hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

27. گواہیوں کا بیان

كنز العمال

17730

17730- "ألا أخبركم بخير الشهداء؟ الذي يأتي بشهادته قبل أن يسألها". "مالك حم م د ت عن زيد بن خالد الجهني".
17730 ۔۔۔ اے (لوگو ! ) کیا میں تم کو اچھے گواہ کی خبر نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جو اپنی شہادت خود پیش کر دے قبل اس سے کہ اس سے شہادت کا مطالبہ کیا جائے ۔ (مؤطا امام مالک (رح) ، مسند احمد ، ابو داؤد مسلم ، ترمذی ، عن زید بن خالد الجھنی)

17731

17731- "خير الشهادة ما يشهد بها صاحبها قبل أن يسألها". "طب عن زيد بن خالد الجهني".
17731 ۔۔۔ بہترین شہادت وہ ہے جس کا مطالبہ کیا جانے سے قبل وہ شہادت (گواہی) پیش کردی جائے (الکبیر للطبرانی عن زید بن خالد الجھنی)

17732

17732- "خير الشهود من أدى شهادته قبل أن يسألها". "هـ عن زيد بن خالد"
17732 ۔۔۔ سب سے اچھا شاہد (گواہ) وہ شخص ہے جو اپنی شہادت خود پیش کر دے قبل اس سے کہ اس سے اس کا مطالبہ کیا جائے (ابن ماجہ عن زید بن خالد)

17733

17733- " أكرموا الشهود فإن الله تعالى يستخرج بهم الحقوق ويدفع بهم الظلم". "البانياسي في جزئه3 خط وابن عساكر عن ابن عباس".
17733 ۔۔۔ گواہوں کا اکرام کرو ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے ذریعے (اہل حقوق کے) حقوق ادا کرواتے ہیں اور ان کے طفیل ظلم کو دفع کرتے ہیں۔ (البانیاسی فی جزنہ ، الخطیب فی التاریخ ، ابن عساکر عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ علامہ مناوی (رح) فیض القدیر میں فرماتے ہیں اس روایت میں عبداللہ بن موسیٰ متفرد ہیں ، اور ان کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فیض القدیر 3 ۔ 94)

17734

17734- "إني لا أشهد على جور". "ق ن عن النعمان بن بشير".
17734 ۔۔۔ میں ظلم پر شاہد نہیں بن سکتا ۔ (بخاری ۔ مسلم ، نسائی ، عن النعمان (رض) بن بشیر)
فائدہ : ۔۔۔ ایک صحابی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری بیوی کی خواہش ہے کہ میں اس کی اولاد کو باغ ہبہ کروں اور آپ اس پر گواہ بن جائیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا کیا تم اپنی دوسری اولاد کو (جو دوسری بیوی سے ہے) کو بھی اس کے برابر وصیت کرنا چاہتے ہو ؟ صحابی (رض) نے عرض کیا : نہیں ، یارسول اللہ ! تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا ۔

17735

17735- "إني عدل لا أشهد إلا على عدل". "ابن قانع عنه عن أبيه".
17735 ۔۔۔ میں انصاف پسند ہوں (اور) انصاف پر ہی گواہ بننا پسند کرتا ہوں ۔ ابن قانع عنہ عن ابیہ۔

17736

17736- "لا تشهدني على جور". "حب عن النعمان بن بشير".
17736 ۔۔۔ مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ ۔ (ابن حبان عن النعمال بن بشیر (رض))

17737

17737- "لا تشهدني إلا على عدل فإني لا أشهد على جور". "حب عنه".
17737 ۔۔۔ مجھے صرف انصاف (کی بات) پر گواہ بناؤ ۔ میں ظلم (کی بات) پر گواہ نہیں بن سکتا ۔ ابن حبان۔

17738

17738- "شاهد الزور لا تزول قدماه حتى يوجب الله له النار". "حل كر عن ابن عمر".
17738 ۔۔۔ جھوٹے گواہ کے قدم (قیامت کے روز) ہل نہ سکیں گے حتی کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کردیں ۔ (حلیۃ الاولیاء ، ابن عساکر عن ابن عمر (رض))

17739

17739- "شاهد الزور مع العشار في النار". "فر عن المغيرة".
17739 ۔۔۔ جھوٹا شاہدٹیکس وصول کرنے والے کے ساتھ جہنم میں جائے گا اللہ تباوک وتعالیٰ (مسند الفردوس للدیلمی عن المغیرہ)

17740

17740- "لن تزول قدما شاهد الزور حتى يوجب الله له النار". "هـ عن ابن عمر".
17740 ۔۔۔ کاذب گواہ کے قدم ہل نہ سکیں گے جب تک اللہ پاک سے کے لیے جہنم واجب نہ کردیں (ابن ماجہ عن ابن عمر (رض))
کلام :۔۔۔ زوائد (ابن ماجہ) میں ہے کہ اس کی سند میں محمد بن الفرات ایک راوی ہے۔ جس کے ضعف پر اتفاق کیا گیا ہے اور امام احمد رحمۃ نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

17741

17741- "يا أيها الناس عدلت شهادة الزور إشراكا بالله ثم قرأ: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ} . "حم ت عن أيمن بن خريم؛ حم د هـ عن خريم بن فاتك".
17741 ۔۔۔ اے لوگو ! جھوٹ گواہی شرک کے برابر پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔
(فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا اقول الزور) (مسند احمد ترمذی غریب عن ایمن بن خریم مسند احمد ابو داؤد ابن ماجہ عن خریم بن فاتک)

17742

17742- "من شهد شهادة يستباح بها مال امرئ مسلم أو يسفك بها دم فقد أوجب النار". "طب عن ابن عباس"
17742 ۔۔۔ جس نے کوئی (جھوٹی ) شہادت دے کر مسلمان کا مال اپنے لیے حلال کیا یا کسی کا (ناجائز) خون بہانا تو یقیناً اس نے اپنے لیے جہنم واجب کرلی (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))
کلام :۔۔۔ علامہ ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 4 400 میں اس کو نقل فرمایا : اس میں ایک راوی حسین بن قیس متروک (ناقابل اعتبار) ہے۔

17743

17743- "من كتم شهادة إذا دعي إليها كان كمن شهد بالزور". "طب عن أبي موسى"
17743 ۔۔۔ جس نے شہادت چھپائی جب اس کو شہادت کے لیے بلایا گیا تو وہ ایسا ہے گویا اس نے جھوٹی شہادت دے دی ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی موسیٰ (رض))
کلام :۔۔۔ امام ہیثمی (رح) نے مجمع میں 2004 پر اس کو نقل فرمایا اور فرمایا اس میں ایک راوی عبداللہ بن صالح ہے جو ثقہ اور مامون ہے اور ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

17744

17744- "لا تجوز شهادة بدوي على صاحب قرية". "د هـ ك عن أبي هريرة".
17744 ۔۔۔ کسی بدونی (دیہاتی) کی شہادت شہری پر درست نہیں ۔ (ابو داؤد ابن ماجہ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض))

17745

17745- "لا تجوز شهادة ذي الظنة2 ولا ذي الحنة"."كر هق عن أبي هريرة".
17745 ۔۔۔ شک والے کی شہادت جائز نہیں اور نہ بغض اور کینہ رکھنے والے کی ۔ (ابن عساکر ، شعب الایمان للبیھقی عن ابوہریرہ (رض))

17746

17746- "شهادة المسلمين بعضهم على بعض جائزة ولا تجوز شهادة العلماء بعضهم على بعض لأنهم حسد". "ك في تاريخه عن جبير بن مطعم".
17746 ۔۔۔ مسلمانوں کی شہادت ایک دوسرے کے لیے درست ہے لیکن علماء کی شہادت ایک دوسرے پر درست نہیں ، اس لیے کہ وہ آپس میں حسد رکھتے ہیں۔ (الحاکم فی التاریخ عن جبیر بن مطعم (رض))

17747

17747- "لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا مجلود حدا ولا مجلودة ولا ذي غمر على أخيه ولا مجرب عليه شهادة زور ولا التابع مع أهل البيت لهم ولا الظنين في ولاء ولا قرابة". "ت عن عائشة"
17747 ۔۔۔ خیانت دار مرد کی شہادت جائز ہے اور نہ عورت کی ۔ اور نہ ایسے مرد کی جس پر شرعی حد (سزا) قائم ہوچکی ہو اور نہ ایسی عورت کی ۔ نہ کسی کینہ رکھنے والے شخص کی ۔ اس پر جس سے وہ کینہ رکھتا ہے ، نہ جھوٹی گواہی میں آزمائے ہوئے شخص کی ، نہ کسی زیر کفالت شخص کی ان کے لیے زیر کفالت وہ رہتا ہے۔ اور نہ ظنین (شک کرنے والے) کی ولاء (غلامی) میں اور نہ قرابت (رشتہ داری) میں (ترمذی عن عائشۃ (رض))
کلام ۔۔۔ امام ترمذی (رح) نے کتاب الشہادت میں رقم 2298 پر اس کو نقل فرما کر اس کے متعلق غریب (ضعیف) ہونے کا حکم عائد فرمایا ہے۔

17748

17748- "أما أنت يا ابن عباس فلا تشهد إلا على أمر يضيء لك كضياء هذه الشمس". "هق عن ابن عباس"."الشهادة من الإكمال"
17748 ۔۔۔ اے ابن عباس ! بہرحال شہادت صرف ایسی چیز پر دینا جو تمہارے لیے اس آفتاب کے مثل روشن ہو۔ (شعب الایمان للبیھقی)

17749

17749- "خير الشهداء من أدى شهادته قبل أن يسأل عنها"."عب عن ابن ميسرة، بلاغا".
17749 ۔۔۔ بہترین شاہد (گواہ) وہ شخص ہے جو تقاضا کیے جانے سے قبل از خود اپنی شہادت پیش کر دے ۔ (مصنف عبدالرزاق عن ابن میسرہ بلاغا)

17750

17750- "من كان عنده شهادة فلا يقل لا أخبر بها إلا عند الإمام ولكن ليخبر بها لعله يرجع أو يرعوي " الديلمي عن ابن عباس".
17750 ۔۔۔ جس کے پاس کوئی شہادت ہو تو وہ یہ نہ کہے کہ میں تو حاکم کے سامنے ہی شہادت دوں گا بلکہ وہ شہادت دیدے شاید (فریق مخالف اپنی ناجائز بات سے) رجوع کرلے یا وہ نادم و پشیمان ہوجائے ۔ (الدیلمی عن ابن عباس (رض))

17751

17751- "شهادة القوم والمؤمنون شهود الله في الأرض". "هـ ع عن أنس".
17751 ۔۔۔ قوم کی شہادت (حقیقت رکھتی ہے) اور مؤمنین زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ (ابن ماجہ ، مسند ابی یعلی عن انس (رض))

17752

17752- "يا ابن عباس لا تشهد إلا على ما يضيء لك كضياء الشمس". "ك وتعقب عن ابن عباس".
17752 ۔۔۔ اے ابن عباس (رض) ! گواہ صرف ایسی بات پر بننا جو تجھ پر اس آفتاب کی طرف روشن ہو ۔ (مستدرک الحاکم وتعقب عن ابن عباس (رض))

17753

17753- "قضى الله في الحق بشاهدين فإن جاء بشاهدين أخذ حقه وإن جاء بشاهد واحد حلف مع شاهده". "قط في الأفراد عن ابن عمرو".
17753 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حق میں دو گواہوں کے ساتھ فیصلہ (کا حکم) فرمایا ، لہٰذا اگر (دعوی دار) دو گواہوں کو پیش کر دے تو اپنا حق حاصل کرلے گا ۔ اور اگر صرف ایک گواہ پیش کرسکا تو اس گواہ کے ساتھ اپنی قسم بھی پیش کرے ۔ (الدارقطنی فی الافراد عن ابن عمرو)

17754

17754- "لا تجوز شهادة ملة على ملة إلا ملة الإسلام فإنها تجوز شهادتهم على الملل كلها". "الشيرازي في الألقاب ق عن أبي هريرة".
17754 ۔۔۔ کسی ملت کی شہادت دوسری ملت پر جائز نہیں سوائے ملت اسلام کے ملت اسلام کی شہادت تمام ملل پر جائز ہے۔ (الشیرازی فی الالقاب ، بخاری و مسلم عن ابوہریرہ (رض))

17755

17755- "لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا ذي غمر1 على أخيه ولا تجوز شهادة القانع لأهل البيت وتجوز شهادته لغيرهم". "عب حم عن ابن عمرو".
17755 ۔۔۔ خائن (خیانت کرنے والے) مرد وعورت کی شہادت جائز نہیں اور نہ کسی اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے بھائی کے خلاف شہادت جائز ہے ، اور نہ کسی گھر والوں کی زیر کفالت رہنے والے شخص کی شہادت اس گھر والوں کے حق میں جائز ہے۔ ان کے علاوہ اوروں کے حق میں جائز ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ، مسند احمد عن ابن عمرو)

17756

17756- "لا تجوز شهادة خصم ولا ظنين، واليمين على المدعى عليه". "د في مراسيله هق عن طلحة بن عبد الله بن عوف، مرسلا".
17756 ۔۔۔ فریق مخالف کی شہادت (مخالف کے خلاف) جائز نہیں اور نہ شک میں مبتلا شخص کی (شک کی بناء پر) شہادت جائز ہے اور قسم مدعی علیہ (جس کے خلاف دعوی دائر کیا گیا اس) پر ہے۔ (ابو داؤد فی مراسیلہ ، شعب الایمان للبیھقی عن طلحہ بن عبداللہ بن عوف مرسلا)

17757

17757- "لا تجوز شهادة محدود في الإسلام". "ابن جرير عن ابن عمر".
17757 ۔۔۔ حالت اسلام میں جس پر حد طاری ہوچکی ہو اس کی شہادت جائز نہیں ۔ (ابن جریر عن ابن عمر (رض))

17758

17758- "لا تجوز شهادة الخائن ولا الخائنة ولا ذي غمر على أخيه ولا الموقوف على حد"."ق عن ابن عمر".
17758 ۔۔۔ خائن مرد کی شہادت جائز ہے اور نہ خائنہ عورت کی ، نہ کینہ رکھنے والے کی اپنے بھائی کے خلاف اور نہ اسلام میں بدعت اختیار کرنے والے مرد وعورت کی شہادت جائز ہے۔ (مصنف عبدالرزاق عن عمر بن عبدالعزیز بلاغا)

17759

17759- "لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا ذي غمر على أخيه، ولا محدث في الإسلام ولا محدثة"."عب - عن عمر بن عبد العزيز، بلاغا".
17759: خائن مرد کی شہادت جائز ہے اور نہ خائنہ عورت کی۔ نہ کینہ رکھنے والے کی اپنے بھائی کے خلاف اور نہ اسلام میں بدعت اختیار کرنے والے مرد و عورت کی شہادت جائز ہے۔ مصنف عبدالرزاق عن عمر بن عبدالعزیز بلاغا۔

17760

17760- "ألا من زين نفسه للقضاة بشهادة الزور زينه الله تعالى يوم القيامة بسربال من قطران وألجمه بلجام من نار". "كر عن إبراهيم بن هدبة عن أنس".
17760 ۔۔۔ خبردار ! جس شخص نے جھوٹی گواہی کے لیے اپنے آپ کو قاضی کے سامنے بنا کر پیش کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تارکول کی قمیض کے ساتھ اس کو مزین فرمائیں گے اور آگ کی لگام اس کے منہ میں ڈالیں گے (ابن عساکر عن ابراھیم بن ھدبہ عن انس (رض))

17761

17761- "من شهد على مسلم شهادة ليس لها بأهل فليتبوأ مقعده من النار". "حم وابن أبي الدنيا في ذم الغيبة عن أبي هريرة".
17761 ۔۔۔ جس نے کسی مسلمان پر ایسی شہادت جس کا وہ اہل نہیں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔ (مسند احمد ، ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ عن ابوہریرہ (رض))

17762

17762- "من شهد شهادة زور فعليه لعنة الله، ومن حكم بين اثنين فلم يعدل بينهما فعليه لعنة الله". "أبو سعيد النقاش في كتاب القضاة عن عبد الله بن جراد".
17762 ۔۔۔ جس نے جھوٹی شہادت دی اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور جو دو آدمیوں کے درمیان ثالث (فیصلہ کرنے والا) بنا اور اس نے انصاف نہیں کیا تو اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے۔ (ابو سعید النقاش فی کتاب القضاۃ عن عبداللہ بن جراد)

17763

17763- "من مشى مع قوم يرى أنه شاهد وليس بشاهد، فهو شاهد زور، ومن أعان على خصومة بغير علم، كان في سخط الله حتى ينزع، وقتال المؤمن كفر وسبابه فسوق". "ق عن أبي هريرة، وروى الديلمي صدره عن ابن عباس".
17763 ۔۔۔ جو شخص کسی قوم کے ساتھ چلا (اور اپنے افعال سے ان کو یہ باور کرایا) کہ وہ شاہد ہے (اور ان کے حق میں شہادت دے گا) حالانکہ وہ شاہد نہیں ہے تو پس وہ جھوٹا شاہد ہے۔ جس نے کسی جھگڑے میں بغیر علم کے کسی کی اعانت کی وہ اللہ کی ناراضگی میں رہے گا حتی کہ اس سے باز آجائے اور مؤمن سے قتال (لڑائی) کرنا کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ہے۔ (السنن للبیھقی عن ابوہریرہ (رض))

17764

17764- "شاهد الزور لا تزول قدماه حتى توجب له النار". "أبو سعيد النقاش عن أنس ق ك عن ابن عمر".
17764 ۔۔۔ جھوٹے گواہ کے قدم قیامت کے دن ہل نہ سکیں گے حتی کہ آگ اس کے لیے واجب کردی جائے ۔ (ابو سعید النقاش عن انس (رض) ، السنن للبیھقی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض))

17765

17765- "شاهد الزور لا تزول قدماه حتى يتبوأ مقعده من النار". "أبو سعيد النقاش في القضاة عن ابن عمر".
17765 ۔۔۔ جھوٹے شاہد کے قدم (قیامت کے روز اپنی جگہ سے) نہ ہلیں گے حتی کہ وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے ۔ (ابوسعید النقاش فی القضاۃ عن ابن عمر (رض))

17766

17766- "شاهد الزور لا تزول قدماه حتى يؤمر به إلى النار"."النقاش كر عنه".
17766 ۔۔۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم (اپنی جگہ سے) نہ ہٹیں گے جب تک اس کے لیے جہنم کا حکم نہ دیدیا جائے ۔ (النقاش ، ابن عساکر عنہ)

17767

17767- "شاهد الزور لا تزول قدماه حتى يبشر بالنار". "طب والشيرازي في الألقاب عن ابن عمرو"
17767 ۔۔۔ جھوٹے گواہ کے قدم نہ ہلیں گے جب تک اس کو جہنم کی خوشخبری نہ دے دی جائے ۔ (الکبیر للطبرانی ، الشیرازی فی الانقاب عن ابن عمر (رض))
کلام ۔۔۔: امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 4 ۔ 200 پر اس روایت کی تخریج فرمائی اور فرمایا اس روایت کو امام طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے لیکن اس میں ایسے روای ہیں جن کو میں نہیں جانتا ۔

17768

17768- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أبي الضحى قال: "استشهد أبو بكر معدي كرب وقال: أما أنك أول من استشهدته في الإسلام". "ابن سعد".
17768 ۔۔۔ (مسند سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض)) ابی الضحی سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت معدی کرب (رض) سے گواہی طلب کی اور فرمایا تو پہلا شخص ہے جس سے میں نے اسلام میں سب سے پہلے گواہی طلب کی ۔ ابن سعد۔

17769

17769- عن عمر قال: "أجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادة رجل وامرأتين في النكاح". "قط".
17769 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح میں ایک مراد اور دو عورتوں کی گواہی کو بھی جائز قرار دیا ۔ الدارقطنی فی الافراد۔

17770

17770- عن عمر قال: "تجوز شهادة الكافر والصبي والعبد إذا لم يقوموا بها في حالهم تلك، وشهدوا بها بعد ما يسلم الكافر ويكبر الصبي، ويعتق العبد إذا كانوا حين يشهدون بها عدولا" قال ابن الشهاب: إن ذلك سنة. "عب".
17770 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کافر، بچے اور غلام کی شہادت جائز ہے جبکہ وہ اس حالت میں شہادت نہ دیں ، بلکہ کافر مسلمان ہونے کے بعد شہادت دے ، بچہ بڑا ہونے کے بعد اور غلام آزاد ہونے کے بعد شہادت دے اور ادائیگی شہادت کے وقت ان کا عادل ہونا بھی شرط ہے۔
ابن شہاب (رح) فرماتے ہیں یہ سنت (سے ثابت) ہے۔ (مصنف عبدالرزاق)

17771

17771- عن أبي عثمان قال: "لما شهد أبو بكرة وصاحباه على المغيرة جاء زياد، فقال عمر: رجل لن يشهد إن شاء الله إلا بحق، قال: رأيت ابتهارا1 ومجلسا سيئا، فقال عمر: هل رأيت المرود دخل المكحلة؟ قال: لا، فأمر بهم فجلدوا"."ش ق".
17771 ۔۔۔ ابو عثمان (رح) سے مروی ہے کہ جب ابوبکرۃ (رض) اور ان کے دو ساتھیوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (گورنر) پر (زناء کی) گواہی دی تو چوتھے نمبر پر زیاد گواہی کے لیے سامنے آیا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے (الہامی بات) ارشاد فرمائی : ان شاء اللہ یہ آدمی صحیح گواہی ہی دے پائے گا ، چنانچہ اس نے کہا : میں نے تیز تیز سانسوں کی آواز سنی اور بری مجلس دیکھی ، سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے دریافت فرمایا ، کیا تو نے سلائی کو سرمہ دانی میں داخل ہوتا دیکھا ؟ زیاد نے انکار میں جواب دیا ، چنانچہ بقیہ (گواہ بھی جھوٹے پڑگئے اور وہ چار شہادتوں کی تعداد پوری نہ کرسکے اس لیے) آپ (رض) نے ان کو (تہمت کی سزا میں کوڑے مارنے کا) حکم دیا اور ان کو کوڑے مارے گئے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، بخاری ، مسلم )

17772

17772- عن الزهري قال: "زعم أهل العراق أن شهادة المحدود لا تجوز فأشهد أنه أخبرني فلان يعني سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قال لأبي بكرة: تب تقبل شهادتك". "الشافعي ص وابن جرير ق".
17772 ۔۔۔ زہری (رح) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اہل عراق کا خیال ہے کہ حد لگے ہوئے (سزا یافتہ) کی شہادت (گواہی) جائز نہیں ہے۔ (سنو ! ) میں شہادت دیتا ہوں کہ مجھے فلاں شخص یعنی سعید بن المسیب (رح) نے خبر دی کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو ارشاد فرمایا تھا کہ تم توبہ کرلو تمہاری توبہ قبول کی جائے گی ۔ (الشافعی ، السنن لسعید بن منصور ، ابن جریر ، بخاری ، مسلم)

17773

17773- عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب "أن عمر بن الخطاب لما جلد الثلاثة الذين شهدوا على المغيرة استتابهم فرجع اثنان فقبل شهادتهما وأبى أبو بكرة أن يرجع فرد شهادته". "الشافعي عب ق".
17773 ۔۔۔ ابن شہاب (زہری (رح)) سعید بن المسیب (رح) سے روایت سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے جب ان تین لوگوں پر حد تہمت جاری کی جنہوں نے حضرت مغیرہ (رض) پر (جھوٹی) شہادت دی تھی ، اس کے بعد آپ (رض) نے ان تینوں سے توبہ کرنے کو فرمایا ۔ لہٰذا دو حضرات نے تو رجوع کرلیا (اور توبہ کرلی ، جس کے نتیجہ میں) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ان دونوں کو مقبول الشہادت قرار دیا جب کہ حضرت ابوبکرۃ (رض) نے انکار کردیا ۔ (اس بناء پر کہ وہ اپنی شہادت کو سچا سمجھتے رہے) لہٰذا سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ان کو مردود الشہادۃ قرار دے دیا ۔ (الشافعی ، عبدالرزاق ، بخاری ، مسلم)

17774

17774- عن محمد بن عبيد الله الثقفي قال: "كتب عمر بن الخطاب، من كانت عنده شهادة فلم يشهد بها حيث رآها أو حيث علمها فإنما يشهد على ضغن" "عب ص ق".
17774 ۔۔۔ محمد بن عبید اللہ ثقفی (رح) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے یہ فرمان (شاہی گورنروں اور قاضیوں کو) لکھا کو جس شخص کے پاس کوئی شہادت ہو اور اس نے حادثہ کو دیکھ کر اس وقت شہادت نہیں دی یا جب اس کو حادثہ کا علم ہوا تب اس نے شہادت نہیں دی ۔ پھر (اگر کبھی وہ شہادت دیتا ہے) تو درحقیقت کینہ پروری کی وجہ سے شہادت دیتا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ، السنن لسعید بن منصور ، بخاری ، مسلم)

17775

17775- عن ابن شهاب "أن عمر بن الخطاب أجاز شهادة امرأة في الاستهلال". "عب".
17775 ۔۔۔ ابن شہاب (زہری (رح)) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے نو مولود بچے کے رونے میں عورت کی شہادت کو بھی جائز فرمایا ۔ رواہ عبدالرزاق)

17776

17776- عن سعيد بن المسيب قال: "شهد أبو بكرة وشبل بن معبد ونافع بن الحارث وزياد على المغيرة بن شعبة بالحديث الذي كان منه بالبصرة عند عمر بن الخطاب، فضربهم عمر الحد غير زياد لأنه لم يتم الشهادة عليه". "ابن سعد".
17776 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رض) سے مروی ہے آپ (رح) نے ارشاد فرمایا :
ابوبکرہ ، شبل بن معبد ، نافع بن الحارث اور زیاد نے حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) پر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے سامنے اس بات کی گواہی دی (جو ان کے زعم میں) بصرہ میں حضرت مغیرہ (رض) سے سرزد ہوئی تھی (یعنی زناء کی) پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے زیاد کے علاوہ بقیہ حضرات پر حد تہمت جاری کی ، زیاد کو اس لیے چھوڑا کیونکہ انھوں نے شہادت مکمل نہیں دی تھی ۔ (رواہ ابن سعد)

17777

17777- عن ابن أبي ذئب أنه سأل أبا جابر البياضي عن رجل يشهد شهادة ثم يشهد بغيرها فقال: سمعت ابن المسيب يقول: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذوا بأول قوله، قال: قد اختلفوا على فيه عن ابن أبي ذئب فمنهم من يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ بقوله الأول ومنهم من يقول: كان يأخذ بقوله الآخر". "عب".
17777 ۔۔۔ ابن ابی ذئب سے مروی ہے کہ انھوں نے ابو جابر بیاضی سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایک مرتبہ ایک شہادت دے دوبارہ اس کے خلاف شہادت دے ؟ تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے ابوجابر بیاضی (رح) نے فرمایا میں نے حضرت ابن المسیب (رح) سے سنا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
(جو شخص دو مختلف شہادتیں پیش کرے تم) اس کے پہلے قول کو تسلیم کرو ۔ (صاحب کتاب مصنف عبدالرزاق ) فرماتے ہیں اس روایت کو ابن ابی ذئب سے جن لوگوں نے روایت کیا ہے اور مجھے یہ روایت بیان کی ہے ان کا آپس میں اختلاف ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پہلے قول کرلو ۔ جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپ (رض) نے دوسرا قول تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق)

17778

17778- عن أبي هريرة قال: "بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا في السوق أنه لا يجوز شهادة خصم ولا ظنين، قيل: يا رسول الله ما الخصم؟ قال: الجار لنفسه، وقيل: وما الظنين؟ قال: المتهم في دينه". "عب".
17778 ۔۔۔ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (رض) نے بازار میں ایک شخص کو یہ منادی (اعلان) کرنے کے لیے بھیجا کہ کسی خصم ہی شہادت قبول ہے اور نہ ظنین کی ، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! خصم کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : ” السجار لنفسہ) یعنی اپنے (گناہوں کے ساتھ) اپنی جان پر ظلم کرنے والا ۔ پوچھا گیا : اور ظنین کیا ہے ؟ فرمایا ” متھم فی الدین “۔ یعنی جس کی دین داری کے بارے میں تہمت الزام ہو ۔ (مصنف عبدالرزاق)

17779

17779- عن ابن أبي مليكة قال ابن صهيب مولى ابن جدعان: "ادعوا بيتين وحجرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطى ذلك صهيبا فقال مروان: من يشهد لكم على ذلك؟ قالوا: ابن عمر، فدعاه فشهد لأعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم صهيبا بيتين وحجرة فقضى مروان بشهادته لهم"."عب".
17779 ۔۔۔ ابن ابی ملیکہ (رح) سے مروی ہے کہ ابن جدعان کے آزاد کردہ غلام ابن صہیب کہتے ہیں کہ لوگوں نے دو گھروں اور ایک حجرے کے بارے میں یہ دعوی کیا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صہیب (رض) کو عطا فرمائے تھے ، مروان (حاکم) نے پوچھا : اس بات پر تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ لوگوں نے حضرت ابن عمر (رض) کا نام لیا ۔ مروان نے آپ (رض) کو بلایا ، آپ (رض) نے اسی طرح شہادت دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دو گھر اور ایک حجرہ صہیب (رض) کو عطا کیا تھا ، چنانچہ مروان نے آپ (رض) کی شہادت پر اس کا فیصلہ کردیا ۔ (منصف عبدالرزاق)

17780

17780- عن ابن عمر قال: "لا تجوز شهادة النساء وحدهن إلا على ما لا يطلع عليه إلا هن، من عورات النساء وما يشبه ذلك، من حملهن وحيضهن". "عب".
17780 ۔۔۔ ابن عمر (رض) کا ارشاد ہے : صرف عورتوں کی شہادت کسی مسئلہ میں جائز نہیں سوائے ایسے مسئلہ کے جن پر صرف عورتیں ہی مطلع ہوسکتی ہیں ، یعنی عورتوں کی مخفی باتوں مثلا حمل اور حیض وغیرہ کے بارے میں ۔ (مصنف عبدالرزاق)

17781

17781- عن ابن عباس قال: "إذا كان لأحد عندك شهادة، فسألك عنها فأخبره بها، ولا تقل لا أخبرك إلا عند الأمير، أخبره بها لعله أن يرجع أو يرعوي". "عب".
17781 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تمہارے پاس کسی سے متعلق کوئی شہادت ہو اور وہ تم سے اس کے بارے میں سوال کرے تو اس کو خبر دے دو ، اور یوں نہ کہو کہ میں تو صرف امیر کے روبروہی شہادت پیش کروں گا بلکہ تم اس کو شہادت سنا دو شاید وہ اپنی بات سے رجوع کرلے یا محتاط ہوجائے ۔ (مصنف عبدالرزاق)

17782

17782- عن ابن عباس "أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن الشهادة، فقال: هل ترى الشمس؟ على مثلها فاشهد أو دع". "أبو سعيد النقاش في القضاة".
17782 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شہادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا تم سورج کو دیکھتے ہو پس اس کے مثل واضح چیز پر شہادت دو یا چھوڑ دو ۔ (ابو سعید النقاش فی القضاۃ)

17783

17783- وعنه "أن النبي صلى الله عليه وسلم رد شهادة رجل في كذبة واحدة."النقاش وفيه: نوح بن أبي مريم عن إبراهيم الصائغ؛ وهما متروكان".
17783 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جھوٹی بات کی وجہ سے ایک آدمی کی شہادتد کو مسترد فرما دیا ۔
کلام : ۔۔۔ النقاش ، اس میں نوح بن ابی مریم روایت کرتے ہیں ابراہیم الصائغ سے ، اور یہ دونوں راوی متروک ہیں۔

17784

17784- عن علي قال: "اليمين مع الشاهد، فإن لم تكن له بينة، فاليمين على المدعى عليه إذا كان قد خالطه، فإن نكل حلف المدعي". "ق".
17784 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : قسم گواہ کے ساتھ ہے۔ اگر اس (مدعی) کے پاس گواہ نہ ہو تو مدعی علیہ پر قسم ہوگی ۔ جب وہ قابض ہو ، پھر اگر مدعی علیہ قسم اٹھانے سے انکار کرے تو مدعی پر قسم ہوگی ۔ (رواہ بخاری ، مسلم)
فائدہ : ۔۔۔ یعنی جب کوئی شخص کسی پر کسی چیز کا دعوی کرے تو اس کے ذمے دو گواہ پیش کرنا واجب ہیں۔ اگر وہ صرف ایک گواہ پیش کرسکا تو وہ گواہ کے ساتھ دوسرے گواہ کی جگہ قسم اٹھائے گا ۔ اور اگر دعوی کرنے والے کے پاس ایک گواہ بھی نہ ہو تو یعنی جس پر دعوی دائر کیا گیا ہے اور وہ اس دعوی سے انکار کرتا ہے وہ منکر قسم اٹھائے گا جبکہ وہ چیز اس کے قبضہ میں ہو ۔ اگر مدعی علیہ منکر قسم اٹھانے سے انکار کرے تو پھر مدعی قسم اٹھائے گا اور اس کی قسم پر فیصلہ صادر کیا جائے گا ۔ (الشافعی ، بخاری ، مسلم)

17785

17785- عن حنش "أن عليا كان يرى الحلف مع البينة". "الشافعي، ق".
17785 ۔۔۔ خنش (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) گواہ کے ساتھ قسم اٹھانے کو بھی ضروری قرار دیتے تھے ۔ (الشافعی ، السنن للبیھقی)

17786

17786- عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي بن أبي طالب "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر وعثمان كانوا يقضون بشهادة الواحد ويمين المدعي"."ق".
17786 ۔۔۔ جعفر بن محمد اپنے والد سے اور وہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر (رض)، عمر (رض) ، اور عثمان (رض) ، ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلہ فرما دیا کرتے تھے ۔ (رواہ السنن للبیھقی )

17787

17787- عن محمد بن صالح "أن عليا فرق بين الشهود"."ق".
17787 ۔۔۔ محمد بن صالح (رح) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) گواہوں کو جدا جدا کردیا کر دیا کرتے تھے ۔ تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ موافقت نہ کرلیں ۔ رواہ السنن للبیھقی)

17788

17788- عن علقمة "أن عليا كان لا يجيز شهادة الأقلف"."ق".
17788 ۔۔۔ علقمہ (رح) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) غیر مختون کی شہادت درست قرار نہ دیتے تھے ۔ (رواہ السنن للبیھقی)

17789

17789- عن الشعبي قال: "خرج علي بن أبي طالب إلى السوق فإذا هو بنصراني يبيع درعا فعرف علي الدرع فقال: هذه درعي، بيني وبينك قاضي المسلمين، وكان قاضي المسلمين شريحا، كان علي استقضاه فلما رأى شريح أمير المؤمنين قام من مجلس القضاء وأجلس عليا في مجلسه وجلس شريح قدامه إلى جنب النصراني، فقال علي: أما يا شريح لو كان خصمي مسلما لقعدت معه مجلس الخصم ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تصافحوهم، ولا تبدؤهم بالسلام، ولا تعودوا مرضاهم، ولا تصلوا عليهم، وألجئوهم إلى مضائق الطريق، وصغروهم كما صغرهم الله، اقض بيني وبينه يا شريح، فقال شريح: ما تقول يا نصراني؟ فقال النصراني: ما أكذب أمير المؤمنين الدرع درعي، فقال شريح: ما أرى أن تخرج من يده فهل من بينة؟ فقال علي: صدق شريح، فقال النصراني: أما أنا فأشهد أن هذه أحكام الأنبياء وأمير المؤمنين يجيء إلى قاضيه وقاضيه يقضي عليه هي والله يا أمير المؤمنين درعك اتبعتك مع الجيش وقد زالت عن جملك الأورق فأخذتها فإني أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فقال علي: أما إذا أسلمت فهي لك وحمله على فرس عتيق"."ق كر".
17789 ۔۔۔ شعبی (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) (اپنے دور خلافت میں) بازار کی طرف نکلے وہاں ایک نصرانی کو دیکھا کہ آپ (رض) کی زرہ فروخت کررہا ہے۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اپنی زرہ پہچان لی اور فرمایا یہ تو میری زرہ ہے۔ چلو میرے اور تمہارے درمیان مسلمانوں کا قاضی (جج) فیصلہ کرے گا۔ اس وقت مسلمانوں کے قاضی قاضی شریح تھے ۔ امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو دیکھا تو اپنی مسند قضاء سے اٹھ گئے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو اپنی جگہ بٹھایا اور خود ان کے سامنے نصرانی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : اگر میرا خصم (مخالف) مسلمان ہوتا تو میں اس کے ساتھ کٹہرے میں ضرور کھڑا ہوجاتا ۔ لیکن میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ نہ مصافحہ کرو ، نہ سلام میں پہل کرو ، نہ ان کے مریضوں کی عیادت کرو ، نہ ان پر نماز جنازہ پڑھو اور ان کو تنگ راستوں میں چلنے پر مجبور کرو اور ان کو ذلیل کرو جیسے اللہ نے ان کو ذلیل کر رکھا ہے۔
اے شریح میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کرو ۔ حضرت شریح (رح) نے ۔ نصرانی سے پوچھا : اے نصرانی تو کیا کہتا ہے ؟ نصرانی بولا : میں امیر المؤمنین کو تو نہیں جھٹلاتا مگر زرہ میری ہی ہے۔ حضرت شریح (رح) نے حضرت امیر المؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو فرمایا : آپ کو ان سے زرہ لینے کا حق نہیں جب تک آپ گواہ پیش نہ کریں ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : شریح نے سچ کہا ۔ نصرانی بولا : میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ احکام انبیاء ہی کی طرف سے ملتے ہیں ، دیکھو امیر المؤمنین اپنے قاضی کے پاس آتا ہے اور انہی کا قاضی انہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے۔ اے امیر المؤمنین ! اللہ کی قسم ! یہ زرہ آپ کی ہے۔ ایک مرتبہ کسی لشکر میں میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا تھا ۔ آپ کی یہ زرہ آپ کے مٹیالے اونٹ پر سے کھسک کر نیچے گرگئی تھی اور میں نے اٹھالی تھی ۔ اب میں (اسلام قبول کرتا ہوں اور) شہادت دیتا ہوں کہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم مسلمان ہوگئے ہو تو یہ زرہ تمہاری ہوئی اور پھر آپ (رض) نے اس کے علاوہ ایک عمدہ گھوڑا بھی اس نومسلم کو ہبہ فرما دیا ۔ (رواہ البیھقی ، ابن عساکر)

17790

17790- عن الشعبي قال: "ضاع درع لعلي يوم الجمل فأصابها رجل فباعها فعرفت عند رجل من اليهود فخاصمه إلى شريح فشهد لعلي الحسن ومولاه قنبر، فقال شريح لعلي: زدني شاهدا مكان الحسن، فقال: أترد شهادة الحسن؟ قال: لا ولكني حفظت عنك أنه لا تجوز شهادة الولد لوالده". "كر".
17790 ۔۔۔ شعبی (رح) سے مروی ہے کہ جنگ جمل میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی زرہ کھو گئی جو ایک شخص کو مل گئی اور اس نے فروخت کر ڈالی ، وہ زرہ ایک یہودی شخص کے پاس دیکھی گئی ، چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) قاضی شریح کے پاس اس کا فیصلہ لے کر گئے ، سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے حق میں حضرت حسن (رض) اور آپ کے غلام قنبر نے شہادت پیش کی ، قاضی شریح (رح) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو فرمایا : مجھے حسن (رض) کے بجائے کوئی اور گواہ پیش کیجئے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : کیا تم حسن کی شہادت کو ٹھکراتے ہو ؟ قاضی شریح (رح) نے فرمایا نہیں ، مگر میں نے آپ ہی سے سنا ہے کہ بیٹے کی شہادت باپ کے حق میں جائز نہیں ۔ (ابن عساکر)

17791

17791- عن علي "شهادة الصبي على الصبي، وشهادة العبد على العبد جائزة". "مسدد".
17791 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : بچے کی شہادت بچے پر اور غلام کی شہادت غلام پر جائز ہے۔ (رواہ مسدد)

17792

17792- عن الأسود بن قيس عن أشياخه "أن عليا لم يجز شهادة الأعمى في سرقة". "عب".
17792 ۔۔۔ اسود بن قیس اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے چوری کے معاملہ میں اندھے کی شہادت کو جائز قرار نہیں دیا ۔ (مصنف عبدالرزاق)

17793

17793- عن عبد الله بن نجي "أن عليا أجاز شهادة المرأة القابلة وحدها في الاستهلال". "عب ص ق وضعفه".
17793 ۔۔۔ عبداللہ بن نجی سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے دایہ عورت کی شہادت نومولود بچے کے رونے نہ رونے میں معتبر قرار دیا مصنف عبدالرزاق ، السنن لسعید بن منصور ، السنن للبیہقی)
کلام : ۔۔۔ امام بیہقی (رح) نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (کنز ج 7 ص 25)

17794

17794- عن علي قال: "لا تجوز شهادة النساء في الطلاق والنكاح والحدود والدماء ولا تجوز شهادة النساء بحتا في درهم حتى يكون معهن رجل."عب".
17794 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : طلاق ، نکاح ، حدود ، اور خون میں عورت کی شہادت جائز نہیں ۔ اور صرف عورت کی شہادت ایک درہم کے مسئلہ میں بھی جائز نہیں جب تک عورت کے ساتھ کوئی مرد نہ ہو (مصنف عبدالرزاق)

17795

17795- عن إبراهيم بن يزيد التيمي عن أبيه قال: "وجد علي بن أبي طالب درعا له عند يهودي التقطها فعرفها فقال: درعي سقطت عن جمل لي أورق، فقال اليهودي: درعي وفي يدي، ثم قال له اليهودي: بيني وبينك قاضي المسلمين، فأتوا شريحا فلما رأى عليا قد أقبل تحرف عن موضعه وجلس علي فيه ثم قال علي: لو كان خصمي من المسلمين لساويته في المجلس ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تساووهم في المجلس، ولا تعودوا مرضاهم ولا تشيعوا جنائزهم، وألجئوهم إلى أضيق الطرق، فإن سبوكم فاضربوهم وإن ضربوكم فاقتلوهم، ثم قال شريح: ما تطلب يا أمير المؤمنين؟ قال: درعي سقطت عن جمل لي أورق فالتقطها هذا اليهودي، فقال شريح: ما تقول يا يهودي؟ قال: درعي وفي يدي، فقال شريح: صدقت والله يا أمير المؤمنين إنها لدرعك ولكن لا بد من شاهدين، فدعا قنبرا مولاه والحسن بن علي فشهدا أنها لدرعه، فقال شريح: أما شهادة مولاك فقد أجزناها وأما شهادة ابنك لك فلا نجيزها، فقال علي: ثكلتك أمك أما سمعت عمر يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة، قال: اللهم نعم، قال: أفلا تجيز شهادة سيدي شباب أهل الجنة، ثم قال لليهودي: خذ الدرع، فقال اليهودي: أمير المؤمنين جاء معي إلى قاضي المسلمين فقضى على علي ورضي صدقت والله يا أمير المؤمنين إنها لدرعك سقطت عن جمل لك التقطتها أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فوهبها له علي وأجازه بسبع مائة ولم يزل معه حتى قتل يوم صفين"."الحاكم في الكنى، حل وابن الجوزي في الواهيات".
17795 ۔۔۔ ابراہیم بن یزید تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے اپنی ایک زرہ ایک یہودی کے پاس پائی جو اس نے اٹھالی تھی ۔ آپ (رض) نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا ، یہ تو میری زرہ ہے جو میرے خاکستری اونٹ سے گرگئی تھی ۔ یہودی نے کہا ، یہ میری زرہ ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ اور میرے اور تمہارے درمیان مسلمانوں ہی کا قاضی اس کا فیصلہ کرے گا ۔ پس یہ لوگ قاضی شریح کے پاس آئے ، قاضی شریح (رح) نے حضرت علی (رض) کو آتے دیکھا تو اپنی جگہ سے اٹھ گئے اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اس کی جگہ بیٹھ گئے ۔ پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میرا مخالف فریق مسلمان ہوتا تو میں اس کے ساتھ بیٹھتا لیکن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ارشاد فرمایا تم ان کے ساتھ ایک مجلس میں برابر نہ بیٹھو ، ان کے مریضوں کی عیادت نہ کرو ، ان کے جنازوں کی مشایعت نہ کرو ، راستوں میں ان کو تنگ جگہ میں چلنے پر مجبور کرو ۔ اگر وہ تم کو گالی دیں تو تم ان کو مارو، اگر وہ تم کو ماریں تو ان سے قتال کرو ۔
پھر حضرت قاضی شریح (رح) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے عرض کیا : یا امیر المؤمنین آپ کیا چاہتے ہیں ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : میری زرہ میرے اونٹ سے گرگئی تھی جو اس یہودی نے اٹھالی ہے۔ پھر قاضی شریح (رح) نے یہودی سے پوچھا : اے یہودی تو کیا کہتا ہے ؟ یہودی نے کہا : یہ میری زرہ ہے اور میرے قبضہ میں ہے۔ پھر قاضی شریح (رح) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو کہا : اے امیر المؤمنین اللہ کی قسم : آپ سچ کہتے ہیں ، یقیناً یہ آپ ہی کی زرہ ہے۔ مگر پھر بھی آپ کو دو گواہ پیش کرنا ضروری ہیں۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اپنے غلام قنبر اور اپنے بیٹے حضرت حسن (رض) کو بلایا ، دونوں نے یہ گواہی دی کہ یہ آپ (رض) کی زرہ ہے۔ قاضی شریح (رح) نے فرمایا (یا امیر المؤمنین) آپ کے غلام قنبر کی گواہی تو ہم درست تسلیم کرلیتے ہیں لیکن آپ کے بیٹے کی شہادت کو ہم تسلیم نہیں کرتے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے قاضی شریح (رح) کو فرمایا : تیری ماں تجھے روئے تم نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو یہ روایت سناتے ہوئے نہیں سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا : حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ؟ قاضی شریح (رح) نے فرمایا : جی ہاں اللہ جانتا ہے۔ (یہ بات برحق ہے) سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : کیا تم میرے جنت کے سردار کی شہادت کو جائز قرار نہیں دیتے ؟ قاضی شریح (رح) نے فیصلہ سناتے ہوئے یہودی کو فرمایا : تم زرہ لے لو ۔ یہودی نے کہا : واہ : امیر المؤمنین میرے ساتھ مسلمانوں کے قاضی کے پاس آئے اور قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ دیا اور امیر المؤمنین اس پر راضی ہیں۔ اے امیر المؤمنین ! اللہ کی قسم ! آپ سچ بولتے ہیں یہ زرہ آپ کی ہے۔ آپ کے اونٹ سے گرگئی تھی جو میں نے اٹھالی تھی ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے وہ زرہ سابق یہودی نومسلم کو ہبہ کردی اور سات سو درہم انعام عطا کیا ۔ وہ نو مسلم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا حتی کہ جنگ صفین میں آپ کے ہمراہ لڑتے ہوئے شہید ہوگیا (الحاکم فی الکنی ، حلیۃ الاولیاء ابن الجوزی فی الواھیات)
کلام : ۔۔۔ یہ روایت ضعیف ہے اور اعمش بن ابراہیم کی حدیث ہے۔ حکیم اس کی روایت میں متفرد ہیں ، قاضی شریح کی اولاد نے عن شریح عن علی کے واسطہ سے اس کے مثل روایت نقل کی ہے۔

17796

17796- عن سعيد بن المسيب عن عثمان بن عفان "في العبد تكون عنده الشهادة والنصراني فأعتق العبد وأسلم النصراني أن شهادتهما جائزة ما لم ترد قبل ذلك". "سمويه".
17796 ۔۔۔ سعید بن المسیب (رح) سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) سے ایسے غلام اور ایسے نصرانی کے متعلق نقل کرتے ہیں جن کے پاس کوئی شہادت ہو پھر غلام آزاد ہوجائے اور نصرانی مسلمان ہوجائے تو ان کی شہادت جائز ہے اور مقبول ہے جب تک اس سے پہلے مسترد نہ کی جائے ۔ (سمویہ)

17797

17797- إنه بلغه أن عمر بن الخطاب قال: "لا تجوز شهادة خصم ولا ظنين". "مالك"
17797 ۔۔۔ امام مالک (رح) کی بلاغیات میں سے ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : خصم کی شہادت جائز ہے اور نہ ظنین کی ۔ (مالک) وضاحت کے لیے دیکھا روایت : 17778 ۔
تزکیۃ الشہود : (گواہوں پر جرح)

17798

17798- عن خرشة بن الحر قال: "شهد رجل عند عمر بن الخطاب شهادة فقال له: لست أعرفك ولا يضرك أن لا أعرفك، ايت بمن يعرفك، فقال رجل من القوم: أنا أعرفه، قال: بأي شيء تعرفه؟ قال: بالعدالة والفضل، قال: فهو جارك الأدنى الذي تعرف ليله ونهاره ومدخله ومخرجه؟ قال: لا، قال: فعاملك بالدينار والدرهم اللذين بهما يستدل على الورع؟ قال: لا، قال: فرفيقك في السفر الذي يستدل به على مكارم الأخلاق؟ قال: لا، قال: لست تعرفه، ثم قال للرجل: ايت بمن يعرفك". "المخلص في أماليه، ق".
17798 ۔۔۔ خرشۃ بن الحر سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے سامنے ایک شہادت پیش کی ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے اس شخص کو فرمایا : میں تجھے نہیں جانتا اور یہ بات تیرے لیے کوئی نقصان دہ بھی نہیں ہے کہ میں تجھے نہیں جانتا ، ایسے کسی شخص کو پیش کرو جو تم کو جانتا ہو۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا : میں اس شخص کو جانتا ہوں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے اس شخص سے پوچھا تم اس کے متعلق کیا بات جانتے ہو ؟ آدمی نے عرض کیا : یہ صاحب عدل اور صاحب فضل انسان ہے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا : کیا یہ تمہارا اس قدر قریبی پڑوسی ہے کہ تم اس کی رات اور دن کی مصروفیات اور اس کے آنے اور جانے کو جانتے ہو ؟ عرض کیا نہیں ۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا تم نے اس کے ساتھ درہم و دینار کا کوئی لین دین کیا ہے جس سے اس کا تقوی معلوم ہو ؟ عرض کیا نہیں ۔ پوچھا : کیا اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے جس سے اس کے عمدہ اخلاق سامنے آئے ہوں ؟ عرض کیا : نہیں تب آپ (رض) نے فرمایا : پھر تم اس کو نہیں جانتے ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت دینے والے کو فرمایا : ایسے شخص کو لاؤ جو تم کو جانتا ہو ۔ (المخلص فی امالیہ ، السنن البیھقی)

17799

17799- عن مكحول والوليد بن أبي مالك قالا: "كتب عمر إلى عماله في الشاهد الزور أن يضرب أربعين سوطا ويسخم وجهه ويحلق رأسه ويطاف به ويطال حبسه". "عب ش ص ق".
17799 ۔۔۔ مکحول اور ولید بن ابی مالک سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے جھوٹے گواہ کے بارے میں اپنے عمال کو لکھا تھا کہ اس کو چالیس کوڑے مارے جائیں اس کے چہرے پر کالک ملی جائے ، اس کا سر گنجا کیا جائے اس کو شہر میں پھرایا جائے اور پھر طویل مدت تک اس کو محبوس کردیا جائے ۔ (مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، السنن لسعید بن منصور ، السنن للبیھقی)

17800

17800- عن عمر قال: "ألا يؤسرن أحد في الإسلام بشهود الزور ولا نقبل إلا العدول". "مالك، عب، وأبو عبيد في الغريب ك، ق".
17800 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : کوئی شخص اسلام میں جھوٹی گواہی کی بناء پر ہرگز قید نہیں کیا جائے گا اور ہم صرف عادل شخص کی شہادت قبول کریں گے ۔ (مالک ، عبدالرزاق ، ابو عبید فی الغریب ، مستدرک الحاکم ، السنن للبیھقی)

17801

17801- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: "أتي عمر بشاهد زور فوقفه للناس يوما إلى الليل يقول هذا فلان يشهد بزور فاعرفوه فجلده، ثم حبسه". "مسدد، ق".
17801 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کی خدمت میں ایک جھوٹے گواہ کو پیش کیا گیا ۔ آپ (رض) نے لوگوں کو دکھانے کے لیے ایک پورا دن رات تک اس کو روکے رکھا اور یہ فرماتے رہے کہ یہ فلاں شخص ہے جو جھوٹی گواہی دیتا ہے اس کو پہچان لو ۔ پھر آپ (رض) نے اس کو کوڑے مارے پھر قید کردیا ۔ (مسدد ، السنن للبیھقی)

17802

17802- عن ابن عمر قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم شاهد الزور وهو يعلم".
17802 ۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ۔ (النقاش)

17803

17803- عن أيمن بن خريم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا فقال: "يا أيها الناس عدلت شهادة الزور إشراكا بالله، قالها ثلاثا، ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ} 1 "حم، ت وقال: غريب، ولا نعرف لأيمن بن خريم سماعا من النبي صلى الله عليه وسلم، والبغوي، وابن قانع، وأبو نعيم". ومر برقم [17741] .
17803 ۔۔۔ ایمن بن خریم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا : اے لوگو ! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
(آیت)” فاجنتبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور “۔ (الحج : 30)
(ترجمہ) سو بچو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹ کی بات سے ۔ (مسنداحمد ، ترمذی ، البغوی ، ابن قانع ، ابو نعیم)
کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اور ہم ایمن بن خریم کا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع ثابت ہونا نہیں جانتے ۔ (کنز ج 7 ص 29)

17804

17804- عن علي بن الحسين قال: "كان علي إذا أخذ شاهد زور بعثه إلى عشيرته فقال: إن هذا شاهد زور فاعرفوه وعرفوه، ثم خلى سبيله"."هق".
17804 ۔۔۔ علی بن الحسین (امام زین العابدین (رح)) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) جب کسی جھوٹے گواہ کو پکڑ لیتے تو اس کو اس کے خاندان کے پاس بھیجتے اور یہ اعلان کروا دیتے یہ جھوٹا گواہ ہے اس کو پہچان لو اور دوسروں کو بھی بتادو پھر آپ اس کا راستہ چھوڑ دیتے ۔ (شعب الایمان للبیھقی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔