hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

13. امارت اور خلافت کا بیان

كنز العمال

14040

14040- "مسند الصديق" عن أم هانيء أن فاطمة قالت: يا أبا بكر من يرثك إذا مت قال: ولدي وأهلي، قالت: فما شأنك ورثت رسول الله صلى الله عليه وسلم دوننا؟ قال: يا ابنة رسول الله، والله ما ورثته ذهبا ولا فضة ولا شاة ولا بعيرا ولا دارا ولا عقارا ولا غلاما ولا مالا، قالت: فسهم الله الذي جعله لنا وصافيتنا1 التي بيدك، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي يطعم أهله ما دام حيا، فإذا مات رفع ذلك عنهم وفي لفظ: سمعته يقول: إنما هي طعمة أطعمنيها الله، فإذا مت كانت بين المسلمين. "ابن سعد"2
14040 (مسند الصدیق (رض)) ام ربانی (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : اے ابوبکر ! جب آپ مریں گے تو آپ کا وارث کون بنے گا ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میری اولاد اور میرے گھر والے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : پھر کیا بات ہے کہ ہمارے بجائے آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث بن گئے ہیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے بنت رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں آپ کا وارث نہیں ہوا سونے میں، چاندی، بکری میں، اونٹ میں، گھر میں، زمین میں، غلام میں اور نہ کسی طرح کے مال میں حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ کا وہ خالص حصہ جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا وہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : نبی جب تک زندہ ہوتا ہے اس کے اہل و عیال کو (اللہ کے عطا کردہ اس مال میں سے) کھلایا جاسکتا ہے اور جب نبی کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ رزق اس کے اہل و عیال سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : یہ (مال) تو محض کھانا ہے جو اللہ نے مجھے کھلایا ہے جب میں مرجاؤں گا تو یہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوجائے گا۔ الطقات لا بن سعد

14041

14041- عن أبي سعيد الخدري قال: قال أبو بكر: ألست أحق الناس بها؟ ألست أول من أسلم؟ ألست صاحب كذا؟ ألست صاحب كذا؟ "ت3 والبزار حب وأبو نعيم في المعرفة وابن منده في غرائب شعبة ص د".
14041: ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے (خلافت کی بیعت لیتے وقت) فرمایا تھا : کیا میں اس (خلافت) کا لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار نہیں ہوں ؟ میں سب سے پہلے اسلام لایا، کیا میں فلاں شرف کا حامل نہیں، کیا میں فلاں شرف کا حامل نہیں ؟ (الترمذی، مسند البزار، ابن حبان، ابونعیم فی المعرفۃ، ابن مندہ فی غرائب شعبۃ، السنن لسعید بن منصور، ابن ابی داود)
کلام : ۔۔۔ اخرجہ الترمذی، کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر و عمر رقم 3667، وقال : غریب، امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے۔

14042

14042- عن عبد الملك بن عمير عن رافع الطائي رفيق أبي بكر في غزوة ذات السلاسل قال: سألتهم عما قيل في بيعتهم، فقال وهو يحدثهم عما تكلمت به الأنصار وما كلمهم به وما كلم به عمر بن الخطاب الأنصار وما ذكرهم به من إمامتي إياهم بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه فبايعوني لذلك، وقبلتها منهم وتخوفت أن تكون فتنة تكون بعدها ردة. "حم" قال ابن كثير: إسناده حسن، قال الحافظ ابن حجر في أطرافه: أخرجه أبو بكر الإسماعيلي في مسند عمر من تأليفه في ترجمة أبي بكر وعمر.
14042 عبدالملک بن عمیر روایت کرتے ہیں رافع الطائی سے رافع غزوۃ ذات السلاسل میں حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے رفیق اور ساتھی تھے۔ رافع کہتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے ان کے ہاتھ پر ہونے والی بیعت کے بارے میں سوال کیا کہ اس وقت لوگوں نے کیا کیا کہا تو آپ (رض) نے وہ ساری تفصیل سنائی جو اس وقت انصار نے کہا اور ابوبکر نے ان کو جواب دیا، انصار کی عمر بن خطاب کے ساتھ جو بات چیت ہوئی اور جس طرح عمر بن خطاب نے انصار کو میری امامت کا قائل کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات ابوبکر کو آگے کردیا تھا۔ آخر ان تمام باتوں کو سن سمجھ کر انصار نے میری بیعت کرلی اور میں نے بھی ان کی بیعت کو قبول کرلیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا کوئی فتنہ رونما نہ ہو جس کے بعدارتداد (کی فضاء) ہوجائے۔ مسند احمد
امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : مذکورہ روایت کی اسناد حسن ہے۔ حافظ ابن حجر اپنی اطراف میں فرماتے ہیں : اس روایت کو ابوبکر الاسماعیل نے مسند عمر میں ابوبکر وعمر کے ترجمہ کے تحت روایت کردیا ہے۔

14043

14043- عن طارق بن شهاب عن رافع بن أبي رافع قال: لما استخلف الناس أبا بكر، قلت: صاحبي الذي أمرني أن لا أتامر على رجلين، فارتحلت فانتهيت إلى المدينة فتعرضت لأبي بكر، فقلت له يا أبا بكر أتعرفني؟ قال: نعم؟ قلت: أتذكر شيئا قلته لي أن لا أتأمر على رجلين، وقد وليت أمر الأمة؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض والناس حديث عهد بكفر فخفت عليهم أن يرتدوا وأن يختلفوا فدخلت فيها وأنا كاره، ولم يزل بي أصحابي، فلم يزل يعتذر حتى عذرته. "ابن راهويه والعدني والبغوي وابن خزيمة".
14043 طارق بن شہاب ، رافع بن ابی رافع سے روایت کرتے ہیں کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) کو منصب خلافت کے لیے چن لیا تو رافع کہتے ہیں : میں نے کہا : یہ تو وہی شخص ہیں جنہوں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں کبھی دو آدمیوں پر امیر بننا بھی قبول نہ کروں گا۔ چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور ابوبکر (رض) سے بات کی اور پوچھا : اے ابوبکر ! آپ مجھے جانتے ہیں ؟ فرمایا : اچھی طرح۔ میں نے عرض کیا : آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے کس وقت نصیحت کی تھی کہ میں آدمیوں پر بھی امیر نہ بنوں ؟ حالانکہ اب آپ پوری امت کی امارت قبول کررہے ہیں ؟
حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے اور لوگوں کو زمانہ کفر سے نکلے زیادہ وقت نہیں ہوا اس لیے مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام سے منحرف نہ ہوجائیں اور باہم انتشار کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لیے میں ناپسندیدگی کے باوجود اس میدان میں اترا ہوں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں کے مسلسل اصرار کے کے ساتھ۔
رافع فرماتے ہیں : آپ مجھے اس طرح اپنے اعذار گنواتے رہے حتیٰ کہ میں نے ان کا عذر قبول کرلیا۔ ابن راھویہ، العدنی، البغوی، ابن خزیمہ

14044

14044- عن ابن عباس قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر خاصم العباس عليا في أشياء تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر شيء تركه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يحركه فلا أحركه، فلما استخلف عمر رضي الله عنه اختصما إليه، فقال: شيء لم يحركه فلست أحركه، قال: فلما استخلف عثمان اختصما إليه فأسكت عثمان ونكس رأسه، قال ابن عباس: فخشيت أن يأخذه فضربت بيدي بين كتفي العباس، فقلت: يا أبت أقسمت عليك إلا سلمته لعلي قال: فسلمه له. "حم والبزار" وقال: حسن الإسناد.
14044 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنالیا گیا تو عباس (رض) اور علی (رض) کا آپس میں کچھ ایسی چیزوں (زمینوں کی زمینداری) میں جھگڑا ہوا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل بیت ازواج مطہرات کے لیے چھوڑ گئے تھے (دونوں حضرات چاہتے تھے کہ یہ زمین باغ وغیرہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائیں اور جھگڑا رفع ہوجائے) حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : جو چیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح چھوڑ گئے ہیں کہ آپ نے ان کو حرکت نہیں دی تو میں بھی ان کو حرکت نہیں دے سکتا۔ پھر جب حضرت عمر (رض) خلیفہ منتخب ہوگئے یہ دونوں بزرگ پھر آپ (رض) کے پاس بھی اپنا قضیہ لے کر پیش خدمت ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی وہی جواب دیا کہ جس چیز کو پہلے کسی نے حرکت نہیں دی میں بھی اس کو حرکت نہیں دے سکتا۔ پھر جب حضرت عثمان (رض) خلیفہ بنے یہ دونوں حضرات پھر اپنا قضیہ ان کے پاس بھی لے کر حاضر ہوئے (حضرت عثمان (رض)) خاموش ہوگئے اور اپنا سرجھکا لیا (ابن عباس (رض)) کہتے ہیں : مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں عثمان (رض) کو غصہ نہ آجائے اس لیے میں نے اپنے والد عباس کے شانے پر ہاتھ مارا اور عرض کیا : ابا جان ! آپ کی قسم ہے کہ آپ یہ معاملہ بالکلیہ حضرت علی (رض) کے سپرد کرکے خود سبکدوش ہوجائیں۔ چنانچہ اس وقت حضرت عباس (رض) نے سارا معاملہ حضرت علی (رض) کے سپرد کردیا۔ مسند احمد، مسند البزار
روایت حسن الاسناد ہے۔
فائدہ : یہ واقعہ باغ فدک وغیرہ کا ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہ دونوں حضرات اس کی پیداوار کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرز پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات اور اہل بیت کے درمیان تقسیم فرماتے تھے۔ دونوں کا تنازعہ نگہداشت کرنے کا تھا ملکیت کا نہ تھا۔ اگر حضرت علی (رض) بعد میں تنہاذمے دار بن گئے تھے تو یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تنہا اس کے مالک تھے بلکہ وہ اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے ۔ اور پیداوار کو اسی سابق طرز پر تقسیم فرماتے تھے۔

14045

14045- عن عاصم بن كليب قال: حدثني شيخ من قريش من بني تيم قال: حدثني فلان وفلان فعد ستة أو سبعة كلهم من قريش منهم عبد الله بن الزبير قال: بينا نحن جلوس عند عمر إذ دخل علي والعباس فارتفعت أصواتهما، فقال عمر: مه يا عباس قد علمت ما تقول تقول: ابن أخي ولي شطر المال، وقد علمت ما تقول يا علي، تقول: ابنته تحتي ولها شطر المال، وهذا ما كان في يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد رأينا كيف كان يصنع فيه فوليه أبو بكر من بعده فعمل فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم وليته من بعد أبي بكر وأحلف بالله لأجهدن أن أعمل فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمل أبي بكر، ثم قال: حدثني أبو بكر وحلف بالله إنه لصادق: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي لا يورث وإنما ميراثه لفقراء المسلمين والمساكين وحدثني أبو بكر وحلف بالله إنه لصادق، قال: إن النبي لا يموت حتى يؤمه بعض أمته، وهذا ما كان في يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قد رأينا كيف كان يصنع فيه فإن شئتما أعطيتكما لتعملا فيه بعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمل أبي بكر حتى أدفعه إليكما قال: فخلوا ثم جاءا فقال العباس: ادفعه إلى علي فإنه قد طبت نفسا به له. "حم".
14045 عاصم بن کلیب سے مروی ہے کہ مجھے بنی تیم قریش کے ایک شیخ نے بیان کیا، انھوں نے فلاں فلاں کرکے چھ یا سات قریشی شیوخ کے نام گنوائے جن میں عبداللہ بن زبیر (رض) بھی شامل تھے، فرمایا کہ ان سب حضرات نے مجھے یہ قصہ بیان کیا ہے : وہ فرماتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر خدمت تھے کہ حضرت علی اور عباس (رض) تیز تیز بولتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ٹھہر جا اے عباس ! تم جو کہنا چاہتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے تم کہنا چاہتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی میرے گھر ہے اور نصف مال اسی کا ہے۔ یہ مال پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں میں تھا اور ہم نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ آپ اس مال کو کیسے صرف کرتے تھے۔ پھر ابوبکر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد والی بنے، انھوں نے بھی اس مال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرز عمل کے مطابق عمل کیا۔ پھر ابوبکر (رض) کے بعد میں والی بنا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اس مال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل اور ابوبکر (رض) کے عمل کے مطابق عمل کروں گا۔
پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے ابوبکر (رض) نے بیان کیا اور انھوں نے قسم کھائی کہ وہ سچ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : نبی کسی اپنا وارث بنا کر نہیں جاتے، ان کی میراث تو فقراء اور مساکین مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے۔ نیز مجھے ابوبکر (رض) نے بیان کیا اور انھوں نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ وہ سچ بیان کررہے ہیں کہ کوئی نبی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کی امت میں سے کوئی اس کی امامت نہ کرلے۔ اور یہ مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں میں ہوا کرتا تھا اور ہم نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ آپ اس میں کس طرح تصرف کرتے ہیں۔
پھر آپ (رض) نے حضرت علی وعباس (رض) کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :
اگر تم دونوں چاہتے ہو کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے تصرف کے مطابق تصرف کرتے رہو تو میں یہ مال تم کو سپرد کردیتا ہوں۔
راوی کہتے ہیں : چنانچہ یہ سن کر دونوں حضرت چلے گئے۔ پھر بعد میں دونوں آئے اور حضرت عباس (رض) نے فرمایا : یہ مال علی کو دے دو میرا دل اس سے خوش ہے۔ مسند احمد

14046

14046- عن قيس بن أبي حازم قال: إني جالس عند أبي بكر الصديق بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم بشهر فذكر قصة فنودي في الناس أن الصلاة جامعة وهي أول صلاة في المسلمين نودي فيها أن الصلاة جامعة فاجتمع الناس فصعد المنبر شيئا صنع له كان يخطب عليه وهي أول خطبة خطبها في الإسلام قال فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: يا أيها الناس ولوددت أن هذا كفانيه غيري ولئن أخذتموني بسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ما أطيقها إن كان لمعصوما من الشيطان وإن كان لينزل عليه الوحي من السماء. "حم".
14046 قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے ایک مہینے بعد جکا ذکر ہے ، میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ آپ کو کوئی قصہ یاد آیا تو لوگوں میں منادی کرادی : الصلاۃ جامعہ خطبہ سننے کے لیے جمع ہوجاؤ۔
اور حضرت ابوبکر (رض) کا یہ پہلا خطبہ تھا جو انھوں نے مسلمانوں کے بیچ میں ارشاد فرمایا۔ جب لوگ جمع ہوگئے تو ایک منبر جو آپ کے لیے بنایا گیا تھا آپ (رض) اس پر کھڑے ہوئے اور پہلا خطبہ ارشاد فرمایا : پہلے خدا کی حمدوثناء بجا لائے پھر فرمایا :
اے لوگو ! میری تمنا ہے کہ اس خلافت پر میرے سوا کوئی اور متمکن ہوجاتا، کیونکہ تم مجھے بالکل نبی کے طریقے پر گامزن دیکھنا چاہو گے تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ وہ تو شیطان سے محفوظ تھے اور اس کے علاوہ وحی کے ساتھ بھی ان کی مدد کی جاتی تھی۔ مسند احمد

14047

14047- عن قيس بن أبي حازم قال: دخل أبو بكر على امرأة من أحمس يقال لها: زينب فرآها لا تتكلم فقال: ما لها لا تتكلم؟ فقالوا: حجت مصمتة فقال لها: تكلمي فإن هذا لا يحل، هذا من عمل الجاهلية فتكلمت، قالت: ما بقاؤنا على هذا الأمر الصالح الذي جاء الله به بعد الجاهلية بعد النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: بقاؤكم عليه ما استقامت بكم أئمتكم، قالت: وما الأئمة؟ قال: أما كان لقومك رؤس وأشراف يأمرونهم ويطيعونهم؟ قالت: بلى، قال: فهم أمثال أولئك يكونون على الناس. "ش خ والدارمي ك ق".
14047 قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) قبیل احمس کی ایک عورت کے پاس تشریف لے گئے جس کا نام زینب تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بولتی نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا : یہ بولتی کیوں نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس نے (بغرض عبادت) نہ بولنے کا عزم کیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو فرمایا : بولو، ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کا عمل ہے۔ چنانچہ وہ بولنے لگی۔ اس نے پوچھا : یہ دین جو جاہلیت کے بعد پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب تک درست نہج پر ہے اس کی بقاء و دوام کا کیا راستہ ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : جب تک تمہارے (ائمہ) سیدھی راہ گامزن رہیں گے تم اس دین پر باقی رہو گے۔ اس نے پوچھا : ائمہ کون ہیں ؟ فرمایا : تمہاری قوم کے کچھ لوگ تم پر حکمرانی اور سرداری کرتے ہوں گے ؟ عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا : بس ائمہ (حکمران) انہی کے مثل ہوتے ہیں جو لوگوں پر امام ہوتے ہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری، مسند الدارمی، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی

14048

14048- عن ابن أبي مليكة قال: قيل لأبي بكر: يا خليفة الله فقال: لست خليفة الله ولكني خليفة رسول الله، وأنا راض بذلك. "ش حم وابن سعد وابن منيع"
14048 ابن ابی ملیکہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کو کہا گیا : اے خلیفہ اللہ ! آپ (رض) نے فرمایا : میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفۃ الرسول ہوں اور میں اس پر راضی ہوں۔
مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد، ابن سعد، ابن منیع

14049

14049- عن خالد بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص، قال: حدثني أبي أن أعمامه خالدا وأبانا وعمرو بن سعيد بن العاص رجعوا عن أعمالهم حين بلغهم وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر: ما أحد احق بالعمل من عمال رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: لا نعمل لأحد فخرجوا إلى الشام فقتلوا عن آخرهم. "أبو نعيم كر".
14049 خالد بن سعید بن عمرو بن سعید بن العاص سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد سعید نے بتایا کہ میرے چچاؤں خالد اور ابان اور (میرے والد) عمرو بن سعید بن العاص کو جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پہنچی تو یہ اپنے اپنے منصوبوں کو چھوڑ کر واپس مدینہ حاضر ہوگئے حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ عاملوں (گورنروں) سے بڑھ کر کوئی ان کے منصوبوں کا حقدار نہیں ہے۔ لیکن انھوں نے کہا : ہم کسی اور کے واسطے منصب حکومت قبول نہیں کرسکتے، چنانچہ وہ شام چلے گئے اور سب کے سب شہادت کا جام نوش کر گئے۔
ابونعیم ، ابن عساکر

14050

14050- عن الحسن أن أبا بكر الصديق خطب فقال: أما والله ما أنا بخيركم ولقد كنت لمقامي هذا كارها، ولوددت أن فيكم من يكفيني أفتظنون أني أعمل فيكم بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذن لا أقوم بها، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعصم بالوحي، وكان معه ملك، وإن لي شيطانا يعتريني فإذا غضبت فاجتنبوني أن لا أؤثر في أشعاركم وأبشاركم ألا فراعوني، فإن استقمت فاعينوني وإن زغت فقوموني قال الحسن: خطبة والله ما خطب بها بعده. "ابن راهويه أبو ذر الهروي في الجامع".
14050 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ میں اس منصب کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔ میری خواہش ہے کہ تمہارے اندر کوئی ایسا فرد ہو جو میری جگہ آجائے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تم میں سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق عمل کروں۔ تب تو میں اس امارت کا بار نہیں اٹھاسکتا۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو وحی کے ساتھ حفاظت کی جاتی تھی اور آپ کے ساتھ ایک فرشتہ رہتا تھا جبکہ میرے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو مجھے تنگ کرتا رہتا ہے، پس جب میں غصہ میں ہوں تو مجھے سے کنارہ کرو۔ کہیں میں تمہارے بالوں میں اور تمہاری کھالوں میں کسی کو ترجیح نہ دوں (کہ تم پر سزا نافذ کروں) دیکھو ! میری حفاظت نظر میں رکھو ! اگر میں درست چل رہا ہوں تو میری مدد کرو اور اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔
حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں : اللہ کی قسم یہ آپ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کے بعد ایسا کوئی خطبہ نہیں ارشاد فرمایا۔ ابن راھویہ ، ابوذر الھروی فی الجامع

14051

14051- عن أبي بصرة قال: لما أبطأ الناس عن أبي بكر قال: من أحق بهذا الأمر مني؟ ألست أول من صلى ألست ألست ألست فذكر خصالا فعلها مع النبي صلى الله عليه وسلم. "ابن سعد وخيثمة الاطرابلسي في فضائل الصحابة".
14051 ابی بصرۃ سے مروی ہے کہ جب لوگوں نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت میں تاخیر سے کام لیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : کون ہے مجھ سے زیادہ اس منصب کا حقدار ؟ کیا تم میں میں نے سب سے پہلے نماز نہیں پڑھی ؟ کیا میں وہ شخص نہیں ہوں ؟ کیا میں ایسا شخص نہیں ہوں ؟ کیا میں فلاں فضیلت کا حامل نہیں ہوں ؟ اس طرح آپ نے ایسی کئی فضیلتیں بیان کیں جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت سے آپ کو حاصل ہوئی تھیں۔ اور آپ کا مقصد محض اسلام میں پیدا ہونے والی دراڑ کو بھرنا تھا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پیدا ہوگئی تھی۔
ابن سعد، خیثمہ، الاطر ابلیس فی فضائل الصحابۃ (رض)

14052

14052- عن علي بن كثير قال: قال أبو بكر لأبي عبيدة: هلم أبايعك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنك أمين هذه الأمة، فقال أبو عبيدة: ما كنت لأفعل أن أصلي بين يدي رجل أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأمنا حتى قبض. "ابن شاهين وأبو بكر الشافعي في الغيلانيات كر".
14052 علی بن کثیر سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) کو فرمایا : تم آجاؤ میں تمہاری بیعت کرتا ہوں۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم اس امت کے امین ہوں۔ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) نے فرمایا : میں ایسا نہیں کرسکتا کہ ایسے شخص کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھاؤں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات تک ہماری امامت کراتے رہے (یعنی حضرت ابوبکر (رض)) ۔
ابن شاھین، ابوبکر الشافعی فی الغیلانیات، ابن عساکر

14053

14053- عن جابر قال: أتيت أبا بكر أسأله فمنعني، ثم اتيته أسأله فمنعني، ثم أتيته أسأله فمنعني فقلت: إما تبخل وإما تعطي؟ فقال: أتبخلني وأي داء ادوأ من البخل، ما أتيتني من مرة إلا وأنا أريد أن أعطيك. "ش خ م والمحاملي في أماليه ق".
14053 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس کچھ مانگنے گیا۔ آپ نے مجھے منع فرمادیا۔ میں پھر مانگنے گیا آپ نے پھر منع فرمادیا۔ میں پھر گیا اور آپ نے منع فرمایا تو میں نے عرض کیا : یا تو آپ بخل فرما رہے ہیں ورنہ آپ کیوں نہیں کچھ دیدیتے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا تو مجھے بخیل بنارہا ہے حالانکہ بخل سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں ہے تو جب بھی میرے پاس آیا میرا تجھے دینے کا ارادہ ہر دفعہ تھا (لیکن استطاعت نہ تھی) ۔
مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری ، مسلم ، المحاملی فی امالیہ ، السنن للبیہقی

14054

14054- أخبرنا معمر عن الزهري عن كعب بن عبد الرحمن بن مالك عن أبيه قال: كان معاذ بن جبل رجلا سمحا شابا جميلا من أفضل شباب قومه وكان لا يمسك شيئا فلم يزل يدان حتى أغلق ماله كله من الدين فأتي النبي صلى الله عليه وسلم يطلب له أن يسأل له غرماه أن يضعوا له فأبوا فلو تركوا لأحد من أجل أحد تركوا لمعاذ من أجل النبي صلى الله عليه وسلم، فباع النبي صلى الله عليه وسلم كل ماله في دينه، حتى قام معاذ بغير شيء، حتى إذا كان عام فتح مكة بعثه النبي صلى الله عليه وسلم على طائفة من اليمن أميرا ليجبره، فمكث معاذ باليمن أميرا وكان أول من اتجر في مال الله هو، ومكث حتى أصاب وحتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قدم قال عمر لأبي بكر: أرسل إلى هذا الرجل فدع له ما يعيشه وخذ سائره، فقال أبو بكر: إنما بعثه النبي صلى الله عليه وسلم ليجبره، ولست بآخذ منه شيئا إلا أن يعطيني، فانطلق عمر إلى معاذ إذ لم يطعه أبو بكر فذكر ذلك عمر لمعاذ فقال: إنما أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم ليجبرني ولست بفاعل، ثم لقي معاذ عمر فقال: قد اطعتك، وأنا فاعل ما أمرتني به، إني رأيت في المنام أني في حومة ماء قد خشيت الغرق فخلصتني منه يا عمر، فأتى معاذ أبا بكر فذكر ذلك له وحلف له أنه لم يكتمه شيئا حتى بين له سوطه، فقال أبو بكر: والله لا آخذه منك قد وهبته لك فقال عمر: هذا حين طاب وحل، فخرج معاذ عند ذلك إلى الشام، قال معمر: فأخبرني رجل من قريش، قال: سمعت الزهري يقول: لما باع النبي صلى الله عليه وسلم مال معاذ أوقفه للناس، فقال: من باع هذا شيئا فهو باطل. "عب وابن راهويه".
14054 ہمیں معمر نے زہری سے، انھوں نے کعب بن عبدالرحمن بن مالک سے انھوں نے اپنے والد عبدالرحمن سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) اپنی قوم کے جوانوں میں سے نوجوان، فیاض اور خوبصورت شخص تھے۔ کوئی چیز نہیں روک کر رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ مقروض ہوتے چلے گئے اور قرض نے ان کا سارا مال احاطہ کرلیا۔ پھر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے قرضخواہوں سے ان کے لیے کچھ کمی کرنے کا مطالبہ کریں۔ لیکن پھر بھی قرضخواہوں نے اپنے قرض میں کسی کمی کرنے کا امکان مسترد کردیا۔ اگر وہ کسی کے لیے قرض چھوڑتے تو حضور کی وجہ سے معاذ بن جبل کا قرض ضرور چھوڑ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کا سارا مال ان کے قرض میں فروخت کردیا (اور معاذ (رض)) بغیر کسی مال کے کھڑے کے کھڑے رہ گئے جب فتح مکہ کا سال ہوا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کے ایک گروہ پر ان کو امیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ اپنا نقصان بھی پورا کرسکیں۔ حضرت معاذ (رض) یمن میں امیر کے عہدے پر متمکن رہے اور یہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کے مال (بیت المال) میں تجارت کی۔ وہ اسی طرح کچھ عرصہ رہے حتیٰ کہ مالدار ہوگئے۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت بھی ہوگئی۔
جب یہ یمن سے واپس تشریف لائے تو حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کو عرض کیا : آپ سے اس شخص کو بلوائیں اور جو اس کے گزر بسر کے لیے ضروری مال ہو وہ اس کے پاس چھوڑ دیں اور بقیہ سارا مال لے (کر بیت المال کے حوالے کر) دیں۔
حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو (یمن) اسی لیے بھیجا تھا کہ یہ اتنا نقصان پورا کرلیں، اس لیے میں ان سے کچھ نہیں لوں گا الایہ کہ یہ مجھے از خود دیدیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) ، حضرت معاذ (رض) کے پاس ازخود گئے کیونکہ ابوبکر (رض) نے ان کی بات نہ مانی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاذ (رض) سے یہ مطالبہ کیا۔ حضرت معاذ (رض) نے جواب دیا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی لیے بھیجا تھا تاکہ میں اپنے نقصان کی تلافی کروں۔ لہٰذا میں ایسا نہیں کرسکتا۔
پھر حضرت معاذ (رض) نے حضرت عمر (رض) سے خود ملاقات کی اور بولے : میں آپ کی اطاعت کرتا ہوں۔ جو آپ نے مجھے حکم دیا تھا میں اس کو پورا کروں گا۔ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں پانی کے تالاب میں ڈوب رہا ہوں پھر آپ نے مجھے وہاں سے نکالا تھا اے عمر ! چنانچہ حضرت معاذ (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور ان کو ساری بات سنائی اور حلف اٹھایا کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ بھی نہ چھپائیں گے پھر انھوں نے اپنا سارا مال تفصیل سے بیان کردیا حتیٰ کہ اپنا کوڑا تک نہ چھوڑا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم کو جو ہبہ کر چکاہوں واپس ہرگز نہ لوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اب ان لے لینا حلال ہوچکا ہے کیونکہ یہ بخوشی دے رہے ہیں۔
پھر حضرت معاذ (رض) اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے کر جہاد کی غرض سے ملک شام نکل گئے۔ معمر کہتے ہیں : مجھے قریش کے ایک شخص نے خبر دی کہ میں نے امام شہاب زہری (رح) سے سنا ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کا مال قرض خواہوں کو فروخت کردیا تو پھر ان کو لوگوں کے برسرعام کھڑا کیا اور ارشاد فرمایا : جو شخص اس کو کوئی مال فروخت کرے وہ سودا باطل (کالعدم) ہے۔
الجامع لعبد الرزاق
ابن راھویہ

14055

14055- عن الشعبي قال: قال أبو بكر لعلي: أكرهت إمارتي؟ قال: لا قال أبو بكر: إني كنت في هذا الأمر قبلك. "ش".
14055 شعبی (رح) سے مروی ہے حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت علی (رض) کو فرمایا : کیا تم میری امارت (حکومت) کو ناپسند کرتے ہو ؟ حضرت علی (رض) نے جواب دیا : نہیں، حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم سے پہلے میں اسی (فکر) میں تھا۔ ابن ابی شیبہ

14056

14056- عن عمر مولى غفرة قال: لما توفى رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء مال من البحرين فقال أبو بكر: من كان له على رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء أو عدة فليقم فليأخذ، فقام جابر فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن جاءني مال من البحرين لأعطينك هكذا وهكذا ثلاث حثا بيده، فقال له أبو بكر: قم فخذ بيدك فأخذ فإذا هي خمس مائة درهم فقال: عدوا له ألفا وقسم بين الناس عشرة دراهم عشرة دراهم، وقال: إنما هذه مواعيد وعدها رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس حتى إذا كان عام مقبل جاءه مال أكثر من ذلك المال فقسم بين الناس عشرين درهما عشرين درهما وفضلت منه فضلة فقسم للخدم خمسة دراهم خمسة دراهم وقال: إن لكم خداما يخدمون لكم ويعالجون لكم فرضخنا لهم فقالوا: لو فضلت المهاجرين والأنصار لسابقتهم ولمكانهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أجر أولئك على الله، إن هذا المعاش للأسوة فيه خير من الأثرة فعمل بهذا ولايته، حتى إذا كان سنة ثلاث عشرة في جمادى الآخرة في ليال بقين منه مات رضي الله عنه فعمل عمر بن الخطاب ففتح الفتوح وجاءته الأموال فقال: إن أبا بكر رأى في هذا المال رأيا ولي فيه رأي آخر لا أجعل من قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم كمن قاتل معه ففرض للمهاجرين والأنصار ومن شهد بدرا خمسة آلاف خمسة آلاف، وفرض لمن كان له إسلام كإسلام أهل بدر ولم يشهد بدرا أربعة آلاف أربعة آلاف، وفرض لأزواج النبي صلى الله عليه وسلم اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا إلا صفية وجويرية ففرض لهما ستة آلاف ستة آلاف فأبتا أن تقبلا، فقال لهما: إنما فرضت لهن للهجرة فقالتا، إنما فرضت لهن لمكانهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان لنا مثله، فعرف ذلك عمر ففرض لهما اثنى عشر ألفا اثنى عشر ألفا وفرض للعباس اثنى عشر ألفا، وفرض لأسامة بن زيد أربعة آلاف وفرض لعبد الله ابن عمر ثلاثة آلاف، فقال: يا أبت لم زدته علي ألفا ما كان لأبيه من الفضل ما لم يكن لأبي، وما كان له ما لم يكن لي، فقال: إن أبا أسامة كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أبيك وكان أسامة أحب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم منك، وفرض لحسن وحسين خمسة آلاف خمسة آلاف لمكانهما من رسول الله صلى الله عليه وسلم وفرض لأبناء المهاجرين والأنصار ألفين ألفين، فمر به عمر بن أبي سلمة فقال: زيدوه ألفا فقال له محمد بن عبد الله بن جحش: ما كان لأبيه ما لم يكن لأبينا وما كان له ما لم يكن لنا، فقال: إني فرضت له بأبيه أبي سلمة ألفين وزدته بأمه أم سلمة ألفا فإن كانت لكم أم مثل أمه زدتكم ألفا، وفرض لأهل مكة وللناس ثمانمائة ثمانمائة فجاءه طلحة بن عبيد الله بابنه عثمان ففرض له ثمان مائة فمر به النضر بن أنس فقال عمر: افرضوا له في ألفين فقال طلحة: جئتك بمثله ففرضت له ثمانمائة وفرضت لهذا ألفين، فقال: إن أبا هذا لقيني يوم أحد، فقال لي: ما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: ما أراه إلا قد قتل، فسل سيفه وكسر غمده، وقال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قتل فإن الله حي لا يموت، فقاتل حتى قتل وهذا يرعى الشاة في مكان كذا وكذا فعمل عمر هذا خلافته. "ش والحسن بن سفيان والبزار ق" وروى ابن سعد صدره
14056 غفرۃ کے آزاد کردہ غلام عمر سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بحرین سے کچھ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اعلان کروادیا کہ جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ حساب ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ آکر اپنا حق وصول کرلے۔ حضرت جابر (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا مال دوں گا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کی مٹھی تین بار بھری۔ حضرت ابوبکر (رض) حضرت جابر (رض) کو فرمایا : اٹھ کھڑا ہو اور اپنے ہاتھ سے لے لے۔
انہوں نے ایک مٹھی درہم لے لیے وہ پانچ سو درہم نکلے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : ان کو ایک ہزار درہم اور گن دو ۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے تمام لوگوں کے درمیان دس دس درہم تقسیم فرمادیئے اور ارشاد فرمایا : یہ وہ وعدے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمائے تھے۔ پھر جب آئندہ سال آیا تو اس سے زیادہ مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس سال بیس بیس درہم سب لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ پھر بھی کچھ مال باقی بچ گیا تو آپ نے خادموں (غلاموں ) کو بھی پانچ پانچ درہم عطا فرمائے۔ اور ارشاد فرمایا : تمہارے خادم جو تمہاری خدمت کرتے ہیں اور تمہارے کام کاج میں مشغول رہتے ہیں ان کو بھی ہم نے مال دیا ہے۔ لوگوں نے کہا : اگر آپ مہاجرین اور انصار کو کچھ فضیلت دیں تو اچھا ہو کیونکہ یہ اسلام میں سبقت کرنے والے ہیں اور ان کا مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں زیادہ ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ان کا اجر اللہ پر ہے۔ یہ مال تو محض ان کی تسلی کے لیے ہے یہ تھوڑا تھوڑا مال سب کو دینا کسی کسی کو ترجیح دینے سے بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے عہد حکومت میں یہی طرز عمل رکھا۔ حتیٰ کہ جب سن تیرہ ہجری کے جمادی الآخر کی چند راتیں رہ گئیں تو حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی۔ (رض) وارضاہ۔
حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے اور فتوحات کیں، ان کے پاس بہت مال آیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس مال میں حضرت ابوبکر (رض) کی اپنی رائے تھی، لیکن میری رائے اور ہے۔ میں اس شخص کو جس نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کیا اور آپ کے مدمقابل ہوا اس کو میں اس شخص کے برابر ہرگز نہیں کرسکتا جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں آپ کی حفاظت کے لیے قتال کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مہاجرین، انصار اور ان لوگوں کے لیے جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ان کے لیے پانچ ہزار پانچ ہزار درہم مقرر فرمائے۔ جن کا اسلام بدریوں کا اسلام تھا لیکن وہ جنگ بدر میں کسی مجبوری کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے ان کے لیے چار چار ہزار درہم مقررکیے۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کے لیے بارہ بارہ ہزار درہم مقرر کیے، سوائے صفیہ اور جویریہ کے ان کے لیے چھ چھ ہزار درہم مقرر کیے۔ لیکن دونوں نے لینے سے انکار کردیا۔ آپ (رض) نے ان کو فرمایا : میں نے ان کے لیے دگنی مقدار ان کے ہجرت کرنے کی وجہ سے مقرر کی ہے۔ دونوں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے ان کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ان کے مرتبے کی وجہ سے یہ مقدار مقرر کی ہے۔ اور یہی مرتبہ ہمارا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی بارہ بارہ ہزار درہم مقرر فرمائے۔
اسامہ بن زید کے لیے چار ہزار درہم مقرر کیے جبکہ اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کے لیے تین ہزار درہم مقرر کیے۔ بیٹے نے کہا : ابا جان ! ان کو آپ نے مجھ سے ایک ہزار درہم زیادہ کیوں عطا فرمائے۔ حالانکہ ان کا باپ میرے باپ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا، اس طرح یہ بھی مجھ سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اسامہ کا باپ زید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرے باپ سے زیادہ محبوب تھا، اسی طرح اسامہ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھ سے زیادہ محبوب تھا۔
پھر حضرت عمر (رض) نے حضرات حسنین (حسن و حسین) کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیے کیونکہ ان کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں اپنا مقام تھا۔ اسی طرح مہاجرین اور انصار کے بیٹوں کے لیے دو دو ہزار درہم مقرر کیے۔ عمر بن ابی سلمہ کا آپ (رض) کے پاس سے گزر ہوا تو آپ (رض) نے فرمایا ان کے لیے ایک ہزار درہم زیادہ کردو۔ محمد بن عبداللہ بن جحش نے عرض کیا : ان کے باپ کی ہمارے باپ سے اور ان کی ہم سے زیادہ کیا فضیلت ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں ان کے باپ ابوسلمہ کی وجہ سے ان کے لیے دو ہزار درہم مقرر کیے پھر ان کی ماں ام سلمہ (رض) ام المومنین زوجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ایک ہزار درہم زیادہ کردیئے اگر تمہاری ماں کی بھی ایسی فضیلت ہو تو میں تمہارے لیے بھی ہزار ہزار درہم بڑھا دوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اہل مکہ اور عام لوگوں کے لیے آٹھ آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ اس دوران طلحہ بن عبیداللہ اپنے بیٹے عثمان کو لے کر آئے، حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے بھی آٹھ سو درہم مقرر کیے۔ پھر نضر بن انس (رض) آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان کو دو ہزار والوں میں شامل کردو۔
طلحہ (رض) نے عرض کیا : میں بھی اس کے مثل (اپنے بیٹے عثمان کو) لایا تھا ان کے لیے آپ نے آٹھ سو درہم مقرر کیے اور اس کے لیے دو ہزار درہم مقرر کردیئے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اس (نضر بن انس) کا باپ (انس) مجھے جنگ احد میں ملا تھا۔ اس نے مجھے سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا : میرا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ سن کر اس کے باپ نے تلوار نیام سے سونت لی، نیام توڑ ڈالی اور بولے : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے کبھی نہ مرے گا پھر وہ جنگ کی چکی میں گھس گئے اور قتال کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ اس وقت یہ بچہ فلاں فلاں جگہ بکریاں چراتا تھا۔ پھر عمر کو یہ ذمہ داری مل گئی۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، الحسن بن سفیان، مسند البزار، السنن للبیہقی
ابن سعد (رح) نے اس کا اول حصہ ذکر کیا ہے۔

14057

14057- عن عائشة قالت: لما استخلف أبو بكر قال: لقد علم قومي أن حرفتي لم تكن تعجز عن مؤنة أهلي، وقد شغلت بأمر المسلمين، فيأكل آل أبي بكر من هذا المال وأحترف للمسلمين فيه. "خ وأبو عبيد في الأموال وابن سعد ق"
14057 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا پیشہ میرے اہل خانہ کے خرچ اٹھانے سے کمزور نہ تھا لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں ۔ پس اب آل ابی بکر اس مال میں سے کھائے گی اور مسلمانوں کے لیے اس میں کام کروں گا۔ البخاری، ابوعبید فی الاموال، ابن سعد، السنن للبیہقی

14058

14058- عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن أبا بكر الصديق قام يوم جمعة، فقال: إذا كان بالغداة فأحضروا صدقات الإبل نقسم ولا يدخل علينا أحد إلا بإذن، فقالت امرأة لزوجها: خذ هذا الخطام لعل الله يرزقنا جملا فأتى الرجل فوجد أبا بكر وعمر قد دخلا إلى الإبل فدخل معهما، فالتفت أبو بكر فقال: ما أدخلك علينا؟ ثم أخذ منه الخطام، فضربه، فلما فرغ أبو بكر من قسم الإبل دعا بالرجل فأعطاه الخطام وقال: استقد فقال له عمر: والله لا يستقيد لا تجعلها سنة، قال أبو بكر: فمن لي من الله يوم القيامة؟ فقال عمر: أرضه، فأمر أبو بكر غلامه أن يأتيه براحلة ورحلها وقطيفة وخمسة دنانير فأرضاه بها. "ق" وروى آخره ابن وهب في جامعه.
14058 عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جمعہ کے دن کھڑے ہوئے ارشاد فرمایا : اگلے روز صبح کو صدقات کے اونٹ حاضر کیے جائیں تاکہ ہم ان کو تقسیم کردیں۔ اور کوئی شخص بغیر اجازت (باڑے میں) ہمارے پاس نہ آئے۔ ایک عورت نے اپنے شوہر کو کہا : یہ اونٹ کی نکیل ڈالنے والی رسی لے لو شاید اللہ پاک ہم کو تقسیم میں کوئی اونٹ عنایت کردے۔ وہ آدمی رسی لے کر آیا ۔ اس وقت حضرت ابوبکر اور عمر (رض) اندر داخل ہوچکے تھے۔ چنانچہ آدمی بھی اندر چلا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) اس کی طرف متوجہ ہوئے پوچھا : تو کیوں آیا ہے ؟ پھر اس سے رسی لے کر اس کو مارا۔ پھر جب حضرت ابوبکر (رض) اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوچکے تو اس آدمی کو بلوایا اور اس کی رسی اس کو دی اور فرمایا ایک اونٹ کو ہانک کرلے جا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اس طریقے کو رائج نہ ہونے دیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر قیامت کے دن اللہ سے مجھے کون بچائے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آپ اس کو راضی کرلیں ۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ایک سواری کا اونٹ بمعہ کجاوہ لانے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ایک چادر اور پانچ دینار منگوائے اور یہ سارا مال اس آدمی کو دیدیا۔ اور اس کو خوش کردیا۔ السنن للبیہقی
ابن وھب نے اپنی جامع میں اس کا آخری حصہ نقل کیا ہے۔

14059

14059- عن ابن إسحاق قال في خطبة أبي بكر يومئذ وإنه لا يحل أن يكون للمسلمين أميران، فإنه مهما يكن ذلك يختلف أمرهم وأحكامهم وتتفرق جماعتهم، ويتنازعون فيما بينهم، هنالك تترك السنة وتظهر البدعة وتعظم الفتنة، وليس لأحد على ذلك صلاح. وإن هذا الأمر في قريش ما أطاعوا الله واستقاموا على أمره، قد بلغكم ذلك أو سمعتموه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم واصبروا إن الله مع الصابرين فنحن الأمراء وأنتم الوزراء إخواننا في الدين وأنصارنا عليه، وفي خطبة عمر بعده نشدتكم بالله يا معشر الأنصار ألم تسمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أو من سمعه منكم وهو يقول: الولاة من قريش ما أطاعوا الله واستقاموا على أمره، فقال من قال من الأنصار: بلى الآن ذكرنا، قال: فإنا لا نطلب هذا الأمر إلا بهذا فلا تستهوينكم الأهواء، فليس بعد الحق إلا الضلال فأنى تصرفون. "ق".
14059 ابن اسحاق (رح) سے مروی ہے کہ خلافت کا بار اٹھانے والے دن حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا :
مسلمانوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ان کے دو امیر ہوں (جیسا کہ انصار کی رائے ہے) کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کا معاملہ اختلاف کا شکار ہوجائے گا، ان کے احکام اور ان کی متحد جماعت منتشر ہوجائے گی۔ وہ آپس میں تنازعہ کریں گے۔ ایسی صورت میں سنت چھوٹ جائے گی بدعت ظاہر ہوجائے گی اور فتنہ غالب ہوجائے گا پھر کوئی شخص اس بگاڑ کو سدھارنہ دے سکے گا۔
اور یہ بار خلافت قریش میں رہے گا جب تک کہ وہ اللہ کی عبادت کرتے رہیں اور سیدھی راہ پر گامزن رہیں۔ یہ بات تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن چکے ہوگے۔ پس اب نزاع۔ اور جھگڑانہ کرو ورنہ تم کمزور اور بودے ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی۔ اور صبرکرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہم (قریشی) امیر بنتے ہیں اور تم (انصاری) ہمارے وزیر بنو، دین میں ہمارے بھائی بنے رہو اور اس امر پر ہمارے مددگار بنے رہو۔
اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : اے گروہ انصار ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ سے نہیں سنایا تم میں سے کسی نے سنا ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
الولاۃ من قریش مااطعوا اللہ واستقاموا علی امرہ
حکام قریش میں ہوں گے جب تک کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے رہیں اور اس کے دین پر ثابت قدم رہیں۔
تب انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہاں اب ہم کو یاد آگیا ہے۔
پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : پس ہم بھی اس امارت و حکومت کو اسی حکم کی وجہ سے مانگتے ہیں، پس تم کو خواہشیں گمراہ نہ کردیں۔ پس حق آنے کے بعد پیچھے گمراہی ہی ہے پھر تم کہاں بھٹکے جارہے ہو۔ السنن للبیہقی

14060

14060- عن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف أن عبد الرحمن بن عوف كان مع عمر بن الخطاب وأن محمد بن مسلمة كسر سيف الزبير، ثم قام أبو بكر فخطب الناس واعتذر إليهم وقال: والله ما كنت حريصا على الإمارة يوما ولا ليلة قط ولا كنت فيها راغبا ولا سألتها الله في سر ولا علانية، ولكني أشفقت من الفتنة وما لي في الإمارة من راحة ولكني قلدت أمرا عظيما ما لي به طاقة ولا يد إلا بتقوية الله عز وجل ولوددت أن أقوى الناس عليها مكاني اليوم، فقبل المهاجرون منه ما قال وما اعتذر به، وقال علي والزبير، وما غضبنا إلا لأنا أخرنا عن المشاورة، وإنا نرى أبا بكر أحق الناس بها بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، إنه لصاحب الغار وثاني اثنين، وإنا لنعرف شرفه وكبره ولقد أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة بالناس وهو حي. "ك هق"
14060 سعد بن ابراہیم عن عبدالررحمن بن عوف سے مروی ہے کہ حضور کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ تھے۔ محمد بن مسلمۃ نے زبیر (رض) کی تلوار توڑ دی تھی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) اٹھے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا : اور ان سے معذرت کی فرمایا :
اللہ کی قسم ! میں نے کبھی دن میں اور نہ کبھی رات میں امارت (حکومت) کی لالچ کی اور نہ اس کی رغبت رکھی اور نہ ہی پروردگار سے تنہائی میں یا کھلے میں کبھی اس کا سوال کیا۔ لیکن مجھے فتنے کا ڈر ہے۔ مجھے امارت میں کوئی کشادگی اور مسرت نہیں ہے بلکہ مجھے ایک عظیم ذمہ داری گلے میں ڈال دی گئی ہے، جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر اللہ عزوجل کی مدد کے ساتھ۔ میری تو خواہش ہے کہ لوگوں میں سب سے مضبوط آدمی جب اس بار کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے۔
چنانچہ مہاجرین نے آپ (رض) کی کہی ہوئی سب باتوں کو قبول کیا اور آپ کی معذرت کو قبول کیا صرف حضرت علی اور حضرت زبیر (رض) نے فرمایا : ہمیں غصہ صرف اس بات کا ہے کہ مشاورت میں ہمارا انتظار نہ کیا گیا۔ ہم بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابوبکر (رض) کو اس منصب کا سب سے بڑا حقدار سمجھتے ہیں۔ وہ حضور کے صاحب غار ہیں اور ثانی اثنین کے لقب یافتہ ہیں۔ ہم آپ کے شرف اور بزرگی کو خوب جانتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اپنی زندگی ہی میں آپ (رض) کو نماز پڑھانے کا حکم کردیا تھا (اور یہ مقام صرف امام حاکم کا ہے) ۔
مستدرک الحاکم، للبیہقی قال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین ، واقرہ الذھبی

14061

14061- عن طارق بن شهاب قال: جاء وفد بذاخة وأسد وغطفان إلى أبي بكر يسألونه الصلح فخيرهم أبو بكر بين الحرب المجلية أو السلم المخزية، قال: فقالوا: هذه الحرب المجلية قد عرفناها فما السلم المخزية؟ قال أبو بكر: تؤدن الحلقة والكراع وتتركون أقواما يتبعون أذناب الإبل حتى يرى الله خليفة نبيه والمسلمين أمرا يعذرونكم به وتدون قتلانا ولا ندي قتلاكم، وقتلانا في الجنة وقتلاكم في النار، وتردون ما أصبتم منا ونغنم ما أصبنا منكم، قال: فقال عمر: رأيت رأيا وسأشير عليك، أما أن يؤدوا الحلقة والكراع فنعم ما رأيت، وأما أن يتركوا أقواما يتبعون أذناب الإبل حتى يرى الله خليفة نبيه والمسلمين أمرا يعذرونهم به فنعم ما رأيت، وأما ان نغنم ما أصبنا منهم ويردون ما أصابوا منا فنعم ما رأيت، وأما أن قتلاهم في النار وقتلانا في الجنة فنعم ما رأيت، وأما أن يدوا قتلانا فلا قتلانا قتلوا على أمر الله فلا ديات لهم فتتابع الناس على ذلك. "أبو بكر البرقاني ق" قال ابن كثير صحيح وروى "خ" بعضه.
14061 طارق شہاب سے مروی ہے کہ بذاخہ ، اسد اور غطفان قبائل کے وفود حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں صلح کی درخواست لے کر آئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو دو باتوں کا اختیار دیا : بین الحرب المجلیۃ اوالسلم المخزیۃ انھوں نے پوچھا کہ الحرب المجلیۃ تو ہم کو معلوم ہوگیا کیا ہے یعنی کھلی جنگ۔ لیکن السلم المخزیۃ، ذلت آمیز صلح یہ کیا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم زرہیں اور مویشی (بطور جزیہ) ادا کرو گے، ان لوگوں کو چھوڑ دو گے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پھرتے ہیں حتیٰ کہ اللہ پاک اپنے نبی کے خلیفہ اور مسلمانوں کو کوئی دوسری راہ سمجھا دے تب وہ تم سے معذرت کریں گے۔ تم ہمارے مقتولوں کی دیت ادا کرو گے اور ہم تمہارے مقتولوں کی دیت نہیں ادا کریں گے۔ ہمارے مقتول جنت میں ہوں گے اور تمہارے مقتول جہنم میں۔ تم کو جو ہمارا مال ہاتھ لگے گا تم کو وہ واپس کرنا ہوگا لیکن تمہارا مال جو ہمارے ہاتھ آیا وہ ہمارے لیے مال غنیمت ہوگا۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : میں نے بھی ایک رائے قائم کی ہے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ وہ زرہیں اور مویشی دیں گے آپ کا اچھا خیال ہے ، وہ ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے جو اونٹوں کے پیچھے رہتے ہیں (ان سے کوئی تعرض نہ کریں گے) حتیٰ کہ اللہ اپنے نبی کے خلیفہ کو اور مسلمانوں کو کوئی راہ سمجھا دے تو وہ ان سے معذرت کرلیں گے ، یہ آپ کا اچھا خیال ہے۔ جو ان کا مال ہمارے ہاتھ آئے گا وہ ہمارے لیے مال غنیمت ہوگا اور ہمارا مال ان کے ہاتھ لگے گا تو وہ واپس کرنے کے پابند ہوں گے، یہ آپ کا اچھا خیال ہے، ان کے مقتول جہنم میں ہیں اور ہمارے جنت میں (اس کا عقیدہ) ی بھی آپ کا اچھا خیال ہے لیکن یہ بات کہ وہ ہمارے مقتولوں کی دیت ادا کریں گے (یہ درست نہیں) بلکہ وہ ہمارے مقتول نہیں ہیں بلکہ وہ (شہادت پانے والے) اللہ کے حکم پر قتل ہونے والے ہیں لہٰذا ان کی کوئی دیت واجب الاداء نہیں ہے۔
چنانچہ اس فیصلے پر سب لوگ عمل کرتے رہے۔ ابوبکر البرقانی، السنن للبیہقی
ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں روایت صحیح ہے اور بخاری نے اس کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔

14062

14062- عن الحسن أن أبا بكر الصديق خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: إن أكيس الكيس التقوى وأحمق الحمق الفجور ألا إن الصدق عندى الأمانة والكذب الخيانة، ألا إن القوي ضعيف حتى آخذ منه الحق، والضعيف عندي قوي حتى آخذ له الحق، ألا وإني قد وليت عليكم ولست بخيركم، لوددت أن قد كفاني هذا الأمر أحدكم والله إن أنتم أردتموني على ما كان الله يقيم نبيه بالوحي ما ذلك عندي إنما أنا بشر فراعوني، فلما أصبح غدا إلى السوق فقال له عمر: أين تريد؟ قال: السوق؟ قال: قد جاءك ما يشغلك عن السوق، قال: سبحان الله يشغلني عن عيالي، قال: نفرض بالمعروف، قال: ويح عمر، إني أخاف أن لا يسعني أن آكل من هذا المال شيئا فأنفق في سنتين وبعض أخرى ثمانية آلاف درهم، فلما حضره الموت قال: قد كنت قلت لعمر: إني أخاف أن لا يسعني أن آكل من هذا المال شيئا فغلبني، فإذا أنا مت خذوا من مالي ثمانية آلاف درهم وردوها في بيت المال، فلما أتي بها عمر قال: رحم الله أبا بكر لقد أتعب من بعده تعبا شديدا. "ق".
14062 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے (جب خلافت کی ذمہ داری اٹھالی تو) خطبہ دیا اللہ کی حمدوثناء بجا لائے پھر فرمایا :
عقل مندوں میں سے بھی عقل مند ترین وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرنے والا ہے اور نادانوں کا نادان ہے جو فجور و معاصی میں منہمک ہے۔ دیکھو سچ میرے ہاں امانت ہے اور کذب خیانت ہے۔ یاد رکھو ! طاقت ور میرے لیے کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کرلوں۔ اور ضعیف میرے نزدیک قوی و طاقت ور ہے جب تک کہ اس کا حق ادا نہ دلوادوں۔ آگا رہو ! میں تم پر والی (حاکم) بنا ہوں، لیکن میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ میری تمنا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ اس کام کے لیے عہدہ برآ ہوجائے۔ اللہ کی قسم ! اگر تمہارا خیال ہو کہ اللہ نے جس طرح اپنے نبی کو وحی کے ساتھی مضبوط رکھا میں بھی اسی طرح عمل دکھاؤں۔ تو میں محض ایک بشر ہوں تم میرا خیال رکھو۔
حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں : جب اگلا روز ہوا تو آپ بازار کی طرف چل دیئے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : کہاں جارہے ہو ؟ فرمایا : بازار۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : اب آپ پر ایسی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے جو آپ کو اس بازار کے کاروبار سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیا یہ ذمہ داری مجھے اپنے اہل و عیال کی ذمہ داری سے دور کردے گی ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : ہم آپ کے لیے قاعدے کے مطابق وظیفہ (تنخواہ) مقرر کردیتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : افسوس اے عمر ! مجھے خوف ہے کہ کہیں مجھے (بیت المال کا) مال لینے کی گنجائش نہ ہو۔
پھر آپ (رض) (کا مسلمانوں نے وظیفہ طے کردیا) اور آپ (رض) نے دو سال سے کچھ اوپر (مدت خلافت میں) صرف آٹھ ہزار درہم (بیت المال کے اپنی تنخواہ کی مد میں) خرچ کیے ۔ لیکن جب ان کی موت کا وقت سر پر آیا تو فرمانے لگے : میں نے تو عمر کو کہا تھا کہ یہ مال مجھے لینا درست نہ ہوگا لیکن وہ اس وقت مجھ پر غالب آگئے۔ پس جب میں مرجاؤں تو میرے ذاتی مال میں سے آٹھ ہزار درہم بیت المال میں لوٹا دینا۔ چنانچہ جب وہ مال حضرت عمر (رض) کے پاس پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انھوں نے اپنے بعد والوں کو سخت مشقت میں ڈال دیا۔
السنن للبیہقی

14063

14063- عن ميمون بن مهران قال: كان أبو بكر إذا ورد عليه خصم نظر في كتاب الله، فإن وجد فيه ما يقضى به قضى به بينهم، وإن لم يجد في كتاب الله نظر هل كانت من النبي صلى الله عليه وسلم فيه سنة فإن علمها قضى بها، فإن لم يعلم خرج فسأل المسلمين، فقال: أتاني كذا وكذا فنظرت في كتاب الله وفي سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم أجد في ذلك شيئا فهل تعلمون أن النبي صلى الله عليه وسلم قضى في ذلك بقضاء؟ فربما قام إليه الرهط، فقالوا: نعم: قضى فيه بكذا وكذا، فيأخذ بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عند ذلك: الحمد لله الذي جعل فينا من يحفظ عن نبينا، وإن أعياه ذلك دعا رؤوس المسلمين وعلماءهم فاستشارهم فإذا اجتمع رأيهم على الأمر قضى به وإن عمر بن الخطاب كان يفعل ذلك فإن أعياه أن يجد في القرآن أو السنة نظر هل كان لأبي بكر فيه قضاء فإن وجد أبا بكر قد قضى فيه بقضاء قضى به وإلا دعا رؤوس المسلمين وعلماءهم واستشارهم فإذا اجتمعوا على الأمر قضى بينهم. "الدارمي ق".
14063 میمون بن مہران سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس جب کوئی قضیہ (کیس) آتا تو آپ پہلے کتاب اللہ میں دیکھتے اگر اس میں اس کا حل پاتے تو اس کے ساتھ فیصلہ فرما دیتے۔ اگر کتاب اللہ میں اس کا فیصلہ نہ پاتے تو دیکھتے کہ کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی عمل اس جیسے قضیے میں پیش آیا ہے۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ سنت نبوی میں ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ معلوم نہ ہوتا تو باہر نکلتے اور مسلمانوں سے سوال کرتے اور فرماتے : میرے پاس ایسا ایسا مسئلہ آیا ہے، میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں دیکھا مگر میں نے اس بارے میں کچھ نہ پایا کیا تم کو معلوم ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے مسئلہ میں کیا فیصلہ فرمایا ہے ؟ پھر بسا اوقات تو پوری جماعت کھڑی ہوجاتی اور کہتی : ہاں یہ یہ فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ تب حضرت ابوبکر صدیق (رض) سنت رسول کے مطابق فیصلہ نافذ فرما دیتے اور ارشاد فرماتے : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے اندر ایسے لوگ بنادیئے جنہوں نے ہمارے نبی کے فرمان کو محفوظ رکھا۔ اگر اس طرح بھی مسئلہ حل نہ ہوتا تو مسلمانوں کے سرداروں اور علماء کو بلا کر ان سے مشاورت فرماتے۔ جب ان کی رائے کسی مسئلے پر جمع ہوجاتی تو اس کے ساتھ فیصلہ فرما دیتے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) اپنے عہد خلافت میں ایسا کوئی مسئلہ پاتے کہ جس میں کتاب اللہ اور سنت رسول سے راہنمائی نہ ملتی تو حضرت ابوبکر (رض) کے فیصلہ جات کو دیکھتے اگر ابوبکر (رض) نے اس بارے میں کوئی فیصلہ فرمایا ہوتا تو اس کے ساتھ فیصلہ فرما دیتے ورنہ پھر مسلمانوں کے سرداروں اور علماء کو بلا کر مشاورت فرماتے اور جب ان کی رائے کسی مسئلے پر مجتمع ہوجاتی تو اس کے ساتھ فیصلہ فرما دیتے۔
سنن الدارمی، السنن للبیہقی

14064

14064- عن أنس قال: لما بويع أبو بكر في السقيفة وكان الغد جلس أبو بكر على المنبر، فقام عمر فتكلم قبل أبي بكر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: يا أيها الناس إني قد كنت قلت لكم بالأمس مقالة ما كنت وجدتها في كتاب الله ولا كانت عهدا عهدها إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكني قد كنت أرى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سيدبر أمرنا، وأن الله تعالى قد أبقى فيكم كتابه الذي هو هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن اعتصمتم به هداكم الله لما كان هداه له، وإن الله قد جمع أمركم على خيركم صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وثاني اثنين إذ هما في الغار فقوموا فبايعوه فبايع الناس أبا بكر بيعة العامة بعد بيعة السقيفة، ثم تكلم أبو بكر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال أما بعد أيها الناس، فإني قد وليت عليكم ولست بخيركم، فإن أحسنت فأعينوني وإن أسأت فقوموني، الصدق أمانة والكذب خيانة والضعيف فيكم قوي عندي حتى أريح عليه حقه إن شاء الله، والقوي فيكم ضعيف حتى آخذ الحق منه إن شاء الله لا يدع قوم الجهاد في سبيل الله إلا ضربهم الله بالذل ولا تشيع الفاحشة في قوم إلا عمهم الله بالبلاء، وأطيعوني ما أطعت الله ورسوله، فإذا عصيت الله ورسوله فلا طاعة لي عليكم، قوموا إلى صلاتكم يرحمكم الله. "ابن إسحاق في السيرة" قال ابن كثير: إسناده صحيح
14064 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ جب سقیفہ میں حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی گئی اور آئندہ روز حضرت ابوبکر (رض) منبر پر بیٹھے تو حضرت عمر (رض) اپنی جگہ سے اٹھے اور حضرت ابوبکر (رض) سے پہلے بولے : اللہ کی حمدوثناء کی پھر فرمایا :
اے لوگو ! گزشہت کل میں نے ایک بات کہی تھی جو میں نے قرآن میں دیکھی تھی اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمائی تھی۔ بلکہ میرا ذاتی خیال تھا کہ ابھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معاملات کو منظم فرمائیں گے۔
پس اب اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر اپنی کتاب چھوڑ دی ہے۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ ہے۔ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے تھام لیا تو اللہ تم کو بھی ہدایت سے نوازدے گا جس طرح اپنے پیغمبر کو سیدھی راہ دکھائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے امور سلطنت ایسے شخص کو سونپ دیئے ہیں جو تم میں سب سے بہتر ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھی ہے، ثانی اثنین اذھما فی الغار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یارغار ہے۔ اٹھو اور ان کی بیعت کرو۔ چنانچہ بیعت سقیفہ کے بعد یہ عام بیعت ہوئی جو (سب) لوگوں نے کی۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : پہلے اللہ کی حمدوثناء کی پھر فرمایا :
اے لوگو ! مجھے تمہارا والی (حاکم) بنایا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو، اگر برا کروں تو مجھے سیدھا کردو۔ سچائی امانت ہے جھوٹ خیانت ہے۔ تمہارا ضعیف میرے نزدیک قوی ہے حتیٰ کہ میں اس کا حق دلادوں انشاء اللہ۔ تمہارا قوی میرے لیے ضعیف ہے جب تک کہ میں اس سے (حق والے کا) حق نہ لے لوں (یادرکھو ! ) کوئی قوم جہاد کو نہیں چھوڑتی مگر اللہ پاک ان پر ذلت مسلط کردیتا ہے۔ کسی قوم میں فحش کام عام نہیں ہوتے مگر اللہ پاک ان کو عمومی مصائب وآفات میں مبتلا فرما دیتا ہے تم میری اطاعت کرتے رہو جب تک کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں، جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں مبتلا ہوجاؤ تو تم پر میری اطاعت نہیں۔ پس اب نماز کے لیے اٹھ کھڑے ، اللہ تم پر رحم کرے۔ ابن اسحاق فی السیرۃ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس کی اسناد صحیح ہے۔

14065

14065- عن ابن عمر قال: لم يجلس أبو بكر في مجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر حتى لقي الله، ولم يجلس عمر في مجلس أبي بكر حتى لقي الله ولم يجلس عثمان في مجلس عمر حتى لقي الله. "طس".
14065 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) منبر پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ پر کبھی نہ بیٹھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اسی طرح عمر (رض) کبھی بھی ابوبکر (رض) کی جگہ نہ بیٹھے حتیٰ کہ عمر (رض) کی وفات ہوگئی۔ اسی طرح حضرت عثمان (رض) حضرت عمر (رض) کی جگہ کبھی نہ بیٹھے حتیٰ کہ عثمان (رض) کی وفات ہوگئی۔
الاوسط للطبرانی

14066

14066- عن أبي هريرة قال: والذي لا إله إلا هو لولا أن أبا بكر استخلف ما عبد الله، ثم قال الثانية، ثم قال الثالثة، فقيل له: مه يا أبا هريرة، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجه أسامة بن زيد في سبع مائة إلى الشام، فلما نزل بذي خشب قبض النبي صلى الله عليه وسلم وارتدت العرب حول المدينة واجتمع إليه أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: رد هؤلاء توجه هؤلاء إلى الروم وقد ارتدت العرب حول المدينة فقال: والذي لا إله إلا هو لو جرت الكلاب بأرجل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ما رددت جيشا وجهه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا حللت لواء عقده، فوجه أسامة فجعل لا يمر بقبيل يريدون الارتداد إلا قالوا لولا أن لهؤلاء قوة ما خرج مثل هؤلاء من عندهم، ولكن ندعهم حتى يلقوا الروم فلقوا الروم فهزموهم وقتلوهم ورجعوا سالمين فثبتوا على الإسلام. "الصابوني في المائتين ق في كر" وسنده حسن.
14066 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اگر ابوبکر (رض) کو خلیفہ نہ منتخب کیا جاتا تو اللہ کی عبادت باقی نہ رہتی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ بات دوبارہ ارشاد فرمائی، پھر تیسری بار ارشاد فرمائی تو آپ کو کسی نے کہا : رک جاؤ ابوہریرہ !
حضرت ابوہریرہ (رض) نے (مزید جوش و خروش سے آپ کی ثابت قدمی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل ملک شام جنگ کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب وہ لشکر مقام ذی خشب ، پر اترا تو مدینہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا۔ مدینہ کے ارد گرد کے لوگ مرتد ہونے لگے۔ اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع لوگ کہنے لگے : روم جانے والے لشکر کو روک لیا جائے کیونکہ عرب مدینے کی اطراف میں اسلام سے برگشتہ ہورہے ہیں۔ تب حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اگر کتوں کا غول ازواج مطہرات کو ان کے پاؤں سے کھینچتا پھرے تب بھی میں اس لشکر کو واپس نہیں ہونے دوں گا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہم پر روانہ فرما چکے ہیں اور اس جھنڈے کو نہیں کھولوں گا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لہرا چکے ہیں۔
چنانچہ (اسی ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ) جب بھی اسامہ (رض) کا لشکر ایسے قبائل کے پاس سے گزرتا جو مرتد ہونے کا ارادہ کررہے تھے تو وہ عرب کہنے لگتے : اگر ان کے پاس قوت نہ ہوتی تو اتنا بڑا لشکر ایسے کٹھن موقع پر نہ نکلتا۔ لہٰذا ہم مرتد ہونے کو فی الحال موقوف رکھتے ہیں جب تک کہ ان کے دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہوجائے۔
چنانچہ پھر مسلمانوں کا لشکر رومیوں سے ٹکرایا اور ان کو شکست فاش دیدی ادھر یہ (خبر سن کر مرتد ہونے کا ارادہ کرنے والے بھی باز آگئے اور دین پر) ثابت قدم ہوگئے۔
الصابونی فی المائتین، السنن للبیہقی، ابن عساکر
اس روایت کی سند حسن ہے۔

14067

14067- عن عطاء بن السائب قال: لما بويع أبو بكر أصبح وعلى ساعده أبراد وهو ذاهب إلى السوق، فقال عمر: أين تريد؟ قال: السوق قال: تصنع ماذا وقد وليت أمر المسلمين؟ قال: فمن أين أطعم عيالي؟ فقال عمر: انطلق يفرض لك أبو عبيدة، فانطلقا إلى أبي عبيدة فقال: أفرض لك قوت رجل من المهاجرين ليس بأفضلهم ولا بأوكسهم وكسوة الشتاء والصيف إذا أخلقت شيئا رددته وأخذت غيره، ففرضا له كل يوم نصف شاة وما كساه في الرأس والبطن. "ابن سعد"
14067 عطاء بن السائب سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی گئی تو صبح کو حضرت ابوبکر (رض) اپنے ہاتھ پر چادریں اٹھا کر بازار کو نکلے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : بازار کا۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : یہ آپ کیا (خریدو فروخت ) کررہے ہیں حالانکہ اب آپ کو مسلمانوں کا امیر بنادیا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے پوچھا : پھر میرے اہل خانہ کو میں کہاں سے کھلاؤں ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : چلئے، ابوعبیدۃ آپ کے لیے وظیفہ مقرر کردیں گے۔ چنانچہ دونوں ابوعبیدۃ کے پاس گئے۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : میں آپ کے لیے مہاجرین میں سے ایک آدمی کا وظیفہ مقرر کرتا ہوں جو نہ زیادہ افضل ہو اور نہ بالکل گھٹیا۔ اور گرمی سردی کا لباس، جب آپ ایک چیز استعمال کرکے پرانی کردیں تو واپس کرکے دوسری لے لیں۔ چنانچہ دونوں نے حضرت ابوبکر (رض) اور ان کے اہل خانہ کے لیے نصف بکری اور سر اور تن کو ڈھانکنے کا کپڑا مقرر کردیا۔
ابن سعد

14068

14068- عن ميمون بن مهران قال: لما استخلف أبو بكر جعلوا له ألفين فقال: زيدوني، فإن لي عيالا وقد شغلتموني عن التجارة فزادوه خمس مائة. "ابن سعد"
14068 میمون بن مہران سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو ان کے اصحاب نے ان کے لیے دو ہزار (درہم) مقرر کردیئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کچھ زیادہ کرو کیونکہ میرے اہل و عیال ہیں اور تم نے مجھے تجارت سے روک دیا ہے۔ چنانچہ پھر انھوں نے پانچ سو درہم بڑھادیئے۔ ابن سعد

14069

14069- عن عائشة أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله على رسوله، وفاطمة حينئذ تطلب صدقة النبي صلى الله عليه وسلم التي بالمدينة وفدكوما بقي من خمس خيبر فقال أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا نورث، ما تركناه صدقة إنما يأكل آل محمد من هذا المال يعني مال الله، ليس لهم أن يزيدوا على المأكل، وإني والله لا أغير صدقات النبي صلى الله عليه وسلم، عن حالها التي كانت عليه في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولأعملن فيها بما عمل النبي صلى الله عليه وسلم فيها فعمل، فأبى أبو بكر أن يدفع إلى فاطمة منها شيئا فوجدتفاطمة على أبي بكر من ذلك، فقال أبو بكر: والذي نفسي بيده لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي، فأما الذي شجر بيني وبينكم من هذه الصدقات، فإني لا آلوفيها عن الحق، وإني لم أكن لأترك فيها أمرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنعه فيها إلا صنعته. "ابن سعد حم خ م د ن ابن الجارود أبو عوانة حب ق"
14069 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے پیغام بھیجا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث کا مطالبہ کیا جو اللہ پاک نے بطور مال غنیمت کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی تھی۔ دراصل حضرت فاطمہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس صدقہ کو مانگ رہی تھیں جو (بطور اراضی) مدینہ میں تھا، باغ فدک (جو خیبر میں تھا) اور خیبر کی غنیمت کا مال خمس جو باقی بچ گیا تھا۔ اس تمام مال سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل کے نفقات کا بند و بست فرماتے تھے اور اللہ کی راہ میں حاجت مندوں کو تقسیم فرماتے تھے۔
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ۔ جواب میں ارشاد فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ہم (دنیاوی مال کا) کسی کو وارث بنا کر نہیں جاتے۔ جو ہم چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ آل محمد اس مال یعنی اللہ کے مال میں سے کھاتے رہیں گے لیکن ان کے لیے کھانے پینے سے زیادہ اس میں تصرف کرنے کا حق نہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا :
اللہ کی قسم میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کو اس حالت سے تبدیل نہیں کرسکتا جس حالت پر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے۔ نیز میں ان صدقات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح تصرف فرماتے تھے اسی طرح تصرف کرتا رہوں گا۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر گامزن رہے اور ان اموال (یعنی زمینوں وغیرہ) کو کسی کو دینے سے انکار کردیا۔ جس کی وجہ سے حضرت فاطمہ (رض) کے دل میں ابوبکر (رض) کی طرف سے ناراضگی بیٹھ گئی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رشتہ داری مجھے بہت محبوب ہے اس سے کہ میں اپنی رشتہ داری قائم کروں۔ بہرحال ان صدقات میں جو میرے اور تمہارے درمیان اختلاف واقع ہوگیا ہے میں ان میں حق سے ذرہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور اس طرز عمل کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتا دیکھا ہے، میں اسی پر کاربند رہوں گا۔
ابن سعد، مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، النسائی، ابن الجارود، ابوعوانۃ، ابن حبان، السنن للبیہقی

14070

14070- عن الشعبي قال: لما مرضت فاطمة أتاها أبو بكر الصديق فاستأذن عليها فقال علي: يا فاطمة هذا أبو بكر يستأذن عليك، فقالت أتحب أن آذن له؟ قال: نعم، فأذنت له فدخل عليها يترضاها، وقال: والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضاة الله ورسوله ومرضاتكم أهل البيت. "ق" وقال هذا مرسل حسن بإسناد صحيح. تتمة كتاب الخلافة مع الامارة الباب الأول في خلافة الخلفاء خلافة أبي بكر الصديق رضي الله عنه
14070 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ (رض) بیمار پڑیں تو حضرت ابوبکر (رض) ان کے پاس آئے اور اندر آنے کی جازت چاہی۔ حضرت علی (رض) نے فاطمہ (رض) کو فرمایا : اے فاطمہ ! یہ ابوبکر آئے ہیں آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے پوچھا : کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں ان کو اندر آنے کی اجازت دیدوں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہاں۔ چنانچہ حضرت فاطمہ (رض) نے خلیفہ ابوبکر صدیق (رض) کو اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ حضرت ابوبکر (رض) اندر آکر بنت رسول اللہ کو راضی کرنے لگے۔ اور فرمایا : اے اہل بیت ! اللہ کی قسم ! میں نے گھر، مال، اہل و عیال اور قبیلہ و خاندان صرف اللہ ورسول اور تمہارے خاندان کی رضاء کے لیے چھوڑے ہیں۔ السنن للبیہقی
یہ روایت مرسل اور صیح سند کے ساتھ حسن ہے۔

14071

(14071 -) عن أبي الطفيل قال : جاءت فاطمة إلى أبي بكر الصديق فقالت : يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أنت ورثت رسول الله صلى الله عليه وسلم أم أهله ؟ قال : لا بل أهله ، قالت : فما بال الخمس ؟ فقال : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إذا أطعم الله نبيا طعمة ، ثم قبضه ، كانت للذي يلى بعده ، فلما وليت رأيت أن أرده على المسلمين ، قالت : فأنت وما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم أعلم ثم رجعت. (حم م د وابن جرير هق)
14071 ابو الطفیل مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس تشریف لائیں اور عرض کیا : اے خلیفۃ رسول اللہ ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث آپ ہیں یا ان کے اہل خانہ ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں، بلکہ ان کے اہل خانہ۔ عرض کیا : پھر خمس کا کیا بنا ؟ فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی نبی کو روزی دیتا ہے پھر اس کو اٹھالیتا ہے تو وہ روزی اس کے بعد آنے والے نائب کے لیے ہوتی ہے۔ پس جب میں والی بنا تو میں نے خیال کیا کہ اس روزی کو مسلمانوں پر واپس لوٹا دوں۔ حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا : آپ اور جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا میں جانتی ہوں یہ کہہ کر آپ (رض) واپس تشریف لے گئیں۔ مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد، ابن جریر، السنن للبیہقی

14072

14072- عن القاسم بن محمد أن النبي صلى الله عليه وسلم لما توفي اجتمعت الأنصار إلى سعد بن عبادة، فأتاهم أبو بكر وعمر وأبو عبيدة بن الجراح فقام حباب بن المنذر، وكان بدريا فقال: منا أمير ومنكم أمير، فإنا والله ما ننفسهذا الأمر عليكم أيها الرهط، ولكنا نخاف أن يليه أقوام قتلنا آباءهم وإخوتهم، فقال له عمر إذا كان ذلك فمت إن استطعت فتكلم أبو بكر فقال: نحن الأمراء وأنتم الوزراء وهذا الأمر بيننا وبينكم نصفين كقد الأبلمةيعني الخوصة فبايع أول الناس بشير بن سعد أبو النعمان فلما اجتمع الناس على أبي بكر قسم بين الناسقسما فبعث إلى عجوز من بني عدي بن النجار [قسمها] مع زيد بن ثابت فقالت: ما هذا؟ قال: قسم قسمه أبو بكر للنساء، فقالت أتراشونيعن ديني؟ فقالوا: لا؛ فقالت: أتخافون أن أدع ما أنا عليه؟ فقالوا: لا؛ فقالت: والله لا آخذ منه شيئا أبدا؛ فرجع زيد إلى أبي بكر فأخبره بما قالت، فقال أبو بكر: ونحن لا نأخذ مما أعطيناها شيئا أبدا. "ابن سعد وابن جرير"
14072 قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو انصار حضرت سعد بن عبادۃ کے پاس اکٹھے ہوئے۔ پھر ان کے پاس حضرات ابوبکر، عمر اور ابو عبیدۃ بن الجراح (رض) (مہاجرین صحابہ) تشریف لائے۔ پھر حبان بن المنذر جو بدری (اور انصاری) صحابی تھے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور بولے : ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا۔ اے جماعت (مہاجرین ! ) ہم ہرگز اس بوجھ کو تنہا تمہارے کاندھوں پر نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ سلطنت کے بڑے ایسے لوگ نہ بن جائیں ہم نے جن کے باپوں اور بھائیوں کو تہ تیغ کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : اگر یہ بات ہے تو تو مرجا اگر تجھ سے ہو سکے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم امراء ہوں گے اور تم ہمارے وزراء ہوں گے۔ اور یہ سلطنت ہمارے اور تمہارے درمیان نصف ہوئی جس طرح کھجور کے پتے کو درمیان سے دو مساوی حصوں میں توڑا جائے تو وہ بالکل آدھا آدھا ہوجاتا ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابوالنعمان بشیر بن سعد نے آپ (رض) کی بیعت کی (اور پھر عام بیعت ہوئی) جب لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس اکٹھے ہوئے تو آپ نے لوگوں کے درمیان مال تقسیم کیا۔ اور بنی عدی بن النجار کی ایک بڑھیا کو اس کا حصہ حضرت زید بن ثابت (رض) کے ہاتھوں بھیجا۔ بڑھیا نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ زید (رض) نے فرمایا : حصہ ہے عورتوں کا، حضرت ابوبکر (رض) نے بھیجا ہے۔ بڑھیا بولی ! کیا تم مجھے میرے دین میں رشوت دے رہے ہو۔ حاضرین نے کہا : ہرگز نہیں، بڑھیا بولی : پھر تم کیا اس بات سے خوفزدہ ہو کہ میں اپنے موقف سے پیچھے جاؤں گی ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ بڑھیا بولی : اللہ کی قسم ! میں ہرگز اس سے کچھ نہیں لوں گی۔ حضرت زید (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس واپس آئے اور بڑھیا کی بات کہہ سنائی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اور ہم بھی جو اس کو دے چکے ہیں ہرگز کبھی بھی واپس نہیں لیں گے۔ ابن سعد، ابن جریر

14073

14073- عن عروة قال: لما ولي أبو بكر خطب الناس، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أما بعد أيها الناس قد وليت أمركم ولست بخيركم، ولكن نزل القرآن، وسن النبي صلى الله عليه وسلم السنن فعلمنا فعلمنا، اعلموا: أن أكيس الكيس [التقوى] ، وأن أحمق الحمق الفجور، وأن أقواكم عندي الضعيف حتى آخذ له بحقه، وأن أضعفكم عندي القوي حتى آخذ منه الحق؛ أيها الناس، إنما أنا متبع ولست بمبتدع؛ فإن أحسنت فأعينوني، وإن زغت فقوموني؛ أقول قولي هذا وأستغفر الله لي ولكم. "ابن سعد والمحاملي في أماليه خط في رواة مالك"
14073 عروہ (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو والی بنایا گیا تو انھوں نے خطبہ دیا ۔ پہلے اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! مجھے تمہارا والی بنایا گیا ہے، لیکن میں کوئی تم سے بڑھ کر انسان نہیں ہوں۔ لیکن قرآن نازل ہوا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنت کو رائج فرمایا ہم کو سکھایا اور ہم سیکھ گئے۔ پس تم بھی جان لو کہ عقل مندوں کا عقل مند صاحب تقویٰ ہے اور بیوقوفوں کا بیوقوف مبتلائے فسق وفجور ہے۔ تمہارا طاقت ور شخص میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق وصول نہ کرلوں، تمہارا کمزور میرے نزدیک طاقت ور ہے جب تک میں اس کو حق نہ دلوادوں۔ اے لوگو ! میں محض اتباع کرنے والا ہوں نئی راہ ایجاد کرنے والا نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو۔ اور اگر غلط راہ پر چلوں تو مجھے سیدھا کردو۔ بس میں اس پر اپنی بات موقوف کرتا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے مغفرت مانگتا ہوں۔ ابن سعد، المحاملی فی امالیہ، الخطیب فی رواۃ مالک

14074

14074- عن عمير بن إسحاق أن رجلا رأى على عنق أبي بكر الصديق عباءة، فقال: ما هذا؟ هاتها أكفيكها، فقال: إليك عني لا تغرني أنت وابن الخطاب من عيالي. "ابن سعد حم في الزهد"
14074 عمیر بن اسحاق سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے شانے پر چادریں پڑی دیکھیں۔ آدمی نے عرض کیا : یہ کیا ہے ؟ آپ مجھے دیدیں میں آپ کا کام کردوں گا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پرے رہو۔ مجھے تم اور ابن خطاب میرے اہل و عیال کی طرف سے دھوکا میں نہ ڈالو۔ ابن سعد، الزھد للامام احمد

14075

14075- عن حميد بن هلال أن أبا بكر لما استخلف راح إلى السوق يحمل أبراداله وقال: لا تغروني من عيالي. "ابن سعد"
14075 حمید بن ہلال سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو جب خلیفہ بنایا گیا تو وہ اپنے کاندھے پر چادریں اٹھائے ہوئے بازار کو نکلے اور ارشاد فرمایا : مجھے میرے عیال سے دھوکا میں مبتلا نہ کرو۔ ابن سعد

14076

14076- عن حميد بن هلال قال: لما ولي أبو بكر قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفرضوالخليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يغنيه، قالوا: نعم برداه إن أخلقهما وضعهما وأخذ مثلهما وظهره إذا سافر ونفقته على أهله كما كان ينفق قبل أن يستخلف، قال أبو بكر: رضيت. "ابن سعد"
14076 حمید بن ھلال سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو حاکم بنایا گیا تو اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنا وظیفہ مقرر کردو جو اس کے لیے کافی ہو۔
لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے دو چادریں پہننے کے لیے جب وہ پرانی ہوجائیں تو ان کو دے کر دوسری لے لیں۔ اور سواری کا جانور جب وہ سفر کریں اور ان کے اہل و عیال کا نفقہ اسی طرح خلیفہ بننے سے چلتا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں راضی ہوں۔ ابن سعد

14077

14077- عن ابن عمر وعائشة وسعيد بن المسيب وصبيحة التيمي ووالد أبي وجزة وغير هؤلاء دخل حديث بعضهم في بعض قالوا: بويع أبو بكر الصديق يوم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلة خلت من شهر ربيع الأول سنة إحدى عشرة من مهاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان منزله بالسنحعند زوجته حبيبة بنت خارجة ابن زيد بن أبي زهير من بني الحارث بن الخزرج، وكان قد حجرعليه حجرة من سعففما زاد على ذلك حتى تحول إلى منزله بالمدينة، فأقام هناك بالسنح بعد ما بويع له ستة أشهر يغدو على رجليه إلى المدينة، وربما ركب على فرس له وعليه إزار ورداء ممشقفيوافي المدينة فيصلي الصلوات بالناس، فإذا صلى العشاء رجع إلى أهله بالسنح، فكان إذا حضر صلى بالناس وإذا لم يحضر صلى بهم عمر بن الخطاب، وكان يقيم يوم الجمعة في صدر النهار بالسنح يصبغ لحيته ورأسه ثم يروح لقدر الجمعة فيجمع بالناس، وكان رجلا تاجرا، فكان يغدو كل يوم السوق فيبيع ويبتاع وكانت له قطعة غنم يروحعليها وربما خرج هو بنفسه فيها، وربما كفيها فرعيت له، وكان يحلب للحي أغنامهم، فلما بويع له بالخلافة، قالت جارية من الحي: الآن لا تحلب لنا منائح دارنا؛ فسمعها أبو بكر، فقال: بلى لعمري لأحلبنها لكم، وإني لأرجو أن لا يغيرني ما دخلت فيه عن خلق كنت عليه؛ فكان يحلب لهم فربما قال للجارية من الحي يا جارية أتحبين أن أرغي لك أو أصرح؛ فربما قالت: أرغ وربما قالت: صرح فأي ذلك قالت: فعل؛ فمكث كذلك بالسنح ستة أشهر، ثم نزل بالمدينة، فأقام بها ونظر في أمره فقال: لا والله ما يصلح أمر الناس التجارة وما يصلح لهم إلا التفرغ والنظر في شأنهم وما بد لعيالي مما يصلحهم، فترك التجارة واستنفق من مال المسلمين ما يصلحه ويصلح عياله يوما بيوم ويحج ويعتمر، وكان الذي فرضوا له في كل سنة ستة آلاف درهم فلما حضرته الوفاة قال: ردوا ما عندنا من مال المسلمين؛ فإني لا أصيب من هذا المال شيئا وإن أرضي التي بمكان كذا وكذا للمسلمين بما أصبت من أموالهم؛ فدفع ذلك إلى عمر ولقوحاوعبدا صيقلا وقطيفة ما تساوي خمسة دراهم. فقال عمر: لقد أتعب من بعده، قالوا: واستعمل أبو بكر على الحج سنة إحدى عشرة عمر بن الخطاب ثم اعتمر أبو بكر في رجب سنة اثنتي عشرة، فدخل مكة ضحوة فأتى منزله وأبو قحافة جالس على باب داره ومعه فتيان أحداث يحدثهم إلى أن قيل له: هذا ابنك، فنهض قائما، وعجل أبو بكر أن ينيخ راحلته، فنزل عنها وهي قائمة فجعل يقول: يا أبت لا تقم، ثم لاقاه فالتزمه وقبل بين عيني أبي قحافة، وجعل الشيخ يبكي فرحا بقدومه، وجاؤوا إلى مكة عتاب بن أسيد وسهيل بن عمرو وعكرمة بن أبي جهل والحارث بن هشام فسلموا عليه، سلام عليك يا خليفة رسول الله، وصافحوه جميعا فجعل أبو بكر يبكي حين يذكرون رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم سلموا على أبي قحافةفقال أبو قحافة: يا عتيق هؤلاء الملأ فأحسن صحبتهم، فقال أبو بكر: يا أبت لا حول ولا قوة إلا بالله طوقت أمرا عظيما من الأمر لا قوة لي به، ولا يدان إلا بالله، ثم دخل فاغتسل وخرج وتبعه أصحابه فنحاهم، ثم قال: امشوا على رسلكم ولقيه الناس يتمشون في وجهه ويعزونه بنبي الله صلى الله عليه وسلم، وهو يبكي، حتى انتهى إلى البيت، فاضطبعبردائه، ثم استلم الركن ثم طاف سبعا وركع ركعتين، ثم انصرف إلى منزله، فلما كان الظهر خرج فطاف أيضا بالبيت، ثم جلس قريبا من دار الندوة، فقال: هل من أحد يشتكي من ظلامةأو يطلب حقا، فما أتاه أحد وأثنى الناس على واليهم خيرا، ثم صلى العصر، وجلس فودعه الناس، ثم خرج راجعا إلى المدينة، فلما كان وقت الحج سنة اثنتي عشرة حج أبو بكر بالناس تلك السنة وأفرد الحج واستخلف على المدينة عثمان بن عفان. "ابن سعد" قال ابن كثير: هذا سياق حسن وله شواهد من وجوه أخر ومثل هذا تقبله النفوس وتتلقاه بالقبول
14077 ابن عمر (رض) ، عائشہ (رض) ، سعید بن المسیب (رح) ، صحیۃ الیتمی (رح) اور ابو وجزۃ کے والد (رح) وغیرہ حضرات سے مروی ہے اور ان سب حضرات کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ :
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت بروز پیر بارہ ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو ہوئی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کی (خلافت پر) بیعت کی گئی۔ آپ (رض) کا گھر سخ (مدینہ کے مضافات میں ایک مقام) پر تھا۔ جہاں قبیلہ بنی حارث بن خزرج کی آپ کی بیوی حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیر رہا کرتی تھیں۔
آپ (رض) نے اس کو کھجور کی شاخوں سے ایک حجرہ بنا کر دے رکھا تھا۔ اس گھر میں مزید کچھ اضافہ نہ ہوا تھا کہ آپ (رض) مدینہ منتقل ہوگئے۔ لیکن اس سے قبل اور خلافت کے بعد آپ (رض) چھ ماہ سخ میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران آپ (رض) ہر صبح پیدال مدینے تشریف لے جاتے تھے۔ کبھی کبھار اپنے گھوڑے پر بھی چلے جاتے تھے۔ آپ کے جسم پر ایک ازار اور ایک رنگی ہوئی چادر ہوتی تھی۔ آپ (رض) مدینہ جاکر لوگوں کو نماز پڑھاتے : پھر عشاء کی نماز پڑھا کر سخ واپس چلے جاتے تھے۔ جب آپ مدینہ میں حاضر ہوجاتے تو آپ ہی نماز پڑھاتے تھے ورنہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نماز پڑھاتے تھے ۔ جمعہ کے دن آپ شروع دن میں گھر پہنچ جاتے اور لوگوں کو جمعہ پڑھاتے تھے۔ آپ (رض) تجارت پیشہ تھے۔ اس لیے آپ ہر روز صبح کو بازار جاتے اور خریدو فروخت کرتے۔ اسی طرح آپ (رض) کا بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ آپ شاک کو اسے دیکھنے جاتے تھے اور کبھی کبھار خود بھی بکریوں کو لے کر چرانے نکل جاتے تھے۔ ورنہ اکثر اوقات آپ کی بکریاں کوئی اور چراتا تھا۔ آپ (رض) ایک خاندان کی بکریوں کا دودھ بھی دوہا کرتے تھے۔ جب آپ (رض) کی بیعت کرلی گئی تو اس خاندان کی ایک بچی نے کہا : اب تو شاید ہماری بکریوں کا دودھ نہیں نکلا کرے گا۔ یہ بات حضرت ابوبکر (رض) نے سن لی تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ میری عمر کی قسم ! میں ان کے لیے دودھ دوہوں گا۔ اور مجھے امید ہے کہ میرا یہ نیا کام پرانے کاموں پر اثر انداز نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ (رض) پھر بھی ان کے لیے دودھ نکالتے رہے۔ بسا اوقات آپ اس گھرانے کی بچی کو کہتے : تجھے اونٹ کی آواز نکال کر دکھاؤں یا مرغے کی آواز نکال کر دکھاؤں۔ تو وہ جو کہتی آپ اس کو سناتے۔ آپ نے (اسی طرح لوگوں میں گم ہو کر) چھ ماہ بتادیئے۔ پھر آپ مستقل مدینہ آکر رہنے لگے۔ اور نظام حکومت کو مستقل دیکھنے لگے۔ تب آپ (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! لوگوں کی فلاح کے لیے مجھے اپنی تجارت چھوڑنا پڑے گی۔ ان کے لیے (اپنے دوسرے کام کاج سے) فارغ ہونا ضروری ہے۔ اور مستقل ان کی اصلاح و فلاح میں لگنے کی ضرورت ہے، لیکن اپنے اہل خانہ کے لیے بھی معاشی گزر بسر کا انتظام لازمی ہے۔ تب آپ (رض) نے تجارت ترک فرمادی اور آپ (رض) مسلمانوں کے بیت المال میں سے اپنے اہل خانہ کا خرچ لینے لگے۔ آپ (رض) (بیت المال سے) حج اور عمرہ بھی فرماتے۔ صحابہ کرام نے آپ کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم مقرر فرمادیئے تھے۔ جب آپ (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ (رض) نے وصیت کی کہ ہمارے پاس جو بیت المال کا مال ہے وہ لوٹا دو ۔ کیونکہ میں اس مال میں سے کچھ بھی لینا نہیں چاہتا۔ اور میری فلاں فلاں جگہ والی جائیداد مسلمانوں کے لیے ہے اس مال کے بدلے جو میں نے بیت المال میں سے لیا ہے۔ چنانچہ آپ (رض) نے وہ اموال، دودھ والی اونٹنی، ایک غلام اور پانچ درہم کی قیمت کی ایک چادر حضرت عمر (رض) کو واپس بھجوادی۔
حضرت صدیق اکبر (رض) کی اپنے والد سے ملاقات
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : انھوں نے اپنے بعد والوں کو سخت مشقت میں ڈال دیا۔ راوی حضرات کہتے ہیں : سن گیارہ ہجری کو حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا تھا۔ پھر بارہ ہجری ماہ رجب میں حضرت ابوبکر (رض) نے عمرہ ادا کیا۔ چاشت کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ وہہاں اپنے گھر میں تشریف لائے جہاں آپ کے والد حضرت ابوقحافہ (رض) (انتہائی ضعیف العمر) اپنے دروازے پر بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ کم سن لڑکے بیٹھے تھے جن کو وہ باتیں سنا رہے تھے۔ ان کو کسی نے بتایا کہ یہ آپ کا بیٹا آیا ہے۔ یہ سن کر وہ (خوشی سے) کھڑے ہونے لگے۔ جبکہ حضرت ابوبکر (رض) جو ابھی سواری پر تھے جلدی جلدی سواری سے اترنے لگے اور ابھی اونٹنی بیٹھی بھی نہ تھی آپ (رض) اوپر سے کود آئے اور اپنے باپ کو آواز دینے لگے : ابا جان ! آپ کھڑے نہ ہوں۔ پھر دونوں باپ بیٹے بغل گیر ہوئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اپن باپ کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ابوقحافہ (رض) اپنے بیٹے کی آمد کی خوشی میں روپڑے۔ مکہ کی طرف عتاب بن اسید، سہیل بن عمرو، عکرمہ بن ابی جھل اور حارث بن ہشام (سرداران قوم) بھی آگئے تھے۔ انھوں نے آپ (رض) کو سلام کیا سلام علیکم اے خلیفہ رسول اللہ ! پھر سب نے آپ (رض) کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جب ان کے آپس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی یادوں) کا ذکر ہوا تو حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے۔ پھر آنے والے معززین نے حضرت ابی قحافہ (رض) کے سلام کی دعا کی۔ حضرت ابوقحافہ (رض) نے اپنے بیٹے کو فرمایا : اے عتیق (ابوبکر (رض) کا لقب ! ) ان سرداروں کے ساتھ اچھی صحبت رکھا کر۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اباجان ! اللہ کی مدد کے بغیر نہ بدی سے اجتناب ممکن ہے اور نہ ہی کوئی نیکی اس کی مدد کے بغیر پوری ہوسکتی ہے۔ مجھے ایک عظیم ذمہ داری گلے کا ہار بنادی گئی ہے جس کے اٹھانے کی مجھ میں قوت نہیں ہے۔ اور نہ اللہ کے بغیر کچھ توفیق ممکن ہے۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) گھر میں داخل ہوئے۔ غسل کیا اور نکلے۔ آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چلنے لگے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اپنے اپنے راستے چلو۔ لوگ آ آ کر بالمشافہ آپ (رض) سے ملتے رہے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر بھی تعزیت کا اظہار کرتے رہے۔ جس کو سن سن کر حضرت ابوبکر (رض) رونے لگے۔ حتیٰ کہ آپ (رض) بیت اللہ شریف پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے اپنی چادر کا اضطباع کیا (الٹا کر زیب تن کی) ۔ پھر رکن (یمانی) کا استلام کیا (بوسہ لیا) پھر سات چکر کعبۃ اللہ کے گرد کاٹے اور دوگانہ نماز ادا کی۔ پھر واپس اپنے گھر چلے گئے۔ جب ظہر کا وقت ہوا تو پھر نکلے اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر قریب ہی دارالندوہ کے بیٹھ گئے اور اعلان کیا : کوئی ہے جس کو کسی ظلم کی شکایت کرنا ہو یا کسی کو اپنے حق کا مطالبہ کرنا ہو۔ لیکن پھر کوئی نہ آیا بلکہ لوگوں نے (امن وامان کے حوالے سے) اپنے والی کی بھلائی اور تعریف بیان کی۔ پھر آپ (رض) نے نماز عصر ادا کی اور بیٹھ گئے پھر لوگ آپ سے الوداع ہوئے اور آپ (رض) مدینے کی طرف کوچ کرنے نکل پڑے۔ پھر جب اسی سال یعنی بارہ ہجری کو حج کا وقت آیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے خود لوگوں کو حج کروایا اور حج افراد (بغیر عمرے کے) ادا کیا جبکہ مدینہ پر آپ حضرت عثمان (رض) کو خلیفہ بنا آئے تھے۔ ابن سعد
امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : یہ اچھی روایت ہے اس کے متعدد شواہد مزید ہیں اور اس کی مثل روایت قبول عام پاتی ہے اور لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔

14078

14078- عن حبان الصائغ قال: كان نقش حاتم أبي بكر نعم القادر الله. "ابن سعد والحبلى في الديباج وأبو نعيم في المعرفة"
14078 حبان الصائغ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی انگوٹھی پر یہ نقش تھا : نعم القادر اللہ اللہ بہترین قدرت والا ہے۔ ابن سعد، الحیلی فی الدیباج، ابونعیم فی المعرفۃ

14079

14079- عن أبي سعيد الخدري قال: لما توفي رسول الله قام خطباء الأنصار، فجعل الرجل منهم يقول: يا معشر المهاجرين إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا استعمل رجلا منكم قرن معه رجلا منا فنرى أن يلي هذا الأمر رجلان أحدهما منكم والآخر منا، فتتابعت خطباء الأنصار على ذلك، فقام زيد بن ثابت فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان من المهاجرين، وإن الإمام يكون من المهاجرين ونحن أنصاره، كما كنا أنصار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام أبو بكر فقال: جزاكم الله يا معشر الأنصار خيرا، وثبت قائلكم، ثم قال: أما والله لو فعلتم غير ذلك لما صالحناكم، ثم أخذ زيد بن ثابت بيد أبي بكر فقال: هذا صاحبكم فبايعوه، ثم انطلقوا، فلما قعد أبو بكر على المنبر نظر في وجوه القوم، فلم ير عليا فسأل عنه فقام الناس من الأنصار، فأتوا به فقال أبو بكر: ابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وختنه أردت أن تشق عصا المسلمين فقال: لا تثريب يا خليفة رسول الله فبايعه، ثم لم ير الزبير بن العوام فسأل عنه حتى جاؤوا به فقال: ابن عمة رسول الله صلى الله عليه وسلم وحواريه أردت أن تشق عصا المسلمين فقال مثل قوله: لا تثريب يا خليفة رسول الله فبايعاه. "ط وابن سعد ش وابن جرير ق ك كر"
14079 ابوسعید الخدری (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو انصار کے خطباء کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا : اے گروہ مہاجرین ! رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم میں سے کسی آدمی کو امارت کی کوئی ذمہ داری سونپتے تھے تو اس کے ساتھ ایک آدمی ہمارا بھی ملا دیتے تھے۔ لہٰذا ہمارا خیال ہے کہ اب امارت کے بھی دو آدمی والی بنیں ایک تم میں سے اور ایک ہم میں سے۔ چنانچہ انصار کے دوسرے مقررین بھی اسی بات کا اصرار کرنے لگے۔ پھر حضرت زید بن ثابت (جو انصاری صحابی ہی تھے) کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین میں سے تھے اور امام بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے مددگار بنیں گے ۔ جس طرح ہم پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (انصار) مددگار تھے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیر اوثبت قائلکم، اے گروہ انصار اللہ تم کو اچھا بدلہ عطا فرمائے اور تمہارے کہنے والے کو ثابت قدم رکھے۔ پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر تم اس کے علاوہ کوئی کام کرو گے (مثلاً دو امیروں والی بات) تو ہم ہرگز تمہارے ساتھ صلح نہ کریں گے۔ پھر حضرت زید بن ثابت (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں کو ارشاد فرمایا : یہ تمہارے ساتھ ہیں ان کی بیعت کرلو۔ پھر لوگ چل پڑے۔ اور حضرت ابوبکر (رض) نے منبر پر بیٹھ کر لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھا لیکن۔ ان بیعت کرنے والوں میں حضرت علی (رض) نظر نہ آئے۔ ان کے متعلق پوچھا تو انصاری حضرات جاکر ان کو لے آئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے بیٹے اور ان کے داماد ! کیا تم مسلمانوں کی۔ بنی ہوئی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہو۔ جو بیعت کرنے نہیں آئے حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! بیعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے بھی آپ کی بیعت کرلی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کو زبیر بن العوام بھی نظر نہ آئے۔ ان کے متعلق پوچھا تو لوگ ان کو بھی لے آئے۔ ابوبکر (رض) نے ان کو فرمایا : اے رسول اللہ کی پھوپھی کے بیٹے ! اے رسول اللہ کے حواری۔ ساتھی کیا تو مسلمانوں کی لاٹھی توڑنا چاہتا ہے ؟ انھوں نے بھی حضرت علی (رض) کے مثل جواب دیا کہ کوئی حرج نہیں۔ بیعت میں پھر انھوں نے بھی بیعت کرلی۔
ابوداؤد، ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر، السنن للبیہقی، مستدرک الحاکم، ابن عساکر

14080

14080- عن سهل بن أبي حثمة وصبيحة التيمي وجبير بن الحويرث وهلال دخل حديث بعضهم في بعض أن أبا بكر الصديق كان له بيت مال بالسنح معروف ليس يحرسه أحد فقيل له: يا خليفة رسول الله ألا تجعل على بيت المال من يحرسه؟ فقال: لا يخاف عليه، فقلت: لم قال عليه قفل وكان يعطى ما فيه حتى لا يبقى فيه شيء، فلما تحول أبو بكر إلى المدينة حوله فجعل بيت ماله في الدار التي كان فيها، وكان قدم عليه مال من معادن القبلية ومن معادن جهينة كثير، وانفتح معدن بني سليم في خلافة أبي بكر فقدم عليه منه بصدقته فكان يوضع ذلك في بيت المال، وكان أبو بكر يقسمه على الناس [نفرا نفرا] فيصيب كل مائة إنسان كذا وكذا وكان يسوي بين الناس في القسم الحر والعبد والذكر والأنثى والصغير والكبير فيه سواء وكان يشتري الإبل والخيل والسلاح، فيحمل في سبيل الله، واشترى عاما قطائف أتي بها من البادية، ففرقها في أرامل أهل المدينة، في الشتاء، فلما توفي أبو بكر ودفن دعا عمر بن الخطاب الأمناء، ودخل بهم بيت مال أبي بكر ومعه عبد الرحمن بن عوف وعثمان بن عفان ففتحوا بيت المال، فلم يجدوا فيه دينارا ولا درهما ووجدوا خيشةللمال [فنفضت] فوجدوا فيها درهما، فترحموا على أبي بكر وكان بالمدينة وزان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان يزن ما كان عند أبي بكر من مال فسئل الوزان، كم بلغ ذلك المال الذي ورد على أبي بكر؟ قال: مائتي ألف. "ابن سعد"
14080 سہل بن ابی حثمہ اور صبیحۃ تیمی اور جبیر بن الحویرث اور ھلال سے مروی ہے سب حضرات کے کلام کا خلاصہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا بیت المال سخ میں تھا اور مشہور تھا۔ اس کے باوجود اس کی حفاظت کوئی نہ کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو کسی نے کہا : اے خلیفہ رسول اللہ ! آپ بیت المال پر کسی کو چوکیدار کیوں نہیں مقرر کرتے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : نہیں، اس پر کا ہے کا خوف ! راوی نے کہا : میں نے عرض کیا : وہ کیوں (خوف کیوں نہیں ؟ ) فرمایا : اس پر تالا لگا ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس میں مال دیتے رہتے تھے حتیٰ کہ کچھ باقی نہ بچتا تھا۔ جب حضرت ابوبکر (رض) مدینہ منتقل ہوگئے تو بیت المال بھی اسی گھر میں بنوالیا جہاں آپ رہائش پذیر تھے۔ آپ کے پاس قبیلہ اور جہینہ کی کانوں سے بہت مال آتا تھا نیز بنی سلیم کی معدن بھی خلافت ابی بکر میں کھل گئی تھی۔ چنانچہ اس کی زکوۃ بھی آئی۔ آپ (رض) سارا مال بیت المال میں رکھوادیا کرتے تھے۔ اور پھر اس کو لوگوں میں گروہ گروہ بنا کر تقسیم کرتے تھے۔ چنانچہ ہر سو آدمیوں کو ایک خاص حصہ دیدیتے تھے۔ اور مال کی تقسیم میں آزاد ، غلام، مرد ، عورت اور چھوٹے بڑے سب کو برابر رکھتے تھے۔ نیز آپ اونٹ گھوڑوں اور اسلحہ کو خرید لیتے تھے پھر ان کو جہاد فی سبیل اللہ میں کام لاتے تھے۔ ایک سال آپ نے دیہات سے لائی جانے والی چادریں خرید لیں۔ اور ان کو سردیوں میں مدینہ کے فقیر مسکینوں میں تقسیم کردیا۔ جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو حضرت عمر (رض) نے امناء (منشیوں) کو بلایا اور ان کے ساتھ حضرت ابوبکر (رض) کے بیت المال میں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف اور عثمان بن عفان بھی تھے۔ جب ان لوگوں نے بیت المال کھولا تو اس میں کوئی دینار ملا اور نہ درہم۔ ہاں ایک ہلکا سا کپڑا پڑا تھا اس کو جھاڑا گیا تو اس میں سے ایک درہم گرا۔ تب ان حضرات کو حضرت ابوبکر (رض) پر بہت ترس اور رحم آیا۔ مدیہ میں ایک وزان ۔ ناپ تول کرنے والا تھا جو عہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی یہی کام کرتا تھا اور حضرت ابوبکر (رض) کے بیت المال کی ناپ تول کرنے والا بھی یہی شخص تھا اس سے پوچھا گیا کہ ابوبکر (رض) کے پاس جو مال آیا وہ کل ملا کر کس قدر ہوگا ؟ اس نے کہا دو لاکھ درہم ۔ لیکن آپ نے سب کا سب اللہ کی راہ میں غریب غرباء میں تقسیم فرماتے رہے اور سب کو جیسا کہ پیچھے گزرا برابر حصہ دیتے رہے۔
ابن سعد

14081

14081- عن أبي بكر أنه قال: يا أيها الناس إن كنتم ظننتم أني أخذت خلافتكم رغبة فيها أو إرادة استيثار عليكم وعلى المسلمين فلا، والذي نفسي بيده ما أخذتها رغبة فيها ولا استيثارا عليكم ولا على أحد من المسلمين ولا حرصت عليها ليلة ولا يوما قط، ولا سألت الله سرا ولا علانية ولقد تقلدت أمرا عظيما لا طاقة لي به إلا أن يعين الله تعالى ولوددت أنها إلى أي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على أن يعدل فيها فهي إليكم رد ولا بيعة لكم عندي، ولا بيعة لكم عندي، فادفعوا لمن أحببتم فإنما أنا رجل منكم. "أبو نعيم في فضائل الصحابة".
14081 اے لوگو ! اگر تمہارا گمان ہے کہ میں نے تمہاری خلافت رغبت اور شوق سے لی ہے یا تم پر اور مسلمانوں پر غلبہ پانے کے لیے کی ہے تو ایسی بات ہرگز نہیں ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے اس کو نہ رغبت کے ساتھ لیا ہے اور نہ تم پر اور نہ کسی مسلمان پر غلبہ پانے کے لیے کیا ہے۔ میں نے تو ایک دن یا ایک رات بھی اس کی حرص نہیں رکھی۔ اور کبھی خفیہ یا اعلانیہ اللہ سے اس کا سوال کیا ہے۔ میں نے ایک عظیم ذمہ داری کو اپنے گلے کا ہار بنایا ہے۔ جس کے اٹھانے کی مجھے طاقت نہی الہ یہ کہ اللہ پاک مدد کرے۔ میری تو دل کی خواہش ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی صحابی اس خلافت کو عدل کے ساتھ چلائے تو میں یہ ذمہ داری تم کو واپس کردیتا ہوں اور یہ سمجھو کہ میری کسی نے بیعت ہی نہیں کی میری کسی نے بیعت ہی نہیں کی۔ جس کو چاہو یہ ذمہ داری سونپ دو ۔ میں تم میں سے ایک عام سا آدمی ہوں۔ ابونعیم فی فضائل الصحابۃ

14082

14082- عن عروة أن أبا بكر لما استخلف ألقى كل درهم له ودينار في بيت مال المسلمين وقال: كنت أتجر فيه وألتمس به فلما وليتهم شغلوني عن التجارة والطلب فيه. "حم في الزهد".
14082 عروہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو انھوں نے اپنا سارا مال آخری دینا و درہم تک بیت المال میں ڈال دیا اور فرمایا : میں اس میں تجارت کروں گا اور اس سے روزی تلاش کروں گا کیونکہ میں جب سے مسلمانوں کا امیر بنا ہوں انھوں نے مجھے تجارت اور روزی کمانے سے روک دیا ہے۔ الزھد للامام احمد

14083

14083- عن عائشة قالت: مات أبو بكر فما ترك دينارا ولا درهما وكان قد أخذ قبل ذلك ماله فألقاه في بيت المال. "حم فيه".
14083 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی وفات ہوئی تو انھوں نے نہ کوئی دینار چھوڑا اور نہ درہم۔ اور اس سے پہلے انھوں نے اپنا سارا مال بیت المال کے حوالے کردیا تھا۔
الزھد للامام احمد

14084

14084- عن عروة أن أبا بكر خطب يوما فجاء الحسن فصعد إليه المنبر فقال: انزل عن منبر أبي، فقال علي: إن هذا شيء من غير من غير ملأ منا"ابن سعد".
14084 عروۃ (رح) سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر (رض) نے خطبہ دیا، خطبے کے دوران نواسہ رسول حضرت حسن (رض) آکر منبر پر چڑھ گئے اور بولے : میرے بابا کے منبر سے اتر جائیے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ بات ہماری طرف سے اس کو سکھائی نہیں گئی۔ ابن سعد

14085

14085- عن عبد الرحمن بن الأصبهاني قال: جاء الحسن بن علي إلى أبي بكر وهو على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: انزل عن مجلس أبي قال صدقت، إنه مجلس أبيك وأجلسه في حجره وبكى، فقال علي: والله ما هذا عن أمري، فقال: صدقت والله ما اتهمتك. "أبو نعيم والجابري في جزئه".
14085 عبدالرحمن بن الاصبہانی سے مروی ہے کہ حضرت حسن بن علی (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے آپ (رض) منبر رسول اللہ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ حضرت حسن (رض) نے کہا : میرے بابا کی مسند سے اتر جائیے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو۔ یہ تمہارے بابا کی ہی مسند ہے۔ پھر آپ (رض) نے حضرت حسن کو اپنی گود میں بٹھایا اور رو پڑے۔
حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ میرے حکم سے نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تم سچ کہتے ہو ، میں بھی تم پر تہمت عائد نہیں کررہا۔ ابونعیم والجابری فی جزہ ۔

14086

14086- عن ابن رباح قال: بعث أبو بكر الصديق بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم حاطبا إلى المقوقس بمصر فمر على ناحية قرى الشرقية فهادنهم وأعطوه، فلم يزالوا على ذلك حتى دخلها عمرو بن العاص، فقاتلوا فانتقض ذلك العهد. "ابن عبد الحكم في فتوح مصر".
14086 ابن رباح سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت کے بعد حاطب کو مقوقس شاہ مصر کے پاس (ایلچی بنا کر) بھیجا۔ وہ مشرق بستیوں کے کنارے پر سے گزرے تو ان سے صلح کی بات کی اور انھوں نے آپ کو جزیہ دیا۔ پھر وہ بستی والے اسی طرح چلتے رہے حتیٰ کہ مصر میں عمرو بن العاص نے لشکر کشی کی اور قتال کیا اور پہلا معاہدہ ختم ہوگیا۔ ابن عبدالحکم فی فتوح مصر

14087

14087- عن محمد بن إبراهيم قال: كان أبو بكر ينفق على مارية حتى توفي، ثم كان عمر ينفق عليها حتى توفيت في خلافته. "ابن سعد".
14087 محمد بن ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) ماریۃ (رض) کے اخراجات اٹھاتے تھے حتیٰ کہ آپ (رض) کی وفات ہوگئی پھر حضرت عمر (رض) ان کے اخراجات برداشت کرتے تھے حتیٰ کہ ماریہ ہی ان کے عہد خلافت میں انتقال کرگئیں۔ ابن سعد

14088

14088- أخبرنا محمد بن عمر [هو الواقدي] حدثني عمرو بن عمير بن هني مولى عمر بن الخطاب عن جده أن أبا بكر الصديق لم يحم من الأرض إلا النقيعوقال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حماه وكان يحميه للخيل التي يغزي عليها وكانت إبل الصدقة إذا أخذت عجافا أرسل بها إلى الربذة وما والاها ترعى هنالك ولا يحمي لها شيئا ويأمر أهل المياه لا يمنعون من ورد عليهم يشرب معهم ويرعى عليهم، فلما كان عمر بن الخطاب وكثر الناس وبعث البعوث إلى الشام وإلى مصر وإلى العراق حمى الربذة واستعملني على الربذة. "ابن سعد"
14088 ہمیں محمد بن عمر (واقدی) نے خبر دی کہ مجھے زمین اپنے لیے حمصی (خاص) نہیں کی سوائے نقیع کے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے (جہادی) گھوڑوں کے لیے خاص کررکھی تھی۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تھا کہ آپ نے اس جگہ کو اپنے لیے خاص کیا تھا اور اس میں اپنے گھوڑوں کی حفاظت کرتے تھے جو جہاد میں کام آتے تھے۔ اور جب آپ (رض) کے زمانے میں کمزور لاغر اونٹ آپ کے پاس آتے تو ان کو ربذۃ بھیج دیتے اور جوان اونٹوں کی نگہبانی کرتا وہ بھی وہیں چراتا تھا۔ اور ربذۃ کو حمی (خاص) نہیں کیا تھا۔ بلکہ اہل چشموں کو حکم دیا تھا کہ جو ربذہ میں اپنے جانوروں کو پانی پلانے (چرانے) لائے ان کو روکا نہ جائے۔ لیکن جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کا زمانہ آیا او لوگ زیادہ ہوگئے اور حضرت عمر (رض) نے ملک شام، مصر اور عراق کی طرف لشکر بھیجے تو ربذۃ کو حمی (خاص) کرلیا راوی کہتے ہیں اور مجھے وہاں کا عامل نگران مقرر کردیا۔ ابن سعد

14089

14089- عن الحارث بن الفضيل قال: لما عقد أبو بكر ليزيد بن أبي سفيان فقال: يا يزيد إنك شاب تذكر بخير قد رؤي منك، وذلك شيء خلوت به في نفسك، وقد أردت أن أبلوك واستخرجك من اهلك، فانظر كيف أنت وكيف ولايتك؟ وأخبرك فإن أحسنت زدتك، وإن أسأت عزلتك وقد وليتك عمل خالد بن سعيد، ثم أوصاه بما أوصاه يعمل به في وجهه وقال له: أوصيك بأبي عبيدة بن الجراح خيرا، فقد عرفت مكانه من الإسلام، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لكل أمة أمين وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح، فاعرف له فضله وسابقته، وانظر معاذ بن جبل فقد عرفت مشاهده مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يأتي إمام العلماء بربوةفلا تقطع امرا دونهما، وإنهما لن يألوا بك خيرا، قال يزيد: يا خليفة رسول الله أوصهما بي كما أوصيتني بهما قال أبو بكر: لن أدع أن أوصيهما بك، فقال يزيد: يرحمك الله وجزاك الله عن الإسلام خيرا. "ابن سعد" وفيه الواقدي
14089 حارث بن فضیل سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے یزید بن ابی سفیان (کو گورنر بنانے) کے متعلق حتمی ارادہ فرمالیا تو ان کو فرمایا : اے یزید ! تو جوان آدمی ہے اور تیرا نام خیر کے ساتھ لیا جاتا ہے یقیناً تیرے اندر لوگوں نے اچھی چیزیں دیکھی ہونگی یہ بات تیرے دل میں ہوگی۔ کہ وہ کیا اچھی باتیں ہیں اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں تیرا امتحان لوں اور تجھے تیرے گھر والوں سے دور بھیجوں۔ لہٰذا تو دیکھ لے کہ تو یہ ذمہ داری اٹھائے گا ؟ میں تجھے پہلے خبردا کردیتا ہوں کہ اگر تو نے اچھے کام کیے تو میں تمہارے (عہدے میں) اضافہ کردوں گا اور اگر تم نے برائی کا راستہ اختیار کیا تو تم کو معزول کردوں گا۔ پس میں تم کو خالد بن سعید کی جگہ گورنر بناتا ہوں۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو ذاتی زندگی سے متعلق نصیحتیں فرمائیں پھر فرمایا : میں تم کو خاص طور پر ابوعبیدۃ (رض) بن الجراح کا خیال رکھنے کو کہتا ہوں ، تم اسلام میں ان کے مرتبے سے اچھی طرح واقف ہوگے ہی اور رسول اللہ نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :
ہر امت کا کوئی امین ہوتا ہے، اس امت کا امین ابوعبیدۃ بن الجراح ہے۔
لہٰذا تم ان کی فضیلت کو اور ان کی مسابقت فی الاسلام کو مدنظر رکھنا۔ اور معاذ بن جبل کا بھی خیال رکھنا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کی رفاقت کو جانتے ہوگے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا :
امام العلماء اپنے فریضے کو زیادہ نبھاتا ہے (اور ان سے بڑا عالم اس علاقے میں کوئی نہیں جہاں تم جارہے ہو) لہٰذا تم دونوں حضرات معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنا اور وہ بھی تمہارے ساتھ خیر برتنے میں کوئی کمی نہ کریں گے۔
یزید نے عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! جس طرح آپ نے مجھے ان کے متعلق نصیحتیں فرمائی ہیں آپ ان کو بھی میرے متعلق کچھ نصیحت فرمادیں۔
حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ان کو تمہارے متعلق نصیحت کرنے میں ہرگز کوتاہی نہ کروں گا۔ یزید نے عرض کیا : اللہ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کو اسلام کی طرف سے اچھا بدلہ عطا کرے۔
ابن سعد
کلام : روایت کی سند میں انتہائی ضعیف راوی واقدی ہے۔ اس حدیث میں مذکورہ قولی بخاری کتاب المناقب مناقب ابی عبیدہ میں موجود ہے۔

14090

14090- عن جعفر بن عبد الله بن أبي الحكم قال: لما بعث أبوبكر أمراءه إلى الشام يزيد بن أبي سفيان وعمرو بن العاص وشرحبيل بن حسنة ويزيد بن أبي سفيان على الناس قال: إن اجتمعتم في كيد فيزيد على الناس، وإن تفرقتم فمن كانت الواقعة مما يلي معسكره فهو على أصحابه. "ابن سعد".
14090 جعفر بن عبداللہ بن ابی الحکم سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے امراء (گورنروں) یعنی یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص اور شرحبیل بن حسنہ کو ملک شام کی طرف بھیجا تو ان کو فرمایا : اگر تم کسی ایک جگہ میں جمع ہوجاؤ تو تمہارے اور تمہارے ماتحت سب لوگوں کے امیر یزید بن ابی سفیان ہوں گے اور اگر تم مختلف لشکروں میں بٹ جاؤ تو جو جس لشکر میں ہوگا وہ ان سب کا امیر ہوگا۔

14091

14091- عن ابن أبي عون وغيره أن خالد بن الوليد ادعى أن مالك بن نويرة ارتد بكلام بلغه عنه، فانكر مالك ذلك، وقال: أنا على الإسلام ما غيرت ولا بدلت وشهد له بذلك أبو قتادة وعبد الله بن عمر فقدمه خالد وامر ضرار بن الأزور الأسدي فضرب عنقه، وقبض خالد امرأته، فقال لأبي بكر: إنه قد زنى فارجمه، فقال أبو بكر: ما كنت لأرجمه تأول فأخطأ، قال: فإنه قد قتل مسلما فاقتله قال: ما كنت لأقتله تأول فأخطأ، قال: فاعزله، قال: ما كنت لأشيمسيفا سله الله عليهم أبدا. "ابن سعد".
14091 ابن ابی عون وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے دعویٰ کیا کہ مالک بن نویرۃ نے۔ اپنے شاعری کے کلام میں ارتداد کا ارتکاب کرلیا ہے جو ان کو پہنچ گیا ہے۔ لیکن مالک نے اس بات کا خود انکار کردیا اور بولے : میں اسلام پر ثابت قدم ہوں میں نے کوئی اور نہ دین پسند کیا ہے اور نہ اسلام کو بدلا ہے۔ اس بات پر ابوقتادہ (رض) اور ابن عمر (رض) نے بھی شہادت پیش کی (کہ واقعی مالک اپنے اسلام پر قائم ہے) لیکن خالد (رض) نے مالک کو آگے بلایا اور ضرار بن الزور کو حکم دیدیا چنانچہ ضرار نے ان کی گردن اڑا دی۔ پھر خالد (رض) نے مالک کی بیوی پر قبضہ کرلیا۔ حضرت ابوبکر (رض) کو کہنے والے نے کہا : خالد نے (مالک کی بیوی کے ساتھ) زنا کیا ہے لہٰذا ان کو سنگسار کیجئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں ان کو سنگسار نہیں کرسکتا کیونکہ انھوں نے تاویل کی تھی جس میں ان سے غلطی ہوگئی (تاویل یہ کی کہ وہ مرتد غیر مسلم کی بیوی ہے اور اس کے قتل کے بعد یہ ان کی قیدی اور باندی بن گئی ہے) ۔ کہنے والے نے حضرت ابوبکر (رض) کو کہا : کہ خالد نے ایک مسلمان (مالک) کو قتل کیا ہے لہٰذا اس کے قصاص میں ان کو قتل کیجئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں ان کو قتل بھی نہیں کرسکتا کیونکہ انھوں نے تاویل کی تھی کہ جس میں اس سے غلطی ہوگئی کہ مالک نے ایسا شعر کہا ہے جو اس کے ارتداد کا ثبوت ہے پھر کہنے والے نے کہا : پھر آپ خالد کو (لشکر کی سپہ سالاری سے) معزول کردیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا میں کبھی بھی ایسی تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جو اللہ نے کافروں پر سونت لی ہے۔ ابن سعد

14092

14092- عن يزيد بن عبيد السعدي أبي وجزة قال: مر أبو بكر بالناس في معسكرهم بالجرفينسب القبائل حتى مر ببني فزارة، فقام إليه رجل منهم فقال: مرحبا بكم، فقالوا: يا خليفة رسول الله نحن أحلاس الخيل وقد وفدنا الخيول معنا، قال: بارك الله فيكم، قالوا: فاجعل اللواء الأكبر معنا، فقال أبو بكر: لا أغيره عن موضعه وهو في بني عبس، فقال الفزاري: أتقدم علي من أنا خير منه؟ فقال أبو بكر: اسكت يالكع هو خير منك أقدم إسلاما ولم يرجع منهم رجل وقد رجعت وقومك عن الإسلام، فقال العبسي: وهو ميسرة بن مسروق ألا تسمع ما يقول يا خليفة رسول الله فقال: اسكت فقد كفيت. "ابن سعد".
14092 ابو وجزۃ یزید بن عبید السعدی سے مروی ہے حضرت ابوبکر (رض) جرف (مدینے کے قریب ایک) مقام پر تشریف لے گئے جہاں اسلامی لشکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ قبائل ایک دوسرے کے سامنے اپنے حسب نسب بیان کررہے تھے۔ آپ (رض) کے فزارہ قبیلے کے پاس سے گزر ہوا تو ان میں سے ایک اٹھا اور اس نے آپ کو عرض کیا : خوش آمدید ! پھر مزاریوں نے مل کر کہا کہ اے خلیفہ رسول ! ہم گھوڑوں کے عادی لوگ ہیں اور اپنے ساتھ گھوڑے لائے ہیں۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ تم کو ان میں برکت نصیب کرے۔ فزاری لوگ بولے : آپ اس لیے بڑا علم ہمارے قبیلے کے حوالے فرمادیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں اس کو اس کی جگہ سے تبدیل نہیں کرسکتا بنی عبس میں ہے۔ فزاری نے کہا : آپ ان کو ہم پر مقدم کررہے ہیں جن سے ہم کہیں بہتر ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اوکمینے ! چپ رہ۔ وہ تم سے بہتر ہیں، وہ پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان میں سے کوئی آدمی اسلام لانے کے بعد اسلام سے واپس نہیں لوٹا۔ حالانکہ تو بھی اور تیری قوم کے لوگ بھی اسلام سے ۔ ایک بار پھر چکے ہیں۔ عبسی جو میسرۃ بن مسروق تھا نے کہا اس کو کہا : کیا تو خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات نہیں سن رہا ؟ فزاری بولا : تو چپ رہ ! تجھے تو سب کچھ مل گیا ہے۔
ابن سعد

14093

14093- عن عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع قال: قال عمر بن الخطاب لأبان بن سعيد حين قدم المدينة: ما كان حقك أن تقدم وتترك عملك بغير إذن إمامك، ثم على هذه الحالة، ولكنك أمنته، فقال أبان أما أني والله ما كنت لأعمل لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم كنت عاملا لأبي بكر لفضله وسابقته وقديم إسلامه، ولكن لا أعمل لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وشاور أبو بكر أصحابه فيمن يبعث إلى البحرين، فقال له عثمان بن عفان: ابعث رجلا قد بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم فقدم عليه بإسلامهم وطاعتهم، وقد عرفوه وعرفهم وعرف بلادهم يعني العلاء الحضرمي فأبى ذلك عمر عليه وقال: أكره أبان بن سعيد بن العاص، فإنه رجل قد حالفهم فأبى أبو بكر أن يكرهه وقال: لا أكره رجلا يقول: لا أعمل لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأجمع أبو بكر بعثة العلاء بن الحضرمي إلى البحرين. "ابن سعد".
14093 عبدالرحمن بن سعید بن یربوع سے مروی ہے کہ ابان بن سعید مدینے واپس تشریف لے آئے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : تم کو یہ حق نہیں تھا کہ امام وقت کی اجازت کے بغیر اپنے عہدے کو چھوڑ کر واپس آجاتے۔ اور وہ بھی ایسے حالات میں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد لوگ اسلام میں کمزور پڑ رہے ہیں آپ تو اس عہدے کے امانت دار تھے۔
ابان بن سعید نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشنودی کے لیے یہ کام کرتا تھا، پھر (کچھ عرصہ) ابوبکر (رض) کی فضیلت اور مسابقت فی الاسلام کی وجہ سے یہ کام کیا۔ اب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کے لیے بھی یہ عہدہ نہیں گوارا کرسکتا۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ اب کس کو بحرین پر گورنر بنا کر بھیجا جائے۔ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا : ایسا ایک آدمی ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحرین والوں پر عامل (گورنر) بنایا تھا۔ ان کے ہاتھوں پر وہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی اطاعت کا اظہار کیا۔ اور وہ بھی ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان کے علاقے سے بھی واقف کار ہے۔ وہ ہے حضرت العلاء بن الحضرمی۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے اس کا انکار کردیا اور عرض کیا کہ آپ ابان بن سعید ہی کو اس کام پر مجبور کریں۔ کیونکہ وہ بحرین والوں کا حلیف (دوست) ہے۔ لیکن حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو اس عہدے پر مجبور کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا : میں اسے شخص کو کیسے مجبور کرسکتا ہوں جو کہتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے علاء بن حضرمی کو بحرین بھیجنے پر اتفاق رائے کرلیا۔ ابن سعد

14094

14094- عن المطلب بن السائب بن أبي وداعة قال: كتب أبو بكر الصديق إلى عمرو بن العاص أني كتبت إلى خالد بن الوليد ليسير إليك مددا لك؛ فإذا قدم عليك فأحسن مصاحبته ولا تطاول عليه، ولا تقطع الأمور دونه، لتقديمي إياك عليه وعلى غيره شاورهم ولا تخالفهم. "ابن سعد".
14094 مطلب بن سائب بن ابی وداعۃ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ میں نے خالد بن ولید کو حکم بھیج دیا ہے کہ وہ (اپنے لشکر کے ساتھ) تمہارے پاس آئے تاکہ تم کو کمک ملے۔ لہٰذا جب وہ تشریف لے آئیں تو ان کے ساتھ اچھا سولک رکھنا اور ان کو تنگی میں نہ ڈالنا اور نہ ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنا اگرچہ میں نے تم کو ان پر اور دوسرے امراء پر مقدم کررکھا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں سے بھی اپنی مہمات میں مشاورت کرتے رہو اور ان کی مخالفت نہ کرو۔ ابن سعد

14095

14095- عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم قال: أجمع أبو بكر أن يجمع الجيوش إلى الشام كان أول من سار من عماله عمرو بن العاص، وامره أن يسلك على أيلة عامدا لفلسطين، وكان جند عمرو الذين خرجوا من المدينة ثلاثة آلاف فيهم ناس كثير من المهاجرين والأنصار وخرج أبو بكر الصديق يمشي إلى جنب راحلة عمرو بن العاص وهو يوصيه ويقول: يا عمرو؛ اتق الله في سر أمرك وعلانيته واستحيه فإنه يراك ويرى عملك وقد رأيت تقديمي إياك على من هم أقدم سابقة منك، ومن كان أعظم غنى عن الإسلام وأهله منك، فكن من عمال الآخرة، وأرد بما تعمل وجه الله، وكن والدا لمن معك ولا تكشفن الناس عن أستارهم، واكتف بعلانيتهم، وكن مجدا في أمرك وأصدق اللقاء إذا لقيت ولا تجبن وتقدم في الغلولوعاقب عليه وإذا وعظت أصحابك فأوجز، وأصلح نفسك تصلح لك رعيتك. "ابن سعد".
14095 عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارادہ فرمایا کہ تمام لشکروں کو ملک شام کرادیں۔ عاملین میں سے سب سے پہلے آپ کے عامل حضرت عمرو بن العاص تھے۔ آپ (رض) نے ان کو حکم دیا کہ وہ فلسطین پر لشکر کشی کے ارادے سے ایلۃ مقام پر پہنچیں ۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) کا لشکر جب مدینہ سے نکلا، تین ہزار افراد پر مشتمل تھا حسن چل رہے تھے اور عمرو بن العاص کو ۔ جو سوار تھے وصیت کرتے جارہے تھے : اے عمرو ! اپنے باطن میں اور ظاہر میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اللہ سے حیاء کرتے رہنا بیشک وہ تجھے ہر آن دیکھ رہا ہے اور طرف بھی خوب دیکھ رہا ہے۔ دیکھو ! میں نے تم کو ایسے لوگوں پر بھی مقدم کردیا ہے (امیر) بنادیا ہے۔ وہ تجھ سے اسلام میں پہلے داخل ہونے والے ہیں اور ایسے لوگوں پر بھی تجھے مقدم کردیا ہے جو اسلام اور ابن اسلام سے نسبت تیرے زیادہ غنی ہیں۔ لہٰذا آخرت کے عاملین میں سے بن اور جو بھی تو عمل کرے اس کے ساتھ اللہ کی رضاء کو مدنظر رکھ۔ اپنے ساتھ والوں کے لیے ان کے باپ کے قائم مقام بن جا۔ لوگوں کے چھپے ہوئے اموال وعیوب کے پیچھے نہ پڑنا، بلکہ ان کے ظاہر پر اکتفاء کرنا۔ اپنے کام میں تندہی دکھانا۔ جب دشمن سے تیری مڈبھیڑ ہو تو سچائی کے ساتھ لڑائی کے جوہر دکھا، بزدلی کو پاس بھی نہ آنے دینا اور جو مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب ہو اس کی پکڑ کر اور اس کو سزا دے اور جب تو اپنے ساتھیوں کو وعظ کرے تو مختصر بات کر۔ اپنی ذات کی اصلاح رکھ، تیری رعایا تیرے لیے درست ہوجائے گی۔ ابن سعد

14096

14096- عن عبد الحميد بن جعفر عن أبيه أن أبا بكر قال لعمرو بن العاص: إني قد استعملتك على من مررت من بلى وعذرة وسائر قضاعة ومن سقط هناك من العرب؛ فاندبهم إلى الجهاد في سبيل الله، ورغبهم فيه، فمن تبعك منهم فاحمله وزوده، ووافق بينهم واجعل كل قبيلة على حدتها ومنزلتها. "ابن سعد".
14096 عبدالحمید بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عمرو بن العاص (رض) کو ارشاد فرمایا : میں نے تم کو قبائلی بلی، عذرۃ، قضاعۃ کی تمام شاخوں اور اس علاقے میں جتنے باقی ماندہ عرب ہیں سب پر عامل بنادیا ہے۔ لہٰذا ن کو جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بلانا اور جہاد کی ترغیب دینا۔ پس جو تیری بات مان لیں ان کو سواری دینا اور زادراہ دینا۔ ان کے ساتھ موافقت کا برتاؤ کرنا اور ہر قبیلے کو الگ الگ مقام پر اتارنا۔ ابن سعد

14097

14097- عن عمر بن الخطاب قال: لما كان اليوم الذي توفي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بويع لأبي بكر في ذلك اليوم، فلما كان من الغد جاءت فاطمة إلى أبي بكر معها علي فقالت: ميراثي من رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي، قال: أمن الرثةأو من العقد؟ قالت: فدك وخيبر وصدقاته بالمدينة أرثها كما ترثك بناتك إذا مت، فقال أبو بكر: أبوك والله خير مني وأنت خير من بناتي، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نورث ما تركناه صدقة يعني هذه الأموال القائمة فتعلمين أن أباك أعطاكها؛ فوالله لئن قلت: نعم لأقبلن قولك، ولأصدقنك، قالت: جاءتني أم أيمن فأخبرتني أنه أعطاني فدك قال عمر: فسمعته يقول: هي لك فإذا قلت قد سمعته فهي لك، فأنا أصدقك فأقبل قولك، قالت: قد أخبرتك بما عندي. "ابن سعد" ورجاله ثقات سوى الواقدي
14097 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ جس دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا اسی روز حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی گئی۔ اس سے اگلے روز حضرت فاطمہ (رض) حضرت علی (رض) کے ساتھ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئیں اور عرض کیا : میرے والد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث مجھے دیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے پوچھا : کیا وراثت میں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو دینے کا فرمایا تھا ؟ فاطمہ (رض) نے فرمایا : فدک، خیبر اور مدینے کے اموال صدقات میں میں ان کی وارث بنوں گی جس طرح آپ کے انتقال کے بعد آپ کی بیٹیاں وارث بنیں گی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم تیرا بات مجھ سے بہتر تھا اور تم میری بیٹیوں سے بہتر ہو۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا : ہم اپنا وارث کسی کو نہیں بناتے، جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ مذکورہ اموال۔ لہٰذا اگر تم کو معلوم ہے کہ تمہارے والد مکرم نے یہ اموال تم کو عطا کردیئے ہیں تو ہاں کرو، ہم تمہاری بات خدا کی قسم قبول کریں گے اور تم کو یہ اموال دیدیں گے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : میرے پاس ام ایمن (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی اور آپ کی پرورش کرنے والی) آئی تھیں انھوں نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فدک دیدیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہاں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ باغ فدک تمہارے لیے ہے۔ پس تم نے بھی یہ سنا ہے اور میں تمہاری بات قبول کرتا ہوں۔ حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : میرے پاس جو علم تھا میں نے تم کو بتادیا ۔ ابن سعد
کلام : روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے واقدی کے جو انتہائی ضعیف ہے۔

14098

14098- عن أم خالد بنت [خالد] سعيد بن العاص قالت: قدم أبي من اليمن إلى المدينة بعد أن بويع لأبي بكر، فقال لعلي وعثمان: أرضيتم بني عبد مناف أن يلي هذا الأمر عليكم غيركم؟ فنقلها عمر إلى أبي بكر فلم يحملها أبو بكر على خالد وحملها عمر عليه، وأقام خالد ثلاثة أشهر لم يبايع أبا بكر ثم مر عليه أبو بكر بعد ذلك مظهرا هو عليه وهو في داره فسلم عليه فقال له خالد: أتحب أن أبايعك؟ فقال أبو بكر: أحب أن تدخل في صالح مادخل فيه المسلمون فقال: موعدك العشية أبايعك، فجاء وأبو بكر على المنبر فبايعه وكان رأي أبي بكر فيه حسنا وكان معظما له، فلما بعث أبو بكر الجنود إلى الشام عقد له على المسلمين وجاء باللواء إلى بيته، فكلم عمر أبا بكر فقال: تولى خالدا وهو القائل ما قال؟ فلم يزل به حتى أرسل أبا أروى الدوسي، فقال: إن خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لك: اردد إلينا لواءنا فأخرجه إليه وقال: والله ما سرتنا ولايتكم ولا ساءنا عزلكم وأن المليم لغيرك فما شعرت إلا بأبي بكر داخل على أبي يتعذر إليه ويعزم عليه أن لا يذكر عمر بحرف فوالله ما زال أبي يترحم على عمر حتى مات. "ابن سعد"
14098 ام خالد بنت (خالد) بن سعید بن العاص سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت ہوجانے کے بعد میرے والد یمن سے مدینہ تشریف لے آئے ۔ انھوں نے حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) کو کہا : تم بنی عبدمناف (ابوبکر) پر کس طرح راضی ہوگئے کہ وہ تمہاری جگہ ابوبکر (رض) نے اس پر کوئی مواخذہ نہ فرمایا : لیکن حضرت عمر (رض) کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ میرے والد خالد تین ماہ بغیر ابوبکر (رض) کے بیعت کیے ٹھہرے رہے۔ پھر ایک مرتبہ حضرت ابوبکر (رض) خالد کے پاس جب وہ اپنے گھر میں تھے گزرے اور ان کو سلام کیا۔ خالد نے (سلام کے جواب کے بعد) عرض کیا : کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں آپ کی بیعت کروں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے اچھا لگے گا اگر تم اس خیر میں شامل ہوجاؤ جس میں سب مسلمان شامل ہیں۔ حضرت خالد (رض) نے فرمایا : میں آپ سے شام کا وعدہ کرتا ہوں اس وقت میں آپ کی بیعت کرلوں گا۔ چنانچہ وہ مقررہ وقت پر حاضر ہوئے اس وقت حضرت ابوبکر (رض) منبر پر تشریف فرما تھے۔ چنانچہ خالد نے آپ کی بیعت کرلی۔ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے ان کے بارے میں اچھی تھی اور آپ (رض) خالد کی تعظیم کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے جب مسلمانوں کے لیے جھنڈا تیار کیا تو وہ جھنڈا لے کر خالد (رض) کے گھر تشریف لائے۔ حضرت عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے بات کی اور عرض کیا : آپ خالد کو والی بنا رہے ہیں حالانکہ وہ ایسا ایسا کہتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) ابوبکر (رض) پر اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ابواروی الدوسی کو خالد (رض) کے پاس بھیجا۔ انھوں نے جاکر پیغام دیا کہ خلیہ رسول اللہ ! آپ کو فرماتے ہیں کہ ہمارا جھنڈا واپس کردیں۔ چنانچہ حضرت خالد (رض) نے جھنڈا نکال کر دیدیا اور فرمایا : اللہ کی قسم ! ہم کو تو تمہاری حکمرانی نے خوش کیا اور نہ تمہارے معزول کرنے نے ہم کو غم گین کیا۔ اور ملامت کرنے والا (بیخ کنی کرنے والا) تمہارے سوا کوئی اور ہے۔
ام خالد فرماتی ہیں : اتنے میں مجھے حضرت ابوبکر (رض) میرے والد کے پاس داخل ہوتے دکھائی دیئے۔ حضرت ابوبکر (رض) آکر میرے والد سے معذرت کرنے لگے۔ اور ان کو تاکید فرمائی کہ حضرت عمر (رض) سے اس کے متعلق کوئی بات نہ کریں۔ چنانچہ اللہ کی قسم ! میرے والد حضرت عمر (رض) پر ہمیشہ ترس کھاتے رہے حتیٰ کہ ان کی وفات ہوگئی۔ ابن سعد

14099

14099- عن سلمة بن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف قال: لما عزل أبو بكر خالدا ولى يزيد بن أبي سفيان جنده ودفع لواءه إلى يزيد. "ابن سعد"
14099 سلمۃ بن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن بن عوف سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے خالد کو ان کے منصب سے معزول کیا تو ان کی جگہ یزید بن ابی سفیان کو ان کے لشکر پر سپہ سالار مقرر کردیا اور ان کا جھنڈا بھی یزید کو تھما دیا۔ ابن سعد

14100

14100- عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي قال: لما عزل أبو بكر خالد بن سعيد أوصي شرحبيل بن حسنة وكان أحد الأمراء، قال: انظر خالد بن سعيد فاعرف له من الحق عليك مثل ما كنت تحب أن يعرفه لك من الحق عليه، ولو خرج واليا عليك وقد عرفت مكانه من الإسلام وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي وهو له وال، وقد كنت وليته ثم رأيت عزله، وعسى أن يكون ذلك خيرا له في دينه ما أغبط أحدا بالإمارة وقد خيرته في امراء الأجناد فاختارك على غيرك وعلى ابن عمه فإذا نزل بك أمر يحتاج فيه إلى رأي التقي الناصح فليكن أول من تبدأ به أبو عبيدة بن الجراح ومعاذ بن جبل وليكن ثالثا خالد بن سعيد فإنك واجد عندهم نصحا وخيرا، وإياك واستبداد الرأي عنهم أو تطوي عنهم بعض الخبر. "ابن سعد"
14100 محمد بن ابراہیم بن الحارث الیتمی سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے خالد بن سعید کو معزول فرمایا تو ان کے متعلق شرحبیل بن حسنہ کو وصیت فرمائی۔ شرحبیل بن حسنہ بھی امراء میں سے تھے (اور کسی لشکر پر امیر تھے) حضرت ابوبکر (رض) نے شرحبیل کو فرمایا : خالد بن سعید کا خیال رکھنا۔ اپنی ذات پر ان کا حق یاد رکھنا ، جس طرح تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارا حق یاد رکھیں۔ اگرچہ اب وہ تم پر والی (حاکم) نہیں رہے ہیں۔ لیکن تم اسلام میں ان کا رتبہ جانتے ہو، نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا تو خالد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے امیر (وگورنر) مقرر تھے۔ پھر میں نے بھی ان کو امیر مقرر کردیا تھا ، لیکن مجھے ان کو معزول کرنا زیادہ بہتر محسوس ہوا، امید ہے کہ یہی ان کے لیے ان کے دین کے حوالے سے بہتر ہوگا۔ میں جب بھی کسی کو امارت (حکمرانی) کے حوالے سے قابل رشک سمجھتا ہوں تو اس کو لشکروں کے امیر میں چن لیتا ہوں۔ پس (اے شرحبیل ! ) میں تم کو (خالد پر) اور اس کے ابن العم (اور دوسرے لوگوں) پرامیر مقرر کرتا ہوں، جب تم کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو، جس میں تم کو کسی پرہیزگار خیرخواہ کا مشورہ اور اس کی ضرورت محسوس ہو تو سب سے پہلے ابوعبیدۃ بن الجراح پھر معاذ بن جبل اور پھر خالد بن سعید کو تلاش کرنا۔ بیشک تم کو ان کے پاس نصیحت اور خیر خواہی ملے گی۔ اور ہاں ان لوگوں پر اپنی رائے مسلط کرنے سے گریز کرنا اور ان سے کسی طرح کی خبر چھپانے کی غلطی بھی نہ کرنا۔ ابن سعد

14101

14101- عن أبي جعفر قال: جاءت فاطمة إلى أبي بكر تطلب ميراثها وجاء العباس بن عبد المطلب يطلب ميراثه وجاء معهما علي، فقال أبو بكر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركناه صدقة [وما] كان النبي يعول، فقال علي: ورث سليمان داود وقال زكريا: يرثني ويرث من آل يعقوب، قال أبو بكر: هو هكذا، وأنت والله تعلم مثل ما أعلم، فقال علي: هذا كتاب الله ينطق فسكتوا وانصرفوا. "ابن سعد"
14101 ابوجعفر سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس اپنی میراث مانگنے آئیں، عباس بن عبدالمطلب (رض) بھی اپنی میراث مانگنے آئے، دونوں کے ساتھ حضرت علی (رض) بھی تشریف لائے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے۔ ہم جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل و عیال بھی ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا (اللہ کا فرمان ہے) وورث سلیسان داؤد سلیمان داؤد کے وارث بنے۔ اور زکریا (کے متعلق فرمان الٰہی ہے انہوں) نے فرمایا یمرثنی ویرث من آل یعقوب مجھے ایسی اولاد یجئے جو میری وارث بنے اور وارث بنے آل یعقوب کی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے جواباً ارشاد فرمایا : یہ حقیقت ہے ، اور اللہ کی قسم ! تم بھی بخوبی جانتے ہو جو میں جانتا ہوں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : بس یہ الہل کی کتاب ہے جو بول رہی ہے۔ پھر یہ حضرات خاموشی سے واپس چلے گئے۔ ابن سعد

14102

14102- عن أبي سعيد الخدري قال: سمعت منادي أبي بكر ينادي بالمدينة حين قدم عليه مال البحرين: من كانت له عدة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فليأت فيأتيه رجال فيعطيهم فجاء أبو بشير المازني فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لي: يا أبا بشير إذا جاءنا شيء فائتنا فأعطاه أبو بكر حفنتين أو ثلاثا فوجدها ألفا وأربع مائة [درهم] . "ابن سعد"
14102 حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کے پاس بحرین سے مال آیا تو میں نے مدینہ میں ابوبکر (رض) کے منادی کو یہ اعلان کرتے سنا : جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں مال دینے کا وعدہ فرما گئے ہوں وہ آجائے۔ چنانچہ یہ اعلان سن کر کئی لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس پہنچ گئے ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو مال دیا۔ پھر ابو بشیر (رض) بھی حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا تھا : اے ابوبشیر ! جب ہمارے پاس مال آئے تو تم آجانا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو دو یا تین پیالے بھر کردرہم دیئے۔ ابوبشیر نے ان کو شمار کیا تو وہ چودہ سو درہم نکلے۔ ابن سعد

14103

14103- عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو قدم مال البحرين لأعطيتك هكذا وهكذا وهكذا، فلم يقدم حتى مات رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قدم به على أبي بكر قال: من كانت له عدة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فليأت قلت: قد وعدني إذا جاء مال البحرين أن يعطيني هكذا وهكذا وهكذا، قال: خذ فأخذت أول مرة فكانت خمس مائة ثم أخذت الثنتين. "ابن سعد ش خ م"
14103 جابر (رض) بن عبداللہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا : اگر (میرے پاس) بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور اتنا عطا کروں گا۔ لیکن پھر بحرین سے مال نہ آیا حتیٰ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ پھر ابوبکر (رض) کے دور خلافت میں ان کے پاس بحرین سے مال آیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی وعدہ کیا ہو وہ آجائے۔ جابر (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : مجھ سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعدہ فرمایا تھا کہ جب میرے پاس بحرین سے مال آئے گا تو مجھے اتنا اتنا اور اتنا عطا فرمائیں گے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر لو۔ چنانچہ میں نے پہلی مرتبہ (مٹھی بھر کر) لیا تو وہ پانچ سو درہم نکلے پھر میں نے دو مرتبہ اور اتنا ہی لے لیا۔ ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری، مسلم

14104

14104- عن جابر قال: قضى علي بن أبي طالب دين رسول الله، صلى الله عليه وسلم وقضى أبو بكر عداته. "ابن سعد"
14104 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرض کو ادا کیا اور حضرت ابوبکر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وعدے پورے فرمائے۔ ابن سعد

14105

14105- عن القاسم أن أبا بكر الصديق كان إذا نزل به أمر يريد فيه مشاورة أهل الرأي وأهل الفقه دعا رجالا من المهاجرين والأنصار ودعا عمر وعثمان وعليا وعبد الرحمن بن عوف ومعاذ بن جبل وأبي بن كعب وزيد بن ثابت، وكل هؤلاء كان يفتي في خلافة أبي بكر وإنما تصير فتوى الناس إلى هؤلاء فمضى أبو بكر على ذلك، ثم ولي عمر فكان يدعو هؤلاء النفر وكانت الفتوى تصير وهو خليفة إلى عثمان وأبي وزيد. "ابن سعد".
14105 قاسم (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کو جب کوئی مسئلہ درپیش آتا جس میں ان کو اہل رائے اور اہل فقہ کے مشوروں کی ضرورت محسوس ہوتی تو آپ (رض) مہاجرین و انصار کے لوگوں کو بلاتے جن میں خاص طور پر عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید بن ثابت (رض) ضرور شامل ہوتے۔ یہ سب حضرات خلافت صدیق میں فتوی جاری فرماتے تھے۔ لوگوں کے فتاویٰ انہی کے پاس آتے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) کا یہی معمول اپنی خلافت میں رہا۔ پھر حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مذکورہ افراد کو بلاتے تھے اور ان کے دور میں فتویٰ کا منصب عثمان، ابی اور زید (رض) کے سپرد تھا۔ ابن سعد

14106

14106- عن المسور قال: سمعت عثمان يقول: يا أيها الناس إن أبا بكر وعمر كانا يتأولان في هذا المال ظلفأنفسهما وذوي أرحامهما وإني تأولت فيه صلة رحمى. "ابن سعد".
14106 مسور (رح) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عثمان (رض) کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! ابوبکروعمر اس مال سے خود کو اور اپنے رشتے داروں کو دور رکھتے تھے اور میں اس مال میں صلہ رحمی کرنے کو درست سمجھتا ہوں۔ ابن سعد

14107

14107- عن الزبير بن المنذر بن أبي أسيد الساعدي أن أبا بكر بعث إلى سعد بن عبادة أن أقبل فبايع، فقد بايع الناس وبايع قومك، فقال: لا والله لا أبايع حتى أراميكم بما في كنانتي وأقاتلكم بمن تبعني من قومي وعشيرتي، فلما جاء الخبر إلى أبي بكر قال بشير بن سعد: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ إنه قد أبى ولجوليس بمبايعكم أو يقتل ولن يقتل حتى يقتل معه ولده وعشيرته ولن يقتلوا حتى تقتل الخزرج ولن تقتل الخزرج حتى تقتل الأوس فلا تحركوه، فقد استقام لكم الأمر فإنه ليس بضاركم إنما هو رجل وحده ما ترك، فقبل أبو بكر نصيحة بشير فترك سعدا، فلما ولي عمر لقيه ذات يوم في طريق المدينة فقال: ايهيا سعد فقال [سعد] : إيه يا عمر، فقال عمر: أنت صاحب ما أنت صاحبه فقال سعد: نعم أنا ذلك، وقد أفضي إليك هذا الأمر كان والله صاحبك أحب إلينا منك وقد أصبحت والله كارها لجوارك، فقال عمر: إنه من كره جوار جار تحول عنه فقال سعد: أما أني غير [مستنسئ] بذلك وأنا متحول إلى جوار من هو خير منك [قال] فلم يلبث إلا قليلا حتى خرج [مهاجرا] إلى الشام في أول خلافة عمر فمات بحوران"ابن سعد"
14107 زبیر بن المنذر بن ابی اسید الساعدی سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے سعد بن عبادۃ (رض) کو پیغام بھیجا کہ آؤ اور بیعت میں شامل ہوجاؤ۔ کیونکہ تمام لوگ اور آپ کی قوم والے بھی بیعت کرچکے ہیں۔ حضرت سعد (رض) نے جواب دیا : نہیں، اللہ کی قسم میں بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ اپنے ترکش کے سارے تیر نہ آزمالوں اور اپنی قوم اور خاندان کے ساتھ مل کر تمہارے ساتھ جنگ کر کرلوں۔ یہ خبرحضرت ابوبکر (رض) کو ملی تو حضرت بشیر بن سعد (رض) نے فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! انھوں نے انکار کردیا ہے اور ہٹ دھرمی تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ آپ کی بیعت ہرگز کرنے والے نہیں جب تک ان سے قتال نہ کیا جائے ، ان سے قتال کیا گیا تو ان کی اولاد اور ان کا خاوند بھی جنگ میں کود پڑے گا۔ پھر ان کا قبیلہ خزرج بھی پیچھے نہ رہے گا خزرج کا حلیف اوس ہے وہ بھی لازماً شریک جنگ ہوجائے گا۔ لہٰذا آپ سعد بن عبادۃ کو چھیڑیں ہی ناں۔ کیونکہ آپ کی حکومت مضبوط ہوچکی ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور وہ اکیلے آدمی ہیں جو چھوڑ دیئے گئے ہیں۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے بشیر (رض) کی نصیحت کو قبول کیا اور سعد کو (ان کے حال پر) چھوڑ دیا۔
پھر جب حضرت عمر (رض) خلیفہ بنے تو سعد بن عبادہ (رض) ان کو ایک دن مدینے کے راستے میں برسراہ ملے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے سعد ! بولو ! سعد (رض) نے فرمایا : اے عمر ! تم بولو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم ایسے شخص۔ ابوبکر (رض) کے ساتھی ہو جو ان کے ساتھی نہ بن سکے۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا : ہاں میں ایسا ہی ہوں ۔ اب حکومت کی باگ تمہارے ہاتھ میں آگئی ہے، حالانکہ اللہ کی قسم تمہارے پہلے ساتھی تم سے زیادہ ہم کو پسند تھے۔ اللہ کی قسم ہم تو تمہارے پڑوس کو بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جو شخص اپنے پڑوسی کے پڑوس کو اچھا نہیں سمجھتا وہاں سے منتقل ہوجاتا ہے۔ حضرت سعد (رض) بولے : میں بھی اس بات کو نہیں بھولوں گا اور تم کو چھوڑ کر تم سے اچھے پڑوسی کا پڑوس اختیار کروں گا۔
چنانچہ تھوڑا عرصہ بعد حضرت سعد (رض) خلافت عمر (رض) کے شروع میں ہجرت کرکے ملک شام (جہاد کی غرض سے) چلے گئے اور وہاں جو ران مقام پر انھوں نے وفات پائی۔ (رض) وارضاء عفاعلیہ۔
ابن سعد

14108

14108- عن أم هانئ بنت أبي طالب أن فاطمة أتت أبا بكر تسأله سهم ذوي القربى، فقال لها أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: سهم ذوي القربى لهم في حياتي وليس بعد موتي. "ابن راهويه" وفيه الكلبي متروك.
14108 ام ہانی بنت ابی طالب (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ بنت ابی طالب (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ذوی القربیٰ ۔ رشتے داری کا حصہ مانگنے آئیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا : ذوی القربیٰ ۔ میرے رشتہ داروں کا حصہ میری زندگی تک ہے اور میری موت کے بعد نہیں۔ ابن راھویہ
کلام : روایت کی سند میں کلبی متروک (ناقابل اعتبار) راوی ہے۔
فائدہ : فرمان الٰہی ہے۔
واعلمو انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ۔۔۔الخ
اور جان لو ! جو تم غنیمت حاصل کرو بیشک اللہ کے لیے اس کا پانچواں حصہ ہے اور رسول کے لیے اور رسول کے رشتے داروں کے لئے۔ الآیۃ

14109

14109- عن أبي العفيف قال: شهدت أبا بكر الصديق وهو يبايع الناس بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فيجتمع إليه العصابة فيقول لهم: بايعوني على السمع والطاعة لله ولكتابه، ثم للأمير فيقول: نعم فيبايعهم فتعلمت شرطه الذي شرطه على الناس، وأنا يومئذ غلام محتلم أو نحوه فلما خلىمن عنده أتيته، فقلت أبايعك على السمع والطاعة للهولكتابه وللأمير، قال: فصعد فيالنظر وصوبه، فكأني أعجبته، ثم بايعني."الحارث وابن جرير ق".
14109 ابوالعفیف (رح) سے مروی ہے کہ میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حاضر ہوا ۔ آپ (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔ ایک جماعت اکٹھی ہو کر آپ (رض) کے پاس آئی۔ آپ (رض) نے ان کو فرمایا : میری بیعت کرو اللہ اور اس کی کتاب کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے پر۔ پھر آپ (جماعت کے) امیر کو یہی فرماتے پھر وہ اثبات میں ہاں کرتا تو آپ ان کو بیعت فرمالیتے۔ چنانچہ میں نے وہ شرط جان لی جس پر آپ لوگوں بےبیعت لیتے تھے۔ اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا جو بلوغت کے قریب پہنچا تھا۔ چنانچہ جب ایک جماعت آپ کے پاس سے اٹھی تو میں آپ کے پاس پہنچ گیا : میں نے عرض کیا : میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اللہ اور اس کی کتاب کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے پر۔ آپ (رض) نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور میری بات کو درست قرار دیا گویا میں نے آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا پھر آپ (رض) نے مجھے بیعت فرمالیا۔
الحارث ، ابن جریر، السنن للبیہقی

14110

14110- عن موسى بن إبراهيم عن رجل من آل ربيعة أنه بلغه أن أبا بكر حين استخلف قعد في بيته حزينا، فدخل عليه عمر فأقبل عليه يلومه وقال: أنت كلفتني هذا الأمر وشكا إليه الحكم بين الناس فقال له عمر: أو ما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الوالي إذا اجتهد فأصاب الحق فله أجران، وإن اجتهد فأخطأ الحق فله أجر واحد فكأنه سهل على أبي بكر. "ابن راهويه وخيثمة في فضائل الصحابة هب".
14110 موسیٰ بن ابراہیم آل ربیعہ کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ ان کو یہ خبر ملی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کو جب خلیفہ منتخب کرلیا گیا تو وہ اپنے گھر میں رنجیدہ وغمزدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر (رض) ان کے پاس تشریف لائے تو ابوبکر (رض) ان کو ملامت کرنے لگے اور فرمایا : تم نے مجھے اس کام کی مشقت میں ڈالا ہے ، میرے لیے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا کتنا کٹھن ہے۔
حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : حاکم جب اجتہاد کرتا ہے اور درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دہرا اجر ملتا ہے۔ اور اگر وہ اجتہاد کے نتیجے میں خطا کر بیٹھتا ہے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔
گویا حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کے لیے سہولت پیدا کردی۔
ابن راھویہ، فضانا الصحابۃ للخیثمۃ، شعب الایمان للبیہقی

14111

14111- عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: كتب أبو بكر إلى عمرو ابن العاص سلام عليك أما بعد فقد جاءني كتابك تذكر ما جمعت الروم من الجموع، وأن الله لم ينصرنا مع نبيه صلى الله عليه وسلم بكثرة جنود وقد كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وما معنا إلا فرسان وإن نحن إلا نتعاقب الإبل، وكنا يوم أحد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وما معنا إلا فرس واحد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركبه ولقد كان يظهرنا ويعيننا على من خالفنا واعلم يا عمرو أن أطوع الناس لله أشدهم بغضا للمعاصي فاطع الله ومر أصحابك بطاعته. "طس" وقال تفرد به الواقدي.
14111 عبداللہ (رض) بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) کو لکھا :
تم پر سلام ہو ! مجھے تمہارا مراسلہ ملا، تم نے ان لشکروں کا لکھا تھا جو روم کی فتح میں تمہارے ساتھ مل گئے ہیں۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ساتھ جبکہ ہمارے پاس بڑا لشکر تھا ہماری مدد نہیں فرمائی ۔ جیسا کہ جنگ حنین میں ہوا اور ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تھے ہمارے پاس صرف دو گھوڑے ہوتے تھے ۔ اور ہم میں سے ہر شخص کو اونٹ کی سواری بھی میسر نہ تھی جس کی وجہ سے ہم اونٹوں کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ غزوہ احد میں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور ہمارے پاس صرف ایک گھوڑا تھا جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوتے تھے۔ ایسی تنگی میں اللہ ہم کو غلبہ عطا فرماتا تھا اور ہمارے مخالفین پر ہماری مدد فرماتا تھا۔ پس اے عمرو ! جان لے اللہ کا سب سے زیادہ اطاعت گزار شخص وہ ہے جو معاصی ہے سب سے زیادہ بیزار ہو۔ پس اللہ کی اطاعت کر اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کی اطاعت کا حکم کرو۔ الاوسط للطبرانی
کلام : واقدی اس روایت میں متفرد ہے اور واقدی ضعیف راوی ہے۔

14112

14112- عن عيسى بن عطية قال: قام أبو بكر الغد حين بويع فخطب الناس فقال: يا أيها الناس إني قد أقلتكم رأيكم إني لست بخيركم فبايعوا خيركم فقاموا إليه فقالوا: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت والله خيرنا فقال: يا أيها الناس؛ إن الناس قد دخلوا في الإسلام طوعا وكرها فهم عواذ الله وجيران الله فإن استطعتم أن لا يطلبنكم الله بشيء من ذمته فافعلوا، إن لي شيطانا يحضرني، فإذا رأيتموني قد غضبت فاجتنبوني لا أمثل بأشعاركم وأبشاركم، يا أيها الناس تفقدوا ضرائب غلمانكم إنه لا ينبغي للحم نبت من سحت أن يدخل الجنة، ألا وراعوني بأبصاركم فإن استقمت فأعينوني، وإن زغت فقوموني وإن أطعت الله فأطيعوني وإن عصيت الله فأعصوني. "طس"
14112 عیسیٰ بن عطیہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی گئی تو وہ اس سے اگلے روز لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! میری بیعت کرکے تم نے جو میرے متعلق اپنے رائے کا اظہار کیا ہے ہیں تم کو یہ تمہاری رائے واپس کرتا ہوں کیونکہ میں تم میں اچھا شخص نہیں ہوں۔ لہٰذا تم اپنے بہترین شخص کی بیعت کرلو۔
یہ سن کر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے : اے خلیفہ رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! تم ہم میں سب بہترین فرد ہو۔
حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا :
اے لوگو ! لوگ اسلام میں بخوشی اور بزور داخل ہوچکے ہیں۔ وہ اللہ کی پناہ میں آگئے ہیں اور اس کے پڑوسی بن گئے ہیں۔ س اگر تم سے ممکن ہو کہ اللہ تم سے اپنے کسی ذمے۔ اور وعدے کا سوال نہ کرے تو دریغ نہ کرو۔ اس کے ذمے اور عہد کا میرے ساتھ بھی شیطان لگا ہوا ہے جو میرے ساتھ حاضر رہتا ہے۔ پس جب تم مجھے غضب آلود دیکھو تو مجھ سے کنارہ کرلو۔ کہیں میں تمہارے بالوں اور کھالوں کا حلیہ نہ بگاڑدوں۔ اے لوگو ! اپنے لڑکوں کی کمائی کی دیکھ بھال رکھا کرو کیونکہ جو گوشت حرام سے پرورش پایا ہو اس کو جنت میں داخل ہونے کی گنجائش نہیں ہے۔ دیکھو ! اپنی نگاہوں کے ساتھ میرا خیال رکھو۔ اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو، اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو، اگر میں اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجاؤں تو تم پر میری اطاعت نہیں۔ الواسط للطبرانی

14113

14113- عن عبد الرحمن بن عوف أن أبا بكر الصديق قال له في مرض موته: إني لا آسيعلى شيء إلا على ثلاث فعلتهن وددت أني لم أفعلهن وثلاث لم أفعلهن وددت أني فعلتهن وثلاث وددت أني سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنهن، فأما اللاتي فعلتها وددت أني لم أفعلها فوددت أني لم أكن أكشف بيت فاطمة وتركته وإن كانوا قد غلقوهعلى الحرب ووددت أني يوم سقيفة بني ساعدة كنت قذفت الأمر في عنق أحد الرجلين أبي عبيدة بن الجراح أو عمر فكان أميرا وكنت وزيرا، ووددت حيث وجهت خالدا إلى أهل الردة أقمت بذي القصة فإن ظهر المسلمون ظهروا وإلا كنت بصدد لقاء أو مدد، وأما الثلاث اللاتي تركتهن ووددت أني فعلتهن فوددت أني يوم أتيت بالأشعث بن قيس أسيرا ضربت عنقه فإنه يخيل إلي أنه لا يرى شرا إلا أعان عليه ووددت أني يوم أتيت بالفجاءةلم أكن أحرقته وقتلته سريحا أو أطلقته نجيحا ووددت أني حيث وجهت خالدا إلى أهل الشام كنت وجهت عمر إلى العراق فأكون قد بسطت يدي يمينا وشمالا في سبيل الله، وأما الثلاث اللاتي وددت أني سألت عنهن رسول الله صلى الله عليه وسلم فوددت أني سألته فيمن هذا الأمر فلا ينازعه أهله ووددت أني كنت سألته هل للأنصار في هذا الأمر شيء؟ ووددت أني كنت سألته عن ميراث العمة وابنة الأخت فإن في نفسي منهما حاجة. "أبو عبيد في كتاب الأموال عق وخيثمة بن سليمان الأطرابلسيفي فضائل الصحابة طب كر ص" وقال أنه حديث حسن إلا أنه ليس فيه شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم وقد أخرج "خ" كتابه غير شيء من كلام الصحابة.
14113 عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے مرض الوفات میں ان کو فرمایا : مجھے تین چیزوں کے کرنے کا افسوس ہے ، کاش میں ان کو نہ کرتا ۔ تین چیزوں کے نہ کرنے کا افسوس ہے۔ کاش میں ان کو انجام دیدیتا اور تین چیزوں کے متعلق میری خواہش تھی کہ کاش میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے متعلق سوال کرلیتا۔
بہرحال وہ تین چیزیں جو میں نے انجام دیں کاش کہ میں ان کو نہ کرتا ، کاش میں فاطمہ کا درواہ نہ کھولتا اور اس کو چھوڑ دیتا اگرچہ لوگوں نے اس کو جنگ پر بند کردیا تھا (یعنی فاطمہ کی مخالفت نہ کرتا) کاش سقیفہ کے روز حکومت کی باگ ڈور دو آدمیوں میں سے کسی ایک کی گردن میں ڈال دیتا ابوعبیدۃ (رض) بن الجراح یا عمر (رض) ۔ پس ان میں سے کوئی بھی امیر بن جاتا اور میں ان کے لیے محض وزیر (مددگار) ہوتا۔ اور کاش کہ جب میں نے خالد کو مرتدین کے خلاف لشکر کشی کے لیے بھیجا تو میں وہ قصہ تمام کردیتا اگر مسلمان غالب آجاتے تو ٹھیک ورنہ میں لڑائی میں اور لشکروں کو مدد بہم پہنچانے میں مصروف رہتا۔
اور وہ تین چیزیں مجھ سے چھوٹ گئیں کاش کہ میں ان کا انجام دے لیتا جب اضعث بن قیس کو میرے پاس قیدی حالت میں پیش کیا گیا تو مجھے اسی وقت اس کی گردن اڑا دینا چاہیے تھے، کیونکہ مجھے خیال گزرا تھا کہ یہ شخص کسی بھی شرکو دیکھے گا تو میں اس کی مدد کرے گا۔ جب میرے پاس فجاوۃ کو لایا گیا تو کاش میں نے اس کو جلایا نہ ہوتا بلکہ یا تو عمدہ طریقے سے قتل کردیا ہوتا یا پھر اس کو آزاد کردیتا۔ اور کاش کہ جب میں نے ملک شام کی فتوحات کے لیے خالد کو بھیجا تھا اسی وقت عمر کو عراق کی طرف فتوحات کے لیے روانہ کردیا ہوتا تو میرے دونوں ہاتھ دائیں اور بائیں اللہ کی راہ میں برسرپیکار ہوجاتے۔ اور وہ تین باتیں جن کا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرلینا تھا ایک تو مجھے یہ سوال کرنا تھا کہ یہ حکومت کی باگ ڈور کن لوگوں کے ہاتھ میں رہنی چاہیے تاکہ پھر ان سے کوئی اس کے بارے میں نزاع نہ کرے، نیز میری خواہش تھی کہ میں یہ سوال بھی آپ سے پوچھ لیتا کہ کیا انصار کو بھی اس حکومت میں لیا جائے ؟ اور یہ سوال بھی ضروری تھا کہ پھوپھی اور بھانجی کی میراث کے متعلق کیا حکم ہے۔ میرے دل میں میراث کے متعلق ان دونوں کا خیال رہتا ہے۔ ابوعبیدہ فی کتاب الاموال، العقیلی فی الضعفاء، فضائل الصحابۃ لجشۃ بن سلمان الطرابلسی، الکبیر للطبرانی، ابن عشاکر، السنن لسعید بن منصور
فائدہ : یہ حدیث حسن ہے ، مگر اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی کوئی بات نہیں ۔ اس کو امام بخاری (رح) نے کلام الصحابۃ میں تخریج کیا ہے۔

14114

14114- عن عبد الله بن عكيم قال: لما بويع أبو بكر صعد المنبر فنزل مرقاةمن مقعد النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: اعلموا أيها الناس أن أكيس الكيس التقي وأن أحمق الحمق الفجور وأن أقواكم عندي الضعيف حتى آخذ له بحقه، وأن أضعفكم عندي القوي حتى آخذ الحق منه، إنما أنا متبع ولست بمبتدع، فإن أحسنت فأعينوني وإن زغت فقوموني وحاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا ولا يدع قوم الجهاد في سبيل الله إلا ضربهم الله بالفقر، ولا ظهرت الفاحشة في قوم إلا عمهم الله بالبلاء، فأطيعوني ما أطعت الله فإذا عصيت الله ورسوله فلا طاعة لي عليكم أقول قولي هذا وأستغفر الله لي ولكم. "الدينوري".
14114 عبداللہ بن حکیم سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی گئی تو وہ منبر پر چڑھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹھنے کی جگہ سے ایک درجہ نیچے بیٹھ گئے اور اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! یاد رکھو ! عقل مند سے بھی عقل مند شخص متقی پرہیزگار ہے۔ احمق سے بھی احمق فسق وفجور میں مبتلا رہنے والا ہے۔ تمہارا طاقت ور آدمی میرے نزدیک کمزور ہے حتیٰ کہ میں اس سے حق وصول نہ کرلوں۔ میرے نزدیک تمہارا کمزور شخص طاقت ور ہے جب تک کہ میں اس کو حق نہ دلوادوں۔ میں محض اتباع کرنے والا ہوں، نئی راہ نکالنے والا نہیں۔ پس اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو، اگر میں کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو اور اپنے نفسوں کا محاسبہ خود کرلو قبل اس سے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ یاد رکھو ! کوئی قوم جہاد فی سبیل اللہ کو ترک نہیں کرتی مگر اللہ پاک ان پر فقروفاقہ کو مسلط فرما دیتا ہے، نیز فحاشی جس قوم میں پھیلتی ہیں تو اللہ پاک ان کو عمومی عذاب میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔ پس میری اطاعت کرتے رہو جب تک میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں۔ پس جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ۔ میں اپنی اس بات کو کہتا ہوں اور اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے مغفرت کا سوال کرتا ہوں۔ الدینوری

14115

14115- عن الحسن عن أبي بكر أنه رأى في المنام كأن عليه حلة حبرة وفي صدره كيتان فقصها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: حلة حبرة خير لك من ولدك والكيتان: إمارة سنتين أو تلي أمر المسلمين سنتين. "اللالكائي".
14115 حسن، ابوبکر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے خواب دیکھا کہ ان کے جسم پر ایک یمنی چادر کا حلہ (عمدہ جوڑا) ہے، لیکن ان کے سینے پر دوداغ ہیں۔ انھوں نے یہ خواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یمنی چوڑا تو تیرے لیے اچھی اولاد ہے اور دوداغ تیرے لیے دو سال کی حکومت ہے یا (یوں کہہ لے) کہ تو دو سال تک مسلمانوں کا حاکم رہے گا۔ اللالکائی

14116

14116- عن سالم بن عبيدة وكان رجلا من أهل الصفة قال: أغمي على رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه فأفاق فقال: حضرت الصلاة؟ قالوا: نعم، فقال: مروا بلالا فليؤذن ومروا أبا بكر فليصل بالناس، ثم أغمي عليه ثم أفاق فقال مثل ذلك، فقالت عائشة: إن أبا بكر رجل أسيف فقال: إنكن صواحب يوسف مروا بلالا فليؤذن ومروا أبا بكر فليصل بالناس فأقيمت الصلاة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أقيمت الصلاة؟ قال: ادعوا لي إنسانا أعتمد عليه، فجاءت بريرة وآخر معها فاعتمد عليهما وأن رجلاه لتخطان في الأرض حتى أتى أبا بكر وهو يصلي بالناس فجلس إلى جنبه فذهب أبو بكر يتأخر فحبسه حتى فرغ من الصلاة فلما توفي نبي الله صلى الله عليه وسلم قال عمر: ليس يتكلم أحد بموته إلا ضربته بسيفي هذا فأخذ بساعد أبي بكر ثم أقبل يمشي حتى دخل فأوسعوا له حتى دنا من نبي الله صلى الله عليه وسلم فانكب عليه حتى كاد يمس وجهه وجهه حتى استبان له أنه قد توفي فقال: إنك ميت وإنهم ميتون فقالوا: يا صاحب رسول الله توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم فعلموا أنه كما قال، فقالوا: يا صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم هل يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قالوا: يا صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم بين لنا كيف نصلي عليه؟ قال: يجيء قوم فيصلون ويجيء آخرون، قالوا: يا صاحب رسول الله هل ندفن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم؛ فقالوا: أين؟ قال: حيث قبض الله روحه، فإنه لم يقبض روحه إلا في مكان طيب فعلموا أنه كما قال، ثم قال: دونكم صاحبكم وخرج أبو بكر واجتمع المهاجرون يبكون ويتدابرون بينهم فقالوا: انطلقوا بنا إلى إخواننا من الأنصار، فإن لهم في هذا الحق نصيبا فأتوهم فقالت الأنصار: منا أمير ومنكم أمير، فقال عمر وأخذ بيد أبي بكر: سفيان في غمد واحد لا يصطلحان أو قال: لا يصلحان، وأخذ بيد أبي بكر، فقال: من له هذه الثلاثة، إذ يقول لصاحبه، من صاحبه؟ إذ هما في الغار، من هما؟ لا تحزن إن الله معنا، مع من؟ ثم بسط يده فبايعه، ثم قال: بايعوا فبايع بأحسن بيعة وأجملها. "اللالكائي في السنة".
14116 سالم بن عبیدۃ (رض) جو اہل صفہ میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرض الموت میں بےہوش ہوگئے، پھر افاقہ ہوا تو پوچھا کہ کیا نماز کا وقت آگیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیدے اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (یہ فرماکر) آپ پر پھر بےہوشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو پہلے والی بات ارشاد فرمائی۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : ابوبکر کمزور آدمی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم یوسف (علیہ السلام) (کو مکر میں ڈالنے) والی عورتیں ہو۔ کہو بلال کو کہ وہ اذان دے اور ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دو ۔ چنانچہ نماز کھڑی ہوگئی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کیا نماز قائم ہوگئی ہے ؟ میرے لیے کسی کو بلاؤ جس کے سہارے سے میں چل سکوں۔ چنانچہ (آپ (علیہ السلام) کی باندی) ہریرہ اور ایک دوسرا شخص آگے بڑھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کا سہارا لیا اور آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسیٹ رہے تھے حتیٰ کہ اسی طرح چلتے ہوئے آپ ابوبکر (رض) کے پاس پہنچ گئے اور وہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر (رض) پیچھے ہٹنے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ہیں روک دیا حتیٰ کہ نماز مکمل ہوگئی۔ پھر جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کوئی شخص نہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت ہوگئی ہے ورنہ میں اپنی اس تلوار کے ساتھ اس کی گردن اڑادوں گا۔
اتنے میں حضرت ابوبکر (رض) نے آکر ان کی کلائی تھامی اور چلتے ہوئے مجمع میں گھس گئے۔ لوگوں نے آپ کے لیے راستہ کشادہ کردیا۔ حتیٰ کہ آپ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچ گئے جہاں آپ استراحت فرما تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھک گئے اور دونوں کا چہرہ ایک دوسرے سے چھونے کے قریب ہوگیا۔ تب حضرت ابوبکر (رض) کو یہ بات کھل گئی کہ آپ کا انتقال ہوچکا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب ہو کر فرمایا :
انک میت وانھم میتون۔
بےشک آپ مرنے والے ہیں اور وہ (سب) مرنے والے ہیں۔
لوگوں نے پوچھا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا ہے ؟ آپ (رض) کا انتقال ہوگیا ہے۔ پھر لوگوں نے پوچھا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی ؟ فرمایا : ہاں۔ پوچھا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! آپ بتائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ ہم کس طرح پڑھیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ایک جماعت آکر نماز پڑھے اور چلی جائے پھر دوسری جماعت آئے۔ لوگوں نے پوچھا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! کیا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن بھی کریں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ہاں۔ پوچھا : کہاں ؟ فرمایا : جہاں اللہ نے ان کی روح قبض فرمائی ہے۔ کیونکہ آپ کی روح اچھی جگہ ہی قبض فرمائی ہوگی۔ تب لوگوں کو اس بات کا بھی علم ہوگیا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع لوگوں کو) حکم فرمایا : تم اپنے ساتھی کو سنبھالو۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) وہاں سے نکلے۔ مہاجرین رو رہے تھے اور آپس میں صلاح مشورے کررہے تھے۔ مہاجرین نے طے کیا کہ ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلتے ہیں کیونکہ اس منصب (حکومت) میں ان کا بھی حق ہے۔ چنانچہ (حضرت ابوبکر (رض)) کی معیت میں مہاجرین انصار کے پاس پہنچے ۔ انصار نے کہا : ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ تھام کر ارشاد فرمایا : دو تلواریں ایک نیام میں ٹھیک نہیں ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے پوچھا : ان تین چیزوں میں کوئی اس کا ہم رتبہ ہے ؟
اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا۔
جب وہ دونوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر غار میں تھے، جب نبی نے اپنے ساتھی کو کہا رنج نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اذیقول لصاحبہ کون تھا یہ حضور کا ساتھی ؟ اذھما فی الغار وہ دونوں غار میں کون تھے ؟ لا تحزن ان اللہ معنا، اللہ کس کے ساتھ تھا ؟ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پھیلایا اور ان کی بیعت فرمالی۔ اور لوگوں کو بھی فرمایا : تم بھی بیعت کرو۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے بہت اچھی طرح حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کی۔ اللالکائی فی السنۃ

14117

14117- عن إسماعيل بن سميع عن مسلم قال: بعث أبو بكر إلى أبي عبيدة هلم حتى أستخلفك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن لكل أمة أمينا وأنت أمين هذه الأم ة، فقال أبو عبيدة: ما كنت لأتقدم رجلا أمره رسول الله أن يؤمنا. "كر".
14117 اسماعیل بن سمیع، مسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ابوعبیدۃ (رض) کو پیغام بھیجا تم آجاؤ میں تم کو خلیفہ بناؤں گا۔ کیونکہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :
ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور (اے ابوعبیدۃ ! ) تم اس امت کے امین ہو۔
حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : میں ایسے شخص کے آگے نہیں ہوسکتا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری امامت کا حکم فرمایا ہو۔ ابن عساکر

14118

14118- عن قيس بن أبي حازم قال: خطب أبو بكر الناس فقال: يا أيها الناس إني قد وليتكم ولست بخيركم، فلعلكم أن تكلفوني أن أسير فيكم بسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعصم بالوحي، وإنما أنا بشر أصيب وأخطيء فإذا أصبت فاحمدوا الله وإذا أخطأت فقوموني. "أبو ذر الهروي في الجامع".
14118 قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! مجھے تمہارا حاکم بنادیا گیا ہے حالانکہ میں تمہارا اچھا شخص نہیں ہوں۔ شاید تم مجھے مکلف کرو گے کہ میں تمہارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے مطابق چلوں ۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو وحی کی وجہ سے (غلطیوں سے محفوظ و) معصوم تھے۔ جبکہ میں ایک عام بشر ہوں، درست بھی چل سکتا ہوں لغزش بھی کھا سکتا ہوں۔ لہٰذا جب میں درست راہ چلوں تو اللہ کی حمد کرو اور جب مجھ سے خطاء سرزد ہو تو مجھے سیدھی راہ دکھا دو ۔ ابوذر الھروی فی الجامع

14119

14119- عن يحيى بن سعيد عن القاسم بن محمد قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمرو بن العاص بعمان أو البحرين فبلغتهم وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم واجتماع الناس على أبي بكر، فقال له أهل الأرض: من هذا الذي اجتمع الناس عليه ابن صاحبكم؟ قال: لا قالوا: فأخوه؟ قال: لا قالوا: فأقرب الناس إليه؟ قال: لا قالوا: فما شأنه؟ قال: اختاروا خيرهم؟ فأمروه فقالوا: لن يزالوا بخير مافعلوا هذا. "ابن جرير".
14119 یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو اس وقت عمرو بن العاص عمان یا بحرین میں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے گورنر مقرر) تھے۔ وہاں لوگوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر اور لوگوں کے حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت پر جمع ہونے کی خبر ملی۔ اہل علاقہ نے حضرت عمرو بن العاص سے پوچھا : یہ کون شخص ہے جس پر لوگ متفق ہوگئے ہیں، کیا تمہارے رسول کا بیٹا ہے ؟ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے فرمایا : نہیں، ایسا نہیں ہے۔ لوگوں نے پوچھا : تو کیا وہ ان کا بھائی ہے ؟ فرمایا : نہیں۔ لوگوں نے پوچھا : تب وہ لوگوں میں سب سے زیادہ تمہارے رسول کے قریب تھا ؟ فرمایا : نہیں۔ لوگوں نے پوچھا : پھر وہ کون ہے ؟ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے فرمایا : بس لوگوں نے اپنے درمیان جس کو سب سے اچھا دیکھا اس کو اختیار کرلیا اور امیر بنالیا۔ لوگوں نے کہا : جب تک وہ ایسا کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر پر قائم رہیں گے۔ ابن جریر

14120

14120- عن أبي هريرة أن فاطمة جاءت أبا بكر وعمر تطلب ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالا: سمعناه يقول: لا أورث. "حم ق" ولفظه: لا نورث ما تركناه صدقة.
14120 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث کا مطالبہ کیا۔ دونوں حضرات شیخیں نے فرمایا : ہم نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : میرا کوئی وارث نہ بنے گا۔
مسند احمد، السنن للبیہقی
بیہقی کے الفاظ ہیں :
ہم کسی کو وارث نہیں بناتے بلکہ جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

14121

14121- عن أبي سلمة أن فاطمة قالت لأبي بكر: من يرثك إذا مت؟ قال: ولدي وأهلي، قالت: فما لنا لا نرث رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي لا يورث ولكني أعولمن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعول، وأنفق على من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق عليه."حم ق" ورواه "ت ق" موصولا عن أبي سلمة عن أبي هريرة وقال: ت حسن غريب.
14121 ابوسلمۃ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے عرض کیا : جب آپ مریں گے تو آپ کا وارث کون ہوگا ؟ ارشاد فرمایا : میری اولاد اور میرے اہل خانہ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا : تب کیا بات ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث نہیں بن رہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔
لیکن میں ان اہل و عیال کا خرچہ اٹھاؤں گا جن کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خرچ اٹھاتے تھے اور جن پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خرچ کرتے تھے میں بھی ان پر خرچ کرتا رہوں گا۔
مسند احمد، السنن للبیہقی
نیز اس کو امام ترمذی اور امام بیہقی نے موصولاً عن ابی سلمۃ عن ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت حسن غریب ہے۔

14122

14122- عن العباس أنه سأل معاوية عن نقش خاتم أبي بكر الصديق فقال: عبد ذليل لرب جليل. "الختلي في الديباج" قال ابن كثير إسناده مظلم.
14122 عباس سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت معاویہ (رض) سے حضرت ابوبکر (رض) کی انگوٹھی کا نقش معلوم کیا تو انھوں نے فرمایا : ان کی انگوٹھی پر لکھا تھا :
عبد ذلیل لرب جلیل،
عظیم پروردگار کا ذلیل بندہ۔ الخثلی فی الدیباج
کلام : امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کی سند تاریک (غیر معتبر) ہے۔

14123

14123- عن حميد بن عبد الرحمن الحميري قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر في طائفة من المدينة، فجاء فكشف عن وجهه فقال: فدى لك أبي وأمي، ما أطيبك حيا وميتا مات محمد ورب الكعبة وانطلق أبو بكر وعمر يتقاودان حتى أتوهم فتكلم أبو بكر فلم يترك شيئا أنزل في الأنصار ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم في شأنهم إلا ذكره وقال: لقد علمتم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار واديا سلكت وادي الأنصار، ولقد علمت يا سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وأنت قاعد: قريش ولاة هذا الأمر، فبر الناس تبع لبرهم، وفاجرهم تبع لفاجرهم، فقال له سعد: صدقت نحن الوزراء وأنتم الأمراء. "حم وابن جرير" قال ابن المنذر: هذا الحديث حسن وإن كان فيه انقطاع فإن حميد بن عبد الرحمن بن عوف لم يدرك أيام الصديق وقد يكون أخذه عن أبيه أو غيره من الصحابة وهذا كان مشهورا بينهم.
14123 حمید بن عبدالرحمن حمیری سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو ابوبکر (رض) مدینے کی ایک جماعت کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ کھولا اور فرمایا : آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ کی زندگی اور موت دونوں کس قدر عمدہ تھیں۔ رب کعبہ کی قسم ! محمد کی وفات ہوگئی ہے۔
پھر ابوبکر (رض) اور عمر (رض) دونوں ایک دوسرے کو کھینچتے ہوئے لوگوں کے پاس پہنچ گئے۔ پہلے حضرت ابوبکر (رض) نے لوگوں سے خطاب کیا اور ایسی کوئی بات نہ چھوڑی جو انصار کے متعلق قرآن میں نازل ہوئی ہو یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی شان میں ذکر کی ہو بلکہ اس کو لوگوں کے آگے ذکر فرمادیا اور ارشاد فرمایا : تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا : اگر لوگ ایک وادی میں چل پڑیں جبکہ انصار دوسری وادی کی طرف چل دیں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اور اے سعد ! تو خوب جانتا ہے کیونکہ تم اس وقت وہاں بیٹھے ہوئے تھے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
قریش اس حکومت کے والی ہوں گے ۔ پس لوگوں میں سے نیک لوگ ان کے نیکوں کے تابع ہوتے ہیں اور بدکار لوگ ان کے بدوں کے پیچھے۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا : (اے ابوبکر ! ) تم سچ کہتے ہو ، ہم وزراء ہوں گے اور تم امراء۔ مسند احمد، ابن جریر
فائدہ : یہ حدیث حسن ہے ، اگرچہ اس میں انقطاع ہے کیونکہ حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خلافت صدیق کا عرصہ نہیں پایا۔ ممکن ہے انھوں نے یہ روایت اپنے والد یا کسی اور صحابی سے روایت کی ہو۔ اور یہ ان کے درمیان مشہور ہے۔

14124

14124- عن أبي سعيد الخدري قال: لما بويع أبو بكر الصديق قال: أين علي لا أراه؟ قالوا: لم يحضر، قال ابن الزبير؟ قالوا: لم يحضر قال: ما حسبت إلا أن هذه البيعة عن رضا جميع المسلمين، إن هذه البيعة ليست كبيع الثوب الخلق، إن هذه البيعة لا مردود لها؛ فلما جاء علي قال: يا علي ما أبطأ بك عن هذه البيعة؟ قلت: إني ابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وختنه على ابنته، لقد علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك، قال: لا تزري بي يا خليفة رسول الله، فمد يده فبايعه، فلما جاء الزبير قال: ما أبطأ بك عن هذه البيعة؟ قلت: إني ابن عمة رسول الله صلى الله عليه وسلم وحواريه، أما علمت أني كنت في هذا الأمر قبلك؟ قال: لا تزري بي يا خليفة رسول الله ومد يده فبايعه. "المحاملي" قال ابن كثير إسناده صحيح.
14124 حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بیعت کی گئی تو انھوں نے پوچھا : ” این علی لا ارا “ علی کہاں ہیں مجھے نظر نہیں آرہے ۔ لوگوں نے کہا : وہ آئے نہیں ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے دوبارہ پوچھا : اور زبیر کہاں ہیں ؟ لوگوں نے مثل سابق جواب دیا : وہ بھی نہیں آئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میرا گمان تو یہ تھا کہ یہ بیعت تمام مسلمانوں کی رضامندی سے ہورہی ہے۔ یہ بیعت پرانے کپڑے کی خریدو فروخت نہیں ہے۔ اس بیعت سے انکار کی کسی کو گنجائش ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ حضرت علی (رض) تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے پوچھا : اے علی ! اس بیعت سے کس بات نے تجھے تاخیر میں ڈالا ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کیا : میرا خیال تھا کہ میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا زاد ہوں اور ان کی دختر نیک کا شوہر بھی، اس لیے آپ کا خیال بھی ہوگا کہ اس معاملے میں میرا حق آپ سے پہلے تھا۔ پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : لیکن اے خلیفہ رسول اللہ ! مجھے آپ قصور وار نہ ٹھہرائیں، لائیے ہاتھ ! چنانچہ پھر حضرت علی (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی۔ پھر زبیر (رض) تشریف لائے تو ان سے بھی حضرت ابوبکر (رض) نے پوچھا : آپ کو بیعت کرنے میں دیر کیوں ہوئی ؟ حضرت زبیر (رض) نے جواب دیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی کا بیٹا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حواری ہوں۔ کیا آپ کو علم نہیں تھا کہ اس چیز میں میرا حق آپ سے پہلے تھا۔ لیکن پھر بھی آپ مجھے قصور وار نہ ٹھہرائیں، اے خلیفہ رسول اللہ ! چنانچہ انھوں نے بھی اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی۔ السحاملی
فائدہ : امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کی سند صحیح ہے۔

14125

14125- عن الحصين بن عبد الرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ قال: لما صدررسول الله صلى الله عليه وسلم من الحج سنة عشر قدم المدينة فأقام حتى رأى هلال المحرم سنة إحدى عشرة، فبعث المصدقين في العرب فبعث على أسد وطي عدي بن حاتم، فقدم بها على أبي بكر الصديق فأعطاه ثلاثين فريضةفقال عدي: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت إليها اليوم أحوج وأنا عنها غني، فقال أبو بكر: خذها أيها الرجل فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعذر إليك ويقول: ترجع ويكون خيرا فقد رجعت وجاء الله بالخير، وأنا منفذ ما وعد رسول الله صلى الله عليه وسلم في حياته فأنفذها فقال عدي: آخذها الآن فهي عطية من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: فذاك. "ابن سعد كر".
14125 حصین بن عبدالرحمن بن عمرو بن سعد بن معاذ سے مروی ہے کہ دس ہجری کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (حجۃ الوداع کا) حج کرکے مکہ سے واپس لوٹے مدینہ آکر ٹھہرگئے۔ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گیارہ ہجری کے سال کے ماہ محرم کا چاند دیکھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ وصول کرنے والے کارندوں کو عرب علاقوں میں بھیجا۔ چنانچہ اس ذیل میں قبیلہ اسد اور طی کی طرف عدب بن حاتم (طائی) کو بھیجا۔ عدی (حضور کی وفات کے بعد) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس تیس اونٹ زکوۃ کے لے کر آئے۔ اور ان کو حضرت ابوبکر (رض) کے حوالے کرتے ہوئے عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! آج آپ کو ان کی حاجت ہے جبکہ میں ان کی طرف سے غنی اور مالدار ہوں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے (نیک) مرد ! تو ہی ان کو لے لے۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا جب وہ تم سے معذرت کررہے تھے کہ تو واپس لوٹے گا اور خیر (مال تیرے ساتھ) ہوگا۔ پس (اے حاتم ! ) تو واپس بھی لوٹا اور اللہ کا مال بھی لایا۔ اب میں وہ وعدہ پورا کررہا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ لہٰذا پھر آپ (رض) نے (وہ اونٹ عدی کو دے کر وہ) وعدہ پورا کردیا۔ حضرت عدی (رض) نے عرض کیا : ہاں اب میں ان کو لے سکتا ہوں کیونکہ اب یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے میرے لیے عطیہ ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا پس لے جا۔ ابن سعد، ابن عساکر

14126

14126- عن حذيفة قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم، واستخلف أبو بكر قيل له في الحكم بن أبي العاص فقال: ما كنت لأحل عقدة عقدها رسول الله صلى الله عليه وسلم. "طب وأبو نعيم".
14126 حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنادیا گیا تو ان کو حکم بن ابی العاص کے متعلق کہا گیا مگر انھوں نے فرمایا : جو گرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لگا گئے ہیں میں اس کو نہیں کھول سکتا۔ الکبیر للطبرانی، ابونعیم

14127

14127- عن أبي معشر زياد بن كليب عن إبراهيم قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم كان أبو بكر غائبا، فجاء ولم يجتريء أحد أن يكشف عن وجهه، فكشف عن وجهه، وقبل بين عينيه وقال: بأبي وأمي طبت حيا وطبت ميتا، واجتمع الأنصار في سقيفة بني ساعدة ليبايعوا سعد بن عبادة فقال أبو بكر: منا الأمراء ومنكم الوزراء، ثم قال أبو بكر: إني قد رضيت لكم أحد هذين الرجلين عمر أو أبو عبيدة، إن النبي صلى الله عليه وسلم جاءه قوم فقالوا: ابعث معنا حق أمين فبعث معهم أبا عبيدة، وأنا أرضى لكم أبا عبيدة، فقام عمر فقال: أيكم تطيب نفسه أن يخلف قدمين قدمهما النبي صلى الله عليه وسلم، فبايعه عمر وبايعه الناس. "ابن جرير".
14127 ابومعشر زیاد بن کلیب، ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی تو اس وقت حضرت ابوبکر (رض) وہاں موجود نہ تھے۔ پھر بعد میں وہ تشریف لائے۔ تاہنوز کسی کو جرات نہ ہوئی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو کھول کر دیکھ سکتا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کے چہرہ کو کھولا، آپ کی (پرنور) پیشانی کو بوسہ دیا اور (فرط گریہ سے) بولے : آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، آپ نے زندگی بھی اچھی کاٹی اور موت بھی اچھی پائی۔
انصار سقیفہ بنی ساعدہ ۔ کے مقام پر جمع ہوچکے تھے تاکہ (اپنے سردار) سعد بن عبادہ کی بیعت کرلیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے انصار کو فرمایا : امراء ہم میں سے ہوں گے اور وزراء تم بنو گے۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں تم سب مسلمانوں کے لیے دو آدمیوں پر مطمئن ہوں عمر یا ابوعبیدۃ۔ کیونکہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک قوم آئی تھی، انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہمارے ساتھ ایک امین (امانت دار) شخص بھیج دیں جو امانت کا حق ادا کرسکے۔ چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ ابوعبیدۃ کو بھیجا تھا۔ پس میں بھی تمہارے لیے ابوعبیدۃ پر راضی ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا : تم میں سے کس کا دل یہ بات گوارا کرے گا کہ ان قدموں کو اپنے پیچھے چھوڑ دے جن کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگے کیا تھا چنانچہ یہ کہہ کر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت فرمالی اور پھر دوسرے لوگوں نے بھی ان کی بیعت کرلی۔ ابن جریر

14128

14128- عن مجاهد قال: خطبهم أبو بكر قال: إني لأرجو أن تشبعوا من الجبن والزيت."هناد".
14128 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ کے دوران لوگوں کو ارشاد فرمایا :
مجھے امید ہے کہ تم بزدلی اور زیتون کے تیل سے سیر ہوجاؤ گے۔ یعنی مزید ان کی رغبت نہ کرو گے۔
ھناد

14129

14129- عن أبي حذيفة إسحاق بن بشر القرشي قال: حدثنا محمد بن إسحاق قال: إن أبا بكر لما حدث نفسه أن يغزو الروم لم يطلع عليه أحد إذ جاءه شرحبيل بن حسنة فجلس إليه فقال: يا خليفة رسول الله تحدثك نفسك أنك تبعث إلى الشام جندا؟ فقال: نعم قد حدثت نفسي بذلك وما أطلعت عليه أحدا، وما سألتني عنه إلا لشيء، قال: أجل يا خليفة رسول الله إني رأيت فيما يرى النائم كأنك تمشي في الناس فوق حرشفةمن الجبل ثم أقبلت تمشي حتى صعدت قنةمن القنان العالية، فأشرفت على الناس ومعك أصحابك ثم إنك هبطت من تلك القنان إلى أرض سهلة دمثةفيها الزرع والقرى والحصون فقلت للمسلمين، شنوا الغارة على أعداء الله وأنا ضامن لكم بالفتح والغنيمة فشد المسلمون وأنا فيهم معي راية فتوجهت بها إلى أهل قرية فسألوني الأمان فأمنتهم، ثم جئت فأجدك قد جئت إلى حصن عظيم ففتح الله لك وألقوا إليك السلم ووضع الله لك مجلسا فجلست عليه ثم قيل لك يفتح الله عليك وتنصر فاشكر ربك واعمل بطاعته ثم قرأ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} إلى آخرها ثم انتبهت فقال له أبو بكر: نامت عيناك خيرا رأيت وخيرا يكون إن شاء الله. ثم قال: بشرت بالفتح ونعيت إلي نفسي ثم دمعت عينا أبي بكر ثم قال: أما الحرشفة التي رأيتنا نمشي عليها حتى صعدنا إلى القنة العالية فأشرفنا على الناس فإنا نكابد من أمر هذا الجند والعدو مشقة ويكابدونه، ثم نعلو بعد ويعلو أمرنا، وأما نزولنا من القنة العالية إلى الأرض السهلة الدمثة والزرع والعيون والقرى والحصون، فإنا ننزل إلى أمر أسهل مما كنا فيه من الخصب والمعاش، وأما قولي للمسلمين: شنوا الغارة على أعداء الله؛ فإني ضامن لكم الفتح والغنيمة فإن ذلك دنو المسلمين إلى بلاد المشركين، وترغيبي إياهم على الجهاد والأجر والغنيمة التي تقسم لهم وقبولهم، وأما الراية التي كانت معك فتوجهت بها إلى قرية من قراهم ودخلتها واستأمنوا فأمنتهم، فإنك تكون أحد أمراء المسلمين، ويفتح الله على يديك، وأما الحصن الذي فتح الله لي فهو ذلك الوجه الذي يفتح الله لي، وأما العرش الذي رأيتني عليه جالسا فإن الله يرفعني ويضع المشركين، قال الله تعالى ليوسف: {وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ} وأما الذي أمرني بطاعة الله وقرأ علي السورة فإنه نعى إلي نفسي وذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم نعى الله إليه نفسه حين نزلت هذه السورة وعلم أن نفسه قد نعيتإليه، ثم قال: لآمرن بالمعروف ولأنهين عن المنكر ولأجهدن فيمن ترك أمر الله ولأجهزن الجنود إلى العادلين باللهفي مشارق الأرض ومغاربها حتى يقولوا: الله أحد أحد لا شريك له أو يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون، هذا أمر الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا توفاني الله فلا يجدني الله عاجزا ولا وانياولا في ثواب المجاهدين زاهدا فعند ذلك أمر الأمراء وبعث إلى الشام البعوث. "كر".
14129 ابوحذیفہ اسحاق بن بشر قریشی سے مروی ہے کہ ہمیں محمد بن اسحاق نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے دل میں عزم کیا کہ روم پر لشکر کشی کی جائے ابھی اس خیال پر کسی کو اطلاع نہیں دی تھی کہ حضرت شرحبیل بن حسنہ (سپہ سالار لشکر) آپ کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور بیٹھ گئے پھر عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! آپ نے دل میں خیال باندھا ہے کہ روم پر لشکر بھیجیں گے ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہاں، میرے دل میں یہ خیال ہے، لیکن میں نے ابھی اس پر کسی کو مطلع نہیں کیا ہے اور تو نے کس لیے اس کا سوال کیا ہے ؟ شرحبیل (رض) نے عرض کیا : ہاں، خلیفہ رسول اللہ ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ گویا لوگوں کے درمیان چل رہے ہیں سخت پہاڑی زمین پر۔ پھر آپ اوپر چڑھتے ہوئے بلند چوٹیوں میں سے ایک چوٹی پر پہنچ گئے ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی ہیں۔ آپ نے اوپر سے نیچے لوگوں کو دیکھا۔ پھر آپ نیچے اترے اور نرم زمین میں اتر آئے، جہاں کھیتیاں، آباد بستیاں اور قلعیں ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کو فرمایا :
دشمنان خدا پر ٹوٹ پڑو، میں تم کو فتح اور غنیمت کی ضمانت دیتا ہوں۔
میں نے دیکھا پھر مسلمانوں نے ان سر سخت حملہ کیا میں بھی حملہ کرنے والوں میں شامل ہوں اور جھنڈا بھی میرے ہاتھوں میں ہے۔ میں ایک بستی والوں کی طرف بڑھا تو انھوں نے مجھ سے پناہ مانگی میں نے ان کو امان دیدی۔ پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں آپ کے پاس آیا تو آپ ایک عظیم قلعے کے پاس پہنچے اور اللہ نے اس کو آپ کے ہاتھوں فتح فرمادیا ہے۔ اہل قلعہ نے آپ کے آگے صلح کی درخواست پیش کی۔ پھر اللہ نے آپ کو بیٹھنے کی جگہ مرحمت فرمائی۔ آپ اس پر بیٹھ گئے ہیں۔ پھر آپ کو کہنے والے نے کہا : اللہ آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ کو فتح سے ہمکنار کرے گا آپ اس کا شکر ادا کریں اور اس کی اطاعت کرتے رہیں۔ پھر آپ نے سورة نصر پڑھی :
اذاجاء نصر اللہ والفتح،
اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔
حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تیری آنکھوں نے بہت اچھا دیکھا، انشاء اللہ خیر ہوگی۔ تو نے فتح کی خوشخبری سنائی ہے، اور میرے دنیا سے کوچ کرنے کی خبر بھی دیدی ہے۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکر (رض) کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پھر ارشاد فرمایا : وہ بلند چوٹی جس پر تو نے ہم کو چلتا ہوا دیکھا حتیٰ کہ ہم بلند ترین چوٹی پر پہنچ گئے پھر ہم نے لوگوں پر نظر ڈالی، اس کی تعبیر ہے کہ ہم تمام تر مشقتیں اٹھا کر لشکر کشی کریں گے اور دشمنوں کو مشقت میں ڈال دیں گے، پھر ہم مزید ترقی کریں گے اور ہماری حکومت اور اسلام بھی بلندیوں کو پہنچ جائے گا۔
پھر جو تو نے دیکھا کہ ہم بلندیوں سے نرم زمین پر اتر آئے ہیں جو چشموں کھیتیوں اور بستیوں کے ساتھ آباد ہے، اس کی تعبیر ہے کہ ہم پہلے کی نسبت مزید خوشحالی اور فراخی میں آجائیں گے۔ اور جو میں نے کہا : دشمنوں پر ٹوٹ پڑو میں تمہارے لیے فتح اور مال غنیمت کا ضامن ہوں۔ یہ میری مسلمانوں کو جہاد کی دعوت ہے اور اس کے صلے میں فتح و غنیمت کی خوشخبری ہے جو وہ قبول کریں گے اور کافروں کے علاقوں تک پہنچ جائیں گے ، وہ جھنڈا جو تمہارے ہاتھوں میں ہے جس کے ساتھ تم ان کی ایک بستی میں داخل ہوئے اور انھوں نے امن مانگا پھر تم نے ان کو امن دیدیا۔ اس کی تعبیر ہے کہ تم مسلمانوں کے ایک لشکر پر امیر بنو گے اور تمہارے ہاتھوں اللہ پاک فتوحات فرمائے گا۔ اور وہ قلعہ جو اللہ نے مجھ پر فتح فرمایا وہ وہ فتوحات ہیں جو اللہ نے میرے لیے آسان فرمائی ہیں۔ وہ نشست جو اللہ نے مجھے بیٹھنے کے لیے مرحمت فرمائی اس کا مطلب ہے کہ اللہ پاک مجھے رفعت عطا کرے گا اور مشرکین کو ذلیل و پست کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا تھا :
ورفع ابویہ علی العرش
اور انھوں نے اپنے والدین کو عرش پر اٹھا کر بٹھایا۔
اور پھر جو مجھے اللہ کی اطاعت کا کہا گیا اور سورة نصر پڑھ کر سنائی گئی وہ میرے دنیا سے کوچ کرجانے کی خبر ہے۔ کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس سورة کے نزول کے ساتھ ان کی وفات کی خبر سنائی گئی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی مراد لیا تھا کہ ان کی رحلت کا وقت آچکا ہے۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نیکی کا حکم کرتا رہوں گا، برائی سے روکتا رہوں گا، اور جن لوگوں نے اللہ کا حکم ترک کردیا ہے ان کے ساتھ نبرد آزما رہوں گا، اللہ کا مقابلہ کرنے والوں اور شرک کرنے والوں پر لشکروں کے لشکر بھیجتا رہوں گا زمین کے مشارق میں اور مغارب میں۔ حتیٰ کہ وہ عاجز آکر کہہ اٹھیں گے : اللہ ایک ہے ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں یا پھر وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دیں گے ۔ یہ اللہ کا امر ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر جب اللہ مجھے موت سے ہمکنار کردے گا تو اللہ پاک مجھے (دشمنوں کے آگے) عاجز ہونے والا، کمزور پڑنے والا نہ پائے گا اور نہ مجاہدین کے ثواب سے بےرغبتی کرنے والا دیکھے گا۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے انہی دنوں میں لشکروں کے امراء مقرر کیے اور شام کی طرف لشکروں کو روانہ کیا۔ (رض) وارضاہ عنہ۔ ابن عساکر

14130

14130- عن محارب بن دثار قال: لما ولي أبو بكر ولي عمر القضاء وولي أبو عبيدة المال وقال: أعينوني، فمكث عمر سنة لا يأتيه اثنان ولا يقضي بين اثنين. "ق". "مسند عمر"
14130 محارب بن دثار سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو والی (خلیفہ) بنایا گیا تو حضرت عمر (رض) کے سپرد عہدہ قضاء ہوا اور ابوعبیدۃ (رض) کے سپرد بیت المال کی نظامت سپرد ہوئی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو فرمایا : میری مدد کرو۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) سال بھر اس طرح خالی رہے کہ کوئی دو آدمی اپنے جھگڑالے کر آئے اور نہ آپ (رض) نے کسی دو شخصوں کے درمیان فیصلہ فرمایا۔ السنن للبیہقی، مسند عمر

14131

14131- عن ابن مسعود قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت الأنصار: منا أمير ومنكم أمير. فأتاهم عمر فقال: يا معشر الأنصار ألستم تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمر أبا بكر أن يؤم الناس فأيكم تطيب نفسه أن يتقدم أبا بكر؟ فقالت الأنصار: نعوذ بالله أن نتقدم أبا بكر. "ابن سعد ش حم ن ع ص وابن جرير ك"
14131 حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات (پرملال) ہوگئی تو انصار کہنے لگے : ” منا امیر ومنکم امیر “ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کے پاس آکر فرمایا : اے جماعت انصار ! کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کی امامت کریں۔ اب تم میں سے کس کو اچھا لگے گا کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے۔ تب انصار (کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ) بولے : ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ابوبکر سے آگے بڑھیں۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، النسائی، مسند ابی یعلی، السنن لسعید بن منصور، ابن جریر، مستدرک الحاکم

14132

14132- عن أبي البختري قال: قال عمر لأبي عبيدة: ابسط يدك حتى أبايعك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أنت أمين هذه الأمة ف قال أبو عبيدة: ما كنت لأتقدم بين يدي رجل أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يؤمنا فأمنا حتى مات. "حم" وأبو البختري اسمه سعيد بن فيروز لم يدرك عمر.
14132 ابوالبختری سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدۃ (رض) کو فرمایا : اپنا ہاتھ آگے لاؤ تاکہ میں تمہاری بیعت کرلوں، کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ ارشاد فرما رہے تھے : تم اس امت کے امین ہو۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تھا کہ ہماری امامت کریں ۔ پس وہ یعنی ابوبکر (رض) ہماری امامت کراتے رہے حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ مسنداحمد
کلام : ابوالبختری کا نام سعید بن فیروز ہے، لیکن انھوں نے حضرت عمر (رض) کو نہیں پایا۔

14133

14133- عن عمر قال: لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم قال: ادعوا لي بصحيفة ودواة أكتب كتابا لا تضلوا بعده أبدا فقال النسوة من وراء الستر: ألا تسمعون ما يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: إنكن صواحبات يوسف إذا مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم عصرتن أعينكن، وإذا صح ركبتن عنقه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوهن فإنهن خير منكم. "طس".
14133 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو ارشاد فرمایا : مجھے ایک صحیفہ (کاغذ) اور دوات لا کردو۔ میں ایک تحریر لکھ دیتا ہوں، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔
یہ سن کر پردے کے پیچھے سے عورتیں بولیں :۔ اے مردود ! کیا تم لوگ نہیں سن رہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرما رہے ہیں ؟ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نے ان کو جواب دیا : تم تو یوسف (علیہ السلام) والی عورتیں ہو۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مریض ہوجاتے ہیں تو تم آنکھیں پونچھنے بیٹھ جاتی ہو اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندرست ہوجاتے ہیں تو تم ان کی گردن پر سوار ہوجاتی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ان عورتوں کو چھوڑو یہ تم سے بہتر ہیں۔ الاوسط للطبرانی

14134

14134- عن ابن عباس قال: قال عمر بن الخطاب: إنه كان من خبرنا حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر الصديق فقالوا: يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار، فانطلقنا نريدهم؛ فلما دنونا منهم لقينا رجلان صالحان، فذكرا ما تمالاعليه القوم فقالا: أين تريدون يا معشر المهاجرين؟ فقلنا: نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار، فقالا: لا عليكم أن لا تقربوهم، اقضوا أمركم، فقلت: والله لنأتينهم، فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة، فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم، فقلت: من هذا؟ قالوا: سعد بن عبادة، فقلت: ماله؟ قالوا: يوعكفلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فأثنى على الله بما هو أهله، ثم قال: أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام وأنتم معشر المهاجرين رهط منا، وقد دفتدافة من قومكم، فإذا هم يريدون أن يختزلونامن أصلنا وأن يحضنونامن هذا الأمر. فلما أردت أن أتكلم وكنت زورتمقالة أعجبتني أريد أن أقدمها بين يدي أبي بكر، وكنت أداري منه بعض الحدةفلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر: على رسلك؛ فكرهت أن أغضبه فتكلم أبو بكر فكان هو أعلم مني وأوقر، والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها، حتى سكت قال: ما ذكرتم من خير فأنتم له أهل ولن نعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش هم أوسط العرب نسبا ودارا، وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين فبايعوا أيهما شئتم، وأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا، فلم أكره مما قال غيرها كان والله أن أقدم فيضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم أحب إلي من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر، اللهم إلا أن تسول لي نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن فقال قائل الأنصار: أنا جذيلهاالمحكك وعذيقها المرجب منا أمير ومنكم أمير يا معشر قريش، وكثر اللغط وارتفعت الأصوات حتى فرقتمن أن يقع اختلاف؛ فقلت: ابسط يدك يا أبا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون، ثم بايعه الأنصار ونزوناعلى سعد بن عبادة فقال منهم: قتلتم سعدا، فقلت: قتل الله سعدا، أما والله ما وجدنا فيما حضرنا أمرا هو أوفق من مبايعة أبي بكر، خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يحدثوا بعدنا بيعة؛ فإما أن نبايعهم على ما لا نرضى، وإما أن نخالفهم فيكون فيه فساد فمن بايع أميرا من غير مشورة المسلمين فلا بيعة له، ولا بيعة للذي بايعه تغرةأن يقتلا. "حم خ وأبو عبيد في الغرائب ق"
14134 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : ہماری خبر یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور سب کے سب انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوگئے۔ نیز علی اور زبیر نے بھی ہماری مخالفت کرنے والوں کے ساتھ مخالفت کی۔ جبکہ عامۃ المہاجرین اکٹھے ہو کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس اکٹھے ہوگئے اور ان کو عرض کیا : اے ابوبکر ! آپ ہمارے ساتھ ہمارے انصاری بھائیوں کے پاس چلیں۔ چنانچہ ہم انصار سے ملاقات کی غرض سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو اس کے دو صلح پسند لوگ ہم سے ملے اور ان کی قوم جس طرف جھک گئی تھی انھوں نے اس کو ہم کو خبر دی۔ انھوں نے پہلے ہم سے پوچھا : اے جماعت مہاجرین ! کہاں چلے جارہے ہو ؟ ہم نے کہا : ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جارہے ہیں۔ اب تمہارا جانا ضروری نہیں رہا تم اپنا فیصلہ خود کرسکتے ہو۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم چل پڑے اور سقیفہ بنی ساعدۃ میں انصار کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں ان کے درمیان ایک شخص چادر اوڑھے۔ سب سے نمایاں تھا میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا : یہ سعد بن عبادۃ ہے۔ میں نے پوچھا : اس کو کیا ہوگیا : لوگوں نے کہا : اس کو بخار آرہا ہے۔ پھر ہم تھوڑی دیر بیٹھے تو ان کا خطیب خطبہ دینے اٹھا اور اس نے اللہ ورسول کی شہادت دی، اللہ کی حمدوثناء بیان کی جو اس کی شان ہے۔ پھر بولا :
امابعد ! ہم ” انصار اللہ “ ہیں ، اللہ کے مددگار اور اسلام کے جھنڈے اور اے جماعت مہاجرین تم ہم میں سے ایک جماعت ہو۔ تمہارے کچھ لوگ اپنی راہ چلے ہیں، جن کا ارادہ ہے کہ صرف وہی اس منصب پر قابض ہوجائیں اور ہم کو نکال باہر کریں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نے بولنا چاہا اور اپنی بات کو سانچے میں ڈھالا تو مجھے یہ بات عجیب لگی کہ ابوبکر کے آگے میں اس کو پیش کروں۔ میں نے کچھ اچھی باتیں سوچ رکھی تھیں جن کو میں نے بولنا چاہا تو حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے فرمایا : ذرا ٹھہر جا۔ چنانچہ میں نے بھی ابوبکر (رض) کو غصہ دلانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے بات شروع کی وہ مجھ سے زیادہ علم والے اور صاحب وقار نکلے۔ اللہ کی قسم ! میں نے جو بات بھی بولنے کے لیے بنائی تھی اور مجھے اچھی لگی تھی ابوبکر نے بلا تکلیف وہی بات یا اس سے اچھی بات پیش کی۔ حتیٰ کہ آپ (رض) نے فرمایا :
اے انصار تم نے تو خیر کی بات اپنے لیے ذکر کی ہے واقعی تم اس کے اہل ہو۔ لیکن ہم حکومت کا حق اس قبیلہ قریش کے لیے سمجھتے ہیں۔ یہ عرب میں نسب اور مقام کے اعتبار سے اوسط العرب ہیں۔ جن سے تمام عرب کی شاخیں ملتی ہیں۔ اور میں تمہارے واسطے اس منصب پر دو آدمیوں سے مطمئن اور راضی ہوں۔ تم ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کرلو۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے میرا ہاتھ پکڑا اور ابوعبیدۃ بن الجراح کا ہاتھ پکڑا ، وہ بھی مجلس میں موجود تھے۔
مجھے حضرت ابوبکر (رض) کی ارشاد کردہ کوئی بات ناگوار محسوس نہ ہوئی۔ سوائے اس آخری بات کے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم مجھے آگے لا کر میری گردن اڑادی جائے بغیر کسی گناہ کے، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں ایسی قوم پر امیر بنوں جن کے درمیان ابوبکر موجود ہوں۔ واللہ ! ان کی موت کے وقت میرا نفس مجھے گمراہ کردے تو اور بات ہے ، مگر اب میں ایسی کوئی بات محسوس نہیں کرتا۔
انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا : میں اس مسئلے کا حل پیش کرتا ہوں جو سب کے لیے خوشگوار ہوگا۔ ایک امیر ہم میں سے ہوجائے اور ایک امیر تم میں سے اے جماعت قریش ! یہ کہنا تھا کہ شوروغوغا بلند ہوگیا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں تب مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں اختلاف کا بیج نہ پڑجائے، لہٰذا میں نے کہا : اے ابوبکراپنا ہاتھ لائیے۔ انھوں نے اپنا ہاتھ دیا تو میں نے ان کی بیعت کرلی اور دوسرے مہاجرین نے بھی بیعت کرلی پھر انصار نے بھی بیعت کرلی۔ پھر ہم سعد بن عبادہ پر لپکے۔ ایک انصاری نے کہا : تم سعد کو قتل کرو گے کیا ؟ میں نے کہا سعد کو تو اللہ قتل کرے گا۔ اللہ کی قسم اس صورت حال میں ہم نے ابوبکر کی بیعت سے بڑھ کر کوئی موافق صورت نہ پائی۔ ہمیں ڈر تھا کہ اگر ہم تم سے جدا ہوگئے اور کسی کی بیعت نہ کی تو تم ہمارے جانے کے بعد کوئی اور بیعت کر اوگے۔ اب یا تو ہم ان کی بیعت کرتے جو ہماری مرضی کے خلاف تھا یا ہم ان کی مخالفت کرتے تو فساد پیدا ہوتا۔ پس اب سن لو جس نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کی اس کی کوئی بیعت نہیں اور نہ اس کی کوئی اہمیت جس کی بیعت کی جائے، ایسے دونوں بیعت کرنے اور کرانے والے کو قتل کیا جاسکتا ہے۔
مسند احمد، البخاری، ابوعبید فی الغرائب، السنن الکبری للبیہقی

14135

14135- عن سالم بن عبيد وكان من أصحاب الصفة قال: كان أبو بكر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل له: يا صاحب رسول الله توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم فعلموا أنه كما قال، ثم خرج فاجتمع المهاجرون يتشاورون فبينما هم كذلك إذ قالوا: انطلقوا بنا إلى أخواننا من الأنصار فإن لهم في هذا الحق نصيبا، فانطلقوا فأتوا الأنصار فقال رجل من الأنصار: منا رجل ومنكم رجل، فقال عمر: سيفان في غمد واحد إذا لا يصطلحان، فأخذ بيد أبي بكر فقال: من هذا الذي له هذه الثلاث؟ إذ هما في الغار، من هما؟ إذ يقول لصاحبه، من صاحبه؟ لا تحزن إن الله معنا، مع من هو؟ فبسط عمر يد أبي بكر فقال: بايعوه فبايع الناس أحسن بيعة وأجملها. "ق".
14135 سالم بن عبید (رض) جو اصحاب صفہ میں سے تھے سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھے۔ آپ (رض) سے پوچھا گیا : اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہاں۔ تب لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا علم ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نکلے اور مہاجرین بھی جمع ہوگئے۔ انھوں نے آپس میں مشورہ کیا۔ طے پایا کہ انصاری بھائیوں کے پاس چلتے ہیں، ان کا بھی اس معاملے میں حصہ ہے۔ چنانچہ مہاجرین چل کر انصار کے پاس آئے ۔ ایک انصاری نے کہا : ہم میں سے ایک آدمی امیر ہوگا اور ایک آدمی تم میں سے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ایک نیام میں دو تلواریں جمع ہوجائیں تو وہ درست نہیں رہ سکتیں۔ پھر انھوں نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ تھاما اور لوگوں کو فرمایا : کون ہے جس کو ان کی تین باتوں کا اعزاز حاصل ہو۔ اذھمافی الغار۔ جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے وہ دونوں کون تھے ؟ اذیقول لصاحبہ جب اس (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے اپنے ساتھی کو کہا : کون تھا اس کا ساتھی ؟ لا تحزن ان اللہ معنا، رنج نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ کس کے ساتھ تھا ؟ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کا ہاتھ پھیلایا اور فرمایا : ان کی بیعت کرلو۔ چنانچہ لوگوں نے ان کی بیعت کرلی اور اچھی طرح بیعت کی اور نبہائی۔ السنن للبیہقی

14136

14136- عن عمر أنه قال: لا خلافة إلا عن مشورة. "ش وابن الأنباري في المصاحف".
14136 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : خلافت نہیں ہے مشورے کے بغیر۔
ابن ابی شیبہ، ابن الانباری فی المصاحف

14137

14137- عن ابن عباس أن عمر جلس على المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى عليه، ثم قال، إن الله أبقى رسوله بين أظهرنا ينزل عليه الوحي من الله يحل به ويحرم به، ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع منه ما شاء أن يرفع، وأبقي ما شاء أن يبقى، فتشبثنا ببعض وفاتنا بعض فكان مما كنا نقرأ من القرآن، لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم ونزلت آية الرجم فرجم النبي صلى الله عليه وسلم ورجمنا معه، والذي نفس محمد بيده لقد حفظتها وقلتها وعقلتها لولا أن يقال كتب عمر في المصحف ما ليس فيه لكتبتها بيدي كتابا والرجم على ثلاث منازل حمل بين واعتراف من صاحبه أو شهود عدل كما أمر الله، وقد بلغني أن رجالا يقولون في خلافة أبي بكر: إنها كانت فلتة ولعمري إنها كانت كذلك ولكن الله أعطى خيرها ووقي شرها وإياكم هذا الذي ينقطع إليه الأعناق كانقطاعها إلى أبي بكر إنه كان من شأن الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي فأتينا فقيل لنا إن الأنصار قد اجتمعت في سقيفة بني ساعدة مع سعد بن عبادة يبايعون فقمت وقام أبو بكر وأبو عبيدة بن الجراح نحوهم فزعين أن يحدثوا في الإسلام، فلقينا رجلين من الأنصار رجلا صدق عويمر بن ساعدة ومعن بن عدي، فقالا: أين تريدون؟ قلنا: قومكم لما بلغنا من أمرهم، فقالا: ارجعوا فإنكم لن تخالفوا ولن يؤتى بشيء تكرهونه فأبينا إلا أن نمضى أنا أزويكلاما أن أتكلم به حتى انتهينا إلى القوم وإذا هم عكوف هنالك على سعد بن عبادة وهو على سرير له مريض؛ فلما غشيناهم تكلموا فقالوا: يا معشر قريش منا أمير ومنكم أمير فقال الحباب بن المندر: أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب إن شئتم والله رددناها جذعةفقال أبو بكر: على رسلكم. فذهبت لأتكلم فقال: أنصت يا عمر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا معشر الأنصار إنا والله ما ننكر فضلكم ولا بلاغكم في الإسلام، ولا حقكم الواجب علينا ولكنكم قد عرفتم أن هذا الحي من قريش بمنزلة من العرب فليس بها غيرهم وأن العرب لن تجتمع إلا على رجل منهم فنحن الأمراء وأنتم الوزراء، فاتقوا الله ولا تصدعوا الإسلام ولا تكونوا أول من أحدث في الإسلام ألا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين لي ولأبي عبيدة بن الجراح فأيهما بايعتم فهو لكم ثقة، قال: فوالله ما بقي شيء كنت أحب أن أقول إلا قد قاله يومئذ غير هذه الكلمة، فوالله لأن أقتل ثم أحيى ثم أقتل ثم أحيى في غير معصية أحب إلي من أن أكون أميرا على قوم فيهم أبو بكر، ثم قلت يا معشر المسلمين إن أولى الناس بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعده ثاني اثنين إذ هما في الغار أبو بكر السباق المبين، ثم أخذت بيده وبادرني رجل من الأنصار فضرب على يده قبل أن أضرب على يده فتتابع الناس وميل عن سعد بن عبادة فقال الناس: قتل سعد قتله الله ثم انصرفنا، وقد جمع الله أمر المسلمين بأبي بكر فكانت لعمري فلتة كما أعطى الله خيرها من وقي شرها، فمن دعا إلى مثلها فهو الذي لا بيعة له ولا لمن بايعه. "ش".
14137 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) منبر پر بیٹھے اللہ کی حمدوثناء کی ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر خیر فرمایا ان پر درود بھیجا پھر ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جب تک چاہا ہمارے درمیان زندہ رکھا اور ان پر وحی من جانب اللہ وحی نازل ہوتی رہی، جس کے ذریعہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلال و حرام کرتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اٹھا لیا اور جو اللہ پاک نے وحی سے واپس اٹھانا تھا اٹھا لیا اور جس کو باقی رکھنا تھا باقی رکھا۔ بعض اٹھ جانے والی وحی کو ہم نے یاد رکھا، جو قرآن ہم پہلے پڑھتے تھے ان میں یہ آیت بھی تھی :
لا ترغبوا عن آباء کم فانہ کفر بکم ان ترغبوعن آباء کم۔
اپنے آباء سے (اپنی نسبت کا) انکار نہ کرو بیشک یہ تمہاری اپنی ذات کا انکار ہے کہ تم اپنے آباء سے انکار کرو۔
نیز پہلے آیت رجم کا بھی نزول ہوا تھا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! میں نے اس آیت رجم کو یاد رکھا ، پڑھا اور پھر اچھی طرح سمجھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ کہیں گے عمر نے مصحف میں اس چیز کا اضافہ کردیا ہے جو اس میں نہیں ہے تو میں اس کو ضرور اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا۔ اور یاد رکھو رجم تین صورتوں میں لازم ہے، حمل ظاہر ہوجائے، زانی یا زانیہ خود اعتراف زنا کرلے یا چار عادل گواہ شہادت دیدیں جیسے کہ اللہ نے حکم فرمایا ہے۔
لوگو ! مجھے خبر ملی ہے کہ بعض لوگ حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں کہ وہ بلا سوچ سمجھے کی خلافت تھی۔ میری زندگی کی قسم ! ہاں اسی طرح ہوا۔ لیکن اللہ پاک نے ان کو خلافت اور بھلائی سے ہمکنار کیا اور خلافت کے شر سے ان کو بچا لیا۔ اب تم اس شخص (عمر) سے اپنا خیال رکھو، اس کی طرف گردنیں اٹھ رہی ہیں جس طرح حضرت ابوبکر (رض) کی طرف اٹھی تھیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو لوگوں کا حال یہ تھا کہ ہم کو خبر ملی کہ انصار شقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ہیں اور سعد بن عبادۃ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سن کر میں اٹھا اور ابوبکر (رض) اور ابوعبیدۃ (رض) بھی اٹھے ہم ان کی طرف پریشانی کے عالم میں نکلے کہ کہیں وہ اسلام میں فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ ہماری راستے میں دو انصاریوں سے ملاقات ہوئی، دونوں سچے آدمی تھے۔ عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی۔ انھوں نے کہا : تم کہاں جارہے ہو ؟ ہم نے کہا تمہاری قوم کی اطلاع ملی ہے ان کے پاس جارہے ہیں۔ دونوں بولے : واپس چلے جائیں کیونکہ تمہاری مخالفت ہرگز نہیں کی جائے گی اور نہ تمہاری مرضی کے خلاف کچھ ہوگا۔ ، لیکن ہم نے مڑنے سے انکار کردیا۔ جبکہ میں کلام ڈھونڈ رہا تھا کہ کیا کیا بولوں گا۔ حتیٰ کہ ہم قوم کے پاس پہنچ گئے۔ وہ لوگ سعد بن عبادۃ پر جھکے پڑے تھے سعد چارپائی پر تھا اور مرض میں مبتلا تھا۔ جب ہم ان کے پاس پہنچ گئے تو انھوں نے ہم سے بات کی اور بولے : اے جماعت قریش ! ہم میں سے بھی ایک امیر ہو اور تم میں سے بھی ایک امیر ہوجائے۔ حباب بن منذر نے کہا : میں اس مسئلے کا تسلی بخش حل پیش کرتا ہوں جو خوشگوار ہوگا۔ اگر تم چاہو واللہ ! ہم اس منصب کو واپس کردیتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم ذرا ٹھہر جاؤ۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں میں کچھ بولنے کو ہوا تو حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے بھی خاموش کرادیا۔ پھر آپ (رض) نے اللہ کی حمدوثناء بیان کی پھر فرمایا : اے جماعت انصار ! اللہ کی قسم ہم تمہاری فضیلت کا انکار ہرگز نہیں کرتے، نہ اسلام میں تمہارے مرتبے اور محنت کا انکار کرتے ہیں اور نہ اپنے اوپر تمہارے واجب حق کو بھولتے ہیں۔ لیکن تم جانتے ہو کہ یہ قبیلہ قریش عرب میں اس مرتبے پر ہے جہاں کوئی اور ان کا ہم سر نہیں، اور عرب ان کے آدمی کے سوا کسی پر راضی نہیں ہوں گے۔ پس ہم امراء بنتے ہیں اور تم وزراء ۔ پس اللہ سے ڈرو اور اسلام میں پھوٹ نہ ڈالو اور اسلام میں فتنے پیدا کرنے والوں میں اول نہ بنو۔ دیکھو میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں پر راضی ہوں تم ان میں سے کسی ایک کو چن لو مجھے (عمر کو) یا ابوعبیدۃ کو۔ تم ان میں سے جس کی بیعت کرو وہ تمہارے لیے بااعتماد ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ایسی کوئی بات نہ رہی جو میں کرنا چاہتا تھا مگر آپ (رض) نے وہ فرمادی سوائے اس آخری بات کے۔ اللہ کی قسم ! مجھے بغیر کسی گناہ کے قتل کیا جاتا، پھر مجھے زندہ کیا جاتا پھر قتل کیا جاتا پھر زندہ کیا جاتا یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند تھا کہ میں ایسی قوم پر امیر بنوں جس میں ابوبکر (رض) موجود ہوں۔ پھر میں نے کہا : اے مسلمان لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعدان کے پیچھے اس منصب کا سب لوگوں میں صحیح حقدار ثانی اثنین اذھما فی الغار ہے۔
یعنی ابوبکر جوہر خیر میں کھلی سبقت کرنے والے ہیں۔ پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑاتا کہ بیعت کروں لیکن ایک انصاری ہی نے مجھ سے پہلے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ ماردیا اور مجھ سے پہلے بیعت کا شرف حاصل کرلیا پھر دوسرے لوگ بھی ہجوم کرکے بیعت میں شامل ہوگئے۔ جبکہ سعد بن عبادۃ (رض) کو لوگوں نے چھوڑ دیا۔ لوگ کہنے لگے : سعد تو مارا گیا، اللہ اس کا برا کرے۔ انھوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : پھر ہم لوٹ آئے اور اللہ نے مسلمانوں کو ابوبکر پر جمع کردیا، میری زندگی کی قسم یہ سب اچانک ہوا، پھر اللہ نے ان کو خلافت کی خیر عطا کی اور خلافت کے شر سے محفوظ کردیا۔ پر جو اس بیعت کے لیے کسی اور کو چنے تو دونوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن ابی شیبہ

14138

14138- عن أسلم أنه حين بويع لأبي بكر بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم كان علي والزبير يدخلون على فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ويشاورونها ويرجعون في أمرهم؛ فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: يا بنت رسول الله ما من الخلق أحد أحب إلي من أبيك، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك، وأيم الله ما ذاك بما نعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن آمر بهم أن يحرق عليهم الباب، فلما خرج عليهم عمر جاؤوها قالت: تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم الباب، وايم الله ليمضين ما حلف عليه: فانصرفوا راشدين فروارأيكم ولا ترجعوا إلي فانصرفوا عنها ولم يرجعوا إليها حتى بايعوا لأبي بكر. "ش".
14138 حضرت اسلم سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کی گئی تو حضرت علی (رض) اور حضرت زبیر (رض) حضرت فاطمہ (رض) بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے اور مشورہ کرتے اور اپنے معاملے میں سوچ بچار کرتے۔ یہ بات حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس پہنچی تو وہ حضرت فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے بنت رسول اللہ ! مجھے مخلوق میں تیرے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں اور تیرے باپ کے بعد تجھ سے زیادہ ہم کو کوئی محبوب نہیں۔ اللہ کی قسم ! یہ کیا معاملہ ہے کہ یہ لوگ تمہارے پاس جمع ہو کر بات کرتے ہیں یہ باز آجائیں ورنہ میں ان کا دروازہ جلادوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت عمر (رض) وہاں سے نکل آئے پھر مذکورہ حضرات اندر آئے تو حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : جانتے ہو ، میرے پاس عمر آئے تھے وہ قسم کھا کر گئے ہیں کہ اگر تم دوبارہ ادھر اختلافی باتوں میں شامل ہوئے تو وہ تمہارا دروازہ جلادیں گے۔ اللہ کی قسم وہ جو کہہ کر گئے ہیں کر گزریں گے۔ لہٰذا تم اپنی رائے سے باز آجاؤ اور آئندہ میرے پاس اس لیے نہ آنا۔ چنانچہ وہ حضرات لوٹ گئے اور حضرت فاطمہ سے ان کے متعلق دوبارہ کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ انھوں نے حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کرلی۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14139

14139- عن عروة أن أبا بكر وعمر لم يشهدوا دفن النبي صلى الله عليه وسلم وكانا في الأنصار فدفن قبل أن يرجعا. "ش".
14139 حضرت عرورۃ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین کے موقع پر موجود نہ تھے بلکہ وہ انصار میں تھے۔ چنانچہ ان کے آنے سے پہلے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین کردی گئی۔ ابن ابی شیبہ

14140

14140- عن محمد بن سيرين أن رجلا من بني زريق قال: لما كان ذلك اليوم خرج أبو بكر وعمر حتى أتوا الأنصار فقال: يا معشر الأنصار إنا لاننكر حقكم ولا ينكر حقكم مؤمن وإنا والله ما أصبنا خيرا إلا شاركتمونا فيه، ولكن لا ترضى العرب ولا تقر إلى على رجل من قريش لأنهم أفصح الناس ألسنة؛ وأحسن الناس وجوها وأوسط العرب دارا وأكثر الناس شحمة في العرب، فهلموا إلى عمر فبايعوه، فقالوا: لا فقال عمر: فلم؟ فقالوا: نخاف الأثرة فقال: أما ما عشت فلا بايعوا أبا بكر، فقال أبو بكر لعمر: أنت أقوى مني، فقال عمر: أنت أفضل مني، فقالاها الثانية، فلما كانت الثالثة قال له عمر: إن قوتي لك مع فضلك، فبايعوا أبا بكر، وأتى الناس عند بيعة أبي بكر أبا عبيدة بن الجراح فقال: تأتوني وفيكم ثاني اثنين. "ش".
14140 محمد بن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ بنی زریق کے ایک آدمی نے بتایا کہ جب وہ دن (جس میں ابوبکر (رض)) کی بیعت کی گئی آیا تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نکل کر انصار کے پاس گئے اور ابوبکر (رض) بولے : اے انصار کی جماعت ! ہم تمہارے حق کا انکار نہیں کرتے کیونکہ تمہارے حق کا انکار کوئی مومن نہیں کرسکتا۔ اللہ کی قسم ہم کو جو خیر (مال اور بھلائی) حاصل ہوئی تم اس میں ہمارے (برابر کے) شریک ہوگے۔ لیکن عرب قریش ہی کے کسی آدمی کے امیر بننے پر راضی ہوں گے اور اسی کا اقرار کریں گے۔ کیونکہ قریش زبان میں سب سے فصیح ترین، وجاہت میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر اور ٹھکانے میں عرب کے درمیان ہیں اور جسمانی توانائی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ لہٰذا آؤ اور عمر کی بیعت کرلو۔ لوگوں نے کہا : نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کیوں ؟ لوگ بولے : ہم کو خوف ہے کہ ہم پر اوروں کو ترجیح دی جائے گی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب تک میں زندہ ہوں تم پر کسی کو ترجیح نہ دی جائے گی لہٰذا تم ابوبکر کی بیعت کرلو۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو فرمایا : تم مجھ سے زیادہ قوی ہو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آپ مجھ سے زیادہ افضل ہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی بات دہرائی۔ تیسری مرتبہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) کو فرمایا : میری قوت آپ کی فضیلت کے ساتھ ہے۔ یعنی میں آپ کا بھرپور تعاون کروں گا پھر لوگوں کو فرمایا : ابوبکر (رض) کی بیعت کرلو۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کی بیعت کے وقت لوگ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح کے پاس بھی آئے لیکن انھوں نے فرمایا تم میرے پاس آئے ہو حالانکہ تمہارے درمیان ثانی اثنین ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14141

14141- عن إبراهيم التيمي قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى عمر أبا عبيدة بن الجراح فقال: ابسط يدك فلأبايعك فإنك أمين هذه الأمة على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو عبيدة [لعمر] : ما رأيت لك فهة[قبلها] منذ أسلمت أتبايعني وفيكم الصديق وثاني اثنين. "ابن سعد وابن جرير"
14141 ابراہیم تیمی (رح) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی تو حضرت عمر (رض) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اپنا ہاتھ پھیلاؤ میں آپ کی بیعت کروں گا۔ کیونکہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان کے مطابق اس امت کے امین ہیں۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : جب سے تم اسلام میں داخل ہوئے ہو میں نے تم سے کوئی ایسی بیوقوفی کی بات نہیں سنی (جیسی آج سنی ہے) کیا تو میری بیعت کرے گا حالانکہ تمہارے درمیان صدیق جو ثانی اثنین ہیں موجود ہیں۔ ابن سعد، ابن جریر

14142

14142- عن حمران قال: قال عثمان بن عفان: إن أبا بكر الصديق أحق الناس بها يعني الخلافة؛ إنه لصديق، وثاني اثنين، وصاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم. "خيثمة بن سليمان الأطرابلسي في فضائل الصحابة".
14142 حمران سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق (رض) لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں، کیونکہ وہ صدیق ہیں، ثانی اثنین ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غار کے یار ہیں جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ثانی اثنین دو میں سے دوسرا اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (حضرسفر کے) ساتھی ہیں۔ خیثمۃ بن سلیمان الاطرابلسی فی فضائل الصحابۃ

14143

14143- عن عائشة قالت: خرج أبو بكر ثم قال: من كان عنده عهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم فليأتنا، فقال عمر: لو كان منه عهد كان عهده إلى الله ثم إليك. "اللالكائي".
14143 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نکلے اور ارشاد فرمایا : جس کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی عہد ہو وہ آجائے ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کررکھا ہوگا تو اس کا پورا کرنا پہلے اللہ پر ہے اور پھر آپ پر۔ اللالکانی

14144

14144- عن زيد بن علي عن أبيه أن أبا سفيان جاء إلى علي فقال: يا علي بايعوا رجلا أذل قريش قبيلة، والله لئن شئت لنصد عنها عليه أقطارها ولأملأنها عليه خيلا ورجلافقال له علي: يا أبا سفيان إن المؤمنين وإن بعدت ديارهم وأبدانهم قوم نصحة بعضهم لبعض، وإن المنافقين وإن قربت ديارهم وأبدانهم قوم غششة بعضهم لبعض، وإنا قد بايعنا أبا بكر وكان لذلك أهلا. "أبو أحمد الدهقان في حديثه"
14144 زید بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوسفیان حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور بولے : اے علی ! لوگوں نے ایک ایسے شخص کی بیعت کرلی ہے جس نے قریش قبیلے کو رسوا و ذلیل کردیا ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم کہو تو میں اس شخص پر خلافت کے سارے دروازے بند کردیتا ہوں اور اس کے خلاف گھڑ سوار اور پیادہ لشکروں کو کھڑا کردیتا ہوں۔ حضرت علی (رض) نے ان کو فرمایا : اے ابوسفیان ! مومنین خواہ ان کے وطن اور جسم ایک دوسرے سے دور دور ہوں پھر بھی وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ جبکہ منافقین خواہ ان کے وطن اور جسم قریب قریب ہوں لیکن وہ دھوکا باز قوم ہے جو ایک دوسرے کو بھی دھوکا دینے سے باز نہیں آتی۔ لہٰذا ہم ابوبکر کی بیعت کرچکے ہیں اور وہ حقیقتاً اس خلافت کے اہل ہیں۔ ابواحمد الدھقان فی حدیثہ
فائدہ : ابواحمدحمزۃ بن محمد بن العباس الدھقان ہیں، ثقہ ہیں، مادراء النہر کے باشندے تھے۔ 347 ھ میں وافت پائی۔ تاریخ بغداد 183/8 ۔

14145

14145- عن زيد بن علي عن آبائه قال: قام أبو بكر على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: هل من كاره فأقيله ثلاثا يقول ذلك، فعند ذلك يقوم علي بن أبي طالب فيقول: لا والله لا نقيلك ولا نستقيلك من ذا الذي يؤخرك وقد قدمك رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن النجار".
14145 زید بن علی اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر کھڑے ہوئے اور تین بار ارشاد فرمایا کوئی ہے میری خلافت کو ناپسند کرنے والا، میں اس منصی کو واپس کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہر بار حضرت علی (رض) نے کھڑے ہو کر جواب ارشاد فرمایا :
نہیں، اللہ کی قسم ! ہم آپ کو یہ منصب ہرگز واپس نہیں کرنے دیں گے اور نہ آپ سے اس ذمہ داری کو لیں گے ۔ کون ہے جو آپ کو پیچھے ہٹا سکتا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو آگے بڑھا چکے ہیں۔ ابن النجار

14146

14146- عن أبي البختري قال: قال عمر لأبي عبيدة: هلم حتى أبايعك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنك أمين هذه الأمة، فقال أبو عبيدة: كيف أصلي بين يدي رجل أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يؤمنا حتى قبض. "كر".
14146 ابوالنجتری سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدۃ (رض) کو فرمایا : آگے آؤ میں تمہاری بیعت کرتا ہوں کیونکہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم اس امت کے امین ہو۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : میں ایسے شخص کے آگے کھڑا ہو کر کیسے نماز پڑھا سکتا ہوں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ ہماری امامت کریں حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا۔ ابن عساکر

14147

14147- عن أبي طلحة قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قام خطباء الأنصار فقالوا: يا معاشر المهاجرين، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا بعث رجلا منكم قرنه برجل منا فنحن نرى أن يلي هذا الأمر رجلان: رجل منكم ورجل منا، فقام زيد بن ثابت فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان من المهاجرين وكنا أنصار رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحن أنصار من يقوم مقامه فقال أبو بكر جزاكم الله خيرا من حي يا معشر الأنصار وثبت قائلكم والله لو قلت غير هذا ما صالحناكم. "طب".
14147 ابوطلحہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو انصار کے خطباء کھڑے ہوئے اور بولے : اے گروہ مہاجرین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم میں سے کسی کو (امیر بنا کر ) بھیجتے تھے تو ایک آدمی ہمارا اس کے ساتھ ملا دیتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین میں سے تھے اور ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصار (مددگار) تھے۔ پس اب بھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ کھڑا ہوگا ہم اس کے انصار (مددگار ) ہوں گے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے قبیلے کو اچھا بدلہ عطا کرے اے گروہ انصار اور اللہ تمہارے کہنے والے کو ثابت قدم رکھے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم اس کے علاوہ کچھ اور کہتے تو ہم کبھی اس پر تم سے صلح نہ کرتے۔ الکبیر للطبرانی
کلام : روایت ضعیف ہے دیکھئے : ذخیرۃ الحفاظ 4527

14148

14148- عن ابن مسعود قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم قالت الأنصار، منا أمير فأتاهم عمر فقال: يا معشر الأنصار ألم تعلموا أن النبي صلى الله عليه وسلم قدم أبا بكر يؤم فأيكم تطيب نفسه أن يتقدم أبا بكر. "أبو نعيم في فضائل الصحابة".
14148 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی تو انصار نے کہا : ہم میں سے ایک امیر ہوجائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے انصار کی جماعت ! کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر کو امامت کے لیے آگے کیا ۔ اب تم میں کس کا دل گوارا کرتا ہے کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے۔ ابونعیم فی فضائل الصحابۃ

14149

14149- عن القعقاع بن عمرو قال: شهدت وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما صلينا الظهر جاء رجل فقام في المسجد فأخبر بعضهم بعضا ان الأنصار قد اجتمعوا أن يولوا سعدا ويتركوا عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستوحش المهاجرون من ذلك. "ابن جرير".
14149 قعقاع بن عمرو سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے موقع پر حاضر ہوا ہم نے ظہر کی نماز ادا کرلی تو ایک آدمی آیا اور مسجد میں کھڑا ہوگیا۔ پھر اس کے اطلاع دینے کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے کو خبر دی کہ انصار جمع ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عہد چھوڑ کر سعد کو اپنا امیر بنانا چاہتے ہیں۔ مہاجرین اس خبر سے وحشت زدہ ہوگئے۔ ابن جریر

14150

14150- عن أبي نضرة قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اجتمعت الأنصار فقام خطيب الأنصار فقال: قد علمتم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا بعث منكم أميرا بعث منا أميرا: وإذا بعث منكم أمينا بعث منا أمينا. "ابن جرير".
14150 ابونضرۃ سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو انصار (بنی سقیفہ میں) جمع ہوگئے اور انصار کا خطیب بولا : تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم میں سے کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو ہم میں سے بھی ایک امیر بنا کر بھیجتے اور جب تم میں سے ایک امین بھیجتے تو ہم میں سے بھی ایک امین بنا کر بھیجتے تھے۔ ابن جریر

14151

14151- عن علي أنه قال يوم الجمل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يعهد إلينا عهدا نأخذ به في الإمارة، ولكنه شيء رأيناه من قبل أنفسنا فإن يك صوابا فمن الله، ثم استخلف أبو بكر رحمة الله على أبي بكر فأقام واستقام ثم استخلف عمر رحمة الله على عمر فأقام واستقام حتى ضرب الدين بجرانه"حم ونعيم بن حماد في الفتن وابن أبي عاصم عق واللالكائي ق في الدلائل والدورقي ص".
14151 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے جنگ جمل کے روز ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ لوئی ایسا عہد نہیں فرمایا تھا جس کو ہم امارت (حکومت) کے سلسلے میں سند بناسکیں۔ لیکن یہ ہماری اپنی رائے تھی اگر وہ درست ہو تو اللہ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ پھر ابوبکر کو خلیفہ بنایا گیا ان پر اللہ کی رحمت ہو، وہ اس منصب پر قائم رہے اور ثابت قدم رہے پھر عمر کو خلیفہ بنایا گیا وہ بھی اس منصب پر قائم رہے اور ثابت قدم رہے حتیٰ کہ دین اپنے صحیح ٹھکانے پر آگیا۔ مسند احمد ، نعیم بن حماد فی الفص، ابن ابی عاصم ، الضعفاء للعقیلی، اللالکانی ، اللبیہقی فی الدلائل، الدروقی، السنن لسعید بن منصور

14152

14152- عن قيس بن عباد قال: قال علي بن أبي طالب: والذي فلق الحبة وبرأ النسمةلو عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا لجالدت عليه ولم اترك ابن أبي قحافة يرقى درجة واحدة من منبره. "العشاري".
14152 قیس بن عباد سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو (زمین میں) شق کیا اور جسم میں روح پھونکی اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ کوئی عہد کرجاتے تو میں اس پر جنگ وجدال کرتا اور ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کو نہ چھوڑتا کہ وہ منبر رسول کے ایک درجے پر بھی قدم رکھ سکے۔ العشاری

14153

14153- عن سعيد بن المسيب قال: خرج علي بن أبي طالب لبيعة أبي بكر فبايعه، فسمع مقالة الأنصار، فقال علي: يا أيها الناس أيكم يؤخر من قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال سعيد بن المسيب: فجاء علي بكلمة لم يأت بها أحد منهم. "العشاري واللالكائي والأصبهاني في الحجة".
14153 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ابوبکر (رض) کی بیعت کے لیے نکلے اور ان کی بیعت کرلی۔ پھر انھوں نے انصار کی بات سنی تو ارشاد فرمایا : اے لوگو ! تم میں سے کون ہے جو اس شخص کو موخر کرے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقدم فرماچکے ہیں۔
حضرت سعید بن المسیب (رح) فرماتے ہیں : حضرت علی (رض) نے (ابوبکر (رض)) کے حق میں مذکورہ ایسی بات ارشاد فرمائی تھی جو ابھی تک کسی نے نہ کی تھی۔ العشاری، اللالکائی، الاصبھانی فی الحجۃ

14154

14154- عن أبي الجحافقال: لما بويع أبو بكر أغلق بابه ثلاثة أيام يخرج إليهم في كل يوم فيقول: أيها الناس قد أقلتكم بيعتكم فبايعوا من أحببتم، وكل ذلك يقوم إليه علي بن أبي طالب فيقول: لا نقيلك ولا نستقيلك وقد قدمك رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن ذا يؤخرك؟ "العشاري".
14154 ابوالجحاف سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت پر بیعت ہوئی تو وہ تین دن تک اپنے گھر کا دروازہ اندر سے بند کرکے بیٹھ رہے اور لوگوں کے پاس ہر روز آکر ارشاد فرماتے :
اے لوگو ! میں تم کو تمہاری بیعت واپس کرتا ہوں۔ لہٰذا تم جس کی چاہو بیعت کرلو۔
اور ہر روز حضرت علی (رض) کھڑے ہو کر ان کو جواب ارشاد فرماتے تھے :
ہم اپنی بیعت واپس ہرگز نہیں لیتے اور نہ آپ کو پہلی بیعت فسخ کرنے دیں گے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو مقدم کرچکے ہیں، اب کون آپ کو موخر کرسکتا ہے ؟ العشاری

14155

14155- عن علي قال: والله إن إمارة أبي بكر وعمر لفي كتاب الله: {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً} قال لحفصة: أبوك وأبو عائشة واليا الناس من بعدي؛ فإياك أن تخبري أحدا. "عد والعشاري وابن مردويه وأبو نعيم في فضائل الصحابة كر".
14155 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی امارت اللہ کی کتاب میں ہے :
واذاسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثاً ،
اور جب نبی نے اپنی بعض بیویوں کے ساتھ سرگوشی میں بات کی یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ کو فرمایا : تیرا باپ اور عائشہ کا باپ میرے بعد لوگوں کے والی (حاکم) ہوں گی۔ لہٰذا تم اس بات کی کسی کو خبر نہ دینا۔
الکامل لا بن عدی، العشاری، ابن مردویہ ، ابونعیم فی فضائل الصحابۃ، ابن عساکر
کلام : روایت ضعیف ہے ، الکامل لابن عدی، ذخیرۃ الحفاظ 5969 ۔

14156

14156- عن سويد بن غفلة قال: دخل أبو سفيان على علي والعباس فقال: يا علي وأنت يا عباس ما بال هذا الأمر في أذل قبيلة من قريش وقلهاوالله لئن شئت لاملأنها عليه خيلا ورجالا، فقال له علي: لا والله ما أريد أن تملأها عليه خيلا ورجالا، ولولا أنا رأينا أبا بكر لذلك أهلا ما خليناه وإياها، يا أبا سفيان إن المؤمنين قوم نصحة بعضهم لبعض متوادون وإن بعدت ديارهم وأبدانهم، وإن المنافقين قوم غششة بعضهم لبعض. "كر".
14156 سوید بن غفلہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو سفیان حضرت علی اور حضرت عباس کے پاس آئے اور بولے : اے علی ! اور اے عباس ! کیا بات ہے کہ یہ حکومت قریش کے ذلیل ترین اور چھوٹے قبیلے میں کس طرح چلی گئی ؟ اللہ کی قسم ! اگر تم چاہو تو میں اس شخص پر گھڑسوار اور پیادہ لشکروں کی بھر مار کرسکتا ہوں۔ حضرت علی (رض) نے ان کو فرمایا : نہیں، اللہ کی قسم ! میں ہرگز نہیں چاہتا کہ تم ایسا قدم اٹھاؤ اور ان پر پیادہ وسوار لوگوں کو چڑھاؤ۔ اگر ہم ابوبکر کو اس منصب کا اہل نہ سمجھتے تو ہرگز ان کو خلافت پر نہ چھوڑتے۔ اے ابوسفیان ! مومنین تو ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہوتے ہیں اور باہم محبت کرنے والے (شیروشکر) ہوتے ہیں ، خواہ ان کے وطن اور جسم دور دور ہوں۔ جبکہ منافقین ایک دوسرے کے لیے دھوکا باز ہوتے ہیں۔ ابن عساکر

14157

14157- عن قيس بن أبي حازم قال: رأيت عمر بن الخطاب وبيده عسيب نخل وهو يقول: اسمعوا لخليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ش". قتاله رضي الله عنه مع أهل الردة
14157 (مسند عمر (رض)) قیس بن ابی حازم سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا آپ ہاتھ میں کھجور کی شاخ لیے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں : خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ابوبکر (رض)) کی بات سنو۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14158

14158- عن ابن عمر قال: لما ندرأبو بكر الصديق إلى ذي القصة في شأن أهل الردة واستوى على راحلته أخذ علي بن أبي طالب بزمام راحلته وقال: إلى أين يا خليفة رسول الله أقول لك ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد: شم سيفكولا تفجعنا بنفسك، وارجع إلى المدينة فوالله لئن فجعنا بك لا يكون للإسلام نظام أبدا. "قط في غرائب مالك والخلعي في الخلعيات" وفيه أبو غزية محمد بن يحيى الزهري متروك.
14158 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) مرتدین سے نمٹنے کے لیے تیار ہوئے اور اپنی سواری پر بیٹھ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے آپ کی سواری کی باگ ڈور تھام لی اور فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ کہاں جارہے ہیں ؟ میں آپ کو آج وہی بات کہتا ہوں جو آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن فرمائی تھی کہ : اپنی تلوار کو نیام میں کرلیجئے اور اپنی جان کے ساتھ ہم کو رنج میں نہ ڈالیے۔ اور مدینہ واپس تشریف لے چلئے۔ اللہ کی قسم ! اگر آج ہم کو آپ کی جان کا رنج پہنچ گیا تو اسلام کا نظام کبھی نہیں سینپ سکے گا۔
الدارقطنی فی غرائب مالک، الخلعی فی الخلبیات
کلام : روایت ضعیف ہے، اس میں ابوغزیۃ محمد بن یحییٰ الزھری متروک راوی ہے۔

14159

14159- "مسند أبي بكر" عن عمر قال: لما اجتمع رأي المهاجرين وأنا فيهم حين ارتدت العرب فقلنا: يا خليفة رسول الله اترك الناس يصلون ولا يؤدون الزكاة فإنهم لو قد دخل الإيمان في قلوبهم لأقروا بها فقال أبو بكر: والذي نفسي بيده، لأن أقع من السماء أحب إلي من أن أترك شيئا قاتل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا أقاتل عليه فقاتل العرب حتى رجعوا إلى الإسلام، فقال عمر: والذي نفسي بيده لذلك اليوم خير من آل عمر. "العدني".
14159 (مسند ابی بکر (رض)) حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب عرب قبائل مرتد ہوگئے۔ اور مہاجرین کی رائے ایک ہوگئی جن میں میں بھی شامل تھا، تو ہم نے عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! لوگوں کو چھوڑ دیئے وہ نماز پڑھتے رہیں اور زکوۃ ادا کرتے رہیں کیونکہ اگر ایمان ان کے دلوں میں داخل ہوگا تو وہ اس کا اقرار بھی کرلیں گے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر میں آسمان سے نیچے گر جاؤں تو یہ مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ ایسی بات چھوڑ دوں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال کیا تھا۔ میں بھی اس پر ضرور قتال کروں گا ۔ چنانچہ آپ (رض) نے عرب مرتدین سے قتال کیا حتیٰ کہ وہ اسلام کی طرف لوٹ آئے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابوبکر کا وہ ایک دن عمر کی ساری آل سے بہتر ہے۔ العدنی

14160

14160- عن الزهري قال: لما بعث أبو بكر الصديق لقتال أهل الردة قال: بيتوافأينما سمعتم فيها الأذان فكفوا عنها فإن الأذان شعار الإيمان. "عب".
14160 زہری (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مرتدین سے قتال کے لیے لشکر بھیجا تو ان کو ارشاد فرمایا : (جہاں بھی لشکر کشی کرو) پہلے وہاں رات بسر کرو جہاں کہیں تم اذان کی آواز سنو وبال قتال کرنے سے رک جاؤ کیونکہ اذان ایمان کا شعار (علامت ) ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

14161

14161- عن ابن إسحاق قال: حدثني طلحة بن عبيد الله بن أبي بكر يأمر أمراءهم حين كان يبعثهم في الردة إذا غشيتم دارا فإن سمعتم بها أذانا فكفوا حتى تسألوهم ماذا تنقموافإن لم تسمعون أذانا فشنوها غارة واقتلوا واحرقوا وانهكوافي القتل والجراح لا يرى بكم وهن لموت نبيكم. "ق".
14161 ابن اسحاق (رح) سے مروی ہے ، مجھے طلحہ بن عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) جب لشکروں کو مرتدین سے لڑائی کے لیے روانہ فرماتے تو ان کو ارشاد فرماتے : جب تم کسی علاقے کو گھیرا ڈالو اگر وہاں تم کو اذان کی آواز سنائی دے تو جنگ سے رک جاؤ۔ حتیٰ کہ تم پھر ان سے سوال کرو کہ تم کو (اسلام میں ) کیا عیب نظر آیا۔ اگر تم کو اذان کی آواز سنائی نہ دے تو وہاں غارت گری کردو، قتل کرو، جلاؤ اور خوب خونریزی کرو اور تمہارے نبی کی موت کی وجہ سے تم میں کسی طرح کی کمزوری نظر نہ آنا چاہیے۔ السنن للبیہقی

14162

14162- عن عاصم بن ضمرة قال: ارتد علقمة بن علاثة عن دينه بعد النبي صلى الله عليه وسلم وأبى أن يجنح للسلم فقال أبو بكر: لا يقبل منك إلا سلم مخزية أو حرب مجلية قال: ما سلم مخزية؟ قال: تشهدون على قتلانا أنهم في الجنة، وأن قتلاكم في النار وتدونقتلانا ولا ندي قتلاكم، فاختاروا سلما مخزية. "ق عب".
14162 عاصم بن خمرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وافت کے بعد علقمۃ بن علاثۃ اپنے دین سے پھرگئے اور صلح کرنے (اسلام) میں آنے سے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو فرمایا : تم سے رسوا کن صلح قبول کریں گے یا پھر تم کو کھلی جنگ میں آنا پڑے گا۔ علقمہ نے پوچھا : رسوا کن صلح کیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : یہ کہ تم شہادت دو گے ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں۔ نیز تم ہمارے مقتولوں کی دیت ادا کرو گے اور ہم تمہارے مقتولوں کی دیت نہیں دیں گے۔ چنانچہ انھوں نے رسوا کن صلح اختیار کرلی۔ السنن للبیہقی ، الجامع لعبد الرزاق

14163

14163- عن أنس قال: قال أبو بكر: إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة والله لو منعوني عقالا مما كانوا يعطون رسول الله صلى الله عليه وسلم لأقاتلنهم عليه. "ق".
14163 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے قتال داری رکھوں حتیٰ کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ نیز نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھے ایک رسی نہ دیں گے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زکوۃ میں دیتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے قتال کروں گا۔ السنن للبیہقی

14164

14164- عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم اشرأبالنفاق بالمدينة، وارتدت العرب، وارتدت العجم وأبرقت وتواعدوا نهاوند وقالوا: قد مات هذا الرجل الذي كانت العرب تنصر به فجمع أبو بكر المهاجرين والأنصار وقال: إن هذه العرب قد منعوا شاتهم وبعيرهم ورجعوا عن دينهم، وإن هذه العجم قد تواعدوا نهاوند ليجمعوا لقتالكم وزعموا أن هذا الرجل الذي كنتم تنصرون به قد مات فأشيروا علي فما أنا إلا رجل منكم وإني أثقلكم حملا لهذه البلية فأطرقوا طويلا ثم تكلم عمر بن الخطاب فقال: أرى والله يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تقبل من العرب الصلاة وتدع لهم الزكاة فإنهم حديث عهد بجاهلية لم يقدهمالإسلام، فإما أن يردهم الله إلى خير، وإما أن يعز الله الإسلام فنقوى على قتالهم، فما لبقية المهاجرين والأنصار يدان للعرب والعجم قاطبة فالتفت إلى عثمان فقال: مثل ذلك، وقال علي: مثل ذلك، وتابعهم المهاجرون ثم التفت إلى الأنصار فتابعوهم، فلما رأى ذلك صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما بعد فإن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم والحق قل شريد والإسلام غريب طريد قد رث حبله وقل أهله، فجمعهم الله بمحمد صلى الله عليه وسلم وجعلهم الأمة الباقية الوسطى والله لا أبرح أقوم بأمر الله وأجاهد في سبيل الله حتى ينجز الله لنا وعده ويفي لنا عهده، فيقتل من قتل منا شهيدا في الجنة، ويبقى من بقي منا خليفة الله في أرضه ووارث عبادة الحق فإن الله تعالى قال لنا ليس لقوله خلف: {وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ} والله لو منعوني عقالا مما كانوا يعطون رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم أقبل معهم الشجر والمدر والجن والإنس لجاهدتهم حتى تلحق روحي بالله إن الله لم يفرق بين الصلاة والزكاة، فجمعهما فكبر عمر وقال: والله قد علمت حين عزم الله لأبي بكر على قتالهم أنه الحق. "خط في رواة مالك".
14164 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی تو مدینہ میں نفاق عام ہوگیا، عرب مرتد ہوگئے ، عجم مرتد ہوگئے دھمکیاں دینے لگے اور نہاوند میں اکٹھے ہوگئے اور بولے : اب وہ شخص مرچکا ہے جس کی وجہ سے عرب کی مدد کی جاتی تھی۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) مہاجرین اور انصار کو اکٹھا فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا : عرب نے اپنی بکریاں اور اونٹ (زکوۃ میں دینے سے) روک لیے ہیں اور اپنے دین سے پھرگئے ہیں۔ جبکہ عجم نہاوند میں ہمارے خلاف جمع ہوگئے ہیں تاکہ تم سے قتال کریں۔ اور ان سب کا خیال ہے کہ جس شخص کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی تھی اس کا انتقال ہوچکا ہے۔ اب تم لوگ مجھے مشورہ دو کیونکہ میں تم میں سے ایک عام آدمی ہوں میں تم کو اس آزمائش میں بھیجنا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر حاضرین نے کافی دیر تک اپنے سر بگریبان کرلیے۔ پھر حضرت عمر (رض) بولے : میرا خیال ہے اللہ کی قسم ! اے خلیہ رسول اللہ ! آپ عرب سے صرف نماز قبول کرلیں اور زکوۃ ان سے چھوڑ دیں۔ کیونکہ ان کا زمانہ جاہلیت ابھی قریب ہی گزرا ہے، ابھی اسلام ان سے بدلہ نہ لے سکے گا۔ یا تو اللہ پاک ان کو خیر کی طرف واپس فرمادے گا یا پھر اللہ پاک اسلام کو غالب کردے گا، تب ہم طاقت ور ہوجائیں گے پھر ان کے ساتھ قتال کرلیں گے۔ ابھی یہ باقی ماندہ مہاجرین و انصار ہیں سارے عرب وعجم کا کیا مقابلہ کریں گے۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) حضرت عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے بھی اسی کی مثل کہا ۔ پھر حضرت علی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے انھوں نے بھی اس کی مثل مشورہ دیا۔ پھر دوسرے مہاجرین نے بھی انہی کی پیروی کی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) انصار کی طرف متوجہ ہوئے وہ بھی گزشتہ لوگوں کی طرح بولے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابوبکر (رض) منبر پر چڑھ گئے اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
امابعد ! اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا جب حق ناپید تھا، ترش رو تھا، اسلام غریب تھا، دھتکارا ہوا تھا، اس کی رسی بوسیدہ ہوچکی تھی اور اس کے اہل و عیال کم پڑگئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمع کردیا اور ان کی باقی رہنے والی کو امۃ وسطاً قرار دیا۔
اللہ کی قسم ! اب میں اللہ کے حکم کو قائم کرکے رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کرتا رہوں گا حتیٰ کہ اللہ پاک ہمارے ساتھ اپنا وعدہ پورا کردے اور اپنا عہد پورا کردے ۔ پھر جو قتل ہوجائے گا وہ شہادت کی موت مرے گا اور جنت میں جائے گا اور جو پیچھے رہ جائیں گے وہ اللہ کی زمین میں اس کے خلیفہ بن کر رہیں گے اور حق کی عبادت کرنے والے ہوں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ہم کو فرمایا ہے جس کی وعدہ خلافی نہیں ہوتی :
وعدہ اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم،
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے اچھے اعمال کیے ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے تھے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے اور پھر ان کی مدد میں شجروحجر اور جن وانس بھی جمع ہوجائیں تو میں ان سے تب تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک کہ میری روح اللہ سے نہیں جاملتی۔ بیشک اللہ نے نماز اور زکوۃ میں فرق نہیں کیا بلکہ ان کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔
(یہ سن کر) حضرت عمر (رض) نے نعرہ اللہ اکبر بلند کیا اور فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم ! جب اللہ نے ابوبکر کو قتال پر مضبوط اور پختہ عزم عطا کردیا تب مجھے خوب معلوم ہوگیا کہ یہی حق ہے۔
الخطیب فی رواۃ مالک

14165

14165- عن صالح بن كيسان قال: لما كانت الردة قام أبو بكر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: الحمد لله الذي هدى فكفى وأعطى فأغنى إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم والعلم شريد والإسلام غريب طريد قد رث حبله وخلق عهده وضل أهله عنه ومقت الله أهل الكتاب فلم يعطهم خيرا لخير عندهم، ولا يصرف عنهم شرا لشر عندهم، وقد غيروا كتابهم، وألحقوا فيه ما ليس فيه والعرب الأميون صفر من الله لا يعبدونه ولا يدعونه أجهدهمعيشا وأضلهم دينا في ظلفمن الأرض معه فئة الصحابة فجمعهم الله بمحمد صلى الله عليه وسلم وجعلهم الأمة الوسطى نصرهم بمن اتبعهم ونصرهم على غيرهم حتى قبض الله نبيه صلى الله عليه وسلم فركب منهم الشيطان مركب الذي أنزله الله عنه وأخذ بأيديهم ونعىهلكهم {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} إن من حولكم من العرب منعوا شاتهم وبعيرهم ولم يكونوا في دينهم، وإن رجعوا إليه أزهد منهم يومهم هذا ولم يكونوا في دينكم أقوى منكم يومكم هذا على ما فقدتم من بركة نبيكم صلى الله عليه وسلم ولقد وكلكم إلى الكافي الأول الذي وجد ضالا فهداه وعائلا فأغناه وكنتم على شفا حفرة من النار فأنقذكم منها والله لا أدع أقاتل على أمر الله حتى ينجز الله وعده ويوفي لنا عهده، ويقتل من قتل شهيدا من أهل الجنة ويبقى من بقي منا خليفة ووارثه في أرضه قضى الله الحق وقوله الذي لا خلف فيه: {وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ} ثم نزل "كر" قال ابن كثير فيه انقطاع بين صالح بن كيسان والصديق لكنه يشهد لنفسه بالصحة لجزالة ألفاظه وكثرة ماله من الشواهد
14165 صالح بن کیسان سے مروی ہے کہ جب ردۃ کا واقعہ پیش آیا (لوگ مرتد ہونے لگے) تو حضرت ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمدوثناء کی ، پھر ارشاد فرمایا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہدایت بخشی اور کفایت کی ، عطا کیا اور غنی کردیا ۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا جس وقت علم مفقود تھا، اسلام اجنبی اور دھتکارا ہوا تھا، اس کی رسی بوسیدہ تھی اور اس کا عہد کمزور تھا، اللہ پاک اہل کتاب سے ناراض تھا لہٰذا اس نے ان کو خیر عطا نہیں کی اور ان سے شر کو دفع نہیں کیا جو ان کے پاس تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب کو تبدیل کردیا تھا اور وہ باتیں اس میں ڈال دی تھیں جو اس میں سے نہیں تھیں۔ جبکہ عرب ان پڑھ اور اللہ سے نابلد تھے، اس کی عبادت کرتے تھے اور نہ اس کو پکارتے تھے۔ ان کی زندگی مشقت و سختی میں تھی، وہ دین میں گمراہ تھے، ممنوعہ زمین میں تھے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کے کچھ رفقاء تھے۔ جن کو اللہ نے اپنے نبی محمد کے ساتھ جمع کردیا تھا پھر ان کو امت وسطاً قرار دیا، ان کو ان کے پیروکاروں کے ساتھ مدد عطا کی، ان کے دشمنوں پر ان کو نصرت عطا کی حتیٰ کہ پھر اللہ پاک نے اپنے نبی کو اٹھا لیا۔ پھر شیطان دوبارہ ان کی اس سواری پر سوار ہوگیا جس سے اللہ نے اس کو اتاردیا تھا۔ اس نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہلاک زدگان کا مردہ سنا :
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا وسیجزی اللہ الشاکرین،
اور محمد صرف رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں، کیا اگر وہ مرگئے یا شہید کردیئے گئے تو کیا تم پلٹ جاؤ گے ایڑیوں کے بل (الٹے پاؤں) اور جو الٹے پاؤں پھرا وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں دے گا اور عنقریب اللہ شکر گزاروں کو (اچھا) بدلہ عطا کرے گا۔
لوگو ! تمہارے آس پاس موجود عرب نے بکری اور انوٹ زکوۃ میں دینے سے روک لیے ہیں اب وہ اپنے دین میں نہیں رہے۔ اگر وہ اس کی طرف واپس آجائیں تو میں ان پر یہ جنگ مسلط نہیں کروں گا لیکن وہ پھر تمہارے دین میں تم سے قوی ہرگز نہ ہوں گے۔ یہ دین تم کو اس لیے دیکھنا پڑا ہے کہ تم سے تمہارے پیغمبر کی برکت چلی گئی ہے۔ لیکن وہ تم کو اس ذات پر نگہبان کے سپرد کرگیا ہے جو کافی ہے اور اول ہے۔ جس نے تمہارے نبی کو بھٹکا پایا تھا پھر اس کو ہدایت بخشی تھی ، فقیر پایا تھا پھر اس کو غنی و مالدار کردیا تھا :
ووجدک صالا فتھدی ووجدک عائلا فاغنی،
جبکہ تم کو اس نے جہنم کے کنارے پر کھڑا پایا تو تم کو اس سے بچا لیا۔
اب اللہ کی قسم ! میں نہیں چھوڑوں گا بلکہ اللہ کے امر پر قتال کرتا رہوں گا حتیٰ کہ اللہ پاک اپنا وعدہ پورا کردے اور اپنا عہد پورا کردے۔ جو ہم میں سے قتل ہوگیا وہ جنت میں ہوگا جو ہم میں سے بچ گیا وہ اللہ کا خلیفہ اور اس کا وارث ہوگا اس کی زمین پر۔ اللہ حق کا فیصلہ کرے گا اور اس کی بات میں کوئی وعدہ خلافی نہیں :
وعداللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض
یہ فرما کر حضرت ابوبکر (رض) منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ابن عساکر
کلام : امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس روایت مذکورہ میں انقطاع ہے صالح بن کیسان اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے درمیان، لیکن روایت الفاظ متن کے حوالے سے بذات خود صحیح ہے کیونکہ اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔

14166

14166- عن عائشة قالت: خرج أبي شاهرا سيفه راكبا إلى راحلته ذي القصة فجاء علي بن أبي طالب فأخذ بزمام راحلته وقال: إلى أين يا خليفة رسول الله أقول لك ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد شم سيفك ولا تفجعنا بنفسك فوالله لأن أصبنا بك لا يكون للإسلام بعدك نظام أبدا فرجع وأمضى الجيش. "زكريا الساجي"
14166 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ میرے والد اپنی تلوار سونتے ہوئے اپنی سواری پر تشریف فرما مرتدین کی طرف نکلے۔ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے آکر ان کی سواری کی عنان تھام لی اور فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! کہاں جارہے ہیں، میں آج آپ کو وہی بات دہراتا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احد میں آپ کو ارشاد فرمائی تھی کہ :
اپنی تلوار کو نیام میں کرلو اور اپنی جان کا غم ہمیں نہ دو ۔ اللہ کی قسم ! اگر ہم کو آپ کی طرف سے کوئی دکھ پہنچ گیا تو آپ کے بعد اسلام کا نظام نہیں ٹھہر سکے گا۔
یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) لوٹ گئے اور لشکر کو روانہ کردیا۔ زکریا الساجی

14167

14167- عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: لما ندر أبو بكر الصديق رضي الله عنه إلى ذي القصة في شأن أهل الردة واستوى على راحلته أخذ علي بن أبي طالب رضي الله عنه بزمام راحلته وقال: إلى أين يا خليفة رسول الله أقول لك ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد: شم سيفك ولا تفجعنا بنفسك وارجع إلى المدينة فوالله لئن فجعنا بك لا يكون للإسلام نظام أبدا. "قط في غرائب مالك والخلعي في الخلعيات" وفيه أبو غزية محمد بن يحيى الزهري متروك ثم اعلم رحمك الله أن بعض الأحاديث من هذا النوع ذكر في وجوب الزكاة.
14167 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) مرتدین سے جنگ کے لیے اپنی سواری پر سوار ہوئے تو حضرت علی (رض) نے ان کی سواری کی لگام تھام لی اور فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! کہا ! آج میں آپ کو وہی بات کہتا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو جنگ احد کے دن فرمائی تھی۔
اپنی تلوار کو نیام میں کرلیں ، اپنی جان کا غم ہمیں نہ دیں۔ اور مدینے واپس لوٹ جائیں۔ اللہ کی قسم ! اگر ہم کو آپ کا صدمہ پہنچ گیا تو اسلام کا نظام کبھی قائم نہ ہوسکے گا۔
الدارقطنی فی غرائب مالک، الخلعی فی الخلعیات
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں ابوغزیۃ محمد بنی یحییٰ الزہری متروک ہے۔
نوٹ : اس مضمون کی کئی احادیث وجوب الزکوۃ میں ذکر کی گئی ہیں۔

14168

14168- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن يزيد بن أبي سفيان قال أبو بكر: لما بعثني إلى الشام يا يزيد إن لك قرابة عسيت تؤثرهم بالإمارة وذلك أكبر ما أخاف عليك فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ولي من أمور المسلمين شيئا فأمر عليهم أحدا محاباة له بغير حق فعليه لعنة الله لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا حتى يدخله جهنم ومن أعطى أحدا من مال أخيه محاباة له فعليه لعنة الله أو قال برئت منه ذمة الله إن الله دعا الناس إلى أن يؤمنوا بالله فيكونوا حمى الله، فمن انتهك في حمى الله شيئا بغير حق فعليه لعنة الله أو قال: برئت منه ذمة الله عز وجل. "حم ك ومنصور بن شعبة البغدادي في الأربعين" وقال: حسن المتن غريب الإسناد وقال ابن كثير ليس هذا الحديث في شيء من الكتب الستة وكأنهم أعرضوا عنه لجهالة شيخ بقية قال: والذي يقع في القلب صحة هذا الحديث فإن الصديق كذلك فعل ولى على المسلمين خيرهم بعده.
14168 (مسند صدیق (رض)) حضرت یزید بن ابی سفیان (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے ملک شام (لشکر دے کر) بھیجا تو مجھے ارشاد فرمایا :
اے یزید ! تیرے کچھ رشتے دار (شامل) ہیں۔ ممکن ہے تو ان کو امارت۔ حکومت میں ترجیح دے۔ اور یہی وہ بات ہے جس کا مجھے تجھ پر سب سے زیادہ خوف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
جو مسلمانوں کے کاموں کا حاکم بنے پھر وہ ان پر کسی کو ناحق امیر بنائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اللہ پاک اس کا کوئی نہ فرض قبول فرمائیں گے اور نہ نفل۔ حتیٰ کہ اس کو جہنم میں داخل کردیں گے۔ اور جو کسی کو اس کی محبت میں اس کے بھائی کا مال ۔ ناجائز طور پر دے، اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے، یا فرمایا : اس سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں پس وہ ایمان کی بدولت اللہ کی حمیٰ پناہ میں ہیں۔ پس جس نے اللہ کی حمی میں ناحق ظلم کیا اس پر اللہ کی لعنت ہے یا فرمایا : اس سے اللہ عزوجل کا ذمہ بری ہے۔
مسند احمد، منصور بن شعبہ البغدادی فی الریعین
کلام : روایت کا متن حسن جبکہ اسناد ضعیف ہے۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : یہ حدیث کتب ستہ میں کوئی معیار نہیں رکھتی۔ انھوں نے اس حدیث سے اعراض اس کے شیخ بقیہ کی جہالت کی وجہ سے کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی صحت متن کی بات جو دل میں پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے مسلمانوں کے اوپر ان کے اچھے لوگوں کو ہی امیر بنایا ہے۔ جو اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے۔

14169

14169- "مسند الصديق" عن نافع قال: كتب أبو بكر إلى خالد بن الوليد في قتال أهل الردة، لا تظفرن بأحد قتل المسلمين إلا قتلته ونكلت به عبرة ومن أحببت ممن حاد الله أو ضاده ممن ترى أن في ذلك صلاحا فاقتله فأقام على بزاخة شهرا يصعد عنها ويصوب ويرجع إليها في طلب أولئك وقتلهم؛ فمنهم من أحرق، ومنهم من قمطه ورضخه بالحجارة، ومنهم من رمى به من رؤوس الجبال. "ابن جرير"
14169 (مسند صدیق (رض)) نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے خالد بن الولید کو مرتدین سے قتال کے لیے لکھا کہ تم جس کو پاؤ کہ اس نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے اس کو قتل کردو اور عبرت ناک سزا دو ۔ اور جس نے بھی اللہ سے کنارہ کیا ہے، اس سے جنگ مول لی اور تم اس کے قتل میں بہتری سمجھو تو اس کو بلا دریغ قتل کردو۔
چنانچہ حضرت خالد بن الولید (رض) بزاخۃ میں ایک ماہ تک رہے۔ جہاں مرتدین تھے آپ اس علاقے میں بار بار آتے جاتے ، ان میں سے آپ نے بہتوں کو قتل کردیا، کسی کو جلادیا، کسی کو بندھوا کر پتھروں سے ہلاک کرادیا اور کسی کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے کروادیا۔ ابن جریم

14170

14170- عن عروة أن أبا بكر الصديق أمر خالد بن الوليد حين بعثه إلى من ارتد من العرب أن يدعوهم بدعاية الإسلام ويبينهم بالذي لهم فيه وعليهم ويحرص على هداهم فمن أجابه من الناس كلهم أحمرهم وأسودهم كان يقبل ذلك منه بأنه إنما يقاتل من كفر بالله على الإيمان بالله فإذا أجاب المدعو إلى الإسلام وصدق إيمانه لم يكن عليه سبيل وكان الله هو حسيبه، ومن لم يجبه إلى ما دعاه إليه من الإسلام ممن يرجع عنه ان يقتله."ق".
14170 عروۃ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے خالد بن الولید کو مرتدین عرب کی طرف بھیجا تو ان کو فرمایا ان کو اسلام کی طرف بلاؤ اور اس میں ان کے فوائد بتاؤ نہ ماننے کی صورت میں نقصانات سے ڈراؤ۔ کوشش اور لاچ کرو کہ ان کو ہدایت مل جائے۔ پھر جو لوگ تمہاری بات کو قبول کرلیں گورے ہوں یا کلے ہر ایک کے اسلام کو قبول کیا جائے۔ قتال تو صرف ان لوگوں سے ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوگئے۔ چنانچہ پھر بھی اگر کوئی اسلام کو قبول کرلے اور اس کا ایمان سچا ہو تو اس کے ساتھ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ ہاں جو اسلام میں واپس نہ آئیں اور اس میں آکر پھر چکے ہوں ان کو قتل کرو۔ السنن للبیہقی

14171

14171- "مسند الصديق" عن عبد الرحمن بن جبير أن أبا بكر لما وجه الحبشة قام فيهم فحمد الله وأثنى عليه، ثم أمرهم بالمسير إلى الشام وبشرهم بفتح الله إياها حتى تبنوا فيها المساجد فلا نعلم أنكم إنما تأتونها تلهيا، فالشام شبيعة يكثر لكم فيها من الطعام فاياي والأشرأما ورب الكعبة لتأشرن ولتبطرن، وإني موصيكم بعشر كلمات فاحفظوهن: لا تقتلن شيخا فانيا، ولا ضرعاصغيرا، ولا امرأة، ولا تهدموا بيتا، ولا تقطعوا شجرا مثمرا، ولا تعقرن بهيمة إلا لأكل ولا تحرقوا نخلا، ولا تقصر، ولا تجبن، ولا تغلل، وستجدون آخرين محلقة رؤوسهم فاضربوا مقاعد الشيطان منها بالسيوف، والله لأن أقتل رجلا منهم أحب إلي من أن أقتل سبعين من غيرهم ذلك بأن الله قال: {فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ} . "كر".
14171 (مسند الصدیق) عبدالرحمن بن جبیر سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) نے اہل حبشہ کو ملک شام کی طرف بھیجا تو ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کرنے کے بعد ان کو ملک شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور ملک شام کے فتح ہوجانے کی خوشخبری دی اور فرمایا تم وہاں مساجد بھی تعمیر کرو گے۔ ہمیں معلوم نہیں کہیں تم وہاں جاکر غافل نہ ہوجاؤ۔ کیونکہ ملک شام سرسبز اور فراوانی والی سرزمین ہے۔ وہاں تم کو طعام اور غلے کی کثرت ملے گی۔ وہاں جاکر تم (نعمتوں کی فراوانی میں) اکڑ نہ جانا۔ رب کعبہ کی قسم ! تم وہاں جاکر دھوکے میں پڑو گے اور اتراؤ گے۔ میں تم کو (سختی کے ساتھ) دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں ان کو اچھی طرح یاد رکھنا۔ کسی بالکل لاغر بوڑھے کو قتل نہ کرنا، نہ چھوٹے بچے کو قتل کرنا، نہ عورت کو، کسی گھر کو ڈھانا نہیں، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی مویشی کو بلاوجہ ذبح نہ کرنا ہاں مگر کھانے کے لئے، کھجور کے درخت کو نہ چلانا، جنگ میں کوتاہی نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا، مال غنیمت میں دھوکا نہ کرنا اور کچھ لوگ تم کو سر منڈے ملیں گے ان شیطانوں کو سرینوں پر تلوار مار مار کر قتل کردینا۔ اللہ کی قسم ! میں ان میں سے ایک آدمی کو قتل کروں یہ مجھے عام ستر کافروں کے مارنے سے زیادہ پسند ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم،
پس کفر برغنوں کو قتل کرو، ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن عساکر

14172

14172- "مسند الصديق" عن إسحاق بن بشر حدثنا ابن إسحاق عن الزهري حدثنا ابن كعب عن عبد الله بن أبي أوفى الخزاعي قال: لما أراد أبو بكر غزو الروم دعا عليا وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وسعد ابن أبي وقاص وسعيد بن زيد وأبا عبيدة بن الجراح ووجوه المهاجرين والأنصار من أهل بدر وغيرهم، فدخلوا عليه وقال عبد الله بن أبي أوفى وأنا فيهم فقال: إن الله عز وجل لا تحصى نعماؤه وهو لا يبلغ جزاءها الأعمال، فله الحمد قد جمع الله كلمتكم وأصلح ذات بينكم وهداكم إلى الإسلام ونفى عنكم الشيطان، فليس يطمع أن تشركوا به ولا تتخذوا إلها غيره، فالعرب اليوم بنو أب وأم وقد رأيت أني أستنفر المسلمين إلى جهاد الروم بالشام ليؤيد الله المسلمين، ويجعل الله كلمته العليا مع أن للمسلمين في ذلك الحظ الأوفر لأنه من هلك منهم هلك شهيدا، وما عند الله خير للأبرار ومن عاش عاش مدافعا عن المسلمين مستوجبا على الله ثواب المجاهدين وهذا رأيي الذي رأيت، فأشار امرؤ علي برأيه. فقام عمر بن الخطاب فقال: الحمد لله الذي يخص بالخير من يشاء من خلقه والله ما استبقنا إلى شيء من الخير قط إلا سبقتنا إليه وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم، وقد والله أردت لقاءك بهذا الرأي الذي رأيت فما قضى أن يكون حتى ذكرته فقد أصبت أصاب الله بك سبل الرشاد سربإليهم الخيل في إثر الخيل وابعث الرجال بعد الرجال والجنود تتبعها الجنود فإن الله ناصر دينه معز الإسلام وأهله، ثم إن عبد الرحمن بن عوف قام فقال: يا خليفة رسول الله إنها الروم وبنو الأصفر حديد وركن شديد ما أرى أن تقتحم عليها اقتحاما، ولكن تبعث الخيل فتغير في قواصيأرضهم ثم ترجع إليك؛ فإذا فعلوا ذلك مرارا أضروا بهم وغنموا من أداني أرضهم فقووا بذلك على عدوهم ثم تبعث إلى أراضي أهل اليمن واقاصي ربيعة ومضر، ثم تجمعهم جميعا إليك، فإن شئت بعد ذلك غزوتهم بنفسك، وإن شئت أغزيتهم. ثم سكت الناس، قال: فقال لهم أبو بكر: ماذا ترون؟ فقال عثمان بن عفان: إني أرى أنك ناصح لأهل هذا الدين شفيق عليهم؛ فإذا رأيت رأيا تراه لعامتهم صلاحا فاعزم على إمضائه، فإنك غير ظنينفقال طلحة والزبير وسعد وأبو عبيدة وسعيد بن زيد ومن حضر ذلك المجلس من المهاجرين والأنصار: صدق عثمان ما رأيت من رأي فامضه، فإنا لا نخالفك ولا نتهمك وذكروا هذا وأشباهه وعلي في القوم لا يتكلم، قال أبو بكر: ماذا ترى يا أبا الحسن؟ فقال: أرى أنك إن سرت إليهم بنفسك أو بعثت إليهم نصرت عليهم إن شاء الله، فقال: بشرك الله بخير، ومن أين علمت ذلك؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزال هذا الدين ظاهرا على كل من ناواهحتى يقوم الدين وأهله ظاهرون فقال: سبحان الله ما أحسن هذا الحديث لقد سررتني به سرك الله، ثم إن أبا بكر رضي الله عنه قام في الناس فذكر الله بما هو أهله، وصلى على نبيه صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا أيها الناس إن الله قد أنعم عليكم بالإسلام وأكرمكم بالجهاد وفضلكم بهذا الدين على كل دين فتجهزوا عباد الله إلي غزو الروم بالشام فإني مؤمر عليكم أمراء وعاقد لهم، فأطيعوا ربكم ولا تخالفوا أمراءكم لتحسن نيتكم وشربكم وأطعمتكم {إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ} . قال: فسكت القوم فوالله ما أجابوا فقال عمر: والله يا معشر المسلمين مالكم لا تجيبون خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد دعاكم لما يحييكم؟ أما إنه لو كان عرضا قريبا وسفرا قاصدا لابتدرتموه. فقال عمرو بن سعيد: فقال: يا ابن الخطاب ألنا تضرب الأمثال أمثال المنافقين فما منعك إذ عبت علينا فيه أن تبتدئ به؟ فقال عمر: إنه يعلم أني أجيبه لو يدعوني وأغزو لو يغزيني قال عمرو بن سعيد: ولكن نحن لا نغزو لكم إن غزونا إنما نغزو لله، فقال عمر: وفقك الله، فقد أحسنت فقال أبو بكر لعمرو: اجلس رحمك الله؛ فإن عمر لم يرد بما سمعت أذى مسلم ولا تأنيبه إنما أراد بما سمعت أن ينبعث المتثاقلون إلى الأرض إلى الجهاد فقام خالد بن سعيد فقال: صدق خليفة رسول الله اجلس أي أخي فجلس وقال خالد: الحمد لله الذي لا إله إلا هو الذي بعث محمدا بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون؛ فالله منجز وعده ومظهر دينه ومهلك عدوه ونحن غير مخالفين ولا مختلفين وأنت الوالي الناصح الشفيق ننفر إذا استنفرتنا ونطيعك إذا أمرتنا ففرح بمقالته أبو بكر وقال: جزاك الله خيرا من أخ وخليل فقد كنت أسلمت مرتغبا وهاجرت محتسبا قد كنت هربت بدينك من الكفار لكي ما يطاع الله ورسول الله وتعلو كلمته وأنت أمير الناس فسر يرحمك الله. ثم إنه رجع ونزل خالد بن سعيد فتجهز وأمر أبو بكر بلالا فأذن أن انفروا أيها الناس إلى جهاد الروم بالشام والناس يرون أن أميرهم خالد بن سعيد وكان الناس لا يشكون أن خالد بن سعيد أميرهم وكان أول خلق الله عسكر، ثم إن الناس خرجوا إلى معسكرهم من عشرة وعشرين وثلاثين وأربعين وخمسين ومائة كل يوم حتى اجتمع أناس كثير فخرج أبو بكر ذات يوم ومعه رجال من الصحابة حتى انتهى إلى عسكرهم؛ فرأى عدة حسنة لم يرض عدتها للروم، فقال لأصحابه: ما ترون في هؤلاء أن نشخصهمإلى الشام في هذه العدة؟ فقال عمر: ما أرضى هذه العدة لجموع بني الأصفر، فقال لأصحابه: ماذا ترون؟ فقالوا نحن نرى ما رأي عمر، فقال: ألا أكتب كتابا إلى أهل اليمن ندعوهم إلى الجهاد ونرغبهم في ثوابه؟ فرأى ذلك جميع أصحابه قالوا: نعم ما رأيت افعل، فكتب بسم الله الرحمن الرحيم من خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى من قريء عليه كتابي هذا من المؤمنين والمسلمين من أهل اليمن سلام عليكم فإني أحمد الله إليكم الذي لا إله إلا هو أما بعد فإن الله كتب على المؤمنين الجهاد وأمرهم أن ينفروا خفافا وثقالا ويجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله، والجهاد فريضة مفروضة والثواب عند الله عظيم وقد استنفرنا المسلمين إلى جهاد الروم بالشام وقد سارعوا إلى ذلك وقد حسنت في ذلك نيتهم فسارعوا عباد الله ما سارعوا إليه ولتحسن نيتكم فيه، فإنكم إلى إحدى الحسنيين إما الشهادة، وإما الفتح والغنيمة، فإن الله تبارك وتعالى لم يرض لعباده بالقول دون العمل ولا يزال الجهاد لأهل عداوته حتى يدينوا بدين الحق ويقروا بحكم الكتاب حفظ الله لكم دينكم وهدى قلبكم وزكى أعمالكم ورزقكم أجر المجاهدين الصابرين وبعث بهذا الكتاب مع أنس رضي الله عنه. "كر".
14172 (مسند الصدیق) اسحاق بن بشر سے مروی ہے کہ ہم کو ابن اسحاق نے زہری سے بیان کیا، زہری کہتے ہیں : ہم کو ابن کعب نے عبداللہ بن ابی اوفی الخراعی (رض) سے نقل کیا :
عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں : جب حضرت ابوبکر (رض) نے غزوہ روم کا ارادہ فرمایا تو علی، عمر، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، ابوعبیدۃ بن الجراح اور بدری مہاجرین و انصاری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہم کو بلایا۔ چنانچہ یہ سب حضرات حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہوئے۔
راوی عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) فرماتے ہیں : میں بھی ان میں شامل تھا۔
حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احصاء (شمار) ممکن نہیں ہے، اعمال ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کلمہ کو جمع کردیا ہے، تمہیں آپس میں صلح جو بنادیا ہے ، تم کو اسلام کی ہدایت بخش دی ہے اور شیطان کو تم سے دور کردیا ہے۔ اب وہ اس بات کی طمع و لالچ نہیں کرسکتا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گے اور نہ تم کسی دوسرے الٰہ کو اپنا معبود بناسکتے ہو۔ پس عرب آج ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو شام کی طرف رومیوں سے جہاد کے لیے نکالوں تاکہ اللہ پاک مسلمانوں کو تقویت عطا کرے اور اپنے کلمے کو اونچا کرے، اس کے علاوہ اس میں خود مسلمانوں کے لیے بھی بڑا اجر اور بہت بڑا فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو اس جنگ میں ہلاک ہوا وہ شہادت کا رتبہ پائے گا اور پھر جو اللہ کے ہاں نیکوں کے لیے ذخیرہ ہے وہ بہت بہتر ہے۔ اور جو زندہ رہے گا وہ مسلمانوں کے لیے مدافعت کار اور اللہ کے ہاں مجاہدین کا اجر پانے والا ہوگا۔ میری یہی رائے ہے جو میں نے سوچی ہے۔ کوئی بھی آدمی مجھے اپنی رائے دے سکتا ہے۔
حضرت عمر (رض) کی تقریر
چنانچہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جس کو چاہتا ہے خیر کے ساتھ مخصوص کردیتا ہے اللہ کی قسم ! ہم نے جب بھی کسی خیر کی طرف سبقت کی مگر آپ ہم سے ہمیشہ سبقت لے گئے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں بھی آپ کے کے ساتھ بالکل اسی رائے کے ساتھ ملاقات کرنے والا تھا۔ ابھی آپ نے یہی بات ذکر فرمادی۔ بیشک آپ کی رائے درست ہے اللہ پاک بھی آپ کو سیدھی راہوں کی توفیق نصیب کرے۔
آپ کافروں پر گھوڑوں کے پیچھے گھوڑے دوڑادیں ، پیادوں کے پیچھے پیادوں کی قطار باندھ دیں اور لشکروں پر لشکر بھیجنا شروع کردیں بیشک اللہ پاک اپنے دین کی نصرت فرمائے گا، اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا کرے گا۔
پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اٹھے اور ارشاد فرمایا : اے خلیفہ رسول اللہ ! وہ اہل روم ہیں، سرخ رنگ والے فولاد اور سخت جنگجو لوگ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ دفعتاً ساری طاقت ان پر نہ لاگیں، بلکہ گھڑ سواروں کا ایک لشکر ان کی طرف بھیج دیں جو ان کے مضافات میں غارت گری کریں اور پھر واپس آپ کے پاس آجائے، بار بار ایسا کیا جائے ، اس سے وہ کمزور پڑیں گے اور ان کے مصافات سے مال غنیمت بھی حاصل ہوگا، اس سے مسلمان اپنے دشمن پر مزید قوی ہوجائیں گے۔ پھر آپ یمن کے دوردراز علاقوں اور ربیعہ ومضر کے ادھر ادھر نکل جانے والے قبائل پر لشکر بھیجیں۔ پھر ان سب لشکروں کو اپنے پاس جمع کرلیں اس کے بعد اگر آپ کا خیال ہو تو آپ خود اپنی سربراہی میں اہل روم (کے قلب) پر ہلہ بول دیں اگر چاہیں تو کسی کی سالاری میں لشکروں کو روانہ کردیں۔
پھر لوگ خاموش ہوگئے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے پھر پوچھا : تم لوگوں کا کیا خیال ہے (مجھے مزید رائے دو ) ۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اٹھے اور فرمایا : میں آپ کو اپنے دین والوں کے لیے خیر خواہ خیال کرتا ہوں اور ان پر مشقت کرنے والا۔ پس جب آپ نے کوئی رائے دیکھ لی ہے جو عامۃ المسلمین کے لیے باعث خیر ہے تو بس اللہ پر بھروسہ کرکے اس پر عمل کر گزرئیے۔ بیشک آپ پر کوئی قدغن نہیں۔
یہ سن کر طلحہ، زبیر، سعد، ابوعبیدۃ، سعید بن زید اور دیگر حاضرین مہاجرین اور انصار نے کہا : عثمان نے درست کہا۔
آپ جو رائے مناسب سمجھیں اس پر عمل کریں۔ ہم نہ آپ کی مخالفت کریں گے اور نہ آپ کو تہمت لگائیں گے۔ اور بھی اس طرح کی ذکر کیں۔
حضرت علی (رض) جو حاضرین میں موجود تھے ابھی تک خاموش تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے ابوالحسن (علی) ! آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اگر آپ اہل روم کی طرف نکلیں گے یا کسی کو بھی سالار بناکر بھیجیں گے ان کی مدد کی جائے گی انشاء اللہ ! حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ پاک تمہیں بھی خیر کی خوشخبری عطا کرے، تم کو کہاں سے اس بات کا علم ہوا ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا :
میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
یہ دین ہر اس پر غالب ہو کر رہے گا جو اس سے دشمنی مول لے گا حتیٰ کہ یہ دین اور اس کے ماننے والے غالب آجائیں گے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : سبحان اللہ ! کیسی عمدہ حدیث ہے یہ، تم نے مجھے خوش کردیا اللہ بھی تمہیں خوش کرے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کی جس کا وہ اہل ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجا اور پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام کا انعام کیا ہے، جہاد کے ساتھ تمہارا اکرام کیا ہے اس دین کے ساتھ تم کو سارے ادیان پر فضیلت بخشی ہے۔ پس اے بندگان خدا شام ملک کی طرف اہل روم سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ میں تم پر امیروں کو مقرر کردوں گا اور ان کے لیے جھنڈے بھی باندھ دوں گا۔ پس اپنے رب کی اطاعت کرو، اپنے امراء کی مخالفت نہ کرو اور اپنی نیتوں کو اور اپنے کھانے پینے کو درست رکھو۔
فان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون،
بےشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ احسان کرنے والے ہیں۔
یہ سن کر لوگ خاموش ہوگئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : واللہ ! اے مسلمانو کی جماعت ! کیا بات ہے تم خلیفہ رسول اللہ کو جواب نہیں دے رہے ؟ حالانکہ وہ تم کو اس کام کی طرف بلا رہے ہیں جس میں تمہاری بقاء ہے۔ ہاں اگر قریب کا سفر ہوتا اور آسان سفر ہوتا تو تم جلدی سے جواب دیتے۔
حضرت عمرو بن سعید (رض) نے فرمایا : اے ابن خطاب ! تو ہم کو مثالیں دیتے ہو منافقین کی مثالیں۔ تم ہم پر عیب لگاتے ہو، تم کو کیا رکاوٹ ہے تم نے کیوں جلدی نہیں کی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : وہ جانتے ہیں کہ میں لبیک کہوں گا صرف ان کے پکارنے کی دیر ہے۔ اور وہ مجھے غزوہ پر بھیجیں تو میں بالکل تیار ہوں ۔ حضرت عمرو بن سعید نے فرمایا : ہم تمہارے لیے جنگ نہیں کریں گے بلکہ ہم اللہ کے لیے جنگ کریں گے ۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو دعا دی : اللہ تم کو اچھی توفیق دے۔ تم نے اچھا کہا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمرو بن سعید کو فرمایا : بیٹھ جاؤ، اللہ تم پر رحم کرے ! عمر کے کہنے کا مقصد کسی مسلمان کو ایذاء دینا یا اس کو ملامت کرنا نہ تھا ان کا مقصد تو محض یہ تھا کہ زمین کی طرف جھکنے والے لوگ جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
حضرت خالد بن سعید (رض) اٹھے اور فرمایا : خلیفہ رسول اللہ نے سچ کہا ۔ پھر عمرو بن سعید کو فرمایا : اے بھائی بیٹھ جاؤ۔ پھر حضرت خالد (رض) نے ارشاد فرمایا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جس نے محمد کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ وہ اس حق دین کو ہر دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکین کو برا کیوں نہ لگے۔ بیشک اللہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے، اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے، اپنے دشمن کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے۔ ہم مخالفت کرنے والے نہیں ہیں اور نہ اختلاف کرنے والے ہیں۔ آپ خیر خواہ شفیق اور مہربان حاکم ہیں۔ آپ جب بھی ہم سے کوچ کا تقاضا کریں گے ہم نکل پڑیں گے اور جب بھی آپ حکم کریں گے ہم اطاعت کریں گے۔
ان کی بات سن کر حضرت ابوبکر (رض) خوش ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہیں بھائی اور دوست کا اچھا بدلہ دے۔ تم رغبت کے ساتھ اسلام لائے، ثواب کی خاطر ہجرت کی۔ تم اپنے دین کو لے کر کفار سے بھاگے تھے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرسکو۔ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے۔ پس اب تم لشکروالوں کے امیر ہو خوش ہوجاؤ اللہ تم پر رحم کرے۔ پھر عمرو واپس لوٹ گئے اور حضرت خالد بن سعید نیچے اتر گئے اور لشکر کی تیاری میں لگ گئے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے بلال (رض) کو حکم فرمایا : لوگوں کو اعلان کرو کہ اے لوگو ! ملک شام میں رومیوں سے جہاد کے لیے نکلو۔ لوگوں نے دیکھ لیا تھا کہ ان کے امیر خالد بن سعید ہوں گے اور اس میں ان کو کچھ شک نہ تھا۔ پھر پہلا لشکر ترتیب دیدیا گیا۔ پھر دوسرے لوگ بھی معسکر میں اکٹھے ہونے لگے دس، بیس، تیس، چالیس، پچاس اور سو سو ہو کر لوگ ہر روز جمع ہونے لگے حتیٰ کہ ایک کثیر تعداد جمع ہوگئی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) ایک دن لشکر گاہ میں آئے۔ آپ (رض) کے ساتھ دیگر صحابہ (رض) بھی تھے۔ آپ (رض) ان کے ہمراہ لشکر گاہ معسکر میں پہنچے۔ آپ (رض) نے وہاں ایک اچھی تعداد دیکھی، لیکن روم کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ان کو کافی نہ سمجھا۔ چنانچہ آپ (رض) نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ، کیا اسی قدر لوگوں کو رومیوں سے جہاد کے لیے بھیجا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں بھی تمام رومیوں کے لیے اتنی تعداد پر مطمئن نہیں ہوں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے دوسرے ساتھیوں سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : جو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : درست ہے ہمارا بھی یہی خیال ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں اہل یمن کے مسلمانوں کو خط نہ لکھوں ، ان کو ہم جہاد کی طرف بلاتے ہیں اور جہاد کے ثواب کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ بات تمام ساتھیوں نے درست سمجھی اور عرض کیا آپ کا خیال بہت اچھا ہے، ایسا ہی کیجئے۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے لکھا :
اہل یمن کے نام ترغیبی خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یمن کے ان مسلمانوں کی طرف جن پر یہ خط پڑھا جائے۔
تم سب کو سلام ہو۔
میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اما بعد !
اللہ تعالیٰ نے مومنین پر جہاد کو فرض کردیا ہے، ان کو حکم دیا ہے کہ ہلکے ہوں یا بوجھل اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں ۔ اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کریں۔ جہاد ایک فریضہ ہے۔ جس کا ثواب اللہ کے ہاں عظیم ہے۔ ہم نے مسلمانوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ رومیوں سے جہاد کے لیے ملک شام کی طرف کوچ کریں۔ چنانچہ مسلمان اس کے لیے بہت جلد تیار ہوگئے ہیں اور ان کی نیت بھی اچھی ہے۔ پس اے بندگان خدا ! تم بھی جلدی اس طرف نکلو جہاں کے لیے دوسرے مسلمان تیار ہوچکے ہیں اور اپنی نیتوں کو درست رکھو بیشک تم دو نیکیوں میں سے ایک ضرور پانے والے ہو یا شہادت یا فتح اور غنیمت۔ بیشک اللہ پاک اپنے بندوں سے صرف ان کی بات پر راضی نہیں ہوتا بغیر عمل کے۔ اور جہاد دشمنوں کے لیے ہمیشہ جاری رہے گا حتیٰ کہ وہ دین حق پر آجائیں اور کتاب اللہ کے حکم پر اپنی گردنوں کو خم کردیں۔ پس اللہ تمہارے دین کی حفاظت فرمائے تمہارے قبول کو نور ہدایت سے منور فرمائے ، تمہارے اعمال کو پاکیزہ کرے اور تم کو صبر کرنے والے ثابت قدم مہاجرین کا ثواب عنایت کرے۔
پھر آپ (رض) نے یہ خط حضرت انس (رض) کے ہاتھوں ان کی طرف بھیج دیا۔ ابن عساکر

14173

14173- عن عياض الأشعري قال: شهدت اليرموك وعليها خمسة أمراء: أبو عبيدة، ويزيد بن أبي سفيان، وشرحبيل بن حسنة، وخالد بن الوليد، وعياض، وليس عياض هذا الذي حدث فقال: إذا كان قتال فعليكم أبو عبيدة فكتبنا إليه أنه قد جاش إلينا الموت واستمددناه فكتب إلينا، إنه قد جاءني كتابكم تستمدوني، وإني أدلكم على من هو أعز نصرا واحضر جندا؛ الله عز وجل، فاستنصروه فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد نصر يوم بدر في أقل من عدتكم
14173 عیاض الاشعری سے مروی ہے کہ میں جنگ یرموک میں حاضر تھا۔ لشکر پر پانچ امیر تھے : ابوعبیدۃ، یزید بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ، خالد بن الولید اور عیاض۔ یہ راوی عیاض الاشعری کے سوا کوئی اور عیاض تھے۔
راوی عیاض کہتے ہیں : حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا تھا : جب جنگ ہو تو ابو عبیدۃ تمہارے امیر (الامراء) ہوں گے۔ ہم نے حضرت ابوبکر (رض) کو خط لکھا کہ موت ہماری طرف جھپٹ رہی ہے ہمیں مزید کمک بھیجئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے جواب بھیجا : میرے پاس تمہارا خط آیا ہے تم نے مجھ سے مدد مانگی ہے میں تم کو اس کا بتاتا ہوں جب سب سے زیادہ مدد کرنے والا اور لشکر میں موجود رہنے والا ہے وہ اللہ عزوجل ہے تم اس سے مدد مانگو بیشک محمد کی جنگ بدر میں تمہاری تعداد سے کم کے اندر مدد کی گئی تھی۔ ابن سعد

14174

14174- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن قيس بن أبي حازم قال: رأيت عمر وبيده عسيب نخل وهو يجلس الناس يقول: اسمعوا لقول خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء مولى لأبي بكر يقال له: شديد بصحيفة فقرأها على الناس فقال: يقول أبو بكر: اسمعوا وأطيعوا لمن في هذه الصحيفة، فوالله ما آلو بكم، قال قيس: فرأيت عمر بعد ذلك على المنبر. "ش حم وابن جرير واللالكائي في السنة".
14174 (مسند صدیق (رض)) قیس بن ابی حازم (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا ، آپ کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ ہے اور آپ لوگوں کو بٹھا رہے ہیں اور فرماتے جارہے ہیں : خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ابوبکر (رض)) کی بات سنو۔ چنانچہ پھر حضرت ابوبکر (رض) کا شدید نامی غلام ایک تحریر لے کر آیا۔ اور وہ تحریر لوگوں کو پڑھ کر سنائی :
ابوبکر کہتا ہے : اس شخص کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو جس کا نام اس کاغذ میں ہے۔ اللہ کی قسم ! میں نے تمہارے ساتھ کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی (وہ نام عمر بن خطاب (رض) کا تھا) ۔
قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں : اس کے بعد میں نے عمر کو منبر پر دیکھا۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ابن حریر، اللالکائی فی السنۃ
فائدہ : حضرت ابوبکر (رض) وفات سے قبل اپنا خلیفہ حضرت عمر (رض) کو منتخب فرما گئے تھے۔ آپ (رض) حضرت عمر (رض) کا نام ایک کاغذ میں لکھ کر دے گئے تھے کہ لوگ یوں بیعت کریں کہ اس کاغذ میں جس کا نام ہے ہم اس کی بیعت کرتے ہیں۔ چنانچہ بیعت کے بعد اس کاغذ کو کو کھول کر دیکھا گیا تو اس میں حضرت عمر (رض) کا نام تھا۔

14175

14175- عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ومحمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي وعبد الله بن البهي دخل حديث بعضهم في حديث بعض أن أبا بكر الصديق لما استعز بهدعا عبد الرحمن بن عوف وقال: أخبرني عن عمر بن الخطاب؟ فقال عبد الرحمن: ما تسألني عن أمر إلا وأنت أعلم به مني، فقال أبو بكر: وإن، فقال عبد الرحمن: هو والله أفضل من رأيك فيه، ثم دعا عثمان بن عفان فقال: أخبرني عن عمر، فقال: أنت أخبرنا به فقال على ذلك يا أبا عبد الله، فقال عثمان بن عفان: اللهم علمي به أن سريرته خير من علانيته وأنه ليس فينا مثله فقال أبو بكر: يرحمك الله والله لو تركته لما عدوتك وشاور معهما سعيد بن زيد أبا الأعور وأسيد بن الحضير وغيرهما من المهاجرين والأنصار فقال أسيد: اللهم أعلمه الخيرة بعدك يرضى للرضى ويسخط للسخط، الذي يسر خير من الذي يعلن ولم يل هذا الأمر أحد أقوى عليه منه، وسمع بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بدخول عبد الرحمن وعثمان على أبي بكر وخلوتهما به؛ فدخلوا على أبي بكر فقال له قائل منهم: ما أنت قائل لربك إذا سألك عن استخلافك عمر علينا، وقد ترى غلظته، فقال أبو بكر: أجلسوني أبالله تخوفوني خاب من تزود من أمركم بظلم أقول: اللهم استخلفت عليهم خير أهلك، أبلغ عني ما قلت لك من وراءك، ثم اضطجع ودعا عثمان بن عفان فقال: اكتب بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما عهد أبو بكر بن أبي قحافة في آخر عهده من الدنيا خارجا عنها وعند أول عهده بالآخرة داخلا فيها حيث يؤمن الكافر ويوقن الفاجر ويصدق الكاذب أني استخلفت عليكم بعدي عمر بن الخطاب فاسمعوا له وأطيعوا، وإني لم آل الله ورسوله ودينه ونفسي وإياكم خيرا، فإن عدل فذلك ظني به وعلمي فيه، وإن بدل فلكل امرئ ما اكتسب من الإثم، والخير أردت ولا أعلم الغيب: {وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ} والسلام عليكم ورحمة الله. ثم أمر بالكتاب فختمه فقال بعضهم: لما أملى أبو بكر صدر هذا الكتاب بقي ذكر عمر فذهب به قبل أن يسمي أحدا؛ فكتب عثمان أني قد استخلفت عمر بن الخطاب، ثم أفاق أبو بكر فقال: اقرأ علي ما كتبت، فقرأ عليه ذكر عمر فكبر أبو بكر وقال: أراك خفت [إن أقبلت] نفسي في غشيتيتلك فتختلف الناس فجزاك الله عن الإسلام وأهله خيرا، والله إن كنت لها لأهلا ثم أمره فخرج بالكتاب مختوما ومعه عمر بن الخطاب وأسيد بن سعيد القرظي فقال عثمان للناس: أتبايعون لمن في هذا الكتاب؟ قالوا: نعم فأقروا بذلك جميعا ورضوا به، وبايعوا ثم دعا أبو بكر عمر خاليا وأوصاه بما أوصاه به، ثم خرج من عنده فرفع أبو بكر يديه مدا فقال: اللهم إني لم أرد بذلك إلا صلاحهم: وخفت عليكم الفتنة فعملت فيهم ما أنت أعلم به واجتهدت لهم رأيي، فوليت عليهم خيرهم وأقواهم عليهم، وأحرصه على ما أرشدهم، وقد حضرني من أمرك ما حضر فاخلفني فيهم فهم عبادك ونواصيهم بيدك، أصلح لهم واليهم واجعله من خلفائك الراشدين يتبع هدي نبي الرحمة وهدي الصالحين بعده وأصلح له رعيته. "ابن سعد"
14175 ابوسلمۃ بن عبدالرحمن، محمد بن ابراہیم بن الحارث الیتمی اور عبداللہ بن البہی ان حضرات کے کلام کا خلاصہ ہے کہ :
جب حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انھوں نے عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا : مجھے عمر بن خطاب کے متعلق رائے دو ۔ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا : آپ جس بات کے متعلق مجھ سے پوچھ رہے ہیں، آپ مجھ سے زیادہ اس کو بخوبی جانتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر بھی تم کہو۔ حضرت عبدالرحمن (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! وہ آپ کی رائے سے بھی بڑھ کر افضل ہیں۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے عثمان (رض) بن عفان کو بلایا اور فرمایا : مجھے عمر کے متعلق اپنی رائے دو ۔ حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا : آپ ہم سے زیادہ ان کے متعلق خبر رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اس کے باوجود تم کہو اے ابوعبداللہ ! حضرت عثمان بن عفان (رض) نے عرض کیا : اللہ گواہ ہے، میں ان کے متعلق یہی علم رکھتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہمارے درمیان ان جیسا۔ اچھا کوئی نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ آپ رحم فرمائے۔ اللہ کی قسم ! اگر تم ان کا ذکر چھوڑ دیتے تو میں تمہاری مخالفت نہ کرتا۔ ان کے ساتھ حضرت ابوبکر (رض) نے ابوالا عور سعید بن زید، اسید بن حفیر اور دیگر مہاجرین اور انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مشورہ کیا۔ حضرت اسید نے فرمایا : اللہ جانتا ہے میں ان کو آپ کے بعدسب سے بہتر سمجھتا ہوں جو رضائے الٰہی کے لیے راضی ہوتے ہیں اور پروردگار کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں۔ نیز ان کا اندر باہر سے اچھا ہے ، اس لیے اس حکومت پر ان سے بڑھ کر کوئی قوی شخص نہیں آسکتا۔
بعض صحابہ کرام نے عبدالرحمن اور عثمان کے حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہونے کی اور تنہائی میں ان کے مشورہ کرنے کی خبر سنی تو وہ بھی حضرت ابوبکر (رض) کے پاس حاضر ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا : اگر آپ کا پروردگار آپ سے پوچھ لے کہ آپ ہم پر عمر کو خلیفہ کیوں بنا کر آئے ہیں تو آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے ؟ حالانکہ آپ ان کی سخت مزاجی کو خوب جانتے ہیں، حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے بٹھا دو (پھر) فرمایا : کیا مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو، ستیاناس ہو اس کا جو تمہاری حکومت سے متعلق ظلم کا فیصلہ کرے۔ میں کہوں گا : اے اللہ ! میں نے ان پر تیرے بندوں میں سے سب اچھے کو خلیفہ چنا ہے۔ تم اپنے پیچھے والوں کو بھی میری طرف سے یہ خبر سنادینا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کروٹ پر لیٹ گئے پھر آپ (رض) نے عثمان بن عفان (رض) کو بلایا اور فرمایا : لکھو :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وہ عہد نامہ ہے جو ابوبکر بن ابی قحافہ نے اپنی زندگی کے آخر میں دنیا سے نکلتے ہوئے اور اپنی اخروی زندگی کے شروع میں اس کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا ہے، جس وقت کہ کافر بھی ایمان لے آتا ہے، فاجر (بھی خدا پر) یقین کرلیتا ہے، جھوٹا بھی سچ بولتا ہے، کہ میں اپنے بعدتم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں، تم ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت بجا لانا۔ میں نے (اس معاملے میں) اللہ سے، اس کے رسول سے، اس کے دین سے، اپنی جان سے اور تم سے بھلائی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے۔ پس اگر وہ عدل و انصاف کرے گا تو یہی میرا اس کے متعلق گمان ہے اور یہی میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ لیکن اگر وہ بدل جائے تو ہر انسان جو گناہ کرتا ہے اس کا خود ذمہ دار ہے۔ میں نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا ہے اور میں غیب کا علم نہیں رکھتا۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔
اور عنقریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں۔
پھر آپ (رض) نے تحریر پر مہر لگانے کا حکم دیا۔
بعض راوی کہتے ہیں : جب حضرت ابوبکر (رض) نے تحریر کا پہلا حصہ کھلوالیا اور ابھی عمر (رض) کا ذکر باقی تھا کہ آپ (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی ابھی آپ نے کسی کا نام نہیں لکھوایا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے خود ہی لکھ دیا کہ ” میں عمر بن خطاب کو خلیفہ چنتا ہوں “ پھر حضرت ابوبکر (رض) کو بھی ہوش آگیا۔ آپ (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : تم نے کیا لکھا ہے پڑھ کر سناؤ، چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے ساری تحریر اور عمر (رض) کا نام بھی پڑھ کر سنادیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ارشاد فرمایا : میرے بےہوش ہوجانے پر تم کو میری جان کا خطرہ ہوگیا اور لوگوں کے اختلاف میں پڑجانے کا خطرہ تم نے بھانپ لیا۔ اللہ تم کو اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے اچھا بدلہ نصیب کرے۔ اللہ کی قسم ! تم خود بھی اپنا نام لکھنے کے اہل تھے۔ تم سے اسی اچھائی کی توقع تھی۔
چنانچہ (تحریر مکمل کرنے اور مہر کرنے کے بعد آپ (رض)) نے حکم دیا اور حضرت عثمان (رض) تحریر لے کر باہر آئے۔ آپ (رض) کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب اور اسید بن سعید القرظی بھی تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے لوگوں سے پوچھا : کیا تم بیعت کرتے ہو اس شخص کی جس کا نام اس خط میں ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، سب نے اس کا اقرار کیا، اس پر راضی ہوگئے اور اس پر بیعت بھی کرلی ۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو تنہائی میں بلایا اور نصیحتیں اور وصیتیں کیں جو بھی کیں۔ پھر حضرت عمر (رض) آپ کے پاس سے نکل آئے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کی :
اے اللہ ! میں نے اس میں ان لوگوں کی خیر کا ارادہ کیا ہے، مجھے ان پر فتنے کا خوف تھا، اس لیے میں نے ان میں یہ تقرر کردیا ہے، جس کو آپ خوب جانتے ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں اپنی اچھی رائے اختیار کی ہے۔ میں نے ان پر ان کے سب سے اچھے اور سب سے قوی شخص کو والی بنادیا ہے، جو ان میں سب سے زیادہ حریص ہے ان کی بھلائی کا۔ اب میرے پاس آپ کا حکم آچکا ہے آپ ان میں میرے نائب کو بہتر ثابت کیجئے گا۔ یہ سب تیرے بندے ہیں اور ان کی پیشانی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اے اللہ ! ان کے لیے ان کے والی کو صالح بنادے اور اس والی کو اپنے خلفاء راشدین میں سے بنادے، جو نبی الرحمت کی ہدایت اور صالحین کے طریقے کی پیروی کرے اور ان کی رعایا کو بھی ان کے لیے صالح بنادے۔ ابن سعد

14176

14176- عن أبي بكر أنه قال لعمر: أدعوك إلى أمر متعب لمن وليه فاتق الله يا عمر بطاعته، وأطعه بتقواه، فإن التقي أمر محفوظ، ثم إن الأمر معروض لا يستوجبه إلا من عمل به فمن أمر بالحق وعمل بالباطل وأمر بالمعروف وعمل بالمنكر يوشك أن ينقطع أمنيته وأن يحبط عمله فإن أنت وليت عليهم أمرهم؛ فإن استطعت أن تجف يدك عن دمائهم وأن تضمر بطنك من أموالهم وأن تجف لسانك عن أعراضهم فافعل، ولا قوة إلا بالله. "طب".
14176 حضرت ابوبکر (رض) سے منقول ہے کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کو فرمایا : میں تم کو ایسے کام کی طرف بلارہا ہوں جس کو سپرد کردیا جائے وہ اس کی مشقت میں ڈال دیتا ہے۔ پس اے عمر ! اللہ سے ڈر اس کی اطاعت کرنے کے ساتھ ساتھ اور اس کی اطاعت کر اس سے ڈرتے ہوئے۔ بیشک متقی محفوظ ہوتا ہے۔ بیشک یہ منصب آزمائش ہے، اس کا مستحق وہی ہے جو اس پر عمل پیرا ہو۔ اگر کسی نے اس منصب پر آنے کے بعد حق کا حکم دیا، لیکن خود باطل پر عمل کیا، نیکی کا حکم لیکن خود برائی پر عمل کیا تو قریب ہے کہ اس کی امید ٹوٹ جائے اور اس کا عمل بےکار ہوجائے (اے عمر ! ) اگر تو لوگوں پر والی بنے تو کوشش کرنا کہ تیرے ہاتھ لوگوں کے خون سے خشک رہیں، تیرا پیٹ ان کے اموال سے خالی رہے اور تیری زبان ان کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے سے بند رہے۔ اور ہر نیکی کی قوت اللہ کے طفیل ہی ممکن ہے۔ الکبیر للطبرانی

14177

14177- عن عائشة قالت: لما حضر أبو بكر الوفاة فاستخلف عمر فدخل عليه علي وطلحة فقالا: من استخلفت؟ قال: عمر قالا: فماذا أنت قائل لربك؟ قال: أبالله تفرقانيلأنا أعلم بالله وبعمر منكما أقول: استخلفت عليهم خير أهلك. "ابن سعد"
14177 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عمر (رض) کو خلیفہ بنادیا۔ حضرت علی اور طلحہ (رض) حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہوئے اور پوچھا : آپ نے کس کو خلیفہ بنایا ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) کا نام لیا۔ دونوں حضرات بولے : آپ اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو، میں اللہ کو اور عمر کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔ میں کہوں گا : میں نے ان پر تیرے بندوں میں سے سب سے اچھے شخص کو خلیفہ بنادیا ہے۔ ابن سعد

14178

14178- عن زيد بن الحارث أن أبا بكر حين حضره الموت أرسل إلى عمر يستخلفه؛ فقال الناس: تستخلف علينا عمر فظا غليظا، فلو قد ولينا كان أفظ وأغلظ، فما تقول لربك إذا لقيته وقد استخلفت علينا عمر؟ فقال أبو بكر: أبربي تخوفوني أقول: اللهم استخلفت عليهم خير أهلك. "ش" ورواه ابن جرير عن أسماء بنت عميس.
14178 زید بن ابی الحارث سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عمر (رض) کو پیغام دے کر بلوایا تاکہ ان کو خلیفہ بنائیں۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا : کیا آپ ہم پر عمر کو خلیفہ بنائیں گے، جو سخت مزاج ترش انسان ہیں۔ اگر وہ ہم پر والی بنادیئے گئے تو مزید ترش اور سخت مزاج ہوجائیں گے۔ پھر آپ اپنے رب سے ملو گے تو اس کو کیا جواب دو گے اگر آپ نے ہم پر عمر کو خلیفہ بنادیا ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو، میں کہوں گا : اے اللہ ! میں نے ان پر تیرے اہل میں سے سب سے بہتر انسان کو خلیفہ نامزد کردیا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ
ابن جریر نے اس روایت کو اسماء بنت عمیس سے بھی روایت کیا ہے۔

14179

14179- عن عثمان بن عبيد الله بن عبد الله بن عمر بن الخطاب قال: لما حضرت أبا بكر الصديق الوفاة دعا عثمان بن عفان فأملى عليه عهده، ثم أغمي على أبي بكر قبل أن يملي أحدا فكتب عثمان عمر بن الخطاب، فأفاق أبو بكر فقال لعثمان كتبت أحدا؟ فقال: ظننتك لما بك وخشيت الفرقة فكتبت عمر بن الخطاب فقال: يرحمك الله، أما لو كتبت نفسك لكنت لها أهلا، فدخل عليه طلحة بن عبيد الله فقال: أنا رسول من ورائي إليك، يقولون: قد علمت غلظة عمر علينا في حياتك، فكيف بعد وفاتك إذا أفضيت إليه أمورنا والله سائلك عنه فانظر ما أنت قائل؟ فقال: أجلسوني، أبالله تخوفوني، قد خاب امرؤ ظن من أمركم وهما، إذا سألني الله قلت: استخلفت على أهلك خيرهم لهم فأبلغهم هذا عني. "اللالكائي".
14179 عثمان بن عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انھوں نے حضرت عثمان (رض) بن عفان کو بلوا کر انھیں عہد نامہ املاء کروایا۔ لیکن عہد نامہ میں کسی کا نام املاء کروانے سے قبل ہی حضرت ابوبکر (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ حضرت عثمان (رض) نے (از خود) عمر بن خطاب (رض) لکھ دیا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) کو ہوش آیا تو انھوں نے حضرت عثمان (رض) سے پوچھا : تم نے کسی کا نام لکھ دیا ہے کیا ؟ حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا : میں نے آپ کی کیفیت ملاحظہ کی تو مجھے ڈر ہوا کہیں آپ رخصت تو نہیں ہوگئے، یہ سوچ کر میں نے عمر بن خطاب لکھ دیا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ تم رحم کرے۔ اگر تم اپنا نام ہی لکھ دیتے تو تم بھی اس کے اہل اور مستحق تھے۔ پھر حضرت طلحہ بن عبیداللہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس داخل ہوئے اور عرض کیا : میں اپنے پیچھے والوں کا قاصد ہوں۔ وہ کہتے ہیں : آپ اپنی زندگی میں عمر کی سختی کو ہم پر جانتے ہیں۔ پھر آپ کی وفات کی بعد جبکہ ہمارے سارے امور ان کو سونپ دیئے جائیں گے تب ان کی سخت مزاجی کا کیا حال ہوگا ؟ اور اللہ آپ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا، آپ دیکھ لیں، اپنے رب کو کیا جواب دیں گے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : مجھے بٹھاؤ، کیا تم مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو۔ ہلاک ہو وہ شخص جو تمہارے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہو۔ جب اللہ مجھ سے سوال فرمائے گا تو میں عرض کروں گا : میں نے تیرے اہل پر ان کے سب سے اچھے شخص کو خلیفہ بنایا ہے۔ جاؤ لوگوں کو میری طرف سے یہ پیغام دے دو ۔ اللالکائی

14180

14180- عن أبي بكر بن سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب قال: لما حضر أبا بكر الموت أوصى بسم الله الرحمن الرحيم هذا عهد من أبي بكر الصديق عند آخر عهده بالدنيا خارجا منها، وأول عهده بالآخرة داخلا فيها حيث يؤمن الكافر ويتقي الفاجر ويصدق الكاذب، إني استخلفت من بعدي عمر بن الخطاب، فإن عدل فذلك ظني فيه، وإن جار وبدل، فالخير أردت ولا أعلم الغيب، {وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ} ثم بعث إلى عمر فدعاه فقال: يا عمر أبغضك مبغض وأحبك محب، وقد ما يبغض الخير ويحب الشر، قال: فلا حاجة لي فيها، قال: ولكن لها بك حاجة، وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وصحبته ورأيت إثرته أنفسنا على نفسه حتى أن كنا لنهدي لأهله فضل ما يأتينا منه ورأيتني وصحبتني، وإنما اتبعت إثر من كان من قبلي، والله ما نمت فحلمت ولا شهدت فتوهمت، وإني لعلى طريق ما زغت تعلم يا عمر أن لله حقا في الليل لا يقبله بالنهار وحقا بالنهار لا يقبله بالليل، وإنما ثقلت موازين من ثقلت موازينه يوم القيامة باتباعهم الحق، وحق لميزان أن يثقل لا يكون فيه إلا الحق، وإنما خفت موازين من خفت موازينه يوم القيامة باتباعهم الباطل، وحق لميزان أن يخف لا يكون فيه إلا الباطل، إن أول ما أحذرك نفسك، وأحذرك الناس فإنهم قد طمحت أبصارهم وانتفخت أهواؤهم وإن لهم لحيرة عن ذلة تكون وإياك أن تكونه، فإنهم لن يزالوا خائفين لك فرقين منك ما خفت الله وفرقته وهذه وصيتي وأقرأ عليك السلام. "كر".
14180 ابوبکر بن سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے یہ وصیت لکھوائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ عہد نامہ ہے ابوبکر صدیق کی طرف سے، اس کے دنیا میں آخری وقت کے موقع پر دنیا سے نکلتے ہوئے، اور آخرت کے پہلے وقت میں اس میں داخل ہوتے ہوئے، جس وقت کہ کافر ایمان لے آتا ہے، گناہ گار متقی بن جاتا ہے اور جھوٹا بھی سچ بولنے لگتا ہے۔ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو خلیفہ بنارہا ہوں۔ اگر وہ عدل و انصاف کا سلوک کریں تو یہی میرا ان کے متعلق گمان ہے اور اگر وہ ظلم کریں اور (میرے عہد کو) بدل دیں تو میں نے تو بھلائی کا ارادہ کیا تھا غیب کا مجھے علم نہیں۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون،
اور عنقریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا جان لیں گے کس طرف پلٹتے ہیں۔
پھر حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو بلوایا اور ان کو ارشاد فرمایا : اے عمر ! نفرت کرنے والا تجھ سے نفرت کرے گا اور محبت کرنے والا تجھ سے محبت کرے گا۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیر سے نفرت کی جاتی ہے اور شر سے محبت۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : تو مجھے اس (تمہاری امارت) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : لیکن اس (امارت) کو تمہاری ضرورت ہے۔ تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا اور ان کی صحبت بھی اٹھائی۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اپنی ذات پر بھی ترجیح دیتے تھے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آپ کے اہل (یعنی امت) کو سیدھی راہ دکھائیں ، خواہ ان کی طرف سے ہم کو جو بھی صورت حال پیش آئے۔ تم نے مجھے بھی خوب دیکھا اور میرے ساتھ رہے، میں اپنے پہلے شخص کے نشانات پر چلتا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں جب بھی سویا تو میں نے یہی خواب دیکھا اور جب بھی بیداری میں ہوا تو یہی خیال رہا کہ میں اسی راستے پر ہوں اس سے منحرف نہیں ہوا ہوں۔ اے عمر ! تو جانتا ہے کہ اللہ کا جو حق رات میں ہے اللہ پاک اس کو دن میں قبول نہ فرمائیں گے اور جو حق اس کا دن کا ہے رات میں اس کو قبول نہ فرمائے گا۔ اور بیشک انہی لوگوں کے میزان عمل بھاری ہوں گے جن کے میزان عمل ان کے حق کی اتباع کرنے کی وجہ سے قیامت میں بھاری نکلیں۔ اور میزان پر لازم ہے کہ اگر اس میں حق رکھا جائے تو وہ بھاری ہوجائے۔ اور ان لوگوں کے میزان عمل ہلکے ہوں گے جن کے باطل کی اتباع کرنے کی وجہ سے میزان عمل قیامت میں ہلکے ہوجائیں کیونکہ جس میزان میں باطل رکھا جائے اس پر لازم ہے کہ وہ ہلکا ہوجائے۔ میں تم سب سے پہلے تمہارے اپنے نفس سے ڈراتا ہوں پھر لوگوں کی طرف سے تم کو محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہوں۔ بیشک ان کی نگاہیں بلندی کی طرف اٹھ گئی ہیں اور ان کی خواہشات پھول گئی ہیں۔ وہ حیران ہیں ذلت کی وجہ سے۔ تم اس سے اپنا دامن بچائے رکھنا۔ پھر وہ تم سے خوفزدہ رہیں گے جب تک کہ تم اللہ سے خوفزدہ رہے یہ میری وصیت ہے اور میں تم سلام کہتا ہوں۔ ابن عساکر

14181

14181- عن الحسن قال: لما ثقل أبو بكر واستبان له في نفسه جمع الناس إليه فقال لهم: إنه قد نزل بي ما قد ترون، ولا أظنني إلا لمماتي وقد أطلق الله تعالى أيمانكم من بيعتي، وحل عنكم عقدي، ورد عليكم أمركم؛ فأمروا عليكم من أحببتم، فإنكم إن أمرتم في حياة مني كان أجدر أن لا تختلفوا بعدي، فقاموا في ذلك وخلوه تخلية، فلم تستقم لهم، فرجعوا إليه فقالوا: رأينا لنا يا خليفة رسول الله رأيك، قال: فلعلكم تختلفون؟ قالوا: لا، فقال: فعليكم عهد الله على الرضا، قالوا: نعم، قال: فأمهلوني أنظر لله ولدينه ولعباده فأرسل أبو بكر إلى عثمان فقال: أشر علي برجل، فوالله إنك عندي لها لأهل وموضع، فقال عمر اكتب فكتب حتى انتهى إلى الإسم فغشي عليه فأفاق فقال: اكتب عمر. "سيف كر".
14181 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) بھاری بدن ہوگئے اور ان پر اپنا آخری وقت کھل گیا تو انھوں نے لوگوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کو میری حالت کا علم ہے اور مجھے اب اپنی موت کا گمان ہورہا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے میری بیعت کرنے پر تمہاری قسموں کو بری کردیا ہے، تم سے میرا معاہدہ ختم کردیا ہے اور تمہاری حکومت تم کو واپس کردی ہے۔ اب تم اپنے اوپر جس کو پسند کرو امیر منتخب کرلو۔ کیونکہ اگر تم میری زندی میں اپنا نیا امیر چن لو تو میرے مرنے کے بعد تمہارے اختلافات میں پڑنے کا اندیشہ کم ہے۔
چنانچہ لوگ آپ کو چھوڑ کر اٹھ گئے اور آپ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ لیکن ان کی رائے کسی پر جمع نہ ہوسکی۔ چنانچہ وہ واپس آپ کے پاس آئے اور عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! ہمیں آپ کی رائے قبول ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : شاید تم میری رائے سے اختلاف کرو۔ لوگوں نے کہا : نہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : پھر تم راضی رہنے پر اللہ کو عہد دو ۔ لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : مجھے کچھ مہلت دو ۔ میں اللہ، اس کے دین اور اس کے بندوں کی خیرخواہی میں کسی کو دیکھتا ہوں۔ چنانچہ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے عثمان (رض) کو پیغام بھیج کر بلوایا۔ ان کو فرمایا : مجھے تم کسی آدمی کا بتاؤ۔ اللہ کی قسم ! تم میرے نزدیک اس کے اہل ہو اور مناسب ہو۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : عمر۔ آپ (رض) نے فرمایا : عہد نامہ لکھو۔ چنانچہ انھوں نے عہد نامہ لکھنا شروع کیا۔ حتیٰ کہ نام لکھنے کی نوبت آئی تو حضرت ابوبکر (رض) پر غشی کا دورہ پڑگیا۔ پھر آپ بیدار ہوئے تو فرمایا : لکھو : عمر۔ سیف، ابن عساکر

14182

14182- عن أسلم قال: كتب عثمان عهد الخليفة، فأمره أن لا يسمى أحدا وترك اسم الرجل فأغمي على أبي بكر؛ فأخذ عثمان العهد فكتب فيه اسم عمر؛ فأفاق أبو بكر فقال: أرنا العهد، فإذا فيه اسم عمر، فقال: من كتب هذا؟ قال: أنا، قال: رحمك الله وجزاك الله خيرا لو كتبت نفسك لكنت لذلك أهلا. "الحسن بن عرفة في جزئه" قال ابن كثير إسناده صحيح.
14182 حضرت اسلم سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے خلیفہ کا عہد لکھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے آپ کو حکم دیا کہ وہ کسی کا نام نہ لکھیں۔ چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے آدمی کا نام چھوڑ دیا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ حضرت عثمان (رض) نے عہد نامہ میں عمر کا نام لکھ دیا۔ حضرت ابوبکر (رض) کو ہوش آگیا تو انھوں نے فرمایا : ہمیں عہد نامہ دکھاؤ۔ دیکھا تو اس میں عمر کا نام تھا۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہ کس نے لکھا ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : میں نے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ تم پر رحم فرمائے اور اللہ تم کو اچھا بدلہ عطا کرے۔ اگر تم اپنا نام لکھ دیتے تو تم بھی یقیناً اس کے اہل تھے۔
الحسن بن عرفۃ فی جزہ
امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہے۔

14183

14183- سيف بن عمر عن أبي ضمرة عبد الله بن المستورد الأنصاري عن أبيه عن عاصم قال: جمع أبو بكر الناس وهو مريض فأمر من يحمله إلى المنبر فكانت آخر خطبة خطب بها، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: يا أيها الناس احذروا الدنيا ولا تثقوا بها غرارة، وآثروا الآخرة على الدنيا، فأحبوها فبحب كل واحدة منهما تبغض الأخرى، وإن هذا الأمر الذي هو أملك بنا لا يصلح آخره إلا بما صلح به أوله؛ فلا يحمله إلا أفضلكم مقدرة وأملككم لنفسه، أشدكم في حال الشدة وأسلسكم في حال اللين وأعلمكم برأي ذوي الرأي لا يتشاغل بما لا يعنيه ولا يحزن لما ينزل به، ولا يستحيي من التعلم، ولا يتحير عند البديهة قوي على الأمور لا يخور بشيء منها حده بعدوان ولا تقصير، يرصد لما هو آت عتاده من الحذر والطاعة وهو عمر بن الخطاب ثم نزل. "كر".
14183 سیف بن عمر، ابوضمرۃ عبداللہ بن المستور و الانصاری سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ :
حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حالت مرض میں لوگوں کو جمع کیا۔ پھر کھچ لوگوں کو حکم دیا کہ ان کو منبر تک لے جائیں۔ پھر آپ نے جو خطبہ دیا یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا۔ آپ نے اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! دنیا سے احتیاط برتو، اس پر بھروسہ نہ کرو۔ یہ دھوکا کا سامان ہے۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دو ۔ آخرت سے محبت رکھو۔ بیشک دونوں میں سے ایک کی محبت دوسرے کی نفرت پیدا کرتی ہے۔ اور یہ دین جو ہمارا ضامن ہے اس کا آخر بھی اسی طرح درست ہوگا جس طرح اس کا اول (زمانہ) درست ہوا تھا۔ اس دین میں والی کی ذمہ داری وہی اٹھاسکتا ہے جو تم میں سب سے زیادہ قدرت والا اور اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والا ہو، جو حالت شدت میں تم میں سب سے زیادہ شدید ہو اور نرمی کے موقع پر تم میں سب سے زیادہ نرم ہو، اصحاب الرائے لوگوں کی رائے کو تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو، لا یعنی (بےکار) کاموں میں قطعاً شغل نہ رکھتا ہو، پیش آمد، مصائب پر رنجیدہ وملول ہونے والا نہ ہو، سیکھنے سے حیاء نہ رکھتا ہو، بات واضح ہوجانے پر حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن نہ رہتا ہو، اپنے کاموں پر قوی ہو، امور حکمرانی کے کسی کام میں کمی کوتاہی اور سستی کا شکار نہ ہو، آنے والے مسائل میں احتیاط اور پیش بندی کی گھات لگائے رکھتا ہو اور ان سب کاموں کا کما حقہ اہل عمر بن خطاب ہے۔
یہ فرما کر آپ منبر سے نیچے اتر آئے۔ ابن عساکر

14184

14184- عن سعيد بن المسيب قال: لما ولي عمر بن الخطاب خطب الناس على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم حمد الله وأثنى عليه، ثم قال: يا أيها الناس إني علمت أنكم كنتم تونسون مني شدة وغلظة، وذلك أني كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وكنت عبده وخادمه وكان كما قال الله تعالى: {بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ} فكنت بين يديه كالسيف المسلول إلا أن يغمدني أو ينهاني عن أمر فأكف، وإلا أقدمت على الناس لمكان لينه، فلم أزل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على ذلك حتى توفاه الله وهو عني راض والحمد لله على ذلك كثيرا، وأنا به أسعد، ثم قمت ذلك المقام مع أبي بكر خليفة رسول الله بعده وكان قد علمتم في كرمه ودعتهولينه، فكنت خادمه كالسيف بين يديه أخلط شدتي بلينه، إلا أن يتقدم إلي فأكف، وإلا أقدمت فلم أزل على ذلك حتى توفاه الله وهو عني راض والحمد لله على ذلك كثيرا وأنا به أسعد، ثم صار أمركم إلي اليوم وأنا أعلم؛ فسيقول قائل: كان يشتد علينا والأمر إلى غيره، فكيف به إذا صار إليه؟ واعلموا أنكم لا تسألون عني أحدا قد عرفتموني وجربتموني وعرفتم من سنة نبيكم ما عرفت وما أصبحت نادما على شيء أكون أحب أن أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه إلا وقد سألته، فاعلموا أن شدتي التي كنتم ترون ازدادت أضعافا إذ صار الأمر إلي على الظالم والمعتدي والأخذ للمسلمين لضعيفهم من قويهم وإني بعد شدتي تلك واضع خدي بالأرض لأهل العفاف والكف منكم والتسليم، وإني لا آبىإن كان بيني وبين أحد منكم شيء من أحكامكم أن أمشي معه إلى من أحببتم منكم فلينظر فيما بيني وبينه أحد منكم، فاتقوا الله عباد الله وأعينوني على أنفسكم بكفها عني، وأعينوني على نفسي بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وإحضاري النصيحة فيما ولاني الله من أمركم، ثم نزل. "أبو حسين بن بشران في فوائده وأبو أحمد الدهقان في الثاني من حديثه ك واللالكائي".
14184: حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کو والیو خلیفہ بنادیا گیا تو وہ منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء کے بعد ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! میں جانتا ہوں کہ تم لوگ مجھے شدت پسند اور سخت گیر سمجھتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا، میں آپ کا غلام اور خدمت گار تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے حکم :
بالمومنین رؤف رحیم،
وہ مومنین کے ساتھ نرم (اور) مہربان ہیں۔
کا پر تو تھے۔ جبکہ میں آپ کے سامنے ننگی تلوار تھا الایہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے نیام میں کردیتے یا مجھے کسی کام سے روک دیتے تو میں باز آجاتا تھا۔ ورنہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نرمی کی وجہ سے لوگوں پر جری ہوجاتا تھا ۔ چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسی حال پر رہا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات (پر ملال) ہوگئی۔ آپ جاتے وقت مجھ سے راضی تھے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اس (احسان عظیم) پر جس کی مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ پھر ان کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے لیے بھی میں اسی مقام پر فائز تھا، تم لوگ ابوبکر کی کرم نوازی اور نرمی و مہربانی کو جانتے ہو۔ میں آپ کا بھی خدمت گار تھا اور آپ (رض) کے لیے ننگی تلوار بنا رہتا تھا اور اپنی سختی کے ساتھ ان کی نرم مزاجی کو معتدل کرتا رہتا تھا الیہ کہ وہ مجھے روک کر آگے بڑھ جاتے تو میں رک جاتا تھا۔ ورنہ میں سختی کو آگے رکھتا تھا۔ پھر اسی طرح وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ اللہ نے ان کو بھی اپنے پاس اٹھالیا، وہ بھی جاتے وقت مجھ سے راضی تھے۔ اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اس احسان پر، جس کی مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد آج تمہاری ذمہ داری میری طرف آگئی ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ کہنے والا کہے گا : کہ عمر تو ہم پر اس وقت بھی سخت گیر تھے جبکہ حکومت کی باگ کسی اور کے ہاتھ میں تھی، تو اب ان کی شدت کس حال پر ہوگی جبکہ تمام اموران کے ہاتھوں میں آگئے ہیں۔
پس جان لو ! تم میرے بارے میں کسی سے کوئی سوال نہ کرو کیونکہ تم خود مجھے جانتے ہو اور اچھی طرح آزما چکے ہو اور تم اپنے نبی کی سنت بھی جانتے ہو جس طرح میں جانتا ہوں اور میں نے جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ پوچھنے کا ارادہ کیا تو کبھی اس میں ندامت کا خیال نہیں کیا اور ان سے بڑھ کر سوال کرلیا ۔ اب تم اچھی طرح جان کو کہ میری پہلی والی شدت ظالم اور سرکش کے لیے اور طاقت ور سے کمزور کا حق دلانے کے لیے کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔ لیکن ہاں میں اس شدت کے بعد پاکدامن اور سرتسلیم خم کرنے والوں کے لیے اس قدر نرم ہوں کہ ان کے لیے اپنا رخسار زمین پر رکھنے والا ہوں۔ نیز اگر کسی کا مجھ سے کبھی کوئی کام پڑا تو میں اس کے لیے اس کے ساتھ کسی کے پاس بھی چلنے سے عار محسوس نہیں کروں گا۔ پس کوئی بھی مجھے اپنے کام میں لاسکتا ہے۔ اے بندگان خدا ! اللہ سے ڈرو، اپنے نفسوں پر میری مدد اس طرح کرو کہ اپنے نفسوں کو (برائی) سے بچاتے ہوئے مجھ سے دور رکھو، نیز میرے نفس پر میری مدد کرو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے ساتھ۔ اور جن کاموں کو اللہ نے مجھے ولایت میں سونپ دیا ہے ان میں مجھے نصیحت کرکے میری مدد کرو ۔ یہ فرما کر آپ (رض) منبر سے نیچے اتر آئے۔
ابوحسین بن بشر ان فی فوائدہ، ابو احمد الدھقان فی الثانی من حدیثہ، مستدرک، اللالکائی

14185

14185- عن الحسن قال: إن أول خطبة خطبها عمر حمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما فقد ابتليت بكم وابتليتم بي وخلفت فيكم بعد صاحبي فمن كان بحضرتنا باشرناه بأنفسنا، ومهما غاب عنا، ولينا أهل القوة والأمانة فمن يحسن نزده حسنا ومن يسيء نعاقبه ويغفر الله لنا ولكم. "ابن سعد هب"
14185 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ سب سے پہلا خطبہ جو حضرت عمر (رض) نے کہا وہ آپ (رض) نے حمدوثناء کے بعد یہ فرمایا :
تم کو میرے ساتھ اور مجھے تمہارے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ مجھے اپنے دو ساتھیوں کے بعد خلیفہ بنایا گیا ہے۔ جو ہمارے ساتھ حاضر باش رہا ہم خود اس کا خیال رکھیں گے اور جو ہم سے دور ہوا ہم ان پر صاحب قوت اور امانت دار لوگوں کو والی بنائیں گے۔ جس نے اچھائی برتی ہم اس کے ساتھ نیکی میں اضافہ کریں گے اور جو برائی کی راہ چلا ہم اس کو برے انجام سے گزاریں گے، بس اللہ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے۔ ابن سعد، شعب الایمان للبیہقی

14186

14186- عن جامع بن شداد عن أبيه قال: كان أول كلام تكلم به عمر بن الخطاب حين صعد المنبر أن قال: اللهم إني غليظ فليني وإني ضعيف فقوني، وإني بخيل فسخني. "ابن سعد"
14186 جامع بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے منبر پر چڑھتے ہوئے (خطبے سے قبل) سب سے پہلے یہ دعا کی :
اے اللہ ! میں سخت ہوں مجھے نرم بنادے میں ضعیف ہوں مجھے قوی بنادے اور میں بخیل ہوں مجھے سخی بنادے۔ ابن سعد

14187

14187- عن حميد بن هلال: حدثنا من شهد وفاة أبي بكر الصديق فلما فرغ عمر من دفنه نفض يديه من تراب قبره، ثم قام خطيبا مكانه فقال: إن الله ابتلاكم بي، وابتلاني بكم، وأبقاني فيكم بعد صاحبي فوالله لا يحضرني شيء من أمركم فيليه أحد دوني ولا يتغيب عني فآلوفيه عن الجزءوالأمانة، ولئن أحسنوا لأحسنن إليهم، ولئن أساؤوا لأنكلن بهم قال الرجل: فوالله ما زال على ذلك حتى فارق الدنيا. "ابن سعد هب"
14187 حمید بن ہلال سے مروی ہے کہ ہمیں ایسے شخص نے بیان کیا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی وفات کے موقع پر حاضر تھا کہ جب حضرت عمر (رض) حضرت ابوبکر (رض) کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان کی قبر کی مٹی سے اپنے ہاتھ جھاڑے پھر اسی جگہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم کو میرے ساتھ آزمائش میں مبتلاکردیاہی اور مجھے تمہارے ساتھ آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ میرے دو ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد بھی تمہارے اندر باقی چھوڑ دیا ہے۔ اللہ کی قسم ! تمہارے معاملات کا کوئی کام میری موجودگی میں پیش آیا تو میرے سوا اس کو کوئی حل نہ کرے گا اور اگر میری عدم موجودگی میں تمہارا کوئی مسئلہ در پیش ہوا تو میں کسی صاحب امانت پر اس کی ذمہ داری ڈالنے سے ہرگز نہ کتراؤں گا۔ اگر تم اچھا چلتے رہے تو میں بھی تمہارے ساتھ اچھائی برتوں گا اور اگر لوگوں نے برائی کا راستہ اختیار کیا تو میں ان کو عبرت کا سامان بنادوں گا۔
روای کہتا ہے : اللہ کی قسم حضرت عمر (رض) اسی بات پر قائم رہے حتیٰ کہ دنیا سے جدا ہوگئے۔
ابن سعد، شعب الایمان للبیہقی

14188

14188- عن القاسم بن محمد قال: قال عمر بن الخطاب: ليعلم من ولي هذا الأمر من بعد أن سيريده عنه القريب والبعيد إني لأقاتل الناس عن نفسي قتالا ولو علمت أن احدا من الناس أقوى عليه مني لكنت أقدم فيضرب عنقي أحب إلي من أن أليه"ابن سعد كر"
14188 قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اب حکومت کی زمام مجھے تھما دی گئی ہے حالانکہ مجھے علم ہے کہ قریب اور دور والے اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اب لوگوں کو میں آگاہ کرتا ہوں کہ میں اس کے لیے اپنے دفاع میں لوگوں سے قتال کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ لیکن اگر مجھے علم ہوگیا کہ کوئی مجھے سے زیادہ اس کام پر قوی اور طاقت والا ہے تو تب مجھے آگے بڑھ کر قتل ہوجانا زیادہ پسند ہوگا اس بات سے کہ میں ایسے شخص سے اس حکومت کو حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ ابن سعد، ابن عساکر

14189

14189- عن عبد الله بن عتبة بن مسعود قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: إن ناسا كانوا يأخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن الوحي قد انقطع وإنما نأخذكم الآن بما ظهر من أعمالكم فمن أظهر لنا خيرا آمناه وقربناه، وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته ومن أظهر لنا شرا لم نأمنه ولم نصدقه، وإن قال: إن سريرته حسنة. "عب".
14189 عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وحی کے ساتھ بھی لوگوں کا مواخذہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ لہٰذا ہم تمہارے ظاہری اعمال پر تمہاری پکڑ کریں گے۔ جس نے ہم پر خیر کو ظاہر کیا ہم اس پر ایمان لائیں گے اور اس کو قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی معاملات سے سروکار نہ ہوگا۔ پھر اللہ ہی اس کے اندرونی معاملات کا حساب فرمائے گا۔ اور اگر کسی نے ہمارے آگے شر کو ظاہر کیا تو ہم اس پر مطمئن نہ ہوں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگر وہ کہے گا کہ اس کا باطن اچھا ہے۔ مصنف لعبد الرزاق

14190

14190- عن زيد بن أسلم عن أبيه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب إلى السوق فلحقت عمر امرأة شابة فقالت: يا أمير المؤمنين هلك زوجي وترك صبية صغارا والله ما ينضجون كراعاولا لهم زرع ولا ضرع، وخشيت أن يأكلهم الضبع وأنا؟؟ بنت خفاف بن إيماء الغفاري، وقد شهد أبي الحديبية مع النبي صلى الله عليه وسلم، فوقف معها عمر ولم يمض ثم قال: مرحبا بنسب قريب، ثم انصرف إلى بعير ظهيركان مربوطا في الدار فحمل عليه غرارتين ملأهما طعاما وجعل بينهما نفقة وثيابا، ثم ناولها بخطامه، ثم قال: اقتاديه، فلن يفنى حتى يأتيكم الله بخير، فقال رجل: يا أمير المؤمنين أكثرت لها فقال عمر: ثكلتك أمك شهد أبوها الحديبية مع النبي صلى الله عليه وسلم والله إني لأرى أبا هذه وأخاها قد حاصرا حصنا زمانا فافتتحناه، ثم أصبحنا نستفيء سهمانهما فيه. "خوأبو عبيدة في الأموال هق".
14190 حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ بازار کی طرف نکلا۔ حضرت عمر (رض) کو ایک جوان عورت کا سامنا ہوا۔ عورت نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! میرا شوہر ہلاک ہوگیا ہے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ گیا ہے۔ اللہ کی قسم ! یہ تو ایک پایہ پکوانے کے قابل بھی نہیں (کما کر لاسکتے) اور نہ ان کے پاس کھیتی اور زمین ہے اور نہ مویشی جانور۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کو بجوہی نہ کھاجائے۔ میں بنت خفاف بن ایماء الغفاری ہوں اور میرے والد خفاف صلح حدیبیہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔
یہ سن کر حضرت عمر (رض) کھڑے ہوگئے اور آگے نہ بڑھے بلکہ فرمایا : خوش آمدید تم تو قریبی نسب والی نکلیں کہ تمہارے باپ کو حضور کے ساتھ صحبت کا شرف حاصل رہا پھر آپ (رض) لوٹے اور ایک بار بردار تگڑے اونٹ کو کھولا جو (بیت المال والے) گھر میں بندھا ہوا تھا۔ پھر اس پر دو بورے رکھ کر طعام اور غلے سے بھرے۔ ان کے درمیان نفقہ (سازوسامان) اور کپڑے وغیرہ رکھے۔ پھر اونٹ کی مہارجاکر عورت کو تھما دی اور فرمایا : یہ اونٹ لو اور یہ سامان تمہارے پاس ختم نہ ہوگا کہ اللہ پاک اور عطا کردے گا۔
ایک آدمی نے حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : اے امیر المومنین ! آپ نے اس کو زیادہ مال دیدیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تیری ماں تجھے روئے۔ اس کا باپ حدیبیہ کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شریک تھا۔ اللہ کی قسم ! میں دیکھتا ہوں کہ اس کے باپ اور بھائی نے ایک قلعہ کا طویل زمانے تک محاصرہ کیا تھا جس کو ہم پر اللہ نے فتح کردیا۔ اب ہم اس قلعے سے مال غنیمت حاصل کرتے ہیں تو اس کے باپ اور بھائی کا اس میں کیوں حصہ نہیں ہوگا۔ البخاری، ابوعبیدۃ فی الاموال، السنن للبیہقی

14191

14191- عن همام قال: جاء إلى عمر رجل من أهل الكتاب فقال: السلام عليك يا ملك العرب، فقال عمر: هكذا تجدونه في كتابكم أليس تجدون النبي صلى الله عليه وسلم، ثم الخليفة، ثم أمير المؤمنين، ثم الملوك بعد؟ قال له: بلى. "ش ونعيم بن حماد في الفتن".
14191 ھمام سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس اہل کتاب (یہودیوں یاعیسائیوں) کا ایک آدمی آیا اور عرض کیا : اسلام علیک اے عرب کے بادشاہ ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا تم ایسا اپنی کتابوں میں پاتے ہو، نہیں بلکہ تم اپنی کتابوں میں یوں پاتے ہوگے : پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، پھر خلیفہ پھر امیرالمومنین پھر اس کے بعد بادشاہوں کا دور ؟ کتابی نے عرض کیا : جی ہاں۔
ابن ابی شیبہ ، نعیم بن حماد فی الفتن

14192

14192- عن الحسن أن عمر بن الخطاب مصر الأمصار؛ المدينة والبصرة والكوفة والبحرين ومصر والشام والجزيرة. "ابن سعد"
14192 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کئی شہروں کی بنیاد ڈالی : مدینہ، بصرہ، کوفہ، بحرین، شام اور جزیرہ۔ ابن سعد

14193

14193- عن أبي صالح الغفاري قال: كتب عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب، أنا قد خططنا لك دارا عند المسجد الجامع، فكتب إليه عمر أني لرجل من الحجاز تكون له دار بمصر، وأمره أن يجعلها سوقا للمسلمين. "ابن عبد الحكم".
14193 ابوصالح الغفاری سے مروی ہے کہ حضرت عمروبن العاص (رض) نے حضرت عمر (رض) کو لکھا : ہم (مصر میں) جامع مسجد کے پاس آپ کے لیے گھر بناتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا کہ ایک حجاز میں رہنے کے لیے مصر میں گھر کی کیا ضرورت ہے، تم ایسا کرو اس کو مسلمانوں کے لیے بازار بنادو۔ ابن عبدالحکم

14194

14194- عن أنس بن مالك قال: استعملني أبو بكر على الصدقة فقدمت وقد مات أبو بكر فقال عمر: يا أنس أجئتنا بظهرقلت: نعم، قال: جئتنا بالظهر والمال لك؟ قلت: هو أكثر من ذلك، قال: وإن كان هو لك وكان المال هو أربعة آلاف، فكنت أكثر أهل المدينة مالا، وفي رواية: أجئتنا بظهر؟ قلت: البيعة ثم الخبر، فقال عمر: وفقت، فبسط يده فبايعته على السمع والطاعة. "ابن سعد".
14194 حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ مجھے ابوبکر (رض) نے زکوۃ وصولی پر مقرر کیا۔ پھر ابوبکر (رض) کی وفات ہوگئی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : اے انس ! کیا تو ہمارے لیے اونٹ لایا ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اونٹ ہمارے حوالے کردو جبکہ دوسرا مال تم لے لو۔ میں نے عرض کیا : وہ تو بہت زیادہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : خواہ کتنا ہو، وہ تمہارا ہے۔ وہ چار ہزار درہم تھے۔ چنانچہ میں اہل مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار بن گیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کیا تو ہمارے پاس اونٹ لایا ہے ؟ میں نے عرض کیا : پہلے میں بیعت کروں گا پھر باقی خبردوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تمہیں اچھی توفیق ملی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کرلی سننے اور اطاعت کرنے پر۔ ابن سعد

14195

14195- عن عمر بن عطية قال: أتيت عمر بن الخطاب فبايعته وأنا غلام على كتاب الله وسنة نبيه هي لنا وهي علينا فضحك وبايعني. "مسدد".
14195 عمر بن عطیہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہو کر بیعت کی، میں ابھی (نو آموز) لڑکا تھا۔ میں نے کہا : میں بیعت کرتا ہوں اللہ کی کتاب پر اور نبی کی سنت پر، نیز یہ کہ اس کا فائدہ بھی ہمارے لیے اور نقصان بھی ہم پر ہے۔ آپ (رض) میری بات پر ہنس پڑے اور مجھے بیعت کرلیا۔ مسدد

14196

14196- "مسند عمر" عن النعمان بن بشير أن عمر بن الخطاب قال في مجلس وحوله المهاجرون والأنصار أرأيتم لو ترخصت في بعض الأمور ما كنتم فاعلين فسكتوا فقال ذلك مرتين أو ثلاثا فقال بشر بن سعد:لو فعلت ذلك قومناك تقويم القدحفقال عمر: أنتم إذا أنتم إذا. "أبو ذر الهروي في الجامع كر".
14196 (مسند عمر) نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک مجلس میں جس میں آپ کے گرد مہاجرین اور انصار بھی تھے، ارشاد فرمایا : کیا خیال ہے اگر میں بعض کاموں میں رعایت اور رخصت حاصل کرلوں تو تم کیا کروں گے ؟ لوگ چپ ہوگئے ۔ پھر آپ نے دو تین بار یہی سوال پوچھا۔ تب حضرت بشر بن سعد نے عرض کیا : اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کردیں گے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم بہت اچھا کروگے پھر ، تم بہت اچھا کرو گے پھر۔ ابوذر الھروی فی الجامع ، ابن عساکر

14197

14197- "مسنده" عن عاصم بن أبي النجود عن عمر بن الخطاب كان إذا بعث عماله شرط عليهم أن لا تركبوا برذونا ولا تأكلوا نقياولا تلبسوا رقيقا، ولا تغلقوا أبوابكم دون حوائج الناس، فإن فعلتم شيئا من ذلك فقد حلت بكم العقوبة، ثم يشيعهم، فإذا أراد أن يرجع قال: إني لم أسلطكم على دماء المسلمين، ولا على أعراضهم، ولا على أموالهم، ولكني بعثتكم لتقيموا بهم الصلاة، وتقسموا فيهم فيئهم، وتحكموا بينهم بالعدل فإذا أشكل عليكم شيء فارفعوه إلي، ألا فلا تضربوا العرب فتذلوها ولا تجمروهافتفتنوها ولا تعتلوا عليها فتحرموها جردوا القرآن"هب أيضا".
14197 (مسندعمر (رض)) عاصم بن ابی النحود حضرت عمر بن خطاب (رض) کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ (رض) جب امیروں کو ان کے منصب پر بھیجتے تو ان پر مختلف شرائط عائد کرتے کہ وہ ان کی پابندی کریں ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا (یہ اس زمانے میں عجم کی خاص سواری تھی) جس سے بڑائی اور غرور کا اندیشہ تھا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، لوگوں کی ضروریات سے قطع نظر کرکے اپنے دروازے لوگوں پر بند نہ کرنا، اگر تم نے ایسا کوئی کام کیا تو تم کو اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ یہ فرما کر آپ ان کو رخصت کردیتے تھے۔
جب آپ کسی (امیر) کو واپس بلانا چاہتے تو ارشاد فرماتے :
میں نے تم کو مسلمانوں کے خونوں پر مسلط نہیں کیا، نہ ان کی عزتوں پر اور نہ ان کے اموال پر مسلط کیا ہے۔ بلکہ میں نے تم کو اس لیے ان پر مقرر کیا تھا تاکہ تم ان کو نماز قائم کرواؤ۔ ان کے اموال غنیمت کو ان کے درمیان تقسیم کرو، عدل کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ پس جب تم پر کوئی معاملہ مشکل ہوجائے تو اس کو میرے پاس (لکھ) بھیجو۔ خبردار ! عرب کو مارنا نہیں ورنہ تم ان کو ذلت سے دو چار کرو گے، نہ ان کو بالکلیہ جنگ اور محاذ پر روک لو اور واپسی ہی نہ آنے دو اس سے وہ مشکل اور آزمائش میں پڑجائیں گے اور نہ ان پر غالب آنے کی کوشش کرو ورنہ ان کی رفاقت سے محروم ہوجاؤ گے اور قرآن کو تنہا رکھو۔ اس میں احادیث وغیرہ اور دوسرا کوئی کلام نہ لکھا کرو، نیز قرآن کے علاوہ دیگر آسمانی کتب نہ پڑھا کرو۔ شعب الایمان للبیہقی

14198

14198- عن إبراهيم عن عمر بن الخطاب بلغه أن قوما صبروا حتى قتلوا، فقال: لو فاؤوا لكنت لهم فئة"ابن جرير أيضا".
14198 ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خبر ملی کہ ایک لشکرجنگ میں ڈٹا رہا ، حتیٰ کہ تمام اہل لشکر شہید کردیئے گئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کاش وہ واپس لوٹ آتے تو میں ان کو مزید کمک پہنچا دیتا۔ ابن جریر

14199

14199- عن حيوة بن شريح عن عمر بن الخطاب كان إذا بعث أميرا أوصاهم بتقوى الله وقال عند عقدة الولاية: بسم الله وعلى عون الله وامضوا بتأييد الله والنصر ولزوم الحق والصبر، وقاتلوا في سبيل الله من كفر بالله، ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين، ثم لا تجبنوا عند اللقاء ولا تمثلواعند القدرة، ولا تسرفوا عند الظهور، ولا تنكلواعند الجهاد ولا تقتلوا امرأة ولا هرما ولا وليدا، وتوقوا قتلهم إذا التقى الزحفان وعند جمةالنهضات، وفي شن الغارات، ولا تغلواعند الغنائم ونزهوا الجهاد عن عرض الدنيا وأبشروا بالأرباح في البيع الذي بايعتم وذلك هو الفوز العظيم. "في كتاب المداراة ولا يحضرني اسم مخرجه إلا أنه قديم تكثر الرواية فيه عن أبي خيثمة أيضا".
14199 حیوۃ بن شریح سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جب کسی امیر کو لشکر دے کر محاذ پر روانہ فرماتے تو ان کو تقویٰ کی نصیحت کرتے اور (امیر سے) امارت کی بیعت لیتے ہوئے ارشاد فرماتے :
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ ہی کی مدد پر بھروسہ کرتا ہوں۔ تم اللہ کی تائید اور مدد کے ساتھ حق اور صبر کو لازم پکڑتے ہوئے کوچ کرو۔ جو لوگ اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہیں ، تم ان کے ساتھ قتال کرو، ظلم اور سرکشی نہ کرو۔ بیشک اللہ پاک ظلم و سرکشی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ پھر جب تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہوجائے تو بزدلی مت دکھاؤ، قدرت پانے پر کسی کا حلیہ نہ بگاڑو، فتح کے وقت (مال غنیمت میں) فضول خرچی نہ کرو۔ جہاد کے موقع پر (اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو) عبرت ناک سزا نہ دو (دشمنوں کی) عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، جب دونوں لشکروں کا سامنا ہو تو ان کے بےدریغ قتل سے پرہیز کرو، نیز اپنی کثرت تعداد کے موقع پر اور غارت گری کے موقع پر بےدریغ قتل سے پرہیز کرو (بلکہ ان کو راہ فرار کا موقع دو ) حصول غنیمت کے بعد خیانت میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ دنیوی اغراض و مقاصد سے جہاد کو پاکیزہ رکھو اور اس بیعت میں جو تم کررہے ہو عظیم کامیابی کی خوشخبری لو۔ فی کتاب المداراۃ
فائدہ : مولف (رح) فرماتے ہیں اس (روایت کی کتاب) کے تخریج کرنے والے کا نام مجھے معلوم نہیں ہوسکا، یہ قدیم کتاب ہے جس میں ابوخیثمہ سے بھی کثیر روایات منقول ہیں۔

14200

14200- عن عبد الله بن كعب بن مالك الأنصاري أن جيشا من الأنصار كانوا بأرض فارس مع أميرهم، وكان عمر يعقبالجيوش في كل عام فشغل عنهم عمر، فلما مر الأجل قفلأهل ذلك الثغر فاشتد عليهم وتواعدهم وهم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا: يا عمر إنك غفلت عنا، وتركت فينا ما أمر به النبي صلى الله عليه وسلم من أعقاب بعض الغزية بعضا. "د ق".
14200 عبداللہ بن کعب بن مالک الانصاری سے مروی ہے کہ انصار کا ایک لشکر فارس (ایران) کی سرزمین میں اپنے امیر کے ساتھ کسی محاذ پر تھا۔ حضرت عمر (رض) کی عادت مبارکہ تھی کہ ہر سال لشکروں کے پاس مزید لشکر بھیج کر پہلے والوں کو واپس بلالیتے تھے (تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس آجائیں) ان سے حضرت عمر (رض) غافل ہوگئے چنانچہ جب مقررہ مدت گزر گئی تو مذکورہ محاذ کا لشکر واپس آگیا۔ یہ بات حضرت عمر (رض) کو سخت ناگوار گزری ۔ آپ (رض) نے ان کو زجرد تنبیہ کی۔ وہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے، انھوں نے عرض کیا : اے عمر ! آپ ہم سے غافل ہوگئے تھے اور آپ نے ہمارے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم بھلا دیا تھا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکروں کے بعد لشکر بھیجنے کی اور پہلے والوں کو واپس بلانے کی تاکید فرمائی تھی۔
ابن ابی داؤد، السنن للبیہقی

14201

14201- عن سويد أنه سمع عمر بن الخطاب يقول: لما هرم أبو عبيدة: لو أتوني كنت فئتهم. "ق".
14201 سوید (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوعبیدۃ (رض) بوڑھے ہوگئے تو انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اگر وہ اپنے لشکر سمیت واپس آجاتے تو میں ان کے لیے فنتہ (کمک) کا سامان کردیتا۔ السنن للبیہقی

14202

14202- عن أبي خزيمة بن ثابت قال: كان عمر إذا استعمل رجلا أشهد عليه رهطا من الأنصار وغيرهم يقول: إني لم أستعملك على دماء المسلمين ولا على أعراضهم، ولكني استعملتك عليهم لتقسم بينهم بالعدل وتقيم فيهم الصلاة، واشترط عليه أن لا يأكل نقيا ولا يلبس رقيقا ولا يركب برذونا، ولا يغلق بابه دون حوائج الناس. "ش كر".
14202 ابوخزیمۃ بن ثابت سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) جب کسی کو عامل (امیر وگورنر) مقرر فرماتے تو کچھ انصار اور دوسرے لوگوں کو گواہ بنادیتے اور ان کی اور ان کی حضوری میں عامل کو ارشاد فرماتے :
میں نے تجھے مسلمانوں کے خون بہانے پر امیر نہیں بنایا، نہ ان کی عزتوں کو پامال کرنے پر۔ بلکہ میں نے تجھے ان پر اس لیے امیر مقرر کیا ہے تاکہ تو ان کے درمیان عدل و مساوات کے ساتھ ان کے اموال کو تقسیم کرے، ان کے درمیان نماز قائم کرائے۔ نیز آپ (رض) امیر پر یہ شرائط بھی لازم کرتے کہ وہ بغیر چھنے آٹے (اور میدے ) کی روٹی نہ کھائے، باریک لباس زیب تن نہ کرے اور ترکی (عجمی) گھوڑے پر سوار نہ ہو۔ یہ سب باتیں امیرانہ ٹھاٹھ ہیں جن سے آپ (رض) منع فرماتے تھے نیز وہ لوگوں کی ضرورت سے غافل ہو کر اپنا دروازہ ان پر بند نہ کرے۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن عساکر

14203

14203- عن عبد الرحمن بن سابط قال: أرسل عمر بن الخطاب إلى سعيد بن عامر الجمحي فقال: إنا مستعملوك على هؤلاء لتسير بهم إلى أرض العدو فتجاهد بهم، فقال: يا عمر لا تفتني فقال عمر: والله لا أدعكم جعلتموها في عنقي، ثم تخليتم عني، إنما أبعثك على قوم لست أفضلهم، ولست أبعثك لتضرب أبشارهمولتنتهك أعراضهم، ولكن تجاهد بهم عدوهم وتقسم بينهم فيئهم. "ابن سعد كر".
14203 عبدالرحمنبن سابط سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سعید بن عامر الجمحی (رض) کو پیغام بھیجا کہ ہم تجھے ایک لشکر پر امیر مقرر کرتے ہیں تاکہ تم ان کے ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین پر جاؤ اور ان کے ساتھ جہاد کرو۔ سعید بن عامر نے عرض کیا : اے عمر ! مجھے آزمائش میں نہ ڈالیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔ تم لوگوں نے میری گردن میں یہ ساری ذمہ داری ڈال دی ہے اور خود ایک طرف ہٹ گئے ہو۔ سنو ! میں تم کو ایسے لوگوں پر امیر بنا کر بھیج رہا ہوں جن سے تم افضل نہیں ہو، نیز میں تم کو اس لیے ان کے ساتھ نہیں بھیج رہا ہوں کہ تم ان کی کھالوں کو ادھیڑو، یا تم ان کی عزتوں سے پردہ اٹھاؤ بلکہ اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم ان کے ساتھ مل کر دشمنوں سے جہاد کرو اور ان کے اموال غنیمت کو ان کے درمیان تقسیم کرو ۔
ابن سعد۔ ابن عساکر

14204

14204- عن جعفر بن عبد الله بن أبي الحكم قال: خرج عمرو بن العاص إلى بطريقعنهفي نفر من أصحابه فقال له البطريق: مرحبا بك وأجلسه معه على سريره وحادثه وأطال، ثم كلمه بكلام كثير وحاجه عمرو ودعاه إلى الإسلام، فلما سمع البطريق كلامه وبيانه وآدابه قال بالرومية: يا معشر الروم أطيعوني اليوم واعصوني الدهر، هذا أمير القوم ألا ترون كلما كلمته كلمة أجابني عن نفسه لا يقول: أشاور أصحابي، وأذكر لهم ما عرضت علي فليس إلا أن نقتله قبل أن يخرج من عندنا: فتختلف العرب بيننا وبين أمرهم، فقال من حوله من الروم ليس هذا برأي، وكان قد دخل مع عمرو بن العاص رجل من أصحابه يعرف كلام الروم، فألقى إلى عمرو ما قال الملك، وخرج عمرو من عنده فلما خرج من الباب كبر وقال: لا أعود لمثل هذا أبدا، وأعظم القوم ذلك وحمدوا الله على مارزقوا من السلامة، وكتب عمرو بذلك إلى عمر فكتب إليه عمر الحمد لله على إحسانه إلينا وإياك والتغرير بنفسك أو بأحد من المسلمين في هذا وشبهه بحسب العلجمنهم أن يتكلم من مكان سواء بينك وبينه فتأمن غائلته ويكون أكسر له فلما قرأ عمرو بن العاص كتاب عمر رحم عليه، ثم قال: ما الأب البر لولده بأبر من عمر بن الخطاب لرعيته. "ابن سعد".
14204 جعفر بن عبداللہ بن ابی الحکم سے مروی ہے کہ (امیر لشکر) حضرت عمرو بن العاص (رض) اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ عنہ کے بطریق (پیشوا) کے پاس گئے۔ بطریق نے ان کو خوش آمدید کہا، اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور خوب طویل گفتگو کی ۔ حضرت عمرو (رض) اس پر باتوں میں غالب آگئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی۔ بطریق نے جب آپ (رض) کے کلام، فصیح البیانی اور آداب کو دیکھا اور سنا تو (مرعوب ہو کر وطن) حاضرین سے رومی زبان میں کہا اے رومیو ! بس آج تم میری بات مان لو، پھر خواہ ساری زندگی میری بات پر کان نہ دھرنا، دیکھو یہ مسلمانوں کا امیر معلوم ہوتا ہے ، تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے جب بھی اس سے کوئی بات کی تو اس نے بذات خود اسی وقت اس کا جواب مجھے دیدیا اور یہ نہیں کہا : کہ میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے بتاؤں گا اور تم نے جو کہا ہے اس کو پہلے اپنے ساتھیوں پر پیش کروں گا۔ لہٰذا اب میری یہ بات مانو کہ اس کو یہاں سے نکلنے سے قبل قتل کردیتے ہیں پھر عرب ہمارے درمیان اور اپنے معاملے کے درمیان اختلافات میں پھنس کر وہ جائیں گے۔ طریق کی بات سن کر اس کے قریبی رومی نے کہا : نہیں یہ رائے درست نہیں ہے۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) کے ساتھ ان کے ساتھیوں میں سے ایک ایسا ساتھی بھی ساتھ آیا تھا جو رومی زبان جانتا تھا، اس نے بادشاہ کی بات حضرت عمر (رض) سے ذکر کردی۔ چنانچہ حضرت عمرو (رض) وہاں سے نکل آئے اور جب دروازے سے نکل گئے تو اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور ارشاد فرمایا : آئندہ میں کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ آپ کے ساتھیوں نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کہ سلامتی کے ساتھ ان کے مرغے سے نکل آئے۔
حضرت عمرو (رض) نے یہ سارا قصہ لکھ کر حضرت عمر (رض) کو بھیجا۔ حضرت عمر (رض) نے جواب لکھا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے ہم پر اور تم پر یہ احسان فرمایا۔ آئندہ اپنی ذات کو یا کسی بھی مسلمان کو ایسے کسی خطرہ میں نہ ڈالنا، کسی بھی کافر سے کوئی بات کرنا مقصود ہو تو ایسی جگہ کا انتخاب کرو جو اس کے اور تمہارے درمیان برابر ہو، اس طرح تم ان کے دھوکا سے محفوظ رہو گے اور نیز اس کے لیے جو صلہ شکنی کا سامان ہوگا۔ والسلام۔
چنانچہ جب حضرت عمرو (رض) نے حضرت عمر (رض) کا خط پڑھا تو فرمایا : اللہ عمر پر رحم کرے، ایک شفیق باپ بھی اپنی اولاد پر اس سے زیادہ شفقت نہیں کرسکتا جتنی عمر اپنی رعایا کے ساتھ شفقت نوازی فرماتے ہیں۔ ابن سعد

14205

14205- عن أبي موسى قال: إن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب بعثني أعلمكم كتاب ربكم وسنة نبيكم وأنظف طرقكم. "حل كر".
14205 حضرت ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے، انھوں نے لوگوں کو ارشاد فرمایا :
مجھے امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) نے تمہارے پاس۔ امیر بنا کر اس لیے بھیجا ہے کہ میں تم کو تمہارے پروردگار کی کتاب اور تمہارے نبی کی سنت سکھاؤں اور تمہارے راستوں کو صاف ستھرا رکھوں ۔ حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر

14206

14206- "مسند عمر" عن عمر أنه كان يقول للجيوش إذا بعثهم: أنا فئتكم. "ابن جرير".
14206 (مسند عمر (رض)) حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) جب لشکروں کو محاذ پر روانہ فرماتے تو ان کو تسلی دیتے تھے کہ میں تمہارے لیے فئۃ ہوں۔ یعنی جب جنگ میں کسی مشکل کا سامنا ہوجائے تو مجھ سے کمک حاصل کرنے کے لیے میرے پاس واپس آجاؤ۔ ابن جریر

14207

14207- عن الشعبي قال: كتب عمر بن الخطاب إلى العلاء بن الحضرمي وهو بالبحرين أن سر إلى عتبة بن غزوان فقد وليتك عمله، واعلم أنك تقدم على رجل من المهاجرين الأولين الذين قد سبقت لهم من الله الحسنى لم أعزله، أن لا يكون عفيفاصليبا شديد البأس ولكني ظننت أنك أغنى عن المسلمين في تلك الناحية منه فاعرف له حقه، وقد وليت قبلك رجلا فمات قبل أن يصل، فإن يرد الله تعالى أن تلي وليت وإن يرد أن يلي عتبة فالخلق والأمر لله رب العالمين، واعلم أن أمر الله محفوظ بحفظه الذي أنزله، فانظر الذي خلقت له فاكدح له ودع ما سواه؛ فإن الدنيا أمد والآخرة أبد فلا يشغلنك شيء مدبر خيره عن شيء باق شره واهرب إلى الله من سخطه؛ فإن الله يجمع لمن يشاء الفضيلة في حكمه وعلمه نسأل الله لنا ولك التقوى على طاعته والنجاة من عذابه. "ابن سعد"
14207 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے علاء بن الحضری جب وہ بحرین میں تھے کو لکھا کہ تم عتبہ بن غزوان کے پاس چلے جاؤ۔ میں تم ان کی جگہ امیر مقرر کرتا ہوں۔ یاد رکھنا ! کہ وہ اولین مہاجرین میں سے ہیں جن کے پاس تو جارہا ہے، وہ ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے لیے اللہ نے پہلے سے نیکی لکھ دی ہے۔ میں نے اس لیے ان کو معزول نہیں کیا ہے کہ وہ عفیف نہیں ہیں، دین میں مضبوطی نہیں ہیں یا سخت جنگجو نہیں ہیں، بلکہ میں نے ان کو اس لیے معزول کیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تم اس علاقے میں ان کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ غنی ہو۔ لہٰذا تم ان کے حق کا خیال رکھنا۔ میں نے تم سے پہلے بھی ایک آدمی کو ان کی جگہ امیر مقرر کیا تھا لیکن وہ ان کے پاس پہنچنے سے قبل ہی وفات کر گیا۔ اب اگر اللہ پاک کو مقصود ہوا کہ تم کو امیر بنائے تو وہ تم کو امیر بنادے گا اور اگر مشیت ایزدی میں عتبہ ہی کی امارت لکھ دی گئی ہے تو پس ساری مخلوق اور ساری بادشاہت اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے (جس کو وہ چاہے عطا کرے) جان لے کہ اللہ کا امر محفوظ ہے، اس حفاظت کی بدولت جو اس نے نازل فرمائی ہے۔ لہٰذا تم اس بات کو دھیان میں رکھنا کہ تم کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، لہٰذا اس کے تعاقب میں رہنا اور اس کے ماسوا (لا یعنی کاموں) کو چھوڑ دینا۔ بیشک دنیا کا ایک انجام ہے جبکہ آخرت ابدی ہے۔ لہٰذا تم کو ایسی کوئی چیز جس کی بھلائی اور اس کا مزہ ختم ہونے والا ہو ایسے برائی میں نہ ڈال دے جس کا گناہ اور شر ہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔ اللہ کی ناراضگی سے اللہ کی طرف بھاگتے رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے اپنے حکم اور علم میں اس کے لیے فضیلت کو جمع کردیتا ہے۔ پس ہم اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے سوال کرتے ہیں اس کی اطاعت اور تقویٰ کا اور اس کے عذاب سے نجات کا۔ ابن سعد

14208

14208- عن أبي حذيفة إسحاق بن بشير عن شيوخه قال: كتب عمر بن الخطاب لما استخلف إلى أبي عبيدة بن الجراح: بسم الله الرحمن الرحيم من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلى عبيدة بن الجراح سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو أما بعد، فإن أبا بكر الصديق خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم قد توفي إنا لله وإنا إليه راجعون ورحمة الله وبركاته على أبي بكر الصديق العامل بالحق والآمر بالقسط والآخذ بالعرف واللين والستير. الوادع السهل القريب الحليم، ونحتسب مصيبتنا فيه ومصيبتكم ومصيبة المسلمين عامة عند الله، وأرغب إلى الله في العصمة بالتقى برحمته والعمل بطاعته ما أحيانا والحلول في جنته إذا توفانا، فإنه على كل شيء قدير، وقد بلغنا إحصاركم لأهل دمشق وقد وليتك جميع الناس فأثبتسراياك في نواحي أرض حمص ودمشق وما سواها من أرض الشام وانظر في ذلك برأيك ومن حضرك من المسلمين، ولا يحملك قولي هذا على أن تعرىعسكرك فيطمع فيك عدوك، ولكن من استغنيت عنه فسيره، ومن احتجت إليه في حصارك فاحتبسه، وليكن فيمن تحتبس خالد بن الوليد فإنه لا غنى بك عنه. "كر".
14208 ابوحذیفہ اسحاق بن بشیر اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو جب خلیفہ بنایا گیا تو انھوں نے ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) کو لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازبندہ بندا امیر المومنین عمر، بطرف ابی عبیدۃ بن الجراح
تم کو سلام ہو، میں تمہارے آگے حمد کرتا ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
اما بعد ! حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ رسول وفات پاگئے ہیں، ان للہ وانا الیہ راجعون، ان پر اللہ کی رحمت اور برکات نازل ہوں وہ سچے حق کے عمل دار، انصاف کے حاکم، نیکی کے پابند اور پاکدامنی ونرمی کے خوگر ، دنیاوی راحتوں کو خیر آباد کہنے والے اور بردبار شخص تھے۔ ہم ان کی رحلت کی مصیبت پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہیں، بیشک ہماری، تمہاری اور تمام مسلمانوں کی مصیبتوں کا مداوا اللہ عزوجل کے پاس ہی ہے۔ میں اللہ سے پاکدامنی کا سوال کرتا ہوں۔ اس کی رحمت کے سائے میں تقویٰ کا سوال کرتا ہوں اور اس کی اطاعت کی توفیق مانگتا ہوں جب تک ہم زندہ ہیں اور موت کے بعد اس کی جنت میں داخل ہونے کا سوال کرتے ہیں، بیشک وہ ہر شے پر قادر ہے۔
ہمیں خبر ملی ہے کہ تم نے اہل دمشق کا محاصرہ کررکھا ہے۔ میں نے تم کو (محاذ پر) تمام مسلمانوں کا امیر بنایا تھا۔
تم اپنے لشکروں کے ساتھ حمص، دمشق کا محاصرہ کررکھا ہے۔ میں نے تم کو (محاذ پر) تمام مسلمانوں کا امیر بنایا تھا۔
تم اپنے لشکروں کے ساتھ حمص، دمشق اور ان کے علاوہ ارض شام کے اطراف میں بھی نظر رکھو۔ اس معاملے میں اپنی اور تمہارے ساتھ موجود مسلمانوں کی رائے کو بروئے کار لاؤ۔ لیکن میری اس تجویز کے نتیجے میں تم اپنے تمام لشکروں کو ادھر ادھر روانہ کرکے خود تنہا نہ رہ جانا جس سے دشمن تمہاری طرف میلی آنکھ اٹھائے، بلکہ زائد از ضرورت لشکر کو ادھر ادھر پھیلا دو اور جس قدر لشکر کی تم کو قلعے کے محاصرہ میں ضرورت ہو اس کو اپنے پاس ہی روک رکھو اور اپنے پاس روکنے والوں میں خالد بن الولید کا نام بھی شامل رکھو بیشک تم اس سے بےنیازی حاصل نہیں کرسکتے۔ ابن عساکر

14209

14209- عن ضبةبن محصن قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أبي موسى الأشعري أما بعد فإن للناس نفرة من سلطانهم، فأعوذ بالله أن تدركني وإياك؛ فأقم الحدود ولو ساعة من النهار، وإذا حضر أمران أحدهما لله، والآخر للدنيا فآثر نصيبك من الله فإن الدنيا تنفد والآخرة تبقى وأخف الفساق واجعلهم يدا يدا ورجلا ورجلا عد مريض المسلمين واحضر جنائزهم، وافتح بابك وباشر أمورهم بنفسك، فإنما أنت رجل منهم غير أن الله جعلك أثقلهم حملا، وقد بلغني أنه نشأ لك ولأهل بيتك هيئة في لباسك ومطعمك ومركبك، ليس للمسلمين مثلها، فإياك يا عبد الله أن تكون بمنزلة البهيمة مرت بواد خصب، فلم يكن لها هم إلا التسمن وإنما حتفها في السمن، واعلم أن العامل إذا زاغ زاغت رعيته، وأشقى الناس من شقيت به رعيته. "الدينوري".
14209 ضبۃ بن محصن سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کو لکھا :
حمدوصلاۃ کے بعد !
بسا اوقات لوگوں کو اپنے بادشاہ سے نفرت ہوجاتی ہے۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے یا تم کو اس کا سامنا کرنا پڑے۔ تم حدود کو ضرور قائم کرو خواہ دن کے تھوڑے حصے میں سہی اور جب تمہارے سامنے دوکام پیش آجائیں جن میں سے ایک اللہ کے لیے ہو اور دوسرا دنیا کے لیے تو اللہ کے لیے کام کو ترجیح دینا۔ بیشک دنیا ختم ہوجائے گی اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔ اور فاسق وگنہگاروں کو ڈراتے رہنا اور ان کو (جرم کی سزا میں) ایک ایک ہاتھ اور ایک ایک پاؤں والا کردینا، مسلمانوں کے مریض کی عیادت کرتے رہنا، ان کے جنازوں میں حاضری دیتے رہنا، اپنا دروازہ ان کے لیے کھلا رکھنا، ان کے مسائل کو خود حل کرنا، یادرکھ ! تو بھی انہی میں سے ایک فرد واحد ہے، بس یہ کہ تجھ پر ذمہ داری کا بوجھ ان سے زیادہ ہے۔ مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے اپنا لباس ، طعام اور سواری میں نرالا انداز اختیار کرلیا ہے جو عام مسلمانوں کو میسر نہیں ہے۔ اے اللہ کے بندے اس جانور جیسا مت بن جو ایک سرسبزوادی میں گزرا تو اس کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ وہ کسی طرح کھا کھا کر فربہ ہوجائے۔ حالانکہ اس کی فربہی ہی میں اس کی اچانک موت کا راز لکھا ہے۔ یادرکھ ! ۔ امیر جب کج رو ہوجائے تو اس کی رعایا بھی کج روی اختیار کرلیتی ہے اور لوگوں میں سب سے بڑا بدبخت وہ ہے جس کی وجہ سے اس کی رعایا بدبخت ہوجائے۔ الدینوری

14210

14210- "مسند عمر" عن الليث بن سعد قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص من عبد الله أمير المؤمنين إلى عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فإني فكرت في أمرك الذي أنت عليه، فإذا أرضك أرض واسعة عريضة رفيعة قد أعطى الله أهلها عددا وجلداوقوة في بر وبحر وأنها لا تؤدي نصف ما كانت تؤديه من الخراج قبل ذلك على قحوطلا جدوب ولقد أكثرت من مكاتبتك في الذي على أرضك من الخراج، فظننت أن ذلك شيئا بينا على غير نزرورجوت أن تفيق فترجع إلى ذلك، فإذا أنت تأتيني بمعاريضتغتالها ولا توافق الذي في نفسي، ولست قابلا منك دون الذي كانت تؤخذ به من الخراج قبل ذلك، ولست أدري مع ذلك ما الذي أنفرك من كتابي فلئن كنت مجزماكافيا صحيحا فإن البراءة لنافعة، ولئن كنت مضيعا فطنافإن الأمر على غير ما تحدث به نفسك، وقد تركت أن أبتلي ذلك منك في العام الماضي رجاء أن تفيق فترجع إلى ذلك، وقد علمت أنه لم يمنعك من ذلك إلا عمالك عمال السوء، وما تواليت عليه وتلفقاتخذوك كهفا، وعندي بإذن الله دواء فيه شفاء عما أسألك عنه، فلا تجزع أبا عبد الله أن يؤخذ منك الحق وتعطاه، فإن النهر يخرج الدر والحق أبلج، ودعني وما عنه تتلجلج فإنه قد برحالخفاء والسلام. قال: فكتب إليه عمرو بن العاص بسم الله الرحمن الرحيم لعبد الله عمر أمير المؤمنين من عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد بلغني كتاب أمير المؤمنين في الذي استبطأني فيه من الخراج، والذي ذكر فيها من عمل الفراعنة قبلي، وإعجابه من خراجها على أيديهم ونقص ذلك منها منذ كان الإسلام، ولعمري الخراج يومئذ أوفر وأكثر، والأرض أعمر لأنهم كانوا على كفرهم وعتوهم أرغب في عمارة أرضهم منا منذ كان الإسلام وذكرت أن النهر يخرج الدر فحلبتها حلبا قطع ذلك درها، وأكثرت في كتابك وأنبت وعرضت وبرأتوعلمت أن ذلك عن شيء نخفيه على غير خبير فجئت لعمري بالمفظعاتالمقذعات ولقد كان لكم فيه من الصواب من القول رضينصارم بليغ صادق وقد عملنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم ولمن بعده فكنا بحمد الله مؤدين لأمانتنا حافظين لما عظم الله من حق أئمتنا، نرى غير ذلك قبيحا والعمل به سيئا، فتعرف ذلك لنا وتصدق به قبلنا معاذ الله من تلك الطعمومن شر الشيم والاجتراء على كل مأثم فاقبض عملك فإن الله قد نزهني عن تلك الطعم الدنية والرغبة فيها بعد كتابك الذي لم تستبق فيه عرضا تكرم فيه أخا، والله يا ابن الخطاب لأنا حين يراد ذلك مني أشد لنفسي غضبا ولها إنزاهاوإكراما، وما علمت من عمل أرى علي فيه متعلقا ولكني حفظت ما لم تحفظ، ولو كنت من يهود يثرب ما زدت يغفر الله لك ولنا وسكت عن أشياء كنت بها عالما وكان اللسان بها مني ذلولا، ولكن الله عظم من حقك ما لا يجهل، والسلام، قال ابن قيس مولى عمرو بن العاص فكتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد عجبت من كثرة كتبي إليك في إبطائك بالخراج وكتابك إلي ببنياتالطريق وقد علمت أني لست أرضى منك إلا بالحق البين، ولم أقدمك إلى مصر أجعلها لك طعمة ولا لقومك لكني وجهتك لما رجوت من توفير الخراج وحسن سياستك، فإذا أتاك كتابي هذا فاحمل الخراج، فإنما هو فيء المسلمين وعندي من تعلم قوم محصورون، والسلام، فكتب إليه عمرو بن العاص بسم الله الرحمن الرحيم لعمر بن الخطاب من عمرو بن العاص سلام عليك فإني أحمد إليك الله الذي لا إله إلا هو، أما بعد فقد أتاني كتاب أمير المؤمنين يستبطئني في الخراج، ويزعم أني أعند عن الحق أنكب عن الطريق وإني والله ما أرغب عن صالح ما تعلم ولكن أهل الأرض استنظروني إلى أن تدرك غلتهم فنظرت للمسلمين فكان الرفق بهم خيرا من أن يخرق بهم فنصير إلى ما لا غنى لهم عنه، والسلام. "ابن عبد الحكم أيضا".
14210 (مسند عمر (رض)) لیث بن سعد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عمرو بن العاص (رض) کو خط لکھا :
ازبندہ خدا امیر المومنین عمر بطرف عمرو بن العاص
تم پر سلام ہو۔ میں تم کو اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ حمدوصلاۃ کے بعد ! مجھے تمہارے منصب کی طرف سے فکر لاحق ہے، جس پر تم فائز ہو ۔ دیکھو تم وسیع و عریض سرزمین پرامیر ہو۔ جس کے اہلیان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تعداد، قوت اور بروبحر پر قدرت بخشی ہے۔ تمہاری رعایا (یعنی اہل مصر) اس سے قبل قحط سالیوں وغیرہ کی وجہ سے جس قدرلگان بھرتی تھی اب خراج کی صورت میں ان سے اس کا نصف بھی وصول نہیں کیا جاتا۔ اور میں نے خراج کے بارے میں تم سے اکثر مرتبہ خط و کتابت کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ واضح اور کھلی چیز ہے سوائے معمولی اور اتفاقیہ صورت حال کے۔ میرا خیال ہے کہ تم مر کر ہی میری بات کو قبول کرو گے۔ جب تم مجھے (خراج بھجوانے کی بجائے) لمبے چوڑے مسائل کا ذکر کرتے ہو جو میرے خیال کے موافق (درست) نہیں ہوئے تو (یادرکھو) میں ان کو قبول نہیں کرسکتا، سوائے اس صورت کے کہ تم سے جو خراج پہلے وصول کیا جاتا تھا وہی تم سے وصول کیا جائے۔ اور مجھے اس کے ساتھ اس بات کی وجہ بھی معلوم نہیں ہورہی کہ خطوط میں لکھی کسی چیز نے تم کو میرے خطوط سے متفرد کردیا ہے۔ پس اگر کسی واضح بات کا قطعیت کے ساتھ ذکر کرو تو ہماری معذرت اور برأت تم کو نفع مند ہوسکتی ہے اور اگر تم یونہی کھوکھلی باتیں کرو گے تو بات اس طرح معمول پر نہیں آئے گی جیسا تم سمجھ رہے ہو۔ ہاں میں یہ رعایت کرتا ہوں کہ گزشتہ سال (کے خراج) سے متعلق تم کو آزمائش میں نہ ڈالوں اس امید پر کہ تم میری بات پر لوٹ آؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کو خراج کی ادائیگی سے صرف تمہارے برے ارکان حکومت ہی روک رہے ہیں۔ اور تم جس چیز کے درپے ہو اور جس کے بارے میں گٹھ جوڑ کر رہے ہو تمہارے ارکان نے تم کو اس کے لیے جائے پناہ بنالیا ہے اور میرے پاس اللہ کے حکم سے ایسی دواء ہے جس میں اس مرض کی شفاء ہے جس کے متعلق میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ اے ابوعبیداللہ ! فکر نہ کرو تم سے حق لیا جائے گا اور تم خود اس کو ادا کرو گے۔ تمہارے ملک کی نہریں دودھ دیتی ہیں اور حق بات صاف سفید ہے۔ تم مجھے اور اس بات کو چھوڑ دو جو تمہارے جی میں کھٹک رہی ہے کیونکہ پوشیدہ امر کھل گیا ہے، والسلام۔
راوی کہتے ہیں پھر حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت عمر (رض) کو جواب لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ خدا امیر المومنین عمر کی طرف عمرو بن العاص کی جانب سے۔
تم پر سلام ہو۔ میں تم کو اللہ کی حمدبیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
حمدوصلاۃ کے بعد !
مجھے امیر المومنین کا خط پہنچا خراج کے متعلق جس کی ادائیگی میں انھوں نے مجھے تاخیر کرنے والا پایا اور انھوں نے اپنے خط میں مصر میں فرعونوں کے دور کا حال اور ان کے اعمال کا بھی ذکر کیا، امیر المومنین کو تعجب ہے کہ پہلے زمانے میں اب سے دگنا خراج مختلف صورتوں میں ان سے لیا جاتا تھا اب اسلام کے دور میں اس سے کہیں کم کیوں نہیں ادا کیا جارہا۔
میری زندگی کی قسم ! خراج آج بہت زیادہ ہے اور کثیر ہے، زمین بھی زیادہ آباد کیونکہ لوگ پہلے اپنے کفر اور اپنی سرکشی پر اڑے ہوئے تھے خواہ اس وقت اپنی زمینوں کو آج اسلام کے زمانے سے ہم سے زیادہ آبا کرنے والے تھے۔ لیکن کفر کی نحوست نے ان کی کوششوں کو بار آور نہیں ہونے دیا نیز آپ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہاں کی نہر (دریائے نیل زمینوں کی پیداوار کی صورت میں ) دودھ دیتی ہے اور میں وہ دودھ دوہتا ہوں، اس طرح آپ نے اپنے خط میں بہت باتیں فرمائی ہیں، خبردار کیا ہے، تعرض کیا ہے اور برأت کا اظہار کیا ہے ایسی کسی بات سے جس کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ ہم آپ کو اندھیرے میں رکھ رہے ہیں۔ میری زندگی کی قسم ! آپ نے بہت سخت زبان اور گالی گلوچ والی باتیں فرمائی ہیں، آپ کے لیے درست تھا کہ آپ قاعدے کے موافق سچی حتمی اور حق بات کہہ دیتے۔ حالانکہ ہم نے رسول اللہ کے حکم پر اور پھر ان کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے حکم پر بھی یہ ذمہ داری نبہائی۔ بحمد للہ ہم ہر زمانے میں اپنی امانت کو ادا کرنے والے رہے اور اللہ نے ہمارے ائمہ کا جو عظیم حق ہم پر رکھا ہم اس کی حفاظت کرتے رہے۔ ہم اس کے علاوہ کسی بھی (خیانت کی) صورت کو قبیح سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا براگردانتے ہیں۔ ہماری یہ صفت آپ بھی بہ خوبی جانتے ہیں اور پہلے تک آپ اس کی تصدیق کرتے رہے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس طرح کے کھانے سے بری عادت سے اور ہر گناہ پر جراءت کرنے سے۔ آپ اپنا عہدہ ہم سے واپس لیجئے، بیشک اللہ نے مجھے اس گھٹیا طعام سے اور اس میں لاچ رکھنے سے پاک رکھا ہے۔ آپ نے اس خط کے بعد کسی آبرو کا خیال بھی نہ رکھا جس کے توسط سے آپ کسی بھائی کا اکرام کرسکتے اللہ کی قسم ! اے ابن الخطاب ! جب مجھ سے ایسی بات کی امید رکھی جائے تو میں خود اپنی ذات پر ایسا غضبناک ہوں اور اس کو اس خیانت سے پاک کرتا ہوں اور اس کا اکرام کرتا ہوں میں اپنے کسی ایسے عمل کے بارے میں نہیں جانتا جس کے متعلق مجھے کچھ جوابدہی کرنا پڑے۔
لیکن میں ایسی باتوں کو محفوظ رکھتا ہوں جن کو آپ محفوظ نہیں رکھتے۔ اگر میں یثرب کا یہودی ہوتا تب بھی میں کوئی زیادتی نہیں کرتا۔ بس اللہ آپ کی اور ہماری مغفرت فرمائے۔ میں بہت سی ایسی باتوں سے خاموشی اختیار کرتا ہوں جن کو میں جانتا ہوں لیکن ان کو زبان پر لانا خود کو پستی میں گرانے والی بات ہوتی۔ ہاں بس میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ نے آپ کے حق کو ہم پر زیادہ کیا ہے جس سے کوئی جاہل نہیں۔ والسلام۔
حضرت عمروبن العاص (رض) کے غلام ابن قیس فرماتے ہیں پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت عمرو (رض) بن العاص کو اس کا جواب لکھا جو ذیل پر مشتمل ہے :
تم پر سلام ہو، میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے (حمدوصلاۃ کے) بعد خراج سے متعلق میرے کثرت سے خطوط نے تم کو تعجب (اور پریشانی میں) ڈال دیا ہے، جبکہ تمہارا خط جو مجھے موصول ہوا ہے، یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں اور تم جانتے ہو کہ میں کھلے حق کے سوا تم سے کسی بات پر راضی نہیں ہونے والا۔ میں نے تم کو مصر اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اس کے مال کو اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے کھانے پینے کا طعام خیال کرو۔ میں نے تم کو اس لیے وہاں کی امارت سپرد کی تھی کہ تم خراج۔ جو مسلمانوں کا حق ہے خوب حاصل کرو گے اور اپنی حسن سیاست کو عمل میں لاؤ گے۔ جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً خراج کا مال روانہ کرادو۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہے اور میرے پاس ایسے لوگ ہیں جن کو تم جانتے ہو وہ (سواری وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر جانے سے) رکے ہوئے ہیں۔ والسلام
چنانچہ پھر حضرت عمرو بن العاص (رض) نے ان کا جواب لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
از عمرو بن العاص بجانب عمر بن الخطاب۔
تم پر سلام ہو، میں تم پر اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
امابعد ! مجھے امیر المومنین کا خط موصول ہوا، آپ مجھے خراج کی ادائیگی میں تاخیر کرنے والا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں حق سے عناد رکھنے والا ہوں اور سیدھے راستے سے بھٹکنے والا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں آپ جانتے ہیں میں درست بات سے ہرگز اعراض کرنے والا نہیں، لیکن اہل ارض (اہل مصر) نے مجھے خراج کی ادائیگی میں کچھ مہلت مانگ لی ہے اس وقت تک کہ وہ غلہ اور پیداوار زمین سے حاصل کرلیں۔ میں نے مسلمانوں کی طرف بھی نظر ڈالی تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کو نرمی دینا بہتر بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ سختی برتی جائے ورنہ پھر (پھوٹ اور اختلافات کے) اس انجام سے دوچار ہوں گے جس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ والسلام۔ ابن عبدالحکم ایضاً

14211

14211-عن هشام بن إسحاق العامري قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص أن يسأل المقوقس عن مصر من أين تأتي عمارتها وخرابها فسأله عمرو، فقال له المقوقس: تأتي عمارتها وخرابها من وجوه خمسة، الأول أن يستخرج خراجها في إبان واحد عند فروغ أهلها من زروع، ويرفع خراجها في إبان واحد عند فراغ أهلها من عصر كرومها، ويحفر في كل سنة خليجها ويسد ترعهاوجسورها ولا يقبل محل أهلها مريد البغي فإذا فعل هذا فيها عمرت وإن عمل فيها بخلافه خربت. "ابن عبد الحكم".
14211 ہشام ابن اسحاق العامری سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت عمرو بن العاص کو لکھا کہ وہ مقوقس (شاہ مصر) سے پوچھیں کہ مصر کی خرابی اور آبادی کے اسباب کیا کیا ہیں ؟ حضرت عمرو (رض) نے مقوقس سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ مصر کی آبادی و بربادی کے پانچ اسباب ہیں، پہلا یہ کہ جب اہل مصر اپنی کھیتی باڑیوں سے فارغ ہوں تو ایک ہی وقت میں ان سے خراج لے لیا جائے، جب وہ اپنے انگوروں کا شیرہ نچوڑ کر فارغ ہوں تو اس وقت ان سے خراج اٹھالیا جائے (خراج نہ لیا جائے) ہر سال ان کے دریا (نیل اور دوسری نہروں) کو کھودا جائے، ان کے شگافوں کو بند کیا جائے پلوں کی مرمت کی جائے اور اس کے اہل سے مزید کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ جب ان باتوں پر عمل کیا جائے گا تو مصر آباد رہے گا اور اگر ان باتوں کے خلاف عمل کیا گیا تو مصر برباد ہوگا۔ ابن عبدالحکم

14212

14212- "مسند عمر" عن نافع قال: قال عمر بن الخطاب حين أتاه فتح القادسية: أعوذ بالله أن يعقبنيالله بين أظهركم حتى يدركنی أولادكم من هؤلاء، قالوا: ولم يا أمير المؤمنين؟ قال: ما ظنكم بمكر العربي ودهاء العجمي إذا اجتمعا في رجل. "الدينوري".
14212 (مسند عمر (رض)) نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو جب قادسیہ کی فتح کی خوشخبری ملی تو آپ (رض) نے فرمایا :
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تم لوگوں کے درمیان اس قدر زندہ رہوں کہ تمہاری اولادیں بھی میرا زمانہ پالیں۔
لوگوں نے پوچھا : یا امیر المومنین ایسا کیوں ؟ فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے جب ایک آدمی میں عربی کا مکر اور عجمی کی چالاکی جمع ہوجائیں تو کیا انجام ہوگا۔ الدینوری
فائدہ : یعنی عجمیوں پر فتوحات کا دروازہ کھل چکا ہے۔ اب عرب وعجم کے اختلاط سے جو میرے خلاف سازشیں اٹھ سکتی ہیں اس پر آشوب زمانے میں جینے سے بہتر ہے کہ مجھے اللہ پاک اپنے پاس اٹھالے۔

14213

14213- "مسند عمر" عن الحكم بن عبد الرحمن بن أبي العصماء الخثعمي وكان ممن شهد فتح قيسارية قال: حاصرها معاوية سبع سنين إلا أشهرا، ثم فتحوها وبعثوا بفتحها إلى عمر بن الخطاب فقام عمر، فنادى ألا إن قيسارية فتحت قسرا. "أبو عبيد".
14213 (مسند عمر (رض)) حکم بن عبدالرحمن بن ابی العصماء الخثعمی جو کہ فتح قیسار یہ میں شریک تھے سے مروی ہے کہ قیساریۃ شہر کا محاصرہ حضرت معاویہ (رض) نے چند ماہ کم سات سال تک جاری رکھا۔ پھر بالآخر اس کو فتح کرلیا اور اس کی فتح یابی حضرت عمر بن خطاب (رض) کو روانہ فرمائی۔ حضرت عمر (رض) نے کھڑے ہو کر اعلان فرمایا :
سنو ! قیساریہ قسرا (جبراً ) فتح ہوگیا ہے۔ ابوعبید

14214

14214- عن يزيد بن أبي حبيب أن عمر بن الخطاب بعث خالد بن ثابت الفهمي إلى بيت المقدس في جيش وعمر في الجابية فقاتلهم، فأعطوه أن يكون لهم ما أحاط به حصنها على شيء يؤدونه ويكون للمسلمين ما كان خارجا منها، قال خالد: قد بايعناكم على هذا، إن رضي به أمير المؤمنين فكتب إلى عمر يخبره بالذي صنع الله له؛ فكتب إليه أن قف على حالك حتى أقدم إليك، فوقف خالد عن قتالهم وقدم عمر مكانه ففتحوا له بيت المقدس على ما بايعهم عليه خالد بن ثابت قال: فبيت المقدس يسمى فتح عمر بن الخطاب. "أبو عبيد أيضا".
14214 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت خالد بن ثابت فہمی کو بیت المقدس کسی لشکر کے ساتھ بھیجا جہاں انھوں نے قتال کیا۔ اس وقت حضرت عمر (رض) (ملک شام کے علاقے ) جابیہ میں تھے۔ اہل فلسطین نے حضرت خالد کو یہ پیش کش کی کہ قلعے کے اندر کا علاقہ ہمارے تصرف میں رہنے دیں اور ہم اس کا بدل (جزیہ کی شکل میں) تم کو دیں گے، جبکہ قلعے سے باہر کا علاقہ تمہارا ہوگا۔ حضرت خالد (رض) نے فرمایا : ہم اس بات پر تمہاری بیعت کرتے ہیں (معاہدہ کرتے ہیں) ، بشرطیکہ اس پر امیر المومنین راضی ہوں۔ چنانچہ خالد نے حضرت عمر (رض) کو صورت حال لکھی۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا کہ تم اپنی اسی حالت پر ٹھہرو میں خود تمہارے پاس چل کر آتا ہوں۔ چنانچہ حضرت خالد قتال سے باز آگئے۔ پھر حضرت عمر (رض) تشریف لائے تو اہل فلسطین نے ان کے لیے بیت المقدس کا دروازہ کھول دیا اسی شرط پر جو وہ خالد سے کرچکے تھے۔ راوی کہتے ہیں چنانچہ یہ فتح حضرت عمر (رض) کی طرف موسوم ہوئی ۔ فتح بیت المقدس علی یدعمر۔ ابوعبید ایضاً

14215

14215- عن هشام بن عمار قال: سمعت جدي عبد الله بن أبي عبد الله يقول: لما نزل عمر بن الخطاب بالجابية أرسل رجلا من جديلة إلى بيت المقدس فافتتحه صلحا، ثم جاءه عمر ومعه كعب فقال: يا أبا إسحاق أتعرف موضع الصخرة؟ فقال: اذرع من الحائط الذي يلي وادي جهنم كذا وكذا ذراعا، ثم احتفر فإنك تجدها وهي يومئذ مزبلة، فحفروا فظهرت لهم فقال عمر لكعب: أين ترى أن نجعل المسجد أو قال القبلة فقال: اجعلها خلف الصخرة فتجمع قبلتين قبلة موسى وقبلة محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: ضاهيت اليهودية فبناها في مقدم المسجد "أبو عبيد أيضا".
14215 ہشام بن عمار سے مروی ہے کہ میں نے اپنے دادا حضرت عبداللہ بن ابی عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) جابیہ میں اترے تو آپ (رض) نے جدیلہ کے ایک آدمی کو بیت المقدس روانہ فرمادیا پھر بیت المقدس کو آپ (رض) نے صلحاً فتح کرلیا۔ فتح کے بعد (جب حضرت عمر (رض)) بیت المقدس میں تھے آپ (رض) کے پاس حضرت عمرو (رض) حاضر ہوئے ، ان کے ساتھ کعب احبار (رح) بھی تھے۔
حضرت عمر (رض) نے کعب احبار (رح) سے پوچھا : اے ابواسحاق ! کیا تم موضع صخرۃ کو جانتے ہو ؟ کعب (رح) نے فرمایا : وادی جہنم سے متصل دیوار سے اتنے اتنے گز ناپ لیں پھر وہاں کھدائی کروالیں۔ عین اسی مقام پر آپ کو آپ کا مقصود مل جائیں گا۔ جہاں یہود نے اپنے زعم کے مطابق عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کو سولی دی تھی وہاں اس وقت کوڑا کرکٹ تھا۔ چنانچہ لوگوں نے اس جگہ کھدائی کی تو واقعی وہاں صخرۃ چٹان برآمد ہوئی۔ حضرت عمر (رض) نے کعب (رح) سے پوچھا : تیرا کیا خیال ہے ہم مسجد کہاں بنائیں یا یہ پوچھا کہ قبلہ کس طرف ہے جہاں رخ کریں ؟ کعب نے عرض کیا : آپ صخرۃ کے پیچھے جائے نماز بنالیں۔ اس طرح آپ دونوں قبلوں کو جمع کرلیں گے قبلہ موسیٰ کو اور قبلہ محمد کو صلوٰت اللہ علیہما اجمھما۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یہودیہ کا بیٹا ہے ناں اس لیے ان کی مشابہت کررہا ہے۔ پھر آپ (رض) نے مسجد بیت المقدس کے اگلے سرے میں مسجد (جائے نماز) بنالی۔ ابوعبیدایضاً

14216

14216- عن سعيد بن عبد العزيز قال: تسخر1 عمر بن الخطاب رضي الله عنه أنباط2 أهل فلسطين في كنس بيت المقدس، وكانت فيه مزبلة عظيمة. "أبو عبيد أيضا".
14216 سعید بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اہل فسلطین کے کچھ لوگوں کو بیت المقدس کی فی سبیل اللہ صفائی کے لیے کام پر لگایا ۔ وہاں ایک بڑی کوڑی تھی۔
ابوعبیدایضاً

14217

14217- عن الواقدي عن أشياخه قالوا: لما فتح عمر بن الخطاب مدائن كسرى كان فيما بعث إليه كان هلالان، فعلقهما في الكعبة. "الأزرقي". "فتح مصر"
14217 واقدی (رح) سے مروی ہے کہ وہ اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مدائن کسریٰ کو فتح کرلیا تو حضرت عمر (رض) کے پاس جو مال غنیمت بھیجا گیا ان میں دو چاند بھی تھے۔ آپ (رض) نے ان دونوں کو کعبہ میں لٹکا دیا۔ الازرقی

14218

14218- عن عمر بن الخطاب أنه قال لرجل من أهل مصر: ليأتينكم أهل الأندلس حتى يقاتلوكم برستم حتى تركض الخيل بالدم الذي بينها ثم يهزم الله. "نعيم بن حماد وابن عبد الحكم في فتوح مصر".
14218 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے اہل مصر کے ایک آدمی کو ارشاد فرمایا : عنقریب تمہارے پاس اہل اندلس آئیں گے جو رستم کی زیر کمان تم سے قتال کریں گے (اور اس قدر خونریزی ہوگی) کہ گھوڑے خون میں دوڑے پھریں گے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو شکست فاش دیدیں گے۔ نعیم بن حماد، ابن عبدالحکم فی فترح مصر

14219

14219- عن عمر بن الخطاب قال: تقاتلون برستم يهزمهم الله، ثم تأتيكم الحبشة في العام الثاني. "نعيم".
14219 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : تم لوگ رستم سے جنگ کرو گے حتیٰ کہ اللہ پاک ان کو شکست دیدے گا پھر اس سے دوسرے سال حبشہ کے لوگ تمہارے پاس آئیں گے۔ نعیم

14220

14220- عن زيد بن أسلم قال: لما أبطأ على عمر بن الخطاب فتح مصر كتب إلى عمرو بن العاص، أما بعد فقد عجبت لإبطائكم عن فتح مصر تقاتلونهم منذ سنين وما ذاك إلا لما أحدثتم وأحببتم من الدنيا ما أحب عدوكم، وإن الله تعالى لا ينصر قوما إلا بصدق نياتهم وقد كنت وجهت إليك أربعة نفر، وأعلمتك أن الرجل منهم مقام ألف رجل على ما أعرف إلا أن يكون غيرهم ما غير غيرهم فإذا أتاك كتابي هذا فاخطب الناس وحضهم على قتال عدوهم، ورغبهم في الصبر والنية وقدم أولئك الأربعة في صدور الناس، وأمر الناس أن يكون لهم صدمة كصدمة رجل واحد وليكن ذلك عند الزوال يوم الجمعة، فإنها ساعة تنزل فيها الرحمة، ووقت الإجابة وليعج الناس إلى الله وليسألوه النصر على عدوهم، فلما أتى عمرو الكتاب جمع الناس وقرأه عليهم،ثم دعا أولئك النفر فقدمهم أمام الناس، وأمر الناس أن يتطهروا ويصلوا ركعتين، ثم يرغبون إلى الله ويسألونه النصر ففتح الله عليهم. "ابن عبد الحكم".
14220 زید بن اسلم سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مصر کی فتح میں تاخیر محسوس کی تو سالار لشکر حضرت عمرو بن العاص (رض) کو لکھا : اما بعد !
مجھے انتہائی تعجب ہے کہ تم نے مصر کی فتح میں اس قدر دیر کردی، حالانکہ تم کئی سال سے قتال میں مصروف ہو۔ اس کا سبب محض یہ ہے کہ تم نبی چیزوں میں پڑگئے ہو اور تم بھی اپنے دشمنوں کی طرح دنیا کی محبت میں مشغول ہوگئے ہو۔ اور اللہ پاک کسی قوم کی مدد نہیں فرماتا جب تک کہ ان کی نیتیں درست نہ ہوں۔ اب میں تیری طرف چار ایسے افراد روانہ کررہا ہوں جن میں سے ہر ایک ہزار آدمیوں کے قائم مقام ہے، الایہ کہ ان کو بھی وہی چیز (یعنی عیش و عشرت) تبدیل نہ کردے، جس نے اوروں کو بھی کمزور کردیا ہے۔ پس جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دے، ان کو دشمن سے قتال پر جوش دلا، صبر اور حسن نیت کی ان کو ترغیب دے اور ان چار لوگوں کو دوسرے تمام لوگوں کے سینے پر رکھ۔ پھر لوگوں کو حکم دے کہ ایک ہی آدمی کی طرح سب اکٹھے ہلہ بول دیں۔ اور یہ حملہ جمعے کے روز زوال کے وقت ہونا چاہیے۔ اس گھڑی میں رحمت نازل ہوتی ہے، دعا قبول ہوتی ہے۔ اور لوگوں کو چاہیے کہ خدا کو چیخ چیخ کر پکاریں اور دشمنوں پر اس سے مدد مانگیں۔
چنانچہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس خط پہنچا تو انھوں نے لوگوں کو جمع کیا اور ان کو خط پڑھ کر سنایا پھر ان چار افراد کو بلا کر لوگوں کے آگے کھڑا کیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ باوضو ہوں، پھر دو رکعت نماز ادا کریں، پھر اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے مدد کا سوال کریں ۔ چنانچہ پھر اللہ پاک نے ان پر مصر کو فتح فرمادیا۔ ابن عبدالحکم

14221

14221- عن عبد الله بن جعفر وعياش بن عباس وغيرهما يزيد بعضهم على بعض أن عمرو بن العاص لما أبطأ عليه فتح مصر كتب إلى عمر بن الخطاب يستمده فأمده عمر بأربعة آلاف رجل على كل ألف رجل منهم رجل وكتب إليه عمر بن الخطاب أني قد أمددتك بأربعة آلاف رجل على كل ألف رجل منهم مقام الألف: الزبير بن العوام، والمقداد بن الأسود بن عمرو، وعبادة بن الصامت، ومسلمة بن مخلد، واعلم أن معك اثنى عشر ألف رجل، ولا يغلب اثنا عشر ألفا من قلة. "ابن عبد الحكم".
14221 عبداللہ بن جعفر، عیاش بن عباس وغیرھما سے دونوں کی مرویات میں قدرے فرق کے ساتھ مروی ہے کہ جب حضرت عمرو بن العاص (رض) کو مصر کی فتح میں دیر ہوگئی تو انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو مدد کے لیے لکھا :
حضرت عمر (رض) نے ان کو چار ہزار کا لشکر روانہ فرمادیا اور ہر ہزار پر انہی میں سے ایک ایک آدمی مقرر فرمادیا۔ نیز حضرت عمر (رض) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) کو لکھا : میں تمہیں چار ہزار افراد کی کمک روانہ کررہا ہوں جبکہ ہر ہزار پر جو ایک ایک امیر مقرر کیا ہے، ان چاروں میں سے ہر ایک شخص بذات خود دشمن کے ایک ایک ہزار افراد پر بھاری ہے۔
زبیر بن العوام، مقداد بن الاسود بن عمرو، عبادۃ بن الصامت، اور مسلمۃ بن مخلد۔ اور جان لے کہ اب تیرے ساتھ بارہ ہزار افراد ہیں اور بارہ ہزار کی کی تعداد قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوسکتی۔
ابن عبدالحکم

14222

14222- عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن أن عمرو بن العاص فتح مصر بغير عهد ولا عقد، وأن عمر بن الخطاب حبس درها1 وصرها2 أن يخرج منه شيء نظرا للإسلام وأهله. "ابن عبد الحكم".
14222 ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے بغیر کسی معاہدے اور شرائط کے مصر کو فتح فرمالیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مصر کا دودھ نہیں نکالا بلکہ اس کو اس کے لیے بند کردیا تاکہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے کشادگی اور سہولت ہو۔ ابن عبدالحکم
فائدہ : یعنی فتح کے بعد غنائم اور خراج وغیرہ وصول نہیں کیے بلکہ کچھ عرصہ کے لیے فاتحین اور اہل مصر کے مسلمانوں کے لیے ان کو چھوڑ دیا تاکہ وہ جنگ کی زبوں حالی سے اپنے حالات کو درست کرلیں۔

14223

14223- عن زيد بن أسلم قال: كان تابوت لعمر بن الخطاب فيه كل عهد بينه وبين أحد ممن عاهده فلم يوجد فيه لأهل مصر عهد. "ابن عبد الحكم".
14223 زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کا ایک بکس تھا جس میں ہر وہ معاہدہ موجود تھا جو انھوں نے کسی سے قائم کیا تھا، اس میں اہل مصر کا کوئی معاہدہ نہیں پایا گیا۔
ابن عبدالحکم

14224

14224- عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن عمرو بن العاص كتب إلى عمر بن الخطاب في رهبان يترهبون بمصر فيموت أحدهم وليس له وارث فكتب إليه عمر، أن من كان منهم له عقب فادفع ميراثه إلى عقبه، ومن لم يكن له عقب فاجعل ماله في بيت مال المسلمين فإن ولاءه للمسلمين "ابن عبد الحكم".
14224 عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو مصر کے راہبوں کے متعلق سوال لکھا کہ ان میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔ لہٰذا اس کے مال کا کیا کیا جائے حضرت عمر (رض) نے ان کو جواب لکھا :
جس کا کوئی پیچھے ہو تو اس کی میراث اس کے حوالے کردے اور جس کا پیچھے کوئی نہ ہو اس کی میراث کا مال مسلمانوں کے بیت المال میں ڈال دو کیونکہ اس کی ولاء (ترکہ) مسلمانوں کے لیے ہے (کیونکہ وہی ان کے حکمران ہیں ) ۔ ابن عبدالحکم

14225

14225- عن ابن شهاب قال: كان فتح مصر بعضها عهدا وذمة وبعضها عنوة فجعلها عمر بن الخطاب جميعا ذمة وحملهم على ذلك فمضى ذلك فيهم إلى اليوم. "ابن عبد الحكم".
14225 ابن شہاب زہری (رح) سے مروی ہے کہ مصر کی کچھ فتح معاہدے اور ذمہ میں ہوتی تھی جبکہ کچھ فتح تلوار کے زور پر ہوئی تھی۔ پھر حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ساری فتح کو ذمہ اور معاہدے پر قرار دیدیا تھا اور اسی پر اہل مصر کے ساتھ معاملہ کیا تھا جو آج تک قائم ہے۔ ابن عبدالحکم

14226

14226- عن الليث بن سعد قال: لم يبلغنا أن عمر بن الخطاب أقطع أحدا من الناس شيئا من أرض مصر إلا ابن سندر فإنه أقطعه أرض منية الأصبغ فلم تزل له حتى مات. "ابن عبد الحكم".
14226 لیث بن سعد سے مروی ہے کہ ہمیں لوگوں میں سے کسی کے متعلق یہ اطلاع نہیں ملی کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اس کے لیے ارض مصر میں سے کوئی جائیداد بطور عطیہ کردی ہو، سوائے ابن سندر کے، کیونکہ اس کو منیۃ الاصبخ کی زمین بطور جائیداد دیدی تھی جو ان کی وفات تک ان کے پاس رہی۔ ابن عبدالحکم

14227

14227- عن الليث بن سعد قال: سأل المقوقس عمرو بن العاص أن يبيعه سفح المقطم بسبعين ألف دينار، فعجب عمرو من ذلك وقال: أكتب في ذلك إلى أمير المؤمنين، فكتب بذلك إلى عمر فكتب إليه عمر سله لم أعطاك به ما أعطاك وهي لا تزرع ولا يستنبط بها ماء ولا ينتفع بها؟ فسأله، فقال: إنا لنجد صفتها في الكتب أن فيها غراس الجنة، فكتب بذلك إلى عمر، فكتب إليه عمر إنا لا نعلم غراس الجنة إلا للمؤمنين فاقبر فيها من مات قبلك من المسلمين ولا تبعه بشيء. "ابن عبد الحكم".
14227 لیث بن سعد سے مروی ہے کہ مقوقس (شاہ مصر) نے گورنر اسلام عمرو بن العاص سے سوال کیا کہ وہ سفح المقطم زمین ان کو ستر ہزار دینار کے عوض فروخت کردیں۔ عمرو بن العاص (رض) کو اس پر تعجب ہوا کہ ایسی بنجرزمین اس قدر مہنگے داموں میں لینا چاہتے ہیں انھوں نے فرمایا : میں امیر المومنین کو لکھ کر پوچھتا ہوں۔
انہوں نے یہ واقعہ حضرت عمر (رض) کو لکھ کر بھیجا۔ حضرت عمر (رض) نے جواب میں فرمایا : اے عمرو ! تم اس شاہ مصر سے سوال کرو کہ وہ اس قدر بڑی رقم ایسی زمین کی کیوں دینا چاہتا ہے جس کو زراعت کیا جاسکتا ہے نہ اس میں پانی ہے اور نہ کوئی اور اس کا فائدہ ہے ؟ حضرت عمرو (رض) نے مقوقس سے سوال کیا تو اس نے کہا : ہم اپنی کتابوں میں اس زمین کے متعلق یہ بات پاتے ہیں کہ اس میں جنت کے درخت ہیں۔ حضرت عمرو (رض) نے امیر المومنین کو یہ جواب لکھ دیا۔ حضرت عمر (رض) نے جواب بھیجا کہ ہمیں تو یہی معلوم ہے کہ جنت کے درخت صرف اور صرف مومنین کے لیے ہیں۔ لہٰذا جو مسلمان تمہاری طرف انتقال کر جائیں ان کو اسی سرزمین میں دفن کرو اور کسی بھی قیمت پر اس کو فروخت نہ کرو۔
ابن عبدالحکم

14228

14228- عن ابن لهيعة أن المقوقس قال لعمرو: إنا لنجد في كتابنا أن ما بين هذا الجبل وحيث نزلتم ينبت فيه شجر الجنة، فكتب بقوله إلى عمر بن الخطاب فقال: صدق فاجعلها مقبرة للمسلمين. "ابن عبد الحكم".
14228 ابن لبیعۃ سے مروی ہے کہ مقوقس نے حضرت عمرو (رض) کو کہا : ہم اپنی کتاب میں پاتے ہیں اس پہاڑ اور اس مقام کے درمیان جہاں تم نے پڑاؤ ڈالا ہے جنت کا درخت اگتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس کی بات حضرت عمر (رض) بن خطاب کو لکھ بھیجی۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : وہ سچ کہتا ہے ، تم اس جگہ کو مسلمانوں کے لیے قبرستان بنادو۔ ابن عبدالحکم

14229

14229- عن يزيد بن أبي حبيب قال: أقام عمرو بن العاص محاصر الإسكندرية أشهرا، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب قال: ما أبطأوا فتحها إلا لما أحدثوا. "ابن عبد الحكم".
14229 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرو (رض) بن العاص نے کئی ماہ تک اسکندریہ کا محاصرہ کیے رکھا اور یہ بات حضرت عمر بن خطاب (رض) کو پہنچی تو انھوں نے ارشاد فرمایا : ان لوگوں سے اس کی فتح میں تاخیر اسی لیے ہورہی ہے کیونکہ وہ نئی چیزوں میں پڑگئے ہیں (یعنی عیش و عشرت کی زندگی میں) ۔ ابن عبدالحکم

14230

14230- عن جنادة بن أبي أمية أن عمرو بن العاص كتب إلى عمر بن الخطاب أن الله قد فتح علينا الإسكندرية عنوة1 بغير عقد ولا عهد، فكتب إليه عمر يقبح رأيه ويأمره أن لا يجاورها. "ابن عبد الحكم".
14230 جنادۃ بن ابی امیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرو (رض) بن العاص نے عمر بن خطاب (رض) کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی معاہدے اور عقد کے محض طاقت کے بل پر اسکندریہ ہمارے لیے فتح فرمادیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو جواب میں ان کی رائے کو برا جانا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اس کے قریب نہ لگیں۔ ابن عبدالحکم
فائدہ : یعنی زور بازو کے نتیجے میں فتح تو درست ہے لیکن اس لیے اس کو مال غنیمت سمجھنا اور اس کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردینا درست نہیں۔ قریب نہ لگیں سے یہی مراد ہے کہ اس کی اراضی وغیرہ کو مسلمانوں میں تقسیم نہ کریں، بلکہ پرانے مالکان کو قابض رہنے دیں اور ان پر خراج لازم کردیں جس سے مسلمانوں کو غنیمت بھی ملے گی اور اس سے وہ جہاد میں مدد حاصل کریں گے جبکہ پہلی صورت میں وہ زمین کی کاشتکاری اور بیلوں کی دموں کے پیچھے پھریں گے اور جہاد سے رہ جائیں گے۔

14231

14231- عن حسين ين شفي بن عبيد قال: لما فتحت الإسكندرية اختلف الناس على عمرو في قسمها فقال عمرو: لا أقدر على قسمها حتى أكتب إلى أمير المؤمنين، فكتب إليه يعلمه بفتحها وشأنها، ويعلم أن المسلمين طلبوا قسمها فكتب إليه عمر لا تقسمها وذرهم يكون خراجها فيئا للمسلمين وقوة لهم على جهاد عدوهم، فأقرها عمرو وأحصى أهلها وفرض عليهم الخراج. "ابن عبد الحكم".
14231 حسین بن شفی بن عبید سے مروی ہے کہ جب اسکندریہ فتح ہوگیا تو اس کی تقسیم کے بارے میں لوگوں نے حضرت عمر (رض) سے اختلاف کیا۔ حضرت عمرو (رض) نے فرمایا : میں اس کی تقسیم پر قادر نہیں جب تک کہ امیر المومنین کو نہ لکھ دوں۔ چنانچہ انھوں نے امیر المومنین کو اس کی فتح کا حال لکھا کہ مسلمان اس کی تقسیم طلب کررہے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے لکھا : تم اس کو ہرگز تقسیم نہ کرو۔ بلکہ اس کو سابقہ حالت پر چھوڑ دو اور پھر اس کا خراج مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بھی ہوگا اور ان کے لیے دشمنوں سے جہاد پر قوت کا سامان بھی ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرو (رض) نے کافروں کو ان کی اراضی پر مالک رہنے دیا اور ان پر خراج (ٹیکس) لاگو کردیا۔ ابن عبدالحکم

14232

14232- عن يزيد بن أبي حبيب أن عمرو بن العاص لما فتح الإسكندرية ورأى بيوتها وبناءها مفروغا منها هم أن يسكنها وقال: مساكن قد كسبناها فكتب إلى عمر بن الخطاب يستأذنه في ذلك، قال عمر للرسول: هل يحول بيني وبين المسلمين ماء؟ قال: نعم يا أمير المؤمنين إذا جرى النيل فكتب عمر إلى عمرو أني لا أحب أن تنزل المسلمين منزلا يحول الماء بيني وبينهم في شتاء ولا صيف فتحول عمرو بن العاص من الإسكندرية إلى الفسطاط. "ابن عبد الحكم".
14232 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرو بن العاص (رض) نے اسکندریہ کو فتح فرمالیا تو وہاں کے گھروں اور عمارتوں کو خالی پایا۔ آپ (رض) کا ارادہ بنا کہ ان میں رہائش اختیار کرلیں اور فرمایا : یہ رہائشیں ہم نے کما کر حاصل کی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اس کے متعلق لکھ کر اجازت چاہی۔
حضرت عمر (رض) نے (خط پڑھ کر) قاصد سے پوچھا : کیا میرے (مدینے) اور وہاں کے مسلمانوں کے درمیان (دریاوسمندر کا) پانی حائل ہے کیا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں، امیر المومنین ! دریائے نیل جب وہ چلتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عمرو (رض) کو لکھا میں نہیں چاہتا کہ تم مسلمانوں کو ایسی جگہ رہائش دو کہ اس جگہ اور میرے درمیان پانی رکاوٹ ہو گرمی میں اور نہ سردی میں۔ چنانچہ حضرت عمرو (رض) اسکندریہ سے منتقل ہو کر فسطاط آگئے۔ ابن عبدالحکم

14233

14233- عن يزيد بن أبي حبيب أن عمر بن الخطاب كتب إلى سعد بن أبي وقاص وهو نازل بمدائن كسرى وإلى عامله بالبصرة وإلى عمرو بن العاص وهو نازل بالإسكندرية أن لا تجعلوا بيني وبينكم ماء متى أردت أن أرحل إليكم راحلتي أقدم عليكم قدمت، فتحول سعد بن أبي وقاص من مدائن كسرى إلى الكوفة وتحول صاحب البصرة من المكان الذي كان فيه فنزل البصرة وتحول عمرو بن العاص من الإسكندرية إلى الفسطاط. "ابن عبد الحكم".
14233 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو جو مدائن کسریٰ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، بصرہ میں مقرر اپنے عامل کو اور حضرت عمرو بن العاص (رض) کو جو اسکندریہ میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے ، ان سب کو لکھا کہ :
میرے اور اپنے پڑاؤ کے مقام کے درمیان (سمندریا دریا کا) پانی حائل نہ ہونے دو تاکہ میں جب بھی تمہارے پاس آنا چاہوں اپنی سواری پر بیٹھ کر آجاؤں۔
چنانچہ یہ حکم سن کر سعد بن ابی وقاص مدائن کسریٰ سے کوفہ ، امیر بصرہ اپنے پہلے مقام سے بصرہ اور عمرو بن العاص اسکندریہ سے فسطاط آگئے تھے۔ ابن عبدالحکم

14234

14234- عن أبي تميم الجيشاني قال: كتب عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب أن الله تعالى فتح علينا طرابلس وليس بينها وبين إفريقية إلا تسعة أيام فإن رأى أمير المؤمنين أن نغزوها؟ فكتب إليه عمر لا إنها ليست بإفريقية، ولكنها المفرقة غادرة مغدور بها لا يغزوها أحد ما بقيت. "ابن سعد وابن عبد الحكم".
14234 ابوتمیم الجیشانی سے مروی ہے کہ حضرت عمروبن العاص (رض) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر طرابلس کو فتح فرمادیا ہے اور طرابلس اور افریقہ کے درمیان محض نودن کے مسافت ہے۔ اگر امیر المومنین فرمائیں تو ہم افریقہ کا غزوہ کریں ؟ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا :
نہیں، کیونکہ وہ افریقہ نہیں ہے بلکہ مفرقۃ (ہم سے تم کو جدا کرنے والا) ہے، وہ غدر کرنے والا (دھوکہ دہ) علاقہ ہے، کوئی بھی اس کے دھوکے میں پڑجاتا ہے۔ لہٰذا جب تک میں حیات ہوں کوئی وہاں غزوہ نہ کرے (کیونکہ اس کے اور عرب کے درمیان سمندر حائل ہے اور حضرت عمر (رض)) سمندر کے سفر سے کتراتے تھے۔ ابن سعد، ابن عبدالحکم

14235

14235- عن مرة بن يشرح المعافري قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول لأفريقية المفرقة ثلاث مرات لا أوجه إليها أحد ما مقلت عيني الماء. "ابن عبد الحكم".
14235 مرۃ بن یشرح المعافری سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو تین بار فرماتے ہوئے سنا : افریقہ مفرقہ (جدا کرنے والا) ہے اور جب تک میری آنکھوں میں پانی ہے میں اس کی طرف کسی کو نہیں بھیجوں گا۔ ابن عبدالحکم

14236

14236- عن مسعود بن الأسود صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان بايع تحت الشجرة أنه استأذن عمر بن الخطاب في غزو إفريقية فقال عمر: لا إن إفريقية غادرة مغدور بها. "ابن عبد الحكم".
14236 مسعود بن الاسود (رض) صحابی رسول جنہوں نے بیعت شجرۃ بھی کی تھی سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے غزوہ افریقہ کی اجازت طلب کی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نہیں، افریقہ دھوکا وہ علاقہ ہے، جس کے ساتھ آدمی دھوکا میں پڑجاتا ہے۔ ابن عبدالحکم

14237

14237- عن السائب بن الأقرع قال: زحف للمسلمين زحف لم يزحف لهم مثله فجاء الخبر إلى عمر فجمع المسلمين فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: تكلموا وأوجزوا ولا تطنبوا، فتفشغبنا الأمور فلا ندري بأيها نأخذ ثم أخبرهم به ثم قام طلحة فتكلم ثم قام الزبير فتكلم، ثم قام عثمان فذكر كلامه في حديث طويل، ثم قام علي فقال: يا أمير المؤمنين إن القوم إنما جاؤوا بعبادة الأوثان وإن الله أشد تغييرا لما أنكروا، وإني أرى أن تكتب إلى أهل الكوفة فيسير ثلثاهم ويبقى ثلث في ذراريهم وحفظ جزيتهم وتبعث إلى أهل البصرة فيوروا ببعث، فقال: أشيروا علي من استعمل عليهم؟ فقالوا: يا أمير المؤمنين أنت أفضل منا رأيا وأعلمنا بأهلك فقال: لأستعملن عليهم رجلا يكون لأول أسنة يلقاها، اذهب بكتابي هذا يا سائب بن الأقرع إلى النعمان بن مقرن، قال: فأمره بمثل الذي أشار به علي، قال: فإن قتل النعمان فحذيفة بن اليمان، فإن قتل حذيفة فجرير بن عبد الله، فإن قتل ذلك الجيش فلا أرينك وأنت على ما أصابوا من غنيمة فلا ترفعن إلي باطلا ولا تحبسن عن أحد حقا هو له، قال السائب: فانطلقت بكتاب عمر إلى النعمان فسار بثلثي أهل الكوفة وبعث إلى أهل البصرة، ثم سار بهم حتى التقوا بنهاوند، فذكر وقعة نهاوند بطولها، قال: فحملوا فكان النعمان أول مقتول وأخذ حذيفة الراية ففتح الله عليهم، قال السائب: فجمعت تلك الغنائم فقسمتها بينهم، ثم أتاني ذو العيينتين فقال: إن كنز النخيرجانفي القلعة. قال: فصعدت فإذا أنا بسفطين من جوهر لم أر مثلهما قط، قال: فلم أرهما من الغنيمة فأقسمها بينهم ولم أحرزهما بجزية أو قال: احرزهما شك أبو عبيد، ثم أقبلت إلى عمر وقد راثعليه الخبر وهو يتطوف المدينة، ويسأل فلما رآني قال: ويلك يا ابن مليكة ما وراءك؟ قلت: يا أمير المؤمنين الذي تحب ثم ذكر وقعتهم ومقتل النعمان، وفتح الله عليهم، وذكر شأن السفطين، فقال: اذهب بهما فبعهما إن جاءا بدرهم أو أقل من ذلك أو أكثر ثم اقسمه بينهم، قال: فأقبلت بهما إلى الكوفة، فأتاني شاب من قريش يقال له: عمر بن حريث، فاشتراهما بأعطية الذرية والمقاتلة، ثم انطلق بأحدهما غلى الحيرة، وباعه بما اشتراهما به مني فكان أول لهوة مال اتخذه. "أبو عبيد في الأموال
14237 سائب بن الاقرع سے مروی ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اس قدربڑا لشکر تیار ہوا جس کے مثل پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس کی خبر حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو انھوں نے مسلمانوں کو جمع کیا، اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
بولو ! مختصر بات کرو، حالات ہم پر مشکل صورت میں آگئے ہیں، ہمیں معلوم نہیں ہورہا کس طرف سے ان کو سنبھالیں۔ پھر آپ (رض) نے ان کو دشمنوں کے بڑی تعداد میں جمع ہونے کی خبر سنائی۔ پھر طلحہ (رض) نے اٹھ کر تقریر کی، پھر زبیر (رض) نے تقریر کی، پھر عثمان (رض) نے اٹھ کر تقریر کی اور طویل گفتگو پھر حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے امیر المومنین ! یہ آنے والے دشمن بتوں کی عبادت کرنے والے ہیں، اور اللہ پاک ان کے برے کاموں کو بدلنے میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ اہل کوٹہ کو لکھیں کہ ان کے دو تہائی افراد جہاں کے لیے کوچ کریں اور ایک تہائی افراد ان کے پیچھے اہل و عیال کی نگہداشت کریں اسی طرح اہل بصرہ کی طرف پیغام بھیجیں وہ بھی ایک لشکر کی تیاری کریں۔
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : مجھے مشورہ دو ، میں اس لشکر پر کس کو امیر مقرر کروں ؟ لوگوں نے عرض کیا : امیر المومنین ! آپ ہمارے درمیان رائے میں سب سے افضل ہیں اور اپنے اہل کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ان پر ایسے شخص کو امیر مقرر کروں گا جو پہلے نیزے پر ہی دشمن سے جاٹکرائے گا۔
اے سائب بن اقرع ! میرا یہ خط لے کر نعمان بن مقرن کے پاس جاؤ۔ اور اس کو حکم دو جیسا کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد کیا ہے، پھر فرمایا : اگر نعمان شہید ہوجائیں تو پھر اس لشکر کے امیر حذیفہ بن یمان ہوں گے ، اگر حذیفہ بھی شہید ہوجائیں تو جریر بن عبداللہ امیر ہوں گے۔ اگر اسلامی لشکر فتح یاب ہوجائے تو اے سائب ! تمہاری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو جو مال غنیمت ہاتھ لگے تو کوئی ناحق مال میرے پاس لاؤ نہیں اور جس کا حق بنتا ہو اس کے مال کو اس سے روکو نہیں۔
سائب کہتے ہیں : چنانچہ میں حضرت عمر (رض) کا خط لے کر نعمان (رض) کے پاس گیا ۔ وہ اہل کوفہ میں سے دو تہائی اکثریت کو لے کر چل دیئے۔ پھر اہل بصرہ کو پیغام بھیج دیا پھر ان کو بھی ساتھ کرلیا اور نہاوند میں جاکر دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی۔ پھر سائب (رض) نے واقعہ نہاوند پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ نعمان اس جنگ میں سب سے پہلے شہید ہوئے۔ پھر حضرت حذیفہ (رض) نے جھنڈا تھام لیا اور پھر اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمادی۔
سائب کہتے ہیں میں نے اموال غنیمت کو جمع کیا اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ پھر میرے پاس ذوالعیشین آئے اور بولے کہ نخیر جان کر خزانہ قلعہ میں ہے۔ میں قلعہ میں چڑھ کر گیا تو وہاں موتیوں کی دو ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ایسا خزانہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب میں نے ان کو مال غنیمت بھی نہیں سمجھا جو سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردیتا اور نہ میں نے ان کو جزیہ کے بدلے حاصل کیا تھا۔ اور ابوعبیدراوی کو شک ہے وہ فرماتے ہیں یاسائب نے یہ فرمایا کہ ان کو میں نے حاصل کیا تھا۔ بہرصورت میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا ابھی ان کو فتح کی خوشخبری نہ ملی تھی آپ مدینے کے گشت پر تھے، دوران گشت لوگوں سے پوچھ گچھ فرما رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو بول پڑے : دہت تیرے کی، ابن ملیکہ ! (سائب) تیرے پیچھے کا کیا حال ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین وہی حال ہے جو آپ چاہتے ہیں پھر سائب نے سارا واقعہ گوش گزار کیا اور نعمان کی شہادت کی خبر سنائی اور مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری اور ہیروں کی ٹوکریوں کی خوشخبری بھی سنائی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ان دونوں ٹوکریوں کو لے جاؤ خواہ ایک درہم یا اس سے کم یا زیادہ میں کیوں نہ ہو ان کو فروخت کردو اور مسلمانوں کے درمیان ان کو تقسیم کردو سائب کہتے ہیں : چنانچہ میں ان ٹوکریوں کو لے کر کوفہ گیا، میرے پاس ایک قریشی جوان آیا جس کو عمر بن حریث کہا جاتا تھا اس نے دونوں ٹوکریوں کو خرید لیا اور سارے سپاہیوں اور ان کی اولاد کے بقدر کثیر درہم دیئے۔ پھر اس نے بھی ایک ٹوکری اتنی ہی قیمت میں حیرہ جاکر فروخت کردی جتنی قیمت میں اس نے دونوں ٹوکریاں خریدی تھیں۔ یہ اس کی پہلی کمائی تھی جو اس کو اتنا مال دے گئی۔ ابوعبید فی الاموال

14238

14238- "مسند الصديق" عن الزهري قال: لما ولي عثمان عاش اثنتي عشرة سنة أميرا يعمل ست سنين لا ينقم الناس عليه شيئا، وإنه لأحب إلى قريش من عمر بن الخطاب لأن عمر كان شديدا عليهم، فلما وليهم عثمان لان لهم ووصلهم، ثم توانى في أمرهم، واستعمل أقرباءه وأهل بيته في الست الأواخر، وكتب لمروان بخمس مصر وأعطى أقرباءه المال، وقال: إن أبا بكر وعمر تركا من ذلك ما هو لهما وإني أخذته فقسمته بين أقربائي. "ابن سعد"
14238 (مسند الصدیق) امام زہری (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت عثمان (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو وہ بارہ سال تک امیر رہے۔ چھ سال تک تو ان کے کسی کام پر لوگوں نے کوئی عیب زنی نہیں کی۔ آپ (رض) حضرت عمر بن خطاب (رض) کی نسبت قریش سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، جبکہ حضرت عمر (رض) ان کے متعلق سخت رویہ رکھتے تھے۔ جب حضرت عثمان (رض) کو ان کا امیر بنایا گیا تو وہ ان کے لیے نرم خو اور صلہ رحمی کرنے والے بن گئے پھر مزید ان کے متعلق تساہل سے کام لینے لگے اور اپنے عزیز رشتہ داروں اور گھر والوں کو آخری چھ سالوں میں امور حکومت سپرد کرتے رہے۔ مروان کے لیے مصر کا پانچواں حصہ لکھ کر دیدیا اور اپنے رشتے داروں کو مال عطا کیا اور آپ (رض) فرماتے کہ :
ابوبکروعمر (رض) نے اپنا حصہ چھوڑ دیا جو ان کو لینا بنتا تھا جبکہ میں نے اپنے حصہ لیا اور اپنے عزیز رشتہ داروں میں تقسیم کردیا ہے۔ ابن سعد

14239

14239- "مسند عمر" عن معدان بن أبي طلحة اليعمري أن عمر بن الخطاب قام على المنبر يوم الجمعة فحمد الله وأثنى عليه، ثم ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر أبا بكر، ثم قال: رأيت رؤيا لا أراها إلا، بحضور أجلي، رأيت كأن ديكا نقرني نقرتين أحمر، فقصصتها على أسماء بنت عميس، فقالت: يقتلك رجل من العجم، وإن الناس يأمروني أن أستخلف وأن الله عز وجل لم يكن ليضيع دينه وخلافته التي بعث بها نبيه صلى الله عليه وسلم وإن يعجل بي أمر فإن الشورى في هؤلاء الستة الذين مات النبي صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض عثمان وعلي والزبير وطلحة وعبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص، فمن بايعتم منهم فاسمعوا له وأطيعوا، وإني أعلم أن أقواما سيطعنون في هذا الأمر بعدي أنا ضربتهم بيدي على الإسلام، فإن فعلوا فأولئك أعداء الله، الكفار الضلال، وإني لم أدع شيئا هو أهم عندي من أمر الكلالة، وايم الله ما أغلظ لي نبي الله صلى الله عليه وسلم في شيء منذ صحبته أشد مما أغلظ لي في شأن الكلالة حتى طعن بأصبعه في صدري وقال: تكفيك آية الصيف التي نزلت في آخر سورة النساء، وإني إن أعش فسأقض فيها بقضاء يعلمه من يقرأ القرآن ومن لا يقرأ القرآن، وإني أشهد الله على أمراء الأمصار أني إنما بعثتهم ليعلموا الناس دينهم وسنة نبيهم ويعدلوا عليهم ويقسموا فيئهم بينهم ويرفعوا إلي مما عمي عليهم، ثم إنكم أيها الناس تأكلون من شجرتين لا أراهما إلا خبيثتين هذا الثوم والبصل، وايم الله لقد كنت أرى نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحهما من الرجل يأمر به فيؤخذ بيده فيخرج من المسجد حتى يؤتي به، البقيع، فمن أكلهما لا بد فليمتهما طبخا فخطب الناس يوم الجمعة وأصيب يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة. "ط وابن سعد ش حم حب ن والحميدي م وأبو عوانة ع"، وروى المرفوع منه وهو قصة الكلالة والثوم والبصل "ن هـ" وروى قصة الثوم والبصل. "العدني وابن خزيمة"
14239 (مسند عمر (رض)) معدان بن ابی طلحۃ یعمری سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جمعہ کے روز منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر کے ذکر کے بعد ارشاد فرمایا :
میں نے ایک خواب دیکھا ہے، میں اس کو اپنی موت کی اطلاع سمجھتا ہوں، گویا ایک سرغ مرغا ہے اس نے مجھے چونچ ماری ہیں۔ میں نے یہ خواب اسماء بنت عمیس کو ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آپ کو کوئی عجمی آدمی قتل کرے گا۔ پھر فرمایا : اب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کے لیے کوئی خلیفہ چن جاؤں۔ حالانکہ اللہ پاک اپنے دین اور خلافت کو جس کے ساتھ اس نے نبی کو مبعوث فرمایا تھا ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اگر میری موت کا وقت جلد آجائے تو میں ان نفوس پر مجلس شوریٰ قائم کرجاتا ہوں، کہ جن سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کے وقت راضی وخوش تھے : عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص (رض) اجمعین۔ پس ان چھ میں سے جس کی بھی تم بیعت کرلو پھر اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا اپنے اوپر لازم کرلینا۔ اور مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ میرے بعد اس بارے میں طعنہ زنی کریں گے کہ میں نے ان کو ہاتھ ماردیا ہے اسلام پر، ایسی بات کرکے (اسلام میں اور منصب خلافت میں) رخنہ ڈالنے والے اللہ کے دشمن ہیں، کافر اور مگر اہ ہیں۔ اور میں نے کلالہ (جس کے نہ ماں باپ ہیں اور نہ اولاد) جو میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ تھا کہ متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قدر سوال کیا کہ اللہ کی قسم ! میں نے جب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اختیار کی تھی تب سے اس مسئلے کے علاوہ کسی مسئلے کے بارے میں آپ نے مجھ پر اتنی سختی نہیں فرمائی جتنی اس کے سوال کے بارے میں فرمائی، حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انگلی سے مجھے سینے میں کچھ لگاتے ہوئے فرمایا : تیرے لیے آیۃ الصیف جو سورة النساء کے آخر میں نازل ہوئی ہے کافی ہوجانا چاہیے۔ اور اگر میں زندہ رہا تو اس کے متعلق ایسا فیصلہ کروں گا جس کو قرآن پڑھنے والا اور قرآن سے ناواقف سب جان لیں گے۔ اور میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں شہروں کے امیروں پر کہ میں نے ان کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ان کا دین اور ان کے نبی کی سنت سکھائیں ان پر عدل کریں، ان کے اموال غنیمت ان کے درمیان (انصاف کے ساتھ) تقسیم کریں اور جن مسائل میں وہ لاعلم ہوں ان کو میرے پاس بھیجیں۔ پھر اے لوگو ! تم یہ دو چیزیں جو کھاتے ہو میں ان کو خبیث سمجھتا ہوں : لہسن اور پیاز۔ اللہ کی قسم ! میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ کو کسی آدمی میں سے ان کی بو محسوس فرماتے تو اس کے متعلق حکم دیتے اور اس آدمی کو ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر لایا جاتا حتیٰ کہ بقیع تک اس کو مسجد سے دور کردیا جاتا تھا۔ لہٰذا جو ان دو چیزوں کو کھائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پکا کر ان کی بو ماردے۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جمعہ کو لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کے روز 26 ذی الحج کو آپ پر حملہ ہوگیا۔
مسند ابی داؤد، ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، ابن حبان، النسائی، الحمبدی، مسلم، ابوعوانۃ، مسند ابی یعلی
نیز حضرت عمر (رض) سے کلام، ثوم اور بصل (لہسن اور پیاز) سے متعلق روایت موفوعات بھی منقول ہے۔ النسائی ، ابن ماجہ
نیز ثوم اور بصل کا قصہ روایت کیا ہے۔ العدنی، ابن خزیمہ

14240

14240- عن ابن عمر أنه قال لعمر: سمعت الناس يقولون مقالة زعموا أنك غير مستخلف فقال: إن الله عز وجل يحفظ دينه وإني إن لا أستخلف فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف وإن استخلف فإن أبا بكر قد استخلف قال: فوالله ما هو إلا أن ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا بكر فعلمت أنه لم يكن ليعدل برسول الله صلى الله عليه وسلم أحد أو أنه غير مستخلف. "عب حم والعدني خ م د ت وأبو عوانة حب ك هق"
14240 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : انھوں نے (اپنے والد) حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : میں لوگوں سے سن رہا ہوں کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں جارہے ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت بخوبی فرمائے گا۔ اگر میں خلیفہ بنا کر نہ جاؤں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی خلیفہ بنا کر نہیں گئے اور اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کر جاؤں تو حضرت ابوبکر (رض) بھی خلیفہ نامزد کر گئے تھے۔ میرے لیے دونوں صورتوں کی گنجائش ہے۔ (حضرت ابن عمر (رض)) فرماتے ہیں : جب آپ (رض) نے دونوں کا ذکر فرمادیا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ کی قسم ! وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے برابر کسی کو نہیں جانتے یعنی آپ حضور کی اتباع میں کسی کو بھی خلیفہ نامزد کرنے والے نہیں ہیں۔
الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، العدنی، البخاری، مسلم، ابن ابی داود، الترمذی، ابوعوانۃ، ابن حبان، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی

14241

14241- عن ابن عمر أن عبد الرحمن بن عوف قال لأصحاب الشورى: هل لكم أن أختار لكم وأنقضي منها؟ فقال علي: أنا أول من رضي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لك: أنت أمين في أهل السماء، أمين في أهل الأرض. "ابن منيع وابن أبي عاصم في السنة ك وأبو نعيم"1
14241 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اصحاب شوریٰ کو فرمایا : کیا تم مجھے اختیار دیتے ہو کہ میں تمہارے لیے (تم میں سے) کسی کو خلیفہ نامزدکردوں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں سب سے پہلے اس پر راضی ہوتا ہوں کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : تم اہل آسمان میں امین ہو اور اہل زمین میں امین ہوں ۔ ابن منیع ، ابن ابی عاصم فی السنۃ، مستدرک الحاکم، ابونعیم

14242

14242- عن عثمان بن عبد الله القرشي: حدثنا يوسف بن أسباط عن مخلد الضبي عن إبراهيم النخعي عن علقمة عن أبي ذر قال: لما كان أول يوم في البيعة لعثمان اجتمع المهاجرون والأنصار في المسجد وجاء علي ابن أبي طالب فأنشأ يقول: إن أحق ما ابتدأ به المبتدؤون، ونطق به الناطقون وتفوه به القائلون؛ حمد الله وثناء عليه بما هو أهله والصلاة على النبي محمد صلى الله عليه وسلم فقال: الحمد لله المتفرد بدوام البقاء المتوحد بالملك الذي له الفخر والمجد والسناء، خضعت الآلهة لجلاله يعني الأصنام، وكل ما عبد من دونه، ووجلت القلوب من مخافته، ولا عدل له ولا ند له ولا يشبهه أحد من خلقه، ونشهد له بما شهد لنفسه وأولو العلم من خلقه أن لا إله إلا هو ليست له صفة تنال ولا حد تضرب له فيه الأمثال، المدر صوبالغمام ببنانالنطاق، ومهطل الرباببوابل الطل فرش الفيافيوالآكام، بتشقيق الدمنوأنيق الزهر وأنواع المتحسن من النبات وشق العيون من جيوب المطر إذ شبعت الدلاء حياة للطير والهوام والوحش وسائر الأنام والأنعام فسبحان من يدان لدينه ولا يدان لغير دينه دين، وسبحان الذي ليس له صفة نفر موجود ولا حد محدود، ونشهد أن سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم عبده المرتضى ونبيه المصطفى ورسوله المجتبى أرسله الله إلينا كافة والناس أهل عبادة الأوثان وخضوع الضلالة يسفكون دماءهم ويقتلون أولادهم ويحيفون سبيلهم عيشهم الظلم وأمنهم الخوف، وعزهم الذل، فجاء رحمة حتى استنقذنا الله بمحمد صلى الله عليه وسلم من الضلالة وهدانا بمحمد صلى الله عليه وسلم من الجهل ونحن معاشر العرب أضيق الأمم معاشا وأخسهم رياشاجل طعامنا الهبيد يعني شحم الحنظل وجل لباسنا الوبر والجلود مع عبادة الأوثان والنيران وهدانا بمحمد صلى الله عليه وسلم بعد أن أمكنه الله شعلة النور فأضاء بمحمد صلى الله عليه وسلم مشارق الأرض ومغاربها فقبضه الله إليه فإنا لله وإنا إليه راجعون، ما أجل رزيته وأعظم مصيبته، فالمؤمنون فيهم سواء، مصيبتهم فيه واحدة. فقام مقامه أبو بكر الصديق، فوالله يا معشر المهاجرين ما رأيت خليفة أحسن أخذا بقائم السيف يوم الردة من أبي بكر الصديق يومئذ قام مقاما أحيا الله به سنة النبي صلى الله عليه وسلم فقال: والله لو منعوني عقالا لأجاهدنهم في الله فسمعت وأطعت لأبي بكر، وعلمت أن ذلك خير لي، فخرج من الدنيا خميصاوكيف لا أقول هذا في أبي بكر وأبو بكر ثاني اثنين وكانت ابنته ذات النطاقين يعني أسماء تتنطق بعباءة له وتخالف بين رأسها وما معها يعني رغيفين في نطاقها فتروح بهما إلى محمد صلى الله عليه وسلم وكيف لا أقول هذا، وقد اشترى سبعة ثلاث نسوة وأربعة رجال كلهم أوذي في الله وفي رسول الله، وكان بلال منهم وتجهز رسول الله صلى الله عليه وسلم بماله ومعه يومئذ أربعون ألفا فدفعها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فهاجر بها إلى طيبة، ثم قام مقامه الفاروق عمر بن الخطاب شمر عن ساقيه وحسر عن ذراعيه لا تأخذه في الله لومة لائم كنا نرى أن السكينة تنطق على لسانه، وكيف لا أقول هذا ورأيت النبي صلى الله عليه وسلم بين أبي بكر وعمر، فقال هكذا نحيى وهكذا نموت وهكذا نبعث وهكذا ندخل الجنة، وكيف لا أقول هذا في الفاروق والشيطان يفر من حسه فمضى شهيدا رحمة الله عليه، وقد علمتم معشر المهاجرين أنه ما فيكم مثل أبي عبد الله يعني عثمان بن عفان أو ليس قد زوجه النبي صلى الله عليه وسلم ابنتيه، ثم أتاه جبريل فقال حين أوعز إليه وهو في المقبرة: يا محمد إن الله يأمر أن تزوج عثمان أختها. وكيف لا أقول هذا وقد جهز أبو عبد الله جيش العسرة وهيأ للنبي صلى الله عليه وسلم سخينةأو نحوها فأقبل بها في صحفة وهي تفور فوضعها تلقاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم:كلوا من حافتها ولا تهدوا ذروتها فإن البركة تنزل من فوقها، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يؤكل الطعام سخنا جدا فلما أكل رسول الله صلى الله عليه وسلم السخينة أو نحوها من سمن وعسل وطحين مد رسول الله صلى الله عليه وسلم يده إلى فاطر البرية ثم قال: غفر الله لك يا عثمان ما تقدم من ذنبك وما تأخر وما أسررت وما أعلنت، اللهم لا تنس هذا اليوم لعثمان، معشر المهاجرين تعلمون أن بعير أبي جهل ندفقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عمر ائتنا بالبعير، فانطلق البعير إلى عير أبي سفيان، وكان عليه حلقة مزموم بها من ذهب أو فضة وكان عليه جلمدبج كان لأبي جهل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر: ائتنا بالبعير فقال عمر: يا رسول الله إن من هناك يعني ملأ قريش من عديأقل من ذلك، فعلم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن العدد والمادة لعبد مناف فوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان إلى عير أبي سفيان ليأتي بالبعير، فانطلق عثمان على قعوده وكان النبي صلى الله عليه وسلم معجبا به جدا حتى أتى أبا سفيان فقام إليه مبجلا معظما وقد احتبى بملائته، فقال أبو سفيان: كيف خلفت ابن عبد الله؟ فقال له عثمان: بين هامات قريش وذروتها وسنام قناعتها يا أبا سفيان هو علم من أعلامها يا أبا سفيان سما محمد صلى الله عليه وسلم شمسا ماطرة وبحارا زاخرة وعيونه هماعة وولاؤهرافعة يا أبا سفيان فلا عري من محمد فخرنا ولا قصم بزوال محمد ظهرنا، فقال أبو سفيان: يا أبا عبد الله اكرم بابن عبد الله ذاك الوجه كأنه ورقة مصحف، إني لأرجو أنه يكون خلفا من خلف وجعل أبو سفيان يفحص بيده مرة ويركض الأرض برجله أخرى، ثم دفع البعير إلى عثمان، فقال علي: فأي مكرمة أسنى وأفضل من هذه لعثمان حتى مضى أمر الله فيمن أراد، ثم إن أبا سفيان دعا بصحفة كثيرة الإهالةثم دعا بظلمةفقال: دونك يا أبا عبد الله، فقال أبو عبد الله: قد خلفت النبي صلى الله عليه وسلم على حد لست أقدر أن أطعم فأبطأ أبو عبد الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أبطأ صاحبنا بايعوني، فقال أبو سفيان: إن فعلت وطعمت من طعامنا رددنا عليك البعير برمتهفنال أبو عبد الله من طعام أبي سفيان وأقبل عثمان بعد ما بايعوا النبي صلى الله عليه وسلم. ثم قال علي: أناشدكم الله إن جبريل نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد لا سيف إلا ذو الفقار ولا فتى إلا علي فهل تعلمون هذا كان لغيري أناشدكم الله هل تعلمون أن جبريل نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد إن الله يأمرك أن تحب عليا، وتحب من يحبه، فإن الله يحب عليا، ويحب من يحبه قالوا: اللهم نعم، قال: أناشدكم الله هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما أسري بي إلى السماء السابعة رفعت إلى رفارف من نور ثم رفعت إلى حجب من نور فأوحي إلى النبي صلى الله عليه وسلم أشياء، فلما رجع من عنده نادى مناد من وراء الحجب يا محمد نعم الأب أبوك إبراهيم نعم الأخ أخوك علي، تعلمون معاشر المهاجرين والأنصار كان هذا. فقال عبد الرحمن بن عوف من بينهم: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم بهاتين وإلا فصمتا، أتعلمون أن أحدا كان يدخل المسجد جنبا غيري قالوا: اللهم لا، هل تعلمون أني كنت إذا قاتلت عن يمين النبي صلى الله عليه وسلم قاتلت الملائكة عن يساره، قالوا: اللهم نعم، فهل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أنت مني بمنزلة هارون من موسى ألا إنه لانبي بعدي، وهل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان آخى بين الحسن والحسين فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يا حسن مرتين، فقالت فاطمة: يا رسول الله إن الحسين لأصغر منه وأضعف ركنا منه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا ترضين أن أقول أنا: هييا حسن ويقول جبريل: هي يا حسين فهل لخلق مثل هذه المنزلة نحن صابرون ليقضي الله أمرا كان مفعولا. "كر".
14242 عثمان بن عبداللہ قرشی سے مروی ہے : ہمیں یوسف بن اسباط نے مخلد الضبی سے ، مخلد نے ابراہیم نخعی سے، انھوں نے علقمہ سے اور علقمہ حضرت ابوذر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان (رض) کی بیعت کا پہلا دن تھا اور مہاجرین وانصارمسجد (نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) میں جمع تھے، اس وقت حضرت علی (رض) تشریف لائے اور ارشاد فرمایا :
سب سے پہلی چیز جس کے ساتھ ابتداء کرنے والوں کو ابتداء کرنی چاہیے، بولنے والوں کو بولنا چاہیے اور بات کرنے والوں کو سب سے پہلے اس کو منہ سے نکالنا چاہیے وہ اللہ کی حمد اور اس کی ثناء ہے۔ جس کا وہ اہل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود ہے۔ پھر فرمایا : پس تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو دائمی بقاء کے لیے تنہا ذات ہے، سلطنت کا اکیلا مالک ہے، اس کے لیے فخر، بذرگی اور زیباء ہے، اس کی بزرگی کے آگے دوسرے تمام الہٰوں اور معبودوں نے سر ٹیک دیئے ہیں، قلوب اس کی خشیت سے لرزتے ہیں، اس کا کوئی برابر نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، کوئی اس کی مخلوق میں سے اس کا مشابہ نہیں۔ ہم اس کے لیے ان صفات کی گواہی دیتے ہیں جو اس نے اپنی ذات کے لیے بیان کی ہیں، اور اس کی مخلوق میں سے اہل علم نے بیان کی ہیں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی صفت کو کوئی پا نہیں سکتا، اس کی حد کو کوئی مثال بھی بیان نہیں کی جاسکتی، وہ انگلیوں کے اشاروں سے بادل برسانے والا ہے، کھلے میدانوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو موسلادھار بارش سے سیراب کرنے والا ہے، جب چشموں سے ڈول بھر بھر کر نکلتے ہیں اور چرند پرند، حشرات الارض اور تمام مخلوق زندگی پاتی ہے۔ بس پاک ہے وہ ذات جس کے دین کے آگے تمام دین سرنگوں ہیں اور اس کے دین کے سوا کوئی دین قابل اتباع نہیں۔ ہم شہادت دیتے ہیں کہ ہمارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پسندیدہ بندے، اس کے منتخب پیغمبر اور اس کے مقبول رسول ہیں۔ جن کو اللہ نے ہم سارے جہان والوں کی طرف مبعوث کیا ایسے وقت کہ لوگ بتوں کی عبادت میں منہمک تھے، گمراہی کے آگے جھکے ہوئے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے، ان کے راستے ظلم وستم کے راستے تھے، ان کی زندگی ظلم کا نام تھی، ان کا امن بھی خوف کے دامن میں پناہ گیر تھا، ان کی عزت ذلت تھی، ایسے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت بن کر تشریف لائے حتیٰ کہ اللہ پاک نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طفیل ہم کو گمراہی سے بچا لیا اور ہم کو انہی کے طفیل جہالت سے ہدایت بخشی، ہم اس عرب کے معاشرہ والے تھے ، جن کی زندگی تمام اقوام میں تنگی ومشقت والی تھی، ان کا لباس سب سے گھٹیا لباس تھا، ہمارا سب سے عمدہ طعام اندرائن (کڑوا) پھل تھا ۔ ہمارا سب سے عمدہ لباس اون تھا۔ ہم آگے اور بتوں کے پجاری تھے۔ پھر اللہ نے ہم کو محمد کے طفیل ہدایت عطا کی، اور ان کو نور کا ایسا شعلہ بنایا جس سے زمین کے سارے مشرق ومغرب روشن ہوگئے، پھر اللہ نے ان کو اپنے پاس اٹھا لیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ہائے ! کس قدر بڑی آفت اور کس قدر عظیم مصیبت تھی ان کا رخصت ہونا۔ اس غم میں تمام مومن برابر کے شریک ہیں، سب کی مصیبت ایک ہے، پھر ان کی جگہ ابوبکر (رض) کھڑے ہوگئے۔ اللہ کی قسم ! اے گروہ مہاجرین ! میں نے ایسا خلیفہ نہیں دیکھا انھوں نے کس قدر مضبوطی سے تلوار کو تھاما مرتدین سے جنگ کے دن (جب اسلام پر کڑی آزمائش کا وقت تھا) اللہ نے ان کے طفیل اپنے نبی کی سنت (اور دین) کو زندہ کیا۔ جب ابوبکر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھے اس کا ایک رسی کو دینے سے بھی انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے تو میں اللہ کے لیے ان سے جہاد کروں گا۔ چنانچہ میں نے ان کی بات کو سنا اور اطاعت کی اور مجھے اچھی طرح علم ہوگیا تھا کہ ابوبکر کی رائے میں سراسر خیر ہے۔ پھر وہ دنیا سے بھوکے پیٹ ہی نکل گئے۔ میں ابوبکر کی یہ تعریف کیوں نہ کروں جبکہ وہ ثانی اثنین تھے، ان کی بیٹی ذات النطاقین (دو دپٹوں والی) تھی جو اپنی چادر کو اپنے سر پر لپیٹ لیتی اور مس کے پلو میں روٹیاں باندھ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اور اپنے والد) کے لیے جاتی تھی۔ میں کیوں نہ یہ باتیں کہو ! ابوبکر (رض) نے تین عورتوں اور چار آدمیوں کو خرید (کر آزاد) کیا جن کو محض اللہ کے لیے کفار نے اذیتیں دیں، انہی میں سے ایک بلال بھی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مال کے ساتھ ہجرت کی تیاری کی، حضرت ابوبکر کے پاس اس دن چالیس ہزار درہم تھے، وہ انھوں نے سب کے سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کردیئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ مدینہ طیبہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے۔ پھر ابوبکر کے بعد ان کی جگہ عمر فاروق بن الخطاب کھڑے ہوئے، انھوں نے (تہہ بندکس کر باندھ لیا اور) پنڈلیوں سے کپڑا اونچا کرلیا اور اپنی آستینیں چڑھا لیں۔ ان کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ تھا۔ ہم دیکھتے تھے کہ سکینہ عمر کی زبان پر بول رہی ہے۔ اور میں ان کے لیے یہ باتیں کیوں نہ کہوں حالانکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابوبکر اور عمر کے درمیان چلتا ہوا دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : ہم اسی طرح جئیں گے، اسی طرح مریں گے، اسی طرح ہم کو ساتھ ساتھ اٹھایا جائے گا اور اسی طرح اکٹھے جنت میں داخل ہوں گے ۔ میں فاروق کی خوبی کیوں نہ بیان کرو جبکہ شیطان ان کی آہٹ سے بھی بھاگتا تھا۔ پھر وہ شہید ہو کر چلے گئے، ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ اور اے گروہ مہاجرین تم خوب جانتے ہو کہ تمہارے اندر ابوعبداللہ یعنی حضرت عثمان بن عفان جیسا کوئی صاحب فضیلت شخص نہیں ہے۔ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں شادی میں نہیں دیں۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی لخت جگر عثمان کی بوی کو دفن فرما کر ابھی قبرستان میں ہی موجود تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تعزیت کے لیے آئے اور آپ کو فرمایا : اے محمد ! اللہ حکم دیتا ہے کہ آپ عثمان کو اس کی دوسری بہن شادی میں دیدیں۔ میں کیوں نہ ان کے متعلق یہ کہوں حالانکہ ابوعبداللہ نے جیش العسرت (غزوہ تبوک) کی۔ مکمل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے گرم گرم سخینہ (آٹے گھی کھجور سے تیار کھانا) طباق میں تیارکروا کر حضور کے آگے پیش کیا، اس وقت وہ جوش مارہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کناروں سے کھاؤ، اس کی بلندی کو نہ گراؤ کیونکہ برکت اوپر سے نازل ہوتی ہے، چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیز گرم کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کھانا کھایا جو گھی، شہد اور آٹے وغیرہ سے بنا ہوا تھا تو اس کے گرم ہونے کی وجہ سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور مخلوق کے پیدا کرنے والے کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے ارشاد فرمایا : اے عثمان ! اللہ نے تیرے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں تیرے مخفی اور اعلانیہ گناہ بخش دیئے۔ اے اللہ ! عثمان کی آج کی نیکی نہ بھلانا۔ پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے مہاجرین کی جماعت ! تمکو معلوم ہوگا کہ ایک مرتبہ ابوجہل کا اونٹ بدک گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو ارشاد فرمایا : اے عمر ! یہ اونٹ ہمارے پاس لاؤ ۔ اونٹ بھگ کر ابوسفیان کے قافلے میں شامل ہوگیا۔ اونٹ پر سونے چاندی کے حلقے والی لگام پڑی ہوئی تھی اور ابوجہل کا دیباج کا پالان تھا جو اونٹ پر پڑا ہوا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) کو فرمایا : اے عمر ! یہ اونٹ ہمارے پاس لاؤ۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہاں قافلے میں سرداران قریش اس سے تھوڑے ہی ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانا کہ تعداد اور مادۃ عبدمناف کے لیے ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان کو ابوسفیان کے قافلے کی طرف بھیجا اونٹ لانے کے لیے حضرت عثمان ارشاد کی تعمیل کے لیے اپنے اونٹ پر بیٹھ کر چل دیئے جبکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان (کی دلیری) پر انتہائی تعجب ہورہا تھا چنانچہ عثمان ابوسفیان کے پاس پہنچے تو ابوسفیان جو اپنے سرداروں کے درمیان حبوہ باندھے بیٹھا تھا عثمان کو دیکھ کر تعظیماً واکراماً اٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا : عبداللہ کے بیٹے (محمد) کو کیسے حال میں پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ؟ حضرت عثمان (رض) نے ان کو فرمایا : قریش کے سرداروں کے درمیان ان کی بلندی اور کوہان پر بیٹھا چھوڑ آیا ہوں، اے ابوسفیان ! وہ سرداروں کے سردار ہیں، جو اس قدر بلندی پر پہنچ گئے ہیں کہ آفتاب ضیاء پاش تک ان کی رسائی ہے، اور وہ اس قدر راسخ ہیں گویا بحرذخار ہیں، ان کی آنکھیں (امت کے غم میں برسنے) والی ہیں، ان کے جھنڈے بلند ہیں۔ اے ابوسفیان ! محمد کو جدا کرکے ہمارے پاس کوئی قابل فخر چیز نہیں رہ جاتی اور محمد کے زوال کے ساتھ ہماری کمر ٹوٹ جانے والی ہے۔ ابوسفیان نے کہا : اے ابوعبداللہ ! ابن عبداللہ (محمد) کا اکرام کرو، وہ چہرہ مصحف شریف کا ورقہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ بہترین جانشین کا بہترین جانشین ہوگا، ابوسفیان بات کرتے جاتے اور زمین پر کبھی اپنے ہاتھ کو مارتے اور کبھی اپنے پاؤں کو مارتے۔ پھر انھوں نے اونٹ عثمان (رض) کے حوالے کردیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : پس کونسی کرامت اور فضیلت عثمان کے لیے اس سے بڑی ہوگی۔ اللہ کا حکم جس کے متعلق چاہے گا نافذ ہو کر رہے گا۔ پھر ابوسفیان نے کھانے کی رقاب منگوائی جس میں خوب روغن ڈالا ہوا تھا پھر دودھ منگوایا اور بولے : اے ابوعبداللہ ! لو ! ابوعبداللہ عثمان نے فرمایا : میں اپنے پیچھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی حد پر چھوڑ کر آیا ہوں کہ یہاں بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا۔ پھر عثمان کو تاخیر ہوئی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہمارے ساتھی کو تاخیر ہوگئی ہے، اے صحابہ ! (لڑائی پر) میری بیعت کرو۔
ادھر ابوسفیان عثمان (رض) کو بولے : اگر تم نے ہمارا کھانا کھالیا تو ہم اونٹ کو اصلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے ابوسفیان کے پیش کردہ کھانے میں سے تھوڑا چکھ لیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے صحابہ سے بیعت لینے کے بعد عثمان (رض) واپس ان کے پاس پہنچ گئے۔
پھر حضرت علی (رض) نے (اپنے متعلق) ارشاد فرمایا : میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں بتاؤ کیا ایسا نہیں ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے محمد تلوار تو صرف ذوالفقار ہے، نوجوان صرف علی ہے۔ تم جانتے ہو، بتاؤ کیا یہ فرمان میرے علاوہ کسی اور کے لیے تھا ؟ میں تم کو واسطہ خداوندی دیتا ہوں بتاؤ کیا تم یہ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئے اور فرمایا : اے محمد ! اللہ آپ کو حکم فرماتا ہے کہ آپ علی سے محبت کریں اور جو علی سے محبت کرے اس سے بھی محبت رکھیں۔ بیشک اللہ بھی علی سے محبت فرماتا ہے۔ اور ہر اس شخص سے محبت فرماتا ہے جو علی کو محبوب رکھتا ہے۔ تب لوگوں نے حضرت علی (رض) کو جواباً بیک آواز عرض کیا : ہاں اللہ جانتا ہے ایسا ہی ہے۔ پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا تو نور کے خیموں تک مجھے اوپر اٹھالیا گیا پھر مجھے نور کے پردوں تک اوپر اٹھایا گیا۔ پھر اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ چیزیں وحی فرمائیں۔ جب آپ واپس لوٹنے لگے تو پردوں کے پیچھے سے آپ کو آواز دی گئی : اے محمد ! تیرا باپ ابراہیم (علیہ السلام) بہترین باپ ہے اور تیرا بھائی علی بہترین بھائی ہے۔ اے مہاجرین و انصار ! تم جانتے ہو کہ یہ حقیقت ہے۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات نہ سنی ہو جو آپ بیان فرما رہے ہیں تو میرے کان بہرے ہوجائیں۔ پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : تم لوگ جانتے ہو کہ مسجد میں میرے سوا کوئی اجنبی حالت میں داخل ہوتا تھا ؟ لوگوں نے کہا : اللہ گواہ ہے ، نہیں۔ پھر فرمایا : تم جانتے ہو کہ جب میں رسول اللہ کے دائیں طرف ہو کر قتال کرتا تھا تو ملائکہ آپ کے بائیں طرف ہو کر لڑتے تھے۔ لوگوں نے کہا : ہاں واللہ ! ایسا ہی ہے۔ پھر فرمایا : تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا تھا :
میرے لیے جیسے ہارون موسیٰ کے لئے۔ لیکن یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسن اور حسین کے درمیان بھائی چارہ کرتے تھے۔ چنانچہ دو مرتبہ فرماتے : یا حسن ! فاطمہ کہتی : یارسول اللہ ! حسین اس سے چھوٹا ہے اور اس سے کمزور ہے۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ کو فرماتے : کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ میں کہوں : جلدی اے حسن ! اور جبرائیل کہے : جلدی اے حسین !۔ یعنی اگر میں حسن کو زیادہ طرف داری کرتا ہوں تو جبرائیل حسین کی حمایت زیادہ کرتے ہیں یوں دونوں میں مساوات ہوگئی۔
حضرت علی (رض) نے فرمایا : کسی اور مخلوق کو ہماری ایسی فضیلت حاصل ہے کیا ؟ ہم صبر کرنے والے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے وہ ہونے والا ہے۔ ابن عساکر

14243

14243- عن زافر عن رجل عن الحارث بن محمد عن أبي الطفيل عامر بن واثلة قال: كنت على الباب يوم الشورى، فارتفعت الأصوات بينهم فسمعت عليا يقول: بايع الناس لأبي بكر وأنا والله أولى بالأمر منه، وأحق به منه، فسمعت وأطعت مخافة أن يرجع الناس كفارا يضرب بعضهم رقاب بعض بالسيف، ثم بايع الناس عمر وأنا والله أولى بالأمر منه وأحق به منه فسمعت وأطعت مخافة أن يرجع الناس كفارا يضرب بعضهم رقاب بعض بالسيف، ثم أنتم تريدون أن تبايعوا عثمان إذا أسمع وأطيع، إن عمر جعلني في خمسة نفر أنا سادسهم لا يعرف لي فضلا عليهم في الصلاح ولا يعرفونه لي كلنا فيه شرع سواء وايم الله لو أشاء أن أتكلم ثم لا يستطيع عربيهم ولا عجميهم ولا المعاهد منهم ولا المشرك رد خصلة منها لفعلت، ثم قال: نشدتكم بالله أيها النفر جميعا أفيكم أحد آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم غيري؟ قالوا: اللهم لا، ثم قال: نشدتكم الله أيها النفر جميعا أفيكم أحد له عم مثل عمي حمزة أسد الله وأسد رسوله وسيد الشهداء؟ قالوا: اللهم لا، ثم قال: أفيكم أحد له أخ مثل أخي جعفر ذي الجناحين الموشى بالجوهر يطير بهما في الجنة حيث شاء؟ قالوا: اللهم لا، قال: فهل أحد له سبط مثل سبطي الحسن والحسين سيدي شباب أهل الجنة؟ قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد له زوجة مثل زوجتي فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: اللهم لا. قال: أفيكم أحد كان أقتل لمشركي قريش عند كل شديدة تنزل برسول الله صلى الله عليه وسلم مني؟ قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد كان أعظم غنى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اضطجعت على فراشه ووقيته بنفسي وبذلت له مهجة دمي؟ قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد كان يأخذ الخمس غيري وغير فاطمة؟ قال: اللهم لا، قال: أفيكم أحد كان له سهم في الحاضر وسهم في الغائب غيري؟ قالوا: اللهم لا، قال: أكان أحد مطهرا في كتاب الله غيري حين سد النبي صلى الله عليه وسلم أبواب المهاجرين وفتح بابي فقام إليه عماه حمزة والعباس فقالا: يا رسول الله سددت أبوابنا وفتحت باب علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أنا فتحت بابه ولا سددت أبوابكم بل الله فتح بابه وسد أبوابكم؟ قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد تمم الله نوره من السماء غيري حين قال: {وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ} قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد ناجاه رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنى عشرة مرة غيري حين قال الله تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً} قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد تولى غمض رسول الله صلى الله عليه وسلم غيري؟ قالوا: اللهم لا، قال: أفيكم أحد آخر عهده برسول الله صلى الله عليه وسلم حين وضعه في حفرته غيري؟ قالوا: اللهم لا. "عق" وقال: لا أصل له عن علي وفيه رجلان مجهولان رجل لم يسمه زافر والحارث بن محمد حدثني آدم بن موسى قال سمعت "خ" قال الحارث ابن محمد عن أبي الطفيل كنت على الباب يوم الشورى لم يتابع زافر عليه انتهى، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات وقال زافر مطعون فيه ورواه عن مبهم، وقال الذهبي في الميزان: هذا خبر منكر غير صحيح، وقال ابن حجر في اللسان: لعل الآفة في هذا الحديث من زافر مع أنه قال في أماليه: أن زافرا لم يتهم بكذب وأنه إذا توبع على حديث كان حسنا
14243 عن زافرعن رجل عن الحارث بن محمد عن ابی الطفیل عامر بن واثلۃ ، ابوالطفیل عامر بن واثلۃ سے مروی ہے کہ شوریٰ کے روز میں دروازے پر نگران تھا۔ اندر موجود (چھ) حضرات کے درمیان آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں، میں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا :
لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی ، اللہ کی قسم میں اس منصب کا ان سے زیادہ اہل تھا۔ اور ان سے زیادہ حقدار بھی تھا۔ لیکن پھر میں نے ان کی بات کو سن لیا اور اطاعت کرلی اس خوف سے کہ کہیں لوگ (اختلافات کے باعث) کفار نہ بن جائیں اور تلوار سے ایک دوسرے کی گردن اڑانے لگیں پھر لوگوں نے عمر کی بیعت کرلی اور اللہ کی قسم میں ان سے زیادہ اس منصب کا اہل اور حقدار تھا، لیکن پھر بھی میں نے سنا اور اطاعت کی اس خوف سے کہ کہیں لوگ (اختلافات کے باعث) کفر کی طرف نہ لوٹنے لگیں اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگیں۔ پھر اب تم ارادہ کرتے ہو کہ عثمان کی بیعت کرو اب بھی میں سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔ عمر نے مجھے پانچ لوگوں کے ساتھ شامل کیا ہے میں ان کا چھٹا آدمی ہوں ۔ انھوں نے ان پر میری کوئی فضیلت اور صلاحیت زیادہ محسوس نہیں کی۔ اور نہ تمہی پانچ افراد اس کو میرے لیے جانتے ہو، اب ہم سب اس میں برابر ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں چاہوں تو لوگوں سے بات کروں تو پھر کوئی عربی اور نہ عجمی ، نہ ذمی اور نہ کوئی مشرک میری بیان کردہ صفات سے انکار کی گنجائش کرسکتا ہے۔ میں ایسا بھی کرسکتا ہوں اگر چاہوں ، اب اے جماعت ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ! بتاؤ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھائی چارہ کیا ہو میرے سوا ؟ لوگوں نے کہا : اللھم لا، خدا جانتا ہے، نہیں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے جماعت ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں بتاؤ کیا تم میں ایسا کوئی شخص ہے جس کا چچا میرے چچا حمزۃ ، جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسد اللہ اور اسد رسولہ کہا یعنی اللہ اور اس کے رسول کا شیر، جیسا ہو ؟ لوگوں نے کہا : اللھم لا، پھر فرمایا کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کا بھائی میرے بھائی جعفر جیسا ہو، جو ذوالجناحین تھے جو دوپروں کے ساتھ جنت میں مزین ہوں گے اور جنت میں ان کے ساتھ جہاں چاہیں گے اڑتے پھریں گے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : کیا کوئی میری اولاد حسن و حسین جیسی اولاد رکھتا ہے، جو اہل جنت کے لوگوں کے سردار ہوں گے۔ لوگوں نے کہا : نہیں۔ فرمایا : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کی بیوی میری بیوی فاطمہ جیسی ہو ؟ جو بنت رسول اللہ ہے ؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ فرمایا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے مجھ سے زیادہ مشرکوں کو قتل کیا ہو ہر جنگ کے وقت جب بھی وہ رسول اللہ کو پیش آئی ؟ لوگوں نے کہا نہیں ۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو مجھ سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو اس دن جب (آپ نے ہجرت کی اور) میں آپ کے بستر پر لیٹ گیا ، میں نے اپنی جان کے ساتھ آپ کی حفاظت کی گویا اپنا خون ان کے لیے پیش کردیا۔ لوگوں نے کہا : نہیں۔ پوچھا : کیا تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو مال غنیمت کا خمس لیتا ہو میرے اور فاطمہ کے سوا ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ پوچھا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کو کتاب اللہ میں مطہر کیا گیا ہو میرے سوا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین کے دروازوں کو بند کردیا تھا اور میرا دروازہ کھول دیا تھا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو چچا حمزہ اور عباس اٹھے اور انھوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے ہمارے دروازے بند کردیئے ہیں اور علی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے علی کا دروازہ کھولا ہے اور نہ تمہارے دروازے بند کیے ہیں، بلکہ اللہ ہی نے اس کا دروازہ کھولا اور تمہارے دروازے بند کیے ہیں۔ لوگوں نے کہا : نہیں۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے اللہ نے جس کا نور آسمان سے تام کردیا ہو میرے سوا ؟ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وآت ذالقربیٰ حقہ، اور قرابت (رشتے) دار کو اس کا حق دو ، لوگوں نے کہا : نہیں۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا تم میں میرے سوا کوئی ایسا شخص ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بارہ دفعہ پکارا ہو، جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا تھا :
یا ایھا الذین آمنوا ذا ناجیتم الرسول فقد موبین یدی نجواکم صدقۃ۔
اے ایمان والو ! جب تم رسول سے سر گوشی۔ کلام کرو تو اپنی سرگوشی سے صدقہ کردو۔
لوگوں نے کہا : نہیں۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا تم میں ایسا کوئی شخص ہے میرے سوا، جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں کو بند کیا ہو ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا تم میں ایسا کوئی شخص ہے میرے سوا جو آخری موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہو جب آپ کو قبر میں رکھا گیا تھا (کیونکہ قبر میں اتارنے والا میں بھی تھا) ۔ لوگوں نے کہا : نہیں ۔ العقیلی
کلام : یہ روایت ضعیف بلکہ اس سے بھی بڑھ کر غیر اصل ہے۔ امام عقیلی ضعفاء میں فرماتے ہیں مذکورہ روایت کا حضرت علی (رض) سے منقول ہونا۔ کچھ حقیقت نہیں رکھتا، نیز اس میں دو مجہول آدمی راوی ہیں۔ ایک آدمی جس کا زافر نے نام نیں لیا اور حارث بن محمد۔
نیز فرماتے ہیں مجھے آدم بن موسیٰ نے کہا میں نے امام بخاری سے سنا ہے فرماتے ہیں کہ یہ طریق حارث بن محمد عن ابی الطفیل کنت علی الباب یوم الشوریٰ اس پر زافر کے علاوہ کسی نے زافر کی متابعت نہیں کی۔
نیز امام ابن جوزی (رح) نے اس کو موضوع من گھڑت مرویات میں شمار کیا ہے اور فرماتے ہیں زافر مطعون شخص ہے اور وہ مبہم آدمی سے روایت کرتا ہے۔ امام ذھبی میزان میں فرماتے ہیں : یہ روایت منکر اور غیر صحیح ہے۔ امام ابن حجر اللسان میں فرماتے ہیں : شاید اس روایت میں ساری آفت زافر کی طرف سے ہے۔ جبکہ امام ابن حجر اپنی امالیہ میں یہ بھی فرماتے ہیں زافر کذب کے ساتھ مہتم نہیں ہے ہاں جب اس کی روایت پر متابعت ہوجاتی ہے تو وہ حسن شمار ہوتی ہے (تب بھی اس روایت پر کوئی متابع نہیں) بہر صورت روایت مذکورہ ناقابل اعتبار اور غیر مستند ہے۔

14244

14244- عن ابن عمر قال حضرت أبي حين أصيب فأثنوا عليه، فقالوا: جزاك الله خيرا فقال: راغب وراهب فقالوا: استخلف فقال: أتحمل أمركم حيا وميتا، ولوددت أن حظي منها الكفاف لا علي ولا لي فإن أستخلف فقد استخلف من هو خير مني يعني أبا بكر، وإن أترككم فقد ترككم من هو خير مني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال عبد الله: فعرفت أنه حين ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم غير مستخلف. "حم م ق"
14244 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں اپنے والد کے پاس حاضر خدمت تھا جب ان پر حملہ کیا گیا۔ لوگ ان کو دعائیں دے رہے تھے : اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ میرے والد حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں اپنے رب سے خیر کی آس رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں پر اس کا خوف بھی دامن گیر ہے۔ لوگوں نے درخواست کی آپ خلیفہ منتخب کرجائیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں زندگی میں بھی اور موت میں بھی تمہارا بوجھ اٹھاؤں کیا ؟ میری تو حسرت ہے کہ کاش مجھے برابر سرابر میں چھوڑ دیا جائے، نہ مجھ سر اس کا وبال ہو اور خواہ اس کا فائدہ بھی نہ ہو۔ اگر میں خلیفہ بنا کر جاؤں تو مجھ سے بہتر شخص ابوبکر بھی خلیفہ بنا کر گئے تھے اور اگر میں تم کو یونہی چھوڑ جاؤں تو تم کو وہ ذات بھی یونہی چھوڑ گئی تھی جو مجھ سے بدرجہا بہتر ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں : تب میں نے جان لیا کہ جب آپ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کردیا تو اب وہ ان کی اتباع میں ہرگز کسی کو خلیفہ منتخب کرکے نہیں جاسکتے۔ مسند احمد، مسلم، السنن للبیہقی

14245

14245- عن عمرو بن ميمون قال: جئت وإذا عمر واقف على حذيفة وعثمان بن حنيف، وهو يقول: تخافا أن تكونا حملتما الأرض ما لا تطيق؟ فقال عثمان: لو شئت لأضعفت أرضي، وقال حذيفة: لقد حملت الأرض أمرا هي له مطيقة وما فيها كبير فضل فقال: انظرا مالديكما إن تكونا حملتما الأرض ما لا تطيق، ثم قال: والله لئن سلمني الله لأدعن أرامل العراق لا يحتجن بعدي إلى أحد أبدا، فما أتت عليه إلا رابعة حتى أصيب وكان إذا دخل المسجد قام بين الصفوف ثم قال: استووا فإذا استووا تقدم فكبر فلما طعن مكانه فسمعته يقول: قتلني الكلب أو أكلني الكلب، فقال عمرو: فما أدري أيهما قال، فأخذ عمر بيد عبد الرحمن فقدمه، وطار العلجوبيده سكين ذات طرفين ما يمر برجل يمينا ولا شمالا إلا طعنه حتى أصاب معه ثلاثة عشر رجلا فمات منهم تسعة فلما رأى ذلك رجل من المسلمين طرح عليه برنساليأخذه فلما ظن أنه مأخوذ نحر نفسه فصلينا الفجر صلاة خفيفة، فأما نواحي المسجد فلا يدرون ما الأمر إلا أنهم حين فقدوا صوت عمر جعلوا يقولون: سبحان الله مرتين؛ فلما انصرفوا كان أول من دخل عليه ابن عباس، فقال: انظر من قتلني فجال ساعة، ثم جاء فقال: غلام المغيرة الصنعفقال عمر: الحمد لله الذي لم يجعل منيتي بيد رجل يدعي الإسلام قاتله الله لقد أمرت به معروفا. ثم قال لابن عباس: لقد كنت أنت وأبوك تحبان أن تكثر العلوج بالمدينة فقال ابن عباس: إن شئت فعلنا، فقال: بعدما تكلموا بكلامكم وصلوا بصلاتكم ونسكوا نسككم، فقال له الناس: ليس عليك بأس، فدعا بنبيذ فشربه فخرج من جرحه، ثم دعا بلبن فشربه فخرج من جرحه، فظن أنه الموت، فقال لعبد الله بن عمر: انظر ما علي من الدين فحسبه فوجده ستة وثمانين [ألف درهم] ، فقال: إن وفى بها مال آل عمر فأدها عني من أموالهم وإن لم تف أموالهم فسل بني عدي بن كعب فإن لم تف من أموالهم فسل قريشا ولا تعدهمإلى غيرهم فأدها عني، ثم قال: يا عبد الله اذهب إلى عائشة أم المؤمنين فسلم وقل يستأذن عمر بن الخطاب ولا تقل أمير المؤمنين فإني لست اليوم بأمير المؤمنين أن يدفن مع صاحبيه. فأتاها عبد الله بن عمر فوجدها قاعدة تبكي، فسلم عليها ثم قال: يستأذن عمر بن الخطاب أن يدفن مع صاحبيه، قالت: قد كنت والله أريده لنفسي ولأوثرنه اليوم على نفسي فلما جاء قيل هذا عبد الله بن عمر، قال: ما لديك؟ قال: أذنت لك، فقال عمر: ما كان شيء أهم عندي من ذلك، ثم قال: إذا أنا مت فاحملوني على سريري، ثم استأذن فقل: يستأذن عمر بن الخطاب، فإن أذنت لك فأدخلني، وإن لم تأذن فردني إلى مقابر المسلمين، فلما حمل فكأن الناس لم تصبهم مصيبة إلا يومئذ فسلم عبد الله بن عمر، فقال: يستأذن عمر بن الخطاب فأذنت له حيث أكرمه الله مع رسوله ومع أبي بكر، فقالوا له حين حضره الموت: استخلف، فقال: لا أجد أحدا أحق بهذا الأمر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فأيهم استخلف فهو الخليفة بعدي، فسمى عليا وعثمان وطلحة والزبير وعبد الرحمن بن عوف وسعدا فإن أصابت الإمرة سعدا فذلك، وإلا فأيهم استخلف فليستعن به فإني لم أعزله عن عجز ولا خيانة وجعل عبد الله يشاور معهم، وليس له من الأمر شيء. فلما اجتمعوا قال عبد الرحمن بن عوف: اجعلوا أمركم إلى ثلاثة نفر فجعل الزبير أمره إلى علي، وجعل طلحة أمره إلى عثمان، وجعل سعد أمره إلى عبد الرحمن، فأتمر أولئك الثلاثة حين جعل الأمر إليهم فقال عبد الرحمن: أيكم يتبرأ من الأمر ويجعل الأمر إلي ولكم الله علي ألا آلوا عن أفضلكم وأخيركم للمسلمين؟ قالوا: نعم فخلا بعلي فقال: إن لك من القرابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم والقدم فالله عليك لئن استخلفت لتعدلن ولئن استخلف عثمان لتسمعن ولتطيعن، قال: نعم وخلا بعثمان فقال له مثل ذلك فقال عثمان: نعم، ثم قال: لعثمان: أبسط يدك يا عثمان فبسط يده فبايعه علي والناس. "ابن سعد وأبو عبيد في الأموال ش خ ن حب ق ط"
14245 عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا تو آپ حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے سامنے کھڑے تھے اور ان کو فرما رہے تھے :
تخافان ان تکونا حملتما الارض ما لا تطبق ؟ فقال عثمان : لوشئت لا ضعفت ارضی، وقال حذیفۃ : لقد حملت الارض امراھی لہ مطیقۃ وما فیھا کبیر فضل وقال : انظر امالدیکما ان تکونا حملتما الارض مالا تطیق۔
تم اس بات سے ڈر رہے ہو کہ کہیں تم کو دور کے سفر پر روانہ نہ کردیا جائے جس کی تم میں سہار نہ ہو ، عثمان بولے : اگر میں چاہوں تو اپنی زمین سے آگے مزید سفر بھی کرسکتا ہوں۔ حذیفہ بولے : اگر مجھے دور دراز کے سفر پر بھیجا جائے تو میں اس پر جاسکتا ہوں اور اس میں کوئی بڑی فضیلت نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم دیکھ لو کہ اگر تم کو لمبے سفر پر بھیجا جائے تو تمہارے پاس کیا کچھ زادراہ ہے ؟ واللہ اعلم بمرادہ الصحیح۔
پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر اللہ پاک نے مجھے سلامت رکھا تو میں عراق کے فقیروں کو ایسا غنی کردوں گا کہ وہ میرے بعد کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ پھر بھی ان پر چوتھا دن نہ گزرا تھا کہ ان پر حملہ کردیا گیا۔
حضرت عمر (رض) جب مسجد میں داخل ہوتے تو صفوں کے درمیان کھڑے ہوجاتے تھے پھر ارشاد فرماتے : صفیں سیدھی کرلو۔ جب وہ صفیتں سیدھی کرلیتے تو آگے بڑھ کر (مصلی پر جاکر) تکبیر کہہ دیتے۔ چنانچہ حملہ کے موقع پر جب آپ نے تکبیر کہہ دی (نماز کی نیت باندھ لی) تو اسی جگہ آپ پر خنجر کے وار کیے گئے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں : میں نے اس وقت آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا قتلتی الکلب یا فرمایا اکلنی الکلب مجھے کتے نے قتل کردیا یا فرمایا مجھے کتا کھا گیا۔ عمرو فرماتے ہیں یاد نہیں آپ نے ان میں سے کیا فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کردیا۔ جبکہ حملہ آور عجمی کافر بھاگ پڑا، اس کے ہاتھ میں دو دھاری خنجر تھا وہ دائیں بائیں جس آدمی کے پاس سے گزرتا اس پر حملہ کرتا جاتا حتیٰ کہ اس نے تیرا آدمیوں پر خنجر کے وار کیے، جن میں سے نو افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک مسلمان نے پکڑنے کے لیے اس پر چادر ڈال دی جس میں وہ الجھ گیا، جب اس نے دیکھا کہ وہ پکڑا جاچکا ہے تو اس نے خود کو ذبح کرکے خود کشی کرلی، عمرو فرماتے ہیں : پھر ہم نے مختصر فجر کی نماز ادا کی۔ مسجد کے دور کے اطراف و جوانب والوں کو اس واقعہ کا پتہ نہ چل سکا۔ انھوں نے جب حضرت عمر (رض) کی آواز نہ سنی تو دو مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہا۔ جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو سب سے پہلے حضرت ابن عباس (رض) حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : دیکھ کر آؤ مجھے قتل کرنے والا کون تھا ؟ چنانچہ ابن عباس (رض) ایک چکر لگا کر آئے اور عرض کیا وہ مغیرۃ (رض) کا (کافر) کاریگر غلام تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری موت ایسے شخص کے ہاتھ نہیں لکھی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو۔ اللہ اس کو قتل کرے، میں نے تو اس کو بھلی بات کا کہا تھا۔
پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) کو مخاطب ہو کر فرمایا : تو اور تیرا باپ ہی پسند کرتے تھے کہ عجمی لوگ مدینے میں کثرت سے آئیں۔ ابن عباس (رض) نے عرض کیا : اگر آپ چاہیں تو ہم (ان کو نکال سکتے ہیں اور) ایسا کرسکتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اب جبکہ وہ تمہاری بات کے ساتھ بات کرنے لگے ہیں۔ تمہاری نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے ہیں اور تمہارے طریقوں پر چل پڑے ہیں۔
لوگوں نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا : آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں (اللہ شفاء دے گا) حضرت عمر (رض) نے۔ اس کے جواب میں نبیذ (مشروب) منگوایا وہ پیا تو وہ آپ کے پیٹ کے زخم سے نکل گیا۔ پھر آپ (رض) نے دودھ منگوایا وہ پیا تو وہ بھی زخم کے راستے سے جوں کا توں نکل گیا۔ تب آپ کو یقین ہوگیا کہ موت سر پر آگئی ہے۔ آپ (رض) نے اپنے بیٹے عبداللہ کو فرمایا : دیکھو ! مجھ پر کتنا قرض ہے ؟ عبداللہ نے حساب لگایا تو وہ چھیاسی ہزار درہم کے مقروض نکلے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : دیکھ اگر آل عمر کے پاس اتنا مال ہو تو میری طرف سے یہ قرض ادا کردو۔ اگر ان کے اموال میں سے میرا قرض مکمل پورا نہ ہو تو میرے قبیلے عدی بن کعب سے سوال کرلینا پھر بھی قرض کی مکمل ادائیگی نہ ہوجائے تو پھر قریش سے سوال کرلینا اور ان کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرنا اور میرا قرض ادا کردینا۔
پھر فرمایا : اے عبداللہ ! ام المومنین عائشہ (رض) کے پاس جاؤ، ان کو سلام کرکے کہو : عمر بن خطاب ہاں امیر المومنین نہ کہنا کیونکہ آج سے میں امیر المومنین نہیں رہا، آپ سے اجازت مانگتے ہیں کہ ان کو دو ساتھیوں کے ساتھ دفن کردیا جائے۔ چنانچہ عبداللہ ابن عمر (رض) حضرت عائشہ (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور ان کو بیٹھے روتا ہوا پایا۔ عبداللہ نے ان کو سلام کہا اور فرمایا : عمر بن طاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے اس جگہ کو اپنے لیے کر رکھا تھا، لیکن آج میں اپنی ذات کو عمر پر ترجیح نہ دوں گی۔ چنانچہ جب حضرت ابن عمر (رض) اپنے والد کے پاس واپس حاضر ہوئے تو انھوں نے پوچھا : تمہارے پاس کیا خبر ہے ؟ ابن عمر (رض) نے عرض کیا : انھوں نے اجازت دیدی ہے۔ تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے پھر تاکیداً فرمایا : (اب بھی) جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے چار پائی پر اٹھا کرلے جانا پھر (دوبارہ) اجازت مانگنا، کہنا : عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت دیدیں تو مجھے اندر داخل کردینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لوٹا دینا۔ جب حضرت عمر (رض) کا جنازہ اٹھا تو لوگوں کا یہ حال تھا گویا ان کو آج ہی سب سے بڑی مصیبت لاحق ہوئی ہے۔ چنانچہ پھر عبداللہ بن عمر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کے دروازے پر جاکر اجازت مانگی اور عرض کیا عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے ان کو اجازت مرحمت فرمادی۔ یوں اللہ نے عمر (رض) کو اپنے رسول اور ان کے ساتھی ابوبکر کے ساتھ جگہ دے کر ان کا بہت اکرام فرمایا۔
خلیفہ مقرر کرنا چھ افراد کی شوریٰ کا ذمہ ہے
جب حضرت عمر (رض) کی موت کا وقت قریب ہوا تھا تو لوگوں نے ان سے عرض کیا : ہمارے لیے کوئی خلیفہ منتخب فرمادیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں اس منصب کا سب سے زیادہ حقدار اس چھ افراد کی جماعت میں سے ہر ایک کو سمجھتا ہوں کہ جن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاتے وقت راضی تھے۔ پس ان میں سے جس کو خلیفہ بنالیا جائے وہ میرے بعد (مسلمانوں کا) خلیفہ ہوگا۔ پھر آپ (رض) نے علی، عثمان ، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بنعوف اور سعد بن ابی وقاص کے اسماء گرامی لیے۔ اگر امارت سعد کے حصے میں ہے تو ان کے لیے ہوگی کیونکہ میں ان کو ان کی کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے (سپہ سہ لاری سے) معزول نہیں کیا تھا اور اگر کسی اور کو خلیفہ بنایا جائے تو ان میں سے ہر ایک کو خلیفہ بنایا جاسکتا ہے۔ پھر اس کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ جبکہ عبداللہ (میرا بیٹا) مشورہ کی حد تک شریک کار رہے گا۔ جبکہ وہ امارت میں کسی شے کا حقدار نہ ہوگا۔
چنانچہ جب یہ (ساتوں) حضرات جمع ہوئے تو عبدالرحمن (رض) بن عوف نے فرمایا : تم اپنے چھ میں سے تین کو چن لو۔ لہٰذا زبیر نے اپنی جگہ علی کے حق میں رائے دی ، طلحہ نے عثمان کے حق میں اور سعد نے عبدالرحمن بن عوف کے حق میں رائے دیدی۔ یوں اب انتخاب کا مرحلہ صرف تین میں رہ گیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : تم میں سے کون اس (حق) سے دستبردار ہو کر مجھے انتخاب کا کام سپرد کرتا ہے ، اور میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میں تم میں مسلمانوں کے لیے سب سے افضل اور سب سے بہترین شخص کو چننے میں کوئی کوتاہی نہیں برتوں گا ؟ ان سب حضرات نے اثبات میں اقرار کرلیا۔ پھر حضرت عبدالرحمن نے علی (رض) کے ساتھ خلوت میں گفتگو کی اور فرمایا : آپ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرابت اور رشتے داری ہے اور آپ کو (اسلام میں) قدیم ہونے کی فضیلت حاصل ہے اب تم کو اللہ حاضر وناظر جان کر بولو اگر تم کو خلیفہ بنایا گیا تو تم انصاف کرو گے اور اگر عثمان کو خلیفہ بنایا گیا تو تم ان کو سنو گے اور اطاعت کرو گے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : بالکل ، پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو خلوت میں لے جاکر پہلے کی طرح گفتگو کی حضرت عثمان (رض) نے بھی اس کا جواب اثبات میں دیا تو عبدالرحمن (رض) نے فرمایا : اپنا ہاتھ پھیلاؤ اے عثمان ! چنانچہ انھوں نے ہاتھ پھیلایا تو حضرت علی (رض) نے ان کی بیعت کرلی اور دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کرلی۔
ابن سعد ، ابوعبید فی الاموال، ابن ابی شیبہ، البخاری، النسائی، ابن حبان، السنن للبیہقی، ابوداؤد

14246

14246- عن عمرو بن ميمون الأودي أن عمر بن الخطاب لما حضر قال: ادعوا لي عليا وطلحة والزبير وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وسعدا فلم يكلم أحدا منهم إلا عليا وعثمان فقال لعلي؛ يا علي هؤلاء النفر يعرفون لك قرابتك من رسول الله صلى الله عليه وسلم وما أتاك الله من العلم والفقه فاتق الله إن وليت هذا الأمر فلا ترفعن بني فلان على رقاب الناس وقال لعثمان: يا عثمان هؤلاء القوم يعرفون لك صهرك من رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنك وشرفك، فإن أنت وليت هذا الأمر فاتق الله ولا ترفع بني فلان على رقاب الناس ثم قال: ادعوا لي صهيبا فقال: صل بالناس ثلاثا، وليجتمع هؤلاء الرهط فليختلوا في بيت فإن اجتمعوا على رجل فاضربوا رأس من خالفهم. "ابن سعد ش"2
14246 عمرو بن میمون اودی سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کی وفات کا وقت قریب آگیا تو انھوں نے فرمایا : میرے پاس علی، طلحہ، زبیر، عثمان، عبدالرحمن بن عوف اور سعد کو بلاؤ۔ پھر آپ (رض) نے ان میں سے صرف علی اور عثمان سے بات چیت کی۔ حضرت علی (رض) کو فرمایا : اے علی ! یہ لوگ تمہاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رشتے داری کو جانتے ہیں اور اللہ نے جو تم کو علم اور فقہ کی دولت بخشی ہے اس کو بھی جانتے ہیں اگر تم کو خلیفہ بنایا جائے تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور بنی فلاں کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کردینا ۔ جبکہ حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : اے عثمان ! یہ لوگ تمہارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دامادی کے رشتے کو اور تمہاری سن رسیدگی اور شرافت و فضیلت کو بھی خوب جانتے ہیں، پس اگر تجھے اس منصب پر بٹھایا جائے تو اللہ سے ڈرنا اور بنی فلاں کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کرنا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس صہیب کو بلاؤ۔ پھر ان کو فرمایا : تم تین دنوں تک نماز پڑھاتے رہنا۔ جبکہ یہ لوگ (مذکورہ) چھ حضرات ایک گھر میں تنہا ہوجائیں اور پھر جس ایک شخص پر ان کی رائے جمع ہوجائے تو اس کی مخالفت کرنے والے کی گردن اڑا دینا۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ

14247

14247- عن عيسى بن طلحة وعروة بن الزبير قالا: قال عمر: ليصل لكم صهيب ثلاثا فانظروا فإن كان ذلك وإلا فأمر أمة محمد لا يترك فوق ثلاث. "مسدد ش".
14247 عیسیٰ بن طلحہ اور عروۃ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تین دن تک تم کو صہیب نماز پڑھائیں گے۔ انہی دنوں کے اندر تم اپنی خلافت کا معاملہ کسی کو سپرد کردینا تب تو ٹھیک ہے ورنہ تین دن سے زیادہ اس معاملہ کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ مسدد، ابن ابی شیبہ

14248

14248- عن أبي رافع أن عمر كان مستندا إلى ابن عباس وعنده ابن عمر وسعيد بن زيد قال: اعلموا أني لم أقل في الكلالة شيئا ولم أستخلف من بعدي أحدا وأنه من أدرك وفاتي من سبي العرب فهو حر من مال الله، فقال سعيد بن زيد: أما إنك لو أشرت برجل من المسلمين لائتمنك الناس وقد فعل ذلك أبو بكر وائتمنه الناس، فقال عمر: قد رأيت من أصحابي حرصا سيئا وإني جاعل هذا الأمر إلى هؤلاء النفر الستة الذين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، ثم قال عمر: لو أدركني أحد رجلين ثم جعلت هذا الأمر إليه لوثقت به سالم مولى أبي حذيفة وأبو عبيدة بن الجراح. "حم حب ك"
14248 ابورافع سے مروی ہے کہ (مرض الموت میں) حضرت عمر (رض) حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے، جبکہ ان کے پاس ابن عمر (رض) اور سعید (رض) بن زید بھی تھے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جان لو ! کلالہ (ایسا شخص جس کے اولاد ہو اور نہ والدین اور وہ مرجائے) کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور میں نے اپنے بعد خلافت کے لیے کسی کو نہیں چنا۔ اور میری موت کو جو عربی غلام پائیں وہ اللہ کے مال میں سے آزاد ہیں (یعنی بیت المال کے عربی غلام) سعید بن زید نے عرض کیا : اگر آپ مسلمانوں میں سے کسی کے لیے خلافت کا اشارہ کردیں تو اچھا ہو کیونکہ لوگ آپ کو امانت دار سمجھتے ہیں جیسا کہ ابوبکر (رض) نے کیا تھا اور لوگ ان کو بھی امانت دار سمجھتے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں نے اپنے ساتھیوں میں اس منصب کی بری لالچ محسوس کی ہے اب میں اس امر خلافت کو ان چھ لوگوں میں چھوڑ دیتا ہوں، جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی وفات کے وقت خوش تھے ۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر اس وقت دو آدمیوں میں سے کوئی زندہ ہوتا تو میں اس منصب کو اس کے سپرد کردیتا کیونکہ مجھے ان پر پورا بھروسہ تھا : سالم جو ابو حذیفہ کے غلام تھے اور ابوعبیدۃ الجراح (رض) اجمعین۔ مسند احمد ، ابن حبان، مستدرک الحاکم

14249

14249- عن المسور بن مخرمة قال: كان عمر بن الخطاب وهو صحيح يسأل أن يستخلف فيأبى فصعد يوما المنبر، فتكلم بكلمات وقال: إن مت فأمركم إلى هؤلاء النفر الستة الذين فارقوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض: علي بن أبي طالب ونظيره الزبير بن العوام وعبد الرحمن ابن عوف ونظيره عثمان بن عفان وطلحة بن [عبيد] الله ونظيره سعد بن مالك، ألا وإني أوصيكم بتقوى الله في الحكم والعدل في القسم. "ابن سعد"
14249 مسور بن مخرمہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) تندرست تھے، اس وقت ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے بعد کے لیے کسی کو خلیفہ نامزد کرجائیں۔ مگر وہ انکار فرما دیتے ۔ ایک دن منبر پر چڑھے اور چند کلمات ارشاد فرمائے فرمایا : اگر میں مرجاؤں تو تمہارا منصب ان چھ افراد کے درمیان رہے گا جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جدا ہوتے وقت راضی تھے۔ علی ابن ابی طالب جن کی نظیر (ساتھی) زبیر بن العوام ہیں، عبدالرحمن بن عوف جس کے نظیر عثمان بن عفان ہیں اور طلحہ بن عبیداللہ جن کی نظیر سعد بن مالک ہیں۔ سنو ! میں تم کو فیصلہ کے وقت اللہ کے تقویٰ کی اور تقسیم کے وقت عدل و انصاف کی وصیت کرتا ہوں۔ ابن سعد

14250

14250- عن أبي جعفر قال: قال عمر بن الخطاب لأصحاب الشورى: تشاوروا في أمركم؛ فإن كان اثنان واثنان فارجعوا في الشورى وإن كان أربعة وإثنان فخذوا صنف الأكثر. "ابن سعد"
14250 ابوجعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اصحاب شوریٰ ۔ مذکورہ چھ افراد کو فرمایا : تم اپنے معاملے میں مشورہ کرنا، اگر سب دو دو میں بٹ جائیں تو دوبارہ مشاورت کرنا اور اگر دو اور چار میں بٹ جائیں تو زیادہ تعداد والی جماعت کو لینا۔ ابن سعد

14251

14251- عن أسلم عن عمر قال: وإن اجتمع رأي ثلاثة وثلاثة فاتبعوا صنف عبد الرحمن بن عوف واسمعوا وأطيعوا. "ابن سعد"
14251 ابوجعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر تین تین افراد کی رائے متفق ہوجائے تو تم لوگ عبدالرحمن بن عوف والی طرف کی اتباع کرنا، سننا اور اطاعت کرنا ۔ ابن سعد

14252

14252- عن عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع أن عمر حين طعن قال: ليصل لكم صهيب ثلاثا، وتشاوروا في أمركم والأمر إلى هؤلاء الستة فمن [بعل] أمركم فاضربوا عنقه يعني من خالفكم. "ابن سعد"
14252 عبدالرحمن بن سعید بن یربوع سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر (رض) کو نیزہ مارا گیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا : تین روز تک تم کو صہیب نماز پڑھائیں اور تم اپنے معاملے کے بارے میں جب تک مشاورت کرلو۔ اور انتخاب خلافت کا حق ان چھ افراد میں ہوگا پھر جو تمہاری مخالفت کرے اس کی گردن اڑا دینا۔ ابن سعد

14253

14253- عن أنس بن مالك قال: أرسل عمر بن الخطاب إلى أبي طلحة قبل أن يموت بساعة فقال: يا أبا طلحة كن في خمسين من قومك من الأنصار مع هؤلاء النفر أصحاب الشورى؛ فإنهم فيما أحسب سيجتمعون في بيت أحدهم فقم على ذلك الباب بأصحابك فلا تترك أحدا يدخل عليهم ولا تتركهم يمضى اليوم الثالث حتى يؤمروا أحدهم، اللهم أنت خليفتي [عليهم] . "ابن سعد"
14253 حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنی وفات سے ایک گھڑی قبل طلحہ کو بلوایا اور ارشاد فرمایا : اے ابوطلحہ ! اپنی انصار کی جماعت کے پچاس افراد لے کر ان اصحاب شوریٰ کے ساتھ چلے جانا اور وہ میرے خیال میں کسی گھر میں جمع ہو کر مشاورت کریں گے تم اپنے اصحاب کے ساتھ اس گھر پر پہرہ دینا اور کسی کو ان کے پاس داخل نہ ہونے دینا۔ اور ان کو اس حال میں بھی نہ چھوڑنا کہ ان پر تین دن کامل گزر جائیں اور اب تک انھوں نے اپنا امیر نہ چنا ہو۔ اے اللہ ! تو ہی میرا ان پر خلیفہ ہے۔ ابن سعد

14254

14254- عن ابن عمر قال: عمر لأصحاب الشورى لله درهم وولوها الأصيلعكان يحملهم على الحق وإن حمل على عنقه بالسيف، فقلت: تعلم ذلك منه ولا توليه قال: إن أستخلف فقد استخلف من هو خير مني، وإن أترك فقد ترك من هو خير مني. "ك"
14254 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اصحاب شوریٰ کے متعلق فرمایا : اللہ کے لیے ہے ان کی بھلائی اگر وہ سر کے اڑے ہوئے بالوں والے کو اپنا والی بنالیں جو ان کو حق پر ہی مجبور کرے گا خواہ اس کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے۔ ابن عمر (رض) نے عرض کیا : آپ جب اس کو جانتے ہیں تو اس کو والی کیوں منتخب نہیں کردیتے ؟ ارشاد فرمایا : اگر میں خلیفہ بنادوں تو مجھ سے بہتر نے بھی خلیفہ بنایا ہے اور اگر یونہی چھوڑ دوں تو مجھ سے بہتر نے بھی یونہی چھوڑا تھا۔ مستدرک الحاکم
فائدہ : اڑے ہوئے بالوں والے سے حضرت عمر (رض) کی مراد حضرت علی (رض) تھے دیکھے روایت 14258 ۔

14255

14255- عن ابن عباس قال: خدمت عمر خدمة لم يخدمها أحد من أهل بيته، ولطفت به لطفا لم يلطفه أحد من أهله فخلوت به ذات يوم في بيته وكان يجلسني ويكرمني فشهق شهقة ظننت أن نفسه سوف تخرج منها فقلت أمن جزع يا أمير المؤمنين؟ فقال: من جزع، قلت: وماذا؟ فقال: اقترب فاقتربت، فقال لا أجد لهذا الأمر أحدا، فقلت: وأين أنت عن فلان وفلان وفلان وفلان وفلان وفلان، فسمى له الستة أهل الشورى فأجابه في كل واحد منهم يقول، ثم قال: إنه لا يصلح لهذا الأمر إلا قوي في غير عنف، لين في غير ضعف، جواد من غير سرف، ممسك في غير بخل. "ابن سعد".
14255 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کی ایسی خدمت کی کہ ان کے کسی گھر والے نے بھی ایسی خدمت نہ کی ہوگی اور میں نے ان کے ساتھ ایسا آمیز رویہ رکھا کہ ان کے کسی گھر والے نے بھی ایسا پر لطف رویہ ان کے ساتھ نہ رکھا ہوگا۔ ایک دن میں ان کے ساتھ ان کے گھر میں تنہا تھا آپ (رض) بھی مجھے بٹھا لیتے تھے اور میرا اکرم کرتے تھے ۔ اس دن آپ نے ایسی چیخ ماری میں ڈر گیا کہیں آپ کی روح تو قفس عنصری سے پرواز نہیں کرگئی۔ میں نے پوچھا : کوئی تکلیف لاحق ہوئی ہے کیا امیر المومنین ! فرمایا : ہاں کوئی تکلیف ہے۔ میں نے پوچھا : وہ کیا ؟ فرمایا : تم قریب ہوجاؤ۔ میں قریب ہوگیا تب آپ (رض) نے یہ فرمایا کہ میں اس منصب خلافت کے لیے کسی شخص کو موزوں نہیں پاتا۔ میں نے عرض کیا : آپ فلاں، فلاں، فلاں، فلاں، فلاں، فلاں کو کیوں بھول رہے ہیں ؟ ابن عباس (رض) نے چھ اہل شوریٰ کے نام لیے تو حضرت عمر (رض) نے ہر ایک کے جواب میں ارشاد فرماتے رہے : اس منصب پر صرف قوی ہی درست ہے جو بغیر سختی کیے (امور حکومت چلا سکے) اس منصب کے لیے نرم مزاج چاہیے جو بغیر کسی کمزوری کے نرم ہو، اس منصب کے لیے بغیر فضول خرچی کیے سخاوت کرنے والا چاہیے اور اس منصب کے لیے بخل کے علاوہ (مہمات کے لیے مال) روکنے والا چاہیے۔ ابن سعد

14256

14256- عن المطلب بن عبد الله بن حنطب وأبي جعفر قالا: قال عمر لأهل الشورى: إن اختلفتم دخل عليكم معاوية بن أبي سفيان من الشام وبعده عبد الله بن أبي ربيعة من اليمن، فلا يريان لكم فضلا إلا بسابقتكم. "ابن سعد".
14256 مطلب بن عبداللہ بن حنطب اور ابوجعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اہل شوریٰ کو ارشاد فرمایا : اگر تم اختلاف میں پڑے رہے (اور اپنا قضیہ نہیں نمٹایا) تو ملک شام سے معاویہ بن ابی سفیان اور ان کے بعد یمن سے عبداللہ بن ابی ربیعہ یمن سے تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں گے اور وہ دونوں تم پر مزید کوئی فضیلت نہیں دیکھیں گے سوائے اس کہ تم اسلام میں پہل کرنے والے ہو (یعنی پھر خلافت کا بار ان میں سے بھی کوئی اٹھاسکے گا) ۔ ابن سعد

14257

14257- عن المطلب بن عبد الله بن حنطب قال: قال لهم عمر: إن هذا الأمر لا يصلح للطلقاءولا لأبناء الطلقاء، فإن اختلفتم فلا تظنوا عبد الله بن أبي ربيعة عنكم غافلا. "ابن سعد".
14257 مطلب بن عبداللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ان (اہل شوریٰ ) کو ارشاد فرمایا : یہ امر (خلافت) طلقاء (فتح مکہ کے موقع پر معافی دیئے جانے والوں کے لیے) اور نہ ان کے فرزندگان کے لیے درست نہیں ہے۔ اگر تم اختلاف میں پڑے رہے تو عبداللہ بن ابی ربیعہ (اور معاویہ) کو اپنے سے غافل شمار مت کرنا۔ ابن سعد

14258

14258- عن أبي مجلزقال: قال عمر من تستخلفون بعدي؟ فقال رجل من القوم: الزبير بن العوام، فقال: إذا تستخلفونه شحيحا غلقايعني سيء الأخلاق، فقال رجل: نستخلف طلحة بن عبد الله، فقال: كيف تستخلفون رجلا كان أول شيء نحلهرسول الله صلى الله عليه وسلم أرضا نحلها إياه فجعلها في رهن يهودية، فقال رجل من القوم: نستخلف عليا، فقال: إنكم لعمري لا تستخلفونه والذي نفسي بيده لو استخلفتموه لأقامكم على الحق، وإن كرهتم، فقال الوليد بن عقبة: قد علمنا الخليفة من بعدك، فقعد فقال: من؟ قال: عثمان بن عفان، وكان الوليد أخا عثمان لأمه، قال: وكيف يحب عثمان المال وبره لأهل بيته. "ابن راهويه".
14258 ابی مجلد سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : میرے بعد تم کس کو خلیفہ بناؤ گے ؟ حاضرین میں سے ایک نے زبیر بن العوام کا نام لیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تب تم بخیل اور بند (ہاتھ والے) یعنی برے اخلاق والے کو خلیفہ بناؤ گے۔ ایک آدمی نے کہا : ہم طلحہ بن عبداللہ کو خلیفہ بنائیں گے حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم ایسے آدمی کو کیسے خلیفہ بناسکتے ہو جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی چیز عطیہ کی جو ایک زمین تھی وہ انھوں نے ایک یہودیۃ کو بطور رھن رکھوادی۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا : ہم علی (رض) کو خلیفہ بنائیں گے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میری زندگی کی قسم ! تم ان کو خلیفہ بنانے والے نہیں ہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ان کو خلیفہ بنادو تو وہ تم کو حق پر قائم کردے گا خواہ تم کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔ تب ولید بن عقبہ جو عثمان بن عفان کا ماں شریک بھائی تھا نے کہا : ہم جان گئے آپ کے بعد کون خلیفہ بنے گا، یہ کہہ کر وہ بیٹھ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کون ؟ ولید بولا : عثمان بن عفان۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عثمان کیسے محبت کرتا ہے مال سے اور اس کی نیکی اپنے گھر والوں کے لیے ہی ہوگی۔ ابن راھویہ

14259

14259- عن حذيفة قال: قيل لعمر بن الخطاب وهو بالمدينة: يا أمير المؤمنين من الخليفة بعدك؟ قال: عثمان بن عفان. "خيثمة الطرابلسي في فضائل الصحابة".
14259 حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو کہا گیا جبکہ آپ (رض) مدینہ میں تھے : اے امیر المومنین ! آپ کے بعد خلیفہ کون بنے گا ؟ فرمایا : عثمان بن عفان۔
خیثمۃ الطرابلسی فی فضائل الصحابۃ
فائدہ : آپ (رض) کی یہ پیش گوئی تھی جو آپ نے دیدہ دور بین سے فرمائی تھی۔ نہ کہ وصیت اور تاکید۔

14260

14260- عن عبد الرحمن بن عبد القاري أن عمر بن الخطاب ورجلا من الأنصار كانا جالسين، فجئت فجلست إليهما، فقال عمر: إنا لا نحب من يرفع حديثنا، فقلت: لست أجالس أولئك يا أمير المؤمنين، قال عمر: بل تجالس هؤلاء وهؤلاء وترفع حديثنا، ثم قال للأنصاري: من ترى الناس يقولون يكون الخليفة بعدي؟ فعدد الأنصاري رجالا من المهاجرين لم يسم عليا، فقال عمر: ما لهم عن أبي الحسن فوالله إنه لأحراهم إن كان عليهم أن يقيمهم على طريقة [من] الحق. "خ في الأدب"
14260 عبدالرحمن بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) اور انصار کا ایک آدمی دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی جاکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم نہیں چاہتے ایسے شخص کو جو ہماری بات اوروں تک پہنچائے۔ میں نے عرض کیا : امیر المومنین ! میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بلکہ تو ان کے ساتھ اور ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور ہماری باتیں پہنچاتا ہے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے انصاری شخص کو فرمایا : تم لوگوں کو کیا کہتے دیکھتے ہو کہ میرے بعد کون خلیفہ بنے گا ؟ انصاری نے حضرت علی (رض) کے سوا کئی مہاجرین آدمیوں کے نام گنوائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ان کو ابوالحسن (علی (رض)) سے کیا پرخاش ہے، اللہ کی قسم ! وہ ان میں سب سے زیادہ لائق ہے اگر وہ ان پر خلیفہ بنا تو ضرور ان کو حق پر سیدھا کردے گا۔ الادب البخاری

14261

14261- عن ابن عباس قال: قال لي عمر: اعقل عني ثلاثا: الإمارة شورى وفي فداء العرب مكان كل عبد عبد وفي ابن الأمة عبدان وكتم ابن طاوس الثالثة. "عب وأبو عبيد في الأموال".
14261 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھ سے تین باتیں سمجھ لو : امارت۔ خلافت شوریٰ سے قائم ہو، عرب کے غلاموں کے فدیے میں ہر غلام کے بدلے ایک ہی غلام ہے جبکہ (اپنی) باندی کے بیٹے کے بدلے دو غلام ہیں۔ راوی کہتے ہیں ابن طاؤ وس راوی نے تیسری بات چھپالی۔ الجامع لعبد الرزاق، ابوعبید فی الاموال

14262

14262- عن ابن عباس قال: إني لجالس مع عمر بن الخطاب ذات يوم إذ تنفس تنفسا ظننت أن أضلاعه قد تفرجت؛ فقلت يا أمير المؤمنين ما أخرج هذا منك إلا شر، قال: شر والله إني لا أدري إلى من أجعل هذا الأمر بعدي، ثم التفت إلي فقال: لعلك ترى صاحبك لها أهلا، فقلت: إنه لأهل ذلك في سابقته وفضله، قال: إنه لكما قلت، ولكنه امرؤ فيه دعابةقلت فأين أنت عن طلحة؟ قال: ذاك امرؤ لم يزل به بأومنذ أصيبت أصبعه، قلت: فأين أنت عن الزبير؟ قال: وعقةلقس قال: يلاطم على الصاع بالبقيع ولو منع منه صاع من تمر تأبط عليه بسيفه، قلت: فأين أنت عن سعد؟ قال: فارس الفرسان، قلت: فأين أنت عن عبد الرحمن؟ قال: نعم المرء ذكرت على الضعف، قلت: فأين أنت عن عثمان؟ قال: كلف بأقاربه والله لو وليته لحمل بني أبي معيط على رقاب الناس، والله لو فعلت لفعل ولو فعل لسارت العرب حتى تقتله، إن هذا الأمر لا يصلحه إلا الشديد في غير عنف، اللين في غير ضعف، الجواد في غير سرف، الممسك في غير بخل، فكان ابن عباس يقول: ما اجتمعت هذه الخصال إلا في عمر. "أبو عبيد في الغريب خط في رواة مالك".
14262 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک دن میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک آپ نے (ایسا دکھ بھرا) سانس لیا میں سمجھا شاید آپ کی پسلیاں چٹک گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! یہ سانس کسی دکھ نے ہی نکالا ہے، فرمایا : اللہ کی قسم ! بڑا دکھ ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہورہا کہ اپنے بعد یہ منصب خلافت کس کو سونپ کر جاؤں۔ پھر آپ (رض) نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : شاید تو اپنے ساتھی کو اس کا اہل سمجھتا ہے۔ میں نے عرض کیا : وہ تو واقعی اس کا اہل ہے۔ اس کی مسابقت فی الاسلام اور فضیلت کی وجہ سے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : وہ ایسا ہی ہے جیسا تم نے کہا لیکن اس آدمی میں کچھ مزاج (والی طبیعت) ہے۔ میں نے پوچھا : پھر آپ کا طلحہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ارشاد فرمایا : وہ ایسا آدمی ہے جس میں کچھ بڑائی ہے، جب سی اس کی انگلی کو (جنگ میں) نقصان پہنچا ہے۔ میں نے پوچھا : پھر آپ زبیر کو کیوں بھول رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا : ان میں کچھ درشت روئی اور بد خلقی ہے، ایک صاع پر وہ بقیع میں تھپڑ مار دیتے ہیں، اگر ان کو ان کا ایک کھجور صاع دینے سے انکار کردیا جائے تو وہ تلوار اٹھالیتے ہیں۔ میں نے پوچھا : پھر سعد کہاں گئے ؟ فرمایا : وہ تو شہسواروں کے شہسوار ہیں۔ میں نے پوچھا : پھر آپ سے عبدالرحمن کہاں رہ گئے ؟ ارشاد فرمایا : بہترین آدمی ہیں ، لیکن تم نے ان کے بڑھاپے میں ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نے پوچھا : پھر عثمان بن عفان کہاں گئے ؟ ارشاد فرمایا : وہ اپنے رشتہ داروں کے مکلف ہوگئے ہیں اللہ کی قسم اگر میں نے ان کو والی بنادیا تو وہ بنی ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کردیں گے۔ اللہ کی قسم اگر میں نے ان کو والی بنایا تو وہ ضرور ایسا کریں گے اور اگر وہ ایسا کریں تو عرب ضرور ان کو قتل کردیں گے۔ یہ منصب تو صرف ایسے شخص کو زیبا ہے جو شدید ہو لیکن سختی سے کام نہ لے، نرمی سے کام لے مگر کمزور نہ ہو، سخی ہو لیکن اسراف نہ کرے، مال روکنے والا ہو لیکن بخل نہ کرے۔ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے یہ تمام صفات صرف حضرت عمر (رض) میں جمع ہوئی تھیں۔
ابوعبید فی الغریب، الخطیب فی رواۃ مالک

14263

14263- عن أبي العجفاء الشامي من أهل فلسطين، قال: قيل لعمر بن الخطاب: يا أمير المؤمنين لو عهدت قال: لو أدركت عبيدة بن الجراح، ثم وليته، ثم قدمت على ربي فقال لي: من استخلفت على أمة محمد لقلت سمعت عبدك ونبيك صلى الله عليه وسلم يقول: لكل أمة أمين، وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح، ولو أدركت معاذ بن جبل ثم وليته ثم قدمت على ربي فقال لي: من استخلفت على أمة محمد؟ لقلت: سمعت عبدك ونبيك صلى الله عليه وسلم يقول: يأتي معاذ بين العلماء بربوة ولو أدركت خالد بن الوليد ثم وليته ثم قدمت على ربي فسألني من استخلفت على أمة محمد؟ لقلت: سمعت عبدك ونبيك صلى الله عليه وسلم يقول لخالد بن الوليد: سيف من سيوف الله سله الله على المشركين. "أبو نعيم كر" وأبو العجفاء مجهول لا يدري من هو؟.
14263 ابوالجفاء الشامی فلسطینی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو کہا گیا امیر المومنین ! اگر آپ ولی عہد منتخب کرجاتے ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر میں ابوعبیدۃ الجراح کو پالیتا تو ان کو والی بنا دیتا پھر میں اپنے پروردگار کے پاس جاتا اور پروردگار مجھ سے پوچھتا کہ تم امت محمدیہ پر کس کو خلیفہ بنا آئے ہو تو میں عرض کرتا کہ میں نے تیرے بندے اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدۃ بن الجراح ہے۔ اگر میں معاذ بن جبل کو پالیتا تو ان کو والی بنادیتا پھر میں اپنے رب کے پاس جاتا اور رب مجھ سے پوچھتا کہ امت محمدیہ پر کس کو خلیفہ بنا کر آئے ہو ؟ تو میں عرض کردیتا : میں نے تیرے بندے اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے : معاذ علماء کے درمیان سب سے اونچے مقام پر آئیں گے۔ اور اگر میں خالد بن الولید کو پالیتا تو ان کو والی بنادیتا پھر میں اپنے رب کے پاس جاتا اور رب مجھ سے پوچھتا کہ تم امت محمدیہ پر کس کو خلیفہ بنا کر آئے ہو تو میں عرض کرتا کہ میں نے تیرے بندے اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خالد بن الولید کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو اللہ پاک نے مشرکین پر سونت لی ہے۔ ابونعیم ، ابن عساکر
کلام : ابوالجفاء یہ مجہول نامعلوم راوی ہے معلوم نہیں وہ کون ہے اس بناء پر روایت محل کلام ہے۔

14264

14264- عن المسور بن مخرمة أن عمر دعا عبد الرحمن بن عوف فقال: إني أريد أن أعهد إليك فقال: يا أمير المؤمنين نعم إن أشرت علي قبلت، قال: وما تريد؟ قال: أنشدك الله أتشير علي بذلك؟ قال: اللهم لا، قال: والله لا أدخل فيه أبدا قال: أنشدك الله أتشير علي بذلك؟ قال: اللهم لا، قال: والله لا أدخل فيه أبدا، قال: فهبني صمتا حتى أعهد إلى النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض ادع لي عليا وعثمان والزبير وسعدا قال: وانتظروا أخاكم طلحة إن جاء وإلا فاقضوا أمركم. "ابن جرير".
14264 مسور بن مخرمۃ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ میں تم سے ایک معاہدہ کروں۔ عبدالرحمن (رض) نے عرض کیا : ٹھیک ہے ، یا امیر المومنین ! اگر آپ مجھے اشارہ کریں گے تو میں قبول کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ عبدالرحمن نے عرض کیا : میں آپ سے پوچھتا ہوں خدارا ! کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے (کہ کس کو خلیفہ بنایا جارہا ہے ؟ ) حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! میں اس مسئلے میں ہرگز داخل نہیں ہوں گا۔ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے بتائیے ؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : واللہ ! میں اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پھر تم مجھے چپ رہنے کا عہد دو جب تک کہ میں ان لوگوں سے عہد نہ کرلوں جن سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنداوفات راضی ہو کر گئے ہیں۔ تم مجھے علی ، عثمان، زبیر اور سعد کو بلادو، نیز فرمایا اور اپنے بھائی طلحہ کا انتظار کرنا اگر وہ (سفر سے) آجائے تو ان کو شامل کرلینا ورنہ اپنا کام پورا کرلینا۔
ابن جریر

14265

14265- عن أسلم قال: قال عبد الله بن عمر بعد أن طعن عمر: يا أمير المؤمنين ما عليك لو اجتهدت نفسك ثم أمرت عليهم رجلا فقال عمر: أقعدوني، ثم قال: من أمرتم بأفواهكم؟ فقلت: فلانا قال: إن تؤمروه فإنه ذو شيعتكم، ثم أقبل على عبد الله فقال: ثكلتك أمك أرأيت الوليد ينشأ مع الوليد وليدا أو ينشأ معه كهلا أتراه يعرف من خلقه. قال: نعم يا أمير المؤمنين قال: فما أنا قائل لله إذا سألني عمن أمرت عليهم؟ فقلت: فلانا وأنا أعلم منه ما أعلم، فلا والذي نفسي بيده لأردنها إلى الذي رفعها إلي أول مرة لوددت أن عليها من هو خير مني لا ينقصني مما أعطاني الله شيئا. "كر".
14265 اسلم (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) پر حملہ ہونے کے بعد ان کو ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر نے ان کو عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ پر کوئی حرج نہیں ہوگا اگر آپ غور وفکر کرکے لوگوں پر کوئی آدمی امیر مقرر کرجائیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے بٹھادو۔ پھر فرمایا : تم نے اپنے مونہوں کے ساتھ کس کو امیر بنایا ہے ؟ میں نے عرض کیا : فلاں کو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر تم اس کو امیر بناتے ہو تو وہ تمہارے گروہ کا ہے۔ پھر آپ (رض) عبداللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تیری ماں تجھے روئے ! تو کیا دیکھتا ہے بچہ بچے کے ساتھ پرورش پاتا ہے یا بوڑھے کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ یقیناً وہ بچوں کے درمیان ہی پرورش پاتا ہے کیا وہ اپنے پیدا کرنے والے کو جانتا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں امیر المومنین ! فرمایا : پھر جب اللہ مجھ سے سوال کرے گا کہ میں لوگوں پر کس کو امیر بنا کر آیا ہوں تو میں اس کو جس کسی کا نام لوں گا میں اس کے متعلق جانتا ہوں گا جو جانتا ہوں گا۔ پھر میں کسی کو کیسے امیر بناسکتا ہوں جب میں اس کے متعلق پوری طرح مطمئن نہیں، پس ایسے نہیں ہوسکتا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس منصب کو اسی کی طرف واپس لوٹا دوں گا جس نے پہلے مجھے سونپا تھا۔ یعنی میں اللہ کے حوالے اس کو کر جاؤں گا میری تو خواہش ہے کہ اس پر مجھ سے بہتر شخص آئے اور جو اللہ نے مجھے خدمات کرنے کا موقع عنایت کیا ہے ان میں کچھ کمی نہ کرے بلکہ مزید ترقی کرے۔ ابن عساکر

14266

14266- عن ابن عباس قال: خدمت عمر بن الخطاب وكنت له هائبا ومعظما، فدخلت عليه ذات يوم في بيته وقد خلا بنفسه فتنفس تنفسا ظننت أن نفسه خرجت، ثم رفع رأسه إلى السماء فتنفس الصعداء، قال: فتحاملت وتشددت، وقلت والله لأسألنه، فقلت والله ما أخرج هذا منك إلا هم يا أمير المؤمنين؟ قال: هم والله هم شديد؛ هذا الأمر لم أجد له موضعا يعني الخلافة، ثم قال: لعلك تقول: إن صاحبك لها يعني عليا، قال: قلت يا أمير المؤمنين أو ليس هو أهلها في هجرته، وأهلها في صحبته، وأهلها في قرابته؟ قال: هو كما ذكرت لكنه رجل فيه دعابة، قال: فقلت الزبير، قال: وعقة لقس يقاتل على الصاع بالبقيع، قال: قلت طلحة، قال: إن فيه لبأوا وما أرى الله معطيه خيرا وما برح ذلك فيه منذ أصيبت يده، قال: فقلت سعدا، قال: يحضر الناس ويقاتل وليس بصاحب هذا الأمر،قال: قلت عبد الرحمن بن عوف، قال: نعم المرء ذكرت لكنه ضعيف وأخرت عثمان لكثرة صلاته وكان أحب الناس إلى قريش، قال: قلت عثمان، قال: أواه كلف بأقاربه، ثم قال: لو استعملته استعمل بني أمية أجمعين أكتعين ويحمل بني أبي معيط على رقاب الناس، والله لو فعلت لفعل ذلك لسارت إليه العرب حتى تقتله، والله لو فعلت لفعل والله لو فعل لفعلوا، إن هذا الأمر لا يحمله إلا اللين في غير ضعف والقوي في غير عنف، والجواد في غير سرف، والممسك في غير بخل، قال وقال عمر: لا يطيق هذا الأمر إلا رجل لا يصانع ولا يضارع ولا يتبع المطامع ولا يطيق أمر الله إلا رجل لا يتكلم بلسانه لا ينتقض عزمه ويحكم بالحق على حزبه وفي الأصل على وجوبه. "كر".
14266 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت کی۔ میں آپ (رض) سے ہیبت زدہ اور آپ کی تعظیم کرنے والا رہتا تھا۔ ایک دن میں آپ کے گھر میں داخل ہوا۔ آپ تنہا تھے۔ آپ (رض) نے ایسی آہ بھری میں سمجھا شاید آپ کی روح نکل گئی ہے۔ لیکن پھر آپ (رض) نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور غم زدہ کا سا لمبا سانس بھرا ۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں آخر میں نے پوچھنے کی ہمت کی اور عزم کرلیا کہ اللہ کی قسم آج میں آپ (رض) سے پوچھ کر رہوں گا۔ چنانچہ میں نے آپ کو عرض کیا : اللہ کی قسم ! اے امیر المومنین ! یہ دکھ بھرے سانس آپ کو کس غم کی وجہ سے نکل رہے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! واقعی ایک غم ہے اور شدید غم ہے۔ میں امر یعنی امر خلافت کو رکھنے کی کوئی جگہ نہیں پارہا ہوں (کہ کس کیذمے اس منصب کو تفویض کروں) پھر خود ہی ارشاد فرمایا : شاید تو کہے کہ تیرا ساتھی اس کا اہل ہے یعنی علی (رض) (ابن عباس (رض)) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین کیا وہ اس کا اہل نہیں ہے ؟ اس نے ہجرت کی ہے، اس کو نبی کی صحبت حاصل ہے، نبی کی قرابت اور رشتہ داری حاصل ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : وہ ایسا ہی ہے جو تو نے ذکر کیا لیکن اس میں کچھ مزاج کی طبیعت ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : زبیر۔ ارشاد فرمایا : وہ درشت خو سخت گیر آدمی ہیں، ایک صاع کے لیے بھی بقیع میں لڑنے جاسکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : طلحۃ۔ ارشاد فرمایا : اس میں بڑائی ہے، جب سے اس کے ہاتھ کو نقصان پہنچا ہے میں نہیں سمجھتا کہ اللہ اس کو خیر دے گا اور وہ اس میں باقی رہے گا۔ میں نے عرض کیا : پھر سعد ! ارشاد فرمایا : وہ لوگوں کے سامنے آسکتا اور اچھا قتال کرسکتا ہے لیکن وہ اس منصب کا بار اٹھانے کا اہل نہیں۔ میں نے عرض کیا : عبدالرحمن بن عوف۔ ارشاد فرمایا : بہترین آدمی ہیں وہ جن کا تم نے نام لیا ہے لیکن اب وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میں نے عثمان کا نام دانستہ پیچھے کردیا تھا کیونکہ وہ اکثر نماز میں مشغول رہتے ہیں اور قریش کے نزدیک محبوب ہیں۔ چنانچہ میں نے آخر میں عرض کیا : عثمان۔ ارشاد فرمایا : وہ نرم دل آدمی ہیں، اپنے رشتے داروں کی بہت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ پھر آپ (رض) نے مزید ارشاد فرمایا : اگر میں نے ان کو۔ یعنی عثمان کو خلیفہ بنادیا تو وہ تمام کے تمام بنی امیہ کو سرکاری مناصب پر فائز کردیں گے اور بنی ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کردیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر میں نے ایسا کیا تو وہ بھی ضرور ایسا کریں گے۔ کہ اپنے اعزہ و اقارب کو حکومت کے مناصب تفویض کریں گے اور پھر عرب بھی ضرور ایسا کریں گے۔ کہ ان کو قتل کردیں گے یہ منصب تو صرف وہی اٹھاسکتا ہے جو کمزوری کے بغیر نرم مزاج ہو، طاقت ور کے باوجود سختی نہ کرے، فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے سخاوت اپنائے، بخل نہ کرے لیکن مال کو روکنے کی صلاحیت رکھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے یہ بھی ارشاد فرمایا : اس امر (خلافت) کی طاقت نہیں رکھتا مگر ایسا شخص جو نرمی ومدارات نہ کرے ، کسی کو نقصان نہ پہنچائے، لالچوں کے پیچھے نہ پڑے اور اللہ کے اس امر ۔ خلافت کی وہی شخص طاقت رکھتا ہے جو اپنی زبان کے ساتھ کلام نہ کرے، اس کا عزم نہ ٹوٹے اور حق کی حمایت میں اپنی جماعت کے خلاف بھی فیصلہ کرے۔ ابن عساکر

14267

14267- عن عمرو بن الحارث الفهمي عن عبد الملك بن مروان عن أبي بحرية الكندي عن عمر أنه خرج على مجلس فيه عثمان بن عفان وعلي بن أبي طالب والزبير بن العوام وطلحة بن عبيد الله وسعد بن أبي وقاص، فقال: كلكم يحدث نفسه بالإمارة بعدي، فسكتوا، فقال: كلكم يحدث نفسه بالإمارة بعدي، فقال الزبير: نعم كلنا يحدث نفسه بالإمارة بعدك ويراه لها أهلا، قال: أفلا أحدثكم عنكم؟ فسكتوا، ثم قال: ألا أحدثكم عنكم؟ فسكتوا، قال الزبير: فحدثنا ولو سكتنا لحدثتنا، فقال: أما أنت يا زبير فإنك كافر الغضب مؤمن الرضا يوما تكون شيطانا ويوما تكون إنسانا أفرأيت يوم تكون شيطانا من يكون الخليفة يومئذ؟ وأما أنت يا طلحة فلقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه عليك لعاتب؛ وأما أنت يا عبد الرحمن، فإنك لما جاءك من خير لأهل، وأما أنت يا علي فإنك صاحب رأي وفيك دعابة وإن منكم لرجلا لو قسم إيمانه بين جند من الأجناد لوسعهم يريد عثمان بن عفان، وأما أنت يا سعد فإنك صاحب مال. "كر" وقال: عمرو بن الحارث مجهول العدالة والمحفوظ عن عمر شهادته لهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي وهو عنهم راض.
14267 عمرو بن الحارث الفہمی ، عبدالملک بن مروان سے اور وہ ابوبحریۃ الکندی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحۃ بن عبیداللہ اور سعد بن ابی وقاص (رض) موجود تھے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے ہر ایک اپنے دل میں میرے بعد حکومت کی آس باندھے بیٹھا ہے۔ حاضرین خاموش رہے۔ حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا : تم میں سے ہر ایک میرے بعد حکومت کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ زبیر (رض) نے فرمایا : ہاں، ہم میں سے ہر ایک تمہارے بعد حکومت کی آس لگائے بیٹھا ہے اور وہ اس کا اہل بھی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا میں تم کو تمہارا حال نہ بتاؤ ؟ حاضرین چب رہے۔ حضرت عمر (رض) نے پھر فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو تمہارا حال نہ بتاؤں ؟ حضرت زبیر (رض) نے فرمایا : بیان کر ہی دیں کیونکہ اگر ہم چپ رہیں گے پھر بھی آپ بیان کرنے سے رکیں گے نہیں ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے زبیر بہرحال تیرا تو یہ حال ہے تو غصہ میں کافر بن جاتا ہے، خوشی میں مومن ہوتا ہے۔ ایک دن تو شیطان ہوتا ہے اور ایک دن انسان۔ تیرا کیا خیال ہے جس دن تو شیطان ہوتا ہے اس دن خلیفہ کون بنے گا ؟ اور اے طلحہ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا تو وہ تجھ پر سرزنش کرتے ہوئے گئے۔ اور اے عبدالرحمن ! تیرے پاس جو خیر (خلافت) آئے تو اس کا اہل ہے۔ اے علی ! تو صاحب الرائے آدمی ہے لیکن تیری ذات میں مزاح کی طبیعت ہے۔ اور تم میں ایک ایسا شخص ہے جس کا ایمان اگر لشکروں میں سے کسی بھی لشکر میں تقسیم کردیا جائے تو وہ ان سب کو کافی ہوجائے گا یعنی عثمان بن عفان۔ اور اے سعد ! تو صاحب مال ہے۔ ابن عساکر
کلام : مولف (رح) فرماتے ہیں عمرو بن الحارث مجہول ب عدالت شخص ہے (معلوم نہیں کہ اس کی روایت قابل سند ہے یا نہیں جبکہ ثانی الذکر امر ہی ترجیح کا متقاضی ہے) کیونکہ حضرت عمر (رض) کی نسبت یہ بات مستند اور محفوظ ہے کہ ان کے زعم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتقال کے وقت مذکورہ چھ افراد سے بالکل راضی اور خوش تھے۔ جبکہ روایت مذکورہ میں اس امر کی مخالفت ہے۔

14268

14268- عن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر أن عمر جعل عبد الله ابن عمر في الشورى، فأتاه آت فقال: يا أمير المؤمنين تستخلف عبد الله بن عمر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن المهاجرين الأولين وابن أمير المؤمنين فقال عمر: قد فعلت والذي نفسي بيده لنمحين عنها حسبنا آل عمر لا لنا ولا علينا. "ابن النجار".
14268 محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے (اپنے بیٹے) عبداللہ بن عمر (رض) کو اہل شوریٰ میں شامل کیا تھا۔ ایک آدمی نے آکر حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ عبداللہ بن عمر کو خلیفہ بنادیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابی ، مہاجرین اولین میں شامل اور امیر المومنین کے بیٹے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں ایسا کردیتا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ہم اس منصب پر چھا سکتے تھے لیکن ہم آل عمر کے لیے یہی کافی ہے کہ ہمیں اس کا فائدہ ملے اور نہ اس کا وبال ہماری گردنوں پر پڑے۔ ابن النجار

14269

14269- عن شيخ قال: حصر عثمان وعلي بخيبر فلما قدم أرسل إليه فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أما بعد فإن لي عليك حقوقا حق الإسلام وحق الإخاء وقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين آخى بين الصحابة آخى بيني وبينك وحق القرابة والصهر وما جعلت في عنقك من العهد والميثاق.؟؟ "البغوي في مسند عثمان كر".
14269 شیخ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) پیچھے رہ گئے اور حضرت علی (رض) خیبر میں تھے۔ جب وہ واپس تشریف لائے تو حضرت عثمان (رض) نے ان کو پیغام بھیج کر بلوایا اور اللہ کی حمدوثناء کی پھر فرمایا : امابعد ! میرے تم پر حقوق ہیں۔ اسلام کا حق ، بھائی چارے کا حق کیونکہ تجھے معلوم ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے درمیان مواخات قائم کی تھی تو میرے اور تمہارے درمیان مواخات قائم کی تھی نیز میرا تم پر قرابت کا حق ہے ہم زلف ہونے کا حق ہے اور جو تم نے اپنی گردن میں عہد ومیثاق ڈالا ہے۔ یعنی میری خلافت پر بیعت کی ہے اس کا حق ہے۔
البغوی فی مسند عثمان، ابن عساکر

14270

14270- حدثنا ابن أبي إدريس عن شعبة عن أبي إسحاق عن حارثة عن مطرف قال: حججت في إمارة عمر فلم يكونوا يشكون أن الخلافة من بعده لعثمان. " ... ".
14270: ابن ابی ادریس، شعبہ، ابو اسحاق عن حارثہ کی سند سے مطرف سے روایت منقول ہے، مطرف کہتے ہیں : میں نے حضرت عمر (رض) کی امارت میں حج کیا لوگوں کو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حضرت عمر (رض) کے بعد خلافت پر حضرت عثمان (رض) بیٹھیں گے۔

14271

14271- عن ابن عباس أن عمر بن الخطاب قال لعبد الرحمن بن عوف: أنت عندنا العدل الرضي فماذا سمعت؟. "كر".
14271 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کو فرمایا : تو ہمارے نزدیک عدل پسند اور راضی بالقضاء ہے تو لوگوں سے کیا سنتا ہے ؟ ابن عساکر

14272

14272- عن محمد بن جبير عن أبيه أن عمر قال: إن ضرب عبد الرحمن بن عوف إحدى يديه على الأخرى فبايعوه. "كر".
14272 محمد بن جبیر اپنے والد سے وہ حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا اگر عبدالرحمن بن عوف اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار لیں (یعنی اپنی بیعت کرلیں) تو تم لوگ فوراً ان کی بیعت کرلینا۔ ابن عساکر

14273

14273- عن أسلم أن عمر بن الخطاب قال: بايعوا لمن بايع له عبد الرحمن بن عوف فمن أبى فاضربوا عنقه. "كر".
14273 حضرت اسلم سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : عبدالرحمن بن عوف جس کی بیعت کرلیں تم سب ان کی بیعت کرلینا اور جو انکار کرے اس کی گردن اڑا دینا۔
ابن عساکر

14274

14274- عن ابن مسعود قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده أبو بكر وعمر وعثمان قد خلص بهم فسلمت فلم يرد علي فمثلت قائما لألتمس فراغه وخلوته خشية أن أكون أحدثت فناجى أبا بكر طويلا ثم خرج، ثم عمر ثم خرج، ثم عثمان فخرج، فأقبلت أستغفر الله واعتذر فقلت: سلمت عليك فلم ترد علي، فقال: شغلني هؤلاء عنك، فقلت: بماذا؟ قال: أعلمت أبا بكر أنه من بعدي، وقلت: انظر كيف تكون، فقال: لا قوة إلا بالله أدع الله لي ففعلت والله فاعل به ذلك، ثم قلت لعمر مثل ذلك، فقال: لا قوة إلا بالله حسبي الله والله حسبه، ثم قلت لعثمان مثل ذلك وأنت مقتول، فقال: لا قوة إلا بالله ادع الله لي بالشهادة، فقلت له: إن صبرت ولم تجزع فقال: أصبر وأوجب الله له الجنة وهو مقتول، فلما جاءت إمارته ما ألونا عن أعلاها ذي فرق"سيف كر".
14274 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) تھے۔ آپ ان کے ساتھ یکسو ہو کر مصروف گفتگو تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے مجھے جواب نہیں دیا۔ میں کھڑا ہو کر انتظار کرتا رہا کہ ان سے فارغ ہوں اور تنہا ہوں۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں ان کی گفتگو میں خلل انداز نہ ہوجاؤں۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ طویل سرگوشی فرمائی، پھر وہ نکل کر چلے گئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ سرگوشی فرمائی اور وہ بھی نکل کر چلے گئے۔ پھر عثمان (رض) کے ساتھ ساتھ سرگوشی کی اور وہ بھی نکل کر چلے گئے۔ پھر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہوا استغفار کرتا ہوا اور آپ سے معذرت کرتا ہوا۔ میں نے عرض کیا : میں نے آپ کو سلام کیا تھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سے مجھے ان لوگوں نے مشغول کررکھا تھا۔ میں نے عرض کیا : کس چیز میں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے ابوبکر کو بتایا تھا کہ وہ میرے بعد (امیر) ہوں گے اور میں نے ان کو نصیحت کی تھی دیکھ لینا کہ کیسے اس کو نبہاؤ گے، انھوں نے کہا : کہ اللہ ہی قوت دے گا، میرے لیے اللہ سے دعا کردیں۔ وہ میں نے کردی۔ اور اللہ ہی ان کی مدد کرے گا۔ پھر میں نے عمرکو یہی بات کی (کہ ان کے بعد وہ امیر ہوں گے) انھوں نے کہا : اللہ کی قوت کے بغیر کچھ ممکن نہیں، مجھے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ ہی اس کو کافی ہے۔ پھر میں نے عثمان کو اسی طرح کہا (کہ عمر کے بعد تم امیر ہوگے) اور تم قتل بھی کیے جاؤ گے انھوں نے جواب دیا : اللہ ہی کے ساتھ قوت ہے، آپ میرے لیے شہادت کی دعا کردیں۔ میں نے ان کو کہا : اگر تم صبر کرو گے اور پریشانی کا اظہار نہیں کرو گے تب، انھوں نے کہا : میں صبر کروں گا اور اللہ نے ان کے لیے جنت واجب کردی ہے اور وہ شہید ہوں گے حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ جب عثمان کی خلافت آئی تو ہم نے ان کو خلافت کی بلندی تک لے جانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ سیف، ابن عساکر

14275

14275- عن حكيم بن جبير قال: سمعت ابن مسعود يقول حين بويع عثمان ما ألونا عن أعلاها ذي فرق. "ش".
14275 حکیم بن جبیر سے مروی ہے میں نے حضرت ابن مسعود (رض) کو بیعت عثمان کے موقع پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ہم نے خلافت کے اہل بلند رتبہ شخص کو اس کے منصب پر فائز کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ ابن ابی شیبہ

14276

14276- عن ابن مسعود أنه قال: لما استخلف عثمان أمرنا خير من بقي ولم نأل. "ابن جرير".
14276 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ جب عثمان (رض) کو خلیفہ چنا گیا تو ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ہم نے باقی رہ جانے والوں میں سب سے بہترین انسان کو خلیفہ بنادیا ہے اور ہم نے (حق میں) کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ابن جریر

14277

14277- "مسند عثمان" عن أبي إسحاق الكوفي قال: كتب عثمان إلى أهل الكوفة في شيء عاتبوه فيه: إني لست بميزان لا أعول"عبد بن حميد وابن جرير وابن المنذر".
14277 (مسند عثمان (رض)) ابواسحاق الکوفی سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے اہل کوفہ کو ایک چیز کے بارے میں رکھا جس میں انھوں نے آپ کو برا بھلاکہا تھا۔
میں میزان (ترازو) نہیں ہوں میں جھکوں گا نہیں۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر

14278

14278- عن ابن عمر قال: دخل على عمر بن الخطاب حين نزل به الموت عثمان بن عفان وعلي بن أبي طالب وعبد الرحمن بن عوف والزبير ابن العوام وسعد بن أبي وقاص وكان طلحة بن عبيد الله غائبا بأرض السواد، فنظر إليهم ساعة ثم قال: إني نظرت لكم في أمر الناس فلم أجد عند الناس شقاقا إلا أن يكون فيكم، فإن كان شقاق فهو منكم، وأن الأمر إلى ستة: إلى عثمان بن عفان وعلي بن أبي طالب وعبد الرحمن بن عوف والزبير بن العوام وطلحة وسعد، ثم أن قومكم إنما يؤمرون أحدكم أيتها الثلاثة فإن كنت على شيء من أمر الناس يا عثمان فلا تحملن بني أبي معيط على رقاب الناس، وإن كنت على شيء من أمر الناس يا عبد الرحمن فلا تحملن أقاربك على رقاب الناس، وإن كنت على شيء يا علي فلا تحملن بني هاشم على رقاب الناس، ثم قال: قوموا وتشاوروا وأمروا أحدكم، فقاموا يتشاورون، قال عبد الله: فدعاني عثمان مرة أو مرتين ليدخلني في الأمر ولم يسمني عمر ولا والله ما أحب أني كنت معهم علما منه بأنه سيكون في أمرهم، ما قال أبي والله لقل ما رأيته يحرك شفتيه بشيء قط إلا كان حقا، فلما أكثر عثمان دعائي قلت: ألا تعقلون أتؤمرون وأمير المؤمنين حي فوالله لكأنما أيقظت عمر من مرقد فقال عمر: أمهلوا فإن حدث بي حدث فليصل بالناس صهيب ثلاث ليال ثم اجمعوا في اليوم الثالث أشراف الناس وأمراء الأجناد فأمروا أحدكم، فمن تأمر من غير مشورة فاضربوا عنقه. "كر"
14278 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن العوام اور سعد بن ابی وقاص (رض) اجمعین حضرت عمر (رض) کے پاس داخل ہوئے جبکہ طلحہ ابن عبیداللہ (رض) السواد (حبشہ) سوڈان گئے ہوئے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے آنے والوں پر ایک گھڑی نظر ڈالی پھر ارشاد فرمایا :
میں نے تمہارے لیے لوگوں کا معاملہ (خلافت) دیکھا، لیکن لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں پایا اس میں کہ خلافت تم میں سے ہی کسی ایک میں ہو ۔ اگر اختلاف ہے تو وہ تمہاری طرف سے ہوگا۔ خلافت چھ میں سے کسی کے پاس جائے گی، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب ، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بنالعوام ، طلحہ اور سعد ۔ لیکن تمہاری قوم تم تین میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنائے گی : اے عثمان اگر تو خلیفہ بنے تو ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر نہ بٹھانا، اے عبدالرحمن ! اگر تو لوگوں پر خلیفہ بنے تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کردینا اور اے علی ! اگر تو لوگوں پر خلیفہ بنے تو بنی ہاشم کو لوگوں پر مسلط نہ کرئیے گا۔ پھر آپ (رض) نے سب کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : اٹھو اور جاکر مشاورت کرو اور کسی کو اپنے لیے خلیفہ بنالو۔ چنانچہ وہ اٹھ کر مشاورت کے لیے چلے گئے۔
عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں مجھے عثمان نے ایک دو دفعہ بلایا، تاکہ مجھے بھی خلافت کے امر میں شامل کرلیں۔ حالانکہ (میرے والد) حضرت عمر (رض) نے میرا نام نہیں لیا تھا اور نہ اللہ کی قسم مجھے بھی بالکل چاہت تھی کہ میں ان کے ساتھ شامل ہوجاؤں، کیونکہ مجھے اپنے والد کے فرمان کی وجہ سے علم ہوگیا تھا خلافت انہی میں سے کسی کے لیے ہوگی۔ میرے باپ نے اللہ کی قسم جب بھی کسی معاملہ کے متعلق ہونٹ ہلائے وہ حقیقت کا روپ دھا کر رہا۔ لیکن جب عثمان نے مجھے بار بار بلایا تو میں نے کہا : تم لوگ عقل کیوں نہیں کرتے تم امیر بنانے چلے ہو جبکہ ابھی امیر المومنین زندہ ہیں۔ اللہ کی قسم ! گویا میں نے یہ کہہ کر عمر (رض) کو قبر سے اٹھا دیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان حضرات کو فرمایا : تم لوگ ذرا ٹھہر جاؤ، جب میرے ساتھ (موت کا) حادثہ ہوجائے تب تین دنوں تک صہیب لوگوں کو نماز پڑھائے گا پھر تم تیسرے دن تک لوگوں کے معززین اور لشکروں کے امراء کو اکٹھا کرلینا اور سب کے روبرو اپنے میں سے کسی کو امیر بنالینا۔ جو بغیر مشورہ کے خود امین بن جائے اس کی گردن اڑا دینا۔ ابن عساکر

14279

14279- عن زائدة مولى عثمان بن عفان قال: أرسل عثمان بن عفان إلى علي بن أبي طالب فأتاه فتناجيا ساعة بينهما، فقام علي كالمغضب فأخذ عثمان بأسفل ثوبه يجلسه فأبى علي فضرب بيده فمضى فقال الناس: سبحان الله لقد استخف بحق أمير المؤمنين، فقال عثمان: دعوه فما يجد حلاوتها هو ولا أحد من ولده، قال زائدة: فأتيت سعد بن أبي وقاص فذكرت له ذلك كالمتعجب مما قال، فقال سعد: وما يعجبك من ذلك أنا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يجد حلاوتها هو ولا أحد من ولده. "عق" وقال حديث منكر لم يتابع عليه زائدة وهو مدني مجهول وكذا قال أبو حاتم إنه منكر والذهبي في الميزان والمغنى.
14279 حضرت عثمان (رض) کے غلام زائدہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے حضرت علی ابن ابی طالب (رض) کو پیغام بھیج کر بلوایا۔ حضرت علی (رض) تشریف لے آئے پھر دونوں کے درمیان تھوڑی دیر تک سرگوشیوں میں بات چیت ہوتی رہی۔ اچانک حضرت علی (رض) غضب آلودہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت عثمان (رض) نے حضرت علی (رض) کے دامن کا کونا تھام کر آپ کو بٹھانے کی کوشش کی لیکن حضرت علی (رض) نے انکار کردیا اور ان کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دامن چھڑایا اور چلے گئے۔
لوگوں نے کہا : سبحان اللہ ! علی نے امیر المومنین کے حق کی ناقدری کی۔ حضرت عثمان (رض) نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا : ان کو چھوڑ دو ، یہ خلافت کی مٹھاس نہیں پاسکتے اور نہ ان کی اولاد میں سے کوئی۔ زائدہ کہتے ہیں : میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے پاس جاکر یہ واقعہ سنایا اور حضرت عثمان (رض) کی پیش گوئی کو تو بڑے تعجب خیز انداز میں آکے گوش گزار کیا۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا : تمہیں اس میں اتنا تعجب کیوں ہورہا ہے، میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا :
وہ (علی (رض)) اس (خلافت) کی حلاوت پاسکیں گے اور نہ ان کی اولاد میں سے کوئی ایک۔
الضعفاء لعقیلی
کلام : امام عقیلی (رح) فرماتے ہیں : یہ حدیث منکر (جھوٹی) ہے۔ زائدہ کے علاوہ کسی اور نے ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی۔ اور زائدہ مدنی ہے اور مجہول شخص۔ ابوحاتم کہتے ہیں : یہ منکر ہے، ذھبی نے میزان میں ایسا ہی کہا ہے۔

14280

14280- عن علي قال: والله ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا إلا شيئا عهده إلى الناس، ولكن الناس وقفوا على عثمان فقتلوه وكان غيري فيه أسوء حالا وفعلا مني، ثم رأيت أني أحقهم بهذا الأمر فوثبت عليه فالله أعلم أصبنا أم أخطأنا. "حم".
14280 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ساتھ کوئی خاص عہد نہیں کیا سوائے ان عام عہدوں کے جو اور لوگوں کے ساتھ بھی کیے ہیں۔ لیکن لوگ جب عثمان کو قتل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوگئے اور ان کو قتل کر ڈالا۔ پھر جب کہ میرے سوا (عثمان وغیرہ) اس خلاف میں میری نسبت برے حالات اور مسائل کا شکار ہوئے ہیں تو میں نے دیکھا کہ میں اس منصب کا اور لوگوں سے زیادہ حقدار ہوں۔ چنانچہ میں اس کے لیے ہمت کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اللہ ہی زیادہ جانتا ہے ہم نے درست قدم اٹھایا یا غلط۔ مسند احمد

14281

14281- عن الحارث بن سويد قال: قيل لعلي إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خصكم دون الناس عامة؟ قال: ما خصنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء لم يخص به الناس إلا ما في قراب سيفي هذا فأخرج صحيفة فيها شيء من أسنان الأبل؟؟، وفيها أن المدينة حرم ما بين ثورإلى عير فمن أحدث فيها حدثا أو آوى محدثا فإنه عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا، وذمة المسلمين واحدة فمن أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا. "حم ن وابن جرير حل"
14281 حارث بن سوید سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) سے کہا گیا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے ساتھ کوئی خاص وصیت یا معاہدہ کیا ہے جو عام لوگوں کے ساتھ نہ کیا ہو ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ کوئی خاص عہد نہیں کیا جو اور لوگوں کے ساتھ نہ کیا ہو، سوائے اس صحیفے کے جو میری اس تلوار کی زکوۃ کے متعلق احکام تھے، نیز یہ کہ مدینہ ثور سے عیر تک حرم ہے۔ جس نے اس میں کوئی حدث کیا (حرم کے تقدس کو پامال کیا) یا کسی محدث کو ٹھکانا دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے، ملائکہ کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ پاک اس سے کوئی نفل قبول کرے گا اور نہ فرض ۔ نیز مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا اس پر اللہ کی، ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ پاک قیامت کے روز اس کا کوئی نفل قبول کریں گے اور نہ فرض۔
مسند احمد، النسائی، ابن جریر، حلیۃ الاولیاء

14282

14282- عن محمد بن الحنيفة قال: لما قتل عثمان استخفى علي في دار لأبي عمرو بن حصين الأنصاري فاجتمع الناس فدخلوا عليه الدار فتداكواعلى يده ليبايعوه تداكك الإبل البهم على حياضها وقالوا: نبايعك، قال: لا حاجة لي في ذلك، عليكم بطلحة والزبير قالوا: فانطلق معنا فخرج علي وأنا معه في جماعة من الناس حتى أتينا طلحة بن عبيد الله فقال له: إن الناس قد اجتمعوا ليبايعوني ولا حاجة لي في بيعتهم، فابسط يدك أبايعك على كتاب الله وسنة رسوله، فقال له طلحة: أنت أولى بذلك مني وأحق لسابقتك وقرابتك، وقد اجتمع لك من هؤلاء الناس من تفرق عني، فقال له علي: أخاف أن تنكث بيعتي وتغدر بي، قال: لا تخافن ذلك فوالله لا ترى من قبلي أبدا شيئا تكرهه، قال: الله عليك بذلك كفيل؟ قال: الله علي بذلك كفيل، ثم أتى الزبير بن العوام ونحن معه فقال له مثل ما قال لطلحة ورد عليه مثل الذي رد عليه طلحة، وكان طلحة قد أخذ لقاحالعثمان ومفاتيح بيت المال وكان الناس اجتمعوا عليه ليبايعوه، ولم يفعلوا فضربالركبان بخبره إلى عائشة وهي بسرففقالت: كأني أنظر إلى أصبعه تبايع بخبوغدر، قال ابن الحنفية: لما اجتمع الناس على علي قالوا: إن هذا الرجل قد قتل ولا بد للناس من إمام ولا نجد لهذا الأمر أحق منك ولا أقدم سابقة ولا أقرب برسول الله صلى الله عليه وسلم برحم منك، قال: لا تفعلوا فإني وزيرا لكم خير لكم مني أميرا، قالوا: والله ما نحن بفاعلين أبدا حتى نبايعك وتداكوا على يده، فلما رأى ذلك قال: إن بيعتي لا تكون في خلوة إلا في المسجد ظاهرا وأمر مناديا فنادى المسجد المسجد فخرج وخرج الناس معه فصعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: حق وباطل ولكل أهل، ولئن كثر الباطل لقد نما بما فعل ولئن قل الحق فلربما ولقلما ما أدبر شيء فأقبل ولئن رد إليكم أمركم إنكم لسعداء وإني أخشى أن تكونوا في فترة وما علي إلا الجهد سبق الرجلان وقام الثالث ثلاثة واثنان ليس معهما سادس ملك مقرب، ومن أخذ الله ميثاقه وصديق نجا، وساع مجتهد وطالب يرجو اثرة السادس، هلك من ادعى، وخاب من افترى اليمين والشمال مضلة، والوسطى الجادة منهج عليه بما في الكتاب وآثار النبوة، فإن الله أدب هذه الأمة بالسوط والسيف ليس لأحد فيها عندنا هوادة فاستتروا ببيوتكم وأصلحوا ذات بينكم، وتعاطوا الحق فيما بينكم فمن أبرز صفحته معاندا للحق هلك والتوبة من ورائكم وأقول قولي هذا وأستغفر الله لي ولكم، فهي أول خطبة خطبها بعد ما استخلف. "اللالكائي".
14282 محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عثمان (رض) قتل ہوگئے تو حضرت علی (رض) نے ابوعمر وبن حصین الانصاری کے گھر میں روپوشی اختیار کرلی۔ لوگ جمع ہوگئے اور حضرت علی (رض) کے پاس داخل ہوگئے اور حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے جس طرح پیاسے اونٹ حوض پر امنڈ پڑتے ہیں اور بولنے لگے : ہم آپ کی بیعت کریں گے۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔ تم طلحہ اور زبیر کو اپنا امیر بنالو۔ لوگوں نے کہا : آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ چنانچہ حضرت علی (رض) لوگوں کو جماعت کے ساتھ نکلے۔ محمد بن الحنفیہ فرزند ابن علی (رض) فرماتے ہیں : میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ حتیٰ کہ ہم طلحہ بن عبیداللہ کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت علی (رض) نے ان کو کہا : یہ لوگ میری بیعت کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جبکہ مجھے ان کی بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ اپنا ہاتھ کشادہ کیجئے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر۔ حضرت طلحہ (رض) نے علی (رض) کو کہا : آپ مجھ سے زیادہ اس کے حقدار ہیں، نیز آپ سابق (فی الاسلام) اور حضور کی قرابت داری رکھتے ہیں۔ جبکہ یہ ساتھ آنے والے لوگ بھی آپ کی بیعت کے لیے جمع ہوئے ہیں جو مجھ سے بٹ گئے ہیں۔ حضرت علی (رض) نے ان کو کہا : مجھے خوف ہے کہ کہیں تم میری بیعت نہ توڑ دو اور مجھ سے دھوکا نہ کرو۔ حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا : آپ مجھ سے ہرگز خوف نہ کریں۔ اللہ کی قسم ! آپ میری طرف سے کبھی کسی ناگوار بات کو محسوس نہ کریں گے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ تمہاری اس بات پر کفیل (نگران) ہے۔ حضرت طلحہ (رض) نے فرمایا : ہاں اللہ مجھ پر اس بات کا کفیل ہے۔ پھر حضرت علی (رض) حضرت زبیر بن العوام (رض) کے پاس تشریف لائے۔ حضرت علی (رض) نے ان کو بھی وہی بات کی جو طلحہ کو کی تھی۔ اور انھوں نے بھی وہی جواب دیا جو طلحہ نے دیا تھا۔ حضرت طلحہ (رض) نے عثمان (رض) کی گابھن اونٹنیاں اور بیت المال کی چابیاں لے رکھی تھیں اور لوگ حضرت علی (رض) کے پاس جمع ہوئے تھے ابھی بیعت نہ کی تھی کہ چند سوار یہ خبر لے کر حضرت عائشہ (رض) کے پاس سرف مقام پر گئے ۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : میں دیکھ رہی ہوں کہ طلحہ کی انگلی دھوکا کے ارادے سے بیعت کر رہی ہے۔ ابن الحنفیہ کہتے ہیں : جب لوگ حضرت علی (رض) کے پاس جمع ہوئے تو انھوں نے حضرت علی (رض) سے عرض کیا : یہ آدمی ۔ عثمان تو قتل ہوگیا ہے، جبکہ لوگوں کے لیے کوئی امام ہونا لازمی ہے۔ اور ہم اس منصب کا آپ سے زیادہ حقدار کسی کو نہیں سمجھتے، نہ آپ سے پہلے کوئی اسلام قبول کرنے والا ہے اور نہ آپ سے زیادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی قریبی رشتے دار ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : تم مجھے امیر نہ بناؤ بلکہ میں تمہارے لیے وزیر بنارہا ہوں۔ یہ امیر بننے سے زیادہ بہتر ہے۔ لوگوں نے اصرار کیا اور بولے کہ : اللہ کی قسم ! ہم ہرگز ایسا نہیں کرسکتے ہم آپ کی بیعت کرکے رہیں گے ، پھر وہ حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ حضرت علی (رض) نے جب یہ حال دیکھا تو ارشاد فرمایا : پھر میری بیعت یوں تنہائی میں نہیں ہوسکتی بلکہ یہ بیعت مسجد میں بالکل سرعام ہوگی۔ چنانچہ پھر منادی کو حکم دیا اس نے مسجد میں نداء لگادی اور پھر حضرت علی (رض) مسجد کی طرف نکلے آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے۔ آپ (رض) منبر پر چڑھے ، اللہ کی حمدوثناء کی پھر ارشاد فرمایا :
ایک حق ہے اور ایک باطل۔ اور ہر ایک کے ماننے والے ہیں۔ اگر باطل زیادہ ہوجائے تو وہ ترقی کرجاتا ہے اپنی کوشش کے ساتھ۔ اگرچہ حق کبھی کم ہوتا ہے لیکن بسا اوقات کوئی چیز جاتی ہوئی واپس مڑ جاتی ہے اگر تمہارا معاملہ تم کو واپس مل گیا ہے تو تم سعادت مند ہو ۔ مگر مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر فترت کا زمانہ آجائے۔ کہ کوئی بھی امیر تم پر امارت نہ کرے مجھ پر تو صرف محنت اور کوشش ہے۔ (تمہاری خیر خواہی کے لئے) ۔
دو آدمی سبقت لے گئے اور تیسرا کھڑا ہوگیا، چھٹا ان کے دو کے ساتھ نہیں ہے۔ مقرب فرشتہ، اور اللہ نے جس سے میثاق لی، صدیق نجات پا گیا، ساع (کوشش کنندہ) مجتہد (محنت کرنے والا) ہے اور طالب چھٹے کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے۔ واللہ اعلم بمرادہ الصحیح
جس نے دعویٰ کیا وہ ہلاک ہوگیا، جس نے بہتان باندھا وہ خائب و خاسر ہوا، دائیں اور بائیں گمراہ ہیں، درمیانی راہ جادہ حق ہے، کتاب وسنت میں اس کی تعلیم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کوڑے اور تلوار کے ساتھ ادب سکھایا۔ اس میں کسی کو نرمی کی گنجائش نہیں، اپنے گھروں میں پردہ داری کے ساتھ رہو، اپنے درمیان صلح رکھو، ایک دوسرے کا حق دو ، جس نے حق سے دشمنی کے لیے تلوار نکالی وہ ہلاک ہوا، توبہ تمہارے پیچھے کھڑی ہے (جلدی کرو) میں اپنی اسی بات پر اکتفاء کرتا ہوں، اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں۔ یہ حضرت علی (رض) کا پہلا خطبہ تھا جو انھوں نے خلیفہ بنائے جانے کے بعد ارشاد فرمایا ۔ اللالکائی

14283

14283- عن الحارث بن عبد الله الجهني قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، ولو أوقن أنه يموت لم أفارقه فأتاني قائل بخبر أن محمدا قد مات، قلت متى؟ قال: اليوم، فلو أن عندي سلاحا لقاتلته فلم ألبث إلا يسيرا حتى أتاني آت من أبي بكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد توفي فبايع الناس خليفته من بعده فبايع من قبلك، فقلت للرجل الذي أخبرني: من أين علمت ذلك؟ قال: إن في الكتاب الأول أنه يموت نبي في هذا اليوم، قلت: وكيف يكون بعده؟ قال: ستدور رحاهم إلى خمس وثلاثين سنة. "أبو نعيم".
14283 حارث بن عبداللہ الجہنی سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا، اگر مجھے یقین ہوتا کہ آپ میرے پیچھے وفات پاجائیں گے تو میں ہرگز آپ سے جدا نہ ہوتا۔ پھر میرے پاس ایک آنے والا خبر لے کر آیا کہ محمد کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے پوچھا : کب ؟ اس نے کہا : آج۔ اگر میرے پاس اسلحہ ہوتا تو میں اس آدمی سے جنگ کر بیٹھتا۔ پھر تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت ابوکر (رض) کی طرف سے ایک قاصد آیا اور بولا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی ہے لوگوں نے ان کے بعد ان کے خلیفہ ابوبکر کی بیعت کرلی ہے، لہٰذا آپ بھی اس کی بیعت کرلیں جو آپ کی طرف (ان کی جانب سے گورنر مقرر) ہے۔ تب مجھے اس خبر پر یقین آیا پھر میں نے پہلے شخص سے پوچھا : کہ تم کو یہ خبر کیسے معلوم ہوئی (حالانکہ تم یہیں رہ رہے تھے) اس نے کہا : پہلی (آسمانی) کتاب میں ہے کہ یہ نبی آج کے دن مرے گا۔ میں نے پوچھا : اس کے بعد کیا ہوگا (ہماری کتاب کیا کہتی ہے ؟ ) اس نے کہا : ان کی چکی پینتیس سال تک چلتی رہے گی۔ (یعنی خلافت پینتیس سال تک نبوت کے طریق پر قائم رہے گی) ۔ ابونعیم

14284

14284- عن عمر قال: والله ما يزعالله بسلطان أعظم مما يزع بالقرآن. "خط".
14284 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ پاک قرآن کی نسبت سلطان (عادل کے حاکم وقت) کے ذریعے زیادہ (لوگوں کی مال و عزت کی) حفاظت فرماتا ہے۔
الخطیب فی التاریخ

14285

14285- عن عمر قال: قلت: يا رسول الله أخبرني عن هذا السلطان الذي ذلت له الرقاب وخضعت له الأجناد ما هو؟ قال: هو ظل الرحمن عز وجل في الأرض يأوي إليه كل مظلوم من عباده، فإن عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر، وإن جار وخان وظلم كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر. "الديلمي".
14285 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے اس سلطان (بادشاہ) کے بارے میں بتائیے کہ جس کے آگے گردنیں تسلیم ہوجائیں اور لشکر اس کے تابع ہوجائیں وہ کیا بادشاہ ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
وہ زمین پر رحمان کا سایہ ہے، بندگان خدا میں سے ہر مظلوم اس کے ٹھکانے پر آکر پناہ حاصل کرتا ہے، اگر وہ عدل کرتا ہے تو اس کے لیے اجر لازم ہے اور رعایا پر اس کا شکر لازم ہے اور اگر (خدانخواستہ) وہ ظلم اور خیانت کرتا ہے تو اس پر اس کا وبال اور مصیبت آتی ہے اور رعایا کے لیے ایسے موقع پر صبر کرنا لازم ہے۔ الدیلمی

14286

14286- عن علي قال: لا يصلح الناس إلا أمير بر أو فاجر قالوا: يا أمير المؤمنين هذا البر فكيف بالفاجر؟ قال: إن الفاجر يؤمن الله به السبيل ويجاهد به العدو ويجيء به الفيء ويقام به الحدود، ويحج به البيت، ويعبد الله فيه المسلم آمنا حتى يأتيه أجله. لا "هب".
14286 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
لوگوں (کے حالات) کو صرف امیر وقت درست کرسکتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔
لوگوں نے پوچھا : یا امیر المومنین ! نیک تو درست ہے فاجر کے ذریعے کیسے حالات درست ہوں گے ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : فاجر کے ذریعے اللہ پاک راستوں کو پر امن بنادیتا ہے، اس کے ساتھ دشمن سے جنگ کی جاتی ہے، اس کے واسطے سے مال غنیمت کا حصول ہوتا ہے، اس کے حکم پر حدود اللہ کا نفاذ ہوتا ہے، اس کی سربراہی میں بیت اللہ کا حج کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان امن کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا ہے حتیٰ کہ اس کی موت آجاتی ہے۔ خواہ اس کے اپنے کردار کیسے ہوں مگر وہ پھر بھی لوگوں کے لیے باعث امن ہوتا ہے۔ شعب الایمان للبیہقی

14287

14287- "الصديق" عن قيس بن أبي حازم عن نافع بن عمرو الطائي قال: شهدت أبا بكر وهو على المنبر يقول: من ولي من أمر أمة محمد صلى الله عليه وسلم شيئا فلم يقم فيهم بكتاب الله فعليه بهلة الله. "البغوي".
14287 (مسند الصدیق) قیس بن ابی حازم، نافع بن عمروالطائی سے روایت کرتے ہیں، نافع کہتے ہیں : میں حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضرہوا، آپ (رض) منبر پر جلوہ افروز تھے اور ارشاد فرما رہے تھے :
جو شخص امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملات (حکومت) میں سے کسی منصب پر فائز ہوا پھر اس نے ان پر کتاب اللہ کے احکام کو نافذ نہیں کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ البغوی

14288

14288- عن رافع الطائي قال: صحبت أبا بكر في غزوة فلما قفلنا قلت: يا أبا بكر أوصني قال: أقم الصلاة المكتوبة لوقتها وأد زكاة مالك طيبة بها نفسك، وصم رمضان، واحجج البيت، واعلم أن الهجرة في الإسلام حسن وأن الجهاد في الهجرة حسن ولا تكن أميرا، ثم قال: هذه الإمارة التي ترى اليوم سيرة قد اوشكت أن تفشو وتكثر حتى ينالها من ليس لها بأهل، وانه من يكن أميرا فإنه من أطول الناس حسابا وأغلظه عذابا، ومن لا يكون أميرا فإنه من أيسر الناس حسابا وأهونه عذابا لأن الأمراء أقرب الناس من ظلم المؤمنين، ومن يظلم المؤمنين فإنما يخفر الله هم جيران الله وهم عباد الله، والله إن أحدكم لتصاب شاة جاره أو بعير جاره فيبيت وارم العضل يقول: شاة جاري أو بعير جاري فإن الله أحق أن يغضب لجيرانه. "ابن المبارك في الزهد"
14288 رافع الطائی سے مروی ہے کہ میں ایک غزوہ میں حضرت ابوبکر (رض) کی ہم صحبت تھا۔ جب ہم غزوے سے واپس لوٹنے لگے، میں نے عرض کیا : اے ابوبکر ! مجھے کچھ نصیحت فرما دیجئے ! حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا :
فرض نماز اس کے وقت پر قائم کر، اپنے مال کی زکوۃ جی جان سے ادا کر، رمضان کے روزے رکھ، بیت اللہ کا حج کر، یادرکھ ! اسلام میں ہجرت اچھا عمل ہے، جہاد ہجرت میں اچھا عمل ہے۔ کبھی امیر نہ بننا۔ پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ امارت۔ حکومت جو آج تم دیکھ رہے ہو ایک نمونہ ہے۔ قریب ہے کہ یہ پھیل جائے اور (اس قدر) اس کی کثرت ہوجائے کہ نااہل بھی اس کو پالیں۔ جو امیر ہوگا وہ لوگوں میں سب سے طویل حساب کتاب کا سامنا کرے گا اور سخت عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اور جو امیر (حاکم) نہ ہوگا وہ آسان حساب دے گا اور (اگر اس پر عذاب ہوا تو) اس کا عذاب بھی آسان ہوگا، کیونکہ حکام مومنین پر ظلم کرنے میں قریب ہوتے ہیں۔ جو مومنین پر ظلم کرتا ہے وہ اللہ کے ذمے کو توڑتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے پڑوسی اور اس کے بندے ہیں۔ اللہ کی قسم ! تمہارے کسی پڑوسی کی بکری یا اونٹ کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تو وہ بھی تکلیف اور دکھ محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے : ہائے میرے پڑوسی کی بکری یا اونٹ کیسی تکلیف میں ہے۔ تو اللہ پاک تو اپنے پڑوسی کی وجہ سے زیادہ غضب ناک ہوتا ہے۔ ابن المبارک فی الزھد

14289

14289- عن زينب بنت المهاجر قالت: خرجت حاجة ومعي امرأة فضربت علي فسطاطاونذرت أن لا أتكلم فجاء رجل فوقف على باب الخيمة فقال: السلام عليكم فردت عليه صاحبتي، فقال: ما شأن صاحبتك لم ترد علي؟ قالت: إنها مصمتة نذرت أن لا تتكلم فقال: تكلمي، فإن هذا من فعل الجاهلية، فقلت: من أنت يرحمك الله؟ قال: امرؤ من المهاجرين، قلت: من أي المهاجرين؟ قال: من قريش، قلت: من أي قريش؟ قال: إنك لسؤول أنا أبو بكر، قلت يا خليفة رسول الله إنا كنا حديث عهد بجاهلية لا يأمن بعضنا بعضا وقد جاء الله من الأمر بما ترى، فحتى متى يدوم لنا هذا! قال: ما صلحت أئمتكم، قلت: ومن الأئمة؟ قال: أليس في قومك أشراف يطاعون؟ قلت: بلى قال: أولئك. "ابن سعد".
14289 زینب بنت المہاجر سے مروی ہے، فرماتی ہیں : میں حج کے ارادے سے نکلی، میرے ساتھ ایک دوسری عورت بھی تھی۔ میں نے اپنے لیے ایک خیمہ کھڑا کرلیا اور نذر مان لی کہ میں کسی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر ایک آدمی آیا اور اس نے خیمے کے دروازے پر کھڑے ہو کر السلام علیکم کہا۔ اس کے سلام کا جواب میری ساتھی نے دیا۔ آدمی نے اس سے پوچھا : کیا بات ہے تیری ساتھی جواب کیوں نہیں دیتی۔ اس نے نذر مانی ہے کہ کسی سے بات نہیں کرے گی۔ پھر آدمی نے (مجھے مخاطب ہو کر) کہا : بات کر، کیونکہ یہ تو جاہلیت کا عمل ہے۔ زینب کہتی ہیں : تب میں بولی پڑی اور میں نے پوچھا : آپ کون ہیں، اللہ آپ پر رحم کرے۔ آدمی نے جواب دیا : مہاجرین کا آدمی ہوں ۔ میں نے پوچھا : کون سے مہاجرین میں سے ؟ آدمی نے کہا : قریش میں سے۔ میں نے پوچھا : کون سے پر یش میں سے ؟ تب اس آدمی نے کہا : تم بہت سوال کرتی ہو، میں ابوبکر ہوں۔ میں نے عرض کیا : اے خلیفہ رسول اللہ ! ہم (مسلمان) جاہلیت کے زمانے سے ابھی نکلے ہی ہیں ہمارے لوگ ایک دوسرے پر کم ہی اعتماد کرتے ہیں اب اللہ پاک امن وامان لے آیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ حالات ہمارے ساتھ کب تک رہیں گے ؟ ارشاد فرمایا : جب تک تمہارے ائمہ درست رہیں۔ میں نے پوچھا : ائمہ کون ہیں ؟ آپ (رض) نے پوچھا : کیا تیری قوم میں ایسے سردار نہیں ہیں جن کی اطاعت کی جاتی ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں ضرور ہیں۔ ارشاد فرمایا : پس وہی (ائمہ ہیں) ۔ ابن سعد

14290

14290- عن حية بنت أبي حية قالت: دخل علي رجل بالظهيرة فقلت ما حاجتك يا عبد الله؟ قال: أقبلت أنا وصاحب لي في بغاءإبل لنا؛ فانطلق صاحبي يبغي ودخلت في الظل أستظل وأشرب من الشراب، قالت: فقمت إلى لبنية لنا حامضة فسقيته منها وتوسمته وقلت: يا عبد الله من أنت؟ قال: أبو بكر، قلت: أبو بكر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي سمعت به؟ قال: نعم فذكرت له غزونا خثعم في الجاهلية وغزو بعضنا بعضا وما جاء الله به من الإلف، فقلت: يا عبد الله حتى متى أمر الناس هذا؟ قال: ما استقامت الأئمة، قال ألم ترى السيد يكون في الحي أيتبعونه ويطيعونه فهم أولئك ما استقاموا. "مسدد وابن منيع والدارمي" قال ابن كثير إسناده حسن جيد.
14290 حیۃ بنت ابی حیۃ فرماتی ہیں : ایک آدمی (دن کی کڑی) دوپہر میں میرے پاس آیا میں نے پوچھا : اے بندہ خدا تیری کیا حاجت ہے ؟ آدمی نے کہا : میں اور میرا ساتھی اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلے تھے۔ میرا ساتھی تو تلاش میں نکل گیا ہے جبکہ میں سائے میں آگیا تاکہ کچھ سستالوں، مجھے کچھ (پانی غیرہ) پینے کی طلب ہے۔ حیۃ کہتی ہیں : میں اپنی اونٹنی کے پاس گئی جو تھوڑا بہت دودھ دے دیتی تھی میں نے اس کا دودھ دوھ کر اس آدمی کو پلایا۔ مجھے اس آدمی میں نیک صورت نظر آئی۔ میں نے اس سے پوچھا : اے بندہ خدا تو کون ہے ؟ اس نے کہا : ابوبکر۔ میں نے پوچھا : کیا وہی ابوبکر جو رسول اللہ کا ساتھی ہے، جس کے متعلق میں نے سنا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ تب میں نے ابوبکر (رض) کو اپنے لوگوں کی زمانہ جاہلیت کی کچھ جنگوں اور دوستیوں کا حال سنایا جو قبیلہ حتعم وغیرہ کے ساتھ ہوئی تھیں۔ پھر میں نے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! لوگوں کی امن و سکون والی یہ حالت کب تک رہے گی ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تک ائمہ درست رہیں گے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : کیا تو قبیلے کے سردار کو نہیں دیکھتی لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اور اس کی بات مانتے ہیں، پس یہ قوم کے سردار جب تک درست رہیں گے (تب تک یونہی امن و سکون رہے گا) ۔ مسدد، ابن منبع، مسند الدارمی
ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس کی اسناد حسن جید ہے۔

14291

14291- عن رافع الطائي عن أبي بكر الصديق أنه خطب الناس؛ فذكر المسلمين فقال: من ظلم منهم أحدا فقد أخفر ذمة الله ومن ولي من أمور المسلمين شيئا فلم يعطهم كتاب الله فعليه لعنة الله، ومن صلى الصبح فقد خفره الله"الدينوري".
14291 رافع الطائی حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کرتے ہیں آپ (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا : پھر مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
جس نے کسی مسلمان پر ظلم کیا اس نے اللہ کے ذمے کو توڑ دیا اور جو شخص مسلمانوں کا والی بنا پھر اس نے ان کو کتاب اللہ کے مطابق نہیں چلایا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کے ذمے میں آگیا۔ الدینوری
فائدہ : ذمہ سے مراد اجازت نامہ لے سکتے ہیں۔ جس طرح بین الممالک ویزے کا اجراء ہوتا ہے۔ اس کی موجودگی میں صاحب ویزے پر غیر حکومت کا ظلم ڈھانا اس شخص کے ملک کے ذمہ (ویزہ) کو توڑنا ہوتا ہے۔

14292

14292- عن إسماعيل بن عبيد الله بن سعيد بن أبي مريم عن أبيه عن جده قال: بلغني أنه لما استخلف أبو بكر صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: إنه والله لولا أن تضيع أموركم ونحن بحضرتها لأحببت أن يكون هذا الأمر في عنق أبغضكم إلي ثم لا يكون خيرا له ألا إن أشقى الناس في الدنيا والآخرة الملوك، فاشرأبالناس ورفعوا إليه رؤوسهم فقال: على رسلكم إنكم عجلون، إنه لن يملك ملك قط إلا علم الله ملكه قبل أن يملكه فينقص نصف عمره، ويوكل به الروعوالحزن ويزهده فيما بيديه ويرغبه فيما بأيدي الناس، فتضنك معيشته وإن أكل طعاما طيبا ولبس جيدا حتى إذا أضحى ظله وذهبت نفسه وورد إلى ربه فحاسبه فشد حسابه وقل غفرانه له ألا إن المساكين هم المغفورون، ألا إن المساكين هم المغفورون. "ابن زنجويه في كتاب الأموال".
14292 اسماعیل بن عبیداللہ بن سعید بن ابی مریم عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے ابومریم کہتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو وہ منبر پر چڑھے ، اللہ کی حمدوثناء بیان کی پھر ارشاد فرمایا :
اللہ کی قسم ! اگر یہ خطرہ مجھے درپیش نہ ہوتا کہ تمہارے معاملات حکومت درہم برہم ہوجائیں گے خواہ ہم موجود ہوں تو میں یہ بات پسند کرتا کہ سلطنت کی باگ ڈور اس شخص کے سپرد کردیتا جو تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند ہوتا پھر اس کے لیے کوئی بھلائی نہ ہوتی۔ یاد رکھو ! لوگوں میں سب سے بدبخت دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بادشاہ ہوں گے۔ یہ سن کا حاضرین خطبہ نے تعجب سے اپنی گردنیں حضرت ابوبکر (رض) کی طرف اٹھائیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : پرسکون رہو، پرسکون رہو۔ تم لوگ جلد باز ہو۔ کوئی بادشاہ کسی سلطنت پر براجمان نہیں ہوتا مگر اللہ پاک کو اس کی سلطنت پر بیٹھنے سے قبل اس کی بادشاہی اور سلطنت کی خبر ہوتی ہے اور پھر اللہ پاک اس کی عمر کو نصف کم کردیتا ہے۔ اور پھر اس پر رائج وغم مسلط فرما دیتا ہے۔ جو اس کی ملکیت اور ہاتھوں میں زبر تصرف ہے اس سے اس کو بےرغبت کردیتا ہے جبکہ جو لوگوں کے مال میں ہے اس کی اس کے اندر طمع لالچ پیدا کردیتا ہے، پھر اس کی معیشت زندگی تنگ ہوجائے گی خواہ وہ عمدہ عمدہ کھانے کھائے، اعلیٰ پوشاک زیب تن کرے حتیٰ کہ پھر جب اس کا سایہ جھک جائے گا، اس کی روح نکل جائے گی اور وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوگا تب اس کا پروردگار اس سے سخت حساب لے گا اور اس کی مغفرت کے مواقع کم رہ جائیں گے ۔ پس خبردار سن لو مساکین ہی بخشے بخشائے لوگ ہیں۔
ابن زنجویہ فی کتاب الاموال

14293

14293- عن عمير بن سعد الأنصاري [كان ولاه عمر حمص فذكر الحديث] قال: قال عمر لكعب: إني أسألك عن أمر فلا تكتمني، قال: لا والله لا أكتمك شيئا أعلمه، قال: ما أخوف شيء تخوفه على أمة محمد صلى الله عليه وسلم؟ قال: أئمة مضلين قال عمر: صدقت قد أسر إلي ذلك وأعلمنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم. "حم"
14293 عمیر بن سعد الانصاری جن کو حضرت عمر (رض) نے حمص پر گورنر بنایا تھا سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت کعب (رح) سے فرمایا : میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں تم چھپانا مت ۔ کعب (رح) نے فرمایا : نہیں، اللہ کی قسم ! جو میرے علم میں ہوگا میں اس کو آپ سے ہرگز نہیں چھپاؤں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : سب سے زیادہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تم کس چیز کا خوف کرتے ہو ؟ حضرت کعب (رح) نے فرمایا : گمراہ کن حکمرانوں کا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے سچ کہا : یہ راز مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بتایا تھا۔ مسند احمد

14294

14294- عن عمر قال: لو هلك حملمن ولد الضأن ضياعابشاطئ الفرات خشيت أن يسألني الله عنه. "ابن سعد ش ومسدد حل كر"
14294 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اگر نہر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ بھی گر کر ہلاکت کی نذر ہوجائے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ پاک مجھ سے اس کا سوال نہ کرے۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ، مسدد، حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر

14295

14295- عن عمر قال: ما حرص رجل كل الحرص في الإمارة فعدل فيها. "ش".
14295 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا :
کسی آدمی نے مکمل طور پر حکومت کی حرص کی تو یہ ممکن نہیں کہ وہ انصاف برت سکے۔ ابن ابی شیبہ

14296

14296- عن عمر قال: ويل لديان أهل الأرض من ديان أهل السماء يوم يلقونه إلا من أمالعدل وقضى بالحق، ولم يقض لهوى ولا قرابة ولا لرغبة، ولا لرهبة وجعل كتاب الله مرآة بين عينيه. "ش حم في الزهد وابن خزيمة ق كر".
14296 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا :
اہل زمین کے حاکموں کے لیے ہلاکت ہے، اہل آسمان کے حاکموں کی طرف سے جس دن اہل زمین اہل آسمان سے ملاقات کریں گے، مگر وہ لوگ جو عدل کو رائج کریں، حق کا فیصلہ کریں، خواہش پر فیصلہ نہ کریں، رشتہ داری کی حمایت میں فیصلہ نہ کریں، اپنی خواہش پر فیصلہ نہ کریں اور نہ کسی کے ڈر اور خوف سے ناحق فیصلہ کریں اور کتاب اللہ کو اپنی آنکھوں کے درمیان آئینہ بنا کر رکھیں۔ ابن ابی شیبہ، الزھد للاماداحمد، ابن خزیمۃ، السنن للبیہقی، ابن عساکر

14297

14297- عن طاوس قال: قال عمر بن الخطاب: اقضوا ونسأل.
14297 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : فیصلہ کرو اور ہم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

14298

14298- عن سليمان بن موسى قال: كتب عمر بن الخطاب إن تجارة الأمير في إمارته خسارة. "ق".
14298 سلیمان بن موسیٰ سے مروی ہے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے لکھا : حاکم کا اپنی امارت (رعایا) میں تجارت کرنا خسارہ (اور ظلم) ہے۔ السنن للبیہقی

14299

14299- عن قطن بن وهب عن عمه أنه كان مع عمر بن الخطاب في سفر فلما كان قريبا من الروحاء[قال معن وعبد الله بن مسلمة في حديثهما] سمع صوت راع في جبل فعدل إليه فلما دنا منه صاح يا راعي الغنم، فأجابه الراعي فقال: [يا راعيها فقال عمر] : إني مررت بمكان هو أخصب من مكانك وإن كل راع مسئول عن رعيته، ثم عدل صدور الركاب. "مالك وابن سعد"
14299 قطن بن وھب اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کو ایک سفر میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ جب حضرت عمر (رض) مقام روحاء کے قریب پہنچے تو (بقول معن اور عبداللہ بن مسلمہ) حضرت عمر (رض) نے ایک چرواہے کی آواز سنی جو پہاڑ سے آرہی تھی۔ حضرت عمر (رض) اس کے پاس پہنچنے کے لیے اوپر چڑھے۔ جب اس کے قریب پہنچے تو حضرت عمر (رض) نے چرواہے کو آواز دی : اے بکریوں کے چرواہے ! چرواہے نے آپ کی آواز کا جواب دیا۔ تب حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا :
اے چرواہے ! میں ایسی جگہ کے پاس سے گزر کر آرہا ہوں جو تیری اس جگہ سے زیادہ سرسبز و شاداب ہے۔ اور ہر راعی (چرواہے) سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
یہ کہہ کر آپ (رض) اتر کر سواریوں کے ساتھ آملے۔ موطا امام مالک، ابن سعد

14300

14300- عن محمود بن خالد حدثنا سويد بن عبد العزيز حدثنا سيار أبو الحكم عن أبي وائل أن عمر بن الخطاب استعمل بشر بن عاصم على صدقات هوازن فتخلف بشر فلقيه عمر فقال: ما خلفك؟ أمالنا عليك سمع وطاعة قال: بلى ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من ولي شيئا من أمور المسلمين أتي به يوم القيامة حتى يوقف على جسر جهنم فإن كان محسنا نجا، وإن كان مسيئا انخرق به الجسر فهوى فيه سبعين خريفا، فرجع عمر كئيبا حزينا فلقيه أبو ذر فقال: مالي أراك كئيبا حزينا؟ قال: ما يمنعني أن لا أكون كئيبا حزينا وقد سمعت بشر بن عاصم يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من ولي شيئا من أمر المسلمين أتى به يوم القيامة حتى يوقف على جسر جهنم فإن كان محسنا نجا، وإن كان مسيئا انخرق به الجسر فيهوي فيه سبعين خريفا، قال أبو ذر: أو ما سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا، قال: أشهد أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من ولي أحدا من الناس أتي به يوم القيامة حتى يوقف على جسر جهنم فإن كان محسنا نجا وإن كان مسيئا انخرق به الجسر فهوى به سبعين خريفا وهي سوداء مظلمة فأي الحديثين أوجع لقلبك؟ قال: كلاهما قد أوجع قلبي، فمن يأخذها بما فيها؟ قال أبو ذر: من سلتالله أنفه وألصق خده بالأرض أما إنا لا نعلم إلا خيرا وعسى إن وليتها من لا يعدل فيها أن لا ينجو من ألمها. "البغوي عب وأبو نعيم وأبو سعيد النقاش في كتاب القضاة في المتفق" وسويد بن عبد العزيز متروك ولكن له طرق أخرى تأتي في مسند بشر.
14300 محمود بن خالد سے مروی ہے کہ ہمیں سوید بن عبدالعزیز نے بیان کیا، ان کو ابوالحکم سیار نے بیان کیا وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں کہ :
حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بشر بن عاصم (رض) کو ھوازن کے صدقات (اموال زکوۃ ) کی وصولی پر مرر کردیا بشر پیچھے رہ گئے ۔ حضرت عمر (رض) نے جاکر ان سے ملاقات کی اور پوچھا : تم پیچھے کیوں رہ گئے ؟ کیا تم پر ہماری بات سننا اور اس کی اطاعت بجا لانا واجب نہیں ہے کیا ؟ بشر نے عرض کیا : کیوں نہیں، لیکن میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
جو شخص مسلمانوں کے امور (مملکت) میں سے کسی چیز کا والی بنا اس کو قیامت کے دن جہنم کے پاس پر کھڑا کردیا جائے گا اگر وہ اچھائی برتنے والا ہوا تو نجات پاجائے گا اور اگر وہ برائی اختیار کرنے والا ہوا تو پل اس کے نیچے سے شق جائے گا اور وہ اس جہنم میں ستر سال کی گہرائی تک گرتا رہے گا۔
بشر کی بات سن کر حضرت عمر (رض) بذات خود رنجیدہ اور غمزدہ ہوگئے اور واپس لوٹ آئے۔ حضرت ابوذر (رض) کی ان سے ملاقات ہوئی۔ حضرت ابوذر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا : کیا بات ہے میں آپ کو رنجیدہ اور غمزدہ حالت میں دیکھ رہا ہوں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں کیوں نہ رنجیدہ وغمزدہ ہوں حا الن کہ میں نے بشر بن عاصم سے سنا ہے وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث روایت کرتے ہیں کہ :
جو شخص مسلمانوں کے امور (مملکت) میں سے کسی چیز کا والی بنا اس کو قیامت کے روز جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا اگر وہ اچھائی کرنے والا ہوا تو نجات پاجائے گا اور اگر وہ برائی اختیار کرنے والا ہوا تو پل اس کے نیچے سے شق ہوجائے گا اور وہ اس میں ستر سال کی گہرائی تک گرتا رہے گا۔
حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں سنی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نہیں۔ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
جو لوگوں میں سے کسی ایک شخص کا بھی والی بنا اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا اگر وہ اچھائی کرنے والا ہوا تو نجات پاجائے گا اور اگر وہ برائی اختیار کرنے والا ہوا تو پل شق ہوجائے گا اور وہ جہنم میں ستر سال کی گہرائی تک جاگرے گا اور وہ جہنم سیاہ تاریک ہے۔
پھر حضرت ابوذر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا : دونوں حدیثوں میں سے کونسی حدیث نے آپ کے دل کو زیادہ تکلیف دی ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : دونوں ہی نے میرے دل کی تکلیف میں ڈال دیا ہے۔ لیکن پھر حکومت کون قبول کرے گا ؟ جبکہ اس میں اس قدر شختی ہے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا :
وہ شخص جس کی ناک اللہ نے کاٹ دی ہو اور اس کا رخسار زمین سے ملا دیا ہو۔ بہرحال ہم (آپ کے متعلق) خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے لیکن قریب ہے کہ آپ اگر کسی ایسے شخص کو والی بنائیں جو حکومت میں عدل نہ کرسکے تو وہ اس کے درد ناک عذاب سے نہیں نجات پاسکے گا۔
البغوی، الجامع لعبد الرزاق، ابونعیم، ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ فی المتفق
کلام : سوید بن عبدالعزیز متروک (ناقابل اعتبار) راوی ہے لیکن یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے جو مسند بشر کے ذیل میں آرہی ہے۔

14301

14301- عن عمران بن عبد الله قال: قال أبي بن كعب لعمر بن الخطاب: مالك لا تستعملني؟ قال: أكره أن تدنس دينك. "ابن سعد".
14301 عمران بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت ابی (رض) بن کعب نے حضرت عمر (رض) بن خطاب کو فرمایا : کیا بات ہے آپ مجھے حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں سونپتے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ اپنے دین کو گندا کریں۔ ابن سعد

14302

14302- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قال في ولايته: من ولي هذا الأمر بعدي فليعلم أن سيريده عنه القريب والبعيد، وايم الله ما كنت إلا أقاتل الناس عن نفسي قتالا. "ابن سعد".
14302 حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنی ولایت (دور خلافت) میں فرمایا : جو شخص میرے بعد اس منصب پر بیٹھے گا وہ جان لے کہ قریب کے اور دور کے (بہت سے) لوگ اس کو اس سے حاصل کرنے کا خیال رکھیں گے اور اللہ کی قسم ! میں تو اپنی جان کے دفاع میں لوگوں سے قتال کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ ابن سعد

14303

14303- عن عمر قال: ما أحب أصلي في بيتهم هذا المغلق يعني المقصورة. "مسدد".
14303 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اس بند گھر (یعنی محل) میں نماز پڑھوں ۔ مسدد

14304

14304- عن موسى بن جبير عن شيوخ من أهل المدينة قالوا: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص أما بعد فإني قد فرضت لمن قبلي في الديوان ولذريتهم ولمن ورد علينا بالمدينة من أهل اليمن وغيرهم ممن توجه إليك وإلى البلدان، فانظر من فرضت له فنزل بك فاردد عليه العطاء وعلى ذريته ومن نزل بك ممن لم أفرض له فافرض له على نحو مما رأيتني فرضت لأشباهه، وخذ لنفسك مائتي دينار فهذه فرائض أهل بدر من المهاجرين والأنصار ولم أبلغ بهذا أحدا من نظرائك غيرك لأنك من عمال المسلمين فألحقتك بأرفع ذلك، وقد علمت أن مؤنا تلزمك فوفر الخراج وخذه من حقه، ثم عف عنه بعد جمعه، فإذا حصل لك وجمعته أخرجت عطاء المسلمين وما يحتاج إليه مما لا بد منه، ثم انظر فيما فضل بعد ذلك فاحمله إلي واعلم أن ما قبلك من أرض مصر ليس فيها خمس وإنما هي أرض صلح وما فيها للمسلمين فيء تبدأ بمن أغنى عنهم في ثغورهم وأجزأ عنهم في أعمالهم ثم تفيض ما فضل بعد ذلك على من سمى الله واعلم يا عمرو أن الله يراك ويرى عملك فإنه قال تبارك وتعالى في كتابه: {وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً} يريد أن يقتدى به، وأن معك أهل ذمة وعهد وقد أوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم بهم وأوصى بالقبط فقال: استوصوا بالقبط خيرا فإن لهم ذمة ورحما ورحمهم أن أم إسماعيل منهم وقد قال صلى الله عليه وسلم: من ظلم معاهدا أو كلفه فوق طاقته فأنا خصمه يوم القيامة، احذر يا عمرو أن يكون رسول الله صلى الله عليه وسلم لك خصما فإنه من خاصمه خصمه، والله يا عمرو لقد ابتليت بولاية هذه الأمة وآنست من نفسي ضعفا، وانتشرت رعيتي ورق عظمي، فاسأل الله أن يقبضني إليه غير مفرط، والله إني لأخشى لو مات جمل بأقصى عملك ضياعا أن أسأل عنه يوم القيامة. "ابن سعد".
14304 موسیٰ بن جبیر اہل مدینہ کے شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) (گورنر مصر) کو لکھا :
امابعد ! میں نے اپنی طرف کے لوگوں کے لئے، ان کی اولاد کے لیے اور جو بھی مدینے آئیں اہل یمن وغیرہ میں سے اور جو تمہاری طرف سے اور دوسرے علاقوں سے یہاں آئیں ان سب (مسلمانوں) کے لیے وظائف مقرر کردیئے ہیں۔ دیکھو جن کے لیے میں نے کوئی وظیفہ مقرر کیا ہو پھر وہ تمہارے پاس آئے تو اس کو اور اس کی اولاد کو میرا مقررکردہ وظیفہ دو ۔ اور جو ایسے لوگ تمہارے پاس آئیں جن کے لیے میں نے کوئی وظیفہ مقرر نہ کیا ہو تو تم یہ دیکھو کہ میں نے ان کے مثل لوگوں کے لیے کیا وظیفے مقرر کیے ہیں پھر تم اس کی مثل ان کے لیے وظیفے مقرر کردو۔ اور تم خود اپنے لیے دو سو دینار لے لو۔ یہ وظیفہ بدر کی مہاجرین اور انصار صحابہ کا وظیفہ ہے۔ تمہارے دوسرے ہم عصر لوگوں میں سے کسی کو وظیفہ کی یہ مقدار نہیں پہنچی۔ کیونکہ تم مسلمانوں کے گورنروں میں سے ہو اس وجہ سے میں نے تم کو سب سے اوپر رکھا ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ ایک اہم کام تمہارے ذمے لازم ہے۔ تم خراج کو پورا پورا حاصل کرو لیکن حق کے ساتھ لو۔ پھر جمع کرنے کے بعد اس کو روک لو اور پھر اس میں سے مسلمانوں کے عطیے اور دوسرے اہم مصارف نکالو جن کے بغیر چارہ کار نہیں۔ پھر جو بچ جائے وہ میرے پاس (دارالخلافہ) بھیج دو ۔ جان رکھو کہ تمہاری اطراف کی سرزمین مصر میں خمس نہیں ہے۔ کیونکہ یہ (تلوار کی بجائے) صلح کے ساتھ فتح ہوئی ہے۔ اور اس میں مسلمانوں کے لیے مال غنیمت نہیں ہے۔ پہلے تم اس مال میں سے سرحدوں کی حفاظت میں خرچ کرو گے اور سپاہیوں کے وظیفے دو گے، اس کے بعد بچنے والے مال میں سے اللہ کے بتائے ہوئے مصارف میں خرچ کرو گے۔ فقیر، مسکین وغیرہ اور اے عمرو ! جان لو کہ اللہ پاک تم کو دیکھ رہا ہے اور تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے :
واجعلنا للمتقین اماما۔
اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا (سربراہ) بنا۔
یعنی تم کو ایسا ہونا چاہیے کہ جس کی پیروی کی جائے۔ نیز یاد رکھنا تمہارے ساتھ ذمی (غیر مسلم معاہدہ میں شامل) لوگ بھی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو خیر خواہی کی وصیت کی اور قبطیوں کے ساتھ خیر خواہی کی تاکید کی ہے۔ اور یہی ذمی قبطی بھی ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
قبطیوں کے ساتھ خیر خواہی برتو بیشک ان کا ذمہ (حفاظت و پاسداری) ہے اور رحم کا تعلق ہے کیونکہ ام اسماعیل انہی میں سے تھیں۔ نیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
جس نے کسی معاہدہ (ذمی) پر ظلم کیا یا اس کو طاقت سے اوپر بوجھ لادا میں قیامت کے دن اس کا خصم (دشمن) ہوں گا۔
اے عمرو ! پس ڈرتے رہنا کہ کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے خصم نہ بن جائیں بیشک وہ جس کے خصم ہوں گے اس پر غالب آئیں گے۔ اللہ کی قسم ! اے عمرو ! مجھے اس امت کی حکمرانی کے ساتھ آزمائش و مصیبت میں ڈال دیا گیا ہے، میں اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہوں، میری رعیت بکھر چکی ہے اور میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں۔ میں اللہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس حال میں اپنے پاس اٹھالے کہ میں کوتاہی کرنے والا شمار نہ کیا جاؤں ۔ کیونکہ اللہ کی قسم ! مجھے سخت ڈر اور خوف لاحق ہے کہ اگر تیری عمل داری کے دور دراز گوشے میں بھی کہیں اگر کوئی اونٹ ضائع ہو کر ہلاک ہوگیا تو مجھ سے قیامت کے دن اس کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا۔ ابن سعد

14305

14305- عن عمر قال: من استعمل رجلا لمودة أو لقرابة لا يستعمله إلا لذلك فقد خان الله ورسوله والمؤمنين.
14305 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
جس نے کسی کو محبت یارشتہ داری کی وجہ سے کوئی منصب تفویض کیا اور صرف یہی بات مدنظر رکھی تو بیشک اس نے اللہ سے ، اس کے رسول سے اور مومنین سے خیانت برتی۔ فی المداراۃ
فائدہ : امام سیوطی (رح) فرماتے ہیں : مجھے اس روایت کی تخریج کرنے والے کا نام معلوم نہیں۔ مگر یہ کہ یہ کسی قدیم کتاب میں سے لی گئی ہے جس میں ابوخیثمہ سے کثیر روایات منقول ہیں۔

14306

14306- عن عمر قال: من استعمل فاجرا وهو يعلم أنه فاجر فهو مثله. "في المداراة".
14306 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
جس نے کسی فاجر (بدکار) کو سرکاری منصب تفویض کیا حالانکہ اس کو اس کے فاجر ہونے کا علم ہے تو وہ خود بھی اس کے مثل ہے۔ فی المداراۃ

14307

14307- عن الفضل بن عميرة أن الأحنف بن قيس قدم على عمر بن الخطاب في وفد من العراق قدموا عليه في يوم صائف شديد الحر وهو متحجز بعباءة يهنأبعيرا من إبل الصدقة فقال: يا أحنف ضع ثيابك وهلم وأعن أمير المؤمنين على هذا البعير فإنه من إبل الصدقة فيه حق اليتيم والأرملة والمسكين، فقال رجل يغفر الله لك يا أمير المؤمنين فهلا تأمر عبدا من عبيد الصدقة فيكفيك هذا؟ فقال عمر: يا ابن فلانة وأي عبد هو أعبد مني ومن الأحنف بن قيس هذا، إنه من ولي أمر المسلمين فهو عبد للمسلمين يجب عليه لهم ما يجب على العبد لسيده من النصيحة وأداء الأمانة. "في المداراة".
14307 فضل بن عمیرۃ سے مروی ہے کہ احنف بن قیس ایک عراقی وفد کے ساتھ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوئے وہ دن انتہائی سخت گرمی کا دن تھا۔ حضرت عمر (رض) (دھوپ میں) ایک محنت مزدوری والی عبا پہنے ہوئے صدقے کے ایک اونٹ کو تیل مل رہے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے احنف بن قیس کو فرمایا : اے احنف ! اپنے کپڑے بدل لو اور آجاؤ، آکر المومنی کی مدد کرو اس اونٹ کی خدمت کرنے میں۔ یہ اونٹ صدقہ کا اونٹ ہے اس میں یتیم، مسکینوں اور فقیروں کا حق ہے۔ ایک آدمی نے کہا : یا امیر المومنین ! اللہ آپ کی مغفرت کرے، آپ صدقے کے غلاموں میں سے کسی غلام کو کیوں نہیں حکم دیدیتے ، وہ یہ کام اچھی طرح انجام دے لے گا۔
حضرت عمر (رض) نے اس کو ارشاد فرمایا :
اے فلانی کے بیٹے ! مجھ سے اور احنف بن قیس سے بڑا غلام کون ہوگا بیشک جو مسلمانوں کا امیر ہوتا ہے وہ مسلمانوں کا غلام ہوتا ہے، اس پر رعایا کی خدمت اسی طرح واجب ہے جس طرح غلام پر اپنے آقا کی خدمت واجب ہوتی ہے ، کہ اس کے ذمہ آقا کی خیر خواہی اور اس کی امانت کی ادائیگی لازم ہے۔ فی المداراۃ

14308

14308- عن فضيل بن غزوان عن محمد الراسبي عن بشر بن عاصم بن شقيق الثقفي أن عمر بن الخطاب كتب عهده فقال: لا حاجة لي فيه فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الولاة يجاء بهم فيوقفون على جسر جهنم، فمن كان مطواعا لله تناوله بيمينه حتى ينجيه، ومن كان عاصيا لله انخرق به الجسر إلى واد من نار يلتهب التهابا، فأرسل عمر إلى أبي ذر وسلمان، فقال لأبي ذر: أنت سمعت الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم والله وبعد الوادي واد آخر من نار وسأل سلمان فكره أن يخبره بشيء فقال عمر: من يأخذها بما فيها؟ فقال أبو ذر: من سلت الله أنفه وعينه وأمرغ خده إلى الأرض. "ش وأبو نعيم" وقال رواه عمار بن يحيى عن سلمة بن أبي تميم عن عطاء بن أبي رباح عن عبد الله بن سفيان عن بشر بن عاصم مثله قلت أخرجه من هذا الطريق "ابن منده" فهاتان الطريقتان مقويتان للطريق الثالث في مسند عمر قال في الإصابة: محمد الراسبي ذكر ابن عبد البر أنه ابن سليم فإن كان كما قال فالإسناد منقطع لأنه لم يدرك بشر بن عاصم.
14308 عن فضیل بن غزوان عن محمد الراسبی عن بشر بن عاصم بن شقیق الثقفی کی سند سے مروی ہے۔
ہر منصب والے کو جہنم کے پل پر کھڑا کیا جائے گا
بشر بن عاصم (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان کے لیے ایک عہدہ لکھ دیا۔ بشرکہتے ہیں میں نے عرض کیا : مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے کیونکہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
والیوں (سرکاری مناصب پر فائز لوگوں) کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور ان کو جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا ، پس جو شخص اللہ کا اطاعت گزار ہوگا اللہ پاک اس کو دائیں ہاتھ سے تھام لے گا اور جہنم سے نجات دیدے گا۔ اور جو شخص اللہ کا نافرمان ہوگا جہنم کا پل اس کے نیچے سے شق ہوجائے گا اور وہ جہنم کی وادی میں گرتا چلا جائے گا جو شعلوں سے بھڑک رہی ہوگی۔
یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوذر (رض) اور حضرت سلمان (رض) کو پیغام بھیج کر بلوایا پھر حضرت ابوذر (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے یہ حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا : جی ہاں۔ اور اللہ کی قسم ! اس وادی کے بعد جہنم کی آگ کی ایک اور وادی ہوگی پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت سلمان (رض) سے پوچھا تو انھوں نے کچھ بھی جواب دینا گوارا نہ کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب اس حکومت میں اس قدر سخت وعید ہے تو اس کو کون قبول کرے گا ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : وہ شخص جس کی ناک اللہ نے کاٹ دی ہو اور اس کی آنکھ نکال دی ہو اور اس کا رخسار زمین کے ساتھ رگڑ دیا ہو۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابونعیم
فائدہ : امام ابونعیم (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کو عمار بن یحییٰ نے عن سلمۃ بن ابی تمیم عن عطاء بن ابی رباح عن عبداللہ بن سفیان عن بشر بن عاصم کے طریق سے بھی اس کی مثل نقل کیا ہے۔ مولف سیوطی (رح) فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں اس طریق سے ابن مندہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ پس یہ دونوں طریق تقویت دینے والے ہیں اس طریق کو جو مسند عمر میں ہے۔ امام ابن حجر الاصابہ میں فرماتے ہیں محمد الراسبی کے متعلق ابن عبدالر (رح) فرماتے ہیں وہ ابن سلیم ہے اگر واقعی ایسا ہے تو پھر مذکورہ اسناد منقطع ہے کیونکہ محمد الراسبی نے بشر بن عاصم کو نہیں پایا۔

14309

14309- عن أبي برزة الأسلمي أنه قال لزياد وكان يقال شر الرعاء الحطمةفإياك أن تكون منهم. "كر".
14309 ابوبرزۃ الاسلمیٰ سے مروی ہے کہ زیاد کو شرالراعاء الحطمہ کہا جاتا تھا میں نے ان کو کہا : تم ان میں شامل ہونے سے اجتناب کرو۔ ابن عساکر
فائدہ : زیادہ گورنر تھا ظالم اور سخت گیر انسان تھا۔ اس وجہ سے اس کو شرالرعاء الحطمۃ کہا جاتا تھا۔ یہ لفظ اونٹوں کے اس چرواہے کو بولتے تھے جو ان کو مانگتے وقت خوب مارتا ہو پانی پر لے جاتے وقت مار مار کر ان کو ایک دوسرے پر چڑھا دیتا ہوں اور اسی طرح ان کے سیر ہونے سے قبل ہی مار مار کر واپس لے آتا ہو۔ چنانچہ ابوبرزہ (رض) نے زیاد کو نصیحت کی کہ ایسی سخت گیری نہ اپناؤ کہ واقعی ایسے ظالم چرواہوں میں شامل ہوجاؤ۔

14310

14310- عن عبد الرحمن بن سمرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا عبد الرحمن لا تسأل الإمارة فإنك إن تسألها ثم تعطاها توكل إليها وإن تحمل عليها تعان وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فائت الذي هو خير ثم كفر عن يمينك، وأنه لا نذر في يمين ولا في قطيعة رحم ولا فيما لا يملك. "كر".
14310 عبدالرحمن بن سمرۃ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ارشاد فرمایا :
اے عبدالرحمن ! حکومت کا سوال نہ کرنا۔ کیونکہ اگر تمہارے سوال کرنے پر وہ تم کو سپرد کردی گئی تو تم کو بھی اس کے سپرد کردیا جائے گا اور اگر (بلا طلب) تم کو حکومت دی گئی تو پھر تمہاری اس پر مدد کی جائے گی۔ جب تم کسی بات پر قسم اٹھالو پھر اس کو نہ کرنے میں عافیت جانو تو وہی کرو جو بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دیدو۔ یاد رکھو ! گزری بات کو سچ سمجھ کر قسم اٹھانے پر وہ غلط نکلی تو اس پر کفارہ نہیں، قطع رحمی کی قسم اٹھالو تو اس کو پورا نہ کرو۔
بلکہ کفارہ ادا کرو اور جو چیز تمہارے اختیار میں نہیں اس پر اٹھائی گئی قسم کو پورا کرنے کی حاجت نہیں (بلکہ کفارہ ہے) ۔ ابن عساکر

14311

14311- عن الشعبي قال: قال عمر بن الخطاب: دلوني على رجل أستعمله على أمر قد أهمني من أمر المسلمين، قالوا: عبد الرحمن بن عوف قال: ضعيف قالوا: فلان قال: لا حاجة لي فيه: قالوا: من تريد قال: رجل إذا كان أميرهم كان كأنه رجل منهم، وإذا لم يكن أميرهم كأنه أميرهم قالوا: ما نعلمه إلا الربيع بن زياد الحارثي قال: صدقتم. "الحاكم في الكنى".
14311 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : مجھے ایسا کوئی شخص بتاؤ جس کو میں مسلمانوں کے ایک اہم معاملے پر عامل بناسکوں۔ لوگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کا نام لیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : وہ تو کمزور (بوڑھے) ہوگئے ہیں۔ لوگوں نے کسی اور شخص کا نام لیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے اس شخص کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ لوگوں نے پوچھا : آخر آپ کس کو چاہتے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ایسا شخص جو لوگوں کا امیر بنے تو انہی میں سے ایک فرد نظر آئے اور جب وہ امیر نہ ہو تو ان کا امیر محسوس ہوتا ہو ۔ لوگوں نے عرض کیا : ایسا شخص ہم صرف ربیع بن زیاد الحارثی کو جانتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم نے سچ کہا۔ الحاکم فی الکنی

14312

14312- "مسند الصديق" حدثنا سليمان بن أحمد حدثنا يعقوب بن إسحاق المخزومي حدثنا العباس بن بكار الضبي حدثنا عبد الواحد بن أبي عمر الأسدي حدثنا المعافي بن زكريا الجريري حدثنا محمد بن مخلد حدثنا أبو يعلى الساجي حدثنا الأصمعي عن عقبة الأصم عن عطاء عن ابن عباس قال: أنشد أبو بكر الصديق رضي الله عنه. إذا أردت شريف الناس كلهم ... فانظر إلى ملك في زي مسكين ذاك الذي حسنت في الناس فاقته ... وذاك يصلح للدنيا وللدين "ابن النجار".
14312 (مسند الصدیق (رض)) سلیمان بن احمد، یعقوب بن اسحاق المخزومی، عباس بن بکار الضبی، عبدالواحدبن ابی عمر الاسدی، المعافی ابن زکریا، محمد بن مخلد، ابویعلی الساجی، الاصمعی، عقیدالاصم، عطاء ابن عباس۔
ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ اشعار پڑھے :
جب تو لوگوں میں سب سے شریف شخص کو دیکھنا چاہے تو بادشاہ کو فقیرانہ لباس میں دیکھ لے جو لوگوں میں زیادہ فقروفاقہ والا ہو اور دنیا اور دین دونوں کے لیے درست ہے۔ ابن النجار

14313

14313- عن علي قال: حق على الإمام أن يحكم بما أنزل الله وأن يؤدي الأمانة، فإذا فعل فحق على الناس أن يسمعوا له وأن يطيعوا وأن يجيبوا إذا دعوا. "الفريابي ص ش وابن زنجويه في الأموال وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم".
14313 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
حاکم پر لازم ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کے ساتھ فیصلہ کرے اور امانت کو ادا کرے جب وہ یہ کام انجام دے تو لوگوں پر لازم ہے کہ اس کی بات پر کان دھریں اور اس کی تعمیل کریں اور جب ان کو بلایا جائے تو وہ لبیک کہیں۔ العریابی، السنن لسعید بن منصور ، مصنف ابن ابی شیبہ، زنجویہ فی الاموال، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم

14314

14314- عن علي بن أبي ربيعة الأسدي قال: جاء رجل إلى علي بن أبي طالب بابن له بدلا من بعثفقال علي: لرأي شيخ أحب إلي من مشهد شاب. "عباس الربعي في جزئه ق".
14314 علی بن ابی ربیعہ الاسدی سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس اپنے بیٹے کو اپنی جگہ لشکر میں بھیجنے کے لیے لے کر آیا۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : بوڑھے کی راے میرے نزدیک جوان کی جنگ میں شرکت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
عباس الرئعی فی جزیہ، السنن للبیہقی

14315

14315- عن علي قال: ثلاثة من كن فيه من الأئمة صلح أن يكون إماما اضطلعبأمانته إذا عدل في حكمه ولم يحتجب دون رعيته وأقام كتاب الله تعالى في القريب والبعيد. "الديلمي".
14315 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
حکمرانوں میں جس شخص میں یہ تین صفات ہوں وہ واقعی حاکم بننے کے لائق ہے :
جب فیصلہ کرے تو امانت اور انصاف کی بھر پور قوت رکھے، رعایا سے پردہ میں نہ رہے اور قریب اور بعید (رشتہ دار اور غیر واقف کار) ہر ایک پر کتاب اللہ کو نافذ کرے۔ الدیلمی

14316

14316- عن السائب بن يزيد أن رجلا قال لعمر بن الخطاب: لأن أخاف في الله لومة لائم خير لي أم أقبل على نفسي؟ فقال: أما من ولي من أمر المسلمين شيئا فلا يخاف في الله لومة لائم، ومن كان خلوافليقبل على نفسه ولينصح لولي أمره. "هب".
14316 سائب بن یزید سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو عرض کیا : میں اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کو نہ دیکھو یا اپنی ذات کا خیال رکھوں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جو شخص مسلمانوں کے امور پر والی ہو وہ تو اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت کی پروا قطعانہ کرے اور جو عام آمی ہے وہ اپنی ذات کا خیال رکھے اور اپنے حاکم کے لیے خیر خواہی برتے۔ شعب الایمان للبیہقی

14317

14317- عن عمر قال: إن الناس لن يزالوا مستقيمين ما استقامت لهم أئمتهم وهداتهم. "ابن سعد هق"
14317 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
لوگ مشتعل سیدھی راہ گامزن رہیں گے جب تک ان کے حکمران اور راہنما سیدھے رہیں گے۔
ابن سعد ، السنن للبیہقی

14318

14318- عن عمر قال: الرعية مؤدية إلى الإمام ما أدى الإمام إلى الله فإذا رفع الإمام رفعوا. "ابن سعد ش ق ن"
14318 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
رعایا حاکم کو (امانت ) ادا کرنے والی رہے گی جب تک حاکم اللہ کو (امانت) ادا کرنے والا رہے گا جب امام (امانت داری) اٹھالے گا تو رعایا بھی اٹھالے گی۔
اسن سعد، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی، النسائی

14319

14319- عن عمر قال: لا ينبغي أن يلي هذا الأمر إلا رجل فيه أربع خصال: اللين في غير ضعف، والشدة في غير عنف، والإمساك في غير بخل، والسماحة في غير سرف، فإن سقطت واحدة منهن فسدت الثلاث. "عب".
14319 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اس حکومت پر بیٹھنے کے لائق صرف وہی شخص ہے جس میں چار خصلتیں ہوں : کمزوری نہ ہو مگر نرم ہو، شدت ہو مگر سخت مزاجی اور سخت گیری نہ ہو، مال کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر بخیل نہ ہو اور سخاوت کا مالک ہو مگر اسراف نہ کرتا ہو۔ اگر ان میں سے ایک صفت بھی کم ہوگئی تو باقی تین صفات بھی فاسد ہوجائیں گی۔ الجامع لعبد الرزاق

14320

14320- عن عمر قال: لا يقيم أمر الله إلا من لا يصانع ولا يضارعولا يتبع المطامع يكف عن عزته"عب ووكيع الصغير في الغرر كر".
14320 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اللہ کے امر (سلطنت) کو وہی (حاکم) سیدھا کرسکتا ہے جو (اللہ کے حکم کے نفاذ میں تساہل اور) نرمی نہ کرے اور ریاء کاری نہ کرے، حرص وہوس کے پیچھے نہ پڑے، بری بات سے اجتناب برتے اور حق بات کو چھپائے نہ۔ الجامع لعبد الرزاق، وکیع الصغیر فی الغرر، ابن عساکر

14321

14321- عن عمر أنه كتب إلى أبي موسى الأشعري لا تبيعن ولا تبتاعن ولا تشاربن ولا تضاربن ولا ترتشي في الحكم ولا تحكم بين اثنين وأنت غضبان. "عب".
14321 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے انھوں نے (گورنر) حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کو لکھا :
تو لوگوں کے ساتھ خریدو فروخت نہ کر، لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پینا پلانہ نہ کر، لوگوں کے ساتھ ہاتھ پائی نہ کر، فیصلہ میں رشوت ستانی نہ کر، اور غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا۔
الجامع لعبد الرزاق

14322

14322- عن عمر بن الخطاب أنه كتب أن لا يحد أمير جيش ولا أمير سرية رجلا من المسلمين حتى يطلع الدربقافلا فإني أخشى أن تحمله الحمية على أن يلحق بالمشركين. "عب ش".
14322 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے انھوں نے لکھا : کوئی امیر لشکر اور نہ امیر سریہ (چھوٹا لشکر) کسی مسلمان پر حد نافذ نہ کرے جب تک کہ لشکر جنگ سے واپسی میں دشمن ملک کی حدود سے نکل آئے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کو مشرکوں کے ساتھ مل جانے پر جوش وحمیت نہ آجائے۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شیبہ

14323

14323- عن عمر قال: ليس الرجل أمينا على نفسه إذا أخفته أو أوثقته أو ضربته. "عب ش ص ق هـ".
14323 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : آدمی اپنے نفس پر بھی امانت دار نہیں رہے گا جب تو اس کو ڈرادے گا یا اس کو باندھ دے گا یا اس کو زدوکوب کرے گا۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شبیہ، السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی، السنن لابن ماجۃ

14324

14324- عن معاوية قال: كان عمر يكتب إلى عماله لا تخلدن علي كتابا. "ش".
14324 حضرت معاویہ (رض) سے مروی ہے حضرت عمر (رض) اپنے عمال (ارکان حکومت) کو لکھا کرتے تھے : مجھے خط لکھتے رہا کرو ۔ ابن ابی شیبہ
فائدہ : روایت کے الفاظ اگرچہ لا تخلدون علی کتابا جس کے معنی مذکورہ معانی کے مخالف ہیں ممکن ہے شاید کسی راوی یا کاتب سے سہو ہوا ہو۔

14325

14325- عن أبي عمران الجوني قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أبي موسى الأشعري أنه لم يزل للناس وجوه يرفعون حوائج الناس فأكرم وجوه الناس، فبحسب المسلم الضعيف من العدل أن ينصف في الحكم والقسمة. "ابن أبي الدنيا في الأشراف ق قط في الجامع".
14325 ابوعمران الجونی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کو لکھا :
ہمیشہ سے لوگوں کے سردار ہوتے آئے ہیں ، جن کے پاس وہ اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں۔ پس تم لوگوں کے سرداروں کا اکرام کرنا اور کمزور مسلمان کے لیے یہ عدل کافی ہے کہ اس کے ساتھ فیصلہ میں اور تقسیم میں انصاف برتا جائے۔
ابن ابی الدنیا فی الاشراف، السنن للبیہقی، الجامع لعبد الرزاق

14326

14326- عن أبي عثمان النهدي قال: استعمل عمر بن الخطاب رجلا من بني أسد على عمل، فجاء يأخذ عهده، فأتي عمر ببعض ولده فقبله، فقال الأسدي: أتقبل هذا يا أمير المؤمنين؟ والله ما قبلت ولدا قط، قال عمر: فأنت والله بالناس أقل رحمة هات عهدنا لا تعمل لي عملا أبدا فرد عهده. "هناد ق".
14326 ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بنی اسد کے ایک آدمی کو کوئی سرکاری عبدہ تفویض کیا وہ شخص اپنا عہدہ لینے آیا۔ حضرت امیر المومنین کے پاس ان کا کوئی بچہ آیا ہوا تھا۔ آپ (رض) نے اپنے اس بچے کو بوسہ دیا۔ اسدی شخص نے عرض کیا یا امیر المومنین ! آپ اس بچے کو چوم رہے ہیں، اللہ کی قسم ! میں نے تو کبھی اپنے کسی بچے کو نہیں چوما۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! تو تو پھر لوگوں پر رحم کھانے میں بہت کمی کرے گا، لا ہمارا عہدہ ہمیں واپس کردے۔ تو کبھی ہمارا کوئی عہدہ مت اٹھانا۔ ھناد، السنن للبیہقی

14327

14327- عن أنس بن مالك أن عمر بن الخطاب سأله إذا حاصرتم المدينة كيف تصنعون؟ قال: نبعث الرجل إلى المدينة ونصنع له هبيئا من جلود قال: أرأيت إن رمي بحجر؟ قال: إذا يقتل، قال: فلا تفعلوا فو الذي نفسي بيده ما يسرني أن تفتحوا مدينة فيها أربعة آلاف مقاتل بتضييع رجل مسلم. "الشافعي ق".
14327 حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے ، حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان سے پوچھا : جب تم کسی شہر کا محاصرہ کرتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ انس (رض) نے کہا : ہم ایک آدمی کو شہر کی طرف بھیج دیتے ہیں (تاکہ وہ دروازہ کھول آئے) اور کھال کا لباس اس کو پہنا دیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر اس کو شہر والے فصیل سے پتھر ماریں تو ؟ انس (رض) نے عرض کیا : تب وہ قتل ہوجائے گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تب تم ایسا ہرگز نہ کیا کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے یہ بات خوشگوار نہیں لگتی کہ تم ایک مسلمان کی جان دے کر چار ہزار جنگجوؤں سے بھرے شہر کو فتح کرلو۔
الشافعی، السنن للبیہقی

14328

14328- عن طاوس أن عمر قال: أرأيتم إن استعملت عليكم خير من أعلم ثم أمرته بالعدل أقضيت ما علي: قالوا: نعم، قال: لا حتى أنظر في عمله أعمل بما أمرته أم لا. "ق كر".
14328 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تم لوگوں پر ایسے شخص کو عامل، امیروگورنر مقرر کردوں جو میرے علم میں تم سب میں بہتر شخص ہو پھر میں اس کو عدل و انصاف کا حکم بھی دوں تو کیا میں نے اپنے ذمے لازم حق کو پورا کردیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں، جب تک کہ میں اس کے عمل کو نہ دیکھوں کہ اس نے میرے حکم پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ السنن للبیہقی، ابن عساکر

14329

14329- أخبرنا ابن جريج قال: أخبرت أن عمر كتب إلى أبي موسى أن لا يأخذ الإمام بعلمه ولا بظنه ولا بشبهته. "عب".
14329 ابن جریج نے ہمیں خبر دی کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ابوموسیٰ (رض) کو لکھا کہ حاکم اپنے علم پر کسی کی پکڑ نہیں کرسکتا، نہ اپنے گمان پر اور نہ شہ بےکی وجہ سے کسی کو پکڑ سکتا ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

14330

14330- عن عمر قال: لا يصلح هذا الأمر إلا بشدة في غير تجبر ولين في غير وهن"ابن سعد ش".
14330 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
یہ حکومت کا معاملہ درست نہیں رہ سکتا مگر بغیر کسی جبر کے شدت کے ساتھ اور بغیر کسی کمزوری کے نرمی کے ساتھ۔ ابن سعد۔ ابن ابی شیبہ

14331

14331- عن عتاب بن رفاعة بن رافع قال: بلغ عمر بن الخطاب أن سعدا اتخذ قصرا وجعل عليه بابا وقال: انقطع الصويتفأرسل عمر محمد بن مسلمة وكان عمر إذا أحب أن يؤتى بالأمر كما يريد بعثه فقال: ائت سعدا وأحرق عليه بابه، فقدم الكوفة؛ فلما أتى الباب أخرج زنده فاستورى نارا ثم أحرق الباب، فأتى سعد، فأخبر ثم وصف له صفته فعرفه، فخرج إليه سعد فقال محمد: إنه بلغ أمير المؤمنين عنك أنك قلت: انقطع الصويت فحلف سعد بالله ما قال ذلك، فقال محمد: نفعل الذي أمرنا ونؤدي عنك ما تقول وأقبل يعرض عليه أن يزوده، فأبى ثم ركب راحلته حتى قدم المدينة فلما أبصره عمر قال: لولا حسن الظن بك ما رأينا أنك أديت، وذكر أنه أسرع السير وقال: قد فعلت وهو يعتذر ويحلف بالله ما قال، فقال عمر: هل أمر لك بشيء؟ قال: ما كرهت من ذلك، أن أرض العراق أرض رقيقة وأن أهل المدينة يموتون حولي من الجوع فخشيت أن آمر لك فيكون لك البارد ولي الحار، أما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يشبع المؤمن دون جاره. "ابن المبارك وابن راهويه ومسدد".
14331 عتاب بن رافع سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یہ خبر ملی کہ (امیر کوفہ) حضرت سعد (رض) نے ایک محل اپنے لیے بنالیا ہے اور اس کا دروازہ بھی رکھ لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ میرے پاس کسی (فریادی) کا شور نہیں سننا چاہیے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے پیغام بھیج کر محمد بن مسلمۃ کو بلایا۔ حضرت عمر (رض) جب کسی کام کو بالکل اپنی منشاء کے مطابق انجام دلانا چاہتے تھے تو محمد بن مسلمۃ ہی کو بلایا کرتے تھے۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ کو ارشاد فرمایا : تم سعد کے پاس جاؤ اور اس کا دروازہ جلا دو ۔ وہ کوفہ پہنچے اور ان کے دروازے پر پہنچے تو چقماق نکال کر دروازہ کو آگ لگا دی۔
کوئی مخبر حضرت سعد (رض) کے پاس گیا اور ان کو ساری خبر سنائی اور قاصد کا حلیہ ان کو بیان کیا۔ حضرت سعد (رض) پہچان گئے کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں۔ چنانچہ آپ (رض) چل کر محمد بن مسلمہ کے پاس گئے۔ ابن مسلمہ نے فرمایا : تمہاری طرف سے امیر المومنین کو خبر ملی ہے کہ تم نے یہ کہا ہے کہ مجھے کسی فریادی کا شور نہیں سننا چاہیے۔ حضرت سعد (رض) نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ انھوں نے ہرگز یہ بات نہیں کہی۔ محمد ابن مسلمہ نے فرمایا : ہمیں جو حکم ملا ہے ہم اس کو انجام دیں گے اور جو تم کہہ رہے ہو وہ تمہاری طرف سے پہنچادیں گے۔ حضرت سعد (رض) نے محمد بن مسلمہ (رض) کو توشہ دینے کی کوشش کی مگر حضرت محمد بن مسلمہ نے لینے سے انکار کردیا پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ چلے آئے۔ حضرت عمر (رض) نے محمد بن مسلمہ کو (اس قدر جلد واپس) دیکھا تو فرمایا : اگر تمہارے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم خیال کرتے کہ تم حکم کی تعمیل کر کر نہیں آئے۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا : وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرتے رہے تھے اور عرض کیا کہ انھوں نے حکم کی تعمیل کردی ہے جبکہ سعد (رض) معذرت کررہے تھے اور انھوں نے حلفیہ قدم اٹھا کر بیان دیا کہ انھوں نے ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کی۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کیا انھوں نے تم کو کچھ دینے کا حکم دیا تھا ؟ حضرت محمد (رض) نے عرض کیا : انھوں نے تو توشہ دینے کا حکم دیا تھا میں نے بھی اس کو ناپسند نہیں کیا مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے قریب مدینے کے لوگ تو بھوک سے مریں جبکہ میں ارض عراق میں عیش کا کھانا کھاؤں آپ کے لیے ٹھنڈا ہو اور میرے لیے گرم ، کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی نہیں سنا :
وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود سیر ہو کر کھائے جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔
ابن المبارک ، ابن راھویہ، مسدد

14332

14332- عن الحسن أن عمر بن الخطاب قال: هان شيء أصلح به قوما أن أبدلهم أميرا مكان أمير. "ابن سعد"
14332 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ آسان چیز ہے جس کے ساتھ میں قوم کی فلاح و بہبود کرتا رہوں کہ امیر کی جگہ امیر بدلتا رہوں۔ ابن سعد
رعایا پر لازم ہے حکام کے حق میں خیر کی دعا کرے

14333

14333- عن عمر قال: إني لأتحرج أن أستعمل الرجل وأنا أجد أقوى منه. "ابن سعد".
14333 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : مجھے اس امر میں بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ کسی ایسے آدمی کو امیر بناؤں جس سے قوی مجھ کو ملتا ہو۔ ابن سعد

14334

14334- عن سلمة بن شهاب العبدي قال: قال عمر بن الخطاب: أيتها الرعية إن لنا عليكم حقا النصيحة بالغيب، والمعاونة على الخير وإنه ليس شيء أحب إلى الله وأعم نفعا من حلم إمام ورفقه، وليس شيء أبغض إلى الله من جهل إمام وخرقه"هناد".
14334 مسلمۃ بن شہاب العبدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اے رعایا ! ہمارا بھی تم پر حق ہے ، ہماری عدم موجودگی میں ہماری خیر خواہی رکھو اور خیر کے کاموں پر ہماری معاونت کرو، اور اللہ کے نزدیک کوئی چیز زیادہ محبوب اور زیادہ نفع رساں نہیں ہے۔ حاکم کی بردباری اور نرمی سے اور اللہ کے نزدیک کوئی چیز زیادہ ناپسندیدہ نہیں ہے حاکم کی جہالت اور اس کی بیوقوفی سے ۔ ھناد

14335

14335- عن عبد الله بن عكيم قال: قال عمر بن الخطاب: إنه لا حلم أحب إلى الله من حلم إمام ورفقه ولا جهل أبغض إلى الله من جهل إمام وخرقه ومن يعمل بالعفو فيما يظهر به تأتيه العافية، ومن ينصف الناس من نفسه يعطى الظفر في أمره، والذل في الطاعة أقرب إلى البر من التعزز بالمعصية. "هناد".
14335 عبداللہ بن علیم سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کے نزدیک حاکم کی بردباری اور نرمی سے زیادہ کسی کی بردباری محبوب نہیں حاکم کی جہالت اور حماقت سے بڑھ کر کسی کی جہالت اللہ کو مبغوض نہیں ۔ اور جو اپنے ظاہری احکام میں عفو ودگزر سے کام لیتا ہے اس کو عافیت نصیب ہوتی ہے، جو اپنی طرف سے لوگوں کو انصاف فراہم کرتا ہے وہ اپنے امر (حکومت) میں کامیابی پالیتا ہے اور اطاعت گزاری میں عاجزی مسکنت نیکی کے زیادہ قریب ہے معصیت و نافرمانی کی عزت سے ۔ ھناد

14336

14336- عن إبراهيم قال: كان عمر إذا استعمل عاملا فقدم إليه الوفد من تلك البلاد قال: كيف أميركم أيعود المملوك أيتبع الجنازة؟ كيف بابه ألين هو؟ فإن قالوا: بابه لين ويعود المملوك تركه وإلا بعث إليه ينزعه. "هناد".
14336 ابراہیم (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) جب کسی شخص کو کسی علاقے کا عامل (گورنر) مقرر فرماتے پھر اس علاقے سے کوئی وفد آتا تو حضرت عمر (رض) ان سے ان کے امیر کے متعلق دریافت فرماتے : تمہارا امیر کیسا تھا ؟ کیا وہ غلاموں کی عیادت کو جاتا ہے ؟ کیا وہ جنازوں کی ہمراہی کرتا ہے ؟ اس کا دروازہ کیسا ہے نرم ہے (کھلا رہتا ہے یا بند ؟ ) اگر وہ کہتے ہیں : اس کا دروازہ نرم ہے اور وہ غلاموں کی عیادت کرتا ہے تو اس کو عامل چھوڑ دیتے ورنہ اس کا پیغام بھیج کر بلوالیتے اور معزول کردیتے۔ ھناد

14337

14337- عن أبي تميم الجيشاني قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمرو بن العاص أما بعد، فإنه بلغني أنك اتخذت منبرا ترقى به على رقاب الناس أو ما بحسبك أن تقوم قائما والمسلمون تحت عقبيك فعزمت عليك لما كسرته. "ابن عبد الحكم".
14337 ابوتمیم الجیشائی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت عمرو بن العاص (رض) کو لکھا :
امابعد ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم نے منبر بنالیا ہے تم اس کے ذریعے لوگوں کی گردنوں پر چڑھتے ہو (یعنی ان سے بلند ہوتے ہو) کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تم سیدھے کھڑے ہو اور مسلمان تمہاری ایڑیوں کے نیچے ہوں۔ پس میں نے عزم کرلیا ہے اور تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تم ضرور اس کو توڑ دو ۔ ابن عبدالحکم

14338

14338- عن الحسن أن حذيفة قال لعمر: إنك تستعين بالرجل الفاجر فقال عمر: إني لأستعمله لأستعين بقوته ثم أكون على قفائه"أبو عبيد".
14338 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : آپ فاسق شخص کے ذریعے سرکاری کاموں پر مدد حاصل کرتے ہیں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں ایسے شخص کو اس لیے عامل بناتا ہوں تاکہ اس کی قوت سے مدد حاصل کروں پھر اس کی گردن پر مسلط ہو کر اس کی بڑائی کو ختم کروں۔ ابوعبید

14339

14339- عن عروة بن رويم أن عمر بن الخطاب تصفح الناس؛ فمر به أهل حمص فقال: كيف أميركم؟ قالوا: خير أمير إلا أنه بنى علية يكون فيها فكتب كتابا وأرسل بريدا وأمره أن يحرقها، فلما جاءها جمع حطبا وحرق بابها فأخبر بذلك فقال: دعوه فإنه رسول، ثم ناوله الكتاب فلم يضعه من يده حتى ركب إليه؛ فلما رآه عمر قال: الحقني إلى الحرة وفيها إبل الصدقة قال: انزع ثيابك فألقى إليه نمرةمن أوبار الإبل، ثم قال: افتح واسق هذه الإبل فلم يزل ينزع حتى تعب ثم قال: متى عهدك بهذا؟ قال: قريب يا أمير المؤمنين، قال: فذلك بنيت العلية وارتفعت بها على المسكين والأرملة واليتيم ارجع إلى عملك ولا تعد. "كر".
14339 حضرت عروہ بن رویم (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) لوگوں سے حال احوال دریافت فرمایا کرتے تھے۔ اہل حمص ان کے پاس سے گزرے تو آپ (رض) نے پوچھا : تمہارا امیر کیسا ہے ؟
لوگوں نے کہا : اچھا امیر ہے مگر انھوں نے ایک بالاخانہ بنالیا ہے جس میں وہ رہتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ایک خط لکھا اور قاصد کے ہاتھوں اس کو اس عامل کے پاس روانہ کردیا اور اس کو حکم دیا کہ اس امیر کا بالا خانہ جلادے۔ چنانچہ قاصد عامل (امیر) کے پاس پہنچا اور لکڑیاں جمع کیں اور اس کے دروازے کو جلا دیا پھر امیر کو خبر کی گئی تو امیر نے کہا : اس کو چھوڑ دو کیونکہ وہ قاصد ہے۔ پھر قاصد نے آکر امیر کو امیر المومنین کا خط تھمادیا۔ امیر نے خط کو پڑھ کر رکھا بھی نہیں تھا کہ اس نے سواری پر سوار ہو کر ایڑ لگادی حضرت عمر (رض) نے اس کو دیکھا تو فرمایا : مجھے حرۃ۔ پہاڑی مقام پر ملو۔ وہاں صدقے کے اونٹ تھے۔ آپ (رض) نے وہاں امیر کو فرمایا : اپنے کپڑے اتارو۔ پھر اس کی طرف ایک لنگی (تہبند) پھینکی جو اونٹوں کے بالوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر ارشاد فرمایا : اس کو باندھ لو اور اونٹوں کو پانی پلاؤ۔ چنانچہ وہ امیر پانی نکال نکال کر اونٹوں کو پلاتا رہا حتیٰ کہ وہ تھک گیا۔ پھر دریافت فرمایا : تم کب سے اس عہدہ امارت (گورنری) پر فائز ہو ؟ اس نے عرض کیا : قریب سے ہے امیر المومنین ! حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اسی وجہ سے بالا خانہ بنوالیا اور اس میں بیٹھ کر مسکین ، فقیر اور یتیم سے بلند ہو کر بیٹھ گئے۔ بس اب تم اپنے پہلے کام پر چلے جاؤ اور امارت چھوڑ دو ۔ ابن عساکر

14340

14340- عن الأحنف قال: قال عمر بن الخطاب: الوالي إذا طلب العافية ممن هو دونه أعطاه الله العافية ممن هو فوقه. "كر".
14340 احنف (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا :
حاکم جب اپنے سے کم تر کے ساتھ عافیت کا معاملہ رکھے تو اللہ پاک اس کو اس کے اوپر والے سے عافیت بخش دیتا ہے۔ ابن عساکر

14341

14341- عن الأسود قال: كان عمر إذا قدم عليه الوفد سألهم عن أميرهم أيعود المريض أيجيب العبد؟ كيف صنيعه من يقوم على بابه؟ فإن قالوا الخصلة منها وإلا عزله. "ق".
14341 حضرت اسود سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس جب کوئی وفد آتا تھا تو ان سے ان کے امیر کے بارے میں سوال کرتے تھے : کیا وہ مریض کی عیادت کرتا ہے ؟ کیا وہ غلام کی دعوت قبول کرتا ہے ؟ جو اس کے دروازے پر آتا ہے اس کے ساتھ اس کا کیا طرز عمل ہے ؟ پس اگر وہ سب کا اچھا جواب دیتے تو ٹھیک اگر ایک خصلت کا بھی نکار کرتے تو اس کو معزول کردیتے۔
السنن للبیہقی

14342

14342- عن أبي الزناد أن رجلا جلد في الشراب في خلافة عثمان وكان له مكان من عثمان ومجلس في خلوته، فلما جلد أراد ذلك المجلس فمنعه إياه عثمان فقال: لا تعود إلى مجلسك أبدا إلا ومعنا ثالث. "كر".
14342 ابوالزنا دے مروی ہے کہ خلافت عثمان (رض) میں ایک آدمی کو حد شراب لگائی گئی حضرت عثمان (رض) کے ہاں وہ صاحب مرتبہ آدمی تھا اور حضرت عثمان (رض) خلوت میں بھی اس کے ساتھ مجلس فرمایا کرتے تھے (اور رازونیاز کی باتوں میں شریک کرتے تھے) جب اس کو شراب پینے پر کوڑے لگادیئے گئے پھر اس نے کبھی آپ (رض) کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے کا ارادہ کیا تو حضرت عثمان (رض) نے اس کو منع کردیا اور ارشاد فرمایا : آئندہ کبھی بھی تیسرے آدمی کے بغیر ہمارے ساتھ تنہا نہ بیٹھنا۔
ابن عساکر

14343

14343- عن ابن عباس قال: كنت مع عمر بن الخطاب فقال: اذهب فأعلمني من ذاك وكان إذا بعث رجلا في حاجة يقول: إذا رجعت فأعلمني ما بعثتك فيه وما ترد علي فقلت: إنك أمرتني أن أعلم من ذاك وأنه صهيب وأن معه أمه، قال: فليلحق بنا وإن كانت معه أمه. "العدني".
14343 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ تھا آپ (رض) نے مجھے کسی جاتے شخص کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جاؤ دیکھو اور آکر بتاؤ وہ کون ہے ؟ آپ (رض) جب کسی کو کسی کام سے بھیجا کرتے تھے تو اس کو فرمایا کرتے تھے جب تم واپس آؤ تو مجھے بتانا کہ میں نے کس لیے تمہیں بھیجا تھا اور اس کا کیا ہوا ؟ چنانچہ میں نے آکر کہا وہ صہیب ہے اور اس کے ساتھ اس کی ماں ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اسے کہو وہ ہمارے ساتھ آکر مل جائے خواہ اس کے ساتھ اس کی ماں ہو۔ العدنی

14344

14344- عن علي قال: لما نفذنيالنبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن قال: يا علي الناس رجلان فعاقل يصلح للعفو وجاهل يصلح للعقوبة. "ق"
14344 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جب مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن بھیجا تو فرمایا : اے علی ! لوگ دو قسم کے ہیں : عقل مند تو معافی کے لائق بنتا ہے اور جاہل سزا کے لائق بنتا ہے۔ السنن للبیہقی
فائدہ : عقل مند کے ساتھ معافی اور درگزر سے کام لیا جائے تو وہ سیدھی راہ پر آجاتا ہے جبکہ جاہل سزا کے ساتھ ہی سیدھا ہوتا ہے۔

14345

14345- عن علي قال: قلت يا رسول الله إذا بعثتني في شيء أكون كالسكة المحماة أم الشاهد يرى ما لا يرى الغائب، قال: بل الشاهد يرى ما لا يرى الغائب. "حم خ في تاريخه والدورقي حل كر ص".
14345 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! جب آپ مجھے کسی کام پر بھیجیں تو میں مہر لگے ہوئے مکہ کی طرح حکم کی تعمیل کروں یا پھر اس بات کو مدنظر رکھوں کہ حاضر وہ صورت حال دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں حاضر وہ صورت حال دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں حاضر وہ صورت حال دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھ پاتا۔
مسند احمد، التاریخ للبخاری، الدورقی، حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر، السنن لسعید بن منصور
فائدہ : حکم ملنے کے بعد اپنی عقل کو بھی استعمال کرو۔ خلاف واقعہ معاملہ دیکھ کر حکم میں ردوبدل بھی کرو۔

14346

14346- عن رجل من ثقيف قال: استعملني علي بن أبي طالب على عكبرافقال لي: وأهل الأرض عندي إن أهل السواد قوم خدع فلا يخدعنك فاستوف ما عليهم ثم قال لي رح إلي فلما رجعت إليه قال لي: إنما قلت لك الذي قلت لأسمعهم لا تضربن رجلا منهم سوطا في طلب درهم ولا تقمه قائما ولا تأخذن منهم شاة ولا بقرة إنما أمرنا أن نأخذ منهم العفو: أتدري ما العفو الطاقة. "ابن زنجويه في الأموال".
14346 قبیلہ ثقیف کے ایک شخص سے مروی ہے کہ مجھے حضرت علی (رض) نے عکبر اعلاقے کا امیر بنایا اور جس وقت اہل علاقہ بھی میرے پاس موجود تھے، مجھے ارشاد فرمایا : اہل علاقہ دھوکا وہ قوم ہیں۔ تم خیال رکھنا کہیں وہ تمہیں دھوکا نہ دیں۔ ان سے پورا پورا کام لیا کرو۔ پھر مجھے ارشاد فرمایا : اب جاؤ اور شام کو واپس میرے پاس آنا۔ چنانچہ میں ان کے پاس پھر واپس گیا تو مجھے فرمایا : میں نے جو تم کو پہلے کہا تھا وہ محض ان کو سنانے کے لیے کہا تھا۔ تم ان میں سے کسی کو بھی درہم کے مطالبے میں کوڑا تک نہ مارنا، ان کو کھڑا کرکے نہ رکھنا۔ ان سے کوئی بکری لینا اور نہ کوئی گائے، ہمیں تو حکم ملا ہے کہ ہم ان سے صرف زائد (مال) لیں ۔ جانتے ہو زائد کیا ہے وہ طاقت ہے (یعنی ان کی طاقت سے کام لو) ۔ ابن زنجریہ فی الاموال

14347

14347- عن كليب قال قدم علي على مال من أصبهان فقسمه على سبعة أسهم فوجد فيه رغيفا فكسره على سبعة وجعل على كل قسم منها كسرة ثم دعا أمراء الأسباع فأقرع بينهم لينظر أيهم يعطى أولا. "ق كر".
14347 کلیب سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس اصبہان سے مال آیا آپ (رض) نے اس مال کو سات حصوں میں تقسیم فرمایا : مال میں ایک روٹی بھی تھی۔ آپ (رض) نے روٹی کو سات ٹکڑوں میں توڑا اور ہر حصے میں ایک ٹکڑا رکھ دیا۔ پھر لشکر کے امراء کو بلایا اور ان کے درمیان قرعہ اندازی کروائی تاکہ سب سے پہلے کس کو مال دیا جائے اس کا نام نکل آئے۔ السنن للبیہقی، ابن عساکر

14348

14348- عن علي قال: لا يحل للخليفة من مال الله إلا قصعتان قصعة يأكلها هو وأهله وقصعة يطعمها. "كر".
14348 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : خلیفہ کے لیے اللہ کے مال میں حلال نہیں ہے مگر صرف دو پیالے کھانے کے، ایک پیالہ وہ اور اس کے گھر والے کھائیں گے اور دوسرا پیالہ وہ جس کو کھلائے۔ ابن عساکر

14349

14349- عن علي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل للخليفة من مال الله إلا قصعتان قصعة يأكل منها هو وأهله وقصعة يضعها بين يدي الناس."كر حم".
14349 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : خلیفہ کے لیے اللہ کے مال میں سے صرف دو پیالے کھانے کے حلال ہیں ایک پیالہ وہ اور اس کے اہل و عیال کھائیں اور دوسرا پیالہ وہ جس کو لوگوں کے آگے رکھے۔ ابن عساکر، مسند احمد
فائدہ : پیالے سے ہمارے دور کا چھوٹا پیالہ مراد نہیں بلکہ صرف ناک ایک ہے، ورنہ اس دور کے پیالہ سے ایک جماعت پیٹ بھر کر کھانا کھالیتی تھی۔

14350

14350- عن علي بن ربيعة قال: جاء جعدة بن هبيرة إلى علي فقال: يا أمير المؤمنين يأتيك الرجلان أنت أحب إلى أحدهما من نفسه أو قال من أهله وماله، والآخر لو يستطيع أن يذبحك لذبحك فتقضي لهذا على هذا؟ قال: فلهزهعلي وقال: هذا شيء لو كان لي فعلت ولكن إنما ذا شيء لله. "كر".
14350 علی بن ربیعۃ سے مروی ہے کہ جعدۃ بن ھبیرۃ حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور بولا : اے امیر المومنین ! دو آدمی آپ کے پاس آتے ہیں ایک تو آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ وہ آپ کے لیے اپنی جان اپنے اہل و عیال اور اپنا مال سب کچھ قربان کرسکتا ہے جبکہ دوسرا آپ سے اس قدر نفرت رکھتا ہے کہ اگر اس کو موقع ملے تو وہ آپ کو ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ لیکن پھر بھی آپ اس کے حق میں اور اس کے خلاف فیصہ صادر فرماتے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے یہ سن کر جعدۃ کو کچو کا لگایا اور فرمایا : اگر یہ چیز میرے لیے ہوتی ہے تو میں ایسا ہی کرتا ہوں ۔ کیونکہ یہ چیز تو اللہ کے لیے ہے۔ ابن عساکر ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

14351

14351- عن علي جاءه رسول من معاوية فقال له ما وراءك؟ قال آمن قال: نعم إن الرسل آمنة لا تقتل. "كر".
14351 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ان کے پاس حضرت معاویہ (رض) کی طرف سے ایک قاصد آیا۔ آپ (رض) نے اس سے دریافت فرمایا : تیرے پیچھے کا کیا حال ہے ؟ اس نے عرض کیا : وہ (معاویہ) امن جو ہیں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہاں قاصد امن ہی کی علامت ہوتے ہیں اور ان کو قتل نہیں کیا جاتا۔ ابن عساکر

14352

14352- عن أبي الطفيل قال: سمعت عليا يقول: لا أغسل رأسي بغسلحتى آتي البصرة فأحرقها ثم أسوق الناس بعصاي إلى مصر، فأتيت أبا مسعود فأخبرته، فقال: إن عليا يورد الأمور مواردها ولا يحسنونيصدرونها، علي لا يغسل رأسه بغسل ولا يأتي البصرة ولا يحرقها ولا يسوق الناس بعصاه إلى مصر، علي رجل أصلع رأسه مثل الطست إنما حوله رغيبات"خط".
14352 حضرت ابوالطفیل سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : میں اپنا سر کسی چیز سے نہ دھوؤں گا جب تک کہ بصرہ جاکر اس کو نہ جلادوں اور میں وہاں سے لوگوں کو اپنی لاٹھی کے ساتھ ہانک ہانک کر مصر نہ لے جاؤں۔ ابوالطفیل فرماتے ہیں : یہ سن کر میں حضرت ابومسعود (رض) کے پاس گیا اور ان کو حضرت علی (رض) کے عزائم کے متعلق آگاہ کیا۔ حضرت ابومسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : حضرت علی (رض) کاموں کو ان کی صحیح جگہوں پر رکھ دیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ان تک صحیح پہنچ بھی نہیں پاتے۔ علی اپنا سر دھوئیں گے اور نہ بصرہ آئیں گے، نہ اس کو جلائیں گے اور نہ لوگوں کو اپنی لاٹھی کے ساتھ مصر ہانکیں گے۔ علی فقیر منش آدمی ہیں ان کا سرطشت کی طرح۔ بالوں سے بےنیاز اور چکنا ہے۔ آپ (رض) کے اردگرد مرغوب چیزیں پھیلی ہوئی ہیں۔ التاریخ للخطیب

14353

14353- عن بلال بن سعد عن أبيه أنه قيل: يا رسول الله ما للخليفة بعدك؟ قال: مثل الذي لي ما عدل في الحكم وأقسط في القسط ورحم ذا الرحم فمن فعل غير ذلك فليس مني ولست منه. "ابن جرير".
14353 بلال بن سعد سے مروی ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : یارسول اللہ ! آپ کے بعد خلیفہ کے لیے کیا حکم ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ شخص میرے مثل ہوگا جو حکم میں عدل کرے، تقسیم میں انصاف کرے اور رشتے دار کے ساتھ صلہ رحمی برتے۔ پس جو اس کے علاوہ کرے وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور نہ میں اس سے۔ ابن جریر

14354

14354- عن الزهري قال: بلغنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الكتاب الذي كتبه بين قريش والأنصار: ولا تتركوا مفرجاأن تعينوه في فكاك أو عقل"عب".
14354 زہری (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خط میں ارشاد فرمایا جو آپ نے قریش اور انصار کے درمیان لکھا تھا :
کسی مفرج (بےخاندان کے شخص) کو یونہی بےآسرا نہ چھوڑو بلکہ قرضوں سے اس کی گردن چھڑانے میں یا اس کی دیت ادا کرنے میں اس کی مدد کرو۔ الجامع لعبد الرزاق

14355

14355- عن عطارد قال: كان لي حلة فقال عمر: يا رسول الله لو اشتريت هذه الحلة للوفد وليوم العيد. "ابن منده كر"، "وقال: غريب".
14355 عطا (رح) سے مروی ہے کہ میرا ایک حلہ (عمدہ جوڑا) تھا۔ حضرت عمر (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ وفود کے استقبال اور یوم عید کے لیے یہ حلہ خرید لیں۔
ابن مندہ، ابن عساکر
کلام : روایت ضعیف ہے، کنزالعمال ج 5 ص 776 ۔

14356

14356- عن راشد بن سعد عن معاوية قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم أو كدت تفسدهم قال: يقول أبو الدرداء كلما سمعها معاوية من رسول الله صلى الله عليه وسلم نفعه الله بها. "عب".
14356 راشد بن سعد حضرت معاویہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
اگر تو لوگوں کے عیوب کی جستجو میں پڑے گا تو ان کو تباہ کردے گا یا ان کو ہلاکت کے قریب کردے گا۔
راشد بن سعد کہتے ہیں : کہ حضرت ابوالدرداء (رض) فرماتے ہیں کہ مذکورہ فرمان رسول کو حضرت معاویہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کرتے تھے ان کو یہ فرمان نفع دیتا تھا۔
الجامع لعبد الرزاق

14357

14357- "مسند عمر" عن عروة بن رويم اللخمي قال: كتب عمر بن الخطاب إلى أبي عبيدة بن الجراح كتابا فقرأه على الناس بالجابية من عبد الله: عمر أمير المؤمنين إلى أبي عبيدة بن الجراح سلام عليك أما بعد فإنه لم يقم أمر الله في الناس إلا حصيف العقدة بعيد الغرة لا يطلع الناس منه على عورة، ولا يحنق في الحق على جرتهولا يخاف في الله لومة لائم قال، وكتب عمر إلى أبي عبيد اما بعد فإني كتبت إليك بكتاب لم آلكولا نفسي فيه خيرا؛ الزم خمس خلال يسلم لك دينك وتحظى بأفضل حظك: إذا حضرك الخصمان فعليك بالبينات العدول والأيمان القاطعة، ثم ادن الضعيف حتى ينبسط لسانه ويجتريءقلبه، وتعاهد الغريب فإنه إذا طال حبسه ترك حاجته وانصرف إلى أهله، وآو الذي أبطل حقه من لم يرفع به رأسا، واحرص على الصلح ما لم يتبين لك القضاء والسلام عليك "ابن أبي الدنيا في كتاب الأشراف".
14357 (مسند عمر (رض)) عروۃ بن رویم لخمی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ابو عبیدۃ بن الجراح (رض) کو خط لکھا۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) اس وقت جابیہ میں تھے۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے وہ خط مسلمان سپاہیوں کو پڑھ کر سنایا :
اللہ کے بندہ امیر المومنین عمر کی طرف سے ابوعبیدۃ بن الجراح کو تم پر سلام ہو۔ اما بعد !
اللہ کے حکم کو لوگوں میں صرف پختہ رائے اور حاضر دماغ شخص ہی نافذ کرسکتا ہے ، لوگ جس کے عیب پر مطلع نہ ہوں۔ اور وہ حق کی بات پر غصہ میں جھاگ نہ اڑاتا ہو، اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرتا ہو۔
نیز حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدۃ (رض) کو یہ بھی لکھا تھا :
میں تم کو یہ خط لکھ رہا ہوں ، اس میں میں اور نہ میرا نفس تمہاری بھلائی سے کوئی کوتاہی نہیں کرے گا ۔ پانچ باتیں لازم پکڑ لو تمہارا دین سلام رہے گا اور تم اپنا حصہ بھی پورا پورا حاصل کرلو گے۔ جب تمہارے پاس دو خصم (فریق) آئیں تو تم سچے گواہ اور پکی قسموں پر اعتبار کرو۔ پھر کمزور کے قریب لگو تاکہ اس کی زبان کھل جائے اور اس کے دل میں جرات پیدا ہو۔ پردیسی اجنبی کی خیر خبر جلد لو۔ کیونکہ جب اس کا دورانیہ قیام طویل ہوجائے گا تو اس کی حاجت فوت ہوجائے گی اور وہ اپنے گھر لوٹ جائے گا۔ اور شخص کو اپنے پاس ٹھکانا دو جس کا حق رہ گیا ہو اور اس نے اس کے لیے سر بھی اٹھایا ہو۔ اور جب تک فیصلہ ہ ہوجائے صلح کرانے کی کوشش اور حرص رکھو۔
ابن ابی الدنیا فی کتاب الاشراف

14358

14358- عن عمر قال: اسمع وأطع وإن أمر عليك عبد حبشي مجدع إن ضرك فاصبر، وإن أمرك بأمر فأتمر وإن حرمك فاصبر، وإن ظلمك فاصبر، وإن أراد أن ينقص من دينك فقل: دمي دون ديني ولا تفارق الجماعة. "ش ز هـ وابن جرير ونعيم بن حماد الفتن والكجي وابن زنجويه في الأموال ش ق".
14358 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
سن اور اطاعت کر، خواہ تجھ سر ایک کالے کلوٹے ناک کٹے غلام کو امیر بنادیا جائے۔ اگر وہ تجھ کو کوئی نقصان پہنچائے تو صبر کر، اگر تجھے کوئی حکم سونپے اس کی اطاعت کر، اگر وہ تجھے محروم کرے تو صبر کر، اگر تجھ پر ظلم کرے صبر کر اور اگر تیرے دین میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے تب تو اس کو خبردار کردے کہ اپنے دین پر میں اپنا خون بہانے سے دریغ نہ کروں گا۔
اور بہرحال جماعت سے جدا نہ ہونا۔
ابن ابی شیبہ، مسند البزار، ابن ماجہ، ابن جریر، نعیم بن حماد فی الفتن، الکجی، ابن زنجویہ فی الاموال، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

14359

14359- عن عمر قال: من دعا إلى إمارة نفسه أو غيره من غير مشورة من المسلمين فلا يحل لكم ان لا تقتلوه. "عب ن".
14359 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا :
جو شخص مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر اپنی یا کسی اور کی امارت (حکومت) کی طرف بلائے تو تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم اس کو قتل نہ کرو۔ الجامع لعبد الرزاق، النسائی

14360

14360- عن أبي البختري قال: كتب عمر إلى أبي موسى إن للناس نفرة عن سلطانهم فأعوذ بالله أن تدركني وإياكم ضغائن محمولة ودنيا مؤثرة وأهواء متبعة، وإنه ستدعى القبائل وذلك نخوة من الشيطان فإن كان ذلك فالسيف السيف القتل القتل يقولون: يا أهل الإسلام يا أهل الإسلام. "ش".
14360 ابوالبختری سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) کو لکھا :
لوگوں کو اپنے سلطان سے ایک گونہ نفرت ہوجاتی ہے، میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ مجھے اور تم کو ایسی نفرت کا سامنا کرنا پڑے (ایسے سمے) دلوں میں کینے پلتے ہیں، دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، خواہشات کے پیچھے دوڑا جاتا ہے اور قبائل (قوم پرستی) کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو کہ شیطانی غرور ہے۔ پس اگر یہ صورت پیدا ہوجائے تو تم پر تلوار لازم ہے ، تلوار لازم ہے، قتال لازم ہے قتال لازم ہے جب تک کہ وہ (قوم) پرستی سے ہٹ کر یا اہل الاسلام ! یا اہل الاسلام نہ کہنے لگیں۔ یعنی قوم پرستی اور عصبیت چھوڑ کر اسلام پرستی کی طرف نہ آجائیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14361

14361- عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: كتب عمر إلى أمراء الأجناد إذا تداعت القبائل فاضربوهم بالسيف حتى يصيروا إلى دعوة الإسلام. "ش".
14361 طلحہ بن عبید اللہ بن کریز سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امیروں کو لکھا : جب قبائل قبیلہ پرستیوں کی دعوت دینے لگیں تو ان کو تلوار سے سیدھا کرو حتیٰ کہ وہ اسلام کی دعوت کی طرف لوٹ جائیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14362

14362- عن أبي مجلز قال: قال عمر: من اعتزىبالقبائل فأعضوه أو فأمضوه"ش".
14362 ابومجلز سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا :
جس نے قبائل کی طرف اپنی نسبت کی (قوم پرستی کا نعرہ مارا) اس کو کاٹ دو (جدا کردو) اور اس کا فیصلہ کردو۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14363

14363- عن الشعبي أن رجلا قال: يا آل ضبة فكتب إلى عمر فكتب إليه عمر: إن قال، عاقبه - أو قال أدبه - فإن ضبة لم تدفع عنهم سوءا قط ولم تجر إليهم خيرا قط. "ش".
14363 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے یہ نعرہ مارا اے آل ضبہ ! انھوں نے یہ واقعہ حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر اس نے واقعی۔ قوم پرستی کا نعرہ مارا ہے تو اس کو سزا دو یا فرمایا اس کو ادب سکھاؤ۔ بیشک ضبہ کبھی اس سے کوئی مصیبت دور نہیں کرسکتے اور نہ کبھی اس کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14364

14364- عن أبي مجلز قال: قال رجل: يا آل بني تميم فحرمه عمر بن الخطاب عطاءه سنة ثم أعطاه إياه من العام المقبل.
14364 ابومجلز سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا : اے آل بنی تمیم ! (یعنی اس نے قوم پرستی کی طرف اپنے قوم کو بلایا) چنانچہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک سال اس کا وظیفہ (تنخواہ) بند کردیا اور آئندہ سال اس کو وظیفہ دیا۔

14365

14365- عن عمر قال: إنها ستكون أمراء وعمال صحبتهم فتنة ومفارقتهم كفر. "ش".
14365 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا :
عنقریب ایسے حکام اور گورنر آئیں گے جن کی صحبت فتنہ ہوگی اور ان سے مفارقت کفر (کا پیش خیمہ) ہوگی۔ مصنف ابن ابی شیبہ
فائدہ : یہ حال گمراہ حاکموں کا ہے کہ ان کے ساتھ میل جول رکھنا خود کو فتنے میں ڈالنا ہے جیسا کہ آج کل کے حکام کا حال ہے اور ان سے جدا ہونا کفر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف ہونا، عام جماعت المسلمین سے جدا ہوجانا اور ان حکام کے خلافت بغاوت کرنا یہ فتنے سے بھی بڑی چیز ہوگی جو کہ کفر ہے اور اسلام میں دراڑ ڈالنے کا باعث ہے لہٰذا عافیت کے ساتھ ایسے حکام سے دور رہنا مستحسن ہے۔

14366

14366- عن علي قال: إن معاوية سيظهر عليكم، قالوا: فلم نقاتل إذا؟ قال: لا بد للناس من أمير بر أو فاجر. "نعيم ش".
14366 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : عنقریب معاویہ تم پر غالب آجائیں گے۔ لوگوں نے عرض کیا : تب ہم ان سے قتال نہ کریں ؟ ارشاد فرمایا : لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی امیر ضروری ہے خواہ وہ نیک ہو یا فاجر۔ وایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ
نعیم، ابن ابی شیبہ

14367

14367- عن شمر عن رجل قال: كنت عريفا في زمن علي فأمرنا بأمر فقال: أفعلتم ما أمرتكم؟ قلنا: لا، قال: والله لتفعلن ما تؤمرون به أو لنركبن أعناقكم اليهود والنصارى. "ش".
14367 شمر ایک صاحب سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی المرتضیٰ (رض) کے زمانہ میں عریف (قیافہ شناس اور کاہن کے مثل) تھا۔ حضرت علی (رض) نے ہم کو ایک حکم دیا۔ پھر بعد میں پوچھا : کیا میں نے تم کو جو حکم دیا تھا تم نے اس کو پورا کردیا ؟ ہم نے عرض کیا : نہیں۔ تب آپ (رض) نے ارشاد فرمایا :
اللہ کی قسم ! تم کو جو (مسلمان حاکم کی طرف سے) حکم ملتا رہے تم اس کی تعمیل کرتے رہو ورنہ تو تمہاری گردنوں پر یہود و نصاریٰ سورا ہوجائیں گے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14368

14368- عن علي قال: إني لا أرى هؤلاء القوم إلا ظاهرين بتفرقكم عن حقكم واجتماعهم على باطلهم، وإن الإمام ليس بشاق شعرة وانه يخطئ ويصيب؛ فإذا كان عليكم إمام يعدل في الرعية ويقسم بالسوية اسمعوا له وأطيعوا، وأن الناس لا يصلحهم إلا إمام بر أو فاجر؛ فإن كان برا فللراعي والرعية، وإن كان فاجرا عبد فيه المؤمن ربه وعمل فيه الفاجر إلى أجله، وأنكم ستعرضون على سبي وعلى البراءة مني، فمن سبني فهو في حل من سبي ولا يبرأ من ديني فإني على الإسلام. "ش".
14368 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
میں نہیں سمجھتا ان (گمراہوں اور کافروں) کو تم پر غلبہ پانے والا ، مگر ایسی صورت میں جب تم حق سے ہٹ کر تفرقہ بازی کا شکار ہوجاؤ اور وہ اپنے باطل خیال پر مجتمع ہوجائیں۔ حاکم کسی صورت میں بال کو چیر نہیں سکتا ہاں وہ فیصلہ میں خطاء کرسکتا ہے اور صائب بھی ہوسکتا ہے۔ پس جب امام حاکم رعایا میں عدل کرے ، برابری کے ساتھ تقسیم کرے تو تم اس کی سنو اور اس پر عمل کرو ۔ لوگوں کی اصلاح اموال صرف حاکم ہی کرسکتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ اگر وہ نیک ہوگا تو اپنے لیے اور اپنی رعایا کے لیے بھی دونوں کے لیے بھلائی کا موجب ہوگا اور اگر وہ بدکار ہوگا تو تب بھی مومن اس کے سائے میں اپنے رب کی عبادت کرے گا اور بدکار اس کے سائے میں جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اور عنقریب تم لوگ مجھے گالیاں دو گے اور میرے دین سے برأت کا اظہار کرو گے (اور مجھے بےدین ٹھہراؤ گے) ۔ پس جو مجھے گالیاں دے میں اس کو معاف کرتا ہوں لیکن دین سے میری برأت کرنا درست نہیں کیونکہ میں اسلام پر قائم ہوں۔ ابن ابی شیبہ

14369

14369- عن ربيعة بن ماجد قال: قال علي ما أمرتكم به من طاعة الله فحق عليكم طاعتي فيما أحببتم وما كرهتم وما أمرتكم به من معصية الله أو غيري فلا طاعة لأحد في المعصية، الطاعة في المعروف الطاعة في المعروف الطاعة في المعروف. "ابن جرير".
14369 ربیعہ بن ماجد سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا :
میں تم کو اللہ کی اطاعت کا جو حکم دوں تم پر اس میں میری اطاعت لازم ہے، طوعاً اور کرھاً ہر صورت میں۔ اور اگر تم کو اللہ کی نافرمانی کا کوئی حکم دوں، میں یا کوئی بھی میرے سوا تو پس معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت صرف نیکی میں ہے، اطاعت صرف نیکی میں ہے، اطاعت صرف نیکی میں ہے۔ ابن جریر

14370

14370- عن أنس قال: نهانا كبيراؤنا من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قال: لا تسبوا أمراءكم ولا تغشوهم ولا تعصوهم واتقوا الله واصبروا فإن الأمر قريب. "ابن جرير".
14370 حضرت انس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ہمارے بڑوں نے ہم کو حکم دیا تھا : اپنے حاکموں کو برا بھلا نہ کہو، نہ ان پر ہلہ بولو، نہ ان کی نافرمانی کرو، اللہ سے ڈرتے رہو اور صبر کرتے رہو۔ بیشک فیصلہ قریب ہے۔ ابن جریر

14371

14371- عن حذيفة قال: ألا لا يمشي رجل منكم شبرا إلى ذي سلطان ليذله فلا والله لا يزال قوم أذلوا السلطان أذلاء إلى يوم القيامة. "ش".
14371 حضرت حذیفہ (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا :
خبردار ! کوئی شخص (اپنے ) بادشاہ کو ذلیل کرنے کے لیے ایک بالشت بھی نہ چلے۔ ورنہ اللہ کی قسم ! جس قوم نے اپنے بادشاہ کی تذلیل کی ہے اس کے نصیب میں قیامت تک کے لیے ذلت لکھ دی گئی ہے۔ ابن ابی شیبہ

14372

14372- عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عبادة عليك السمع والطاعة في يسرك ومنشطك ومكرهك وأثرةعليك ولا تنازع الأمر أهله، وإن رأيت أنه لك إلا أن يأمروك بأمر وفي لفظ: باثم بواحاعندك تأويله من الكتاب، قيل لعبادة: فإن أنا أطعته قال: يؤخذ بقوائمك فتلقى في النار وليجيء هو فلينقذك. "ابن جرير كر" ورجاله ثقات.
14372 حضرت عبادۃ الصامت (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مجھے) ارشاد فرمایا :
اے عبادۃ ! تجھ پر (حاکم کی) بات سننا اور اس کی اطاعت بجالانا واجب ہے، آسانی میں، خوشی میں، ناراضی میں اور خواہ تجھ پر اوروں کو ترجیح دی جائے۔ کبھی اہل حکمت سے ان کی حکومت میں نزاع نہ کرنا (حکومت کے حصول کے لئے) خواہ تجھے یہ خیال ہو کہ وہ حکومت تیرا حق ہے۔ ہاں اگر وہ تجھے کسی ایسی بات کا حکم کریں جو کھلا گناہ ہو اور کتاب اللہ سے اس کی نہی تیرے سامنے ہو۔ تب تم اس کی اطاعت ہرگز نہ کرنا (بعد میں) حضرت عبادۃ (رض) سے کسی نے پوچھا : اگر میں گناہ کی صورت میں بھی حاکم کی اطاعت کروں تو ؟ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : تب تجھے تیرے ہاتھوں اور پیروں سے اٹھا کر جہنم برد کردیا جائے گا پھر وہ حاکم آکر تجھے بچا لے۔ ابن جریر، ابن عساکر
روایت کے راوی ثقہ ہیں۔

14373

14373- عن عبادة بن الصامت قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: يا عبادة، قلت لبيك يا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اسمع وأطع في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك وإن أكلوا مالك وضربوا ظهرك إلا أن تكون معصية الله بواحا. "كر".
14373 عبادۃ بن الصامت (رض) سے مروی ہے، آپ (رض) فرماتے ہیں : میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : اے عبادۃ ! میں نے عرض کیا : لبیک یارسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سن اور اطاعت کر تنگدستی میں، خوشحالی میں، خوشی میں ناراضگی میں اور خواہ تجھ پر اوروں کو ترجیح اور فوقیت دی جائے، خواہ وہ حکام تیرا مال کھالیں اور تجھے تیری کمر پر کوڑے برسائیں، الایہ کہ وہ حاکم اللہ کی کسی کھلی نافرمانی کا مرتکب ہو۔ ابن عساکر

14374

14374- عن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في نفر من أصحابه فأقبل عليهم فقال: ألستم تعلمون أني رسول الله إليكم؟ قالوا: بلى نشهد أنك رسول الله، قال: ألستم تعلمون أنه من أطاعني فقد أطاع الله ومن طاعة الله طاعتك، قال: فإن من طاعة الله أن تطيعوني، ومن طاعتي أن تطيعوا أمراءكم وإن صلوا قعودا صلوا قعودا. "ع كر" ورجاله ثقات.
14374 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ہمراہ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کیا تم کو علم نہیں ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید استفسار فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ؟ لوگوں نے کہا : بیشک آپ کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میری اطاعت یہ ہے کہ تم اپنے حکام کی اطاعت کرو، اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھیں تو تم بھی بیٹھ کر ان کی اقتداء کرو۔ مسند ابی یعلی، ابن عساکر

14375

14375- عن الشعبي قال: قال المغيرة بن شعبة لأبي عبيدة بن الجراح: إ ن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعملك علينا وأن ابن النابغة قد ارتبعأثر القوم ليس لك معه أمر، فقال أبو عبيدة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا أن نطيعه فأنا أطيعه لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن عصى عمرو بن العاص. "ص".
14375 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) سے عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو ہم پر امیر مقرر فرمایا ہے جبکہ ابن النابغۃ ۔ عمرو بن العاص (رض) قوم سے آس لگائے بیٹھے ہیں (کہ ان کو امیر بنادیا جائے) وہ آپ کی اتباع میں نہیں ہیں۔ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو حکم فرمایا تھا کہ ہم ان کی اتباع کریں لہٰذا میں تو ان کی اتباع کروں گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعمیل ارشاد میں خواہ عمرو بن العاص میری نافرمانی کیوں نہ کرے۔
السن لسعید بن منصور

14376

14376- عن طاوس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لأبي ذر: ما لي أراك لقابقاكيف بك إذا أخرجوك من المدينة؟ قال: آتي الأرض المقدسة، قال: فكيف بك إذا أخرجوك منها؟ قال: آتي المدينة، قال: فكيف بك إذا أخرجوك منها؟ قال: آخذ سيفي فأضرب به، قال: لا ولكن اسمع وأطع وإن كان عبدا أسود، فلما خرج أبو ذر إلى الربذة فوجد بها غلاما لعثمان أسود؛ فأذن وأقام ثم قال: تقدم يا أبا ذر، قال: لا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرني أن أسمع وأطيع وإن كان عبدا أسود فتقدم فصلى خلفه. "عب".
14376 طاؤس (رح) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) کو فرمایا : کیا بات ہے میں تم کو بہت زیادہ اور تیز بولنے والا دیکھتا ہوں (تمہاری اس عادت کی وجہ سے) جب تم کو مدینے سے نکالا جائے گا تب تمہارا کیا حال ہوگا ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : میں سرزمین میں مقدس چلا جاؤں گا۔ ارض فلسطین
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب م کو وہاں سے بھی نکال دیا جائے گا تب کیا کروگے ؟ ابوذر (رض) نے عرض کیا : میں مدینہ آجاؤں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر وہاں سے بھی تم کو نکال دیا جائے گا تب کیا کرو گے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : تب میں اپنی تلوار سونت لوں گا اور اس کے مقابلہ کروں گا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں ایسا نہ کرنا۔ بلکہ تم اپنے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا خواہ وہ کالا غلام ہو۔
امیر کی اطاعت کی جائے اگرچہ حبشی غلام ہو
چنانچہ (دور عثمان (رض)) میں جب حضرت ابوذر (رض) (مدینہ سے باہر) (بذۃ مقام پر) قیام کے لیے بھیجے گئے تو وہاں کا امیر ایک کالا غلام تھا جو حضرت عثمان (رض) کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا۔ اس امیر غلام نے حضرت ابوذر (رض) کی موجودگی میں اذان دی اور پھر نماز کے لیے اقامت کہی اور حضرت ابوذر (رض) کی خدمت میں درخواست کی۔ کہ آگے بڑھیے اور نماز پڑھائیے۔ حضرت ابوذر (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ امیر کی سننا اور اطاعت کرنا خواہ وہ کالا غلام ہو۔ چنانچہ امیر آگے بڑھا اور اس نے نماز پڑھائی اور حضرت ابوذر (رض) نے اس کی اتباع میں نماز پڑھی۔
الجامع لعبد الرزاق

14377

14377- عن الحسن قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم أمراء سوء وأئمة وذكر ضلالة بعضهم، يملأ ما بين السماء والأرض، قيل يا رسول الله ألا نضرب وجهه بالسيف؟ قال: لا، ما صلى أو قال ما صلوا الصلاة فلا. "نعيم بن حماد في الفتن".
14377 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برے حکام کا ذکر فرمایا اور ان کی گمراہی کا تذکرہ فرمایا کہ ان کی گمراہی زمین و آسمان کے خلاء کو پر کردے گی۔ کسی صحابی نے عرض کیا : رسول اللہ ! کیا پھر ہم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ نعیم بن حماد فی الفتن

14378

14378- عن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تقوم عليكم أئمة تعرفون منهم وتنكرون، ومن أنكر فقد نجا ومن كره فقد سلم ولكن من رضي وتابع، قيل: يا رسول الله أفلا نقتلهم؟ قال: أما ما صلوا الصلاة فلا. "ش ونعيم بن حماد في الفتن".
14378 ام مسلمہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جن کی کچھ باتوں کو تم صحیح دیکھو گے اور کئی باتوں کو غلط پاؤں گے۔ جس نے ان کی غلطیوں پر نکیر کی۔ ان کو منع کیا اس نے نجات پائی اور جس نے ان باتوں کو غلط سمجھنے پر اکتفاء کیا وہ بھی محفوظ رہا لیکن جو راضی ہوگیا اور ان کی اتباع میں لگ گیا۔ وہ ہلاک ہوگیا کسی نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔
ابن ابی شیبہ، نعیم بن حماد فی الغتن

14379

14379- عن أسماء بنت يزيد أن أبا ذر الغفاري كان يخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فإذا فرغ من خدمته أوى إلى المسجد، فكان هو بيته يضطجع فيه، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة إلى المسجد فوجد أبا ذر نائما منجدلافي المسجد فركلهرسول الله صلى الله عليه وسلم برجله حتى استوى قاعدا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا أراك نائما فيه؟ فقال أبو ذر أين أنام يا رسول الله؛ مالي من بيت غيره؟ فجلس إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: فكيف أنت إذا أخرجوك منه؟ قال: إذا ألحق بالشام فإن الشام أرض الهجرة والمحشر وأرض الأنبياء فأكون رجلا من أهلها، قال: فكيف أنت إذا أخرجوك من الشام؟ قال: إذا أرجع إليه فيكون بيتي ومنزلي، قال: فكيف أنت إذا أخرجوك منه ثانيا؟ قال: آخذ سيفي فأقاتل حتى أموت، فكشرإليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فأثبته بيده فقال: أدلك على ما هو خير من ذلك؟ قال: بلى بأبي وأمي يا رسول الله، تنقاد لهم حيث ساقوك حين تلقاني وأنت على ذلك. "ابن جرير".
14379 حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوذر الغفاری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتے تھے۔ جب آپ کی خدمت سے فارغ ہوتے تو مسجد میں آکر ٹھکانا کرلیتے تھے۔ یہی آپ کا گھر تھا۔ یہیں آپ آرام فرمایا کرتے تھے۔ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابوذر (رض) کو زمین پر لیٹا ہوا نیند پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے پاؤں سے جگایا۔ حضرت ابوذر (رض) سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا بات ہے میں تم کو مسجد میں سوتا ہوا دیکھ رہاہوں ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! پھر اور کہاں سوؤں، میرا اس کے سوا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا : اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب لوگ تم کو یہاں (مدینے) سے نکال دیں گے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : تب میں ملک شام (جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے) چلا جاؤں گا کیونکہ ملک شام کی سرزمین ہجرت کی سرزمین ہے، میدان حشر بھی وہیں ہوگا اور وہ انبیاء کی سرزمین ہے۔ چنانچہ میں بھی وہاں کا باشندہ بن جاؤں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب تم کیا کرو گے جب تم کو وہاں سے بھی نکال دیا جائے گا ؟ تب ہم کیا کریں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پہلے کی بیعت کو نبھاؤ پھر اس کے بعد آنے والے کی۔ اور تمہارے ذمے ان کے حقوق کو ادا کرنا اور ان کے ذمے تمہارے جو حقوق ہیں اللہ پاک ان سے ان کے بارے میں باز پرس فرمائے گا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14380

14380- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بني إسرائيل كانت تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي قام نبي وأنه لا نبي بعدي قالوا: يا رسول الله فما يكون بعدك؟ يكون خلفاء تكثر، قال: أوفوا بيعة الأول وأدوا إليهم ما عليكم فإن الله سائلهم عن الذي لكم وفي لفظ: سائلهم عما استرعاهم. "ابن جرير".
14380: حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء بنی اسرائیل کے امور کا انتظام فرماتے تھے جب بھی کوئی نبی دنیا سے رخصت ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے نبی کو مبعوث فرماتے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کیا ہوگا ؟ نائبین بہت ہوں گے تم بیعت کرو اور جو حقوق تم پر لازم ہوں ان کو پورا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں پوچھے گا اور ایک روایت میں یوں ہے اللہ تعالیٰ ان کی رعایا بننے کے بارے میں سوال کرے گا۔ ابن جریر۔

14381

14381- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بني إسرائيل كانت تسوسهم أنبياؤهم كلما ذهب نبي خلف نبي فإنه ليس كائن فيكم نبي بعدي، قالوا: فما يكون يا رسول الله؟ قال: يكون خلفاء وتكثر، قالوا: فكيف نصنع؟ قال: أوفوا ببيعة الأول فالأول وأدوا الذي عليكم فليسألهم الله عن الذي عليهم. "ش".
14380: حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کے امور کی تدبیر ان کے انبیاء (علیہم السلام) کرتے تھے جب بھی کوئی نبی گیا تو اس کا نائب نبی آیا لیکن میرے بعد تمہارے درمیان کوئی نبی نہیں ہوگا صحابہ کرام (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ ! پھر کیا ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ کرام نے عرض کی ہم کیا کریں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم یکے بعد دیگرے بیعت کرتے رہو اور جو تم پر لازم ہو اسے ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق پوچھیں گے۔ ابن ابی شیبہ۔

14382

14382- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا هريرة لا تلعن الولاة فإن الله تعالى أدخل جهنم أمة بلعنهم ولاتهم. "الديلمي".
14382 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
اے ابو ہریرہ ! حاکموں کو گالی نہ دینا۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں کے اپنے حاکموں کو گالی دینے کی وجہ سے ایک گروہ کو جہنم میں داخل کرے گا۔ الدیلمی
کلام : روایت بےاصل ہے : دیکھئے : تذکرۃ الموضوعات 183، النتزیہ 315/2 ۔

14383

14383- عن أبي مالك الأشعري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية وأمر علينا سعد بن أبي وقاص، فسرنا حتى نزلنا منزلا فقام رجل فأسرج دابته فقلت له: أين تريد؟ فقال: أريد أتعلففقلت له: لا تفعل حتى تسأل صاحبنا فأتينا أبا موسى الأشعري فذكرنا ذلك له فقال: لعلك تريد أن ترجع إلى أهلك؟ قال: لا، قال: انظر ما تقول قال: لا، قال: فامض راشدا فانطلق فبات ملياثم جاء فقال له أبو موسى: لعلك أتيت أهلك، قال: لا، قال: فانظر ما تقول، قال: نعم قال أبو موسى: فإنك سرت في النار إلى أهلك وقعدت في النار وأقبلت في النار واستقبل. "كر".
14383 ابومالک الاشعری (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو ہمارا امیر لشکرمقرر فرمایا۔ ہم روانہ ہوگئے اور ایک مقام پر جاکر لشکر نے پڑاؤ کیا۔ ایک آدمی لشکر میں سے اٹھا اور اپنے سواری کے جانور کی زین کسنے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا : کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ میں سواری کو چرانے کے لیے لے جارہا ہوں۔ میں نے اس کو کہا : اپنے امیر سے اجازت لیے بغیر ہرگز نہ جاؤ، چنانچہ ہم دونوں حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور ان کو یہ بات ذکر کی۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے اس آدمی سے پوچھا : کیا تم واپس اپنے گھر جانے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ لیکن اس نے انکار کردیا کہ نہیں۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو ؟ آدمی نے جواب دیا : نہیں، (ایسا کچھ نہیں ہے) ۔ تب حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : خیر کے ساتھ سیدھی راہ جاؤ۔ چنانچہ وہ شخص رات کے کچھ پہر تک غائب رہا، پھر آگیا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے اس سے پوچھا : شاید تو اپنی اہلیہ کے پاس گیا تھا ؟ آدمی نے انکار کیا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو ؟ تب آدمی نے جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : تب تو جہنم میں سے ہو کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا تھا اور جہنم میں بیٹھا رہا اور جہنم ہی میں گیا اور جہنم سے ہی واپس آیا۔ ابن عساکر

14384

14384- عن أبي ذر قال: بينما أنا نائم في المسجد إذ خرج علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فضربني برجله، فقال: ألا أراك نائما؟ فقلت يا رسول الله غلبتني عيني، قال: فكيف تصنع إذا أخرجوك منه؟ قلت: ألحق بالشام فإنها أرض المحشر والأرض المقدسة، قال: فكيف إذا أخرجوك منها؟ قلت: أرجع إلى مهاجري قال: فكيف إذا أخرجوك؟ قلت: آخذ سيفي فأضرب به، قال: أولا تصنع خيرا من ذلك وأقرب؟ تسمع وتطيع وتنساق معهم حيث ساقوك. "ابن جرير".
14384 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ میں مسجد میں سو رہا تھا کہ اچانک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لے آئے اور مجھے پاؤں مار کر اٹھایا اور فرمایا : کیا بات ہے میں (تجھے) سوتا دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! نیند مجھ پر غالب آگئی تھی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تجھے یہاں سے لوگ نکالیں گے (جلاوطن کریں گے) تب تم کیا کروں گے ؟ میں نے عرض کیا : میں ملک شام چلا جاؤں گا کیونکہ وہیں میدان حشر ہوگا اور وہ مقدس سرزمین ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب وہاں سے بھی لوگ تم کو نکالیں گے تب کہاں جاؤ گے ؟ میں نے عرض کیا : پھر میں دوسارہ اپنے اسی وطن ہجرت (مدینہ) لوٹ آؤں گا۔ آپ (رض) نے فرمایا : تب میں اپنی تلوار اٹھالوں گا اور جنگ کروں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو اس سے بہتر عمل اور زیادہ مقرب عمل کیوں نہیں کرتا ؟ تو اپنے امیر کی بات سننا اور اس پر عمل کرنا اور جہاں تجھے وہ کھینچے تو کھنچ جانا۔ ابن جریر

14385

14385- عن أبي ذر قال: كنت أخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا أنا فرغت أتيت المسجد فاضطجعت فيه فأتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وأنا مضطجع في المسجد فغمزني برجله، فاستويت جالسا ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف تصنع إذا أخرجت منه؟ قلت: من مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، قلت: ألحق بأرض الأنبياء، قال: كيف تصنع إذا أخرجت منها؟ قلت: آخذ سيفي فأضرب به من يخرجني، فضرب بيده على منكبي ثم قال غفرايا أبا ذر تنقاد معهم حيث قادوك وتنساق معهم حيث ساقوك، ولو لعبد أسود، قال: فلما أنزلت الربذةأقيمت الصلاة فتقدم رجل أسود على بعض صدقاتها فلما رآني أخذ ليرجع ويقدمني، فقلت كما أنت بل أنقاد لأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
14385 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا جب فارغ ہوتا تو مسجد میں آکر آرام کرلیتا تھا۔ پس ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے ۔ میں مسجد میں لیٹا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پاؤں کے ساتھ کچوکا لگایا۔ چنانچہ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : جب تجھے یہاں سے نکالا جائے گا تب تو کیا کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : کیا مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ میں نے عرض کیا : میں سرزمین انبیاء میں چلا جاؤں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب وہاں سے تجھے نکالا جائے گا تب کیا کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : تب میں اس شخص کے خلاف تلوار سونت لوں گا جو مجھے وہاں سے نکالے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ میرے شانے پر مارا اور ارشاد فرمایا : اللہ تیری مغفرت کرے اے ابوذر ! وہ تجھے جہاں ہانکیں تو چلا جانا۔ اور جہاں تجھے وہ کھینچیں کھنچ جانا خواہ تیرا امیر کوئی حبشی غلام ہو۔
حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ جب مجھے مدینے سے مقام ربذۃ میں جلاء وطن کیا گیا اور وہاں نماز کھڑی ہوئی تو امامت کے لیے ایک حبشی غلام جو وہاں کا (صدقات وغیرہ پر عامل اور) امیر تھا، آگے بڑھا۔ لیکن جب اس کی مجھ پر نظر پڑی تو واپس ہونے لگا اور اس نے مجھے آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ میں نے کہا : تو اپنی جگہ امامت کر، میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی وجہ سے تیری اقتداء کروں گا۔ ابن جریر

14386

14386- عن أبي ذر قال له النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبا ذر أنت رجل صالح وسيصيبك بعدي بلاء في الله فاسمع وأطع ولو صليت وراء أسود. "طس وابن عساكر حل".
14386 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا :
ایابوذر ! تو نیک آدمی ہے اور عنقریب میرے (چلے جانے کے) بعد اللہ کی راہ میں تجھے مصیبت پہنچے گی۔ تو (صبر کے ساتھ امیر کی) سننا اور اطاعت کرنا خواہ تجھے حبشی کے پیچھے کی نماز پڑھنی پڑھے۔ الاوسط للطبرانی، ابن عساکر، حلیۃ الاولیاء

14387

14387- عن أبي ذر قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراك يا أبا ذر لقابقا كيف بك يا أبا ذر إذا أخرجوك من المدينة؟ قلت: آتي الأرض المقدسة، قال: فكيف بك إذا أخرجوك منها؟ قلت: آخذ سيفي فأضرب به حتى أقتل قال: لا، اسمع وأطع ولو لعبد أسود. "نعيم بن حماد في الفتن".
14387 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابوذر ! میں تجھے بہت تیز اور سخت بولنے والا دیکھتا ہوں۔ اے ابوذر (تیری اس سخت گو تبلیغ کی وجہ سے) جب تجھے مدینے سے نکالا جائے گا تب تو کیا کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : میں مقدس سرزمین میں چلا جاؤں گا۔ یعنی بیت المقدس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب لوگ تجھے وہاں سے بھی نکالیں گے تب ؟ میں نے عرض کیا : میں اپنی تلوار اٹھالوں گا اور قتال کرتا کرتا شہید ہوجاؤں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم سننا اور اطاعت کرنا خواہ کالے غلام کی اطاعت ہو۔ نعیم بن حماد فی الفتن

14388

14388- عن أبي ذر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: أول الخراب مصر والعراق، فإذا بلغ البناء سلعا فعليك يا أبا ذر بالشام: قلت فإن أخرجوني منها؟ قال: انسق لهم إن ساقوك. "نعيم" وفيه عبد القدوس متروك.
14388 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے مصر اور عراق ویران ہوں گے۔ اور (ان کی طرح یہاں بھی) عمارتیں بننے لگیں تب تم پر سرزمین شام کی طرف کوچ کرنا لازم ہے، اے ابوذر ! میں نے عرض کیا : اگر وہاں کے لوگ مجھے وہاں سے نکال دیں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تب تم ان کی ماننا جہاں بھی وہ تمہیں لے جائیں۔ نعیم
کلام : روایت کی اصل محل کلام ہے اور اس میں عبدالقدوس متروک راوی ہے لہٰذا روایت ناقابل سند ہے۔

14389

14389- عن أبي ذر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبا ذر كيف تصنع إذا أخرجت من المدينة؟ قال: إذا آخذ سيفي فأضرب به من يخرجني فقال: غفرا يا أبا ذر ثلاثا بل تنقاد معهم حيث قادوك وتنساق معهم حيث ساقوك ولو عبدا أسود. "حم".
14389 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : اے ابوذر ! جب تجھے مدینے سے نکالا جائے گا تب تو کیا کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : تب میں تلوار تھام لوں گا اور اس سے مقابلہ کروں گا جو مجھے مدینے سے نکالے گا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمایا : اللہ تیری مغفرت کرے اے ابوذر ! بلکہ تو ان کی اتباع کرنا وہ جہاں بھی تجھے لے جائیں اور جہاں تجھے ہانکیں چلے جانا خواہ تیرا امیر حبشی غلام ہو۔ مسند احمد

14390

14390- عن أبي الدرداء قال: من أتى باب السلطان قام وقعد، ومن وجد بابا مغلقا وجد إلى جنبه مفتوحا رجاء إن سأل أعطي وإن دعا أجيب وإن أول نفاق المرء طعنه على إمامه. "كر".
14390 حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے فرمایا : جو بادشاہ کے دروازے پر آئے تو کھڑا ہو اور بیٹھ جائے۔ اور جو دروازے کو بند پائے تو ہ اس کے پہلو میں دروازہ کھلا بھی پالے گا اس امید پر کہ اگر وہ سوال کرے گا تو اس کو دیا جائے گا اور اگر پکارے گا تو اس کا جواب دیا جائے گا اور آدمی کے نفاق کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے امام (حاکم) پر طعن تشنیع کرے۔ ابن عساکر

14391

14391- عن شريح بن عبيد حدثنا جبير بن نفير وكثير بن مرة وعمير بن أسود والمقدام وأبو أمامة في نفر من الفقهاء أن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله هذا الأمر في قومك فوصهم بنا؛ فقال لقريش: إني أذكركم الله أن لا تشقوا على أمتي من بعدي، ثم قال للناس: سيكون من بعدي أمراء فأدوا لهم طاعتهم، فإن الأمير مثل المجن يتقى به فإن أصلحوا وأمروكم بخير فلكم ولهم، وإن أساؤوا وأمروكم به فعليكم أنتم منه برءاء، فإن الأمير إذا ابتغى الريبةفي الناس أفسدهم، ثم يقول: إنا سمعنا الرسول يقول ذلك. "ابن جرير".
14391 شریح بن عبید سے مروی ہے کہ ہمیں جبیر بن نفیر، کثیر بن مرۃ، عمیر بن اسود، مقدام اور ابوامامہ جیسے فقہاء کی ایک جماعت نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ سلطنت آپ کی قوم کے ہاتھوں میں ہے، آپ ان کو ہمارے بارے میں خیر خواہی اور اچھے سلوک کی تاکید فرمادیں۔ چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو مخاطب ہو کر فرمایا :
میں تم لوگوں کو تاکید کرتا ہوں کہ میرے بعد میری امت پر سختی نہ کرنا۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامۃ المسلمین سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :
عنقریب میرے بعد امراء (حکام) ہوں گے۔ تم ان کی اطاعت کرتے رہنا۔ بیشک امیر ڈھال کی طرح ہوتا ہے جس کے ساتھ (حملوں سے) بچا جاتا ہے ، پس اگر وہ سیدھی راہ پر گامزن رہے اور تم کو بھی بھلائی کا حکم دیا تو تمہارے لیے اور ان کے لیے دونوں کے لیے خیر ہے۔ اگر انھوں نے برائی کی اور برائی کا حکم دیا تو تم برائی سے اجتناب کرنا اور تم ان سے بری ہو۔ بیشک امیر جب لوگوں کے ساتھ برائی کرتا ہے تو ان کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔
راوی کتا ہے : ہم نے رسول کو یونہی فرماتے سنا ہے۔ ابن جریر

14392

14392- عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لأبي ذر: يا أبا ذر إذا رأيت البناء قد بلغ سلعا فعليك بالشام، قلت: فإن حيل بيني وبين ذاك أفأضرب بسيفي من حال بيني وبين ذاك؟ قال: لا ولكن اسمع وأطع ولو لعبد حبشي مجدع. "كر".
14392 بہزبن حکیم اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) کو ارشاد فرمایا :
اے ابوذر ! جب تو عمارات اونچی بنتے دیکھے تو شام چلے جانا۔ حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : اگر میرے اور اس کے درمیان کوئی حائل ہو تو میں تلوار کے ساتھ اس کا مقابلہ نہ کروں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ تم سننا اور اطاعت کرتے رہنا خواہ حاکم ناک کٹا ہو حبشی کالا غلام کیوں نہ ہو۔ ابن عساکر

14393

14393- عن معاذ بن جبل أنه قال لرجل: عليك الطاعة في عسرك ويسرك ومكرهك ومنشطك والأثرة عليك، ولا تنازعوا الأمر أهله ولا تطعه في معصية الله. "ابن جرير".
14393 حضرت معاذ بن جبل (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو ارشاد فرمایا : تجھ پر حاکم کی اطاعت لازم ہے تنگدستی میں، سہولت میں، خوشی میں، ناگواری میں اور خواہ تجھ پر اوروں کو فوقیت دی جائے تب بھی۔ اور اہل حکومت سے حکومت کے لیے ہرگز نزاع نہ کرنا لیکن کبھی بھی خدا کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہ کرنا۔ ابن جریر

14394

14394- عن معاذ بن جبل أنه قال: سيلي عليكم أمراء يعظون على منابر الحكمة، فإذا نزلوا أنكرتم أعمالهم فخذوا أحسن ما تسمعون ودعوا ما أنكرتم من أعمالهم. "كر".
14394 حضرت معاذ بن جبل (رض) سے مروی ہے انھوں نے ارشاد فرمایا :
عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمران آئیں گے جو حکمت کے منبروں پر بیٹھ کر تمہیں نصیحت کریں گے (اچھی اچھی باتیں کریں گے) لیکن نیچے اتریں گے تو تم ان کے اعمال کو الٹا پاؤ گے۔ پس تم نے جو ان کی اچھی باتیں سنی ہوں ان پر عمل بجا لانا اور ان کے اعمال جو تم کو برے لگیں ان کو چھوڑ دینا۔ ابن عساکر

14395

14395- عن الأعمش عن عثمان بن قيس عن أبيه عن عدي بن حاتم قال: حدثني كثير بن شهاب في الرجل الذي لطم الرجل، فقالوا: يا رسول الله ولاة يكونون علينا لا نسألك على طاعة من اتقى وأصلح فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اسمعوا وأطيعوا. "ابن منده كر" وقال يقال إن لكثير صحبة ولا يصح روى عنه عدي بن حاتم الطائي ولا أراه محفوظا.
14395 عن الاعمش عن عثمان بن قیش عن ابیہ عن عدی بن حاتم قال : عدی بن حاتم فرماتے ہیں : مجھے کثیر بن شہاب نے ایک آدمی کے بارے میں بیان کیا کہ اس نے دوسرے آدمی کو طمانچہ مارا، چنانچہ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم پر ایسے امیر جو تقویٰ اختیار کریں اور درست راہ چلیں آئیں تو ان کے بارے میں تو ہم آپ سے کچھ سوال نہیں کرتے (لوگوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
سنتے رہو اور اطاعت کرتے رہو۔ ابن مندہ، ابن عساکر
فائدہ : علامہ سیوطی (رح) فرماتے ہیں کہا جاتا ہے کہ کثیر کو صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شرف حاصل تھا، لیکن یہ درست نہیں ہے نیز یہ کہ ان سے حضرت عدب بن حاتم (رض) نے بھی روایت کی ہے۔ میں اس روایت کو محفوظ الاصل نہیں سمجھتا۔

14396

14396- عن عرباض بن سارية قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقام ووعظ الناس ورغبهم وحذرهم وقال ما شاء الله أن يقول، ثم قال: اعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأطيعوا من ولاه الله أمركم ولا تنازعوا الأمر أهله وإن كان عبدا أسود. "ابن جرير طب ك".
14396 عرباض بن ساریۃ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور کھڑے ہوگئے۔ پھر لوگوں کو وعظ فرمایا۔ ترغیب وترہیب کی اور جو اللہ نے چاہا فرمایا پھر ارشاد فرمایا : اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، جن لوگوں کو اللہ نے تمہارا امیر بنایا ہے ان کی اطاعت کرتے رہو اہل حکومت سے نزاع نہ کرو خواہ تمہارا امیر کالا حبشی غلام ہو۔ ابن جریر، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم

14397

14397- عن حفص بن غياثعن عثمان بن قيس الكندي عن أبيه عن عدي بن حاتم قال: قلنا يا رسول الله لا نسألك عن طاعة من اتقى وأصلح ولكن من جعل، وجعل يذكر السيء فقال: اتقوا الله واسمعوا وأطيعوا. "كر"
14397 عن حفص بن غیاث عن عثمان بن قیش الکندی عن ابیہ عن عدی بن حاتم کی سند سے مروی ہے حضرت عدی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم ایسے حاکموں کی اطاعت کے متعلق سوال نہیں کرتے جو صاحب تقویٰ ہیں اور صلح ج وہیں بلکہ ایسے حکمران جو ایسی ایسی بری صفات کے حامل ہیں ان کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ سے ڈرتے رہو۔ سنتے رہو اور اطاعت کرتے رہو (خواہ کیسے حکمران ہوں) ۔ ابن عساکر
کلام : امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد میں 221/5 پر اس کی تخریج فرمائی اور فرمایا کہ اما طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے اور سا میں عثمان بن قیس ضعیف راوی ہے۔

14398

14398- عن علي قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية واستعمل عليهم رجلا من الأنصار فأمرهم أن يسمعوا له ويطيعوا، فلما خرجوا وجد عليهم في شيء فقال: أليس قد أمركم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى قال: اجمعوا حطبا، ثم دعا بنار فأضرمها فيه، ثم قال: عزمت عليكم لتدخلنها فهم القوم أن يدخلوها، فقال لهم شاب منهم: إنما فررتم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من النار فلا تعجلوا حتى نلقى النبي صلى الله عليه وسلم فإن أمركم أن تدخلوها فادخلوا فرجعوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبروه فقال: لو دخلتموها ما خرجتم منها أبدا، وفي لفظ: لو دخلوها لم يزالوا فيها إلى يوم القيامة لا طاعة في معصية الله، إنما الطاعة في المعروف. "ط حم ش خم د ن ع وابن خزيمة وابن منده في غرائب شعبة وابن خزيمة وأبو عوانة حب هق في الدلائل".
14398 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ (لشکر) بھیجا اور اس پر ایک انصاری کو امیر مقرر فرمایا : پھر اہل لشکر کو حکم دیا کہ وہ اپنے امیر کی بات کو سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔
چنانچہ جب لشکر نکلا تو امیر لشکر نے کسی بات میں اہل لشکر پر غصہ کیا اور فرمایا : کیا تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا ؟ اہل لش کرنے عرض کیا : کیوں نہیں۔ امیر نے حکم دیا : تم لکڑیاں اکٹھی کرو ۔ پھر آگ منگوائی اور لکڑیوں میں آگ جلوادی پھر اہل لشکر کو مخاطب کرکے حکم دیا کہ میں تم کو سختی کے ساتھ حکم دیتا ہوں کہ ضرور بالضرور اس آگ میں داخل ہوجاؤ۔ چنانچہ اہل لشکر نے آگ میں گھسنے کا ارادہ کرلیا۔ اہل لشکر میں سے ایک جوان آدمی اپنے ساتھیوں کو مخاطب ہو کربولا : تم لوگ آگ سے بچ کر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھاگ کر آئے ہو۔ لہٰذا تم جلدی نہ کرو جب تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات نہ کرلیں۔ پھر اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو یہی حکم دیا تو تم ضرور آگ میں گھس جانا۔
پس اہل لشکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوٹ کر تشریف لے گئے اور سارے معاملے کی خبر دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم اس آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر کبھی اس سے واپس نہ نکل سکتے۔ اور دوسرا الفاظ یہ ہیں کہ اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک ہمیشہ ہمیشہ اسی میں جلتے رہتے (سنو ! ) اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ ابوداؤد ، مسند احمد ، ابن ابی شیبہ، البخاری، مسلم، مسند ابن امام احمد بن حنبل، النسائی ، مسند ابی یعلی، ابن خزیمہ ، ابن منذہ فی غرائب شعبۃ، ابن خزیمہ، ابوعوانۃ، ابن حبان، الدلائل للبیہقی

14399

14399- عن حكيم بن يحيى قال: قال علي: احذروا على دينكم ثلاثة: رجل آتاه الله القرآن، ورجل آتاه الله سلطانا فقال من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله وقد كذب لا يكون لمخلوق خشية دون الخالق. "أبو عاصم النبيل في جزء من حديثه".
14399 حکیم بن یحییٰ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اپنے دین میں تین آدمیوں سے محتاط رہو : ایک وہ شخص جس کو اللہ نے قرآن عطا کیا۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے سلطنت عطا کی اور وہ کہے کہ : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ تو اس نے یہ جھوٹ بولا : بیشک خالق کے سوا کسی مخلوق سے کوئی خوف نہیں۔ ابوعاصم النبیل فی جزہ من حدیثہ

14400

14400- عن الحسن أن زيادا استعمل الحكم بن عمرو الغفاري على جيش، فلقيه عمران بن حصين فقال: هل تدري فيما جئتكم؟ أما تذكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بلغه الذي قال له أميره قم فقع في النار فقام الرجل ليقع فيها؛ فأدرك فأمسك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو وقع فيها لدخل النار لا طاعة لأحد في معصية الله قال: بلى قال: فإنما أردت أن أذكرك هذا الحديث. "أبو نعيم".
14400 حضرت حسن سے مروی ہے کہ زیاد نے ایک لشکر پر حکم بن عمر وغفاری کو امیر مقرر کیا۔ پھر حضرت عمران بن حصین (رض) نے حکم بن عمروغفاری سے ملاقات کی اور فرمایا تم جانتے ہو میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں، میں تم کو وہ واقعہ یاددلانا چاہتا ہوں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شخص کی اطلاع ملی جس کو اس کے امیر نے کہا کہ اٹھ اور آگ میں کو دجا۔ چنانچہ وہ آدمی آگ میں کودنے کے قریب ہوگیا تو اس کو کسی نے پکڑ لیا اور اس عمل سے روک لیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا : اگر وہ آگ میں کود جاتا تو جہنم میں داخل ہوجاتا۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔
چنانچہ حکم بن عمروغفاری نے عرض کیا : ہاں مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔ حضرت عمران بن حصین (رض) نے فرمایا : پس میں تم کو یہ حدیث یاد دلانا چاہتا تھا۔ ابونعیم

14401

14401- عن ابن سيرين أن عمران بن حصين قال للحكم الغفاري: أسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا طاعة للمخلوق في معصية الخالق؟ قال: نعم. "أبو نعيم".
14401 ابن سیرین (رح) سے منقول ہے کہ حضرت عمران بن حصین غفاری (رض) نے حکم غفاری کو فرمایا : کیا تو نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔ حکم غفاری نے عرض کیا : جی ہاں۔ ابونعیم
کلام : روایت ضعیف ہے : المتناھیۃ 1280، الوقوف 36 ۔

14402

14402- عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اسمعوا قلنا سمعنا قال: اسمعوا ثلاثا، إنه سيكون عليكم أمراء يكذبون ويظلمون فمن دخل عليهم فصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولا أنا منه ولن يرد على الحوض، ومن لم يدخل عليهم ولم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وهو وارد علي الحوض. "ابن جرير".
14402 حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سنو ! ہم نے عرض کیا : ہم سن رہے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمایا : سنو ! سنو ! سنو ! پھر ارشاد فرمایا :
عنقریب تم پر ایسے حکام مسلط ہوں جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم کریں گے پس جو ان کے پاس گیا اور ان کے جھوٹ میں تصدیق کی اور ان کے ظلم میں مدد کی وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ اور وہ شخص ہرگز حوض پر میرے پاس نہیں آسکے گا۔
جبکہ جو ان کے پاس نہیں گیا اور نہ ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ میرا ہے میں اس کا ہوں اور وہ ضرور میرے پاس حوض پر آئے گا۔ ابن جریر

14403

14403- عن خباب أنه كان قاعدا على باب النبي صلى الله عليه وسلم قال: فخرج ونحن قعود فقال: اسمعوا قلنا: سمعنا يا رسول الله قال: إنه سيكون أمراء من بعدي فلا تصدقوهم بكذبهم ولا تعينوهم على ظلمهم فإنه من صدقهم بكذبهم أو أعانهم على ظلمهم فلم يرد علي الحوض. "هب".
14403 حضرت خیاب سے مروی ہے کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے جبکہ ہم (صحابہ کرام) بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سنو ! ہم نے عرض کیا : ہم سنتے ہیں یارسول اللہ ! پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
عنقریب میرے بعد امراء (حکام) آئیں گے تم ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق نہ کرنا اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کرنا۔ بیشک جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی یا ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ شخص ہرگز حوض پر میرے پاس نہیں آسکے گا۔ شعب الایمان للبیہقی

14404

14404- عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنها ستكون أمراء يعرفون وينكرون، فمن ناواهم نجا ومن اعتزلهم سلم أو كاد ومن خالطهم هلك. "ش".
14404 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب ایسے امراء آئیں گے جو نیک کام بھی کریں گے اور برے کام بھی انجام دیں گے پس جو ان سے دور رہا وہ نجات پا گیا اور جس نے ان سے کنارہ کیا وہ سلامت رہا یا سلامتی کے قریب ہوگیا اور جس نے ان کے ساتھ مخالطت کی وہ ہلاک ہوگیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14405

14405- عن ابن عباس قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا وأمر عليهم رجلا من الأنصار وأمرهم أن يسمعوا له وأن يطيعوا فسار فنزل منزلا فوجد عليهم في بعض الأمر، فقال: أو ليس قد أمركم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال وهم عند غيضة قال: فإني أعزم عليكم أن يقوم كل رجل منكم حتى يحمل وقرهمن هذه الغيضةحتى تجمعوه فجمعوه فأوقد فيه النار حتى صارت نارا ضخمة، ثم قال: عزمت عليكم إلا وقعتم فيها، فقال بعضهم: إنما نفر من النار وقام آخرون ليقعوا فيها فمنعهم الآخرون؛ فلما قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم ذكروا له ذلك فقال النبي صلى الله عليه وسلم للذين أبوا ما منعكم أن تقعوا فيها؟ فقالوا: أمرتنا أن نطيعه فعزم علينا أن نقع فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أما أنتم فقد أحسنتم حين منعتموهم، واما أنتم فلو وقعتم فيها ما خرجتم منها أبدا إنما الطاعة في المعروف. "ابن جرير".
14405 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اور ان پر ایک انصاری کو امیر بنایا۔ نیز لشکر کو حکم دیا کہ وہ اپنے امیر کی سنیں اور اطاعت کریں۔ پھر لشکر کوچ کر گیا اور ایک منزل پر فروکش ہوگیا۔ امیر لشکر کو کسی بات میں اہل لشکر پر غصہ آگیا۔ امیر نے کہا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو حکم نہیں دیا کہ تم میری اطاعت کرو۔ اہل لشکر نے عرض کیا : بالکل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے۔ راوی کہتے ہیں : اس وقت وہ لوگ درختوں کے جھنڈے کے پاس تھے۔ چنانچہ امیر لشکر نے ان کو کہا : میں تم کو سختی کے ساتھ حکم دیتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک اس جھنڈ میں لکڑیاں اکٹھی کرے۔ چنانچہ سب نے مل کر لکڑیوں کا انبار لگادیا۔ پھر امیر لشکر نے اس میں آگ بھڑکائی۔ حتیٰ کہ آگ خوب شعلہ زن ہوگئی تو پھر امیر نے اہل لشکر کو حکم دیا کہ میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں کود جاؤ۔ بعض لشکر یوں نے کہا : ہم تو آگ سے بھاگ کر آئے تھے (اب کیوں آگ میں کو دیں) جبکہ بعض دوسرے کودنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن ان کو دوسرے ساتھیوں نے روک لیا۔ چنانچہ جب یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا جنہوں نے آگ میں کودنے سے انکار کردیا تھا کہ تم کیوں نہیں کودنے کے لیے آمادہ ہوئے ؟ انھوں نے جواب دیا : آپ نے ہمیں امیر کی اطاعت کا حکم دیا تھا جبکہ اس نے ہم پر سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ہم آگ میں کو دیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہرحال تم نے اچھا کیا انکار کرکے۔ اور پھر دوسرے گروہ کو فرمایا : اگر تم لوگ آگ میں کود جاتے تو کبھی بھی اس سے نہ نکل پاتے۔ بیشک اطاعت تو صرف نیکی کے کام میں ہے۔ ابن جریر

14406

14406- عن ابن عمر قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد وفيه تسعة نفر، فقال: إنها ستكون عليكم امراء من بعدي، فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم وغشى أبوابهم فليس مني ولست منه وأنا منه بريء ولم يرد على الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم ولم يغش أبوابهم فهو مني وأنا منه وسيرد علي الحوض. "ابن جرير".
14406 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کی طرف تشریف لائے۔ اس وقت مسجد میں نوافراد بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عنقریب تم پر میرے بعد امراء (حکام) آئیں گے۔ پس جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی ان کے ظلم پر ان کی مدد کی اور ان کے دروازوں پر بھیڑ لگائی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، نہ میرا اس سے کوئی تعلق اور میں اس سے بری ہوں۔ وہ حوض پر میرے پاس نہیں آسکے گا۔ اور جس نے اس کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور ان کی مدد نہ کی اور ان کے دروازوں پر رش لگایا پس وہ میرا ہے اور میں اس کا اور عنقریب وہ حوض پر مجھ سے آکر ملے گا۔ ابن جریر

14407

14407- عن سويد بن غفلة قال: سمعت أبا موسى الأشعري يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سيكون في هذه الأمة حكمان ضالان ضال من اتبعهما فقلت: يا أبا موسى انظر لا تكون أحدهما قال: فوالله ما مات حتى رأيته أحدهما. "طب" وقال هذا عندي باطل لأن جعفر بن علي شيخ مجهول لا يعرف.
14407 سوید بن غیفلہ سے مروی ہے کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری (رض) سے سنا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
عنقریب اس امت میں دو گمراہ حاکم آئیں گے۔ جس نے ان کی اتباع کی وہ بھی گمراہ ہوجائے گا۔
سوید (رض) کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اے ابوموسیٰ ! دیکھنا کہیں تم ان دونوں میں سے ایک نہ ہوجانا (کیونکہ ابوموسیٰ اشعری (رض)) دور فاروقی میں بحرین کے گورنر تھے حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ان دونوں میں سے ایک تو مرنے سے پہلے میں نے دیکھ لیا۔ الکبیر للطبرانی
کلام : امام سیوطی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت میرے نزدیک بالکل باطل ہے کیونکہ جعفر بن علی شیخ مجہول ہے اور بالکل غیر معروف ہے۔

14408

14408- عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سيكون أمراء يظلمون ويكذبون ويغشاهمغواش أو قال حواش من الناس فمن أعانهم على ظلمهم وصدقهم بكذبهم، فليس مني ولا أنا منه، ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه. "ابن جرير".
14408 حضرت ابوسعیدخدری (رح) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
عنقریب ایسے امراء آئیں گے جو ظلم کریں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ جبکہ کچھ چھانے والے لوگ ان پر چھا جائیں گے۔
پس جس نے ان کے ظلم وستم پر ان کی مدد کی اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی واسطہ ہے۔ اور جس نے ان کے کذب کی تصدیق نہ کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا۔ ابن جریر

14409

14409- عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث علقمة بن محرز على بعث أنا فيهم، فلما انتهى إلى رأس غزاتهأو كان ببعض الطريق استأذنته طائفة من الجيش فأذن لهم وأمر عليهم عبد الله بن حذافة بن قيس السهمي فكنت فيمن غزا معه، فلما كنا ببعض الطريق أو قد القوم نارا ليصطلوا أو ليصطنعوا عليه صنيعا لهم، فقال عبد الله وكانت فيه دعابة: أليس لي عليكم السمع والطاعة؟ قالوا: بلى، قال: فما نأمركم بشيء إلا صنعتموه؟ قالوا: نعم، قال: فإني أعزم عليكم إلا تواثبتم في هذه النار، فلما قدمنا ذكرنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: من أمركم منهم بمعصية فلا تطيعوه. "ش".
14409 حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علقمہ بن محرز کو ایک لشکر پر امیر مقرر کیا۔ میں بھی اس لشکر میں شامل تھا۔ چنانچہ لشکر جب جنگ کے مقام پر پہنچا یا ابھی راستہ میں تھا کہ لشکر میں سے ایک جماعت نے آگے بڑھنے کی اجازت طلب کی۔ امیر نے ان کو اجازت دیدی اور اس چھوٹے لشکر پر عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی کو امیر بنادیا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں : میں بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ ہم نے راستے میں ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ لوگوں نے ہاتھ تاپنے کے لیے یا کھانا وغیرہ بنانے کے لے ایک الاؤ بھڑکایا۔ عبداللہ امیر لشکر جو کچھ ہنسی مذاق کا مزاج رکھنے والے تھے نے فرمایا : کیا تم پر میری سعی وطاعت فرض نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں۔ عبداللہ بولے : تو اگر میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو تم اطاعت کرو گے ؟ لوگوں نے کہا : ضرور۔ عبداللہ بولے : تب میں تم کو سختی سے تاکید کرتا ہوں کہ اس آگ میں کود جاؤ۔
حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں : پھر جب ہم واپس ہوئے تو ہم نے اس واقعہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبروذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو بھی نافرمانی کا حکم کرے اس کی اطاعت نہ کرو۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14410

14410- عن معر الضبي قال: لما قدم عبد الله بن عامر الشام أتاه من شاء الله أن يأتيه من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلا أبا الدرداء فإنه لم يأته فقال: لا أرى أبا الدرداء أتاني فيمن أتى، فلآتينه ولأقضين من حقه فأتاه فسلم عليه وقال له: أتاني أصحابك ولم تأتني فأحببت أن آتيك وأقضي من حقك، فقال له أبو الدرداء: ما كنت قط أصغر في عين الله ولا في عيني منك اليوم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا أن نتغير عليكم إذا تغيرتم. " ... "
14410 معرالضبی سے مروی ہے کہ جب عبداللہ بن عامر ملک شام آئے تو جن کے متعلق اللہ نے چاہا صحابہ کرام اور دوسرے حضرات ان سے بغرض ملاقات حاضر ہوئے، مگر حضرت ابوالدرداء (رض) تشریف نہ لائے۔ عبداللہ بن عامر بولے : کیا بات ہے میں ابوالدرداء کو اپنے پاس آنے والوں میں نہیں دیکھ رہا۔ چلو کوئی بات نہیں میں خود ان کے پاس چل کرجاتا ہوں اور ان کا حق ادا کرتا ہوں۔ چنانچہ عبداللہ بن عامر حضرت ابوالدرداء (رض) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سلام کیا۔ پھر بولا : میرے پاس آپ کے ساتھی تو آئے لیکن آپ تشریف نہیں لائے، لہٰذا نے سوچا میں خود ہی چل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں اور آپ کا حق ادا کروں۔ حضرت ابوالدرداء (رض) نے اس کو فرمایا : تجھ سے بڑھ کر پست انسان اللہ کی نظر میں اور نہ میری نظر میں آج کے دن کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو حکم فرمایا تھا کہ حکام تمہارے ساتھ بدل جائیں گے تو اس وقت تم بھی اپنا رویہ ان کے ساتھ بدل لینا۔
کلام : یہ روایت کنزالعمال میں حوالہ سے خالی ہے جبکہ امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 229/5 میں مغراء سے اس کو نقل کیا اور فرمایا کہ امام طبرانی (رح) نے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں لیث بن ابی سلیم ایک راوی ہے جو مدلس ہے اور اس روایت کے بقیہ راوی ثقہ ہیں۔

14411

14411- عن كعب بن عجرة قال: خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في المسجد أنا تاسع تسعة خمسة من العرب وأربعة من العجم فقال لنا: أتسمعون هل تسمعون ثلاث مرات؟ قلنا: سمعنا، قال: فاسمعوا إذا إنها ستكون عليكم أئمة، فمن دخل عليهم فصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فلست منه وليس مني ولا يرد على الحوض يوم القيامة، ومن لم يدخل عليهم ولم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وسيرد على الحوض يوم القيامة. "ابن جرير هب"
14411 کعب (رض) بن عجرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان نو آدمیوں میں سے ایک تھا جو وہاں موجود تھے۔ ان میں سے پانچ تو اہل عرب میں سے تھے اور چار عجمی تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو ارشاد فرمایا : کیا تم سن رہے ہو ؟ تین بار آپ نے یہی بات دریافت فرمائی کہ کیا تم سن رہے ہو ؟ ہم نے (ہر بار) عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم سن رہے ہیں۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اچھا تو سنو !
ظلم کے کاموں میں حکام کی مدد نہ کی جائے
عنقریب تم پر کچھ حکمران آئیں گے، پس جو شخص ان کے پاس داخل ہوا، ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی معاونت کی تو میں اس سے نہیں اور وہ مجھ سے نہیں اور وہ شخص قیامت کے دن حوض پر میرے پاس نہ آسکے گا۔ اور جو شخص ایسے حکام کے پاس نہ گیا، نہ ان کے کذب کی اس نے تصدیق کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے۔ اور عنقریب قیامت کے دن وہ حوض پر مجھ سے آکر ضرور ملے گا۔ ابن جریر، شعب الایمان للبیہقی

14412

14412- عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا كعب بن عجرة أعيذك بالله من إمارة السفهاء قلت: يا رسول الله وما إمارة السفهاء؟ قال: يوشك أن تكون أمراء إن حدثوا كذبوا وإن عملوا ظلموا، فمن جاءهم فصدقهم بكذبهم، وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه ولا يردون على حوضي غدا ومن لم يأتهم ولم يصدقهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وهو يرد على حوضي غدا. "ابن جرير".
14412 سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرۃ عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے، حضرت کعب بن عجرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : اے کعب بن عجرہ ! میں تیرے لیے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں بیوقوفوں (ظالموں) کی حکومت سے۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! بیوقوفوں کی حکومت کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
عنقریب ایسے حکمران آئیں گے جو بات کریں تو جھوٹ بولیں گے، اگر کوئی کام کریں گے تو ظلم کریں گے۔ پس جو شخص ان کے پاس آیا پھر ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ اور ایسے لوگ کل قیامت کے دن میرے پاس حوض پر (ہرگز) نہ آسکیں گے۔ اور جو شخص ایسے حکمران کے جانے سے محترزرہا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا اور وہ حوض پر مجھ سے آکر ملے گا۔ ابن جریر

14413

14413- عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: كيف بك يا أبا عبد الرحمن إذا كان عليك أمراء يطفئون السنة ويؤخرون الصلاة عن ميقاتها؟ قلت: فكيف تأمرني يا رسول الله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يسالني ابن أم عبد كيف يفعل لا طاعة للمخلوق في معصية الله. "عب حم".
14413 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : اے ابوعبدالرحمن ! تیرا کیا حال ہوگا جب تجھ پر (کل) ایسے حکمران مسلط ہوں گے، جو سنت کو مٹائیں گے، نماز کو اس کے وقت سے ٹال کر پڑھیں گے ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! پھر آپ مجھے ایسے موقع کے لیے کیا حکم دیتے ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود) مجھ سے سوال کرتا ہے کہ وہ کیا وجہ اختیار کرے۔ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمان برداری نہیں ہے۔ مصنف عبدالرزاق، مسند احمد

14414

14414- عن عروة قال: أتيت ابن عمر فقلت: إنا نجلس إلى أئمتنا هؤلاء فيتكلمون بالكلام، ونحن نعلم أن الحق مع غيرهم فنصدقهم، ويقضون بالجور فنقويهم ونحسنه لهم فكيف ترى في ذلك؟ فقال: يا ابن أخي كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نعد هذا النفاق فلا أدري كيف هو عندكم؟ "هب"
14414 حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ میں حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ہم لوگ ان حکمرانوں کے پاس بیٹھتے ہیں وہ علم کلام میں گفتگو کرتے ہیں جبکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حق پر وہ نہیں کوئی اور ہیں۔ مگر ہم ان حکام کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔ نیز وہ ظلم پر مبنی فیصلے کرتے ہیں، ہم ان کو تقویت پہنچاتے ہیں اور ایسا عمل ان کی نظروں میں قابل تحسین کراتے ہیں تو آپ ہمارے اس طرز عمل کو کیا خیال کرتے ہیں (اے ابن عمر ! ) حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اے بھتیجے ! ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتے تھے تو اس عمل کو نفاق شمار کرتے تھے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے نزدیک اس کی کیا حیثیت ہے ؟ شعب الایمان للبیہقی

14415

14415- عن عقبة بن مالك الليثي قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية وقال: إذا خالف الأمير أمري فاجعلوا مكانه من يتبع أمري. "خط في المتفق".
14415 عقبہ بن مالک لیثی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر کے ساتھ بھیجا اور ارشاد فرمایا :
جب امیر میرے (نبی کے) حکم کی مخالفت کرے تو اس کو بدل کر ایسے شخص کو اپنا امیر بنالو جو میری اتباع کرتا ہو۔ الخطیب فی المتفق

14416

14416- عن مالك بن أوس بن الحدثان البصري قال: كنت عريفا في زمن عمر بن الخطاب. "كر".
14416 مالک بن اوس بن الحدثان البصری فرماتے ہیں : میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے زمانے میں عریف (ناظم الامور) تھا۔ ابن عساکر

14417

14417- عن عبد الله بن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ويل للزربيةقيل: وما الزربية يا رسول الله؟ قال: الذي إذا صدق الأمير، قالوا: صدق الأمير، وإذا كذب الأمير قالوا: صدق الأمير. "هب".
14417 عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہلاکت ہے زریبۃ (جی حضوری لگائے رکھنے والے) کے لیے ! پوچھا گیا : زریبہ کیا ہے یارسول اللہ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ شخص کہ امیر جب کوئی سچی بات کہے تو بولے امیر نے سچ فرمایا۔ اور جب امیر جھوٹ بولے تب بھی، یہی کہے امیر نے سچ فرمایا۔ شعب الایمان للبیہقی

14418

14418- عن أبي هريرة قال: أول من يدخل من هذه الأمة النار السواطون "ش".
14418 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے ارشاد فرمایا :
اس امت میں سے سب سے پہلے کوڑے بردار (ظالم سپاہی) جہنم میں داخل ہوں گے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

14419

14419- "مسند علي رضي الله عنه" عن علي قال: قيل: يا رسول الله من نؤمر بعدك؟ قال: إن تؤمروا أبا بكر تجدوه أمينا زاهدا في الدنيا راغبا في الآخرة، وإن تؤمروا عمر تجدوه قويا أمينا لا يخاف في الله لومة لائم، وإن تؤمروا عليا ولا أراكم فاعلين تجدوه هاديا مهديا يأخذ بكم الصراط المستقيم. "حم وخيثمة في فضائل الصحابة ك حل وابن الجوزي في الواهيات فأخطأ كر ص"
14419 (مسند علی (رض)) حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا : یارسول اللہ ! آپ کے بعد ہم کس کو اپنا امیر منتخب کریں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
اگر تم ابوبکر کو اپنا امیر بناؤ تو اس کو امانت دار اور دنیا سے بےرغبت اور آخرت کا شوق رکھنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم عمر کو اپنا امیر بناؤ تو اس کو صاحب قوت، امانت دار اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم علی کو اپنا امیر بناؤ لیکن میرا خیال ہے کہ تم ایسا نہیں کرو گے اگر کرو گے تو تم اس کو سیدھی راہ چلانے والا اور سیدھی راہ پر گامزن پاؤ گے، وہ تم کو بالکل سیدھی راہ پر گامزن رکھے گا۔
مسند احمد ، فضائل الصحابۃ للخیثمۃ، مستدرک الحاکم، حلیۃ الاولیاء ابن الجوزی فی الواھیات، فاخطاء، ابن عساکر السنن لسعید بن منصور
کلام : ابن الجوزی (رح) نے اس روایت کو من گھڑت روایتوں میں شمار کیا ہے، لیکن امام سیوطی (رح) فرماتے ہیں یہ ابن الجوزی (رح) کو خطاء ہے۔
امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے ج 5 ص 176، نیز فرماتے ہیں کہ امام احمد، امام بزار نے اس کو روایت کیا ہے اور طبرانی (رح) نے بھی الاوسط میں اس کو روایت کیا ہے جبکہ بزار کی روایت کے رجال ثقہ ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

14420

14420- عن علي قال: والذي خلق الحبة وبرأ النسمةلإزالة الجبال من مكانها أهون من إزالة ملك مرجل فإذا اختلفوا بينهم فو الذي نفسي بيده لو كادتهم الضباع لغلبتهم. "..
14420 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پیدا کیا، روح کو جان بخشی ! پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا زیادہ آسان ہے بنسبت قوی بادشاہ کو سلطنت سے ہٹانے کے۔ پس جب لوگ آپس کے اختلاف ونزاع کا شکار ہوں گے تو قریب ہے کہ درندے ان پر غالب آجائیں ۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14421

14421- عن ابن مسعود قال: لأن أزاول جبلا راسيا أهون علي من أن أزائل ملكا مرجلا. "ش وأبو نعيم".
14421 حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : میں ایک گڑے ہوئے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ٹال دوں ، یہ میرے لیے زیادہ آسان ہے بنسبت ایک قوی مستحکم بادشاہ کو ہٹانے سے۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابونعیم

14422

14422- عن ابن إسحاق عن عمران بن كثير قال: قدمت الشام فإذا قبيصة بن ذويب قد جاء برجل من العراق فادخله على عبد الملك بن مروان فحدثه عن أبيه عن المغيرة بن شعبة أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن الخليفة لا يناشد قال: فأعطى وكسى وحيى، قال فحك في نفسي فقدمت المدينة فلقيت سعيد بن المسيب فحدثته فقال: قاتل الله قبيصة كيف باع دينه بدنياه فإنه والله ما من امرأة من خزاعة قعيدة في بيتها إلا قد حفظت قول عمرو بن سالم الخزاعي لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم إني ناشد محمدا حلف أبينا وأبيه الأتلدا فيناشد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا يناشد الخليفة. "كر"
14422 ابن اسحاق، عمران بن کثیر سے روایت کرتے ہیں، عمران کہتے ہیں : میں ملک شام گیا، وہاں قبیصہ بن ذویب کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے ساتھ ایک شخص کو لے کر آیا اور اس کو خلیفہ عبدالملک بن مروان کے سامنے پیش کیا۔ اس آدمی نے خلیفہ عبدالملک کو حدیث بیان کی کہ وہ اپنے والد سے اور اس کا ولد حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت نقل کرتا ہے کہ رسول اللہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خلیفہ کو قسم نہیں دلائی جائے گی۔ یعنی کسی مقدمے میں خلیفہ کا قول قسم سے بڑھ کر ہے۔
چنانچہ خلیفہ نے اس کو انعام دیا اور خلعت سے نوازا اور سلام (کرکے رخصت) کیا۔ عمران بن کثیر کہتے ہیں : یہ بات میرے دل میں کھٹک گئی چنانچہ میں مدینہ (منورہ) آیا اور حضرت سعید بن المسیب (رح) سے ملاقات کی اور ان کو سارے واقعے کی خبر سنائی۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) نے فرمایا : اللہ قبیصہ کا ستیاناس کرے، کیسے اس نے اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر ڈالا ہے۔ اللہ کی قسم قبیلہ خزاعہ کی کوئی عورت خواہ وہ اپنے گھر میں بیٹھنے والی ہو ایسی نہیں ہے جس کو عمرو بن سالم خزاعی کا قول یادنہ ہو جو اس نے نبی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا تھا :
اللھم انی فایشد محمداً حلف ابنا وابیہ الاتلدا
اے اللہ ! میں محمد کی قسم اٹھانے کا کہتا ہوں حالانکہ ہمارے باپ اور ان کے باپ جو موروثی مال والے ہیں آپس میں حلیف ہیں۔
پھر سعید بن المسیب (رح) نے فرمایا : عجیب بات ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو قسم دی جائے لیکن خلیفہ کی قسم اٹھانے سے بری قرار دیا جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ ابن عساکر

14423

14423- عن عمر قال: ما رأيت من قضى بين اثنين بعد هؤلاء الثلاثة ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون، ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون. "ص".
14423 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ ان تین آیات آنے کے بعد اس نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ہو۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون۔
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔
السنن لسعید بن منصور

14424

14424- عن عروة قال: كان عمر إذا أتاه الخصمان برك على ركبتيه وقال: اللهم أعني عليهما فإن كل واحد منهما يريدني عن ديني. "ابن سعد".
14424 حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس جب دو خصم (مقدمے کے دو فریق) آتے تو آپ (رض) اپنے دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور دعا کرتے :
اے اللہ ! میری ان دونوں پر مدد فرما بیشک ان دونوں میں سے ہر ایک مجھے میرے دین سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ابن سعد

14425

14425- عن علي قال: القضاة ثلاثة. "كر".
14425 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : قاضی تین طرح کے ہیں۔ ابن عساکر
کلام : روایت محل کلام ہے دیکھئے : ذخیرۃ الحفاظ 388 ۔

14426

14426- عن قتادة عن أبي العالية عن علي قال: القضاة ثلاثة فاثنان في النار وواحد في الجنة؛ فأما اللذان في النار فرجل جار على الحق متعمدا ورجل اجتهد برأيه فأخطأ، وأما الذي في الجنة فرجل اجتهد برأيه في الحق فأصاب، فقلت لأبي العالية: ما بال هذا الذي اجتهد برأيه في الحق فأخطأ قال: لو شاء لم يجلس يقضي وهو لا يحسن يقضي. "هق"وقال في تفسير أبي العالية: دليل على وزر من اجتهد برأيه وهو من غير أهل الاجتهاد.
14426 قتادہ، ابوالعالیہ سے، اور وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں، حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں :
قاضی تین طرح کے ہیں : دو جہنم میں ہیں اور ایک جنت میں۔ دو جہنم والوں میں سے ایک تو وہ قاضی ہے جو جان بوجھ کر حق کے خلاف ظلماً فیصلہ کرے۔ دوسرا وہ قاضی ہے جو اپنی رائے میں حق کے لیے خوب اجتہاد تو کرے پھر بھی اس سے فیصلہ میں خطا سرزد ہوجائے۔ اور جنت میں جانے والا قاضی وہ ہے جو اپنی رائے میں حق کے مطابق اجتہاد کرے اور درست فیصلہ صادر کرے۔
قتادہ (رح) کہتے ہیں : میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ جو قاضی اپنی رائے میں حق کے مطابق اجتہاد کرے مگر اس سے فیصلے میں خطا سرزد ہوجائے تو وہ کس قصور میں جہنم جائے گا۔ ابوالعالیہ (رح) نے فرمایا : وہ قاضی اگر چاہتا تو فیصلہ کرنے بیٹھتا ہی نہیں کیونکہ وہ اچھی طرح قضاء (فیصلہ) نہیں کرسکتا۔ السنن الکبری للبیہقی
فائدہ : امام بیہقی (رح) ابوالعالیہ کے قول کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو اہل اجتہاد میں سے نہیں ہیں پھر بھی وہ اجتہاد کریں تو یہ ان کے گناہ پر ہونے کی دلیل ہے۔

14427

14427- عن معقل بن يسار قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اقضي بين قومي فقلت: يا رسول الله ما أحسن أن أقضي؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله مع القاضي ما لم يحفعمدا ثلاث مرات. "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة من طريق ابن عياش" وفيه كلام عن يحيى بن يزيد بن أبي شيبة الرهاوي قال ابن حبان يروي المقلوبات فبطل الاحتجاج به عن زيد بن أبي أنيسة وهو ثقة وفي حديثه بعض النكارة عن نفيع بن الحارث وهو متروك.
14427 معقل بن یسار سے مروی ہے کہ مجھے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ میں اپنی قوم کے درمیان فیصلے کروں۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں اچھا فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک جان بوجھ کر ظلم نہ کرے۔
ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ من طریق ابن عیاش
کلام : مذکورہ روایت میں ایک راوی یحییٰ بن یزید بن ابی شیبۃ الرھادی پر کلام ہے۔ امام ابن حبان (رح) فرماتے ہیں : وہ مقلوبات کو روایت کرتا ہے (مختلف احامدیث کی اسناد اور متن کو ایک دوسرے سے تبدیل کردیتا ہے) لہٰذا اس کے ساتھ دلیل پکڑنا درست نہیں جبکہ وہ زید بن ابی التیسہ سے روایت کرے حالانکہ زید ثقہ ہے اور یحییٰ کی نفیع بن الحارث سے مروی حدیث میں نکارت ہے کیونکہ نفع متروک راوی ہے۔

14428

14428- عن عقبة بن عامر قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم يوما فجاءه خصمان فقال لي: اقض بينهما فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله أنت أولى قال: اقض بينهما قلت: على ماذا يا رسول الله؟ قال: اجتهد فإن أصبت فلك عشر حسنات وإن أخطأت فلك حسنة. "كر".
14428 عقبہ بن عامر (رض) سے مروی ہے کہ میں ایک دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا پھر آپ کے پاس دو فریق (اپنا جھگڑالے کر) آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یارسول اللہ ! آپ فیصلہ مرمانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ حکم فرمایا ان دونوں کے درمیان فیصلہ کردو۔ تب میں نے پوچھا : یارسول اللہ ! کس بنیاد پر ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اجتہاد کرو۔ اگر تم نے درست فیصلہ کیا تو تم کو دس نیکیاں ملیں گی۔ اور اگر تم نے فیصلے میں غلطی کی تو تب بھی تم کو ایک نیکی ملے گی۔ ابن عساکر

14429

14429- عن الحسن قال: نزل على علي بن أبي طالب ضيف فكان عنده أياما فأتى في خصومة فقال له علي: أخصم أنت؟ قال: نعم، قال: فارتحل عنا فإنا نهينا أن ننزل خصما إلا مع خصمه."..
14429 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس ایک مہمان آکر ٹھہرا۔ اور کئی دن مقیم رہا۔ پھر اس نے حضرت علی (رض) کے سامنے اپنا ایک مقدمہ پیش کردیا۔ حضرت علی (رض) نے اس سے پوچھا : کیا تو خصم (مقدمہ) کا فریق ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : پھر تو یہاں سے کوچ کر جا، کیونکہ ہم کو منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی فریق کو اپنے ہاں ٹھہرائیں مگر دوسرے فریق کے ساتھ۔ مننخب کنز العمال : ابن راھویہ، ابوالقاسم بن الخراج فی امالیہ، البیہقی فی السنن الکبریٰ کتاب آداب القاضی 137/10

14430

14430- عن علي قال: قلت يا رسول الله إذا بعثتني في شيء أكون كالسكة المحماة أم الشاهد يرى ما لا يرى الغائب؟ قال: بل الشاهد يرى ما لا يرى الغائب. "حم خ في تاريخه الدورقي حل كر ص".
14430 حضرت علی (رض) سے مروی ہے آپ (رض) فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : یارسول اللہ ! جب آپ مجھے کسی حکم پر بھیجیں تو کیا میں مہرزدہ سکے کی طرح (بالکل حکم کے مطابق) عمل کروں یا پھر (اس نظرئیے پر عمل کروں کہ) شاہد (حاضر) وہ کچھ دیکھتا ہے جو غائب حکم دینے والا نہیں دیکھ سکتا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : شاہد جو کچھ دیکھتا ہے غائب نہیں دیکھ سکتا (اسی طرح عمل کرو) ۔
مسند احمد ، البخاری فی التاریخ، الدورقی ، حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر، السنن لسعید بن منصور

14431

14431- عن الحسن قال: جاء رجل فنزل على علي فأضافه فقال: إني أريد أن أخاصم، قال له علي: تحول عن منزلي، فإن النبي صلى الله عليه وسلم نهانا أن نضيف الخصم وفي لفظ: أن ننزل الخصم إلا ومعه خصمه. "ابن راهويه وأبو القاسم ابن الجراح في أماليه هق"
14431 حضرت حسن سے مروی ہے کہ ایک شخص آیا اور حضرت علی (رض) کے پاس ٹھہر گیا۔ حضرت علی (رض) نے اس کی مہمان نوازی کی۔ پھر مہمان نے کہا میرا ارادہ ہے کہ میں اپنا مقدمہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میرے گھر سے چلا جا۔ کیونکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو منع فرمایا ہے کہ ہم کسی فریق مقدمہ کو اپنے ہاں مہمان ٹھہرائیں، دوسرے الفاظ یہ ہیں کہ ہم کو منع کیا ہے کہ ہم کسی ایک فریق کو اپنے ہاں ٹھہرائیں ہاں اگر دوسرا فریق ساتھ ہو تو الگ بات ہے۔ ابن راھویہ، ابوالقاسم بن الجراح فی امالیہ، الکبریٰ للبیہقی

14432

14432- عن أبي الأسود عن علي قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن نضيف أحد الخصمين دون الآخر. "طس".
14432 حضرت ابوالا سود حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ ہم دو خصموں (فریقوں) میں سے کسی ایک فریق کو مہمان بنائیں۔ الاوسط للطبرانی

14433

14433- عن علي انه قال لشريح: لسانك عبدك ما لم تتكلم؛ فإذا تكلمت فأنت عبده فانظر ما تقضي وفيم تقضي وكيف تقضي؟ "كر".
14433 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے قاضی شریح کو فرمایا : تیری زبان تیرا غلام ہے جب تک کہ تو بات چیت نہ کرے۔ پس جب تو نے منہ کھول لیا تو پھر تو اس کا غلام ہے پس خیال رکھا کر (اے قاضی) کیا فیصلہ کررہا ہے اور کس کے بارے میں فیصلہ کررہا ہے اور کیسے فیصلہ کررہا ہے ؟ ابن عساکر

14434

14434- عن علي قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم قاضيا يعني إلى اليمن، فقلت: يا رسول الله غني شاب وتبعثني إلى أقوام ذوي أسنان فدعا لي بدعوات ثم قال: إذا أتاك الخصمان فسمعت من أحدهما فلا تقضين حتى تسمع من الآخر، فإنه أثبت لك، قال فما اختلف علي بعد ذلك. "ق".
14434 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں جوان العمر آدمی ہوں اور آپ مجھے ایسے لوگوں کے پاس بھیج رہے ہیں جو اچھی عمروں والے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے چند دعائیں کی پھر ارشاد فرمایا : جب تیرے پاس دو فریق اپنا مقدمہ لے کر آئیں اور تو ان میں سے ایک کی بات سن لے تو اس وقت تک فیصلہ نہ کر جب تک دوسرے کی بات نہ سن لے۔ یہ تیرے لیے زیادہ پختہ بات ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علی (رض) نے اختلاف نہیں فرمایا۔ السنن الکبریٰ للبیہقی

14435

14435- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا تقاضيا إليك رجلان فلا تقض للأول حتى تسمع كلام الآخر فسوف ترى كيف تقضي [قال علي] : فما زلت بعد قاضيا. "خ ن"
14435 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تیرے پاس دو آدمی اپنا فیصلہ لے کر آئیں تو پہلے کے لیے ہرگز فیصلہ نہ کر حتیٰ کہ دوسرے کی بات نہ سن لے۔ عنقریب تو دیکھ لے گا کیسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ قاضی رہا۔ البخاری ، النسائی

14436

14436- عن أبي [حرب بن] الأسود الديلي عن علي قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يضيف الخصم إلا ومعه خصمه. "هق"
14436 حضرت ابوحرب بن الاسوددوئلی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی فریق کی مہمان نوازی نہ کرتے تھے جب تک کہ اس کا دوسرا خصم (فریق) اس کے ساتھ نہ ہو۔ السنن للبیہقی

14437

14437- عن عمر قال: لا يؤخذ على شيء من حكومة المسلمين أجر. "هلال الحفار في جزئه".
14437 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کی حکومت سے کسی چیز پر کوئی اجر (معاوضہ) نہیں لیا جائے گا۔ ھلال الحفارفی جزہ

14438

14438- عن عمر قال: ردوا الخصوم حتى يصطلحوا فإن فصل القضاء يورث الضغائن بين الناس. "عب هق".
14438 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرماتے ہیں : مقدموں کے فریقوں کو واپس لوٹا دیا کرو تاکہ وہ آپس میں صلح صفائی سے اپنے معاملات کو نمٹ لیں کیونکہ عدالتی فیصلے لوگوں کے درمیان باہمی کینہ پروری اور دشمنی کو جنم دیتے ہیں۔ المصنف لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

14439

14439- عن شريح أن عمر بن الخطاب كتب إليه إذا جاءك شيء في كتاب الله فاقض به ولا يلفتنك عنه الرجال، فإن جاءك أمر ليس في كتاب الله فانظر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقض بها، فإن جاءك أمر ليس في كتاب الله وليس فيه سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانظر ما اجتمع عليه الناس فخذ به فإن جاءك ما ليس في كتاب الله ولم يكن فيه سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يتكلم فيه أحد قبلك فاختر أي الأمرين شئت إن شئت أن تجتهد برأيك فتقدم وإن شئت أن تؤخر فتأخر ولا أرى التأخير إلا خيرا لك. "ش وابن جرير".
14439 قاضی شریح (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان کو لکھا : جب تمہارے پاس ایسا کوئی قضیہ آئے جس کا فیصلہ قرآن میں موجود ہو تو اس کے ساتھ فیصلہ کردو۔ لوگ تم کو اس فیصلے سے ڈگمگا نہ دیں۔ اگر کوئی ایسا قضیہ پیش آجائے جس کا واضح حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ میں اس کا حل دیکھ کر اس کے مطابق فیصلہ کردو۔ اگر ایسا کوئی قضیہ درپیش ہو جس کے متعلق کتاب اللہ میں اور نہ سنت رسول اللہ میں کوئی فیصلہ ہو تو دیکھو کہ (اہل علم) لوگوں کی اس بارے میں کس فیصلے پر اتفاق رائے ہے۔ تو اس کے مطابق فیصلہ کردو۔ اور اگر ایسا کوئی مسئلہ درپیش آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں اور نہ سنت رسول اللہ میں ہو اور نہ اس کے متعلق کسی (اہل علم) نے کچھ کہا ہو تو تب دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلو۔ اگر چاہو تو اجتہاد رائے کرو اور فیصلہ کردو اور اگر چاہو تو اس فیصلے کو موخر (ملتوی) کردو۔ تاآنکہ اللہ پاک کوئی صورت حال واضح کردے اور میں تاخیر کو تمہارے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر

14440

14440- عن عمر قال: ردوا الخصوم لعلهم أن يصطلحوا فإنه أبرأ للصدر وأقل للحنات"هق".
14440 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : مقدمہ بازوں کو واپس لوٹا دیا کرو تاکہ وہ خود آپس میں صلح کا راستہ اختیار کرلیں ۔ بیشک یہ عمل سینوں کو صاف رکھنے والا اور کینہ و دشمنی کو کم کرنے والا ہے۔ السنن الکبریٰ للبیہقی

14441

14441- عن مسروق قال: كتب كاتب لعمر بن الخطاب هذا ما أرى الله أمير المؤمنين عمر فانتهره عمر وقال: لا بل اكتب هذا ما رأى عمر؛ فإن كان صوابا فمن الله، وإن كان خطأ فمن عمر. "هق"
14441 حضرت (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے کاتب (منشی) نے (کسی فیصلے یا مکتوب کے آخر میں) لکھا : یہ وہ (فیصلہ) ہے جو اللہ نے امیر المومنین عمر کو سمجھا دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو جھڑک دیا اور فرمایا : یوں لکھ : یہ عمر کی رائے ہے ، اگر درست ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر خطاء ہو تو عمر کی طرف سے ہے۔ السنن للبیہقی

14442

14442- عن أبي العوام البصري قال: كتب عمر إلى أبي موسى الأشعري أما بعد فإن القضاء فريضة محكمة وسنة متبعة فافهم إذا أدلي إليك فإنه لا ينفع تكلم بحق لا نفاذ له وآس بين الناس في وجهك ومجلسك وقضائك حتى لا يطمع شريف في حيفك ولا ييأس ضعيف من عدلك البينة على من ادعي واليمين على من أنكر، والصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا، ومن ادعى حقا غائبا أو بينة فاضرب له أمدا ينتهي إليه، فإن جاء ببينة أعطيته بحقه، فإن أعجزه ذلك استحللت عليه القضية فإن ذلك ابلغ في العذر وأجلى للعمى ولا يمنعك من قضاء قضيته اليوم فراجعت فيه لرأيك وهديت فيه لرشدك أن تراجع الحق لأن الحق قديم لا يبطل الحق شيء ومراجعة الحق خير من التمادي في الباطل، والمسلمون عدول بعضهم على بعض في الشهادة إلا مجلودا في حد أو مجربا عليه شهادة الزور أو ظنينا في ولاء أو قرابة فإن الله عز وجل تولى من العباد السرائر وستر عليهم الحدود إلا بالبينات والأيمان، ثم الفهم الفهم فيما أدلي إليك مما ليس في قرآن ولا سنة، ثم قايس الأمور عند ذلك واعرف الأمثال والأشباه، ثم اعمد إلى أحبها إلى الله فيما ترى وأشبهها بالحق، وإياك والغضب والقلق والضجر والتأذي بالناس عند الخصومة والتنكر فإن القضاء في مواطن الحق يوجب الله له الأجر ويحسن له الذخر فمن خلصت نيته في الحق ولو كان على نفسه كفاه الله ما بينه وبين الناس، ومن تزين لهم بما ليس في قلبه شانه الله فإن الله لا يقبل من العباد إلا ما كان له خالصا وما ظنك بثواب الله في عاجل رزقه وخزائن رحمته والسلام. "قط هق كر"
14442 ابوالعوام البصری (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ الاشعری (رض) (گورنر) کو لکھا :
امابعد ! قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے۔ پس سمجھ لے کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتادینے سے کوئی نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے۔ اور اپنے چہرے سے، اپنی نشست وبرخاست سے اور اپنے فیصلے سے لوگوں کو امید دلائے رکھو تاکہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو۔ گواہ دعویٰ کرنے والے پر ہے اور قسم (قابض اور) منکر پر ہے اور ہر طرح کی صلح مسلمانوں کے درمیان جائز ہے سوائے ایسی صلح کہ جو حرام کو حلال کرے یا حلال کو حرام کردے۔ اور جو کسی غائب حق یا گواہ کا دعویٰ کرے تو اس کو ایک مقررہ مہلت دیدو تاکہ وہ اس وقت تک اس کو حاضر کرنے کا پابند ہوجائے پھر اگر مدعی اپنا گواہ پیش کردے تو اس کو اس کا حق دیدو۔ اگر وہ گواہ پیش کرنے سے عاجز آجائے تو اس کے خلاف فیصلہ کرنا حلال ہوجائے گا (مخالف سے قسم لے کر) یہ طریقہ رعایت عذر خواہ کے لیے زیادہ بہتر اور اندھے کے لیے معاملہ کو زیادہ روشن کرنے والا ہے۔ اور تجھے (نئے) فیصلے سے کوئی شے مانع نہ ہو جبکہ تو آج کوئی فیصلہ کردے ، پھر تو اپنی رائے سے رجوع کرلے، تجھے صحیح فیصلے کی ہدایت مل جائے تو تو حق فیصلہ کو دوبارہ نافذ کرسکتا ہے کیونکہ حق قدیم ہے، حق کو کوئی چیز باطل نہیں کرسکتی اور حق کی طرف رجوع کرلینا باطل میں سرکشی دکھانے سے بہتر ہے۔ مسلمان سارے صاحب عدل ہیں، آپس میں ایک دوسرے کے لیے گواہی دینے کے حق میں سوائے اس شخص کے جس کو کسی شرعی حد میں کوڑے لگ چکے ہوں یا اس پر جھوٹی گواہی دینے کا تجربہ ہوگیا ہو یا کوئی اپنے مولی کے بارے میں ولاء کے متعلق شک وشبہ رکھتا ہو یا کوئی اپنے رشتے دار کے متعلق بدگمانی کا شکار ہو (تو ان کی گواہی شک والوں کے متعلق قبول نہ ہوگی) ۔
بےشک اللہ تعالیٰ نے بندوں سے رازوں (پر مواخذے) کو اٹھا لیا ہے اور حدود کا ان پر پردہ ڈال دیا ہے جو صرف گواہوں اور قسموں کے ساتھ ان پر لاگو ہوسکتی ہیں۔ پھر بھی تم اچھی طرح سمجھ لو اور خوب سمجھ لو خصوصاً ان امور کو جن کا بیان تم کو قرآن وسنت میں نہ ملے تو اس وقت معاملات کی قیاس آرائی کرو اور اس جیسی دوسری مثالوں اور نظیروں کو یاد کرو۔ پھر ان میں سے تمہاری رائے میں جو اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ معلوم ہو اور حق کے ساتھ زیادہ مشابہ ہو اس کا فیصلہ کردو۔
اور غصے سے، قلق سے ، تنگی سے اور لوگوں کو فیصلے کے وقت اذیت دہی اور اجنبی سزائیں دینے سے بچو۔
بےشک حق میں فیصلہ کرنے پر اللہ اجر کو واجب کرتا ہے اور اس کے لیے وہ فیصلہ ذخیر بنادیتا ہے۔ بیشک جس کی نیت حق میں خالص ہو خواہ وہ حق اس کی ذات کے خلاف ہو تو اللہ پاک اس کے اور لوگوں کے درمیان کافی ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص لوگوں کے لیے ایسی چیز مزین اور ظاہر کرتا ہے جو اس کے دل میں نہیں ہے تو اللہ پاک اس کو عیب دار کردیتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ بندوں سے صرف وہی چیز قبول کرتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو۔ اور اللہ کا ثواب جلدی رزق کی صورت میں اور اس کی رحمت کے خزانوں میں وسیع ہے۔ والسلام۔
الدرقطنی فی السنن، السنن للبیہقی، ابن عساکر

14443

14443- عن المسور بن مخرمة قال: سمعت عمر يقول: يا معشر المسلمين إني لا أخاف الناس عليكم؛ إنما أخافكم على الناس، إني قد تركت فيكم اثنين لن تبرحوا بخير ما لزمتموهما: العدل في الحكم، والعدل في القسم، وإني قد تركتكم على مثل مخرفةالنعم إلا أن يتعوج قوم فيعوج بهم. "ش هق"
14443 مسور بن مخرمہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے سنا، آپ (رض) نے ارشاد فرمایا :
اے مسلمانو کی جماعت ! مجھے لوگوں کا تم پر کوئی خوف نہیں ہے، میں تمہارا خوف محسوس کرتا ہوں لوگوں پر۔ میں تمہارے درمیان دو چیزیں لے جارہا ہوں ، جب تک تم ان کو لازم پکڑے رہو گے خیر میں رہو گے۔ فیصلہ میں عدل و انصاف اور تقسیم میں عدل و انصاف۔ اور میں تم کو مویشیوں کی بنائی ہوئی جیسی راہ پر چھوڑے جارہا ہوں (جس کے نشانات واضح ہوتے ہیں) الایہ کہ کوئی قوم اس سے ٹیڑھی چلے گی تو وہ راہ بھی ان کے ساتھ ٹیڑھی ہوجائے گی۔ مصنف ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

14444

14444- عن أبي رواحة يزيد بن أيهم قال: كتب عمر بن الخطاب إلى الناس اجعلوا الناس عندكم في الحق سواء قريبهم كبعيدهم وبعيدهم كقريبهم، وإياكم والرشاوالحكم بالهوى وأن تأخذوا الناس عند الغضب فقوموا بالحق ولو ساعة من نهار. "ص هق"
14444 ابی رواحۃ یزید بن ایبم سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) (عامل گورنر نے) لوگوں کو لکھا : لوگوں کو اپنے نزدیک حق میں برابر رکھو : ان کا قریبی اور دور والا برابر ہے اور ان کا دور والا بھی ان میں سے قریب ترین کے برابر ہے۔ نیز رشوت سے بچو، خواہش پر فیصلہ کرنے سے بچو اور غصے کے وقت لوگوں کو پکڑ کرنے سے اجتناب کرو اور حق کو قائم کرو خواہ دن کے کچھ حصہ میں کیوں نہ ہو۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

14445

14445- عن الشعبي قال: كان بين عمر وبين أبي بن كعب خصومة فقال عمر: اجعل بيني وبينك رجلا، فجعلا بينهما زيد بن ثابت فأتياه فقال عمر: أتيناك لتحكم بيننا وفي بيته يؤتى الحكم فلما دخلا عليه وسع له زيد عن صدر فراشه فقال: ها هنا يا أمير المؤمنين، فقال له عمر: هذا أول جور جرت في حكمك ولكن أجلس مع خصمي فجلسا بين يديه فادعى أبي وأنكر عمر فقال زيد لأبي: أعف أمير المؤمنين من اليمين وما كنت لأسألها لأحد غيره فحلف عمر ثم أقسم لا يدرك زيد القضاء حتى يكون عمر ورجل من عرض المسلمين عنده سواء. "ص هق كر"
14445 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور ابی بن کعب (رض) کے درمیان کسی چیز پر آپس میں جھگڑا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اپنے درمیان اور میرے درمیان کسی کو ثالث مقرر کرلو۔ چنانچہ دونوں نے زید بن ثابت کو اپنا فیصل مقرر کرلیا۔ پھر دونوں ان کے پاس چل کر آئے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم تمہارے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔ حالانکہ تمام فیصلے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آتے تھے۔ چنانچہ جب دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت (رض) کے پاس پہنچ گئے تو حضرت زید (رض) نے اپنے بچھونے پر حضرت عمر (رض) کے لیے جگہ چھوڑ دی اور بولے : اے امیر المومنین ! یہاں آئیے، یہاں ! حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : یہ پہلا ظلم ہے جو تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا۔ بلکہ میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کروں گا۔ آخر کار دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت (رض) کے سامنے بیٹھ گئے۔
حضرت ابی (رض) نے کسی چیز کے متعلق دعویٰ ظاہر کیا۔ حضرت عمر (رض) نے انکار کردیا ۔ قاعدہ کے مطابق ابی (رض) پر گواہ اور عمر (رض) پر قسم آتی تھی لیکن حضرت زید بن ثابت (رض) نے ابی (رض) کو فرمایا : امیر المومنین کو قسم اٹھانے سے تم معاف رکھو۔ اور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لیے بھی ایسا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ مگر حضرت عمر (رض) نے از خود قسم اٹھالی اور پھر قسم کھائی کہ جب تک عمر زندہ ہے زید کبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہوسکتا کیونکہ عمر کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت وآبرو برابر ہے۔
السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی، ابن عساکر

14446

14446- عن يحيى بن سعيد قال: قال عمر بن الخطاب: ما أبالي إذا اختصم إلي الرجلان لأيهما كان الحق. "ابن سعد".
14446 یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا :
جب میرے پاس دو شخص اپنا کوئی مقدمہ لے کر آتے ہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ حق کس کی طرف ہو۔ ابن سعد

14447

14447- عن سعيد بن المسيب أن عمر اختصم إليه مسلم ويهودي فرأى أن الحق لليهودي فقضى له، فقال له اليهودي: والله لقد قضيت لي بالحق فضربه عمر بالدرة ثم قال: وما يدريك؟ قال: إنا نجد أنه ليس قاض يقضي بالحق إلا كان عن يمينه ملك وعن يساره ملك يسددانه ويوفقانه للحق ما دام مع الحق ترك الحق عرجا وتركاه. "مالك وابن عبد الحكم في فتوح مصر"
14447 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان اپنا مشترکہ مقدمہ لے کر آئے۔ حضرت عمر (رض) نے حق کو یہودی کے لیے سمجھا تو اس کے لیے فیصلہ کردیا۔ یہودی نے آپ (رض) کو مخاطب ہو کر کہا : اللہ کی قسم ! آپ نے میرے لیے حق کے ساتھ فیصلہ کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو درۃ (کوڑا) مارا اور فرمایا : تجھے کیا علم (کہ میں نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا ہے) یہودی نے کہا : ہم توراۃ میں پاتے ہیں کہ کوئی قاضی حق کے ساتھ فیصلہ نہیں کرسکتا مگر جبکہ اس کے دائیں طرف ایک فرشتہ ہو اور بائیں طرف ایک فرشتہ، جو اس کو درست راہ دکھاتے رہیں اور حق کی توفیق دیتے رہیں جب تک کہ وہ حق کے ساتھ ہو۔ جب وہ حق کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ دونوں فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ موطا امام مالک، ابن عبدالحکم ، فی فتوح مصر

14448

14448- عن محارب بن دثار أن عمر قال لرجل: من أنت؟ قال: أنا قاضي دمشق قال: وكيف تقضي؟ قال: أقضي بكتاب الله، قال: فإذا جاء ما ليس في كتاب الله قال: أقضي بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإذا جاء ما ليس في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: أجتهد برأي وأؤامر جلسائي فقال له عمر: أحسنت، وقال له: إذا جلست فقل: اللهم إني أسألك أن أقضي بعلم وأن أفتي بحكم وأسألك العدل في الغضب والرضى، قال: فسار ما شاء الله أن يسير، ثم رجع إلى عمر فقال: أريت فيما يرى النائم أن الشمس والقمر يقتتلان مع كل واحد منهما جنود من الكواكب قال: مع أيهما كنت؟ قال: مع القمر، قال عمر: نعوذ بالله وجعلنا الليل والنهار آيتين فمحونا آية الليل وجعلنا آية النهار مبصرة، والله لا تلي عملا ابدا، قال: فيزعمون أن ذلك الرجل قتل مع معاوية. "ابن أبي الدنيا عب".
14448 محارب بن دثار سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک شخص سے پوچھا : من انت ؟ تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں دمش کا قاضی ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تو کیسے فیصلہ کرتا ہے ؟ اس نے عرض کیا کتاب اللہ کے ساتھ۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : اگر ایسا مسئلہ آجائے جو کتاب اللہ میں نہ ہو ؟ عرض کیا : سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ فرمایا : اگر ایسا مسئلہ آجائے جو کتاب اللہ میں اور نہ سنت رسول اللہ میں ہو تب ؟ عرض کیا : پھر میں اپنی رائے میں اجتہاد کرتا ہوں اور اپنے (اہل علم) ہم نشینوں سے مشاورت کرتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو فرمایا : بہت اچھا۔
نیز فرمایا : جب تو فیصلے کے لیے بیٹھا کرے تو یہ دعا پڑھ لیا کر :
اللھم انی اسالک ان اقضی بعلم وان افتی بحکم واسالک العدل فی الرضی والغضب۔
اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ علم کے ساتھ فیصلہ کروں، (تیرے) حکم کے ساتھ فتویٰ دوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں رضا اور غضب میں عدل و انصاف برتنے کا۔ راوی محارب بن دثار کہتے ہیں کہ پھر وہ آدمی رخصت ہو کر تھوڑی دور گیا تھا کہ واپس آیا اور حضرت عمر (رض) سے عرض کیا : میں نے خواب دیکھا ہے کہ سورج اور چاند ایک دوسرے کے ساتھ قتال (جنگ) کررہے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ستاروں کی فوج ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے پوچھا تو کس کے ساتھ تھا ؟ اس نے کہا : چاند کے ساتھ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نعوذ باللہ ! اللہ تیری پناہ ہو۔ اللہ کا فرمان ہے :
وجعلنا اللیل والنھار آیتین فمحونا آیۃ اللیل وجعلنا آیۃ النھار مبصرۃ۔
اور ہم نے رات اور دن دونشانیاں بنائی ہیں، پس ہم رات کی نشانی مٹا دیتے ہیں اور دن کی نشانی کو دکھانے والا بنادیتے ہیں۔
پھر حضرت عمر (رض) نے اس آدمی کو فرمایا : اللہ کی قسم ! آئندہ تم کبھی کسی منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ اس کو معزول کردیا لوگوں کا گمان ہے کہ بعد میں وہ شخص حضرت علی (رض) کے خلاف جنگ میں حضرت معاویہ (رض) کے ساتھ مارا گیا۔ ابن ابی الدنیا، مصنف عبدالرزاق

14449

14449- عن شريح القاضي قال: قال لي عمر بن الخطاب: أن اقض بما استبان لك من كتاب الله؛ فإن لم تعلم كل كتاب الله فاقض بما استبان لك من قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فإن لم تعلم كل أقضية رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقض بما استبان لك من أمر الأئمة المهتدين؛ فإن لم تعلم كل ما قضت به الأئمة فاجتهد برأيك واستشر أهل العلم والصلاح. "كر".
14449 قاضی شریح (رح) سے مروی ہے کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : کتاب اللہ میں سے جو حکم تم پر ظاہر ہو اس کے مطابق فیصلہ دیا کرو۔ اگر تم کو ساری کتاب اللہ کا علمنہ ہو تو (درپیش مسئلے میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو فیصلہ تم کو معلوم ہو اس کے مطابق فیصلہ کردیا کرو اور اگر تم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام فیصلے معلوم نہ ہوں تو ہدایت یافتہ ائمہ میں سے کسی کے مطابق فیصلہ کردو اور اگر تم کو وہ تمام فیصلے معلوم نہ ہوں جو ائمہ کرام نے کیے ہیں تو اپنی رائے کا اجتہاد کرو اور اہل علم وصلاح سے مشورہ کرلیا کرو۔ ابن عساکر

14450

14450- عن عمر أنه قال لشريح حين استقضاه: لا تشارولا تضارأو لا تشتر ولا تبع ولا ترتش. "كر".
14450 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے قاضی شریح (رح) کو جب عہدہ قضاء سپرد کیا تو فرمایا : اب تم خریدو فروخت نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ دینا، خریدنا اور نہ بیچنا اور نہ رشوت لینا۔ ابن عساکر

14451

14451- عن محارب بن دثار أن عمر بن الخطاب قال لرجل قاض بدمشق: كيف تقضي؟ قال: بكتاب الله قال: فإذا جاءك ما ليس في كتاب الله قال: أقضي بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإذا جاءك ما ليس فيه سنة رسول الله؛ قال: أجتهد برأي وأؤامر جلسائي، قال: أحسنت. "ابن جرير".
14451 محارب بن دثار سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے دمشق کے قاضی سے دریافت فرمایا : تو کیسے فیصلہ کرتا ہے ؟ اس نے کہا : کتاب اللہ کے ساتھ، پوچھا : جب ایسا کوئی قضیہ تمہارے سامنے پیش ہو جو کتاب اللہ میں نہ ہو تو ؟ عرض کیا : تب میں سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ پوچھا : جب ایسا کوئی قضیہ پیش آجائے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت بھی ظاہر نہ ہو تب ؟ عرض کیا : تب میں اپنی رائے میں اجتہاد کرتا ہوں اور اپنے ہم نشینوں سے مشاورت کرلیتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے اس کی تحسین فرمائی : تم بہت اچھا کرتے ہو۔
ابن جریر

14452

14452- عن الشعبي قال: لما بعث عمر شريحا على قضاء الكوفة قال: انظر ما تبين لك في كتاب الله فلا تسأل عنه أحدا وما لم يتبين لك في كتاب الله فاتبع فيه السنة، وما لم يتبين في السنة فاجتهد فيه برأيك. "ص هق"
14452 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر (رض) نے قاضی شریح کو کوفہ کی قضاء پر (عہدہ حج سپرد کرکے) بھیجا تو ارشاد فرمایا : دیکھ جو فیصلہ تجھے کتاب اللہ میں واضح نظر آئے اس کے متعلق کسی سے سوال نہ کر (بلکہ نافذ کردے) اور جو حکم کتاب اللہ میں واضح نہ ہو اس میں سنت رسول اللہ پر عمل کر اور جو حکم سنت رسول اللہ میں بھی ظاہر نہ ہو اس میں اپنی رائے کا اجتہاد کرو۔
السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

14453

14453- عن الشعبي قال: كتب عمر إلى شريح إذا أتاك أمر في كتاب الله فاقض به، ولا يلفتنك الرجال عنه؛ فإن لم يكن في كتاب الله وكان في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقض به؛ فإن؟؟ لم يكن في كتاب الله ولا كان كان في سنة رسول الله فاقض بما قضى به أئمة الهدى؛ فإن لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله ولا فيما قضي به أئمة الهدى فأنت بالخيار إن شئت أن تؤامرنيولا أرى لك مؤامرتك إياي إلا أسلم لك. "ص هق"
14453 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے قاضی شریح (رح) کو لکھا : جب تمہارے پاس کوئی حکم کتاب اللہ کا آجائے تو اس کو نافذ کردو۔ اگر کوئی حکم کتاب اللہ میں نہ ہو اور سنت رسول اللہ میں ہو تو اس کے ساتھ فیصلہ کردو اور اگر کوئی حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول اللہ میں ہو تو جس طرح دوسرے ائمہ ہدایت نے فیصلہ کیا ہو اس طرح فیصلہ کردو۔ اور اگر کوئی فیصلہ ایسا آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول اللہ میں اور نہ ہی پہلے واقعات میں ائمہ ہدایت نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہو تو تب تم صاحب اختیار ہو اگر تم چاہو تو اس معاملے میں میری رائے طلب کرلو اور میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا مجھ سے مشورہ کرنا تمہارے لیے بہتر ہوگا۔
السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

14454

14454- عن محمد بن سيرين أن عمر قال لأبي موسى: انظر في قضاء أبي مريم قال: إني لا أتهم أبا مريم، قال: وأنا لا أتهمه ولكن إذا رأيت من خصم ظلما فعاقبه. "ق".
14454 محمد بن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) (گورنر) کو لکھا : ابو مریم کے فیصلے میں خیال رکھنا۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا : میں ابو مریم کو مہتم نہیں سمجھتا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں بھی اس کو مہتم خیال نہی کرتا لیکن جب بھی تم کسی فریق کو ظلم پر آمادہ دیکھو اس کو سزا دو ۔ السنن للبیہقی

14455

14455- عن محمد بن سيرين أن عمر بن الخطاب قال: لأنزعن فلانا عن القضاء، ولأستعملن على القضاء رجلا إذا رآه الفاجر فرقه"ق".
14455: محمد بن سیرین رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : میں فلاں آدمی کو عہد قضاء سے برطرف کرکے دوسرے فلاں شخص کو اس عہدہ پر بٹھاؤں گا اس کو کوئی بھی فاجر آدمی دیکھے گا تو ڈر جائے گا۔ السنن للبیہقی۔

14456

14456- عن علي قال: قلت يا رسول الله إن عرض لي أمر لم ينزل فيه قضاء في أمره ولا سنة كيف تامرني؟ قال: تجعلونه شورى بين أهل الفقه والعابدين من المؤمنين ولا تقضي فيه برأي خاصة. "طس وأبو سعيد في القضاة".
14456 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے (خدمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں) عرض کیا : یارسول اللہ ! اگر مجھے ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس میں نہ قرآن کا کوئی حکم سامنے ہو اور نہ سنت رسول کا تو تب آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم اہل یقہ اور عبادت گزار مومنوں کے درمیان اس کا مشورہ کرو اور کسی خاص رائے پر فیصلہ نافذ نہ کرو۔ الاوسط للطبرانی، ابوسعید بن القضاۃ

14457

14457- عن عطاء قال: أتي علي برجل وشهد عليه رجلان أنه سرق فأخذ في شيء من أمور الناس وتهدد شهود الزور وقال: لا أوتي بشاهد زور إلا فعلت به كذا وكذا، ثم طلب الشاهدين فلم يجدهما فخلى سبيله. "ش".
14457 حضرت عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک آدمی کو حاضر کیا گیا جس پر دو آدمیوں نے گواہی دی کہ اس نے چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر حضرت علی (رض) (اس چور کے معاملے سے ہٹ کر) دوسرے لوگوں کے معاملات نمٹانے لگے اور پھر جھوٹے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا اور ارشاد فرمایا : میرے پاس جب بھی کوئی جھوٹا گواہ لایا گیا میں اس کو ایسی ایسی (کڑی) سزا دوں گا۔ پھر آپ (رض) نے مذکورہ دو گواہوں کو طلب فرمایا۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی کو نہ پایا بالآخر آپ (رض) نے ملزم چور کو چھوڑ دیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14458

14458- عن ابن عمر قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وقال: يا علي اجعل حكم الله تعالى بين عينيك وحكم الشيطان تحت قدميك. "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة" وفيه يعقوب بن محمد الزهري عن عبد العزيز بن عمران الزهري عن محمد بن عبد العزيز والثلاثة ضعفاء.
14458 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو منصب پر روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے علی ! اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ اور شیطان کے حکم کو اپنے قدموں کے نیچے رکھ۔ ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں یعقوب بن محمد الزھری عن عبدالعزیز بن عمران الزھری عن محمد بن عبدالعزیز تینوں راوی ضعیف ہیں۔

14459

14459- عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر إذا جلس الحاكم فلا يجلس خصمان إلا بين يديه ومضت السنة بذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن أئمة الهدى أبي بكر وعمر. "كر".
14459 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب حاکم (فیصلہ کرنے کے لئے) بیٹھ جائے تو دونوں فریقوں کے سامنے بیٹھنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں سنت رسول اسی طرح جاری رہی اور ائمہ ہدایت ابوبکر وعمر کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔ ابن عساکر

14460

14460- عن ابن مسعود قال: إذا حضرك أمر لا تجد منه بدا فاقض بما في كتاب الله فإن عييتفاقض بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن عييت فاقض بما قضى به الصالحون، فإن عييت فأومئ إيماء ولا تألفإن عييت فافرر منه ولا تستحي. "عب".
14460 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے ، آپ (رض) نے ارشاد فرمایا :
جب تیرے سامنے کوئی فیصلہ آجائے جس کا حکم صادر کیے بغیر چارہ کار نہ ہو تو تو کتاب اللہ کے مطابق حکم لگا دے، اگر تو کتاب اللہ سے حکم حاصل کرنے میں عاجز آجائے تو سنت رسول اللہ کے مطابق حکم صادر کردے، اگر اس سے بھی عاجز ہو تو جس طرح دوسرے نیکوکار لوگوں نے فیصلہ کیا ہو اس طرح فیصلہ کردے، اگر ان کے مطابق حکم صادر کرنے سے عاجز ہو تو ان کی طرف اشارہ ہی کردے اور کوتاہی نہ کر اور اگر یہ بھی تجھ سے ممکن نہ ہو تو اس مسئلہ میں حکم صادر کرنے سے بھاگ جا اور شرم وحیاء نہ کر۔ الجامع العبد الرزاق

14461

14461- عن ابن مسعود قال: أتى علينا زمان لسنا نقضي ولسنا هنالك وإن الله عز وجل قد بلغنا ما ترون فمن عرض له منكم قضاء بعد اليوم فليقض فيه بما في كتاب الله، فإن أتاه أمر ليس في كتاب الله فليقض فيه بما قضى به رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فإن أتاه امر ليس في كتاب الله ولم يقض فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فليقض بما قضى به الصالحون، فإن أتاه أمر ليس في كتاب الله ولم يقض فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقض فيه الصالحون فليجتهد برأيه، ولا يقولن أحدكم: إني أخاف وإني أرى فإن الحلال بين وإن الحرام بين وبين ذلك أمور مشتبهة فدع ما يريبكإلى ما لا يريبك. "الدارمي وابن جرير في تهذيبه هقكر".
14461 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ ہم پر ایسا زمانہ گزرا ہے کہ ہم فیصلہ نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ ہم اس کے اہل نہیں تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس حال تک پہنچا دیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ پس اب آج کے بعد تم میں سے جس کے روبرو کوئی فیصلہ آجائے تو وہ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کردے، اگر ایسا کوئی فیصلہ آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کردے، اگر ایسا کوئی آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں ہو اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا فیصلہ فرمایا ہو تو صالحین کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کردے، اگر کوئی ایسا فیصلہ آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں ہو اور نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا دوسرے صالحین نے ایسا فیصلہ کیا ہو تو پھر وہ خود اپنی رائے استعمال کرے اور کوئی شخص تم میں سے یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا ہوں اور مجھے شک ہے۔ بیشک حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہیں پس جو چیز تجھے شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دے اور جس پر تیرا اطمینان ہو اس کو لے لے۔
السنن للدارمی، ابن جریر فی تھذیہ، السنن للبیہقی، ابن عساکر

14462

14462- عن الزهري عن السائب بن يزيد عن أبيه أن عمر أمره أن يكفيه صغار الأمور الدرهم ونحوه. "ابن سعد".
14462: زہری (رح) روایت کرتے ہیں کہ سائب بن زید اپنے والد یزید سے نقل کرتے ہیں : یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ان کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں درہم وغیرہ کے نمٹا دیا کروں۔ ابن سعد

14463

14463- عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب قال: ما اتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم قاضيا ولا أبو بكر ولا عمر حتى كان وسطا من خلافة عمر فقال عمر ليزيد بن أخت النمر: اكفني بعض الأمور يعني صغارها. "ابن سعد"
14463 ابن شہاب زہری (رح) حضرت سعید بن المسیب سے نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قاضی کو مقرر کیا اور نہ ابوبکر وعمر نے۔ حتیٰ کہ جب خلافت عمر (رض) کا درمیان ہوا تو حضرت عمر (رض) نے یزید بن اخت النمر کو فرمایا : تم بعض کاموں یعنی چھوٹے چھوٹے کاموں میں میری طرف سے فیصلہ کردیا کرو۔ ابن سعد

14464

14464- عن الزهري قال: ما اتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم قاضيا حتى مات ولا أبو بكر ولا عمر إلا أنه قال لرجل في آخر خلافته: اكفني بعض أمور الناس يعني عليا. "عب".
14464 (ابن شہاب) زہری (رح) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی قاضی مقرر نہیں کیا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر ملال ہوگئی اور نہ ہی ابوبکر (رض) وعمر (رض) نے ایسا کیا۔ سوائے اس کے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کے آخر میں ایک شخص کو فرمایا : تم میری طرف سے لوگوں کے کچھ معاملات نمٹا دیا کرو۔ یعنی حضرت علی (رض) کو ارشاد فرمایا۔ المصنف لعبد الرزاق

14465

14465- عن نافع قال: استعمل عمر بن الخطاب زيد بن ثابت على القضاء وفرض له رزقا. "ابن سعد".
14465 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے زید بن ثابت (رض) کو قضاء پر مامور کیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابن سعد

14466

14466- عن زيد بن فياض عن رجل من أهل المدينة قال: دخل عمر بن الخطاب السوق وهو راكب فرأى دكاناقد أحدث في السوق فكسره. "ق".
14466 زید بن فیاض اہل مدینہ کے ایک شخص سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بازار میں داخل ہوئے اور آپ سوار حالت میں تھے۔ آپ (رض) نے ایک دکان بازار میں نئی کھلی دیکھی تو آپنے اس کو مسمار کروادیا۔ السنن للبیہقی

14467

14467- عن الزهري أن عمر بن الخطاب استعمل عبد الله بن عتبة على السوق. "ابن سعد" قال العلماء هذا أصل ولاية الحسبة.
14467 زہری (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عبداللہ بن عتبہ کو بازار پر عامل مقرر کیا۔ ابن سعد
فائدہ : علماء فرماتے ہیں : عدالت احتساب کی اصل یہی ہے۔

14468

14468- عن عبد الله بن ساعدة الهذلي قال: رأيت عمر بن الخطاب يضرب التجار بدرته إذا اجتمعوا على الطعام بالسوق حتى يدخلوا سكك أسلم ويقول: لا تقطعوا علينا سابلتنا"..
14468 عبداللہ بن ساعدۃ الھذلی سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ وہ درے کے ساتھ تاجروں کو مار رہے ہیں کیونکہ انھوں نے غلہ پر جمع ہو کر راستوں کو بند کررکھا ہے اور حضرت عمر (رض) ساتھ ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں : ہمارے راستوں کو بند نہ کرو۔
ابن سعد فی الطبفات 60/5 ذکرہ منتخب

14469

14469- عن علي أنه كان يأمر بالمثاعبوالكنفتقطع عن طريق المسلمين. "عب".
14469 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) حکم فرمایا کرتے تھے کہ حوض اور بیت الخلاء سے بازار ہٹ کر بنائے جائیں۔ المصنف لعبد الرزاق

14470

14470- عن الأصبغ بن نباتة قال: خرجت مع علي بن أبي طالب إلى السوق فرأى أهل السوق قد جاوزوا أمكنتهم فقال: ما هذا؟ قالوا: أهل السوق قد جاوزوا أمكنتهم فقال: ليس ذلك إليهم سوق المسلمين كمصلى المصلين من سبق إلى شيء فهو له يومه حتى يدعه. "أبو عبيد في الأموال".
14470 اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے ساتھ بازار کی طرف نکلا۔ آپ (رض) نے اہل بازار کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی جگہوں سے آگے تجاوزات بڑھالیے ہیں۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا : اہل بازار نے اپنی جگہوں کو آگے بڑھا لیا ہے۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : ایسا کرنا ان کے لیے درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بازار مسلمانوں کی عید گاہ کی طرح ہے۔ جو جس جگہ کو پہلے پالے وہ اس دن اس کی ہے حتیٰ کہ وہ خود نہ چھوڑ دے۔
ابوعبید فی الاموال

14471

14471- عن علي قال: أهدى كسرى لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقبل منه وأهدى له قيصر فقبل منه وأهدت له الملوك فقبل منهم. "حم ت وقال حسن غريب وابن جرير وصححه والدورقي ق"
14471 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ کسریٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہدیہ بھیجا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول فرمایا۔ قیصر نے آپ کے لیے ہدیہ بھیجا، آپ نے قبول فرمایا۔ اور دوسرے بادشاہوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہدایا بھیجے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرمائے۔ مسند احمد، وقال حسن غریب، ابن جریرو صحیحہ، الدورقی، السنن للبیہقی

14472

14472- عن أنس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمر بالهدية صلة بين الناس ويقول: لو قد أسلم الناس تهادوا من غير جوع. "كر" وفيه سعيد بن بشير صاحب قتادة لين.
14472 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے درمیان تعلق بنانے کے لیے ہدیہ کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ اور ارشاد فرماتے تھے کہ اگر تمام لوگ مسلمان ہوجائیں تو بغیر بھوک کے آپس میں ہدایا تحائف کا تبادلہ کریں۔ ابن عساکر
کلام : روایت مذکورہ کی سند میں سعید بن بشیر جو قتادہ کے شاگرد ہیں کمزور ہیں (لین) ۔

14473

14473- عن حكيم بن حزام قال: خرجت إلى اليمن فابتعت حلة ذي يزن فأهديتها إلى النبي صلى الله عليه وسلم في المدة التي كانت بينه وبين قريش فقال: لا أقبل هدية مشرك فردها فبعتها فاشتراها فلبسها، ثم خرج إلى أصحابه وهي عليه، فما رأيت شيئا في شيء أحسن منه فيها صلى الله عليه وسلم فما مكثت أن قلت: ما ينظر الحكام بالفصل بعد ما ... بدا واضح ذو غرةوحجول فسمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم فالتفت إلي يتبسم ثم دخل وكساها أسامة بن زيد."..
14473 حکیم بن حزام (رض) سے مروی ہے کہ میں یمن گیا تو میں نے وہاں ذی یزن کا حلہ خریدا۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ حلہ ہدیہ کردیا۔ وہ زمانہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے معاہدہ (بائیکاٹ) کا تھا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا۔ اور وہ حلہ واپس کردیا۔ پھر میں نے وہ حلہ فروخت کردیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خرید کر پہن لیا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے پاس اس حلہ کو پہن کر تشریف لے گئے۔ میں نے کسی اور لباس میں آپ کو اس قدر حسین نہیں دیکھا تھا چنانچہ میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا :
ماینصر الحکام بالفصل بعدمابداواضح ذوغرۃ وحجول
اذاقایسوہ المجد اربی علیھم کمستفرغ ماء الذناب سبجیل
حکام فیصلہ کن حق بات نہیں کہتے جبکہ روشن چمکدار چہرہ والا شخص ظاہر ہوگیا ہے۔
جب لوگ بزرگی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں تو وہ سب پر فائق ہوتا ہے گویا لوگ اس کے سامنے خالی ڈول ہیں۔
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے یہ اشعار سن لیے چنانچہ آپ میری طرف مسکراتے ہوئے ملتفت ہوئے پھر گھر گئے اور وہ حلہ اسامۃ بن زید کو پہنا دیا۔ الامام احمد فی مسندہ

14474

14474- عن ذي الجوشن الضبابي قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد أن فرغ من أهل بدر بابن فرس لي يقال لها القرحاءفقلت يا محمد إني قد أتيتك بابن القرحاء لتتخذه قال: "لا حاجة لي فيه، فإن أردت أن أقضيك به الخيارةمن دروع بدر فعلت؟ قلت: ما كنت لأقيضهاليوم بعدة، قال: "لا حاجة فيه"، ثم قال: يا ذا الجوشن ألا تسلم فتكون من أول أهل هذا الأمر؟ قلت: لا، قال: ولم؟ قلت: إني رأيت قومك ولعوا بك قال: فكيف ما بلغك عن مصارعهم ببدر؟ قلت: قد بلغني قال: فإنا نهدي لك، قلت إن تغلب على الكعبة وتقطنها، قال: لعلك إن عشت ترى ذلك، ثم قال: يا بلال خذ حقيبة الرجل فزوده من العجوة فلما أدبرت قال: أما إنه خير فرسان بني عامر قال: فوالله إني بأهلي بالغور إذ أقبل راكب فقلت: من أين أنت؟ فقال: من مكة، قلت: ما فعل الناس؟ قال: قد والله غلب عليها محمد وقطنها فقلت: هبلتنيأمي ولو أسلم يومئذ ثم أسأله الحيرة لأقطعنيها. "ش"
14474 ذی الجوشن ضبابی سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوا۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر سے فارغ ہوئے تھے۔ میں اپنی ایک گھوڑی قرحاء نامی کے بیٹے کے ساتھ لایا تھا۔ چنانچہ میں نے عرض کیا : اے محمد ! میں آپ کے پاس ابن القرحاء لایا ہوں ۔ آپ کو کو رکھ لیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔ ہاں اگر تو چاہتا ہے کہ میں تجھے اس کے بدلے میں بدر کی زر ہوں میں سے کچھ دوں تو ایسا کردوں گا۔
میں نے عرض کیا : آج میں اس کے بدلے کوئی چیز کسی بھی تعداد میں نہیں لے سکتا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مجھے اس میں کوئی حاجت نہیں ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ذی الجوشن ! تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتا ؟ تب تو اس اسلام کے اولین لوگوں میں شمار ہوگا۔ میں نے عرض کیا : نہیں میں ایسا قدم نہیں اٹھاسکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : آخر کیوں ؟ میں نے عرض کیا : میں نے آپ کی قوم کو دیکھا ہے کہ انھوں نے آپ کا حق مارلیا ہے (آپ کمزور ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تجھے جو بدر کی خبریں ملی ہیں ان کا حال دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا : مجھے تمام خبریں مل گئی ہیں (ابھی ابتداء ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم تجھے کچھ ہدیہ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اگر آپ کعبہ پر غلبہ پالیں اور اس کو اپنا وطن ٹھہرالیں (تو میں مسلمان ہوسکتا ہوں، چونکہ اس وقت تک اسلام کی قوت کا اندازہ ہوجائے گا) ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید تم جیو اور اس بات کو ضرور دیکھ لو گے۔ پھر فرمایا : اے بلال : اس کا تھیلا عجوۃ۔ عمدہ ترین کھجوروں سے بھردو۔ چنانچہ پھر میں منہ موڑ کر چل دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے متعلق ارشاد فرمایا : یہ شخص بنی عامر کا بہترین شہ سوار ہے۔
چنانچہ اس کے بعد ایک مرتبہ جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ غور مقام پر تھا کہ ایک سوار میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا : تو کہاں سے آیا ہے ؟ اس نے کہا : مکہ سے۔ میں نے پوچھا : لوگوں کا کیا حال ہے ؟ اس نے خبر دی کہ اللہ کی قسم ! مکہ پر محمد غالب آگئے ہیں اور اس کو اپنا وطن ٹھہرالیا ہے۔ میں نے کہا : میری ماں مجھے روئے کاش میں اس دن مسلمان ہوجاتا اور محمد سے حیرۃ (بہت بڑا علاقہ) مانگتا تو وہ مجھے ضرور بطور جاگیر عطا فرما دیتے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14475

14475- عن الزهري عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك عن عامر بن مالك ملاعب الأسنة قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم بهدية فقال: إنا لا نقبل هدية مشرك. "كر".
14475 زہری (رح) ، عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے اور وہ رال بہنے والے عامر بن مالک سے روایت کرتے ہیں، عامر فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہدیہ لے کر حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
ہم کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتے۔ ابن عساکر

14476

14476- عن حبيب قال: رأيت هدايا المختار تدخل على ابن عباس وابن عمر فيقبلانها. "ابن جرير في التهذيب".
14476 حبیب سے مروی ہے کہ میں نے امیر مختار کے ہدایا ابن عباس (رض) اور ابن عمر (رض) کے پاس آتے ہوئے دیکھے اور ان دونوں کو قبول کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ ابن جریر فی التھذیب

14477

14477- عن محمد بن سيرين قال: أرسل ابن معمر إلى ابن عمر بعشرة آلاف فقبلها. "ابن جرير فيه".
14477 محمد بن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ ابن معمر (رح) نے حضرت ابن عمر (رض) کے پاس دس ہزار درہم بھیجے اور آپ (رض) نے ان کو قبول فرمالیا۔ ابن جریر فی التھذیب

14478

14478- عن ابن عمر قال: لقد تداولت سبعة أبيات رأس شاة يؤثر به بعضهم بعضا وإن كلهم لمحتاج إليه حتى رجع إلى البيت الذي خرج منه. "ابن جرير".
14478 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ سات گھروں میں بکری کی ایک سری گھومتی رہی ہر ایک دوسرے کو اپنی جان پر ترجیح دیتا تھا حالانکہ ان میں سے ہر ایک اس کا سخت محتاج تھا حتیٰ کہ وہ سری گھوم پھر کر اسی پہلے گھر میں واپس پہنچ گئی جہاں سے اولاً وہ نکلی تھی۔ ابن جریر

14479

14479- عن عروة أن حكيم بن حزام خرج إلى اليمن فاشترى حلة ذي يزن فقدم بها المدينة على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهداها له فردها رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: إنا لا نقبل هدية مشرك فباعها حكيم فأمر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتريت له فلبسها، ثم دخل فيها المسجد، قال حكيم: فما رأيت أحدا قط أحسن منه فيها لكأنه القمر ليلة البدر فما ملكت نفسي حين رأيته كذلك أن قلت: ما ينظر الحكام بالحكم بعد ما ... بدا واضح ذو غرة وحجول إذا واضحوه المجد أربى عليهم ... بمستفرغ ماء الذناب سجيل فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير". ومر برقم [14473] .
14479 عروۃ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکیم بن حزام (حالت شرک میں) یمن گئے اور ذی یزن کا قیمتی حلہ وہاں سے خریدا پھر مدینہ لاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کردیا۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس کردیا اور ارشاد فرمایا :
ہم کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتے۔
چنانچہ پھر حکیم نے اس کو فروخت کرنے کے لیے پیش کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حلہ کے خریدنے کا حکم دیا۔ لہٰذا وہ حلہ آپ کے لیے خرید لیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو زیب تن فرمایا اور مسجد میں تشریف لائے۔
حکیم کہتے ہیں : میں نے اس حلہ میں جب آپ کو دیکھا تو کسی کو آپ سے زیادہ حسین نہیں پایا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودھویں رات کا چاند ہیں۔ اور میں آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھے بغیر نہ رہ سکا :
ماینظر الحکام بعد مابدا واضح ذو غرۃ وحجول
اذاواضحوہ المسجداربی علیھم مستفرع ماء الذناب سجیل
چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ اشعار سن کر ہنس دیئے ۔ ابن جریر
14473 پر یہ روایت بمع ترجمہ اشعار کے ملاحظہ فرمائیں۔

14480

14480- عن طاوس قال: وهب رجل للنبي صلى الله عليه وسلم فأثابه فلم يرض فزاده أحسب أنه قال ثلاث مرات فلم يرض، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد هممت أن لا أقبل هبة وربما قال: هممت أن لا أتهبإلا من قرشي أو أنصاري أو ثقفي. "عب".
14480 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ہدیہ پیش کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اچھا ہدیہ اس کو دیدیا مگر وہ خوش نہ ہوا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار اس سے اچھا ہدیہ اس کو دیا مگر وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا ارادہ ہوگیا ہے کہ کسی سے ہدیہ قبول نہ کروں۔ اور بعض دفعہ یہ فرمایا : میرا ارادہ ہے کہ آئندہ میں کسی سے ہدیہ قبول نہ کروں سوائے قریشی انصاری اور ثقفی کے۔ الجامع لعبد الرزاق

14481

14481- عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل الهدية ويثيب عليها. "خ ن"
14481 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدیہ قبول فرمایا کرتے تھے اور اس کا بہتر بدلہ بھی دیا کرتے تھے۔ البخاری، النسائی

14482

14482- عن عائشة قالت: أهدت إلي امرأة مسكينة هدية فلم أقبلها رحمة لها فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ألا قبلتيها منها وكافيتيها منها فلا ترى أنك حقرتيها، يا عائشة تواضعي فإن الله يحب المتواضعين ويبغض المستكبرين. "أبو الشيخ في الثواب والديلمي".
14482 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مسکین عورت نے مجھے ہدیہ دیا۔ لیکن میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے وہ ہدیہ قبول نہ کیا۔ پھر میں نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گوش گزار کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے کیوں نہ ہدیہ قبول کرلیا ! پھر تو اس کو اچھا بدلہ دیدیتی۔ تو نے گویا اس کی تحقیر کردی ہے۔ اے عائشہ ! عاجزی و انکساری کو محبوب رکھو بیشک اللہ تعالیٰ عاجزی و انکساری کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور بڑائی چاہنے والوں کو دشمن رکھتا ہے۔
ابوالشیخ فی الثواب، الدیلمی

14483

14483- عن عبد الله بن بريدة قال: حدثني عم عامر بن الطفيل العامري أن عامر بن الطفيل أهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فرسا وكتب إليه عامر أنه قد ظهر في دبيلةفابعث إلي دواء من عندك قال: فرد النبي صلى الله عليه وسلم الفرس لأنه لم يكن أسلم وأهدى إليه عكةمن عسل، وقال: تداو بها. "كر"3
14483 عبداللہ بن بریدۃ سے مروی ہے کہ مجھے عامر بن طفیل عامری کے چچا نے بتایا کہ عامر بن طفیل نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک گھوڑا ہدیہ کیا اور ساتھ میں یہ لکھا کہ میرے پیٹ میں پھوڑا نکل آیا ہے لہٰذا اپنے پاس سے کوئی دوا بھیج دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑا واپس کردیا کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے جبکہ شہد کا ایک مشکیزہ بھیج دیا اور ارشاد فرمایا اس کے ساتھ علاج کرلو۔ ابن عساکر

14484

14484- عن أبي المتوكل الناجي عن أبي سعيد الخدري أن ملك الروم أهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جرة من زنجبيل فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أصحابه فأعطى كل رجل قطعة وأعطاني قطعة. "ابن جرير".
14484 ابومتوکل ناجی حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ بادشاہ روم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ میں سونٹھ کا ایک گھڑا بھیجا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنے اصحاب میں ٹکڑے ٹکڑے تقسیم کردیا اور مجھے بھی ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔ ابن جریر

14485

14485- عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك عن أبيه قال جاء ملاعب الأسنة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بهدية فعرض عليه النبي صلى الله عليه وسلم الإسلام فأبى أن يسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فإني لا أقبل هدية مشرك. "كر".
14485 عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جس کے منہ سے رال بہتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہدیہ لے کر آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اسلام کی دعوت دی، لیکن اس نے اسلام لانے سے انکار کردیا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا ۔ ابن عساکر

14486

14486- عن عياض بن حمار المجاشعي أنه أهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم هدية أو ناقة، فقال: أسلمت قال: لا، قال: فإني نهيت عن زبدالمشركين. "د ت وقال: حسن صحيح وابن جرير ق"
14486 عیاض بن حمار مجاشعی سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہدیہ یا اونٹنی پیش کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا : کیا تو اسلام قبول کرچکا ہے ؟ انھوں نے انکار میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
مجھے مشرکین کے ہدیہ (کو قبول کرنے) سے منع کیا گیا ہے۔
ابوداؤد ، الترمذی، وقال حسن صحیح، ابن جریر، السنن للبیہقی

14487

14487- عن عمران بن حصين أن عياض بن حمار المجاشعي أهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فرسا قبل أن يسلم فقال: إني أكره زبد المشركين3.
14487 عمران بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ عیاض بن حمار المجاشعی نے اپنے مسلمان ہونے سے قبل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھوڑا ہدیہ میں پیش کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مشرکین کے ہدیہ کو ناپسند کرتا ہوں۔ مسند احمد 162/14

14488

14488- "مسند عمر" عن ابن جرير الأزدي أن رجلا كان يهدي إلى عمر بن الخطاب كل سنة فخذ جزور فخاصم إلى عمر فقال: يا أمير المؤمنين اقض بيننا قضاء فصلا كما يفصل الفخذ من الجزور فكتب عمر إلى عماله: لا تقبلوا الهدية فإنها رشوة. "ابن أبي الدنيا في كتاب الأشراف ووكيع في الغرر كر هق"
14488 (مسند عمر (رض)) ابن جریر ازدی سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ہر سال اونٹ کی ران ہدیہ کرتا تھا۔ پھر ایک مرتبہ وہ آدمی حضرت عمر (رض) کے پاس اپنا ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا اور بولا : اے امیر المومنین ! ہمارے درمیان اس طرح فیصلہ کر دیجئے جس طرح اونٹ کی ران کو اس کے دھڑ سے فیصل (جدا) کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ ھدایا قبول نہ کرو کیونکہ یہ رشوت ہے۔
ابن ابی الدنیا فی کتاب الاشراف، وکیع فی الغرر، ابن عساکر، السنن للبیہقی

14489

14489- عن موسى بن طريف أن عليا قسم قسما فدعا رجلا يحسب بين الناس، فقالوا: يا أمير المؤمنين أعطه عمالته قال: إن شاء وهو سحت. "عب ومسدد وأبو عبيد في الأموال هق وضعفه كر"
14489 موسیٰ بن ظریف سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے مال کی تقسیم فرمائی اور ایک آدمی کو بلایا جو لوگوں کے درمیان حساب کتاب اور شمار کیا کرتا تھا۔ لوگوں نے اس کے متعلق حضرت علی (رض) سے عرض کیا اس کو بھی اس کے کام کی اجرت دے دیجئے۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر یہ چاہے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ ناجائز (سحت) ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، مسدد، ابوعبید فی الاموال، السنن للبیہقی، وضعفہ، ابن عساکر
کلام : امام بیہقی (رح) نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

14490

14490- عن مسروق قال: قلت لعمر بن الخطاب أرأيت الرشوة في الحكم من السحت هي؟ قال: لا ولكن كفر إنما السحت أن يكون للرجل عند السلطان جاه ومنزلة ويكون للآخر إلى السلطان حاجة فلا يقضي حاجته حتى يهدى إليه هدية. "ابن المنذر".
14490 مسروق (رح) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو عرض کیا : کیا آپ رشوت کو فیصلہ کرانے میں حرام (سحت) سمجھتے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں، بلکہ کفر سمجھتا ہوں اور سحت (حرام) تو وہ ہے کہ ایک آدمی کو بادشاہ کے پاس عزت و مرتبہ حاصل ہو اور دوسرے آدمی کو بادشاہ سے کوئی حاجت و ضرورت پیش آجائے اور وہ اس کی حاجت پوری نہ کرے جب تک کہ آدمی اس کو ہدیہ نہ دے (تو یہ سخت یعنی حرام ہے) ۔ ابن المنذر

14491

14491- عن عمر قال: بابان من السحت يأكلهما الناس الرشاءومهر الزانية. "ش وعبد بن حميد وابن جرير".
14491 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا :
دو دروازے سحت (حرام خوری) کے ہیں، جن کو لوگ کھاتے ہیں، رشوت اور زانیہ کا مہر۔
زانیہ کی کمائی مصنف ابن ابی شیبہ، عبد حمید، ابن حریر

14492

14492- عن عمر قال: لا ينبغي لقاضي المسلمين أن يأخذ أجرا ولا صاحب مغنمهم. "عب ش".
14492 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
مسلمانوں کے قاضی کے لیے اجرت لینا جائز نہیں نہ نہ صاحب غنیمت (غنیمت کا مال تقسیم کرنیوالے کے لئے) ۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

14493

14493- عن أبي جرير أن رجلا كان أهدى إلى عمر رجل جزور ثم جاء يخاصم إليه فجعل يقول له: يا أمير المؤمنين افصل بيننا كما يفصل رجل الجزور، قال: والله ما زال يكررها حتى كدت أن أقضي له. "ابن جرير".
14493 ابی جریر سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس اونٹ کی ٹانگ ہدیہ میں بھیجا کرتا تھا۔ پھر ایک مرتبہ وہ اپنا مقدمہ لے کر آیا اور بولا : یا امیر المومنین ! ہمارے درمیان فیصلہ کر دیجئے جس طرح اونٹ کی ٹانگ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ابوجریر کہتے ہیں کہ وہ آدمی مسلسل یہی کہتا رہا حتیٰ کہ میں قریب تھا کہ اس کا میں فیصلہ کردیتا۔
ابن جریر

14494

14494- عن ابن مسعود قال: السحت الرشوة في الدين. "عب".
14494 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : دین میں رشوت کا نام سحت ہے۔ (جس کی قرآن میں مذمت آئی ہے) ۔ الجامع لعبد الرزاق

14495

14495- عن ابن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه لعن الراشي والمرتشي والمعزى الذي يسعى بينهما. "أبو سعيد النقاش في القضاة ورجاله ثقات"
14495 حضرت ابن عمرو (رض) حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے اور رشوت کا معاملہ کرانے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ ابوسعید النقاش فی القضاۃ ورجالہ ثقات

14496

14496- "الصديق" عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: حضرت أبا بكر وعمر وعثمان يقضون باليمين مع الشاهد. "قط ق".
14496 (صدیق) عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ میں حضرات ابوبکر عمر اور عثمان کے پاس حاضر ہوا ۔ یہ سب حضرات شاہد کے ساتھ قسم پر فیصلہ دے دیا کرتے تھے۔
الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی
فائدہ : دعویدار پر دو گواہ پیش کرنا لازم ہے۔ اگر دو گواہ نہ ہوں تو ایک گواہ اور ایک قسم پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ منکر (قابض) پر صرف قسم لازم ہے۔

14497

14497- عن عبد الله بن ربيعة أن أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب كانا يستحلفان المعسر بالله ما يجد ما يقضيه من عرض ولا ناضولئن وجدت من حيث لا تعلم لتقضيه ثم يخليان سبيله. "ق".
14497 عبداللہ بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) تنگدست (نادہندہ) سے اللہ کی قسم لیتے تھے کہ اس کے پاس قرض وغیرہ کی ادائیگی کے لیے نہ کوئی سامان ہے اور نہ نقد قیمت۔ اور اگر کسی بھی جگہ سے تیرے پاس مال آئے گا تو تو یہ قرض ادا کردے گا پھر آپ حضرات اس کا راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ السنن للبیہقی

14498

14498- عن علي قال: نزل جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم باليمين مع الشاهد والحجامة يوم الأربعاء يوم نحس مستمر. "ابن راهويه"1
14498 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک گواہ کے ساتھ قسم اور بدھ جو دائمی نحوست والا ہے حجامت (پیچھے لگوانے) کا حکم لے کر آئے۔
ابن راھویہ
کلام : ابن رجب (حنبلی) فرماتے ہیں : یہ حدیث مذکورہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی طبرانی نے دوسرے طریق کے ساتھ ابن عباس (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ امام سخاوی (رح) فرماتے ہیں مذکورہ متن کے تمام طرق واھیہ (ناقابل اعتبار اور لغو) ہیں۔ فیض القدیر للمناری امر

14499

14499- عن جابر بن الحارث قال: بعث إلي مولاي بعبد أخذه بالسواد اجتعلفيه فأبق العبد فاختصما إلى شريح فضمننيه فأتينا عليا فقصصنا عليه القصة، فقال: كذب شريح وأساء القضاء يحلف العبد الأسود للعبد الأحمر لأبق إباقا وليس عليه شيء. "عب ق".
14499 جابر بن الحارث سے مروی ہے کہ مجھے میرے آزادکردہ غلام نے میرے پاس ایک بھگوڑا غلام ارض سواد۔ سوڈان سے پکڑ کر بھیجا جو اس نے انعام یابی کے لیے پکڑا تھا۔ لیکن وہ غلام پھر بھاگ گیا۔ چنانچہ دونوں قاضی شریح کے پاس حاضر ہوئے۔ قاضی شریح نے مجھے ضامن قرار دیدیا۔ پھر ہم حضرت علی (رض) کے پاس آئے اور ان کو سارا قصہ سنایا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : شریح نے غلط کہا ہے اور برا فیصلہ کیا۔ سیاہ فام غلام سرخ فام (بھگوڑے) غلام کے لیے قسم اٹھائے گا کہ وہ واقعی بھاگ گیا ہے اور اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

14500

14500- عن حنش بن المعتمر قال: جاء إلى علي رجلان يختصمان في بغل فجاء أحدهما بخمسة يشهدون أنه نتجهوجاء الآخر بشاهدين يشهدان أنه نتجه، فقال للقوم وهو عنده: ماذا ترون أقضى بأكثرهما شهودا فلعل الشاهدين خير من الخمسة، ثم قال: فيها قضاء وصلح وسأنبئكم بالقضاء والصلح، أما الصلح فيقسم بينهما لهذا خمسة أسهم، ولهذا سهمان، وأما القضاء بالحق فيحلف أحدهما مع شهوده أنه بغله ما باعه ولا وهبه فيأخذ البغل وإن شاء أن يغلظ في اليمين ثم يأخذ البغل فإن تشاححتما أيكما يحلف أقرعتبينكما على الحلف فأيكما قرع حلف فقضى بهذا وأنا شاهد. "عب هق"
14500 حنش بن المعتمر سے مروی ہے کہ دو آدمی ایک خچر کے سلسلے میں اپنا تنازعہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ ایک کے ساتھ پانچ گواہ تھے جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ خچر اسی کے ہاں پیدا ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص دو گواہ لے کر آیا جو اس کے متعلق گواہی دے رہے تھے کہ وہ خچر اس کے ہاں پیدا ہوا ہے۔
حضرت علی (رض) نے اپنے پاس موجود حاضرین کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ، اگر میں زیادہ گواہوں والے کے حق میں فیصلہ دیدوں تو ممکن ہے کہ دو گواہ پانچ گواہوں سے زیادہ بہتر ہوں۔ پھر خود ہی ارشاد فرمایا : اس مقدمے میں فیصلہ بھی ہوسکتا ہے اور دونوں آپس میں صلح بھی کرسکتے ہیں اور میں تم کو فیصلے اور صلح دونوں طریقے بتاتا ہوں ۔ صلح تو یوں ممکن ہے کہ یہ جانور دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائے اس کے لیے پانچ حصے اور اس کے لیے دو حصے۔ جبکہ حق کے مطابق فیصلہ یوں ہوگا کہ دونوں میں سے ایک اپنے گواہوں کے ساتھ قسم اٹھائے کہ یہ اسی کا خچر ہے، اس نے اس کو فروخت کیا ہے اور نہ ہدیہ کیا ہے اور دوسرا چاہے تو اس سے سخت ترین قسم اٹھوا سکتا ہے۔ پھر یہ خچر لے لے گا۔ پھر اگر تمہارا اس بات میں اختلاف ہوتا ہے کہ قسم کون اٹھائے تو اس کا حل یہ ہے کہ میں ان دونوں کے درمیان قرعہ ڈالتا ہوں۔ جس کے نام قرعہ نکل آئے گا وہی قسم اٹھائے گا۔
حنش بن معتمر فرماتے ہیں : حضرت علی (رض) نے اسی طریقہ پر فیصلہ فرمایا اور میں اس بات پر گواہ ہوں۔
المصنف لعبد الرزاق، الکبری للبیہقی

14501

14501- عن يحيى الجزار قال: اختصم إلى علي رجلان في دابة وهي في يد أحدهما فأقام هذا بينة أنها دابته وأقام هذا بينة أنها دابته فقضى للذي في يده قال: وقال علي: إن لم تكن في يد واحد منهما فأقام كل واحد منهما بينة أنها دابته فهي بينهما. "عب ق".
14501 یحییٰ جزار سے مروی ہے کہ دو آدمی سواری کے ایک جانور کے بارے میں اپنا تنازعہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ سواری کسی ایک کے قبضہ میں تھی۔ پھر اس نے بھی گواہ قائم کردیئے کہ یہ سواری اسی کی ہے اور دوسرے نے بھی گواہ پیش کردیئے کہ یہ سواری اس کی ہے۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے سواری کا فیصلہ اس کے حق میں فرمادیا جس کے قبضے میں وہ موجود تھی اور ارشاد فرمایا : اگر یہ کسی کے قبضہ میں نہ ہوتی اور یہ دونوں اپنے اپنے گواہ حاضر کردیتے تو پھر یہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجاتی ۔ المصنف لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

14502

14502- عن علي أن قوما اختصموا إليه في خصلهم فقضى أن ينظر أيهم أقرب إلى القماطفهو أحق به. "ق".
14502 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ کچھ لوگ ان کے پاس ایک جھونپڑے کے متعلق اپنا جھگڑالے کر آئے۔ حضرت علی (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ یہ دیکھا جائے کہ کون جھونپڑے کی رسی باندھنے کے زیادہ قریب ہے۔ کون جھونپڑے کو بنانے کا زیادہ ماہر ہے پس وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔
السنن للبیہقی

14503

14503- عن عبد الأعلى الثعلبي قال: كنت جالسا عند شريح فجاءت امرأة فقالت: يا أبا أمية إن هذا الرجل أتاني ولا يرجو أن يتزوجني فقلت له: هل لك أن تتزوجني؟ فقال: أتسخرين بي فزوجته نفسي وأعطيته من الذي لي أربعة آلاف درهم اتجر به في مالي حتى غمر ماله في مالي كالرقةفي جنب البعير، فزعم أنه مطلقي ومتزوج علي، فقال شريح للرجل: ما تقول؟ قال: صدقت، فقال شريح للملأ حوله: فزعموا أن عليا أتاه بمثل الذي أتاك، فقال: أنت أحق بالطلاق والنكاح ما بينك وبين أربع نسوة، فإن أنت طلقت فالطلاق بيدك واردد عليها مالها ومثله من مالك بما استحللت من فرجها، فقال شريح هذا الذي بلغنا عنه هو قضائي بينكما قوما. "ص".
14503 عبدالاعلیٰ ثعلبی سے مروی ہے کہ میں قاضی شریح کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت (ایک آدمی کے ساتھ) ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی : اے ابوامیہ (قاضی شریچ ! ) یہ آدمی میرے پاس آیا اس کا ارادہ مجھ سے نکاح کرنے کا نہیں تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ شادی کرنے کو کہا۔ تو اس نے کہا کیا تو میرے ساتھ مسخرہ پن کرتی ہے۔ چنانچہ نے اس کے ساتھ اپنی شادی کرالی۔ اور اپنے مال میں سے چار ہزار درہم میں نے اس کو دیئے میں اس کے ساتھ اپنے مال میں تجارت کرنا چاہتی تھی ، حتیٰ کہ اس کا مال میرے مال سے بہت زیادہ بڑھ گیا گویا کہ اونٹ کے پہلو میں کچھ بال۔
اب اس کا خیال ہے کہ یہ مجھے طلاق دے کر دوسری عورت کو بسائے گا۔ قاضی شریح نے اس آدمی کو فرمایا : تیر کیا خیال ہے یہ کیا کہتی ہے ؟ آدمی نے کہا : یہ سچ کہتی ہے۔ قاضی شریح کے پاس موجود لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا ہی ایک مقدمہ حضرت علی (رض) کے پاس بھی آیا تھا تو حضرت علی (رض) نے آدمی کو فرمایا تھا :
تو طلاق دینے کا حق رکھتا ہے اور چار عورتوں سے نکاح کرنے کا بھی حقدار ہے۔ اگر تو اس کو طلاق دیتا ہے تو تو طلاق کا مالک ہے لیکن اس کا مال اس کو لوٹا دے اور اتنا ہی مزید مال اپنی طرف سے مہر کے نام سے اس کو دے جس کے عوض تو نے اس کی شرم گاہ کو حلال کیا۔ قاضی شریح (رح) نے فرمایا : یہ فیصلہ جو ہم کو حضرت علی (رض) کی طرف سے پہنچا میرا بھی تم دونوں کے لیے یہی فیصلہ ہے ، لہٰذا اٹھ جاؤ۔
السنن لسعید بن منصور

14504

14504- عن علي أن رجلا نكح امرأة فأعطاها صداقها وكانت أخته من الرضاعة ولم يكن دخل بها، قال: ترد إليه ماله الذي أعطاها ويفترقان. "ص".
14504 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کو مہر بھی دیدیا۔ حالانکہ وہ اس کی دودھ شریک بہن تھی۔ لیکن ابھی تک آدمی نے اس کے ساتھ مباشرت نہیں کی تھی۔ چنانچہ حضرت علی (رض) عورت کے لیے حکم فرمایا کہ وہ لیا ہوا مہر واپس کردے اور دونوں جدا ہوجائیں۔ السنن لسعید بن منصور

14505

14505- عن محمد بن يحيى بن حبان أنه كان عند جده حبان بن منقذ امرأتان هاشمية وأنصارية فطلق الأنصارية وهي ترضع فمرت بها سنة لم تحض ثم هلك، فقالت: أنا أرثه لم أحض فاختصموا إلى عثمان ابن عفان فقضى لها بالميراث فلامت الهاشمية عثمان بن عفان، فقال لها: هذا عمل ابن عمك هو أشار علينا بهذا يعني علي بن أبي طالب. "مالك ق"
14505 محمد بن یحییٰ بن حبان سے مروی ہے کہ ان کے دادا حبان بن منقد کے عقد میں دو عورتیں تھیں۔ ایک ہاشمیہ اور دوسری انصاریہ۔ پھر انھوں نے انصاریہ کو طلاق دیدی۔ اس وقت وہ اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ پھر اس انصاریہ پر ایک سال گزر گیا مگر اس کو حیض نہ آیا پھر دادا کا انتقال ہوگیا۔ تو انصاریہ بولی : میں ان کی وراثت پاؤں گی کیونکہ مجھے ابھی تک حیض نہیں آیا۔ چنانچہ لوگوں نے یہ مقدمہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت عثمان (رض) نے بھی انصاریہ طلاق یافتہ کے لیے میراث کا حکم دیدیا۔ ہاشمیہ سوتن نے عثمان بن عفان کو ملامت کی۔ حضرت عثمان (رض) نے ہاشمیہ کو فرمایا : یہ فیصلہ تیرے چچازاد کا ہے، انہی نے ہم کو اس کا مشورہ دیا ہے۔ یعنی حضرت بن ابی طالب (رض) نے۔ موطا اماممالک السنن للبیہقی

14506

14506- عن ابن جريج عن عبد الله بن أبي بكر أن رجلا من الأنصار يقال له: حبان بن منقذ طلق امرأته وهو صحيح وهي ترضع ابنته فمكثت سبعة عشر شهرا لا تحيض يمنعها الرضاع ثم مرض بعد أن طلقها سبعة أشهر أو ثمانية أشهر فقيل له: إن امرأتك تريد أن ترث فقال لأهله: احملوني إلى عثمان فحملوه إليه فذكر له شأن امرأته وعنده علي بن أبي طالب وزيد بن ثابت فقال لهما عثمان: ما تريان؟ فقالا: إنا نرى أنها ترثه إن مات ويرثها إن ماتت فإنها ليست من القواعد اللاتي يئسن من المحيض وليست من الأبكار اللاتي لم يبلغن المحيض، ثم هي على عدة حيضها ما كان من قليل أو كثير، فرجع حبان إلى أهله فأخذ ابنته، فلما قعدت على الرضاع حاضت حيضة، ثم حاضت حيضة أخرى ثم توفي حبان قبل أن تحيض الحيضة الثلاثة فاعتدت عدة المتوفى عنها زوجها وورثته. "الشافعي هق"
14506 ابن جریج، عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی جن کو حبان بن معقذ کہا جاتا ہے نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔ حبان اس وقت تندرست اور صحیح سالم تھے۔ جبکہ ان کی طلقہ بیوی دودھ والی تھی۔ وہ سترہ یا اٹھارہ ماہ تک یونہی پاک رہی اور اس کو حیض نہ آیا، رضاعت نے اس کو حیض نہ آنے دیا۔ جبکہ حبان اس کو طلاق دینے کے ساتھ یا آٹھ ماہ بعد مرض الموت میں پڑگئے۔ ان کو کسی نے کہا : تاحال تمہاری بیوی تمہاری وارث بننا چاہتی ہے۔ کیونکہ تین حیض نہ آنے کے سبب ابھی وہ تم سے بالکلیہ فارغ نہ ہوئی ہے حبان نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا : مجھے خلیفہ عثمان کے پاس لے چلو۔ چنانچہ ان کی خدمت میں پہنچ کر حبان نے اپنی مطلقہ بیوی کی حالت کا ذکر کیا۔ حضرت عثمان (رض) کے پاس علی بن ابی طالب اور زید بن ثابت (رض) بھی موجود تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے ان سے دریافت فرمایا : تم دونوں کا کیا خیال ہے ؟ دونوں نے فرمایا : ہمارا خیال ہے کہ اگر حبان مرگئے تو وہ ان کی وارث ہوگی اور اگر وہ مرگئی تو حبان اس کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ وہ ان بیٹھی رہ جانے والی بوڑھیوں میں سے نہیں ہے جو حیض سے مایوس ہوجاتی ہیں اور نہ ان کنواریوں میں سے ہے جو زمانہ حیض کو نہیں پہنچی ہیں۔ لہٰذا ان کی عدت تین ماہ نہیں بلکہ تین حیض ہے اور وہ ابھی اپنی عدت حیض پر باقی ہے ، خواہ زیادہ ہو یا تھوڑی۔
چنانچہ حبان اپنے اہل خانہ کے پاس واپس ہوئے اور اپنی بیٹی کو لے لیا اور جب اس کی ماں دودھ پلانے بیٹھی تو اس کو ایک حیض آگیا ۔ پھر (اگلے ماء) دوسرا حیض آگیا پھر تیسرا حیض آنے سے قبل حبان کو موت آگئی چنانچہ اس نے متوفی عنہا کی عدت گزاری۔ یعنی حبان کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن تک وہ وعدت میں رہی اور حبان کی وراثت بھی پائی۔ الشافعی، السنن للبیہقی

14507

14507- عن عروبة الحارثي في مسند القاضي أبي يوسف عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قضى بشهادة رجل واحد مع يمين صاحب الحق، وقضى به علي بالعراق. "أبو عبد الله ابن باكويه في أماليه".
14507 مسند القاضی ابویوسف میں عرویۃ الحارثی سے مروی ہے وہ جعفر بن محمد سے اور وہ اپنے والد سے وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی گواہی اور صاحب حق کی قسم کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ یعنی صاحب حق کی قسم اور اس کے گواہ کی گواہی کے ساتھ فیصلہ فرمادیا اور حضرت علی (رض) نے عراق میں اسی طرح ایک فیصلہ نمٹایا۔
ابوعبداللہ بن باکویہ فی امالیہ

14508

14508- عن ابن عباس قال: وردت على عمر بن الخطاب واردة قام منها وقعد وتغير وتربدوجمع لها أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فعرضها عليهم، وقال: أشيروا علي، فقالوا جميعا: يا أمير المؤمنين أنت المفزعوأنت المنزعفغضب عمر وقال: اتقوا الله وقولوا قولا سديدا يصلح لكم أعمالكم فقالوا: يا أمير المؤمنين ما عندنا مما تسأل عنه شيء، فقال: أما والله إني لأعرف أبا بجدتهاوابن بجدتها وأين مفزعها وأين منزعها فقالوا: كأنك تعني ابن أبي طالب، فقال عمر: لله هو وهل طفحتحرة بمثله وأبرعته انهضوا بنا إليه فقالوا: يا أمير المؤمنين أتصير إليه يأتيك، فقال: هيهات هناك شجنةمن بني هاشم وشجنة من الرسول وأثرة من علم يؤتى لها ولا يأتي، في بيته يؤتي الحكمفاعطفوا نحوه، فألفوه في حائط له وهو يقرأ: {أَيَحْسَبُ الْأِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدىً} ويرددها ويبكي فقال عمر لشريح: حدث أبا حسن بالذي حدثتنا به فقال شريح: كنت في مجلس الحكم فأتى هذا الرجل فذكر أن رجلا أودعه امراتين حرة مهيرة.وأم ولد فقال له: أنفق عليهما حتى أقدمفلما كان في هذه الليلة وضعتا جميعا إحداهما ابنا والأخرى بنتا وكلتاهما تدعى الابن وتنتفي من البنت من أجل الميراث، فقال له: بم قضيت بينهما؟ فقال شريح: لو كان عندي ما أقضى به بينهما لم آتكم بهما فأخذ علي تبنة من الأرض فرفعها فقال: إن القضاء في هذا أيسر من هذه ثم دعا بقدح فقال لإحدى المرأتين احلبي فحلبت فوزنه ثم قال للأخرى احلبي فحلبت فوزنه فوجده على النصف من لبن الأولى فقال لها: خذي أنت ابنتك وقال للأخرى: خذي أنت ابنك، ثم قال لشريح: أما علمت أن لبن الجارية على النصف من لبن الغلام وأن ميراثها نصف ميراثه وأن عقلها نصف عقله وأن شهادتها نصف شهادته وإن ديتها نصف ديته وهي على النصف في كل شيء فأعجب به عمر إعجابا شديدا ثم قال: أبا حسن لا أبقاني الله لشدة لست لها ولا في بلد لست فيه. "أبو طالب علي بن أحمد الكاتب في جزء من حديثه" وفيه يحيى بن عبد الحميد الحمانيقال في المغني: وثقه ابن معين وغيره، وقال د3: ضعيف وقال: محمد بن عبد الله بن نمير كذاب، وقال "حب": كان يكذب جهارا ويسرق الأحاديث، وقال "عد" أرجو أنه لا بأس به، قال "الذهبي": وأما تشيعه فقل ما شئت كان يكفر معاوية.
14808 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے حضور میں ایک مسئلہ پیش کیا گیا۔ حضرت عمر (رض) اس کو سن کر کھڑے ہوگئے پھر بیٹھ گئے، ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر آپ (رض) نے اس مسئلے کے حل کے لیے اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمع کیا اور اس مسئلے کو ان پر پیش کیا اور فرمایا : تم مجھے اس کا جواب دو ۔ لوگوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ کی ذات مرجع الناس ہے، آپ ہی مشکل مسائل کا حل نکالنے والے ہیں۔ حضرت عمر (رض) غضب ناک ہوگئے اور ارشاد فرمایا : اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو، اللہ تمہارے اعمال کو درست کردے گا۔ لوگوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال فرما رہے ہیں م اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں حقیقت کی تہہ میں اتر جانے والے اور علم کے باپ کو جانتا ہوں، وہی مرجع الناس ہے اور وہی مشکل مسائل کا حل نکالنے والا ہے، کہاں ہے وہ ؟ لوگوں نے کہا : شاید آپ کا ارادہ ابن ابی طالب کو پوچھنے کا ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہاں اللہ کی قسم وہی ہے او واقعتہ وادیحرہ نے اس جیسا دوسرا سپوت پیدا نہیں کیا۔ چلو، ہم کو اس کے پاس سے لے چلو۔ لوگوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین کیا آپ ان کے پاس چل کر جائیں گے ؟ وہی آپ کے پاس آجائیں گے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : افسوس ! وہ خاندان بنی ہاشم اور خاندان رسول کے چشم وچراغ ہیں اور علم کا نشان ہیں۔ ان کے پاس چل کر جایاجاتا ہے، وہ خود نہیں آتے۔ انہی کے گھر میں حکام پیش ہوتے ہیں۔ چلو ان کا رخ کرو۔
چنانچہ یہ حضرات ان کی تلاش میں نکلے تو ان کو اپنے باغ میں پایا۔ وہ اس آیت کی بار بار تلاوت کررہے تھے اور رو رہے تھے :
ایحسب الانسان ان یترک سدی۔
کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اس کو بےکار چھوڑ دیا جائے گا۔
حضرت عمر (رض) نے قاضی شریح کو فرمایا : تم نے جو مسئلہ ہم کو سنایا ہے وہ ابوالحسن کو سناؤ۔ قاضی شریح نے فرمایا : میں عدالت نشست میں تھا۔ یہ آدمی آیا اور اس نے کہا کہ :
ایک آدمی نے اس کو دو عورتیں حوالہ کیں جن میں ایک آزاد ہے اور مہر والی تھی جبکہ دوسری ام ولد (باندی) تھی۔ اور اس کو کہا کہ میری واپسی تک ان کے خرچ پانی کا خیال رکھو۔ پھر گزشتہ رات دونوں نے ایک ساتھ بچوں کو جنم دیا۔ ایک نے لڑکی جنی دوسری نے لڑکا جنا۔ لیکن اب دونوں ہی (دگنی) میراث کے لالچ میں لڑکے کا دعویٰ کررہی ہیں اور لڑکی کو کوئی بھی قبول نہیں کررہی ہے۔
حضرت علی (رض) نے قاضی شریح سے پوچھا : تم نے دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا ؟ قاضی شریح نے کہا : اگر میرے پاس ایسا علم ہوتا جس کے ذریعہ میں دونوں کے بیچ فیصلہ کرسکتا تو ہرگز ان کو آپ کے پاس نہ لے کر آتا۔
دو عورتوں کے درمیان فیصلہ
چنانچہ حضرت علی (رض) نے ایک تنکا اٹھا کر ارشاد فرمایا : یہ مسئلہ اس تنکے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ پھر آپ (رض) نے ایک پیالہ منگوایا اور ان میں سے ایک عورت کو فرمایا : اس میں اپنا (سارا ) دودھ نکالو۔ چنانچہ اس نے اپنا دودھ اس پیالے میں نکالا۔ حضرت علی (رض) نے اس کا وزن کرلیا۔ پھر دوسری عورت کو فرمایا : اب تم اپنا دودھ نکالو۔ چنانچہ اس نے بھی اپنے پستانوں کا دودھ نکالا پھر حضرت علی (رض) نے اس کو بھی وزن کیا تو اس کو پہلی عورت کے دودھ سے نصف پایا۔ چنانچہ اس دوسری عورت کو فرمایا : تو اپنی بیٹیے لے لے۔ اور پہلی کو فرمایا : تو اپنا بیٹا لے لے۔
پھر قاضی شریح کو فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ لڑکی کا دودھ لڑکے کے دودھ لڑکے کے دودھ سے نصف ہوتا ہے۔ لڑکی کی میراث لڑکے کی میراث سے نصف ہوتی ہے ، لڑکی کی عقل لڑکے کی عقل سے نصف ہوتی ہے ، لڑکی کی شہادت لڑکے کی شہادت سے نصف ہوتی ہے، لڑکی کی دیت لڑکے کی دیت سے نصف ہوتی ہے بلکہ لڑکی ہر چیز میں لڑکے سے نصف ہوتی ہے۔
یہ فیصلہ سن کر (خوشی کے باعث) حضرت عمر (رض) کو سخت ترین حیرت اور تعجب ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا : اے ابوحسن ! اللہ مجھے ایسے کسی مشکل مسئلہ میں آپ کے بغیر تنہا نہ چھوڑے جس کو میں حل کرنے کا اہل نہیں اور نہ ایسے شہر میں چھوڑے جس میں آپ نہ ہوں۔
ابو طالب علی بن احمد الکاتب فی جزء من حدیثہ
کلام : روایت محل کلام ہے۔ مذکورہ روایت میں ایک راوی یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی ہے۔ المغنی میں ہے کہ اس کو ابن معین نے ثقہ کہا ہے، جبکہ ابوداؤد نے اس کو ضعیف کہا ہے اور محمد بن عبداللہ بن خمیر نے کذاب کہا ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں : یہ شخص کھلا جھوٹ بولتا ہے اور احادیث میں سرقہ (چوری) کرتا ہے۔ ابن عدی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام ذہبی (رح) فرماتے ہیں : اس کا تشیع غلو کی حد تک تھا اور وہ معاویہ (رض) کی تکفیر کرتا تھا۔

14509

14509- عن سعيد بن جبير قال: أتي عمر بن الخطاب بامرأة قد ولدت ولدا له خلقتان بدنان وبطنان وأربعة أيد ورأسان وفرجان هذا في النصف الأعلى وأما في الأسفل فله فخذان وساقان ورجلان مثل سائر الناس فطلبت المرأة ميراثها من زوجها وهو أبو ذلك الخلق العجيب فدعا عمر بأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فشاورهم فلم يجيبوا فيه بشيء فدعا علي بن أبي طالب فقال علي: إن هذا أمر يكون له نبأ فاحبسها واحبس ولدها واقبض ما لهم وأقم لهم من يخدمهم وأنفق عليهم بالمعروف ففعل عمر ذلك ثم ماتت المرأة وشب الخلق وطلب الميراث فحكم له علي بأن يقام له خادم خصي يخدم فرجيه ويتولى منه ما يتولى الأمهات ما لا يحل لأحد سوى الخادم، ثم إن أحد البدنين طلب النكاح فبعث عمر إلى علي فقال له: يا أبا الحسن ما تجد في أمر هذين؟ إن اشتهى أحدهما شهوة خالفه الآخر وإن طلب الآخر حاجة طلب الذي يليه ضدها حتى إنه في ساعتنا هذه طلب أحدهما الجماع فقال علي: الله أكبر إن الله أحلم وأكرم من أن يرى عبدا أخاه وهو يجامع أهله ولكن عللوه ثلاثا فإن الله سيقضي قضاء فيه ما طلب هذا إلا عند الموت فعاش بعدها ثلاثة أيام ومات فجمع عمر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فشاورهم فيه قال بعضهم: اقطعه حتى يبينالحي من الميت وتكفنه وتدفنه، فقال عمر: إن هذا الذي أشرتم لعجب أن نقتل حيا لحال ميت وضج الجسد الحي فقال: الله حسبكم تقتلوني وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأقرأ القرآن فبعث إلى علي فقال: يا أبا الحسن أحكم فيما بين هذين الخلقين، فقال علي: الأمر فيه أوضح من ذلك وأسهل وأيسر، الحكم أن تغسلوه وتكفنوه مع ابن أمه يحمله الخادم إذا مشى فيعاون عليه أخاه فإذا كان بعد ثلاث جف فاقطعوه جافا ويكون موضعه حي لا يألم فإني أعلم أن الله لا يبقى الحي بعده أكثر من ثلاث يتأذى برائحة نتنه وجيفته ففعلوا ذلك فعاش الآخر ثلاثة أيام ومات، فقال عمر رضي الله عنه: يا ابن أبي طالب فما زلت كاشف كل شبهة وموضح كل حكم. "أبو طالب المذكور" ورجاله ثقات إلا أن سعيد بن جبير لم يدرك عمر.
14509 سعید بن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک عورت پیش کی گئی۔ جس نے ایک عجیب الخلقت بچے کو جنم دیا تھا جس کے دو بدن تھے، دو پیٹ تھے، چار ہاتھ تھے، دو سر تھے اور دو شرم گاہیں تھیں، یہ بالائی جسم کا حال تھا جبکہ نچلے جسم میں دورانیں اور دو ٹانگیں عام انسانوں کی طرح تھیں۔ عورت نے اپنے شوہر سے جو اس عجیب الخلقت بچے کا باپ تھا اپنی میراث طلب کی۔ حضرت عمر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا اور ان سے اس کے بارے میں مشاورت کی۔ لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کو بلایا۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ بڑا اہم واقعہ ہے، آپ اس عورت کو اور اس کے بچے کو روک لیں اور جو ان کی ضروریات کا سامان ہے ان کے لیے منگوالیں اور ایک خادم ان کے لیے مقرر کردیں اور مناسب طریقے سے ان پر خرچ کریں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس مشورہ پر عمل کیا۔ پھر عورت کا انتقال ہوگیا، جبکہ وہ عجیب الخلقت بچہ جوان ہوگیا اور اس نے اپنی میراث طلب کی۔ حضرت علی (رض) نے اس کے لیے حکم فرمایا کہ اس کے لیے ایک خصی خادم مقرر کیا جائے جو اس کی دونوں شرم گاہیں بھی صاف کرے گا اور اس کی ماں کی طرح ہر طرح کی خدمت انجام دے گا اور اس خادم کے سوا یہ کام کسی اور کے لیے حلال نہ ہوں گے۔
پھر لڑکے کے دوجسموں میں سے ایک میں نکاح کی طلب پیدا ہوگئی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے پھر حضرت علی (رض) کے پاس پیغام بھیجا اور پوچھا کہ اے ابوالحسن ! آپ اس معاملے میں کیا فرماتے ہیں ؟ اگر ایک جسم شہوت میں آتا ہے تو دوسرا اس کی مخالفت میں ٹھنڈا پڑا رہتا ہے۔ اگر دوسرا جسم کوئی حاجب طلب کرتا ہے تو اس کے ساتھ والا اس کی ضد میں آجاتا ہے ، حتیٰ کہ اس وقت دونوں جسموں میں سے ایک جماع کی خواہش کررہا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ بڑا ہے، اللہ بربادر ہے اور کریم ہے اس بات سے کہ کسی بندے کو اس حال میں مجبور کرے کہ وہ اپنے بھائی کو جماع کرتے ہوئے دیکھے اب تم اس کو تین دن تک کھیل کود میں بہلاؤ۔ عنقریب اللہ کوئی فیصلہ کردے گا۔ اس نے یہ طلب موت کے وقت کی ہے۔ چنانچہ وہ شہوت والا جسم اس کے بعد تین یوم تک جیا اور پھر مرگیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام (رض) کو جمع کیا اور اس کے بارے میں مشورہ کیا۔ بعض نے کہا کہ مرا ہوا جسم زندہ جسم سے کاٹ کر علیحدہ کرلیا جائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے جو مشورہ دیا ہے عجیب ہے، کیا ہم ایک مردہ جسم کی وجہ سے ایک زندہ جان کو قتل کریں وہ زندہ جسم بھی یہ سن کر کر اہا اور تکلیف کے احساس سے بولا : اللہ ہی تم کو جانے کیا تم مجھے قتل کرتے ہو حالانکہ میں لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہوں اور قرآن مقدس کی تلاوت کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کے پاس اس مسئلے کو بھیجا اور پوچھا : اے ابوالحسن ! ان دو جسموں کے بارے میں حکم فرمائیے کہ ہم کیا کریں۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ معاملہ بہت ہی آسان اور بالکل واضح ہے۔ تم اس مردہ جس کو اس کے بھائی کے ساتھ غسل اور کفن دو اور مردہ جسم کو خادم اٹھاتا سنبھالتا رہے جبکہ اس کا بھائی خادم کی مدد کرتا رے۔ جب تین یوم بعد مردہ جسم خشک ہوجائے تو اس خشک حصے کو کاٹ دو زندہ جسم کو اس کی کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ ہاں اس کو مردہ لاش کی بدبوتکلیف دے گی۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ پاک زندہ کو اس کے بعد تین دن سے زیادہ زندہ نہ رکھے گا۔ چنانچہ لوگوں نے حکم کی تعمیل کی اور پھر واقعۃً وہ بھائی بھی تین یوم تک جیا اور مرگیا۔
حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) کو ارشاد فرمایا : اے ابن ابی طالب ! تو ہی ہر مشتبہ اور مشکل مسئلہ کو حل کرتا ہے اور ہر حکم کو واضح کرتا ہے۔ ابوطالب المذکور
فائدہ : مذکورہ روایت کے رجال ثقہ ہیں صرف یہ کہ سعید بن جبیر جو ثقہ راوی ہیں ان کی حضرت عمر (رض) سے ملاقات نہیں ہوئی۔ یعنی دونوں کا زمانہ الگ ہے لازماً درمیان کا راوی متروک ہے۔ لیکن یہ سعید کے لیے باعث عیب نہیں۔

14510

14510- عن الأعور السلمي أن رجلا جاء إلى علي بن أبي طالب فقال: يا أمير المؤمنين إني قد رقدت فاحتلمت على أم فلان والرجل قاعد فغضب ثم وثب إليه فتعلق به وقال: يا أمير المؤمنين خذ لي بحقي منه، فتبسم علي ثم قال: ما أجد على النائم حكما إلا أن أقيمه في الشمس وأحدفيئه افترقا وحكما الله، فالحكم فيه أن تضرب فيئه. "أبو طالب المذكور عب".
14510 اعورسلمی سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت علی بن ابی طالب (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا امیر المومنین ! میں سویا تو مجھے ام فلاں کے ساتھ خواب میں احتلام ہوگیا۔ جبکہ (اس عورت کا ) آدمی قریب بیٹھا ہوا تھا۔ لہٰذا وہ غضب ناک ہوگیا اور اچھل کر اس خواب والے کے ساتھ چمٹ گیا اور بولا یا امیر المومنین ! میرا اس سے حق لو۔ حضرت علی (رض) مسکرائے اور ارشاد فرمایا : میں ٹائم (سونے والے) پر اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں پاتا کہ اس کو دھوپ میں کھڑا کرکے اس کے سائے پر حد (زنا) جاری کروں۔ لہٰذا تم دونوں باہم نہ جھگڑا کرو اور الگ ہوجاؤ اور اللہ کا اس میں حکم صرف یہی ہے کہ تو اس کے سائے کو مارلے۔ ابوطالب المذکور، المصنف لعبد الرزاق

14511

14511- أنبأنا الثوري عن سليمان الشيباني عن رجل عن علي أنه أتي برجل فقيل له: زعم هذا أنه احتلم بأمي فقال: اذهب فأقمه في الشمس فاضرب ظله. " ... ".
14511 ثوری ، سلیمان شیبانی سے، وہ ایک آدمی سے، وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا اور کسی نے کہا کہ اس شخص کا خیال ہے کہ یہ میری ماں کے ساتھ محتلم ہوگیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے اس کو حکم فرمایا کہ اس کو لے جا اور دھوپ میں اس کو کھڑا کرکے اس کے سائے کو مارلے۔

14512

14512- عن زر بن حبيش قال: جلس رجلان يتغديان مع أحدهما خمسة أرغفة ومع الآخر ثلاثة أرغفة فلما وضع الغداء بينهما مر بهما رجل فسلم فقالا: اجلس للغداء فجلس وأكل معهما واستووا في أكلهم الأرغفة الثمانية فقام الرجل فطرح إليهما ثمانية دراهم وقال: خذوها عوضا مما أكلت لكما ونلت من طعامكما فتنازعا فقال صاحب الأرغفة الخمسة: لي خمسة دراهم ولك ثلاثة: وقال صاحب الأرغفة الثلاثة: لا أرضى إلا أن تكون الدراهم بيننا نصفين فارتفعا إلى أمير المؤمنين فقصا عليه قصتهما فقال لصاحب الثلاثة: قد عرض صاحبك ما عرض وخبزه أكثر من خبزك فارض بالثلاثة فقال: والله ما رضيت إلا بمر الحق، فقال علي: ليس في الحق إلا درهم واحد وله سبعة دراهم، فقال الرجل: سبحان الله، قال: هو ذاك، قال: فعرفني الوجه في مر الحق حتى أقبله، فقال علي: أليس الثمانية الأرغفة أربعة وعشرين ثلثا أكلتموها وأنتم ثلاثة أنفس ولا يعلم الأكثر أكلا منكم ولا الأقل، فتحملون في أكلكم على السواء فأكلت أنت ثمانية أثلاث وإنما لك تسعة أثلاث وأكل صاحبك ثمانية أثلاث وله خمسة عشر ثلثا أكل منها ثمانية وبقي سبعة، وأكل لك واحدا من تسعة فلك واحد بواحد وله سبعة، فقال الرجل: رضيت الآن. "الحافظ جمال الدين المزي في تهذيبه".
14512 زربن حبیش سے مروی ہے کہ دو آدمی کھانا تناول کرنے کے لیے بیٹھے ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں، دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں۔ جب دونوں کھانا اپنے سامنے رکھ لیا تو ایک آدمی نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کو سلام کیا۔ دونوں نے اس کو کھانے کی دعوت دی۔ لہٰذا وہ بیٹھ گیا اور تینوں نے مل کر آٹھ روٹیاں کھالیں۔ کھانے سے فراغت پر آدمی اٹھ گیا اور آٹھ درہم ان کو دے کر بولا یہ لو تمہارا بدلہ جو میں نے تمہارے ساتھ کھانا کھایا ہے اس کا۔ دونوں کا اختلاف ہوگیا۔ پانچ روٹیوں والے نے کہا : میرے پانچ درہم ہیں اور تیرے تین درہم ۔ تین روٹیوں والے نے کہا : میں راضی نہیں ہوں، الایہ کہ سارے درہم دونوں کے درمیان نصف نصف ہوں گے۔ چنانچہ دونوں اپنا مقدمہ حضرت علی (رض) کے پاس لے گئے۔ دونوں نے اپنا قصہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت علی (رض) نے تین روٹیوں والے کو فرمایا : تیرے ساتھی نے جو حصہ تجھے پیش کیا ہے وہ تمہارے لیے بہت ہے۔ حالانکہ اس کی روٹیاں تمہاری روٹیوں سے زیادہ تھیں۔ تم تین روٹیوں پر راضی ہوجاؤ۔ اس نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں حق کے بغیر راضی نہ ہوں گا۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : حق میں تو تمہارے صرف ایک درہم ہے جبکہ اس کے سات درہم ہیں۔ آدمی نے کہا : سبحان اللہ ! حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہاں حق یہی ہے۔ آدمی نے کہا : تب مجھے حق سمجھائیے تاکہ میں اس کو قبول کرلوں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : کیا آٹھ روٹیوں کے چوبیس تہائی نہیں بنتے جو تم تینوں نے مل کر کھائے ہیں۔ اس تم میں سے زیادہ اور کم کھانے والا معلوم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ فرض کیا جائے گا کہ تم تینوں نے برابر برابر کھایا ہے۔ لہٰذا تو نے بھی آٹھ تہائی حصے کھائے حالانکہ تیری تین روٹیوں کے نو حصے بنتے تھے اور تیرے دوسرے ساتھی نے بھی آٹھ حصے کھائے جبکہ اس کی پانچ روٹیوں کے پندہ حصے بنتے تھے اس کے سات حصے بچ گئے اور تیرا ایک حصہ بچا۔ لہٰذا تجھے ایک حصہ کے بدلے ایک درہم ملے گا اور اس کو سات حصوں کے عوض سات درہم ملیں گے۔ تب آدمی بولا اب میں (ایک درہم ہی پر) راضی ہوں۔
الحافظ جمال الدین المزی فی تھذیبہ

14513

14513- عن أبي الوضين أن رجلا تزوج إلى رجل من أهل الشام ابنة له ابنة مهيرة فزوجه وزف إليه ابنة له أخرى بنت فتاة فسألها الرجل بعد ما دخل بها ابنة من أنت؟ فقالت: ابنة فلانة تعني الفتاة فقال: إنما تزوجت إلى أبيك ابنة المهيرة فارتفعوا إلى معاوية بن أبي سفيان فقال: امرأة بامرأة وسأل من حوله من أهل الشام فقالوا له: امرأة بامرأة فقال الرجل لمعاوية: ارفعنا إلى علي بن أبي طالب فقال: اذهبوا إليه فأتوا عليا فرفع علي شيئا من الأرض وقال: القضاء في هذا أيسر من هذا لهذه ما سقت إليها بما استحللت من فرجها وعلى أبيها أن يجهز الأخرى بما سقت إلى هذه ولا تقربها حتى تنقضي عدة هذه الأخرى، قال: وأحسب أنه جلد أباها أو أراد أن يجلده. "ش".
14513 ابوالوضین سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مہر کے ساتھ ایک شامی کی بیٹی سے شادی کی۔ لڑکی کے باپ نے شادی کے بعد اپنی دوسری لڑی کو شب رفاف کے لیے بھیج دیا جو کسی باندی کی بیٹی تھی۔ آدمی نے جب دوسری لڑکی کے ساتھ مباشرت کرلی تب اس سے پوچھا : تو کس کی بیٹی ہے ؟ لڑکی نے کہا : فلاں باندی کی۔ آدمی کو حیرت ہوئی اور بولا میں نے تو تیرے باپ کے ساتھ اس کی دوسری مہر والی لڑکی سے شادی کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے یہ ماجرا حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا : عورت کے بدلے عورت آگئی اور پھر اپنے شامی درباریوں سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی کہا عورت کے بدلے عورت آگئی۔ ایک آدمی نے حضرت معاویہ (رض) کو عرض کیا : آپ ہمیں حضرت علی (رض) کے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت علی (رض) کے پاس مسئلہ کے تصفیہ کے لیے بھیج دیا۔ لوگ حضرت علی (رض) کی خدمت میں پہنچے اور اپنا مسئلہ پیش کیا ۔ حضرت علی (رض) نے زمین سے کچھ تنکا وغیرہ اٹھایا اور فرمایا : اس مسئلہ کا فیصلہ کرنا اس تنکے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ آدمی نے جس عورت کے ساتھ جماع کیا ہے، جماع کے عوض مہر تو اس کو ملے گا، لیکن باپ پر لازم ہے کہ اس مہر کے ساتھ اپنی اصل بیٹی کو تیارکرے اور اس کو سامان جہیز دے اور آدمی پھر بھی اس اصل بیوی کے قریب نہ جائے حتیٰ کہ اس دوسری کی عدت پوری ہوجائے۔
ابوالوضین کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت علی (رض) نے لڑکی کے باپ کو حد جدل (کوڑے کی سزا) بھی جاری فرمائی یا ارادہ کرلیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14514

14514- عن عمر قال: إن مقاطع الحقوق عند الشروط. "ش".
14514 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : حقوق کا مقاطعہ شروط کے وقت ہوتا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14515

14515- عن عمر قال: في بيته يؤتي الحكم. "عب".
14515 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا :
اس (رسول) کے گھر میں فیصل اور حکام پیش ہوتے ہیں (یعنی آل رسول کے گھروں سے فیصلوں کے حکم معلوم ہوتے ہیں) ۔ الجامع لعبد الرزاق
کلام : روایت محل کلام : الاتقان 12010، الاسرار المرفوعۃ 323 ۔

14516

14516- عن عكرمة قال: قال عمر لعبد الرحمن بن عوف: أرأيت لو كنت القاضي والوالي ثم أبصرت إنسانا على حد أكنت مقيما عليه؛ قال: لا حتى يشهد غيري قال: أصبت ولو قلت غير ذلك لم تجد. "ش".
14516 عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے پوچھا : اگر تم قاضی یا حاکم ہوتے پھر کسی انسان کو اجب الحد گناہ پر دیکھ لیتے تو کیا اس پر حد جاری کردیتے ؟ عبدالرحمن (رض) نے عرض کیا : نہیں، جب تک میرے سوا کوئی اور بھی گواہی نہ دے دیتا۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم نے ٹھیک کہا۔ اگر اس کے علاوہ جواب دیتے تو ٹھیک نہ دیتے۔ ابن ابی شیبہ

14517

14517- عن الشعبي قال: إذا اختلف الناس في شيء فانظر كيف صنع عمر فإنه كان لا يصنع شيئا وفي لفظ: فإنه لم يكن يقضي في أمر لم يقض قبله حتى يسأل ويشاور. "ابن سعد ش".
14517 شعبی (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں : جب لوگوں کا کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو تم یہ دیکھو کہ حضرت عمر (رض) نے یہ قضیہ کس طرح نمٹایا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر (رض) ایسے کسی مسئلے میں جس کا فیصلہ پہلے دور میں موجود نہ ہوتا تو کوئی فیصلہ نہ فرماتے تھے تاوقتیکہ لوگوں سے سوال جواب اور مشاورت نہ فرمالیتے۔ ابن سعد، مصنف ابن ابی شیبہ

14518

14518- عن ابن عمر قال: اختصم رجلان إلى عمر بن الخطاب ادعيا شهادته فقال لهما عمر: إن شئتما شهدت ولم أقض بينكما، وإن شئتما قضيت ولم أشهد. "ش".
14518 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے دو آدمی اپنی مخاصمت (جھگڑا) حضرت عمر (رض) کے پاس لے گئے۔ اور دونوں ہی نے حضرت عمر (رض) سے اپنے لیے شہادت بھی مانگی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں شہادت دیدیتا ہوں لیکن فیصلہ نہیں کرتا اور اگر چاہو تو فیصلہ کردیتا ہوں اور شہادت نہیں دیتا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

14519

14519- عن سعيد بن المسيب قال: أبقت أمة لبعض العرب فوقعت بوادي القرى فتزوجها رجل من بني عذرة فنثرت له بطنها ثم عثر عليها سيدها فاستاقها وولدها فقضى عمر للعذري بولده وقضى عليه بالغرةلكل وصيف وصيف ولكل وصيفة وصيفة وجعل ثمن الغرة إذا لم توجد على أهل القرى ستين دينارا أو سبع مائة درهم وعلى أهل البادية ست قلائص"قط".
14519 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے : کسی عرب کی ایک باندی (قافلے سے) پیچھے رہ گئی اور وہ شہر میں آگئی۔ بنی عذرہ کے ایک آدمی نے اس کے ساتھ شادی کرلی۔ باندی نے اس کا لڑکا بھی جن دیا۔ پھر باندی کا مالک باندی تک پہنچ گیا۔ اس نے باندی اور اس کا لڑکا اپنے ساتھ کرلیا۔ حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ لڑکا عذری کا ہے عذری کے ذمہ ایک غلام یا باندی ہے۔ جو وہ باندی کے مالک کو دے گا۔ لڑکے کے بدلے لڑکا اور لڑکی کے بدلے لڑکی۔ اگر نہ ملے تو شہر والوں کے لیے ساٹھ دینار یا سات سود رہم اور اہل گاؤں پر چھ جوان اونٹنیاں۔ الدارقطنی فی السنن۔

14520

14520- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب فرض في كل شيء فدى من العربي ست قلائص، وأنه كان يقضي بذلك فيمن تزوج الولائدمن العرب. "أبو عبيد في الأموال ق".
14520 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) عربی کے ہر فدیے۔ جان آزاد کرنے میں چھ جوان اونٹنیاں مقرر فرمائی تھیں اور یہی فیصلہ فرمایا کرتے تھے اس شخص کے بارے میں جو کسی عرب کی باندی سے شادی کرلیتا تھا اس کا فدیہ بھی چھ جوان اونٹنیاں مقرر فرماتے تھے۔ ابوعبید فی الاموال، السنن للبیہقی

14521

14521- عن ابن سيرين قال: اختصم عمر بن الخطاب ومعاذ بن عفراء فحكما أبي بن كعب فأتياه فقال عمر بن الخطاب: في بيته يؤتى الحكم فقضى على عمر باليمين فحلف. "عب".
14521 ابن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ عمر (رض) بن خطاب اور معاذ (رض) بن عفراء کا تنازعہ ہوگیا دونوں نے ابی بن کعب (رض) کو اپنا ثالث مقرر کیا۔ دونوح چل کر ابی بن کعب کے پاس آئے حضرت عمر (رض) بن خطاب نے فرمایا : ان (فیصلہ کرنے والوں) کے گھر میں حکم (حکمران) چل کر آتے ہیں۔ ابی (رض) نے حضرت عمر (رض) پر قسم کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے قسم اٹھائی (اور اپنا حق حاصل کیا) ۔ مصنف لعبد الرزاق

14522

14522- عن الشعبي أن المقداد استقرض من عثمان بن عفان سبعة آلاف درهم، فلما تقاضاه قال: إنما هي أربعة آلاف فخاصمه إلى عمر فقال المقداد: حلفه إنها سبعة آلاف فقال عمر: أنصفك فأبى أن يحلف فقال عمر: خذ ما أعطاك. "ق" وصححه.
14522 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت مقداد (رض) نے عثمان بن عفان (رض) سے سات ہزار درہم قرض لیے۔ جب حضرت عثمان (رض) نے واپسی کا تقاضا کیا تو مقداد (رض) بولے : آپ کے چار ہزار درہم ہیں۔ حضرت عثمان (رض) نے اپنا مقدمہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ مقداد (رض) نے کہا : آپ عثمان سے قسم لے لیں کہ وہ قرض سات ہزار درہم ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے عثمان قسم اٹھاؤ میں تمہارا حق پورا دلاؤں گا۔ لیکن حضرت عثمان (رض) نے قسم اٹھانے سے انکار کردیا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تب تم کو مقداد دے رہے ہیں لے لو۔ السنن للبیہقی
حدیث صحیح ہے۔

14523

14523- عن عمر قال: قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالبينة على المدعي واليمين على المدعي عليه إذا أنكر. "ابن خسرو".
14523 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ گواہ دعویدار کے ذمہ ہیں اور قسم اس پر ہے جس پر دعویٰ دائر کیا گیا جبکہ وہ دعویدار کے دعویٰ سے انکار کردے۔
ابن خسرو

14524

14524- عن ليث قال: تقدم إلى عمر بن الخطاب خصمان فأقامهما ثم عادا فأقامهما ثم عادا ففصل بينهما فقيل له في ذلك، فقال: تقدما إلي فوجدت لأحدهما ما لم أجد لصاحبه، فكرهت أن أفصل بينهما على ذلك، ثم عادا فوجدت بعض ذلك فكرهت، ثم عادا وقد ذهب ذلك ففصلت بينهما الحكم. " ... ".
14524 لیث (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب (رض) کے پاس دو فریق اپنا مقدمہ لے کر آئے۔ آپ (رض) نے ان دونوں کو ٹھہرالیا (فیصلہ کرنے کی بجائے ان کو کہیں روک لیا) وہ پھر حاضر خدمت ہوئے آپ نے پھر ٹھہرالیا، وہ پھر تیسری بار حاضر خدمت ہوئے تب ان کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ آپ (رض) سے اس کی وجہ پوچھی گئی، تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب یہ پہلی بار حاضر ہوئے تو میرے دل میں ایک فریق کے لیے نرم گوشہ تھا جو دوسرے کے لیے نہیں تھا لہٰذا میں نے ایسے حال میں فیصلہ کرنا ناپسند کیا پھر یہ دوسری مرتبہ آئے تو اس وقت بھی کسی قدر سابقہ کیفیت برقرار تھی اس لیے میں نے فیصلہ کرنا نامناسب خیال کیا پھر جب یہ تیسری بار حاضر ہوئے تو وہ کیفیت مجھ سے چھٹ گئی تھی اس لیے میں نے اس بار دونوں کے درمیان فیصلہ کردیا۔

14525

14525- عن الشعبي قال: تنازع في جذاذ نخل أبي بن كعب وعمر بن الخطاب فبكى أبي ثم قال: أفي سلطانك يا عمر فقال عمر: أجعل بيني وبينك رجلا من المسلمين قال أبي: زيد، قال: رضيت فانطلقا حتى دخلا على زيد، فلما رأي زيد عمر تنحى عن فراشه، فقال عمر: في بيته يؤتي الحكم فعرف زيد أنهما جاءا ليتحاكما إليه، فقال لأبي: نقص فقص فقال له عمر: تذكر لعلك نسيت شيئا فتذكر ثم قص حتى قال: ما أذكر شيئا: فقص عمر فقال زيد بينتك يا أبي فقال: مالي بينة قال: فاعف أمير المؤمنين من اليمين، فقال عمر: لا تعف أمير المؤمنين من اليمين إن رأيتها عليه. "كر".
14525 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ کھجور کے ایک ذخیرے کے بارے میں ابی بن کعب اور عمر بن خطاب (رض) کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ ابی (رض) روپڑے اور بولے : تیری تو بادشاہی ہے (فیصلہ انصاف کس سے ملے گا) حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں اپنے اور تمہارے درمیان کوئی مسلمان ثالث (فیصلہ کرنے والا) مقرر کرلیتا ہوں۔ ابی (رض) نے فرمایا : زید ٹھیک ہیں۔ حضرت عمر (رض) بھی راضی ہوگئے۔ چنانچہ دونوں چل کر زید (رض) کی خدمت میں پہنچے۔ زید (رض) خلیفہ کو دیکھ کر اپنی مسند سے ہٹ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ان کے گھر میں فیصلہ طلب کرنے آئے ہیں۔ تب زید (رض) پہچان گئے کہ یہ دونوں بزرگ اپنا کوئی مقدمہ ان کے پاس لے کر آئے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ابی کو فرمایا : بیان کرو۔ حضرت ابی (رض) نے واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : یاد کرو ، شاید تم کچھ بھول رہے ہو، چنانچہ ابی (رض) کو یاد آگیا اور انھوں نے مزید کچھ بیان کیا پھر کہا اور کچھ مجھے یاد نہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے واقعہ بیان کیا۔ دونوں کی بات سننے کے بعد حضرت زید (رض) نے فرمایا : اے ابی تم اپنے گواہ پیش کرو حضرت ابی (رض) نے فرمایا : میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے۔ تب زید (رض) نے فرمایا : تو امیر المومنین کو قسم کھانے سے معاف رکھو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا امیر المومنین کو ہرگز معاف نہ کرو اگر تم سمجھتے ہو کہ ان پر قسم آتی ہے۔ ابن عساکر

14526

14526- عن حجار بن أبجر قال: كنت عند معاوية فاختصم إليه رجلان في ثوب فقال أحدهما: هذا ثوبي وأقام البينة وقال الآخر: ثوبي اشتريته من رجل لا أعرفه فقال: لو كان لها ابن أبي طالب فقلت قد شهدته في مثلها، قال: كيف صنع قلت قضى بالثوب للذي أقام البينة وقال للآخر: أنت ضيعت مالك. "كر".
14526 حجار بن ابجز سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : میں حضرت امیر معاویہ (رض) کے پاس حاضر خدمت تھا کہ دو آدمی ایک کپڑے میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ ایک نے عرض کیا : یہ میرا کپڑا ہے اور پھر اس نے اس پر گواہ بھی پیش کردیئے۔ دوسرے نے کہا : یہ میرا کپڑا ہے میں نے ایک آدمی سے اس کو خریدا ہے جس کو میں جانتا نہیں ہوں۔ حضرت امیر معاویہ (رض) نے ارشاد فرمایا : کاش اس مسئلے کے لیے ابن ابی طالب ہوتے۔ حجار بن ابجزکہتے ہیں : میں نے عرض کیا : بالکل ایسے ہی ایک مسئلے میں ان کی خدمت میں بھی حاضر تھا ۔ امیر معاویہ (رض) نے پوچھا : پھر انھوں نے کیا فیصلہ فرمایا ؟ میں نے عرض کیا : انھوں نے کپڑے کا فیصلہ اس شخص کے لیے کردیا جس نے گواہ قائم کیے تھے اور دوسرے کو فرمایا : تو نے اپنے مال ضائع کردیا۔ ابن عساکر

14527

14527- عن قتادة عن سعيد بن المسيب أن رجلا أصاب عين رجل فذهب بعض بصره وبقي بعض فرفع ذلك إلى علي فأمر بعينه الصحيحة فعصبت فأمر رجلا ببيضة فانطلق بها وهو ينظر حتى انتهى بصره ثم خط عند ذلك علماثم نظر في ذلك فوجدوه سواء فأعطاه بقدر ما نقص ثم خط عنها من مال الآخر. "هق"
14527 قتادہ (رح) سعید بن المسیب (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی آنکھ کو چوٹ پہنچا دی، جس سے اس کی کچھ بینائی چلی گئی اور کچھ رہ گئی۔ اس نے یہ مقدمہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت علی (رض) اس کی صحیح آنکھ پر پٹی بندھوادی اور ایک آدمی کو انڈا دے کر چلتا کیا جبکہ یہ کم نظر والی آنکھ سے اس کو دیکھتا رہا حتیٰ کہ اس کو انڈانظر آنا بند ہوگیا۔ اس مقام پر آپ (رض) نے نشانی لگوادی۔ پھر اس نے دوسری آنکھ کھول کر اس کو دیکھا تو اس نشانی کے مقام کو واضح پایا پھر جس قدر اس کی نگاہ کم ہوئی اس کی بقدر دوسرے سے مال لے کر اس کو دلوایا۔ السنن للبیہقی

14528

14528- عن عبد الله بن أبي هبيرة أن عليا قضى في عبد كانت تحته حرة فولدت أولادا فعتقوا بعتاقة أمهم ثم أعتق أبوهم بعد أن ولاهم بعصبة أمهم. "هق".
14528 عبداللہ بن ابی ہبیرۃ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فیصلہ فرمایا کہ ایک غلام جس کے عقد میں آزاد عورت تھی، اس نے اس غلام کے کئی بچے بھی جنم دیئے اور وہ اپنی ماں کی آزادی کی وجہ سے آزاد ہوگئے ، فرمایا : پھر ان کا باپ بھی آزاد ہوجائے گا ان کی ماں کے عصبہ کے ساتھ ان کی ولایت پانے کے بعد۔ السنن للبیہقی

14529

14529- عن عمران بن حارثة بن ظفر الحنفي عن أبيه أن قوما اجتمعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في خص فبعث إليهم حذيفة ليقضي بينهم فقضى به للذي يليه القمط فلما أتى النبي صلى الله عليه وسلم أخبره فقال: أصبت وأحسنت. "أبو نعيم".
14529 عمران بن حارثہ بن ظفر الحنفی اپنے والد حارثہ سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک جھونپڑے کے بارے میں اپنا مقدمہ لے کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حذیفہ (رض) کو ان کا فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ (رض) نے جھونپڑے کا فیصلہ اس شخص کے لیے فرمادیا جو اس کے رسوں (کو باندھنے) کے قریب تھا۔ چنانچہ جب وہ فیصلہ کرکے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آکر فیصلہ کی خبر سنائی تو حضور نے فرمایا : تو نے درست فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا۔ ابونعیم
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعاف الدارقطنی 69 ضعیف ابن ماجہ 513 ۔

14530

14530- عن عقيل بن دينار مولى حارثة عن حارثة بن ظفر أن حصاراكان وسط دار فاختصموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فيه فبعث حذيفة بن اليمان فذكر نحوه. "أبو نعيم".
14530 عقیل بن دینار سے مروی ہے جو کہ حارثۃ کے آزاد کردہ غلام ہیں، وہ انہی حارثہ بن ظفر سے روایت کرتے ہیں کہ ایک (جھونپڑے نما) گھیری ہوئی جگہ تھی جو ان کے درمیان تھی۔ ان کا اس کے اندر تنازعہ ہوا تو وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حذیفہ بن الیمان کو فیصلہ کرنے کے لیے بھیجا۔ آگے روایت مذکورہ بالا روایت کے مثل ہے۔ ابونعیم

14531

14531- عن جابر بن سمرة رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعير فأقام كل واحد منهما بشاهدين أنه له فجعله النبي صلى الله عليه وسلم بينهما. "طب".
14531 جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ دو آدمی ایک اونٹ کے متعلق اپنا تنازعہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور دونوں میں سے ہر ایک نے دو گواہ قائم کردیئے۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اونٹ کو دونوں کے درمیان مشترک قرار دیدیا۔
الکبیر للطبرانی

14532

14532- عن زيد بن أرقم قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ أتاه رجل من أهل اليمن وعلي بها، فجعل يحدث النبي صلى الله عليه وسلم ويخبره قال: يا رسول الله أتي عليا ثلاثة نفر فاختصموا في ولد كلهم زعم أنه ابنه وقعوا على امرأة في طهر واحد فقال علي: إنكم شركاء متشاكسون وإني مقرع بينكم فمن قرعفله الولد وعليه ثلثا الدية لصاحبيه فأقرع بينهم، فقرع أحدهم فدفع إليه الولد وجعل عليه ثلثي الدية فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه أو أضراسه. "عب ش".
14532 زید بن ارقم سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موجود تھے کہ یمن سے ایک شخص آیا ان دنوں حضرت علی (رض) حضور کی طرف سے امیر بن کر یمن گئے ہوئے تھے۔ یمن سے آنے والا شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دیتے ہوئے بتانے لگا کہ :
تین آدمیوں کا ایک لڑکے پر دعویٰ
یارسول اللہ ! حضرت علی (رض) کے پاس تین آدمی آئے۔ تینوں نے ایک بچے کے بارے میں اپنا تنازعہ حضرت علی (رض) کی خدمت میں پیش کیا۔ ہر ایک گمان تھا کہ یہ لڑکا اس کا ہے۔ درحقیقت ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ ایک ہی پاکی میں جماع کیا تھا (جس کے نتیجے میں یہ لڑکا پیدا ہوا) ۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے تم تینوں ایک دوسرے کے ساتھ گھنے شریک ہو۔ میں تم تینوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں ۔ پس جس کے نام قرعہ نکل آیا لڑکا اس کا ہوجائے گا اور اس پر دو تہائی دیت کے واجب ہوں گے۔ جو وہ اپنے دونوں ساتھیوں کو ادا کردے گا۔ لہٰذا حضرت علی (رض) نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا اور جس کے نام قرعہ نکلا لڑکا اس کے حوالہ کردیا اور اس پر اس کے دونوں ساتھیوں کے لیے ایک ایک تہائی دیت واجب کردی۔
یہ فیصلہ سن کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر ہنسے کہ آپ کے کیچلی کے دانت یا ڈاڑھیں نظر آنے لگیں۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

14533

14533- عن عبد الله بن أبي حدرد الأسلمي أنه كان ليهودي عليه أربعة دراهم فاستعدىعليه فقال: يا محمد إن لي على هذا أربعة دراهم، وقد غلبني عليها؟ قال: أعطه حقه، قال: والذي بعثك بالحق ما أقدر عليها، قال: أعطه حقه قال: والذي نفسي بيده ما أقدر عليها قد أخبرته أنك تبعثنا إلى خيبر فأرجو إن تغنمنا شيئا فأرجع فأقضيه قال: أعطه حقه وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال ثلاثا لم يراجع فخرج ابن أبي حدرد إلى السوق وعلى رأسه عصابة وهو متزر ببردة فنزع العمامة عن رأسه فاتزر بها ونزع البردة فقال: اشتر مني هذه البردة فباعها منه بأربعة دراهم فمرت عجوز فقالت: مالك يا صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرها فقالت ها دونك هذا البرد عليها طرحته عليه. "كر".
14533 عبداللہ بن ابی حدرداسلمی سے مروی ہے کہ ایک یہودی کے ان پر چار درہم قرض تھے۔ اس نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی شکایت کی اور عرض کیا : اے محمد ! میرے اس پر چار درہم ہیں۔ اور یہ عدم ادائیگی میں مجھ پر غالب آگئے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کا حق ادا کردو ۔ عبداللہ بن ابی حدرد نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر ارشاد فرمایا : اس کا حق ادا کردو۔ میں نے پھر عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ میں نے اس کو کہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خیبر کے جہاد کے لیے بھیجنے والے ہیں۔ تو مجھے امید ہے کہ ہم مال غنیمت لے کر لوٹیں گے پھر میں آکر اس کا قرض چکادوں گا۔ لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری بار بھی ارشاد فرمایا : اس کا حق ادا کردو۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تین بار ارشاد فرما دیتے تو پھر دوبارہ نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن ابی حرد اس فکر میں بازار کو نکلے، سر پر عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ جبکہ ایک یمنی چادر بطور لنگی تہہ بند باندھی ہوئی تھی۔ آپ (رض) نے سر سے عمامہ کھول کر اس کی ازار باندھ لی اور یمنی چادر نکال کر اس یہودی کو بولے لے میری یہ چادر چار درہم میں خرید لے۔ چنانچہ انھوں نے وہ چادر اس کو فروخت کردی۔ ایک بڑھیا آپ (رض) کے پاس گزری اور پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی تجھے کیا ہوا ہے ؟ انھوں نے اس کو سارے واقعے کی خبر سنائی تو بڑھیا جس نے وہی چادر کندھے پر ڈال رکھی تھی اتار کر عبداللہ کی طرف اچھال دی اور بولی یہ لے تیری چادر۔ ابن عساکر

14534

14534- أنبأنا ابن اليمني عن الحجاج بن أرطاة أخبرني أبو جعفر أن نخلة كانت بين رجلين فاختصما فيها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال أحدهما: اشققها نصفين بيني وبينه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا ضرر في الإسلام يتقاومان فيها. "عب".
14534 ابن الیمنی ، حجاج ارطاۃ سے روایت کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ مجھے ابوجعفر نے خبر دی کہ ایک کھجور کا درخت دو آدمیوں کے درمیان مشترک تھا۔ دونوں کا اس کے متعلق جھگڑا ہوگیا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ایک نے کہا : اس کو ہمارے درمیان آدھا آدھا چیر کر تقسیم فرمادیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام میں ضرر (نقصان ) نہیں ہے (اس طرح وہ کسی کام کا نہ رہے گا) دونوں اس کی قیمت لگالیں (اور قیمت کے لین کے ساتھ تنازع رفع کرلیں) ۔ الجامع لعبد الرزاق

14535

14535- عن ابن جريج قال: قال عمرو بن شعيب قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم إن مات الوالد أو الولد عن مال أو ولاء فهو لورثته من كانوا، وقضى أن الأخ للأب والأم أولى الكلالةبالميراث ثم الأخ للأب أولى من بني الأخ للأب والأم فإذا كان بنو الأب والأم وبنو الأب بمنزلة واحدة فبنو الأب والأم من بني الأب، فإذا كان بنو الأب أرفع من بني الأب والأم بأب فبنو الأب أولى، فإذا استووا في النسب فبنو الأب والأم أولى من بني الأب، وقضى أن العم للأب والأم أولى من العم للأب وأن العم للأب أولى من بني العم للأب والأم فإذا كان بنو الأب والأم وبنو الأب بمنزلة واحدة نسبا واحدا فبنو الأب والأم أولى من بني الأب؛ فإذا كان بنو الأب أرفع من بني الأب والأم بأب فبنو الأب أولى من بني الأب والأم، فإذا استووا في النسب فبنو الأب والأم أولى من بني الأب، لا يرث عم ولا ابن عم مع أخ وابن أخ، الأخ وابن الأخ ما كان منهم أحد أولى بالميراث ما كانوا من العم وابن العم، وقضى أنه من كانت له عصبة من المحررينفلهم ميراثه على فرائضهم في كتاب الله فإن لم يستوعب فرائضهم ماله كله، رد عليهم ما بقي من ميراثه على فرائضهم حتى يرثوا ماله كله، وقضى أن الكافر لا يرث المسلم وإن لم يكن له وارث غيره وأن المسلم لا يرث الكافر ما كان له وارث يرثه أو قرابة به فإن لم يكن له وارث يرثه أو قرابة به ورثه المسلم بالإسلام. وقضى أن كل مال قسم في الجاهلية فهو على قسمة الجاهلية وأن ما أدرك الإسلام ولم يقسم فهو على قسمة الإسلام، وذكر أن الناس كلموا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مواريثهم وكانوا يتوارثون كابرا عن كابر ليرفعها فأبى وقضى أن كل مستلحقادعى من بعد أبيه ادعاه وارثه فقضى أنه إن كان من أمة أصابها وهو يملكها فقد لحق بمن استلحقه وليس له من ميراث أبيه الذي يدعى له من شيء إلا أن يورثه من استلحقه في نصيبه، وإنه ما كان من ميراث ورثوه بعد أن ادعى فله نصيب منه، وقضى أنه إن كان من أمة لا يملكها أبوه فالذي يدعى له أو من حرة عير بها فقضى أنه لا يلحق ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فإنه ولد زنا لأهل أمه من كانوا حرة أو أمة وقال: الولد للفراش وللعاهر الحجر، وقضى أنه من كان حليفا حولف في الجاهلية فهو على حلفه وله نصيبه من العقلوالنظر يعقل عنهمن حالفه وميراثه لعصبته من كانوا، وقال: لا حلف في الإسلام وتمسكوا بحلف الجاهلية، فإن الله تعالى لم يزده في الإسلام إلا شدة، وقضى أن العمرىلمن أعمرها، وقضى في الموضحةبخمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء وفي المنقلة.5 خمس عشرة من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وقضى في العين خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وقضى في الأنف إذا جدع كله بالعقل كاملا، وإذا جدعت روثتهبنصف العقل خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وفي اليد نصف العقل وفي الرجل نصف العقل خمسين من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، وفي الأصابع عشرا عشرا في كل أصبع لا زيادة بينهن أو قدر ذلك من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، قال: وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل طعن آخر بقرن في رجله فقال: يا رسول الله أقدنيفقال: حتى يبرأ جراحك فأبى الرجل إلا أن يستقيد فأقاده النبي صلى الله عليه وسلم فصح المستقاد منه وعرج المستقيد، فقال: عرجت وبرأصاحبي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ألم آمرك أن لا تستقيد حتى تبرأ جراحك فعصيتني فأبعدك الله وبطل عرجك ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان به جرح بعد الرجل الذي عرج أن لا يستقيد حتى يبرأ جرح صاحبه فالجرح على ما بلغ حتى يبرأ فما كان من شلل أو عرج فلا قود فيه وهو عقل ومن استقاد جرحا فأصيب المستقاد منه فعقل ما فضل من ديته على جرح صاحبه له وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا يقتل مسلم بكافر، وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فداء رقيق العرب من أنفسهم، فقضى في الرجل الذي يسلم في الجاهلية بثمان من الإبل وفي ولد إن كان له لأمه بوصيفينوصيفين كل إنسان منهم ذكرا أو أنثى، وقضى في سبية الجاهلية بعشر من الإبل وقضى في ولدها من العبد بوصيفين وصيفين وبدية موالي أمه وهم عصبتها، ثم لهم ميراثه وميراثها ما لم يعتق أبوه، وقضى في سبى الإسلام بست من الإبل في الرجل والمرأة والصبي، وذلك في العرب بينهم وما كان من نكاح أو طلاق كان في الجاهلية فأدركه الإسلام إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقره على ذلك إلا الربا فما أدرك الإسلام من ربا لم يقبض رد إلى البائع رأس ماله وطرح الربا. "عب".
14535 ابن جریج سے مروی ہے کہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اگر والد یا اولاد کا انتقال ہوجائے اور وہ مال یا ولاء (آزاد کردہ غلام کی وراثت) چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہوگا جو بھی ہوں۔ نیز حقیقی بھائی جو ماں باپ شریک ہو وہ کلالہ۔ جس کے اولاد اور ماں باپ نہ ہوں کی میراث کا زیادہ حقدار ہے، پھر باپ شریک بھائی زیادہ حقدار ہے بنسبت حقیقی بھتیجوں (جو ماں باپ شریک بھائی کی اولاد ہوں) جب ماں باپ کی اولاد اور صرف باپ کی اولاد ایک جگہ شریک ہوں تو ماں باپ شریک اولاد زیادہ حقدار ہے بنسبت صرف باپ شریک اولاد کے۔ جب باپ کی اولاد ارفع آگے ہو ماں باپ کی اولاد سے تو باپ کی اولاد زیادہ حقدار اور اولیٰ ہے۔
جب سب نسب میں برابر ہوں تو بنوالاب والام (ماں باپ شریک اولاد) بنوالاب (صرف باپ شریک اولاد) سے اولیٰ (مقدم) ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا : ماں باپ شریک چچا اولیٰ ہے بنسبت صرف باپ شریک چچا سے۔ نیز باپ شریک چچا ماں باپ شریک بھتیجوں سے زیادہ اولیٰ ہے۔ جب بنوالاب والام اور بنوالاب نسب میں بمنزلہ واحد یعنی ایک مرتبہ میں ہوں تو بنوالاب والام اولیٰ ہے بنوالاب سے۔ پس جب بنوالاب ارفع (اعلیٰ نسب) ہوں بنی الاب والا باب سے (تو بنوالاب اولیٰ ) ہیں بنی الاب والام سے۔ جب سب نسب میں برابر ہوں تو بنوالاب والا اولیٰ ہیں بنوالاب سے۔ نیز فرمایا : بھائی اور بھتیجے کی موجودگی میں چچا اور چچا زاد وارث نہیں ہوسکتے۔ بھائی اور بھتیجے میں سے جو موجود ہو وہ میراث کا زیادہ حقدار ہے چچا اور چچا زاد سے۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ آزاد کردہ غلاموں میں سے جس کے عصبہ موجود ہوں وہ اس کے وارث ہوں گے کتاب اللہ میں مقرر کردہ حصوں کے مطابق۔ اگر ان کے حصے ادا کرنے کے بعد مال بچ جائے تو دوبارہ انہی حصوں کے مطابق میراث تقسیم ہوگی حتیٰ کہ وہ عصبہ اس کے سارے مال کے وارث ہوجائیں نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا : کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا خواہ اس کے سوا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اسی طرح مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا، جو اس کا وارث ہوگا وہ اس کی وراثت پائے گا یا اس کا رشتہ دار اس کی وراثت پائے گا۔ اگر مسلمان کا کوئی وارث حقیقی یا رشتہ دار نہیں ہے تو عام مسلمان۔ بیت المال کی شکل میں اس کا وارث ہوگا۔
نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ ہر وہ مال جو جاہلیت میں تقسیم ہوگیا وہ اسی تقسیم پر رہے گا۔ اور جس مال پر اسلام آگیا اور وہ ہنوز تقسیم نہیں ہوا وہ اسلام کی تقسیم پر تقسیم ہوگا۔
نیز عمرو بن شعیب نے ذکر کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی میراث اور وارثوں کے بارے میں بات چیت کی جن کے وہ اوپر سے ایک دوسرے کے بعد وارث چلے آرہے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمادیا اور فیصلہ فرمایا کہ ہر لاحق ہونے والا بچہ اوائل اسلام میں یہ احکام پیدا ہوئے کیونکہ جاہلیت میں لوگوں کی ان یہ باندی ہوا کرتی تھیں اور لوگ ان کے ساتھ بدکاری کا پیشہ کرواتے تھے۔ پس جب کسی باندی کو کوئی بچہ ہوتا تو یا تو اس کا مالک بچہ کو اپنا کہہ دیتا تھا ورنہ کوئی زانی اپنا کہہ دیتا تھا اور پھر وہ اس کا وارث ہوجاتا تھا اگر وہ اپنے باپ کے جانے کے بعد اس کی طرف منسوب ہوا اور وارثوں نے بھی اس کو ملالیا تو اگر وہ اس باندی کا ہے جو اس کے باپ کی ملکیت تھی جب وہ اس کے ساتھ ہم بستر ہوا تو تب وہ اس کے ساتھ لاحق ہوجائے گا یعنی اس کا بیٹا قرار پائے گا۔ لیکن اس کی میراث میں وارث نہ ہوگا ہاں اگر دوسرے وارث اس کو شریک کرنا چاہیں تو جو جو شریک کریں انی کے حصے میں وارث ہوگا۔ اور اگر اس نے پہلے ہی باپ کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر وارثوں نے اس کے باپ کی وارثت پائی تو تب اس کا بھی وارثت بھی حصہ ہوگا۔
نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اگر وہ لڑکا ایسی باندی کا ہے جس کا مالک اس لڑکے کا باپ نہیں تھا پس وہ جس کا پکارا جائے (جس کی طرف منسوب ہو) یا وہ ایسی آزاد عورت کا لڑکا ہے جس کے ساتھ وہ متہم ہے (یعنی بدکاری کے نتیجے میں آزاد عورت سے پیدا ہوا ہے) تو یہ دونوں طرح کی اولاد باپ کے ساتھ نہیں لاحق ہوں گی اور نہ اس کی وارث ہوں گی خواہ وہ جس کا پکارا جاتا ہے اس نے خود اس کا دعویٰ کیا ہے تب بھی وہ اس کا شمار نہ ہوگا بلکہ وہ ولدالزنا (حرامی) ہوگا صرف ماں کی طرف منسوب ہوگا خواہ اس کی ماں آزاد ہو یا باندی۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بچہ صاحب بستر (شوہر یا باندی کے آقا) کا ہے اور زانی کے لیے (سنگساری کے) پتھر ہیں۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا جو زمانہ جاہلیت میں کسی کا حلیف بنا۔ ان کا فرد بنا تو وہ (اسلام میں بھی) انہی کا حلیف ہے اور اس کو ان کی دیت کا حصہ بھی ملے گا اور اس کے حلیف اپنی دیت کی ادائیگی میں اس پر بھی تاوان رکھیں گے اور اس کی میراث اس کے عصبہ کے لیے ہوگی جو بھی ہوں۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام میں (اس طرح کا کوئی) حلف نہیں ہے (جس سے وہ اپنے خاندان سے کٹ کر حلیفوں کا ہوجائے) لیکن جاہلیت کے حلف کو تھامے رکھو۔ بیشک اللہ تعالیٰ اس کو اسلام میں مضبوطی ہی دیتے ہیں بجائے کسی کمی کے۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمادیا کہ عمریٰ اس کے لیے جس نے جاری کیا (کسی نے کہا) یہ اونٹ یا زمین یا مکان میری یا تیری زندگی تک تیرے لیے ہے تو وہ اس کو زندگی کے بعد مالک کو واپس لوٹ جائے گا۔
نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ موضحۃ (وہ زخم جو ہڈی کی سفیدی ظاہر کردے) میں پانچ اونٹ ہیں یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ اور منقلہ (وہ زخم جس سے چھوٹی ہڈیاں نکل آئیں اور اپنی جگہ سے سرک جائیں) میں پندرہ اونٹ ہیں۔ یا ان کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنکھ ضائع کرنے میں پچاس اونٹ مقرر فرمائے یا ان کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری ناک کاٹنے میں پوری دیت لازم فرمائی اور اگر ناک کا سرا کاٹ دیا جائے تو اس میں نصف دیت یعنی پچاس اونٹ مقرر فرمائے یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ ہاتھ میں نصف دیت پاؤں میں نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔ اور انگلیوں میں ہر انگی میں دس دس اونٹ مقرر فرمائے اور اس میں تمام انگلیاں برابر ہیں۔ یادس اونٹوں کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں۔
ٹانگ میں سینگ مارنے کا فیصلہ
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ایک شخص کے بارے میں جس کی ٹانگ میں کسی نے سینگ ماردیا۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے بدلہ دلائیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھہر جاؤ جب تک کہ تمہارا زخم ٹھیک ہوجائے۔ لیکن آدمی بدلہ لینے پر مصر رہا ۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بدلہ دلوادیا۔ لیکن جس سے بدلہ لیا گیا تھا وہ تو صحیح ہوگیا اور بدلہ لینے والا لنگڑا ہوگیا۔ اس نے عرض کیا : میں تو لنگڑا ہوگیا جبکہ میرا ساتھی صحیح سالم ہوگیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ تو بدلہ نہ لے جب تک کہ تیرا زخم نہ بھر جائے مگر تو نے میری بات نہ مانی، پس اللہ تجھے سمجھے، اب تیرا لنگڑا پن بیکار ہوگیا۔ اس کا بدلہ دوبارہ نہیں لیا جاسکتا۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا : یہ شخص جو لنگڑا ہوگیا اس کے علاوہ جس کو کوئی (کاری) زخم پہنچے تو وہ بدلہ نہیں ہے بلکہ اس کی دیت لی جائے گی اور اگر کسی نے زخم کا بدلہ زخم سے لیا مگر وہ (لنگڑے پن کی) مصیبت میں بدل گیا تو وہ پہلے والے سے دیت لے گا مگر اس سے زخم کا بدلہ وضع کیا جائے گا۔
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے عوض قتل کیا جائے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ جو (غلام) آدمی جاہلیت میں مسلمان ہوگیا اس کا فدیہ آٹھ اونٹ ہیں اور اس کا بچہ اگر باندی سے ہو تو اس کا بدلہ دو دو خدمت گار ہیں ایک ایک مذکر ایک ایک مونث۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی قیدی عورت میں دس اونٹوں کے فدیے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے بچے میں جو غلام سے پیدا ہوا ہو دودو خدمت گار کا فدیہ ہے، نیز اس کی ماں کے موالی کی دیت کا فیصلہ فرمایا جو کہ اس کی ماں کے عصبہ ہیں۔ پھر ان عصبہ کو اس بچے کی اور عورت کی میراث ملے گی جب تک کہ بچے کا باپ آزادنہ ہو۔
نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیدی میں چھ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا آدمی میں عورت میں اور بچے میں بھی۔ اور یہ صرف عرب کے آپس میں ہے۔
اور جو عرب میں جاہلیت میں نکاح ہوا یا طلاق ہوئی پھر ان کو اسلام کا زمانہ آگیا (اور وہ مسلمان ہوگئے) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسی حال پر برقرار رکھا، سوائے سود کے چونکہ جس سود پر اسلام آگیا اور وہ ابھی حاصل نہیں ہوا تو وہ مال کے مالک کو صرف اصل واپس کیا جائے گا اور ربوا (سود) ختم کردیا جائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

14536

14536- عن أم سلمة قالت: جاء رجلان من الأنصار يختصمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في مواريث قد درست ليس لهما بينة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنكم تختصمون إلي وإنما أقضى برأي فيما لم ينزل علي فيه فمن قضيت له فيه بحجته يقتطع بها شيئا من حق أخيه فلا يأخذه، فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي يوم القيامة انتظاما في عنقه فبكى الرجلان وقال كل واحد منهما: يا رسول الله حقي له؛ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أما إذا فعلتما ما فعلتما فاذهبا وتوخيا الحق واقتسسما واستهماوليحللكل واحد منكما صاحبه. "ش وأبو سعيد النقاش في القضاة".
14536 ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ دو انصاری آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس میراث کے متعلق اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے جو پرانی ہوچکی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کوئی گواہ تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم میرے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے ہو اور جن چیزوں میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی میں ان میں اپنی رائے کے ساتھ فیصلہ کردیتا ہوں۔ پس یاد رکھو میں جس کی حجت کو دیکھ کر ایسا فیصلہ کردوں جس سے وہ اپنے بھائی کے حق کو ہتھیار لے تو وہ ہرگز اس کو وصول نہ کرے کیونکہ درحقیقت میں اس کے لیے جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا نکال دیتا ہوں۔ جس کو وہ قیامت کے دن اپنی گردن میں ڈالے ہوئے آئے گا۔ یہ سن کر دونوں آدمی رو پڑے اور دونوں میں سے ہر ایک بول اٹھا : یارسول اللہ ! میرا حق اس کو آیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب تم نے یہ اچھا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جاؤ اور بھائی چارگی کے ساتھ حق کو تقسیم کرو اور قرعہ ڈال کر حصہ تقسیم کرلو اور پھر ہر ایک دوسرے کے لیے لیا دیا حلال کردے۔
مصنف ابن ابی شیبہ، ابوسعید النقاش فی القضاۃ

14537

14537- أنبأنا معمر عن عاصم عن الشعبي عن قتادة أيضا أن رجلا أتى ابن مسعود فسأله عن امرأة توفي عنها زوجها ولم يدخل بها ولم يفرض لها؟ فقال له ابن مسعود: سل الناس فإن الناس كثير فقال الرجل: والله لو مكثت حولا ما سألت غيرك، فردده ابن مسعود شهرا، ثم قام فتوضأ ثم ركع ركعتين ثم قال: اللهم ما كان من صواب فمنك وما كان خطأ فمني، ثم قال: أرى لها صداق أحد نسائها ولها الميراث مع ذلك وعليها العدة فقام رجل من أشجع فقال: أشهد لقضيت فيها بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في بروع بنت واشق كانت تحت هلال بن أمية. فقال ابن مسعود: هل سمع هذا معك أحد؛ قال: نعم فأتى بنفر من قومه فشهدوا بذلك، فما رأوا ابن مسعود فرح بشيء ما فرح بذلك وافق قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم
14537 ہمیں معمر نے عاصم سے روایت کیا، عاصم نے شعبی سے روایت کیا، شعبی نے قتادہ (رض) سے روایت کیا اور قتادہ نے بیان کیا کہ :
ایک آدمی حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس آیا اور ان سے ایک عورت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جس کا شوہر اس حال میں انتقال کر گیا کہ اس نے اپنی اس عورت کے مباشرت (جماع) نہیں کیا تھا۔ اور نہ اس کے لیے کچھ (مہر وغیرہ) مقرر کرکے گیا۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس کو فرمایا : تم یہ سمئلہ اور لوگوں سے دریافت کرلو، کیونکہ بتانے والے لوگ بہت ہیں۔ آدمی نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر مجھے سال بھر بھی ٹھہرنا پڑا تب بھی میں کسی اور سے سوال نہ کروں گا۔ آخر ابن مسعود (رض) نے اس کو مہینہ بھر پھرایا۔ پھر ایک دن حضرت ابن مسعود (رض) کھڑے ہوئے، وضو کیا پھر دو رکعات نماز ادا کی اور یہ دعا کی :
اللھم ما کان من صواب فمنک وما کان خطافمنی۔
اے اللہ ! جو درست ہو وہ تجھ سے ہے اور غلط ہو تو میری طرف سے ہے۔
پھر ارشاد فرمایا : میرا خیال ہے کہ اس عورت کو اس آدمی کی دوسری عورت جتنا مہر دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو اس کی میراث بھی ملے گی نیز اس پر عدت گزارنا بھی لازم ہوگی۔ یہ سن کر آدمی جوش سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا : میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ نے بالکل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا فیصلہ کیا ہے جو انھوں نے بروع بنت واشق کے بارے میں کیا تھا اور وہ ھلال بن امیہ کی بیوی تھی۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : تیرے سوا یہ فیصلہ کسی اور نے بھی سنا تھا ؟ عرض کیا : جی ہاں، پھر وہ اپنے ساتھ اپنی قوم کے کئی افراد کو لے کر حاضر ہوا اور انھوں نے بھی اس بات کی شہادت دی۔ چنانچہ لوگوں نے ابن مسعود کو کسی اور چیز پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا وہ اس بات پر خوش ہوئے کہ ان کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے موافق ہوگیا۔
فائدہ : مذکورہ روایت ابوداؤد نے کتاب النکاح باب فیمن تزوج ولم یسم صدقاً حتیٰ مات، رقم 210, 2, 2100 پر قریب قریب انہی الفاظ کے روایت کی ہے۔ نیز دیکھئے سنن الترمذی رقم 1145 ۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں ابن مسعود (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔

14538

14538- أنبأنا معمر عن جعفر بن برقان عن الحكم قال: فبلغ ذلك عليا فقال: لا تصدق الأعراب على رسول الله صلى الله عليه وسلم. "عب".
14538 ہمیں معمر نے جعفر بن برقان سے روایت بیان کی ، جعفر نے حکم سے روایت نقل کی کہ : جب مذکورہ روایت حضرت علی (رض) کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق اعراب (بدوؤں) کی بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ الجامع لعبد الرزاق

14539

14539- عن أبي موسى قال: كان الخصمان إذا اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتعدا للموعد فوافى أحدهما ولم يواف الآخر قضى للذي يفي منهما. "أبو سعيد النقاش في القضاة" وفيه خالد بن نافع ضعيف.
14539 حضرت ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ دو جھگڑالو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آتے اور دونوں کے درمیان وعدہ پورا کرنے کی تاریخ طے ہوتی تو جو ان میں وعدہ وفا کرتا آپ اسی کے مطابق فیصلہ دیدیا کرتے تھے۔ ابوسعید النقاش فی القضاۃ
کلام : روایت کی سند میں خالد بن نافع ضعیف ہے۔

14540

14540- وعنه أن رجلين اختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس لواحد منهما بينة فقضى بها بينهما نصفين. "النقاش".
14540 ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنا مقدمہ لے کر حاضر ہوئے ، دونوں میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس متنازعہ مال کو دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا۔ النقاش

14541

14541- عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم حبس رجلا في تهمة ساعة من نهار ثم خلى عنه. "كر".
14541 بہربن حکیم اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کسی تہمت کی وجہ سے دن کی ایک گھڑی تک قید رکھا پھر اس کو چھوڑ دیا۔
ابن عساکر

14542

14542- عن معاوية بن حيدة أن النبي صلى الله عليه وسلم حبس رجلا في التهمة ثم خلاه." عب".
14542 معاویہ بن حیدۃ سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک تہمت میں ایک آدمی کو پید کیا پھر اس کو چھوڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

14543

14543- وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم رد شهادة في كذبة. "النقاش في القضاة" ورجاله ثقات.
14543 مذکورہ صحابی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جھوٹ میں شہادت کو رد فرما دیا۔ النقاش فی الفضاۃ
روایت کے راوی ثقہ ہیں۔

14544

14544- عن كعب بن مالك أنه لزم رجلا بحق كان عليه فارتفعت أصواتهما حتى سمعهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج فقال: ما هذا؟ فأخبروه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: خذ منه يا كعب الشطر ودع له الشطر. "عب".
14544 کعب بن مالک سے مروی ہے کہ وہ ایک آدمی کو اپنے حق کے لیے چمٹ گئے جو اس پر ان کو دینا بنتا تھا۔ دونوں کے شور غوغا کی آواز بلند ہوگئی حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئی اور آپ نے سنی اور نکل کر باہر تشریف لائے اور پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے آپ کو ساری خبر سنائی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب کو فرمایا : اے کعب اب آدھا حق اس سے لے لو اور آدھا اس کو چھوڑ دو ۔ الجامع لعبد الرزاق

14545

14545- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرد اليمين على طالب الحق. "كر".
14545 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم کو طالب حق (مدعی) پر توٹا دیا کرتے تھے۔ ابن عساکر

14546

14546- عن علي بن الحسين قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم باليمين مع الشاهد."عب".
14546 علی بن الحسین (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مدعی کے) شاہد کے ساتھ (مدعی کی ایک) قسم پر فیصلہ فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

14547

14547- عن ابن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى أن الشهود إذا استووا أقرع بين الخصمين. "عب".
14547 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ گواہ جب دونوں طرف سے برابر ہوجائیں تو دونوں فریقوں کے درمیان قرعہ ڈال لیا جائے۔

14548

14548- عن ابن المسيب قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم باليمين مع الشاهد. "عب".
14548 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا شاہد (گواہ) کے ساتھ (گواہ والے کی) قسم پر۔ الجامع لعبد الرزاق

14549

14549- عن يزيد بن أبي حبيب قال: كان سبب مقاسمة عمر بن الخطاب مال العمال أن خالد بن الصعق قال شعرا كتب به إلى عمر بن الخطاب أبلغ أمير المؤمنين رسالة ... فأنت ولي الله في المال والأمر فلا تدعن أهل الرساتيقوالجزا ... يشيعون مال الله في الأدمالوفر3 فأرسل إلى النعمان فاعلم حسابه ... وأرسل إلى جزء وأرسل إلى بشر ولا تنسين النافقين كليهما ... وصهر بني غزوان عندك ذاوفر ولا تدعوني للشهادة إنني ... أغيب ولكني أرى عجب الدهر من الخيل كالغزلان والبيض والدمى... وما ليس ينسى من قرامومن ستر ومن ريطةمطوية في صوانها... ومن طي أستار معصفرة حمر إذا التاجر الهندي جاء بفارة... من المسك راحت في مفارقهم تجري نبيع إذا باعوا ونغزوا إذا غزوا ... فأني لهم مال ولسنا بذي وفر فقاسمهم نفسي فداؤك إنهم ... سيرضون إن قاسمتهم منك بالشطر فقاسمهم عمر نصف أموالهم وفي رواية فقال: فإنا قد أعفيناه من الشهادة ونأخذ منهم النصف. "ابن عبد الحكم في فتوح مصر".
14549 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے عمال کے مال کو تقسیم کرنے کی وجہ خالد بن صعق کے چند اشعار تھے جو انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو لکھ کر بھیجے تھے :
ذیل میں ان کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے :
امیر المومنین کو پیغام پہنچا دے کہ تو مال اور سلطنت میں اللہ کا ولی ہے۔ ان لوگوں کو جزاء سے دور نہ رکھ۔ جو اللہ کے مال کو ہری بھری زمین تک پہنچاتے ہیں، نعمان کو پیغام بھیج دے کہ حساب کتاب یاد رکھ۔ اور جزء کو اور بشر کو پیغام دیدے اور دونوں خرچ کرنے والوں کو ہرگز نہ بھول جانا۔ بنی غزوان کے سسرالی رشتہ دار بہت ہیں (لیکن) مجھے شہادت گواہی کے لیے نہ بلانا کیونکہ میں غائب ہوجاتا ہوں شہ سواروں کی پہنچ سے مانند ہرنیوں کے ، مورتیوں کے ، اور خوبصورت سرخ عصفور سے رنگے ہوئے لپٹے پردوں کے جو صندوق میں غائب ہوجاتے ہیں جب ہندی تاجر ہرن کے مشک سے بھرے نافے لے کر آتے ہیں جو مشک ان کی مانگوں سے مہک رہی ہوتی ہے، تو جب وہ خریدو فروخت کرتے ہیں تو ہم بھی خرید وفروخشت کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ جنگ کرتے ہیں تو ہم بھی جنگ کرتے ہیں لیکن کہاں ان کے پاس مال ہے اور نہ ہم مال مویشیوں والے ہیں۔ پس آپ ان کو میری جان تقسیم کردیں، جو جان میں آپ پر فدا کرچکا ہوں۔ کیونکہ وہ راضی ہوجائیں گے اگر آپ ان کے درمیان مجھے تقسیم کرلیں گے۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے یہ اشعار سن کر ان کے نصف اموال تقسیم کردیئے اور فرمایا : ہم نے خالد کو شہادت (گواہی) سے چھوڑ دیا اور نصف ہم ان اعمال (ارکان حکومت) سے لیں گے۔
ابن عبدالحکم فی فتوح مصر

14550

14550- عن عبد الرحمن بن عبد العزيز، شيخ ثقة، قال: بعث عمر بن الخطاب محمد بن مسلمة إلى عمرو بن العاص وكتب إليه أما بعد فإنكم معشر العمال تقدمتم على عيون الأموال فجبيتم الحرام وأكلتم الحرام وأورثتم الحرام وقد بعثت إليك محمد بن مسلمة مصر الأنصاري فيقاسمك مالك فأحضره مالك والسلام، فلما قدم محمد بن مسلمة أهدى له عمرو بن العاص هدية فردها عليه فغضب عمرو وقال: يا محمد لم رددت إلي هديتي وقد أهديت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مقدمي من غزوة ذات السلاسل فقبل؟ فقال له محمد: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبل بالوحي ما شاء ويمتنع مما شاء ولو كانت هدية الأخ لأخيه قبلتها، ولكنها هدية إمام شر خلفها، فقال عمرو: قبح الله يوما صرت فيه لعمر بن الخطاب واليا فلقد رأيت العاص بن وائل يلبس الديباج المزرر بالذهب، وأن الخطاب بن نفيل يحمل الحطب على حمار بمكة، فقال له محمد بن مسلمة: أبوك وأبوه في النار، وعمر خير منك ولولا اليوم الذي أصبحت تذم لألفيت معتقلا عنزايسرك غزرهاويسوءك بكرها، فقال عمرو: هي فلتة المغضب وهي عندك بأمانة، ثم أحضر ماله فقاسمه إياه ثم رجع. "ابن عبد الحكم في فتوح مصر".
14550 عبدالرحمن بن عبدالعززی جو ثقہ شیخ ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے محمد بن مسلمۃ کو عمرو بن العاص (مصر کے گورنر) کے پاس بھیجا اور ان کو لکھ کر بھیجا اے وزراء حکومت تم لوگوں کے عمدہ اموال کے مالک بن بیٹھے ہو حرام طریقے سے حاصل کرتے ہو، حرام ہی کھاتے ہو اور حرام ہی چھوڑ جاتے ہو۔ میں تمہارے پاس محمد بن مسلمہ کو بھیج رہا ہوں وہ تمہارا مال تقسیم کرنے آرہے ہیں ان کو اپنا مال پیش کردینا۔ چنانچہ جب محمد سن مسلمہ ان کے پاس پہنچے تو انھوں (عمرو بن العاص (رض)) نے ان کو کوئی ہدیہ دیا لیکن محمد بن مسلمہ (رض) نے وہ ہدیہ واپس کردیا۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے : اے محمد ! تو نے میرا ہدیہ کیوں واپس کردیا حالانکہ غزوہ ذات السلاسل سے واپس آتے ہوئے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ پیش کیا تھا تو انھوں نے قبول فرمالیا تھا۔ محمد بن مسلمہ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے ساتھ جو چاہتے قبول فرماتے تھے اور وحی کی ہی وجہ سے منع فرمادیا کرتے تھے اگر یہ بھائی کا بھائی کے لیے ہدیہ ہوتا تو میں ضرور قبول کر لیتالیکن یہ ایک برے حاکم کا ہدیہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ ناس کرے اس دن کا جس دن میں عمر بن خطاب کی طرف سے والی بنا تھا۔ مجھے اچھی طرح یا رہے کہ میں (اپنے والد) عاص بن وائل کو ایسا دیباج (ریشم) پہنے ہوئے دیکھتا تھا جس کو سونے کے بٹن لگے ہوتے تھے۔ جبکہ (عمر کے باپ) خطاب گدھے پر لکڑیاں لادے مکہ میں پھرتے تھے۔ محمد نے فرمایا : تیرا باپ اور اس کا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔ لیکن آج تجھ سے بہتر ہے۔ اگر آج جب تو اس کی مذمت کررہا ہے تیرییہ شان (اسلام کی وجہ سے) نہ ہوتی تو تو بھی بکری کو ٹانگوں میں دا بے اس کا دودھ دھورہا ہوتا اور اس کا زیادہ وہ دودھ تجھے خوش کرتا اور کم ہونے کی وجہ سے تجھے دکھ ہوتا۔ حضرت عمرو (رض) نے فرمایا : یہ غصہ کے لمحات تھوک دو اور یہ باتیں تیرے پاس امانت ہیں۔ پھر حضرت عمرو (رض) نے اپنا مال ان کے سامنے پیش کردیا اور حضرت محمد (رض) نے اس کو تقسیم فرمادیا اور واپس لوٹ آئے۔
ابن عبدالحکم فی فتوح مصر

14551

14551- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عاصم بن عمرو البجلي عن رجل أن نفرا من أهل الكوفة أتوا عمر بن الخطاب فقالوا: جئناك نسألك عن ثلاث خصال عن صلاة الرجل في بيته تطوعا، وعما يحل للرجل من امرأته إذا كانت حائضا، وعن الغسل من الجنابة؟ قال: لقد سألتموني عن خصال ما سألني عنهن أحد منذ سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أما صلاة الرجل في بيته تطوعا فهو نور فنوروا بيوتكم، وأما ما يحل للرجل من امرأته حائضا فلك ما فوق الإزار من الضم والتقبيل، ولا تطلع على ما تحته، وأما الغسل من الجنابة فتفرغ بيمينك على شمالك ثم تدخل يدك في الإناء فتغسل فرجك وما أصابك، ثم تتوضأ وضوءك للصلاة، ثم تفرغ على رأسك ثلاث مرات تدلك رأسك كل شيء مرة، ثم أفض الماء على جسدك، ثم تنح عن مغتسلك فاغسل رجليك. "عب ص ش حم والعدني ومحمد بن نصر في كتاب الصلاة ع والطحاوي طس كر ص".
14551 (مسند عمر (رض)) عاصم بن عمرو بجلی سے مروی ہے وہ ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ کوفہ کے کچھ لوگ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا : ہم آپ کے پاس تین باتوں کا سوال کرنے آئے ہیں، آدمی اپنے گھر میں نفل پڑھے اس کا کیا حکم ہے ؟ عورت جب حائضہ ہو تو آدمی کے لیے اس کے ساتھ غلط ملط ہونے کا کیا حکم ہے ؟ جنابت کے غسل کا کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم نے مجھ سے جن باتوں کا سوال کیا ہے آج تک کسی نے مجھ سے سوال نہیں کیا جب سے میں نے ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا۔
بہرحال آدمی اگر اپنے گھر میں نفل نماز ادا کرے تو یہ نور ہے لہٰذا اپنے گھروں کو خوب منور کرو۔ جبکہ عورت جب حائضہ ہو تو آدمی ازار کے اوپر سے بوس وکنار کرسکتا ہے لیکن اس کے نیچے ہرگز مطلع نہ ہو (تجاوز نہ کرے) اور غسل جنابت کا طریقہ یہ ہے کہ (جب غسل کا) پانی کسی برتن میں ہو تو پہلے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال (اور دھو) پھر اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں ڈال اور اپنی شرم گاہ اور ناپاکی کو دھو۔ پھر نماز جیسا وضو کر، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈال اور ہر بار اپنے سر کو مل، پھر اپنے جسم پر پانی ڈال پھر غسل کی جگہ۔ جہاں پانی اکٹھا ہوچکا ہو سے ایک طرف ہٹ جا اور پھر اپنے پاؤں دھو ڈال۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن لسعید بن منصور، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، العدنی، محمد بن نصر فی کتاب الصلاۃ، مسند ابی یعلی، الطحاوی، الطبرانی فی الاوسط، ابن عساکر

14552

14552- عن الحارث بن معاوية الكندي أنه ركب إلى عمر بن الخطاب فسأله عن ثلاث خلال فقدم المدينة فقال له عمر: ما أقدمك علي؟ قال لأسألك عن ثلاث، قال: وما هن؟ قال: ربما كنت أنا والمرأة في بناء مبني فتحضر الصلاة فإن صليت أنا وهي كانت بحذائي وإن صلت خلفي خرجت من البناء؟ فقال عمر: تستر بينك وبينها بثوب ثم تصلي بحذاءك إن شئت، وعن الركعتين بعد العصر؟ فقال: نهاني عنهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وعن القصص فإنهم أرادوني على القصص؟ فقال: ما شئت كأنه كره أن يمنعه، قال: إنما أردت أن أنتهي إلى قولك؟ قال: أخشى عليك أن تقص فترتفع عليهم في نفسك، ثم تقص فترتفع حتى يخيل إليك أنك فوقهم بمنزلة الثريا فيضعك الله تحت أقدامهم يوم القيامة بقدر ذلك. "حم ص".
14552 حارث بن معاویہ کندی سے مروی ہے کہ وہ تین باتوں کا سوال کرنے کے لیے سفر کرکے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس مدینہ گئے۔ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : کیا چیز تجھے میرے پاس لے کر آئی ہے ؟ حارث نے عرض کیا : تین باتوں کے متعلق سوال۔ پوچھا وہ کیا ہیں ؟ عرض کیا : بسا اوقات میں اور میری بیوی کمرے میں ہوتے ہیں اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو میں نماز پڑھتا ہوں تو وہ میرے برابر کھڑی ہوجاتی ہے کیونکہ اگر وہ پیچھے کھڑے ہو تو کمرے (کی تنگی کی وجہ سے وہ اس) باہر آجاتی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تو اپنے اور اس کے درمیان کپڑے کا پردہ حائل کرلے پھر اس کے برابر ہوتے ہوئے نماز ادا کرلے اگر تو چاہے۔ حارث نے دوسرے سوال کیا : عصر کے بعد دو رکعتیں (نفل) کیسی ہے ؟ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے آگے بیان کیا کروں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تمہاری مرضی ہے۔ گویا حضرت عمر (رض) نے منع کرنا گوارہ نہ کیا (لیکن قصہ گوئی کو پسند بھی نہ فرمایا) حارث نے عرض کیا : خیر میں باز آنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ جب تو ان میں قصہ گوئی کرے گا تو اپنے جی میں ان سے بڑھ جائے گا، پھر تو ان کو قصہ گوئی کرتا رہے گا تو اپنے آپ کو ان سے ثریا جتنا بلند رتبہ خیال کرے گا۔ پھر اللہ پاک قیامت کے روز تجھے اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے پست کردے گا۔
مسند احمد، السنن لسعید بن منصور

14553

14553- عن عمر قال: صلاة السفر ركعتان وصلاة الضحى ركعتان وصلاة الفطر ركعتان تمام من غير قصر على لسان محمد صلى الله عليه وسلم وقد خاب من افترى. "عب ط ش حم والعدني والمروزي في العيدين نهـ ع وابن جرير وابن خزيمة والطحاوي والشاشي قط في الأفراد حب حل ق ص".
14553 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : سفر کی نماز (چار رکعتوں والی) دو رکعات ہیں چاشت کی نماز دو رکعات ہیں، فطر (اشراق) کی نماز دو رکعات ہیں۔ یہ مکمل ہیں بغیر کسی قصر کے (یعنی سفر حضر میں چاشت اور اشراق کے نوافل دو دو رکعات ہی ہیں) بمطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان کے۔ اور خسارہ وگھاٹے میں پڑا جس نے جھوٹ بولا۔
الجامع لعبدالرزاق، الدارقطنی فی السنن، ابن ابی شیبہ، مسند احمد، العدنی، المروزی فی العیدین، النسائی، ابن ماجہ، ابن یعلی، ابن جریر، ابن خزیمہ ، الطحاوی، الشاشی، الدارقطنی فی الافراد، ابن حبان، حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور

14554

14554- عن عاصم بن عمرو البجلي عن أحد النفر الذين أتوا عمر بن الخطاب فقالوا: يا أمير المؤمنين جئنا نسألك عن ثلاث خصال: ما يحل للرجل من امرأته وهي حائض، وعن الغسل من الجنابة وعن قراءة القرآن في البيوت؟ قال: سبحان الله أسحرة أنتم؟ لقد سألتموني عن شيء سألت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما سألني عنه أحد بعد فقال: أما ما يحل للرجل من امرأته وهي حائض فما فوق الإزار، وأما الغسل من الجنابة فيغسل يده وفرجه ثم يتوضأ ثم يفيض على رأسه وجسده الماء وأما قراءة القرآن فنور من شاء نور بيته. "ط"
14554 حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک وفد آیا جس میں عاصم بن عمرو بجلی بھی تھے وہ فرماتے ہیں کہ وفدنے آپ (رض) کی خدمت میں عرض کیا : یا امیر المومنین ! ہم آپ کے پاس تین خصلتوں کے بارے میں سوال کرنے آئے ہیں عورت جب حائضہ ہو آدمی کے لئے۔ اس کی قربت کس حد تک حلال ہے ؟ جنابت سے غسل کا کیا طریقہ ہے اور گھروں میں قرآن پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : سبحان اللہ ! کیا تم جادو گر ہو ، تم نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جس کے متعلق میں نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا لیکن آج تک اس کے بعداس کے متعلق کسی نے مجھ سے سوال نہیں کیا۔ پھر ارشاد فرمایا :
بہرحال عورت جب حائضہ ہو تو مرد کے لیے عورت کی ازار (شلوار) کے اوپر سے اس سے لطف حاصل کرنا حلال ہے۔ جبکہ غسل جنابت کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے، پھر شرم گاہ ، پھروضو کرے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی بہائے۔ اور قرآن کا پڑھنا (سراسر) نور ہے جو چاہے اپنے گھر کو اس کے ساتھ منور کرلے۔ الدارقطنی فی السنن

14555

14555- عن عمر قال: ثلاث اللاعب فيهن والجاد سواء الطلاق والصدقة والعتاق. "عب".
14555 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : تین چیزوں میں ہنسی مذاق اور سنجیدگی برابر ہے۔ طلاق، صدقہ اور (غلام) کو آزاد کرنا۔ المصنف لعبد الرزاق

14556

14556- عن عمر قال: أربع مقفلات النذر والطلاق والعتاق والنكاح. "خ في تاريخه ق".
14556 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : چار چیزوں پر قفل لگا ہوا ہے (یعنی وہ یقیناً نافذ ہوجاتی ہیں ہنسی مذاق میں ہوں یا سنجیدگی میں) نذر، طلاق، عتاق (آزاد کرنا) اور نکاح۔
التاریخ للبخاری، السنن للبیہقی

14557

14557- عن علي قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخز وعن ركوب عليها وعن جلوس عليها وعن جلود النمور وعن ركوب عليها وعن الغنائم أن تباع حتى تخمس وعن حبالى سبي العدو أن يوطئن، وعن الحمر الأهلية وعن أكل كل ذي ناب من السباع وأكل كل ذي مخلب من الطير وعن ثمن الخمر، وعن ثمن الميتة، وعن عسبالفحل وعن ثمن الكلب. "عب" وفيه عاصم بن ضمرة ضعيف.
14557 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ریشم پہننے سے، اس (کی زین) پر سوار ہونے سے، اس پر بیٹھنے سے، چیتے کی کھال سے، اس پر سوار ہونے سے، نیز غنیمت کو فروخت کرنے سے جب تک کہ اس کا خمس (اللہ اور اس کے رسول کے لئے) نہ نکال لیا جائے، نیز دشمن کی قید حاملہ عورتوں سے وطی کرنے سے منع فرمایا ، گدھے کھانے سے، ہر اس درندے سے جو کیچلی کے دانتوں سے شکار کرتے ہیں اور ہر اس پرندے سے جو پنجوں کے ذریعے چیر پھاڑ کر شکار کریں، شراب کی قیمت سے، مردار کی قیمت سے، نر جانور کی جفتی کی کمائی سے اور کتے کی قیمت سے۔ الجامع لعبد الرزاق
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں عاصم بن ضمرۃ ضعیف راوی ہے۔

14558

14558- عن علي قال: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القراءة في الركوع والسجود وعن التختم بالذهب وعن لباس القسيوعن لباس المعصفر. "مالك ط عب حم خ في خلق أفعال العباد م د ت ن هـ والكجي وابن جرير والطحاوي حب ق"
14558 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا رکوع و سجود میں قراۃ قرآن سے، سونے کی انگوٹھی سے، کتان (ریشم) کے لباس سے، عصفورہ کے ساتھ رنگے ہوئے لباس سے۔ موطا امام مالک، ابوداؤد، الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، البخاری فی خلق افعال العباد، مسلم، مسند عبداللہ بن احمد بن حنبل، الترمذی، النسائی ، ابن ماجہ، الکجی، ابن جریر، الطحاوی، ابن حبان، السنن للبیہقی

14559

14559- عن علي نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أقول نهاكم عن القراءة وأنا راكع أو ساجد وعن تختم الذهب وعن لباس القسي وعن الركوب على الميثرةالحمراء. "عب حم والعدني والكجي والدورقي وابن جرير حل".
14559 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا لیکن میں تمہیں نہیں کہتا کہ تمہیں بھی منع فرمایا رکوع و سجدہ میں تلاوت (قرآن) سے، سونے کی انگوٹھی سے، ریشم کے لباس اور سرخ زین پر سوار ہونے سے۔
الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، العدنی، الکجی، الدورقی، ابن جریر، حلیۃ الاولیاء

14560

14560- عن علي قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة آكل الربا وموكله وشاهديه وكاتبه والواشمةوالمستوشمة للحسن ومانع الصدقة والمحلل والمحلل له وكان ينهى عن النوح ولم يقل لعن. "حب حم ن ع قط في الأفراد والدورقي حب وابن جرير".
14560 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس لوگوں پر لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، سود کے دونوں گواہوں پر، سود (کا معاملہ) لکھنے والے پر حسن کے لیے گودنے والی اور گدوانے والی پر، زکوۃ روکنے والے پر، حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نوحہ زاری کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اور نوحہ کرنے والی پر لعنت فرمائی یہ نہیں فرمایا۔
ابن حبان، مسند احمد، النسائی، مسند ابی یعلی، الافراد للدارقطنی، الدورقی، ابن حبان، ابن جریر

14561

14561- عن ربيعة بن النابغة عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن زيارة القبور وعن الأوعية وأن تحبس لحوم الأضاحي بعد ثلاث، ثم قال: إني نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها غير أن لا تقولوا هجرا فإنها تذكركم الآخرة، ونهيتكم عن الأوعية فاشربوا فيها واجتنبوا كل مسكر ونهيتكم عن لحوم الأضاحي أن تمسكوها بعد ثلاث فاحبسوا ما بدا لكم. "ش حم ع والكجي ومسدد والطحاوي والدورقي وابن أبي عاصم في الأشربة" قال في المغني ربيعة بن النابغة عن أبيه عن علي لا يصح حديثه.
14561 ربیعۃ بن النابعۃ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا (شراب کے) برتنوں سے اور اس بات سے کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد تک رکھا جائے، پھر ارشاد فرمایا : میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا لیکن تم قبروں کی زیارت کیا کرو، مگر کوئی غلط بات (شرک وغیرہ کی) نہ کہو۔ بیشک قبریں تم کو آخرت کی یاد دلائیں گی۔ نیز میں نے تم کو (شرابوں کے) برتنوں سے منع کیا تھا، اب تم ان میں (حلال چیز) پیو۔ لیکن ہر نشہ آور شے سے اجتناب کرو، نیز میں نے تم کو قربانیوں کے گوشت سے منع کیا تھا کہ تم ان کو تین دن سے زیادہ نہ روکے رکھو پس اب جب تک تم چاہو روک لو۔ مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، مسند ابی یعلی، الکجی، مسدد ، الطحاوی، الدورقی، ابن ابی عاصم فی الاشربۃ
کلام : المغنی میں مذکور ہے کہ جب ربیعہ بن نابغہ اپنے والد کے واسطہ سے حضرت علی (رض) کی روایت نقل کرے تو اس کی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم بالصواب

14562

14562- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل ذي ناب من السباع وعن كل ذي مخلب من الطير، وعن ثمن الميتة وثمن الخمر وعن لحوم الحمر الأهلية، وعن مهر البغي، وعن عسب الفحل، وعن المياثر الأرجوان. "حم ع والطحاوي".
14562 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درندوں میں سے ہر کیچلی کے دانتوں والے جانور سے منع فرمایا اور پرندوں میں سے پنجوں (سے چیر پھاڑ کرنے) والے پرندوں سے منع فرمایا، نیزمردار کی قیمت سے ، شراب کی قیمت سے، گدھے کا گوشت کھانے سے، فاحشہ کی کمائی سے، نر جانور کی جفتی کی کمائی سے اور ریشم کے پالان اور زینوں سے منع فرمایا۔
مسنداحمد، مسند ابی یعلی، الطحاوی

14563

14563- نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أربع وسألته عن أربع نهاني أن أصلي وأنا عاقص شعري وأن أقلب الحصى في الصلاة، وأن أختص يوم الجمعة بصوم، وأن أحتجم وأنا صائم، وسألته عن أدبار النجوم وأدبار السجود؟ فقال: أدبار السجود الركعتان بعد المغرب وأدبار النجوم الركعتان قبل الغداة وسألته عن الحج الأكبر؟ قال: هو يوم النحر، وسألته عن الصلاة الوسطى؟ قال: هي العصر التي فرط فيها. "مسدد" وضعف.
14563 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے چار باتوں سے منع فرمایا اور (اس کے بعد) میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار چیزوں کے متعلق سوال کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے منع فرمایا کہ میں بالوں کی چوٹی یا جوڑا باندھ کر نماز پڑھوں (مرد کے لئے) یا نماز میں کنکریوں کو الٹ پلٹ کروں، نیز مجھے منع فرمایا کہ میں جمعہ ہی کو روزے کے لیے خاص کرلوں۔ اور منع فرمایا کہ میں روزہ کی حالت میں پچھنے (لگوا کر خون) نکلواؤں۔
اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (قرآن پاک میں مذکور )” ادبارالنجوم “ اور ” ادبارالسجود “ کے بارے میں سوال کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ادبار السجود مغرب کے بعد کی دو رکعت (سنتیں) ہیں اور ادبار النجوم فجر کی نماز سے پہلے (فجر کی) دو رکعت (سنتیں) ہیں۔ نیز میں نے آپ سے حج اکبر کے بارے میں سوال کیا تو ارشاد فرمایا : وہ یوم النحر (قربانی کا دن) ہے۔ اور میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (الصلاۃ الوسطی) درمیان کی نماز (جس کا قرآن میں ذکر ہے) کا سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ عصر کی نماز ہے جس میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ اور پھر قرآن میں اس کی پابندی کا خصوصیت سے ذکر آیا ہے۔ مسدد
کلام : روایت ضعیف ہے۔ کنز

14564

14564- عن علي قال: نسخ رمضان كل صوم ونسخت الزكاة كل صدقة، ونسخ المتعةالطلاق والعدة والميراث، ونسخت الضحية كل ذبح"عب وابن المنذر" ورواه "ق" عنه مرفوعا وتقدم في القسم الأول.
14564 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : رمضان نے ہر روزے (کی فرضیت) کو منسوخ کردیا ہے اور زکوۃ نے (ہر صدقے کی فرضیت) کو منسوخ کردیا ہے اور متعہ نے طلاق، عدت اور میراث کو منسوخ کردیا ہے (متعہ اول اسلام میں جائز تھا پھر حرام دے دیا گیا اور طلاق ، عدت اور میراث پھر شروع ہوگئے) اور (یوم الضحیٰ ) قربانی نے ہر دوسری قربانی (کی فرضیت) کو منسوخ کردیا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن المنذر
امام بیہقی (رح) نے اس روایت کو بروایت علی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً نقل کیا ہے، جو قسم اول میں گزر چکا ہے۔

14565

14565- عن علي قال: ثلاث لا لعب فيهن: النكاح والطلاق والعتاقة والصدقة. "عب".
14565 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : تین چیزوں میں مذاق اور مسخرہ پن نہیں ہے نکاح، طلاق، عتاقہ (آزادی) اور صدقہ۔ الجامع لعبدالرزاق

14566

14566- عن علي قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التلقى وعن ذبح ذوات الدروعن ذبح فتي الغنم، وعن السومقبل طلوع الشمس. "ش".
14566 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا : تلقی سے (دودھ والے جانور کو ذبح کرنے سے) ، جفتی والے بکرے کو ذبح کرنے سے، اور طلوع شمس سے قبل بھاؤ تاؤ کرنے سے۔ مصنف ابن ابی شیبہ
فائدہ : تلقی سے یعنی جو لوگ دیہاتوں سے سبزیاں اور اناج وغیرہ لے کر منڈی میں فروخت کرنے آتے ہیں ان سے خریدکر آگے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ایجنٹ اور دلال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اشیاء کے دام بڑھ جاتے ہیں۔

14567

14567- عن تميم الداري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من لقي الله بخمس فله الجنة ومن أتى الله بخمس لم يحجبه عن الجنة والجمعة واجبة إلا على خمس، والوضوء الواجب من خمس، والأشربة من خمس، وحق الرجال على النساء خمس، ونهى النساء عن خمس، فأما من لقي الله بخمس فله الجنة: الصلاة والزكاة وحج البيت وصيام شهر رمضان وطاعة ولاة الأمر ولا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، وأما من أتى الله بخمس لم يحجبه من الجنة: فالنصح لله والنصح لكتاب الله والنصح لولاة الأمر والنصح لعامة المسلمين، وأما الجمعة واجبة إلا على خمس: فالمرأة والمريض والمملوك والمسافر والصغير، وأما الوضوء الواجب من خمس، فمن الريح والغائط والبول والقيء والدم القاطر، وأما الأشربة من خمس: فمن العسل والزبيب والتمر والبر والشعير، وأما حق الرجل على النساء خمس فلا تحنث له قسما ولا تعطر إلا له، ولا تخرج إلا بإذنه: ولا تدخل عليه من يكرهه، وأما نهى النساء عن خمس: فعن اتخاذ الكمامولبس النعال والجلوس في المجالس وخطر بالقضيبولبس الإزار والأردية بغير درع. "كر".
14567 حضرت تمیم الداری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو پانچ چیزیں لے کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لیے جنت ہے اور جس نے پانچ چیزوں کی ادائیگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اس کو جنت سے کوئی چیز روکنے والی نہیں۔ اور جمعہ پانچ شخصوں کے سوا سب پر واجب ہے۔ وضو پانچ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے، مشروبات پانچ سے تیار ہوتے ہیں، عورتوں پر مردوں کے پانچ حق ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو پانچ چیزوں سے منع فرمایا :
بہرحال وہ پانچ چیزیں جن کے ساتھ بندہ اللہ سے ملاقات کرے اور اس کے لیے جنت ہوجائے وہ نماز، زکوۃ ، بیت اللہ کا حج، رمضان کے روزے اور امیر کی اطاعت ہے اور خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔
بہرحال وہ پانچ چیزیں جن کی ادائیگی کرتے ہوئے اللہ سے ملاقات کرے تو اس کو جنت سے کوئی چیز نہیں روک سکتی وہ اللہ کی خیر خواہی، کتاب اللہ کی خیر خواہی ، امیروں (حکام) کی خیر خواہی اور عامۃ المسلمین کی خیر خواہی ہے۔
بہرحال جمعہ ان پانچ لوگوں کے سوا سب پر واجب ہے : عورت، مریض، غلام، مسافر اور بچہ۔
بہرحال وضو پانچ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اور کرنا واجب ہوجاتا ہے ہوا نکلنے سے، پاخانے سے، پیشاب سے، قے (الٹی) سے اور ٹپکنے والے خون سے۔
بہرحال مشروب (نبیذ وغیرہ) پانچ چیزوں سے تیار ہوتے ہیں۔ شہد سے، کشمش سے، کھجوری سے، گندم سے اور جو سے۔
بہرحال آدمی کے عورتوں پر پانچ حق ہیں : اس کی قسم (اگر وہ عورت کے لیے کوئی قسم کھالے تو اس کو) نہ تڑوائے، خوشبونہ لگائے مگر شوہر ہی کے لئے، گھر سے نہ نکلے مگر اس کی اجازت کے ساتھ اور اس کے گھر میں ایسے شخص کو نہ آنے دے جس کا آنا وہ پسند نہ کرتا ہو۔
اور بہرحال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو پانچ باتوں سے منع فرمایا : (کمام سے یعنی بالوں کے اندر کوئی چیز رکھ کر ان کا) جوڑا بنانے سے۔ جس سے بال زیادہ معلوم ہوں، جوتے پہننے سے (یعنی گھومنے پھرنے سے) ، محفلوں میں بیٹھنے سے، شاخ۔ ڈنڈی وغیرہ لے کر اکڑتے ہوئے چلنے اور بغیر اوڑھنی کے صرف شلوار قمیص پر اکتفاء کرنے سے ۔ ابن عساکر
کلام : روایت بالاسند کے اعتبار سے محل کلام ہے دیکھئے : التنزیہ 395/2 ذیل اللالی 182

14568

14568- عن عمران بن حبان بن نملة الأنصاري عن أبيه أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح خيبر نهى أن يباع شيء من المغنم حتى يقسم وعن الحبالى أن يوطئن، وعن الثمرة حتى يبين صلاحها ويؤمن عليها العاهة. "الحسن بن سفيان وأبو نعيم".
14568 عمران بن حبان بن غلۃ انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فتح خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرماتے ہوئے دیکھا کہ مال غنیمت کی کوئی شے (خریدی یا) بیچی نہ جائے جب تک کہ اس کو تقسیم نہ کرلیا جائے، نیز حاملہ (قیدی) عورتوں کو (جب وہ حصے میں آجائیں) وطی (جماع) کرنے سے منع فرمایا اور (درختوں پر لگے) پھلوں کی بیع سے منع فرمایا جب تک کہ ان کا پکنا ظاہر نہ ہوجائے اور روہ آفت سے محفوظ نہ ہوجائیں۔
الحسن بن سفیان و ابونعیم

14569

14569- عن يحيى بن العلاء عن رشدين بن كريب مولى ابن عباس عن لبيد عن ابن عباس قال: جاء رجل وأمه إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يريد الجهاد وأمه تمنعه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند أمك قر وإن لك من الأجر عندها مثل مالك في الجهاد، قال: وجاء رجل آخر فقال: إني نذرت أن أنحر نفسي فشغل النبي صلى الله عليه وسلم فذهب الرجل فوجد يريد أن ينحر نفسه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الحمد لله الذي جعل في أمتي من يوفي بالنذر ويخاف يوما كان شره مستطيرا هل لك مال؟ قال: نعم، قال: أهد مائة ناقة واجعلها في ثلاث سنين، فإنك لا تجد من يأخذها منك معا وجاءته امرأة فقالت: إني رسولة النساء إليك والله ما منهن امرأة علمت أو لم تعلم إلا وهي تهوى مخرجي إليك، الله رب الرجال والنساء وإلههن وأنت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الرجال والنساء كتب الله الجهاد على الرجال، فإن أصابوا أجروا وإن استشهدوا كانوا أحياء عند ربهم يرزقون فما يعدل ذلك من النساء؟ قال: طاعتهن لأزواجهن، والمعرفة بحقوقهم وقليل منكن يفعله. "عب" وروى الحسن بن سفيان في مسنده إلى قوله مستطيرا من طريق جبارة بن المغلس عن مندل بن علي عن رشدين وأورده من طريق الجوزقاني في الأباطيل وابن الجوزي في الموضوعات فلم يصيبا ورشدين بن كريب روى له "ت" وضعفه "قط" وغيره ولم ينته حديثه إلى حد الوضع ويحيى بن العلاء روى له "د هـ" وهو متروك.
14569 یحییٰ بن العلاء ، ابن عباس (رض) کے غلام رشدین بن کریب سے اور وہ لبید سے اور وہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اور اس کی ماں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آدمی جہاد میں جانا چاہتا تھا، جبکہ اس کی ماں اس کو روک رہی تھی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ارشاد فرمایا : تو اپنی ماں کے پاس ٹھہر، تجھے ایسا ہی اجر ملے گا جیسا جہاد میں ملتا ہے۔ اور ایک دوسرا شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے نذر مانی ہے کہ میں اپنی جن کو اللہ کے لیے ذبح کروں گا۔ یہ سن کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف التفات نہیں کیا۔ چنانچہ وہ آدمی چلا گیا اور اس نے اپنے آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے جو اپنی نذروں کو پورا کرنے والے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر (عذاب اور دکھ) پھیل رہا ہوگا۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے پوچھا : کیا تیرے پاس مال ہے ؟ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : سو اونٹنیاں اللہ کی راہ میں دو اور تین سال کے عرصہ میں دو ، کیونکہ کوئی ایسا شخص تجھے نہیں ملے گا جو تجھ سے یہ ساری اونٹنیاں اکٹھی لے لے۔
ایک اور عورت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : میں آپ کے پاس عورتوں کی قاصد بن کر آئی ہوں اور اللہ کی قسم ! اور عورتوں میں سے کوئی عورت خواہ وہ جانتی ہو یا نہیں جانتی ہو مگر ہر ایک عورت آپ کے پاس آکر یہ سوال کرنا چاہتی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ رب العزت مردوں اور عورتوں سب کا پروردگار ہے اور سب کا معبود ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں مردوں کی طرف اور عورتوں کی طرف بھی۔ اللہ نے مردوں پر جہاد فرض کیا ہے ، اگر وہ جہاد میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ کے پاس زندہ رہتے ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے، اب عورتوں کو یہ اجر کیسے ملے گا ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : عورتوں کا اپنے شوہروں کی اطاعت کرنا اور ان کے حقوق کو جاننا (یہ سب کچھ عطا کردے گا) لیکن ایسا کرنے والی تم میں سے تھوڑی عورتیں ہیں۔ الجامع لعبد الرزاق
کلام : حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں اس روایت کو مستطیرا (شر پھیل رہا ہوگا) تک روایت کیا ہے بطریق جبارۃ المغلس عن مندل بن علی عن رشدین۔ نیز اس کو جو زقانی کے طریق سے اباطیل (من گھڑت میں شمار کیا ہے لیکن دونوں نے درست نہیں کیا۔ رشدین بن کریب کی روایت ترمذی نے لی ہے اور امام دارقطنی (رح)) نے اگرچہ اس کو ضعیف قرار دیا ہے مگر اس کی روایت حدوضع (من گھڑت روایتوں) تک نہیں پہنچتی۔ اور یحییٰ بن العلاء کی روایت ابوداؤد اور ابن ماجہ نے لی ہے اور یہ متروک راوی ہے۔

14570

14570- عن ابن عمرو قال: رأيت رسول الله مفطرا وصائما ورأيته يصلي حافيا ومتنعلا، ورأيته يشرب قائما وقاعدا. "عب".
14570 حضرت ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوں حالتوں میں دیکھا بغیر روزے کے بھی اور روزہ دار بھی۔ اسی طرح جوتوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے بھی اور ننگے پاؤں بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اور کھڑے ہو کر پیتے ہوئے بھی دیکھا اور بیٹھ کر پیتے ہوئے بھی دیکھا۔ الجامع لعبد الرزاق

14571

14571- وعنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم في كم تقطع اليد؟ قال: لا تقطع في ثمر معلق، فإذا ضمه الجرينقطعت في ثمن المجن ولا تقطع في حريسةالجبل، فإذا آواها المراح قطعت في ثمن المجن، وسئل عن ضوال الغنم؟ قال: لك أو لأخيك أو تذهب خذها، وسئل عن ضوال الإبل؟ فقال: معها الحذاء والسقاء دعها حتى يجدها ربها، وسئل عن اللقطة؟ فقال: ما كان من طريق مأتي أو في قرية عامرة فعرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فلك وما لم يكن في طريق مأتي ولا في قرية عامرة ففيه وفي الركاز الخمس. "ن كر".
14571 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کتنی چوری میں قطع ید ہوگی ؟ (کتنے مال کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا جاری ہوگی) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (سائل کے حال کو دیکھتے ہوئے ) ارشاد فرمایا : درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے (کیونکہ وہ محفوظ نہیں ہیں) ہاں جب پھل جرین (جہاں پھل اکٹھے ہوتے ہیں) میں جمع کرلیے جائیں تو ڈھال کی قیمت (کے برابر پھلوں کی چوری) میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور راہ چلتی بکری کو اٹھانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ہاں جب وہ باڑے میں پہنچ جائے تو ڈھال کی قیمت کے برابر میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔
حضرت ابن عمرو (رض) فرماتے ہیں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ بکری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ تجھے یا تیرے کسی بھائی کے ہاتھ لگ جائے گی۔ اگر کوئی بکری نکل جائے تو تو اس کو پکڑ لے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اونٹ کے ساتھ اس کے پاؤں اور اس کا مشکیزہ ہے اس کو یونہی پھرنے دے اس کا مالک اس کو پکڑ لے گا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لقطہ (پڑی ہوئی چیز) کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پڑی ہوئی چیز کسی آتی جاتی راہ یا آباد بستی میں ملے تو اس کو ایک سال تک تشہیر کرا۔ اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ورنہ وہ تیری ہے۔ اور اگر وہ چلتی راہ میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی آباد بستی میں تو اس میں اور رکاز (زمین میں گاڑے ہوئے خزانہ) میں خمس ہے (یعنی اس کا پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی پانے والے کا ہے) ۔ النسائی ، ابن عساکر

14572

14572- عن ابن إسحاق حدثني عبد الله بن أبي بكر عن أبيه أبي بكر محمد بن عمرو بن حزم قال: هذا كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كتبه لعمرو بن حزم حين بعثه إلى اليمن يفقه أهله ويعلمهم السنة ويأخذ صدقاتهم فكتب له كتابا وعهدا وأمره فيه بأمر فكتب بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من الله ورسوله يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود عهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم حين بعثه إلى اليمن أمره بتقوى الله في أمره كله فإن الله مع الذين اتقوا والذين هم محسنون وأمره أن يأخذ الحق كما افترضه الله تعالى وأن يبشر الناس بالخير ويأمرهم به ويعلم الناس القرآن، ويفقههم فيه، وينهى الناس أن لا يمس القرآن أحد إلا هو طاهر ويخبر الناس بالذي لهم والذي عليهم ويلين لهم في الحق ويشتد عليهم في الظلم، فإن الله كره الظلم ونهى عنه وقال: ألا لعنة الله على الظالمين، ويبشر الناس بالجنة وبعملها، وينذر الناس بالنار وعملها، ويتألف الناس حتى يتفقهوا في الدين، ويعلم الناس معالم الحج وسننه وفرائضه وما أمر الله به في الحج الأكبر والحج الأصغر والحج الأكبر: الحج والحج الأصغر: العمرة، ينهي الناس أن يصلوا في ثوب واحد صغير إلا أن يكون واسعا فيخالف بين طرفيه على عاتقيه. ونهى أن يحتبي الرجل في ثوب واحد ويفضي بفرجه إلى السماء، ولا يعقص أحد شعر رأسه إذا عفافي قفاه، وينهي إذا كان بين الناس هيجأن يدعو بدعوى القبائل والعشائر وليكن دعاؤهم إلى الله تعالى وحده لا شريك له، فمن لم يدع إلى الله تعالى ودعى القبائل والعشائر فليعطفوا بالسيف حتى يدعوا الله تعالى وحده لا شريك له، ويأمر الناس بإسباغ الوضوء وجوههم وأيديهم إلى المرافق وأرجلهم إلى الكعبين ويمسحوا برؤوسهم كما أمرهم الله وأمره بالصلاة لوقتها وإتمام الركوع والخشوع، وأن يغلسبالصبح ويهجربالهاجرة حين تزيغ الشمس وصلاة العصر والشمس حية في الأرض، والمغرب حين يقبل الليل، ولا يؤخر المغرب حتى تبدو النجوم في السماء، والعشاء أول الليل وأمره بالسعي إلى الجمعة إذا نودي بها، والغسل عند الرواح إليها. وأمره أن يأخذ بالمغانم خمس الله وما كتب على المؤمنين من الصدقة في العقار عشر ما سقي بالبعل. وسقت السماء، وعلى سقي الغربنصف العشر وفي كل عشر من الإبل شاتان، وفي كل عشرين من الإبل أربع شياه، وفي كل أربعين من البقر بقرة وفي كل ثلاثين من البقر تبيع جذع أو جذعة وفي كل أربعين من الغنم سائمة شاة إنها فريضة الله التي افترض على المؤمنين في الصدقة، فمن زاد خيرا فهو خير له، وأنه من أسلم من يهودي أو نصراني إسلاما خالصا من نفسه ودان بدين الإسلام؛ فإنه من المؤمنين، له مثل الذي لهم وعليه مثل الذي عليهم ومن كان على نصرانية أو يهودية فإنه لا يفتن عنها، وعلى كل حالم ذكر أو أنثى حر أو عبد دينار واف أو عرضهثيابا فمن أدى ذلك فله ذمة الله وذمة رسوله ومن منعه فإنه عدو الله ورسوله والمؤمنين جميعا صلوات الله على محمد النبي والسلام ورحمة الله وبركاته وقال هذا منقطع ثم رواه من وجه آخر عن عبد الله عن أبيه عن جده عن عمرو بن حزم متصلا.
14572 ابن اسحاق سے مروی ہے کہ مجھے عبداللہ بن ابی بکر نے اپنے والد ابوبکر (سے انھوں نے) محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں :
گورنر کے لیے ہدایات کا ذکر
یہ خط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن حزم کے لیے لکھوایا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یمن کی طرف معلم بنا کر بھیجا تھا۔ تاکہ وہ اہل یمن کو فقہ وسنت سکھائیں اور ان سے صدقات (واجبہ) وصول کریں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے خط لکھوایا اور ایک عہد لکھوایا اور اس میں کچھ احکام فرمائے ۔ جو درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہے :
یا ایھا الذین آمنوا اوفوابالعقود
اے ایمان والو ! عہدوں کو پورا کرو۔
نیز یہ عہد نامہ ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے۔ ان کو یمن بھیجتے وقت۔ رسول اللہ ان کو ہر کام میں اللہ کے تقویٰ کا حکم کرتے ہیں ۔
فان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔
بےشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ لوگ احسان کرنے والے ہیں۔
رسول اللہ نے ان کو حکم کیا ہے کہ وہ حق کو وصول کریں جیسے کہ اللہ نے اس کو مقرر کیا ہے۔ نیز وہ لوگوں کو خیر کی خوشخبری دیں اور ان کو خیر کا حکم دیں لوگوں کو قرآن سکھائیں ان کو قرآن سمجھائیں میں لوگوں کو منع کریں کہ کوئی قرآن کو بغیر پاکی (وضو) کے نہ چھوئے ۔ لوگوں کو خبر دیں ان کے حقوق کی اور ان پر واجب احکام اور ذمہ داریوں کی ۔ نیز وہ حق میں ان پر نرمی کریں، لیکن ظلم کی روک تھام میں سختی کریں۔ بیشک اللہ پاک نے ظلم کو ناپسند کیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے :
الالعنۃ اللہ علی الظالمین۔
یادرکھو ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
جنت حاصل کرنے والے اعمال
نیز لوگوں کو جنت کی خوشخبری دے اور جنت حاصل کرنے کے اعمال بتائے، جہنم سے لوگوں کو ڈرائے اور جہنم میں لے جانے والے اعمال بتائے۔ لوگوں کے ساتھ الفت کے ساتھ برتاؤ رکھے تاکہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ (فقہ) حاصل کرلیں۔ لوگوں کو حج کے احکام، سنن اور فرائض اور حج اکبر وحج اصغر کے متعلق اور امر اللہ سے آگاہ کرے۔ حج اکبر حج ہے اور حج اصغر عمرہ ہے۔
نیز لوگوں کو منع کریں کہ وہ ایک چھوٹے کپڑے میں نماز نہ پڑھیں ہاں اگر بڑا کپڑا ہو اور اس کی دونوں طرفین کی گردن پر مخالف سروں میں ڈال لی جائیں تو درست ہے۔ نیز منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑے میں لپٹ جائے اور اپنی شرم گاہ آسمان کی طرف کرلے۔ اور کوئی آدمی جب اس کے بال گدی پر زیادہ اکٹھے ہوجائیں تو ان کی چٹیایا جوڑا نہ باندھے نیز جب لوگوں کے درمیان کوئی لڑائی ہوجائے تو قبائل اور خاندانوں کو نہ پکاریں بلکہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کا نعرہ بلند کریں۔ پس جو اللہ کے نام سے نہ پکارے بلکہ قبائل اور خاندانوں کو پکارے (یعنی عصبیت کا دعویٰ کرے، قوم پرستی کرے) تو ان پر تلواریں سونت لی جائیں حتیٰ کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے نعرے کو بلند کرنے لگ جائیں۔
لوگوں کو کامل وضو کا حکم کریں کہ اپنے چہروں کو، اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوئیں اور اپنے سروں کا مسح کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (عمرو بن حزام) کو نماز اپنے وقت پر پڑھنے کا حکم دیا، رکوع کو اچھی طرح کرنے اور خشوع کا اہتمام کرنے کا فرمایا۔ اور رات کی آخری تاریکی میں فجر پڑھ لیں اور جب سورج ڈھل جائے تو ظہر کو جلد پڑھ لیں۔ عصر کو پڑھ لیں جب کہ سورج زمین میں زندہ ہو (ٹھنڈا نہ ہوجائے کہ اس پر نگاہ ٹکنے لگ جائے) اور مغرب کو پڑھ لیں جب رات متوجہ ہو لیکن اس قدر موخر نہ کی جائے کہ ستارے آسمان میں ظاہر ہوجائیں۔ اور عشاء کو اول رات میں پڑھ لیں۔ جب جمعہ کی اذان ہوجائے تو جمعہ کے لیے سبقت کریں، جب اس کے لیے جانے کا وقت (قریب) ہو تو غسل کرلیں۔ نیز فرمایا کہ اموال غنیمت میں سے اللہ کا خمس نکالیں۔ اور مومنوں پر جو صدقات (زکوۃ وغیرہ) فرض کی گئی ہیں وہ زمین میں جبکہ اس کو آسمانی پانی سے سیراب کیا گیا ہو یا از خود وہ سیرابی ہو تو اس میں عشر ہے (دسواں حصہ) جس زمین کو (رہٹ کے) ڈولوں (یا ٹیوب ویلوں ) سے سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے (یعنی بیسواں حصہ) ۔ اور ہر دس اونٹوں میں دو بکریاں ہیں اور ہر بیس اونٹوں میں چار بکریاں ہیں۔ ہر چالیس گائے میں ایک گائے ہے۔ اور ہر تیس گائے میں ایک سالہ بچھڑا ہے نر یا مادہ۔ اور ہر چالیس بکریوں میں جو سائمہ ہوں (یعنی سال کے اکثر حصے میں باہر ادھر ادھر غیر ملکیت زمین سے چر کر گزارہ کرتی ہوں) ان میں ایک بکری ہے، یہ اللہ کا فریضہ ہے جو اس نے مومنین پر (ان کے اموال میں) مقرر کیا ہے۔ پس جو زیادہ کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے۔
اور بیشک جو یہودی یا نصرانی اپنی طرف سے خالص اسلام لے آیا اور اسلام کے دین کو اس نے اپنا لیا بیشک وہ مومنین میں سے ہے۔ اس کے لیے وہ سب کچھ ہے جو مومنوں کے لیے ہے اور اس پر ہر وہ چیز لازم ہے جو مومنوں پر لازم ہے۔ اور جو نصرانیت یا یہودیت پر جما ہوا ہے اس کو تنگ نہ کیا جائے اور (پھر ان کے) ہر بالغ مرد یا عورت ، آزاد یا غلام پر ایک دینار دینا لازم ہے یا اس کے بقدر کپڑے۔ پس جو یہ حق ادا کردے اس کے لیے اللہ کا اور اس کے رسول کا ذمہ ہے اور جس نے یہ حق روک لیا وہ اللہ کا دشمن ہے اور اس کے رسول کا اور تمام مومنوں کا بس اللہ کی رحمتیں ہوں محمد نبی پر اور سلامتی اور برکتیں ہوں۔
کلام : یہ روایت منقطع ہے۔ پھر انھوں (ابن اسحاق) نے اسی روایت کو دوسرے طریق سے نقل کیا، بطریق عن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ عن عمرو بن حزم متصلاً ۔

14573

14573- عن أبي بكر محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى أهل اليمن بكتاب فيه الفرائض والصدقات والديات وبعث معه عمرو بن حزم فقرئ على أهل اليمن وهذه نسخته بسم الله الرحمن الرحيم من محمد النبي إلى شرحبيل بن عبد كلال والحارث بن عبد كلال قيل: ذي رعين ومعافر وهمدان، أما بعد فقد رجع رسولكم أعطيتم من المغانم خمس الله وما كتب على المؤمنين من العشر في العقار وما سقت السماء وكان سيحاأو كان بعلا ففيه العشر إذا بلغ خمسة أوسقوفي كل خمس من الإبل سائمة شاة إلى أن تبلغ أربعا وعشرين، فإذا زادت واحدة على أربع وعشرين ففيها بنت مخاض فإن لم توجد بنت مخاض فابن لبون ذكر إلى أن تبلغ خمسا وثلاثين، فإذا زادت على خمس وثلاثين واحدة ففيها بنت لبون إلى أن تبلغ خمسا وأربعين؛ فإن زادت واحدة على خمسين وأربعين، ففيها حقة طروقةالجمل إلى أن تبلغ ستين، فإذا زادت على ستين واحدة ففيها جذعة إلى أن تبلغ خمسا وسبعين فإذا زادت واحدة على خمس وسبعين ففيها بنتا لبون إلى أن تبلغ تسعين فإذا زادت واحدة على التسعين ففيها حقتان طروقتا الجمل إلى أن تبلغ عشرين ومائة فما زاد على عشرين ومائة ففي كل أربعين بنت لبون. وفي كل خمسين حقة طروقة الجمل وفي كل ثلاثين باقورةتبيع جذع أو جذعة، وفي كل أربعين باقورة بقرة، وفي كل أربعين شاة سائمة شاة إلى أن تبلغ عشرين ومائة، فإذا زاد على عشرين ومائة واحدة ففيها شاتان إلى أن تبلغ مائتين، فإذا زادت واحدة فثلاث إلى أن تبلغ ثلاث مائة فما زاد ففي كل مائة شاة شاة ولا تؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عور ولا تيس الغنم، ولا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، فما أخذ من الخليطين فإنهما يتراجعان بالسوية بينهما وفي كل خمس أواق من الورق خمسة دراهم، فما زاد ففي كل أربعين درهما درهم وليس فيما دون خمس أواق شيء، وفي كل أربعين دينارا دينار، وأن الصدقة لا تحل لمحمد ولا لأهل بيته إنما هي الزكاة تزكون بها أنفسكم ولفقراء المؤمنين وفي سبيل الله وليس في رقيق ولا مزرعة ولا عمالها شيء إذا كانت تؤدى صدقتها من العشر، وليس في عبد مسلم ولا في فرسه شيء، وأن أكبر الكبائر عند الله يوم القيامة الشرك بالله، وقتل النفس المؤمنة بغير حق، والفرار في سبيل الله يوم الزحف، وعقوق الوالدين، ورمي المحصنة، وتعلم السحر، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم. وأن العمرة الحج الأصغر، ولا يمس القرآن إلا طاهر، ولا طلاق قبل إملاك، ولا عتاق حتى يبتاع، ولا يصلين أحد منكم في ثوب واحد ليس على منكبه شيء، ولا يحتبي في ثوب واحد ليس بين فرجه وبين السماء شيء، ولا يصلي أحد منكم في ثوب واحد وشقه باد، ولا يصلين أحد منكم عاقص شعره، ومن اعتبطمؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود إلا أن يرضى أولياء المقتول، وأن في النفس الدية مائة من الإبل، وفي الأنف إذا أوعبجدعه الدية وفي اللسان الدية، وفي الشفتين الدية، وفي الذكر الدية، وفي البيضتين الدية، وفي الصلب الدية، وفي العينين الدية، وفي الرجل الواحد نصف الدية، وفي المأمومةنصف الدية، وفي الجائفةثلث الدية، وفي المنقلة خمسة عشر من الإبل وفي كل أصبع من الأصابع في اليد والرجل عشر من الإبل، وفي كل سن خمس من الإبل، وفي الموضحة خمس من الإبل، وأن الرجل يقتل بالمرأة وعلى أهل الذهب ألف دينا ر. "ن والحسن بن ابن سفيان طب ك وأبو نعيم هقكر" ثم روى كر عن عباس الدوري قال: سمعت يحيى بن معين يقول: حدث عمرو بن حزم أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب لهم كتابا فقال له رجل هذا مسند قال لا ولكنه صالح، قال الرجل ليحيى فكتاب علي بن أبي طالب أنه قال ليس عندي من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء إلا هذا الكتاب فقال كتاب علي بن أبي طالب هذا أثبت من كتاب عمرو بن حزم.
14573 ابوبکر محمد بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے، عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کو ایک خط لکھا جس میں فرائض اور صدقات اور دیتوں کا بیان تھا۔ اور پھر یہ خط عمرو بن حزم کے ساتھ بھیج دیا اور پھر وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنایا گیا، جس میں لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد پیغمبر کی جانب سے شرحبیل بن عبد کلال اور حارث بن عبد کلال قبائل رعین معافر اور ہمدان کے رئیسوں کی طرف
اما بعد ! تمہارا قاصد واپس آیا ہے ، تم نے مال غنیمت میں سے خمس دیا ہے۔ اور مومنین پر ان کی (کاشتکاری) زمین میں جو عشر فرض ہے وہ تب ہے جب زمین آسمانی پانی (بارش) کے ساتھ سیراب ہوتی ہو اور بہتے پانی کے ساتھ سیراب ہوتی ہو۔ یا زمین از خود پانی کھینچتی ہو اور ایسی زمین کی پیداوار پانچ وسق تک پہنچ جاتی ہو وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
اور ہر پانچ سائمہ اونٹوں میں (جو باہر چرتے پھرتے ہوں) ایک بکری ہے یہاں تک کہ ان کی تعداد چوبیس تک پہنچ جائے۔ جب ایک اونٹ بھی زیادہ ہوجائے تو ان میں ایک بنت مخاض (تشریح باب الزکوۃ میں پڑھیں) ہے۔ اگر بنت مخاض میسر نہ ہو تو ابن لبون نر۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد پینتیس تک پہنچ جائے۔ جب پینتیس سے ایک اونٹ زیادہ ہوجائے تو ان میں ایک بنت لبون ہے پینتالیس تک۔ اگر پینتالیس سے ایک زیادہ ہوجائے تو ان میں ایک حقہ ہے۔ اونٹ کی جفتی کے قابل۔ ساٹھ تک یہی ہے۔ اگر ساٹھ سے ایک زیادہ ہوجائے تو ان میں، ایک جذعہ سے پچھتر تک، جب پچھتر سے ایک عدد زیادہ ہوجائے تو ان میں دو بنت لبون ہیں نوے تک۔ جب ایک زیادہ ہوجائے تو ان میں دو حقے ہیں اونٹ کی جفتی کے قابل۔ ایک سو بیس تک۔ یہی دو حقے رہیں گے۔ پھر جب ایک سو بیس سے تعداد پر ہوجائے تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون ہے۔ اور ہر پچاس میں حقہ ہے اونٹ کی جفتی کے قابل۔
اور ہر تیس گائے میں ایک سالہ بچھڑا نر یا مادہ، اور ہر چالیس گائے میں ایک گائے۔ اور ہر چالیس سائمہ بکریوں (باہر چرنے والیوں) میں ایک بکری ہے، یہاں تک کہ ایک سو بیس تک پہنچ جائیں۔ جب ایک سو بیس سے ایک بکری زیادہ ہوجائے تو دو سو تک میں دو بکریاں ہیں، جب دو سو سے ایک بکری زائد ہوجائے تو تین سو تک میں تین بکریاں ہیں اور جب ایک زیادہ ہوجائے تو ہر سو میں ایک بکری ہے اور زکوۃ وصولی میں بوڑھا جانور لیا جائے گا اور نہ کانا بھینگا اور نہ ہی بکریوں کا نر۔ اور نہ متفرق کے درمیان جمع کیا جائے گا اور نہ جمع شدہ کو متفرق کیا جائے گا زکوۃ کے خوف سے۔ اور جب دو شریکوں سے مشترک زکوۃ لی جائے تو بعد میں وہ دونوں برابری کے ساتھ حساب کتاب کرلیں۔ اور ہر پانچ اوقیہ چاندی میں پانچ درہم ہیں۔ پھر جب چاندی زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم ہے۔ اور پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولہ) چاندی سے کم میں زکوۃ نہیں (جبکہ صرف چاندی ہو، سونا اور روپیہ پیسہ یا دیگر مال تجارت کچھ نہ ہو) اور ہر چالیس دینا میں ایک دینار ہے۔
اور صدقہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہل بیت کے لیے حلال نہیں۔ یہ تو زکوۃ ہے جس کے ذریعے تم اپنے آپ کو پاک کرتے ہو اور یہ فقراء مومنین کے لیے حلال ہے اور اللہ کی راہ میں بھی خرچ کی جائے گی۔ اور غلاموں میں اور کاشت کی زمین میں اور نہ اس کے کام کرنے والوں میں کچھ بھی زکوۃ ہے۔ جبکہ زمین کا صدقہ (زکوۃ ) عشر کی صورت میں نکال لیا جائے گا۔
بڑے بڑے گناہوں کا ذکر
اور مسلمان غلام میں اور نہ مسلمان کے گھوڑے میں کوئی زکوۃ نہیں ہے۔
اور قیامت کے روز کبیرہ (بڑے بڑے) گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ایک شرک باللہ ہے، اور ناحق مومن جان کو قتل کرنا اسلام کی جنگ کے روز پیٹھ پھیر کر بھاگنا ، والدین سے قطع تعلقی کرنا، پاکدامن عورت پر تہمت لگانا، جادو سیکھنا جادو سیکھنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ عمرہ حج اصغر ہے۔ اور قرآن کو کوئی نہ چھوئے مگر پاک۔ اور نکاح کے بغیر طلاق نہیں اور غلام کو جب تک خرید نہ لے آزاد کرنے کا اختیار نہیں۔ اور کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کا حصہ کندھے پر نہ پڑا ہوا ہو۔ اور کوئی ایک کپڑے میں نہ لپٹے اس طرح کہ اس کی شرم گاہ اور آسمان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو۔ اور کوئی ایک ایسے کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کی جانب کھلی ہوئی ہو۔ اور کوئی اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر نماز نہ پڑھے۔ اور جس نے کسی مومن کو ناحق قتل کیا اور اس پر گواہ موجود ہیں تو اس کا قصاص لیا جائے گا الایہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں۔ اور ایک جان کی دیت (بدلہ) سو اونٹ ہیں، اور ناک جب پوری کاٹ دی جائے تو اس میں دیت ہے، اور زبان میں دیت ہے، اور ہونٹوں میں دیت ہے، عضو تناسل میں دیت ہے، دونوں خصیوں میں دیت ہے، کمر میں دیت ہے، دونوں آنکھوں میں دیت ہے، ایک ٹانگ میں نصف دیت ہے اور مامومۃ (سر کا وہ زخم جو دماغ کی جھلی تک پہنچ جائے) میں نصف دیت ہے۔ جائفہ (پیٹ کا وہ زخم جو معدہ تک پہنچ جائے) میں تہائی دیت ہے، منقلہ (وہ زخم جس سے کچھ ہڈی نکل جائے اور اپنی جگہ سے ہٹ جائے) میں پندرہ اونٹ ہیں۔ ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں سے ہر انگلی میں دس اونٹ ہیں۔ ہر دانت میں پانچ اونٹ ہیں۔ موضحہ (وہ زخم جس سے ہڈی ظاہر ہوجائے) میں پانچ اونٹ ہیں، اور آدمی کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ اور جو دیت کو سونے کے ساتھ ادا کرنا چاہے اس کے لیے پوری دیت ایک ہزار دینار ہیں۔
النسائی، الحسن بن سفیان، الکبیر للطبرانی، المستدرک الحاکم، ابونعیم، السنن الکبری للبیہقی، ابن عساکر
ابن عساکر نے عباس دوری کی روایت میں نقل کیا ہے، عباس دوری کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن معین سے اسی حدیث کو سنا وہ فرمارے تھے کہ حضرت عمرو بن حزم (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کے لیے ایک خط لکھا (پھر آگے روایت بیان کی)
تو یحییٰ بن معین سے ایک شخص نے پوچھا یہ روایت مسند ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا : نہیں بلکہ صالح ہے۔ آدمی نے یحییٰ سے عرض کیا : کہ پھر حضرت علی ابن ابی طالب (رض) نے فرمایا تھا کہ میرے پاس رسول اللہ کی کوئی تحریر موجود نہیں سوائے اس خط کے ؟ تب یحییٰ بن معین (رح) نے فرمایا کہ حضرت علی (رض) کا خط زیادہ ثابت ہے بنسبت حضرت عمرو بن حزم کے خط کے۔

14574

14574- عن أبي أمامة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع يقول: إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث، الولد للفراش وللعاهر الحجر، وحسابهم على الله، من ادعى إلى غير أبيه أو تولى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة، لا تنفق امرأة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها، قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: ذلك أفضل أموالنا، ثم قال: العارية مؤداة والمنحةمردودة والدين مقضي والزعيم غارم. "عب".
14574 حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا لہٰذا اب وارث کے لیے وصیت جائز نہیں (اور نہ وہ نافذ کی جائے گی) اور بچہ صاحب بستر (شوہر یا باندی کے مالک کا ہوگا) جبکہ زانی کے لیے سنگساری کے پتھر ہیں۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ جس نے غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کیا (کہ اس کا بیٹا ہوں) یا کسی غلام نے غیر آقا کی طرف اپنے کو منسوب کیا (کہ اس کا غلام ہوں ) تو اس پر اللہ کی لعنت قیامت تک رہے گی۔ اور کوئی عورت اپنے گھر میں سے کوئی چیز اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (صدقہ خیرات میں) خرچ نہ کرے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ اور کھانا بھی نہیں ؟ فرمایا : کھانا تو ہمارا بہترین مال ہے (وہ کیسے بغیر اجازت دینا جائز ہوگا) ۔ پھر ارشاد فرمایا : عاریت (مانگی ہوئی چیز) واپس کرنا لازم ہے ، منحہ (دودھ کا جانور جو کسی دودھ پینے کے لیے دیا ہو) وہ بھی واپس کیا جائے گا اور قرض چکایا جائے گا اور ضامن (ضمانت لینے والا) نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔ الجامع لعبد الرزاق

14575

14575- عن أبي أمامة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم خيبر عن أكل الحمار الأهلي وعن كل ذي ناب من السباع، وأن لا توطأ الحبالى حتى يضعن، وعن أن تباع السهام حتى تقسم، وأن تباع الثمرة حتى يبدو صلاحها، ولعن يومئذ الواصلة والموصولة والواشمة والمستوشمة والخامشة وجهها والشاقة جيبها. "ش" وهو صحيح.
14575 ابوامامۃ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی جنگ کے موقع پر گدھے کا گوشت کھانے سے اور ہر کیچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ اور حاملہ قیدی عورتوں سے جماع کرنے سے منع فرمایا جب تک وہ اپنے بچے نہ پیدا کرلیں۔ اور مال غنیمت بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ اس کو تقسیم نہ کرلیا جائے اور درخت پر لگے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا جب تک کہ وہ پکنا شروع نہ ہوجائیں۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن لعنت فرمائی واصلہ اور موصلہ پر۔ اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگوانے والی عورت پر اور اس پر جو دوسری کو بال لگا کر دے اور گود نے والی پر اور گدوانے والی پر (جسم میں سوئی کے ساتھ نشانات لگا لگا کر پھر ان میں سرمہ یا رنگ بھر کر کوئی خاص نشانی لگوانا اور لعنت فرمائی اپنے چہرے کہ پیٹنے والی پر اور اپنے گریبان کو پھاڑنے والی پر) ۔ مصنف ابن ابی شیبہ
روایت صحیح ہے۔

14576

14576- عن أبي أمامة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبة عام حجة الوداع: ألا إن الله أعطى كل ذي حق حقه؛ فلا وصية لوارث الولد للفراش، وللعاهر الحجر، وحسابهم على الله من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا، لا تنفق امرأة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها، قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: ذلك أفضل أموالنا، ثم قال: إن العارية مؤداة والمنحة مردودة والدين مقضي والزعيم غارم. "ط ص حم ت" وقال: حسن [صحيح]
14576 حضرت ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
خبردار ! بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا ہے، پس اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ اور جس نے غیر باپ کی طرف نسبت کی یا غیر آقا کی طرف نسبت کی اس پر اللہ کی لعنت ہے جو قیامت تک اس پر جاری رہے گی، اللہ اس کا فرض قبول کرے گا اور نہ نفل اور کوئی عورت اپنے سو ہر کے گھر کی کوئی چیز (باہر) خرچ نہ کرے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! کھانا بھی نہیں ؟ ارشاد فرمایا : وہ تو ہمارے عمدہ اموال میں سے ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : عاریت واپس کی جائے گی، دودھ کا جانور واپسی کیا جائے گا قرض چکایا جائے گا اور ضامن ذمہ دار ہوگا۔ ابوداؤد، السنن لسعید بن منصور، مسند احمد، ترمذی قال الترمذی حسن صحیح

14577

14577- عن يحيى بن يعمر أن عائشة سألها رجل هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع صوته من الليل إذا قرأ؟ قالت: ربما خفض وربما رفع قال: الحمد لله الذي جعل في الدين سعة، قال: فهل كان يوتر من أول الليل؟ قالت: ربما أوتر من أول الليل، وربما أوتر من آخره، قال: الحمد لله الذي جعل في الدين سعة، قال: فهل كان ينام وهو جنب! قالت: ربما اغتسل قبل أن ينام، وربما نام قبل أن يغتسل ولكنه يتوضأ قبل أن ينام قال: الحمد لله الذي جعل في الدين سعة. "عب".
14577 یحییٰ بن یعمر سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے کسی شخص نے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو قرات کرتے تھے تو آواز بلند فرماتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا بسا اوقات آہستہ پڑھتے تھے اور بسا اوقات بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ آدمی نے یہ سن کر کہا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت اور کشادگی رکھی ہے۔ پھر پوچھا : کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وتر پڑھتے تھے۔ آدمی نے کہا : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت رکھلی ہے۔ پھر پوچھا : کیا رسول اللہ جنبی۔ غسل فرض ہونے کی حالت میں سوتے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : کبھی سونے سے پہلے غسل فرمالیتے تھے اور کبھی غسل سے پہلے سوجاتے تھے لیکن پھر سونے سے قبل وضو کرلیتے تھے۔ آدمی نے کہا : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت رکھی ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

14578

14578- عن ابن جريج حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أنه وجد مع سيف النبي صلى الله عليه وسلم صحيفة معلقة بقائمة السيف فيها؛ إن أعدى الناس على الله تعالى القاتل غير قاتله والضارب غير ضاربه، ومن آوى محدثا لم يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا ومن تولى غير مواليه فقد كفر بما أنزل الله على محمد صلى الله عليه وسلم. "عب".
14578 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ ہمیں جعفر بن محمد نے عن ابیہ عن جدہ (رض) کی سند سے بیان کیا کہ انھوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار کے ساتھ ایک صحیفہ پایا جو تلوار کے دستے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ اس میں لکھا تھا : بیشک لوگوں میں اللہ کا سب سے بڑا دشمن وہ قاتل ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے قتل نہیں کیا اور ایسا مارنے والا ہے جس نے اس کو مارا نہیں۔ اور جس نے کسی بدعتی (دین میں نئی ایجاد کرنے والے) کو ٹھکانا دیا اللہ پاک قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول کریں گے اور نہ نفل اور جس غلام نے غیر آقاؤں سے رشتہ جوڑا اس نے کفر کیا اس کا جو اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ المصنف لعبدالرزاق

14579

14579- عن مجاهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر مناديا ينادى لا وصية لوارث ولا يجوز لامرأة عطية إلا بإذن زوجها والولد للفراش. "ص". تم بعون الله تعالى المجلد الخامس ويليه إن شاء الله المجلد السادس
14579 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ یہ اعلان کردے کہ وارث کے لیے وصیت نہیں اور کسی عورت کو کوئی عطیہ آگے دینا جائز نہیں مگر اپنے شوہر کی اجازت کے ساتھ۔ اور بچہ صاحب فراش کے لیے ہے۔ السنن لسعید بن منصور
الحمد للہ ختم شدہ حصہ پنجم
مترجم محمد اصغر غفر اللہ لہ ولوالدیہ ولذریتہ

14580

14580- "السلطان ظل الله في الأرض، فمن أكرمه، أكرمه الله ومن أهانه، أهانه الله". "طب هب عن أبي بكر".
14580 بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہے جس نے اس کا اکرام کیا اللہ اس کا اکرا م کرے گا اور جس نے اس کی اہانت کی اللہ اس کو ذلیل ورسوا کردے گا۔
الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی عن ابی بکر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے، ضعیف الجامع 3350، اضعیفۃ 1662 ۔

14581

14581- "السلطان ظل الله في الأرض يأوي إليه كل مظلوم من عباده فإن عدل كان له الأجر وكان على الرعية الشكر، وإن جار أوخان أو ظلم، كان عليه الوزر وعلى الرعية الصبر، وإذا جارت الولاة قحطت السماء، وإذا منعت الزكاة هلكت المواشي، وإذا ظهر الزنا ظهر الفقر والمسكنة وإذا أخفرتالذمة أديل". "الحكيم والبزار هب عن ابن عمر".
14581 سلطان (بادشاہ) زمین پر اللہ کا سایہ ہے، اللہ کے بندوں میں سے ہر مظلوم اس کے پاس جاتا ہے ، اگر وہ عدل سے کام لیتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے اور پھر رعایا پر اس کا شکر (اور اس کی قدر) لازم ہے۔ اور اگر وہ ظلم کرتا ہے، یا خیانت کرتا ہے تو اس پر اس کا وبال ہوتا ہے اور ایسے وقت رعایا پر صبر لازم ہے جب وقت کے حکام و سلاطین ظلم کرنا شروع کرتے ہیں تو آسمان قحط میں مبتلا ہوتا ہے جب لوگ زکوۃ روک لیتے ہیں تو مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں، جب زنا عام ہوجاتا ہے تو فقروفاقہ اور مسکنت عام ہوجاتی ہے اور جب وعدہ اور ذمہ توڑا جاتا ہے تو کفار کا دبدبہ بڑھ جاتا ہے۔ الحکیم والبزار، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض)

14582

14582- "السلطان ظل الله في الأرض يأوي إليه الضعيف، وبه ينصر المظلوم، ومن أكرم سلطان الله في الدنيا أكرمه الله يوم القيامة". "ابن النجار عن أبي هريرة".
14582 سلطان زمین پر ظل الٰہی ہے، ضعیف اس کا آسرا پکڑتا ہے، اس کے طفیل مظلوم مدد پاتا ہے ، اور جس نے دنیا میں اللہ کے سلطان کا اکرام کیا اللہ قیامت کے دن اس کا اکرام فرمائیں گے۔ ابن النجار عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3352 ۔ الضعیفۃ 1663 ۔ کشف الخفاء 1487

14583

14583- "السلطان ظل الله في الأرض، فمن غشه ضل، ومن نصحه اهتدى". "هب عن أنس".
14583 زمین پر سلطان ظل خداوندی ہے، جس نے اس کو دھوکا دیا وہ گمراہ ہوا اور جس نے اس کے ساتھ خیر خواہی برتی ہدایت یاب ہوا۔ شعب الایمان للبیہقی عن انس (رض)

14584

14584- "السلطان ظل الله في الأرض، فإذا دخل أحدكم بلدا ليس فيه سلطان فلا يقيمن به". "أبو الشيخ عن أنس".
14584 زمین میں بادشاہ اللہ کا سایہ ہے پس جب کوئی ایسے علاقے میں داخل ہو جہاں بادشاہ (حاکم وغیرہ) نہ ہو تو وہاں ہرگز نہ ٹھہرے۔ ابوالشیخ عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3349 ۔

14585

14585- "السلطان ظل الرحمن في الأرض يأوي إليه كل مظلوم من عباده، فإن عدل كان له الأجر وعلى الرعية الشكر، وإن جار أو حافوظلم كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر". "فر عن ابن عمر".
14585 سلطان زمین پر رحمن کا سایہ ہے، رحمن کے مظلوم بندے اس کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ اگر سلطان عدل کرے تو اس کو اجر ملے گا اور رعایا پر اس کا شکر کرنا (اور اس کی قدر کرنا) لازم ہے۔ اور اگر بادشاہ ظلم وستم ڈھائے تو اس پر وبال ہے اور رعایا پر صبر کرنا لازم ہے۔
مسند الفردوس للدیلمی عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3348 ۔

14586

14586- "لا تسبوا السلطان فإنه فيء الله في أرضه". "هب عن أبي عبيدة".
14586 سلطان (حاکم ) کو گالی گلوچ مت دو ، کیونکہ اللہ کا اس کی زمین پر سایہ ہے۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابی عبیدہ

14587

14587- "لا تسبوا الأئمة وادعوا لهم بالصلاح، فإن صلاحهم لكم صلاح". "طب عن أبي أمامة".
14587 حکام کو برا بھلا مت کہو اور ان کے لیے صلاح (فلاح) کی دعا مانگو، کیونکہ ان کی صلاح (درستی) تمہاری صلاح ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ
کلام : ضعیف الجامع :6221 ۔

14588

14588- "لا تشغلوا قلوبكم بسب الملوك، ولكن تقربوا إلى الله تعالى بالدعاء لهم يعطف الله قلوبهم عليكم". "ابن النجار عن عائشة".
14588 اپنے دل و دماغ کو بادشاہوں کو برا بھلا کہنے میں مت کھپاؤ بلکہ اللہ سے ان کے لیے دعا کرو اللہ پاک ان کے قلوب کو تمہارے لیے نرم کردے گا۔ ابن النجار عن عائشہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع : ضعیف الجامع : 6235 ۔ ضعیف ہے۔

14589

14589- "السلطان العادل المتواضع ظل الله ورمحه في الأرض، ويرفع له عمل سبعين صديقا". "أبو الشيخ عن أبي بكر".
14589 عدل پرور اور نرم خو بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے۔ اور اس کے لیے ستر صدیقوں کا عمل لکھا جاتا ہے۔ ابوالشیخ عن ابی بکر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : 3347 ضعیف الجامع۔

14590

14590- "أحسنوا إذا وليتم، واعفوا عما ملكتم". "الخرائطي في مكارم الأخلاق عن أبي سعيد".
14590 جب تم کو امارت سونپی جائے تو اچھا معاملہ کرو اور اپنی رعایا سے درگزر کرتے رہو۔
الخرائطی فی مکارم الاخلاق عن ابی سعید
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع : 202 ۔ الضعیفۃ 1873 ۔

14591

14591- "أيما وال ولي فلان ورفق رفق الله تعالى به يوم القيامة". "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب عن عائشة".
14591 جو حاکم کسی پر مقرر ہوا اور اس نے نرمی کی تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائیں گے۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب عن عائشہ (رض)

14592

14592- "إنك لن تخلف بعدي فتعمل عملا صالحا إلا ازددت به درجة ورفعة ثم لعلك إن تخلف حتى ينتفع بك أقوام ويضر بك آخرون، اللهم أمض لأصحابي هجرتهم ولا تردهم على أعقابهم لكن البائس سعد بن خولة". "حم ق د هـ عن سعد بن أبي وقاص
14592 تجھے میرے بعدامارت سونپی گئی اور تو نے عمل صالح کیا تو ضرور تجھے ایک درجہ بلندی نصیب ہوگی اور کچھ اقوام تجھ سے نفع حاصل کریں گی اور دوسرے نقصان اٹھائیں گے اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت کو باقی رکھ اور ان کو الٹے پاؤں واپس نہ کر سوائے سعد بن خولہ بیمار کے۔
مسنداحمد ، البخاری ، مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ عن سعد بن ابی وقاص

14593

14593- "ما من أحد أفضل منزلة من إمام إن قال صدق، وإن حكم عدل، وإن استرحم رحم". "ابن النجار عن أنس".
14593 کوئی شخص امام (حاکم وقت) سے افضل نہیں ہوسکتا اگر امام بولے تو سچ بولے، فیصلہ کرے توعدل کرے اور اس سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کا معاملہ کرے۔ ابن النجار عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5134 ۔

14594

14594- "إذا أراد الله بعبد خيرا صير حوائج الناس إليه". "فر عن أنس".
14594 جب اللہ پاک کسی بندے کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے تو لوگوں کی ضروریات اس کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ مسند الفردوس للدیلمی عن انس (رض)
کلام : اسنی المطالب 1:6 ضعیف الجامع 332، الضعیفۃ 2224 ۔

14595

14595- "إذا أراد الله بقوم خيرا ولى عليهم حلماءهم، وقضى عليهم علماؤهم وجعل المال في سمحائهم، وإذا أراد الله بقوم شرا ولى عليهم سفاءهم، وقضى بينهم جهالهم، وجعل المال في بخلائهم". "فر عن مهران".
14595 جب اللہ پاک کسی قوم کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے تو حلیم اور بردبار لوگوں کو ان پر حاکم مقرر کردیتا ہے علماء کو ان کا فیصل (جج) بنا دیتا ہے اور مال ان میں ایسے لوگوں کو دیتا ہے جو سخی ہوں۔ اور جب پروردگار کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتا ہے تو ان کے بیوقوفوں کو ان پر حاکم مسلط کرتا ہے، ان کے جاہلوں کو ان کا فیصل (وقاضی) بنادیتا ہے اور مال ان کے بخیلوں کو دیتا ہے۔ مسند الفردوس للدیلمی عن مھران

14596

14596- "إذا أراد الله أن يخلق خلقا للخلافة مسح ناصيته بيده". "عق عد خط فر عن أبي هريرة"
14596 جب اللہ پاک خلافت کے لیے کوئی مخلوق پیدا فرمانا چاہتا ہے تو اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ پھیر دیتا ہے۔ الضعفاء لعقیلی، الکامل لا بن عدی التاریخ للخطیب مسند الفردوس للدیلمی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ناقابل اور ضعیف ہے۔ ترتیب الموضوعات :887, 776، التنزیہ 208-1 ضعیف الجامع 324 ۔

14597

14597- "إذا حكم الحاكم فاجتهد فأصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد فأخطأ فله أجر واحد". "حم ق د ن هـ عن عمرو بن العاص حم ق عد عن أبي هريرة"
14597 جب حاکم کوئی فیصلہ کرتا ہے اور درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دہرا اجر ملتا ہے اور اگر وہ فیصلہ میں غلطی کرتا ہے تو اس کو صرف اکہرا اجر ملتا ہے۔ مسند احمد ، البخاری، مسلم، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ عن عمرو بن العاص، مسند احمد، البخاری، مسلم الکامل لا بن عدی عن ابوہریرہ (رض)

14598

14598- "إذا مررت ببلدة ليس فيها سلطان فلا تدخلها؛ إنما السلطان ظل الله ورمحه في الأرض". "هب عن أنس".
14598 جب تیرا گزر ایسے شہر پر ہو جس میں حاکم نہ ہو تو وہاں داخل مت ہو ۔ بیشک حاکم زمین پر اللہ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے۔ شعب الایمان للبیہقی عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے الاتقان 334 ۔ ضعیف الجامع 695 ۔

14599

14599- "إقامة حد من حدود الله خير من مطر أربعين ليلة في بلاد الله". "هـ عن ابن عمر".
14599 اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں تک بارش برسنے سے کہیں بہتر حدود اللہ میں سے کسی حد کا قائم ہونا ہے۔ ابن ماجہ عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے الکشف الالٰہی 134 ۔ کشف الخفاء 478 ۔

14600

14600- "إن الله إذا أراد أن يجعل عبدا للخلافة مسح بيده على جبهته". "خط عن أنس".
14600 اللہ پاک جب کسی بندے کو خلافت کے لیے منتخب کرنا چاہتا ہے تو اس کی پیشانی پر ہاتھ پھیر دیتا ہے۔ الخطیب فی التاریخ عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ التنزیہ 208-1 ۔ ضعیف ابی الجامع 15410 ۔ الضعیفۃ 805 ۔

14601

14601- "إن الله إذا أراد أن يخلق خلقا للخلافة مسح يده على ناصيته فلا تقع عليه عين إلا أحبته". "ك عن ابن عباس".
14601 اللہ پاک جب کسی مخلوق (بندے ) کو خلافت کے لیے پیدا فرمانا چاہتے ہیں تو اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ پھیر دیتے ہیں پس جو آنکھ بھی اس پر پڑتی ہے اس کو پسند کرنے لگ جاتی ہے۔
مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1542 ۔ الضعیفۃ 806 ۔

14602

14602- "إن الله تعالى يحب إغاثة اللهفان". "ابن عساكر عن أبي هريرة".
14602 اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد پسند کرتا ہے۔ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)
کلام : ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 1698 ۔

14603

14603- "إن المقسطين عند الله يوم القيامة على منابر من نور عن يمين الرحمن عز وجل وكلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم وأهلهم وما ولوا". "حم م ن عن ابن عمرو"
14603 انصاف پرور لوگ قیامت کے روز رحمن عزوجل کے دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ وہ انصاف پر ور لوگ اپنے فیصلوں ، اپنے اہل و عیال اور اپنی رعایا پر عدل و انصاف کرتے ہیں۔ مسنداحمد، مسلم، النسائی عن ابن عمرو

14604

14604- "أحب الناس إلى الله يوم القيامة وأدناهم مجلسا إمام عادل وأبغض الناس إلى الله وأبعدهم منه إمام جائر". "حم ت عن أبي سعيد".
14604 قیامت کے روز اللہ کے پاس سب سے محبوب اور اس سے قریب تر مجلس والا امام عادل ہوگا اور اللہ کے ہاں مبغوض ترین اور اس سے دور ظالم امام (حاکم) ہوگا۔
مسند احمد، الترمذی عن ابی سعید (رض)

14605

14605- "إنما الإمام جنة يقاتل به". "د عن أبي هريرة"
14605 امام ایسی ڈھال ہے جس کی آڑ میں جنگ کی جاتی ہے۔ ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)

14606

14606- "حد يعمل في الأرض خير لأهل الأرض من أن يمطروا أربعين صباحا". "ن هـ عن أبي هريرة".
14606 زمین پر جو حد (شرعی سزا) جاری کی جائے وہ اہل ارض کے لیے چالیس دن بارش برسنے سے کہیں بہتر ہے۔ النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : المشتہیر 103 روایت ضعیف ہے۔

14607

14607- "أحب الناس إلى الله وأقربهم منه مجلسا يوم القيامة إمام عادل، وأبغض الناس إلى الله يوم القيامة وأشدهم عذابا إمام جائر". "هب عن أبي سعيد".
14607 اللہ کے ہاں محبوب ترین اور قریب ترین مجلس والا امام عادل ہوگا۔ اور قیامت کے دن اللہ کے ہاں مبغوض ترین اور سب سے زیادہ سخت عذاب میں مبتلا ظالم امام ہوگا۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابی سعید (رض)

14608

14608- "أفضل الشهداء عند الله المقسطون؛ الذين يعدلون في حكمهم وأهليهم وما ولوا". "خط في المتفق والمفترق عن أنس وفيه إسماعيل بن مسلم المكي. قال ابن معين: ليس بشيء، وقال الدارقطني: متروك.
14608 اللہ کے ہاں افضل ترین شہداء انصاف پرور لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں ، اپنی رعایا اور اپنے ماتحتوں پر عدل برتتے ہیں۔ المتفق والمتفرق عن انیس (رض)
کلام : روایت کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے، جس کے متعلق امام ابن معین (رح) فرماتے ہیں : لیس بشیء ۔ ثقہ نہیں ہے۔ امام دارقطنی (رح) فرماتے ہیں : یہ متروک ہے۔

14609

14609- "أفضل الناس عند الله إمام عادل يأخذ للناس من الله، ويأخذ للناس بعضهم من بعض". "أبو الشيخ في الثواب عن أبي هريرة".
14609 اللہ کے ہاں افضل ترین شخص عدل پسند حاکم ہے، جو لوگوں کے لیے اللہ سے لیتا ہے اور لوگوں کے لیے انہی میں سے ایک دوسرے کو پکڑ لیتا ہے۔ ابوالشیخ فی الثواب عن ابوہریرہ (رض)

14610

14610- "إن أفضل عباد الله عند الله يوم القيامة إمام عادل رفيق، وإن شر عباد الله عند الله يوم القيامة إمام جائر خرق" . "ابن زنجويه والشيرازي في الألقاب عن عمر".
14610 اللہ کے ہاں قیامت کے دن افضل ترین شخص عدل پسند نرم خو حاکم ہوگا قیامت کے دن اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ شر پسند سخت، اکھڑ اور ظالم حاکم ہوگا۔
ابن زنجویہ والشیرازی فی الالقاب عن عمر (رض)

14611

14611- " إن أرفع الناس درجة يوم القيامة الإمام العادل، وإن أوضع الناس درجة يوم القيامة الإمام الذي ليس بعادل". "ع عن أبي سعيد".
14611 قیامت کے دن سب سے بلند درجہ والا امام عادل ہوگا اور سب سے پست اور گھٹیا درجے والا وہ امام ہوگا جو عدل نہیں کرتا۔ مسند ابی یعلی عن ابوہریرہ (رض)

14612

14612- "إن الإمام جنة يقاتل به". "ش عن أبي هريرة"
14612 امام ڈھال ہے جس کی آڑ میں قتال کیا جاتا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ عن ابوہریرہ (رض)

14613

14613- " الإسلام والسلطان أخوان توأمان لا يصلح واحد منهما إلا بصاحبه فالإسلام أس والسلطان حارث، وما لا أس له يهدم وما لا حارث له ضائع". "الديلمي عن ابن عباس".
14613 اسلام اور سلطان دو جڑواں بھائی ہیں، دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسلام بنیاد اور جڑ ہے اور سلطان اس کا محافظ ہے جس چیز کی بنیاد نہ ہو اس پر کوئی عمارت نہیں کھڑی رہ سکتی اور جس عمارت کا محافظ نہیں وہ برباد ہوجاتی ہے۔ الدیلمی عن ابن عباس (رض)

14614

14614- "الإمام العادل لا ترد دعوته". "ش عن أبي هريرة".
14614 عدل پسند حاکم کی دعا رد نہیں ہوتی۔ مصنف ابن ابی شیبہ عن ابوہریرہ (رض)

14615

14615- "السلطان العادل المتواضع ظل الله ورمحه في الأرض، ويرفع للوالي العادل المتواضع في كل يوم وليلة عمل ستين صديقا كلهم عابد مجتهد". "أبو الشيخ عن أبي بكر".
14615 عدل پسند اور تواضع پسند سلطان (بادشاہ) زمین پر اللہ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے عدل پسند متواضع مزاج بادشاہ کے لیے ہر دن اور رات میں ستر انتہائی عبادت گزار صدیقوں کا عمل لکھا جاتا ہے۔ ابوالشیخ عن ابی بکر (رض)

14616

14616- "السلطان ظل الله في الأرض فمن نصحه ودعا له اهتدى ومن دعا عليه ولم ينصحه ضل". "الديلمي عن أنس".
14616 سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے جس نے اس کے ساتھ خیر خواہی برتی اور اس کے لیے دعائے خیر کی اس نے ہدایت پائی اور جس نے اس پر بددعا کی اور اس کے ساتھ خیر خواہی نہ برتی وہ گمراہ ہوا۔ الدیلمی عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : الاتفاق 334، الشذرۃ 187، کشف الخفاء 645 ۔

14617

14617- "السنة سنتان: سنة من نبي مرسل، وسنة من إمام عادل". "الديلمي عن ابن عباس".
14617 سنت دو ہیں، نبی مرسل کی سنت اور (حاکم) عادل کی سنت۔ الدیلمی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ، ضعیف الجامع 3357، المغیر 78 ۔

14618

14618- "المقسطون يوم القيامة على منابر من نور عن يمين الرحمن وكلتا يديه يمين، المقسطون على أهليهم وأولادهم وما ولوا". "حب عن ابن عمرو".
14618 قیامت کے دن عدل پسند لوگ رحمن کے دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ اور عدل پسند میں اپنے اہل و عیال ، اپنی اولاد اور اپنے ماتحتوں پر عدل کرنے والے تمام لوگ شامل ہیں۔ ابن حبان عن ابن عمرو

14619

14619- "المقسطون في الدنيا على منابر من لؤلؤ بين يدي الرحمن بما أقسطوا له في الدنيا". "أبو سعيد النقاش في القضاة عنه".
14619 دنیا میں انصاف برتنے والے لوگ قیامت کے دن رحمن کے سامنے اپنے انصاف کے بدلے موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ ابوسعید النقاش فی القضاہ عنہ

14620

14620- "الوالي العادل ظل الله ورمحه في الأرض، فمن نصحه في نفسه وفي عباد الله أظله الله في ظله، ومن غشه في نفسه وفي عباد الله خذله الله يوم القيامة". "ابن شاهين والأصبهاني معا في الترغيب، وهو ضعيف".
14620 عدل پسند حاکم زمین پر اللہ کا سایہ اور اس کا نیزہ ہے۔ جس نے اپنے اندر اور لوگوں کے بیچ میں اس کے لیے خیر خواہی کا جذبہ رکھا اللہ پاک اس کو اپنے سائے میں رکھے گا اور جس نے اس کو دھوکا دیا اور اللہ کے بندوں میں اس کے ساتھ دھوکا برتا اللہ پاک قیامت کے دن اس کو رسوا کردیں گے۔ ابن شاھین والا صبھانی معافی الترغیب وھو ضعیف
کلام : روایت ضعیف ہے۔

14621

14621- "حد يقام في الأرض خير من مطر أربعين صباحا". "كر عن أبي هريرة".
14621 جو حد (شرعی سزا) زمین میں (کسی مجرم پر) جاری کی جائے چالیس دن بارش برسنے سے بہتر ہے۔ ابن عساکر عن ابی ھیریرۃ

14622

14622- " حد يعمل في الأرض خير لأهل الأرض من مطر ثلاثين أو أربعين صباحا". "حم ن هـ عن أبي هريرة".
14622 زمین پر جو حد جاری کی جائے وہ اہل ارض کے لیے تیس یا چالیس دن بارش برسنے سے بہتر ہے۔ مسند احمد، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ، المشتھر 103 ۔ ضعیف النسائی 349 ۔

14623

14623- "عدل يوم أفضل من عبادة ستين سنة ". "كر عن أبي هريرة".
14623 ایک دن کا عدل ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

14624

14624- "يوم من إمام عادل أفضل من عبادة ستين سنة، وحد يقام في الأرض لحقه أزكى فيها من مطر أربعين يوما". "طب ق وإسحاق عن ابن عباس".
14624 عدل پرور حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو حد زمین پر برحق قائم کی جائے وہ چالیس دن کی بارش سے زیادہ زمین کے لیے بہتر ہے۔ الکبیر للطبرانی، البخاری، مسلم، اسحق عن ابن عباس (رض)

14625

14625- "يقال للإمام العادل في قبره: أبشر فإنك رفيق محمد". "أبو نعيم عن معاذ".
14625 عدل پرور حاکم کو اس کی قبر میں کہا جائے گا خوشخبری ہو کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفیق ہو۔ ابونعیم عن معاذ (رض)

14626

14626- "كان في بني إسرائيل ملكان أخوان على مدينتين، وكان أحدهما بارا برحمه عادلا في رعيته، وكان الآخر عاقا برحمه جائرا في رعيته وكان في عصرهما نبي فأوحى الله إلى ذلك النبي أنه قد بقي من عمر هذا البار ثلاث سنين، وبقي من عمر هذا العاق ثلاثون سنة، فأخبر ذلك النبي رعية هذا ورعية هذا، فأحزن ذلك رعية العادل، وأحزن ذلك رعية الجائر، ففرقوا بين الأطفال والأمهات وتركوا الطعام والشراب وخرجوا إلى الصحراء يدعون الله عز وجل أن يمتعهم بالعادل، ويزيل عنهم أمر الجائر، فأقاموا ثلاثا فأوحى الله إلى ذلك النبي؛ أن أخبر عبادي أني قد رحمتهم وأجبت دعاءهم فجعلت ما بقي من عمر هذا البار لذلك الجائر، وما بقي من عمر ذلك الجائر لهذا البار، فرجعوا إلى بيوتهم، ومات العاق لتمام ثلاث سنين، وبقي العادل فيهم ثلاثين سنة، ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: {وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ} " "أبو الحسن بن معرف والخطيب وابن عساكر عن عبد الصمد بن علي بن عبد الله بن عباس عن أبيه عن جده".
14626 بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے اور دونوں دو شہروں کے بادشاہ تھے۔ ایک رحم دل اور اپنی رعیت کے ساتھ انصاف برتنے والا تھا اور دوسرا سخت مزاج اور اپنی رعیت پر ظلم کرنے والا تھا۔ دونوں کے زمانے میں ایک پیغمبر خدا تھا۔ اللہ پاک نے اس پیغمبر پر وحی فرمائی کہ نیک خو بادشاہ کی عمر میں صرف تین سال رہ گئے ہیں اور سخت مزاج بادشاہ کی عمر کے تیس سال باقی ہیں۔ پیغمبر نے دونوں بادشاہوں کی رعایا کو خبر دی، اس عادل بادشاہ کی رعایا کو بھی رنج ہوا اور ظالم بادشاہ کی رعیت کو بھی (اس بات نے) رنجیدہ کیا کہ طویل عرصے تک ان کو اس کے ظلم سہنے ہوں گے۔
دونوں بادشاہوں کی رعایا نے (بھوک ہڑتال میں) بچوں کو ان کی ماؤں سے جدا کردیا، کھانا پینا ترک کردیا اور خدا سے دعا کرنے کے لیے صحراء میں نکل آئے اور خوب دعا کی عادل بادشاہ کی عمر میں اضافہ ہو اور ظالم بادشاہ سے ان کو نجات ملے۔ وہ تین دن تک اسی طرح دعاء میں مشغول رہے۔ تب اللہ پاک نے اس پیغمبر پر ورحی نازل فرمائی :
میرے بندوں کو خبر دیدو کہ میں نے ان پر رحم کردیا اور ان کی دعا قبول کرلی۔ میں نیک بادشاہ کی عمر ظالم کو دیدی اور ظالم بادشاہ کی عمر نیک کو لگا دی ہے۔
تب ساری رعایا اپنے گھروں کو (خوش وخرم) واپس ہوئی۔ ظالم بادشاہ تین سال پورے کرکے مرگیا اور نیک خو بادشاہ اپنی رعیت کے درمیان تیس سال تک زندہ رہا۔
پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الافی کتاب ان ذلک علی اللہ یسیر
کسی کی عمر بڑھائی نہیں جاتی اور نہ کسی کی عمر میں کمی کی جاتی مگر وہ کتاب میں لکھا ہے بیشک یہ اللہ پر آسان ہے۔
الوالحسن بن معرف والخطیب وابن عساکر عن عبدالصمد بن علی بن عبداللہ بن عباس عن ابیہ عن جدہ
کلام : عبدالصمد بن علی بن عبداللہ بن العباس الہاشمی ایک حاکم تھا، جو قابل حجت راوی نہیں ہے۔ شاید اہل نقدوجر جرج نے اس کے مرتبہ کی رعایت کرتے ہوئے اس کے متعلق سکوت کیا ہے۔ میزان الاعتدال 620-2 ۔

14627

14627- "ما استخلف الله عز وجل خليفة حتى يمسح ناصيته بيمينه". "ابن النجار والديلمي عن سليمان بن معقل بن عبد الله بن كعب بن مالك عن أبيه عن جده عن كعب بن مالك".
14627 اللہ عزوجل کسی کو خلیفہ منتخب نہیں کرتا جب تک کہ اس کی پیشانی پر ہاتھ نہ پھیر دے۔
ابن النجار، الدیلمی عن سلیمان بن معقل بن عبداللہ بن کعب بن مالک عن ابیہ عن جدہ عن کعب بن مالک
کلام : روایت موضوع ہے۔ ترتیب الموضوعات 888، اللآلی 154-1 ۔

14628

14628- "ما من مسلم ولي من أمر المسلمين شيئا إلا بعث الله إليه ملكين يسددانه ما نوى الحق فإذا نوى الجور على عمد وكلاه إلى نفسه". "طب عن واثلة".
14628 کوئی مسلمان مسلمانوں کے کسی معاملے کا سربراہ نہیں بنتا مگر اللہ پاک اس پر دو فرشتے مقرر فرماتا ہے جو اس کی درست راہ کی طرف رہنمائی کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ حق کی نیت رکھے ۔ اور جب وہ جان بوجھ کر ظلم کی نیت کرتا ہے تو وہ فرشتے اس کو اس کے سپرد کردیتے ہیں۔
الکبیر للطبرانی عن واثلۃ

14629

4629- "من ولاه الله من أمر المسلمين شيئا فأراد به خيرا جعل له وزير صدق، فإن نسي ذكره، وإن ذكر أعانه". "حم عن عائشة".
14629 اللہ پاک جس کو مسلمانوں کے کسی معاملے میں والی بناتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو ایک سچا وزیر دیتے ہیں، اگر وہ بھول کا شکار ہوتا ہے تو اس کا وزیر اس کو نصیحت کرتا ہے اور جب وہ درست فیصلہ کرتا ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔ مسند احمد عن عائشہ (رض)

14630

14630- "من ولي منكم عملا فأراد به خيرا جعل له وزيرا صالحا إن نسي ذكره، وإن ذكر أعانه". "ن ق عن عائشة".
14630 تم میں سے جو شخص کسی کام پر والی مقرر ہوتا ہے اور اللہ اس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو نیک وزیر عطا کرتا ہے اگر بادشاہ بھول کا شکار ہوتا ہے تو اس کا وزیر اس کو یاد دلاتا ہے اور اگر درست راہ پر گامزن رہتا ہے تو اس کا وزیر اس کی مدد کرتا ہے۔
النسائی، البخاری، مسلم عن عائشہ (رض)

14631

14631- "من ولي من أمور المسلمين شيئا فحسنت سريرته رزق الهيبة من قلوبهم، وإذا بسط يده لهم بالمعروف رزق المحبة منهم، وإذا وفر عليهم أموالهم وفر الله عليه ماله، وإذا أنصف الضعيف من القوي قوى الله سلطانه، وإذا عدل فيهم مد في عمره". "الحكيم والديلمي وابن النجار عن ابن عباس".
14631 مسلمانوں کے امور کا والی (حاکم) مقرر ہوا اور اس کا باطن اور اندرونی معاملہ اچھا ہو تو لوگوں کے دلوں میں اس کی ہیبت پڑتی ہے اور جب وہ نیکی کے ساتھ اپنے ہاتھ ان کے لیے کھولتا ہے تو اس کی حجت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوتی ہے۔
جب بادشاہ رعایا کے اموال کو رعایا پر خرچ کرتا ہے تو اللہ پاک بادشاہ کو بھی اس کے مال میں وسعت اور فراخی عطا کرتا ہے، جب بادشاہ کمزور کو ظالم سے حق دلاتا ہے تو اللہ پاک اس کی بادشاہت کو مضبوط کرتا ہے اور جب بادشاہ ان کے درمیان عدل کا برتاؤ کرتا ہے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ الحکیم والدیلمی وابن النجار عن ابن عباس (رض)

14632

14632- "أخاف على أمتي من بعدي ثلاثا: حيف الأئمة وإيمانا بالنجوم، وتكذيبا بالقدر". "ابن عساكر عن أبي محجن".
14632 اپنے بعد مجھے اپنی امت پر تین باتوں کا خوف ہے : حاکموں کا ظلم وستم، ستارہ شناسی پر ایمان رکھنا اور تقدیر کا انکار کرنا۔ ابن عساکر عن ابی محجن

14633

14633- "إذا استشاط السلطان تسلط الشيطان". "حم طب عن عطية السعدي"
14633 سلطان جب بھڑکتا ہے تو شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن عطیۃ السعدی
کلام : روایت ضعیفہ ہے ، ضعیف الجامع 356، الضعیفۃ 2318, 581 ۔

14634

14634- "أشد الناس عذابا إمام جائر". "ع طس حل عن أبي سعيد".
14634 لوگوں میں سب سے سخت عذاب والا ظالم حاکم ہوگا۔
مسند ابی یعلی، الاوسط للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابی سعید (رض)

14635

14635- "أفلحت يا قديم إن مت ولم تكن أميرا، ولا كاتبا ولا عريفا" 4. "د عن المقدام بن معد يكرب"
14635 اے قدیم : اگر تو مرگیا اس حال میں کہ کہیں کا حکم نہ تھا اور نہ منشی اور کاہن (حال بتانے والا) تو تو کامیاب ہوگیا۔ ابوداؤد عن المقدام بن معدی کرب
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابی داؤد 628، ضعیف الجامع 1055 ۔

14636

14636- "إن الله تعالى سائل كل راع عما استرعاه أحفظ ذلك أم ضيعه حتى يسأل الرجل عن أهل بيته". "ن حب عن أنس".
14636 اللہ تعالیٰ ہر راعی سے سوال کرے گا ان کے بارے میں جو اس کے ماتحت ہوں گے کہ ان کی حفاظت کی ہے یا ان کو ضائع کردیا ہے ؟ حتیٰ کہ آدمی سے اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی سوال کرے گا۔ النسائی، ابن حبان عن انس (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے سنداً : دیکھئے : ذخیرۃ الفاظ 4268، المعلۃ 23 ۔ جبکہ متنا یعنی حدیث کا مضمون صحیح اور درست ہے اور دوسری صحیح روایات سے موید ہے۔

14637

14637- "إن الله سائل كل راع عما استرعاه رعية قلت أو كثرت، حتى يسأل الزوج على زوجته والوالد عن ولده والرب عن خادمه هل أقام فيهم أمر الله". "ابن عساكر عن أبي هريرة".
14637 اللہ تعالیٰ ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کرے گا خواہ وہ رعیت چند نفوس پر مشتمل ہو یا کثیر افراد اس میں شامل ہوں حتیٰ کہ اللہ پاک شوہر سے اس کی بیوی کے بارے میں والد سے اس کی اولاد کے بارے میں اور مالک سے اس کے خادم کے بارے میں بھی باز پرس فرمائے گا کہ کیا ان میں اللہ کے حکم کو نافذ کیا ہے یا نہیں ؟ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

14638

14638- "إن الولاة يجاء بهم يوم القيامة فيقومون على جسر جهنم، فمن كان مطواعا لله يناوله الله بيمينه حتى ينجيه، ومن كان عاصيا لله انخرق به الجسر إلى واد من نار يلتهب التهابا". "ش والبارودي وابن منده عن بشر بن عاصم".
14638 حاکموں کو قیامت کے دن لایا جائے گا وہ جہنم کے پل پر کھڑے ہوں گے۔ پس جو اللہ کی اطاعت گزار ہوگا اللہ پاک اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ جہنم سے نجات دلادے گا اور جو اللہ کا نافرماں ہوگا پل اس کے نیچے سے شق ہوگا اور وہ نافرماں جہنم کے بھڑکتے شعلوں کی وادی میں جاگرے گا۔ ابن ابی شیبہ ، الباوردی وابن مندہ عن بشربن عاصم

14639

14639- " إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم، أو كدت تفسدهم". "د عن معاوية".
14639: اگر تو لوگوں کے عیوب کے پیچھے پڑے گا تو ان کو برباد کردے گا یا بربادی کے دھانے پر پہنچا دے گا۔ ابو داؤد عن معاویۃ (رض) ۔

14640

14640- "إنما الإمام العادل جنة يقاتل به من وراءه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل، فإن له أجرا، وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا". "ق ن عن أبي هريرة".
14640 امام (حاکم وقت) ایسی ڈھال ہے جس کی آڑ میں اسے جنگ کی جاتی ہے اور اگر اس کے علاوہ حکم کرے تو اس پر اس کا وبال ہے۔ البخاری، مسلم، النسائی عن ابوہریرہ (رض)

14641

14641- "ألا أخبركم بخيار أمرائكم وشرارهم؟ خيارهم الذين تحبونهم ويحبونكم وتدعون لهم ويدعون لكم، وشرار أمرائكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم". "ت عن عمر".
14641 کیا میں تم کو تمہارے بہترین حاکموں اور بدترین حاکموں کی خبر نہ دوں ؟ بہترین حاکم وہ لوگ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت رکھیں اور تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں، اور تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھو اور تم سے نفرت کریں اور تم ان کو لعنت کرو اور وہ تم کو لعنت کریں۔ الترمذی عن عمر (رض)

14642

14642- "يوشك رجل أن يتمنى أنه خر من الثريا ولم يل من أمر الناس شيئا". "ك عن أبي هريرة".
14642 قریب ہے کہ آدمی یہ تمنا کرے گا کہ وہ ثریا سے گرجائے لیکن لوگوں کے کسی معاملے کا والی (حاکم) نہ بنے۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض) ، ضحیح ورافقۃ الذھبی

14643

14643- "ما من إمام ولا وال بات ليلة سوداء غاشا لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة وعرفها يوجد يوم القيامة من مسيرة سبعين سنة". "طب عن عبد الله بن مغفل".
14643 کوئی امام یا حاکم ایسا نہیں جو کسی رات کو تاریک اور اپنی رعیت کے لیے دھوکا دینے والی بسر کرے مگر اللہ پاک اس پر جنت حرام کر دے گا جبکہ جنت کی خوشبو اور مہک قیامت کے دن ستر سال کی مسافت سے آئے گی۔ الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن مغفل
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5149 ۔

14644

14644- "ما من أمير يلي أمر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة". "م عن معقل بن يسار". كتاب الإمارة.
14644 کوئی امیر ایسا نہیں جو مسلمانوں کا امیر ہو پھر ان کے لیے محنت ومشقت کرے اور ان کے لیے خیر خواہی کرے مگر وہ ان کے ساتھ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ مسلم عن معقل بن ہسار

14645

14645- "من ولي من أمور المسلمين شيئا فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم وفاقتهم احتجب الله عنه يوم القيامة دون خلته وحاجته وفاقته وفقره". "د هـ ك عن أبي مريم الأزدي".
14645 جو مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا والی ہو پھر ان کی ضرورت اور فقروفاقے سے غافل رہے تو اللہ پاک بھی قیامت والے دن اس کے فقروفاقے اور اس کی ضرورت سے غافل رہے گا۔ ابوداؤد، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن ابی مریم الازدی

14646

14646- "يا أبا ذر إني أراك ضعيفا وإني أحب لك ما أحب لنفسي لا تتأمرن على اثنين ولا تولين مال اليتيم". "م د ت عن أبي ذر 3.
14646 اے ابوذر ! میں تجھے ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تیرے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں پس کبھی تو دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بننا اور نہ کسی یتیم کا مال کا سرپرست بننا۔
مسلم، ابوداؤد ، الترمذی عن ابی ذر (رض)

14647

14647- "يا أبا ذر إنك ضعيف وإنها أمانة وإنها يوم القيامة خزي وندامة إلا من أخذ بحقها وأدى الذي عليه فيها". "م عن أبي ذر" 4.
14647 اے ابوذر ! تو ضعیف ہے، اور یہ امانت ہے اور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہوگی سوائے اس شخص کے جو اس کو حق کے ساتھ لے اور اس کا حق ادا کرے گا۔ مسلم عن ابی ذر (رض)

14648

14648- "يا عبد الرحمن بن سمرة: لا تسأل الإمارة فإنك إذا أوتيتها عن مسألة وكلت إليها، وإن أوتيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير". "حم ق عن عبد الرحمن بن سمرة".
14648 اے عبدالرحمن بن سمرۃ کبھی امارت کا سوال نہ کر کیونکہ اگر تیری خواہش اور مانگنے پر آکر تجھے امارت سپرد ہوئی تو تجھے (بےیارومدد گار) اس کے حوالے کردیا جائے گا اور اگر بغیر سوال کئے تجھے امارت سونپی گئی تو تیری مدد ہوگی۔ اور جب تو کسی بات پر قسم کھالے پھر اس کے خلاف کرنا تجھے مناسب محسوس ہو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دینا اور وہ کام کرنا جو صحیح اور بہتر ہو۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی عن عبدالرحمن بن سمرہ

14649

14649- "إن الله تعالى لا يقدس أمة لا يعطون الضعيف منهم حقه". "طب عن ابن مسعود".
14649 اللہ تعالیٰ اسی امت کو مقدس اور پاک نہیں کرتے جو اپنے کمزور کو اس کا حق نہ دیتے ہوں۔ الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

14650

14650- "إن الإمام العادل إذا وضع في قبره ترك على يمينه، فإذا كان جائرا نقل من يمينه على يساره". "ابن عساكر عن عمر بن عبد العزيز بلاغا".
14650 عدل پسند حاکم کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کو دائیں کروٹ ہی پر رہنے دیا جاتا ہے اور اگر وہ ظلم وستم ڈھاتا ہو تو اس کو داہنی کروٹ سے بائیں کروٹ پر کردیا جاتا ہے۔
ابن عساکر، عن عمر بن عبدالعزیز بلاغا
کلام : روایت ضعیف ہے دیکھئے ضعیف الجامع 1416 ۔

14651

14651- "إنكم ستحرصون على الإمارة وإنها ستكون ندامة وحسرة يوم القيامة فنعمت المرضعة وبئست الفاطمة". "خ ن عن أبي هريرة".
14651 تم عنقریب امارت (حکومت) کی خواہش کرو گے۔ جبکہ قیامت کے دن یہ ندامت اور حسرت کا باعث ہوگی پس دودھ پلانے والی بہتر ہے اور دودھ چھڑانے والی بری ہے۔
البخاری، النسائی عن ابوہریرہ (رض)
فائدہ : دودھ پلانے والی بہتر ہے یعنی جو لوگ ایسے فتنے کے زمانے میں کم سنی یا کبر سنی کی وجہ سے باہر کے فسادات سے محفوظ رہیں ان کو خطرات سے حفاظت ہے اور یہ ان کے لیے بہتر ہی ہے، جبکہ بلوغت کو پہنچ گئے اور حکومت طلبی کے فسادات کا حصہ بن گئے ان کے خطرات ہیں اور یہ ان کے لیے بہت برا ہے۔

14652

14652- "إن شئتم أنبأتكم عن الإمارة وما هي؟ أولها ملامة، وثانيها ندامة، وثالثها عذاب يوم القيامة إلا من عدل". "طب عن عوف بن مالك".
14652 اگر تم چاہو تو میں تم کو امارت کے بارے میں بتاؤں کہ وہ کیا ہے ؟ امارت کا پہلا ملامت ہے۔ دوسرا ندامت ہے اور تیسرا قیامت کے دن عذاب ہے مگر وہ جو شخص عدل کرے۔
الکبیر للطبرانی عن عوف بن مالک

14653

14653- "أيما رجل استعمل رجلا على عشرة أنفس علم أن في العشرة أفضل ممن استعمل فقد غش الله وغش رسوله وغش جماعة المسلمين". "ع عن حذيفة".
14653 جو شخص کسی کو دس جانوں پر بھی امیر بنائے اور اس کو یہ علم ہو کہ ان دس افراد میں کوئی اس امیر سے بہتر ہے تو بیشک اس نے اللہ کے ساتھ دھوکا کیا اس کے رسول کے ساتھ دھوکا کیا اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ دھوکا کیا۔ مسند ابویعلی عن حذیفہ
کلام : روایت محل کلام ہے ضعیف الجامع 2232 ۔

14654

14654- "أيما امرئ ولى من أمر المسلمين ولم يحطهم بما يحوط به نفسه لم يرح رائحة الجنة". "عق عن ابن عباس".
14654 جو شخص مسلمانوں کا امیر بنے اور ان کی حفاظت نہ کرے ان چیزوں سے جن سے اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے تو وہ امیر جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ العقیلی فی الضعفاء عن ابن عباس
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2220 ۔

14655

14655- "أيما وال ولى من أمر المسلمين شيئا وقف به على جسر جهنم فيهتز به الجسر حتى يزول كل عضو". "ابن عساكر عن بشر بن عاصم".
14655 جو والی مسلمانوں کے کسی امر کا والی بنے اس کو جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا پل اس کو ہلائے گا حتیٰ کہ اس کا ہر عضو ڈگمگا جائے گا۔ ابن عساکر عن بشر بن عاصم
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 2256، الضعیفۃ 2269 ۔

14656

14656- "أيما راع غش رعيته فهو في النار". "ابن عساكر عن معقل بن يسار".
14656 جو راعی اپنی رعیت کو دھوکا دے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ ابن عساکر عن معقل بن یسار

14657

14657- "من أخون الخيانة تجارة الوالي في رعيته". "طب عن رجل".
14657 خیانتوں میں بدترین خیانت حاکم کا رعایا کے اندر (ذاتی) تجارت اور کاروبار کرنا ہے۔ الکبیر الطبرانی عن رجل
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5280 ۔

14658

14658- "أيما وال ولى أمر أمتي من بعدي أقيم الصراط ونشرت الملائكة صحيفته فإن كان عادلا نجاه الله بعدله وإن كان جائرا انتفض به الصراط انتفاضة تزايل بين مفاصله حتى يكون بين عضوين من أعضائه مسيرة مائة عام، ثم ينخرق به الصراط، وأول ما يتقي به النار أنفه وحر وجهه". "أبو القاسم ابن بشران في أماليه عن علي عب حل عن أبي أمامة".
14658 جو والی میری امت کا میرے بعد والی بنا اس کو پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا ملائکہ اس کے اعمال نامے کو کھولیں گے اگر وہ عادل ہوگا تو اللہ پاک اس کو اس کے عدل کی وجہ سے نجات عطا فرمائے گا اور اگر وہ ظالم ہوگا تو پل صراط اس کو ایسا جھٹکا دے گا کہ اس کا ہر عضو ایسا کھلے گا کہ ہر دو عضو کے درمیان سو سال کی مسافت بڑھ جائے گی پھر پل صراط اس کے نیچے سے شق ہوجائے گا اور جہنم کی آگ میں سب سے پہلے اس کی ناک اور اس کا چہرہ جلے گا۔
ابوالقاسم بن بشر ان فی امالیہ عن علی، الجامع لعبد الرزاق حلیۃ الاولیاء عن ابی امامۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2253، الضعیفۃ 2270 ۔

14659

14659- "أيما راع لم يرحم رعيته حرم الله عليه الجنة". "خيثمة الأطرابلسي في جزئه عن أبي سعيد".
14659 جو راعی (حاکم) اپنی رعیت پر رحم کرے اللہ پاک اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں۔
خیثمۃ الطبرابلسی فی جزنہ عن ابی سعید (رض)
کلام : ضعیف الجامع 3396 ۔

14660

14660- "شر قتيل بين صفين أحدهما يطلب الملك". "طس عن جابر".
14660: بدترین مقتول وہ ہے جو ایسی دو جنگی صفوں کے درمیان مارا جائے جن میں سے کسی ایک صف والے حکومت کے طلب گار ہوں۔ الاوسط للطبرانی عن جابر (رض)۔

14661

14661- " صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي: إمام ظلوم غشوم، وكل غال مارق". "طب عن أبي أمامة".
14661 میری امت میں دو قسموں کے لوگ ہرگز میری شفاعت حاصل نہ کرسکیں گے ظالم اور جابر حکمران اور دوسرا ہر خیانت باز اور دین سے نکل جانے والا گمراہ شخص۔
الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)

14662

14662- " أيما راع استرعي رعية فلم يحطها بالأمانة والنصيحة ضاقت عليه رحمة الله التي وسعت كل شيء". "خط عن عبد الرحمن بن سمرة".
14662 ہر راعی (حاکم) جس سے رعایا کی حفاظت کا سوال کیا جائے لیکن وہ ان کی حفاظت نہ کرے امانت داری اور خیر خواہی کے ساتھ تو اس پر اللہ کی رحمت بھی تنگ ہوجائے گی حالانکہ وہ ہر چیز کے لیے وسیع رحمت ہے۔ الخطیب، فی التاریخ عن عبدالرحمن بن سمرہ
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2230 ۔

14663

14663- "أيما وال ولي فلان ورفق رفق الله تعالى به يوم القيامة". "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب عن عائشة".
14663 جو والی کسی والی بنے اور اس پر نرمی کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر نرمی کرے گا۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب، عن عائشہ (رض)

14664

14664- "أيما وال ولي شيئا من أمر أمتي فلم ينصح لهم ويجتهد لهم كنصيحته وجهده لنفسه كبه الله على وجهه يوم القيامة في النار". "طب عن معقل بن يسار".
14664 جو شخص میری امت کے کسی امر کا والی بنے لیکن ان کے لیے خیر سگالی کا جذبہ نہ رکھے اور ان کے لیے ایسی کوشش نہ کرے جیسی وہ اپنے لیے کرتا ہے اور اپنے لیے خیر خواہی رکھتا ہے تو اللہ پاک قیامت کے روز اس کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔ الکبیر للطبرانی عن معقل بن یسار
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2254 ۔

14665

14665- "الإمام الضعيف ملعون". "طب عن ابن عمر".
14665 کمزور حاکم ملعون (لعنت کا مستحق) ہے۔ جو ظالم کو ظلم سے نہ روک سکے اور کمزور کو اس کا حق نہ دلا سکے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2292 ۔

14666

14666- "يكون أمراء يقولون ولا يرد عليهم يتهافتون في النار يتبع بعضهم بعضا". "طب عن معاوية".
14666 ایسے امراء آئیں گے جو (بلند بانگ) دعوے کریں گے لیکن ان کو پورا نہ کریں گے وہ (پتوں کے گرنے کی طرح) جہنم میں ایک دوسرے کے پیچھے پے درپے گریں گے۔
الکبیر للطبرانی عن معاویۃ (رض)

14667

14667- "ستفتح مشارق الأرض ومغاربها على أمتي ألا وعمالها في النار إلا من اتقى الله وأدى الأمانة". "حل عن الحسن مرسلا".
14667 عنقریب میری امت پر زمین کے مشرق ومغرب کھل جائیں گے خبردار ! ان کے حکمران جہنم میں ہوں گے سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈریں اور امانت کو ادا کریں۔
حلیۃ الاولیاء عن الحسن مرسلاً
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3253، الضعیفۃ 2153 ۔

14668

14668- "كل راع مسؤول عن رعيته". "خط عن أنس".
14668 ہر راعی (سرپرست) سے اپنی رعیت (ماتحتوں) کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
الخطیب فی التاریخ عن انس (رض)

14669

14669- "كل نفس من بني آدم سيد، فالرجل سيد أهله، والمرأة سيدة بيتها". "ابن السني في عمل يوم وليلة عن أبي هريرة".
14669 بنی آدم کا ہر انسان سردار ہے، آدمی اپنے اہل و عیال کا سردار ہے اور عورت اپنے گھر کی سردار ہے۔ ابن انس فی عمل یوم ولیلۃ عن ابوہریرہ (رض)

14670

14670- "كلكم مسؤول عن رعيته؛ فالإمام راع وهو مسؤول عن رعيته، والرجل راع في أهله وهو مسؤول عن رعيته والمرأة راعية في بيت زوجها وهي مسؤولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده وهو مسؤول عن رعيته، والرجل راع في مال أبيه وهو مسؤول عن رعيته، وكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته". "حم ق د ت عن ابن عمر".
14670 تم میں سے ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا امام راعی (نگہبان) ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، آدمی اپنے گھر کا راعی ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ، عورت اپنے شوہر کے گھر میں راعی ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، آدمی اپنے باپ کے مال میں بھی راعی ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، الغرض تم میں سے ہر شخص راعی ہے (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت (ماتحت) کے بارے میں سوال ہوگا۔
مسند احمد، البخاری، مسلم ، ابوداؤد، الترمذی عن ابن عمر (رض)

14671

14671- "لست أخاف على أمتي غوغاء تقتلهم ولا عدوا يجتاحهم، ولكني أخاف على أمتي أئمة مضلين إن أطاعوهم فتنوهم، وإن عصوهم قتلوهم". "طب عن أبي أمامة".
14671 مجھے اپنی امت پر ایسے سرکش حاکم کا خوف نہیں جو ان کو قتل کردے نہ ایسے دشمن کا جو ان کو جڑ سے اکھیڑ دے، بلکہ مجھے اپنی امت پر ایسے گمراہ حاکموں کا خوف ہے کہ اگر مسلمان ان کی اطاعت کریں تو وہ ان کو گمراہ کردیں اور اگر ان کی نافرمانی کریں تو ان کو قتل کریں۔
الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 4671 ۔

14672

14672- " لكل آفة تفسده، وآفة هذا الدين ولاة السوء". "الحارث عن ابن مسعود".
14672 ہر چیز کے لیے ایک آفت ہے جو اس کو خراب کردیتی ہے اور اس دین کی آفت برے حاکم ہیں۔ الحارث عن ابن مسعود (رض)

14673

14673- "لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة". "حم خ ت هـ عن أبي بكرة".
14673 ایسی قوم ہرگز فلاں نہیں پاسکتی جو اپنے معاملے کا بڑا عورت کو کردیں۔
مسند احمد ، البخاری، الترمذی، ابن ماجہ عن ابی بکرۃ (رض)

14674

14674- "ليتمنين أقوام ولوا هذا الأمر أنهم خروا من الثريا وأنهم لم يلوا شيئا". "حم عن أبي هريرة".
14674 بہت سے لوگ جن کو حکومت عطا کی گئی ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کاش وہ ثریا ستارے سے نیچے گرجاتے لیکن ان کو یہ حکومت سپرد نہ ہوتی۔ مسند احمد عن ابوہریرہ (رض)

14675

14675- "ليودن رجل أنه خر من عند الثريا وأنه لم يل من أمر الناس شيئا". "الحارث ك عن أبي هريرة". ومر برقم [14642] .
14675 آدمی یہ خواہش کرے گا کہ وہ ثریا سے نیچے گر جاتا لیکن لوگوں کی حکومت میں سے کسی معاملے کا والی نہ بنتا۔ الحارث، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

14676

14676- "ما عدل وال اتجر في رعيته". "الحاكم في الكنى عن رجل".
14676 جس حاکم نے اپنی رعایا میں (ذاتی) کاروبار کیا وہ کبھی انصاف پر ورنہ ہوگا۔
الحاکم فی الکنی عن رجل
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5107 ۔

14677

14677- "ما من أحد يؤمر على عشرة فصاعدا [لا يقسط فيهم] إلا جاء يوم القيامة في الأصفاد والأغلال". "ك عن أبي هريرة" 1.
14677 جو شخص دس یا دس سے زائد پر امیر بنا اور ان میں عدل نہ کیا تو قیامت کے دن زنجیروں اور طوقوں میں جکڑا ہوا آئے گا۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض) ، قال الحاکم صحیح اسناد وافقہ الذھبی

14678

14678- "ما من أحد يكون على شيء من أمور هذه فلا يعدل فيهم إلا كبه الله تعالى في النار". "ك عن معقل بن سنان".
14678 جو شخص کسی کام میں امیر بنا پھر اس نے انصاف نہ کیا تو اس کو اللہ پاک جہنم میں منہ کے بل گرادے گا۔ مستدرک الحاکم عن معقل بن سنان
کلام : ضعیف الجامع 5144 ۔

14679

14679- "ما من إمام أو وال يغلق بابه دون ذوي الحاجة والخلة والمسكنة إلا أغلق الله أبواب السماء دون خلته وحاجته ومسكنته". "حم ت عن عمرو بن مرة"
14679 جس حاکم یا والی کا دروازہ حاجت مندوں مسکینوں اور دوست احباب کے لیے بند ہو اللہ پاک بھی اس کی حاجت روائی کا دروازہ بند فرما دیتے ہیں۔
مسند احمد، الترمذی عن عمرو بن مرۃ، قال الترمذی غریب

14680

14680- "ما من أمير عشرة إلا وهو يؤتي به يوم القيامة مغلولا حتى يفكه العدل أو يوبقه الجور". "هق عن أبي هريرة".
14680 جو دس آدمیوں پر بھی امیر ہوگا اس کو قیامت کے دن جکڑا ہوا پیش کیا جائے گا حتیٰ کہ عدل اس کو چھڑائے گا یا ظلم وستم اس کو ہلاک کرے گا۔ السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)

14681

14681- "ما من أمير عشرة إلا يؤتى به يوم القيامة ويده مغلولة إلى عنقه". "هق عن أبي هريرة".
14681 جو دس آدمیوں پر بھی حاکم ہوگا اس کو قیامت کے دن اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوں گے۔ السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)

14682

14682- "ما من أمير يؤمر على عشرة إلا سئل عنهم يوم القيامة". "طب عن ابن عباس".
14682 جو شخص دس آدمیوں پر بھی امیر ہوگا قیامت کے دن اس سے ان کے بارے میں سوال پوچھ گچھ کی جائے گی۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ذخیرہۃ الحفاظ 4868، ضعیف الجامع 5156 ۔

14683

14683- "ما من حاكم يحكم بين الناس إلا يحشر يوم القيامة وملك آخذ بقفاه حتى يقفه على جهنم، ثم يرفع رأسه إلى الله تعالى؛ فإن قال الله تعالى ألقه ألقاه في مهوى أربعين خريفا". "حم هق عن ابن مسعود".
14683 جو حاکم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے اس کو قیامت کے دن اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اس کو گردن سے پکڑے ہوئے ہوگا حتیٰ کہ اس کو جہنم کے پل پر کھڑا کردے گا پھر فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سر اٹھائے گا۔ اللہ پاک نے فرمایا : اس کو ڈال دو تو وہ فرشتہ اس کو چالیس سال کی گہرائی میں گرادے گا۔ مسند احمد، السنن للبیہقی عن مسعود (رض)
کلام : ضعیف ابن ماجہ 508 ۔ ضعیف الجامع 5166 ۔

14684

14684- "ما من رجل يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا أتى الله مغلولا يده إلى عنقه فكه بره، أو أوثقه إثمه، أولها ملامة، وأوسطها ندامة، وآخرها خزي يوم القيامة". "حم عن أبي أمامة".
14684 جو دس یا دس سے زائد آدمیوں پر والی بنا اس کو اللہ پاک کے سامنے گردن میں بندے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ پیش کیا جائے گا پھر اس کی نیکی اس کو چھڑائے یا اس کا گناہ اس کو باندھے گا۔ حکومت کا اول ملامت ہے، درمیان ندامت ہے اور آخر قیامت کے دن رسوائی ہے۔
مسند احمد ، عن ابی مامۃ (رض)

14685

14685- "ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة". "ق عن معقل بن يسار".
14685 جس بندے کو اللہ نے کوئی رعیت سونپی اور وہ ایسے دن مرا کہ اس دن اس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکا کیا تو اللہ پاک اس پر جنت حرام کردے گا۔ البخاری، مسلم عن معقل بن یسار

14686

14686- "من احتجب عن الناس لم يحجب عن النار". "ابن منده عن رباح".
14686 جو (حاکم) لوگوں سے چھپا رہا وہ جہنم کی آگ سے نہ چھپ سکے گا۔ بن مندہ عن رباح
کلام : ضعیف الجامع 5345 ۔

14687

14687- "من استعمل رجلا من عصابة وفيهم من هو أرضى لله منه فقد خان الله ورسوله والمؤمنين". "ك عن ابن عباس"
14687 جس نے کسی جماعت میں سے ایک شخص کو ان پر حاکم بنایاجب کہ انہی میں ایسا شخص بھی تھا جو اس سے زیادہ اللہ کو راضی کرنے والا تھا تو انتخاب کرنے والے نے اللہ سے اس کے رسول سے اور مومنوں سے خیانت برتی۔ مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5401، النافلۃ 81 ۔ مذکورہ کتب میں اس روایت پر کلام کیا گیا ہے جبکہ امام حاکم (رح) نے اس کو صحیح الاسناد فرمایا اور امام ذہبی (رح) نے اس پر سکوت فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب

14688

14688- "من ولى شيئا من أمور المسلمين لم ينظر الله في حاجته حتى ينظر في حوائجهم". "طب عن ابن عمر".
14688 جو مسلمانوں کے امور کا والی بنا اللہ پاک اس کی ضروریات میں نظر نہ کرے گا جب تک کہ وہ رعایا کی ضروریات میں نظر نہ کرے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5882 ۔

14689

14689- "ويل للوالي من الرعية إلا واليا يحوطهم من ورائهم بالنصيحة". "الروياني عن عبد الله بن معقل".
14689 والی کو رعیت کی طرف سے ہلاکت کا اندیشہ ہے ہاں مگر وہ والی جو ان کی حفاظت اور خیر خواہی کا اہتمام رکھے۔ الرویانی عن عبداللہ بن معقل
کلام : ضعیف الجامع 6144 ۔

14690

14690- "لا خير في الإمارة لرجل مسلم". "حم عن حبان بن بح الصدائي"
14690 مسلمان آدمی کے لیے امارت میں کوئی خیر نہیں ہے۔ مسند احمد عن حبان بن بح الصداتی
کلام : روایت ضعیف ہے ضعیف الجامع 6288، روایت کی سند میں ابن لہیعہ مدلس ہے۔

14691

14691- "خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم". "م عن عوف بن مالك".
14691 تمہارے بہترین حاکم وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بدترین حاکم وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں اور تم ان پر لعن طعن کرو اور وہ تم پر لعن طعن کریں۔ مسلم عن عوف بن مالک

14692

14692- "إن شر الرعاء الحطمة" 1. "حم م عن عائذ بن عمرو"
14692 بدترین راعی (حاکم) ماردھاڑ کرنے والے ہیں۔ مسند احمد، مسلم عن عائذبن عمرو

14693

14693- "إن الإمام العادل إذا وضع في قبره ترك على يمينه، فإن كان جائرا نقل من يمينه على يساره". "كر عن عمر بن عبد العزيز قال: بلغني عن النبي صلى الله عليه وسلم فذكره، وإسناده ضعيف".
14693 عدل پسند حکمران کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کو اپنی پشت پر یعنی دائیں کروٹ پر رہنے دیاجاتا ہے لیکن اگر وہ ظلم وستم روا رکھنے والا ہوتا ہے تو اس کو دائیں کروٹ سے بائیں کروٹ پر کردیاجاتا ہے۔ ابن عساکر عن عمر بن عبدالعزیز
کلام : خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت پہنچی ہے۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 1416 ۔

14694

14694- "إن أخونكم عندنا من طلبه يعني العمل". "حم د عن أبي موسى".
14694 ہمارے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ خیانت والا شخص وہ ہے جو حکومت کو طلب کرے۔ مسند احمد عن ابی موسیٰ (رض)

14695

14695- "إن شر الرعاء الحطمة". "م عن عائذ بن عمرو".
14695 بدترین راعی (حاکم) غضبناک لوگ ہیں۔ مسلم عن عائذ بن عمرو

14696

14696- "إن شئتم أنبئتكم عن الإمارة وما هي، أولها ملامة، وثانيها ندامة، وثالثها عذاب يوم القيامة إلا من عدل وليس يعدل مع أقاربه". "طب وأبو سعيد النقاش في القضاة عن عوف بن مالك، وفيه زيد بن واقد وثقه أبو حاتم وضعفه أبو ذرعة عن بشر بن عبد الله وهو منكر الحديث".
14696 اگر تم چاہو تو میں تم کو امارت کے بارے میں بتاؤں کہ وہ کیا ہے ؟ امارت (حکومت) کا اول ملامت ہے، دوم ندامت ہے اور سوم قیامت کے دن عذاب ہے سوائے اس شخص کے جو عدل کرے لیکن اپنے رشتہ داروں کے ساتھ عدل نہ کرے۔
الکبیر للطبرانی، ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن عوف بن مالک
کلام : اس روایت میں ایک راوی زید بن واقد ہے جس کو ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے اور ابودارعہ نے اس کی تضعیف فرمائی ہے بشر بن عبداللہ سے روایت کرنے میں اور بشر منکر الحدیث ہے۔ اس لیے اجمالاً روایت ضعیف کے حوالے سے محل کلام ہے۔

14697

14697- "إن قوما كانوا أهل ضعف ومسكنة قاتلهم أهل تجبر وعداوة فأظهرهم الله عليهم يعني أهل الضعف فعمدوا إلى أهل التجبر هم عدوهم، فاستعملوهم وسلطوهم فأسخطوا الله عليهم إلى يوم القيامة". "حم ع وابن مردويه ص عن حذيفة".
14697 ایک قوم ضعیف اور مسکین لوگوں کی تھی، ایک سرکش اور دشمن قوم نے ان کے ساتھ جنگ کی لیکن اللہ پاک نے کمزور مسکینوں کو غالب اور فتح مند کردیا، کمزور لوگوں نے انہی سرکشوں کو اپنا امیر اور سربراہ بنایا جس کی وجہ سے ان مسکینوں نے بھی قیامت تک کے لیے اللہ کو اپنے اوپر ناراض کرلیا۔ مسند احمد، مسند ابی یعلی ، ابن مردویہ السنن لعبد بن منصور عن حذیفہ (رض)

14698

14698- "إن من أخون الخيانة تجارة الوالي في رعيته". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن أبي الأسود المالكي عن أبيه عن جده".
14698 سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ حاکم اپنی رعایا کے ساتھ کاروبار کرے۔
ابوسعید النقاش فی الفضاۃ عن ابی الاسود امال کی عن ابیہ عن جدہ

14699

14699- "إنه سيفتح لكم مشارق الأرض ومغاربها، وإن عمالها في النار إلا من اتقى الله وأدى الأمانة". "حم عن رجل من محارب".
14699 عنقریب زمین کے مشرق ومغرب کو تم فتح کرو گے۔ اس وقت کے حاکم جن ہم میں ہوں گے ہاں مگر وہ حاکم جو اللہ سے ڈریں اور امانت ادا کرتے رہیں۔ مسند احمد عن رجل من محارب

14700

14700- "أول الإمارة ملامة، وثانيها ندامة، وثالثها عذاب من الله يوم القيامة إلا من رحم وبذل وقال بيده هكذا وهكذا بالمال وكيف يعدل مع ذوي القربى". "طب عن شداد بن أوس".
14700 امارت کا اول ملامت ہے، ثانی ندامت ہے اور ثالث قیامت کے دن اللہ کی طرف سے عذاب ہے۔ ہاں مگر جو شخص رحم کرے اور یوں یوں خرچ کرے اور وہ رشتہ داروں کے ساتھ پھر بھی کیسے عدل کرسکے گا۔ الکبیر للطبرانی عن شداد بن اوس

14701

14701- "يا أبا ذر إنك ضعيف وإنها أمانة وإنها يوم القيامة خزي وندامة إلا من أخذ بحقها وأدى الذي عليه فيها". "ط ش م وابن سعد وابن خزيمة وأبو عوانة، ك عن أبي ذر قال: قلت يا رسول الله ألا تستعملني قال فذكره".
14701 اے ابوذر ! کمزور ہو اور یہ امانت ہے اور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے ہاں مگر جو شخص اس (حکومت) کا حق ادا کرے اور اس پر جو امانت عائد ہو اس کو ادا کرے۔ ابوداؤد، ابن ابی شیبہ، مسلم ، ابن سعد، ابن خزیمہ، ابوعوانہ، مستدرک الحاکم عن ابی ذر (رض)
فائدہ : حضرت ابوذر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ مجھے عامل کیوں نہیں بناتے (حکومت کا کوئی عہدہ کیوں سپرد نہیں کرتے) تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

14702

14702- "لا يحرص أحد على الإمارة فيعدل". "الديلمي عن ابن عباس".
14702 کوئی شخص امارت کی حرض نہ کرے اور حکومت کے حصول کے بعد عدل کرنے کا دعویٰ نہ کرے۔ الدیلمی عن ابن عباس (رض)

14703

14703- "أول من يدخل النار سلطان مسلط لم يعدل في سلطانه أطغاه كبره وأبطرته قدرته". "ك في تاريخه والديلمي عن أنس".
14703 جہنم میں سب سے پہلے جو شخص داخل ہوگا وہ زبردستی مسلط ہونے والا بادشاہ ہے وہ اپنی بادشاہت میں عدل نہ کرے اس کی بڑائی اس کو سرکش کردے اور اس کی طاقت اس کو اکڑفوں بنادے۔ التاریخ للحاکم، الدیلمی عن انس (رض)

14704

14704- "ألا أخبركم بخيار عمالكم وشرارهم؟ خيارهم خيارهم لكم من تحبونهم ويحبونكم وتدعون الله لهم ويدعون الله لكم، وشرارهم شرارهم لكم من تبغضونهم ويبغضونكم وتدعون الله عليهم ويدعون الله عليكم، قالوا: أفلا نقاتلهم يا رسول الله؟ قال: لا، دعوهم ما صاموا وصلوا". "طب عن عقبة بن عامر".
14704 کیا میں تم کو تمہارے اچھے اور برے حکام نہ بتاؤں ؟ بہترین حاکم وہ ہیں جن سے تم محبت رکھو اور وہ تم سے محبت رکھیں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے اللہ سے دعا کریں، اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں، تم ان کو بددعا دو اور وہ تم کو بددعا دیں، صحابہ (رض) نے عرض کیا، یارسول اللہ ! تو کیا ہم ایسے حاکموں سے قتال نہ کریں ؟ ارشاد فرمایا : نہیں، جب تک وہ نماز روزہ کرتے رہیں ان کو چھوڑ دو ۔ الکبیر للطبرانی، عن عقبہ بن عامر

14705

14705- "إياكم والإقراد يكون أحدكم أميرا أو عاملا فتأتي الأرملة واليتيم والمسكين فيقال: اقعد حتى ننظر في حاجتك فيتركون مقردين لا تقضى لهم حاجة ولا يؤمروا فينفضوا ، ويأتي الرجل الغني الشريف فيقعده إلى جانبه ثم يقول: ما حاجتك فيقول: حاجتي كذا وكذا، فيقول: اقضوا حاجته وعجلوا". "حل عن أبي هريرة"
14705 (حکام کے سامنے) خاموشی اختیار نہ کرو۔ کوئی امیر ہو یا کہیں کا گورنر، اس کے پاس فقیر اور حاجت مند لوگ آئیں تو ان کو کہا جائے بیٹھ جاؤ ہم تمہاری حاجت اور ضرورت میں غور کریں گے۔ پھر ان کو خاموش ایک طرف چھوڑ دیا جائے ، ان کی حاجت پوری کی جائے اور نہ ان کے لیے کوئی حکم دیا جائے، کہ وہ اپنی راہ لگیں جبکہ ایسے امیر کے پاس کوئی مالدار سربرآور دہ آئے تو امیر اس کو اپنے پاس بٹھائے اور کہے تمہارا کیا مسئلہ ہے ؟ اور وہ اپنے مسائل گنوائے تو امیر حکم دیدے کہ اس کی حاجت پوری کرو اور جلدی کرو۔ حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ (رض)

14706

14706- "الإمارة باب عنت إلا من رحمه الله". "ش عن خيثمة، مرسلا".
14706 امارت و حکومت تباہی کا دروازہ ہے مگر جس پر اللہ رحم کرے۔
ابن ابی شیبہ عن خیثمہ مرسلاً

14707

14707- "شر الرعاء الحطمة". "حم وأبو عوانة حب طب عن عائذ بن عمرو المزني". ومر برقمين [1469و 14695] .
14707 بدترین راعی (حاکم) تیز غصے والے غضبناک لوگ ہیں۔
مسند احمد ، ابوعوانۃ، ابن حبان، الکبیر للطبرانی عن عائذ بن عمرو المزنی
کلام : الجد ابحثیت 184 ۔

14708

14708- "صنفان من أمتي إذا صلحوا صلحت الأمة: الأمراء والفقهاء". "حل وابن النجار عن ابن عباس".
14708 میری امت کے دو گروہ سدھر جائیں تو ساری امت درست ہوجائے، امراء اور علماء۔
حلیۃ الاولیاء ، ابن النجار عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ نصیحۃ الداعیۃ 17 ۔

14709

14709- "صنفان من أمتي لا تنالهما شفاعتي: سلطان ظلوم غشوم وغال في الدين يشهدون عليهم ويتبرؤون منهم". "الشيرازي في الألقاب، طب عن معقل بن يسار".
14709 میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔ ظالم جابر بادشاہ اور دین میں گمراہی پیدا کرنے والا۔ لوگ ان کے خلاف شہادت دیں اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں۔ الشیرازی فی الاقاب، الکبیر للطبرانی عن معقل بن یسار

14710

14710- "كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته". "ق عن أنس".
14710 تم میں سے ر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ السنن للبیہقی عن انس (رض)
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 4268 ۔

14711

14711- "ويل للعرفاء ويل للأمراء ويل للأمناء ليودن أقوام يوم القيامة لو أنهم كانوا معلقين بذوائبهم بالثريا يذبذب بهم بين السماء والأرض وأنهم لم يلوا من أمر الناس شيئا". "ط حم ك ق وابن عساكر عن أبي هريرة".
14711 ہلاکت ہے کاہنوں کے لئے، ہلاکت ہے امراء کے لئے، ہلاکت ہے امانت رکھنے والوں کے لئے، بہت سی قومیں قیامت کے دن تمنا کریں گی کہ کاش وہ اپنی چوٹیوں کے ساتھ ثریا پر لٹکے ہوئے اور آسمان و زمین کے درمیان جھول رہے ہوتے اور لوگوں کے کسی معاملے کے حاکم نہ بنتے۔ ابوداؤد، مسند احمد، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

14712

14712- "ويل للأمراء وويل للعرفاء وويل للأمناء ليأتين على أحدهم يوم يود لو أنه معلق بالنجم مذبذب وأنه لم يتأمر على اثنين". "قط في الأفراد عن عائشة".
14712 ہلاکت ہے امراء کے لئے، ہلاکت ہے امانت رکھنے والوں کے لئے، ان پر ایسا دن بھی آئے گا کہ ان کا کوئی بھی فرد تمنا کرے گا کہ کاش وہ ستارے کے ساتھ معلق ہوتا اور ہوا میں جھول رہا ہوتا مگر دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بنتا۔ الدارقطنی فی الافراد عن عائشہ (رض)

14713

14713- "ويل للأمراء وويل للعرفاء وويل للأمناء ليتمنين أقوام يوم القيامة أن نواصيهم معلقة بالثريا يتجلجلون بين السماء والأرض وأنهم لن يلوا عملا". "ق عن عائشة".
14713 ہلاکت ہے امراء کے لئے، ہلاکت ہے کاہنوں کے لئے، ہلاکت ہے امانت رکھنے والوں کے لئے، یہ لوگ قیامت کے دن تمنا کریں گے کہ ان کی پیشانیاں ثریا کے ساتھ بندھی ہوتی اور وہ آسمان و زمین کے درمیان جھول رہے ہوتے لیکن کسی طرح کی حکومت ان کو نہ ملتی۔
البیہقی فی السنن عن عائشہ (رض)

14714

14714- "لن تهلك الرعية وإن كانت ظالمة مسيئة إذا كانت الولاة هادية مهدية ولكن تهلك الرعية وإن كانت هادية مهدية إذا كانت الولاة ظالمة مسيئة". "أبو نعيم وابن النجار عن ابن عمر".
14714 رعایا ہرگز ہلاک اور برباد نہ ہوگی خواہ وہ ظالم اور بدکردار ہو، جب تک کہ ان کے حکمران ہدایت یافتہ اور سیدھی راہ پر گامزن ہوں ہاں رعیت وعوام اس وقت ہلاک ہوجائے گی خواہ وہ ہدایت یافتہ ہو جبکہ ان کے حکمران ظالم اور بدکردار ہوں ۔ ابونعیم وابن النجار عن ابن عمر (رض)
کلام : الضعیفۃ 514 ۔

14715

14715- "لن تهلك الأمة وإن كانت ضالة مضلة إذا كانت الأئمة هادية مهدية، ولن تهلك الأمة إذا كانت ضالة مسيئة إذا كانت الأئمة هادية مهدية". "الخطيب عن ابن عمر"
14715 کوئی امت ہلاک نہ ہوگی خواہ وہ گمراہ ہو جبکہ ان کے حاکم ہدایت یافتہ ہوں کوئی امت ہرگز ہلاک و برباد نہ ہوگی خواہ وہ گمراہ ہو جبکہ ان کے حاکم ہدایت یافتہ ہوں ۔
الخطیب عن ابن عمرو (رض)

14716

14716- "لن يفلح قوم أسندوا أمرهم إلى امرأة". "ش عن أبي بكرة".
14716 کوئی قوم فلاح نہیں پاسکتی جو اپنی حکومت عورت کو سپرد کردیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ عن ابی بکرۃ (رض)

14717

14717- "ليس من وال يلي أمة قلت أو كثرت فلم يعدل فيهم إلا كبه الله بوجهه في النار". "ش وابن عساكر عن معقل بن يسار".
14717 کوئی والی جو کسی چھوٹی یا بڑی قوم کا حاکم بنے پھر ان میں عدل نہ کرے تو اس کو اللہ پاک منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔ ابن ابی شیبہ، ابن عساکر عن معقل بن یسار

14718

14718- "ليس من والى أمة قلت أو كثرت لا يعدل فيها إلا كبه الله على وجهه في النار". "حم عن معقل بن يسار".
14718 کسی بھی چھوٹی یا بڑی امت کا حاکم جو عدل نہ کرے گا اللہ اس کے منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔ مسنداحمد عن معقل بن یسار، الضعیفۃ 2033

14719

14719- "ما استرعى الله عبدا رعية فلم يحط من ورائهم بالنصيحة إلا حرم الله عليه الجنة". "هب وابن النجار عن عبد الرحمن بن سمرة".
14719 اللہ پاک جس بندے کو کوئی رعیت سپرد کرے لیکن وہ ان کی خیر خواہی کے ساتھ حفاظت نہ کرے تو اللہ پاک اس پر جنت کو حرام کردے گا۔
شعب الایمان للبیہقی، ابن النجار عن عبدالرحمن بن سمرۃ
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 4739 ۔

14720

14720- "ما من أحد يلي أمر عشرة فما فوق ذلك إلا يأتي يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه يفكه عدله أو يوبقه إثمه". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن أبي أمامة".
14720 کوئی بھی شخص جو دس یا دس سے اوپر آدمیوں کا امیر مقرر ہو مگر قیامت کے دن اس کو گردن کے ساتھ باندھتے ہوئے اس حال میں لایا جائے گا پھر اس کا عدل اس کو چھڑا لے گا یا اس کا ظلم اس کو قعر ہلاکت میں ڈال دے گا۔ ابن سعید النقاش فی القضاۃ عن ابی امامۃ (رض)

14721

14721- "ما من أمير ثلاثة إلا يؤتى به يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه أطلقه الحق أو أوبقه". "ش عن أبي هريرة".
14721 تین آدمیوں کا امیر بھی قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن میں بندھے ہوں گے۔ حق اس کو چھڑا لے گا یا اس کو تباہ کردے گا۔
ابن ابی شیبہ عن ابوہریرہ (رض)

14722

14722- "ما من أمير عشرة إلا يؤتي به يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه لا يفكه من غله ذلك إلا العدل". "ص ش حم وعبد بن حميد طب هب" عن سعد بن عبادة"
14722 دس آدمیوں کا حاکم بھی قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن کی طرف بندھے ہوں گے۔ اس طوق سے اس کے ہاتھوں کو صرف عدل ہی چھڑا سکے گا۔
السنن السعید بن منصور، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، عبد بن حمید، الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی عن سعد بن عبادۃ

14723

14723- "ما من أمير عشرة إلا وهو يؤتى به يوم القيامة مغلولا حتى يفكه العدل أو يوبقه الجور". "ش ق وابن عساكر عن أبي هريرة كر عن عمرو بن مرة الجهني".
14723 دس آدمیوں کا امیر بھی قیامت کے روز اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے، اس کا عدل اس کو آزاد کرائے گا یا اس کا ظلم اس کو ہلاک کردے گا۔
ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی ، ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض) ، ابن عساکر عن عمرو بن مرۃ الجھنی

14724

14724- "ما من أمير ولا وال يغلق بابه دون ذوي الخلة والحاجة والمسكنة إلا أغلق الله أبواب السماء دون حاجته وخلته ومسكنته". "كر عن عمرو بن مرة الجهني".
14724 جس امیر کے دروازے حاجت مندوں اور مسکینوں کے لیے بند ہوں اللہ تعالیٰ آسمان کے دروازے اس کی حاجت اور مسکنت پر بند کردیتے ہیں۔ ابن عساکر عن عمرو بن مرۃ الجھنی

14725

14725- "ما من رجل والى عشرة إلا أتي به يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه حتى يقضي بينه وبينهم". "طب عن ابن عباس".
17425 کوئی آدمی جو دس آدمیوں کا والی ہو قیامت کے دن اس حال میں ایسا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن میں بندھے ہوں گے حتیٰ کہ اس کے اور اس کے ماتحتوں کے درمیان فیصلہ ہو۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

14726

14726- "ما من عبد استرعاه الله رعية فلم يحطها بنصيحة إلا حرم الله عليه الجنة". "ابن عساكر عن عبد الرحمن بن سمرة".
14726 کوئی بندہ نہیں جس کو اللہ پاک کسی رعیت کا راعی (نگہبان) بنائے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کا خیال نہ کرے تو اللہ پاک جنت کو اس پر حرام کردے گا۔
ابن عساکر عن عبدالرحمن بن سمرۃ (رض)

14727

14727- "ما من عبد يسترعى رعية إلا سئل يوم القيامة أقام فيهم أمر الله أم أضاعه". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن أبي هريرة".
14727 جس بندے سے کسی رعیت کی نگرانی لی جائے تو قیامت کے دن اس سے سوال کیا جائے گا کہ اللہ کا حکم اس نے ان میں قائم کیا یا ضائع کیا۔
ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن ابوہریرہ (رض)

14728

14728- "ما من والى عشرة إلا جيء به يوم القيامة مغلولا معذبا أو مغفورا له". "ابن منده وأبو نعيم عن الحارث بن محمد عن حصين".
14728 کوئی دس بندوں کا والی نہیں مگر قیامت کے دن اس حال میں اس کو لایا جائے گا کہ اس کے گلے میں طوق پڑا ہوگا پھر یا تو اس کو عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا یا اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ ابن مندہ و ابونعیم عن الحارث بن محمد عن حصین

14729

14729- "ما من مسلم يلي عشرة فما فوق ذلك إلا أتي يوم القيامة مغلولا يده إلى عنقه فكه بره أو أوبقه إثمه أولها ملامة، وأوسطها ندامة، وآخرها عذاب يوم القيامة". "طب عن أبي أمامة"
14729 کوئی مسلمان جو دس یا دس سے زیادہ لوگوں کا امیر ہو، اس کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کے ہاتھ گردن میں بندھے ہوں گے۔ پھر اس کی نیکی اس کو آزاد کرائے گی یا اس کا گناہ اس کو برباد کرے گا، امارت کا اول ملامت ہے، درمیان ندامت ہے اور آخر قیامت کے دن عذاب ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)

14730

14730- "ما من والي ثلاثة إلا لقي الله مغلولا، يمينه إلى عنقه فكه عدله أو غله جوره". "ابن عساكر عن أبي الدرداء".
14730 کوئی تین آدمیوں کا والی نہیں مگر وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہوگا اور اس کا دایاں ہاتھ گردن میں بندھا ہوگا۔ اس کا عدل اس کو چھڑائے گا یا اس کا ظلم اس کو تباہ کرے گا۔ ابن عساکر عن ابی الدرداء (رض)

14731

14731- "ما من وال ولى أمر المسلمين شيئا فلم يحط من ورائهم بالنصيحة إلا كبه الله على وجهه في جهنم يوم يجمع الله الأولين والآخرين". "الحاكم في الكنى طب عن معقل بن يسار".
14731 کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے کسی امر کا والی بنے پھر خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ ان کے لیے محنت نہ کرے تو اللہ پاک اس کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا جس دن اللہ پاک اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا۔ الحاکم فی الکنی، الکبیر للطبرانی عن معقل بن یسار

14732

14732- "ما من والى أمة قلت أو كثرت لم يعدل فيهم إلا كبه الله على وجهه في النار". "ش طب عنه".
14732 کوئی کسی چھوٹی یا بڑی امت کا والی نہیں جو ان کے ساتھ عدل نہ کرتا ہو تو اللہ پاک ضرور اس کو چہرے کے بل جہنم میں گرادے گا۔ ابن ابی شیبہ، الکبیر للطبرانی عن معقل

14733

14733- "ما من والى عشرة إلا ياتي يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه أطلقه عدله أو أوبقه جوره". "حل عن ثوبان"
14733 کوئی دس آدمیوں کا والی نہیں مگر قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن میں بندھے ہوں گے۔ اس کو اس کا عدل چھڑائے گا یا اس کا ظلم اس کو ہلاک کرے گا۔ حلیۃ الاولیاء عن ثوبان
کلام : ضعیف ہے۔ اللآلی۔ 478/1 ۔

14734

14734- "ما ولي أحد ولاية إلا بسطت له العافية فإن قبلها تمت له وإن حقر عنها فتح له ما لا طاقة له به". "طب عن ابن عباس".
14734 کوئی شخص جو کسی ولایت کا حاکم بنے اولاً اس کے لیے عافیت کا دروازہ کھلے گا اگر وہ اس کو قبول کرے تو وہ عافیت اس کے لیے مکمل ہوگی اور اگر وہ عافیت کو حقیر جانے تو اس کو ایسے مسائل درپیش ہوں گے کہ وہ ان سے نمٹنے کی طاقت نہ رکھے گا۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

14735

14735- "مثل الذي لي ما عدل في الحكم وأقسط في القسط ورحم ذا الرحم، فمن لم يفعل ذلك فليس مني ولست منه". "الحسن بن سفيان والباوردي وابن قانع طب وابن عساكر ص عن بلال بن سعد عن أبيه قال قلنا يا رسول الله ما للخليفة من بعدك قال فذكره".
14735 اس شخص کی مثال جو فیصلہ میں عدل کرے، تقسیم میں انصاف کرے اور صاحب رحم پر رحم کرے میری جیسی ہے، جس نے ایسا نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ الحسن بن سفیان ، الباوردی ابن قانع، الکبیر للطبرانی، ابن عساکر، السنن للسعید بن منصور عن بلال بن سعد عن ابیہ
فائدہ : صحابہ (رض) فرماتے ہیں : ہم نے عرض کیا : رسول اللہ ! آپ کے بعد خلیفہ کا کیا حکم ہے ؟ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

14736

14736- "من استرعى رعية فلم يحطهم بنصيحة لم يجد ريح الجنة وإن ريحها ليوجد من مسيرة مائة عام". "ش م حم طب وابن عساكر عن معقل بن يسار".
14736 جس نے رعیت کی سربراہی لی مگر خیر خواہی کے ساتھ ان کے لیے تگ ودو نہ کی تو وہ جنت کی خوشبو نہ پاسکے گا خواہ اس کی خوشبو سو سال کی مسافت سے آئے۔
ابن ابی شیبہ، مسلم، مسند احمد، الکبیر للطبرانی، ابن عساکر عن معقل بن یسار

14737

14737- "من استرعى رعية فغشها لقي ربه وهو عليه غضبان". "الخطيب عنه".
14737 جس نے رعیت کی سرپرستی لی گئی مگر اس نے ان کو دھوکا دیا تو وہ پروردگار سے اس حال میں ملے گا کہ پروردگار اس پر غضبناک ہوگا ۔ الخطیب عن معقل

14738

14738- "من استرعاه الله رعية فمات وهو غاش لها أدخله الله النار". "الشيرازي في الألقاب عن الحسن مرسلا".
14738 اللہ پاک نے جس سے رعیت کی نگہبانی کا کام لیا اور وہ دھوکا دہی کی حالت میں مرا تو اللہ پاک اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ الشیرازی فی الالقاب عن الحسن مرسلاً

14739

14739- "من ولاه الله شيئا من أمور المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب الله عنه يوم القيامة دون حاجته وخلته وفقره". "د وابن سعد والبغوي عن أبي مريم الأزدي".
14739 جس کو اللہ پاک نے مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا والی بنایا لیکن وہ ان کی حاجت ، فقروفاقے اور ضروریات سے چھپا رہا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی حاجت فقروفاقہ اور ضرورت سے بےنیاز ہوگا۔ ابوداؤد، ابن سعد، البغوی، عن ابی مریم الادی

14740

14740- "من ولي من أمور المسلمين شيئا فاحتجب دون حاجتهم وفقرهم وفاقتهم احتجب الله منه يوم القيامة دون خلته وحاجته وفقره". "طب وابن قانع ك ق عن أبي مريم الأزدي"
14740 جو مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا والی بنا پھر وہ ان کی حاجت اور فقروفاقہ سے غافل رہا تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کی حاجت اور فقروفاقے سے بےنیاز ہوں گے۔
الکبیر للطبرانی، ابن قانع، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی عن ابی مریم الازدی

14741

14741- "من ولي [على] عشرة فحكم بينهم بما أحبوا أو كرهوا جيء به [يوم القيامة] مغلولة يداه [إلى عنقه] فإن عدل ولم يرتش ولم يحف فك الله عنه، وإن حكم بغير ما أنزل الله وارتشى وحابى فيه شدت يساره إلى يمينه ثم رمي به في قعر جهنم فلم يبلغ قعرها خمس مائة عام". "ك عن ابن عباس"
14741 جو دس آدمیوں پر والی بنا پھر اس نے ان کا من پسند حکم جاری کیا یا ان کی منشاء کے خلاف حکم جاری کیا تو قیامت کے دن اس کو لایا جائے گا کہ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوں گے اگر اس نے عدل کیا ہوگا، رشوت نہ لی ہوگی اور نہ ظلم کیا ہوگا تو اللہ پاک اس کو آزاد کردے گا اور اگر اس نے حکم جاری کیا ایسا جو اللہ نے نازل نہیں کیا، رشوت لی، اور رشوت ستانی میں دوسروں کی مدد کی تو اس کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ کے ساتھ باندھ دیا جائے گا پھر اس کو جہنم کے گڑھے میں ڈال دیا جائے گا اور وہ پانچ سو سال اس گڑھے میں نہیں پہنچے گا۔
مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)

14742

14742- "من ولي من أمر المسلمين شيئا فاحتجب عن ضعفة المسلمين وأولي الحاجة احتجب الله عنه يوم القيامة". "حم طب عن معاذ"
14742 جو مسلمانوں کے امور میں سے کسی امر کا والی بنا پھر وہ کمزور اور حاجت مند مسلمانوں سے دور رہا اللہ پاک قیامت کے دن اس سے پردہ میں ہوں گے۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن معاذ (رض)

14743

14743- "من ولي من أمر المسلمين شيئا فلم يحطهم بنصحية كما يحوط أهل بيته فليتبوأ مقعده من النار". "حم طب عن معقل بن يسار".
14743 جو مسلمانوں کے امور کا والی بنا لیکن خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی نہیں کی جسے وہ اپنے اہل خانہ کی نگہبانی کرتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن معقل بن یسار

14744

14744- "من ولي من أمر الناس شيئا فأغلق بابه دون ذوي الفقر أو الحاجة أغلق الله عن فقره وحاجته باب السماء". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن أبي مريم".
14744 جو لوگوں کا حاکم منتخب ہوا لیکن اس نے فقراء اور حاجت مندوں پر اپنے دروازے بند کرلئے تو اللہ پاک اس کی حاجت اور فقرو فاقے سے آسمان کا دروازہ بند فرمالیں گے۔
ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن ابی مریم

14745

14745- "من أغلق بابه دون ذوي الفقر أو ذوي الحاجة أغلق الله عن فقره وحاجته باب السماء". "ابن عساكر عن أبي مريم".
14745 جس نے فقیروں اور حاجت مندوں پر اپنا دروازہ بند کیا اللہ پاک اس کے فقروفاقے اور حاجت سے آسمان کے دروازے بند کردیں گے۔ ابن عساکر عن ابی مریم

14746

14746- "من أغلق بابه دون ذوي الحاجة والخلة والمسكنة أغلق الله باب السماء دون خلته وحاجته وفقره ومسكنته". "ك عن عمرو بن مرة الجهني"
14746 جس نے حاجت مندوں اور مسکینوں سے اپنا دروازہ بند کیا اللہ پاک اس کی حاجت ضرورت کے وقت آسمان کا دروازہ بند فرمالیں گے۔ مستدرک حاکم عن عمرو بن مرۃ الجھنی

14747

14747- "من ولي شيئا من أمور الناس أتي به يوم القيامة حتى يوقف على جسر جهنم فإن كان محسنا نجا، وإن كان مسيئا انخرق به الجسر فهوى فيه سبعين خريفا". "البغوي وابن قانع طب عن بشر بن عاصم الثقفي؛ قال البغوي: ولا أعلم له غيره وفيه سويد بن عبد العزيز متروك"
14747 جو لوگوں کے امور کا والی بنا اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کو جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا اگر اس نے اچھا کیا ہوگا تو نجات پاجائے گا اور اگر بدی کی ہوگی تو پل اس کے نیچے سے شق ہوگا اور وہ ستر سال کی گہرائی تک نیچے جا گرے گا۔
البغوی ، ابن قانع، الکبیر للطبرانی عن بشر بن عاصم الثقفیٰ
کلام : امام بغوی (رح) فرماتے ہیں، ان کی اور کوئی روایت نہیں جانتا اور اس روایت میں سوید بن عبدالعزیز متروک راوی ہے۔

14748

14748- "من ولى أحدا من أمر الناس أتي به يوم القيامة حتى يوقف على جسر جهنم، فإن كان محسنا نجا، وإن كان مسيئا انخرق به الجسر فهوى فيه سبعين خريفا وهي سوداء مظلمة". "البغوي طب عن أبي ذر وفيه سويد بن عبد العزيز"
14748 جو لوگوں کے کسی امر کا والی بنا اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا اگر وہ اچھائی کرنے والا ہوگا تو نجات پاجائے گا اور اگر وہ برائی کرنے والا ہوگا تو پل اس کے نیچے سے شق ہوگا اور وہ ستر سال کی گہرائی میں اتر تا رہے گا اور یہ انتہائی تاریک گڑھا ہوگا۔ البغوی، الکبیر للطبرانی عن ابی ذر (رض)
کلام : روایت میں سوید بن عبدالعزیز متروک راوی ہے۔

14749

14749- "من ولي من أمر المسلمين شيئا فأمر عليهم أحدا محاباة فعليه لعنة الله لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا حتى يدخله جهنم ومن أعطى أحدا حمى الله فقد انتهك في حمى الله شيئا بغير حقه فعليه لعنة الله أو قال تبرأت منه ذمة الله". "حم ك عن أبي بكر".
14749 جو مسلمانوں کے امور کا حاکم بنا اس نے ان پر ظلم روارکھنے کے لیے کوئی سخت آدمی امیر مقرر کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ پاک اس سے کوئی نفل قبول فرمائیں گے اور نہ فرض حتیٰ کہ اس کو جہنم میں داخل کردیں گے اور جس نے اللہ کی حمیٰ (حد) میں کسی کو داخل کیا اور اس نے اللہ کی حد کو توڑا بغیر کسی حق کے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے یا فرمایا اس سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔
مسند احمد، مستدرک الحاکم عن ابی بکر (رض)

14750

14750- "من ولي عملا وهو يعلم أنه ليس لذلك العمل أهل فليتبوأ مقعده من النار". "الروياني كر عن أبي موسى".
14750 جو کسی منصب پر تعینات ہو اور اس کو معلوم ہوئے کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ الرویانی، ابن عساکر عن ابی موسیٰ (رض)

14751

14751- "من ولي من أمر الناس شيئا فأغلق دون المسلمين أو المظلوم أو ذوي الحاجة أغلق الله دونه أبواب رحمته عن حاجته وفقره أفقر ما يكون إليه". "حم وابن عساكر عن أبي الشماخ الأزدي عن ابن عم له من الصحابة"
14751 جو لوگوں کے کسی کام کا سردار بنا پھر وہ عوام سے یا مظلوم سے یا کسی بھی حاجت مند سے بندہوکر بیٹھ گیا اللہ پاک بھی اپنی رحمت کے دروازے اس کی حاجت ، اس کے سخت ترین فقروفاقے سے بھی بند فرمالیں گے۔
مسنداحمد، ابن عساکر عن الشماخ الازدی عن ابن عمر لہ من الصحابۃ

14752

14752- "من ولي ذا قرابة محاباة وهو يجد خيرا منه لم يجد رائحة الجنة". "ابن عساكر عن أبي بكر".
14752 جس نے کسی رشتے دار پر ظلم وستم ڈھایا حالانکہ وہ اس سے خیر کی آس لگائے ہوئے تھا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔ ابن عساکر عن ابی بکر (رض)

14753

14753- "نعم الشيء الإمارة لمن أخذها بحقها وحلها، وبئس الشيء الإمارة لمن أخذها بغير حقها فتكون عليه حسرة يوم القيامة". "طب عن زيد بن ثابت"
14753 امارت و حکومت اس شخص کے لیے بہترین شے ہے جو اس کو اس کے حقوق کے ساتھ اور حلال طریقے سے حاصل کرے، اور اس شخص کے لیے بہت بری شے ہے جو اس کو بغیر کسی حق کے حاصل کرے یہ ایسے شخص کے لیے قیامت کے روز باعث حسرت و افسوس ہوگی۔
الکبیر للطبرانی عن زید بن ثابت

14754

14754- "لا تسأل الإمارة فإنها من سألها وكل إليها ومن ابتلي بها ولم يسألها أعين عليها". "كر عن عبد الرحمن بن سمرة".
14754 امارت کا سوال نہ کرے بیشک جس نے اس کا سوال کیا اس کو امارت کے حوالے کردیا جائے گا جبکہ جس کو بغیر سوال کے اس میں آزمایا گیا اس کی مدد کی جائے گی۔
ابن عساکر عن عبدالرحمن بن سمرۃ

14755

14755- "لا بد للناس من إمارة برة أو فاجرة فأما البرة فتعدل في القسم وتقسم بينكم فيئكم بالسوية، وأما الفاجرة فيبتلي فيها المؤمن والإمارة خير من الهرج قيل يا رسول الله: وما الهرج؟ قال: القتل والكذب". "طب عن ابن مسعود".
14755 لوگوں پر حکومت ہونا لازمی ہے خواہ نیک ہو یا بد اگر نیک حکومت ہوگی تو وہ تقسیم میں عدل کرے گی اور تمہارے درمیان غنیمت کے اموال برابری کے ساتھ منقسم ہوں گے۔ اگر حکومت بد ہوگی تو اس میں مومن کو آزمائش سے دو چار ہونا پڑے گا۔ امارت و حکومت قائم ہونا ہرج سے بہتر ہے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! ہرج کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا قتل اور جھوٹ۔
الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

14756

14756- "لا تأمرن على اثنين ولا تقدمهما". "أبو نعيم عن نعيم عن أنس".
14756 دو آدمیوں پر کبھی امیر نہ بن اور نہ ان کے آگے چل۔ ابونعیم عن نعیم عن انس (رض)

14757

14757- "لا يؤم رجل عشرة من المسلمين إلا جاء يوم القيامة مغلولا حتى يكون الله تعالى يرحمه فيعتقه أو يمضي في غير ذلك. (الحاكم في الكنى عن كعب بن عجرة).
14757 جو شخص دس مسلمانوں کا بھی امام ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے گلے میں طوق پڑا ہوگا یہاں تک کہ اللہ اس پر رحم فرما کر اس کو آزاد فرمائیں گے یا اور معاملہ فرمائیں گے۔ الحاکم فی الکنی عن کعب بن عجرۃ

14758

14758 لا يزال هذا الامر فيكم وأنتم ولاته ما لم تحدثوا أعمالا تنزعه منكم فإذا فعلتم ذلك سلط الله عليكم شرار خلقه فالتحوكم كما يلتحى هذا القضيب. (حم طب ك عن أبي مسعود الانصاري).
14758 یہ (حکومت کا) معاملہ تمہارے درمیان یوں ہی رہے گا ، اور تم اس کے حاکم بنے رہو گے جب تک کہ ایسے نئے اعمال ایجاد نہ کرو جو سراسر تمہاری ایجاد ہوں، پس جب تم ایسا کرو گے تو اللہ پاک تم پر اپنی مخلوق میں سے بدترین لوگوں کو مسلط کردے گا وہ تم کو اسی طرح قطع برید کریں گے جس طرح یہ شاخ کٹ رہی ہے۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم عن ابی مسعود الانصاری

14759

14759 لا يسترعي الله عبدا رعية فيموت يوم يموت وهو لها غاش إلا حرم الله عليه الجنة. (حم عن معقل بن يسار).
14759 اللہ پاک کسی بندے کو کسی رعیت پر نگران بناتا ہے اور وہ ایسے دن مرتا ہے جس دن اس نے اپنی رعیت کے ساتھ دھوکا کیا ہوتا ہے تو اللہ پاک اس پر جنت کو حرام فرما دیتے ہیں۔
مسند احمد، عن معقل بن یسار

14760

14760 لا يسترعي الله عبدا رعية قلت أو كثرت إلا سأله الله تعالى عنها يوم القيامة أقام فيهم أمر الله أم أضاعه حتى يسأله عن أهل بيته خاصة. (حم عن ابن عمر).
14760 اللہ پاک کسی بندے کو رعایا کا حاکم بنائے رعایا میں قلیل افراد ہوں یا کثیر مگر اللہ پاک اس حاکم سے ان کے بارے میں قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا کہ کیا ان کے اندر اللہ کا حکم قائم کیا ہے یا ضائع کردیا ہے حتیٰ کہ کسی بھی آدمی سے خاص طور پر اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھ گچھ فرمائیں گے۔ مسند احمد، عن ابن عمر (رض)

14761

14761 لا يستعمل رجل على عشرة فما فوقهم إلا جاء يوم القيامة مغلولة يداه إلى عنقه فان كان محسنا فك عنه وإن كان مسيئا زيد غلا إلى غلة. (ن عبد اله بن زيد عن أبيه).
14761 کوئی آدمی دس یا زیادہ آدمیوں پر حاکم نہیں بنایا گیا مگر وہ قیامت کے روز گلے میں طوق ڈالے ہوئے آئے گا جس میں اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے، اگر وہ اچھائی کرنے والا ہوگا تو اس کی گردن چھوڑ دی جائے گی اور اگر وہ بدکردار ہوگا تو طوق پر مزید طوق چڑھا دیئے جائیں گے۔ النسائی عن عبداللہ بن نرید عن ابیہ

14762

14762 لا يقبل الله صلاة إمام حكم بغير ما أنزل الله ولا يقبل الله صلاة عبد بغير طهور ولا صدقة من غلول. (ك والشيرازي في الالقاب عن طلحة بن عبيد الله).
14762 اللہ پاک ایسے حاکم کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے اور نہ بغیر طہارت والے بندے کی نماز قبول فرماتا ہے اور نہ خیانت کے مال میں سے صدقہ کو قبول کرتا ہے۔ مستدرک الحاکم، الشیرازی فی الالقاب عن طلحۃ بن عبیداللہ
کلام : روایت ضعیف ہے دیکھئے۔ الضعیفۃ 1160 ۔ ذخیرۃ الحفاظ 6364 ۔ الوضع فی الحدیث 163-3 ۔

14763

14763 لا يقدس الله أمة قادتهم امرأة (طب عن أبي بكرة).
14763 اللہ پاک ایسی امت کو پاک اور مقرب نہیں کرتا جس کی حکومت عورت کے ہاتھ میں ہو۔ الکبیر للطبرانی عن ابی بکرۃ (رض)

14764

14764- "لا يكون رجل على قوم إلا جاء يقدمهم يوم القيامة على يديه راية يحملها وهم يتبعونه فيسأل عنهم ويسألون عنه". "طب عن المقدام بن معد يكرب".
14764 کوئی شخص کسی قوم پر حاکم نہیں ہوتا مگر وہ قیامت کے دن ان کے آگے آئے گا اور اس کے ہاتھ میں جھنڈا ہوگا اور قوم والے اس کے پیچھے ہوں گے۔ پھر اس سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور ان سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
الکبیر للطبرانی عن المقدام بن معدی کرب

14765

14765- "يا أيها الناس من ولي منكم عملا فحجب بابه عن ذي حاجة المسلم حجبه الله أن يلج باب الجنة، ومن كانت الدنيا نهمته حرم الله عليه جواري فإني بعثت بخراب الدنيا ولم أبعث بعمارتها". "طب حل عن أبي الدحداح"
14765 اے لوگو ! تم میں سے جو شخص کسی کام پر والی بنا پھر اس نے اپنا دروازہ حاجت مسلمان سے بند کرلیا تو اللہ پاک اس کو جنت کے دروازے میں جانے سے روک لے گا۔ اور جس شخص کا مقصود نظر صرف دنیا بن گئی اللہ پاک اس پر میرا پڑوس حرام فرمادیں گے۔ بیشک مجھے دنیا کی ویرانگی کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے نہ کہ دنیا کو آباد کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابی الدحداح

14766

14766- "يا عباس يا عم النبي نفس تنجيها خير من إمارة لا تحصيها". "ابن سعد عن الضحاك بن حمزة مرسلا؛ ابن سعد ق عن محمد بن المنكدر مرسلا ق عن جابر"
14766 اے عباس ! اے نبی کے چچا ! ایک جان جس کو تم امارت سے نجات دو اس میں اس قدر خیر ہے جس کو تم شمار نہیں کرسکتے۔ ابن سعد عن الضحاک بن حمزۃ مرسلاً ، ابن سعد، السنن للبیہقی عن محمد بن المکدر مرسلا، السنن للبیہقی عن جابر (رض)

14767

14767- " يؤتى بالوالي الذي كان يطاع في معصية الله فيؤمر به إلى النار فيقذف فيها فتندلق أقتابه في النار، كما يستدير الحمار في الرحى فيأتي عليه أهل طاعته من الناس فيقولون: أي فل أينما كنت تأمرنا فيقول: كنت آمركم بأمر وأخالفكم إلى غيره". "ك عن أسامة ابن زيد"
14767 اس حاکم کو جو خدا کی نافرمانی کا حکم دیتا تھا اور اس کی اطاعت کی جاتی تھی لایا جائے گا اور جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا۔ پس اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا اس کی آنتیں آگ میں نکلتی پھریں گی، جس طرح چکی کا گدھا چکی کے گرد پھرتا ہے (اس طرح وہ اپنی آنتوں کے گرد چکر کاٹے گا) اس کے پاس اس کے فرمان بردار لوگ آئیں گے وہ پوچھیں گے اے فلانے ! تو تو ہم کو کیسے کیسے حکم کرتا تھا ؟ وہ کہے گا : میں تم کو ایک حکم کرتا تھا اور خود اس کی مخالفت کرتا تھا۔
مستدرک الحاکم عن اسامۃ بن زید

14768

14768- "يؤتى بالوالي فيوقف على الصراط فيهتز به حتى يزول كل عضو منه عن مكانه فإن كان عادلا مضى وإن كان جائرا هوى في النار سبعين خريفا". "عبد بن حميد عن بشر بن عاصم".
14768 حاکم کو لایا جائے گا اور پل پر کھڑا کردیا جائے گا ، پل اس کو ہلائے گا حتیٰ کہ اس کا ہر عضو اپنی جگہ سے ڈگمگا جائے گا ۔ اگر وہ عادل ہوگا تو پل صراط پر سے گزر جائے گا اور اگر وہ ظالم ہوگا تو وہ جہنم کی ستر سال کی گہرائی میں گرتا جائے گا۔ عبدبن حمید عن بشر بن عاصم

14769

14769- "يؤتى بالولاة يوم القيامة عادلهم وجائرهم حتى يقفوا على جسر جهنم فيقول الله عز وجل: فيكم طلبتي فلا يبقى جائر في حكمه مرتش في قضائه مميل سمعه أحد الخصمين إلا هوى في النار سبعين خريفا، ويؤتى بالرجل الذي ضرب فوق الحد فيقول الله: لم ضربت فوق ما أمرتك؟ فيقول: يا رب غضبت لك، فيقول: أكان لغضبك أن يكون أشد من غضبي، ويؤتى بالذي قصر فيقول: عبدي لم قصرت؟ فيقول: رحمته فيقول: أكان لرحمتك أن تكون أشد من رحمتي". "ع عن حذيفة".
14769 قیامت کے دن عادل اور ظالم ہر طرح کے حاکموں کو سامنے لایا جائے گا حتیٰ کہ وہ پل صراط پر کھڑے ہوجائیں گے اللہ عزوجل فرمائیں گے۔ تمہاری ہی مجھے تلاش تھی۔ پس جو بھی اپنے فیصلے میں ظلم کرنے والا ہوگا۔ فیصلے میں رشوت کھانے والا ہوگا اور مقدمے میں کسی ایک فریق کی بات کو زیادہ توجہ اور دھیان دینے والا ہوگا وہ جہنم میں ستر سال کی گہرائی میں گرتا جائے گا۔ اور اس شخص کو بھی لایا جائے گا جس نے حد سے اوپر (سزا میں) مارا ہوگا۔ اللہ پاک اس سے پوچھیں گے : تو نے میرے حکم سے اوپر کیوں مارا ؟ وہ عرض کرے گا : اے پروردگار ! مجھے تیری وجہ سے اس پر غصہ آگیا تھا۔ پروردگار ارشاد فرمائیں گے : کیا تیرا غضب میرے غضب سے زیادہ سخت تھا ؟ اور اس شخص کو بھی لایا جائے گا جس نے (شرعی سزا میں) کمی کی ہوگی۔ پروردگار فرمائے گا : اے میرے بندے ! تو نے کیوں کمی کی ؟ وہ عرض کرے گا : مجھے اس پر رحم آگیا تھا۔ پروردگار ارشاد فرمائے گا، کیا تیری رحمت میری رحمت سے زیادہ بڑھ کر تھی ؟ مسند ابی یعلی عن حذیفہ (رض)

14770

14770- "يؤتى برجل كان واليا فيلقى في النار فتندلق أقتابه فيدور في النار كما يدور الحمار بالرحى فيجتمع إليه أهل النار فيقولون: ألست كنت تأمرنا بالمعروف، وتنهانا عن المنكر؟ قال: كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه، وأنهاكم عن المنكر وآتيه". "الحميدي والعدني عن أسامة بن زيد".
14770 اس شخص کو لایا جائے گا جو والی ہوگا۔ اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اس کی آنتیں نکل جائیں گی اور وہ جہنم میں (ان کے گرد) چکر کاٹے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ اہل جہنم اس کے پاس اکٹھے ہوجائیں گے۔ وہ پوچھیں گے۔ کیا تو ہی ہمیں نیکی کا حکم نہیں کرتا تھا ؟ اور برائی سے نہیں روکتا تھا ؟ وہ کہے گا : میں تم کو نیکی کا حکم کرتا تھا لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ الحمیاء ی والعدلی عن اسامۃ بن زید

14771

14771- "يؤتى بالحكام يوم القيامة بمن قصر وبمن تعدى، فيقول: أنتم خزان أرضي ورعاء عبيدي وفيكم بغيتي، فيقول للذي قصر: ما حملك على ما صنعت؟ فيقول: رحمته فيقول الله: أنت أرحم بعبادي مني ويقول للذي تعدى: ما حملك على الذي صنعت؟ فيقول: غضبا مني، فيقول: انطلقوا بهم فسدوا بهم ركنا من أركان جهنم". "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة من طريق ابن عبد الرحيم المروزي عن بقية ثنا سلمة ابن كلثوم عن أنس، وعنده قال أبو داود: لا أحدث عنه، وسلمة شامي ثقة وبقية روايته عن الشاميين مقبولة وقد صرح في هذا الحديث بالتحديث".
14771 قیامت کے دن حکام کو ان لوگوں کے ساتھ لایا جائے گا جن پر حکام نے سزا میں کمی یا زیادتی کی ہوگی۔ پروردگار فرمائے گا : تم میری زمین کے مکھی (حساب کتاب رکھنے والے) تھے میرے بندوں کے راعی (حاکم) تھے اور مجھے تمہاری ہی تلاش تھی۔ پھر پروردگار اس شخص سے فرمائے گا جس نے کمی کی ہوگی کہ تجھے کس بات نے (سزا میں) کمی کرنے پر اکسایا تھا ؟ وہ عرض کرے گا : مجھے اس پر رحم آگیا تھا۔ پروردگار فرمائے گا : کیا تو میرے بندوں پر مجھ سے زیادہ رحم کرنے والا تھا۔ اور پروردگار اس شخص کو فرمائے گا جس نے ظلم اور زیادتی کی ہوگی کہ تجھے زیادتی پر کس چیز نے اکسایا تھا۔ وہ کہے گا : غصے کی وجہ سے (میں نے اس پر سزا زیادہ کی تھی) پروردگار فرمائے گا : ان کو لے جاؤ اور جہنم کے ستونوں میں سے کوئی ستون ان کے ساتھ بھردو۔
ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ من طریق ابن عبدالرحیم المروزی عن بقیۃ لنا مسلمۃ ابن کلثوم عن انس، وعندہ قال ابوداؤد : لا احدث عنہ ، وسلۃ شنامی ثقہ وبقیۃ روایتہ عن الشامتیین مقبولۃ وقد صبرح فی ھذا الحدیث بالتی دیت

14772

14772- "يجاء بالأمير يوم القيامة فيلقى في النار فيطحن فيها كما يطحن الحمار بطاحونته فيقال له: ألم تكن تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر؟ قال: بلى ولكن لم أكن لأفعله". "حل عن أسامة بن زيد".
14772 قیامت کے دن امیر کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اس میں (اپنی آنتوں کے گرد) اس طرح چکر کاٹے گا جس طرح چکی کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نیکی کا حکم نہیں کرتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں، لیکن میں خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ حلیۃ الاولیاء عن اسامۃ بن زید

14773

14773- "إذا كان يوم القيامة أمر بالوالي فيوقف على جسر جهنم، فيأمر الله الجسر فينتفض انتفاضة فيزول كل عظم منه من مكانه، ثم يأمر الله العظام فترجع إلى مكانها ثم يساله فإن كان لله مطيعا اجتبذه فأعطاه كفلين من الأجر، وإن كان عاصيا خرق به الجسر فهوى إلى جهنم سبعين خريفا". "طب عن عاصم بن سفيان الثقفي"
14773 جب قیامت کا دن ہوگا والی (حاکم) کے لیے حکم ہوگا اور اس کو جہنم کے پل پر کھڑا کردیا جائے گا۔ اللہ پاک پل کو حکم دے گا وہ اس شدت سے ہلے گا کہ حاکم کا ہر جوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا پھر اللہ پاک ہڈیوں (اور جوڑوں) کو حکم دے گا وہ واپس اپنی جگہ آجائیں گی، پھر پروردگار اس سے سوال جواب کرے گا اگر وہ اللہ کی اطاعت گزار ہوگا تو اس کو کھینچ لے گا اور اس کو دو بوجھ اجر کے عطا فرمائے گا اور اگر وہ نافرمان ہوگا تو پل شق ہوگا اور وہ جہنم تک ستر سال کی گہرائی میں گرتا جائے گا۔ الکبیر للطبرانی عن عاصم بن سفیان الثقفی

14774

14774- "إن من الأئمة طرادين" 4. "ش عن عباس الجشمي".
14774 بہت سے حکام لوگوں کو نفرت دلانے والے ہیں۔ ابن ابی شیبہ عن عباس الجشمی
فائدہ : یعنی جو حاکم نماز میں امام بنتے ہیں اور لمبی لمبی قرات کرکے لوگوں کو بھگاتے ہیں۔

14775

14775- "إذا بعثتم إلي رجلا فابعثوه حسن الوجه حسن الاسم". "البزار طس عن أبي هريرة".
14775 جب تم میرے پاس کسی آدمی کو (اپنا نمائندہ بنا کر) بھیجو تو خوبصورت چہرے اور اچھے نام والے شخص کو بھیجا کرو۔ البزار الاوسط للطبرانی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ التنزیہ 200-1 ۔ ذخیرۃ الحفاظ 232 ۔

14776

14776- "إذا أبردتم إلي بريدا فابعثوه حسن الوجه حسن الاسم". "البزار عن بريدة".
14776 جب تم میرے پاس کسی کو ڈاکیہ (قاصد ) بنا کر بھیجو تو خوبصورت جہرے والے اور اچھے نام والے کو بھیجو۔ البزار عن بریدۃ ضعیف ، اللٓالی 113, 112

14777

14777- "إذا بعثت إلي بريدا فاجعله جسيما وسيما حسن الوجه". "الخرائطي في اعتلال القلوب عن أبي أمامة".
14777 جب تو میرے پاس کوئی برید (نمائندہ) بھیجے تو اچھے جسم اچھے چہرے والے کو بھیجو۔
الخرائطی فی اعتدال القلوب عن ابی امامۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 416 ۔

14778

14778- "لولا أن الرسل لا تقتل لضربت أعناقكما". "حم طب عن نعيم بن مسعود الأشجعي".
14778 اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن نعیم بن مسعود الاشجعی

14779

14779- "أما والله لولا أن الرسل لا تقتل لضربت أعناقكما". "د ك عن نعيم بن مسعود".
14779 اللہ کی قسم ! اگر رسولوں (نمائندوں) کو قتل نہ کرنے کی رسم نہ ہوتی تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا۔ ابوداؤد، مستدرک الحاکم عن نعیم بن مسعود

14780

14780- "لولا أنك رسول لضربت عنقك". "حم د ك عن ابن مسعود".
14780 اگر تو رسول نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔
مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک الحاکم عن ابن مسعود (رض)

14781

14781- "أقطف القوم دابة أميرهم". "خط عن معاوية بن قرة مرسلا"
14781 قوم میں سب سے سسب رفتار سواری امیر کی ہو۔
الخطیب فی التاریخ عن معاویۃ (رض) بن قرۃ مرسلاً
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 1076 ۔
امام خطیب نے اس روایت کو شہیب بن شیبہ المنقری کے حالات کے ذیل میں نقل کیا ہے۔ امام ابوداؤد (رح) اس راوی کے متعلق فرماتے ہیں لیس بشیء اس کا اعتبار نہیں، راجع ترجمۃ میزان 262-2 ۔ امام نسائی اور امام دارقطنی (رح) فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے۔

14782

14782- "إن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم". "د ك عن جبير بن نفير وكثير بن مرة والمقدام وأبي أمامة"
14782 امیر جب لوگوں میں شک وشبہ کرنے لگ جائے گا تو ان کو خراب اور تباہ کردے گا۔
ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن جبیر بن لغیر وکثیر بن مرۃ والمقدام راہی امامۃ

14783

14783- "وأعرضوا عن الناس ألم تر أنك إن ابتغيت الريبة في الناس أفسدتهم أو كدت تفسدهم". "طب عن معاوية".
14783 لوگوں سے اعراض برتو (اور بےجا شک شبہ میں نہ پڑو) کیا نہیں سمجھتے کہ اگر تم لوگوں میں عیب تلاش کرنے کے پیچھے پڑ جاؤ گے تو ان کو تباہ کردو گے۔ یا تباہ کرنے کے قریب ہوجاؤ گے۔ الکبیر للطبرانی عن معاویۃ

14784

14784- "إنك إن ابتغيت عورات الناس أفسدتهم أو كدت أن تفسدهم". "د عن معاوية". مر برقم [14639] .
14784 اگر تو لوگوں کے عیوب کو تلاش کرے گا تو ان کو برباد کردے گا یا بربادی کے دہانے پر پہنچا دے گا۔ ابوداؤد عن معاویہ (رض) 14039

14785

14785- " إنا لا نستعمل على عملنا من أراده". "حم ق د ت عن أبي موسى".
14785 ہم ایسے شخص کو حکومت کے کام پر مقرر نہیں کرتے جو خود اس کی طلب کرے۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی عن ابی موسیٰ (رض)

14786

14786- "إنا والله لا نولي على هذا العمل أحدا سأله ولا أحدا حرص عليه". "م عن أبي موسى".
14786 اللہ کی قسم ! ہم ایسے شخص کو اس کام پر مقرر نہیں کرتے جو خود اس کا سوال کرے اور نہ ایسے شخص کو جو اس کی حرص اور طمع رکھے۔ مسلم عن ابی موسیٰ (رض)

14787

14787- "أوصي الخليفة من بعدي بتقوى الله، وأوصيه بجماعة المسلمين أن يعظم كبيرهم ويرحم صغيرهم، ويوقر عالمهم، وأن لا يضربهم فيذلهم، ولا يوحشهم فيكفرهم وأن لا يخصيهم فيقطع نسلهم وأن لا يغلق بابه دونهم فيأكل قويهم ضعيفهم". "هق عن أبي أمامة".
14787 میں اپنے بعد خلیفہ کو اللہ کے تقویٰ کی اور اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے بڑے کی عزت کرے چھوٹے پر رحم کرے ان کے علماء کی توقیر و احترام کرے ان کو مار مار کر ذلیل نہ کرے وحشت زدہ کرکے نفرت نہ دلائے ان کو خصی کرکے ان کی نسل کو منقطع نہ کرے اور یہ کہ اپنے دروازے کو ان پر بند نہ کرے ورنہ ان میں سے طاقتور کمزوروں کو کھا جائیں گے۔
السنن للبیہقی عن ابی امامۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 2119 ۔

14788

14788- "عفو الملوك أبقى للملك". "الرافعي عن علي".
14788 بادشاہوں کا معافی دینا ان کی سلطنت کو زیادہ باقی رکھنے والی چیز ہے۔
الرافعی عن علی (رض)

14789

14789- " على الوالي خمس خصال: جمع الفيء من حقه ووضعه في حقه وأن يستعين على أمورهم بخير من يعلم، ولا يجمرهم فيهلكهم، ولا يؤخر أمرهم لغد". "عق عن واثلة".
14789 حاکم پر پانچ باتیں ضروری ہیں حق کے ساتھ غنیمت لے اور حق کے ساتھ ادا کرے ان کے امور کا نگہبان ایسے شخص کو بنائے جو اچھی طرح ان کے امور کو جانتا ہوا ور ان کے لیے بہتر ہو۔ ان کو کسی معرکہ میں محصور کرکے ختم نہ کردے۔ اور نہ ان کے آج کے کام کو کل پر چھوڑے۔
الضعفاء للعقیلی عن واثلۃ
کلام : ضعیف الجامع 3736، الکشف الالھی 561 ۔

14790

14790- " الأمراء من قريش ما عملوا فيكم بثلاث: ما رحموا إذا استرحموا، وقسطوا وعدلوا إذا حكموا". "ك عن أنس"
14790 امراء قریش میں سے ہوں جب تک کہ وہ تین باتوں پر عمل کریں : ان سے رحم مانگا جائے تو وہ رحم کریں اور جب وہ فیصلہ کریں تو انصاف اور عدل کے ساتھ کام لیں۔
مستدرک الحاکم عن انس (رض)

14791

14791- "الأمراء من قريش من ناوأهم أو أراد أن يستفزهم تحات تحات الورق". "الحاكم في الكنى عن كعب بن عجرة".
14791 امراء قریش میں سے ہوں گے جو ان سے مقابلہ اور دشمنی کرے گا یا ان کو گرانے کی کوشش کرے گا درخت کے پتوں کی طرح خود جھڑ جائے گا۔ الحاکم فی الکنی عن کعب بن عجرۃ
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 2296 ۔

14792

14792- "الأئمة من قريش أبرارها أمراء أبرارها، وفجارها أمراء فجارها، وإن أمرت عليكم قريش حبشيا مجدعا فاسمعوا له وأطيعوا ما لم يخير أحدكم بين إسلامه وضرب عنقه فإن خير بين إسلامه وضرب عنقه فليقدم عنقه". "ك هق عن علي"
14792 ائمہ (حکام) قریش میں سے ہوں گے۔ ان میں سے نیک نیکوں کے امیر ہوں گے فاسق فاسقوں کے امیر ہوں گے ۔ اگر قریش تم پر کسی کالے اور نک کٹے کو بھی امیر مقرر کردیں تب بھی تم ان کے امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا جب تک کہ تم میں سے کسی کو اسلام اور اس کی گردن زدنی میں اختیار نہ دیا جائے۔ پس جب اس کو ان دو چیزوں میں اختیار دیا جائے تو وہ اپنی گردن زدنی کے لیے گردن جھکا دے۔ مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن علی (رض)

14793

14793- "كان هذا الأمر في حمير فنزعه الله منهم وجعله في قريش وسيعود إليهم". "حم طب ذي مخمر"
14793 یہ حکومت پہلے حمیر قوم میں تھی پھر اللہ نے ان سے چھین لی اور اس کو قریش میں رکھ دیا اور عنقریب ان (قریش) ہی کی طرف لوگ آئے گی۔ مسند احمد، الکبیر للطبرانی دی مخر
کلام : روایت باطل ہے الاباطیل 254، احادیث مختارہ 88، المتناھیہ 1278 ۔

14794

14794- "لا يزال هذا الأمر في قريش ما بقي في الناس اثنان". "حم ق عن ابن عمر".
14794 یہ حکومت قریش میں رہے گی جب تک لوگوں میں دو (قریشی) بھی باقی رہیں گے۔
مسند احمد، البخاری ، مسلم عن ابن عمیر (رض)

14795

14795- "اسمع وأطع ولو لعبد حبشي مجدع الأطراف". "حم م عن أبي ذر".
14795 حاکم کی سن اور اطاعت کر خواہ وہ سیاہ کالا اور لولا لنگڑا ہو۔ مسند احمد ، مسلم عن ابی ذر (رض)

14796

14796- "اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم". "م ت عن وائل".
14796 سنو اور اطاعت کرو، بیشک ان پر اس کا وبال ہے جس کو وہ اپنے اوپر اٹھائیں (اور ظلم ڈھائیں) اور تم پر اس کا وبال ہے جو تم اٹھاؤ (اور نافرمانی کرو) ۔ مسلم، الترمذی عن وائل

14797

14797- "عليهم ما حملوا، وعليكم ما حملتم". "طب عن زيد بن سلمة الجعفي"
14797 جو ان پر بار ہوا (بار حکومت) اس کا وبال ان پر ہے، اور جو تم کرو گے اس کا وبال تم پر ہے۔ الکبیر للطبرانی عن زید بن سلمۃ الجعفی

14798

14798- "إن أمر عليكم عبد مجدع أسود يقودكم بكتاب الله فاسمعوا له وأطيعوا". "م هـ عن أم الحصين".
14798 اگر تم پر نکھٹے سیاہ فام حبشی غلام کو بھی امیر بنادیا جائے جو تم پر کتاب اللہ کے ساتھ حکمرانی کرے تم ضرور اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ مسلم، ابن ماجہ عن ام الحتین

14799

14799- "اسمعوا وأطيعوا، وإن استعمل عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة". "حم خ هـ عن أنس".
14799 سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر کالے کلوٹے غلام جس کا سر کشمش کی طرح ہو کو بھی امیر مقرر کردیا جائے تم اس کی اطاعت کرنا۔ مسنداحمد ، البخاری، ابن ماجہ عن انس (رض)

14800

14800- "إنما الطاعة في معروف". "حم ق عن علي"
14800 اطاعت صرف نیکی میں ہے۔ مسند احمد، البخاری ، مسلم عن علی (رض)

14801

14801- "عليك السمع والطاعة في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك". "حم م ن عن أبي هريرة"
14801 تجھ پر سمع وطاعت فرض ہے تنگی ہو یا آسانی یا خوشی سے ہو یا زبردستی اور خواہ تم پر کسی اور کو ترجیح دی جائے۔ مسنداحمد ، مسلم، النسائی عن ابوہریرہ (رض)

14802

14802- "سيليكم أمراء يفسدون وما يصلح الله بهم أكثر، فمن عمل منهم بطاعة الله فلهم الأجر وعليكم الشكر، فمن عمل منهم بمعصية الله فعليهم الوزر وعليكم الصبر". "هب عن ابن مسعود".
14802 عنقریب تم پر ایسے والی مقرر ہوں گے جو خرابی پیدا کریں گے لیکن اللہ پاک ان کی بدولت جو اصلاح پیدا فرمائیں گے وہ زیادہ ہوگی پس ان میں سے جو اللہ کی اطاعت کے ساتھ عمل کریں ان کو اجر ہے اور تم پر ان کا شکرواجب ہے۔ جو ان میں سے اللہ کی معصیت کے ساتھ عمل کریں ان پر اس کا وبال ہے اور تم پر صبر کرنا لازم ہے۔ شعب الایمان للبیہقی عن ابن مسعود (رض)
کلام : ذخیرۃ الحفاظ۔ 3281 ۔ ضعیف الجامع 3314 ۔

14803

(14803) - أيما رجل خرج يفرق بين أمتي فاضربوا عنقه (ن عن اسامة بن شريك).
14803 جو شخص نکلے اس غرض سے کہ میری امت میں پھوٹ ڈالے تم اس کی گردن اڑادو۔
النسائی عن اسامۃ بن شریک

14804

(14804) - سكون بعدي هنات (د ن ك عن عرفجة) (2) أخرجه أبو داود في كتاب السنة باب في قتل الخوارج رقم (4736). وقال المنذري أخرجه مسلم والنسائي.
14804 میرے بعد بڑے بڑے مسائل پیش ہوں گے پس جو مسلمانوں کی جماعت کو پارہ پارہ کرنا چاہے اس کی گردن اڑا دینا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ابوداؤد ، نسائی، مستدرک الحاکم عن عرفجہ

14805

(14805) - كانت بنو إسرائيل تسوسهم الانبياء كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي وسيكون خلفاء فيكثرون ، قالوا : فما تأمرنا ؟ قال : فوا بيعة الاول فالاول وأعطوهم حقهم الذي جعل الله لهم فان الله سائلهم عما استرعاهم (حم ق ه عن أبي هريرة).
14805 بنی اسرائیل کے امور حکومت کو بھیان کے انبیاء سنبھالتے تھے۔ جب بھی ایک نبی ہلاک ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کے بعد اس کا خلیفہ بن جاتا۔
اور میرے بعد بیشک کوئی نبی نہ آئے گا۔ ہاں خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا : پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا : پہلے والے کی بیعت کی وفاداری کرو، پھر اس کے بعد والے کی بیعت کی وفاداری کرو اور ان کو ان کا حق دو جو اللہ نے ان کا حق رکھا ہے۔ بیشک اللہ بھی ان سے ان کی رعیت کے حقوق کے بارے میں باز پرس کرے گا۔
مسند احمد، البخاری ، مسلم ، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

14806

(14806) - من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد يريد أن يشق عصاكم أو يفرق جماعتكم فاقتلوه (م عن عرفجة).
14806 جو تمہارے پاس آئے اس حال میں کہ تم سب ایک ہو اور ایک پر تمہارا اتفاق ہو۔ پھر وہ آنے والا تمہاری لاٹھی توڑنا چاہے یا تمہاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنا چاہے تو اس کو قتل کردو۔
مسلم عن عرفجہ

14807

(14807) - إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما. (حم م عن أبي سعيد)
14807 جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو بعد والے کو قتل کردو۔
مسند احمد، مسلم عن ابی سعید (رض)

14808

(14808) - من أطاعني فقد أطاع الله ، ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن يطع الامير فقد أطاعني ، ومن يعص الامير فقد عصاني. (حم ق ن ه عن أبي هريرة).
14808 جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

14809

14809- "من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبية أو يدعو على عصبية أو ينصر عصبية فقتل فقتلته جاهلية ومن خرج على أمتي يضرب برها وفاجرها، ولا يتحاشى من مؤمنها ولا يفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه". "حم ن م عن أبي هريرة".
14809 جو (امام کی) اطاعت سے نکل گیا اور جماعت سے جدا ہوگیا پھر اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرا۔ جس نے مصیبت و گمراہی کے جھنڈے تلے قتال کیا مصیبت کے لیے غضبناک ہوا۔ یا مصیبت کی طرف بلایا یا مصیبت کی مدد کی اور لڑائی میں مارا گیا تو اس کی موت جاہلیت (کفر) کی موت ہے، جو شخص میری امت پر نکلا اور ان کے نیکوں اور بدوں کو مارنا شروع کیا۔ مومن کی پروا کی اور نہ کسی عہد والے (غیر مسلم ذمی) کے عہد کا خیال کیا تو وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے (میرا اس کا کوئی تعلق نہیں) ۔ مسند احمد ، النسائی ، مسلم عن ابوہریرہ (رض)

14810

14810- "من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية". "م عن ابن عمر".
14810 جس نے (امام کی) اطاعت سے ہاتھ نکال لیا وہ قیامت کے روز اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس (نجات کی) کوئی حجت نہ ہوگی (اور جو اس حال میں مرا) کہ اس کے گلے میں بیعت کا طوق نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ مسلم عن ابن عمر (رض)

14811

14811- "من رأى من أميره شيئا يكرهه فليصبر عليه، فإنه ليس أحد يفارق الجماعة شبرا فيموت إلا مات ميتة جاهلية". "حم م ق عن ابن عباس".
14811 جو اپنے امیر سے کوئی ناگوار بات دیکھے صبر کرے۔ کیونکہ جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر بھی دورہوا اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
مسند احمد، مسلم، البخاری، مسلم عن ابن عباس (رض)

14812

14812- "يا أيها الناس اتقوا الله وإن أمر عليكم عبد حبشي مجدع فاسمعوا له وأطيعوا ما أقام لكم كتاب الله". "حم ت ك عن أم الحصين"
14812 اے لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اگر تم پر کسی کالے کلوٹے نکٹے غلام کو بھی امیر بنادیا جائے اس کی سنو اور اطاعت کرو جب تک وہ تمہارے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے۔
مسند احمد، الترمذی، مستدرک الحاکم عن ام الحصین

14813

14813- "لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه خيرا لهم وينذرهم ما يعلمه شرا لهم، وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها وسيصيب آخرها بلاء شديد وأمور تنكرونها، وتجيء فتن فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتن فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه هذه، فمن أحب منكم أن يزحزح عن النار، ويدخل الجنة فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتي إليه، ومن بايع إماما فأعطاه صفقه يده وثمرة قلبه فليطعه ما استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر". "حم م ن هـ عن ابن عمرو"
14813 مجھ سے پہلے جو نبی بھی تھا اس پر لازم تھا کہ اپنی امت کو خیر کی راہ بتائے جو ان کے لیے سب سے بہتر اس کو معلوم ہو۔ اور ان کو اس برائی سے بھی ڈرائے جوان کے لیے بری معلوم ہو اور میری اس امت کی عافیت کا زمانہ شروع کا ہے جبکہ آخروالوں کو شدید مصیبتوں اور ایسے ایسے فتنوں کا سامنا کرنا ہوگا جو ان کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ فتنے یوں امڈ آئیں گے کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر نکلے، ایک فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ تو ہلاکت خیز فتنہ ہے۔ پھر اس کی قلعی کھل جائے گی پھر اور کوئی فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا ہاں یہ ہے۔ پس جو تم میں سے جہنم سے بچنا چاہے اور جنت میں داخل ہوناچا ہے تو اس کو موت اس حال میں آنا ضروری ہے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے پسند کرے۔ اور جو کسی امام کی بیعت کرے اور اس کو اپنے ہاتھ کا سودا اور دل کا ثمرہ دیدے تو اس کی اطاعت کرتا رہے جہاں تک ممکن ہوسکے پھر اگر دوسرا امام آجائے جو پہلے والے سے جھگڑے تو دوسرے کی گردن اڑادو۔
مسند احمد ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ عن ابن عمرو

14814

14814- "اطع كل أمير، وصل خلف كل إمام ولا تسبن أحدا من أصحابي". "طب عن معاذ بن جبل".
14814 ہر امیر کی اطاعت کر، ہر امام کے پیچھے نماز پڑھ اور میرے صحابہ میں سے کسی کو بھی گالی مت دے۔ الکبیر للطبرانی عن معاذ بن جبل (رض)
کلام : ضعیف الجامع 897 ۔

14815

14815- "صلوا خلف كل بر وفاجر وصلوا على كل بر وفاجر وجاهدوا مع كل بر وفاجر". "هق عن أبي هريرة".
14815 ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز پڑھو ہر نیک اور بد کی نماز جنازہ پڑھو اور ہر نیک اور بد (حاکم) کے تحت جہاد کرو۔ السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ضعیف الجامع 3478 ضعاف الدارقطنی 431 صلۃ المرتاب 273 ۔

14816

14816- "اسمع وأطع ولو لحبشي كأن رأسه زبيبة". "ط خ عن أنس".
14816 سن اور اطاعت کر خواہ امیر حبشی ہو اور اس کا سر کشمش کی طرح (چھوٹا اور بدصورت) ہو۔ ابوداؤد ، البخاری عن انس (رض)

14817

14817- " أطيعوا أمراءكم مهما كان فإن أمروكم بشيء مما جئتكم به فإنهم يؤجرون عليه وتؤجرون بطاعتهم، وإن أمروكم بشيء مما لم آتكم به فإنه عليهم وأنتم منه براء ذلكم بأنكم إذا لقيتم الله قلتم ربنا لا ظلم، فيقول: لا ظلم، فيقولون: ربنا أرسلت إلينا رسلا فأطعناهم بإذنك واستخلفت علينا خلفاء فأطعناهم بإذنك، وأمرت علينا أمراء فأطعناهم لك فيقول: صدقتم وهو عليهم وأنتم منه براء". "ابن جرير طب ق عن المقدام".
14817 اپنے امراء کی اطاعت کرتے رہو جیسے بھی ممکن ہوسکے۔ اگر وہ ایسی چیز کا حکم کریں جو میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں تو ایسے حکم پر ان کو اجر ملے گا اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو تم کو بھی اجر ملے گا اور اگر وہ ایسی کسی چیز کا حکم دیں جو میں تمہارے پاس لے کر نہیں آیا تو اس کا وبال ان پر ہے اور تم اس سے بری ہو۔
اس کا حال یہ ہوگا کہ جب تم اپنے پروردگار سے ملو گے تو کہو گے اے پروردگار کوئی ظلم قبول نہیں، پروردگار فرمائے گا ظلم نہ ہوگا، بندے عرض کریں گے اے ہمارے رب ! تو نے ہمارے پاس رسولوں کو بھیجا ہم نے آپ کے حکم کے ساتھ ان کی اطاعت کی آپ نے ہم پر خلیفہ منتخب کئے ہم نے آپ کے حکم کے ساتھ ان کی بھی اطاعت کی آپ نے ہم پر امیر مقرر کئے اور ان کی اطاعت بھی ہم نے آپ کے لیے کی۔ پروردگار فرمائے گا : تم نے سچ کہا غلط بات کے حکم کا وبال ان پر ہے اور تم اس سے بری ہو۔ ابن جریر، الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن المقدام

14818

14818- " اعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأطيعوا من ولاه الله أمركم ولا تنازعوا الأمر أهله وإن كان عبدا أسود، وعليكم بما تعرفون من سنة نبيكم والخلفاء الراشدين المهديين، وعضوا عليها بالنواجذ تدخلوا الجنان". "طب ك هـ خ في الأدب حب حل عن ابن عمرو، ابن جرير طب ك عن العرباض بن سارية".
14818 اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، جن کو اللہ نے تمہاری باگ ڈور تھمائی ہے ان کی اطاعت کرو اور اہل حکومت سے حکومت کے لیے نہ جھگڑو خواہ حاکم حبشی غلام ہو۔ تم پر تمہارے نبی اور خلفاء راشدین مہدین کی سنت کی اتباع بھی لازم ہے جو تم کو معلوم ہو باتوں کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام لو جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔
الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم، ابن ماجہ، الادب للبخاری ، ابن حبان ، حلیۃ الاولیاء عن ابن عمرو، ابن جریری، مستدرک الحاکم عن العریاض بن ساریۃ

14819

14819- "أذكركم الله لا تبغوا على أمتي بعدي سيكون بعدي أمراء فأدوا طاعتهم فإن الأمير مثل المجن يتقى به فإن أصلحوا أموركم بخير فلكم ولهم، وإن أساءوا فيما أمروكم فهو عليهم وأنتم منه براء، إن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم". "طب عن المقدام بن معد يكرب وأبي أمامة معا".
14819 میں تم کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میری امت پر میرے بعد ظلم وتعدی نہ کرنا، میرے بعد عنقریب ایسے امراء آئیں گے تم ان کی اطاعت کرنا بیشک امیر کی مثال ڈھال کی سی ہے جس کے ساتھ حفاظت ہوتی ہے پس اگر تم اپنے معاملوں کو خیر کے ساتھ درست کرو تو ان کا فائدہ تمہارے لیے بھی ہے اور ان کے لیے بھی اگر وہ تم پر احکام جاری کرنے میں برائی کریں تو اس کا وبال ان پر ہے اور تم ان سے بری ہو بیشک امیر جب لوگوں میں شک وشبہ کرتا ہے تو ان کو فاسد وخراب کردیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن المقدام بن معدی، کرب وابی امامۃ معا

14820

14820- " إذا كان عليكم أمراء يأمرونكم بالصلاة والزكاة والجهاد في سبيل الله فقد حرم الله عليكم سبهم وحلت لكم الصلاة خلفهم". "طب عن عمرو البكالي".
14820 جب تم پر امراء مقرر ہوں اور وہ نماز زکوۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کا تم کو حکم کریں تو اللہ تم پر ایسے امراء کو گالی دینا حرام قرار دیتا ہے اور ان کے پیچھے تمہارے لیے نماز پڑھنا حلال اور جائز رکھتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن عمرو البکالی

14821

14821- "من عقر بهيمة ذهب ربع أجره، ومن حرق نخلا ذهب ربع أجره، ومن غش شريكا ذهب ربع أجره ومن عصى إمامه ذهب أجره كله". "ق والديلمي، وابن النجار - عن أبي رهم السماعي"
14821 جس نے جانور کی کونچیں (پچھلی پنڈلیاں) کاٹ دیں اس (کی زندگی) کا چوتھائی اجر ضائع ہوگیا۔ جس نے کھجور کا (پھل دار) درخت جلا دیا اس کا چوتھائی اجر ضائع ہوگیا۔ جس نے اپنے شریک کو دھوکا دیا اس کا چوتھائی اجر ضائع ہوگیا اور جس نے اپنے حاکم کو دھوکا دیا اس کا سارا اجر ضائع ہوگیا۔ السنن للبیہقی، الدیلمی ، ابن البخار عن ابی رھم السماعی، اسم ابی رھم احراب بن السید

14822

14822- "إذا كان في الأرض خليفتان فاقتلوا آخرهما". "طس ت عن معاوية"
14822 جب زمین پر دو خلیفہ ہوں تو بعد والے کو قتل کردو۔ الاوسط للطبرانی، الترمذی عن معاویۃ (رض)

14823

14823- "إذا خرج عليكم خارج وأنتم مع رجل جميعا ويريد أن يشق عصا المسلمين ويفرق جمعهم فاقتلوه". "طب عن عبد الله بن عمر الأشجعي".
14823 جب تم پر کوئی باغی خروج کرے حالانکہ تم کسی ایک آدمی پر جمع ہو اور باغی مسلمانوں کی جمعیت کا عصاتوڑنا چاہے اور ان کی جمعیت کو پارہ پارہ کرنا چاہے تو اس کو قتل کرڈالو۔
الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن عمر الاشجعی

14824

14824- "إنه كائن من بعدي سلطان فلا تذلوه، فمن أراد أن يذله فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه وليس بمقبول منه حتى يسد ثلمته التي ثلم وليس بفاعل ثم يعود فيكون فيمن يعزه". "حم هب عن أبي ذر".
14824 یقیناً میرے بعد سلطان آئے گا۔ اس کو ذلیل نہ کرنا۔ جس نے اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کی اس نے اپنی گردن سے اسلام کا قلادہ (تعویذ) نکال کر پھینک دیا۔ اس کی کوئی عبادت مقبول نہیں جب تک کہ وہ اپنے خلاء کو پر نہ کرے جو (بغاوت سے) پیدا ہوچکا ہے اگرچہ وہ خلاء پر نہیں کرسکتا مگر وہ پھر بھی لوٹ آئے گا اور سلطان کو عزت دینے والوں میں شامل ہوجائے گا۔
مسند احمد، شعب الایمان للبیہقی عن ابی ذر (رض)

14825

14825- "إنه سيكون بعدي سلطان فأعزوه فإنه من أراد ذله ثغر ثغرة في الإسلام وليست له توبة إلا أن يسدها وليس بساد لها إلى يوم القيامة". "خ في تاريخه والروياني عن أبي ذر".
14825 عنقریب میرے بعد سلطان (بادشاہ) آئے گا۔ اس کی عزت کرنا بیشک جس نے اس کو ذلیل کرنے کا ارادہ کیا اسلام میں دراڑ پیدا کردی۔ اس کے لیے توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اس دراڑ کو بند نہ کرے اور وہ دراڑ (پہلی حالت پر) قیامت تک بند نہ ہوگی۔
التاریخ للبخاری، الرویانی عن ابی ذر (رض)

14826

14826- "إنه سيكون أمراء يؤخرون الصلاة عن مواقيتها ألا فصل الصلاة لوقتها، ثم ائتهم فإن كانوا قد صلوا كنت قد أحرزت صلاتك وإلا صليت معهم وكانت لك نافلة". "ط وعبد الرزاق حم م ن عن أبي ذر".
14826 عنقریب ایسے امراء آئیں گے جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کیا کریں گے خبردار تم اپنے وقت پر نماز پڑھنا پھر ان کے ساتھ (مسجد میں) آجانا۔ اگر وہ نماز پڑھ چکے ہوں گے تو تم بھی اپنی نماز پڑھ چکے ہو ورنہ ان کے ساتھ شریک فی الصلوٰۃ ہوجانا اور تمہاری ان کے ساتھ نماز نفل ہوجائے گی۔ ابوداؤد ، عبدالرزاق، مسنداحمد، مسلم، النسائی عن ابی ذر (رض)

14827

14827- "سيكون عليكم أمراء يميتون الصلاة عن مواقيتها فصلوا الصلاة لوقتها واجعلوا صلاتكم معهم سبحة 1". "حم طب عن شداد بن أوس".
14827 عنقریب تم پر ایسے امراء (مسلط) ہوں گے جو نمازوں کا وقت ضائع کردیں گے۔ تم اپنی نمازیں وقت پر پڑھنا اور پھر ان کے ساتھ نفل پڑھ لینا۔
مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن شداد بن اوس

14828

14828- "إنه سيكون بعدي أئمة يصلون الصلاة لغير وقتها، فإذا فعلوا ذلك فصلوا الصلاة لوقتها واجعلوا صلاتكم معهم نافلة". "طس عن أنس".
14828 عنقریب میرے بعد ایسے حکام آئیں گے جو نماز کو وقت نکال کر پڑھائیں گے۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اپنی نمازیں (گھروں میں) وقت پر پڑھنا اور ان کے ساتھ (مسجد میں) نفل نماز پڑھ لینا۔ الاوسط للطبرانی عن انس (رض)

14829

14829- "إنها ستكون بعدي أمراء يصلون بكم الصلاة فإن أتموا ركوعها وسجودها فلكم ولهم، وإن انتقصوا منها فلكم وعليهم". "حم طب عن عقبة بن عامر".
14829 عنقریب میرے بعد امراء آئیں گے جو تم کو نماز پڑھائیں گے اگر وہ رکوع و سجود کو اچھی طرح ادا کریں تو اس کا ثواب تمہارے لیے اور ان کے لیے بھی ہے اور اگر وہ نماز میں کمی کوتاہی کا شکار ہوں تو تمہارے لیے کوئی نقصان نہیں اس کا سارا وبال انہی پر ہے۔
مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن عقبۃ بن عامر

14830

14830- "إنها ستكون هنات وهنات، فمن أراد أن يفرق أمر هذه الأمة وهم جميع فاضربوه بالسيف كائنا من كان". "حب عن عرفجة" مر برقم [14804] .
14830 عنقریب بہت خطرات اور مسائل پیدا ہوں گے۔ جو اس امت کو پارہ پارہ کرنا چاہے گا جبکہ امت مجتمع ہو تو ایسے شخص کی تلوار کے ساتھ گردن اڑا دینا خواہ وہ کوئی ہو۔
ابن حبان عن عرفجۃ 14804

14831

14831- "ستكون بعدي هنات وهنات فمن رأيتموه فارق الجماعة أو يريد أن يفرق بين أمة محمد وأمرهم جميع فاقتلوا كائنا من كان، فإن يد الله على الجماعة وإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض". "ن هب عن عرفجة بن شريح الأشجعي".
14831 عنقریب میرے بعد بڑے بڑے فتنے رونما ہوں گے۔ جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ جماعت میں پھوٹ ڈال رہا ہے یا امت محمد کے درمیان انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے حالانکہ وہ سب ایک ہیں تو ایسے شخص کو قتل کردینا خواہ وہ کوئی ہو، بیشک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور شیطان ان کو لاتیں مارتا ہے جو جماعت سے جدا ہوجاتے ہیں۔
النسائی، شعب الایمان للبیہقی عن عرفجۃ ابن شریح الا شجعی

14832

14832- "ستكون أمراء فتعرفون وتنكرون، فمن كره برئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع، قالوا: أفلا نقاتلهم؟ قال: لا ما صلوا". "م د عن أم سلمة"
14832 عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کے کچھ کام تمہارے جانے (پہچانے) درست ہوں گے اور کچھ اجنبی اور نامانوس (غلط) کام ہوں گے۔ جس نے غلط کام کو ناپسند کیا وہ بری ہوگیا ، جس نے اس پر نکیر کی۔ آواز اٹھائی وہ برائی سے محفوظ ہوگیا لیکن جو راضی ہوگیا اور اتباع کرلی۔ وہ خطرہ اور ہلاکت میں پڑگیا۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا : کیا ہم ایسے امراء سے قتال (جنگ) نہ کریں ؟ ارشاد فرمایا : نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ مسلم ، ابوداؤد عن ام سلمۃ (رض)

14833

14833- "إنها ستكون أمراء يميتون الصلاة ويخففونها إلى شرقالموتى وإنها صلاة من هو شر من حمار وصلاة من لا يجد بدا فمن أدرك منكم ذلك الزمان فليصل الصلاة لوقتها، واجعلوا صلاتكم معهم سبحة". "طب عن ابن مسعود".
14833 عنقریب ایسے امراء ہوں گے جو نماز کو فوت کردیں گے اور بالکل آخری جاتے وقت میں نماز پڑھیں گے۔ یہ ایسے لوگوں کی نماز ہوگی جو گدھے سے بھی بدتر ہوں گے جو اس کے بغیر چارہ نہ پائیں گے (مجبوراً ) پڑھنے والے لوگ ہوں گے تم ان کے ساتھ شریک ہو کر نفل نماز پڑھ لیا کرنا۔ الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

14834

14834- "إنها ستجيء أمراء تشغلهم أشياء حتى لا يصلوا الصلاة لميقاتها فصلوا الصلاة لوقتها، فإن أدركتموها معهم فاجعلوا صلاتكم معهم سبحة". "طب عن عبد الله بن أم حرام".
14834 عنقریب ایسے امراء (حکام) آئیں گے جن کو دوسرے کام ایسا مشغول کرلیں گے کہ وہ نماز وقت پر نہیں پڑھیں گے تم اپنی نماز وقت پر پڑھنا۔ اگر تم ان کے ساتھ بھی نماز پالو تو ان کے ساتھ نفل پڑھ لینا۔ الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن ام حرام

14835

14835- "إنها ستكون أمراء بعدي يصلون الصلاة لوقتها ويؤخرونها عن وقتها فصلوا معهم فإن صلوها لوقتها وصليتموها معهم فلكم، وإن أخروها عن وقتها فصليتموها معهم فلكم وعليهم، ومن فارق الجماعة مات ميتة جاهلية، ومن نكث العهد فمات ناكثا للعهد جاء يوم القيامة لا حجة له". "عبد الرزاق حم ع طب ص عن عامر بن ربيعة".
14835 عنقریب میرے بعد ایسے احکام آئیں گے جو نماز کو وقت پر بھی پڑھیں گے اور روقت سے موخر بھی کردیں گے۔ پس تم ان کے ساتھ وقت پر نماز پڑھو تو ان کے لیے اور تمہارے لیے بھی اجر ہے۔ اگر وہ وقت موخر کردیں اور تم ان کے ساتھ نماز پڑھو تو تمہارے لیے نیکی ہے اور ان کے لیے وبال ہے اور جو جماعت (مسلمین) سے جدا ہوگیا وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے عہد توڑا اور عہد شکنی میں اس کو موت آئی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔
عبدالرزاق، مسند احمد، مسند ابی یعلی، الکبیر للطبرانی، السنن للسعید بن منصور عن عامر بن ربیعۃ

14836

14836- "إنها ستكون عليكم أمراء يؤخرون الصلاة عن مواقيتها قالوا: كيف نصنع؟ قال: صلوها لوقتها فإن أدركتموها معهم فاجعلوا صلاتكم معهم سبحة". "سمويه ص عن أنس".
14836 عنقریب تم پر ایسے امراء آئیں گے جو نماز کا وقت نکال دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا : پھر ہم کیا کریں ؟ ارشاد فرمایا : اپنے وقت پر نماز پڑھو پھر ان کے ساتھ بھی نماز مل جائے تو ان کے ساتھ نفل نماز پڑھ لو۔ سمویہ، السنن لسعید بن منصور عن انس (رض)

14837

14837- "أوصيكم بتقوى الله، وأن تسمعوا من قول قريش وتدعوا فعلهم". "ابن سعد وابن جرير عن عامر بن شهر الههداني"
14837 میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ تم قریش (جو تمہارے حاکم ہوں ان) کی بات سنو اور ان کے فعل کو چھوڑ دو ۔ ابن سعد وابن جریر عن عامر بن شھر ھمدانی

14838

14838- "تمسكوا بطاعة أئمتكم ولا تخالفوهم فإن طاعتهم طاعة الله وإن معصيتهم معصية الله، وإن الله إنما بعثني أدعوا إلى سبيله بالحكمة والموعظة الحسنة فمن خلفني في ذلك فهو مني وأنا منه، ومن خالفني في ذلك فهو من الهالكين، وقد برئت منه ذمة الله وذمة رسوله، ومن ولي من أمركم شيئا فعمل بغير ذلك فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، وسيليكم أمراء إن استرحموا لم يرحموا، وإن سئلوا الحقوق لم يعطوا، وإن أمروا بالمعروف أنكروا وستخافونهم ويفترق ملأكم فيهم حتى لا يحملوكم على شيء إلا أحتملتم عليه طوعا أو كرها فأدنى الحق عليكم أن لا تأخذوا منهم العطاء ولا تحضروهم في الملأ". "الهيثم بن كليب الشاشي وابن منده طب والبغوي وابن عساكر عن أبي ليلى الأشعري؛ وفيه محمد بن سعيد الشامي متروك".
14838 اپنے ائمہ کی اطاعت کو تھام لو ان کی مخالفت مول نہ لو۔ ان کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے۔ ان کی معصیت اللہ کی معصیت ہے اور اللہ نے مجھے اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں حکمت (و بصیرت) اور اچھے وعظ کے ساتھ ان کو اللہ کی طرف بلاؤں ۔ پس جو میرے اس کام میں میرا خلیفہ بنا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے جس نے میری اس کام میں مخالفت کی وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے۔ اس سے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ بری ہے۔ اور جو تمہاری حکومت کا کوئی کام سنبھالے پھر اس میرے طریق کے بغیر عمل کرے اس پر اللہ کی ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ عنقریب تم پر ایسے حکام حاکم ہوں گے جن سے رحم کی بھیک مانگی جائے گی تو وہ رحم نہ کریں گے اگر ان سے حقوق کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ حقوق کی ادائیگی سے انکار کریں گے، اگر ان کو نیکی کا حکم کیا جائے گا تو اس سے منہ موڑیں گے اور تم ان سے خوف کرو گے۔ تمہارے معزز لوگ ان میں ہلکے پن اور انتشار کا شکار ہوجائیں گے وہ تم کو کسی چیز پر مجبور کرنا چاہیں گے تو تمہیں بخوشی یا زبردستی آمادہ ہونا پڑے گا۔ پس تم پر اس وقت ادنی ترین فرض یہ ہوگا کہ تم ان کے عطایانہ لو اور نہ ان کے دربار اور مجالس میں شریک ہو۔
الھیثم بن کلیب اشاشی وابن مندہ، الکبیر للطبرانی، البغوی، ابن عساکر عن ابی لیلی الاشعری
کلام : اس روایت میں محمد بن سعید الشامی متروک ہے۔

14839

14839- "خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم، وتلعنونهم ويلعنونكم، قيل: يا رسول الله أفلا ننابذهم عند ذلك؟ قال: لا ما أقاموا فيكم الصلاة، ألا من ولي عليه وال فرآه يأتي شيئا من معصية الله فليكره ما ياتي من معصية الله ولا ينزعن يدا من طاعة". "م
14839 تمہارے ائمہ میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان پر دعائیں بھیجو اور وہ تم پر دعائیں بھیجیں ۔ تمہارے بدترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! کیا ایسے وقت ہم ان کو نہ چھوڑ دیں، ارشاد فرمایا : نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کراتے رہیں، خبردار ! جس پر کسی کو حاکم مقرر کیا گیا پھر اس نے حاکم کو اللہ کی معصیت میں مبتلا ہوتے دیکھا تو وہ اس معصیت سے نفرت رکھے لیکن حاکم کی اطاعت سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچے۔
مسلم عن عوف بن مالک الاشجعی

14840

14840- "خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم ويصلون عليكم وتصلون عليهم وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعنونكم قيل: يا رسول الله أفلا ننابذهم بالسيف؟ قال: لا ما أقاموا فيكم الصلاة قال: لا ما أقاموا فيكم الصلاة، وإذا رأيتم من ولاتكم شيئا تكرهونه فاكرهوا عمله ولا تنزعوا يدا من طاعة". "م عن عوف ابن مالك الأشجعي"
14840 تمہارے بہترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم محبت رکھو، اور وہ تم سے محبت رکھیں وہ تم پر دعائے رحمت بھیجیں اور تم ان پر دعائے رحمت بھیجو، تمہارے بدترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھو اور وہ تم سے نفرت رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں، پوچھا گیا : یارسول اللہ ! کیا ہم تلوار کے ساتھ ان کو نہ سیدھا کریں۔ ارشاد فرمایا : نہیں جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔ ہاں جب تم اپنے حاکموں کی کوئی بری بات دیکھو تو اس سے کراہت کرو اس کے عمل سے نفرت کرو لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو۔ مسلم عن عرف بن مالک الاشجعی

14841

14841- "ستكون من بعدي أمراء فأدوا إليهم طاعتهم فإن الأمير مثل المجن يتقى به فإن صلحوا واتقوا وأمروكم بخير فلكم ولهم، وإن أساءوا وأمروكم به فعليهم وأنتم منه براء، وإن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم". "طب عن شريح بن عبيد قال أخبرني: جبير بن نفير وكثير بن مرة وعمرو بن الأسود والمقدام بن معد يكرب وأبو أمامة".
14841 عنقریب میرے بعدامراء آئیں گے تم ان کی اطاعت کرنا بیشک امیر ڈھال کے مثل ہے، جس کے ساتھ حفاظت ہوتی ہے ، اگر وہ درست رہیں، تقوی اختیار کریں اور تم کو نیکی کا حکم کریں تو پس تمہارے لیے بھی اور ان کے لیے بھی مفید ہے۔ اگر وہ برائی اختیار کریں اور تم کو بھی اس کا حکم دیں اس کا وبال انہی پر ہے اور تم اس سے بری ہو۔ اور امیر جب لوگوں میں عیب تلاشی کرتا ہے تو ان کو بگاڑ دیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن شریح بن عبدقال اخبرنی جبیر بن نفیر وکثیر بن مرۃ وعمرو بن الاسود والمقدام بن معدی کرب وابو امامۃ

14842

14842- " ستكون بعدي أئمة لا يهتدون بهدي ولا يستنون بسنتي وسيقوم رجال قلوبهم قلوب رجال شياطين في جسمان إنسان قال حذيفة: كيف أصنع إن أدركني ذلك؟ قال: اسمع الأمير الأعظم وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك". "ابن سعد عن حذيفة".
14842 عنقریب میرے بعد ایسے حکام آئیں گے جو میری ہدایت قبول کریں گے اور نہ میری سنت اختیار کریں گے۔ عنقریب ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے جن کے قلوب شیاطین کے قلوب ہوں گے لیکن وہ انسانی جسم میں محصور ہوں گے۔ حضرت حذیفہ (رض) نے عرض کیا : اگر مجھے ایسا وقت پیش آجائے تو میں کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا : بڑے امیر کی اطاعت کرنا خواہ وہ تیری کمر پر مارے اور تیرا مال لے لے۔ ابن سعد عن حذیفہ (رض)

14843

14843- "سيكون عليكم أمراء يصلون بكم الصلاة فإن أتموا بكم ركوعها وسجودها وما فيها فلكم ولهم، وإن انتقصوا من ذلك فلكم وعليهم". "قط في الأفراد عن عقبة بن عامر".
14843 عنقریب تم پر حاکم مقرر ہوں گے وہ تم کو نماز پڑھائیں گے اگر وہ رکوع و سجود وغیرہ کو اچھی طرح ادا کریں تو تمہارے لیے اور ان کے لیے بھی مفید ہے۔ اور اگر وہ کچھ کمی کریں تو تمہارے لیے پورا ثواب ہے اور ان کے لیے وبال ہے۔ الدارقطنی فی الافراد عن عقبۃ بن عامر

14844

14844- "سيكون أمراء تشغلهم أشياء يؤخرون الصلاة عن وقتها فصلوا الصلاة لوقتها واجعلوا صلاتكم معهم تطوعا". "حم عن أبي موسى".
14844 عنقریب ایسے امراء آئیں گے جن کو دوسرے کام نماز سے مشغول کردیں گے وہ نمازوں کو ان کے اوقات سے موخر کردیں گے تم اپنی نماز وقت پر ادا کرنا اور پھر ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل کرلینا۔ مسنداحمد عن ابی موسیٰ (رض)

14845

14845- "سيكون بعدي أمراء يؤخرون الصلاة لوقتها فإذا حضرتم معهم الصلاة فصلوا". "طس عن ابن عمرو".
14845 عنقریب میرے بعد ایسے امراء آئیں گے جو نماز کو وقت سے موخر کردیں گے پس جب تم ان کے پاس جاؤ تو ان کے ساتھ نماز پڑھ لینا۔ الاوسط للطبرانی عن ابن عمرو

14846

14846- "سيكون بعدي ولاة فيليكم البر ببره، ويليكم الفاجر بفجوره، فاسمعوا له وأطيعوا في كل ما وافق الحق، وصلوا وراءهم فإن أحسنوا فلكم ولهم وإن أساءوا فلكم وعليهم". "ابن جرير قط وابن النجار عن أبي هريرة؛ وضعف".
14846 عنقریب میرے بعد امراء آئیں گے نیک اپنی نیکی کے ساتھ تم پر حکومت کریں گے اور فاسق اپنے فسق کے ساتھ حکومت کریں گے ۔ پس سنو اور اطاعت کرو جب تک حق کے موافق ہو اور ان کے پیچھے نماز پڑھو، اگر وہ اچھائی کریں تو ان کے لیے اور تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر وہ برائی کریں تو تمہارے لیے وبال نہیں بلکہ ان پر اس کا وبال ہے۔
ابن جریر الدار قطنی، ابن النجار عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔

14847

14847- "عليك بالسمع والطاعة في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك ولا تنازع الأمر أهله وإن رأيت أن لك إلا أن يأمرك بأمر توارى عنك تأويله من الكتاب". "طب والروياني وابن عساكر عن عبادة بن الصامت".
14847 اپنی تنگی اور آسانی میں خوشی میں اور ناخوشی میں اور خواہ تجھ پر اوروں کو فوقیت دی جائے تجھ پر ہر حال میں اطاعت لازم ہے۔ حکومت کے معاملہ میں اہل حکومت سے نہ جھگڑ خواہ وہ معاملہ تیرے لیے ہو ہاں مگر جب تجھے اہل حکومت کی کوئی بات کتاب اللہ کی رو سے سمجھ میں نہ آئے۔ (جب تو ان کی مخالفت کرسکتا ہے) ۔ الکبر للطبرانی، امروبانی، ابن عساکر عن عبادۃ بن الصامت

14848

14848- "عليك بالسمع والطاعة في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك". "حم م ن وابن جرير عن أبي هريرة".
14848 اپنی تنگی میں اور خوشی میں نشاط میں اور ناگواری میں ہر حال میں خواہ تجھ پر کسی کو فوقیت دی جائے تجھ پر سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔ مسند احمد، مسلم، النسائی، ابن جریر عن ابوہریرہ (رض)

14849

14849- "عليكم بالسمع والطاعة في ما أحببتم وكرهتم، ألا إن السامع المطيع لا حجة عليه وإن السامع العاصي لا حجة له، ألا وعليكم بحسن الظن بالله فإن الله تعالى معط كل عبد بحسن ظنه وزيادة عليه". "أبو الشيخ عن عبد الرحمن بن مسعود".
14849 تم پر سننا اطاعت کرنا لازم ہے تم چاہو یا نہ چاہو ، خبردار ! سننے والا اطاعت کرنے والا، اس پر کوئی حجت اور الزام نہیں، لیکن سن کر نہ ماننے والے کے لیے (نجات کی) حجت نہیں۔ خبردار ! تم پر اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا لازم ہے۔ بیشک اللہ پاک ہر بندے کو اس کے اچھے گمان کے مطابق بلکہ مزید اضافے کے ساتھ عطا کرنے والا ہے۔ ابوالشیخ عن عبدالرحمن بن مسعود (رض)

14850

14850- "لخليفتي على الناس السمع والطاعة لله ولرسوله ولولاة الأمر". "البغوي وابن شاهين عن حزم بن عبد الخثعمي، قال البغوي: ولا أدري له صحبة أم لا وقد ذكره ابن أبي حاتم وابن حبان في ثقات التابعين".
14850 میرے بعد لوگوں پر اللہ اس کے رسول اور وقت کے خلیفہ کی اطاعت لازم ہے۔
البغوی وابن شاھین عن حزم بن عبدالخشعمی ، قال البغوی ، ولا ادری لہ صحبۃ ام لا رقد ذکرہ ابن ابی حاتم وابن حبان فی ثقاۃ التابعین

14851

14851- "لولا أنكم تسبون أمراءكم لأرسل الله عليهم نارا فاهلكتهم إنما يدفع الله بسبكم إياهم". "الديلمي عن ابن عمرو".
14851 اگر تم اپنے امراء کو گالی نہ دو تو اللہ پاک ان پر ایسی آگ بھیجے جو ان کو ہلاک کردے، بیشک اللہ پاک تمہارے ان کو گالی دینے کی وجہ سے ان سے عذاب ٹال دیتا ہے ۔
الدیلمی عن ابن عمرو

14852

14852- "عليكم بالسمع والطاعة فيما أحببتم وكرهتم في منشطكم ومكرهكم وأثرة عليكم ولا تنازعوا الأمر أهله". "طب عن عبادة بن الصامت".
14852 تم پر سمع وطاعت لازم ہے تمہاری پسند کی باتوں میں اور ناگوار باتوں میں، تمہاری خوشی ہو یا زبردستی، اور خواہ تم پر اور کسی کو فوقیت دی جائے۔ اور اہل حکومت سے حکومت کے معاملے میں نہ جھگڑو۔ الکبیر للطبرانی عن عبادہ بن الصامت

14853

14853- "ما من قوم سعوا على السلطان ليذلوه إلا أذلهم الله قبل يوم القيامة". "ن عن حذيفة".
14853 جو قوم سلطان کی طرف اس غرض سے گی کہ اس کی تذلیل وتوھین کرے تو اللہ پاک قیامت سے قبل ان کو ذلیل کرے گا۔ النسائی عن حذیفہ (رض)

14854

14854- "من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن يطع الأمير فقد أطاعني، ومن يعص الأمير فقد عصاني، وإنما الإمام جنة يقاتل به من وراءه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل كان له بذلك أجر. وإن يأمر بغيره كان عليه منه". "خ م ن عن أبي هريرة ش حم هـ صدره إلى قوله فقد عصاني".
14854 جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، امام ڈھال ہے اس کی حفاظت میں مقابل سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ساتھ حفاظت حاصل ہوتی ہے، اگر وہ اللہ کے تقویٰ کا حکم کرے اور عدل سے کام لے تو اس کو اس کا اجر ملے گا اور اگر اس کے علاوہ حکم دے تو اس کا وبات اسی پر ہوگا۔
البخاری ومسلم، النسائی عن ابوہریرہ (رض) ، ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ابن ماجہ، صدرہ الی قولہ فقد عصانی

14855

14855- "من استطاع منكم أن لا ينام نوما ولا يصبح صبحا إلا وعليه إمام فليفعل". "ابن عساكر عن أبي سعيد وابن عمر".
14855 جو تم میں سے یہ کرسکے کہ نہ سوئے اور نہ صبح کرے مگر اس حال میں کہ اس پر کوئی امام ہو تو وہ ایسا ہی کرے۔ ابن عساکر عن ابی سعید وابن عمر (رض)

14856

14856- "من بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه ما استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا رقبة الآخر". "د ش عن ابن عمرو".
14856 جس نے امام کی بیعت کی اس کو اپنے ہاتھ کا سودا اور اپنے دل کا ثمر دیدیا تو پس ممکنہ حد تک اس کی اطاعت کرے، پھر اگر دوسرا کوئی اس سے جھگڑنے والا آجائے تو اسی دوسرے کی گردن اڑادو۔ ابوداؤد، ابن ابی شیبہ عن ابن عمرو

14857

14857- "من خرج يدعو إلى نفسه أو إلى غيره وعلى الناس إمام فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين فاقتلوه". "الديلمي عن أبي بكر".
14857 جو (بغاوت اور) خروج کرنے اور اپنے لیے یا کسی اور کے لیے لوگوں کو بلائے حالانکہ لوگوں پر ایک امام ہے، پس اس پر اللہ کی ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے (ایسے شخص کو قتل کر ڈالو) ۔ الدیلمی عن ابی بکر (رض)

14858

14858- "من خرج على أمتي وهم مجتمعون يريد أن يفرق بينهم فاقتلوه كائنا من كان". "ع وأبو عوانة ص عن أسامة بن شريك، طب عن عرفجة الأشجعي".
14858 جو میری امت پر نکلے حالانکہ امت ایک ہے اور وہ ان کے درمیان انتشار کرنا چاہے تو اس کو قتل کر ڈالو خواہ وہ کوئی ہو۔
مسند ابی یعلی، ابوعوانہ، السنن للسعید بن منصور عن اسامۃ بن شریک، الکبیر للطبرانی عن عرفجہ الاشجعی

14859

14859- "من دعي إلى سلطان فلم يجب فهو ظالم لا حق له". "طب عن سمرة".
14859 جس کو سلطان کی طرف جانے کا بلاوا آئے لیکن وہ نہ آئے تو وہ ظالم ہے اس کا کوئی حق نہیں۔ الکبیر للطبرانی عن سمرۃ

14860

14860- "من دعي إلى حكم من أحكام فلم يجب فهو ظالم". "د في مراسيله، ق عن الحسن، مرسلا".
14860 جس کو احکام میں سے کسی حکم (سرکاری منصب) کی طرف دعوت دی جائے اور وہ قبول نہ کرے (حالانکہ) اس کو عدل و انصاف کرنے سے کوئی رکاوٹ نہ ہوگی تو وہ ظالم ہے۔
ابوداؤد فی مراسیلہ، السنن للبیہقی عن الحسن مرسلاً

14861

14861- "من مات وليست عليه طاعة مات ميتة جاهلية، وإن خلعها من بعد عقده إياها في عنقه لقى الله تعالى ليست له حجة، ألا لا يخلون رجل بامرأة لا تحل له فإن ثالثهما الشيطان إلا محرم فإن الشيطان مع الواحد وهو من الإثنين أبعد من ساءته سيئته وسرته حسنته فهو مؤمن". "ش حم طب ص عن عامر بن ربيعة"
14861 جو اس حال میں مرا کہ اس پر کسی حاکم کی اطاعت نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور اگر اس نے اطاعت کی مالا گلے میں ڈالنے کے بعد نکال دی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی کوئی حجت نہ ہوگی۔ خبردار کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ ملے جو اس کے لیے حلال نہ ہو۔ بیشک ان میں تیسرا شیطان شامل ہوتا ہے سوائے محرم کے بیشک شیطان ایک کے ساتھ ہے اور وہ دو سے زیادہ دور ہے۔ جس کو اپنی برائی ناگوار گزرے اور نیکی اچھی لگے وہ مومن ہے۔
ابن ابی شیبہ، مسند احمد، الکبیر للطبرانی، السنن للسعید بن منصور، عن عامر بن ربیعہ
کلام : روایت محل کلام ہے ذخیرۃ الحفاظ 5592

14862

14862- "من مات مفارقا للجماعة مات ميتة جاهلية". "طب حل عن ابن عمر".
14862 جو جماعت سے جدا ہو کے مرا جاہلیت کی موت مرا۔
الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابن عمر (رض)

14863

14863- "من مات بغير إمام مات ميتة جاهلية ومن نزع يدا من طاعة جاء يوم القيامة لا حجة له". "ط حل عن ابن عمر".
14863 جو امام (حاکم) کی ماتحتی کے بغیر مرا جاہلیت کی موت مرا اور جس نے امام کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔
ابوداؤد، حلیۃ الاولیاء، عن ابن عمر (رض)

14864

14864- "من مات ناكثا عهده جاء يوم القيامة لا حجة له". "الخرائطي في مساوى الأخلاق عن عامر بن ربيعة".
14864 جو عہد شکنی کی حالت میں مرا قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ وہ حجت سے خالی ہوگا۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن عامر بن ربیعۃ

14865

14865- "من نزع يدا من طاعة الله وفارق الجماعة ثم مات، مات ميتة جاهلية ومن خلعها بعد عهدها لقى الله ولا حجة له". "خط في المتفق والمفترق عن ابن عمر".
14865 جس نے اللہ کی اطاعت سے ہاتھ نکالا اور جماعت سے جدا ہوگیا پھر اس حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے اطاعت کا عہد کرکے اس کو نکال دیا چھوڑ دیاوہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔
المتفق والمتفرق للخطیب عن ابن عمر

14866

14866- "من نزع يدا من طاعة الله فإنه يأتي يوم القيامة لا طاعة له ولا حجة له ومن مات مفارقا للجماعة فقد مات موتة جاهلية". "حم عن ابن عمر".
14866 جس نے اللہ کی اطاعت سے ہاتھ نکالا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس اطاعت ہوگی اور نہ حجت ، اور جو جماعت سے جدا ہونے کی حالت میں مرا جاہلیت کی موت مرا۔ مسند احمد عن ابن عمر (رض)

14867

14867- "لا تدعوا على أئمتكم بالفساد، فإن صلاحهم صلاحكم وفسادهم فسادكم". "الشيرازي في الألقاب عن ابن عمر".
14867 اپنے حاکموں پر فساد کی بددعا نہ کرو بیشک ان کی صلاح و کامیابی تمہاری صلاح اور کامیابی ہے اور ان کا بگاڑ و فساد تمہارا بگاڑ و فساد ہے۔ الشیرازی فی القاب عن ابن عمر (رض)

14868

14868- "لا تسبوا السلطان فإنه ظل الله في أرضه". "أبو نعيم في المعرفة عن أبي عبيد".
14868 سلطان (بادشاہ حاکم) کو گالی مت دو ، کیونکہ وہ زمین پر اللہ کا سایہ ہے۔
ابونعیم فی المعرفۃ عن ابی عبید
کلام : روایت ضعیف ہے۔ کشف الخفاء 3059، النوافح 2569 ۔

14869

14869- "يا معاذ أطع كل أمير وصل خلف كل إمام، ولا تسبن أحدا من أصحابي". "عد ق عن معاذ".
14869 اے معاذ ! ہر امیر کی اطاعت کر، ہر امام کے پیچھے نماز پڑھ اور میرے اصحاب میں سے کسی کو گالی مت دے۔ الکامل لا بن عدی، السنن للبیہقی عن معاذ (رض)
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 6456 ۔

14870

14870- "يا هؤلاء أليس تعلمون أني رسول الله أليس تعلمون أن الله أنزل في كتابه من أطاعني فقد أطاع الله، من طاعة الله أن تطيعوني، وإن من إطاعتي أن تطيعوا أئمتكم، وإن صلوا قعودا فصلوا قعودا أجمعين". "طب عن ابن عمر".
14870 اے لوگو ! کیا تم جانتے نہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ کی اطاعت میں شامل ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میری اطاعت میں یہ شامل ہے کہ اپنے حکام کی اطاعت کرو ، اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائیں تو تم بھی سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)

14871

14871- "يكون عليكم أمراء تطمئن إليهم القلوب، وتلين لهم الجلود ثم يكون عليكم أمراء تشمئز منهم القلوب وتقشعر منهم الجلود، قيل: أفلا نقاتلهم يا رسول الله؟ قال: لا ما أقاموا الصلاة". "حم ع ص عن أبي سعيد".
14871 تم پر ایسے امراء آئیں گے دل ان پر مطمئن ہوں گے ۔ ان کی کھالیں (خدا کے ذکر سے نرم) ہوں گی پھر تم پر ایسے امراء آئیں گے دل ان سے اجنبیت کریں گے اور ان کی کھالیں سخت ہوں گی۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! تو کیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟ ارشاد فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز قائم کراتے رہیں۔ مسند احمد، مسند ابی یعلی، السنن للسعید بن منصور عن ابی سعید (رض)

14872

14872- "لا طاعة لمن لم يطع الله". "حم عن أنس".
14872 جو اللہ کی اطاعت نہ کرے اس کی کوئی اطاعت نہیں۔ مسند احمد عن انس (رض)

14873

14873- "من أمركم من الولاة بمعصية فلا تطيعوه". "حم هـ ك عن أبي سعيد".
14873 جو کوئی بھی حاکم تم کو معصیت کا حکم کرے اس کی اطاعت نہ کرو۔
مسند احمد ، ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن ابی سعید (رض)

14874

14874- "لا طاعة لأحد في معصية الله إنما الطاعة في المعروف". "ق د ن عن علي".
14874 اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں بیشک اطاعت تو صرف نیکی میں ہے۔
البخاری، مسلم ، ابوداؤد، النسائی عن علی (رض)

14875

14875- "لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق". "حم ك عن عمران والحكم بن عمرو الغفاري".
14875 خالق کی معصیت میں ملوق کی اطاعت نہیں۔
مسند احمد، مستدرک الحاکم عن عمران والحکم بن عمرو الغفاری

14876

14876- "سيكون عليكم أئمة يملكون أرزاقكم يحدثونكم فيكذبونكم، ويعملون فيسيئون العمل لا يرضون منكم حتى تحسنوا قبيحهم وتصدقوا كذبهم فأعطوهم الحق ما رضوا به، فإذا تجاوزوا فمن قتل على ذلك فهو شهيد". "طب عن أبي سلالة".
14876 عنقریب تم پر ایسے حکام آئیں گے جو تمہاری روزی کے مالک ہوں گے تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے عمل کریں گے تو براعمل کریں گے تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کی برائی کو اچھا قرار نہ دو ، ان کے جھوٹ کو سچا نہ کہو۔ ان کو حق دو جب تک وہ اس پر راضی ہوں، پس جب وہ تجاوز کریں تو جو ان سے لڑائی میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔
الکبیر للطبرانی عن ابی سلامۃ
کلام : روایت ضعیف ہے المشتھر 90 ۔

14877

14877- "سيكون أمراء تعرفون وتنكرون، فمن نابذهم نجا، ومن اعتزلهم سلم، ومن خالطهم هلك". "ش طب عن ابن عباس".
14877 عنقریب ایسے امراء آئیں گے جن کی کچھ باتیں تم کو اچھی اور کچھ اوپری (اجنبی) محسوس ہوں گی جس نے ان کو چھوڑ دیا نجات پالیا، جس نے کنارہ کرلیا وہ محفوظ رہا اور جوان کے ساتھ مل جل گیا وہ ہلاک ہوگیا ۔
ابن ابی شیبہ، الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

14878

14878- "سيلي أموركم من بعدي رجال يعرفونكم ما تنكرون وينكرون عليكم ما تعرفون، فمن أدرك ذلك منكم فلا طاعة لمن عصى الله عز وجل". "طب ك عن عبادة بن الصامت".
14878 میرے بعد تمہاری حکومت کے ذمہ دار ایسے لوگ ہوں گے جن باتوں کو تم غلط خیال کرتے ہو وہ ان کو اچھا بتائیں گے اور جن باتوں کو تم اچھا خیال کرتے ہو وہ ان کو غلط خیال کریں گے پس تم میں سے جو شخص ایسا زمانہ پائے وہ یادرکھے کہ اللہ عزوجل کے نافرمان کی طاعت نہیں ہے۔ الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن عبادۃ بن الصامت
کلام : الضعیفۃ 1353 ۔

14879

14879- "طاعة الإمام حق على المرء المسلم ما لم يأمر بمعصية الله، فإذا أمر بمعصية الله فلا سمع له ولا طاعة". "هب عن أبي هريرة".
14879 امام کی اطاعت مسلمان آدمی پر حق (لازم) ہے جب تک وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے پس جب وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کے لیے سمع ہے اور نہ طاعت۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)

14880

14880- " إنه سيلي أموركم من بعدي رجال يعرفونكم ما تنكرون، وينكرون عليكم ما تعرفون فلا طاعة لمن عصى الله فلا تضلوا بربكم". "حم ك عن عبادة بن الصامت".
14880 عنقریب میرے بعد تمہارے نظام کی باگ ایسے لوگ سنبھالیں گے جن باتوں کو تم اجنبی اور ناپسند خیال کرتے ہو وہ ان کو اچھا قرار دیں گے ۔ اور تمہاری اچھی باتوں کو وہ ناپسند کریں گے جو اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں اور تم اپنے رب سے گمراہ نہ ہوجانا۔
مسند احمد، مستدرک الحاکم عن عبادۃ بن الصامت

14881

14881- "السمع والطاعة حق على المرء المسلم فيما أحب أو كره ما لم يؤمر بمعصية فلا سمع عليه ولا طاعة". "حم ق عن ابن عمر".
14881 مسلمان آدمی پر (حاکم کی بات) سن کر اطاعت کرنا واجب ہے ، اچھا لگے یا برا لگے جب تک کہ حاکم معصیت کا حکم نہ کرے پس ایسی صورت میں نہ سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا۔ مسند احمد ، السنن للبیہقی ، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابوداؤد عن ابن عمر (رض)

14882

14882- "استقيموا لقريش ما استقاموا لكم فإن لم يستقيموا لكم فضعوا سيوفكم على عواتقكم ثم أبيدوا خضراءهم". "حم عن ثوبان".
14882 قریش کے لیے سیدھے رہو جب تک وہ تمہارے لیے سیدھے رہیں اگر وہ تمہارے لیے سیدھے نہ ہوں تو اپنی تلواریں کندھوں پر اٹھالو پھر اپنے ہدایت یافتہ لوگوں کی تائید اور پیروی کرو۔ مسند احمد عن ثوبان

14883

14883- "سيكون عليكم أمراء من بعدي يأمرونكم بما لا تعرفون ويعملون بما تنكرون فليس أولئك عليكم بأئمة". "طب عن عبادة بن الصامت".
14883 عنقریب تم پر میرے بعد امراء آئیں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم دیں گے جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا عمل کریں گے جو تمہارے لیے نیا ہوگا پس وہ تمہارے امام (حاکم) نہیں ہیں۔ الکبیر للطبرانی عن عبادۃ بن الصامت

14884

14884- "سيكون أئمة من بعدي يقولون فلا يرد عليهم قولهم يتقاحمون في النار كما تقاحم القردة". "ع طب عن معاوية".
14884 عنقریب میرے بعدای سے امراء آئیں گے وہ جو کہیں گے ان کی بات ان پر رد نہیں ہوگی۔ وہ جہنم میں ایک دوسرے کے اوپر یوں گریں گے جس طرح بندر ایک دوسرے کے اوپر اچھلتے کودتے ہیں۔ مسند ابی یعلی، الکبیر للطبرانی عن معاویۃ

14885

14885- "إياكم وأبواب السلطان فإنه قد أصبح صعبا هبوطا ". "طب عن رجل من سليم".
14885 تم بادشاہوں کے دروازے پر جانے سے اجتناب کرو کیونکہ وہ انتہائی سخت جگہ ہے۔
الکبیر للطبرانی عن رجل من سلیم

14886

14886- "ما ازداد رجل من السلطان قربا إلا ازداد عن الله بعدا ولا كثرت أتباعه إلا كثرت شياطينه ولا كثر ماله إلا ازداد حسابه". "هناد عن عبيد بن عمير مرسلا".
14886 کوئی شخص بادشاہ سے جس قدر قریب ہوتا ہے اللہ سے دور ہوجاتا ہے جس (ظالم) کے پیروکار جس قدر زیادہ ہوں گے اسی قدر اس کے شیاطین زیادہ ہوجائیں گے اور جس قدر جس کا مال زیادہ ہوگا اسی قدر اس کا (قیامت کے دن) حساب زیادہ ہوگا۔ ھناد عن عبید بن عمیر مرسلاً
کلام : ضعیف ہے۔ الاتقان 1572، ضعیف الجامع 4995 ۔

14887

14887- "اتقوا أبواب السلطان وحواشيها فإن أقرب الناس منها أبعدهم من الله ومن آثر سلطانا على الله جعل الله الفتنة في قلبه ظاهرة وباطنة وأذهب عنه الورع وتركه حيران". "الحسن بن سفيان فر عن ابن عمر".
14887 بادشاہ کے دروازے سے اور اس کے قریب و جوار سے بچو بیشک جو لوگوں میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوگا وہ اللہ سے اسی قدر دور ہوگا اور جس نے اللہ پر بادشاہ کو ترجیح دی اللہ پاک اس کے اندر اور باہر فتنہ رکھ دیں گے اور اس سے تقویٰ و پرہیزگاری ختم کردیں گے اور اس کو حیران پریشان چھوڑ دیں گے۔ الحسن بن سفیان، مسند الفردوس للدیلمی عن ابن عمر (رض)

14888

14888- "من أرضى سلطانا بما يسخط ربه خرج من دين الله". "ك عن جابر".
14888 جو رب کی ناراضگی کے ساتھ بادشاہ کو راضی کرنے والا ہوگا وہ اللہ کے دین سے نکل جائے گا۔ مستدرک الحاکم عن جابر (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5391 ۔

14889

14889- "سيكون عليكم أمراء يؤخرون الصلاة عن مواقيتها ويحدثون البدع، قال ابن مسعود: فكيف أصنع إن أدركتهم؟ قال تسألني يا ابن أم عبد كيف تصنع لا طاعة لمن عصى الله". "طب ق عن ابن مسعود".
14889 عنقریب تم پر ایسے امراء ہوں گے جو نماز کو ان کے اوقات سے موخر کردیں گے اور بدعتیں ایجاد کریں گے۔
حضرت ابن مسعود (رض) نے عرض کیا : اگر میں ان کو پالوں تو کیا طریقہ اختیار کروں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابن ام عبد ! تو مجھ سے سوال کررہا ہے کہ تو کیا طریقہ اختیار کرے ؟ (سن) اس شخص کی اطاعت نہیں جو اللہ کی نافرمانی کرے۔
الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ابن مسعود (رض)

14890

14890- "اسمعوا إنه سيكون عليكم أمراء فلا تعينوهم على ظلمهم ولا تصدقوهم بكذبهم فإنه من أعانهم على ظلمهم وصدقهم على كذبهم فلن يرد علي الحوض". "حم ع حب طب ك ص عن عبد الله بن خباب عن أبيه".
14890 سنو ! عنقریب تم پر ایسے امراء آئیں گے تم ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرنا اور ان کے کذب پر ان کی تصدیق نہ کرنا بیشک جس نے ان کی مدد کی ان کے ظلم پر اور جس نے ان کی تصدیق کی ان کے کذب جھوٹ پر وہ ہرگز میرے حوض پر نہیں آئے گا۔
مسند احمد، مسند ابی یعلی، ابن حبان، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، السنن للسعید بن منصور عن عبداللہ بن جناب عن ابیہ

14891

14891- "اسمعوا هل سمعتم أنه سيكون بعدي أمراء فمن دخل عليهم فصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه، وليس بوارد علي الحوض، ومن لم يدخل عليهم ولم يعنهم على ظلمهم ولم يصدقهم بكذبهم فهو مني وأنا منه، وهو وارد علي الحوض". "ت: صحيح غريب ن حب عن كعب بن عجرة".
14891 سنو ! کیا تم نے سنا ہے کہ عنقریب میرے بعد امراء آئیں گے۔ بس جو ان کے پاس آئے، ان کے کذب کی تصدیق کرے، ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میں اس سے ہوں (میرا اس کا کوئی تعلق نہیں ہے) ۔ وہ میرے پاس حوض پر نہیں آئے گا۔ اور جو ان کے پاس نہ آئے ، ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے، ان کے کذب کی تصدیق نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے، اور وہ حوض پر میرے پاس ضرور آئے گا۔
الترمذی صحیح غریب النسائی ، ابن حبان عن کعب بن عجرۃ

14892

14892- "يا كعب كيف بك إذا أنزل أمراء فمن دخل عليهم فصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولا أنا منه، ولا يرد على حوضي، يا كعب إنه لا يدخل الجنة لحم ولا دم نبتا من سحت، كل لحم ودم نبتا من سحت فالنار أولى به، يا كعب؛ الناس رجلان غاديان ورائحان غاد في فكاك رقبة فمعتقها، وغاد فموبقها، يا كعب الصلاة برهان والصوم جنة والصدقة تذهب الخطيئة كما تذهب الجامدة على الصفا 3". "هب عن كعب بن عجرة".
14892 اے کعب ! تیرا کیا حال ہوگا جب امراء آئیں گے۔ پس جو ان کے پاس داخل ہوا ور ان کے کذب کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے اور وہ شخص حوض (کوثر) پر میرے پاس نہیں آسکے گا۔ اے کعب ! جنت میں ایسا گوشت داخل ہوگا اور نہ خون، جو حرام سے پرورش پایا ہو۔ ہر وہ گوشت اور خون جو حرام سے پرورش پاتے ہوں جہنم کی آگ ہی ان کی زیادہ مستحق ہے۔ اے کعب ! لوگ دو طرح کے ہیں دونوں صبح کو جانے والے ہیں اور شام کو لوٹنے والے ہیں : ایک صبح جاکر اپنی جان آزاد کرانے والا ہے اور دوسرا صبح کو جاکر اپنی جان کو ہلاک کرنے والا ہے۔
اے کعب ! نماز برھان ہے، روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو یوں اڑا دیتا ہے جس طرح برف چکنے پتھر سے پھسل جاتی ہے۔ شعب الایمان للبیہقی عن کعب بن عجرۃ

14893

14893- "يا كعب بن عجرة أعاذك الله من إمارة السفهاء، أمراء يكونون من بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي، فمن دخل عليهم وصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فأولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردون على حوضي، ومن لم يدخل عليهم ولم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فأولئك مني وأنا منهم وسيردون على حوضي يا كعب بن عجرة الصوم جنة والصدقة تطفيء الخطيئة كما يطفيء الماء النار والصلاة قربان أو قال برهان يا كعب بن عجرة، إنه لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت النار أولى به يا كعب بن عجرة الناس غاديان فمبتاع نفسه فمعتقها وبائع نفسه فموبقها". "حم وعبد بن حميد والدارمي وابن زنجويه ع حب ك ص وابن جرير طب حل هب عن جابر
14893 اے کعب بن عجرۃ ! اللہ تجھے بیوقوفوں کی امارت سے پناہ دے، میرے بعد ایسے امراء آئیں گے جو میرے راستے پرچلیں گے اور نہ میری سنت کو اختیار کریں گے۔ پس جو شخص ان کے پاس گیا ان کے کذب کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ لوگ مجھ سے نہیں اور نہ میرا ان سے کوئی واسطہ ہے وہ لوگ حوض پر میرے پاس نہ آسکیں گے اور جوان کے پاس نہیں گیا ان کے کذب کی تصدیق نہ کی اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے وہ لوگ حوض پر میرے پاس ضرور آئیں گے اے کعب بن عجرہ ! روزہ ڈھال ہے ، صدقہ گناہوں کو یوں بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے ، نماز قربان ہے (یعنی قرب خداوندی کا ذریعہ ہے) یا فرمایا برھان (دلیل ہے) اے کعب بن عجرہ ! ایسا گوشت ہرگز داخل نہ ہوگا جو حرام سے پرورش پایاہو ایسے گوشت کی جہنم کی آگ ہی زیادہ مستحق ہے، اے کعب بن عجرہ ! لوگ دو طرح کے ہیں دونوں صبح کو نکلتے ہیں۔ ایک اپنے نفس کو خرید کر آزاد کردیتا ہے اور دوسرا اپنے نفس کو فروخت کرکے ہلاک کردیتا ہے۔
مسند احمد، عبدبن حمید ، الدارمی، ابن زنجویہ، مسند ابی یعلی، ابن حبان، مستدرک الحاکم، السنن لسعید بن منصور، ابن حرب الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء، شعب الایمان للبیہقی عن جابر (رض)

14894

14894- "يا عبد الرحمن أعاذك الله من أمراء يكونون بعدي فمن دخل عليهم وصدقهم وأعانهم على جورهم فليس مني ولا يرد على الحوض يا عبد الرحمن، إن الصيام جنة والصلاة برهان يا عبد الرحمن إن الله تعالى أبى على أن يدخل الجنة لحما نبت من سحت النار أولى به". "ك والخطيب عن عبد الرحمن بن سمرة"
14894 اے عبدالرحمن ! اللہ تجھے ایسے امراء سے پناہ میں رکھے جو میرے بعد آئیں گے پس جو ان کے پاس آئے ان کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور وہ حوض پر میرے پاس نہ آسکے گا۔ اے عبدالرحمن ! روزہ ڈھال ہے ، نماز برہان ہے، اے عبدالرحمن اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہے کہ جنت میں ایسا کوئی شخص داخل ہوگا جس کا گوشت حرام سے پرورش پایا ہو، اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مستحق ہے۔ مستدرک الحاکم، الخطیب عن عبدالرحمن بن سمرۃ

14895

14895- "أعيذك بالله يا كعب بن عجرة من أمراء يكونون [من] بعدي فمن غشي أبوابهم فصدقهم في كذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه ولا يرد علي الحوض، ومن غشي [أبوابهم] أو لم يغش فلم يصدقهم في كذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وسيرد على الحوض، يا كعب بن عجرة الصلاة برهان والصوم جنة والصدقة تطفيء الخطيئة كما يطفيء الماء النار يا كعب بن عجرة إنه لا يربو لحم [نبت] من سحت إلا كانت النار أولى به". "ت: حسن غريب عن كعب بن عجرة"
14895 اے کعب بن عجرہ ! میں تجھے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ایسے امراء سے جو میرے بعد آئیں گے، جوان کے دروازہ پر آیا ان کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے اور جوان کے دروازوں پر آیا یا آیا ہی نہیں اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کی تو وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے اور عنقریب وہ میرے پاس حوض پر ضرور آئیں گے۔ اے کعب بن عجرہ ! نماز برہان ہے، روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہ کو یوں مٹاتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ اے کعب بن عجرہ ! کوئی گوشت حرام سے پرورش نہ پائے گا مگر جہنم کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہوگی۔
الترمذی حسن غریب عن کعب بن عجرہ

14896

14896- "إن الله لم يبعث نبيا إلا وله حواريون فيمكث بين أظهرهم ما شاء الله يعمل فيهم بكتاب الله وسنة نبيه فإذا انقرضوا كان من بعدهم أمراء يركبون رؤوس المنابر يقولون ما تعرفون ويعملون ما تنكرون، فإذا رأيتم أولئك فحق على كل مؤمن يجاهدهم بيده فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع بلسانه فبقلبه ليس وراء ذلك إسلام". "ابن عساكر عن ابن مسعود".
14896 اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس کے حواریین (ساتھی) بھی بنائے۔ پس وہ نبی ان کے درمیان جب تک اللہ نے چاہا کتاب اللہ اور اپنے (پیش رو پیغمبر) کی سنت کے ساتھ عمل کرتا رہا جب وہ انبیاء چلے گئے تو ان کے بعد ایسے امراء آئے جو منبروں پر بیٹھتے تھے اور بات وہ کہتے تھے جو تم کو اچھی لگے لیکن عمل وہ کرتے تھے جو تم جانتے نہیں، پس جب تم ان لوگوں کو دیکھو تو یہ مومن پر حق ہے کہ اپنے ہاتھ کے ساتھ ان سے جہاد کرے، اگر اس کی ہمت نہ ہو تو اپنی زبان کے ساتھ ان سے جہاد کرے اور اگر اپنی زبان کے ساتھ بھی ہمت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل کے ساتھ جہاد کرے اور اس کے بعد اسلام نہیں رہتا۔ ابن عساکر عن ابن مسعود (رض)

14897

14897- " إنه سيكون عليكم أمراء يكذبون ويظلمون، فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه ولا يرد على الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه، وسيرد على الحوض". "حم وسمويه طب ص عن حذيفة".
14897 عنقریب تم پر امراء (حکام) مسلط ہوں گے، جھوٹ بولیں گے اور ظلم ڈھائیں گے پس جو ان کے کذب وجھوٹ کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم کی مدد کرے وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ اور وہ حوض پر میرے پاس نہ آسکے گا اور جوان کے کذب کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرکے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے اور وہ عنقریب حوض پر ضرور میرے پاس آئے گا۔ مسند احمد، سمویہ ، الکبیر للطبرانی، السنن للسعید بن منصور عن حذیفہ (رض)

14898

14898- "إنها ستكون عليكم أمراء بعدي يعظون بالحكمة على منابر فإذا نزلوا اختلست منهم قلوبهم أنتن من الجيف فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه ولا يرد على الحوض ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وسيرد على الحوض". "طب عن كعب بن عجرة".
14898: عنقریب میرے بعد امراء آئیں گے وہ منبروں پر بیٹھ کر حکمت کی بات کریں گے لیکن جیسے ہی وہ اتریں گے ان سے ان کے دل گویا نکل جائیں گے (اور عمل ان کا قول کے بالکل مخالف ہوگا) پس وہ مردار سے زیادہ بدبودار ہیں۔ جوان کے کذب کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس سے اور وہ حوض پر بھی میرے پاس نہ آسکے گا۔ اور جوان کے کذب کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے اور عنقریب وہ حو ض پر میرے پاس آئے گا۔ الکبیر للطبرانی عن کعب بن عجرۃ

14899

14899- "إنها ستكون أمراء فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم وغشى أبوابهم فليس مني ولست منه، ولا يرد على الحوض ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم ولم يغش أبوابهم فهو مني وسيرد علي الحوض". "الشيرازي في الألقاب عن ابن عمر".
14899: عنقریب امراء آئیں گے جو ان کے جھوٹ کو سچا کہے اور ان کے ظلم میں معاون بنے اور ان کے دروازوں پر چھایا رہے وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے اور وہ حوض پر میرے پاس نہ آسکے گا اور جوان کے جھوٹ کو سچا نہ کہے، ان کے ظلم میں ان کا معاون نہ بنے اور ان کے دروازوں پر ہجوم رکھے وہ مجھ سے ہے اور وہ عنقریب حوض پر میرے پاس ضرور آئے گا۔
الشیرازی فی الالقاب عن ابن عمر (رض)

14900

14900- "إنها ستكون بعدي أمراء يكذبون ويظلمون، فمن دخل عليهم فصدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه، وليس بوارد على الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه وهو وارد على الحوض". "حم ق عن كعب بن عجرة".
14900: عنقریب میرے بعدامراء آئیں گے جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم وستم کریں گے۔ جو ان کے پاس آئے، ان کے کذب کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق اور وہ حوض پر میرے پاس نہ آئے گا اور جوان کے کذب بیانی کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے اور وہ حوض پر میرے پاس آئے گا۔ مسنداحمد، السنن للبیہقی عن کعب بن عجرۃ

14901

14901- "ألا إنه سيكون بعدي أمراء يكذبون ويظلمون فمن صدقهم بكذبهم ومالأهم على ظلمهم فليس مني ولا أنا منه ومن لم يصدقهم بكذبهم ولم يمالئهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه، ألا وإن سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر. هن الباقيات الصالحات". "حم عن النعمان بن بشير".
14901: خبردار ! عنقریب میرے بعد امراء آئیں گے جو جھوٹ بولیں گے اور ظلم وستم کریں گے پس جوان کے کذب کی تصدیق کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور نہ میں اس سے اور جوان کے کذب کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے۔
خبردار ! سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ باقیات صالحات ہیں (باقی رہنے والی نیکیاں) ۔ مسند احمد عن النعمان بن بشر

14902

14902- "سيكون أمراء يظلمون ويكذبون يأتيهم غواش من الناس، فمن دخل عليهم فصدقهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه، ومن لم يدخل عليهم ولم يصدقهم بكذبهم ولم يعنهم على ظلمهم فهو مني وأنا منه". "ط حم ع حب ص عن أبي سعيد".
14902: عنقریب آئیں گے جو ظلم کریں گے اور جھوٹ بولیں گے اور دھوکا باز لوگ ان کے پاس ہجوم کریں گے پس جو بھی ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم میں ان کا معاون و مددگار ہوگا وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے۔ اور جوان کے پاس نہ گیا ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور نہ ان کے ظلم کی مدد کی وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے۔
ابوداؤد، مسند احمد، مسند ابی یعلی، ابن حبان، السنن للسعید بن منصور عن ابی سعید (رض)

14903

14903- " سيكون بعدي خلفاء يعملون بما يعلمون ويفعلون ما يؤمرون وسيكون من بعدهم خلفاء يعملون بما لا يعلمون، ويفعلون ما لا يؤمرون، فمن أنكر عليهم برئ ومن امسك يده سلم ولكن من رضي وتابع". "ق وابن عساكر عن أبي هريرة"
14903: عنقریب میرے بعد خلفاء آئیں گے اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے اور حکم کے مطابق عمل بجا لائیں گے پھر ان کے بعد عنقریب ایسے آئیں گے وہ عمل کریں گے جس کا ان کو علم نہ ہوگا اور وہ کام کریں گے جس کا ان کو حکم نہ ہوگا پس جس نے ان کی تردید کی وہ ان سے بری ہوا۔ جس نے ان کی مدد سے ہاتھ روک لیا وہ محفوظ رہا لیکن جو راضی ہوگیا اور اس نے ان کی اتباع کرلی (وہ ہلاکت میں پڑگیا) ۔ السنن للبیہقی وابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

14904

14904- "إنه سيكون عليكم أئمة تعرفون وتنكرون فمن أنكر فقد برئ ومن كره فقد سلم ولكن من رضي وتابع، قيل: يا رسول الله أفلا نقاتلهم قال: لا ما صلوا". "حم ت حسن صحيح طب عن أم سلمة".
14904: عنقریب تم پر ایسے امراء آئیں گے جن کی باتیں تم کو معروف بھی نظر آئیں گی اور منکر بھی۔ پس جس نے ان پر انکار کردیا وہ بری ہوگیا، جس نے ان کی باتوں کو ناپسند کیا وہ محفوظ رہا لیکن جو اراضی ہوگیا اور اس نے ان کی اتباع کرلی (وہ قعر ہلاکت میں پڑگیا) ۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! کیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟ ارشاد فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
مسند احمد ، الترمذی حسن صحیح، الکبیر للطبرانی عن ام سلمۃ (رض)

14905

14905- "سيكون عليكم أمراء يأمرونكم بما لا يفعلون فمن صدقهم بكذبهم وأعانهم على ظلمهم فليس مني ولست منه، ولم يرد على الحوض". "حم عن ابن عمر".
14905: عنقریب ایسے امراء آئیں گے جو حکم کریں گے ایسا جو خود نہیں کرتے۔ جس نے ان کے کذب کی تصدیق کی اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کی وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں (اور وہ حوض پر میرے پاس نہ پہنچ سکے گا) ۔ مسند احمد عن ابن عمر (رض)

14906

14906- "سيكون عليكم أمراء يأمرونكم بما تعرفون، ويعملون ما تنكرون فليس لأولئك عليكم طاعة". "ش عن عبادة بن الصامت".
14906 عنقریب امراء آئیں گے جو تم کو حکم کریں گے جو تم کو معلوم ہوگا (اور صحیح ہوگا) لیکن عمل کریں گے جو تمہارے لیے اجنبی اور نیا ہوگا۔ پس ایسے لوگوں کی تم پر اطاعت لازم نہیں ہے۔
ابن ابی شیبہ عن عبادہ بن الصامت

14907

14907- "كيف بك يا عبد الله إذا كان عليك أمراء يضيعون السنة ويؤخرون الصلاة عن ميقاتها؟ قال: فكيف تامرني يا رسول الله؟ قال: تسألني ابن أم عبد كيف تفعل؟ لا طاعة لمخلوق في معصية الله". "عبد الرزاق حم عن ابن مسعود".
14907 اے عبداللہ ! تیرا کیا حال ہوگا جب تجھ پر ایسے امراء ہوں گے جو سنت کو ضائع کریں گے اور نماز کو وقت سے موخر کردیں گے پوچھا یارسول اللہ ! پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا : اے ام عبد ! تو مجھ سے سوال کرتا ہے کہ کیسے کرے گا ؟ (سن ! ) اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت روا نہیں۔ عبدالرزاق، مسند احمد عن ابن مسعود (رض)

14908

14908- "ليأتين على الناس زمان يكون عليهم أمراء سفهاء يقدمون شرار الناس ويظهرون حب خيارهم يؤخرون الصلاة عن مواقيتها فمن أدرك ذلك منكم فلا يكونن عريفا ولا شرطيا ولا جابيا ولا خازنا". "ع ص عن أبي سعيد وأبي هريرة معا".
14908 عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کے امراء (حکام) بیوقوف لوگ ہوں گے، جو بدترین لوگوں کو آگے کریں گے جبکہ اچھے لوگوں سے صرف محبت کا اظہار کریں گے جو نماز کو وقت سے موخر کردیں گے۔ پس تم میں سے جو ان کو پالے وہ کاہن، پولیس ، صدقات وصول کرنے والا نمائندہ اور حکومت کا خزانچی ہرگز نہ بنے۔
مسند ابی یعلی، السنن للسعید بن منصور عن ابی سعید و ابوہریرہ (رض)

14909

14909- "يكون في آخر الزمان أمراء ظلمة ووزراء فسقة وقضاة خونة وفقهاء كذبة فمن أدركهم فلا يكونن لهم عريفا ولا جابيا ولا خازنا ولا شرطيا". "الخطيب عن أبي هريرة".
14909 آخر زمانے میں حکام ظلم کرنے والے ہوں گے وزراء فاسق ہوں گے ، جج خیانت دار ہوں گے اور ان کے علماء جھوٹے ہوں گے۔ پس جو ایسا زمانہ پائے وہ کاہن نہ بنے ، صدقات وعشر لینے والا نہ بنے، خزانچی نہ بنے اور نہ پولیس کا اہلکار بنے۔ الخطیب عن ابوہریرہ (رض)
کلام : اللطیفۃ 47 ۔

14910

14910- "لا تحرجوا أمتي ثلاثا اللهم من أمر أمتي بما لم تأمرني به أو أمرتهم به فإنهم منه في حل". "طب والخطيب وابن عساكر عن أبي عتبة الخولاني".
14910 آپ نے تین مرتیہ فرمایا : میری امت کو تنگی میں نہ ڈالو۔ اے اللہ جس نے میری امت کو ایسا حکم دیا جس کا آپ نے مجھے حکم نہیں دیا یا میں نے ان کو ایسا حکم دیا تو ان کو اس حکم کا نہ ماننا حلال ہے۔ الکبیر للطبرانی، الخطیب ابن عساکر عن ابی عتبۃ الحولانی

14911

14911- "لا طاعة لبشر في معصية الله". "ابن جرير كر ش عن علي".
14911 اللہ کی معصیت میں کسی انسان کی اطاعت روا نہیں۔
ابن جریر ، ابن عساکر ابن ابی شیبہ عن علی (رض)

14912

14912- "يكون بعدي أمراء من دخل عليهم فليقل حقا وإن الرجل ليتكلم بالكلمة يرضي بها السلطان فيهوى بها أبعد من السماء". "ابن منده وابن عساكر عن بلال بن الحارث المزني".
14912 میرے بعدامراء آئیں گے، جو ان کے پاس داخل ہو حق کہے بعض مرتبہ آدمی بادشاہ کی رضا کے لیے کوئی بات کہتا ہے مگر اس کی وجہ سے آسمان کی بلندی سے نیچے گر جاتا ہے۔
ابن مندہ وابن عساکر عن بلال بن ابی الحارث المرنی

14913

14913- "أعجزتم إذا بعثت رجلا منكم فلم يمض لأمري أن تجعلوا مكانه من يمضي لأمري". "د عن عقبة بن مالك"
14913 کیا تم عاجز ہو کہ جب میں تم میں کسی کو (سرکاری) کام کے لیے بھیجوں اور وہ میرے حکم پر نہ چلے تو تم اس کی جگہ ایسے شخص کو مقرر کردو جو میرے حکم پر چلے۔ ابوداؤد عن عقبۃ بن مالک

14914

14914- "أشهد الله على الوالي من بعدي لما رق على جماعة المسلمين ورحم صغيرهم إني لأؤمر الرجل على القوم وفيهم من هو خير منه لأنه أيقظ عينا وأبصر بالحرب". "ق من طريق يونس بن بكير عن أبي معشر عن بعض مشيختهم".
14914 میں اپنے بعد آنے والے حاکم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کی جماعت پر نرمی کرے اور ان کے چھوٹے پر رحم کرے۔ میں آدمی کو قوم پر امیر بناتا ہوں حالانکہ قوم میں اس سے بہتر آدمی بھی ہوتا ہے لیکن وہ امیر آنکھوں کا زیادہ بیدار اور حرب زنی میں زیادہ ماہر ہوتا ہے۔
البیہقی من طریق یونس بن بکیر عن ابی معشرعن بعض مشیختھم

14915

14915- "إنا والله لا نولي هذا الأمر أحدا ساله ولا أحدا حرص عليه". "طب عن أبي موسى". مر برقم [14786] .
14915 اللہ کی قسم ! ہم حکومت کا والی ایسے کسی شخص کو نہیں بناتے جو اس کو مانگے اور نہ ایسے کسی شخص کو جو اس کی حرص اور لالچ رکھے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی موسیٰ

14916

14916- "إني لست استعمل أحدا حتى أشارطه". "الديلمي عن عائشة".
14916 میں کسی کو عامل (گورنر وغیرہ) نہیں بناتا جب تک کہ میں اس سے شرائط طے نہ کرلوں۔ الدیلمی عن عائشہ (رض)

14917

14917- " على الوالي خمس خصال: جمع الفيء من حقه، ووضعه في حقه، وأن يستعين على أمورهم بخير من يعلم، ولا يجمرهم فيهلكهم ولا يؤخر أمر يوم لغد". "عق عن واصلة".
14917 والی پر پانچ باتیں لازم ہیں غنیمت کو حق کے ساتھ جمع کرنا، حق کے ساتھ اس کو تقسیم کرنا، مسلمانوں کے امور پر ایسے شخص سے کام لینا جوان کے لیے اچھا ثابت ہو، ان کو کسی معرکہ میں محصور کرکے سب کو ہلاک نہ کردینا اور ان کے آج کا کام کل پر نہ چھوڑنا۔
العقیلی فی الضعفاء عن واصلۃ
کلام : ضعیف الجامع 3736، الکشف الالٰہی 562 ۔

14918

14918- "ما من ملك يصل رحمه وذوي قرابته ويعدل في رعيته إلا شد الله له ملكه وأجزل له ثوابه وأكرم مآبه وخفف حسابه". "أبو الحسن بن معروف، الخطيب وابن عساكر والديلمي عن علي".
14918 جو بادشاہ رحم کے رشتوں اور قرابت داروں سے صلہ رحمی کرے اور اپنی رعیت کے ساتھ عدل برتے اللہ پاک اس کے مالک کو مضبوط کردے گا ۔ اس کو اجرجذیل عطا کرے گا، اس کا ٹھکانا اچھا کرے گا اور اس سے ہلکا حساب لے گا۔
ابوالحسن بن معروف، الخطیب وابن عساکر والدیلمی عن علی (رض)

14919

14919- " من استعمل عاملا من المسلمين وهو يعلم أن فيهم أولى بذلك منه وأعلم بكتاب الله وسنة نبيه فقد خان الله ورسوله وجميع المسلمين". "م د عن ابن عباس".
14919 جو مسلمانوں میں سے کسی کو عامل بنائے حالانکہ اس کو علم ہو کہ ان میں سے زیادہ بہتر کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والا اور اپنے نبی کی سنت کا بڑا عالم موجود ہے تو اس نے اللہ سے اس کے رسول سے اور تمام مسلمانوں سے خیانت برتی۔ مسلم، ابوداؤد عن ابن عباس (رض)

14920

14920- "لا تفتشوا الناس فتفسدوهم". "طب عن معاوية".
14920 لوگوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو ورنہ ان کو بگاڑ دو گے۔ الکبیر للطبرانی عن معاویۃ (رض)

14921

14921- "لا تكون المرأة حكما تقضي بين العامة". "الديلمي عن عائشة".
14921 عورت فیصلہ کرنے کی اہل نہیں بن سکتی کہ عوام کے درمیان فیصلے کرے۔
الدیلمی عن عائشہ (رض)

14922

14922- " لا يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة". "حم خ د ن عن أبي بكرة".
14922 وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے معاملہ کا حاکم کسی عورت کو کردیں۔
مسند احمد، البخاری، ابوداؤد، النسائی عن ابی بکرۃ (رض)

14923

14923- "لن يفلح قوم أسندوا أمرهم إلى امرأة". "ش عن أبي بكرة".
14923 ایسی قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے امر کا بڑا عورت کو کردیں۔
ابن ابی شیبہ عن ابی بکرۃ (رض)

14924

14924- "لا يحل لخليفة من مال الله إلا قصعتان: قصعة يأكلها هو وأهله، وقصعة يضعها بين أيدي الناس". "حم عن علي".
14924 خلیفہ کے لیے اللہ کے مال (بیت المال) میں سے صرف دو پیالے (طعام کے) جائز ہیں ایک پیالہ وہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے رکھے اور دوسرا پیالہ وہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ مسند احمد، عن علی (رض)
فائدہ : ہمارے زمانہ کا پیالہ مراد نہیں بلکہ وہ پیالہ آج کل کے لگن (ٹب) جتنا بڑا ہوتا تھا۔

14925

14925- "من ولي لنا عملا ولم تكن له زوجة فليتخذ زوجة، ومن لم يكن له خادم فليتخذ خادما، أو ليس له مسكن فليتخذ مسكنا، أو ليس له دابة فليتخذ دابة، فمن أصاب سوى ذلك فهو غال أو سارق". "طب حم م عن المستورد".
14925 جو ہمارے معاملے کا والی بنے اور اس کی بیوی نہ ہو تو وہ بیوی حاصل کرلے جس کے پاس خادم نہ ہو وہ خادم لے لے جس کے پاس گھر نہ ہو گھر لے لے، اور جس کے پاس سواری نہ ہو سواری لے لے اور جو اس کے علاوہ کچھ حاصل کرے گا وہ اسراف کرنے والا ہے یا چور ہے۔
الکبیر للطبرانی ، مسنداحمد، مسلم عن المستور

14926

14926- "اللهم من ولي من أمر أمتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه، اللهم من ولي من أمر أمتي شيئا فرفق بهم فارفق بهم "حم م عن عائشة".
14926 اے اللہ ! جو میرے امت کا والی بنے اور وہ پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی فرما اے اللہ ! جو میری امت کا والی بنے اور ان کے ساتھ نرمی برتے تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما۔ مسند احمد، مسلم عن عائشہ (رض)

14927

14927- "إذا بعثتم إلي رسولا فابعثوه حسن الوجه حسن الاسم". "الحكيم بز عق طس عن أبي هريرة".
14927 جب تم میرے پاس کسی کو رسول بنا کر بھیجو تو خوبصورت چہرے اور خوبصورت نام والے کو بھیجو۔ الحکیم، البزار، الضعفاء للعقیلی ، الاوسط للطبرانی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ التنزیہ 200-1 ۔ ذخیرۃ الحفاظ 232 ۔

14928

14928- "إذا بعثتم إلي بريدا فابعثوه حسن الوجه حسن الاسم". "الديلمي وابن النجار عن ابن عباس".
14928 جب تم میرے پاس کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجو تو خوبصورت چہرے اور خوبصورت نام والے کو بھیجو۔ الدیلمی وابن النجار عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : الاسرار المرفوعۃ 417، التحدیث 342، تذکرۃ الموضوعات 163 ۔

14929

14929- "إن الله تعالى لم يبعث نبيا ولا خليفة إلا وله بطانتان: بطانة تامره بالمعروف وتنهاه عن المنكر، وبطانة لا تألوه خبالا، ومن يوق بطانة السوء فقد وقي". "خد ت عن أبي هريرة"
14929 اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا مگر اس کے لیے ساتھی رکھے : ایک ساتھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے اور دوسرا ساتھی اس میں برائی کا کوئی نقصان نہیں ہونے دیتا۔ اور جو برے ساتھی سے بچ گیا وہ یقیناً بچ گیا۔ الادب المفرد للبخاری ، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)

14930

14930- "ما بعث الله من نبي ولا استخلف من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتحضه عليه، وبطانة تأمره بالشر وتحضه عليه، فالمعصوم من عصمه الله". "حم خ ن عن أبي سعيد".
14930 اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھیجا اور نہ کسی کو خلیفہ بنایا مگر اس کے دو ساتھی تھے ایک اس کو نیکی کا حکم کرتا تھا اور اس پر اکساتا تھا دوسرا ساتھی شرکا حکم کرتا تھا اور اس پر اکساتا تھا، پس معصوم وہی رہا جس کو اللہ نے معصوم رکھا۔

14931

14931- " ما بعث الله من نبي ولا كان بعده من خليفة إلا كان له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتنهاه عن المنكر، وبطانة لا تألوه خبالا فمن وقي بطانة السوء فقد وقي". "ن عن أبي أيوب".
14931 اللہ نے کسی نبی کو بھیجا اور نہ اس کے بعد کوئی خلیفہ آیا مگر اس کے دو ساتھی تھے ایک اس کو نیکی کا حکم کرتا تھا اور برائی سے روکتا تھا اور دوسرا ساتھی کسی برائی میں کمی نہ آنے دیتا تھا پس جو برائی کے ساتھی سے بچ گیا وہی محفوظ رہا۔ النسائی عن ابی ایوب

14932

14932- "ما من وال إلا وله بطانتان تأمره بالمعروف وتنهاه عن المنكر وبطانة لا تألوه خبالا، فمن وقي شرها فقد وقي وهو من التي تغلب عليه منهما". "ن عن أبي هريرة".
14932 کوئی حاکم ایسا نہیں جس کے دو ساتھی نہ ہوں ایک تو اس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا تھا اور ایک ساتھی کسی شر میں مبتلا کرنے سے نہ چوکتا تھا پس جو اس کے شر سے محفوظ رہا وہی محفوظ ہوگیا اور کوئی بھی ساتھی کسی بھی حاکم پر غالب آسکتا ہے۔ النسائی عن ابوہریرہ (رض)

14933

14933- "ما من أحد من الناس أعظم أجرا من وزير صالح مع الإمام يأمره بذات الله فيطيعه". "ص عن عائشة".
14933 لوگوں میں اجر کے اعتبار سے نیک وزیر سے زیادہ کوئی نہیں جو امام کو اللہ کی اطاعت کا حکم کرتا رہے۔ السنن سعید بن منصور عن عائشہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5139 ۔

14934

14934- "إن من أشر الناس منزلة عند الله يوم القيامة عبدا أذهب آخرته بدنيا غيره". "طب عن أبي أمامة".
14934 لوگوں میں سب سے بدترین مرتبہ والا اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ بندہ ہے جو اپنی آخرت کو کسی اور کی دنیا کے بدلے ضائع کردے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)

14935

14935- "من أسوء الناس منزلة من أذهب آخرته بدنيا غيره". "هب عن أبي هريرة".
14935 لوگوں میں بدترین مرتبہ والا وہ ہے جو اپنی آخرت کا دوسرے کی دنیا کے بدلے نقصان کرے۔ شعب الایمان للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5281 ۔

14936

14936- "إن أشد الناس ندامة يوم القيامة رجل باع آخرته بدنيا غيره". "تخ عن أبي أمامة".
14936 لوگوں میں سب سے زیادہ سخت ندامت والا قیامت کے دن وہ ہوگا جو اپنی آخرت کو دوسرے کی دنیا کے بدلے فروخت کردے۔ التاریخ للبخاری عن ابی امامۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1388 ۔

14937

14937- "من أشر الناس منزلة عند الله يوم القيامة عبد أذهب آخرته بدنيا غيره". "هـ عن أبي أمامة".
14937 قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برے مرتبہ والا وہ ہوگا جو اپنی آخرت کو دوسرے کی دنیا کے عوض ضائع کردے۔ ابن ماجہ عن ابی امامۃ (رض)

14938

14938- "من حضر إماما فليقل خيرا أو ليسكت". "طس عن ابن عمر".
14938 جو کسی امام (حاکم) کے پاس حاضر ہو وہ خیر کی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔
الاوسط للطبرانی عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 5259، ضعیف الجامع 5558 ۔

14939

14939- "من ولي منكم عملا فأراد الله به خيرا جعل له وزيرا صالحا إن نسي ذكره وإن ذكر أعانه". "ن عن عائشة".
14939 جو شخص تم میں سے کسی عمل پر والی مقرر ہوتا ہے پھر اللہ پاک اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کا نیک وزیر مقرر کردیتا ہے اگر والی بھولتا ہے تو وزیر اس کو یاد دلاتا ہے اور جب وہ کوئی نیک کام کرتا ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔ النسائی عن عائشہ (رض)

14940

14940- "إذا أراد الله بالأمير خيرا جعل له وزير صدق إن نسي ذكره وإن ذكر أعانه، وإذا أراد الله به غير ذلك جعل وزير سوء إن نسي لم يذكره وإن ذكره لم يعنه ". "د هب عن عائشة"
14940 جب اللہ تعالیٰ کسی امیر کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو ایک مخلص وسچاوزیر دے دیتا ہے۔ اگر امیر بھولتا ہے تو وزیر اس کو یاد دلاتا ہے اور اگر وہ سیدھی راہ پر رہتا ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ پاک کچھ اور ارادہ فرماتا ہے تو برا وزیر مقرر کردیتا ہے اگر وہ سیدھی راہ بھولتا ہے تو وزیر اس کو یاد نہیں دلاتا اور اگر وہ سیدھی راہ چلتا ہے تو وزیر اس کی مدد نہیں کرتا۔
ابوداؤد، شعب الایمان للبیہقی عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 191 ۔

14941

14941- "إن شر البرية عند الله تعالى يوم القيامة من اذهب آخرته بدنيا غيره". "الخرائطي في مساوي الأخلاق عن أبي هريرة".
14941 اللہ کے نزدیک قیامت کے روز سب سے بدترین مخلوق وہ شخص ہوگا جو غیر کی دنیا کے بدلے اپنی آخرت ضائع کردے۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن ابوہریرہ (رض)

14942

14942- "إن في النار حجرا يقال له ويل يصعد عليه العرفاء وينزلون فيه". "البزار عن سعد".
14942 جہنم میں ایک چٹان ہے جس کو ویل کہا جاتا ہے عرفاء (امور مملکت کے متنظمین) اس پر چڑھتے ہیں اور اترتے ہیں۔ مسند البزار عن سعد (رض)

14943

14943- " إن شئت ولكن العريف في النار" "ابن عساكر عن سليمان بن علي عن أبيه عن جده أنه قال: يا رسول الله اجعلني عريفا قال فذكره".
14943 اگر تم چاہو (تو میں تم کو ناظم الامور بنادیتا ہوں) لیکن ناظم جہنم میں ہوگا۔
ابن عساکر عن سلیمان بن علی عن ابیہ عن جدہ
فائدہ : سلیمان بن علی اپنے والد علی سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ مجھے عریف (ناظم) بنادیجئے ، تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

14944

14944- "لعن الله سهيلا فإنه كان يعشرالناس في الأرض فمسخه الله شهابا". "طب وابن السني في عمل يوم وليلة عن أبي الطفيل عن علي".
14944 اللہ پاک سہیل پر لعنت فرمائے۔ وہ زمین پر لوگوں سے عشروصول کرتا تھا۔ پس اللہ پاک نے اس کو مسخ کرکے ٹوٹا ہوا تارہ بنادیا۔
الکبیر للطبرانی، ابن السنی عن عمل یوم ولیلۃ عن ابی الطفیل عن علی (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے : اللآلی 160-1 ۔
فائدہ : جاہلیت میں جو لوگ عشرہ وصول کرتے تھے اور اپنے دین سابق پر قائم تھے وہ عشرناجائز تھا ایسے عاشر کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ یا ایسا عاشر جو مسلمان ہو لیکن مسلمانوں سے زکوۃ (چالیسویں حصے) کی بجائے عشر (دسویں حصہ یعنی ٹیکس) وصول کرے اور اسی کو حلال جانے یہ بھی کفر کے زمرے میں ہے اور ایسے عاشر کو قتل کرنے کا حکم ہے اور اس کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے لیکن جو عشروصول کرنا جائز ہے وہ ذمیوں کے اموال تجارت سے عشرہ لینا ہے اور مسلمانوں کی زمینوں سے بھی بشرطیکہ آسمان کے پانی سے ان کو سیراب کیا جاتا ہو ۔ ایسا عاشرز مرۃ وعید میں داخل نہیں۔

14945

14945- "كان سهيل عشارا باليمن يظلمهم ويغصبهم أموالهم فمسخه الله عز وجل شهابا فعلقه حيث ترونه". "طب وابن السني في عمل يوم وليلة عن ابن عمر".
14945 سہیل یمن میں عشار تھا۔عشر (دسواں حصہ) وصول کرتا تھا لوگوں پر ظلم ڈھاتا اور ان کے اموال کو غصب کرتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو مسخ کرکے شہاب (بھڑکتا ہوا ٹوٹا تارہ) بنادیا جس کو تم (آسمان میں ) معلق دیکھتے ہو۔ الکبیر للطبرانی، ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے الفوائد المجموعۃ 1365 ۔

14946

14946- "ما من إنسان أعظم أجرا من وزير صالح معه إمام يأمره بذات الله فيطيعه". "ابن النجار عن عائشة".
14946 کوئی انسان نیک وزیر سے زیادہ اجر والا نہیں ہے جو امام کے ساتھ رہے اور اس کو اللہ کی اطاعت کا حکم دیتا رہے۔ ابن النجار عن عائشہ (رض)

14947

14947- "ما من نبي ولا وال إلا وله بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتنهاه عن المنكر، وبطانة لا تألوه خبالا، ومن وقي شرها فقد وقي وهو من التي تغلب عليه منهما". "حم ق عن أبي هريرة".
14947 کوئی نبی یا حاکم ایسا نہیں جس کے دو رازدار نہ ہوں۔ ایک راز دار اس کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا تھا اور ایک راز دار اس کو کسی شر کی کمی نہیں آنے دیتا تھا۔ پس جو ایسے رازدار کی برائی سے بچ گیا وہ نجات پانے والا ہے اور دونوں رازداروں پر غالب آنے والا ہے۔
مسنداحمد ، السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)

14948

14948- "من أعان على خصومة بظلم أو يعين على ظلم لم يزل في سخط الله حتى ينزع". "هـ والرامهرمزي في الأمثال ك عن ابن عمر".
14948 جس نے کسی فریق پر ظلم کے ساتھ مدد کی یا کسی ظلم پر مدد کی وہ مستقل اللہ کی ناراضگی میں رے گا حتیٰ کہ اس ظلم سے نکلے۔ ابن ماجہ والرامھر مزی فی الامثال، مستدرک الحاکم عن عمر (رض)

14949

14949- "من أعان ظالما عند خصومة ظلما وهو يعلم فقد برئت منه ذمة الله وذمة رسوله". "الخطيب عن ابن عمر".
14949 جس نے کسی ظالم کی مدد کی کسی جھگڑے کے وقت حالانکہ وہ اس زیادتی کو جانتا ہے تو اس سے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بری ہے۔ الخطیب عن ابن عمر (رض)

14950

14950- "من أعان ظالما على ظلمه جاء يوم القيامة وعلى جبهته مكتوب آيس من رحمة الله". "الديلمي عن أنس".
14950 جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا الیسس من رحمۃ اللہ، اللہ کی رحمت سے مایوس۔ الدیلمی عن انس (رض)

14951

14951- "من أعان على ظلم فهو كالبعير المتردي ينزع بذنبه". "ق عن ابن مسعود".
14951 جس نے کسی ظلم پر مدد کی اس کی مثال اس اوٹ کی سی ہے جو (کھائی میں) گرگیا ہو اور اس کو پونچھ کے ذریعے کھینچا جائے۔ السنن للبیہقی عن ابن مسعود (رض)

14952

14952- "من سود اسمه مع إمام جائر حشر معه يوم القيامة". "الخطيب في المتفق والمفترق عن مجاهد مرسلا وسنده ضعيف".
14952 جس نے اپنا نام کسی ظالم حاکم کے ساتھ نتھی کیا قیامت کے دن اسی کے ساتھ اٹھے گا۔ المتفق والمفترق للخطیب عن مجاھد مرسلاً
کلام : اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

14953

14953- "من مشى مع ظالم فقد أجرم يقول الله {إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ} ". "الديلمي عن معاذ".
14953 جو کسی ظالم کے ساتھ چلا پس اس نے بھی جرم کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
انا من المجرمین منتقمون
ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ الدیلمی عن معاذ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : اسی الماطلب 1511، کشف الخفاء 2627 ۔

14954

14954- "من مشى إلى سلطان جائر طوعا من ذات نفسه تملقا إليه بلقائه والتسليم عليه خاض نار جهنم بقدر خطاه إلى أن يرجع من عنده إلى منزله فإن مال إلى هواه أو أشد على عضده لم يحلل به من الله لعنة إلا كان عليه مثلها ولم يعذب في النار بنوع من العذاب إلا عذب بمثله". "الديلمي عن أبي الدرداء".
14954 جو کسی ظالم بادشاہ کے پاس گیا اپنی رضاء ورغبت کے ساتھ، خوشامد اور چاپلوسی کی غرض سے اور اسی کو سلام کیا وہ جہنم میں اس قدر دھنسے گا جس قدر اس نے بادشاہ کے پاس جانے کے لیے قدم اٹھائے۔ یہاں تک کہ واپس اپنے گھر لوٹ آئے اگر اس نے بادشاہ کی خواہشات کی طرف میلان کیا یا اس کے بازو کو مضبوط کیا تو جو لعنت اللہ کی طرف سے بادشاہ پر اترے گی۔ اس کے مثل خوشامد کے لیے بھی اترے گی اور بادشاہ کو دوزخ میں عذاب کی جن قسموں سے گزرنا پڑے گا اس کا چاپلوسی بھی ان عذابوں سے ضرور گزرے گا۔ الدیلمی عن ابی الدرداء (رض)

14955

14955- "من مشى مع ظالم ليعينه وهو يعلم أنه ظالم فقد خرج من الإسلام". "خ في التاريخ والبغوي والباوردي وابن شاهين وابن قانع ط ت وأبو نعيم ص عن أوس بن شرحبيل، قال البغوي والصحيح عندي شرحبيل بن أوس".
14955 جو کسی ظالم کے ساتھ چلاتا کہ اس کی مدد کرے حالانکہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا۔ التاریخ للبخاری ، البغوی، الباوردی، ابن شاھین، ابن قانع، ابوداؤد، الترمذی، ابونعیم ، السنن للسعید بن منصور عن اوس بن شرحبیل
امام بغوی (رح) فرماتے ہیں صحیح نام میرے خیال میں شرحبیل بن اوس ہے۔
کلام : روایت محل کلام ہے۔ السنی المطالب 1512 ۔ ضعیف الجامع 5859 ۔

14956

14956- "من شر الناس منزلة من أذهب آخرته بدنيا غيره". "حل عن أبي هريرة".
14956 لوگوں میں سب سے بدترین مرتبے والا وہ ہے جو اپنی آخرت کو دوسرے کی دنیا کے بدلے خراب کردے۔ حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ (رض)
کلام : الضعیفۃ 1915 ۔ روایت ضعیف ہے۔

14957

14957- "يؤتى بصاحب القلم يوم القيامة في تابوت من نار يقفل عليه بأقفال من نار فينظر قلمه فيما أجراه، فإن كان أجراه في طاعة الله ورضوانه فك عنه التابوت، وإن كان أجراه في معصية الله هوى التابوت سبعين خريفا حتى باريء القلم ولائق الدواة". "طب عن ابن عباس".
14957 قیامت کے روز صاحب قلم (منشی) کو آگ کے تابوت میں آگ کے تالوں کے ساتھ مقفل کرکے لایا جائے گا پھر دیکھا جائے گا کہ اس کے قلم سے کیا کیا چیزیں نکلی ہیں۔ اگر اس کا قلم اللہ کی اطاعت میں چلا ہے اور اس کی رضاء مندی میں چلا ہے تو اس کا تابوت کھل جائے گا ۔ اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی میں چلا ہے تو وہ تابوت ستر سال کی گہرائی میں جاگرے گا حتیٰ کہ قلم تراشنے والا اور دوات بنانے والا (بھی) اس سلوک سے گزرے گا اگر اس نے عمداً ظلم لکھنے کے لیے قلم ودوات بنائے ہوں گے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے مختصر المقاصد : 220 ۔

14958

14958- "يقال للرجال يوم القيامة اطرحوا سياطكم وادخلوا جهنم". "ك عن أبي هريرة".
14958 قیامت کے دن (ظالم) لوگوں کو کہا جائے گا اپنے کوڑے پھینک دو اور جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف موضوع ہے : تذکرۃ الموضوعات 184 ۔

14959

14959- "يقال للجلوازيوم القيامة ضع سوطك وادخل النار". "الديلمي عن عبد الرحمن بن سمرة".
14959 قیامت کے دن پولیس والے کو کہا جائے گا : اپنے کوڑا رکھ دے اور جہنم میں داخل ہوجا۔ الدیلمی عن عبدالرحمن بن سمرۃ، 892, 891 ، التعقبات

14960

14960- "يكون في آخر الزمان في هذه الأمة أناس معهم سياط كأنها أذناب البقر يغدون في سخط الله ويروحون في غضبه". "حم ك عن أبي أمامة".
14960 آخر زمانے میں اس امت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے پاس گائے کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جو صبح کو اللہ کی ناراضگی میں نکلیں گے اور شام کو اللہ کے غپب کے ساتھ لوٹیں گے۔ مسند احمد، مستدرک الحاکم عن ابی امامۃ
کلام : روایت ضعیف ہے۔ التنزیہ 224-2 ۔ اللآلی 184-2 ۔

14961

14961- "الخلافة بعدي في أمتي ثلاثون سنة ثم ملك بعد ذلك". "حم ت ع حب عن سفينة"
14961 میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی پھر اس کے بعد بادشاہت کا دور ہوگا۔
مسند احمد، الترمذی، مسند ابی یعلی، ابن حبان عن سفینۃ، الترمذی حدیث حسن

14962

14962- "خلافة النبوة ثلاثون سنة ثم يؤتي الله الملك من يشاء". "د ك عن سفينة"
14962 نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ پاک جس کو چاہے گا ملک عطا فرمادے گا۔
ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن سفینۃ

14963

14963- "أري الليلة رجل صالح أن أبا بكر نيط برسول الله ونيط عمر بأبي بكر ونيط عثمان بعمر". "د ك عن جابر"
14963 آج رات ایک نیک شخص کو دکھایا گیا کہ ابوبکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں، عمر ابوبکر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں اور عثمان عمر کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں۔
ابوداؤد، مستدرک الحاکم عن جابر (رض)
کلام : روایت منقطع و ضعیف ہے، کیونکہ زہری کا سماع حضرت جابر (رض) سے ثابت نہیں ہے۔
عون المعبود، 390, 389, 12، ضعیف الجامع 787

14964

14964- "لكل قوم سادة حتى أن للنحل سادة". "فر عن أبي موسى".
14964 ہر قوم کا کوئی سردار ہوتا ہے حتیٰ کہ شہد کی مکھیوں کی بھی سردار ہوتی ہے۔
مسند الفردوس للدیلمی عن ابی موسیٰ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 4735 ۔

14965

14965- "هون عليك فإني لست بملك إنما أنا ابن امرأة من قريش تأكل القديد". "هـ ك عن أبي مسعود"
14965 اپنے اوپر نرمی رکھ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ قریش کی ایک عام عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کے ٹکڑے چباتی تھی۔
ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن ابی مسعود (رض) ، ھذا اسناد صحیح، زوائد ابن ماجہ

14966

14966- "الخلافة بالمدينة والملك بالشام". "تخ ك عن أبي هريرة".
14966 مدینہ خلافت کا مرکز ہے اور شام میں بادشاہت کا راج ہے۔
التاریخ للبخاری، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2949، الضعیفۃ 1188 ۔

14967

14967- " لا تبكوا على الدين إذا وليه أهله، ولكن ابكوا عليه إذا وليه غير أهله". "حم ك عن أبي أيوب".
14967 دین پر نہ رؤ و (اور نہ غم کرو) جبکہ حاکم دین کے اہل ہوں۔ لیکن جب نااہل لوگ حکومت پر بیٹھ جائیں تو رونے کا مقام ہے۔ مسند احمد، مستدرک الحاکم عن ابی ایوب (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5188 ۔

14968

14968- "ما من إمام يعفو عند الغضب إلا عفا الله عنه يوم القيامة". "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب عن مكحول مرسلا".
14968 جو حاکم غضب کے وقت درگزر سے کام لے اللہ پاک پیامت کے دن اس سے سے درگزر فرمائے گا۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب عن مکحول مرسلاً
کلام : ضعیف الجامع 5150 ۔

14969

14969- "اللهم من ولي من أمر أمتي شيئا فشق عليهم فاشقق عليه، ومن ولي من أمر أمتي شيئا فرفق بهم فارفق به". "م عن عائشة". كتاب الإمارة رقم "1828" ومر برقم [14926] .
14969 اے اللہ ! جو میری امت کا والی بنے اور ان پر سختی کرے تو بھی اس پر سختی فرما۔ اور جو ان کا والی بن کر ان پر نرمی برتے تو بھی اس کے ساتھ نرم سلوک فرما۔
مسلم عن عائشہ (رض) ، کتاب الامارۃ رقم الحدیث 1828 ۔
روایت 14926 پر گزر چکی ہے۔

14970

14970- "أميران وليسا بأميرين: المرأة تحج مع القوم فتحيض قبل أن تطوف بالبيت طواف الزيارة فليس لأصحابها أن ينفروا حتى يستأمروها، والرجل يتبع الجنازة فيصلي عليها فليس له أن يرجع حتى يستأمر أهلها". "المحاملي في أماليه عن جابر".
14970 دو امیر ایسے ہیں جو امیر نہیں ہیں (یعنی صاحب اختیار نہیں ہیں) ۔ اس عورت کے ساتھ والے جو کسی قوم کے ساتھ حج کرے پھر طواف زیارت سے قبل حائضہ ہوجائے تو اس کے ساتھیوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس عورت سے اجازت لیے بغیر (یا اس کی فراغت کے بغیر کوچ کر جائیں) دوسرا وہ شخص جو جنازہ کے ساتھ جائے اس پر نماز پڑھے اس کے لیے بھی جائز نہیں کہ اہل جنازہ سے اجازت لیے بغیر لوٹ آئے۔ المحاملی فی اعالیہ عن جابر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1285، المتناھیۃ 943، الوقوف 108 ۔

14971

14971- "إن عدة الخلفاء بعدي عدة نقباء موسى". "عد وابن عساكر عن ابن مسعود".
14971 میرے بعد خلفاء کی تعداد وہی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے نقباء (سرداروں) کی تھی (یعنی بارہ) ۔ الکامل لا بن عدی، ابن عساکر عن ابن مسعود (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1879 ۔

14972

14972- "كما تكونوا يولى عليكم". "فر عن أبي بكرة هب عن أبي إسحاق السبيعي مرسلا".
14972 جیسے تم ہوگے ویسے تم پر والی آئیں گے۔
مسند الفردوس عن ابی بکرۃ شعب الایمان للبیہقی عن ابی اسحق السبعی مرسلاً
کلام : روایت ضعیف ہے : الاتفان 1361، اسنی المطالب 1108 ۔ الدردا المنشرۃ 328، ضعیف الجامع 4275 ۔

14973

14973- "إذا أراد الله بقوم سوءا جعل أمرهم إلى مترفيهم". "فر عن علي"
14973 جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ برا ارادہ فرماتا ہے ان کی حکومت عیش پرستوں کو سونپ دیتا ہے۔ مسند الفردوس عن علی (رض)
کلام : فیض المقدیر میں علامہ مناوی (رح) فرماتے ہیں اس روایت میں حفص بن مسلم سمرقندی ہے جس کو امام ذہبی (رح) نے متروک قرار دیا ہے۔ فیض 265-1 نیز دیکھئے ضعیف الجامع 244 ۔

14974

14974- "الشاهد يرى ما لا يرى الغائب". "حم عن علي القضاعي عن أنس".
14974 شاہد (حاضر) وہ کچھ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھتا۔ مسند احمد عن علی القضاعی عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب :1800 المشتہر 98 ۔

14975

14975- " لابد من العريف، والعريف في النار". "أبو نعيم في المعرفة عن جعونة بن زياد [الشني] "
14975 ناظم۔ چیف منسٹر کے بغیر چارہ کار بھی نہیں اور ہ جہنم میں ہوگا۔
ابونعیم فی المعرفۃ عن جعونۃ بن زیاد الشیء
فائدہ : اس منصب سے دور رہنے کے لیے وعید فرمائی ہے کہ اس کی طلب وحرص میں نہ پڑو اگرچہ منصب بھی ضروری ہے اس سے امور مملکت کا انتظام ہوتا ہے لیکن وعید اس صورت میں ہے جس اس میں ظلم وناانصافی روا رکھی جائے۔

14976

14976- "العرافة أولها ملامة وآخرها ندامة والعذاب يوم القيامة". الطيالسي عن أبي هريرة.
14976 نظامت کا اول ملامت ہے، آخر قیامت کے دن پر ندامت ہے۔
الطیالسی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے۔ کشف الخفاء 1728 ۔

14977

14977- "إن العرافة حق ولابد للناس من العرفاء ولكن العرفاء في النار". "د عن رجل"
14977 نظم ونسق مملکت حق ہے اور لوگوں کے لیے اس منصب پر کسی کو فائز کئے بغیر چارہ کار نہیں۔ لیکن عرفاء منتظمین جہنم میں ہوں گے۔ ابوداؤد عن رجل
کلام : امام منذری (رح) فرماتے ہیں اس کی اسناد میں مجہول راوی ہیں اس لیے روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے : عون المعبود 153-8، التمیز 42، ضعیف الجامع 1506 ۔

14978

14978- "أما إن العريف يدفع في النار دفعا". "طب عن زيد بن سيف".
14978 بہرحال ناظم جہنم میں جھونکا جائے گا۔ الکبیر للطبرانی عن زید بن سیف
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1226 ۔

14979

14979- "القصاص ثلاثة أمير أو مأمور أو مختال". "طب عن عوف بن مالك وعن كعب بن عياض".
14979 قصاص تین ہیں : امیر مامور یا مختال (بڑائی پسند) ۔
الکبیر للطبرانی عن عوف بن مالک وعن کعب بن عیاض
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 3883 ۔

14980

14980- "القضاة ثلاثة: اثنان في النار وواحد في الجنة رجل علم الحق فقضى به فهو في الجنة، ورجل قضى للناس على جهله فهو في النار، ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار". "عد ك عن بريدة"
14980 قاضی تین طرح کے ہیں۔ دو جہنم میں ہیں اور ایک جنت میں وہ شخص جس نے حق جانا اور حق کے ساتھ فیصلہ کیا جنت میں ہے اور جس نے اپنی جہالت کے باوجود فیصلہ کیا وہ جہنم میں ہے اور جس نے حق کو جانا تو سہی لیکن فیصلہ میں ظلم کیا وہ جہنم میں ہے۔
الکامل لا بن عدی، مستدرک الحاکم عن بریدۃ (رض)
کلام : امام حاکم (رح) نے اس کو صحیح الاسناد فرمایا جبکہ امام ذہبی (رح) نے فرمایا اس میں ابن بکیر الغنویٰ منکر الحدیث ہے لیکن اس کا ایک شاہد صحیح ہے۔

14981

14981- "القضاة ثلاثة: قاضيان في النار، وقاض في الجنة قاض قضى بالهوى فهو في النار، وقاض قضى بغير علم فهو في النار، وقاض قضى بالحق فهو في الجنة". "طب عن ابن عمر".
14981 قاضی تین طرح کے ہیں دو قاضی جہنم میں ہیں اور ایک قاضی جنت میں ہے جس نے خواہش پر فیصلہ کیا جہنم میں ہے، جس نے بغیر علم کے فیصلہ کیا جہنم میں ہے اور جس نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جنت میں ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)

14982

14982- "قاضيان في النار، وقاض في الجنة، قاض عرف الحق فقضى به فهو في الجنة، وقاض عرف الحق فجار متعمدا أو قضى بغير علم فهما في النار". "ك عن بريدة"
14982 دو قاضی جہنم میں ہیں ایک قاضی جنت میں ہے۔ وہ قاضی جس نے حق کو جانا اور اسی کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جنت میں ہے وہ قاضی جس نے حق کو جانا لیکن عمداً ظلم کا فیصلہ کیا یا بغیر علم کے فیصلہ کیا دونوں جہنم میں ہیں۔ مستدرک الحاکم عن بریدۃ (رض)

14983

14983- "اتقوا الله فإن أخونكم عندنا من طلب العمل". "طب عن أبي موسى".
14983 اللہ سے ڈرو بیشک تم میں سب سے بڑا خیانت دار ہمارے نزدیک وہ شخص ہے جو عمل (سرکاری عہدہ) طلب کرے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی موسیٰ

14984

14984- "أبعد الناس عند الله يوم القيامة القاضي الذي يخالف إلى غير ما أمر به". "فر عن أبي هريرة".
14984 قیامت کے روز اللہ کے ہاں سب سے دور شخص وہ قاضی ہوگا جو خدا کے حکم کی مخالفت کرے۔ مسند الفردوس للدیلمی عن ابی ھریر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 42 ، الضعیفۃ 2091، المغیر 11 ۔

14985

14985- "إن الله مع القاضي ما لم يجر فإذا جار تخلى عنه ولزمه الشيطان". "ت عن عبد الله بن أبي أوفى". كتاب الأحكام رقم "1330".
14985 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے لیکن جب وہ ظلم کرتا ہے تو خدا اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ لازم ہوجاتا ہے۔
الترمذی عن عبداللہ بن ابی اوفی

14986

14986- "أن الله تعالى مع القاضي مالم يحف عمدا". "طب عن ابن مسعود حم عن معقل بن يسار".
14986 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ عمداً ظلم نہ کرے۔
الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض) ، مسند احمد عن معقل بن یسار
کلام : ضعیف الجامع 1662 ۔

14987

14987- "إن الله تعالى مع القاضي ما لم يجر فإذا جار تبرأ الله منه ولزمه الشيطان". "ك هق عن ابن أبي أوفى"
14987 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک ظلم نہ کرے پس جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے بری ہوجاتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہوجاتا ہے۔
مستدرک الحاکم السنن للبیہقی عن ابن ابی اوفیٰ

14988

14988- "إن القاضي العدل ليجاء به يوم القيامة فيلقى من شدة الحساب ما يتمنى أن لا يكون قضى بين اثنين في تمرة قط". "الشيرازي في الألقاب عن عائشة".
14988 عدل پسند قاضی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اس کو اس قدر حساب کی شدت ہوگی کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش اس نے کبھی دو آدمیوں کے درمیان بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔
الشیرازی فی الالقاب عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1516، المتناھیۃ 1260 ۔

14989

14989- "ليأتين على القاضي العدل يوم القيامة ساعة يتمنى أنه لم يقض بين اثنين في تمرة قط". "حم عائشة".
14989 عدل پسند قاضی پر قیامت کے دن ایسی گھڑ ی آئے گی کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش اس نے کبھی دو آدمیوں کے درمیان بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ مسند احمد عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 4863 ۔

14990

14990- "شرار أمتي من يلي القضاء إن اشتبه عليه لم يشاور وإن أصاب بطر، وإن غضب عنف وكاتب السوء كالعامل به". "فر عن أبي هريرة".
14990 میری امت میں بدترین وہ ہے جو قضاء کا عہدہ سنبھالے اگر اس پر کوئی بات مشتبہ ہوتی ہے تو وہ مشورہ نہیں کرتا اور اگر وہ درست رہتا ہے تو اکڑتا ہے اگر غصہ کرتا ہے تو ناک منہ چڑھاتا ہے اور برائی کو لکھنے والا اس پر عمل کرنے والے کے مثل ہے۔
مسند الفردوس للدیلمی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3384، کشف الخفاء 1536 ۔

14991

14991- "عج حجر إلى الله فقال: إلهي وسيدي عبدتك كذا وكذا سنة، ثم جعلتني في أس كنيف فقال: أما ترضى أن عزلت بك عن مجالس القضاة". "تمام وابن عساكر عن أبي هريرة".
14991 ایک پتھر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑایا : اے میرے معبود ! اے میرے آقا ! میں نے اتنے اتنے سال تیری عبادت کی ہے پھر تو نے مجھے ایک گرجے کی بنیاد میں رکھا ہے (میری یہ دعا سن لے) پروردگار نے فرمایا : کیا تو راضی نہیں ہوا کہ میں نے تجھے قاضیوں کی مجلس سے نکال لیا۔
تمام، ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب 876، تذکرۃ الموضوعات 186، التنزیہ 230, 2، ذی اللآلی 133 ۔

14992

14992- "لسان القاضي بين جمرتين حتى يصير إما إلى الجنة وإما إلى النار". "فر عن أنس".
14992 قاضی کی زبان دو انگاروں کے درمیان ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ مسند الفردوس للدیلمی عن انس
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 4670، النواضح 1492 ۔

14993

14993- "ما من قاض من قضاة المسلمين إلا ومعه ملكان يسددانه إلى الحق ما لم يرد غيره، فإذا أراد غيره وجار متعمدا تبرأ منه الملكان ووكلاه إلى نفسه". "طب عن عمران".
14993 مسلمانوں کے قاضیوں میں سے کوئی قاضی ایسا نہیں جس کے ساتھ دو فرشتے نہ رہتے ہوں جو اس کی حق کی طرف رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ جب تک کہ وہ حق کے علاوہ کا ارادہ نہ کرے۔ پس جب وہ حق کو چھوڑ کر کچھ اور ارادہ کرتا ہے اور عمداً ظلم کرتا ہے تو دونوں فرشتے اس سے بری ہوجاتے ہیں اور اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتے ہیں۔ الکبیر للطبرانی عن عمران
کلام : محل کلام روایت ہے : ضعیف الجامع 5210 ۔

14994

14994- "من ابتغى القضاء وسأل فيه الشفعاء وكل إلى نفسه ومن أكره عليه أنزل الله عليه ملكا يسدده". "ت عن أنس"
14994 جس نے عہد قضاء تلاش کیا اور ذمہ داروں سے اس کا سوال کیا تو اس کو اس کے نفس کے سپرد کردیا جاتا ہے اور جس کی زبردستی منصب سونپا گیا اللہ پاک اس پر ایک فرشتہ نازل کردیتا ہے جو اس کو درست راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ الترمذی عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5320 ۔ ضعیف الترمذی 223 ۔

14995

14995- "من سأل القضاء وكل إلى نفسه، ومن اجبر عليه نزل عليه ملك يسدده". "حم ت هـ عن أنس"
14995 جس نے قضاء کا سوال کیا اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے اور جس پر قضامسلط کی گئی اس پر ایک فرشتہ نزول کرتا ہے اور اس کو درست راہ دکھاتا ہے۔
مسند احمد، الترمذی، ابنماجہ عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابن ماجہ 507، ضعیف الترمذی 222، ضعیف الجامع 5614

14996

14996- "من طلب القضاء واستعان عليه وكل إليه، ومن لم يطلبه ولم يستعن عليه أنزل الله عليه ملكا يسدده". "د ت ك عن أنس".
14996 جس نے قضا کا سوال کیا اور اس پر مدد طلب کی اس کو اس کے حوالے کردیا جائے گا اور جس نے قضاء کا سوال نہیں کیا اور اس پر مدد نہیں مانگی اللہ پاک اس پر فرشتہ نازل فرمائیں گے جو اس کو درست راہ پر گامزن رکھے گا۔ ابوداؤد، الترمذی، مستدرک الحاکم عن انس (رض)

14997

14997- "من طلب قضاء المسلمين حتى يناله ثم غلب عدله جوره فله الجنة، ومن غلب جوره عدله فله النار". "د هق عن أبي هريرة".
14997 جو مسلمانوں کے عہدہ قضاء کی طلب و جستجو میں لگا رہا حتیٰ کہ اس کو پالیا پھر اس کا عدل اس کے ظلم پر غالب آگیا تب بھی اس کے لیے جنت ہے۔ لیکن اگر اس کا ظلم اس کے عدل پر غالب آگیا تو اس کے لیے جہنم ہے۔ ابوداؤد، السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابی داؤد 763، ضعیف الجامع 5689، الضعیفۃ 1186

14998

14998- "ما من عبد يحكم بين الناس إلا جاء يوم القيامة وملك آخذ بقفاه ثم يرفع رأسه إلى السماء، فإن قال الله: ألقه ألقاه في مهواة أربعين خريفا". "هـ عن ابن مسعود"
14998 جو بندہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ فرشتہ اس کی گردن پکڑے ہوئے ہوگا پھر وہ آسمان کی طرف سر اٹھائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس کو ڈال دو ، تو وہ فرشتہ اس کو چالیس سال کی گہرای میں دھکیل دے گا۔ ابن ماجہ عن ابن مسعود (رض)
کلام : اس کی سند میں مجالد ضعیف راوی ہے۔ زوائد ابنماجہ۔ ابن ماجہ رقم 2311 ۔

14999

14999- "من ولي القضاء فقد ذبح نفسه بغير سكين". "حم د ت عن أبي هريرة"
14999 جو قضاء کا والی بنا اس نے بغیر چھری کے اپنی جان کو ذبح کرلیا۔
مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 5643، مختصر المقاصد 1093 ۔

15000

15000- "من جعل قاضيا فقضى بين الناس فقد ذبح بغير سكين". "حم د هـ ك عن أبي هريرة".
15000 جو لوگوں کا قاضی بنایا گیا اور اس نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا اس کو بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا۔ مسند احمد ، ابوداود، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : اسنی المطالب 1385 ۔

15001

15001- "من كان قاضيا فقضى بالعدل فبالحرى أن ينقلب منه كفافا "ت عن ابن عمر"
15001 جو قاضی ہو اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرے تو وہ اس بات کے لائق ہے کہ برابر سر ابر چھوٹ جائے۔ الترمذی عن ابن عمر (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5798 ۔

15002

15002- "إن القاضي ليزل في مزلته أبعد من عدن في جهنم ". "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة عن معاذ ورجاله ثقات إلا أن فيه بقية وقد عنعن".
15002 قاضی جہنم میں عدن سے زیادہ دور تک پھسل کر گرتا ہے۔
ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ عن معاذ ورجالہ ثقات الاان فیہ بقیۃ وقد عنعن

15003

15003- "القضاة ثلاثة: قاضيان في النار وقاض في الجنة، قاض قضى بغير الحق وهو يعلم فذاك في النار، وقاض قضى وهو لا يعلم فأهلك حقوق الناس فذاك في النار وقاض قضى بالحق فذاك في الجنة". "ق عن بريدة". مر [14980] .
15003 قاضی تین طرح کے ہیں۔ دو قاضی جہنم میں ہیں اور ایک قاضی جنت میں ہے۔ جو قاضی بغیر حق کے فیصلہ کرے حالانکہ اس کو حق علم ہے وہ جہنم میں ہے۔ ایک قاضی بغیر علم کے فیصلہ صادر کرے اور لوگوں کے حقوق تباہ کرے تو وہ جہنم میں ہے۔ اور جو قاضی حق کے ساتھ فیصلہ کرے وہ جنت میں ہے۔ السنن للبیہقی عن بریدۃ

15004

15004- "قاضيان في النار وقاض في الجنة، قاض عرف الحق فقضى به فهو في الجنة وقاض عرف الحق فجار متعمدا أو قضى بغير علم فهما في النار قالوا فما ذنب هذا الذي يجهل؟ قال: ذنبه أن لا يكون قاضيا حتى يعلم". "ك عن بريدة". مر [14982] .
15004 دو قاضی جہنم میں ہیں اور ایک قاضی جنت میں ہے۔ جو قاضی حق کو جانے اور اس کے ساتھ فیصلہ کردے وہ جنت ہے اور جو قاضی حق کو جانے لیکن جان بوجھ کر ظلم کا فیصلہ صادر کرے یا بغیر علم کے فیصلہ صادر کرے یہ دونوں جہنم میں ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا : جو جاہل ہے اس کا کیا گناہ ہے ؟ فرمایا : اس کا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص علم حاصل کئے بغیر قاضی نہیں بن سکتا۔
مستدرک الحاکم عن بریدۃ

15005

15005- "ما من رجل يكون على الناس فيقوم على رأسه الرجال يحب أن يكثر الخصوم عنده فيدخل الجنة ". "ك وأبو سعيد النقاش في القضاة عن معاوية".
15005 جو شخص لوگوں پر فیصل ہو اور اس کے سر پر بہت لوگ اکٹھے ہوجائیں اور وہ تب بھی چاہے کہ مزید زیادہ لوگ ہوجائیں تو اس کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔
مستدرک الحاکم ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن معاویۃ (رض)

15006

15006- "من كان قاضيا فقضى بجهل كان من أهل النار، ومن كان قاضيا عالما فقضى بحق أو عدل سأل كفافا". "طب وأبو سعيد النقاش في القضاة عن ابن عمر وفيه عبد الملك بن أبي جميلة مجهول".
15006 جو قاضی بنے پھر جہالت کے ساتھ فیصلہ کرے وہ اہل جہنم میں ہوگا جو شخص عالم قاضی ہو پھر وہ حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور عدل کرے تو اس سے برابر سرابر سوال ہوگا۔
الکبیر للطبرانی ، ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن ابن عمر (رض)
کلام : اس روایت میں عبدالملک بن ابی جمیلہ مجہول راوی ہے۔

15007

15007- "لسان القاضي بين جمرتين حتى يصير إما إلى جنة وإما إلى نار". "الخطيب في المتفق والمفترق وميسرة بن علي في مشيخته والديلمي والرافعي عن أنس قال الرافعي تفرد به علي بن محمد الطنافسي".
15007 قاضی کی زبان دوا نگاروں کے درمیان ہے یا تو وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں۔
المتفق والمفترق للخطیب، مبسرۃ بن علی فی مشیخۃ، الدیلمی، الرافعی عن انس تفردبہ علی بن محمد الطنافسی
کلام : روایت میں علی بن محمد الطنافسی متفرد ہے۔ روایت ضعیف ہے دیکھئے النوافح 1492، ضعیف الجامع 4670 ۔

15008

15008- "يؤتى بالقاضي العدل يوم القيامة فيلقى من شدة الحساب ما يتمنى أنه لم يقض بين اثنين في تمرة قط". "ط ق عن عائشة".
15008 عدل پرور قاضی کو قیامت کے روز لایا جائے اور اس قدر سخت حساب لیا جائے گا کہ وہ تمنا کرے گا کاش اس نے ایک کھجور کے بارے میں بھی کبھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ ابوداؤد السنن للبیہقی عن عائشۃ (رض)
کلام : الضعیفۃ 1142 ۔ محل کلام ہے۔

15009

15009- "يؤتى بالقاضي يوم القيامة فيلقى من الهول قبل الحساب ما يود أنه لم يقض بين اثنين في تمرة ". "ابن عساكر عن عائشة".
15009 قیامت کے دن قاضی کو لایا جائے گا حساب سے قبل ہی اس قدر ہول ناکیوں سے وہ گزرے گا کہ اس کی تمنا ہوگی کاش اس نے دو آدمیوں کے بیچ میں ایک کھجور کے دانے کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ ابن عساکر عن عائشہ (رض)

15010

15010- "إن الله مع القاضي ما لم يجر، فإذا جار تخلى عنه ولزمه الشيطان". "ت غريب ق عن عبد الله بن أبي أوفى"
15010 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پس جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ پاک اس کو چھوڑ دیتا ہے اور شیطان اس کو لازم ہوجاتا ہے۔
الترمذی غریب، السنن للبیہقی عن عبداللہ بن ابی اوفیٰ
کلام : روایت ضعیف ہے۔ ترمذی

15011

15011- "إن الله مع القاضي ما لم يحف عمدا فإذا جار وكله إلى نفسه". "حب طب ق عن عبد الله بن أبي أوفى".
15011 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ عمداً ظلم نہ کرے پس جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ پاک اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔
ابن حبان، الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن عبداللہ بن ابی اوفیٰ

15012

15012- " الذي يقضي بين الناس يذبح نفسه بغير سكين". "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة عن أبي هريرة".
15012 جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے وہ بغیر چھری کے اپنی جان ذبح کرتا ہے۔
ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ عن ابوہریرہ (رض)

15013

15013- "يكون في أمتي من يقبل على [الد ... ] ويرتشي في الحكم ويضيع الصلاة ويتبع الشهوات". "أبو سعيد النقاش عن مجاهد وفيه ليث بن أبي سليم".
15013 میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو دنیا پر جھک جائیں گے، فیصلہ کرنے میں رشوت ستانی کریں گے ، نماز ضائع کریں گے اور شہوتوں (خواہشات) کے پیچھے پڑیں گے۔
ابوسعید النقاش عن مجاھد
کلام : اس روایت میں لیث بن ابی سلیم ایک راوی ہے جو محل کلام ہے۔

15014

15014- "اقض بينهم فإن الله مع القاضي ما لم يحف عمدا". "طب ك عن معقل بن يسار".
15014 لوگوں کے درمیان فیصلہ کر بیشک اللہ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ عمداً ظلم نہ کرے۔ الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن معقل بن یسار
کلام : ضعیف الجامع 1075 ۔

15015

15015- "إذا جلس القاضي في مجلسه هبط عليه ملكان يسددانه ويوفقانه ويرشدانه ما لم يجر فإذا جار عرجا وتركاه". "هق عن ابن عباس".
15015 جب قاضی اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے تو دو فرشتے اس پر اترتے ہیں، اس کو درست راہ دکھاتے ہیں ، درست بات کرنے کی توفیق دیتے ہیں اور صحیح رہنمائی کرتے ہیں جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے لیکن جب وہ ظلم کرتا ہے تو دونوں فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔
السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے، ضعیف الجامع 488، الطیفۃ 47، المتناھیہ 1263 ۔

15016

15016- "إن الله مع القاضي ما لم يجر عمدا فإذا جار وكله إلى نفسه". "هـ حب عن ابن أبي أوفى".
15016 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک ظلم نہ کرے پس جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ ابن ماجہ، ابن حبان عن ابی اوفیٰ

15017

15017- "إن الله مع القاضي ما لم يحف عمدا يسدده للجنة ما لم يرد غيره". "طب عن زيد بن أرقم".
15017 اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے جب تک وہ عمداً ظلم نہ کرے اللہ پاک اس کو درست راہ دکھاتا ہے جب تک وہ اور کوئی ارادہ نہ کرے۔ الکبیر للطبرانی عن زید بن ارقم
کلام : ضعیف الجامع 1662 ۔

15018

15018- "اقض بينهما يا عمرو فإذا قضيت بينهما القضاء فلك عشر حسنات وإن اجتهدت فأخطأت فلك حسنة". "حم طب عن عمرو".
15018 اے عمرو ! ان دونوں کے درمیان فیصلہ کردے۔ اگر تو دونوں کے درمیان صحیح فیصلہ کرے تو تیرے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تو کوشش کرے لیکن فیصلہ میں خطا ہوجائے تو تب بھی تیرے لیے ایک نیکی ہے۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی عن عمرو

15019

15019- "اجتهد فإذا أصبت فلك عشر حسنات، وإن أخطات فلك حسنة". "عد عن عقبة بن عامر".
15019 کوشش کر، اگر تو درست رہا تو تیرے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تجھ سے خطا سرزد ہوئی تو تیرے لیے ایک نیکی ہے۔ الکامل لا بن عدی عن عقبۃ بن عامر

15020

15020- "إن أصبت القضاء بينهما فلك عشر حسنات، وإن اجتهدت فأخطأت فلك حسنة واحدة". "ابن سعد عن عمرو بن العاص".
15020 اگر تجھ سے درست فیصلہ ہوسکے تو تیرے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تجھ سے خطا سرزد ہوجائے تو تیرے لیے ایک نیکی ہے۔ ابن سعد عن عمرو بن العاص

15021

15021- "يد الله مع القاضي حين يقضي، ويد الله مع القاسم حين يقسم". "حم ن عن أبي أيوب".
15021 قاضی جب فیصلہ کرتا ہے تو اللہ کا ہاتھ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور قاسم جب تقسیم کرتا ہے تو اللہ کا ہاتھ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسنداحمد ، النسائی عن ابی ایوب (رض)

15022

15022- "اقض بينهما على أنك إن أصبت فلك عشر أجور وإن اجتهدت فأخطأت فلك أجر". "ك وتعقب عن ابن عمرو".
15022 دونوں کے درمیان فیصلہ کردے اس بنیاد پر کہ اگر تجھ سے درست فیصلہ ہوا تو تیرے لیے دس نیکیاں ہیں اور اگر تو نے کوشش کی لیکن تجھ سے خطاء سرزد ہوئی تو تیرے لیے ایک اجر ہے۔ مستدرک الحاکم عن ابن عمرو
کلام : امام ذہبی (رح) نے اس روایت پر کلام فرمایا ہے۔

15023

15023- "إذا تقاضى إليك رجلان فلا تقض للأول حتى تسمع كلام الآخر فسوف تدري كيف تقضي، قال علي: فما زلت بعد قاضيا". "ت عن علي"
15023 جب وہ شخص تیرے پاس فیصلہ لے کر آئیں تو پہلے کے حق میں فیصلہ نہ دے جب تک دوسرے کی بات نہ سن لے عنقریب تجھے معلوم ہوجائے گا کہ کس طرح تجھے فیصلہ کرنا ہے۔
حضرت علی (رض) ارشاد فرماتے ہیں : اس کے بعد میں ہمیشہ قاضی رہا۔ الترمذی عن علی (رض)

15024

15024- "إذا جلس إليك خصمان فسمعت من أحدهما فلا تقض لأحدهما حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الأول فإنك إذا فعلت ذلك تبين لك القضاء". "حم ك هق عن علي".
15024 جب تیرے پاس دو فریق بیٹھ جائیں تو کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہ دے جب تک دوسرے کی بات نہ سن لے جیسے پہلے کی بات سنی ہے جب تو ایسا کرے گا تو تیرے لیے فیصلہ کرنا واضح ہوجائے گا۔ مسند احمد، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن علی (رض)

15025

15025- "اذهبا فتوخيا ثم استهما ثم اقتسما ثم ليحلل كل واحد منكما صاحبه". "ك عن أم سلمة".
15025 دونوں جاؤ سو چو، قرعہ اندازی کرو پھر تقسیم کرلو پھر ہر ایک ساتھی دوسرے کو کمی بیش حلال کردے۔ مستدرک الحاکم عن ام سلمۃ (رض)

15026

15026- "اذهبوا فقاسموهم أنصاف الأموال، ولا تمسوا ذراريهم ولولا أن الله لا يحب ضلالة العمل ما رزيناكم عقالا". "د عن الزبيب العنبري"
15026 جاؤ اور آدھے آدھے اموال تقسیم کرلو۔ اور بچوں کو ہاتھ نہ لگاؤ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ پاک عمل کی گمراہی پسند نہیں فرماتا تو ہم تم سے ایک رسی کا احسان بھی قبول نہیں فرماتے۔
ابوداؤد عن الزبیب العنبری
کلام : ضعیف الجامع 141

15027

15027- "لا تقضين ولا تفصلن إلا بما تعلم، وإن أشكل عليك أمر فقف حتى تبينه أو تكتب إلي فيه". "هـ عن معاذ".
15027 ہرگز فیصلہ نہ کرو اور نہ فیصلے سے متعلق کوئی بات کہو سوائے اس بات کے جو تم کو معلوم ہو اور اگر تجھ پر کوئی معاملہ مشکل اور مشتبہ ہوجائے تو توقف کرلے حتیٰ کہ تجھ پر وہ مسئلہ واضح ہوجائے یا تو اس کو لکھ کر میرے پاس بھیج دے۔ ابن ماجہ عن معاذ (رض)

15028

15028- "لا يحكم أحد بين اثنين وهو غضبان". "م ت ن عن أبي بكرة".
15028 کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے جبکہ وہ حالت غصہ میں ہو ۔
مسلم ، الترمذی ، النسائی عن ابی بکرۃ (رض)

15029

15029- "لا يقص إلا أمير أو مأمور أو مختال". "د عن عوف بن مالك"
15029 قصاص صرف امیر لے یا مامور یا مختال (جو متاثر ہواہو) ۔ ابوداؤد عن عوف بن مالک
کلام : الجامع المصنف 223 ۔ روایت ضعیف ہے۔

15030

15030- "لا يقضي القاضي بين اثنين وهو غضبان ". "حم خ د هـ عن أبي بكرة".
15030 قاضی کبھی دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔
مسند احمد ، البخاری، ابوداؤد، ابن ماجہ عن ابی بکرۃ (رض)

15031

15031- "لا يقضين أحد في قضاء بقضائين ولا يقضي أحد بين خصمين وهو غضبان". "ن عن أبي بكرة".
15031 کوئی شخص کسی ایک فیصلہ میں دو فیصلے نہ کرے اور نہ غصہ کی حالت میں دو فریقوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ النسائی عن ابی بکرۃ (رض)

15032

15032- "من ابتلى بالقضاء بين المسلمين فليعدل بينهم في لحظه وإشارته ومقعده ومجلسه". "قط طب هق عن أم سلمة".
15032 جس کو مسلمانوں کی قضاء کا عہدہ سپرد ہوا تو وہ ان کے درمیان دیکھنے میں اشارہ کرنے میں، اٹھنے بیٹھنے میں اور مجلس میں عدل کرے۔
الدارقطنی، الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ام سلمہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5321، الکشف الالٰہی۔

15033

15033- "من ابتلى بالقضاء بين المسلمين فلا يرفع صوته على أحد الخصمين ما لم يرفع على الآخر". "طب هق عن أم سلمة".
15033 جس کو مسلمانوں کا قاضی بنایا جائے وہ کسی ایک فریق پر آواز بلند نہ کرے جب تک دوسرے کے ساتھ بھی یہی سلوک نہ کرے۔ الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ام سلمۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ضعیف الجامع 5322 ۔

15034

15034- "إذا ابتلى أحدكم بالقضاء بين المسلمين فلا يقض وهو غضبان وليسو بينهم في النظر والمجلس والإشارة". "ع عن أم سلمة".
15034 جب کسی کو مسلمانوں کے درمیان عہدہ قضاء کے ساتھ آزمائش میں مبتلاء کیا جائے تو وہ غصہ کی حالت نہ کرے اور سب فریقوں کے درمیان دیکھنے میں مجلس (بیٹھنے) میں اور حتیٰ کہ اشارہ کرنے میں بھی برابر کرے۔ مسند ابی یعلی عن ام سلمہ (رض)
کلام : روایت محل کلام اور ضعیف ہے۔ ضعیف الجامع 274، الضعیفۃ 2195 ۔

15035

15035- "إني لم أؤمر أن أنقب عن قلوب الناس ولا أشق بطونهم". "حم خ عن أبي سعيد".
15035 مجھے حکم نہیں ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگا کر دیکھوں یا ان کے پیٹ پھاڑ کر دیکھوں (کہ حقیقت کیا ہے) ۔ مسند احمد، البخاری عن ابی سعید (رض)

15036

15036- "إن الله سيهدي قلبك ويثبت لسانك، فإذا جلس بين يديك الخصمان فلا تقضين حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الأول فإنه أحرى أن يتبين لك القضاء". "د ن عن علي".
15036 اللہ پاک تیرے دل کو ہدایت دے گا، تیری زبان کو مضبوط اور ثابت کرے گا۔ پس جب تو دونوں فریقوں کے سامنے بیٹھے تو فیصلہ نہ کر جب تک دوسرے کی بات نہ سن لے جس طرح پہلے کی بات سنی ہے۔ بیشک اس سے تجھ پر فیصلہ واضح ہوجائے گا۔ ابوداؤد ، النسائی عن علی (رض)

15037

15037- "لا يضيفن ذو سلطان خصما ولا يدنيه منه ولا يسمع منه إلا وخصمه معه". "الديلمي عن ابن عمر، وفيه العلاء بن هلال يضع الحديث".
15037 قاضی کسی فریق کی ضیافت اور خاطر تواضع نہ کرے نہ اس کو اپنے قریب کرے اور نہ اس کی بات سنے جب تک دوسرا فریق ساتھ نہ ہو۔ الدیلمی عن ابن عمرو (رض)
کلام : روایت میں ایک راوی العلاء بن ھلال ہے جو حدیث وضع کرتا ہے۔ لہٰذا روایت محل کلام اور ضعیف ہے۔

15038

15038- "من ابتلى بالقضاء بين المسلمين فلا يقضين وهو غضبان". "طب عن أم سلمة".
15038: جس شخص کو مسلمانوں کا قاضی بنایا گیا ہو وہ غصے کی حالت میں ہرگز فیصلہ نہ کرے۔ طبرانی عن ام سلمۃ (رض) ۔

15039

15039- "لا يقضين حكم بين اثنين وهو غضبان". "حم خ د هـ عن أبي بكرة".
15039 حاکم دو آدمیوں کے بیچ میں غصہ کے ساتھ فیصلہ نہ کرے۔
مسند احمد، البخاری ، ابوداؤد، ابن ماجہ عن ابی بکرۃ (رض)

15040

15040- "لا يقضي القاضي بين اثنين إلا وهو شبعان ريان". "قط والخطيب ق وضعفه عن أبي سعيد".
15040 قاضی جب دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ سیر اور سیراب ہو۔
السنن للدارقطنی، الخطیب فی التاریخ، السنن للبیہقی ، وضعفہ عن ابی سعید (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔

15041

15041- "لا يقضي أحد في أمر بقضائين". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن أبي بكر".
15041 کوئی بھی کسی ایک مسئلے میں دو فیصلے نہ کرے۔ ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن ابی بکر (رض)

15042

15042- "أما إذا فعلتما ما فعلتما فاقتسما وتوخيا الحق، ثم استهما ثم تحالا". "د عن أم سلمة"
15042 بہرحال جب تم کرو جو کرو تو پہلے تقسیم کرلو، حق کو خوب سوچ سمجھ لو پھر قرعہ اندازی کرلو اور پھر کمی بیشی ایک دوسرے کے لیے حلال کرلو۔ ابوداؤد عن ام سلمۃ

15043

15043- "إنما أنا بشر ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فمن قضيت له من حق أخيه فإنما أقطع له قطعة من نار". "ش عن أنس"
15043 میں ایک بشر ہوں، ممکن ہے تم میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ اچھا بولنے والا ہو اپنی حجت کو، پس میں جس کے لیے کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو وہ اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں نے اس کے لیے کاٹ دیا ہے۔ ابن ابی شیبہ عن انس (رض)

15044

15044- "دعنا يا عمر فإن لصاحب الحق مقالا". "طس طب حل عن أبي حميد الساعدي".
15044 اے عمر ! چھوڑوہم کو کیونکہ صاحب حق کو کہنے کی گنجائش ہے۔
الاوسط والکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابی حمید الساعدی

15045

15045- "مه يا عمر صاحب الدين له مقال". "طب عن جابر".
15045 رک جا اے عمر ! قرض خواہ کو کہنے کا حق ہے۔ الکبیر للطبرانی عن جابر (رض)

15046

15046- "دعوه، فإن طالب الحق أعذر من النبي صلى الله عليه وسلم". "حل عن أبي هريرة".
15046 اس کو چھوڑ دو بیشک حق کا طلب نبی سے زیادہ عذررکھنے والا ہے۔
حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ (رض)

15047

15047- "دعوه فإن لصاحب الحق مقالا". "خ ت عن أبي هريرة أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فتقاضاه فأغلظ له فهم به أصحابه قال: فذكره ابن عساكر عن أبي حميد الساعدي".
15047 چھوڑ دو اس کو، بیشک صاحب حق کو بات کہنے کا حق ہے۔
البخاری ، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)
فائدہ : ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور قرض کا تقاضا کیا اور سختی کا برتاؤ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا :
ابن عساکر عن ابی حمید الساعدی

15048

15048- " قضى أن الخصمين يقعدان بين يدي الحكم". "د عن عبد الله بن الزبير"
15048 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ دونوں فریق قاضی کے روبرو بیٹھیں۔
سنن ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن عبداللہ بن الزبیر
امام منذری (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کی سند میں مصعب بن ثابت ابوعبداللہ المدنی ہے، جس کی روایت قابل استدلال نہیں ہے۔

15049

15049- "قضى أن الخصمين يقعدان بين يدي الحاكم". "حم ك عن عبد الله بن الزبير".
15049 نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ دونوں فریق قاضی کے سامنے بیٹھیں۔
مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن عبداللہ بن الزبیر

15050

15050- "يا عمر أنا وهو كنا أحوج إلى غير هذا؛ أن تأمرني بحسن الأداء وتأمره بحسن اتباعه، اذهب به يا عمر فأعطه حقه وزده عشرين صاعا من تمر مكان مارعته ". "طب ك عن محمد بن حمزة بن يوسف بن عبد الله بن سلام عن أبيه عن جده عبد الله بن سلام".
15050 اے عمر ! ہم اور وہ اس کے سوا کسی اور بات کے زیادہ ضرورت مند تھے۔ وہ یہ کہ تو مجھے حسن ادائیگی کا حکم دیتا اور اس کو حسن اتباع کا حکم دیتا (کہ قرض مانگنے میں نرم رویہ اپناتے) اے عمر ! اس کو اس کا حق دے اور بیس صاع (من کے قریب) کھجور زیادہ دے، یہ اس کے بدلے جو تم نے اس کو رعب اور دبدبہ دکھایا ہے۔ الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم عن محمد بن حمزۃ بن یوسف بن عبداللہ بن سلام عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن سلام

15051

15051- "إن الله قد جعل لكل ذي حق حقه ألا لا وصية لوارث والولد للفراش وللعاهر الحجر ألا لا يتولين رجل غير مواليه، ولا يدعى إلى غير أبيه، فمن فعل ذلك فعليه لعنة الله متتابعة إلى يوم القيامة ألا لا تنفق امرأة من بيت زوجها إلا بإذن زوجها ألا إن العارية مؤداة والمنحة مردودة والدين مقضى والزعيم غارم". "الحسن بن سفيان ق وابن عساكر عن الحسن وروى هـ بعضه".
15051 اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کے لیے اس کا حق رکھا ہے خبردار ! وارث (شرعی) کے لیے وصیت نہیں اولاد بستر والے (شوہر یا باندی کے مالک) کی ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے خبردار ! کوئی غلام آدمی اپنے آقاؤں کے سوا کسی اور کو اپنا والی نہ بنائے (جس نے وراثت وغیرہ اصل والیوں کے بجائے اوروں کو منتقل کی ہو) اور کوئی شخص اپنی والدیت غیر والد کے کہیں اور منسوب نہ کرے جس نے ایسا کیا اس پر اللہ کی لعنت ہے قیامت تک ہمیشہ ہمیشہ خبردار ! کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے بغیر اجازت کے شوہر کا کوئی مال خرچ نہ کرے۔ خبردار ! عاریت (مانگے کی چیز) واپس کرنا ضروری ہے۔ منجہ (دودھ کے لیے دیا ہوا جانور یا پھل کے لیے دیا ہوا درخت وغیرہ) واپس کرنا ضروری ہے۔ قرض کی ادائیگی ضروری ہے اور ضمانت اٹھانے والا چٹی برداشت کرنے والا ہے (نقصان کی صورت میں)
الحسن بن سفیان، السنن للبیہقی ، ابن عساکر عن الحسن وروی ابن ماجہ بعضہ

15052

15052- "لا يتوارث أهل ملتين المرأة ترث من عقل زوجها وماله وهو يرث من عقلها ومالها إلا أن يقتل أحدهما صاحبه عمدا فإن قتل لم يورث من ماله ولا من عقله شيئا، وإن قتل أحدهما صاحبه خطأ ورث من ماله ولم يرث من عقله أيما امرأة وعد أبوها وأخوها أو أحد من أهلها شيئا قبل أن يملك عصمتها ثم يملك عصمتها بالذي وعد أبوها أو أخوها أو أحد من أهلها فهو لها، فإذا ملكت عصمتها وأكرمها أبوها أو أخوها أو أحد من أهلها بشيء فهو له وأحق ما يكرم به ابنته أو أخته والبينة على المدعي ألا ويد المسلمين على من سواهم واحدة تتكافأ دماؤهم ولا يقتل مؤمن بكافر ويرد قوى المؤمنين على ضعيفهم ومتسريهم على قاعدهم ويعقد أدناهم". "ق وابن عساكر عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
15052 دو ملتوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے عورت اپنے شوہر کی دیت اور مال کی وارث ہوگی شوہر بیوی کی دیت اور مال کا وارث ہوگا۔ ہاں اگر کوئی ایک دوسرے کو عمداً قتل کردے تب وہ اس کے مال کا وارث نہ ہوگا۔ اور نہ اس کی دیت کا اگر کوئی ایک دوسرے کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس کے مال کا وارث ہوگا لیکن اس کی دیت کا وارث نہ ہوگا۔
جس عورت سے اس کا باپ، اس کا بھائی یا کوئی اور اس کے گھر کا فرد عورت کے اپنے گھر بار والی ہونے سے قبل اس کے لیے کسی چیز کا وعدہ کرلے پھر وہ اپنے گھر بار کی ہوجائے تو جس چیز کا اس کے ساتھ وعدہ کیا ہے وہ عورت کا حق ہے۔ ہاں اگر عورت اپنے گھر بار کی ہوجائے اور پھر اس کا باپ بھائی یا کوئی اور فرد اس کے لیے کسی چیز کا اکرام کرتا ہے تو وہ اسی کے لیے ہے (عورت اس کی مالکہ نہ ہوگی جب تک صراحتاً اس کو مالک نہ بنادے) اور بیٹی اور بہن گھر میں اکرام کی زیادہ مستحق ہیں یاد رکھو ! گواہ پیش کرنا مدعی (دعویدار) پر فرض ہے اور مسلمانوں کا ہاتھ دوسرے سب لوگوں پر ایک ہے (یعنی وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں) ان کا خوف بھی برابر ہے (کسی غیر مسلم نے کسی مسلم کا ون بہادیا تو سب مسلمان اس کا قصاص لینے والے ہیں) اور کوئی مومن کسی (حربی) کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ ہوگا۔ اور مومنین میں سے قوی کو ضعیف پر اور سر یہ میں نکلنے والے کو (معرکہ میں نکل کر) بیٹھنے والے پر لوٹا دیا جائے گا (یعنی قوی اور ضعیف اور سریے میں جانے والا اور پیچھے معرکہ میں رہنے والا غنیمت میں برابر کے حصہ دار ہیں) اور مسلمانوں میں سے ادنیٰ ترین شخص کے مفادات کا لحاظ لازم ہے۔ السنن للبیہقی ، ابن عساکر عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

15053

15053- "قضى أن المعدن جبار والبئر جبار والعجماء جرحها جبار، وقضى في الركاز الخمس، وقضى أن ثمر النخل لمن أبرها إلا أن يشترط المبتاع وإن ملك المملوك لمن باعه إلا أن يشترط المبتاع، وقضى أن الولد للفراش وللعاهر الحجر وقضى بالشفعة بين الشركاء في الأرضين والدور وقضى في الجنين المقتول بغرة عبد أو أمة وقضى في الرحبة تكون من الطريق ثم يريد أهلها البنيان فيها فقضى أن يترك للطريق منها سبعة أذرع، وقضى في النخل أو النخلتين أو الثلاث يختلفون في حقوق ذلك فقضى لكل نخلة من أولئك مبلغ جريدها حريما لها، وقضى في شرب النخل من السيل أن الأعلى فالأعلى يشرب قبل الأسفل ويترك الماء إلى الكعبين ثم يرسل الماء إلى الأسفل الذي يليه فكذلك حتى تنقضي الحوائط أو يفنى الماء، وقضى أن المرأة لا تعطي من مالها شيئا إلا بإذن زوجها وقضى للجدتين من الميراث بالسدس بينهما بالسوية، وقضى أن من أعتق شركا في مملوك فعليه جواز عتقه إن كان له وقضى أن لا ضرر ولا ضرار وقضى أنه ليس لعرق ظالم حق وقضى بين أهل المدينة في النخيل لا يمنع نقع بئر وقضى بين أهل البادية أن لا يمنع فضل ماء ليمنع فضل الكلأ وقضى في الدية الكبرى المغلظة بثلاثين ابنة لبون وثلاثين حقة وأربعين جذعة وقضى في الدية الصغرى بثلاثين ابنة لبون وثلاثين حقة وعشرين ابنة مخاض وعشرين بني مخاض ذكور". "عم وأبو عوانة طب عن عبادة بن الصامت"
15053 حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ معدن (کان) میں ہلاک ہونے والے خون معاف ہے۔ کنویں میں گر کر ہلاک ہونے والے کا خون معاف ہے۔ کسی چوپائے کے چوٹ ماردینے کی سزا معاف ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکاڑ (وہ خزانہ جو اللہ نے زمین میں چھپا رکھا ہو کسی آدمی کا چھپایا ہوا نہ ہو) میں (مملک کا) خمس (پانچواں) حصہ ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ دیا ہے کہ کھجور کا پھل اس شخص کے لیے ہے جس نے اس کی تابیر کی (نر کھجور سے شگوفہ کی تیلیاں مادہ کھجور میں لاگئیں اور اس کی آبیاری کی) ہاں اگر درخت خریدنے والا شرط لگا دے (کہ پھل بھی میرا ہوگا تو پھر پھل اسی خریدار کا ہے) یونہی غلام کی ملکیت کی چیزیں غلام کو فروخت کرنے والے کی ہیں۔ ہاں اگر مشتری شرط لگادے (تو مشتری کی ہیں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ بچہ بستروالے (شوہر یا باندی کے مالک) کا ہے اور زانی (بدکار) کے لیے سنگساری ہے، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ زمینوں اور گھروں میں شریک ایک دوسرے کے لیے شفعہ کا حق رکھتے ہیں ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ پیٹ کا بچہ جو قتل کردیا جائے اس کے عوض ایک غلام یا باندی دینا ضروری ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ میدان جو راستے میں پڑتا ہو پھر میدان کے مالک اس میں عمارت کھڑی کرنا چاہیں تو راستے کے لیے سات ہاتھ جگہ چھوڑی جائے گی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ ایک کھجور کا درخت یا دو یا تین اگر ان کے مالک مختلف ہوں تو ہر درخت کی جگہ اس کی شاخیں پہنچنے کی جگہ تک ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ باغوں کو نہر وغیرہ کے پانی سے بیچنے میں پہلے اوپر کی زمین میں ٹخنوں تک پانی چھوڑا جائے گا ، پھر اس کے نیچے والی زمین میں اتنا ہی پانی چھوڑا جائے گا حتیٰ کہ باغات اور زمنیں پوری ہوجائیں یا پانی ختم ہوجائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ عورت اپنے مال میں سے کوئی چیز شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو نہیں دے سکتی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ جد تین (دادی اور نانی) میراث کے چھٹے حصے میں برابر کی حصہ دار ہوں گی۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے : جس نے اپنے غلام کا کوئی حصہ آزاد کیا تو اس پر لازم ہے کہ اگر وہ بقیہ حصہ کا بھی مالک ہے تو اس کو بھی آزاد کردے۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلام میں ضرر ہے (کسی کو) ناروا ضرر (تکلیف) پہنچانے کی اجازت ہے اور نہ بلاوجہ کسی ضرر کا بدلہ اور نقصان برداشت کرنے کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کسی ظالم (ناجائز) پیدا ہونے والی شے کا کوئی حق نہیں (اس کا مطلب خاص طور پر یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی مردہ زمین آباد کی بعد میں کسی دوسرے نے اس میں کو ئف فصل یا درخت وغیرہ اگا کر اس پر اپنا حق جتانے کی ناجائز کوشش کی تو دوسرے کا زمین میں کوئی حق نہیں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ شہر کے باغ میں کنویں کے بچے ہوئے پانی کے ساتھ باغ کو سیراب کرنا جائز ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل دیہات کے درمیان یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ ۔ نہر، جوہڑ اور تالاب وغیرہ، کا بچا ہوا پانی پینے سے مویشیوں کو نہیں روکا جاسکتا تاکہ وہ زائد اگی ہوئی خودرو گھاس پھونس چرسکیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کبری (قتل عمد کی دیت) میں فیصلہ فرمایا ہے تیس بنت لبون (وہ اونٹنی جو دو سال پورے کرکے تیسرے میں شروع ہوجائے) تیس حقہ (وہ اونٹنی جو چوتھے سال میں داخل ہوجائے) چالیس جذعہ (جو اونٹنی چار سال پورے کرکے پانچویں سال میں داخل ہوجائے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے دیت صغریٰ (قتل خطا کی دیت) میں تیس بنت لبون تیس حقہ اور بیس بنت مخاض اور بیس بنی مخاض (یعنی ایک سال پورا کرکے دوسرے سال میں داخل ہونے والی بیس اونٹنیاں اور بیس اونٹ) ۔
مسند احمد ، عبداللہ بن احمد بن حنبل، ابوعوان، الکبیر للطبرانی عن عبادۃ بن الصامت

15054

15054- " لا رضاع بعد فصال، ولا يُتْمَ بعد احتلام، ولا عتق إلا بعد ملك، ولا طلاق إلا بعد النكاح، ولا يمين في قطيعة رحم، ولا تَعَرّب بعد هجرة، ولا هجرة بعد الفتح، ولا يمين مع الوالد، ولا يمين لامرأة مع زوج، ولا يمين لعبد مع سيده، ولا نذر في معصية الله، ولو أن أعرابيا حج عشر حجج ثم هاجر كانت عليه حجة إن استطاع إليه سبيلا، ولو أن صبيا حج عشر حجج ثم احتلم كانت عليه حجة إن استطاع إليه سبيلا، ولو أن عبدا حج عشر حجج، ثم أُعتِق كانت عليه حجه إن استطاع إليه سبيلا". "ط ق عن جابر".
15054 دودھ چھڑانے کے بعد حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی ملکیت کے بغیر (غلام کو) آزاد کرنے کا اختیار نہیں طلاق کا حق صرف نکاح کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ قطع رحمی میں کسی قسم کا لحاظ نہیں ہجرت کے بعد واپس دیہات میں جاکر بسنا جائز نہیں ۔ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں۔ اولاد کے لیے کسی چیز کی قسم جائز نہیں جو اپنے والد کے ساتھ ہو، نہ عورت کے لیے جو شوہر کے ساتھ ہو اور نہ غلام کے لیے جو اپنے آقا کے ساتھ ہو۔ یعنی یہ تینوں خود مالک بننے کے اہل نہیں، لہٰذا ان کے مفاد میں قسم کھانا درست نہیں بلکہ ان کے سرپرستوں کے لیے کسی فائدہ کی قسم درست ہے اللہ کی معصیت میں کوئی نذر نہیں۔ اگر کوئی اعرابی دس حج کرے پھر وہ ہجرت کرے تو دوبارہ اس پر حج فرض ہے اگر وہ حج کرنے کی استطاعت رکھے۔ اگر کوئی بچہ دس حج کرے پھر وہ بالغ ہوجائے تو اس پر دوبارہ حج فرض ہے اگر وہ حج کرنے کی استطاعت رکھے ۔ اسی طرح اگر کوئی غلام دس حج کرے پھر وہ آزاد ہوجائے تو اس پر دوبارہ حج فرض ہے اگر وہ حج کرنے کی استطاعت رکھے۔ ابوداؤد ، السنن للبیہقی عن جابر (رض)

15055

15055- "تهادوا تحابوا". "ع عن أبي هريرة".
15055 ایک دوسرے کو ہدیہ دیاکرو اس سے آپس میں محبت بڑھے گی۔
مسند ابی یعلی عن ابوہریرہ (رض)

15056

15056- "تهادوا تحابوا وتصافحوا يذهب الغل عنكم". "ابن عساكر عن أبي هريرة".
15056 ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے آپس میں محبت بڑھے گی اور مصافحہ کیا کرو دلوں کا کھوٹ دور ہوگا۔ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ اسنی المطالب 514، تذکرۃ الموضوعات 65 ۔

15057

15057- "تهادوا تزدادوا حبا وهاجروا تورثوا أبناءكم مجدا وأقيلوا الكرام عثراتهم". "ابن عساكر عن عائشة".
15057 ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو ، تمہاری باہمی محبت میں اضافہ ہوگا، ہجرت کیا کرو تمہاری آل اولاد کی بزرگی اور مرتبہ بڑھے گا اور معزز لوگوں کی لرزشوں کو درگزر کیا کرو۔
ابن عساکر عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ الشذرۃ 128، ضعیف الجامع 2491 ۔

15058

15058- "تهادوا الطعام بينكم فإن ذلك توسعة في أرزاقكم". "عد عن ابن عباس".
15058 ایک دوسرے کو کھانا طعام ہدیہ میں بھیجا کرو اس سے تمہارے رزقوں میں فراخی و کشادگی پیدا ہوگی۔ الکامل لابن عدی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ، ذخیرۃ الحفاظ 2496، ضعیف الجامع 2488 ۔

15059

15059- "تهادوا إن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة جارتها ولو بشق فرسن شاة". "حم ت" عن أبي هريرة.
15059 ایک دوسرے کو ہدایا دیا کرو بیشک ہدیہ دل کا کینہ صاف کرتا ہے اور کوئی عورت اپنی پڑوسن کو بکری کے پائے ہدیہ کرنے کو بھی معمولی نہ سمجھے۔ مسند احمد، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے، ضعیف الترمذی، 378، ضعیف الجامع 2489 ۔

15060

15060- "تهادوا فإن الهدية تذهب السخيمةولو دعيت إلى كراع لأجبت ولو أهدي إلي كراع لقبلت". "هب عن أنس".
15060 ہدایا دیا لیا کرو۔ کیونکہ ہدیہ دل کا کینہ و عداوت ختم کرتا ہے۔ اگر مجھے کسی جانور کے پائے کی دعوت بھی دی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر ایک دستی گوشت بھی بھیجا جائے تو میں اس کو قبول کروں گا۔ شعب الایمان للبیہقی عن انس (رض)
کلام : ضعیف الجامع 2492 ۔

15061

15061- "تهادوا فإن الهدية تضعف الحب وتذهب بغوائل الصدر". "طب عن أم حكيم بنت وداع".
15061 ہدایا دیا کرو بیشک ہدیہ محبت بڑھاتا ہے اور دل کی کدورتیں زائل کرتا ہے۔
الکبیر للطبرانی عن ام حکیم بنت وداع
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2493، کشف الخفاء 1023 ۔

15062

15062- "الهدية إلى الإمام غلول". "طب عن ابن عباس".
15062 امام (حاکم) کو ہدیہ دینا خیانت ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

15063

15063- "الهدية تذهب بالسمع والقلب والبصر". "طب عن عصمة بن مالك".
15063 ہدیہ سماعت اور بصارت کو بڑھاتا ہے اور دل کو تقویت دیتا ہے۔
الکبیر للطبرانی عن عصمۃ بن مالک
کلام : ضعیف الجامع 5104 ۔

15064

15064- "الهدية تعورعين الحكيم". "فر عن ابن عباس".
15064 ہدیہ حاکم کی آنکھ کو اندھا کردیتا ہے۔ مسند الفردوس للدیلمی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 6105 ۔ النوقح 2456 ۔

15065

15065- "من أتته هدية وعنده قوم جلوس فهم شركاؤه فيها". "طب عن الحسين بن علي".
15065 جس کے پاس ہدیہ آئے اور اس کے پاس لوگ بیٹھے ہوں تو وہ بھی اس ہدیہ میں شریک ہیں۔ الکبیر للطبرانی عن الحسین بن علی 1985
کلام : روایت ضعیف ہے ضعیف الجامع 5330، تحذیر المسلمین 114

15066

15066- "نعم الشيء الهدية إمام الحاجة". "طب عن الحسين بن علي".
15066 ہدیہ بہترین شے ہے جو حاجت روائی کا امام ہے۔ الکبیر للطبرانی عن الحسین بن علی
کلام : روایت ضعیف ہے تذکرۃ الموضوعات 66، ضعیف الجامع 5965، الضعیفۃ 754 ۔

15067

15067- "هدايا العمال غلول". "حم هق عن أبي حميد الساعدي عن عرباض"
15067 سرکاری اہلکاروں کے ہدایا خیانت بازی ہیں۔
مسند احمد، السنن للبیہقی عن ابی حمید الساحدی عن عرباض
کلام : حسن الاثر 544 روایت ضعیف ہے۔

15068

15068- "هدايا العمال حرام كلها". "ع عن حذيفة".
15068 سرکاری اہلکاروں کے (پاس آنے والے) ہدایا سب حرام ہیں۔
مسندابی یعلی عن حذیفہ
کلام : ضعیف الجامع 6091 ۔

15069

15069- "أخذ الأمير الهدية سحت، وقبول القاضي الرشوة كفر". "حم في الزهد عن علي".
15069 امیر (حاکم) کا ہدیہ وصول کرنا حرام خوری ہے قاضی کا رشوت قبول کرنا کفر ہے۔

15070

15070- "من شفع لأخيه شفاعة فأهدي له هدية عليها فقبلها منه فقد أتى بابا عظيما من أبواب الربا". "حم د عن أبي أمامة"
15070 جس نے اپنے بھائی کے لیے سفارش کی پھر اس کو ہدیہ پیش ہوا اور اس نے ہدیہ قبول کرلیا تو وہ سودخوری کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے پر پہنچ گیا۔
مسند احمد ، ابوداؤد، عن ابی امامۃ (رض)

15071

15071- "إن رجالا من العرب يهدي أحدهم الهدية فأعوضه منها بقدر ما عندي ثم يتسخطه فيظل يتسخط فيه علي وأيم الله لا أقبل بعد مقامي هذا من رجل من العرب هدية إلا من قريشي أو انصاري أو ثقفي أو دوسي". "ت عن أبي هريرة"
15071 عرب کے لوگوں میں سے ایک شخص مجھے ہدیہ کرتا تھا میں بھی اپنے پاس جو ہوتا تھا اس کو بدلے میں دے دیتا تھا، لیکن وہ (اس بدلے کو کم سمجھ کر) ناراض ہوگیا اور مستقل مجھ پر ناراض رہنے لگا۔ اللہ کی قسم آج کے بعد میں عرب کے کسی شخص کا کوئی ہدیہ قبول نہ کروں گا سوائے قریش، انصاری، ثقفی اور دوسی کے۔ الترمذی عن ابوہریرہ (رض)

15072

15072- "إن فلانا أهدى إلي ناقة فعوضته منها ست بكرات فظل ساخطا لقد هممت أن لا أقبل هدية إلا من قريشي أو أنصاري أو ثقفي أو دوسي". "حم ت عن أبي هريرة"
15072 فلاں شخص نے مجھے ہدیہ کیا ہے میں نے اس کے عوض اس کو چھ اونٹ دیدئیے ہیں۔ لیکن وہ مستقل ناراض ہے۔ اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ آئندہ کسی سے ہدیہ قبول نہ کروں گا سوائے قریش ، انصاری، ثقفی اور دوسی کے۔ مسند احمد ، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)

15073

15073- "وأيم الله لا أقبل بعد يومي هذا من أحد هدية إلا أن يكون مهاجرا قرشيا أو أنصاريا أو دوسيا أو ثقفيا". "د عن أبي هريرة"
15073 اللہ کی قسم ! آج کے بعد میں کسی سے کوئی ہدیہ قبول نہ کروں گا سوائے قریش مہاجر، انصاری، دوسی اور ثقفی کے۔ ابن داؤد عن ابوہریرہ (رض)

15074

15074- "إني نهيت عن زبد المشركين". "د ت عن عياض بن حمار".
15074 مجھے مشرکین کو داد ودہش کرنے سے روکا گیا۔ ابوداؤد، الترمذی عن عیاض بن حمار

15075

15075- "إني لا أقبل هدية مشرك". "طب عن كعب بن مالك".
15075 میں کسی مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا۔ الکبیر للطبرانی عن کعب بن مالک

15076

15076- " إنا لا نقبل من المشركين ". "حم ك عن حكيم بن حزام".
15076 ہم مشرکین سے ہدیہ قبول نہیں کرتے۔ مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن حکیم بن حزام

15077

15077- "الراشي والمرتشي في النار". "طب ص عن ابن عمرو".
15077 رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میں ہیں۔
الکبیر للطبرانی ، السنن لسعید بن منصور عن ابن عمرو
فائدہ : اگر رشوت دیئے بغیر جان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا دوسرے کسی بڑے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو مجبوراً بکراہت رشوت صرف دینے کی اجازت ہے۔
کلام : ضعیف الجامع 3146

15078

15078- "لعنة الله على الراشي والمرتشي". "حم هـ د ت عن ابن عمرو".
15078 اللہ کی لعنت ہو راشی اور مرتشی پر۔ مسند احمد ، ابن ماجہ، ابوداؤد، الترمذی عن ابن عمرو

15079

15079- "لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم". "حم ك عن أبي هريرة"
15079 فیصلہ میں رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔
مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

15080

15080- "لعن الله الراشي والمرتشي والرائش الذي يمشي بينهما". "حم عن ثوبان"
15080 اللہ پاک راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت فرمائے اور اس شخص پر سھی جو دونوں کے درمیان رشوت کا معاملہ طے کرائے۔ مسند احمد عن ثوبان
کلام : اسنی المطالب 1143 ضعیف الجامع 4684 ۔

15081

15081- "خذوا العطاء ما دام عطاءا، فغذا تجاحفت قريش بينها الملك وصار العطاء رشا عن دينكم فدعوه". "تخ د عن ذي الزوائد"
15081 عطاء لوجب تک وہ عطار ہے، لیکن جب قریش (حکام) آپس میں اس کے ذریعے کام نکالنے لگیں اور عطاء تمہارے دین میں رشوت بن جائے تو اس کو چھوڑ دو ۔
التاریخ للبخاری، ابوداؤد عن ذی الزوائد کلام 2819 ۔

15082

15082- "الهدايا للأمراء غلول". "عب عن جابر بن حسن".
15082 حکام کے لیے ہدیے (اور تحفے تحائف) خیانت بازی ہیں۔
الجامع لعبد الرزاق عن جابر بن حسن

15083

15083- "هدايا الأمراء غلول". "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة عن أبي حميد الساعدي وعن أبي سعيد عن أبي هريرة الرافعي عن جابر".
15083 امراء (حکام) کے لیے ہدایا خیانت ہیں۔ ابوسعید النقاش فی کتاب القضاۃ عن ابی حمید الساعدی وعن ابی سعید عن ابوہریرہ (رض) ، الرافعی عن جابر (رض)
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 5991 ۔

15084

15084- "هدايا السلطان سحت وغلول". "ابن عساكر عن عبد الله بن سعد".
15084 بادشاہ کے (پاس آنے والے) ہدایا حرام اور خیانت ہیں۔
ابن عساکر عن عبداللہ بن سعد

15085

15085- "هدية الأمير غلول". "ابن جرير عن جابر".
15085 امیر کا ہدیہ خیانت ہے۔ ابن جریر عن جابر (رض)

15086

15086- "إني قد عرفت بلاءك في الدين والذي نالك وذهب من مالك وركبك من الدين وقد طيبت لك الهدية فإن أهدي لك شيء فاقبل، قاله لمعاذ". "طب عن عبيد بن صخر بن لوذان".
15086 میں نے دین میں تیری آزمائش جان لی ہے جو تکلیف تجھے آئی ہے تیرا مال ضائع ہوا ہے اور قرض کا بوجھ تجھ پر چڑھ گیا ہے، اس لیے میں نے تیرے لیے ہدیہ کو اچھا قرار دیا ہے لہٰذا اگر تجھے ہدیہ میں کچھ پیش کیا جائے تو اس کو قبول کرلینا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو ارشاد فرمایا تھا۔
الکبیر للطبرانی عن عبید بن صخربن لوذان

15087

15087- "نعم العون الهدية في طلب الحاجة". "ك في تاريخه عن عائشة".
15087 حاجت روائی میں ہدیہ پیش کرنا بہترین مددگار ہے۔ التاریخ للحاکم عن عائشہ (رض)

15088

15088- "نعم المفتاح الهدية أمام الحاجة". "الديلمي عن عائشة".
15088 حاجب روائی کے لیے ہدیہ بہترین چابی ہے۔ الدیلمی عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے کشف الخفاء 2822 ۔

15089

15089- "نعم مفتاح الحاجة الهدية بين يديها". "الخطيب عن عائشة"
15089 حاجت روئی کے لیے ہدیہ بہترین چابی ہے۔ التاریخ للخطیب عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : تذکرۃ الموضوعات 65، التنزیہ 297-2 ۔

15090

15090- "تهادوا الطعام بينكم فإن ذلك توسعة لأرزاقكم في عاجل الخلف وجسيم الثواب يوم القيامة". "الديلمي عن ابن عباس".
15090 آپس میں کھانا ایک دوسرے کو ہدیہ کیا کرو، یہ تمہاری روزی کے لیے فراخی کشادگی کا سبب اور جلد اچھے بدلے کا ذریعہ اور قیامت کے دن بڑے ثواب کا پیش خیمہ ہے۔
الدیلمی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 2496، ضعیف الجامع :2488 ۔

15091

15091- "الهدية رزق من الله طيب فإذا أهدي إلى أحدكم فليقبلها وليعط خيرا منها". "الحكيم عن ابن عمرو".
15091 ہدیہ اللہ کا پاکیزہ رزق ہے لہٰذا جب کسی کو ہدیہ پیش ہو تو وہ اس کو قبول کرے اور اس سے اچھا بدلہ دے۔ الحکیم عن ابن عمرو

15092

15092- "الهدية رزق من رزق الله فمن قبلها فإنما يقبلها من الله ومن ردها فإنما يردها على الله". "أبو عبد الرحمن السلمي عن أبي هريرة".
15092 ہدیہ اللہ کے رزق میں سے رزق ہے، جس نے ہدیہ قبول کیا اس نے گویا اللہ سے ہدیہ قبول کیا اور جس نے ہدیہ واپس کیا اس نے اللہ کو ہدیہ واپس کیا۔ ابوعبدالرحمن السلمی عن ابوہریرہ (رض)

15093

15093- "تهادوا فإن الهدية تخرج الضغائن من القلوب". "الخطيب عن عائشة".
15093 ہدایا لیا دیا کرو یہ دلوں کے کینے دور کرتے ہیں۔ الخطیب عن عائشہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : امتناھیہ 1258 ۔

15094

15094- "ألا لا يرد أحدكم هدية أخيه وإن وجد فليكافئه والذي نفسي بيده لو أهديت إلي ذراع لقبلت ولو دعيت إلى كراع لأجبت". "هناد عن الحسن مرسلا".
15094 خبردار ! کوئی اپنے بھائی کے ہدیے کو رد نہ کرے اگر اس کے پاس بھی کچھ میسر ہو تو اچھا بدلہ دے قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایک دستی گوشت بھی مجھے ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر مجھے ایک پائے کی دعوت پر بلایا جائے تو میں دعوت میں جاؤں گا۔ ھناد عن الحسن مرسلاً

15095

15095- "ما أقبحه لو أهدي إلي كراع لقبلت ولو دعيت إلى ذراع لأجبت". "طب عن أم حكيم بنت وداع الخزاعية، قالت: قلت يا رسول الله تكره رد الظلف قال فذكره.
15095 میں اس کو کمتر نہیں سمجھتا۔ اگر مجھے ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو میں اس کو قبول کروں گا ، اگر مجھے ایک دستی پر دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔
الکبیر للطبرانی عن ام حکیم بنت وداع الخزاعیۃ

15096

15096- "الهدية لنا والصدقة عليها، يعني بريرة". "ابن النجار عن أبي بكر".
15096 ہمارے ہدیہ ہے اور اس پر صدقہ ہے یعنی بریرۃ (رض) پر۔ ابن النجار عن ابی بکر (رض)
فائدہ : ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرۃ (حضرت عائشہ (رض) باندی) کو (جو گوشت پکارہی تھی) فرمایا ہمیں نہیں کھلاؤ گی ؟ انھوں نے عرض کیا : یہ تو کسی نے ہم پر صدقہ کیا ہے تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان پر تو صدقہ ہوا ہے لیکن وہ ہمیں ہدیہ کرسکتی ہیں۔

15097

15097- "ما هذه معكم أهدية أم صدقة فإن الصدقة يبتغي بها وجه الله وإن الهدية يبتغي بها وجه الرسول وقضاء الحاجة". "ابن عساكر عبد الرحمن بن علقمة".
15097 یہ تمہارے پاس کیا ہے ؟ ھدیہ ہے یا صدقہ ؟ صدقہ سے تو اللہ کی رضاء مطلوب ہوتی ہے اور ہدیہ سے رسول کی رضاء مقصود ہوتی ہے اور حاجت روائی مقصود ہوتی ہے۔
ابن عساکر عن عبدالرحمن بن علقمہ

15098

15098- "إذا أتى أحدكم بهدية فجلساؤه شركاؤه فيها". "الحكيم عن ابن عباس".
15098 جب تمہارے پاس کوئی شخص ہدیہ لے کر آئے تو اس وقت جو پاس بیٹھے ہوں وہ بھی اس ہدیے میں شریک ہیں۔ الحکیم عن ابن عباس (رض)

15099

15099- "من أهديت له هدية وعنده قوم فهم شركاؤه فيها". "عق طب عن ابن عباس".
15099 جس کو کوئی ہدیہ پیش کیا جائے اور اس کے پاس کوئی قوم ہو تو وہ بھی اس ہدیے میں شریک ہیں۔ الضعفاء للعقیلی عن ابن عباس (رض) ، الکبیر للطبرانی عنہ
کلام : روایت ضعیف ہے : الاسرار المرفوعۃ 579، ترتیب الموضوعات 880، الفوائد المجموعۃ 106 ۔

15100

15100- " لقد هممت أن لا أتهب هبة إلا من أنصاري أو قرشي أو ثقفي". "حم طب عن ابن عباس".
15100 میں نے ارادہ کیا ہے کہ کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں سوائے انصاری قریشی یا ثقفی کے۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

15101

15101- "من يعذرني من فلان أهدى إلي لقحة فكأني أنظر إليها في وجه بعض أهلي فأثبته بست بكرات فتسخطها 2، لقد هممت أن لا أقبل هدية إلا أن تكون من قرشي أو أنصاري أو ثقفي أو دوسي". "ك عن أبي هريرة".
15101 مجھے کون فلاں آدمی سے معذرت دلائے گا اس نے مجھے ایک گا بہن اونٹنی ہدیہ کی تھی حالانکہ وہ اونٹنی ہدیہ کی تھی حالانکہ وہ اونٹنی میری تھی مجھے اس طرح اس کی پہچان ہے جس طرح اپنے کسی گھر کے فرد کی پھر بھی میں نے اس کے بدلے چھ اونٹ ہدیہ کرنے والے کو دئیے لیکن وہ پھر بھی ناراض ہے۔ پس میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ کسی سے ھدیہ قبول نہ کروں گا سوائے قریشی، انصاری، ثقفی یا دوسی کے۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

15102

15102- "إن فلانا أهدى إلي ناقة وهي ناقتي أعرفها كما أعرف بعض أهلي ذهبت مني يوم زغابات فعوضته منها ست بكرات فظل ساخطا، لقد هممت أن لا أقبل هدية إلا من قرشي أو أنصاري أو ثقفي أو دوسي". "حم ت عن أبي هريرة"
15102 فلاں شخص نے میری ہی اونٹنی مجھے ہدیہ کی میں اس کو ایسے پہچانتا ہوں، جس طرح اپنے کسی گھر والے کو وہ مجھ سے خندق والے دن کھو گئی تھی۔ پھر بھی میں نے اس کے عوض چھ اونٹ دے دیئے لیکن وہ اس کے باوجود ناراض ہے۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا ہے کہ ہدیہ صرف قریش، انصاری، ثقفی یا دوسی سے قبول کروں گا۔ مسند احمد، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)

15103

15103- "إنا لا نقبل من المشركين ولكن إن شئت أخذتها منك بالثمن". "حم طب ك ص عن حكيم بن حزام أنه أهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم حلة وهو كافر، فذكره".
15103 ہم مشرکین سے ہدیہ قبول نہیں کرتے لیکن اگر تم چاہو تو، میں قیمت کے بدلے اس کو قبول کرسکتا ہوں۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم، السنن للسعید بن منصور عن حکیم بن حزام
فائدہ : ایک مرتبہ حکیم بن حزام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک جوڑا ہدیہ کیا، اس وقت حکیم مسلمان نہ ہوئے تھے لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا :

15104

15104- "إنا لا نقبل زبد المشركين". "ط حم ق عن عياض بن حمار".
15104 ہم مشرکین سے ہدیہ کا لین دین نہیں کرتے ۔
ابوداؤد، مسنداحمد، السنن للبیہقی عن عیاض بن حمار

15105

15105- "إني أكره زبد المشركين". "ط حم ق عن عمران بن حصين".
15105 میں مشرکین سے لینا دینا ناپسند کرتا ہوں۔
ابوداؤد مسند احمد، السنن للبیہقی عن عمران بن حصین

15106

15106- "كل لحم أنبته السحت فالنار أولى به قيل: وما السحت؟ قال: الرشوة في الحكم". "ابن جرير عن ابن عمر".
15106 ہر وہ گوشت جس کو سحت سے پرورش ملی ہو، جہنم کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہے۔ پوچھا گیا : سحت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : فیصلہ میں رشوت لینا دینا۔ ابن جریر عن ابن عمر (رض)

15107

15107- "لعن الله الراشي والمرتشي". "ط حم د ت حسن صحيح ق ك عن ابن عمر وأبو سعيد في القضاة عن عائشة، ق ك عن عبد العزيز بن مروان بلاغا".
15107 اللہ پاک نے راشی اور مرتشی پر لعنت فرمائی۔
ابوداؤد، مسند احمد، ابوداؤد، الترمذی حسن صحیح ، السنن للبیہقی۔ مستدرک الحاکم عن ابن عمر ابوسعید فی القضاۃ عن عائشہ۔ مستدرک الحاکم عن عبدالعزیز بن مروان بلاغاً

15108

15108- "لعن الله الآكل والمطعم الرشوة". "عب في تاريخه وأبو سعيد النقاش في القضاة عن عبد الرحمن بن عوف".
15108 اللہ پاک رشوت کھانے والے اور کھلانے والے دونوں پر رحم فرمائے۔
التاریخ لعبد الرزاق، ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن عبدالرحمن بن عوف

15109

15109- "لعن آخذ رشوة في الحكم كانت سترا بينه وبين الجنة". " ... عن أنس".
15109 فیصلہ میں رشوت لینے والے پر لعنت کی گئی ہے، یہ پردہ تھا اس کے اور جنت کے درمیان۔ عن انس (رض)

15110

15110- "إن فيكم النبوة، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، ثم تكون ملكا وجبرية". "طب عن أبي عبيدة بن الجراح وبشير بن سعد والد النعمان بن بشير".
15110 تم میں اب نبوت ہے، پھر نبوت کے طریق پر خلافت رہے گی پھر بادشاہت اور جبریت۔ زور زبردستی۔ الکبیر للطبرانی عن ابی عبیدۃ بن الجراح وبشیر بن سعد والد النعمان بن بشیر

15111

15111- "إن هذا الأمر بدأ رحمة ونبوة ثم يكون رحمة وخلافة ثم كائن ملكا عضوضا 1، ثم كائن عتوا وجبرية وفسادا في الأرض يستحلون الحرير والفروج، والخمور ويرزقون على ذلك وينصرون حتى يلقوا الله عز وجل". "طب وأبو نعيم في المعرفة عن أبي ثعلبة الخشني عن معاذ وأبي عبيدة بن الجراح".
15111 یہ امر رحمت اور نبوت کی صورت میں شروع ہوا ہے ، پھر یہ رحمت اور خلافت ہوجائے گا، پھر کاٹ کھانے والی مملکت ہوگی، پھر زمین پر سرکشی، جبروفساد کا دور ہوگا لوگ حریر (ریشم) بدکاری اور شراب کو حلال سمجھیں گے۔ اس کے باوجود ان کو رزق دیا جائے گا اور ان کی مدد ہوگی حتیٰ کہ وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کریں۔
الکبیر للطبرانی ، ابونعیم فی المعوفہ عن ابی ثعلبۃ الخشنی عن معاذ وابی عبیدۃ الجراح

15112

15112- "إن هذا الأمر بدأ نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير ويستحلون الفروج وينصرون ويرزقون حتى يأتيهم أمر الله". "نعيم بن حماد في الفتن عن حذيفة".
15112 یہ امر (دین و حکومت ) نبوت اور رحمت کی صورت میں شروع ہوا، پھر خلافت اور رحمت ہوگا، پھر زبردستی بادشاہت ہوگی لوگ شراب پئیں گے، ریشم پہنیں گے اور پرائی شرمگاہوں کو حلال جانیں گے ۔ اس کے باوجود ان کو رزق ملے گا حتیٰ کہ ان پر اللہ کا حکم آجائے۔
نعیم بن حماد فی الفتن عن حذیفۃ (رض)

15113

15113- "أول هذه الأمة نبوة ورحمة، ثم خلافة ورحمة، ثم ملك عاض وفيه رحمة، ثم جبروة صلعاء ليس لأحد فيها متعلق تضرب فيها الرقاب وتقطع فيها الأيدي والأرجل وتؤخذ فيها الأموال". "نعيم بن حماد في الفتن عن أبي عبيدة بن الجراح".
15113 اس امت کا اول نبوت اور رحمت ہے، پھر خلافت اور رحمت ہے، پھر کاٹنے والی بادشاہت ہے، اس میں بھی قدرے رحمت ہے، پھر کھلی زبردستی ہوگی۔ اس میں کسی کے لیے کوئی رحمت نہ ہوگی، اس میں گردنیں اڑائی جائیں گی ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے اور اموال چھینے جائیں گے۔ نعیم بن حماد فی الفتن عن ابی عبیدۃ بن الجراح

15114

15114- "تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها، ثم تكون ملكا عضوضا فتكون ما شاء الله، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها ثم ملكا جبرية ثم تكون خلافة على منهاج النبوة". "ط د حم والروياني ص عن نعمان بن بشير عن حذيفة".
15114 نبوت جب تک اللہ چاہے تم میں رہے گی، پھر اللہ پاک جب چاہے گا اس کو اٹھائے گا، پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہوگی۔ جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر اللہ جب چاہے گا اس کو بھی اٹھائے گا، پھر کاٹنے والی بادشاہت ہوگی جب تک اللہ چاہے، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو اٹھالے گا، پھر زبردستی کی بادشاہت ہوگی پھر نبوت کی طرز پر خلافت قائم ہوجائے گی۔
ابوداؤد ، ابن داؤد، مسند احمد، الرویانی، السنن للسعید بن منصور عن نعمان بن بشیر عن حذیفۃ (رض)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔