میں تمہیں پہچان لوں گا تمہارے ناموں سے تمہاری علامتوں سے جیسے ایک شخص بہت سے اونٹوں میں اپنے اونٹوں کو پہچان لیتا ہے، سو تمہیں بائیں جانب لے جایا جائے گا اور میں تمہارے لیے منت سماجت کروں گا، اور عرض کروں گایارب ! میری امت تو اللہ تعالیٰ فرما ہیں گے کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا، یہ آپکے بعد الٹے قدموں پھرگئے تھے، سو میں تم میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں پہچانوں گا جو قیامت کے دن پکارتی ہوئی بکری اٹھائے ہوئے آئے گا اور فرمایا گا یامحمد یامحمد اور میں کہوں گا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا میں نے تو صاف صاف بتادیا تھا، اور میں کسی ایسے شخص کو نہ پہچانوں گا جو کسی چیختے ہوئے اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا اور پکارے گایا محمد یامحمد، تو میں اس سے کہوں گ ا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا میں تو صاف صاف بتادیا تھا اور نہ میں کسی ایسے شخص کو پہچانوں گا جو چیختے ہوئے گھوڑے کو اٹھائے ہوئے آئے گا اور پکارے یامحمدیامحمد تو میں کہوں گا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا “ میں نے تو صاف صاف بتادیا تھا اور میں اس شخص کو بھی نہ پہچانوں گا جو ایک چمڑے کا خشک ٹکڑا اٹھائے ہوئے آئے گا اور پکارے گا یامحمد یامحمد اور میں کہوں گا میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا میں نے تو صاف صاف بتادیا تھا “۔ (رامھرامری فی الامثال، اور سیاربن حاتم فی الرھد)

11601

11601- عن أبي هريرة أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عقالا من المغنم فأعرض عنه، ثم عاد فأعرض عنه، فلما أكثر عليه قال: من لك بعقال من نار؟ "كر".
11597 ۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے لناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال غنیمت میں سے ایک رسی کے بارے میں پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلوتہی کی اس نے پھر پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر پہلوتہی فرمائی، جب وہ بارباریہی پوچھنے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تجھے ایک رسی کے بدلے آگ سے کون بچائے گا

11602

11602- عن زيد بن أسلم أن عقيل بن أبي طالب دخل على امرأته فاطمة بنت عتبة بن ربيعة وسيفه متلطخ بالدماء، فقالت: قد عرفت أنك قاتلت، فما أصبت من غنائم المشركين؟ فقال: دونك هذه الإبرة، فخيطي بها ثيابك، ودفعها إليها، فسمع منادي النبي صلى الله عليه وسلم يقول: من أصاب شيئا فليرده وإن كان إبرة، فرجع عقيل إلى امرأته، فقال: ما أرى إبرتك إلا قد ذهبت عنك، فأخذ عقيل الإبرة فألقاها في الغنائم. "كر".
11598 ۔۔۔ حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ عقیل بن ابی طالب اپنے گھروالی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کے پاس گئے ان کی تلوار خون میں لت پت تھی، اھلیہ نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم قتل کرکے آئے ہو سو تمہیں مشرکین کے مال غنیمت سے کیا ملا ؟ بولے اس سوئی کو سنبھال لو اس سے اپنے کپڑے سینا اور سوئی اھلیہ کے حوالے کردی، اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نمائندے کو پکارتے سناجو کہہ رہا تھا کہ اگر کسی کو کوئی چیز ملی ہے تو واپس کردے اگرچہ وہ سوئی ہی کیوں نہ ہو، حضرت عقیل اپنی اھلیہ کے پاس واپس آئے اور کہا کے میرا خیال ہے کہ تمہاری سوئی تمہارے پاس نہ رہے گی چنانچہ سوئی واپس لی اور جا کر مال غنیمت میں جاکر ڈال دی “۔

11603

11603- عن أبي رافع قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبقيع، فقال أف أف أف وليس معه أحد غيري، فراعني فقلت: بأبي أنت وأمي قال: صاحب هذه الحفرة استعملته على بني فلان فخان بردة فأريتها عليه تلتهب. "طب".
11599 ۔۔۔ ابو رافع فرماتے ہیں کہ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقیع میں سے گزرے اور فرمایا اف، اف، جب کہ ان کے ساتھ میرے اعلاوہ اور کوئی نہ تھا سو میں خوف ذدہ ہوگیا، اور میں نے پوچھا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، فرمایا کہ اس قبر میں جو شخص ہے میں نے بنوفلاں میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا تو اس نے ایک چادر بطور خیانت اٹھالی سو میں اسے اسی دکھتی ہوئی چادر میں لپٹے ہوئے دیکھ رہاہوں “۔ (طبرانی)

11604

11604- عن عبادة بن الصامت أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى إلى بعير من المغنم، فلما فرغ من صلاته أخذ قردة بين أصبعيه، وهي وبرة، فقال: إن هذا من غنائمكم، وليس لي منه إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فأدوا الخيط والمخيط، وأصغر من ذلك وأكبر، ولا تغلوا فإن الغلول عار على أهله في الدنيا والآخرة، جاهدوا الناس في الله: القريب والبعيد، ولا تبالوا في الله لومة لائم، وأقيموا حدود الله في الحضر والسفر وعليكم بالجهاد في سبيل الله، فإنه باب من أبواب الجنة عظيم ينجي الله به من الغم والهم. "أبو نعيم كر".
11600 ۔۔۔ حضرت عبادۃ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت کے اونٹ کو سامنے کھڑاکرکے نماز ادا فرمائی، اور فارغ ہونے کے بعد ایک ٹکڑا انگلیوں میں اٹھایا یہ بالوں کا گچھا تھا، فرمایا کہ یہ بھی تمہارے مال غنیمت میں سے ہے اور اس میں سے میرے لیے خمس کے علاوہ کچھ نہیں اور خمس تم میں لوٹایا جائے گا چنانچہ سوئی اور دھاگا تک ادا کردو یا اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز بھی اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو کیونکہ مال غنیمت میں خیانت کرنا خائن کے لیے دنیا اور آخرت میں عار اور شرمندگی ہوگا، اللہ کے راستے میں لوگوں سے جہاد کرو، قریب اور دور اور اللہ کے راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرو، اور سفر میں ہو یا حضر میں اللہ کی حدود قائم کرو، اور تم پر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ضروری ہے، کیونکہ جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک عظیم دروازہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ غم اور فکر سے نجات عطا فرماتے ہیں “ ،(ابو نعیم)

11605

11605 - "الصديق رضي الله عنه" عن معمر بن عبد الكريم قال: كتب إلي أبو بكر الصديق في أسير من المشركين، وقد اعطي به كذا وكذا، فكتب أن لا تفادوا به، فاقتلوه. "أبو عبيد في كتاب الأموال".
11601 ۔۔۔ معمر بن عبدالکریم حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت فرماتے ہیں کہ مشرک قیدیوں کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے لکھا کہ (جبکہ ان قیدیوں کے بدلے ) اتنااتنا فدیہ قبول کیا جاچکا تھا کہ ان کا فدیہ نہ لو بلکہ ان کو قتل کردو “۔ (ابوعبید فی الاموال)

11606

11606- عن عمر قال: لأن أستنقذ رجلا من المسلمين من أيدي الكفار أحب إلي من جزيرة العرب. "ش".
11602 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ کافروں کے ہاتھ سے ایک مسلمان کو چھڑوالینا مجھے جزیرۃ العرب سے زیادہ پسند ہے “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11607

11607- عن ابن عباس قال قال لي عمر حين طعن: اعلم أن كل أسير كان في أيدي المشركين من المسلمين ففكاكه من بيت مال المسلمين. "ش وابن راهويه".
11603 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کو نیزہ مارا گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا، جان لو کہ مشرکوں کے پاس جتنے بھی مسلمان قیدی ہیں ان کی آزادی کے لیے مال مسلمانوں کے بیت المال سے دیا جائے گا “۔ (ابن ابی شیبہ اور ابن راھویہ)

11608

11608- عن عمر قال: لا يسترق عربي. "الشافعي ق".
11604 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کے کسی عربی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا “۔ (الشافعی، منفق علیہ)

11609

11609- عن الشعبي قال كتب عمر إلى السائب بن الأقرع: أيما رجل من المسلمين وجد رقيقه ومتاعه بعينه فهو أحق به وإن وجده في أيدي التجار بعد ما قسم فلا سبيل إليه، وأيما حر اشتراه التجار فيرد عليهم رؤس أموالهم، فإن الحر لا يباع ولا يشترى. "ق".
11605 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت سائب بن الاقرع کو لکھا کہ مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی اپنا غلام اور سازوسامان بالکل اصل پالے تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے اور اگر اس نے اپنا مال تقسیم ہونے کے بعد کسی تاجر کے پاس پایا تو اس کا اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اور کوئی بھی آزاد جسے تاجروں نے خرید لیا ہو تو ان کو اصل قیمت واپس کی جائے گی کیونکہ آزادی کی خریدو فروخت نہیں ہوسکتی “۔

11610

11610- عن أنس بن مالك أن عمر بعث أبا موسى فأصاب سبيا فقال عمر: خلوا سبيل كل أكار وزراع. "أبو عبيد".
11606 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کو روانہ فرمایا تو ان کو کچھ قیدی ملے تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کے ان میں سے جتنے بھی کسان اور کا شتکار وغیرہ ہیں ان کو چھوڑدو “۔ (ابوعبید)

11611

11611- عن إبراهيم بن محمد بن أسلم بن بحرة عن جده أسلم بن بحرة الأنصاري أن النبي صلى الله عليه وسلم جعله على أسارى قريظة فكان ينظر إلى فرج الغلام، فإذا رآه قد أنبت ضرب عنقه، وإذا لم ينبت جعله في غنائم المسلمين. "الحسن بن سفيان وابن منده واستغربه قال: ولا يثبت طب وأبو نعيم".
11607 ۔۔۔ ابراھیم بن محمد بن اسلم بن بحرۃ اپنے دادا اسلم بن بحرۃ الانصاری سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں قریظۃ کے قیدیوں پر مقرر فرمایا تھا تو وہ لڑکے کے زیرے ناف دیکھتے تھے اگر وہاں بال اگے ہوتے تو اس کو قتل کردیتے اور اگر بال نہ اگے ہوتے تو اس کو مسلمانوں کے مال غنیمت میں رکھا جاتا ہے “۔ (الحسن بن سفیان، ابن مندہ)

11612

11612- عن الأسود بن سريع قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بأسير، فقال: اللهم إني أتوب إليك ولا أتوب إلى محمد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم عرف الحق لأهله. "حم 1 طب قط في الأفراد ك هب ص".
11608 ۔۔۔ اسود بن سریع فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک قیدی لایا گیا تو وہ قیدی کہنے لگا کہ اے اللہ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور توبہ نہیں کرتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس نے اپنے گھروالوں کے لیے حق پہچان لیا “۔ (مسند احمد، طبرانی، دارقطنی، فی الافراد، مستدرک حاکم، بیھقی فی شعب الایمان سعیدبن منصور)

11613

11613- عن بكر بن مرداس عن الأعور بن بشامة ووردان بن مخرم وربيعة بن رقيع العنبريين أنهم أتوا النبي صلى الله عليه وسلم وهو في حجرته نائم إذ جاء عيينة بن حصن بسبي بني العنبر، فقلنا: ما لنا يا رسول الله سبينا وقد جئنا مسلمين؟ قال: احلفوا أنكم جئتم مسلمين، فكعت أنا ووردان وحلف ربيعة ... عبدان قال في الاصابة في إسناده من لا يعرف.
11609 ۔۔۔ بکر بن مراداعوربن مشامہ دردان بن مخزم اور ربیعہ بن رقیع العنبر یین سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں تشریف لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حجرے میں آرام فرما رہے تھے کہ اتنے میں عینیہ بن حصن بنو عنبر کے قیدی لے کر حاضر ہوئے تو ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کیا ہمارے قبیلے کے قیدی جبکہ ہم تو آپ کی خدمت اقدس میں مسلمان ہو کر آئے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کے تم قسم کھاؤ کہ تم مسلمان ہوگئے ہو، سو میں اور دردان ڈر گئے اور ربیعۃ نے قسم کھائی “۔

11614

11614- عن ثعلبة بن الحكم قال: أسرني أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذ شاب، فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن النهبة. "أبو نعيم".
11610 ۔۔۔ ثعلبہ بن الحکم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں نے گرفتار کرلیا تھا اور میں اس وقت نوجوان تھا تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ مار سے منع فرما رہے تھے “۔ (ابونعیم)

11615

11615- عن الشعبي قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبي العرب في الجاهلية أن فداء الرجل ثمان من الإبل، وفي الإثنى عشر، وشكى ذلك إلى عمر بن الخطاب، فجعل فداء الرجل أربع مائة درهم. "عب".
11611 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کے عرب قیدیوں کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کے ایک آدمی کا فدیہ آٹھ اونٹ سے بارہ اونٹ تک ہیں ، اس بات کی اطلاع حضرت عمر (رض) کو کی گئی تو آپ (رض) نے ایک آدمی کا فدیہ چارسودرھم مقرر فرمایا۔ (عبدالرزاق)

11616

11616- عن طاوس أن النبي صلى الله عليه وسلم قضى في سبي العرب في الموالى بعبدين أو ثمان من الإبل، وفي العربي بعبد أو أربع من الإبل. "عب".
11612 ۔۔۔ طاؤس فرماتے ہیں کہ عرب قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کے آزاد کردہ غلاموں کا فدیہ دو غلام یا آٹھ اونٹ اور عربی کا فدیہ ایک غلام یاچاراونٹ مقرر فرمائے “۔ (عبدالرزاق)

11617

11617- عن عكرمة قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء رقيق العرب من أنفسهم: في الرجل الذي يسبي في الجاهلية بثمان من الإبل، وفي ولد إن كان لأمة بوصيفين، وصيفين كل إنسان منهم ذكر أو أنثى، وقضى في سبيه الجاهلية بعشر من الإبل، وقضى في ولدها من العبد بوصيفين، ويفديه موالي أمه، وهم عصبتها، ولهم ميراثه ما لم يعتق أبوه، وقضى في سبي الإسلام بست من الإبل، في الرجل والمرأة والصبي. "عب".
11613 ۔۔۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ عرب غلاموں کے فدیے کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کے انہی میں سے وہ شخص جس کو زمانہ جاھلیت میں گرفتار کیا گیا تھا اس کا فدیہ آٹھ اونٹ ہوگا اور لڑکا اگر باندی کا ہو تو دو وصیف کا فیصلہ فرمایا، وصیفوں میں سے ایک مذکر ایک مونث، اور زمانہ جاہلیت کی قیدی عورت کا فدیہ ماں کے آقا اداکریں گے اور وہی اس کا عصبہ ہوں گے اور اس کی مراث بھی لیں گے جب تک باپ آزاد نہ ہوجائے ، اور زمانہ اسلام کے قیدی کا فدیہ چھ اونٹ مقرر فرمایا مرد عورت بچہ سب کے لیے “۔ (عبدالرزاق)
فائدہ :۔۔۔ وضیف اس لڑکے کو کہتے ہیں جو خدمت کرنے کے قابل ہوگیا ہو، واللہ اعلم۔ (مترجم)

11618

11618- عن رباح بن الحارث قال: كان عمر بن الخطاب يقضي فيما سبت العرب بعضها من بعض قبل الإسلام، وقبل أن يبعث النبي صلى الله عليه وسلم أن من عرف أحدا من أهل بيته مملوكا في حي من أحياء العرب ففداؤه العبد بالعبدين والأمة بالأمتين. "ابن سعد".
11614 ۔۔۔ رماح بن الحارث فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے جو عربوں نے ایک دوسرے کو قیدی بنا لیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے سے پہلے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر (رض) فیصلہ فرماتے تھے کہ اگر کسی نے اپنے گھر والوں میں سے کسی مملوک کو کسی عرب محلے میں پہچان لیا تو اس کا فدیہ ایک غلام کے بدلے دو غلام اور ایک باندی کے بدلے دوباندیاں ہوں گی “۔ (ابن سعد)

11619

11619- عن أبي أمامة قال: استضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فقيل له: يا رسول الله ما يضحكك؟ قال: قوم يساقون إلى الجنة مقرنين في السلاسل. "ابن النجار".
11615 ۔۔۔ ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے، پوچھا گیا کہ رسول اللہ ! آپ کیوں ہنسے ؟ فرمایا اس قوم کو دیکھ کر جن کو زنجیروں میں باندھ کر جنت میں لایا جارہا تھا “۔ (ابن النجار)

11620

11620- "مسند عمر رضي الله عنه" عن إبراهيم النخعي أن رجلا أسلم على عهد عمر بن الخطاب فقال: إني أسلمت فضع الخراج عن أرضي، فقال عمر: إن أرضك أخذت عنوة، فجاءه رجل فقال: أرض كذا وكذا تحتمل من الخراج أكثر مما عليها، فقال: ليس على أولئك سبيل، إنا صالحناهم. "عب وأبو عبيد في الأموال وابن عبد الحكم في فتوح مصر ق".
11616 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے ابراھیم النخعی روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں مسلمان گیا، اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں میری زمین سے خراج ہٹا دیجئے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کے تیری زمین جنگ لڑ کر حاصل کی گئی تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ فلاں فلاں زمین ہے جس میں آپ اس سے زیادہ خراج لیتے ہیں جتنا اس کی زمین پر لیتے ہیں تو فرمایا کہ ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ان سے ہم نے صلح کی ہے “۔ (عبدالرزاق، ابو عبید فی الاموال، ابن عبدلحکم، فی فتح مصر، متفق علیہ)

11621

11621- عن أبي مجلز وغيره إن عمر بن الخطاب وجه عثمان بن حنيف على خراج السواد ورزقه كل يوم ربع شاة وخمسة دراهم، وأمره أن يمسح السواد عامره وغامره، ولا يمسح سبخة، ولا تلا ولا أجمة ولا مستنقع ماء ولا ما يبلغه الماء فمسح عثمان كل شيء، دون الجبل، يعني دون حلوان إلى أرض العرب، وهو أسفل الفرات وكتب إلى عمر: إني وجدت كل شيء بلغه الماء من عامر وغامر ستة وثلاثين ألف ألف جريب، وكان ذراع عمر الذي مسح به السواد ذراعا وقبضة والإبهام مضجعة، فكتب إليه عمر أن أفرض الخراج على كل جريب عامر أو غامر عمله صاحبه أو لم يعمله درهما وقفيزا، وأفرض على الكروم على كل جريب عشرة دراهم وعشرة أقفزة، وعلى الرطاب خمسة دراهم وعشرة أقفزة وأطعمهم النخل والشجر، وقال: هذا قوة لهم على عمارة بلادهم، وفرض على رقابهم يعني أهل الذمة على الموسر ثمانية وأربعين درهما، وعلى من دون ذلك أربعة وعشرين درهما، وعلى من لم يجد شيئا اثنى عشر درهما، قال: معتمل درهم لا يعوز رجلا في كل شهر، ورفع عنه الرق بالخراج الذي وضعه في رقابهم، وجعله أكرة الأرض، فحمل من خراج سواد الكوفة إلى عمر في أول سنة ثمانين ألف ألف درهم، ثم حمل من قابل عشرين ومائة ألف ألف درهم، فلم يزل على ذلك. "ابن سعد".
11617 ۔۔۔ ابو مجلز وغیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عثمان بن حنیف کو سواد کا خراج وصول کرنے بھیجا اور ان کا روزانہ کا وظیفہ چوتھائی بکری اور پانچ درھم مقرر فرمائے ، اور حکم دیا کہ پورے سواد کی پیمائش کرلیں خواہ علاقہ آباد ہو یا بنجر البتہ شورزدہ زمین ، ٹیلوں، جھاڑیوں اور تالابوں کی پیمائش نہ کریں اور ان جگہوں کی جہاں پانی پہنچتا ہے چنانچہ حضرت عثمان (رض) بن حنیف نے جبل کے علاوہ سارے علاقے کی پیمائش کی یعنی حلوان سے لے کر عرب سرزمین تک جو فرات کے زیریں علاقے میں واقعے ہے، اور حضرت عمر (رض) کو لکھا کہ ہر وہ چیز جہاں تک پانی پہنچتا ہے خواہ آباد ہو یا بنجر اس کو میں چھتیس کروڑ جریب پایا اور حضرت عمر (رض) کا پیمانہ ایک ذراع ایک مٹھی اور ایک مڑا ہوا انگوٹھا ہوا کرتا تھا ، تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ ہر جریب خواہ آباد ہو یا بنجر ، اس پر کام ہوتا ہو یا نہ ایک درھم اور ایک قفیز مقررکرو، اور ترکھجوروں پر پانچ درھم اور دس قفیز مقرر کرو اور ان کھجور اور دیگر درختوں کے پھل کھلاؤ، اور فرمایا کہ یہ ان کے لیے ان کے شہروں کو آباد کرنے کے لیے خوراک ہوگی اور ذمیوں میں سے خوشحال پر اڑتالیس درھم اور اس سے کم پر چوبیس درھم مقرر کرو اور جس کے پاس کچھ نہ ہو تو اس پر بارہ درھم مقرر کرو، فرمایا کہ ایک معتمل درھم ہر ماہ کسی کو محتاج نہیں کرے گا، اور جو خراج ان پر مقرر کیا تھا اس کے بدلے ان سے غلامی کو دور کردیا اور اس کو زمین کا کرایہ بنادیا، چنانچہ پہلے سال سواد کوفہ کے خراج سے آٹھ کروڑدرھم لیے گئے پھر آئندہ سال بارہ کروڑ درھم لے کرگئے اور یہ سلسلہ چلتارہا “۔ (ابن سعد)

11622

11622- عن عمرو بن الحارث قال: كان عمرو بن العاص يبعث بجزية أهل مصر وخراجها إلى عمر بن الخطاب كل سنة بعد حبس ما كان يحتاج إليه، ثم إنه استبطأ عمرو بن العاص في الخراج، فكتب إليه بكتاب يلومه في ذلك، ويشدد عليه، ويقول له في كتابه: فلا تجزع أبا عبد الله أن تؤخذ بالحق وتعطيه، فإن الحق أبلج، فذرني وما عنه يلجلج، وقد برح الخفاء فكتب إليه عمرو بن العاص يجيبه على كتابه، وكتب إليه إن أهل الأرض استنظروا أن تدرك غلتهم، فنظرت للمسلمين، وكان الترفق بهم خيرا من أن يخرق فيصيرون إلى بيع مالا غنى بهم عنه، فينكسر الخراج، وقد صدقت والله يا أمير المؤمنين والسلام. "ابن سعد".
11618 ۔۔۔ عمروبن حارث کہتے ہیں کہ حضرت عمروبن العاص (رض) ہر سال اپنی ضرورت کے مطابق مال روک کر مصر کا جزیہ اور خراج روانہ فرماتے تھے، پھر ایک مرتبہ حضرت عمروبن العاص (رض) کو خراج بھیجنے میں دیر ہوگئی تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ملامت کی اور ڈانٹا اور لکھا کہ اس بات پر مت گھبراؤ، اے ابوعبداللہ ! کہ حق ہی کہ وجہ سے تم سے لیا جائے، کیونکہ حق تو روشن ہے، لہٰذا مجھے اور اس کو اکیلا چھوڑ دوجو اس معاملے میں جھگڑتا ہے (تاکہ میں اس کو دیکھ لوں) اور حضرت عمر (رض) ان سے ناراض رہے، چنانچہ حضرت عمرو (رض) بن العاص نے جوابی خط لکھا کہ اھل مصر مہلت چاہتے تھے کہ ان کے غلے کو دیکھ لیا جائے ، چنانچہ میں نے مسلمانوں کے لیے دیکھاتو ان کے لیے نرمی کو بہتر پایا اس سے کہ اس کو پھاڑ دیا جائے سو وہ ایسی چیزیں بیچنے میں لگ جائیں گے جس سے ان کا کوئی بھلانہ ہوگا اور خراج ختم ہوجائے گا اور خدا کی قسم میں نے صحیح کیا ہے اے امیرالمؤمنین۔ والسلام۔ (ابن سعد)

11623

11623- عن عبد الملك بن عمير أن عمر بن الخطاب اشترط على أنباط الشام أن يصيبوا من ثمارهم وتبنهم، ولا يحملوا. "أبو عبيد".
11619 ۔۔۔ عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کے انباط شام کے لوگوں پر یہ شرط لگائے کہ ان کے پھل اور تنکے وغیرہ مسلمانوں کو ملیں گے اور انھوں نے نہیں لئے۔ (ابو عبید)

11624

11624- عن طارق بن شهاب قال: كتب إلي عمر بن الخطاب في دهقانة نهر الملك أسلمت فكتب أن ادفعوا إليها أرضها تؤدي عنها الخراج. "أبو عبيد في الأموال عب".
11620 ۔۔۔ طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ نہرالملک کہ ایک محنت کش عورت کے بارے میں حضرت عمر (رض) نے مجھے لکھا کہ اس کی زمین اس کے حوالے کردو وہ اس سے خراج اداکرے گی ، وہ مسلمان ہوگئی تھی “۔ (ابوعبید فی الاموال، عبدالرزاق)

11625

11625- عن ابن سيرين قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أهل نجران إني قد استوصيت بعدي بمن أسلم منكم خيرا وامرأته أن يعطيه نصف ما عمل من الأرض، ولست أريد إخراجكم منها ما أصلحتم، ورضيت عملكم. "هب".
11621 ۔۔۔ ابن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اھل نجران کو لکھا کہ میرے بعد تم میں سے جو مسلمان ہوجائے میں اس کو بھلائی کی وصیت کرتا ہوں اور اس کو حکم دیتاہوں کہ وہ اپنی کھیتی باڑی کو نصف ادا کرے، اور جب تک تم ٹھیک رہو میں تمہیں وہاں سے نکالنا نہیں چاہتا اور تمہارے عمل سے راضی ہوں “۔ (بیھقی فی شعب الایمان)

11626

11626- عن عطية بن قيس أن عمر بن الخطاب استعمل سعيد ابن عامر بن حذيم على جند حمص، فقدم عليه فعلاه بالدرة، فقال سعيد سبق سيلك مطرك إن تستعتب نعتب، وإن تعاقب نصبر، وإن تعفو نشكر، فاستحيى عمر فألقى الدرة، وقال: ما على المسلم أكثر من هذا إنك تبطيء بالخراج؟ فقال سعيد: إنك أمرتنا أن لا نزيد الفلاح على أربعة دنانير، نحن لا نزيد ولا ننقص، إلا أنا نؤخرهم إلى غلاتهم، فقال عمر: لا أعزلك ما كنت حيا. "أبو عبيد وابن زنجويه في الأموال كر".
11622 ۔۔۔ عطیہ بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سعید بن عامربن حزیم کو حمص کے لشکر کا عامل بنایا ، جب وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو آپ نے کوڑا اٹھایا، سعید نے فرمایا کہ آپ کا سیلاب بارش سے پہلے آگیا اگر آپ رضامندی طلب کریں گے تو آپ کو راضی نہ کریں گے اگر آپ سزادیں گے تو صبر کریں گے اگر آپ معاف کردیں گے تو ہم شکریہ اداکریں گے ، حضرت عمر نے ان کا لحاظ کیا اور درہ رکھ دیا اور فرمایا کہ مسلمان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ، تم نے خراج بھیجنے میں دیر کی ؟ تو سعید نے عرض کیا ، کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ کسان سے چار دینار سے زیادہ نہ لیں، ہم نہ اس پر اضافہ کرتے ہیں نہ کمی البتہ ہم ان کی فصل کا انتظار کرتے ہیں ، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جب تک میں زندہ ہوں تیری عزت کروں گا “۔ (ابو عبید ، ابن زنجویہ فی الاموال)

11627

11627- عن أبي مجلز لاحق بن حميد أن عمر بن الخطاب بعث عمار بن ياسر إلى أهل الكوفة على صلاتهم وجيوشهم، وعبد الله بن مسعود على قضائهم وبيت مالهم، وعثمان بن حنيف على مساحة الأرض، ثم فرض لهم في كل يوم شاة جعل شطرها وسواقطها لعمار، والشطر الآخر بين هذين، ثم قال: ما أرى قرية يؤخذ منها كل يوم شاة إلا كان سريعا في خرابها، فمسح عثمان بن حنيف الأرض، فجعل على جريب الكرم عشرة دراهم، وعلى جريب النخل خمسة دراهم، وعلى جريب القضب ستة دراهم، وعلى جريب البر أربعة دراهم، وعلى جريب الشعير درهمين، وجعل على أهل الذمة في أموالهم التي يختلفون بها في كل عشرين درهما درهما وجعل على رؤسهم وعطل النساء والصبيان من ذلك أربعة وعشرين درهما كل سنة، ثم كتب بذلك إلى عمر فأجازه ورضي به، قال فقيل لعمر: تجار الحرب كم نأخذ منهم إذا قدموا علينا؟ قال: كم يأخذون منكم إذا قدمتم عليهم؟ قالوا العشر قال: فخذوا منهم العشر. "أبو عبيد وابن زنجويه ق".
11623 ۔۔۔ ابو مجلزۃ لاحق بن عبید کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو کوفہ کے لیے نمازوں اور لشکروں پر امیر بنا کر بھیجا ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو قضاء اور بیت المال کا امیر بنا کر بھیجا اور حضرت عثمان بن حنیف زمین کی پیمائش کے کام پر مقرر کر کے بھیجا اور ان کے لیے ہر روز ایک بکری مقرر کی اس میں سے ایک حصہ اور وغیرہ حضرت عمار (رض) کے لیے اور دوسرا حصہ باقی دونوں حضرات کے درمیان تقسیم فرمایا اور پھر فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ کسی بھی علاقے سے اگر روزانہ ایک بکری لی گئی تو جلدہی وہ ویران ہوجائے گا، سو اس کے بعد حضرت عثمان بن حنیف (رض) نے زمین کی پیمائش کی اور انگوروں کے گنجان باغوں کے ہر جریب پر دس درھم کھجورون کے ہرجریب پر پانچ درھم اس کے ہر جریب ہر چھ درھم گندم کے ہرجریب پر چار درھم اور جو کے ہرجریب پر دو درھم مقرر فرمائے ، اور ذمیوں کے مال میں جو مختلف ہوتا رہتا تھا ہر بیس درھم میں ایک درھم مقرر فرمایا اور ان پر ان کے بغیر زیور والی عورتوں اور بچوں میں سالانہ چوبیس درھم مقرر فرمائے پھر حضرت عمر (رض) کو تفصیل سے آگاہ کیا گیا، حضرت عمر (رض) ونہ نے اس کی اجازت دی اور راضی ہوگئے۔
پھر حضرت عمر (رض) سے پوچھا گیا کہ حربی تاجر جب ہمارے پاس آئیں تو ہم ان سے کتنا عصول کریں ؟ فرمایا کہ جب تک ان کے پاس جاتے ہو تو کتنا وصول کرتے ہو ؟ عرض کیا کہ عشر۔ تو فرمایا کہ ان سے عشر وصول کرو (ابوعبید، ابن زنجویہ، متفق علیہ

11628

11628- عن طارق بن شهاب قال: أسلمت امرأة من أهل نهر الملك، فكتب عمر: إن اختارت أرضها وأدت ما على أرضها فخلوا بينها وبين أرضها، وإلا خلوا بين المسلمين وبين أرضهم. "ق".
11664 ۔۔۔ طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ نہر ملک کے علاقے سے ایک عورت مسلمان ہوگئی ، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر وہ اپنی زمین اختیار کرلے اور اپنی زمین پر واجب الاداکو اداکرے تو اس کو اور اس کی زمین کو چھوڑدو ورنہ پھر مسلمانوں اور ان کی زمینوں کے درمیان راستہ چھوڑدہ۔ (متفق علیہ)

11629

11629- عن أبي عون الثقفي قال: كان عمر إذا أسلم رجل من أهل السواد تركاه يقوم بخراجه في أرضه. "ق".
11665 ۔۔۔ ابوعون الثقفیٰ فرماتے ہیں کہ اھل سواد میں سے جب کوئی مسلمان ہوجاتا تو حضرت عمر (رض) اس کو اپنی زمین کا خراج ادا کرتے رہنے دیتے “۔ (متفق علیہ)

11630

11630- عن الشعبي قال: أسلم الرفيل فأعطاه عمر أرضه بخراجها وفرض له ألفين. "ق".
11666 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ رفیل مسلمان ہوگیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کی زمین خراج کے بدلے اس کے حوالے کردی اور اس کے لیے دو ہزار مقررکئے “۔ (متفق علیہ)

11631

11631- عن عمر أنه كتب إلى سعد يقطع سعيد بن زيد أرضا، فأقطعه أرضا لبني الرفيل، فأتى ابن الرفيل عمر، فقال: يا أمير المؤمنين على ما صالحتمونا؟ قال: على أن تؤدوا لنا الجزية، ولكم أرضكم وأموالكم، قال: يا أمير المؤمنين أقطعت أرضي لسعيد بن زيد، فكتب إلى سعد يرد إليه أرضه، ثم دعاه إلى الإسلام فأسلم، ففرض له عمر سبعمائة، وجعل عطاءه في خثعم، قال: إن أقمت في أرضك أديت عنها ما كنت تؤدي. "ق" وقال في إسناده ضعف.
11667 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت سعید (رض) کو لکھا کہ سعید بن زید کو کچھ زمین دے دیں ، تو حضرت سعد (رض) نے ابن الرفیل کی زمین میں سے ان کو دے دی، چنانچہ ابن الرفیل حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور کہا کے اے امیرالمومنین ہماری اور آپ کی صلح کس شرط پر ہوئی تھی ، فرمایا اس شرط پر کہ تم جزیہ دوگے اور تمہاری زمینیں اور مال تمہارے پاس ہی رہیں گے ، عرض کیا ، یا امیرالمؤمنین، میری زمین سعید ابن زید کے حوالے کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت سعد (رض) کو لکھا کہ وہ زمین واپس کردیں ، پھر ابن الرفیل کو اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوگیا ، تو اس کے لیے سات سو مقرر کیا اور اس کے اس عطاکو خشعم میں رکھا اور فرمایا کہ اگر تو اپنی زمین پر رہے اور جو دیتا تھا دیتا رہے “۔ (متفق علیہ)

11632

11632- عن الشعبي اشترى عتبة بن فرقد أرضا على شاطئ الفرات ليتخذ فيها قضبا فذكر ذلك لعمر، فقال: ممن اشتريتها؟ قال: من أربابها، فلما اجتمع المهاجرون والأنصار عند عمر قال: هؤلاء أهلها، فهل اشتريت منهم شيئا؟ قال: لا، قال: فارددها على من اشتريتها منه، وخذ مالك. "أبو عبيد وابن زنجويه".
11668 ۔۔۔ امام شعبی فرماتے ہیں کہ عتبہ بن فرقد نے دریائے فرات کے کنارے جگہ خریدی تاکہ اس میں قضب اگائیں ، یہ بات حضرت عمر (رض) کو بتائی گئی تو آپ نے پوچھا کہ کس سے خریدی ہے ؟ عرض کیا کہ اس کے مالکوں سے سو جب مہاجرین و انصار حضرت عمر (رض) کے پاس جمع ہوگئے تو فرمایا کہ، یہ اس زمین کے رہنے والے ہیں ان میں سے کسی سے خریدی تھی، عرض کیا نہیں ، فرمایا تو جس سے خریدی تھی اس کو واپس کر دو اور اپنا مال لے لو “۔ (ابوعبید اور ابن زنجویہ)

11633

11633- عن علي أنه كان يكره أن يشترى من أرض الخراج شيئا ويقول: عليها خراج المسلمين. "ق".
11669 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) خراجی زمین خریدنے کو ناپسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس پرتو مسلمانوں کا خراج ہے “۔ (متفق علیہ)

11634

11634- "الصديق رضي الله عنه" عن الشعبي قال: استشهد سالم مولى أبي حذيفة، فأعطى أبو بكر امرأته النصف، وأعطى النصف الثاني في سبيل الله. "ش".
11630 ۔۔۔ امام شعبی حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابو حذیفہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سالم شہید ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سالم کی اہلیہ کو نصف دیا اور باقی نصف اللہ کے راستے میں دے دیا “۔ (ابن ابی شیبہ)

11635

11635- عن عمر قال: لولا آخر المسلمين ما فتحت قرية إلا قسمتها سهمانا كما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر سهمانا، ولكني أردت أن يكون جزية تجري على المسلمين، وكرهت أن يترك آخر المسلمين لا شيء لهم. "ش وأبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال وابن وهب في مسنده حم خ د وابن خزيمة وابن الجارود والطحاوي ع والخرائطي في مكارم الأخلاق ق".
11631 ۔۔۔ حسرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ اگر آخری مسلمان بھی باقی ہوتا اور جب کوئی علاقہ فتح ہوتا تو میں اس کے حصے اسی طرح تقسیم کرتا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے حصے تقسیم فرمائے تھے، لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ مسلمانوں کو جزیہ ملتا رہے اور آخری مسلمان ایسا رہ جائے کہ اس کے لیے کچھ نہ بچے “۔ (ابن ابی شیبہ، ابو عبید، ابن زنجویہ معافی الاموا ل اور مسند ابن وھب اور مسنداحمد، بخاری، ابو داؤد، ابن خزیمہ، ابن الجارود، طحاوی، مسند ابی یعلی، خرائطی فی مکارم الضلاق، متفق علیہ)

11636

11636- عن حارثة بن مضرب قال: كتب إلينا عمر بن الخطاب أما بعد فإني قد بعثت إليكم عمار بن ياسر أميرا وعبد الله بن مسعود معلما ووزيرا وهما من النجباء من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم من أهل بدر، فتعلموا منهما، واقتدوا بهما، وإني قد آثرتكم بعبد الله على نفسي أثرة، وبعثت عثمان بن حنيف على السواد، وأرزقهم كل يوم شاة فاجعل شطرها وبطنها لعمار، والشطر الثاني بين هؤلاء الثلاثة. "ابن سعد ك ص".
11632 ۔۔۔ حارثہ بن مغرب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھا کہ امابعد، تحقیق میں تمہارے پاس عمار بن یاسر کو امیر اور عبداللہ بن مسعود کو استاد اور وزیر بنا کر بھیج رہاہوں ، اور یہ دونوں حضرات جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں نہایت شریف اور معزز حضرات ہیں ، سو ان سے سیکھو اور ان کی اطاعت کرو اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے تمہیں خود پر ترجیح دی عبداللہ بن مسعود (رض) کے معاملے میں ، اور سواد میں میں نے عثمان (رض) ابن حنیف کو بھیجا ہے، ان کو روزانہ ایک بکری دو اس کا کچھ حصہ اور پیٹ عمار کے لیے اور باقی دوسرا حصہ ان تینوں حضرات کے لیے ہے “۔ (ابن سعد، مستدرک حاکم ، سعید بن منصور)

11637

11637- عن ابن عمر أن عمر كان فرض للمهاجرين الأولين أربعة آلاف، وفرض لابن عمر ثلاثة آلاف وخمسمائة، فقيل له: هو من المهاجرين، لم نقصته من أربعة آلاف؟ قال: إنما هاجر أبوه، يقول: ليس كمن هاجر بنفسه. "خ قط في الأفراد هق".
11633 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اولین مہاجرین کے لیے چار ہزار مقرر کئے تھے اور حضرت عمر (رض) کے لیے ساڑھے تین ہزار ، عرض کیا گیا کہ ابن عمر بھی تو مہاجرین میں سے ہیں ان کے لیے آپ نے چار ہزار سے کم کیوں کئیے ؟ تو فرمایا کہ اس کے تو صرف باپ نے ہجرت کہ ہے وہ اس طرح نہیں کہ جیسے خود ہجرت کی ہو “۔ (بخاری، دارقطنی فی الافراد سنن کبری بیھقی)
فائدہ۔۔۔ یہ اس لیے فرمایا کیونکہ ہجرت کے وقت حضرت ابن عمر (رض) نہایت کم سن تھے اور غزوہ احد جو ہجرت کے بعد ہوا اس وقت حضرت ابن عمر کی عمر صرف 14 برس تھی۔ (مترجم)

11638

11638- عن موسى بن علي بن رباح عن أبيه أن عمر بن الخطاب خطب الناس بالجابية، فقال: من أراد أن يسأل عن القرآن فليأت أبي بن كعب، ومن أحب أن يسأل عن الفرائض فليأت زيد بن ثابت، ومن أراد أن يسأل عن الفقه فليأت معاذ بن جبل، ومن أراد أن يسأل عن المال فليأتني، فإن الله تعالى جعلني له خازنا وقاسما، ألا وأني بادئ بالمهاجرين الأولين أنا وأصحابي، فمعطيهم، ثم بادئ بالأنصار الذين تبوؤا الدار والإيمان فمعطيهم، ثم بادئ بأزواج النبي صلى الله عليه وسلم فمعطيهن فمن أسرعت به الهجرة أسرع به العطاء، ومن أبطأ عن الهجرة أبطأ به عن العطاء فلا يلومن أحدكم إلا مناخ راحلته. "أبو عبيد في الأموال ش هق كر".
موسیٰ بن علی بن رباح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جابیہ میں لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ جو قرآن کریم کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہے تو ابن ابی کعب کے پاس آئے ، اگر کوئی فرائض کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو زید بن ثابت کے پاس آئے اور اگر کوئی وقفہ کے بارے میں پوچھنا ہے تو وہ معاذبن جبل کے پاس آئے ، اور اگر کوئی مال کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہے تو وہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خازن اور تقسیم کرنے والا بنایا ہے، سنو !
میں سب سے پہلے مہاخرین اولین سے شروع کرنے والاہوں میں اور میرے ساتھی، اور ان کو دوں گا ، پھر انصار کو دینا شروع کروں گا جنہوں نے امان اور ٹھاکانہ دیا ان کو دوں گا ، پھر امہات المومنین (رض) کو دوں گا ، سو جس نے جلدی ہجرت کی اس کو عطا بھی جلدی ملے گی اور جس نے تاخیر سے ہجرت کی اس کو عطا بھی دیر سے ملے گی سو اگر کسی کو برابھلا کہنا ہی ہے تو اپنی سواریوں کو کہو “۔ (ابو عبید فی الاموال، ابن شیبہ ، سنن کبری بیھقی)

11639

11639- عن سفيان بن وهب الخولاني، قال: لما فتحنا مصر بغير عهد، قام الزبير بن العوام، فقال: أقسمها يا عمرو بن العاص، فقال عمرو: لا أقسمها، فقال الزبير: والله لتقسمنها كما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، فقال: والله لا أقسمها حتى أكتب إلى أمير المؤمنين، فكتب عمر إليه أقرها حتى تغزو منها حبل الحبلة. "ابن عبد الحكم في فتوح مصر وابن وهب وأبو عبيد وابن زنجويه معا في الأموال ق كر".
11635 ۔۔۔ سفیان بن وھب الخولانی فرماتے ہیں کہ جب ہم نے بٖغیر عہد کے مصر فتح کرلیا تو حضرت زبیر بن العوام (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے عمروبن العاص اس کو تقسیم کردو، حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ میں اس کو تقسیم نہ کروں گا ، حضرت زبیر (رض) نے فرمایا کہ خدا کہ قسم ہم اس مال کو اسی طرح تقسیم کریں گے ، حضرت زبیر (رض) نے فرمایا کہ خدا کہ قسم ہم اس مال کو اسی طرح تقسیم کریں گے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا مال تقسیم کیا تھا، حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں اس وقت تک اس مال کو تقسیم نہ کروں گا جب تک امیرالمومنین کو اطلاع نہ کردوں ، تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ اس مال کو اس وقت تک برقرار رکھو جب تمہارے پاس موجود جانوروں کے پوتے نواسے بھی اس جہاد میں شریک نہ ہوں جائیں “۔ (ابن عبدالحکم فی فتوح مصر، ابن وھب، ابوعبید، ابن زنجویہ معافی الاموال، متفق علیہ)

11640

11640- عن عياض الأشعري أن عمر كان يرزق العبيد والإماء والخيل. "ش ق".
11636 ۔۔۔ عیاض الاشعری فرماتے ہیں :” حضرت عمر اضی اللہ عنہ غلاموں ، باندیوں اور گھوڑوں کو بھی وظیفہ عطا فرماتے۔ “(ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11641

11641- عن سعيد بن المسيب أن عمر كان يفرض للصبي إذا استهل. "ش ق".
11637 ۔۔۔ سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نو مولود بچے کے لیے بھی وظیفہ مقرر فرماتے۔ “(ابن ابی شیبہ ، متفق علیہ)

11642

11642- عن جابر قال: لما ولي عمر الخلافة فرض الفرائض ودون الدواوين، وعرف العرفاء، قال جابر: فعرفني على أصحابي. "ش ق".
11638 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ نے فرائض مقررفرمائے، رجسٹرتیار کروائے اور اجنبیوں باہم روشناس کرایا ، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے میرے ساتھیوں سے روشناس کروایا “۔ (ابن ابی شیبہ ، متفق علیہ)

11643

11643- عن مخلد الغفاري أن ثلاثة مملوكين شهدوا بدرا، فكان عمر يعطي كل رجل منهم كل سنة ثلاثة آلاف. "أبو عبيد في الأموال ش ق".
11639 ۔۔۔ مخلد الغفاری فرماتے ہیں کہ تین مملوک غلاموں نے بدر میں شرکت کی چنانچہ حضرت عمر (رض) ان سے ہر ایک کو ہر سال تین ہزار دیتے۔ (ابوعبید فی الاموال، ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11644

11644- عن أبي جعفر أن عمر أراد أن يفرض للناس، فقالوا: ابدأ بنفسك، فقال: لا، فبدأ بالأقرب فالأقرب من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففرض للعباس، ثم علي حتى والى بين خمس قبائل، حتى انتهى إلى بني عدي بن كعب. "ش ق".
11640 ۔۔۔ ابوجعفر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو وظائف مقرر کرنے شروع کئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ دینی ذات سے شروع کریں تو فرمایا نہیں، پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قربت کا لحاظ کرتے ہوئے دینا شروع کیا، چنانچہ پہلے حضرت عباس (رض) پھر حضرت علی (رض) کے لیے پھر پانچ قبیلوں کے درمیان یہاں تک کہ بنوعدی بن کعب پر انتہا ہوگئی “۔ (ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11645

11645- عن قيس بن أبي حازم أن عمر بن الخطاب فرض لأهل بدر خمسة آلاف، وقال: لأفضلنهم على من سواهم. "أبو عبيد ش خ ق".
11641 ۔۔۔ قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اھل بدر کے لیے پانچ ہزار مقرر فرمائے اور فرمایا کہ میں ان کو باقی لوگوں پر ضرور فضیلت دوں گا “۔ (ابو عبید، ابن ابی شیبہ، بخاری، متفق علیہ)

11646

11646- عن عمر قال: لئن بقيت لأجعلن عطاء الرجل أربعة آلاف: ألف لسلاحه، وألف لنفقته، وألف يخلفها في أهله، وألف لفرسه. "ش ق".
11642 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں باقی رہاتو ایک شخص کا وظیفہ چار ہزار تک کروں گا، ایک ہزار اسلحے کے لئے، ایک ہزارخرچے کے لئے، ایک ہزار گھر والوں کے لئے، اور ایک ہزار گھوڑے کے لیے “۔ (ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11647

11647- عن أنس بن مالك وسعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب كتب المهاجرين على خمسة آلاف، والأنصار على أربعة آلاف، ومن لم يشهد بدرا من أبناء المهاجرين على أربعة آلاف فكان منهم عمر بن أبي سلمة بن عبد الأسد المخزومي، وأسامة بن زيد ومحمد ابن عبد الله بن جحش الأسدي، وعبد الله بن عمر، فقال عبد الرحمن ابن عوف: إن ابن عمر ليس من هؤلاء إنه وإنه، فقال ابن عمر: إن كان لي حق فأعطنيه، وإلا فلا تعطنيه، فقال عمر: لابن عوف اكتبه على خمسة آلاف، واكتبني على أربعة آلاف، فقال عبد الله: لا أريد هذا، فقال عمر: والله لا أجتمع أنا وأنت على خمسة آلاف. "ش ق".
11643 ۔۔۔ حضرت انس (رض) بن مالک اور سعید بن المسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مہاجرین کے لیے پانچ پانچ ہزار اور انصار کے لیے چار چار ہزار وظیفہ مقرر فرمایا، اور مہاجرین کی اولادوں میں سے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت نہ کی تھی ان کا بھی چار ہزار وظیفہ مقررہوا۔
ان میں عمر بن ابی سلمۃ بن عبدالاسد المخزومی، اسامہ بن زید محمد بن عبداللہ بن جحش الاسدی، اور عبداللہ بن عمر (رض) شامل تھے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رض) فرمایا کہ ابن عمر تو ان میں سے نہیں ہے وہ تو وہ تو۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر میرا حق بنتا ہے تو عطا فرما دیجئے ورنہ رہنے دیجئے تو حضرت عمر (رض) نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے فرمایا کہ اس کا حصہ بھی پانچ ہزار لکھ دو اور میرا چار ہزار لکھ دو ، حضرت عبداللہ (رض) بولے میں نہیں چاہتا تھا، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں اور تو دونوں پانچ پانچ ہزار وصول نہیں کرسکتے “۔ ابن ابی شیبہ، متفق علیہ)

11648

11648- عن أبي هريرة أنه قدم على عمر من البحرين، قال: فقدمت عليه، فصليت معه العشاء، فلما رآني سلمت عليه، فقال: ما قدمت به؟ قلت: قدمت بخمسمائة ألف، قال: تدري ما تقول؟ قلت: مائة ألف، ومائة ألف، ومائة ألف، ومائة ألف، ومائة ألف، قال: إنك ناعس ارجع إلى بيتك فنم ثم اغد علي، فغدوت عليه فقال: ما جئت به؟ قلت: بخمسمائة ألف، قال: أطيب، قلت نعم، لا أعلم إلا ذاك، فقال للناس: إنه قدم علي مال كثير، فإن شئتم أن نعده لكم عدا، وإن شئتم أن نكيله لكم كيلا؟ فقال رجل: يا أمير المؤمنين إني رأيت هؤلاء الأعاجم يدونون ديوانا، يعطون الناس عليه، فدون الديوان، وفرض للمهاجرين في خمسة آلاف خمسة آلاف، وللأنصار في أربعة آلاف اربعة آلاف، وفرض لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم في اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا. "ش واليشكرى في اليشكريات هق كر".
11644 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ بحرین سے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، فرماتے ہیں ، میں ان کے پاس پہنچا اور ان کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی، جب انھوں نے مجھے دیکھا تو میں نے انھیں سلام کیا ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا کے کیا لائے ؟ میں نے عرض کیا کہ چانچ لاکھ لایاہوں ، دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں، ایک لاکھ، اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ اور ایک لاکھ، فرمایا تم اونگ رہے ہو اپنے گھر چلے جاؤ اور سوجاؤ کل میرے پاس آنا، میں اگلے دن پھر خدمت میں حاضر ہوا، پھر دریافت فرمایا کہ کیا لائے ہو ؟ میں نے عرض کیا پانچ لاکھ ، دریافت فرمایا کہ پاکیزہ مال ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے اس کے علاوہ اور کچھ معلوم نہیں ہے پھر لوگوں سے فرمایا کہ یہ میرے پاس بہت سامال لائے ہیں سو اگر تم چاہو تو تمہارے لیے تیار کر رکھیں اور اگر تم چاہو تو تم کو کسی پیمانے سے ناپ ناپ کردے دیں ؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین، یہ عجمی لوگ فہرستیں اور رجسٹربنایا کرتے ہیں اور انہی کے مطابق لوگوں کو دیتے ہیں میں نے ان کو ایساہی کرتے دیکھا ہے، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے بھی رجسٹر بنوائے اور مہاجرین کے لیے پانچ پانچ ہزار وظیفہ مقرر فرمایا اور انصار کے لیے چارچارہزار، اور امہات المومنین (رض) کے لیے بارہ بارہ ہزار وظیفہ مقرر فرمایا “۔ (ابن ابی شیبہ، یشکرفی یشکربات، سنن کری بیھقی)

11649

11649- عن أبي هريرة أنه وفد إلى صاحب البحرين، قال: فبعث معي ثمانمائة ألف درهم إلى عمر بن الخطاب، فقدمت عليه، فقال: ما جئتنا به يا أبا هريرة؟ فقلت: بثمانمائة الف درهم، فقال: أتدري ما تقول؟ إنك أعرابي، فعددتها عليه بيدي، حتى وفيت، فدعا المهاجرين، فاستشارهم في المال فاختلفوا عليه، فقال: ارتفعوا عني، حتى كان عند الظهيرة أرسل إليهم، فقال: إني لقيت رجلا من أصحابي فاستشرته، فلم ينتشر علي رأيه، فقال: ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل، فقسمه عمر على كتاب الله عز وجل. "ش".
11645 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ وہ بحرین کے حکمران کے پاس گئے تو انھوں نے میرے ساتھ آٹھ لاکھ درھم حضرت عمر (رض) کی طرف بھیجے ، چنانچہ میں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پہنچا تو آپ (رض) نے دریافت فرمایا کہ کیا لے کر آئے ہو اے ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا کہ آٹھ لاکھ دینار لایا ہوں، دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کیا کہہ رہے ہو ؟ تم تو ایک دیہاتی ہو، سو میں نے ہاتھون پر پورے پورے گن کر بتائے ہیں چنانچہ آپ (رض) نے مہاجرین کو طلب فرمایا اور مال کے بارے میں ان سے مشورہ فرمایا لیکن سب میں اختلاف ہوگیا تو آپ (رض) نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤیہاں تک کہ ظہر کے وقت ان کو دوبارہ طلب فرمایا، اور فرمایا کہ میں اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو ملاہوں اور اس سے مشورہ کیا ہے اور ان کی رائے مجھ پر منتشر نہیں ہوئی، پھر فرمایا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے علاقوں والوں سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیا ہے تو وہ اللہ ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، اور مسافروں کا حق ہے، پھر حضرت عمر (رض) نے اس مال کو کتاب اللہ کے مطابق تقسیم فرمادیا “۔ (ابن ابی شیبہ)

11650

11650- عن أسلم قال: سمعت عمر يقول: اجتمعوا لهذا المال، فانظروا لمن ترونه، وإني قد قرأت آيات من كتاب الله سمعت الله يقول: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى} إلى قوله {أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ} والله ما هو لهؤلاء وحدهم {وَالَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالْأِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ} الآية، والله ما هو لهؤلاء وحدهم {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ} الآية والله ما من أحد من المسلمين إلا وله حق في هذا المال، أعطي منه أو منع حتى راع بعدن. "هق ش".
11646 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضرت عمر (رض) فرما رہے تھے کہ اس مال کے لیے جمع ہوجاؤ اور دیکھو اس بارے تم کیا سمجھتے ہو اور میں نے اللہ کی کتاب سے آیات پڑھی ہیں میں اللہ تعالیٰ کا کلام سنا کہ ” اللہ نے اپنے رسول کو جو مال عطا کیا “ سے لے کر یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں “ تک۔ (سورۃ الحشر آیت 7 ۔ 8) اور خدا کی قسم وہ تنہا ان سب کے لیے نہیں ہے اور وہ لوگ جنہوں نے گھر فراہم کئے اور (سورۃ الحشر آیت 9) اور خدا کی قسم وہ تنہا ان کے لیے نہیں ہے اور لوگ جو آئے ان کے بعد (سورۃ الحشر آیت 10) خدا کی قسم مسلمانوں میں سے کوئی نہیں جس اس مال میں حق نہ ہو، خواہ اس کو دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو، بھلے وہ عدن کا کوئی چرواہاہی کیوں نہ ہو “۔ (سنن کبری بیھقی، ابن ابی شیبہ)

11651

11651- عن الأحنف بن قيس قال: كنا جلوسا بباب عمر فخرجت جارية فقلنا سرية أمير المؤمنين، فسمعت فقالت: ما أنا بسرية أمير المؤمنين، وما أحل له، إني لمن مال الله، فذكر ذلك لعمر، فقال: صدقت وسأخبركم بما أستحل من هذا المال، أستحل منه حلتين: حلة للشتاء، وحلة للصيف، وما يسعني لحجي وعمرتي وقوتي وقوت أهل بيتي، وسهمي مع المسلمين كسهم رجل ليس بأرفعهم ولا أوضعهم. "أبو عبيد في الأموال ص ش وابن سعد هق".
11647 ۔۔۔ حضرت احنف بن قیس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ ایک باندی نکلی ہم نے کہا امیرالمومنین کی موطؤہ ہے اس نے سن لیا اور کہا کہ میں امیرالمومنین کی موطؤہ نہیں ہوں اور نہ ہی ان کے لیے حلال ہوں میں تو اللہ کے مال میں سے ہوں، یہ بات حضرت عمر (رض) کے سامنے بیان کی گئی آپ (رض) نے فرمایا کہ اس نے صحیح کہا، میں تمہیں بتاتاہوں کہ میں نے اس مال میں سے کیا حلال سمجھا ہے اس سے دوکپڑے حلال سمجھ کر لیے ہیں ایک سردیوں کے لیے اور ایک گرمیوں کے لیے اور میرے پاس اپنے حج اور عمرے اور اپنے بعد اپنے گھر والوں کی خوراک کی گنجائش نہیں ہے اور مسلمانوں کے ساتھ میرا حصہ انہی کی طرح ہے نہ ان سے زیادہ نہ ان سے کم “۔ ابوعبید فی الاموال، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن سعد، سنن کبری بیھقی)

11652

11652- عن يحيى بن سعيد عن أبيه، قال: قال عمر بن الخطاب لعبد الله بن الأرقم: اقسم بيت مال المسلمين في كل شهر مرة، اقسم مال المسلمين في كل جمعة، ثم قال: اقسم بيت مال المسلمين في كل يوم مرة، فقال رجل من القوم: يا أمير المؤمنين لو أبقيت في بيت مال المسلمين بقية تعدها لنائبة أو صوت، يعني خارجة، فقال عمر للرجل الذي كلمه: جرى الشيطان على لسانك لقنني الله حجتها، ووقاني شرها، أعد لها ما أعد لها رسول الله صلى الله عليه وسلم طاعة الله عز وجل ورسوله صلى الله عليه وسلم. "هق".
11748 ۔۔۔ یحییٰ بن سعید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عبداللہ بن الارقم (رض) سے فرمایا کہ مسلمانوں کے بیت المال کا مال ہر ماہ ایک مرتبہ تقسیم کیا کرو، مسلمانوں کا مال ہر جمعہ تقسیم کیا کرو، پھر فرمایا کہ مسلمانوں کے بیت المال کا مال ہر روز ایک مرتبہ تقسیم کیا کرو، تو قوم کے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین اگر آپ مسلمانوں کے بیت المال میں کچھ باقی رکھیں جو کسی مصیبت میں یا کسی باہر کے کام میں کام آجائے، تو حضرت عمر (رض) نے اس شخص سے فرمایا کہ تیری زبان پر شیطان جاری ہوگیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی حجت مجھے القا فرمادی اور اس کے شر سے مجھے بچالیا، میں نے بھی اس کے لیے وہی تیار کررکھا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیار کر رکھا تھا یعنی اللہ عزوجل کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت “۔ (سنن کبری بیھقی)

11653

11653- عن أبي هريرة قال: قدمت على عمر بن الخطاب من عند أبي موسى الأشعري بثمانمائة ألف درهم، فقال لي: بماذا قدمت؟ قلت: قدمت بثمانمائة ألف درهم، فقال: إنما قدمت بثمانين ألف درهم، قلت: بل قدمت بثمانمائة ألف درهم، قال: ألم أقل لك: إنك يمان أحمق؟ إنما قدمت بثمانين ألف درهم فكم ثمانمائة ألف؟ فعددت مائة ألف ومائة ألف، حتى عددت ثمانمائة ألف، قال: أطيب ويلك؟ قلت: نعم، فبات عمر ليله أرقا، حتى إذا نودي بصلاة الصبح، قالت له امرأته: ما نمت الليلة؟ قال: كيف ينام عمر بن الخطاب وقد جاء الناس ما لم يكن ياتيهم مثله مذ كان الإسلام فما يؤمن عمر لو هلك؟ وذلك المال عنده؟ فلم يضعه في حقه؟ فلما صلى الصبح اجتمع إليه نفر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم: إنه قد جاء الناس الليلة ما لم يأتهم مثله منذ كان الإسلام، وقد رأيت رايا فأشيروا علي، رأيت أن أكيل للناس بالمكيال، فقالوا: لا تفعل يا أمير المؤمنين إن الناس يدخلون في الإسلام، ويكثر المال ولكن أعطهم على كتاب، فكلما كثر الناس وكثر المال أعطيتهم عليه، قال: فأشيروا علي بمن أبدأ منهم؟ قالوا: بك يا أمير المؤمنين، إنك ولي ذلك الأمر، ومنهم من قال: أمير المؤمنين أعلم، قال: لا ولكن أبدأ برسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم الأقرب فالأقرب إليه، فوضع الديوان على ذلك بدأ ببني هاشم والمطلب، فأعطاهم جميعا، ثم أعطى بني عبد شمس، ثم بني نوفل بن عبد مناف، وإنما بدأ ببني عبد شمس لأنه كان أخا هاشم لأمه. "ابن سعد هق".
11649 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پاس سے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آٹھ لاکھ درھم لے کر پہنچاتو آپ (رض) دریافت فرمایا کہ کیا لے کر آئے ہو، میں نے عرض کیا کہ آٹھ لاکھ دینار لایا ہوں فرمایا کہ تم اسی ہزار ہی لائے ہوگے میں نے عرض کیا کہ نہیں بلکہ میں آٹھ لاکھ دینار لایاہوں فرمایا کہ تم سے کہا نہیں تھا کہ تم یمن کے بےعقل ہو ؟ تم اسی ہزار لائے ہو اچھا بتاؤ آٹھ لاکھ کتنے ہوتے ہیں ؟ سو میں نے ایک ایک لاکھ کرکے گنا یہاں تک کہ آٹھ لاکھ پورے گنے، پھر فرمایا کہ کیا یہ پاکیزہ مال ہے تو پریشان ہو ! میں نے عرض کیا جی ہاں سو حضرت عمر (رض) نے وہ رات بےچینی سے گزاری یہاں تک کہ جب فجر کی اذان ہوئی تو ان سے ان کی اھلیہ نے کہا کہ آپ رات بھر نہیں سوئے ؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب کیسے سو جائے جبکہ اتنے لوگ آگئے ہیں جو آغاز اسلام سے اب تک اتنے نہیں آئے، اگر عمر ہلاک ہوگیا تو کون بچائے گا ؟ اور وہ مال بھی اس کے پاس ہو اور حق دار کو بھی نہ دیاہو ؟ سو جب آپ (رض) فجر کی نماز ادا فرماچکے تو سول اللہ کے صحابہ کرام (رض) کا ایک گروہ آپ کے پاس جمع ہوگیا، تو آپ (رض) فرمایا کہ آج رات لوگوں کے پاس اتنامال آیا ہے کہ آغاز اسلام سے پہلے آج تک اتنامال نہیں آیا، سو میری اس معاملے میں رائے ہے تم بھی مجھے مشورہ دو ، میرا خیال ہے کے لوگوں کو پیمانے بھر بھر کردوں، عرض کیا کہ اے امیرالمومنین ایسا نہ کریں لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں اور مال بڑھتا جارہا ہے، بلکہ ان کو آپ کتاب اللہ کے مطابق دیجئے سو جب کبھی لوگ زیادہ ہوں اور مال بھی زیادہ ہو تو آپ انھیں اسی طریقے سے وظائف دے سکیں گے۔ پھر فرمایا کہ اچھا مجھے یہ مشورہ دو کہ میں پہلے کس سے شروع کروں ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپ اپنے آپ سے شروع کیجئے آپ ہی اس معاملے کے نگران ہیں اور انہی میں سے کسی نے کہا کہ اور امیرالمومنین زیادہ جانتے ہیں، فرمایا نہیں بلکہ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شروع کرتا ہوں اور پھر جو زیادہ قریب ہو درجہ بدرجہ چنانچہ اسی کے مطابق فہرست تیار کی گئی بنوھاشم اور بنوعبدالمطلب سے شروع کیا گیا اور ان سب کو دیا گیا پھر بنوعبدشمس کو دیا گیا ، پھر بن نوفل بن عبدمناف کو دیا گیا اور بنوعبدشمس کو شروع میں اس لیے رکھا تھا کیونکہ وہ بنوھاشمی کے ماں شریک بھائی تھے۔ (ابن سعد، سنن کبری بیھقی)

11654

11654- عن الحكم أن عمر بن الخطاب رزق شريحا وسلمان بن ربيعة الباهلي على القضاء. "عب".
11650 ۔۔۔ حکم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے شریح اور سلمان بن ربیعہ الباھلی کو قضاء پر مقرر فرمایا “۔ (عبدالرزاق)

11655

11655- عن عمر قال: لولا أن أترك الناس ببانا ليس لهم شيء ما فتحت علي قرية إلا قسمتها كما قسم النبي صلى الله عليه وسلم خيبر، ولكني أتركها خزانة لهم. "خ د هق".
11651 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر لوگوں کو میں نے طریقے کے مطابق نہ چھوڑا ہوتا تو ان کو کچھ نہ ملتا۔ میں نے جو علاقہ بھی فتح کیا اس کا مال ایسے ہی تقسیم کردیا جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا مال تقسیم کیا تھا، لیکن میں اس کو ان کے لیے بطور خزانے کے چھوڑتاہوں “۔ (بخاری، ابوداؤد، سنن کبری بیھقی)

11656

11656- عن منذر بن عمرو الوادعي أنه قسم للفرس سهمين، ولصاحبه سهما، ثم كتب إلي عمر فقال: قد أصبت السنة. "هق".
11652 ۔۔۔ منذربن عمروالوادعی فرماتے ہیں کہ انھوں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور گھوڑے والے کے لیے ایک حصی مقرر کیا پھر تفصیل سے حضرت عمر (رض) کو اگاہ کیا تو آپ (رض) نے فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا “۔ (سنن کبری بیھقی

11657

11657- عن جبير بن الحويرث أن عمر بن الخطاب استشار المسلمين في تدوين الديوان، فقال له علي بن أبي طالب: تقسم كل سنة ما اجتمع إليك من مال ولا تمسك منه شيئا، وقال عثمان بن عفان: أرى مالا كثيرا يسع الناس، وإن لم يحصوا حتى تعرف من أخذ ممن لم يأخذ، خشية أن ينتشر الأمر، فقال له الوليد بن هشام بن المغيرة: يا أمير المؤمنين قد جئت الشام فرأيت ملوكها قد دونوا ديوانا وجندوا جنودا فدون ديوانا وجند جنودا، فأخذ بقوله، فدعا عقيل بن أبي طالب ومخرمة بن نوفل وجبير بن مطعم، وكانوا من نساب قريش، فقال: اكتبوا الناس على منازلهم، فكتبوا فبدؤا ببني هاشم ثم أتبعوهم أبا بكر وقومه، ثم عمر وقومه على الخلافة، فلما نظر فيه عمر قال: وددت والله أنه هكذا ولكن ابدؤا بقرابة النبي صلى الله عليه وسلم الأقرب فالأقرب، حتى تضعوا عمر حيث وضعه الله. "ابن سعد".
11653 ۔۔۔ جبربن الحویرث فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فہرستیں بنانے کے سلسلے میں مسلمانوں سے مشورہ کیا، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ جو مال سال بھر میں آپ کے پاس جمع ہو وہ آپ ساراکاسارا تقسیم کردیں اور اس میں سے کچھ نہ رکھیں ، حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ مال بہت زیادہ ہے لوگوں کے لیے کافی ہے اگرچہ ان کو گنانہ جائے تاکہ آپ لینے والوں اور نہ لینے والوں کو الگ الگ پہچان لیں کہیں ایسانہ ہو کہ معاملہ الجھ جائے، ولیدبن ہشام بن مغیرۃ (رض) نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین میں شام سے ہو کر آیا ہوں انھوں نے الگ الگ فہرستیں اور الگ الگ لشکر بنا رکھے ہیں سو آپ بھی الگ الگ فہرستیں اور الگ الگ لشکر بنا کر رکھیں حضرت عمر (رض) نے اس مشورہ کو قبول کرلیا اور عقیل بن ابی طالب محزمہ بن نوفل اور جبیر بن مطعم (رض) کو بلایا ؟ یہ لوگ قریش کے نسب ناموں کے ماہر تھے، ان کو حکم فرمایا کہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق تحریر کریں ، چنانچہ انھوں نے لکھے اور بنوھاشم سے شروع کئے اور پھر حضرت ابوبکر (رض) اور ان کی قوم کا نام لکھا اور پھر حضرت عمر (رض) اور ان کی قوم کا نام لکھا خلافت کا لحاظ کرتے ہوئے جب حضرت عمر (رض) نے دیکھا تو فرمایا کہ خدا کی قسم میرا بھی یہی دل چاہتا ہے ایساہی ہو لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریبی رشتہ داروں سے شروع کرو اور درجہ بدرجہ لکھتے جاؤ اور عمرکو وہاں رکھوجہاں اللہ نے رکھا ہے “۔ (ابن سعد)

11658

11658- عن أسلم قال: رأيت عمر بن الخطاب حين عرض عليه الكتاب وبنو تيم على إثر بني هاشم وبنو عدي على إثر بني تيم، فأسمعه يقول: ضعوا عمر موضعه وابدؤا بالأقرب فالأقرب من رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءت بنو عدي إلى عمر فقالوا: أنت خليفة رسول الله أو خليفة أبي بكر وأبو بكر خليفة رسول الله، فلو جعلت نفسك حيث جعلك هؤلاء القوم؟ قال: بخ بخ بني عدي أردتم الأكل على ظهري؟ لأن أذهب حسناتي لكم لا والله حتى تأتيكم الدعوة وأن أطبق عليكم الدفتر يعني ولو أن تكتبوا آخر الناس إن لي صاحبين سلكا طريقا فإن خالفتهما خولف بي والله ما أدركنا الفضل في الدنيا ولا ما نرجوه من الآخرة من ثواب الله على ما عملنا إلا بمحمد صلى الله عليه وسلم فهو شرفنا وقومه أشراف العرب ثم الأقرب فالأقرب إن العرب شرفت برسول الله صلى الله عليه وسلم ولو أن بعضنا يلقاه إلى آباء كثيرة وما بيننا وبين أن نلقاه إلى نسبه ثم لا نفارقه إلى آدم إلا آباء يسيرة ومع ذلك والله لئن جاءت الأعاجم بالأعمال وجئنا بغير عمل فهم أولى بمحمد منا يوم القيامة فلا ينظر رجل إلى القرابة ويعمل لما عند الله، فإن من قصر به عمله لم يسرع به نسبه. "ابن سعد".
11654 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں کے میں حضرت عمر (رض) کو دیکھا آپ کے سامنے فہرستیں پیش کی گئیں ، سب سے پہلے بنوہاشم تھے پھر بنوتمیم ، پھر بنوعدی، فرمایا کہ عمر کو وہیں رکھو جہاں اس کی جگہ ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں سے درجہ بدرجہ شروع کرو، بنوعدی حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ یا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے خلیفہ ہیں ابوبکر صدیق (رض) جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ تھے، سو اگر آپ خود بھی اسی حیثیت سے رکھیں جیسے ان لوگوں نے رکھا تو (کیساہو ؟ ) فرمایا ارے ارے، اے بنوعدی کیا تم میری پشت پر مارنا چاہتے ہو، اس طرح تو میں ضرور تمہاری خاطر اپنی نیکیاں ضائع کر بیٹھوں گا، نہیں خدا کی قسم یہاں تک کہ تمہارا بلاوا آجائے اور میں فہرستیں تمہارے سامنے ترتیب دے دوں یعنی تمہیں سب سے آخر میں رکھوں، بیشک میرے دو ساتھی تھے جو ایسے راستے پر چلے کہ اگر میں نے ان کی مخالفت کی تو میری بھی مخالفت کی جائے گی خدا کی قسم ہمیں دنیا میں کوئی فضیلت نہیں ملی نہ ہم آخرت میں اپنے اعمال وثواب دار فضیلت خواہاں ہیں اللہ کی طرف، علاوہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وہی ہماری عزت ہیں ان کی قوم عربوں میں افضل و اشرف ہے پھر ان سے قریب تر پھر ان سے قریب تر، اور عربوں کو عزت و عظمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی دی گئی ہے چاہے ہم بعض اس کو اپنے آباؤاجداد کی طرف منسوب کریں اور کیا ہے ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو اس عزت کو اپنے نسب کی طرف منسوب کریں پھر ہم حضرت آدم (علیہ السلام) سے چند پشتوں سے زیادہ دور بھی نہیں ، اور اس کے باوجود خدا کی قسم اگر عجمی لوگ عمال لے کر آئے اور ہم بغیر اعمال آگئے تو وہ قیامت کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیادہ حق دار ہوں گے پھر کوئی شخص قرابت داری کی طرف نہ دیکھے اور جو اللہ کے پاس ہے اس کے لیے عمل کرے، کیونکہ جس کا عمل کم پڑگیا اس کا نسب اس کے لیے کچھ نہ کرسکے گا “۔ (ابن سعد)

11659

11659- عن هشام الكعبي قال: رأيت عمر بن الخطاب يحمل ديوان خزاعة حتى ينزل قديدا، فنأتيه بقديد، فلا تغيب عنه امرأة بكر ولا ثيب فيعطيهن في أيديهن، ثم يروح فينزل عسفان فيفعل مثل ذلك أيضا حتى توفي. "ابن سعد".
11655 ۔۔۔ ہشام الکعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا آپ نے بنو خزعیہ والوں کی فہرستیں اٹھا رکھی تھیں یہاں تک کے قدید پہنچے، ہم بھی ان کے پاس قدید پہنچے وہاں کوئی عورت (خواہ باکرہ ہو یا شیبہ) بھی ایسی نہ رہی جس نے ہاتھ اپنے ہاتھ سے وظیفہ وصول نہ کیا ہو، پھر روانہ ہوئے اور عسفان پہنچے اور وہاں بھی ایساہی کیا حتیٰ کہ ان کی وفات ہوگئی “ (ابن سعد)

11660

11660- عن محمد بن زيد قال: كان ديوان حمير على عهد عمر على حدة. "ابن سعد".
11656 ۔۔۔ محمد بن زید کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں بنوحمیر والوں کی فہرست الگ ہوا کرتی تھی “۔ (ابن سعد)

11661

11661- عن جهم بن أبي جهم قال: قدم خالد بن عرفطة العذري على عمر، فسأله عما وراءه؟ فقال: يا أمير المؤمنين تركت من ورائي يسألون الله أن يزيد في عمرك من أعمارهم، ما وطيء أحد القادسية إلا عطاؤه ألفان أو خمس عشرة مائة، وما من مولود يولد إلا ألحق على مائة وجريبين كل شهر ذكرا كان أو أنثى، وما بلغ لنا ذكر إلا ألحق على خمسمائة أو ستمائة، فإذا خرج هذا لأهل بيت منهم من يأكل الطعام ومنهم من لا يأكل الطعام فما ظنك به؟ فإنه لينفقه فيما ينبغي، وفيما لا ينبغي، قال عمر: فالله المستعان، إنما هو حقهم أعطوه، وأنا أسعد بأدائه إليهم منهم بأخذه، فلا تحمدني عليه، فإنه لو كان من مال الخطاب ما أعطيتموه ولكني قد علمت أن فيه فضلا، ولا ينبغي أن أحبسه عنهم، فلو أنه إذا خرج عطاء أحد هؤلاء العريب ابتاع منه غنما فجعلها بسوادهم ثم أنه إذا خرج العطاء الثانية ابتاع الرأس فجعله فيها، فأنى ويحك يا خالد بن عرفطة أخاف أن يليكم بعدي ولاة لا يعد العطاء في زمانهم مالا فإن بقي أحد منهم أو أحد من ولدهم كان لهم شيء قد اعتقدوه فيتكئون عليه فإن نصيحتي لك وأنت عندي جالس كنصيحتي لمن هو بأقصى ثغر من ثغور المسلمين، وذلك لما طوقني الله من أمرهم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من مات غاشا لرعيته لم يرح رائحة الجنة. "ابن سعد كر".
11657 ۔۔۔ جہم بن ابی جہم کہتے ہیں کہ خالد بن عرفطۃ العذری حضرت عمر (رض) کے پاس آئے، حضرت عمر (رض) نے ان کے پیچھے رہ جانے والوں (گھربار اور قبیلے) کے بارے میں دریافت فرمایا، تو انھوں نے کہا کہ اے امیرالمومنین میں اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو چھوڑآیاہوں جو آپ کی عمر میں برکت کی دعا مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے، جو بھی قادسیہ گیا تھا اس کا وظیفہ سو اور دو ہزار یاپندرہ سو تک ہے، اور جو بھی نومولود بچہ یا بچی پیدا ہوئی ہے اس کا بھی وظیفہ سو اور دوجریب ہر ماہ مقرر کیا گیا ہو ہے، اور ہمارے ہاں جو بچہ بھی بالغ ہوا ہے اس کا وظیفہ پانچ سو سے چھ سو تک جاپہنچا ہے ، سو اگر یہ نکالے اپنے گھر والوں کے لیے جن میں سے بعض کھاتے ہیں بعض نہیں کھاتے تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ ان چیزوں میں خرچ کرے جو مناسب ہیں اور ان میں بھی جو مناسب نہیں ؟
حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اللہ ہی مددگار ہے، یہ تو انہی کا حق ہے ان کودے دو ، اور میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے یہ لے کر ان کو ان کا حق ادا کردیا ہے، سو اس پر میری تعاریف نہ کرو کیونکہ اگر یہ خطاب کے مال سے ہوتا تو میں اس کو ہرگز نہ دیتا، لیکن میں جانتاہوں کہ اس میں فضیلت ہے اور میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اس کو ان سے روک رکھوں، سو اگر ان دیہاتیوں میں سے کسی کی عطا نکل گئی تو وہ اس سے بکریاں خریدلے اور اس کو اپنے جنگل میں رکھ لے، پھر اگر دوسری مرتبہ کسی کی عطانکل گئی تو اس سے غلام خرید لے اور اس کو بھی وہیں رکھے، کیونکہ میں (تجھے سمجھ آئے) اے خالد بن عرفطۃ ! اس بات سے ڈرتاہوں کہ میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو اپنے زمانے میں عطاکومال نہ گنیں گے، سو اگر ان میں سے کوئی باقی ہوا، یا ان کی اولادوں میں سے تو ان کے لیے وہ چیز ہوگی جس کی وہ امید رکھتے اور اسی پر تکہ بیٹھے تھے، سو میری نصیحت تیرے لیے بھی وہی ہے جیسے اس شخص کے لیے جو اسلامی علاقوں کی انتہائی سرحد پر ہو حالانکہ تو میرے پاس ہی بیٹھا ہے، اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا معاملہ میرے حوالے کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا سے دھوکا کرنے والا تھا وہ جنت کی خوشبو بھی سونگھ نہ سکے گا “۔ (ابن سعد)

11662

11662- عن الحسن قال: كتب عمر إلى حذيفة أن أعط الناس أعطيتهم وأرزاقهم، فكتب إليه: إنا قد فعلنا وبقي شيء كثير، فكتب إليه عمر أنه فيئهم الذي أفاء الله عليهم، ليس هو لعمر، ولا لآل عمر، إقسمه بينهم. "ابن سعد".
11658 ۔۔۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت حذیفہ کو لکھا کہ لوگوں کے عطیے اور وظیفے دے دو ، انھوں نے جواب دیا کہ ہم دے چکے لیکن پھر بھی ابھی بہت باقی ہے، تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ یہ انہی کا حصہ ہے جو اللہ نے ان کو دیا ہے وہ نہ عمرکا ہے نہ عمر کی اولاد کا، باقی ماندہ کو بھی تقسیم کردو “۔ (ابن سعد)

11663

11663- عن ابن عمر قال: قدمت رفقة من التجار، فنزلوا المصلى، فقال عمر لعبد الرحمن بن عوف: هل لك أن نحرسهم الليلة من السرق؟ فباتا يحرسانهم، ويصليان ما كتب الله لهما فسمع عمر بكاء صبي فتوجه نحوه، فقال لأمه: اتقي الله وأحسني إلى صبيك، ثم عاد إلى مكانه فسمع بكاءه، فعاد إلى أمه، فقال لها: مثل ذلك، ثم عاد إلى مكانه، فلما كان في آخر الليل سمع بكاءه، فأتى أمه، فقال: ويحك إني لأراك أم سوء، مالي أرى ابنك لا يقر منذ الليلة؟ قالت: يا عبد الله قد أبرمتني منذ الليلة إني أريغه عن الفطام فيأبى، قال: ولم؟ قالت: لأن عمر لا يفرض إلا للفطيم، قال: وكم له؟ قالت: كذا وكذا شهرا، قال: ويحك لا تعجليه، فصلى الفجر وما يستبين الناس قراءته من غلبة البكاء فلما سلم قال: يا بؤسا لعمر كم قتل من أولاد المسلمين، ثم أمر مناديا فنادى ألا لا تعجلوا صبيانكم عن الفطام، فإنا نفرض لكل مولود في الإسلام وكتب بذلك إلى الآفاق: إنا نفرض لكل مولود في الإسلام. "ابن سعد وأبو عبيد في الأموال كر".
11659 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ چند تاجردوست آئے اور معلی میں ٹھہرے، تو حضرت عمر (رض) نے حضر عبدالرحمن بن عوف (رض) سے فرمایا کہ کیا خیال ہے ؟ کیا آج رات ہم ان کو چوری سے بچانے کے لیے ان کی چوکیداری کریں ؟ چنانچہ دونوں نے ان پہرے داری کرتے ہوئے رات گزاری اور نماز پڑھتے رہے جتنی اللہ نے ان کے نصیب میں لکھی تھی، اتنے میں حضرت عمر (رض) نے ایک بچے کی رونے کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کی ماں سے کہا کہ اللہ سے ڈر اور اپنے بچے کے ساتھ اچھا معاملہ کر یہ کہہ کر واپس آگئے، پھر بچے کے رونے کی آواز سنی، اس کی مان کے پاس واپس آئے اور اس سے اسی طرح کہا، اور اپنی جگہ واپس آگئے، رات کے آخری پہر انھوں نے پھر بچے کی رونے کی آوازسنی تو اس کی ماں کے پاس واپس آئے اور فرمایا کہ تو برباد ہو، میرے خیال میں تو اچھی ماں نہیں ہے، بھلا کیا مسلہ ہے کہ رات بھرتیرا بچہ بےچین رہا ہے ، وہ کہنے لگی کہ اے اللہ کے بندے ! میں رات سے پریشان ہوں کیونکہ میں اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں اور یہ انکار کرتا ہے، آپ نے (رض) نے دریافت فرمایا کیوں ؟ کہنے لگی اس لیے کہ حضرت عمر (رض) اسی بچے کے لیے وظیفہ مقرر کرتے ہیں جس کا دودھ چھڑایا جاچکا ہو، پھر پوچھا کہ اس کا کتنا ہوگا ؟ عورت نے فرمایا کہ اتنا اتنا ماہوار فرمایا تو برباد ہو جلدی مت کر، پھر فجر کی نماز پڑھائی، اور اسی دن نماز میں اتنا رو رہے تھے کہ لوگ ٹھیک سے آواز نہ سن پا رہے تھے، سو جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ ہائے تمہارے عمر کی بربادی، مسلمانوں کے بچے قتل کردئیے، پھر اعلان کرنے والے کو حکم دیاتو اس نے اعلان کیا کہ اپنے بچوں کو دودھ چھوڑانے میں جلدی نہ کروہم ہرنومولود مسلمان بچے کے لیے وظیفہ مقرر کردیتے ہیں، اور یہ حکم تمام ممالک اسلامیہ میں پہنچادیا کہ مسلمانوں کے ہر پیدا ہونے والے بچے کا وظیفہ مقرر کیا جائے گا “۔ (ابن سعد اور ابوعبید فی الاموال)

11664

11664- عن أسلم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: والله لئن بقيت إلى هذا العام المقبل لألحقن آخر الناس بأولهم، ولأجعلنهم بيانا واحدا. "أبو عبيد وابن سعد". مر برقم [11655] .
11660 ۔۔۔ اسلم فرماتے ہیں میں نے سنا حضرت عمر (رض) فرما رہے تھے خدا کی قسم اگر میں اگلے سال تک رہاتو میں لوگوں میں سے سب سے آخری کو پہلے سے ملادوں گا اور ان سب کو ایک ہی طریقے پر بنادوں گا “۔ (ابوعبید اور ابن سعد)

11665

11665- عن عمر قال: لئن عشت حتى يكثر المال لأجعلن عطاء الرجل المسلم ثلاثة آلاف: ألف لكراعه وسلاحه، وألف نفقة له، وألف نفقة لأهله. "ابن سعد".
11661 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں مال بڑھ جانے تک زندہ رہاتو میں ایک مسلم آدمی کا وظیفہ تین ہزرتک پہنچادوں گا، ہزار اس کے اسلحہ اور جانوروں کے لیے ہزار اس کے خرچے کے لیے اور ہزار اس کے گھروالون کے خرچے کے لیے “۔ (ابن سعد)

11666

11666- عن عمر قال: لو قد علمت نصيبي من هذا الأمر ليأتي الراعي بسروات حمير نصيبه وهو لا يعرق جبينه فيه. "أبو عبيد في الغرائب وابن سعد".
11662 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اگر مجھے اپنا حصہ معلوم ہوتا توحمیر کے سرداروں کا چرواہا بھی اپن حصہ لینے آجاتا اور اس کی پیشانی پر پسینہ تک نہ آتا “۔ (ابو عبید بی الغرانب اور ابن سعد)

11667

11667- عن عمرو قال: قسم عمر بن الخطاب بين أهل مكة مرة عشرة عشرة، فأعطى رجلا فقيل يا أمير المؤمنين إنه مملوك، قال: ردوه ردوه ثم قال: دعوه. "ابن سعد".
11663 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اھل مکہ میں ایک مرتبہ دس دس تقسیم فرمائے، ایک شخص کو دیاتو عرض کیا گیا کہ اے امیرالمومنین ! وہ تو مملوک غلام ہے تو فرمایا کہ اس کو بلالاؤ پھر فرمایا کہ چھوڑو جانے دو “۔ (ابن سعد)

11668

11668- عن عبد الله بن عبيد بن عمير قال عمر: إني لأرجو أن أكيل لهم المال بالصاع. "ابن سعد".
11664 ۔۔۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں ان کو صاع میں بھر بھر کر مال دوں گا “۔ (ابن سعد)

11669

11669- عن عائشة قالت: كان عمر بن الخطاب يرسل إلينا بأعطائنا حتى من الرؤس والأكارع. "ابن سعد".
11665 ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت عمر (رض) ہمارے پاس ہمارے وظائف بھیجا کرتے تھے اور غلام اور جانور وغیرہ بھی “۔ (ابن سعد)

11670

11670- عن عبد الله بن عبيد بن عمير قال قال عمر بن الخطاب: والله لأزيدن الناس ما زاد المال، لأعدنه لهم عدا، فإن أعياني لأكيلنه لهم كيلا فإن أعياني كثرته لأحثونه لهم حثوا بغير حساب، هو ما لهم يأخذونه. "ابن سعد".
11666 ۔۔۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب تک مال بڑھتا رہے گا میں وظائف بھی بڑھاتا رہوں گا ، اور ان کے لیے تیار کر رکھوں گا، بیشک میں اپنے ساتھیوں کے لیے پیمانے بھربھر کردوں گا کیونکہ میرے ساتھی (عوام) بہت ہیں چنانچہ میں ان کو مٹھیاں بھربھر کر بےحساب دوں گا، وہ انہی کا مال ہے جو وہ لیتے ہیں “۔ (ابن سعد)

11671

11671- عن الحسن قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أبي موسى: أما بعد فاعلم يوما من السنة لا يبقى في بيت المال درهم حتى يكتسح اكتساحا حتى يعلم الله أني قد أديت إلى كل ذي حق حقه. "ابن سعد كر".
11667 ۔۔۔ حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسی (رض) کو لکھا کہ امابعد، جان لو کہ آج سال کا وہ دن ہے کہ بیت المال میں ایک درھم بھی باقی نہیں رہا بلکہ بالکل جھاڑو پھر گئی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ بیت المال میں ایک درھم بھی باقی نہیں رہا بلکہ بالکل جھاڑو پھر گئی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ میں نے ہر حق دار کا حق ادا کردیا ہے “۔ (ابن سعد)

11672

11672- عن ابن عباس قال: دعاني عمر بن الخطاب، فأتيته فإذا بين يديه نطع عليه الذهب منثور نثر الحثا، فقال ابن عباس أتدري ما الحثا؟ فذكر التبن، فقال: هلم فاقسم هذا بين قومك، فالله أعلم حيث زوى هذا عن نبيه صلى الله عليه وسلم، وعن أبي بكر، فأعطيته، لخير أعطيته أم لشر؟ ثم بكى، وقال: كلا والذي نفسي بيده ما حبسه عن نبيه وعن أبي بكر إرادة الشر بهما، وأعطاه عمر إرادة الخير له. "أبو عبيد في الأموال وابن سعد وابن راهويه والشاشي" وحسن.
11668 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے بلایا ، میں آیا تو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک چمڑے کی چٹائی بچھی ہوئی ہے اور اس پر مٹھیاں بھربھر سونا بکھرا پڑا ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ مٹھی بھر کیا ہے ؟ توڈلی کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ یہاں آؤ اور یہ اپنی قوم کے درماین قسیم کردو، اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کیوں اس کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے دور رکھا گیا اور مجھے دیا گیا، کسی بھلائی کے لیے مجھے دیا گیا یا برائی کے لیے ؟ پھر روپڑے اور فرمایا کہ ہرگز نہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکرصدیق (رض) سے کسی برائی کی وجہ سے نہیں روکا گیا، اور نہ عمرکودیا گیا کسی بھلائی کے لیے “۔ (ابوعبید فی الاموال ، ابن سعد، ابن راھویہ، شاشی)

11673

11673- عن محمد بن سيرين أن صهرا لعمر بن الخطاب قدم على عمر فعرض له أن يعطيه من بيت المال؟ فانتهره عمر فقال: أردت أن ألقى الله ملكا خائنا؟ فلما كان بعد ذلك أعطاه من صلب ماله عشرة آلاف درهم. "ابن سعد وابن جرير كر".
11669 ۔۔۔ محمد سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے ایک داماد حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور درخواست کی کہ انھیں بیت المال سے کچھ دیا جائے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ڈانٹا اور فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ سے خائن بادشاہ بن کر ملوں، اس کے بعدان کو اپنے ذاتی مال سے دس ہزار درہم دیئے۔ (ابن سعد، ابن جریر)

11674

11674- عن عمر قال: لئن عشت لأجعلن عطاء سفلة الناس ألفين. "ابن سعد".
11670 ۔۔۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اگر میں باقی رہا تو کم ترین لوگوں کا وظیفہ بھی دو ہزار کردوں گا “۔ (ابن سعد)

11675

11675- عن يزيد بن أبي حبيب: من أدرك ذلك، قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص: أنظر من كان قبلك ممن بايع النبي صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة فأتم لهم العطاء مائتي دينار وأتمها لنفسك لإمرتك وأتمها لخارجة بن حذافة لشجاعته ولعثمان بن قيس ابن أبي العاص لضيافته. "ابن سعد وأبو عبيد في الأموال وابن عبد الحكم كر".
11671 ۔۔۔ یزید بن ابی حبیب (جنہوں نے یہ زمانہ پایا) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عمروبن العاص (رض) سے فرمایا کہ آپ سے پہلے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر بیت کی تھی ان کو دودوسو دینار وظیفہ مکمل دو ، اور اس کو اپنے لیے اور اپنی اھلیہ کے لیے مکمل کرلو اور خارجہ بن حذافہ کو بھی مکمل دوسودینار دو کیونکہ بہت بہادر آدمی ہیں اور عثمان بن قیس بن ابی العاص کو بھی مکمل دو کیونکہ وہ بہت مہمان نواز ہے “۔ (ابن سعد، ابوعبید فی الاموال اور ابن عبدالحکم)

11676

11676- عن عبد الله بن هبيرة أن عمر بن الخطاب أمر بناذرة أن يخرج إلى أمراء الأجناد يتقدمون إلى الرعية أن عطاءهم قائم، وأن أرزاق عيالاتهم سائل فلا يزرعون ولا يزارعون. "ابن عبد الحكم".
11672 ۔۔۔ عبداللہ بن ھبیرۃ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ناذرۃ کو حکم دیا کہ لشکروں کے امراء کے پاس جاؤجورعایا کی طرف واپس آرہے ہیں اور ان سے کہو کہ ان کے وظائف برقرار ہیں اور ان کے گھر والوں کے وظائف بھی بہے جارہے ہیں سو کھیتی وغیرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں “۔ (ابن عبدالحکم)

11677

11677- عن زيد بن ثابت قال: كان عمر يستخلفني على المدينة فوالله ما رجع من مغيب قط إلا قطع لي حديقة من نخل. "ابن سعد".
11673 ۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مجھے مدینہ میں اپنا خلیفہ بناکر جایا کرتے تھے اور جب بھی واپس آتے مجھے کھجوروں کا ایک باغ عطا فرماتے “۔ (ابن سعد)

11678

11678- عن يحيى بن عبد الله بن مالك أن عمر بن الخطاب كتب إلى عمرو بن العاص: أن يحمل طعاما من مصر في البحر حتى يرسي به إلى بولاء، وكان الساحل يقسمه على الناس على حالاتهم وعيالاتهم، وإن أهل المدينة قوم محصورون، وليست بأرض زرع فبعث عمرو بن العاص بعشرين مركبا في البحر، وبعث في كل مركب ثلاثة آلاف إردب حب وأكثر وأقل حتى انتهت إلى الجار وهو المرفأ اليوم وبلغ عمر بن الخطاب قدومها فخرج وخرج معه الأكابر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنظر إلى السفن فحمد الله الذي ذلل لهم البحر حتى جرت فيه منافع المسلمين إلى المدينة وأمر سعد الجار أن يقبض ذلك الطعام وإن يستوفيه، فلما قدم عمر المدينة قسم ذلك الطعام على الناس، وكتب لهم بالصكاك إلى الجار فكانوا يخرجون ويقبضون ذلك. "ابن سعد".
1174 ۔۔۔ یحییٰ بن عبداللہ بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عمروبن العاص (رض) کی طرف لکھا کہ کھانے پینے کا سامان لے کر مصر سے سمند رکے راستے لے کر آئیں اور ساحل پر لنگر انداز ہوں اور ساحل لوگوں کے حالات اور گھروالوں کے مطابق تقسیم تھا اور اھل مدینہ تو چاروں چرف سے گھرے ہوئے تھے، مدینہ کی ایسی نہ تھی جہاں کھیتی باڑی ہوسکے، چنانچہ حضرت عمروبن العاص (رض) نے مصر سے بیس کشتیوں میں سامان بھیجا ، ہر کشتی میں تین ہزار ارب کم وبیش دانے تھے حتیٰ کہ کشتیاں ساحل کے کنارے آنے لگیں ساحل بھی چمک رہا تھا،حضرت عمر (رض) اور بڑے بڑے صحابہ کرام (رض) ان کے استقبال کے لیے پہنچے ، آپ (رض) نے جب کشتیوں کو دیکھا تو اللہ کا شکریہ ادا کیا جس نے مسلمانوں کے لیے سمندر کو مسخر کردیاتھاتا کہ اس میں مسلمانوں کے فائدے مدینہ تک جاپہنچ سکیں اور حضرت سعد (رض) کو حکم دیا کہ کھانے کا سامان کو وصول کرلیں اور پوراپورا دیں، پھر جب حضرت عمر (رض) مدینہ منورہ واپس آئے تو یہ کھانے کا سامان لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا، اور لوگوں کے لیے پرچیاں لکھ دیں جو وہ لے کرجاتے اور کھانا وصول کرتے “۔ (ابن سعد)

11679

11679- عن عبد الله بن أبي هذيل أن عمر رزق عمارا وابن مسعود وعثمان بن حنيف، شاة لعمار شطرها وبطنها، ولعبد الله ربعها، ولعثمان ربعها كل يوم. "ابن سعد".
11675 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن ابی ھذیل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عمار، حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت عثمان ابن حنیف (رض) کو وظیفہ عطا فرمایا، ہر روز ایک بکری، اس کا پیٹ اور ایک حصہ حضرت عمار (رض) کے لیے ، ایک چوتھائی حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کے لیے اور ایک چوتھائی حضرت عثمان (رض) بن حنیف کے لیے “۔ (ابن سعد)

11680

11680- عن سماك بن حرب قال: حدثني إسحاق أن رجلا مات بعد ثمانية أشهر من السنة فأعطاه عمر بن الخطاب ثلثي عطائه. "أبو عبيد في الأموال".
11676 ۔۔۔ سماک بن حرب فرماتے ہیں کہ ایک شخص سال کے آٹھویں مہینے انتقال کرگیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کو وظیفہ کا دوتہائی عطا فرمایا۔ (ابو عبید فی الاموال)

11681

11681- عن عبد الله بن قيس أو ابن أبي قيس قال: قدم عمر الجابية فأراد قسمة الأرض بين المسلمين، فقال له معاذ: والله إذا ليكونن ما تكره، إنك إن قسمتها اليوم كان الريع العظيم في أيدي القوم يبيدون فيصير ذلك إلى الرجل الواحد، ثم يأتي من بعدهم قوم يسدون من الإسلام مسدا وهم لا يجدون شيئا فانظر أمرا يسع أولهم وآخرهم فصار عمر إلى قول معاذ. "أبو عبيد والخرائطي في مكارم الأخلاق".
11677 ۔۔۔ عبداللہ بن قیس یا ابن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جابیہ تشریف لائے اور زمین کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت معاذ (رض) نے فرمایا کہ (اگر آپ نے ایسا کیا ) تو پھر تو ہوجائے گا جو آپ کو ناپسند ہے، اگر آپ نے زمین کو آج تقسیم کردیا تو زبردست پیداوار ہوگی جو ایسی قوم کے ہاتھ چلی جائے گی جو ہلاک ہوجائے گی اور سب کچھ ایک ہی شخص کے پاس چلا جائے گا، پھر ان کے بعد ایسی قوم آئے گی جو اسلام کا راستہ روکے گی اور انھیں کچھ نہ ملے گا سو ایسا معاملہ کر رنے کی کوشش کریں کہ اس میں ابتداء وانتہاءدونوں کی گنجائش ہو، چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاذ (رض) کے مشورے کو قبول فرمالیا “۔ (ابوعبید، خرائطی فی مکارم الاخلاق)

11682

11682- عن إبراهيم قال: لما افتتح المسلمون السواد قالوا لعمر: اقسمها بيننا فإنا فتحناه فأبى عمر وقال: فما لمن جاء بعدكم من المسلمين؟ وأخاف إن تقاسموا أن تفاسدوا بينكم في المياه، فأقر أهل السواد في أرضهم وضرب على رؤسهم الجزية، وعلى أرضهم الطسق، يعني الخراج. "أبو عبيد وابن زنجويه".
11678 ۔۔۔ ابراھیم فرماتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے سواد فتح کرلیا تو حضرت عمر (رض) سے درخواست کی کہ اسے ہمارے درمیان تقسیم کر دیجئے کیونکہ اسے ہم نے فتح کرلیا ہے تو حضرت عمر (رض) نے انکار فرمایا اور فرمایا کہ ان مسلمانوں کا کیا قصور ہے جو تمہارے بعد آئیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ تم اسے آپس میں تقسیم کرلوگے اور پانی کے معاملے میں فساد کرو گے سو حضرت عمر (رض) نے اھل سواد کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا اور ان پر جزیہ مقرر فرمادیا اور ان کی زمینوں پر خراج مقرر کردیا “۔ (ابوعبید، ابن زنجویہ)

11683

11683- عن محمد بن عجلان قال: لما دون عمر الديوان قال: بمن نبدأ؟ قالوا: بنفسك، فابدأ قال: لا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم إمامنا فبرهطه نبدأ بالأقرب فالأقرب. "أبو عبيد".
11679 ۔۔۔ محمد بن عجلان فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) نے فہرستیں تیار کروائیں تو دریافت فرمایا کہ کس سے شروع کریں ، عرض کیا گی ا کہ اپنے آپ سے، تو آپ (رض) نے فرمایا کہ نہیں ، بلکہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے امام ہیں چنانچہ ان کو سب سے پہلے رکھ کردرجہ بدرجہ رشتے داروں کے نام لکھو “۔ (ابوعبید)

11684

11684- عن عبد الرحمن بن عوف قال: بعث إلي عمر بن الخطاب أظنه قال ظهرا، فأتيته فلما بلغت الباب سمعت نحيبه، فقلت: إنا لله وإنا إليه راجعون، اعتري والله أمير المؤمنين اعتري فدخلت فأخذت بمنكبه، وقلت لا بأس لا بأس يا أمير المؤمنين، قال: بل أشد البأس، فأخذ بيدي، فأدخلني الباب فإذا حقائب بعضها فوق بعض، فقال: الآن هان آل الخطاب على الله، إن الله لو شاء لجعل هذا إلى صاحبي يعني النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر، فسنا لي فيه سنة أقتدي بها قلت: اجلس بنا نفكر، فجعلنا لأمهات المؤمنين أربعة آلاف أربعة آلاف، وجعلنا للمهاجرين أربعة آلاف أربعة آلاف، ولسائر الناس ألفين ألفين، حتى وزعنا ذلك المال. "أبو عبيد في الأموال والعدني".
11680 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) نے مجھے بلوایا، غالبا ظہر کے وقت میں ان کے دروازے پر پہنچا تو مجھے ان کے رونے کی آواز سنائی دی تو میں نے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ کچھ ہوگیا واللہ امیرالمومنین کچھ ہوگیا، پھر میں اندر داخل ہوا اور ان کا کندھا پکڑا اور عرض کیا کہ کوئی بات نہیں ، کوئی بات نہیں اے امیرالمومنین فرمایا نہ صرف بات ہے بلکہ بہت سخت بات ہے پھر میرا ہاتھ پکڑا اور ایک کمرے میں لے گئے جہاں ایک دوسرے کے اوپر بہت سے تھیلے پڑے تھے، اور فرمایا کہ اب خطاب کی اولاد پر اللہ کے سامنے آزمائش کا وقت آیا ہے اگر اللہ چاہتے تو یہ سارا مال میرے دونوں ساتھیوں یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکرصدیق (رض) کو بھی دیتے اور میں اس کا کوئی طریقہ مقرر فرما دیتے تو میں بھی اسی طریقے کی پیروی کرتا، میں نے عرض کیا کہ بیٹھ جائے ہم کچھ سوچتے ہیں ، چنانچہ ہم نے امہات المومنین کا وظیفہ چار چار ہزار ، مہاجرین کا وظیفہ بھی چار چار ہزار اور سب لوگوں کا وظیفہ دو ہزار مقرر کیا حتیٰ کہ ہم نے سارامال تقسیم کردیا “۔ (ابوعبید فی الاموال والعدنی)

11685

11685- عن قيس بن أبي حازم، قال: جاء بلال إلى عمر حين قدم الشام وعنده أمراء الأجناد فقال: يا عمر يا عمر، فقال عمر: هذا عمر، فقال: إنك بين هؤلاء وبين الله، وليس بينك وبين الله أحد، فانظر من بين يديك؟ ومن عن يمينك؟ ومن عن شمالك؟ فإن هؤلاء الذين جاؤك والله لن يأكلوا إلا لحوم الطير، فقال عمر: صدقت، لا أقوم من مجلسي هذا حتى تكفلوا لي لكل رجل من المسلمين بمديي بر وحظهما من الخل والزيت، قالوا: تكفلنا لك يا أمير المؤمنين، هو علينا، قد كثر الله من الخير وأوسع. قال: فنعم إذن. "أبو عبيد".
11681 ۔۔۔ حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) شام آگئے تو حضرت بلال (رض) ان کے پاس تشریف لائے وہاں لشکروں کے امیر بھی تھے آتے ہی فرمانے لگے اے عمر ! اے عمر ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا یہ رہاعمر، تو حضرت بلال (رض) نے فرمایا کہ آپ ان کے اور اللہ کے درمیان ہیں اور آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں، سو اپنے دائیں بائیں اور سامنے دیکھئے، یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کے پاس آئے ہیں اور انھیں نے پرندوں کے گوشت کے علاوہ کچھ نہیں کھایا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا نے فرمایا کہ آپ نے سچ کہا میں اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ کھڑا ہوں گا جب تک آپ لوگ ہر مسلمان شخص کے لیے دومدگندم اور ان دونوں کے حصے کا سرکہ اور تیل دینے کی ذمہ داری نہ قبول کروں، انھوں نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین ہم ذمہ داری قبول کرتے ہیں، یہ ہم پر لازم ہے اللہ تعالیٰ نے خیر اور وسعت بہت عطا فرمائی ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ پھر ٹھیک ہے “۔ (ابوعبید)

11686

11686- عن حارثة بن مضرب أن عمر أمر بجريب من الطعام فعجن ثم خبز ثم ثرده بزيت: ثم دعا عليه ثلاثين رجلا، فأكلوا غداءهم حتى أصدرهم، ثم فعل بالعشاء مثل ذلك، وقال: يكفي الرجل جريبان كل شهر، فكان يرزق الناس: المرأة والرجل والمملوكين جريبين جريبين كل شهر. "أبو عبيد".
11682 ۔۔۔ حضرت حارثہ بن مغرب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیاچنانچہ ایک تھیلاکھانے کا گوندھا گیا تھا اور پھر اس سے روٹی بنائی گئی، پھر تیل میں اس کا ثرید بنایا گیا اور پھر اس پر تیس آدمیوں کو بیٹھایا گیا تو انھوں نے صبح کے وقت پیٹ بھرکر کھایا ، پھر عشاء کے وقت بھی ایساہی کیا گیا اور فرمایا کہ ہر شخص کو مہنے بھر دوتھیلے کافی ہوجائیں گے، چنانچہ تمام تمام لوگوں کو ہر ماہ دوتھیلے ملتے خواہ مردہویا عورتیں یامملوک غلام “۔ (ابوعبید)

11687

11687- عن سفيان بن وهب قال قال عمر: وأخذ المدي بيد، والقسط بيد إني فرضت لكل نفس مسلمة في كل شهر مديي حنطة، وقسطي خل، وقسطي زيت، فقال رجل: وللعبيد؟ فقال عمر: نعم وللعبيد. "أبو عبيد".
11683 ۔۔۔ سفیان بن وھب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے ایک ہاتھ میں دومد اور ایک ہاتھ میں دوقسط اٹھائے اور فرمایا کہ میں نے ہر مسلمان کے لیے ہر ماہ دومد گندم اور دوقسط سرکہ ایک ہاتھ میں دوقسط تیل مقرر کیا ہے ایک شخص نے عرض کیا کہ اور غلاموں کے لیے ؟ فرمایا ہاں غلاموں کے لیے بھی “۔ (ابوعبید)

11688

11688- عن عبد الله بن أبي قيس أن عمر صعد المنبر فحمد الله، ثم قال: أما بعد فقد أجرينا عليكم أعطياتكم وأرزاقكم في كل شهر، قال وفي يده المدى والقسط، ثم قال: خذ كليهما فمن انتقصهما ففعل الله به كذا وكذا قال: فدعا عليه. "أبو عبيد".
11684 ۔۔۔ عبداللہ بن ابی قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) منبر پر تشریف فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان فرمایا، امابعد ہم نے تمہارے وظائف اور عطایا ہر ماہ جاری کردئیے ، فرمایا ان کے ہاتھوں میں مد اور قسط تھے پھر فرمایا کہ ان دونوں کو لے لو، جس نے ان میں کمی کی تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ایسا سلوک کرے گا، پھر بددعا فرمائی “۔ (ابوعبید)

11689

11689- عن أبي الدرداء قال: رب سنة راشدة مهدية قد سنها عمر في أمة رسول الله صلى الله عليه وسلم منها المديان والقسطان. "أبو عبيد".
11685 ۔۔۔ حضرت ابو الدرداء (رض) فرماتے ہیں کہ بعض ہدایت سے بھری ہوئی سنتیں ایسی ہیں جنہیں حضرت عمر (رض) نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں جاری فرمایا ان میں سے مد اور قسط بھی ہیں “۔ (ابوعبید)
فائدہ۔۔۔ مد اور قسط دوپیمانے ہیں مداڑسٹھ تولے تین ماشے کا ہوتا ہے، دیکھیں بہشتی زیور 4 حصہ نہم دہم تاج کمپنی، واللہ ! علم بالصواب۔ (مترجم)

11690

11690- عن حكيم بن عمير أن عمر بن الخطاب كتب إلى أمراء الأجناد: ومن أعتقتم من الحمراء فأسلموا فألحقوهم بمواليهم، لهم ما لهم وعليهم ما عليهم، وإن أحبوا أن يكونوا قبيلة وحدهم فاجعلوهم أسوتكم في العطاء والمعروف. "أبو عبيد".
11686 ۔۔۔ حضرت حکیم بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) لشکروں کے امراء کو لکھا کہ سرخ لوگوں میں سے جو تم نے آزاد کئے ہیں اور وہ مسلمان ہوچکے ہیں تو ان کو ان کے آقاؤں کے حوالے کردو، ان کو وہی ملے گاجوان کے آقاؤں کو ملے گا اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی جوان کے آقاؤں پر ہوں گی اور اگر وہ ایک قبیلے کی صورت الگ رہنا چاہیں تونی کی اور وظائف اپنے طریقے کے مطابق رکھو “۔ (ابوعبید)

11691

11691- عن الحسن أن قوما قدموا على أبي موسى فاعطى العرب وترك الموالي، فكتب إليه عمر: ألا سويت بينهم؟ بحسب المرء من الشر أن يحقر أخاه المسلم. "أبو عبيد".
11687 ۔۔۔ حسن فرماتے ہیں کچھ لوگ حضرت ابوموسی (رض) کے پاس آئے تو انھوں نے عربوں کو دیا اور آزاد کردہ غلاموں کو چھوڑ دیا تو حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا کہ آپ نے ان کے درمیان برابری کا سلوک کیوں نہ کیا، انسان کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (ابوعبید)

11692

11692- عن أبي قبيل قال: كان الناس في زمن عمر بن الخطاب إذا ولد المولد فرض له في عشرة، فإذا بلغ أن يفرض ألحق به. "أبو عبيد".
11688 ۔۔۔ ابو قبیل فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) کے زمانے میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے لیے دس تک وظیفہ مقرر ہوتا اور جب وہ بالغ ہوجاتا تو بڑوں والاوظیفہ ملتا “۔ (ابوعبید)

11693

11693- عن سليمان بن حبيب أن عمر بن الخطاب فرض لعيال المقاتله وذراريهم العشرات، فأمضى عثمان ومن بعده من الولاة ذلك، وجعلوها موروثة يرثها ورثة الميت منهم، ممن ليس في العطاء والعشر. "أبو عبيد".
11789 ۔۔۔ سلیمان بن حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سپاہیوں کے گھروالوں اور بچوں وغیرہ کے لیے دس مقرر کئے اور حضرت عثمان (رض) اور بعد والے امراء اسی طریقے پر چلے اور اس کو وراثت بنادیا، میتوں کی وراثت میں ان کو ملنے لگا جن کا کوئی عطا اور وظیفہ نہ تھا “۔ (ابوعبید)

11694

11694- عن طارق بن شهاب قال: كانت عطايانا تخرج في زمن عمر لم تزك حتى كنا نزكيها. "أبو عبيد في الأموال".
11690 ۔۔۔ طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ ہمارے عطایا وظیفے بغیر زکوۃ وغیرہ کئے نکالے جاتے تھے اور ہم خود ہی ان سے زکوۃ وغیرہ نکالا کرتے تھے۔ (ابوعبید فی الاموال )

11695

11695- عن زيد بن أسلم أن عمر بن الخطاب لما فرض للناس؛ فرض لعبد الله بن حنظلة ألفي درهم، فأتاه طلحة بابن أخ له ففرض له دون ذلك، فقال:يا أمير المؤمنين فضلت هذا الأنصاري على ابن أخي؟ فقال: نعم لأني رأيت أباه يستتر بسيفه يوم أحد كما يستتر الجمل. "كر".
11691 ۔۔۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جب وظائف مقرر کئے تو حضرت عبداللہ بن حنظلہ کے لیے دو ہزار درھم مقرر کئے ، حضرت طلحہ اپنے بھتیجے کو لے کر ان کے پاس آئے تو اس کے لیے اس سے کم مقرر کیا، تو انھوں نے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین ! آپ نے اس انصاری کو میرے بھتیجے پر فضیلت دی ؟ تو فرمایا کہ ہاں اس لیے کہ میں جنگ احد میں اس کے باپ کو تلوار لے کر چھپتے ہوئے دیکھا تھا جی سے اونٹ چھپتے ہیں۔

11696

11696- عن ناشرة بن سمي اليزني قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول يوم الجابية وهو يخطب الناس: إن الله جعلني خازنا لهذا المال، وقاسما له، ثم قال: بل الله يقسمه، وأنا باد بأهل النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أشرفهم ففرض لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم إلا جويرية وصفية وميمونة، قالت عائشة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعدل بيننا، فعدل بينهن عمر، ثم قال: إني بادئ بي وبأصحابي المهاجرين الأولين، فإنا أخرجنا من ديارنا ظلما وعدوانا ثم أشرفهم، ففرض لأصحاب بدر منهم خمسة آلاف، ولمن شهد بدرا من الأنصار أربعة آلاف، وفرض لمن شهد الحديبية ثلاثة آلاف، وقال: من أسرع في الهجرة أسرع به العطاء، ومن أبطأ في الهجرة أبطأ به العطاء، فلا يلومن رجل إلا مناخ راحلته. "هق".
11693 ۔۔۔ ناشرۃ بن سمی الیزنی فرماتے ہیں کہ یوم جابیہ میں میں نے سناحضرت عمر (رض) لوگوں کے سامنے خطبہ بیان فرما رہے تھے بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن اور اس کو تقسیم کرنے والا بنایا ہے پھر فرمایا کہ بلکہ اللہ ہی اس کو تقسیم کرتے ہیں اور میں ابتداء کرنے والا ہوں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں سے پھر درجہ بدرجہ جو زیادہ معزز ہو، چنانچہ امہات المومنین (رض) کے لیے بھی وظائف مقرر فرمائے علاوہ حضرت جویریہ، حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ (رض) کے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان عدل فرمایا کرتے تھے ، اور حضرت عمر (رض) نے بھی ہمارے درمیان عدل فرمایا ہے پھر فرمایا کہ میں اپنے آپ سے اور اپنے مہاجرین ساتھیوں سے شروع کرنے والاہوں اور پھر جو زیادہ معزز ہو، کیونکہ ہمیں ظلم اور دشمنی کی بناء پر ہمارے گھروں سے نکالا گیا، چنانچہ پھر ان میں اھل بدر کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصار میں سے اھل بدر کے چارچار ہزار مقرر فرمائے ، اور اھل حدیبہ کے لیے تین تین ہزار مقرر فرمائے اور فرمایا کہ جس نے ہجرت میں جلدی کی اس کے لیے عطانے بھی جلدی کی، اور جو ہجرت میں پیچھے رہ گیا اس کا وظیفہ بھی پیچھے رہ گیا سو کوئی شخص اپنی سواری کے علاوہ اور کسی کو ملامت نہ کرے “۔ (سنن کبری بیھقی)

11697

11697- الشافعي أخبرني غير واحد من أهل العلم والصدق من أهل المدينة ومكة من قبائل قريش ومن غيرهم وكان بعضهم أحسن اقتصاصا للحديث من بعض، وقد زاد بعضهم على بعض في الحديث: أن عمر بن الخطاب لما دون الدواوين قال: أبدأ ببني هاشم فإني حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيهم وبني المطلب، فإذا كان السن في الهاشمي قدمه على المطلبي وإذا كان في المطلبي قدمه على الهاشمي، فوضع الديوان على ذلك وأعطاهم عطاء القبيلة الواحدة، ثم استوت له عبد شمس ونوفل في جذم النسب، فقال: عبد شمس أخو النبي صلى الله عليه وسلم لأبيه وأمه دون نوفل فقدمهم، ثم دعا بني نوفل يتلونهم، ثم استوت له عبد العزي وعبد الدار، فقال: في بني أسد بن عبد العزي أصهار النبي صلى الله عليه وسلم وفيهم أنهم من المطيبين، وقال بعضهم: هم من حلف الفضول، وفيهما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد قيل: ذكر سابقة فقدمهم على بني عبد الدار ثم دعا بني عبد الدار يتلونهم، ثم انفردت له زهرة فدعاها تتلو عبد الدار، ثم استوت له تيم ومخزوم، فقال في بني تيم إنهم من حلف الفضول والمطيبين وفيهما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقيل: ذكر سابقة وقيل: ذكر صهرا فقدمهم على مخزوم، ثم دعا مخزوما يتلونهم ثم استوت له سهم وجمح وعدي بن كعب، فقيل له: ابدأ بعدي، فقال: بل أقر نفسي حيث كنت، فإن الإسلام دخل وأمرنا وأمر بني سهم واحد، ولكن انظروا بني جمح وسهم، فقيل: قدم بني جمح، ثم دعا بني سهم وكان ديوان عدي وسهم مختلطا كالدعوة الواحدة، فلما خلصت إليه دعوته كبر تكبيرة عالية، ثم قال: الحمد لله الذي أوصل إلي حظي من رسوله ثم دعا بني عامر بن لؤي، قال الشافعي: قال بعضهم: إن أبا عبيدة بن عبد الله بن الجراح الفهري لما رأى من تقدم عليه قال: أكل هؤلاء تدعو أمامي؟ فقال: يا أبا عبيدة اصبر كما صبرت أو كلم قومك فمن قدمك منهم على نفسه لم أمنعه، فأما أنا وبنو عدي فنقدمك إن أحببت على أنفسنا، فقدم معاوية بعد بني الحارث بن فهر فصل بهم بين عبد مناف وأسد بن عبد العزي، وشجر بين بني سهم وعدي شيء في زمان المهدي فافترقوا، فأمر المهدي ببني عدي فقدموا على سهم وجمح للسابقة فيهم. "هق".
11693 ۔۔۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ مجھے اھل مدینہ میں سے بہت سے اہل علم وصرف نے بتایا جو قریشی اور دیگر قبائل سے تعلق رکھتے تھے، اور بعض لوگ حدیث کو بیان کرنے میں دوسروں سے اچھے تھے، اور بعض لوگوں نے دیگر بعض کی نسبت حدیث میں کچھ اضافہ بھی بیان کیا ہے کہ جب حضرت عمر (رض) نے فہرستیں تیارکروائیں تو فرمایا کہ میں بنوھاشم سے شروع کرنے والاہوں کیونکہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنوہاشم کو دیتے تھے اور پھر بنوعبدالمطلب کو، اسی طریقے پر فہرست تیار کروائی اور پھر ان کو ایک ہی قبیلے کی طرح کجر دیا، پھر نسب کے لحاظ سے عبدالشمس اور بنونوفل والے برابر ہوگئے تو فرمایا کہ بنو عبدالشمس جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماں باپ شریک بھائی ہیں جبکہ نوفل نہیں چنانچہ عبدالشمس کو مقدم رکھا، پھر ان کے فوراًبنو نوفل والوں کو بلایا، پھر عبدالدار والے برابر ہوگئے تو فرمایا کہ بنواسد بن عبدالعزی میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دامادی رشتے داری ہے اور انہی میں مطیبین بھی ہیں، بعض نے کہا کہ وہ اھل حلف الفضول میں سے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں میں سے تھے، اور یہ بھی کہا گیا کہ عبدالعزی والوں کی سبقت کا ذکر کیا اور ان کو عبدالعزی والوں پر مقدم کیا پھر ان کے فوراًبعد عبدالدار والوں کو بلایا پھر زعرۃ والے اکیلے رہ گئے توعبدالدار کے فوراًبعد زعرۃ والوں کو بلایاپھرتیم اور مخزوم والے برابر ہوگئے توبنو تیم والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اھل حلف الفضول میں سے ہیں اور ان میں مطیبین بھی ہیں اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان میں سے ہیں، یہ بھی کہا گی کہ سبقت کو ذکر کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ سسرالی رشتے داری کو ذکر کیا گیا تیم والوں کو مخزوم والوں پر مقدم کیا گیا پھر فوراًمخزوم والوں کو بلایا گیا ، پھر سھم، جمح اور عدی بن کعب والے برابر ہوگئے کہا گیا کہ عدی والوں سے شروع کریں تو فرمایا کہ میں اپنے نفس کو اسی حالت میں رکھتاہوں جسم میں وہ پہلے تھا، جب اسلام آیا تو ہمارا اور بنوسھم کا معاملہ ایک تھا لیکن بنو جمح اور سھم کو دیکھو عرض کیا گیا کہ جمح کو مقدم کریں پھر بنو سھم کو بلایا اور عدی اور سھم والوں کی فہرست اس طرح ملی جلی تھی کہ گویا ایک ہی بلاواہو، جب یہ معاملہ پورا ہوگیا تو بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے مجھے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور پھر بنوعامر بن لوی سے میرا حصہ پہنچادیا۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے کہا کہ حضرت ابوعبیدۃ بن عبداللہ بن الجراح الفہری (رض) نے جب اس کو مقدم ہوتے دیکھاتو فرمایا کہ کیا اس طرح سب میرے سامنے بلائے جاتے رہیں گے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے ابوعبیدۃ ! (رض) صبرکروجی سے پہلے صبر کیا، یا اپنی قوم سے بات کرلو جس کو وہ اپنے قوم سے مقدم کریں گے تو میں منع نہیں کروں گا، رہا میں اور بنوعدی تو اگر تم چاہوگے تو میں تمہیں خودپر ترجیح دوں گا سو بنوالحارث بن فہر کے بعد معاویۃ کو مقدم کیا اور ان کے درمیان عبدمناف اور اسد بن عبدالعزی کو لائے پھر خلیفہ مہدی کے زمانے میں بنوسھم اور بنو عدی میں جھگڑارہا پھر ختم ہوگیا ، سومہدی نے بنو عدی کو مقدم کرنے کا حکم دیابنو سھم اور بنوجمح پر سبقت کی وجہ سے “۔ (سنن کبری بیھقی

11698

11698- عن مالك بن أوس بن الحدثان قال: قرأ عمر بن الخطاب: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ} حتى بلغ {عَلِيمٌ حَكِيمٌ} ، ثم قال: هذه لهؤلاء، ثم قرأ: {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} الآية، ثم قال: هذه لهؤلاء المهاجرين، ثم قرأ: {وَالَّذِينَ تَبَوَّأُوا الدَّارَ وَالْأِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ} إلى آخر الآية، فقال: هذه للأنصار، ثم قرأ: {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ} إلى آخر الآية، ثم قال: استوعبت هذه الآية المسلمين عامة، وليس أحد إلا له في هذا المال حق إلا ما تملكون من رقيقكم، ثم قال: لئن عشت ليأتين الراعي وهو بسرو حمير نصيبه منها لم يعرق فيه جبينه. "عب وأبو عبيد".
11694 ۔۔۔ حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) نے ان آیات کی تلاوت فرمائی کہ ” صدقات توفقراء، اور مساکین کے لیے ہی ہیں “ سے لے کر ” حکیم علیم “۔ (سورة توبہ آیت 60)
” پھر فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے لیے ہے، پھر تلاوت فرمائی کہ جان لو کہ تمہیں جو کسی چیز سے غنیمت ملتی ہے تو اس کو خمس اللہ کے لیے ہے “۔ (سورة الانفال آیت 41)
پھر فرمایا کہ یہ آیت ان مہاجرین کے لیے ہے پھر اس کی تلاوت فرمائی کہ والذین تبو والدار والایمان الخ (الحشر آیت نمبر 9)
آخر آیت تک اور فرمایا کہ یہ آیت انصار کے لیے ہے، پھر تلاوت فرمائی ” وہ لوگ جوان کے بعد آئے “۔ (الحشر آیت نمبر 10) آخر آیت تک ، پھر فرمایا کہ اس آیت کے عموم میں تمام مسلمان شامل ہیں اور کوئی ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق ہو علاوہ ان غلاموں کے جو تمہاری ملکیت میں ہیں، پھر فرمایا کہ اگر میں زندہ رہاتو بسر اور حمید کا چرواہا بھی اپنا حق لینے آئے گا اور اس کی پیشانی پر پسینہ بھی نہ آیا ہوگا “۔ (عبدالرزاق، ابوعبید )

11699

11699- عن هشام بن حسان، قال قال محمد بن مسلمة: توجهت إلى المسجد فرأيت رجلا من قريش عليه حلة فقلت: من كساك هذه؟ قال: أمير المؤمنين، قال: فدخل المسجد فرفع صوته بالتكبير، فقال: الله أكبر صدق الله ورسوله، الله أكبر صدق الله ورسوله، قال: فسمع عمر صوته، فبعث إليه أن ائتني، فقال: حتى أصلي ركعتين، فرد عليه الرسول يعزم عليه لما جاء، فقال محمد بن مسلمة، وأنا أعزم على نفسي أن لا آتيه حتى أصلي ركعتين، فدخل في الصلاة، وجاء عمر فقعد إلى جنبه فلما قضى صلاته قال: أخبرني عن رفعك صوتك في مصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير وقولك صدق الله ورسوله ما هذا؟ قال: يا أمير المؤمنين أقبلت أريد المسجد فاستقبلني فلان بن فلان القرشي عليه حلة، قلت: من كساك هذه؟ قال: أمير المؤمنين فجاوزت، فاستقبلني فلان بن فلان القرشي عليه حلة، قلت من كساك هذه؟ قال: أمير المؤمنين، فجاوزت فاستقبلني فلان بن فلان الأنصاري عليه حلة دون الحلتين، فقلت من كساك هذه؟ قال: أمير المؤمنين إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أما إنكم سترون بعدي أثرة، وإني لم أحب أن تكون على يديك يا أمير المؤمنين، قال: فبكى عمر ثم قال: أستغفر الله والله ولا أعود قال: فما رئي بعد ذلك اليوم فضل رجلا من قريش على رجل من الأنصار. "كر".
11695 ۔۔۔ ہشام بن حسان فرماتے ہیں کہ محمد بن مسلمۃ نے فرمایا کہ میں مسجد کی طرف متوجہ ہوا تو ایک قریشی کو دیکھا جس نے ایک جوڑا زیب تن کررکھا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے پہنایا ہے، اس نے کہا امیرالمومنین نے میں آگے بڑھا تو ایک اور قریشی دیکھا اس نے بھی جوڑا پہن رکھا تھا میں نے پوچھا کہ تجھے کس نے پہنایا ، اس نے کہا امیرلمومنین نے، پھر مسجد میں داخل ہوا اور بلند آواز سے تکبیر کہی اور کہا کہ اللہ اکبر سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے اللہ اکبر سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے، حضرت عمر (رض) نے اس کی آواز سن لی، تو اس کو بلا بھیجا، دوسری طرف سے نمائندے کو واپس بھیج دیا گیا کہ جس کام وہ آیا تھا کرگیا تھا۔
محمد بن مسلمۃ کہتے ہیں کہ ” میں نے بھی یہ سوچ لیا تھا کہ جب تک دو رکعت نہ پڑھ لوں نہیں جاؤں گا “۔ چنانچہ نماز شروع کردی ، حضرت عمر (رض) ان کے پہلومین آکھڑے ہوئے جب انھوں نے نماز مکمل کی تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز گاہ میں بلند آواز سے تکبیر کیوں کہی۔ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ، کیوں کہا، تو انھوں نے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین ! میں مسجد کی طرف آرہا تھا کہ مجھے فلاں بن فلاں قریشی ملا اس نے جوڑا پہن رکھا تھا میں نے پوچھا کہ کس نے پہنایا تو اس نے کہا کہ امیرالمومنین نے پھر میں آگے بڑھاتو فلاں بن فلاں قریشی کو دیکھا اس نے بھی جوڑا پہن رکھا تھا میں نے پوچھا کہ کس نے پہنایا تو اس نے کہا کہ امیرالمومنین نے پھر میں آگے بڑھا تو مجھے فلاں بن فلاں انصاری ملا اس نے بھی جوڑا پہن رکھا تھا جو ان دونوں جوڑوں سے کم تھا میں نے پوچھا کہ کس نے پہنایا تو اس نے کہا کہ امیرالمومنین نے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تم ضرور میرے بعد تبدیلی دیکھوگے، اور اے امیرالمومنین ! میں نہیں چاہتا کہ تبدیلی آپ کے دور میں ہو، فرماتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمر (رض) رونے لگے اور فرمایا کہ میں اللہ سے معافی مانگتاہوں خدا کی قسم دوبارہ نہ کروں گا فرمایا کہ اس دن کے بعد کسی نے نہیں دیکھا کہ کسی قریشی کو کسی انصاری پر فضیلت دی گئی ہو۔

11700

11700- عن ابن عباس قال: كان عمر بن الخطاب إذا صلى صلاة جلس للناس فمن كان له حاجة كلمه، وإن لم يكن لأحد حاجة قام فصلى صلوات للناس لا يجلس فيهن، فقلت: يا يرفأ أبأمير المؤمنين شكاة، فقال: ما بأمير المؤمنين شكاة، فجلست فجاء عثمان بن عفان، فجلس فخرج يرفأ فقال: قم يا ابن عفان، قم يا ابن عباس، فدخلنا على عمر، فإذا بين يديه صبر من مال على كل صبرة منها كتف فقال: إني نظرت إلى أهل المدينة فوجدتكما أكثر أهلها عشيرة فخذا هذا المال فاقتسماه فما كان من فضل فردا، فأما عثمان فحثا، وأما أنا فجثوت لركبتي، وقلت وإن كان نقصان رددت علينا؟ فقال عمر: شنشنة من أخشن يعني حجرا من جبل، اما كان هذا عند الله إذ محمد صلى الله عليه وسلم وأصحابه يأكلون القد؟ فقلت: بلى والله لقد كان هذا عند الله ومحمد حي ولو عليه فتح لصنع فيه غير الذي تصنع، فغضب عمر، وقال: إذن صنع ماذا؟ قلت: إذا لأكل واطعمنا، فنشج عمر حتى اختلفت أضلاعه، ثم قال: وددت أني خرجت منها كفافا لا لي ولا علي. "الحميدي وابن سعد والعدني والبزار ص والشاشي هق ص".
11696 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب نماز ادافرمالیتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اگر کسی کو کوئی ضرورت ہوتی تو بات کرلیتا اور اگر کسی کو کوئی ضرورت نہ ہوتی تو کھڑے ہوجاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے اور اس میں نہ بیٹھتے ، میں نے پوچھا کہ اے یرفا ! کیا امیرالمومنین کو کوئی تکلیف ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ نہیں امیرالمومنین کو کوئی تکلیف نہیں، میں بیٹھ گیا، پھر حضرت عثمان بن عفان (رض) تشریف لائے اور بیٹھ گئے، اور یرفاچلے گئے اور کہتے گئے اے ابن عفان اے ابن عباس ! کھڑے ہوجاؤ، پھر ہم حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے ، تو دیکھا کہ ان کے سامنے مال کا ڈھیر ہے اور ہر ڈھیر پر ایک تھیلا ہے، حضرت عمر (رض) فرمایا کہ میں نے اھل مدینہ کو دیکھاتوتم دونوں کو سب سے بڑے خاندان والاپایا، سو تم دونوں یہ مال لے لو اور تقسیم کرلو اور جو بچ جائے واپس کردوتو حضرت عثمان (رض) نے لپ بھر لی ، اور میں نے گھٹنوں تک جھولی بھری اور کہا کہ اگر ہمیں کم پڑگیا تو کیا آپ ہمیں اور زیادہ دیں گے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ پہاڑکاپتھر، کیا یہ مال اللہ کے پاس اس وقت تک نہ تھا جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی تکلیفیں اٹھاتے تھے ؟ میں نے کہا کہ ہاں خدا کی قسم یہ اللہ کے پاس اس وقت بھی تھا جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ تھے اگر ان کی حیات مبارکہ میں یہ فتوحات ہوتیں وہ وہ نہ کرتے جو آپ کرتے ہیں، حضرت عمر (رض) غصے میں آگئے اور فرمایا کہ پھر کیا کرتے ؟ میں نے کہا کہ پھر وہ خودکھاتے اور ہمیں کھلاتے ، حضرت عمر (رض) روپڑے اور ایسا روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں حتیٰ کہ سنبھلنا مشکل ہوگیا، میرا جی چاہتا ہے کہ اس میں سے قدر ضرورت نکالوں جو نہ میرے لیے ہو اور نہ مجھ پر ہو۔ (حمید، ابن سعد، بزار، سعیدبن منصور، شاشی، سنن کبری بیھقی)

11701

11701- عن رجل من خثعم قال: ولد لي ولد فأتيت به عليا فأثبته في مائة. "أبو عبيد".
11697 ۔۔۔ بنو خثعم کے ایک شخص کتے ہیں کہ میرے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو میں لے کر حضرت علی (رض) کی خدمت میں آیا تو انھوں نے اس کو سو میں رکھا “۔ (ابوعبید)

11702

11702- عن تميم بن منيح قال: أتيت عليا بمنبوذ فأثبته في مائة. "أبو عبيد".
11698 ۔۔۔ تمیم بن نسیح کہتے ہیں کہ میں منبوذ میں حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہواتوسو میں باقی رکھا “۔ (ابوعبید)

11703

11703- عن علي أنه أعطى العطاء في سنة ثلاث مرات، ثم أتاه مال من أصبهان، فقال: اغدوا إلى عطاء رابع، إني لست بخازنكم، فقسم الحبال فأخذها قوم وردها قوم. "أبو عبيد في الأموال".
11699 ۔۔۔ حضرت علی (رض) نے سال میں تین مرتبہ وظائف دئیے، پھر ان کے پاس احسبہان سے مال آیا تو فرمایا کہ چوتھی وظیفے کی طرف چلو میں تمہارا خازن نہیں ہوں تورسیاں تک تقسیم کردیں، بعض قبیلوں نے لے لیں اور بعض نے واپس کردیں “۔ (ابو عبید فی الاموال)

11704

11704- عن علي قال: خذ من السلطان ما أعطاك، فإن مالك في ماله من الحلال أكثر. "وكيع وابن جرير".
11700 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ سلطان جو دے وہ لے لو کیونکہ تیرا مال اس کے مال میں حلال سے زیادہ ہے “۔ (وکیع وابن جریر)

11705

11705- عن عنترة قال: شهدت عليا وعثمان يرزقان أرقاء الناس. "ق".
11701 ۔۔۔ عنترۃ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کو دیکھا کہ لوگوں کے غلاموں کو وظائف دے رہے تھے “۔ (متفق علیہ)

11706

11706- عن أم العلاء أن أباها انطلق بها إلى علي، ففرض لها في العطاء وهي صغيرة، وقال علي: ما الصبي الذي أكل الطعام، وعض الكسرة بأحق بهذا العطاء من المولود الذي عض الثدي. "ق".
11702 ۔۔۔ ام العلاء کہتی ہیں کہ ان کے والد ان کو لے کر حضرت علی (رض) کے پاس آئے تو انھوں نے ان کے لیے بھی وظیفہ مقرر کیا حالانکہ یہ چھوٹی اور فرمایا کہ وہ بچہ جو کھانا کھائے اور روٹی کے ٹکرے توڑے اس مولود سے زیادہ حق دار نہیں ہے جو ابھی صرف دودھ ہی پیتاہو “۔ (متفق علیہ)

11707

11707- عن علي أنه فرض لامرأة وخادمها اثنى عشر درهما: للمرأة ثمانية، وللخادم أربعة، ودرهمان من الثمانية للقطن والكتان. "قط ق" وضعفه.
11703 ۔۔۔ حضرت علی (رض) نے ایک عورت اور اس کے خادم کے لیے زیادہ درھم مقرر کئے، عورت کے آٹھ اور خادم کے لیے چار اور آٹھ میں سے دودرھم روٹی اور کتان کے لیے تھے “۔ (دارقطنی، متفق علیہ)

11708

11708- عن نافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى أزواجه من خيبر كل امرأة منهن ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير، فلما كان عمر بن الخطاب خيرهن أن يضمن لهن ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاهن فاختارت عائشة وحفصة أن يقطع لهما من الأرض والماء فصار ميراثا لمن ورثهن. "ابن وهب في مسنده".
11704 ۔۔۔ نافع فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج میں سے ہر ایک کو خیبر کے مال سے اسی وسق کھجوریں اور بیس وسق جو دیتے تھے، جب حضرت عمر (رض) آئے تو انھوں نے امہات المومنین کو اختیاردیا کہ وہ وہی قبول کریں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک دور میں ملتا تھا تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور ام المومنین حفصہ (رض) نے یہ پسند کیا کہ ان کو زمین اور پانی وغیرہ دے دیا جائے تاکہ یہ پھر اس کے لیے میراث ہو جس کا یہ وراث بنانا پسندکریں “۔ (ابن وھب)

11709

11709- عن أبي ظبيان الأسدي قال: وفدت على عمر بن الخطاب فسألني فقال: يا أبا ظبيان ما مالك بالعراق؟ قلت: لا والذي أسعدك ما ندري ما نصنع به؟ ما منا من أحد قد قدم القادسية إلا عطاؤه ألفان أو ألف وخمسمائة، ولا لنا ولد أو ابن أخ إلا في خمسمائة أو ثلثمائة، وما منا من أحد له عيال إلا له جريبان كل شهر، أكل أو لم يأكل، فإذا اجتمع هذا لم ندر ما نصنع به قال: إنا لننفقه فيما ينبغي، وفيما لا ينبغي، قال: هو حقكم أعطيتكموه فلا تحمدوني عليه، وأنا أسعد بأدائه إليكم منكم بأخذه ولو كان مال الخطاب ما أعطيتكموه فإن نصحي لك وأنت عندي كنصحي لمن هو بأقصى ثغر من ثغور المسلمين فإذا خرج عطاؤك فاشتر منه غنما فاجعلها لسوادكم، وإذا خرج فابتاع الرأس أو الرأسين فاعتقل منه مالا فإني أخاف أن يليكم ولاة يعدون العطاء في زمانهم مالا فإن بقيت أنت أو أحد من عيالك كان لك شيء اعتقلتموه. "علي بن معبد في الطاعة والعصيان".
11705 ۔۔۔ حضرت ابوطبیان الاسدی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پہنچاتو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ اے ابوطبیان اعراق میں تمہارا مال گیا ہے، میں نے عرض کیا کہ نہیں، قسم اس ذات کی جس نے آپ کو نیک بخت بنایا ہم نہیں جانتے کہ اس مال کا کیا کریں گے ؟ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو قادسیہ آیاہو اور اس کو ڈیڑھ یادوہزار وظیفہ نہ ملتاہو، اور ہمارے جنتنے بھی بیٹے بھتیجے ہیں ان کو چانچ سو سے تین سو تک وظیفہ ملتاہو، اور ہم میں سے کوئی بال بچے دار ایسا نہیں جس کو ہر ماہ دوتھیلے نہ ملتے ہوں خواہ وہ کھائے یا نہ کھائے جب اتناسب کچھ ہورہا ہے تو تم نہیں جانتے کہ اتنے مال سے ہم کیا کریں گے، فرمایا جی ہاں ہم مناسب سمجھیں گے وہاں اس مال کو خرچ کریں گے اور جہاں مناسب نہ سمجھیں گے وہاں نہ کریں گے، وہ تمہارا حق ہے جو میں تمہیں دیتاہوں، اس پر میری تعریف مت کرو، جب میں اس مال کو تمہارے حوالے کرتا ہوں اور تم لوگ قبول کرلیتے ہو تو میں نیک بخت ہوجاتا ہوں اگر یہ (میرے باپ) خطاب کا مال ہوتا تو پھر میں تمہیں نہ دیتا اور میری نصیحت تمہارے لیے اور جیسے تمہارے لیے ہے ایسے ہی اس کے لیے بھی ہے جو اسلامی سرحدوں کے انتہائی کناروں پر رہتا ہو، سو جب تجھے تیرا وظیفہ ملے تو اس سے بکریاں خریدلے اور اپنے جنگل میں رکھ لے پھر جو وظیفہ لے تو اس سے ایک یادوغلام خریدلے اور مال باندھ لے، کیونکہ میں ڈرتاہوں کہ میرے بعدای سے آئیں گے جو تمہیں گن گن کر عطایادیا کریں گے اپنے زمانوں میں ہو اور تو یا تیرے گھروالوں میں سے کوئی باقی رہا تو جو چیز ملے اسے لے لینا “۔ (علی بن معبد فی طاعۃ وعصیان)

11710

11710- عن نافع عن ابن عمر عن عمر قال: أسهم رسول الله صلى الله عليه وسلم للفارس سهما وللفرس سهمين. "أبو الحسن علي بن عبد الرحمن بن أبي السري البكالي في جزء من حديثه".
11706 ۔۔۔ نافع حضرت ابن عمر (رض) سے اور وہ حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوارکو ایک حصہ اور اس کے گھوڑے کو دوحصے عطا فرمائے “۔ (ابوالحسن عی بن عبدالرحمن بن ابی السری البکالی فی جزء من حدیثہ)

11711

11711- عن نافع عن ابن عمر عن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم أسهم للفرس سهمين وللرجل سهما. "أبو الحسن البكالي".
11707 ۔۔۔ حضرت نافع ابن عمر (رض) سے اور وہ حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے کو دوحصے اور سوار کو ایک حصہ عطا فرمایا “۔ (ابوالحسن البکالی)

11712

11712- عن نافع عن ابن عمر أن عمر فرض لأسامة بن زيد أكثر مما فرض لي، فقلت: إنما هجرتي وهجرة أسامة واحدة؟ فقال: إن أباه كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك وإنما هاجر بك أبوك. "أبو الحسن البكالي".
11708 ۔۔۔ حضرت نافع حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جتنا وظیفہ میرے لیے مقرر کیا تھا، اسامہ بن زید کے لیے اس سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا، میں نے عرض کیا کہ میرا اور اسامہ بن زیدکاھجرہ ایک ہی ہے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اس کا باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا اور تو نے تو اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کی تھی “۔ (ابوالحسن البکالی)

11713

11713- عن محمد بن هلال قال: حدثني أبي عن جدتي أنها كانت تدخل على عثمان ففقدها يوما، فقال لأهله: ما لي لا أرى فلانة؟ قالت امرأته ولدت الليلة غلاما، قالت: فأرسل إلي بخمسين درهما وشقيقة سنبلانية ثم قال: هذا عطاء ابنك، وهذه كسوته، فإذا مرت سنة رفعناه إلى مائة. "أبو عبيد في الأموال كر".
11709 ۔۔۔ محمد بن ھلال کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے میری دادی کے حوالے سے بیان کیا کہ وہ حضرت عثمان (رض) کے پاس جایا کرتی تھیں، ایک دن حضرت عثمان (رض) نے ان کو موجود نہ پایا تو پوچھا کہ آج فلاں فلاں خاتون نہیں آئی ؟ ان کی اھلیہ نے عرض کیا کہ اس کے ہاں آج ایک لڑکا پیدا ہوا ہے، پھر فرماتی ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے میرے پاس پچاس درھم اور سنبلانیہ کا ٹکڑا بھیجا، پھر فرمایا کہ یہ تیرے بیٹے کا وظیفہ ہے اور یہ اس کالباس ہے، سو جب ایک سال گزر گیا تو ہمارا وظیفہ سو تک ہوگیا “۔ (ابوعبید فی الاموال)
فائدہ۔۔۔ ابو اسحق فرماتے ہیں کہ ان کے داداخیار حضرت عثمان (رض) کے پاس سے گزر ےتوحضرت عثمان (رض) نے دریافت فرمایا اے بزرگ آپ کے پاس کتنا مال ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اتنااتنا مال ہے، تو حضرت عثمان (رض) نے پانچ صحابہ کرام (رض) کو زمین عطا فرمائی تھی، حضرت سعد، حضرت زبیر، حضرت ابن مسعود (رض)، حضرت اسامہ بن زید اور حضرت خباب بن ارت کو۔ چنانچہ حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت سعد (رض) اپنی زمین ثلث کے بدلے دیا کرتے تھے “۔ (مصنف عبدالرزاق، ابوعبید، متفق علیہ)

11714

11714- عن أبي إسحاق أن جده الخيار مر على عثمان فقال له: كم معك من عيال يا شيخ؟ فقال: إن معي كذا فقال: قد فرضنا لك كذا وكذا ذكر شيئا لا أحفظه ولعيالك مائة مائة. "أبو عبيد".
حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں ان کے دادا اخیار حضرت عثمان (رض) کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان (رض) نے دریافت فرمایا اے بزرگ آپ کے پاس کتنا مال ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ میرے پاس اتنا اتنا مال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ نے آپ کے لیے اتنا اتنا مقرر کردیا مجھے مقدار یاد نہیں اور فرمایا آپ آپ کی اولاد کے لیے سو ہیں۔

11715

11715- عن موسى بن طلحة أن عثمان أقطع خمسة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم الزبير وسعدا وابن مسعود وأسامة بن زيد وخباب بن الأرت فكان ابن مسعود وسعد يعطيان أرضهما بالثلث. "عب وأبو عبيد ق".
موسیٰ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو زمین عطا فرمائی حضرت سعد، حضرت زبیر، حضرت ابن مسعود، حضرت اسامہ اور حضرت خباب بن ارت رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، چنانچہ حضرت ابن مسعود اور حضرت سعد اپنی زمین ثلث کے بدلے دیا کرتے تھے۔

11716

11716- عن عائشة ابنة قدامة بن مظعون قالت: كان عثمان ابن عفان إذا خرج العطاء أرسل إلى أبي فقال: إن كان عندك مال قد وجبت فيه الزكاة حاسبناك به من عطائك. "أبو عبيد في الأموال".
11712 ۔۔۔ حضرت عائشہ بنت قدامہ بن مظعون فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جب وظائف عطا فرمایا کرتے تھے کہ میرے والد کو بلایا کرتے اور فرماتے کہ اگر تیرے پاس مال ہے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے تو ہم حساب لگاکرتیرے وظیفے سے منہا کرلیں گے “۔ (ابوعبید فی الاموال)

11717

11717- عن أبي الخلال العتكي قال: سألت عثمان بن عفان عن جوائز السلطان؟ فقال: لحم ظبي ذكي. "ابن جرير في تهذيب الآثار ووكيع في الغرر".
11713 ۔۔۔ ابوالخلال العتکی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) سے سلطان کے وظائف کے بارے میں پوچھا ؟ تو فرمایا کہ ذبح شدہ ہرن کا گوشت “۔ (ابن جریر فی تھذیب الاثار اور وکیع فی القر)

11718

11718- عن قدامة قال: كنت إذا جئت عثمان بن عفان أقبض منه عطائي سألني هل عندك من مال وجبت فيه الزكاة؟ فإن قلت: نعم أخذ من عطائي زكاة ذلك المال، وإن قلت: لا، سلم إلي عطائي، ولم يأخذ منه شيئا. "الشافعي ق".
11714 ۔۔۔ قدامہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس جاتاتو اپنا وظیفہ وصول کرلیتا تھا، انھوں نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس ایسا مال ہے جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے، سو اگر میں کہتا جی ہاں ہے تو میرے مال سے زکوۃ وصول کرلیتے، اور اگر میں انکار کردیتا تو کچھ نہ لیتے “۔ (شافعی، متفق علیہ)

11719

11719- عن سلمان قال: خذوا العطاء ما صفا لكم، فإن كدر عليكم فاتركوه أشد الترك. "ش".
11715 ۔۔۔ حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ وظیفہ وصول کرلوجب تک صاف ہو اگر تم پر معاملہ مشکوک ہوجائے تو بالکل ہی ترک کردو “۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11720

11720- "مسند عمر رضي الله عنه" عن المسور بن مخرمة قال أتي عمر بن الخطاب بغنائم من غنائم القادسية، فجعل يتصفحها وينظر إليها، وهو يبكي، فقال له عبد الرحمن: يا أمير المؤمنين: هذا يوم فرح وسرور فقال: أجل، ولكن لم يؤت هذا قوم قط إلا أورثهم العداوة والبغضاء. "الخرائطي في مكارم الأخلاق هق".
11716 ۔۔۔ مسند عمر (رض) سے حضرت مسودبن مخرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ قادسیہ کا مال غنیمت حضرت عمر (رض) کی خدمت میں لایا گیا حضرت عمر (رض) اس مال کو الٹ پلٹ دیکھنے لگے ساتھ ساتھ روتے جارہے تھے تو حضرت عبدالرحمن (رض) نے عرض کیا، اے امیر المومنین ! یہ تو فرحت اور خوشی کا دن ہے، تو فرمایا کہ ہاں ہاں لیکن یہ (مال) جس قوم کو بھی دیا گیا ہے ان میں عداوت اور بعض پیدا ہوجاتا ہے “۔ (الخرائطی فی مکارم الاخلاق، سنن کبری بیھقی)

11721

11721- عن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف قال: لما أتي عمر بكنوز كسرى قال له عبد الله بن أرقم الزهري: ألا تجعلها في بيت المال؟ فقال عمر: لا نجعلها في بيت المال حتى نقسمها، وبكي عمر، فقال له عبد الرحمن بن عوف: ما يبكيك يا أمير المؤمنين؟ فوالله إن هذا ليوم شكر ويوم سرور ويوم فرح، فقال عمر: إن هذا لم يعطه الله قوما قط إلا ألقى الله بينهم العداوة والبغضاء. "ابن المبارك عب ش والخرائطي في مكارم الأخلاق".
11717 ۔۔۔ ابراھیم بن عبدالرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس کسری کے خزانے لائے گئے تو عبداللہ بن ارقم الزھری نے عرض کیا کہ آپ اس کو بیت المال میں نہ رکھیں گے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم تک اس کو تقسیم نہ کرلیں بیت المال میں نہ رکھیں گے اور پھر حضرت عمر (رض) روپڑے تو حضرت عبدالرحمن (رض) نے فرمایا، اے امیرالمومنین ! آپ کو کس بات نے رلادیا، کیونکہ یہ تو خدا کی قسم شکر، فرحت اور خوشی کا دن ہے تو حضرت عمر (رض) فرمایا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو بھی یہ یعنی مال دیا ہے تو اس میں عداوت اور بغض بھی ڈال دیتا ہے “۔ (ابن المبارک، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، خرائطی فی مکارم الاخلاق)

11722

11722- عن جابر بن عبد الله قال: أول من دون الدواوين وعرف العرفاء عمر بن الخطاب. "هق".
11718 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے فہرستیں مرتب کروائیں اور لوگوں کی پہچان کروائی وہ حضرت عمر (رض) ہی کی شخصیت تھی “۔ (سنن کبری بیھقی)

11723

11723- عن علي قال: خذوا العطاء ما كان طعمة، فإذا كان عن دينكم فارفضوه أشد الرفض. "ش".
11719 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ وظیفہ وصول کرلوجب تک کھانے کے قابل ہو، اگر دین سے برگشتہ کرنے والاہوتو اس کو سختی سے چھوڑدو۔ (ابن ابی شیبہ)

11724

11724- عن داود بن نشيط قال: كنت عند عمر بن الخطاب فأتاه رجل مسمن مخصب في العين فقال: يا أمير المؤمنين هلكت وهلكت عيالي، فقال عمر: يجيء أحدهم كأنه حميت يقول: هلكت وهلكت عيالي، ثم أخذ عمر يحدث عن نفسه، فقال: لقد رأيتني وأختا لي نرعى على أبوينا ناضحنا قد ألبستنا أمنا نقبتها وزودتنا من الهينة فنخرج بناضحنا فإذا طلعت الشمس ألقيت النقبة إلى أختي وخرجت أسعى عريانا فنرجع إلى أمنا وقد جعلت لنا لعبة من ذلك الهينة فيا خصباه، ثم قال أعطوه أربعة من نعم الصدقة فخرجت تتبعها ظئران لها. "أبو عبيد في الأموال".
11720 ۔۔۔ داؤدبن نشیط فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں موجود تھا تو ان کے پاس ایک موٹا شخص آیا جو رنگین آنکھوں والا تھا اور عرض کیا اے امیر المومنین میں ہلاک ہوگیا اور میرے گھر والے بھی ہلاک ہوگئے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی شخص آجاتا ہے جیسے ہم بچے ہوئے ہیں کہتا ہے میں ہلاک ہوگیا اور میرے گھروالے ہلاک ہوگئے پھر حضرت عمر (رض) اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے اور فرمایا کہ مجھے اپنی ہمشیرہ یادآرہی ہے میں دیکھ رہاہوں کہ ہم اپنے والدین کو دودھ پلا رہے ہیں ہماری والدہ ہمیں اپنا کپڑاپہناتی تھیں اور زادراہ کے طور پر ہمیں کچھ تیار کردیتی تھیں سو ہم اپنی اونٹنی لے کر نکلتے، سو جب سورج نکل آتا تو میں اپنا کپڑا اپنی ہمشیرہ کو پہنادیتا اور بےلباس دوڑتاپھرتا، پھر ہم اپنی والدہ کے پاس واپس آجاتے تو وہ ہمارے لیے مٹی کا کھلونا بنادیتیں، ہائے کیا ہی وہ دن ہوا کرتے تھے پھر فرمایا کہ اس کو صدقہ کے اونٹوں میں سے چار اونٹ دے دو ، سو جانور اس کے لیے آگے پیچھے چلتے ہوئے نکلے “۔ (ابوعبیدہ فی الاموال )

11725

11725- عن ابن عمر قال: إني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين جاءه شيء لم يبدأ بأول منهم بأول منهم يعني المحررين. "كر".
11721 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا جب ان کے پاس کوئی چیز آتی تو وہ ان میں سے سب سے پہلے ان میں سے سب سے پہلے سے شروع نہ فرماتے یعنی آزادلوگ “۔

11726

11726- "الصديق رضي الله عنه" عن معمر عن عبد الكريم الجزري قال: أتى أبو بكر برأس فقال: بغيتم. "عب هق".
11722 ۔۔۔ معمر، عبدالکریم الجزری سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے پاس ایک سرلایا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا کہ تم بغاوت کی “۔ (عبدالرزاق، سنن کبری بیھقی)

11727

11727- عن معمر الزهري قال: لم يؤت النبي صلى الله عليه وسلم برأس وأتي أبو بكر برأس، فقال: لا يؤتى بالجيف إلى مدينة رسول الله صلى الله عليه وسلم. "عب ق".
11723 ۔۔۔ معمرامام زہری سے روایت کرتے ہیں کہ جب کبھی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے پاس کوئی سرلایا گیا آپ نے یہی فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شہر میں مردار نہیں لائے جاتے “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11728

11728- عن عقبة بن عامر الجهني أن عمرو بن العاص وشرحبيل ابن حسنة بعثاه بريدا برأس يناق بطريق الشام، فلما قدم على أبي بكر أنكر ذلك، فقال له عقبة: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنهم يصنعون ذلك بنا، قال: أفا ستنان بفارس والروم؟ لا يحمل إلي رأس، فإنما يكفي الكتاب والخبر. "هق" قال ابن كثير إسناده صحيح.
11724 ۔۔۔ حضرت عقبہ بن عامر الجہنی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمروبن العاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ (رض) نے مجھے بطورڈاکئیے کے ایک سردے کر بھیجا جسے شام کے راستے میں جسم سے علیحدہ کیا گیا تھا، چنانچہ ، وہ لے کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے تو حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے انکار فرمادیا، حضرت عقبہ (رض) نے عرض کیا، اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! وہ ہمارے ساتھ یہی کرتے ہیں تو فرمایا کہ کیا اب فارس اور روم کی سنتوں پر عمل ہوگا ؟ میرے پاس کوئی سر وغیرہ نہ لایا جائے صرف خطوط اور اطلاعات کافی ہیں “۔ (سنن کبری بیھقی )

11729

11729- عن معاوية بن خديج قال: بينا نحن عند أبي بكر إذ طلع المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أنه قدم علينا برأس يناق البطريق ولم يكن لنا به حاجة، إنما هي سنة العجم. "هق".
11725 ۔۔۔ حضرت معاویہ بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی خدمت میں موجود تھے آپ (رض) منبر پر تشریف فرما ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کی اور فرمایا کہ ہمارے پاس شام کے بطریق یناق کا سر لایا گیا ہے حالانکہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے یہ توعجمیوں کا طریقہ ہے “۔ (سنن کبری بیھقی)
فائدہ۔۔۔ اس سے پہلی روایت کے ترجمے میں جو لکھا تھا کہ وہ سر جو شام کے راستے میں جسم سے الگ کیا گیا تھا، تو یہ ترجمہ صحیح نہیں بلکہ ترجمہ یہ ہے کہ مجھے شام کے بطریق یناق کا سر دے کر بھیجا گیا تھا، ترجمے میں غلطی عبارت کی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوگئی، جس کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے ہیں کیونکہ تو ہی ارحم الراحمین ہے اللھم اغفرلکاتبہ ولمنترجمیہ ولوالدیہ ولسائر المسلمین۔
بطریق عربی لفظ ہے جس کو انگریزی میں پیٹرک (PATTRIC ) کہا جاتا ہے جو عسائی پادریوں کا ایک عہدہ ہوتا ہے “۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11730

11730- عن الأسود بن سريع قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وغزوت معه فأصبت ظفرا، فقتل الناس يومئذ حتى قتلوا الولدان فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما بال أقوام جاوز بهم القتل اليوم حتى قتلوا الذرية؟ فقال رجل: يا رسول الله إنما هم أبناء المشركين، فقال ألا إن خياركم أبناء المشركين، ثم قال: ألا لا تقتلوا ذرية، كل مولود يولد على الفطرة، فما يزال عليها حتى يعرب عنها لسانه، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه. "حم والدارمي ن وابن جرير حب طب ك حل ق ص".
11726 ۔۔۔ حضرت اسود بن ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں پہنچا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شرکت کی اور کامیابی سے ہمکنار ہوا، اس دن لوگوں نے خوب قتال کیا یہاں تک کہ بچے بھی قتل ہوئے، جب یہ اطلاع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا کہ قتال میں حد سے گزرگئے حتیٰ کہ اولادوں کو قتل کرنا شروع کردیا ، ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ وہ تو مشرکوں کے بچے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سنو ! تم میں سے آج کے بہترین لوگ مشرکوں کے ہی بچے ہیں، پھر فرمایا کہ سنو ! اولاد کو قتل نہ کرو، ہر بچہ جو پیدا ہو تو ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اس وقت تک اسی حال میں رہتا ہے یہاں تک کہ اس سے اس کی زبان چھین لی جاتی ہے سو اس کے والدین اس کو یہودی، عسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں “۔ (مسند احمد دارمی، نسائی، ابن جریر، ابن حبان، طبرانی، مستدرک حاکم، حلیہ ابی نعیم، متفق علیہ، سعید بن منصور)

11731

11731- عن محمد بن سيرين قال: أمر النبي صلى الله عليه وسلم بجزور فنحرت فانتهب الناس لحمها، فبعث للناس مناديا يقول: إن الله ورسوله ينهيانكم عن النهبة فردوه فقسمه بينهم. "عب".
11727 ۔۔۔ امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک اونٹ ذبح کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ اونٹ کو ذبح کیا گیا لیکن لوگ جھٹ پڑے ، اور اس کا گوشت اٹھا کرلے گئے چنانچہ ایک شخص کو اعلان کرنے کے لیے بھی بھیجا گیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ مار سے منع فرماتے ہیں چنانچہ وہ گوشت واپس کردیا گیا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں تقسیم فرمادیا “۔ (عبدالرزاق)

11732

11732- عن أبي قلابة قال: أمر النبي صلى الله عليه وسلم بجزور فنحرت فانتهب الناس لحمها، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى إن الله ورسوله ينهيانكم عن النهبة. "عب".
11728 ۔۔۔ حضرت ابوقلابہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا، اونٹ ذبح کیا گیا تو لوگ اس کے گوشت کو اٹھا کرلے گئے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو حکم فرمایا تو اس نے اعلان کیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ مار سے منع فرماتے ہیں “۔ (مصنف عبدالرزاق)

11733

11733- عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يعطى الشهيد ثلاثا، أول قطرة من دمه يغفر له بها ذنوبه، وأول من يمسح التراب عن وجهه زوجته من الحور العين، وإذا وقع جنبه وقع في الجنة. "الديلمي".
11729 ۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شہید کو تین چیزیں دی جاتی ہیں
1 ۔۔۔ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت کی جاتی ہے۔
2 ۔۔۔ اور سب سے پہلے جو اس کے چہرے سے مٹی جھاڑتا ہے وہ حورعین میں سے اس کی بیوی ہوتی ہے۔
3 ۔۔۔ اور جب اس کو پہلو زمین سے لگتا ہے تو جنت کی زمین پر لگتا ہے “۔ (دیلمی)

11734

11734- عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الشهداء ثلاثة رجل خرج بنفسه وماله محتسبا في سبيل الله يريد أن لا يقتل ولا يقتل ولا يقاتل يكثر سواد المسلمين، فإن مات أو قتل غفرت له ذنوبه كلها وأجير من عذاب القبر ومن الفزع الأكبر وزوج من الحور العين وحلت عليه حلة الكرامة ووضع على رأسه تاج الوقار والخلد، والثاني رجل خرج بنفسه وماله محتسبا يريد أن يقتل ولا يقتل فإن مات أو قتل كانت ركبته مع ركبة إبراهيم خليل الرحمن بين يدي الله في مقعد صدق عند مليك مقتدر، والثالث: رجل خرج بنفسه وماله محتسبا يريد أن يقتل ويقتل فإن مات أو قتل جاء يوم القيامة شاهرا سيفه واضعه على عاتقه والناس جاثون على الركب يقولون: ألا افسحوا لنا مرتين فإنا قد بذلنا دماءنا وأموالنا لله والذي نفسي بيده لو قالوا ذلك لإبراهيم خليل الرحمن أو لنبي من الأنبياء لتنحى لهم عن الطريق بما يرى من واجب حقهم حتى يأتوا منابر من نور عن يمين العرش فيجلسون فينظرون كيف يقضى بين الناس لا يجدون غم الموت ولا يغتنمون في البرزخ ولا تفزعهم الصيحة ولا يهمهم الحساب والميزان ولا الصراط، ينظرون كيف يقضى بين الناس ولا يسألون شيئا إلا أعطوه ولا يشفعون في شيء إلا شفعوا فيه ويعطى من الجنة ما أحب وينزل من الجنة حيث أحب. "هب" وضعفه.
11730 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شہید تین ہیں۔
1 ۔۔۔ ایک وہ شخص جو اپنی جان اور مال لے کر اللہ کے راستے میں نکلا اپنی جان اور مال کو اللہ کے راستے میں گنتا ہوا، اور یہ چاہتا ہے کہ یا قتل کرے یا قتل ہوجائے اور نہیں تو مسلمانوں کی تعدادہی بڑھے، سو اگر یہ مرگیا یا قتل ہوگیا تو اس کے سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اس کو قبر عذاب سے محفوظ کردیا جائے گا اور حورعین میں سے کسی کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جائے گا اس
اعزاز کالباس پہنایا جائے گا اور اس کے سرپر وقار اور ہمیشگی کا تاج رکھاجائے گا۔
2 ۔۔۔ دوسرا وہ شخص جو اپنی جان ومال کو اللہ کے راستے میں لے کر نکلا وہ یہ چاہتا ہے کہ قتال کرلے لیکن خود قتل نہ ہو، سو اگر وہ مرگیا یا قتل ہوگیا تو اس کا قدم حضرت ابراہیم خلیل الرحمن (علیہ الصلوۃ والسلام) کے قدم مبارک کے ساتھ مقام صدق میں اللہ مالک اور مقتدر کے سامنے ہوگا۔
3 ۔۔۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی جان ومال کو اللہ کے راستے میں لے کر نکلا اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قتل کرے یا ہوجائے، سو اگر یہ مرگیا تو یا قتل ہوگیا تو قیامت کے دن اپنی تلوار برہنہ اپنے کندھے پر رکھے آئے گا حالانکہ لوگ گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے، اور کہتے آئیں گے کہ سنو ! ہماے لیے جگہ وسیع کردو ہمارے لیے جگہ وسیع کردو کیونکہ ہم نے اپنی جان اور مال اللہ کے راستے میں خرچ کردیا۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر کوئی یہ کہہ سکتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل الرحمن یا انبیاء میں سے کوئی نبی کہتا اور انہی کے راستے میں لوگ ہنتے کیونکہ ان کا حق واجب ہے یہاں تک کہ وہ شہداء آئیں گے اور نور کے منبروں پر بیٹھ جائیں گے عرش کے دائیں جانب، سو وہ بیٹھیں گے اور دیکھیں گے کے لوگوں کے درمیان فیصلہ کس طرح ہوتا ہے، انھیں موت کا کوئی غم نہ ہوگا نہ ہی وہ برزخ میں غم زدہ ہوں گے ، انھیں صور کی چیخ پریشان نہیں کرے گی اور نہ ہی وہ حساب کتاب میزان اور پل صراط پر پریشان ہوں گے دیکھیں گے کہ لوگوں کے درمیان کس طرح فیصلہ ہوتا ہے وہ جس چیز کا بھی سوال کریں گے ان کو دی جائے گی اور جس کی بھی شفاعت کریں گے شفاعت قبول کی جائے گی اور جنت میں ان کا پسندیدہ مقام دیا جائے گا اور جنت میں اپنے پسندیدہ مقام پر رہیں گے “۔ (بیھقی فی شعب الایمان)

11735

11735- عن ابن أبي عوف وعبد العزيز بن يعقوب الماجشون قالا: قال عمر بن الخطاب لمتمم بن نويرة: يرحم الله زيد بن الخطاب لو كنت أقدر أن أقول الشعر لبكيته كما بكيت أخاك فقال متمم: يا أمير المؤمنين لو قتل أخي يوم اليمامة كما قتل أخوك ما بكيته أبدا فأبصر عمر وتعزى عن أخيه وقد كان حزن عليه حزنا شديدا وكان عمر يقول: إن الصبا لتهب فتأتي بريح زيد بن الخطاب قيل لابن أبي عوف: ما كان عمر يقول الشعر فقال: لا ولا بيتا واحدا. "ابن سعد".
11731 ۔۔۔ ابن ابی العوف اور عبدالعزیزبن یعقوب الماجثون فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے متمم بن نویرۃ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زید ابن خطاب پر رحم فرمائیں اگر میں شعر کہنے پر قادر ہوتا تو میں بھی ایسے ہی روتا جیسے تیرا بھائی رویا، متمم نے عرض کیا ، اے امیرالمومنین ! اگر میرا بھائی جنگ یمامہ کے دن قتل ہوتا جس طرح آپ کا بھائی قتل ہوا تو کبھی اس پر نہ روتا، تو حضرت عمر (رض) اس کو دیکھا اور اس کے بھائی کی تعزیت کی اور وہ اس پر بہت زیادہ غمزد ہے تھے، اور حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے صبا (ہواکا نام) چلتی ہے تو مجھے زیدبن الخطاب کی خوشبو آتی ہے، ابن ابی عوف سے عرض کیا گیا کہ کیا حضرت عمر (رض) شعرنہ کہہ سکتے تھے، تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں ایک بیت بھی نہیں “۔ (ابن سعد)

11736

11736- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصل على قتلى أحد ولم يغسلوا. "ش".
11732 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے شہداء کانہ جنازہ پڑھا اور نہ ان کو غسل دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11737

11737- عن جابر كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في قبر واحد وأمر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا. "ش".
11733 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ احد کے شہداء میں دوشہداء کو ایک قبر میں دفن کرواتے اور حکم فرمایا کرتے کہ ان کو ان کے خون سمیت دفن کردیا جائے اور نہ ان کو غسل دیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی “۔ (ابن ابی شیبہ)

11738

11738- عن الزهري عن عبد الله بن ثعلبة بن صعير العذري وكان ولد عام الفتح فأتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فمسح على وجهه وبرك عليه قال: لما أشرف رسول الله صلى الله عليه وسلم على قتلى أحد قال: أنا الشهيد على هؤلاء ما من جريح يجرح في الله إلا الله يبعثه يوم القيامة وجرحه يثعب دما اللون لون الدم والريح ريح المسك انظروا أكثرهم جمعا للقرآن فاجعلوه أمام صاحبه في القبر وكانوا يدفنون في القبر الاثنين والثلاثة في القبر الواحد. "ابن جرير كر".
11734 ۔۔۔ زہری روایت کرتے ہیں عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر العذری سے ان کی ولادت فتح مکہ کے دن ہوئی تھی چنانچہ ان کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چہرے پر ہاتھ مبارک پھیرا اور برکت عطا فرمائی ، آگے فرمایا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے شہداء پر مطلع ہوئے تو فرمایا کہ میں ان پر گواہ ہوں جو اس کے زخم سے خون ٹپک رہا ہوگا جس کا رنگ توخون کی طرح ہوگا لیکن خوشبومشک کی طرح ہوگی، دیکھو ان شہداء میں کون حافظٖ تھا قرآن پاک کا سو اس کو قبر میں اپنے ساتھی سے آگے رکھو، اور اس دن ایک قبر میں دودو اور تین تین، شہداء کی تدفین ہوئی “۔ (ابن جریر)

11739

11739- عن ابن عباس قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على شهداء أحد صلى على حمزة بن عبد المطلب. "كر".
11735 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء احد میں سے حضرت حمزہ (رض) بن عبدالمطلب کی نماز جنازہ پڑھی۔

11740

11740- عن ابن عباس قال: أرواح الشهداء في أجواف طير خضر تعلق من ثمر الجنة. "عب ص ق في البعث".
11736 ۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ شہداء کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں جو جنت کے پھلوں میں مشغول رہتے ہیں۔ (عبدالرزاق، سعیدبن منصور، متفق علیہ فی البعث)

11741

11741- عن راشد بن سعد عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أن رجلا قال: يا رسول الله ما بال المؤمنين يفتنون في قبورهم إلا الشهيد؟ فقال: كفى ببارقة السيوف على رأسه فتنة. "ن الديلمي" وسند صحيح.
11737 ۔۔۔ راشد بن سعد صحابہ کرام (رض) میں سے کسی صحابی سے روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ شہید کے علاوہ باقی سب مسلمانوں کو قبر میں آزمایا جائے گا ؟ تو فرمایا کہ شہید کی آزمائش کے لیے تلواروں کی چمک ہی کافی ہے۔ (نسائی، دیلمی)

11742

11742- عن سعيد بن جبير قال: لما أصيب حمزة بن عبد المطلب ومصعب بن عمير يوم أحد قالوا: ليت إخواننا يعلمون ما أصبنا من الخير كي يزدادوا رغبة فقال الله: أنا أبلغ عنكم فنزلت {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتاً} إلى قوله {الْمُؤْمِنِينَ} ". "ش".
11738 ۔۔۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب حمزہ بن عبدالمطلب اور مصعب بن عمر (رض) جنگ احد میں شہید ہوئے تو کہا کہ کاش ہمارے بھائیوں کو علم ہوتا کہ ہمیں کتنی بڑی بھلائی ملی ہے تاکہ وہ اور زیادہ رغبت سے اللہ کے راستے پر نکلتے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرف سے یہ اطلاع مسلمانوں تک پہنچاؤں گا چنانچہ سورة آل عمران یہ آیت نازل ہوئی کہ ” جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں انھیں مردے نہ سمجھو “ سے لے کر ” مومنین “ تک۔ (سورة آل عمران، آیت 129 ۔ 171، مصنف ابن ابی شیبہ)

11743

11743- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى أحد في الثوب الواحد ثم يقول: أيهم أكثر أخذا للقرآن؟ فإذا أشير إلى أحدهما قدمه في اللحد وقال: أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة وأمر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا. "ش".
11739 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احد کے شہداء کو ایک کپڑے میں لپیٹ لیتے پھر دریافت فرماتے کہ ان دونوں میں قرآن کس کو زیادہ یاد تھا ؟ تو جب ایک بارے میں بتادیاجاتا تولحد میں اسے آگے رکھتے اور فرمایا کہ قیامت کے دن ان لوگوں کا گواہ ہوں گا “ اور ان کو خون سمیت دفن کرنے کا حکم فرمایا، نہ ان کو غسل دیا گیا اور نہ ان کے جنازے کی نماز پڑھی گئی “ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11744

11744- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بالقتلى يوم أحد فزملوا بدمائهم وأن يقدم أكثرهم قرآنا أخذا للقرآن وأن يدفن اثنان في قبر قال: فدفنت أبي وعمي في قبر. "ش".
11740 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تو غزوہ احد کے شہداء کو ان کے خون سمیت ہی دفن کردیا، اور یہ بھی حکم فرمایا کہ جو قرآن کو زیادہ لینے والا ہو اس کو آگے رکھو اور یہ بھی کہ ایک قبر میں دودودفن کئے جائیں چنانچہ اپنے والد اور چچا کو ایک قبر میں دفن کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

11745

11745- عن نعيم بن همار الغطفاني قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم: فقال أي الشهداء أفضل؟ قال: الذين يلقون الصف في الصف فلا يلفتون وجوههم حتى يقتلوا أولئك الذين يتلبطون في الغرف العلى في الجنة يضحك إليهم ربك وإذا ضحك ربك إلى عبد في موطن فلا حساب عليه. "ابن زنجويه".
11741 ۔۔۔ نعیم بن حجارالغطفانی فرماتے ہیں کہ ایک شخص جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں آیا اور عرض کیا کہ شہداء میں سے افضل کون ہیں ؟ فرمایا کہ وہ لوگ جو صفوں کی صفوں سے جاملتے ہیں اورادھرادھر متوجہ نہیں ہوتے یہاں تک کہ قتل ہوجاتے ہیں، یہی لوگ ہوں گے جو جنت میں اونچے اونچے کمروں میں رہیں گے اور تیرا رب ان کو خوشی سے دیکھے گا اور جب تیرا رب کسی کو کسی جگہ خوشی سے دیکھ لے تو اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ (ابن زنجویہ)

11746

11746- "عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه" قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغار فقال: اللهم طعنا وطاعونا، قلت يا رسول الله: إني أعلم أنك سألت منايا أمتك فهذا الطعن قد عرفناه فما الطاعون؟ قال: ذرب كالدمل إن طالت بك حياة فستراه. "ع" وهو ضعيف.
11742 ۔۔۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غار میں تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اے میرے اللہ ! نیزہ اور طاعون، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اپنی امت کی تمنائیں مانگی ہیں سو یہ طعنہ (نیزہ) سے توہم واقف ہیں لیکن یہ طاعون کیا چیز ہے ؟ فرمایا کہ ایک زخم پھوڑے کی مانند ہوتا ہے اگر تم زندہ رہے تو عنقریب دیکھو گے “۔ (مسندابی یعلی)

11747

11747- عن أبي السفر قال: كان أبو بكر إذا بعث إلى الشام بايعهم على الطعن والطاعون. "مسدد".
11743 ۔۔۔ ابوالسفری فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے طعنہ اور طاعون پر بیت لی۔ (مسدد)

11748

11748- عن أنس أن عمر بن الخطاب أقبل ليأتي الشام فاستقبله طلحة ابن عبد الله وأبو عبيدة بن الجراح، فقالا: يا أمير المؤمنين إن معك وجوه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وخيارهم وإنا تركنا بعدنا مثل حريق النار يقال له: الطاعون فارجع العام، فرجع فلما كان العام المقبل جاء فدخل. "كر".
11744 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) شام روانہ ہوئے جب شام کے قریب پہنچے تو حضرت طلحہ بن عبداللہ اور حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) استقبال کے لیے شام کے باہرہی موجود تھے انھوں نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپ کے ساتھ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑے بڑے صحابہ کرام (رض) ہیں اور ہم نے اپنے پیچھے ایسے لوگ چھوڑے ہیں جیسے کہ آگ سے جل گئے ہوں، اس بیماری کو طاعون کہا جاتا ہے چنانچہ آپ اس سال واپس تشریف لے جائیں چنانچہ حضرت عمر (رض) واپس تشریف لے آئے اور پھر اگلے سال شام تشریف لے گئے۔
فائدہ :۔۔۔ شہادت حکمی کے بیان میں طاعون کا ذکر لانے سے مراد یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہو کر مرجائے تو وہ حکماً شہید ہوگا جیسے کہ پہلے روایات میں گزر چکا ہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ جب کسی علاقے کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہاں طاعون کی بیماری پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جانا چاہیے اور اگر کسی علاقے میں یہ بیماری پھیل جائے تو وہاں کے رہنے والوں کو وہ علاقہ چھوڑ کر بھاگنا نہ چاہیے، کیونکہ اگر اس بیماری سے بچ گئے تو فبہا اور اگر موت آگئی تو شہادت نصیب ہوجائے گی “۔ زیادہ تفصیل کی حاجت تو کسی مستند دارالافتاء مفتی سے رجوع کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11749

11749- عن طارق بن شهاب قال: كنا عند أبي موسى فقال لنا ذات يوم: لا يضركم أن تخففوا عني فإن هذا الداء قد أصاب في أهلي يعني الطاعون فمن شاء أن يعبره فليفعل واحذروا اثنتين، لا يقولن قائل إن هو جلس فعوفي الخارج لو كنت خرجت لعوفيت كما عوفي فلان، ولا يقولن الخارج إن عوفي وأصيب الذي جلس لو كنت جلست أصبت كما أصيب فلان، وإني سأحدثكم بما ينبغي للناس من خروج هذا الطاعون إن أمير المؤمنين كتب إلى أبي عبيدة بن الجراح حيث سمع بالطاعون الذي أخذ الناس بالشام إني بدت لي حاجة إليك فلا غني بي عنك فيها فإن أتاك كتابي ليلا فإني أعزم عليك أن تصبح حتى تركب إلي، وإن اتاك نهارا فإني أعزم عليك أن تمسي حتى تركب إلي، فقال أبو عبيدة: قد علمت حاجة أمير المؤمنين التي عرضت وإنه يريد أن يستبقي من ليس بباق، فكتب إليه إني في جند من المسلمين لن أرغب بنفسي عنهم وإني قد علمت حاجتك التي عرضت لك وإنك تستبقي من ليس بباق فإذا أتاك كتابي هذا فحللني من عزمك وائذن لي في الجلوس، فلما قرأ عمر كتابه فاضت عيناه وبكى، فقال له من عنده: يا أمير المؤمنين مات أبو عبيدة قال: لا، وكان قد كتب إليه عمر إن الأردن أرض وبية عمقة وإن الجابية أرض نزهة فاظهر بالمهاجرين إليها فقال أبو عبيدة حين قرأ الكتاب: أما هذا فنسمع فيه أمر أمير المؤمنين ونطيعه فأمرني أن أركب وأبويء الناس منازلهم فطعنت امرأتي فجئت أبا عبيدة فأخبرته فانطلق أبو عبيدة يبويء الناس منازلهم فطعن فتوفي وانكشف الطاعون،قال أبو الموجه: زعموا ان أبا عبيدة كان في ستة وثلاثين ألفا من الجند فماتوا فلم يبق إلا ستة آلاف رجل. "كر" وروى سفيان بن عيينة في جامعه عن طارق نحوه وأخصر منه.
11745 ۔۔۔ طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھے تو ایک دن انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے کم ملنا جلنا تمہیں تکلیف نہ دے گا کیونکہ یہ بیماری گھر والوں تک پہنچ چکی ہے یعنی طاعون، سو اگر کوئی کچھ تعبیر چاہے تو کرلے، اور ایسے دو آدمیوں سے بچو جن میں سے ایک کہنے والا یہ کہے کہ (اگر وہ کسی ایسی مجلس میں بیٹھا ہو جس میں کوئی طاعون کا مریض ہو) اور جو چلا گیا ہے (اگر وہ بچ گیا ہے تو ) یہ نہ کہے کہ اگر میں بیٹھ جاتا تو میں بھی اس بیماری میں مبتلا ہوجاتا جس میں وہ مبتلا ہوا جو اس مجلس میں بیٹھا تھا، کیونکہ میں تمہیں اس بیماری کے ظہور کے بارے میں وہ بات بتانے جارہا ہوں جو لوگوں کے لیے مناسب ہے (اور وہ یہ کہ ) جب امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے سنا کہ شام میں بہت سے لوگ طاعون سے مرگئے ہیں تو انھوں نے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح کو لکھا کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جو آپ کے بغیر نہیں ہوسکتا سو جس رات آپ کو میرا خط ملے تو میرا خیال ہے کہ آپ کو اگلی ہی صبح روانہ ہوجانا چاہیے اور اگر خط دن کے وقت ملے تو شام تک آپ کو میرے پاس آنے کے لیے روانہ ہوجانا چاہیے۔
فاروق اعظم (رض) کے خط کا جواب
حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے جواب میں لکھا کہ مجھے معلوم ہے کہ امیر المومنین کو مجھ سے کیا کام ہے وہ اس کو بچانا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے، اور لکھ کہ میں مسلمانوں کے لشکر میں ہوں، اور خود کو ان سے الگ نہیں کرسکتا اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو مجھ سے کیا کام پڑگیا ہے آپ اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں ہے سو جیسے ہی آپ تک میرا خط پہنچے تو میرے بارے میں اپنے عزائم کو منسوخ کر دیجئے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہیں بیٹھا رہوں۔
حضرت عمر (رض) نے جیسے ہی جواب خط پڑھا آپ (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور آپ رونے لگے آپ (رض) کے پاس موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا کہ یا امیر المومنین کیا حضرت ابو عبیدۃ (رض) کی وفات ہوگئی ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ نہیں۔
حضرت عمر (رض) نے یہ بھی لکھا تھا کہ اردن گہری وباؤں والی سرزمین ہے اور جابیہ بارونق وصحت بخش علاقہ ہے لہٰذا مہاجرین کو لے کر وہاں منتقل ہوجائیں، حضرت ابو عبیدۃ (رض) نے جب یہ خط پڑھا تو فرمایا کہ رہا یہ خط تو ہم اس میں امیر المومنین کا حکم سنتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں سوار ہوجاؤں اور لوگوں کو ان کے ٹھکانوں پر پہنچاؤں، اتنے میں میری بیوی طاعون میں مبتلا ہوگئی سو میں حضرت ابوعبیدۃ (رض) کے پاس آیا اور انھیں بتایا، چنانچہ حضرت ابو عبیدۃ (رض) فوری طور پر لوگوں کو ان کے (محفوظ) ٹھکانوں پر منتقل کرنے لگے، اسی دوران خود بھی اسی بیماری میں مبتلا ہو کر وفات پاگئے۔
ابوالموجہ کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ حضرت ابو عبیدۃ (رض) چھتیس ہزار (36000) مجاہدین کے ساتھ تھے جن میں سے صرف چھ ہزار (6000) باقی بچے۔
سفیان بن عینیہ نے اسی روایت کو طارق سے اپنی جامع میں اس سے مختصر روایت کیا ہے۔

11750

11750- عن علي قال: دعا نبي على أمته، فقيل له: أتحب أن أسلط عليهم الجوع؟ قال: لا، قيل له: أتحب أن ألقى بأسهم بينهم؟ قال: لا، فسلط عليهم الطاعون موتا ذفيفا يحرق القلوب ويقلل العدد. "ابن راهويه".
11746 ۔۔۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک نبی) نے اپنی امت کے لیے بددعا فرمائی تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان پر بھوک مسلط کر دوں، انھوں نے عرض کیا نہیں، پھر پوچھا گیا کہ کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان پر بھوک مسلط کردوں، انھوں نے عرض کیا نہیں پھر پوچھا گیا کہ آپ پسند کرتے ہیں کہ ان پر بھوک مسلط کردی جائے، عرض کیا نہیں، چنانچہ ان کی امت پر طاعون مسلط کردیا گیا جو ایسی بیماری ہے جو فوراً مار ڈالتی ہے دلوں کو جلا دیتی ہے اور تعداد کو کم کردیتی ہے “۔ (ابن راھویہ)

11751

11751- عن عبد الرحمن أن عمر كتب إلى عماله بالشام إذا سمعتم بالوباء قد وقع فاكتبوا إلي فجئت وهو نائم وذاك بعد رجوعه من سرغ فسمعته لما قام من نومه قال: اللهم اغفر لي في رجوعي من سرغ. "ابن راهويه".
11747 ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے شام میں اپنے عمال کو لکھا کہ جب تم سنو کہ کوئی وبا پھیل گئی ہے تو مجھے لکھو، چنانچہ میں آیا اس وقت آپ (رض) سرغ سے واپس آنے کے بعد سو رہے تھے چنانچہ جب وہ نیند سے اٹھے تو میں نے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اے میرے رب ! سرغ سے میری واپسی معاف فرما دیجئے “۔ (ابن راھویہ)
فائدہ :۔۔۔ سرغ ایک منگر کا نام ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11752

11752- عن زرعة بن ذوئب الدمشقي أن عمر بن الخطاب كتب إلى عامله بالشام إذا وقع الوباء بأرض فأكتب إلي فلما وقع الوباء بالشام كتب إليه فأقبل حتى قدم. "كر سيف".
11748 ۔۔۔ زرعۃ بن ذوئب الدمشقی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے شام میں اپنے عامل کو لکھا کہ جب کسی زمین پر وبا پھیلے تو مجھے اطلاع دینا، سو جب وہاں وبا پھیلی تو حضرت عمر (رض) کو اطلاع دی گئی تو آپ (رض) متوجہ ہوئے یہاں تک کہ آپہنچے۔

11753

11753- عن عمر بن أبي حارثة وأبي عثمان والربيع بن النعمان البصري قال: وقع الطاعون بعد الشام ومصر والعراق واستقر بالشام ومات فيها الناس الذين هم الناس في المحرم وصفر وارتفع عن الناس وكتبوا بذلك إلى عمر ما خلا الشام، فخرج حتى إذا كان منها قريبا بلغه أنه أشد ما كان فقال: وقال الصحابة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كان بأرض فلا تدخلوها وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا عليكم، فرجع حتى ارتفع منها، وكتبوا إليه بذلك وبما في أيديهم من المواريث فجمع الناس في سنة سبع عشرة في جمادى الأولى فاستشارهم في البلدان فقال: إني قد بدا لي أن أطوف على المسلمين في بلدانهم لأنظر في آثارهم، فأشيروا علي. "كر".
11749 ۔۔۔ عمر بن ابی حارثہ اور ابو عثمان اور ربیع بن نعمان البصری فرماتے ہیں کہ بعد میں طاعون شام، مصر، عراق میں پھیلا اور پھر صرف شام میں رہ گیا جس میں بڑے بڑے لوگ فوت ہوگئے، یہ محرم اور صفر کے مہینے رہا اور پھر ختم ہوگیا لہٰذا لوگوں نے اطلاع دی کہ شام کے علاوہ باقی جگہوں سے طاعون ختم ہوگیا ہے، چنانچہ حضرت عمر (رض) روانہ ہوئے اور شام کے قریب پہنچ گئے یہاں انھیں اطلاع ملی کہ جتنا طاعون یہاں پہلے تھا اب اس سے کہیں زیادہ شدید ہوگیا ہے چنانچہ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی جگہ طاعون ہو تو وہاں نہ جاو، اور اگر ایسی جگہ طاعون پھیلا جہا تم موجود ہو تو اب وہاں سے نہ جاؤ چنانچہ حضرت عمر (رض) واپس تشریف لے گئے یہاں تک کہ طاعون کے اثرات ختم ہوگئے چنانچہ وہاں موجود لوگوں نے اس کی اطلاع دی اور کہا کہ ان کے پاس بہت سے لوگوں کی میراث ہے چنانچہ اس سال جمادی الاولی میں لوگوں کو جمع کیا اور شہروں کے بارے میں مشورہ کیا اور فرمایا کہ میرا ذہن بن رہا ہے کہ میں تمام شہروں میں مسلمانوں کو جا کر دیکھو تاکہ ان کے احوال سے آگاہی حاصل کروں سو مجھے بتاتے جاؤ۔

11754

11754- عن عبد الله بن عباس أن عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه أمراء الأجناد أبو عبيدة بن الجراح وأصحابه فأخبروه أن الوباء قد وقع بالشام، قال ابن عباس: فقال عمر: أدع لي المهاجرين الأولين فدعاهم فاستشارهم فاختلفوا عليه، فقال بعضهم: قد خرجت لأمر ولا نرى أن ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى أن تقدمهم على هذا الوباء فقال: ارتفعوا عني ثم قال: ادع لي الأنصار فدعوتهم له فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم فقال: ارتفعوا عني ثم قال: ادع لي من كان ههنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح فدعاهم فلم يختلف عليه منهم رجلان فقالوا نرى أن ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء فنادى عمر في الناس إني مصبح على ظهر فأصبحوا عليه فقال أبو عبيدة بن الجراح: أفرارا من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله أرأيت لو كان لك إبل فهبطت واديا له عدوتان، أحداهما خصبة والأخرى جدبة أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله؟ قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا في بعض حاجته فقال: إن عندي من هذا علما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه قال: فحمد الله عمر ثم انصرف. "مالك وسفيان بن عيينة في جامعه حم خ م ق".
11750 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) شام کی طرف روانہ ہوئے حتی کہ جب سرغ نامی جگہ پر پہنچے تو لشکروں کے امراء حضرت ابو عبیدۃ بن الجراح (رض) اور ان کے ساتھی وغیرہ آپ (رض) سے ملے اور بتایا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ابتدائی مہاجرین کو بلاؤ چنانچہ ان کو بلایا گیا حضرت عمر (رض) نے ان سے مشورہ فرمایا، سب نے مختلف مشورے پیش کئے، بعض نے کہا کہ آپ ایک ضروری کام سے نکلے ہیں اور ہم نہیں سمجھتے کہ آپ کام کو مکمل کئے بغیر واپس چلے جائیں، اور بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھ باقی لوگ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ہیں آپ ان کو وبا کے سامنے نہ پیش کریں۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ آپ سب لوگ یہاں سے تشری لے جائیں ، پھر انصار کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا، وہاں بھی یہی ہوا سب نے الگ الگ آراء پیش کیں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کو بھی وہاں سے واپس بھیج دیا اور فرمایا کہ فتح مکہ میں جن قریشی مہاجرین نے شرکت کی تھی ان میں سے کسی بزرگ کو بلاؤ، چنانچہ ان میں سے دو بزرگوں نے ایک جیسی رائے دی اور کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور وبا کے سامنے پیش نہ کریں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اعلان کروادیا، کہ صبح کو ہم روانہ ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت ابو عبیدۃ بن الجراح (رض) نے عرض کیا، کہ کیا اللہ کی مقرر تقدیر سے بھاگ رہے ہیں ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے کاش ابو عبیدۃ یہ جملہ آپ کے علاوہ کوئی اور کہتا، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی طرف بھاگ رہے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ اپنے اونٹ کے ساتھی جارہے ہوں کہ ایک ایسی وادی آجائے جس کے دو کنارے ہو ایک نہایت سرسبز و شاداب ہرابھرا اور دوسرا بنجر اور قحط زدہ، سو اگر آپ اپنے اونٹ کو سرسبز جگہ چروائیں تو اللہ کی تقدیر میں ہوں گے یا نہیں ؟ اور اگر قحط زدہ اور بنجر جگہ چروائیں تو اللہ کی تقدیر میں ہوں گے یا نہیں۔
طاعون والی زمین پر مت جانا
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) تشریف لے آئے جو اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے وہاں موجود نہ تھے چنانچہ انھوں نے آکر فرمایا کہ میں اس بارے میں جانتا ہوں میں نے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی زمین پر طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور جب کسی سرزمین میں طاعون پیدا ہوجائے اور تم وہاں موجود ہو تو پھر وہاں سے فرا ہونے کی نیت سے نہ نکلو۔ فرمایا کہ حضرت عمر (رض) نے
اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء بیان کی اور روانہ ہوگئے۔ (مالک، سفیان بن عینیہ فی جامعہ، مسند احمد، بخاری، مسلم)

11755

11755- عن زنكل بن علي وزير لعمر بن عبد العزيز قال: قال حذيفة بن اليمان: يا طاعون خذني إليك ثلاث مرات قبل سفك دم حرام وقبل جور في الحكم وقبل إمارة الصبيان وكثرة الزبانية. "كر".
11751 ۔۔۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے وزیر زنکل بن علی فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفۃ بن الیمان (رض) نے (طاعون سے مخاطب ہو کر) فرمایا، اے طاعون مجھے پکڑ لے، اے طاعون مجھے پکڑ لے، اے طاعون، مجھے پکڑ (تین مرتبہ) اس سے پہلے حرام خون بہایا جائے، اور احکامات میں ظلم سے کام لیا جانے لگے، اور بچوں کی امارت آجائے اور اس سے پہلے کہ سرکش لوگوں کی کثرت ہوجائے۔

11756

11756- عن عبد الرحمن بن غنم قال: وقع الطاعون بالشام فقال عمرو بن العاص: إن هذا الطاعون رجز ففروا منه في الأودية والشعاب فبلغ شرحبيل بن حسنة فغضب، وقال: كذب عمرو بن العاص لقد صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمرو أضل من جمل أهله إن هذا الطاعون دعوة نبيكم ورحمة ربكم ووفاة الصالحين قبلكم فبلغ ذلك معاذا فقال: اللهم اجعل نصيب آل معاذ الأوفر، فماتت ابنتاه، وطعن ابنه عبد الرحمن، فقال: {الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ} ، فقال: {سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ} ، وطعن معاذ في ظهر كفه فجعل يقول: هي أحب إلي من حمر النعم، ورأى رجلا يبكي عنده فقال: ما يبكيك؟ قال: على العلم الذي كنت أصيبه منك قال: فلا تبك فإن إبراهيم كان في الأرض وليس بها عالم فآتاه الله علما فإذا أنا مت فاطلب العلم عند أربعة عبد الله بن مسعود وعبد الله بن سلام وسلمان وأبي الدرداء. "ابن خزيمة كر".
11752 ۔۔۔ حضرت عبد الرحمن بن غنم (رض) فرماتے ہیں کہ شام میں طاعون پھیلا تو حضرت عمرو بن العاص (رض) نے فرمایا کہ یہ طاعون ایک ڈانٹ ہے سو اس سے بچ کر وادیوں اور گھاٹیوں میں بھاگو، یہ بات حضرت شرحبیل بن حسنۃ (رض) کو معلوم ہوئی تو آپ (رض) غصے میں آگئے اور فرمایا کہ عمروبن العاص کو غلط فہمی ہوگئی ہے کیونکہ میں جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں موجود تھا اور عمرو بن العاص اپنے گھروالوں کے ساتھ کہیں گئے ہوئے تھے، یہ طاعون تو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اور تمہارے رب کی رحمت اور صالحین کی تم سے پہلے وفات ہے، یہ بات حضرت معاذ (رض) نے سنی تو حضرت معاذ (رض) نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس میں معاذ کی اولاد کا حصہ پورا پورا عطا فرما، چنانچہ ان کی دو صاحبزادیوں کی وفات ہوگئی اور صاحبزادے عبد الرحمن اس مرض میں مبتلا ہوگئے چنانچہ آپ نے یہ آیت پڑھی ” حق تو آپ کے رب ہی کی طرف سے ہے سو آپ نہ ہوں شک کرنے والوں میں سے “۔ (البقرۃ آیت 148)
اور یہ آیت بھی پڑھی کہ ” آپ عنقریب انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے “۔ (الصافات آیت 102) انہی دنوں حضرت معاذ (رض) کی ہتھیلی کی پشت پر طاعون کا پھوڑا نکل آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے، انھوں نے اپنے پاس ایک شخص کو روتے دیکھا تو دریافت فرمایا کہ تو کیوں روتا ہے، عرض کیا اس علم کی بناء پر جو مجھے آپ سے حاصل ہوا ہے، تو فرمایا کہ پھر مت رو، حضرت ابراہیم ایسی سرزمین پر تھے کہ وہاں کوئی عالم نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علم عطا فرمایا، سو جب میں وفات پاجاؤں تو علم کو چار لوگوں سے حاصل کرنا۔
1 ۔۔۔ عبداللہ بن مسعود (رض)۔ 2 ۔۔۔ عبداللہ بن سلام (رض)۔
3 ۔۔۔ سلمان (رض)۔ 4 ۔۔۔ اور ابوالدرداء (رض) ۔ (ابن خزیمہ)

11757

11757- عن شهر بن حوشب قال: لما مات معاذ تكلم عمرو ابن عبسة أيضا فيمن يليه وكان يقول: أنا رابع الإسلام، فقال: يا أيها الناس إن الطاعون رجز فتفرقوا عنه في الشعاب: فقام شرحبيل بن حسنة فقال: والله لقد أسلمت وإن أميركم هذا أضل من جمل أهله فانظروا ما يقول، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تهربوا فإن الموت في أعناقكم وإذا كان بأرض فلا تدخلوها فإنه يحرق القلوب ...
11753 ۔۔۔ شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاذ (رض) کی وفات ہوگئی تو حضرت عمرو بن عتبۃ (رض) نے اپنے بعد والوں سے ایسی ہی گفتگو کی وہ فرماتے تھے کہ میں چوتھا مسلمان ہوں، فرمایا کہ جو طاعون ہے یہ ڈانٹ ہے سو اس سے بچ کر گھاٹیوں میں بھاگ جاؤ (یہ سن کر ) حضرت شرحبیل بن حسنۃ (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ خدا کی قسم، میں بھی مسلمان ہوں اور تمہارے امیر زبردست غلط فہمی میں مبتلا ہیں، دیکھو تو کیا کہتے ہیں ؟ (حالانکہ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کسی سرزمین پر طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے مت بھاگو کیونکہ موت تمہاری گردنوں میں ہے، اور جب کہیں طاعون پھیلے (اور تم وہاں موجود نہ ہو) تو تم وہاں نہ جاؤ کیونکہ یہ دلوں کو جلا دیتا ہے۔
فائدہ :۔۔۔ موت کا گردن میں ہونے سے مراد یہ ہے کہ خواہ کہیں بھی چلے جاؤ موت سے بچنا ممکن نہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11758

11758- عن يونس بن ميسرة بن حلبس قال: نزل المسلمون الجابية وهم أربعة وعشرون ألفا، فوقع الطاعون فيهم، فذهب منهم عشرون ألفا، وبقي أربعة آلاف، فقالوا: هذا طوفان، وهذا رجز، فبلغ ذلك معاذا، فبعث فوارس يجمعون الناس فقال: اشهدوا المدارس اليوم عند معاذ، فلما اجتمعوا، قام فيهم فقال: أيها الناس والله لو أعلم أني أقوم فيكم بعد مقامي هذا ما تكلفت القيام فيكم، وقد بلغني أنكم تقولون هذا الذي وقع فيكم طوفان ورجز، والله ما هو الطوفان ولا الرجز، وإنما الطوفان والرجز كان عذابا، عذب الله به الأمم، ولكن في الدنيا ... الله لكم فاستجاب لكم دعوة نبيكم صلى الله عليه وسلم، ألا فمن أدرك خمسا واستطاع أن يموت، فليمت: أن يكفر الرجل بعد إيمانه، وأن يسفك الدم بغير حقه وأن يعطى مال الله بأن يكذب أو يفجر، وأن يظهر التلاعن بينكم، أو يقول الرجل حين يصبح: والله لئن حييت أو مت ما أدري ما أنا عليه. "كر".
11754 ۔۔۔ یونس بن مسیرۃ بن حلبس فرماتے ہیں کہ چوبیس ہزار (24000) مسلمان کا جابجا پہنچے، تو وہاں پر طاعون پھیل گیا جس سے بیس ہزار (2000) کا انتقال ہوگیا اور چار ہزار (4000) باقی بچے انھوں نے کہا کہ یہ طوفان ہے یہ تو ڈانٹ ہے یہ بات حضرت معاذ (رض) کو معلوم ہوئی تو انھوں نے شہسواروں کو بھیجا تاکہ لوگوں کو جمع کریں اور کہا کہ آج حضرت معاذ (رض) کے پاس جا بیٹھو، لہٰذا جب سب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے لوگو ! خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں آج کے بعد بھی اس جگہ تمہارے درمیان کھڑا ہوسکوں گا تو مجھے آج یہ تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگ کہہ رہے ہو کہ یہ طوفان ہے یہ ڈانٹ ہے خدا کی قسم نہ یہ طوفان ہے اور نہ ہی ڈانٹ کیونکہ طوفان اور ڈانٹ تو صرف عذاب ہی ہیں جس ےس اللہ تعالیٰ امتوں کو عذاب دیتے ہیں لیکن دنیا میں ۔۔۔ سو تمہارے لیے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول فرمائی، سنو ! جس کو پانی مل گئے اور وہ طاقت رکھتا ہے کہ مرجائے تو اس کو مرجانا چاہیے۔ یہ بہتر ہے اس سے کہ کوئی شخص ایمان کے بعد کافر ہوجائے اور ناحق خون بہایا جائے یا ناحق اللہ کا مال اس طرح دے دیا جائے کہ اس کے لیے جھوٹ بولے یا فسق وفجور کرے اور بہتر ہے اس سے کہ تم لوگوں کے درمیان لعنت ملامت ظاہر ہو یا کوئی شخص صبح اٹھے تو یہ کہے۔ خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا یا مرگیا تو میں نہیں جانتا میرا کیا حال ہوگا۔
فائدہ :۔۔۔ یعنی مرجانا ان صورتوں کے پیش آنے سے بہتر ہے واللہ اعلم بالصواب۔ (مترجم)

11759

11759- عن عبد الرحمن بن غنم قال: كان عمرو بن العاص حين أحس بالطاعون فرق فرقا شديدا فقال: يا أيها الناس تبددوا في هذه الشعاب وتفرقوا، فإنه قد نزل بكم أمر من الله لا أراه إلا رجزا أو الطوفان، قال شرحبيل بن حسنة: قد صاحبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنت أضل من حمار أهلك، قال عمرو: صدقت، قال معاذ لعمرو ابن العاص: كذبت ليس بالطوفان ولا بالرجز ولكنها رحمة ربكم ودعوة نبيكم وقبض الصالحين قبلكم، اللهم آت آل معاذ النصيب الأوفر من هذه الرحمة. "كر".
11755 ۔۔۔ حضرت عبد الرحمن بن غنم (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے جب طاعون پھیلتا محسوس کیا تو بہت زیادہ خوف زدہ ہوگئے اور فرمایا کہ اے لوگو ! ان گھاٹیوں میں منتشر ہوجاؤ اور پھیل جاؤ کیونکہ اللہ کی طرف سے تم پر ایک چیز نازل ہوئی ہے جسے میں کوئی زبردست ڈانٹ یا کوئی طوفان ہی سمجھتا ہوں، حضرت شرحبیل بن حسنۃ (رض) نے فرمایا کہ ہم جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے اور آپ تو زبردست غلط فہمی میں مبتلا ہیں، حضرت عمروبن العاص (رض) نے فرمایا کہ آپ نے سچ کہا، حضرت معاذ (رض) نے حضرت عمرو (رض) بن العاص (رض) سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ سے غلطی ہوئی یہ کوئی طوفان یا ڈانٹ وغیرہ نہیں ہے بلکہ یہ تو آپ کے رب کی رحمت اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ہے اور تم سے پہلے صالحین کی وفات ہے، اے اللہ ! معاذ کی اولاد کو اس رحمت میں سے بھرپور حصہ عطا فرما “۔

11760

11760- "مسند عمر رضي الله عنه" عن سعيد بن المسيب قال: قال عمر كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبل فأشرفنا على واد فرأيت شابا يرعى غنما له، أعجبني شبابه فقلت: يا رسول الله وأي شاب لو كان شبابه في سبيل الله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا عمر فلعله في بعض سبيل الله وأنت لا تعلم، ثم دعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا شاب هل لك من تعول؟ قال: نعم، قال: من، قال أمي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الزمها فإن عند رجليها الجنة، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: لئن كان الشهيد ليس إلا شهيد السيف فإن شهداء أمتي إذا لقليل، ثم ذكر صاحب الحرق، والشرق، والهدم، والبطن، والغريق، ومن أكل السبع ومن سعى على نفسه ليعزها ويغنيها عن الناس فهو شهيد. "إسماعيل الحطبي في حديثه خط في المفترق" وفيه أبو غالب عن ابن أحمد بن النصر الأزدي، قال الدارقطني ضعيف، وقال أحمد بن كامل القاضي لا أعلمه ذم في الحديث حكاها في الميزان وقال في اللسان ذكره سلمة الأندلسي وقال إنه ثقة.
حضرت عمر (رض) کی مسند سے حضرت سعید بن المسیب روایت فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا
کہ ایک پہاڑ پر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ ہم ایک وادی کے سامنے پہنچے وہاں میں نے ایک نوجوان کو بکریاں چراتے ہوئے دیکھا، مجھے اس کی جوانی اچھی لگی میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کیا ہی خوب جوان ہے اگر اس کی جوانی اللہ کے راستے میں لگے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عمر ! ہوسکتا ہے کہ وہ کسی طرح اللہ کے راستے میں ہو اور تمہیں معلوم نہ ہو، پھر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے طلب فرمایا اور فرمایا کہ اے نوجوان ! کیا کوئی ایسا ہے جس کے پاس تم لوٹ کرجاتے ہو ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں، فرمایا کون ؟ عرض کیا، میری والدہ ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کے پاس ہی رہنا کیونکہ ان کے قدموں میں جنت ہے۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر صرف تلوار سے قتل ہونے والا ہی شہید ہو تو پھر تو میری امت کے شہید بہت کم ہوجائیں گے، پھر جلے ہوئے، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے، منہدم شدہ عمارت وغیرہ کے نیچے دبنے والے پیٹ کی بیماری میں مرنے والے، ڈوب کر مرنے والے، درندے کا لقمہ بننے والے اور اس شخص کا ذکر فرمایا جو اپنے کمانے ےلئے محنت کرتا تھا تاکہ عزت سے کمائے اور خود کو دوسروں سے بےنیاز کرلے، وہ بھی شہید ہے۔ (اسمعیل الحطبی فی حدیثہ، بخاری فی التاریخ فی المفترق)

11761

11761- عن يزيد بن أسد أنه قدم على عمر بن الخطاب من دمشق فقال: ما الشهداء فيكم يا أمير المؤمنين؟ فقال: الشهداء من قاتل في سبيل الله حتى يقتل، فما تقولون فيمن مات حتف أنفه لا تعلمون منه إلا خيرا؟ قال نقول عبد عمل خيرا ولقي ربا لا يظلمه يعذب من عذب بعد الحجة عليه والمعذرة فيه أو يعفو عنه، فقال: عمر كلا والله ما هو كما تقولون من مات مفسدا في الأرض ظالما للذمة عاصيا للإمام غالا للمال ثم لقي العدو فقاتل فقتل فهو غير شهيد ولكن الله قد يعذب عدوه بالبر والفاجر وأما من مات حتف أنفه لا تعلمون منه إلا خيرا، فكما قال الله تعالى: {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ} الآية. "أبو العباس الأصم في جزء من حديثه".
11757 ۔۔۔ یزید بن اسد فرماتے ہیں کہ وہ دمشق سے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے اور پوچھا کہ یا امیر المومنین آپ میں سے شہید کون ہوتے ہیں ؟ تو فرمایا کہ شہید وہ ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور قتل ہوجائے، اور تم بتاؤ جو شخص اپنی طبعی موت مرجائے تو تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو حالانکہ تم اس کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، عرض کیا، کہ ہم کہتے ہیں کہ بندہ تھا نیک عمل کیا اور اپنے رب سے جاملا، وہ اس پر ظلم نہ کرے گا عذاب دے گا جسے عذاب دینا ہوگا اس کے خلاف حجت پوری ہونے کے بعد یا معذرت کے بعد یا معافی کے بعد، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، معاملہ اس طرح نہیں جس طرح تم کہتے ہو، جو زمین میں فساد کرتا ہوا ذمیوں پر ظلم کرتا ہوا امام کی نافرمانی کرتا ہوا مال میں خیانت کرتا ہواجہاد میں آیا دشمن کا سامنا کیا اور قتال کیا پھر قتل ہوگیا تو وہ شہید نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کبھی اس کے دشمن کو نیکی اور فاجر کے ساتھ بھی عذاب دیتے ہیں رہا وہ جو اپنی طبعی موت مرگیا اور تم اس کے بارے میں بھلائی کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا انبیاء اور صدیقوں میں سے۔ (سورة النساء، بریت 69، ابو العباس فی جزء من حدیثہ)

11762

11762- عن ربيع بن إياس الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاد ابن أخي جبر الأنصاري، فجعل أهله يبكون عليه، فقال لهم جبر: لا تؤذوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأصواتكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعهن فليبكين ما دام حيا، فإذا وجب فليسكتن، فقال بعضهم، ما كنا نرى أن يكون موتك على فراشك حتى تقتل في سبيل الله مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أو ما الشهادة؟ إلا القتل في سبيل الله، إن شهداء أمتي إذا لقليل، إن الطعن شهادة، والبطن شهادة، والنفساء بجمع شهادة والحرق شهادة، والهدم شهادة، والغرق شهادة، وذات الجنب شهادة. "طب".
11758 ۔۔۔ ربیع بن ایاس الانصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبر الانصاری کے بھتیجے کے پاس آئے جن کی وفات ہورہی تھی ان کے گھر والے رونے لگے، جبر نے کہا کہ اپنی آوازوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت نہ پہنچاؤ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ان عورتوں کو رونے دو ، سو جب ان کی وفات ہوجائے گی تو وہ خاموش ہوجائیں گی، بعض لوگوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ آپ کی وفات اپنے بستر پر ہوگی ہمارا خیال تھا کہ آپ اللہ کے راستے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ہوئے قتل ہوں گے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اور شہادت پھر کس کو کہتے ہیں ؟ علاوہ اللہ کے راستے میں قتل ہونے کے اس طرح تو میری امت کے شہید بہت کم ہوجائیں گے نیزے سے قتل ہونا بھی شہادت ہے پیٹ کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے، اور وہ عورت جو اپنے نفاس میں مرے وہ بھی شہید ہے، جل کر مرنے والا بھی شہید ہے، کسی عمارت وغیرہ کے نیچے دب کر مرنے والا بھی شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے اور ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا بھی شہید ہے۔ (طبرانی)

11763

11763- عن جابر قال: قتل أبي وخالي يوم أحد فحملتهما على بعير فأتيت بهما المدينة فنادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ردوا القتلى إلى مصارعهم. "ابن النجار".
11759 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے والد اور ماموں غزوہ احد میں شہید ہوئے میں نے ان کو اپنے اونٹ پر اٹھایا اور لے کر مدینہ منورہ آیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ مقتولوں کو اسی جگہ لے جاؤ جہاں وہ قتل ہوئے۔ (ابن النجار)

11764

11764- عن أنس بن مالك قال، قدم ناس من عرينة المدينة فاجتووها، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن شئتم أن تخرجوا إلى إبل الصدقة فتشربوا من أبوالها وألبانها ففعلوا واستصحوا فمالوا على الرعاء فقتلوهم واستاقوا ذود رسول الله صلى الله عليه وسلم وكفروا بعد إسلامهم فبعث في آثارهم فأتى بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم وتركوا بالحرة حتى ماتوا. "عب".
حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ عرینہ سے مدینہ منورہ آئے لیکن وہاں کی آب وہوا ان کو راس نہ آئی اور وہ بیمارپڑ گئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اگر چاہو تو وہاں چلے جاؤ جہاں صدقہ کے اونٹ ہیں، وہاں جا کر ان کے پیشاب اور دودھ پیو چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بھلے چنگے ہوگئے چنانچہ پھر وہ چرواہوں کی طرف متوجہ ہوئے ان کو قتل کردیا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں کو ہانک کرلے گئے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں کو ہانک کرلے گئے، اور اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفر اختیار کرلیا چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے تعاقب میں لوگوں کو بھیجا، ان کو پکڑ کر لایا گیا چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ہاتھ پیر کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروادیں اور انھیں گرم ریگستان میں پھنکوا دیا گیا جہاں وہ مرگئے۔ (مصنف عبدالرزاق)

11765

11765- عن قتادة عن أنس أن نفرا من عكل وعرينة تكلموا بالإسلام فأتوا النبي صلى الله عليه وسلم فأخبروه أنهم كانوا أهل ضرع ولم يكونوا أهل ريف، فاجتووا المدينة وشكوا حماها فأمر لهم النبي صلى الله عليه وسلم بذود وأمر لهم براع وأمرهم أن يخرجوا من المدينة فيشربوا من ألبانها وأبوالها فانطلقوا حتى إذا كانوا بناحية الحرة كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم وساقوا الذود، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث الطلب في أثرهم فأتى بهم فسمل أعينهم وقطع أيديهم وأرجلهم؛ وتركوا بناحية الحرة يقضمون حجارتها، حتى ماتوا، قال قتادة: بلغنا أن هذه الآية نزلت فيهم: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} الآية كلها. "عب".
11760 ۔۔۔ حضرت قتادہ (رض) حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ کچھ لوگ عکل اور عرینہ سے اسلام کا اظہار کرتے ہوئے آئے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ وہ لوگ دودھ پینے والے ہیں کسی سرسبز و شاداب زمین سے نہیں آئے چنانچہ مدینہ ان کو راس نہیں آیا اور انھوں نے اس کے بخار کی شکایت کی، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے اونٹنی کا حکم دیا اور ایک چرواہے کا اور انھیں حکم دیا کہ وہ مدینہ سے نکل کر ان اونٹنیوں کا پیشاب اور دودھ پئیں سو وہ چل پڑے جب وہ گرم ریگستان کے کنارے پر پہنچے تو اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کافر ہوگئے اور یہ بات جناب نبی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پکڑنے کے لیے لوگ بھیجے سو ان کو پکڑ کر لایا گیا پھر ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھروادی گئیں اور ان کے ہاتھوں اور پیروں کو کٹوادیا گیا اور ریگستان کے ایک کون میں گرم پتھروں پر ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ، قتادہ کہتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی کہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ” بیشک وہ جو اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرتے ہیں “ آفرنگ۔ (سورة مائدہ آیت 33، مصنف عبدالرزاق)

11766

11766- عن أنس أن نفرا من عرينة أتوا النبي صلى الله عليه وسلم فأسلموا وبايعوه، وقد وقع بالمدينة الموم وهو البرسام، فقالوا: هذا الوجع قد وقع يا رسول الله فلو أذنت لنا فخرجنا إلى الإبل فكنا فيها، فقال: نعم فأخرجوا فكونوا فيها، فخرجوا فقتلوا أحد الراعيين، وذهبوا بالإبل، وجاء الآخر وقد جرح، فبلغوا حاجتهم وذهبوا بالإبل وعنده شباب من الأنصار قريب من العشرين فأرسل إليهم وبعث معهم قائفا يقتص فأتى بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم. "ابن النجار".
11762 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ عرینہ سے ایک جماعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کیا اور بیعت ہوگئی اور مدینہ منورہ میں ان کو برسام کی بیماری ہوگئی، تو انھوں نے عرض کیا کہ تکلیف شروع ہوگئی ہے سو اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم ان اونٹوں میں چلے جائیں جہاں ہم پہلے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاتھ جاؤ اور وہیں رہو، چنانچہ وہ نکلے اور چرواہوں میں سے ایک کو قتل کردیا اور اونٹ لے گئے ایک چرواہا زخمی حالت میں پہنچا اور اطلاع دی، وہ اپنی ضرورت پوری کرچکے اور اونٹوں کو لے گئے اس کے ساتھ ایک انصاری نوجوان تھا، تقریباً بیس سال کا چنانچہ ان کو گرفتار کرنے کے لیے لوگوں کو روانہ کیا گیا اور اس لڑکے کو ساتھ بھیجا جو ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈ رہا تھا، ان کو گرفتار کرکے لایا گیا اور ان کے ہاتھ اور پیر کٹوا دئیے گئے اور آنکھوں میں سلائیاں پھروادی گئیں “۔ (ابن النجار)

11767

11767- عن مالك بن أوس بن الحدثان قال: قال عثمان لأبي ذر: أين كنت يوم أغير على لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كنت على البئر أسقى. "ابن منيع".
11763 ۔۔۔ حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے حضرت ابو ذر (رض) سے دریافت فرمایا کہ جب جناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنیوں کو لوٹ کرلے جایا جانے لگا تھا تو آپ کہاں تھے، تو انھوں نے عرض کیا کہ میں کنویں پر تھا اور پانی پلا رہا تھا “۔ (ابن منیع)

11768

11768- عن عامر الشعبي قال: كان حارثة بن بدر التميمي قد أفسد في الأرض، وحارب فكلم الحسن بن علي وابن عباس وابن جعفر وغيرهم من قريش، فكلموا عليا فأبى أن يؤمنه، فأتى سعيد بن قيس الهمداني فكلمه، فانطلق سعيد إلى علي فقال: يا أمير المؤمنين ما تقول في من أفسد في الأرض وحارب؟ فقال: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} حتى ختم الآية، فقال سعيد: أرأيت من تاب قبل أن تقدر عليه؟ قال: أقول كما قال الله وأقبل منه، قال: فإن حارثة ابن زيد قد تاب قبل أن تقدر عليه، فأتاه به فأمنه. "ش وعبد بن حميد وابن أبي الدنيا في كتاب الاشراف وابن جرير وابن أبي حاتم".
11764 ۔۔۔ امام عامر الشعبی فرماتے ہیں کہ حارثہ بن بدر الثمیمی نے جنگ و جدل اور فساد پھیلانا شروع کیا، چنانچہ حضرت حسن بن علی حضرت ابن عباس اور حضرت ابن جعفر (رض) وغیرہ اہل قریش نے گفتگو کی اور حضرت علی (رض) سے گفتگو کی تو حضرت عمر (رض) وغیرہ اہل قریش نے گفتگو کی اور حضرت علی (رض) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ امیر المومنین آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو زمین پر فساد پھیلائے اور جنگ وجدال کرے ؟ تو حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ ” بیشک بدلہ ان لوگوں کا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرتے ہیں “۔ اختتام آیت تک، سورة نور آیت 21 ۔
سعید نے عرض کیا اچھا ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو توبہ کرلے اس سے پہلے کہ آپ اس پر قادر ہوجائیں ؟ فرمایا کہ میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس کی توبہ قبول کرلوں گا سعید نے کہا کہ توحارثہ بن زید نے توبہ کرلی ہے اس سے پہلے کہ آپ اس پر قادر ہوں چنانچہ حارثہ آیا تو حضرت علی (رض) نے اسے امان دی۔ (ابن ابی شیبہ عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا فی کتاب اور شراف وابن جریر وابن ابی حاتم)

11769

11769- عن عروة أن النبي صلى الله عليه وسلم مثل بالذين سرقوا لقاحه، فقطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم. "عب".
11765 ۔۔۔ حضرت عروۃ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو مثلہ کروادیا تھا جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنیاں چوری کی تھیں چنانچہ ان کے ہاتھ پیر کٹوادئیے اور آنکھوں میں سلائیاں پھروادی تھیں “۔ (عبدالرزاق)

11770

11770- عن عمر قال: ما نصارى العرب بأهل الكتاب وما تحل لنا ذبائحهم وما أنا بتاركهم حتى يسلموا أو أضرب أعناقهم. "الشافعي ق".
11766 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ عرب کے عیسائی اہل کتاب نہیں اور نہ ہی ہمارے لیے ان کا ذبیحہ حلال ہے اور میں انھیں اس طرح چھوڑنے والا بھی نہیں ہوں، یا تو وہ مسلمان ہوجائیں گے یا پھر میں ان کی گردنیں اڑادوں گا “۔ (الشافعی)

11771

11771- عن جرير بن عثمان الرحبي أن معاوية بن عياض بن غطيف أتى عمر بن الخطاب وعليه قباء وخفان رقيقان فأنكر ذلك عليه، قال: ما هذا؟ قال: يا أمير المؤمنين أما القباء فإن الرجل يشد فيضم ثيابه وأما الخفاف الرقاق فإنها أثبت في الركب، فقال عمر: نعم ورخص له في ذلك. "ابن أبي الدنيا في كتاب الأشراف".
11767 ۔۔۔ جریر بن عثمان الرجی فرماتے ہیں کہ معاویۃ بن عیاض بن غطیف حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور انھوں نے ایک قباء اور دو پتلے موزے پہنے ہوئے تھے، حضرت عمر (رض) کو یہ ناگوار گزرا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے، عرض اے امیر المومنین ! یہ قباء تو اس لیے ہے کہ بندہ اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر باندھ کر رکھ سکتا ہے رہے یہ پتلے موزے جو پہنے ہوئے تھے، حضرت عمر (رض) کو یہ ناگوار گزرا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ عرض کیا اے امیر المؤمین ! یہ قباء تو اس کے لیے ہے کہ بندہ اپنے کپڑوں سمیت باندھ کر رکھ سکتا ہے، رہے یہ پتلے موزے تو ان سے پیر رکابوں میں اچھی طرح جمتے ہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے اور ان کو اجازت دے دی “۔ (ابن ابی الدنیا فی کتاب الاشرف)

11772

11772- "مسند علي رضي الله عنه" عن عباد بن عبد الله قال: صعد علي على المنبر يوم الجمعة فخطب وقد أحدقت به الموالي فقام الأشعث ابن قيس فقال: غلبتنا عليك هذه الحميراء، فقال علي: من يعذرني؟ أما والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ليضربنكم على الدين عودا كما ضربتموهم عليه بدأ. "ش والحارث وابن راهويه وأبو عبيد في الغريب والدورقي وابن جرير وصححه ع والبزار ص".
11768 ۔۔۔ مسند علی (رض) سے عباد بن عبداللہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا آزاد شدہ غلام ان کو دیکھ رہے تھے، چنانچہ اشعث بن قیس کھڑا ہوا اور کہا کہ ان سرخوں نے ہمیں آپ پر غالب کردیا۔
حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ مجھ پر کون غالب آئے گا ؟ سنو ! خدا کی قسم میں نے سنا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ تمہیں ضرور بالضرور دین کے معاملے میں مارے گا جیسے تم پہلے ان کو مارتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ حارث ابن راھویہ ابو عبید فی الغریب دورقی، ابن جریر، صححہ ابن عدی ، بزار سنن سعید بن منصور)

11773

11773- عن زياد بن حدير الأسدي قال: قال علي: لئن بقيت لنصارى بني تغلب لأقتلن المقاتلة ولأسبين الذرية فإني كتبت الكتاب بينهم وبين النبي صلى الله عليه وسلم على أن لا ينصروا أبناءهم. "د" وقال: هذا حديث منكر بلغني عن أحمد أنه كان ينكر هذا الحديث إنكارا شديدا، قال اللؤلؤي: ولم يقرأه "د" في العرضة الثانية "عق" وقال: لا يتابع أبو نعيم النخعي عليه وابن جرير وصححه حل ق".
11769 ۔۔۔ زیادبن حدید الاسدی فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اگر میں بنو تغلب کے عیسائیوں کے لیے باقی رہا تو ضرور بالضرور ان سے زبردست قتال کروں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بناؤں گا کیونکہ میں نے دستاویز لکھی تھی ان کے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان اور اس میں یہ شرط تھی کہ وہ اپنی اولاد کو عیسائی نہ بنائیں گے۔ (ابوداؤد)
اور فرمایا کہ یہ حیثیت منکر ہے اور مجھے اطلاع ملی کہ امام احمد اس روایت کو سخت منکر قرار دیتے تھے، لؤلؤی کہتے ہیں کہ امام ابوداؤد نے خود بھی دوسرے دور میں اسی حدیث کو نہیں پڑھا۔ (الضعفاء للعقلی)
اور کہا کہ ابو نعیم النخعی اور ابن جریر کا اس میں کوئی متابع نہیں ہے اور ابونعیم نے حلیہ میں اس کو صحیح قرار دیا۔

11774

11774- عن إبراهيم بن الحارث التيمي رضي الله عنه قال: وجهنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، فأمرنا أن نقول إذا نحن أمسينا وأصبحنا: {أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثاً} فقرأناها فغنمنا وسلمنا. "أبو نعيم في المعرفة وابن منده" وسنده قال في الإصابة لا بأس به.
11770 ۔۔۔ حضرت ابراہیم بن حارث التیمی (رض) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ایک دستے کے ساتھ بھیجا اور ہمیں حکم فرمایا کہ ہم صبح شام یہ پڑھیں :
” افحسبتم انما خلقناکم عبثا “۔ ترجمہ :۔۔۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں تو یونہی بےکار پیدا کردیا ہے۔ (المومن 115)
ہم نے اسے پڑھا تو ہمیں مال غنیمت بھی ملا، اور ہم محفوظ بھی رہے۔
ابونعیم فی المعرفۃ وابن مندہ، الاصابہ میں اس کی سند کے بارے میں کہ اچھی ہے۔

11775

11775- عن عمر قال: نستعين بقوة المنافق، وإثمه عليه. "ش ق".
11771 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم منافق کی طاقت سے مددحاصل کرتے ہیں اور اس کا گناہ اس کے اپنے اوپر ہے۔ (ابن ابی شیبہ )

11776

11776- عن عمرو بن العاص، قال: ما رأيت قريشا أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وسلم إلا يوما ائتمروا به وهم جلوس في ظل الكعبة ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي عند المقام، فقام إليه عقبة بن أبي معيط فجعل رداءه في عنقه، ثم جذبه حتى وجب لركبتيه ساقطا وتصايح الناس فظنوا أنه مقتول، فأقبل أبو بكر يشتد حتى أخذ بضبعي رسول الله صلى الله عليه وسلم من ورائه، ويقول: أتقتلون رجلا أن يقول: ربي الله؟ ثم انصرفوا عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلما قضى صلاته مر بهم وهم جلوس في ظل الكعبة، فقال: يا معشر قريش أما والذي نفس محمد بيده ما أرسلت إليكم إلا بالذبح وأشار بيده إلى حلقه، فقال له أبو جهل: ما كنت جهولا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنت منهم. "ش".
11772 ۔۔۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) فرماتے ہیں میں نے قریش کو اسی دن دیکھا جس دن انھوں نے جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کی اور ارادہ کرلیا، اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام ابراہیم کے نزدیک نماز ادا فرما رہے تھے چنانچہ عقبہ بن ابی معیط کھڑا ہوا اور اپنی چادر کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک گلے میں ڈال کر کھینچا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھٹنوں پر گرپڑے، لوگوں نے چیخنا شروع کردیا اور سمجھے کہ شاید (معاذ اللہ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) آگے بڑھے اور پیچھے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک پہلوؤں کو پکڑ کر کھینچا اور کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے ؟ چنانچہ پھر وہ لوگ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر ایک طرف ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور اپنی نماز مکمل کرنے لگے جب نماز ادافرماچکے تو ان کے پاس سے گزرے وہ بدستور خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے قریشیوں کے گروہ ! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہیں ذبح کرنے کے لیے ہی بھیجا گیا ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگشت مبارک اپنے حلق کی طرف اشارہ فرمایا۔ ابوجہل بولا تو اتنا جاہل تو نہ تھا۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ
تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تو جو ہے۔ (ابن ابی شیبہ)

11777

11777- عن الحسن قال: كانت راية النبي صلى الله عليه وسلم سوداء. "خ في تاريخه كر".
11773 ۔۔۔” حسن فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا “۔ بخاری فی تاریخ)

11778

11778- عن مولى لأبي بكر قال: قال أبو بكر الصديق: من مقت نفسه في ذات الله، آمنه الله من مقته. "ابن أبي الدنيا في محاسبة النفس".
11774 ۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ایک آزاد کردہ غلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے لیے اپنے نفس سے بغض رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بغض سے محفوظ رکھیں گے “۔ (ابن ابی الدنیافی محاسبۃ النفس)

11779

11779- عن جابر قال: قدم على النبي صلى الله عليه وسلم قوم غزاة فقال: قدمتم خير مقدم، قدمتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر مجاهدة العبد هواه. "الديلمي".
11775 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ مجاہدین کی ایک جماعت جناب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آگئے بہت ہی خوب آئے، تم لوگ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آگئے ہو جس میں بندے کو نفس سے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ (دیلمی )

11780

11780- عن أبي ذر قال: قلت يا رسول الله أي الجهاد أفضل قال: أن يجاهد الرجل نفسه وهواه. "ابن النجار".
11776 ۔۔۔ حضرت ابو ذر غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا جہاد افضل ہے ؟ فرمایا کہ کوئی شخص اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرے “۔ (ابن النجار)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔