hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

9. حج اور عمرۃ کا بیان

كنز العمال

11781

11781- عن سعيد بن المسيب أن عمر جعل في جعل 1 الآبق أربعين درهما. "ش".
11777 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب فرماتے ہیں حضرت عمر (رض) نے بھگوڑے غلام کو لانے کی اجرت چالیس درھم مقرر فرمائی۔ (ابن ابی شیبہ )

11782

11782- عن قتادة وأبي هاشم أن عمر قضى في جعل الآبق أربعين درهما. "ش".
11778 ۔۔۔ حضرت قتادۃ اور ابوہاشم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بھگوڑے کے جرمانے میں چالیس درہم کا فیصلہ فرمایا۔ (ابن ابی شیبہ)

11783

11783- عن أبي عمرو الشيباني قال: أتيت ابن مسعود باباق أصبتهم بالعين، فقال: الأجر والغنيمة قلت هذا الأجر، فما الغنيمة؟ قال: أربعون درهما. "عب".
11779 ۔۔۔ ابو عمرو الشیبانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس چند بھگوڑے غلام لائے میں نے العین میں جاکر پکڑا تھا تو آپ (رض) نے دریافت فرمایا کہ اجرت ہے یا غنیمت ؟ میں نے عرض کی یہ تو اجرت ہے، غنیمت کیا ہے ؟ تو فرمایا چالیس درہم۔ (عبدالرزاق)
٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ کی مدد سے کنزالعمال کی چوتھی جلد مکمل ہوئی
اس کے ساتھ جلد پنجم ہے جو حرف ” حاء “ سے شروع ہوتی ہے اور حج وعمرۃ، حدود حضانۃ اور الحوالۃ پر مشتمل ہے۔
(مترجم سلمان اکبر۔ فاضل جامعہ احسن العلوم)

11784

11784- الحج في سبيل الله تضعف فيه النفقة بسبعمائة ضعف. "سمويه عن أنس".
11784 حج فی سبیل اللہ میں نفقہ (کھانے پینے کا خرچ) سات 700 سو گناہ بڑھ جاتا ہے۔ سمویہ عن انس (رض)۔

11785

11785- الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة. "طب عن ابن عباس".
11785 مقبول حج کی جزاء تو صرف جنت ہے۔ رواہ طبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 2695 ۔

11786

11786- الحج جهاد كل ضعيف. "هـ عن أم سلمة
11786 حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے۔ رواہ ابن ماجہ عن طلحۃ بن عبیداللہ ورواہ طبرانی عن ابن عباس (رض)۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابن ماجہ 645، ضعیف الجامع 2761 ۔

11787

11787- الحج جهاد والعمرة تطوع. "هـ2 عن طلحة بن عبيد الله" "طب عن ابن عباس".
11786 حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے۔ رواہ ابن ماجہ عن طلحۃ بن عبیداللہ ورواہ طبرانی عن ابن عباس (رض)۔

11788

11788- أديموا الحج والعمرة فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "قط في الأفراد طس عن جابر
11788 ہمیشہ حج وعمرہ کرو، کیونکہ یہ گناہوں اور فقروفاقہ کو اس طرح مٹا ڈالتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو مٹا ڈالتی ہے۔
رواہ الدار قطنی فی الافراد والطبرانی فی الاوسط عن جابر (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے ذخیرہ الحفاظ 162، النوافح 72 ۔

11789

11789- إن الله تعالى يقول: إن عبدا أصححت له جسمه ووسعت عليه في معيشته تمضي عليه خمسة أعوام لا يفد إلي لمحروم. "ع هب عن أبي سعيد".
11789 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وہ بندہ تو بہت ہی محروم ہے جس کو میں نے جسمانی صحت عطا فرمائی اور اس کے رزق میں وسعت بخشی ، پانچ سال اس پر ایسے گزرتے ہیں مگر وہ میری طرف نہیں آتا۔ یعنی باوجود وسعت وصحت کے حج وعمرہ نہیں کرتا ، تو ایسا شخص بہت محروم ہے۔
رواہ ابویعلی فی مسندہ والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی سعید (رض)

11790

11790- إن الملائكة لتصافح ركاب الحجاج وتعتنق المشاة. "هـ عن عائشة
11790 بیشک فرشتے سواری پر حج کو جانے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں اور پیدل حج کو جانے والوں سے معانقہ کرتے ہیں۔ رواہ ابن ماجہ عن عائشہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 1788 ۔

11791

11791- إن الله تعالى ليدخل بالحجة الواحدة ثلاثة نفر الجنة الميت والحاج عنه والمنفذ لذلك. "عب هب عن جابر".
11791 اللہ تعالیٰ ایک حج کے بدلے تین شخصوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں :
1۔۔۔میت کو۔
2۔۔۔اس کی جانب سے حج کرنے والے کو۔
3۔۔۔اور اس حج (بدل) کا اہتمام کرنے والے کو۔ رواہ ابویعلی فی مسندہ والبیہقی فی شعب الایمان عن جابر (رض)۔
نوٹ : یہ فضیلت حج بدل سے متعلق ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے اس حال میں کہ اس پر حج فرض تھا تو اس کی طرف سے کسی نے حج کرلیا۔ 12 ش۔

11792

11792- إن عمار بيوت الله هم أهل الله. "عبد بن حميد ع طس هق عن أنس".
11792 بیشک اللہ تعالیٰ کے گھروں کو تعمیر کرنے والے ہی اہل اللہ ہیں۔
رواہ عبد بن حمید وابویعلی فی مسندہ والطبرانی فی الاوسط والبیہقی فی السنن عن انس (رض)۔

11793

11793- إن للحاج الراكب بكل خطوة تخطوها راحلته سبعين حسنة وللماشي بكل خطوة يخطوها سبعمائة حسنة. "طب عن ابن عباس".
11793 بیشک سواری پر حج کو جانے والے کو اس کی سواری کے ہر قدم پر ستر نیکیاں ملتی ہیں، اور پیدل جانے والے کو اس کے ہر قدم پر سات سو (700) نیکیاں ملتی ہیں۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض)۔
کلام : ضعیف الجامع 1959، الضعیفۃ 496 ۔

11794

11794- إن لإبليس مردة من الشيطان يقول لهم: عليكم بالحاج والمجاهدين فأضلوهم عن السبيل. "طب عن ابن عباس".
11794 ابلیس کا سرکش شیاطین کا ٹولہ ہے جنہیں وہ کہتا ہے کہ : حاجیوں اور مجاہدین کی ٹوہ میں رہو اور انھیں راستے سے گمراہ کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض)۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 1962، ضعیف الجامع 1913 ۔

11795

11795- هلم إلى جهاد لا شوكة فيه الحج. "طب عن الحسين".
11795 آؤ ایسے جہاد کی طرف جس میں کوئی کانٹا نہ چبھے وہ حج ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الحسین (رض) ۔

11796

11796- ألا أدلك على جهاد لا شوكة فيه؟ حج البيت. "طب عن الشفاء".
11796 کیا میں تمیہں ایسے جہاد پر مطلع نہ کروں جس میں کوئی کانٹا نہیں ؟ وہ جہاد حج بیت اللہ ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الشفاء۔

11797

11797- جهاد الكبير والضعيف والمرأة الحج والعمرة. "ن عن أبي هريرة".
11797 بندہ کا حج سے لوٹتے ہوئے یا رمضان کے روزے کی افطاری کرتے ہوئے مرجانا بہترین حالت موت ہے۔ رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن جابر (رض)۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2927 ۔

11798

11798- خير ما يموت عليه العبد أن يكون قافلا من حج أو مفطرا من رمضان. "فر عن جابر".
11798 بوڑھے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج وعمرہ ہے۔ رواہ النسائی عن ابی ھرہرۃ (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام سے : ضعیف الجامع 12638 المشتھر 194 ۔

11799

11799- كثرة الحج والعمرة تمنع العيلة. "المحاملي في أماليه عن أم سلمة".
11799 حج وعمرہ کی کثرت فقروفاقہ روکتی ہے۔ رواوہ امحاملی فی امالبدعن ادسلمہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے، ضعیف الجامع 4165، الضعیفۃ 477، المشتھر 194 ۔

11800

11800- ما أمعر حاج قط."هب عن جابر".
11800 حج کرنے والا ہرگز فقروفاقہ سے دوچار نہ ہوگا۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن جابر (رض)۔

11801

11801- ما ترفع إبل الحاج رجلا، ولا تضع يدا إلا كتب الله تعالى له بها حسنة أو محا عنه سيئة أو رفعه بها درجة. "هب عن ابن عمر".
11801 حج کرنے والے کا اونٹ (سواری کا ہر جانور) جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور جو بھی قدم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس حج کرنے والے شخص کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور ایک گناہ مٹا دیتے ہیں اور ایک درجہ بلند فرماتے ہیں۔
رواہ البیقی فی شعب الایمان عن ابن عمر (رض)۔

11802

11802- من أحرم بحج أو عمرة من المسجد الأقصى كان كيوم ولدته أمه. "عب عن أم سلمة".
11802 جس شخص نے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) سے حج یا عمرہ کا احرام باندھا تو وہ شخص اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک ہے) جس دن اس کی والدہ نے اس کو جنا۔
رواہ عبدالرزاق فی الجامع عن اوسلمہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5352 ۔

11803

11803- من أضحى يوما محرما ملبيا حتى غربت الشمس غربت بذنوبه فعاد كما ولدته أمه. "حم ك عن جابر".
11803 جس شخص نے حالت احرام میں تلبیہ پڑھتے ہوئے دن گزارا یہاں تک کہ شورج غروب ہوگیا، تو سورج اس کے گناہوں کو لے کر غروب ہوگا اور وہ شخص ایسا لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنا ہے (یعنی گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوگا)
رواہ احمد فی مسندہ والحاکم فی المستدرک عن جابر (رض)۔

11804

11804- ما أضحى مؤمن ملبيا حتى تغيب الشمس إلا غابت بذنوبه فيعود كيوم ولدته أمه. "طب هب عن عامر بن ربيعة".
11804 نہیں دن گزارا کسی مومن نے تلبیہ پڑھتے ہوئے یہاں تک کہ شورج غروب ہوگیا مگر یہ کہ وہ سورج اس کے گناہوں کو لے کر ہی غروب ہوگا، لہٰذا وہ شخص اس دن کی مانند (گناہوں سے پاک وصاف) لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی شعب الایمان عن عامر بن ربیعۃ (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام ہے : ذخیرۃ الحفاظ 4746 ۔

11805

11805- ما أهل مهل قط إلا آبت الشمس بذنوبه. "هب عن أبي هريرة".
11805 جب بھی کوئی تلبیہ کہنے والا بلند آواز سے تلبیہ پکارتا ہے اور تکبیر کہنے والا بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے تو ضرور اس کو جنت کی بشارت و خوشخبری دیدی جاتی ہے۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5031 ۔

11806

11806- ما أهل مهل قط ولا كبر مكبر قط إلا بشر بالجنة. "طس عن أبي هريرة".
11806 جب بھی کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیں جو پتھر ، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی تلبیہ پڑھتے ہیں اور اسی طرح سلسلۃ زمین کے منتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ رواہ الترمذی وابن ماجۃ والحاکم فی المستدرک عن سھل بن سعد (رض) ۔

11807

11807- ما من مسلم يلبي إلا لبى من عن يمينه وشماله من حجر أو شجر أو مدر حتى تنقطع الأرض من ها هنا وها هنا."ت هـ ك عن سهل بن سعد"
11807: جب بھی کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیں جو پتھر، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی تلبیہ پڑھتے ہیں اور اسی طرح سلسلہ زمین کے منتہی تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ رواہ الترمذی و ابن ماجۃ والحاکم فی المستدرک عن سھل بن سعد (رض) ۔

11808

11808- من حج لله ولم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه. "حم خ ن هـ عن أبي هريرة".
11808 جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور (دوران حج) نہ کوئی فحش بات چیت کی اور نہ ہی کسی فسق وگناہ میں مبتلا ہوا تو وہ اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک وصاف ) لوٹے گا جس دن اس کی والدہ نے اس کو جنا تھا۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری والنسائی وابن ماجہ عن ابوہریرہ رضی الل عنہ۔

11809

11809 - إن عدو الله إبليس لما علم أن الله قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحثو على رأسه ويدعو بالويل والثبور فأضحكني ما رأيت من جزعه. "حم عن العباس بن مرداس"
11809 بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کردیا۔ رواہ احمد فی مسندہ عن العباس بن مرداس (رض) عن۔
کلام : ضعیف الجامع 1881 ۔

11810

11810- من قضى نسكه وسلم المسلمون من لسانه ويده غفر له ما تقدم من ذنبه. "عبد بن حميد عن جابر".
11810 جس شخص نے مناسک حج پورے کیے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے مامون رہے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ رواہ عبدابن حمید عن جابر (رض)۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 5506: ضعیف الجامع 5793 ۔

11811

11811- من مات محرما حشر ملبيا. " خط عن ابن عباس".
11811 جس شخص کا انتقال حالت احرام میں ہوا، قیامت کے دن تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھے گا ۔
رواہ الخطیب فی التاریخ عن ابن عباس (رض)۔
کلام : ضعیف الجامع 5849 ۔

11812

11812- الحاج في ضمان الله مقبلا ومدبرا. " فر عن أبي أمامة".
11812 حج کرنے والا، حج کو جاتے ہوئے اور حج سے لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن امامۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 2749 ۔

11813

11813- الحاج والغازي وفد الله عز وجل إن دعوه أجابهم وإن استغفروه غفر لهم. " هـ عن أبي هريرة".
11813 حاجی وغازی اللہ تعالیٰ کے ” وفد “ (مہمان ) ہیں، جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو وہ انھیں جواب دیتا ہے (دعا قبول کرتا ہے) اور جب وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ ان کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ رواہ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 2750 ۔

11814

11814- الحاج والمعتمر والغازي في سبيل الله والمجمع في ضمان الله دعاهم فأجابوه وسألوه فأعطاهم. "الشيرازي في الألقاب عن جابر".
11814: حج کرنے والا، عمرہ کرنے والا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتے ہیں، جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور جب مانگتے ہیں تو وہ انھیں عطا کرتا ہے۔ رواہ الشیرازی فی الالقاب عن جابر (رض)،
کلام : ضعیف الجامع 2751 ۔

11815

11815- الحجاج والعمار وفد الله دعاهم فأجابوه وسألوه فأعطاهم. "البزار عن جابر".
11815 حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے (دعا قبول کرتا ہے) اور جب مانگتے ہیں تو وہ انھیں عطا کرتا ہے۔
رواہ البزار عن جابر (رض)۔

11816

11816- الحجاج والعمار وفد الله يعطيهم ما سألوا ويستجيب لهم ما دعوا ويخلف عليهم ما أنفقوا الدرهم ألف ألف درهم. " هب عن أنس".
11816 حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ” وفد “ (مہمان) ہیں، جب وہ اس سے سوال کرتے ہیں تو وہ انھیں عطا کرتا ہے، اور جب دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی دعائیں قبول کرتا ہے، اور ایک درہم کے خرچ کرنے پر ایک ہزار درہم بدلے میں عطا فرماتے ہیں۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن انس (رض)۔

11817

11817- الحجاج والعمار وفد الله إن سألوه أعطوا وإن دعوا أجابهم وإن أنفقوا أخلف لهم والذي نفس أبي القاسم بيده ما كبر مكبر على نشز1 ولا أهل مهل على شرف2 من الأشراف إلا أهل ما بين يديه وكبر حتى ينقطع به منقطع التراب. " هب عن ابن عمر".
11817 حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ” وفد “ (مہمان) ہیں، جب وہ اس سے سوال کرتے یں تو وہ انھیں عطا کرتا ہے اور جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے ، اور جب خرچ کرتے ہیں تو وہ اس کا بدل ان کو عطا کرتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابوالقاسم (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنیت ہے) کی جان ہے تلبیہ کہنے والا جب بھی بلند مقام پر (چڑھتے ہوئے) تلبیہ کہتا ہے تو تو اس کے سامنے موجود ہر شے تلبیہ اور تکبیر کہتی ہے یہاں تک کہ زمین کے منتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن ابن عمر (رض)۔

11818

11818- حجج تترى وعمر نسقا3 يدفعن ميتة السوء وعيلة الفقر. " عب عن عامر بن عبد الله بن الزبير" مرسلا "فر عن عائشة".
11818 مسلسل حج اور وہ عمرے جو حج کے ساتھ ہوں، بری موت اور فقر وفاقہ کو دور کرتے ہیں۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع عن عامر بن عبداللہ الزبیر (رض)، مرسلاً ، ورواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن عائشۃ (رض)۔
کلام : ضعیف الجامع 2693 ۔

11819

11819- حجوا قبل أن لا تحجوا فكأني انظر إلى حبشي أصمع أفدع4 بيده معول يهدمها حجرا حجرا. " ك هق عن علي".
11819 حج کرلو قبل اس کے کہ تم حج نہ کرسکو، مکہ کے دیہاتی وبدوی وہاں کی وادیوں کے کنارے بیٹھ جائیں گے اور پھر حج کرنے کو کوئی شخص بھی نہ پہنچ پائے گا۔
رواہ الحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے التنکیت والا فادۃ 115، حسن الاثر 224 ۔

11820

11820- حجوا قبل أن لا تحجوا تقعد أعرابها على أذناب أوديتها فلا يصل إلى الحج أحد. "ك هق عن أبي هريرة
11820: حج کرلو۔ قبل اس کے کہ تم حج نہ کرسکو، مکہ کے دیہاتی و بدوی وہاں کی وادیوں کے کنارے بیٹھ جائیں گے اور پھر حج کرنے کو کوئی شخص بھی نہ پہنچ پائے گا۔ رواہ الحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

11821

11821- حجوا فإن الحج يغسل الذنوب كما يغسل الماء الدرن. " طس عن عبد الله بن جراد".
11821 حج کرو، کیونکہ حج گناہوں کو اس طرح دھو ڈالتا ہے جیسے پانی میل کو دھو ڈالتا ہے۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط عن عبداللہ بن جراد (رض) ۔
کلام : حسن الاثر 224، ضعیف الجامع 2696 ۔

11822

11822- حجوا تستغنوا وسافروا تصحوا. " عب عن صفوان ابن سليم" مرسلا.
11822 حج کرو، مستغنی ہوجاؤ گے (یعنی مالداری ہوگی فقر دور ہوگا، استغنا پیدا ہوگا) اور سفر کرو صحت من رہو گے۔ رواہ عبدالرزاق عن صفوان سلیم مرسلاً ۔
یہ روایت مرسل ہے۔
کلام : ضعیف الجامع 2694 ۔

11823

11823 - إذا لقيت الحاج فسلم عليه وصافحه ومره أن يستغفر لك قبل أن يدخل بيته فإنه مغفور له. "حم عن ابن عمر".
11823 جب تم کسی حاجی سے ملاقات کرو تو اس کو سلام کرو اور اس سے مصافحہ کرو اور اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ، کیونکہ اس کی مغفرت کردی گئی ہے۔ راوہ احمد عن ابن عمر۔
کلام : الشذرۃ 116، ضعیف الجامع 689 ۔

11824

11824- النفقة في الحج كالنفقة في سبيل الله بسبعمائة ضعف. " حم والضياء عن بريدة".
11824 حج میں خرچ کرنا (اجروثواب کے لحاظ سے) اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح سے ایک (روپیہ) کا بدلہ سات سو (روپیہ) ہے۔ رواہ احمد والضیاء، عن بریدۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5993 ۔

11825

11825- إذا خرج الحاج من أهله فسار ثلاثة أيام أو ثلاث ليال خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه وكان سائر أيامه درجات ومن كفن ميتا كساه الله من ثياب الجنة ومن غسل ميتا خرج من ذنوبه ومن حثا عليه التراب في قبره كانت له بكل هباءة أثقل في ميزانه من جبل من الجبال. " هب عن أبي ذر".
11825 حج کرنے والا جب اپنے گھر سے نکلتا ہے اور تین دن یا تین راتیں چلتا ہے تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح۔ پاک وصاف ہو کر نکلتا ہے جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا اور اس کے تمام ایام درجات ہوتے ہیں اور جس نے کسی مرنے والے کو کفن پہنایا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت کے لباسوں میں سے لباس پہنائیں گے، اور جس شخص نے میت کو غسل دیا تو وہ شخص اپنے گناہوں سے (پاک وصاف ہو کر) نکلتا ہے۔ اور جس شخص نے اس کی قبر پر مٹی ڈالی تو اس کے نامہ اعمال میں اس کے ہر مٹھی بھر مٹی کے بدلہ پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ سے بھی زیادہ وزن لکھ دیا جاتا ہے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن ابی ذر (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 473 ۔

11826

11826 - إن الحج والعمرة من سبيل الله وإن عمرة في رمضان تعدل حجة أو تجزئ بحجة. " ك عن أم معقل"
11826 حج وعمرہ اللہ کا راستہ ہیں اور رمضان میں ایک عمرہ کرنا حج کے برابر ہے یا (نفلی) حج سے کفایت کرتا ہے۔ رواہ الحاکم فی المستدرک عن ام معقل (رض) ۔

11827

11827- لكن أحسن الجهاد وأجمله حج مبرور. " خ ن عن عائشة".
11827 لیکن اچھا اور خوب صورت جہاد مقبول حج ہے۔ رواہ البخاری والنسائی عن عائشہ۔

11828

11828 - ما من محرم يضحى لله يومه يلبي حتى تغيب الشمس إلا غابت بذنوبه فعاد كما ولدته أمه. " هـ عن جابر
11828 جب محرم تلبیہ پڑھتے ہوئے ، اللہ کے لیے اپنا دن گزارتا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے تو وہ سورج اس کے گناہوں کو لے کر ہی غروب ہوتا ہے، اور وہ شخص (گناہوں سے پاک ) ایسا لوٹتا ہے کہ جیسے اس کی ماں نے اس کو ابھی جنا ہے۔
رواہ ابن ماجہ کتاب المناسک باب الظل للمحرم عن جابر (رض)۔
کلام : قال فی الزوائد : اس کی سند ضعیف ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 4913، ضعیف ابن ماجہ 635

11829

11829- من أتى هذا البيت فلم يرفث ولم يفسق رجع كما ولدته أمه. " م عن أبي هريرة".
11829 جو شخص اس گھر (بیت اللہ) کو آیا (بغرض حج وعمرۃ) اور اس نے نہ کوئی فحش بات چیت کی اور نہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہوا تو وہ ایسا (پاک وصاف) لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو ابھی جنا ہے۔ رواہ مسلم عن ابوہریرہ (رض) ۔

11830

11830- من أهل بحجة أو عمرة من المسجد الأقصى إلى المسجد الحرام غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر. " حم د عن أم سلمة"1
11830 جو بیت المقدس سے عمرہ یا حج کا احرام باندھ کر آیا تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہوں کو بخش دیں گے۔ رواہ احمد وابوداؤد عن ام سلمہ۔
کلام : ضعیف الجامع 5493 ۔

11831

11831- من أهل بعمرة من بيت المقدس كانت كفارة لما قبلها من الذنوب. " هـ عن أم سلمة
11831 جو مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) سے عمرہ کا احرام باندھ کر آیا، تو اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دیئے گئے۔ رواہ ابن ماجۃ عن ام سلمۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف ابن ماجہ 647، ضعیف الجامع 5495 ۔

11832

11832- من حج فلم يرفث ولم يفسق غفر له ما تقدم من ذنبه. " ت عن أبي هريرة".
11832 جس شخص نے حج کیا اور (دوران حج ) کسی فحش بات چیت اور فسق وفجور میں مبتلا نہ ہوا تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ رواہ الترمذی عن ابوہریرہ (رض) ۔

11833

11833- أما خروجك من بيتك تؤم البيت الحرام فإن لك بكل وطئة تطؤها راحلتك يكتب الله لك بها حسنة ويمحو عنك بها سيئة، وأما وقوفك بعرفة فإن الله تعالى ينزل إلى السماء الدنيا فيباهي بهم الملائكة فيقول: هؤلاء عبادي جاؤني شعثا غبرا من كل فج عميق يرجون رحمتي ويخافون عذابي ولم يروني فكيف لو رأوني، فلو كان عليك مثل رمل عالج ومثل أيام الدنيا ومثل قطر السماء ذنوبا غسلها الله عنك، وأما رميك الجمار فلك بكل حصاة رميتها تكفير كبيرة من الموبقات وأما نحرك فمدخور لك عند ربك وأما حلقك رأسك فإنه مدخور لك بكل شعرة تسقط حسنة فإذا طفت بالبيت خرجت من ذنوبك كما ولدتك أمك. " هب عن ابن عمر".
11833 بہرحال (حج یا عمرے کے لئے) بیت اللہ کے ارادے سے تمہارے گھر سے نکلنا، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سواری کے ہر قدم پر تمہارے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور تمہارا ایک گناہ معاف فرما دیتے ہیں، اور تمہارے وقوف عرفہ پر اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے فخر یہ فرماتے یں کہ : ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود، اور لبیک وذکر کرکے ساتھ (آوازیں بلند) کرتے ہوئے دور دور سے آئے ہیں، میری رحمت کے امیدوار ہیں اور میرے عذاب سے خوفزدہ ہیں حالانکہ انھوں نے مجھے دیکھا نہیں ۔ اب ان کا یہ حال ہے اور اگر مجھ دیکھ لیں تب ان کا کیا حال ہوگا ؟ ۔ پس اگر تم پر ریت کے ڈھیر کے مانند، دنیا کے دنوں کی تعداد کی مانند، اور بارش کے قطرات کی مانند گناہوں کا ڈھیر ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو تم سے دھو ڈالے گا، اور تمہارا شیطان کو کنکری مارنا ! تو ہر کنکری کے بدلے ، کبیرہ ومہلک گناہوں میں سے ایک گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ اور تمہارا نحر کرنا (قربانی کرنا) ۔

11834

11834- الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة قالوا: يا رسول الله ما بر الحج قال: إطعام الطعام وإفشاء السلام. "حم عق هب عن جابر".
11834 مقبول حج کی جزا اور بدلہ جنت ہی ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ارشاد فرمایا : اے اللہ کے رسول ! حج کی عمدگی کیا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کھانا کھلانا اور بکثرت کرنا۔ رواہ احمد فی مسندہ والعقیلی فی الضعفاء والبیھقی فی شعب الایمان عن جابر (رض)۔

11835

11835- الحجة المبرورة ليس لها ثواب إلا الجنة والعمرة إلى العمرة تكفر ما بينهما. " حب عن أبي هريرة".
11835 مقبول حج کا بدلہ تو صرف جنت ہے، اور ایک عمرہ اپنے سے پہلے والے عمرہ کی درمیانی مدت (کے گناہوں کا) کفارہ ہے۔ رواہ ابن حبان صحیحہ عن ابوہریرہ (رض) ۔

11836

11836- الحج يكفر ما بينه وبين الحج الذي قبله، ورمضان يكفر ما بينه وبين رمضان الذي قبله، والجمعة تكفر ما بينها وبين الجمعة التي قبلها. " أبو الشيخ عن أبي أمامة".
11836 ایک حج اپنے سے پہلے والے حج کی درمیانی مدت (کے گناہوں کا) کفارۃ ہے اور ایک رمضان اپنے سے پہلے والے رمضان کی درمیانی مدت کے گناہوں کے لیے کفارۃ ہے اور ایک جمعہ اپنے سے پہلے والے جمعہ کی درمیانی مدت کے گناہوں کے لیے کفارۃ ہے۔
رواہ ابوالشیخ عن ابی امامہ (رض) ۔

11837

11837- من جاء يؤم البيت الحرام فركب بعيره فما يرفع البعير خفا ولا يضع خفا إلا كتب الله له بها حسنة وحط بها عنه خطيئة ورفع له بها درجة حتى إذا انتهى إلى البيت فطاف وطاف بين الصفا والمروة ثم حلق أو قصر إلا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه فهلم يستأنف العمل. " هب عن أبي هريرة".
11837 جس شخص نے (حج یا عمرہ کے واسطہ) بیت اللہ کا قصد کیا اور اپنے اونٹ پر سوار ہوا تو اس کا اونٹ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور جو بھی قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس حاجی شخص کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرماتے ہیں، اور اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (سوار) بیت اللہ تک پہنچ جائے، پھر وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرے پھر (ارکان) حج کے بعد حلق یا قصر کرے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا (پاک وصاف ہو کر) نکلتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنا ہے۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن ابوہریرہ (رض) ۔

11838

11838- لا يرفع الحاج قدما ولا يضع أخرى إلا حط الله عنه بها خطيئة ورفع له درجة وكتب له حسنة. " الخطيب في المتفق والمفترق عن ابن عمر" وسنده لين.
11838 حاجی جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور جو بھی قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی ایک خطا معاف فرماتے ہیں اور ایک درجہ بلند فرماتے ہیں اور اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں۔
رواہ الخطیب فی المتفق عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : اس حدیث کی سند میں ” لین “ یعنی نرمی و کمزوری ہے۔

11839

11839- من خرج حاجا أو معتمرا فله بكل خطوة حتى يؤوب إلى رحله ألف ألف حسنة ويمحي عنه، ألف ألف سيئة، ويرفع له ألف ألف درجة. " ابن عساكر عن أبي هريرة وابن عباس".
11839 جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے نکلا تو اپنی قیام گاہ پر پہنچنے تک اسے ہر قدم پر ایک لاکھ نیکیاں ملتی ہیں، اور اس کے ایک لاکھ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور اس کے ایک لاکھ درجات بلند ہوتے ہیں۔ رواہ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض) و ابن عباس (رض)۔

11840

11840- الحاج في ضمان الله مقبلا ومدبرا فإن أصابه في سفره تعب أو نصب غفر الله له بذلك سيئاته وكان له بكل قدم يرفعه ألف ألف درجة في الجنة وبكل قطرة تصيبه من مطر أجر شهيد. " الديلمي عن أبي أمامة".
11840 حاجی حج کو جاتے ہوئے اور حج سے لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ضمان میں ہوتا ہے، لہٰذا اگر اس کو دوران سفر کچھ تھکاوٹ یا مشقت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس شخص کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، اور اس کے ہر قدم پر جنت میں میں اس کے ایک لاکھ درجات بلند ہوجاتے ہیں، اور اس کو بارش کے ہر قطرے کے لگنے پر شہید کے اجر کے برابر ثواب ملتا ہے۔
رواہ الدیلمی عن ابی امامۃ۔

11841

11841- الحاج يشفع في أربعمائة من أهل بيته ويخرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه. " البزار عن أبي موسى".
11841 حاجی اپنے گھر والوں میں سے چار سو لوگوں کی سفارش کرے گا، اور وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح (پاک وصاف ہو کر) نکل جائے گا جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ رواہ البزار عن ابی موسیٰ (رض) ۔

11842

11842- حجج تترى وعمر نسقا ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "الديلمي عن عائشة".
11842 لگاتار حج پہ حج کرنا اور عمروں کی ترتیب رکھنا دونوں چیزیں فقروفاقے اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتی ہیں جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔
الدیلمی عن عائشہ (رض)۔

11843

11843- الحجاج والعمار وفد الله إن دعوه أجابهم، وإن استغفروه غفر لهم. "هـ هق وضعفه عن أبي هريرة"
11843 حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ” وفد “ (مہمان ) ہیں، جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو ان کی پکار سنتا ہے، اور جب وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو ان کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی السنن وصنعہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : اس حدیث کی سند میں صالح بن عبداللہ راوی ہیں جن کے متعلق امام بخاری نے ” منکر الحدیث “ ہونا فرمایا ہے۔ زوائد ابن ماجہ ۔

11844

11844- وفد الله ثلاثة: الحاج والمعتمر والغازي دعاهم فأجابوه وسألوه فأعطاهم. "ابن زنجويه عن ابن عمر".
11844 اللہ کے وفد (مہمان) تین ہیں۔
1 ۔ حاجی 2 ۔ عمرہ کرنے والا۔
3 ۔ غازی، جب وہ اس کو پکارتے ہیں تو قبول کرتا ہے اور جب مانگتے ہیں تو عطا فرماتا ہے۔
رواہ ابن زنجویہ عن ابن عمر (رض)۔

11845

11845- جهاد الكبير والصغير والضعيف والمرأة: الحج والعمرة. " ن ق عن أبي هريرة".
11845 بوڑھے، بچے ، کمزور اور عورت کا جہاد حج وعمرہ کرنا ہے۔
رواہ النسائی والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : المشتھر 194 ضعیف الجامع 2638 ۔

11846

11846- من حج واعتمر فمات من سنته دخل الجنة، ومن صام رمضان ثم مات دخل الجنة، ومن غزا فمات من سنته دخل الجنة. " الديلمي عن أبي سعيد".
11846 جس شخص نے حج وعمرہ کیا اور اسی سال اس کا انتقال ہو تو (سیدھا) جنت میں داخل ہوگا اور جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور انتقال کر گیا تو وہ (بھی سیدھا) جنت میں داخل ہوگا، جس نے جہاد کیا اور اسی سال مرگیا تو وہ (بھی سیدھا) جنت میں داخل ہوگا۔ رواہ الدیلمی عن ابی سعید

11847

11847 - من خرج حاجا أو معتمرا أو غازيا ثم مات في طريقه كتب الله له أجر الغازي والحاج والمعتمر إلى يوم القيامة. " هب عن أبي هريرة".
11847 جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کی غرض سے نکلا اور راستے میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ قیامت تک اس کے حق میں غازی، حاجی اور عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن ابوہریرہ (رض) ۔

11848

11848- من مات في هذا الوجه حاجا أو معتمرا لم يعرض ولم يحاسب وقيل له: ادخل الجنة. "ع عق عد حل هب خط عن عائشة".
11848 جو شخص اس راستے میں حج یا عمرہ کرتا ہوا مرگیا تو اس کو پیش نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی حساب کتاب لیا جائے گا اس سے کہا جائے گا کہ : جنت میں داخل ہوجا۔ رواہ العقیلی فی الضعفاء وابویعلی فی مسندہ و ابونعیم فی الحلیۃ والبیہقی فی شعب الایمان والخطیب فی التاریخ عن عائشہ (رض) ۔
کلام : التنزیہ 172/2، الضعیفۃ 2187 ۔

11849

11849 - من مات في طريق مكة لم يعرضه الله يوم القيامة ولم يحاسبه. " هب عن عائشة" "عد عن جابر".
11849 جو (مسلمان) مکہ کے راستے میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے حساب وکتاب نہ فرمائیں گے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان عن عائشہ (رض) وابن عدی فی الکامل عن جابر
کلام : روایت محل کلام اور ضعیف ہے : تذکرۃ الموضوعات 73, 72، التھانی 41 ۔

11850

11850- من مات في طريق مكة في البداءة أو في الرجعة وهو يريد الحج أو العمرة لم يعرض له ولم يحاسب ودخل الجنة. "ابن منده في أخبار أصبهان عن ابن عمر".
11850 جو شخص حج یا عمرہ کو جاتے ہوئے یا اس سے لوٹتے ہوئے مکہ کے راستے میں مرگیا تو اس کو حساب وکتاب کے لیے پیش نہیں کا ئے گا، بلکہ (سیدھا ) جنت میں داخل ہوگا۔
رواہ ابن مندہ فی اخبار اصبھان عن ابن عمر (رض)

11851

11851- تعجلوا الخروج إلى مكة فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. "الديلمي عن ابن عباس".
11851 (حج وعمرہ کے لئے) مکہ کی طرف جلدی نکلو، کیونکہ تم میں کوئی نہیں جانتا کہ بیماری یا حاجت میں کیا رکاوٹ پیش آجائے اور پھر مکہ نہ جاسکو۔
رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن عباس (رض)۔

11852

11852 - أوحى الله تعالى إلى آدم فقال: يا آدم حج هذا البيت قبل أن يحدث عليك حدث قال: وما يحدث علي يا رب؟ قال: ما لا تدري وهو الموت قال: وما الموت؟ قال: سوف تذوقه. "الديلمي عن أنس".
11852 اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا : قبل اس کے کہ تم پر حوادث پیش آئیں اس بیت اللہ کا حج کرلو، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی کہ : مجھ پر کیا حوادث پیش آئیں گے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تم نہیں جانتے، وہ موت ہے، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی کہ موت کیا ہے ؟ تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ : عنقریب تم اس کو چکھ لو گے۔ اور پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ موت کیا چیز ہے۔ رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن انس (رض)

11853

11853- من لم يمنعه من الحج حاجة ظاهرة أو سلطان جائر أو مرض حابس فمات ولم يحج فليمت إن شاء يهوديا وإن شاء نصرانيا. "الدارمي هب عن أبي أمامة".
11853 جس شخص کو ظاہری حاجت یا ظالم بادشاہ یا قید کردینے والی بیماری نے حج سے نہ روکا پھر وہ مرجائے تو چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر (کوئی پروا نہیں) ۔
ٗٗ رواہ الدارمی والبیہقی فی شعب الایمان عن ابی امامۃ (رض) ۔

11854

11854- إن لإبليس مردة من الشياطين يقول لهم: عليكم بالحاج والمجاهدين فأضلوهم عن السبيل. "طب عن ابن عباس" وضعف.
11854 ابلیس کا سرکش شیاطین کا ٹولہ ہے جنہیں وہ کہتا ہے کہ حاجیوں اور مجاہدین کی ٹوہ میں لگے رہو اور انھیں راستے سے گمراہ کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 1962، ضعیف الجامع 1913 ۔

11855

11855- لا تدع الحج ولو على ناب خمصا1 تسوي عشرة دراهم. "طب عن ابن عمر".
11855 حج کو نہ چھوڑو چاہے اس کے لیے تمہیں کسی لاغروکمزور اونٹنی کہ جس کی قیمت دس درہم کے برابر ہو، پر سفر کرکے جانا پڑے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض)

11856

11856- إن الله تعالى يقول: إن عبدا أصححت له جسمه وأوسعت عليه من الرزق فأتى عليه خمس حجج لا يأتى إلي فيهن لمحروم. "ع عن خباب".
11856 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وہ شخص تو بہت ہی محروم ہے جس کو میں نے جسمانی طور پر صحت بھی عطا فرمائی اور اس کے رزق میں وسعت بھی بخشی، اس پر پانچ ایسے حج گزر جاتے ہیں کہ جن میں وہ میری طرف نہیں آتا (یعنی باوجود وسعت رزق وصحت کے حج کو نہیں جاتا تو ایسا شخص ضرور محروم ہے) ۔ رواہ ابویعلی فی مسندہ عن خباب (رض) ۔

11857

11857- إن الله عز وجل يقول: إن عبدا أصححت له جسمه ووسعت عليه في معيشته تمضي عليه خمسة أعوام لا يفد إلي لمحروم. "ع والسراج ق حب ص عن أبي سعيد".
11857 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وہ شخص تو ضرور محروم ہے جس کو میں نے جسمانی طور پر صحت عطا فرمائی اور اس کی معیشت میں وسعت دی، اس پر پانچ سال اس طرح گزر جاتے ہیں کہ وہ میری طرف (حج یا عمرہ کو) نہیں آتا۔ رواہ ابویعلی فی مسندہ والسراج، السنن للبیہقی وابن حبان صحیحہ و سعید ابن منصور فی سننہ عن ابی سعید (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 1034، المتناہیۃ 928 ۔

11858

11858- قال الله تعالى: إن عبدا أصححت له جسمه ووسعت عليه في رزقه لم يفد إلي في كل خمسة أعوام لمحروم. "عد عق وابن عساكر عن أبي هريرة".
11858 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ شخص تو ضرور محروم ہے کہ جس کو میں نے جسمانی طور پر صحت کی دولت سے نوازا اور اس کے رزق میں وسعت دی، اس پر ہر پانچ سال ایسے گزرجاتے ہیں جن میں وہ میری طرف (حج یا عمرہ کو) نہیں آتا۔
رواہ ابن عدی فی الکامل والعقیلی فی الضعفاء وابن عساکر عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 1034، المتناہیۃ 928 ۔

11859

11859- من حج وعليه دين قضى الله عنه. "أبو نعيم عن أنس".
11859 جس شخص نے حج کیا اس حال میں کہ اس پر قبضہ تھا، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے قرضہ ادا فرما دیتے ہیں (یعنی) ایسا بند و بست فرما دیتے ہیں کہ قرضہ ادا ہوجاتا ہے۔
رواہ ابونعیم فی الحلیۃ عن انس (رض)۔

11860

11860- ما من محرم يضحى للشمس حتى تغرب إلا غربت بذنوبه حتى يصير كيوم ولدته أمه "ابن زنجويه عن جابر". مر برقم [11828] وعزوه.
11860 جب محرم (حج یا عمرہ کا) دن گزارتا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے تو وہ اس کے گناہوں کو لے کر ہی غروب ہوتا ہے، اس طرح وہ گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنا ہے۔ رواہ ابن زنجویہ عن جابر (رض) ۔
یہ حدیث 11828 پر گزر چکی ہے۔

11861

11861- لا يركبن البحر إلا حاج أو معتمر أو غاز في سبيل الله فإن تحت البحر نارا وتحت النار بحرا ولا يشتري من ذي ضغطة1 سلطان شيئا. "ق عن ابن عمر"2
11861 سمندر کا سفر سوائے حاجی یا عمرہ کرنے والے یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے سوا کوئی نہ کرے، کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے اور۔
رواہ البیہقی فی السنن عن ابن عمر (رض)۔
کلام : اس حدیث کی سند میں ” بشیر “ ہیں جن کے متعلق امام بخاری نے فرمایا : بشیر بن مسلم کی حدیث صحیح نہیں۔

11862

11862- قال داود عليه السلام: إلهي ما حق عبادك عليك إذا هم زاروك فإن لكل زائر على المزور حقا؟ قال: يا داود فإن لهم علي أن أعافيهم في دنياهم وأغفر لهم إذا لقيتهم. "طب وابن عساكر عن أبي ذر" وسنده ضعيف.
11862 حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے رب ! آپ کے بندوں کا آپ پر کیا حق ہے جب وہ آپ کی زیارت کریں (حج وعمرہ کو آئیں) کیونکہ ہر زیارت کرنے والے کا جس کی زیارت کی جائے، اس پر کوئی نہ کوئی حق ہوتا ہے، تو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اے داؤد ! ان کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں انھیں ان کی دنیا کی زندگی ہی میں معاف کردوں اور جب میں ان سے ملاقات کروں تو ان کی مغفرت کروں۔ رواہ الطبرانی وابن عساکر عن ابی ذر (رض) ۔
کلام : اس کی سند ضعیف ہے۔

11863

11863- ما حجوا حتى أذن لهم وما أذن لهم حتى غفر لهم. "الديلمي عن علي".
11863 لوگ حج نہ کرسکتے یہاں تک کہ انھیں اللہ نے اجازت دی، اور انھیں اجازت نہیں دی یہاں تک کہ ان کی مغفرت فرمادی۔ رواہ الدیلمی عن علی (رض) ۔

11864

11864- ما راح مسلم روحة في سبيل الله عز وجل مجاهدا أو حاجا يهلل أو يلبي إلا غربت الشمس بذنوبه وخرج منها. "الخطيب والديلمي عن سهل بن سعد".
11864 جو مسلمان اللہ کے راستے میں ایک گھڑی حالت جہاد یا تہلیل یا تلبیہ پڑھتے ہوئے حالت حج میں گزارے تو سورج اس کے گناہوں کو لے کر ہی غروب ہوتا ہے اور وہ شخص ان گناہوں سے (بالکل پاک وصاف) نکل جاتا ہے۔ رواہ الخطیب والدیلمی عن سھل بن سعد (رض) ۔

11865

11865- ما كبر الحاج من تكبيرة ولا هلل من تهليلة إلا بشر بها تبشرة. "كر عن ابن عمر".
11865 حاجی جو اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے اس کی وجہ سے اس کو ایک خاص خوشخبری دی جاتی ہے۔ رواہ ابن عساکر عن ابن عمر۔

11866

11866- ما كبر مكبر في بر ولا بحر إلا ملأ تكبيره ما بين السماء والأرض. "أبو الشيخ عن أبي الدرداء".
11866 اللہ اکبر کہنے والا جو خشکی اور تری میں ” اللہ اکبر “ کہتا ہے تو اس کی تکبیر زمین و آسمان کے درمیان خالی جگہ کو نیکیوں سے بھر دیتی ہے۔ رواہ ابوالشیخ عن ابی الدرداء (رض) ۔

11867

11867- والذي نفس أبي القاسم بيده ما هلل مهلل ولا كبر مكبر على شرف من الأرض إلا أهل ما بين يديه وكبر ما بين يديه بتكبيره وتهليله حتى ينقطع التراب. "أبو الشيخ عن ابن عمر".
11867 قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں ابوالقاسم (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنیت مبارکہ ہے) کی جان ہے : لا الہ الا اللہ اور تکبیر کہنے والا جب لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر زمین سے اونچی جگہ پر کہتا ہے تو اس کے سامنے ہر چیز لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہتی ہے اور اسی طرح منتہائے زمین تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ رواہ ابوالشیخ عن ابن عمر (رض) ۔

11868

11868- من كان له مال تبلغه حج بيت ربه، أو تجب عليه فيه الزكاة فلم يفعل سأل الرجعة عند الموت. "ت عن ابن عباس"1
11868 جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اسے حج بیت اللہ کے لیے (مکہ) پہنچا دے، یا اتنا مال ہو جس پر زکوۃ واجب ہوتی ہو لیکن وہ زکوۃ نہیں نکالتا تو ایسا شخص موت کے وقت دنیا میں واپسی کا سوال کرے گا۔ رواہ الترمذی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) (پر موقوف ہے اور حافظ ابن کثیر (رح)) کا فرمانا ہے کہ ” ضحاک کی روایت ابن عباس (رض) سے منقطع ہے۔ “ تحفۃ الاموذی 220/9 ۔ نیز دیکھئے : ضعیف الجامع 5803 ۔

11869

11869- من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله تعالى ولم يحج، فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا " ت عن علي"2
11869 جو شخص اتنے زادسفر اور ایسی سواری کا مالک ہو جو اسے (حج وعمرہ کے لئے) بیت اللہ شریف تک پہنچا دے اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو اب کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ رواہ الترمذی عن علی (رض) ۔
کلام : امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں : یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کی سند میں کلام ہے۔ نیز دیکھئے تذکرۃ الموضوعات 73، التعقبات 23 ۔

11870

11870- لو قلت: نعم لوجبت ولو وجبت لم تقوموا بها، ولو لم تقوموا بها عذبتم. " هـ عن أنس"
11870 اگر میں ” ہاں “ کہہ دیتا تو ہر سائل کے لیے واجب ہوجاتا ہے اور جب واجب ہوجاتا تو تم اس پر عمل پیرا نہ ہوسکتے ، اور جب تم عمل نہ کرتے تو تمہیں عذاب دیا جاتا۔
رواہ ابن ماجہ عن انس (رض)۔

11871

11871- إن الله عز وجل كتب عليكم الحج قال رجل: أفي كل عام؟ قال: ويحك ماذا يومنك أن أقول: نعم، والله لو قلت: نعم لوجبت، ولو وجب لتركتم، ولو تركتم لكفرتم، ألا إنه إنما هلك من كان قبلكم أئمة الحرج والله لو أني حللت لكم جميع ما في الأرض من شيء، وحرمت عليكم مثل خف بعير لوقعتم فيه. "ابن جرير طب وابن مردويه عن أبي أمامة".
11871 اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، تو ایک صحابی نے عرض کیا : کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا ناس ہو، اگر میں ہاں کہوں تو کیا چیز تمہیں بچائے گی ؟ بخدا اگر میں ” ہاں “ کہہ دیتا تو(ہر سال) واجب ہوجاتا، اور جب واجب ہوجاتا تو تم اس کو چھوڑ بیٹھتے، اور جب چھوڑتے تو کفر میں مبتسلا ہوجاتے ، خبردار ! تم سے پہلے جو ہلاک ہوئے وہ (دین میں) تنگی کرنے والے ہی تھے، بخدا میں نے تو تمہارے لیے زمین کی ہر چیز حلال کردی ہے، اور محض اونٹ کے قدم کے برابر کچھ چیزیں حرام کی ہیں اور تم اسی میں جاپڑے ہو۔
رواہ ابن جریر والطبرانی فی الکبیر وابن مردویہ عن ابی امامۃ۔

11872

11872- أيها الناس إن الله قد افترض عليكم الحج فقال رجل: كل عام، قال: لو قلت: نعم، لوجبت لما قمتم، ذروني ما تركتكم، فإنما هلك الذين من قبلكم بكثرة سؤالهم، واختلافهم على أنبيائهم، فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، وإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم. "حب عن أبي هريرة".
11872 اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، تو ایک صحابی نے عرض کیا : کیا ہر سال فرض ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں ” ہاں “ کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا پھر تم اس کا اہتمام نہ کرپاتے، جس چیز کے بارے میں میں نے تمہیں چھوڑ دیا تو تم بھی اس سے متعلق مجھے چھوڑ دو (یعنی اس کے متعلق مجھ سے سوالات مت کرو) تم سے پہلے جو ہلاک ہوئے وہ کثرت سے سوالات اور اپنے انبیاء پر اختلاف ہی کی بنا پر ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کردوں تو تم اس کے کرنے سے رک جاؤ، اور جب کسی چیز کے کرنے کا حکم دوں تو حسب استطاعت بجا آوری کرو۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابوہریرہ (رض) ۔

11873

11873- يا أيها الناس؛ كتب عليكم الحج فقيل: أفي كل عام يا رسول الله؟ قال: لو قلتها لوجبت، ولو وجبت، لم تعملوها، ولم تستطيعوا أن تعملوا بها الحج مرة، فمن زاد فهو تطوع. "حم ك ق عن ابن عباس".
11873 اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، تو پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہر سال فرض ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہوجاتا اور اگر واجب ہوجاتا تو تم اس پر عمل پیرانہ ہوتے ، بلکہ اس پر عمل کرنے کی قدرت واستطاعت ہی نہ رکھتے ، حج ایک مرتبہ فرض ہے ، اور اگر کوئی زیادہ کرے تو وہ نفل ہوگا۔
رواہ احمد فی مسندہ والحاکم فی المستدرک والسنن للبیہقی عن ابن عباس (رض) ۔

11874

11874- يا أيها الناس؛ قد فرض عليكم الحج فحجوا، قيل: كل عام؟ قال: لو قلت نعم لوجبت ولما استطعتم. "حم عن أبي هريرة".
11874 اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج ادا کرو، پوچھا گیا کہ : ہر سال فرض ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں ” ہاں “ کہہ دیتا تو واجب ہوجاتا اور پھر تم اس کے کرنے پر قدرت ہی نہ رکھتے۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ابوہریرہ (رض) ۔

11875

11875- بل مرة واحدة، فمن زاد فهو تطوع. "د هـ ك عن ابن عباس" أن الأقرع بن حابس سأل النبي صلى الله عليه وسلم الحج في كل سنة، أو مرة واحدة قال فذكره.
11875 بلکہ (حج) ایک مرتبہ فرض ہے، اگر کوئی اس سے زیادہ کرے تو وہ نفل ہوگا (رواہ ابوداؤ وابن ماجہ والحاکم فی مستدر کہ عن ابن عباس (رض)) کہ حضرت اقرع بن حابس (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ حج ہر سال فرض ہے یا ایک مرتبہ ؟ فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11876

11876- الحج والعمرة فريضتان واجبتان. "ق عن جابر".
11876 حج اور عمرہ دونوں واجب فریضے ہیں۔ رواہ البیہقی عن جابر (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 2696 ۔

11877

11877- من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله ولم يحج، فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا، وذلك أن الله تعالى يقول في كتابه: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ} . "ت وضعفه ابن جرير هب عن علي". مر برقم [11869] وعزوه.
11877 جو شخص ایسے توشہ و سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے ، اس کے باوجود وہ شخص حج نہ کرے، تو اب کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : ان لوگوں پر جنہیں استطاعت ہو اللہ کے لیے بیت اللہ کا قصد کرنا ضروری ہے اور جس نے (حج) کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ تمام کائنات سے بےنیاز ہے۔ رواہ الترمذی رضعفہ ابن جریر والبیہقی فی شعب الایمان عن علی (رض) ۔
یہ حدیث 11869 پر گزر چکی ہے۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الترمذی 132، الوضع فی الحدیث 228/2 ۔

11878

11878- إن الحج والعمرة فريضتان لا يضرك بأيهما بدأت. "ك عن زيد بن ثابت" وصحح وقفه.
11878 حج اور عمرہ دونوں فریضے ہیں، لہٰذا تمہیں کوئی نقصان نہیں کہ جس سے بھی شروع کرو۔ رواہ الحاکم عن زید بن ثابت (رض) ۔ اس حدیث کا موقوف ہونا صحیح ہے۔

11879

11879- الحج مكتوب والعمرة تطوع. "ابن أبي داود عن أبي صالح ماهان مرسلا".
11879 حج فرض ہے اور عمرہ نفل ہے۔ رواہ ابن ابی داؤد عن ابی صالح ماھان مرسلا۔

11880

11880- الحج قبل التزويج. "فر عن أبي هريرة".
11880 حج شادی سے پہلے ہے۔ رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 2763، الضعیفۃ 221 ۔

11881

11881- بر الحج إطعام الطعام، وطيب الكلام. "ك عن جابر".
11881 حج کی عمدگی ، کھانا کھلانا، اور اچھی بات کرنا ہے۔ راوہ الحاکم فی مستدر کہ عن جابر (رض) ۔

11882

11882- تعلموا مناسككم فإنها من دينكم. "ابن عساكر عن أبي سعيد".
11882 تم مناسک حج سیکھو، کیونکہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔ رواہ ابن عساکر عن ابی سعید (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 2454 ۔

11883

11883- أفضل الحج العج والثج "ن عن أبي عمر" "هـ ك هق عن أبي بكر" "ع عن ابن مسعود".
11883 افضل حج بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا اور ھدی (قربانی) کا خون بہانا ہے (یعنی جس حج میں یہ چیزیں ہوں وہ افضل حج ہے) ۔
رواہ النسائی عن ابی عمر (رض) ، رواہ ابن ماجہ والحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن ابی بکر (رض) رواہ عبدالرزاق فی الجامع عن ابن مسعود (رض) ۔

11884

11884- أتاني جبريل فقال: يا محمد؛ كن عجاجا ثجاجا. "حم والضياء عن السائب بن خلاد".
11884 میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور فرمایا : اے محمد ! آواز بلند تلبیہ پڑھنے اور ھدی و قربانی کا خون بہانے والے بن جاؤ (یعنی حج میں یہ افعال انجام دو ) ۔
رواہ احمد فی مسندہ والضیاء عن السائب بن خلاد (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 77، الضعیفۃ 1777 ۔

11885

11885- أتاني جبريل فقال: يا محمد كن عجاجا بالتلبية ثجاجا بنحر البدن. "القاضي عبد الجبار في أماليه عن ابن عمر".
11885 میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا : اے محمد ! (حج میں) بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے والے اور اونٹوں کا خون بہانے والے بن جاؤ۔
رواہ القاضی عبدالجبار فی امالیہ عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 76 ۔

11886

11886- من أراد الحج فليتعجل. "حم د
11886 جس شخص نے حج کا ارادہ کرلیا تو وہ حج کرنے میں جلدی کرے۔
رواہ احمد فی مسندہ والحاکم فی المستدرک والبیہقی فی شعب الایمان عن ابن عباس (رض) ۔

11887

11887- من أراد الحج فليتعجل، فإنه قد يمرض المريض، وتضل الضالة وتعرض الحاجة. "حم هـ عن الفضل"
11887 جو حج کا ارادہ کرلے تو اسے چاہیے کہ جلد ازجلد حج کرلے، کیونکہ بسا اوقات انسان بیمار وغیرہ ہوجاتا ہے اونٹ یا سواری وغیرہ گم ہوجاتی ہے اور کوئی حاجت (ماتعۃ) پیش آجاتی ہے (اور پھر حج نہ کرسکے) ۔ مسند احمد، ابن ماجہ عن الفضل۔
کلام : زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند میں اسماعیل ابوخلیفہ ہے جس کو نسائی نے ضعیف کہا ہے۔

11888

11888- تعجلوا إلى الحج، فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له. "حم عن ابن عباس".
11888 حج کو جلدی ادا کرو، کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا رکاوٹ پیش آجائے۔
رواہ احمد عن ابن عباس (رض)۔

11889

11889- تعجلوا الخروج إلى مكة، فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. "حل هق عن ابن عباس".
11889 مکہ کی طرف (حج کے لئے) جلدی نکلو، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ بیماری یا حاجت میں سے کیا رکاوٹ پیش آجائے (اور پھر حج کو نہ جاسکے) ۔
رواہ ابونعیم فی الحلیہ والبیہقی فی السنن عن ابن عباس (رض) ۔

11890

11890- إذا قضى أحدكم حجه فليعجل الرجوع إلى أهله فإنه أعظم لأجره. " ك هق عن عائشة".
11890 جب تم میں سے کوئی اپنا حج ادا کرلے تو اسے چاہیے کہ اپنے گھر کو جلد از جلد لوٹ آئے، کیونکہ اس کا بڑا اجر وثواب ہے۔ رواہ الحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن عائشہ (رض) ۔

11891

11891- إذا حج رجل بمال من غير حله فقال: لبيك اللهم لبيك، قال الله: لا لبيك ولا سعديك هذا مردود عليك. "عد فر عن ابن عمر".
11891 جو شخص مال حرام سے حج کرے اور یوں کہے : اے اللہ میں حاضر ہوں ، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : تو حاضر نہیں اور نہ ہی نیک بخت ، یہ تیرا حج تجھ پر رد ہے۔
رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس وابن عدی فی الکامل عن ابن عمرو (رض) ۔
کلام : اسنی المطالب 112، التمییز 15 ۔

11892

11892- الحاج الشعث التفل "ت عن ابن عمر"
11892 حاجی پراگندہ بال اور کریہہ بو والا ہوتا ہے۔ رواہ الترمذی عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : امام ترمذی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ یہ حدیث ہمیں صرف ابراہیم بن یزید الخوزی المکی کی طریق سے معلوم ہے اور بعض اہل حدیث نے ان کے حافظہ کی نسبت کلام کیا ہے۔

11893

11893- الحاج الراكب له بكل خف يضعه بعيره حسنة، والماشي له بكل خطوة يخطوها سبعون حسنة من حسنات الحرم. "فر عن ابن عباس".
11893 سوار حاجی کو اس کی سواری کے ہر قدم پر ایک نیکی ملتی ہے ، جبکہ پیدال حاجی کو اس کے ہر قدم پر ستر نیکیاں ملتی ہیں حرم کی نیکیوں میں سے۔ رواہ الدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن عباس (رض) ۔

11894

11894- من حج من مكة ماشيا حتى يرجع إلى مكة كتب الله تعالى له بكل خطوة سبعمائة حسنة من حسنات الحرم قيل: وما حسنات الحرم قال: كل حسنة مائة ألف حسنة. "قط في الأفراد طب ك وتعقب هب ق وضعفه عن ابن عباس".
11894 جو شخص مکہ سے پیدل حج کو جائے یہاں تک کہ مکہ کی طرف لوٹ آئے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اس کے لیے سات (700) سو نیکیاں لکھتا ہے حرم کی نیکیوں میں سے۔ پوچھا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ ارشاد فرمایا : ہر نیکی کے بدلہ ایک لاکھ نیکیاں۔
رواہ الدار قطنی فی الافراد، الحاکم فی المستدرک وتعقب، السنن للبیہقی وضعفہ عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے امام ذھبی نے بھی حاکم پر تنقید فرمائی ہے نیز بیہقی (رح) نے بھی اس کو ضعیف کہ اے، نیز دیکھئے الضعیفۃ 495 ۔

11895

11895- للماشي أجر سبعين حجة ولمن يركب أجر حجة. "الديلمي عن أبي هريرة".
11895 پیدل (حج کو جانے والے کو) ستر حج کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص سوار (ہوکر حج کو جائے) تو اسے ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ رواہ ابوالدیلمی فی مسند الفردوس عن ابوہریرہ (رض) ۔

11896

11896- الشعث التفل. "الشافعي ت ق عن ابن عمر" أن رجلا قال: يا رسول الله من الحاج؟ قال: فذكره.
11896 پراگندہ بال ہوتا ہے اور کریہہ بو والا ہوتا ہے۔ رواہ الشافعی والترمذی، البیہقی فی السنن عن ابن عمر (رض) ایک شخص نے کہا : کہ اے اللہ کے رسول ! حاجی کون ہوتا ہے ؟ فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11897

11897- تعلموا مناسككم فإنها من دينكم. " طس والديلمي وابن عساكر عن أبي سعيد".
11897 مناسک حج سیکھو، کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط والدیلمی فی مسند الفردوس وابن عساکر عن ابی سعید (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : 2454 ۔

11898

11898- إن الله تعالى جعل هذا السفر نسكا، وسيجعله الظالمون نكالا. "ابن عساكر عن عمر بن عبد العزيز" بلاغا.
11898 اللہ جل جلالہ نے اس سفر (حج) کو مناسک وارکان (حج ) بنایا ہے اور عنقریب ظالم لوگ اس کو عذاب بنادیں گے۔ رواہ ابن عساکر عن عمر بن عبدالعزیز۔
یہ حدیث بلاغیات میں سے ہے۔
کلام : ضعیف الجامع 1594 ۔

11899

11899- الرفث: الإعرابة والتعرض للنساء بالجماع، والفسوق: المعاصي كلها، والجدال: جدال الرجل صاحبه. "طب عن ابن عباس".
11899 الرفث : رفث کہتے ہیں یحش بات چیت کو اور عورتوں سے جماع کرنے کو، اور فسوق کہتے ہیں تمام گناہوں کو اور جدال کہتے ہیں کسی شخص کا اپنے ساتھی سے جھگڑنا ۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3157 ۔

11900

11900- من حج بمال حرام فقال: لبيك اللهم لبيك؛ قال الله عز وجل: لا لبيك ولا سعديك وحجك مردود عليك. "الشيرازي في الألقاب وأبو مطيع في أماليه عن عمر".
11900 جس شخص نے حرام مال سے حج کیا، اور (حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے یوں کہا)” لبیک اللھم لبیک “ یعنی : اے اللہ میں حاضر ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : نہ تم حاضر ہو، اور نہ ہی نیک بخت ، یہ تمہارا حج مردود ہے۔ رواہ الشیرازی فی الالقاب وابومطیع فی امالیہ عن عمر (رض) ۔
کلام : الضعیفۃ 1091، القرسیۃ الضعیفۃ 93 ۔

11901

11901- من حج من مال حلال، أو من تجارة، أو من ميراث لم يخرج عن عرفة حتى تغفر ذنوبه، وإذا حج من مال حرام فلبى، قال الرب: لا لبيك ولا سعديك ثم يلف ويضرب بها وجهه. "الديلمي عن أنس".
11901 جو شخص حلال مال سے یا تجارت کے مال سے یا میراث کے مال سے حج کرتا ہے تو عرفہ سے نکلنے سے قبل ہی اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور جب کوئی مال حرام سے حج کرتا ہے اور تلبیہ پڑھتا ہے تو پروردگار فرماتا ہے : نہ تمہارا لبیک اور نہ تمہارا سعد یک (یعنی نہ تم حاضر ہو اور نہ ہی نیک بخت) پھر اس کا حج لپیٹ کر اس کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔

11902

11902- مهل أهل المدينة من ذي الحليفة والطريق الآخر من جحفة ومهل أهل العراق من ذات عرق، ومهل أهل نجد من قرن ومهل أهل اليمن من يلملم. "م هـ عن جابر"
11902 اہل مدینہ کے احرام باندھنے کی جگہ ” ذوالحلیفہ “ ہے ، اور دوسرا راستہ ” جحفہ “ ہے، اور اہل عراق ” ذات عرق “ سے احرام باندھیں گے، اور اہل نجد کا مقام احرام باندھنے کا مقام ” قرن “ ہے اور اہل یمن کے احرام باندھنے کا مقام یلملم ہے۔ رواہ مسلم ابن ماجہ عن ابن عمر (رض) ۔

11903

11903- يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، ويهل أهل الشام من الجحفة، ويهل أهل نجد من قرن، ويها أهل اليمن من يلملم. "حم ق ت ن هـ عن ابن عمر".
11903 اہل مدینہ ذی الحلیفہ سے ، اہل شام جحفہ سے، اہل نجد قرن سے اور اہل یمن یلملم سے حرام باندھیں گے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی ابن ماجہ عن ابن عمرو۔

11904

11904- يا عبد الرحمن اذهب بأختك فاعمرها من التنعيم. "ق عن عائشة".
11904 اے عبدالرحمن ! اپنی بہن کو لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔ رواہ مسلم عن عائشہ (رض) ۔

11905

11905- يا عبد الرحمن اردف أختك عائشة فاعمرها من التنعيم، فإذا هبطت بها من الأكمة فمرها فلتحرم فإنها عمرة متقبلة. "حم د ك عن عبد الرحمن بن أبي بكر"1
11905 اے عبدالرحمن ! اپنی بہن عائشہ کر ردیف سفر بناؤ اور ساے ” تنعیم “ سے عمرہ کراؤ۔ اور جب تم ” اکمہ “ سے نیچے اترنے لگو تو عائشہ سے کہنا کہ وہ احرام باندھ لیں کیونکہ یہ ایک مقبول عمرہ ہے۔ رواہ احمد وابوداؤد والحاکم فی المستدرک عن عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) ۔
کلام : اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی (رح) نے ” حدیث حسن صحیح “ کہا ہے، جبکہ امام حاکم نے مستدرک میں اس کو شیخین کی شرط پر حدیث صحیح کہا ہے۔

11906

11906- لا تجاوزوا الميقات إلا بإحرام. "طب عن ابن عباس".
11906 میقات بغیر احرام کے پار نہ کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 6194 ۔

11907

11907- إن من تمام الحج أن تحرم من دويرة أهلك. "عد هق عن أبي هريرة".
11907 یہ بات حج کی تکمیل کا باعث ہے کہ تو گھر سے احرام باندھے۔
رواہ ابن عدی فی الکامل والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض)
کلام : ذخیرہ الحفاظ 2032 ۔

11908

11908- لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك. "حم ن عن ابن عمر" "حم خ عن عائشة" "م د هـ عن جابر" "ن عن ابن مسعود" "حم عن ابن عباس" "ع عن أنس" "طب عن عمرو بن معد يكرب".
11908 حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، ملک تیرا ہی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں رواہ احمد والنسائی وابوداؤد الترمذی وابن ماجہ عن ابن عمر (رض) ، رواہ احمد فی مسند والبخاری عن عائشہ (رض) ، رواہ مسلم وابوداؤد ابن ماجہ عن جابر (رض) رواہ النسائی عن ابن مسعود (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عباس (رض) ، رواہ ایویعلی فی مسند عن انس (رض) ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن عمرو بن معدیکرب (رض) ۔

11909

11909- لبيك إله الخلق لبيك. "حم ن هـ ك عن أبي هريرة".
11909 حاضر ہوں، اے مخلوق کے رب ! حاضر ہوں۔
رواہ احمد فی مسند وابن ماجہ والحاکم فی المستدرک عن ابوہریرہ (رض) ۔

11910

11910- لبيك اللهم لبيك إنما الخير خير الآخرة. "ك هق عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما".
11910 حاضر ہوں، اے اللہ ! حاضر ہوں، بیشک خیر تو آخرت کی ہے۔
رواہ الحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن ابن عباس (رض) ۔

11911

11911- أتاني جبريل فقال لي: إن الله يأمرك أن تامر أصحابك أن يرفعوا أصواتهم بالتلبية فإنها من شعار الحج. "حم هـ ك حب عن زيد بن خالد".
11911 میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور مجھ سے کہا : کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ (اپنے صحابہ (رض) کو) حکم دیں کہ وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کریں، کیونکہ یہ بات حج کے شعار میں سے ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجۃ والحاکم فی المستدرک وابن حیان فی صحیحہ عن زید بن خالد (رض) ۔

11912

11912- أتاني جبريل فأمرني أن آمر أصحابي ومن معي أن يرفعوا أصواتهم بالتلبية. "حم عد حب ك عن خلاد بن السائب بن خلاد"
11912 میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور مجھے یہ حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو اور جو لوگ میرے ساتھ ہیں ان کو حکم دوں کو تلبیہ پر اپنی آوازوں کو بلند کریں۔ رواہ احمد فی مسند وابن عدی فی الکامل وابن حبان فی صحیحہ والحاکم فی المستدرک عن خلاد بن السائب بن الخلاد ۔

11913

11913- أمرني جبريل برفع الصوت في الإهلال، فإنه من شعار الحج. "حم هق عن أبي هريرة".
11913 جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے احرام میں رفع صوت کا حکم دیا، کہ یہ بات حج کے شعار میں سے ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

11914

11914- يستمع أحدكم بحله ما استطاع، فإنه لا يدري ما يعرض في إحرامه. "هق وضعفه عن أبي ايوب".
11914 تم میں سے کوئی جتنا ہوسکے اپنی حلال چیز سے فائدہ اٹھائے۔ (یعنی اپنی زوجہ سے وطی وغیرہ کرنا) کیونکہ کچھ معلوم نہیں کہ اس کو اپنے احرام میں کیا رکاوٹ پیش آجائے۔
رواہ البیہقی فی السنن وضعفہ عن ابی ایوب (رض) ۔

11915

11915 - يستمتع المرء بأهله وثيابه حتى يأتي المواقيت. "الشافعي ق عن عطاء مرسلا".
11915 آدمی اپنی اہلیہ اور اپنے کپڑوں سے فائدہ اٹھائے پھر مواقیت کو آجائے۔
رواہ الشافعی السنن للبیھقی عن عطاء مرسلا۔

11916

11916- إذا أحرم أحدكم فليؤمن على دعائه إذا قال: اللهم اغفر لي فليقل آمين، ولا يلعن بهيمة ولا إنسانا، فإن دعاءه مستجاب، ومن عم بدعائه المؤمنين والمؤمنات استجيب له. "الديلمي عن ابن عباس".
11916 تم میں سے جب کوئی احرام باندھے تو اسے چاہیے کہ اپنی دعا پر آمین کہے۔ جب وہ کہے : اے اللہ میری مغفرت فرما، تو اسے چاہیے کہ آمین کہے ، اور کسی جانور اور انسان کو لعن طعن نہ کرے، بیشک اس کی دعا قبول ہے، اور جس نے اپنی دعا میں تمام مومنین ومومنات کو شامل کرلیا تو اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ رواہ الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : تذکرۃ الموضوعات 73، التنزیہ 174/2 ۔

11917

11917- اللهم اجعلها حجة متقبلة لا رياء ولا سمعة. "عق عن ابن عباس".
11917 اے اللہ ! اس حج کو مقبول حج بنادے، ریاکاری اور دکھلاوا نہ بنانا۔
رواہ العقیلی فی الضعفاء عن ابن عباس (رض) ۔

11918

11918- أتاني جبريل فقال: ارفع صوتك بالإهلال، فإنه من شعار الحج. "ابن سعد طب خلاد بن السائب عن زيد بن خالد الجهني" أن جبريل أتاني فأمرني أن أعلن بالتلبية. "حم هـ ن عن ابن عباس".
11918 میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور کہا کہ : احرام کے ساتھ اپنی آواز بلند کرو، کہ یہ بات حج کے شعار میں سے ہے۔ (رواہ سعدوالطبرانی فی الکبیر وخلاد بن السائب عن زید بن خالد الجھنی) کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس تشریف لائے اور مجھے حکم دیا کہ میں باآواز بلند تلبیہ پڑھوں۔ رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجہ والنسائی عن ابن عباس (رض) ۔

11919

11919- لبيك إله الخلق لبيك. "حم ن هـ ك حل ق عن أبي هريرة".
11919 حاضر ہوں اے مخلوق کے پروردگار ، حاضر ہوں۔
رواہ احمد فی مسندہ والنسائی وابن ماجہ و ابونعیم فی الحلیۃ والبخاری ومسلم عن ابوہریرہ (رض) ۔

11920

11920- حجة المرء حجته وحجته عجته، ومن وحد الله في حجته وجبت له الجنة. "الديلمي عن أنس".
11920 آدمی کی دلیل اس کا حج ہے، اور اس کا حج بلند آواز (سے تلبیہ) پڑھنا ہے اور جس شخص نے اپنے حج میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی۔
رواہ الدیلمی عن انس (رض)۔

11921

11921- لبيك حقا حقا تعبدا ورقا. "الديلمي عن أنس".
11921 میں حاضر ہوں حق طور پر بندگی کرتے ہوئے۔ رواہ الدیلمی عن انس (رض) ۔

11922

11922 - من أصبح يلبي غابت الشمس بذنوبه. "ك في تاريخه عن جابر".
11922 جو تلبیہ پڑھتے ہوئے صبح کرے تو سورج اس کے گناہوں کو لے کر ہی غروب ہوگا۔
رواہ الحاکم فی تاریخۃ عن جابر (رض) ۔

11923

11923- ما أضحى مؤمن يلبي حتى تغرب الشمس إلا غابت حتى يعود كيوم ولدته أمه. "ق عن عامر بن ربيعة".
11923 مومن جو تلبیہ پڑھتے ہوئے دن گزارتا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے تو وہ سورج (اس کے گناہوں کو لے کر ہی) غائب ہوتا ہے، پھر وہ شخص اس دن کی طرح گناہوں سے پاک وصاف لوٹتا ہے کہ جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا (اس دن گناہوں سے کتنا پاک وصاف تھا) ۔ رواہ البیہقی فی السنن عن عامر بن ربیعہ (رض) ۔

11924

11924- لا تلبسوا القميص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الخفاف إلا أحد لا يجد النعلين فليلبس الخفين وليقطعهما أسفل من الكعبين ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه زعفران أو ورس ولا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازين "خ ت ن عن ابن عمر".
11924 نہ قمیص پہنو، نہ عمامے ، نہ شلواریں اور نہ ہی ٹوپیاں اور موزے پہنو جب کہ اگر کوئی جوتے نہیں پاتا پھر اسے چاہیے کہ وہ (چمڑے کے) موزے اس طرح پہنے کہ ان کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ لے، اور ایسے کپڑے بالکل نہ پہنو کہ جسے زعفران یا ورس (یہ ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس ہے) لگا ہوا ہو، اور محرم خاتون نہ ہی نقاب لگائے اور نہ ہی دستانے پہنیں۔
رواہ البخاری والترمذی والنسائی عن ابن عمر (رض) ۔

11925

11925- لا يلبس المحرم القميص ولا العمامة، ولا السروايل، ولا البرنس ولا ثوبا مسه ورس ولا زعفران ولا الخفين إلا أن لا يجد نعلين فليلبس الخفين وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين. "حم ق د ت هـ عن ابن عمر".
11925 محرم نہ قمیض پہنے، نہ عمامہ باندھے ، نہ شلوار پہنے، نہ ٹوپی پہنے اور نہ ہی ایسا کپڑا پہنے جسے ورس (یہ ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس ہے) اور زعفران لگا ہو، اور نہ موزے پہنے، البتہ اگر محرم کے پاس جوتے نہ ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ (چمڑے کے) موزے اس طرح پہن لے کہ ٹخنوں سے نیچے ان کو کاٹ لے۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم و ابوداؤد والترمذی و ابن ماجہ عن ابن عمر (رض) ۔

11926

11926- من لم يجد نعلين فليلبس خفين، ومن لم يجد إزارا فليلبس سروايل المحرم. "حم عن جابر" "حم م ق ن هـ عن ابن عباس".
11926 جو محرم جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے ، اور جو ازار نہ پائے تو وہ محرم کی شلوار پہن لے۔ رواہ احمد فی مسندہ عن جابر (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم والنسائی وابن ماجہ (رح) عن ابن عباس (رض) ۔

11927

11927- من لم يجد نعلين فليلبس خفين، وليقطعهما أسفل من الكعبين. "خ عن ابن عمر".
11927 جس محرم کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ (چمڑے کے) موزے پہن لے، اور ان کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ لے۔ رواہ البخاری عن ابن عمر (رض) ۔

11928

11928- السراويل لمن لا يجد الإزار، والخف لمن لا يجد النعلين. "د عن ابن عباس"1
11928 شلوار اس شخص (محرم) کے لیے ہے جس ازارنہ ملے، اور (چمڑے کے) موزے اس شخص (محرم) کے لیے ہے جسے جوتے نہ ملے۔ رواہ ابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔

11929

11929- المحرم إذا لم يجد الإزار فليلبس السراويل، وإذا لم يجد نعلين فليلبس الخفين. "د عن ابن عباس"2
11929 محرم جب ازار نہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ شلوار پہن لے، اور جب جوتے نہ پائے تو (چمڑے کے) موزے پہنے۔ رواہ ابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔

11930

11930- المحرم إذا لم يجد النعلين لبس الخفين، وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين. "ق عن ابن عمر".
11930 محرم جب جوتے نہ پائے تو (چمڑے کے) موزے پہنے، اور ان کو ٹخنوں سے نیچے کاٹ لے۔ رواہ احمد فی مسندہ وابن شیبہ عن ابن عباس (رض) ۔

11931

11931- إذا لم يجد المحرم إزارا فليلبس السراويل، وإذا لم يجد النعلين فليلبس الخفين. "حم ش عن ابن عباس".
11931 ازار، چادر اور جوتے پہنو، اگر ازار میسر نہ ہو تو پھر شلوار پہن لو، اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو پھر (چمڑے کے) موزے پہنو، اور ٹوپی اور ایسا کپڑا نہ پہنا جائے جسے ورس (یہ ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس ہے) اور زعفران لگا ہو۔ (رواہ عن ابن عمر (رض)) کہ ایک صحابی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ جب ہم احرام باندھین تو کیا پہنیں ؟ تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11932

11932- البس الإزار والرداء والنعلين، فإن لم يكن إزار فسراويل، فإن لم يكن نعلان فخفان ولا يلبس البرنس ولا ثوب مسه الورس والزعفران. "كر عن ابن عمر" أن رجلا سأل النبي عليه السلام ما نلبس إذا أحرمنا؟ قال: فذكره.
11932: ازار، چادر اور جوتے پہنو، اگر ازار میسر نہ ہو تو پھر شلوار پہن لو، اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو پھر (چمڑے کے) موزے پہنو، اور ٹوپی اور ایسا کپڑا نہ پہنا جائے جسے ورس (یہ ایک خاص قسم کی خوشبو دار گھاس ہے) اور زعفران لگا ہو۔ (رواہ عن ابن عمر (رض)) کہ ایک صحابی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ جب ہم احرام باندھیں تو کیا پہنیں ؟ تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11933

11933- حرم الرجل في وجهه ورأسه وحرم المرأة في وجهها. " ك في تاريخه عن ابن عمر".
11933 آدمی کا احرام اس کے چہرے اور سر میں ہے (یعنی حالت احرام میں چہرہ اور سر کھلا رکھے) اور عورت کا احرام اس کے چہرے میں ہے (یعنی چہرہ کھلا رکھے) ۔
رواہ الحاکم فی تاریخہ عن ابن عمر (رض) ۔

11934

11934- انزع عنك الجبة واغسل عنك الصفرة وما كنت صانعا في حجك فاصنعه في عمرتك."عن صفوان بن أمية"
11934 اپنا جبہ اتاردو، اور اپنے سے زردی کو دھو ڈالو اور تم جو امور اپنے حج میں انجام دیتے ہو (یعنی جن افعال سے بچتے ہو) اس طرح اپنے عمرہ میں بھی کرو۔ رواہ عن صفوان بن امیۃ۔
ان امور کا بیان جن کا کرنا محرم کے لیے ” مباح “ ہے ۔۔۔

11935

11935- الحية والعقرب والفويسقة، ويرمي الغراب ولا يقتله والكلب العقور والحدأة والسبع العادي."د عن أبي سعيد" أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عما يقتل المحرم قال: فذكره.
11935 سانپ ، بچھو اور چوہا یعنی محرم قتل کرسکتا ہے اور کوئے کی طرف تیر پھینکے اس کو قتل نہ کرے (یعنی اس کو بھگادے) اور باؤلا کتا اور چیل اور موذی درندہ (قتل کرسکتا ہے) ۔ (رواہ ابوداؤد عن ابی سعید (رض)) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ محرم کیا قتل کرسکتا ہے ؟ تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11936

11936- يقتل المحرم الغراب والحدأة والعقرب والكلب العقور والفأرة. "طب عن ابن عباس وابن عمر معا".
11936 محرم، کوے ، چیل، بچھو، باؤلا کتا اور چوہے کو قتل کرسکتا ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) و ابن عمر (رض) ۔

11937

11937- يقتل المحرم الحدأة والعقرب والغراب والكلب العقور والفأرة، كل هؤلاء فواسق. "الخطيب عن ابن عباس".
11937 محرم چیل، بچھو، کوا، باؤلا کتا اور چوہے کو قتل کرسکتا ہے، یہ سب موذی جانور ہیں۔
رواہ الخطیب عن ابن عباس (رض)۔

11938

11938- يقتل المحرم الأفعى والعقرب والحدأة والكلب العقور والفويسقة. "حم ق عن أبي سعيد".
11938 محرم، سانپ، بچھو، چیل ، باؤلا کتا اور چوہے کو قتل کرسکتا ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ والبیھقی فی السنن عن ابی سعید (رض) ۔

11939

11939- يقتل المحرم الحية والعقرب والفويسقة والكلب العقور والحدأة والسبع العادي، ويرمي الغراب ولا يقتله. "حم ق عن أبي سعيد".
11939 محرم، سانپ، بچھو، چوہا، باؤلا کتا، چیل ، موذی درندہ کو قتل کرسکتا ہے اور کوے کی طرف تیر پھینکے۔ اس کو بھگا دے (لیکن قتل نہ کرے) ۔ رواہ احمد فی مسندہ والبیہقی فی السنن عن ابی سعید (رض) ۔

11940

11940- يقتل المحرم الحية والعقرب والسبع العادي والكلب العقور والفأرة الفويسقة. "هـ عن أبي سعيد".
11940 محرم، سانپ، بچھو، موذی درندہ، باؤلا کتا اور چوہے کو قتل کرسکتا ہے۔
رواہ ابن ماجہ عن ابی سعید (رض) ۔

11941

11941- يقتل المحرم الحية والذئب. "ق عن سعيد بن المسيب" مرسلا.
11941 محرم ، سانپ اور بھیڑئیے کو قتل کرسکتا ہے۔ رواہ البیہقی فی السنن عن ابی سعید (رض) ۔
یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے۔

11942

11942- خمس من الدواب كلهن فواسق يقتلن في الحرم؛ الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور. "حم خ م ت ن عن عائشة".
11942 پانچ ایسے جانور ہیں جو سب موذی ہیں، ان کو حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے، وہ جانور یہ ہیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا، باؤلا کتا۔ رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی عن عائشہ (رض) ۔

11943

11943- خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح، الغراب والحدأة والفأرة والعقرب والكلب العقور. "مالك ط حم خ م ك ن هـ عن ابن عمر" "خ ن عن ابن عمر عن حفصة".
11943 پانچ جانور ایسے ہیں کہ جن کے قتل کرنے سے محرم پر کوئی گناہ نہیں (وہ یہ ہیں) کوا، چیل، چوہا، بچھو اور باؤلا کتا۔ رواہ مالک والطبرانی فی الکبیر واحمد فی مسندہ والبخاری ومسلم والحاکم فی المستدرک والنسائی وابن ماجہ (رح) عن ابن عمر (رض) ، رواہ البخاری والنسائی عن ابن عمر (رض) عن حفصۃ (رض) ۔

11944

11944- خمس فواسق يقتلن في الحل والحرم: العقرب والحدأة والغراب الأبقع والفأرة والكلب العقور. "حب عن عائشة".
11944 پانچ ایسے موذی (جانور) ہیں جنہیں حرم وغیرہ حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے۔ (وہ یہ ہیں) بچھو، چیل، کوا، چوہا، اور باؤلا کتا۔ راوہ ابن حبان عن عائشہ (رض) ۔

11945

11945- خمس قتلهن حلال في الحرم: الحية والعقرب والحدأة والفأرة والكلب العقور. "د ق عن أبي هريرة".
11945 پانچ (جانور) ایسے ہیں جن کا قتل حرم میں جائز ہے (وہ یہ ہیں) سانپ ، بچھو، چیل، چوہا اور باؤلا کتا۔ رواہ ابوداؤد و البیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

11946

11946- خمس كلهن فاسقة يقتلهن المحرم ويقتلن في الحرم: الفأرة والعقرب والحية والكلب العقور والغراب. "حم عن ابن عباس". الاصطياد
11946 پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی ہیں، محرم ان کو قتل کرسکتا ہے اور ان کو حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے (وہ یہ ہیں) چوہا، بچھو، سانپ، باؤلا کتا اور کوا۔
رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عباس (رض)

11947

11947- لحم صيد البر لكم حلال، وأنتم حرم ما لم تصيدوه أو يصاد لكم. "ك هق عن جابر".
11947 خشکی کے شکار کا گوشت تمہارے لیے حلال ہے اس حال میں کہ تم حالت احرام میں ہو وہ شکار تم نے نہ کیا ہو یا وہ تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔
رواہ الحاکم فی المستدرک والبیھقی فی السنن عن جابر (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : حسن الاثر 253، ضعیف الجامع 4627 ۔

11948

11948- صيد البر لكم حلال ما لم تصيدوه أو يصاد لكم. "حم د ت حب ك عن جابر".
11948 خشکی کے شکار کا گوشت تمہارے لیے حلال ہے اس حال میں کہ تم حالت احرام میں ہو، جبکہ وہ شکار تم نے نہ کیا ہو یا وہ تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو (ورنہ حرام ہوگا) ۔
رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد والترمذی والحاکم فی المستدرک عن جابر (رض) ۔
کلام : ضعیف النسائی 178 ۔

11949

11949- لحم الصيد حلال لكم مالم تصيدوه أو يصد لكم وأنتم حرم. "طب عن أبي موسى".
11949 شکار کا گوشت تمہارے لیے حلال ہے اس حال میں کہ تم حالت احرام میں ہو جبکہ وہ شکار تم نے نہ کیا ہو یا تمہارے لیے شکار نہ کیا گیا ہو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی موسیٰ (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 4435، ضعیف الجامع 4665 ۔

11950

11950- الضبع صيد وفيه كبش مسن. "قط هق عن ابن عباس".
11950 گوہ شکار ہے (محرم پر) اس میں (بطور جزا) ایک بکرا واجب ہے۔
رواہ الدارقطنی فی السنن والبیھقی فی السنن عن ابن عباس (رض) ۔

11951

11951- الضبع صيد فكلها، وفيها كبش مسن إذا أصابها المحرم. "هق عن جابر".
11951 گوہ شکار ہے، پس اسے کھاؤ ، اور اگر اس کا شکار محرم نے کیا (یا شکار پر دلالت کی) تو ایک بکرا دم لازم ہوجائے گا۔ رواہ البیھقی فی السنن عن جابر (رض) ۔

11952

11952- في الضبع كبش. "هـ عن جابر".
11952 گوہ کے شکار میں مینڈھا ہے (یعنی اگر محرم نے شکار کرلیا تو دم مینڈھا لازم ہوا) ۔

11953

11953- في الضبع كبش، وفي الظبي شاة، وفي الأرنب عناق وفي اليربوع جفرة "عد هق عن جابر" "عد هق عن عمر".
11953 گوہ میں ایک بکرا ہے (یعنی بطور جزا اگر محرم نے شکار کیا یا اس کے شکار پر دلالت وغیرہ کی) ۔ (اسی طرح) ہرن کا شکار میں ایک بکری، خرگوش کے شکار میں بھیڑ کا بچہ (جو ایک سال سے کم عمر کا ہو) اور جنگلی چوہے کے شکار میں چار ماہ کا بکری کا بچہ۔ رواہ ابن عدی فی الکامل والبیھقی فی السنن عن جابر (رض) ، رواہ ابن عدی فی الکامل والبیھقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 4003 ۔

11954

11954- في بيضة نعام صيام يوم، أو إطعام مسكين. "هق عن أبي هريرة".
11954 شتر مرغ کے انڈے میں ایک دن کا روزہ ہے یا ایک مسکین کو کھانا کھلانا ۔
رواہ البیھقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

11955

11955- في بيض النعام يصيبه المحرم ثمنه. "هـ عن أبي هريرة".
11955 شتر مرغ کے انڈے میں کہ جب محرم اس میں ملوث ہو تو اس انڈے کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ رواہ ماجۃ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5009 ۔

11956

11956- يقتل المحرم السبع العادي والكلب العقور والفأرة والعقرب والحدأة والغراب. "ت هـ عن أبي سعيد".
11956 محرم، سرکش درندے، پاگل کتے، چوہے، بچھو، چیل اور کوئے کو قتل کرسکتا ہے۔
رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن ابی سعید (رض) ۔
کلام : ضعیف الترمذی 142، ضعیف الجامع 6433 ۔

11957

11957- خمس من الدواب ليس على المحرم في قتلهن جناح؛ الغراب والحدأة والفأرة والعقرب والكلب العقور.ى "مالك حم ق د ن هـ عن ابن عمر".
11957 پانچ جانور ایسے ہیں کہ جن کے قتل کرنے سے محرم پر کوئی گناہ حرج نہیں۔
1 ۔ کوا 2 ۔ چیل 3 ۔ چوہا 4 ۔ بچھو 5 ۔ پاگل کتا۔
رواہ مالک واحمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابوداود والنسائی وابن ماجہ (رح) عن ابن عمر (رض) ۔

11958

11958- خمس كلهن فاسقة يقتلهن المحرم ويقتلن في الحل والحرم؛ الفأرة والعقرب والحية والكلب العقور والغراب. "حم عن ابن عباس".
11958 پانچ ایسے جانور ہیں جو سب کے سب موذی ہیں، ان کو محرم قتل کرسکتا ہے اور ان جانوروں کو حرم وغیرہ حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے۔
1 ۔ چوہا 2 ۔ بچھو 3 ۔ سانپ 4 ۔ پاگل کتا 5 ۔ کوا۔
رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عباس (رض) ۔

11959

11959- خمس من الدواب كلهن فاسق يقتلن في الحرم: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور. "ت ق عن عائشة".
11959 پانچ ایسے جانور جو سب کے سب موذی ہیں، ان کو حرم میں قتل کیا جاسکتا ہے۔
1 ۔ کوا 2 ۔ چیل 3 ۔ بچھو 4 ۔ چوہا 5 ۔ پاگل کتا۔
رواہ الترمذی والبخاری ومسلم عن عائشہ (رض) ۔

11960

11960- خمس فواسق في الحل والحرم: الحية والغراب الأبقع والفأرة والكلب العقور والحرباء. "م ن هـ عن عائشة"
11960 پانچ موذوی جانور ہیں حرم وغیرہ حرم میں۔
1 ۔ سانپ 2 ۔ سیاہ کوا 3 ۔ چوہا 4 ۔ پاگل کتا 5 ۔ گرگٹ۔
رواہ مسلم والنسائی والبخاری ومسلم عن عائشہ (رض) ۔

11961

11961- خمس قتلهن حلال في الحرم؛ الحية والعقرب والحدأة والفأرة والكلب العقور. "د عن أبي هريرة".
11961 پانچ (جانور) ایسے ہیں کہ جن کا حرم میں قتل جائز ہے۔
1 ۔ سانپ 2 ۔ بچھو 3 ۔ چیل 4 ۔ چوہا 5 ۔ پاگل کتا۔
رواہ ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض) ۔

11962

11962- لعلك آذاك هوام رأسك، احلق رأسك، وصم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين، أو انسك شاة. "ق د عن كعب بن عجرة".
11962 شاید تم اپنے سر کی جو ؤں سے تکلیف محسوس کررہے ہو، اپنا سر منڈواؤ، اور تین دن کے روزے رکھو، اور چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کرو۔
رواہ البخاری ومسلم وابوداود عن کعب بن عجرۃ۔

11963

11963- إذا اشتكى أحدكم عينيه وهو محرم ضمدها بالصبر. "م عن عثمان".
11963 تم میں سے اگر کسی کو حالت احرام میں آنکھوں کی تکلیف ہو تو وہ ایلو ا کا لیپ کرے۔
رواہ مسلم عن عثمان (رض) ۔

11964

11964- لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب. "م د ت هـ عن عثمان".
11964 محرم نہ نکاح کرے، نہ کرائے اور نہ ہی منگنی کرے۔
رواہ مسلم وابوداؤد والترمذی و ابن ماجۃ عن عثمان (رض) ۔

11965

11965- اغسلوا المحرم في ثوبيه الذي أحرم فيهما، واغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبيه ولا تمسوه بطيب، ولا تخمروا رأسه فإنه يبعث يوم القيامة محرما. "ن عن ابن عباس".
11965 محرم (کا جب انتقال ہو تو) تو اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور جن دو کپڑوں میں اس نے احرام باندھا انھیں میں اس کو کفن دو ، لیکن اس کو خوشبو نہ لگانا، نہ اس کا سر ڈھانپنا کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت میں حالت احرام میں اٹھائے گا۔ النسائی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 985 ۔

11966

11966- اغسلوه بماء وسدر وكفنوه في ثوبين ولا تمسوه طيبا ولا تخمروا رأسه ولا تحنطوه فإن الله تعالى يبعثه يوم القيامة ملبيا. "حم ق عن ابن عباس".
11966 محرم (کا جب انتقال ہو تو) تو اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو ، اور دو کپڑوں کا کفن دو ، لیکن اسے خوشبو نہ لگانا، نہ ہی اس کا سر ڈھانپنا ، نہ خوشبو لگانا، کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے تلبیہ کہتے ہوئے اٹھائے گا۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم عن ابن عباس (رض) ۔

11967

11967- احلق وأطعم فرقا بين ستة مساكين، أو صم ثلاثة، أو انسك نسيكة. "ت حسن صحيح عن كعب بن عجرة".
11967 حلق کرو اور چھو مساکین کو تین صاع کھانا کھلاؤ، یا تین دن کے روزے رکھو یا ایک قربانی کرو۔ رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح عن کعب بن عجرۃ (رض) ۔

11968

11968- قد آذاك هوام رأسك، احلق ثم اذبح شاة نسكا، أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ثلاثة آصع2 من تمر على ستة مساكين. "حب عن كعب بن عجرة".
11968 تم اپنے سر کی جو ؤں سے تکلیف میں ہو ، حلق کرالو پھر ایک بکری قربانی کرو یا تین دن روزہ رکھو یا چھ مساکین کو تین صاع کھجوریں کھلاؤ۔ رواہ ابن حسان فی صحرحہ عن کعب بن عجرۃ (رض) ۔

11969

11969- لعلك آذاك هوام رأسك، احلق رأسك واهد بقرة أشعرها أو قلدها. "طب عن ابن عمر".
11969 شاید تم اپنے سر کی جو ؤں سے تکلیف محسوس کررہے ہو، اپنا سر حلق کرالو اور ایک گائے اشعار کرکے یا اس کے قلادہ پہنا کر سوق ہدی کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

11970

11970- الضبع صيد فإذا أصابه المحرم ففيه جزاء كبش مسن وتوكل. "ابن خزيمة والطحاوي قط ك وابن مردويه ق عن جابر".
11970 گوہ شکار ہے، اگر اس میں محرم ملوث ہوا تو اس کی جزا ایک بکرا ہے۔ اور بھروسہ رکھو۔
رواہ ابن خزیمہ والطحاوی والحاکم فی المستدرک وابن مردویہ والبیھقی فی السنن عن جابر (رض) ۔

11971

11971- في الضبع كبش وفي الظبي شاة وفي اليربوع جفرة. "ق عن جابر" "عد ق عن عمر" "ق عن عمر" موقوفا وقال: هو الصحيح.
11971 گوہ (شکار میں محرم پر) ایک بکرا، ہرن میں ایک بکری اور جنگلی چوے میں چار ماہ کا بکری کا بچہ بطور جزا کے واجب ہے۔ رواہ البیہقی فی السنن عن جابر (رض) رواہ ابن عدی فی الکامل والبخاری ومسلم عن عمر (رض) ، رواہ البخاری ومسلم عن عمر (رض) ۔
یہ روایت موقوف ہے اور فرمایا : یہ صحیح ہے۔

11972

11972- قد قال علي: ما سمعت ولكن هلم إلى الرخصة، عليك بكل بيضة، صوم يوم أو إطعام مسكين. "حم ق عن رجل من الأنصار" أن رجلا أوطى بعيره أدحى نعام فكسر بيضها فقال علي: عليك بكل بيضة جنين ناقة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: فذكره.
11972 حضرت علی (رض) نے کہا ہے : تم نے نہیں سنا، لیکن رخصت کی طرف آؤ، ایک انڈے کی جنایت پر تم پر ایک دن کا روزہ یا ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے (رواہ احمد فی مسندہ البیھقی فی السنن عن رجل من الانصار) کہ ایک شخص نے اپنے اونٹ سے شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ کو رونڈڈالا جس سے اس کا انڈا ٹوٹ گیا، تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ایک انڈے کی جنایت پر تم پر ایک اونٹنی کا جنین واجب ہے ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11973

11973- أتاني الليل آت من ربي، فقال: صل في هذا الوادي المبارك يعني العقيق وقل عمرة في حجة. "حم خ د هـ عن عمر".
11973 رات میرے پاس رب کا ایک فرستادہ آیا اور کہا کہ ” اس مبارک وادی “ میں نماز پڑھو اور اعلان کردو کہ حج کے ساتھ میں نے عمرہ کا احرام بھی باندھ لیا ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابوداؤد ابن ماجہ عن عمر (رض) ۔

11974

11974- أتاني جبريل في ثلاث بقين من ذي القعدة، فقال: دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة. "طب عن ابن عباس".
11974 میرے پاس تین ذیقعدہ کو جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا : قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہوگیا (یعنی حج وعمرہ کا معا احرام باندھنا وہ ہے حج قران) ۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

11975

11975- دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة. "د عن جابر" "د ت عن ابن عباس".
11975 تا قیامت عمرہ ، حج میں داخل ہوگیا۔
رواہ ابوداؤد عن جابر (رض) رواہ ابوداؤد والترمذی عن ابن عباس (رض) ۔

11976

11976 - يا آل محمد؛ من حج منكم فليهل بعمرة في حجة. "حب عن أم سلمة".
11976 اے آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے جو حج کرے تو اسے چاہیے کہ حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھے یعنی حج قران کرے۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ام سلمۃ (رض) ۔

11977

11977- من أحرم بالحج والعمرة؛ أجزأه طواف واحد، وسعي واحد عنهما ولم يحل حتى يقضي حجه ويحل منهما جميعا. "ت هـ عن ابن عمر"1
11977 جس نے حج وعمرہ کا۔ ایک ساتھ احرام باندھا، تو ایک مرتبہ طواف اور ایک مرتبہ سعی ان دونوں کے لیے کافی ہے، اور حلال نہ ہو جب تک کہ اپنا حج پورا نہ کرلے اور پھر ان دونوں سے حلال ہوجائے۔ رواہ الترمذی وابن ماجہ عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کے بارے میں ” حسن صحیح غریب “ کہا ہے۔

11978

11978- من قرن بين حجه وعمرته، أجزأه لهما طواف واحد. "حم عن ابن عمر".
11978 جس نے اپنے حج اور عمرہ کو ملایا (حج قران کیا) تو ان دونوں کے لیے ایک مرتبہ طواف (سات چکر لگا کر) کرنا کافی ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عمر (رض) ۔

11979

11979- نهى أن يقرن بين الحج والعمرة. "د عن معاوية".
11979 حج وعمرہ کو ملانے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ رواہ ابوداؤد عن معاویہ (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام ہے ضعیف الجامع 6023 ۔

11980

11980- أهلوا يا أمة محمد بحج وعمرة. "طب عن أم سلمة".
11980 اے امت محمد ! حج وعمرہ کا (ایک ساتھ) احرام باندھو۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ام سلمۃ (رض) ۔

11981

11981- من حج منكم فليهل بهما جميعا بحجة وعمرة. "طب عن أم سلمة".
11981 تم میں سے جو حج کرے تو اسے چاہیے کہ حج وعمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ام سلمۃ (رض) ۔

11982

11982- من جمع بين الحج والعمرة طاف لهما طوافا واحدا، وسعى لهما سعيا واحدا، ولم يحل حتى يحل منهما جميعا. "ق عن ابن عمر".
11982 جو حج وعمرہ کو جمع کرے (یعنی حج قران کرے) تو ان دونوں کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کرے اور حلال نہ ہو یہاں تک کہ ان دونوں سے حلال ہوجائے۔
رواہ البیھقی فی السنن عن ابن عمر (رض) ۔

11983

11983- دخلت العمرة في الحج، والعمرة إلى يوم القيامة لا صرورة ثجوا الإبل ثجا، وعجوا التكبير عجا. "البغوي عن ابن أخ لجبير بن مطعم"1.
11983 عمرہ حج میں داخل ہوگیا اور عمرہ قیامت تک ہے (تا صرورۃ) اونٹ کا خون بہاؤ (قربانی کرو) اور بآواز بلند تلبیہ کہو۔ رواہ الغوی عنابن اخ ” الحیرین مطعمد (رض) ۔

11984

11984- يا أيها الناس أحلوا بعمرة إلا من كان معه هدي فإنه قد دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة. "عد عن ابن عمر".
11984 اے لوگو ! عمرہ کے احرام سے حلال ہو جاؤ سوائے اس شخص کے کہ جس کے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) ہو کہ تاقیامت عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے۔ رواہ ابن عدی فی الکامل عن ابن عمر (رض)

11985

11985- الزاد والراحلة. "ت حسن ق عن ابن عمر" أن رجلا قال: يا رسول الله ما يوجب الحج قال: فذكره.
11985 توشہ اور سواری (رواہ الترمذی وقال حسن و البخاری و مسلمہ عن ابن عمر (رض)) کہ ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا چیز حج کو واجب کرتی ہے ؟ تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

11986

11986- السبيل إلى الحج الزاد والراحلة. "الشافعي وابن جرير ق عن ابن عمر" "ابن جرير ق عن الحسن".
11986 حج کو جانے کا ذریعہ توشہ اور سواری ہے۔
رواہ الشافعی وابن جریم والبخاری ومسلم عن ابن عمر (رض) ، رواہ ابن جریر والبیھقی فی السنن عن الحسن۔

11987

11987- البلاغ الزاد والراحلة. "طب وابن مردويه عن ابن عباس".
11987 (حج کو) پہنچا دینے کا ذریعہ توشہ اور سواری ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر وابن مردویہ عن ابن عباس (رض) ۔

11988

11988- لو حج صغير حجة لكانت عليه حجة إذا بلغ إن استطاع إليه سبيلا، ولو حج عبد حجة لكانت عليه حجة إذا عتق إن استطاع إليه سبيلا، ولو حج أعرابي حجة لكانت عليه حجة إذا هاجر إن استطاع إليه سبيلا. "عد ق عن جابر".
11988 اگر کسی بچے نے کوئی حج کیا تو بالغ ہونے کے بعد کی استطاعت ہونے پر اس پر ایکع حج اور فرض ہوگا (اس لیے کہ پہلا حج نفلی تھا) اور اگر کسی غلام نے کوئی حج کیا تو آزاد ہونے کے بعد اگر اسے حج کی استطاعت ہوئی تو اس پر ایک حج اور فرض ہوگا، اور اگر کسی بدوی شخص نے کوئی حج کیا تو اس کے ہجرت کرنے کے بعد حج کی استطاعت ہونے پر ایک اور حج فرض ہوگا۔ (اس لیے کہ اس سے پہلا والا حج نفلی تھا) ۔ رواہ ابن عدی فی الکامل البیھقی فی السنن ومسلم عن جابر (رض) ۔

11989

11989- لو أني استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت، ولولا أن معي الهدي لأحللت. "حم ق د عن جابر".
11989 اگر میں پہلے سے ارادہ کرلیتا جو بعد میں پیش آیا تو میں ہدی نہ لاتا اور پھر اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں حلال ہوجاتا۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد عن جابر (رض) ۔

11990

11990- لو أني استقبلت من أمري ما استدبرت لم أسق الهدي وأجعلها عمرة فمن كان منكم ليس معه هدي فليحل وليجعلها عمرة. ة"م د عن جابر"
11990 اگر میں پہلے ہی اپنا ارادہ کرلیتا جو میں نے بعد میں کیا تو پھر مجھے ہدی لانے کی ضرورت نہ تھی اور میں اس کو عمرہ کرلیتا۔ پس جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے اور اس کو عمرہ بنالے۔ مسلم، ابوداؤد عن جابر (رض) ۔

11991

11991- قد بلغني الذي قلتم وإني لأبركم وأتقاكم ولولا الهدي لحللت ولو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت. "حب عن جابر".
11991 جو تم نے کہا وہ مجھ تک پہنچ گیا اور میں تم سے زیادہ نیکوکار اور متقی ہوں، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں حلال ہوجاتا، اگر یہ بعد والے کام میں پہلے ہی ارادہ کرلیتا تو ہدی نہ لاتا۔
ابن جان عن جابر (رض) اللہ عنہ۔

11992

11992- أتتهموني وأنا أمين أهل السماء وأهل الأرض أما إنيٍ لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما كان الهدى إلا من مكة. " طب عن جابر".
11992 کیا تم مجھے تہمت لگاتے ہو حالانکہ میں آسمان و زمین والوں کا امانت دار ہوں اگر میں پہلے ہی (تمتع کا) ارادہ کرلیتا جس کا میں نے بعد میں ارادہ کیا ہے تو میرے لیے مکہ سے ہی ہدی لے آنا کافی ہوجاتا۔ الکبیر للطبرانی عن جابر (رض) ۔

11993

11993- إذا خرجتم في حجة وعمرة فتمتعوا لكيلا تتكلوا، وأكرموا الخبز فإن الله تعالى سخر لكم بركات السموات والأرض. "حل عن أبي هريرة".
11993 جب تم حج اور عمرہ کے ارادہ سے نکلو تو حج تمتع کرلوتا کہ تم کو آسرانہ رہے۔ اور روٹی کا اکرام کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمین کی برکتیں کھول دی ہیں۔
حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ (رض) ۔

11994

11994- من صام الأيام في الحج ولم يجد هديا إذا استمتع فهو ما بين إحرام أحدكم إلى يوم عرفة فهو آخرهن. "طب عن ابن عمر وعائشة معا".
11994 جس نے حج میں روزے رکھے اور تمتع کی صورت میں ہدی دستیاب نہ ہوئی پس وہ تمہارے کسی ایک کے احرام سے عرفہ تک ہوگا اور وہ آخری دن ہوگا۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض) و عائشۃ (رض) ۔

11995

11995- من طاف بهذا البيت أسبوعا فأحصاه كان كعتق رقبة لا يضع قدما ويرفع أخرى إلا حط عنه بها خطيئة وكتب له بها حسنة. "ت ك ن عن ابن عمر".
11995 جس نے اس گھر (بیت اللہ) کے ساتھ چکر لگائے اور ان کو شمار کیا تو یہ ایسا ہے جیسے ایک غلام کا آزاد کرنا، وہ جو بھی قدم رکھتا ہے اور جو بھی اٹھاتا ہے اس کے بدلہ اس کا ایک گناہ (صغیرہ) معاف ہوجاتا ہے، اور اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
رواہ الترمذی ، والحاکم فی المستدرک، والنسائی عن ابن عمر (رض) ۔

11996

11996- من طاف بالبيت سبعا وهو لا يتكلم إلا سبحلن الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله محيت عنه عشر سيئات وكتبت له عشر حسنات ورفع له بها عشرة درجات ومن طاف بالبيت فتكلم وهو في تلك الحال خاض في الرحمة برجليه كخائض الماء برجليه. "هـ عن أبي هريرة"
11996 جس نے بیت اللہ کے ساتھ چکر لگائے اور اس دوران سوائے ان کلمات کے کوئی بات نہ کی (کلمات یہ ہیں): سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
” پاک ہے اللہ کی ذات ، اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور نہیں معبود کوئی سوائے اللہ کے، اور اللہ سب سے بڑا ہے ، نہیں ہے گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کے کرنے کی قدرت مگر اللہ ہی کی طرف سے۔
تو اس شخص کے دس گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے دس درجات بلند کردیئے جاتے ہیں اور جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور اس دوران گفتگو بھی کی تو وہ دریائے رحمت میں پیروں کی طرف سے غوطہ زنی کرنے والا ہے جیسے پانی میں پیروں کی طرف سے گھسنے والا۔ رواہ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ۔

11997

11997- طواف سبع لا لغو فيه يعدل عتق رقبة. "عب عن عائشة".
11997 ایسے سات چکر (بیت اللہ کے) جن میں کوئی لغو (یعنی بےمقصد) کام نہ ہو ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع عن عائشۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3629 ۔

11998

11998- طوافك بالبيت وبين الصفا والمروة يكفيك لحجتك وعمرتك. "د عن عائشة".
11998 تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی تمہیں حج و عمرے کے لیے کافی ہوجائے گی۔ رواہ ابوداؤد عن عائشۃ (رض) ۔

11999

11999- من طاف بالبيت خمسين مرة خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه. "ت عن ابن عباس".
11999 جس نے بیت اللہ کے پچاس (50) طواف کیے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جس طرح کے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا (پیدائش کا دن) ۔ رواہ الترمذی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الترمذی 151، ضعیف الجامع 5682 ۔

12000

12000- من طاف بالبيت سبعا وصلى ركعتين كان كعتق رقبة. "د عن ابن عمر".
12000 جس نے بیت اللہ کے ساتھ چکر لگائے اور دو رکعت پڑھیں یہ ایک گردن آزاد کرنے کی طرح ہے۔ رواہ ابوداؤد عن ابن عمر (رض) ۔

12001

12001- إن الله تعالى يباهي بالطائفين. "حل هب عن عائشة".
12001 بیشک اللہ تعالیٰ طواف کرنے والوں پر فخر کرتے ہیں ۔
رواہ نعیم فی الحلیۃ، والبیھقی فی شعب الایمان عن عائشۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 1283 ۔

12002

12002- الطواف بالبيت صلاة، ولكن أحل الله فيه المنطق فمن نطق فلا ينطق إلا بخير. "طب حل هق ك عن ابن عباس".
12002 بیت اللہ کا طواف نماز ہے۔ لیکن اللہ نے اس میں بات چیت کو جائز رکھا ہے سو جو بھی بات کرے خیر ہی کی کرے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر وابو نعیم فی الحلیۃ والبیھقی فی السنن والحاکم فی المستدرک عن ابن عباس (رض) ۔

12003

12003- الطواف حول البيت مثل الصلاة إلا أنكم تتكلمون فيه فمن تكلم فيه فلا يتكلم إلا بخير. "ت ك هق عن ابن عباس".
12003 بیت اللہ کے گرد طواف نماز کی طرح ہے مگر تم اس میں گفتگو کرسکتے ہو، لہٰذا جو بھی اس میں بتا کرے بھلائی ہی کی کرے۔
رواہ الترمذی والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی السنن عن ابن عباس (رض) ۔

12004

12004- الطواف صلاة فأقلوا فيها الكلام. "طب عن ابن عباس".
12004 طواف نماز ہے لہٰذا اس میں گفتگو کم کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12005

12005- إنما جعل الطواف بالبيت وبين الصفا والمروة، ورمي الجمار لإقامة ذكر الله. "د عن عائشة".
12005 بیت اللہ کا طواف ، صفا ومروہ کے درمیان سعی اور جمرات کی رمی اللہ کے ذکر کے قائم کرنے کے لیے ہی شروع کی گئی ہے۔ رواہ ابوداؤد عن عائشہ (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 2081، ضعیف ابی داؤد 410 ۔

12006

12006- يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت وصلى أية ساعة شاء من ليل أو نهار. "حم حب ك عن جبير ابن مطعم".
12006 اے بنی عبدمناف کسی کو بیت اللہ کے طواف سے نہ روکو اور دن رات میں جس وقت چاہو نماز پڑھو۔ رواہ احمد فی مسند وابوداؤد و ترمذی و نسائی وابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ والحاکم فی المستدرک عن جبیر ابن مطعم۔

12007

12007- إذا أقيمت الصلاة فطوفي على بعيرك من وراء الناس. "ن عن أم سلمة".
12007 جب نماز کی اقامت کہی جاچکے تو تم طواف کرو (خطاب ہے ام سلمہ (رض)) کو جو ام المومنین ہیں اپنے اونٹ پر لوگوں کے پیچھے سے۔ رواہ النسائی عن ام سلمۃ (رض) ۔

12008

12008- طوفي من وراء الناس وأنت راكبة. "د ن عن أم سلمة".
12008 لوگوں کے پیچھے سے سوار ہونے کی حالت میں طواف کرو۔
رواہ ابوداؤد نسائی عن ام سلمۃ۔

12009

12009- اكشفوا عن المناكب، واسعوا في الطواف. "خ د عن ابن شهاب" مرسلا.
12009 مونڈ ہوں کو کھلا رکھو اور طواف میں سعی کرو۔ رواہ البخاری وابوداؤد عن ابن شھاب مرسلاً
کلام : ضعیف الجامع 1137 ۔

12010

12010- اربطوا أوساطكم بأرديتكم، وعليكم بالهرولة. "هـ ك عن أبي سعيد"
12010 اپنے درمیان (کمر وغیرہ) کو اپنی چادروں کے ساتھ باندھ لو اور تیز تیز (طواف میں) چلو۔ ابن ماجہ مستدرک الحاکم عن ابی سعید۔
کلام : روایت ضعیف ہے، ضعیف الجامع 746، زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے اور امام دمیری (رح) فرماتے ہیں اس سند میں مصنف منفرد ہیں اور یہ ضعیف ومنکر سند ہے جبکہ امام حاکم (رح) نے مستدرک میں 442 پر اس کو صحیح الاسناد فرمایا ہے۔

12011

12011- لما أسكن الله آدم البيت قال: إنك قد أعطيت كل عامل أجره فأعطني أجري، فأوحى الله إليه أني قد غفرت لك إذا طفت به، قال: يا رب زدني قال: قد غفرت لمن طاف به من ولدك، قال: يا رب زدني، قال: قد غفرت لمن استغفروا له، قال: فقام إبليس على المأزمين1 فقال: يا رب جعلتني في دار الفناء وجعلت مصيري إلى النار، وجعلت معي عدوي آدم وقد أعطيته فأعطني كما أعطيته؛ قال: قد جعلتك تراه ولا يراك، قال: يا رب زدني؟ قال: قد جعلت قلبه مسكنا لك، قال: يا رب زدني، قال: قد جعلتك تجري منه مجرى الدم، قال: فقام آدم فقال: يا رب، قد أعطيت إبليس فأعطني؛ قال: قد جعلتك تهم بالحسنة ولا تعملها فأكتبها لك، قال: يا رب زدني، قال: قد جعلتك تهم بالسيئة ولا تعملها فلا أكتبها عليك وأكتب لك مكانها حسنة، قال: يا رب زدني، قال: واحدة لي وواحدة بيني وبينك، وأخرى لك فضل مني عليك: فأما التي لي تعبدني ولا تشرك بي شيئا، وأما التي بيني وبينك، فمنك الدعاء ومني الإجابة، وأما التي لك فإنك تعمل الحسنة فأكتبها بعشرة أمثالها، وأما التي فضل مني عليك فتستغفرني فأغفر لك وأنا الغفور الرحيم. "الديلمي عن أبي سعيد".
12011 جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بیت اللہ میں سکونت دی تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ : بیشک آپ نے ہر مزدور کو اس کی اجرت دیدی ہے، لہٰذا مجھے بھی میری اجرت دیجئے ، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی فرمائی کہ جب تم اس (گھر کا) طواف کرو گے تو تمہاری بخشش کردوں گا، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ : اے میرے رب ! میری اجرت میں اضافہ فرما، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری اولاد میں سے جو بھی اس گھر کا طواف کرے گا میں اس کو بھی بخش دوں گا ، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ : اے میرے پروردگار ! مجھے مزید عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : وہ طواف کرنے والے جس کی مغفرت چاہیں گے اس کی بھی بخشش کردوں گا، راوی کہتے ہیں کہ : پھر ابلیس گھاٹیوں کے درمیان کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے فنا کے گھر میں ٹھہرایا اور میرا ٹھکانا جہنم بنادیا، اور میرے ساتھ میرے دشمن آدم کو کردیا، آپ نے اسے عطا فرمایا ہے، لہٰذا جیسا آدم کو عطا فرمایا ویسا مجھے بھی عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ میں نے تجھے ایسا کردیا ہے کہ تو آدم کو دیکھ سکتا ہے لیکن وہ تجھے نہیں دیکھ سکتا، تو ابلیس نے کہا کہ : اے میرے پروردگار ! مجھے مزیدعطا فرمائیں، تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ : میں نے آدم کے قلب کو تیرا ٹھکانا بنادیا ہے، تو ابلیس نے کہا کہ : اے میرے پروردگار ! مجھے مزید عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تجھے ایسا بنادیا ہے کہ تو آدم کے خون کے بہنے کی جگہوں۔ شریانوں میں دوڑ سکتا ہے ، راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ : اے میرے رب ! آپ نے ابلیس کو عطا فرمایا : لہٰذا مجھے بھی عطا فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں ایسا کردیا، کہ تم جب نیکی کا ارادہ کرو گے لیکن اسے کرو گے نہیں تو پھر بھی میں اس نیکی کو تمہارے حق میں لکھ دوں گا، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا : کہ اے میرے پروردگار ! مجھے مزید عطا فرمائیں، تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ : میں نے تمہیں یہ خصوصیت عطا فرمادی ہے کہ اگر تم برائی کا ارادہ کرو گے اور اس پر عمل نہ کرو گے تو میں اس برائی کو تمہارے نامہ اعمال میں نہ لکھوں گا بلکہ اس کے بدلہ تمہارے حق میں ایک نیکی لکھ دوں گا، تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ : اے میرے پروردگار ! مزید عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ایک شے ایسی ہے جو صرف میرے لیے ہے، اور ایک شے تیرے اور میرے درمیان مشترک ہے، اور ایک شے ایسی ہے جو محض میری طرف سے تم پر افضل و احسان ہے۔
بہرحال وہ چیز جو صرف میرے لیے ہے وہ یہ ہے کہ تم صرف میری عبادت کرو گے ، اور کسی بھی شے کو میرا ساجھی نہ ٹھہراؤ گے، اور وہ چیز جو میرے اور تیرے درمیان مشترک ہے وہ یہ ہے کہ تمہاری طرف سے دعا ہوگی اور میری طرف سے قبول کرنا، اور وہ چیز جو تمہارے لیے ہے وہ یہ ہے کہ تم ایک نیکی کرو گے تو اس کے بدلہ دس نیکیوں کا ثواب لکھ دوں گا، اور وہ چیز جو تم پر میری جانب سے محض فضل و احسان ہے وہ یہ کہ مجھ سے مغفرت طلب کرو گے تو میں تمہاری مغفرت کردوں گا، اور میں بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہوں۔ رواہ الدیلمی عن ابی سعید (رض) ۔

12012

12012- ما رفع رجل قدما ولا وضعها يعني في الطواف إلا كتب له عشر حسنات وحط عنه عشر سيئات ورفع له عشر درجات. "حم عن ابن عمر".
12012 آدمی جو بھی قدم اٹھاتا ہے اور رکھتا ہے یعنی طواف میں تو اس کے بدلہ دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور دس درجات بلند ہوتے ہیں۔
رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عمر (رض) ۔

12013

12013- من طاف بالبيت سبعا وصلى خلف المقام ركعتين وشرب من ماء زمزم غفر الله له ذنوبه كلها بالغة ما بلغت. "الديلمي وابن النجار عن جابر"، ولفظ الديلمي: أخرجه الله من ذنوبه كيوم ولدته أمه.
12013 جو بیت اللہ شریف کے ساتھ چکر لگائے (یعنی طواف کرے) اور مقام ابراہیمی میں دو رکعت نماز پڑھے اور زمزم کا پانی پئے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دیں گے چاہے وہ جتنے بھی کیوں نہ ہوں۔ رواہ الدیلمی وابن النجار عن جابر (رض) ۔
اور دیلمی کے الفاظ یہ ہیں کہ : اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گناہوں سے اس دن کی طرح (پاک وصاف) نکال دیں گے جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔

12014

12014- من طاف بهذا البيت أسبوعا يحصيه كتب له بكل خطوة حسنة، وكفرت عنه سيئة ورفعت له درجة وكان له عدل عتق رقبة. "ط حم طب ق هب عن ابن عمر".
12014 جس شخص نے اس بیت اللہ شریف کا اس طرح ایک ہفتہ طواف کیا اور اس کے واجبات کی پوری رعایت کی تو ہر قدم کے بدلہ اس کے حق میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے، اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس کو ایک غلام کے آزاد کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر والبیھقی فی السنن والبیھقی فی شعب الایمان عن ابن عمر (رض) ۔

12015

12015- من طاف بهذا البيت أسبوعا وصلى خلف مقام إبراهيم ركعتين فهو عدل محمد. "طب عن ابن عمرو"
12015 جس شخص نے ایک ہفتہ اس بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیمی سے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی تو وہ محمد کے برابر ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : ملا علی قاری (رح) نے اس حدیث کو اور اس جیسی تمام احادیث کو موضوع قرار دیا ہے، لیکن علامہ عجلونی (رح) نے کشف الخفاء میں یہ الفاظ ” عدل محمد “ ذکر نہیں کیے۔

12016

12016- من طاف بالبيت سبعا وأحصاه وركع ركعتين كان له عدل رقبة نفيسة من الرقاب. "أبو الشيخ عن ابن عمر".
12016 جس نے بیت اللہ شریف کا ایک ہفتہ اس طرف طواف کیا کہ اس کی واجبات کی پوری رعایت کی اور دو رکعتیں پڑھیں تو اس کے حق میں نفیس غلاموں میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ رواہ ابوالشیخ عن ابن عمر (رض) ۔

12017

12017- من طاف بالبيت أسبوعا لا يضع قدما ولا يرفع أخرى إلا حط الله تعالى عنه بها خطيئة، وكتب له بها حسنة، ورفع بها درجة. "حب عن ابن عمر".
12017 جس نے ایک ہفتہ بیت اللہ کا طواف کیا، وہ جو بھی قدم رکھتا ہے اور جو بھی اٹھاتا ہے اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی مٹا دیتے ہیں، اور ایک نیکی دیجاتی ہے، اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن عمرو (رض) ۔

12018

12018- إن الله تعالى ينزل في كل يوم مائة رحمة ستين منها على الطائفين بالبيت، وعشرين على أهل مكة، وعشرين على سائر الناس. "خط عن ابن عباس".
12018 اللہ تعالیٰ روزانہ سو (100) رحمتیں نازل فرماتا ہے ، ان میں سے ساٹھ تو ان پر نازل فرماتا ہے جو بیت اللہ کا طواف کررہے ہوتے ہیں، اور بیس مکہ والوں پر اور باقی بیس رحمتیں تمام لوگوں پر۔ رواہ الخطیب عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : الضعیفۃ 188، المشتہر 195 ۔

12019

12019- ينزل الله تعالى في كل يوم عشرين ومائة رحمة، ستون منها على الطائفين، وأربعون للعاكفين حول البيت، وعشرون منها للناظرين إلى البيت. "طب عن ابن عباس".
12019 اللہ تعالیٰ روزانہ ایک سو بیس 120 رحمتیں نازل فرماتا ہے، ان میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، اور چالیس بیت اللہ کے ارد گرد معتکفین پر اور (ان میں سے) بیس بیت اللہ کی طرف دیکھنے والوں پر۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12020

12020- ينزل الله تعالى في كل يوم مائة رحمة، ستين منها على الطائفين بالبيت وعشرين على أهل مكة وعشرين على سائر الناس. "هب عن ابن عباس". بمثله ولكن العجلوني في كشف الخفاء عند حديث رقم "2525" لم يذكر: فهو عدل محمد. وأطال العجلوني البحث في ذلك فراجعه إن شئت. اهـ ص.
12020 اللہ تعالیٰ روزانہ سو (100) رحمتیں نازل فرماتا ہے ، ان میں سے ساٹھ رحمتیں تو بیت اللہ کا طواف کرنے والوں پر، بیس مکہ والوں پر اور بیس دوسرے تمام لوگوں پر۔
رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن ابن عباس (رض) ۔

12021

12021- ينزل الله تعالى في كل يوم مائة رحمة وعشرين رحمة، منها على الطائفين ستون، وأربعون على المصلين وعشرون على الناظرين. "هب عن ابن عباس".
12021 اللہ تعالیٰ روزانہ ایک سو بیس (120) رحمتیں نازل فرماتا ہے ، ان میں سے ساٹھ تو بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والوں پر، چالیس، نمازیوں پر اور بیس بیت اللہ کی طرف نگاہ کرنے والوں پر۔ رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن ابن عباس (رض) ۔

12022

12022- بني هذا البيت على سبع وركعتين. "الديلمي عن ابن عباس".
12022 اس بیت اللہ شریف کی بنیاد سات (چکر) اور دو رکعتوں پر ہے (یعنی مقام ابراہیم پر) ۔ رواہ الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔

12023

12023- ائتنفوا العمل فقد غفر لكم ما مضى. "الشيرازي في الألقاب وتمام وابن عساكر عن الطرماح " قال: سمعت الحسين بن علي يقول: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في الطواف فأصابتنا السماء قال: فذكره، قال ابن عساكر غريب جدا "هـ1 هب عن أنس" قال: طفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مطر، فلما فرغنا قال فذكره.
12023 ازسرنو عمل کر وپس جو گزر گیا وہ تمہارے لیے معاف کردیا گیا ہے (یعنی گناہ ) ۔
رواہ الشیرازی فی الالقاب وتمام ابن عساکر عن الطرماح۔
فرمایا : میں نے حسین بن علی (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف میں تھے کہ ہم پر آسمان برسنے لگا (یعنی بارش شروع ہوگئی) فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔ ابن عسا کرنے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ یہ ” غریب جدا “ ہے۔
رواہ ابن ماجہ والبیھقی فی شعب الایمان عن انس (رض) ۔
فرمایا : کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف کیا بارش میں، جب ہم فارغ ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔
کلام : اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے زوائد میں لکھا ہے کہ اس کی سند میں داؤد بن عجلان ضعیف راوی ہے، اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے کسی بھی صورت میں۔

12024

12024- أبلغوا أهل مكة والمجاورين أن يخلوا بين الحجاج وبين الطواف والحجر الأسود ومقام إبراهيم والصف الأول من عشرين بقين من ذي القعدة إلى يوم الصدر 2 "الديلمي عن أنس".
12024 یہ بات اہل مکہ اور مجاورین تک پہنچا دو کہ وہ بیس ذیقعدہ سے لے کر مناسک حج مکمل کرنے کے بعد لوٹنے تک حجاج کرام کے درمیان حجرا اسود، مقام ابراہیمی اور صف اول کا تخلیہ کردیں (حائل نہ ہوں) انھیں حج کرنے دیں۔ رواہ الدیلمی عن انس (رض) ۔

12025

12025- إن سفينة نوح طافت بالبيت سبعا، وصلت خلف المقام ركعتين. "الديلمي عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده".
12025 نوح (علیہ السلام) کی کشتی نے بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے اور مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی۔ رواہ الدیلمی عن عبدالرحمن بن زید اسلم عن ابیہ عن جدہ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : النتزیہ 250/1، ذیلی اللآلی 20 ۔

12026

12026- لا أعرفنكم يا بني عبد مناف؛ ما منعتم طائفا يطوف بهذا البيت ساعة ليلا أو نهارا. "قط عن جابر" "طب عن جبير بن مطعم" "طب عن ابن عمر".
12026 اے بنی عبدمناف ! میں تم کو آگاہ کروں کہ تم کسی گروہ کو اس گھر کا طواف کرنے سے ہرگز نہ روکنا دن میں اور نہ رات میں۔
الدارقطنی فی السنن عن جابر (رض) ، الکبیر للطبرانی عن جبیر بن مطعم، الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض) ۔

12027

12027- يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا يطوف بهذا البيت أي ساعة شاء من ليل أو نهار. "قط عن جابر" "طب عن جبير بن مطعم" "طب عن ابن عمر".
12027 اے بنی عبد مناف ! تم کسی کو اس گھر کا طواف کرنے سے منع نہ کرو جس گھڑی بھی وہ طواف کرے رات ہو یا دن۔
الدار قطنی فی السنن عن جابر۔ الکبیر للطبرانی عن جبیر بن مطعم۔ الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

12028

12028- يا بني عبد مناف يا بني عبد المطلب، لا أعرفن ما منعتم أحدا من الناس أن يصلي عند هذا البيت أي ساعة شاء من ليل أو نهار. "طب عنه".
12028 اے بنی عبدمناف اور اے بنی عبدالمطلب ! میں تم کو خوب بتاتا ہوں کہ تم لوگ ہرگز کسی انسان کو اس کے گھر کے پاس نماز پڑھنے سے نہ روکنا کسی بھی گھڑی میں رات ہو یا دن۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض) ۔

12029

12029- يا بني عبد المطلب ويا بني عبد مناف إن وليتم من هذا الأمر شيئا فلا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت يصلي أي ساعة شاء من ليل أو نهار. "طب عنه".
12029 اے بنی عبدالمطلب اور اے بنی عبدمناف ! اگر تمہیں بیت اللہ کے امور میں کسی چیز کا والی بنادیا جائے تو اس بیت اللہ کا طواف کرنے والے کسی بھی شخص کو مت روکو، رات دن جس گھڑی چاہے وہ نماز پڑھے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

12030

12030- يا بني عبد مناف يا بني عبد الدار لا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت وصلى أي ساعة شاء من ليل أو نهار. "طب عنه".
12030 اے بنی عبدالمطلب اور اے بنی عبدمناف ! اس بیت اللہ کا طواف کرنے والے اور رات دن جس گھڑی چاہے نماز پڑھنے والے کو مت روکو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

12031

12031- إذا قدمتم فارملوا الثلاثة الأشواط الأول، حتى يروا قوتكم. "طب عن سهل بن حنيف".
12031 جب تم طواف کو آؤ تو پہلے تین چکروں میں ” رمل “ کرو، تاکہ کفار مکہ تمہاری قوت و طاقت دیکھ لیں (رمل) کہتے ہیں، کندھے اچکا کر تیز تیز چلنے کو۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن سھل بن حنیف (رح) ۔

12032

12032- إن القوم زعموا أنكم قد هلكتم هزلا وجوعا فارملوا إذا دخلتم فاستلمتم ثلاثة أشواط. "طب عن ابن عباس".
12032 قوم (کفار مکہ) نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ قحط سالی اور بھوک نے تمہیں لاغر بنادیا ہے، تو جب تم داخل مکہ ہو اور اسلام کرلو تو پہلے تین چکروں میں ” رمل “ کرنا۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12033

12033- قولي: اللهم اغفر لي ذنوبي وخطاياي وعمدي وإسرافي في أمري إنك إن لا تغفر لي تهلكني. "هب عن عبد الأعلى التميمي" قال: قالت خديجة بنت خويلد: يا رسول الله، ما أقول وأنا أطوف بالبيت؟ قال: فذكره وقال هكذا جاء مرسلا.
12033 تو کہہ (یہ خطاب خدیجہ (رض)) کو ہے، اے اللہ میرے گناہوں کو میری خطاؤں کو، اور میرے علم میں میرے ارادے اور اسراف کو معاف فرما، بیشک اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے گا تو یہ گناہ مجھے ہلاک کر ڈالیں گے۔ رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن عبدالاعلی التیمیمی۔
فرمایا : حضرت خدیجہ بنت خویلد (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول ! جب میں بیت اللہ کا طواف کروں تو کیا کہوں ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اسی طرح مرسلاً روایت ہوئی ہے۔

12034

12034- لما أهبط الله آدم إلى الأرض طاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، ثم قال: اللهم إنك تعلم سري وعلانيتي فاقبل معذرتي، وتعلم حاجتي فأعطني سؤلي، وتعلم ما عندي فاغفر لي ذنوبي، أسألك إيمانا يباشر قلبي ويقينا صادقا حتى أعلم أنه لا يصيبني إلا ما كتب لي ورضني بقضائك فأوحى الله إليه يا آدم إنك قد دعوتني بدعاء استجيب لك فيه وغفرت ذنوبك وفرجت همومك وغمومك، ولن يدعو به أحد من ذريتك من بعدك إلا فعلت ذلك به ونزعت فقره من بين عينيه واتجرت له من وراء كل تاجر، وأتته الدنيا وهي كارهة وإن لم يردها. "الأزرقي طس ق في الدعوات وابن عساكر عن بريدة".
12034 جب اللہ تعالیٰ نیحضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو انھوں نے بیت اللہ شریف کے سات چکر لگائے اور مقام ابراہیمی پر دو رکعت پڑھیں، پھر یوں دعا کی :
اے اللہ ! تو میرے ظاہر و باطن کو جانتا ہے پس تو میری معذرت قبول کرلے، تجھے میری حاجت معلوم ہے پس میرا سوال پورا کردے، تو جانتا ہے کہ میرے پاس کیا ہے، پس میرے گناہوں کو بخش دے، میں تجھ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں جو میرے قلب میں جاں گزیں ہو، اور ایسا سچا یقین مانگتا ہوں کہ میں جان لوں کو جو کچھ بھی مجھے لاحق ہوگا وہ میرے حق میں لکھ دیا گیا ہے، اور اپنی قضا وقدر پر مجھے راضی رہنے کی توفیق عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اے آدم ! بیشک تو نے مجھے ایسی دعا کے ذریعہ پکارا ہے جو تمہارے حق میں قبول کرلی گئی ہے، اور میں نے تمہاری خطاؤں کو معاف کردیا ہے، اور تمہارے غموں کو دور کردیا ہے، اور تمہاری اولاد میں سے جو بھی ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگے گا تو میں ضرور اس کے ساتھ یہ ہی معاملہ کروں گا۔ جو تمہارے ساتھ کیا کہ دعا قبول کی، مغفرت کی، اور غموں کو دور کیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے سے اس کا فقروفاقہ کھینچ لوں گا، اور اس کے لیے ہر تاجر کے پیچھے سے تجارت کروں گا، اور دنیا اس کے پاس اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی ذلیل ہو کر آئے گی۔
رواہ الازرمی، والطبرانی فی الاوسط والبخاری ومسلم فی الدعوات وابن عساکر عن بریدۃ (رض) ۔

12035

12035- مس الحجر اليماني يحطان الخطايا. "حب عن ابن عمر".
12035 حجر یمانی کو چھونا گناہوں کو زائل کرتا ہے۔ رواہ حبان فی صحیحہ عن ابن عمر (رض) ۔

12036

12036- من طاف بالبيت فليستلم الأركان كلها. "ابن عساكر عن ابن عباس" وفيه إسحاق بن بشير أبو حذيفة كذاب.
12036 جو بیت اللہ شریف کا طواف کرے تو اسے چاہیے کہ تمام ارکان کا استلام کرے۔
رواہ ابن عساکر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : اس حدیث کی سند میں اسحاق بن بشیر ابو حذیفہ نامی شخص ” کذاب “ ہے۔

12037

12037- يا عمر إنك رجل قوي لا تزاحم على الحجر فتؤذي الضعيف، إن وجدت خلوة فاستلمه، وإلا فاستقبله وهلل وكبر. "حم والعدني ق عن عمر" "البغوي عن شيخ من خزاعة".
12037 اے عمر ! تو طاقتور آدمی ہے، حجر اسود پر (بوسہ لینے کے لئے) مزاحمت نہ کرنا کہ کمزور وناتواں کو اذیت دے، اگر تنہائی میسر ہو تو استلام ہجرا سود کرلینا (بوسہ دے دیدینا) ۔ اور اگر تنہائی میسر نہ ہو (بلکہ لوگوں کا شدید اژدھام ہو) تو پھر حجر اسود کا استقبال کرلینا (اس کی طرف منہ کرکے اشارہ سے استلام کرلینا اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر پڑھتے رہنا) ۔
رواہ البغوی عن شیخ من خزاعہ، مسند احمد، العدنی، البیھقی فی السنن عن عمر (رض) ۔

12038

12038- الطواف صلاة فإذا طفتم فأقلوا الكلام. "حم عن رجل".
12038 بیت اللہ شریف کا طواف نماز کی طرح ہے لہٰذا جب تم طواف کرو تو بات چیت کم کرو۔
رواہ احمد فی مسندہ عن رجل۔

12039

12039- إذا صلى الناس الصبح فطوفي على بعيرك من وراء الصفوف، ثم اخرجي. "طب عن أم سلمة".
12039 جب لوگ فجر کی نماز پڑھنے لگیں تو تم (یہ خطاب حضرت ام سلمہ (رض)) کو ہے صفوں کے پیچھے سے اپنے اونٹ پر طواف کرلینا، پھر جب طواف کر چکو تو نکل جانا۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ام سلمہ (رض) ۔

12040

12040- من حج هذا البيت أو اعتمر فليكن آخر عهده الطواف بالبيت. "حم هـ عن الحارث الثقفي"
12040 جس شخص نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کیا تو اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہونا چاہیے (اسے طواف وداع کہتے ہیں) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5555 ۔

12041

12041- لا ينفرن أحد حتى يكون آخر عهده الطواف بالبيت. "حم د هـ عن ابن عباس" "هـ عن ابن عمر".
12041 کوئی بھی حاجی ہرگز منیٰ سے روانہ نہ ہو ، یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو (یہی طواف وداع ہے) اور یہ آفاقی پر واجب ہے اور مکہ والوں پر واجب نہیں ہے۔

12042

12042- إن الله كتب عليكم السعي فاسعوا. "طب عن ابن عباس".
12042 بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے لہٰذا سعی کرو (صفاومروہ کے درمیان) ۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12043

12043- اسعوا فإن الله قد كتب عليكم السعي. "حم طب عن حبيبة بنت أبي تجزئة".
12043 سعی کرو ((صفا ومرہ کے مابین) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر عن حبیبہ منت ابی نحزیہ

12044

12044- لا يقطع الأبطح إلا شدا. "حم هـ عن أم ولد شيبة"
12044 بین الصفاء والمروہ (وادی ابطح) کو طے نہیں کرنا مگر دوڑتے ہوئے۔
رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجہ عن ام ولد شید (رض) ۔

12045

12045- لا يقطع الوادي إلا شدا. "ن عن امرأة صحابية". "حم".
12045 (صفا مروہ کے درمیان) وادی کو دوڑتے ہوئے طے کرنا۔
مسند احمد، رواہ النسائی عن امراۃ صحابیۃ۔

12046

12046- اسعوا فإن الله تعالى قد كتب عليكم السعي. "حم طب عن حبيبة بنت أبي تجزئة"
12046 (صفاومروہ کے درمیان) سعی کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر عن حبیبہ بنت ابی تجزیۃ ۔

12047

12047- اسعوا فإن السعي كتب عليكم. "طب عن صفية بنت شيبة".
12047 (صفاومروہ کے درمیان) سعی کرو، کیونکہ یہ تم پر فرض کی گئی ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن صفیۃ بنت شیۃ (رض) ۔

12048

12048- لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده. "م د هـ عن جابر" أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ذلك على الصفا والمروة.
12048 لا الہ الا اللہ، وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، لا الہ الا اللہ وحدہ انحر وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔
نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، جو اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، ملک اسی کا ہے ، اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو اکیلا ہے جس نے اپنے وعدہ کو پورا کر دکھایا اور اپنے بندے (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی مدد ونصرت فرمائی اور اس اکیلی ذات نے کفار کے لشکر کو شکست فاش دی۔ (رواہ ابوداؤد مسلم و ابن ماجہ عن جابر (رض)) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دعا صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے پڑھی۔

12049

12049- كل عرفة موقف، وكل منى منحر، وكل مزدلفة موقف، وكل فجاج مكة طريق ومنحر. "د هـ ك عن جابر".
12049 مقام عرفہ پورا کا پورا موقف ہے۔ یعنی ٹھہرنے کا مقام اور مقام منیٰ پورے کا پورا قربانی کرنے کی جگہ ہے، اور مزدلفہ پورے کا پورا موقف ہے اور مکہ کا ہر راستہ اور قربان گاہ ہے۔
رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ والحاکم فی المستدرک عن جابر (رض) ۔

12050

12050- كل عرفة موقف، وارتفعوا عن بطن عرنۃ، وكل مزدلفة موقف وارتفعوا عن بطن محسر، وكل منى منحر، إلا ما وراء العقبة. "هـ عن جابر"
12050 عرفہ پورے کا پورا موقف ہے، اور وادی عرفہ سے چل پڑو۔ یعنی وادی عرفہ میں ٹھہرنا نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے چلنا ہے اور مزدلفہ پورے کا پورا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے اور وادیمحسر سے چل پڑو (وہاں قیام نہ کرو) اور منی پورا قربان گاہ ہے سوائے حمرۃ عقبہ کی پچھلی جانب (کہ وہ قربان گاہ میں داخل نہیں ہے) ۔
کلام : ضعیف ابن ماجہ 650 ۔

12051

12051- عرفة كلها موقف، وارتفعوا عن بطن عرنة، ومزدلفة كلها موقف وارتفعوا عن بطن محسر، ومنى كلها منحر. "طب عن ابن عباس" "مالك".
12051 میدان عرفات پورا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، اور وادی عرفہ سے چل پڑو (وقوف نہ کرو) اور مزدلفہ پورا موقف ہے اور وادی محسر سے چل پڑو، اور منی پورا قربان گاہ ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔ ورواہ مالک (رح) ۔

12052

12052- كل عرفات موقف، وارتفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف وارتفعوا عن بطن محسر، وكل فجاج منى منحر، وكل أيام التشريق ذبح. "حم عن جبير بن مطعم".
12052 عرفات سارا موقف (کھڑے ہونے کی جگہ) ہے لیکن بطن عرفہ سے دور ہوا اور مزدلفہ سارا موقف ہے لیکن بطن محسر سے دور ہو۔ اور منیٰ کا ہر راستہ قربان گاہ ہے اور تشریق کے سارے دن ذبح کے ہیں۔ مسند احمد عن جبیر بن مطعم۔

12053

12053- عرفة كلها موقف. "ن عن جابر".
12053 عرفہ کا دن سارا موقف کا ہے۔ النسائی عن جابر (رض) ۔

12054

12054- هذه عرفة، وهذا الموقف وعرفة كلها موقف. "ت عن علي".
12054 یہ عرفہ کا دن ہے اور یہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور عرفہ سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
الترمذی عن علی (رض)۔

12055

12055- هذا الموقف، وعرفة كلها موقف. "هـ عن علي"
12055 یہ کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور عرفہ سارا کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔
ابن ماجہ عن علی (رض)۔

12056

12056- قفوا على مشاعركم هذه، فإنكم على إرث أبيكم إبراهيم. "د والباوردي عن ابن سريع"
12056 اپنی ان عبادت کی جگہوں پر کھڑے رہو، بیشک تم اپنے باپ ابراہیم کی وراثت پر ہو۔ ابوداؤد ، الباوردی عن ابن سریع ۔

12057

12057- كونوا على مشاعركم هذه، فإنكم اليوم على إرث أبيكم إبراهيم. "حم ت ن هـ ك زياد بن سريع".
12057 اپنی جگہوں پر کھڑے رہو، بیشک آج کے دن تم حتیٰ کہ اپنے باپ ابراہیم کی وراثت پر ہو۔ مسند احمد، الترمذی ، النسائی ، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم زیاد بن سریع۔

12058

12058- من أدرك معنا هذه الصلاة صلاة الغداة وقد أتى عرفات قبل ذلك ليلا أو نهارا، فقد قضى تفثه، وتم حجه. "حم د ن ك عن عروة بن مضرس"
12058 جس نے ہمارے ساتھ یہ نماز (نماز فجر میدان عرفات میں) پالی اور وہ اس پہلے رات یا دن کی کسی گھڑی میں عرفات میں آگیا تو اس نے اپنا مقصد پالیا اور اس کا حج پورا ہوگیا۔
مسند احمد، ابوداؤد ، النسائی ، مستدرک الحاکم عن عروۃ بن مضرس۔

12059

12059- من شهد صلاتنا ووقف معنا حتى ندفع وقد وقف بعرفة قبل ذلك ليلا أو نهارا، فقد تم حجه، وقضى تفثه. "ت هـ عن عروة بن مضرس".
12059 جو ہماری اس نماز میں حاضر ہوگیا اور ہمارے ساتھ وقوف کرلیا حتیٰ کہ ہم یہاں سے کوچ کرنے لگیں اور وہ اس سے پہلے رات یا دن کی کسی گھڑی میں عرفہ میں ٹھہر لیا تو اس کا حج پورا ہوگیا اور اس کا مقصد حاصل ہوگیا۔ الترمذی ، ابن ماجہ عن عروۃ بن مضرس۔

12060

12060- من أدرك عرفة قبل طلوع الفجر فقد أدرك الحج. "طب عن ابن عباس".
12060 جو طلوع فجر سے قبل عرفہ میں آگیا اس نے حج پالیا۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : التوافح 2996 ۔

12061

12061- الحج عرفة، من جاء قبل طلوع الفجر من ليلة جمع فقد أدرك الحج، أيام منى ثلاثة فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه، ومن تأخر فلا إثم عليه. "حم عد ك هق عن عبد الرحمن بن يعمر الديلمي".
12061 حج عرفہ ہے۔ جو اس رات کو طلوع فجر سے قبل آگیا اس نے حج پالیا۔ منی کے تین دن ہیں۔ جو جلدی کی وجہ سے صرف دو یوم منیٰ میں رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں (اور) جس نے (وہاں سے آنے میں زیادہ) تاخیر کی اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔
مسند احمد، الکامل لا بن عدی، مستدرک الحاکم، السنن للبیھقی عن عبدالرحمن بن یعمر الدیلمی۔

12062

12062- إن الله تعالى تطول عليكم في جمعكم هذا، فوهب مسيئكم لمحسنكم وأعطى محسنكم ما سأل، ادفعوا بسم الله. "هـ عن بلال ابن رباح" روى حديث: من صلى صلاتنا ثم أفاض ... راجع تهذيب التهذيب "7/188". وأخرجه الحاكم في المستدرك "1/463" وقال صحيح. رواه الترمذي كتاب الحج - باب ما جاء فيمن أدرك الإمام ... رقم "891" وقال: حسن صحيح. ورواه ابن ماجه كتاب المناسك باب من أتى عرفة رقم "3016" ص.
12062 بیشک اللہ تعالیٰ نے اس مزدلفہ کے دن میں تم کو مہلت دی ہے، پس تمہارے برے آدمی کو اچھا آدمی کردیا ہے اور اچھے آدمی کے لیے وہ سب ہے جو کچھ وہ مانگے، پس اللہ کے نام سے چلو۔ ابن ماجہ، عن بلال بن ریاح۔
کلام : مذکورہ روایت کی سند ضعیف ہے، اس کا راوی ابوسلم غیر معروف الاسم ہے اور وہ مجہول ہے۔ زوائد ابن ماجہ۔

12063

12063- ارفعوا عن بطن عرنة وارفعوا عن بطن محسر. "ك هق عن ابن عباس".
12063 (عرفات میں) بطن عرفہ سے ہٹ جاؤ اور بطن محسر سے بھی (مزدلفہ میں) ہٹ جاؤ۔
مستدرک الحاکم، السنن للبیھقی عن ابن عباس (رض) ۔

12064

12064- عرفة اليوم الذي يعرف فيه الناس. "ابن مندة وابن عساكر عن عبد الله بن خالد بن أسيد".
12064 عرفہ آج کا دن ہے جس میں لوگ عرفات میں ٹھہرتے ہیں ۔
ابن مندۃ، ابن عساکر عن عبداللہ بن خالد بن اسید۔
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف الجامع 3707 ۔

12065

12065- الحج عرفة من جاء قبل صلاة الصبح من ليلة جمع فقد تم حجه، أيام منى ثلاثة أيام، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه. "حم د ت حسن صحيح ن هـ ك ق عن عبد الرحمن بن يعمر الديلمي".
12065 حج عرفہ (کے دن عرفات میں ٹھہرنے کا نام) ہے، جو شخص جمع (مزدلفہ) کی رات سے نماز فجر سے پہلے پہلے (عرفات میں) آگیا اس کا حج پورا ہوگیا ، منیٰ کے تین دن ہیں۔ جو وہی رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔
مسنداحمد، ابوداؤد، الترمذی، حسن صحیح، النسائی ، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم، السنن للبیھقی عن عبدالرحمن بن یعمر الدیلمی۔

12066

12066- من أدرك جمعا مع الإمام والناس حتى يفيض منها فقد أدرك الحج، ومن لم يدرك مع الناس والإمام فلم يدرك. "ن عن عروة بن مضرس".
12066 جس نے مزدلفہ کا قیام امام اور لوگوں کے ساتھ پالیا حتیٰ کہ وہاں سے نکل آئے تو اس نے حج کو پالیا اور جس نے قیام مزدلفہ امام اور لوگوں کے ساتھ نہیں پایا اس نے حج نہیں پایا۔
النسائی عن عروۃ بن مضرس۔

12067

12067- من صلى معنا هذه الصلاة في هذا المكان، ثم وقف معنا هذا الموقف حتى يفيض الإمام وكان وقف ذلك من عرفات ليلا أو نهارا فقد تم حجه وقضى تفثه. "ك عن عروة بن مضرس".
12067 جس نے ہمارے ساتھ اس جگہ یہ نماز ادا کی، پھر ہمارے ساتھ اس جگہ قیام کیا حتیٰ کہ امام وہاں سے نکلے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں رات یا دن کی کسی گھڑی میں آچکا تھا تو اس کا حج پورا ہوگیا اور اس کی مراد نکل آئی۔ مستدرک الحاکم، عن عروۃ بن مضرس۔

12068

12068- من أفاض من عرفات قبل الصبح فقد تم حجه، ومن فاته فقد فاته الحج. "ق عن ابن عباس".
12068 جو عرفات سے صبح سے پہلے نکل گیا اس کا حج پورا ہوگیا اور جس سے عرفات کا وقوف فوت ہوگیا اس کا حج فوت ہوگیا۔ السنن للبیھقی عن ابن عباس (رض) ۔

12069

12069- عرفة كلها موقف إلا بطن عرنة، والمزدلفة كلها موقف إلا بطن محسر. "ابن قانع وأبو نعيم عن جندب بن حماسة الخطمي".
12069 (میدان) عرفہ سارا موقف ہے سوائے بطن عرفہ کے اور مزدلفہ سارا موقف ہے سوائے بطن محسر کے۔ ابن قانع، ابونعیم، عن جندب بن حماسۃ الحظمی۔

12070

12070- يوم عرفة يوم يعرف الإمام، والأضحى يوم يضحي الإمام والفطر يوم يفطر الإمام. "ق عن عائشة".
12070 عرفہ کا دن وہ ہے جب امام عرفات میں جائے، قربانی کا دن جب امام قربانی کرے، اور یوم الفطر وہ ہے جب امام افطار کرے۔ السنن للبیھقی عن عائشۃ (رض) ۔

12071

12071- يوم عرفة اليوم الذي يعرف الناس فيه. "د في مراسيله قط ق وقال: مرسل جيد عن عبد العزيز بن عبد الله بن خالد بن أسيد".
12071 عرفہ کا دن وہ ہے جب لوگ عرفات میں جائیں۔
ابوداؤ فی مراسیلہ، الدار قطنی فی السنن، وقال۔
یہ روایت مرسل جید ہے اور عبدالعزیز بن عبداللہ بن خالد اسید سے مرسلاً مروی ہے۔
کلام : حسن الاثر 242 ۔

12072

12072- ما من يوم أكثر من أن يعتق الله فيه عبدا أو أمة من النار من يوم عرفة، وإنه ليدنو ثم يباهي بهم الملائكة فيقول: ماذا أراد هؤلاء. "م ن هـ عن عائشة".
12072 جس دن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ کسی بندے یا بندی کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے وہ دن عرفہ کا دن ہے، اور اس دن اللہ رب العزت قریب ہوتے ہیں (آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں) پھر فرشتوں سے فخر فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ لوگ (عرفہ کے دن جو لوگ حاضر ہیں) کیا چاہتے ہیں ؟ رواہ مسلم والنسائی وابن ماجہ (رح) عن عائشۃ (رض) ۔

12073

12073- إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بأهل عرفة فيقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا. "حم طب عن ابن عمرو".
12073 اللہ رب العزت عرفہ کی شام کو عرفہ والوں پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ : دیکھو میرے بندوں کو میرے پاس پراگندہ بال اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے آئے ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر عن ابن عمرو (رض) ۔

12074

12074- إن الله يباهي بأهل عرفات أهل السماء فيقول لهم: انظروا إلى عبادي جاؤني شعثا غبرا. "حم ك هق عن أبي هريرة".
12074 اللہ تعالیٰ عرفات والوں پر آسمان والوں (فرشتے) کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور ان سے ارشاد فرماتے ہیں کہ : دیکھو میرے بندوں کو کہ میرے پاس پراگندہ بال اور گرد و غبار میں اٹے ہوئے آئے ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

12075

12075- من حفظ لسانه وسمعه وبصره يوم عرفة غفر له من عرفة إلى عرفة. "هب عن الفضل".
12075 جس شخص نے عرفہ کے دن اپنی زبان، کان اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کی تو ایک عرفہ سے دوسرے عرفہ تک اس کے گناہوں کی بخشش کردی جاتی ہے۔
رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن الفضل۔

12076

12076- من أحيا الليالي الأربع وجبت له الجنة ليلة التروية، وليلة عرفة، وليلة النحر، وليلة الفطر. "ابن عساكر عن معاذ".
12076 جس شخص نے چار راتیں زندہ کیں (یعنی ان میں اللہ رب العزت کی بندگی و عبادت کی) تو اس کے لیے جنت ہے وہ چار راتیں یہ ہیں۔
1 ۔ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کی رات۔ 2 ۔ عرفہ کی رات
3 ۔ نحر (قربانی) کی رات۔ 4 ۔ عیدالفطر کی رات۔ رواہ ابن عساکر عن معاذ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5358، الضعیفۃ 522 ۔

12077

12077- من أحيا ليلة الفطر، وليلة الأضحى لم يمت قلبه يوم تموت القلوب. "طب عن عبادة".
12077 جس شخص نے عیدالفطر کی رات اور عیدالاضحی کی رات (اللہ کی عبادت سے) زندہ کیں تو جس دن دل مریں گے، اس کا دل نہ مرے گا۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5361، الضعیفۃ 520 ۔

12078

12078- خير الدعاء يوم عرفة، وخير ما قلت أنا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير. "ت عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده"
12078 بہترین دعا عرفہ کا دن ہے، اور بہترین بات وہ ہے جو میں نے اور مجھ سے قبل تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) نے کہی کہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو تن تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک بھی اسی کا ہے اور تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
رواہ الترمذی عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے ” حدیث غریب “ کہا ہے۔

12079

12079- أفضل الدعاء دعاء يوم عرفة، وأفضل ما قلت أنا والنبيون من قبلي: لا إله إلا الله، وحده لا شريك له. "مالك عن طلحة بن عبيد الله بن كريز" مرسلا
12079 افضل ترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے، اور افضل ترین بات وہ ہے جو میں نے اور مجھ سے قبل تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) نے کہی کہ : نہیں کوئی معبودسوائے اللہ کے ، جو تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ رواہ مالک عن طلحۃ بن عبید اللہ بن کریز۔
کلام : یہ روایت مرسل ہے، علامہ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ امام مالک (رح) سے اس حدیث کے ارسال میں کوئی اختلاف نہیں اور اس سند سے کوئی مسند حدیث من وجہ بھی معلوم نہیں کہ جس سے استدلال کیا جائے اور فضائل کی احادیث محتاج استدلال نہیں جبکہ یہی حدیث حضرت علی اور ابن عمر (رض) سے مسندامروی ہے۔

12080

12080- أفضل الدعاء يوم عرفة، وأفضل قولي وقول الأنبياء قبلي: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيى ويميت بيده الخير وهو على كل شيء قدير. "هب هـ عن أبي هريرة".
12080 افضل ترین دعا عرفہ کے دن کی ہے، اور میرا مجھ سے قبل تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کا افضل ترین قول یہ ہے کہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے، اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، وہی زندہ کرتا ہے، وہی موت دیتا ہے ، اسی کے ہاتھ میں تمام خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
رواہ البیھقی فی شعب الایمان وابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ۔

12081

12081- صوم يوم عرفة يكفر سنتين ماضية ومستقبلة، وصوم عاشوراء يكفر سنة ماضية. "حم م د عن أبي قتادة".
12081: عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا گزشتہ دو سال اور آئندہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، یوم عاشورا (دس محرم الحرام) کا روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ و مسلم وابو داؤد عن ابی قتادۃ (رض))

12082

12082- صوم يوم عرفة كفارة السنة الماضية والمستقبلة. "طس عن أبي سعيد".
12082: عرفہ کے دن روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال اور آئندہ کے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابی سعید (رض) ۔

12083

12083- صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده، وصيام يوم عاشوراء إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله. "د ت هـ حب عن أبي قتادة".
12083 عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا، بیشک میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہوں کہ وہ (روزہ) گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کے لیے کفارہ ہو، اور عاشورا (دس محرم) کے دن روزہ رکھنا، بیشک میں اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہوں کہ وہ (روزہ) گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو۔
رواہ ابوداؤد والترمذی وابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ عن ابی قتادہ (رض) ۔

12084

12084- صيام يوم عرفة كصيام ألف يوم. "هب عن عائشة".
12084 عرفہ کے دن روزہ رکھنا ایک ہزار دن کے روزہ کے برابر ہے۔
رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن عائشہ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3523 ۔

12085

12085- عدل صوم يوم عرفة بسنتين؛ سنة مقبلة، وسنة متأخرة. "قط في فوائد ابن مردك عن ابن عمر".
12085 عرفہ کے دن روزہ رکھنا دو سالوں کے روزوں کے برابر ہے ایک سال آئند اور ایک سال گزشتہ۔ رواہ الدار قطنی فی فوائد ابن مسددک عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3692 ۔

12086

12086- من صام يوم عرفة غفر الله له سنتين، سنة أمامه، وسنة خلفه. "هـ عن قتادة بن النعمان".
12086 جس شخص نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے دو سالوں کے گناہوں کی بخشش فرما دیتے ہیں، ایک سال آئندہ کے گناہ کی اور ایک سال گزشتہ سال کے گناہوں کی۔
رواہ ابن ماجہ عن قتادہ (رض) ۔
کلام : النوافح 2203 ۔

12087

12087- صوم يوم التروية كفارة سنة، وصوم يوم عرفة كفارة سنتين. "أبو الشيخ في الثواب وابن النجار عن ابن عباس".
12087 یوم الترویہ (ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ) روزہ رکھنا ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، اور عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) روزہ رکھنا دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
رواہ ابوالشیخ فی الثواب وابن النجار عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3418 ۔

12088

12088- ما من أيام أحب إلى الله تعالى أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر. "ت هـ عن أبي هريرة"
12088 اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین ایام کہ جن میں اس کی عبادت کی جائے وہ ماہ ذی الحج کے دس دن ہیں، ان دس دنوں میں سے ہر دن ایسا ہے کہ اس میں روزہ رکھنا ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور ان دنوں میں ہر رات ایسی ہے کہ اس میں عبادت کرنا لیلۃ القدر میں عبادت کے برابر ہے۔ رواہ الترمذی و ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کے بارے میں ” حدیث غریب “ کہا ہے۔

12089

12089- ابن أخي؛ إن هذا اليوم، من ملك فيه سمعه وبصره ولسانه غفر له يعني يوم عرفة. "حم عن عبد الله بن عباس".
12089 اے بھتیجے ! بیشک اس دن یعنی عرفہ کے روز (نویں ذی الحجہ کو) جو شخص اپنے کانوں، آنکھوں، اور زبان کی حفاظت کرے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ عن عبداللہ بن عباس (رض) ۔

12090

12090- إن هذا اليوم، من ملك فيه سمعه وبصره ولسانه غفر له ما تقدم من ذنبه، يعني يوم عرفة. "الخطيب طب وابن عساكر عن ابن عباس".
12090 بیشک اس دن جو شخص بھی اپنے کان، آنکھ اور اپنی زبان کی حفاظت کرے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں یعنی عرفہ کے دن (9 ذی الحجہ) ۔
رواہ الخطیب والطبرانی فی الکبیر وابن عساکر عن ابن عباس (رض) ۔

12091

12091- مه يا غلام؛ فإن هذا يوم من حفظ فيه بصره غفر له يعني عرفة. "ط عن ابن عباس".
12091 اے لڑکے ٹھہر جا ! بیشک یہ ایک ایسا دن ہے کہ جو شخص اس دن میں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے یعنی عرفہ کے دن (9 ذی الحجہ) ۔
رواہ عن ابن عباس (رض)۔

12092

12092- يا ابن أخي، إن هذا يوم، من ملك فيه بصره إلا من حق، وسمعه إلا من حق، ولسانه إلا من حق، غفر له يعني يوم عرفة. "هب عن ابن عباس".
12092 اے بھتیجے ! بیشک یہ ایک ایسا دن ہے کہ جو شخص اس دن اپنی آنکھوں، کانوں اور اپنی زبان کو حق جگہوں میں استعمال کرنے کے علاوہ دوسری جگہوں میں اس کی حفاظت کرے (گناہ میں استعمال کرنے سے بچائے) تو اس شخص کی مغفرت کردی جاتی ہے، یعنی عرفہ کے دن (اور وہو نویں ذی الحجہ ہے) ۔ رواہ البیھقی فی شعب الایمان عن ابن عباس (رض) ۔

12093

12093- إن الله تعالى ينظر إلى عباده يوم عرفة فلا يدع أحدا في قلبه مثقال ذرة من الإيمان إلا غفر له. "الديلمي عن ابن عمر".
12093 اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ کو) اپنے بندوں کی طرف نظر کرم فرماتے ہیں پس جس شخص کے دل میں بھی ذرہ برابر ایمان ہوتا ہے اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔
رواہ الدیلمی عن ابن عمر (رض)۔

12094

12094- لا يبقى يوم عرفة خلق من خلق الله عز وجل في قلبه مثقال ذرة من الإيمان إلا غفر الله له، قيل: يا رسول الله لأهل عرفات أم للناس عامة؟ قال: لا بل للناس عامة. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة وابن النجار عن ابن عمر" وفيه الوليد بن القاسم بن الوليد، قال ابن حبان: لا يحتج به.
12094 اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی مخلوق کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو، عرفہ کے روز (نویں ذی الحجہ کو) اللہ رب العزت اس کی ضرور مغفرت فرما دیتے ہیں، کہا گیا کہ : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بات صرف عرفات والوں کے لیے ہے یا تمام انسانوں کے لیے عام ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : یہ بات صرف عرفات والوں کے لیے خاص نہیں بلکہ عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے ہے۔ رواہ ابن ابی الدنیا فی فضل عشر ذی الحجہ وابن النجار عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : اس حدیث کی سند میں ” الولید بن القاسم بن الولید “ نامی راوی ہے، ابن حبان (رح) نے کہا کہ اس حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

12095

12095- إذا كان عشية عرفة لم يبق أحد في قلبه مثقال حبة من خردل من الإيمان إلا غفر له، قيل: يا رسول الله أهل عرفة خاصة؟ قال: بل للمسلمين عامة. "طب عن ابن عمر".
12095 جب عرفہ کی رات ہوتی ہے تو جس کسی کے دل میں بھی رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوتا ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، تو کہا گیا کہ : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ بات صرف عرفات والوں کے لیے خاص ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : صرف ان کے لیے نہیں بلکہ عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

12096

12096- إذا كان يوم عرفة غفر الله للحاج الخالص، فإذا كانت ليلة مزدلفة غفر الله للتجار، وإذا كان يوم منى غفر الله للجمالين، فإذا كان يوم رمي جمرة العقبة، غفر الله للسوال، فلا خلق يحضر ذلك الموقف إلا غفر الله له. "حب في الضعفاء عد قط في غرائب مالك كر والديلمي عن أبي هريرة" قال "قط": منكر تفرد به الحسن بن علي أبو عبد الغني الأزدي، وقال "حب": الحسن هذا يضع عن الثقات، وقال "عد": روى أحاديث لا يتابع عليها، وقال "كر" لم أر له من الأحاديث غير خمسة أحاديث وما رواه يحتمل وكم مجهول يريد أن يكذب في خمسة أحاديث وأورده ابن الجوزي هذا الحديث في الموضوعات.
12096 جب عرفہ کا دن (نویں ذی الحجہ ) ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ مخلص حجاج کرام کی مغفرت فرما دیتے ہیں، اور جب جمرہ عقبہ کی رمی کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سائلین کی مغفرت فرما دیتے ہیں، پس جو مخلوق اس موقف میں حاصر ہوتی ہے ان سب کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرما دیتے ہیں ۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ ، فی الضعفاء وابن عدی فی الکامل والدار قطنی فی غرائب مالک والدیلمی عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : امام دار قطنی (رح) نے فرمایا کہ یہ ” حدیث منکر “ ہے، الحسن بن علی ابوعبدالغنی الازدی اس میں متفردراوی ہیں (امام ابن حبان (رح)) نے فرمایا کہ : الحسن بن علی ثقات راویوں سے موضوع احادیث بیان کرتا ہے، اور ابن عدی (رح) کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی احادیث روایت کی ہیں کہ جن کی متابعت نہیں کی جاسکتی، اور ان کا کہنا ہے کہ میں نے سوائے پانچ حدیثوں کے اس کی کوئی حدیث نہیں دیکھی، اور جو روایت کی ہیں وہ بھی محتمل ہیں (کہ اس میں بھی کذب سے کام لیا ہو کیونکہ) کتنے مجہول ہیں جو پانچ حدیثوں میں بھی جھوٹ بولنا چاہتے ہیں۔ اور علامہ ابن الجوزی نے اس حدیث کی موضوعات میں شمار کیا ہے۔ دیکھئے ترتیب الموضوعات 598، اللآلی 124/2 ۔

12097

12097- إن الله تعالى تطول عليكم في يومكم هذا، فوهب مسيئكم لمحسنكم. "البغوي عن عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه عن جده".
12097 بیشک تمہارے اس دن میں (نویں ذی الحجہ ) اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے کہ تمہارے نیکوکاروں کی بدولت تمہارے گناہ گاروں کو عطا فرمایا ہے۔
البغوی عن عبدالرحمن بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ۔

12098

12098- إن الله عز وجل تطول على أهل عرفات، فباهى بهم الملائكة فقال: انظروا يا ملائكتي إلى عبادي شعثا غبرا أقبلوا يضربون إلي من كل فج عميق أشهدكم أني قد أجبت دعوتهم، وشفعت رغبتهم ووهبت مسيئهم لمحسنهم، وأعطيت محسنهم جميع ما سألني غير التبعات التي بينهم حتى إذا أفاض القوم من عرفات، أتوا جمعا فوقفوا، قال: فانظروا يا ملائكتي إلى عبادي عاودوني في المسئلة، أشهدكم أني قد أجبت دعوتهم وشفعت رغبتهم ووهبت مسيئهم لمحسنهم، وأعطيت محسنهم جميع ما سأل، وتحملت عنهم التبعات التي بينهم. "الخطيب في المتفق والمفترق عن أنس" وضعف.
12098 بیشک اللہ بزرگ و برتر نے عرفات والوں پر احسان فرمایا ہے، کہ فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال گرد آلود دور دور مقامات سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی دعا قبول کرلی ہے، اور ان کی رغبت کو دو گنا کردیا ہے اور ان کے نیکوکاروں کی بدولت ان کے گناہ گاروں کو عطا فرمایا : اور ان کے نیکوکاروں نے جو کچھ مجھ سے مانگا سوائے ان کے آپس کے جھگڑوں کے میں نے وہ سب عطا فرمادیا، یہاں تک کہ جب (حجاج کرام) کی جماعت عرفات سے واپس ہو کر مزدلفہ آجاتی ہے اور وہاں قیام کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) ارشاد فرماتا ہے کہ : اے میرے فرشتو ! میرے بندوں کو تو دیکھو جو مجھ سے بار بار سوال کررہے ہیں، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کے میں نے ان کی دعا قبول کرلی ہے اور ان کی رغبت کو دو گنا کردیا ہے، اور ان کے نیکوکاروں کی بدولت ان کے گناہ گاروں کو بھی عطا فرمایا ہے، اور ان کے نیک لوگوں نے جو مانگا میں نے وہ دیا۔ رواہ الخطیب فی المتفق عن انس (رض) ۔
کلام : اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

12099

12099- إن الله تعالى يباهي ملائكته عشية عرفة بالحجاج فيقول: انظروهم شعثا غبرا، اشهدوا أني قد غفرت لهم. "ابن النجار عن أبي هريرة".
12099 اللہ تعالیٰ عرفہ کی رات کو فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا میرے بندوں کو تو دیکھو، پراگندہ بال اور گرد آلود ہیں، گواہ رہو ! میں نے ان کی مغفرت کردی ہے۔ رواہ ابن النجار عن ابوہریرہ (رض) ۔

12100

12100- نعم اليوم يوم عرفة ينزل الله عز وجل فيه إلى السماء الدنيا. "الديلمي عن أم سلمة".
12100 عرفہ کا دن (نویں ذی الحجہ ) کتنا ہی اچھا دن ہے کہ اللہ رب العزت اس دن میں آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں۔ رواہ الدیلمی عن ام سلمہ (رض) ۔

12101

12101- إذا كان عشية عرفة هبط الله إلى السماء الدنيا، فينظر إلى خلقه فيقول: انظروا إلى عبادي يباهي بهم الملائكة شعثا غبرا، أرسلت إليهم رسولا فصدقوا رسولي، وأنزلت عليهم كتابا، فآمنوا بكتابي أشهدكم أني قد غفرت لهم ذنوبهم، وإذا كانت غداة المزدلفة أيضا نزل إلى السماء الدنيا، فينظر إلى السماء الدنيا فينظر إلى خلقه، فقال مثل ذلك أشهدكم قد غفرت لهم ذنوبهم كلها. "أبو الشيخ في الثواب عن ابن عمر".
12101 جب عرفہ کی رات ہوتی ہے تو اللہ پاک آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اپنی مخلوق کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں : میرے بندوں کو دیکھو پراگندہ بال اور غبار آلود حال میں ہیں، ملائکہ کے سامنے ان پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے ان کے پاس اپنے رسول کو بھیجا انھوں نے میرے رسول کی تصدیق کی، میں نے ان پر کتاب نازل کی تو وہ میری کتاب پر ایمان لے آئے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ہے اور جب مزدلفہ کی رات ہوتی ہے تب بھی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور آسمان دنیا کی طرف دیکھتے ہیں پھر اپنی مخلوق کو دیکھ کر اسی طرح ارشاد فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کے سب گناہ بخش دیئے ہیں۔ ابوالشیخ فی الثواب عن ابن عمر (رض) ۔

12102

12102- إذا كان يوم عرفة نزل الرب عز وجل إلى السماء الدنيا ليباهي بهم الملائكة فيقول: انظروا إلى عبادي أتوني شعثا غبرا ضاجين من كل فج عميق، أشهدكم أني قد غفرت لهم، فيقول الملائكة: إن فيهم فلانا مرهقا وفلانا، فيقول الله: قد غفرت لهم فما من يوم أكثر عتقا من النار من يوم عرفة. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة، والبزار وابن خزيمة وقاسم بن اصبغ في مسنده عب ص كر عن جابر".
12102 جب عرفہ کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتے ہیں، اور فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ذرا میرے بندوں کو تو دیکھو کہ پراگندہ بال اور گرد آلود ہر کشادہ اور تنگ راستے سے مجھے پکارتے ہوئے میرے پاس آئے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کے گناہ بخش دیئے ہیں۔ تو فرشتے کہتے ہیں کہ : ان لوگوں میں تو فلاں شخص بھی ہے جو جو گناہ کی طرف منسوب ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : میں نے ان کی بھی مغفرت کردی ہے، لہٰذا ایسا کوئی دن نہیں کہ جس میں یوم عرفہ کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات و رستگاری کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔ رواہ ابن ابی الدنیا فی فضل عشر ذی الحجہ، والبزاز و ابن خزیمۃ و قسام بن اصیغ فی مسندو عبدالرزاق فی مسندہ عن جابر (رض) ۔

12103

12103- أما الوقوف عشية عرفة، فإن الله يهبط إلى السماء الدنيا فيباهي بكم الملائكة فيقول: هؤلاء عبادي جاؤني شعثا يرجون رحمتي، فلو كانت ذنوبكم كعدد الرمل وكعدد القطر والشجر لغفرتها لكم، أفيضوا عبادي مغفورا لكم ولمن شفعتم له. "كر عن أنس".
12103 وقوف عرفہ کی رات، اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور تم پر فرشتوں کے سامنے فخریہ کہتے ہیں کہ : یہ میرے بندے ہیں، میرے پاس پراگندہ بال ہو کر آئے ہیں، میری رحمت کے امیدوار ہیں، پس اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرات کے برابر (بارش) کے قطرات کے برابر اور درختوں کے برابر بھی ہوں تو وہ سب گناہ میں ضرور بخش دوں گا۔
اے میرے بندوں اس حال میں لوٹ جاؤ کہ تمہاری بخشش کردی گئی اور ان لوگوں کو بھی جن کے لیے تم نے سفارش کی۔ رواہ ابن عساکر عن انس (رض) ۔

12104

12104- ما من يوم إبليس فيه أدحر ولا أغيظ من يوم عرفة مما يرى من تنزل الرحمة والمجاوزة عن الأمور العظام إلا ما رأى يوم بدر قيل: وما رأى يوم بدر قال: رأى جبريل وهو يزع الملائكة. "الديلمي عن طلحة بن عبيد الله بن كريز عمن له صحبة".
12104 ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل وراندہ اور اتنا زیادہ حقیر پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے (یعنی یوں تو شیطان ہمیشہ ہی آدمیوں کو نیکیاں کرتا ہوا دیکھ کر پر غیظ و حقیر ہوتا ہے مگر عرفہ کے دن سب دنوں سے زیادہ پر غیظ بھی ہوتا ہے اور ذلیل و خوار بھی) اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (اس دن ہر خاص وعام پر) اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے، ہاں بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا (یعنی غزوہ بدر کے دن جب مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی تو اس دن بھی شیطان عرفہ کے دن کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ذلیل و خوار اور پر غیظ تھا) پوچھا گیا کہ بدر کے دن کیا دیکھا تھا ؟ تو فرمایا (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) (مشرکین سے لڑنے کے لئے) فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔
الدیلمی عن طلحۃ بن عبید اللہ بن کریز عمن لہ صحبۃ۔

12105

12105- ما رؤي الشيطان يوما هو فيه أصغر ولا أدحر ولا أغيظ ولا أحقر منه يوم عرفة، وما ذلك إلا مما يرى من تنزل الرحمة وتجاوز الله عن الذنوب العظام إلا ما رأى يوم بدر رأى جبريل يزع الملائكة. "مالك هب عن طلحة بن عبيد الله كريز"1 مرسلا "هب عنه عن أبي الدرداء". يزع الملائكة: يصف الملائكة للقتال ويمنعهم أن يخرج بعضهم عن بعض في الصف أي يعبيهم للقتال، والمعنى يسمى وازعا ومنه قوله تعالى وحشر لسليمان جنوده من الجن والإنس والطير فهم يوزعون أي يحبس أولهم على آخرهم. انتهى. الموطأ كتاب الحج باب جامع الحج رقم الحديث "254"انتهى. ص.
12105 ایسا کوئی دن نہیں کہ جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل وراندہ اور اتنا زیادہ حقیر، پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے (یعنی دن شیطان ہمیشہ ہی آدمیوں کو نیکیاں کرتے ہوئے دیکھ کر غیظ و ذلیل وخوارہوتا ہے، مگر عرفہ کے دن سب دنوں سے زیادہ پر غیظ ہوتا ہے) اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (اس دن ہر خاص وعام پر) اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے، بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا (یعنی غزوہ بدر کے دن جب مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی تو اس دن بھی شیطان عرفہ کے دن کی طرح یا اس سے بھی زیادہ پر غیظ اور ذلیل و خوار دیکھا گیا تھا) ۔ چنانچہ (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ جبرائیل (علیہ السلام) (مشرکین سے لڑنے کے لئے) فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ موطا امام مالک، شعب الایمان للبیھقی عن طلحۃ بن عبیداللہ کریز، مرسلاً رواہ البیھقی عند عن ابی الدرداء۔
امام حاکم (رح) نے مستدرک میں یہ حدیث موصولاً ابوالدرداء (رض) سے روایت کی ہے۔

12106

12106- ما رؤي الشيطان يوما هو أصغر ولا أحقر ولا أدحر ولا أغيظ منه في يوم عرفة، وما ذاك إلا أن رحمة الله تنزل فيه فيتجاوز عن الذنوب العظام. "مالك وابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة عن طلحة بن عبيد الله بن كريز" مرسلا.
12106 ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل دراندہ اور اتنا زیادہ حقیر، پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دن اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر فرماتے ہیں۔
رواہ مالک وابن ابی الدنیا فی فضل عشرذی الحجہ عن طلحۃ بن عبیداللہ کریز (رض) ، مرسلا امام مالک (رح) نے اس کو ” مرسل “ روایت کیا ہے۔

12107

12107- لو يعلم أهل الجمع بمن حلوا لاستبشروا بالفضل من ربهم بعد المغفرة. "طب عد هب عن ابن عباس" مرسلا وقال "عد": غير محفوظ.
12107 کاش اہل مزدلفہ جان لیتے جو آج اس میدان میں آئے ہیں اور وہ خوشی سے پکار اٹھتے کہ ان کے رب نے ان کی مغفرت کردی اور اپنا فضل ان پر فرمادیا۔
الکبیر للطبرانی، الکامل لا بن عدی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض) ۔ مرسلا۔
کلام : ابن عدی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت غیر محفوظ ہے۔

12108

12108- أفضل ما قلت أنا والأنبياء قبلي عشية عرفة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير. "إسماعيل بن عبد الغافر الفارسي في الأربعين عن علي".
12108 افضل ترین دعا جو میں نے اور مجھ سے قبل تمام انبیاء نے عرفہ کی رات پڑھی وہ یہ ہے :
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر۔
” نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے ، اکیلا ہے ، کوئی اس کا ساجھی نہیں، اسی کا ملک ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
رواہ اسماعیل بن عبدالغافر الفارسی فی الاربعین عن علی (رض) ۔

12109

12109- أكبر دعائي ودعاء الأنبياء قبلي بعرفة، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي سمعي نورا، وفي بصري نورا، اللهم اشرح لي صدري ويسر لي أمري، وأعوذ بك من وسواس الصدر، وشتات الأمر وفتنة القبر، اللهم إني أعوذ بك من شر ما يلج في الليل، وشر ما يلج في النهار، وشر ما تهب به الرياح، وشر بوائق الدهر. "ق وضعفه عن علي".
12109 عرفہ کے دن میری اور مجھ سے قبل تمام انبیاء کی بڑی دعاؤں میں سب سے بڑی دعا یہ ہے :
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، اللھم اجعل فی قلبی نوراً ، وفی سمعی نوراً ، وفی بصری نوراً ، اللھم اشرح لی صدری ویسرلی امری، واعوذبک من وسواس الصدر، وشتات الامر رفتنۃ القبر، اللھم انی اعوذبک من شر مایلج فی اللیل ، وشرمایلج فی النھار ، وشرما تھب بہ الریاح، وشربواثق الدھر۔
” نہیں کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے، اکیلا ہے ، کوئی اس کا ساجھی نہیں، اسی کا ملک ہے، اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! میرے دل میں، میری سماعت میں اور میری بصارت میں نور پیدا فرما دیجئے، اے اللہ ! میرے سینے کو کھول دے ، اور میرا معاملہ آسان فرما، اور سینے (دل) کے وسوسوں سے ہنگامہ امور سے اور قبر کے فتنے سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ میں اس چیز کے شر سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو رات اور دن میں داخل ہوتا ہے، اور اس چیز کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کو ہوائیں چلا دیتی ہیں، اور زمانے کے مصائب کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ رواہ البیھقی وضعفہ عن علی (رض) ۔
کلام : روایت مذکورہ کو امام بیہقی (رح) نے ضعیف قرار دیا ہے بروایت علی (رض) ۔

12110

12110- ما من مسلم يقف عشية عرفة بالموقف، فيستقبل القبلة، ثم يقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير مائة مرة، ثم يقرأ أم الكتاب مائة مرة، ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله مائة مرة، ثم يسبح الله مائة مرة، فيقول: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله، ثم يقرأ قل هو الله أحد مائة مرة، ثم يقول: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد وعلينا معهم مائة مرة، إلا قال الله تعالى: يا ملائكتي ما جزاء عبدي هذا، سبحني، وهللني وكبرني، وعظمني، ومجدني، ونسبني وعرفني، وأثنى علي وصلى على نبيي، اشهدوا يا ملائكتي، أني قد غفرت له وشفعته في نفسه، ولو شاء أن يشفع في أهل الموقف لشفعته. "هب وابن النجار والديلمي عن جابر" قال أبو بكر بن مهران الحافظ: تفرد به عبد الرحمن بن محمد المحاربي عن محمد بن سوقه، وقال "هب": هذا متن غريب وليس في إسناده من نسب إلى الوضع.
12110 جب کوئی مسلمان عرفہ کی رات (نویں ذی الحجہ ) موقف پر ٹھہرتا ہے ، اور قبلہ رخ ہو کر یہ دعا پڑھتا ہے :
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر وھو علی کل شیء قدیر مائۃ مرۃ، ثم یقرا ام الکتاب مائۃ مرۃ، ثم یقول اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، وان محمداً عبدہ ورسولہ مائۃ مرۃ، ثم یسبح اللہ مائۃ مرۃ ، فیقول : سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ، ثم یقراقل ھو اللہ احد مائۃ مرۃ، ثم یقول : اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وآل ابراھیم، انک حمید مجید وعلینا معھم مائۃ مرۃ، الا قال اللہ تعالیٰ یا ملائکتی ماجراء عبدی ھذا، سبحنی ولھتنی وکبرنی، وعظمتی، ومجدنی، ونسبتی و عرشی و سی عمی وصلی علی لی شھدوایا ملائکتی الی قد عفرت لہ وشفعتہ فی نفسہ، ولوشاء ہی یشفع شی ھل الموقف نتمنعتہ۔
نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے ، اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا ملک ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں، اسی کے دست قدرت میں تمام خیر ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (100 مرتبہ) پھر سو مرتبہ سورة فاتح پڑھے، پھر 100 مرتبہ کہے : کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں، پھر (100) مرتبہ ” سبحان اللہ “ پڑھے، پھر سو (100) مرتبہ یہ دعا پڑھے : پاک ہے اللہ، اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، اور اللہ سب سے بڑا ہے نہیں ہے قوت و طاقت مگر اللہ کے ساتھ، پھر 100 مرتبہ سورة اخلاص پڑھے، پھر 100 مرتبہ کہے : اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان کی اوالد پر درود بھیجئے جیسا کہ آپ نے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر درود بھیجا، بیشک آپ حمدوبزرگی والے ہیں، اور ان کے ساتھ ہم پر بھی رحمتیں نازل فرما۔
(جب بندہ یہ دعا کرتا ہے تو) اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتے ہیں : اے میرے فرشتوں ! میرے اس بندے کی کیا جزا ہے ؟ کہ اس نے میری تسبیح ، تہلیل، تکبیر، تعظیم، تمجید، بیان کی اور مجھے منسوب کیا، میری تعریف کی، اور مجھ پر ثنا کی، اور میرے نبی پر درود بھیجا۔ اے میرے فرشتوں گواہ رہو ! کہ میں نے اس کی مغفرت کردی ہے اور اس کے حق میں اس کی سفارش قبول کرلی ہے اور اگر وہ موقف والوں کے حق میں سفارش کرے تو میں ضرور اس کی سفارش قبول کروں گا۔
کلام : ابوبکر بن مہران حافظ کا کہنا ہے کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن محمد المحاربی، محمد بن سوقہ سے روایت کرنے میں متفرد ہیں۔ اور امام نے فرمایا کہ : اس حدیث کا متن غریب ہے، اور اس کی سند میں کوئی راوی بھی روایت گھڑنے کی طرف منسوب نہیں ہے۔ روایت ضعیف ہے۔ اللآلی 127, 126/2 ۔

12111

12111- من دعا بهذا الدعاء عشية عرفة ما لم يدع بإثم، أو قطيعة رحم استجيب له، سبحان الله الذي في السماء عرشه، سبحان الذي في الأرض موطئه، سبحان الذي في البحر سبيله، سبحان الذي في القبور فضاؤه، سبحان الذي في الجنة رحمته، سبحان الذي في النار سلطانه، سبحان الذي في الهوى روحه، سبحان الذي رفع السماء، سبحان الذي وضع الأرض، سبحان الذي لا منجأ منه إلا إليه. "طب عن ابن مسعود".
12111 جو شخص عرفہ کی رات کو اس دعا کے ساتھ دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے جبکہ دعا کرنے والا کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے (ورنہ قبول نہیں ہوتی) دعا یہ ہے :
سبحان اللہ الذی فی السماء عرشہ، سبحان الذی فی الارض موطنہ، سبحان الذی فی البحر سبیلہ، سبحان الذی فی القبور فضاؤہ، سبحان الذی فی الجنۃ رحمتہ، سبحان الذی فی النار سلطانہ، سبحان الذی فی الھوی روحہ، سبحان الذی رفع السماء، سبحان الذی وضع الارض ، سبحان الذی لا منجا منہ الا الیہ،
” پاک ہے وہ ذات کہ جس کا عرش آسمان پر ہے، پاک ہے وہ ذات کہ جس کا موطی زمین میں ہے، پاک ہے وہ ذات کہ سمندر میں جس کا راستہ ہے، پاک ہے وہ ذات کہ قبروں میں جس کی فضاء ہے، پاک ہے وہ ذات کہ جنت میں جس کی رحمت ہے، پاک ہے وہ ذات کہ جہنم میں جس کی بادشاہت ہے، پاک ہے وہ ذات کہ خواہش میں جس کی روح ہے، پاک ہے وہ ذات کہ جس نے آسمان کو بلند کیا، پاک ہے وہ ذات کہ جس نے زمین کو بچھایا، پاک ہے وہ ذات کہ نجات کا راستہ صرف اسی کی طرف ہے۔ “
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود (رض)۔

12112

12112- من صام يوم عرفة كان له كفارة سنتين. "طب عن ابن مسعود".
12112 جس شخص نے عرفہ (نویں ذی الحجہ) کا روزہ رکھا تو وہ اس کے لیے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود (رض) ۔

12113

12113- من صام يوم عرفة قد غفر له سنتين متتابعتين. "عبد بن حميد طب وابن جرير ص عن سهل بن سعد".
12113 جس شخص نے عرفہ کا روزہ رکھا تو اس کے مسلسل دو سالوں کے گناہ بخش دیئے گئے۔
رواہ عبد بن حمید والطبرانی فی الکبیر وابن جریر السنن لسعید بن منصور عن سھل بن سعد (رض)

12114

12114- إن صوم يوم عرفة يكفر العام الذي قبله. "حم عن عائشة".
12114 عرفہ کے دن روزہ رکھنا گزشتہ سال کے (گناہوں ) کا کفارہ ہے۔
رواہ احمد عن عائشہ (رض)۔

12115

12115- صوم يوم عرفة صوم سنة. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة عن ابن عمر".
12115 عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال کے روزوں جیسا ہے۔
رواہ ابن ابی الدنیا فی فضل عشر ذی الحجہ عن ابن عمر (رض) ۔

12116

12116- صيام يوم عرفة يعدل السنة والتي تليها، وصيام عاشوراء يعدل سنة. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة عن أبي قتادة".
12116 عرفہ کے دن روزہ رکھنا امسال اور اس کے بعد والے سال (دو سال) روزہ رکھنے کے برابر ہے اور دس محرم الحرام (یوم عاشورا) کو روزہ رکھنا ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔
رواہ ابن ابی الدنیا فی فضل عشر ذی الحجۃ عن ابی قتادہ (رض) ۔

12117

12117- صيام كل يوم من أيام العشر كصيام شهر، وصيام عرفة كصيام أربعة عشر شهرا. "ابن زنجويه عن راشد بن سعيد" مرسلا.
12117 ذی الحجہ کے شروع کے دس ایام میں سے ہر دن کا روزہ ایک مہینہ روزہ رکھنے کے برابر ہے، اور عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے دن روزہ رکھنا چودہ 14 ماہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔
رواہ ابن رنجویہ عن راشد بن سعید، مرسلاً ۔

12118

12118- صيام يوم عرفة يكفر السنة التي أنت فيها، والسنة التي بعدها. "طب عن زيد بن أرقم".
12118 عرفہ کے دن روزہ رکھنا اس سال کے (گناہوں) کا کفارہ ہے جس سال میں تم ہو (یعنی جس سال عرفہ کا روزہ رکھا اس سال گناہوں کا کفارہ ہے) اور اس کے بعد والے سال کا بھی۔ یعنی عرفہ کا روزہ 2 سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن زید بن ارقم (رض) ۔

12119

12119- صيام يوم عرفة كفارة سنتين سنة قبلها، وسنة بعدها. "ابن أبي الدنيا في فضل عشر ذي الحجة عن أبي قتادة".
12119 عرفہ کے دن روزہ رکھنا دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے، ایک پہلے والے سال کا اور ایک بعد والے سال کا۔ رواہ ابن ابی الدنیا فی فضل عشر ذی الحجہ عن ابی قتادہ (رض) ۔

12120

12120- أما بعد؛ فإن أهل الشرك والأوثان، كانوا يدفعون من هذا الموضع إذا كانت الشمس على رؤس الجبال، كأنها عمائم الرجال، وإنا ندفع بعد أن تغيب. "طب ك ق عن المسور بن مخرمة".
12120 امابعد ! مشرکین اور مجوسی اس جگہ (عرفات) سے اس وقت روانہ ہوتے جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہوتا، گویا کہ وہ مردوں کے عمامے کی مانند ہوتا تھا، جبکہ ہم اس (جگہ سے) غروب آفتاب کے بعد روانہ ہوتے ہیں۔

12121

12121- يا أيها الناس على رسلكم1 عليكم بالسكينة، إن البر ليس بالإيضاع. "طب عن الفضل ابن عباس".
12121 اے لوگو ! نرمی اختیار کرو، پر سکون رہو، کیونکہ حرکت کرنا (جلد بازی) نیکی نہیں ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الفضل بن عباس (رض) ۔

12122

12122- المزدلفة كلها موقف. "ن عن جابر".
12122 مقام مزدلف سارے کا سارا موقف (مقام وقوف) ہے۔
رواہ النسائی (رح) عن جابر (رض)۔

12123

12123- هذا قزح وهو الموقف، وجمع كلها موقف، ونحرت ههنا ومنى كلها منحر فانحروا في رحالكم. "د عن علي"
12123 یہ قزح پہاڑ ہے اور یہی موقف ہے۔ اور جمع (یعنی مزدلفہ ) سارے کا سارا موقف ہے، اور میں نے یہیں قربانی کی، اور مقام ” منیٰ “ سارے کا سارا ” قربان گاہ “ ہے، لہٰذا اپنی قیام گاہوں پر قربان کرو۔ رواہ ابوداؤد (رح) عن علی (رض) ۔
نوٹ : ” قزح “ ایک پہاڑ کا نام ہے جو مقام مزدلفہ میں ہے۔ اور مزدلفہ کو ” جمع “ بھی کہتے ہیں۔

12124

12124- هذا قزح وهو الموقف، وجمع كلها موقف، هذا المنحر ومنى كلها منحر. "ت عن علي"
12124 یہ قزح (مزدلفہ کا پہاڑ) ہے اور یہی موقف ہے ، اور جمع (مزدلفہ) سارے کا سارا موقف ہے، یہ قربان گاہ ہے اور مقام منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔
رواہ الترمذی عن علی (رض)۔

12125

12125 ارفعوا عن بطن محسر، وعليكم بمثل حصى الخذف. "حم هق عن ابن عباس".
12125 وادی محسر سے چل پڑو (وہاں وقوف نہ کرو) اور چنے کے برابر کنکریاں لے لو۔
رواہ احمد فی مسندہ والبیھقی عن ابن عباس (رض) ۔

12126

12126- لا ينبغي لأحد أن يستحل مكانا بمنى فينزله. "الديلمي عن عائشة".
12126 کسی شخص کے لیے مناسب نہیں ہے کہ منیٰ میں کسی جگہ کو حلال جانے کہ وہاں اتر جائے۔ رواہ الدیلمی عن عائشہ (رض) ۔
جمار دراصل سنگریزوں اور کنکریوں کو کہتے ہیں اور جمار ان سنگریزوں اور کنکریوں کا نام ہے جو منارے پر مارے جاتے ہیں اور جن مناروں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں انھیں جمار کی مناسبت سے ” جمرات “ کہتے ہیں۔ جمرات تین ہیں۔
1 ۔ جمرۃ اولیٰ ۔ 2 ۔ جمرۃ وسطی۔ 3 ۔ جمرۃ عقبہ۔
یہ تینوں جمرات منیٰ میں واقع ہیں اور بقر عید کے روز یعنی دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرۃ عقبہ پر کنکریاں پھینکی جاتی پھر گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کو تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے۔ 12 ش۔

12127

12127- إذا رمى أحدكم جمرة العقبة فقد حل له كل شيء إلا النساء. "د عن عائشة"
12127 تم میں سے جب کسی نے جمرۃ عقبہ کی رمی کرلی تو اس کے لیے سوائے عورتوں کے (یعنی بیویوں سے جماع کے) سب کچھ حلال ہے۔ رواہ ابوداؤد عن عائشہ (رض) ۔

12128

12128- إذا رميتم وحلقتم، فقد حل لكم الطيب والثياب وكل شيء إلا النساء. "حم هق عن عائشة".
12128 جب تم نے (جمرات کی) رمی کرلی اور سر منڈالیا تو اب تمہارے سئے سوائے عورتوں کے ساتھ (جماع کے) خوشبو، کپڑے وغیرہ سب کچھ حلال ہے۔
کلام : روایت محل کلام ہے : حسن الاثر 243، ضعیف الجامع 527 ۔

12129

12129- إن هذا يوم رخص لكم إذا أنتم رميتم الجمرة أن تحلوا من كل ما حرمتم منه إلا النساء، فإذا أمسيتم قبل أن تطوفوا بهذا البيت صرتم حرما كهيئتكم قبل أن ترموا الجمرة حتى تطوفوا به. "حم د ك عن أم سلمة".
12129 یہ ایسا دن ہے کہ اس میں تمہارے لیے آسانی کی گئی ہے کہ جب تم رمی جمرہ کرلو تو سوائے عورتوں کے تم پر ہر وہ چیز حلال ہے جو تم پر حرام کی گئی تھی (البتہ بیویوں سے جماع حلال نہیں) پھر اس گھر کا طواف کرنے سے قبل شام کو تم دوبارہ محرم ہوجاؤ گے رمی جمار کرنے سے پہلے کی طرح حتیٰ کہ تم اس گھر کا طواف کرلو۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن ام سلمۃ (رض) ۔

12130

12130- إذا رميت الجمار كان ذلك نورا يوم القيامة. "البزار عن ابن عباس".
12130 اگر تو نے جمرات کی رمی کی تو قیامت کے دن وہ ایک نور ہوگا۔
رواہ البزار عن ابن عباس (رض)۔
کلام : ضعیف الجامع 526 ۔

12131

12131 يا أيها الناس، لا يقتل بعضكم بعضا، ولا يصب بعضكم بعضا، وإذا رميتم الجمرة فارموا بمثل حصى الخذف. "حم د عن أم جندب"
12131 اے لوگو ! (دوران رمی) تم میں سے بعض لوگ بعضوں کو قتل نہ کریں اور نہ ہی تکلیف پہنچائیں اور جب تم جمرہ کی رمی کرو تو خذف کی ٹکڑیوں کی طرح (یعنی چھوٹی چھوٹی) کنکریاں مارو (نہ کہ بڑے پتھر ماریں) کہ تم میں بعض بعض کو قتل کر ڈالیں یا زخمی کردیں۔
رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد عن ام جدب۔

12132

12132- ارموا الجمرة بمثل حصى الخذف. "حم عن رجل من الصحابة".
12132 مناروں پر خذف کی کنکریوں کی طرح (یعنی چھوٹی چھوٹی) کنکریاں مارو۔
رواہ احمد فی مسندہ عن رجل من الصحابۃ (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام ہے : ذخیرۃ الحفاظ 476 ۔

12133

12133- الاستجمار تو، ورمي الجمار تو، والسعي بين الصفا والمروة تو والطواف تو، وإذا استجمر أحدكم فليستجمر بتو. "م عن جابر"
12133 استنجاء طا ق ہے (یعنی استنجے کے لیے تین یا طاق عددڈھیلے لینے چاہئیں) کنکریاں پھینکنی طاق ہیں (یعنی سات کنکریاں پھینکنی چاہئیں) صفا اور مروہ کے درمیان سعی طاق ہے (یعنی ان دونوں کے درمیان سات مرتبہ پھرنا چاہیے خانہ کعبہ کے گرد طواف طا ق ہے۔ یعنی سات چکر کا ایک طواف ہے) اور جب تم میں سے کوئی شخص اگر دھونی لینا چاہے تو اسے چاہیے کہ طاق (یعنی تین یا پانچ یا سات مرتبہ) لے۔ رواہ مسلم (رح) عن جابر (رض) ۔

12134

12134- أبيني لا ترموا جمرة العقبة حتى تطلع الشمس. "حم عن ابن عباس".
12134 اے میرے چھوٹے لڑکو ! جمرہ عقبہ کی رمی نہ کرو یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے (کہ سورج طلوع ہونے کے بعد رمی کرو) ۔
رواہ احمدفی مسندہ، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن ابن عباس (رض) ۔

12135

12135 ما حج امرء إلا رفع حصاه. "فر عن ابن عمر".
12135 نہیں حج کیا کسی شخص نے مگر یہ کہ اس کی کنکریاں اٹھالی گئیں۔
مسند الفردوس للدیلمی عن ابن عمر (رض) ۔
یعنی حج کے مقبول ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ حاجی جن کنکریوں سے رمی کرتا ہے وہ اٹھالی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد رمی کرتے ہیں اس کے باوجود وہاں کنکریوں کا پہاڑ نہیں بنتا ورنہ اتنے افراد ہر سال رمی کریں تو ایک بڑا پہاڑ بن جانا کوئی بعید ہی نہیں بلکہ قوی ہے۔

12136

12136- لا ترم جمرة العقبة حتى تطلع الشمس. "طب عن ابن عباس".
12136 جمرہ عقبہ کی رمی مت کر یہاں کہ سورج طلوع ہوجائے۔
رواہ الطبرانیفی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12137

12137 يا أيها الناس، لا تقتلوا أنفسكم عند جمرة العقبة وعليكم بمثل حصى الخذف. "حم ابن سعد عن أم جندب الأزدية"1
12137 اے لوگو ! جمرہ عقبہ کے پاس (رمی کرتے ہوئے) اپنے آپ کو قتل مت کرو (کہ بڑے پتھر مارنے لگو کیونکہ اس طرح تو تم اپنے کو ہلاکت میں ڈالو گے بلکہ) خذف کی کنکریوں کی طرح (چھوٹی چھوٹی) کنکریاں مارو۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ام جندب الارذیۃ (رض) ۔

12138

12138- ارموا الجمرة بمثل حصى الخذف. "حم وابن خزيمة والباوردي وابن قانع طب ص عن حرملة بن عمرو الأسلمي عن عمه ابن سنان بن سنة" "طب عن الحرماس بن زياد عن أبيه" "ق عن عبد الرحمن بن معاذ التيمي".
12138 خذف کی کنکریوں کی مانند (چھوٹی چھوٹی ) کنکریوں سے جمرہ کی رمی کرو۔
رواہ احمد فی مسندہ وابن خزیمۃ والب اور دی وابن قانع، والطبرانی فی الکبیر ، السنن لسعید بن منصور عن حرملۃ بن عمرو الا سلمی عن عمہ ابن سنان من سنۃ، الکبیر للطبرانی عن الحرماس بن زیادہ عن ابیہ ، السنن للبیھقی عن عبدالرحمن بن معاذ التیمی۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 476 ۔

12139

12139- ارم ولا حرج. "ط حم هـ ع ص عن جابر" أن رجلا قال: يا رسول الله نحرت قبل أن أرمي قال: فذكره.
12139 تم رمی کرو، اور کچھ حرج نہیں۔
ابوداؤد مسند احمد، ابن ماجہ، السنن ابی یعلی، السنن لسعید بن منصور عن جابر (رض) ۔
کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں نے رمی سے پہلے قربانی کرلی ہے (اب رمی کروں ؟ ) تو آپ نے فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12140

12140- تجد ذلك عند ربك أحوج ما تكون إليه. "طب عن ابن عمر" قال سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم عن رمي الجمار ما له فيه؟ قال: فذكره.
12140 جس چیز کے تم سب سے زیادہ محتاج ہوگے وہ اپنے رب کے پاس پالوگے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔
فرمایا : ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مناروں پر کنکریاں پھینکنے سے متعلق سوال کیا کہ اس میں مجھے کیا ثواب ملے گا ؟ تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12141

12141- ما تقبل منها يرفع، ولولا ذلك لرأيتموها مثل الجبال يعني حصى الجمار. "طس قط ك ق عن أبي سعيد".
12141 ان کنکریوں میں سے جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں (اور حج مقبول ہوجاتا ہے) اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو تم جمرات کی کنکریوں کو پہاڑوں کی طرح دیکھتے (یعنی ان کنکریوں سے وہاں پہاڑ بن جانے) ۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط ، الدار قطنی فی السنن، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی عن ابی سعید۔

12142

12142- من رمى الجمرة بسبع حصيات، الجمرة التي عند العقبة ثم انصرف فنحر هديه، ثم حلق فقد حل ما حرم عليه من شأن الحج. "البزار عن ابن عمر".
12142 جس شخص نے جمرہ اولیٰ جو کہ جمرؤ عقبہ کے قریب ہے، پر سات کنکریاں پھینکیں، پھر وہاں سے چلا اور اپنا جانور قربان کیا پھر سرمنڈایا تو حج کی وجہ سے اس پر جو کچھ حرام تھا اب وہ حلال ہوگیا۔ رواہ البزار عن ابن عمر (رض) ۔

12143

12143- إذا رميتم الجمرة فقد حل لكم كل شيء إلا النساء. "حم عن ابن عباس".
12143 جب تم جمرہ کی رمی کر چکو تو تمہارے لیے سوائے عورتوں کے سب کچھ حلال ہوگیا۔ البتہ بیویوں سے جماع کی ابھی بھی اجازت نہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عباس (رض) ۔

12144

12144- لما أتى خليل الله المناسك، عرض له الشيطان عند جمرة العقبة فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثانية فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثالثة فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض. "ابن خزيمة طب ك هب عن ابن عباس".
12144 جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مناسک حج کی ادائیگی کے لیے آئے، تو جمرہ عقبہ کے قریب شیطان سامنے آگیا، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا، پھر شیطان جمرہ ثانیہ (دوسرے منارے) کے قریب سامنے آگیا تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر جمرہ ثالثہ (تیسرے منارے) کے پاس سامنے آگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔
رواہ ابن خزیمۃ، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض) ۔

12145

12145- إن جبريل ذهب بإبراهيم إلى جمرة العقبة فعرض له الشيطان فرماه بسبع حصيات فساخ، ثم أتى به جمرة القصوى فعرض له الشيطان فرماه بسبع حصيات فساخ، فلما أراد إبراهيم أن يذبح إسحاق قال لأبيه: يا أبت، أوثقني لا أضطرب فينتضح عليك من دمي إذا ذبحتني، فشده، فلما أخذ الشفرة، فأراد أن يذبحه نودي من خلفه، أن يا إبراهيم قد صدقت الرؤيا. "حم عن ابن عباس".
12145 جبرائیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جمرہ عقبہ لے کر آئے تو شیطان سامنے آگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سات کنکریاں ماریں کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر جبرائیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جمرہ قصوی کی طرف لے کر آئے تو شیطان سامنے آگیا، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شیطان کو سات کنکریاں ماریں کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے اپنے والد ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام)) سے فرمایا : اے اباجان ! جب آپ مجھے ذبح کریں تو مجھے مضبوطی سے باندھ دیجئے تاکہ میں نہ پھڑ پھڑاؤں کہ کہیں میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں ، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسحق (علیہ السلام) کو مضبوطی سے باندھ دیا، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کے لیے چھری اٹھائی اور ذبح کرنا چاہا تو پیچھے سے صدا آئی کہ :
اے ابراہیم ! آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ابن عباس (رض) ۔

12146

12146- اللهم صل على المحلقين ثلاثا. "ابن مندة وأبو نعيم عن جابر الأزرق الغاصري".
12146 اے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما، یہ دعا آپ نے تین مرتبہ دی۔
رواہ ابن مندہ و ابونعیم عن جابر الازرق (رض) الغاصری۔

12147

12147- اللهم اغفر للمحلقين، قالوا: والمقصرين يا رسول الله؟ قال: اللهم اغفر للمحلقين قال في الثالثة: والمقصرين. "ش حم طب وابن قانع ص عن حبشي بن جنادة" "حم ش خ انتهى. عن أبي هريرة" "ش عن زيد بن أبي مريم عنه" "حم طب عن مالك بن ربيعة عن ابن عباس" "طب عن أم الحصين" "حم عن قارب بن الأسود".
12147 اے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما، تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! بال کتروانے والوں کے لیے دعارحمت کیجئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، تیسری مرتبہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی کہ (اے اللہ ! ) بال کتروانے والوں پر بھی (رحم فرما) ۔ ابن ابی شیبہ ، مسند احمد، الکبیر للطبرانی، ابن قانع، السنن لسعید بن منصور ، عن حبشی بن جنادۃ ، مسنداحمد، ابن ابی شیبہ، البخاری، مسلم، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ، ابن ابی شبیہ عن زید بن ابی مریم عنہ مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن مالک بن ربیعۃ عن ابن عباس الکبیر للطبرانی عن ام الحصین، مسند احمد عن قارب۔

12148

12148- اللهم ارحم المحلقين، قال: والمقصرين يا رسول الله: قال: اللهم ارحم المحلقين، قال في الثالثة، والمقصرين. "مالك ط حم خ م د ت هـ عن ابن عمر" "حم ش م عن أم الحصين" "ط حم ع عن أبي سعيد" "طب عن عبد الله بن قارب".
12148 اے اللہ ! سرمنڈوانے والوں پر رحم فرما، صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! بال کتروانے والوں کے لیے دعا رحمت فرمائیے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری مرتبہ میں یہ ارشاد فرمایا : (اے اللہ ! ) بال کتروانے والوں پر بھی (رحم فرما) ۔
موطا مالک، ابوداؤد، مسنداحمد، البخاری، مسلم ابن احمد بن حنبل فی سننہ، الترمذی، ابن ماجہ ابن عمر (رض) ، مسند احمد، ابن ابی شیبہ، مسلم عن ام الحصین ، ابوداؤد، مسنداحمد، مسند ابی یعلی عن ابی سعید، الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن قارب۔

12149

12149- من لبد رأسه للإحرام فقد وجب عليه الحلاق. "عد ق عن ابن عمر".
12149 جس شخص نے احرام کی وجہ سے اپنے سر (کے بالوں) کو گوند وغیرہ سے چپکا کر نمدہ نما بنایا تو اس پر واجب ہے کہ اپنا سر منڈائے۔ الکامل لا بن عدی، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض) ۔
فائدہ : تلبید کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بالوں کو گوند وغیرہ سے چپکا کر نمدہ نما بنائے تاکہ حالت احرام میں طویل مدت رہنے کی بدولت بال پراگندہ بھی نہ ہوں اور اس میں جویں بھی نہ پڑیں۔
کلام : روایت محل کلام ہے : الطیفۃ 43 ۔

12150

12150- لا توضع النواصي إلا لله في حج أو عمرة وهي فيما سوى ذلك مثله. "الشيرازي في الألقاب حل عن ابن عباس"
12150 پیشانیاں نہ رکھی جائیں (یعنی نہ منڈوائی جائیں) مگر اللہ کے لیے حج یا عمرہ کرتے ہوئے اور یہ فعل اس کے علاوہ کرنا مثلہ (شکل بگاڑنے کے مترادف) ہے۔ الشیرازی فی الالقاب، حلیۃ الاولیاء عن ابن عباس (رض) ۔

12151

12151- لا توضع النواصي إلا في حج أو عمرة. "قط في الأفراد عن جابر".
12151 پیشانیاں پست نہ کی جائیں (سرنہ منڈوائے جائیں) مگر حج یا عمرہ میں۔
الدارقصیٰ بی الافراد عن جابر (رض) ۔

12152

12152- ما عمل ابن آدم في هذا أفضل من دم يهراق إلا أن يكون رحما مقطوعة توصل. "طب عن ابن عباس".
12152 ابن آدم کا سب سے افضل ترین عمل (یوم النحر) یعنی دسویں ذی الحجہ کو خون بہانا (قربانی کرنا) ہے، ہاں البتہ اگر کہیں قطع رحمی کی گئی ہو تو وہاں صلہ رحمی کرنا اس سے بھی افضل ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام ہے : الضعیفۃ 525، ضعیف الجامع 5113 ۔

12153

12153- ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم إنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع على الأرض فطيبوا بها نفسا. "د ت ك عن عائشة"
12153 آدمی کا یوم النحر (یعنی دسویں ذی الحجہ) کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب ترین عمل خون بہانا (قربانی کرنا) ہے، قربانی کا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں ، اپنے بالوں ، اور اپنے کھروں کے ساتھ آئے گا، اور خون اللہ کے ہاں مرتبہ پالیتا ہے زمین پر گرنے سے قبل پس اپنے دلوں کی خوشی کے ساتھ قربانی کرو۔
ابوداؤد ، الترمذی ، الحاکم فی المستدرک عن عائشہ (رض) ۔
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس کو حسن غریب کہا ہے نیز دیکھئے ضعیف الترمذی 253 ضعیف ابن ماجہ 671 روایت ضعیف ہے۔

12154

12154- من ضحى طيبة بها نفسه محتسبا لأضحيته كانت له حجابا من النار. "طب عن الحسن بن علي".
12154 جس نے دل کی خوشی کے ساتھ ثواب سمجھتے ہوئے قربانی کی تو وہ قربانی اس کے لیے جہنم سے آڑ ہوگی۔ الکبیر للطبرانی عن الحسن بن علی۔
کلام : ضعیف الجامع 5679، الضعیفۃ 529 ۔

12155

12155- ما أنفقت الورق في شيء أحب إلى الله تعالى من نحير ينحر في يوم عيد. "طب هق عن ابن عباس".
12155 کوئی مال کسی راہ میں خرچ کیا جانا اللہ کے نزدیک اس قربانی سے محبوب نہیں جو عیدالاضحی کو قربان کی جائے۔ الکبیر اللطبرانی، السنن للبیھقی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5028، الضعیفۃ 524 ۔

12156

12156- يا أيها الناس، إن على أهل كل بيت في كل عام أضحية، وعتيرة "حم عن مخنف بن سليم"
12156 اے لوگو ! ہر گھر والوں پر، ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے (جبکہ وہ صاحب نصاب ہوں) ۔ مسند احمد، ابوداؤد ، النسائی، ابن ماجہ عن مخف بن سلیم۔
نوٹ : عتیرہ اس بکری کو کہا جاتا ہے جو ماہ رجب میں ذبح کی جاتی ہے۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 6383 ۔

12157

12157- الأضحى علي فريضة وعليكم سنة." طب عن ابن عباس رضي الله عنهما".
12157 قربانی مجھ پر فرض ہے اور تم پر سنت ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف الجامع 2285 ۔
نوٹ : امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے علاوہ قربانی دوسرے تمام ائمہ کے نزدیک سنت ہے واجب نہیں، یہ حضرات مذکورہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث سے استدلال کرتے ہیں، جبکہ امام صاحب کے نزدیک قربانی واجب ہے اس شخص پر جو صاحب نصاب ہو، آگے جو حدیث آرہی ہے وہ اور اس جیسی دوسری احادیث امام صاحب کا مستدل ہیں۔

12158

12158- أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله تعالى لهذه الأمة. "حم د ن ك عن ابن عمرو".
12158 مجھے حکم دیا گیا کہ میں قربانی کے دن عید مناؤں، کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے قربانی کے دن کو عید بنایا ہے۔ رواہ احمد فی مسدہ وابوداؤد و النسائی والحاکم عن ابی عمرو (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 1265 ۔

12159

12159- من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا. "هـ ك عن أبي هريرة".
12159 جس شخص کو وسعت ہو (یعنی صاحب حیثیت ہو) اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ شخص ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ رواہ ابن ماجہ والحاکم عن ابوہریرہ (رض) ۔

12160

12160- إن البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة. "حم د عن جابر".
12160 گائے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے (قربانی) کیے جاسکتے ہیں (یعنی گائے اور اونٹ میں سات، سات حصے ہوتے ہیں، سات افراد ایک گائے یا اونٹ میں شریک ہو کر اجتماعی قربانی کرسکتے ہیں) ۔ رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد عن جابر (رض) ۔

12161

12161- البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة في الأضاحي. "طب عن ابن مسعود".
12161 قربانی میں گائے اور اونٹ سات، سات افراد کی طرف سے قربانی کیے جاسکتے ہیں۔ یعنی گائے میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، اسی طرح اونٹ میں بھی۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود (رض) ۔

12162

12162- الجزور عن سبعة. "الطحاوي عن أنس".
12162 اونٹ (کی قربانی) سات افراد کی طرف سے ہوسکتی ہے۔ رواہ الطحاوی عن انس (رض) ۔

12163

12163- الجزور في الأضحى عن عشرة. "طب عن ابن مسعود".
12163 قربانی میں اونٹ دس افراد کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 2637، ضعاف الدار قطنی 627 ۔

12164

12164- ليشترك البقر في الهدي. "ك عن جابر".
12164 چاہیے کہ گائے ہدی میں (اونٹ میں) مشترک ہو، (یعنی گائے بھی ہدی میں شامل ہے) ۔ رواہ الحاکم عن جابر (رض) ۔

12165

12165- إن الجذع من الضأن يوفي مما يوفي منه الثني من المعز. "د ن هـ ك هق عن مجاشع بن مسعود".
12165 بھیڑ کا بچہ اس بکری کی جگہ کافی ہے جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں۔ یعنی بھیڑ کا بچہ جو قد کاٹھ میں سال بھر کا لگتا ہو وہ بڑی بکری کی جگہ قربانی میں استعمال ہوسکتا ہے۔
ابوداؤد، النسائی ، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن مجاشع بن مسعود۔

12166

12166- ضحوا بالجذع من الضأن، فإنه جائز. "حم طب عن أم بلال".
12166 بھیڑ کے بچہ کی (جو چھ ماہ سے اوپر کا ہو لیکن سال بھر کا معلوم ہوتا ہو) قربانی کرو بیشک یہ جائز ہے۔ مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن ام بلال۔

12167

12167- لا تذبحوا إلا بقرة مسنة إلا أن يتعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن. "حم م د ن هـ عن جابر".
12167 ذبح نہ کرو مگر بڑی عمر کی گائے۔ جو کم از کم دوسالہ ہو ہاں اگر وہ تمہارے لیے مشکل ہوجائے تو بھیڑ کا بچہ ذبح کرلو۔ مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، النسائی ، ابن ماجہ عن جابر (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 6209 ۔

12168

12168- إن الجذعة تجزى مما تجزئ منه الثنية. "حم هق عن رجل من مزينة".
12168 بھیڑ یا دنبہ کا بچہ کافی ہے (سال سے اوپر) بکری کی جگہ۔
مسند احمد، السنن للبیہقی عن رجل من مزینۃ۔

12169

12169- نعم الأضحية الجذع من الضأن. "ت عن أبي هريرة"
12169 بھیڑ اور دنبے کے بچے کی قربانی بہترین ہے۔ الترمذی عن ابوہریرہ (رض) ۔

12170

2170- عجب ربنا من ذبحكم الضأن في يوم عيدكم. "هب عن أبي هريرة".
12170 ہمارا رب تعجب (وفخر) کرتا ہے جب تم اپنی اس عید کے روز بھیڑ یا دنبہ کو اللہ کی راہ میں ذبح کرتے ہو۔ شعب الایمان للبیہقی۔

12171

12171- أربع لا يجزين في الأضاحي: العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين ظلعها، والعجفاء التي لا تنقى "مالك حم حب ك هق عن البراء".
12171 چار جانوروں کی قربانی اضحیہ میں جائز نہیں ہے ، واضح کانا اور بھینگا جانور جس کا بھینگا پن کھلا ہو، وہ مریض جانور جس کا مرض بالکل ظاہر ہو، وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بالکل ظاہر ہو۔ اور وہ ریوڑ سے پیچھے رہ جاتا ہو اور بالکل دبلا اور لاغر جانور بھی قربانی کے لائق نہیں۔
موطا امام مالک، مسنداحمد، ابن حبان، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن البراء۔

12172

12172- نهى أن يضحى بعضباء الأذن والقرن. "حم ك عن علي" [د] .
12172 حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھٹے ہوئے کان والے اور ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔ مسند احمد، مستدرک الحاکم بروایت علی (رض) ، ابوداؤد۔
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف الجامع 6016، ضعیف ابی داؤد 601 ۔

12173

12173- لا تذبحن ذات در " ت عن أبي هريرة".
12173 دودھ والے جانور کو ہرگز ذبح نہ کر۔ الترمذی عن ابوہریرہ (رض) ۔

12174

12174- لا يضحى بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء ولا عوراء1 "ن عن علي".
12174 کنارے سے کان کٹے کی قربانی نہ کی جائے، اور نہ کان کے پچھلے حصے کے کٹے ہوئے کی قربانی کی جائے اور نہ کان کے چیر کردو حصے کیے ہوئے جانور کی قربانی کی جائے اور نہ اس جانور کی قربانی کی جائے جس کے کان میں گول سوراخ ہو (اور نہ بھینگے یا کانے جانور کی قربانی کی جائے) ۔ النسائی عن علی (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 6353، ضعیف النسائی 298 ۔

12175

12175- إن أفضل الضحايا أعلاها وأسمنها. "حم ك عن رجل".
12175 قربانی کے جانوروں میں سب سے افضل جانور قدآور اور موٹے تازہ ہیں۔
مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن رجل۔
کلام : ضعیف الجامع 1398 ۔

12176

12176- إن أحب الضحايا إلى الله تعالى أعلاها وأسمنها. "هق عن رجل".
12176 اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے جانوروں میں سب سے محبوب جانور اونچے قدآور اور موٹے تازہ جانور ہیں۔ السنن للبیہقی عن رجل۔
کلام : ضعیف الجامع 1362 ۔

12177

12177- استفرهوا ضحاياكم فإنها مطاياكم على الصراط. "فر عن أبي هريرة".
12177 اپنی قربانی کے جانوروں میں تم عمدہ جانور چھانٹو (یعنی جو چست خوبصورت اور طاقتور ہوں ایسے جانور کی قربانی کرو) کیونکہ (یہ جانور پل صراط پر تمہاری سواری ہوں گے) ۔
عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب 182، الاتقان 1760 ۔

12178

12178- إذا دخل العشر وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره ولا بشره شيئا. "م د ن عن أم سلمة".
12178 جب عشرہ ذی الحجہ داخل ہو (یعنی ذی الحج کا پہلا عشرہ شروع ہو) اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور جلد کو بالکل نہ چھوئے (یعنی نہ کٹوائے) ۔
رواہ مسلم وابوداؤد النسائی عن ام سلمۃ (رض) ۔

12179

12179- إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره وأظفاره. "م عن أم سلمة".
12179 جب تم ذی الحجہ کے مہینہ کا چاند دیکھو، اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اپنے بال اور ناخن (کاٹنے) سے رک جائے۔ رواہ مسلم عن ام سلمہ (رض) ۔

12180

12180- من رأى منكم هلال ذي الحجة، وأراد أن يضحي فلا يأخذن من شعره ولا من أظفاره حتى يضحي. "ت ن هـ ك عن أم سلمة".
12180 تم میں سے کوئی ماہ ذی الحج کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہے تو جب تک قربانی نہ کرلے ہرگز اپنے بال اور ناخنوں کو نہ تراشے۔

12181

12181- من كان له ذبح يذبحه، فإذا أهل هلال ذي الحجة فلا يأخذن من شعره ولا من أظفاره شيئا، حتى يضحي. "م د عن أم سلمة".
12181 جس شخص کے پاس قربانی کے لیے جانور ہو، جب وہ ماہ ذی الحج کا چاند دیکھے تو جب تک قربانی نہ کرلے ہرگز اپنے بال اور ناخنوں کو نہ تراشے۔ رواہ مسلم وابوداؤد عن ام سلمہ (رض) ۔

12182

12182- من ضحى قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه، ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين. "ق عن البراء".
12182 جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کی تو اس نے اپنے لیے قربانی کی (اللہ کے لیے نہیں) اور جس شخص نے نماز عید کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی مکمل ہوگئی، اور وہ مسلمانوں کے طریقے پر چلا۔ رواہ البخاری ومسلم عن البراء (رض) ۔

12183

12183- لا يذبحن أحدكم حتى يصلي. "ت عن البراء".
12183 تم میں سے کوئی شخص قربانی اس وقت تک نہ کرے جب تک کہ نماز نہ پڑھے۔ (یعنی نماز عید پڑھنے کے بعد قربانی کرے) ۔ رواہ الترمذی عن البراء (رض) ۔

12184

12184- إن أول منسك يومكم هذا الصلاة. "طب عن البراء".
12184 تمہارے اس دن (دسویں ذی الحجہ کو) قربانی کی پہلی رسم نماز عید ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن البراء (رض) ۔

12185

12185- إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا أن نصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا، ومن ذبح قبل ذلك، فإنما هو لحم قدمه لأهله ليس من النسك في شيء. "حم ق عن البراء".
12185 ہمارے اس آج کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز عید ادا کریں، پھر لوٹیں، تو قربانی کریں۔ لہٰذا جس شخص نے اس طرح یہ کام انجام دیا تو اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا، اور جس نے اس سے پہلے (یعنی نماز عید سے قبل) قربانی کی تو گویا اس کی وہ قربانی اس گوشت کی مانند ہے کہ جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے سامنے پیش کیا، لیکن قربانی میں سے (اس کا یہ عمل) کسی کھاتے میں نہیں۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی عنالبراء (رض) ۔

12186

12186- من ذبح بعد الصلاة تم نسكه، وأصاب سنة المسلمين. "خ عن البراء".
12186 جس شخص نے نماز عید کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی پوری ہوگئی، اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔ رواہ البخاری عن البراء (رض) ۔

12187

12187- نهى أن يضحي ليلا. "طب عن ابن عباس".
12187 (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 6017 ۔

12188

12188- من ذبح قبل الصلاة فإنما يذبح لنفسه ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه وأصاب سنة المسلمين. "خ عن أنس".
12188 جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو وہ قربانی اس نے اپنے لیے کی (اللہ کے لیے نہیں کی) اور جس شخص نے نماز عید کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی کامل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔ البخاری عن انس (رض) ۔

12189

12189- من صلى صلاتنا ونسك نسكنا، فقد أصاب النسك، ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له. "ق د عن البراء".
12189 جس شخص نے ہماری نماز عید پڑھی (پھر اس کے بعد) ہماری (یہ) قربانی کی تو اس نے قربانی کی رسموں کو درست انجام دیا، اور جس شخص نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کرڈالی تو اس کی قربانی نماز عید سے پہلے تھی، لہٰذا اس کی قربانی نہیں ہوئی۔
رواہ البخاری ومسلم وابوداؤد عن البراء (رض) ۔

12190

12190- من كان ذبح أضحيته قبل أن يصلي فليذبح مكانها أخرى، ومن لم يكن ذبح فليذبح باسم الله. "حم ق ن هـ عن جندب".
12190 جس شخص نے نماز عید پڑھنے سے پہلے ہی اپنی قربانی ذبح کردی تو اسے چاہیے کہ (نماز عید کے بعد) اس کی جگہ دوسرا جانور قربان کرے اور جس شخص نے (نماز عید سے قبل) ذبح نہ کی تو اسے چاہیے کہ (نماز عید کے بعد) اللہ کا نام لے کر (اپنی قربانی) ذبح کرے۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم والنسائی وابن ماجہ عن جندب (رض) ۔

12191

12191- من كان ذبح قبل الصلاة فليعد. "حم ق ن هـ عن أنس".
12191 جس شخص نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کرڈالی تو اسے چاہیے کہ دوبارہ قربانی کرے (نماز عید کے بعد) ۔ رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم والنسائی وابن ماجہ عن انس (رض) ۔

12192

12192- الضحايا إلى هلال المحرم لمن أراد أن يستأتي ذلك. "د في مراسيله هق عن أبي سلمة وسليمان بن يسار بلاغا".
12192 جانوروں کی قربانی محرم کی شروع تاریخ تک کی جاسکتی ہیں ان لوگوں کے لیے جن سے (بوجہ مجبوری) تاخیر ہوجائے۔
ابوداؤد فی مراسیلہ، السنن للبیہقی عن ابی سلمۃ و سلیمان بن یسار بلاغاً ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3595 ۔

12193

12193- اذبحوا في أي شهر كان، وبروا الله وأطعموا. "د ن ك عن نبيشة".
12193 جانور ذبح کرو چاہے کسی بھی مہینہ میں ہو، اور اللہ رب العزت کی اطاعت و فرمان برداری کرو، اور (فقراء محتاجین کو) کھانا کھلاؤ۔ ابوداؤد ، النسائی ، مستدرک الحاکم عن نبی شۃ۔

12194

12194- نحرت ها هنا، ومنى كلها منحر، فانحروا في رحالكم ووقفت ها هنا وعرفة كلها موقف، ووقفت ها هنا وجمع كلها موقف. "د عن جابر".
12194 میں نے یہاں قربانی کی ہے ، اور مقام منی سارے کا سارا قربان گاہ ہے، پس اپنی قیام گاہوں پر قربانی کرو، اور میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور مقام عرفہ سارے کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے۔
رواہ ابوداؤد عن جابر (رض)۔

12195

12195- إذا ضحى أحدكم فليأكل من أضحيته. "حم عن أبي هريرة".
12195 جب تم میں سے کوئی شخص قربانی کرے، تو اسے چاہیے کہ اپنی قربانی کے گوشت میں سے ضرور کچھ کھائے۔ رواہ احمد فی مسندہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 341، ضعیف الجامع 581 ۔

12196

12196- كلوا لحوم الأضاحي وادخروا. "حم ك عن أبي سعيد وقتادة بن النعمان".
12196 قربانی کا گوشت کھاؤ اور ذخیرہ کرو۔
رواہ احمد فی مسندہ والحاکم عن ابی سعید وقتادۃ بن النعمان۔

12197

12197- ليأكل كل رجل من أضحيته. "طب حل عن ابن عباس".
12197 ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی قربانی کے گوشت میں سے کچھ کھائے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر و ابونعیم فی الحلیہ عن ابن عباس (رض) ۔

12198

12198- كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث، ليتسع ذو الطول على من لا طول له، فكلوا ما بدا لكم وأطعموا وادخروا. "ت عن سليمان بن بريدة".
12198 میں نے (ابتداء میں) تین دن سے زیادہ قربانوں کا گوشت کھانے سے تمہیں منع کیا تھا تاکہ غنی شخص، فقیر پر وسعت وسخاوت کرے (اب چونکہ اللہ نے وسعت پیدا فرمادی ہے) لہٰذا اب جس طرح چاہو کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ اور ذخیرہ اندوزی کرو (اب کوئی حرج نہیں) ۔
رواہ الترمذی عن سلیمان بن بریدۃ (رض) ۔

12199

12199- لا يأكل أحدكم من لحم أضحيته فوق ثلاثة أيام. "حم م ت عن ابن عمر".
12199 تم میں سے کوئی شخص تین دنوں سے زیادہ اپنی قربانی کا گوشت نہ کھائے۔
رواہ احمد فی مسندہ ومسلم والترمذی عن ابن عمر (رض) ۔

12200

12200- إنا كنا نهيناكم عن لحومها أن تأكلوها فوق ثلاث لكي تسعكم فقد جاء الله بالسعة، فكلوا وادخروا وائتجروا1 ألا وإن هذه الأيام أيام أكل وشرب وذكر الله. "د عن نبيشة".
12200 ہم نے (ابتداء میں) تین دنوں سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے تمہیں منع کیا تھا تاکہ تم لوگ اپنے اوپر کشادگی کرو (یعنی تم لوگوں میں جو غنی ہیں وہ مالداروں کو کھلائیں تاکہ سب میں کشادگی و وسعت پھیلے) لہٰذا (اب قربانی کا گوشت) کھاؤ ، جمع کرکے رکھو اور (اس کی) تجارت کرو، آگاہ رہو ! کہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔
رواہ ابوداؤد عن نبی شۃ (رض) ۔

12201

12201- إني كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث، كيما تسعكم لقد جاء الله بالخير فكلوا وتصدقوا وادخروا، فإن هذه الأيام أيام أكل وشرب وذكر الله "حم هـ ن عن نبيشة".
12201 بیشک میں نے تمہیں قربانی کا گوشت دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا تاکہ تم میں فراخی و کشادگی ہو، (اب ) اللہ تعالیٰ نے رزق میں وسعت عطا کردی ہے لہٰذا (قربانی کا گوشت) کھاؤ، (فقراء پر) صدقہ کرو اور ذخیرہ اندوزی کرو، کیونکہ یہ ایام کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے واسطے ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجہ والنسائی عن نبی شۃ (رض) ۔

12202

12202- إني كنت نهيتكم أن تأكلوا لحوم الأضاحي إلا ثلاثا، فكلوا وأطعموا وادخروا ما بدالكم، وذكرت لكم أن لا تنتبذوا2 في الظروف الدباء والمزفت والنقير والحنتم، انتبذوا فيما رأيتم، واجتنبوا كل مسكر ونهيتكم عن زيارة القبور، فمن أراد أن يزور فليزر ولا تقولوا هجرا. "ن عن بريدة"
12202 میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دنوں سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا، لہٰذا جس طرح چاہو (اب خود) کھاؤ، اور (دوسروں) کو کھلاؤ اور ذخیرہ کرکے رکھو، اور میں نے تمہیں یہ بات بھی بیان کی تھی کہ برتنوں یعنی دبا، مزفت، نقیر اور حنتم میں نبیذ نہ بناؤ، (اب) میں تمہیں کہتا ہوں کہ جس (برتن) میں تم چاہو نبیذ بنالو، اور ہر نشے دار چیز سے اجتناب برتو، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، (اب میں کہتا ہوں) لہٰذا جو شخص زیارت کرنا چاہے زیارت کرلے، اور فحش بات مت کرو۔
نوٹ : کدوکا گودا نکال کر برتن بنالیا جائے اس کو دبا کہتے ہیں، اور مزفت ایسے برتن کو کہتے ہیں جس پر تارکول لیپ دیا جائے اور اس کے مسامات بند کردیئے جائیں، اور نقیر اس برتن کو کہتے ہیں کہ درخت کے تنے کا گودا نکال کر اس کا برتن بنالیا جائے، اور حنتم سبز مٹکے کو کہتے ہیں۔
ان تمام برتنوں میں نبیذ بنانے سے اس لیے منع کیا گیا تھا کہ چونکہ ان برتنوں میں پہلے شراب بنائی جاتی تھی، تو ان کے استعمال پر قلبی میلان ہوتا۔ لیکن جب اسلام قلوب میں جاگزیں ہوگیا تو اس حکم کو منسوخ کردیا گیا۔

12203

12203- أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر الله. "حم ن عن نبيشة". الحنتم: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحنتمة وهي الجرة. الدباء: ونهى عن الدباء وهي القرعة. النقير: ونهى عن النقير وهو أصل النخل ينقر نقرا أو ينسح نسحا. المزفت: ونهى عن المزفت وهي المقير: أي المطلى بالقار أي الزفت. وقوله في الظروف: جمع ظرف وهو الوعاء بدليل الحديث في الترمذي كتاب الأشربة باب ما جاء في الرخصة أن ينبذ في الظروف رقم [1869] : " إني كنت نهيتكم عن الظروف، وإن ظرفا لا يحل شيئا ولا يحرمه، وكل مسكر حرام". هجرا: أي فحشا، يقال: أهجر في منطقه يهجر إهجارا إذا أفحش انتهى."5/245" النهاية. ب.
12203 ایام تشریق (یعنی 13, 12, 11, 10 ذی الحجہ) کھانے پینے کے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ رواہ احمد والنسائی عن نبی شۃ (رض) ۔

12204

12204- من قدم من نسكه شيئا أو أخره، فلا شيء عليه. "هق عن أنس".
12204 جس شخص نے اپنی قربانی میں کچھ تقدیم و تاخیر کی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔
رواہ البیہقی فی السنن عن انس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5755 ۔

12205

12205- من باع جلد أضحيته؟ فلا أضحية له. "ك هق عن أبي هريرة".
12205 جس شخص نے اپنی قربانی کے جانور کی کھال فروخت کی تو اس کی قربانی نہیں ہوئی۔
رواہ الحاکم فی المستدرک والبیہقی فی السنن عن ابوہریرہ (رض) ۔

12206

12206- إن عطب منها شيء فخشيت عليها موتا، فاذبحها ثم اغمس نعلها في دمها، ثم اضرب بها صفحتها، ولا تطعم منها أنت ولا أحد من رفقتك واقسمها. "حم د عن ابن عباس" "حم م د هـ عنه عن ذؤيب بن حلحلة" وماله غيره.
12206 اگر ہدی (راستے میں) تھک جائے کہ تمہیں اس کے مرنے کا ڈر ہونے لگے تو اس کو ذبح کردو پھر اس کی جوتی (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہے) اس کو اس کے خون میں رنگ دو اور اس کے ذریعے اس کی گردن میں نشان لگادو، اور تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس کا گوشت نہ کھائے (بلکہ) اس گوشت کو (فقراء) میں تقسیم کردو۔ رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد عن ابن عباس (رض) ، رواہ احمد فی مسندو مسلم وابوداؤد ابن ماجہ عنہ عن ذویت بن حلحلۃ (رض) اور اس کے علاوہ اس راوی کی اور کوئی روایت نہیں ہے۔

12207

12207- إن عطب منها شيء؛ فانحره، ثم اغمس نعله في دمه، ثم اضرب صفحته، ثم خل بينه وبين الناس فليأكلوه. "حم د هـ عن ناجية الأسلمي".
12207 اگر ان ہدی میں کوئی قریب المرگ ہوجائے تو اس کو ذبح کردو پھر اس کی جوتی (بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہو) کو اس کے خون میں رنگ دو ، پھر اس کے ذریعہ اس کی گردن میں نشان لگادو، پھر اس ہدی کو لوگوں کے مابین چھوڑ دو (یعنی فقراء کو اس کا گوشت کھانے سے منع نہ کرو) تاکہ وہ اس کا گوشت کھالیں۔ رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد و ابن ماجہ عن ناجیۃ الاسلمی۔

12208

12208- اركبوا الهدي بالمعروف حتى تجدوا ظهرا. "حب عن جابر". ورواه مسلم في صحيحه كتاب الحج باب ما يفعل بالهدي رقم [1326] عن ابن عباس رضي الله عنهما. ورواه أبو داود كتاب المناسك باب الهدي إذا عطب رقم [1746] . وابن ماجه كتاب المناسك باب في الهدي إذا عطب رقم [3105] . وذؤيب بن حلحلة الخزاعي والد قبيصة بن ذؤيب، شهد الفتح وله أربعة أحاديث انفرد له "م" بحديث. خلاصة الكمال للخزرجي "1/312". ص.
12208 جب تک تمہیں کوئی اور سواری نہ ملے اس وقت تک اس ہدی پر خوب احتیاط کے ساتھ سواری کرو (کہ اس کو کوئی ضرر اور تکلیف نہ پہنچے) ۔ رواہ ابن جان فی صحیحہ عن جابر (رض) ۔

12209

12209- العتيرة حق. "حم ن عن ابن عمر".
12209 عتیرہ حق ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والنسائی عن ابن عمر (رض) ۔
نوٹ : عتیرہ اس بکری کو کہا جاتا ہے جو رجب کے مہینہ میں ذبح کی جاتی ہے۔

12210

12210- لا فرع ولا عتيرة. "حم ق هـ عن أبي هريرة".
12210 فرع اور عتیرہ کچھ نہیں۔ فرع : جب اونٹنی وغیرہ پہلا بچہ جنتی تھیں تو اس بچہ کو اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے، اس کو فرع کہتے ہیں۔ عتیرہ : وہ بکری جو رجب کے مہینہ میں ذبح کی جائے اس کو کہتے ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 6229 ۔

12211

12211- على أهل كل بيت أن يذبحوا شاة في كل رجب، وفي كل أضحى شاة. "طب عن مخنف بن سليم".
12211 ہر گھر والوں پر واجب ہے کہ وہ ہر سال ماہ رجب میں ایک بکری ذبح کریں اور ہر عیدالاضحی پر ایک بکری ذبح کریں۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن مخنف بن سلیم۔
کلام : النوافح 1086 ۔

12212

12212- من شاء فرع ومن شاء لم يفرع، ومن شاء عتر ومن شاء لم يعتر وفي الغنم أضحيتها، ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "حم حل د ن ك عن الحارث ابن عمر السهمي".
12212 جو چاہے پہلا بچہ ذبح کرے اور جہ نہ چاہے نہ ذبح کرے اور جو چاہے ماہ رجب میں بکری ذبح کرے اور جہ نہ چاہے نہ ذبح کرے، اور بکریوں میں قربانی ہے، آگاہ رہو ! تمہارے خون اور تمہارے اعمال تم پر ایسے ہی محترم ہیں جیسے تمہارے اس مہینہ میں، تمہارے اس شہر میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ و ابونعیم فی الحلیہ وابوداؤد والنسائی والحاکم فی المستدرک عن الحارث ابن عمر السھمی
کلام : ضعیف الجامع 5638 ۔

12213

12213- في كل سائمة من الغنم فرع تغذوه ماشيتك حتى إذا استحمل للحجيج ذبحته فتصدقت بلحمه على ابن السبيل فإن ذلك هو خير. "حم د ن هـ عن نبيشة".
12213 ہر وہ بکری جو باہر چر پھر کر بڑی ہو پھر وہ (پہلا ) بچہ دے اور تو اس کے بچہ کے گوشت کو مسافروں کو کھلادے تو یہ بہت بہتر ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، النسائی ، ابن ماجہ عن نبی شۃ (رض) ۔

12214

12214- الفرع حق وإن تتركوه حتى يكون بكرا شفريا ابن مخاض أو ابن لبون، فتعطيه أرملة، أو تحمل عليه في سبيل الله خير من أن تذبحه فيلزق لحمه بوبره وتكفئ إناءك وتوله ناقتك "حم د ن ك عن ابن عمرو".
12214 فرع حق ہے، اور اگر تم اسی بچہ کو چھوڑے رکھو حتیٰ کہ وہ جوان اور موٹا تازہ ہوجائے ابن مخاض (دوسرے سال میں لگ جائے) یا ابن لبون (تیسرے سال میں لگ جائے) پھر تو اس کو فقراء اور محتاج لوگوں کو دیدے یا تو اس کو خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) دیدے تو یہ اس کو ذبح کرنے سے بہتر ہے۔ اس دوران اس پر وبر (اونٹ کے بال اون) چڑھ جائیں گے تو اس کے لیے اپنے برتن کو جھکا دے گا (یعنی اس کی خدمت کرے گا) اور (اس کی ماں) تیری اونٹنی اس کی دیکھ بھاگ کرے گی۔ مسند احمد ابوداؤد، النسائی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو۔

12215

12215- لا عقر1 في الإسلام "د عن أنس"
12215 اسلام میں ” عقر “ کچھ نہیں۔ رواہ ابوداؤد عن انس (رض) ۔
فائدہ : زمانہ جاہلیت میں لوگ قبروں پر اونٹ ذبح کیا کرتے تھے۔ اور یہ بات کہتے تھے کہ ” صاحب قبر “ چونکہ اپنے زندگی میں مہمانوں کی ضیافت کے لیے اونٹ ذبح کیا کرتا تھا لہٰذا اس کی موت کے بعد یہ عمل اس کو کافی ہوگا۔

12216

12216- إذا أتيا على الوقت تغتسلان وتحرمان وتقضيان المناسك كلها غير الطواف بالبيت. "حم د عن ابن عباس".
12216 عورتیں حیض اور نفاس کی وجہ سے جب ماہواری کے ایام آجائیں تو غسل کریں اور احرام باندھ لیں اور تمام مناسک حج ادا کرلیں سوائے بیت اللہ کے طواف کے۔
مسند احمد ، ابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔

12217

12217- إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم فاقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت. "ق د ن عن عائشة".
12217 یہ چیز (حیض) اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے پس جس طرح دوسرے حاجی جو افعال کرتے ہیں تم بھی کرتی رہو سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔
البخاری ، مسلم، ابوداؤد ، النسائی ، عن عائشۃ (رض) ۔

12218

12218- إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم فاغتسلي، وأهلي بالحج، واقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت، ولا تصلي. "حم م د عن جابر".
12218 بیشک یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر فرمادیا ہے، (لہٰذا پریشانی کی کوئی بات نہیں) تم غسل کرلو، اور حج کا تلبیہ پڑھو ، اور تم بھی وہی افعال کرو جو حاجی کرتے ہیں، البتہ (جب تک پاک نہ ہو جاؤ یعنی ایام حیض ختم نہ ہوجائیں اور اس کے بعد نہا نہ لو) اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نہ ہی نماز پڑھنا۔
رواہ احمد فی مسندہ ومسلم وابوداؤد عن جابر (رض) ۔

12219

12219- ليس على المرأة إحرام إلا في وجهها. "طب هق عن ابن عمر".
12219 عورت پر احرام سوائے اس کے چہرے کے واجب نہیں (یعنی عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو کھلا رکھے گی، باقی جو اعضاء ستر میں داخل ہوں ان کا مکمل پردہ کرے گی) ۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی السنن عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : حسن الآثر 250، ذخیرۃ الحفاظ 4666 ۔

12220

12220- المحرمة لا تنتقب ولا تلبس القفازين. "د عن ابن عمر"
12220 محرمہ (یعنی عورت حالت احرام میں) نہ ہی نقاب لگائے اور نہ ہی دستانے پہنے۔
رواہ ابوداؤد ابن عمر (رض) ۔

12221

12221- ليس على النساء حلق إنما على النساء التقصير. "د عن ابن عباس"
12221 عورتوں پر سر منڈانا ضروری نہیں بلکہ ان پر تو قصر یعنی بال تراشنا واجب ہے (عورتیں حلق نہیں کرینگی بلکہ بال قصر کریں گی) ۔ رواہ ابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : حسن الآثر 244 ۔

12222

12222- حج عن أبيك واعتمر. "د عن أبي رزين"
12222 اپنے والد کی طرف سے تم حج وعمرہ کرلو۔ رواہ ابوداؤد عن ابی رذین۔

12223

12223- أنت أكبر ولد أبيك فحج عنه. "حم ن عن ابن الزبير".
12223 اپنے والد کی اولاد میں سب سے بڑے ہو لہٰذا تم اپنے والد کی جانب سے حج ادا کرلو۔
رواہ احمد فی مسندہ والنسائی عن ابن الزبیر (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1326، ضعیف النسائی 168 ۔

12224

12224- قولي: لبيك اللهم لبيك، ومحلي من الأرض حيث تحبسني، فإن لك على ربك ما استثنيت. "ن د عن ابن عباس"
12224 تم کہنا : لبیک اللھم لبیک، حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں اور یہ شرط لگا لینا کہ ” اللھم محلی حیث تحسبنی “ جس جگہ آپ نے مجھے محبوس کیا وہی جگہ میرے حلال ہونے کی جگہ ہوگی، کیونکہ تم نے اپنے رب سے جو کچھ استثناء چاہا ہے تمہارے لیے وہی ہوگا (یعنی بیماری وغیرہ کے سبب روک دیاجاؤں) ۔

12225

12225- من كسر أو مرض أو عرج فقد حل وعليه حجة أخرى من قابل. "حم 4 ك عن الحجاج بن عمر بن غزية".
12225 جس شخص کا پاؤں ٹوٹ جائے یا وہ مریض ہوجائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو وہ حلال ہوگیا (یعنی اس کے لیے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے اور اپنے گھر واپس جائے) لیکن آئندہ سال اس پر واجب ہوگا۔ رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجہ والحاکم فی المستدرک عن الحجاج بن عمر بن خزیۃ (رض) ۔
نوٹ : احصار کے معنی لغت کے اعتبار سے تو ” روک لیا جانا “ ہیں، اور اصطلاح فقہ میں ” احرام باندھ لینے کے بعد حج یا عمرہ سے روکا جانا ” احصار “ کہلاتا ہے۔
اس کی کئی صورتیں ہیں :
1 ۔ کسی دشمن کا خوف 2 ۔ بیماری لاحق ہو 3 ۔ عورت کا محرم نہ رہے۔
4 ۔ خرچہ وغیرہ کم ہوجائے۔ 5 ۔ عورت پر عدت لازم ہوجائے۔
6 ۔ راستہ بھول جائے۔ 7 ۔ عورت کو اس کا شوہر منع کردے ، بشرطیکہ اس نے حج کا احرام شوہر کی اجازت کے بغیر باندھا ہو۔ 8 ۔ لونڈی یا غلام کو اس کا آقا منع کردے۔

12226

12226- إذا حج الصبي فهي له حجة حتى يعقل، وإذا عقل فعليه حجة أخرى، وإذا حج الأعرابي فهي له حجة، فإذا هاجر فعليه حجة أخرى. "ك عن ابن عباس"ٓ
12226 بچے نے جب حج کیا تو وہ اس کا حج ہے، یہاں تک کہ وہ بچہ عقلمند (بالغ) ہوجائے اور جب وہ بچہ عقلمند ہوجائے تو اس پر دوسرا حج کرنا واجب ہے (عندو جو دا الشرائط) اور اگر کسی بدوی نے حج کیا تو وہ اس کے لیے حج ہے، لیکن اگر اس نے ہجرت کرلی تو اس پر ایک دوسرا حج کرنا واجب ہوگا۔ رواہ الحاکم فی المستدرک عن ابن عباس (رض) ، صحیح علی شرط الشیخین و وافقہ الذھبی۔

12227

12227- أيما صبي حج ثم بلغ الحنث فعليه أن يحج حجة أخرى، وأيما أعرابي حج ثم هاجر فعليه أن يحج حجة أخرى، وأيما عبد حج، ثم أعتق فعليه أن يحج حجة أخرى. "خط والضياء عن ابن عباس".
12227 جس بچے نے حج کیا، پھر وہ حد بلوغت کو پہنچا تو اس پر ایک دوسرا حج کرنا واجب ہے، اور جس بدوی نے حج کیا، پھر اس نے ہجرت کرلی تو اس پر ایک دوسرا حج کرنا واجب ہے، اور جس غلام نے حج کیا، پھر وہ آزاد کردیا گیا تو اس پر ایک دوسرا حج کرنا واجب ہوگا۔ یعنی کیونکہ ان کا پہلا حج نفلی تھا لیکن دوسرا شرائط کی موجودگی میں واجب ہے، پہلا حج کافی نہ ہوگا۔
رواہ الخطیب فی التاریخ والضیاء عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : حسن الآثر 222، ذخیرۃ الحفاظ 2264 ۔

12228

12228- للمهاجرين إقامة بعد الصدر ثلاثا. "د م عن ابن الحضرمي"
12228 مہاجرین کے لیے طواف صدر (یعنی طواف وداع) کے بعد مکہ میں تین دن قیام کی اجازت ہے۔ رواہ ابوداؤد و مسلم عن ابن الحضرمی۔

12229

12229- ثلاث للمهاجر بعد الصدر "خ هـ عن العلاء ابن الحضرمي".
12229: ۔۔ مہاجر طواف صدر کے بعد تین دن رہے۔ بخاری، ابن ماجہ، عن ابن الحضرمی (رض) ۔

12230

12230- يمكث المهاجر بعد نسكه ثلاثا. "حم م ت ن عن العلاء بن الحضرمي".
12230: مہاجر مناسک حج کی ادائیگی سے فراغ کے بعد تین دن مکہ میں قیام کرسکتا ہے۔ (رواہ احمد فی مسندہ و مسلم والترمذی والنسائی عن العلاء بن الحضرمی)

12231

12231- من قدم من نسكه شيئا أو أخره؛ فلا شيء عليه. " هق عن ابن عباس".
12231 جس شخص نے اپنے مناسب حج میں کچھ تقدیم و تاخیر کرلی تو اس پر کوئی تاوان نہیں۔
رواہ البیہقی فی السنن عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 5755 ۔

12232

12232- لتأخذوا مناسككم؛ فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه. "م عن جابر"
12232 تم اپنے مناسک حج (مجھ سے) سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اپنے اس حج کے بعد شاید کوئی حج کرسکوں گا۔ رواہ مسلم (رح) عن جابر (رض) ۔

12233

12233- الأضاحي سنة أبيكم إبراهيم بكل شعرة حسنة، وبكل شعرة من الصوف حسنة. "ك عن زيد بن أرقم".
12233 قربانی ، تمہارے باپ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے، (قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے، اور ہر اونی بال کے بدلہ ایک نیکی ہے۔
رواہ الحاکم فی المستدرک عن زید بن ارقم (رض) ۔

12234

12234- ضحوا وطيبوا بها أنفسكم فإنه ليس من مسلم يوجه أضحيته إلى القبلة إلا كان دمها وقرنها وصوفها حسنات محضرات في ميزانه يوم القيامة. "الديلمي عن عائشة".
12234 قربانی کرو اور اس کے ذریعہ سے اپنی جانوں کو پاک کرو، کیونکہ کوئی بھی مسلمان جب اپنی قربانی کے جانور کو (ذبح کے لئے) قبلہ رخ لٹاتا ہے تو قیامت کے دن اس کا خون، اس کے سینگ اور اس کا اون میزان عدل میں نیکیاں ہوں گے۔

12235

12235- يا فاطمة، قومي إلى أضحيتك، فاشهديها، فإنه يغفر لك عند أول قطرة تقطر من دمها كل ذنب عملتيه، وقولي: إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين قيل: يا رسول الله، هذا لك ولأهل بيتك خاصة؟ قال: لا بل لنا وللمسلمين عامة. "طب ك وتعقب1 ق عن عمران بن حصين".
12235 اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے جانور کی طرف کھڑی ہوجاؤ ، اور اس کی قربانی کے وقت حاضر رہو، کیونکہ اس کے خون کے پہلے قطرے ہی کے وقت ر وہ گناہ جو تم نے کیے ہیں معاف کردیئے جائیں گے۔ اور یہ دعا پڑھنا :
ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین۔
ترجمہ : بیشک میری نماز اور میری ہر ایک عبادت اور میرا جینا اور مرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھ کو یہی حکم دیا گیا ہے، اور میں سب فرمان برداروں میں سے پہلا فرمان بردار ہوں۔
کہا گیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ حکم آپ کے لیے اور آپ کے اہل بیت کے لیے خاص ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : نہیں بلکہ یہ حکم ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی عام ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر والحاکم فی المستدرک ” وتعقب “ والبیہقی عن عمران بن حصین (رض) ۔
کلام : بیہقی پر ذھبی (رح) نے نقد فرماتے ہوئے فرمایا راوی ابوحمزۃ بہت ہی ضعیف ہے اور اسماعیل لیس بذاک اعتبار کے قابل نہیں۔

12236

12236- يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها، فإن لك بأول قطرة تقطر من دمها يغفر لك ما سلف من ذنوبك قالت: يا رسول الله هذا لنا خاصة قال: بل لنا وللمسلمين عامة. "ك وتعقب عن أبي سعيد"1
12236 اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہوجاؤ اور (بوقت ذبح) اس کے پاس حاضر رہو، کیونکہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ گرنے پر تمہارے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجائیں گے تو حضرت فاطمہ (رض) نے پوچھا کہ : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا یہ حکم ہمارے لیے خاص ہے ؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی عام ہے۔ رواہ الحاکم وتعقب عن ابی سعید (رض) ۔
کلام : امام ذھبی (رح) فرماتے ہیں مذکورہ روایت کی سند میں عطیہ راوی ” واہ “ بےکار ہے۔

12237

12237- يا فاطمة، قومي واشهدي أضحيتك، أما إن لك بأول قطرة تقطر من دمها مغفرة لكل ذنب، أما إنه يجاء بها يوم القيامة بلحومها ودمائها سبعين ضعفا حتى توضع في ميزانك هي لآل محمد والناس عامة. "ق عن علي".
12237 اے فاطمہ ! کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے جانور کے پاس حاضر رہو، آگاہ رہو کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ گرنے پر تمہارا ہر گناہ معاف ہوجائے گا، قیامت کے دن وہ قربانی کا جانور اپنے گوشت اور خون کے ستر گنابڑھا کر لایا جائے گا تاکہ تمہارے ترازو میں تولا جائے۔ یہ حکم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد کے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی عام ہے۔
رواہ البیہقی عن علی (رض) ۔

12238

12238- النفقة بعد صلة الرحم أعظم عند الله من إهراقه الدم. "الخطيب وابن عباس وقال غريب".
12238 صلہ رحمی کے لیے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے ) سے بھی زیادہ عظیم ہے۔ رواہ الخطیب وابن عباس (رض) ۔
کلام : اس حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ حدیث ” غریب “ ضعیف ہے۔

12239

12239- ما من نفقة بعد صلة الرحم أفضل وأعظم أجرا من إهراق الدم أيام النحر. "الديلمي عن ابن عباس".
12239 جو نفقہ (خرچ) صلہ رحمی کے لیے ہو وہ، ایام نحر میں خون بہانے (قربانی کرنے) سے بھی زیادہ افضل اور اجر وثواب کے اعتبار سے بہت عظیم ہے۔ رواہ الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔

12240

12240- ما عمل ابن آدم في هذا اليوم أفضل من دم يهراق إلا أن يكون رحم مقطوعة توصل. "طب عن ابن عباس".
12240 ابن آدم کا اس آج کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) سب سے افضل عمل خون بہانا (قربانی کرنا) ہے، البتہ اگر کہیں قطع رحمی پر صلہ رحمی کی گئی ہو تو وہ عمل اس سے بھی زیادہ افضل ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 8113، الضعیفۃ 525 ۔

12241

12241- نزل جبريل فقلت له: كيف رأيت عيدنا؟ فقال: لقد تباهى به أهل السماء؛ اعلم يا محمد إن الجذع من الضأن خير من المسنة من المعز، وإن الجذع من الضأن خير من المسنة من البقر، وإن الجذع من الضأن خير من المسنة من الإبل، ولو علم الله ذبحا خيرا منه فدى به إبراهيم. "ك وتعقب عن أبي هريرة"1
12241 جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ : آپ کو ہماری عید (الاضحی) کیسی لگی ؟ تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس عید پر آسمان والوں نے فخر کیا ہے۔ اے محمد ! یہ بات جان لو کہ : بیشک بھیڑ کا بچہ بکری کے ایک سالہ بچہ سے بہتر ہے ، اور بھیڑ کا بچہ گائے کے دو سال بچہ سے بہتر ہے، اور بھیڑ کا بچہ اونٹ کے پانچ سالہ بچہ سے بہتر ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ کو بھیڑ سے زیادہ بہتر جانور کی قربانی کا علم ہوتا تو ضرور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسی کی قربانی کرتے (یعنی اللہ نے بھیڑ نازل کیا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی کی قربانی کی، اس سے معلوم ہوا کہ بھیڑ سب سے بہتر ہے) ۔ رواہ الحاکم فی المستدرک وتعقب عن ابوہریرہ (رض) ۔
نوٹ : اس حدیث کی سند میں مالک اور ہشام نامی روای ہیں جن کے بارے میں علامہ ذھبی (رح) کا کہنا ہے کہ ” لیس بمعتمد “ اور ابن عدی نے کہا کہ باوجود راوی ضعیف ہونے کے امام حاکم اس کی حدیث رکھتے ہیں۔

12242

12242- جاء جبريل يوم الأضحى فقلت: كيف رأيت نسكنا؟ قال: يا محمد لقد تباهى به أهل السماء واعلم يا محمد؛ إن الجذع من الضأن خير من السيد من البقر، واعلم يا محمد إن الجذع من الضأن خير من السيد من الإبل ولو علم الله تعالى ذبحا أفضل منه لفدى به إبراهيم. "عق ق وضعفه عن أبي هريرة".
12242 عیدالاضحی کے دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے، تو میں نے (ان سے) کہا کہ : آپ کو ہماری قربانی کیسی لگی ؟ تو انھوں نے کہا کہ اس پر تو آسمان والوں نے فخر کیا ہے۔ اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جان لیں کہ : بھیڑ کا بچہ گائے کے دو سالہ بچہ سے بہتر ہے، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جان لیں کہ بھیڑ کا بچہ اونٹ کے پانچ سالہ بچہ سے بہتر ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ کو بھیڑ سے زیادہ افضل جانور کی قربانی کا علم ہوتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ضرور اسی کی قربانی کرتے۔
رواہ العقیلی والبیہقی وضعفہ عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ضعیف ہے۔

12243

12243- عفراء أحب إلى الله من دم سوادوين. "حم ك ق عن أبي هريرة".
12243 بھورے رنگ کے جانور کا خون اللہ کے ہاں کالے اور دوسرے رنگ کے جانور سے زیادہ محبوب ہے۔ مسند احمد ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی ، عن ابوہریرہ (رض) ۔

12244

12244 - جذعة سمينة؛ الله أحق بالوفاء والفتاء3 اشتر بها جذعة سمينة وانسك بها عنك. "البغوي عن سنان بن سلمة بن المحبق" أن رجلا قال يا رسول الله إن لي سلعة تبلغ ثمن جذعة سمينة وثمن مسنة مهزولة أي ذلك تختار؟ قال: فذكره.
12244 یہ موٹا تازہ بچھڑا ہے، اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے پورا پورا حق ادا کیا جائے اور نوجوان (جانور) اس کی راہ میں دیا جائے تو موٹا تازہ بچھڑا لے لے اور اسی کی قربانی کردے۔
البغوی عن سنان بن سلمۃ بن المحبق۔
فائدہ : ایک آدمی نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے پاس کچھ سامان ہے جس کی قیمت ایک موٹے تازے بچھڑے کو پہنچتی ہے یا پھر کمزور بوڑھی گائے کو تو میں کونسا جانور اختیار کروں ؟ تب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

12245

12245- الله أحق بالفتاء والوفاء، اشتر بها جذعة سمينة، فانسك بها عنك. "ق عن سنان بن سلمة".
12245: اللہ تعالیٰ اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ اس کا پورا پورا حق ادا کرتے ہوئے جوان جانور اس کی راہ میں قربان کیا جائے ان پیسوں سے موٹا تازہ بچھڑا خرید اور اس کی قربانی کر۔ (بیہقی عن سنان بن سلمۃ)

12246

12246- الجذع من الضأن يجزئ في الأضاحي. "ق عن سعيد بن المسيب عن رجل من جهينة".
12246 بھیڑ کا بچہ قربانی میں کفایت کرتا ہے (یعنی قربانی ہوجاتی ہے) ۔
رواہ البیہقی عن سعید ابن المسیب عن رجل من جھینۃ۔

12247

12247- يجوز الجذع من الضأن أضحية. "هـ والحسن بن سفيان عن هلال".
12247 بھیڑ کے بچہ کی قربانی جائز ہے۔ رواہ ابن ماجہ والحسن بن سفیان عن ھلال۔
کلام : ضعیف ابن ماجہ 675، الضعیفۃ 65 ۔

12248

12248- من وجه قبلتنا، وصلى صلاتنا، ونسك نسكنا فلا يذبح حتى نصلي. "حب عن البراء".
12248 جس شخص نے ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا (یعنی جو شخص صاحب قبلہ ہو) اور ہماری (طرح) نماز پڑھی، اور ہماری (طرح) قربانی کی ، تو وہ قربانی نہ کرے یہاں تک کہ ہم نماز عید پڑھ لیں۔ یعنی نماز عید کے بعد قربانی کرے۔ ابن حبان فی صحیحہ عن البراء (رض) ۔

12249

12249- إنها ليست بأضحية، إنما هي شاة لحم إنما الأضحية بعد الصلاة. "طب عن أبي بردة بن نيار".
12249 یہ قربانی نہیں ہے، بلکہ یہ تو گوشت والی بکری ہے، قربانی تو نماز عید کے بعد ہوتی ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی بردۃ بن نیار (رض) ۔

12250

12250- من ذبح قبل أن يصلي، فإنما هو لحم قدمه لأهله، ومن ذبح بعد أن يصلي فقد أصاب السنة. "الشيرازي في الألقاب عن البراء عن أبي بردة بن نيار".
12250 جس شخص نے نماز عید پڑھنے سے قبل ہی قربانی کرلی، تو اس قربانی کی حیثیت اس گوشت کی سی ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کو پیش کیا ہے۔ یعنی وہ قربانی نہیں ہوئی اور جس شخص نے عید کی نماز کے بعد قربانی کی تو اس نے سند کے مطابق عمل کیا۔
رواہ الشیرازی فی الالقاب عن البراء عن ابی بردہ بن نیار (رض) ۔

12251

12251- لا يجزي عن أحد بعدك أن يذبح حتى يصلي. "الطحاوي حب عن جابر" أن رجلا ذبح قبل أن يصلي النبي صلى الله عليه وسلم قال: فذكره.
12251 تمہارے بعد کسی اور شخص کے لیے یہ بات کافی نہ ہوگی کہ وہ نماز عید سے قبل قربانی کرے۔ رواہ الطحاوی وابن حبان فی صحیحہ عن جابر (رض) ، کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نماز عید پڑھنے سے قبل ہی قربانی کردی، تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12252

12252- ضح بها أنت ولا رخصة لأحد فيها بعدك. "ق عن عقبة بن عامر" قال: أعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم غنما أقسمها ضحايا فبقي عتود منها قال فذكره
12252 تم تو اس کی قربانی کرلو، لیکن تمہارے بعد کسی اور شخص کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے (رواہ البیہقی عن عقبۃ بن عامر (رض)) عقبہ بن عامر نے کہا ہے کہ : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ بکریاں عطا فرمائی تھیں جو میں نے (صحابہ کرام (رض)) میں بطور قربانی تقسیم کردی تھیں ، تو ان میں بکری کا ایک سالہ بچہ باقی رہ گیا، فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12253

12253 - ضح بالشاة وتصدق بالدينار. "د ت غريب منقطع قط طب عن حكيم بن حزام" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه يشتري له أضحية بدينار، فاشترى أضحية فربح فيها دينارا، فاشترى أخرى مكانها فجاء بالأضحية والدينار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فذكره.
12253 بکری کی قربانی کرو اور ایک دینار صدقہ کرو۔
رواہ ابوداؤد الترمذی غریب منقطع، والطبرانی فی الکبیر عن حکیم بن حزام۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکیم بن حزام (رض) کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے قربانی کا جانور خریدیں، تو حضرت حکیم بن حزام نے ایک دینار کا قربانی کا جانور خریدا (اور اسے آگے دو دینار میں بیچ دیا) تو اس میں انھیں ایک دینار کا نفع ہوا، تو اس کی جگہ انھوں نے ایک دوسرا جانور خریدا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قربانی کا جانور اور ایک دینار لے کر حاضر ہوئے تو فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔
کلام : ترمذی (رح) فرماتے ہیں : اس کی سند منقطع ہے اور ابوداؤد پر تعلیق میں منذری (رح) فرماتے ہیں اس کی سند میں مجہول شخص ہے۔

12254

12254- نحركم يوم تنحرون، وفطركم يوم تفطرون. "أبو القاسم الخرقي في فوائده عن عائشة".
12254 تمہارا عیدالاضحی (کا دن) وہ دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ہو، اور تمہارا عیدالفطر (کا دن) وہ دن ہے جس میں تم افطار کرتے ہو (یعنی روزہ نہیں رکھتے) ۔
رواہ ابوالقاسم الخرقی فی فوائدہ عن عائشۃ (رض) ۔

12255

12255- نحرت ها هنا، ومنى كلها منحر، فانحروا في منازلكم. "طب عن الفضل بن عباس".
12255 میں نے یہاں قربانی کی ہے، اور مقام منیٰ سارے کا سارا قربانی گاہ ہے ، لہٰذا اپنی قیام گاہوں پر قربانی کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الفضل بن عباس (رض) ۔

12256

12256- لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأيام منى أيام أكل وشرب. "طب كعب بن مالك".
12256 جنت میں سوائے مومن کے کوئی داخل نہ ہوگا، اور ایام منی (قربانی کے دن 12, 11, 10) کھانے پینے کے دن ہیں۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن کعب بن مالک (رض) ۔

12257

12257- أيام التشريق أيام أكل وشرب وذكر الله عز وجل. "حم م عن نبيشة الهذلي"1
12257 ایام تشریق (12, 12, 11, 10, 9 ذی الحجہ) کھانے پینے کے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ایام ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ ومسلم عن نبی شۃ الھدلی۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 2242 ۔

12258

12258- أيام التشريق كلها ذبح. "ق عن جبير بن مطعم".
12258 ایام تشریق سارے کے سارے قربانی کے دن ہیں۔
رواہ البیہقی عن جبیر بن معطم (رض) ۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 2243 ۔

12259

12259- لا ذبيحة لغير الله، ولا ذبيحة عليكم إلا واحدة أضحية لعشر ذي الحجة، الشاة عن الرجل وعن أهله. "ابن قانع عن عمرو بن حريث العذري عن أبيه".
12259 غیر اللہ کے نام پر قربانی حلال نہیں، دس ذی الحجہ میں تم پر صرف ایک قربانی ہے، آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ہے۔
رواہ ابن قانع عن عمرو بن حدیث العدری عن ابیہ۔

12260

12260- أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله لهذه الأمة، قيل: أرأيت إن لم أجد إلا منيحة أنثى، أفأضحي بها؟ قال: لا ولكن تأخذ من شعرك وتقلم أظفارك، وتقص شاربك وتحلق عانتك، فذاك تمام أضحيتك عند الله عز وجل. "حم د ن ك حب ق عن ابن عمرو".
12260 مجھے اضحی کے دن کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ نے اس امت کے لیے قربانی والے دن۔ عیدالاضحی کو عید بنایا ہے۔ کہا گیا کہ : اگر میرے پاس صرف ایسا جانور ہے جس کے دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے مجھے دیا گیا ہے تو کیا میں اس جانور کی قربانی کرلوں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم اپنے بال اور ناخنوں کو تراش لو، اور اپنی مونچھوں کو قینچی سے کاٹ لو اور اپنے زیر ناف بال مونڈلو بس اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی تمہاری مکمل قربانی ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد والنسائی والحاکم فی المستدرک وابن حبان فی صحیحہ والبیہقی عن ابن عمرو
کلام : ضعیف ابی داؤد۔

12261

12261- من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح فلا يحضر مصلانا. "حم ك1 ق عن أبي هريرة".
12261 جس شخص کو قربانی کرنے کی وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ رواہ الحاکم فی المستدرک واحمد فی مسندہ، والبیہقی عن ابوہریرہ (رض) ، صحیح۔

12262

12262- ادخروا الثلاث، وتصدقوا بما بقي يعني الأضحية. "حب عن عائشة".
12262 (قربانی کا گوشت) تین دنوں تک ذخیرہ کرو، (یعنی تین دنوں تک استعمال کرو اس سے زیادہ نہیں) اور جو بچ جائے وہ صدقہ کردو یعنی قربانی کا گوشت۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن عائشہ (رض) ۔

12263

12263- إنما نهيتكم لأجل الدافة التي دفت عليكم، فكلوا وتصدقوا وادخروا."حب عن عائشة"
12263 میں نے تمہیں (قربانی کا گوشت تین دنوں سے زیادہ کھانے سے) اس لیے منع کیا تھا کہ جو دیہاتی لوگ تمہارے ہاں آتے ہیں وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں، (اب چونکہ اللہ نے وسعت بخش دی ہے) لہٰذا صدقہ کرو اور ذخیرہ کرو۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن عائشہ (رض) ۔
نوٹ : دافہ اس بدوی قوم کو کہتے ہیں جو دیہات سے شہر میں آتے تھے، عیدالاضحی کے دنوں میں، تو آپ نے لوگوں کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا تھا کہ لوگ صدقہ کریں تو وہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں۔

12264

12264- إني نهيتكم عن لحوم الأضاحي وادخارها بعد ثلاثة أيام، فكلوا وادخروا، فقد جاء الله بالسعة، ونهيتكم عن أشياء من الأشربة والأنبذة فاشربوا، وكل مسكر حرام، ونهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، فإن فيها عبرة، ولا تقولوا هجرا. "حم وعبد بن حميد ق ص عن أبي سعيد".
12264 تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے اور اس کو جمع کرنے سے میں نے تمہیں روکا تھا، اب اللہ تعالیٰ نے وسعت پیدا فرمادی ہے (تنگی وفقروفاقہ کو دور کردیا ہے) لہٰذا اب کھاؤ اور جمع کرکے رکھو، اور میں نے تمہیں نبیذ اور شرابوں میں بعض چیزوں سے منع کیا تھا، لہٰذا اب نبیذ پی لو اور ہر نشے دار چیز حرام ہے، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لہٰذا اب قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ اس میں عبرت کا سامان ہے ، اور فحش بات چیت مت کرو۔
رواہ احمد فی مسندہ وعبدبن حمید والبیہقی و سعید بن منصور عن ابی سعید (رض) ۔

12265

12265- إني كنت أمرتكم أن لا تأكلوا لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ليتسع للناس وإني أحله لكم، فكلوا ما شئتم. "د عن قتادة بن النعمان"
12265 میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ تم تین دنوں سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ کھاؤ تاکہ سب لوگوں میں وسعت پیدا ہو (اور) فقروفاقہ دور ہو کیونکہ غنی فقیر پر صدقہ کرے گا اور اب میں تمہارے لیے تین دنوں سے زیادہ گوشت کھانے کو حلال کرتا ہوں، لہٰذا جس طرح چاہو، کھاؤ۔
رواہ ابوداؤد عن قتادہ ابن النعمان۔

12266

12266- يا أهل المدينة، لا تأكلوا لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام فشكوا إليه أن لهم عيالا وخدما، فقال: كلوا وأطعموا واحبسوا. "حب عن أبي سعيد".
12266 اے مدینہ والو ! تین دنوں سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ کھاؤ، تو لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکوہ کیا کہ ہمارے بال بچے اور خدام ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (خود بھی) کھاؤ (دوسروں کو) کھلاؤ اور جمع کرکے رکھو۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابی سعید (رض) ۔

12267

12267- صاحب الفدية يأكل منها. "الديلمي عن عائشة".
12267 قربانی کرنے والا قربانی کے گوشت میں سے کھائے۔ رواہ الدیلمی عن عائشہ (رض) ۔

12268

12268- إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين. "حم د هـ ك عن جابر" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذبح يوم العيد كبشين، ثم قال حين وجههما فذكره.
12268 بیشک میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کیا کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور میں شریک ٹھہرانے والوں میں سے نہیں ہوں، اور تحقیق ، میری نماز، میری ہر ایک عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے، اور میں فرمان برداروں میں سے پہلا فرمان بردار ہوں۔
رواہ احمد فی مسندہ و ابوداؤد ابن ماجہ والحاکم فی مستدرک عن جابر (رض) ۔
کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیدالاضحی کے دن دو مینڈھے ذبح فرمائے، پھر جب انھیں قبلہ رخ لٹایا تو مذکورہ دعا ارشاد فرمائی۔

12269

12269- اللهم عن محمد وأمته من شهد لك بالتوحيد ولي بالبلاغ. "ك عن عائشة وأبي هريرة رضي الله عنهما"1
12269 اے اللہ ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اور اس کی امت کی طرف سے، کہ جس نے آپ کے لیے توحید کی شہادت دی اور میرے لیے بعثت کی گواہی دی۔
رواہ الحاکم فی المستدرک عن عائشہ (رض) و ابوہریرہ (رض) ۔

12270

12270- اللهم عني وعن من لم يضح من أمتي. "ك عن ابن عمرو" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذبح كبشا بالمصلى فقال: فذكره2
12270 اے اللہ میری طرف سے اور میری امت میں سے اس شخص کی طرف سے جس نے قربانی نہیں کی (یعنی جس کو قربانی کی استطاعت نہ تھی) ۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک عن عمرو) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عید گاہ میں ایک مینڈھا ذبح فرمایا : پھر مذکورہ دعا ارشاد فرمائی۔

12271

12271- اللهم عني وعن أمتي. "ك عن أبي رافع"
12271 اے اللہ میری طرف سے اور میری امت کی طرف سے۔
رواہ الحاکم فی المستدرک عن ابی رافع۔

12272

12272- اذبحوا لله في أي شهر كان وبروا وأطعموا. "حم د ن هـ ك طب ق عن نبيشة"
12272 اللہ کے لیے قربانی کرو، جس مہینہ میں بھی ہو، اور اطاعت و فرمان برداری اختیار کرو (فقراء و مساکین کو کھانا) کھلاؤ۔ رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد والنسائی وابن ماجہ والحاکم فی المستدرک والطبرانی فی الکبیر والبیہقی عن نبی شۃ (رض) ۔

12273

12273- من أهدى تطوعا، ثم ضلت فإن شاء أبدلها، وإن شاء ترك، وإن كان في نذر فليتبدل. "ك هق عن ابن عمر
12273 جس شخص نے نفلی ہدی روانہ کی، پھر وہ (راستے میں) گم گئی تو (اب اس کو اختیار ہے) چاہے تو دوسری ہدی اس کے بدلہ روانہ کرے، اور چاہے تو چھوڑ دے، (لیکن) اگر ہدی بطور نذر ہو تو اس صورت میں اس پر لازم ہے کہ وہ بدلہ میں دوسری ہدی بھیجے۔
رواہ الحاکم والبیہقی فی السنن عن ابن عمر (رض) ۔

12274

12274- من ساق الهدي تطوعا فعطب، فلا يأكل منه فإنه إن أكل منه كان عليه بدله، ولكن لينحرها، ثم ليغمس نعلها في دمها ثم ليضرب جنبيها، وإن كان هديا واجبا، فليأكل إن شاء الله فإنه لا بد من قضائه. "ق عن أبي قتادة".
12274 جس شخص نے بطور نفل ہدی روانہ کی اور (راستے میں) وہ قریب المرگ ہوجائے، تو وہ اس میں سے نہ کھائے ، کیونکہ اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا تو اس پر اس کے بدلہ دوسری ہدی واجب ہوگی، لیکن اس کو ذبح کردے، پھر اس کی جوتی کو (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہو) اس کے خون میں رنگ دے، پھر اس کے ذریعہ اس کے پہلو پر نشان لگادے ، اور اگر ہدی واجب ہو تو اگر چاہے تو اس میں سے کھالے ، کیونکہ اس کی قضاء کرنا ضروری ہے۔ رواہ البیہقی عن ابی قتادہ (رض)

12275

12275- إن عرض لهما فانحرهما، ثم اغمس النعل في دمائهما، ثم اضرب به صفحتهما حتى يعلم أنهما بدنتان، ولا تأكل منهما أنت ولا أحد من رفقتك دعوهما لمن بعدكم. "حم هـ والبغوي عن سلمة ابن المحبق"
12275 اگر دونوں بدنوں (ہدی کا اونٹ) کو مرض وغیرہ پیش ہوجائے (کہ قریب المرگ ہوجائیں) تو ان کو ذبح کرلینا، پھر ان کو جوتی (جو بطور ہار ان کے گلے میں پڑی ہو) کہ ان کے خون میں رنگ دینا پھر اس کے ذریعہ کی گردن پر نشان لگا دینا تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ دونوں اونٹ بدنے (ہدی کا جانور) ہیں، اور اس کے گوشت میں سے تم اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی بھی کچھ نہ کھائے، بلکہ ان کو اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑ دو (تاکہ دوسرے فقراء و مساکین اس سے فائدہ اٹھاسکیں) ۔ رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجہ والبغوی عن سلمۃ بن المحیق۔

12276

12276- انحرها ثم اغمس نعلها في دمها، ثم خل بين الناس وبينها فيأكلوها. "ت حسن صحيح حب عن ناجية الخزاعي" قال: قلت يا رسول الله، كيف أصنع بما عطب من البدن قال: فذكره.
12276 اس کو ذبح کردینا، پھر اس کی جوتی کو (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہو) اس کے خون میں رنگ دینا، اور (اس) کے ذریعہ اس کی گردن پر نشان لگا دینا اس کے بعد اس جانور کو لوگوں کے درمیان چھوڑ دینا (یعنی اس کا گوشت کھانے سے فقراء کو منع نہ کرنا) تاکہ وہ اسے کھائیں۔ رواہ الترمذی وابن حبان فی صحیحہ عن ناجیۃ الخزاعی۔
ناجیۃ الخزاعی نے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر کوئی بدنہ (اونٹ) قریب المرگ ہوجائے تو میں اس وقت کیا کروں ؟ تو آپ نے فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔
کلام : اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی (رح) نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حدیث ” حسن صحیح “ ہے۔

12277

12277- إن عطب منها شيء فخشيت عليه موتا فاذبحها1، ثم اغمس نعلها في دمها ثم اضرب بها صفحتها ولم تطعم منها أنت ولا أحد من أهل رفقتك واقسمها. "حم هـ وابن خزيمة طب والبغوي عن ابن عباس عن ذؤيب بن حلحلة الخزاعي " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معه ببدنة وقال: فذكره قال البغوي: لا أعلم غيره. " حم د عن ابن عباس
12277 اگر یہ (ہدی) قریب المرگ ہوجائے اور تمہیں اس کی موت کا ڈر ہو تو اس کو ذبح کردو، پھر اس کی جوتی (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہو) کو اس کے خون میں رنگ دو ، پھر اس کے ذریعہ اس کی کوہان پر نشان لگادو، اور اس کے گوشت میں سے نہ تم خود کھانا اور نہ ہی تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی کھائے، بلکہ اس کو (فقراء و مساکین میں) تقسیم کردو۔
رواہ احمد فی مسندہ وابن ماجہ وابن خزیمۃ، والطبرانی فی الکبیر والبغوی عن ابن عباس (رض) عن ذویب بن حلحلۃ الخزاعی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذؤئیب بن حلحلۃ خزاعی کے ہمراہ ایک بدنہ (اونٹ بطور ہدی) روانہ فرمایا، اور فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔
امام بغوی (رح) نے فرمایا کہ ” اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں نہیں جانتا۔ “
رواہ احمد فی مسندہ وابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔

12278

12278- إن عطب منها شيء فانحره ثم اصبغ نعله في دمه ثم اضرب صفحته، ثم خل بينه وبين الناس وليأكله. " عن ناجية الأسلمي" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معه بهدي وقال: فذكره. "حم طب عن عمرو الثمالي".
12278 اگر (یہ ہدی تھک جانے کی وجہ سے یا کمزوری کی بناء پر) قریب المرگ ہوجائے تو تم اس کو ذبح کردو، پھر اس کی جوتی (جو بطور ہار اس کے گلے میں پڑی ہو) کو اس کے خون میں رنگ دو ، پھر اس کے ذریعہ اس کی کوہان میں نشان لگادو، پھر اس کو لوگوں کے درمیان چھوڑ دو ۔ (یعنی فقراء کو اس کا گوشت کھانے سے منع نہ کرو) تاکہ وہ اسے کھائیں۔ یہ حدیث ناجیہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ہمراہ ایک ہدی روانہ فرمائی اور فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔ رواہ احمد فی مسندہ والطبرانی فی الکبیر عن عمرو والشمائی۔

12279

12279- إن كان هديا تطوعا عطب فلا تأكل منه. "ابن خزيمة عن أبي قتادة".
12279 اگر ہدی بطور نفل ہو، اور (راستے میں) قریب المرگ ہوجائے (تو اس کو ذبح کردو لیکن) تم اس کے گوشت میں سے کچھ نہ کھاؤ (فقراء کے لیے چھوڑ دو ) ۔
رواہ ابن خزیمۃ عن ابی قتادۃ (رض) ۔

12280

12280- اركبوا الهدي بالمعروف حتى تجدوا ظهرا. "حم م د ن وابن خزيمة حب عن جابر" قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ركوب الهدي قال: فذكره.
12280 جب تک تمہیں کوئی دوسری سواری نہ ملے تو ہدی کے جانور پر (اس) احتیاط کے ساتھ سوار ہو (کہ اسے کوئی ضرر و تکلیف نہ پہنچے) ۔
رواہ احمدفی مسندہ ومسلم وابوداؤد، والنسائی وابن خزیمۃ وابن حبان فی صحیح عن جابر (رض) ۔
حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہدی کے جانور پر سواری کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12281

12281- اعتر كعتر الجاهلية، ولكن من أحب منكم أن يذبح فليأكل ويتصدق فليفعل. "طب عن ابن عباس".
12281 جس طرح زمانہ جاہلیت میں ماہ رجب میں بکری ذبح کی جاتی تھی، اسی طرح تم (بھی) رجب کے مہینہ میں ایک بکری ذبح کرو، اور تم میں سے جو اس بات کو پسند کرتا ہو وہ (ایک بکری) ذبح کرے، اور (اس کا گوشت) کھائے اور (فقراء پر) صدقہ کرے، اسے چاہیے کہ وہ کر ڈالے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12282

12282- إن على كل أهل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة. "ق عن مخنف بن سليم".
12282 ہر سال ہر گھر والوں پر ایک قربانی اور ایک عتیرہ (وہ بکری جو رجب میں ذبح کی جاتی تھی) واجب ہے۔ رواہ البیہقی عن مخنف بن سلیم (رض) ۔

12283

12283- إن على كل بيت أن يذبحوا بشاة في كل رجب وفي كل أضحى شاة. "طب عنه".
12283 ہر سال رجب کے مہینہ میں ہر گھر والوں پر واجب ہے کہ وہ ایک بکری ذبح کریں اور ہر عیدالاضحی کو ایک بکری قربانی کریں۔ رواہ الطبرانی عن مخنف بن سلیم (رض) ۔

12284

12284- على كل بيت من المسلمين أضحاة وعتيرة. "طب ق عن مخنف بن سليم".
12284 مسلمانوں کے ہر گھر والوں پر ایک قربانی اور ایک عتیرہ واجب ہے (عتیرہ وہ بکری جو ماہ رجب میں ذبح کی جائے) ۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر والبیہقی عن مخنف بن سلیم (رض) ۔

12285

12285- يا علي كبر في دبر صلاة الفجر من يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق 1 صلاة العصر. "الديلمي عن علي".
12285 اے علی ! عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) نماز فجر کے بعد سے (ہر فرض نماز کے بعد) ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز تک تکبیرات تشریق پڑھو۔
نوٹ : ایام تشریق یوم النحر سے تین دن ہیں، اور تکبیر تشریق یہ ہے :
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر واللہ الحمد۔

12286

12286- تابعوا بين الحج والعمرة فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد والذهب والفضة وليس للحجة المبرورة ثواب إلا الجنة. "حم ت ن عن ابن مسعود".
12286 حج وعمرہ ساتھ کرو، (حج قرآن کرو) اس لیے کہ یہ دونوں (یعنی ان میں سے ہر ایک) فقر اور گناہوں کو ایسا دور کرتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت کے سواء کچھ نہیں۔
رواہ احمد فی مسندہ والترمذی والنسائی عن ابن مسعود (رض) ۔

12287

12287- تابعوا بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "ن عن ابن عباس".
12287 حج وعمرہ ساتھ کرو (حج قران) اس لیے یہ دونوں (یعنی ان میں سے ہر ایک) گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔
رواہ النسائی عن ابن عباس (رض) ۔

12288

12288- تابعوا بين الحج والعمرة فإن متابعة بينهما ينفي الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "هـ عن عمر
12288 حج اور عمرے پے درپے کرو، بیشک دونوں کو پے درپے کرنا فقر اور گناہوں کو یوں دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔ ابن ماجہ عن عمر بن خطاب۔

12289

12289- تابعوا بين الحج والعمرة، فإن متابعة ما بينهما تزيد في العمر والرزق، وتنفي الذنوب من بني آدم كما ينفي الكير خبث الحديد. "قط في الأفراد طب عن ابن عمر".
12289 حج اور عمرہ ساتھ کرو (حج قران کرو یہ مطلب ہے کہ اگر عمرہ کرلیا تو اب حج کرو، اگر حج کرلیا تو اب عمرہ کرو) کیونکہ ان کو ساتھ کرنے سے عمر اور رزق میں زیادتی ہوجاتی ہے اور بنی آدم کے گناہوں کو یہ اس طرح دور کرتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔
رواہ الدار قطنی فی الافراد والطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 2385 ۔

12290

12290- عمرة في رمضان تعدل حجة. "حم خ هـ عن جابر" "حم ق د هـ عن ابن عباس" "د ت هـ عن أم معقل" "هـ عن وهب ابن خنبش1 طب عن ابن الزبير".
12290 رمضان میں عمرہ کرنا۔ بلحاظ ثواب ایک حج کے برابر ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابن ماجہ عن جابر (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابوداؤد وابن ماجہ عن ابن عباس (رض) رواہ ابوداؤد والترمذی وابن ماجہ عن ام معقل (رض) رواہ ابن ماجہ عن وھب بن خنبش والطبرانی فی الکبیر عن ابن الزبیر (رض) ۔

12291

12291- إذا كان رمضان فاعتمري فيه فإن عمرة فيه تعدل حجة. "ن عن ابن عباس".
12291 جب رمضان المبارک آئے تو اس میں عمرہ کرنا، کیونکہ رمضان میں عمرہ کا ثواب ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ رواہ النسائی عن ابن عباس (رض) ۔

12292

12292- عمرة في رمضان كحجة معي. "سمويه عن أنس".
12292 رمضان المبارک میں عمرہ کرنا۔ بلحاظ ثواب میرے ساتھ ایک حج کرنے کے برابر ہے۔ رواہ سمویہ عن انس (رض) ۔

12293

12293- العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما من الذنوب والخطايا، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة. "مالك حم ص عن عامر بن ربيعة".
12293 ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کی درمیانی مدت گناہوں اور خطاؤں کے لیے کفارہ ہے، اور مقبول حج کی جزاء تو صرف جنت ہے۔
رواہ مالک واحمد فی مسندہ و سعید بن منصور عن عامر بن ربیعۃ۔

12294

12294- العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة. "مالك حم ق 4 عن أبي هريرة".
12294 ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کی درمیانی مدت (گناہوں کے لئے) کفارہ ہے ، اور مقبول حج کا بدلہ تو صرف جنت ہے۔ رواہ مالک واحمد فی مسندہ والبخاری ومسلم وابوداؤد والترمذی وابن ماجہ والنسائی عن ابوہریرہ (رض) ذخیرۃ الحفاظ 3581 ۔

12295

12295- العمرتان تكفران ما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة وما سبح الحاج من تسبيحة، ولا هلل من تهليلة ولا كبر من تكبيرة إلا بشر بها تبشيرة. "هب عن أبي هريرة".
12295 دو عمرے اپنی درمیان مدت کے لیے (گناہوں کا) کفارہ ہے، اور مقبول حج کا بدلہ تو صرف جنت ہے، اور حاجی جب بھی کوئی تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لاالہ الا اللہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) کہتا ہے تو اسے ایک خاص خوشخبری دی جاتی ہے۔ رواہ البیہقی عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3894 ۔

12296

12296- العمرة من الحج بمنزله الرأس من الجسد، وبمنزله الزكاة من الصيام. "فر عن ابن عباس".
12296 حج کے ساتھ عمرہ کی حیثیت ایسی ہے جیسے جسم میں سر کی حیثیت اور رمضان میں زکوۃ کی حیثیت یعنی جس طرح جسم میں سر کی حیثیت ہے کہ وہ افضل الاعضاء ہے اور رمضان میں زکوۃ نکالنے کی بڑی فضیلت ہے اسی طرح حج کے ساتھ عمرہ کرنے کی فضیلت بڑی ہے۔
رواہ الفردوس الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف الجامع 3893 ۔

12297

12297- من أهل بعمرة من بيت المقدس غفر له. "هـ عن أم سلمة"
12297 جس شخص نے بیت المقدس سے عمرہ کا احرام باندھا اس کے گناہ معاف کردیئے گئے۔ رواہ ابن ماجہ عن ام سلمۃ (رض)
کلام : ضعیف ابن ماجہ 646، ضعیف الجامع 5494 ۔

12298

12298- من أهل بعمرة من بيت المقدس كانت كفارة لما قبلها من الذنوب. "هـ عن أم سلمة"
12298 جس شخص نے بیت المقدس سے عمرہ کا احرام باندھا تو یہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ رواہ ابن ماجہ (رح) عن ام سلمۃ (رض) ۔
کلام : ضعیف ابن ماجہ 647، ضعیف الجامع 5495 ۔

12299

12299- يلبي المعتمر حتى يستلم الحجر. "د عن ابن عباس"
12299 عمرہ کرنے والا تلبیہ کہتا رہے، یہاں تک کہ وہ حجرا سود کا استلام کرلے۔
رواہ ابوداؤد عن ابن عباس (رض) ۔
کلام : ضعیف ابی داؤد 397، ضعیف الجامع 6443 ۔

12300

12300- نهى عن العمرة قبل الحج. "د عن رجل".
12300 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ رواہ ابوداؤد عن رجل۔
کلام : ضعیف الجامع 6051 ۔

12301

12301- الحج والعمرة فريضتان لا يضرك بأيهما بدأت. "ك4عن زيد بن ثابت" "فر عن جابر".
12301 حج اور عمرے دو فریضے ہیں، جس سے بھی تم ابتداء کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں۔
رواہ الحاکم فی المستدرک عن زید بن ثابت ، رواہ الفردوس الدیلمی عن جابر (رض) ۔
کلام : حسن الاثر 225، ضعیف الجامع 2764 ۔

12302

12302- لتأخذوا عني مناسككم فإني لا أدري لعلي لا أحج بعد حجتي هذه. "م عن جابر".
12302 تم مجھ سے اپنے مناسک حج سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید اپنے اس حج کے بعد (آئندہ سال) کوئی حج کرسکوں گا۔ رواہ مسلم عن جابر (رض) ۔

12303

12303- يا أيها الناس ألا أي يوم أحرم؟ أي يوم أحرم؟ أي يوم أحرم، قالوا: يوم الحج الأكبر، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، ألا لا يجني جان إلا على نفسه، ألا ولا يجني والد على ولده ولا ولد على والده ألا إن الشيطان قد أيس أن يعبد في بلدكم هذا أبدا، ولكن سيكون له طاعة في بعض ما تحتقرون من أعمالكم فيرضى بها، ألا إن المسلم أخو المسلم فلا يحل لمسلم من أخيه شيء، إلا ما أحل من نفسه، ألا وإن كل ربا في الجاهلية موضوع، لكم رؤس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون غير ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع كله. وإن كل دم كان في الجاهلية موضوع، وأول دم أضع من دم الجاهلية دم الحارث ابن عبد المطلب، ألا واستوصوا بالنساء خيرا، فإنهن عوان عندكم، ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، ألا وإن لكم على نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا، فأما حقكم،على نسائكم، فلا يوطئن فرشكم من تكرهون ولا يأذن في بيوتكم من تكرهون، ألا وإن حقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن. "ت ن هـ عن عمرو بن الأحوص".
12303 اے لوگو ! آگاہ رہو ! سب سے زیادہ کس دن کی حرمت ہے ؟ کونسا دن سب سے زیادہ محترم ہے ؟ کونسا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ : حج اکبر کا دن (سب سے زیادہ محترم ہے ؟ ) تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ بیشک تمہارے خون (جان) تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی محترم (حرمت والی) ہیں جس طرح تمہارے اس شہر (مکہ) میں تمہارے اس مہینہ میں (ذی الحجہ) تمہارے اس دن (دسویں ذی الحجہ) میں محترم ہیں۔ یعنی جس طرح تم عرفہ کے دن، ذی الحج کے مہینہ میں اور مکہ مکرمہ میں قتل و غارت اور لوٹ مار کو حرام سمجھتے ہو اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور ہر جگہ ایک مسلمان کی جان ومال دوسرے مسلمان پر حرام ہے لہٰذا تم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کسی کا خون نہ کرے، کسی کا مال چوری ودغابازی سے نہ کھائے اور کسی کو کسی جانی اور مالی تکلیف و مصیبت میں مبتلا نہ کرے۔
خبردار ! یاد رکھو ! کوئی جنایت (جرم) کرنے والا جنایت نہیں کرتا مگر اپنی ہی جان پر (یعنی اس کا تاوان اسی پر عائد ہوگا) نہ والد اپنی اولاد پر جنایت کرتا اور نہ اولاد اپنے والد پر جنایت کرتی (جس نے کوئی نقصان یا جرم کیا اس کی چٹی اور تاوان خود اسی پر ہوگا) آگاہ رہو شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمہارے اس شہر (مکہ ) میں اس کی عبادت کی جائے گی، لیکن تمہارے کچھ اعمال میں اس کی اطاعت کی جائے گی جن کو تم معمولی اور حقیر خیال کرو گے اور وہ اس پر راضی ہوجائے گا ، خبردار مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ پس کسی مسلمان کے لیے اس کے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں مگر یہ کہ وہ خود اس کے لیے کچھ حال کردے ۔ آگاہ رہو جاہلیت کا ہر سود ختم کیا جاتا ہے۔ اب تمہارے لیے صرف تمہارے اصل (راس المال) ہی ہیں۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود وہ سارا ہی (بمع اصل المال) ختم کیا جاتا ہے۔ یونہی جاہلیت کے سارے خون آج معاف کردیئے گئے اور سب سے پہلا خون جس کو میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے۔ خبردار ! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی برتو، وہ تمہاری مددگاری ہیں ، تم ان کے اوپر کسی طرح زیادتی کے مالک نہیں ہو سوائے اس صورت کے کہ وہ کوئی کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں۔ اگر وہ ایسا کچھ کریں تو ان سے بستر علیحدہ کرلو اور ایسی مار مارو جس کے نشانات نہ ہوں۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت پر آجائیں تو پھر مارنے کے لیے بہانے تلاش نہ کرو۔ آگاہ رہو تمہارے اپنی عورتوں پر کچھ حقوق ہیں اور تمہاری عورتوں کے تم پر کچھ حقوق ہیں تمہارے حقوق عورتوں پر یہ ہیں کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے افراد کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے اور نہ تمہارے گھروں میں تمہارے ناپسندیدہ لوگوں کو آنے دیں۔ آگاہ رہو ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کے کھانے اور پہننے (وغیرہ ) میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو۔

12304

12304- إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إن كل شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع ودماء الجاهلية موضوعة وأول دم أضعه من دمائنا دم ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، وربا الجاهلية موضوع وأول ربا أضع من ربائنا ربا العباس بن عبد المطلب فإنه موضوع كله، فاتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله وإن لكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف وإني قد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به كتاب الله وأنتم مسؤلون عني، فما أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأديت ونصحت، فقال: اللهم اشهد "م د هـ عن جابر".
12304 بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن (عرفہ) میں تمہارے اس مہینہ (ذی الحجہ) میں اور تمہارے اس شہر (مکہ) میں حرام ہیں۔ یاد رکھو زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور پامال وبے قدر (یعنی موقوف و باطل) ہے۔ لہٰذا اسلام سے پہلے جس نے جو کچھ کیا میں نے وہ اسب معاف کیا اور زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو موقوف وختم کردیا اور زمانہ جاہلیت کے خون معاف کردیئے گئے ہیں۔ لہٰذا زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے خون کردیا تھا تو اب نہ اس کا قصاص ہے، نہ دیت اور نہ کفارہ بلکہ اس کی معافی کا اعلان ہے اور سب سے پہلا خون جسے میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ربیعہ ابن الحارث کے بیٹے کا خون ہے (جو شیر خوار بچہ تھا اور قبیلہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور ہذیل نے اس کو مار ڈالا تھا) زمانہ جاہلیت کا سود معاف کردیا گیا ہے اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، لہٰذا (زمانہ جاہلیت کا سود) بالکل معاف کردیا گیا ہے۔
لوگو ! عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ، تم نے ان کو خدا کی امان کے ساتھ لیا ہے (یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی عزت و احترام کے ساتھ رکھنے کا جو عہد خدا نے تم سے لیا ہے یا اس کا عہد جو تم نے خدا سے کیا ہے اسی کے مطابق عورتیں تمہارے پاس آئی ہیں) اور ان کی شرم گاہوں کو خدا کے حکم سے (یعنی ” فانکحوا “ کے مطابق رشتہ زن وشو قائم کرکے) اپنے لیے تم نے حلال بنایا ہے، اور عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے (یعنی وہ تمہارے گھروں میں کسی کو بھی تمہاری اجازت کے بغیر نہ آنے دیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت) پس اگر وہ اس معاملہ میں نافرمانی کریں (کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے دیں اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد بھی وہ اس سے باز نہ آئیں) تو تم ان کو مارو مگر اس طرح نہ مارو جس سے سختی وشدت ظاہر ہو اور انھیں کوئی گزند پہنچ جائے ، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان (اور مکان) اور کپڑا دو ۔
لوگو ! میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑتا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد (یا اس کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد) تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور وہ چیز کتاب اللہ ہے۔
لوگو ! میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا (کہ میں نے منصب رسالت کے فرائض پوری طرح انجام دیئے یا نہیں ؟ اور میں نے دین کے احکام تم تک پہنچائے یا نہیں ؟ ) تو تم کیا جواب دوں گے ؟ اس موقع پر صحابہ (رض) نے (بیک زبان) کہا کہ ” ہم (اللہ کے سامنے) اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے دین کو ہم تک پہنچا دیا، اپنے فرائض نبوت کو ادا کردیا اور ہماری خیرخواہی کی۔ “
اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا بایں طور کہ آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر) یہ کہا : اے اللہ ! (اپنے بندوں کے اس اقرار پر) تو گواہ رہ۔ “
رواہ مسلم وابوداؤد وابن ماجہ عن جابر (رض) ۔

12305

12305- ألا وإن تعتمر خير لك. "حم ت حسن صحيح ع وابن خزيمة قط ص عن جابر" أن رجلا قال: يا رسول الله أخبرني عن العمرة أواجبة؟ قال: فذكره.
12305 آگاہ رہ ! اور اگر تو عمرہ کرے تو تیرے لیے خیر کی بات ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والترمذی وابویعلی فی مسندہ وابن خزیمۃ۔ کہ ایک شخص نے پوچھا کہ : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے بتائیے کہ عمرہ واجب ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی (امام ترمذی (رح)) نے اس حدیث کو ” حسن صحیح “ کہا ہے۔

12306

12306- أين السائل عن العمرة؟ اغسل عنك أثر الصفرة، واخلع عنك جبتك واصنع في عمرتك ما أنت صانع في حجك1. "حب عن يعلى بن أمية" مر [11934] .
12306 عمرہ کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ اپنے اوپر سے زرد رنگ کے اثر کو دھو ڈال، اور اپنا جبہ اتاردے (احرام باندھ لے) اور جو کچھ تم اپنے حج میں افعال انجام دیتے ہو، وہی اپنے عمرہ میں بھی کرو (یعنی جن چیزوں سے حج میں بچتے ہو، عمرہ میں بھی بچو اور جو حج کے لیے لازم ہیں وہی عمرہ کے لیے ہیں جیسے احرام ، تلبیہ ، عدم رفث وغیرہ) ۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن یعلی بن امیۃ۔

12307

12307- من أحب منكم أن يبدأ بعمرة قبل الحج فليفعل. "حم عن عائشة".
12307 تم میں سے جو اس بات کو پسند کرے کہ حج سے پہلے عمرہ سے ابتداء کرے تو وہ کرلے۔
رواہ احمد فی مسندہ عن عائشہ (رض) ۔

12308

12308- تابعوا بين الحج والعمرة فإن متابعة بينهما يزيدان في الأجل وينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير الخبث. "حم والحميدي والعدني هـ ص هب عن عمر".
12308 حج اور عمرہ ساتھ کرو (حج قران کرو یا یہ مطلب ہے کہ اگر حج کرلو تو پھر عمرہ بھی کرو اور اگر عمرہ کرلو تو پھر حج بھی کرو) کیونکہ ان دونوں کو ساتھ کرنا عمر میں زیادتی کا سبب ہے، اور یہ دونوں فقروفاقہ اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح لوہار کی بھٹی زنگ کو دور کرتی ہے۔
رواہ احمد فی مسندہ والحمیدی والعدنی وابن ماجہ و سعید بن منصور شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض) ۔

12309

12309- تابعوا بين الحج والعمرة فإنهما ينفيان الفقر والخطايا كما ينفي الكير خبث الحديد. "طب عن ابن عباس".
12309 حج اور عمرہ ساتھ کرو (حج قران کرو) کیونکہ یہ دونوں (بلکہ ان میں سے ہر ایک) فقروفاقہ اور خطاؤں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ کو لوہار کی بھٹی دور کرتی ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ۔

12310

12310- تابعوا بين الحج والعمرة فإنهما يزيدان في العمر والرزق وينفيان الفقر كما ينفي الكير خبث الحديد. "طب وابن عساكر عن عامر بن ربيعة".
12310 حج وعمرہ ساتھ کرو اس لیے کہ یہ دونوں (بلکہ ان میں سے ہر ایک) عمر اور رزق میں زیادتی کا سبب ہیں اور فقروفاقہ کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ کو لوہار کی بھٹی دور کرتی ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر وابن عساکر عن عامر بن ربیعۃ (رض) ۔

12311

12311- تابعوا بين العمرة والحج فإن متابعة بينهما تنفي الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "ع ص عن عمر".
12311 حج وعمرہ ساتھ کرو، اس لیے کہ ان دونوں کو ساتھ کرنا فقروفاقہ اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ کو لوہار کی بھٹی دور کرتی ہے۔
رواہ ابویعلی فی مسندہ و سعید بن منصور۔

12312

12312- إذا كان رمضان فاعتمري؛ فإن عمرة فيه تعدل حجة. "ن عن ابن عباس".
12312 جب رمضان المبارک آئے تو اس میں تم عمرہ کرنا، کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب کے برابر ہے۔ رواہ النسائی عن ابن عباس (رض) ۔

12313

12313- اعتمروا في شهر رمضان فإن عمرة فيه كحجة. "طب عن يوسف بن عبد الله بن سلام".
12313 رمضان کے مہینہ میں عمرہ کرو، اس لیے کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن یوسف بن عبداللہ بن سلام۔

12314

12314- اعتمري في رمضان؛ فإن عمرة فيه كحجة. "حم ق ق عن معقل بن أبي معقل" "د عن أمه أم معقل" "ق عن عبد الرحمن بن خنيس".
12314 رمضان میں عمرہ کرو، اس لیے کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ رواہ احمد فی مسندہ والبیہقی عن معقل بن ابی معقل ، رواہ ابوداؤد عن امہ ام معقل ۔ رواہ البیہقی عن عبدالرحمن بن خنیس۔

12315

12315- يا أم سليم عمرة في رمضان تعدل حجة. "حب عن ابن عباس".
12315 اے ام سلیم ! رمضان المبارک میں عمرہ کا ثواب ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔
رواہ ابن حبان عن ابن عباس (رض) ۔

12316

12316- يا أم سليم، عمرة في رمضان تجزئك عن حجة. "الخطيب عن أم سليم".
12316 اے ام سلیم ! رمضان المبارک میں عمرہ کرنا تجھے ایک حج سے کافی ہے (یعنی رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے ثواب کے برابر ہے، ایک عمرہ رمضان میں کرنا حج کے ثواب کے حصول کے لیے کافی ہے) ۔ الخطیب عن ام سلیم۔

12317

12317- أما إنك لو كنت أحججت بها يعني على الجمل الحبيس لكان في سبيل الله أقرئها مني السلام ورحمة الله فأخبرها أنها تعدل حجة معي عمرة في رمضان. "ن ك عن ابن عباس"
12317 سن ! اگر تو اس (عورت) کو وقف کے اونٹ پر حج کے لیے بھیجے تو وہ (اونٹ) اللہ کی راہ میں شمار ہوگا اور اس (عورت) کو میری طرف سے سلام کہہ دینا اور اس کو بتا دینا کہ رمضان میں عمرہ کرنا ایسا ہے جیسا میرے ساتھ حج کرنا۔ النسائی، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض) ۔

12318

12318- اغتسلي واستثفري2 بثوب وأحرمي. "م د ن هـ عن جابر" قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتينا ذا الحليفة فولدت أسماء بنت عميس فأرسلت إليه كيف أصنع؟ قال: فذكره.
12318 تم غسل کرلو، اور کسی کپڑے (کرسف وغیرہ) کو اپنی فرج (شرمگاہ) پر باندھ لو (تاکہ سیلان دم باہر نہ ہو) اور (پھر) احرام باندھ لو۔ رواہ مسلم وابوداؤد والنسائی وابن ماجہ عن جابر (رض) ۔
حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچ گئے، تو حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کے ہاں ولادت ہوئی تو انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میں کس طرح (افعال حج) انجام دوں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12319

12319- افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري. "خ عن عائشة" قالت: قدمت مكة وأنا حائض، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فذكره
12319 جس طرح حاجی افعال حج انجام دیتے ہیں تم اسی طرح افعال حج انجام دوالبتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا، یہاں تک کہ تم پاک ہوجاؤ (رواہ البخاری عن عائشہ (رض)) فرماتی ہیں کہ : میں مکہ پہنچی تو حالت حیض میں تھی، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12320

12320- المهلة لا تلبس ثياب الطيب وتلبس الثياب المعصفرات من غير الطيب. "الطحاوي عن جابر".
12320 محرم خاتون خوشبو والے کپڑے نہ پہنے ہاں بغیر خوشبو والے زرد رنگ کے کپڑے پہن لے۔ رواہ الطحاوی عن جابر (رض) ۔

12321

12321- لا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازين. "ق عن ابن عمرو".
12321 محرم عورت نہ نقاب لگائے اور نہ ہی دستانے پہنے۔ رواہ البیہقی عن ابن عمرو (رض) ۔

12322

12322- ينهى النساء في إحرامهن عن القفازين والنقاب وما مس الورس والزعفران من الثياب ولتلبس بعد ذلك ما أحبت من ألوان الثياب. "ك عن ابن عمر".
12322 (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے اور نقاب لگانے سے منع فرماتے تھے، اور ایسے کپڑے پہننے سے منع فرماتے کہ جن پر ورس (خوشبودار گھاس) اور زعفران لگا، ہوا س کے علاوہ رنگین کپڑوں میں سے وہ جو پسند کرے پہن لے۔
رواہ الحاکم فی المستدرک عن ابن عمر (رض) ۔

12323

12323- لا تطيبي وأنت محرمة، ولا تمسي الحناء فإنه طيب. "طب عن أم سلمة".
12323 حالت احرام میں تم خوشبونہ لگاو (یہ خطاب حضرت ام سلمہ (رض) جو ام المومنین ہیں، سے ہے) اور مہندی نہ لگاؤ اس لیے کہ یہ بھی خوشبو (میں اور زینت میں داخل) ہے۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ام سلمۃ (رض) ۔

12324

12324- يا بنت عميس، لا غسل عليكن، ولا جمعة ولا حلاق ولا تقصير إلا أن تأخذ إحداكن لنفسها أو من كان منها بمحرم من أطراف شعرها من مقدم رأسها يوم النحر إذا حجت. "طب عن أسماء بنت عميس".
12324 اے عمیس کی بیٹی ! تم (عورتوں) پر غسل نہیں ہے (دوران حج حالت حیض ونفاس میں) اور نہ جمعہ کی نماز فرض ہے اور نہ سر منڈانا ہے اور نہ بال تراشنا ہے، البتہ یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) کو جب تم میں سے کوئی حج کرے تو وہ بذات خود یا اس کا کوئی محرم اس کے سر کے سامنے کے بالوں کے کنارے تراش لے۔ رواہ الطبرانی عن اسماء بنت عمیس (رض) ۔

12325

12325- اشترطي عند إحرامك محلي حيث حبستني فإن ذلك لك. "ق عن ابن عباس".
12325 تم اپنے احرام باندھنے کے وقت یہ شرط لگالینا کہ :
” مجلی حیث جستنی “
ترجمہ : میرے احرام سے نکلنے کی وہی جگہ ہوگی جہاں میں (بیماری کے سبب) روک دی جاؤں پس تمہارے لیے یہی حکم ہوگا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ مجھ پر مرض غالب ہوجائے اور میں وہاں سے خانہ کعبہ کی طرف آگے نہ چل سکوں تو اسی جگہ میں احرام کھول دوں گی (یہ خطاب ام سلمہ (رض)) سے ہے۔ رواہ البیہقی عن ابن عباس (رض) ۔

12326

12326- اشترطي وقولي: محلي حيث حبستني. "ص عن جابر".
12326 تم شرط لگا لینا اور اس طرح کہنا :
” محلی حیث جستنی “
ترجمہ : میرے احرام سے نکلنے کی وہ جگہ ہے جہاں میں (بیمار وغیرہ کے سبب) روک دی جاؤں۔ رواہ سعید بن منصور عن جابر (رض) ۔

12327

12327- أهلي بالحج وقولي: محلي حيث حبستني. "حم عن أم سلمة".
12327 حج کا احرام باندھ لو اور اس طرح کہو : ” محلی حیث جستنی “ کہ میرے احرام سے نکلنے کی وہ جگہ ہے جہاں میں (بیماری وغیرہ کے سبب) روک دیا جاؤں۔
رواہ احمد فی مسند عن ام سلمہ (رض) ۔

12328

12328- حجي واشترطي وقولي: اللهم محلي حيث حبستني. "حم م ن حب عن عائشة" "م د ت ن هـ حب عن ابن عباس" "هـ وأبو نعيم ق عن ضباعة" "هـ عن أبي بكر بن عبد الله بن الزبير عن جدته" "طب عن ابن عمر" "ق عن جابر".
12328 تم حج کرو، اور شرط لگالو، اور یہ کہو : اللھم محلی حیث جستنی “ یعنی کہ میرے احرام سے نکلنے کی وہ جگہ ہے جہاں میں (بیماری وغیرہ کے سبب) روک دیا جاؤں۔
رواہ احمد فی مسندہ ومسلم والنسائی وابن حبان فی صحیحہ عن عائشہ (رض) ، رواہ مسلم وابوداؤ و النسائی وابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ عن ابن عباس (رض) رواہ ابن ماجہ وابو نعیم والبیہقی عن ضباعۃ (رض) ، رواہ ابن ماجہ عن ابی بکر بن عبداللہ بن الزبیر عن جدتہ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ، رواہ البیہقی عن جابر (رض) ۔

12329

12329- قولي: لبيك اللهم لبيك ومحلي من الأرض حيث تحبسني، فإن لك على ربك ما استثنيت. "ن هـ طب عن ابن عباس" "حم عن ضباعة بنت الزبير".
12329 تم یہ کہو :
لبیک اللھم لبیک و محلی من الارض حیث تحبسنیٰ ۔
ترجمہ : اے اللہ میں حاضر ہوں، اور میرے احرام سے نکلنے کی وہ جگہ ہے جہاں میں (بیماری وغیرہ کے سبب) روک دی جاؤں ۔ پس تمہارے لیے اللہ کی طرف سے وہی (حکم) ہوگا جو تم نے استثناء کیا۔
رواہ النسائی وابن ماجہ والطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ عن ضباعۃ بنت الزبیر (رض) ۔

12330

12330- نزل جبريل على إبراهيم فراغ به فصلى بمنى الظهر والمغرب والعشاء والصبح، ثم غدا به من منى إلى عرفة فصلى به الصلاتين الظهر والعصر، ثم وقف به حتى غابت الشمس ثم دفع به حتى أتى المزدلفة فنزل به، فبات فصلى الصبح كأعجل ما يصلي أحد من المسلمين، ثم وقف به كأبطأ ما يصلي أحد من المسلمين، ثم أفاض به حتى أتى الجمرة فرماها، ثم ذبح وحلق، ثم أتى به البيت فطاف به، ثم رجع به إلى منى فأقام فيها تلك الأيام، ثم أوحى الله إلى محمد أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا. "هب عن ابن عمرو" مرفوعا وموقوفا وقال: المحفوظ للموقوف.
12330 حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہوئے، اور انھیں لے کر چلے، پھر ظہر، مغرب اور عشاء اور فجر کی نماز مقام منیٰ میں ادا کیں، پھر انھیں منیٰ سے عرفات کی جانب لے چلے، پھر (جمع بین الصلاتین) ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں، پھر وہاں وقوف کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، پھر انھیں لے کر روانہ ہوئے، یہاں تک کہ مزدلفہ آئے تو وہاں نزول فرمایا، پھر وہاں رات گزاری ، اور پھر فجر کی نماز اتنے مختصر وقت میں پڑھی جتنا سرعت کے ساتھ مسلمانوں میں سے کوئی مسلمان نماز پڑھے، ۔ یعنی فجر کی نماز بہت مختصر کرکے پڑھی جتنا کہ کوئی جلدی اسے پڑھ سکتا ہو پھر وہاں وقوف کیا اتنی دیر کہ جتنی دیر میں کوئی مسلمان سست رفتار سے نماز ادا کرے، پھر انھیں لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ جمرات کی طرف پہنچے تو ان پر کنکریاں پھینکی ، پھر ذبح (قربانی) کی، اور سر منڈایا پھر انھیں لے کر بیت اللہ آئے، اور بیت اللہ کا طواف کیا، پھر انھیں لے کر (دوباری) منیٰ لوٹے، پھر وہاں ان دنوں میں قیام کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی کہ :
” آپ ابرایم کے طریقے پر جو بالکل ایک (خدا) کی طرف ہورہے تھے ، چلئے “
البیہقی فی شعب الایمان عن ابن عمرو (رض) ۔
کلام : یہ بیہقی نے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں سند سے روایت کی ہے، اور انھوں نے موقوف کو محفوظ کہا ہے۔

12331

12331- أرأيت لو كان على أبيك دين أكنت قاضيه؟ قال: نعم، قال: فدين الله أحق أن يقضى. "طب عن حصين بن عوف" قال: قلت يا رسول الله أحج عن أبي؟ قال: فذكره.
12331 بتاؤ ! اگر تمہارے باپ پر قرضہ ہوتا تو تم اس کو ادا کرتے یا نہیں ؟ تو انھوں (حصین بن عوف) نے فرمایا کہ : جی ہاں (ادا کرتا) تو پھر اللہ کا قرضہ زیادہ حقدار ہے کہ ادا کیا جائے (رواہ الطبرانی فی الکبیر عن حصین بن عوف) حصین بن عوف فرماتے ہیں کہ : میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اپنے والد کی جانب سے حج کرسکتا ہوں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12332

12332- أرأيت لو كان على أبيك دين فقضيته عنه قبل منك؟ قال: نعم، قال: فالله أرحم، حج عن أبيك. "ق عن سودة بنت زمعة".
12332 بتاؤ ! اگر تمہارے باپ پر قرضہ ہوتا، اور تم وہ قرضہ اس کی جانب سے ادا کرتے، تو وہ قرضہ تم سے قبول کیا جاتا یا نہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : کہ جی ہاں (قبول کیا جاتا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس اللہ تعالیٰ زیادہ رحم کرنے والے ہیں ، لہٰذا اپنے باپ کی طرف سے تم حج کرلو۔
رواہ البیہقی عن سودۃ بنت زمعۃ (رض) ۔

12333

12333- أرأيت لو كان على أبيك دين فقضيته عنه كان يجزئ قال: نعم، قال: فاحجج عن أبيك. "حب عن ابن عباس".
12333 بتاؤ ! اگر تمہارے باپ پر قرضہ ہوتا اور تم اس کی جانب سے وہ قرضہ ادا کرتے ، تو وہ کافی ہوتا یا نہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : جی ہاں۔ کافی ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس تم اپنے والد کی جانب سے حج ادا کرو۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن عباس (رض) ۔

12334

12334- أرأيت إن كان على أبيك دين فقضيته أقضي عنك؟ قال: نعم، قال: حج عن أبيك. "طب عن أنس".
12334 بتاؤ ! اگر تمہارے باپ پر قرضہ ہوتا، اور وہ قرضہ تم ادا کرتے تو تمہارے ادا کرنے سے ادا ہوتا یا نہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ : جی ہاں (ادا ہوجاتا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : اپنے والد کی جانب سے حج ادا کرو۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن انس (رض) ۔

12335

12335- مثل الذي يحج لأمتي مثل أم موسى كانت ترضعه وهي كانت تأخذ الكراء من فرعون. "الديلمي عن جبير بن نفير عن عوف بن مالك".
12335 جو شخص میری امت کے لیے حج کرتا ہے اس کی مثال موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی سی ہے، جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلاتی تھیں ، اور وہ فرعون سے (اس دودھ پلانے کی) اجرت بھی لیتی تھیں۔ رواہ الدیلمی عن جبیر بن نفیر عن عوف بن مالک۔
کلام : روایت ضعیف ومحتمل الموضوع ہے : تذکرۃ الموضوعات 73، الموضوعات 220/219/2 ۔

12336

12336- حجي عن أبيك. "ت عن علي" "طب عن الفضل"
12336 تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔
رواہ الترمذی عن علی (رض) ، حسن صحیح ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الفضل۔

12337

12337- حج عن أبيك. "هـ عن أبي الغوث بن حصين عن ابن عباس عن حصين بن عوف ك عن أبي هريرة"
12337 تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔ رواہ ابن ماجہ عن ابی الغوت بن حصین عن ابن عباس عن حصین بن عوف، رواہ الحاکم فی المستدرک عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں عثمان بن عطاء النحراسانی ہے، ابن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے اور ایک قول اس کے منکر الحدیث متروک ہونے کا ہے زوائد ابن ماجہ میں امام حاکم فرماتے ہیں یہ شخص اپنے والد سے موضوع روایات روایت کرتا ہے۔ الحاکم فی المستدرک 481/1 ۔

12338

12338- حججت عن أبيك. "ت عن علي" "طب عن الفضل".
12338 تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔
رواہ الترمذی عن علی (رض) ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن الفضل۔

12339

12339- من حج عن والديه بعد وفاتهما، كتب الله له عتقا من النار، وكان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غير أن ينقص من أجورهما شيء، وما وصل ذو رحم رحمه بأفضل من حجة يدخلها عليه بعد موته في قبره، ومن مشى على راحلته عقبه، فكأنما أعتق رقبة. "هب وضعفه وابن عساكر عن عبد العزيز بن عبيد الله بن عمر عن أبيه عن جده".
12339 جس شخص نے اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دیتے ہیں، اور اس کے والدین کو ان کے ثواب میں بغیر کوئی کمی کے ایک کامل حج کا ثواب ملتا ہے اور ذورحم شخص کسی سے جو صلہ رحمی کرتا ہے وہ زیادہ افضل ہے اس حج سے جو وہ اس کی موت کے بعداس کی قبر میں داخل کرتا ہے (یعنی اس حج کے ثواب پہنچانے سے اس شخص کے ساتھ اس کی زندگی میں صلہ رحمی افضل ہے) اور جو شخص اپنی سواری پر اس شخص کے پیچھے چلا (صلہ رحمی کے لئے) تو گویا اس نے ایک گردن (غلام) آزاد کیا۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان وضعفہ وابن عساکر عن عبدالعزیز بن عبیداللہ بن عمر عن ابیہ عن جدہ۔
کلام : بیہقی (رح) نے مذکورہ روایت کو ضعیف کہا ہے۔

12340

12340- من حج عن أبيه، أو عن أمه أجزأه ذلك عنه وعنهما. "طب عن زيد بن أرقم".
12340 جس شخص نے اپنے والد یا اپنی والدہ کی جانب سے حج کیا تو وہ حج اس کی جانب سے اور ان دونوں کی جانب سے کفایت کرے گا۔ یعنی اس حج کا مکمل ثواب اس حج کرنے والے کو بھی ملے گا اور ان دونوں (والدین کو بھی مکمل ملے گا) ۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن زید بن ارقم۔

12341

12341- من حج عن ميت، فللذي حج عنه مثل أجره، ومن فطر صائما فله مثل أجره، ومن دل على خير فله مثل أجر فاعله. "الخطيب عن أبي هريرة".
12341 جس شخص نے کسی میت کی جانب سے حج کیا، تو جس نے اس کی جانب سے حج کیا ہے اس کو اس میت کے ثواب جیسا ثواب ملے گا، اور جس شخص نے کسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس افطار کرانے والے کو روزے دار کی طرح ثواب ملے گا، اور جس شخص نے کسی خیر کے کام پر دلالت کی تو اس کارخیر پر نشاندہی گرنے والے کو ایسا ہی ثواب ملے گا جیسا کہ اس کارخیر کو انجام دینے والے کو ملتا ہے۔ رواہ الخطیب عن ابوہریرہ (رض) ۔
کلام : الضعیفۃ 1184 ۔

12342

12342- من حج عن ميت كتبت عن الميت وكتب للحاج براءة من النار. "الديلمي عن ابن عباس".
12342 جس شخص نے کسی میت کی طرف سے حج کیا تو اس میت اور (اس کی جانب سے) حج کرنے والے کے لیے جہنم سے برأت لکھ دی جاتی ہے۔ رواہ الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔

12343

12343- حجة للميت ثلاثة: حجة للمحجوج عنه، وحجة للحاج وحجة للموصي. "الديلمي عن أنس".
12343 میت کے لیے ایک حج (درحقیقت ) تین حج ہیں، ایک حج تو جس کی طرف سے حج کیا گیا، دوسرے حج حاجی کے لیے تیسرا حج وصیت کرنے والے کے لیے (یعنی ان سب کو ایک حج کا پورا پورا ثواب ملتا ہے گویا کہ ایک حج تین حج ہوئے) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : الضعیفۃ 1979 ۔

12344

12344- كتب له أربع حجج: حجة للذي كتبها، وحجة للذي أنفقها، وحجة للذي أخذها، وحجة للذي أمر بها. "ق وضعف عن أنس في رجل أوصى بحجة".
12344 اس کے لیے چار حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، ایک اس شخص کے حج کا ثواب جس نے اسے لکھا، اور ایک اس شخص کے حج کا ثواب جس نے اس پر خرچہ وغیرہ کیا، اور ایک اس شخص کا حج کا ثواب جس نے اس کو کیا (یعنی انجام دیا) اور ایک اس شخص کا حج کا ثواب جس نے اس کے بارے میں حکم جاری کیا (یعنی میت کی طرف سے حج بدل کرنے پر میت کو چار حج کا ثواب لکھا جاتا ہے) ۔ رواہ البیہقی وضعف عن انس (رض) ۔ یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جس نے حج کی وصیت کی تھی۔
کلام : امام بیہقی (رح) نے اس کو ضعیف کہا ہے۔

12345

12345- أتدرون أي يوم هذا؟ وأي شهر هذا؟ وأي بلد هذا؟ قالوا: هذا بلد حرام، وشهر حرام، ويوم حرام، قال: ألا وإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا في بلدكم هذا، ألا وإني فرطكم على الحوض أنظركم وأكاثر بكم الأمم، فلا تسودوا وجهي، ألا وقد رأيتموني وسمعتم مني وستسألون عني، فمن كذب علي فليتبوأ مقعده من النار، ألا وإني مستنقذ أناسا ومستنقذ مني أناس، فأقول: يا رب أصحابي فيقول: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك. "حم عن رجل من الصحابة هـ عن ابن مسعود"
12345 کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے ؟ اور کونسا مہینہ ہے ؟ اور کونسا شہر ہے ؟ تو صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا : یہ محترم شہر (مکہ) ہے، اور محترم مہینہ (ذوالحجہ) ہے اور محترم دن (عرفہ) ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : آگاہ رہو ! بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی محترم ہیں، جیسے کہ تمہارے اس دن (عرفہ) میں ہیں، اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں اور تمہارے اس شہر (مکہ ) میں محترم ہیں (آگاہ رہو ! ) میں تم سے حوض (کوثر) پر آگے بڑھنے والا ہوں گا، تمہیں دیکھوں گا اور دوسری امتوں کے سامنے تم پر فخر کروں گا، لہٰذا مجھے رسوانہ کردینا۔
آگاہ رہو ! تم نے مجھے دیکھا ہے، اور مجھ سے (احکامات الٰہی) سنے ہیں، اور میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا، پس جس شخص نے مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنائے۔
آگاہ رہو ! میں بہت سے لوگوں کو (جہنم سے) نجات دلاؤں گا۔ اور کئی لوگ میرے ذریعہ (جہنم سے) چھٹکارا پائیں گے۔ اور میں کہوں گا اے پروردگار ! میرے ساتھی ؟ تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ ” تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انھوں نے کیا کیا چیزیں گھڑیں۔ “
رواہ احمدفی مسندہ عن رجل من الصحابہ وابن ماجہ عن ابی مسعود (رض) ۔

12346

12346- إن دماءكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "طب عن فضالة بن عبيد".
12346 بیشک تمہارے خون اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی محترم ہیں جس طرح تمہارے اس دن (عرفہ) میں اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں اور تمہارے اس شہر (مکہ) میں محترم ہیں۔
رواہ الطبرانی فی الکبیر عن فضالۃ بن عبید (رض) ۔

12347

12347- ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، وكحرمة بلدكم هذا، وكحرمة شهركم هذا، ألا هل بلغت اللهم اشهد. "حم ن وابن خزيمة والبغوي والباوردي وابن قانع حب طب ص عن موسى بن زياد بن حذيم بن عمر السعدي عن أبيه عن جده".
12347 آگاہ رہو ! بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی حرام ومحترم ہیں، جیسے تمہارے اس دن (عرفہ) کی حرمت ہے اور تمہارے اس شہر (مکہ ) کی حرمت ہے اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے ، سنو ! کیا میں نے (احکامات خداوندی) پہنچا دیئے ؟ (صحابہ نے اثبات میں گواہی دی تو) آپ نے ارشاد فرمایا : اے اللہ تو (اپنے ان بندوں کی گواہی پر) گواہ رہنا۔
رواہ احمد فی مسندہ والنسائی وابن خزیمۃ والبغوی والباوردی وابن قانع وابن حبان فی صحیحہ والطبرانی فی الکبیر سعید بن منصور فی سننہ عن موسیٰ بن زیادبن حذیم بن عمر السعدی عنابیہ عن جدہ۔

12348

12348- أي يوم أعظم حرمة؟ وأي شهر أعظم حرمة؟ وأي بلد أعظم حرمة؟ قالوا: يومنا هذا وشهرنا هذا، وبلدنا هذا، قال فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "حم ع ص عن جابر" "حم والبغوي وابن قانع عن نبيط بن شريط عن أبيه".
12348 کون سا دن سب سے زیادہ عظیم حرمت والا ہے ؟ اور کونسا مہینہ زیادہ حرمت والا ہے ؟ اور کونسا شہر زیادہ عظیم حرمت والا ہے ؟ تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ ” ہمارا یہ دن (عرفہ) اور یہ مہینہ (ذوالحجہ) اور یہ شہر (مکہ) زیادہ عظیم حرمت والے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : بیشک تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری آبرو، تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں ، تمہارے اس شہر (مکہ) میں، تمہارے اس دن کی حرمت کی مانند ہیں۔ رواہ احمد فی مسندہ وابویعلی فی مسندہ و سعید بن منصور فی سننہ عن جابر (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ والبغوی وابن قانع عن لبیط بن شریط عن ابیہ۔

12349

12349- أيها الناس، أي شهر أحرم؟ قالوا: هذا، قال: أيها الناس، فأي بلد أحرم؟ قالوا: هذا، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم محرمة عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم هل بلغت؟ اللهم اشهد، أيها الناس ليبلغ الشاهد منكم الغائب. "بز عن وابصة".
12349 اے لوگو ! کونسا مہینہ زیادہ حرمت والا ہے، تو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا کہ : یہ (ذوالحجہ کا مہینہ) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! پھر کونسا شہر زیادہ حرمت والا ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : یہ (یعنی مکہ سب سے زیادہ محترم ہے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی حرام ومحترم ہیں جیسے کہ تمہارے اس دن (عرفہ) میں، تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں اور تمہارے اس شہر (مکہ) میں اس دن تک جس دن میں تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے (قیامت تک) حرام ہیں۔ یعنی جیسے تم قتل و قتال اور لوٹ مار کو اس دن، اس مہینہ اور اس شہر میں حرام جانتے ہو اسی طرح یہ چیزیں تم پر قیامت تک کے لیے محترم ہیں، رواہ البزار عن وابصۃ۔

12350

12350- الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله، أوصيكم بتقوى الله، أي يوم أحرم؟ قالوا: هذا اليوم قال: فأي شهر أحرم؟ قالوا: هذا الشهر قال: فأي بلد أحرم؟ قالوا: هذا البلد قال: فإن دماءكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، فهل بلغت؟ اللهم اشهد. "ابن سعد طب ق عن نبيط بن شريط" قال: كنت ردف أبي والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب عند الجمرة قال: فذكره.
12350 تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہتے کی وصیت کرتا ہوں، کونسا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : یہ دن (عرفہ کا دن تو ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کونسا مہینہ زیادہ حرمت والا ہے ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : یہ مہینہ (ذوالحجہ) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : کونسا شہر زیادہ حرمت والا ہے ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : یہ شہر (یعنی مکہ) ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : بیشک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی محترم ہیں جس طرح تمہارے اس دن (عرفہ) میں تمہارے اس شہر (ذوالحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں حرام ہیں، کیا میں نے (احکام خداوندی) پہنچادیئے ؟ (تو سب نے اثبات میں گواہی دی تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : اے اللہ تو (اپنے ان بندوں کو گواہی پر) گواہ رہنا۔
رواہ ابن سعید، والطبرانی فی الکبیر والبیہقی عن نبی ط بن شریط۔
نبی ط بن شریط فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمرہ اولیٰ کے پاس خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پھر مذکورہ حدیث ذکر فرمائی۔

12351

12351- يا أيها الناس، إن الله قد حرم دماءكم وأموالكم، وأولادكم كحرمة هذا اليوم من الشهر، وكحرمة هذا الشهر من السنة، اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت. "ابن النجار عن قيس بن كلاب الكلابي".
12351 اے لوگو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد کو ایسا ہی محترم بنایا ہے جس طرح کہ یہ سب اس مہینہ کے اس دن (عرفہ) میں اور اس سال کے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں حرام ہیں، اے اللہ ! کیا میں نے (دین) پہنچا دیا، اے اللہ ! آیا میں نے (دین) پہنچا دیا۔ رواہ ابن النجار عن فیس بن کلام الکلابی۔

12352

12352- هل تدرون أي يوم هذا؟ إن هذا أوسط أيام التشريق هل تدرون أي بلد هذا؟ هذا المشعر الحرام إني لا أدري لعلي لا ألقاكم بعد هذا، ألا وإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا حتى تلقون ربكم، فيسألكم عن أعمالكم، ألا فليبلغ أدناكم أقصاكم ألا هل بلغت. "طب عن سری بنت نبهان".
12352 کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے ؟ بیشک یہ دن ایام تشریق کا بالکل درمیان والا دن ہے (یعنی یوم عرفہ ہے) کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا شہر ہے ؟ یہ شہر حرام (مکہ) ہے، میں نہیں جانتا کہ شاید اس (حج ) کے بعد (آئندہ سال حج میں) تم سے ملاقات کرسکوں گا۔ آگاہ رہو ! تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی حرام ہیں، جیسے کہ تمہارے اس دن (عرفہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں حرام ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرلو (یعنی قیامت تک کے لیے حرام ہیں ) تو پھر اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کریں گے، آگاہ رہو ! تم میں سے جو قریب ہے (یا حاضر ہے) وہ دور والے کو (یا غائب کو) یہ بات پہنچا دے، سنو ! کیا میں نے (احکام) خداوندی پہنچادیئے ؟ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن اسدی بنت نبھان۔

12353

12353- يا أيها الناس، إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، فليبلغ منكم الشاهد الغائب، ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. "ابن قانع طب ص عن مخشي بن حجير عن أبيه" "طب عن أبي غادية الجهني".
12353 اے لوگو ! بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال، اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی حرام ہیں جس طرح کہ تمہارے اس دن (عرفہ) میں تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں اور تمہارے اس شہر (مکہ) میں حرام ہیں، پس تم میں سے حاضر شخص غائب تک (یہ بات) پہنچا دے، اور میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ رواہ ابن قانع والطبرانی فی الکبیر و سعید بن منصور فی سننہ عن مخشی بن جحیر عن ابیہ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی غادیۃ الجھنی۔

12354

12354- يا أيها الناس أي يوم هذا؟ قالوا يوم حرام قال: فأي بلد هذا؟ قالوا: بلد حرام، قال: فأي شهر هذا؟ قالوا: شهر حرام، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا، اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت فليبلغ الشاهد الغائب لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. "ش حم خ عن ابن عباس" "هـ عن ابن عمر" "طب عن عمار" "حم والبغوي عن أبي غادية الجهني".
12354 اے لوگو ! یہ کونسا دن ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ” یوم حرام “ (عرفہ) ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : یہ کونسا شہر ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : ” شہر حرام “ ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : یہ کونسا مہینہ ہے ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ” حرام مہینہ “ (ذوالحجہ ) ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : پس بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال، اور تمہاری آبرو تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن (عرفہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں حرام ومحترم ہیں اے اللہ ! میں نے (تیرا دین) پہنچا دیا، اے اللہ ! میں نے (تیرا دین) پہنچا دیا، پس حاضر کو چاہیے کہ غائب تک (یہ بات) پہنچا دے، میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ رواہ ابن شیبۃ واحمد فی مسندہ والبخاری عن ابن عباس (رض) ، رواہ ابن ماجہ عن ابن عمر (رض) ، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن عمار (رض) ، رواہ احمد فی مسندہ والبغوی عن ابی غادیۃ الجھنی۔

12355

12355- يا أيها الناس، أي يوم هذا؟ وأي شهر هذا؟ وأي بلد هذا؟ أليس شهر حرام وبلد حرام ويوم حرام، ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم، اللهم هل بلغت؟ اللهم اشهد. "حم وابن سعد والحكيم عن العداء بن خالد" "طب عن أبي أمامة" "بز عن وابصة".
12355 اے لوگو ! یہ کونسا دن ہے ؟ اور یہ کونسا مہینہ ہے ؟ اور یہ کونسا شہر ہے ؟ کیا یہ حرام مہینہ (ذوالحجہ) اور کیا یہ حرام شہر (مکہ) اور کیا یہ حرام دن (یوم عرفہ) نہیں ہے۔ آگاہ رہو ! بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری آبرو تم پر اسی طرح محترم ہیں جس طرح کہ تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں، تمہارے اس شہر (مکہ ) میں اور تمہارے اس دن (عرفہ) میں حرام ومحترم ہیں اس دن تک جس دن تم اپنے پروردگار سے ملاقات کرو گے (قیامت تک حرام ومحترم ہیں) ۔ اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا دین) پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! تو گواہ رہنا (کہ میں نے تیرا دین تیرے بندوں تک پہنچادیا) ۔ رواہ احمد فی مسندہ وابن سعد والحکیم عن العداء بن خالد، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ (رض) رواہ البزار عن وابصۃ۔

12356

12356- إن أحرم الأيام يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، ألا وإن دماءكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم قال: اللهم اشهد. "ابن النجار عن أبي هريرة".
12356 بیشک سب سے زیادہ حرمت والا دن تمہارے اس شہر (مکہ) میں تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں تمہارا یہ دن (عرفہ) ہے، آگاہ رہو ! تمہارے خون تم پر اسی طرح محترم ہیں جس طرح کہ تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں تمہارے اس دن (عرفہ) کی حرمت ہے۔ سنو ! کیا میں نے (اللہ کا دین تمہیں ) پہنچا دیا ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ جی ہاں (آپ نے دین پہنچا دیا) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : اے اللہ ! تو (اپنے بندوں کی گواہی پر) گواہ رہ۔ رواہ ابن النجار عن ابوہریرہ (رض) ۔

12357

12357- يا أيها الناس؛ تدرون في أي شهر أنتم؟ وفي أي بلد أنتم وفي أي يوم أنتم؟ قالوا: يوم حرام وشهر حرام وبلد حرام، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، اسمعوا تعيشوا، ألا لا تظالموا ثلاثا، إنه لا يحل مال امرء مسلم إلا بطيب نفس منه، ألا وإن كل دم ومال ومأثرة1 كانت في الجاهلية تحت قدمي هذا إلى يوم القيامة، وإن أول دم يوضع دم ربيعة بن الحارث بن ربيعة عبد المطلب، وإن الله قضى أن أول ربا يوضع ربا العباس بن عبد المطلب، لكم رؤس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون، ألا وإن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، ألا وإن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والأرض منها أربعة حرم ذلك الدين القيم، فلا تظلموا فيهن أنفسكم، ألا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض، ألا وإن الشيطان قد أيس أن يعبده المصلون، ولكنه في التحريش بينهم، فاتقوا الله في النساء فإنهن عندكم عوان لا يملكن لأنفسهن شيئا، وإن لكم عليهن حقا لا يوطئن فرشكم أحدا غيركم، ولا يأذن في بيوتكم لأحد تكرهونه، فإن خفتم نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن رزقهن وكسوتهن بالمعروف فإنما أخذتموهن بأمانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، ألا ومن كانت عنده أمانة فليؤدها إلى من ائتمنه عليها ألا هل بلغت ألا هل بلغت ليبلغ الشاهد الغائب فإنه رب مبلغ أسعد من سامع. "حم والبغوي والباوردي وابن مردويه عن أبي حرة الرقاشي عن عمه".
12357 اے لوگو ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کون سے مہینہ میں ہو ؟ اور تم کس شہر میں ہو ؟ اور تم کس دن میں ہو ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : حرام یوم (عرفہ) ہے، حرام مہینہ (ذی الحجہ) ہے اور حرام شہر (یعنی مکہ) ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری آبرو تم پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے اس مہینہ (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ) میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔
جان ومال کو نقصان نہ پہنچاؤ
سنو ! (اور اس کے مطابق ) زندگی گزارو ، خبردار ! ظلم مت کرنا (تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی) کسی مسلمان کا مال اس کے طیب نفس کے بغیر حلال نہیں، سنو ! زمانہ جاہلیت کا ہر خون اور ہر سودی مالی معاملہ اور زمانہ جاہلیت کی رسمیں قیامت تک میرے پاؤں تلے ہے (باطل) قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلا خون جو معاف کیا جاتا ہے وہ الحارث کے بیٹے ربیعہ کا خون ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا کہ سب سے پہلا سود جسے معاف کیا جاتا ہے وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، تمہارے لیے تمہاری اصل رقم ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ کوئی دوسرا تم پر ظلم کرے، سنو ! بیشک زمانہ اپنی اس اصلی ہیئت پر لوٹ آیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق فرمائی (یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ) جس طرح چاہتے مہینوں کو مقدم وموخر کرتے رہتے تھے، لیکن اب زمانہ اپنی اصلی ہئیت پر واپس لوٹ آیا ہے جیسا کہ اول دن میں، اب جو مہینہ جس جگہ وہ اپنی (اصلی حالت پر ہے) سنو ! اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق فرمائی اس دن سے مہینہ کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار محترم مہینہ ہیں، یہ قوی دین ہے، ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو، سنو ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو، سنو ! شیطان اس بات سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی اس کی عبادت کریں، لیکن وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے پر لگا ہوا ہے۔
عورتوں کے حقوق ادا کرو
پس عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ وہ تو تمہاری خدمت گزار ہیں، اپنے لیے کسی چیز کی بھی مالک نہیں ہیں اور عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا انا تم کو ناگوار گزرے، اگر تمہیں ان کی نافرمانی کا خوف ہو تو (پہلے) انھیں نصیحت کرو (پھر بھی نہ مانیں) تو بستروں میں سے ان سے علیحدگی اختیار کرو اور ان کو مارو مگر اس طرح نہ مارو کہ جس سے سختی اور شدت ظاہر ہو اور انھیں کوئی گزند پہنچے ، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان (اور مکان) اور کپڑا دو ۔ کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے، اور ان کی شرم گاہوں کو خدا کے حکم سے یعنی ” فانکحوا “ کے مطابق اپنے لیے حلال بنایا ہے، سنو ! جس کسی کے پاس کسی کی امانت ہو تو جس نے وہ امانت رکھائی تھی اس تک لوٹادے، کیا میں نے (دین) پہنچا دیا ؟ کیا میں نے (دین) پہنچا دیا ؟ چاہیے کہ حاضر شخص غائب تک (یہ بات) پہنچا دے، کیونکہ بسا اوقات سننے والے کی بنسبت وہ شخص (جس نے سنا تو نہیں البتہ اس تک بات) پہنچائی گئی تھی، زیادہ نیک بخت ہوتا ہے (اس بات پر عمل کرکے) ۔

12358

12358- ألا إن دماء الجاهلية وغيرها تحت قدمي إلا السقاية والسدانة1. "ابن منده عن الأسود بن ربيعة اليشكري" وسنده مجهول.
12358 سنو ! زمانہ جاہلیت کے خون اور اس کے علاوہ کی چیزیں میرے دونوں قدموں کے نیچے ہیں (باطل کرتا ہوں) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے والی خدمت اور کعبہ کی تولیت کے (کہ اس خدمت کو میں سابقہ طرز پر سابقہ لوگوں میں برقرار رکھتا ہوں) ۔
رواہ ابن مندہ عن الاسود بن ربیعۃ الیشکری۔
کلام : اس حدیث کی سند مجہول ہے۔

12359

12359- الله أكبر الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله، وحده صدق وعده ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده ألا إن كل مأثرة في الجاهلية تذكر وتدعى من دم أو مال تحت قدمي إلا ما كان من سقاية الحاج وسدانة البيت، ألا إن دية الخطأ شبه العمد ما كان بالسوط والعصى مائة من الإبل منها أربعون في بطونها أولادها. "د عن ابن عمرو"1
12359 اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی مدد فرمائی ، اور تن تنہا لشکروں کو شکت دی، سنو ! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور کسی بھی خون اور مال (سودی معاملہ) کا دعویٰ میرے قدموں تلے ہے (باطل ہے) البتہ حاجیوں کی پانی پلانے کی خدمت اور خانہ کعبہ کی تولیت (سابقہ طرز پر برقرار ہوگی) سنو ! قتل خطاء کی دیت قتل شبہ عمد ہے، یہ وہ قتل ہے جو کہ کوڑے یا ڈنڈے سے ہو، اس میں سو اونٹ دیت ہیں جن میں سے چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی کہ جو حاملہ ہوں۔ رواہ ابوداؤد عن ابن عمرو (رض) ۔

12360

12360- الحمد لله الذي صدق وعده، ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده ألا إن قتيل السوط والعصا فيه مائة من الإبل منها أربعون خلفة2 في بطونها أولادها، ألا إن كل مأثرة كانت في الجاهلية ودم تحت قدمي هاتين إلا ما كان من سدانة البيت، وسقاية الحاج ألا إني قد أمضيتهما لأهلهما كما كانتا. "هب طب عن ابن عمرو" "طب عن ابن عمر". = وكان يليها العباس بن عبد المطلب في الجاهلية والإسلام "2/381" النهاية. انتهى. ب. السدانة: هي خدمة الكعبة وتولي أمرها وفتح بابها وإغلاقه يقال: سدن يسدن فهو سادن والجمع سدنة "2/355" النهاية ب.
12360 تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اور اپنے بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی مدد ونصرت فرمائی اور تن تنہا لشکروں کو شکست دی، سنو ! کوڑے اور ڈنڈے سے قتل کیے جانے والے کی دیت میں سو 100 اونٹ ہیں کہ جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہونگی کہ جن کے پیٹ میں ان کے بچے ہوں، سنو ! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہیں۔ بالکل باطل قرار دیتا ہوں، البتہ خانہ کعبہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت سابقہ طرز پر میں انھیں لوگوں کے حق میں برقرار رکھتا ہوں یہ جو پہلے سے اس خدمت پر مامور ہیں۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان والطبرانی فی الکبیر عن ابن عمرو، رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر (رض) ۔

12361

12361- يا معشر قريش اتقوا الله ولا تمنعوا من الحاج شيئا مما ينتفع به فإن فعلتم فأنا خصمكم يوم القيامة. "أبو نعيم عن ابن عباس".
12361 اے قریش کی جماعت ! اللہ سے ڈرو اور جس چیز سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے حاجیوں کو اس چیز سے (فائدہ) اٹھانے سے منع نہ کرو پس اگر تم نے ایسا کیا (منع کیا) تو میں قیامت کے روز (ان کے حق میں) تم سے جھگڑا کروں گا۔ رواہ ابونعیم عن ابن عباس (رض) ۔

12362

12362- يأتي على الناس زمان يحج أغنياء الناس للنزاهة وأوساطهم للتجارة وقراؤهم للرياء والسمعة وفقراؤهم للمسئلة. "الخطيب والديلمي عن أنس".
12362 لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا مالدار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے اور متوسط طبقے کے لوگ تجارت کی غرض سے حج کو جائیں گے اور قراء حضرات ریاکاری اور دکھلاوے کی غرض سے حج کو جائیں گے اور فقیر و محتاج بھیک مانگنے کی غرض سے حج کو جائیں گے۔ رواہ والدیلمی عن انس (رض) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : کشف الخفاء 3267 ۔

12363

12363- يأتي على الناس زمان يحج أغنياء الناس للنزاهة وأوساطهم للتجارة وفقراؤهم للمسألة وقراؤهم للسمعة والرياء. "الديلمي عن أنس".
12363 لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مالدار لوگ سیر و تفریح کی غرض سے حج کریں گے ، اور متوسط طبقے کے لوگ تجارت کی غرض سے حج کو جائیں گے اور فقرا ومحتاجین بھیک مانگنے کے لیے حج کو جائیں گے اور قراء حضرات ریاکاری اور دکھلاوے کی غرض سے حج کریں گے۔
رواہ الدیلمی عن انس (رض) ۔

12364

12364- يا أم معقل، حجي على بعيرك، فإن الحج من سبيل الله. "طب عن أم معقل".
12364 اے ام معتل ! تم اپنے اونٹ پر سوار ہو کر حج ادا کرلو، اس لیے کہ حج اللہ کے راستے میں سے ہے (یعنی حج بذات خود اللہ کا راستہ ہے) لہٰذا تم اگر سواری کی حالت میں مناسک حج ادا کرلوگی تو کوئی مضائقہ نہیں۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ام معقل (رض) ۔

12365

12365- إني دخلت الكعبة ووددت أني لم أكن أفعل، إني أخاف أن أكون أتعبت أمتي من بعدي. "ت حسن صحيح ق عن عائشة"1
12365 میں کعبہ میں داخل ہوا اور کاش کہ میں نہ داخل ہوتا، مجھے خوف ہے کہ میں نے اپنے بعد آنے والی امت کو مشقت میں مبتلا کردیا۔ الترمذی حسن صحیح، البیہقی عن عائشۃ (رض) ۔

12366

12366- إني رأيت في البيت قرنا فغيبه فإنه لا ينبغي أن يكون في البيت شيء يلهي المصلي. "حم خ في التاريخ وابن عساكر عن أم عثمان بنت سفيان".
12366 میں نے گھر میں ایک سینگ دیکھا ہے، پس تم اس کو (کہیں) چھپا کر رکھو، کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے کہ گھر میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو لہو میں مبتلا کرے۔
رواہ احمد فی مسندہ والبخاری فی التاریخ وابن عساکر عن ام عثمان من سفیان۔

12367

12367- إني رأيت قرن الكبش حين دخلت البيت فنسيت أن آمرك بخمرها فإنه لا ينبغي أن يكون في البيت ما يشغل مصليا. "ق حم ص عن امرأة من بني سليم عن عثمان بن طلحة"
12367 میں جب گھر میں داخل ہوا تو میں نے مینڈھے کے سینگ دیکھے ، لیکن میں بھول گیا کہ تم کو اس سینگ کے چھپانے کا حکم دوں، اس لیے کہ یہ بات مناسب نہیں کہ گھر میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کرے (کہ اس کی وجہ سے اس کا دھیان نماز سے ہٹ جائے) ۔
رواہ البیہقی واحمد فی مسندہ و سعید بن منصور فی سننہ عن امراۃ من بنی سلیم عن عثمان بن طلحۃ (رض)

12368

12368- من حج فزار قبري بعد وفاتي كان كمن زارني في حياتي. "أبو الشيخ طب عد هق عن ابن عمر"
12368 جس شخص نے حج کیا اور پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ شخص کی طرح ہے، جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔
رواہ ابوالشیخ والطبرانی فی الکبیر وابن عدی فی الکامل والبیہقی فی السنن۔
کلام : اسنی المطالب 1387، ضعیف الجامع 5553 ۔

12369

12369- من حج البيت ولم يزرني فقد جفاني. "حب في الضعفاء والديلمي عن ابن عمرو" وأورده ابن الجوزي في الموضوعات فلم يصب.
12369 جس شخص نے حج بیت اللہ کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ سے بیوفائی کی۔
رواہ ابن حبان فی صحیحہ فی الضعفاء والدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن عمرو (رض) ۔
کلام : اس حدیث کو علامہ ابن الجوزی نے موضاعات میں شمار کیا ہے، لیکن وہ درست نہیں ہے۔ مگر دوسری کتب میں اس کو ضعیف کہا گیا ہے، دیکھئے : النزیہ 172/2، التہانی 42 ۔

12370

12370- من حج إلى مكة ثم قصدني في مسجدي كتبت له حجتان مبرورتان. "الديلمي عن ابن عباس".
12371 جو حج کے ارادہ سے مکہ چلا پھر میری مسجد میں میری زیارت کا قصد کیا تو اس کے لیے دو مقبول حج کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ رواہ الدیلمی عن ابن عباس (رض) ۔

12371

12371- من زار قبري كنت له شفيعا أو شهيدا، ومن مات في إحدى الحرمين بعثه الله من الآمنين يوم القيامة. "ط هق عن عمر"2
12371 جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی تو (قیامت کے روز) میں اس کے لیے سفارشی ہونگا یا گواہ ہونگا، اور جو شخص دو حرموں (مکہ ، مدینہ) میں سے کسی ایک میں انتقال کرجائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو ان لوگوں میں سے اٹھائیں گے جو امن میں ہوں گے۔
رواہ ابوداؤد البیہقی فی السنن عن عمر (رض) ۔

12372

12372- من زارني بعد موتي فكأنما زارني في حياتي، ومن مات بإحدى الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة. "ابن قانع هب عن حاطب بن الحارث".
12372 جس شخص نے میری وفات کے بعدمیری زیارت کی تو اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی، اور جو شخص دونوں حرموں (مکہ، مدینہ) میں سے کسی ایک حرم میں انتقال کرجائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو امن والوں میں اٹھائیں گے۔
رواہ ابن فاسع والبیہقی فی شعب الایمان عن حاطب ابن الحارث۔
کلام : روایت محل کلام ہے، الاتقان 1914 ۔

12373

12373- من زارني متعمدا كان في جواري يوم القيامة، ومن سكن بالمدينة وصبر على بلائها كنت له شهيدا وشفيعا يوم القيامة، ومن مات في إحدى الحرمين بعثه الله من الآمنين يوم القيامة. "هب عن رجل من آل الخطاب"
12373 جس شخص نے بارادہ میری زیارت کی ، تو قیامت کے روز وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور جس شخص نے مدینہ منورہ میں رہائش اختیار کی اور مدینہ کے مصائب پر صبر کیا تو قیامت کے روز میں اس کے حق میں گواہ اور سفارشی ہوں گا، اور جو شخص دونوں حرموں میں سے کسی ایک حرم میں انتقال کرجائے تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کو امن والوں میں اٹھائیں گے۔
کلام : یہی روایت بیہقی (رح) نے السنن الکبری میں بھی روایت کی ہے اور فرمایا ہے اس کی سند مجہول ہے۔ 245/5 ۔

12374

12374- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عمر قال: من حج هذا البيت لا يريد غيره خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه " ... "
12374 (مسند عمر (رض)) حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس گھر (بیت اللہ شریف) کا حج کیا کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کا ارادہ نہیں کیا، تو وہ شخص اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح (پاک وصاف ہو کر) نکلے گا جس دن کہ اس کی والدہ نے اس کو جنا تھا اور گناہوں سے پاک تھا۔
یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے۔

12375

12375- عن عمر قال: يغفر للحاج ولمن استغفر له الحاج بقية ذي الحجة والمحرم وصفر وعشرا من ربيع الأول. "ش ومسدد".
12375 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : حاجی کی اور جس کے لیے حاجی استغفار کرے مغفرت کی جاتی ہے (اور اس کی دعا قبول ہوتی ہیں) بقیہ ذی الحجہ محرم، صفر اور دس ربیع الاول تک۔ مصنف ابن ابی شیبہ، مسدد۔

12376

12376- عن أبي هريرة أن رجلا مر بعمر بن الخطاب وقد قضى نسكه فقال له عمر: أحججت؟ قال: نعم فقال له: اجتنبت ما نهيت عنه فقال: ما ألوت2 فقال عمر: استقبل عملك. "هب".
12376 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص کا حضرت عمر (رض) پر گزر ہوا اس حال میں کہ وہ شخص اپنے مناسک حج مکمل کرچکا تھا ، تو حضرت عمر (رض) نے اس شخص سے فرمایا : کیا تم نے حج کرلیا ؟ اس نے کہا کہ : جی ہاں (کرلیا) تو حضرت عمر (رض) مکمل نے اس سے فرمایا کہ (حج میں) جس چیز سے تمہیں منع کیا گیا تم نے اس سے اجتناب کیا ؟ تو اس نے جواب دیا کہ : مجھے اس کی استطاعت نہ ہوئی (اس لیے اجتناب نہ برت سکا) تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ : اپنا کام (حج) ازسرنو کرو۔
رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔

12377

12377- عن يوسف بن ماهك أن عمر بن الخطاب خرج فرأى ركبا فقال: من الركب؟ قالوا: حجاج، قال: ما أنهزكم1 غيره؟ قالوا لا، قال: لو يعلم الركب بمن أناخوا لقرت أعينهم بالفضل بعد المغفرة، والذي نفس عمر بيده، ما رفعت ناقة خفها ولا وضعته إلا رفع الله له بها درجة وحط عنه بها خطيئة وكتب له بها حسنة. "عب".
12377 یوسف بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب نکلے انھوں نے کئی سواروں کو دیکھا (جو تیزی سے سواری کررہے تھے) تو فرمایا کہ (یہ) سوار کون ہیں ؟ تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ : حجاج کرام ہیں، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ : کوئی اور مقصد تو ان کا نہیں تھا ؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر یہ سوار جان لیتے کہ کتنے ثواب اور اجر عظیم کے ساتھ انھوں نے اپنی سواریوں کو بٹھایا اور اٹھایا ہے اور ان کی مغفرت کے بعد ان کو جو اجر عظیم ملا ہے اس کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے ! اونٹنی جب بھی اپنا قدم اٹھاتی ہے اور رکھتی ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے ایک درجہ بلند فرماتے ہیں اور گناہ مٹا دیتے ہیں اور ایک نیکی لکھ دیتے ہیں (حاجی کے لئے) ۔ الجامع لعبدالرزاق۔

12378

12378- عن مجاهد قال: بينا عمر بن الخطاب جالس بين الصفا والمروة إذ قدم ركب فأناخوا وطافوا وسعوا فقال لهم عمر: من أنتم؟ قالوا: من أهل العراق، قال: فما أقدمكم؟ قالوا: حجاج، قال: ما قدمتم في تجارة ولا ميراث ولا طلب دين, قالوا: لا: فائتنفوا2 العمل. "عب ش".
12378 حضرت مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب صفا اور مروہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ (بہت سے) اونٹ سوار آئے اور انھوں نے (اسے اونٹوں) کو بٹھایا اور طواف کیا اور سعی کیا تو حضرت عمر (رض) نے ان سے فرمایا : تم کون ہو ؟ تو انھوں نے کہا ہم عرابی ہیں، تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تو کیا چیز تمہیں (یہاں) لائی ہے، تو انھوں نے کہا کہ حاجی لوگ (لے کر آئے ہیں تو حضرت عمر (رض)) نے فرمایا : تو کیا تم تجارت، میراث اور طلب دین کی غرض سے نہیں آئے ؟ تو انھوں نے کہا کہ : نہیں ، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پس تم ازسر نو عمل (حج کے افعال) انجام دو ۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع وابن شیبۃ (رض) ۔

12379

12379- عن عمر قال: إذا وضعتم السروج فشدوا الرحال إلى الحج والعمرة فإنه أحد الجهادين. "عب".
12379 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ : تم جب زینیں باندھ لو، تو حج وعمرہ کی جانب رخ کرو کیونکہ یہ دونوں جہاد ہیں۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع، ابن ابی شبیہ۔

12380

12380- عن أيوب قال: قال عمر: ما أمعر حاج قط يقول:ما افتقر. "عب".
12380 حضرت ایوب سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کہ حاجی ہرگز فقروفاقہ میں مبتلا نہ ہوگا۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع۔

12381

12381- عن عمر أنه حضر جنازة رجل توفي بمنى آخر أيام التشريق وقال: ما يمنعني أن أدفن رجلا لم يذنب منذ غفر له. "عب".
12381 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے جنازے میں حاضر ہوئے جو ایام تشریق کے آخری دن منیٰ میں وفات پا گیا تھا، اور فرمایا کہ : مجھے کیا چیز منع کرتی ہے ایک ایسے شخص کو دفن کرنے سے کہ جب سے اس کی مغفرت ہوئی اس وقت سے گناہ نہیں کیا۔
رواہ عبدالرزاق فی الجامع۔

12382

12382- عن عمر قال: تلقوا الحجاج والعمار والغزاة فليدعوا لكم قبل أن يتدنسوا. "ش".
12382 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ : حاجیوں، عمرہ کرنے والوں اور مجاہدوں سے ملاقات کرو، پس چاہیے کہ وہ تمہارے لیے دعا کریں اس سے پہلے کہ وہ میلے (گناہ میں مبتلا) ہوں۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12383

12383- عن مجاهد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم اغفر للحاج ولمن استغفر له الحاج. "ابن زنجويه".
12383 حضرت مجاہد (رح) سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ حاجیوں کی مغفرت فرما اور اس کی بھی مغفرت فرمام جس کے لیے حاجی دعا (مغفرت) کرے۔ رواہ ابن زنجویہ۔

12384

12384- عن أبي سعيد قال: خطب عمر الناس فقال: إن الله رخص لنبيه ما شاء الله وإن نبي الله صلى الله عليه وسلم قد مضى لسبيله. وأتموا الحج والعمرة كما أمركم الله، وحصنوا فروج هذه النساء. "حم ومسدد وابن أبي داود في المصاحف والطحاوي".
12384 حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے جو چاہا اپنے نبی کو رخصت دی، اور اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کے راستے پر چلے، اور اللہ کے حکم کے عین مطابق حج اور عمرہ ادا کیا، اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کو محفوظ کردیا۔
رواہ احمد فی مسندہ ومسدد وابن ابی داؤد فی المصاحف والطحاوی۔

12385

12385- عن عبد الله بن أبي الهذيل أنه سمع عمر يقول: لا تشد الرحال إلا إلى البيت العتيق."ابن سعد".
12385 حضرت عبداللہ بن ابی الھذیل (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : کجاوے نہ کسے جائیں سوائے خانہ کعبہ کی طرف جانے کے لئے۔ رواہ ابن سعد۔

12386

12386- عن ابن عمر قال: قال عمر: الحاج والغازي والمعتمر وفد الله سألوا الله فأعطاهم ودعاهم فأجابوه. "هب".
12386 حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ : حاجی، غازی اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے وفد ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں عطا فرما دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ انھیں بلاتے ہیں تو وہ حاضر ہوجاتے ہیں۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔

12387

12387- عن عمر قال: كلفوا الحج والعمرة فإنها ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد. "عب".
12387 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ : حج اور عمرے کی مشقت اٹھاؤ اس لیے کہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح ختم کردیتے ہیں کہ جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ختم کردیتی ہے۔
رواہ عبدالرزاق فی الجامع۔

12388

12388- عن إبراهيم بن سعد عن أبيه أن عمر قال يوما وهو بطريق مكة وهو يحدث نفسه يشعثون ويغبرون ويتفلون ويضجون1 لا يريدون بذلك شيئا من عرض الدنيا ما نعلم سفرا خيرا من هذا يعني الحج. "ابن سعد في نسخته".
12388 ابراہیم بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ایک دن مکہ کے راستے میں اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ : وہ لوگ جو سفر کی وجہ سے پراگندہ حالی کے باوجود مسلسل ذکر میں مشغول ہوتے ہیں، ان کے جسموں سے (گردوغبار کی وجہ سے) بدبو آرہی ہوتی ہے اور وہ شور (ذکر اللہ) کرتے جارہے ہوتے ہیں اور وہ اس سفر سے دنیا کا کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں حاصل کرنا چاہتے، ہمارے خیال میں اس سفر سے بہتر اور کوئی سفر نہیں۔ وہ سفر حج مراد لے رہے تھے۔ رواہ ابن سعد فی نسخۃ۔

12389

12389- عن حبيب بن الزبير الأصفهاني قال: قلت لعطاء بن أبي رباح أبلغك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يستأنفون العمل؟ يعني الحاج قال: لا ولكن بلغني عن عثمان بن عفان وأبي ذر أنهما قالا: يستقبلون العمل. "ابن زنجويه ق".
12389 حبیب بن زبیر اصفہانی سے مروی ہے کہ میں نے عطاء بن ابی زباح (رض) سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ : وہ لوگ نام کو ازسر نو کریں (یعنی حجاج کرام ؟ ) تو انھوں نے کہا کہ نہیں بلکہ مجھے عثمان بن عفان اور ابوذر (رض) کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا : لوگ از سر نو عمل کریں (کیونکہ حج کی وجہ سے ان کے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں) ۔ ابن زنجویہ ، السنن للبیہقی

12390

12390- عن الحارث بن سويد عن علي قال: حجوا قبل أن لا تحجوا فكأني أنظر إلى حبشي أصمع أفدع بيده معول يهدمها حجرا حجرا فقيل له: شيء تقوله برأيك؟ أو سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا والذي فلق الحبة وبرأ النسمة1 ولكن سمعته من نبيكم صلى الله عليه وسلم. "الحارث حل هق" وفيه حصين بن عمر الأحمسي ضعفوه
12390 حارث بن سوید حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں، آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اس سے پہلے پہلے حج کرلو پھر تم حج نہ کرسکو، کیونکہ گویا میں (مستقبل میں) دیکھ رہا ہوں کہ ایک حبشی (سیاہ فام) چھوٹے چھوٹے کاموں والا بانگا ٹیڑھا آدمی ہے، اس کے ہاتھ میں کدال ہے اور وہ اسی کے ساتھ کعبۃ اللہ کے پتھروں کو ڈھارہا ہے۔
حضرت علی (رض) سے کسی نے عرض کیا : کیا آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں ؟ یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نے اسی بات کو سنا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے (زمین میں) دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا (میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں) بلکہ میں نے اس کو تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔ الحارث، حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی۔
کلام : مذکورہ روایت میں ایک راوی حصین بن عمر الاحمسی ہے، جس کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام ذھبی (رح) فرماتے ہیں حصین واہ (بےکار) راوی ہے۔
الحاکم فی المستدرک کتاب المناسک 448/1

12391

12391- عن علي قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة والناس مقبلون وهو يقول: مرحبا بوفد الله الذين إذا سألوا الله أعطاهم واستجاب دعاءهم ويضاعف للرجل الواحد من نفقة الدرهم الواحد ألف ألف ضعف. "الديلمي".
12391 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ (کے روز میدان عرفات) میں کھڑے تھے اور لوگ آپ کی طرف متوجہ تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرما رہے تھے :
مرحبا (خوش آمدید) ہو اللہ کے وفد (حاجیوں) کو، جب وہ مانگتے ہیں تو اللہ ان کو عطا کرتا ہے اور ان کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور آدمی جب (اپنے لیے بھی) ایک درہم خرچ کرتا ہے تو اس کا ثواب دس لاکھ درہم ہم تم بڑھا دیا جاتا ہے۔ الدیلمی۔

12392

12392- عن الحسن قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم على النساء جهاد قال: نعم الحج والعمرة. "ابن أبي داود في المصاحف".
12392 حضرت حسن سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : کیا عورتوں پر جہاد ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جی ہاں، حج اور عمرہ۔ ابن ابی داؤد فی المصاحف۔

12393

12393- عن الوضين بن عطاء عن يزيد بن مرثد عن أبي الدرداء وعن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم أن داود عليه السلام، قال: إلهي ما حق عبادك عليك إذا هم زاروك في بيتك، فإن لكل زائر على المزور حقا؟ قال: يا داود إن لهم علي أن أعافيهم في دنياهم، وأغفر لهم إذا لقيتهم. "كر البغوي".
12393 وضین بن عطاء، یزید بن مرثد سے اور یزید حضرت ابوالدرداء (رض) (اور حضرت ابوذر (رض)) سے روایت کرتے ہیں دونوں صحابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
داؤد (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے اللہ ! جب تیرے بندے تیرے گھر آکر تیری زیارت کریں تو ان کا تجھ پر کیا حق بنتا ہے ؟ کیونکہ ہر زائر (مہمان) کا مزور (میزبان) کے اوپر حق ہے ؟ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے داؤد ! دنیا میں تو مجھ پر ان کا یہ حق ہے کہ میں ان کو عافیت بخش دوں اور جب میں ان سے ملاقات کروں گا تو ان کو بخشش کروں گا۔ ابن عساکر البغوی۔

12394

12394- عن هدبة بن خالد، ثنا وهيب بن خالد، ثنا الجريري عن حبان بن عمير قال: ثنا ماعز أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم أي الأعمال أفضل؟ قال: إيمان بالله وجهاد في سبيله ثم أرعدت فخذ السائل، ثم قال: مه، قال ثم عمل أفضل من سائر الأعمال إلا كمثل حجة بارة. حجة بارة. "ابن النجار".
12394 عن ھدیہ بن خالد، وھیب بن خالد، الجریری، حبان بن عمیر کی سند سے مروی ہے، ماعز (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اعمال میں سے کون سا عمل افضل ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ۔ یہ سن کر سائل کی ران پر کپکپی طاری ہوگئی۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ٹھہر جا، پھر تمام اعمال میں سب سے افضل عمل گناہوں سے پاک حج، گناہوں سے پاک حج ہے۔ ابن النجار۔

12395

12395- عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ونحن بمنى: لو يعلم أهل الجمع بمن حلوا لاستبشروا بالفضل بعد المغفرة. "ابن عدي وقال هذا غير محفوظ وابن النجار".
12395 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ منیٰ میں تھے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اگر اہل مزدلفہ جان لیتے کہ ان کو کیا کچھ ملا ہے مغفرت کے بعد (خدا کا مزید انعام و) فضل تو خوشی سے جھوم اٹھتے۔ ابن عدی، ابن النجار۔
کلام : مذکورہ روایت غیر محفوظ ہے۔ جمع الجوامع۔

12396

12396- عن الضحاك بن مزاحم قال: نظر ابن عباس إلى قوم منيخين بباب المسجد فقال: لو يعلم الركب بمن أناخوا لعلموا أن سيرجعوا بالفضل بعد المغفرة. "ابن زنجويه".
12391 ضحاک بن مزاحم سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ایک قوم کو دیکھا جو مسجد کے دروازے پر اپنی سواریوں (کی اونٹنیوں ) کو بٹھا رہے تھے تو حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا :
اگر اہل قافلہ جان لیتے کہ کیا ثواب ان کو ملا تو وہ یہ جان لیتے کہ وہ مغفرت اور مزید فضل خداوندی کے ساتھ واپس لوٹیں گے۔ ابن زنجویہ۔

12397

12397- عن القاسم بن أبي أشمط حدثني أبي عن جدي حسل أحد بني عامر بن لؤي قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته ونحن معه على رجل قد فرغ من حجته فقال: أسلم حجك؟ قلت: نعم يا رسول الله قال: ائتنف العمل. "أبو نعيم".
12397 قاسم بن ابی اشمط کہتے ہیں مجھے میرے والد نے میرے دادا احسل سے جو بنی عامر بن لوی میں سے تھے روایت نقل کی ہے :
کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حج میں ایک شخص کے پاس سے گزرے ، ہم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ وہ آدمی اپنے حج سے فارغ ہوچکا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا : کیا تیرا حج (گناہوں سے) محفوظ رہا ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں، یارسول اللہ ! تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : از سرنو عمل کرو (کیونکہ تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں) ۔

12398

12398- عن جابر قال: دفت الكعبة بيت الله الحرام إلى قبري فتقول: السلام عليك يا محمد فأقول: وعليك السلام يا بيت الله، ما صنع بك أمتي من بعدي فتقول: من أتاني فأنا أكفئه وأكون له شفيعا، ومن لم يأتني فأنت تكفئه وتكون له شفيعا. "الديلمي" وفيه محمد بن سعيد البورقي كذاب وضاع
12398 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ (حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد) فرمایا : اللہ کا محترم گھر کعبۃ میری قبر کی طرف (بار بار) متوجہ ہوتا ہے اور کہتا ہے : السلام علیک یا محمد ! تو میں بھی کہتا ہوں وعلیکالسلام یا بیت اللہ ! میری امت نے میرے بعد تیرے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟ تو کعبۃ اللہ کہتا ہے : جو میرے پاس آتا ہے میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہوں اور اس کے لیے سفارشی بن جاتا ہوں۔ اور جو میرے پاس نہیں آتا، اس کے لیے آپ کافی ہوجائیں اور اس کے لیے سفارشی بن جائیں۔ الدیلمی۔
کلام : روایت موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن سعید بورقی کذاب اور وضاع (جھوٹا اور حدیثیں بنانے والا) شخص ہے۔ سلیمان بن جابر سے مروی ہے کہ بورقی حدیثیں گھڑنے والوں میں سے ایک تھا۔ میزان الاعتدال 566/3 ۔

12399

12399- عن عمر بن الخطاب قال: من أطاق الحج ولم يحج فاقسموا عليه أنه مات يهوديا أو نصرانيا. "حل".
12399 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : جو حج کی طاقت رکھتا ہے پھر بھی اس نے حج نہیں کیا تو تم اس پر قسم اٹھالو کہ وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرا۔ حلیۃ الاولباء۔

12400

12400- عن عمر قال: هممت أن أبعث رجالا إلى الأمصار فلا يدعون رجلا ذا ميسرة لم يحج إلا ضربوا عليه الجزية ما هم بمسلمين. "ص ورسته في الإيمان وأبو العباس الأصم في حديثه وابن شاهين في السنة".
12400 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ کچھ لوگوں کو شہروں میں بھیجوں، پس وہ ایسے کسی مالدار شخص کو نہ چھوڑیں جس نے حج نہیں کیا، مگر اس پر جزیہ مقرر کردیں (جیسا کہ غیر مسلموں پر ہوتا ہے) کیونکہ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔
السنن لسعید بن منصور، رستہ فی الایمان، ابوالعباس الاصم فی حدیثہ، ابن شاھین فی السنۃ۔

12401

12401- عن عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: ليمت يهوديا أو نصرانيا ثلاث مرات، رجل مات ولم يحج وجد لذلك سعة وخليت سبيله فحجة أحجها وأنا صرورة أحب إلي من ست غزوات أو سبع. "ص ورسته وابن شاهين ق".
12401 عبدالرحمن بن غنم الاشعری سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : یہودی یا نصرانی ہو کر مرے (تین مرتبہ تاکیداً فرمایا) وہ شخص جو حج کی وسعت رکھتا تھا اور اس کی راہ بھی خالی تھی مگر وہ بغیر حج کیے مرگیا۔ پس اگر میں نے ابھی تک حج نہ کیا ہو تو میں حج کرلوں یہ میرے لیے چھ سات غزو وں میں شرکت سے زیادہ محبوب ہے۔
السنن لسعید بن منصور ، رستہ ، ابن شاھین، السنن للبیہقی۔

12402

12402- عن عمر قال: من مات وهو موسر ولم يحج فليمت إن شاء يهوديا وإن شاء نصرانيا. "ص ش".
12402 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : جو مرگیا اور وہ مالدار تھا لکین اس نے ایک (بھی) حج نہیں تو وہ چاہے تو یہودی ہو کر مرے چاہے نصرانی ہو کر مرے۔
السنن لسعید بن منصور، ابن ابی شیبہ۔

12403

12403- عن عمر قال: لو ترك الناس الحج عاما واحدا لقاتلتهم عليه كما نقاتلهم على الصلاة والزكاة. "ص ورسته في الإيمان واللالكائي في السنة وأبو العباس الأصم في حديثه".
12403 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : اگر لوگ حج کو ایک سال کے لیے بھی چھوڑیں (یعنی حج بیت اللہ کو کوئی نہ آئے) تو میں ان سے قتال کروں گا جس طرح ہم نماز اور زکوۃ پر قتال کرتے ہیں۔
السنن لسعید بن منصور، رستہ فی الایمان، اللالکانی فی السنۃ، ابوالعباس الاصم فی حدیثہ۔

12404

12404- عن عمر قال: احجوا هذه الذرية ولا تأكلوا أرزاقها وتدعوا أرباقها في أعناقها1 "أبو عبيد في الغريب ش وابن سعد ومسدد".
12404 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : اپنی (آل) اولادوں کو حج کراؤ اور ان کی روزی نہ کھاؤ (ان کی روازی کھانے کی لالچ میں ان کو فریضہ حج سے نہ رکو) اور ان کی رسی ان کی گردنوں پر چھوڑ دو (اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں) ۔
ابوعبید فی الغریب، مصنف ابن ابی شیبہ، ابن سعد، مسدد

12405

12405- عن عمر في قوله: من استطاع إليه سبيلا قال: الزاد والراحلة. "ش وابن جرير".
12405: حضرت عمر (رض) کی روایت ہے کہ باری تعالیٰ کے قول من استطاع الیہ سبیلا سے مراد توشہ اور سواری ہے۔ (ابن ابی شیبۃ۔ ابن جریر)

12406

12406- عن أبي بكر رضي الله عنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، أي الحج أفضل؟ قال: العج والثج. "الدارمي ت وقال غريب وابن خزيمة قط في العلل طس ك ق ص".
12406 حضرت ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا حج افضل ہے ؟ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لعج والثج) یعنی جس حج میں زور زور سے تلبیہ پڑھا جائے اور اونٹوں کا خون بہایا جائے۔ الدارمی، الترمذی، وقال غریب، ابن خزیمہ، الدار قطنی فی العلل، الاوسط للطبرانی ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی ، السنن لسعید بن منصور۔
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے نیز امام دار قطنی (رح) نے بھی اس کو ضعیف شمار کیا ہے۔

12407

12407- عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه أن عمر بن الخطاب قال: يا أهل مكة ما شأن الناس يأتون شعثا وأنتم مدهنون أهلوا إذا رأيتم الهلال
12407 عبدالرحمن بن قاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اے اہل مکہ ! کیا بات ہے کہ لوگ (اللہ کی پسندیدہ حالت) غبار آلودی میں (مکہ) آتے ہیں اور تم ہو کہ تم پر نعمتوں کے آثار دکھتے ہیں۔ لہٰذا جب تم (ذوالحجہ کا) چاند دیکھ لو تو احرام باندھ کر تلبیہ پڑھو۔ تاکہ تم بھی کسی قدر ان کی طرح پراگندہ حالت میں ہوجاؤ۔
فائدہ : مذکورہ روایت کو امام مالک نے موطا میں کتاب الحج باب اھلال اھل مکۃ ومن بھا من غیرھم پر تخریج فرمایا ہے۔

12408

12408 - عن إبراهيم بن خلاد بن سويد الأنصاري رضي الله عنهما جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد كن عجاجا ثجاجا، قال:والعج: الإعلان بالتلبية، والثج: إهراق دماء البدن. "البارودي طب وأبو نعيم في المعرفة ص قال ابن منده: إبراهيم بن خلاد أتي به النبي صلى الله عليه وسلم وهو صغير وحديثه مرسل وقد روى عنه عن أبيه ولا يصح سماعه من أبيه".
12408 ابراہیم بن خلاد بن سوید انصاری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا : اے محمد حجاج اور تجاج ہوجا۔
راوی فرماتے ہیں : عج تلبیہ لبیک اللھم لبیک الخ کو بلند آواز سے پڑھنا ہے اور ثج اونٹوں کے خون کا بہانا ہے۔ الباوردی، الکبیر للطبرانی، ابونعیم فی المعرفۃ، السنن لسعید بن منصور۔
ابن مندہ فرماتے ہیں : ابراہیم بن خلاد کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بچپن کی حالت میں لایا گیا۔ اس لیے ان کی روایت مرسل ہے۔ نیز ان سے اپنے والد کے توسط سے بھی روایت نقل کی گئی ہے حالانکہ ان کا سماع ان کے اپنے والد سے بھی درست (ثابت) نہیں ہے۔

12409

12409- عن نافع قال: كان ابن عمر إذا دخل الحرم أمسك عن الإهلال حتى سعى بين الصفا والمروة فإذا فرغ من السعي بينهما أهل حتى إذا كان عشية التروية راح إلى منى فإذا غدا إلى عرفة أمسك عن الإهلال وكان التكبير والحمد والرغبة والمسألة ويقول: إني رأيت عمر بن الخطاب فعل ذلك. "ابن جرير".
12409 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) جب حرم میں داخل ہوتے تھے تو تلبیہ پڑھنے سے رکے رہتے تھے حتیٰ کہ آپ (رض) صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرماتے تھے جب ان کے درمیان سعی سے فارغ ہوجاتے تھے تو پھر تلبیہ پڑھ لیتے تھے۔ پھر جب ترویہ (آٹھ ذی الحجہ) کی رات ہوتی تو منیٰ کوچ فرماتے تھے پھر جب (ترویہ کی) صبح ہوتی تو عرفہ (میدان عرفات) چلے جاتے اور وہاں تلبیہ پڑھنے سے رکے رہتے تھے اور وہاں تکبیر، الحمدللہ، دعاوزاری ان کا مشغلہ رہتا تھا۔ (حضرت ابن عمر (رض)) فرمایا کرتے تھے کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو یونہی کرتے دیکھا تھا۔ ابن جریر۔

12410

12410- عن ابن عباس أن عمر لبى حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12410 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے جمرۃ پر رمی فرمالی۔ ابن جریر۔

12411

12411- عن الأسود قال: سمعت عمر يلبي عشية عرفة. "ابن جرير".
12411 اسود سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو عرفہ کی رات تلبیہ پڑھتے سنا ہے۔ ابن جریر

12412

12412- عن عمرو بن ميمون قال: حججت مع عمر فكان يلبي حتى رمى الجمرة من بطن الوادي، يقطع التلبية عند أول حصاة. "ابن جرير".
12412 حضرت عمر وبن میمون سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ حج کیا۔ آپ (رض) تلبیہ جاری رکھتے تھے بطن الوادی میں رمی جمار کرنے سے پہلے تک ، جب پہلی کنکری مارتے تو تلبیہ پڑھنا ختم فرما دیتے تھے۔ ابن جریر۔

12413

12413- عن طارق بن شهاب قال: شهدت عمر أفاض من عرفات فلبى حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12413 طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ تھا جب آپ عرفات سے نکلے تو تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے جمرہ پر رمی فرمالی (کنکری مارنے کے ساتھ تلبیہ موقوف فرمادیا) ۔ ابن جریر۔

12414

12414- عن محمد بن إسحاق قال: سأل أبي عكرمة وأنا أسمع عن الإهلال متى ينقطع؟ فقال: أهل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى رمى الجمرة، وأبو بكر وعمر وعثمان، قال محمد بن إسحاق: وحدثني حكيم بن حميد بن عثمان بن العاصي قال: سمعت رجلا يحدث ابن عباس عن عبد الله بن عمر أن أباه كان إذا غدا من منى ترك الإهلال وقال: سبحان الله العظيم لقد شهدت عمر بن الخطاب عشية عرفة وهو على جفنة1 قد سكب له غسل وهو يغتسل فلم يزل يلبي حتى فرغ من غسله. "ابن جرير".
12414 محمد بن اسحاق سے مروی ہے کہ میرے والد اسحاق نے عکرمہ (رح) سے سوال کیا اور میں بھی ان کی گفتگو سن رہا تھا کہ تلبیہ پڑھنا کب موقوف ہوتا ہے ؟ تو عکرمہ (رح) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمی جمرۃ کرنے تک تلبیہ پڑھا یونہی ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے کیا (یعنی رمی جمار کرنے سے پہلے تلبیہ ختم کردیا) محمد بن اسحاق (رح) فرماتے ہیں : مجھے حکیم بن حمید بن عثمان بن العاصف نے بیان کیا، فرمایا میں نے ایک شخص کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ ابن عباس (رض) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد یعنی حضرت عمر (رض) جب صبح کو منیٰ سے نکلتے تو تلبیہ موقوف فرما دیتے ۔ اور سبحان اللہ العظیم پڑھتے رہتے۔
نیز ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں عرفہ کی رات حاضر ہوا۔ آپ (رض) جفنہ (پانی کے ٹب) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے لیے پانی بہایا جارہا تھا اور آپ غسل فرما رہے تھے اور آپ مسلسل تلبیہ پڑھ رہے تھے حتیٰ کہ آپ غسل سے فارغ ہوگئے۔ ابن جریر۔

12415

12415- عن عكرمة قال: دفعت مع الحسين بن علي من المزدلفة فلم أزل أسمعه يقول: لبيك اللهم لبيك حتى انتهى إلى الجمرة، فقلت له: ما هذا الإهلال يا أبا عبد الله؟ قال: سمعت أبي علي بن أبي طالب يهل حتى انتهى إلى الجمرة، وحدثني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل حتى انتهى إليها قال: فرجعت إلى ابن عباس فأخبرته بقول حسين فقال: صدق، قال: وأخبرني أخي الفضل بن عباس وكان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه لم يزل يهل حتى انتهى إلى الجمرة. "ع والطحاوي وابن جرير" وصححه.
12415 حضرت عکرمہ (رح) سے منقول ہے کہ میں حضرت حسین بن علی کے ساتھ مزدلفہ سے نکلا میں مسلسل آپ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے سن رہا تھا : لبیک اللھم لبیک الخ، حتیٰ کہ آپ (رض) جمرۃ تک پہنچ گئے۔ میں نے پوچھا : اے ابو عبداللہ ! یہ اھلال کیا ہے ؟ ۔ یہ تلبیہ پڑھنا کیسا ہے ؟ تو آپ (رض) نے فرمایا : میں نے اپنے والد علی بن ابی طالب کو اسی طرح تلبیہ پڑھتے سنا تھا حتیٰ کہ آپ جمرۃ پر پہنچ گئے اور انھوں نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلبیہ پڑھا حتیٰ کہ جمرۃ تک پہنچ گئے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو حضرت حسین (رض) کی بات سنائی تو حضرت ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : انھوں نے سچ کہا۔ پھر مجھے حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اور مجھے میرے بھائی فضل بن عباس جو کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے۔
یعنی دوران حج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے میں نے بیان کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے جمرۃ تک پہنچ کر اس کو ختم فرمادیا۔
مسند ابی یعلی، الطحاوی ، ابن جریر۔
ابن جریر نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

12416

12416- عن هشام بن حسان عن محمد بن سيرين عن أخيه يحيى بن سيرين عن أخيه أنس بن سيرين عن أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي لبيك حقا حقا تعبدا ورقا. "كر ابن النجار".
12416 ہشام بن حسان، محمد بن سیرین سے اور محمد بن سیرین اپنے بھائی یحییٰ بن سیرین سے اور وہ اپنے بھائی انس بن سیرین سے اور وہ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں۔
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں تلبیہ پڑھتے سنا۔
لبیک حقا حقا تعبداً اور قا۔

12417

12417- عن محمد بن سيرين عن أخيه يحيى بن سيرين عن أخيه معبد عن أخيه أنس بن سيرين عن أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لبيك حقا حقا تعبدا ورقا
12417 محمد بن سیرین عن افیہ یحییٰ بن سیرین عن اخیہ معبد عن اخیہ انس بن سیرین عن انس بن مالک، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
لبیک حقاً حقاً تعبداً ورقاً ۔ الدیلمی۔
ترجمہ : حاضر ہے بندہ حق، بندگی اور غلامی کی حالت میں۔ ابن عساکر، ابن النجار۔

12418

12418- عن عطاء قال: بلغنا أن موسى بن عمران عليه السلام طاف بين الصفا والمروة، وعليه جبة قطوانية2 وهو يقول: لبيك اللهم لبيك فيجيبه ربه، لبيك ياموسى. "عب".
12418 حضرت عطاءؒ سے مروی ہے کہ ہمیں خبر پہنچی ہے کہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) نے صفا اور مروہ کے درمیان طواف کیا اور آپ کے جسم پر سفید جبہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے :
لبیک اللھم لبیک۔
اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار آپ کو جواب دے رہے تھے :
لبیک یا موسیٰ ! الجامع لعبد الرزاق۔

12419

12419- عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما أهل مهل قط، ولا كبر مكبر قط إلا بشر بالجنة. "ابن النجار".
12419 ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
کسی تلبیہ پڑھنے والے نے کبھی کوئی تلبیہ نہیں پڑھا اور نہ کسی تکبیر کہنے والے کبھی کوئی تکبیرکہی مگر اس کو جنت کی خوشخبری دیدی گئی۔ ابن النجار۔

12420

12420- عن عمرو بن معد يكرب قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لبيك اللهم لبيك، اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك، وإن كنا لنمنع الناس أن يقفوا بعرفة وذلك في الجاهلية فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن خلوا بينهم وبين عرفة وإن كان موقفهم ببطن محسر عشية عرفة فرقا من أن يخطفنا الجن فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: أجيزوا بطن عرنة فإنما هم إذا أسلموا إخوانكم. "يعقوب بن سفيان والشاشي والبغوي وابن منده كر".
12420 عمرہ بن معد یکرب سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (تلبیہ یوں) سکھایا :
لبیک اللھم لبیک، اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔
” حاضر ہیں ہم اے اللہ ! ہم حاضر ہیں، اے اللہ ! ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں، ہم حاضر ہیں، بیشک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور ساری بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “
عمرو بن معدیکرب فرماتے ہیں : ہم جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کو عرفات کے میدان میں کھڑا ہونے سے روکتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہمیں جن نہ اچک لیں ۔ تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ارشاد فرمایا : لوگوں کو (میدان عرفات) عرفہ میں جانے کا راستہ چھوڑ دو خواہ وہ بطن محسر میں عرفہ کی رات ٹھہریں اور ارشاد فرمایا بطن عرفہ کو عبور کرلو جن جب مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ اب تمہارے بھائی بن گئے ہیں۔ یعقوب بن سفیان، الشاشی، البغوی، ابن مندہ، ابن عساکر۔

12421

12421- عن عبد الله بن مسعود أنه قال بجمع: سمعت الذي أنزلت عليه سورة البقرة ههنا يقول: لبيك اللهم لبيك. "ابن جرير".
12421 حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے انھوں نے مزدلفہ میں ارشاد فرمایا : میں نے اس ذات سے سنا جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی اس مقام میں وہ فرما رہے تھے :
لبیک اللھم لبیک۔ ابن جریر۔

12422

12422- عن عبد الرحمن بن زيد قال: أفضت مع عبد الله بن مسعود من المشعر الحرام يوم النحر، فما زال يلبي حتى انتهى إلى الجمرة العقبة، فاستبطن الوادي وقال: خذ بزمام ناقتي يا ابن أخي، وناولني سبعة أحجار، فناولته فرمى من بطن الوادي يكبر مع كل حصاة يرمي بها ثم قال: هكذا رأيت الذي أنزلت عليه سورة البقرة فعل. "ابن جرير".
12422 عبدالرحمن بن زید سے مروی ہے کہ میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھ مشعرحرام سے یوم النحر (قربانی کے دن) تک ساتھ تھا۔ آپ (رض) مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے پھر بطن الوادی گئے اور فرمایا : اے بھتیجے ! میری اونٹنی کی مہار تھام اور مجھے سات کنکریاں دے۔ چنانچہ میں نے آپ کو کنکریاں دیدیں۔ پھر آپ (رض) نے بطن الوادی سے رمی فرمائی۔ اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے۔ پھر ارشاد فرمایا : اسی طرح میں نے اس ذات کو کرتے دیکھا تھا جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی تھی۔ ابن جریر۔

12423

12423- عن ابن مسعود قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم لبى حتى رمى جمرة العقبة. "ابن جرير".
12423: ابن مسعود (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلبیہ پڑھتے دیکھا حتی کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی فرمائی۔ ابن جریر۔

12424

12424- عن ابن مسعود أنه كان يلبي حتى يرمي جمرة العقبة. "ابن جرير".
12424: ابن مسعود (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ (رض) تلبیہ پڑھتے رہتے تھے حتیٰ کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرتے۔ ابن جریر۔

12425

12425- عن نافع أن ابن عمر كان إذا بلغ أنصاب الحرم في الحج أو العمرة أمسك عن التلبية حتى يطوف بالبيت وبالصفا والمروة فإن كانت عمرة وإن كان حجا فطاف بالصفا والمروة عاد في تلبيته ما أقام بمكة ويوم المزدلفة وليلة عرفة، فإذا غدا أمسك. "ابن جرير".
12425 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) جب حرم کے بتوں (کے مقام) پر پہنچتے تو تلبیہ پڑھنے سے رک جاتے تھے۔ حتیٰ کہ بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف فرماتے اگر عمرہ ہوتا تو ٹھیک ورنہ حج میں صفامروہ کے طواف میں شروع ہوجاتے اور تلبیہ پڑھنا شروع فرما دیتے اور جب تک مکہ میں مقیم رہتے اور مزدلفہ میں اور عرفہ کی رات تک یونہی تلبیہ پڑھتے رہتے حتیٰ کہ (عرفہ کی) صبح ہوتی تو رک جاتے تھے۔ ابن جریر۔

12426

12426- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أردف أسامة بن زيد من عرفة إلى مزدلفة، ثم أردف الفضل بن عباس من مزدلفة إلى منى فذكر ابن عباس أن الفضل أخبره أنه لم يزل يسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12426 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رض) کو عرفہ سے مزدلفہ تک اپنا ردیف (سواری کے پیچھے بٹھا کر) بنایا۔ پھر مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن عباس کو ردیف بنایا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ فضل نے ان کو خبر دی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلسل پڑھتے ہوئے سنتے رہے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمی جمرہ فرمائی۔ ابن جریر۔

12427

12427- عن ابن عباس قال: يمسك الحاج عن التلبية إذا رمى جمرة العقبة. "ابن جرير".
12427 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : حاجی جب جمرہ عقبہ پر رمی کریں تو تلبیہ پڑھنے سے رک جائیں۔ ابن جریر۔

12428

12428- عن ابن عباس قال: لعن الله فلانا إنه كان ينهى عن التلبية في هذا يعني يوم عرفة لأن عليا كان يلبي فيه. "ابن جرير".
12428 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اللہ فلاں (دشمن علی (رض)) پر لعنت کرے، وہ اس دن یعنی یوم عرفہ کو تلبیہ پڑھنے سے روکتا تھا کیونکہ حضرت علی (رض) اس دن تلبیہ پڑھتے تھے۔ ابن جریر۔

12429

12429- عن ابن عباس قال: إن الشيطان يأتى ابن آدم فيقول: دع التلبية وهلل وكبر ليحيى البدعة ويميت السنة. "ابن جرير".
12429 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : شیطان ابن آدم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے : تلبیہ چھوڑ دے اور لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر پڑھ، کہ وہ بدعت کو زندہ کرے اور سنت کو ماردے۔ ابن جریر۔

12430

12430- عن سعيد بن جبير قال: أتيت ابن عباس بعرفة فقال: لعن الله فلانا عمدوا إلى أعظم أيام الحج فمحوا زينة الحج وإنما زينة الحج التلبية. "ابن جرير".
12430 سعیدبن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ میں عرف میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس حاضر ہوا۔ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک فلاں لوگوں کو لعنت کرے۔ انھوں نے ایام حج کے سب سے بڑے دن (عرفہ) کو لیا اور حج کی زینت ختم کردی اور حج کی زینت تلبیہ ہے۔ ابن جریر۔

12431

12431- عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم لبى حتى رمي جمرة العقبة. "كر".
12431 عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ جمرہ عقبہ کی رمی فرمالی (یعنی رمی سے پہلے تلبیہ ختم کردیا) ۔ ابن عساکر

12432

12432- عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم علمه التلبية: لبيك اللهم لبيك لا شريك لك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك. "كر".
12432 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تلبیہ سکھایا :
لبیک اللھم لبیک لا شریک لک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک ۔ ابن عساکر۔

12433

12433- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: لما فتح هذان المصران أتوا عمر فقالوا: يا أمير المؤمنين إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حد لأهل نجد قرنا، وهو جور1 عن طريقنا وإنا إن أردنا قرنا شق علينا قال: فانظروا حذوها من طريقكم فحد لهم ذات عرق. "ش خ ق".
12433 (مسند عمر (رض)) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب یہ دو شہر (عراق اور بصرہ وغیرہ) فتح ہوگئے تو لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا : اے امیر المومنین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجد کے لیے ” قرن “ کو میقات مقرر کیا تھا جبکہ یہ ہمارے راستے سے ہٹ کر ہے اور اگر ہم ” قرن “ کا قصد کرتے ہیں تو ہمیں دشوار پڑتا ہے۔ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کے مقابلے میں جو مقام تمہارے اپنے راستے میں پڑتا ہے اس کو دیکھ لو۔ چنانچہ پھر حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کردیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری، السنن للبیہقی۔

12434

12434- عن الأسود بن يزيد عن عمر بن الخطاب أنه خطب الناس فقال: من أراد منكم الحج، فلا يحرمن إلا من ميقات، والمواقيت التي وقتها لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل المدينة ومن مر بها من غير أهلها ذو الحليفة، ولأهل الشام، ومن مر بها من غير أهلها الجحفة، ولأهل نجد ومن مر بها من غير أهلها قرن، ولأهل اليمن يلملم، ولأهل العراق وسائر الناس ذات عرق. "ابن الضياء"
12434 اسود بن یزید حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے لوگوں کو خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
تم میں سے جو شخص حج کا ارادہ کرے وہ میقات سے احرام باندھے (یعنی تلبیہ پڑھے) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تمہارے لیے میقات مقرر فرمائے ہیں اہل مدینہ اور جو وہاں سے غیر اہل مدینہ گزرے ان کے لیے ذوالحلیفہ میقات ہے۔ اور اہل شام اور جو شام سے غیر شامی آئیں ان کے میقات جحفہ ہے۔ اور اہل نجد اور جو غیر نجدی وہاں سے آئیں ان کے لیے میقات قرن ہے۔ اور اہل یمن کے لیے یلملم ہے اور اہل عراق اور بقیہ تمام لوگوں کے لیے ذات عرق ہے۔ ابن الضیاء

12435

12435- عن حفصة بنت عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق عن أبيها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعبد الرحمن بن أبي بكر: أردف أختك يعني عائشة، فاعمرها من التنعيم، فإذا هبطت بها من الأكمة فمرها فلتحرم فإنها عمرة متقبلة. "حم ز" والمنتخب "حم د ك"
12435 حضرت بنت عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق (رض) اپنے والد عبدالرحمن سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کو فرمایا : اپنی بہن عائشہ (رض) کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھاؤ تنعیم اس کو لے جاؤ جب تم اس کو لے کر چوٹیوں سے اترو تو اس کو کہہ دینا کہ احرام باندھ لے کیونکہ یہ مقبول عمرہ ہے۔ مسند احمد، مسند البزار، مسند احمد، ابوداؤد ، مستدرک الحاکم۔

12436

12436- عن سعد قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أخذ طريق الفرع أهل إذا استقبلت به راحلته، وإذا أخذ طريقا أخرى أهل إذا أشرف البيداء. "بقي بن مخلد".
12436 حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب طریق الفرع پر چلتے تو سواری چلتے ہی تلبیہ پڑھ لیتے تھے (یعنی احرام باندھ لیتے تھے) اور جب دوسرے کسی راستے پر چلتے تو مقام بیداء پر پہنچتے تو تب تلبیہ پڑھ لیتے تھے (یعنی بن مخلد) ۔

12437

12437- عن أبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل من مسجد ذي الحليفة. "الحارث" وفيه الواقدي.
12437 حضرت ابی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ذوالحلیفہ سے تلبیہ پڑھ لیا تھا۔ الحارث۔
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں واقدی (ضعیف ) راوی ہے۔

12438

12438- عن محمد بن إسحاق قال: خرج عبد الله بن عامر من نيسابور معتمرا قد أحرم بها فلما قدم على عثمان بن عفان قال له: لقد غررت نفسك حين أحرمت من نيسابور. "هق"
12438 محمد بن اسحاق سے مروی ہے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عامر نیشا پور سے عمرہ کے ارادہ سے نکلے اور نیشا پور سے ہی احرام باندھ لیا۔ جب وہ حضرت عثمان (رض) کے پاس حاضر ہوئے تو انھوں نے ارشاد فرمایا :
تم نے نیشا پور سے احرام باندھ کر اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے۔ السنن للبیہقی

12439

12439- عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشام والمصر الجحفة، ولأهل اليمن يلملم، ولأهل العراق ذات عرق. "ابن جرير".
12439 حضرت عائشہ (رض) حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ ، اہل شام ومصر کے لیے جحفہ ، اہل یمن کے لیے یلملم اور اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر فرمایا۔ ابن جریر

12440

12440- عن ابن عباس قال: وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل المشرق العقيق. "ابن جرير".
12440 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا۔ ابن جریر
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابی داؤد 381 ۔

12441

12441- عن أنس قال: وقت رسول الله صلى الله عليه وسلم لأهل المدائن العقيق ولأهل البصرة ذات عرق ولأهل المدينة ذا الحليفة ولأهل الشام جحفة. "طب".
12441 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدائن کے لیے عقیق کو، اہل بصرہ کے لیے ذات عرق کو، اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو اور اہل شام کے لیے جحفہ کو مقیات مقرر کیا۔ الکبیر للطبرانی

12442

12442- عن عمر في قوله تعالى: {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ} ، قال: شوال، وذو القعدة، وذو الحجة. "ص وابن المنذر ق".
12442 فرمان الٰہی : الحج اشھر معلومات (حج چند متعین مہینوں میں ہے) کے متعلق حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں وہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے مہینے ہیں۔ السنن لسعید بن منصور، ابن المنذر، السنن للبیہقی۔

12443

12443- "مسند عمر رضي الله عنه" عن الحسن أن عمران بن حصين أحرم من البصرة، فكره ذلك عمر بن الخطاب. "هق"
12443 (مسند عمر (رض)) حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمران بن حصین (رض) نے بصرہ سے احرام باندھا تو حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے اس کو ناپسند کیا۔ السنن للبیہقی۔

12444

12444- عن عبد الرحمن بن الأسود أن أباه وفى إلى ابن الزبير يوم عرفة فقال: ما منعك أن تهل معه؟ سمعت عمر يهل من مكانك هذا فأهل ابن الزبير. "هق".
12444 عبدالرحمن بن اسود سے مروی ہے ان کے والد عرفہ کے روز ابن زبیر (رض) کے پاس گئے اور پوچھا : تم یہاں تلبیہ کیوں نہیں پڑھتے ؟ میں نے حضرت عمر (رض) کو اس مقام پر تلبیہ پڑھتے سنا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن زبیر (رض) نے تلبیہ پڑھ لیا۔ السنن للبیہقی

12445

12445- عن ابن عباس قال: سمعت عمر يهل بالمزدلفة، قلت له: يا أمير المؤمنين فيم الإهلال؟ قال: وهل قضينا نسكا. "هق"
12445 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : میں نے حضرت عمر (رض) کو مزدلفہ میں تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تو میں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! تلبیہ کس چیز کا ؟ تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : کیا ہم نے (نسک حج) پورا کرلیا۔ السنن للبیہقی

12446

12446- عن عائشة رضي الله عنها قالت: كنت أغلف لحية رسول الله صلى الله عليه وسلم بالغالية1 ثم يحرم. "الحسن بن سفيان كر".
12446 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈاڑھی کو غالبہ (مرکب ملی جلی خوشبو) کے ساتھ خوب بھر دیتی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام باندھ لیتے تھے۔
الحسن بن سفیان، ابن عساکر

12447

12447- عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يحرم تطيب، ثم يخرج على الناس. "ابن النجار".
12447 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب احرام باندھنے کا ارادہ فرماتے تو پہلے خوشبو لگاتے پھر لوگوں کے پاس (احرام باندھ کر) تشریف لے آتے تھے ۔ ابن النجار

12448

12448- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم أهل في دبر الصلاة. "ن".
12448 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد تلبیہ پڑھتے تھے۔ النسائی

12449

12449- عن عبد الرحمن بن خالد بن أسيد عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم أهل حين راح إلى منى. "ابن مندة وقال غريب وأبو نعيم كر".
12449 عبدالرحمن بن خالد بن اسید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منیٰ کی طرف کوچ فرماتے تو تلبیہ پڑھتے تھے۔ ابن مندہ وقال غریب، ابونعیم، ابن عساکر
کلام : ابن مندہ (رح) نے مذکورہ روایت کو ضعیف کہا ہے۔

12450

12450- عن الحسن عن علي قال: كلا قد فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أهل حين استوت به راحلته، وقد أهل وهو بالبيداء من الأرض قبل أن تستوي به راحلته. "طب".
12450 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : یقیناً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلبیہ پڑھ لیا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری آپ کو لے کر چلی۔ اور مقام بیداء پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلبیہ پڑھ لیا تھا سواری کے آپ کو لے کر چلنے سے قبل۔ الکبیر للطبرانی

12451

12451- عن الأسود بن يزيد قال: حججت مع أبي بكر فجرد1 ومع عمر فجرد ومع عثمان فجرد. "ش قط والمحاملي ن في أماليه".
12451 اسود بن یزید سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ حج کیا، انھوں نے بھی صرف حج ادا کیا۔ اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ حج کیا انھوں نے بھی صرف حج کیا۔ اور حضرت عثمان (رض) کے ساتھ حج کیا انھوں نے بھی صرف حج ادا کیا (بغیر عمرہ کے) ۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الدار قطنی فی السنن، المحاملی، النسائی فی امالیہ۔

12452

12452- عن إبراهيم قال: أفرد أبو بكر وعمر وعثمان. "ش".
12452 حضرت ابراہیم سے مروی ہے کہ ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے حج افراد کیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ۔

12453

12453- عن محمد بن الحنفية قال: إن عليا قال: أفرد الحج فإنه أفضل. "ق".
12453: محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے فرمایا : حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : حج افراد کرو کیونکہ وہ افضل ہے۔ السنن للبیہقی۔

12454

12454- عن علي قال: أفرد الحج فإنه أفضل. "ق".
12454 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : حج افراد کر کیونکہ وہ افضل ہے۔ السنن للبیہقی

12455

12455- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم أفرد الحج. "ن كر".
12455 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج افراد کیا۔ النسائی ، ابن عساکر
کلام : روایت ضعیف ہے ذخیرۃ الحفاظ 1247، ضعیف الترمذی 137, 136

12456

12456- عن ابن عمر قال: أهللنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج مفردا. "كر".
12456 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج افراد (صرف حج) کا تلبیہ پڑھا۔ ابن عساکر

12457

12457- عن زيد بن أسلم قال: أتى ابن عمر رجل فقال: بما أهل النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: بالحج قال إن أنس بن مالك يقول: قرن، قال: إن أنس بن مالك كان يتولج على النساء وهن مكشفات الرؤس يعني لصغره وأنا تحت ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم يصيبني لعابها، سمعته يلبي بالحج. "كر" ورجاله ثقات.
12457 حضرت زید بن اسلم (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس حج کا تلبیہ پڑھا ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : حج کا (یعنی حج افراد کا) آدمی نے کہا : انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج قران کیا۔ حج وعمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : انس بن مالک تو اس وقت عورتوں کے پاس آتے جاتے تھے اور وہ کھلے سر ہوتی تھیں یعنی انس اس وقت بچے تھے جبکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے نیچے ہوتا تھا اور مجھ پر اسی اونٹنی کا لعاب کرتا تھا، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف حج کا تلبیہ پڑھتے سنتا تھا۔ ابن عساکر
روایت مذکورہ کے راوی ثقہ ہیں۔

12458

12458- عن جابر قال: أهل النبي صلى الله عليه وسلم بحج ليس معه عمرة. "كر".
12458 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حج کا تلبیہ پڑھا جس کے ساتھ عمرہ نہیں تھا۔ ابن عساکر

12459

12459- "مسند عمر رضي الله عنه" عن الضبي بن معبد أنه أهل بالحج والعمرة جميعا، فرآه زيد بن صوحان وسلمان بن ربيعة فقال: لهو أضل من جمله، فانطلق إلى عمر فأخبره بقولهما فقال: هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم. "ط والحميدي ش حم وابن منيع والعدني د ن هـ1ع وابن خزيمة والطحاوي حب قط في الأفراد وقال هو صحيح ق ص".
12459 (مسند عمر (رض)) ضبی بن معبد کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا یعنی دونوں کا تلبیہ پڑھا۔ زید ابن صوحان اور سلمان بن ربیعہ نے ان کو دیکھا تو کہنے لگے : وہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ چنانچہ ضبی بن معبد حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور ان کو ان کے قول کی خبر دی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی ہدایت ملی ہے۔
مسند ابی داؤد ، الحمیدی، ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ابن منیع، العدلی ، مسند ابن احمد بن حنبل، النسائی، ابن ماجہ، مسند ابی یعلی، ابن خزیمہ، الطحاوی، الصحیح لا بن حبان، الدار قطنی فی الافراد۔
امام دارقطنی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت صحیح ہے۔ السنن للبیہقی ، السنن لسعید بن منصور۔

12460

12460- "مسند عمر رضي الله عنه" عن مروان بن الحكم قال: شهدت عليا وعثمان بين مكة والمدينة وعثمان ينهي عن المتعة، وأن يجمع بينهما فلما رأى ذلك علي أهل بهما، فقال: لبيك بعمرة وحج معا فقال عثمان تراني أنهى الناس وأنت تفعله؟ فقال علي: لم أكن أدع سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم لقول أحد من الناس. "ط حم خ1 ن والعدني والدارمي والطحاوي عق".
12460 (مسند عمر (رض)) مروان بن الحکم سے مروی ہے کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا دونوں کا تلبیہ پڑھ لیا (یعنی حج قران کرلیا) اور فرمایا :
لبیک لعمرۃ وحج معا
میں حضار ہوں اے اللہ ! حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک ساتھ۔
حضرت عثمان (رض) نے ان کو فرمایا : آپ مجھے دیکھ رہے ہیں کہ میں لوگوں کو اس سے منع کررہا ہوں اور آپ اسی کو کررہے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو کسی ایک انسان کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔
مسند ابی داؤد الطیالسی ، مسند احمد ، البخاری ، النسائی، العدنی، سنن الدارمی، الطحاوی، الضعفاء للعقیلی

12461

12461- "مسند علي رضي الله عنه " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرن فطاف طوافين وسعى سعيين. "عق قط" وضعفاه.
12461 (مسند علی (رض)) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ نے حج قران کیا اور دوطواف کیے اور دو سعی فرمائیں۔ العقیلی فی الضعفاء الدارقطنی۔
کلام : امام دارقطنی (رح) اور امام عقیلی (رح) دونوں نے مذکورہ روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

12462

12462- عن سعد مولى الحسن بن علي قال: خرجنا مع علي حتى إذا كنا بذي الحليفة قال: إني أريد أن أجمع بين الحج والعمرة، فمن أراد ذلك منكم فليقل كما أقول، ثم لبى فقال: بعمرة وحجة معا. "مسدد".
12462 حضرت حسن بن علی کے آزاد کردہ غلام سعد کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے ساتھ (حج کے لئے) نکلے۔ جب ہم ذی الحلیفہ میں پہنچے تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا ارادہ ہے کہ میں حج اور عمرہ کو جمع کروں ۔ لہٰذا جو تم میں سے دونوں کا ارادہ کرنا چاہتا ہے وہ یوں کہے جس طرح میں کہوں ۔ پھر حضرت علی (رض) نے تلبیہ پڑھا : لبیک بعمرۃ وحجۃ معاً ، عمرہ اور حج دونوں کے لیے حاضر ہوں میں اے اللہ ! مدد

12463

12463- عن أبي نصر السلمي قال: أهللت بالحج فأدركت عليا، فقلت: إني أهللت بالحج فأستطيع أن أضم إليه عمرة قال: لا، لو كنت أهللت بالعمرة، ثم أردت أن تضم إليها الحج ضممته، فإذا بدأت بالحج فلا تضم إليه عمرة قال: فما أصنع إذا أردت ذلك؟ قال: صب عليك إداوة من ماء ثم تحرم بهما جميعا فتطوف لهما طوافين طوافا لحجك وطوافا لعمرتك، وتسعي سعيين، ثم لم يحل منك شيء إلى يوم النحر. "هق" وقال أبو نصر غير معروف
12463 ابونصر سلمی سے مروی ہے کہ میں نے حج کے لیے تلبیہ پڑھ لیا ۔ پھر میں نے حضرت علی (رض) کو پالیا۔ میں نے عرض کیا : میں نے حج کے لیے تلبیہ پڑھ (لیا ہے اور احرام باندھ ) لیا ہے، لیکن میں عمرہ کو ملانے کی بھی طاقت رکھتا ہوں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : نہیں۔ ہاں اگر تو عمرہ کا احرام باندھتا پھر حج کو اس کے ساتھ ملانا چاہتا تو ملا سکتا تھا۔ لیکن اگر تو نے حج کے ساتھ ابتدا کرلی ہے تو اب اس کے ساتھ عمرہ نہیں ملا سکتا۔ ابونصر سلمی نے پوچھا : اگر میں دونوں کا ارادہ کروں تو کیا کرنا پڑے گا ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا پانی کا برتن اپنے اوپر بہاؤ (غسل کرو) پھر دونوں کا اکٹھے احرام باندھ لو اور دونوں کے لیے دو طواف کرو ایک طواف حج کے لیے اور ایک طواف اپنے عمرہ کے لیے اور دو سعی کرو پھر کوئی چیز تمہارے لیے حلال نہیں ہوگی یوم النحر تک ۔ السنن للبیہقی
امام بیہقی (رح) فرماتے ہیں : ابونصر غیر معروف راوی ہے۔ ابن الترکمانی فرماتے ہیں مگر یہی روایت دوسری کئی عمدہ اسانید سے بھی مروی ہے۔

12464

12464- عن علي قال في القارن: يطوف طوافين، ويسعى سعيا. "الشافعي في القديم"
12464 حضرت علی (رض) سے قارن کے متعلق مروی ہے ارشاد فرمایا : قارن (عمرہ وحج کا دونوں) کا اکٹھے احرام باندھنے والا دو طواف کرے گا اور ایک سعی کرے گا۔ الشافعی فی القدیم۔

12465

12465- عن جعفر بن محمد عن أبيه أن المقداد بن الأسود دخل على علي بن أبي طالب بالسقيا [وهو ينجع بكرات له دقيقا وخبطا] فقال: هذا عثمان بن عفان ينهى أن يقرن بين الحج والعمرة، فقال: حتى وقف على عثمان فقال: أنت تنهى أن يقرن بين الحج والعمرة؟ فقال عثمان: ذلك [رأيي] ، فخرج مغضبا وهو يقول: لبيك بحج وعمرة معا
12465 جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مقداد بن اسود حضرت علی (رض) کے پاس سقیا (مکہ مدینہ کے درمیان مقام) پر تشریف لائے ۔ حضرت علی (رض) اپنے اونٹوں کو آٹا اور پتوں کا ملا ہوا پانی پلا رہے تھے۔ مقداد نے عرض کیا : یہ عثمان بن عفان (رض) حج اور عمرہ کے درمیان قران کرنے سے (دونوں کو ملانے سے) منع فرما رہے ہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی (رض)، حضرت عثمان (رض) کے پاس گئے اور پوچھا : کیا آپ حج اور عمرہ کو ساتھ ملانے سے منع فرما رہے ہیں۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : ہاں (یہ میری رائے ہے) یہ سن کر حضرت علی (رض) غصہ میں حج قران کا تلبیہ پڑھتے ہوئے نکلے :
لبیک بحج وعمرۃ معا۔
فائدہ : یہ میری رائے ہے کہ الفاظ موطا امام مالک میں اضافہ ہیں۔ یہ روایت بھی موطا امام مالک میں مذکور ہے، کتاب الحج باب القران۔

12466

12466- عن حريث بن سليم قال: سمعت عليا لبى بالحج والعمرة، فبدأ بالعمرة فقال له عثمان: إنك ممن ينظر إليه، فقال له علي: وأنت ممن ينظر إليه. "ش". = وقال ابن التركماني في ذيله الجوهر النقي: توضيحا لما ذكره البيهقي من أن أبا نصر السلمي مجهول، فقال: قد روى ذلك بأسانيد جيدة انتهى. فراجع البحث بطوله السنن الكبرى للبيهقي "5/108" ص.
12466 حریث بن سلیم سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی (رض) کو حج وعمرہ کا تلبیہ پڑھتے سنا، پھر عمرہ کے ساتھ ابتداء فرمائی۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کو ارشاد فرمایا : آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظر ہوتی ہے (کہ دیکھیں وہ کیا عمل کرتے ہیں) ۔ حضرت علی (رض) نے ان کو فرمایا : آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12467

12467- عن صبي بن معبد قال: كنت قريب عهد بنصرانية فأسلمت ثم أردت الحج فأتيت رجلا من قومي يقال له: أديم التغلبي فأمرني أن أقرن وأخبرني أن النبي صلى الله عليه وسلم قرن فمررت بزيد بن صوحان وسلمان بن ربيعة فقالا لي: لأنت أضل من بعيرك، فوقع في نفسي من ذلك، فمررت على عمر فسألته فقال: هديت لسنة نبيك صلى الله عليه وسلم. "البارودي وابن قانع وأبو نعيم"
12467 صبی بن معبد سے مروی ہے : میں پہلے نصرانی تھا پھر میں مسلمان ہوگیا پھر میں نے حج کا ارادہ کیا تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی جس کو ادیم تغلبی کہا جاتا تھا پھر میں مسلمان ہوگیا پھر میں نے حج کا ارادہ کیا تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی جس کو ادیم تغلبی کہا جاتا تھا کے پاس آیا۔ اس نے مجھے کہا کہ حج قران کرو۔ اور اس نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حج قران کیا تھا۔ صبی کہتے ہیں کہ پھر میرا گزر زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے ہوا (انہوں نے مجھے حج قران کا تلبیہ پڑھتے دیکھا تھا تو) انھوں نے مجھے کہا : تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ یہ بات میرے دل میں کھٹکنے لگی۔ پھر میں حضرت عمر (رض) کے پاس سے گزرا تو میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا : تجھے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی ہدایت مل گئی ہے۔
الباوردی، ابن قانع، ابونعیم

12468

12468- عن أنس أنه كان عند ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فلما استقلت به قال: لبيك بحجة وعمرة معا. "ابن النجار".
12468 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کے پاس تھے، جب اونٹنی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھالیا تو آپ نے فرمایا : لبیک بحجۃ وعمرۃ معاً ، یعنی حج قران کا تلبیہ پڑھا۔ ابن النجار

12469

12469- عن أنس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل بالحج والعمرة جميعا. "كر".
12469 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج وعمرۃ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا۔ ابن عساکر

12470

12470- عن أنس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لبيك بحجة وعمرة معا."كر".
12470 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا :
لبیک بحجۃ وعمرۃ معاً ۔ ابن عساکر

12471

12471- عن هرماس بن زياد قال: كنت ردف أبي فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ناقته، وهو يقول: لبيك بحجة وعمرة معا. "ابن النجار".
12471 ھرماس بن زیاد سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کا ردیف تھا۔ ان کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا تھا تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی سواری پر یہ فرماتے ہوئے دیکھا :
لبیک بحجۃ وعمرۃ معاً ، ابن النجار

12472

12472- عن أبي طلحة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في تلبيته: لبيك بحجة وعمرة معا. "طب".
12472 حضرت ابو طلحہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلبیہ میں پڑھتے ہوئے سنا :
لبیک بحجۃ وعمرۃ معا، الکبیر للطبرانی

12473

12473- عن عائشة قالت: أهللت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعمرة في حجة. "ز".
12473 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تلبیہ پڑھا بعمرۃ فی حجۃ ، مسندالبزار یعنی پچھلی روایات کی طرح حج قران کا تلبیہ پڑھا۔

12474

12474- عن جبير بن مطعم قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم على المروة في عمرة وهو يقص بمشقص وهو يقول: دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة. "ابن جرير في تهذيبه".
12474 جبیر بن معطم (رض) سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مروہ پر حاضر ہوا آپ عمرہ میں تھے اور قینچی سے بال کاٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے عمرہ حج میں داخل ہوگیا قیامت تک کے لئے۔ ابن جریر فی تھذیبہ۔

12475

12475- "مسند عمر رضي الله عنه" عن أبي موسى قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالبطحاء فقال: بما أهللت؟ قلت: بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هل سقت من هدى؟ قلت لا، قال: طف بالبيت، ثم بالصفا والمروة، ثم حل، فطفت بالبيت وبالصفا والمروة، ثم أتيت امرأة من قومي فمشطتني وغسلت رأسي، فكنت أفتى الناس بذلك في إمارة أبي بكر وإمارة عمر، فإني لقائم بالموسم إذ جاءني رجل فقال: إنك لا تدري ما أحدث أمير المؤمنين في شأن النسك فقلت: أيها الناس من كنا أفتيناه فتيا، فهذا أمير المؤمنين قادم عليكم فبه فائتموا فلما قدم قلت: ما هذا الذي قد أحدثت في شأن النسك؟ قال: إن نأخذ بكتاب الله تعالى فإن الله تعالى قال: وأتموا الحج والعمرة لله، وإن نأخذ بسنة نبينا فإنه لم يحل حتى نحر الهدي. "ط حم خ م ن ق"
12475 (مسند عمر (رض)) حضرت ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مقام بطحاء میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : کس چیز کا تلبیہ پڑھا ہے۔ میں نے عرض کیا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ کی طرح میں نے تلبیہ کہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا ھدی (قربانی کا جانور) ساتھ لائے ہو ؟ میں نے عرض کیا : نہیں ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم بیت اللہ کا طواف کرو پھر صفا مروہ کا طواف کرو پھر (عمرہ سے) حلال ہوجاؤ۔ حضرت ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں چنانچہ میں بیت اللہ کا پھر صفا ومروہ کا طواف کیا پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے بالوں میں کنگھی کردی اور میں نے اپنا سر دھولیا۔ پھر میں ابوبکر اور عمر (رض) کی خلافت میں اسی طرح فتویٰ دیتا رہا۔ پھر میں خلافت عمر میں موسم حج میں کھڑا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور بولا : آپ کو معلوم نہیں ہے کہ امیر المومنین نے حج کے بارے میں کیا نیا ارشاد صادر فرمایا ہے ؟ پھر میں نے لوگوں کو کہا : اے لوگو ! جن کو بھی ہم نے حج کا مسئلہ بتایا ہو (وہ اس کی جگہ) اب امیر المومنین کی اقتداء کریں وہ تمہارے پاس آرہے ہیں۔ چنانچہ جب حضرت عمر (رض) تشریف لائے تو میں نے پوچھا : وہ کیا طریقہ ہے جو آپ نے حج کے متعلق نیا فرمایا ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
واتموا الحج والعمرۃ للہ۔
حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو۔
اور اگر ہم اپنے نبی کی سنت کو لیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک حلال نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے ہدی (قربانی) کو نحر (قربانی) نہ کرلیا۔
مسند ابوداؤد، مسند احمد، البخاری، مسلم ، النسائی ، السنن للبیہقی۔

12476

12476- عن ابن عباس قال: سمعت عمر يقول: والله لا أنهاكم عن المتعة، وإنها لفي كتاب الله وقد فعلها رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني في الحج. "ن".
12476 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
اللہ کی قسم ! میں تم لوگوں کو حج تمتع سے نہیں روکتا کیونکہ وہ کتاب اللہ میں ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کیا ہے۔ النسائی

12477

12477- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب، نهى أن المتعة في أشهر الحج وقال: فعلتها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أنهى عنها، وذلك أن أحدكم يأتي من أفق من الآفاق شعثا نصبا معتمرا في أشهر الحج وإنما شعثه ونصبه وتلبيته في عمرته ثم يقدم فيطوف بالبيت ويحل ويلبس ويتطيب ويقع على أهله إن كانوا معه، حتى إذا كان يوم التروية أهل بالحج وخرج إلى منى يلبي بحجة لا شعث فيها ولا نصب ولا تلبية إلا يوما والحج أفضل من العمرة لو خلينا بينهم وبين هذا لعانقوهن تحت الأراك من أن أهل البيت ليس لهم ضرع ولا زرع، وإنما ربيعهم فيمن يطرأ عليهم " حل حم خ م ن ق"
12477 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے حج کے مہینوں میں حج تمتع سے منع فرمایا ہے اور فرمایا کہ اگرچہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہی حج کیا تھا۔ لیکن پھر بھی میں اس سے روکتا ہوں۔ وہ اس لیے کہ تم میں سے کوئی دنیا کے کس کس کونے سے آتا ہے غبار آلود اور پراگندہ حال ہوتا ہے اور وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرتا ہے، اس کی غبار آلود حالت، پراگندہ بال اور تھکاوٹ اور تلبیہ اس کے عمرے میں ختم ہوجاتا ہے (اور یہی چیزیں اللہ کو محبوب ہیں) کیونکہ وہ بیت اللہ کا طواف کرتا ہے اور حلال ہوجاتا ہے پھر کپڑے پہنتا ہے خوشبو لگاتا ہے اور اپنے اہل کے ساتھ مباشرت بھی کرتا ہے اگر وہ ساتھ ہوں۔ پھر جب ترویہ (آٹھ ذی الحجہ) کا دن ہوتا ہے تو پھر حج کا تلبیہ پڑھتا ہے اور منیٰ جاتا ہے اور تلبیہ پڑھتا ہے، اب اس کے بال پراگندہ ہوتے ہیں اور نہ وہ غبار آلود حالت میں ہوتا ہے ، نہ اس کو تھکاوٹ ہوتی ہے اور زیادہ دنوں کا تلبیہ ہوتا ہے سوائے ایک دن کے، حالانکہ حج عمرہ سے افضل (عبادت) ہے۔ اگر ہم لوگوں کو (حج اس طرح اس حج تمتع کے لئے) چھوڑ دیں تو وہ پیلو کے درختوں تلے عورتوں سے ہم آغوش ہوں گے، جبکہ اہل بیت (رسول اللہ تو غربت وفاقے کی وجہ سے) نہ ان کے پاس مال مویشی تھے اور نہ اناج فصل، ان کی کشادگی تو تبھی ہوتی تھی جب ان کے پاس کچھ آجاتا تھا۔
حلیۃ الاولیاء ، مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی، السنن للبیہقی۔
فائدہ : مذکورہ روایت حلیۃ الاولیاء میں 205/5 پر ہے اور صرف یہی حوالہ منتخب کنزالعمال میں ہے۔
محش رقم طراز ہیں کہ بقیہ کتب مذکورہ میں مذکورہ روایت رجوع کرنے پر نہیں ملی۔ 12

12478

12478- عن أبي موسى الأشعري أنه كان يفتي بالمتعة فقال له رجل: رويدك [ببعض] فتياك فإنك لا تدري ما أحدث أمير المؤمنين في النسك بعدك حتى لقيته بعد فسألته فقال عمر: قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعله وأصحابه، ولكني كرهت أن يظلوا بهن معرسين تحت الأراك، ثم يروحون بالحج تقطر رؤوسهم. "حم م ن هـ وأبو عوانة ق"1
12478 حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کے متعلق مروی ہے کہ وہ حج تمتع کا فتویٰ دیتے تھے۔ ایک آدمی نے ان کو کہا : اپنے فتویٰ کو روک لو۔ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد امیر المومنین نے کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے ! حضرت ابوموسیٰ (رض) فرماتے ہیں چنانچہ میں بعد میں حضرت عمر (رض) سے ملا اور اس کے متعلق سوال کیا۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حج کیا، آپ کے اصحاب نے بھی کہا، لیکن مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ لوگ (عمرہ سے حلال ہو کر) پیلو کے درختوں تلے عورتوں سے ہم آغوش ہوں۔ پھر وہ حج کے لیے نکلیں تو ان کے سروں سے غسل کا پانی ٹپک رہا ہو۔ مسند احمد، مسلم، النسائی ، ابن ماجہ، ابوعوانۃ، السنن للبیہقی۔

12479

12479- عن ابن عمر قال: قال عمر: إذا اعتمر في أشهر الحج ثم أقام فهو متمتع، فإن رجع فليس بمتمتع. "ش".
12479 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : جب حج کے مہینوں میں کوئی عمرہ کرے پھر وہ (وہیں حج کے لئے) ٹھہر جائے تو وہ متمتع (حج تمتع کرنے والا) ہے۔ اگر واپس اپنے گھر آجائے تو متمتع نہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12480

12480- عن عبيد بن عمير قال: قال علي بن أبي طالب لعمر بن الخطاب: انهيت عن المتعة؟ قال: لا ولكني أردت زيارة البيت، فقال علي: من أفرد الحج فحسن، ومن تمتع فقد أخذ بكتاب الله وسنة نبيه. "هق"
12480 عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے عمر بن خطاب (رض) کو ارشاد فرمایا : کیا آپ نے حج تمتع سے منع فرمایا ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نہیں، لیکن میں (حج کے لئے) بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتا ہوں، حضرت علی (رض) نے فرمایا جو حج افراد کرتا ہے وہ اچھا ہے اور حج تمتع کرتا ہے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھامتا ہے۔ السنن الکبریٰ للبیہقی

12481

12481- عن إبراهيم قال: إنما نهى عن المتعة ولم ينه عن القران. "ابن خسرو".
12481 ابراہیم سے مروی ہے ، فرمایا : تمتع سے منع کیا گیا ہے اور قران سے نہیں۔ ابن خسرو

12482

12482- عن عمر قال: لو اعتمرت ثم حججت لتمتعت. "مسدد".
12482 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، فرمایا : اگر میں عمرہ کرتا پھر حج کرتا تو میں تمتع کرتا۔ مسدد

12483

12483- عن سعيد بن المسيب قال: حج علي وعثمان فلما كنا ببعض الطريق نهى عثمان عن التمتع فلبى علي وأصحابه بالعمرة، فلم ينههم عثمان، قال علي: ألم أخبرك أنك تنهى عن التمتع؟ قال: بلى قال له علي: ألم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم تمتع؟ قال: بلى. "حم ق".
12483 حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے فرمایا : حضرت علی (رض) (اور حضرت عثمان (رض)) نے حج کیا۔ جب ہم راستے میں تھے تو حضرت عثمان (رض) نے حج تمتع سے منع فرمایا۔ لیکن حضرت علی (رض) اور ان کے اصحاب نے (حج تمتع ہی کی صورت اختیار کرتے ہوئے) پہلے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔ مگر حضرت عثمان (رض) نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو ارشاد فرمایا : کیا مجھے یہ خبر صحیح ملی ہے کہ آپ تمتع سے منع فرماتے ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : ہاں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حج تمتع کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں، ضرور۔ مسند احمد، السنن للبیہقی
12484 مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا گیا حج تمتع کے بارے میں تو انھوں نے ارشاد فرمایا : یہ ہمارے لیے تھا اب تمہارے لیے نہیں ہے۔ ابن راھویہ، البغوی فی مسند عثمان الطحاوی
12485 (مسند علی (رض)) براء بن عاذب (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو میں بھی حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ اوقیہ چاندی بھی ملی۔ جب حضرت علی (رض) یمن سے واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (مکہ میں دوران حج) آئے۔ پھر حضرت علی (رض) اپنے اہل خانہ سے لوٹ کر حضور کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : میں نے فاطمہ کو دیکھا کہ اس نے رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور اپنے کمرے کو بھی خوشبو میں بسا رکھا ہے (اور یہ علامتیں ہیں احرام سے حلال ہونے کی) تو فاطمہ مجھ سے بولی آپ کو کیا ہوا، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ہے اور وہ (عمرہ سے) حلال ہوگئے ہیں۔ میں نے فاطمہ کو کہا : میں نے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ جیسا تلبیہ پڑھا ہے۔ (یعنی افراد، قران، تمتع میں سے رسول اللہ نے جس طرح ارادہ کیا ہو وہی میرا ارادہ ہے) اب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : تم نے کیا تلبیہ پڑھا ہے ؟ میں نے عرض کیا اھللت باھلال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی میں احرام باندھتا ہوں جیسا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام باندھا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تو ہدی قربانی کا جانور ساتھ لایا ہوں اور میں نے قران کیا ہے (حج وعمرہ کو ایک ساتھ کرنے کی نیت کی ہے) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : پھر (جب ہم حج قران سے فارغ ہوئے تو ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : سڑسٹھ یا چھیاسٹھ اونٹ نحر (ذبح) کرلو اور اپنے لیے تینتیس یا چونتیس اونٹ روک لو۔ اور ہر اونٹ میں میں سے میرے لیے گوشت کا ایک حصہ رکھنا۔
ابوداؤد، النسائی۔
فائدہ : اس روایت کو ایک جماعت نے تخریج کیا ہے اور مسلم نے بھی اس سے دلیل لی ہے۔ دیکھئے عون المعبود شرح سنن ابی داؤد 226/5 ۔

12484

12484- عن عثمان أنه سئل عن المتعة في الحج فقال: كانت لنا وليست لكم. "ابن راهويه والبغوي في مسند عثمان والطحاوي".
12484 مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) سے سوال کیا گیا حج تمتع کے بارے میں تو انھوں نے ارشاد فرمایا : یہ ہمارے لیے تھا اب تمہارے لیے نہیں ہے۔ ابن راھویہ، البغوی فی مسند عثمان الطحاوی

12485

12485- "مسند علي رضي الله عنه" عن البراء بن عازب قال: كنت مع علي حين أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم على اليمن، فأصبت معه أواقي فلما قدم علي من اليمن على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: وجدت فاطمة قد لبست ثيابا صبيغا، وقد نضحت2 البيت بنضوح، فقالت: مالك فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمر أصحابه فأحلوا، قلت لها: إني أهللت بإهلال النبي صلى الله عليه وسلم فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي: كيف صنعت؟ قلت: أهللت بإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فإني قد سقت الهدي وقرنت، فقال لي: انحر من البدن سبعا وستين أو ستا وستين، وأمسك لنفسك ثلاثا وثلاثين أو أربعا وثلاثين، وأمسك لي من كل بدنة منها بضعة "د ن"
12485 (مسند علی (رض)) براء بن عاذب (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو میں بھی حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ اوقیہ چاندی بھی ملی۔ جب حضرت علی (رض) یمن سے واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (مکہ میں دوران حج) آئے۔ پھر حضرت علی (رض) اپنے اہل خانہ سے لوٹ کر حضور کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : میں نے فاطمہ کو دیکھا کہ اس نے رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور اپنے کمرے کو بھی خوشبو میں بسا رکھا ہے (اور یہ علامتیں ہیں احرام سے حلال ہونے کی) تو فاطمہ مجھ سے بولی آپ کو کیا ہوا، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا ہے اور وہ (عمرہ سے) حلال ہوگئے ہیں۔ میں نے فاطمہ کو کہا : میں نے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تلبیہ جیسا تلبیہ پڑھا ہے۔ (یعنی افراد، قران، تمتع میں سے رسول اللہ نے جس طرح ارادہ کیا ہو وہی میرا ارادہ ہے) اب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : تم نے کیا تلبیہ پڑھا ہے ؟ میں نے عرض کیا اھللت باھلال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی میں احرام باندھتا ہوں جیسا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احرام باندھا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تو ہدی قربانی کا جانور ساتھ لایا ہوں اور میں نے قران کیا ہے (حج وعمرہ کو ایک ساتھ کرنے کی نیت کی ہے) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : پھر (جب ہم حج قران سے فارغ ہوئے تو ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : سڑسٹھ یا چھیاسٹھ اونٹ نحر (ذبح) کرلو اور اپنے لیے تینتیس یا چونتیس اونٹ روک لو۔ اور ہر اونٹ میں میں سے میرے لیے گوشت کا ایک حصہ رکھنا۔
ابوداؤد، النسائی۔
فائدہ : اس روایت کو ایک جماعت نے تخریج کیا ہے اور مسلم نے بھی اس سے دلیل لی ہے۔ دیکھئے عون المعبود شرح سنن ابی داؤد 226/5 ۔

12486

12486- عن سعيد بن المسيب قال: اجتمع علي وعثمان بعسفان، وكان عثمان ينهى عن المتعة وعلي يأمر بها، وقال: ما تريد إلى أمر فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم تنهي عنه؟ فقال عثمان: دعنا منك؛ قال: إني لا أستطيع أن أدعك مني، فلما رأى علي ذلك أهل بهما جميعا. "ط حم ع ق".
12486 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ مقام عسفان میں حضرت علی (رض) اور حضرت عثمان (رض) اکٹھے ہوگئے۔ حضرت عثمان (رض) تمتع سے روکتے تھے اور حضرت علی (رض) حج تمتع کا کہتے تھے۔ حضرت علی (رض) نے (حضرت عثمان (رض)) کو فرمایا : آپ کا کیا ارادہ ہے، جو کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے آپ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : تم ہمیں چھوڑ دو ۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ جب حضرت علی (رض) نے یہ دیکھا۔ حضرت عثمان (رض) اپنے ارادے سے نہیں ہٹے تو حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا۔ مسند ابی داؤد، مسند احمد، مسند ابی یعلی، السنن للبیہقی

12487

12487- عن الحسن أن عمر أراد أن ينهي عن متعة الحج، فقال له أبي: ليس ذلك لك فقد تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينهنا عن ذلك، فأضرب عمر وأراد أن ينهى عن حلل الحيرة لأنها تصبغ بالبول، فقال له أبي: ليس لك ذلك قد لبسهن النبي صلى الله عليه وسلم ولبسناهن في عهده. "حم".
12487 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو حج تمتع سے روک دیں۔ لیکن میرے والد (علی (رض)) نے ان کو فرمایا : یہ کام کرنے کا آپ کو اختیار نہیں ہے، کیونکہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج تمتع کیا تھا۔ لیکن آپ نے ہم کو اس سے نہیں روکا ۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) باز آگئے۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ ارادہ فرمایا کہ لوگوں کو حیرہ شہر کے حلوں (جوڑوں) کو پہننے سے منع فرمادیں کیونکہ ان کو پیشاب کے ساتھ رنگا جاتا ہے۔ مگر ان کو میرے والد (رض) نے فرمایا : یہ کام کرنے کا آپ کو حق نہیں، کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پہنا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ہم نے بھی ان کو پہنا ہے۔ مسند احمد

12488

12488- عن عبد الله بن شقيق قال: كان عثمان ينهي عن المتعة وعلي يفتي بها، فقال له عثمان قولا، فقال له علي: لقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل ذلك، وفي لفظ: لقد علمت أنا تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال عثمان: ولكنا كنا خائفين."حم وأبو عوانة والطحاوي ق".
12488 عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) حج تمتع سے لوگوں کو روکتے تھے اور حضرت علی (رض) حج تمتع کا فتویٰ دیتے تھے۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کو کوئی بات کہی ، حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تو یہ بات جانتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج تمتع کیا تھا۔ دوسرے الفاظ روایت یہ ہیں :
آپ جانتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمتع کیا تھا۔ تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : لیکن ہم (اس وقت دشمن سے) خوف زدہ تھے۔ مسند احمد، ابوعوانۃ، الطحاوی، السنن للبیہقی

12489

12489- عن ابن عمر قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم التمتع إذا لم يجد الهدي ولم يصم حتى فاته أيام التشريق أنه يصوم أيام التشريق مكانها. "كر".
12489 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج تمتع کی رخصت دی ہے جبکہ ہدی بھی نہ ہو اور نہ روزے رکھے ہوں حتیٰ کہ ایام تشریق فوت ہوجائیں تو وہ ان کی جگہ ایام تشریق کے روزے رکھے ابن عساکر ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

12490

12490- عن ابن عباس قال: تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر وعثمان وأول من نهى عنه معاوية. "ش".
12490 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) نے حج تمتع کیا اور سب سے پہلے اس سے جس نے روکا وہ حضرت معاویہ (رض) تھے۔ ابن ابی شیبہ
کلام : ضعیف الترمذی 139 ۔

12491

12491- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: طفت مع عمر بالبيت، فلما أتممنا دخلنا في الثاني فقلت له: إنا قد أوهمنا، قال: إني لم أوهم ولكني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن، وأنا أحب أن أقرن. "الشاشي ق ص".
12491 (مسند عمر (رض)) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب ہم نے ایک طواف مکمل کرلیا تو دوسرے طواف میں شروع ہوگئے۔ میں نے حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : ہمیں شک پڑتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مگر مجھے شک نہیں پڑتا لیکن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قران کرتے دیکھا تھا (یعنی حج وعمرہ دونوں طواف ایک ساتھ کرتے دیکھا تھا) اور میں بھی چاہتا ہوں کہ حج قران کروں۔ الشاشی، السنن للبیہقی، السنن، لسعید بن منصور

12492

12492- عن عمر قال: من قدم منكم حاجا، فليبدأ بالبيت، فليطف به سبعا، ثم ليصل ركعتين عند مقام إبراهيم، ثم ليأت الصفا فليقم عليها مستقبل القبلة ثم ليكبر سبعا بين كل تكبيرتين حمد الله وثناء عليه والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، ويسأله لنفسه وعلى المروة مثل ذلك. "ص ش ق".
12492 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : جو شخص تم میں حج کے ارادے سے آئے وہ پہلے بیت اللہ کا طواف کرے اور اس کے سات چکر لگائے، پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھے، پھر صفا پر آئے اور وہاں قبلہ رو کھڑا ہو کر سات تکبیریں کہے، ہر دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمدوثنا کرے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھے اور اپنے لیے دعا کرے اسی طرح مروہ پر عمل کرے۔
السنن لسعید بن منصور، مصنف ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

12493

12493- "مسند علي رضي الله عنه" عن أبي العالية قال: استكثروا من الطواف بهذا البيت قبل أن يحال بينكم وبينه، فكأني برجل من الحبشة أصلع أصمع خمش الساقين قاعد عليها وهي تهدم: وفي لفظ بمسحاته يهدمها. "سفيان بن عيينة في جامعه وأبو عبيد في الغريب ش ق والأزرقي".
12493 (مسند علی (رض)) ابوالعالیہ سے مروی ہے فرمایا : اس بیت اللہ کا طواف کثرت سے کرلو۔ اس سے پہلے کہ تمہارے درمیان اور اس کے درمیان رکاوٹ ہوجائے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ حبشہ کا ایک آدمی جس کے سر کے اگلے حصے کے بال اڑے ہوئے ہیں، چھوٹے چھوٹے کان ہیں اور پنڈلیاں زخمی ہیں کعبہ پر بیٹھا ہے اور کدال کے ساتھ اس کو ڈھارہا ہے۔
سفیان بن عیینہ فی جامعہ، ابو عبید فی الغریب، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی، الازرقی

12494

12494- عن ابن عمرو قال: من طاف بهذا البيت سبعا وصلى ركعتين كان كمن أعتق رقبة. "ابن زنجويه".
12494 ابن عمرو (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو اس گھر کے ساتھ چکر کاٹے اور دو رکعت نماز پڑھ لے گویا اس نے ایک غلام آزاد کردیا۔ ابن زنجویہ۔

12495

12495- عن ابن عباس قال: من طاف بالبيت خمسين أسبوعا خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه. "ابن زنجويه".
12495 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا کہ جو اس گھر کے پچاس چکر کاٹے وہ اپنے گناہوں سے یوں نکل جائے گا گویا آج اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہے۔ ابن زنجویہ
فائدہ : حدیث میں خمسین اسبوعاً پچاس ہفتے کا لفظ ہے، غالباً یہ کاتب کا سہو ہے صحیح لفظ مرۃ ہے مرتبہ جیسا کہ دوسری کتب میں آیا ہے۔
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 5682، ضعیف الترمذی 151 ۔

12496

12496- عن ابن عباس قال: أول من طاف بالبيت الملائكة. "ش".
12496 ابن عباس (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : سب سے پہلے اس گھر کا طواف جس نے کیا وہ ملائکہ تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12497

12497- عن عبد الله بن حنظلة الراهب قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يطوف بالبيت على ناقته لا ضرب ولا طرد ولا إليك إليك. "ابن منده كر"
12497 عبداللہ بن حنظلہ راھب سے مروی ہے فرمایا : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اونٹنی پر بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا، نہ وہاں ماردھاڑ تھی اور نہ ہٹو ہٹو کی آواز تھی۔ ابن مندہ، ابن عساکر

12498

12498- عن أبي العطاف طارق بن مطر بن طارق الطائي الحمصي حدثني أبي حدثنا صمصامة وضنينة ابنا الطرماح قالا: حدثنا أبو الطرماح قال: سمعت الحسين بن علي يقول: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في الطواف فأصابتنا السماء فالتفت إلينا فقال: ائتنفوا العمل فقد غفر لكم ما مضى. "الشيرازي في الألقاب كر" وقال: غريب جدا لم أكتبه إلا من هذا الوجه.
12498 ابوالعطاف طارق بن مطر بن طارق الطائی المحصی سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ ہمیں صمصامہ اور ضنینہ جو طرماح کے بیٹے ہیں دونوں نے بیان کیا کہ ہمیں ابو الطرماح نے بیان کیا کہ میں نے حسین بن علی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا :
حضرت حسین (رض) فرماتے ہیں : ہم طواف میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ بارش برس گئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : نئے سرے سے عمل کرو کیونکہ تمہارے پچھلے سب گناہ معاف ہوگئے ہیں۔ الشیرازی فی الالقاب ، ابن عساکر
کلام : ابن عساکر (رح) فرماتے ہیں یہ روایت انتہائی ضعیف ہے، اس کو میں نے صرف اسی طریق سے لکھا ہے۔

12499

12499- "مسند عمر رضي الله عنه" عن حبيب بن صهبان قال: رأيت عمر بن الخطاب يطوف بالبيت وهو يقول بين الباب والركن او بين المقام والباب: ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. "مسدد".
12499 (مسند عمر (رض)) حبیب بن صہبان سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ (رض) باب اور رکن کے درمیان یا مقام اور باب کے درمیان یہ دعا پڑھ رہے تھے :
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔
اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں (بھی) اچھائی دے اور آخرت میں (بھی) اچھائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ مسدد

12500

12500- عن حبيب بن صهبان قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول حول البيت: ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار، وليس له هجيرى إلا ذلك. "عب حم في الزهد ومسدد وأبو عبيد في الغريب والمحاملي هق"
12500 حبیب بن صہبان سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو بیت اللہ کے گرد دعا ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔
حضرت عمر (رض) بن خطاب کی (دوران طواف) یہی ایک عادت تھی۔
الجامع لعبد الرزاق، الزھد للامام احمد، مسدد، ابوعبید فی الغریب، المحاملی، السنن الکبری للبیہقی

12501

12501- عن ابن أبي نجيح قال: كان أكثر كلام عمر وعبد الرحمن بن عوف في الطواف: ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. "الأزرقي".
12501 ابن ابی نجیح سے مروی ہے، فرمایا : حضرت عمر اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کا طواف میں اکثر کلام یہی ہوتا تھا :
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ الازرقی

12502

12502- عن أبي سعيد البصري قال: رمقت عمر بن الخطاب وهو يطوف بالبيت وهو يقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. "الجندي".
12502 ابو سعید بصری سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کا جائزہ لیا، آپ بیت اللہ کے طواف کے دوران یہ پڑھتے تھے :
لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کی شی قدیر۔
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ الجندی

12503

12503- عن علي أنه كان إذا مر بالركن اليماني قال: بسم الله والله أكبر والسلام على رسول الله ورحمة الله وبركاته، اللهم إني أعوذ بك من الكفر والفقر والذل ومواقف الخزي في الدنيا والآخرة ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. "الأزرقي".
12503 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، وہ جب رکن یمانی کے پاس سے گزرتے تو یہ پڑھتے :
بسم اللہ واللہ اکبر والسلام علی رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر والذل ومواقف الخزی فی الدنیا والاخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ الازرقی
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اور اللہ ہی سب سے بڑا ، سلامتی اللہ کے رسول پر اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں۔ اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں تیرے کفر سے، فقر سے، ذلت سے اور دنیا و آخرتکی ذلتوں سے، اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں نیکی دے اور ہمیں (جہنم کی) آگ کے عذاب سے بچا۔ الارزقی

12504

12504- عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت ثم وضع يده عليه ودعا اللهم البيت بيتك، ونحن عبيدك ونواصينا بيدك وتقلبنا في قبضتك، فإن تعذبنا فبذنوبنا، وإن تغفر لنا فبرحمتك فرضت حجك لمن استطاع إليه سبيلا فلك الحمد على ما جعلت لنا من السبيل اللهم ارزقنا ثواب الشاكرين. "الديلمي" وفيه زبد السلام بن الجنوب متروك.
12504 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر اپنا دست مبارک کعبۃ اللہ پر رکھا اور یہ دعا کی :
اللھم البیت بیتک ، ونحن عبیدک ونواصینا بیدک وتقلبنا فی قبضتک فان تعذبنا فبذنوبنا، وان تغفرلنا وبرحمتک فرضتک حجک لمن استطاع الیہ سبیلا فلک الحمد علی ماجعلب لنا من السبیل اللھم ارزقنا ثواب انشا کرین، الدیلمی۔
اے اللہ ! یہ گھر تیرا گھر ہے، اور ہم تیرے بندے ہیں اور ہماری پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہے، اور ہمارا گھر ناپھرنا آنا جانا تیری مٹھی میں ہے۔ اگر تو ہمیں عذاب دے تو واقعی ہمارے گناہوں کی وجہ سے دے گا اور اگر تو بخش دے تو یہ سراسر تیری رحمت ہوگی۔ تو نے اپنا حج فرض کیا ہے ہر اس شخص کے لیے جو اس کے راستے کی طاقت رکھے۔ پس تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں کہ تو نے ہمارے لیے اس راستے کو آسان کردیا۔ اے اللہ ! ہمیں شکر کرنے والوں کا ثواب عطا فرما۔ الدیلمی
کلام : مذکورہ روایت میں ایک راوی عبدالسلام بن الجنوب متروک راوی ہے۔

12505

12505- عن عبد الله بن السائب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بين الركن والحجر ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. "ش د ن"
12505 عبداللہ بن السائب سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رکن اور حجر اسود کے درمیان ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔
مصنف ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، النسائی، قال الذھبی : صحیح علی شرط مسلم۔

12506

12506- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن عيسى بن طلحة عن رجل رأى النبي صلى الله عليه وسلم وقف عند الحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ثم قبله، ثم حج أبو بكر فوقف عند الحجر ثم قال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك. "ش قط في العلل".
12506 (مسند صدیق (رض)) عیسیٰ بن طلحہ ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجراسود کے پاس کھڑے دیکھا اور سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرما رہے ہیں : میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجراسود کو بوسہ دیا۔
راوی کہتے ہیں پھر حضرت ابوبکر (رض) نے (جب) حج کیا تو وہ بھی حجراسود کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان دے سکتا اور نہ نفع پہنچا سکتا اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الدار قطنی فی العلل، روایۃ العلل۔

12507

12507- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عابس بن ربيعة قال: رأيت عمر أتى الحجر فقال: أما والله إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك ما قبلتك، ثم دنا فقبل. "ش حم والعدني خ م د ت ن وأبو عوانة حب ق".
12507 (مسند عمر (رض)) عابس بن ربیعہ سے مروی ہے فرمایا میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ آپ (رض) حجراسود کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان دے سکتا اور نہ نفع پہنچا سکتا اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ نے تجھے بوسہ دیا تھا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا پھر حضرت عمر (رض) اس کے قریب ہوئے اور اس کو چوما۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، العدنی، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی ، ابوعوانۃ، ابن حبان، البیہقی فی السنن۔

12508

12508- عن ابن عباس قال: رأيت عمر بن الخطاب قبل الحجر وسجد عليه، ثم قال عمر: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله. "ط والدارمي ع وابن خزيمة وابن السكن في صحاحه ك ق ص".
12508 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو حجرا سود کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا اور اس کے اوپر (سجدہ کرتے جھکتے) ہوئے دیکھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ ابوداؤد، الدارمی، مسند ابی یعلی، ابن خزیمۃ، ابن السکن فی صحاحہ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور۔

12509

12509- عن سويد بن غفلة قال: رأيت عمر قبل الحجر والتزمه وقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولكن رأيت أبا القاسم بك حفيا1 "طب عب ن حم ع حل ق والعدني م ن وأبو عوانة".
12509 سوید بن غفلہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے حجرا سود کو چوما اس کو چمٹے ہوئے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نقصان دے سکتا اور نہ نفع۔ لیکن میں نے ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھ پر اس طرح مہربان دیکھا تھا۔ الکبیر للطبرانی الجامع لعبد الرزاق، النسائی ، مسند احمد، مسند ابی یعلی، حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی ، العدنی، مسلم، النسائی، ابوعوانۃ۔

12510

12510- عن عبد الله بن سرجس قال: رأيت عمر بن الخطاب قبل الحجر الأسود وقال: إني لأقبلك وأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، وإن الله ربي ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك. "ط ش عب حم والحميدي والعدني م ن هـ وأبو عوانة".
12510 عبداللہ بن سر جس سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو حجرا سود کا بوسہ دیتے ہوئے دیکھا اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع، اور اللہ تبارک وتعالیٰ میرا پروردگار ہے۔ اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے نہ چومتا۔ مسند ابی داؤد الطیالسی، مصنف ابن ابی شیبہ، الجامع لعبد الرزاق، مسنداحمد، الحمیدی ، مسلم، النسائی، ابن ماجہ، ابوعوانۃ۔

12511

12511- عن يعلى بن أمية قال: طفت مع عمر فاستلم الركن وكنت مما يلي البيت فلما بلغنا الركن الغربي الذي يلي الأسود جررت يده ليستلم فقال: ما شأنك؟ فقلت: ألا تستلم؟ قال: ألم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: بلى قال: أفرأيته يستلم هذين الغربيين؟ قلت: لا، قال: أوليس لك فيه أسوة؟ قلت: بلى، قال: فأبعد عنك. "ش حم والعدني والأزدي ع طس ص".
12511 یعلی بن امیہ سے مروی ہے، فرمایا : میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ طواف کیا آپ (رض) نے رکن (یمانی) کا استلام کیا۔ استلام ہاتھ سے چھونا جبکہ میں بیت اللہ کے قریب تھا۔ جس ہم رکن غربی کے پاس پہنے جو حجرا سود کے ساتھ ہے تو میں نے حضرت عمر (رض) کا ہاتھ پکڑ کر اس رکن غربی پر رکھ دیا تاکہ وہ بھی اس کو چھولیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا چاہتا ہے تو ؟ میں نے کہا : کیا آپ اس کا استلام نہیں کریں گے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا تو نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا : کیا ہے۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا تو نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دونوں مغربی جانبوں کا استلام کرتے دیکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تو کیا تیرے لیے نبی کے طریقے میں اچھا نمونہ نہیں ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور ۔ تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تب اس سے درو ہٹ جا۔ مصنف ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، العدنی، الازدی، مسند ابی یعلی، الاوسط للطبرانی، السنن لسعید بن منصور۔

12512

12512- عن أسلم أن عمر قال للركن: أما والله إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمك ما استلمتك. "سمويه وأبو عوانة".
12512 حضرت اسلم (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رکن کو فرمایا : اللہ کی قسم ! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے استلام کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بھی تیرا استلام نہ کرتا۔ سمویہ، ابوعوانہ

12513

12513- عن ابن عمر قال: رأيت عمر قبل الحجر وسجد عليه، ثم عاد وقبله وسجد عليه، ثم قال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع. "ع".
12513 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے حجرا سود کو چوما اور اس پر (اپنا سر رکھ کر اللہ کو) سجدہ کیا، پھر دوبارہ (چکر میں) اس کو چوما اور اس پر سجدہ کیا پھر ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔ مسند ابی یعلی

12514

12514- عن ابن عباس أن عمر بن الخطاب أكب على الركن فقال: إني لأعلم أنك حجر ولو لم أر حبي صلى الله عليه وسلم قبلك واستلمك ما استلمتك ولا قبلتك ولقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة. "حم".
12514 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رکن پر جھکے اور فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو محض پتھر ہے اور اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تیرے ساتھ محبت نہ دیکھتا کہ انھوں نے تجھے بوسہ دیا اور تجھے چھوا تو میں بھی تجھے نہ چھوتا اور نہ بوسہ دیتا اور بیشک (اے لوگو ! ) تمہارے لیے رسول اللہ (کی زندگی) میں بہترین نمونہ ہے۔ مسند احمد

12515

12515- عن طاوس قال: كان عمر يقبل الحجر، ثم يسجد عليه ثلاث مرات ويقول: لولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك. "ابن راهويه".
12515 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) حجراسود کو بوسہ دیتے تھے پھر اس پر تین بار سجدہ کرتے اور فرماتے : اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ ابن راھویہ

12516

12516- عن عكرمة قال: كان عمر بن الخطاب إذا بلغ موضع الركن قال: أشهد أنك حجر لا تضر ولا تنفع، وأن ربي الله الذي لا إله إلا هو ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحك ويقبلك ما قبلتك ولا مسحتك. "الأزرقي".
12516 حضرت عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جب رکن (یمانی) کی جگہ پہنچتے تو فرماتے : میں شہادت دیتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نقصان دے سکتا اور نہ نفع اور اللہ پاک میرا پروردگار ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے چھوتے ہوئے اور بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے نہ چھوتا اور نہ بوسہ دیتا۔ الازرقی

12517

12517- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب كان يقول إذا كبر لاستلام الحجر: بسم الله والله أكبر على ما هدانا، ولا إله إلا الله وحده لا شريك له آمنت بالله وكفرت بالجبت والطاغوت واللات والعزى وما يدعى من دون الله، إن وليي الله الذي نزل الكتاب وهو يتولى الصالحين. "الأزرقي" وروى "ش" بعضه.
12517 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) حجر (اسود) کا استلام کرتے ہوئے جب تکبیر کہتے تو فرماتے :
بسم اللہ واللہ اکبر علی ماھدانا، ولا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ آمنت باللہ وکفرت بالجبت والطاغوت واللات والعزی ومایدعی من دون اللہ، ان ولیی اللہ الذی نزل الکتاب وھو یتولی الصالحین۔
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب بےسڑا ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت بخشی، اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، میں اللہ پر ایمان لایا اور بت، شیطان، لات بت عزی بت اور ہر اس کا انکار اور کفر کیا جس کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، بیشک میرا دوست اللہ ہی ہے، جس نے کتاب کو نازل فرمایا اور وہ نیکوں کا مددگار دوست ہے۔ الازرقی
ابن ابی شیبہ نے بھی اس روایت کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔

12518

12518- عن عمر قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عمر إنك رجل قوي، لا تؤذ الضعفاء إذا أردت استلام الحجر، فإن خلا لك فاستلمه وإلا فاستقبله وكبر. "حم والعدني ق والديلمي".
12518 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے عمر ! تو طاقت ور آدمی ہے، جب تو حجراسود کا استلام کرے (اس کو چھوتے یا بوسہ دیتے وقت) کمزوروں کو دھکا نہ دینا، اگر تجھے جگہ خالی ملے تو استلام کرلے ورنہ اس کا سامنا کرکے تکبیر کہہ لے۔
مسند احمد ، العدنی، السنن للبیہقی ، مسند الفردوس للدیلمی
کلام : روایت محل کلام ہے : ذخیرۃ الحفاظ 6449 ۔

12519

12519- عن علي أنه كان إذا مر بالحجر الأسود فرأي عليه زحاما استقبله وكبر وقال: اللهم إيمانا بك وتصديقا بكتابك وسنة نبيك. "ط ش ق".
12519 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جب وہ حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو اگر اس پر ازوحام (ہجوم) دیکھتے تو اس کے مقابل آکر تکبیر کہتے اور فرماتے :
اللھم ایمانا بک وتصدیقا بکتابک وسنۃ نبیک۔
اے اللہ ! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب کی تصدیق کی اور تیرے نبی کی سنت کی اتباع کی۔
ابوداؤد الطیالسی، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

12520

12520- "مسند علي رضي الله عنه" عن الحارث قال: كان علي إذا استلم الحجر قال: اللهم إيمانا بك وتصديقا بكتابك واتباع نبيك. "طس ق".
12520 (مسند علی (رض)) حارث سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) جب حجراسود کا استلام کرتے (چھوتے یا بوسہ دیتے) تو فرماتے :
اللھم ایمانا بک وتصدیقا بکتابک و اتباع نبیک، الاوسط للطبرانی ، السنن للبیہقی

12521

12521- عن أبي سعيد الخدري قال: حججنا مع عمر بن الخطاب، فلما دخل الطواف استقبل الحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم قبله، فقال علي بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين إنه يضر وينفع، قال: بم؟ قال: بكتاب الله عز وجل قال: وأين ذلك من كتاب الله؟ قال: قال الله تعالى: {وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ} إلى قوله: بلى، خلق الله آدم ومسح على ظهره فقررهم بأنه الرب وأنهم العبيد وأخذ عهودهم ومواثيقهم وكتب ذلك في رق1 وكان لهذا الحجر عينان ولسانان فقال: افتح فاك ففتح فاه، فألقمه ذلك الرق،فقال: اشهد لمن وافاك بالموافاة يوم القيامة وإني أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى يوم القيامة بالحجر الأسود وله لسان ذلق يشهد لمن استلمه بالتوحيد فهو يا أمير المؤمنين يضر وينفع، فقال عمر: أعوذ بالله أن أعيش في قوم لست فيهم يا أبا الحسن. "الهندي في فضائل مكة أبو الحسن القطان في الطوالات ك ولم يصححه عب" وضعفه "أخرجه الحاكم في المستدرك "1/457" وسكت عنه، وقال الذهبي: فيه أبي هارون ساقط. ص".
12521 حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ ہم نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ حج کیا۔ جب حضرت عمر (رض) طواف میں شروع ہوئے تو حجر (اسود) کے سامنے آئے اور فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ، نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع پہنچا سکتا ہے۔ اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں ہرگز تجھے بوسہ نہ دیتا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اس کو بوسہ دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ارشاد فرمایا : اے امیر المومنین ! یہ بھی نقصان اور نفع دیتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کس دلیل سے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : کتاب اللہ عزوجل کی دلیل سے، پوچھا : کتاب اللہ میں کہاں ہے ؟ فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
واذاخذربک من بنی آدم من ظھور ھم وذریتھم الی قولہ بلی۔
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کر الیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا اور ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور ان (تمام اولادوں) سے اقرار لیا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں اور تم سب میرے بندے ہو، یوں اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے عہد و پیمان لیے اور اس عہد و پیمان کو ایک ورق میں لکھ لیا۔ اس وقت اس پتھر (حجرا سود) کی دو آنکھیں اور دو زبانیں تھیں۔ اللہ نے اس سے کہا : اپنے منہ کھول۔ اس نے منہ کھولا تو اللہ پاک نے وہ ورق اس کو نگلوا دیا۔ پھر ارشاد فرمایا : جو تیرے ساتھ وعدہ وفا کرے تو قیامت کے دن اس کی گواہی دیجیو (یعنی جو شخص تیرے پاس ایسا آئے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرنے والا ہو تو اس کی شہادت دینا) پھر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
قیامت کے دن حجراسود کو لایا جائے گا اس کی اس وقت تیز زبان ہوگی اور وہ ہر اس شخص کی گواہی دے گا جو توحید کے ساتھ اس کا استلام کرے گا۔ یعنی کلمہ پڑھتے ہوئے اس کو چومے گا یا چھوئے گا یا دور ہی سے اس کو گواہ بنالے گا۔
پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : اے امیر المومنین ! (عمر) دیکھئے یہ تو نقصان اور نفع دے رہا ہے۔
تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی اس بات سے کہ ایسی کسی قوم میں زندہ رہوں جس میں تو نہ ہوا اے ابوالحسن ! (علی (رض) ! )
الھندی فی فضائل مکۃ ابوالحسن القطان فی الطوالات ، مستدرک الحاکم۔
حاکم نے صحیح نہیں کہا۔ الجامع لعبدالرزاق ، وضعفہ
کلام : امام حاکم نے اس پر سکوت کیا اور امام ذھبی (رح) نے فرمایا اس میں ابوھارون ساقط (گرے ہوئے درجہ کا) راوی ہے۔ الحاکم فی المستدرک 457/1، امام عبدالرزاق نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

12522

12522- عن طاوس أن عمر قبل الحجر ثلاثا وسجد عليه لكل قبلة وذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم فعله. "ش وابن راهويه".
12522 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حجرا سود کو تین بار چوما اور ہر بار اس پر سجدہ کیا اور فرمایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا تھا۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن راھویہ

12523

12523- عن يعلى بن أمية قال: طفت مع عثمان فاستلمنا الركن فكنت مما يلي البيت، فلما بلغنا الركن الغربي الذي يلي الأسود جررت بيده ليستلم قال: ما شأنك؟ قلت: ألا تستلم؟ قال: ألم تطف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقلت: بلى، فقال: أرأيته يستلم هذين الركنين الغربيين؟ قلت: لا، قال: أو ليس لك فيه أسوة حسنة؟ قلت: بلى قال: فابعد عنك. "حم"
12523 یعلی بن امیہ سے مروی ہے کہ میں حضرت عثمان (رض) کے ساتھ تھا، جب ہم نے رکن (یمانی) کا استلام کیا تو میں بیت اللہ کے پاس والے حصے میں تھے، جب ہم رکن غربی کو پہنچے جو حجراسود کے پاس ہے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تاکہ وہ رکن غربی کا استلام کرلیں۔ حضرت عثمان (رض) نے پوچھا : تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : آپ استلام نہیں کریں گے ؟ حضرت عثمان (رض) نے پوچھا : کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : کیا تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان دونوں غربی رکنوں کا استلام کرتے دیکھا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں۔ پھر پوچھا : کیا آپ کی زندگی میں عمدہ طریقہ نہیں ہے ؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، تب حضرت عثمان (رض) نے ارشاد فرمایا : پھر اس (رکن غربی) سے ہٹ جا۔ مسند احمد

12524

12524- عن عبد الرحمن بن عوف قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغنا من الطواف بالبيت: كيف صنعت يا أبا محمد في استلام الركن! قلت: استلمت وتركت، قال: أصبت. "أبو نعيم وقال: كذا رواه القاسم عن عبيد الله موصولا ورواه مالك عن هشام مرسلا".
12524 حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم طواف بیت اللہ سے فارغ ہوئے تو مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابومحمد ! (عبدالرحمن کی کنیت) رکن کے استلام میں تم نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا : میں نے استلام کیا (بوسہ دیا) اور چھوڑ دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے ٹھیک کہا۔
ابونعیم وقال : کذارواہ القاسم عن عبیداللہ موصولاً ورواہ مالک عن، ہشام مرسلاً

12525

12525- عن أبي الطفيل قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وأنا غلام شاب يطوف بالبيت على راحلته يستلم الحجر بمحجنه "حم ع".
12525 ابوالطفیل سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جواں لڑکپن کی حالت میں دیکھا آپ سواری پر بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے اور حج اسود کو اپنی چھڑی (جس سے جانور کو ہانکا جاتا ہے) کے ساتھ چھو رہے تھے۔ مسند احمد، مسند ابی یعلیٰ

12526

12526- عن عبد الله بن عبيد بن عمير أن أباه سأل ابن عمر؛ مالي أراك لا تستلم هذين الركنين لا تستلم غيرهما؟ يعني الحجر الأسود والركن اليماني، قال: إن أفعل فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن استلامهما يحط الخطايا وسمعته يقول: من طاف أسبوعا يحصيه، ثم صلى ركعتين فله كعدل رقبة أو نسمة ما رفع رجل قدمه وما وضعها إلا كتب له بها حسنة ومحي عنه بها خطيئة ورفع له بها درجة. "ابن زنجويه".
12526 عبداللہ بن عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ ان کے والد نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے سوال کیا : کیا بات ہے کہ آپ ان دو رکنوں حجرا سود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی اور رکن کا استلام نہیں کرتے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ایسا کرتا ہوں تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، ارشاد فرمایا : ان دونوں کا استلام کرنا گناہوں کو مٹا دیتا ہے، نیز میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے ایک ہفتے بیت اللہ کا طواف کیا (غالباً ہفتے سے صرف سات چکرمراد ہیں) اور ان کو شمار کیا پھر دو رکعت نماز پڑھی اس نے گویا ایک جان آزاد کردی اور بندہ (اس عمل کے دوران) جب بھی کوئی قدم رکھتا ہے یا اٹھاتا ہے تو اس کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیاجاتا ہے۔ ابن زنجویہ

12527

12527- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت على بعير يستلم الركن بمحجن وعبد الله بن رواحة آخذ بغرزه أي ركابه:. خلوا بني الكفار عن سبيله ... خلوا فكل الخير مع رسوله نحن ضربناكم على تنزيله ... ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله ... يا رب إني مؤمن بقيله فقال عمر بن الخطاب: أوههنا يا ابن رواحة أيضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أو ما تعلمن أولا تسمع ما قال فمكث ما شاء الله، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هيه يا ابن رواحة، قل: لا إله إلا الله وحده نصر عبده واعز جنده وهزم الأحزاب وحده. "كر".
12527 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا اور رکن کو چھڑی کے ساتھ استلام کرتے رہے جبکہ عبداللہ بن رواحۃ جنہوں نے اونٹ کی مہار تھام رکھی تھی۔ وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے :
کفار کی اولادو ! رسول اللہ کا راستہ چھوڑ دو ، ہٹ جاؤ پس تمام خیریں
رسول اللہ کے ساتھ ہیں، ہم نے تم کو ایسی مار ماری ہے جو کھوپڑی کو
توڑ دینے والی ہے اور دوست کو دوست بھلا دینے والی ہے، اے پروردگار میں
تیرے رسول کے فرمان پر ایمان لانے والا مومن ہوں
یہ اشعار سن کر حضرت عمر (رض) نے پوچھا : اوہو ! کیا یہاں ابن رواحہ بھی ہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے سن نہیں رہے ہو ؟ پھر حضور کچھ دیر خاموش رہے پھر حضرت ابن رواحۃ کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : اے ابن رواحۃ ! (اس کی جگہ) یوں کہہ :
لا الہ الا اللہ وحدہ نصر عبدہ واعز جندہ وھزالا حزاب وحدہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جس نے تنہا اپنے بندے کی مدد کی، اس کے لشکر کو عزت بخشی اور سارے لشکروں کو اکیلے ہی شکست دی۔ ابن عساکر

12528

12528- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم استلم الحجر فقبله واستلم الركن اليماني فقبل يده. "كر".
12528 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرا سود کا استلام کیا۔ اور اس کو چوما اور رکن یمانی کا استلام کیا (چھوا) پھر اپنے ہاتھ کو چوما۔ ابن عساکر

12529

12529- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عباس أن عمر طاف فأراد أن لا يرمل وقال: إنما رمل رسول الله صلى الله عليه وسلم ليغيظ المشركين ثم قال: أمر فعله رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينه عنه فرمل "يرمل: يقال رمل يرمل رملا ورملانا إذا أسرع في المشي وهز منكبيه. النهاية "2/265" ب". "ط".
12529 (مسند عمر (رض)) ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے طواف کیا اور ارادہ کیا کہ رمل نہ کریں (طواف میں اکڑ کر نہ چلیں) اور ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمل کیا تھا مشرکوں کو غصہ دلانے کے لئے۔ پھر خودہی ارشاد فرمایا : یہ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا اور اس سے روکا نہیں تھا پھر حضرت عمر (رض) خود ہی رمل کرنے لگے۔ مسند ابوداؤد الطیالسی

12530

12530- عن أسلم قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول: فيم الرملان الآن والكشف عن المناكب وقد أطأ الله الإسلام ونفى الكفر وأهله ومع ذلك لا ندع شيئا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ "حم د هـ ع والطحاوي ك هق ص" ورواه ابن خزيمة من طريق ابن عمر.
12530 حضرت اسلم (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اب رمل کس لیے اور مونڈھے کھولنے کی کیا ضرورت ! حالانکہ اللہ نے اسلام کو قوت بخش دی ہے اور کفر اور اہل کفر کو (مکہ سے) نکال دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم کوئی ایسا طریقہ نہیں چھوڑتے جو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں کیا کرتے تھے۔
مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند ابی یعلی، الطحاوی، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور ابن خزیمہ نے اس روایت کو ابن عمر (رض) کے طریق سے روایت کیا ہے۔

12531

12531- عن عمر قال: مالنا وللرمل إنما [كنا راءينا] به المشركين أهلكهم الله ثم قال: شيء صنعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا نحب أن نتركه، ثم رمل. "خ ق"ٓ
12531 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اب ہمیں رمل کی کیا ضرورت ہے، پہلے تو ہم اس کے ساتھ مشرکین کو بن کر دکھلاتے تھے، اللہ ان کو ہلاک کرے۔ پھر ارشاد فرمابا : لیکن یہ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اس کو ترک کریں، پھر حضرت عمر (رض) نے رمل فرمایا۔ البخاری، السنن للبیہقی

12532

12532- عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه في الهدنة التي كانت قبل الصلح الذي كان بينه وبينهم والمشركون عند باب الندوة مما يلي الحجر، وقد تحدثوا أن برسول الله صلى الله عليه وسلم جهدا وهزلا3 فلما استلموا قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنهم قد تحدثوا أن بكم جهدا وهزلا فارملوا ثلاثة أشواط حتى يروا أن بكم قوة فلما استلموا الحجر رفعوا أرجلهم فقال بعضهم لبعض: أليس زعمتم أن بهم هزلا وجهدا وهم لا يرضون بالمشي حتى يسعوا سعيا. "ش"
12532 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ امن کے موقع پر جبکہ ابھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح نہیں ہوئی تھی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مکہ تشریف لائے مشرکین اس وقت حجراسود کے قریب باب الندوہ کے قریب تھے، انھوں نے بات چیت میں کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشقت اور کمزوری آگئی ہے۔ مسلمان جب استلام کرنے لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا : یہ لوگ بات چیت کرتے ہیں کہ تمہارے اندر مشقت اور کمزوری آگئی ہے، لہٰذا تین چکراکڑ اکڑ کر کاٹو تاکہ یہ سمجھ جائیں کہ تم قوت والے ہو۔ چنانچہ مسلمانوں نے جب استلام حجر کرلیا تو پھر اپنے قدموں کو اٹھانے لگے۔ بعض نے بعض کو کہا کہ تم جانتے ہو کہ وہ لوگ تم کو کمزور سمجھ رہے ہیں لہٰذا وہ صرف چلنے سے مطمئن نہ ہوں گے بلکہ دوڑ کر چلو۔ مصنف ابن ابی شبیہ

12533

12533- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم رمل من الحجر إلى الحجر. "كر".
12533 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر (اسود) سے حجر (رکن یمانی) تک رمل کیا۔ ابن عساکر۔

12534

12534- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنه طاف مع عمر بن الخطاب بعد صلاة الصبح بالكعبة فلما قضى عمر طوافه نظر فلم ير الشمس، فركب حتى أناخ بذي طوي، فسبح ركعتين. "مالك ش والحارث ق"
12534 (مسند عمر (رض)) عبدالرحمن بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ انھوں نے صبح کی نماز کے بعد کعبہ کا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ طواف کیا۔ جب حضرت عمر (رض) نے طواف پورا کرلیا تو سورج کی طرف نظر کی مگر سورج نہ نکلا تھا چنانچہ آپ (رض) سوار ہوئے اور ذی طوی میں سواری بٹھائی اور دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ موطا امام مالک، مصنف ابن ابی شیبہ ، الحارث، السنن للبیہقی

12535

12535- عن عكرمة بن خالد قال: رأيت ابن عمر طاف بعد صلاة الصبح ثم صلى ركعتين قبل طلوع الشمس. "ش وابن جرير".
12535 عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے صبح کی نماز کے بعد طواف کیا اور پھر طلوع شمس سے قبل دو رکعت نماز پڑھی۔
مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر

12536

12536- عن أبي بردة أنه كان مع ابن عمر فطاف ابن عمر وصلى ركعتين فقال: هاتان تكفران ما أمامهما. "ابن زنجويه".
12536 ابوبردہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ تھے ابن عمر (رض) نے طواف کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا یہ دو رکعت پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ابن زنجویہ

12537

12537- عن عطاء قال: طاف ابن عمر بالبيت بعد صلاة الصبح فصلى ركعتين قبل طلوع الشمس وطاف ابن عباس بالبيت بعد العصر فركع ركعتين قبل غروب الشمس. "ابن جرير".
12537 عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے صبح کی نماز کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا پھر طلوع شمس سے قبل دو رکعت نماز ادا فرمائیں۔ اور حضرت ابن عباس (رض) نے عضر کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا اور غروب شمس سے قبل دو رکعت نماز پڑھی۔ ابن جریر

12538

12538- عن عطاء قال: رأيت ابن عمر وابن عباس طافا بعد العصر وصليا. "ش".
12538 عطاءؒ سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے عصر کے بعد طواف کیا اور نماز پڑھی۔ ابن ابی شبیہ

12539

12539- عن عطاء قال: رأيت ابن عمر وابن الزبير طافا بالبيت، ثم صليا ركعتين قبل طلو الشمس. "ش".
12539: عطاء (رح) سے روایت ہے فرمایا میں نے حضرت ابن عمر اور ابن زبیر (رض) کو دیکھا انھوں نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر طلوع شمس سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی۔ ابن ابی شیبہ۔

12540

12540- عن قتادة قال: سألت أبا الطفيل عن حديث وهو يطوف بالكعبة فقال: إن لكل مقام مقالا، إن هذا ليس موضع مقال. "كر".
12540 قتادہ (رح) سے مروی ہے کہ میں نے ابوالطفیل (رض) سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا اور وہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔ ابوالطفیل (رض) نے فرمایا : ہر مقام کی اپنی بات ہوتی ہے اور یہ جگہ بات کرنے کی نہیں ہے۔ ابن عساکر

12541

12541- عن أبي الطفيل قال: لكل مقام مقال ولكل زمان رجال."عد كر
12541 ابوالطفیل سے مروی ہے فرمایا : ہر مقام کی اپنی بات ہوتی ہے اور ہر زمانے کے اپنے لوگ ہوتے ہیں۔ الکامل لا بن عدی، ابن عساکر
کلام : روایت ضعیف ہے : الجد الحشیت 321، مختصر المقاصد 806، کشف الخفاء 2069

12542

12542- "مسند عمر رضي الله عنه" عن هلال بن عبد الله قال: رأيت عمر بن الخطاب يطوف بين الصفا والمروة فإذا أتى بطن السيل يسرع. "ابن سعد".
12542 (مسند عمر (رض)) ھلال بن عبداللہ سے مروی ہے فرمایا : میں نے عمر بن خطاب (رض) کو صفا مروہ کے درمیان طواف کرتے دیکھا جب آپ (رض) بطن السیل (بیچ وادی میں) پہنچتے تو رفتار تیز کردیتے تھے۔ ابن سعد

12543

12543- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن ابن أبي نجيح عن أبيه قال: أخبرني من رأى عثمان بن عفان يقوم في حوض في أسفل الصفا ولا يظهر عليه. "الشافعي ق".
12543 (مسندعمر (رض)) ابن ابی جیح سے مروی ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے عثمان بن عفان کو دیکھا تھا کہ حضرت عثمان (رض) صفا کے نچلے حصے میں حوض میں کھڑے ہیں اور اس کے اوپر نہیں آتے۔ الشافعی، السنن للبیہقی

12544

12544- عن علي أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يسعى بين الصفا والمروة في السعي كاشفا عن ثوبه قد بلغ ركبتيه. "؟؟ عم".
12544 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے (دوڑتے) ہوئے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازار کو اوپر گھٹنوں تک اٹھا رکھا تھا۔ مسند عبداللہ بن احمد بن حنبل

12545

12545- عن أسامة بن شريك قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم حاجا فكان الناس يأتونه فمن قائل يقول: يا رسول الله سعيت قبل أن أطوف أو قدمت شيئا أو أخرت، فكان يقول: لا حرج لا حرج إلا على رجل اقترض عرض مسلم وهو ظالم فذلك الذي حرج وهلك. "د"
12545 اسامۃ بن شریک سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کے لیے نکلا۔ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ، کوئی کہتا یارسول اللہ ! میں نے طواف کرنے سے قبل سعی کرلی ہے یا یہ فعل پہلے کرلیا یا یہ کام مجھ سے موخر ہوگیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کوئی گناہ نہیں، کوئی گناہ نہیں، سوائے اس آدمی کے جس نے کسی مسلمان کی آبروریزی کی اور ناحق کیا تو ایسا شخص گناہ میں پڑا اور ہلاک ہوگیا۔ ابوداؤد

12546

12546- عن العلاء بن المسيب عن أبيه قال: كان عمر إذا مر بالوادي بين الصفا والمروة سعى فيه حتى يجاوزه ويقول: رب اغفر وارحم وأنت الأعز الأكرم. "ش".
12546 علاء بن المسیب سے مروی ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) جب صفا مروہ کے درمیان وادی میں سے گزرتے تو اس میں سعی فرماتے (یعنی دوڑتے) حتیٰ کہ اس کو عبور کرلیتے اور دعا کرتے :
رب اغفروارحم وانت الاعزالاکرم
اے پروردگار ! مغفرت فرما، رحم فرما ، تو ہی سب سے زیادہ عزت والا سب سے زیادہ کرم والا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12547

12547- مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه أن علي بن أبي طالب كان يلبي حتى إذا غربت الشمس من يوم عرفة قطع التلبية1
12547 مالک عن جعفر بن محمد عن ابیہ کی سند سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب تلبیہ پڑھتے تھے حتیٰ کہ جب عرفہ کی شام سورج غروب ہوجاتا تو تلبیہ ختم فرما دیتے تھے۔ موطا امام مالک

12548

12548- عن أسامة قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فرفع يديه يدعو فمالت به ناقة فسقط خطامها2 فتناول الخطام بإحدى يديه وهو رافع يده الأخرى. "حم ن وابن منيع والرويان وابن خزيمة ك طب ص".
12548 اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ میں عرفات میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بلند کیے اور دعا کرنے لگے : اونٹنی مائل ہوگئی اور اس کی مہار گرگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہار کو ایک ہاتھ سے تھام لیا اور دوسرے ہاتھ کو دعا کرنے کے لیے بلند کرلیا۔ مسند احمد، النسائی، ابن منیع ، الرویان، ابن خزیمہ، مستدرک الحاکم، الکبیر للطبرانی، السنن لسعید بن منصور۔

12549

12549- عن ابن عمر قال: عرفة كلها موقف إلا بطن عرنة. "ابن جرير".
12549 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : عرفہ سارا موقف ہے، سوائے بطن عرفہ کے۔ ابن جریر

12550

12550- عن ابن عباس قال: عرفة كلها موقف وشعابها موقف، وارتفعوا عن عرنة. "ابن جرير".
12550 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو بطن عرنہ ہی سے چلا گیا (میدان عرفات میں نہیں آیا) اس کا حج نہیں ہوا۔ ابن جریر

12551

12551- عن ابن عباس قال: من أفاض من عرنة فلا حج له. "ابن جرير".
12551: ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو بطن عرنہ ہی سے چلا گیا (میدان عرفات میں نہیں) آیا اس کا حج نہیں ہوا۔ ابن جریر۔

12552

12552- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم راح إلى الموقف، ثم وقف، ووقف الناس فلما أن غابت الشمس دفع ودفع الناس معه. "د ع ابن جرير".
12552 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقف (میدان عرفات) میں جاکر کھڑے ہوئے اور دوسرے لوگ بھی کھڑے ہوگئے جب سورج غروب ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی وہاں سے کوچ کیا اور لوگوں نے بھی کوچ کیا۔ ابوداؤد، مسند ابی یعلی، ابن جریر

12553

12553- "مسند أبي سعيد رضي الله عنه" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بعرفة ويرفع يديه هكذا يجعل ظاهرهما مما يلي وجهه وباطنهما مما يلي الأرض. "ش".
12553 (مسند ابی سعید (رض)) مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ میں یوں دعا مانگ رہے تھے کہ ہاتھوں کی پشت چہرے کے سامنے تھی اور ہتھیلیوں کا اندرونی حصہ زمین کی طرف تھا۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12554

12554- عن ابن عباس قال: كان أهل الجاهلية يقفون بعرفة حتى إذا كانت الشمس على رؤوس الجبال دفعوا فأخر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدفعة حتى غربت الشمس. "ابن جرير".
12554 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اہل جاہلیت (مشرکین مکہ) عرفہ میں قیام کرتے حتیٰ کہ جب سورج ابھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھڑا ہوتا اور وہ عرفات سے چلے جاتے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر تاخیر فرمائی کہ سورج غروب ہوگیا۔ ابن جریر

12555

12555- عن ابن عباس قال: كان المشركون يفيضون من عرفة قبل غروب الشمس فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم فدفع من عرفة بعد غروب الشمس حين أفطر الصائم. "ابن جرير".
12555 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مشرکین عرفہ بےغروب شمس سے قبل ہی نکل جایا کرتے تھے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت فرمائی اور غروب شمس کے بعد جب روزہ دار افطار کرلیتا ہے تب وہاں سے نکلنا (طے) فرمایا۔ ابن جریر

12556

12556- عن عبد الله بن الزبير قال: من سنة الحج أن يروح الإمام إذا زالت الشمس فيخطب للناس، ثم ينزل فيجمع بين الصلاتين، ثم يقف بعرفة ثم يدفع إذا غابت الشمس. "ابن جرير".
12556 عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے، فرمایا : حج کی سنت یہ ہے کہ امام (امیر حج) زوال شمس ہوجائے تو جاکر لوگوں کو (میدان عرفات میں) خطبہ دے، پھر اتر کر جمع بین الصلاتین کرے (ظہر عصر کی نماز پڑھائے) پھر عرفہ میں وقوف کرے پھر غروب شمس کے بعد وہاں سے کوچ کرے۔ ابن جریر

12557

12557- عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى الجمرة يوم النحر، ثم قعد للناس فقال: كل عرفة موقف وكل مزدلفة موقف. "ابن جرير".
12557 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر کو رمی جمرہ فرمائی، پھر لوگوں کے آگے بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا : عرفہ سارا موقف ہے اور مزدلفہ سارا موقف ہے۔ ابن جریر۔

12558

12558- عن جابر قال: الإفاضة من عرفة بعد غروب الشمس."ابن جرير".
12558 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : عرفہ کے روز واپسی غروب شمس کے بعد ہوگی۔ ابن جریر

12559

12559- عن بشر بن قدامة الضبابي قال: أبصرت عيناي حبي رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا بعرفات مع الناس على ناقة له حمراء قصواء تحته قطيفة بولانية وهو يقول: اللهم اجعلها حجة غير رياء ولا هباء ولا سمعة، والناس يقولون: هنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن خزيمة والبارودي وابن مندة وأبو نعيم".
12559 بشر بن قدامۃ الضبابی سے مروی ہے کہ میری آنکھیں میرے محبوب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں دیکھ رہی ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قصواء نامی سرخ اونٹنی پر سوار ہیں۔ آپ کے نیچے بولانی چادر (اونٹنی پر) پڑی ہوئی ہے۔ اور آپ دعا فرمار ہیں : اے اللہ ! اس حج کو بغیر ریا (دکھلاوے) والا کردے، اور اس کو مقبول فرما اور اس میں شہرت اور دکھلاوانہ آنے دے۔ جبکہ لوگ کہہ رہے ہیں : ھنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں ہیں۔ ابن خزیمہ، الباوردی، ابن مندہ، ابونعیم

12560

12560- عن عمر قال: الحج الأكبر يوم عرفة. " ابن سعد ش وابن جرير وابن أبي حاتم وأبو الشيخ".
12560 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : حج اکبر عرفہ کا دن ہے۔
ابن سعد، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ

12561

12561- عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عشية عرفة: ناد في الناس لينصتوا، فنادى الناس، أن أنصتوا واستمعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله تعالى قد تطول في جمعكم هذا فوهب مسيئكم لمحسنكم، وأعطى محسنكم ما سأل، فادفعوا على بركة الله وقال: إن الله باهى ملائكته بأهل عرفة عامة وباهى بعمر بن الخطاب خاصة. "كر".
12561 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفہ کی رات بلال (رض) کو فرمایا : لوگوں کو پکارو کہ چپ ہوجائیں۔ چنانچہ حضرت بلال (رض) نے لوگوں میں آواز لگائی : چپ ہوجاؤ اور بات سنو ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس مجمع پر عنایت و توجہ فرمائی ہے، پس تمہاری برائیوں کو اچھائیوں سے بدل دیا اور ہر اچھائی والے کو جو وہ سوال کرے عطا فرمایا ہے پس اللہ کی برکت کے ساتھ (عرفات کی طرف) کوچ کرو۔ نیز فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ اہل عرفہ کے ساتھ ملائکہ پر عمومی فخر فرماتے ہیں اور عمر (رض) کے ساتھ ملائکہ پر خصوصی فخر فرماتے ہیں۔ ابن عساکر

12562

12562- عن ابن عباس قال: كان الفضل بن عباس رديف النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة وكان الفتى يلاحظ النساء فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجهه بيده ويقول: ابن أخي إن هذا يوم من غمض فيه بصره وحفظ فرجه ولسانه غفر له. "ابن زنجويه".
12562 ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : فضل بن عباس عرفہ کے روز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے اور عورتوں کی طرف نظر ڈال رہے تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہاتھ سے چہرے کو پھیر رہے تھے اور ارشاد فرما رہے تھے : بھتیجے ! یہ دن ایسا ہے جس نے اس دن میں اپنی نگاہ نیچی رکھی، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنی زبان کی حفاظت کی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ ابن زنجویہ

12563

12563- عن مجاهد قال: ما من عشية أكثر عتقاء من النار من يوم عرفة لا ينظر الله فيه إلى مختال. "ابن زنجويه".
12563 مجاہد (رح) سے مروی ہے فرمایا : کسی دن عرفہ کے دن سے زیادہ لوگ جہنم سے آزاد نہیں کیے جاتے، لیکن اللہ پاک اس روز اکڑنے والے کی طرف نظر نہیں فرماتے۔ ابن زنجویہ

12564

12564- عن علي قال: أكثر ما دعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة في الموقف: اللهم لك الحمد كالذي تقول وخيرا مما نقول، اللهم لك صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي وإليك مآبي ولك رب تراثي، اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر ووسوسة الصدر وشتات الأمر، اللهم إني أعوذ بك من شر ما تجيء به الريح. "ت وقال: غريب من هذا الوجه وليس إسناده بالقوي وابن خزيمة والمحاملي في الدعاء هب"1 ولفظه: اللهم إني أسألك من خير ما تجيء به الرياح، وأعوذ بك من شر ما تجيء به الرياح.
12564 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر عرفہ کی رات عرفہ میں یہ دعا فرمایا کرتے تھے :
اللھم لک الحمد کالذی تقول وخیر امما تقول، اللھم لک صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی والیک مابی ولک رب تراثی، اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر ورسوسۃ الصدر وشتات الامر، اللھم انی اعوذبک من شرما تجیء بہ الریاح۔
” اے اللہ ! تیرے لیے تمام تعریفیں ہیں، جیسا کہ تو نے خود اپنی حمد فرمائی اور جو ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں تو اس سے بہتر تعریفوں والا ہے، اے اللہ ! تیرے لیے میری نماز ہے، میرا حج ہے، میری زندگی اور موت سب تیرے لیے ہے، تیری طرف میرا واپسی کا ٹھکانا ہے اور میری باقیات سب تیرے لیے ہیں، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے ، سینے کے وسوسوں سے اور معاملے کے بکھر جانے سے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جس کو ہوائیں لے کر آتی ہیں۔ “
سنن الترمذی، وقال غریب من ھذا الوجہ ولیس اسنادہ بالقوی، ابن خزیمہ، المحاملی فی الدعاء، شعب الایمان للبیہقی ، بیہقی کے الفاظ آخر روایت میں یہ ہیں :
اللھم انی اسالک من خیر ماتجی بہ الریاح واعوذبک من شرما تجی، بہ الریاح
اے اللہ ! میں اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس کو ہوائیں لے کر آتی ہیں اور اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کو ہوائیں لے کر آتی ہیں۔

12565

12565- عن علي أنه قال بعرفات: لا أدع هذا الموقف ما وجدت إليه سبيلا لأنه ليس في الأرض يوم فيه عتقاء من النار وليس يوم أكثر عتقا للرقاب فيه من يوم عرفة، فأكثروا في ذلك اليوم أن تقولوا: اللهم أعتق رقبتي من النار، وأوسع لي في الرزق الحلال، واصرف عني فسقة الجن والإنس فإنه عامة ما أدعوك به. "ابن أبي الدنيا في الأضاحي".
12565 حضرت علی (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے عرفات کے روز ارشاد فرمایا : میں اس موقف (عرفات کے قیام) کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا راستہ پاؤں گا کیونکہ روئے زمین پر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس دن عرفہ کے دن سے زیادہ لوگ جہنم سے آزاد کیے جاتے ہوں۔ پس اس دن کثرت سے یہ دعا پڑھا کرو :
اللھم اعتق رقبتی من النار، واوسع لی فی الرزق الحلال واصرف عنی فسقۃ الجن والانس فانہ عامۃ ماادعوک بہ۔
اے اللہ ! میری گردن جہنم کی آگ سے آزاد کر، میرے لیے رزق حلال میں وسعت دے اور جن وانس کے فساق کو مجھ سے دور کردے۔ یہ دعا میں تجھ سے ہر دم کرتا ہوں۔ ابن ابی الدنیا فی الاضاحی

12566

12566- عن علي قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: يا علي، إن أكثر دعاء من كان قبلي من الأنبياء ودعائي يوم عرفة أن أقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيى ويميت وهو على كل شيء قدير اللهم اجعل في بصري نورا، وفي سمعي نورا، وفي قلبي نورا، اللهم اشرح لي صدري، ويسر لي أمري، اللهم إني أعوذ بك من وسواس الصدر وشتات الأمر وفتنة القبر، وشر ما يلج في الليل وشر ما يلج في النهار وشر ما تجري به الرياح وشر بوائق الدهر. "ش والجندي والعسكري في المواعظ هق1 وقال: تفرد به موسى وهو ضعيف ولم يدرك عليا خط في تلخيص المتشابه" وقال رواية عبد الله بن عبيدة الربذي عن أخيه موسى بن عبيدة الربذي عن علي مرسلة.
12566 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے علی ! مجھ سے پہلے اکثر انبیاء کی دعا اور میری دعا عرفہ کے روز یہ ہے :
لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو علی کل شیء قدیر اللھم اجعل فی بصری نوراً وفی سمعی نوراً وفی قلبی نوراً اللھم اشرح لی صدری ویسرلی امری، اللھم انی اعوذبک من وسواس الصدور وشتات الامر وفتنۃ القبر، وشرمایلج فی اللیل وشر مایلج فی النھار وشرما تجری بہ الریاح وشربوائق الدھر۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اسی کی ہے، اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! میری نگاہوں میں نور کردے، میرے کانوں میں نور کردے اور میرے دل میں نور کردے، اے اللہ میرے سینے کو کھول دے، میرا کام مجھ پر آسان کردے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، سینوں کے وسوسوں سے، معاملات کے بگڑنے سے، قبر کے فتنے سے، اور اس شر سے جو رات میں داخل ہوتا ہے اور اس شر سے جو دن میں داخل ہوتا ہے اور اس شر سے جس کو ہوائیں لے کر آتی ہیں اور تیری پناہ مانگتا ہوں زمانے کے تمام شرور سے۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الجندی، العسکری فی المواعظ، السنن للبیہقی ، الخطیب فی تلخیص المتشابہ
کلام : اس روایت میں موسیٰ متفرد ہے اور وہی ضعیف ہے، نیز اس نے علی (رض) کو نہیں پایا ۔ خطیب فرماتے ہیں عبداللہ بن عبیدہ الربذی کی روایت اپنے بھائی موسیٰ بن عبیدۃ ربذی کے واسطہ سے حضرت علی (رض) سے منقول شدہ مرسل ہے۔

12567

12567- عن موسى بن عبيدة عن علي قال: كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحي ويميت، بيده الخير وهو على كل شيء قدير، اللهم اجعل في سمعي نورا، وفي بصري نورا، وفي قلبي نورا، اللهم اغفر لي ذنبي، ويسر لي أمري، واشرح لي صدري، اللهم إني أعوذ بك من وسواس الصدر، وشتات الأمر، ومن عذاب القبر، اللهم إني أعوذ بك من شر ما يلج في الليل، وشر ما يلج في النهار، وشر ما تهب به الرياح وشر بوائق الدهر. "المحاملي في الدعاء والعسكري في المواعظ والخرائطي في مكارم الأخلاق".
12567 موسیٰ بن عبیدۃ سے حضرت علی (رض) کی روایت مروی ہے، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا عرفہ کی رات کو یہ ہوا کرتی تھی :
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحی ویمیت بیدہ الخیر وھو علی کل شیء قدیر اللھم اجعل فی سمعی نوراً وفی بصری نوراً وفی قلبی نوراً اللھم اغفرلی ذنبی ویسرلی امری واشرح لی صدری، اللھم انی اعوذبک من وسواس الصدر، وشتات الامر ومن عذاب القبر، اللھم انی اعوذبک من شر مایلج فی اللیل وشر مایلج فی النھار، وشرما لقب بہ الریاح وشربوائق الدھر۔
المحاملی فی الدعاء والعسکری فی المواعظ والخرائطی فی مکارم الاخلاق۔

12568

12568- عن علي قال: يجتمع في كل يوم عرفة بعرفات جبريل وميكائيل وإسرافيل والخضر فيقول جبريل: ما شاء الله لا قوة إلا بالله، ويرد عليه ميكائيل ويقول: ما شاء الله كل نعمة من الله، فيرد عليهما إسرافيل فيقول: ما شاء الله الخير كله بيد الله، فيرد عليهم الخضر فيقول: ما شاء الله لا يدفع السوء إلا الله، ثم يتفرقون، فلا يجتمعون إلا إلى قابل في مثل ذلك اليوم. "ابن النجار".
12568 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : عرفات (کے میدان) میں ہر عرفہ کو جبرائیل (علیہ السلام) ، میکائیل (علیہ السلام) ، اسرافیل (علیہ السلام) ، اور خضر (علیہ السلام) جمع ہوتے ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ، جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور کسی نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے میکائیل (علیہ السلام) اس کا جواب دیتے ہیں : ماشاء اللہ کل نعمۃ من اللہ، ماشاء اللہ ہر نعمت اللہ کی طرف سے ہے اسرافیل (علیہ السلام) دونوں کو جواب دیتے ہیں : ماشاء اللہ الخیر کلہ بیداللہ ماشاء اللہ لا یدفع السوء الا باللہ، ماشاء اللہ کوئی برائی اللہ کی مدد کے بغیر دور نہیں ہوسکتی پھر سب متفرق ہوجاتے ہیں پھر اگلے سال اسی دن سے پہلے جمع نہیں ہوتے۔ ابن النجار

12569

12569- عن أبي سعيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو بعرفة ويرفع يديه هكذا يجعل ظاهرهما مما يلي وجهه، وباطنهما مما يلي الأرض. "ش".
12569 ابوسعید (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ کے روز دعا کیا کرتے تھے اور دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتے تھے کہ دونوں ہاتھوں کی پشت چہرہ مبارک کی طرف کرلیتے اور اندرونی حصہ زمین کی طرف رکھتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12570

12570- عن الهيثم بن حنش أنه سمع ابن عمر بعرفات وهو يقول: اللهم اجعله حجا مبرورا وذنبا مفغورا، قال: فقلت له: فما يمنعك من التلبية؟ قال: قد لبينا والتسبيح والتكبير اليوم أفضل. "ابن جرير".
12570 ھیثم بن حنش سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرفات میں یہ دعا کرتے ہوئے سنا :
اللھم اجعلہ حجا مبروراً وذنباً مغفوراً ۔
اے اللہ ! اس حج کو نیکیوں والا (اور مقبول) بنا اور (اس کے طفیل) سارے گناہوں کو معاف فرما۔
ھیثم کہتے ہیں میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : آپ تلبیہ (لبیک الخ) کیوں نہیں کہتے ؟ ارشاد فرمایا : ہم (اس سے پہلے) تلبیہ کہہ چکے ہیں اور آج کے دن تسبیح وتکبیر افضل ہے۔ ابن جریر

12571

12571- عن عمر رضي الله عنه أنه مر بقوم بعرفة فنهاهم عن صوم يوم عرفة. "مسدد وابن جرير".
12571 حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ (رض) عرفہ کے روز کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو ان کو عرفہ کے روز روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ مسدد ابن جریر

12572

12572- عن عباد العصري قال: وقف علينا عمر بن الخطاب يوم عرفة، ونحن بعرفات فقال: لمن هذه الأخبية؟ قالوا: لعبد القيس، فاستغفر لهم، ثم قال: هذا يوم الحج الأكبر لا يصومه أحد. "ابن سعد وابن جرير".
12572 عبادالعصری سے مروی ہے فرمایا : عرفہ کے روز حضرت عمر (رض) ہمارے پاس کھڑے ہوئے، ہم عرفات کے میدان میں تھے۔ آپ (رض) نے پوچھا : یہ خیمے کس کے لگے ہوئے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : یہ خیمے عبدالقیس کے ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ان کے لیے استغفار کیا اور پھر فرمایا : یہ حج اکبر کا دن ہے اس دن کوئی روزہ نہیں رکھتا۔ ابن سعد، ابن جریر

12573

12573- عن عكرمة قال: كان عمر واقفا بعرفات، وعن يمينه سيد أهل اليمن، فأتي بشراب فشرب، ثم ناوله سيد أهل اليمن، فقال: إني صائم فقال: أقسمت عليك لما شربت وسقيت أصحابك. "ابن جرير".
12573 حضرت عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) میدان عرفات میں کھڑے تھے، ان کے دائیں طرف اہل یمن کے سردار تھے ۔ پھر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پینے کا پانی لایا گیا آپ (رض) نے وہ پیا پھر وہ اہل یمن کے سردار کو تھما دیا، انھوں نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو خود بھی پی اور اپنے ساتھیوں کو بھی پلا۔ ابن جریر

12574

12574- عن إبراهيم قال: صيام عرفة يعدل سنة قبله وسنة بعده وصوم عاشوراء كفارة سنة. "ابن جرير".
12574 حضرت ابراہیم سے مروی ہے فرمایا : عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال اگلے روزوں کے برابر ہے۔ اور عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ابن جریر

12575

12575- عن مجاهد قال: صيام عرفة يعدل سنة قبله وسنة بعده. "ابن جرير".
12575 مجاہد (رح) سے مروی ہے عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے روزوں کے برابر ہے۔ ابن جریر

12576

12576- عن ميمونة قالت: إن الناس شكوا في صيام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة فأرسلت إليه أم الفضل بحلاب وهو واقف في الموقف فشرب منه والناس ينظرون. "ابن جرير".
12576 میمونہ سے مروی ہے فرمایا : عرفہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے کے بارے میں لوگوں کو شک ہوا تو ام الفضل نے ایک دودھ کا برتن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقف (عرفات) میں کھڑے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ دودھ پیا اور لوگ دیکھ رہے تھے۔ ابن جریر

12577

12577- عن سعيد بن جبير قال: سأل رجل عبد الله بن عمر عن صوم يوم عرفة، فقال: كنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نعدله بصوم سنة. "ابن جرير".
12577 حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے فرمایا : ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر (رض) سے عرفہ کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب ہوتے تھے تو اس کو ایک سال کے روزوں کے برابر سمجھتے تھے۔ ابن جریر

12578

12578- عن أبي نجيح أن رجلا سأل ابن عمر عن صوم عرفة، فقال: حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يصمه، ومع أبي بكر فلم يصمه، ومع عمر فلم يصمه، ومع عثمان فلم يصمه، وأنا لا أصومه، ولا أنهاك عنه. "ابن جرير".
12578 ابو نجیح سے مروی ہے ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے عرفہ کے روزے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کیا تو انھوں نے روزہ نہیں رکھا۔ ابوبکر (رض) کے ساتھ (حج) کیا انھوں نے بھی روزہ نہیں رکھا اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ (حج) کیا انھوں نے بھی روزہ نہیں رکھا اور عثمان (رض) کے ساتھ کیا انھوں نے بھی نہیں رکھا اور میں بھی اس دن کا روزہ نہیں رکھتا اور لیکن روکتا بھی نہیں ہوں۔ ابن جریر

12579

12579- عن ابن عباس أنهم تماروا في صوم النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة فأرسلت إليه أم الفضل بلبن وهو يخطب الناس فشربه. "ابن جرير" وصححه.
12579 ابن عباس (رض) سے مروی ہے لوگوں کو عرفہ کے روز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روزے میں شک ہوا تو ام الفضل (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے چنانچہ آپ نے پی لیا۔ ابن جریر، صحیح

12580

12580- عن ابن عباس قال: أفطر رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة وبعثت إليه أم الفضل بلبن فشربه. "ابن جرير".
12580 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عرفہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ نہیں رکھا اور ام الفضل نے آپ کو دودھ بھیجا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ نوش فرمالیا۔ ابن جریر

12581

12581- عن عطاء قال: من أفطر يوم عرفة ليتقوى به على الدعاء كتب الله له مثل أجر الصائم. "ابن جرير".
12581 عطاءؒ سے مروی ہے جس نے عرفہ کے روز اس غرض سے روزہ نہ رکھا تاکہ دعا (ذکر وغیرہ) میں تقویت حاصل ہو تو اللہ پاک اس کو روزہ دار کا اجر عنایت فرمائیں گے۔ ابن جریر

12582

12582- عن الفضل بن عباس قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم شرب يوم عرفة. "ابن جرير".
12582 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرفہ کے روز دودھ نوش فرماتے ہوئے دیکھا۔ ابن جریر

12583

12583- "مسند عمر رضي الله عنه" عن نهيك بن عبد الله أن عمر بن الخطاب أفاض من عرفات وهو بينه وبين الأسود بن يزيد فلم يزل على سير واحد حتى أتى منى. "ابن سعد".
12583 (مسند عمر (رض)) نہیک بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) عرفات سے واپسی ہوئے نہیک فرماتے ہیں : میں حضرت عمر اور اسود بن یزید کے درمیان تھا۔ آپ (رض) مسلسل ایک ہی (نرم) رفتار سے چلتے رہے حتیٰ کہ منیٰ پہنچ گئے۔ ابن سعد

12584

12584- عن علقمة والأسود أنهما أفاضا مع عمر بن الخطاب من عرفات إلى جمع فسمعاه يقول: أيها الناس عليكم بالسكينة، فإن البر ليس في عدو الإبل. "ابن خسرو".
12584 علقمہ اور اسود سے مروی ہے کہ یہ دونوں حضرات حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ میدان عرفات سے مزدلفہ واپس ہوئے ۔ دونوں نے حضرت عمر (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
اے لوگو ! تم پر سکینہ (اطمینان اور وقار) لازم ہے۔ بیشک نیکی اونٹوں کو دوڑانے میں نہیں ہے۔ ابن خسرو

12585

12585- عن عمر أنه أفاض من عرفة وكانت تلبيته: لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك، وهو على بعير يعنق1 والإبل تعنق ما تدركه. "مسدد".
12585 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ عرفات سے واپس ہوئے تو یہ تلبیہ پڑھ رہے تھے :
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک۔
نیز آپ (رض) گردن اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے اور اونٹ ایک ہی رفتار سے چل رہا تھا۔ مسدد

12586

12586- عن عروة بن الزبير أن عمر بن الخطاب حين دفع من عرفة قال: إليك تعدوا قلقا وضينها... مخالفا دين النصارى دينها "الشافعي في الأم عب ص"
12586 عروہ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جب عرفہ سے واپس ہورہے تھے تو یہ شعر کہہ رہے تھے :
اے الٰہ یہ سواریاں تیری طرف دوڑتی آرہی ہیں ان کے پالان مسلسل حرکت میں ہیں اور ان سواریوں والوں کا دین ، دین نصاریٰ کی مخالفت کرتا ہے۔
الشافعی فی الام، الجامع لعبدالرزاق، السنن لسعید بن منصور۔
کلام : امام طبرانی نے اپنی کبیر اور اوسط میں اس کو نقل کیا ہے اور اس میں ایک راوی عاصم بن عبیداللہ ضعیف ہے۔ اور امام طبرانی (رح) فرماتے ہیں مشہور یہ ہے کہ یہ روایت ابن عمر (رض) سے منقول ہے۔
مجمع الزوائد 256/3

12587

12587- عن الأسود قال: أفضت مع عمر الإفاضتين جميعا فلم يصل دون جمع، فلما انتهى إلى جمع صلى المغرب والعشاء كل واحدة منهما بأذان وإقامة وفصل بينهما بعشاء وحديث. "ابن جرير".
12587 اسود سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : میں حضرت عمر (رض) کے ساتھ دونوں واپسیوں میں ساتھ تھا۔ آپ (رض) نے (عرفہ سے واپسی کے بعد) مزدلفہ کے علاوہ (راستے میں) نماز نہیں پڑھی۔ جب آپ (رض) مزدلفہ میں پہنچ گئے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور ہر ایک کو علیحدہ اذان و اقامت کے ساتھ ادا کیا اور دونوں کے درمیان رات کے کھانے اور گفتو کے ساتھ فصل کیا۔ ابن جریر

12588

12588- عن الأسود قال: أفاض عمر حين غربت الشمس من عرفة. "ابن جرير".
12588 اسود سے مروی ہے فرمایا : حضرت عمر (رض) نے عرفہ سے واپسی غروب شمس کے بعد کی۔
ابن جریر

12589

12589- عن الأسود قال: أفضت مع عمر الإفاضتين جميعا على حالة واحدة ما يزيد بعيره على العنق، وأفاض من جمع قبل طلوع الشمس على سير واحد العنق لا يزيد عليه لم يوضع في واحدة من الإفاضتين حتى انتهى إلى جمرة العقبة. "ابن جرير".
12589 حضرت اسود سے مروی ہے، فرمایا : میں نے حضرت عمر (رض) کے ساتھ دونوں افاضوں (عرفات ومزدلفہ سے واپسی) میں شرکت کی، آپ (رض) کی سواری ایک حالت پر رواں دواں تھی۔ جو شروع میں چا تھی آخر تک اس میں اضافہ نہیں فرمایا، آپ (رض) نے مزدلفہ سے واپسی طلوع شمس سے قبل فرمائی ایک ہی پہلی رفتار پر، اور دونوں واپسیوں میں کہیں قیام نہیں کیا حتیٰ کہ آپ جمرہ عقبہ پہنچ گئے۔ ابن جریر

12590

12590- عن إبراهيم قال: قال عمر لما رأى سرعة الناس في الإفاضة من جمع وعرفة: والله إني لأعلم أن البر برفعها أذرعها ولكن البر شيء تصبر عليه القلوب. "ابن جرير".
12590 ابراہیم (رح) سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جب لوگوں کو مزدلفہ اور عرفات سے واپسی پر تیزی رفتاری میں دیکھا تو ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ میں جانتا ہوں کہ سواری کے (ہر) قدم اٹھانے پر نیکی ہے اور آہستہ چلنے میں زیادہ قدم اٹھتے ہیں، اور اصل بات یہ ہے کہ نیکی ایسی چیز ہے جس پر دلوں کو صبر و سکون آجائے۔ ابن جریر

12591

12591- عن معرور بن سويد قال: رأيت عمر بن الخطاب رجلا أصلع على بعير يقول: يا أيها الناس؛ أوضعوا فإنا وجدنا الإفاضة الإيضاع. "ابن جرير".
12591 معرور بن سوید سے مروی ہے، فرمایا : میں نے عمر بن خطاب کو دیکھا وہ اونٹ پر سوار ایک گنجے سر والے شخص تھے، فرما رہے تھے : اے لوگو ! اوضعوا فانا وجدنا الا فاضہ الایضاع، تیز چلو، بیشک ہم نے واپسی کو تیزی میں پایا ہے۔ ابن جریر

12592

12592- عن أسامة قال: ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى جمع، فأتى على شعب فنزل فاهراق الماء ثم لم يصل حتى أتى جمعا. "ط".
12592 حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھ کر آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھاٹی پر آئے اور نیچے اترے پھر پانی بہایا اور نماز پڑھے بغیر مزدلفہ تشریف لے آئے۔ مسند ابی داؤد الطیالسی

12593

12593- وعنه قال: ردفت رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات، فلما بلغ الشعب الأيسر الذي دون المزدلفة أناخ فبال، ثم جاء فصببت عليه الوضوء فتوضأ وضوءا خفيفا، ثم قلت: الصلاة يا رسول الله قال: الصلاة أمامك، فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتى المزدلفة فصلى، ثم ردف الفضل رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة جمع. "حم خ م".
12593 حضرت اسامہ (رض) ہی سے مروی ہے کہ میں عرفات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف (سواری کے پیچھے بیٹھنے والا) بن کر آیا۔ مزدلفہ سے پہلے بائیں طرف کی گھاٹی میں پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری بٹھا دی، پیشاب کیا پھر تشریف لائے اور میں نے آپ کو وضو کروایا۔ آپ نے ہلکے پھلکے منہ ہاتھ دھوئے۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! نماز (قائم کریں کیا ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نماز آگے ہوگی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوگئے اور میدان مزدلفہ تشریف لائے اور وہاں نماز پڑھی۔ پھر مزدلفہ کی صبح کو آپ کے ردیف فضل بن عباس بن گئے۔ مسند احمد، البخاری، مسلم

12594

12594- وعنه قال: دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة حتى إذا كان بالشعب نزل فبال، ثم توضأ ولم يسبغ الوضوء فقلت له: الصلاة، قال: الصلاة أمامك، فركب فلما جاء المزدلفة نزل وتوضأ فأسبغ الوضوء ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب؛ ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله، ثم أقيمت العشاء فصلاها ولم يصل بينهما شيئا. "مالك حم والحميدي خ م د ن والعدني وابن جرير وأبو عوانة والطحاوي حب"
12594 حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ سے واپس ہوئے حتیٰ کہ جب گھاٹی میں پہنچ گئے تو اتر کر پیشاب کیا پھر وضو کیا لیکن پورا وضو نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا : نماز ؟ فرمایا : نماز آگے ہوگی، چنانچہ پھر سوار ہوگئے اور جب مزدلفہ پہنچ گئے تو اتر کر وضو کیا اور کامل وضو کیا پھر نماز کھڑی ہوئی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی۔ پھر ہر آدمی نے اپنا اونٹ اپنی اپنی جگہ بٹھا دیا۔ پھر عشاء کی نماز کھڑی ہوئی اور آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ موطا امام مالک، مسند احمد، الحمیدی، البخاری، مسلم ، ابوداؤد، النسائی، العدنی، ابن جریر، ابوعوانہ، الطحاوی، مسند ابن حبان

12595

12595- عن عروة قال: سئل أسامة بن زيد وأنا شاهد وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أردفه من عرفات كيف كان يسير رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أفاض من عرفات؟ قال: كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص"ط حم والحميدي خ م والدارمي والعدني د ن هـ وابن جرير وابن خزيمة وأبو عوانة والطحاوي"
12595 حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں میں موجود تھا کہ حضرت اسامہ بن زید (رض) جو عرفات سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے سے کسی نے پوچھا : عرفات سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفتار کیسی تھی ؟ تو حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا : جس رفتار سے نکلے تھے اسی رفتار پر آخر تک چلے۔ ہاں کہیں کشادگی آجاتی تو حرکت (تیز) فرما دیتے تھے۔
ابوداؤد الطیالسی، مسند احمد، الحمیدی، البخاری، مسلم، الدارمی، العدنی، ابن داؤد، النسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن خزیمہ، ابوعوانۃ، الطحاوی

12596

12596- عن الشعبي قال حدثني أسامة بن زيد أنه أفاض مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم ترفع راحلته يدا عادية حتى أتى المزدلفة. "ط حم وابن جرير وقط في الأفراد".
12596 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ مجھے اسامہ بن زید (رض) نے بتایا کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ افاضہ (واپسی) کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری نے کوئی قدم اپنی عادت سے زیادہ تیز نہیں اٹھایا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ پہنچ گئے۔
ابوداؤد، مسند احمد، ابن جریر، الدار قطنی فی الافراد

12597

12597- عن أسامة قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة فلما وقعت الشمس دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم. "حم د" زاد "حم قط في الأفراد" ولما سمع حطمة الناس خلفه قال: رويدا أيها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع فكان إذا التحم عليه الناس أعنق وإذا وجد فرجة نص حتى مر بالشعب الذي يزعم كثير من الناس أنه صلى فيه، فنزل فبال ثم جئته بالإداوة فتوضأ ثم قلت:الصلاة يا رسول الله فقال: الصلاة أمامك، فركب وما صلى حتى أتى المزدلفة فنزل بها فجمع بين الصلاتين المغرب والعشاء.
12597 اسامہ (رض) سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں عرفہ کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف (ہم سوار) تھا۔ جب سورج غروب ہوا تھا تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپسی کا سفر شروع فرمایا تھا۔ مسند احمد، ابن داؤد
مسند احمد اور امام احمد کی افراد میں یہ اضافہ بھی منقول ہے :
اور جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیچھے لوگوں کا ازدحام سنا تو ارشاد فرمایا : اے لوگو ! آہستہ روی اختیار کرو، وقار اور سکون کو لازم پکڑو۔ بیشک تیز چلنا نیکی نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لوگوں کو ازدحام کرتے ہوئے دیکھتے تو پہلی آہستہ رفتاری پکڑ لیتے اور جب (راستے کی) کشادگی پاتے تو تیز ہوجاتے، حتیٰ کہ اس گھاٹی پر گزرے جس کے متعلق اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں نماز پڑھی تھی (لیکن صحیح بات یہ ہے کہ) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں اترے تو میں آپ کے پاس وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا آپ نے (ہلکا پھلکا) وضو کیا۔ میں نے عرض کیا : نماز کا ارادہ ہے یارسول اللہ ! ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نماز آگے ہوگی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوگئے اور کوئی نماز نہیں پڑھی حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے پھر وہاں اتر کر مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا۔

12598

12598- عن الحكم بن عتيبة عن أسامة بن زيد أنه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس البر بإيجاف1 الخيل ولا الركاب ولكن البر السكينة والوقار فما رفعت ناقته يدها تشتد حتى نزل جمعا. "العدني".
12598 حکم بن عتیبہ اسامہ بن زید (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (اسامہ) عرفات سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نیکی گھوڑے اور اونٹ کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے۔ بلکہ نیکی تو سکینہ (اطمینان ) اور وقار کے ساتھ چلنے میں ہے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی نے اپنا کوئی قدم تیزی کے ساتھ نہیں اٹھایا حتیٰ کہ آپ مزدلفہ آپہنچے۔ العدنی

12599

12599- عن عطاء قال: أردف النبي صلى الله عليه وسلم أسامة بن زيد حتى أتى جمعا فلما جاء الشعب الذي يصلى فيه الخلفاء الآن المغرب نزل، فأهراق الماء2 ثم توضأ، فلما رأى أسامة نزول النبي صلى الله عليه وسلم نزل أسامة فلما توضأ النبي صلى الله عليه وسلم وفرغ؛ قال لأسامة: لم نزلت؟ ثم عاد أسامة فركب معه، ثم انطلق حتى جاء جمعا فصلى بها المغرب فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يلبي في ذلك حتى دخل جمعا يخبر ذلك عنه أسامة بن زيد. "العدني".
12599 عطاءؒ سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (عرفات سے واپسی پر) اسامہ بن زید (رض) کو ردیف بنایا حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ تشریف لے آئے، عطاء فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مزدلفہ سے پہلے) اس گھاٹی میں پہنچے جہاں آج خلفاء مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اترے اور پانی بہایا پھر وضو کیا جب اسامہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اترتے دیکھا تو خود بھی اتر آئے تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو اسامہ کو پوچھا : تم کیوں اترے ؟ پھر اسامہ (رض) واپسی سواری پر بیٹھ گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سوار ہوگئے اور سواری چلا دی، حتیٰ کہ مزدلفہ تشریف لے آئے۔ وہاں نماز مغرب ادا فرمائی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سفر میں تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ مزدلفہ داخل ہوگئے۔
حضرت عطاءؒ مذکورہ روایت اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں۔ العدنی

12600

12600- عن أسامة بن زيد قال: أفضت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما بلغ الشعب الذي ينزل عنده الأمراء نزل فبال فتوضأ، قلت: الصلاة قال: الصلاة أمامك فلما انتهى إلى جمع أذن وأقام ثم صلى المغرب ثم لم يحل أحد من الناس حتى قام فصلى العشاء. "هـ ابن جرير".
12600 اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں واپسی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس گھاٹی میں پہنچے جہاں امراء و حکام اترتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں اترے، پیشاب کیا پھر وضو فرمایا۔ میں نے پوچھا : نماز کا ارادہ ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نماز آگے ہوگی۔ چنانچہ جب مزدلفہ پہنچے تو اذان و اقامت فرمائی (یعنی حکم دیا) پھر مغرب کی نماز پڑھی پھر کسی نے اپنی سواری کے سامان وغیرہ کو اتارا نہیں حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور عشاء کی نماز ادا فرمائی۔ ابن ماجہ، ابن جریر

12601

12601- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أفاض من عرفة وأسامة ردفه، قال أسامة: فما زال يسير على هيئته حتى يأتي جمعا. "م"
12601 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ سے واپس ہوئے اور اسامہ بن زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے۔ اسامہ کہتے ہیں : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی رفتار پر چلتے رہے حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے۔ مسلم

12602

12602- عن أسامة قال: أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة، وأما رديفه فجعل يكبح3 راحلته حتى أن ذفراها4 لتكاد تصيب قادمة الرحل وهو يقول: يا أيها الذين آمنوا عليكم بالسكينة والوقار فإن البر ليس في إيضاع الإبل. "ن ابن جرير".
12602 اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ سے واپس ہوئے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری کی لگام اس حد تک کھینچ رہے تھے کہ اونٹنی کے کان کجاوے کے اگلے حصے کو چھو رہے تھے اور ساتھ ساتھ ارشاد فرماتے جارہے تھے :
اے لوگو ! سکون (اطمینان) اور وقار کو لازم پکڑو۔ بیشک نیکی اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے۔ النسائی ، ابن جریر

12603

12603- عن ابن عباس عن أسامة بن زيد وكان النبي صلى الله عليه وسلم أردفه يوم عرفة فلما أتى الشعب، نزل فبال ولم يقل: أهراق الماء فصببت عليه من إداوة فتوضأ وضوءا خفيفا؛ فقلت: الصلاة فقال: الصلاة أمامك فلما أتى المزدلفة صلى المغرب، ثم نزعوا رحالهم، ثم صلى العشاء. "ن".
12603 ابن عباس (رض) سے مروی ہے وہ اسامہ بن زید (رض) سے روایت کرتے ہیں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ردیف بنا رکھا تھا، چنانچہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھاٹی میں پہنچے تو نیچے اترے اور پیشاب کیا۔ یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا۔ حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں : پھر میں نے برتن سے آپ کے لیے پانی گرایا اور آپ نے ہلکا پھلکا وضو فرمایا۔ میں نے عرض کیا : نماز۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نماز آگے ہے۔ پھر مزدلفہ تشریف لائے تو مغرب کی نماز ادا فرمائی۔ پھر لوگوں نے کجاوے اتارے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز پڑھی۔ النسائی

12604

12604- عن كريب أنه سأل أسامة بن زيد قلت: أخبرني كيف فعلتم عشية ردفت النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: جئنا الشعب الذي ينيخ الناس للمغرب، فأناخ رسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته، ثم بال وما قال أهراق الماء ودعا بالوضوء فتوضأ وضوءا ليس بالبالغ جدا قلت: يا رسول الله الصلاة قال: الصلاة أمامك؛ فركب حتى قدمنا المزدلفة، وأقام المغرب، ثم أناخ الناس في منازلهم ولم يحلوا حتى أقام العشاء ثم حل الناس، قلت: كيف فعلتم حين أصبحتم؟ قال: ردفه الفضل، وانطلقت أنا في سباق قريش على رجلي. "كر".
12604 کریب (رح) سے مروی ہے، انھوں نے حضرت اسامہ بن زید سے سوال کیا کہ مجھے بتائیے جس شام آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے اس شام کیا ہوا ؟ حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا : ہم اس گھاٹی میں پہنچے جس میں لوگ مغرب کی نماز پڑھتے ہیں وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اونٹنی بٹھائی پھر پیشاب کیا اور یہ نہیں فرمایا : پانی بہایا (یعنی پیشاب کیا کے الفاظ استعمال کیے بجائے پانی بہایا کے) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کا پانی منگوایا اور وضو کیا اور خوب اچھی طرح وضو نہیں فرمایا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! نماز ؟ ارشاد فرمایا : نماز آگے ہے پھر صبح کو کیا حالات آپ کو پیش آئے ؟ حضرت اسامہ (رض) نے فرمایا : صبح کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف فضل (بن عباس) بن گئے جبکہ میں اپنے قدموں پر قریش کے آگے جانے والوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔ ابن عساکر۔

12605

12605- عن أسامة أن النبي صلى الله عليه وسلم أردفه من عرفة، ولما رجع من عرفة فوقف كف رأس راحلته حتى أصاب رأسها واسطة الرحل أو كاد يصيبه يشير إلى الناس بيده السكينة السكينة حتى أتى جمعا ثم أردف الفضل قال الفضل: لم يزل يسير سيرا لينا كسيره بالأمس حتى أتى على وادي محسر، فدفع فيه حتى استوت به الأرض. "حم والروياني".
12605 حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : عرفہ سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنا ردیف بنایا۔ عرفہ سے واپسی پر آپ اپنی سواری کی مہار کو اس حد تک کھینچ رہے تھے کہ سواری کا سرکجاوے کے درمیان حصے کو چھورہا تھا یا فرمایا چھونے کے قریب ہورہا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہاتھ کے ساتھ لوگوں کو پرسکون رہنے کا اشارہ فرمارے تھے حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ پہنچ گئے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل کو اپنا ردیف بنالیا۔ فضل فرماتے ہیں : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری اسی کل کے دن کی طرح نرم رفتاری سے چل رہی تھی حتیٰ کہ آپ وادی محسرپہنچ گئے اور سواری بٹھادی۔ مسند احمد، الرویانی

12606

12606- عن طاوس عن أسامة بن زيد أنه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى المزدلفة، وكان الفضل رديفه من المزدلفة إلى منى قال: فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12606 طاؤ وس ، اسامہ بن زید (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے اور فضل مزدلفہ سے منی تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عرفہ سے) مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ نے شیطان کو کنکر ماری (تب تلبیہ موقوف فرمادیا) ۔ ابن جریر

12607

12607- عن أسامة بن زيد أنه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى جمع، قال: أفضت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتى جمعا فصلى المغرب ولم يكن إلا قدر ما وضعنا عن رواحلنا، ثم صلى العشاء. "ابن جرير".
12607 اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ وہ عرفہ سے مزدلفہ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے ، فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ واپسی کے سفر میں پیچھے بیٹھا تھا حتیٰ کہ آپ مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب کی نماز پڑھی اور پھر اتنی دیر ٹھہرے جس میں ہم اپنی سواریوں سے کجاوے اتارلیں پھر عشاء کی نماز پڑھی۔ ابن جریر

12608

12608- عن أم جندب الأزدية أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول حيث أفاض الناس من عرفات: يا أيها الناس عليكم السكينة والوقار. "ابن جرير".
12608 ام جندب ازدیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب لوگ عرفات سے واپس ہورہے تھے ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! تم سکون اور وقار کو لازم پکڑو۔ ابن جریر۔

12609

12609- عن عبيد الله بن أبي رافع عن أبي رافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف عشية عرفة، وأردف أسامة بن زيد فقال: هذا الموقف وكل عرفة موقف، وارفعوا عن بطن عرنة ثم دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين وجبت الشمس يسير العنق، والناس يضربون يمينا وشمالا، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يلتفت يمينا وشمالا ويقول: أيها الناس؟ عليكم السكينة حتى جاء المزدلفة، فجمع بين المغرب والعشاء حتى إذا أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غدا حتى وقف على قزح وأردف الفضل بن عباس، ثم قال: هذا الموقف وكل المزدلفة موقف وارفعوا عن بطن محسر ثم دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أسفر يسير العنق والناس يضربون يمينا وشمالا ورسول الله صلى الله عليه وسلم يلتفت يمينا وشمالا ويقول: السكينة عليكم أيها الناس، حتى جاء بطن محسر فحرك ناقته ورسمت به حتى إذا جاوز بطن محسر ردها إلى سيرها الأول، حتى جاء العقبة فرماها بسبع حصيات، ثم جاءته جارية من خثعم فقالت: يا رسول الله أبي شيخ كبير وأدركته فريضة الإسلام التي افترض الله عليه، أفيجزئ عنه أن أحج عنه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، وكان الفضل غلاما جميلا فإذا جاءت الجارية صرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وجهه إلى الشق الآخر، ثم سار رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جاء البيت فطاف به سبعا، ثم انصرف إلى زمزم فأتى بسجل من ماء زمزم فتوضأ ثم قال: انزعوا على سقايتكم يا بني عبد المطلب فلولا أن يغلبكم الناس عليها لنزعت فقال له العباس: يا رسول الله رأيتك تصرف وجه ابن عمك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رأيت جارية حدثة وغلاما حدثا فخشيت أن يدخل بينهما الشيطان. "ابن جرير".
12609 عبیداللہ بن ابی رافع سے مروی ہے، وہ ابورافع (رض) سے روایت کرتے ہیں، ابورافع فرماتے ہیں کہ عرفہ کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل بن عباس اور اسامہ بن زید کو اپنا ردیف بنایا اور فرمایا یہ موقف (کھڑے ہونے کی جگہ) ہے اور عرفہ سارا موقف ہے۔ لیکن بطن عرفہ سے دور رہو۔ عرفہ کے روز جب سورج غروب ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی (آہستہ) رفتار پر چلے جبکہ لوگ دائیں اور بائیں چل رہے تھے۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں بائیں متوجہ ہو کر ارشاد فرما رہے تھے : اے لوگو ! سکون ووقار کو اپناؤ۔ حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ پہنچ گئے۔ وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغرب اور عشاء کی نماز کو جمع فرمایا۔ جب مزدلفہ میں صبح ہوگئی تو وہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوچ فرمانے لگے پہلے قزح پر کھڑے ہوگئے اور فضل بن عباس کو ردیف بنایا۔ پھر ارشاد فرمایا : یہ موقف ہے اور سارا مزدلفہ موقف ہے لیکن بطن محسر سے دور رہو۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا جبکہ صبح روشن ہوچکی تھی۔ آپ نرم رفتار سے چل رہے تھے لوگ دائیں بائیں چل رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں بائیں متوجہ ہو کر فرما رہے تھے : اے لوگو ! سکینہ اپناؤ (سکون کے ساتھ چلو) حتیٰ کہ آپ وادی بطن محسر میں پہنچ گئے وہاں آپ نے سواری کو تیز حرکت دی حتیٰ کہ جب وادی بطن محسر کو عبور کر گئے تو سواری کو پہلی رفتار پر لوٹا دیا۔ جب جمرہ عقبہ پر پہنچے تو اس کو سات کنکریاں ماریں۔ پھر حتعم قبیلے کی ایک لڑکی آئی اور بولی : یا رسول اللہ ! میرے والد بوڑھے آدمی ہیں اور ان پر حج فرض ہوچکا ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں۔ فضل (جو حضور کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے) وہ خوبصورت جوان تھے۔ جب لڑکی آئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں سے کوچ فرمایا حتیٰ کہ بیت اللہ تشریف لائے اور بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر زمزم پر گئے تو آپ کے پاس زمزم کا پانی کا ڈول بھر کر لایا گیا آپ نے وضو فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا : اے بنی عبدالمطلب تم (زمزم کے) ڈول بھر کر نکالو۔ اگر لوگوں کے (میری اتباع کی وجہ سے) تم پر اژدھام کردینے کا ڈر نہ ہوتا تو میں خود ڈول نکالتا۔ حضرت عباس (رض) نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے چچا (یعنی میرے بیٹے) فضل کا چہرہ (کیوں) پھیر دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے نوجوان لڑکی اور اس نوجوان لڑکے کو دیکھا تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں دونوں کے بیچ میں شیطان نہ گھس جائے۔ ابن جریر

12610

12610- عن عبد الله بن عباس عن الفضل بن عباس قال: كنت رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فوقف يهلل ويكبر ويدعو حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12610 عبداللہ بن عباس (رض) (اپنے بھائی) فضل بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں، فضل (رض) فرماتے ہیں : میں عرفہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر اور دعائیں کرتے رہے حتیٰ کہ آپ نے (وہاں) سے چل کر منیٰ پہنچ کر رمی فرمائی ۔ ابن جریر

12611

12611- عن عبد الله بن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم حمل أسامة والفضل بن عباس يوم عرفة فقالوا: هذا صاحبنا وسيخبرنا كيف صنع النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرهم، فقال: دفع النبي صلى الله عليه وسلم يسير العنق، فكف عن رأس ناقته حتى أصاب رأسها وسط الرحل وجعل يقول بيده: يا أيها الناس السكينة السكينة ويشير بيده حتى انتهى إلى جمع فحمل الفضل وأسامة هذا مرة وهذا مرة وفعل مثل فعله حين دفع من عرفات، حتى انتهى إلى وادي محسر فدفع فيه حتى استوت به الأرض. "ابن جرير".
12611 عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفہ کے روز اسامہ اور فضل بن عباس کو (یکے بعد دیگرے) اپنے پیچھے بٹھایا۔ لوگوں نے کہا : یہ ہمارے ساتھی ہیں اور ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرزعمل کے بارے میں بتائیں گے۔ تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے واپس ہوئے اور پہلی (نرم) رفتار پر آخر تک چلتے رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری کی لگام اس قدر کھینچ رکھی تھی کہ اس کا سر بیچ کجاوے کو چھورہا تھا اور اپنے ہاتھ سے لوگوں کو تلقین کررہے تھے کہ سکون کے ساتھ چلو سکون کے ساتھ چلو۔ حتیٰ کہ آپ مزدلفہ پہنچ گئے۔ ایک مرتبہ آپ نے اسامہ کو پیچھے بٹھایا اور ایک مرتبہ فضل کو۔ اور دوسرے سفر میں بھی پہلے سفر کی طرح آپ کا طرز عمل رہا۔ حتیٰ کہ آپ وادی محسر پہنچ گئے اور وہاں اپنی سواری کو زمین پر بٹھایا۔ ابن جریر

12612

12612- عن الفضل بن عباس قال: أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة ومن جمع وعليه السكينة حتى أتى منى. "ابن جرير".
12612 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ اور مزدلفہ سے واپس ہوئے تو آپ پر سکون تھے حتیٰ کہ اسی حال میں منیٰ پہنچ گئے۔ ابن جریر

12613

12613- عن الفضل بن عباس قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة فلما نفر دفع الناس فقال حين دفع: أيها الناس عليكم بالسكينة وهو كاف راحلته. "ابن جرير".
12613 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں عرفہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا تو لوگ بھی واپس ہونے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت اپنی سواری کو روکتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! سکون (اور اطمینان ) کو لازم پکڑے رکھو۔ ابن جریر

12614

12614- عن عبد الله بن عباس عن عباس بن عبد المطلب أن عباسا لما كان يوم عرفة والفضل بن عباس رديف النبي صلى الله عليه وسلم والناس كثير حول رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عباس: فلما كثر الناس قال: ليحدثني الفضل عما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فقال: لما دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية عرفة دفع الناس معه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يشد رأس بعيره يكف منه ثم جعل ينادي الناس، عليكم بالسكينة فلما بلغ المزدلفة نزل بها فصلى المغرب والعشاء الآخرة جميعا ثم بات بالمزدلفة فلما صلى الصبح وقف عند المشعر الحرام ثم دفع ودفع الناس معه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يشد برأس بعيره يكف منه ويقول: يا أيها الناس؛ عليكم السكينة حتى إذا بلغ محسرا اوضع؟؟ شيئا. "ابن جرير".
12614 عبداللہ بن عباس (رض) (اپنے والد) حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت کرتے ہیں کہ جب عرفہ کا روز تھا اور فضل بن عباس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاروں طرف لوگوں کا اژدھام تھا۔ حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں جب لوگ بہت زیادہ جمع ہوگئے تو میں نے فضل کو کہا کہ بتاؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل کیا رہا ؟ تو انھوں نے عرض کیا : جب عرفہ کی رات ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ کے سر کو (لگام سے) کھینچ رہے تھے اور اس کو روک رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : اے لوگو ! اطمینان سکون کو اپناؤ۔ بھر جب مزدلفہ پہنچ گئے تو وہاں اترے اور مغرب و عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں پھر رات وہیں بسر فرمائی جب صبح کو فجر کی نماز پڑھ لی تو مشعرالحرام کے پاس کھڑے ہوگئے پھر وہاں سے واپس ہوئے اور لوگ بھی واپس ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ کی لگام سے اس کا سر کھینچ رہے اور اس کو روکے جارہے تھے اور فرما رہے تھے : اے لوگو ! سکینہ اپناؤ ۔ حتیٰ کہ جب وادی محسر پہنچ گئے تو تب (کچھ) رفتار تیز فرمائی۔ ابن جریر

12615

12615- عن الفضل بن عباس قال: شهدت الإفاضتين جميعا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأفاض وعليه السكينة وهو كاف بعيره. "ابن جرير".
12615 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دونوں افاضوں (عرفہ ومزدلفہ سے واپسیوں) میں شریک تھا۔ آپ نے افاضہ فرماتے ہوئے مکمل سکون اپنائے رکھا اور آپ اپنے اونٹ کو روک رہے تھے۔ ابن جریر

12616

12616- عن الفضل بن عباس وكان ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يوجفون فقال للفضل: ناد في الناس أن البر ليس بإيضاع الخيل والإبل فعليكم بالسكينة. "ابن جرير".
12616 فضل بن عباس (رض) جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے سے مروی ہے کہ لوگ تیزی دکھا رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کہ لوگوں کو اعلان کرو کہ نیکی گھوڑوں اور اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے لہٰذا تم پر سکون رہو۔ ابن جریر

12617

12617- عن الفضل بن عباس قال: أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات وردفه أسامة بن زيد، فجالت به الناقة وهو رافع يديه لاتجاوزان رأسه، فسار على هينته حين أفاض حتى انتهى إلى جمع. "ابن جرير".
12617 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے نکلے تو اسامہ (رض) ان کے ردیف تھے۔ اونٹنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر چلی تو آپ نے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے مگر سر سے اونچے نہ ہورہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اسی ہیئت پر چلتے رہے حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے۔ ابن جریر

12618

12618- عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أتى جبريل إبراهيم يوم عرفة فغدا به إلى عرفات؛ فأنزله الأراك، وحيث ينزل الناس فصلى به الصلاتين جميعا الظهر والعصر، ثم وقف به حتى إذا كان كأعجل ما يصلي أحد من الناس المغرب أفاض حتى أتى جمعا فصلى به الصلاتين المغرب والعشاء فأوحى الله تعالى إلى محمد صلى الله عليه وسلم أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا وما كان من المشركين. "ابن جرير".
12618 عبداللہ بن عمرو (رض) حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس عرفہ کے روز تشریف لائے اور (صبح کو) ان کو (میدان) عرفات لے گئے اور جہاں پیلو کے درخت ہیں وہاں ان کو ٹھہرا دیا اور جہاں لوگ اترتے ہیں (یعنی میدان عرفات میں) وہاں ان کو ظہر اور عصر کی دنوں نمازیں پڑھائیں پھر وہاں ان کو ٹھہرایا حتیٰ کہ (جب سورج غروب ہوگیا تو اس قدر وقفے کہ) جس میں تم سے کوئی جلد ازجلد مغرب کی نماز پڑھ لیتا ہے اتنے وقفے کے بعد (عرفات) نکل گئے اور مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی فرمائی :
ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفاً وماکان من المشرکین۔
ملت ابراہیم کی اتباع کر جو (اپنے رب کی طرف) یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔
ابن جریر

12619

12619- عن يوسف بن ماهك قال: حججت مع ابن عمر ثلاث حجات فوقف مع الإمام يعني بعرفة، فلما أن دفع الإمام دفع معه على هينته لا يضربها سوطا وكثيرا ما أسمعه يستحثها بحل حتى نزلنا المزدلفة، فلما دفع من المزدلفة دفع دفعته لا يضربها بسوطه وكثيرا ما أسمعه يستحثها بحل حتى إذا دلت يديها في محسر وضع السوط فيها فلم أزل أراه يحثها حتى رمى الجمرة وسمعت منه في تلك الدفعة: إليك تعدو قلقا وضينها ... معترضا في بطنها جنينها مخالفا دين النصارى دينها ... اللهم غفار الذنوب اغفر جما وأي عبد لك لا ألما "ابن جرير".
12619 یوسف بن ماہک سے مروی ہے، فرماتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) کے ساتھ تین حج کیے، وہ عرفہ میں امام کے ساتھ ٹھہر گئے۔ جب امام وہاں سے نکلے تو اپنی (عادت والی ہلکی ) رفتار پر آپ (رض) بھی نکلے۔ آپ (رض) اپنی سواری کو چابک نہیں مارتے تھے اور اکثر وبیشتر میں نے حل (حرم کے سوا مقام) میں آپ کو نہیں سنا کہ آپ سواری کو (تیز چلنے پر) اکساتے ہوں۔ حتیٰ کہ ہم اسی رفتار سے مزدلفہ میں اتر گئے۔ جب آپ (رض) مزدلفہ سے نکلے تو میں بھی وہاں سے نکل پڑا۔ آپ (رض) سواری کو چابک (کوڑا) نہیں مارتے تھے اور نہ میں حل میں آپ کو سواری کو اکساتے ہوئے سنتا تھا۔ حتیٰ کہ جب سواری نے اپنے قدم وادی محسر میں ڈال دیئے تو تب آپ نے چابک (کوڑا) سنبھال لیا پھر میں آپ کو برابر دیکھتا رہا کہ آپ سواری کو اکساتے جارہے ہیں (تاکہ وہ تیز رفتاری پکڑے) حتیٰ کہ آپ (رض) نے رمی جمرہ فرمائی۔ اور اس سفر میں آپ سے یہ اشعار سن رہا تھا :
تیری طرف دوڑتی ہیں سواریاں ان کے زین متحرک ہیں اور ان کے بچے ان کے شکموں میں ہلچل میں ہیں۔ ان صاحب سواریوں کا دین نصاری کے دین کی مخالفت کرتا ہے۔ اے اللہ ! (ہم حاضر ہیں اور بےشک) تو گناہوں کو بخشنے والا، پس ہمارے سارے ہی گناہ بخش دے اور کون سا بندہ ہے جو تیری ذات میں حیران پریشان نہیں ہوتا۔ ابن جریر

12620

12620- عن أبي الزبير قال: وقفت مع ابن عمر بعرفة فلما وجبت الشمس أفاض عليه السكينة والوقار فلم يزل كذلك حتى انتهينا إلى أول واد فمر الناس فعنج راحلته عن يساره، ثم نزل ثم دعا بوضوء فتوضأ فلما فرغ قال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع مثل الذي صنعته حتى انتهى إلى هذا الوادي، ثم دعا براحلته فاستوى عليها وكبر، وأوضع حتى جاوز الوادي، ثم سار عليه السكينة والوقار فلم يزل كذلك كلما انتهى إلى واد كبر، وأوضع حتى يجاوزه حتى انتهى إلى جمع، فلما انتهى إلى جمع أناخ راحلته ثم بات بها ثم وقف حين أصبح، فلما كادت الشمس أن تطلع أفاض ولما أفاض أفاض عليه السكينة والوقار، فلم يزل كذلك حتى انتهى إلى بطن محسر فأوضع حتى جاوز الوادي، ثم سار عليه السكينة والوقار فلم يزل كذلك حتى انتهى إلى الجمرة القصوى. "ابن جرير".
12620 ابوالزبیر سے مروی ہے کہ میں مقام عرفات میں حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ کھڑا تھا جب سورج چھپ گیا تو آپ (رض) عرفات سے نکلے اس طرح کہ آپ پر سکون اور وقار چھایا ہوا تھا۔ آپ (رض) اسی طرح چلتے رہے حتیٰ کہ ہم وادی کے شروع حصے تک پہنچ گئے۔ جب اور لوگ گزر گئے تو آپ (رض) نے اپنی بائیں طرف سواری کو رکایا اور اتر کر وضو کا پانی منگوایا اور وضو سے فارغ ہو کر ارشاد فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وادی تک آپہنچے تھے ۔ پھر آپ (رض) نے اپنی سواری منگوائی اور اس پر سوار ہو کر اللہ اکبر کہا اور سواری کو تیز کردیا اور اسی رفتار سے اس وادی کو عبور کیا پھر آپ (رض) پر سکینہ اور وقار طاری ہوگیا پھر اسی طرح (نرم رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے) وادی تک پہنچ گئے وہاں آپ نے پھر اللہ اکبر کہا اور سواری تیز کردی حتیٰ کہ اسی تیز رفتاری کے ساتھ وادی کو عبور کیا اور مزدلفہ پہنچ گئے۔ وہاں آپ (رض) نے اپنی سواری بٹھائی اور وہاں رات بسر کی پھر صبح آپ (رض) وہاں ٹھہر گئے جب سورج نکلنے کو ہوا تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور جب نکلے تو آپ پر مکمل اطمینان اور سکون طاری تھا آپ اسی طرح (سواری پر) چلتے ہوئے وادی بطن محسر تک پہنچے، وہاں آپ (رض) نے سواری کو تیز کردیا اور اسی تیز رفتاری کے ساتھ اس وادی کو عبور کیا۔ پھر وہاں سے نکلے تو آپ پر پہلے کی سکینہ اور وقار کی کیفیت طاری ہوگئی اور اسی نرم رفتاری سے آپ جمرہ قصوی (چھوٹے شیطان) کے پاس پہنچ گئے۔ ابن جریر

12621

12621- عن ابن عباس قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة فقال: يا أيها الناس، إنه ليس البر في إيجاف الإبل ولا إيضاع الخيل ولكن سيرا جميلا لا توطئوا ضعيفا، ولا تؤذوا مسلما. "ن".
12621 ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم عرفہ کو خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! نیکی اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں اور نہ ہی گھوڑوں کو تیز دوڑانے میں ہے۔ بلکہ تم جمیل (خوبصورت) رفتار کو اختیار کرو اور کسی کمزور کو نہ روندو اور نہ کسی مسلمان کو ایذا دو ۔ النسائی

12622

12622- عن ابن عباس قال: أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات وهو يقول: يا أيها الناس، عليكم بالوقار والسكينة، فإن البر ليس بإيجاف الخيل والإبل فما رأيت ناقته رافعة يديها عادية حتى بلغت جمعا ثم أفاض من جمع وهو يقول: يا أيها الناس، عليكم بالوقار والسكينة فإن البر ليس بإيجاف الخيل والإبل فما رأيت ناقته رافعة يديها عادية حتى أتى منى. "ابن جرير"
12622 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے نکلے تو فرما رہے تھے : اے لوگو ! وقار اور سکینہ (سکون اور اطمینان) کو لازم پکڑو۔ بیشک نیکی گھوڑوں اور اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو اس کی معمول کی (نرم) رفتار سے زیادہ نہیں دیکھا حتیٰ کہ آپ کی اونٹنی مزدلفہ پہنچ گئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ سے نکلے تو آپ فرما رہے تھے : اے لوگو وقار اور سکینہ کو لازم پکڑو۔ بیشک نیکی گھوڑوں اور اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : پھر میں نے آپ کی اونٹنی کو معمول کی رفتار سے تیز قدم اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ پہنچ گئے۔
ابن جریر

12623

12623- عن ابن عباس قال: لما أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفات أوضع الناس فأمر النبي صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى أيها الناس؛ ليس البر بإيضاع الإبل والخيل والركاب. "ابن جرير".
12623 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، فرمایا : جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے واپس ہوئے تو لوگوں نے اپنی سواریوں کو تیز رفتار کرلیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منادی کا حکم فرمایا کہ یہ نداء لگائیں : اے لوگو ! نیکی اونٹوں ، گھوڑوں اور سواریوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے۔
ابن جریر

12624

12624- عن ابن عباس قال: أفضت مع النبي صلى الله عليه وسلم وكان يفيض وعليه السكينة. "ابن جرير".
12624 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، فرمایا : میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ افاضہ میں شریک تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افاضہ (واپسی) فرما رہے تھے اور آپ پر سکون تھا۔ ابن جریر

12625

12625- عن ابن عباس قال: أفاض النبي صلى الله عليه وسلم وأوضع الناس عن يمين وشمال، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ليس البر بإيضاع الخيل والإبل، ولكن البر السكينة. "ابن جرير"
12625 ابن عباس (رض) سے مروی ہے، فرمایا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوئے تو لوگوں نے دائیں بائیں سے سواریوں کو تیز کرلیا تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نیکی گھوڑوں اور اونٹوں کو تیز دوڑانے میں نہیں ہے بلکہ نیکی تو پرسکون رہنے میں ہے۔ ابن جریر

12626

12626-عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دفع شنق ناقته حتى أن رأسها ليصيب واسطة رحله عشية عرفة وهو يقول: السكينة السكينة. "ابن جرير".
12626 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عرفہ کی رات جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوچ فرماتے تو اپنی سواری کی لگام کھینچ لیتے تھے حتیٰ کہ سواری کا سر سواری کے کجاوے کی درمیانی (اونچی) لکڑی کو چھوتا تھا۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے جاتے تھے : سکینہ رکھو سکینہ رکھو۔
ابن جریر

12627

12627- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم دفع من عرفات ودفع الناس معه فقال: أيها الناس كفوا كفوا، ورأس ناقته يصيب وجهه عليكم بالسكينة. "ابن جرير".
12627 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات سے نکلے تو اور لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے رکو رکو۔ جبکہ آپ خود اپنی سواری کی لگام کھینچ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی سواری (اونٹنی) کا سر آپ کے چہرہ کو چھورہا تھا اور ساتھ ساتھ لوگوں کو پرسکون رہنے کی تاکید فرما رہے تھے۔ ابن جریر

12628

12628- عن أبي الزبير عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم لما أفاض من عرفة جعل يقول: السكينة عباد الله ويقول بيده هكذا وأشار ببطن كفه إلى الأرض. " ... "
12628 ابوالزبیر حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عرفہ سے واپسی فرمائی تو یہ فرمانے لگے : اللہ کے بندو ! پرسکون رہو پر سکون رہو۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ ساتھ اپنی ہتھیلی کا اندرونی حصہ زمین کی طرف بار بار کرکے لوگوں کو اشارۃ پرسکون چلنے کی تاکید فرما رہے تھے۔ البخاری فی صحیحہ 201/2

12629

12629- عن أبي الزبير عن جابر قال: أفاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من جمع وعليه السكينة وأمرهم بالسكينة وأوضع في وادي محسر. "ابن جرير"2
12629 ابوالزبیر حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ سے واپس ہونے لگے تو آپ پر سکینہ (وقارواطمینان) طاری تھی اور آپ لوگوں کو بھی سکینہ (وقار) اختیار کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ لیکن وادی محسر میں آپ نے اپنی سواری تیز فرمالی تھی۔ ابن جریر

12630

12630- عن أبي الزبير عن جابر قال أفاض النبي صلى الله عليه وسلم كافا بعيره. "ابن جرير".
12630 ابوالزبیر (رح) ، جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب واپسی فرما رہے تھے تو اپنے اونٹ کو (بار بار) روک رہے تھے۔ ابن جریر

12631

12631- عن عطاء عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال حيث أفاض من عرفات: يا أيها الناس عليكم بالسكينة والوقار، ولا يقتل بعضكم بعضا. "ابن جرير".
12631 عطاءؒ حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب عرفات سے نکلنے لگے تو ارشاد فرمایا : اے لوگو ! سکینہ اور وقار اپناؤ اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو (اژدھام کی وجہ سے ایک دوسرے کو نہ روندو) ۔ ابن جریر

12632

12632- لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقف على بعير له بعرفات من بين قومه حتى يدفع بعدهم توقيفا من الله له. "طب عن جبير بن مطعم".
12632 میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ میدان عرفات میں اپنی قوم کے درمیان اپنے اونٹ پر کھڑے ہیں حتیٰ کہ پھر من جانب اللہ (حکم آنے پر) وہاں سے لوگوں کے بعد کوچ فرمانے لگے۔ الکبیر للطبرانی عن جبیر بن مطعم

12633

12633- "مسند عمر رضي الله عنه" عن محمد بن المنكدر قال: أخبرني من رأى أبا بكر الصديق واقفا على قزح. "الأزرقي".
12633 (مسند عمر (رض)) محمد بن المنکدر سے مروی ہے فرمایا : مجھے ایک شخص نے خبر دی کہ اس نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو (مزدلفہ کے) مقام قزح پر کھڑے دیکھا۔ الارزقی

12634

12634- عن جبير بن الحارث قال: رأيت أبا بكر واقفا على قزح وهو يقول: أيها الناس؛ أصبحوا أيها الناس أيها الناس أصبحوا ثم دفع فإني لأنظر إلى فخذه وقد انكشفت مما يحرش2 بعيره بمحجنه. "ش وابن سعد وابن جرير هق"
12634 جبیر بن الحارث سے مروی ہے، فرمایا : میں نے ابوبکر (رض) کو قزع پر کھڑے دیکھا، آپ (رض) فرما رہے تھے : اے لوگو ! صبح کی نماز پڑھو۔ اے لوگو ! صبح کی نماز پڑھو۔ پھر آپ (رض) نے ہاں سے کوچ فرمایا۔ میں آپ کی ران کو ننگی دیکھ رہا تھا جو اونٹ کو چھڑی مارنے کی وجہ سے کھل گئی تھی۔
ابن ابی شیبہ، ابن سعد، ابن جریر، السنن للبیہقی

12635

12635- عن طلق بن حبيب أنه دفع من جمع مع عمر، فلما هبط محسرا أوضع راحلته. "إبراهيم بن سعد".
12635 طلق بن حبیب سے مروی ہے کہ وہ حضرت عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوئے، جب آپ (رض) وادی محسر میں اترے تو آپ نے اپنی سواری تیز فرمادی۔ ابراھیم بن سعد

12636

12636- عن أبي أيوب قال: صليت المغرب والعشاء الآخرة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحجة الوداع بالمزدلفة. "أبو نعيم كر".
12636 ابوایوب (رض) سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے مزدلفہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی۔ ابونعیم ، ابن عساکر

12637

12637- عن عروة بن مضرس قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بجمع قبل أن يصلي الغداة فقلت: يا نبي الله طويت الجبلين ولقيت شدة فقال: افرج1 روعك، من أدرك إفاضتنا هذه فقد أدرك يعني الحج. "العسكري في الأمثال".
12637 عروۃ بن مضرس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں مزدلفہ میں صبح کی نماز سے قبل حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میں نے دونوں پہاڑوں کو طے کیا تو اب تھک گیا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے دل کو کھلا رکھ (اور) خوشخبری سن کہ جس نے ہمارے اس افاضہ (عرفات ومزدلفہ سے واپسی) کو پالیا تو اس نے حج کو پالیا۔
العسکری فی الامثال

12638

12638- عن الرحمن بن يزيد قال: صلى ابن مسعود بغلس فسئل عن ذلك فقال: إنها تحول في هذا المكان صلاتان عن وقتهما وإنه لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي هذه الساعة إلا في هذا اليوم في هذا المكان يعني يوم النحر بمزدلفة. "خط في المتفق".
12638 عبدالرحمن بن یزید سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت (عبداللہ) بن مسعود (رض) نے (مغرب و عشاء کی) نماز اندھیرے میں پڑھی۔ آپ (رض) سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا : اس (مزدلفہ کے) مکان میں یہ دو نمازیں اپنے وقت سے ہٹ گئی ہیں۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس گھڑی میں یہ نمازیں صرف اسی دن اور اسی مکان میں پڑھتے تھے، یعنی یوم النحر کو مزدلفہ میں۔ الخطیب فی المتفن

12639

12639- عن ابن مسعود قال: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين المغرب والعشاء بجمع. "ابن جرير".
12639 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی اس وقت میں یہ نمازیں پڑھتے نہیں دیکھا یعنی سوائے مغرب اور عشاء کے مزدلفہ میں۔ الخطیب فی المتفق

12640

12640- عن ابن عمر قال: كانت تلك النار توقد يعني بالمزدلفة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان. "ابن سعد" وهو ضعيف.
12640 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر عمر اور عثمان (رض) کے ادوار میں مزدلفہ میں آگ روشن کی جاتی تھی ۔ ابن سعد
کلام : مذکورہ روایت ضعیف ہے۔

12641

12641- عن خزيمة بن ثابت الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين الصلاتين بجمع بأذان وإقامة واحدة. "ابن جرير".
12641 خزیمہ بن ثابت (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز کو ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ اکٹھے ادا فرمایا۔ ابن جریر

12642

12642- عن جابر قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمزدلفة المغرب والعشاء بنداء واحد وإقامتين ولم يصل بينهما شيئا. "ابن جرير".
12642 جابر (رض) سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دو اق امتوں کے ساتھ ادا فرمایا اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز ادا نہیں فرمائی۔ ابن جریر۔

12643

12643- "مسند أبي بكر رضي الله عنه" عن أسماء بنت عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيها عن أبي بكر الصديق أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما غربت الشمس بعرفة أفاض من مزدلفة قبل طلوع الشمس. "طس" وسنده ضعيف.
12643 (مسند ابی بکر (رض)) اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد عبدالرحمن سے اور وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفہ سے افاضہ غروب شمس کے بعد فرمایا اور مزدلفہ سے افاضہ طلوع شمس سے قبل فرمایا۔ الاوسط للطبرانی
کلام : روایت مذکورہ ضعیف ہے۔

12644

12644- كان المشركون لا يفيضون من جمع حتى تشرق الشمس على ثبير وكانوا يقولون: أشرق ثبير كيما نغير، فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم فأفاض قبل أن تطلع الشمس. "ط حم خ والدارمي د ت ن هـ وابن جرير وابن خزيمة والطحاوي حب قط في الأفراد حل هق"1
12644 مشرکین مزدلفہ سے اس وقت تک افاضہ (واپسی ) نہیں کرتے تھے جب تک کہ سورج ٹیلے پر کرنیں نہ ڈال دیتا تھا اور کہتے تھے : ٹیلہ روشن ہوگیا ہے تاکہ ہم واپسی کرسکیں۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت فرمائی اور طلوع شمس سے قبل افاضہ فرمایا :۔
مسندابی داؤد، مسند احمد، البخاری ، سنن الدارمی، ابودابود ، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن خزیمہ، الطحاوی، ابن حبان، الدارقطنی فی الافراد، حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی

12645

12645- عن عمرو بن ميمون قال: حججت مع عمر بن الخطاب فلم يزل يلبي حتى رمى جمرة القصوى يوم النحر قال عمر: وكان أهل الجاهلية لا يفيضون من جمع حتى تطلع الشمس على ثبير ويقولون: أشرق ثبير فخالفهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فأفاض من جمع فانصرف القوم مسفرين من صلاة الفجر. "أبو عمرو بن حمدان النيسابوي في فوائد الحاج".
12645 عمروبن میمون سے مروی ہے ، فرمایا : میں نے عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ حج کیا آپ (رض) مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے۔ حسیٰ کہ یوم النحر کو آپ (رض) نے جمرہ قصویٰ کی رمی فرمائی۔ نیز حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اہل جاہلیت مزدلفہ سے نہیں نکلتے تھے جب تک کہ ٹیلے پر سورج طلوع نہ ہوجاتا اور پھر وہ کہتے تھے ٹیلے روشن ہوگئے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی مخالفت فرمائی اور مزدلفہ سے آپ اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمان نماز فجر کے بعد پو پھٹنے پر نکل گئے۔
ابوعمر وبن حمدان النیسابوی فی فوائد الحاج

12646

12646- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم أفاض من جمع حتى أتى محسرا، فقرع ناقته حتى جاوز الوادي فوقف، ثم أردف الفضل، ثم أتى الجمرة فرماها. "هق" رواه البيهقي في السنن الكبرى كتاب الحج "5/126". ص".
12646 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ سے واپس ہو کروادی محسر پہنچے تو اپنی سواری کو (تھوڑا تیز) حرکت دی حتیٰ کہ اس وادی سے گزر گئے تو پھر رک گئے پھر فضل (رض) کو اپنا ردیف بنالیا پھر جمرۃ پر تشریف لائے اور اس کی رمی فرمائی۔ السنن للبیہقی

12647

12647- عن مسور بن مخرمة عن عمر أنه أوضع في وادي محسر. "ش هق"
12647 مسوربن مخرمہ حضرت عمر (رض) کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے وادی محسر میں سواری تیز کرلی ۔ مصنف ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

12648

12648- عن عروة قال: كان عمر يوضع ويقول: إليك تعدو قلقا وضينها ... معترضا في بطنها جنينها مخالفا دين النصارى دينها. "ش هق"1
12648 حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) (وادی محسر میں) سواری تیز کرلیتے تھے اور فرماتے تھے : سواریاں تیری طرف دوڑ رہی ہیں ان کے پالان (جھول) حرکت میں ہیں اور ان کے بچے ان کے شکموں میں حرکت میں ہیں ان سواریوں کا دین نصاری کے دین کی مخالفت کرتا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، السنن للبیہقی

12649

12649- عن جبير بن مطعم قال: كانت قريش إنما تدفع من المزدلفة يقولون: نحن الحمس لا نقف مع الناس ولا نخرج من الحرم، وتركوا الموقف على عرفة فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقف مع الناس بعرفة على جمل له ويدفع معهم حتى يصبح مع قومه بالمزدلفة، فيقف معهم ثم يدفع إذا دفعوا. "طب"
12649 جبیر بن مطعم (رض) سے مروی ہے کہ قریش مزدلفہ سے یہ کہتے ہوئے لوٹتے تھے : ہم خمس (قریش) ہیں ، نہ عام لوگوں کے ساتھ ہم وقوف کرتے ہیں اور نہ ہم حرم سے نکلتے ہیں۔ انھوں نے عرفہ کا موقف چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ وہ حرم سے باہر ہے۔ جبیر (رض) فرماتے ہیں پس میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ لوگوں کے ساتھ عرفہ میں ہیں اور اپنے اونٹ پر سوار ہیں اور ان کے ساتھ وہاں سے نکلے ہیں حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کے ساتھ مزدلفہ میں جاکر صبح فرمائی اور ان کے ساتھ وہاں قیام کیا پھر وہاں سے بھی نکلے جب اور لوگ وہاں سے نکلنے لگے۔
الکبیر للطبرانی ، صحیح الاسناد۔

12650

12650- عن أسامة بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم أفاض من جمع وعليه السكينة وأمرهم بالسكينة وأوضع في وادي محسر. "ابن جرير".
12650 اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ سے لوٹے تو آپ پر (مکمل) سکون طاری تھا اور آپ لوگوں کو بھی پر سکون رہنے کی تاکید فرما رہے تھے، لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وادی محسر میں اپنی سواری کو تیز فرمالیا تھا۔ ابن جریر

12651

12651- عن عبد الله بن عباس قال: حدثني أخي الفضل بن عباس رضي الله عنهم قال: أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة جمع فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة، فلما رماها قطع التلبية. "ابن جرير".
12651 عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ مجھے میرے بھائی فضل بن عباس (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے (فضل) کو مزدلفہ کی صبح اپنا ردیف بنالیا (سواری کے پیچھے بٹھا لیا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل تلبیہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ رمی جمرۃ العقبہ فرمالی۔ جب پہلی کنکر ماری تب تلبیہ پڑھنا موقوف فرمالیا۔ ابن جریر

12652

12652- عن الفضل بن عباس أنه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم من المزدلفة فلم ترفع راحلته يدا عادية حتى رمى الجمرة. "ابن جرير".
12652 فضل بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مزدلفہ سے واپسی پر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ردیف تھے آپ کی سواری نے معمول کی (نرم) رفتار سے زیادہ تیز قدم نہیں اٹھایا حتیٰ کہ رمی جمرہ فرمائی۔ ابن جریر

12653

12653- عن ابن عمرو مرفوعا وموقوفا - قال: أتى جبريل إبراهيم عليهما الصلاة والسلام بجمع فصلى به كأعجل ما يصلي أحد من الناس الفجر، ثم وقف حتى إذا كان كأبطأ ما يصلي أحد من الناس الفجر أفاض به إلى منى ثم ذبح. "ابن جرير".
12653 ابن عمرو (رض) سے مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طریق سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مزدلفہ میں آئے اور ان کو فجر کی نماز اس قدر جلدی پڑھائی جس قدر جلدی تم میں سے کوئی پڑھتا ہے۔ پھر ٹھہر گئے حتیٰ کہ جب اتنا وقت ہوگیا جس میں کوئی سب سے زیادہ آرام سے فجر کی نماز پڑھ سکتا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لے کر منیٰ کی طرف نکلے اور وہاں قربانی کی۔ ابن جریر

12654

12654- عن ابن عباس قال: كان أهل الجاهلية يقفون بالمزدلفة حتى إذا طلعت الشمس فكانت على رؤوس الجبال كأنها العمائم على رؤوس الرجال دفعوا فخالفهم النبي صلى الله عليه وسلم فدفع حين أسفر كل شيء قبل أن تطلع الشمس. "ابن جرير".
12654 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اہل جاہلیت مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے حتیٰ کہ جب سورج طلوع ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر نمودار ہوجاتا اور گویا لوگوں کے سر پر عمامے آجاتے تو تب وہاں سے نکلتے تھے، چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان مخالفت فرمائی اور جب ہر چیز نمودار ہوگئی تو طلوع شمس سے پہلے نکل لیے۔ ابن جریر

12655

12655- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم وقف بغلس حتى إذا أبصر الناس مواقع أقدامهم وحوافر دوابهم وأخفاف الإبل، وجعل الرجل يبصر موضع قدميه دفع إلى منى. "ابن جرير".
12655 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مزدلفہ میں) اندھیرے (اندھیرے) کھڑے رہتے تھے حتیٰ کہ جب لوگ اپنے قدموں کی جگہ اپنے جانوروں کے کھروں اور اونٹوں کے قدموں کی جگہ دیکھنے لگ جاتے تھے اور آدمی اپنے قدموں کی جگہ دیکھنے لگ جاتا تھا تب وہاں سے منیٰ کو نکل لیتے تھے۔ ابن جریر

12656

12656- "مسند عمر رضي الله عنه" مالك أنه بلغه أن عمر بن الخطاب كان يقف عند الجمرتين وقوفا طويلا حتى يمل القائم لطول قيامه
12656 (مسند عمر (رض)) موطا امام مالک (رح) سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) دونوں جمروں کے پاس اس قدر طویل قیام کرتے تھے کہ طول قیام کی وجہ سے کھڑا ہونے والا کتا جاتا تھا۔ موطا امام مالک

12657

12657- عن يحيى بن سعيد أنه بلغه أن عمر بن الخطاب خرج من يوم النحر حتى ارتفع النهار شيئا فكبر تكبيرة، فكبر الناس تكبيرة ثم خرج من يومه ذلك بعد أن ارتفع الضحى، فكبر تكبيرة فكبر الناس تكبيرة ثم دخل، ثم خرج الثالثة من يومه بعد أن زاغت الشمس فكبر تكبيرة حتى بلغ تكبيرهم البيت، فعرف أن عمر بن الخطاب قد خرج يرمي. "مالك"2
12657 یحییٰ سن سعید سے مروی ہے کہ ان کو خبر پہنچی کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) یوم النحر کو اس وقت نکلے جب دن تھوڑا سا نکل آیا تھا۔ آپ نے ایک تکبیر کہی تو سب لوگوں نے بھی ایک تکبیر کہی۔ پھر اسی دن جب چاشت تک دن نکل آیا دوبارہ نکلے اور ایک تکبیر کہی، لوگوں نے بھی ایک تکبیر کہی پھر آپ (رض) اندر داخل ہوگئے پھر تیسری مرتبہ جب سورج کچھ جھک گیا (دوپہر کے بعد) تب نکلے اور ایک تکبیر کہی (اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی) ان کی تکبیر بیت اللہ تک پہنچی جس سے معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) رمی کے لیے نکلے ہیں۔ مالک

12658

12658- عن سلمان بن ربيعة قال: نظرنا إلى عمر بن الخطاب يوم النفر الأول فخرج علينا تقطر لحيته ماء في يده حصيات وفي حزمه3 حصيات ماشيا يكبر في طريقه حتى أتى الجمرة الأولى، فرماها، ثم رماها حتى انقطع من الحصيات لا يناله حصى من رمى، ثم دعا ساعة ثم مضى إلى الجمرة الوسطى ثم الأخرى. "مسدد".
12658 سلمان بن ربیعہ سے مروی ہے فرمایا ہم نے پہلے کوچ کے دن حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا آپ (رض) نکلے تو آپ (رض) کی ڈاڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں اور آپ کی (کمر بند) پیٹی میں بھی چند کنکریاں تھیں، آپ (رض) اپنے راستے میں تکبیر کہتے ہوئے جارہے تھے حتیٰ کہ جمرہ اولیٰ کے پاس پہنچے اور اس کو کنکر ماری اور پھر ماری حتیٰ کہ کنکریاں ختم کردیں اور کسی مارنے والے کی کنکریاں آپ (رض) کی کنکریوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ پھر آپ (رض) نے ایک گھڑی (تقریباً پون گھنٹہ) کھڑے دعا فرماتے رہے پھر جمرہ وسطی پر تشریف لے گئے پھر تیسرے پر۔ مسدد

12659

12659- عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى بعد ما رمى جمرة العقبة. "كر".
12659 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے یوم الاضحی (قربانی کے دن) جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشبولگائی ۔ ابن عساکر۔

12660

12660- عن ابن عباس أن سائلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم رميت بعد ما أمسيت؟ فقال: لا حرج، وقال رجل حلقت قبل أن أنحر؟ قال: لا حرج. "ش وابن جرير".
12660 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک سائل نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں نے شام ہونے کے بعد رمی کی ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی گناہ نہیں ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا : میں نے قربانی کرنے سے قبل حلق کروالیا (سرمنڈوالیا) ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی گناہ نہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر

12661

12661- عن حرملة بن عمرو قال: كنت رديف عمي سنان بن سنة عام حجة الوداع، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة يخطب واضعا إحدى أصبعيه على الأخرى فقلت لعمي ما يقول؟ قال: ارموا الجمار بمثل حصى الخذف. "حم وابن خزيمة والبغوي والباوردي وابن قانع طب وأبو نعيم هق"
12661 حرملۃ بن عمرو سے مروی ہے، فرمایا : میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے چچا سنان بن سنۃ کے ساتھ تھا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرفہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، آپ نے ایک انگلی کو دوسری پر رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرما رہے ہیں ؟ تو انھوں نے بتایا کہ آپ فرما رہے ہیں کنکریاں یوں مارو جس طرح انگلیوں سے کنکریاں ماری جاتی ہیں (یعنی دو انگلیوں کے بیچ میں کنکر پھنسا کر مارو) ۔
مسند احمد، ابن خزیمہ ، البغوی، الباوردی، ابن قانع ، الکبیر للطبرانی، ابونعیم، السنن للبیہقی

12662

12662- عن جابر أن رجلا قال: يا رسول الله ذبحت قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولا حرج، وقال آخر: يا رسول الله طفت بالبيت قبل أن أذبح؟ قال: اذبح ولا حرج، قال آخر: حلقت قبل أن أذبح؟ قال: اذبح ولا حرج. "ابن جرير".
12662 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے عرض کیا : میں نے رمی کرنے سے قبل ہی قربانی کرلی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اب) رمی کرلو (کنکری مارلو) اور کوئی حرج نہیں ہے۔ اور دوسرے نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے بیت اللہ کا طواف قربانی سے پہلے کرلیا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اب) قربانی کرلو اور کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک اور نے عرض کیا : میں نے ذبح کرنے سے قبل حلق کرلیا (سرمنڈالیا ؟ ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اب) ذبح کرلو (قربانی کرلو) اور کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن جریر

12663

12663- "الصديق رضي الله عنه" عن أبي سريحة حذيفة بن أسيد الغفاري قال: لقد رأيت أبا بكر الصديق وعمر ما يضحيان عن أهلهما خشية أن يستن بهما. "ابن أبي الدنيا في الأضاحي والحاكم في الكنى وأبو بكر عبد الله بن محمد زياد النيسابوري في الزيادات ق" وقال ابن كثير إسناده صحيح.
12663 (صدیق (رض)) ابی سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے ابوبکر صدیق اور عمر (رض) کو دیکھا کہ اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی اس ڈر سے نہ کرتے تھے کہ کہیں لوگ ان حضرات کی سنت کو رواج نہ دے لیں۔ ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، الحاکم فی الکنی، ابوبکر عبداللہ بن محمد زیاد النیسابوری فی الزیاوات، السنن للبیہقی
ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کی سند صحیح ہے۔

12664

12664- عن الشعبي أن أبا بكر وعمر شهدا الموسم فلم يضحيا. "مسدد".
12664 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ ابوبکر اور عمر (رض) زمانہ حج میں آئے لیکن قربانی نہیں فرمائی۔ مسدد

12665

12665- عن نافع قال: كان عمر يضحي عن صغاره ولده. "ابن أبي الدنيا في كتاب الأضاحي".
12665 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاضاحی

12666

12666- عن نافع أن عمر كان ينحر بمكة عند المروة وينحر بمنى عند المنحر. "ق".
12666 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) مکہ میں مروہ کے پاس قربانی فرماتے تھے اور منیٰ میں قربان گاہ کے پاس قربانی فرماتے تھے۔ السنن للبیہقی

12667

12667- عن علي قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقوم على بدنه وأن أتصدق بلحومها وجلدها وأجلتها1 وأن لا أعطي الجزار منها شيئا، وقال: نعطيه من عندنا. "الحميدي حم والعدني والدارمي خ م د ن وابن أبي الدنيا في الأضاحي ع هـ وابن جرير وابن خزيمة وابن الجارود حب هب".
12667 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں پر نگراں کھڑا ہوں اور ان کے گوشت ، کھالوں اور ان کے لباس (زین وغیرہ) کو صدقہ کردوں اور قصاب کو اجرت میں ان میں سے کوئی چیز نہ دوں۔ اور فرمایا اجرت ہم اپنی طرف سے ادا کریں گے۔ الحمیدی، مسند احمد، العدنی، الدارمی، البخاری، مسلم، ابن داؤد ، النسائی، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، مسند ابی یعلی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن حزیمہ، ابن الجارود ، ابن حبان، شعب الایمان للبیہقی

12668

12668- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يضحي بمقابلة أو مدابرة أو شرقاء أو خرقاء أو جدعاء. "حم وأبو عبيد في الغريب ن وابن أبي الدنيا في الأضاحي وابن جرير وصححه وابن الجارود والطحاوي حم".
12668 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ قربانی کی جائے آگے سے کان کٹے ہوئے جانور کی یا پیچھے سے کان کٹے ہوئے جانور کی یا لمبائی میں چرے ہوئے کان والے جانور کی یا پھٹے ہوئے کان والے جانور کی یا ناک کٹے ہوئے جانور کی۔
مسند احمد، ابوعبید فی الغریب، النسائی، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، ابن جریر، ابن الجارود، الطحاوی، مسند احمد۔
کلام : روایت مذکور محل ہے ضعیف ابن ماجہ 677 ۔

12669

12669- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يضحي بعضباء2 القرن أو الأذن. "ط وابن وهب حم د ت وقال: حسن صحيح ن هـ وابن أبي الدنيا في الأضاحي ع وابن جرير وابن خزيمة والطحاوي ك والدورقي ق ص".
12669 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹوٹے ہوئے سینگ یا کٹے ہوئے کان والے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔ ابوداؤد، ابن وھب، مسند احمد، ابن داؤد، الترمذی حسن صحیح، النسائی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، مسند ابی یعلی، ابن جریر، ابن خزیمہ ، الطحاوی، مستدرک الحاکم، الدورقی، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور۔

12670

12670- عن حنش قال: كان علي بن أبي طالب يضحي بكبش عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وبكبش عن نفسه، قلنا له: يا أمير المؤمنين؛ تضحي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه أبدا. "حم وابن أبي الدنيا في الأضاحي".
12670 حنش سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ایک منیڈھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی طرف سے ذبح کیا کرتے تھے ۔ ہم نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں، پس میں ہمیشہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قربانی کیا کروں گا۔ اللہ پاک ہم مسلمانوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بھی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مسند احمد ، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی

12671

12671- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لفاطمة: قومي يا فاطمة فاشهدي أضحيتك، أما إن لك بأول قطرة تقطر من دمها مغفرة كل ذنب أصبته، أما إنه يجاء بها يوم القيامة بلحومها ودمائها سبعين ضعفا، ثم توضع في ميزانك، قال أبو سعيد الخدري: أي رسول الله؛ أهذه لآل محمد خاصة فهم أهل لما خصوا به من خير؟ أم لآل محمد وللناس عامة؟ قال: بل هي لآل محمد وللناس عامة. "ابن منيع وعبد بن حميد وابن زنجويه والدورقي وابن أبي الدنيا في الأضاحي هق" وضعفه1
12671 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو ارشاد فرمایا : اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ۔ بیشک اس کا پہلا خون کا قطرہ جب گرے گا تیرے سب گناہوں کی بخشش ہوجائے گی اور قیامت کے دن اس قربانی کے جانور کو اس کے گوشت اور خون کے ساتھ ستر گنا بڑھا کر لایا جائے گا اور تیری میزان عمل میں رکھ دیا جائے گا۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا یہ حکم خاص آل محمد کے لیے ہیں کیونکہ خیر میں ان کی خصوصیت حاصل ہے یا پھر یہ حکم آل محمد اور تمام لوگوں کے لیے عام ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ (حکم) آل محمد اور تمام لوگوں کے لیے ہے۔
ابن منبع، عبدبن حمید، ابن زنجویہ، الدورقی، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، السنن للبیہقی
کلام : حدیث ضعیف ہے یہ امام بیہقی (رح) کا قول ہے کیونکہ اس کی سند میں عمرو بن خالد ہے اور امام ذھبی (رح) بھی حاکم پر نقد میں دوسری سند سے مروی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں جیسا کہ 12235 پر روایت گزرچکی ۔

12672

12672- عن حجية بن عدي عن علي قال: البقرة عن سبعة، قلت فإن ولدت؟ قال: اذبح ولدها معها، قلت: والعرجاء؟ قال: إذا بلغت المنسك فاذبح، قلت: فمكسورة القرن؟ قال: لا بأس أمرنا رسول الله أن نستشرف العينين والأذنين. "ط وابن وهب والدارمي ت وقال حسن1 صحيح ن هـ وابن أبي الدنيا في الأضاحي ع وابن خزيمة حب قط في الأفراد والدورقي ك ق ص".
12672 ججیۃ بن عدی حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں، ارشاد فرمایا : گائے سات افراد کی طرف سے کافی ہے۔ حجیۃ کہتے ہیں میں نے پوچھا : اگر گائے (عین موقع ذبح پر) بچہ دیدے ؟ تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ ذبح کردے۔ میں نے پوچھا : اور لنگڑے جانور کا کیا حکم ہے ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : جب وہ جائے ذبح (مذبح خانہ) میں جاسکے تو اس کو ذبح کردے۔ میں نے پوچھا : ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی ؟ فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے ، ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے کہ ہم جانور کی دونوں آنکھیں اور دونوں کان اچھی طرح دیکھ لیں۔
ابوداؤد ، ابن وھب، الدارمی، الترمذی، حسن صحیح، النسائی ، ابن ماجہ ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، مسند ابی یعلی، ابن خزیمہ ابن حبان ، الدارقطنی فی الافراد، الدورقی، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی ، السنن لسعید بن منصور۔

12673

12673- عن علي قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أضحي عنه بكبش، فأنا أحب أن أفعله. "ش وابن أبي الدنيا في الأضاحي ع ك"
12673 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مینڈھے کی قربانی کیا کروں ، پس میں چاہتا ہوں کہ میں ضرور یہ کروں۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، مسند ابی یعلی ، مستدرک الحاکم صحیح الاسناد

12674

12674- عن علي قال: أم رني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أنحر البدن وأن أتصدق بلحومها، فرجعت إليه أسأله عن جلالها وجلودها، فأمرني أن أتصدق به. "ع".
12674 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کہ میں ان اونٹوں کو نحر (ذبح) کروں اور ان کا گوشت صدقہ کروں ۔ چنانچہ پھر میں ان کے زینوں اور کھالوں کا پوچھنے گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ ان کو بھی صدقہ کردوں مسند ابی یعلی

12675

12675- عن أبي عبيدة مولى ابن أزهر أنه سمع عليا يقول يوم الأضحى: يا أيها الناس، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى أن تأكلوا نسككم بعد ثلاث ليال فلا تأكلوها بعده. "الشافعي والعدني م ق د وأبو عوانة والطحاوي ق".
12675 ابوعبیدۃ جو ابن ازھر کے آزاد کردہ غلام ہیں سے مروی ہے کہ انھوں نے قربانی کے دن حضرت علی (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ تین راتوں کے بعد بھی تم قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۔ پس اس کے بعد قربانی کا گوشت نہ کھاؤ۔ یعنی اتنا گوشت ذخیرہ نہ کرو کہ تین یوم کے بعد تک بچا رہے لیکن یہ حکم منسوخ ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ الشافعی، العدنی، مسلم، السنن للبیہقی، ابن داؤد ، ابوعوانۃ، الطحاوی

12676

12676- عن علي أنه كان يقول: أيام النحر ثلاثة، وأفضلهن أولهن. "ابن أبي الدنيا".
12676 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، آپ (رض) فرماتے تھے : قربانی کے تین یوم ہیں اور ان میں سب سے افضل پہلا دن ہے۔ ابن ابی الدنیا

12677

12677- عن علي قال: الأيام المعدودات ثلاثة أيام: يوم النحر ويومان بعده، اذبح في أيها شئت، وأفضلها أولها. "عبد بن حميد وابن أبي الدنيا".
12677 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : ایام معدودات تین دن ہیں ، یوم النحر (دس ذی الحجہ) اور دو دن اس کے بعد جس دن تو چاہے قربانی کرلے اور ان میں سب سے افضل دن پہلا ہے۔
عبدبن حمید، ابن ابی الدنیا

12678

12678- عن المغيرة بن حرب قال: جاء رجل إلى علي فقال: إني اشتريت بقرة أضحي بها فنتجت، فقال: لا تشرب من لبنها إلا ما يفضل عن ولدها فإذا كان يوم النحر، فانحرها وولدها عن سبعة. "ابن أبي الدنيا ق".
12678 مغیرۃ بن حرب سے مروی ہے فرمایا ایک آدمی حضرت علی (رض) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : میں نے ایک گائے قربانی کے لیے خریدی تھی، اس نے بچہ دیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اس کا دودھ نہ پی۔ ہاں جو اس کے بچے سے بچ جائے (وہ تیرے لیے جائز ہے) پھر جب قربانی کا دن آجائے تو اس کو اور اس کے بچے کو سات لوگوں کی طرف سے ذبح کردے۔
ابن ابی الدنیا، السنن للبیہقی

12679

12679- عن علي قال: إذا اشتريت أضحية فاشترها ثنيا1 فصاعدا واستسمن فإن أكلت أكلت طيبا، وإن أطعمت أطعمت طيبا. "ابن أبي الدنيا ق هب".
12679 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جب تو قربانی کا جانور خریدے تو دو دانت والا یا اس سے بڑا خرید پھر اس کو موٹا تازہ کرلے چنانچہ پھر تو کھائے گا تو اچھا کھائے گا اور کھلائے گا تو اچھا کھلائے گا۔ ابن ابی الدنیا، السنن للبیہقی، شعب الایمان للبیہقی

12680

12680- عن علي قال: في الأضحية ثني فصاعدا سليم العين والأذن واستسمن فإن أكلت أكلت سمينا وإن أطعمت أطعمت سمينا، وإن أصابها كسر أو مرض فلا يضرك. "ابن أبي الدنيا ق هب".
12680 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : قربانی کے لیے دو دانت والا یا اس سے بڑی عمر کا جانور جس کی آنکھیں اور کان سلامت ہوں لو اور اس کو (کھلا پلا کر) موٹا تازہ کرلو۔ پھر اگر خود کھاؤ گے تو موٹا تازہ کھاؤ گے اور اگر کھلاؤ گے تو موٹا تازہ کھلاؤ گے اور اگر اس کو کسر (ٹوٹ پھوٹ) یا کوئی مرض لاحق ہوگیا تو تیرے لیے کوئی نقصان نہیں۔
ابن ابی الدنیا، السنن للبیہقی، شعب الایمان للبیہقی

12681

12681- عن علي قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء وأن لا نضحي بالعوراء. "ق".
12681 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم قربانی نہ کریں مقابلہ (آگے سے کان کٹے ہوئے) جانور کی، اور نہ مدابرۃ (پیچھے سے کان کٹے ہوئے) جانور کی، اور نہ شرقاء (لمبائی میں چیرے ہوئے کان والے) جانور کی، اور نہ خرقاء (پھٹے ہوئے کان والے) جانور کی اور نہ ہم کانے بھینگے جانور کی قربانی کریں۔ السنن للبیہقی

12682

12682- مالك أنه بلغه أن علي بن أبي طالب كان يقول: الأضحى يومان بعد يوم الأضحى. "ق".
12682 امام مالک (رح) فرماتے ہیں ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے تھے کہ دو دن (مزید) ہیں یوم الاضحی کے بعد۔ السنن للبیہقی

12683

12683- عن إبراهيم أن عمر كان يحج فلا يضحي. "مسدد".
12683 ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) حج کرتے تھے پر قربانی نہ کرتے تھے۔ مسدد

12684

12684- عن عاصم بن شريب أن عليا دعا يوم النحر بكبش فقال: بسم الله والله أكبر، اللهم منك ولك ومن علي منك، وقال: ائتني منه بطابق وتصدق بسائره. "ابن أبي الدنيا ق".
12684 عاصر بن شریب سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے قربانی کے دن ایک مینڈھا منگوایا اور یہ پڑھا (اور اس کو ذبح کیا) ۔
بسم اللہ واللہ اکبر، اللھم منک ولک ومن علی منک۔
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ ! یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے لیے ہے اور علی کی طرف سے ہے (اور) تیری طرف سے ہے۔
پھر آپ (رض) نے ایک طباق منگوایا اور سارا گوشت صدقہ کردیا۔ ابن ابی الدنیا، السنن للبیہقی

12685

12685- عن حنش الكناني أن عليا قال حين ذبح: وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين، بسم الله والله أكبر منك ولك، اللهم تقبل من فلان. "ابن أبي الدنيا".
12685 خنش کنائی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ذبح کے وقت یہ دعا پڑھی :
وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین، ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین،
بسم اللہ واللہ اکبر منک ولک ، اللھم تقبل من فلان
میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے آپ کو اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خدائے رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اول فرمان بردار ہوں۔
اللہ کے نام یہ قربانی کرتا ہوں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، اے اللہ یہ قربانی تیری طرف سے ہے، تیرے لیے ہے۔ ، اے اللہ ! اس کو فلاں کی طرف سے شرف قبولیت بخش۔ ابن ابی الدنیا

12686

12686- عن علي أنه كان يضحي بالأضحية الواحدة عن جماعة أهله. "ابن أبي الدنيا".
12686 حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ (رض) اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کیا کرتے تھے۔ ابن ابی الدنیا

12687

12687- عن علي قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نضحي بأسمن ما نجد، والبقرة عن سبع، والجزور عن سبع، وأن نظهر التكبير وعلينا السكينة والوقار. "ابن أبي الدنيا".
12687 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے کہ ہمیں جو موٹا تازہ جانور ملے اس کی قربانی کریں ۔ گائے (بیل وغیرہ) کو سات افراد کی طرف سے اور اونٹ کو سات افراد کی طرف سے اور ہم تکبیر کو بلند آواز سے کہیں اور سکون ووقار کو اپنا شعار بنائیں۔ ابن ابی الدنیا

12688

12688- عن مجاهد أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر عليا أن ينحر البدن وأمره أن يتصدق بجلودها وجلالها. "ابن جرير".
12688 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو حکم فرمایا کہ وہ اونٹوں کو نحر (ذبح) کریں اور نیز یہ حکم بھی دیا کہ ان کی کھالوں اور ان کے لباس (وغیرہ) کو صدقہ کردیں۔ ابن جریر

12689

12689- عن طاوس قال: ما أنفق الناس من نفقة أعظم من دم يهراق في هذا اليوم إلا رحما محتاجة يصلها يعني يوم النحر. "ابن زنجويه".
12689 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے فرمایا : اس (قربانی کے) دن کے اندر قربانی کے خون بہانے سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرسکتے سوائے کسی محتاج رشتہ دار سے صلہ رحمی کے (یعنی اس کی اعانت بھی اس دن بڑا ثواب ہے) ۔ ابن زنجویہ

12690

12690- عن كثيرة بنت سفيان وكانت من المبايعات، قالت: قلت يا رسول الله وأدت أربع بنيات لي في الجاهلية فقال: اعتقي أربع رقاب قالت: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أبرقوا فإن دم عفراء أزكى عند الله من دم سوداوين. "أبو نعيم"
12690 کثیرۃ بنت سفیان جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کرنے والوں میں سے تھیں فرماتی ہیں :
میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! جاہلیت کے زمانے میں میں نے اپنی چار بیٹیاں زندہ درگور کی ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ایسی بکری جس کے بالوں میں سفید دھبے ہوں کیونکہ اللہ کے نزدیک ایسی ایک بکری کی قربانی دو کالی بکریوں کی قربانی سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ ابونعیم
کلام : مذکور روایت کی سند میں محمد بن سلمان بن مسمول ضعیف راوی ہے۔
مجمع الزوائد للبیہقی 18/4

12691

12691- عن كليب قال: كنا في المغازي لا يؤمر علينا إلا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان بفارس علينا رجل من مزينة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فغلت علينا المسان، حتى كنا نشتري المسن بالجذعتين والثلاث، فقام فينا هذا الرجل فقال: إن هذا اليوم أدركنا فقلت علينا المسان1 حتى كنا نشتري المسن بالجذعتين والثلاث، فقام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن المسن يوفى بما يوفى منه الثني. "ش".
12691 کلیب سے مروی ہے ہم غزو وں میں ہوتے تھے تو ہم پر امیر صرف اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی کو چنا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ مزینہ کے ایک شہ سوار صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم پر امیر مقرر تھے۔ اس وقت گائے مہنگی ہوگئیں حتیٰ کہ ہم دو یا تین بچھڑوں کے عوض ایک گائے لے پاتے تھے۔ تب یہ صحابی ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ دن ہم کو پہلے بھی پیش آگیا تھا کہ گائیں کم پڑگئیں تھیں حتیٰ کہ ہم ایک گائے یا دو یا تین بچھڑوں میں خریدتے تھے تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے اور ارشاد فرمایا تھا : گائے کام دیتی ہے جہاں دو سالہ بچھڑا کام دیتا ہے۔ یعنی دو سال مکمل ہونے والا بچھڑا بھی گائے کی جگہ کافی ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12692

12692- عن كليب عن رجل من مزينة أن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى في السفر. "ش".
12692 کلیب ، مزینہ کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں قربانی کی ۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12693

12693- عن أبي الأسد السلمي عن أبيه عن جده قال: كنت سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع كل واحد منا درهما، فاشترينا أضحية بسبعة دراهم، فقلنا: يا رسول الله لقد أغلينا بها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن أفضل الضحايا عند الله أغلاها وأنفسها فأمر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا فأخذ بيد ورجلا بيد ورجلا برجل ورجلا برجل ورجلا بقرن ورجلا بقرن، وذبحها السابع وكبرنا علينا جميعا. قال بقية: فقلت لحماد بن زيد: من السابع؟ قال: لا أدري فقلت: رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
12693 ابوالاسد سلمی عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہیں، ان کے دادا کہتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ساتواں فرد تھا (یعنی ہم کل سات افراد ایک موقع پر تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو حکم دیا تو ہم میں سے ہر ایک نے ایک ایک درہم جمع کیا اور سات دراہم میں ہم نے ایک قربانی کا جانور خرید لیا۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ جانور ہم کو مہنگا پڑا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
اللہ کے ہاں افضل ترین قربانی کے جانور زیادہ مہنگے اور زیادہ قیمتی ہیں۔
پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو حکم فرمایا تو ایک آدمی نے جانور کا ایک ہاتھ پکڑ لیا ایک آدمی نے دوسرا ہاتھ پکڑ لیا، ایک آدمی نے ایک ٹانگ پکڑ لی اور ایک آدمی نے ایک ٹانگ پکڑلی، ایک آدمی نے ایک سینگ پکڑ لیا اور ایک آدمی نے دوسرا سینگ پکڑ لیا اور ساتویں نے اس کو ذبح کیا جبکہ ہم ساتوں نے مل کر (بیک آواز) اس پر تکبیر کہی۔
بقیہ کہتے ہیں : میں نے حماد بن زید کو پوچھا ساتواں (ذبح کرنے والا) کون تھا ؟ انھوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا تو میں نے کہا : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ ابن عساکر
کلام : روایت محل کلام ہے : الضعیفۃ 1678 ۔

12694

12694- عن أبي هريرة قال: بيضاء في الأضحى أحب إلي من سوداوين. "ابن النجار".
12694 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے فرمایا قربانی کے جانور میں (کچھ کچھ) سفیدی والا جانور مجھے دو کالے جانوروں سے زیادہ محبوب ہے۔ ابن النجار

12695

12695- عن أبي طلحة قال: ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين فقال عند الأول: عن محمد وآل محمد، وقال عند الثاني: عمن آمن بي وصدقني من أمتي. "طب".
12695 ابوطلحہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چتکبرے (کالے سفید دھبوں والے) مینڈھے ذبح فرمائے۔ پہلے کو ذبح کرتے وقت فرمایا : محمد اور آل محمد کی طرف سے اور دوسرے کو ذبح کرتے وقت فرمایا : میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے میری تصدیق کی۔ الکبیر للطبرانی

12696

12696- عن سعيد بن عبد العزيز عن يونس بن ميسرة بن حلبس قال: خرجت مع أبي سعد الزرقي - وكانت له صحبة - إلى شرى الضحايا فأشار إلى كبش أدغم الرأس ليس بأرفع الكباش، فقال: كأنه الكبش الذي ضحى به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمرني فاشتريته قال سعيد: الأدغم الأسود الرأس. "ابن منده كر".
12696 سعید بن عبدالعزیز، یونس بن میسرۃ بن حبلس سے روایت کرتے ہیں، یونس بن میسرۃ کہتے ہیں میں حضرت ابوسعد الرزقی (رض) جو صحابی رسول ہیں کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے گیا۔ انھوں نے ایک کالے سر والے مینڈھے جو اور مینڈھوں میں زیادہ اونچا نہ تھا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یہ مینڈھا گویا وہی مینڈھا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذبح فرمایا تھا۔ لہٰذا پھر انھوں نے مجھے اسی کے خریدنے کا حکم دیا تو میں نے اس کو خرید لیا۔ ابن مندہ، ابن عساکر

12697

12697- عن أبي رافع قال: ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم كبشا ثم قال: هذا عني وعن أمتي. "طب".
12697 ابورافع (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مینڈھا ذبح فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا : یہ میری طرف سے ہے اور میری امت کی طرف سے ہے۔ الکبیر للطبرانی

12698

12698- عن أبي الدرداء قال: أهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم كبشان أملحان جذعان فضحى بهما. "ع كر".
12698 ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو چتکبرے مینڈھے ہدیہ میں دیئے گئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کی قربانی کی۔ مسند ابی یعلی، ابن عساکر

12699

12699- عن حبيب بن مخنف عن أبيه قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة وهو يقول: هل تعرفونها فما أدري ما رجعوا إليه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على كل أهل بيت أن يذبحوا شاة في كل رجب وفي كل أضحى. "أبو نعيم".
12699 حبیب بن مخنف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، مخنف (رض) کہتے ہیں میں عرفہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا تو آپ فرما رہے تھے : کیا جانتے ہو اس کو ؟ پھر مجھے معلوم نہیں لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جواب دیا۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہر گھر والوں پر لازم ہے کہ وہ ہر رجب میں ایک بکری ذبح کریں اور ہر یوم الاضحی کو قربانی کریں۔ ابونعیم

12700

12700- عن أبي سعيد الخدري أنه قدم من سفر فقدم إليه أهله لحما من لحوم الأضاحي فقال: ما أنا بآكله حتى أسأل فانطلق إلى أخيه لأمه وكان بدريا قتادة بن النعمان، فسأله عن ذلك فقال: إنه قد حدث بعدك أمر نقضا لما كانوا نهوا عنه من أكل لحوم الأضاحي بعد ثلاثة أيام. "كر".
12700 حضرت ابوسعید خدری (رض) کے متعلق مروی ہے کہ وہ سفر سے واپس تشریف لائے تو ان کے گھر والوں نے ان کی خدمت میں قربانی کے گوشت سے کچھ گوشت پیش کیا۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے فرمایا : میں جب تک اس کے متعلق پوچھ نہ آؤں اس کو نہیں کھا سکتا۔ چنانچہ وہ اٹھ کر اپنے ماں شریک بھائی حضرت قتادہ بن النعمان (رض) کے پاس گئے، یہ بدری صحابی تھے۔ ان سے اس گوشت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ہاں تمہارے بعد نیا حکم آگیا ہے جس نے اس کو توڑ دیا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے گوشت کو تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا تھا (لہٰذا تم وہ گوشت کھاسکتے ہو) ۔ ابن عساکر

12701

12701- عن أبي حميد قال: كنا جلوسا إلى عتبة بن عبد السلمي فأقبل يزيد المقرى فقال لعتبة: يا أبا الوليد إنا خرجنا آنفا في التماس جزر للنسك، فلم نكد نجد شيئا غير أني وجدت ثرماء1 سمينة فقال عتبة: فلو ما جئتنا به؟ قال: اللهم غفرا2 أتجزئ عنك ولا تجزئ عني؟ قال: نعم قال: ولم ذاك؟ قال: إنك تشك ولا أشك، ثم أخرج عتبة يده فقال: إنما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن خمس: عن الموصلة والمصفرة والبخقاء والكسراء والمشيعة قال: والموصلة المستأصل بها، والمصفرة المستأصلة أذنها، والبخقاء العوراء البين عورها، والمشيعة المهزولة والمريضة التي لا تتبع الغنم. "ابن جرير".
12701 ابوحمید سے مروی ہے کہ ہم عتبۃ بن عبدالسلمی (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ یزید مقری تشریف لائے اور عتبہ کو عرض کیا : اے ابوالولید ہم قربانی کے لیے اونٹ کی تلاش میں نکلے تھے مگر سوائے ایک موٹے اونٹ کے جس کے اگلے دو دانت بھی گرے ہوئے تھے کے سوا کوئی جانور نہیں مل رہا ؟ حضرت عتبہ نے فرمایا : تم وہ ہمیں لادو۔ یزید بولے، اللہ تم کو بخشے ! کیا وہ اونٹ تمہاری طرف سے قربانی میں کام آسکتا ہے اور میری طرف سے نہیں آسکتا ؟ عتبہ بولے ہاں، یزید لے پوچھا وہ کیوں ؟ فرمایا : تم اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہو (کہ معلوم نہیں اس کی قربانی ہوگی یا نہیں) جبکہ تجھے کوئی شک نہیں۔ پھر عتبہ نے اپنا ہاتھ نکالا اور ارشاد فرمایا : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ چیزوں سے منع فرمایا ہے، موصلہ سے، مصفرہ سے ، شفاء سے، کسراء سے اور مشیعہ سے۔ پھر فرمایا : موصلہ وہ (جانور) ہے جس کے (دانت) جڑ سے اکھاڑے گئے ہوں اور مصفرۃ وہ ہے جس کے کان جڑ سے اکھاڑے گئے ہوں اور بخقاء وہ جانور جس کا بھینگا پن بالکل ظاہر ہو اور مشعیہ وہ کمزور اور بیمار جانور جو ریوڑ میں بکریوں سے پیچھے رہ جائے (اور کسراء وہ جانور جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں) ۔ ابن جریر

12702

12702- عن زيد بن أرقم أنهم قالوا: يا رسول الله، هذه الأضاحي ماهي؟ قال: ملة أبيكم، قالوا: فما لنا فيها؟ قال: بكل شعرة حسنة قالوا: فالصوف؟ قال: بكل صوفة حسنة. "ابن زنجويه".
12702 زید بن ارقم (رض) سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ قربانی کے جانوروں کی حقیقت کیا ہے ؟ فرمایا : تمہارے باپ (ابراہیم (علیہ السلام)) کی ملت ہے۔ پوچھا : ہمارے لیے ان میں کیا (ثواب) ہے ؟ فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ پوچھا : اور اون ؟ فرمایا : اون میں بھی (ہر اون کے بال کے بدلے میں) ایک نیکی ہے۔ ابن زنجویہ

12703

12703- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين يوم النحر. "ن".
12703 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر کو دو مینڈھے ذبح فرمائے ۔ النسائی

12704

12704- عن ثوبان قال: ذبح النبي صلى الله عليه وسلم أضحيته ثم قال: يا ثوبان أصلح لحم هذه الأضحية فلم أزل أطعمه منها حتى قدم المدينة. "كر".
12704 ثوبان (رض) سے مروی ہے، فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قربانی ذبح فرمائی اور پھر مجھے فرمایا : اے ثوبان ! اس قربانی کے گوشے کو درست کرکے رکھو۔ چنانچہ پھر میں اس میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھلاتا رہا حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے تشریف لے گئے۔ ابن عساکر

12705

12705- عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم أهدى جملا لأبي جهل. "قط في العلل والإسماعيلي في معجمه قط خط في رواة مالك".
12705 ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کو ایک اونٹ ہدیہ کیا۔ الدارقطنی فی العلل، الاسماعیلی فی معجمہ، الدار قطنی فی السنن، الخطیب فی التاریخ فی رواۃ مالک
ھدی وہ جانور کہلاتا ہے جو حاجی اپنے ساتھ حرم کو لے جائے تاکہ اس کو ذبح کرکے اللہ کا قرب حاصل کرے اسی طرح کی جنایت سے جو دم لازم ہو وہ بھی ہدی ہے۔

12706

12706- عن عمر قال: يا أيها الناس حجوا واهدوا فإن الله يحب الهدى. "ابن سعد ن في حديث قتيبة".
12706 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا اے لوگو ! حج کرو اور ہدی (اللہ کی راہ میں جانور ذبح) کرو۔ بیشک اللہ ہدی کو پسند کرتا ہے۔ ابن سعد، النسائی فی حدیث فتیبۃ

12707

12707- عن عمر قال: من أهدى هديا تطوعا فعطب نحره دون الحرم ولم يأكل منه شيئا فإن أكل فعليه البدل. "ش".
12707 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو نفلی ہدی لے کر آیا پھر حرم پہنچنے سے پہلے ہی اس کی قربانی مجبوراً کرنا پڑی تو اس سے کچھ نہ کھائے اگر کھالی تو اس پر اس کا بدل ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12708

12708- عن علي أنه سئل هل يركب الرجل هديه؟ فقال: لا بأس به قد كان النبي صلى الله عليه وسلم يمر بالرجال يمشون فيأمرهم يركبون هدى النبي صلى الله عليه وسلم قال: ولا تتبعون شيئا هو أفضل من سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم. "حم".
12708 حضرت علی (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا آدمی اپنی ہدی کے جانور پر سوار ہوسکتا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدل لوگوں کے پاس سے گزرتے تھے تو ان کو حکم فرماتے اور وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہدی کے جانوروں پر سوار ہوجاتے تھے۔ پھر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اور تم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے زیادہ افضل کسی اور چیز کی اتباع نہیں کرسکتے۔ مسند احمد

12709

12709- عن المغيرة بن حرب عن علي أو حذيفة أن النبي صلى الله عليه وسلم أشرك بين المسلمين في هديهم، البقرة عن سبعة. "ط".
12709 مغیرہ بن حرب حضرت علی (رض) یا حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے درمیان ان کی ہدی میں شراکت قائم کی۔ گائے کو سات افراد کی طرف سے ۔ ابوداؤد

12710

12710- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم ساق مائة بدنة في حجته. "الحارث".
12710 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حج میں سو اونٹ لے کر آئے۔ الحارث

12711

12711- عن علي قال: لما نحر النبي صلى الله عليه وسلم بدنه فنحر ثلاثين بيده، وأمرني فنحرت سائرها. "د ق وابن أبي الدنيا في الأضاحي" وزاد وقال: اقسم لحومها بين الناس، وجلالها وجلودها، ولا تعط جازرا منها شيئا.
12711 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، فرمایا : جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اونٹ (ھدی والے) قربان کیے تو تیس اونٹ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے ہاتھ سے نحر کیے (ذبح کیے) اور مجھے حکم کیا تو باقی سارے میں نے نحر (ذبح) کیے۔
ابن داؤد، السنن للبیہقی، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی
ابن ابی الدنیا نے یہ الفاظ اضافہ فرمائے ہیں : مزید حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ ان کا گوشت لوگوں کے درمیان تقسیم کردو اور ان کے لباس (زین وغیرہ) اور کھالوں کو بھی تقسیم کردو اور ان میں سے کوئی چیز کسی (قصائی) کو (اجرت میں) نہ دو ۔
کلام : روایت محل کلام ہے ضعیف ابی داؤد 386 ۔

12712

12712- عن علي أن رجلا سأله عن الهدى مما هو؟ فقال: من الثمانية الأزواج فكأن الرجل شك، فقال: هل تقرأ القرآن؟ قال: نعم قال: سمعت الله يقول: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ} ، قال: نعم وسمعته يقول: {لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} ، {وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً1 وفرشا} فكلوا من بهيمة الأنعام، قال: نعم، قال: فسمعته يقول: {مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْأِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ} قال: نعم قال: فسمعته يقول: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ} إلى قوله {هَدْياً بَالِغَ الْكَعْبَةِ} قال الرجل: نعم قال: قتلت ظبيا فماذا علي؟ قال: شاة، قال علي: هديا بالغ الكعبة كما تسمع. "ابن أبي حاتم ق".
12712 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان سے ہدی کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کس جانور سے ہونی چاہیے ؟ گویا آدمی کو ہدی میں شک تھا۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا تو قرآن پڑھ سکتا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں نے اللہ پاک کا فرمان سنا ہے :
یا ایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا مایتلی علیکم۔
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو تمہارے لیے چار پائے جانور (جو چیرنے والے ہیں) حلال کردیئے گئے ہیں بجزان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔
آدمی نے عرض کیا : جی ہاں (ایسے ہی فرمان الٰہی ہے) اور چوپائے جانور حلال ہیں پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : اسی طرح فرمان الٰہی ہے :
لیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام، ومن الانعام حمولۃ وفرشافکلوا ممن بھیمۃ الانعام
پس ذکر کریں وہ اللہ کا نام ان پر جو اللہ نے ان کو چوپائے جانور دیئے ہیں اور مویشیوں میں جو باربرداری والے ہیں اور جو کھانے کے کام آتے ہیں۔ پس کھاؤ چوپائے جانوروں میں سے۔
آدمی نے عرض کیا : جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ پھر فرمایا : اسی طرح فرمان الٰہی ہے۔
من الضان اثنین ومن العمزاثنین ومن الابل اثنین ومن البقر اثنین۔
بھیڑوں میں جوڑا اور بکریوں سے جوڑا اور اونٹوں سے جوڑا اور گائے سے جوڑا۔
عرض کیا : جی ہاں (اللہ کا فرمان ایسے ہی ہے) پھر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : (اسی طرح) میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے :
یا ایھا الذین امنو ا لا تقتلوا الصید وانتم حرم سے بالغ الکعبۃ ۔ تک
اپنے مومنو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔ اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلہ (دے اور یہ قربانی) کعبہ پہنچائی جائے۔
یہاں ہدی کا ترجمہ قربانی سے کیا گیا ہے، یہ سب آیات سن کر سائل کو واضح ہوگیا کہ ھدی کی قربانی اللہ کا حکم ہے تب اس نے کہا : مجھ سے ایک ہرن قتل ہوگیا ہے اب مجھ پر کیا لازم ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ایک بکری جو کعبہ لائی جائے (اور پھر اسے ذبح کیا جائے) جیسا کہ ابھی تو نے سنا۔
ابن ابی حاتم، السنن للبیہقی

12713

12713- عن علي قال: بعثني نبي الله صلى الله عليه وسلم ببدن فقال: انحرها ولا تعط من لحومها ولا جلودها في جزارتها شيئا من أجرة. "ابن جرير".
12713 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، مجھے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے اونٹ دے کر بھیجا اور ارشاد فرمایا : ان کو جاکر نحر کرو (ذبح کرو) اور ان کا گوشت یا کھالیں قصاب کو اجرت میں ہرگز نہ دینا۔ ابن جریر

12714

12714- عن علي قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقسم لحوم البدن فقسمت، فأمرني أن أقسم جلودها فقسمت، فأمرني أن أقسم جلالها فقسمت. "ابن جرير".
12714 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ میں اونٹوں کا گوشت تقسیم کردوں۔ چنانچہ میں نے تقسیم کردیا۔ پھر حضور نے مجھے فرمایا ان کی کھالیں تقسیم کردوں۔ تو میں نے ان کی کھالیں بھی تقسیم کردیں پھر حضور نے مجھے ان کی زین وغیرہ تقسیم کرنے کا فرمایا سو وہ بھی میں نے تقسیم کردیں۔ ابن جریر

12715

12715- مالك عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي بن أبي طالب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نحر بعض هديه بيده ونحر بعضه غيره
12715 مالک عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن علی بن ابی طالب، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ اونٹ اپنے دست اقدس سے نحر کیے اور کچھ اونٹ آپ کے سوا اور کسی نے کیے۔ مالک، مسلم

12716

12716- عن علي رضي الله عنه قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بعث معي الهدى أن أتصدق بجلودها وجلالها، ولا أعطى الجازر منها شيئا ومعي مائة بدنة. "زاهر بن طاهر بن طاهر في تحفة عيد الأضحى".
12716 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ہدی (قربانی) کے جانوروں کے ساتھ بھیجا تو یہ بھی حکم دیا کہ میں ان کی کھالوں اور لباسوں کو تقسیم کردوں اور کسی قصاب کو ان میں سے کوئی چیز نہ دوں (بطور اجرت) پھر حضرت علی (رض) نے فرمایا : اور میرے ساتھ نبی کے بھیجے ہوئے سو اونٹ تھے۔ زاھر بن طاھر بن طاھر فی تحفۃ عبدالاضحی

12717

12717- عن أنس قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يسوق بدنة فقال: اركبها قال: إنها بدنة قال: اركبها. "ش".
12717 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو ھدی کا اونٹ مہار تھامے ہوئے پیدل لے کر جاتے ہوئے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس پر سوار ہوجا۔ آدمی نے عرض کیا کہ یہ بدنہ ہے (قربانی کا جانور ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوار ہوجا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12718

12718- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر عليا أن ينحر بدنه، وأن يتصدق بأجلتها وجلودها، ولا يعطى الجزار منها شيئا. "ابن جرير".
12718 عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو ہدی کے اونٹ قربانی کرنے کا حکم دیا نیز فرمایا کہ ان کی زین وغیرہ اور کھالیں بھی تقسیم کردیں اور قصاب کو ان میں سے کوئی چیز (بطور اجرت) نہ دیں۔ ابن جریر

12719

12719- عن مجزأة بن زاهر عن أبيه عن ناجية بن جندب قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم حين صد عن الهدى، قلت: يا رسول الله ابعث معي الهدى فلأنحره في الحرم قال: وكيف تصنع به؟ قال: أمر به في أودية لا يقدرون عليها، فانطلقت به حتى نحرته في الحرم. "أبو نعيم".
12719 مجزاۃ بن زاھر اپنے والد سے، وہ ناجیۃ بن جندب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدی (مکہ میں) لانے سے روک دیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے ساتھ ہدی بھیج دیجئے میں اس کو حرم میں لے جاکر نحر (قربان) کردوں گا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو اس کو کیسے لے جائے گا ؟ انھوں نے عرض کیا : میں ایسی وادیوں سے اس کو لے کر جاؤں گا جہاں سے وہ لوگ (مشرکین) اس پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ چنانچہ میں اس کو لے کر چلا گیا اور لے جاکر حرم میں نحر (قربان کردیا) ۔ ابونعیم

12720

12720- عن ناجية بن كعب الخزاعي قلت: يا رسول الله كيف أصنع بما عطب من البدن؟ قال: انحرها، ثم اغمس نعلها في دمها، ثم خل بين الناس وبينها فيأكلوها. "ش ت قال حسن صحيح حب".
12720 ناجیۃ بن کعب الخزاعی سے مروی ہے ، فرماتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! جو ہدی کے اونٹ راستے میں تھک کر قریب الہلاکت ہوجائیں میں ان کا کیا کروں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کو نحر کردو پھر اونٹ کے پاؤں اس کے خون سے رنگین کردو پھر لوگوں کو اس کا گوشت کھانے کے لیے چھوڑ دو ۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الترمذی، حسن صحیح، ابن حبان حدیث صحیح

12721

12721- عن ابن عمر قال: من أهدى هديا تطوعا فعطب نحره دون الحرم ولم يأكل منه فإن أكل فعليه البدل. "ش".
12721 ابن عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : جو نفلی ہدی لے کر آیا پھر حرم پہنچنے سے پہلے (ااس کے تھک جانے کی وجہ سے) نحر (قربانی) کرنے کی نوبت پیش آگئی تو اس سے خود کچھ نہ کھائے اگر کھالیا تو اس پر بدل لازم ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12722

12722- عن ابن عمر أن عمر أهدى نجيبة له فأعطى بها ثلاث مائة دينار فأتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا نبي الله أهديت نجيبة لي أعطيت بها ثلاث مائة دينار فأبيعها وأشتري بثمنهلا بدنا فأنحرها؟ قال: لا، انحرها إياها. "الشاشي ق ص".
12722 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو ایک عمدہ اونٹنی ہدیہ میں دی گئی، پھر کسی نے ان کو تین سو دینار اس اونٹنی کے دینے چاہے، حضرت عمر (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! مجھے ایک عمدہ اونٹنی ہدیہ میں آئی ہے، اب مجھے اس کے تین سو دینار مل رہے ہیں، کیا میں اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت سے کئی اونٹ خرید کر اللہ کی راہ میں بطور ہدی بھیج سکتا ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہیں، اسی کو نحر (قربان) کرو۔
الشاشی، السنن للبیہقی ، السنن لسعید بن منصور

12723

12723- عن ابن عباس قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم بثمان عشرة بدنة مع رجل وأمره فيها بأمره فانطلق، ثم رجع إليه فقال: أرأيت إن أزحف1 عليها منها شيء قال: انحرها ثم اغمس نعلها في دمها ثم اجعلها على صفحتها ولا تأكل منها أنت ولا أحد من أهل رفقتك. "ش".
12723 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کے ساتھ اٹھارہ اونٹ قربانی کے بھیجے اور کچھ احکام بھی دیئے ، وہ شخص ان کو لے کر چلا گیا۔ پھر (کسی خیال سے) واپس آیا اور پوچھا : اگر ان میں سے کوئی اونٹ تھک کر آگے چلنے سے عاجز ہوجائے تو ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو نحرکردو پھر اس کے پاؤں اس کے خون میں ڈبو دو اور ان کو اس اونٹ کے جسم پر مارو اور پھر اس میں سے نہ خود کھاؤ اور نہ تمہارے قافلہ میں سے کوئی کھائے۔ ابن ابی شیبہ

12724

12724- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم نحر هديه بيده ونحر بعضه غيره. "ابن النجار".
12724 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہدی کے کچھ جانور اپنے دست مبارک سے نحرفرمائے اور کچھ کسی اور نے نحر کیے۔ ابن النجار

12725

12725- "من مسند عبد الله بن عباس رضي الله عنهما" أن النبي صلى الله عليه وسلم أشعر في الأيمن وسلت الدم بيده. "ش".
12725 (مسند عبداللہ بن عباس (رض)) حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے داہنی جانب والے اونٹوں کو خاص علامت لگائی اور اپنے ہاتھ سے ان کا خون نکالا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12726

12726- عن ابن عباس قال: أمر النبي صلى الله عليه وسلم عليا أن يقسم بدنه فقسمها أعضاء، ثم أتاه فقال: اقسم جلودها وجلالها. "ابن جرير".
12726 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، فرمایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ ان کے اونٹوں کو تقسیم کردیں، چنانچہ حضرت علی (رض) نے ان کو اعضاء اعضاء تقسیم کردیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دوبارہ حکم فرمایا کہ ان کی کھالیں اور ان کے لباس (پالان وغیرہ) بھی تقسیم کردو۔ ابن جریر

12727

12727- "مسند علي رضي الله عنه" عن سعيد بن عبيدة قال: شهدت مع علي العيد، فصلى، ثم خطب ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهاكم أن تأكلوا من نسككم فوق ثلاثة أيام. "المروزي في العيدين".
12727 (مسند علی (رض)) سعید بن عبیدۃ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میں عید کے موقع پر حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا۔ آپ (رض) نے نماز پڑھی پھر خطبہ ارشاد فرمایا پھر فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لوگوں کو منع فرمایا ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین دن کے بعد کھاؤ۔ المروزی فی العیدین

12728

12728- عن أنس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثلاث: عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث، وعن زيارة القبور، وعن النبيذ في هذه الظرف ثم قال: ألا إني نهيتكم عن ثلاث، ثم بدا لي فيهن: نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث، ثم بدا لي أن الناس ينفقون إدامهم ويتحفون ضيفهم ويختبئون لغائبهم، فكلوا وأمسكوا، ونهيتكم عن زيارة القبور فزوروا ولا تقولوا هجرا، وإنه يرق القلب ويدمع العين ويذكر الآخرة ونهيتكم عن هذه الأوعية فاشربوا فيما شئتم. "ابن النجار".
12728 حضرت انس (رض) سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین باتوں سے منع فرمایا : تین دن کے بعد قربانی کے گوشت سے، قبروں کی زیارت سے اور ان (شراب کے) برتنوں میں نبیذ بنانے سے۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : خبردار ! سنو ! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا پھر مجھے ان کی حقیقت آشکارا ہوئی۔ میں نے تم کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت (کھانے سے) منع کیا تھا پھر مجھے واضح ہوا کہ لوگ (گوشت) کا سالن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اپنے مہمانوں کو (گوشت) کھلاتے ہیں اور اپنے غائب لوگوں کے لیے بچا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا اب تم کھاؤ اور روک بھی لو۔ اور میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا پس اب زیارت کیا کرو لیکن وہاں لغوبات کرنے سے اعراض کرو۔ بیشک یہ چیزیں دل کو نرم کرتی ہیں آنکھوں کو رلاتی ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔ اور میں نے تم کو ان برتنوں سے منع کیا تھا پس جن برتنوں میں تم چاہو (حلال چیز) پیو۔ ابن النجار

12729

12729- عن يزيد بن أبي حبيب قال: سألت عائشة عن لحوم الأضاحي، فقالت: لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنها، ثم رخص فيها، قدم علي بن أبي طالب من سفر فأتته امرأته فاطمة بلحم من ضحاياها، فقال: أو لم ينه عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: إنه رخص فيها فدخل علي على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله عن ذلك، فقال له: كلها من ذي الحجة إلى ذي الحجة. "حم والخطيب في المتفق والمفترق".
12729 یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے قربانیوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے منع فرمایا تھا پھر ان کی رخصت (اجازت) عطا فرمادی۔ علی بن ابی طالب (رض) ایک سفر سے واپس تشریف لائے تو ان کی بیوی فاطمہ (رض) نے قربانی کا گوشت ان کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ فاطمہ (رض) بولیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو (گوشت) کھانے کی اجازت مرحمت فرمادی ہے۔ چنانچہ علی (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے بارے میں سوال کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اب تم ان قربانیوں کا گوشت ذی الحجہ سے (اگلی) ذی الحجہ تک کھا سکتے ہو۔۔
مسند احمد ، الخطیب فی المتفق والمفترق

12730

12730- عن عمر قال: قال من لبد أو ضفر أو قتل فليحلق. "مالك وأبو عبيد في الغريب ش".
12730 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : جس نے بالوں میں (کچھ دوا وغیرہ) تلی یا بالوں کی مینڈھی بنائی یا (جوؤں کو) قتل کیا تو وہ حلق کرائے (منڈائے) ۔
مالک، ابوعبید فی الغریب، ابن ابی شیبہ

12731

12731- عن ابن عمر أن عمر بن الخطاب قال: من ضفر فليحلق ولا يشبه بالتلبيد. "مالك هق"
12731 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : جس نے مینڈھی بنا رکھی ہوں وہ سر منڈائی اور تنبید کی مشابہت نہ کرے (یعنی دوا وغیرہ میں نہ ملے) ۔
مالک، السنن للبیہقی

12732

12732- عن علي أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال: إني أفضت قبل أن أحلق؟ قال: احلق أو قصر ولا حرج. "ش".
12732 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے حلق کرانے سے قبل ہی افاضہ (واپسی) کرلی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اب حلق یا قصر کرالے (سرمنڈالے یا بال چھوٹے کرالے) اور کوئی حرج نہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12733

12733- عن علي قال: من لبد أو عقص أو ضفر فعليه الحلق. "أبو عبيد".
12733 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : جس نے (بالوں میں) تلبید کی یا بالوں کو گوندھا یا ان کا جوڑا بنایا تو اس پر (بال چھوٹے کرنے کے بجائے) منڈانا واجب ہے۔ ابوعبید

12734

12734- عن أسامة بن شريك أن النبي صلى الله عليه وسلم سأله رجل فقال: حلقت قبل أن أذبح؟ قال: لا حرج. "ش وابن جرير".
12734 اسامۃ بن شریک سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ میں نے قربانی سے پہلے حلق کروالیا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر

12735

12735- عن جابر بن عبد الله قال: قال رجل يا رسول الله، حلقت قبل أن أنحر؟ قال: لا حرج. "ش".
12735 حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے قربانی کرنے سے قبل حلق کروالیا (سرمنڈوالیا) ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی حرج نہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12736

12736- عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى الجمرة يوم النحر، ثم قعد للناس فجاءه رجل فقال: يا رسول الله إني حلقت قبل أن أنحر قال: لا حرج ثم جاء آخر فقال: حلقت قبل أن أرمي؟ قال: لا حرج فما سئل عن شيء إلا قال: لا حرج. "ابن جرير".
12736 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحرکو رمی جمرہ فرمائی پھر لوگوں (کے سوال جواب) کے لیے بیٹھ گئے۔ چنانچہ ایک آدمی آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے نحر کرنے سے قبل حلق کروالیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے، پھر دوسرا شخص آیا اور عرض کیا : میں نے رمی کرنے سے قبل حلق کروالیا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ پس جس چیز کے متعلق بھی سوال کیا گیا آپ نے یہی ارشاد فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن جریر

12737

12737- عن حبشي بن جنادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم اغفر للمحلقين، قيل: يا رسول الله والمقصرين؟ قال: اللهم اغفر للمحلقين، قال في الثالثة أو الرابعة: والمقصرين. "أبو نعيم".
12737 حبشی بن جنادۃ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! محلقین (سرمنڈانے والوں) کی بخشش فرمایا کسی نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اور مقصرین (بال چھوٹے کرانے والے ؟ ) تو آپ نے پھر وہی ارشاد فرمایا : اے اللہ محلقین کی بخشش فرما ۔ اور تیسری یا چوتھی بار میں آپ نے فرمایا اور مقصرین (کی بھی بخشش فرما) ۔ ابونعیم

12738

12738- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم الحديبية: يرحم الله المحلقين قالوا: يا رسول الله؛ والمقصرين؟ قال: يرحم الله المحلقين ثلاثا، قال: والمقصرين يا رسول الله؟ قال: والمقصرين، قالوا يا رسول الله ما بال المحلقين ظاهرت لهم الترحم قال: إنهم لم يشكوا. "ش".
12738 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے روز ارشاد فرمایا : اللہ رحم کرے محلقین پر۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور مقصرین ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ مخلقین پر رحم کرے۔ تین بار آپ یونہی پوچھنے پر ارشاد فرماتے رہے۔ پھر (چوتھی بار) لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! اور مقصرین ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اور مقصرین (پر بھی رحم فرما) لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! محلقین کی کیا خصوصیت ہے ؟ آپ نے ان کے لیے بہت ترحم فرمایا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیونکہ وہ شک میں نہیں پڑے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12739

12739- عن أبي سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم حلق يوم الحديبية هو وأصحابه إلا عثمان وأبا قتادة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يرحم الله المحلقين، قالوا: والمقصرين يا رسول الله؟ قال: يرحم الله المحلقين والمقصرين. "ش".
12739 ابوسعیدخدری (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس آپ کے اصحاب نے یوم الحدیبیہ کو حلق فرمایا (سرمنڈایا) سوائے عثمان اور قتادہ (رض) کے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ محلقین پر رحم فرمائے، لوگوں نے عرض کیا اور مقصرین یارسول اللہ ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ رحم کرے محلقین پر اور مقصرین پر۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12740

12740- عن بريد بن أبي مريم السلولي حدثني أبي مالك بن ربيعة أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع يقول: اللهم اغفر للمحلقين ثلاثا، ثم قال: وللمقصرين. "الروياني والبغوي كر".
12740 برید بن ابی مریم السلولی سے مروی ہے کہ مجھے ابومالک بن ربیعہ نے بیان کیا کہ انھوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین بار فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ ! محلقین کی بخشش فرما پھر چوتھی بار فرمایا اور مقصرین کی۔ الرویانی والبغوی، ابن عساکر

12741

12741- عن أوس بن عبد الله السلولي حدثني عمي بريد بن أبي مريم عن أبيه م الك بن ربيعة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: اللهم اغفر للمحلقين، فقال رجل: يا رسول الله، وللمقصرين؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم في الثالثة أو الرابعة والمقصرين، قال مالك: ورأسي يومئذ محلوق وما يسرني بحلق رأسي يومئذ حمر النعم. "ابن مندة وأبو نعيم كر".
12741 اوس بن عبداللہ اسلوبی سے مروی ہے کہ مجھے میرے چچا برید بن ابی مریم نے اپنے والد مالک بن ربیعہ سے بیان کیا۔ مالک کہتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ محلقین کی بخشش فرما۔ ایک آدمی نے عرض کیا : یارسول اللہ اور مقصرین ؟ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری یا چوتھی بار پوچھنے پر فرمایا : اور مقصرین (کی بھی بخشش فرمایا اللہ) مالک کہتے ہیں : اس دن میرا سر محلوق (منڈا ہوا) تھا اور اس کی وجہ سے مجھے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ خوشی ہورہی تھی۔ ابن مندۃ و ابونعیم، ابن عساکر

12742

12742- عن جابر بن الأزرق الغاضري قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلة ومتاع فلم أزل أسايره إلى جانبه حتى بلغنا، فنزل إلى قبة من أدم فدخلها فقام على بابه أكثر من ثلاثين رجلا معهم السياط فدنوت فإذا رجل يدفعني، فقلت: لئن دفعتني لأدفعنك ولئن ضربتني لأضربنك، فقال: يا أشر الرجال فقلت: والله أنت شر مني، قال: كيف قلت جئت من أقطار اليمن لكيما أسمع من النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أرجع فأحدث من ورائي، ثم أنت تمنعني، قال: صدقت، نعم والله لأنا شر منك ثم ركب النبي صلى الله عليه وسلم فتعلقه الناس من عند العقبة من منى حتى كثروا عليه يسألونه، ولا يكاد واحد يصل إليه من كثرتهم، فجاءه رجل مقصر شعره، فقال: صل علي يا رسول الله، فقال: صلى الله على المحلقين ثم قال: صل علي، فقال: صلى الله على المحلقين، ثم قال: صل علي، فقال: صلى الله على المحلقين، فقال: ثلاث مرات، ثم انطلق فحلق رأسه فلا أرى إلا رجلا محلوقا. "أبو نعيم".
12742 جابر بن ازرق الغاضری سے مروی ہے فرماتے ہیں میں اپنی سواری اور سامان کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی سواری کے ایک طرف ہوگیا اور ہم چلتے رہے حتیٰ کہ ہم (منزل) پہنچ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چمڑے کے ایک خیمے میں اتر کر تشریف لے گئے۔ پھر اس کے دروازے پر تیس سے زائد افراد کھڑے ہوگئے جن کے ہاتھ میں کوڑے تھے ۔ میں قریب ہوا تو ایک آدمی مجھے ہٹانے لگا۔ میں نے اس کو کہا اگر تو مجھے دھکے دے گا تو میں تجھے دھکے دوں گا اور اگر تو مجھ سے لڑے گا تو میں تجھ سے لڑوں گا۔ اس نے کہا : تو بڑا شریر آدمی ہے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! تو مجھ سے زیادہ شریر ہے۔ اس نے پوچھا : وہ کیسے ؟ میں نے کہا : میں یمن کے دور دراز علاقے سے آیا ہوں تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سن کر واپس جاکر اپنے پیچھے والے لوگوں کو سناؤں۔ لیکن اب تو مجھے روک رہا ہے۔ آدمی نے کہا : ہاں تو سچ کہتا ہے ، اللہ کی قسم میں ہی تجھ سے زیادہ شریر ہوں۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوگئے، لوگ عقبہ منیٰ سے آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے اور خوب زیادہ ہوگئے اور آپ سے سوال جواب کرنے لگے۔ کثرت اور اژدھام کی وجہ سے کوئی آپ کے قریب نہیں پہنچ پارہا تھا۔ پھر ایک آدمی حاضر ہوا جس نے بال چھوٹے کرا رکھے تھے ، بجائے حلق کرانے کے۔ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ میرے لیے دعائے رحمت کر دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! محلقین پر رحمت فرما۔ آدمی نے پھر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھ پر دعائے رحمت فرمادیں۔ آپ نے پھر فرمایا : اے اللہ محلقین پر رحمت فرما۔ تین مرتبہ ایسا ہی فرمایا۔ پھر آدمی چلا گیا اور اپنا سر منڈا کر آگیا۔ اس دن میں سر منڈے کے سوا کوئی شخص نہیں دیکھ رہا تھا۔ ابونعیم

12743

12743- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر عن عمر قال: إذا حلقتم ورميتم الجمرة بسبع حصيات وذبحتم، فقد حل لكم كل شيء إلا النساء والطيب. "عب والطحاوي ونصر في الحجة ق".
12743 (مسند عمر (رض)) ابن عمر (رض) حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : جب تم حلق کرلو اور جمرۃ پر سات کنکریاں مارلو اور قربانی ذبح کرلو تو تب تمہارے لیے ہر چیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے۔ الجامع لعبدالرزاق، الطحاوی، نصرفی الحجۃ، السنن للبیہقی

12744

12744- عن ابن عمر أن عمر كان ينهى أن يبيت أحد من وراء العقبة وكان يأمرهم أن يدخلوا منى. "ش".
12744 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص عقبہ سے باہر رات گزارے اور لوگوں کو منیٰ میں داخل ہونے کا فرماتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12745

12745- عن نافع قال: زعموا أن عمر بن الخطاب كان يبعث رجالا يدخلون الناس من وراء العقبة. "مالك".
12745 نافع (رح) سے مروی ہے فرمایا : لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) لوگوں کو بھیجتے تھے کہ عقبہ سے باہر والے لوگوں کو اندر بھیجیں۔ مالک

12746

12746- عن عطاء أن عمر رخص للرعاء أن يبيتوا عن منى. "ش".
12746 عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے چرواہوں (اور جانوروں کے نگہبانوں) کو اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ وہ منی سے باہر رات گزاریں۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12747

12747- عن ابن عمر قال: قال عمر لا يبيتن أحد من الحاج ليالي منى من وراء العقبة."مالك هق"
12747 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : کوئی حاجی منیٰ کی راتیں عقبہ سے باہر ہرگز نہ بسر کرے۔ موطا امام مالک، السنن للبیہقی

12748

12748- عن عمرو بن دينار عن طلق قال: سأل عمر بن الخطاب زيد بن صوحان أين منزلك بمنى؟ قال: على الشق الأيسر، قال عمر: ذلك منزل الداج فلا تنزله قال عمر: والداج هم التجار. "الأزرقي".
12748 عمرو بن دینار، خلق سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے زید بن صوحان سے سوال کیا کہ منیٰ میں تمہارا ٹھکانا کہاں ہے ؟ انھوں نے عرض کیا بائیں جانب۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : وہ تو تاجروں کی منزل ہے، وہاں نہ رہو۔ الازرقی

12749

12749- عن الهرماس بن زياد الباهلي قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم بمنى يوم الأضحى يخطب على بعير. "كر".
12749 ھرماس بن زیاد باہلی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے عیدالاضحی کے موقع پر منیٰ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ اونٹ پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ ابن عساکر

12750

12750- عن جعفر بن المطلب أن عمرو بن العاص قال لعبد الله بن عمر في أيام منى تعال، ثم قال: لا إلا أن تكون سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم قال: فإني سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم. "خ في تاريخه كر".
12750 جعفر بن مطلب سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) کو منیٰ کے دنوں میں فرمایا میرے پاس آجاؤ پھر فرمایا : نہیں، ہاں اگر تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اس موقع کے بارے میں) کچھ سن رکھا ہو تو آؤ۔ انھوں نے فرمایا : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رکھا ہے۔ البخاری فی تادبحہ ، ابن عساکر

12751

12751- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عيينة بن عمير قال: كان عمر بن الخطاب رضي الله عنه يكبر بعد صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة الظهر في آخر أيام التشريق. "ش ك ق".
12751 (مسند عمر (رض)) عینیہ بن عمیر سے مروی ہے ، فرمایا حضرت عمر بن خطاب (رض) عرفہ کے روز فجر کے بعد سے ایام التشریق (تیرھویں تاریخ) کی ظہر تک تکبیرات تشریق پڑھتے تھے۔
ابن ابی شیبہ، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی

12752

12752- عن عبيد بن عمير أن عمر بن الخطاب كان يكبر من صلاة الصبح يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق. "ش والمروزي في العيدين وابن أبي الدنيا في الأضاحي وزاهر بن طاهر الشحامي في تحفة عيد الأضحى".
12752 عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) عرفہ کے روز (نو ذی الحجہ کی) فجر کی نماز سے ایام تشریق کے آخری دن (تیرھویں ذی الحجہ) تک تکبیر کہتے تھے۔ ابن ابی شیبہ، المروزی فی العیدین، ابن ابی الدنیا فی الاضاحی، زاھر بن طاھر الشحامی فی تحفۃ عید الاضحی

12753

12753- عن أبي إسحاق قال: اجتمع عمر وعلي وابن مسعود على التكبير في دبر صلاة الغداة من يوم عرفة، فأما ابن مسعود فإلى صلاة العصر من يوم النحر، وأما عمر وعلي فإلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق. "ق".
12753 ابواسحاق سے مروی ہے ، فرمایا : عمر، علی اور ابن مسعود (رض) کا اس بات میں اتفاق تھا کہ یہ تینوں حضرات عرفہ کی صبح نماز کے بعد تکبیر شروع کرتے تھے۔ لیکن ابن مسعود (رض) یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کی نماز عصر تک تکبیر پڑھتے جبکہ عمر (رض) وعلی (رض) آخری ایام تشریق کی نماز عصر تک پڑھتے تھے۔ السنن للبیہقی

12754

12754- "مسند علي رضي الله عنه" عن عبيدة قال: قدم علينا علي بن أبي طالب فكبر يوم عرفة من صلاة الغداة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق يقول: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. "ابن أبي الدنيا فيه" ورواه زاهر في تحفة عيد الأضحى عن الحارث عن علي".
12754 (مسند علی (رض)) عبیدۃ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہمارے پاس تشریف لائے اور عرفہ کے روز صبح کی نماز کے بعد سے تیرھویں ذی الحجہ کی عصر تک یہ تکبیریں ۔ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے رہے :
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد، ابن ابی الدنیا فیہ
اس روایت کو زاہر نے تحفہ عیدالاضحی میں عن الحارث عن علی سے روایت کیا ہے۔

12755

12755- عن شقيق قال: كان علي يكبر بعد صلاة الفجر غداة عرفة، ثم لا يقطع حتى يصلى الإمام من آخر أيام التشريق، ثم يكبر بعد العصر. "ق".
12755 شقیق (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) عرفہ کے روز فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر تشریق پڑھنا شروع فرماتے تھے اور ان کو موقوف نہیں فرماتے تھے جب تک کہ امام ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز نہ پڑھ لے۔ السنن للبیہقی

12756

12756- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا علي، كبر في دبر صلاة الفجر من يوم عرفة إلى آخر أيام التشريق صلاة العصر. "الديلمي".
12756 حضرت علی (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے علی ! عرفہ کے روز فجر کی نماز کے بعد تکبیر کہہ اور ایام تشریق کے آخری دن کے عصر تک (ہر نماز کے بعد) کہتا رہ۔ الدیلمی

12757

12757- عن شقيق وأبي عبد الرحمن عن علي أنه كان يكبر بعد صلاة الفجر يوم عرفة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق ويكبر بعد العصر. "ش".
12757 شقیق اور ابوعبدالرحمن حضرت علی (رض) کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ وہ عرفہ کے روز فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر شروع فرماتے اور ایام تشریق کے آخری روز کی عصر تک کہتے رہتے اور عصر کے بعد بھی تکبیر کہتے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12758

12758- عن شريك قال: قلت لأبي إسحاق: كيف كان يكبر علي وعبد الله؟ فقال: كانا يقولان: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد. "ش".
12758 شریک (رح) سے مروی ہے فرمایا : میں نے ابواسحاق سے عرض کیا : علی اور عبداللہ کیسے تکبیر کہتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا : وہ دونوں یہ الفاظ کہتے تھے :
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد، ابن ابی شیبہ

12759

12759- عن عمر بن الخطاب قال: من السنة النزول بالأبطح عشية النفر. "طس".
12759 حضرت بن خطاب (رض) سے مروی ہے فرمایا : کوچ کی رات وادی ابطح میں اترنا سنت ہے۔
الاوسط للطبرانی

12760

12760- عن عمر حصبوا ليلة النفر "ش وأبو عبيد في الغريب".
12760 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کوچ کی رات وادی محصب میں ٹھہرو۔
ابن ابی شیبہ، ابوعبید فی الغریب
فائدہ : وادی محصب مکہ اور منیٰ کے درمیان وادی ابطح کی طرف ایک گھاٹی ہے۔

12761

12761- عن عمر قال: من قدم ثقله2 قبل النفر فلا حج له. "ش".
12761 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، فرمایا : جس نے کوچ سے قبل اپنا سامان آگے بھیج دیا اس کا حج نہیں ہوا۔ ابن ابی شیبہ

12762

12762- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: سمعت عمر بمنى يقول: أيها الناس، إن النفر غدا، فلا ينصرف أحد حتى يطوف بالبيت فإن آخر النسك الطواف بالبيت. "مالك والشافعي ش ع ق"
12762 (مسند عمر (رض)) ابن عمر (رض) سے مروی ہے ، فرمایا میں نے منیٰ میں حضرت عمر (رض) سے فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! کل (یہاں سے) کوچ ہوگا، پس کوئی شخص واپس نہ جائے بیت اللہ کا طواف کیے بغیر، کیونکہ آخری عمل حج میں طواف بیت اللہ ہے۔
مالک، الشافعی، ابن ابی شیبہ، مسند ابی یعلی، السنن للبیہقی

12763

12763- عن عمر قال: ليكن آخر عهدكم بمنى البيت، وليكن آخر عهدكم من البيت الحجر. "ش".
12763 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : منیٰ کے بعد آخری عمل تمہارا بیت اللہ کا طواف ہونا چاہیے اور بیت اللہ کے طواف میں آخری عمل حجراسود (کا بوسہ) ہونا چاہیے۔ ابن ابی شیبہ

12764

12764- عن عطاء وطاوس أن عمر كان يرد من خرج ولم يكن آخر عهده بالبيت. "ش".
12764 عطاء اور طاؤ وں سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) اس شخص کو واپس لوٹا دیتے تھے جو واپس جارہا ہوتا اور اس کا آخری عمل بیت اللہ (کا طواف) نہ ہوتا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12765

12765- عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب رد رجلا من مر الظهران1 لم يكن ودع البيت. "مالك والشافعي ق".
12765 یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک آدمی کو مر الظہران سے واپس کیا جس نے طواف وداع نہیں کیا تھا۔ مالک، الشافعی، السنن للبیہقی۔

12766

12766- عن أم سلمة انها لم تكن طافت طواف الخروج فقالت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم: فأمرها أن تطوف إذا أقيمت الصلاة من وراء الناس، فلما أقيمت الصلاة طافت من وراء الناس على بعير. "ن".
12766: ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے طواف الخروج (طواف وداع) نہیں کیا تھا تو انھوں نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نماز کھڑی ہوجائے تو وہ نمازیوں کے پیچھے سے کعبۃ اللہ کا طواف کرلیں۔ چنانچہ جب نماز کھڑی ہوگئی تو انھوں نے اونٹ پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے کعبۃ اللہ کا طواف کیا ۔ النسائی

12767

12767- "مسند أبي بكر الصديق رضي الله عنه" عن ميمون ابن مهران أن أعرابيا أتى أبا بكر فقال: قتلت صيدا وانا محرم، فما ترى علي من الجزاء؟ فقال أبو بكر لأبي بن كعب وهو جالس عنده: ما ترى فيها؟ فقال الأعرابي: أتيتك وأنت خليفة رسول الله صلى الله عليه سلم أسألك، فإذا أنت تسأل غيرك فقال أبو بكر: وما تنكر؟ يقول الله {يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} ، فشاورت صاحبي حتى إذا اتفقنا على أمر أمرناك به. "عبد بن حميد وابن أبي حاتم".
12767 (مسند ابی بکر (رض)) میمون بن مہران سے مروی ہے کہ ایک اعرابی حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے ایک شکار قتل کردیا ہے حالانکہ میں احرام کی حالت میں تھا۔ آپ اس کا مجھ پر کیا بدلہ دیکھتے ہیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت ابی بن کعب سے جو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ارشاد فرمایا : آپ اس میں کیا (بدلہ) دیکھتے ہیں ؟ (اتنے میں) اعرابی (درمیان میں) بول پڑا کہ میں آپ کی خدمت میں آیا تھا اور آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ہیں تاکہ آپ سے سوال کروں۔ اور آپ خود کسی اور سے سوال کررہے ہیں ! حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تجھے کیوں برا لگ رہا ہے ؟ (حالانکہ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : بحکم بہ ذواعدل منکم۔ اس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں اس وجہ سے میں نے اپنے ساتھی سے مشورہ کیا تاکہ ہم کسی بات پر متفق ہوجائیں تو اس کا تجھے حکم کردیں۔ عبد بن حمید، ابن ابی حاتم

12768

12768- "مسند عمر رضي الله عنه" عن جابر بن عبد الله عن عمر بن الخطاب قال ولا أراه إلا قد رفعه، أنه حكم في الضبع يصيبه المحرم شاة، وفي الأرنب عناق، وفي اليربوع جفرة1 وفي الظبي كبش. "مالك والشافعي عب ش وأبو عبيد في الغريب ع عد وابن مردويه هق - ورجاله ثقات - قال "ق" - والصيحح وقفه - ط"
12768 (مسند عمر (رض)) جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے، وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انھوں نے اس کو مرفوعاً (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) بیان کیا کہ انھوں نے بجو میں جس کو محرم مار دے تو ایک بکری کا فیصلہ فرمایا ۔ اور خرگوش میں بکری کا بچہ (سال سے کم والا) اور جنگلی چوہے میں چوتھے ماہ کا بکری کا بچہ ، اور ہرن میں مینڈھا۔
مالک ، الشافعی، مصنف عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، ابوعبید فی الغریب، مسند ابی یعلی، الکامل لا بن عدی، ابن مردویہ، السنن للبیہقی رجالہ ثقات، والصحیح وقفہ، ابوداؤد۔
امام بیہقیں نے اس کو صحیح حدیث قرار دیا ہے لیکن موقوف ہونا فرمایا ہے۔

12769

12769- عن عمر بن الخطاب أنه وجد ريح طيب بذي الحليفة فقال: ممن هذا الطيب؟ فقال معاوية: مني يا أمير المؤمنين فقال: منك لعمري قال: طيبتني أم حبيبة، وزعمت أنها طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند إحرامه، قال: اذهب فاقسم عليها لما غسلته فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الحاج الشعث التفل. "حم ش" بدون فإني سمعت إلى آخره ورجاله رجال الصحيح إلا أن سليمان بن يسار لم يسمع من عمر. "والبزار" بتمامه وسنده ومتصل إلا أن فيه إبراهيم بن يزيد الخوزي متروك.
12769 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے ذوالحلیفہ میں خوشبو محسوس کی۔ پوچھا : یہ خوشبو کس سے آرہی ہے ؟ حضرت معاویہ (رض) نے عرض کیا : مجھ سے آرہی ہے اے امیر المومنین ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تجھ سے آرہی ہے میری عمر کی قسم ! معاویہ (رض) بولے : مجھے (میری بہن) ام المومنین ام حبیبہ نے لگائی ہے ان کا خیال ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے احرام باندھنے (تلبیہ پڑھنے) کے وقت لگائی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جا اور اس سے قسم دے کر پوچھ کہ اس خوشبو کو (لگانے کے بعد) دھویا نہیں تھا۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : حاجی تو میلے کچیلے پراگندہ بال ہوتے ہیں مسند احمد ، ابن ابی شیبہ، ابن ابی شیبہ میں (خانی سمعت کیونکہ میں نے) اسے آخر تک کے الفاظ نہیں ہیں اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں سوائے اس کے سلیمان ابن سیار نے عمر (رض) سے سماعت نہیں کی (البزار) نے اس کو پورا نقل کیا ہے مگر اس میں ابراہیم بن یزید خوزی متروک راوی ہے۔

12770

12770- عن عمر قال: في بيض النعام قيمته. "عب ش".
12770 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : شتر مرغ کے انڈے (کو توڑ دینے) میں اس کی قیمت ہے۔ جس کو صدقہ کرنا پڑے گا۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

12771

12771- عن عطاء الخراساني أن عمر وعثمان وزيد بن ثابت وابن عباس ومعاوية قالوا: في النعامة يقتلها المحرم بدنة من الإبل. "الشافعي - وضعفه عب ش ق" وقال مرسل.
12771 عطاء خراسانی سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) ، عثمان (رض) ، زید بن ثابت (رض) ، ابن عباس (رض) اور معاویہ (رض) فرماتے ہیں : شتر مرغ کو محرم قتل کردے تو اس میں ایک اونٹ ہے۔
الشافعی ، وضعفہ ، الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی مرسل
کلام : امام بیہقی نے اس روایت مذکورہ کو مرسل کہا ہے جبکہ امام شافعی (رح) نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

12772

12772- عن عمر قال: تمرة خير من جرادة. "عب ش ق".
12772 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : کھجور ٹڈی سے بہتر ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی
فائدہ : یعنی ٹڈی کو محرم قتل کردے تو اس کے عوض ایک کھجور صدقہ کرنا کافی ہے۔
کلام : روایت مذکورہ ضعیف ہے : الاتقان 575، تحذیر المسلمین 95 ۔

12773

12773- عن بكر بن عبد الله المزني قال: كان من الأعراب محرمان فأحاش1 أحدهما ظبيا فقتله الآخر، فأتيا عمر وعنده عبد الرحمن بن عوف فقال له عمر: وما ترى؟ قال: شاة قال: وأنا أرى ذلك، إذهبا فاهديا شاة، فلما مضيا قال أحدهما لصاحبه: ما درى أمير المؤمنين ما يقول، حتى سأل صاحبه فسمعهما عمر، فردهما فأقبل على القائل ضربا بالدرة فقال: تقتل الصيد وأنت محرم وتغمص الفتيا1 تغمص إن الله يقول: {يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} ثم قال: إن الله لم يرض بعمر وحده، فاستعنت بصاحبي هذا. "عبد بن حميد وابن جرير".
12773 بکر بن عبداللہ مزنی سے مروی ہے فرمایا : دواعرابی محرم تھے، ایک نے ہرن کو بھگایا جبکہ دوسرے نے اس کو قتل کیا۔ پھر دونوں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آئے، ان کے پاس عبدالرحمن بن عوف بھی تھے، حضرت عمر (رض) نے عبدالرحمن (رض) سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : ایک بکری۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرا بھی یہی خیال ہے۔ پھر (دونوں اعرابیوں کو مخاطب ہو کر) فرمایا : تم دونوں جاؤ اور ایک بکری کی ہدی (پیش ) کرو۔ چنانچہ دونوں چلے گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا : امیر المومنین کو معلوم نہیں کہ کیا کہیں حتیٰ کہ اپنے ساتھی سے ان کو پوچھنا پڑا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کی بات سن لی اور دونوں کو واپس بلایا اور مذکورہ بات کرنے والے کو درہ مار کر ارشاد فرمایا : ایک تو تو شکار کو قتل کرتا ہے حالانکہ تو محرم ہے پھر فتویٰ (مسئلہ) بتانے پر اس کی تحقیر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : بحکم بہ ذواعدل منکم۔ (اس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے) اللہ پاک اکیلے عمر پر راضی نہیں ہوئے، اس لیے میں نے اپنے اس ساتھی سے مدد مانگی تھی۔ عبدبن حمید، ابن جریر

12774

12774- عن طارق بن شهاب قال: أوطأ أربد ضبا فقتله وهو محرم فأتى عمر ليحكم عليه، فقال له عمر: احكم معي فحكما فيه جديا قد جمع الماء والشجر ثم قال عمر: يحكم به ذوا عدل منكم. "الشافعي عب ش وابن جرير وابن المنذر هق".
12774 طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ اربد نے ایک گوہ کو روند کر قتل کرڈالا اور اربد احرام کی حالت میں تھے۔ چنانچہ وہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس کا فیصلہ معلوم کریں۔ حضرت عمر (رض) نے انہی کو فرمایا : تم بھی میرے ساتھ فیصلہ دو ۔ چنانچہ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اس میں ایک بکری کا بچہ ہے جو گھاس پانی پر گزارہ کرسکتا ہے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بحکم بہ ذوا عدل منکم ، الشافعی الجامع لعبد الرزق ، ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن المنذر، السنن للبیہقی

12775

12775- عن ابن عمر أن عمر نهى أن يحرم المحرم في الثوب المصبوغ بالورس والزعفران."ش".
12775 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے منع فرمایا کہ کوئی محرم ورس یا زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12776

12776- عن جعفر عن أبيه أن عمر وعليا قالا: لا ينكح المحرم ولا ينكح، فإن نكح فنكاحه باطل. "ش".
12776 جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : نہ محرم نکاح کرے اور نہ اس سے نکاح کیا جائے۔ اگر وہ نکاح کرے گا تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ ابن ابی شیبہ

12777

(12777 -) عن أبي هريرة قال : سألني رجل عن لحم أصيد لغيرهم ، أيأكله وهو محرم ؟ فأفتيته أن يأكله ، ثم ذكرت ذلك لعمر ، فقال : لو أفتيته بغير ذلك لعلوت رأسك بالدرة ثم قال عمر : إنما نهيت أن تصطادة. (ش وابن جرير ق).
12777 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : مجھ سے ایک شخص نے اس جانور کے بارے میں سوال کیا کہ وہ اس کا شکار اوروں کے لیے کرتا ہے تو کیا وہ خود اس کی حالت احرام میں کھا سکتا ہے۔ پھر میں نے یہ بات حضرت عمر (رض) کو ذکر کی تو انھوں نے ارشاد فرمایا : اگر تو اس کے سوا کوئی اور فتویٰ دیتا تو میں تیرے سر پر درہ تان لیتا پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : تمہیں شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

12778

(12778 -) عن ابن عمر أن عمر رأى على طلحة بن عبيد الله ثوبا مصبوغا بالمشق وهو محرم فقال له : ما هذا الثوب المصبوغ يا طلحة فقال : يا أمير المؤمنين ليس به بأس ، إنما هو مدر فقال عمر : إنكم أيها الرهط أئمة يقتدري بكم الناس ، فلو أن رجلا جاهلا رأى هذا الثوب لقال : إن طلحة بن عبيد الله قد كان يلبس الثياب المصبغة في الاحرام ، فلا تلبسوا أيها الرهط شيئا من هذه الثياب المصبغة في الاحرام. (مالك وابن المبارك ومسدد ق)
12778 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے طلحہ بن عبید اللہ پر ایک کپڑا دیکھا جو گیرو سے رنگا ہوا تھا ، حالانکہ آپ حالت احرام میں تھے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حضرت طلحہ (رض) سے پوچھا : اے طلحہ ! یہ رنگا ہوا کپڑا کیسے ؟ انھوں نے عرض کیا : امیر المومنین ! اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ مدر (منی ) سے رنگا ہوا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اے گروہ (صحابہ ! ) لوگ تمہاری اقتداء کرتے ہیں۔ اگر کوئی جاہل شخص اس کپڑے کو دیکھے گا تو کہے گا کہ طلحہ بن عبید اللہ حالت احرام میں رنگ شدہ کپڑے پہنتے ہیں، اے گروہ (صحابہ ! ) حالت احرام میں ان رنگ شدہ کپڑوں میں سے کوئی کپڑا نہ پہنو۔ مالک، ابن المبارک ، مسدد، السنن للبیہقی۔

12779

(12779 -) عن أسلم قال : قدم معاوية بن أبي سفيان وهو أبيض وأبض الناس (3) وأجملهم ، فخرج إلى الحج مع عمر بن الخطاب ، وكان ينظر إليه فيعجب منه ، ثم يضع أصبعه على متنه يرفعها على مثلي الشراك فيقول : بخ بخ نحن أذا خير الناس إن جمع لنا خير الدنيا والآخرة ، فقال معاوية : يا أمير المؤمنين سأحدثك ، إنا بأرض الحمامات والريف ، فقال عمر : سأحدثك ما بك ، إلطافك نفسك بأطيب الطعام ، وتصبحك حتى تضرب الشمس متنك وذو الحاجات وراء الباب ، فلما جئنا ذا طوى أخرج معاوية حلة فلبسها فوجد عمر منها ريحا كأنه ريح طيب فقال : يعمد أحدكم فيخرج حاجا يقاد حتى إذا جاء أعظم بلدان الله حرمة أخرج ثوبيه كأنهما كانا في الطيب فلبسهما ، فقال معاوية : إنما لبستهما لان أدخل فيهما على عشيرتي أو قومي ونزع معاوية الثوبين ولبس ثوبيه الذي أحرم فيهما. (ابن المبارك).
12779 اسلم سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) تشریف لائے وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت حسین و جمیل اور سفید چہرے والے تھے۔ وہ حج پر حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ تشریف لے گئے۔ حضرت عمر (رض) ان کی طرف دیکھتے اور تعجب فرماتے۔ پھر اپنی انگلی ان کی کمر پر رکھ کر اوپر کھینچتے اور (بطور طنز) فرماتے واہ ! واہ ! اگر ہمارے پاس دنیا و آخرت دونوں کا مال اکٹھا ہوجائے تو ہم لوگوں میں بہترین ہوجائیں گے ۔ معاویہ (رض) نے عرض کیا : امیر المومنین میں آپ کو بتاتا ہوں، ہم لوگ سرسبز علاقے میں رہنے والے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ٹھہرو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ تم نے اپنے نفس کو عمدہ کھانوں کے ساتھ نازونعمت میں مشغول کررکھا ہے اور تم صبح اس وقت کرتے ہو جب سورج تمہاری کمر پر روشنی مارتا ہے جبکہ حاجت مند دروازے کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔ اسلم کہتے ہیں : جب ہم ذی طوی میں پہنچے تو حضرت امیر معاویہ (رض) نے ایک عمدہ جوڑا نکالا اور پہن لیا۔ حضرت عمر (رض) کو اس میں سے خوشبو محسوس ہوئی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم میں سے کوئی کوئی حج کے ارادے سے نکلتا ہے اور لوگ اس کی اتباع کرتے ہیں اور جب وہ سب سے محترم شہر میں پہنچتا ہے تو اپنے کپڑے نکالتا ہے گویا وہ کپڑے خوشبو میں بسے ہوئے ہیں تاکہ ان کو پہن کر اپنی قوم اور اپنے خاندان والوں کے پاس جاؤں۔ پھر حضرت معاویہ (رض) نے وہ کپڑے نکالے اور پہلے والے کپڑے جن میں احرام باندھا تھا پہن لیے۔ ابن المبارک

12780

12780- عن زيد بن أسلم أن رجلا جاء إلى عمر فقال: يا أمير المؤمنين إني أصبت جرادا بسوطي، فقال له عمر: أطعم قبضة من طعام. "مالك"1
12780 زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا : اے امیر المومنین ! میرے کوڑے سے ٹڈی مرگئی ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ایک مٹھی کھانے کی کھلادو۔

12781

12781- عن يحيى بن سعيد أن رجلا جاء إلى عمر فسأله عن جرادة قتلها وهو محرم، فقال عمر لكعب: تعال نحكم فقال كعب: درهم، فقال عمر: إنك لتجد الدراهم، لتمرة خير من جرادة. "مالك" ورواه "ش" من طريق إبراهيم بن كعب والأسود عن عمر.
12781 یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور ان سے ٹڈی کے بارے میں سوال کیا جو اس سے حالت احرام میں قتل ہوگئی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے کعب (رض) کو فرمایا : آؤ ہم فیصلہ کریں۔ حضرت کعب (رض) نے فرمایا : ایک درہم صحیح ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تو دراہم تیرے پاس ہیں۔ پھر فرمایا : ایک کھجور ٹڈی سے بہتر ہے۔ مالک ابن ابی شیبہ نے اس کو ابراہیم بن کعب والا سود عن عمر کے طریق سے نقل کیا ہے۔

12782

12782- عن محمد بن سيرين أن رجلا جاء إلى عمر بن الخطاب فقال: إني أجريت أنا وصاحب لي فرسين نستبق إلى ثغرة ثنية فأصبنا ظبيا ونحن محرمان فماذا ترى؟ فقال عمر لرجل إلى جنبه: تعال حتى نحكم أنا وأنت فحكما عليه بعنز فولى الرجل وهو يقول: هذا أمير المؤمنين لا يستطيع أن يحكم في ظبي حتى دعا رجلا فحكم معه فسمع عمر قول الرجل فدعاه فسأله، هل تقرأ سورة المائدة؟ قال: فهل تعرف الرجل الذي حكم معي؟ فقال: لو أخبرتني أنك تقرأ سورة المائدة لأوجعتك ضربا، ثم قال: إن الله يقول في كتابه: {يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} ، وهذا عبد الرحمن بن عوف. "هق"
12782 محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ ایک آدمی عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : میں اور میرا ایک ساتھی ہم دونوں اپنے گھوڑوں پر فلاں گھاٹی تک مقابلہ بازی کررہے تھے۔ ہم کو ایک ہرن مل گئی حالانکہ ہم محرم تھے پر ہم نے اس کا شکار کرلیا۔ اب اس میں آپ کا کیا خال ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک شخص کو فرمایا : آؤ ہم اس کا فیصلہ کریں۔ چنانچہ دونوں نے ایک بکری کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ آدمی یہ کہتا ہوا چلا گیا : یہ امیر المومنین ہیں جو ایک ہرن میں فیصلہ نہیں کرسکتے اس کے لیے دوسرا آدمی بلانا پڑتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے اس کا قول سن لیا۔ چنانچہ اس کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تو سورة مائدہ پڑھتا ہے ؟ پھر فرمایا : کیا تو اس کو جانتا ہے جس نے میرے ساتھ فیصلہ میں شرکت کی ؟ اگر تو بتاتا کہ تو یہ سورت پڑھتا ہے تو میں تجھے ایسی مار مارتا کہ تجھے پتہ چل جاتا۔ پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یحکم بہ ذوا عدل منکن، اور یہ عبدالرحمن بن عوف ہیں۔ السنن للبیہقی

12783

12783- عن أسلم أن عمر وجد ريح طيب وهو بالشجرة فقال: ممن ريح هذا الطيب؟ فقال معاوية بن أبي سفيان: مني يا أمير المؤمنين فقال عمر: منك لعمري، فقال معاوية: إن أم حبيبة طيبتني، فقال عمر: عزمت عليك لترجعن فلتغسلنه. "مالك".
12783 اسلم سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے درختوں کے پاس بیٹھے ہوئے خوشبو محسوس کی تو پوچھا : یہ خوشبو کس سے آرہی ہے ؟ معاویہ بن ابی سفیان نے عرض کیا : امیر المومنین ! مجھ سے آرہی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میری جان کی قسم تجھی سے آرہی ہوگی، حضرت معاویہ (رض) بولے : ام حبیبہ نے مجھے لگائی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں تجھے سختی سے تاکید کرتا ہوں کہ تو واپس جاکر ضرور غسل کرکے آ۔ مالک

12784

12784- عن الصلت بن زبيد عن غير واحد من أهله أن عمر بن الخطاب وجد ريح طيب وهو بالشجرة وإلى جنبه كثير بن الصلت، فقال عمر: ممن ريح هذا الطيب؟ فقال كثير: مني لبدت رأسي وأردت أن أحلق فقال عمر: فاذهب إلى شربة فادلك منها رأسك حتى تنقيك ففعل. "مالك ق".
12784 صلت بن زبید اپنے گھر کے کئی افراد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے خوشبو محسوس فرمائی اور ان کے برابر میں کثیر بن صلت بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کس سے یہ خوشبو پھوٹ رہی ہے ؟ کثیر بولے مجھ سے میں نے اپنے سر میں (خوشبودار) دوا لگائی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ میں حلق کرالوں گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جا پانی لے کر سے سے اس خوشبو کو رگڑ کر دھودے حتیٰ کہ تیرا سر صاف ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے تعمل ارشاد فرمائی۔ مالک، السنن للبیہقی

12785

12785- عن جرير البجلي قال: خرجنا مهلين فوجدت أعرابيا معه طير فابتعته منه فذبحته وأنا ناس لإهلالي فأتيت عمر بن الخطاب فذكرت ذلك له فقال: ائت ذوي عدل فليحكما عليك فأتيت عبد الرحمن بن عوف وسعد بن مالك فحكما علي تيسا أعفر. "ابن سعد ق".
12785 جریر الجبلی سے مروی ہے کہ ہم تلبیہ کہتے ہوئے نکلے ۔ میں نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ پرندہ تھا میں نے اس سے اس کو خرید لیا اور ذبح کرلیا حالانکہ میں محرم تھا۔ لیکن میں اپنا حرام بھول گیا تھا۔ پھر میں عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں آیا اور ان کو یہ ماجرا عرض کیا۔ انھوں نے فرمایا : دو معتبر لوگوں کے پاس جاؤ وہ تمہارے متعلق فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ میں عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک (رض) کے پاس آیا اور انھوں نے میرے لیے بھورے مینڈھے کا فیصلہ فرمایا۔
ابن سعد، السنن للبیہقی

12786

12786- عن عمر أنه قضى في الأرنب بحلان. "أبو عبيد ق"
12786 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے خرگوش میں بکری کا چھوٹا بچہ تجویز فرمایا۔
ابوعبید، السنن للبیہقی

12787

12787- عن قبيصة بن جابر الأسدي قال: خرجنا حجاجا فكثر مراؤنا ونحن محرمون أيهما أسرع شدا الظبي أم الفرس؟ فبينما نحن كذلك إذا سنح لنا ظبي فرماه رجل منا بحجر فما أخطأ خششاءه فركب ردعه فقتله فسقط في أيدينا، فلما قدمنا مكة انطلقنا إلى عمر فقص صاحبي عليه القصة فسأله عمر كيف قتله عمدا أو خطأ؟ فقال: لقد تعمدت رميه وما أردت قتله، فقال عمر: لقد شرك العمد الخطأ، ثم التفت إلى رجل إلى جنبه فكلمه ساعة، ثم أقبل على صاحبي فقال له: خذ شاة من الغنم فأهرق دمها وتصدق بلحمها واسق إهابها سقاء فلما خرجنا من عنده أقبلت على الرجل فقلت: أيها المستفتي عمر بن الخطاب إن فتيا ابن الخطاب لن تغنى عنك من الله شيئا، والله ما علم عمر حتى سأل الذي إلى جنبه، فانحر راحلتك فتصدق بها وعظم شعائر الله، فانطلق ذو العوينتين2 إلى عمر فنماها إليه، فما شعرت إلا به يضرب بالدرة علي ثم قال: قاتلك الله تتعدى الفتيا وتقتل الحرام، وتقول والله ما علم عمر حتى سأل الذي إلى جنبه، أما تقرأ كتاب الله فإن الله تعالى يقول: {يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} ثم أخذ بمجامع ردائي فقلت يا أمير المؤمنين، إني لا أحل لك مني أمرا حرمه الله عليك، ثم أرسلني ثم أقبل علي فقال: إني أراك شابا فصيح اللسان فسيح الصدر وقد يكون في الرجل عشرة أخلاق: تسعة حسنة وواحدة سيئة فيفسد الخلق السيء التسعة الصالحة، فاتق عثرات الشباب. "عب هق"
12787 قبیصۃ بن جابر الاسدی سے مروی ہے کہ ہم لوگ حج کے ارادے سے نکلے، ہم حالت احرام میں تھے۔ ہمارا اس بات میں جھگڑا ہوگیا کہ ہرن اور گھوڑے میں سے کون زیادہ تیز دوڑ سکتا ہے ؟ ہم اسی گفتگو میں محو تھے کہ ایک ہرن ہمارے سامنے ظاہر ہوگیا۔ ہم میں سے ایک آدمی نے اس کو پتھر مارا اور پتھر سیدھا اس کے سر پر لگا، ہرن سر کے بل گرا اور مرکر ہمارے ہاتھوں میں آگیا۔ جب ہم مکہ پہنچے تو حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے میرے ساتھی نے یہ سارا قصہ حضرت عمر (رض) کو سنایا۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے پوچھا کہ کیسے قتل کیا جان بوجھ کر یا بھول چوک میں قتل ہوگیا۔ آدمی بولا : میں نے صرف نشانے کا ارادہ کیا تھا میرا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عمد اور خطا مشترک ہوگئے (جان بوجھ کر بھی ہے اور غلطی سے بھی ہے) پھر حضرت عمر (رض) اپنے برابر میں بیٹھے ایک آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور کچھ دیر ان سے بات چیت فرمائی۔ پھر میرے ساتھی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ایک بکری لو اس کو ذبح کرو، اس کا گوشت صدقہ کردو، اس کا چمڑا کسی کو مشکیزہ بنانے کے لیے دیدو۔ چنانچہ جب ہم آپ کے پاس سے نکلے تو میں اپنے ساتھی کی طرف متوجہ ہو کر بولا : او عمر بن خطاب سے مسئلہ پوچھنے والے ! ابن خطاب کا فتویٰ اللہ سے نہیں بچا سکتا۔ اللہ کی قسم عمر کو تو کچھ پتہ ہی نہیں حتیٰ کہ اپنے برابر والے سے سارا مسئلہ پوچھا ہے۔ تو ایسا کر کہ اپنی سواری (اونٹ) کو نحر کردے اور اس کو صدقہ کردے۔ یوں الہ کے شعائر کی تعظیم بجا لا۔ ایک جاسوس نے یہ بات سن کر حضرت عمر (رض) کو سنادی ۔ چنانہ مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چلا سوائے اس کے کہ حضرت عمر (رض) مجھے درے کے ساتھ مارے جارہے ہیں۔ پھر فرمایا : اللہ تیرا ناس کرے تو فتویٰ بتانے پر حد سے نکلتا ہے۔ محترم جان کو قتل کرتا ہے اور پھر یہ باتیں بناتا ہے کہ اللہ کی قسم عمر کو کچھ پتہ ہی نہیں حتیٰ کہ اس نے اپنے ساتھی سے سوال کیا ہے۔ کیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں پڑھتا یحکم بہ ذوا عدل منکم۔ پھر حضرت عمر (رض) نے مجھے کپڑوں سے پکڑ لیا میں (ڈر کر) بولا امیر المومنین ! میں اپنی جان آپ کے لیے حلال نہیں کرتا جس کو اللہ نے آپ پر حرام کررکھا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : میں تجھے جوان اور فصیح زبان اور کشادہ سینہ والا دیکھتا ہوں۔ آدمی میں دس اخلاق ہوں اور نواچھے ہوں لیکن ایک خراب ہو تو وہ ایک نو اچھے اخلاق کو بگاڑ دیتا ہے۔ پس تو اپنی جانی لغزشوں سے بچ۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

12788

12788- عن عبد الله بن عمار أنه أقبل مع معاذ بن جبل وكعب الأحبار في أناس محرمين من بيت المقدس بعمرة حتى إذا كنا ببعض الطريق وكنت على نار نصطلي، مرت به رجل من جراد فأخذ جرادتين فقتلهما ونسى إحرامه، ثم ذكر إحرامه فألقاهما فلما قدمنا المدينة دخل القوم على عمر، ودخلت معهم فقص كعب قصة الجرادتين على عمر قال عمر: إن حمير تحب الجراد ما فعلت في نفسك؟ قال: درهمين قال: بخ درهمان خير من مائة جرادة افعل ما فعلت في نفسك. "الشافعي ق".
12788 عبداللہ بن عمار سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل اور کعب احبار کے ساتھ چند لوگوں کی جماعت بیت المقدس سے عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے ۔ جب ہم راستے میں تھے اور میں آگ پر ہاتھ سینک رہا تھا کہ وہاں سے ٹڈیوں کا ایک غول گزرا ایک آدمی نے دو ٹڈیاں مار ڈالیں اور اپنا احرام بھول گیا۔ پھر اس کو اپنا احرام یاد آتا تو ٹڈیوں کو پھینک دیا ۔ جب ہم مدینے سے داخل ہوئے تو ہم لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضرت کعب احبار (رح) نے حضرت عمر (رض) کو سارا قصہ سنایا دو ٹڈیوں کو مارنے کا۔ حضرت عمر (رض) نے کعب احبار سے پوچھا حمیری لوگ ٹڈیوں کو پسند کرتے ہیں، تم ہی بتاؤ کتنا اس کا بدلہ ہونا چاہیے ؟ کعب بولے دو درہم ۔ حضرت عمر (رض) (خوشی سے) بولے : واہ دو درہم تو سو ٹڈیوں سے بڑھ کر ہیں۔ خیر جو تو نے سوچا ہے اسی پر عمل کرلے۔ الشافعی، السنن للبیہقی

12789

12789- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن عبد الرحمن بن حاطب أنه اعتمر مع عثمان في ركب فأهدي له طائر فأمرهم بأكله، وأبى أن يأكله، فقال له عمرو بن العاص: أنأكل مما لست منه آكلا، فقال: إني لست في ذاكم مثلكم، إنما أصيد لي وأصيب باسمي. "قط ق".
12789 (مسند عثمان (رض)) عبدالرحمن بن حاطب سے مروی ہے کہ انھوں نے عثمان (رض) کے ساتھ ایک قافلہ کی معیت میں عمرہ کیا۔ حضرت عثمان (رض) کو ایک پرندہ ھدیہ کیا گیا۔ آپ (رض) نے اہل قافلہ کو وہ پرندہ کھانے کے لیے دیدیا اور خود کھانے سے انکار کردیا۔ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : کیا ہم وہ چیز کھائیں جس کو آپ خود نہیں کھاتے۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : اس کے اندر میں تمہارے مثل نہیں ہوں۔ کیونکہ یہ میرے لیے شکار کیا گیا ہے اور میرے نام سے ہدیہ کیا گیا ہے۔
الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

12790

12790- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: رأيت عثمان بن عفان بالعرج1 وهو محرم في يوم صائف قد غطى وجهه بقطيفة أرجوان2 ثم أتي بلحم صيد، فقال لأصحابه: كلوا فقالوا: لا نأكل إلا أن تأكل أنت، فقال: إني لست كهيئتكم إنما صيد من أجلي. "مالك والشافعي ق".
12790 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو عرج مقام میں دیکھا۔ آپ (رض) گرمی کے زمانہ میں حالت احرام میں تھے۔ اپنا چہرہ آپ (رض) نے ار جوانی چادر کے ساتھ ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر آپ کی خدمت میں ایک شکار کا گوشت پیش کیا گیا۔ آپ (رض) نے اپنے اصحاب کو فرمایا : تم لوگ اس کو کھالو ۔ انھوں نے کہا : آپ نہیں کھائیں گے تو ہم بھی کھانے والے نہیں۔ تب حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : میں تمہاری طرح نہیں ہوں کیونکہ یہ میرے لیے شکار کیا گیا ہے۔
مالک ، الشافعی ، السنن للبیہقی

12791

12791- عن عثمان أنه قضى في أم حبين بحلان من الغنم. "ق"
12791 عثمان (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے ام حبین (گرگٹ کے مشابہ جانور) میں بکری کا چھوٹا بچہ (بحلان) طے فرمایا۔ السنن للبیہقی

12792

12792- عن القاسم أن عثمان بن عفان وزيد بن ثابت ومروان بن الحكم كانوا يخمرون وجوههم وهم حرم. "الشافعي ق".
12792 قاسم سے مروی ہے کہ عثمان بن عفان (رض) اور زید بن ثابت (رض) اور مروان بن الحکم حالت احرام میں اپنے مونہوں کو ڈھانپ لیتے تھے۔ الشافعی، السنن للبیہقی

12793

12793- "مسند علي رضي الله عنه" عن عبد الله بن الحارث بن نوفل قال: أقبل عثمان إلى مكة فاستقبلت بقديد فاصطاد أهل الماء حجلا فطبخناه بماء وملح فقدمناه إلى عثمان وأصحابه فأمسكوا، فقال عثمان: صيد لم نصده ولم نأمر بصيده، اصطاده قوم حل فأطعموناه فما بأس به، فبعث إلى علي فجاء فذكر له، فغضب علي وقال: انشد رجلا شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أتى بقائمة حمار وحش فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا قوم حرم فأطعموه أهل الحل فشهد اثنا عشر رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال علي: أنشد الله رجلا شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أتى ببيض النعام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا قوم حرم أطعموه أهل الحل فشهد دونهم من العدة من الاثنى عشر، قال: فثنى عثمان وركه من الطعام فدخل رحله وأكل الطعام أهل الماء. "حل د وابن جرير وصححه الطحاوي ع هق"
12793 (مسند علی (رض)) عبداللہ بن الحارث بن نوفل سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) ۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ تشریف لائے تو گوشت کا سالن آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور یہ گوشت چکور پرندے کا تھا جس کو اہل پانی نے شکار کیا تھا پھر ہم نے اس کو نمک اور پانی میں پکالیا تھا۔ پھر اس کو عثمان (رض) اور ان کے ہمراہیوں کے پاس لے کر حاضر ہوئے تھے۔ اولاً حضرت عثمان (رض) کھانے سے رکے اور ارشاد فرمایا : یہ ایسا شکار ہے جس کا شکار ہم نے نہیں کیا اور نہ اس کو شکار کرنے کا ہم نے حکم دیا۔ اس کو قوم حل (غیر) حالت احرام والی قوم نے شکار کیا ہے اور انھوں نے اس کو ہمیں کھانے کے لیے پیش کیا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر حضرت عثمان (رض) نے وہ کھانا حضرت علی (رض) کی خدمت میں بھیج دیا اور لے جانے والے نے حضرت عثمان (رض) کی بات بھی حضرت علی (رض) کے گوش گزار کی۔ جس کو سن کر حضرت علی (رض) غضب آلود ہوگئے اور فرمایا : میں ہر اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں نیل گائے کی ران پیش کی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم حالت احرام والی قوم ہیں تم یہ گوشت ابل حل کو کھلا دو ۔ حضرت علی (رض) کی یہ بات سن کر بارہ آدمیوں نے اس کی گواہی دی ۔ پھر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ہر اس شخص کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شتر مرغ کا انڈہ پیش کیا گیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم محرم قوم ہیں یہ اہل حل کو کھلا دو ۔ حضرت علی (رض) کی بات سن کر پہلے والوں کے علاوہ بارہ اور آدمیوں نے گواہی دی کہ ہاں ایسا سچ ہے۔ یہ سن کر حضرت عثمان (رض) کھانے سے اٹھے اور اپنی سواری پر جا بیٹھے اور اس کھانے کو اہل ماء ہی نے کھایا جو اہل حل تھے۔
حلیۃ الاولیاء ، ابن داؤد، ابن جریر، الطحاوی، مسند ابی یعلی، السنن للبیہقی

12794

12794- عن علي أتى النبي صلى الله عليه وسلم لحم صيد وهو محرم فلم يأكله. "حم ع والطحاوي".
12794 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شکار کا گوشت لایا گیا تو آپ چونکہ حالت احرام میں تھے اس لیے آپ نے اس کو نہیں کھایا۔
مسند احمد، مسند ابی، الطحاوی

12795

12795- عن ابن عباس قال: قال علي في بيض النعام يصيبه المحرم تحمل الفحل على إبلك، فإذا تبين لك لقاحها سميت عدد ما أصبت من البيض فقلت: هذا هدي ليس ضمانها عليك فما صلح من ذلك صلح وما فسد فليس عليك كالبيض منه ما يصلح ومنه ما يفسد فعجب معاوية من قضاء علي فقال ابن عباس: فلم تعجب معاوية؟ ما هو إلا ما يباع به البيض في السوق ويتصدق. "مسدد".
12795 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا شتر مرغ کے انڈوں کو اگر کوئی توڑ دے تو تم نر اونٹ کو اپنی اونٹنیوں پر چھوڑو پھر جب ان انٹنیوں کا حمل ظاہر ہوجائے تو تم نے جس قدر انڈے توڑے ہیں اس قدر بچے اونٹنیوں کے اللہ کی راہ میں ہدیہ ہیں، کہو اور یہ بھی کہو لیکن ان کی ضمان مجھ پر نہیں ہوگی، جو بچے صحیح ہوں وہ تو ٹھیک ہیں اور جو حمل خراب ہوجائیں تو انڈے بھی خراب ہوتے ہیں (اس لیے ان کا وبال مجھ پر نہ ہو)
حضرت معاویہ (رض) نے یہ فیصلہ سن کر بہت تعجب کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : معاویہ (رض) کو کیوں تعجب ہوا یہ فیصلہ تو ایسا ہی ہے جیسے بازار میں انڈے بیچے اور خریدے جاتے ہیں اور صدقہ بھی کیے جاتے ہیں۔ مسدد

12796

12796- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن تأكل لحم صيد وأنت محرم. "ابن مردويه".
12796 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ تم حالت احرام میں شکار کا گوشت کھاؤ۔ ابن مردویہ

12797

12797- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم أهدي له لحم صيد وهو محرم. فرده. "ابن مردويه".
12797 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حالت احرام میں شکار کا گوشت ہدیہ کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو واپس کردیا۔ ابن مردویہ

12798

12798- عن علي قال أهدي للنبي صلى الله عليه وسلم لحم صيد فأبى أن يأكله، وقال: لا آكله وأنا محرم. "ابن مردويه".
12798 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدیہ میں شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانے سے منع فرمادیا اور ارشاد فرمایا : میں حالت احرام میں اس کو نہیں کھا سکتا۔ ابن مردویہ

12799

12799- عن علي قال: من قبل امرأته وهو محرم فليهرق دما. "ق" وقال منقطع.
12799 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، فرمایا : جس نے حالت احرام میں اپنی بیوی کو بوسہ دیا تو وہ (ایک جانور کا) خون بہائے۔ السنن للبیہقی
روایت مذکورہ بقول امام بیہقی (رح) کے منقطع ہے۔

12800

12800- عن عبد الله بن الحارث بن نوفل قال: حج عثمان بن عفان فحج علي معه، فأتي عثمان بلحم صيد صاده حلال فأكل منه ولم يأكله علي فقال عثمان: والله ما صدنا ولا أمرنا ولا أشرنا، فقال علي: وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما. "ابن جرير".
12800 عبداللہ بن ابی الحارث بن نوفل سے مروی ہے فرمایا : حضرت عثمان بن عفان (رض) نے حج کیا تو حضرت علی (رض) نے بھی ان کے ساتھ حج کیا۔ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایسے شکار کا گوشت پیش کیا گیا جس کو حلال بندہ نے شکار کیا تھا تو حضرت عثمان (رض) نے اس کو کھالیا لیکن حضرت علی (رض) نے نہیں کھایا تو حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ہم نے اس کا شکار کیا ہے اور نہ اس کا حکم کیا ہے حتیٰ کہ ہم نے اشارہ بھی نہیں کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا :
وحرم علیکم صید البر مادمتم حرما
اور تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا جب تک کہ تم حالت احرام میں ہو۔ ابن جریر

12801

12801- عن الحسن أن عمر بن الخطاب لم يكن يرى بأسا بلحم الصيد للمحرم، وكرهه علي بن أبي طالب. "ابن جرير".
12801 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) محرم کے لیے شکار کے گوشت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن حضرت علی (رض) نے اس کو ناپسند فرمایا ہے۔ ابن جریر

12802

12802- عن علي في الضبع شاة إذا عدا على المحرم فليقتله فإن قتله من قبل أن يعدو عليه، فعليه شاة مسنة. "ش".
12802 حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ بجو میں ایک بکری ہے جبکہ بجو محرم پر حملہ کرے اور وہ اس کو قتل کردے اور اگر بجو نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے حملہ کرنے سے قبل ہی محرم نے اس کو قتل کردیا تو تب اس پر بڑی بکری ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12803

12803- عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي قال: كنا مع طلحة بن عبيد الله ونحن محرمون، فأهدي لنا لحم صيد وهو راقد، فمنا من أكل، ومنا من تورع ولم يأكل فاستيقظ طلحة فوافق من أكله وقال: أكلناه مع رسول الله. "ابن جرير وأبو نعيم".
12803 عبدالرحمن بن عثمان تیمی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم حضرت طحلۃ بن عبید اللہ (رض) کے ساتھ تھے، اور ہم حالت احرام میں تھے۔ ہم کو ایک شکار کا گوشت پیش کیا گیا، اس وقت حضرت طلحۃ بن عبیداللہ سو رہے تھے، تو ہم میں سے کسی نے وہ گوشت کھایا اور کسی نے کھانے کے بجائے بعد کے لیے بچا کر رکھ دیا۔ پھر حضرت طلحہ (رض) اٹھے تو انھوں نے کھانے والوں کی حمایت اور موافقت فرمائی اور فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ (ایسا گوشت ) کھایا تھا۔
ابن جریر، ابونعیم

12804

12804- عن محمد بن المنكدر قال، حدثنا شيخ لنا عن طلحة بن عبيد الله قال: سألنا النبي صلى الله عليه وسلم عن لحم صيد صاده حلال ليأكله المحرم لا بأس به أو قال: نعم. "ابن جرير".
12804: محمد بن المنکدر سے مروی ہے فرمایا : ہمارے ایک شیخ نے ہم کو طلحہ بن عبیداللہ (رض) کی طرف سے بیان فرمایا کہ طلحہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ سے شکار کے گوشت کے بارے میں سوال کیا جس کو کسی حلال آدمی نے شکار کیا ہو ؟ تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : محرم اس کو کھا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں یا ارشاد فرمایا : ہاں (یعنی کھا سکتا ہے) ۔ ابن جریر۔

12805

12805- عن محمد بن الزبير قال: دخلت مسجد دمشق فإذا بشيخ قد التقت ترقوتاه1 من الكبر، فقلت له: يا شيخ من أدركت؟ قال: النبي صلى الله عليه وسلم، قلت: فما غزوت؟ قال: اليرموك، قلت: حدثني بشيء سمعته، قال: خرجت مع فتية من عك والأشعريين حجاجا فأصبنا بيض نعام، فذكرنا ذلك لأمير المؤمنين عمر بن الخطاب فأدبر وقال: اتبعوني حتى انتهى إلى حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب في حجرة منها فأجابته امرأة فقال: أثم أبو حسن؟ فقالت: لا هو في المقناة1 فأدبر وقال: اتبعوني حتى انتهى إليه فقال: مرحبا يا أمير المؤمنين قال: إن هؤلاء فتية من عك والأشعريين أصابوا بيض نعام وهم محرمون، قال: ألا أرسلت إلي؟ قال: أنا أحق بإتيانك قال: يضربون الفحل قلايص2 أبكارا بعدد البيض، فما نتج منها أهدوه، قال عمر: فإن الإبل تجرح قال علي: والبيض تمرق، فلما أدبر قال: اللهم لا تنزلن شدة إلا وأبو الحسن إلى جنبي. "كر".
12805 محمد بن زبیر سے مروی ہے فرمایا : میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا وہاں ایک بوڑھے بیٹھے تھے بڑھاپے کی وجہ سے ان کی دونوں ہنسلیاں آپس میں مل گئی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا : اے شیخ ! آپ نے کس کو پایا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا ہے (یعنی ان کے زمانے کا ہوں) میں نے پوچھا : آپ نے کسی غزوے میں (حضور کے ساتھ) شرکت کی ہے ؟ انھوں نے فرمایا : غزوہ یرموک میں شرکت کی ہے۔ میں نے عرض کیا کوئی بات بیان کیجئے جو آپ نے ان سے سنی ہو ؟ تو وہ بولے میں قبیلہ عک اور اشعریین کے لوگوں کے ساتھ حج پر نکلا۔ ہم سے کچھ انڈے شتر مرغ کے ٹوٹ گئے۔ (یہ زمانہ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت کا تھا) تو ہم نے یہ مسئلہ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کو ذکر کیا۔ حضرت عمر (رض) منہ موڑ کر چل پڑے اور فرمایا : میرے پیچھے چلے آؤ۔ حتیٰ کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجروں کی طرف تشریف لے گئے اور ایک حجرے پر ہاتھ مارا تو ایک عورت نے جواب دیا حضرت عمر (رض) نے پوچھا : کیا یہاں ابوالحسن (علی (رض)) ہیں ؟ عورت بولی : نہیں وہ فلاں جھنڈ میں ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) وہاں موڑ کر چل دیئے اور ہمیں فرمایا : میرے پیچھے چلتے آؤ۔ حتیٰ کہ آپ (رض) حضرت علی (رض) کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت علی (رض) بولے : مرحبا (خوش آمدید ہو) امیر المومنین کو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا یہ کچھ جوان آئے ہیں عک اور اشعریین کے۔ ان سے شتر مرغ کے کچھ انڈے ٹوٹ گئے ہیں حالت احرام میں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا آپ نے (خود کیوں زحمت فرمائی) مجھے پیغام کیوں نہ بھجوا کر بلوالیا ؟ حضرت عمر (رض) بولے : میں تمہارے پاس حاضر ہونے کا زیادہ حقدار تھا۔ حضرت علی (رض) نے مسئلہ کا جواب ارشاد فرمایا کہ یہ نر اونٹ کو (انڈوں کی بقدر) اپنی باکرہ اونٹنیوں پر چھوڑ دیں پھر جو بچے پیدا ہوں وہ اللہ کی راہ میں ہدی کردیں۔ حضرت عمر (رض) بولے : بعض مرتبہ اونٹنی کو کوئی صدمہ پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ ضائع ہوجاتا ہے، پھر ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اور انڈے بھی تو خراب نکل آتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) وہاں سے یہ دعا کرتے ہوئے چلے آئے اے اللہ ! مجھ پر کوئی ایسا سخت مسئلہ پیش نہ فرما الا یہ کہ ابوالحسن میرے پاس ہوں (پھر مجھے کوئی پروا نہیں ہے) ۔ ابن عساکر

12806

12806- عن عمير بن سلمة الضمري قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بالروحاء فإذا بحمار في بعض أحياء الروحاء فيه سهم قد عقر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوه فإنه يوشك أن يأتي صاحبه فأتى رجل من بهز فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حمار عقرته وهذا سهمي فيه فشأنكم وشأنه فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر فقسمه على القوم وهم حرم، ثم مضيا حتى إذا كنا بالأثاية إذا نحن بظبي حاقف2 على جبل فيه سهم فنظر إليه الناس فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فقال: قف ههنا حتى يمر الرفاق لا يريبه أحد بشيء فجعل يذب الناس عنه حتى نفدوا. "ابن جرير".
12806 عمیر بن سلمۃ الضمری سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے، جب ہم مقام روحاء پر پہنچے تو وہاں روحاء کے ایک علاقے میں ہمیں نیل گائے ملی ، جس میں ایک تیر پیوست تھا اور اس کو ذبح کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو یونہی چھوڑ دو شاید اس کا مالک آجائے۔ پھر قبیلہ کا ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ نیل گائے میں نے ذبح کی ہے اور اس میں یہ میرا تیرا بھی تک پیوست ہے، پس اب آپ لوگ اس کے مالک ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم دیا تو انھوں نے اس کا گوشت لوگوں میں تقسیم فرمادیا اور یہ (سب) لوگ حالت احرام میں تھے۔ پھر دونوں (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض)) چل پڑے (اور ہم بھی ساتھ ہولیے) حتیٰ کہ جب ہم اثایہ مقام پر پہنچے تو وہاں ایک ہرن پہاڑ پر ٹیڑھی میڑھی حالت میں پڑا تھا اور اس میں ایک تیر پیوست تھا۔ لوگوں کی نظر اس پر پڑی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ یہاں کھڑا ہو حتیٰ کہ قافلے والے یہاں سے گزر جائیں اور کوئی اس کو تنگ نہ کرے۔ چنانچہ وہ آدمی لوگوں کو اس سے ہٹاتا رہا کہ سارا قافلہ وہاں سے گزر گیا۔ ابن جریر۔

12807

12807- عن عطاء عن محمد بن زيد لدة النبي صلى الله عليه وسلم أنه أتي بلحم صيد فرده وقال: إنا حرم. "الحسن بن سفيان وأبو حاتم الرازي في الوحدان؟؟ وأبو نعيم في المعرفة" ورجاله ثقات.
12807 عطاءؒ محمد بن زید سے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم عصر تھے سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک شکار کا گوشت لایا گیا تو انھوں نے اس کو واپس کردیا اور ارشاد فرمایا : ہم محرم لوگ ہیں۔ الحسن بن سفیان، ابوحاتم الرازی فی الوحدان، ابونعیم فی المعرفۃ
روایت مذکورہ کے راوی ثقہ ہیں۔

12808

12808- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم أهدي له وشيقة3 ظبي وهو محرم فردها. "ابن جرير".
12808 عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حالت احرام میں ایک ہرن کے گوشت کا ٹکڑا جو سکھایا ہوا تھا پیش کیا گیا تو آپ نے ان کو واپس کردیا۔ ابن جریر

12809

12809- عن سعيد بن جبير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى بشقة حمار يقطر دما وهو ما بين مكة والمدينة فتركه وقال: اصطيد ونحن محرمون. "ابن جرير".
12809 سعید بن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیل گائے کا ایک حصہ پیش کیا گیا جس سے (تازہ) خون رس رہا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھوڑ دیا اور (کھایا نہیں بلکہ) ارشاد فرمایا : اس کو شکار کیا گیا ایسے حال میں کہ ہم اس وقت محرم تھے۔ ابن جریر

12810

12810- عن طاوس أن رجلا أهدى إلى النبي صلى الله عليه وسلم فخذ أروية1 وهو محرم فرده عليه فظن الرجل إنما رده لموجدته به عليه فقال: إنما رددته من أجل أني محرم. "ابن جرير".
12810 طاؤس (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہاڑی بکری کی ایک ران پیش کی، آپ حالت احرام میں تھے۔ آپ نے اس کو واپس کردیا۔ آدمی نے سمجھا کہ شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر اس کا شکار کرنے کی وجہ سے غصہ آگیا ہے۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے اس کو اس لیے واپس کیا ہے کیونکہ میں محرم ہوں۔
ابن جریر

12811

12811- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عطاء أن عمر بن الخطاب قال في محرم بحجة أصاب امرأته وهي محرمة قال: يقضيان حجهما وعليهما الحج من قابل من حيث كانا أحرما ويفترقان حتى يتما حجهما. "هق"
12811 (مسند عمر (رض)) عطاء (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک محرم کے بارے میں ارشاد فرمایا جو حالت احرام میں اپنی عورت کے ساتھ جماع کر بیٹھا تھا اور اس کی عورت بھی حالت احرام میں تھی حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کہ دونوں اپنے اسی حج کو پورا کریں گے اور ان پر آئندہ سال حج فرض ہوگا جہاں سے پہلے سال احرام باندھا تھا وہیں سے دوسرے سال احرام باندھیں گے اور دونوں جدا جدا رہیں گے (تاکہ پہلی نوبت نہ آجائے) حتیٰ کہ دونوں اپنا حج پورا کرلیں۔ السنن للبیہقی

12812

12812- عن عمر قال: من أدرك ليلة الفجر قبل أن يطلع الفجر فقد أدرك الحج، ومن لم يقف حتى يصبح فقد فاته الحج. "هق".
12812 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : جس نے (عرفہ کے میدان میں نوذی الحجہ) رات کو فجر طلوع ہونے سے پہلے وقوف کرلیا اس نے حج پالیا اور جو صبح تک وقوف عرفہ نہ کرسکتا اس کا حج فوت ہوگیا۔ السنن للبیہقی

12813

12813- عن سليمان بن يسار أن أبا أيوب الأنصاري خرج حاجا حتى إذا كان بالبادية من طريق مكة أضل رواحله، ثم إنه قدم على عمر بن الخطاب يوم النحر فذكر ذلك له فقال له عمر: إصنع كما يصنع المعتمر ثم قد حللت، فإذا أدركت الحج قابلا فاحجج وأهد ما استيسر من الهدى. "مالك هق"
12813 سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری (رض) حج کے ارادے سے نکلے حلیٰ کہ جب مکہ کے راستے میں جنگل میں پہنچے تو ان کی سواری گم ہوگئی پھر وہ (تاخیر کی وجہ سے) یوم النحر (دس ذی الحجہ) کو حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس پہنچے اور ان کو سارا ماجرا سنایا تو حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم معتمر والے اعمال کرو پھر تم حلال ہوجاؤ گے (چونکہ اس سال حج فوت ہوگیا اب) اگر آئندہ سال حج کرسکو تو حج کرلینا اور جو ہدی کا جانور بآسانی میسر آسکے وہ ساتھ لے آنا۔
مالک، السنن للبیہقی

12814

12814- عن سليمان بن يسار أن هبار بن الأسود حدثه أنه جاء يوم النحر وعمر بمنحر فقال: يا أمير المؤمنين؛ أخطأنا كنا نرى هذا اليوم يوم عرفة فقال له عمر: اذهب إلى مكة فطف بالبيت سبعا وبين الصفا والمروة ومن معك، ثم انحر هديا إن كان معك، ثم احلقوا أو قصروا وارجعوا فإذا كان حج قابل فحجوا وأهدوا، فمن لم يجد هديا فصيام ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجعتم. "الصابوني في المائتين ق"
12814 سلمان بن یسار سے مروی ہے کہ ھبار بن الاسود نے ان کو بیان کیا کہ وہ یوم النحر کو حضرت عمر (رض) کے پاس قربان گاہ (منیٰ ) میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے امیر المومنین ! ہم سے غلطی ہوگئی ہم اس دن کو (یعنی دس ذی الحجہ کو) عرفہ کا دن سمجھتے رہے ۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ارشاد فرمایا : مکہ جاؤ اور بیت اللہ کے سات چکر کاٹو اور صفاومروہ کی سعی کرو اور جو تمہارے ساتھ ہیں وہ بھی یہی اعمال کریں، پھر اگر تمہارے ساتھ ہدی کا جانور ہے تو اس کو (یہاں لاکر) قربان کرو پھر حلق کراؤ یا قصر کراؤ (سرمنڈؤ یا بال چھوٹے کرالو) جب آئندہ سال حج ہو تو حج کرو اور اپنے ساتھ ہدی کا جنور لیتے آؤ، اگر ہدی کا جانور نہ ملے تو تین دن ایام حج میں (یہیں ) روزے رکھو اور سات روزے واپس اپنے گھر جاکر رکھو۔ الصابونی فی الماتین، السنن للبیہقی

12815

12815- مالك أنه بلغه أن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وأبا هريرة سئلوا عن رجل أصاب أهله وهو محرم؟ فقالوا: ينفذان لوجههما حتى يقضيا حجهما، ثم عليهم الحج من قابل والهدي، وقال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: فإذا أهلا بالحج عام قابل تفرقا حتى يقضيا حجهما
12815 امام مالک (رح) فرماتے ہیں ان کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) حضرت علی بن ابی طالب (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے سوال کیا گیا ایک آدمی حالت احرام میں اپنی گھر والی کے ساتھ مرتکب ہو بیٹھا تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو ان حضرات (رض) نے ارشاد فرمایا : اپنے اعمال حج کرتے رہیں حتیٰ کہ حج پورا ہوجائے پھر ان پر آئندہ سال حج ہے اور ساتھ ہی ہدی کا جانور لانا بھی۔ اور حضرت علی (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ سال حج کے موقع پر دونوں جدا جدا رہیں جب تک کہ حج نہ پورا کرلیں۔ موطا امام مالک کتاب الحج باب الھدی

12816

12816- عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أنه سئل عن رجل محرم وقع بامرأته فأرسله إلى عبد الله بن عمر، فذهب فسأله فقال: بطل حجه قال: فيقعد؟ قال: لا بل يخرج مع الناس فيصنع ما يصنعون، فإذا أدركه قابل حج وأهدى، ثم سأل ابن عباس فقال مثل قول ابن عمر قال عمرو: أقول مثل ما قالا. "كر".
12816 عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ ان (کے دادا) سے سوال کیا گیا ایک آدمی نے حالت احرام میں اپنی عورت سے مباشرت کرلی تو انھوں نے اس کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس بھیج دیا۔ اس نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا تو انھوں نے ارشاد فرمایا : اس کا حج تو باطل (ختم ) ہوگیا۔ آدمی نے پوچھا : کیا وہ بیٹھ جائے (مزید حج کے افعال کرنے سے رک جائے ؟ ) تو حضرت ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نکلتا ریہ اور ان کی طرح کے اعمال بجا لاتا رہے۔ پھر اگر اس کو آئندہ سال حج کا زمانہ مل جائے تو حج کرے اور ہدی ساتھ لائے۔
پھر اس شخص نے یہی سوال حضرت ابن عباس (رض) سے کیا تو انھوں نے بھی حضرت ابن عمر (رض) کی طرح جواب ارشاد فرمایا۔ عمر ابن شعیب کہتے ہیں : میں بھی ان دونوں حضرات کی طرح اپنا قول اختیار کرتا ہوں۔ ابن عساکر۔

12817

12817- عن الأسود قال: سألت عمر عن رجل فاته الحج، قال: يحل بعمرة وعليه الحج من قابل. "ش ق".
12817 اسود (رح) سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا کہ اگر کسی آدمی کا حج فوت ہوجائے (یعنی وقوف عرفہ نہ پاسکے ؟ ) تو حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : عمرہ کرکے حلال ہوجائے اور اس پر آئندہ سال حج لازم ہوگا۔ ابن ابی شیبہ ، السنن للبیہقی

12818

12818- عن الحارث بن عبد الله بن أبي ربيعة قال: سمعت عمر وجاءه رجل في وسط أيام التشريق وقد فاته الحج فقال عمر: طف بالبيت وبين الصفا والمروة وعليك بالحج من قابل. "ق".
12818 حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) کے پاس ایام تشریق کے درمیان میں ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کہ اس سے حج نکل گیا ہے تو میں نے آپ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا : بیت اللہ کا طواف کر اور صفا مروہ کی سعی کر اور تجھ پر آئندہ سال حج لازم ہے۔ السنن للبیہقی

12819

12819- عن أبي أسماء مولى عبد الله بن جعفر أنه كان مع عبد الله بن جعفر فخرج معه من المدينة فمروا على الحسين بن علي وهو مريض بالسقيا فأقام عليه عبد الله بن جعفر حتى إذا خاف الفوات خرج وبعث إلى علي بن أبي طالب وأسماء بنت عميس وهما بالمدينة فقدما عليه، ثم إن حسينا أشار إلى رأسه فأمر علي برأسه فحلق ثم نسك عنه بسقيا فنحر عنه بعيرا. "مالك هق"
12819 عبداللہ بن جعفر (طیار) کے آزاد کردہ غلام ابواسماء سے مروی ہے کہ وہ اپنے آقا عبداللہ بن جعفر ک ساتھ تھے۔ وہ عبداللہ بن جعفر (رض) کے ساتھ مدینے سے نکلے تو راستہ میں مقام سقیا پر ان کا گزر حسین بن علی (رض) پر ہوا وہ اس مقام پر پہنچ کر بیمار پڑگئے تھے۔ عبداللہ بن جعفر ان کے پاس ٹھہر گئے (اور تیمارداری میں مشغول ہوگئے) حتیٰ کہ جب ان کو اپنا حج فوت ہوجانے کا ڈر ہوا تب وہ وہاں سے نکلے اور علی بن ابی طالب اور اسماء بنت عمیس (رض) کو (جو کہ حج کے ارادے سے نکلے تھے) نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا تو حضرت علی (رض) نے حکم دیا اور حضرت حسین (رض) کے سر کے بال مونڈدیئے گئے پھر اسی سقیا مقام سے دوسرے آدمی کو بھیجا اس نے جاکر حضرت حسین (رض) کی طرف سے اونٹ قربان کیا۔ موطا امام مالک، السنن للبیہقی

12820

12820- عن ابن عمر قال: لما كان الهدي دون الجبال التي تطلع على وادي الثنية عرض له المشركون، فردوا وجوه بدنه فنحررسول الله صلى الله عليه وسلم حيث حبسوه وهي الحديبية، وحلق وتأسى به ناس فحلقوا وتربص آخرون، قالوا: لعلنا نطوف بالبيت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رحم الله المحلقين، قيل: والمقصرين قال: رحم الله المحلقين ثلاثا. "ش".
12820 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے ، فرماتے ہیں (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے سفر مبارک میں جب ہدی کے جانور وادی ثنیہ کے قریب پہنچنے والے تھے کہ مشرکین آڑے آگئے اور انھوں نے ہدی کے اونٹوں کے منہ پھیر دیئے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو وہیں نحر فرما دیا جہاں مشرکوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکا تھا اور وہ مقام حدیبیہ تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلق کرایا (سرمنڈایا) لوگوں کو اس پر بہت افسوس ہوا آپ کی اتباع میں اور لوگوں نے بھی سرمنڈالیے جبکہ دوسرے لوگ سر منڈانے سے رکے رہے اور کہتے لگے : شایدہم بیت اللہ کے طواف کو جاسکیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک محلقین (سرمنڈانے والوں) پر رحم فرمائے، اللہ پاک محلقین پر رحم فرمائے، اللہ پاک محلقین پر رحم فرمائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12821

12821- عن مروان أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج عام صدوه فلما انتهى إلى الحديبية اضطرب في الحل وكان مصلاه في الحرم فلما كتبوا القضية وفرغوا منها دخل الناس من ذلك أمر عظيم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أيها الناس، انحروا واحلقوا وأحلوا فما قام رجل من الناس، ثم أعادها فما قام رجل من الناس، ثم أعادها فما قام أحد من الناس، ثم دخل على أم سلمة فقال: ما رأيت ما دخل على الناس فقالت: يا رسول الله، فاذهب فانحر هديك، واحلق وأحل فإن الناس سيحلون فنحر رسول الله صلى الله عليه وسلم وحلق وأحل. "ش".
12821 مروان سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سال جس سال آپ کو (حج پر جانے سے مشرکین نے روک دیا تھا) ۔ یعنی چھ ہجری کو صلح حدیبیہ کے موقہ پر نکلے اور جب حدیبیہ تک پہنچے تو حل میں پریشان ہوگئے اور آپ کا مقصود حرم تھا (اور پھر مشرکین سے نزاع کے بعد) جب عہد نامہ لکھ لیا گیا اور اس سے فارغ ہوگئے تو یہ امر (مسلمان) لوگوں کو بہت شاق گزرا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! اپنے جانور (یہیں) قربان کرلو اور سرمنڈا کر حلال ہوجاؤ، لیکن کوئی شخص بھی نہ اٹھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر یہی ارشاد مبارک دہرایا پھر بھی کوئی شخص نہ اٹھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری بار اپنا فرمان دہرایا تب بھی کوئی نہ اٹھا۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ساتھ آئی ہوئیں ام المومنین) ام سلمہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : آج جو لوگوں کی (رنج وغم کی) کیفیت ہے وہ میں نے (پہلے کبھی) نہیں دیکھی۔ حضرت ام سلمۃ (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ خود جائیے اور اپنا ہدی کا جانور قربان کیجئے اور حل کروا کر حلال ہوجائیے۔ پھر لوگ ضرور (آپ کی اتباع میں یہ افعال کرکے) حلال ہوجائیں گے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہدی کو نحر کیا، حلق کروایا اور حلال ہوگئے۔ پھر آپ کی اتباع میں اور لوگ بھی ایسا کرنے لگے رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔ مصنف ابن ابی شیبہ۔

12822

12822- "مسند عمر رضي الله عنه" عن طارق بن شهاب قال: أصبنا حيات بالرمل ونحن محرمون فقتلناهن، فقدمنا على عمر بن الخطاب، فسألناه فقال: هن عدو فاقتلوهن حيث وجدتموهن. "عب ش والأزرقي".
12822 (مسند عمر (رض)) طارق بن شہاب سے مروی ہے ، فرمایا : ہم حالت احرام میں تھے، ہمیں ریت میں سانپ ملے، ہم نے ان کو قتل کرڈالا۔ پھر ہم حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ (رض) سے ان کے بارے میں سوال کیا تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : وہ دشمن ہیں، جہاں پاؤ ان کو قتل کردو۔ الجامع لعبدالرزاق، الازرقی

12823

12823- عن سويد بن غفلة قال: أمرنا عمر بن الخطاب بقتل الحية والعقرب والزنبور والفأرة ونحن محرمون. "عب ش والأزرقي".
12823 سوید بن غفلہ سے مروی ہے کہ ہم کو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سانپ بچھو بھڑ اور چوہے کو قتل کرنے کا حکم دیا (حالانکہ ہم حالت احرام میں تھے) ۔
الجامع لعبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیید، الازرقی

12824

12824- عن عمير بن الأسود قال: سألت عمر قلت: ما تقول الخفين للمحرم؟ فقال: هما نعلا من لا نعل له. "ش".
12824 عمیر بن الاسود سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا : آپ خفین (موزوں) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کیا محرم ان کو پہن سکتا ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ جوتے ہیں ان لوگوں کے لیے جن کے پاس جوتے نہیں (یعنی محرم ان کو پہن سکتا ہے) ۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12825

12825- عن عمر قال: لا تضره لو التحف به حتى يخرج إحدى يديه. "ش".
12825 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اگر محرم (احرام میں) لپٹ جائے مصرف ایک ہاتھ نکال لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مصنف ابن ابی شیبیہ

12826

12826- عن ربيعة بن أبي عبد الله الهدير أنه رأى عمر بن الخطاب يقرد بعيرا له في الطين بالسقيا وهو محرم. "مالك والشافعي هق".
12826 ربیعہ بن ابی عبداللہ الھد یر سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو سقیہ مقام ضر دیکھا کہ آپ اپنے اونٹ سے جو کیچڑ میں تھا چیچڑیاں (جوئیں) اتار رہے ہیں حالانکہ آپ حالت احرام میں تھے۔ مالک، الشافعی ، السنن للبیہقی
ربیعہ ثقہ راوی ہیں۔ ابن حبان، تھذیبہ

12827

12827- عن ابن عباس قال: ربما قال لي عمر بن الخطاب: تعال أنا صلك في الماء أينا أطول نفسا ونحن محرمون. "الشافعي هق".
12827 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اکثر مجھے حضرت عمر بن خطاب (رض) ارشاد فرماتے آؤ پانی میں کو دیں اور دیکھیں کہ کس کا لمبا سانس ہے اور ہم حالت احرام میں ہوتے تھے۔
الشافعی، السنن للبیہقی

12828

12828- عن أبي الشعثاء قال: سألت ابن عمر عن لحم الصيد يهديه الحلال للحرام قال: كان عمر يأكله فقلت: إنما أسألك عن نفسك أتأكله؟ فقال: كان عمر خيرا مني. "كر".
12828 الو اشعثاء سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا کہ شکار کا گوشت حلال آدمی محرم کو ہدیہ میں پیش کرسکتا ہے ؟ انھوں نے فرمایا : حضرت عمر (رض) تو اس کو (حالت احرام میں) کھالیتے تھے۔ میں نے عرض کیا میں آپ سے سوال کررہا ہوں کہ آپ کھاتے ہیں یا نہیں ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے پھر ارشاد فرمایا : عمر (رض) مجھ سے بہتر تھے۔ ابن عساکر

12829

12829- عن الأسود أن كعبا قال لعمر: إن ناسا استفتوني في لحم صيد أهدى محل لمحرم أيأكله؟ فما أفتيتهم؟ فقال: أفتيتهم أن يأكلوه، قال: لو أفتيتهم بغير ذلك لم تكن فقيها. "ابن جرير".
12829 اسود (رح) سے مروی ہے کہ حضرت کعب (احبار (رح)) نے حضرت عمر (رض) عرض کیا کچھ لوگوں نے مجھ سے اس شکار کے گوشت کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو محل کسی محرم کو ہدیہ میں دے تو کیا محرم اس کو کھا سکتا ہے یا نہیں ؟ حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : تم نے ان کو کیا فتویٰ دیا ؟ کعب (رح) نے عرض کیا : میں نے ان کو فتویٰ دیا کہ وہ اس کو کھا سکتے ہیں۔
حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر تم اس کے علاوہ کوئی اور فتویٰ دیتے تو فقیہ نہ ہوتے۔ ابن جریر

12830

12830- عن الحسن أن عمر وأبا هريرة كانا لا يريان بأسا بأكل لحم الصيد إذا لم يصد له يعني للمحرم. "ابن جرير".
12830 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت ابو ہریرہ (رض) کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ اگر محرم کے لیے شکار نہ کیا جائے تو تب وہ اس کو کھا سکتا ہے (جبکہ کسی حلال آدمی نے شکار کیا ہو) ۔ ابن جریر

12831

12831- عن عطاء بن أبي رباح أن عمر بن الخطاب قال ليعلى بن منية وهو يصب على عمر ماء وهو يغتسل: اصبب على رأسي فلن يزيده الماء إلا شعثا1 "مالك".
12831 عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے یعلی بن منیۃ کو جو کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے سر پر پانی ڈال رہے تھے اور وہ غسل فرما رہے تھے ارشاد فرمایا : میرے سر پر پانی ڈالو (ڈالتے رہو) پانی اور کچھ زیادہ نہیں کرتا۔ سوائے گرد آلودگی کے ۔ مالک

12832

12832- عن أبي هريرة أنه مر به قوم محرمون بالربذة، فاستفتوه في لحم صيد وجدوا ناسا أحلة يأكلونه، فأفتاهم بأكله، ثم قال: قدمت على ابن الخطاب فسألته عن ذلك؟ فقال: بم أفتيتهم؟ قلت: أفتيتهم بأكله، فقال عمر: لو أفتيتهم بغير ذلك لأوجعتك. "مالك ق"
12832 حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ وہ ربذۃ میں تھے کہ ان کے پاس حالت احرام والے چھ لوگ گزرے ، انھوں نے شکار کے گوشت بارے میں سوال کیا کہ انھوں نے کچھ لوگ جو حالت احرام میں تھے کو گوشت کھاتے دیکھا تو کیا یہ حالت احرام والے ان کے ساتھ گوشت کھا سکتے ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے ان کو کھانے کے متعلق فتویٰ دیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں پھر میں حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوا اور ان سے اس کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے پوچھا : تم نے ان کو کیا فتویٰ دیا ؟ میں نے عرض کیا : میں نے ان کو کھانے کا مشورہ دیدیا۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر تو اس کے علاوہ کوئی اور فتویٰ دیتا تو میں تمہیں تکلیف دینے والی مار مارتا۔
مالک ، السنن للبیہقی

12833

12833- عن عطاء بن يسار أن كعب الأحبار أقبل من الشام في ركب حتى إذا كانوا ببعض الطريق وجدوا لحم صيد فأفتاهم كعب بأكله فلما قدموا على عمر بن الخطاب ذكروا ذلك له فقال: من أفتاكم بهذا؟ قالوا: كعب قال: فإني قد أمرته عليكم حتى ترجعوا، فلما كان ببعض الطريق صادفوا جرادا فأفتاهم كعب أن يأخذوه فيأكلوه فلما قدموا على عمر ذكروا له ذلك، فقال: ما حملك على أن تفتيهم بهذا؟ فقال كعب: هو من صيد البحر، فقال عمر: وما يدريك؟ فقال: يا أمير المؤمنين، والذي نفسي بيده، إن هو إلا نثرة حوت ينثره في كل عام مرتين. "مالك"
12833 عطاء یسار سے مروی ہے کہ کعب احبار (رح) شام سے ایک قافلے کے ساتھ تشریف لائے حتیٰ کہ جب وہ راستے میں پہنچے تو انھوں نے شکار کا گوشت پایا۔ حضرت کعب (رح) نے ان کو کھانے کا فتویٰ دیدیا۔ پھر جب یہ لوگ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس پہنچے تو ان کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تم لوگوں کو یہ فتویٰ کس نے دیا تھا ؟ لوگوں نے کہا : کعب نے۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے تم پر انہی کو امیر بنادیا جب تک کہ تم واپس پہنچو۔ پھر جب یہ لوگ (کسی اور) راستے میں تھے تو ان کے پاس ٹڈیوں کا غول گزرا حضرت کعب (رح) نے اپنے ساتھیوں کو فتویٰ دیا کہ وہ ان کو پکڑ سکتے ہیں اور کھاسکتے ہیں۔ پھر جب یہ لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچے تو انھوں نے یہ واقعہ بھی ذکر کیا حضرت عمر (رض) نے حضرت کعب (رح) سے پوچھا : یہ فتوی دینے پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا ؟ کعب بولے : یہ سمندری شکار ہے، حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تمہیں کیا معلوم ؟ کعب (رح) بولے : امیر المومنین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ ٹڈیاں ایک مچھلی کی چھینک سے نکلتی ہیں اور مچھلی سال میں دو مرتبہ چھینکتی ہے۔ موطا امام مالک

12834

12834- عن الحارث بن عبد الرحمن أنه أخبره من رأي عمر يغتسل بعرفة وهو يلبي. "ش".
12834 حارث بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ ان ک وای سے شخص نے خبر دی جس نے حضرت عمر (رض) کو دیکھا کہ انھوں نے حضرت عمر (رض) کو عرفہ کے روز غسل کرتے دیکھا اور وہ تلبیہ بھی پڑھ رہے تھے۔
ابن ابی شیبہ

12835

12835- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن نبيه بن وهب أنه رمدت عينه وهو محرم فأراد أن يكحلها فنهاه أبان بن عثمان وأمره أن يضمدها بالصبر، وزعم أن عثمان أنه حدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه فعل ذلك. "حم والحميدي والدارمي والبغوي م د ت وأبو عوانه حب ق".
12835 (مسند عثمان (رض)) نبیہ بن وھب سے مروی ہے کہ ان کو آشوب چشم کی بیماری ہوگئی اور وہ حالت احرام میں تھے۔ انھوں نے سرمہ لگانے کا سوچا تو ابان بن عثمان نے ان کو روک دیا اور ان کو ایلوے کا لیپ آنکھوں پر کرنے کا مشورہ دیا اور ان کا خیال تھا کہ (ان کے والد) عثمان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بیان کیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا۔
مسنداحمد ، الحمیدی، الدارمی ، البغوی، مسلم، ابن داؤد، الترمذی، ابوعوانہ، ابن حبان، السنن للبیہقی

12836

12836- عن الطبراني في الصغير حدثنا محمد بن جعفر بن سفيان بن الوليد بن الرسان عن المعافي بن عمران عن جعفر بن برقان2 عن ميمون بن مهران عن عمران بن أبان عن عثمان بن عفان في المحرم يدخل البستان ويشم الريحان.
12836 عن الطبرانی فی الصغیر حدثنا محمد بن جعفر بن سفیان بن الولید بن الرسان عن المعافی بن عمران عن جعفر بن برقان عن میمون بن مھران عن عمران بن ابان عن عثمان بن عفان۔
حضرت عثمان بن عفان (رض) فرماتے ہیں کہ محرم باغ میں داخل ہوسکتا ہے اور ریحان (خوشبو) سونگھ سکتا ہے۔

12837

12837- عن عثمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في المحرم إذا اشتكى عينه يضمدها بالصبر. "ابن السني وأبو نعيم معا في الطب".
12837 حضرت عثمان (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محرم کے بارے میں ارشاد فرمایا جب اس کی آنکھ کی تکلیف لاحق ہوجائے تو وہ ایلوے کا لیپ آنکھوں پر کرلے۔
ابن السنی و ابونعیم معافی الطب

12838

12838- عن ابن وهب أن عمر بن عبيد الله بن معمر، اشتكى عينه وهو محرم فنهاه أبان بن عثمان وأمره أن يضمدها بالصبر والمر قال: وحدثنا عثمان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل ذلك أنه كان يقوله. "ابن السني وأبو نعيم".
12838 ان وھب (رح) سے مروی ہے کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر کو حالت احرام میں آنکھیں دکھنی آگئیں۔ ابان بن عثمان نے ان کو (سرمہ لگانے سے) منع کیا اور فرمایا کہ ایلوے اور مر (ایک کڑوی دوا) کا (آنکھوں کے اوپر) لیپ کریں ۔ نیز فرمایا کہ ہمیں حضرت عثمان (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے مثل روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایساہی فرمایا کرتے تھے۔
ابن السنی ، ابونعیم

12839

12839- عن أبي جعفر أن عمر أبصر على عبد الله بن جعفر ثوبين مصبوغين وهو محرم، فقال: ما هذا؟ فقال: على ما إخال2 أحدا يعلمنا السنة فسكت عمر. "الشافعي وابن منيع ق".
12839 ابوجعفر سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) کو دورنگ شدہ کپڑوں میں ملبوس دیکھا اور عبداللہ حالت احرام میں بھی تھے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے عرض کیا : میرا خیال ہے کہ ہمیں کوئی سنت سکھانے والا نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) خاموش ہوگئے۔ الشافعی، ابن منیع، السنن للبیہقی
فائدہ : ابن جعفر (رض) کا مطلب تھا کہ ہمیں اس لباس میں کوئی دیکھ کر ہمیں تنبیہ کرے اور کوئی سنت بتانے والا آگے بڑھے۔

12840

12840- عن عكرمة أن عمر بن الخطاب وابن عباس كانا يتغاطان3 وهما محرمان. "سعيد بن أبي عروبة في المناسك".
12840 عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور ابن عباس (رض) دونوں پانی میں غوطہ خوری کرتے تھے (اور ایک دوسرے کو ڈبوتے تھے) حالانکہ دونوں محرم تھے۔ سعید بن ابی عروۃ فی المناسک

12841

12841- "مسند عمر رضي الله عنه" عن أبي غطفان بن طريف المري أن أبا طريف تزوج امرأة وهو محرم فرد عمر بن الخطاب نكاحه. "مالك والشافعي ق".
12841 (مسند عمر (رض)) ابوغطفان بن طریف المری کہتے ہیں کہ ابوطریف نے حالت احرام میں ایک عورت سے شادی کی تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان کا نکاح توڑ دیا۔
مالک الشافعی، السنن للبیہقی

12842

12842- عن عثمان قال: المحرم لا ينكح ولا يخطب على نفسه ولا على من سواه. "ع".
12842 عثمان (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : محرم نہ نکاح کرسکتا ہے اور نہ اس کو اس کی ذات کے لیے پیغام نکاح دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کو کسی اور کے لیے پیغام نکاح دیا جاسکتا ہے۔ مسند ابی یعلی

12843

12843- عن علي قال: أيما رجل تزوج وهو محرم انتزعنا منه امرأته ولم نجز نكاحه."مسدد ق".
12843 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : جو آدمی حالت احرام میں شادی کرے گا ہم اس سے اس کی عورت چھین لیں گے اور اس کا نکاح برقرار نہ رکھیں گے۔ مسدد، السنن للبیہقی

12844

12844- عن علي قال: من تزوج وهو محرم نزعنا منه امرأته. "عد ق".
12844 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : جس نے حالت احرام میں شادی کی ہم اس سے اس کی عورت کو چھین لیں گے۔ الکامل لا بن عدی، السنن للبیہقی
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 5214، الکامل لابن عدی۔

12845

12845- عن علي قال: لا ينكح المحرم وإن نكح رد نكاحه. "ق".
12845 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : محرم نکاح نہ کرے اور اگر نکاح کرے گا تو اس کا نکاح رد کردیا جائے گا (توڑ دیا جائے گا) ۔ السنن للبیہقی

12846

12846- عن علي أن امرأة من خثعم شابة قالت: يا رسول الله إن أبي شيخ كبير قد أقعد1 أدركته فريضة الله على عباده في الحج لا يستطيع أداءها فهل يجزئ عنه أن أؤديها عنه؟ قال: نعم. "الشافعي ق".
12846 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا باپ بوڑھا آدمی ہے جو (چلنے پھرنے سے عاجز ہو کر) بیٹھ چکا ہے، اس کو وہ فریضہ لازم ہوچکا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں پر حج کی صورت میں عائد کردیا ہے لیکن وہ اس کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیا اس کی طرف سے میں اس کے حج کو ادا کرسکتی ہوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ الشافعی ، السنن للبیہقی

12847

12847- عن جعفر بن محمد قال: حدثني أبي أن رجلا أتي عليا فقال: كبرت وضعفت وفرطت في الحج؟ قال: إن شئت جهزت رجلا يحج عنك. "ابن جرير".
12847 جعفر بن محمد سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور ضعیف ہوچکا ہوں اور حج کرنے سے کمزور ہوچکا ہوں ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر تو چاہے تو اپنی طرف سے کسی آدمی کو تیار کرکے بھیج سکتا ہے جو تیری طرف سے حج کرلے گا۔ ابن جریر

12848

12848- عن بريدة قال: جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، إن أمي ماتت ولم تحج حجة الإسلام، أفأحج عنها؟ قال: نعم فحجي عنها. "ابن جرير".
12848 بریدۃ (رض) سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ماں تو مرگئی اور وہ اسلام کا حج ادا نہیں کرسکی تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں تو اس کی طرف سے حج کرلے۔ ابن جریر

12849

12849- عن بريدة أن امرأة أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن أمي ماتت ولم تحج، فيجزئ أن أحج عنها؟ قال: أرأيت لو كان على أمك دين فقضيته أكان يجزئ عنها؟ قالت: نعم قال: فدين الله أحق أن يقضى. "ابن جرير".
12849 بریدۃ (رض) سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ماں مرگئی ہے اور اس نے حج نہیں کیا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : کیا اگر تیری ماں پر کسی کا قرض ہوتا اور تو اس کی طرف سے وہ قرض چکاتی تو کیا وہ ادا ہوجاتا ؟ اس نے عرض کیا : ضرور، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب اللہ کا قرض زیادہ اچھی طرح ادا ہوسکتا ہے۔ ابن جریر

12850

12850- عن ابن عباس قال: حدثني الحصين بن عوف قال: قلت يا رسول الله إن أبي أدرك الحج ولا يستطيع أن يحج إلا معترضا؟ فصمت ساعة ثم قال: حج عن أبيك. "الحسن بن سفيان وابن جرير طب وأبو نعيم".
12850 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ مجھے حصین بن عوف نے بیان کیا، حصین کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے والد نے حج پالیا تھا (اس پر حج فرض ہوچکا تھا) مگر وہ حج نہیں کرسکتا تھا مگر اس کو کوئی عذر پیش آجاتا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر خاموش رہے پھر ارشاد فرمایا : تو اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے۔ الحسن بن سفیان، ابن جریر، الکبیر للطبرانی، ابونعیم

12851

12851- عن موسى بن عبيدة أخي عبد الله بن عبيدة عن حصين بن عوف الخثعمي أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أبي كبير ضعيف وقد علم شرائع الإسلام لا يستمسك على بعير، فأحج عنه؟ قال: أرأيت لو كان على أبيك دين أكنت قاضيا عنه؟ قال: نعم، قال: فدين الله أحق، قال: فحج عنه ابنه وهو حي. "طب وأبو نعيم".
12851 عبداللہ بن عبیدۃ کے بھائی موسیٰ عبیدۃ، حصین بن عوف حعمی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرض کیا میرے باپ بڑے بوڑھے اور ضعیف آدمی ہیں اور وہ اسلام کی شریعت کا علم رکھتے ہیں لیکن وہ اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتے کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا خیال ہے اگر تیرے باپ پر کوئی قرض ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا۔ انھوں نے عرض کیا : ضرور۔ حضور نے فرمایا : تب اللہ کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اس کو ادا کردیا جائے۔ چنانچہ پھر انھوں نے اپنے زندہ باپ کی طرف سے حج کیا۔
الکبیر للطبرانی، ابونعیم

12852

12852- عن عبد الله بن الزبير قال: جاء رجل من خثعم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن أبي أدركه الإسلام وهو شيخ كبير لا يستطيع ركوب الرحل والحج مكتوب عليه، أفأحج عنه؟ قال: أنت أكبر ولده؟ قال: نعم، قال أرأيت لو كان على أبيك دين فقضيته أكان يجزئ؟ قال: نعم قال: فحج عنه. "ابن جرير".
12852 عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے والد کو اسلام کا زمانہ مل گیا ہے اور وہ بوڑھے آدمی ہیں۔ سواری پر سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتے اور ان پر حج بھی فرض ہوچکا ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تو اپنے والد کی اولاد میں سب سے بڑا ہے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا : اگر تیرے باپ پر دین (قرض) ہوتا اور تو اس کو ادا کرتا تو کیا وہ ادا ہوجاتا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب تو ان کی طرف سے حج (بھی) کرسکتا ہے۔ ابن جریر
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف النسائی 164

12853

12853- عن يزيد بن الأصم عن ابن عباس قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال: إن أبي لم يحج، أفأحج عنه؟ قال: نعم إنك إن لم تزده خيرا لم تزده شرا. "ابن جرير".
12853 یزید بن الاصم حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا : میرے والد نے حج نہیں کیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں، اگر تو ان کے لیے خیر میں اضافہ نہیں کرسکتا تو ان کے لیے شر میں بھی اضافہ نہیں کرسکتا۔ ابن جریر

12854

12854- عن سعيد بن جبير عن ابن عباس أن امرأة نذرت أن تحج فماتت، فأتى أخوها النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن ذلك؟ فقال: أرأيت لو كان على أختك دين أكنت قاضيه؟ قال: نعم قال: فالله أحق بالوفاء. "ابن جرير".
12854 سعید جبیر سے مروی ہے وہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ حج کرے گی لیکن اس کا انتقال ہوگیا۔ تو اس کا بھائی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیرا کیا خیال ہے، اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس اللہ زیادہ حقدار ہے کہ (اس کا قرض) پورا دا کیا جائے۔
ابن جریر

12855

12855- عن عكرمة عن ابن عباس أن رجلا من خثعم قال: يا رسول الله إن أبي شيخ كبير، وأنه لا يثبت على الرحل، أفأحج عنه؟ قال: نعم. "ابن جرير".
12855 عکرمہ (رح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ حتعم کے ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا والد بوڑھا آدمی ہے۔ اور وہ سواری پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ ابن جریر

12856

12856- عن عكرمة عن ابن عباس أن رجلا قال: يا نبي الله، إن أبي مات ولم يحج، أفأحج عنه؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أرأيت لو كان على أبيك دين أكنت قاضيه؟ قال: نعم، قال: فحق الله أحق. "ابن جرير".
12856 عکرمہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میرے والد مرگئے اور حج نہیں کرسکے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا خیال ہے اگر تیرے باپ پر قرض ہو تو کیا تو اس کو ادا کرے گا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں ! تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس اللہ کا حق۔ ادا کیے جانے کے لیے زیادہ حقدار ہے۔ ابن جریر

12857

12857- عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: أتت النبي صلى الله عليه وسلم امرأة من جهينة فقالت: يا رسول الله إن أمي ماتت ولم تحج، أفأحج عنها؟ قال: أرأيت لو كان على أمك دين فقضيته أكان مجزئا عنها؟ قالت: نعم قال: فدين الله أحق أن يقضى. "ابن جرير".
12857 سعید بن جبیر حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قبیلہ جہینہ کی ایک عورت عاضر ہوئی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ماں مرگئی اور حج نہ کرسکی تو کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اگر تیری ماں پر قرض ہوتا اور تو اس کو ادا کرتی تو کیا وہ ادا ہوجاتا ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : پس اللہ کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اس کو ادا کیا جائے۔ ابن جریر

12858

12858- عن عطاء عن ابن عباس قال: أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن أبي شيخ كبير لم يحج أفأحج عنه؟ قال: فقال: لو كان على أبيك دين فقضيته عنه أكان يجزئ عنه؟ قال: نعم فحج عنه. "ابن جرير".
12858 حضرت عطاءؒ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میرا باپ بوڑھا آدمی ہے، اس نے حج نہیں کیا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتا ہوں، پوچھا : کیا اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کرے تو کیا وہ اس کی طرف سے ادا ہوسکتا ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جی ہاں تو پھر تو ان کی طرف سے حج کرلے۔ ابن جریر

12859

12859- عن موسى بن سلمة قال: قلت لابن عباس أكون في هذه المغازي فأعتق عن أمي أفيجزئ عنها؟ فقال ابن عباس: أمرت امرأة سنان بن عبد الله الجهني أن يسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أمها توفيت ولم تحج أفيجزئ عنها أن تحج عنها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أرأيت لو كان على أمها دين أكان يجزئ عنها؟ قال: نعم قال: فلتحج عن أمها. "ابن جرير".
12859 موسیٰ بن سلمۃ سے مروی ہے ، فرمایا میں نے ابن عباس (رض) سے عرض کیا : میں جہاد میں شرکت کرتا رہتا ہوں کیا میں اپنی ماں کی طرف سے کوئی غلام آزاد کرسکتا ہوں ؟ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ایک عورت نے سنان بن عبداللہ الجہنی سے کہا کہ جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرے کہ اس کی ماں مرگئی ہے اور وہ حج نہ کرسکی کیا وہ اس کی طرف سے حج کرسکتی ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تیرا کیا خیال ہے اگر اس کی ماں پر قرض ہوتا تو وہ ادا کرتی تو ادا ہوجاتا ؟ اسنے عرض کیا : جی ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پس وہ اپنی ماں کی طرف سے حج کرلے۔ ابن جریر

12860

12860- عن سليمان بن يسار أن عبد الله بن عباس أخبره أن امرأة من خثعم استفت رسول الله صلى الله عليه وسلم، والفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إن فريضة الله في الحج أدركت أبي شيخا كبيرا لا يستطيع أن يستوى على الراحلة فهل يقضى أن أحج عنه؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، حجي عن أبيك أرأيت إن كان على أبيك دين فقضيته عنه ألا ترين أنك قد أديت عنه؟ قالت: بل قال: فحق الله أحق. "ابن جرير".
12860 سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے ان کو خبر دی کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتویٰ پوچھا جبکہ فضل بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا : اللہ کا فریضہ حج میرے بوڑھے والد پر آچکا ہے لیکن وہ سواری پر ٹھہر نہیں سکتے ؟ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو ارشاد فرمایا : ہاں تو اپنے باپ کی طرف سے حج کرسکتی ہے پھر اس عورت سے پوچھا : اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کرے تو تیرا کیا خیال ہے کہ وہ ادا ہوجائے گا ؟ عورت نے عرض کیا : کیوں نہیں، فرمایا : پس الل کا حق زیادہ حقدار ہے (ادا ہونے کے) ۔ ابن جریر

12861

12861- عن عبيد الله بن عباس أخ لعبد الله بن عباس قال: كنت رديف النبي صلى الله عليه وسلم وأتاه رجل فقال: يا رسول الله إن أمه عجوز كبيرة إن حزمها خشي أن يقتلها، وإن حملها لم تستمسك، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يحج عنها - وفي لفظ - فقال: حج عن أمك. "ابن جرير وابن منده كر".
12861 عبیداللہ بن عباس جو عبداللہ بن عباس (رض) کے بھائی ہیں سے روایت منقول ہے وہ فرماتے ہیں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ماں بڑی بوڑھی ہے اگر اس کو (سواری پر) باندھا جائے تو اس کے ہلاک ہونے کا ڈر ہے اور اگر اس کو یونہی سوار کرایا جائے تو وہ (سواری پر) ٹھہر نہیں سکتی ؟ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حکم دیا کہ وہ اس کی طرف سے حج کرلے۔
دوسرے الفاظ میں فرمایا : تو اپنی ماں کی طرف سے حج کرلے۔ ابن جریر، ابن مندۃ، ابن عساکر

12862

12862- عن سليمان بن يسار عن الفضل بن عباس قال: كنت رديف النبي صلى الله عليه وسلم فأتته امرأة فقالت: إن أبي أدرك الإسلام وهو شيخ كبير لا يستطيع الحج أفأحج عنه؟ فقال: أرأيت لو كان على أبيك دين فقضيت عنه أليس كان قضاء. "ابن جرير".
12862 سلیمان بن یسار (رح) حضرت فضل بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : میرے والد مسلمان ہوچکے ہیں لیکن وہ بوڑھے آدمی ہیں حج نہیں کرسکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو ان کی طرف سے ادا کرتی تو کیا وہ ادا نہیں ہوجاتا۔ ابن جریر

12863

12863- عن محمد عن رجل أن الفضل بن عباس قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم فجاء رجل فقال: يا رسول الله إن أمي عجوز كبيرة إن حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها خشيت أن أقتلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيا عنها؟ قال: نعم قال: فأحجج عن أمك. "ابن جرير".
12863 محمد (رح) ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ردیف تھا۔ ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ماں بوڑھی عورت ہے اگر میں اس کو سوار کراؤں تو وہ ٹھہر نہیں سکتی اور اگر اس کو باندھ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ اس طرح میں ان کو مار ڈالوں گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا خیال ہے اگر تیری ماں پروین (کوئی حق واجب قرض وغیرہ) ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ تو فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پس تو اپنی ماں کی طرف سے حج کرلے۔ ابن جریر

12864

12864- عن أبي رزين العقيلي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن أبي شيخ كبير ولا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن وقد أدركه الإسلام أفأحج عنه؟ قال: حج عن أبيك واعتمر. "ابن جرير".
12864 ابورزین العقیلی (رض) سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے باپ بوڑھے آدمی ہیں، وہ حج کرسکتے ہیں اور نہ عمرہ اور نہ ہی کوئی اور سفر اختیار کرسکتے ہیں اور وہ اسلام حاصل کرچکے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج بھی کرو اور عمرہ بھی کرو۔ ابن جریر

12865

12865- عن سودة بنت زمعة قالت: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن أبي شيخ كبير ولم يحج؟ قال: أرأيت لو كان على أبيك دين فقضيته عنه؟ قال: نعم قال: فإن الله أرحم، حج عن أبيك. "ابن جرير".
12865 ام المومنین سودۃ (رض) (بنت زمعۃ سے مروی ہے، آپ (رض)) فرماتی ہیں : ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ ! میرے باپ بوڑھے آدمی ہیں اور انھوں نے حج نہیں کیا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا خیال ہے اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک زیادہ مہربان ہے (تیری طرف سے اداشدہ کو بھی وہ باپ کی طرف سے قبول کرلے گا) تو اپنے باپ کی طرف سے حج کر۔ ابن جریر

12866

12866- عن طارق بن عبد الرحمن قال: قلت لسعيد بن المسيب رجل مات ولم يحج يجزئه أن يحج عنه ابنه؟ قال: نعم إنما هو كالدين ثم قال: كان ذلك على عهد نبي الله صلى الله عليه وسلم فرخص له في ذلك أن يحج عنه. "ابن جرير".
12866 طارق بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ میں نے سعید بن المسیب (رح) کو عرض کیا : ایک آدمی مرگیا اور اس نے حج نہیں کیا تو اگر اس کا بیٹا اس کی طرف سے حج کرلے تو کیا اس کے باپ کے لیے کافی ہوسکتا ہے ؟ حضرت سعید (رض) نے فرمایا : ہاں وہ دین کی طرح ہے۔ پھر فرمایا : یہ (مسئلہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں بھی تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت عطا فرمائی تھی کہ اس کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے۔ ابن جریر

12867

12867- عن سنان بن عبد الله الجهني أن عمته حدثته أنها أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن أمي توفيت وعليها مشي إلى الكعبة نذرا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أتستطيعين تمشين عنها؟ قالت: نعم، قال: فامشي عن أمك، قالت: أو يجزئ ذلك عنها؟ قال: نعم، قال: أرأيت لو كان عليها دين لرجل فقضيته هل كان يقبل منك؟ قالت: نعم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله أحق بذلك. "ش وابن جرير".
12867 سنان بن عبداللہ الجہنی سے مروی ہے کہ ان کی پھوپھی نے ان کو بیان کیا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری ماں وفات پاچکی ہیں اور اس پر نذر تھی کہ وہ پیدل کعبہ کو جائیں گی ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تو ان کی طرف سے پیدل جانے کی استطاعت رکھتی ہے ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں کی طرف سے چلی جا۔ پھوپھی بولیں : کیا یہ میری ماں کے لیے کافی ہوجائے گا ؟ حضور نے فرمایا : ہاں۔ پھر پوچھا : کیا اگر اس پر کسی آدمی کا دین (قرض) ہوتا تو اس کو ادا کرتی تو وہ تیری طرف سے قبول کرلیا جاتا ؟ اس نے عرض کیا : جی ہاں۔ تب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر

12868

12868- عن البراء قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه فأحرمنا بالحج، فلما قدمنا مكة قال: اجعلوا حجكم عمرة فقال الناس: يا رسول الله قد أحرمنا بالحج فكيف نجعلها عمرة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظروا الذي آمركم به فافعلوا، فردوا عليه القول، فغضب، ثم انطلق حتى دخل على عائشة غضبان، فرأت الغضب في وجهه فقالت: من أغضبك أغضبه الله؟ قال: ومالي لا أغضب وأنا آمر فلا أتبع. "ن".
12868 براء (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب (حج کے ارادے سے) نکلے۔ ہم نے حج کا احرام باندھ لیا۔ جب ہم مکہ پہنچے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے حج کو عمرہ کرلو۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے، ہم اس کو عمرہ کیسے بنائیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہ دیکھو میں کیا حکم کررہا ہوں، تم اس کی تعمیل کرو۔ لیکن لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضب ناک ہوگئے اور غصہ کی حالت میں چل کر حضرت عائشہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا : آپ کو کس نے غصہ دلایا اس پر اللہ کا غصہ اترے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیوں غصہ نہ ہوؤں جبکہ میں حکم کرتا ہوں تو میری اتباع نہیں کی جاتی۔ النسائی

12869

12869- عن بلال بن الحارث قال قلت: يا رسول الله فسخ الحج لنا خاصة أو لمن أتى؟ قال: بل لنا خاصة. "أبو نعيم".
12869 بلال بن الحارث سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! فسخ حج خاص ہمارے لیے ہوا ہے یا جو بھی آئے سب کے لیے ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بلکہ خاص ہمارے لیے ہے۔ ابونعیم

12870

12870- عن بلال بن الحارث بن بلال عن أبيه قال قلت: يا رسول الله فسخ الحج لنا خاصة أم للناس؟ قال: بل لنا خاصة. "أبو نعيم".
12870 بلال بن الحارث بن بلال اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! حج فسخ ہمارے لیے ہوا ہے خاص طورپر، یا سب لوگوں کے لیے ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : بلکہ خاص ہمارے لیے ہے۔ ابونعیم

12871

12871- "مسند عمر رضي الله عنه" عن سويد بن غفلة قال: قال لي عمر بن الخطاب: يا أبا أمية حج واشترط، فإن لك ما اشترطت، ولله عليك ما اشترطت. "الشافعي ق".
12871 (مسند عمر (رض)) سوید بن غفلہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : مجھے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : اے ابو امیہ ! حج کرلے اور شرط لگا دے۔ کیونکہ جو تو شرط لگائے گا اس کا تجھے فائدہ ہوگا۔ اور اللہ کے لیے تجھ پر لازم وہی ہوگا جو تو شرط عائد کرے گا۔ الشافعی، السنن للبیہقی

12872

12872- "مسند أبي بكر الصديق رضي الله عنه" عن القاسم بن محمد عن أبيه عن جده أبي بكر أنه خرج حاجا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه أسماء بنت عميس فولدت بالشجرة محمد بن أبي بكر فأتى أبو بكر النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فأمره أن تغتسل، ثم تهل بالحج وتصنع ما يصنع الناس إلا أنها لا تطوف بالبيت. "ن هـ وابن خزيمة والبزار" قال ابن المديني هذا منقطع فإن محمدا مات أبوه أبو بكر وهو ابن ثلاث سنين والقاسم لم يدرك أباه أيضا.
12872 (مسند ابی بکر الصدیق (رض)) قاسم بن محمد اپنے والد سے وہ ان کے دادا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کرتے ہیں، حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کے لیے نکلے، ان (ابوبکر (رض)) کے ساتھ (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس (رض) بھی تھیں جس نے (مقام) شجرۃ کے پاس محمد بن ابی بکر کو جنم دیا۔
حضرت ابوبکر (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو خبر دی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا کہ وہ اسماء غسل کرلے پھر حج کا احرام باندھ لے اور جو افعال دوسرے لوگ کریں وہ بھی کرتی رہے سوائے بیت اللہ کے طواف کرنے کے۔
النسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، البزار
ابن المدینی (رح) فرماتے ہیں روایت مذکورہ منقطع ہے کیونکہ محمد کے والد حضرت ابوبکر (رض) کی جب وفات ہوئی تو محمد اس وقت تین سال کے بچے تھے اور پھر قاسم نے بھی اپنے باب محمد کو نہیں پایا۔

12873

12873- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تحلق المرأة رأسها. "ت ن وابن جرير".
12873 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ عورت اپنے سر کو حلق کرائے (منڈائے) ۔ الترمذی، النسائی ، ابن جریر
کلام : مذکورہ روایت محل کلام ہے، ضعیف الترمذی 157، ضعیف الجامع 5998 ۔

12874

12874- عن عمر قال: حجوا هذه الذرية، ولا تأكلوا أرزاقها وتدعو أرباقها في أعناقها1 "أبو عبيد في الغريب ش وابن سعد ومسدد".
12874 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : ان اولادوں کو بھی حج کرایا کرو اور ان کی روزی نہ کھاؤ اور ان کی ذمہ داریاں ان کی گردنوں پر ڈالا۔
ابوعبید فی الغریب، ابن ابی شیبہ، ابن سعد، مسدد

12875

12875- عن الحارث بن عبد الله بن أوس الثقفي قال: سألت عمر بن الخطاب عن المرأة تحيض قبل أن تنفر؟ قال: ليكن آخر عهدها الطواف بالبيت، فقال: كذلك أفتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: أربت عن ذي يديك سألتني عن شيء سألت عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم لكيما أخالف. "ابن سعد والحسن بن سفيان وأبو نعيم وابن عبد البر في العلم".
12875 حارث بن عبداللہ بن اوس ثقفی (رض) سے مروی ہے، فرماتے ہیں : میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سوال کیا کہ اس عورت کا کیا حکم ہے، جو (مکہ سے واپسی کا) کوچ کرنے سے قبل حائضہ ہوجائے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کو آخری عمل بیت اللہ کا طواف کرنا چاہیے۔ حارث (رض) نے عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مجھے اسی طرح فتویٰ دیا تھا۔ تب حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : تیرے ہاتھ ٹوٹیں ، تو مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے جس کے بارے میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرچکا ہے تاکہ میں مخالفت کروں۔
ابن سعد، الحسن بن سفیان، ابونعیم، ابن عبدالبرفی العلم

12876

12876- عن أنس أن أم سليم حاضت فأمرها رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تنفر. "الخطيب في المتفق والمفترق".
12876 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ (ان کی والدہ) ام سلیم (رض) حائضہ ہوگئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان (ام سلیم) کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ الخطیب فی المتفق والمفترق

12877

12877- عن سعيد بن المسيب عن أسماء بنت عميس أنها نفست بمحمد ابن أبي بكر في ذي الحليفة فسأل أبو بكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمره أن تغتسل وتهل. "طب" قال ابن كثير: إسناده جيد.
12877 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے وہ حضرات اسماء بنت عمیس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ذی الحلیفہ مقام پر (اپنے بیٹے) محمد بن ابی بکر (کی پیدائش) کے بعد نفاس کی حالت میں ہوگئیں تو ابوبکر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو (اسماء کے لئے) حکم دیا کہ وہ غسل کرے اور تلبیہ پڑھ لے۔ الکبیر للطبرانی
ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : اس کی سند جید ہے۔

12878

12878- عن عائشة قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع موافين لهلال ذي الحجة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم من أراد منكم أن يهل بعمرة فليهل، فإني لولا أني أهديت لأهللت بعمرة فكان من القوم من أهل بعمرة، ومنهم من أهل بحج فكنت أنا ممن أهل بعمرة فخرجنا حتى قدمنا مكة فأدركني يوم عرفة وأنا حائض لم أهل من عمرتي، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: دعي عمرتك، وانقضي رأسك، وامتشطي، وأهلي بالحج ففعلت، فلما كانت ليلة الحصبة وقد قضى الله حجنا؛ أرسل معي عبد الرحمن بن أبي بكر فأردفني وخرج بي إلى التنعيم، فأهللت بعمرة فقضى الله حجنا وعمرتنا لم يكن في ذلك هدي ولا صدقة ولا صوم. "ش".
12878 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم یکم ذی الحجہ کو حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ (حج کے لئے) نکلے، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو تم میں سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ اس کا احرام باندھ لے۔ کیونکہ اگر میں بھی ہدی نہ لاتا تو عمرہ کا احرام باندھ لیتا ۔ چنانچہ لوگوں میں سے کسی نے عمرہ کا احرام باندھا اور کسی نے حج کے احرام باندھا۔ جبکہ میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ چنانچہ ہم وہاں سے نکل کر مکہ پہنچے۔ وہاں عرفہ کے روز مجھے حیض آگیا جبکہ میں ابھی تک اپنا عمرہ نہ ادا کرپائی تھی۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا : اپنا عمرہ چھوڑ دو ، اپنا سر کھول لو، کنگھی کرلو اور حج کا احرام باندھ لو چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب حصبہ کی رات (وادی محصب میں ٹھہرنے والی رات جب حجاج ایام تشریق کے بعد منیٰ سے روانہ ہوتے ہیں) ہوئی اور اللہ نے ہمارا حج پورا کردیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا انھوں نے میرے کو پیچھے بٹھا لیا اور وہ مجھے لے کر تنعیم لے آئے، وہاں سے میں نے عمرہ کا احرام باندھا یوں اللہ نے ہمارا حج بھی پورا کردیا اور عمرہ بھی ۔ اور اس میں نہ ہدی تھی، نہ صدقہ تھا اور نہ روزے تھے۔ ابن ابی شیبہ

12879

12879- عن عائشة أن أسماء بنت عميس نفست بذي الحليفة فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر أن يأمرها أن تغتسل وتهل. "أبو نعيم في المعرفة".
12879 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ اسماء بنت عمیس (رض) ذی الحلیفہ میں نفاس کی حالت میں ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ وہ (اپنی بیوی) اسماء کو حکم کریں کہ وہ غسل کرکے احرام باندھ لے۔ ابونعیم فی المعرفۃ

12880

12880- عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه أن أسماء بنت عميس ولدت محمد بن أبي بكر بالبيداء، فذكر ذلك أبو بكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: مرها فلتغتسل ثم تهل. "ن طب" قال ابن كثير هذا منقطع إلا أنه في حكم الموصول فإن القاسم إنما أخذه عن عائشة وغيرها من أهلهم فلما تحقق القصة أسقط الواسطة وكثيرا ما يورد في صحيحه من هذا النمط انتهى.
12880 عبدالرحمن بن القاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اسماء (رض) بنت عمیس نے محمد بن ابی بکر کو مقام بیداء میں جنم دیا۔ یہ بات حضرت ابوبکر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذکر کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو حکم کرو کہ وہ غسل کرکے تلبیہ پڑھ لیں۔ النسائی ، الکبیر للطبرانی۔
ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں مذکورہ روایت منقطع ہے لیکن موصول کے حکم میں ہے، کیونکہ قاسم نے اس کا عائشہ وغیرھا اپنے اہل خانہ سے روایت کیا ہے۔ جب قصہ ثابت ہوگیا تو واسطہ ختم کردیا۔ اور صحیح میں اس طرح کی بہت سی روایات آتی ہیں۔ انتھیٰ

12881

12881- عن عروة عن أبي بكر وعمر قال: لا يحل الحاج حتى يوم النحر. "الطحاوي".
12881 حضرت عروہ (رح) حضرت ابوبکر (رض) اور حضر عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حاجی یوم النحرتک حلال نہیں ہوسکتا۔ الطحاوی

12882

12882- عن عروة أن أبا بكر وعمر كانا يقدمان وهما مهلان بالحج فلا يحل منهما حرام إلى يوم النحر. "ش".
12882 عروہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) دونوں حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے آتے اور اپنے احرام سے یوم النحر تک حلال نہ ہوتے تھے۔ ابن ابی شیبہ

12883

12883- عن علي في المحرم إذا لم يجد نعلين لبس خفين، وإذا لم يجد إزارا لبس سراويل. "ش".
12883 حضرت علی (رض) سے مروی ہے انھوں نے محرم کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ جوتے نہ پائے تو موزے پہن لے اور لنگی نہ پائے تو شلوار پہن لے۔ ابن ابی شیبہ

12884

12884- عن علي قال: من اضطر إلى ثوب وهو محرم فلم يكن له إلا قباء فلينكسه فيجعل أعلاه أسفله ثم ليلبسه. "ش".
12884 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : جو حالت احرام میں کپڑے پہننے پر مجبور ہوجائیں اور اس کے پاس قباء (جبہ) کے سوا اور کپڑا نہ ہو تو وہ اس کو الٹا کرلے اور اس کے اوپر کے حصے کے اندر کرلے اور پھر پہن لے۔ ابن ابی شیبہ

12885

12885- عن جابر قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم جالس مع أصحابه إذ شق قميصه حتى خرج منه فقيل له، فقال: إني واعدتهم أن يقلدوا هديي اليوم فنسينا. "ابن النجار".
12885 جابر (رض) سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک آپ نے اپنی قیمص پھاڑ ڈالی اور اس سے نکل آئے (اتاردی) آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : میں نے لوگوں کو تاکید کی تھی کہ وہ آج میری ہدی کو قلادہ ڈال دیں۔ مگر ہم بھول گئے تھے۔ ابن النجار

12886

12886- عن ابن عباس أن رجلا كان مع النبي صلى الله عليه وسلم وهو محرم فوقصته1 ناقته فمات فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اغسلوه بماء وسدر2 وكفنوه في ثوبيه فلا تخمروا رأسه فإن الله يبعثه يوم القيامة ملبيا. "ش"
12886 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی حالت احرام میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا اس کو اس کی اونٹنی نے گرادیا جس سے وہ مرگیا ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو بیری (کے پتوں) اور پانی کے ساتھ غسل دو اور دو کپڑوں میں اس کو کفناؤ اور اس کا سر نہ ڈھکنا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھائے گا۔ ابن ابی شیبہ

12887

12887- عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عمن قدم نسكه شيئا قبل شيء فجعل يقول: لا حرج لا حرج. "ابن جرير وأبو نعيم في تاريخه وابن النجار".
12887 ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے لوگوں نے سوال کیا جنہوں نے اپنے افعال حج کچھ آگے پیچھے کرلیے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سب کے جواب میں) فرماتے رہے : لا حرج لا حرج کوئی حرج نہیں کوئی حرج نہیں۔
ابن جریر، ابونعیم فی تاریخہ، ابن النجار

12888

12888- عن ابن عباس أن رجلا قال: يا رسول الله إني طفت بالبيت قبل أن أرمي قال: لا حرج. "ابن جرير".
12888 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے رمی کرنے سے قبل بیت اللہ کا طواف (وداع) کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن جریر

12889

12889- عن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، زرت قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولا حرج، قال: حلقت قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولا حرج، قال: يا رسول الله ذبحت أو نحرت قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولا حرج. "ابن جرير".
12889 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے رمی سے قبل طواف زیارت کرلیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ اس نے کہا : میں نے رمی سے پہلے حلق کرالیا ہے ؟ فرمایا : رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے رمی سے قبل (جانور) قربان کرلیا ؟ رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ ابن جریر

12890

12890- عن عكرمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له رجل: ذبحت قبل أن أرمي الجمرة؟ قال: لا حرج، وقال له رجل: حلقت قبل أن أذبح؟ قال: لا حرج فما سئل عن شيء يومئذ إلا جعل يوميء بيده ويقول: لا حرج. "ابن جرير".
12890 عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : میں نے رمی جمرۃ سے قبل ذبح کرلیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : کوئی حرج نہیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا : میں نے ذبح سے پہلے حلق کرالیا ؟ فرمایا : کوئی حرج نہیں۔ پس جس چیز کے بارے میں بھی اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا تو آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے رہے اور ارشاد فرماتے رہے کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن جریر

12891

12891- عن عكرمة قال: ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ عن أحد قدم شيئا بعد شيء إلا قال وهو يومئ بيديه كليهما: لا حرج لا حرج. "ابن جرير".
12891 عکرمہ (رح) سے مروی ہے اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ایسے شخص نے جس نے کوئی عمل آگے پیچھے کردیا ہو سوال نہیں کیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے رہے کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔ ابن جریر

12892

12892- عن عبد الله بن عمر [وبن العاص] قال: وقف النبي صلى الله عليه وسلم بمنى في حجة الوداع يسألونه فجاء رجل فقال: يا رسول الله لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح؟ قال: اذبح ولا حرج، وجاءه آخر فقال: ذبحت قبل أن أرمي قال: ارم ولا حرج، فما سئل يومئذ عن شيء قدم ولا أخر إلا قال: اصنع ولا حرج. "ش خ م د ت ن هـ"
12892 عبداللہ بن عمرو (بن العاص) (رض) سے مروی ہے فرمایا : حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں ٹھہر گئے۔ لوگ آ آ کر سوالات کرتے رہے ایک آدمی آیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے پتہ نہ چلا اور میں نے ذبح کرنے سے قبل حلق کرالیا ؟ ارشاد فرمایا : ذبح کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ دوسرا آدمی آیا اور عرض کیا : میں نے رمی سے قبل ذبح کرلیا ؟ ارشاد فرمایا : رمی کرلو اور کوئی حرج نہیں۔ پس اس دن کسی چیز کے بارے میں آگے پیچھے کرنے سے متعلق سوال نہیں کیا گیا مگر آپ نے ارشاد فرمایا : کرلو اور کوئی حرج نہیں۔
ابن ابی شیبہ ، البخاری ، مسلم ، ابن داؤد ، الترمذی ، النسائی ، ابن ماجہ

12893

12893- عن ابن جريج عن عطاء قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم: أفضت قبل أن أرمى؟ قال: ارم ولا حرج. "ابن جرير".
12893 ابن جریج (رح) ، عطاءؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرض کیا کہ میں نے رمی کیے بغیر واپسی کرلی ہے ؟ فرمایا : (اب ) رمی کرلو ، کوئی حرج نہیں۔
ابن جریر

12894

12894- عن ابن عمر قال: غدونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من منى فمنا المكبر ومنا الملبي. "ابن جرير".
12894 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ سے نکلے تو ہم میں سے کوئی تو تکبیر کہتا تھا اور کوئی تلبیہ پڑھتا تھا۔ ابن جریر
کلام : مذکورہ روایت محل کلام ہے۔ المعلۃ 201 ۔

12895

12895- "مسند عمر رضي الله عنه" عن سعيد بن جبير أن عمر بن الخطاب أراد أن يفرض على كل جيل في كل عام ناسا يحجون فرأى تسارع الناس في ذلك فتركه. "رسته في الإيمان".
12895 (مسند عمر (رض)) سعید بن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارادہ کیا کہ ہر سال ہر جماعت میں سے کچھ لوگوں پر حج فرض کردیں لیکن پھر لوگوں کو دیکھا کہ وہ بذات خود اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے اپنا ارادہ ترک فرمادیا۔
رستہ دی الایمان

12896

12896- عن إسماعيل بن أمية أن عمر بن الخطاب أخرج الرقيق والدواب من مكة ولم يكن يدع أحدا يبوب داره، حتى استأذنته هند بنت سهيل قالت: إنما أريد بذلك إحراز متاع الحاج وظهرهم، فأذن لها فعملت بابين على دارها. "الأزرقي ق".
12896 اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مکہ سے غلاموں اور سواریوں کو نکلوا دیا تھا اور آپ (رض) کسی کو اپنے گھر پر دربان رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حتیٰ کہ ھند بنت سہیل نے آپ (رض) سے اجازت لی کہ میں دربان کے ذریعے محض حاجیوں کے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرنا چاہتی ہوں اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ تب آپ (رض) نے اس کو اجازت دی تو اس نے دو دربان اپنے گھر پر مقرر کیے۔ الازرقی

12897

12897- عن مجاهد قال: كان عمر وعثمان يرجعانهن حواج ومعتمرات من الجحفة وذي الحليفة. "عب".
12897 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) حج کرنے والی اور عمرہ کرنے والی عورتوں کو جحفہ اور ذی الحلیفہ سے لوٹادیا کرتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

12898

12898- عن عبد الرحمن بن أحمد بن عطية قال: سئل علي بن أبي طالب عن الوقوف بالجبل ولم لم يكن بالحرم؟ قال: لأن الكعبة بيت الله والحرم باب الله، فلما قصدوه وافدين أوقفهم بالباب يتضرعون قيل: يا أمير المؤمنين فالوقوف بالمشعر؟ قال: لأنه لما أذن لهم بالدخول وقفهم بالحجاب الثاني وهو المزدلفة فلما أن طال تضرعهم أذن لهم بتقريب قربانهم بمنى، فلما أن قضوا تفثهم وقربوا قربانهم، فتطهروا بها من الذنوب التي كانت عليهم أذن لهم بالوفادة إليه على الطهارة، قيل: يا أمير المؤمنين فمن أين حرم الله الصيام أيام التشريق؟ قال: لأن القوم زوار الله وهم في ضيافته ولا يجوز لضيف أن يصوم دون إذن من أضافه، قيل: يا أمير المؤمنين، فتعلق الرجل بأستار الكعبة لأي معنى هو؟ قال: مثل الرجل بينه وبين آخر جناية فيتعلق بثوبه ويتنصل ويستجدي له ليهب له جنايته. "هب".
12898 عبدالرحمن بن احمد بن عطیہ سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے بوال کیا گیا کہ کیا بات ہے وقوف جبل (عرفات) پر رکھا گیا ہے حرم کے اندر کیوں نہیں رکھا گیا ؟ ارشاد فرمایا : کیونکہ کعبہ، اللہ کا گھر ہے اور حرم اللہ کا دروازہ ہے، جب لوگ بطور وفد اس کے گھر آنا چاہتے ہیں تو دروازہ پر کھڑے ہو کر آہ وزاری کرتے ہیں۔ پھر پوچھا : یا امیر المومنین ! مشعر (مزدلفہ) میں وقوف کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا : جب اللہ نے ان کو اندر آنے کی اجازت دیدی تو پھر یہ دوسرا پردہ ہے یہاں ان کو روک لیا جاتا ہے پھر جب ان کی آہ وزاری بڑھ جاتی ہے تو ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ منیٰ میں جاکر اپنی قربانیاں اللہ کی نذر کریں پھر جب قربانی وغیرہ کرکے اپنی میل کچیل کو دور کرلیتے ہیں تو وہاں یہ گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں جو ان پر چڑھے ہوئے تھے۔ پھر پاک صاف حالت میں ان کو اللہ پاک اپنے گھر آنے کی اجازت عطا فرما دیتا ہے۔ پوچھا گیا : یا امیر المومنین ! اللہ نے ایام تشریق کو کیوں حرام قرار دیا روزے رکھنے کے لیے ؟ فرمایا : آنے والے اللہ (کے گھر) کی زیارت کو آنے والے ہیں اور وہ اللہ کی مہمان نوازی میں ہوتے ہیں۔ اور کسی مہمان کے لیے میزبان کی اجازت کے سوا روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ پوچھا گیا : اے امیر المومنین ! آدمی جو کعبہ کے پردے کو پکڑ کر چمٹ کر روتا ہے اس کے کیا معنی ہیں ؟ ارشاد فرمایا : جس طرح کسی آدمی سے دوسرے آدمی کا جرم ہوجائے تو وہ اس کے کپڑے پکڑ کر اس سے چمٹ چمٹ کر چاپلوسی کرکے اپنا جرم معاف کراتا ہے۔ شعب الایمان للبیہقی

12899

12899- عن جابر قال: اطلعت امرأة من هودج لها ومعها صبي فقالت: يا رسول الله ألهذا حج؟ قال: نعم ولك أجر. "كر".
12899 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے ایک عورت نے ھودج سے اپنا بچہ اور منہ نکال کر پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا اس کا بھی حج ہے ؟ فرمایا : ہاں اور اس کا اجر تجھے ملے گا۔ ابن عساکر

12900

12900- عن جابر قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسير بعرفة، فأخرجت امرأة صبيا لها من هودج فقالت: يا رسول الله ألهذا من حج؟ قال: نعم ولك أجر. "ن".
12900 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ ہم عرفہ کے راستے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ایک عورت نے ھودج سے اپنے بچے کو نکال کر پوچھا : یارسول اللہ ! کیا اس کے لیے بھی حج ہے ؟ فرمایا : ہاں اور تجھے اجر ملے گا۔ النسائی

12901

12901- عن أبي مالك الأشجعي أن الحسن بن الحارث الجدلي أخبره أن أمير مكة خطبهم فقال: عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية، فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنا لشهادتهما، فسألت الحسن بن الحارث من أمير مكة؟ قال: هو الحارث بن حاطب أخو محمد بن حاطب. "أبو نعيم".
12901 ابو مالک الاشجعی سے مروی ہے کہ حسن بن حارث الجدلی نے ان کو خبر دی کہ امیر مکہ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے عہد لیا تھا کہ ہم چاند دیکھنے پر حج شروع کریں گے ۔ اگر اس کو نہ دیکھ پائیں اور دو گواہ شہادت دیدیں تو تب ہم ان کی شہادت پر حج شروع کریں گے۔ میں نے حسن بن الحارث سے پوچھا : امیر مکہ کون تھے ؟ فرمایا : وہ حارث بن حاطب تھے محمد بن حاطب کے بھائی۔ ابونعیم

12902

12902- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: خطب عمر الناس بعرفة فخبرهم عن مناسك الحج قال فيما يقول: إذا كان بالغداة إن شاء الله تعالى فدفعتم من جمع فمن رمى الجمرة القصوى التي عند العقبة بسبع حصيات، ثم انصرف فنحر هديا إن كان له ثم حلق أو قصر فقد حل له ما حرم عليه من شأن الحج إلا طيبا ونساء، ولا يمس أحد طيبا ولا نساء حتى يطوف بالبيت. "مالك ق"
12902 (مسند عمر (رض)) ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو عرفہ کا خطبہ دیا اور لوگوں کو مناسک حج کے بارے میں تعلیم دی اور فرمایا : انشاء اللہ جب صبح ہوگی تو تم لوگ مزدلفہ سے نکلو گے اور پھر جمرہ قصویٰ کی رمی سے جو عقبہ کے ساتھ ہے، اس کو سات کنکریاں ماریں، پھر اس سے لوٹ کر اپنی ہدی کو قربان کریں اگر ساتھ ہوں پھر حلق یا قصر کرائیں جس نے یہ کرلیا اس کے لیے حلال ہوگئے وہ افعال جو حج کی وجہ سے حرام ہوگئے تھے۔ سوائے خوشبو اور عورتوں کے کوئی خوشبو چھوئے اور نہ عورتوں کو چھوئے جب تک کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرلے۔ مالک السنن للبیہقی

12903

12903- عن علي قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فقال: هذا الموقف وعرفة كلها موقف، وأفاض حيث غابت الشمس وأردف أسامة فجعل يعنق على بعيره والناس يضربون الإبل يمينا وشمالا لا يلتفت إليهم ويقول: السكينة أيها الناس، ثم أتى جمعا فصلى بهم الصلاتين المغرب والعشاء، ثم بات حتى أصبح، ثم أتى قزح، فقال: هذا الموقف وجمع كلها موقف، ثم سار حتى أتى محسرا فوقف عليه فقرع ناقته فخبت حتى جاز الوادي، ثم حبسها، ثم أردف الفضل وسار حتى أتى الجمرة فرماها حتى أتى المنحر، فقال: هذا المنحر ومنى كلها منحر واستفتته جارية من خثعم فقالت: إن أبي شيخ كبير قد أقعد وقد أدركته فريضة الله في الحج هل يجزئ عنه أن اؤدي عنه؟ قال: نعم، فأدى عن أبيك ولوى عنق الفضل، فقال له العباس: يا رسول الله لم لويت عنق ابن عمك؟ قال: رأيت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما ثم جاءه رجل آخر فقال: يا رسول الله، إني أفضت قبل أن أحلق؟ قال: احلق أو قصر ولا حرج، ثم أتى إلى البيت فطاف به، ثم أتى زمزم فقال: يا بني عبد المطلب سقايتكم ولولا أن يغلبكم الناس عليها لنزعت1 "حم ع ش وروى بعضه. "ابن وهب" في مسنده د ت وقال حسن صحيح وابن خزيمة وابن الجارود وابن جرير ق" وخببا وخبيبا. إذا راوح بين يديه ورجليه، أي قام على إحداهما مرة وعلى الأخرى مرة. انتهى."1/117" الصحاح للجوهري. ب.
12903 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ میں کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
یہ موقف (کھڑے ہونے کی جگہ) ہے اور عرفہ (میدان عرفات) سارا ہی موقف ہے۔ پھر سورج غروب ہونے کے بعد وہاں سے آپ واپس ہوئے اور اسامہ (رض) کو اپنا ردیف بنالیا اور اپنے اونٹ پر چوڑے چوڑے قدم بھرنے لگے۔ جبکہ لوگ دائیں بائیں اپنی اپنی سواریوں کو تیز تیز دوڑا رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرماتے تھے : اے لوگو ! سکینہ (صبر کے ساتھ چلو) پھر حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ تشریف لائے اور لوگوں کو مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں پھر رات بسر فرمائی حتیٰ کہ صبح کی اور پھر مقام قزح پر تشریف لائے اور فرمایا : یہ موقف ہے اور مزدلفہ سارا ہی موقف ہے۔ پھر وہاں سے چل کروادی محسر پہنچے اور وہاں کھڑے ہوگئے پھر اپنی سواری کو تیز دوڑایا حتیٰ کہ اس وادی کو پار کرلیا۔ پھر سواری کو روک لیا اور وہاں سے فضل کو اپنا ردیف بنایا اور چل پڑے حتیٰ کہ جمرہ پر پہنچے اور اس کی رمی فرمائی پھر قربان گاہ پہنچے اور ارشاد فرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ سارا ہی قربان گاہ ہے (وہاں) قبلہ حثعم کی ایک باندی نے فتویٰ پوچھا، عرض کیا : میرے والد بوڑھے آدمی ہیں اور (چلنے پھرنے سے معذور ہو کر) بیٹھے رہ گئے ہیں اور ان پر اللہ کا فرض یعنی حج لازم ہوچکا ہے، کیا ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہوسکتا ہے ؟ ارشاد فرمایا : جی ہاں۔ اپنے والد کی طرف سے (حج) ادا کرو اور اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل (رض) کی گردن موڑ دی تھی۔ حضرت عباس (رض) نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنے چچازاد کی گردن کیوں پھیر دی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے نوجوان مرد اور نوجوان عورت کو دیکھا تو شیطان پر ان کے متعلق بھروسہ نہ کیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دوسرا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے حلق کرائے بغیر افاضہ کرلیا (منیٰ سے واپسی کرلی) ہے ؟ ارشاد فرمایا : حلق یا قصر کرالو اور کوئی حرج نہیں ۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ تشریف لائے اور اس کا طواف کیا پھر زمزم تشریف لائے اور عرض کیا : اے بنی عبدالمطلب تم پانی پلاؤ، اگر لوگوں کے رش کردینے کا خوف (دامن گیر) نہ ہوتا تو میں خود (بھی ڈول بھر کر) نکالتا۔ مسند احمد ، مسند ابی یعلی، ابن ابی شیبہ
اس کا کچھ حصہ ابن وھب نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔
ابن داؤد الترمذی، حسن صحیح، ابن خزیمہ، ابن الجارود، ابن جریر، السنن للبیہقی

12904

12904- عن ابن عمر أنه كان يدعو بهذا الدعاء على الصفا والمروة وبعرفات وبين الجمرتين وفي الطواف: اللهم اعصمني بدينك وطواعيتك وطواعية رسولك، اللهم جنبني حدودك، اللهم اجعلني ممن يحبك ويحب ملائكتك، ويحب رسلك، ويحب عبادك الصالحين، اللهم حببني إليك وإلى ملائكتك وإلى رسلك وإلى عبادك الصالحين، اللهم يسرني لليسرى وجنبني العسرى واغفر لي في الآخرة والأولى، واجعلني من أئمة المتقين، اللهم إنك قلت: ادعوني أستجب لكم وأنك لا تخلف الميعاد، اللهم إذ هديتني للإسلام فلا تنزعني منه ولا تنزعه مني حتى تقبضني وأنا عليه. "حل".
12904 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ صفاومروہ ، میدان عرفات، جمر تین کے درمیان اور طواف کے دوران یہ دعا پڑھتے تھے :
اللھم اعصمنی بدینک وطواعیتک وطواعیۃ رسولک، اللھم جنبنی حدودک، اللھم اجعلنی ممن یحبک ویحب ملائکتک ویحب رسلک، ویحب عبادک الصالحین، اللھم حبنی الیک والی ملائکتک والی رسلک والی عبادک الصالحین اللھم یسرنی للیسری وجنبنی العسری واغفرلی فی الآخرۃ والاولیٰ ، واجعلنی من ائمۃ المتقین ، اللھم انک قلت، ادعونی استجب لکم، وانک لاتخلف المیعاد اللھم اذھدیتنی للاسلام فلا تنز عنی منہ ولا تنزعہ منی حتیٰ تقبضنی وانا علیہ۔
اے اللہ ! میری حفاظت فرما اپنے دین کے ساتھ، اپنی اطاعتوں کے ساتھ اور اپنے رسول کی اطاعتوں کے ساتھ، اے اللہ ! مجھے اپنی منع کردہ حدود (میں پڑنے) سے محفوظ رکھ، اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے ملائکہ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے رسولوں سے محبت رکھتے اور تیرے نیک بندوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ مجھے اپنا محبوب بنا، اپنے ملائکہ کا محبوب بنا، اپنے رسولوں اور اپنے نیک بندوں کا محبوب بنا۔ اے اللہ نیکی کو میرے لیے آسان کردے اور بدی کو مجھ سے دور کردے اور دنیا و آخرت میں میری مغفرت فرما اور مجھے نیک لوگوں کا پیش روبنا۔ اے اللہ تو نے ارشاد فرمایا ہے : مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور بیشک تو وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اے اللہ ! جب تو نے مجھے اسلام کی ہدایت نصیب فرمادی ہے تو مجھے اس سے نہ نکال اور نہ اس کو مجھ سے نکال حتیٰ کہ آپ مجھے اسی (اسلام) پر اٹھائیں اور میں اسی پر قائم رہوں۔ حلیۃ الاولیاء

12905

12905- عن جابر بن عبد الله قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم في حجته: أتدرون أي يوم أعظم حرمة؟ قلنا يومنا هذا، قال: أفتدرون أي بلد أعظم حرمة؟ قلنا: بلدنا هذا قال: فأي شهر أعظم حرمة؟ قلنا: شهرنا هذا، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "ابن أبي عاصم في الديات".
12905 جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں ارشاد فرمایا : جانتے ہو کون سا دن سب سے زیادہ محترم ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہ دن (عرفہ کا) آپ نے فرمایا : جانتے ہو کون سا شہر سب سے زیادہ محترم ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہ شہر۔ پھر فرمایا : اور کون سا مہینہ سب سے زیادہ احترام والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یہی مہینہ۔ پھر ارشاد فرمایا : تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزت وآبرو تمہارے لیے زیادہ احترام والی ہیں اس دن کی حرمت سے، اس ماہ میں اور اس شہر میں۔ ابن ابی عاصم فی الدیات

12906

12906- عن جابر قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم في حجته: أتدرون أي يوم أعظم حرمة؟ فقلنا: يومنا هذا قال: فأي بلد أعظم حرمة؟ فقلنا: بلدنا هذا، قال: فأي شهر أعظم حرمة؟ قلنا: شهرنا هذا، قال: فإن دماءكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا. "ش".
12906 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں ارشاد فرمایا : جانتے ہو کونسا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارا یہ (عرفہ کا) دن۔ پھر پوچھا : جانتے ہو کونسا شہر سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : ہمارا یہ شہر (مکہ) پوچھا : کون سا ماہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ ہم نے کہا : ہمارا یہ ماہ (ذی الحجہ) تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال تم پر حرمت والے ہیں اس دن کی حرمت کی طرح اس شہر میں اور اس ماہ میں۔ ابن ابی شیبہ

12907

12907- عن يحيى بن زرارة بن كريم بن الحارث حدثني أبي عن جده الحارث بن عمرو أنه لقي النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو على ناقته العضباء فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله، استغفر لي، فقال: غفر الله لكم ثم استدرت إلى الشق الآخر رجاء أن يخصني، فقلت: استغفر لي فقال: غفر الله لكم، فقال رجل: يا رسول الله الفرائع والعتائر1 فقال: من شاء فرع ومن شاء لم يفرع، ومن شاء عتر ومن شاء لم يعتر وفي الغنم أضحيتها، ثم قال: ألا إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا وبلدكم هذا وشهركم هذا. "أبو نعيم".
12907 یحییٰ بن زرارۃ کریم بن الحارث سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد نے اپنے دادا حارث بن عمرو سے نقل کیا : حارث بن عمرو کہتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عضبانامی اونٹنی پر سوار تھے۔ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یارسول اللہ ! میرے لیے اللہ سے مغفرت مانگ دیجئے۔ آپ نے دعا فرمائی : اللہ تمہاری سب کی مغفرت کرے۔ پھر میں دوسری طرف سے گیا اس امید سے کہ شاید خاص میرے لیے دعا کردیں اور میں نے عرض کیا میرے لیے استغفار فرما دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر اسی طرح دعا دی : اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ ایک آدمی نے عرض کیا : رسول اللہ ! فرع اور عتیرہ کا کیا حکم ہے ؟ (فرع مشرکین اور مسلمان شروع زمانہ کو اسلام میں اونٹنی کے پہلے بچے کو اپنے معبودوں کے لیے ذبح کرتے تھے اور عتیرہ رجب میں بکری ذبح کرتے تھے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور جو چاہے عتیرہ کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور ہاں قربانی جانوروں کی عیدالاضحی کو ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : خبردار ! تمہارے خون، تمہارے اموال تم پر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس شہر اور اس ماہ میں محترم ہے۔ ابونعیم

12908

12908- عن عتبة بن عبد الملك السهمي قال: حدثني زرارة بن كريم بن الحارث بن عمرو السهمي أن الحارث بن عمرو حدثه قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بمنى أو بعرفات وتجيء الأعراب فإذا رأوا وجهه قالوا: هذا وجه مبارك، قلت: يا رسول الله؛ استغفر لي قال: اللهم اغفر لنا فدرت، فقلت: يا رسول الله، استغفر لي فقال: اللهم اغفر لنا فدرت فقلت: يا رسول الله، استغفر لي فقال: اللهم اغفر لنا، فذهب يبزق فقال بيده فأخذ بزاقه فمسح بها نعله كره أن يصيب به أحدا ممن حوله ثم قال: أيها الناس، أي يوم هذا وأي شهر هذا إن دماءكم فذكر نحوه. "أبو نعيم".
12908 عتبہ بن عبدالملک السہمی سے مروی ہے فرماتے ہیں : مجھے زرارۃ بن کریم بن الحارث بن عمرو السہمی نے بیان کیا کہ ان کو حارث بن عمرو نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں منیٰ میں یا عرفات میں حاضر ہوا۔ آپ کے پاس اعراب (عربی بدو) آجا رہے تھے۔ جب وہ آپ کے چہرے مبارک کو دیکھتے تو کہتے یہی چہرہ وہ مبارک چہرہ ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار کر دیجئے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! ہم سب کی مغفرت فرما۔ میں دوسری طرف سے گھوم کر گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے لیے استغفار کر دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ہم سب کے لیے مغفرت فرما دیجئے۔ میں پھر گھوم کر دوسری طرف گیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! (خاص) میرے لیے استغفار کر دیجئے ! آپ نے پھر وہی دعا فرمائی : اے اللہ ! ہماری مغفرت فرمادے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوکنے لگے تو اس کو اپنے ہاتھ پر تھوکا اور اپنے جوتے پر مسل لیا اس احتیاط سے کہ کہیں کسی کے اوپر نہ گرجائے پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! یہ کون سا دن ہے اور کونسا ماہ ہے ؟ بیشک تمہارے خون ۔۔۔الخ ۔ پھر پچھلی حدیث کے مثل ذکر فرمایا۔ ابونعیم

12909

12909- عن سهل بن حسين الباهلي حدثني زرارة عن الحارث السهمي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم مثله فأهوى نبي الله صلى الله عليه وسلم فمسح وجهه فما زالت نضرة1 عن وجهه حتى هلك. "أبو نعيم".
12909 سہل بن حسین الباہلی کہتے ہیں : مجھے زرارۃ نے حارث سہمی سے نقل کیا کہ وہ (حارث) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیچے ہو کر ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا جس کی وجہ آخر عمر تک ان کے چہرے پر تروتازگی رہی۔ ابونعیم

12910

12910- عن أبي مخشي بن حجير عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب في حجة الوداع فقال: أيها الناس أي بلد هذا؟ قالوا: بلد حرام قال: فأي شهر هذا؟ قالوا: شهر حرام قال: فأي يوم هذا؟ قالوا يوم النحر قال: ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا كحرمة شهركم هذا فيبلغ شاهدكم غائبكم لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. "أبو نعيم".
12910 ابی مخشی بن حجیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگو ! یہ کون سا شہر ہے ؟ لوگوں نے کہا : شہر حرام۔ پوچھا : کونسا ماہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : ماہ حرام۔ پوچھا : کونسا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا : یوم النحر۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے (ایک دوسرے کے) خون، تمہارے اموال ، تمہاری عزتیں اور آبروئیں تم ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح یہ دن اس ماہ کے اندر (اور اس مقدس شہر کے اندر) پس تمہارے حاضرین تمہارے غائبین کو (یہ بات) پہنچا دیں، میرے بعد تم کفار نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ ابونعیم

12911

12911- عن أبي الطفيل عامر بن واثلة عن حذيفة بن أسيد الغفاري قال: لما صدر رسول الله صلى الله عليه وسلم من حجة الوداع نهى أصحابه عن شجرات بالبطحاء متقاربات أن ينزلوا تحتهن، ثم بعث إليهن فقم ما تحتهن1 من الشوك وشذبن2 عن رؤس القوم، ثم عمد إليهن فصلى تحتهن ثم قام فقال: أيها الناس إنه قد نبأني اللطيف الخبير أنه لم يعمر نبي إلا مثل نصف عمر النبي الذي من قبله، وإني لأظن أني موشك وأن أدعي فأجيب، وأني مسؤول وأنكم مسئولون فماذا أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت ونصحت فجزاك الله خيرا قال: ألستم تشهدون أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله، وأن جنته حق وناره حق، وأن الموت حق وأن الساعة آتية لا ريب فيها وأن الله يبعث من في القبور، قالوا: نشهد بذلك، قال: اللهم اشهد ثم قال: أيها الناس، إن الله مولاي وأنا مولى المؤمنين وانا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه ثم قال: أيها الناس إني فرطكم وأنتم واردون على الحوض، حوض عرضه ما بين بصرى وصنعاء فيه عدد النجوم قدحان1 من فضة وإني سائلكم حين تردون علي عن الثقلين فانظروا كيف تخلفوني فيهما، الثقل2 الأكبر كتاب الله سبب طرفه بيد الله وطرف بأيديكم، فتمسكوا به لا تضلوا ولا تبدلوا، وعترتي أهل بيتي وإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنهما لن يفترقا حتى يردا على الحوض. "ابن جرير".
12911 ابو الطفیل عامر بن واثلۃ حضرت حذیفہ بن اسید غفار سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو اپنے اصحاب کو وادی بطحاء میں جو قریب قریب درخت ہیں اولاً ان کے نیچے ٹھہرنے سے منع فرمایا۔ پھر کسی کو بھیجا کہ ان درختوں کے نیچے صفائی کردے اور درختوں کی شاخیں (نیچے لٹکنے والی) کتر دے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قوم کے ساتھ) ان کے نیچے گئے پھر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی اپنے سے پہلے نبی کی عمر کی نصف عمر سے زیادہ عمر نہیں پاسکا اور میرا خیال ہے میں جلد کوچ کرنے والا ہوں۔ مجھے بلایا جائے گا تو مبں لبیک کہوں گا۔ اور مجھ سے سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا ؟ پس تم کیا کہنے والے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے رسالت ہم تک پہنچا دی اور ہماری خوب خیرخواہی کی پس اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے۔ آپ نے فرمایا : کیا تم یہ شہادت نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنت حق ہے ، جہنم حق ہے، موت حق ہے، قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ پاک قبروں والوں کو دوبارہ اٹھائیں گے۔ لوگوں نے کہا : ہم اس کی شہادت دیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہنا ۔ پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنوں کا مولیٰ ہوں اور میں مومنوں کے لیے زیادہ مہربان ہوں ان کی جانوں سے، پس جس کا میں مولیٰ ہوں علی اس کا مولیٰ ہے، اے اللہ ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ۔ جو اسی سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔ پھر ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض پر آنے والے ہو۔ اس حوض کی چوڑائی بصریٰ اور صنعاء شہروں کے درمیان جتنی ہے۔ اس میں ستاروں کی بقدر چاندی کے پیالے ہیں۔ اور جب تم میرے پاس حوض پر آؤ گے تو میں تم سے دو اہم بھاری چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا پس خیال رکھنا کہ تم میرے پیچھے ان کے ساتھ کیا سلوک رکھتے ہو، سب سے بھاری ایک چیز تو کتاب اللہ ہے، یہ اللہ کی رسی ہے اس کا ایک سر اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں تھما ہوا ہے۔ پس اس کی مضبوطی سے تھامے رکھو نہ گمراہ ہو اور نہ کوئی تبدیلی کرو۔ دوسری اہم (بھاری شے) میرا خاندان اور میرے گھر والے ہیں اور مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی ہے یہ دونوں چیزیں ہرگز جدا نہ ہوں گی۔ حتیٰ کہ دونوں حوض پر مجھ سے آملیں گی۔ ابن جریر

12912

12912- عن موسى بن زياد بن حذيم عن أبيه عن جده حذيم بن عمرو السعدي أنه شهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يقول: ألا إن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليه حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت قالوا: اللهم نعم. "أبو نعيم".
12912 موسیٰ بن زیاد بن حذیم اپنے والد کے واسطہ اپنے داد حذیم بن عمروسعدی سے روایت کرتے ہیں، حذیم کہتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ارشاد فرما رہے تھے : آگاہ رہو ! تمہارے (ایک دوسرے کے) خون تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں (ایک دوسرے پر) یوں حرام (ومحترم) ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس (مقدس) ماہ کے اندر اور اس مقدس شہر کے اندر ، پھر پوچھا : کیا میں نے تم کو (پیغام رسالت) پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللھم نعم، اللہ جانتا ہے بےشک۔ ابونعیم

12913

12913- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا بكر فأقام للناس حجهم، ثم حج رسول الله صلى الله عليه وسلم، من العام المقبل حجة الوداع، ثم قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستخلف أبو بكر فبعث أبو بكر عمر ابن الخطاب فحج بالناس، ثم حج أبو بكر من العام المقبل، ثم استخلف عمر بن الخطاب فبعث عبد الرحمن بن عوف، ثم حج عمر إمارته كلها. "كر".
12913 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو بھیجا تو انھوں نے لوگوں کو حج کرایا، پھر آئندہ سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع خود کرایا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اور ابوبکر خلیفہ چنے گئے پھر ابوبکر (رض) نے عمر (رض) کو بھیجا اور انھوں نے لوگوں کو حج کرایا پھر آئندہ سال ابوبکر (رض) نے خود حج کرایا پھر عمر بن خطاب خلیفہ منتخب ہوئے، انھوں نے عبدالرحمن بن عوف کو حج کرانے بھیجا ، پھر حضرت عمر (رض) نے اپنی ساری خلافت میں خود حج کرایا۔ ابن عساکر

12914

12914- عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في حجة الوداع وهو على ناقته فضرب على منكب علي وهو يقول: اللهم اشهد، اللهم قد بلغت هذا أخي وابن عمي وصهري وأبو ولدي، اللهم كب من عاداه في النار. "ابن النجار" وفيه إسماعيل بن يحيى.
12914 ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں اپنی اونٹنی پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے پہلے حضرت علی (رض) کے شانے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا اے اللہ ! گواہ رہنا، اے اللہ میں نے اپنے اس بھائی کو، اپنے اس چچا کے بیٹے کو اپنے داماد کو اور اپنی اولاد کے باپ کو (پیغام رسالت) پہنچا دیا۔ اے اللہ جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کو اوندھا جہنم میں گرادے۔ ابن النجار
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں (ضعیف راوی) اسماعیل بن یحییٰ ہے۔

12915

12915- عن ابن عمر قال: كنا نتحدث في حجة الوداع ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا ندري ما حجة الوداع، فحمد الله ورسوله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه، ثم ذكر المسيح الدجال فأطنب في ذكره ثم قال: ما بعث الله من نبي إلا قد أنذره أمته لقد أنذره نوح والنبيون من بعده، وأنه يخرج فيكم فما خفي عليكم من شأنه فلا يخفى عليكم أنه أعور عين اليمنى كأنها عنبة طافية ثم قال: إن الله تبارك وتعالى حرم عليكم دماءكم وأموالكم كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم، قال: اللهم اشهد، ثم قال: ويلكم أو قال: ويحكم انظروا ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض. " كر".
12915 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ہم حجۃ الوداع میں آپس میں بات چیت کرتے رہتے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود ہوتے تھے اور ہمیں کوئی علم نہ تھا کہ کیا ہے حجۃ الوداع (وہ تو جب اس حج کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے رخصت ہوئے تب معلوم ہوا کہ وہ آپ کا وداعی حج تھا) ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمدوثناء کی پھر مسیح دجال کا ذکر کیا اور اس کا خوب زیادہ ذکر کیا اور فرمایا :
اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے اپنی امت کو اس دجال سے ڈرایا، نوح اور ان کے بعد کے سارے نبیوں نے ڈرایا، نیز فرمایا : وہ تمہارے درمیان نکلے گا تم پر اس کی حالت پوشیدہ نہ رہنی چاہیے، یاد رکھو اس کی داہنی آنکھ کافی ہے اس کی آنکھ گویا وہ پھولا ہوا انگور کا دانہ ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر تمہارے خونوں اور تمہارے اموال کو حرام کردیاجس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ محترم میں۔ کیا میں نے تم کو پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ تب آپ نے عرض کیا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر ارشاد فرمایا : ہلاکت ہو تمہاری، دیکھو میرے بعد کافر بن کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ اڑانے لگ جانا۔ ابن عساکر

12916

12916- عن معمر عن مطر [بن طهمان] الوراق عن شهر بن حوشب عن عمرو بن خارجة قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجته فكنت تحت جران ناقته وإنها لتقصع2 بجرتها وإن لعابها ليسيل على كتفي فسمعته وهو يخطب بمنى: إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه، وإنه ليس لوارث وصية ألا وإن الولد للفراش وللعاهر الحجر، من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير ما أنعم الله به عليه - وفي لفظ - إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل3 "ص وابن جرير عب".
12916 عن معمر عن مطر (بن طہمان) الوراق عن شہر بن حوشب عن عمرو بن خارجۃ، عمرو بن خارجہ کہتے ہیں : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے حج کے موقع پر حاضر ہوا، میں آپ کی اونٹنی کے منہ کے نیچے تھا اور وہ جگالی کررہی تھی اور وہ جگالی کرتی تھی تو اس کا تھوک میرے کندھوں پر گرتا تھا ۔ میں نے آپ کو مقام منیٰ میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے اب کسی وارث کے لیے وصیت کا اختیار باقی نہ رہا۔ آگاہ رہو ! اولاد صاحب بستر کی ہے اور بدکار کے لیے پتھر ہیں۔ جس نے غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کیا یا غیر حاصل شدہ نعمت کا اظہار کیا۔ اور دوسرے الفاظ روایت میں یا غیر آقاؤں کی طرف اپنی نسبت کی تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کا کوئی فرمان قبول ہے اور نہ نفل۔ السنن لسعید بن منصور، ابن جریر، الجامع لعبد الرزاق

12917

12917- عن الثوري عن شهر بن حوشب قال: أخبرني من سمع النبي صلى الله عليه وسلم وأن لعاب ناقة النبي صلى الله عليه وسلم يسيل على فخذه قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ناقته فقال: إن الصدقة لا تحل لي ولا لأهل بيتي وأخذ وبرة من كاهل ناقته فقال: لا والله ولا ما يساوي هذا وما يزن هذا لعن الله من ادعى إلى غير أبيه أو تولى إلى غير مواليه، الولد للفراش وللعاهر الحجر إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث. "عب".
12917 ثوری (رح) شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا اور (اس وقت) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کا لعاب اس کی ران پر گررہا تھا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر تشریف فرما اور اسی حالت میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
خاندان نبوت کے لیے صدقہ حلال نہیں
صدقہ میرے لیے حلال نہیں اور میرے گھر والوں کے لئے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹنی کے پشت سے تھوڑا سا اون لے کر ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! اس کے برابر بھی (صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں) اور اس کے برابر بھی اگر شخص غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب کرے گا یا غیر آقاؤں کی طرف غلام اپنے کو منسوب کرے گا تو اللہ اس پر بھی لعنت کرے گا۔ اولاد صاحب بستر کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ بیشک اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے پس کسی وارث کے لیے وصیت نہیں رہی۔ الجامع لعبد الرزاق

12918

12918- عن قيس بن كلاب الكلابي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على ظهر الثنية ينادي الناس ثلاثا، يا ايها الناس إن الله قد حرم دماءكم وأموالكم وأولادكم كحرمة هذا اليوم من الشهر كحرمة هذا الشهر من السنة، اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت. "ابن النجار".
12918 قیس بن کلاب کلابی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں سن رہا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی کی کمر پر سوار آپ نے لوگوں کو تین مرتبہ پکارا : اے لوگو ! اللہ نے تمہارے خونوں کو، تمہارے مالوں کو اور تمہاری اولادوں کو ایک دوسرے کے لیے ایسے محترم کردیا ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور یہ مہینہ اس سال میں محترم ہے۔ اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا۔ اے اللہ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا۔ ابن النجار

12919

12919- عن وابصة بن معبد قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يقول: أيها الناس أي يوم أحرم؟ قال الناس: هذا اليوم وهو يوم النحر، قال: أي شهر أحرم؟ قال الناس: هذا الشهر قال أي بلد أحرم؟ قالوا: هذه البلدة قال: فإن دماءكم وأموالكم واعراضكم محرمة عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقونه ألا هل بلغت؟ قال الناس: نعم فرفع يديه إلى السماء اللهم اشهد يقولها ثلاثا ثم قال: ليبلغ الشاهد الغائب. "ع كر".
12919 وابصۃ بن معبد (رض) سے مروی ہے کہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ارشاد فرما رہے تھے : اے لوگو ! کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یہ دن اور وہ یوم النحر تھا۔ پھر پوچھا کونسا ماہ سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ ماہ۔ پوچھا : کونسا شہر سب سے زیادہ حرمت والا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہی شہر (مکہ) تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون ، تمہارے اموال اور تمہاری عزت وآبروئیں سب ایک دوسرے پر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن اس ماہ (محترم) میں اور اس (محترم) شہر (مکہ) میں اپنے رب سے ملنے تک محترم ہے۔ پھر پوچھا : کیا میں نے تم کو پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کیا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ پھر ارشاد فرمایا : شاہد غائب کو پہنچادے۔ مسند ابی یعلی ، ابن عساکر

12920

12920- عن وابصة أن النبي صلى الله عليه وسلم خطبهم يوم عرفة فقال: يا أيها الناس، إني لا أراني وإياكم نجتمع في هذا المجلس أبدا فأي يوم هذا؟ قالوا: عرفة قال: فأي بلد هذا؟ قالوا: البلد الحرام قال: فأي شهر هذا؟ قالوا: الشهر الحرام قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا هل بلغت؟ اللهم اشهد. "كر".
12920 وابصہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو عرفہ کے دن خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں نہیں سمجھتا کہ میں اور تم آئندہ کبھی اس مجلس اکٹھے ہوسکیں گے پھر پوچھا : یہ کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : عرفہ کا دن ہے۔ پوچھا : یہ کونسا شہر ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : شہر حرام۔ پوچھا : یہ کونسا ماہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : ماہ حرام۔
پھر ارشاد فرمایا : تمہارے (ایک دوسرے کے) خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں (ایک دوسرے پر) اس طرح محترم اور حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے اس شہر میں اور اس ماہ حرام میں۔ پھر پوچھا : کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ ابن عساکر

12921

12921- عن أبي أمامة قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا في حجة الوداع وهو على ناقته الجدعاء، فأدخل رجليه في غرزي الركاب يتطاول ليسمع الناس، فقال: ألا تسمعون فطول صوته فقال رجل من طوائف الناس: بماذا تعهد إلينا فقال: اعبدوا ربكم، وصلوا خمسكم وصوموا شهركم، وأدوا زكاة أموالكم، وأطيعوا ذا أمركم تدخلوا جنة ربكم قيل: يا أبا أمامة مثل من أنت يومئذ؛ قال: إني يومئذ ابن ثلاثين سنة أزاحم البعير حتى أزحزحه قربا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير كر".
12921 ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ الوداع میں ہمارے درمیان اپنی نکٹی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے ہوئے اور اپنے پاؤں رکاب میں ڈال لیے تاکہ اونچے ہوجائیں اور لوگوں کو اونچا سنائیں پھر پوچھا : کیا سن رہے ہو اور اپنی آواز آپ نے اونچی فرمالی۔ ایک آدمی نے لوگوں سے پوچھا : آپ ہم سے کس چیز کا عہد لیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اپنے رب کی عبادت کرو، پنج وقتہ نمازیں پڑھو، مہینے کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرو۔ اور اپنے حکام کی اطاعت کرو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
راوی ابوامامہ (رض) سے کسی نے پوچھا آپ اس دن کتنی عمر میں تھے۔ فرمایا : میں اس وقت تیس سال کا تھا۔ (لوگوں کا اژدھام) اونٹ سے ہٹا رہا تھا حتیٰ کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوگیا تھا ۔ ابن جریر، ابن عساکر

12922

12922- عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته يوم حجة الوداع: أيها الناس إنه لا نبي بعدي ولا أمة بعدكم، ألا فاعبدوا ربكم، وصلوا خمسكم، وصوموا شهركم، وأدوا زكاة أموالكم طيبة بها أنفسكم، وأطيعوا ولاة أمركم تدخلوا جنة ربكم. "ابن جرير كر".
12922 ابوامامہ (رض) سے روی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور تمہارے بعد کوئی اور امت نہیں آئے گی۔ خبردار پس اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پانچ نمازیں پڑھتے رہو، اپنے مہینے کے روزے رکھتے رہو، اپنے دلوں کی خوشی کے ساتھ اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرتے رہو اور اپنے حکام کی اطاعت کرتے رہو تب تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ ابن جریر، ابن عساکر

12923

12923- عن أبي أمامة قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وأنا يومئذ ابن ثلاثين سنة فسمعته يقول: أيها الناس، اسمعوا قولي فعسيتم أن لا تروني بعد عامكم هذا فعجل رجل من الناس فقال: ماذا نصنع يا رسول الله؟ قال: تطيعون ربكم، وتصلون خمسكم وتصومون شهركم وتؤدون زكاة أموالكم وتحجون بيت ربكم وتطيعون ولاة أمركم فتدخلون جنة ربكم. "ابن جرير".
12923 ابوامامہ (رض) سے مروی ہے میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اس وقت میں تیس سال کا تھا۔ میں نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو ! میری بات سنو ! ممکن ہے تم اپنے اس سال کے بعد مجھے نہ دیکھ پاؤ۔ ایک آدمی نے جلد بازی میں پوچھا : یارسول اللہ ! ہم کیا کریں ؟ ارشاد فرمایا : اپنے رب کی اطاعت کرو، پانچ نمازیں پڑھو، اپنے مہینے کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرو، اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو پس تم اپنے ری کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ ابن جریر

12924

12924- عن أبي بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: أي شهر هذا؟ قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: أليس ذا الحجه؟ قلنا: بلى قال: فأي بلد هذا؟ قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه، قال: أليس البلد الحرام؟ قلنا: بلى قال: أي يوم هذا؟ قلنا: الله ورسوله أعلم، فسكت، حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه قال: أليس يوم النحر، قلنا: بلى يا رسول الله قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا ستلقون ربكم فيسألكم عن أعمالكم. "ش".
12924 ابوبکرۃ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کون سا ماہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہوگئے۔ ہم سمجھے شاید آپ اس ماہ کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ پھر خود ہی دریافت فرمایا : کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر پوچھا : یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ پھر آپ خاموش ہوگئے ہم سمجھے شاید آپ اس شہر کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر خود ہی ارشاد فرمایا : کیا یہ بلد حرام (شہر حرام) نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر پوچھا : یہ کونسا دن ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ پھر آپ خاموش ہوگئے۔ ہم سمجھے شاید آپ اس کا نام تبدیل فرمائیں گے۔ پھر خود ہی ارشاد فرمایا : کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں یارسول اللہ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون، تمہارے اموال ، تمہاری عزتیں تم ایک دوسروں پر یونہی قابل حرمت ہیں جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس شہر حرام میں اور اس ماہ حرام میں محترم ہے۔ عقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو، پس وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔
مصنف ابن ابی شیبہ

12925

12925- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أحرم الأيام يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا إن دماءكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا ألا هل بلغت؟ قالوا: نعم قال: اللهم اشهد. "ابن النجار".
12965 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہارے دلوں میں سب سے زیادہ حرمت والا دن تمہارا یہ دن ہے تمہارے اس ماہ میں اور اس شہر میں خبردار ! تمہارے خون تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے تمہارے اسی ماہ میں اور اسی شہر میں۔ کیا میں نے تم کو پیغام پہنچادیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ گواہ رہنا۔ ابن النجار

12926

12926- عن عمرو بن مرة عن مرة عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: قام فينا رسول الله على ناقة حمراء مخضرمة1 فقال: أتدرون أي يومكم هذا، أتدرون أي شهركم هذا، أتدرون أي بلدكم هذا؟ قال: فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا. "ش".
12926 عمرو بن مرۃ عن مرۃ رجل من اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صحابی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سرخ اونٹنی پر جس کا تھوڑا کان کٹا ہوا تھا سوار ہو کر ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پوچھا : جانتے ہو تمہارا یہ کونسا دن ہے ؟ جانتے ہو تمہارا یہ کون سا ماہ ہے ؟ جانتے ہو تمہارا یہ کونسا شہر ہے ؟ پھر ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن حرام ہے تمہارے اس شہر (حرام) میں۔ ابن ابی شیبہ

12927

12927- عن أم الحصين قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو على رحله وحصين في حجري وقد أدخل ثوبا من تحت إبطه. "أبو نعيم".
12927 ام الحصین (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الوداع میں دیکھا آپ اپنی سواری پر تھے اور حصین میری گود میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بغل کے نیچے سے کپڑا نکال رکھا تھا ۔ ابونعیم

12928

12928- عن أم حصين قالت: حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع فرأيت أسامة وبلالا يقود بخطام راحلة النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر رافع ثوبه يستره من الحر حتى رمى جمرة العقبة، ثم انصرف فوقف للناس، وقد جعل ثوبه تحت إبطه على عاتقه الأيسر فرأيت عند غضروفه الأيمن كهيئة جمع ثم ذكر قولا كثيرا، ثم قال: اللهم اشهد هل بلغت؟ وكان فيما يقول: إن أمر عليكم مجدع أسود يقودكم بكتاب الله فاسمعوا وأطيعوا. "ن".
12928 ام حصین (رض) سے مروی ہے، کہتی ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر حج کیا ۔ میں نے اسامہ اور بلال (رض) کو دیکھا جو آپ کی سواری کی مہار تھامے ہوئے اونٹنی کے آگے چل رہے تھے۔ ان میں سے ایک اپنا کپڑا اٹھا کر اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گرمی سے بچا رہے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمی جمرہ عقبہ فرمائی پھر لوگوں کے (روبرو) کھڑے ہوئے اور اپنا کپڑا ۔ اپنی (دائیں) بغل سے نکال کر بائیں شانے پر ڈالا ہوا تھا پھر میں نے کان جتنی مہر نبوت آپ کے دائیں شانے پر دیکھی۔ پھر آپ نے بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں پھر فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہنا، کیا میں نے پیغام پہنچادیا ؟ اور آپ اپنے ارشادات میں یہ بھی فرما رہے تھے : اگر تم پر کسی ناک کٹے ہوئے حبشی کو امیر بنادیا جائے جو تم کو کتاب اللہ کے ساتھ لے کر چلے تو اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔ النسائی

12929

12929- عن العداء بن خالد بن هوذة قال: حججت مع النبي صلى الله عليه وسلم حجة الوداع فرأيته قائما في الركابين وهو يقول: أتدرون أي شهر هذا؟ أي بلد هذا؟ فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، هل بلغت؟ قالوا: نعم قال: اللهم اشهد. "ش".
12929 عداء بن خالد بن ھوذۃ سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع کیا۔ میں نے آپ کو دونوں رکابوں میں پاؤں ڈالے کھڑے ہوئے دیکھا، آپ ارشاد فرما رہے تھے : جانتے ہو یہ کون سا مہینہ ہے ؟ یہ کونسا شہر ہے ؟ بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال تم پر یونہی حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں۔ پھر فرمایا : کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں، فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ ابن ابی شیبہ

12930

12930- عن أبي سعيد وأبي هريرة قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر فقال: إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا. "ابن النجار".
12930 حضرت ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم کو قربانی کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : بیشک تمہارے (آپس میں ایک دوسرے کے) خون اور (ایک دوسرے کے) اموال اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس ماہ میں اور تمہارے اس شہر میں ۔ ابن النجار

12931

12931- عن عبد الله بن صفوان قال: قلت لعمر كيف صنع النبي صلى الله عليه وسلم حين دخل الكعبة، قال: صلى ركعتين. "د وابن سعد والطحاوي ع ق".
12931 عبداللہ بن صفوان سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) سے پوچھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا عمل فرمایا ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : دو رکعت نماز پڑھی۔
ابن داؤد، ابن سعد، الطحاوی، مسند ابی یعلی، السنن للبیہقی

12932

12932- عن أسامة بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل البيت دعا في نواحيه كلها ولم يصل فيه حتى خرج، فلما خرج ركع في قبل البيت ركعتين وقال: هذه القبلة. "حم م والعدني ن وابن خزيمة وأبو عوانة والطحاوي".
12932 اسامۃ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعا فرمائی اور اس میں نماز نہ پڑھی حتیٰ کہ (باہر) نکل آئے۔ جب نکل آئے تو بیت اللہ کے سامنے والے حصے میں دو رکعتیں نماز کی ادا فرمائیں اور ارشاد فرمایا : یہ قبلہ ہے۔ مسند احمد، مسلم، العدنی، النسائی، ابن خزیمۃ، ابوعوانۃ، الطحاوی

12933

12933- وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في الكعبة. "حم ن".
12933 اسامہ بن زید (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ میں نماز پڑھی۔
مسند احمد ، النسائی

12934

12934- عن أبي الشعثاء قال: خرجت حاجا فدخلت البيت، فلما كنت عند الساريتين مضيت حتى لزقت بالحائط وجاء ابن عمر حتى قام إلى جنبي فصلى أربعا، فلما صلى قلت له: أين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ههنا أخبرني أسامة بن زيد أنه صلى، قلت فكم صلى؟ قال: على هذا أجدني ألوم نفسي، إني مكثت معه عمرا ثم لم أسأله كم صلى. "حم وابن منيع ع والطحاوي حب ش".
12934 ابوالشعثاء سے مروی ہے کہ میں حج کے ارادے سے نکلا اور بیت اللہ میں داخل ہوا، حتیٰ کہ جب میں دونوں ستونوں کے پاس تھا تو وہاں سے بڑھ کر دیوار کے ساتھ چمٹ گیا اور پھر ابن عمر (رض) تشریف لائے اور انھوں نے میرے برابر میں چار رکعت نماز پڑھیں۔ انھوں نے نماز پڑھ لی تو میں نے عرض کیا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہاں نماز پڑھی تھی ؟ ابن عمر (رض) نے فرمایا : اس جگہ، مجھے اسامہ بن ید نے خبر دی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہاں) نماز پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا : کتنی نماز پڑھی ؟ انھوں نے اس بار فرمایا : اس بات پر تو میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں۔ میں ان کے ساتھ ایک عمر بھر رہا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنی نماز پڑھی تھی۔
مسند احمد، ابن منیع، مسند ابی یعلی، الطحاوی، ابن حبان، ابن ابی شیبہ

12935

12935- عن أسامة بن زيد قال: دخلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الكعبة، فرأى في البيت صورا فدعى بدلو من ماء فأتيته به، فجعل يمحوها ويقول: قاتل الله قوما يصورون ما لا يخلقون. "ط ش والطحاوي طب ص".
12935 اسامۃ بن زید (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کعبہ میں داخل ہوا۔ آپ نے بیت اللہ میں صورتیں بنی ہوئی دیکھیں۔ آپ نے پانی کا ایک ڈول منگوایا میں لے کر حاضر ہوا تو آپ (پانی کے ساتھ) ان کو مٹانے لگے اور فرماتے تھے : اللہ تعالیٰ قتل کرے ان لوگوں کو جو تصویر بناتے ایسی چیزوں کی جن کو پیدا نہیں کرسکتے۔
ابوداؤد، ابن ابی شیبہ، الطحاوی، الکبیر للطبرانی، السنن لسعید بن منصور۔

12936

12936- عن عطاء عن أسامة بن زيد أنه دخل هو ورسول الله صلى الله عليه وسلم البيت فأمر بلالا فأجاف الباب1 والبيت إذ ذاك على ستة أعمدة فمضى حتى إذا كان بين الإسطوانتين اللتين تليان باب الكعبة جلس فحمد الله وأثنى عليه وكبر وهلل وسأله واستغفره، ثم أقام حتى أتى ما استقبل من دبر الكعبة، فوضع وجهه وخده عليه وصدره ويديه وحمد الله وأثنى عليه، وسأله واستغفره، ثم انصرف إلى كل ركن من أركان الكعبة فاستقبله بالتكبير والتهليل والتسبيح والثناء على الله والمسألة والاستغفار، ثم خرج فصلى ركعتين مستقبل وجه الكعبة، ثم انصرف فأقبل على القبلة وعلى الباب فقال: هذه القبلة هذه القبلة. "حم ن والروياني ص".
12936 عطاءؒ حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کرتے ہیں، اسامہ (رض) فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا انھوں نے دروازہ بند کرلیا۔ بیت اللہ اس وقت چھ ستونوں پر قائم تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے اور جب کعبہ کے دروازے قریب والے دو ستونوں کے پاس پہنچے تو بیٹھ گئے اللہ کی حمدوثناء کی ، تکبیر وتہلیل کی اللہ سے دعا استغفار کی پھر کھڑے ہو کر کعبہ کی پشت پر منہ رکھا اور اپنا رخسار اس پر رکھا اپنے سینے اور ہاتھوں کو اس سے ملایا اور اللہ کی حمدوثناء کی دعا و استغفار کیا پھر ہر ستون کے پاس جاکر اس کو تکبیر ، تہلیل ، تسبیح اور ثناء علی اللہ کرتے ہوئے چوما اور دعا و استغفار کیا۔ پھر نکل کر کعبہ کے سامنے کے حصے میں دو رکعت نماز پڑھی پھر مڑے اور قبلہ اور اس کے دروازے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرماتے رہے یہ قبلہ ہے، یہ قبلہ ہے۔
مسند احمد، النسائی، الرویانی، السنن لسعید بن منصور
کلام : مذکورہ روایت ضعف کے حوالے سے محل کلام ہے دیکھئے : المعلۃ 3

12937

12937- عن أبي الطفيل قال: دخلت مع علي والحسن والحسين وابن الحنفية الكعبة فلم يصلوا فيها.
12937 ابوالطفیل سے مروی ہے کہ میں علی، حسن، حسین اور ابن الحنفیہ کیس اتھ کعبہ میں داخل ہوا ہوں کسی نے بھی اندر نماز نہیں پڑھی۔

12938

12938- عن شيبة قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم الكعبة فصلى فيها ركعتين فإذا فيها تصاوير، فقال: اكفني هذه فاشتد ذلك عليه فقال له رجل: طينها، ثم الطخها بزعفران ففعل. "كر".
12938 شیبہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں داخل ہوئے اور اس میں دو رکعتیں نماز ادا فرمائیں، وہاں دیکھا تو تصویریں تھیں، ارشاد فرمایا : یہ مجھے محو کرنا ہیں۔ آپ کو ان پر بہت غصہ آیا۔ آپ کو ایک آدمی نے عرض کیا : آپ مٹی اور زعفران کا گارا بنا کر ان کو لیپ کرادیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا ۔ ابن عساکر

12939

12939- عن عبد الرحمن الزجاج قال: أتيت شيبة بن عثمان فقلت: يا أبا عثمان زعموا أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة فلم يصل فقال: كذبوا وأبي، لقد صلى بين العمودين، ثم ألصق بهما بطنه وظهره. "ع كر".
12939 عبدالرحمن الزجاج سے مروی ہے ، فرمایا : میں شیبہ بن عثمان کے پاس آیا اور عرض کیا اے ابوعثمان ! لوگوں کا خیال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں داخل ہوئے تھے مگر انھوں نے اندر نماز نہیں پڑھی ؟ آپ (رض) نے فرمایا : لوگ جھوٹ کہتے ہیں ، میرے باپ کی قسم ! آپ نے دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔ پھر آپ نے ان ستونوں کے ساتھ اپنا پیٹ اور اپنی کمر ملائی۔
سند ابی یعلی، ابن عساکر

12940

12940- عن ابن عمر قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم الكعبة والفضل وأسامة بن زيد وطلحة بن عثمان فكان أول من لقيت بلالا فقلت: أين صلى النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: بين هاتين الساريتين. "ش".
12940 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں داخل ہوئے اور فضل (رض) ، اسامہ بن زید (رض) اور طلحۃ بن عثمان (رض) بھی داخل ہوئے۔ میں سب سے پہلے بلال (رض) سے ملا، میں نے پوچھا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا نماز پڑھی ؟ انھوں نے جواب دیا : ان دوستونوں کے درمیان۔
ابن ابی شیبہ

12941

12941- عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في البيت ركعتين. "ابن النجار".
12941 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ ابن النجار

12942

12942- عن صفية بنت شيبة أخبرتني امرأة من بني سليم أن النبي صلى الله عليه وسلم لما خرج من الكعبة دعا عثمان بن طلحة فسألت عثمان بن طلحة عم دعاك النبي صلى الله عليه وسلم حين خرج من الكعبة؟ قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن قرني الكبش نسيت أن آمرك أن تغيرهما، ولا ينبغي للمصلي أن يصلي وبين يديه شيء يشغله. "خ في تاريخه كر".
12942 صفیہ بنت شیبہ سے مروی ہے فرماتی ہیں : مجھے بنی سلیم کی ایک عورت نے خبر دی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ سے نکلے تو عثمان بن طلحہ کو بلایا تھا ۔ تو میں نے عثمان بن طلحہ سے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو کیوں بلایا تھا ؟ جب وہ کعبہ سے باہر تشریف لائے تھے ؟ عثمان (رض) بولے : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مینڈھے کے دو سینگوں کے متعلق میں تمہیں کہنا بھول گیا کہ ان کو تبدیل کردینا کیونکہ کسی نمازی کے لیے جائز نہیں ہے کہ نماز پڑھے تو اس کے سامنے کوئی چیز اس کو نماز سے مشغول کردے۔ البخاری فی التاریخ، ابن عساکر

12943

12943- عن عمر قال: استأذنت النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة فأذن لي وقال: لا تنسنا يا أخي من دعائك، أو قال: أشركنا يا أخي في دعائك كلمة ما أحب أن لي بها ما طلعت عليه الشمس. "ط وابن سعد حم د ت حسن صحيح هـ ع والشاشي ص ق"
12943 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عمرۃ کی اجازت مانگی تو آپ نے مجھے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائی اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا : اے میرے بھائی اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا۔ آپ کا یہ کلمہ ایسا تھا میں اس کے بدلے دنیا کی ساری دولت پسند نہیں کرتا۔ ابوداؤد، ابن سعد، مسند احمد، ابن داؤد، الترمذی حسن صحیح ابن ماجہ، مسند ابی یعلی، الشاشی، السنن لسعید بن منصور ، السنن للبیہقی

12944

12944- عن عمر قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا قبل حجه في ذي القعدة. "طس".
12944 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے، ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج سے قبل ذی القعدہ میں ۔ تین بار عمرہ فرمایا۔ الاوسط للطبرانی

12945

12945- عن ابن عمر قال: قال عمر: افصلوا بين حجتكم وعمرتكم اجعلوا الحج في أشهر الحج، واجعلوا العمرة في غير أشهر الحج أتم لحجكم وعمرتكم. "مالك ش ومسدد ق".
12945 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اپنے حج اور عمرے کے درمیان فصل کرو۔ حج کو حج کے مہینہ میں رکھو اور عمروں کو حج کے مہینوں کے علاوہ میں ادا کرو یہ تمہارے حج اور عمروں کے لیے زیادہ مکمل کرنے والی بات ہے۔ مالک ، ابن ابی شیبہ، مسدد، السنن للبیہقی

12946

12946- عن مجاهد قال سئل عمر عن العمرة بعد الحج؟ قال: هي خير من لا شيء. "ش".
12946 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) سے حج کے بعد عمرہ کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا : یہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

12947

12947- عن عمر قال: إن أتم العمرة أن تفردوها من أشهر الحج، {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ} شوال وذو القعدة وذو الحجة فأخلصوا فيهن الحج واعتمروا فيما سواهن من الشهور. "ق".
12947 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : عمرہ تام یہ ہے کہ تم اس کو اشہر حج (حج کے مہینوں) سے علیحدہ ادا کرو۔ الحج اشہر معلومات حج کے مقرر مہینے ہیں : شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ، پس ان مہینوں کو حج کے لیے خالص رکھو۔ عمرہ ان کے علاوہ مہینوں میں کرو۔ السنن للبیہقی

12948

12948- عن أم معقل أن زوجها جعل ناضحا له في سبيل الله وانها أرادت العمرة فسألته الناضح فأبى أن يعطيها إياه، فأتت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له فقال: أعطها إياها فإن الحج والعمرة من سبيل الله وقال لها: اعتمري في رمضان فإن عمرة رمضان تعدل حجة أو تجزئ بحجة. "ابن زنجويه"
12948 ام معقل سے مروی ہے کہ ان کے شوہر نے ان کے اپنے پانی لاد کر لانے والے اونٹ کو اللہ کے راستے کے لیے وقف کرلیا (جہاد کے لئے) ان (ام معقل) کا عمرہ کا ارادہ ہوا تو انھوں نے اپنے شوہر سے وہ اونٹ مانگا لیکن انھوں نے دینے سے انکار کردیا۔ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ ماجرا عرض کیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے شوہر کو فرمایا : اس کو اونٹ دیدو بیشک حج وعمرہ بھی اللہ کے راستے ہیں۔ اور ام معقل کو فرمایا : اپنا عمرہ رمضان میں کرنا۔ بیشک رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے، یا حج کو کفایت کرتا ہے۔ ابن زنجویہ

12949

12949- عن أم سليم الأنصارية قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كان أول شهر فاعتمري فيه، فإن عمرة فيه مثل حجة أو تقضي مكان حجة. "ابن زنجويه".
12949 ام سلیم انصاریہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ان کو ) ارشاد فرمایا : جب اول مہینہ ہو تو اس میں عمرہ کر۔ بیشک اس میں عمرہ کرنا حج کے مثل ہے یا حج کی جگہ پوری کرتا ہے۔ ابن زنجویہ

12950

12950- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم اعتمر عمرتين في ذي القعدة وعمرة في شوال. "ابن النجار"
12950 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی قعدہ میں دو عمرے اور شوال میں ایک عمرہ فرمایا۔ ابن النجار
کلام : مذکورہ روایت ضعیف ہے : التحدیث 169 ۔

30814

30803- عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: حدثت أن موسى أو عيسى قال: يا رب! ما علامة رضاك عن خلقك؟ فقال: أن أنزل عليهم الغيث إبان 3 زرعهم، وأحبسه إبان حصادهم، وأجعل أمورهم إلى حلمائهم، وفيئهم في أيدي سمحائهم؛ قال: يا رب! فما علامة السخط؟ قال: أن أنزل الغيث إبان حصادهم، وأحبسه إبان زرعهم، وأجعل أمورهم إلى سفهائهم وفيئهم في أيدي بخلائهم. "هب، خط في رواة مالك".
30803 ۔۔۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں مجھ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ ! آپ کے مخلوق سے راضی ہونے کی کیا علامت ہے فرمایا کہ ان کی کھیتی اگنے کے وقت بارش برساتا ہوں اور فصل کٹنے کے وقت بارش روک لیتا ہوں اور ان کے معاملات عقلمند لوگوں کے سپرد کرتا ہوں اور ان کے مال غنیمت سخی لوگوں کے ہاتھ میں دیتاہوں پھر عرض کیا باری تعالیٰ ناراضگی کے علامات کیا ہیں تو فرمایا فصل پکنے کے وقت بارش برساتا ہوں ظہور کے وقت روک لیتا ہوں ار ان کے امور حکومت کم عقل لوگوں کے سپرد کردیتا ہوں اور مال غنیمت بخیلوں کے حوالہ کردیتاہوں ۔ بیہقی خط فی رواة مالک

30815

30804- عن عمر قال: إذا كان في المرء ثلاث خصال فلا تشكوا في صلاحه! إذا حمده ذو قرابته وجاره ورفيقه. "هناد".
30804 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جب کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو اس کے نیک ہونے میں شک مت کرو۔ جب رشتہ دار ، پڑوسی اور دوست و احباب اس کی تعریف کرنے لگیں۔ رواہ ھناد

30816

30805- قال نعيم بن حماد في نسخته: حدثنا ابن المبارك عن عبد الرحمن ابن يزيد بن جابر أن عمر قال: قال رجل: يا رسول الله! كيف لي أن أعلم ما حالي عند الله؟ قال: إذا رأيت كلما طلبت شيئا من أمر الدنيا يسر لك وإذا طلبت شيئا من أمر الآخرة عسر عليك فإنك على حال قبيحة، وإذا طلبت شيئا من أمر الدنيا فعسر عليك وإذا طلبت شيئا من أمر الآخرة يسر لك فإنك على حال حسنة؛ منقطع. مر برقم [30744] .
30805 ۔۔۔ نعیم بن حماد نے اپنے نسخہ میں کہا کہ ابن مبارک نے عبدالرحمن ابن یزید بن جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ مجھے کیسے معلوم ہوسکے گا کہ میرا اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا مقام ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ جب دنیا کے اعمال میں تمہیں خوشی محسوس ہو اور آخرت کے اعمال میں تنگی پریشانی محسوس ہو تو سمجھو کہ تم برے حال میں ہو اور جب امور دنیا میں تنگی محسوس ہو اور اعمال آخرت میں خوشی تو سمجھو کہ تم اچھے حال ہو۔ ( منقطع پہلے حدیث 30744 میں گذر چکی ہے)

30817

30806- عن أبي رزين العقيلي قال: قلت: يا رسول الله! كيف بأن أعلم أني مؤمن؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من أمتي - أو قال: ما من هذه الأمة - رجل يعمل حسنة فيعلم أنها حسنة وأن الله جازيه بها خيرا ولا يعمل سيئة فيعلم أنها سيئة فيستغفر الله تعالى منها ويعلم أنه لا يغفرها إلا هو، إلا وهو مؤمن. "ابن جرير، كر".
30806 ۔۔۔ ابوزرین عقبلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں مومن ہوں تو ارشاد فرمایا کہ میری امت کا جو بھی فردیا اس امت کا جو بھی فرد کوئی نیک عمل کرے یہ جانتے ہوئے کہ یہ نیک عمل ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نیک بدلہ عطاء فرمانے والے ہیں یا کوئی برا عمل کرے یہ جانتے ہوتے کہ یہ برا عمل ہے پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں تو وہ مومن ہے۔ ابن جریر ابن عساکر

30818

30807- عن أبي هريرة قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! دلني على عمل إذا عملت به دخلت الجنة! قال: كن محسنا! قال: كيف أعلم أني محسن؟ قال: سل جيرانك؟ فإن قالوا: إنك محسن، فإنك محسن؛ وإن قالوا: إنك مسيء، فأنت مسيء. "هب". مر برقم [30675] .
30807 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا یارسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلادیں جب میں وہ عمل کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں تو ارشاد فرمایا تو نیک نفس انسان بنو عرض کیا مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں محسن ہوں ؟ تو فرمایا کہ اپنے پڑوس سے پوچھیں اگر وہ گواہی دیں کہ آپ محسن ہیں تو آپ محسن ہیں اگر وہ کہیں آپ برے انسان ہیں تو آپ برے ہیں۔ (بیہقی بر قم 30676

30819

30808- عن عبد الله بن مسعود أن رجلا قال: يا رسول الله! أسألك عن علامة الله فيمن يريد وعلامته فيمن لا يريد، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:كيف أصبحت؟ قال: أصبحت أحب الخير وأهله ومن يعمل به، وإن عملت به أيقنت بثوابه، فإن فاتني منه شيء حننت إليه، قال: هذه علامة الله فيمن يريد وعلامته فيمن لا يريد؛ ولو أرادك بالأخرى هيأك لها ثم لم يبال في أي واد هلكت. "حل".
30808 ۔۔۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا رسول اللہ ! میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کو چاہتے اور نہ چاہنے کی کیا علامتیں ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ صبح کس حالت میں کی تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے اس حالت میں صبح کی کہ نیکی کو پسند کرتا ہوں نیک لوگوں کو پسند کرتا ہوں اور نیک کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہوں اگر کوئی نیک کام کروں تو اس پر اچھا بدلہ ملنے کا یقین ہوتا ہے اگر کوئی نیک عمل چھوٹ جائے تو افسوس کرتا ہوں تو ارشاد فرمایا کہ یہی علامات ہیں اللہ تعالیٰ کے چاہنے اور نہ چاہنے کی۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ دوسرا ارادہ فرماتے تو تمہیں اس کی توفیق نہ دیتے ۔ پھر اس کی پر اہ نہ ہوتی کہ تم کس وادی میں ہوئے۔

30820

30809- عن ابن مسعود قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقبل راكب حتى أناخ فقال: يا رسول الله! إني أتيتك من مسيرة تسع، أنضيت راحلتي وأسهرت ليلي وأظمأت نهاري لأسألك عن خصلتين أسهرتاني، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ما اسمك؟ قال: أنا زيد الخيل، قال له: بل أنت زيد الخير! فاسأل! فرب معضلة قد سئل عنها؛ قال: أسألك عن علامة الله فيمن يريده وعلامته فيمن لا يريده، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: كيف أصبحت؟ قال: أصبحت أحب الخير وأهله ومن يعمل به، وإن عملت به أيقنت بثوابه، وإن فاتني منه شيء حننت إليه؛ فقال له صلى الله عليه وسلم: هذه علامة الله فيمن يريده وعلامته فيمن لا يريد، ولو أرادك بالأخرى هيأك لها ثم لا يبالي في أي واد هلكت - وفي لفظ: سلكت. "عد وقال: منكر، كر".
30809 ۔۔۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تھے کہ ایک سوار آیا اور اپنا اونٹ ایک طرف بٹھایا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نومنزلیں طے کرکے آیا ہوں میں نے اپنے اونٹ کو کمزور کردیا ۔ رات بیداری میں گذاری اور دن بھوک اور پیاس میں مجھے دو باتوں نے نیند سے محروم کردی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے ؟ عرض کیا زید الخیل تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلکہ آپ کا نام زید الخیر ہے پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے بعض مشکل باتیں پہلے پوچھی جاچکی ہیں تو اس نے عرض کیا میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چاہنے اور نہ چاہنے کی کیا علامات ہوں گی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے کیا حالات ہیں عرض کیا کہ میں خیر اور اہل خیر سے محبت رکھتا ہوں اور خیر اور نیکی کے کام کرنے والوں سے محبت رکھتا ہوں اگر کسی نیک کام کی توفیق مل جائے تو اللہ تعالیٰ سے ثواب ملنے کا یقین رکھتاہوں اگر کوئی نیک عمل چھوٹ جائے تو اس پر افسوس کرتا ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے چاہنے اور نہ چاہنے کی علامات ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ تمہارے لیے پسند کرتے تو تمہارے لیے اس کا راستہ آسان کردیتے پھر اس کی پروا نہ فرماتے کہ تم کس وادی میں بلاک ہورہے ہو یا کس راستہ پر چل رہے ہو ۔ ابن عدی فی الکامل وقال منکر ابن عساکر

30821

30810- عن ابن مسعود قال: أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! متى أكون محسنا؟ قال: إذا أثنى عليك جيرانك أنك محسن فأنت محسن، قال: فمتى أكون مسيئا؟ قال: إذا أثنى عليك جيرانك أنك مسيء فأنت مسيء. "كر" مر برقم [30737] .
30810 ۔۔۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نیک اخلاق والاکب بنوں گا ؟ ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے پڑوسی گواہی دیں کہ تم محسن ہو تو سمجھو لوگ کہ تم نیک اخلاق والے ہو اور جب وہ گواہی دیں کہ تم بداخلاق ہو توسمجھو کہ تم بداخلاق ہو۔ ابن عساکر موجو رقم 30737

30822

30811- عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من جمع الله له أربع خصال جمع الله له خير الدنيا والآخرة، قيل: ما هي يا رسول الله؟ قال: قلبا شاكرا، ولسانا ذاكرا، ودارا قصدا 2، وزوجة صالحة. "ابن النجار".
30811 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس میں چار باتیں جمع فرمادیں اس کے لیے دینا واخرت کی بھلائی جمع فرمادیں عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ باتیں کونسی ہیں فرمایا۔ (1) شکرگزار دل (2) ذکر کرنے والی زبان (3) متوسط درجہ کا مکان (4) نیک بیوی۔ ابن النجار النھایة فی غریب الحدیث

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔