hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

10. حدود کا بیان

كنز العمال

12951

12951- أقيموا حدود الله في القريب والبعيد، ولا تأخذكم في الله لومة لائم. "هـ عن عبادة بن الصامت".
12951 رشتے دار اور غیر رشتہ دار (ہر ایک میں) اللہ کی حدود کا نفاذ کرو۔ اور اللہ کے (حکم کو نافذ کرنے کے) بارے میں کسی کو ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ ہونی چاہیے۔
ابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت

12952

12952- إنما هلك الذين من قبلكم أنهم إذا سرق فيهم الشريف تركوه وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد. "حم ق عن عائشة"
12952 تم سے پہلے لوگ اس لیے قہر ہلاکت میں پڑے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب ان میں سے کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کردیتے۔ مسند احمد ، البخاری ، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن عائشہ (رض)

12953

12953- أقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم. "هق عن علي".
12953 اپنے مملوکوں پر بھی حدود جاری کرو۔ السنن للبیہقی عن علی (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے : حسن الاثر 454، ضعیف الجامع 184 ۔

12954

12954- الصبي إذا بلغ خمسة عشر أقيمت عليه الحدود. "هق في الخلافيات عن أنس".
12954 بچہ جب پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس پر حدود جاری کرو۔
السنن للبیہقی فی الخلاقیات عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3538 ۔

12955

12955- لا يجلد فوق عشرة أسواط إلا في حد من حدود الله. "حم ق عن أبي بردة بن نيار الأنصاري".
12955 دس سے زائد کوڑے صرف حدود اللہ میں سے کسی حد میں ہی مارے جاسکتے ہیں۔
مسند احمد ، البخاری مسلم عن ابی بردۃ بن نیار الانصاری

12956

12956- لا عقوبة فوق عشر ضربات إلا في حد من حدود الله. "خ عن رجل"
12956 دس ضربوں سے زیادہ سزا صرف حدود الل میں سے کسی حد میں جاری کی جاسکتی ہے۔
البخاری عن رجل

12957

12957- ادرؤا الحدود بالشبهات. "أبو مسلم الكجي عن عمر بن عبد العزيز" مرسلا
12957 شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کردو۔ ابومسلم الکجی عن عمر بن عبدالعزیز، مرسلاً
کلام : یہ ایک لمبی روایت کا حصہ ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔ اسنی المطالب 87، التمییز 12 ۔ نیز حافظ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں اس روایت کی سند میں غیر معروف راوی ہے دیکھئے : کشف الخفاء 166 ۔

12958

12958- خذوا له عثكالا3 فيه مائة شمراخ فاضربوه ضربة واحدة وخذوا سبيله. "حم طب عن سعيد بن سعد بن عبادة".
12958 اس کو مارنے کے لیے کھجور کا سوتنکوں والا گچھا اٹھاؤ اور ایک دفعہ اس کے ساتھ اس کو مار کر اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن سعید بن سعد بن عبادۃ

12959

12959- إذا غشى الرجل جارية امرأته، فإن استكرهها فهي حرة ولها عليه مثلها، وإن طاوعته فهي أمة ولها عليه مثلها. "حم سمويه عن ميمونة عن سلمة بن المحبق".
12959 آدمی جب اپنی بیوی کی باندی کے ساتھ جماع کر بیٹھے، اگر آدمی نے اس کے ساتھ زبردستی کی ہو تو وہ باندی آزاد ہوجائے گی اور آدمی پر باندی کی قیمت اپنی بیوی کو ادا کرنا واجب ہوگی۔ اور اگر باندی نے بخوشی آمادگی ظاہر کی ہو تو وہ آدمی کی مملوکہ باندی بن جائے گی اور تب بھی اس باندی کی قیمت اپنی بیوی کو ادا کرنا واجب الذمہ ہوگی۔
مسند احمد، سمویہ عن میمونۃ عن مسلمۃ بن المحیق

12960

12960- وما يمنعني لا تكونوا أعوانا للشيطان على أخيكم؛ إنه لا ينبغي للإمام إذا انتهى إليه حد إلا أن يقيمه، إن الله عفو يحب العفو، وليعفوا وليصفحوا، ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم. "عبد الرزاق حم وابن أبي الدنيا في ذم الغضب طب والخرائطي في مكارم الأخلاق ك ق عن ابن مسعود"
12960 مجھے (حد جاری کرنے میں) کیا مانع ہوتا ۔ تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مددگار نہ بنو۔ کسی امام (حاکم) کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اس کے پاس حد کا کوئی کیس آئے تو اس کو جاری نہ کرے۔ بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس لوگوں کو بھی معاف اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ پاک تمہاری مغفرت کرے۔ بیشک اللہ مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔
عبدالرزاق ، مسند احمد، ابن ابی الدنیا فی ذم الفضب، الکبیر للطبرانی، الخرائطی فی مکارم الاخلاق، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن ابن مسعود (رض) ، قال الحاکم صحیح الاسناد۔

12961

12961- كيف لا يشق علي وأنتم أعوان الشيطان على أخيكم. "أبو نعيم عن ابن عمر".
12961 مجھے شاق کیوں نہ گزرتا جبکہ تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مددگار بن کر آئے ہو (جو اس کو سزا دلانے کی فکر میں غلطاں ہو) ۔ ابونعیم عن ابن عمر (رض)

12962

12962- فهلا قبل أن تأتيني به؟ إن الإمام إذا انتهى إليه حد من حدود الله أقامه "طب عن صفوان بن أمية" "طب عن ابن عباس".
12962 اس کو میرے پاس لانے سے قبل تجھے یہ خیال کیوں نہ آیا (کہ یہ چھوٹ جائے) بیشک امام (حاکم) کے پاس کوئی حد کا قضیہ آئے تو اس کو حد جاری کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
الکبیر للطبرانی عن صفوان بن امیۃ، الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض) ۔

12963

12963- دعها حتى ينقطع دمها، ثم أقم عليها الحد، وأقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم. "د عن علي"
12963 اس (عورت) کو چھوڑ دو حتیٰ کہ اس کا خون نکلنا بند ہوجائے، پھر اس پر حد نافذ کرنا اور اپنے مملوک غلام باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔ ابوداؤد عن علی (رض)

12964

12964- من أذنب ذنبا فأقيم عليه حد ذلك الذنب فهو كفارته. "ابن النجار عن ابن خزيمة بن ثابت عن أبيه".
12964 جس نے کوئی گناہ کیا پھر اس پر اس گناہ کی حد جاری کردی گئی تو وہ حد اس گناہ کے لیے کفارہ ہے۔ ابن النجار عن ابن خزیمہ بن ثابت عن ابیہ

12965

12965- من أذنب ذنبا في الدنيا فعوقب به فالله أعدل أن يثني عقوبته على عبده، ومن أذنب ذنبا في الدنيا فستر الله عليه وعفا عنه فالله أكرم من أن يعود في شيء قد عفا عنه. "حم وابن جرير وصححه عن علي"
12965 جس سے دنیا میں کوئی گناہ سرزد ہوا پھر اس کو اس کی سزا مل گئی تو اللہ پاک اس سے زیادہ انصاف والا ہے کہ (آخرت میں) اپنے بندہ کو اس گناہ کی سزا دوبارہ دے۔ اور جس بندے سے کوئی گناہ سر زد ہوا مگر اللہ پاک نے اس کی پردہ پوشی فرمائی اور اس کو معاف کردیا تو اللہ پاک اس سے زیادہ کرم والا ہے کہ ایک معاف کی ہوئی چیز میں دوبارہ پکڑ فرمائے۔
مسند احمد، ابن جریر و صحیحہ عن علی (رح)

12966

12966- من أصاب منكم ذنبا مما نهى الله عنه فأقيم عليه حده فهو كفارة ذنبه. "الحسن بن سفيان وأبو نعيم عن خزيمة بن ثابت".
12966 تم میں سے جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوا جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا، پھر اس پر حد جاری کردی گئی تو اللہ پاک اس حد کو اس گناہ کے لیے کفارہ بنادیں گے۔
مستدرک الحاکم عن خزیمہ بن ثابت، صحیح الاسناد

12967

12967- أيما عبد أصاب شيئا مما نهى الله عنه ثم أقيم عليه [حده] كفر عنه ذلك الذنب. "ك عن خزيمة بن ثابت"
12967: تم میں سے جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوا جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا پھر اس پر اس کے گناہ کے سبب حد جاری کی گئی تو اللہ پاک اس حد کو اس گناہ کے لیے کفارہ بنادیں گے۔ مستدرک الحاکم عن خزیمۃ بن ثابت صحیح الاسناد۔

12968

12968- من قتل صبرا كان كفارة لخطاياه. "ابن النجار عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
12968 جو ظلماً قتل ہوا وہ اس کے گناہوں کے لیے باعث کفارہ ہوگا۔
ابن النجار عن عمرو بن شعیب بن ابیہ عن جدہ
کلام : روایت ضعیف ہے، دیکھئے : الاتقان 1607، الدرر المنتشرۃ 358 ۔

12969

12969- لا يمر السيف بذنب إلا محاه. "عق عن أنس".
12969 کسی گناہ پر تلوار نہیں اٹھتی مگر اس کو مٹا دیتی ہے۔ الضعفاء للعقیلی عن انس (رض)
کلام : الاتقان 1607، الشذرۃ 815 ۔

12970

12970- الرجم كفارة ما صنعت. "ن طب وسمويه ص عن الشريد بن سويد"2
12970 رجم (سنگساری) اس (زنا) کا کفارہ ہے جو تو نے کیا ہے۔
النسائی، الکبیر للطبرانی وسمویہ ، السنن لسعید بن منصور عنالشرید بن سوید

12971

12971- ادرؤا الحدود عن المسلمين ما استطعتم، فإن وجدتم للمسلم مخرجا فخلوا سبيله، فإن الإمام لأن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة. "ش ت ك هق عن عائشة"
12971 جس قدر ہوسکے مسلمانوں سے حدود ساقط کرو۔ اگر تم کسی مسلمان کے لیے خلاصی کی کوئی راہ پاؤ تو اس کا راستہ خالی کردو۔ بیشک امام اگر معاف کرنے میں خطاء کردے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس سے غلطی سے کوئی سزا جاری ہوجائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ، سنن الترمذی ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن عائشہ (رض)
کلام : مذکورہ روایت کے متعلق امام ذہبی (رح) امام نسائی کا قول نقل فرماتے ہیں اس کی سند میں یزید بن زیادہ شامی متروک راوی ہے۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یزید بن زیاددمشقی حدیث میں
ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے الدرر المتنشرۃ 63، الشذرۃ 43 ۔

12972

12972- ادرؤا الحدود بالشبهات، وأقيلوا الكرام عثراتهم إلا في حد من حدود الله. "عد في جزء له من حديث أهل مصر والجزيرة عن ابن عباس".
12972 شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کردو۔ معزز لوگوں کی لغزشیں معاف کردیا کرو مگر اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں (ان میں) معزز غیر معزز کی تمیز کئے بغیر حدود جاری کرو۔
الکامل لابن عدی فی جزء لہ من حدیث اھل مصر والجزیرۃ عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے دیکھئے : اسنی المطالب 87، التمییز 12 ۔

12973

12973- ادرؤا الحدود ولا ينبغي للإمام أن يعطل الحدود. "قط هق عن علي".
12973 تم لوگ حدود ساقط کردیا کرو (بایں طور کہ حاکم کے پاس اس کا فیصلہ نہ لے کر جاؤ) لیکن حاکم کے لیے حدود (ثابت ہونے کے بعد) ساقط کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
الدارقطنی فی السنن للبیہقی عن علی (رض)
کلام : ضعیف روایت ملاحظہ کیجئے : الشذرۃ 43، ضعیف الجامع 260 ۔

12974

12974- ادفعوا الحدود عن عباد الله ما وجدتم له مدفعا. "هـ عن أبي هريرة".
12974 اللہ کے بندوں سے حدود چھوڑ دیا کرو جب تم ان کے لیے خلاصی کی کوئی راہ پاؤ۔
ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 157، ضعیف ابن ماجہ 554 ۔

12975

12975- أقيلوا ذوي الهيئآت عثراتهم إلا الحدود. "حم خد عن عائشة"
12975 صاحب مرتبہ لوگوں کی لغزشوں سے درگزر کیا کرو مگر حدود میں نہیں (یہ حکم حاکم کے لیے ہے) ۔ مسند احمد، الادب المفرد للبخاری عن عائشۃ (رض)
کلام : امام منذری (رح) فرماتے ہیں سند میں عبدالملک بن زید ضعیف رواوی ہے۔ جبکہ امام نسائی (رح) فرماتے ہیں لاباس بہ کوئی حرج نہیں اور امام ابن حبان (رح) نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے لہٰذا روایت مذکورہ حسن ہے عون المعبود 39/12 ۔ جبکہ امام ابن جوزی (رح) نے اس کو تذکرۃ الموضوعات میں شمار کیا ہے 189 ۔ نیز اسنی المطالب میں اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے 242 ۔ واللہ اعلم بالصواب

12976

12976- أقيلوا السخي زلته، فإن الله آخذ بيده كلما عثر. "الخرائطي في مكارم الأخلاق عن ابن عباس".
12976 سخی کی لغزش کو بھلا دو ۔ وہ جب بھی پھسلتا ہے اللہ پاک اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔
الخرائطی فی مکارم الاخلاق عن ابن عباس (رض)

12977

12977- إن الله يحب أن يعفى عن ذنب السري "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب وابن لال عن عائشة".
12977 اللہ پاک اس بات کو پسند کرتا ہے کہ سخی کے گناہ کے اثرات مٹا دیئے جائیں۔
ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب وابن لال عن عائشہ (رض)

12978

12978- اهتبلوا العفو عن عثرات ذوى المروءات. "أبو بكر ابن المرزبان في كتاب المروءة عن عمر".
12978 صاحب مروت لوگوں کی لغزشوں سے عفو و درگزر کرو۔
ابوبکر بن المرزیان فی کتاب المروء ۃ عن عمر (رض)
کلام : روایت کا ضعف ملاحظہ کریں ضعیف الجامع 2102 ۔

12979

12979- تعافوا الحدود فيما بينكم فما بلغني من حد فقد وجب. "د ن ك عن ابن عمر"
12979 تمہارے اپنے درمیان جب تک معاملہ ہو حدود معاف کردیا کرو کیونکہ حد کا فیصلہ میرے پاس آئے گا تو اس کا نافذ کرنا واجب ہوجائے گا۔
ابوداؤد ، السنائی، مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض)
کلام : مذکورہ روایت پر ضعف کے حوالہ سے کلام ہے دیکھئے : 2447 ۔

12980

12980- تجافوا عن عقوبة ذي المروءة إلا في حد من حدود الله. "طس عن زيد بن ثابت".
12980 صاحب مروت اور مرتبہ والوں کی سزاؤں سے پہلو تہی کرو مگر حدود اللہ میں۔
الاوسط للطبرانی عن زید بن ثابت
کلام : دیکھئے روایت کا ضعف : ضعیف الجامع 2389 ۔

12981

12981- تجافوا عن عقوبة ذي المروءة. "أبو بكر بن المرزبان في كتاب المروءة طب في مكارم الأخلاق عن ابن عمر".
12981 معزز لوگوں کو سزا (دلانے ) سے کنارہ کرو۔
ابوبکر بن المرزبان فی کتاب المروء ۃ، الکبیر للطبرانی مکارم الاخلاق عن ابن عمر (رض)

12982

12982- تجافوا عن ذنب السخي، فإن الله تعالى أخذ بيده كلما عثر. "قط في الأفراد عن ابن مسعود".
12982 سخی کے گناہ سے درگزر کرو ۔ کیونکہ سخی جب بھی لغزش کھاتا ہے اللہ کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔
الدارقطنی فی الافراد عن ابن مسعود (رض)

12983

12983- تجاوزوا عن ذنب السخي وزلة العالم وسطوة السلطان العادل فإن الله تعالى أخذ بيدهم كلما عثر عاثر منهم. "خط عن ابن عباس".
12983 سخی کے گناہ ، عالم کی لغزش اور عادل بادشاہ کی سختی سے درگزر کرو۔ بیشک جب بھی ان میں سے کوئی لغزش کھاتا ہے اللہ پاک اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔
التاریخ للخطیب عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : المغیر 46، ضعیف الجامع 2391 ۔

12984

12984- تجاوزوا لذوي المروءة عن عثراتهم، فو الذي نفسي بيده إن أحدهم ليعثر وإن يده لفي يد الله. "ابن المرزبان عن جعفر بن محمد" مرسلا.
12984 اصحاب مراتب کی غلطیوں سے پہلو تہی برتو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں سے کوئی پھسلتا ہے تو اس کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
ابن المرزبان عن جعفر بن محمد ، مرسلاً
کلام : روایت محل کلام ہے دیکھئے : ضعیف الجامع 2392 ۔

12985

12985- هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه يعني ماعزا. "د ك عن نعيم بن هزال"1
12985 تم نے اس کو (یعنی ماعزا سلمی (رض)) چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ توبہ تائب ہوجاتا اور اللہ بھی اس کی توبہ قبول فرمالیتا۔
ابوداؤد، مستدرک الحاکم عن نعیم بن ھزال، قال الحاکم صحیح ووافقہ الذھبی

12986

12986- يا هزال لو سترته بثوبك لكان خيرا لك. "حم د ك عن نعيم بن هزال"2
12986 اے ہزال ! اگر تو اس پر اپنے کپڑے سے پردہ ڈالتا تو تیرے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔
مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک الحاکم عن نعیم بن ھزال، الحاکم والذھبی قالا صحیح

12987

12987- أقيلوا ذوي الهيئات زلاتهم. "قط خط عن ابن مسعود" "الحاكم في الكنى عن أنس" "حب ق والعسكري في الأمثال عن عائشة".
12987 صاحب عزت لوگوں کی لغزش سے چشم پوشی کرلیا کرو۔
الدارقطنی فی السنن، الخطیب فی التاریخ عن ابن مسعود، الحاکم فی الکنی عن انس (رض) ، ابن حبان، السنن للبیہقی ، العسکری فی الامثال عن عائشہ (رض)
کلام : امام عجلونی (رح) نے کشف الخفاء میں اس روایت پر ضعف کے حوالے سے طویل بحث فرمائی ہے لیکن امام ابن حجر (رح) نے التحفہ میں فرمایا ہے کہ اس حدیث کے کئی طرق ہیں جو روایت کو حسن کے درجے پر پہنچا دیتے ہیں جبکہ امام ابن حبان (رح) نے بغیر استثناء کے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے کشف الخفاء 162/1 ۔

12988

12988- أقيلوا ذوي الهيئة عثراتهم إلا حدا من حدود الله. "ابن جرير والعسكري عن عائشة".
12988 اصحاب مراتب (چھوٹی موٹی) لغزشوں کو درگزر کردیا کرو مگر حدود اللہ میں سے کسی حد میں (کوئی رعایت نہیں جبکہ اس کا فیصلہ حاکم کے پاس پہنچ جائے) ۔
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب 242، تذکرۃ الموضوعات 179 ۔

12989

12989- الزنا يورث الفقر. "القضاعي هب عن ابن عمر".
12989 زنا فقر (وفاقہ) لاتا ہے۔ الفضاعی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے اسنی المطالب 738، ذخیرۃ الحفاظ 3116 ۔

12990

12990- الزاني بحليلة جاره لا ينظر الله إليه يوم القيامة ولا يزكيه ويقول له: ادخل النار مع الداخلين. "الخرائطي في مساوي الأخلاق عن ابن عمر".
12990 اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والے پر قیامت کے دن اللہ نظر نہ فرمائے گا نہ اس کو پاک کرے گا اور اس کو حکم فرمائے گا، جہنم میں داخل ہوجادوسرے داخل ہونے والوں کے ساتھ۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 3188، کشف الخفاء 1428 ۔

12991

12991- من زنى خرج منه الإيمان فإن تاب تاب الله عليه. "طب عن شريك".
12991 جو زنا کرتا ہے ایمان اس سے نکل جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن شریک

12992

12992- إن الإيمان سربال يسربله الله من يشاء فإذا زنى العبد نزع منه سربال الإيمان، فإذا تاب رد عليه. "هب عن أبي هريرة".
12992 ایمان کرتا ہے جو اللہ پاک جس کو چاہتا ہے پہنا دیتا ہے۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان کا کرتا نکال لیا جاتا ہے ، اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اس کو ایمان کا کرتا لوٹا دیا جاتا ہے۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے دیکھئے : ضعیف الجامع 1421، الضعیفۃ 1584, 1474 ۔

12993

12993- من زنى أو شرب الخمر نزع الله منه الإيمان كما يخلع الإنسان القميص من رأسه. "ك عن أبي هريرة".
12993 جس نے زنا کیا یا شراب نوشی کی اللہ پاک اس سے ایمان نکال لیتا ہے جس طرح انسان سر سے اپنی قمیص نکال دیتا ہے۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5610، الضعیفۃ 1274 ۔

12994

12994- ما ذنب بعد الشرك أعظم عند الله من نطفة وضعها رجل في رحم لا يحل له. "ابن أبي الدنيا عن الهيثم بن مالك الطائي".
12994 شرک کے بعد اللہ کے نزدیک کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑا نہیں جس کو آدمی اس شرم گاہ میں رکھتا ہے جو اس کے لیے حلال نہیں۔ ابن ابی الدنیا عن الھیثم بن مالک الطائی

12995

12995- من قعد على فراش مغيبة قيض الله له ثعبانا يوم القيامة. "حم عن أبي قتادة".
12995 جو شخص کسی غائب شوہر والی عورت کی شرم گاہ پر بیٹھا اللہ پاک قیامت کے دن اژد ہے کہ اس پر مسلط فرمادیں گے۔ مسند احمد عن ابی قتادۃ
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف الجامع 5794، الکشف الا لٰہی 956 ۔

12996

12996- المقيم على الزنا كعابد وثن. "الخرائطي في مساوي الأخلاق وابن عساكر عن أنس".
12996 زنا پر کھڑا ہونا والا بت کی پوجا کرنے والے کی مثل ہے۔
الخرائطی فی مساوی الاخلاق وابن عساکر عن انس (رض)
کلام، ضعیف الجامع 5944 ۔

12997

12997- إن التي تورث المال غير أهله، عليها نصف عذاب الأمة. "عب عن ثوبان".
12997 جو عورت (گھر کا) مال گھروالوں کے علاوہ کسی کو دے اس باندی کی سزا کا نصف ہے۔ المصنف لعبد الرزاق عن ثوبان۔
فائدہ : جو عورت بدکاری کی غرض سے اپنے کسی آشنا پر اپنے گھر اور شوہر کا مال لٹائے اس کے لیے باندی کی زنا کی سزاء جو پچاس کوڑے ہے اس کا نصف یعنی پچیس کوڑے ہیں۔
کلام : ضعیف الجامع 1522 ۔

12998

12998- من زنى زني به ولو بحيطان داره. "ابن النجار عن أنس".
12998 جس نے کسی (کی عورت) کے ساتھ زنا کیا اس (کی عورت) سے بھی زنا کیا جائے گا خواہ اس کے اپنے گھر کی چاردیواری میں (کیا جائے) ۔ ابن النجار عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : دیکھئے تذکرۃ الموضوعات 180، التنزیہ 213/2

12999

12999- إذا زنى العبد خرج منه الإيمان، فكان على رأسه كالظلة فإذا أقلع رجع إليه.ى "د ك عن أبي هريرة"
12999 بندہ جب زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل کر اس کے سر پر مثل سائے کے چلائے جاتا ہے، جب بندہ نکال لیتا ہے تو اس کا ایمان واپس آجاتا ہے۔ ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

13000

13000- إذا ظهر الزنا والربا في قرية فقد أحلوا بأنفسهم عذاب الله. "طب عن ابن عباس".
13000 جس کسی بستی میں زنا اور سود عام ہوجاتا ہے تو وہ لوگ اپنے اوپر اللہ کا عذاب واجب کرلیتے ہیں۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

13001

13001- اشتد غضب الله على الزناة. "أبو سعد الجرباذقاني في جزئه وأبو الشيخ في عواليه فر عن أنس".
13001 زانیوں پر اللہ کا غضب شدید ہوتا ہے۔
ابوسعد الجر باذقانی فی جزہ وابو الشیخ فی عوالیہ، مسند الفردوس للدیلمی عن انس (رض)
کلام : کشف الخفاء 369، ضعیف الجامع 858 ۔

13002

13002- اشتد غضب الله على امرأة أدخلت على قوم ولدا ليس منهم يطلع على عوراتهم ويشركهم في أموالهم. "البزار عن ابن عمر".
13002 اس عورت پر اللہ کا غضب شدید ترین ہوتا ہے جو کسی خاندان میں ایسا لڑکا شامل کردیتی ہے جو ان میں سے نہیں ہوتا پھر وہ ان کی باپردہ عورتوں کے پاس آتا جاتا ہے اور ان کے مال و دولت میں (ناجائز) حصہ دار بن جاتا ہے۔ مسند البزار عن ابن عمر (رض)
فائدہ : یعنی زنا کے نتیجے میں ہونے والے بچے کو شوہر کی اولاد باور کراکر اس کے خاندان میں شامل کردیتی ہے۔
کلام : ضعیف الجامع 1734 ۔

13003

13003- إن الله تعالى يدنو من خلقه فيغفر لمن استغفر إلا البغي بفرجها والعشار. "طب عد عن عثمان بن أبي العاص".
13003: بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو قریب کریں گے پھر جس کی چاہیں گے بخشش کردیں گے سوائے اس آدمی کے جو اپنی شرمگاہ کا غلط استعمال کرے اور سامان کا ٹیکس وصول کرے۔ طبرانی، ابن عدی فی الکامل عن عثمان بن ابی العاص۔

13004

13004- إن الزناة يأتون تشتعل وجوههم نارا. "طب عن عبد الله بن بشر"1
13004 زانی (قیامت کو) اس حال میں آئیں گے کہ ان کے چہرے آگ سے بھڑکتے ہوں گے۔ الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن بشر۔
کلام : امام بیہقی (رح) نے فرمایا کہ اس کو محمد بن عبدالہل بن بسر نے اپنے والد کے طریق سے نقل کیا ہے اور میں اس کو نہیں جانتا جبکہ بقیہ روات ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد 255/6
غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی (رح) نے اس روایت کو ضعف کے حوالے سے ضعیف الجامع 1465 پر نقل فرمایا ہے۔

13005

13005- إن السموات السبع والأرضين السبع والجبال لتلعن الشيخ الزاني، وإن فروج الزناة ليؤذي أهل النار نتن ريحها. "البزار عن بريدة"2
13005 ساتوں آسمان ، ساتوں زمین اور پہاڑ بوڑھے زنا کار پر لعنت کرتے ہیں۔ اور قیامت کے روز زانیوں کی شرم گاہوں کی بدبو سارے جہنمیوں کو تکلیف دے گی۔ مسند البزار عن بریدۃ
کلام : یہ روایت حضرت بریدہ (رض) سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح مروی ہے امام بزار (رح) نے دونوں طرح اس کو روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں صالح بن حبان ضعیف راوی ہے۔ مجمع الزوائد 255/6 ۔ ضعیف الجامع 1469

13006

13006- أوشك أن تستحل أمتي فروج النساء والحرير. "ابن عساكر عن علي".
13006 عنقریب میری امت عورتوں کی شرمگاہوں اور ریشم کے لباس کو حلال سمجھ لے گی۔
ابن عساکر عن علی (رض)
کلام : ضعیف الجامع 2117 ۔

13007

13007- إياكم والزنا، فإن فيه أربع خصال: يذهب البهاء عن الوجه، ويقطع الرزق، ويسخط الرحمن والخلود في النار. "طس عد عن ابن عباس"1
13007 زنا سے بچو ۔ بیشک اس میں چار آفتیں ہیں : چہرے کی رونق چلی جاتی ہے، رزق ختم ہوجاتا ہے، رحمن کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور جہنم میں ہمیشگی کا ذریعہ بنتا ہے۔
الاوسط للطبرانی، الکامل لابن عدی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت کی سند میں عمرو بن جمیع متروک راوی ہے مجمع الزوائد 255/6 ۔ التنزیہ 227/2، ذخیرۃ الحفاظ 2237

13008

13008- أيما امرأة أدخلت على قوم من ليس منهم فليست من الله في شيء، ولن يدخلها الله جنته، وأيما رجل جحد ولده وهو ينظر إليه احتجب الله تعالى منه وفضحه على رؤس الأولين والآخرين يوم القيامة. "د ن هـ حب ك عن أبي هريرة"
13008 جو عورت (ناجائز اولاد کے ذریعہ کسی قوم میں ایسا فرد داخل کرے جو ان میں سے نہیں ہے تو اللہ کے ہاں اس عورت کی کچھ اہمیت نہیں اور اللہ پاک اس کو اپنی جنت میں داخل نہ فرمائے گا۔ ) جو آدمی اپنی اولاد کا انکار کرے اور وہ (اولاد) اس کو (حسرت بھری نگاہوں سے) دیکھ رہی ہے تو اللہ پاک قیامت کے دن اس سے پھر حجاب فرمائے گا اور اس روز اس کو اولین وآخرین سب کے سامنے رسوا وفضیحت کرے گا۔
ابوداؤد ، النسائی، ابن ماجہ، ابن حبان، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : زوائد ابن ماجہ میں مذکورہ ہے کہ اس مذکورہ روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں یحییٰ بن حرب ضعیف راوی ہے۔ ابن ماجہ کتاب الفرائض باب من انکرولدہ رقم 3743، نیز دیکھئے : ضعیف الجامع 2221 ۔

13009

13009- السحاق بين النساء زنا بينهن. "طب عن واثلة"
13009 عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے کو بوس وکنار کرنا اور رگڑنا ان کے آپس کا زنا ہے۔
الکبیر للطبرانی عن واثلۃ
یہی روایت مسند ابی یعلی میں بایں الفاظ مذکور ہے سحاق النساء بینھن زنا جبکہ طبرانی کے الفاظ ہیں السحاق بین النساء زنا بینھن ، مسند ابی یعلیٰ کی روایت کے رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے مجمع الزوائد 256/6 ۔
کلام : مذکورہ روایت طبرانی محل کلام ہے دیکھئے المغیر 78، ضعیف الجامع : 3338 ۔

13010

13010 - سحاق النساء زنا بينهن. "هب عن واثلة".
13010 عورتوں کا (شہوت کے مارے) آپس میں ایک دوسرے کو بھینچنا ان کا آپس کا زنا ہے۔ شعب الایمان للبیہقی عن والتۃ سحاق النساء زنا بینھن
کلام : روایت محل کلام ہے دیکھئے : اسنی المطالب 750، ضعیف الجامع 3262 ۔

13011

13011- عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم، ومن أتاه أخوه متنصلا فليقبل ذلك منه محقا كان أو مبطلا فإن لم يفعل لم يرد علي الحوض. "ك عن أبي هريرة"
13011 لوگوں کی عورتوں سے پاکدامنی برتو تو تمہاری عورتیں پاکدامن بن جائیں گی۔ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا سلوک رکھو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی برتے گی ۔ اور جس شخص کے پاس اس کا کوئی (مسلمان) بھائی اپنی غلطی کی معذرت کرنے آئے خواہ وہ حق پر تھا یا باطل پر تو اس اپنے بھائی کی معذرت قبول کرنا چاہیے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ میرے پاس (کل کو) حوض پر نہ آسکے گا۔ مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : امام ذھبی (رح) فرماتے ہیں روایت کی سند میں سوید ضعیف ہے۔ مستدرک الحاکم کتاب البروالصلۃ 154/4 ۔ نیز دیکھئے ضعیف الجامع 3715، الضعیفۃ 2043 ۔

13012

13012- عفوا تعف نساؤكم وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم ومن اعتذر على أخيه المسلم من شيء بلغه منه، فلم يقبل عذره لم يرد علي الحوض. "طس عن عائشة".
13012 پاکدامن رہو، تمہاری عورتیں پاکدامن ہوجائیں گی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔ اور جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے کسی چیز پر معذرت کی جو اس بھائی کو اس کی طرف سے پہنچی تھی مگر اس نے اس کی معذرت قبول نہ کی تو وہ میرے پاس حوض پر نہ آسکے گا۔ الاوسط للطبرانی عن عائشۃ (رض)
کلام : اسنی المطالب 886، التنزیہ 227/2 ۔ روایت محل کلام ہے۔

13013

13013- عفوا تعف نساؤكم. "أبو القاسم بن بشران في أماليه عد عن ابن عباس".
13013 پاکدامنی برتو تمہاری عورتیں پاکدامن ہوجائیں گی۔
ابوالقاسم بن بشر ان فی امالیہ، الکامل لا بن عدی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 3505، تذکرۃ الموضوعات 180 ۔

13014

13014- عشر خصال عملها قوم لوط بها أهلكوا وتزيدها أمتي بخلة والخذف ولعبهم بالحمام وضرب الدفوف، وشرب الخمور، وقص اللحية، وطول الشارب والصفير والتصفيق، ولباس الحرير، ويزيدها أمتي بخلة إتيان النساء بعضهن بعضا. "ابن عساكر عن الحسن" مرسلا.
13014 دس مہلک گناہ جن پر قوم لوط چلی ، جن کے سبب وہ ہلاک ہوئے میری امت ان میں بھی ایک اور گناہ کا اضافہ کرے گی۔ آدمیوں کا ایک دوسرے سے مباشرت کرنا ، غلیلوں کے ساتھ پتھر مارنا، سنگ بازی کرنا، حمام میں کھیلنا، دف بجانا، شراب نوشی کرنا، ڈاڑھی کاٹنا، مونچھیں لمبی کرنا، سیٹی بجانا، تالیاں پیٹنا، ریشم پہننا اور میری امت ان میں ایک گناہ کا اضافہ کرے گی وہ ہے عورت کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مباشرت کرنا۔ ابن عساکر عن الحسن ، مرسلاً
کلام : حدیث پر علامہ البانی (رح) نے کلام فرمایا ہے دیکھئے ضعیف الجامع 3711 ۔ الضعیفۃ 1233 ۔

13015

13015- لا تزوج المرأة المرأة، ولا تزوج المرأة نفسها، فإن الزانية التي تزوج نفسها. "هـ عن أبي هريرة"
13015 عورت عورت کی شادی نہ کرے اور نہ عورت اپنی شادی خود کرے۔ بیشک وہ زانیہ ہے جو اپنا نکاح خود کرے۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : ابن ماجہ کتاب النکاح باب لا نکاح الابولی رقم 1882 ۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند میں جمیل بن حسین عتکی ہے جس کے متعلق صرف سلمۃ اندلسی کا ثقہ کا قول مروی ہے۔ جبکہ باقی رجال ثقات ہیں۔ بنا بریں اس پر کلام کیا گیا ہے دیکھئے : ضعیف ابن ماجہ 412 ضعیف الجامع 6214 ۔

13016

13016- إن أعمال أمتي تعرض على في كل يوم جمعة واشتد غضب الله على الزناة. "حل عن أنس"2
13016 میری امت کے اعمال مجھ پر ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ کا غضب زانیوں پر شدید ترین ہوتا ہے۔ حلیۃ الاولیاء عن انس (رض)

13017

13017- الزنا يورث الفقر. "هب عد ك في تاريخه والقضاعي عن ابن عمر".
13017 زنا فقر کو پیدا کرتا ہے۔
شعب الایمان للبیہقی، الکامل لابن عدی، الحاکم فی التاریخ ، القضاعی عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب 738، ذخیرۃ الحفاظ 3116 ۔

13018

13018- لا ينظر الله عز وجل إلى الشيخ الزاني والعجوز الزانية. "طب في السنة عن أبي هريرة"3
13018 اللہ عزوجل زانی بوڑھے اور زانیہ بڑھیا کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا۔
الکبیر للطبرانی فی السنۃ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : امام ہیثمی (رح) فرماتے ہیں طبرانی (رح) نے اوسط میں اپنے شیخ موسیٰ بن سہل سے اس کو روایت کیا ہے اور میں اس کو نہیں جانتا جبکہ اس کے باقی راوی ثقہ ہیں مجمع الزوائد 255/6 ۔

13019

13019- يا شباب قريش، لا تزنوا ألا من حفظ فرجه فله الجنة. "ك عن ابن عباس".
13019 اے نوجوانان قریش ! زناکاری مت کرو۔ یاد رکھو ! جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اس کے لیے جنت ہے۔ مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)

13020

13020- يا فتيان قريش، لا تزنوا فإنه من أسلم له شبابه دخل الجنة. "طب هب عن ابن عباس".
13020 اے قریش کے جوانو ! زنا مت کرو۔ بیشک جس کی جوانی غلط کاری سے محفوظ رہی وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13021

13021- يا معشر شباب قريش، احفظوا فروجكم، ولا تزنوا ألا من حفظ فرجه فله الجنة. "طب هب عن ابن عباس".
13021 اے قریش کے نوجوان گروہ ! اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھو اور زنا کاری مت کرو۔ یاد رکھو ! جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اس کے لیے جنت ہے۔
الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13022

13022- يا معشر المسلمين؛ اتقوا الزنا، فإن فيه ست خصال: ثلاث في الدنيا، وثلاث في الآخرة، فأما اللواتي في الدنيا، فيذهب ببهاء الوجه ويورث الفقر وينقص العمر، وأما اللاتي في الآخرة فيورث السخط وسوء الحساب والخلود في النار. "الخرائطي في مساوي الأخلاق حل هب* وضعفه* وأبو الفتح الراشدي في جزئه والرافعي عن حذيفة".
13022 اے گروہ مسلمانان ! زنا سے بچو، اس میں چھ آفات ہیں : تین دنیا کی اور تین آخرت کی، دنیا کی تین یہ ہیں : چہرے کی رونق چلی جاتی ہے، فقروفاقہ آجاتا ہے اور عمر گھٹ جاتی ہے۔ آخرت کی تین یہ ہیں : اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے، حساب سخت لیا جاتا ہے اور جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا جاتا ہے۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق، حلیۃ الاولیاء، شعب الایمان للبیہقی وضعفہ، ابوالفتح الراشدی فی جزہ والرافعی عن حذیفۃ۔
کلام : روایت ضعیف ہے کشف الخفاء 1427

13023

13023- لا يدخل الجنة من زنى بذات محرم. "عب عن مجاهد" مرسلا.
13023 جس نے کسی محرم کے ساتھ زنا کیا وہ ہرگز جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔
المصنف لعبد الرزاق عن مجاھد، مرسلاً

13024

13024- لا يدخل الجنة من أتى ذات محرم. "الخرائطي عن ابن عمرو" "طب حل عن ابن عباس".
13024 جوذی محرم کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہوا جنت میں داخل نہ ہوگا۔
الخرائطی عن ابن عمرو، الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابن عباس (رض)

13025

13025- التي تورث المال غير أهله، عليها نصف عذاب الأمة. "عب عن الحكم بن ثوبان" مرسلا.
13025 جو عورت مال غیر اہل خانہ کو دے اس کے لیے باندی کے عذاب کا نصف ہے۔
المصنف لعبد الرزاق عن الحکم بن ثوبان مرسلاً شرح کے لیے روایت 12997 ملاحظہ فرمائیں۔

13026

13026- على كل نفس من بني آدم كتب حظ من الزنا أدرك ذلك لا محالة، فالعين زناها النظر، والرجل زناها المشي، والأذن زناها الاستماع، واليد زناها البطش، واللسان زناه الكلام، والقلب أن يتمنى ويصدق ذلك أو يكذبه الفرج. "ك عن أبي هريرة".
13026 ہر بنی آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جو اس کو پہنچ کررہے گا۔ پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، پاؤں کا زنا چلنا ہے، کان کا زنا سننا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل تمنا کرتا ہے پھر شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا اس کو جھٹلاتی ہے۔
مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)

13027

13027- رأيت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما. "حم ت عن علي"
13027 میں نے نوجوان مرد اور نوجوان عورت کو دیکھا پس میں ان دونوں پر شیطان کی طرف سے مطمئن نہیں۔ مسند احمد ، الترمذی عن علی (رض) الترمذی حسن صحیح۔

13028

13028- لا تلجوا على المغيبات فإن الشيطان يجري من أحدكم مجرى الدم [قلنا ومنك؟ قال] ومني ولكن الله أعانني عليه فأسلم. "حم ت عن جابر"
13028 تنہا عورتوں کے پاس نہ جایا کرو۔ بیشک شیطان تم میں سے ہر کسی میں خون کی طرح دوڑتا ہے (صحابہ (رض)) فرماتے ہیں : ہم نے پوچھا : اور کیا آپ میں بھی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اور ہا (رح) مجھ میں بھی لیکن اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا ہے (یعنی بےضرر ہوگیا ہے) ۔ مسند احمد، الترمذی عن جابر (رض)
کلام : امام ترمذی (رح) نے اس کو کتاب الرضاع باب رقم 17 رقم 172 پر روایت کرکے حدیث غریب یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے۔ نیز دیکھئے ضعیف الجامع 6272 ۔

13029

13029-[ألا] لا يبيتن رجل عند امرأة في بيت إلا أن يكون ناكحا أو ذا محرم. "م عن جابر"
13029 خبردار ! کوئی آدمی کسی عورت کے پاس ایک کمرے میں رات نہ گزارے مگر یہ کہ وہ اس کے نکاح میں ہو یا وہ اس کا ذی محرم ہو۔ مسلم عن جابر (رض)

13030

13030- أو كلما نفرنا في سبيل الله تخلف أحدهم له نبيب كنبيب التيس منح إحداهن الكثبة من اللبن، لا أقدر على أحدهم إلا نكلت به. "حم م عن جابر بن سمرة" "م عن أبي سعيد"
13030 کیا بات ہے جب بھی ہم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلتے ہیں تو ان (منافقوں) میں ایک آدھا ضرور پیچھے رہ جاتا ہے اور بکرے کی طرح (شہوت سے ) بلبلاتا پھرتا ہے پھر کسی عورت کو تھوڑا سا دودھ دے کر برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ میں ایسے کسی پر قادر ہوا تو اس کو عبرت ناک سزا دوں گا۔ مسند احمد، مسلم عن جابر بن سمرۃ ، مسلم عن ابی سعید (رض)

13031

13031- لا يدخلن رجل بعد يومي هذا على مغيبة إلا ومعه رجل أو اثنان. "حم م عن ابن عمر"
13031 آج کے اس دن کے بعد کوئی مرد کسی عورت کے پاس جس کا شوہر موجود نہ ہو ہرگز داخل نہ ہوا لایہ یہ کہ اس کے پاس ایک یا دو آدمی ہوں۔ مسند احمد، مسلم عن ابن عمر (رض)

13032

13032- لا يفضين5 رجل إلى رجل، وامرأة إلى امرأة، إلا إلى ولد أو والد. "د عن أبي هريرة"
13032 کوئی مرد کسی مرد کو اپنی عورت کی خلوت کی باتیں نہ بتائے اور نہ کوئی عورت دوسری عورت کو اپنے مرد کی خلوت کی باتیں بتائے۔ مگر اولاد یا والد کو (ضرورت کے موقع پر آگاہ کیا جاسکتا ہے) ۔ ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے۔ امام منذری (رح) فرماتے ہیں : اس میں ایک مجہول راوی ہے عون المعبود 61/11 ۔ نیز دیکھئے ضعیف الجامع 6358، المشتھر 126 ۔

13033

13033- أما بعد فما بال أقوام إذا غزونا تخلف أحدهم في عيالنا له نبيب كنبيب التيس أما إني علي أن لا أوتي بأحد فعل ذلك إلا نكلت به. "ك عن أبي سعيد".
13033 امابعد ! لوگوں کو کیا ہوگیا، جب ہم غزوہ پر جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی پیچھے ہمارے گھروں میں رہ جاتا ہے۔ اس کو بکرے کی طرح (شہوت کی وجہ سے) آوازیں نکلتی ہیں۔ بہرحال میرے پاس ایسا کوئی فرد لایا گیا تو میں اس کو عبرت ناک سزادوں گا۔
مستدرک الحاکم عن ابی سعید (رض)

13034

13034- مثل الذي يجلس على فراش المغيبة مثل الذي ينهشه أسود من أساود يوم القيامة. "طب والخرائطي في مساوي الأخلاق عن ابن عمرو"
13034 اس شخص کی مثال جو غیر موجود شوہر والی عورت کے بستر پر بیٹھے اس شخص کی ہے جس کو قیامت کے دن شیر نوچ رہے ہوں گے۔
الکبیر للطبرانی، الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن ابن عمرو رجال الطبرانی ثقان

13035

13035- إياك والخلوة بالنساء، فو الذي نفسي بيده ما خلا رجل بامرأة إلا دخل الشيطان بينهما، وليزحم رجل خنزيرا متلطخا بطين أو حمأة خير له من أن يزحم منكبه منكب امرأة لا تحل له. "طب عن أبي أمامة".
13035 عورتوں کی خلوت میں جانے سے گریز کر۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہوتا مگر شیطان ان کے درمیان ضرور آجاتا ہے اور کوئی آدمی کسی ایسے خنزیر کے ساتھ جو گاڑے کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہو رگڑ کر چلے اس سے کہیں بہتر ہے کہ کسی ایسی عورت کے شانے سے اس کا شانہ چھوڑے جو اس کے لیے حلال نہیں۔ الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)

13036

13036- إياكم ونساء الغزاة، فإن حرمتهن كحرمة أمهاتكم. "أبو الشيخ عن أنس".
13036 جہاد میں جانے والوں کی عورتوں کی حرمت کا لحاظ کرو۔ ان کی حرمت تمہاری ماؤں کی حرمت کی طرح ہے۔ ابوالشیخ عن انس (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے دیکھئے : ذخیرۃ الحفاظ 2240 ۔

13037

13037- لا تدخلوا على النساء ولو كن كنائنا، قالوا: يا رسول الله افرأيت الحمو1 قال: الحمو الموت. "طب عن عقبة بن عامر".
13037 عورتوں کے پاس داخل نہ ہو جب وہ تنہا ہوں۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! دیور کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ارشاد فرمایا : دیور تو موت ہے۔ الکبیر للطبرانی عن عقبۃ بن عامر

13038

13038- لا تدخلوا على هؤلاء المغيبات فإن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم، قيل: يا رسول الله ومنك؟ قال: ومني إلا أن الله أعانني عليه فأسلم. "ن عن جابر".
13038 ان غیر موجود شوہر والی عورتوں کے پاس نہ جایا کرو۔ بیشک شیطان ابن آدم میں خون کی جگہ دوڑتا ہے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! اور آپ کے اندر ؟ ارشاد فرمایا : اور میرے اندر بھی، مگر اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا ہے (یعنی اب وہ بےضرر ہوگیا ہے) ۔ النسائی عن جابر (رض)

13039

13039- لا تلجوا على المغيبات، فإن الشيطان يجري مجرى الدم. "حل عن ابن مسعود".
13039 غیر موجود محرم والی عورتوں کے پاس نہ جایا کرو۔ بیشک شیطان خون کی جگہ دوڑتا ہے۔ حلیۃ الاولیاء عن ابن مسعود (رض)

13040

13040- لا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر أن يخلوا بامرأة ليست ذات محرم ومعها ذو محرم. "عب عن طاوس" مرسلا.
13040 جو آدمی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ نامحرم عورت کے ساتھ خلوت گزینی کرے الایہ کہ اس کے ساتھ عورت کا کوئی محرم ہو۔ عبدالرزاق عن طاؤس ، مرسلاً

13041

13041- لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر امرأة إلا مع محرم. "طب هب عن ابن عباس".
13041 کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے الایہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ اور نہ کوئی عورت کسی محرم کے بغیر سفر کرے۔ الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13042

13042- لا يخلون رجل بامرأة فإن الشيطان ثالثهما. "طب عن سليمان بن بريدة عن أبيه"
13042 کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے کیونکہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن سلیمان بن بریدۃ عن ابیہ، اخرجہ الحاکم وقال صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذھبی

13043

13043- لا يدخل رجل على امرأة إلا ومعها محرم من دخل فليعلم أن الله معه. "هب عن ابن عباس".
13043 کوئی آدمی کسی عورت کے پاس نہ جائے الایہ یہ کہ عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔ اور جو جائے وہ اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13044

13044- لا يدخلن رجل على امرأة ولا يسافر معها إلا ومعها ذو محرم. "ق عن ابن عباس".
13044 کوئی آدمی کسی عورت کے پاس ہرگز داخل نہ ہو اور نہ اس کے ساتھ سفر کرے مگر یہ کہ عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔ السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13045

13045- لأن يكون في رأس رجل مشط من حديد حتى يبلغ العظم خير من أن تمسه امرأة ليست له بمحرم. "هب عن معقل".
13045 کسی آدمی کے سر میں لوہے کی کنگھی رگڑی جائے حتیٰ کہ وہ ہڈی تک پہنچ جائے اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ کوئی ایسی عورت اس کو چھوڑے جو اس کے لیے محرم نہیں۔
شعب الایمان للبیہقی عن معقل

13046

13046- لعن الله بيتا يدخله مخنث. "ابن النجار عن ابن عباس".
13046 اللہ پاک ایسے گھر پر لعنت فرماتا ہے جس میں کو مخنث (ہیجڑا) داخل ہوتا ہے۔
ابن النجار عن ابن عباس (رض)

13047

13047- يا أنة اخرج من المدينة إلى حمراء الأسد فليكن بها منزلك ولا تدخلن المدينة إلا أن يكن للناس عيد فتشهده. "الباوردي عن عائشة".
13047 اے انۃ مدینہ سے نکل جا اور حمراء الاسد چلا جا۔ وہیں تیرا رہن سہن ہونا چاہیے۔ اور مدینہ میں ہرگز داخل نہ ہو۔ ہاں صرف لوگوں کی عید کا دن ہو تو آسکتا ہے۔ اب اور دی عن عائشہ (رض)
فائدہ : اللہ حفظ وامان میں رکھے۔ یہ حکم اصلی مخنثوں کے لیے ہے۔ جبکہ ہمارے زمانے میں جو بناوٹی ہیجڑے گھروں میں پھرتے ہیں ان کے لیے گھر دن میں داخل ہونا کس قدر سخت ممنوع ہوگا۔

13048

13048- لكل ابن آدم حظه من الزنا، فزنا العينين النظر، وزنا اللسان المنطق، والأذنان زناهما الاستماع، واليدان تزنيان، فزناهما البطش، والرجلان تزنيان، فزناهما المشي، والفم يزني فزناه القبل. "د عن أبي هريرة"
13048 ہر ابن آدم کے لیے زنا کا حصہ ہے۔ لہٰذا آنکھوں کا زنا (بدنظری) دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں، پس ان کا زنا پکڑنا ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں پس ان کا زنا چلنا ہے اور منہ بھی زنا کرتا ہے اس کا زنا بوسہ لینا ہے۔
ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)

13049

13049- إن الله تعالى كتب على ابن آدم حظه من الزنا أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تتمنى وتشتهي والفرج يصدق ذلك أو يكذبه. "ق د عن أبي هريرة"
13039 اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جو اس کو لامحالہ پہنچ کر رہتا ہے۔ پس آنکھوں کا زنا بدنظری ہے، زبان کا زنا بولنا ہے۔ نفس تمنا کرتا ہے اور للچاتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ البخاری ، مسلم، ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)

13050

13050- إذا رأى أحدكم المرأة التي تعجبه فليرجع إلى أهله حتى يقع بهم فإن ذلك معهم. "حب عن جابر".
13050 جب تم میں سے ایسی کسی عورت کو دیکھے جو اس کو اچھی لگے تو وہ آکر اپنی گھر والی کے ساتھ ہم بستر ہوجائے کیونکہ اس کے ساتھ وہی کچھ ہے۔ ابن حبان عن جابر (رض)

13051

13051- إن المرأة إذا أقبلت أقبلت في صورة شيطان فإذا رأى أحدكم امرأة تعجبه، فليأت أهله فإن الذي معها مثل ما معها. "ت حب عن جابر"2
13051 عورت جب متوجہ ہوتی ہے تو شیطان کی صورت میں متوجہ ہوتی ہے پس جب تم میں سے کوئی کسی خوبصورت عورت کو دیکھے جو اس کو بہا جائے تو وہ اپنے گھر والی کے پاس آئے۔ بیشک اس کے پاس بھی وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔
الترمذی ، ابن حبان عن جابر (رض) ، قال الترمذی حسن غریب

13052

13052- لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل، ولا تنظر المرأة إلى عورة المرأة، ولا يفضي الرجل إلى الرجل في ثوب واحد، ولا تفضي المرأة إلى المرأة في الثوب الواحد. "حم م د ت عن أبي سعيد" وروى "هـ" صدره.
13052 کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی شرمگاہ نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کی شرم گاہ نہ دیکھے۔ کوئی آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ ایک کپڑے میں اکٹھا نہ ہو اور نہ کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں اکٹھی ہو۔
مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد، الترمذی عن ابی سعید (رض) وردی ابن ماجہ صدرہ

13053

13053- يا علي لا تتبع النظرة النظرة فإن لك الأولى وليست لك الآخرة. "حم د ت ك عن بريدة"
13053 اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ اٹھا۔ تیرے لیے پہلی نظر معاف ہے۔ دوسری نہیں۔ مسند احمد، ابوداؤد، الترمذی ، مستدرک الحاکم عن بریدۃ

13054

13054- إذا رأى أحدكم امرأة حسناء فأعجبته فليأت أهله فإن البضع2 واحد ومعها مثل الذي معها. "خط عن عمر".
13054 جب تم میں سے کوئی حسین عورت کو دیکھے جو اس کو اچھی لگے تو وہ اپنی گھر والی کے پاس آجائے بیشک شرم گاہ تو ایک ہے، اس کے پاس بھی وہی ہے جو اس کے پاس ہے۔
الخطیب فی التاریخ عن عمر (رض)
کلام : ضعیف الجامع 496 ۔ روایت ضعیف ہے۔

13055

13055- زنا العين النظر. "ابن سعد طب عن علقمة بن الحارث"
13055 آنکھ کا زنا بدنظری ہے۔ ابن سعد، الکبیر للطبرانی عن علقمۃ بن الحارث

13056

13056- إن المراة تقبل في صورة شيطان وتدبر في صورة شيطان فإذا رأى أحدكم امرأة فأعجبته فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه. "حم د عن جابر".
13056 عورت شیطان کی صورت میں آگے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں پیٹھ دکھاتی ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے جو اس کو بہا جائے تو اپنی اہلیہ کے پاس آجائے، اس سے اس کے دل کی وہ کیفیت دور ہوجائے گی۔ مسند احمد، ابوداؤد، عن جابر (رض)

13057

13057- زنا اللسان الكلام. "أبو الشيخ عن أبي هريرة".
13057 زبان کا زنا (شہوت سے) کلام کرنا ہے۔ ابوالشیخ عن ابوہریرہ (رض)

13058

13058- اصرف بصرك. "حم م عن جرير".
13058 اپنی نگاہ پھیر لے۔ مسند احمد، مسلم، ابوداؤد ، الترمذی ، النسائی عن جریر

13059

13059- ما من مسلم ينظر امرأة أول رمقة ثم يغض بصره إلا أحدث الله تعالى له عبادة يجد حلاوتها في قلبه. "حم طب عن أبي أمامة".
13059 جس مسلمان کی نظر کسی عورت پر پڑی پھر اس نے اپنی نظر نیچے کرلی تو اللہ پاک اس کو ایسی عبادت کی توفیق بخشے گا جس کی لذت وہ اپنے قلب میں محسوس کرے گا۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے ضعیف الجامع مع 5221 ۔

13060

13060- إياكم والدخول على النساء. "حم ق ن عن عقبة بن عامر".
13060 عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی عن عقبۃ بن عامر

13061

13061- إ ياكم ومحادثة النساء فإنه لا يخلو رجل بامرأة ليس لها محرم إلا هم بها. "الحكيم في كتاب أسرار الحج عن سعد بن مسعود".
13061 عورتوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے پرہیز برتو۔ بیشک جو کسی عورت کے ساتھ خلوت کرتا ہے جبکہ عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو تو ضرور وہ اس کے متعلق برے خیال میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الحکیم فی کتاب اسرار الحج عن سعدبن مسعود
کلام : ضعیف الجامع 2213 ۔

13062

13062- العينان تزنيان، واليدان تزنيان، والرجلان تزنيان، والفرج يزني. "حم طب عن ابن مسعود".
13062 آنکھیں زنا کرتی ہیں، ہاتھ زنا کرتے ہیں، پاؤں زنا کرتے ہیں اور شرمگاہ زنا کرتی ہے۔ مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

13063

13063- غضوا الأبصار، واهجروا الدعار واجتنبوا أعمال أهل النار. "طب عن الحكم بن عمير".
13063 نظریں نیچی رکھو، شریر ومفسد لوگوں سے پرہیز کرو اور اہل جہنم کے اعمال سے اجتناب برتو۔ الکبیر للطبرانی عن الحکم بن عمیر۔
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 3596، ضعیف الجامع 3915 ۔

13064

13064- كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة فالعينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج ويكذبه. "م عن أبي هريرة"
13064 ابن آدم کے لیے زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے، جو اس کو لامحالہ مل کررہے گا ۔ پس آنکھوں کا زنا بدنظری ہے، کانوں کا زنا (شہوت سے) سننا ہے، زبان کا زنا (شہوت سے) کلام کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (شہوت سے) پکڑنا ہے، پاؤں کا زنا (شہوت سے) قدم اٹھانا ہے، دل خواہش کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے اور پھر شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ مسلم عن ابوہریرہ (رض)

13065

13065- لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له. "طب عن معقل بن يسار".
13065 کسی کے سر میں لوہے کی کنگھی سے چھید کئے جائیں یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہ ہو۔ الکبیر للطبرانی عن معقل بن یسار

13066

13066- أفعمياوان أنتما؟ ألستما تبصرانه. "حم د ت حسن صحيح عن أم سلمة"
13066 کیا تم بھی دونوں اندھی ہو ؟ کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔
مسند احمد ، ابوداؤد ، الترمذی حسن صحیح عن ام سلمۃ (رض)
فائدہ : حضرت ام سلمہ (رض) اور ایک اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی گھر میں تھے اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) تشریف لائے۔ دونوں نے پردے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں بیویوں سے پردہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے عرض کیا یہ تو نابینا ہیں ان سے کیا پردہ ! تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

13067

13067- إن المرأة سهم من سهام إبليس، فمن رأى امرأة ذات جمال فغض بصره عنها ابتغاء مرضاة الله أعقبه الله عبادة يجد لذتها. "ابن النجار عن أبي هريرة".
13067 عورت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ پس جس کی نظر کسی خوبصورت عورت پر پڑے پھر وہ اللہ عزوجل کی رضاوخوشنودی کے لیے اپنی نگاہ نیچی کرلے تو اللہ پاک اس کو ایسی عبادت کی توفیق مرحمت فرماتا ہے جس کی لذت وہ (اپنے دل میں) محسوس کرتا ہے۔
ابن النجار عن ابوہریرہ (رض)

13068

13068- إن النظر سهم من سهام إبليس مسموم، من تركها مخافتي أبدلته إيمانا يجد حلاوته في قلبه. "طب عن ابن مسعود".
13068 نظر ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو اس کو میرے خوف کی وجہ سے بچالے میں اس کے بدلے اس کو ایسا ایمان نصیب کرتا ہوں جس کی حلاوت وہ اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

13069

13069- مرت بي فلانة فوقعت في نفسي شهوة النساء، فقمت إلى بعض أهلي فوضعت شهوتي فيها وكذلك فافعلوها، فإنه من أماثل أعمالكم إتيان الحلال. "حم والحكيم طب عن أبي كبشة".
13069 میرے پاس سے فلانی عورت گزری تو میرے اندر عورتوں کی قربت کی شہوت پیدا ہوگئی۔ چنانچہ میں اٹھ کر اپنی ایک اہلیہ کے پاس آیا اور اپنی شہوت اس سے پوری کی۔ اسی طرح تم کیا کرو۔ بیشک تمہارے اعمال میں سے عمدہ ترین اعمال حلال چیزوں سے اپنی خواہش پوری کرنا ہے۔ مسند احمد، الحکیم، الکبیر للطبرانی عن ابی کبشہ

13070

13070- أيما رجل رأى امرأة فأعجبته فليقم إلى أهله، فإن معها مثل الذي معها. "هب عن ابن مسعود".
13070 جو آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اس کو اچھی لگے تو وہ اٹھ کر اپنی اہلیہ کے پاس چلا جائے۔ بیشک اس کے پاس بھی ویسی شے ہے جو اس کے پاس ہے۔
شعب الایمان للبیہقی عن ابن مسعود (رض)

13071

13071- إنه يكره للنساء أن ينظرن إلى الرجال، كما يكره للرجال أن ينظروا إلى النساء. "طب عن أم سلمة" وضعف.
13071 عورتوں کے لیے اسی طرح مردوں کی طرف دیکھنا مکروہ ہے جس طرح مردوں کو عورتوں کی طرف دیکھنا مکروہ ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ام سلمۃ (رض)
کلام : روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

13072

13072- إياك والنظرة بعد النظرة، فإن الأولى لك والثانية عليك. "الحاكم في الكنى عن بريدة".
13072 ایک نظر پڑنے کے بعد دوسری نظر ڈالنے سے اجتناب کرو۔ بیشک پہلی تمہارے لیے (معاف ) ہے۔ دوسری تم پر وبال ہے۔ الحاکم فی الکنی عن بریدۃ (رض)

13073

13073- النظرة الأولى خطأ، والثانية عمد، والثالثة تدمر، ونظر المؤمن في محاسن المرأة سهم من سهام إبليس مسموم، من تركها من خشية الله ورجاء ما عنده آتاه الله بذلك عبادة تبلغه لذتها. "حل عن ابن عمر".
13073 پہلی نظر بھول چوک ہوتی ہے، دوسری نظر جان بوجھ کر ہوتی ہے اور تیسری نظر ہلاک کردیتی ہے۔ مومن کی عورتوں کے حسن و جمال میں نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے اللہ کی خشیت اور جنت کے اشتیاق میں اپنی نظر کو بچالیا اللہ پاک اس کو اس کے بدلے ایسی عبادت کی توفیق مرحمت فرمائیں گے جس کی لذت وہ محسوس کرے گا۔
حلیۃ الاولیاء عن ابن عمر (رض)

13074

13074- اصرف بصرك. "حم م ت حسن صحيح ن عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير عن جده" قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نظرة الفجاءة قال فذكره. مر برقم [13058] .
13074 اپنی نگاہ پھیرلے۔
مسند احمد، مسلم، الترمذی حسن صحیح، النسائی عن ابی زرعۃ بن عمرو بن جریر عن جدہ
فائدہ : مذکورہ صحابی (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر پڑنے کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔ 13058 ۔

13075

13075- النظرة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن تركها من خوف الله أثابه الله إيمانا يجد حلاوته في قلبه. "ك وتعقب عن حذيفة".
13075 بدنظری ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے اس کو اللہ کے خوف سے روک لیا اللہ پاک اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے جس کی حلاوت کو وہ اپنے قلب میں محسوس کرلے گا۔ مستدرک الحاکم عن حذیفہ (رض)
کلام : امام ذہبی (رح) نے اس پر امام حاکم سے اختلاف فرمایا ہے اور سند پر کلام کیا ہے نیز دیکھئے : الاتقان 2193

13076

13076- النظرة إلى محاسن المرأة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن صرف بصره عنها رزقه الله عبادة يجد حلاوتها. "الحكيم عن علي".
13076 عورت کے حسن و جمال پر پڑنے والی نظر ابلیس کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہوتی ہے جو اس کو پھیر لیتا ہے اللہ اس کو ایسی عبادت کی توفیق مرحمت فرماتا ہے جس کی حلاوت کو وہ محسوس کرتا ہے۔ الحکیم عن علی (رض)

13077

13077- لا تملئوا أعينكم من أبناء الملوك، فإن لهم فتنة أشد من فتنة العذارى. "عد وابن عساكر عن أبي هريرة" وفيه عمرو بن عمرو الطحان حدث بالبواطيل عن الثقات قال "عد" هذا الحديث موضوع وقال في الميزان هو من بلاياه
13077 اپنی نظریں بادشاہوں کے لڑکوں سے نہ بھرو۔ ان کو فتنہ تو کنواری لڑکیوں کے فتنے سے زیادہ سخت ہے۔ الکامل لابن غدی، ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت کی سند میں عمرو بن عمروالطحان ہے جو ثقہ راویوں سے باطل اور من گھڑت روایتیں منسوب کرتا ہے۔ ابن عدی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ممنوع ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے کہ یہ روایت اس (عمرو) کی آفت زدہ ہے۔ امام عجلونی (رح) نے کشف الخفاء رقم 3053 پر اس کو (موضوع کے حوالے سے) شمار کیا ہے۔ اللآلی میں بھی اس کو موضوع کہا گیا ہے۔

13078

13078- من نظر إلى عورة أخيه متعمدا لم يقبل الله له صلاة أربعين ليلة. "ابن عساكر عن أبي هريرة".
13078: جس شخص نے اپنے بھائی کا ستر جان بوجھ کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں فرمائیں گے۔ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض) ۔

13079

13079- نظر الرجل إلى عورة أخيه كنظره إلى الفرج الحرام. "الحاكم في الكنى والديلمي عن ابن عمر".
13079: آدمی کا اپنے بھائی کے ستر کو دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے فرج حرام (شرمگاہ) کو دیکھنا۔ (الحاکم فی الکنی والدیلمی عن ابن عمر (رض)۔

13080

13080- لا يحل لرجل أن ينظر إلى سوءة أخيه. "عد والحاكم في الكنى وابن عساكر عن ابن عمر".
13080: آدمی کے لیے اپنے بھائی کی شرمگاہ دیکھنا حلال نہیں۔ ابن عدی فی الکامل الحاکم والکنی، ابن عساکر عن ابن عمر (رض)۔

13081

13081- كان خطيئة داود النظر. "الديلمي عن سمرة".
13081: حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خطا دیکھنا تھا۔ الدیلمی عن سمرۃ (رض) ۔

13082

13082- لتغضن أبصاركم، ولتحفظن فروجكم، ولتقيمن وجوهكم، أو ليكسفن وجوهكم. "طب عن أبي أمامة".
13082: اپنی نظروں کو پست رکھو اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھو اور اپنی وجاہت قائم رکھو وگرنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کو بدل ڈالیں گے۔ طبرانی عن ابی امامۃ (رض) ۔
کلام۔۔۔ روایت کی سند میں عمرو بن عمرو الطحان ہے جو ثقہ راویوں سے باطل اور من گھڑت روایتیں منسوب کرتا ہے۔ ابن عدی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ممنوع ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے کہ یہ روایت اس (عمرو) کی آفت زدہ ہے۔ امام عجلونی (رح) نے کشف الخفاء رقم 3053 پر اس کو (موضوع کے حوالے سے) شمار کیا ہے۔ اللآلی میں بھی اس کو موضوع کہا گیا ہے۔

13083

13083- لا تباشر المرأة المرأة إلا وهما زانيتان، ولا يباشر الرجل الرجل إلا وهما زانيان. "طب عن أبي موسى".
13083 کوئی عورت دوسری عورت سے مباشرت کرتی ہے تو وہ دونوں زانیہ شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کوئی مرد دوسرے مرد سے مباشرت کرتا ہے تو وہ بھی دونوں زانی شمار ہوتے ہیں۔
الکبیر الطبرانی عن ابی موسیٰ

13084

13084- لا يباشر الرجل الرجل في الثوب الواحد، ولا تباشر المرأة المرأة في الثوب الواحد. "حم ص عن جابر".
13084 کوئی آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ ایک کپڑے میں اکٹھا نہ ہو اور نہ کوئی دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں اکٹھا ہو۔ مسند احمد، السنن لسعید بن منصور عن جابر (رض)

13085

13085- لا يباشر الرجل الرجل، إلا الولد والوالد. "ك في تاريخه عن أبي هريرة".
13085 کوئی آدمی کسی آدمی کے ساتھ مل کر نہ لیٹے سوائے باپ بیٹے کے۔
الحاکم فی التاریخ عن ابوہریرہ (رض)

13086

13086- لا يباشر الرجل الرجل ولا المرأة المرأة. "حم طب ك عن ابن عباس".
13086 آدمی آدمی کے ساتھ نہ لیٹے اور نہ عورت عورت کے ساتھ۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)

13087

13087- لا يباشر رجل رجلا ولا امرأة امرأة، ولا يحل الرجل أن ينظر إلى عورة رجل ولا المرأة إلى عورة المرأة. "عبد الرزاق عن زيد بن أسلم" مرسلا.
13087 کوئی آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ مباشرت نہ کرے اور نہ کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ۔ کسی آدمی کے لیے کسی دوسرے آدمی کی شرمگاہ دیکھنا جائز نہیں اور نہ کسی عورت کے لیے دوسری عورت کی شرمگاہ دیکھنا جائز ہے۔ عبدالرزاق عن زید بن اسلم، مرسلاً

13088

13088- ولد الزنا شر الثلاثة إذا عمل بعمل أبويه. "طب هق عن ابن عباس"1
13088 ولدالحرام اگر اپنے ماں باپ والا عمل کرے تو وہ تیسرا شر ہے۔
الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت کی سند میں محمد بن ابی لیلیٰ کمزور یاد داشت کا مالک تھا مجمع الزوائد 257/6، روایت ضعیف ہے دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ 5952 ۔

13089

13089- فرخ الزنا لا يدخل الجنة. "عد عن أبي هريرة".
13089 زنا کے نتیجے میں ہونے والا بچہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
الکامل لا بن عدی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : اسنی المطالب 956، التنزیہ 228/2 ۔

13090

13090- ولد الزنا شر الثلاثة. "حم د ك هق عن أبي هريرة".
13090 ولد الزنا تین میں تیسرا شر ہے۔
مسند احمد، ابوداؤد، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : الاسرار المرفوعۃ 466، المتناھیۃ 1286 ۔

13091

13091- ليس على ولد الزنا من وزر أبويه شيء. "ش ك عن عائشة".
13091 ولدالزنا پر اپنے والدین کے گناہ کا کچھ بوجھ نہیں۔
المصنف لابن ابی شیبہ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض)

13092

13092- لا تزال أمتي بخير متماسك أمرها ما لم يظهر فيهم ولد الزنا فإذا ظهروا خشيت أن يعمهم الله تعالى بعقاب. "حم طب عن ميمونة"
13092 میری امت خیر پر رہے گی۔ ان کا معاملہ ٹھیک رہے گا جب تک حرام کی اولاد کثیر نہ ہوجائیں، جب وہ کثیر ہوجائیں گی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ پاک ان پر عمومی عذاب نہ بھیج دے۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن میمو نقالحدیث صحیح اوحسن مجمع الزوائد 257/6

13093

13093- لا يبغي على الناس إلا ولد بغي، والابن فيه عرق منه. "طب عن أبي موسى".
13093 لوگوں پر ظلم صرف ولد الحرام ہی کرتا ہے، کیونکہ اولاد میں والد کا اثر ہوتا ہے۔
الکبیر للطبرانی عن ابن موسیٰ (رض)

13094

13094- لا يبغي على الناس إلا ولد عنه أو فيه شيء منه. "الخرائطي وابن عساكر عن بلال بن أبي بردة بن أبي موسى عن أبيه عن جده".
13094 لوگوں پر ظلم صرف ظلم (زنا) کی اولاد ہی کرتی ہے یا وہ جس میں اس کا کچھ اثر ہو۔
الخرائطی ، ابن عساکر عن بلال بن ابی بردۃ بن ابی موسیٰ عن ابیہ عن جدہ

13095

13095- لا يدخل الجنة ولد الزنا، ولا ولده ولا ولد ولده. "ابن النجار عن أبي هريرة".
13095 زنا کی اولاد جنت میں داخل نہ ہوگی۔ نہ اس کی اولادنہ اولاد کی اولاد۔
ابن النجار عن ابوہریرہ (رض)
کلام : مذکورہ روایت موضوع اور ناقابل اعتبار ہے دیکھئے : ترتیب الموضوعات 911، التنزیہ 228/2 ۔

13096

13096- لا يدخل الجنة ولد زنية "ق عن ابن عمرو".
13096 جنت میں زنا کی اولاد داخل نہ ہوگی۔ السنن للبیہقی عن ابن عمرو
کلام : روایت موضوع ہے : الاتقان 2366، الاسرار المرفوعۃ 600 ۔

13097

13097- إن الله عز وجل درأ لجهنم من ذرأ2 كان ولد الزنا فيمن ذرأ لجهنم. "الديلمي عن ابن عمر".
13097 اللہ پاک نے جہنم کے لیے جن کو پیدا کرنا تھا پیدا کیا اور اولاد الزنا بھی انہی میں سے تھی جن کو جہنم کے لیے پیدا کیا تھا۔ الدیلمی عن ابن عمر (رض)
کلام : مسند الفردوس للدیلمی کی مرویات موضوع یا ضعیف ہونے سے خالی نہیں ہوتی۔

13098

13098- خذوا عني خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا البكر بالبكر جلد مائة ونفي سنة، والثيب1 بالثيب جلد مائة والرجم. "حم م 4 عن عبادة بن الصامت".
13098 میری بات سنو ! میری بات سنو ! اللہ پاک نے ان (زانیوں) کے لیے راستہ نکالا ہے : کنوارا کنواری سے بدکاری کرتے تو ان کو سو سو کوڑے اور ایک ایک سال جلاوطن کرو ۔ اور شادی شدہ سے کرے تو سو کوڑے مارو اور سنگسار کرو۔
مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت

13099

13099- لو رجمت أحدا بغير بينة لرجمت هذه. "ق عن ابن عباس".
13099 اگر کسی کو بغیر گواہوں کے سنگسار کرتا تو اس عورت کو ضرور کرتا۔
البخاری ، مسلم عن ابن عباس (رض)

13100

13100- الإحصان إحصانان: إحصان نكاح، وإحصان عفاف. "ابن أبي حاتم طس وابن عساكر عن أبي هريرة عن عبد الله".
13100 احصان کے دو معنی ہیں نکاح (جس کے بعد وطی ہو) اور پاکدامنی۔
ابن ابی حاتم ، الاوسط للطبرانی، ابن عساکر عن ابوہریرہ عن عبداللہ
کلام : ضعیف الجامع 2272

13101

13101- الثيبان يجلدان ويرجمان، والبكران يجلدان وينفيان. "ك في تاريخه عن أبي".
13101 دونوں شادی شدہ ہوں تو دونوں کو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیے جائیں گے اور دونوں کنوارے ہوں تو ان کو کوڑے مارے جائیں گے اور جلاوطن کیا جائے گا۔
التاریخ للحاکم عن ابی (رض)

13102

13102- والذي نفسي بيده، لأقضين بينكما بكتاب الله الوليدة والغنم رد عليك2، وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، وعلى امرأة هذا الرجم، واغد يا أنيس إلى امرأة هذا فإن اعترفت فارجمها. "حم ق 4 عن أبي هريرة وزيد بن خالد الجهني".
13102 قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے ساتھ کرتا ہوں۔ نومولود بچی اور بکریاں۔ جو تیرے بیٹے نے عورت کو زنا کے بدلے دی تھیں تجھے واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے پر سوکوڑوں کی سزا اور ایک سال کی جلاوطنی ہوگی اور اس شخص کی بیوی۔ جس نے زنا کروایا ہے پر سنگساری کی سزا ہے (پھر آپ نے اپنے صحابی (رض)) کو حکم فرمایا : اے انیس اس آدمی کی بیوی کے پاس صبح کو جانا اگر وہ اعتراف جرم کرلے تو اس کو سنگسار کردینا۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) وزید بن خالد الجھنی

13103

13103- إذا أتى الرجل الرجل فهما زانيان، وإذا أتت المرأة المرأة فهما زانيتان. "هق عن أبي موسى".
13103 اگر آدمی آدمی کے ساتھ بدکاری کرے تو وہ دونوں زانی ہیں اور جب عورت عورت کے ساتھ زنا کرے تو وہ دونوں بھی زناکار ہیں۔ السنن للبیہقی عن ابی موسیٰ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : حسن الاثر 453 ، ضعیف الجامع 282 ۔

13104

13104- إذا زنت أمة أحدكم فتبين زناها فليجلدها ولا يثرب، ثم إن زنت فليجلدها ولا يثرب1 ثم إن زنت الثالثة فليبعها ولو بحبل من شعر. "حم ق د ت عن أبي هريرة وزيد بن خالد"
13104 جب تم میں سے کسی کی باندی زنا کر بیٹھے، پھر اس کا راز ظاہر ہوجائے تو وہ اس پر کوڑوں کی سزا (یعنی پچاس کوڑے) جاری کرے اور جلاوطن نہ کرے۔ پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو دوبارہ کوڑے لگائے اور جلاوطن نہ کرے پھر اگر تیسری بار بھی زنا میں مبتلا ہو تو اس کو بیچ ڈالے خواہ ایک رسی کے عوض کیوں نے بیچے۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی عن ابوہریرہ (رض) وزید بن خالد قال الترمذی حسن صحیح

13105

13105- إذا زنت الأمة فاجلدوها ثم إن زنت فبيعوها ولو بضفير3 "حم عن عائشة".
13105 جب باندی زنا کرلے تو اس کو کوڑے مارو پھر زنا کرے تو اس کو فروخت کردو خواہ ایک مینڈھی کے عوض کیوں نہ ہو۔ مسند احمد عن عائشۃ (رض)

13106

13106- كفى بالسيف شاهدا. "هـ عن سلمة بن المحبق".
13106 تلوار بطور شاہد کافی ہے۔ ابن ماجہ عن سلمۃ المحیق
کلام : ضعیف الجامع 4174 ۔
فائدہ : یعنی اگر کوئی اپنی اہلیہ یا کسی عزیزہ کو زنا میں ملوث دیکھے اور غیرت میں آکر تلوار سے اس کا کام کردے تو تلوار کی یہ گواہی کافی اور درست ہے۔

13107

13107- إذا اعترف الرجل بالزنا سبع مرات فأمر به ليرجم ثم هرب ترك. "الديلمي عن أبي هريرة".
13107 جب کوئی آدمی (حاکم کے روبرو) سات بار زنا کا اعتراف کرے پھر اس کے لیے سنگساری کا حکم دے دیا جائے۔ پھر وہ (پتھروں کی بوچھاڑ میں یا اس سے پہلے ہی) بھاگ پڑے تو (اس کا بھاگنا اپنے اعتراف سے رجوع سمجھا جائے گا اور) اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
الدیلمی عن ابوہریرہ (رض)

13108

13108- لا نقتل ما في بطنك لأجلك، اذهبي حتى تضعي. "ابن عساكر عن أنس". إن امرأة قالت: يا رسول الله، إن في بطني حدثا فأقم علي حد الله قال: فذكره.
13108 ہم تیری وجہ سے تیرے پیٹ میں موجود (معصوم) جان کو قتل نہیں کریں گے۔ لہٰذا جا اور جب تک بچہ نہ جن لے ٹھہر جا۔ ابن عساکر عن انس (رض)
فائدہ : ایک عورت نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرے پیٹ میں کوئی نئی جان (بدکاری کے ثمرہ میں) پیدا ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ مجھ پر اللہ کی حد جاری فرمادیں۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد صادر فرمایا۔

13109

13109- لو كنت راجما أحدا بغير بينة لرجمت فلانة، فقد ظهر منها الريبة في منطقها وهيئتها، ومن يدخل عليها. "هـ طب عن ابن عباس"1
13109 اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کے سنگسار کرتا تو فلانی عورت کو ضرور کردیتا کیونکہ اس کی بول چال اور اس کی موجودہ کیفیت سے اس کی (بدکاری کی) حالت کا اور اس کے پاس آنے والے کا پتہ چلتا ہے۔ ابن ماجہ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض) ، اسنادہ صحیح

13110

13110- كفى بالسيف شاهدا إني أخاف أن يتتابع في ذلك السكران والغيران "هـ عن سلمة ابن المحبق"
13110 تلوار بطور گواہ کافی ہے۔ لیکن مجھے خوف ہے کہ نشہ میں مبتلا اور غیرت (کے نام سے غصہ میں آنے) والے اس کی اتباع کریں گے۔ ابن ماجہ عن سلمۃ ابن المحیق
فائدہ : یعنی اگر کسی کو بدکاری کی حالت میں قتل کردیا تو یہ فعل غیرت کے زمرے میں آکر درست ہے لیکن کہیں اس کی آڑ میں ناجائز قتل کی رسم نہ پڑجائے جیسا کہ فی زمانہ کا روکاری اس کی مثال ہے۔
کلام : ابن ماجہ کتاب الحدود باب الرجل یجدمع امراتہ رجلاً رقم 2606 ۔
زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند میں قبیصہ بن حریث ہے۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اس شخص کی حدیث میں نظر ہے۔ لیکن ابن حبان (رح) نے اس کو ثقات میں شمار کیا جبکہ اسناد کے باقی رجال سب ثقہ ہیں۔

13111

13111- يا أبا ذر، ألم تر إلى صاحبكم غفر له وأدخل الجنة، يعني الذي رجم. "حم عن أبي ذر".
13111 اے ابوذر ! کیا تو اپنے ساتھی کو نہیں دیکھتا، اس کی مغفرت کردی گئی ہے اور اس کو جنت میں داخل کردیا گیا ہے۔ یعنی وہ شخص جس کو سنگسار کیا گیا ہے۔ مسند احمد عن ابی عمر (رض)

13112

13112- يا هزال بئس ما صنعت بيتيمك لو سترت عليه بطرف ردائك لكان خيرا لك. "ابن سعد عن يزيد بن نعيم بن هزال عن أبيه عن جده"
13112 اے ھزال ! تو نے برا کیا جو اپنے یتیم کے ساتھ کیا (یعنی اس کی بدکاری کو فاش کیا اور پھر ہم نے اس پر حد جاری کی) ، اگر تو اپنی چادر کے کنارے سے اس پر پردہ ڈالتا تو یہ تیرے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔ ابن سعد عن یزید بن نعیم بن ھزال عن ابیہ عن جدہ

13113

13113- أذكركم بالله الذي نجاكم من آل فرعون وأقطعكم البحر وظلل عليكم الغمام وأنزل عليكم المن والسلوى وأنزل عليكم التوراة على موسى أتجدون في كتابكم الرجم. "د عن عكرمة" مرسلا
13113 میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس نے تم کو آل فرعون سے نجات دی ، تم کو سمندر پار کرایا ، تم پر بادل کو سایہ فگن کیا، تم پر من وسلویٰ نازل کیا اور تم پر موسیٰ کی زبانی توراۃ نازق کی کیا تم اپنی کتاب میں سنگساری کی سزا نہیں پاتے ؟ ابوداؤد عن عکرمۃ مرسلا

13114

13114- إذا زنت أمة أحدكم فليجلدها ثلاثا بكتاب الله، فإن عادت فليبعها ولو بحبل من شعر. "ت حسن صحيح عن أبي هريرة".
13114 جب تم میں سے کسی کی کوئی باندی زنا کرے تو تین بار تک اس پر کتاب اللہ کے موافق کوڑوں کی سزا جاری کرے۔ اگر چوتھی بار بھی زنا کرے تو اس کو بیچ ڈالے خواہ بالوں کی رسی کے عوض کیوں نہ ہو۔ الترمذی حسن صحیح عن ابوہریرہ (رض)

13115

13115- إذا زنت أمة أحدكم فليجلدها ولا يعيرها ولا يقيدها ثم إذا زنت فليجلدها ولا يعيرها ولا يقيدها، ثم إذا زنت الثالثة فليبعها ولو بحبل من شعر. "عب وابن جرير عن أبي هريرة".
13115 جب تم میں سے کسی کی باندی زنا کرلے تو اس کو کوڑے مارے اور جلاوطن نہ کرے۔ اور نہ بیڑی ڈالے ۔ پھر اگر زنا کرے تو اس کو بیچ ڈالے خواہ بالوں کی رسی کے عوض (معمولی قیمت میں) کیوں نہ ہو۔ المصنف لعبدالرزاق، ابن جریر عن ابوہریرہ (رض)

13116

13116- إذا زنت أمة أحدكم فليجلدها ولا يثرب عليها فإن عادت فليجلدها فإن عادت فليبعها ولو بضفير من شعر. "ش عن أبي هريرة".
13116 جب تم میں سے کسی کی باندی زنا کرے تو اس کو کوڑے مارے اور جلاوطن نہ کرے۔ اگر پھر زنا کرے تو اس کو بیچ ڈالے خواہ بالوں کی مینڈھی کے عوض کیوں نہ ہو۔
مصنف ابن ابی شیبہ عن ابوہریرہ (رض)

13117

13117- إن الأمة قد ألقت فروة رأسها. "ش عن عطاء" *مرسلا.
13117 باندی نے اپنے سر کی کھال ڈال دی ہے۔
ابن ابی شیبہ عن عطاء (رح) ، مرسلاً ، واللہ اعلم بمراد

13118

13118- من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط، فاقتلوا الفاعل والمفعول به. "حم قط ك هق والضياء عن ابن عباس"
13118 جس کو تم قوم لوط کا عمل کرتا پاؤ فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ مسند احمد، ابوداؤد ، الترمذی ، النسائی، ابن ماجہ، الدارقطنی فی السنن، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی ، الضیاء عن ابن عباس (رض)

13119

13119- إن أخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط. "حم ت هـ ك عن جابر"
13119 مجھے سب سے زیادہ خوف جس بات کا اپنی امت پر ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔
مسند احمد ، الترمذی، ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض) ، صحیح الاسناد، وافقہ الذھبی

13120

13120- من مات من أمتي يعمل عمل قوم لوط نقله الله إليهم حتى يحشر معهم. "خط عن أنس".
13120 میری امت کا جو فرد قوم لوط کا عمل کرتا ہوا مرا اللہ اس کی قوم لوط کی طرف منتقل کردے گا اور انہی کے ساتھ ان کا حشر فرمائے گا۔ الخطیب فی التاریخ عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : دیکھئے : اسنی المطالب 1504، التمییز 175 ۔

13121

13121- من وجدتموه وقع على بهيمة، فاقتلوه واقتلوا البهيمة. "ت ك عن ابن عباس".
13121 جس کو تم پاؤ کہ وہ جانور کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہے اس کو اور جانور دونوں کو قتل کرڈالو۔ الترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)

13122

13122- من وقع على ذات محرم فاقتلوه، ومن وقع على بهيمة فاقتلوه واقتلوا البهيمة. "هـ ك عن ابن عباس"
13122 جو کسی محرم کے ساتھ بدکاری میں پڑے اس کو قتل کرڈالو اور جو کسی جانور کے ساتھ بدکاری میں پڑے اس کو اور جانور دونوں کو قتل کردو۔ ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف ابن ماجہ 558، ضعیف الجامع 5878 ۔

13123

13123- من أتى بهيمة؛ فاقتلوه واقتلوها معه. "د عن ابن عباس"
13123 جو کسی جانور کے ساتھ وطی کرے اس کو اور جانور دونوں کو مار ڈالو۔
ابوداؤد عن ابن عباس (رض)

13124

13124- ارجموا الأعلى والأسفل، ارجموها جميعا [يعني الذي يعمل عمل قوم لوط] . "هـ عن أبي هريرة"
13124 اوپر والے اور نیچے والے دونوں کو رجم کردو۔ یعنی (جو قوم لوط کا عمل کرے) سب کو سنگسار کردو۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13125

13125- اقتلوا الفاعل والمفعول به في عمل قوم لوط، والبهيمة والواقع على البهيمة ومن وقع على ذات محرم فاقتلوه. "حم عن ابن عباس".
13125 قوم لوط کے عمل میں مبتلا فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ یونہی جانور کو اور جو اس کے ساتھ بدکاری کرے دونوں کو مار ڈالو اور جو کسی محرم کے ساتھ بدکاری کرے اس کو مار ڈالو۔
مسند احمد عن ابن عباس (رض)

13126

13126- إن أخوف ما أخاف على أمتي عمل قوم لوط. "حم ت *حسن غريب* وابن منيع ع ك هب ص عن جابر".
13126 مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔
مسند احمد ، الترمذی، حسن غریب، ابن منیع ، مسند ابی یعلی، مستدرک الحاکم ، شعب الایمان للبیہقی، السنن لسعید بن منصور عن جابر (رض) ۔

13127

13127- من أتى شيئا من النساء أو الرجال في أدبارهن فقد كفر. "عق عن أبي هريرة".
13127 جس نے عورتوں یا مردوں میں سے کسی کی دبر (مقام پائخانہ) میں وطی کی اس نے کفر کیا۔ العقیلی فی الشعفاء عن ابوہریرہ (رض)

13128

13128- من أتى امرأة في دبرها لم ينظر الله إليه يوم القيامة. "الدارمي عن أبي هريرة".
13128 جو کسی عورت کی دبر میں وطی کا مرتکب ہوا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہ فرمائے گا۔ مسند الدارمی عن ابوہریرہ (رض)

13129

13129- من عمل عمل قوم لوط فارجموا الفاعل والمفعول به. "ك عن أبي هريرة"
13129 جس نے قوم لوط کا عمل کیا اس فاعل اور مفعول دونوں کو سنگسار کرڈالو۔
مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض)
کلام : المستدرک للحاکم، کتاب الحدود 355/45، امام ذہبی (رح) فرماتے ہیں : اس میں عبدالرحمن ساقط ہے۔

13130

13130- من عمل عمل قوم لوط فاقتلوه. "الخرائطي في مساوي الأخلاق عن جابر وابن جرير".
13130 جس نے قوم لوط کا عمل کیا اس کو قتل کرڈالو۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن جابر وابن جریر۔

13131

13131- من مات وهو يعمل عمل قوم لوط سار به قبره حتى يصير معهم ويحشر يوم القيامة معهم. "ابن عساكر عن وكيع قال: سمعنا في حديث فذكره".
13131 جس نے قوم لوط کا عمل کیا اس کو قتل کرڈالو۔ الخرائطی فی مساوی الاخلاق عن جابر وابن جریر

13132

13132- من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فارجموا الأعلى والأسفل جميعا. "الخرائطي في مساوي الأخلاق وابن جرير عن أبي هريرة".
13132 جن کو تم قوم لوط کا عمل کرتا پاؤ تو اوپر والے اور نیچے والے دونوں کو سنگسار کردو۔
الخرائطی فی مساوی الاخلاق وابن جریر عن ابوہریرہ (رض)

13133

13133 - سيكون في آخر الزمان أقوام يقال لهم اللوطية على ثلاثة أصناف: فصنف ينظرون ويتكلمون، وصنف يصافحون ويعانقون وصنف يعملون ذلك العمل، فلعنة الله عليهم إلا أن يتوبوا فمن تاب تاب الله عليه. "الديلمي عن أبي سعيد".
13133 عنقریب آخری زمانے میں ایسی قومیں آئیں گی جن کو لوطی کہا جائے گا ان کی تین قسمیں ہوگی : ایک قسم تو صرف دیکھیں گے اور بات چیت کریں گے۔ ایک قسم مصافحہ اور معانقہ کرے گی اور ایک قسم بالکل قوم لوط جیسا عمل کرے گی پس ان پر اللہ کی لعنت ہے مگر یہ کہ وہ توبہ تائب ہوجائیں تو اللہ ان کی توبہ قبول فرمالے گا۔ الدیلمی عن ابی سعید

13134

13134- لا تزال شعبة من اللوطية في أمتي إلى يوم القيامة. "الحسن بن سفيان عن عبد الله بن ناسح".
13134 قیامت تک میری امت میں لوطی عمل کرنے والوں کا ایک گروہ رہے گا۔
الحسن بن سفیان عن عبدالبر بن ناسح

13135

13135- كان اللواط في قوم لوط في النساء قبل أن يكون في الرجال بأربعين سنة. "ابن أبي الدنيا في ذم الملاهي وابن أبي حاتم هب وابن عساكر عن أبي صخرة1 جامع بن شداد" مرسلا.
13135 قوم لوط میں مردوں کے ساتھ لوطی عمل کرنے سے چالیس سال پہلے سے وہ عورتیں کے ساتھ لوطی عمل کرتے تھے۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی وابن ابی حاتم، شعب الایمان للبیہقی، ابن عساکر عن ابی صخرۃ جامع بن شداد، مرسلاً

13136

13136- من أحب عمل قوم لوط شرا كان أو خيرا فهو كمن عمله. "ابن النجار والديلمي عن محمد بن علي عن أبيه عن جده".
13136 جس نے قوم لوط کے عمل کو پسند کیا خواہ وہ برا ہو یا اچھا (آدمی) وہ قوم لوط کا عمل کرنے والوں جیسا ہے۔ ابن النجار الدیلمی عن محمد بن علی عن ابیہ عن جدہ

13137

13137- اجتنبوا كل مسكر. "طب عن عبد الله بن معقل".
13137 ہر نشہ آور شے سے اجتناب کرو۔ الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن معقل

13138

13138- اجتنبوا ما أسكر. "الحلواني عن علي".
13138 ہر وہ شے جو نشہ پیدا کرے اس سے اجتناب کرو۔ الحلوانی عن علی (رض)

13139

13139- احذروا كل مسكر، فإن كل مسكر حرام. "طس عن بريدة".
13139 ہر نشہ آور شے سے پرہیز کرو۔ بیشک ہر نشہ آور شے حرام ہے۔
الاوسط للطبرانی عن بریدۃ (رض)

13140

13140- إن الأوعية لا تحرم شيئا فانتبذوا فيما بدا لكم واجتنبوا كل مسكر. "طب عن قرة بن ياسر".
13140 برتن کسی چیز کو حرام نہیں کرتے، پس جو برتن تمہیں میسر ہوں ان میں نبیذ بناسکتے ہو۔ لیکن ہر نشہ آور شے سے اجتناب کرو۔ الکبیر للطبرانی عن قرۃ بن یاسر
فائدہ : شراب سے متنفر کرنے کے لیے اوائل اسلام میں ان برتنوں کے استعمال سے بھی ممانعت کردی گئی تھی جو شراب سازی کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ پھر جب حرمت خمر لوگوں کے دلوں میں مسلم ہوگئی تو آپ نے برتنوں پر سے پابندی اٹھادی۔
نبیذ کھجوریں پانی میں بھگو کر کچھ دیر کے لیے رکھ دی جاتی تھی تآنکہ وہ پانی میٹھا ہوجاتا تو اس کو نبیذ کہا جاتا اور اس کے پینے کی اجازت تھی لیکن اگر زیادہ وقت تک کے لیے چھوڑ دیا جائے تو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے پھر وہ شراب کے حکم میں آکر حرام ہوجاتی ہے۔

13141

13141- حرام قليله ما أسكر كثيره. "البغوي عن واقد".
13141 جس شے کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس شے کی معمولی مقدار بھی حرام ہے۔
البغوی عن واقد

13142

13142- أهل اليمن، قليل ما أسكر كثيره حرام. "حب عن جابر".
13142 (اے) اہل یمن ! (یادرکھو ! ) جس شے کی کثیر مقدار نشہ کرتی ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ ابن حبان عن جابر (رض)

13143

13143- كل مخمر خمر، وكل مسكر حرام، ومن شرب مسكرا بخست صلاته أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد الرابعة كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال، قيل: ماطينة الخبال يا رسول الله؟ قال: صديد أهل النار ومن سقاه صغيرا لا يعرف حلاله من حرامه كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال. "د عن ابن عباس"
13143 ہر نشہ آور شے خمر (عین شراب ) ہے اور نشہ آور شے حرام ہے۔ جس نے کوئی نشہ آور شے نوش کی اس کی چالیس صبح کی نماز اکارت ہوجائے گی۔ اگر وہ تو یہ تائب ہوگیا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر اس نے چوتھی بار شراب پی تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو طیبۃ الخبال پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! طینۃ الخبال کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اہل جہنم کی پیپ (خون وغیرہ) اور جس نے کسی بچے کو کوئی نشہ آور چیز پلائی جو اس کے حلال حرام ہونے کو نہیں جانتا تو اللہ پر لازم ہے کہ پلانے والے کو طینۃ الخبال پلائے۔ ابوداؤد عن ابن عباس (رض)

13144

13144- كل مسكر حرام وإن على الله لعهدا لمن شرب المسكر أن يسقيه من طينة الخبال عرق أهل النار. "حم م عن جابر".
13144 ہر نشہ آور شے حرام ہے اور اللہ پر لازم ہے کہ جو نشہ آور شے نوش کرے اس کو طینۃ الخبال جو جہنمیوں کا پسینہ (اور خون، پیپ وغیرہ) ہے وہ اس کو پلائے۔ مسند احمد، مسلم عن جابر (رض)

13145

13145- كل مسكر حرام على كل مؤمن. "هـ عن معاوية".
13145 ہر نشہ آور شے ہر مومن پر حرام ہے۔ ابن ماجہ عن معاویۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف ابن ماجہ 740، ضعیف الجامع 4251

13146

13146- كل ما أسكر عن الصلاة فهو حرام. "م عن أبي موسى".
13146 ہر وہ چیز جو نماز سے غافل کرکے نشہ میں ڈال دے وہ حرام ہے۔ مسلم عن ابی موسیٰ

13147

13147- أنهى عن كل مسكر أسكر عن الصلاة. "م عن أبي موسى".
13147 میں اس تھوڑی شے سے بھی منع کرتا ہوں جو زیادہ مقدار میں نشہ پیدا کرے۔
النسائی عن سعد (رض)

13148

13148- أنهاكم عن قليل ما أسكر كثيره. "ن عن سعد".
13148 میں اس تھوڑی شے سے بھی منع کرتا ہوں جو زیادہ مقدار میں نشہ پیدا کرے۔
النسائی عن سعد (رض)

13149

13149- كل شراب أسكر فهو حرام. "حم ق عد عن عائشة".
13149 ہر وہ پینے کی شے جو نشہ پیدا کرے حرام ہے۔
مسند احمد، السنن للبیہقی ، الکامل لابن عدی عائشۃ (رض)
کلام : التحدیث 190 ۔

13150

13150- لا تشرب مسكرا فإني حرمت كل مسكر. "ن عن أبي موسى".
13150 کسی نشہ آور شے کو نہ پی ۔ بیشک میں نے ہر نشہ آور شے کو حرام قراردے دیا ہے۔
النسائی عن ابی موسیٰ (رض)

13151

13151- كل مسكر حرام. "حم ق د ن هـ عن أبي موسى" "حم ن عن أنس" "حم د هـ ن عن ابن عمر" "حم ن هـ عن أبي هريرة" "هـ عن ابن مسعود".
13151 ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، النسائی، ابن ماجہ عن ابی موسیٰ ۔ مسند احمد، النسائی عن انس (رض) ، مسند احمد ، ابوداؤد ، ابنماجہ، النسائی عن ابن عمر (رض) ، مسند احمد ، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) ابن ماجہ عن ابن مسعود (رض) ۔

13152

13152- كل مسكر حرام، وما أسكر منه الفرق1 فملأ الكف منه حرام. "د ت عن عائشة
13152 ہر نشہ آور شے حرام ہے اور جس شے کی ایک فرق (دس بارہ کلو کے قریب وزن کا پیمانہ) نشہ پیدا کرے اس کا ایک چلو بھر بھی حرام ہے۔ ابوداؤد ، الترمذی عن عائشۃ

13153

13153- كنت نهيتكم عن الأوعية، فانتبذوا واجتنبوا كل مسكر. "هـ عن بريدة".
13153 میں نے تم کو چند برتنوں کے استعمال سے منع کیا تھا پس ہر برتن میں نبیذ بناؤ لیکن ہر نشہ آورشے سے اجتناب برتو۔ ابن ماجہ عن بریدۃ

13154

13154- ما أسكر كثيره فقليله حرام. "حم د ت حب عن جابر" "حم ن هـ عن ابن عمرو خ".
13154 جو زیادہ مقدار میں نشہ پیدا کرے وہ تھوڑی سے بھی حرام ہے۔
مسند احمد، ابوداؤد، الترمذی، ابن حبان (رض) ، مسند احمد ، النسائی ، ابن ماجہ عن ابن عمرو، البخاری

13155

13155- ما أسكر منه الفرق فملئ الكف منه حرام. "حم عن عائشة خ".
13155 جس کی ایک فرق (دس بارہ کلو) مقدار نشہ پیدا کرے اس کی ایک چلو بھر مقدار بھی حرام ہے۔ مسند احمد عن عائشۃ (رض) ، البخاری

13156

13156- من شرب مسكرا ما كان، لم يقبل الله له صلاة أربعين يوما. "طب عن السائب بن يزيد"1
13156 جس نے کوئی بھی نشہ آور شے استعمال کی اللہ پاک اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ فرمائے گا۔ الکبیر للطبرانی عن السائب بن یزید
کلام : روایت ضعیف ہے کیونکہ سند میں یزید بن عبدالملک النوفلی متروک راوی ہے۔ مجمع الزوائد 71/5 نیز دیکھئے ضعیف الجامع 5646، النوافح 2196 ۔

13157

13157- المزر2 كله حرام أبيضه وأحمره وأسوده وأخضره. "طب عن ابن عباس".
13157 مزر ہر طرح کی حرام ہے : سفید، سرخ، سیاہ اور سبز ہر طرح کی مزر حرام ہے۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے : ضعیف الجامع 5929 ۔
فائدہ : مزرم کی کی شراب کو کہا جاتا ہے ایک قول جو کی شراب کا ہے اور گندم کی شراب کو بھی کہا جاتا ہے۔ النھایۃ 324/4

13158

13158- نهى عن كل مسكر ومفتر "حم د عن أم سلمة"
13158 حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر نشہ آور شے اور ہر حواس مختل کردینے اور چکرادینے والی شے کو حرام قرار دیا۔ مسند احمد، ابوداؤد عن ام سلمۃ
کلام : ضعیف الجامع :6077 ۔

13159

13159- اجتنبوا الخمر فإنها مفتاح كل شر. "ك هب عن ابن عباس".
13159 خمر (شراب) سے اجتناب کرو بیشک وہ ہر شر کی چابی ہے۔
مستدرک الحاکم، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عباس (رض)
کلام : ضعیف الجامع 142 ۔

13160

13160- أشهد بالله وأشهد بالله لقد قال لي جبريل: يا محمد إن مدمن الخمر كعابد وثن. "الشيرازي في الألقاب وأبو نعيم في مسلسلاته وقال صحيح ثابت عن علي".
13160 میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں، میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے محمد ! شراب کا عادی بت کی پوجا کرنے والے کی مثل ہے۔
الشیرازی فی الالقاب و ابونعیم فی مسلسلاتہ وقال صحیح ثابت عن علی (رض)
کلام : ضعیف الجامع 879 ۔

13161

13161- أول ما نهاني عنه ربي بعد عبادة الأوثان شرب الخمر، وملاحاة الرجل. "طب عن أبي الدرداء وعن معاذ"1
13161 سب سے پہلی چیز بتوں کی پرستش کے بعد جس سے مجھے میرے پروردگار نے منع کیا ہے وہ شراب نوشی اور لڑائی جھگڑا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی الدرداء وعن معاذ (رض)
کلام : اس مذکورہ روایت کو امام طبرانی (رح) اور امام بزار (رح) نے روایت کیا ہے اور اس میں عمرو بن واقدمتروک راوی اور اس پر کذب کا قول ہے۔ محمد بن مبارک صوری نے اگرچہ اس کو صدوق (سچا) لکھا ہے لیکن جمہور نے اس کا قول مسترد کرتے ہوئے عمر وبن واقد کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مجمع الزوائد 53/5 ۔

13162

13162- إياك والخمر فإن خطيئتها تفرع الخطايا كما أن شجرتها تفرع الشجرة. "هـ عن خباب"
13162 شراب سے بچ ! بیشک اس کی خطا تمام خطاؤں پر چڑھ کر غالب آجاتی ہے جس طرح اس درخت (انگور) کی بیل تمام درختوں پر چڑھ جاتی ہے۔ ابن ماجہ عن جناب
فائدہ : خمر (شراب) کا اصل اطلاق انگور کی بنی ہوئی شراب پر ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر طرح کی شراب حرام ہے۔
کلام : ابن ماجہ کتاب الاشربہ باب الخمر مفتاح کل شر۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی سند میں غیر ابن الزبیر الشامی الازردی ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے : ضعیف ابن ماجہ 739، ضعیف الجامع 2189 ۔

13163

13163- كل مسكر خمر، وكل مسكر حرام، ومن شرب الخمر في الدنيا فمات وهو يدمنها لم يتب لم يشربها في الآخرة. "حم م 4 عن ابن عمر".
13163 ہر نشہ آور شے خمر (اصل انگوری شراب کی طرح) ہے۔ اور ہر نشہ آور شے حرام ہے اور جس نے دنیا میں شراب نوش کی پھر اس کی عادت کی حالت میں مرگیا اور توبہ تائب نہ ہوا تو وہ آخرت میں شراب نہ پی سکے گا۔
مسند احمد ، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی عن ابن عمر (رض)

13164

13164- ليستحلن طائفة من أمتي الخمر باسم يسمونها إياه. "حم والضياء عن عبادة بن الصامت".
13164 عنقریب میری امت شراب کو دوسرا نام دے کر اس کو حلال کرنے کی کوشش کرے گی۔
مسند احمد، الضیاء عن عبادۃ بن الصامت

13165

13165- لا يزال العبد في فسحة من دينه ما لم يشرب الخمر؛ فإذا شربها خرق الله عنه ستره، وكان الشيطان وليه وسمعه وبصره ورجله يسوقه إلى كل شر، ويصرفه عن كل خير. "طب عن قتادة بن عياش".
13165 بندہ جب تک شراب نہ پئے اپنے دین کی کشادگی میں رہتا ہے۔ لیکن جب شراب کو منہ لگا لیتا ہے تو اللہ پاک اس کا پردہ چاک کردیتا ہے۔ پھر شیطان اس کا دوست بن جاتا ہے، اس کا کان، اس کی آنکھ اور اس کا پاؤں بن جاتا ہے جس سے وہ چل کر ہر شر کی طرف جاتا ہے اور اس کا یہ دوست ہر خیر سے اس کو روک رکھتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن قتادہ بن عیاش

13166

13166- ليشربن أناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها. "حم د عن أبي مالك الأشعري".
13166 عنقریب میری امت کے لوگ شراب کا نام بدل کر اس کو پینے لگیں گے۔
مسند احمد ، ابوداؤد عن ابی مالک الاشعری

13167

13167- ليشربن أناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها، ويضرب على رؤسهم بالمعازف والقينات يخسف الله بهم الأرض ويجعل منهم قردة وخنازير. "حب طب هب عنه".
13167 عنقریب میری امت کے کچھ لوگ شراب کا دوسرا نام رکھ کر اس کو پئیں گے اور ان کے سروں پر رقاصائیں گائیں گی اور گانے بجانے کے آلات بجیں گے اللہ پاک ان کو زمین میں دھنسا دیں گے اور ان میں بندر اور خنزیر بنادیں گے۔
ابن حبان، الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی

13168

13168- ليكونن في هذه الأمة خسف وقذف ومسخ، وذلك إذا شربوا الخمور واتخذوا القينات وضربوا بالمعازف. "ابن أبي الدنيا في ذم الملاهي عن أنس".
13168 اس امت میں بھی دھنسنے ، پتھر برسنے اور شکلیں بگڑنے کے واقعات ضرور رونما ہوں گے اور یہ جب ہوگا جب لوگ شراب پئیں گے اور رقاصاؤں کو رکھیں گے اور گانے بجانے کے آلات بجائیں گے۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی عن انس (رض)

13169

13169- ليمسخن قوم وهم على أريكتهم قردة وخنازير لشربهم الخمر وضربهم بالبرابط والقيان. "ابن أبي الدنيا في ذم الملاهي عن الغاز بن ربيعة" مرسلا.
13169 اس قوم کی اس حال میں شکلیں بندر اور خنزیر سے مسخ ہوجائیں گی کہ وہ اپنے صوفوں اور مسہریوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے ۔ ان کے شراب نوش کرنے، گانے بجانے اور رنڈیوں کو نچوانے کی وجہ سے۔ ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی عن الغاز بن ربیعۃ، مرسلاً
کلام : ضعیف الجامع 4960 ۔

13170

13170- من التمر والبسر4 خمر. "طب عن جابر".
13170 شراب پرانی کھجور اور تازہ کھجور دونوں سے (ممنوع) ہے۔ الکبیر للطبرانی عن جابر (رض)

13171

13171- من الحنطة خمر، ومن التمر خمر، ومن الشعير خمر، ومن الزبيب خمر، ومن العسل خمر. "حم عن ابن عمر".
13171 گندم سے شراب ہے، کھجور سے شراب ہے، جو سے شراب ہے، انگور سے شراب ہے اور شہد سے بھی شراب ہے۔ مسند احمد عن ابن عمر (رض)

13172

13172- حرم الله الخمر، وكل مسكر حرام. "ن عن ابن عمر".
13172 اللہ تعالیٰ نے شراب حرام کردی ہے اور ہر نشہ آور شے حرام کردی ہے۔
النسائی عن ابن عمر (رض)

13173

13173- حذر الوجه من النبيذ تتناثر منه الحسنات. "البغوي وابن قانع عد طب عن شيبة بن كثير الأشجعي".
13173 چہرے کو نبیذ سے بھی بچا پھر اس سے نیکیاں جھڑیں گی۔
البغوی، ابن قانع، الکامل لابن عدی، الکبیر للطبرانی عن شیبۃ بن کثیر الاشجعی

13174

13174- الزبيب والتمر هو الخمر. "ن عن جابر".
13174 کشمش اور کھجور یہ دونوں شراب (کا ماخذ) ہیں۔ النسائی عن جابر (رض)

13175

13175- ستشرب أمتي من بعدي الخمر يسمونها بغير اسمها يكون عونهم على شربها أمراؤهم. "ابن عساكر عن كيسان".
13175 عنقریب میری امت میرے بعد شراب کا دوسرا نام رکھ کر اس کو پئے گی اور ان کے پینے پر ان کی مددگار ان کے حکام ہوں گے۔ ابن عساکر عن کیسان
کلام : ضعیف الجامع 3251 ۔

13176

13176- شارب الخمر كعابد وثن، وشارب الخمر كعابد اللات والعزى. "الحارث عن ابن عمر".
13176 شراب نوش بت کے پجاری کے مثل ہے۔ اور شراب نوش لات اور عزیٰ کی عبادت کرنے والا جیسا ہے۔ الحارث عن ابن عمر (رض)

13177

13177- لعن الله الخمر وشاربها وساقيها وبائعها ومبتاعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه وآكل ثمنها. "د ك عن ابن عمر"
13177 اللہ لعنت کرے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے فروخت کرنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے نچوڑنے والے (یعنی بنانے والے) پر، اس کے اٹھانے والے پر، جس کے پاس اٹھا کرلے جائی جائے اس پر اور اس کی قیمت کھانے والے پر۔ ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض)
کلام : امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 73/5 میں اس کو ذکر فرمایا اور فرمایا امام بزار اور امام طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں عیسیٰ بن ابی عیسیٰ الخیاط ضعیف راوی ہے۔

13178

13178- من شرب الخمر في الدنيا ثم لم يتب منها حرمها في الآخرة. "حم ق ن هـ عن ابن عمر".
13178 جس نے دنیا میں شراب نوشی کی پھر اس سے توبہ تائب نہ ہوا تو وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی، ابن ماجہ عن ابن عمر (رض)

13179

13179- من شرب الخمر أتى عطشان يوم القيامة. "حم عن قيس بن سعد وابن عمرو".
13179 جس نے شراب نوش کی وہ قیامت کے دن پیاسا حاضر ہوگا۔
مسند احمد عن قیس بن سعد وابن عمرو
کلام : ضعیف الجامع 5642 ۔

13180

13180- من شرب خمرا خرج نور الإيمان من جوفه. "طس عن أبي هريرة".
13180 جس نے شراب پی ایمان کا نور اس کے پیٹ سے نکل جائے گا ۔
الاوسط للطبرانی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5645 ۔

13181

13181- الخمر أم الفواحش والكبائر، ومن شربها وقع على أمه وخالته وعمته. "طب عن ابن عباس".
13181 شراب ام الفواحش اور ام لکبائر ہے اور جس نے شراب نوشی کی وہ اپنی ماں، اپنی خالہ اور اپنی پھوپھی سے بدکاری کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

13182

13182- الخمر أم الفواحش وأكبر الكبائر، ومن شرب الخمر ترك الصلاة ووقع على أمه وعمته وخالته. "طب عن ابن عمر".
13182 شراب ام الفواحش اور اکبر الکبائر۔ فحش کاموں کی جڑ اور تمام بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے جس نے شراب نوشی کی وہ نماز چھوڑ دے گا اور اپنی ماں، اپنی پھوپھی اور اپنی خالہ کے ساتھ بدکاری کر بیٹھے گا۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو (رض)
کلام : ضعیف الجامع 2948 ۔

13183

13183- الخمر أم الخبائث، فمن شربها لم تقبل صلاته أربعين يوما؛ فإن مات وهي في بطنه مات ميتة جاهلية. "طس عن ابن عمر".
13183 خمر (شراب) ام الخبائث ہے۔ جس نے شراب نوشی کی اس کی چالیس یوم کی نماز قبول نہ ہوگی۔ اگر وہ اس حال میں مرا کہ شراب اس کے پیٹ میں تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
الاوسط للطبرانی عن ابن عمر (رض)
کلام : اللآلی 202/2

13184

13184- الخمر من هاتين الشجرتين النخلة والعنبة. "حم م عن أبي هريرة".
13184 خمر (شراب) ان دو درختوں سے بنتی ہے کھجور اور انگور۔
مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13185

13185- إن الله تعالى بنى الفردوس بيده وحظرها على كل مشرك وعلى كل مدمن خمر سكير. "هب والديلمي وابن عساكر عن أنس".
13185 اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور پھر اس کو ہر مشرک اور ہر شراب کے عادی جو ہر وقت نشے میں ڈوبا رہتا ہے پر اس کو ممنوع قرار دیدیا۔
شعب الایمان للبیہقی ، الدیلمی، ابن عساکر عن انس (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 1582، الضعیفۃ 1719 ۔

13186

13186- من شرب بصقة من خمر فاجلدوه ثمانين. "طب عن ابن عمرو".
13186 جس نے شراب کی ایک گھونٹ پی اس کو اسی کوڑے مارو۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو
کلام : ضعیف الجامع 5644 ۔

13187

13187- من مات وهو مدمن خمر لقى الله وهو كعابد وثن. "طب حل عن ابن عباس".
13187 جو مرا اس حال میں کہ وہ شراب کا عادی تھا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ گویا وہ بت کا عبادت گزار ہے۔ الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ابن عباس (رض)

13188

13188- من وضع الخمر على كفه لم تقبل له دعوة، ومن أدمن على شربها سقي من الخبال. "طب عن ابن عمرو".
13188 جس نے اپنی ہتھیلی پر شراب رکھی اس کی دعاقبول نہ ہوگی اور جس نے اس کے پینے کی عادت ڈالی اس کو خبال (دوزخیوں کا) خون پیپ وغیرہ پلایا جائے گا۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو
کلام : ضعیف الجامع 5874 ۔

13189

13189- لا تشرب الخمر، فإنها مفتاح كل شر. "هـ عن أبي الدرداء"
13189 شراب نوشی مت کر، بیشک وہ ہر شر کی چابی ہے۔ ابن ماجہ عن ابی الدرداء (رض)

13190

13190- أتاني جبريل فقال: يا محمد؛ إن الله عز وجل لعن الخمر وعاصرها ومعتصرها وشاربها وحاملها والمحمولة إليه وبائعها ومبتاعها وساقيها ومستقيها. "طب ك هب والضياء عن ابن عباس"
13190 جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے محمد ! اللہ عزوجل لعنت فرماتا ہے شراب پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر، اور جس کے پاس اٹھا کرلے جائی جائے اس پر، اس کے فروخت کرنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے پلانے والے پر اور اس کو پینے والے پر۔
الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، شعب الایمان للبیہقی ، الضیاء عن ابن عباس (رض)

13191

13191- إن الله لعن الخمر وعاصرها ومعتصرها وشاربها وساقيها وحاملها والمحمولة إليه وبائعها ومشتريها وآكل ثمنها. "ك هب عن ابن عمر"
13191 اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے شراب پر ، اس کے نچونے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کو اٹھا کرلے جانے والے پر ، جس کے پاس اٹھا کرلے جائی جائے اس پر، اس کے فروخت کرنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر اور اس کی قیمت کھانے والے پر۔
مستدرک الحاکم، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض)

13192

13192- إن الله لعن الخمر ولعن شاربها ولعن عاصرها ولعن مؤديها ولعن مديرها، ولعن ساقيها ولعن حاملها ولعن آكل ثمنها ولعن بائعها. "الطيالسي هب عن ابن عمر".
13192 اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، لعنت فرمائی ہے اس کے پینے والے پر، لعنت فرمائی اس کے نچوڑنے والے پر ، لعنت فرمائی اس کو دینے والے پر، لعنت فرمائی اس کا انتظام کرنے والے پر، لعنت فرمائی اس کے پلانے والے پر، لعنت فرمائی ہے اس کے اٹھانے والے پر، لعنت فرمائی ہے اس کی قیمت کھانے والے پر اور لعنت فرمائی ہے اس کو فروخت کرنے والے پر۔
الطیالسی، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمرو (رض)
کلام : ضعیف الجامع 1633 ۔

13193

13193- إن الخمر من العصير والزبيب والتمر والحنطة والشعير والذرة، وإني أنهاكم عن كل مسكر "ك د عن النعمان بن بشير"
13193 شراب کشمش، کھجور، گندم، جو اور مکئی سے بنتی ہے اور میں (ان کے علاوہ بھی) ہر نشہ آور شے سے منع کرتی ہوں۔ مستدرک الحاکم، ابوداؤد عن النعمان بن بشیر
کلام : ابوداؤد کتاب الاشرابۃ باب الخمر۔ امام منذری (رح) فرماتے ہیں : اس روایت کی سند میں ابوحریز کے متعلق کئی ایک نے کلام کیا ہے۔

13194

13194- إن من الحنطة خمرا، وإن من الشعير خمرا، وإن من التمر خمرا وإن من الزبيب خمرا، وإن من العسل خمرا، وإني أنهاكم عن كل مسكر. "حم ت هـ ك عن النعمان بن بشير"
13194 گندم سے شراب بنتی ہے ، جو سے شراب بنتی ہے، کھجور سے شراب بنتی ہے، کشمش سے شراب بنتی ہے اور شہد سے بھی شراب بنتی ہے اور میں تم کو ہر نشہ آور شے سے منع کرتا ہوں۔
مسند احمد، الترمذی، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن النعمان بن بشر
کلام : اخرجہ الحاکم فی المستدرک 148/4، امام ذھبی (رح) فرماتے ہیں : اس میں سری راوی متروک ہے۔ اخرجہ ابوداؤد کتاب الاشربۃ باب الخمر
امام منذری (رح) فرماتے ہیں اس کی اسناد میں ابراہیم بن مہاجر (متکلم فیہ راوی) ہے۔

13195

13195- إن من العنب خمرا، وإن من التمر خمرا، وإن من العسل خمرا وإن من البر خمرا، وإن من الشعير خمرا. "د عن النعمان بن بشير"
13195 انگور سے شراب بنتی ہے ، کھجور سے شراب بنتی ہے، شہد سے شراب بنتی ہے، گندم سے شراب بنتی ہے اور جو سے بھی شراب بنتی ہے۔ ابوداؤد عن النعمان بن بشیر
کلام : اخرجہ ابوداؤد کتاب الاشربۃ باب الخمر۔ امام منذری (رح) فرماتے ہیں : اس کو امام ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی تخریج فرمائی ہے اور امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں : یہ روایت غریب (ضعیف) ہے اس کی سند میں ابراہیم بن مہاجر البجلی الکوفی ہے جس کے متعلق کئی ایک ائمہ نے کلام کیا ہے۔

13196

13196- أهرق الخمر، واكسر الدنان. "ت عن أبي طلحة"
13196 شراب گرادے اور شراب کا مٹکا توڑ دے۔ الترمذی عن ابی طلحۃ
کلام : ضعیف الجامع 2103 ۔

13197

13197- مدمن الخمر كعابد وثن. "تخ هب عن أبي هريرة"
13197 شراب کا عادی مورتی کے پجاری کی طرح ہے۔
التاریخ للبخاری ، شعب الایمان للبیہقی عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : رواہ ابن ماجہ کتاب الاشربہ باب مدمن الخمر، زوائد میں ہے کہ اس میں محمد بن سلیمان ہے جس کو امام نسانئی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ذخیرۃ الحفاظ 4962، المتناھیۃ 1117 ۔

13198

13198- لا تذهب الأيام والليالي حتى تشرب طائفة من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها. "هـ عن أبي أمامة"
13198 مرورایام ولیالی اس وقت تک رہے گا جب تک میری امت کا ایک گروہ شراب کا نام بدل کر اس کو نہ پئے گا۔ ابن ماجہ عن ابی امامۃ
کلام : رواہ ابن ماجہ کتاب الاشربۃ باب الخمر یسمونھا بغیر اسمہا۔ اس کی سند میں عبدالسلام بن عبدالقدوس ضعیف ہے، زوائد بن ماجہ۔ نیز دیکھئے : ذخیرۃ الحفاظ 6075 ۔

13199

13199- لا يدخل الجنة مدمن خمر. "هـ عن أبي الدرداء"
13199 جنت میں شراب کا عادی داخل نہ ہوگا۔ ابن ماجہ عن ابی الدرداء (رض)

13200

13200 - لا يشرب الخمر رجل من أمتي فيقبل الله منه صلاة أربعين يوما. "ن عن ابن عمرو".
13200 میری امت کا جو آدمی شراب پئے گا اللہ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ فرمائے گا۔
النسائی عن ابن عمرو

13201

13201- يشرب ناس من أمتي الخمور يسمونها بغير اسمها. "ن عن رجل".
13201 میری امت کے لوگ شرابوں کے نام بدل کر ان کو پئیں گے۔ النسائی عن رجل

13202

13202- يشرب ناس من أمتي الخمر باسم يسمونها إياه. "هـ عن عبادة بن الصامت"1
13202 عنقریب میری امت کے لوگ شراب کا دوسرا نام رکھ کر اس کو پئیں گے۔
ابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت

13203

13203- من شرب الخمر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه؛ فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا؛ فإن تاب تاب الله عليه فإن عاد الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب لم يتب الله عليه، وسقاه من نهر الخبال. "ت2 عن ابن عمر" "حم ن ك عن ابن عمرو".
13203 جس نے شراب نوشی کی اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی۔ اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا۔ اگر وہ دوبارہ پئے گا تو اللہ اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ فرمائے گا اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا اگر وہ پھر پئے گا تو اللہ اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ فرمائے گا اگر وہ توبہ کرلے گا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا پھر اگر وہ چوتھی بار بھی شراب نوشی کرے گا تو اللہ اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ فرمائے گا اب اگر وہ توبہ کرے گا تو اللہ اس کی توبہ بھی قبول نہ فرمائے گا اور اس کو نہر خبال سے پلائے گا۔
الترمذی عن ابن عمر، مسند احمد، النسائی مستدرک الحاکم عن ابن عمرو
فائدہ : رواہ الترمذی کتاب الاشربۃ باب ماجاء فی شارب الخمر۔ وقال حدیث حسن ۔ حدیث کا تکملہ یہ ہے : پوچھا گیا : اے ابو عبدالرحمن حضرت ابن عمر (رض) (کی کنیت) نہر خبال کیا ہے ؟ فرمایا : اہل جہنم کی پیپ (خون) کی نہر۔

13204

13204- من شرب الخمر فجعلها في بطنه لم يقبل الله له صلاة سبعا فإن مات فيهن مات كافرا، فإن أذهبت عقله عن شيء من الفرائض لم تقبل له صلاة أربعين يوما؛ فإن مات فيهن مات كافرا. "ن عن ابن عمرو".
13204: جس شخص نے شراب پی کر اپنے پیٹ میں ڈال لی اللہ تعالیٰ اس کی سات دن کی نماز قبول نہیں فرمائیں گے اگر وہ انہی ایام میں مرگیا تو کافر مرے گا اور اگر اس کے سبب اس کی عقل چلی گئی اور اس سے کوئی فرض ترک ہوگیا تو چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی اور انہی ایام میں مرا تو کافر مرے گا۔ نسائی عن ابن عمرو (رض) ۔
فائدہ : ۔۔۔ رواہ الترمذی کتاب الاشربہ باب ماجاء فی شارب الخمر۔ وقال حدیث حسن۔ حدیث کا تکملہ یہ ہے : پوچھا گیا : اے ابو عبدالرحمن (حضرت ابن عمر (رض) کی کنیت) نہر خبال کیا ہے ؟ فرمایا : اہل جہنم کی پیپ (خون) کی نہر۔

13205

13205- من شرب الخمر في الدنيا لم يشربها في الآخرة. "هـ عن أبي هريرة"
13205 جس نے دنیا میں شراب نوشی کی وہ آخرت میں اس کو نہ پی سکے گا۔
ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض) اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات

13206

13206- من شرب الخمر وسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا فإن مات دخل النار فإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد فشرب فسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار، وإن تاب تاب الله عليه فإن عاد وشرب فسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار وإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد [فشرب فسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار، وإن تاب تاب الله عليه فإن عاد] كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة الخبال يوم القيامة قالوا يا رسول الله ما ردغة الخبال؟ قال: عصارة أهل النار. "هـ عن ابن عمرو"2
13206 جس نے شراب نوشی کی اور نشہ ور ہوا اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی اگر وہ مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماگے گا۔ اگر پھر شراب نوشی اور نشہ میں مدہوش ہوا تو اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی اگر وہ مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا اور اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا اگر تیسری مرتبہ پھر شراب نوشی کی اور نشہ میں مدہوش ہوگیا تو اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی اور اگر مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا اور اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا اور اگر اس نے پھر (چوتھی بار) بھی شراب نوشی کی اور نشہ میں غرق ہوا تو اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی اگر وہ مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا اور اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ پھر اگر (پانچویں بار) بھی اس نے شراب نوشی کی تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو قیامت کے روز ردغۃ الخبال پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! روغۃ الخبال کیا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : دوزخیوں (کے جسموں) کا متعفن پانی۔ ابن ماجہ عن ابن عمرو

13207

13207- إن الله تعالى حرم عليكم الخمر والميسر والكوبة، وكل مسكر حرام. "هق عن ابن عباس".
13207 اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور شطرانج کو حرام کردیا ہے اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔
السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض)

13208

13208- إن الله تعالى حرم على أمتي الخمر والميسر والمزر والكوبة3 والغبيراء وزداني صلاة الوتر. "طب هق عن ابن عمر".
13208 اللہ تعالیٰ نے میری امت میں شراب (انگوری شراب) جو، مکئی کی شراب ، شطرنج اور چینا (پودے) کی شراب حرام کردی ہے اور مجھے ایک نماز وتر زیادہ مرحمت فرمائی ہے۔
الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ابن عمرو (رض)

13209

13209- إ ن الله حرم عليكم شرب الخمر وثمنها، وحرم عليكم الميتة وثمنها، وحرم عليكم الخنازير وأكلها وثمنها، قصوا الشوارب، واعفوا اللحى، ولا تمشوا في الأسواق إلا وعليكم الأزر، إنه ليس منا من عمل سنة غيرنا. "طب عن ابن عباس".
13209 اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب پینا اور اس کی قیمت کھانا حرام کردیا ہے۔ نیز تم پر مردار اور اس کی قیمت کو حرام کردیا ہے۔ تم پر خنزیروں کو کھانا اور ان کی قیمت کو بھی حرام کردیا ہے۔ مونچھوں کو کاٹو، ڈاڑھی بڑھاؤ، بازاروں میں تہد بند (مکمل لباس) بغیر نہ پھرو۔ جس نے ہمارے غیر کی سنت پر عمل کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : ضعیف الجامع 1599 ۔

13210

13210- اجلدوا في قليل الخمر وكثيره، فإن أولها حرام وآخرها حرام. "هق عن عائشة".
13210 شراب نوشی میں کوڑوں کی سزا جاری کرو تھوڑی میں اور زیادہ میں۔ بیشک شراب کا اول بھی حرام ہے اور آخر بھی۔ السنن للبیہقی عن عائشۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 151، الضعیفۃ 1830 ۔

13211

13211- إذا سكر فاجلدوه، ثم إن سكر فاجلدوه، ثم إن سكر فاجلدوه، فإن عاد الرابعة فاقتلوه. "د هـ عن أبي هريرة".
13211 جب کوئی نشے میں مدہوش ہوجائے تو اس کو کوڑے مارو ۔ پھر دوبارہ پی کر مدہوش تو پھر کوڑے مارو ۔ پھر مدہوش ہو تو پھر مارو پھر اگر چوتھی بار پئے تو اس کو قتل کردو۔
ابوداؤد ، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13212

13212- إذا شربوا الخمر فاجلدوهم، ثم إن شربوها فاجلدوهم، ثم إن شربوها، فاجلدوهم، ثم إن شربوها فاقتلوهم. "حم د هـ حب عن معاوية".
13212 جب لوگ شراب نوشی کریں تو ان پر کوڑوں کی سزا جاری کرو۔ پھر دوبارہ پئیں تو پھر سزا دو ۔ پھر پئیں تو پھر سزا دو پھر چوتھی بار پئیں تو ان کو قتل کردو۔
مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان عن معاویۃ (رض)

13213

13213- من شرب الخمر فاجلدوه، فإن عاد الثانية فاجلدوه، فإن عاد الثالثة فاجلدوه، فإن عاد في الرابعة فاقتلوه. "حم د ن ك عن ابن عمر" "د ت ك عن معاوية" "د هق عن ذويب" "حم د ن ك عن أبي هريرة" "طب ك والضياء عن شرحبيل بن أوس" "طب قط ك والضياء عن جرير" "حم ك عن ابن عمر" "وابن خزيمة ك عن جابر" "طب عن غضيف" "ن ك والضياء عن الشريد بن سويد" "ك عن نفر من الصحابة".
13213 جو شراب پئے اس کو کوڑے مارو۔ اگر دوبارہ پئے تو پھر کوڑے مارو۔ اگر تیسری بار پئے تو پھر کوڑے مارو۔ پھر اگر چوتھی بار پئے تو پھر قتل کردو۔
مسند احمد ، ابوداؤد ، النسائی، مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض) ابوداؤد، الترمذی، مستدرک الحاکم عن معاویۃ، ابوداؤد، السنن للبیہقی عن ذویب، مسند احمد ، ابوداؤد، النسائی ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض) ، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم ، الضیاء عن شرجیل بن اوس، الکبیر للطبرانی، الدارقطنی فی السنن، مستدرک الحاکم، الضیاء عن جریر، مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن ابن عمر، ابن خزیمہ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض) ، الکبیر للطبرانی عن غضیف ، النسائی ، مستدرک الحاکم، الضیاء عن الشرید بن سوید، مستدرک الحاکم عن نفربن الصحابۃ۔

13214

13214- إذا تناول العبد كأس الخمر بيده ناشده الإيمان بالله لا تدخله علي فإني لا أستقر أنا وهو في وعاء واحد، فإن أبى وشربه نفر الإيمان منه نفرة لن يعود إليه أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه وسلبه من عقله شيئا لا يعود إليه أبدا. "الديلمي عن أبي هريرة".
13214 بندہ جب ہاتھ میں شراب کا جام لیتا ہے تو ایمان اس کو پکارتا ہے : تجھے اللہ کا واسطہ ! تو اس کو میرے اوپر نہ داخل کر ۔ کیونکہ میں اور یہ ایک برتن میں جمع نہیں رہ سکتے۔ لیکن اگر وہ انکار کردے اور جام نوش کرلے تو ایمان اس سے اس قدر متنفر ہو کر نکلتا ہے کہ چالیس روز تک واپس نہیں آتا۔ پھر اگر وہ توبہ بھی کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے لیکن اس کی عقل میں سے کچھ حصہ سلب کرلیتا ہے جو واپس کبھی نہیں آیا۔ الدیلمی عن ابوہریرہ (رض)

13215

13215- إذا شرب الرجل كأسا من خمر، الحديث. "عد عن بَحِيرَى "1" الراهب" * وقال منكر ولم أسمع لبَحِيرَى بمسند غير هذا* وقال ابن حجر في الإصابة: ليس هذا بَحِيرَى الذي لقي النبي صلى الله عليه وسلم قبل البعثة مع أبي طالب كما ظن بعضهم بل هذا أحد الثمانية الذين قدموا مع جعفر بن أبي طالب.
13215 آدمی جب شراب کا پیالہ پی لیتا ہے الخ۔
اذا شرب الرجل کا سنا من حمد الحدیث، الکامل لا بن عدی عن بحیرا الراھب
کلام : یہ روایت منکر ہے اور بحیرا کی اس کے سوا کوئی اور مسند روایت نہیں ہے۔ امام ابن حجر الاصابہ میں فرماتے ہیں : یہ بحیرا وہ شخص نہیں ہے جس کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعثت سے قبل حضرت ابوطالب کی معیت میں ملاقات ہوئی تھی جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ یہ ان آٹھ افراد میں سے ایک ہے جو حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ وفد بن کر آئے تھے۔

13216

13216- إن الله تعالى كنس عرصة جنة الفردوس بيده ثم بناها من فضة ولبنة من ذهب مصفى، ولبنة من مسك مدراء وغرس فيها من جيد الفاكهة وطيب الريحان، وفجر فيها أنهارها، ثم أتى ربنا إلى عرشه فنظر إليها فقال: وعزتي لا يدخلك مدمن خمر، ولا مصر على الزنا. "أبو نعيم في المعرفة عن سلامة" وقال لا يصح له صحبة.
13216 اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس کے صحن کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا پھر ایک عمارت ایسی بنائی جس میں ایک اینٹ چاندی، ایک اینٹ خالص سونے کی اور ایک اینٹ مشک کی تھی۔ پھر اس میں عمدہ ترین پھلوں کے درخت لگائے عمدہ خوشبوئیں بسائیں، اس میں نہریں جاری کیں ۔ پھر ہمارا پروردگار اپنے عرش کی سمت آیا اور اس کو دیکھ کر گویا ہوا : میری عزت کی قسم ! (اے جنت ! ) تجھ میں کوئی شراب کا عادی اور زنا پر اصرار کرنے والا داخل نہ ہوگا (ابونعیم فی المعرفۃ عن سلامۃ) سلامہ کی صحبت (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) صحیح ثابت نہیں۔

13217

13217- إن الخبائث جعلت في بيت فأغلق عليها وجعل مفتاحها الخمر فمن شرب الخمر وقع في الخبائث. "عب عن معمر عن ابان" * رفع الحديث
13217 تمام گندگیوں (اور گناہوں) کو ایک کمرے میں رکھ کر بند کردیا گیا اور ان کی چابی خمر (شراب ) بنادی گئی۔ پس جس نے شراب نوشی کی وہ خبائث (گندگیوں میں پڑگیا) ۔
المصنف لعبد الرزاق عن معمر عن ابان، رفع الحدیث

13218

13218- إن ناسا باتوا في شراب ودفوف وغناء، فأصبحوا قردة وخنازير. "ابن صصرى في أماليه عن ابن عباس".
13218 کچھ لوگوں نے شراب نوشی اور گانے بجانے میں رات بسر کی پھر صبح کو وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں اٹھے۔ ابن صصری فی امالیہ عن ابن عباس (رض)

13219

13219- من زوج ابنته أو واحدة من أهله ممن يشرب الخمر فكأنما قادها إلى النار. "الديلمي عن ابن عباس".
13219 جس نے اپنی بیٹی یا اپنے گھر میں سے کسی لڑکی کی شادی کسی شرابی سے کردی تو گویا اس کو (اپنے ہاتھوں) جہنم میں دھکیل دیا۔ الدیلمی عن ابن عباس (رض)

13220

13220- من سره أن يسقيه الله الخمر في الآخرة فليتركها في الدنيا، ومن سره أن يكسوه الله الحرير فليتركها في الدنيا، أنهار الجنة تفجر من تحت تلال المسك، ولو كان أدنى أهل الجنة حلية عدلت بحلية أهل الدنيا جميعا لكانت ما يحليه الله عز وجل به في الآخرة أفضل من حلية أهل الدنيا جميعا. "ق في البعث كر عن أبي هريرة".
13220 جس کو اس بات کی خوش ہو کہ اللہ پاک اس کو آخرت میں خمر (شراب) پلائے تو وہ دنیا میں اس کو ترک کردے۔ جس کو اس بات کی خواہش ہو کہ اللہ پاک اس کو آخرت میں حریر (ریشم) پہنائے تو وہ دنیا میں اس کو پہننا ترک کردے۔ جنت کی نہریں مشک کے ٹیلے کے نیچے سے پھوٹتی ہیں۔ اگر ادنیٰ جنتی کے لباس کے اہل دنیا کے تمام لباسوں سے مقابلہ کرایا جائے تو ادنیٰ جنتی کا لباس ان تمام لباسوں سے افضل ہوگا جو الل پاک اس کو آخرت میں پہنائیں گے۔
البیہقی فی البعث، ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

13221

13221- من حبس العنب أيام قطافه حتى يبيعه عن يهودي، أو نصراني ليتخذه خمرا فقد تقحم1 النار عيانا. "هب عن بريدة".
13221 جس نے انگور موسم میں روکے رکھے حتیٰ کہ پھر کسی یہودی یا نصرانی (جو بھی شراب سازی میں اس کو استعمال کرے) کو فروخت کیے تاکہ وہ اس کی شراب بناسکے تو گویا اس نے اپنے تئیں کھلے بندوں جہنم میں دھکیل دیا۔ شعب الایمان للبیہقی عن بریدۃ (رض)
کلام : الضعیفۃ 1269 ۔

13222

13222- من حبس العنب زمن القطاف حتى يبيعه من يهودي أو نصراني أو ممن يعلم أنه يتخذه خمرا، فقد تقدم في النار على بصيرة. "هب عن بريدة".
13222 جس نے انگور چننے کے زمانے میں انگورروک لیے حتیٰ کہ (موسم نکلنے کے بعد) ان کو کسی یہودی یا کسی عیسائی یا ایسے کسی شخص کو بیچے جو ان سے شراب بنائے گا تو وہ خود جانتے بوجھتے جہنم میں کود گیا۔ شعب الایمان للبیہقی عن بریدۃ
کلام : روایت ضعیف ہے : المتناھیۃ 116، لوضع فی الحدیث 169/1 ۔

13223

13223- من شرب الخمر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا، فإن تاب لم يتب الله عليه وسقاه من نهر الخبال. "ط حم ت حسن1 " هب عن ابن عمر" "حم ن ك عن ابن عمر".
13223 جس نے شراب نوشی کی چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی ۔ پھر اگر وہ توبہ تائب ہوگیا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ پھر دوبارہ شراب نوشی کی تو اللہ پاک چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ فرمائے گا پھر اگر توبہ تائب ہوگیا تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر اسی طرح تیسری بار بھی شراب نوشی کی اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ پھر اگر چوتھی بار بھی شراب نوشی کا مرتکب ہوگیا تو اللہ پاک اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ فرمائے گا پھر اگر وہ توبہ تائب بھی ہوگیا تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول نہ فرمائے گا اور اس کو نہر الخبال سے پلائے گا۔
ابوداؤد ، مسند احمد، الترمذی حسن، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض) ، مسند احمد ، النسائی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض) ۔

13224

13224- من شرب مخمرا مسكرا مستحلا له بعد تحريمه لم يتب ولم ينزع فليس مني ولا أنا منه يوم القيامة. "ابن عساكر عن معاوية".
13224 شراب کی حرمت ہونے کے بعد جس نے شراب کو حلال سمجھا اور اس کو پی کر مدہوش ہوا پھر اس نے توبہ کی اور نہ شراب نوشی ترک کی تو قیامت کے روز میرا اس سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہوگا۔ ابن عساکر عن معاویۃ (رض)

13225

13225- من شرب حسوة من خمر لم يقبل الله منه ثلاثة أيام صرفا ولا عدلا ومن شرب كأسا لم يقبل الله منه أربعين صباحا والمدمن الخمر حق على الله أن يسقيه من نهر الخبال، قيل: يا رسول الله، ما نهر الخبال؟ قال: صديد أهل النار. "طب عن ابن عباس"
13225 جس نے شراب کی ایک چسکی لی اللہ پاک تین روز تک اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائیں گے اور نہ نفل ۔ اور جس نے ایک پیالہ شراب نوش کیا اللہ پاک اس کے چالیس روز تک نہ کوئی فرض قبول فرمائیں گے اور نہ نفل۔ اور شراب کے عادی کے لیے اللہ پر (لازم اور) حق ہے کہ اس کو نہر الخبال سے پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! نہر الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم کی پیپ (لہو اور گندگی کا ملغوبہ) ۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 71/5 پر اس کو ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ امام طبرانی نے ابن عباس کے حوالے سے اس کو نقل فرمایا ہے، اس میں حکیم بن نافع ضعیف راوی ہے اگرچہ ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔

13226

13226- من شرب الخمر كان نجسا أربعين يوما، فإن تاب منها تاب الله عليه وإن عاد عاد نجسا أربعين يوما، فإن تاب منها تاب الله عليه فإن ربع كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة الخبال. "طب عن ابن عباس"
13226 جس نے شراب نوشی کی وہ چالیس روز تک نجس رہے گا۔ اگر توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا اور اگر پھر شراب نوشی کا مرتکب ہوا تو پھر چالیس روز تک نجس رہے گا اگر توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا پھر اگر چوتھی بار بھی شراب نوشی کی تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو ردغۃ الخباب پلائے ۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد 71/5 پر اس کو نقل فرمایا اور فرمایا کہ امام طبرانی نے ابن عباس (رض) سے اس کی روایت فرمایا اور اس میں شہر بن حوشب راوی ہے جس میں ضعف ہے لیکن اس کی روایت حسن ہے

13227

13227- من شرب الخمر وسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا وإن مات دخل النار، فإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد فشرب لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار، وإن تاب تاب الله عليه وإن عاد فشرب فسكر لم تقبل له صلاة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار وإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة الخبال يوم القيامة قالوا: يا رسول الله ما ردغة الخبال؟ قال: عصارة أهل النار. "هـ عن ابن عمرو"
13227 جس نے شراب نوشی کی اور مدہوش ہوا اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی اور اگر (اسی حال میں) مرگیا تو جہنم واصل ہوگا۔ اگر توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر پھر دوبارہ شراب نوشی کی تو اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی اگر مرگیا تو جہنم واصل ہوگا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر سہ باری شراب نوشی کی اور نشہ میں مدہوش ہوا تو اللہ پاک اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ فرمائے گا اگر (اسی حال میں) مرگیا تو جہنم واصل ہوگا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر پھر چوتھی بار شراب نوشی کا مرتکب ہوا تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو قیامت کے دن ردغۃ الخبال پلائے۔ لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! ردغۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم (کے جسموں) کا نچڑا ہوا (گندا) پانی۔
ابن ماجہ عن ابن عمرو
فائدہ : ان تمام احادیث میں توبہ قبول فرمانے کا مطلب ہے کہ اس کی نماز قبول ہوجائے گی۔

13228

13228- من شرب الخمر فسكر لم تقبل له صلاة أربعين يوما، ثم إن شربها حتى يسكر لم تقبل له صلاة أربعين يوما، ثم إن شربها فكذلك ثم إن شربها الرابعة فسكر منها كان حقا على الله أن يسقيه من عين الخبال قيل: وما عين الخبال؟ قال: صديد أهل النار. "ك عن ابن عمر"
13228 جس نے شراب نوشی کی اور مدہوش ہوگیا اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہ ہوگی۔ پھر اگر پی لی حتیٰ کہ مدہوش ہوگیا تو چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی پھر پی تو پھر اسی طرح۔ چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ پھر چوتھی بار پی اور نشہ میں غرق ہوا تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو عین الخبال پلائے ۔ پوچھا گیا : عین الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : جہنمیوں کا خون پیپ وغیرہ۔
مستدرک الحاکم عن ابن عمر (رض) ، صحیح الاسناد بموافقۃ الذھبی (رح)

13229

13229- من شرب الخمر لم يقبل الله له صلاة أربعين ليلة، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد كان مثل ذلك، فإن عاد كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال، قيل: يا رسول الله وما طينة الخبال؟ قال: عصارة أهل النار. "حم عن أبي ذر" "طب عن أبي الدرداء".
13229 جس نے شراب نوشی کی اللہ پاک چالیس راتوں تک اس کی نماز قبول نہ فرمائے گا۔ پھر اگر توبہ تائب ہوا تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر پھر شراب نوشی کی تو اسی طرح ہوگا اگر پھر شراب نوشی کا مرتکب ہوا تو اللہ پاک پر لازم ہے کہ اس کو طینۃ الخبال پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! طینۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم کا خون پیپ۔
مسند احمد عن ابی ذر (رض) ، الکبیر للطبرانی عن ابی الدرداء (رض)

13230

13230- من شرب الخمر فسكر لم تقبل له صلاة أربعين يوما فإن مات فإلى النار فإن تاب قبل الله منه، فإن شرب الثانية فكذلك، فإن شرب الثالثة فكذلك، فإن شرب الرابعة كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة الخبال قيل: يا رسول الله وما ردغة الخبال؟ قال: عصارة أهل النار. "طب ع عن عياض بن غنم"
13230 جس نے شراب نوشی کی اور مدہوش ہوا اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ فرمائیں گے۔ اگر وہ مرگیا تو واصل جہنم ہوگا۔ اگر توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ اگر دوسری بار شراب نوشی کی تو اسی طرح ہوگا پھر اگر چوتھی بار بھی شراب نوشی کی تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو ردغۃ الخبال پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! ردغۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم کے جسموں کا گندہ اخون پیپ وغیرہ۔ الکبیر للطبرانی ، مسند ابی یعلی عن عیاض بن عنم
کلام : امام ہیثمی (رح) نے مجمع الزوائد کتاب الاشربۃ 70/5 پر اس کو ذکر فرمایا اور فرمایا : اس کو ابویعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے لیکن اس میں المثنی بن الصباح متروک راوی ہے ، اگرچہ ابو محصن حصین بن غیر نے اس کی توثیق فرمائی ہے لیکن جمہور نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

13231

13231- من شرب الخمر بعد أن حرمها الله تعالى على لساني فليس له أن يزوج إذا خطب، ولا يشفع إذا شفع، ولا يصدق إذا حدث ولا يؤتمن على أمانة، فإن اؤتمن أمانة فأكلها أو استأكلها، فليس لصاحبها على الله أن يأجره ولا يحلف عليه. "ابن النجار عن علي".
13231 جس نے شراب نوشی کی حالانکہ اللہ پاک اس کو میری زبان پر حرام قرار دے چکے ہیں پس اگر وہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول نہ کیا جائے، اگر وہ سفارش کرے اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اگر وہ کوئی خبر بیان کرے تو اس کی تصدیق نہ کی جائے اور نہ اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے۔ اگر اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی گئی پھر اس نے اس کو کھالیا یا ضائع کردیا تو صاحب امانت کو اللہ اس پر کوئی اجر نہیں دے اور نہ پھر وہ شرابی سے اس پر کوئی قسم لے۔
ابن النجار عن علی (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے دیکھئے : التنزیہ 232/2، ذیل اللآلی 135 ۔

13232

13232- من شرب الخمر لم يرض الله عنه أربعين يوما، فإن مات مات كافرا وإن تاب تاب الله عليه وإن عاد كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال صديد أهل النار. "حم طب عن أسماء بنت يزيد".
13232 جس نے شراب نوشی کی اللہ پاک چالیس روز تک اس سے راضی نہ ہوں گے ۔ اگر وہ مرگیا تو کفر کی حالت میں مرے گا، ہاں اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا اگر دوبارہ شراب نوشی کی تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو طینۃ الخبال جو جہنمیوں کا خون پیپ ہے وہ پلائے۔ مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن اسناء ست یرید

13233

13233- من شرب الخمر أتى عطشان يوم القيامة ألا وكل مسكر خمر إياكم والغبيراء. "حم عن قيس بن سعد وابن عمرو" معا.
13233 جس نے شراب پی قیامت کے روز وہ سخت پیاسا آئے گا اور ہر نشہ آور شے شراب ہے۔ پس تم مکئی کی شراب سے بھی گریز کرو ۔ مسند احمد عن قیس بن سعید وابن عمرو معا

13234

13234- من شرب الخمر في الدنيا ولم يتب لم يشربها في الآخرة وإن أدخل الجنة. "هب عن ابن عمر".
13234 جس نے دنیا میں شراب پی اور توبہ نہ کی وہ آخرت میں اس کو نہ پی سکے گا خواہ جنت میں داخل ہوجائے۔ شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمر (رض)

13235

13235- من شرب الخمرة مرة لم تقبل توبته أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه فإن عاد كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة الخبال يوم القيامة. "هب عن ابن عمر".
13235 جس نے ایک بار شراب نوشی کی چالیس روز تک اس کی توبہ قبول نہ ہوگی (یعنی اس کے توبہ کیے بغیر) لیکن اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالیں گے اور پھر اس نے شراب نوشی کا ارتکاب کیا تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو قیامت کے روز ردغۃ الخبال پلائے۔
شعب الایمان عن ابن عمر (رض)

13236

13236- من ترك الصلاة سكرا مرة واحدة فكأنما كانت له الدنيا وما عليها فسلبها ومن ترك الصلاة أربع مرات سكرا كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال، قيل: وما طينة الخبال؟ قال: عصارة أهل جهنم. "حم ك هق عن ابن عمرو"
13236 جس نے (شراب کے) نشے میں ایک وقت کی نماز چھوڑ دی گویا اس کے پاس ساری دنیا مال و دولت سمیت موجود تھی مگر وہ اس سے چھین لی گئی۔ جس نے نشہ میں چار مرتبہ نماز چھوڑ دی تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو ردغۃ الخبال پلائے، پوچھا گیا : ردغۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم کا نچڑا ہوا (خون پیپ) ۔ مسند احمد ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی عن ابن عمرو
کلام : امام حاکم نے المستدرک کتاب الاشربۃ 146/4 پر روایت کیا ہے اور امام ذھبی (رح) نے فرمایا : ابن وھب اس کے روایت کرنے والے ہیں اور یہ روایت انتہائی ضعیف ہے۔

13237

13237- من شرب الخمر في الدنيا ثم مات وهو يشربها لم يتب منها حرمها الله عليه في الآخرة. "عب عن ابن عمر".
13237 جس نے دنیا میں شراب نوشی کی پھر شراب نوشی کی حالت میں مرگیا اور توبہ نہ کی تو الل پاک آخرت میں شراب کو اس پر حرام کردیں گے۔ المصنف لعبد الرزاق عن ابن عمیرو (رض)

13238

13238- من شرب الخمر صباحا كان كالمشرك بالله حتى يمسي وكذلك إن شربها ليلا كان كالمشرك بالله حتى يصبح، ومن شربها حتى يسكر لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا، ومن مات وفي -عروقه منها شيء مات ميتة جاهلية. "ت عن المنكدر" مرسلا
13238 جس نیصبح کے وفت شراب نوشی کی گویا شام تک وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا رہا۔ اسی طرح اگر رات کے وقت شراب نوشی کی تو گویا صبح تک اللہ کے ساتھ شرک کرتا رہا۔ اور جس نے اس قدر شراب نوشی کی کہ نشہ میں ڈوب گیا تو اللہ پاک چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیں گے۔ اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی رگوں میں شراب کی رمق بھی تو وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرا۔ الترمذی عن المنکدر

13239

13239- من شرب الخمر في الدنيا لم يشربها في الآخرة إلا أن يتوب. "كر عن ابن عمر".
13239 جس نے دنیا میں شراب نوشی کی وہ آخرت میں اس کو نوش نہ کرسکے گا۔ الایہ کہ وہ دنیا میں اس سے توبہ کرلے۔ ابن عساکر عن ابن عمر (رض)

13240

13240- من مات وهو مدمن خمر لقي الله تعالى وهو مسود الوجه، مظلم الجوف، لسانه ساقط على صدره يقذره الناس. "الشيرازي في الألقاب عن ابن عمر".
13240 جو اس حال میں مرا کہ وہ عادی شراب نوش تھا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ تاریک ہوگا، تاریک پیٹ ہوگا، اس کی زبان سینے پر لٹک رہی ہوگی اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہوں گے۔ الشیرازی فی الالقاب عن ابن عمر (رض)

13241

13241- من لقي الله وهو مدمن خمر لقيه كعابد وثن. "خ في تاريخه هب عن محمد بن عبد الله عن أبيه".
13241 جو اس حال میں اللہ کے پاس گیا کہ وہ شراب کا عادی تھا تو وہ مورتی پوجنے والے کی طرح اللہ سے ملاقات کرے گا۔
البخاری فی التاریخ، شعب الایمان للبیہقی عن محمد بن عبداللہ عن ابیہ

13242

13242- من مات وفي بطنه ريح الفضيخ فضحه الله على رؤوس الأشهاد يوم القيامة. "طب عن ابن عباس".
13242 جو اس حال میں مرا کہ اس کے پیٹ میں شراب کی بدبو تھی تو قیامت کے روز اللہ پاک اس کو برسر عام خلائق رسوا کریں گے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

13243

13243- من مات في سكرته كان بمنزلة عابد الأوثان. "الديلمي عن ابن عمر".
13243 جو نشے کی حالت میں مرا وہ بتوں کے پجاری کے مثال ہوگا۔
الدیلمی عن ابن عمر (رض)

13244

13244- الخمر من هاتين الشجرتين: النخلة، والعنبة. "عب حم م د ت ن هـ عن أبي هريرة".
13244 (اصل) شراب ان دو درختوں کی ہوتی ہے : کھجور اور انگور۔
المصنف لعبد الرزاق، مسنداحمد، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13245

13245- من العنب خمر، ومن العسل خمر، ومن الزبيب خمر، ومن الحنطة خمر وأنا أنهى عن كل مسكر. "طب عن ابن عمر".
13245 انگور سے شراب ہے، شہد سے شراب، کشمش سے شراب ہے اور گندم سے شراب ہے اور میں تمہیں ہرنشہ آور شے سے منع کرتا ہوں۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)

13246

13246- الخمر أم الخبائث، ومن شربها لم يقبل الله منه صلاة أربعين يوما، وإن مات وهي في بطنه مات ميتة جاهلية. "ابن النجار عن ابن عمر".
13246 شراب ام الخبائث ہے، جس نے شراب نوشی کی اللہ پاک اس سے چالیس روز تک کوئی نماز قبول نہ فرمائیں گے اور اگر شراب پیٹ میں ہوتے ہوئے وہ مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ ابن النجار عن ابن عمر (رض)
کلام : اللآلی 202/2 ۔

13247

13247- الخمر تعلو الخطايا كما أن شجرها يعلو الشجر. "الديلمي عن أنس".
13247 شراب تمام خطاؤں کے اوپر چڑھ جاتی ہے جس طرح اس کی (یعنی انگور کی بیل درخت پر) چڑھ جاتی ہے۔ الدیلمی عن انس (رض)

13248

13248- الخمر من العنب والسكر من التمر، والمزر من الذرة والغبيراء من الحنطة والبتع1 من العسل، كل مسكر حرام، والمكر والخديعة في النار والبيع عن تراض. "عب عن ابن المسيب" مرسلا.
13248 شراب انگور کی ہے نشہ کھجور کا ہے مزر (شراب) مکئی سے ہے، غبیراء گندم سے ہے، تبع (اہل یمن کی شراب) شہد کی ہے۔ ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ دھوکا فریب وہی جہنم میں ہے اور خریدو فروخت باہمی رضا مندی سے ہے۔ المصنف لعبد الرزاق عن ابن المسیب ، مرسلاً

13249

13249- من وضع الخمر على كفه لم تقبل له دعوة، ومن أدمن على شربها سقي من الخبال، والخبال واد في جهنم. "طب عن ابن عمرو".
13249 جس نے اپنی ہتھیلی پر شراب رکھی اس کی کوئی دعا قبول نہ ہوگی اور جو شراب نوشی کا عادی ہوا اس کو خبال پلایا جائے گا اور خبال جہنم کی ایک وادی ہے۔ جس میں جہنمیوں کا خون پیپ گندا اکٹھا ہوتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو

13250

13250- حلف الله بعزته وقدرته، لا يشرب عبد مسلم شربة من خمر إلا سقيته بما انتهك منها من الحميم معذب بعد أو مغفور، ولا يتركها وهو عليها قادر ابتغاء مرضاتي إلا سقيته منها، فأرويته في حظيرة القدس. "عب عن ابن عمر" وسنده ضعيف.
13250 اللہ پاک نے اپنی عزت اور قدرت کی قسم کھائی ہے : کہ کوئی مسلمان بندہ شراب کا ایک گھونٹ نہیں بھرے گا مگر میں جہنم کا مشروب اس کے بدلے ضرور پلاؤں گا بعد میں خواہ اس کو عذاب دوں یا اس کی مغفرت کروں۔ اور نہ کوئی اس کو چھوڑے گا حالانکہ وہ اس پر قادر تھا، صرف میری رضاء کے لیے اس کو چھوڑ دیا تو میں اس کو آخرت میں ضرور پلاؤں گا اور حظیرۃ القدس میں اس کو سیر کردوں گا۔ المصنف لعبدالرزاق عن ابن عمر (رض)
کلام : روایت کی سند ضعیف ہے۔

13251

13251- لا يحجب قول لا إله إلا الله عن الله إلا ما خرج من فم صاحب الشاربين ليلة النصف من شعبان. "الديلمي عن ابن مسعود".
13251: لا الہ الا اللہ کو نصف شعبان کی رات اللہ کے پاس پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی مگر وہ (بو) جو شرابیوں کے منہ سے نکلتی ہے۔ (الدیلمی عن ابن مسعود)

13252

13252- يا أشج إني إن رخصت لكم في مثل هذه شربته في مثل هذه، حتى إذا ثمل أحدكم من شرابه مال إلى ابن عمه فهزر ساقه بالسيف. "حم عن رجل من وفد عبد القيس".
13252: اے اشج اگر میں تم کو ایسے (گاڑھے ) نبیذ جیسے مشروبات کی ایسے برتنوں (گھڑوں) میں پینے بنانے کی اجازت دیدوں تو تم میں سے کوئی نشے میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے چچا زاد پر تلوار سے وار کرکے اس کو لنگڑا کرسکتا ہے۔ مسند احمد عن رجل من وفد عبدالقیس

13253

13253- يخرج شارب الخمر من قبره يوم القيامة متورم بطنه متورم شدقاه مدلع لسانه، يسيل لعابه على بطنه نار في بطنه تأكله حتى يفرغ من الخلائق. "الشيرازي في الألقاب عن ابن عباس" وفيه أبو حذيفة إسحاق بن بشر.
13253 شراب نوشی قیامت کے روز اپنی قبر سے اس حال میں نکلے گا کہ اس کا شکم پھولا ہوگا، اس کی باچھیں پھولی ہوں گی، اس کی زبان نکل رہی ہوگی، اس کا لعاب اس کے پیٹ پر بہہ رہا ہوگا اور اس کے پیٹ میں آگ اس کو اندر سے کھارہی ہوگی حتیٰ کہ مخلوق حساب کتاب سے فارغ ہو۔ وہ اسی حال میں رہے گا۔ الشیرازی فی الالقاب عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت کی سند میں ابوحذیفہ اسحاق بن بشر متکلم فیہ راوی ہے۔

13254

13254- لا يقبل الله لشارب الخمر صلاة ما دام في جسده منها شيء. "عبد بن حميد وابن لال وابن النجار عن أبي سعيد".
13254 اللہ پاک سے نوش کی کوئی نماز قبول نہیں فرماتے جب تک اس کے جسم میں اس شراب کا کچھ حصہ بھی ہو۔ عبدبن حمید وابن لال وابن النجار عن ابی سعید

13255

13255- يلقى الله شارب الخمر يوم القيامة حين يلقاه وهو سكران فيقول: ويلك ما شربت؟ فيقول: الخمر، فيقول: ألم أحرمها عليك؟ فيقول: بلى، فيؤمر به إلى النار. "عب عن معمر عن أبان عن الحسن" مرسلا.
13255 قیامت کے روز جب شراب نوش اللہ سے ملاقات کرے گا تو وہ مدہوشی کی حالت میں ہوگا۔ اللہ پاک فرمائیں گے : تو ہلاک ہوا تو نے کیا پی رکھا ہے ؟ بندہ کہے گا : شراب اللہ پاک فرمائے گا : کیا میں نے اس کو حرام نہیں کردیا تھا ؟ بندہ کہے گا : ضرور۔ چنانچہ پھر اس کو جہنم کا حکم سنادیا جائے گا۔ المصنف لعبد الرزاق عن معمر عن ابان عن الحسن مرسلاً

13256

13256- إن الله لعن الخمر وعاصرها والمعتصر والجالب والمجلوب إليه والبائع والمشتري والساقي والشارب وحرم ثمنها على المسلمين. "الخطيب وابن النجار عن ابن عمر".
13256 اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے شراب پر، اس کے نچوڑنے والے پر، لے جانے والے پر، اس پر جس کے پاس لے جائی جائے، فروخت کرنے والے پر، خریدنے والے پر، پلانے والے پر، پینے والے پر اور اللہ نے اس کی قیمت کو مسلمانوں پر حرام کردیا ہے۔
الخطیب وابن النجار عن ابن عمر (رض)

13257

13257- لعن الله الخمر وعاصرها وشاربها وساقيها وبائعها ومبتاعها وحاملها والمحمولة إليه وآكل ثمنها. "طب عن ابن عمرو".
13257 اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے فروخت کرنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر، اس پر جس کے پاس اٹھا کرلے جائی جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر، الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو

13258

13258- لعنت الخمر على عشرة أوجه: لعنت الخمر بعينها وشاربها وساقيها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه وبائعها ومبتاعها وآكل ثمنها. "هـ حم ق عن ابن عمر" "طب عن ابن مسعود"
13258 شراب پر دس صورتوں میں لعنت پڑی ہے : خود بعینہ شراب ملعون ہے، پھر اس کا پینے والا، اس کو پلانے والا، اس کا نچڑوانے والا، اس کا نچوڑنے والا، اس کا اٹھانے والا، اس کو اٹھوانے والا، اس کا فروخت کنندہ، اس کا خریدار ، اور اس کی قیمت کھانے والا، یہ سب ملعون ہیں۔
ابن ماجہ، مسند احمد ، السنن للبیہقی عن ابن عمر، الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض)

13259

13259- إن بائعها كشاربها، يعني الخمر. "طب عن عامر بن ربيعة" "طب عن كيسان".
13259 شراب فروخت کرنے والا پینے والے کی طرح ہے۔
الکبیر للطبرانی عن عامر بن ربیعۃ ، الکبیر للطبرانی عن کیسان

13260

13260- إن الله تعالى حرم على أمتي الخمر والميسر والمزر وزادني صلاة الوتر. "طب ق عن ابن عمر".
13260 اللہ تعالیٰ نے میری امت پر شراب ، جو، مکئی کی شراب، شطرنج اور گندم کی شراب سب حرام کردی ہیں اور مجھے نماز وتر زیادہ عطا فرمائی ہے۔
الکبیر للطبرانی ، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض)

13261

13261- نزل تحريم الخمر الذي تطبخونه. "حم عن الأشعث بن قيس".
13261 جو شراب تم پکار ہے ہو اس کی تو حرمت نازل ہوچکی ہے۔
مسند احمد عن الاشعث بن قیس

13262

13262- إن أمتي يشربون الخمر في آخر الزمان يسمونها بغير اسمها. "طب عن ابن عباس"
13262 آخری زمانے میں میری امت شراب کا دوسرا نام رکھ کر اس کو نوش کرے گی۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

13263

13263- إن قوما يشربون الخمر يسمونها بغير اسمها. "ابن قانع عن حجر بن عدي بن ادبر الكندي".
13263 ایک قوم شراب کو دوسرا نام دے کر اس کو پئے گی۔
ابن قانع عن حجر بن عدی بن ادبر الکندی

13264

13264- إن ناسا من أمتي يشسربون الخمر يسمونها بغير اسمها. "ط طب عن عبادة بن الصامت" "ك هق عن عائشة" "حم عن رجل من الصحابة".
13264 میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اس کو پئیں گے۔
ابوداؤد، الکبیر للطبرانی عن عبادۃ بن الصامت، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی عن عائشۃ (رض) ، مسند احمد عن رجل من الصحابۃ

13265

13265- يكون في آخر أمتي شراب، وهو الخمر يستحلونه باسم يسمونه غير الخمر. "طب عن عبادة بن الصامت".
13265 میری آخری امت میں ایسی شراب ہوں گی جو عین شراب ہوں گی لیکن لوگ اس کو شراب کے سوا دوسرا نام دے کر اس کو حلال کرلے گی۔ الکبیر للطبرانی عن عبادۃ بن الصامت

13266

13266- يستحل آخر أمتي الخمر باسم تسميها. "طب عن عبادة بن الصامت".
13266 میری آخری امت شراب کو دوسرا نام دے اس کو حلال کرلے گی۔
الکبیر للطبرانی عن عبادہ بن الصامت

13267

13267- ليشربن أناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها. "حم د عن أبي مالك الأشعري" "الخطيب عن ابن عمر"
13267 میری امت کے کچھ لوگ شراب کا دوسرا نام رکھ کر اس کو پینے لگیں گے۔
مسند احمد، ابوداؤد عن ابی مالک الاشعری، الخطیب عن ابن عمر (رض)

13268

13268- إذا شرب الخمر فاجلدوه، ثم إذا شرب فاجلدوه، ثم إذا شرب فاجلدوه، ثم إذا شرب الرابعة فاضربوا عنقه. "عب عن معاوية".
13268 جب کوئی شراب نوشی کرے تو اس کو کوڑے مارو۔ پھر کرے تو پھر مارو۔ پھر کرے تو پھر مارو۔ پھر بھی شراب نوشی کرے تو اس کی گردن ماردو۔ المصنف لعبدالرزاق عن معاویۃ (رض)

13269

13269- من شرب الخمر فاجلدوه، ومن عاد فاجلدوه، فإن عاد فاجلدوه فإن عاد فاقتلوه. "حب ص عن أبي سعيد".
13269 جو شراب نوشی کرے اس کو کوڑے مارو۔ دوبارہ کرے تو دوبارہ مارو۔ سہ بار کرے سہ بار مارو۔ چوتھی بار شراب نوشی کرے تو اس کو قتل کر ڈالو۔
ابن حبان، السنن لسعید بن منصور عن ابی سعید (رض)

13270

13270- قوموا فاضربوه بنعالكم. "طب عن عبد الرحمن بن أزهر" قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بشارب يوم حنين قال فذكره.
13270 اٹھو اور اس کو اپنے جوتوں سے مارو۔ الکبیر للطبرانی عن عبدالرحمن بن ازھو
فائدہ : جنگ حنین کے موقع پر حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شراب نوش کو پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق مذکورہ حکم صادر فرمایا۔

13271

13271- أهرق الخمر، واكسر الدنان. "ت عن أنس عن أبي طلحة"1
13271 شراب گرادے اور اس کا مٹکا توڑ ڈال۔ الترمذی عن انس عن ابی طلحۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع :2103 ۔

13272

13272- ألا إن كل مسكر على كل مؤمن حرام. "طب عن معاوية".
13272 خبردار ! ہر نشہ آور شے ہر مومن پر حرام ہے۔ الکبیر للطبرانی عن معاویۃ (رض)

13273

13273- ألا إن كل مسكر حرام، وكل مخدر حرام، وما أسكر كثيره حرام قليله، وما خمر العقل فهو حرام. "أبو نعيم عن أنس بن حذيفة".
13273 خبردار ! ہر نشہ آور شے حرام ہے، ہر وہ شے جو سن اور بےحس کردے حرام ہے، جس شے کی کثیر مقدار حرام ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے اور عقل کو مختل کردینے والی ہر شے حرام ہے۔ ابونعیم عن انس بن حذیفہ

13274

13274- كل مسكر خمر، وما أسكر كثيره، فقليله حرام. "الشيرازي والخطيب عن علي".
13274 ہر نشہ آور شے حرام ہے، جس شے کی کثیر مقدار حرام ہے اس کی معمولی مقدار بھی حرام ہے۔ الشیرازی والخطیب عن علی (رض)
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 4262 ۔

13275

13275- كل مسكر حرام، وكل مسكر خمر اوله وآخره. "الشيرازي في الألقاب عن عائشة".
13275 ہر نشہ آور شے حرام ہے، جس شے کا کثیر حرام ہے اس کا قلیل بھی حرام ہے۔
مسند احمد، ابن ماجہ، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض)

13276

13276- كل مسكر حرام، وما أسكر كثيره، فقليله حرام. "حم هـ ق عن ابن عمر".
13276: ہر نشہ آور شے حرام ہے، جس شے کا کثیر حرام ہے اس کا قلیل بھی حرام ہے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض))

13277

13277- كل مسكر خمر وكل مسكر حرام. "طب عن قيس بن سعد" "كر عن أنس".
13277 ہر نشہ آور شے شراب ہے اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔
الکبیر للطبرانی عن قیس بن سعد، ابن عساکر عن انس (رض)

13278

13278- كل مخمر خمر، وكل مسكر حرام، ولا يكون شراب أحد طرفيه حرام والآخر حلال، وما أسكر كثيره فقليله حرام. "الحاكم في الكنى عن ابن عباس".
13278 ہر نشہ پیدا کرنے والے شے شراب ہے اور ہر نشہ پیدا کرنے والی شے حرام ہے اور ایسی کوئی شراب نہیں جس کی ایک جانب حرام ہو اور دوسری جانب حلال ہو۔ پس جس کا کثیر حرام ہے اس کا قلیل بھی حرام ہے۔ الحاکم فی الکنی عن ابن عباس (رض)

13279

13279- قليل ما أسكر كثيره حرام. "حب عن جابر" "عب عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
13279 جس کی کثیر مقدار نشہ پیدا کرے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
ابن حبان عن جابر (رض) عبدالرزاق عن عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 3852 ۔

13280

13280- ما أسكر الفرق منه فالجرعة عنه خمر. "الخطيب في المتفق والمفترق عن عائشة".
13280 جس شے کی ایک فرق (دس بارہ کلو) کی مقدار نشہ لائے اس کا ایک گھونٹ بھی شراب (کی طرح) حرام ہے۔
الخطیب فی المنفق والمقترق عن عائشۃ (رض)

13281

13281- ألا إن المزات حرام. "حب هق عن أنس رضي الله عنه"2
13281 خبردار ! ہر طرح کی شرابیں حرام ہیں۔ ابن حبان، السنن للبیہقی عن انس (رض)

13282

13282- لا تشرب المسكر ولا تسقه أخاك المسلم، فو الذي نفس محمد بيده ما شربه رجل قط ابتغاء لذة سكر فيسقيه الله الخمر يوم القيامة. "ابن سعد حم والبغوي طب ص عن خلدة بنت طلق عن أبيها"
13282 کوئی بھی نشہ آور شے نہ پی اور نہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو پلا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! کبھی بھی کسی نے نشہ کی لذت کی خاطر اگر ایک گھونٹ اس کی بھری تو اللہ پاک قیامت میں اس کو شراب نہ پلائے گا۔
ابن سعد ، مسند احمد، البغوی، الکبیر للطبرانی، السنن لسعید بن منصور عن خلدۃ بنت طلق عن ابیھا

13283

13283- لا تشربوا في الدباء والمزفت ولا في النقير، وانتبذوا في الأسقية فإن اشتد في الأسقية فصبوا عليه الماء، إن الله حرم الخمر والميسر والكوبة، وكل مسكر حرام. "حم د عن ابن عباس"
13283 دباء ، مزفت اور نقیر میں نہ پیو۔ دوسرے برتنوں میں نبیذ بناسکتے ہو۔ اگر برتنوں میں نبیذ تیز ہوجائے تو اس پر پانی مارو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے شراب، جو اور شطرنج حرام قرار دی ہے اور ہر نشہ آور شے حرامے۔ مسند احمد، ابوداؤدعن ابن عباس (رض)
فائدہ : دباء کدو کو کھوکھلا کرکے بنایا گیا برتن، مزفت تار کول ملا ہو مٹی کا برتن اور نقیر کھجور کی جڑ کو اندر سے کھوکھلا کرکے بنایا گیا تربن، عرب میں زمانہ جاہلیت کے لوگ ان برتنوں میں شراب بنایا کرتے تھے ان برتنوں میں شراب بنایا کرتے تھے ان برتنوں میں شراب کا مزاج تیز ہوجاتا تھا۔ جب حرمت خمر نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان برتنوں کو نبیذ اور دیگر جائز مشروبات اور مطعومات کے لیے بھی ممنوع قرار دیا تاکہ شراب کی حرمت دلوں میں اچھی طرح راسخ ہوجائے۔ پھر جب لوگوں نے شراب کی حرمت کو اچھی طرح جان لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان برتنوں کے استعمال کی حرمت اٹھالی جیسا کہ آئندہ احادیث میں آرہا ہے۔
نبیذ کھجور اور انگور وغیرہ سے میٹھا کیا ہوا پانی جو اصلاً حلال اور جائز ہے لیکن اگر انگور اس قدر پانی میں چھوڑا جائے جس سے اس میں جوش پیدا ہوجائے تو اس کا پینا مکروہ ہے اور اگر اس کے پینے سے سرور اور نشہ کی کیفیت پیدا ہوجائے تو اس کا پینا حرام ہے۔

13284

13284- لا تشربوا في نقير ولا في مزفت ولا في دباء ولا حنتم واشربوا في الجلد الموكى عليه، فإن اشتد [فاكسروه] بالماء، فإن أعياكم فأهريقوه." د عن رجل من وفد عبد القيس"
13284 نقیر، مزفت، دباء اور حنتم میں نہ پیو۔ کہ بند مشکیزے میں پیو۔ اگر اس میں شدت پیدا ہوجائے تو اس کو پانی مارو، اگر اس کا مزاج پھر بھی تیز رہے تو اس کو گرادو۔
ابوداؤد عن رجل ، من وفد عبدالقیس
فائدہ : حنتم سبزرنگ کا مٹکا جس میں شراب بناتے تھے پہلے اس کی حرمت قرار دی پھر اٹھالی گئی۔ سر بند مشکیزہ نبیذ کے لیے شروع سے جائز تھا نبیذ میں اگر شدت پیدا ہوجائے تو اس کو پانی ملا کر ہلکا کرنے کا حکم ہے اگر پھر بھی شدت برقرار رہے تو اس کو ضائع کرنے کا حکم ہے۔ نبیذ کو اس قدرزیادہ عرصہ تک رکھنا کہ اس میں نشہ پیدا ہوجائے حرام ہے۔ صرف ایک دو دن تک نبیذ میں کھجور یا انگور وغیرہ ڈال کر رکھا جاسکتا ہے۔

13285

13285- لا تشربوا في النقير ولا في الدباء ولا في الحنتمة، وعليكم بالموكى. "م عن أبي سعيد"
13285 نقیر میں پیو اور نہ دباء میں اور نہ ہی حنتم میں۔ ہاں مشکیزہ استعمال کرو۔
مسلم عن ابی سعید

13286

13286- نهيتكم عن الأنبذة إلا في سقاء، فاشربوا من الأسقية كلها ولا تشربوا مسكرا. "هـ عن بريدة".
13286 میں نے تم کو مشکیزے کے سوا چند برتنوں سے منع کیا تھا۔ پس اب سب برتنوں میں پیو۔ لیکن نشہ آور کوئی شے نہ پیو۔ ابن ماجہ عن بریدۃ (رض)

13287

13287- نهيتكم عن الظروف، وإن الظروف لا تحل شيئا ولا تحرمه وكل مسكر حرام. "م عن بريدة"..
13287 میں نے تم کو چند برتنوں کے استعمال سے منع کیا تھا۔ پس برتن کسی چیز کو نہ حلال کرتے ہیں اور نہ حرام۔ ہاں ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ مسلم عن بریدۃ (رض)

13288

13288- لا تجمعوا بين الرطب والبسر وبين الزبيب والتمر نبيذا. "حم ن عن جابر".
13288 رطب اور بسر کو نبیذ کے استعمال میں اکٹھا نہ کرو اور کشمش اور تمر کو اکٹھا نہ کرو۔
مسند احمد ، النسائی عن جابر (رض)
فائدہ : کھجور میں پھل پکنے کی ترتیب سے مختلف مراحل پر کھجور کے مختلف نام ہیں : طلع پر خلال پھر بلح پھر بسر پھر رطب پھر تمر۔
تمر ذخیرہ کی جاسکتی ہے۔ اور پورے سال دستیاب رہتی ہے۔ اس سے قبل رطب ہے جو تازہ پکی ہوتی ہے اور بسر اس سے قبل کا مرحلہ جبکہ وہ ادھ نرم اور ادھ پکی ہوتی ہے۔ چنانچہ رطب اور بسر کی اکٹھے بنیذ بنانا ممنوع ہے۔ اسی طرح تمر اور کشمش کی اکٹھے نبیذ بنانا ممنوع ہے کیونکہ اس طرح نبیذ کے مزاج میں تیزی اور نشے کا عنصر جلد پیدا ہوجاتا ہے

13289

13289- لا تنبذوا في الدباء ولا المزفت. "ق عن أنس".
13289 دباء اور مزفت میں نبیذ نہ بناؤ۔ البخاری، مسلم عن انس (رض)

13290

13290- لا تنبذوا التمر والبسر جميعا وانبذوا كل واحد منهما على حدة. "هـ عن أبي هريرة".
13290 تمر (ذخیرہ کی جانے والی پختہ کھجور) اور بسر (ادھ نرم اور ادھ سخت کھجور) دونوں کو ملا کر نبیذ نہ بناؤ۔ ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بناؤ۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13291

13291- لا تنبذوا في الدباء ولا المزفت والنقير، وكل مسكر حرام. "ن عن عائشة".
13291 دباء مزفت اور نقیر میں نبیذ نہ بناؤ اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ النسائی عن عائشہ (رض)

13292

13292- لا تنبذوا الزهو والرطب جميعا ولا تنبذوا التمر والزبيب جميعا وانبذوا كل واحد منهما على حدة. "م ن د عن أبي قتادة"
13292 زھو ادھ نرم اور ادھ سخت یعنی بسر اور رطب (نرم تازہ کھجور) کو ملا کر نبیذ نہ بناؤ۔ تمر (کھجور) اور زبیب (کشمش) کو ملا کر بھی نبیذ نہ بناؤ۔ ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بنالو۔
مسلم ، النسائی ، ابوداؤد عن ابی قتادہ (رض)

13293

13293- أنبذوه على غدائكم واشربوه على عشائكم، وانبذوه على عشائكم واشربوه على غدائكم، وانبذوه في الشنان ولا تنبذوه في القلل فإنه إذا تأخر عن عصره صار خلا. "د ن عن عبد الله بن الديلمي عن أبيه"
13293 صبح کو نبیذ بنانے رکھو تو شام کو نوش کرلو۔ شام کو بنانے رکھو تو صبح کو نوش کرلو۔ اپنے پرانے مشکیزوں میں شراب بناؤ۔ مٹکوں میں نہ بناؤ کیونکہ مٹکوں سے نکالنے میں دیر ہوجائے تو وہ سرکہ بن جائے گا۔ ابوداؤد، النسائی عن عبداللہ بن الدیلمی عن ابیہ

13294

13294- من شرب منكم النبيذ فليشربه زبيبا فردا أو تمرا فردا أو بسرا فردا. "م عن أبي سعيد"
13294 جو تم میں سے نبیذ بنائے وہ صرف زبیب (کشمش) کی بنائے، یا صرف تمر (پختہ کھجور) کی بنائے یا صرف بسر (پکی ہوئی ادھ نرم ادھ سخت) کھجور کی بنائے۔ مسلم عن ابی سعید

13295

13295- اجتنبوا أن تشربوا في الدباء والحنتم والمزفت، واشربوا في السقاء فإن رهبتم غلبته فأمدوه بالماء. "طب عن ابن عباس".
13295 دباء (کدو کے بنے برتن) حنتم اور مزفت (تار کول ملے گھڑے) میں پینے سے اجتناب کرو۔ مشکیزوں میں پی لو۔ اگر نبیذ کے سخت ہونے کا احتمال ہو تو اس میں پانی ملادو۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)

13296

13296- اشربوا منه ما لا يذهب العقل والمال. "طب عن صحار العبدي".
13296 وہ نبیذ پی سکتے ہو جس سے عقل اور مال نہ اڑے۔ الکبیر للطبرانی عن صحار العبدی

13297

13297- اشربوا في الظروف ولا تسكروا. "ط ن * وقال منكر* طب ق عن أبي بردة بن نيار".
13297 تمام برتنوں میں (نبیذ وغیرہ) پی سکتے ہو، لیکن نشہ میں مت پڑو۔
ابوداؤد، النسائی ، وقال منکر، الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ابی بردۃ بن نیار
کلام : روایت منکر ہے دیکھئے : الاباطیل 614 ۔

13298

13298- اشربوا واجتنبوا كل مسكر. "طب عن ابن عمرو".
13298 (نبیذ وغیرہ) پی سکتے ہو لیکن ہر نشہ آور شے سے اجتناب کرو۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو

13299

13299- اشربوا ما لا يسفه أحلامكم، ولا يذهب أموالكم. "طب عن عبد الله بن الشخير".
13299 جو تمہاری عقلوں کو بیوقوف نہ بنائے وہ مشروبات استعمال کرو اور نہ ان سے تمہارے اموال ضائع ہوں۔ الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن الشخیر

13300

13300- اشربوا ما طاب لكم، فإذا خبث فذروه كل امرئ منكم حسيب نفسه، إنما علي البلاغ. "حل عن أبي هريرة".
13300 جو تمہیں خوشگوار محسوس ہو نوش کرو لیکن جب وہ (نبیذ وغیرہ زیادہ وقت پڑی رہنے کی وجہ سے) گندی ہوجائے تو اس کو چھوڑ دو ۔ تم میں سے ہر شخص اپنے نفس کامی سبر کرنے والے ہے مجھ پر تو صرف پہنچانا ہے۔ حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ (رض)

13301

13301- اشربوا فيما شئتم، من شاء أو كأسقاءه على إثم. "ش حم وابن سعد1 والبغوي والباوردي وابن السكن وابن مندة طب عن [ابن] الرسيم العبدي بوزن عظيم وقيل مصغر".
13301 جن برتنوں میں چاہو پیو۔ جو چاہے اپنے مشکیزے کو گناہ پر سر بند کرسکتا ہے (اس کا وبال اسی پر ہے) ۔ ابن ابی شیبہ، مسند احمد، ابن سعد، البغوی، الباوردی، ابن السکن ، ابن مندہ الکبیر للطبرانی عن ابن الرسیم العبدی
کلام : مذکورہ روایت کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ الجابر جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام احمد (رح) نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ دیکھئے مجمع الزوائد 63/5 ۔

13302

13302- اضرب بهذا الحائط فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله ولا باليوم الآخر. "طب حل ع ق عن أبي موسى" قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بنبيذ جرينش قال: فذكره "د ن هـ عن أبي هريرة"
13302 اس کو اس دیوار پردے مار۔ بیشک یہ مشروب ان لوگوں کا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء، مسند ابی یعلی، السنن للبیہقی عن ابی موسیٰ (رض)
فائدہ : حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ایک مٹکے میں نبیذ لے کر آیا جس میں نبیذ جوش ماررہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر مذکورہ ارشاد فرمایا۔
ابوداؤد ، النسائی ، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13303

13303- انتبذوا في الأسقية ولا تنتبذوا في الجر2 ولا الدباء ولا المزفت ولا النقير، فإني نهيت عن الخمر والميسر والكوبة وهي الطبل وكل مسكر حرام، فإذا اشتد فصبوا عليه الماء، فإذا اشتد فأهريقوا. "هـ عن ابن عباس".
13303 سب برتنوں میں نبیذ بناؤ مگر کھڑے میں نہ بناؤ، نہ دباء میں، نہ مزفت میں اور نہ نقیر میں۔ بیشک میں تم کو شراب ، جوئے اور گانے بجانے سے منع کرتا ہوں اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ پس جب نبیذ گاڑھی ہوجائے تو اس میں پانی ملالو۔ پھر بھی گاڑھی ہو تو اس کو گرادو۔
ابن ماجہ عن ابن عباس (رض)

13304

13304- إنه قومك عن نبيذ الجر فإنه حرام من الله ورسوله. "طب عن يزيد بن الفضل عن عمرو بن سفيان المحاربي عن أبيه عن جده"
13304 اپنی قوم کو مٹکے کی نبیذ سے منع کردو کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حرام کردی گئی ہے۔ الکبیر للطیرانی عن یزید بن الفضل عن عمرو بن سفیان المحاربی عن ابیہ عن جدہ
کلام : روایت کی سند میں ابوالمہز ضعیف راوی ہے۔ مجمع الزوائد 61/5 ۔

13305

13305- إن الظروف لا تحل شيئا ولا تحرمه ولكن كل مسكر حرام، وليس أن تجلسوا وتشربوا حتى إذا ثملت العروق تفاخرتم فوثب الرجل على ابن عمه فضربه بالسيف فتركه أعرج. "ع والبغوي حب وابن السني وأبو نعيم معا في الطب عن الأشج العصري" "حم عن بريدة".
13305 برتن کسی شے کو نہ حلال کرتے ہیں اور نہ حرام۔ لیکن ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ اور تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تم بیٹھ کر شراب نوشی کرو۔ پھر کہیں نشہ میں آکر تم ایک دوسرے پر اپنی بڑائی کا اظہار کرو پھر کہیں نشہ میں آکر تم ایک دوسرے پر اپنی بڑائی کا اظہار کرو اور اسی نشے میں کوئی اپنے چچا زاد کی ٹانگ پر تلوار کا وار کرکے اس کو لنگڑا کرسکتا ہے (اس شراب سے کوئی بعید نہیں ہے) ۔ مسند ابی یعلی، البغوی، ابن حبان، ابن السنی و ابونعیم معافی الطب عن الاشج العصرف، مسند احمد عن بریدۃ۔

13306

13306- إن نبيذ الغبيراء حرام. "العسكري في كتاب الصحابة عن أسيد الجعفي".
13306 گندم کی شراب حرام ہے۔ العسکری فی کتاب الصحابۃ، عن اسید الجعفی

13307

13307- إني كنت نهيتكم عن الظروف فاشربوا، ولا أحل مسكرا. "أبو عوانة والطحاوي وابن أبي عاصم ق ص عن جابر".
13307 میں نے تم کو چند برتنوں سے منع کیا تھا۔ پس سب برتنوں میں پیو لیکن میں کسی نشہ آور شے کو حلال نہیں کرتا۔ ابوعوانۃ، الطحاوی، ابن ابی عاصم، السنن للبیہقی ، السنن لسعید بن منصور عن جابر

13308

13308- إني كنت نهيتكم عن نبيذ الأوعية، ألا إن وعاء لا يحرم شيئا وكل مسكر حرام. "هـ طب ق عن ابن مسعود".
13308 میں نے تم کو چند برتنوں کی نبیذ سے منع کیا تھا۔ سنو کوئی برتن کسی چیز کو حرام نہیں کرتا۔ مگر ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ ابن ماجہ، الکبیر للطبرانی، السنن للبیہقی عن ابن مسعود (رض)

13309

13309- إني لا أحل لكم أن تنبذوا في الجر الأخضر والأبيض والأسود ولينتبذن أحدكم في سقائه، فإذا كان فليشرب. "الديلمي عن مهزم بن وهب الكندي".
13309 میں تمہارے لیے حلال نہیں کرتا کہ تم سبز گھڑے میں، سفید گھڑے میں اور سیاہ گھڑے میں نبیذ بناؤ۔ ہاں اپنے مشکیزے میں ضرور نبیذ بناسکتے ہو۔ بننے کے بعد اس کو پی سکتے ہو۔
الدیلمی عن مھزم بن وھب الکندی

13310

13310- إني نهيتكم عن نبيذ الجر فانتبذوا في كل وعاء واجتنبوا كل مسكر. "عب عن بريدة".
13310 میں نے تم کو گھڑے کی نبیذ سے منع کیا تھا، اب ہر برتن میں نبیذ بناسکتے ہو، لیکن ہر نشہ آور شے سے احتراز کرو۔ المصنف لعبد الرزاق عن بریدۃ

13311

13311- من شرب منكم النبيذ فليشربه زبيبا فردا، أو تمرا فردا، أو بسرا فردا. "ع عن أبي سعيد" مر برقم [13294] .
13311 تم میں سے جو نبیذ پئے وہ صرف کشمش کی پئے یا صرف کھجور کی یا صرف بسر (ادھ پکی ادھ سخت) کھجور کی پئے۔ مسند ابی یعلی عن ابی سعید
یہ روایت 13294 پر گزر چکی ۔

13312

13312- من شرب شرابا يذهب بعقله فقد أتى بابا من أبواب الكبائر. "ابن أبي الدنيا هب وابن النجار عن ابن عباس" "طب عنه" موقوفا.
13312 جو شخص ایسا کوئی مشروب پئے جو اس کی عقل اڑادے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ گیا۔
ابن ابی الدنیا، شعب الایمان للبیہقی ، ابن النجار عن ابن عباس (رض) الکبیر للطبرانی عنہ موقوفا۔

13313

13313- من شرب نبيذا فاقشعر منه مفرق رأسه، فالحسوة منه حرام. "الخطيب عن عائشة".
13313 جو ایسی نبیذ پئے جس سے اس کے سر کی مانگ پھڑ پھڑا جائے اس کی ایک چسکی بھی حرام ہے۔ الخطیب عن عائشۃ (رض)

13314

13314- الزبيب والزهو هو الخمر إذا انتبذوا جميعا. "ك عن جابر".
13314 کشمش اور بسر کھجور کو اگر ملا کر نبیذ بنائی جائے وہ عین شراب ہے۔
مستدرک الحاکم عن جابر (رض)

13315

13315- نهيتكم عن النبيذ، ألا فانتبذوا، ولا أحل مسكرا. "ق عن أبي سعيد".
13315 میں نے تم کو نبیذ سے (بھی) منع کیا تھا۔ سنو نبیذ سناسکتے ہو ۔ لیکن میں کسی نشہ آور شے کو حلال نہیں کرتا۔ السنن للبیہقی عن ابی سعید

13316

13316- إني نهيتكم عن نبيذ الجر، وإني نهيتكم عن زيارة القبور وإني نهيتكم عن لحوم الأضاحي، ألا وإن الأوعية لا تحل شيئا ولا تحرمه ألا وزوروا القبور فإنها ترق القلوب، ألا وإني نهيتكم عن الأضاحي فكلوا وادخروا ما شئتم. "ك عن ابن عمر".
13316 میں نے تم کو مٹکے کی نبیذ سے منع کیا تھا، نیز میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، نیز میں نے تم کو قربانیوں کے گوشت سے منع کیا تھا، اب سنو ! برتن کسی چیز کو نہ حلال کرتے اور نہ حرام۔ سنو ! قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے دل نرم ہوتے ہیں۔ سنو ! میں نے جو تم کو قربانیوں کے گوشت سے منع کیا تھا پس جتنا چاہو کھاؤ اور جتنا چاہو ذخیرہ کرو۔ مستدرک الحاکم عن ابن عمر

13317

13317- حذر الوجه من النبيذ تتناثر منه الحسنات. "البغوي وابن قانع طب عد عن عمر بن شيبة بن أبي بكير الأشجعي عن أبيه".
13317 چہرے کو نبیذ سے بھی بچا اس سے نیکیاں پھوٹیں گی۔
البغوی، ابن قانع، الکبیر للطبرانی، الکامل لا بن عدی عن عمر بن شیبۃ بن ابی بکیر الاشجعی عن ابیہ

13318

13318- لا تنبذوا في الدباء، ولا في المزفت، ولا في الجر، وكل مسكر فهو حرام. "حم م عن ميمونة وعائشة".
13318 دباء (کدو کے برتن) میں نبیذ نہ بناؤ اور نہ مزفت (تار کول ملے برتن) میں اور نہ گھڑے میں۔ اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ مسند احمد، مسلم عن میمونۃ وعائشۃ

13319

13319- لا تنبذوا في الدباء ولا في المزفت. "حم عن أنس".
13319 دباء میں نبیذ بناؤ اور نہ مزفت میں۔ مسند احمد عن انس

13320

13320- لا تشربوا في النقير، وكأني بكم إذا شربتم في النقير قام بعضكم إلى بعض بالسيوف فضرب منكم رجل ضربة لا يزال أعرج منها إلى يوم القيامة. "الباوردي وابن شاهين عن جودان".
13320 نقیر (کھجور کے درخت کی جڑ کو کھوکھلا کرکے بنائے گئے برتن) میں (نبیذ وغیرہ) نوش نہ کرو۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں اگر تم نے نقیر میں نوش کیا تو تم میں سے بعض بعض پر اٹھ کر تلوار سونت لیں گے ۔ اگر پھر کوئی اس نشہ میں کسی کو ایک وار کرکے لنگڑا کردے تو وہ قیامت تک لنگڑا ہی رہے گا۔ الباوردی، ابن شاھین عن جو دان

13321

13321- لا تشربوا في النقير، فضرب الرجل منكم ابن عمه ضربة لا يزال منها أعرج إلى يوم القيامة. "طب عن عمير العبدي"1
13321 نقیر میں نہ پیو۔ ورنہ کوئی (نشے میں) اپنے چچا زادکو وار کرکے اس کو قیامت تک کے لیے لنگڑا کرسکتا ہے۔ الکبیر للطبرانی عن عمیر العبدی
کلام : امام ابوبکر ہیثمی (رح) فرماتے ہیں ابویعلی اور طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے۔ سند کے ایک راوی اشعث بن عمیر کو میں نہیں جانتا، نیز اس میں عطا بن السائب ہے جو مختلط راوی ہے۔ مجمع الزوائد 60/5 ۔

13322

13322- لا تشربوا في حنتمة ولا في دباء ولا في نقير. "طب عن ابن عمر".
13322 سبزرنگ کے گھڑے (حنتمہ) میں نہ پیو اور نہ دباء (کدو کے برتن) میں اور نہ نقیر (کھجور کی جڑ) میں۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)

13323

13323- لا تشربوا في النقير، ولا في المزفت. "طب عن النعمان بن بشير"
13323 نقیر میں پیو اور نہ مزفت میں۔ الکبیر للطبرانی عن النعمان بن بشیر
کلام : امام ابوبکر ہیثمی (رح) فرماتے ہیں روایت کی سند میں اسری بن اسماعیل الھمدانی متروک راوی ہے۔ مجمع الزوائد 62/5

13324

13324- اقطعوا في ربع الدينار، ولا تقطعوا فيما هو أدنى من ذلك. "حم هق عن عائشة".
13324 چوتھائی دینار میں ہاتھ کاٹ دو ۔ اور اس سے کم چوری میں ہاتھ نہ کاٹو۔
مسند احمد، السنن للبیہقی عن عائشۃ (رض)

13325

13325- ما إكثاركم علي في حد من حدود الله [عز وجل] وقع على أمة من إماء الله والذي نفس [محمد] بيده لو كانت فاطمة بنت رسول الله نزلت بالذي نزلت به هذه المرأة لقطع محمد يدها. "هـ ك عن مسعود بن الأسود"
13325 اللہ عزوجل کی حدود میں سے ایک حد میں تم مجھ پر زور ڈال رہے ہو، یہ حد اللہ کی باندیوں میں سے ایک باندی پر پڑی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر فاطمہ بنت (محمد) رسول اللہ پر یہ حد پڑتی جو اس عورت پر پڑی ہے تو محمد اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن مسعود بن الاسود
کلام : ابن ماجہ کتاب الحدود باب الشفاعۃ فی الحدود۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی اسناد میں محمد بن اسحاق مدلس ہے۔ الفاظ حدیث ابن ماجہ کے ہیں۔ جبکہ علامہ البانی (رح) نے مذکورہ حدیث پر کلام کرتے ہوئے اس کو ضعیف شمار کیا ہے۔ دیکھئے ضعیف الجامع 5011 ۔

13326

13326- من أصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة2 فلا شيء عليه، ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة، ومن سرق منه شيئا بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع، ومن سرق دون ذلك فعليه غرامة مثليه والعقوبة. "د ت حسن ن عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الثمر المعلق قال فذكره"
13326 جو کوئی حاجت مند درخت سے چرا کر کھجور کھالے اور اپنے ساتھ نہ لے کر جائے اس پر کوئی تاوان نہیں۔ اور جو اپنے ساتھ لے کر جائے اس پر اس سے دگنی کھجوریں بطور تاوان اور سزا ہے اور جو اس جگہ سے چرا ہے جہاں مالک نے درخت سے اتار کر (سکھانے کے لیے یا محفوظ کرنے کے لئے) رکھی ہیں، اگر ان کی قیمت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور جو اس سے کم چرائے اس پر دگنی کھجوریں اور سزا ہے۔
ابوداؤد، الترمذی حسن، النسائی عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ
فائدہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ لٹکی ہوئی کھجوریں چرانے پر کیا سزا ہے ؟ تو آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔
ڈھال کی قیمت کا اندازہ دس درہم سے کیا گیا ہے یعنی تقریباً ڈھائی تین تولہ چاندی کی قیمت میں قطع الید ہوگا۔

13327

13327- من سرق سرقة فوجد سرقته عند رجل غير متهم فإن شاء أخذها بالقيمة، وإن شاء اتبع صاحبه. "حم د في مراسيله ن والباوردي وهو لفظه طب ك ض عن أسيد بن حضير.... ن وابن قانع ص عن أسيد بن ظهير قالوا وهو الصواب قال أحمد بن حنبل هو في كتاب ابن جريج أسيد بن ظهير ولكن كذا حدثهم بالبصرة".
13327 جس کی کوئی چیز چوری ہوئی پھر اس نے اپنی چیز کسی کے پاس پائی۔ لیکن وہ ایسا آدمی نہیں جس پر چوری کی تہمت لگائی جاسکے تو پھر وہ اس چیز کو قیمت دے کرلے سکتا ہے یا پھر اصل چور کو تلاش کرے۔ مسند احمد، ھراسیل ابی داؤد ، النسائی، الباوردی مذکورہ الفاظ جس حدیث کا ترجمہ ہیں وہ الباوردی کی روایت کردہ ہے۔ الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، الضیاء للمقدسی عن اسید بن حفیر النسائی ابن قائع، السنن لسعید بن منصور عن اسید بن ظھیر۔ ائمہ حدیث کا کہنا ہے اسید بن ظہیر یہی درست ہے ، امام احمد (رح) فرماتے ہیں : یہ ابن جریج کی کتاب میں ہے یعنی اسید بن ظہیر۔ بصرہ میں ان کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔

13328

13328- لا تقطع اليد في ثمر معلق، فإذا ضمه الجرين قطعت في ثمن المجن، ولا تقطع في حريسة الجبل، فإذا آوى المراح قطعت في ثمن المجن. "ن ق عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله تعالى عنه".
13328 درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ لیکن جب مالک ان کو اتار کر کہیں محفوظ کرلے تو تب ڈھال کی قیمت کے برابر پھلوں میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور پہاڑ پر کوئی چیز محفوظ کی جائے تو اس میں بھی قطع یدنہ ہوگا، ہاں جب مالک اپنے مال کو اپنے محفوظ ٹھکانے پر لے جائے تب ڈھال کی قیمت کے برابر مال میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔
النسائی، البخاری، مسلم عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ (رض)

13329

13329- أدنى ما تقطع فيه يد السارق ثمن المجن. "الطحاوي طب عن أيمن الحبشي".
13329 سب سے کم قیمت مال جس میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے وہ ڈھال کی قیمت ہے۔
الطحاوی، الکبیر للطبرانی عن ایمن الحبش

13330

13330- لعن الله السارق يسرق البيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده. "حم ق ن هـ عن أبي هريرة".
13330 اللہ پاک لعنت کرے چور پر، انڈہ (سے) چوری (شروع) کرتا ہے حتیٰ کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، یونہی رسی چوری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13331

13331- لعن الله المختفي والمختفية. "هق عن عائشة".
13331 اللہ پاک کی لعنت ہو کفن چور مرد پر اور کفن چور عورت پر۔
السنن للبیہقی عن عائشۃ (رض)

13332

13332- لا قطع في ثمر ولا كثر. "حم حب عن رافع بن خديج".
13332 پھل میں قطع ید نہیں خواہ زیادہ ہوں (جبکہ درخت سے چوری کیے جائیں) ۔
مسند احمد، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابن حبان عن رافع بن خدیح
کلام : حسن الاثر 457 میں مذکورہ روایت پر کلام کیا گیا ہے۔

13333

13333- لا قطع في زمن المجاع. "خط عن أبي أمامة".
13333 بھوک کی حالت میں قطع ید نہیں ہے۔ الخطیب فی التاریخ عن ابی امامۃ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف الجامع 6305، الضعیفۃ 1673 ۔

13334

13334- ليس على المنتهب ولا على المختلس ولا على الخائن قطع. "حم حب عن جابر".
13334 لوٹنے والے پر ، فریب دہی سے جھپٹا مارنے والے پر اور خیانت کرنے والے پر قطع ید نہیں ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابن حبان عن جابر (رض)

13335

13335- لا تقطع الأيدي في السفر. "حم عن بسر بن أبي أرطاة".
13335 سفر میں قطع یدنہ کیا جائے گا۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، الترمذی ، النسائی عن بسربن ابی ارطاۃ

13336

13336- ليس على المختلس قطع. "هـ عن عبد الرحمن بن عوف"
13336 دھوکا سے جھپٹا مارنے والے پر قطع ید نہیں ہے۔
ابن ماجہ عن عبدالرحمن بن عوف ، اسنادہ ثقات

13337

13337- لا تقطع يد السارق إلا في ربع دينار فصاعدا. "م هـ ن عن عائشة"
13337 چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ میں ہی قطع ید السارق ہوگا۔
مسلم ، ابن ماجہ، النسائی عن عائشۃ (رض)

13338

13338- مال الله سرق بعضه بعضا. "هـ عن ابن عباس" أن عبدا من رقيق الخمس سرق من الخمس فرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلم يقطعه وذكره
13338 اللہ کا مال تھا اس نے اللہ کا مال چرایا۔ ابن ماجہ عن ابن عباس (رض)
فائدہ : مال غنیمت کے خمس کے ایک غلام نے مال غنیمت کے خمس میں سے کچھ مال چرالیا تو یہ مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہوا تب آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا۔
کلام : ابن ماجہ کتاب الحدود باب العبد یسرق رقم 2590 ۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی سند میں جبارۃ بن المغلس ضعیف راوی ہے۔

13339

13339- إذا ضاع للرجل أو سرق له متاع فوجده في يد رجل يبيعه فهو أحق به، ويرجع المشتري على البائع بالثمن. "هق عن سمرة".
13339 جب کسی آدمی کا مال ضائع ہوجائے یا چوری ہوجائے پھر وہ اس مال کو کسی کو فروخت کرتا ہوا پائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس کی قیمت بانع سے واپس لے گا۔
السنن للبیہقی عن سمرۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع ابن ماجہ 511، ضعیف الجامع 580 ۔

13340

13340- من وجد عين ماله عند رجل فهو أحق به ويتبع البيع من باعه. "د عن سمرة"3
13340 جو شخص اپنا مال بعینہ کسی کے پاس پائے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدنے والا اپنی قیمت کے لیے بائع سے رجوع کرے۔ ابوداؤد عن سمرۃ
کلام : ضعیف ابی داؤد 758، ضعیف الجامع 5870 ۔

13341

13341- من سرق فوجد سرقته عند رجل غير متهم فإن شاء أخذها بالقيمة وإن شاء أتبع صاحبه. "حم د في مراسيله ن ك عن أسيد بن حضير ن عن أسيد بن ظهير"1
13341 جس کی کوئی شے چوری ہوئی پھر اس نے اپنی چوری شدہ شے کسی غیر مہتم شخص کے پاس پائی تو اب چاہے تو اس سے قیمت دے کرلے ورنہ اصل چور کو تلاش کرے۔
مسند احمد، ابوداؤد فی مراسیلہ النسائی، مستدرک الحاکم عن اسید بن حضیر، النسائی عن اسید بن ظھیر

13342

13342- من أصاب بفيه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة، ومن سرق منه شيئا بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع، ومن سرق دون ذلك فعليه غرامة مثليه والعقوبة. "د ت حسن ن عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الثمر المعلق قال فذكره2
13342 جو حاجت مند (درختوں پر معلق پھل) صرف کھائے اور اپنے ساتھ لے کر نہ جائے تو اس پر کوئی حد (یا سزا) نہیں۔ جو اپنے ساتھ لے کر نکلے اس پر اس کی دگنی تاوان اور سزا ہے۔ اور جبکہ مالک پھل اپنے محفوظ ٹھکانے پر لے جائے تو اگر کوئی چرائے اور اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے اس پر قطع الید ہے اور جو اس سے کم چرائے اس پر اس کی دگنی تاوان اور سزا ہے۔
ابوداؤد، الترمذی، حسن النسائی عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ
فائدہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلق پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

13343

13343- من سرق متاعا فاقطعوا يده، ثم إن سرق فاقطعوا رجله، ثم إن سرق فاقطعوا يده، فإن سرق فاقطعوا رجله، فإن سرق فاقطعوا عنقه. "حل وضعفه وأبو القاسم بن بشران في أماليه وابن النجار عن عبد الله بن بدر الجهني".
13343 جس نے کوئی سامان چوری کیا اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر چوری کرے پھر اس کا (مخالف) سخت پاؤں کاٹ دو ۔ پھر چوری کرے تو دوسرا ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر چوری کرے تو اس کی گردن اڑادو۔
حلیۃ الاولیاء ، وضعفہ وابوالقاسم بن بشران فی امالیہ وابن النجار عن عبداللہ بن بدر الجہنی
کلام : روایت ضعیف ہے۔

13344

13344- تقطع اليد في ثمن المجن. "حم هـ ع حل ص عن سعد بن أبي وقاص".
13344 ڈھال کی قیمت (کے برابر مال کی چوری) میں قطع الید نافذ ہوگا۔
مسنداحمد ، ابن ماجہ، مسند ابی یعلی، حلیۃ الاولیاء، السنن لسعید بن منصور عن سعد بن ابی وقاص
کلام : ضعیف ابن ماجہ 560 ۔

13345

13345- لا قطع إلا في ربع دينار فصاعدا. "حب عن عائشة".
13345 قطع الید چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ ہے۔ ابن حبان عن عائشۃ (رض)

13346

13346- لا قطع فيما دون عشرة دراهم. "حم عن ابن عمرو".
13346 دس درہموں سے کم میں قطع الید نہیں ہے۔ مسند احمد عن ابن عمرو
کلام : اللطیفہ 21 ۔

13347

13347- لا قطع في ماشية إلا ما وارى الدرب ولا في تمر إلا ما وارى الجرين. "طب عن ابن عمر".
13347 چوپائے میں قطع الید نہیں ہے مگر جو بازے میں محفوظ ہو۔ یونہی درخت پر معلق پھل میں قطع الید نہیں ہے مگر جب اس کو ٹھکانے پر محفوظ کرلیا جائے۔
الکبیر للطبرانی عن ابن عمر (رض)

13348

13348 - لا قطع إلا في ثمن المجن. "البغوي والباوردي وابن عساكر عن أيمن ابن أم أيمن" قال البغوي: وماله غيره وقال ابن حجر: أشار الشافعي إلى أن شريكا أخطأ في قوله أيمن ابن أم أيمن فإنما هو أيمن الحبشي فإن أيمن ابن أم أيمن قتل يوم حنين.
13348 قطع الید صرف ڈھال کی قیمت میں ہے۔
البغوی والباوردی، ابن عساکر عن ایمن ابن ام ایمن
فائدہ : ام بغوی (رح) فرماتے ہیں ایمن ابن ام ایمن کی کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ امام ابن حجر (رح) فرماتے ہیں : امام شافعی (رح) نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شریک نے ایمن ابن امایمن نام میں غلطی کی ہے یہ ایمن الحبشی ہے کیونکہ ایمن ابن ام ایمن جنگ حنین میں شہید ہوگئے تھے۔

13349

13349- لا يغرم صاحب سرقه إذا أقيم عليه الحد. "ن وضعفه عن عبد الرحمن بن عوف".
13349 چور پر جب حد جاری کردی جائے تو اس سے چوری شدہ مال کا تاوان نہیں لیا جائے گا۔ النسائی وضعفہ عن عبدالرحمن بن عوف
کلام : روایت ضعیف ہے : ضعیف النسائی 374، النافلۃ 157 ۔

13350

13350- لا يغرم السارق بعد القطع. "حل ق وضعف عن عبد الرحمن بن عوف".
13350 قطع کے بعد چور سے چوری شدہ مال کا تاوان نہیں لیا جائے گا۔
حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی وضعف عن عبدالرحمن بن عوف
کلام : روایت ضعیف ہے۔

13351

13351- لا يقطع السارق في أقل من عشرة دراهم. "طب عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده" "ق عن أنس".
13351 دس درہم سے کم کی چوری میں (ہاتھ وغیرہ) نہیں کاٹا جائے گا۔
الکبیر للطبرانی عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ، السنن للبیہقی عن انس (رض)

13352

13352- لا تقطع السارق إلا في حجفة "طب عن أم أيمن".
13352: قطع السارق کی حد صرف ڈھال (کی قیمت یا اس سے زیادہ) میں جاری ہوگی۔ الکبیر للطبرانی عن ام ایمن۔

13353

13353- ليس على خائن قطع. "الخطيب عن ابن عباس".
13353: خیانت کرنے والے پر قطع نہیں۔ الخطیب فی التاریخ عن ابن عباس (رض)
کلام : المتناھیۃ 1325 ۔

13354

13354- ليس على المختلس قطع. "هـ عن عبد الرحمن بن عوف" "عب عن جابر".
13354 دھوکا سے جھپٹا مارنے والے پر حد القطع نہیں ہے۔
ابن ماجہ عن عبدالرحمن بن عوف المصنف لعبد الرزاق عن جائر (رض)

13355

13355- ليس على المنتهب قطع، ومن انتهب نهبة مشهورة فليس منا. "عب د حب عن جابر"
13355 لوٹ مارنے والے پر قطح نہیں اور جس نے سرعام لوٹ مار کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ مصنف عبدالرزاق، ابوداؤد، ابن حبان عن جابر (رض)

13356

13356- ليس على العبد الآبق إذا سرق قطع، ولا على الذمي. "ك عن ابن عباس".
13356 بھگوڑے غلام پر اگر وہ چوری کرلے قطع نہیں ہے۔ اور نہ ذمی (اسلامی حکومت کی اجازت سے رہنے والے غیر مسلم باشندہ) پر قطع ہے۔ مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)

13357

13357- ليس في شيء من الماشية قطع إلا فيما آواه المراح وبلغ ثمن المجن ففيه قطع اليد وما لم يبلغ ثمن المجن ففيه غرامة مثليه وجلدات نكال ليس في شيء من الثمر المعلق قطع إلا فيما آواه الجرين، فما أخذ من الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع وما لم يبلغ ثمن المجن فعليه غرامة مثليه وجلدات نكال. "هق عن ابن عمرو"
13357 چوپائے جانوروں میں حد القطع نہیں ہے ہاں جو جانور باڑے میں محفوظ ہوں اور ان کی قیمت ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے (تقریباً تین تولے چاندی کو) تو اس میں قطع الید ہے اور جس کی قیمت ڈھال کے برابر نہ ہو اس میں دگنا تاوان اور کوڑوں کی سزا ہے۔ درخت پر معلق پھلوں کی چوری میں قطع نہیں ہاں جب ان کو ٹھکانے پر محفوظ کرلیا جائے پھر جو پھل ٹھکانے سے اٹھائے جائیں اور ان کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہوں تو ان میں حد القطع ہے اور جو ڈھال کی قیمت کو نہ پہنچیں ان میں دگنا تاوان اور عبرت کے واسطے کوڑوں کی سزا ہے۔
السنن للبیہقی عن ابن عمرو

13358

13358- لأن تطهر خير لها. "حم عن مسعود بن العجماء" أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم في المخزومية التي سرقت نفديها قال: فذكره.
13358 اس کو پاک کردیا جائے یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ مسند احمد عن مسعود بن العجماء
فائدہ : مسعود (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا اگر مخزومیہ عورت جس نے چوری کی ہے ہم اس کا فدیہ دیدیں تو کیسا ہے۔ تب آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا یعنی قطع الید کے ساتھ اس کو اس گناہ سے پاک کرنا زیادہ بہتر ہے۔

13359

13359- لتتب هذه المرأة إلى الله وإلى رسوله فترد على الناس متاعهم قم يا فلان فاقطع يدها. "الخطيب عن ابن عمر" قال: كانت امرأة تأتي قوما تستعير منهم الحلي، ثم تمسكه، فرجع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: فذكره.
13359 اس عورت کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے آگے توبہ تائب ہو اور لوگوں کا سامان واپس کردے (پھر آپ نے حکم دیا) اے فلاں ! اٹھ اس کا ہاتھ کاٹ دے۔
الخطیب عن ابن عمر (رض)
فائدہ : ابن عمر (رض) فرماتے ہیں ایک عورت لوگوں سے عاریت پر زیورات لیتی اور اپنے پاس بالکیہ رکھ لیتی تھی۔ اس کا فیصلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

13360

13360- من رمى أمة لم يرها تزني جلده الله يوم القيامة بسوط من نار. "حم عن أبي ذر".
13360 جس نے کسی باندی پر تہمت باندھی حالانکہ اس کو زنا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو اللہ پاک قیامت کے روز اس کو آگ کے کوڑے ماریں گے۔ مسند احمد عن ابی ذر (رض)

13361

13361- من قذف ذميا حد له يوم القيامة بسياط من نار. "طب عن واثلة".
13361 جس نے کسی ذمی (اسلامی مملکت کے غیر مسلم باشندے) پر تہمت عائد کی قیامت کے روز اس کو آگ کے کوڑوں سے مارا جائے گا۔ الکبیر للطبرانی عن واثلۃ
کلام : تحذیر المسلمین 160، الکشف الالٰہی 948 ۔

13362

13362- إذا قال الرجل للرجل: يا يهودي فاضربوه عشرين، وإذا قال: يا مخنث فاضربوه عشرين، ومن وقع على ذات محرم فاقتلوه. "ت هـ هق عن ابن عباس"1
13362 جب آدمی کسی دوسرے آدمی کو کہے : اے یہودی ! تو کہنے والے کو بیس کوڑے مارو۔ اور اگر کہے : اے ہیجڑے ! تو اس کہنے والے کو بھی بیس کوڑے مارو ۔ اور جو کسی محرم کے ساتھ بدکاری کرے اس کو قتل کردو۔ الترمذی ، ابن ماجہ ، السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض)
کلام : روایت کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل حدیث میں ضعیف ہے۔ الترمذی کتاب الحدود رقم 1462 ضعیف الترمذی 246، ضعیف الجامع 610 ۔

13363

13363- من قذف مملوكه بالزنا يقام عليه الحد يوم القيامة إلا أن يكون كما قال. "م عن أبي هريرة"2
13363 جس نے اپنے غلام کو زنا کی تہمت لگائی اس پر قیامت کے روز حد لگائی جائے گی۔ الایہ کہ اس نے سچ کہا ہو۔ مسلم عن ابوہریرہ (رض)
فائدہ : تہمت کی حد میں اسی کوڑے شرعی حد ہے۔

13364

13364- حد الساحر ضربة بالسيف. "ت ك عن جندب"
13364 جادو گر کی حد تلوار کا وار ہے۔ الترمذی، مستدرک الحاکم عن جندب
کلام : امام ترمذی کتاب الحدود باب ماجاء فی حد الساحر میں اس کو روایت کیا ہے رقم 1460۔۔۔ ضعیف الترمذی للالبانی (رح) 244 امام حاکم (رح) نے المستدرک میں کتاب الحدود 360/4 پر اس کو روایت کرکے غریب صحیح کہا ہے اور امام ذھبی (رح) نے اس کی موافقت فرمائی ہے۔ نیز دیکھئے ضعف حدیث ذخیرۃ الحفاظ 2666 ۔

13365

13365- من قال لرجل من الأنصار: يا يهودي فاضربوه عشرين. "عب عن داود بن الحصين2 عن أبي سفيان" مرسلا.
13365 جس نے کسی (مدینے کے) انصاری کو اے یہودی کہا اس کو بیس کوڑے مارو۔
مصنف لعبد الرزاق عن داؤد بن الحصین عن ابی سفیان، مرسلاً

13366

13366- أيما عبد أصاب مما نهى الله عنه، ثم أقيم عليه حده كفر عنه ذلك الذنب. "ك عن خزيمة بن ثابت". مر برقم [12967] .
13366 جو بندہ ایسی چیز کا مرتکب ہو جس سے اللہ نے منع کیا پھر اس پر حد قائم کردی جائے تو وہ حد اس گناہ کے لیے کفارہ ہوگی۔ مستدرک الحاکم عن خزیمۃ بن ثابت
12967 پر روایت گزر چکی ہے۔

13367

13367- من أصاب ذنبا فأقيم حد ذلك الذنب فهو كفارته. "حم والضياء عن خزيمة بن ثابت". مر برقم [12966] .
13367 جس سے کوئی گناہ سرزد ہوا پھر اس پر اس گناہ کی حد جاری ہوگئی تو وہ حد اس گناہ کے لیے کفارہ ہے۔ مسند احمد، الضیاء عن خزیمۃ بن ثابت، 12966

13368

13368- الرجم كفارة ما صنعت. "ن والضياء عن الشريد ابن سويد". مر برقم [12970] .
13368 سنگساری اس گناہ کا کفارہ ہے جو تو نے کیا ہے۔
النسائی، الضیاء عن الشرید بن سوید 12970

13369

13369- قتل الرجل صبرا كفارة لما قبله من الذنوب. "البزار عن أبي هريرة".
13369 کسی آدمی کا ظلما قتل کیا جانا اس کے پچھلے سب گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔
مسند البزار عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت ضعیف ہے ذخیرۃ الحفاظ 374، ضعیف الجامع 4073 ۔

13370

13370- قتل الصبر لا يمر بذنب إلا محاه. "البزار عن عائشة".
13370 ظلماً قتل جس گناہ پر گزرتا ہے اس کو مٹا دیتا ہے۔ البزار عن عائشۃ (رض)

13371

13371- من أصاب حدا فعجل عقوبته في الدنيا، فإن الله أعدل من أن يثني على عبده العقوبة في الآخرة، ومن أصاب حدا فستره الله عليه فالله أكرم من أن يعود في شيء قد عفا عنه. "ت هـ ك عن علي"
13371 جو کسی قابل حد گناہ کا مرتکب ہوا پھر دنیا ہی میں اس کو سزا جاری کردی گئی تو اللہ پاک اس سے زیادہ عدل والا ہے کہ اپنے بندہ پر آخرت میں دوبارہ سزا جاری کرے۔ اور جو بندہ حد کو پہنچا لیکن اللہ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اللہ اس سے کریم ہے کہ جس چیز کو پہلے معاف کردیا دوبارہ اس میں سزا دے۔ الترمذی، ابن ماجہ، مستدرک الحاکم عن علی (رض)
کلام : امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن غریب صحیح فرمایا ہے۔ نیز دیکھئے ضعف حدیث : ضعیف الترمذی 491، ضعیف الجامع 5423 ۔

13372

13372- لا تعزروا فوق عشرة أسواط. "هـ عن أبي هريرة"
13372 دس کوڑوں سے اوپر سزا نہ دو (مگر حدود اللہ میں) ۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : رواہ ابن ماجہ کتاب الحدودباب التعزیر رقم 2602 ۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی اسناد میں عباد بن کثیر الثقفی ہے جس کے متعلق امام احمد فرماتے ہیں یہ راوی ایسی جھوٹی احادیث بیان کرتا ہے جو اس نے سنی نہیں ہوتی۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں محدثین نے اس کو ترک کردیا ہے۔

13373

13373- لا كفالة في حد. "عد هق عن ابن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
13373 حد میں کفالت (ایک دوسرے پر بھروسہ کرکے چھوڑنا نہیں) ہے۔
الکامل لابن عدی، السنن للبیہقی عن ابن عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ
کلام : روایت ضعیف ہے : ذخیرۃ الحفاظ 6233، ضعیف الجامع 6309 ۔

13374

13374- من بلغ حدا في غير حد فهو له من المعتدين. "هق عن النعمان بن بشير".
13374 جس نے کسی پر حد جاری کی حالانکہ وہ حد کا سزاوار نہ تھا تو وہ اس پر ظلم کرنے والوں میں شامل ہے۔ السنن للبیہقی عن النعمان بن بشیر
کلام : ضعیف الجامع 5503 ۔

13375

13375- من جرد ظهر امرء مسلم بغير حق لقي الله وهو عليه غضبان. "طب عن أبي أمامة".
13375 جس نے (حد کے لئے) ناحق کسی مسلمان کی پیٹھ ننگی کی وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا اللہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض)
کلام : ضعیف الجامع 5543 ۔

13376

13376- لا تعذبوا بعذاب الله. "د ت ك عن ابن عباس"
13376 اللہ کا عذاب (آگ میں جلانا) کسی کو مت دو ۔
ابوداؤد ، الترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض) حدیث حسن صحیح

13377

13377- إن الله تعالى يعذب يوم القيامة الذين يعذبون الناس في الدنيا. "حم عن هشام بن حكيم" "حم هب عن عياض بن غنم".
13377 اللہ پاک قیامت کے روز ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں اس کے بندوں کو (ناحق) عذاب دیتے تھے۔
مسند احمد عن ہشام بن حکیم ، مسند احمد، شعب الایمان للبیہقی عن عباض بن غنم

13378

13378- إن أنتم قدرتم عليه فاقتلوه، ولا تحرقوه بالنار، فإنه إنما يعذب بالنار رب النار. "حم د عن حمزة بن عمرو الأسلمي".
13378 اگر تم اس پر قادر ہوجاؤ تو اس کو قتل کردینا لیکن آگ میں نہ جلانا۔ بیشک آگ میں آگ کا پروردگار ہی عذاب دیتا ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد عن حمزۃ بن عمرو الاسلمی

13379

13379- إنه لا ينبغي أن يعذب بالنار إلا رب النار. "د عن ابن مسعود".
13379 آگ کے ساتھ عذاب دینا صرف آگ کے مالک (خدا تعالیٰ ) کو ہی زیب دیتا ہے۔
ابوداؤد عن ابن مسعود (رض)

13380

13380- إني كنت أمرتكم أن تحرقوا فلانا وفلانا بالنار، وإن النار لا يعذب بها إلا الله، فإن أخذتموها فاقتلوهما. "حم خ ت عن أبي هريرة"
13380 میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں کو آگ میں جلا دینا۔ لیکن آگ کا عذاب صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ چنانچہ اگر تم ان دونوں کو پکڑ لو تو دونوں کو (صرف) قتل کردینا۔
مسند احمد ، البخاری ، الترمذی عن ابوہریرہ (رض)

13381

13381- إذا حكمتم فاعدلوا، وإذا قتلتم فأحسنوا، فإن الله محسن يحب المحسنين. "طس عن أنس".
13381 جب تم فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو۔ جب کسی کو قتل کرو تو اچھی طرح (بغیر زیادہ تکلیف کے) قتل کرو۔ بیشک اللہ اچھا کرنے والا ہے اور اچھا کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔
الاوسط للطبرانی عن انس (رض)

13382

13382- إن الله محسن يحب الإحسان، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة. "طب عن شداد بن أوس".
13382 اللہ تعالیٰ محسن ہے اور احسان کرنے کو پسند کرتا ہے حتیٰ کہ جب تم قتل کرو تو احسان کے ساتھ۔ یعنی بغیر کسی اضافی تکلیف دہی کے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح (بغیر ناجائز ایذاء دیئے) ذبح کرو۔ الکبیر للطبرانی عن شداد بن اوس

13383

13383- نزل نبي من الأنبياء تحت شجرة فلدغته نملة فأمر بجهازه فأخرج من تحتها، ثم أمر ببيتها فأحرق بالنار، فأوحى الله تعالى إليه فهلا نملة واحدة. "حم خ د ن عن أبي هريرة".
13383 انبیاء میں سے ایک نبی کسی درخت کے نیچے (کچھ دیر کے لئے) ٹھہرے۔ ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ آپ نے (جلانے کے لئے) ضروری سامان مہیا کرنے کا حکم دیا۔ اور وہ منگوا کر اس چیونٹی کے گھر کو جلوادیا ۔ اللہ پاک نے وحی فرمائی کہ ایک چیونٹی پر کیوں نہ اکتفا کیا۔
مسند احمد، البخاری ، ابوداؤد، النسائی عن ابوہریرہ (رض)

13384

13384- قرصت نملة نبيا من الأنبياء فأمر بقرية النمل فأحرقت فأوحى الله إليه أن قرصتك نملة أحرقت أمة من الأمم تسبح. "ق د ن هـ عن أبي هريرة".
13384 ایک چیونٹی نے انبیاء میں سے کسی نبی کو کاٹ لیا۔ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چیونٹی کی بستی (بل) جلانے کا حکم دے دیا جو جلا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ تجھے ایک چیونٹی نے کاٹا تھا لیکن تم نے ایک پوری قوم کو جلا دیا جو تسبیح کرتی تھی۔
البخاری ، مسلم ، ابوداؤد، النسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)

13385

13385- نهى عن صبر الروح وخصاء البهائم. "هق عن ابن عباس وأبي هريرة".
13385 حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی جان کو بغیر چارے کے باندھنے اور چوپاؤں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔
السنن للبیہقی عن ابن عباس (رض) و ابوہریرہ (رض)

13386

13386- نهى عن قتل الصبر. "د عن أبي أيوب".
13386 حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظلماً (اور بغیر کھلائے پلائے بھوک پیاس کی شدت میں) قتل کرنے سے منع فرمایا۔ ابوداؤد عن ابی ایوب

13387

13387- إذا رأيتم الرجل يقتل صبرا، فلا تحضروا مكانه، فإنه لعله يقتل ظلما فتنزل السخطة فتصيبكم. "ابن سعد طب عن خرشة"
13387 جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ کسی کو ظلماً قتل کررہا ہے تو تم اس کے ساتھ نہ رہو۔ بہت ممکن ہے کہ اس کو بھی ظلماً قتل کیا جائے اور خدا کی ناراضگی اترے تو تم بھی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔
ابن سعد، الکبیر للطبرانی عن فرشتہ
کلام : ضعیف الجامع 510 ۔

13388

13388- لا يؤذين مسلم بكافر. "ابن عساكر عن جعفر بن محمد عن أبيه".
13388 کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے ایذاء نہ دی جائے۔
ابن عساکر عن جعفر بن محمد عن ابیہ

13389

13389- إن أنتم قدرتم عليه فاقتلوه، ولا تحرقوه بالنار، فإنه إنما يعذب بالنار رب النار. "حم د ع طب والباوردي ص عن حمزة بن عمرو الأسلمي" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه هو ورهطا معه إلى رجل من عذرة وقال: إن قدرتم على فلان فأحرقوه بالنار ثم ردهم فقال: فذكره. "د عن أبي هريرة"
13389 اگر تم اس پر قادر ہوجاؤ تو اس کو قتل کردینا، آگ میں نہ جلانا۔ کیونکہ آگ کا عذاب صرف آگ کا رب دے سکتا ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، مسند ابی یعلی، الکبیر للطبرانی، الباوردی، السنن لسعید بن منصور عن حمزۃ بن عمرو الاسلمی
فائدہ : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزۃ بن عمر والاسلمی (رض) کو ایک لشکر دے کر قبیلہ عذرہ کے ایک آدمی کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ فلاں آدمی دسترس میں آجائے تو اس کو آگ میں جلا ڈالنا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کو واپس بلایا اور مذکورہ ارشاد فرمایا۔
ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)

13390

13390- إني كنت أمرتكم أن تحرقوا هبارا ونافعا، فإنه لا ينبغي أن يعذب بعذاب الله. "ابن عساكر عن أبي هريرة".
13390 میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ ھبار اور نافع کو جلا دینا۔ لیکن اللہ کا عذاب دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں کہ کسی کو دے۔ ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض)

13391

13391- إني لم أبعث أعذب بعذاب الله إنما بعثت بضرب الرقاب وشد الوثاق. "ابن جرير عن القاسم" مرسلا.
13391 مجھے اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا کہ میں اللہ کا عذاب کس کو دوں۔ مجھے عذاب میں صرف گردن مارنے اور مشکیں کسنے کا حکم دے کر بھیجا گیا ہے۔ ابن جریر عن القاسم ، مرسلاً

13392

13392- لا نعذب بعذاب الله. "طب عن أبي الدرداء".
13392 اللہ کا عذاب کسی کو مت دے۔ الکبیر للطبرانی عن ابی الدرداء (رض)

13393

13393- لا ينبغي لبشر أن يعذب بعذاب الله. "حم عن ابن مسعود".
13393 کسی بشر کے لیے مناسب نہیں کہ اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب دے۔
مسند احمد عن ابن مسعود (رض)

13394

13394- من مثل بأخيه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين. "طب عن ابن عمرو".
13394 جس نے اپنے کسی بھائی کا مثلہ کیا (اس کی شکل بگاڑی) اس پر اللہ کی، ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو

13395

13395- لا أمثل به فيمثل الله بي يوم القيامة. "ابن النجار عن عائشة".
13395 میں کسی کا مثلہ نہیں کرتا ورنہ اللہ بھی مجھے قیامت کے روز مثلہ کرے گا۔
ابن النجار عن عائشۃ (رض)
فائدہ : مثلہ ناک کان وغیرہ کاف کر یا کسی اور طرح کسی کی شکل بگاڑنا۔ ایسی سزا حاکم کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ کسی کودے۔

13396

13396- لا تمثلوا بعباد الله. "طب عن يعلى بن مرة".
13396 اللہ کے بندوں کا مثلہ نہ کرو۔ الکبیر للطبرانی عن یعلی بن مرۃ

13397

13397- لا تمثلوا بشيء من خلق الله عز وجل فيه الروح. "طب عن الحكيم بن عمير" "ابن قانع عن الحكيم بن عمير وعائذ بن قرط" معا.
13397 اللہ عزوجل کی مخلوق کی جس میں روح ہو کسی چیز کے ساتھ شکل نہ بگاڑو۔
الکبیر للطبرانی عن الحکیم بن عمیر، ابن قانع عن الحکیم بن عمیر وعائد بن قرط ، معاً

13398

13398- من مثل بعبده فهو حر، وهو مولى الله ورسوله. "ك وتعقب عن عمر".
13398 جس نے اپنے کسی غلام کی شکل بگاڑی (اس کا مثلہ کیا) وہ آزاد ہے۔ وہ اللہ اور اس کعے رسول کا غلام ہے۔ مستدرک الحاکم وتعقب عن عمر (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے امام ذھبی (رح) نے امام حاکم پر اس روایت میں گرفت فرمائی ہے۔ نیز ضعف حدیث دیکھئے : ذخیرۃ الحفاظ 5596 ۔

13399

13399- من مثل به أو حرق بالنار فهو حر وهو مولى الله ورسوله. "حم ق عن ابن عمر".
13399 جس کا مثلہ کیا گیا یا اس کو آگ میں جلایا گیا وہ آزاد ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کا غلام ہے۔ مسند احمد، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض)

13400

13400- من جلد حدا في غير حد فهو من المعتدين. "طب عن النعمان بن بشير".
13400 جس نے ایسے شخص پر جس پر حد جاری نہ ہوتی تھی حد (جتنی سزا) جاری کی وہ ظلم کرنے والوں میں شامل ہے۔ الکبیر للطبرانی عن النعمان بن بشیر۔

13401

13401- إن أشد الناس عذابا يوم القيامة أشدهم عذابا للناس في الدنيا. "ط حم ص طب هب عن خالد بن حكيم بن حزام عن خالد بن الوليد" "ك ق طب وابن عساكر عن هشام بن حكيم بن حزام وعياض بن غنم" معا "ابن عساكر عن هشام بن حكيم بن خالد عن خالد بن الوليد" "ابن سعد والباوردي والبغوي عن خالد بن حكيم بن حزام" "طب وأبو نعيم عن خالد بن حكيم بن حزام وأبي عبيدة بن الجراح معا".
13401 قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب میں وہ شخص مبتلا ہوگا جو دنیا میں لوگوں کو سب سے زیادہ عذاب دیتا تھا۔
ابوداؤد ، مسند احمد ، السنن لسعید بن منصور، الکبیر للطبرانی، شعب الایمان عن خالد بن حکیم بن حزام عن خالد بن ولید، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی ، الکبیر للطبرانی، ابن عساکر عن ہشام بن حکیم بن حزام وعیاض بن غنم معاً ، ابن عساکر عن ہشام بن حکیم بن خالد عن خالد بن الولید ، ابن سعد، الباوردی، البغوی عن خالد بن حکیم بن حزام الکبیر للطبرانی، ابونعیم عن خالد بن حکیم بن حزام وابی عبیدۃ بن الجراح معاً ۔

13402

13402- من عذب الناس في الدنيا عذبه الله. "حم عن هشام بن حكيم".
13402 جس نے دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا اللہ اس کو آخرت میں عذاب دے گا۔
مسند احمد عن ہشام بن حکیم

13403

13403- لا تعزروا فوق عشرة أسواط. "هـ عن أبي هريرة".
13403 دس کوڑوں سے اوپر کسی کو سزا نہ دو (مگر حدود اللہ میں) ۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض)
کلام : روایت محل کلام ہے سنداً دیکھئے : الکشف الالھی 1140 ۔ الوضع فی الحدیث 413/2

13404

13404- لا تعزر فوق عشرة أسواط. "عق وقال منكر عن أبي سلمة عن أبي فروة".
13404 دس کوڑوں سے اوپر کسی کو تعزیر (سزا) مت دو ۔
الضعفاء للعقیلی، وقال منکر عن ابی سلمۃ عن ابی فروۃ
کلام : روایت منکر ہے : دیکھئے الکشف الالٰہی 1140، الوضع فی الحدیث 413/2 ۔

13405

13405- لا يجلد أحد فوق عشرة أسواط إلا في حد من حدود الله. "حم خ م د ت هـ عن أبي بردة بن نيار الأنصاري" قال "ت"1: هذا أحسن شيء روى في التعزير.
13405 کسی کو دس کوڑوں سے اوپر سزا نہ دی جائے مگر حدود اللہ میں سے کسی حد میں۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، ابن ماجہ عن ابی بردۃ بن نیار الانصاری
امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں تعزیر سے متعلق مرویات میں یہ روایت سب سے احسن ہے۔

13406

13406- لا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر أن يضرب فوق عشرة أسواط إلا في حد. "ابن سعد عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام" مرسلا.
13406 کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو یہ حلال نہیں ہے کہ کسی کو حد کے سوا کسی صورت میں دس کوڑوں سے اوپر سزا دے۔
ابن سعد عن ابی بکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام مرسلاً ۔

13407

13407- لا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر أن يجلد فوق عشرة أسواط إلا في حد. "ق عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم" مرسلا.
13407 جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ کسی کو دس کوڑوں سے اوپر جاری کرے (سزادے) سوائے حد میں۔
السنن للبیہقی عن عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، مرسلاً

13408

13408- لا ضرب فوق عشر ضربات إلا في حد من حدود الله. "عب عن سليمان بن ثعلبة بن يسار" مرسلا.
13408 دس ضربوں سے زیادہ کوئی ضرب مارنا جائز نہیں سوائے حدود اللہ میں سے کسی حد کے۔ المصنف لعبد الرزاق عن سلیمان بن ثعلبۃ بن یسار ، مرسلاً

13409

13409- لا تقولوا: الخبيث، فوالله لهو أطيب عند الله من ريح المسك. "ابن سعد طب وابن عساكر عن خالد بن اللجلاج عن أبيه" قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجم رجل، فقالوا: إنه الخبيث، قال: فذكره
13409 اس کو خبیث نہ کہو۔ اللہ کی قسم وہ اللہ کے ہاں مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔
ابن سعد، الکبیر للطبرانی، ابن عساکر عن خالد بن اللجلاج عن ابیہ
فائدہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے اس کے متعلق خبیث ہونے کے الفاظ کہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ اشارہ فرمایا۔

13410

13410- لا تقولوا هكذا لا تعينوا عليه الشيطان، ولكن قولوا: اللهم اغفر له اللهم ارحمه. "حم د عن أبي هريرة" قال: أتي برجل قد شرب الخمر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اضربوه فقال بعض القوم: أخزاه الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فذكره.
13410 اس طرح نہ کہو۔ اس پر شیطان کی مددنہ کرو۔ بلکہ یوں کہو : اللھم اغفرلہ اللھم ارحمہ اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما۔ اے اللہ ! اس پر رحم فرما۔ مسند احمد ، ابوداؤد عن ابوہریرہ (رض)
فائدہ : ایک آدمی کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اضربوہ۔ اس کو مارو۔ کسی آدمی نے کہا : اللہ اس کے رسوا کرے۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

13411

13411- لا يقفن أحدكم موقفا يضرب رجل فيه سوطا ظلما فإن اللعنة تنزل على من حضره حيث لم يدفعوا عنه. "عق طب عن ابن عباس" وقال "عق" فيه أسد بن عطاء مجهول فلا يتابع عليه.
13411 کوئی آدمی ایسی کسی جگہ نہ کھڑا ہو جہاں کسی آدمی پر ظلماً کوڑے (یا ڈنڈے) مارے جارہے ہوں۔ کیونکہ اگر حاضرین اس مظلوم کی مدافعت نہ کریں تو سب حاضرین پر لعنت اترتی ہے۔ الضعفاء للعقیلی، الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض)
کلام : امام عقیلی (رح) فرماتے ہیں : مذکورہ روایت کی سند میں اسد بن عطاء مجہول راوی ہے جس کی متابعت نہیں کی جاتی۔

13412

13412- لا يشهد أحد منكم قتيلا قتل صبرا، فعسى أن يكون قتل ظلما فتنزل السخطة عليهم فتصيبه معهم. "حم طب عن خرشة بن الحر".
13412 تم میں سے کوئی کسی ظلماً ہونے والے کے پاس حاضر نہ ہو (اگر وہ مدافعت نہ کرسکتا ہو) کیونکہ ظلماً قتل ہونے والے کی وجہ سے اللہ کا غضب سب حاضرین پر اتر جائے اور وہ بھی ان کے ساتھ لپیٹ میں آجائے۔ مسند احمد، الکبیر للطبرانی عن خرشۃ بن الحر۔

13413

13413- عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان أنه سمع زبيد بن الصلت يقول: سمعت أبا بكر يقول: لو أخذت سارقا لأحببت أن يستره الله. "ابن سعد والخرائطي في مكارم الأخلاق عب".
13413 محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے مروی ہے کہ انھوں نے زبید بن الصلت کو فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکر (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا اگر میں کسی چو رکو پکڑ لوں تو مجھے یہ زیادہ پسند ہوگا کہ اللہ پاک اس کی پردہ پوشی رکھے۔
ابن سعد، الخرائطی فی مکارم الاخلاق، المصنف لعبد الرزاق

13414

13414- عن الثوري عن الأعمش عن إبراهيم أن عمر بن الخطاب قال: ادرؤا الحدود ما استطعتم1
13414 ثوری عن الاعمش عن ابراہیم کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : جس قدر ہوسکے حدود کو ساقط کرو۔
1287 پر روایت گزرچکی ہے۔

13415

13415- عن عمر قال: لأن أعطل الحدود بالشبهات أحب إلي من أن اقيمها في الشبهات. "ش".
13415 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : میں شبہات کی وجہ سے حدود کو معطل کردوں یہ مجھے شبہات کے ساتھ حدود قائم کرنے سے بہت زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابن ابی شیبہ

13416

13416- عن عمر قال: اطردوا المعترفين يعني المعترفين بالحدود. "ق".
13416 حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہے معترفین کو جھڑک کر بھگادو۔ یعنی اپنے اوپر حدود کا اعتراف قبول کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرو۔ السنن للبیہقی

13417

13417- عن عمر قال: ادرؤا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن الإمام لأن يخطئ في العفو خير له من أن يخطئ في العقوبة، فإذا وجدتم للمسلم مخرجا فادرؤا عنه1 "ش حم ت وضعفه ك وتعقب ق وضعفه عن عائشة" "ابن خسرو".
13417 حضرت عمر (رض) کا ارشاد گرامی ہے : جس قدر ہوسکے مسلمانوں سے حدود ساقط کرو۔ کیونکہ امام سے خطاء معافی کا حکم سرزد ہوجائے یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے اس بات سے کہ وہ خطاء سزا جاری کردے۔ لہٰذا جب تم کسی مسلمان کے لیے خلاصی کا کوئی (جائز) راستہ پاؤ تو اس سے حد کو گرادو۔ ابن ابی شبہ، مسند احمد، الترمذی وضعفہ، مستدرک الحاکم وتعقب، السنن للبیہقی وضعفہ عن عائشۃ (رض) ، ابن خسرو۔

13418

13418- عن عطاء قال: قال عمر بن الخطاب: استر من الحدود ما وراك أي ادرؤها ما قدرتم.
13418 حضرت عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : حدود پر پردہ ڈالو ۔ یعنی جس قدر ہوسکے ساقط کرنے کی کوشش کرو۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق

13419

13419- عن الواقدی " ثنا ابن أبي سبرة قال: رفع إلى عمر بن الخطاب رجل جنى جناية، فقيل له: يا أمير المؤمنين، إن له مروة قال: استوهبوا من خصمه، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال: اهتبلوا العفو عن عثرات ذوي المروات. "أبو بكر بن خلف بن المرزبان في كتاب المروة". "الخرائطي في مكارم الأخلاق".
13419 واقدی سے مروی ہے فرماتے ہیں : ہمیں ابن ابی سبرۃ نے فرمایا : کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کی بارگاہ میں ایک شخص کو پیش کیا گیا جس نے کوئی جرم کیا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو کسی نے عرض کیا : امیر المومنین ! یہ صاحب مرتبہ آدمی ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کے مخالف فریق سے بات کرو۔ کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : مروت و مرتبہ والوں کی لغزشوں سے درگزر سے کام لو۔ ابوبکر بن خلف بن المرزبان فی کتاب المروء ۃ
کلام : واقدی یہ محمد بن عمر بن واقداسلمی مدنی ہیں۔ ان کی کئی تصانیف ہیں۔ ہمارے دیار (برصغیر ) میں ان کی مشہور تصنیف فتوح الشام کو قبول عام حاصل ہے۔ لیکن تمام اہل علم نے ان کو ضعف پر اتفاق کیا ہے۔ اس لیے مذکورہ روایت محل کلام ہے۔ ان کی وفات 207 ھ میں عہدہ قضاء پر متمکن زمانے میں ہوئی تھی۔ میزان الاعتدال 662/3 ۔

13420

13420- عن القاسم بن عبد الرحمن عن أبيه أن عليا ضرب رجلا في حد وعليه كساء قسطلاني قاعدا. "عب".
13420 قاسم بن عبدالرحمن (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک آدمی کی حد جاری کی اس حال میں کہ اس کے بدن پر قسطلانی چادر تھی اور وہ بیٹھا ہوا بھی تھا۔
المصنف عبدالرزاق

13421

13421- عن عكرمة بن خالد قال: أتي علي برجل في حد فقال للجالد: اضرب وأعط كل ذي عضو حقه، واجتنب وجهه ومذاكيره. "عب ص وابن جرير ق".
13421 عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے روبرو ایک آدمی کو حد کے لیے پیش کیا گیا۔ آپ (رض) نے جلاد کو فرمایا : ضرب لگاؤ اور ہر عضو کو اس کا حق دو لیکن چہرے اور شرمگاہوں کو بچانا۔
المصنف لعبد الرزاق، السنن لسعید بن منصور ، ابن جریر ، السنن للبیہقی
فائدہ : یعنی ایک ہی جگہ پر کوڑے مار مار کر اس کو ناکارہ نہ کردو بلکہ مختلف جگہوں پر کوڑے مارو لیکن چہرے اور شرم گاہ جیسی حساس جگہوں پر مارنے سے احتراز کرو۔

13422

13422- عن علي قال: يضرب الرجل قائما والمرأة قاعدة في الحد. "عب ص هق".
13422 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : حد میں آدمی کو کھڑا کر کے ضربیں لگاؤ اور عورت کو بٹھا کر۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13423

13423- عن علي قال: إذا بلغ في الحدود عسى ولعل فالحدود معطلة. "عب".
13423 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : جب حدود میں شاید ایسا ہوا تھا، ممکن ہے، وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوں تو حدود معطل ہوجائیں گے۔ الجامع عبدالرزاق

13424

13424- عن علي قال: حبس الإمام بعد إقامة الحد ظلم. "ق".
13424 حضرت علی (رض) کا ارشاد گرامی ہے : حد جاری کردینے کے بعد حاکم کا مجرم کو قید رکھنا (سراسر) ظلم ہے۔ السنن للبیہقی

13425

13425- عن ابن عمر قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بسارق فلما نظر إليه تغير وجهه كأنما رش على وجهه حب الرمان، فلما رأى القوم شدته قالوا: يا رسول الله لو علمنا مشقته عليك ما جئناك به، فقال: كيف لا يشق علي وأنتم أعوان الشيطان على أخيكم. "الديلمي".
13425 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیا گیا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کو دیکھا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، گویا آپ کے چہرے پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔ آنے والے لوگوں نے آپ کی بدلتی غصہ کی کیفیت ملاحظہ کی تو وہ عرض کرنے لگے : یارسول اللہ ! اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اس کا پیش کرنا آپ کو گراں گزرے گا تو ہم اس کو آپ کے سامنے پیش نہ کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے کیوں نہ گراں گزرے کہ تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار بن کر آئے ہو۔ الدیلمی

13426

13426- عن أبي ماجد الحنفي أن ابن مسعود أتاه رجل بابن أخيه وهو سكران، فقال: إني وجدت هذا سكران. فقال: ترتروه1 ومزمزوه واستنهكوه، فترتروه ومزمزوه واستنهكوه، فوجدوا منه ريح شراب فأمر به عبد الله إلى السجن، ثم أخرجه من الغد، ثم أمر بسوط فدقت ثمرته، حتى آضت له مخففة. يعني صارت ثم قال للجلاد: اضرب وأرجع يدك، وأعط كل عضو حقه، فضربه عبد الله ضربا غير مبرح وأرجعه، قيل: يا أبا ماجد، ما المبرح؟ قال: ضرب الأمراء قيل: فما قوله: أرجع يدك قال: لا يتمطى ولا يرى إبطه، قال: فأقامه في قباء وسراويل ثم قال: بئس لعمر الله والي اليتيم، هذا ما أدبت فأحسنت الأدب ولا سترت الخزية، ثم قال عبد الله: إن الله غفور يحب الغفور، وإنه لا ينبغي لوال أن يؤتي بحد إلا أقامه، ثم أنشأ عبد الله يحدث قال: أول رجل قطع من المسلمين رجل من الأنصار أتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فكأنما أسف في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم رماد يعني ذر عليه رماد فقالوا: يا رسول الله كأن هذا شق عليك؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وما يمنعني وأنتم أعوان الشيطان على صاحبكم، إن الله عفو يحب العفو وإنه لا ينبغي لوال أن يؤتي بحد إلا أقامه، ثم قرأ: {وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا} . "عب وابن أبي الدنيا في ذم الغضب وابن أبي حاتم والخرائطي في مكارم الأخلاق طب وابن مردويه ك ق"
13426 ابو ماجد الحنفی سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) کے پاس ایک شخص اپنے ابن العم (بھتیجے) کو لے کر حاضر خدمت ہوا اس کا ابن العم نشہ کی کیفیت میں تھا۔ چچا نے کہا ! میں نے اس کو نشہ کی حالت میں پایا ہے۔ آپ (رض) نے حاضرین کو حکم فرمایا : اس کو بلاؤ جلاؤ اور سونگھ کر دیکھو۔ لوگوں نے اس کو ہلایا جلایا اور اس کا منہ سونگھا۔ واقعی اس کی حرکات اور بو سے معلوم ہوگیا کہ اس نے شراب پی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ (رض) نے اس کو جیل کا حکم دیا۔ پھر آئندہ روز نکلوایا اور کوڑہ تیار کرنے کا حکمدیا گیا۔ چنانچہ کوڑے کی گانٹھ کو کوٹ کر ہلکا کرنے کا حکم دیا گیا حتیٰ کہ وہ ہلکا ہوگیا (تاکہ زیادہ تکلیف دہ نہ ہو) پھر آپ (رض) نے جلاد کو حکم فرمایا : ضرب لگاؤ لیکن اپنے ہاتھ کو ہلکا رکھو۔ اور ہر عضو کو اس کا حصہ دو (یعنی کسی ایک جگہ پر سب کوڑے نہ برساؤ) چنانچہ حضرت عبداللہ (رض) نے اس کو ایسے کوڑے لگوائے کہ نہ ان کا نشان پڑا اور ہاتھ میں ازجاع رہی۔ ابو ماجد حنفی سے پوچھا گیا کہ ارجاع سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : جلاد مٹک مٹک کر نہ مارے اور کوڑا بلند کرتے وقت بغل نظر نہ آئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! یتیم (جس کی سزا دی گئی) کا والی (چچا اس کو لے کر آیا تھا) برا آدمی ہے۔ میں نے جو سزا دی یہ اس کی تادیب کے لیے تھی اور میں نے اچھی طرح سے یہ تادیب ادا کی ہے۔ اس کے ساتھ میں نے سزا ختم بھی نہیں کی۔ پھر حضرت عبداللہ (رض) ن یارشاد فرمایا : اللہ مغفرت کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ کسی والی (حاکم) کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کے پاس حد کا کوئی فیصلہ (کیس) آئے اور وہ اس کو قائم نہ کرے۔ پھر آپ (رض) (حد کا پس منظر بتاتے ہوئے) فرمانے لگے : مسلمانوں میں سے پہلا شخص جس کا (ہاتھ) کاٹا گیا وہو انصار میں سے ایک آدمی تھا۔ اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا تو گویا آپ کے چہرے پر ریت جھاڑ دی گئی ہو (یعنی ناگواری سے چہرہ مبارک پر ترشی چھاگئی) لوگوں نے کہا : یارسول اللہ ! شاید اس کا پیش کیا جانا آپ کے لیے شاق گزرا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے کیوں نہ شاق گزرتا جبکہ تم اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار بن کر آئے ہو۔ بیشک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ لیکن کسی حاکم کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے پاس حد کا مسئلہ آئے اور وہ اس کو نافذ نہ کرے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
ولیعفوا ولیصفحوا
اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔
المصنف لعبدالرزاق خ ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب، ابن ابی حاتم ، الخرائطی فی مکارم الاخلاق، الکبیر للطبرانی، ابن مردویہ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی

13427

13427- عن الثوري ومعمر عن عبد الرحمن بن عبد الله عن القاسم بن عبد الرحمن قال: قال ابن مسعود: ادرؤا الحدود والقتل عن عباد الله ما استطعتم. "عب".
13427 ثوری اور معمر عبدالرحمن بن عبداللہ سے، وہ قاسم بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے ارشاد فرمایا : بندگان الٰہی سے جس قدر ہوسکے حدود اور قتل کو ساقط کرو۔
عبدالرزاق فی جامعہ

13428

13428- مسند عمر رضي الله عنه عن أبي عثمان النهدي قال: أتي عمر برجل في حد فأمر بسوط فجيء بسوط فيه شدة فقال: أريد ألين من هذا، فأتي بسوط فيه لين فقال: أريد سوطا أشد من هذا فأتي بسوط بين السوطين فقال: اضرب به ولا يرى إبطك، وأعط كل عضو حقه. "عب ش ق".
13428 مسند عمر (رض) ۔ ابوعثمان نہدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں ایک شخص کو حد جاری کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔ آپ (رض) نے کوڑا منگوایا۔ ایک کوڑا لایا گیا جس میں شدت (اور سختی) تھی۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے اس سے نرم کوڑا چاہیے۔ چنانچہ پہلے سے ذرا نرم کوڑا پیش کیا گیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں (یہ زیادہ نرم ہے) اس سے کچھ سخت لاؤ۔ چنانچہ پھر دونوں کے درمیانی ساخت کا ایک کوڑا لایا گیا۔ تب آپ (رض) نے جلاد کو حکم دیا : اس کے ساتھ مار لیکن (کوڑا اٹھاتے وقت) تیری بغل نہ نظر آئے۔ اور ہر عضو کو اس کا حق دو ۔ یعنی کسی ایک جگہ پر ساری تعداد پوری نہ کرو۔ الجامع لعبد الرزاق، المصنف لا بن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

13429

13429- عن عبد الله بن عبيد الله أن عمر بن الخطاب كان يختار للحدود رجلا وأنه قال: إذا أردت أن تجلد فلا تجلد حتى تبرق ثمرة السوط بين حجرين حتى تلينها. "عب".
13429 عبداللہ بن عبید اللہ سے مروی ہے حضرت عمر بن خطاب (رض) حدود جاری کرنے کے لیے کسی آدمی کو (بطور جلاد) منتخب کرتے تو اس کو فرماتے : جب تو جلد کرنے لگے (یعنی کوڑے مارنے لگے) تو اس وقت تک کوڑے نہ مارجب تک کوڑے کے پھل کو دو پتھروں کے درمیان اچھی طرح کوٹ کر نرم نہ کرلے (تاکہ زیادہ ایذاء نہ دے) ۔ المصنف لعبد الرزاق

13430

13430- عن عمر أنه كتب إلى أبي موسى الأشعري، ولا تبلغ منها بنكال فوق عشرين سوطا. "عب".
13430 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ الاشعری (رض) کو لکھا : کسی کو سزا دیتے وقت (حد کے علاوہ) بیس کوڑوں سے زیادہ نہ مارو۔ المصنف لعبد الرزاق

13431

13431- عن عمر قال: لا عفو عن الحدود عن شيء منها بعد أن تبلغ الإمام فإن إقامتها من السنة. "عب".
13431 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : حدود جب امام (حاکم) کے پاس پہنچ جائیں تو ان کے اندر کسی طرح کی کوئی معافی نہیں ہے۔ کیونکہ حدود قائم کرنا نبی کا طریقہ ہے۔
الجامع لعبدالرزاق

13432

13432- عن الضحاك قال: أتي علي بعبد حبشي شارب زان فجلده أربعين أو خمسين. "ابن جرير".
13432 ضحاک سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت علی (رض) کی خدمت میں ایک حبشی غلام کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی اور وہ زنا کا بھی مرتکب ہوا تھا آپ (رض) نے اس کو چالیس یا پچاس ضربیں (کوڑے ) مارے۔ ابن جریر

13433

13433- عن علي قال: من مات في حد فإنما قتله الحد ولا عقل له مات في حد من حدود الله عز وجل. "ق".
13433 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو مجرم حد کے جاری ہونے کے درمیان مرگیا تو اس کو حد نے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کی دیت نہیں ہے۔ وہ اللہ عزوجل کی حدود میں سے ایک حد میں امر ہے۔ السنن للبیہقی

13434

13434- عن ابن عباس قال: من قتل أو سرق في الحل ثم دخل الحرم فإنه لا يجالس ولا يكلم ولا يووي ويناشد حتى يخرج فيقام عليه ومن قتل أو سرق فأخذ في الحل فأدخل الحرم فأرادوا أن يقيموا عليه ما أصاب أخرجوه من الحرم إلى الحل، وإن قتل في الحرم أو سرق أقيم في الحرم. "عب".
13434 ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جس نے حل قتل کیا یا چوری پھر وہ حرم میں داخل ہوگیا (جہاں اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی) تو وہاں اس کے ساتھ کوئی اٹھے بیٹھے اور نہ بات چیت کرے اور نہ ہی اس کو کوئی ٹھکانا دے اور اس کا اعلان کیا جاتا رہے حتیٰ کہ وہ وہاں سے نکل جائے۔ پھر اس پر حد قائم کی جائے۔ اور جس نے کوئی قتل کیا یا چوری کی پھر اس کو حل میں پکڑ لیا گیا اور حرم میں داخل کردیا گیا پھر وہاں حرم میں اس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا گیا تو پہلے اس کو حرم سے حل لایا جائے۔ ہاں اگر اس نے حرم میں ہی قتل کیا ہو یا چوری کی ہو تو وہیں اس پر حد قائم کی جائے گی۔ المصنف لعبد الرزاق

13435

13435- عن ابن مسعود قال لا يحل في هذه الأمة التجريد ولا مد ولا غل ولا صفد "لا مد ولا غل ولا صفد1 "عب".
13435: ابن مسعود (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اس امت میں ننگا کرنا، لمبا کرنا، لٹا کر کوڑے مارنا (طوق ڈالنا) اور بیڑیاں ڈالنا حلال نہیں ہے۔ (المصنف لعبد الرزاق)

13436

13436- عن عائشة قالت: قتل الصبر لا يمر بذنب إلا محاه. "ك في تاريخه".
13436 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : ظلماً قتل کسی بھی گناہ پر نہیں گزرتا مگر اس کو مٹا دیتا ہے۔ التاریخ للحاکم

13437

13437- عن أبي بكر بن محمد عن عمرو بن حزم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي برجل مريض وجب عليه حد، فقال: أقيموا عليه الحد فإني أخشى أن يموت. "ابن جرير".
13437 ابوبکر بن محمد سے مروی ہے وہ عمرو بن حزم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مریض شخص کو لایا گیا جس پر حد واجب ہوچکی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر حد قائم کردو کیونکہ مجھے اس کے مرنے کا ڈر ہے۔ ابن جریر

13438

13438- عن مجاهد قال: كان صفوان بن أمية من الطلقاء فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأناخ راحلته ووضع رداءه عليها، ثم تنحى ليقضي الحاجة، فجاء رجل فسرق رداءه، فأخذه فأتى به النبي صلى الله عليه وسلم فأمر أن تقطع يده: قال: رسول الله تقطع في رداء أنا أهبه له، قال: فهلا قبل أن تأتيني به. "ش".
13438 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ صفوان بن امیہ فتح مکہ کے دن اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے۔ انھوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اپنی چادر کجاوے پر ڈال دی۔ پھر صفوان ایک طرف ہٹ کر قضائے حاجت کے لیے چلے گئے۔ پیچھے سے ایک آدمی نے ان کی چادر چوری کرلی۔ صفوان نے اس آدمی کو پکڑ لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صفوان نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ایک چادر کے لیے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ میں چادر اس کو ہدیہ کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس لانے سے قبل یہ خیال کیوں نہ آیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13439

13439- عن أبي جعفر محمد بن علي قال: كان في صفوان بن أمية ثلاث من السنة: استعار رسول الله صلى الله عليه وسلم حين سار إلى حنين منه أدرعا من حديد فقال صفوان: أغصب يا محمد؟ قال: بل عارية مضمونة قال: فضمنت العارية حتى تؤدي إلى أهلها، وقدم المدينة بعد فتح مكة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما جاء بك يا أبا أمية؟ فقال: يا نبي الله زعم الناس أن لا خلاق لمن لا يهاجر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أمية لترجعن حتى تنبطح ببطحاء مكة، فعرف الناس أن الهجرة قد انقطعت بعد فتح مكة، وبات في مسجد رسول الله فسرقت خميصته من تحت رأسه فظفر بصاحبه فأتى به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن هذا سرق خميصتي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذهبوا به فاقطعوه، قال: يا رسول الله هي له، قال: ألا قبل أن تأتينا به فعرف أن لا بأس بالعفو عن الحد ما لم ينته إلى الإمام. "كر".
13439 ابو جعفر محمد بن علی (رح) سے مروی ہے کہ صفوان بن امیہ کی وجہ سے تین سنتوں (اسلامی احکام) کا علم ہوا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب آپ جنگ حنین کے لیے کوچ فرما رہے تھے صفوان بن امیہ سے عاریت پر فولادی زرہیں طلب کیں۔ صفوان نے کہا : اے محمد ! کیا یہ غصب ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں بلکہ عاریت ہے۔ اور اس کی ضمانت دی جاتی ہے۔
ابوجعفر (رح) فرماتے ہیں : چنانچہ عاریت کی ضمانت دی جانے لگی جب تک کہ وہ مالک کو ادا نہ کردی جائے۔
اسی طرح ایک مرتبہ صفوان فتح مکہ کے بعد مدینے آئے۔ یہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے، یہ ان لوگوں میں سے تھے جن پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کرکے ان کی جان بخشی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے ابوامیہ ! تجھے کیا چیز مدینے لائی ؟ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! لوگوں کا خیال ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا (اسلام میں) کوئی حصہ نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے امیہ ! تم بخوشی ضرور واپس جاؤ اور مکہ کی وادی بطحاء میں کھل کر رہو۔
ابوجعفر (رح) فرماتے ہیں : تب لوگوں کو علم ہوا کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ صفوان نے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں راست بسر کی۔ ان کی قمیص جوان کے سرہانے رکھی تھی، کسی نے چرالی۔ صفوان چور کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ چنانچہ وہ ان کو لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اس نے میری قمیص چوری کی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصحاب کو حکم دیا اس کو لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ تب صفوان نے عرض کیا : یارسول اللہ یہ اس کی ہوئی (آپ اس کا ہاتھ نہ کاٹیں) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس لانے سے قبل یہ کام کیوں نہ کرلیا۔
ابوجعفر (رح) فرماتے ہیں : تب لوگوں کو علم ہوا کہ حد کا مسئلہ جب تک حاکم کے پاس نہ پہنچے اس کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ ابن عساکر

13440

13440- عن طاوس قال: قيل لصفوان بن أمية وهو بأعلى مكة: لا دين لمن لم يهاجر، فقال: والله لا أصل إلى أهلي حتى آتي المدينة، فأتى المدينة فنزل على العباس فاضطجع في المسجد وخميصته تحت رأسه فجاء سارق فسرقها من تحت رأسه فأتى به النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن هذا سارق فأمر به فقطع فقال: هي له، فقال: هلا قبل أن تأتيني به. "ش".
13440 طاؤس (رح) سے مروی ہے کہ صفوان بن امیہ ایک دفعہ مکہ کی بالائی وادی میں تھا اس کو کسی نے کہا : لا دین لمن لم یھاجر
جس نے ہجرت نہیں کی اس کا کوئی دین نہیں۔
تب صفوان نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اپنے گھر نہ لوٹوں گا جب تک مدینہ جاؤں ۔ چنانچہ وہ مدینہ تشریف لائے اور وہاں حضرت عباس (رض) کے ہاں اترے پھر (رات کو) مسجد میں سوئے سوتے وقت ان کی قمیص ان کے سر کے نیچے تھی۔ ایک چور آیا اور اس نے ان کے سر کے نیچے سے وہ قمیص چرالی۔ صفوان اس چور کو لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا : یہ چور ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جو کاٹ دیا گیا۔ صفوان نے عرض کیا : یہ چادر اسی کو دیتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس کو میرے پاس لانے سے قبل کیوں نہ دے دی۔ ابن ابی شیبہ

13441

13441- عن طاوس قال: قيل لصفوان بن أمية: هلك من نفيت له هجرة فحلف أن لا يغسل رأسه حتى يأتي النبي صلى الله عليه وسلم فركب راحلته، ثم انطلق فصادف النبي صلى الله عليه وسلم عند باب المسجد فقال: يا رسول الله إنه قيل لي: هلك من لا هجرة له، فآليت بيمين لا أغسل رأسي حتى آتيك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن صفوان سمع بالإسلام فرضي به دينا إن الهجرة قد انقطعت بعد الفتح ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، قال: ثم جاء بسارق خميصة فأمر النبي أن تقطع يده، فقال: لم أرد هذا يا رسول الله، هي عليه صدقة، قال: فهلا قبل أن تاتيني به. "عب".
13441 طاؤس (رح) سے مروی ہے کہ صفوان بن امیہ کو کسی نے کہا : جس نے ہجرت نہیں کی وہ ہلاک ہوگیا۔ تب صفوان نے قسم اٹھائی کہ وہ اس وقت تک سر نہ دھوئیں گے جب تک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ چلے جائیں (یعنی ہجرت مدینہ نہ کرلیں) پھر صفوان چلے اور مسجد نبوی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سامنا کیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے کہا گیا کہ جس نے ہجرت نہیں کی وہ ہلاک ہوگیا۔ چنانچہ میں نے قسم اٹھالی کہ جب تک آپ کے پاس نہ پہنچ جاؤں سر نہ دھوؤں گا۔ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صفوان نے اسلام کو سنا اور اس کے دین ہونے پر راضی ہوگئے۔ اب فتح مکہ کے بعد ہجرت منقطع ہوچکی ہے۔ لیکن جہاد اور نیت ہے۔ پس جب بھی تم کو اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہا جائے نکل پڑو۔
طاؤس (رح) فرماتے ہیں : پھر صفوان ایک قمیص کے چور کو پکڑ کر لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کیا۔ صفوان بولے : میرا یہ ارادہ نہ تھا یارسول اللہ یہ چادر اس پر صدقہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے یہ کام پہلے کیوں نہ کیا (اب حد جاری ضرور ہوگی) ۔
المصنف لعبد الرزاق

13442

13442- عن معمر عن الزهري أن صفوان أتى النبي صلى الله عليه وسلم بسارق بردة فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم أن تقطع يده فقال: لم أرد هذا يا رسول الله هي عليه صدقة قال: فهلا قبل أن تأتيني به. "عب".
13442 معمر، زہری (رح) (سے روایت کرتے ہیں کہ صفوان (رض)) حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں چادر کے ایک چور کو لے کر حاضر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ آپ (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا یہ ارادہ تو ہرگز نہ تھا۔ یہ اس پر صدقہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13443

13443- عن عمر قال: اشتدوا على الفساق واجعلوهم يدا يدا ورجلا رجلا. "عبد بن حميد وأبو الشيخ".
13443 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : فاسقوں پر شدت کرو۔ ان کو ایک ایک ہاتھ اور ایک ایک پاؤں کردو۔ عبد بن حمید وابوالشیخ

13444

13444- عن حمزة الأسلمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه في رهط1 سرية فقال: إن قدرتم على فلان أو فلان فأحرقوه، ثم قال: إن قدرتم عليه فاقتلوه ولا تحرقوه بالنار، فإنه لا يعذب بالنار إلا رب النار. "أبو نعيم".
13444 حمزہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک سریہ (چھوٹا لشکر) دے کر بھیجا اور فرمایا : اگر تم کو فلاں یا فلاں شخص مل جائے اس کو جلا دینا۔ پھر فرمایا : (نہیں ! ) اگر تم فلاں پر قادر ہوجاؤ تو اس کو قتل کردینا۔ لیکن آگ میں نہ جلانا۔ بیشک آگ کا عذاب آگ کا رب ہی دے سکتا ہے۔ ابونعیم

13445

13445- عن حنظلة بن عمرو الأسلمي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية وبعث معه إلى رجل من عذرة، فقال: إن وجدتموه فاقتلوه ولا تحرقوه، وإنما يعذب بالنار إلا رب النار. "الحسن بن سفيان في الوجدان وأبو نعيم".
13445 حنظلہ بن عمرو السلمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ عذرہ کے ایک آدمی کی طرف ایک سریہ بھیجا اس کے ساتھ مجھے بھی روانہ فرمایا۔ آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا اگر تم اس کو پالو تو قتل کردینا اور جلانا نہیں۔ کیونکہ آگ کا عذاب آگ کا پروردگار ہی دے سکتا ہے۔
الحسن بن سفیان فی الوجدان و ابونعیم

13446

13446- عن أبي هريرة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية أنا فيهم، فقال: إن ظفرتم بهبار بن الأسود وبنافع بن عبد القيس فحرقوهما بالنار، فلما كان الغد بعث إلينا، فقال: إني كنت أمرتكم بحريق هذين الرجلين، إن أخذتموهما، ثم رأيت أنه لا ينبغي لأحد أن يعذب بالنار إلا الله فإن ظفرتم بهما فاقتلوهما. "ابن جرير".
13446 حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں میں بھی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اگر تم ھباربن الاسود کو اور نافع بن عبدالقیس کو پالو تو دونوں کو آگ میں جلا ڈالنا۔ جب اگلا دن طلوع ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو پیغام بھیجا اور فرمایا میں نے تم کو دو آدمیوں کے جلانے کا حکم دیا تھا اگر تم ان کو پکڑ لو لیکن پھر میں نے سوچا کہ کسی کو آگ کا عذاب دینا جائز نہیں صرف اللہ ہی آگ کا عذاب دے سکتا ہے۔ اگر تم ان کو پاؤ تو دونوں کو قتل کردینا۔ ابن جریر

13447

13447- عن عائشة قالت: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم أسيرا فانفلت ثم إنه أخذ بعد فقيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه رجل مفوه فانزع ثنيته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا أمثل به كذا فيمثل الله بي يوم القيامة. "كر وابن النجار".
13447 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قیدی کو پکڑا۔ اور وہ نکل بھاگا۔ وہ پھر پکڑ لیا گیا۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا گیا کہ یہ غلام بڑا بولنے والا ہے (یعنی آپ کے خلاف بہت بولتا ہے) اس کے سامنے کے دو دانت نکلوادیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کسی کا مثلہ نہیں کرتا اور نہ قیامت کے روز اللہ پاک میرا مثلہ کردے گا۔
ابن عساکر، ابن النجار

13448

13448- عن عطاء قال: كان سهيل بن عمرو رجلا أعلم من شفته السفلى فقال عمر بن الخطاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أسر ببدر:انزع ثنيتيه السفليين فيدلع لسانه فلا يقوم عليك خطيبا بموطن أبدا، فقال: لا أمثل به فيمثل الله بي. "ش"
13448 حضرت عطاءؒ سے مروی ہے کہ سہیل بن عمرو بڑے بولنے والے (سردار قریش) تھے۔ جس دن بدر کی جنگ میں ان کو قید کرلیا گیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : اس کے نچلے سامنے کے دو دانت اکھڑوا دیجئے۔ اس کی زبان باہر لٹکے گی پھر یہ آپ کے خلاف کہیں بھی اٹھ کر خطیب نہ بنے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اس کا مثلہ نہیں کرسکتا (شکل نہیں بگاڑ سکتا) ورنہ قیامت کے روز اللہ پاک میرا مثلہ کردے گا۔ ابن ابی شیبہ

13449

13449- عن أبي بردة قال: كنت جالسا عند ابن زياد وعنده عبد الله بن يزيد فجعل يؤتى برؤس الخوارج فكانوا إذا مروا برأس قلت: إلى النار فقال لي: لا تفعل يا ابن أخي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يكون عذاب هذه الأمة في دنياها. "هب".
13449 ابوبردہ سے مروی ہے کہ میں ابن زیاد کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس عبداللہ بن یزید (رض) بھی بیٹھے تھے ابن زیاد کے پاس خوارج کے سر کٹے ہوئے لائے جانے لگے۔ جب بھی کوئی سرگزرتا تو میں کہتا، جہنم میں، (جہنم میں) عبداللہ بن یزید (رض) نے مجھے فرمایا : اے بھتیجے ایسا مت کہہ۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اس امت کا عذاب دنیا میں ہی ہوجائے گا۔
شعب الایمان للبیہقی

13450

13450- عن أبي بكر قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم جالسا فجاء ماعز بن مالك فاعترف عنده مرة، فرده، ثم جاءه فاعترف عنده الثانية فرده، ثم جاء فاعترف عنده الثالثة، فرده، فقال له: إن اعترفت الرابعة رجمتك، فاعترف الرابعة فحبسه، ثم سأل عنه فقالوا: ما نعلم إلا خيرا فأمر برجمه. "ش حم والحارث والبزار ع والطحاوي طس" وفيه جابر الجعفي ضعيف.
13450 حضرت ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت تھا ماعزبن مالک (رض) آپ کے روبرو حاضر ہوئے اور ایک مرتبہ (زنا کا) اعتراف کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رد کردیا۔ وہ پھر آئے اور دوسری مرتبہ اعتراف کیا آپ نے ان کو پھر رد کردیا۔ وہ پھر آئے اور تیسری مرتبہ اعتراف کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پھر مسترد کردیا اور ساتھ میں ارشاد فرمایا : اگر تو نے چوتھی بار اعتراف زنا کیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ پھر بھی انھوں نے چوتھی بار اعتراف کرلیا۔ تب آپ نے ان کو قید کیا۔ پھر لوگوں سے ان کے متعلق باز پرس کی۔ لوگوں نے کہا : ہمیں تو ان کی اچھائی کا ہی علم ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رجم کروادیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد، الحارث ، البزار، مسند ابی یعلی، الطحاوی، الاوسط للطبرانی
کلام : روایت کی سند میں جابر الجعفی ضعیف روای ہے۔

13451

13451- عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة قال: سئل أبو بكر الصديق عن رجل زنى بامرأة، ثم يريد أن يتزوجها؟ قال: ما من توبة أفضل من أن يتزوجها خرجا من سفاح إلى نكاح. "عب".
13451 عبیداللہ بن عبداللہ عتبہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ایک آدمی کے متعلق سوال کیا گیا ۔ جس نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تھا اور پھر اس کے ساتھ نکاح کا ارادہ رکھتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر وہ شادی کرلیں تو اس سے اچھی اور کون سی توبہ ہوسکتی ہے جو وہ حرام کاری سے نکل کر نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ المصنف لعبد الرزاق

13452

13452- عن نافع قال: جاء رجل إلى أبي بكر فذكر له أن ضيفا له افتض أخته، استكرهها على نفسها فسأله فاعترف بذلك فضربه أبو بكر الحد ونفاه سنة إلى فدك ولم يضر بها ولم ينفها لأنه استكرهها، ثم زوجها إياه أبو بكر وادخله عليها. "عب".
13452 نافع (رح) سے مروی ہے ایک آدمی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں آیا اور ذکر کیا کہ ان کے ایک مہمان نے ان کی بہن سے دست درازی کرکے بدکاری کی ہے۔ اور بہن کو بجبر مجبور کیا ہے۔ آپ (رض) نے اس مہمان سے اس کے متعلق سوال کیا تو اس نے اعتراف جرم کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس پر حد جاری کی (یعنی سو کوڑے لگوائے) اور ایک سال تک مقام فدک میں جلاوطنی کاٹنے کا حکم دیا۔ لیکن عورت کو نہ مارا اور نہ جلاء وطن کیا کیونکہ اس کو مجبور کیا گیا تھا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس عورت کی شادی اسی آدمی کے ساتھ کروادی اور اس کو اس عورت کے پاس چھوڑ دیا۔ المصنف لعبد الرزاق

13453

13453- عن نافع أن رجلا ضاف أهل بيت، فاستكره منهم امرأة فرفع ذلك إلى أبي بكر فضربه ونفاه ولم يضرب المرأة. "ش".
13453 نافع (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی ایک گھر والوں کا مہمان بنا پھر ان میں سے ایک عورت کو جبراً زنا پر مجبور کیا۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں گئی۔ آپ (رض) نے اس کو حد لگوائی اور جلاوطن کیا لیکن عورت کو نہیں مارا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13454

13454- عن ابن عمر قال: بينما أبو بكر في المسجد جاء رجل وهو دهش فقال أبو بكر: قم إليه فانظر في شأنه فإن له شأنا، فقام إليه عمر فقال: إنه ضافه ضيف فوقع بابنته، فصك عمر في صدره وقال: قبحك الله ألا سترت على ابنتك فأمر بهما أبو بكر فضربا الحد، ثم زوج أحدهما بالآخر وأمر بهما فغربا عاما. "ق"
13454 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : ابوبکر (رض) مسجد میں تشریف فرما تھے۔اس دوران ایک آدمی بڑی پریشانی کے عالم میں اندر آیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کے پاس جاؤ دیکھو اس کو کیا پریشانی ہے۔ (چنانچہ حضرت عمر (رض)) اٹھ کر اس آدمی کے پاس گئے۔ آدمی نے اپنی بپتا سنائی کہ اس نے ایک آدمی کی مہمان نوازی کی۔ وہ مہمان اس کی بیٹی کے ساتھ بدکاری کر بیٹھا ہے۔ حضرت عمر (رض) آدمی کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : اللہ تیرا برا کرے۔ تو نے اپنی بیٹی پر پردہ کیوں نہ ڈالا ؟ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے دونوں کے لیے حکم دیا۔ چنانچہ دونوں پر حد جاری کی گئی۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ شادی کردی۔ پھر ان کو ایک سال کی چلاوطنی کا حکم دیا۔ السنن للبیہقی

13455

13455- عن ابن عمر أن أبا بكر ضرب وغرب. "ق".
13455 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ضرب (کوڑے) لگوائے اور جلاوطن کیا۔ السنن للبیہقی

13456

13456- عن صفية بنت أبي عبيد أن أبا بكر الصديق أتي برجل قد وقع على جارية بكر فأحبلها، ثم اعترف على نفسه أنه زنى، ولم يكن أحصن3 فأمر به أبو بكر فجلد الحد مائة ثم نفي إلى فدك. "مالك عب ش قط ق"
13456 صفیہ بنت ابی عبید سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) کی خدمت میں ایک آدمی لایا گیا جو ایک باکرہ لڑکی کے ساتھ بدکاری کا مرتکب ہوا تھا جس کے نتیجے میں اس کو حاملہ کردیا تھا۔ پھر اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا کہ اس سے واقعی زنا سرزد ہوا ہے لیکن وہ شادی شدہ نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کے لیے حکم سنا دیا اور اس کو سو کوڑے لگے اور پھر اس کو فدک مقام پر جلاوطن کردیا۔
موطا امام مالک، المصنف لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، الدارقطنی فی السنن ، السنن للبیہقی

13457

13457- "مسند عمر" عن عبد الله بن شداد وغيره أن امرأة أقرت عند عمر بالزنا فبعث عمر أبا واقد، فقال: إن رجعت تركناك فأبت فرجمها. "الشافعي ش ومسدد ق".
13457 (مسند عمر (رض)) عبداللہ بن شدا د وغیرہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے روبرو زنا کا اقرار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے ابو واقد کو بھیجا انھوں نے عورت کو (جاکر کہا) اگر تو اپنے قول سے رجوع کرلے تو ہم تجھے چھوڑ دیں گے۔ لیکن عورت نے رجوع کرنے سے انکار کردیا چنانچہ انھوں نے اس کو سنگسار کردیا۔ الشافعی، مصنف ابن ابی شیبہ، مسدد، السنن للبیہقی

13458

13458- عن الزهري أن عمر بن الخطاب جلد ولائد من الخمس أبكارا في الزنا. "عب وابن جرير" "عب عن الثوري عن الأعمش".
13458 زہری (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے مال غنیمت کے خمس میں سے چند باکرہ باندیوں کو زنا کی وجہ سے کوڑے لگوائے تھے۔
المصنف لعبد الرزاق ابن جریر، مصنف عبدالرزاق عن الثوری عن الاعمش

13459

13459- عن الثوري عن الأعمش عن ابن المسيب أن عمر بن الخطاب أتي بامرأة لقيها راع بفلاة من الأرض، وهي عطشى فاستسقت فأبى ان يسقيها إلا أن تتركه فيقع بها فناشدته بالله فلما بلغت جهدها أمكنته فدرأ عنها عمر الحد بالضرورة. "عب".
13459 عن الشوری ، عن الاعمش عن ابن المسیب کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک عورت لائی گئی۔ اس کو جنگل میں ایک چرواہا ملا۔ یہ پیاسی تھی۔ اس نے چرواہے سے پانی مانگا لیکن چرواہے نے اس کے عوض اس کے ساتھ بدکاری کی شرط رکھ دی۔ اس نے چرواہے کہ خدا کا واسطہ دیا (مگر وہ نہ مانا) حتیٰ کہ شدت پیاس سے اس کا حال برا ہوگیا تو اس نے چرواہے کہ اپنے اوپر قدرت دیدی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس عورت سے حدساقط کردی۔
الجامع لعبد الرزاق

13460

13460- عن عمرو بن شعيب أن رجلا استكره امرأة فافتضها فضربه عمر بن الخطاب الحد وأغرمه ثلث ديتها. "عب".
13460 عمرو بن شعیب (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ایک لڑکی کو جبراً بدکاری کا نشانہ بنایا اور اس کا پردہ بکارت زائل کردیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس آدمی پر حد جاری کی اور عورت کی دیت کا ثلث اس پر تاوان واجب کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13461

13461- عن طارق بن شهاب قال: بلغ عمر أن امرأة متعبدة حملت قال عمر: أراها قامت من الليل تصلي، فخشعت فسجدت، فأتاها غاو من الغواة فتجشمها1 فأتته فحدثته بذلك سواء فخلى سبيلها. "عب ش".
13461 طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خبر پہنچی کہ ایک عبادت گزار عورت تھی جو حاملہ ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے وہ رات کو نماز پڑھنے کے لیے اٹھی ہوگی اور سجدے میں گئی ہوگی تو کسی گمراہ بدکار نے آکر اس کو دبوچ لیا ہوگا۔ چنانچہ پھر عورت نے آکر یونہی اپنی داستان سنائی۔ آپ (رض) نے (بغیر حد جاری کیے) اس کا راستہ چھوڑ دیا۔
الجامع لعبد الرزاق، المصنف لا بن ابی شیبہ

13462

13462- عن الثوري عن علي بن الأقمر عن إبراهيم قال: بلغ عمر عن امرأة أنها حامل، فأمر بها أن تحرس، حتى تضع فوضعت ماء أسود، فقال عمر: لمة1 شيطان. "طب".
13462 عن الثوری عن علی بن الاقمر عن ابراہیم کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو ایک عورت کی اطلاع ملی کہ وہ حاملہ ہے۔ آپ (رض) نے حکم دیا کہ اس پر نظر رکھی جائے جب تک کہ وہ بچہ نہ جن لے۔ چنانچہ اس نے ایک کالا بچہ جنا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یہ شیطان کی کارستانی ہے۔
الکبیر الطبرانی

13463

13463- عن عمرو بن شعيب أن رجلا استكره امرأة فافتضها، فضربه عمر الحد وأغرمه ثلث ديتها. "ش".
13463 عمرو بن شعیب (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے زبردستی کرکے اس کا پردہ بکارت زائل کردی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس پر حد جاری کی اور اس کو عورت کی دیت کا ایک تہائی دینا بطور تاوان لازم کیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13464

13464- عن أبي يزيد أن رجلا تزوج امرأة، ولها ابنة من غيره، وله ابن من غيرها ففجر2 الغلام بالجارية، فظهر بها حبل، فلما قدم عمر إلى مكة رفع ذلك إليه، فسألهما، فاعترفا، فجلده عمر الحد وأخر المرأة حتى وضعت ثم جلدها وفرض أن يجمع بينهما فأبى الغلام. "الشافعي عب ق".
13464 ابویزید سے مروی ہے ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی۔ اس عورت کی پہلے آدمی سے ایک بیٹی تھی۔ اسی طرح اس دوسرے شوہر کا بھی ایک لڑکا تھا۔ لڑکے نے لڑکی کے ساتھ زنا کرلیا۔ لڑکی کو حمل ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) مکہ تشریف لائے تو یہ مقدمہ ان کے روبرو پیش کیا گیا۔ حضرت عمر (رض) نے دونوں سے سوال کیا۔ دونوں نے اعتراف جرم کرلیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لڑکے کو حد لگوائی اور لڑکی کی حد موخر کردی حتیٰ کہ اس نے بچے کو جنم دے لیا پھر لڑکی کو حد لگوائی۔ اور دونوں کو شادی کرنے کا حکم دیا مگر لڑکا اس بات پر راضی نہ ہوا۔ الشافعی، الجامع لعبدالرزاق، السنن للبیہقی

13465

13465- عن عمر بن الخطاب أنه كتب إليه في رجل قيل له: متى عهدك بالنساء؟ فقال: البارحة، قيل: بمن قال أم مثوى فقيل له: قد هلكت قال: ما علمت أن الله حرم الزنا، فكتب عمر أن يستحلف ما علم أن الله يحرم الزنا ثم يخلى سبيله. "أبو عبيد في الغريب ق".
13465 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ ان کو ایک آدمی کے متعلق لکھا گیا کہ اس سے پوچھا گیا : تو کب کسی عورت کے قریب لگا تھا ؟ اس نے کہا گزشتہ رات پوچھا گیا : کس کے ساتھ ؟ ام مشوی کے ساتھ ۔ اس کو کہنے والے نے کہا تو تو ہلاک ہوگیا۔ آدمی بولا : مجھے علم نہیں تھا کہ اللہ نے زنا حرام کردیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ اس آدمی سے قسم لی جائے کہ اس کو واقعی علم نہ تھا کہ اللہ نے زنا کو حرام کردیا ہے پھر اس کا راستہ چھوڑا جائے۔ ابوعبیدفی الغریب، السنن للبیہقی

13466

13466- عن عمر أتي بامرأة زنت، فقال ويح المرية1 أفسدت حسبها اذهبا فاضرباها ولا تخرقا جلدها، إنما جعل الله أربعة شهداء سترا ستركم الله به دون فواحشكم فلا يطلعن ستر الله أحد الا وإن الله لو شاء لجعله واحدا صادقا أو كاذبا. "عب ق".
13466 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت لائی گئی جس نے زنا کیا تھا۔ آپ (رض) نے فرمایا : افسوس ہے عورت پر جس نے اپنا حسب نسب خراب کرلیا۔ پھر آپ (رض) دو آدمیوں کو حکم دیا اس عورت کو لے جاؤ اور اس کی ضربیں (حد) لگاؤ۔ لیکن اس کی جلد نہ پھاڑ دینا۔
پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (حد زنا میں) چار گواہوں کی شرط کو پردہ بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ تمہارے برے کاموں میں تم پر پردہ ڈال دیا ہے (کیونکہ چار گواہوں کا اکٹھا ملنا محال ہے) لہٰذا کوئی بھی اس پردہ کو چاک نہ کرے (گواہی دے کر) سنو اللہ اگر چاہے گا چار گواہوں کے اس پردے کو ایک گواہ کردے گا (باقیوں کو گواہی سے روک دے گا) خواہ وہ ایک سچا ہو یا جھوٹا (لہٰذا زنا پر گواہ بننے میں جلدی نہ کرو) ۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13467

13467- عن نافع أن عبدا كان يقوم على رقيق الخمس، وأنه استكره جارية من ذلك الرقيق، فوقع بها فجلده عمر الحد ونفاه ولم يجلد الوليدة لأنه استكرهها. "مالك عب ق" "رواه مالك في الموطأ كتاب الحدود باب جامع ما جاء في حد الزنا رقم "15 - 16" ص".
13467 نافع (رح) سے مروی ہے کہ ایک غلام خمس کے غلام، باندیوں پر نگرانی کرتا تھا۔ اس نے ان غلاموں میں سے ایک باندی کو جبراً زیادتی کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس غلام کو حد جاری کی اور اس کو جلاوطن کیا لیکن لڑکی کو حد جاری نہیں کی کیونکہ اس کو مجبور کیا گیا تھا ۔
موطا مالک، الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13468

13468- عن عبد الله بن عباس بن أبي ربيعة المخزومي قال، أمرني عمر بن الخطاب في فتية من قريش فجلدنا ولائد من ولائد الإمارة خمسين خمسين في الزنا. "مالك عب ق"2
13468 عبداللہ بن عباس بن ابی ربیعہ المخزومی سے مروی ہے کہ مجھے اور چند قریشی جوانوں کو حضرت عمر بن خطاب نے حکم دیا اور ہم نے بیت المال کی باندیوں کو زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے مارے۔ موطا امام مالک، الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13469

13469- عن أبي واقد الليثي أن عمر بن الخطاب أتاه رجل وهو بالشام فذكر له أنه وجد مع امرأته رجلا، فبعث أبا واقد إلى امرأته يسألها عن ذلك، فاتاها فذكر لها الذي قال زوجها لعمر، وأخبرها أنها لا تؤخذ بقوله، وجعل يلقنها أمثال هذا لتنزع، فأبت أن تنزع وثبتت على الاعتراف، فأمر بها عمر بن الخطاب فرجمت. "مالك عب هق"
13469 ابوداقدلیثی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک آدمی آیا۔ آپ (رض) اس وقت ملک شام میں تھے ۔ اس آدمی نے کہا : اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو پایا ہے۔ آپ (رض) نے ابو واقدلیثی کو اس عورت کے پاس سوال کرنے بھیجا ابو واقد نے آکر عورت سے اس کے شوہر کی بات کی تصدیق کی اور یہ بھی اطلاع دے دی کہ محض اس کے کہنے سے تجھے پکڑا نہ جائے گا۔ پھر ابو واقد نے عورت کو مختلف واقعات کی مثالیں دے کر سمجھایا تاکہ وہ اس الزام سے انکار کردے۔ لیکن عورت نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور صریحاً اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) اس عورت کے متعلق حکم سنا دیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔
موطا امام مالک، الجامع لعبدالرزاق ، السنن للبیہقی

13470

13470- عن عبد الرحمن بن البيلماني قال: رفع إلى عمر رجل زنى بجارية امرأته، فجلده مائة ولم يرجمه. "عب هق".
13470 عبدالرحمن بن البیلمانی سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) کی خدمت میں ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی باندی سے زنا کیا تھا۔ آپ (رض) نے اس کو سو کوڑے لگوائے اور سنگسار نہیں کیا۔ الجامع لعبد الرزاق ، السنن للبیہقی

13471

13471- عن قتادة أن امرأة جاءت إلى عمر فقالت: إن زوجها زنى بوليدتها، فقال الرجل لعمر إن المرأة وهبتها لي، فقال: لتأتين بالبينة أو لأرضخن رأسك بالحجارة، فلما رأت المرأة ذلك قالت: صدق قد كنت وهبتها له، ولكني حملتني الغيرة، فجلدها عمر الحد، وخلى سبيله. "عب".
13471 قتادہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں ایک عورت آئی اور عرض کیا : اس کے شوہر نے اس کی باندی کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے آدمی نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا : اس بیوی نے مجھے وہ باندی ہدیہ کردی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس پر گواہ پیش کر ورنہ میں تیرا سر پتھر سے کچل دوں گا۔ عورت نے جب یہ صورت حال دیکھی تو بولی یہ سچ کہتا ہے میں نے واقعی باندی اس کو ہدیہ کردی تھی ، لیکن پھر مجھے غیرت نے اس پر مجبور کردیا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے پھر عورت کو تہمت کی حد جاری کی (اور آدمی کو جانے دیا) الجامع لعبد الرزاق

13472

13472- عن نافع أن عمر حد مملوكة له في الزنا ونفاها إلى فدك. "عب".
13472 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے ایک غلام کو زنا کے جرم میں حد لگائی اور فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔

13473

13473- عن الحسن أن رجلا وجد مع امرأته رجلا قد أغلق عليهما وأرخى عليهما الأستار فجلدهما عمر بن الخطاب مائة مائة. "عب".
13473 حسن (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پایا دونوں نے کمرے میں بند ہو کر پردے گرارکھے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے دونوں کو سو سو کوڑے لگائے ۔ الجامع لعبد الرزاق

13474

13474- عن مكحول أن رجلا وجد في بيت بعد العتمة ملففا بحصير فضربه عمر بن الخطاب مائة. "عب".
13474 مکحول (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی عشاء کے بعد ایک کمرے میں کسی غیر عورت کے ساتھ لپٹا پایا گیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رح) نے اس کو سو کوڑے مارے۔ الجامع لعبد الرزاق

13475

13475- عن القاسم بن عبد الرحمن عن أبيه قال: أتي ابن مسعود برجل وجد مع امرأة في لحاف فضرب كل أحد منهما أربعين سوطا وأقامهما للناس فذهب أهل المرأة وأهل الرجل فشكوا ذلك إلى عمر بن الخطاب، فقال عمر لابن مسعود: ما يقول هؤلاء قد فعلت ذلك، قال: أرأيت ذلك؟ قال: نعم، قال: نعم ما رأيت، فقال: أتيناه نستأذنه فإذا هو يسأل. "عب".
13475 قاسم بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے روبرو ایک آدمی پیش کیا گیا جو کسی عورت کے ساتھ ایک ہی لحاف میں پرا پایا گیا تھا، چنانچہ آپ (رض) نے دونوں میں سے ہر ایک کو چالیس چالیس کوڑے لگوائے اور دونوں کو لوگوں کے سامنے سزادی۔ چنانچہ عورت اور مرد دونوں کے خاندان والے حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں شکایت لے کر گئے۔ حضرت عمر (رض) نے ابن مسعود (رض) سے پوچھا : یہ لوگ کیا کہتے ہیں، تم نے یہ کام کیا ہے، اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟ حضرت ابن مسعود (رض) نے عرض کیا : جی ہاں میں نے یہ کیا ہے۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جو کیا اچھا کیا۔
راوی کہتے ہیں : ہم تو حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس شکایت لے کر حاضر ہوئے تھے۔ وہاں الٹا حضرت عمر (رض) حضرت ابن مسعود (رض) کی تحسین فرمانے لگے۔ الجامع لعبد الرزاق

13476

13476- عن ابن المسيب قال: ذكر الزنا بالشام فقال رجل: زنيت، قيل: ما تقول؟ قال: أو حرمه الله ما علمت أن الله حرمه، فكتب إلى عمر بن الخطاب، فكتب إن كان علم أن الله حرمه فحدوه، وإن لم يعلم فأعلموه فإن عاد فحدوه. "عب".
13476 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے : ملک شام میں زنا سے متعلق بات چھڑی، ایک آدمی نے کہا : میں نے زنا کیا ہے۔ پوچھا گیا : کیا کہا ؟ آدمی نے کہا : کیا اللہ نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ مجھے تو علم نہ تھا کہ اللہ نے اس کو حرام کررکھا ہے۔ یہ بات لکھ کر حضرت عمر (رض) کو بھیجی گئی۔ حضرت عمر (رض) نے جواباً لکھا : اگر اس کو علم تھا کہ اللہ نے اس فعل کو حرام کررکھا ہے تب اس پر حد جاری کردو اور اگر اس کا علم نہ تھا تو اس کا بتادو۔ اور پھر دوبارہ کرے تو حد جاری کردو۔ الجامع لعبد الرزاق

13477

13477- عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب قال: توفي عبد الرحمن بن حاطب وأعتق من صلى من رقيقه وصام، وكانت له نوبية قد صلت وصامت وهي أعجمية لم تفقه ولم يرعه إلا حبلها وكانت ثيبا فذهب إلى عمر فزعا فحدثه، فقال له عمر: لأنت الرجل لا يأتي بخير فأفزعه ذلك، فأرسل إليها عمر، فسألها، فقال: حبلت؟ فقالت: نعم من مرعوش بدرهمين، وإذا هي تستهل بذلك ولا تكتمه، فصادف عنده عليا وعثمان وعبد الرحمن بن عوف، فقال: أشيروا علي فقال علي وعبد الرحمن: قد وقع عليها الحد، فقال: أشر علي يا عثمان فقال: قد أشار عليك أخواك، فقال: أشر على أنت، فقال عثمان: أراها تستهل به كأنها لا تعلمه ولا ترى به بأسا، وليس الحد إلا على من علمه، قال: صدقت والذي نفسي بيده ما الحد إلا على من علمه. "الشافعي عب ق".
13477 یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب سے مروی ہے کہ عبدالرحمن بن حاطب کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے اپنے غلام باندیوں میں سے جو نماز روزہ کرتے تھے ان کو آزاد کردیا تھا۔ ایک باندی نماز روزے کی پابند تھی جو عجم سے تعلق رکھتی تھی اور زیادہ سمجھ بوجھ نہ رکھتی تھی، عبدالرحمن کی زندگی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کو اچانک اس بات کا علم ہوا کہ وہ باندی حاملہ ہوگئی ہے۔ وہ پہلے شادی شدہ رہ چکی تھی۔ عبدالرحمن اس خبر سے گھبراگئے عبدالرحمن حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر سنائی۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : تم ایسے آدمی ہو جو خیر کی خبر نہیں لاتے۔ اس بات سے عبدالرحمن مزید گھبراگئے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اس باندی کے پاس پیغام بھیجا وہ آئی تو آپ نے اس سے پوچھا : کیا تو حاملہ ہے ؟ اس نے چہک چہک کر خوشی سے کہا : ہاں موعوش سے ہوئی ہوں دو درہموں کے بدلے۔ باندی نے اس واقعے کو قطعاً نہ چھپایا گویا یہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) کے پاس حضرت علی (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) بھی موجود تھے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم لوگ مجھے اس کے متعلق کوئی مشورہ دو ۔ حضرت علی اور حضرت عبدالرحمن (رض) نے تو فرمایا اس پر حد واقع ہوگی۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت عثمان (رض) سے پوچھا : اے عثمان ! تم بھی کچھ کہو۔ حضرت عثمان (رض) نے عرض کیا آپ کے بھائیوں نے آپ کو مشورہ دیدیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نہیں آپ بھی کچھ بولیں۔ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے یہ جو خوشی کے ساتھ تیز آواز میں اس خبر کو سنارہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اس عمل کی برائی کا علم نہیں تھا اور یہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھی۔ جبکہ حد اس شخص پر ہے جو جانتا ہو (پھر بھی گناہ کرے) تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے سچ کہا ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے حد اسی پر ہے جو اس کو جانتا ہو۔ الشافعی، الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13478

13478- عن عروة وعطاء أن رفقة من أهل اليمن نزلوا الحرة2 ومعهم امرأة وهي ثيب، فتركوها ببعض الحرة حتى بذلت نفسها، فبلغ عمر خبرها فأرسل إليها فسألها فقالت: كنت امرأة مسكينة لا يعطف على أحد بشيء فما وجدت إلا نفسي، فسأل رفقتها فصدقوها فحدها، ثم كساها وحملها وقال: إذهبوا بها ولا تذكروا ما فعلت. "عب".
13478 عروہ (رح) اور عطاءؒ سے مروری ہے کہ اہل یمن کا ایک قافلہ حرۃ مقام پر آکر ٹھہرا۔ ان کے ساتھ ایک عورت تھی جو کبھی شادی شدہ رہ چکی تھی۔ اہل قافلہ نے اس کو اس مقام پر (گھومنے پھرنے کے لئے) چھوڑ دیا۔ عورت نے جسم فروشی کی۔ یہ خبر حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو بلوایا اور اس سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ عورت بولی : میں مسکین عورت ہوں۔ کوئی میرا خیال ہی نہیں کرتا۔ میرے پاس بھی اپنا جسم بیچنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اہل قافلہ سے اس بات کی تصدیق چاہی۔ اہل قافلہ نے عورت کی بات کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اس پر حد جاری کرائی اور پھر اس کو (سامان) لباس اور سواری مرحمت فرمائی اور اہل قافلہ کو فرمایا : اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ لیکن اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ الجامع لعبد الرزاق

13479

13479- عن أبي الطفيل أن امرأة أصابها جوع فأتت راعيا فسألته الطعام فأبى عليها حتى تعطيه نفسها قالت: فحثا لي ثلاث حثيات من تمر ثم أصابني وذكرت أنها كانت أجهدت من الجوع فأخبرت عمر فكبر وقال: مهر مهر مهر كل حفنة مهر ودرأ عنها الحد. "عب".
13479 ابوالطفیل سے مروی ہے کہ ایک عورت کو شدید فاقہ پیش آگیا وہ ایک چرواہے کے پاس آئی اور اس سے کچھ کھانا مانگا۔ لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا الیہ یہ کہ وہ اس کو اپنا آپ حوالہ کرے۔ عورت بولی ! چنانچہ چرواہے نے اس کو تین مٹھیاں کھجور کی دیں۔ پھر اس کے ساتھ مبتلا ہوگیا۔ عورت نے بتایا کہ وہ بھوک کی وجہ سے انتہائی نڈھال ہوچکی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور فرمایا یہ تو مہر ہے مہر ہے مہر ہے۔ ہر مٹھی ایک مہر تھا۔ پھر آپ نے اس عورت سے حد ساقط کردی۔ الجامع لعبد الرزاق

13480

13480- عن كليب الجرمي أن أبا موسى كتب إلى عمر في امرأة أتاها رجل وهي نائمة فقالت: إن رجلا أتاني وأنا نائمة فوالله ما علمت حتى قذف في مثل شهاب النار، فكتب عمر تهامية تنومت، قد يكون مثل هذا، وأمر أن يدرأ عنها الحد. "عب".
13480 کلیب الجرمی سے مروی ہے کہ ابوموسیٰ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو ایک عورت کے سارے میں لکھا کہ وہ سو رہی تھی کہ ایک آدمی اس پر چھا گیا ۔ عورت کہتی ہے کہ میں سو رہی تھی ایک آدمی میرے پاس آگیا۔ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا علم تب ہوا جس اس نے میرے اندر آگ کے شعلے کی مثل کوئی چیز انڈیل دی۔ حضرت عمر (رض) نے جواباً لکھوایا کہ تہامیہ عورت واقی سو گئی ہوگی۔ ایسا ہوجاتا ہے لہٰذا اس سے حد ساقط کردی جائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13481

13481- عن نافع أن عمر رجم امرأة ولم يجلدها بالشام. "ابن جرير".
13481 نافع (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ملک شام میں ایک عورت کو رجم کیا اور اس کو کوڑے نہیں لگوائے ۔ ابن جریر

13482

13482- عن كثير بن الصلت قال: كان ابن العاص وزيد بن ثابت يكتبان في المصاحف، فمرا على هذه الآية فقال زيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الشيخ والشيخة فارجموهما البتة فقال عمر: لما أنزلت أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: اكتبنيها فكأنه كره ذلك قال: فقال عمر: ألا ترى أن الشيخ إذا زنى وقد أحصن جلد ورجم وإذا لم يحصن جلد، وإن الشاب إذا زنى وقد أحصن رجم. "ابن جرير" وصححه وقال: هذا حديث لا يعرف له مخرج عن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بهذا اللفظ إلا من هذا الوجه وهو عندنا صحيح سنده لا علة فيه توهنه ولا سبب يضعفه لعدالة نقلته قال: وقد يعلل بأن قتادة مدلس ولم يصرح بالسماع والتحديث.
13482 کثیر بن الصلت سے مروی ہے کہ ابن العاص اور زید بن ثابت قرآن شریف کے نسخے لکھا کرتے تھے۔ دونوں اس آیت پر پہنچے تو زید بولے : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آیت تلاوت کرتے سنا ہے :
الشیخ والشیخۃ، اذاز نیافار جموھما البۃ
بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو رجم کردو۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوا تھا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا : یہ آیت مجھے لکھوادیں۔ لیکن آپ نے اس کو لکھوانا گویا پسند نہ کیا۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : کیا آپ نہیں سمجھتے کہ بوڑھا جب زنا کرے اور وہ شادی شدہ (آزاد) ہو تو اس کو کوڑے بھی لگیں گے اور رجم بھی ہوگا اور اگر شادی شدہ (یا آزاد) نہ ہو تو صرف کوڑے لگیں گے اور اگر جوان آدمی جو شادی شدہ اور آزاد ہو وہ زنا کرے تو اس کو رجم (سنگسار) کیا جائے گا۔ ابن جریر
سیوطی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت صحیح ہے۔ یہ حدیث حضرت عمر کے توسط سے مرفوعاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہونا صرف اسی ایک طریق سے منقول ہے اور یہ طریق ہمارے نزدیک صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں جو اس کو کمزور کرے، نہ کوئی ایسا سبب ہے جو اس کو ضعیف کرے کیونکہ اس کے ناقلین ثقہ ہیں۔ اگرچہ یہ علت کہی جاتی ہے کہ قتادہ مدلس ہے اور انھوں نے سماء اور تحدیث کی تصریح نہیں فرمائی۔

13483

13483- عن النزال بن سبرة قال: إنا لبمكة إذا نحن بامرأة اجتمع عليها الناس حتى كادوا أن يقتلوها، وهم يقولون زنت زنت، فأتي بها عمر بن الخطاب وهي حبلى، وجاء معها قومها فأثنوا عليها خيرا. فقال عمر: أخبريني عن أمرك، قالت: يا أمير المؤمنين، كنت امرأة أصيب من هذا الليل، فصليت ذات ليلة، ثم نمت، فقمت ورجل بين رجلي فقذف في مثل الشهاب، ثم ذهب، فقال عمر: لو قتل هذه من بين الجبلين أو الأخشبين لعذبهم الله، فخلى سبيلها، وكتب إلى الآفاق أن لا تقتلوا أحدا إلا بإذني. "ش وابن جرير هق".
13483 نزال بن سبرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں میں مکہ میں تھا کہ ہم لوگوں نے ایک عورت کو دیکھا جس کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا قریب تھا کہ لوگ اس کو اشتعال میں قتل کردیتے۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اس نے زنا کیا ہے۔ اس نے زنا کیا ہے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں اس عورت کو پیش کیا گیا۔ وہ حاملہ بھی تھی۔ اس کے ساتھ اس کی قوم کے لوگ بھی آئے تھے جو اس کے متعلق اچھائی بیان کررہے تھے، حضرت عمر (رض) نے اس عورت سے پوچھا : تو مجھے اپنا معاملہ بیان کر۔ عورت بولی : اے امیر المومنین ! جس رات میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا میں نے عشاء کی نماز پڑھی اور سو گئی۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنی ٹانگوں کے درمیان ایک آدمی کو موجود پایا۔ وہ میرے وجود میں انگارے کی مثل کوئی چیز ڈال چکا تھا۔ پھر وہ اٹھ کر چلا گیا۔
تب حضرت عمر (رض) نے اس قضیہ کا فیصلہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اگر ان دو پہاڑوں کے درمیاناس عورت کو قتل کیا گیا تو اللہ سب کو عذاب دے (کر ہلاک کردے) گا۔ پھر آپ (رض) نے اس عورت کا راستہ خالی کردیا۔ اس وقت حضرت عمر (رض) نے تمام شہروں کے حاکموں کو یہ فرمان لکھوا بھیجا کسی کو قتل میری اجازت کے بغیر نہ کرو۔
مصنف ابن ابی شیبہ، ابن جریر، السنن للبیہقی

13484

13484- عن أبي موسى الأشعري قال: أتي عمر بن الخطاب بامرأة من أهل اليمن، قالوا: بغت، قالت: إني كنت نائمة فلم أستيقظ إلا برجل يرمي في مثل الشهاب، فقال عمر: يمانية نؤوم شابة فخلى عنها ومتعها. "ص ق".
13484 ابوموسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں ایک عورت پیش کی گئی۔ جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ اس نے زنا کیا ہے۔ عورت نے حضرت عمر (رض) کے روبرو عرض کیا : میں سوئی ہوئی تھی کہ ایک آدمی کی وجہ سے مری آنکھ کھلی جب وہ میرے وجود میں انگارے کے مثل کوئی چیز ماررہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یمانیہ نیند سے مجبور لڑکی ہے۔ چنانچہ آپ (رض) نے اس کو کچھ مال ومتاع دے کر چھوڑ دیا۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13485

13485- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن أبي الضحى عن قائد لابن عباس قال: كنت معه فأتي عثمان بامرأة وضعت لستة أشهر فأمر عثمان برجمها فقال له ابن عباس: إن خاصمتكم بكتاب الله خصمتكم قال الله تعالى: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً} ، فالحمل ستة أشهر، والرضاع سنتان فدرأ عنها. "عب ووكيع وابن جرير وابن أبي حاتم".
13485 (مسند عثمان (رض)) ابوالضحیٰ (رح) سے مروی ہے وہ ابن عباس (رض) کے رفیق اور ساتھی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے ساتھ (حضرت عثمان (رض) کی) بارگاہ خلافت میں تھا۔ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایک عورت کو پیش کیا گیا جس نے چھ ماہ میں بچہ جن دیا تھا۔ حضرت عثمان (رض) نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے عرض کیا میں کتاب اللہ کے ساتھ اس کے خلاف دلیل پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وحملہ وفصالہ ثلثون شھراً
اس کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس ماہ ہے۔
چنانچہ حمل چھ ماہ ہے اور دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے۔
چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے عورت سے حدکو ساقط کردیا۔
الجامع لعبدالرزاق، وکیع، ابن جریر، ابن ابی حاتم

13486

13486- "مسند علي رضي الله عنه" عن الشعبي أن عليا جلد شراحة يوم الخميس ورجمها يوم الجمعة وقال: أجلدها بكتاب الله وأرجمها بسنة نبي الله صلى الله عليه وسلم. "عب حم خ ن والطحاوي وابن مندة في غرائب شعبة ك والدورقي حل"
13486 (مسند علی (رض)) شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے شراحۃ کو جمعرات کے روز کوڑے لگائے اور جمعہ کے روز اس کو رجم کردیا۔ اور ارشاد فرمایا : میں نے کتاب اللہ کی دلیل کی روشنی میں اس کو کوڑے لگائے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی روشنی میں اس کو رجم (سنگسار) کیا ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، البخاری، النسائی، الطحاوی ابن مندہ فی غرائب شعبۃ، مستدرک الحاکم، الدورقی، حلیۃ الاولیا۔

13487

13487- عن حنش قال: أتي علي برجل قد زنى بامرأة وقد تزوج بامرأة ولم يدخل بها، فقال: أزنيت؟ فقال: لم أحصن، فأمر به فجلد مائة. "عب".
13487 حنش سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا حالانکہ اس کا نکاح ہوچکا تھا لیکن اس نے اپنی بیوی کے ساتھ جماع نہ کیا تھا۔ حضرت علی (رض) نے اس سے پوچھا : کیا تو نے زنا کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا : میں مخفی نہیں ہوں (شادی شدہ نہیں ہوں) ۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کو سوکوڑے لگائے گئے۔
الجامع لعبد الرزاق

13488

13488- عن العلاء بن بدر قال: فجرت امرأة على عهد علي بن أبي طالب وقد تزوجت ولم يدخل بها فأتى بها علي فجلدها مائة، ونفاها سنة إلى هرى كربلا. "عب".
13488 علاء بن بدر سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے دور میں، ایک عورت نے زنا کیا پہلے اس کا نکاح ہوچکا تھا لیکن شوہر نے اس کے ساتھ ابھی خلوت نہیں کی تھی۔ عورت کو حضرت علی (رض) کے روبرو پیش کیا گیا۔ حضرت علی (رض) نے اس کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال تک کربلا میں جلاوطن کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13489

13489- عن إبراهيم أن عليا قال في أم الولد إذا أعتقها سيدها أو مات عنها ثم زنت فإنها تجلد ولا تنفى قال: وقال ابن مسعود: تجلد وتنفى ولا ترجم. "عب".
13489 ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ام الولد (آقا کی وہ باندی جس نے آقا کا بچہ جنا ہو) اگر اس کو اس کا آقا آزاد کردے یا وہ مرجائے (تب بھی چونکہ وہ آزاد ہے) تو اگر پھر وہ باندی زنا کرے تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے لیکن جلاوطن نہ کیا جائے گا ابراہیم کہتے ہیں حضرت ابن مسعود (رض) کا ارشاد گرامی ہے : ایسی عورت کو کوڑے مارے جائیں گے، جلاوطن کیا جائے گا لیکن رجم سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ رجم کے لیے احصان شرط ہے یعنی آزاد ہونے کی حالت میں نکاح کے بعد وطی ہو تو پھر وہ محصنہ ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13490

13490- عن أبي حنيفة عن حماد عن إبراهيم قال: قال عبد الله في البكر يزني بالبكر يجلدان مائة وينفيان، قال: وقال: علي حبسهما من الفتنة أن ينفيا. "عب".
13490 عن الامام ابی حنیفہ عن حماد عن ابراہیم کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) نے فرمایا : کنوارا کنواری سے زنا کرے تو دونوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں اور جلاوطن کیا جائے نیز ارشاد فرمایا : مجھے ان کا قید کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے بنسبت جلاوطن کرنے کے اس میں مزید فتنے کا خطرہ ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13491

13491- عن الشعبي أن عليا أتى بامرأة من همدان ثيب حبلى يقال لها شراحة قد زنت، فقال لها علي: لعل الرجل استكرهك؟ قالت: لا، قال: فلعل الرجل قد وقع عليك وأنت راقدة؟ قالت: لا قال: فلعل لك زوجا من عدونا هؤلاء وأنت تكتمينه؟ قالت: لا، فحبسها، حتى إذا وضعت جلدها يوم الخميس مائة جلدة، ورجمها يوم الجمعة، فأمر فحفر لها حفرة بالسوق فدار الناس عليها فضربهم بالدرة، ثم قال: ليس هكذا الرجم، إنكم إن تفعلوا هكذا يقتل بعضكم بعضا، ولكن صفوا كصفوفكم للصلاة، ثم قال: يا أيها الناس، إن أول الناس يرجم الزاني الإمام إذا كان الاعتراف، وإذا شهد أربعة شهداء على الزنا فإن أول الناس يرجمه الشهود لشهادتهم عليه، ثم الإمام ثم الناس، ثم رماها بحجر وكبر، ثم أمر الصف الأول فقال: ارموا، ثم قال: انصرفوا وكذا صفا صفا حتى قتلوها، ثم قال: افعلوا بها ما تفعلون بموتاكم. "عب هق"
13491 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس قبیلہ ھمدان کی ایک عورت لائی گئی جو رانڈ تھی لیکن اس کو حمل ٹھہر چکا تھا۔ اس کا نام شراحۃ تھا اس سے زنا کا ارتکاب ہوا تھا۔ حضرت علی (رض) نے عورت کو ارشاد فرمایا : شاید آدمی نے تیرے ساتھ زبردستی کی ہوگی ؟ عورت بولی : نہیں ! ارشاد فرمایا : شاید تو سوئی پڑی ہوگی اور آدمی نے تجھے چھاپ لیا ہوگا ؟ بول : نہیں ارشاد فرمایا : شاید وہ آدمی تیرا شوہر ہو، لیکن چونکہ وہ ہمارے ان دشمنوں میں سے ہوگا اس لیے تو اس کو ہم سے چھپا رہی ہوگی۔ عرض کیا : نہیں ۔ مجبوراً حضرت علی (رض) نے اس کو محبوس کرادیا۔ جب اس نے اپنے بچے کو جنم دے لیا تو آپ (رض) نے سا کو جمعرات کے روز سو کوڑے لگوائے۔ پھر جمعہ کے دن رجم (سنگسار) کرنے کا حکم دیا۔ اس کے لیے بازار میں ایک گڑھا کھودا گیا۔ لوگ اس کے گرد گھوم گھوم کر چکر کاٹنے لگے۔ آپ (رض) نے لوگوں کو درے سے مارا اور ارشاد فرمایا : رجم یوں نہیں کیا جاتا۔ اگر اس طرح تم رجم کرو گے تو آپس میں ایک دوسرے کو روند کر قتل کرڈالو گے۔ بلکہ نماز کی طرح صفیں بنالو۔ پھر (صفیں بن جانے کے بعد) ارشاد فرمایا : اے لوگو ! اگر مجرم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کیا ہو (جیسا کہ موجودہ صورت حال ہے) تو سب سے پہلے امام (حاکم) پتھر مارے گا۔ اور اگر چار گواہوں کے نتیجے میں سنگساری ہورہی ہو تو سب سے پہلے چار گواہ پتھر ماریں گے، کیونکہ ان کی گواہی کی وجہ سے یہ سنگساری ہورہی ہے۔ پھر امام۔ پھر عام لوگ۔
چنانچہ حضرت علی (رض) نے گڑھے میں موجود عورت کو پتھر مارا اور اللہ اکبر کا نعرہ مارا۔ پھر پہلی صف کا حکم دیا کہ اب تم مارو (جب انھوں نے پتھر مار لیے تو) پھر فرمایا اب تم چلے جاؤ۔ پھر پچھلی صف آگے آئی۔ اس طرح صفاً صفاً سنگ باری کی گئی۔ حتیٰ کہ وہ عورت جاں بحق ہوگئی۔ پھر حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اب اس کے کفن دفن اور نماز کا اہتمام کرو جس طرح اپنے دوسروں مردوں کے ساتھ کرتے ہو۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13492

13492- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن رجل من هذيل قال: كنت مع علي حين يرجم شراحة فقلت: لقد ماتت هذه على شر حالها، فضربني بقضيب كان في يده حتى أوجعني فقلت: أوجعتني قال: وإن أوجعتك إنها لن تسأل عن ذنبها أبدا كالدين يقضى. "عب".
13492 عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ قبیلہ ہذیل کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، اس آدمی نے بیان کیا کہ جس دن حضرت علی (رض) نے شراحۃ نامی عورت کو سنگسار کیا آپ (رض) کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے کہا : یہ عورت بڑی بری حالت میں موت کے سپرد ہوئی ہے۔ آپ (رض) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ (رض) نے وہ چھڑی اس زور سے مجھے ماری کہ مجھے تکلیف میں مبتلا کردیا میں نے عرض کیا : آپ نے تو مجھے تکلیف میں ڈال دیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے اس لیے تجھے تکلیف دی ہے کہ اس سے کبھی اس کے گناہ کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا جس طرح ادا شدہ قرض کی متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ الجامع لعبد الرزاق

13493

13493- عن الشعبي قال: لما رجم علي شراحة جاء أولياؤها فقالوا: كيف نصنع بها؟ فقال: اصنعوا بها كما تصنعون بموتاكم يعني من الغسل والصلاة عليها. "عب والمروزي في الجنائز".
13493 شعبی (رح) سے مروی ہے فرمایا جب حضرت علی (رض) نے شراحۃ کو سنگسار کرادیا تو اس کے سرپرست اولیاء آگے آئے اور پوچھا : اب ہم اس کا کیا کریں ؟ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : جس طرح اپنے مردوں کے ساتھ کرتے ہو یعنی پورے اسلامی طریقے کے ساتھ غسل دو نماز پڑھو وغیرہ۔
الجامع لعبد الرزاق، المروزی فی الجنائز

13494

13494- عن سماك بن حرب عن رجل من بني عجل قال: كنت مع علي بصفين، فإذا رجل بزرع ينادي أني قد أصبت فاحشة فأقيموا علي الحد فقال له علي: هل تزوجت؟ قال: نعم قال: قد دخلت بها؟ قال: لا، فبعث إلى أهل المرأة، هل زوجتم فلانا؟ قالوا: والله ما كنا نرى به بأسا، قال فحده مائة وأغرمه نصف الصداق2 وفرق بينهما. "أبو عبد الله الحسن بن يحيى بن عياش القطان في حديثه ق".
13494 سماک بن حرب بنی عجل کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں جنگ صفین میں حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا ، وہاں ایک آدمی کھیتوں میں کھڑا افسوس کے ساتھ پکاررہا تھا مجھ سے فحش کام سرزد ہوگیا ہے۔ مجھ پر حد جاری کردو۔ حضرت علی (رض) نے اس پوچھا : کیا تو نے شادی کررکھی ہے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ پوچھا : کیا اس کے ساتھ ہم بستر ہوا ہے ؟ اس نے انکار میں جواب دیا۔ پھر آپ (رض) نے (جس) عورت (کے ساتھ بدکاری ہوئی تھی اس) کے گھر والوں کے پاس پیغام بھیج کر دریافت کرایا کیا تم : فلاں آدمی سے اپنی لڑکی کی شادی پر راضی ہو ؟ انھوں نے کہا : ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ تب آپ (رض) نے آدمی پر سو کوڑے حد جاری کی اور اس پر پہلی بیوی کے لیے نصف مہر دینا لازم کیا اور ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی۔
ابوعبداللہ الحسن بن یحییٰ بن عباش القطان فی حدیثہ، السنن للبیہقی

13495

13495- عن أبي حبيبة قال: أتيت عليا، فقلت له: إنه قد أصاب فاحشة فأقم عليه الحد، قال: فرددني أربع مرات، ثم قال: يا قنبر قم إليه، فاضربه مائة سوط، فقلت إني مملوك قال: اضربه حتى يقول لك أمسك فضربه خمسين سوطا. "ص ق".
13495 ابوحبیبہ سے مروی ہے میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : مجھ سے ایک فحش برائی سرزد ہوگئی ہے۔ مجھ پر حد جاری کر دیجئے۔ حضرت علی (رض) نے چار مرتبہ واپس کردیا (لیکن میرا نہ ماننے کی بناء پر بالآخر آپ (رض)) نے اپنے غلام قنبر کو فرمایا : اے قنبر ! اٹھ کھڑے ہوا ور اس کو سوکوڑے مار۔ میں نے عرض کیا : میں غلام ہوں۔ تب آپ (رض) نے فرمایا : اس کو مارتے رہو یہ خود ہی تم کو روک دے گا۔ چنانچہ قنبر غلام نے مجھے پچاس کوڑے مارے۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13496

13496- عن الشعبي أن عليا جلد ونفى من الكوفة إلى البصرة. "ق".
13496 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے کوڑے لگائے اور کوفہ سے بصرہ جلاوطن کیا۔ السنن للبیہقی

13497

13497- عن قسامة بن زهير قال: لما كان من شأن أبي بكرة والمغيرة الذي كان، ودعا الشهود فشهد أبو بكرة وشهد ابن معبد ونافع بن عبد الحارث فشق على عمر حين شهد هؤلاء الثلاثة، فلما قام زياد قال عمر: إني أرى غلاما كيسا لن يشهد إن شاء الله إلا بحق، قال زياد: أما الزنا فلا أشهد به، ولكن قد رأيت أمرا قبيحا، قال عمر: الله أكبر حدودهم فجلدوهم فقال أبو بكرة: أشهد أنه زان، فهم عمر أن يعيد عليه الحد فيها، فنهاه علي وقال: إن جلدته فارجم صاحبك فتركه ولم يجلده. "هق"
13497 قسامۃ بن زھیر سے مروی ہے کہ جب ابوبکرۃ اور مغیرہ کا واقعہ پیش آیا۔ ابوبکرۃ نے مغیرہ پر زنا کی تہمت لگائی تو گواہ بلائے گئے۔ سب سے پہلے ابوبکرۃ نے گواہی دی۔ پھر (شبل) ابن معبد اور نافع بن عبدالحارث نے بھی گواہی دیدی (جب چوتھے گواہ کی باری آئی جس کے بعد مغیرہ پر زنا کی حد جاری ہوجاتی) تو حضرت عمر (رض) کو شاق گزرا۔ چنانچہ جب زیاد گواہی کے لیے اٹھا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : انشاء اللہ کسی غلام حق کے سوا ہرگز کوئی گواہی نہ دے گا۔ چنانچہ زیاد بولا : میں زنا کی گواہی تو نہیں دیتا لیکن میں نے پھر بھی ایک بری بات دیکھی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے نعرہ بلند کیا اللہ اکبر، پھر حکم دیا (تین) گواہوں کو (تہمت کی بناء پر) حد جاری کرو۔ چنانچہ تینوں پر حد جاری کی گئی۔
ابوبکرۃ نے حد کھانے کے بعد پھر کہا میں اب بھی شہادت دیتا ہوں کہ وہ (مغیرہ) زانی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو دوبارہ تہمت کی حد جاری کرنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت علی (رض) نے منع فرمادیا کہ اگر آپ نے اس کو تہمت کی حد جاری کرنا ہے تو اپنے ساتھی (مغیرہ) کو بھی رجم (سنگسار) کرو۔ آخر حضرت عمر (رض) نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور دوبارہ حد جاری نہ فرمائی۔ السنن للبیہقی

13498

13498- عن أبي بكرة قال: قدمنا على عمر فشهد أبو بكرة ونافع وشبل بن معبد، فلما دعا زيادا قال: رأيت أمرا منكرا، فكبر عمر ودعا بأبي بكرة وصاحبيه، فضربهم، فقال أبو بكرة بعد ما حدوه: والله إني لصادق، وهو فعل ما شهدته، فهم عمر بضربه، فقال علي: إن جلدت هذا فارجم ذاك."هق"
13498 ابوبکرۃ سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوئے ۔ چنانچہ ابوبکرہ، نافع اور شبل بن معبد نے گواہی دیدی جب زیاد کو بلایا گیا تو اس نے یوں گواہی دی کہ میں نے بری چیز دیکھی ہے۔ چونکہ زنا کی گواہی نہیں دی اس لیے حضرت عمر (رض) نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ابوبکرہ اور اس کے دونوں ساتھیوں کو بلا کر حد تہمت جاری کی۔ ابوبکرہ نے حد سہنے کے بعد فرمایا : اللہ کی قسم میں سچا ہوں۔ میں نے جس بات کی گواہی دی وہ اس کے مرتکب ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے ابوبکرہ کو دوبارہ حد جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر ان کو حد جاری کرتے ہیں تو ان (مغیرہ) کو بھی رجم کیجئے۔

13499

13499- عن حنش قال: تزوج رجل منا امرأة فزنى قبل أن يدخل بها فأقام علي الحد وقال: إن المرأة لا ترضى أن تكون عنده ففرق بينهما علي. "ق".
13499 حنش سے مروی ہے کہ ہمارے ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کرلی۔ لیکن بیوی سے ہم بستر ہونے سے قبل وہ کسی عورت کے ساتھ زنا کر بیٹھا۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس پر حد جاری کی اور فرمایا اب عورت اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرے گی چنانچہ دونوں میاں بیویں کے درمیان علیحدگی کرادی۔ السنن للبیہقی

13500

13500- عن أبي بن كعب قال: يجلدون ويرجمون، ويرجمون ولا يجلدون ويجلدون ولا يرجمون، قال شعبة: فسره قتادة فقال: الشيخ المحصن يجلد ويرجم إذا زنى، والشاب المحصن يرجم إذا زنى، والشاب إذا لم يحصن جلد. "ابن جرير".
13500 ابی بن کعب (رض) سے مروی ہے ، فرمایا : زنا میں کوڑے اور رجم دونوں بھی ہیں، صرف رجم بھی ہے، صرف کوڑے بھی ہیں۔ شعبہ فرماتے ہیں : قتادہ (رح) نے اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے : شادی شدہ بوڑھے کو کوڑے مارے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا جب وہ زنا کرے۔ شادی شدہ جوان زنا کرے تو اس کو محض رجم کیا جائے گا اور اگر نوجوان کنوارا زنا کرے تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے۔ ابن جریر

13501

13501- عن بصرة الغفاري قال: تزوجت امرأة بكرا في خدرها، فوجدتها حبلى فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أما الولد فعبد لك، فإذا ولدت فاجلدها مائة ولها المهر بما استحل من فرجها. "قط طب ك" كذا أورده ابن حجر في الأطراف في ترجمة بصرة بن أبي بصرة الغفاري وقال له علة فإنهم رووه من طريق ابن جريج عن صفوان بن سليم وقال "قط" إنما هو ابن جريج عن إبراهيم بن أبي يحيى عن صفوان ابن سليم.
13501 بصرۃ الغفاری (رض) سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں نے ایک کنواری باپردہ لڑکی سے شادی کی۔ لیکن میں نے اس کو حاملہ پایا (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی تو) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بہرحال جب بچہ تولد ہو وہ تیرا غلام بن جائے گا۔ اور اس کی ماں کو تم بچہ جننے کے بعد سوکوڑے مارنا، لیکن اس کا مہر اس کو دینا ہوگا جس کی وجہ سے اس کا حصول تمہارے لیے حلال ہوا۔
الدارقطنی فی السنن ، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم
کلام : علامہ ابن حجر (رح) نے الاطراف میں بصرۃ بن ابی بصرۃ الغفاری کے ترجمہ کے دوران اسی طرح مذکورہ روایت ذکر کی ہے۔ پھر اس کی ایک علت (سقم) کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں نے اس روایت کو ابن جریج عن صفوان بن سلیم کے طریق سے نقل کیا ہے حالانکہ امام الدارقطنی (رح) نے فرمایا ابن جریج عن ابراہیم بن ابی یحییٰ عن صفوان بن سلیم صحیح طریقہ ہے۔

13502

13502- عن سعيد بن المسيب أن بصرة الغفاري تزوج امرأة بكرا في سترها، فدخل بها فوجدها حبلى، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وقال: "إذا وضعت فأقيموا عليها الحد، وأعطاها الصداق بما استحل من فرجها". "أبو نعيم" وترجم عليه بصرة وقيل بسرة وقيل نضلة روى عنه سعيد بن المسيب وفرق بينه وبين بصرة بن أبي بصرة الغفاري وكذا تبع الحافظ بن حجر في الإصابة فرق بينهما وجعل لكل واحد ترجمة فقال في ترجمته هذا بصرة.
13502 سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ بصرۃ الغفاری (رض) نے ایک باپردہ کنواری عورت سے شادی کی۔ پھر اس کے ساتھ ہم بستر ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے درمیان علیحدگی کروادی اور ارشاد فرمایا : جب وہ بچہ جن لے تو اس پر حد قائم کرنا اور اس کو مہر بھی ادا کرنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے اس کا ملاپ حلال ہوا۔ ابونعیم
فائدہ : امام ابونعیم (رح) نے مذکورہ صحابی کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا نام ایک قول کے مطابق بصرہ ہے، ایک قول کے مطابق بسرہ ہے اور ایک قول کے مطابق نضلہ ہے۔ ان سے سعید بن المسیب نے روایت کی ہے۔ اور بصرۃ بن ابی بصرۃ الغفاری اور اس روایت کے مروی عنہ بصرہ میں فرق بیان کیا ہے کہ یہ دونوں علیحدہ شخصیات ہیں۔ اسی طرح امام ابن حجر (رح) نے بھی الاصابہ میں ان کی اتباع کی ہے۔ اور دونوں کے درمیان تفریق بیان کی ہے اور ہر ایک کے لیے جدا ترجمہ ذکر کیا ہے۔

13503

13503- عن الزهري عن عبيد الله عن أبي هريرة وزيد بن خالد ابن شبل أنهم كانوا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقام رجل من الأعراب فقال: أنشدك الله إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقال الخصم الآخر وهو أفقه منه: نعم، فاقض بيننا بكتاب الله وائذن لي حتى أقول، قال: قل، قال: إن ابني كان عسيفا1 على هذا، وأنه زنى بامرأته، فأخبروني أن على ابني الرجم، فافتديت منه بمائة شاة وخادم أجيرا فسألت رجالا من أهل العلم، فأخبروني أن على ابني جلد مائة وتغريب عام، وأن على امرأة هذا الرجم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لأقضين بينكما بكتاب الله المائة شاة والخادم رد عليك، وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، وعلى امرأة هذا الرجم، واغد يا أنيس على امرأة هذا، فإن اعترفت فارجمها فغدا عليها فاعترفت فأمر بها فرجمت ". "عب ش".
13503 عن الزھری عن عبیداللہ کی سند سے مروی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت زید بن خالد بن شبل فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جناب میں حاضر خدمت تھے۔ ایک اعرابی اٹھا اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر) بولا : میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیے۔ اس کا فریق مخالف جو اس سے سمجھ دار تھا بولا : جی ہاں ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیے اور مجھے بولنے کی اجازت دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
بولو ! چنانچہ وہ بولا : کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کررہا تھا اس نے اس کی عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرلیا ہے۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ میرے بیٹے کو رجم کی سزا ہوگی۔ لیکن میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک غلام بطور مزدوری اس کو دے دیا ہے۔ پھر میں نے کچھ اہل علم سے سوال کیا تو انھوں نے مجھے کچھ مختلف بات بیان کی کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوگی اور اس کی بیوی کو رجم کی سزا ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے ساتھ فیصلہ کرتا ہوں۔ سو بکریاں اور خادم تجھ کو واپس ملے گا۔ اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوگی۔ جبکہ اس شخص کی بیوی کو رجم کرنا ہوگا۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خادم کو حکم فرمایا : اے انس ! صبح کو اس شخص کی بیوی کے پاس جا۔ اگر وہ اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہے تو اس کو رجم کرادینا۔ چنانچہ صبح کو اس عورت کے پاس گئے تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔ الجامع لعبد الرزاق المصنف لا بن ابی شیبہ

13504

13504- عن سهل بن سعد أن وليدة في عهد النبي صلى الله عليه وسلم حملت من الزنا فسئلت من أحبلك؟ فقالت: أحبلني المقعد، فسئل عن ذلك فاعترف فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إنه لضعيف عن الجلد فأمر بمائة عثكول فضربه بها ضربة واحدة". "ابن النجار".
13504 سہل بن سعد سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک لڑکی زنا سے حاملہ ہوگئی۔ اس سے پوچھا گیا کہ تجھے کس نے اس حال کو پہنچایا اس نے ایک اپاہج کا نام لیا۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ کوڑے کھانے (کی اہلیت نہیں رکھتا اس) سے کمزور ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کا ایک سو تنکوں والا خوشہ ایک مرتبہ مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ خوشہ اس کو ایک مرتبہ مارا گیا۔ ابن النجار

13505

13505- عن عبادة بن الصامت قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل عليه تربد لذلك وجهه فأنزل عليه ذات يوم فلقي ذلك، فلما سرى عنه قال: خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا؛ الثيب بالثيب جلد مائة، ثم رجم بالحجارة والبكر بالبكر جلد مائة ثم نفي سنة. "عب".
13505 عبادۃ بن الصامت (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کا چہرہ انور متغیراللون ہوجاتا۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ پر وحی نازل ہوئی تو یہی کیفیت طاری ہوگئی، جب وہ کیفیت چھٹ گئی تو ارشاد فرمایا : تو سنو مجھ سے : اللہ پاک نے ان کے لیے راستہ کھولا ہے : شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو اس کو ایک سو کوڑے سزا پر رجم کی سزا ہے۔ اور اگر کنوارہ کنواری کے ساتھ زنا کرے تو سو کوڑے سے سزا اور ایک سال کی جلاء وطنی ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

13506

13506- عن أبي أمامة بن سهل أن رجلا من مساكين المسلمين كان ضريرا فأصاب الناس ليلة ماطرة أو ليلة باردة فدعته امرأة من المسلمين إلى بيتها فوثب عليها فغلبها على نفسها فأتت النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته بما صنع، فأرسل إليه فاعترف فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بقنو فعد منه مائة شمراخ ثم أمر به فضرب ضربة واحدة. "ابن جرير".
13506 ابوامامۃ بن سہل سے مروی ہے کہ مساکین مسلمین میں سے ایک لاغر بیمار شخص تھا۔ بارش ایک سخت رات میں اس کو ایک مسلمان خاتون نے (کسی کام سے) اپنے ہاں بلایا۔ آدمی اس کے پاس پہنچا تو عورت پر جھٹ پڑا اور اس کے ساتھ دست درازی کرکے اپنے ارادے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ساری خبر سنائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کے پاس پیغام بھیجا اس نے (آکر) اعتراف جرم کرلیا (لیکن اس کی جسمانی حالت سوکوڑے برداشت کرنے کی نہ تھی) لہٰذا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر کھجور کا ایک خوشہ لیا گیا اور اس میں سو تنکے شمار کیے گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ خوشہ مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس لاغر آدمی کو ایک ہی مرتبہ وہ خوشہ مارنے پر اکتفاء کیا گیا۔ ابن جریر

13507

13507- عن الحسن قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: إنها زنت، فقال رجل: إنها غيران يا رسول الله فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن شئتم لأحلفن لكم أن الفاجر فاجر، وأن الغيران لا يدري أين أعلى الوادي من أسفله ". "عب".
13507 حسن سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اور بولی : اس نے زنا کیا ہے۔ آدمی نے کہا : یارسول اللہ ! یہ غیرت میں آکر ایسا کہہ رہی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے سامنے حلفیہ (قسم اٹھا کر ) کہتا ہوں کہ فاجر فاجر ہوتا ہے۔ اور (محض) غیرت میں آکر ایسی بات کرنے والی کو معلوم نہیں ہوسکتا ک وادی کا بالائی حصہ کون سا ہے اور پست آخری حصہ کونسا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : یعنی میں قسم اٹھاتا ہوں کہ فاجر فاجر ہی ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ عورت کو صحیح معلوم نہیں ہو پایا ہو کہ آیا محض بالائی حصہ اس کو مس ہوا ہے یا مکمل۔ اس لیے مرد کی بات زیادہ تسلیم کی جائے گی۔

13508

13508- عن الحسن ان امرأة وجدت زوجها على جارية، فغارت فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم واتبعها حتى أدركها، فقالت: إنها زنت فقال: كذبت يا رسول الله ولكنها كان كذا وكذا فأخذت بلحيته فانتهرها النبي صلى الله عليه وسلم، فأرسلته، فقال: "ما تدري الآن أين أعلى الوادي من أسفله". "عب".
13508 حسن سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کو باندی کے ساتھ ہم بستر پایا۔ اس کو بڑی غیرت اٹھی۔ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اس کے تعاقب میں اس کا آدمی بھی پہنچ گیا۔ عورت بولی اس نے زنا کیا ہے۔ آدمی بولا : یارسول اللہ ! یہ جھوٹ بولتی ہے۔ بلکہ اصل ماجرا یوں ہے۔ تب عورت نے آدمی کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کو جھڑکا۔ عورت نے ڈاڑھی چھوڑ دی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کو ارشاد فرمایا : تجھے کیا علم کے وادی کا بالائی حصہ کون سا ہے اور آخری حصہ کونسا ؟ الجامع لعبد الرزاق

13509

13509- عن الحسن قال: أوحي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال: خذوا مني خذوا مني جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب جلد مائة والرجم، والبكر بالبكر جلد مائة ونفي سنة. "عب".
13509 حسن سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی ہوئی۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : لو سنو مجھ سے ! اللہ نے ان کے لیے راستہ نکالا ہے ، شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ سو کوڑے اور رجم اور کنوارہ کنواری کے ساتھ سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی۔ الجامع لعبد الرزاق

13510

13510- عن ابن جريج عن عمرو بن شعيب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قد قضى الله ورسوله أن شهد أربعة على بكرين جلدا كما قال الله تعالى: {مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ} "، وغربا سنة غير الأرض التي كانا بها، وتغريبهما سنتي وقال: إن أول حد أقيم في الإسلام لرجل أتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم فشهد عليه فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم أن يقطع، فلما حد الرجل نظر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم كأنما سف1 فيه الرماد، فقالوا: يا رسول الله كأنه اشتد عليك قطع هذا؟ قال: وما يمنعني وأنتم أعوان الشيطان على أخيكم قالوا: فأرسله قال: فهلا قبل أن تأتيني به، إن الإمام إذا أتي له بحد لا ينبغي له ان يعطله. "عب".
13510 ابن جریج عمرو بن شعیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اور اس کے رسول نے فیصلہ کردیا ہے کہ اگر وہ کنوارے مرد عورت آپس میں زنا کریں اور ان پر چار مرد گواہی دیدیں تو حکم خداوندی :
مائۃ جلدۃ ولا تاخذ کم بھما رافۃ فی دین اللہ
یعنی سوکوڑے اور ان کے ساتھ نرمی تم کو اللہ کے دین میں نہ پکڑے۔
اور بموجب میری سنت کے ان کو ایک سال کے لیے ان کے اس وطن سے نکال دیا جائے جہاں وہ رہتے ہوں۔ اور ارشاد فرمایا ان کو جلاء وطن کرنا میری سنت ہے۔
عمرو بن شعیب فرماتے ہیں : پہلی حد جو اسلام میں ایک آدمی پر جاری کی گئی اسی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش کرکے اس پر شہادت لی گئی۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور اس کا ہاٹھ کاٹ دیا گیا۔ جب اس پر حد جاری ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو دیکھا گیا گویا آپ کے چہرے پر مٹی ڈال دی گئی ہو۔ لوگوں نے کہا : یارسول اللہ ! شاید اس آدمی کا ہاتھ کٹنا آپ کو دشوار گزرا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے کیوں نہ دشوار گزرتا جبکہ تم اپنے بھائی کے مقابلے پر شیطان کے مددگار بن کر آئے ہو۔ لوگوں نے عرض کیا تب آپ اس کو چھوڑ دیتے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : امام (حاکم) کے پاس جب حد آئے گی تو اس کو حد معطل کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں۔ الجامع لعبد الرزاق

13511

13511- عن ابن جريج عن عمرو بن شعيب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قضى الله ورسوله أن لا يقبل شهادة ثلاث ولا اثنين ولا واحد على الزنا ويجلدون ثمانين جلدة، ولا تقبل شهادتهم حتى يتبين للمسلمين منهم توبة نصوح وإصلاح. "عب".
13511 ابن جریج ، عمرو بن شعیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اور اس کے رسول نے فیصلہ کردیا ہے کہ زنا پر نہ تین آدمیوں کی شہادت قبول کی جائے گی اور نہ دو کی اور نہ ایک کی۔ اور ان کو (تہمت کے جرم میں) اسی اسی کوڑے مارے جائیں گے پھر ان کی شہادت آئندہ قبول نہ کی جائے گی جب تک مسلمانوں کو ان کی سچی توبہ اور ان کی اصلاح کا علم نہ ہوجائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13512

13512- عن عمر قال: إن الله عز وجل بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فقرأناها ووعيناها ورجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل: لا نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة قد أنزلها الله، فالرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو الحبل أو الاعتراف، ألا وإنا قد كنا نقرأ؛ لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم. "عب ش حم والعدني والدارمي خ م د ت ن هـ وابن الجارود وابن جرير وأبو عوانة حب ق" وروى "مالك" بعضه.
13512 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی۔ اسی کتاب میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کو پڑھا اور محفوظ کرلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے خود خطرہ ہے کہ لوگوں پر طویل زمانہ گزرے گا تو کوئی کہے گا : ہم کتاب اللہ میں آیت رجم نہیں پاتے۔ پس وہ ایسے فریضے کے انکار کے ساتھ گمراہ ہوجائیں گے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ پس رجم کتاب اللہ میں ہے۔ زانی پر لازم ہے جبکہ وہ شادی شدہ ہو مرد ہو یا عورت۔ بشرطیکہ گواہ قائم ہوں یا حمل ظاہر ہو (عورت کے لئے) یا زانی خود اعتراف کرلے۔ خبردار ! ہم یہ آیت بھی پڑھا کرتے تھے :
لا ترغبوا عن آباء کم فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن آباء کم،
اپنے آباء سے اپنی نسبت کا انکار نہ کرو یہ تمہارا انکار ہے کہ تم اپنے آباء سے اعراض کرو۔
الجامع لعبد الرزاق، المصنف لا بن ابی شیبہ، مسنداحمد، العدنی، الدارمی، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی ، ابن ماجہ ، ابن الجارود، ابن جریر، ابو عوانۃ، ابن حبان، السنن للبیہقی
امام مالک نے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔

13513

13513- عن ابن عباس قال: خطب عمر فذكر الرجم فقال: لا تخدعن عنه فإنه حد من حدود الله، ألا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجم ورجمنا بعده، ولولا أن يقول قائلون: زاد عمر في كتاب الله ما ليس منه لكتبت في ناحية المصحف، شهد عمر بن الخطاب وعبد الرحمن بن عوف وفلان وفلان أن رسول الله قد رجم ورجمنا بعده، ألا وإنه سيكون بعدكم قوم يكذبون بالرجم وبالدجال وبالشفاعة وبعذاب القبر وبقوم يخرجون من النار بعد ما امتحشوا "حم ع وأبو عبيد".
13513 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیا اور رجم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ہرگز دھوکا میں نہ پڑنا رجم کے بارے میں۔ بیشک وہ حدود اللہ میں سے ایک حد ہے۔ خبردار ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں ضرور قرآن پاک کے حاشیے میں لکھوا دیتا :
عمر بن خطاب، عبدالرحمن بن عوف، فلاں اور فلاں اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔
خبردار ! عنقریب تمہارے بعد ایک قوم آئے گی جو تکذیب کرے گی رجم کی، دجال (کے خروج) کی، شفاعت کی، عذاب قبر کی اور اس قوم کی جس کو اللہ پاک جہنم سے ان کے جلنے کے بعد نکالے گا ۔ مسند احمد، مسند ابی یعلی، ابوعبید
فائدہ : حدیث میں امتحثوا کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں اس قدر جل کر ہڈیاں ظاہر ہوجائیں۔ انبیاء 302/4 ۔

13514

13514- عن ابن عباس قال: إن عمر بن الخطاب قام فينا فقال: ألا إن الرجم حد من حدود الله فلا تخدعن عنه فإنه في كتاب الله وسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم، وقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجم أبو بكر ورجمت. "طس".
13514 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : خبردار ! رجم (سنگساری) حدود اللہ میں سے ایک حد ہے، ہرگز اس کی طرف سے دھوکا میں نہ پڑنا۔ بیشک وہ کتاب اللہ میں بھی ہے اور تمہارے نبی کی سنت میں بھی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی رجم فرمایا، ابوبکر (رض) نے بھی رجم فرمایا اور میں نے بھی رجم کیا ہے۔
الاوسط للطبرانی

13515

13515- عن سعيد بن المسيب عن عمر قال: رجم رسول الله ورجم أبو بكر ورجمت ولولا أني أكره أن أزيد في كتاب الله لكتبته في المصحف فإني قد خشيت أن تجيء أقوام لا يجدونه في كتاب الله فيكفرون به. "ت ق" وقال "ت" حسن صحيح وروى عنه من غير وجه عن عمر
13515 حضرت سعید بن المسیب (رح) حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم فرمایا، ابوبکر (رض) نے رجم فرمایا اور میں نے بھی رجم کیا۔ اگر مجھے کتاب اللہ میں زیادتی ناپسند ہوتی تو میں قرآن پاک میں اس کو لکھ دیتا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ ایسی اقوام آئیں گی جو اس کتاب اللہ میں نہ پاکر اس کا کفر (انکار) کریں گی۔
الترمذی، السنن للبیہقی قال الترمذی حسن صحیح وروی عنہ من خیر وجہ عن عمر (رض)

13516

13516- عن سعيد بن المسيب أن عمر خطب فقال: إياكم أن تهلكوا عن آية الرجم أن يقول قائل: لا نجد الرجم في كتاب الله فقد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، وإني والذي نفسي بيده لولا أن يقول قائل أحدث عمر بن الخطاب في كتاب الله تعالى لكتبتها ولقد قرأناها؛ الشيخ والشيخة فارجموهما البتة. "مالك والشافعي وابن سعد والعدني حل ق"
13516 حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : بچو آیت رجم کے متعلق ہلاکت میں پڑنے سے ۔ کہیں کوئی یہ کہنے لگے : ہم تو رجم کو کتاب اللہ میں پاتے نہیں۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد رجم کیا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر کہنے والا یہ نہ کہتا کہ عمر بن خطاب نے کتاب اللہ میں نئی کتاب لکھ دی ہے تو میں ضرور اس کو لکھ دیتا۔ بیشک ہم نے اس کو قرآن پاک میں پڑھا ہے : الشیخ والشیخۃ فارجمو ھما البتۃ۔
بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کو (جب وہ زنا کریں) تو رجم کرو ضرور۔
مالک ، الشافعی ، ابن سعد، العدنی ، حلیۃ الاولیاء السنن للبیہقی

13517

13517- عن ابن عباس قال: قال عمر: الرجم حد من حدود الله فلا تخدعوا عنه وآية ذلك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم وأبو بكر ورجمت أنا بعد، وسيجيء قوم يكذبون بالقدر، ويكذبون بالحوض، ويكذبون بالشفاعة، ويكذبون بقوم يخرجون من النار. "ابن أبي عاصم".
13517 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : رجم حدود اللہ میں سے ایک حد ہے اس کے بارے میں دھوکا کا شکار مت ہونا۔ اس کی (سچائی کی) نشانی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا، ابوبکر نے رجم کیا اور ان کے بعد میں نے بھی رجم کیا۔ عنقریب ایک قوم آئے گی جو تقدیر کو جھٹلائے گی، حوض (کوثر) کو جھٹلائے گی، شفاعت (کے برحق ہونے) کو جھٹلائے گی اور اس قوم کو جھٹلائے گی جو جہنم سے نکالی جائے گی۔ ابن ابی عاصم

13518

13518- عن ابن عباس قال: أمر عمر بن الخطاب مناديا فنادى أن الصلاة جامعة، ثم صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أيها الناس لا تخدعن عن آية الرجم. فإنها أنزلت في كتاب الله، وقرأناها، ولكنها ذهبت في قرآن كثير ذهب مع محمد، وآية ذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم قد رجم وأن أبا بكر قد رجم ورجمت بعدهما وأنه سيجيء قوم من هذه الأمة يكذبون بالرجم ويكذبون بطلوع الشمس من مغربها ويكذبون بالشفاعة ويكذبون بالحوض، ويكذبون بالدجال، ويكذبون بعذاب القبر ويكذبون بقوم يخرجون من النار بعد ما أدخلوها. "عب".
13518 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے منادی کو نداء دینے کا حکم دیا اس نے نداء دیدی الصلوٰۃ جامعۃ (یعنی وعظ سننے کے لیے جمع ہوجاؤ) پھر آپ (رض) منبر پر چڑھے۔ اللہ کی حمدوثناء پھر ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! آیت رجم کے متعلق دھوکا کا شکار نہ ہونا۔ بیشک وہ قرآن میں نازل ہوئی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی تھی۔ لیکن وہ قرآن کے بہت سے حصے کے ساتھ چلی گئی جو محمد کے ساتھ چلا گیا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا، ابوبکر نے رجم کیا اور ان کے بعد میں نے رجم کیا۔ عنقریب اس امت میں سے ایسے لوگ آئیں گے، دجال کا انکار کریں گے، عذاب قبر کا انکار کریں گے اور اس قوم کا انکار کریں گے جو جہنم سے نکالی جائے گی جہنم میں ڈالنے کے بعد ۔
الجامع لعبد الرزاق

13519

13519- عن عمر قال: قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم لما أنزلت آية الرجم: اكتبها يا رسول الله قال: لا أستطيع ذلك. "ابن الضريس".
13519 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ جب آیت رجم نازل ہوئی میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ آیت لکھ لیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں اس کی ہمت نہیں رکھتا۔ ابن الضریس

13520

13520- عن عمر قال: لو أتيت برجل وقع على جارية امرأته وهو محصن لرجمته. "عب ش".
13520 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ایسا کوئی شخص لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی باندی سے زنا کیا ہوگا اور وہ محصن (شادی شدہ ہوگا تو میں اس کو رجم کردوں گا) ۔
الجامع لعبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13521

13521- عن ذهل بن كعب قال: أراد عمر أن يرجم المرأة التي فجرت وهي حامل، فقال له معاذ: إذا تظلم، أرأيت الذي في بطنها ما ذنبه؟ على ما تقتل نفسين بنفس واحدة، فتركها حتى وضعت حملها فرجمها. "ش".
13521 ذھل بن کعب سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارادہ فرمایا کہ اس عورت کو رجم فرمائیں جو بدکاری کے نتیجے میں حاملہ ہوگئی تھی۔ لیکن حضرت معاذ (رض) نے آپ (رض) کو فرمایا : تب تو آپ ظلم کرنے والے ہوں گے، جو جان اس عورت کے پیٹ میں ہے اس کا کیا گناہ ہے ؟ آپ کس بناء پر ایک جان کے گناہ کے بدلے دوجانوں کو قتل کریں گے ؟ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ اس نے بچہ جن دیا، تب آپ (رض) نے اس کا رجم (سنگسار) کیا ۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13522

13522- عن عبد الرحمن بن عوف أن عمر قال: قد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، ولولا أن يقول قائلون: زاد عمر في كتاب الله لأثبتها كما أنزلت. "حم وابن الأنباري في المصاحف".
13522 عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم فرمایا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ اگر کہنے والے یہ نہ کہتے : عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کردی تو میں ضرور اس آیت کو لکھ دیتا جس طرح وہ نازل ہوئی تھی۔ یعنی
الشیخ والشیخۃ فارجموھما البتۃ ، مسند احمد، ابن ابی الانباری فی المصاحف

13523

13523- عن سعيد بن المسيب أن عمر لما أفاض من منى أناخ بالأبطح فكوم كومة1 من بطحاء فطرح عليها طرف ثوبه ثم استلقى عليها ورفع يديه إلى السماء وقال: اللهم كبر سني، وضعفت قوتي، وانتشرت رعيتي فاقبضني إليك غير مضيع ولا مفرط، فلما قدم المدينة خطب الناس فقال: أيها الناس قد فرضت لكم الفرائض، وسننت لكم السنن، وتركتكم على الواضحة، ثم صفق بيمينه على شماله إلا أن تضلوا بالناس يمينا وشمالا، ثم إياكم أن تهلكوا عن آية الرجم وأن يقول قائل [لا نحد حدين] في كتاب الله فقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم ورجمنا بعده فوالله لولا أن يقول الناس أحدث عمر في كتاب الله لكتبتها في المصحف فقد قرأناها، الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة قال سعيد: فما انسلخ ذو الحجة حتى طعن. "مالك وابن سعد ومسدد ك"
13523 حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) (اپنے آخری حج کے موقع پر) جب منیٰ سے واپس ہونے لگے تو وادی ابطح میں اپنی سواری بٹھادی۔ پھر (اتر کر) بطحاء سے پتھر کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر کپڑا ڈال کر چت لیٹ گئے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے گڑگڑائے :
اے اللہ ! میں سن رسیدہ ہوگیا ہوں، میرے قوی کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں، میری رعیت منتشر ہوچکی ہے پس مجھے اس حال میں اٹھالے کہ مجھ سے کوئی کوتاہی اور نقصان نہ ہو۔
پھر آپ (رض) مدینہ پہنچ گئے تو لوگوں کو خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! میں نے تمہارے لیے فرائض واضح کردیئے، سنتوں کو روشن کردیا اور تم کو واضح راستے پر چھوڑ دیا۔ پھر آپ (رض) نے (تنبہاً ) دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر تالی بجائی اور فرمایا : خبردار ! لوگوں کے ساتھ دائیں بائیں نکل کر گمراہ نہ ہوجانا۔ نیز آیت رجم کے متعلق ہلاکت میں نہ پڑنا۔ کہیں کوئی کہے : ہم کتاب اللہ مں دو حدیں نہیں پاتے۔ بیشک میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے کہ آپ نے رجم فرمایا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں نئی بات لکھ دی تو میں ضرور قرآن پاک میں اس کو لکھ دیتا جس طرح ہم نے اس کو پڑھا تھا :
الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ۔
حضرت سعید بن المسیب (تابعی) فرماتے ہیں : چنانچہ یہ ماہ ذوالحجہ ختم نہیں ہوا تھا کہ ان کو نیزہ مار (کر زخمی اور قریب المرگ کر) دیا گیا۔ موطا امام مالک، ابن سعد ، مسدد، مستدرک الحاکم

13524

13524- عن بكر قال: قال عمر: لقد هممت أن أكتب في المصحف هذا ما شهد عليه عمر وفلان وفلان عشرة من المهاجرين وعشرة من الأنصار أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجم وأمر بالرجم، وجلد في الخمر، وأمر بالجلد. "ابن جرير".
13524 بکر سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا ارادہ تھا کہ مصحف شریف (قرآن مبارک) میں یہ لکھوادوں :
یہ وہ فریضہ ہے جس پر عمر ، فلاں اور فلاں مہاجرین صحابی اور دس انصاری صحابی شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور رجم کا حکم دیا اور خمر (شراب نوشی) میں جلدۃ (کوڑے مارے) اور اس کا حکم دیا۔ ابن جریر

13525

13525- عن الشعبي قال: قال علي في الثيب أجلدها بالقرآن وأرجمها بالسنة، وقال أبي بن كعب: مثل ذلك. "عب".
13525 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے شادی شدہ زانی کے متعلق فرمایا میں اس کو قرآن کی رو سے جلد (کوڑوں کی سزا) کروں گا اور سنت کی رد سے رجم کروں گا۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب (رض) نے ارشاد فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13526

13526- عن قابوس بن مخارق أن محمد بن أبي بكر كتب إلى علي يساله عن مسلمين تزندقا وعن مسلم زنى بنصرانية وعن مكاتب مات وترك بقية من كتابته، وترك ولدا أحرارا، فكتب إليه علي، أما اللذان تزندقا فإن تابا وإلا فاضرب أعناقهما، وأما المسلم فأقم عليه الحد وادفع النصرانية إلى أهل ذمتها، وأما المكاتب فيؤدي بقية كتابته، وما بقي فلولده الأحرار. "الشافعي ش هق". = وأخرجه ابن سعد بلفظه في الطبقات الكبرى "3/334"، واستدركت منه هذه الفقرة للإتضاح: [لا نحد حدين] . ص.
13526 قابوس بن مخارق سے مروی ہے کہ محمد بن ابی مکر نے حضرت علی (رض) کے پاس عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے ؟ ایک مکاتب (اپنی آزادی کی قیمت ادا کرنے والا) مرگیا ہے اور اپنی کتابت (آزادی) کا عوض چھوڑ کر گیا ہے اور چند آزاد لڑکے اولاد میں چھوڑے ہیں ؟
چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس کے سوالوں کے جواب میں لکھا :
جو دو مسلمان مرتد ہوگئے ہیں اگر وہ توبہ تائب ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ ان کی گردن اڑادو۔ جس مسلمان نے نصرانی عورت کے ساتھ زنا کرلیا ہے اس پر حد جاری کرو جبکہ نصرانی عورت کو اہل ذمہ کے پسرد کردو اور مکاتب کا بدل کتابت ادا کرو، پھر جو مال باقی بچ جائے اس کو اس کی اولاد کے حوالے کردو۔ الشافعی، المصنف لا بن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

13527

13527- عن معبد وعبيد الله ابني عمران بن ذهل قالا: مر ابن مسعود برجل فقال: إني زنيت، فقال: إذا نرجمك إن كنت قد أحسنت، فقالوا: إنما أتى جارية امرأته، فقال عبد الله: إن كنت استكرهتها فأعتقها وأعط امرأتك جارية مكانها، فقال: والله لقد استكرهتها، قال: فلم يرجمه وأمر به فضرب دون الحد. "عب".
13527 معبد اور عبید اللہ ، عمران بن ذھل کے بیٹوں سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا ایک آدمی کے پاس سے گزر ہوا۔ آدمی نے کہا میں نے زنا کیا ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : پھر ہم تجھے رجم کریں گے اگر تو شادی شدہ ہے۔ لوگوں نے کہا : اس نے عورت کی باندی کے ساتھ زنا کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : اگر تو نے اس کو مجبور کردیا تھا تو اب اس کو آزاد کردے اور اپنی بیوی کو دوسری باندی اس کے بدلے دے۔ آدمی بولا : ہاں اللہ کی قسم ! میں نے اس کو مجبور کیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس کو رجم نہ کیا بلکہ حد سے کم کوڑے ماردیئے۔
الجامع لعبد الرزاق

13528

13528- عن عامر بن مطر الشيباني قال: قال ابن مسعود، إن كان استكرهها عتقت وغرم لها مثلها، وإن كانت طاوعته أمسكها هو وغرم لها مثلها. "عب".
13528 عامر بن الشیبانی سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے (مذکورہ روایت جیسی صورت کے متعلق) ارشاد فرمایا : اگر آدمی نے بیوی کی باندی کو مجبور کیا تھا تو وہ آزاد ہوجائے گی اور آدمی اس کے عوض دوسری باندی بیوی کو دے گا اور اگر وہ برضا آمادہ ہوئی تھی تو اب یہ آدمی کی ملکیت میں آجائے گی اور وہ اپنی بیوی کو دوسری باندی لاکر دے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13529

13529- عن الشعبي أن ابن مسعود قال: لا نرى حدا ولا عقرا "عب".
13529 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ہم حد کو اور عقر کو درست نہیں سمجھتے۔ الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : حد مذکورہ دو روایات سے جیسے معلوم ہوا۔ اور عقر کا مطلب ہے کہ عرب جاہلیت میں مرنے والے فیاض شخص کی قبر پر اونٹ نحر کرتے تھے اور کہتے تھے یہ اپنی زندگی میں ایسی فیاضی کرتا تھا اور مہمانوں کی خاطر تواضع کرتا تھا چنانچہ ہم اس کی وفات کے بعداس کا بدلہ ادا کررہے ہیں۔
النھایۃ 271/3

13530

13530- عن ابن سيرين قال: قال علي لو اتيت به لرجمته يعني الذي يقع على جارية امرأته، وأما ابن مسعود فلا يدري ما أحدث بعده. "عب ق هـ"
13530 ابن سیرین (رح) سے مروی ہے حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میرے پاس ایسا شخص لایا جاتا یعنی جو اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرے تو میں اس کو رجم کردیتا لیکن ابن مسعود کو علم نہیں ہے کہ ان کے بعد کیا کچھ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی ، ابن ماجہ

13531

13531- عن عبد الكريم قال: ذكر لعلي أن رجلا يقول: لا بأس أن يصيب الرجل وليدة امرأته، فقال لو أتينا به لتلفنا1 رأسه بالصخر. "عب".
13531 عبدالکریم سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) سے ذکر کیا گیا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ آدمی اگر بیوی کی باندی سے زنا کرلے تو کوئی حرج نہیں (حضرت علی (رض)) نے فرمایا : اگر ہمارے پاس ایسا آدمی لایا گیا (جس نے اپنی بیوی کی باندی کے ساتھ زنا کیا ہو) ہم اس کا سر پتھر سے کچل دیں گے۔ الجامع لعبد الرزاق

13532

13532- عن ابن أبي ليلى رفعه إلى علي أنه رجم محصنا في اللوطية. "عب ق".
13532 ابن ابی لیلیٰ مرفوعاً حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (رض) نے ایک شادی شدہ آدمی کو لواطت کی وجہ سے رجم کیا۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13533

13533- عن ابن جريج عن بعض أهل الكوفة أن عليا رجم امرأة كانت ذات زوج فجاءت أرضا، وتزوجت ولم تقل: إنه جاءها موت زوجها ولا طلاقه. "عب".
13533 ابن جریج بعض کو فی لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے جو شادی شدہ تھی ایک دوسری سرزمین میں اگر شادی کرلی نہ یہ کہا کہ اس کا شوہر مرگیا ہے اور نہ یہ بتایا کہ پہلے شوہر نے اس کو طلاق دیدی ہے۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس کو رجم کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13534

13534- عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: أتي عمر بامرأة جهدها العطش فمرت على راع فاستسقت فأبى أن يسقيها إلا أن تمكنه من نفسها ففعلت فشاور الناس في رجمها وقال: هذه مضطرة وأرى يخلى سبيلها ففعل. "وكيع في نسخته".
13534 ابوعبدالرحمن السلمی سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کی خدمت میں ایک عورت لائی گئی جس کو پیاس کی شدت نے اس حد تک ناچار کردیا تھا کہ اس کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا جس کے پاس پانی تھا۔ عورت نے اس سے پانی مانگا مگر اس نے پانی دینے سے انکار کردیا مگر اس شرط پر کہ وہ عورت راعی کو اپنے وجود پر قدرت دے۔ لاچار عورت نے اپنا وجود اس کے حوالے کردیا۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں سے اس کے رجم کے بارے میں مشورہ کیا اور فرمایا : یہ عورت مجبور پریشان تھی میرا خیال ہے اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ وکیع فی نسختہ

13535

13535- عن أنس أن امرأة اعترفت بالزنا أربع مرات، فرجمت فذكرتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له. "ابن جرير".
13535 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک عورت نے زنا کا چار مرتبہ اعتراف کیا۔ چنانچہ اس کو رجم کردیا گیا۔ میں نے اس کا ذکر کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر صاحب مکس (ٹیکس وصول کرنے والے) کو بھی یہ توبہ مل جاتی تو اس کی بھی مغفرت کردی جاتی۔ ابن جریر
کلام : روایت محل کلام ہے : ذخیرۃ الحفاظ 836 ۔

13536

13536- عن البراء قال: رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم يهوديا ويهودية. "ش".
13536 حضرت البراء (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو (آپس میں زنا کرنے کی حد میں) رجم کیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ
کلام : الالحاظ 148, 147۔۔۔ذخیرۃ الحفاظ 1374 ۔ پر مذکورہ روایت کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

13537

13537- عن جابر بن سمرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا ويهودية. "ش".
13537 جابر بن سمرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی اور یہودیہ کو رجم فرمایا۔
مصنف ابن ابی شیبہ

13538

13538- وعنه قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بماعز بن مالك، رجل قصير في إزار ما عليه رداء ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ على وسادة على يساره يكلمه، وما أدري وأنا بعيد بيني وبينه القوم فقال: اذهبوا به، ثم قال: ردوه فكلمه وأنا أسمع غير أن بيني وبينه القوم، ثم قال: اذهبوا به فارجموه، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم خطيبا فقال: أو كلما نفرنا في سبيل الله خلف أحدهم له نبيب1 من اللبن، والله لا أقدر على أحدهم إلا نكلت به. "ط عب حم م د"
13538 جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ماعز بن مالک کو لایا گیا۔ وہ ایک کوتاہ قامت شخص تھے اور صرف بدن کے نچلے حصے پر ازار باندھے ہوئے تھے۔ بالائی جسم پر کوئی چادر وغیرہ یا کپڑا نہ تھا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ پر بائیں کروٹ کی ٹیک لگائے ہوئے تھے اور ماغر سے بات چیت کررہے تھے۔ لیکن میں چونکہ بالکل آخری سرے پر تھا، میرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کافی لوگ تھے اس لیے میں بات چیت کو سن نہیں پارہا تھا (پھر میں نے اتنا سنا) آپ نے فرمایا : اس کو لے جاؤ۔ پھر فرمایا : واپس لاؤ۔ پھر اس سے کچھ بات چیت فرمائی جو میں سن نہ پایا پھر فرمایا : اس کو لے جاؤ اور سنگسار کردو۔
پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا :
فرمایا : کیا جب بھی ہم جہاد کے لیے سفر پر جائیں گے ان میں سے کوئی پیچھے ضرور رہے گا تاکہ مینڈھے کی طرح (شدت شہوت سے) بلبلاتا پھرے اور کسی عورت کا دودھ کا ایک برتن بھر کردے کر اپنی خواہش پوری کرے گا۔ اللہ کی قسم ! میں جب بھی کسی ایسے شخص پر قادر ہوا اس کو عبرت ناک سزا دوں گا ۔ الدارقطنی فی السنن، الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، مسلم، ابوداؤد

13539

13539- عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا ويهودية. "ش".
13539 جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو رجم کیا۔ ابن ابی شیبہ

13540

13540- وعنه: في البكر ينكح ثم يزني قبل أن يجمع مع امرأته قال: الجلد عليه ولا رجم. "عب".
13540 حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے وہ کنوارا شخص جو نکاح کرے پھر اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستر ہونے سے قبل زنا کا مرتکب ہوجائے تو اس پر کوڑے میں رجم نہیں۔
الجامع لعبدالرزاق

13541

13541- وعنه قال: رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من أسلم ورجلا من اليهود وامرأة. "عب".
13541 جابر بن عبداللہ سے مروی ہے فرماتے ہیں

13542

13542- عن ابن جريج أخبرني ابن شهاب عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن جابر بن عبد الله أن رجلا من أسلم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فحدثه أنه زنى شهد على نفسه أربع شهادات فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجم وكان قد أحصن، زعموا أنه ماعز بن مالك، قال ابن جريج: فأخبرني سعيد عن عبد الله بن دينار مولى ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قام بعد أن رجم الأسلمي، فقال: اجتنبوا هذه القاذورة التي نهى الله عنها، فمن الم بشيء منها فليستتر. "عب".
13542: ابن جریج (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے ابن شہاب نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن عن جابر عبداللہ بن سند سے بیان کیا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور اپنے آپ پر چار مرتبہ زنا کی شہادت دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے حکم فرمادیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔ چونکہ یہ شادی شدہ تھے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ماعز بن مالک تھے۔
ابن جریج کہتے ہیں مجھے سعید نے ابن عمر کے غلام عبداللہ بن دینار سے روایت بیان کی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلمی کو رجم فرمانے کے بعد کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : اس گندگی کے فعل سے اجتناب کرو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اور جس سے کوئی حرکت سرزد ہوجائے تو وہ اس کو پوشیدہ رکھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13543

13543- عن معمر عن الزهري عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أن رجلا من أسلم جاء النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا فأعرض عنه، ثم اعترف فأعرض عنه، حتى شهد على نفسه أربع مرات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أبك جنون؟ قال: لا، قال: أحصنت؟ قال: نعم، فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم فرجم بالمصلى، فلما أذلقته الحجارة فر، فأدرك فرجم حتى مات، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: خيرا ولم يصل عليه، قال معمر: فأخبرني ابن طاوس عن أبيه قال: لما أخبر رسول الله أنه فر، فقال: هلا تركتموه قال معمر: وأخبرني أيوب بن حميد عن هلال قال: لما رجم النبي صلى الله عليه وسلم الأسلمي قال: واروا عني عوراتكم ما وارى الله عني منها، ومن أصاب شيئا منها فليستتر، قال معمر: وأخبرني يحيى ابن أبي كثير عن عكرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز حين اعترف بالزنا: أقبلت؟ أباشرت؟ "عب".
13543 عن معمر عن الزھری عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن کی سند سے مروی ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص آیا اور زنا کا اعتراف کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کرلیا۔ اس نے دوبارہ اعتراف کرلیا۔ آپ نے پھر اعراض کیا۔ حتیٰ کہ اس نے چار مرتبہ اپنے آپ پر شہادت دے دی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تجھے جنون تو نہیں ہے ؟ اس نے انکار میں جواب دیا۔ آپ نے دریافت کیا : کہا تو محصن (شادی شدہ آزاد منش) ہے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے حکم سنادیا اور اس کو میدان عیدگاہ میں رجم کردیا گیا۔ لیکن جب پتھروں نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے تو وہ بھاگ پڑا لیکن پھر لوگوں نے اس کو جالیا اور پتھر مار مار کر اس کو رجم کردیا (ماردیا) ۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق خیر کے کلمات ارشاد فرمائے۔ اور خود اس پر نماز ادا نہیں فرمائی۔
معمر کہتے ہیں : مجھے ابن طاؤس نے اپنے والد سے روایت کیا کہ جب حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی کہ وہ شخص پتھروں کی مار میں بھاگ پڑا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا ؟
معمر کہتے ہیں : مجھے ایوب بن حمید نے ھلال سے خبر نقل کی کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلمی شخص کو رجم کروادیا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ مجھ سے اپنے عیوب چھپاؤ جن کو اللہ نے مجھ سے چھپالیا۔ اور جو کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے وہ اس کو چھپائے (اور توبہ تائب ہوجائے) ۔
معمر کہتے ہیں : مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے خبر نقل کی کہ جب ماعز (اسلمی) زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اس طرح کے سوالات کیے تھے : کیا تو نے صرف بوسہ لیا ہے ؟ کیا تو نے جماع کیا ہے ؟ الجامع لعبدالرزاق

13544

13544- عن جابر قال: كنت فيمن رجم ماعزا، فلم يجلده رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
13544 جابر (رض) سے مروی ہے کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے ماعز کو رجم کیا تھا۔ اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جلدۃ (کوڑوں) کی سزا جاری نہیں فرمائی تھی۔ ابن جریر

13545

13545- عن جابر أن رجلا زنى فأمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلد الحد، ثم أخبر أنه كان قد أحصن فأمر به فرجم. "ابن جرير".
13545 جابر (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے زنا کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کو کوڑے لگائے گئے۔ پھر آپ کو بتایا گیا کہ وہ محصن ہے، تب آپ نے اس کے رجم کا حکم دیا پھر اس کو رجم کیا گیا۔ ابن جریر

13546

13546- عن ابن عباس قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بماعز فاعترف مرتين ثم قال: اذهبوا به، ثم قال: ردوه، فاعترف مرتين حتى اعترف أربعا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اذهبوا به فارجموه. "عب".
13546 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ماعزاسلمی کو لایا گیا تو اس نے دو مرتبہ اعتراف زنا کیا۔ آپ نے اس کو واپس کردیا۔ پھر دوبارہ بلوایا تو اس نے دوبارہ پھر زنا کا اعتراف کیا اس طرح چار اعتراف زنا کرلیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو لے جاؤ اور رجم کردو۔ الجامع لعبدالرزاق

13547

13547- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم يهوديين أنا فيمن رجمهما. "ش".
13547 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو یہودیوں کو رجم فرمایا اور میں بھی ان کو رجم کرنے والوں میں شامل تھا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13548

13548- عن ابن عمر قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أتي بيهوديين زنيا، فأرسل إلى قارئهم فجاءه بالتوراة فسأله، أتجدون الرجم في كتابكم؟ فقال: لا ولكن يجبهان ويحممان، فقال، أو قيل له اقرأ فوضع يده على آية الرجم، فجعل يقرا ما حولها فقال: عبد الله بن سلام أخر كفك فأخر كفه، فإذا هو بآية الرجم، فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما، فلقد رأيتهما وأنهما يرجمان وأنه يقيها الحجارة. "عب هـ"
13548 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں اس وقت حاضرین میں شامل تھا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو یہودی لائے گئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے قاری کو بلوایا۔ چنانچہ وہ توراۃ لے کر حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ کیا تم رجم کو اپنی کتاب میں پاتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں ! لیکن دونوں کو مخالف سمتوں میں منہ کرکے جانور پر بٹھا کر گھمایا جائے گا (یہ حکم موجود ہے) چنانچہ اس کو کہا گیا کہ اچھا پڑھ کر سنا۔ اس نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔ اور اس کے گردوپیش کی عبارت پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا : اپنے ہاتھ پیچھے ہٹا۔ اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو آیت الرجم سامنے موجود تھی لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کے لیے حکم دے دیا اور دونوں کو رجم کردیا گیا۔ میں نے ان دونوں کو دیکھا تھا جب ان کو رجم کیا جارہا تھا وہ پتھروں سے اپنا بچاؤ کررہے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن ماجہ

13549

13549- وعنه أن اليهود جاؤا إلى النبي صلى الله عليه وسلم برجل منهم وامرأة قد زنيا، فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: كيف تفعلون بمن زنى منكم؟ قالوا: نضربهما فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فما تجدون في التوراة؟ فقالوا: لا نجد فيها شيئا، فقال عبد الله بن سلام: كذبتم، في التوراة الرجم فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين، فاتوا بالتوراة فوضع مدراسها الذي يدرسها كفه على آية الرجم، فطفق يقرأ ما دون يده وما وراءها ولا يقرأ آية الرجم فنزع عبد الله بن سلام يده عن آية الرجم فقال: ما هذه؟ فلما رأوا ذلك؛ قالوا: هي آية الرجم فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما حيث توضع الجنائز. "عب".
13549 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ یہوداپنے ایک آدمی اور ایک عورت کو لے کر حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ ان دونوں مردو عورت نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم میں سے جو زنا کرتے ہیں تم ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم ان کو مار پیٹ کرتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : توراۃ میں اس کا کیا حکم پاتے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا : ہم توراۃ میں کچھ نہیں پاتے۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے فرمایا : تم جھوٹ بولتے ہو ! توراۃ میں رجم کا حکم موجود ہے۔ توراۃ لاؤ اور اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو۔ چنانچہ یہود توراۃ لے کر آئے۔ ان کے قاری جو توراۃ پڑھا کرتا تھا آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے آگے پیچھے پڑھنے لگا۔ آیت رجم کو نہیں پڑھا۔ عبداللہ بن سلام نے اس کا ہاتھ وہاں سے اٹھایا اور پوچھا یہ کیا ہے ؟ جب یہودیوں نے بھی دیکھ لیا تو تب کہنے لگے : ہاں یہ آیت رجم تو ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ اور جہاں جنازے رکھے جاتے تھے وہاں رجم کردیا گیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13550

13550- عن عمران بن حصين أن امرأة من جهينة اعترفت عند النبي صلى الله عليه وسلم بالزنا، قالت: أنا حبلى، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم وليها فقال: أحسن إليها، فإذا وضعت فأخبرني، ففعل فأمر بها النبي صلى الله عليه وسلم فشدت عليها ثيابها ثم أمر بها فرجمت، ثم صلى عليها، فقال عمر: يا رسول الله رجمتها ثم تصلي عليها؟ فقال: لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين من أهل المدينة لوسعتهم، وهل وجدت شيئا أفضل من جادت بنفسها لله. "عب حم م د ن"1
13550 عمران بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس زنا کا اعتراف کیا اور بتایا کہ میں حمل سے ہوں۔ حضور نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا اس کے ساتھ نیک سلوک رکھو، جب یہ بچہ جن لے تو مجھے بتانا چنانچہ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور اس کے کپڑے اس کے جسم پر باندھ دیئے گئے (کہیں دوران رجم کھل نہ جائیں اور بےپردگی نہ ہوجائے) پھر حکم دیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ایک تو آپ نے اس کو رجم کیا پھر اس پر نماز بھی پڑھتے ہیں ؟ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس نے ایسی (سچی) توبہ کی ہے کہ اگر ستر اہل مدینہ کے درمیان بھی تقسیم کردی جائے تو سب کو کافی ہوجائے گی۔ کیا تم نے اس سے افضل چیز دیکھی ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، النسائی

13551

13551- عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا زنى بيهودية. "عب".
13551 ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کو رجم فرمایا جس نے ایک یہودی عورت کے ساتھ زنا کیا تھا۔ الجامع لعبد الرزاق

13552

13552- عن معمر عن الزهري قال: أخبرني رجل من مزينة ونحن عند ابن المسيب عن أبي هريرة قال: أول مرجوم رجمه رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود زنى رجل منهم وامرأة فتشاور علماؤهم قبل أن يرفعوا أمرهما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم لبعض: إن هذا النبي بعث بتخفيف، وقد علمنا أن الرجم فرض في التوراة فانطلقوا بنا نسأل هذا النبي صلى الله عليه وسلم عن أمر صاحبينا اللذين زنيا بعد ما أحصنا فإن أفتانا بفتيا دون الرجم قبلنا وأخذنا بتخفيف واحتججنا بها عند الله حين نلقاه وقلنا قبلنا فتيا نبي من أنبيائك، وإن أمرنا بالرجم عصينا فقد عصينا الله فيما كتب علينا من الرجم في التوراة، فأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في المسجد في أصحابه، فقالوا، يا أبا القاسم، كيف ترى في رجل منهم وامرأة زنيا بعد ما أحصنا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يرجع إليهما شيئا، وقام معه رجال من المسلمين حتى أتوا بيت مدراس اليهود، وهم يتدارسون التوراة، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على الباب، فقال: يا معشر اليهود انشدكم بالله الذي أنزل التوراة على موسى ما تجدون في التوراة على من زنى إذا أحصن؟ قالوا: يحمم ويجبه، والتحميم أن يحمل الزانيان على حمار، ويقابل أقفيتهما ويطاف بهما، وسكت حبرهم وهو فتى شاب، فلما رآه النبي صلى الله عليه وسلم ألظ به، فقال حبرهم: اللهم إذ نشدتنا فإنا نجد في التوراة الرجم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فما أول ما ارتخصتم أمر الله؟ قالوا: زنى رجل منا ذو قرابة من ملك من ملوكنا فسجنه وأخر عنه الرجم ثم زنى بعده آخر في أسرة الناس، فلما أراد الملك رجمه فحال قومه دونه، فقالوا: لا والله لا يرجم صاحبنا حتى تجيء بصاحبك فترجمه فأصلحوا هذه العقوبة بينهم، قال النبي صلى الله عليه وسلم فإني أحكم بما في التوراة، فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما، قال الزهري: فأخبرني سالم عن ابن عمر قال: لقد رأيتهما حين أمر النبي صلى الله عليه وسلم برجمهما، فلما رجم رأيته يجافي بيديه عنها ليقيها الحجارة، فبلغنا ان هذه الآية أنزلت فيه {إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدىً وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا} وكان النبي صلى الله عليه وسلم منهم. "عب".
13552 معمرزہری (رح) سے روایت کرتے ہیں، زہری (رح) فرماتے ہیں مجھے مزینہ کے ایک شخص نے خبر دی اس وقت ہم ابن المسیب (رح) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : سب سے پہلے جس شخص کو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا وہ یہودیوں کا ایک آدمی تھا جس نے ایک یہود یہ عورت کے ساتھ زنا کیا تھا۔ ان کے علماء نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فیصلہ لے جانے سے پہلے مشورہ کیا کہ اس نبی کو تخفیف (آسان احکام) کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔ جبکہ ہمیں علم ہے کہ توراۃ میں رجم کو فرض کیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم اس نبی کے پاس چلتے ہیں اور ان سے اپنے بندوں کے متعلق سوال کرتے ہیں جنہوں نے زنا کیا ہے اور وہ دونوں محصن۔ شادی شدہ آزاد بھی ہیں۔ پس اگر ہم کو رجم سے آسان فتویٰ ملا تو ہم قبول کرلیں گے اور جب اللہ سے ملیں گے تو ہمارے پاس یہ دلیل ہوگی کہ ہم نے تیرے انبیاء میں سے ایک نبی کے حکم پر عمل کرلیا تھا۔ لیکن اگر ہم کو رجم کا حکم ملا تو ان کی بات نہیں مانیں گے جیسا کہ ہم توراۃ کے حکم پر رجم پر عمل نہیں کیا۔ چنانچہ وہ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما تھے۔ یہود بولے : اے ابوالقاسم ! آپ کیا کہتے ہیں ہمارے ایک آدمی اور ایک عورت نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کھڑے ہوئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ کے ساتھ مسلمان اور دوسرے لوگ بھی اٹھ گئے۔ حتیٰ کہ آپ مدارس الیہود (یہود کی درسگاہ) میں پہنچ گئے۔ وہ توراۃ کو پڑھ پڑھا رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے گروہ یہود ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر توراۃ نازل فرمائی ! بتاؤ تم توراۃ میں اس شخص کے لیے کیا حکم پاتے ہو جو شادی شدہ ہو اور زنا کرلے ؟ علماء یہود بولے : دونوں زانیوں کو سواری پر ایک دوسرے کے مخالف سمت بٹھایا جائے اور لوگ ان کا تماشا کریں۔ لیکن ان کا ایک نوجوان عالم چپ رہا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو اس کو صحیح بات بتانے پر اصرار کیا۔ آخر وہ بولا : اگر آپ نے اللہ کا واسطہ دے ہی دیا ہے تو اللہ ہم جھوٹ نہیں بولیں گے، ہاں ہم توراۃ میں رجم کا حکم پاتے ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : سب سے پہلے جب تم نے اللہ کے حکم میں تساہل اور رخصت برتی اس کی کیا وجہ تھی ؟ وہ بولے : ہمارے ایک آدمی نے زنا کا ارتکاب کرلیا تھا جو ہمارے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا قرابت دار تھا۔ بادشاہ نے اس کو قید کیا اور اس سے رجم کی سزا ٹال دی۔ اس کے بعد عام لوگوں میں سے ایک دوسرے آدمی نے زنا کیا۔ چنانچہ بادشاہ نے جب اس کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو اس آدمی کے قوم والے آڑے آگئے اور بولے اللہ کی قسم ! ہمارا آدمی رجم نہیں ہوگا جب تک کہ آپ بھی اپنے آدمی کو نہ لاکر رجم کرو۔ چنانچہ پھر انھوں نے اپنے درمیان اس سزا کو معطل کرنے پر صلح کرلی۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب میں حکم جاری کرتا ہوں توراۃ کے حکم کا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے لیے حکم دیا اور ان کو رجم کردیا گیا۔
امام زہری (رح) فرماتے ہیں : مجھے سالم نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نے ان دونوں کو دیکھا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے رجم کا حکم دیا تھا جب ان کو رجم کیا جانے لگا تو آدمی اپنے ہاتھوں پر پتھروں کی بارش روک کر عورت کو پتھروں کی زد میں آنے سے بچارہا تھا۔
ہمیں یہ بات منقول ہوئی کہ یہ قرآنی آیت اسی مذکورہ واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی :
انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلمو اللذین ھادوا۔
ہم نے نازل کیا توراۃ کو، اس میں ہدایت اور نور ہے ، فیصلہ کرتے ہیں اس کے ساتھ وہ انبیاء جو تابعدار ہوئے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے یہودیت اختیار کی۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انہی میں سے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13553

13553- عن أبي هريرة قال: جاء الأسلمي نبي الله صلى الله عليه وسلم فشهد على نفسه أنه أصاب امرأة حراما أربع مرات، كل ذلك يعرض عنه فأقبل في الخامسة فقال: أنكتها؟ قال: نعم، قال: حتى غاب ذلك منك في ذلك منها كما يغيب المرود1 في المكحلة والرشاء2 في البئر؟ قال: نعم، قال: هل تدري ما الزنا؟ قال: نعم اتيت منها حراما ما يأتي الرجل من امرأته حلالا، قال: فما تريد بهذا القول؟ قال: أريد أن تطهرني، فأمر به فرجم، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلين من أصحابه يقول أحدهما لصاحبه: انظر إلى هذا الذي ستر الله عليه فلم تدعه نفسه حتى رجم رجم الكلب، فسكت النبي صلى الله عليه وسلم عنهما، ثم سار ساعة حتى مر بجيفة حمار شائل برجله، أين فلان وفلان؟ قال: نحن ذان يا رسول الله، قال: انزلا فكلا من جيفة هذا الحمار، فقالا: يا نبي الله غفر الله لك، من يأكل من هذا؟ قال: فما نلتما من عرض أخيكما آنفا أشد من أكل الميتة والذي نفسي بيده إنه الآن لفي أنهار الجنة ينغمس فيها. "عب د"
13553 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ اسلمی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوا اور اپنے آپ پر چار بار گواہی دی کہ ان سے ایک عورت کے ساتھ حرام کاری سرزد ہوگئی ہے ہر مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض برتتے رہے۔ پھر پانچویں بار اسلمی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا : کیا تو اس پر غالب آگیا تھا ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ پوچھا : کیا تیرا نفس اس میں اس طرح غائب ہوگیا تھا جس طرح سرمچوسرمہ دانی میں اور ڈول کنویں میں غائب ہوجاتا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تو جانتا ہے زنا کیا ہے ؟ عرض کیا : جی ہاں، میں اس عورت سے حرام طریقے سے مبتلا ہوا جس طرح اپنی بیوی کے ساتھ حلال طریقے سے ملتے ہیں۔ آپ نے پوچھا : اب تو اس اقرار سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ عرض کیا : میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اس گناہ سے پاک کردیں۔
چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو آدمیوں کو آپس میں بات چیت کرتے سنا۔ ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا : اس کو دیکھ ! اللہ نے اس کا گناہ چھپایا لیکن اس کے ضمیر نے اس کو چھوڑا نہیں حتیٰ کہ وہ کتے کی طرح سنگسار ہوگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گفتگو سن کر خاموش ہوگئے۔ پھر تھوڑی دور چلے تھے کہ ایک مردار گدھے کے پاس سے گزر ہوا جس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : فلاں اور فلاں کہاں ہیں ؟ دونوں بولے : ہم موجود ہیں یارسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نیچے اترو اور اس مردار گدھے کو کھاؤ۔ دونوں بولے : یا نبی اللہ ! اللہ آپ کی مغفرت کرے، اس کو کون کھائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے جو ابھی اپنے بھائی کی آبروریزی کی وہ تو اس مردار کے کھانے سے زیادہ بری ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ تو ابھی جنت کی نہروں میں غوطے ماررہا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق ، ابوداؤد
کلام : ضعیف ابی داؤد 952 ۔

13554

13554- عن أبي هريرة أن رجلا أتي النبي صلى الله عليه وسلم فأقر عنده بالزنا فأمر به فرجم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: والذي بعث محمدا بالنبوة لقد رأيته في أنهار الجنة يتقمص قلت: ما يتقمص؟ قال: يتنعم. "ابن جرير".
13554 حضرت ابورہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور زنا کا اقرار کیا۔ آپ نے حکم دیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو نبوت دے کر بھیجا میں نے اس کو جنت کی نہروں میں عیش و عشرت کرتے دیکھا ہے۔
ابن جریر

13555

13555- عن ابن جريج عن إبراهيم عن محمد بن المنكدر أن النبي صلى الله عليه وسلم رجم امرأة، فقال بعض المسلمين: حبط عمل هذه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذه كفارة لما عملت وتحاسب انت بما عملت. "عب".
13555 عن ابن جریج عن ابراہیم عن محمد بن المنکدر کی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کو رجم فرمایا۔ کسی مسلمان نے کہا : اس عورت کا تو سارا عمل بےکار ہوگیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے جو کچھ بھی کیا یہ رجم اس (کے گناہوں) کا کفارہ ہے اور تو نے جو عمل کیا (یہ نازیبا گفتگو کی) اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13556

13556- عن الزهري انه كان ينكر الجلد مع الرجم ويقول: قد رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يذكر الجلد. "عب".
13556 امام ابن شہاب زہری (رح) سے مروی ہے کہ وہ جلد (کوڑوں) اور رجم (سنگساری) دونوں کی سزا ایک ساتھ دینے کا انکار فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا ہے اور جلد (کوڑوں) کا ذکر نہیں فرمایا ۔ الجامع لعبد الرزاق

13557

13557- عن ابن عيينة عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب أن رجلا من أسلم أتى عمر فقال: إن الأخر1 قد زنى قال: فتب إلى الله، واستتر بستر الله، فإن الله يقبل التوبة عن عباده وإن الناس يعيرون ولا يغيرون فلم تدعه نفسه حتى أتى أبا بكر؛ فقال مثل قول عمر، فلم تدعه نفسه حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فأعرض عنه فأتاه من الشق الآخر فأعرض عنه فأتاه من الشق الآخر، فذكر ذلك له، فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى قومه فسألهم عنه أبه جنون؟ أبه ريح؟ فقالوا: لا، فأمر به فرجم، قال ابن عيينة: فأخبرني عبد الله بن دينار قال: قام النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر، فقال: يا أيها الناس؛ اجتنبوا هذه القاذورة التي نهاكم الله عنها، ومن أصاب من ذلك شيئا فليستتر، قال يحيى بن سعيد عن نعيم عن عبد الله بن هزال أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لهزال: لو سترته بثوبك كان خيرا لك، قال وهزال الذي كان أمره أن يأتي النبي صلى الله عليه وسلم فيخبره، وعن ابن المسيب قال: سنة الحد أن يستتاب صاحبه إذا فرغ من جلده. "عب".
13557 عن ابن عینیہ عن یحییٰ بن سعید عن سعید بن المسیب کی سند سے مروی ہے کہ بنی اسلم کا ایک شخص حضرت عمر (رض) کے پاس گیا اور اپنے آپ کے متعلق بولا اس کمینے نے زنا کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے مشورہ دیا کہ تم اللہ سے توبہ کرلو اور اپنے گناہ پر اللہ کا ڈالا ہوا پردہ نہ اٹھاؤ۔ بیشک اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، جبکہ لوگ عار اور شرم دلاتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کا ضمیر نہ مانا اور وہ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا اور آپ (رض) نے بھی وہی بات کی جو حضرت عمر (رض) نے کہی تھی ۔ لیکن اس کا ضمیر اس کو جھنجھوڑتا رہا اور بالآخر وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا اور اپنی جرم کاری سنائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض برتا (شاید وہ لوٹ جائے) اسلمی دوسری جانب سے آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر دوسری جانب منہ کرلیا۔ وہ پھر اس جانب آیا اور اپنا جرم بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی قوم والوں کے پاس پیغام بھیج کر ان کو بلوایا اور ان سے پوچھا : کیا یہ شخص مجنون ہے ؟ کیا اس کو کوئی دماغی بیماری ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا اور اس کو رجم کردیا گیا۔
ابن عینیہ (رح) کہتے ہیں : مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی کہ (اس کے بعد) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : اے لوگو ! گندگی سے بچو، جس سے اللہ نے تم کو منع کیا ہے اور جس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے وہ اس کو چھپائے۔
یحییٰ بن سعید عن نعیم عن عبداللہ بن ھزال کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھزال کو فرمایا : اگر تم اپنا یہ گناہ اپنے کپڑے کے ساتھ چھپاتے تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔
ھزال وہ شخص تھا جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر خبر دیتا تھا ابن المسیب (رح) فرماتے ہیں : حد لگانے کی سنت یہ ہے کہ جب آدمی پر حد جاری کردی جائے تو اس کو گزشتہ گناہ سے توبہ کرنے کو کہا جائے۔

13558

13558- عن الشعبي أن النبي صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا ويهودية. "ش".
13558 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی آدمی اور ایک یہودیہ عورت کو رجم فرمایا تھا۔ المصنف لا بن ابی شیبہ

13559

13559- عن عبيد بن عمير أن امرأة زنت فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقال لها: أحامل أنت؟ قالت: نعم فقال: اذهبي فإذا وضعت فأتيني، فلما وضعته جاءته فقال: اذهبي فأرضعيه، وإذا فطمتيه فأتيني، فلما فطمته جاءته، قال: اذهبي فاستودعيه، ثم أتيني فذهبت فاستودعته، ثم جاءته فأمر برجمها فرجمت فسبها بعض من كان عنده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أتسبون امراة لم تزل مجاهدة نفسها حتى أدت الذي عليها. "عب ن".
13559 عبید بن عمیر (رح) سے مروی ہے کہ ایک عورت سے زنا سرزد ہوگیا۔ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی۔ آپ نے اس پوچھا کیا تو حمل سے ہے ؟ عورت نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : تب تو جا اور جب بچہ جن لے تب آنا۔ چنانچہ وہ عورت بچے کا دودھ چھڑانے کے بعد پھر حاضر خدمت ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جا اس بچے کو کسی کے سپرد کرکے آ۔ چنانچہ وہ بچہ کسی کے حوالہ کرکے پھر حاضر خدمت ہوئی۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس کو رجم کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضرین میں سے کسی نے اس عورت کو برا بھلا کہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم ایسی عورت کو برابھلا کہتے ہو جو مسلسل اپنے نفس سے جہاد کرتی رہی حتیٰ کہ اپنے ذمے خدا کے حکم کو ادا کردیا۔
الجامع لعبد الرزاق ، النسائی

13560

13560- عن ابن جريج عن عطاء أن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: زنيت فأعرض عنه، ثم قالها الثانية فأعرض عنه، ثم قالها الثالثة فأعرض عنه، ثم قال الرابعة فقال: ارجموه فجزع ففر، فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: فر يا رسول الله فقال: هلا تركتموه. "ن".
13560 عن ابن جریج عن عطاء کی سند سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا۔ اس نے دوبارہ کہا۔ آپ نے پھر منہ موڑ لیا۔ اس نے تیسری بار کہا آپ نے پھر اعراض کرلیا۔ جب اس نے چوتھی بار کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو رجم کردو۔ جب اس کو رجم کیا جانے لگا تو وہ گھبرا کر بھاگ پڑا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی کہ یارسول اللہ ! وہ تو بھاگ پڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تم اس کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ النسائی

13561

13561- عن عطاء بن أبي رباح أن امرأة أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاعترفت على نفسها بالزنا وهي حامل، فقال: اذهبي حتى تضعي، فلما وضعته جاءته فقال: اذهبي فأرضعيه حتى تفطميه فلما فطمته جاءت به، فأمر بها فرجمت. "عب ن".
13561 عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئی اور زنا کا اعتراف کیا۔ وہ حاملہ تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جا اور جب بچہ جن لے پھر آنا۔ چنانچہ (ایک عرصہ بعد) وہ بچے کی ولادت کے بعد حاضر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جا اس کو دودھ پلا، جب اس کا دودھ چھوٹ جائے تو پھر آنا۔ چنانچہ جب اس کا دودھ چھوٹ گیا وہ پھر اگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے حکم ارشاد فرمایا اور اس کو رجم کردیا گیا۔ الجامع لعبد الرزاق، النسائی

13562

13562- عن علي قال: فجرت جارية لآل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا علي انطلق فأقم عليها الحد، فانطلقت فإذا بها دم يسيل لم ينقطع فأتيته فقال: يا علي أفرغت؟ قلت أتيتها ودمها يسيل، فقال: دعها حتى ينقطع دمها ثم أقم عليها الحد وأقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم. "ط د ن ع"
13562 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی باندی نے زنا کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ! جا اور اس پر حد جاری کردے۔ میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ابھی اس کو خون جاریے (یعنی ابھی اس نے بچے کو جنا نہیں ہے) چنانچہ میں واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے علی ! کیا تم اپنے کام سے فارغ ہوگئے ؟ میں نے عرض کیا : میں اس کے پاس پہنچا تو اس کا خون ابھی جاری تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چلو اس کو چھوڑ دو جب تک کہ اس کا خون تھم جائے (یعنی وہ بچہ جن لے) پھر اس پر حد جاری کردینا ۔ اور اپنے غلام باندیوں پر حد جاری کرتے رہو۔
ابوداؤد، السنن لابن الامام احمد بن حنبل، النسائی ، مسند ابی یعلی

13563

13563- عن عبد الكريم أن عليا وابن مسعود قالا في الأمة إذا استكرهت إن كانت بكرا فعشر ثمنها، وإن كانت ثيبا فنصف عشر ثمنها. "عب".
13563 عبدالکریم سے مروی ہے کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ اگر باندی کے ساتھ زنا بالجبر کیا جائے تو اگر وہ باکرہ (کنواری) ہو تو اس کی قیمت کا دسواں حصہ مالک کو دیا جائے گا اور اگر وہ ثیبہ (اس کے ساتھ وطی کی جاچکی ہو) تو ھپر اس کی قیمت کا بیسواں حصہ مالک کو دیا جائے گا۔ زنا کرنے والا یہ قیمت ادا کرے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13564

13564- عن أنس قال: ليس على المملوكين نفي ولا رجم. "عب".
13564 حضرت انس (رض) سے مروی ہے فرمایا : غلام باندیوں پر جلاوطنی اور رجم کی سزا نہیں ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

13565

13565- عن صالح بن كرز أنه جاء بجارية له زنت إلى الحكم بن أيوب قال: فبينا أنا جالس إذ جاء أنس بن مالك فجلس فقال: يا صالح ما هذه الجارية معك؟ قلت: جارية لي بغت فأردت ان أرفعها إلى الإمام ليقيم عليها الحد، فقال: لا تفعل رد جاريتك واتق الله واستر عليها، قلت: ما انا بفاعل قال: لا تفعل وأطعني، فلم يزل يراجعني حتى رددتها. "عب".
13565 صالح بن کرز سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری باندی نے زنا کیا اس کو لے کر حکم بن ایوب کے پاس آیا۔ میں ابھی بیٹھا تھا کہ حضرت انس بن مالک (رض) تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ آپ نے پوچھا : اے صالح ! یہ باندی تیرے ساتھ کیوں ہے ؟ میں نے عرض کیا : یہ میری باندی ہے، اس نے زنا کیا ہے، میرا ارادہ ہوا کہ حاکم کے سامنے کو پیش کروں تاکہ وہ اس پر حد جاری کردے۔ حضرت انس (رض) نے فرمایا : ایسا نہ کر، بلکہ اپنی باندی کو واپس لے جا۔ اللہ سے ڈر اور اس پر پردہ ڈال لے۔ میں نے عرض کیا : میں ایسا نہیں کرسکتا۔ آپ (رض) نے فرمایا : ایسا نہ کر میری بات مان لے۔ چنانچہ وہ مجھے بار بار کہتے رہے آخر میں باندی کو واپس لے آیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13566

13566- عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن زيد بن خالد وشبل وأبي هريرة قالوا: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتاه رجل فسأله عن الأمة تزني قبل أن تحصن؟ قال: اجلدها، فإن عادت فاجلدها، فإن عادت فاجلدها قال في الثالثة أو الرابعة فبيعوها ولو بضفير. "ن".
13566 عن الزھری عن عبیداللہ بن عبداللہ کی سند سے مروی ہے کہ زید بن خالد، شبل اور ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور زانیہ باندی کے متعلق سوال کیا۔ جس سے ابھی اس کے شوہر نے وطی نہ کی ہو ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کوڑے مارو۔ اگر پھر کے پھر مارو۔ پھر کرے، پھر مارو۔ تیسری یا چوتھی بار فرمایا : پھر اس کو فروخت کردو خواہ ایک مینڈھی بالوں کے عوض کیوں نہ فروخت کرو۔ النسائی

13567

13567- عن ابن عباس قال: فجرت أمة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لعلي حدها، فكف عنها حتى وضعت ثم جلدها خمسين، ثم أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره فقال أصبت. "ابن جرير".
13567 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی سے زنا سرزد ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو فرمایا : اس کو لے جاکر حد جاری کرو۔ حضرت علی (رض) سے حد جاری کرنے سے رکے رہے حتیٰ کہ اس نے بچہ جنم دے لیا پھر حضرت علی (رض) نے اس کو پچاس کوڑے مارے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے اور ساری خبر کہہ دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم نے ٹھیک کیا۔ ابن جریر

13568

13568- عن ابن عباس قال: لا حد على عبد ولا على معاهد. "عب".
13568 حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : غلام اور ذمی پر حد نہیں ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

13569

13569- عن عطاء أن ابن عباس كان لا يرى على عبد حدا إلا أن تحصن الأمة بنكاح فيكون عليها شطر العذاب. "عب".
13569 حضرت عطاء (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) غلام پر حد کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ ہاں باندی وہ بھی اگر محصنہ ہو (یعنی اس سے شوہر نے وطی کرلی ہو) تو پھر اس پر نصف سزا (پچاس کوڑے کی) ہوگی۔ الجامع لعبدالرزاق

13570

13570- عن ابن عباس قال: ليس على الأمة حد حتى تحصن بحر. "عب".
13570 ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا : باندی پر حد نہیں ہے جب تک کہ وہ آزاد مرد کے ساتھ نکاح کے بعد وطی نہ کر والے۔ الجامع لعبد الرزاق

13571

13571- عن عمر أنه سئل عن حد الأمة فقال: إن الأمة قد القت فروة رأسها من وراء الجدار. "عب ش وأبو عبيد في الغريب وابن جرير ن".
13571 حضرت عمر (رض) سے باندی کی حد کے بارے میں سوال کیا گیا تو ارشاد فرمایا : باندی تو اپنے سر کی زینت بھی اتار کر دیوار کے پرے پھینک دیتی ہے (اس پر کیا حد جاری ہوگی) ۔
الجامع لعبد الرزاق، المصنف لا بن ابی شیبہ، ابوعبید فی الغریب ابن جریر، النسائی

13572

13572- عن ابن عمر في الأمة قال: إذا كانت ليست بذات زوج فزنت جلدت نصف ما على المحصنات من العذاب يجلدها سيدها وإن كانت من ذوات الأزواج رفع أمرها إلى السلطان. "عب".
13572 ابن عمر (رض) باندی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں اگر وہ شوہر والی نہ ہو اور زنا کرلے تو اس کو عام آزاد عورتوں کا نصف عذاب ہوگا (یعنی پچاس کوڑے) اور یہ اس کا آقا اس کو سزا دے گا۔ اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کا فیصلہ بادشاہ کرے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13573

13573- عن أبي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا زنت وليدة أحدكم فليضربها بكتاب الله ولا يثرب1 عليها، ثم إن عادت فليضربها بكتاب الله ولا يثرب عليها، فإن عادت فليضربها بكتاب الله ولا يثرب عليها، ثم إن زنت الرابعة فليضربها بكتاب الله ثم فليبعها ولو بحبل من شعر، وفي لفظ: ولو بعقيص من شعر، وفي لفظ: ولو بنقيض. "ابن جرير".
13573 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جب تم میں سے کسی کی باندی زنا کرلے تو وہ (یعنی اس کا آقا) اس کو کتاب اللہ کی روشنی میں کوڑے مارے اور ات کو تنگ نہ کرے۔ وہ پھر زنا کرے تو پھر مارے اور مزید تنگ نہ کرے۔ اگر پھر کرے پھر مارے اور اس کو مزید تنگ نہ کرے اگر چوتھی بار زنا کرے تو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق سزا دے اور پھر خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض اس کو فروخت کردے۔ ابن جریر

13574

13574- عن الزهري عن زيد بن خالد أو خالد أو غيره وأبي هريرة قالا: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن أمتي زنت، فقال: اجلدها، قال: عادت، قال: اجلدها، قال: عادت، قال: اجلدها، قال: عادت، قال: اجلدها، قال له عند الثالثة أو الرابعة: بعها ولو بضفير "ابن جرير".
13574 زہری (رح) حضرت زید بن خالد اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میری باندی نے زنا کیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کوڑے مارو۔ وہ پھر آیا اور اس نے کہا : اس نے دوبارہ حرکت کی ہے۔ فرمایا کوڑے مارو۔ وہ پھر آیا اور بولا : اس نے پھر حرکت کی ہے۔ آپ نے فرمایا کوڑے مارو۔ اس نے پھر آکر شکایت کی آپ نے فرمایا : کوڑے مارو۔ تیسری یا چوتھی بار یہ فرمایا : اس کو فروخت کردو خواہ ایک مینڈھی بالوں کے عوض کیوں نے فروخت کرو۔ ابن جریر

13575

13575- عن الحسن بن محمد أن فاطمة بنت محمد صلى الله عليه وسلم جلدت أمة لها الحد زنت. "عب".
13575 حسن بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک باندی کو جس نے زنا کیا تھا حدجاری فرمائی۔ الجامع لعبد الرزاق

13576

13576- عن عكرمة أن جارية للنبي صلى الله عليه وسلم زنت فأمر عليا أن يجلدها فجلدها خمسين جلدة فأخبر علي النبي صلى الله عليه وسلم أن قد جلدها خمسين، فقال: أحسنت. "عب".
13576 حضرت عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک باندی نے زنا کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ اس کو کوڑے ماریں۔ حضرت علی (رض) نے اس کو پچاس کوڑے مارے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ انھوں نے باندی کو پچاس کوڑے مارے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے اچھا کیا۔ الجامع لعبدالرزاق

13577

13577- عن الزهري قال: مضت السنة أن يحد العبد والأمة أهلوهما في الفاحشة إلا أن يرفع أمرهما إلى السلطان فليس لأحد أن يفتات1 على السلطان. "عب".
13577 زہری (رح) سے مروی ہے فرمایا سنت یہ ہے کہ غلام اور باندی فحش کام کا ارتکاب کرے تو ان کے گھر والے ہی ان پر حد جاری کردیں۔ لیکن اگر ان کا فیصلہ بادشاہ کے پاس لے جایا جائے تو پھر کسی کو درمیان میں آنے کی گنجائش نہیں۔ الجامع لعبد الرزاق

13578

13578- عن حرقوص الضبي قال: أتت امرأة إلى علي فقالت: إن زوجي زنى بجاريتي، فقال زوجها: صدقت هي وما لها لي حل، قال: اذهب ولا تعد كأنه درأ عنه بالجهالة. "عب هق"
13578 حقوص الضبی سے مروی ہے کہ ایک عورت حضرت علی (رض) کے پاس آئی اور عرض کیا میرے شوہر نے میری باندی کے ساتھ زنا کرلیا ہے۔ عورت کے شوہر نے کہا : یہ سچ کہتی ہے اور جو اس (میری بیوی) کا ہے وہ میرے لیے حلال تو ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : جا آئندہ ایسا نہ کرنا گویا اس کی جہالت کی وجہ سے اس حد کو ساقط کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13579

13579- عن سلمة بن المحبق قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل وطئ جارية امرأته، إن كان استكرهها فهي حرة وعليه لسيدتها ثمنها وإن كانت طاوعته فهي له وعليه لسيدتها مثلها. "ن"
13579 سلمۃ بن المحبق سے مروی ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کی باندی سے زنا کرلے اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا ہے کہ اگر باندی کو زبردستی مجبور کیا ہو تو وہ آزاد ہے اور اس کی قیمت اپنی بیوی کو ادا کردے۔ اور اگر وہ اپنی رضامندی کے ساتھ آمادہ ہوئی ہو تو وہ باندی شوہر کی ہے اور اس کے ذمہ اس کی قیمت بیوی کو ادا کرنا لازم ہے۔ النسائی

13580

13580- عن ابن عباس في الذي يقع على البهيمة قال: ليس عليه حد. "عب".
13580 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جو آدمی جانور سے وطی کرے اس پر حد نہیں ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

13581

13581- "مسند عمر" عن زيد بن أسلم قال: أتي عمر برجل قد وقع على أمته وقد زوجها فضربه ضربا ولم يبلغ به الحد. "ش".
13581 (مسند عمر (رض)) زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے اپنی باندی کے ساتھ وطی کرلی تھی حالانکہ وہ اس کی کسی اور کے ساتھ شادی کرچکا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو اتنی سزاد ی جو حد سے کم تھی۔ المصنف لا بن ابی شیبہ

13582

13582- عن عمر ليس على من أتى بهيمة حد. "ش".
13582 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرے اس پر حد نہیں ہے۔ المصنف لابن ابی شیبۃ

13583

13583- عن سويد بن غفلة أن رجلا من أهل الذمة نخس بامرأة من المسلمين حمارها، ثم جابذها2 فحال بينه وبينها عوف بن مالك فضربه، فأتى عمر فذكر ذلك له، فدعا بالمرأة، فسألها فصدقت عوفا، فأمر به فصلب، ثم قال عمر: أيها الناس. اتقوا الله في ذمة محمد، فلا تظلموهم، فمن فعل منهم مثل هذا فلا ذمة له. "الحارث".
13583 سوید بن غفلۃ سے مروی ہے کہ ایک ذمی (غیر مسلم) نے مسلمانوں کی ایک عورت جو گدھے پر سوار تھی اس کے گدھے کو کچوکا لگایا اور پھر عورت کو اپنی طرف کھینچا۔ لیکن حضرت عوف بن مالک اس کے اور عورت کے درمیان آگئے۔ لیکن ذمی نے حضرت عوف (رض) کو مارا۔ حضرت عوف (رض) نے حضرت عمر خلیفہ کو شکایت کی۔ حضرت عمر (رض) نے عورت کو بلایا اس سے سوال کیا۔ اس نے حضرت عوف (رض) کی بات کی تصدیق کی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) کے حکم پر ذمی آدمی کو سولی دیدی گئی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے (خطبہ ارشاد) فرمایا : کہ اے لوگو ! محمد کے ذمہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ پس لوگوں پر ظلم نہ کرو پس جس ذمی نے ایسا کچھ کیا تو اس کا کوئی ذمہ نہیں۔ الحارث

13584

13584- عن ابن عباس أن امرأة مجنونة أصابت فاحشة فأمر عمر برجمها فقال علي: أما علمت أن القلم مرفوع عن ثلاثة: عن النائم حتى يستيقظ، وعن المبتلى حتى يبرأ، وعن الصبي حتى يحتلم؟ قال: فما بال هذه فخلى سبيلها. "عب ق".
13584 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک پاگل عورت سے فحش (زنا) کا کام سرزد ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ (احکام شریعت کا) قلم تین شخصوں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ سونے والے سے جب تک کہ وہ بیدار ہو، مجنون (پاگل) سے جب تک کہ وہ صحت یاب ہو اور بچے سے جب تک کہ وہ بالغ ہو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پھر اس کا کیا حال ہے، چنانچہ اس کو چھوڑ دیا۔ الجامع لعبدالرزاق، السنن للبیہقی

13585

13585- عن عطاء وغيره قالوا: بلغ عمر أن ابن أبي يثربي يصيب جارية عبده، فدعاه فسأله، فقال: وما بأس بذلك، فأشار إليه على الذبح فأنكر ذلك ابن أبي يثربي، فقال: أما والله لو أقررت بذلك لرجمتك، قال عطاء وغيره لم يكن ليرجمه ولكن فرقه "عب".
13585 حضرت عطاءؒ وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کو خبر ملی کہ ابن ابی یثربی اپنے غلام کی (شادی شدہ) باندی کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے۔ آپ (رض) نے اس کو بلایا اور اس سے پوچھا : تو اس نے کہا : تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو قتل کا اشارہ کیا۔ ابن ابی یثربی نے اس کا انکار کیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بہرحال اللہ کی قسم ! اگر تم اقرار کرلیتے تو تم کو رجم کردیتا۔
عطاء (رح) وغیرہ فرماتے ہیں : آپ (رض) اس کو پھر بھی رجم نہ فرماتے بلکہ یہ فرمانا اس کو ڈرانے کے لیے تھا۔
مترجم عرض کرتا ہے کیونکہ رجم کے لیے شرط ہے کہ الشیب بالشیب یعنی آزاد شادی شدہ آزاد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرے تو رجم لازم ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں ایسا نہیں۔ اور غلام کی باندی سے مراد ہے یعنی ان کے غلام نے جس باندی کے ساتھ شادی کررکھی تھی۔ کیونکہ اگر وہ غلام کی ملک ہوتی تو وہ مالک کی ملک ہوتی۔ اگر ایسی صورت ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ واللہ اعلم بالصواب

13586

13586- عن قبيصة بن ذؤيب أن رجلا وقع على وليدته وكانت عند عبده فجلده عمر بن الخطاب مائة جلدة. "عب".
13586 قبیصہ بن ذویب سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی باندی کے ساتھ وطی کرلی حالانکہ وہ اس کے غلام کے ساتھ شادی شدہ تھی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو سو کوڑے مارے۔
الجامع لعبد الرزاق

13587

13587- عن عطاء في رجل طلق امرأته ثلاثا، ثم أصابها وأنكر أن يكون طلقها، فشهد عليه بطلاقها، قال: يفرق بينهما، وليس عليه رجم ولا عقوبة، قال ابن جرير: وبلغني أن عمر بن الخطاب قضى بمثل ذلك. "ن".
13587 حضرت عطاءؒ نے ایسے آدمی کے لیے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھیں پھر اس کے ساتھ ہم بستر ہوا اور طلاق دینے کا انکار کیا تو اس پر شہادت دی گئی کہ یہ واقعی طلاق دے چکا ہے تو حضرت عطاء نے فیصلہ فرمایا کہ دونوں کو جدا جدا کردیا جائے اور اس پر رجم ہے اور نہ کوئی سزا۔
ابن جریر (رح) فرماتے ہیں : مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بھی ایسی صورت میں ایسا ہی فیصلہ فرمایا۔ النسائی

13588

13588- عن ابن جريج قال: رفع إلى عمر بن الخطاب أن رجلا وقع على جارية له فيها شرك فأصابها فجلده عمر مائة سوط إلا سوطا. "ن".
13588 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک مقدمہ پیش ہوا جس میں ایک آدمی نے اپنی باندی کے ساتھ ہم بستری کرلی لیکن اس باندی میں دوسرا شخص بھی حصہ دار تھا (جس کی وجہ سے کسی کے لیے اس سے وطی حلال نہ تھی) چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس مالک کو ایک کم سو کوڑے مارے۔ النسائی

13589

13589- عن أبي عثمان النهدي قال: شهد أبو بكرة ونافع وشبل بن معبد على المغيرة بن شعبة أنهم نظروا إليه كما ينظر المرود2 في المكحلة فجاء زياد، فقال عمر: جاء رجل لا يشهد إلا بحق، فقال: رأيت مجلسا قبيحا وابتهارا فجلدهم عمر الحد. "عب".
13589 حضرت ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ ابوبکرۃ، نافع اور شبل بن معبد نے جب مغیرہ پر (زنا کی) گواہی دے دی کہ انھوں نے مغیرہ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ گویا سرمچو۔ سرمہ دانی میں غائب ہوجاتی ہے۔ پھر زیاد (چوتھا گواہ) آیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یہ ایسا آدمی آیا ہے جو حق بات کے سوا کسی بات کی شہادت نہیں دے گا۔ چنانچہ اس نے کہا : میں نے بری حالت اور برامنظر دیکھا ہے۔ (چونکہ اس نے پہلے والوں کی طرح واضح زنا کی گواہی نہ دی اس لیے زنا کا ثابت تو نہ ہوا لیکن پہلے تین گواہوں پر تہمت کی حد لازم ہوگئی) چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان تینوں کو حد جاری فرمائی۔ الجامع لعبد الرزاق

13590

13590- عن أبي الضحى أن عمر حين شهد الثلاثة أودى3 المغيرة الأربعة. "عب".
13590 ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ جب تین گواہوں نے گواہی دے لی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : چوتھے کی گواہی مغیرہ کو ہلا کردے گی۔ الجامع لعبدالرزاق

13591

13591- عن القاسم بن محمد أن أبا السيارة أولع بامرأة أبي جندب يراودها عن نفسها، فقالت: لا تفعل، فإن أبا جندب إن يعلم بهذا يقتلك، فأبي أن ينزع فكلمت أخا أبي جندب، فكلمه فأبى أن ينزع، فأخبرت بذلك أبا جندب فقال أبو جندب: إني مخبر القوم أني أذهب إلى الإبل فإذا أظلمت جئت فدخلت البيت فإن جاء فأدخليه علي، فودع أبو جندب القوم وأخبرهم أنه ذاهب إلى الإبل، فلما أظلم الليل جاء وكمن في البيت وجاء أبو السيارة وهي تطحن في ظلمتها فراودها عن نفسها فقالت له: ويحك أرأيت هذا الأمر الذي تدعوني إليه هل دعوتك إلى شيء منه قط؟ قال: لا، ولكن لا صبر لي عنك، فقالت: ادخل البيت حتى أتهيأ لك، فلما دخل البيت أغلق أبو جندب الباب، ثم أخذه فدق من عنقه إلى عجب1 ذنبه، فذهبت المرأة إلى أخي أبي جندب، فقالت: أدرك الرجل، فإن أبا جندب قاتله، فجعل أخوه يناشده الله فتركه، وحمله أبو جندب إلى مدرجة الإبل فألقاه، فكان كلما مر به إنسان قال له: ما شأنك؟ فيقول: وقعت عن بكر فحطمني فأمسى محدودبا ثم أتى عمر بن الخطاب فشكا إليه فبعث عمر إلى أبي جندب فأخبره بالأمر على وجهه، فأرسل إلى أهل الماء، فصدقوه فجلد عمر أبا السيارة مائة جلدة وأبطل ديته. "الخرائطي في اعتلال القلوب".
13591 قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ابوالسیارۃ ابوجندب کی بیوی پر فریفتہ ہوگیا۔ اور اس کو بہلانے پھسلانے لگا۔ لیکن ابوجندب کی بیوی نے انکار کردیا اور کہا : ایسانہ کر، اگر ابوجندب کو معلوم ہوگیا تو وہ تجھے قتل کردے گا۔ لیکن ابوالسیارۃ نے باز آنے سے انکار کردیا۔ بیوی نے ابوجندب کے بھائی سے بات کی۔ ابوجندب کے بھائی نے ابوالسیارۃ کو سمجھایا لیکن وہ پھر بھی باز نہ آیا۔ ابوجندب کی بیوی نے اپنے شوہر کو بتایا۔ ابوجندب نے کہا : میں لوگوں کو کہہ کرجاتا ہوں کہ میں اونٹوں کے پاس جارہا ہوں (ابوالسیارۃ کو علم ہوجائے گا) پھر تاریکی میں آکر میں گھر میں چھپ جاؤں گا پھر وہ آئے تو تم اس کو اندر میرے پاس بلالینا۔ چنانچہ ابوجندب لوگوں کو کہہ کر کہ میں اونٹوں کے پاس (شہر سے باہر باڑے پر) جارہا ہوں، چلے گئے۔ چنانچہ جب تاریکی چھا گئی تو وہ چھپ کر واپس آگئے اور کمرے کے اندر چھپ گئے۔ پھر ابوالسیارۃ آیا اور ابو جندب کی بیوی رات کی تاریکی میں آٹا پیس رہی تھی۔ چنانچہ ابوالسیارۃ نے آکر ابوجندب کی بیوی کو پھسلانا چاہا۔ ان کی بیوی بولی : افسوس ہے تجھ پر ! کیا اس کام پر میں نے کبھی بھی تجھے پھسلایا ہے ؟ ابوالسیارہ بولا : ہرگز نہیں۔ لیکن مجھے بغیر صبر نہیں ہوتا۔ بیوی بولی : اچھا اندر کمرے میں چل ! میں تیرے لیے تیار ہو کر آتی ہوں۔ چنانچہ جیسے ہی ابوالسیارۃ کمرے میں داخل ہوا۔ ابوجندب جو اندر ہی تھے انھوں نے کمرے کا دروازہ بند کرلیا پھر ابوالسیارۃ کو پکڑ کر گدی سے لے کر نیچے تک خوب مارنا شروع کردیا۔ ابوجندب کی بیوی ابوجندب کے بھائی کے پاس گئی اور بولی آدمی کو بچالو۔ ورنہ ابو جندب اس کو قتل کردے گا۔ چنانچہ ان کے بھائی نے ان کو اللہ کا واسطہ دے کر روکا تو انھوں نے چھوڑ دیا پھر ابوجندب نے ابوالسیارۃ کو اٹھا کر اونٹوں کے راستے پر باہر پھینک دیا۔ پھر جب بھی ان کے پاس سے کوئی گزرتا اور ان سے ان کی حالت کا پوچھتا تو وہ کہتا : میں اونٹ سے گرگیا تھا پھر اونٹ نے اوپر سے مجھے کچل دیا جس کی وجہ سے میں کبڑا ہوگیا ہوں۔
پھر ابو السیارۃ نے آکر حضرت عمر (رض) کو شکایت کی (حضرت عمر (رض)) نے پیغام بھیج کر ابو جندب کو بلایا۔ ابوجندب سارا واقعہ سچا سچا کہہ سنایا۔ حضرت عمر (رض) نے اہل ماء (لوگوں) کو بلایا تو انھوں نے بھی ابوجندب کی بات کی تصدیق کی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ابوالسیارۃ کو سو کوڑے مارے اور ان کی دیت کو بھی باطل کردا۔ (یعنی ان کے لیے ابوجندب پر کوئی تاوان نہیں) ۔
الخرائطی فی اعتدال القلوب

13592

13592- "مسند علي رضي الله عنه" عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: خطب علي فقال: أيها الناس، أقيموا على أرقائكم الحدود، من أحصن، ومن لم يحصن، فإن أمة لرسول الله صلى الله عليه وسلم زنت فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقيم عليها الحد، فأتيتها، فإذا هي حديثة عهد بنفاس فخشيت إن أنا جلدتها أن تموت فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت له، فقال: أحسنت اتركها حتى تماثل. "ط حم م ت ع وابن جرير وابن الجارود قط ك هق"
13592 (مسند علی (رض)) ابوعبدالرحمن السلمی (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا : اے لوگو ! اپنے غلاموں باندیوں پر حدود زنا نافذ کرو خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ بیشک ایک مرتبہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی نے زنا کرلیا تھا تو آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اس پر حد قائم کروں۔ چنانچہ میں اس باندی کے پاس پہنچا تو اس کو نفاس کی حالت میں پایا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر میں اس پر حد نافذ کروں گا تو وہ موت کے منہ میں چلی جائے گی، چنانچہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آگیا اور آپ کو خبر بیان کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اچھا کیا۔ اس کو چھوڑ دو حتیٰ کہ وہ تندرست ہوجائے۔ مسند ابی داؤد، مسند احمد، مسلم، الترمذی، مسند ابی یعلی، ابن جریر، ابن الجارود، الدارقطنی فی السنن، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی قال الترمذی حدیث حسن صحیح

13593

13593- عن علي قال: أكثر على مارية قبطي ابن عم لها يزورها ويختلف إليها، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذ هذا السيف فانطلق، فإن وجدته عندها فاقتله، قلت: يا رسول الله أكون في أمرك كالسكة "كالسكة: السك: المسمار، والسكة: حديدة تحرث بها الأرض. المختار "243" ب" المحماة لا أرجع حتى أمضي لما أمرتني؟ أم الشاهد يرى ما لا يرى الغائب؟ قال: بل الشاهد يرى ما لا يرى الغائب، فأقبلت متوشحا السيف فوجدته عندها فاخترطت السيف فلما رآني أقبلت نحوه عرف أني أريده، فأتى نخلة، فرقي ثم رمى بنفسه على قفاه، ثم شغر برجله فإذا به أجب أمسح ماله قليل ولا كثير، فغمدت السيف، ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: الحمد الله الذي يصرف عنا أهل البيت. "البزار وابن جرير حل ص" قال ابن حجر إسناده حسن.
13593 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ماریہ قبطی (جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی اور آپ کے بچے کی ماں بھی تھیں) کا ایک چچازاد تھا جو اکثر ان کے پاس ملنے آتا تھا اور آتا جاتا رہتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : یہ تلوار لے لے اور جا، اگر اسی آدمی کو ماریہ کے پاس پاؤ تو اس کو قتل کردینا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں آپ کے کام میں ہل کے پھار کی طرح بےدھڑس گھس جاؤں گا اور آپ کا کام کیے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا۔ یہ بتائیے کیا غائب جو نہیں دیکھ سکتا مشاہد دیکھ سکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : شاید وہ دیکھ سکتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا (واللہ اعلم بمراد ہ الصواب) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ میں تلوار سونت کر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور اس کو باندی کے پاس پالیا۔ میں تلوار کے ساتھ اس کی طرف لپکا تو اس نے مجھے دیکھ لیا کہ میں اس کی طرف بڑھ رہا ہوں اور سمجھ گیا کہ وہی میرا مقصود نظر ہے۔ چنانچہ وہ بھاگ کر کھجور کے درخت پر چڑھ گیا پھر وہ گدی کے بل لیٹ گیا اور اپک پاؤں اٹھا لیا۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا اور اس کو چھو چھو کر دیکھنے لگا معلوم ہوا کہ اس کے پاس تھوڑا ہے اور نہ زیادہ ، (بلکہ وہ تو ہجڑا ہے) چنانچہ میں نے اپنی تلوار نیام میں کرلی پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر آپ کو ساری خبر سنائی۔ آپ نے فرمایا :
الحمد للہ الذی بصرف عنا اھل البیت
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے گھر والوں سے شر کو دور کیا۔ البزار، ابن جریر، حلیۃ الاولیاء، السنن لسعید بن منصور امام ابن حجر (رح) فرماتے ہیں اس روایت کی اسناد حسن ہے۔

13594

13594- عن غزوان بن جرير عن أبيه قال: تذاكروا الفواحش عند علي: فقال: أتدرون أي الزنا عند الله أعظم؟ فقالوا: يا أمير المؤمنين الزنا كله عظيم، قال: قد علمت ان الزنا كله عظيم، ولكن سأخبركم بأعظم الزنا عند الله، أن يزني الرجل بزوجة الرجل المسلم فيكون زانيا وقد أفسد على رجل مسلم زوجته، ثم قال عند ذلك: بلغنا أنه يرسل على الناس ريح تبلغ من الناس كل مبلغ، وكادت أن تمسك بأنفاس الناس، فإذا مناد يسمع الصوت كلهم، أتدرون ما هذه الريح التي قد آذتكم؟ فيقولون: لا ندري والله إلا أنها قد بلغت منا كل مبلغ، فيقال: ألا إنها ريح فروج الزناة الذين لقوا الله بزناهم لم يتوبوا منه، ثم ينصرف بهم فلم يذكر عند الانصراف جنة ولا نارا. "الدورقي".
13594 غزوان بن جریر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان فحش کاموں کا ذکر ہوا۔ حضرت علی (رض) نے حاضرین سے پوچھا : جانتے ہو اللہ کے نزدیک کون سا زنا سب سے بڑا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! زنا تو سب ہی بڑے ہیں۔ ارشاد فرمایا : مجھے معلوم ہے سب زنا بڑے ہیں۔ لیکن میں تم کو اللہ کے ہاں سب سے بڑے زنا کا بتاتا ہوں۔ وہ یوں کہ آدمی کسی مسلمان کی بیوی سے زنا کرے۔ وہ خود تو زانی ہوگا ہی لیکن ایک مسلمان کی بیوی کو بھی خراب کر (کے اس کا گھر تباہ کر) دے گا۔ پھر آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : ہمیں خبر ملی ہے کہ لوگوں پر ایسی (متعفن) ہوا بھیجی جائے گی جو تمام لوگوں کو ہر جگہ پہنچے گی۔ وہ ہوا لوگوں کا سانس روک دینے کے قریب ہوگی کہ ایک منادی نداء دے گا اس کی آواز کو ہر ایک سنے گا : وہ کہے گا : لوگو ! جانتے ہو یہ کیسی ہوا ہے، جس نے تم کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے ؟ وہ کہیں گے : ہم نہیں جانتے، مگر یہ ہوا ہر جگہ پہنچ رہی ہے۔ تب کہا جائے گا یہ زنا کرنے والوں کی شرم گاہوں سے نکلنے والی بدبودار ہوا ہے، یہ زانی اللہ سے اس حال میں ملے ہیں کہ انھوں نے اپنے زنا سے توبہ نہیں کی تھی۔
ثم ینصرف بھم فلم یذکر عندالا نصراف جنۃ ولا ناراً واللہ اعلم بمراد ھذا الکلام، الدروقی

13595

13595- عن علي أنه جاءته امرأتان قد قرأتا القرآن، فقالتا: هل تجد غشيان المرأة المرأة محرما في كتاب الله؟ فقال لهما: نعم، من اللواتي كن على عهد تبع، وهن صواحب الرس قال: يقطع لهم سبعون جلبابا من النار ودرع من نار وبطان من نار وتاج من نار وخفان من نار ومن فوق ذلك ثوب غليظ جاف جلد منتن من نار. "ابن أبي الدنيا هب كر".
13595 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس دو عورتیں آئیں جنہوں نے قرآن پڑھ رکھا تھا۔ وہ دونوں بولیں : کیا آپ کو کتاب اللہ میں عورت کے عورت کے ساتھ ہم بستری کرنے کی حرمت معلوم ہے ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہاں۔ ایسی عورتیں ان عورتوں میں سے ہیں جو تبع (بادشاہ) کے زمانے میں ہوتی تھیں اور وہ اصحاب الرائس کی عورتیں تھیں (اور ان کی مذمت قرآن میں آئی ہے) پھر فرمایا : ایسے (ہم جنس پرست) لوگوں کے لیے ستر چادریں آگ کی کاٹیں جائیں گی، ایک قیمص آگ کی، ایک اندرونی پہناوا آگ کا، ایک تاج آگ کا ، دو موزے آگ کے اور ان سب کے اوپر ایک سخت کھردرا موٹا کپڑا ہوگا جو آگ کا ہوگا اور انتہائی بدبودار ہوگا۔
ابن ابی الدنیا، شعب الایمانی للبیہقی ، ابن عساکر

13596

13596- عن أبي الضحى أن امرأة أتت عمر فقالت: إني زنيت فارجمني فرددها، حتى شهدت أربع شهادات فأمر برجمها، فقال علي: يا أمير المؤمنين ردها فاسألها ما زناها لعل له عذرا؟ فردها فقال: ما زناك؟ قالت: كان لأهلي إبل فخرجت في إبل أهلي، فكان لنا خليط2 فخرج في إبله فحملت معي ماء ولم يكن في إبلي لبن، وحمل خليطنا ماء وكان في إبله لبن فنفد مائي فاستسقيته فأبى أن يسقيني حتى أمكنه من نفسي فأبيت حتى كادت نفسي تخرج أعطيته، فقال علي: الله أكبر، فمن اضطر غير باغ ولا عاد، أرى لها عذرا. "البغوي في نسخة نعيم بن الهيثم".
13596 ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ ایک عورت حضرت عمر (رض) کے پاس آئی اور بولی : میں نے زنا کیا ہے ! لہٰذا مجھے رجم کر دیجئے۔ آپ (رض) نے اس کو واپس کردیا حتیٰ کہ اس نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دے دی۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کے رجم کا حکم دیدیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : یا امیر المومنین اس عورت کو واپس بلائیں اور اس سے اس کے زنا کی حقیقت کے بارے میں سوال کریں شاید اس کے پاس کوئی عذر ہو ؟ حضرت عمر (رض) نے اس کو واپس بلوایا۔ پوچھا : تیرے ساتھ کیسے زنا ہوا ؟ عورت نے کہا : میرے گھر کے اونٹ تھے، میں ان کے پاس گئی، ہمارا ایک شریک تھا وہ بھی اپنے اونٹوں میں آنکلا۔ میں اپنے ساتھ پانی لے گئی تھی، میرے اونٹوں میں کوئی دودھ والا جانور بھی نہ تھا۔ ہمارا شریک بھی پانی لایا تھا اور اس کے تو اونٹوں میں بھی دودھ والے جانور تھے۔ میرا پانی ختم ہوگیا۔ میں نے اس سے پانی مانگا، مگر اس نے پانی دینے سے انکار کردیا مگر اس شرط پر کہ میں اس کو اپنے وجود پر قدرت دوں۔ لیکن میں نے (اس طرح پانی لینے سے) انکار کردیا لیکن پھر (شدت پیاس سے) میری جان نکلنے کے قریب ہوگئی تو میں نے اس کی بات مان لی۔
پھر حضرت علی (رض) نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور فرمایا :
فمن اضطرغیر باغ ولا عاد ۔ الآیۃ
جو مجبور ہوگیا نہ وہ حد سے تجاوز کرنے والا تھا اور نہ دوبارہ کرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
فرمایا : لہٰذا میں اس کو معذور سمجھتا ہوں۔ البغوی فی نسحۃ نعیم بن الھیثم

13597

13597- عن أم كلثوم ابنة أبي بكر أن عمر بن الخطاب كان يعس1 بالمدينة ذات ليلة فرأى رجلا وامرأة على فاحشة فلما أصبح، قال للناس: أرأيتم أن إماما رأى رجلا وامرأة على فاحشة فأقام عليهما الحد ما كنتم فاعلين؟ قالوا: إنما أنت إمام، فقال علي بن أبي طالب: ليس ذلك لك إذن يقام عليك الحد إن الله لم يأمن على هذا الأمر أقل من أربعة شهداء، ثم تركهم ما شاء الله أن يتركهم، ثم سألهم فقال: القوم مثل مقالتهم الأولى، وقال علي: مثل مقالته. "الخرائطي في مكارم الأخلاق".
13597 ام کلثوم بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) مدینہ میں رات کو گلیوں کا چکر کاٹتے تھے۔ ایک رات ایک آدمی اور عورت کو برے کام میں دیکھا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں سے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر امام کسی مرد اور عورت کو برا کام کرتے دیکھے پھر وہ ان دونوں پر حد قائم کردے تو تم کیا کرو گے ؟ لوگوں نے کہا آپ امام (حاکم ) ہیں۔ ایسا کرنے میں صاحب اختیار ہیں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : آپ کو اس کا اختیار نہیں۔ ایسی صورت میں آپ پر حد (تہمت) قائم کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کام میں چار گواہوں سے کم پر راضی نہیں ہوا۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے یہ بات کچھ عرصہ کے لیے یہیں روک دی ۔ پھر ایک مرتبہ دوبارہ سوال کیا تو لوگوں نے بھی پہلے جیسا جواب دیا اور حضرت علی (رض) نے بھی اپنی پہلی بات دھرادی۔
الخرائطی فی مکارم الاخلاق

13598

13598- عن الأسود الدؤلي أن عمر بن الخطاب رفعت إليه امرأة ولدت لستة أشهر، فهم برجمها، فبلغ ذلك عليا، فقال: ليس عليها رجم، قال الله تعالى: {وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً} ، وقال: {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ} [وستة أشهر] فذلك ثلاثون شهرا. "عب وعبد بن حميد وابن المنذر وابن أبي حاتم ق".
13598 اسوددؤلی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے چھ ماہ میں بچہ جن دیا تھا۔ آپ (رض) نے اس کو رجم کرنے کا ارادہ فرمایا یہ بات حضرت علی (رض) کو معلوم ہوئی تو ارشاد فرمایا اس عورت پر رجم نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وحملہ وفصالہ ثلثون شھدا۔
بچہ کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین۔
اور والدائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں گی۔
چنانچہ اس طرح تیس ماہ پورے ہوگئے۔
الجامع لعبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، السنن للبیہقی

13599

13599- عن علي أن امرأة أتته فقالت: إني زنيت، فقال: لعلك أتيت وأنت نائمة في فراشك أو أكرهت؟ قالت: أتيت طائعة غير مكرهة، قال: لعلك غضبت على نفسك؟ قالت: ماغضبت فحبسها، فلما ولدت وشب ابنها جلدها. "ابن راهويه".
13599 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک عورت آئی اور بولی ! میں نے زنا کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ممکن تم اپنے بستر پر سو رہی ہو اس حال میں تمہارے ساتھ زنا ہوا ہو یا تمہارے ساتھ کسی نے جبر کیا ہو ؟ عورت بولی : میں نے بخوشی یہ کام کیا ہے، مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : شاید تم کو اپنے نفس پر غصہ آگیا ہو ؟ عرض کیا، نہیں مجھے اپنے نفس پر غصہ نہیں آیا تھا۔ چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس کو قید کرلیا۔ جب اس نے بچہ جن دیا وہ بڑا ہوگیا تو تب اس کو کوڑے مارے۔ ابن راھویہ

13600

13600- عن حجية بن عدي أن امرأة جاءت إلى علي فقالت: إن زوجها وقع على جاريتها، فقال: إن تكوني صادقة نرجمه، وإن تكوني كاذبة نحدك فذهبت. "الشافعي عب".
13600 حجیتہ بن عدی سے مروی ہے کہ ایک عورت حضرت علی (رض) کی خدمت میں آئی اور بولی : اس کیشوہر نے اس کی باندینے اس کی باندی کے ساتھ مباشرت کی ہے ! حضرت علی (رض) نے فرمایا : اگر تو سچ کہتی ہے تو ہم تیرے شوہر کو سنگسار کریں گے اور اگر تو جھوٹی ہے تو تجھ پر حد (تہمت) جاری کریں گے۔ یہ سن کر عورت چلی گئی۔ الشافعی، الجامع لعبدالرزاق

13601

13601- عن علي أنه كان إذا وجد الرجل والمرأة في ثوب واحد جلد كل إنسان منهما مائة."عب".
13601 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی اور ایک عورت کو ایک کپڑے میں لپٹا ہوا پایا پر سو کوڑوں کی حد جاری کی۔ الجامع لعبد الرزاق

13602

13602- عن أبي الضحى قال: شهد ثلاثة نفر على رجل وامرأة بالزنا وقال الرابع: رأيتهما في ثوب واحد، قال: إن كان هذا هو الزنا فهذا ذاك، فجلد علي الثلاثة، وعزر الرجل والمرأة. "عب".
13602 ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ تین آدمیوں نے ایک مرد اور عورت پر زنا کی شہادت دیدی لیکن چوتھے نے کہا : میں نے ان کو صرف ایک کپڑے میں دیکھا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا اگر یہ زنا ہے تو یہ اس (شہادت) کی سزا ہے۔ پھر حضرت علی (رض) نے تینوں آدمیوں کو حد تہمت لگائی جبکہ مرد اور عورت کو اپنی طرف سے (حد سے کم) سزا دی۔ الجامع لعبد الرزاق

13603

13603- عن علي أن رجلا تزوج امرأة ثم إنه زنا، فأقيم عليه الحد فجاؤا به إليه، ففرق بينه وبين امرأته، وقال: لا تتزوج إلا مجلودة مثلك. "ص وابن المنذر ق".
13603 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی مگر پھر کسی اور عورت کے ساتھ زنا کر بیٹھا۔ پھر اس آدمی پر حد جاری کی گئی۔ اور حضرت علی (رض) نے آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کردی اور آدمی کو حکم فرمایا : تم بھی اپنی جیسی (حد زنا میں) سزا یافتہ عورت سے شادی کرو۔ السنن لسعید بن منصور، ابن المنذر، السنن للبیہقی

13604

13604- عن عبد الله بن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب عن أبيه عن جده عن علي بن أبي طالب أن قبطيا كان يتحدث إلى مارية في مشربتها، فأرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعي السيف، فلما بصر بي القبطي هرب فصعد نخلة فنظرت من تحته، فإذا هو حصور ليس له ذكر، فانصرفت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إنما شفاء العي السؤال " ابن جرير ن".
13604 عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اپنے والد (محمد) سے اور وہ ان (عبداللہ) کے دادا (یعنی عمر) سے اور وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک قبطی عورت حضرت ماریہ (رض) (جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باندی اور آپ کے بچے ابراہیم کی ماں تھی) کے پاس کثرت سے آتا تھا (اور وہ ان کا چچازاد تھا) مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے پاس (تلوار کے ساتھ) بھیجا۔ جب اس قبطی نے مجھے دیکھا تو بھاگ کر کھجور کے درخت پر چڑھ گیا۔ میں نے اس کو نیچے سے دیکھا تو وہ ہجڑا تھا اس کا عضوتناسل نہ تھا۔ چنانچہ میں (اس کو چھوڑ کر) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ساری بات سن کر) ارشاد فرمایا :
انما شفاء العی السوال
جہالت کی شفاء سوال ہے۔ ابن جریر، النسائی

13605

13605- عن خلاس أن امرأة ورثت من زوجها شقصا2 فرفع ذلك إلى علي فقال: هل غشيتها؟ قال: لا، قال: لو كنت غشيتها لرجمتك بالحجارة، ثم قال: هو عبدك إن شئت بعتيه، وإن شئت وهبتيه وإن شئت أعتقتيه وتزوجتيه. "ن".
13605 خلاس سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے شوہر کی وراثت میں (کسی غلام کے) ایک حصے کی مالک ہوگئی۔ اس غلام کو حضرت علی (رض) کی خدمت میں لایا گیا۔ حضرت علی (رض) نے پوچھا : کیا تو عورت کے ساتھ ہم بستر ہوا ہے ؟ اس نے انکار کردیا۔ تب آپ (رض) نے فرمایا : اگر تو اس کے ساتھ ہم بستر ہوتا تو میں تجھے پتھروں کے ساتھ سنگسار کردیتا ہے۔ پھر حضرت علی (رض) نے عورت کو اشارہ فرمایا : یہ تیرا غلام ہے، چاہے تو اس کو بیچ دے، چاہے تو اس کو ہبہ (ہدیہ) کردے اور چاہے تو اس کو آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی رچالے۔ النسائی

13606

13606- عن إدريس بن يزيد الأزدي قال: أتى علي بن أبي طالب بامرأة وجدت مع رجل في خربة مراد قد أرماها، فقال: بنت عمي، وأنا وليها، وهي ذات مال وشرف، فخشيت أن تسبقني بنفسها، فقال علي: ما تقولين؟ فأقبل الناس عليها يقولون: قولي: نعم فقالت: نعم، فأخذها. "أبو الحسن البكالي".
13606 ادریس بن یزید الازدی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کی بارگاہ خلافت میں ایک عورت لائی گئی جو ایک آدمی کے ساتھ ویرانے جنگل میں تنہا پائی گئی تھی۔ اس کو آدمی نے وہاں لے جا کر رکھا ہوا تھا۔ آدمی بولا : یہ میری چچازاد ہے۔ اور میں اس کا سرپرست ہوں۔ یہ صاحب مال اور صاحب حسب ونسب ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ یہ کہیں اور کے ساتھ نہ چلی جائے، حضرت علی (رض) نے عورت سے پوچھا : تو کیا کہتی ہے ؟ لوگوں نے عورت کو کہا کہہ دے : ہاں (میں اس کے ساتھ راضی ہوں) چنانچہ اس نے ہاں کردی تو آدمی نے اس کو (اپنی سرپرستی میں) لے لیا۔ ابوالحسن البکلی

13607

13607- عن ابن عباس في رجل زنى بأخت امرأته تخطى حرمة إلى حرمة ولم تحرم عليه امرأته. "عب".
13607 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کی بہن کے ساتھ زنا کیا ہے اس نے اگرچہ ایک حرمت کو پامال کیا لیکن اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی۔ الجامع لعبد الرزاق

13608

13608- عن ابن عباس أن رجلا قال له: قبلت امرأة لا تحل لي؟ قال له زنى فوك قال: فما كفارة ذلك تستغفر الله ولا تعود. "عب".
13608 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان کو کہا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے جو اس کے لیے حلال نہیں تھی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : تیرے منہ نے زنا کیا ہے، پوچھا : اس کا کفارہ کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اللہ سے استغفار کر اور آئندہ ایسا نہ کرنا۔ الجامع لعبد الرزاق

13609

13609- عن ابن عمر أن رجلا قال له: إن أمي كانت لها جارية وأنها أحلتها لي أطوف عليها؟ فقال: لا تحل لك إلا بإحدى ثلاث: إما أن تزوجها أو تشتريها، أو تهبها لك. "عب".
13609 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ میری ماں نے اپنی ایک باندی کو میرے لیے حلال کیا ہے، کیا میں اس کے پاس (ہم بستری کے لئے) جاسکتا ہوں ؟ ابن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تیرے لیے تین صورتوں میں جائز ہے یا تو اس کے ساتھ شادی کرلے، یا اس کو خرید لے یا پھر تیری ماں یہ باندی تجھے بالکل ہبہ (ہدیہ) کردے۔ الجامع لعبد الرزاق

13610

13610- عن ابن عمر قال: لا يحل لك أن تطأ فرجا إلا فرجا إن شئت بعت، وإن شئت وهبت؛ وإن شئت اعتقت. "عب".
13610 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : تیرے لیے صرف ایسی شرم گاہ (والی باندی عورت) حلال ہے جس کو چاہے تو تو بیچ سکتا ہو، یا ہبہ کرسکتا ہو یا آزاد کرسکتا ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13611

13611- عن أبي أمامة أن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ائذن في الزنا؟ فهم من كان قرب النبي صلى الله عليه وسلم أن يتناولوه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعوه، ثم قال له النبي صلى الله عليه وسلم: أتحب أن يفعل هذا بأختك؟ قال: لا، قال: فبإبنتك؟ قال: لا، فلم يزل يقول فبكذا فبكذا كل ذلك يقول: لا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم فاكره ما كره الله وأحب لأخيك ما تحب لنفسك. "ابن جرير".
13611 ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور بولا : یارسول اللہ ! مجھے زنا کی اجازت دیدیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب جو اصحاب بیٹھے تھے انھوں نے اس کو زدو کوب کرنا چاہا، لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اس کو چھوڑ دو ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : کیا تو چاہتا ہے کہ تیری بہن کے ساتھ ایسا کام کیا جائے ؟ اس نے انکار کیا۔ آپ نے پوچھا : اچھا تیری بیٹی کے ساتھ ؟ اس نے انکار کیا۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختلف رشتوں کا نام لے لے کر اس سے پوچھتے رہے اور وہ انکار کرتا رہا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو بات اللہ نے تیرے لیے ناپسند کردی ہے وہ دوسروں کے لیے بھی ناپسند کر۔ اور جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کر۔ ابن جریر

13612

13612- عن أبي هريرة أن سعدا قال: يا رسول الله أرأيت إن وجدت مع امرأتي رجلا أمهله حتى آتي بأربعة شهداء؟ قال: نعم. "كر".
13612 حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت سعد (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک کے لیے اس کو مہلت دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہاں۔ ابن عساکر

13613

13613- عن الحسن في الرجل يجد مع امرأته رجلا؟ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كفى بالسيف شا يريد أن يقول شاهدا فلم يتم الكلمة حتى قال: إذا يتتابع فيه السكران والغيران "عب".
13613 حضرت حسن سے پوچھا گیا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے ؟ ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، کفی بالسیف شاھداً یعنی آپ شاھداً فرمانا چاہتے تھے کہ تلوار اس کے لیے گواہ ہے یعنی اس کا کام تمام کردو لیکن پھر آپ نے وہ بات پوری نہیں فرمائی بلکہ یہ ارشاد فرمایا : پھر تو نشہ آور اور غیرت مند بھی (بہانہ بنا کر) اس کی اتباع کریں گے۔ الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : یعنی آپ ایسی صورت میں اجنبی آدمی کو مار ڈالنے کی اجازت دینا چاہتے تھے لیکن پھر دوسرے خیال کی وجہ سے رک گئے کہ اس طرح لوگ اس آڑ میں ناجائز قتل و غارت گری شروع کردیں گے۔ اس مضمون کی مزید وضاحت اگلی روایت میں ملاحظہ فرمائیں۔

13614

13614- أنبأنا معمر عن الزهري قال: سأل رجل رسول الله فقال: الرجل يجد مع امرأته رجلا أيقتله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ألا تسمعون إلى ما يقول سيدكم؟ قالوا: لا تلمه يا رسول الله فإنه رجل غيور، والله ما تزوج امرأة قط إلا بكرا ولا طلق امرأة قط فاستطاع أحد منا أن يتزوجها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يأبى الله إلا بالبينة. "عب".
13614 ہمیں معمر نے زہری (رح) سے روایت بیان کی کہ ایک آدمی نے (غالباً یہ حضرت سعد (رض)) اور اپنے قبیلے کے سردار تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : کیا آدمی اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پائے تو اس کو قتل کردے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لوگوں کو مخاطب ہو کر) فرمایا : سنتے ہو وہ تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس کو ملامت نہ فرمائیں، یہ زیادہ غیرت مند آدمی ہے۔ اللہ کی قسم ! اس نے کبھی باکرہ (کنواری ) عورت کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کی اور جب بھی کسی کو طلاق دی ہے (وہ اس حال تک پہنچا دی ہے) کہ کوئی بھی ہم میں سے اس کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا۔ بالآخر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (کچھ بھی ہو لیکن) اللہ پاک گواہوں کے بغیر ایسی صورت سے انکار فرماتا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13615

13615- عن عائشة أنها كانت إذا قيل لها: ولد الزنا شر الثلاثة عابت ذلك وقالت: ما عليه من وزر أبويه؛ قال الله تعالى: {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} . "عب".
13615 حضرت عائشہ (رض) کے متعلق مروی ہے کہ ان سے جب پوچھا جاتا : (کیا) ولد الزنا شرالثلاثۃ ہے (یعنی کیا یہ بھی اپنے والدین کی طرح شر ہے ؟ ) تو آپ (رض) ارشاد فرماتی تھیں : اس پر اپنے والدین کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولا تزروازرۃ وزرا اخری۔
کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13616

13616- عن عائشة قالت: أعتقوا أولاد الزنا وأحسنوا إليهم. "عب".
13616 حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے : اولاد الزنا کو (اگر وہ مملوک ہوں) آزاد کرو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھو۔ الجامع لعبد الرزاق

13617

13617- عن ميمون بن مهران أنه شهد ابن عمر صلى على ولد الزنا فقيل له: إن أبا هريرة لم يصل عليه وقال: هو شر الثلاثة، فقال له ابن عمر: هو خير الثلاثة. "عب".
13617 میمون بن مہران (رح) سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ تھے جب انھوں نے ایک ولد الزنا کی نماز جنازہ پڑھائی۔ تو آپ (رض) (کو کہا گیا : کہ ابوہریرہ (رض)) نے تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی اور یہ فرمایا کہ یہ شرالثلاثۃ ہے (یعنی والدین کی طرح شر اور بدبخت ہے) حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : یہ خیر الثلاثۃ ہے (یعنی برے والدین کی اچھی اولاد ہے) ۔ الجامع لعبد الرزاق

13618

13618- عن عمر قال: لا يدخل على امرأة مغيبة إلا ذو محرم ألا وإن قيل: حموها ألا حموها الموت. "عب".
13618 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : جس عورت کا شوہر موجود نہ ہو اس کے پاس صرف اس کا ذومحرم ہی داخل ہوسکتا ہے۔ خبردار ! اگر کہا جائے کہ اس کے دیور وغیرہ ! تو سنو دیور وغیرہ موت ہیں۔ ان کا داخلہ بھی قطعاً جائز نہیں ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13619

13619- عن أبي عبد الرحمن السلمي قال عمر بن الخطاب: لا يدخل رجل على مغيبة فقال: إن أخا لي أو ابن عم لي خرج غازيا وأوصاني فأدخل عليهم فضربه بالدرة فقال: إذن كذا إذن دونك لا تدخل وقم على الباب، فقل لكم حاجة أتريدون شيئا. "عب".
13619 ابوعبدالرحمن السلمی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا کوئی (نامحرم) آدمی کسی غائب شوہر والی عورت کے پاس داخل نہ ہو۔ ایک آدمی نے کہا میرا بھائی (یا کہا) میرا چچازاد جہاد پر گیا ہوا ہے اور وہ مجھے اپنے گھر کی نگہداشت کا کہہ گیا ہے۔ تو کیا میں اس کے گھر والوں کے پاس جاسکتا ہوں ؟ حضرت عمر (رض) نے اس کو درہ (کوڑا) مارا اور فرمایا : تب بھی یہی حکم ہے، ان کے گھر میں ہرگز داخل نہ ہو، بلکہ دروازوں پر کھڑا ہو کر پوچھ لے ! کیا تم کو کوئی کام ہے ؟ الجامع لعبد الرزاق

13620

13620- عن الحسن أن رجلا مر على رجل يكلم امرأة فرأى ما لم يملك نفسه فجاء بعصا، فضربه حتى سالت الدماء، فشكا الرجل ما لقي إلى عمر بن الخطاب فأرسل عمر إلى الرجل فسأله، فقال: يا أمير المؤمنين، إني رأيته يكلم امرأة فرأيت منه ما لم أملك نفسي، فتكلم عمر ثم قال: وأينا كان يفعل هذا، ثم قال للرجل: اذهب عين من عيون الله أصابتك. "كر".
13620 حسن (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی کسی آدمی کے پاس سے گزرا جو ایک عورت کے ساتھ بات چیت کررہا تھا۔ اس نے ان کے درمیان ایسی حالت دیکھی کہ وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا اور ڈنڈا لے کر آیا اور اس کو اتنا مارا کہ اس کا خون بہہ پڑا۔ آدمی نے جاکر حضرت عمر (رض) سے شکایت کی۔ حضرت عمر (رض) نے مارنے والے آدمی کو بلوایا اور اس سے پوچھا : آدمی نے جواب دیا : امیر المومنین ! میں نے اس کو ایک عورت کے ساتھ اس طرح باتیں کرتے دیکھا کہ میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اور ہم میں سے کون کرے گا ایسا ؟ پھر (زخمی) آدمی کو فرمایا : اور یہ سمجھ لے کہ یہ آدمی اللہ کا جاسوس تھا جس نے تجھے اس نوبت تک پہنچایا۔ ابن عساکر

13621

13621- عن عمرو بن دينار عن موسى بن خلف أن عمر بن الخطاب مر برجل يكلم امرأة على ظهر الطريق فعلاه بالدرة فقال له الرجل: يا أمير المؤمنين، إنها امرأتي، قال: فهلا حيث لا يراك الناس. "الخرائطي في مكارم الأخلاق".
13621 عن عمرو بن دینار عن موسیٰ بن خلف کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کا ایک آدمی کے پاس سے گزر ہوا جو سرعام ایک عورت سے بات چیت کررہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اس پر کوڑا اٹھالیا۔ آدمی بولا : یا امیر المومنین ! یہ عورت میری بیوی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پھر ایسی جگہ کیوں بات نہیں کرتا جہاں تجھے لوگ نہ دیکھیں۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق

13622

13622- عن عمر قال: إياكم والمغيبات، فوالله إن الرجل ليدخل على المرأة ولأن يخر من السماء إلى الأرض أحب إليه من أن يزني، فما يزال الشيطان يخطب أحدهما على الآخر، حتى يجمع بينهما. "ابن جرير".
13622 حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : لوگو ! جن عورتوں کے پاس ان کے شوہر (یا کوئی ذی محرم) نہ ہوں ان کے پاس جانے سے ہرگز اجتناب کرو۔ اللہ کی قسم ! آدمی کسی (اجنبیہ) عورت کے پاس داخل ہوتا ہے، حالانکہ آدمی اگر آسمان سے زمین پر گرجائے تو یہ اس کے لیے زنا کرنے سے بہتر ہے، چنانچہ شیطان ایک کو دوسرے کے ساتھ ورغلاتا رہتا ہے حتیٰ کہ دونوں کو ملا دیتا ہے۔ ابن جریر

13623

13623- عن عطاء قال: مر عمر برجل وهو يكلم امرأة فعلاه بالدرة فقال: يا أمير المؤمنين إنها امرأتي، قال: فاقتص، قال: قد غفرت لك يا أمير المؤمنين، قال: ليس مغفرتها بيدك، ولكن إن شئت أن تعفو فاعف قال: قد عفوت عنك يا أمير المؤمنين. "الأصبهاني".
13623 عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کسی عورت کے ساتھ بات چیت کررہا تھا۔ آپ (رض) نے اس کو درہ مارا، آدمی بولا : یا امیر المومنین ! یہ میری بیوی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پھر اپنا بدلہ لے لو۔ آدمی بولا : قد غفرت لک میں نے آپ کو بخش دیا یا امیر المومنین ! ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مغفرت (بخشش) تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے، ہاں تم چاہو تو معاف کردو۔ تب آدمی بولا : یا امیر المومنین ! میں نے آپ کو معاف کردیا۔ الاصبھانی

13624

13624- عن معمر عن الحسن أن عمرو بن العاص استأذن على علي فلم يجده فرجع ثم استأذن عليه مرة أخرى فوجده، فكلم امرأة علي في حاجته، فقال علي: كأن حاجتك كانت إلى المرأة؟ قال: نعم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يدخل على المغيبات قال: فقال له علي: أجل قد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يدخل على المغيبات. "ن".
13624 عن معمر عن الحسن کی سند سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص حضرت علی (رض) کے گھر پر گئے اور اجازت لی مگر حضرت علی (رض) موجود نہ تھے اس لیے واپس آگئے۔ پھر دوابرہ کسی وقت گئے تو حضرت علی (رض) کو موجود پایا۔ چنانچہ ان کی موجودگی میں ان کی بیوی سے اپنے کام کی بات کی۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : گویا تم کو عورت سے کام تھا ؟ انھوں نے فرمایا : ہاں۔ لیکن چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شوہر کی عدم موجودگی میں ان کی عورتوں کے پاس جانے سے منع کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہاں ! بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شوہر کی عدم موجودگی میں ان کی عورتوں کے پاس جانے سے منع کیا ہے۔ النسائی

13625

13625- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أن يكلم النساء إلا بإذن أزواجهن. "الخرائطي في مكارم الأخلاق".
13625 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ عورتوں سے ان کے شوہروں کی اجازت کے بغیر بات چیت نہ کی جائے۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق

13626

13626- عن غنم بن سلمة قال: أقبل عمرو بن العاص إلى بيت علي بن أبي طالب في حاجة فلم يجد عليا فرجع، ثم عاد فلم يجده مرتين أو ثلاثا فجاء علي فقال له: ما استطعت إذ كانت حاجتك إليها أن تدخل؟ قال: نهينا أن ندخل عليهن إلا بإذن أزواجهن. "الخرائطي فيه".
13626 غنم بن سلمۃ سے مروی ہے کہ حضرت عمروبن العاص (رض) حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے گھر کسی کام سے گئے۔ لیکن حضرت علی (رض) موجود نہ تھے، لہٰذا لوٹ آئے۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا پھر حضرت علی (رض) تشریف لے آئے اور حضرت عمر (رض) کو فرمایا : اگر تم کو عورت سے کام تھا تو اندر چلے جاتے ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم کو منع کیا گیا ہے کہ ہم عورتوں کے پاس ان کے شوہروں کی اجازت کے بغیر داخل ہوں۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق

13627

13627- عن عمر قال: لا يدخل رجل على امرأة مغيبة إلا امرأة هي عليه محرم، ألا وإن قال: حموها1 ألا حموها الموت. "عب ش".
13627 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : کوئی آدمی کسی عورت کے پاس اس کے شوہر کی عدم موجودگی میں داخل نہ ہو سوائے ایسی عورت کے جو اس پر حرام ہے (ماں بہن وغیرہ) ۔ خبردار ! اگر کوئی کہے کہ حموھا (شوہر کا رشتہ دار) تو سنو وہ تو موت ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، المصنف لا بن ابی شیبۃ
فائدہ : حضرت عمر (رض) کا مقصد غالباً حموھا سے عورت کے شوہر کا باپ تھا۔ یعنی وہ حالانکہ محرم ہے جب وہ عورت (یعنی بہو) کے لیے موت ہے تو شوہر کے بھائی وغیرہ دوسرے مرد رشتے دار تو کس قدر اس کے لیے خطرناک ہوں گے۔

13628

13628- عن محمد بن سيرين أن بريدا قدم على عمر فنثر كنانته2 فبدرت صحيفة فأخذها فقرأها فإذا فيها: ألا أبلغ أبا حفص رسول ... فدى لك من أخي ثقة إزاري قلائصنا هداك الله إنا ... شغلنا عنكم زمن الحصار فما قلص وجدن معقلات ... قفا سلع بمختلف التجار قلائص من بني كعب بن عمرو ... وأسلم أو جهينة أو غفار يعقلهن جعدة من سليم ... غوي يبتغي سقط العذار فقال: ادعو [لي] جعدة بن سليم فدعى به فجلده مائة جلدة معقولا ونهاه أن يدخل على امرأة مغيبة. "ابن سعد والحارث"
13628 محمد بن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ ڈاکیہ (قاصد) حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اس نے اپنا ترکش کھولا تو اس میں سے ایک کاغذ نکل کر گرپڑا جس میں چند اشعار لکھے تھے :
ترجمہ : سن ! اے قاصد ابوحفص کو یہ خبر پہنچا دے ! تجھ پر میرا بھائی قربان ہو جو مضبوط ازاروالا (پاکدامن) ہے۔ اللہ آپ کو ہدایات بخشے ، ہم تو جنگ کے زمانے میں تم سے دور رہتے ہیں اور ہماری اونٹنیاں ، حالانکہ وہ بندھی ہوئی ہیں۔ پھر مختلف تجار سامان فروختگی کے بہانے ان کے پاس آتے جاتے ہیں ، وہ اونٹنیاں بنی کعب بن عمرو، اسلم، جہینہ اور قبیلہ غفار کی ہیں۔ ان کو جعدہ بن سلیم گمراہ باندھنے کی کوشش کرتا ہے وہ ان کی دوشیزگی ختم کرنا چاہتا ہے۔
حضرت عمر (رض) نے یہ خط پڑھ کر جعدہ بن سلیم کو بلایا اور اس کو باندھ کر سو کوڑے مارے اور آئندہ کے لیے اس کو کسی عورت کے پاس جس کا شوہر موجود نہ ہو ، جانے سے قطعاً روک دیا۔
ابن سعد ، الحارث

13629

13629- عن عمر قال: ما بال رجال لا يزال أحدهم كاسرا وسادة عند امرأة مغزية يتحدث إليها، عليكم بالجنبة3 فإنها عفاف وإنما النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه. "أبو عبيد".
13629 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : لوگو کو کیا ہوگیا کہ کوئی کوئی آدمی مسلسل ان عورتوں کے پاس جن کے شوہر جہاد پر گئے ہوئے ہیں، تکیہ لگائے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہتے ہیں۔ خبردار ! ان سے کنارہ کرو۔ وہ پاکدامن عورتیں ہیں، کیونکہ عورتیں تو تختے پر پڑا ہوا گوشت ہوتی ہیں (وہ زیادہ اپنا دفاع نہیں کرسکتی اور باتوں میں آجاتی ہیں) ہاں مگر جو بچنا چاہے۔ ابوعبید

13630

13630- عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تدخلوا على هؤلاء المغيبات فإن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم، قيل: يا رسول الله، ومنك قال: ومني إلا أن الله أعانني عليه فأسلم. "ابن النجار".
13630 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان عورتوں کے پاس داخل نہ ہو جن کے شوہر گھروں پر موجود نہیں ہیں۔ بیشک شیطان ابن آدم میں خون کی جگہ دوڑتا ہے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ کیا آپ میں بھی ؟ فرمایا : ہاں مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا ہے۔ ابن النجار

13631

13631- عن ابن عمر قال: مثل الذي يأتي المغيبة ليجلس على فراشها ويتحدث عندها كمثل الذي ينهشه أسود من الأساود. "عب".
13631 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی ایسی عورت کے پاس جائے جس کا شوہر موجود نہ ہوتا کہ اس کے بستر پر بیٹھ کر اس سے باتیں کرے اس کی مثال اس شخص کی ہے جس کو کوئی کتا نوچ (نوچ کر کھا) رہا ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13632

13632- عن مالك بن أحمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله تعالى لا يقبل يوم القيامة من الصقور صرفا ولا عدلا، قلنا: يا رسول الله وما الصقور؟ قال: الذي يدخل على أهله الرجال. "خ في تاريخه والخرائطي في مساوي الأخلاق طب هب كر".
13632 مالک بن احمر (رض) سے مروی ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز کسی صقور سے کوئی نفل قبول فرمائیں گے اور نہ فرض۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ ! صقور کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : وہ شخص جو اپنے گھر والوں کے پاس دوسرے آدمیوں کو لائے۔ البخاری فی التاریخ، الخرائطی فی مساوی الاخلاق، الکبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی، ابن عساکر

13633

13633- عن عرفجة قال: قال أبو موسى لأم ابنة أبي بردة: إذا دخل عليك رجل ليس بذي محرم فادعى إنسانا من أهلك فليكن عندك فإن الرجل والمرأة إذا خلوا جرى الشيطان بينهما. "عب".
13633 عرفجہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے ام بنت ابی بردہ کو فرمایا : جب تیرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو نامحرم ہو تو اپنے گھروالوں میں سے کسی محرم کو اپنے پاس بلالے اور وہ تیرے پاس رہے جب تک کہ نامحرم آدمی تیرے پاس موجود ہو۔ کیونکہ آدمی اور عورت جب اکیلے ہوتے ہیں تو شیطان ان کے بیچ میں داخل ہوجاتا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13634

13634- عن عكرمة قال: قدم رجل من السفر فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد نزلت على فلانة وأغلقت عليك بابها، لا يخلون رجل بامرأة. "عب".
13634 عکرمہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی سفر سے واپس لوٹا اس کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو فلانی عورت کے ہاں جاکر ٹھہرا تھا اور تو نے دروازہ بھی اندر سے بند کرلیا تھا۔ دیکھ ہرگز آدمی کو کسی (غیر) عورت کے پاس تنہائی نہ برتنی چاہیے۔ الجامع لعبد الرزاق

13635

13635- عن ابن عباس قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بيتا يدخله مخنث. "ابن النجار".
13635 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گھر پر لعنت فرمائی جس میں کو مخنث (ہجڑا) داخل ہو۔ ابن النجار

13636

13636- عن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من رجل يدخل بصره في منزل قوم إلا قال الملك الموكل به: أف لك آذيت وعصيت، ثم توقد النار عليه إلى يوم القيامة، فإذا خرج من قبره ضرب بها الملك وجهه محماة فما ترونه يلقى بعد ذلك. "الديلمي وفيه ابان ابن سفيان متهم".
13636 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو آدمی کسی کے گھر میں نگاہ مارے تو اس کا نگہبان فرشتہ اس کو کہتا ہے : افسوس تجھ پر، تو نے اذیت دی اور نافرمانی کی۔ پھر اس پر قیامت تک کے لیے آگ جلادی جاتی ہے۔ جب وہ قبر سے نکلتا ہے تو وہ فرشتہ اس کے منہ پر آگ مارتا ہے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا تم سمجھ سکتے ہو۔
الدیلمی وفیہ ابان بن سفیان متھم
کلام : روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں ابان بن سفیان متہم ہے۔ نیز دیکھئے تذکرۃ الموضوعات 182, 180، التنزیہ 216/2 ۔

13637

13637- عن ابن جريج قال: أخبرني من أصدق عمن سمع عليا يسأل عن الأمة تباع أينظر إلى ساقها وعجزها وإلى بطنها؟ قال: لا بأس بذلك وقفت لتساومها. "عب".
13637 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ مجھے ایسے شخص نے خبر دی جس کی میں تصدیق کرتا ہوں، اس شخص کی طرف سے جس نے اس روایت کو حضرت علی (رض) سے سنا۔
حضرت علی (رض) سے سوال کیا گیا کہ کیا کسی باندی کو خریدنے کی غرض سے اس کی پنڈلی، پچھلا حصہ اور پیٹ دیکھا جاسکتا ہے ؟ آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں اگر تو (واقعی خریدنے کی غرض سے) اس کا بہاؤ تاؤ کررہا ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13638

13638- عن نباتة قالت: كان عثمان إذا اغتسل جئته بثيابه فيقول لي: لا تنظري إلي، فإنه لا يحل لك قالت وكنت لامرأته. "ابن سعد".
13638 نباتہ سے مروی ہے فرماتی ہیں : حضرت عثمان (رض) جب غسل فرما لیتے تو میں آپ (رض) کے کپڑے لے کر آپ کے پاس آتی۔ آپ (رض) فرماتے کہ میری طرف نہ دیکھنا کیونکہ یہ تیرے لیے حلال نہیں ہے۔ نباتہ فرماتی ہیں حالانکہ میں آپ کی بیوی تھی۔ ابن سعد

13639

13639- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا أبشرك؟ قلت: بلى، قال: إن لك لكنزا في الجنة، وإنك لذو قرنى2 هذا الكنز، لا تتبع النظرة النظرة، لك الأولى وعليك الآخرة. "ابن مردويه".
13639 حضرت علی (رض) سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کیا میں تجھے خوشخبری نہ سناؤں ؟ میں نے عرض کیا ضرور ! آپ نے فرمایا : تیرے لیے جنت میں ایک خزانہ ہے اور تو اس خزانے کے دونوں طرف والا ہے (یعنی اس خزانے کے اول وآخر سارے کا تو مالک ہے) بس نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ پہلی تیرے لیے ہے لیکن دوسری تجھ پر وبال ہے۔
ابن مردویہ

13640

13640- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي؛ إن لك كنزا في الجنة، وإنك ذو قرنيها، فلا تتبع النظرة النظرة، فإن لك الأولى، وليست لك الآخرة. "ابن مردويه".
13640 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ارشاد فرمایا : اے علی ! جنت میں تیرے لیے ایک خزانہ ہے اور تو اس خزانے کا دو سینگوں والا (یعنی تنہا مالک) ہے۔ پس نظر کے بعد نظر نہ ڈال۔ بیشک پہلی تیرے لیے (معاف) ہے، دوسری نہیں۔ ابن مردویۃ

13641

13641- عن جرير قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نظرة الفجاءة، فأمرني أن أصرف بصري. "ابن النجار".
13641 جریر (رح) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نظر پھیر لینے کا حکم دیا۔ ابن النجار

13642

13642- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن سالم بن عبد الله وأبان بن عثمان وزيد بن حسن أن عثمان بن عفان أتي برجل قد فجر بغلام من قريش فقال عثمان: أحصن؟ قالوا: قد تزوج بامرأة ولم يدخل بها بعد، فقال علي لعثمان: لو دخل بها لحل عليه الرجم، فأما إذا لم يدخل بها فاجلده الحد، فقال أبو أيوب: أشهد أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الذي ذكر أبو الحسن، فأمر به عثمان فجلد. "طب".
13642 (مسند عثمان (رض)) سالم بن عبداللہ، ابان بن عثمان اور زید بن حسن سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے ایک قریشی لڑکے ساتھ بدفعلی کی تھی۔ حضرت عثمان (رض) نے اس آدمی کے متعلق پوچھا کیا یہ محصن (شادی شدہ) ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس نے نکاح تو کیا ہے مگر ابھی تک اس کے ساتھ ہم بستر نہیں ہوا۔ حضرت علی (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : اگر یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہم بستر ہوچکا ہوتا تو اس پر رجم کی سزا لازم آتی۔ لیکن اگر اس نے دخول نہیں (یعنی ابھی تک بیوی کے ساتھ ہم بستر نہیں ہوا) تو اب اس کو (سو کوڑوں کی) حد جاری کریں۔ ابوایوب (رض) جو حاضر مجلس تھے بولے : میں گواہی دیتا ہوں کہ جو ابوالحسن (حضرت علی (رض)) ذکر کررہے ہیں میں نے یہی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان (رض) نے اس کے لیے حکم دیدیا اور اس کو حد جاری کردی گئی۔ الکبیر للطبرانی

13643

13643- "مسند علي رضي الله عنه" عن محمد بن المنكدر أن خالد بن الوليد كتب إلى أبي بكر الصديق أنه وجد رجل في بعض ضواحي العرب ينكح كما تنكح المرأة، وأن أبا بكر جمع لذلك ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان فيهم علي بن أبي طالب أشدهم يومئذ قولا فقال: إن هذا ذنب لم تعمل به أمة من الأمم إلا أمة واحدة فصنع بها ما قد علمتم، أرى أن تحرقوه بالنار، فكتب إليه أبو بكر أن يحرق بالنار. "ابن أبي الدنيا في ذم الملاهي وابن المنذر وابن بشران ق عن يزيد بن قيس أن عليا رجم لوطيا "ش والشافعي ص وابن أبي الدنيا في ذم الملاهي ق".
13643 (مسند علی (رض)) محمد بن المنکدر سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے ابوبکر صدیق (رض) کو لکھا کہ : عرب کے ایک علاقے میں ایک شخص ہے وہ اس طرح اپنا نکاح کرواتا ہے جس طرح عورت کا نکاح ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو جمع کیا جن میں حضرت علی (رض) بھی شامل تھے اور آپ (رض) (ہی اس دن سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے۔ حضرت علی (رض)) نے فرمایا : یہ ایسا گناہ ہے جو کچھ ہوا وہ تم کو بھی معلوم ہے۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ تم اس شخص کو جلاڈالو۔ لہٰذا حضرت ابوبکر (رض) نے خالد بن ولید (رض) کو لکھا کہ اس کو آگ میں جلادیا جائے۔
ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی، ابن المنذر، ابن بشران، السنن للبیہقی عن یزید قیس ان علیا رجم لوطیا ، ابن ابی شیبہ الشافعی، السنن لسعید بن منصور، ابن ابی الدنیا فی ذم الملاھی، السنن للبیہقی
فائدہ : یزید بن قیس روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک لوطی کو رجم کیا تھا۔
السنن للبیہقی

13644

13644- عن حسين بن زيد عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يرجم من عمل عمل قوم لوط، أحصن أو لم يحصن. "ابن جرير" وضعفه.
13644 عن حسین بن زید عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن جدہ عن علی۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے قوم لوط کا عمل کیا وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کو رجم کردیا جائے۔ ابن جریر وصعفہ
کلام : یہ روایت ضعیف ہے کنز العمال رقم الحدیث 13644 ج 5 ۔

13645

13645- عن ابن عباس في البكر يوجد على اللوطية؟ قال: يرجم. "عب".
13645 ابن عباس (رض) اس امرد (لڑکے) کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں جو لوطی عمل میں ملوث پایا جائے کہ اس کو رجم (سنگسار) کردیا جائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13646

13646- عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلوا الفاعل والمفعول به، يعني الذي يعمل بعمل قوم لوط، ومن أتى بهيمة فاقتلوه، واقتلوا البهيمة، قال ابن عباس: لئلا يعير أهلها بها، ومن أتى ذات محرم فاقتلوه. "عب".
13646 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کردو یعنی جو قوم لوط کا عمل کرے۔ اور جو کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرے اس کو اور جانور دونوں کو قتل کردو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ کلمہ اس لیے ہے تاکہ اس کے گھر والوں کو اس کی وجہ سے بدنام نہ کیا جائے، اور فرمایا جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے تو اس کو بھی قتل کردو۔
الجامع لعبد الرزاق

13647

13647- عن أبي سعيد قال: من عمل ذلك من قوم لوط إنما كانوا ثلاثين رجلا ونيفا1 لا يبلغون أربعين فأهلكهم الله جميعا، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر أو لتعمنكم العقوبة جميعا. "إسحاق بن بشر كر".
13647 حضرت ابوسعید (رض) سے مروی ہے فرمایا : قوم لوط میں سے جنہوں نے قول لوط کا عمل کیا وہ صرف تیس سے کچھ اوپر تھے ابھی ان کی تعداد چالیس نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے سب کو ہلاک کردیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں : تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ اللہ کا عذاب بھی تم سب پر نازل ہوجائے گا۔ اسحاق بن بشر، ابن عساکر

13648

13648- عن عائشة أنها رأت النبي صلى الله عليه وسلم حزينا، فقالت: يارسول الله، وما الذي يحزنك؟ قال: شيئا تخوفت على أمتي أن يعملوا بعدي بعمل قوم لوط. "طب".
13648 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے انھوں نے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنجیدہ دیکھا تو پوچھا : یارسول اللہ ! کس چیز نے آپ کو رنجیدہ کررکھا ہے ؟ مجھے ایک بات کا خوف ہے اپنی امت پر کہ کہیں وہ میرے بعد قوم لوط کا عمل نہ کرنے لگ جائیں۔ الکبیر للطبرانی

13649

13649- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عائشة قالت: أول من اتهم بالأمر القبيح تعني عمل قوم لوط اتهم به رجل على عهد عمر، فأمر شباب قريش أن لا يجالسوه. "ق".
13649 (مسند عمر (رض)) حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : سب سے پہلے جو اس بدفعلی (یعنی قوم لوط کے عمل) کے ساتھ مہتم ہوا وہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں تھا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے قریش کے جوانوں کو حکم فرمادیا کہ اس شخص کے ساتھ کوئی نہ اٹھے بیٹھے۔ السنن للبیہقی

13650

13650- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أبي سعيد الخدري أن أبا بكر الصديق ضرب في الخمر بالنعلين أربعين. "عب ن".
13650 (مسند صدیق (رض)) ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شراب پینے پر جوتوں کے ساتھ چالیس ضربیں ماریں۔ الجامع لعبد الرزاق، النسائی

13651

13651- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عمر قال: خطب عمر فقال: إنه نزل تحريم الخمر وهي من خمسة أشياء: العنب والتمر والحنطة والشعير والعسل، والخمر ما خامر العقل، وثلاث وددت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يفارقنا حتى يعهد إلينا فيهن عهدا ننتهي إليه: الجد والكلالة1 وأبواب من أبواب الربا. "ش حم في الأشربة عب خ م د ت ن وابن أبي الدنيا في ذم المسكر وأبو عوانة والطحاوي وابن أبي عاصم في الأشربة حب قط وابن مردويه ق"
13651 (مسند عمر (رض)) ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : خمر (شراب) کی حرمت نازل ہوچکی ہے اور یہ پانچ چیزوں سے نکلتی ہے : انگور، کھجور، جو اور شہد۔ شراب وہ ہے جو عقل پر چھا جائے۔ اور تین چیزوں کے متعلق میری خواہش تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے جدا نہ ہوتے جب تک ان کی حتمی صورتیں نہ بیان کرجاتے : دادا (بطور وراثت) ، کلالہ (بطور وراثت) اور ربا (سود) کے ابواب۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الاحمد فی الاشرۃ، الجامع لعبد الرزاق، البخاری، مسلم، ابوداؤد، الترمذی، النسائی، ابن ابی الدنیا فی ذم المکرو، ابوعوانۃ، الطحاوی، ابن ابی عاصم فی الاشریۃ، ابن جان، الدارقطنی فی السنن، ابن مردویہ، السنن للبیہقی

13652

13652- عن عمر بن الخطاب أنه قال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا فإنها تذهب بالمال والعقل، فنزلت هذه الآية التي في البقرة: {يَسْأَلونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ} فدعي فقرئت عليه فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا، فنزلت هذه الآية التي في النساء {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى} فكان منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة ينادي أن لا يقرب الصلاة سكران فدعي عمر فقرئت عليه، فقال: اللهم بين لنا في الخمر بيانا شافيا فنزلت هذه الآية التي في المائدة، فدعي عمر فقرئت عليه فلما بلغ {فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ} فقال عمر: انتهينا. "ش حم وعبد بن حميد د ت ن ع وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وأبو الشيخ وابن مردويه حل ك ق ص"
13652 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے دعا کی : اللھم بین لنافی الخمر بیانا شاقیاً ۔ اے اللہ ! ہمیں شراب کے بارے میں شافی بیان (واضح حکم) فرما دیجئے۔ کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں کو اڑا دیتی ہے۔ چنانچہ سورة بقرہ کی یہ آیت نازل ہوگئی :
یسالونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر۔
وہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں شراب اور جوئے کے بارے میں کہہ دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) کو بلایا گیا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی۔ حضرت عمر (رض) نے پھر دعا کی :
اللھم بین لنا فی الخمر بیاناً شافیاً
چنانچہ پھر سورة نساء کی یہ آیت نازل ہوگئی :
یا ایھا الذین آمنو الا تقربوا الصلاۃ وانتم سکاری۔
اے ایمان والو ! قریب نہ جاؤ نماز کے اس حال میں کہ تم (نشہ میں) مدہوش ہو۔
چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کا منادی پکارتا کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی۔ حضرت عمر (رض) نے پھر وہی دعا کی :
اللھم بین لنا فی الخیر بیانا شافیاً
چنانچہ پھر سورة مائدہ کی آیت نازل ہوئی۔
جب آیت کے آخر میں یہ پڑھا گیا
فھل انتم منتھون
کیا تم (اس سے) باز آنے والے ہو۔
تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : انتھنا ہم باز آگئے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد، عبد بن حمید، ابوداؤد، الترمذی ، النسائی ، مسند ابی یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ، ابن مردویہ، حلیۃ الاولیاء، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور۔

13653

13653- عن الحسن قال: هم عمر بن الخطاب أن يكتب في المصحف أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضرب في الخمر ثمانين، ووقت لأهل العراق ذات عرق. "عب".
13653 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کا ایک مرتبہ خیال بنا کہ قرآن شریف میں یہ لکھ دیا جائے :
ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرب فی الخمر ثمانین ووقت لاھل العراق ذات عرق۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی میں اسی ضرب ماری ہیں اور اہل عراق کے لیے ذات عرق (مقام) کو (میقات احرام) مقرر فرمایا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13654

13654- عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضرب في الخمر بنعلين أربعين، فجعل عمر مكان كل نعل سوطا. "ش".
13654 حضرت ابوسعید (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرب خمر میں دو جوتے چالیس بار مارے ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ہر جوتے کے بدلے ایک کوڑا مقرر فرمادیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ

13655

13655- عن عمر قال: لا حد إلا فيما خلس العقل. "ش"1
13655 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : حد صرف اس شراب نوشی میں ہے جو عقل کو ماؤف کردے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13656

13656- عن الزهري قال: بلغني عن عمر وعثمان وابن عمر أنهم كانوا يضربون العبد في الخمر ثمانين."ش".
13656 زہری (رح) سے مروی ہے مجھے حضرات عمر، عثمان اور ابن عمر (رض) کے متعلق خبر ملی ہے کہ یہ حضرات شرب خمر میں غلام کو (بھی) اسی کوڑے مارتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13657

13657- عن عمر قال: من شرب من الخمر قليلا أو كثيرا، ضرب الحد. "ش".
13657 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : جس نے شراب پی تھوڑی یا زیادہ اس کو حد جاری کی جائے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13658

13658- عن ابن شهاب أنه سئل عن جلد العبد في الخمر؟ فقال: بلغنا أن عليه نصف حد الحر في الخمر، وأن عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان وعبد الله بن عمر قد جلدوا عبيدهم نصف جلد الحر. "مالك عب ومسدد هق".
13658 ابن شہاب (زہری (رح)) سے مروی ہے کہ ان سے غلام کو شرب خمر کی حد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (رح) نے فرمایا : ہمیں خبر ملی ہے کہ اس پر آزاد آدمی کی (اسی کوڑوں کی) حد کا نصف (یعنی چالیس کوڑے) ہے اور عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور عبداللہ بن عمر (رض) اپنے غلاموں کو آزاد کی حد کا نصف جاری کرتے تھے۔ موطا امام مالک، الجامع لعبد الرزاق، مسدد، السنن للبیہقی

13659

13659- عن عبد الله بن أبي مليكة قال: تبرز عمر بن الخطاب في أجناد فوجد رجلا سكران فطرق به ابن مليكة وكان جعله يقيم الحدود فقال: إذا أصبحت فاحدده "عب".
13659 عبداللہ بن ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ایک مرتبہ لشکروں میں آنکلے ایک آدمی کو نشہ کی حالت میں پایا (آپ (رض)) اس کو لے کر ابن ملیکہ کے پاس گئے وہ حدود نافذ کرتے تھے، رات کا سماں تھا، اس لیے اس کو فرمایا صبح ہو تو اس پر حد جاری کرنا۔ الجامع لعبد الرزاق

13660

13660- عن ثور بن يزيد [الديلي] أن عمر بن الخطاب استشار في الخمر يشربها الرجل؟ فقال له علي بن أبي طالب: نرى أن تجلده ثمانين، فإنه إذا شرب سكر وإذا سكر هذي وإذا هذي افترى، فجلده عمر في الخمر ثمانين. "مالك" ورواه عب عن عكرمة
13660 تو ابن یزید سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے شراب پینے والے آدمی کے متعلق مشاورت فرمائی۔ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا خیال ہے آپ اس کو اسی کوڑے ماریں۔ کیونکہ آدمی جب شراب پیتا ہے تو نشہ میں آجاتا ہے، نشہ میں آتا ہے تو ہرزہ سرائی (بکواس بازی) کرتا ہے۔ اور جب ہرزہ سرائی کرتا ہے تو تہمت لگاتا ہے (اور تہمت کی حد اسی کوڑے ہے) ۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو اسی کوڑے مارے۔ موطا امام مالک
عبدالرزاق نے اس روایت کو عکرمہ سے نقل کیا ہے۔

13661

13661- عن عبد الله بن أبي الهذيل قال: كنت جالسا عند عمر فجيء بشيخ نشوان في رمضان فقال للمنخرين4: ويلك، أفي رمضان، وصبياننا صيام فضربه ثمانين وسيره إلى الشام. "عب وأبو عبيد في الغريب وابن سعد وابن جرير ق".
13661 عبداللہ بن ابی الہذیل سے مروی ہے ، فرماتے ہیں : میں حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ایک بوڑھے کو جو نشے میں دھت تھا آپ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : اد اوندھے گرنے والے ! تیرا ناس ہو، رمضان میں ! حالانکہ ہمارے بچے بھی روزہ دار ہیں۔ پھر آپ (رض) نے اس بوڑھے کو اسی کوڑے لگوائے اور شام کی طرف جلاوطن کردیا۔
الجامع لعبد الرزاق، ابوعبید فی الغریب، ابن سعد، ابن جریر، السنن للبیہقی

13662

13662- عن أبي بكر بن عمرو بن حزم أن عمر أقام على رجل شرب الخمر الحد وهو مريض وقال: أخشى أن يموت قبل أن يقام عليه الحد. "مسدد وابن جرير".
13662 ابوبکر بن عمرو بن حزم سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک ایسے شخص پر حد جاری کی جس نے شراب نوشی کی تھی۔ حالانکہ وہ مریض تھا۔ لیکن آپ (رض) نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ حد قائم ہونے سے پہلے نہ مرجائے۔ مسدد ، ابن جریر

13663

13663- عن العلاء بن بدر أن رجلا شرب الخمر أو الطلاء شك هشيم فأتى عمر فقال: ما شربت إلا حلالا فقال: قوله أشد عنده مما صنع، فاستشار فيه فأشاروا عليه إلى ضربه ثمانين، فصارت سنة بعد. "مسدد".
13663 علاء بن بدر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے شراب یا طلاء پی لی (یہ شک راوی ہیثم کو ہے) پھر وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور بولا : میں نے محض حلال چیز پی ہے۔ علاء بن بدر کہتے ہیں : آپ (رض) کو اس کی بات اس کے فعل سے زیادہ بری لگی۔ چنانچہ آپ (رض) نے اس کے متعلق مشورہ کیا تو اصحاب نے اسی کو اسی کوڑے مارنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ پھر یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ مسدد

13664

13664- عن السائب بن يزيد أنه حضر عمر بن الخطاب وهو يجلد رجلا وجد منه ريح شراب، فجلده الحد تاما. "عب وابن وهب وابن جرير".
13664 حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ (رض) ایک آدمی کو شراب نوشی کی حد لگا رہے تھے۔ آپ کو اس شراب کی بو ملی تھی۔ آخر آپ نے اس کو پوری حد جاری فرمادی۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن وھب ابن جریر

13665

13665- عن إسماعيل بن امية قال: كان عمر إذا وجد من رجل ريح شراب جلده جلدات إن كان ممن يدمن الشراب، وإن كان غير مدمن تركه. "عب".
13665 اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے حضرت عمر (رض) جب کسی آدمی میں شراب کی بدبو پاتے اور وہ شراب کا عادی ہوتا تو اس کو چند کوڑے مار دیتے اور اگر کوئی اور ہوتا تو اس کو چھوڑ دیتے۔
الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : یہ صورت صرف شراب کی بدبو پانے میں ہوتی تھی لیکن اگر کسی نے شراب نوشی کی ہوتی اور وہ نشہ میں دھت ہوتا تو اس پر کمل حد جاری فرماتے تھے۔

13666

13666- عن يعلى بن أمية قال: قلت لعمر: إنا بأرض فيها شراب كثير فكيف نجلده؟ قال: إذا استقرئ أم القرآن فلم يقرأها ولم يعرف رداءه إذا ألقيته بين الأردية فاحدده. "عب".
13666 یعلی بن امیۃ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : ہم ایسی سرزمین پر رہتے ہیں جہاں، شراب نوشی بہت پائی جاتی ہے۔ ہم کیسے ان کو حد جاری کریں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : جو شراب نوشی کرے اس سے سورة فاتحہ سنو اگر وہ پڑھ سکے، اسی طرح اس کی چادر دوسری چادروں میں ملا کر سامنے کرو اگر وہ اپنی چادر بھی نہ پہچانے تو اس کو حد جاری کردو۔ الجامع لعبد الرزاق

13667

13667- عن ابن المسيب قال: غرب عمر أبا بكر أمية بن خلف في الشراب إلى خيبر فلحق بهرقل فتنصر قال عمر: لا أغرب بعده مسلما أبدا. "عب".
13667 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ابوبکر امیہ بن خلف کو شراب نوشی کے جرم میں خیبر جلاء وطن کردیا وہ وہاں سے چل کر ہرقل شاہ روم کے ساتھ جا ملا اور نصرانیت کا مذہب اختیار کرلیا۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کے بعد کبھی کسی مسلمان کو جلاء وطن نہ کیا جائے گا۔
الجامع لعبد الرزاق

13668

13668- عن إسماعيل بن أمية أن عمر بن الخطاب كان إذا وجد شاربا في رمضان نفاه مع الحد. "عب".
13668 اسماعیل بن امیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) ۔ پہلے جب رمضان میں کسی شراب نوش کو پاتے تو اس کو کوڑے لگانے کے ساتھ جلاوطن بھی کرتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13669

13669- عن ابن عمر أن أبا بكر بن أمية بن خلف غرب في الخمر إلى خيبر فلحق بهرقل، قال: فتنصر، فقال عمر، لا أغرب مسلما بعده أبدا. "عب".
13669 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ابوبکر بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کی سزا میں خیبر جلاوطن کردیا گیا وہ ھرقل کے ساتھ جاملا اور نصرانیت اختیار کرلی۔ تب حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : آئندہ میں کسی مسلمان کو کبھی بھی جلاء وطن نہ کروں گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13670

13670- سيف بن عمر عن الربيع وأبي المجالد وأبي عثمان وأبي حارثة قالوا: كتب أبو عبيدة إلى عمر أن نفرا من المسلمين أصابوا الشراب منهم ضرار وأبو جندل فسألناهم فتأولوا، وقالوا: خيرنا فاخترنا، قال: فهل أنتم منتهون ولم يعزم، فكتب إليه عمر فذلك بيننا وبينهم، فهل أنتم منتهون يعني فانتهوا: وجمع الناس فاجتمعوا على أن يضربوا فيها ثمانين جلدة ويضمنوا النفس ومن تأول عليها بمثل هذا فإن أبي قتل، وقالوا: ومن تأول على ما فسر رسول الله صلى الله عليه وسلم منه يزجر بالفعل والقتل، فكتب عمر إلى أبي عبيدة أن ادعهم، فإن زعموا أنها حلال فاقتلهم، وإن زعموا أنها حرام فاجلدهم ثمانين، فبعث إليهم فسألهم على رؤوس الأشهاد، فقالوا: حرام فجلدهم ثمانين، وحد القوم وندموا على لجاجتهم وقال: ليحدثن فيكم يا أهل الشام حادث فحدثت الرمادة1 "ن".
13670 سیف بن عمر روایت کرتے ہیں کہ ربیع، ابوالمجالد، ابوعثمان اور ابو حارثہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو لکھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ شراب نوشی کا مرتکب ہوا ہے، جن میں ضرار اور ابوجندل بھی شامل ہیں۔ ہم نے ان سے باز پرس کی تو انھوں نے تاویل پیش کی کہ ہم کو اختیار دیا گیا تھا اور ہم نے شراب کو اختیار کرلیا۔ وہ اس طرح کہ اللہ نے فرمایا : فھل انتم منتھون، یا تم شراب سے باز آنے والے ہو ؟ اور اللہ پاک نے تاکیداً حکم نہیں دیا۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ یہ بات تو ان کے اور ہمارے درمیان ہے۔ لیکن فھل انتم منتھون کا مطلب ہے فانتھوا یعنی باز آجاؤ۔
پھر حضرت عمر (رض) نے اصحاب کرام کو جمع فرمایا ان کا اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ شراب نوشی میں اسی کوڑے مارے جائیں اور جان جانے کی صورت میں ضمان دیں (یعنی دیت ادا کریں) اور جو اس طرح کی تاویل کرے (قرآن میں اور شراب نوشی کو جائز سمجھے) اگر وہ نہ مانے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کی تفسیر فرما گئے ہیں پھر بھی کوئی اس کے خلاف تفسیر بیان کرے (مذکورہ مثال کی طرح) تو اس کو زجروتنبیہ کی جائے اور (باز نہ آنے کی صورت میں) قتل کیا جائے۔
بالآخر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کو لکھا : ان لوگوں کو بلاؤ اور اگر ان کا گمان ہو کہ یہ حلال ہے تو ان کو قتل کردو۔ اور اگر ان کا گمان ہو کہ وہ حرام ہے تو ان کی شراب نوشی کے جرم میں اسی کوڑے مارو۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہ (رض) نے مے نوشوں کو بلایا۔ اور تمام لوگوں کے سامنے ان سے سوال کیا تو انھوں نے کہا : شراب حرام ہے۔ لہٰذا حضرت ابوعبیدہ (رض) نے ان کو اسی اسی کوڑے لگوائے اور غلط تفسیر کرنے والوں کو بھی سزا دی گئی۔ وہ بھی اپنی حرکت پر نادم ہوئے۔ حضرت ابوعبیدہ (رض) نے لوگوں کو فرمایا : اے اہل شام ! اب تمہارے اندر کو مصیبت اترے گی۔ چنانچہ اس سال قحط سالی پیش آئی اور اس سال کو عام الرمادۃ کہا جانے لگا۔ النسائی

13671

13671- عن الحكم بن عيينة والشعبي قالا: لما كتب أبو عبيدة في أبي جندل وضرار بن الأزور، جمع الناس فاستشارهم في ذلك الحديث فأجمعوا أن يحدوا في شرب الخمر والسكر من الأشربة حد القاذف وإن مات في حد من هذا الحد فعلى بيت المال ديته لأنه شيء رواه سيف بن عمر. "كر".
13671 حکم بن عینیہ (رح) اور شعبی (رح) سے مروی ہے فرمایا : جب ابوعبیدہ (رض) نے ابوجندل اور ضرار بن الازور (کی شراب نوشی) کے متعلق لکھا تو حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے اس مسئلے کے بارے میں مشاورت فرمائی۔ سب اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ شراب اور دوسرے نشہ آور مشروبات میں حد تہمت جاری کی جائے اور اگر وہ حد میں کوئی مرجائے تو بیت المال اس کی دیت ادا کرے گا۔
اس کو سیف بن عمر نے تفصیلاً روایت کیا ہے۔ ابن عساکر

13672

13672- عن عمرو بن عبد الله بن طلحة الخزاعي أن عمر بن الخطاب أتي بقوم أخذو على شراب؛ فيهم رجل صائم فجلدهم وجلده معهم قالوا: إنه صائم قال: لم جلس معهم. "حم في الأشربة ن".
13672 عمرو بن عبداللہ بن طلحہ الخزاعی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس کچھ لوگوں کو پکڑ کر لایا گیا جنہوں نے شراب نوشی کی تھی۔ ان میں ایک روزہ دار بھی تھا (یعنی اس نے شراب نوشی نہیں کی تھی مگر ان کے ساتھ بیٹھا تھا) چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ان سب کو روزہ دار سمیت حد خمر جاری کی۔ لوگوں نے کہا : یہ تو روزہ دار ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : پھر ان کے ساتھ کیوں بیٹھا تھا۔
الاشریۃ للاحمد، النسائی

13673

13673- عن عبد الله بن جراد أن عمر بن الخطاب قال: حد الخمر ثمانون. "ابن جرير".
13673 عبداللہ بن جراد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : حد خمر اسی کوڑے ہیں۔ ابن جریر

13674

13674- عن الحسن قال: قال عمر: لقد هممت أن أجمع رجالا فأكتب عليه، هذا ما شهد عليه عمر وفلان وفلان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلد في الخمر. "ابن جرير".
13674 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میرا ارادہ ہوا کہ لوگوں کو جمع کرکے ان کے روبرو اس (قرآن شریف) پر لکھوادوں کہ اس بات پر عمر اور فلاں فلاں لوگ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمر (شراب نوشی) میں حد جاری فرمائی ہے۔
ابن جریر

13675

13675- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم جلد في الخمر بالجريد والنعال، ثم جلد أبو بكر أربعين، فلما كان عمر ودنا الناس من الريف والقرى قال: ما ترون في حد الخمر؟ فقال عبد الرحمن بن عوف: أرى أن تجعلها كأخف الحدود فجعلها عمر ثمانين. "ابن جرير".
13675 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی میں چھڑی اور جوتوں سے حد لگائی۔ پھر ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے مارے۔ پھر جب حضرت عمر (رض) کا دور آیا اور لوگ خوشحال مقامات اور بستیوں میں آگئے تو اس وقت حضرت عمر (رض) نے (اہل علم صحابہ (رض)) سے مشاورت کی کہ حد خمر کیا ہونی چاہیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ شراب کی حد تمام حدود میں سب سے کم حد (جو حد تہمت ہے وہ) وہ مقرر فرمادیں ۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اسی کوڑے حد خمر مقرر فرمادی۔ ابن جریر

13676

13676- عن وبرة أن أبا بكر الصديق كان يجلد في الشراب أربعين وكان عمر يجلد فيها أربعين قال: فبعثني خالد بن الوليد إلى عمر فقدمت عليه فقلت: يا أمير المؤمنين؛ إن خالدا بعثني إليك قال: فيم؟ قلت: إن الناس قد تحاقروا العقوبة وانهمكوا في الخمر، فماذا ترى في ذلك؟ فقال عمر لمن حوله: ما ترون؟ قال علي بن أبي طالب: نرى يا أمير المؤمنين ثمانين جلدة فقبل عمر ذلك، وكان خالد أول من جلد ثمانين، ثم جلد عمر ناسا بعده. "ابن وهب وابن جرير هق"
13676 وبرۃ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) شراب نوشی میں چالیس کوڑے مارتے تھے۔ حضرت عمر (رض) بھی چالیس کوڑے مارتے تھے۔ وبرۃ (رض) فرماتے ہیں : پھر مجھے حضرت خالد بن ولید (رض) نے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے آکر عرض کیا : یا امیر المومنین ! حضرت خالد (رض) نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ؟ پوچھا : کس بارے میں ؟ میں نے عرض کیا : لوگ اس سزا کو کم سمجھ کر شراب نوشی کا ارتکاب کررہے ہیں اس لیے آپ کا کیا خیال ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے اپنے گردوپیش لوگوں سے پوچھا : تم لوگوں کا کیا خیال ہے ؟ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا : یا امیر المومنین ! ہمارا خیال ہے کہ اسی کوڑے صحیح ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو قبول فرمالیا۔ اور سب سے پہلے حضرت خالد بن ولید (رض) نے اسی کوڑے لگائے، پھر عمر (رض) نے اس کے بعد لوگوں کو شراب نوشی میں اتنے کوڑے مارے۔ ابن وھب، ابن جریر، السنن للبیہقی

13677

13677- عن الشعبي قال: كان الرجل إذا شرب الخمر لهزه هذا وهذا حتى إذا أكثر الناس استشار عمر فقال: إن الناس قد كثروا ولو أن الناس كلهم لهزوا هذا قتلوه، فأشار إليهم عبد الرحمن بن عوف قال: افتري على القرآن، يحد حد المفترى قال: فسنوه ثمانين. "ابن جرير".
13677 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ جب کوئی آدمی شراب نوشی کرتا تو بطور حد کے ہر کوئی اس کو تھپڑ مارتا حتیٰ کہ مارنے والے زیادہ ہوجاتے۔ آخر حضرت عمر (رض) نے مشورہ کیا اور فرمایا : لوگ مارنے میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر سب ہی اس طرح مارنے لگے تو آدمی کو قتل کردیں گے۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : قرآن کے مطابق جو حد تہمت ہے (اسی کوڑے) اس کو مقرر فرمادیں۔ چنانچہ سب صحابہ (رض) نے اسی کوڑے مقرر فرمالیے۔ ابن جریر

13678

13678- عن عبيد بن عمير قال: إنما كان الشارب يضرب في عهد النبي صلى الله عليه وسلم يصكونه1 بأيديهم ونعالهم، حتى إذا كان عمر خشى أن يغتال الرجل فضربه أربعين، فلما رآهم لا ينتهون ضرب ثمانين، ثم وقف وقال: هذا أدنى الحدود. "ابن جرير".
13678 حضرت عبید بن عمیر (رح) سے مروی ہے فرمایا : عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مے نوش کو (حکم نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر) لوگ اس کو تھپڑوں اور جوتوں سے مارلیتے تھے۔ جب حضرت عمر (رض) کا دور آیا تو اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں اس طرح آدمی ہلاک نہ ہوجائے چنانچہ صرف چالیس کوڑے مارنے پر اکتفا کیا گیا۔ لیکن جب دیکھا کہ اتنی سزا سے لوگ شراب نوشی سے باز نہیں آتے تو حضرت عمر (رض) نے (صحابہ کرام (رض)) کے مشورہ کے مطابق اسی کوڑے مارنے شروع کیے۔ پھر اسی پر عمل جاری رکھا اور فرمایا : یہ ادنیٰ ترین حد ہے۔ ابن جریر
فائدہ : حدجاری کرنے میں ہاتھ اتنا اوپر کرنا ممنوع ہے جس سے بغل نظر آئے، یعنی ہاتھ کو ہموار سطح سے اونچا کرنا ممنوع ہے اس لیے کوڑے سے ایک حد سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی، اسی وجہ سے چالیس سے بڑھا کر اسی کوڑے مقرر کیے گئے۔

13679

13679- عن نجدة الحنفي قال: سألت ابن عباس كيف كان الضرب في الخمر؟ قال: بالأيدي والنعال، فخفنا أن يأتيه عدوه في زحام الناس فيقتله فجعلناه ضربا علانية بالسياط. "ابن جرير".
13679 نجدۃ الحنفی سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ شراب نوشی میں حد کیسے جاری کی جاتی تھی ؟ ارشاد فرمایا : پہلے تو ہاتھوں اور جوتوں سے شراب نوش کو مار لیا جاتا تھا، لیکن پھر ہم کو خوف ہوا کہ کہیں شراب نوش کا کوئی دشمن اژدھام کا فائدہ اٹھا کر اس کو مار ہی ڈالے۔ پس ہم نے کھلے کوڑے مارنے طے کر لیے (یعنی ایک آدمی تمام کوڑے مارے) ۔
ابن جریر

13680

13680- عن يعقوب بن عتبة قال: بعث أبو عبيدة بن الجراح وبرة بن رومان الكلبي إلى عمر بن الخطاب أن الناس قد تتابعوا في شرب الخمر بالشام وقد ضربت أربعين ولا أراها تغني عنهم شيئا فاستشار عمر الناس فقال علي: أرى أن تجعلها بمنزلة حد الفرية أن الرجل إذا شرب هذى وإذا هذي افترى فجلدها عمر وكتب إلى أبي عبيدة فجلدها بالشام. "ابن جرير".
13680 یعقوب بن عتبہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) نے وبرۃ بن رومان البکلی کو حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ شام میں لوگ شراب نوشی میں بڑھتے جارہے ہیں۔ حالانکہ میں چالیس کوڑے مارتا ہوں۔ لیکن مجھے نہیں محسوس ہوتا کہ کوڑوں کی اتنی تعداد ان کو اس کام سے روک دے گی۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ آپ شرب خمر کی حد کو حد تہمت کے برابر طے فرمادیں کیونکہ آدمی جب شراب نوشی کرتا ہے تو ہرزہ سرائی (بےسوچے سمجھے بکواس) کرتا ہے۔ اور جب ہرزہ سرائی کرتا ہے تو تہمت بھی لگا دیتا ہے۔
چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اتنے کوڑے مارے اور ابوعبیدہ (رض) کو بھی لکھ بھیجا۔ انھوں نے بھی ملک شام میں یہی تعداد طے فرمادی۔ ابن جریر

13681

13681- عن قتادة قال: جلد عمر بن الخطاب أبا محجن في الخمر سبع مرات. "ابن جرير".
13681 قتادہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو محجن کو (متعدد بار کی) شراب نوشی میں سات مرتبہ حد جاری فرمائی۔ ابن جریر

13682

13682- عن زياد في حديث قدامة بن مظعون حين جلد قال: قال علقمة الخصي1 رفعوه إلى عمر فقال: من يشهد؟ قال علقمة الخصي: أنا أشهد إن أجزت شهادة الخصي، قال عمر: أما أنت فنعم، قال: فأشهد أنه قاء الخمر قال عمر: فإنه لم يقئها حتى شربها. "ابن جرير".
13682 زیاد (رح) سے مروی ہے کہ قدامہ بن مظعون کو لوگوں نے حضرت عمر (رض) کی خدمت میں پیش کیا انھوں نے شراب نوشی کی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : اس پر شہادت کون دیتا ہے ؟ علقمہ خصی نے فرمایا : اگر آپ کسی خصی کی شہادت کو معتبر مانتے ہیں تو میں شہادت دیتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہاں تمہاری بات تو درست ہے۔ چنانچہ علقمہ نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اس نے قے (الٹی) کی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : پھر تو اس نے پی ہوگی کیونکہ قے بغیر نوش کیے نہیں کرسکتا۔
ابن جریر

13683

13683- عن محمد بن سيرين قال: قدم الجارود فوضع رحله على رحل ابن عفان أو ابن عوف، فانطلق صاحب رحله إلى عمر فذكره له، فقال: إني لأهم أن أخير الجارود بين إحدى ثلاث: أن أقدمه فأضرب عنقه، وبين أن أحبسه بالمدينة مهانا مقضيا، وبين أن أسيره إلى الشام، فقال: يا أمير المؤمنين ما تركت له متخيرا، فانطلق بهن فلقي الجارود قال: فما قلت له؟ قال: قلت يا أمير المؤمنين ما تركت له متخيرا: قال: بلى كلهن لي خيرة، إما أن يقدمني فيضرب عنقي فوالله ما أراه ليؤثرني على نفسه، وإما أن يحبسني في المدينة مهانا مقضيا في جوار قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأزواج النبي صلى الله عليه وسلم، فما أكره، وإما أن يسيرني إلى الشام فأرض المحشر وأرض المنشر، قال: فانطلق فلقي أمير المؤمنين فذكر ذلك له، فقال: أين هو؟ أرسلوا إليه، فأرسلوا إليه، فجاء فقال: إيه1 من شهودك؟ قال: أبو هريرة قال: أخيتنك أما والله لأوجعن متنه بالسوط، فقال: والله ما ذاك بالعدل أن يشرب ختنك وتجلد ختني، قال: ومن؟ قال: علقمة، قال: الصدوق أرسلوا إليه فجاء، فقال لأبي هريرة: بما تشهد؟ قال: أشهد أني رأيته يشربها مع ابن دسر حتى جعلها في بطنه، وقال لذلك: بما تشهد؟ قال: وتجوز شهادة الخصي قال: ما رأيته شربها ولكني رأيته مجها3 قال: لعمري ما مجها حتى شربها ما حاببت بالإمارة منذ كنت عليها رجلا غيره، فما بورك لي فيه، اذهبوا به فاجلدوه. "ابن جرير".
13683 محمد بن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ جارود (جو بحرین کی معزز ہستی تھے) ابن عفان یا ابن عوف کے پاس آکر مقیم ہوئے۔ صاحب مکان نے آکر حضرت علی (رض) کو خبر سنائی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرا ارادہ ہے کہ میں جاود کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار دوں یا تو اس کو بلا کر اس کی گردن زنی کروں، یا اس کو مدینہ میں کسی بیگار کے کام پر روک لوں یا اس کو شام ملک چلتا کردوں۔ کیونکہ وہ بغیر شہادت کے بحرین کے گورنر قلامہ کو شراب نوشی کی سزا میں کوڑے لگوانا چاہتا ہے۔ صاحب منزل (جن کے ہاں جارود ٹھہرے ہوئے تھے) نے کہا یا امیر المومنین ! آپ نے اس کے لیے کوئی اختیار کی (آسان بات) نہیں چھوڑی۔ چنانچہ وہ ان باتوں کے ساتھ واپس جارود کے پاس گئے اور ان کو خبر سنائی۔ جارود نے پوچھا : آپ نے امیر المومنین کو ان باتوں کے جواب میں کیا کہا ؟ صاحب مکان بولے : میں نے عرض کیا : امیر ا مومنین ! آپ نے جارود کے لیے کوئی خاص بات سہولت کی نہیں چھوڑی۔ جارود بولے : مجھے تینوں باتیں ہی منظور ہیں۔ اگر آپ (رض) مجھے بلا کر میری گردن زنی کرتے ہیں تو اللہ کی قسم ! میں بھی آپ (رض) کو نہیں سمجھتا کہ وہ مجھے اپنی ذات پر ترجیح دیں گے۔ اگر وہ مجھے مدینے میں کسی مشقت پر روکتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب اور زاواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت پر تو مجھے یہ بھی ناپسند نہیں ہے اور اگر وہ مجھے شام بھیجنا چاہتے ہیں تو وہ بھی حشر ونشر (قیامت واقع ہونے والی) سرزمین ہے۔
چنانچہ صاحب مکان نے یہ پیغام آکر حضرت امیر المومنین عمر (رض) کو دیا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : وہ کہاں ہے ؟ اس کو بلاؤ۔ چنانچہ وہ بلائے جانے پر حاضر بارگاہ ہوئے حضرت عمر (رض) نے پوچھا : لاؤ تمہارے گواہ کون ہیں (جو گواہی دیں کہ قدامہ نے شراب پی ہے) جارود بولے : ابو ہریرہ (رض) (حضرت عمر (رض)) نے فرمایا : وہ تیرا سالا ؟ اللہ کی قسم : میں اس کی کمر کوڑے مار مار کر سجادوں گا۔ تب حضرت جارود نے (قدرے جرات سے) فرمایا : اللہ کی قسم یہ انصاف کی بات نہ ہوگی کہ آپ کا سالا تو شراب نوشی کرے (قدامہ حضرت عمر (رض)) کی اہلیہ کے بھائی اور ابن عمروحفصہ کے ماموں تھے اور میرا سالا اس کی گواہی دینے پر کوڑے کھائے۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : اچھا اور کون ان پر گواہی دے رہا ہے ؟ جارود بولے : علقمہ (حضرت عمر (رض)) نے فرمایا : ہاں وہ سچے آدمی ہیں۔ ان کو بلاؤ۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا تم کس بات کی شہادت دیتے ہو ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے ان کو (قدامہ بن مظعون کو) ابن دسر کے ساتھ شراب نوشی کرتے دیکھا ہے حتیٰ کہ انھوں نے اپنے پیٹ میں شراب انڈیل لی ہے۔ علقمہ جو خصی تھے اور ان کی شہادت جائز تھی۔ واللہ اعلم یہ واقعی خصی تھے یا کسی خصہ نامی بستی کی طرف منسوب تھے جیسا کہ ابن حجر (رح) نے ذکر کیا ہے۔ علقمہ بولے : میں نے قدامہ کو شراب پیتے نہیں دیکھا لیکن شراب تھوکتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عمر (رض) بولے : اللہ کی قسم ! انھوں نے تھو کی ہے تو ضرور پی ہوگی (بس مجھے ان شہادتوں پر یقین آگیا اور بات یہ ہے کہ) میں جب سے امارت (حکومت) پر بیٹھا ہوں میں نے ان کو بہت پسند کیا تھا (اور اسی وجہ سے ان کو بحرین کا گورنر بنایا تھا) لیکن مجھے ان سے خیر و برکت نہیں ملی، پس ان کو لے کر جاؤ اور شراب نوشی کی سزا میں کوڑے مارو۔ ابن جریر

13684

13684- عن ابن عباس أن الشراب كانوا يضربون في عهد النبي صلى الله عليه وسلم بالأيدي والنعال والعصي حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم فكانوا في خلافة أبي بكر أكثر منهم في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر: لو فرضنا لهم حدا فتوخى1 نحوا مما كانوا يضربون في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان أبو بكر يجلدهم أربعين حتى توفي، ثم كان عمر من بعده فجلدهم كذلك أربعين، حتى أتي برجل من المهاجرين الأولين، فشرب فأمر به أن يجلد، فقال: لم تجلدني؟ بيني وبينك كتاب الله، فقال عمر: وفي أي كتاب تجد أن لا أجلدك؟ فقال: إن الله تعالى يقول في كتابه: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ} الآية، فأنا من الذين آمنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وآمنوا ثم اتقوا وأحسنوا شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا وأحدا والخندق والمشاهد، فقال عمر: ألا تردون عليه ما يقول؟ فقال ابن عباس: إن هذه الآية أنزلت عذرا للماضين وحجة على الباقين فعذر الماضين أنهم لقوا الله قبل أن تحرم عليهم الخمر، وحجة على الباقين لأن الله تعالى قال: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ} الآية ثم قرأ حتى أنفذ الآية، فإن كان من الذين آمنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وآمنوا ثم اتقوا وأحسنوا فإن الله قد نهى أن تشرب الخمر فقال: صدقت، فماذا ترون؟ قال علي: نرى أنه إذا شرب سكر وإذا سكر هذي، وإذا هذي افترى وعلى المفترى ثمانون جلدة فأمر عمر فجلد ثمانين. "أبو الشيخ وابن مردويه ك هق"
13684 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں شراب نوش کرنے والوں کو ہاتھوں، جوتوں اور لاٹھیوں سے مار لیتے تھے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا۔ پھر خلافت ابی بکر (رض) میں لوگ حضور کے زمانے کی نسبت زیادہ ہوگئے (جن پر حد جاری کی جاتی) ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہم کو کوئی مقرر حد طے کردینا چاہیے۔ چنانچہ عہد نبوی میں جو سزا دی جاتی تھی اس پر غور کیا گیا اور چالیس کوڑے مقرر کردیئے گئے۔ حضرت ابوبکر (رض) چالیس کوڑے مارتے رہے حتیٰ کہ ان کی وفات ہوگئی ۔ پھر حضرت عمر (رض) کا دور آیا، آپ (رض) بھی اسی طرح چالیس کوڑے مارتے رہے۔ حتیٰ کہ مہاجرین اولین میں سے ایک آدمی لایا گیا۔ غالباً وہ پچھلی روایت والے حضرت قدامۃ بن مظعون (رض) تھے انھوں نے بھی شراب نوشی کی تھی۔ آپ (رض) نے ان کے لیے کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ انھوں نے فرمایا : آپ مجھے کیوں کوڑے لگواتے ہیں ؟ میرے اور آپ کے درمیان کتاب اللہ ہے (اس کے مطابق فیصلہ کریں) ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آپ کونسی کتاب میں پاتے ہیں کہ میں آپ کو کوڑے نہ ماروں ؟ انھوں نے فرمایا : اللہ کا فرمان ہے :
لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح۔
جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے اعمال کیے ان پر کوئی گناہ نہیں۔
میں تو ان لوگوں میں سے ہوں۔
من الذین آمنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وآمنوا ثم اتقوا واحسنو۔
جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے پھر (مزید) تقویٰ اختیار کیا اور اچھائی کی۔
میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدر، احد، خندق اور بہت سے غزوات میں شریک رہا۔
حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو فرمایا : تم ان کو جواب کیوں نہیں دیتے یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ آیت نازل ہوئی تھی جو لوگ چلے گئے ہیں ان کے لیے عذر بن کر اور جو پیچھے رہ گئے ان کے لیے تو یہ حجت ہے۔ چلے جانے والوں کا عذر تو یہ تھا کہ وہ شراب حرام ہونے سے پہلے اللہ کے پاس چلے گئے۔ جبکہ رہ جانے والوں پر یہ حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
یا ایھا الذین آمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔
یہاں شراب کو شیطان کا عمل اور گندگی فرمایا۔ اور اس سے اجتناب کا حکم دیا۔ فرمایا : اگر وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ایمان لائے، عمل صالح کیے، پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے پھر تقویٰ اختیار کیا اور اچھائی کی۔ تو اس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ پاک نے شراب نوشی سے منع فرمایا ہے۔
حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے سچ کہا ۔ پھر حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ (کیا سزا ہونی چاہیے ؟ ) حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہمارا خیال ہے کہ آدمی جب شراب پیتا ہے تو نشہ میں آجاتا ہے اور جب نشہ میں آجاتا ہے تو ہرزہ سرائی کرتا ہے اور جب ہرزہ سرائی کرتا ہے تو بہتان طرازی بھی کرتا ہے اور بہتان طرازی کی سزا اسی کوڑے ہے۔ پس حضرت عمر (رض) نے حکم دیدیا اور لائے گئے آدمی کو اسی کوڑے مارے گئے۔ ابو الشیخ، ابن مردویہ، مستدرک الحاکم، السنن للبیہقی

13685

13685- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن الزهري قال: لم يفرض رسول الله في الخمر حدا حتى فرض أبو بكر أربعين، ثم فرض عمر ثمانين، ثم إن عثمان جلد ثمانين وأربعين كان إذا أتي بالرجل الذي قد طلع في الشراب جلده ثمانين، وإذا أتي بالرجل الذي قد زل زلة جلده أربعين. "ابن راهويه".
13685 (مسند عثمان (رض)) زہری (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حد خمر کی کوئی تعداد مقرر نہ فرمائی تھی بلکہ حضرت ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے مقرر کی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اسی کوڑے مقرر فرمائی۔ پھر حضرت عثمان (رض) نے اسی کوڑے اور چالیس کوڑے دونوں حدیں مقرر فرمائیں بایں صورت کہ اگر ایسا آدمی لایا جاتا جو نشے میں بالکل دھت ہوتا تو اس کو اسی کوڑے مارتے اور جب ایسا کوئی آدمی لایا جاتا جو محض ڈگمگارہا ہوتا تو اس کو چالیس کوڑے مارتے۔ ابن راھویہ

13686

13686- "مسند علي رضي الله عنه" عن حصين بن المنذر أبو ساسان الرقاشي قال: حضرت عثمان بن عفان وأتي بالوليد بن عقبة قد شرب الخمر وشهد عليه حمران بن أبان، ورجل آخر، فقال عثمان لعلي: أقم عليه الحد، فأمر علي عبد الله بن جعفر أن يجلده فأخذ في جلده وعلي يعد حتى جلد أربعين، ثم قال له: أمسك جلد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعين وجلد أبو بكر أربعين وعمر صدرا من خلافته ثم أتمها عمر ثمانين وكل سنة وهذا أحب إلي. "طب عب حم م د ن والدارمي وابن جرير وأبو عوانة والطحاوي قط ق".
13686 (مسند علی (رض)) ابو ساسان الرقاشی خصین بن المنذر کہتے ہیں میں حضرت عثمان بن عفان (رض) کی بارگاہ خلافت میں حاضر ہوا۔ وہاں ولید بن عقبہ کو لایا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی اور حمران بن ابان اور ایک دوسرے آدمی نے اس کی شہادت دی تھی۔ حضرت عثمان (رض) نے حضرت علی (رض) نے فرمایا : اس پر حد جاری کرو۔ حضرت علی (رض) نے عبداللہ بن جعفر کو کوڑے مارنے کا حکم دیا ۔ عبداللہ نے کوڑے مارنے شروع کردیئے۔ اور حضرت علی (رض) شمار کرتے رہے حتیٰ کہ حضرت علی (رض) نے چالیس تک شمار کیا پھر فرمایا رک جاؤ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس کوڑے مارے، ابوبکر (رض) نے چالیس کوڑے مارے، عمر (رض) نے صدر خلافت میں چالیس کوڑے مارے پھر اس کی تعداد پوری اسی فرمادی۔ اور یہ سب سنت ہیں اور مجھے یہ تعداد (چالیس) زیادہ پسند ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، الکبیر للطبرانی، مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، السنائی، الدارمی، ابن جریر، ابوعوانۃ، الطحاوی، الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13687

13687- عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلد في الخمر ثمانين. "طس".
13687 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی میں اسی کوڑے (ضربیں) ماری ہیں۔ الاوسط للطبرانی

13688

13688- عن أبي مروان أن عليا ضرب النجاشي الحارثي الشاعر وشرب الخمر في رمضان فضربه ثمانين جلدة، ثم حبسه وأخرجه من الغد فجلده عشرين وقال: إنما جلدتك هذه العشرين لجرأتك على الله وإفطارك في رمضان. "عب هق وابن جرير"
13688 ابو مروان سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے نجاشی حارثی شاعر کو ماہ رمضان میں شراب نوشی کرنے پر اسی کوڑے مارے۔ پھر اس کو قید کروادیا اور اگلے دن نلوا کر بیس کوڑے پھر مارے۔ اور فرمایا : یہ بیس کوڑے اس لیے کہ تم نے رمضان میں دن کے وقت پی کر اللہ پر جرات کی اور روزہ چھوڑا۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی، ابن جریر

13689

13689- عن علي أنه أتي برجل شرب الخمر فقال: اضرب ودع يديه يتقي بهما. "عب".
13689 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی۔ حضرت علی (رض) نے مارنے والے کو حکم دیا اس کو مار اور کھلا چھوڑ دے تاکہ اپنے ہاتھوں سے اپنا دفاع کرتا رہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13690

13690- عن السدي عن شيخ حدثه قال: كنت عند علي فأتي بشارب فدعا بسوط بين السوطين فيه ثمرته فأمر بثمرته فقطعت، ثم ضرب بين حجرين، ثم أعطاه رجلا فقال: اضربه وأعط كل عضو حقه. "ابن جرير".
13690 سدی (رح) ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : میں حضرت علی (رض) کی مجلس میں حاضر تھا۔ آپ (رض) نے ایک کوڑا منگوایا جو دونوں کوڑوں کے درمیان تھا (یعنی زیادہ نرم اور نہ زیادہ سخت) آپ (رض) نے اس کے پھل کا حکم دیا۔ چنانچہ کوڑے کا پھل کو ٹا گیا اور دو پتھروں کے درمیان مار مار کر اس کو نرم کیا گیا۔ پھر حضرت علی (رض) نے وہ کوڑا ایک آدمی کو دیا اور فرمایا اس کے ساتھ مارا اور ہر عضو کو اس کا حصہ دے۔ ابن جریر
فائدہ : یعنی جسم کے ایک حصہ پر ساری تعداد پوری نہ کرو۔ بلکہ جگہیں بدل بدل کر مارو اور چہرے اور شرم گاہ سے احتیاط برت کر مارو۔

13691

13691- عن الحسن أن علي بن أبي طالب قال: ما أحد يموت في حد من الحدود فأجد في نفسي منه شيئا إلا الذي يموت في حد الخمر، فإنه شيء أحدثناه بعد النبي صلى الله عليه وسلم، فمن مات منه فديته إما قال في بيت المال وإما قال على عاقلة الإمام. قال الإمام الشافعي: أنا أشك. "الشافعي هق"
13691 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے ارشاد فرمایا : جو بھی حدود اللہ میں سے کسی حد میں مرے مجھے اپنے دل میں اس کی طرف سے کوئی کھٹکا اور تردد نہیں ہوتا (کیونکہ اس کا اللہ نے حکم دیا ہے) لیکن شراب نوشی کی حد میں جو مرجائے مجھے اس کا خطرہ رہتا ہے کیونکہ یہ حد ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مقرر کی ہے۔ اسی وجہ سے جو اس میں مرجائے میں اس کی جان کا فدیہ (یعنی دیت اور خون بہا) دوں گا۔ بیت المال سے یا فرمایا امام (حاکم) کے قبیلے سے۔
حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہ شک مجھے ہے کہ آپ (رض) نے کیا فرمایا تھا۔
الشافعی، السنن للبیہقی

13692

13692- عن عرفجة أن عليا جلد رجلا في الخمر أربعين جلدة بسوط له طرفان. "هق".
13692 عرفجہ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک آدمی کو شراب نوشی میں چالیس کوڑے مارے لیکن ایسے کوڑے کے ساتھ جس کے دو منہ تھے۔ السنن للبیہقی

13693

13693- عن علي أنه قيل له: إن شرب الخمر أشد من الزنا والسرقة؟ قال: نعم إن شارب الخمر يزني ويسرق ويقتل ويدع الصلاة. "ابن السني في كتاب الأخوة والأخوات".
13693 حضرت علی (رض) سے مروی ہے، حضرت علی (رض) کو کسی نے کہا : کیا شراب نوشی زنا اور چوری سے بھی بڑھ کر سخت ہے ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ہاں کیونکہ شراب نوش (نشے میں) زنا کر بیٹھتا ہے ، چوری کرلیتا ہے، قتل کردیتا ہے اور نماز چھوڑ دیتا ہے۔ ابن السنی فی کتاب الاخوۃ والاخوات

13694

13694- عن أزهر بن عبد بن عوف الزهري رضي الله عنه قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بشارب وهو بخيبر3 فحثا في وجهه التراب، ثم أمر أصحابه فضربوه بنعالهم، وبما كان في أيديهم، حتى قال ارفعوا فرفعوا فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وتلك سنته، ثم جلد أبو بكر في الخمر أربعين. ثم جلد عمر أربعين صدرا من امارته ثم جلد ثمانين في؟؟ اخلافته. "طب وأبو نعيم".
13694 ازھر بن عبدبن عوف الزہری (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مے نوش کو لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت خیبر مقام پر تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے چہرے پر مٹی ماری پھر اپنے اصحاب کو ہاتھوں کی چھڑی اور جوتوں کے ساتھ اسے مارنے کا حکم دیا حتیٰ کہ آپ نے خود ہی حکم فرمایا۔ ٹھہر جاؤ اور پھر اصحاب کرام ٹھہر گئے پھر (اسی طرح آپ شرب خمر پر سزا دیتے رہے حتیٰ کہ) آپ کی وفات ہوگئی۔ اور یہی آپ کا طریقہ رہا۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے شراب نوشی میں چالیس کوڑے مارے، پھر آخر زمانہ خلافت تک اسی کوڑے مارتے رہے۔
الکبیر للطبرانی، ابونعیم

13695

13695- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي برجل قد شرب الخمر فضربه بجريدتين نحوا من أربعين، ثم صنع أبو بكر ذلك، فلما كان عمر استشار الناس، فقال له عبد الرحمن بن عوف: أخف الحدود ثمانون ففعل ذلك. "ابن جرير".
13695 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چھڑیوں کے ساتھ چالیس کے قریب ضربیں ماریں۔ پھر یہی طریقہ حضرت ابوبکر (رض) نے اختیار فرمایا۔ جب حضرت عمر (رض) کا دور آیا تو آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے فرمایا : سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہے۔ پس حضرت عمر (رض) نے یہی مقرر فرمادی۔ ابن جریر

13696

13696- عن عبد الرحمن بن الحارث قال: سمعت عثمان يقول: اجتنبوا الخمر فإنها أم الخبائث، إنه كان رجل ممن خلا قبلكم يتعبد ويعتزل الناس فعلقته امرأة غوية فأرسلت إليه جاريتها، فقالت له: إنها تدعوك للشهادة، فانطلق مع جاريتها، فطفقت كلما دخل بابا أغلقته دونه، حتى أفضى إلى امرأة وضيئة عندها غلام وباطية خمر1 فقالت: والله ما دعوتك للشهادة لكني دعوتك لتقع علي أو تشرب من هذا الخمر كأسا، أو تقتل هذا الغلام، قال: فاسقيني من هذا الخمر كأسا، فقال: زيديني، فلم يرم حتى وقع عليها وقتل النفس فاجتنبوا الخمر فإنها والله لا تجتمع والإيمان أبدا إلا أوشك أحدهما أن يخرج صاحبه. "عب ن هب ق ورستة في الإيمان ورواه ابن أبي الدنيا في ذم المسكر وابن أبي عاصم عب ق هب ص" مرفوعا وقال "ص" سئل الدارقطني عنه فقال: أسنده عمر بن سعيد عن الزهري ووقفه يونس ومعمر وشعيب وغيرهم عن الزهري والموقوف هو الصواب وقال "هب": الموقوف هو المحفوظ وأورد ابن الجوزي المرفوع في الواهيات وصحح الوقف "هب"
13696 عبدالرحمن بن الحارث سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عثمان (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔ شراب نوشی سے اجتناب کرو۔ بیشک یہ ام الخبائث ہے۔ تم سے پہلے زمانے میں ایک عبادت گزار آدمی تھا جو لوگوں سے دور رہتا تھا۔ ایک گمراہ عورت اس پر فریفتہ ہوگئی۔ اس نے اس عبادت گزار کے پاس اپنی باندی بھیجی۔ باندی نے آکر عبادت گزار کو کہا : وہ مالکن آپ کو بلاتی ہے شہادت کے لئے۔ چنانچہ عبادت گزار باندی کے ساتھ ہولیا۔ باندی محل میں پہنچ کر ہرگز رتے دروازے کے پیچھے سے بند کرتی گئی حتیٰ کہ عبادت گزار کو اپنی آقا کے پاس پہنچا دیا جو خوبصورت تھی، اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور ایک شیشے کا برتن شراب سے بھرا ہوا تھا۔ عورت بولی : اللہ کی قسم ! میں نے آپ کو کسی شہادت کے لیے نہیں بلایا ہے، بلکہ میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ میرے ساتھ ہم بستر ہوں، یا اس شراب کا ایک جام پی لیں۔ یا اس بچے کو قتل کردیں۔ عبادت گزارنے (سوچ بچار کے بعد) کہا کہ مجھے اس شراب کا ایک جام پلادو۔ لیکن ایک جام پینے کے بعد اس نے خود ہی مزید پینے کی تمنا کی حتیٰ کہ وہ عورت کے ساتھ آکر بدکاری کا مرتکب بھی ہوگیا اور وہ بچے کو بھی قتل کرڈالا۔
پھر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : لہٰذا اس شراب سے بچو۔ اللہ کی قسم ! یہ اور ایمان دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، الایہ کہ ان سے کوئی ایک نکل جائے تو دوسرا رہ سکتا ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، النسائی، شعب الایمان للبیہقی، السنن للبیہقی ، رستۃ فی الایمان، رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم المسکر، ابن ابی عاصم، الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی، شعب الایمان للبیہقی، السنن لسعیدبن منصور مرفوعاً ۔
سعید بن منصور فرماتے ہیں : امام دارقطنی (رح) سے اس روایت کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : عمر بن سعید نے زہری سے اس کو مسنداً بیان کیا ہے اور یونس، معمر اور شعیب وغیرھم نے زہری سے موقوفاً بیان کیا ہے اور موقوف ہی درست ہے۔ امام بیہقی (رح) فرماتے ہیں موقوف زیادہ محفوظ ہے۔ امام ابن جوزی (رح) نے اس کا مرفوع ہونا واہیات میں ذکر کیا ہے اور اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔ شعب الایمان للبیہقی

13697

13697- قال أبو نعيم في الحلية: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني علي بن محمد القزويني قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني محمد بن أحمد بن قضاعة قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني القاسم بن العلاء الهمداني قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني الحسن بن علي قال: أشهد بالله، وأشهد لله لقد حدثني أبي علي بن محمد قال أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي محمد بن علي قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي علي بن موسى الرضا قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني أبي موسى بن جعفر قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي جعفر بن محمد قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي محمد بن علي قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني أبي علي ابن الحسين قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي الحسين بن علي قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني علي بن أبي طالب قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: حدثني جبريل قال: يا محمد،إن مدمن الخمر كعابد وثن. "قال أبو نعيم: صحيح ثابت" "ابن النجار".
13697 قال ابونعیم فی الحلیۃ : اشھدب اللہ واشھدللہ لقد حدثنی علی بن محمد القزوینی قال اشھد باللہ واشھدللہ۔
امام ابونعیم (رح) حلیۃ الاولیاء میں فرماتے ہیں میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں کہ مجھے علی بن محمد القزوینی نے بیان کیا وہ فرماتے ہیں : میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں۔
لقد حدثنی محمد بن احمد بن قضاعۃ قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی القاسم بن العلاء الھمدانی قال اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی الحسن بن علی قال : اشھدب اللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی علی بن محمد قال اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی محمد بن علی قال اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی علی بن موسیٰ الرضا قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی موسیٰ بن جعفر قال اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی جعفر بن محمد قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی محمد بن علی قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی علی بن الحسین قال اشد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی الحسین بن علی قال : اشھد باللہ واشھد للہ، لقد حدثنی علی بن ابی طالب قال اشھد باللہ واشھدللہ لقد حدثنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
یعنی سب راوی اپنے مروی عنہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ وہ اشھد باللہ اور اشھدللہ کے تاکیدی الفاظ کے ساتھ یہ روایت نقل کرتے ہیں۔ اور قاسم بن العلاء کے بعد آخری راوی حضرت علی (رض) تک تمام راوی باپ دادا ہیں اور آل علی ہیں۔
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں اور اللہ ہی کے لیے شہادت دیتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا : مجھے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے محمد ! شراب کا عادی بت کی عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔ قال ابونعیم صحیح ثابت (ابن النجار) روایت صحیح ہے۔

13698

13698- أنبأنا يوسف بن المبارك بن كامل الخفاف قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد أخبرني محمد بن عبد الباقي الأنصاري قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبو بكر أحمد بن ثابت الخطيب قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبو محمد عبد الله بن أحمد بن عبد الله بن المليح السجزي قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني علي بن محمد الهروي قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني عبد السلام بن صالح قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي موسى بن جعفر قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي جعفر بن محمد قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني أبي محمد بن علي قال: أشهد بالله وأشهد لله، لقد حدثني علي بن الحسين قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي الحسين بن علي قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني أبي علي بن أبي طالب قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني جبرئيل فقال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني ميكائيل وقال: أشهد بالله وأشهد لله لقد حدثني عزرائيل وقال: أشهد بالله وأشهد لله أن الله تعالى قال: مدمن خمر كعابد وثن. "ن"
13698 انبانا یوسف بن المبارک بن کامل الخفاف قال : اشھدب اللہ واشھد للہ لقد اخبرنی محمد بن عبدالباقی الانصاری قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابوبکر احمد بن ثابت الخطیب قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنا القاضی ابوالعلاء محمد بن علی الواسطی قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابو محمد عبداللہ بن احمد بن عبداللہ بن الملیح السجزی قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی علی بن محمد الھروی قال : اشھد باللہ واشھد للہ، لقد حدثنی عبدالسلام بن صالح قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی موسیٰ بن جعفر قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی جعفر بن محمد قال اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی محمد بن علی قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی علی بن الحسین قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی الحسین بن علی قال : اشھد باللہ واشھد للہ لقد حدثنی ابی علی بن ابی طالب۔
مذکورہ روایت کی سند کے مثل مروی ہے
حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : میں اللہ کی قسم ! شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اللہ کی قسم شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں۔ کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے بیان کیا : وہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں کہ مجھے میکائیل (علیہ السلام) نے بیان کیا انھوں نے فرمایا : میں اللہ کی قسم شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں کہ مجھے عزرائیل (علیہ السلام) نے بیان کیا وہ فرماتے ہیں : میں اللہ کی قسم ! شہادت دیتا ہوں اور اللہ کے لیے شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ (جل شانہ) نے خود فرمایا :
مدمن خمر کعابد وثن،
شراب کا عادی بت کی عبادت کرنے والے کی طرح ہے۔ النسائی

13699

13699- عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بعثني الله هدى ورحمة للعالمين وبعثني لأمحق المزامير والمعازف والأوثان وأمر الجاهلية، فقال أوس بن سمعان: والذي بعثك بالحق إني لأجدها في التوراة محرمة خمسا وعشرين مرة ويل لشارب الخمر ويل لشارب الخمر، إني لأجد في التوراة أن حقا على الله أن لا يشربها عبد من عبيده إلا سقاه الله من طينة الخبال، قالوا: ما طينة الخبال يا أبا عبد الله؟ قال: صيد أهل النار. "الحسين بن سفيان وابن منده وأبو نعيم" قال ابن عبد البر: ليس إسناده بالقوي.
13699 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ نے مجھے سارے جہان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا اور مجھے اس لیے بھیجا کہ میں باجوں، گاجوں، بتوں اور جاہلیت کی باتوں کو مٹادوں ختم کردوں۔ اوس بن سمعا بولے : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں توراۃ میں بھی اس کو پچیس مرتبہ پاتا ہوں کہ اس کو حرام کہا گیا۔ ویل لشارب الخمر، ویل لشعارب الخمر۔ شراب نوشی کے لیے ہلاکت ہے شراب نوش کے لیے ہلاکت ہے۔ میں توراۃ میں لکھا پاتا ہوں ! اللہ پر یہ لازم ہے کہ اس مے کو اس کے بندوں میں سے جو پئے گا اللہ اس کو طینۃ الخبال ضرور پلائے گا۔ لوگوں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا : اے ابوعبداللہ طینۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : اہل جہنم کا خون پیپ وغیرہ۔
الحسین بن سفیان، ابن مندہ، ابونعیم
کلام : امام ابن عبدالبر (رح) فرماتے ہیں : اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔ کنز ج 5

13700

13700- عن أبي الجويرية الجرمي قال: سألت ابن عباس عن الباذق، فقال: سبق محمد الباذق. "ش".
13700 ابی الجویریہ الجرمی سے منقول ہے۔ فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے الباذق کے بارے میں سوال کیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : محمد الباذق سے سبقت لے گئے۔ مصنف لا بن ابی شیبہ
فائدہ : الباذق یعنی باذق، انگور کے شیرے کو کہتے ہیں جو تھوڑا سا پکایا ہوا ہو۔ یعنی محمد کے لیے باذق حلال ہے اگر وہ نشہ آور نہ ہو۔ یہ نبیذ کی قبیل سے تو نہیں لیکن شراب میں داخل نہیں

13701

13701- عن ابن عباس أنه سئل عن الباذق؟ فقال: سبق محمد الباذق وما أسكر فهو حرام. "عب".
13701 ابن عباس (رض) سے باذق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : محمد باذق سے سبقت لے گئے اور جو نشہ آور ہو وہ حرام ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13702

13702- عن ابن عباس قال: لم يقت رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخمر حدا فشرب رجل فلقي في فج يميل فانطلق به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأمر به أن يجلد فلما حاذى دار العباس انفلت فدخل الدار فالتزم العباس من ورائه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فضحك، وقال: أفعلها ولم يسأل عنه. "ابن جرير"
13702 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی کے اندر کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ کہ کس حد تک پینے پر حد نافذ ہوگی ایک آدمی نے شراب نوشی کرلی۔ وہ راستے میں لڑکھڑاتا ہوا ملا۔ اس کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے کوڑے مارنے کا حکم دیدیا۔ چنانچہ جب وہ حضرت عباس (رض) کے گھر کے سامنے سے گزرنے لگا تو لڑکھڑاتا ہوا ان کے گھر میں جاگھسا اور حضرت عباس (رض) کو پیچھے سے چمٹ گیا۔ یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذکر کی گئی تو آپ ہنسنے لگے اور فرمایا : بغیر پوچھ تاچھ کے لپٹ گیا۔
ابن جریر

13703

13703- عن ابن عباس قال: ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخمر إلا أخيرا لقد غزا غزوة تبوك فغشي حجرته من الليل سكران فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليقم إليه رجل فليأخذ بيده حتى يرده إلى رحله. "ابن جرير".
13703 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی کے اندر حد نافذ نہیں کی سوائے آخری زمانے کے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب غزوہ تبوک فرمایا تو آپ کے حجرے پر رات کے وقت ایک نشہ میں دھت آدمی آپڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی آدمی اٹھے اور اس کو پکڑ کر اس کے کجاوے تک چھوڑ آئے۔ ابن جریر

13704

13704- عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من شرب الخمر لم تقبل صلاته أربعين ليلة، فإن تاب تاب الله عليه قالها ثلاثا، فإن عاد كان حقا على الله أن يسقيه من نهر الخبال، قيل: وما نهر الخبال؟ قال: صديد أهل النار. "عب".
13704 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جس نے شراب نوشی کی اس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی چالیس روز تک۔ اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ تین مرتبہ ایسا ہی فرمایا اگر پھر (چوتھی بار) شراب نوشی کرے گا تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو نہرالخبال سے پلائے ۔ پوچھا گیا : نہر الخبال کیا ہے ؟ فرمایا : اہل جہنم کا خون پیپ (کا ملغوبہ) ۔ الجامع لعبد الرزاق

13705

13705- عن ابن عمر قال: من شرب الخمر لم يقبل الله منه صلاة أربعين صباحا فإن مات في الأربعين دخل النار، ولم ينظر الله إليه. "عب".
13705 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جس نے شراب نوشی کی اللہ پاک اس کی چالیس روز تک نماز قبول نہ فرمائے گا اور اگر وہ ان چالیس ایام میں مرگیا تو جہنم میں داخل ہوگا اور اللہ پاک اس کی طرف نظر نہ فرمائیں گے۔ الجامع لعبد الرزاق

13706

13706- عن ابن عمر قال: لعنت الخمر وشاربها وساقيها وعاصرها ومعتصرها وبائعها ومبتاعها وآكل ثمنها وحاملها والمحمولة إليه. "عب".
13706 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا : لعنت کی گئی ہے شراب پر، اس کے پینے والے پر، اس کے پلانے والے پر، اس کے نچوڑنے والے پر، اس کے فروخت کرنے والے پر، اس کے خریدنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کے اٹھانے والے پر اور جس کے پاس اٹھا کرلے جائی جائے اس پر۔ الجامع لعبد الرزاق
کلام : روایت سنداً محل کلام ہے : دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ 4458 ۔

13707

13707- عن عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ويكنى أبا الحكم عن ابن عمر وهو من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا شرب الرجل الخمر فاجلدوه، فإن شرب فاجلدوه فإن شرب في الرابعة فاقتلوه. "ابن جرير".
13707 عبدالرحمن بن ابی انعم الجبلی سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) جو اصحاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : آدمی جب شراب نوشی کرتا ہے اس کو کوڑے مارو۔ پھر دوبارہ کرے دوبارہ مارو اگر چوتھی بار بھی شراب نوشی کرے تو اس کو قتل کردو۔ ابن جریر

13708

13708- عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من شرب الخمر فاجلدوه فإن عاد فاجلدوه فإن عاد فاجلدوه فإن عاد في الرابعة فاقتلوه. "ابن جرير".
13708 نافع، ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شراب پئے اس کو مارو۔ اگر پھر کرے پھر مارو۔ اگر پھر کرے تو پھر مارو۔ اگر چوتھی بار کرے تو اس کو قتل کردو۔ ابن جریر

13709

13709- عن الحسن قال: كان عبد الله بن عمرو يقول: ايتوني برجل جلد في الخمر ثلاث مرات فإن لكم علي أن أضرب عنقه. "ابن جرير".
13709 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرمایا کرتے تھے : میرے پاس ایسے شخص کو لاؤ جس پر تین مرتبہ شراب نوشی کی سزا میں حد جاری ہوچکی ہو ۔ مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی گردن اڑادوں۔ ابن جریر

13710

13710- عن الحسن عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من شرب الخمر فاجلدوه، فإن شربها فاجلدوه، فإن شربها فاجلدوه حتى كان الرابعة قال: فاقتلوه. "ابن جرير".
13710 عن الحسن عن عبداللہ بن عمرو (رض) کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شراب نوشی کرے اور کو کوڑے مارو، پھر شراب نوشی کرے پھر کوڑے مارو۔ پھر شراب نوشی کرے پھر کوڑے مارور۔ حتیٰ کہ چوتھی بار کرے تو اس کو قتل کردو۔ ابن جریر

13711

13711- عن شهر بن حوشب عن عبد الله بن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من شرب الخمر فاجلدوه، فإن شربها فاجلدوه، فإن شربها فاقتلوه عند الرابعة. "ابن جرير".
13711 شہر بن حوشب، عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شراب نوشی کرے اس کو کوڑے مارو۔ پھر کرے پھر مارو۔ پھر کرے تو چوتھی بار میں قتل کردو۔ ابن جریر

13712

13712- عن عبد الله بن عمر قال: يجيء يوم القيامة شارب الخمر مسودا وجهه، مزرقة عيناه، مائلا شقه، أو قال: شدقه مدليا لسانه يسيل لعابه على صدره يقذره كل من يراه. "عب".
13712 عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : قیامت کے دن شراب نوش کو سیاہ چہرے والا لایا جائے گا، اس کی آنکھیں بھینگی ہوں گی، اس کی ایک جانب لٹکی ہوگی یا فرمایا : اس کی ایک جانب کی باچھ لٹکی ہوگی، اس کی زبان لٹک رہی ہوگی اور اس کا تھوک اس کے سینے پر بہہ رہا ہوگا، ہر شخص جو اس کو دیکھے گا اس سے نفرت کرے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13713

13713- عن علقمة قال: كان ابن مسعود بالشام قال: قال عبد الله اقرأ علينا فقرأت سورة يوسف، فقال رجل من القوم: ما هكذا أنزلت؟ فقال عبد الله: ويحك لقد قرأتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: أحسنت، ثم وجدت منه ريح خمر، فقال عبد الله: تشرب الرجس وتكذب بالقرآن لا أقوم حتى تجلد فجلد الحد. "عب".
13713 (عبداللہ بن مسعود کے شاگرد) علقمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) ملک شام میں تھے۔ آپ (رض) نے مجھے فرمایا : ہمیں کچھ پڑھ کر سناؤ چنانچہ میں نے ان کو سورة یوسف پڑھ کر سنائی۔ ایک حاضر مجلس آدمی نے کہا : یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس کو فرمایا : افسوس ہے تجھ پر، میں نے یہ سورت اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سنائی تو آپ نے مجھے فرمایا : احسنت بہت اچھا پڑھا۔ پھر آپ (رض) نے اس آدمی میں شراب کی بو سونگھی تو فرمایا تو ناپاک چیز پیتا ہے اور قرآن کو جھٹلاتا ہے۔ میں اپنی جگہ سے نہ اٹھوں گا جب تک کہ تجھے حد جاری نہ کردی جائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13714

13714- عن عبد الرحمن بن الأزهر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح وأنا غلام شاب يسأل عن منزل خالد بن الوليد وأتى بشارب، وأمرهم فضربوه بما في أيديهم، فمنهم من ضرب بالسوط، ومنهم من ضرب بالنعل، ومنهم من ضرب بالعصا، وحثا عليه النبي صلى الله عليه وسلم التراب فلما كان أبو بكر فأتي بشارب فسأله أصحابه كم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي ضربه فحرزوه أربعين فضرب أبو بكر أربعين، ثم كتب خالد ابن الوليد إلى عمر أن الناس قد انهمكوا في الشراب، وتحاقروا العقوبة، وعنده المهاجرون الأولون فقالوا: نرى أن تتم له الحد ثمانين، قال: وقال علي: إذا شرب هذى، وإذا هذى افترى فأتم له الحد. "ش وابن جرير".
13714 عبدالرحمن بن الزھر سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے سال دیکھا، اس وقت میں نوجوان لڑکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالد بن الولید کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شراب نوش کو لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا انھوں نے اسی سے اس کو مارنا شروع کردیا، کسی نے کوڑے سے مارا، کسی نے جوتے سے مارا اور کسی نے اپنی لاٹھی سے مارا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر مٹی کی مٹھی پھینکی۔ پھر جب حضرت ابوبکر (رض) کا دور مبارک آیا تو ایک شرابی کو لایا گیا آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنا مارا ہے ؟ صحابہ نے سوچ بچار کرکے بتایا کہ چالیس ضربیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے چالیس ضربیں لگوائیں۔ پھر حضرت عمر (رض) کے دور مبارک میں (سپہ سالار) حضرت خالد بن ولید نے عمر (رض) کو لکھا کہ لوگ اس سا کو کم اور حقیر خیال کرکے شراب میں منہمک ہوگئے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کے پاس مہاجرین اولین بھی بیٹھے تھے وہ کہنے لگے : ہمارا خیال ہے کہ آپ اس حد میں اسی کوڑے پورے کردیں۔ حضرت علی (رض) نے بھی اس کی تائید میں فرمایا : آدمی جب شراب پیتا ہے تو ہرزہ سرائی کرتا ہے اور جب ہرزہ سرائی کرتا ہے تو بہتان باندھتا ہے اور بہتان کی سزا (اسی کوڑے ہے یہی آپ) پوری کردیں۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر

13715

13715- عن عبد الرحمن بن أزهر قال: كأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الرجال يلتمس رحل خالد بن الوليد يوم حنين فبينا هو كذلك إذا برجل قد شرب الخمر فقال للناس: اضربوه فمنهم من ضربه بالنعال، ومنهم من ضربه بالعصا، ومنهم من ضربه بالمتيخة يريد الجريدة الرطبة، ثم أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ترابا من الأرض فرمى به وجهه. "ابن جرير".
13715 عبدالرحمن بن ازھر (رض) سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گویا دیکھ رہا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ حنین کے دن لوگوں کے جلو میں خالد بن ولیدکا کجاوہ (عارضی ٹھکانا ) تلاش کررہے ہیں۔ اسی اثناء میں ایک آدمی جس نے شراب پی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آیا ۔ آپ نے لوگوں کو اشارہ فرمایا : اس کو مارو۔ پس کسی نے اس کو جوتوں سے مارا، کسی نے لاٹھی سے مارا اور کسی کے ہاتھ میں کھجور کی تازہ چھڑی تھی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود زمین میں سے ایک مٹھی مٹی اٹھائی اور اس کے چہرے پردے ماری۔ ابن جریر

13716

13716- عن محمد بن كعب القرظي قال: غزا عبد الرحمن بن سهل الأنصاري في زمن عثمان، ومعاوية أمير على الشام، فمرت به روايا خمر تحمل، فقام إليها عبد الرحمن برمحه، فبقر كل رواية منها فناوشه2 غلمانه حتى بلغ شأنه معاوية، فقال: دعوه فإنه شيخ قد ذهب عقله فقال: كذب والله ما ذهب عقلي ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندخله بطوننا واسقيتنا، وأحلف بالله لئن أنا بقيت حتى أرى في معاوية ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبقرن1 بطنه أو لأموتن دونه. "الحسن بن سفيان وابن منده كر".
13716 محمد بن کعب القرظی سے مروی ہے کہ عبدالرحمن بن سہل الانصاری (رض) نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں غزوہ کیا۔ اس وقت حضرت معاویۃ (رض) ملک شام پر امیر تھے۔ حضرت عبدالرحمن (رض) کے سامنے سے شراب کے مٹکے گزرے جو کہیں اٹھا کرلے جائے جارہے تھے۔ حضرت عبدالرحمن (رض) ان کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھے اور نیزے کے ساتھ ہر مٹکے کو توڑتے گئے۔ حضرت امیر معاویہ کے کارندوں نے آپ کو پکڑ لیا۔ آپ کی خبر حضرت امیر معاویہ کو پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ بوڑھے آدمی ہیں، ان کی عقل ٹھکانے نہیں ہے۔ حضرت عبدالرحمن (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میری عقل اپنی جگہ پر ہے، لیکن بات یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو منع فرمایا ہے کہ ہم اس کو اپنے شکموں میں یا اپنے پینے کے برتنوں میں ڈالیں، اور میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہا حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہوئی ایک بات اگر میں نے معاویہ میں نوٹ کرلی تو میں ان کا شکم چاک کردوں گا یا پھر میری موت ہی آجائے گی۔
الحسن بن سفیان ، ابن مندہ، ابن عساکر

13717

13717- عن عقبة بن الحارث قال: أتي بالنعيمان أو ابن النعيمان شاربا فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان في البيت أن يضربوه فكنت أنا فيمن ضربه، فضربناه بالنعال والجريد. "ابن جرير".
13717 عقبۃ بن الحارث سے مروی ہے کہ نعیمان یا ابن نعیمان کو شراب زدہ حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ جو اصحاب اس وقت کمرے میں موجود تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ اس کو ماریں، میں بھی اس کو مارنے والوں میں شامل تھا۔ چنانچہ ہم نے اس کو جوتوں اور چھڑیوں سے مارا۔ ابن جریر

13718

13718- عن عقبة بن عامر قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم برجل شرب خمرا فأمر من كان عنده فضربوه بالأيدي وبجريد النخل فكنت فيهم. "عب".
13718 حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص کو جس نے شراب نوشی کی تھی، لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاضرین کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ لوگوں نے اسے ہاتھوں اور چھڑیوں سے مارا۔ میں بھی انھیں میں شامل تھا۔
الجامع لعبدالرزاق

13719

13719- عن عياض بن غنم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من شرب الخمر لم تقبل له صلاة أربعين يوما، فإن مات فإلى النار، فإن تاب قبل الله منه، فإن شرب الثانية فكذلك، فإن شرب الثالثة والرابعة كان حقا على الله أن يسقيه من ردغة2 الخبال، قيل: يا رسول الله وما ردغة الخبال؟ قال: عصارة أهل النار. "ع كر".
13719 عیاض بن غنم سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا : جس نے مے نوش کی چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی، اگر وہ مرگیا تو جہنم میں جائے گا۔ اگر اس نے توبہ کرلی تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمالیں گے، اگر اس نے دوسری مرتبہ شراب نوشی کی تو پھر یہی صورت ہے۔ لیکن اگر اس نے تیسری اور چوتھی مرتبہ بھی مے نوشی کی تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو ردغۃ الخبال سے پلائے۔ پوچھا گیا : یارسول اللہ ! ردغۃ الخبال کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا : جہنمیوں کے خون پیپ (اور غلاظت) کا نچوڑ۔ مسد ابی یعلی، ابن عساکر

13720

13720- عن قبيصة بن ذويب أن النبي صلى الله عليه وسلم جلد رجلا في الخمر ثلاث مرات، ثم أتي به الرابعة فضربه أيضا ولم يزد على ذلك. "عب".
13720 قبیصہ بن ذؤیب سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو شراب نوشی کے جرم میں تین مرتبہ کوڑے لگوائے پھر چوتھی مرتبہ بھی اس کو اسی وجہ سے لایا گیا تو آپ نے (پہلے کی طرح) اس کو مارا اور اس پر کچھ زیادتی نہیں کی۔ الجامع العبد الرزاق

13721

13721- عن محمد بن راشد عن عبد الكريم بن أمية عن قبيصة ابن ذويب أن النبي صلى الله عليه وسلم ضرب رجلا في الخمر أربع مرات، ثم إن عمر بن الخطاب ضرب أبا محجن الثقفي ثماني مرات. "عب".
13721 محمد بن راشد، عبدالکریم سے اور وہ قبیصہ بن ذؤیب سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو شراب نوشی کے جرم میں چار مرتبہ سزادی۔ حضرت عمر (رض) نے (اپنے دور خلافت میں) ابو محجن ثقفی کو آٹھ بار کوڑے لگوائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13722

13722- عن نافع بن كيسان أن أباه أخبره أنه حمل خمرا إلى المدينة وذلك بعد ما حرمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما حملت يا أبا نافع؟ قال: خمرا يا رسول الله، فشعرت أنها حرمت بعدك؟ قال: أفلا أبيعها من اليهود يا رسول الله؟ قال: إن بائعها كشاربها، وفي لفظ قال: إنها قد حرمت وحرم ثمنها، فشق أبو نافع زقاقها1 ببطحان. "البغوي والروياني وابن منده خط في المتفق كر".
13722 نافع بن کیسان سے مروی ہے کہ ان کے والد نے ان کو اپنا یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ وہ شراب اٹھائے مدینہ جارہا تھا اور اس سے قبل شراب کی حرمت نازل ہوچکی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دریافت فرمایا : اے ابونافع ! تم کیا اٹھا کرلے جارہے ہو ؟ میں نے عرض کیا : شراب ہے، یارسول اللہ ! اور شاید یہ حرام ہوچکی ہے ؟ تو کیا یارسول اللہ ! میں اس کو یہود کے ہاتھوں نہ فروخت کردوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا فروخت کرنے والا بھی اس کو پینے والے کی طرح ہے۔ روایت کے دوسرے الفاظ یہ ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بھی حرام ہوچکی ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہوچکی ہے۔ چنانچہ ابونافع نے شراب کے مٹکے بطحان وادی میں توڑ ڈالے۔ البغوی، الرویانی، ابن مندہ، الخطیب فی المتفق ، ابن عساکر

13723

13723- عن معاوية بن أبي سفيان عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: من شرب الخمر فاجلدوه، قالها ثلاثا، قال: إن شربها أربع مرات، فاقتلوه. "عب".
13723 حضرت معاویۃ بن ابی سفیان (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شراب نوشی کرے اس کو کوڑے مارو۔ تین مرتبہ ایسا ہی فرمایا پھر فرمایا : اگر چوتھی بار شراب نوشی کرے تو اس کو قتل کرڈالو۔ الجامع لعبد الرزاق

13724

13724- عن أبي أمامة أن النبي صلى الله عليه وسلم جلد في الخمر أربعين. "ابن جرير".
13724 ابوامامہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی پر چالیس ضربیں ماریں۔ ابن جریر

13725

13725- عن معمر عن سهل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا شربوا فاجلدوهم قالها ثلاثا، قال: فإذا شربوا الرابعة فاقتلوهم، قال معمر فذكرت ذلك لابن المنكدر فقال: قد ترك القتل، قد أتي النبي صلى الله عليه وسلم بابن النعيمان، فجلده، ثم أتي به فجلده الرابعة أو أكثر. "عب".
13725 عن معمر عن سہل عن ابی صالح عن ابیہ عن ابوہریرہ کی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب لوگ شراب نوشی کریں تو ان کو کوڑے مارو۔ تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی فرمایا پھر فرمایا : اگر چوتھی بار شراب پئیں تو ان کو قتل کردو۔
معمر کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث ابن المنکدر سے ذکر کی تو انھوں نے فرمایا : قتل کرنا متروک ہوچکا ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ابن النعیمان کو لایا گیا تو آپ نے ان کو کوڑے مارے پھر کئی بار لائے گئے اور چوتھی یا اس سے زائد مرتبہ بھی آپ نے ان کو کوڑے مارے۔
الجامع لعبد الرزاق

13726

13726- عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بشارب فأمر النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه فضربوه، فمنهم من ضربه بنعله، ومنهم من ضربه بيده، ومنهم بثوبه، ثم قال: ارفعوا ثم أمرهم فبكتوه فقالوا: ألا تستحي من رسول الله صلى الله عليه وسلم تصنع هذا ثم أرسله، فلما أدبر وقع القوم يدعون عليه ويسبونه، يقول القائل: اللهم اخزه، اللهم العنه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقولوا هكذا ولا تكونوا أعوانا للشيطان على أخيكم، ولكن قولوا: اللهم اغفر له اللهم اهده وفي لفظ لا تقولوا: هكذا لا تعينوا الشيطان ولكن قولوا: رحمك الله. "ابن جرير".
13726 حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مے نوش لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا اور انھوں نے اس کو مارا۔ کسی نے اپنے جوتے سے مارا، کسی نے ہاتھوں سے مارا اور کسی نے اپنے کپڑے سے مارا۔ آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رک جاؤ۔ پھر فرمایا : اب اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے شرم دلاؤ۔ چنانچہ لوگ اس کو کچھ کچھ کہنے لگے : کیا تجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرم نہیں آتی۔ ایسا کام کرتا ہے ! پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھوڑ دیا۔ آخر جب وہ منہ پھیر کر چلا گیا تو لوگ اس کو بددعا دینے اور برا بھلا کہنے لگے۔ کوئی بولا : اللھم اخزہ اللھم العنہ اے اللہ ! اس کو رسوا کر، اس پر لعنت کر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یوں نہ کہو اور اپنے کے خلاف شیطان کی مدد گار نہ بنو۔ بلکہ یوں کہو : اللھم اغفرلہ اللھم اھدہ، اے اللہ اس کی مغفرت فرما اے اللہ اس کو ہدایت بخش۔ دوسرے الفاظ ہیں : آپ نے فرمایا : شیطان کے مددگار نہ بنو بلکہ یوں کہو : رحمک اللہ اللہ تجھ پر رحم کرے۔ ابن جریر

13727

13727- عن يحيى بن كثير قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم برجل شرب الخمر فأمر النبي صلى الله عليه وسلم من كان عنده فضربه كل واحد منهم ضربتين بنعله أو سوطه، أو ما كان في يده، وهم حينئذ عشرون رجلا أو قريبه."عب".
13727 یحییٰ بن کثیر سے مروی ہے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی پیش کیا گیا جس نے شراب نوشی کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاضرین کو حکم دیا اور ہر ایک نے دو دو ضربیں اپنے اپنے جوتے یا کوڑے یا جو کچھ بھی جس کے پاس تھا اس کے ساتھ ماریں۔ اور اس وقت یہ لوگ بیس افراد تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13728

13728- عن محمد بن راشد قال: سمعت مكحولا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شرب الخمر فاضربوه ثم قال في الرابعة: من شرب الخمر فاقتلوه. "عب".
13728 محمد بن راشد سے مروی ہے کہ میں نے مکحول (رح) سے سنا وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو شراب نوشی کرے اس کو مارو۔ پھر چوتھی بار ارشاد فرمایا جو شراب پئے اس کو قتل کردو۔ الجامع لعبد الرزاق

13729

13729- عن الحسن أن النبي صلى الله عليه وسلم ضرب في الخمر ثمانين. "عب".
13729 حضرت حسن سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب نوشی میں اسی ضربیں ماریں۔ الجامع لعبد الرزاق

13730

13730- عن عبيد بن عمير قال: كان الذي يشرب الخمر يضربونه بأيديهم ونعالهم ويصكونه1 فكان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وبعض إمارة عمر، ثم خشي أن يغتال الرجال، فجعله أربعين سوطا فلما رآهم لا يتناهون جعله ستين، فلما رآهم لا يتناهون جعله ثمانين، ثم قال: هذا أدني الحدود. "عب".
13730 حضرت عبید بن عمیر (رح) سے مروی ہے کہ جو شخص شراب پیتا تھا لوگ اس کو اپنے ہاتھوں، جوتوں اور تھپڑوں سے مارتے تھے، عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عہد ابی بکر اور عہد فاروقی کے کچھ حصے میں یہی طریقہ رائج رہا۔ پھر یہ خوف ہوا کہ کہیں لوگ آدمی کو مار نہ ڈالیں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے چالیس کوڑے مقرر کردیئے۔ لیکن جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس سزا کے باوجود (شراب نوشی سے) باز نہیں آتے تو پھر ساٹھ کوڑے طے کردیئے پھر جب دیکھا کہ اس سے بھی لوگ باز نہیں آتے تو اسی کوڑے مقرر کردیئے اور فرمایا یہ حدود میں سے ادنیٰ ترین حد ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13731

13731- عن معمر عن الزهري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاقتلوهم ثم قال: إن الله وضع عنهم القتل فإذا شربوا فاجلدوهم، ثم إذا شربوا فاجلدوهم ذكرها أربع مرات. "عب".
13731 عن معمر عن الزھری کی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب لوگ شراب نوشی کریں ان کو کوڑے مارو۔ پھر پئیں پھر کوڑے مارو۔ پھر پئیں پھر کوڑے مارو پھر پئیں تو ان کو قتل کرو۔ پھر فرمایا : اللہ نے ان سے قتل معاف کردیا ہے لہٰذا جب وہ شراب پئیں ان کو کوڑے مارو۔ پھر پئیں پھر کوڑے مارو چار دفعہ ایسا ہی فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13732

13732- عن ابن جريج قال: سئل ابن شهاب كم جلد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الخمر؟ قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض فيها حدا، كان يأمر من يحضره يضربونه بأيديهم ونعالهم حتى يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: ارفعوا، وفرض فيها أبو بكر أربعين وفرض فيها عمر ثمانين سوطا. "عب".
13732 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن شہاب (زہری (رح)) سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب میں کتنے کوڑے مارے ہیں ؟ آپ (رح) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ آپ اپنے پاس موجود حاضرین کو حکم دیتے تو وہ لوگ شراب نوش کو ہاتھوں اور جوتوں سے مارنا شروع ہوجاتے حتیٰ کہ حضرت عمر (رض) نے اسی کوڑے مقرر فرمائے۔
الجامع لعبد الرزاق

13733

13733- عن عمر بن حبيب قال: سمعت ابن شهاب يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شرب الخمر فاضربوه، ثم إن شرب الثانية فاضربوه ثم إن شرب الثالثة فاضربوه، ثم إن شرب الرابعة فاقتلوه، قال: فأتي برجل قد شرب فضربه، ثم الثانية فضربه، ثم الثالثة فضربه، ثم الرابعة فضربه ووضع الله القتل. "عب".
13733 عمر بن حبیب (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن شہاب زہری (رح) سے فرماتے ہوئے سنا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جو شراب نوشی کرے اس کو مارو۔ پھر دوبارہ کرے پھر مارو۔ پھر سہ بارہ کرے پھر مارو، پھر چوتھی بار کرے تو اس کو قتل کردو۔ پھر جب ایک آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شراب نوش لایا گیا آپ نے اس کو مارا پھر دوبارہ لایا گیا پھر مارا۔ پھر تیسری مرتبہ مارا پھر چوتھی مرتبہ بھی کوڑے مارنے پر ہی اکتفاء کیا اور اللہ نے قتل کو معاف کردیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13734

13734- عن ابن عباس عن جرير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شرب الخمر فاجلدوه، فإن عاد فاجلدوه، فإن عاد فاجلدوه، فإن عاد الرابعة فاقتلوه. "ابن جرير".
13734 حضرت ابن عباس (رض) حضرت جریر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شراب پئے اس کو مارو، اگر دوبارہ پئے پھر مارو، پھر پئے پھر مارو اگر چوتھی بار پئے تو اس کو قتل کردو۔ ابن جریر

13735

13735- عن معقل بن يسار قال: حرمت الخمر وإن عامة شرابهم الفضيخ1 قال: فقذفتها وأنا أقول: هذا آخر عهدي بالخمر. "كر".
13735 معقل بن یسار سے مروی ہے جس وقت شراب حرام ہوئی عام عرب کی شراب تازہ کھجور سے بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ میں نے وہی شراب یہ کہہ کر پھینک دی بس یہ میری آخری یاد تھی شراب کے ساتھ۔ ابن عساکر

13736

13736- مسند عمر عن صفية بنت أبي عبيد قالت: وجد عمر في بيت رويشد الثقفي خمرا، فحرق بيته وقال: ما اسمك؟ قال: رويشد قال: بل أنت فويسق. "عب" ورواه أبو عبيد في كتاب الأموال عن ابن عمر
13736 (مسند عمر (رض)) صفیہ بنت ابی عبید کہتی ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو رویشد ثقفی کے گھر سے شراب ملی۔ آپ (رض) نے اس کا گھر جلا دیا اور دریافت فرمایا : تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا : رویشد۔ آپ (رض) نے فرمایا : نہیں بلکہ تیرا نام فویسق ہے (یعنی فاسق گناہگار) ۔ الجامع لعبد الرزاق
ابوعبید نے اس روایت کو کتاب الاموال میں ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے۔

13737

13737- عن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه أن عمر بن الخطاب حرق بيت رويشد الثقفي وكان حانوتا للشراب وكان عمر قد نهاه فلقد رأيته [يلتهب] كأنه جمرة. "ابن سعد"
13737: حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے رویشد ثقفی کے گھر کو جلا دیا اس کی شراب کی دکان تھی اور آپ اس کو منع کرچکے تھے فرماتے ہیں کہ میں نے اس گھر کو جلتے دیکھا گویا کہ وہ انگارہ ہے۔ ابن سعد۔

13738

13738- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة أن عمر بن الخطاب ولى قدامة بن مظعون البحرين، فخرج قدامة على عمله، فأقام فيه لا يشتكى في مظلمة ولا فرج إلا أنه لا يحضر الصلاة، قال: فقدم الجارود سيد عبد القيس على عمر بن الخطاب فقال: يا أمير المؤمنين، إن قدامة قد شرب وإني إذا رأيت حدا من حدود الله كان حقا علي أن أرفعه إليك. فقال عمر: من يشهد على ما تقول؟ فقال الجارود: أبو هريرة يشهد، فكتب عمر إلى قدامة بالقدوم عليه فقدم، فأقبل الجارود يكلم [عمر] ويقول أقم على هذا كتاب الله، فقال عمر: أشاهد أنت أم خصم؟ فقال الجارود: بل أنا شاهد، فقال عمر: قد كنت أديت شهادتك، فسكت الجارود، ثم غدا عليه من الغد فقال أقم الحد على هذا فقال عمر: ما أراك إلا خصما، وما يشهد عليه إلا رجل واحد، أما والله لتملكن لسانك أو لأسؤنك، فقال الجارود: أما والله ما ذلك بالحق أن يشرب ابن عمك وتسؤني [فوزعه] عمر. "ابن سعد وابن وهب"
13738 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے قدامہ بن مظعون کو بحرین کا گورنر بنادیا۔ قدامہ اپنے منصب پر نکلے۔ وہاں ان کے متعلق کسی طرح کی برائی اور بدکاری کی شکایت نہیں آئی سوائے اس کے کہ وہ نماز میں حاضر نہ ہو پاتے تھے۔ وہاں کے قبیلے عبدالقیس کے سردار جارود حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا امیر المومنین ! قدامہ نے شراب نوشی کی ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ اگر میں حدود اللہ میں سے کسی حد کو دیکھوں تو اس کا قضیہ آپ کو ضرور پہنچاؤں۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : جو تم کہہ رہے اس کی گواہی کون دے گا ؟ جارود نے حضرت ابوہریرہ (رض) کا نام لیا کہ وہ بھی اس بات کی شہادت دیں گے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے قدامہ کو مراسلہ بھیجا کہ وہ میرے پاس آئیں۔ چنانچہ وہ حاضر ہوگئے۔ جارود حضرت عمر (رض) سے (بار بار) کہتے : اس پر کتاب اللہ کو نافذ کریں (حد شراب جاری کریں) حضرت عمر (رض) نے جارود سے پوچھا : تم اس پر شہادت دینے کے لیے آئے ہو یا اس کے دشمن کا کردار ادا کررہے ہو ؟ جارود بولے میں تو فقط شاہد ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تب تم نے اپنی شہادت ادا کردی (اب خاموش رہو) چنانچہ جارود تب تو خاموش ہوگئے۔ لیکن اگلے روز پھر مصر ہوئے کہ اس پر حد جاری کریں۔ تب حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بس میں تم کو ان کا دشمن قرار دیتا ہوں، اب صرف ایک گواہ (ابوہریرہ (رض)) بچ گیا ہے (جس کی بناء پر حد جاری نہیں کی جاسکتی) اب یا تو تم اپنی زبان کو لگام دو ورنہ میں تمہارا برا حشر کروں گا۔ جارود بولے : اللہ کی قسم ! یہ حق بات نہیں ہے کہ آپ کا چچا زاد (قدامہ) تو شراب پئے اور آپ الٹا مجھے براگردانیں (آخر حضرت عمر (رض)) نے جاود کو چھوڑ دیا۔
ابن سعد، ابن وھب

13739

13739- عن عروة بن الزبير قال: شرب أبو الأزور وضرار بن الخطاب وأبو جندل بن سهيل بن عمرو بالشام، فأتى بهم أبو عبيدة بن الجراح فقال أبو جندل: والله ما شربتها إلا على تأويل، إني سمعت الله يقول: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} فكتب أبو عبيدة إلى عمر بأمرهم فقال أبو الأزور: إنه قد حضرنا عدونا، فإن رأيت أن تؤخرنا إلى أن نلقى عدونا غدا، فإن الله أكرمنا بالشهادة كفاك ذاك، ولم تقمنا على جزائه، وإن نرجع نظرت إلى ما أمرك به صاحبك فأمضيته، قال أبو عبيدة: فنعم، فلما التقى الناس قتل أبو الأزور شهيدا فرجع الكتاب كتاب عمر إن الذي أوقع أبا جندل في الخطيئة قد تهيأ له فيها بالحجة وإذا أتاك كتابي هذا فأقم عليهم حدهم والسلام، فدعا بهما أبو عبيدة فحدهما وأبو جندل له شرف ولأبيه، فكان يحدث نفسه حتى قيل: إنه قد وسوس فكتب أبو عبيدة إلى عمر، أما بعد فإني قد ضربت أبا جندل حده وإنه حدث نفسه حتى قد خشينا عليه أنه قد هلك، فكتب عمر إلى أبي جندل، أما بعد فإن الذي أوقعك في الخطيئة قد جرت عليك التوبة بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {حم تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ َافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ} فلما قرأ كتاب عمر ذهب عنه ما كان به كأنما أنشط من عقال. "ق".
13739 عروۃ بن الزہیر سے مروی ہے کہ ابوالازور، ضرار بن الخطاب اور ابوجندل بن سہیل بن عمرو نے ملک شام میں شراب نوشی کی۔ ان کو امیر لشکر ابوعبیدۃ بن الجراح کے پاس لایا گیا۔ ابوجندل بولے : اللہ کی قسم ! میں نے شراب ایک تاویل پر پی ہے، میں نے اللہ پاک کا فرمان سنا ہے : لیس علی الذین آمنوا وعملو الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا وآمنوا واعملو الصالحات،
ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور اچھے اچھے عمل کیے کوئی حرج نہیں اس میں جو وہ کھائیں جبکہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں اور اچھے اچھے عمل کریں۔
چنانچہ حضرت ابوعبیدۃ (رض) نے ان کا معاملہ حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجا۔ ادھر ابوالازور نے حضرت ابوعبیدۃ (رض) کو عرض کیا : کہ ہمارا دشمن ہمارے سامنے آچکا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہماری سزا کچھ موخر کردیں تاکہ کل ہم دشمن سے مقابلہ کریں اگر اللہ نے ہم کو شہادت کے ساتھ نواز دیا تو آپ کے لیے یہ کافی ہوگا۔ اور آپ کو حد شراب ہم پر قائم کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور اگر ہم لوٹ آئے تو آپ دیکھ لینا کہ خلیفہ نے آپ کو کیا حکم دیا ہے وہ آپ بجا لانا۔ ابوعبیدۃ نے ان کی بات پر ہاں کردی۔ چنانچہ اگلے روز جب مسلمانوں کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہوئی تو ابوالازور جام شہادت نوش کر گئے۔ اس وقت تک حضرت عمر (رض) کا جواب نامہ بھی آگیا کہ جس تاویل نے ابوجندل کو غلطی میں ڈالا ہے اگر اس نے ان کو حجت دیدی ہے لیکن جیسے ہی تم کو میرا یہ خط ملے تم ان پر حد نافذ کردینا۔ چنانچہ ابوعبیدۃ (رض) نے باقی دو بچ جانے والوں کو بلایا اور ان پر حد نافذ فرمادی۔ ابوجندل ایک بڑے سردار کے بیٹے تھے ان کا اپنا بھی ایک رتبہ تھا۔ اس وجہ سے ان کے دل میں اس سزا کی کسک رہ گئی۔ حتیٰ کہ کہا گیا کہ ابوجندل وسوسے میں پڑگئے ہیں۔ ابوعبیدہ نے حضرت عمر (رض) کو یہ صورت حال لکھی کہ میں نے ابو جندگ کو سزا دیدی ہے لیکن ان کے دل میں وسوسے جنم لے رہے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہوجائے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ابوجندل کو لکھا : اما بعد ! تم کو جس چیز نے غلطی میں ڈالا ہے لیکن اس سزا سے تم کو توبہ مل گئی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، حم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر۔
لہٰذا جب ابوجندل نے حضرت عمر (رض) کا خط پڑھا تو اس کے سارے وسوسے اور اندیشے ختم ہوگئے۔ گویا وہ بندھی ہوئی رسی سے کھل گئے۔ السنن للبیہقی

13740

13740- عن عبد الله بن زهير الشيباني أن عتبة بن فرقد بعث إلى عمر بن الخطاب بأربعين ألف درهم صدقة الخمر، فكتب إليه عمر بعثت إلي بصدقة الخمر، فأنت أحق بها من المهاجرين، وأخبر بذلك الناس وقال: والله لا أستعملك على شيء بعد هذا فنزعه. "أبو عبيد وابن زنجويه".
13740 عبداللہ بن زہیرالشیانی سے مروی ہے کہ عتبہ بن فرقد نے حضرت عمر (رض) بن خطاب کو شراب کی زکوۃ وصولی کی مد میں چالیس ہزار درہم بھیجے ۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو لکھا : تم نے مجھے شراب کی زکوۃ بھیجی ہے۔ مہاجرین کی بجائے تم ہی اس رقم کے زیادہ حقدار ہو اور اللہ کی قسم ! آج کے بعد میں تم کو کسی چیز کی حکومت نہیں دوں گا۔ چنانچہ پھر ان کو اس منصب سے معزول کردیا اور لوگوں کو اس کی ساری خبر سنائی۔ ابوعبید وابن زنجویہ

13741

13741- عن علي قال: ما من رجل أقمت عليه حدا فمات فأجد في نفسي منه شيئا إلا صاحب الخمر فإنه لو مات لوديته1 لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يسنه وإنما نحن سنناه. "ط عب حم خ م د هـ ع وابن جرير"
13741 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس پر میں نے کوئی حد جاری کی اور وہ اس کی وجہ سے مرگیا پھر مجھے اس کا اپنے دل میں تردد ہوا سوائے صاحب شراب کے، اگر وہ حد کے دوران مرجاتا ہے تو میں اس کی دیت ادا کروں گا کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا طریقہ رائج نہیں کیا بلکہ آپ کے بعد ہم نے اس کو رائج کیا ہے۔
ابوداؤد، الجامع لعبد الرزاق، مسند احمد، مسند ابی یعلی، البخاری، مسلم، ابن جریر

13742

13742- عن علي قال: كانت لي شارف من نصيبي من المغنم يوم بدر وكان النبي صلى الله عليه وسلم أعطاه شارفا مما أفاء الله من الخمس يومئذ فلما أردت أن أبتني بفاطمة ابنة النبي صلى الله عليه وسلم واعدت رجلا صواغا في بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بأذخر وأردت أن أبتاعه من الصواغين فأستعين به في وليمة عرسي، فبينا أنا أجمع لشارفي متاعا من الأقتاب والغرائر والحبال وشارفاي مناخان إلى جنب حجرة رجل من الأنصار حتى جمعت ما جمعت فإذا أنا بشارفي قد أجبت أسنمتهما وبقرت خواصرهما وأخذ من أكبادهما فلم أملك عيني حين رأيت ذلك المنظر [منهما] ، فقلت: من فعل هذا؟ قالوا: فعله حمزة بن عبد المطلب وهو في هذا البيت في شرب من الأنصار وعنده قينة وأصحابه فقالت في غنائها "ألا يا حمز للشرف النواء" فوثب حمزة إلى السيف فأجب أسنمتهما وبقر خواصرهما وأخذ من أكبادهما، فانطلقت حتى أدخل على النبي صلى الله عليه وسلم وعنده زيد بن حارثة، فعرف النبي صلى الله عليه وسلم في وجهي الذي لقيت فقال: مالك؟ قلت: يا رسول الله؛ ما لقيت كاليوم عدا حمزة على ناقتي فأجب أسنمتهما وبقر خواصرهما، وها هو ذا في بيت معه شرب قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بردائه فارتدي، ثم انطلق يمشي واتبعته أنا وزيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة، فاستأذن عليه فأذن له فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يلوم حمزة على ما فعل، فإذا حمزة ثمل3 محمرة عيناه، فنظر حمزة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فصعد النظر إلى ركبته ثم صعد النظر إلى سرته، ثم صعد النظر فنظر إلى وجهه، ثم قال حمزة: وهل أنتم إلا عبيد لأبي، فعرف النبي صلى الله عليه وسلم أنه ثمل فنكص رسول الله صلى الله عليه وسلم على عقبيه القهقرى فخرج وخرجنا معه. "خ م د وأبو عوانة ع حب ق"
13742 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : میرے پاس ایک اونٹنی وہ تھی جو مجھے جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے حصہ میں آئی تھی اور دوسری اونٹنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دی تھی مال غنیمت کے خمس میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کا حصہ ہوتا ہے۔ جب میں نے فاطمہ بنت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شب زفاف گزارنے کا ارادہ کیا تو بنی قینقاع کے ایک انگریز کو لیا تاکہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخرگھاس (جو رنگائی کے لیے کام ہوتی تھی) اکٹھی کرکے انگریزوں کو فروخت کرلیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے میں ولیمہ کا بند و بست کروں۔ چنانچہ (اس کام سے فراغت کے بعد) میں اپنی دونوں اونٹنیوں کے لیے پالان۔ غرارے اور رسی وغیرہ جمع کررہا تھا۔ میری دونوں اونٹنیاں ایک انصار کے کمرے کے پاس باندھ رکھی تھیں۔ حتیٰ کہ جب میں نے ان کے لیے جو جمع کرنا تھا جمع کرلیا تو اپنی اونٹنیوں کے پاس آیا۔ لیکن اس منظر کو دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں میری دونوں اونٹنیوں کی کوہان کٹی ہوئی تھیں اور ان کے پہلو پھاڑ کر ان کے کلیجے نکال لیے گئے تھے۔ میں نے پوچھا : یہ کام کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے حمزہ بن عبدالمطلب کا نام لیا۔ اور بتایا وہ شراب نوش انصاری گروہ کے ساتھ اس گھر میں شراب نوشی کررہے ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی باندی ہے اور ان کے ساتھی ہیں۔ باندی نے اپنے گانے کے دوران کہا تھا :
الایا حمز للشرف النواء،
اے حمزہ ! دیکھ تو، کیسی فربہ اور عمدہ اونٹنیاں ہیں۔
چنانچہ حضرت حمزۃ نے کود کر تلوار اٹھائی اور اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کے پہلو پھاڑ کر ان کے کلیجے نکال لیے۔
میں یہ ساری صورت حال جان کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا۔ آپ کے پاس زید بن حارثہ بھی تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے چہرہ کے کرب کو بھانپ لیا اور پوچھا : تجھے کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آج جیسی تکلیف مجھے کبھی نہیں ہوئی۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم ڈھادیا ہے ان کے کوہان کاٹ دیئے اور ان کے پہلو چاک کرکے (ان کے کلیجے نکال لیے ہیں) ۔
اور اس وقت وہ اپنے شراب نوش ساتھیوں کے ساتھ ادھر کمرے میں بیٹھے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر منگوائی اور چادر اوڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں اور زید بن حارثہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ حتیٰ کہ آپ حمزہ والے کمرے پر آپہنچے۔ آپ نے اجازت لی۔ اور اجازت ملنے پر اندر تشریف لے گئے۔ آپ نے حمزہ (رض) کو لعن طعن اور ملامت کی۔ حمزہ شراب کے نشہ میں چور اور سرخ آنکھیں کیے ہوئے تھے۔ حمزۃ (جو آپ کے چچا تھے) نے آپ کی طرف نظر اٹھائی پہلے گھٹنوں پر نظر مرکوز رکھی پھر پیٹ تک نظر اٹھائی پھر اپنی آنکھیں آپ کے چہرے میں گاڑ دیں اور بولے : تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان گئے کہ ابھی وہ نشہ میں دھت ہیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الٹے پاؤں واپس ہولیے اور ہم بھی آپ کے پیچھے پیچھے نکل آئے۔ البخاری، مسلم، ابوداؤد، ابوعوانۃ، مسند ابی یعلی، ابن حبان السنن للبیہقی

13743

13743- عن علي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لم يزل جبرئيل ينهاني عن عبادة الأوثان، وشرب الخمر، وملاحاة الرجال. "هب ن".
13743 حضرت علی (رض) سے مروی ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا مجھے جبرائیل (علیہ السلام) ہمیشہ بتوں کی عبادت، شراب نوشی اور لوگوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے روکتے رہے ہیں۔ شعب الایمان للبیہقی ، النسائی

13744

13744- عن ربيعة بن ذكار قال: نظر علي بن أبي طالب إلى قرية فقال: ما هذه القرية قالوا: قرية تدعى زرارة يلحم فيها ويباع فيها الخمر فأتاها بالنيران فقال: أضرموها فيها فإن الخبيث يأكل بعضه بعضا فاحترقت. "أبو عبيد".
13744 ربیعہ بن زکار سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک بستی دیکھی، پوچھا : یہ کیسی بستی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام زرارۃ ہے۔ یہاں گوشت اور شراب لگتا ہے (اور شباب کباب کا دور چلتا ہے) حضرت علی (رض) نے وہاں آگ جلوائی اور فرمایا : اس بستی کو جلادو خبیث شے ایک دوسرے کو کھالے۔ چنانچہ وہ بستی جل گئی۔ ابوعبید
فائدہ : یہ بستی چند اوطاقوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں لوگ عیاشی کرنے آتے تھے۔ اور شراب وکباب کا دور چلتا تھا۔ یہ چونکہ گناہوں کا اڈا تھا اس لیے آپ نے وہ گناہوں کے اڈے خاکستر کروادیئے۔

13745

13745- عن مجاهد قال: سأل رجل عمر عن الفضيخ قال: وما الفضيخ؟ قال: بسر يفتضخ ثم يخلط بالتمر، قال: ذاك الفضوخ حرمت الخمر وما شراب غيره. "ش".
13745 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عمر (رض) سے فضیخ کے بارے میں پوچھا۔ آپ (رض) نے پوچھا : فضیح کیا ہے ؟ آدمی نے کہا : ادھری (آدھی نرم اور آدھی سخت) کھجوروں کی نبیذ بنا کر پکی ہوئی کھجوروں میں ملا دینا۔ آپ (رض) نے فرمایا تہ تو فضوخ ہے۔ وہ شراب جو پینے والے کو مست کردیتی ہے (اور شراب حرام ہے اور اس کے سوا کوئی شراب ہوگی) ۔ مصنف ابن ابی شیبہ
فائدہ : پچھلے اوراق میں نبیذ کے عنوان کے تحت کئی روایات گزر چکی ہیں جن میں بسر اور تمر یعنی ادھ نرم ادھ سخت اور مکمل پختہ کھجوروں کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔

13746

13746- عن ابن عمر قال: كنت مع عمر في حج أو عمرة فإذا نحن براكب، فقال عمر: أرى هذا يطلبنا فجاء الرجل فبكى، قال: ما شأنك إن كنت غارما أعناك، وإن كنت خائفا آمناك إلا أن تكون قتلت نفسا فتقتل بها، وإن كنت كرهت جوار قوم حولناك عنهم، قال: إني شربت الخمر وأنا أحد بني تيم، وإن أبا موسى جلدني وحلقني وسود وجهي وطاف بي الناس وقال: لا تجالسوه ولا تؤاكلوه، فحدثت نفسي بإحدى ثلاث: إما أن أتخذ سيفا فأضرب به أبا موسى، وإما أن آتيك فتحولني إلى الشام فإنهم لا يعرفونني، وإما أن ألحق بالعدو فآكل معهم وأشرب، فبكى عمر وقال: ما يسرني أنك فعلت، وإن لعمر كذا وكذا وإني كنت لأشرب الناس لها في الجاهلية، وإنها ليست كالزنا، وكتب إلى أبي موسى سلام عليك أما بعد فإن فلان بن فلان التيمي أخبرني بكذا وكذا، وايم الله إني إن عدت لأسودن وجهك ولأطوفن بك في الناس، فإن أردت أن تعلم حق ما أقول لك فعد، فأمر الناس أن يجالسوه ويؤاكلوه، فإن تاب فاقبلوا شهادته، وحمله وأعطاه مائتي درهم. "ق".
13746 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ میں ایک حج یا عمرے کے دوران حضرت عمر (رض) کے ساتھ تھا۔ ہم کو ایک سوار شخص ملا حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میرا خیال ہے ، یہ شخص ہماری ہی تلاش میں ہے۔ وہ شخص ہمارے سامنے آکر رونے لگا۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تم کو کیا ہوا ؟ اگر تم مقروض ہو تو ہم تمہاری مدد کریں گے، اگر تم خوفزدہ ہو تو ہم تم کو امن دیں گے، ہاں مگر تم نے قتل کیا ہے تو تم کو اس کے بدلے قتل کیا جائے گا، اور اگر تم کسی قوم کے ساتھ رہنے میں تکلیف میں مبتلا ہو تو ہم تم کو وہاں سے اور جگہ منتقل کردیں گے۔ آدمی نے اپنی رواداد سنائی : میں نے شراب نوشی کا ارتکاب کرلیا تھا۔ میں بنی تیم کا فرد ہوں۔ ابو موسیٰ (جو آپ کی طرف سے ہمارے گورنر ہیں) نے مجھے پر حد جاری کی (اس قدر تو ٹھیک تھا مگر پھر) میرا سر منڈوایا، میرا چہرہ کالا کیا اور مجھے لوگوں میں پھرایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ کوئی اس کے ساتھ اٹھے نہ بیٹھے اور نہ اس کے ساتھ کوئی کھائے پئے۔ اب میرے دل میں تین خیال آرہے ہیں یا تو میں کوئی تلوار لوں اور ابو موسیٰ کو قتل کردوں۔ یا آپ کے پاس آؤں اور آپ مجھے ملک شام بھیج دیں وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا یا پھر میں دشمنوں کے ساتھ جاملوں اور ان کے ساتھ کھاؤں رہوں (آدمی کی درد بھری بپتا سن کر) حضرت عمر (رض) روپڑے اور فرمایا : مجھے ہرگز خوشی نہیں ہوئی کہ تیرے ساتھ یہ یہ کچھ ہوا اور عمر اس حال میں مطمئن ہے۔ جاہلیت میں میں سب سے بڑا شراب نوش تھا۔ یہ زنا کی طرح بڑا جرم نہیں ہے۔ پھر آپ (رض) نے ابوموسیٰ (رض) کو لکھا : تم کو میرا سلام ہو، اما بعد ! فلاں بن فلاں تیمی نے مجھے اس اس طرح ساری خبر کہہ سنائی ہے اور مجھے پاک پروردگار کی قسم ہے ! اگر دوبارہ تم نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو میں تمہارا چہرہ کالا کرکے تم کو لوگوں میں پھر اؤں گا۔ اگر تم میری اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہو تو لوگوں کو حکم دو کہ اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں اور کھائیں پئیں۔ اگر یہ شراب نوشی سے توبہ کرلے تو اس کی شہادت بھی قبول کریں۔ پھر آپ (رض) نے اس کو سواری کا جانور اور دو درہم عطیہ پیش کرکے رخصت کیا۔ السنن للبیہقی

13747

13747- عن عمر أن رجلا كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اسمه عبد الله، وكان يلقب حمارا وكان يضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جلده في الشراب، فأتي به يوما فأمر به فجلد، فقال رجل من القوم: اللهم العنه فما أكثر ما يؤتي به؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تلعنوه، فوالله ما علمت إنه يحب الله ورسوله. "خ وابن جرير هب"
13747 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک آدمی تھا۔ اس کا نام تو عبداللہ تھا لیکن اس کا لقب حمار یعنی گدھا پڑگیا تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسایا کرتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو شراب نوشی پر سزا بھی دی تھی۔ اس جرم میں ایک مرتبہ اس کو جب پیش کیا گیا تو ایک آدمی نے اس کو کہا اللھم العنہ اے اللہ ! اس پر لعنت فرما۔ یہ آدمی کس قدر اس جرم میں لایا جاتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو لعنت مت کرو۔ اللہ کی قسم ! اس کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے۔ البخاری، ابن جریر، شعب الایمان للبیہقی

13748

13748- عن عمر أن رجلا كان يلقب حمارا وكان يهدي إلى النبي صلى الله عليه وسلم العكة من السمن والعكة من العسل، فإذا جاء صاحبه يتقاضاه جاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: رسول الله أعط ثمن متاعه، فما يزيد النبي صلى الله عليه وسلم أن يتبسم فيأمر به فيعطي فجيء به يوما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد شرب الخمر، فقال رجل: اللهم العنه ما أكثر ما يؤتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تلعنوه، فإنه يحب الله ورسوله. "ابن عاصم ع ص".
13748 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی تھا جس کو لوگ گدھا کہتے تھے۔ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کبھی گھی کا کنستر بھیجتا تھا اور کبھی شہد کا کنستر بھیجتا تھا۔ جب اس کے پاس اس مال کا مالک آکر پیسوں کا تقاضا کرتا وہ وہ اس کو لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آجاتا اور عرض کرتا یا رسول اللہ ! اس کے مال کی قیمت ادا فرمادیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف مسکرانے پر اکتفاء فرماتے اور اس کے مال کی قیمت ادا کرنے کا حکم دیدیتے اور وہ اس کو مل جاتی۔ ایک مرتبہ اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا اس حال میں کہ اس نے شراب نوشی کی تھی۔ ایک آدمی نے اس کے متعلق کہا : اے اللہ ! اس پر لعنت فرما۔ کتنی بار یہ شراب کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا جاچکا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو لعنت مت کرو۔ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ابن ابی عاصم، مسند ابی یعلی، السنن لسعید بن منصور

13749

13749- عن زيد بن أسلم قال: أتي بابن النعمان إلى النبي صلى الله عليه وسلم فجلده، ثم أتي به فجلده مرارا أربعا أو خمسا، فقال رجل: اللهم العنه ما أكثر ما يشرب؟ وما أكثر ما يجلد؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تلعنه فإنه يحب الله ورسوله. "عب".
13749 زین بن اسلم سے مروی ہے کہ ابن النعمان کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (شراب نوشی کی وجہ سے) لایا گیا آپ نے اس کو کوڑے لگوائے۔ پھر دوبارہ اس کو لایا گیا حتیٰ کہ آپ نے اس کو چار پانچ کوڑے لگوائے۔ ایک آدمی نے کہا : اللھم العنہ اے اللہ ! اس پر لعنت یہ کس قدر شراب نوشی کرتا ہے اور کس قدر کوڑے کھاتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہنے والے کو فرمایا : اس کو لعنت مت کر یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ مصنف عبدالرزاق

13750

13750- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة أن عمر استعمل قدامة بن مظعون على البحرين، وهو خال حفصة وعبد الله بن عمر، فقدم الجارود سيد عبد القيس على عمر فقال: يا أمير المؤمنين، إن قدامة شرب فسكر وإني إذا رأيت حدا من حدود الله حقا علي أن أرفعه إليك، فقال عمر: من يشهد معك؟ قال: أبو هريرة، فقال: بم تشهد؟ قال: لم أره يشرب ولكني رأيته سكران يقيء، فقال عمر: لقد تنطعت بالشهادة ثم كتب إلى قدامة أن يقدم عليه من البحرين، فقدم فقام إليه الجارود فقال: أقم على هذا كتاب الله، قال: أخصم أنت أم شهيد؟ قال: بل شهيد، قال: قد أديت الشهادة، فصمت الجارود حتى غدا على عمر، فقال: أقم على هذا حد الله، فقال عمر: ما أراك إلا خصما وما شهد معك إلا رجل فقال الجارود أنا أنشدك الله، فقال عمر: لتمسكن لسانك أو لأسؤنك، فقال أبو هريرة: إن كنت تشك في شهادتنا، فأرسل إلى ابنة الوليد فسلها وهي امرأة قدامة فأرسل إلى هند بنت الوليد ينشدها، فأقامت الشهادة على زوجها، فقال عمر لقدامة: إني حادك: فقال: لو شربت كما يقولون ما كان لكم أن تجلدوني، فقال عمر: لم؟ قال قدامة قال الله عز وجل: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا} الآية، فقال عمر: إنك أخطأت التأويل، إن اتقيت الله اجتنبت ما حرم الله عليك، ثم أقبل عمر على الناس، فقال: ماذا ترون في جلد قدامة؟ فقال القوم: ما نرى أن تجلده ما كان مريضا فسكت عن ذلك أياما، ثم أصبح يوما وقد عزم على جلده، فقال لأصحابه: ما ترون في جلد قدامة، فقال القوم: ما نرى أن تجلده ما دام وجعا، فقال عمر: لأن يلقى الله على السياط أحب إلي من أن يلقى الله وهو في عنقي، ائتوني بسوط تام، فأمر عمر بقدامة فجلد فغاضب عمر قدامة وهجره، فحج، وحج قدامة معه مغاضبا له، فلما قفلا من حجهما، ونزل عمر بالسقيا نام، فلما استيقظ من نومه، فقال: عجلوا علي بقدامة فائتوني به إني لأرى أن آتيا أتاني فقال: سالم قدامة فإنه أخوك، فلما أتوه أبى أن يأتي، فأتى عمر إليه، واستغفر له، فكان ذلك أول صلحهما. "عب وابن وهب هق"
13750 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے قدامۃ بن مظعون کو بحرین کا گورنر بنادیا۔ قدامہ حفصہ اور عبداللہ بن عمر کے ماموں یعنی حضرت عمر (رض) کے سالے تھے۔ جارود جو قبیلہ عبدالقیس کے سردار تھے وہ بحرین سے حضرت عمر (رض) کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! قدامہ نے شراب پی ہے اور نشہ میں دھت ہوئے ہیں۔ اور مجھ پر لازم ہے کہ جب میں حدود اللہ میں سے کوئی حد دیکھوں تو اس کو آپ تک پہنچاؤں ۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : تمہارے ساتھ اور کون گواہی دیتا ہے ؟ جارود بولے : ابو ہریرہ ! پوچھا : تم کس بات کی شہادت دیتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : میں نے قدامہ کو شراب پیتے نہیں دیکھا مگر نشہ کی حالت میں قے کرتے دیکھا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم نے اپنی طرف سے پوری طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر شہادت ادا کردی ہے (اب تم زیادہ مبالغہ نہ کرو پھر حضرت عمر (رض)) نے قدامہ کو بحرین سے آنے کا لکھا۔ وہ تشریف لے آئے۔ چارود ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے : اس پر کتاب اللہ (کا حکم) نافذ کیجئے۔ حضرت عمر (رض) نے جارود کو فرمایا تم گواہ ہو یا دشمن ہو ؟ جارود بولے : گواہ۔ آپ نے فرمایا : تم بولے : میں تمہیں ان کا دشمن سمجھتا ہوں اور (اس طرح تمہاری گواہی معتبر نہیں رہی جبکہ) تمہارے ساتھ صرف ایک آدمی نے گواہی دی ہے۔ جارود بولے : میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں (کہ آپ ان پر اللہ کی حد کو جاری کریں) حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم اپنی زبان تھام لو ورنہ میں تمہارے ساتھ براسلوک کروں گا۔ پھر حضرت ابو ہریرہ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو فرمایا : اگر تم کو ہماری شہادت میں شک ہے تو ھندبنت الولید کے پاس پیغام بھیج کر ان سے معلوم کرلو، جو قدامہ کی بیوی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ہند بنت الولید کے پاس پیغام بھیجا اس نے بھی اپنے شوہر کے خلاف شہادت پیش کردی۔ تب حضرت عمر (رض) نے قدامہ کو فرمایا : میں آپ پر حد لگاؤں گا۔ قدامہ بولے : اگر میں نے شراب پی ہے جیسا کہ یہ کہہ رہے ہیں تب بھی تمہارے لیے مجھے حد لگانے کی گنجائش نہیں ہے، حضرت عمر (رض) نے پوچھا : وہ کیوں ؟ حضرت قدامہ بولے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لیس علی الذین آمنووعملوا الصالحات جناح فیما طعموا
جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے عمل کیے ان پر کوئی حرج نہیں ہے اس میں جو انھوں نے کھایا۔
حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : تم تاویل کرنے میں غلطی کررہے ہو۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کی حرام کردہ شے سے اجتناب کرتے ۔ پھر حضرت عمر نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا تم لوگ قدامہ کو حد لگانے میں کیا رائے دیتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : جب تک یہ مریض ہیں ہمارا خیال ہے کہ تب تک آپ ان کو حد جاری نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) چند ایام تک اس مسئلے میں خاموش رہے۔ پھر ایک دن صبح کو حد لگانے کا پختہ عزم کرلیا۔ اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا : اب تمہارا کیا خیال ہے قدامہ کو حد لگانے کے متعلق ؟ ساتھیوں نے وہی بات کی کہ جب تک وہ بیمار ہیں ان کو حد جاری کرنا درست نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : یہ اللہ سے ملاقات ہی کرلیں کوڑے کھاتے ہوئے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بنسبت اس بات کے کہ ان کو حد لگانا میری گردن پر باقی رہ جائے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا کہ ان کو حد لگائی جائے۔ اور آخر ان کو حد لگادی گئی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے حج کیا تو قدامہ نے بھی ان کے ساتھ حج کیا لیکن ناراضگی اور ناگواری کے ساتھ۔ جب دونوں حضرات حج سے واپس ہوئے اور حضرت عمر (رض) سفیا مقام پر اترے تو وہاں آرام کرنے کے لیے سوگئے۔ جب نیند سے بیدار ہوئے تو بولے : قدامہ کو جلدی میرے پاس لاؤ۔ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور بولا قدامہ سے صلح کرلو کیونکہ وہ تمہارا بھائی ہے۔ لیکن جب لوگ ان کو بلانے گئے تو انھوں نے آنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا حضرت عمر (رض) خود ان کے پاس چل کر تشریف لے گئے اور ان کے لیے استغفار کیا۔ یہ ان کی باہمی صلح کا پہلا واقعہ تھا۔ مصنف عبدالرزاق، ابن وھب، السنن للبیہقی

13751

13751- عن أيوب بن أبي تميمة قال: لم يحد في الخمر أحد من أهل بدر إلا قدامة بن مظعون. "ن".
13751 ایوب بن ابی تمیمہ سے مروی ہے کہ شراب نوشی کے اندر کسی بدری صحابی کو حد نہیں جاری ہوئی۔ یعنی کسی بدری نے شراب نوشی کی ہی نہیں سوائے قدامہ بن مظعون (رض) کے۔ النسائی

13752

13752- عن أنس أن أيتاما ورثوا خمرا، فسأل أبو طلحة النبي صلى الله عليه وسلم أنجعله خلا؟ قال: لا. "ش م د ت".
13752 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ کچھ یتیموں کو وراثت میں شراب ملی۔ ابو طلحہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کیا ہم اس کو سرکہ بنالیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : نہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مسلم، ابن ابی داؤد، الترمذی

13753

13753- عن نافع قال: قيل لابن عمر: إن النساء يتمشطن بالخمر فقال ابن عمر: ألقى الله في رؤسهن الحاصة "عب".
13753 نافع (رح) سے مروی ہے کہ ابن عمر (رض) سے کسی نے کہا کہ عورتیں سر میں شراب لگا کر کنگھی کرتی ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اللہ پاک ان کے سر میں (اس کی نحوست سے) حاصہ (بال گرنے کی بیماری) ڈال دے گا۔ مصنف عبدالرزاق

13754

13754- عن نافع أن ابن عمر وجد في بيته ريح السوسن فقال: أخرجوه رجس من عمل الشيطان. "عب".
13754 نافع (رح) سے مروی ہے کہ ابن عمر (رض) نے اپنے کمرے میں سو سن (خوشبودار جڑی بوٹی) کی بو محسوس کی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کو نکالو یہ شیطانی عمل کی گندگی ہے (غالباً شراب سازی میں اس کو استعمال کیا جاتا ہوگا) ۔ مصنف عبدالرزاق

13755

13755- عن ابن عمر أن غلاما له سقى بعيرا له خمرا فتواعده. "عب".
13755 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ان کے ایک غلام نے ان کے اونٹ کو شراب پلادی۔ آپ نے اس کو زجرو تنبیہ کی۔ مصنف عبدالرزاق

13756

13756- عن وائل أن رجلا يقال له: سويد بن طارق سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن الخمر، فنهاه، فقال: إنما أصنعها للدواء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنها داء وليست بدواء. "عب".
13756 وائل سے مروی ہے کہ ایک آدمی جس کو سوید بن طارق کہا جاتا تھا، نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کے متعلق پوچھا : آپ نے اس کو اس سے منع فرمایا۔ سوید نے کہا میں اس کو دوا میں استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تو داء ہے دواء نہیں داء یعنی بیماری۔
مصنف عبدالرزاق

13757

13757- عن عمر قال: إياكم والأحمر من اللحم والنبيذ، فإنهما مفسدة للمال مرقة للدين. "ابن أبي الدنيا في ذم المسكر هب".
13757 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے آپ نے ارشاد فرمایا : سرخ گوشت اور نبیذ سے بچو کیونکہ یہ دونوں چیزیں مال کو تباہ کرتی ہیں اور دین کا نقصان کرتی ہیں۔
ابن ابی الدنیا فی ذم المسکر، شعب الایمان للبیہقی
فائدہ : دونوں چیزیں اگرچہ حلال ہیں مگر چونکہ دونوں گراں قیمت ہیں اس لیے مال تباہ کرتی ہیں اور گوشت قسادت قلبی پیدا کرتا ہے اور نبیذ سستی اور کاہلی پیدا کرتی ہے اور دونوں چیزیں دین کے لیے نقصان دہ ہیں۔

13758

13758- عن عمر قال: إياكم واللحم فإن له ضراوة كضراوة الخمر. "مالك هب" وقال وصله بعض الضعفاء ورفعه ليس بشيء.
13758 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : گوشت سے بچو۔ کیونکہ اس کی عادت بھی شراب کی طرح پڑجاتی ہے۔ موطا امام مالک، شعب الایمان للبیہقی
بعض ضعفاء نے اس کو مرفوعاً بیان کیا ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں۔

13759

13759- عن السائب بن يزيد أن عمر بن الخطاب خرج عليهم، فقال: إني وجدت من فلان ريح شراب، فزعم أنه شرب الطلاء وإني سائل عما يشرب إن كان يسكر جلدته الحد، فجلده عمر الحد [تاما] . "مالك والشافعي عب وابن وهب وابن جرير ق".
13759 سائب بن یزید (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) ان کے پاس آنکلے آپ (رض) نے فرمایا : میں نے فلاں شخص سے شراب کی بو محسوس کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے طلاء (نبیذ) پی ہے۔ اور میں اس کے مشروب کے بارے میں پوچھ گچھ کروں گا اگر وہ نشہ آور ہوا تو میں اس کو حد جاری کروں گا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو شرابنوشی کی مکمل حد جاری کی۔
موطا امام مالک، الشافعی، الجامع لعبد الرزاق، ابن وھب، ابن جریر، السنن للبیہقی

13760

13760- عن عمر قال: قلت: يا رسول الله، ما المسكر؟ قال: إناؤك الذي تسكر منه. "ابن مردويه وفيه المسيب بن شريك متروك".
13760 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! نشہ آور شے کیا ہے ؟ فرمایا : تیرا وہ برتن جس سے تجھے نشہ پیدا ہو۔ ابن مردویہ
کلام : روایت کی سند میں مسیب بن شریک متروک راوی ہے۔ کنزالعمال ج 5 ۔

13761

13761- عن ابن عمر قال: ما أسكر منه الفرق1 فاللحسة منه حرام. "عب".
13761 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جس کی ایک فرق (دس بارہ کلو) مقدار نشہ آور ہو اس شے کی ایک چسکی بھی حرام ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13762

13762- عن ابن عمر قال: كل مسكر خمر وكل مسكر حرام. "مالك عب".
13762 ابن عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : ہر نشہ آور شے شراب ہے اور ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ موطا امام مالک، الجامع لعبد الرزاق

13763

13763- عن أبي ذر قال: من شرب مسكرا من الشراب فهو رجس رجس رجس ورجس صلاته أربعين ليلة، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد في الثالثة أو في الرابعة كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال. "عب".
13763 حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے فرمایا : جو نشہ آور شراب پئے وہ گندگی ہے، گندگی ہے جو اس کی نماز کو چالیس راتوں تک گندا کردیتی ہے۔ اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ پاک اس کو توبہ قبول کرلیتا ہے۔ اگر وہ تیسری یا چوتھی مرتبہ پیتا ہے تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو طینۃ الخبال سے پلائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13764

13764- عن عائشة قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البتع2 فقال: كل شراب مسكر فهو حرام. "عب".
13764 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بتع (اہل یمن کی شراب) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر شراب جو نشہ آور ہوتی ہے وہ حرام ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13765

13765- عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي الشراب في الإناء الضاري1 "عب".
13765 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے آپ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس برتن میں پینے سے احتراز کرتے تھے جس میں شراب بنائی جاتی ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13766

13766- عن سعيد بن جبير قال: من شرب مسكرا لم يقبل الله منه صلاة ما كان في مثانته2 منه قطرة، فإن مات منها كان حقا على الله أن يسقيه من طينة الخبال، وهي صديد أهل النار وقيحهم. "عب".
13766 سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں : جو کوئی نشہ آور شے نوش کرتا ہے اللہ پاک اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک کہ اس کے مثانے میں اس کا ایک قطرہ بھی باقی ہو۔ اگر وہ اس کے ہوتے ہوئے مرجائے تو اللہ پاک پر لازم ہے کہ اس کو طینۃ الخبال پلائے جو اہل جہنم کا خون پیپ ہے۔
الجامع لعبد الرزاق

13767

13767- عن طاوس أن النبي صلى الله عليه وسلم تلا آية الخمر وهو يخطب الناس على المنبر، فقال رجل: فكيف بالمزر3 يا رسول الله؟ قال: وما المزر؟ قال: الشراب يصنع من الحب قال: يسكر؟ قال: نعم قال: كل شراب مسكر حرام. "عب".
13767 طاؤ وس (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت الخمر تلاوت کی آپ لوگوں کو منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ ایک آدمی نے پوچھا : مزر کیسی ہے یارسول اللہ ! پوچھا مزر کیا ہے ؟ عرض کیا جو گندم سے بنائی جاتی ہے وہ شراب ۔ آپ نے پوچھا : نشہ آو ؟ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا ہرنشہ آور شے حرام ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13768

13768- عن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الجر وعن الدباء وعن المزفت. "ط حم ن ع ابن جرير ص".
13768 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑے سے، کدو کے بنائے ہوئے برتن سے اور تار کول ملے ہوئے برتن سے۔
مسند ابی داؤد، مسند احمد، النسائی، مسند ابی یعلی، ابن جریر، السنن لسعید بن منصور
فائدہ : ان برتنوں میں نبیذ جلد نشہ آور ہوجاتی ہے اس لیے منع فرمایا۔

13769

13769- عن عبد الله بن يزيد الخطمي قال: كتب إلينا عمر بن الخطاب أما بعد، فاطبخوا شرابكم حتى يذهب منه نصيب الشيطان، فإن له اثنين ولكم واحد. "ص ن ق".
13769 عبداللہ بن یزید الخطمی سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ہم کو لکھا : اما بعد ! اپنی مشروب کو اتنا پکاؤ کہ اس میں سے شیطان کا حصہ چلا جائے۔ شیطان کے دو حصے ہیں اور ایک حصہ تمہارا ہے۔ السنن لسعید بن منصور، النسائی، السنن للبیہقی

13770

13770- عن عمر قال: إن هذه الأنبذة تنبذ من خمسة أشياء من التمر والزبيب والعسل والبر والشعير فما خمرته منها ثم عتقته فهو خمر. "عب ش حم في الأشربة".
13770 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : یہ نبی ذیں پانچ چیزوں سے بنتی ہیں : کھجور، کشمش، شہد، گندم اور جو۔ جس کو تم نے خمیر کرلیا اور پھر اس کو پرانا کرلیا وہ خمر (شراب) ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، الاشربہ للاماماحمد
فائدہ : نبیذ صبح سے شام یا شام سے صبح ہے اور جو کافی عرصہ رکھی جائے وہ شراب ہے۔

13771

13771- عن أسلم قال: النبيذ الذي يشرب عمر كان ينقع له الزبيب غدوة فيشربه عشية وينقع له عشية فيشربه غدوة، ولا يجعل فيه دردي "ابن أبي الدنيا في ذم المسكر ق".
13771 حضرت اسلم سے مروی ہے کہ وہ نبیذ جو حضرت عمر (رض) نوش فرمایا کرتے تھے وہ صبح کو کشمش پانی میں ڈال دی جاتی تھیں اور رات کو آپ نوش فرمالیا کرتے تھے ۔ یا شام کو پانی میں ڈال دی جاتی تھیں اور صبح کو آپ نوش فرما لیا کرتے تھے۔ اور نیچے کی تلچھٹ نکال دیا کرتے تھے۔
ابن ابی الدنیا فی ذم المسکر، السنن للبیہقی
فائدہ : نیچے کی گاڑھی تلچھٹ خصوصاً نشہ پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے (اس وجہ سے حضرت عمر (رض)) اس کو پھینک دیا کرتے تھے۔

13772

13772- عن عمر قال: إنا لنشرب هذا النبيذ الشديد لنقطع به ما في بطوننا من لحوم الإبل أن يؤذينا فمن رابه من شرابه شيء فليمزجه بالماء. "ش".
13772 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : ہم یہ سخت نبیذ اس لیے نوش کرتے ہیں تاکہ ہمارے شکموں میں جو اونٹ کا گوشت ہوتا ہے اس کو یہ نبیذ ہضم کردے ورنہ وہ گوشت ہمارے لیے تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ پس جس کو اپنی شراب میں کچھ شک گزرے وہ اس کو پانی کے ساتھ ملا لے۔
مصنف ابن ابی شیبہ
فائدہ : شک گزرنے کا مطلب ہے کہیں وہ نشہ آور نہ ہوجائے۔ ایسی صورت میں پانی ملالے اور اس کو رقیق کرلے۔

13773

13773- عن مجاهد قال: قال عمر: إني رجل معجار البطن أو مسعار البطن، فأشرب هذا السويق، فلا يلاومني وأشرب هذا اللبن فلا يلاومني وأشرب هذا النبيذ الشديد فيسهل بطني. "ش".
13773 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں خشک پیٹ والا (یا فرمایا) سخت پیٹ والا آدمی ہوں۔ اسی وجہ سے کبھی ستو پیتا ہوں، اور کبھی دودھ پیتا ہوں مجھے کوئی ملامت نہ کرے۔ اور گاڑھی نبیذ بھی اسی لیے پیتا ہوں تاکہ میرا پیٹ قدرے نرم ہوجائے اس لیے مجھے کوئی مورد طعن نہ بنائے۔ ابن ابی شیبہ

13774

13774- عن إبراهيم قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمار بن ياسر وهو عامل له على الكوفة، أما بعد، فإنه أتي إلي بشراب من الشام من عصير العنب قد طبخ وهو عصير قبل أن يغلي حتى ذهب ثلثاه، وبقي ثلثه، فذهب شيطانه وريح جنونه، وبقي حلوه وحلاله فهو شبيه بطلاء الإبل فمر من قبلك فليتوسعوا به في شرابهم والسلام. "ابن خسرو".
13774 حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت عمار بن یاسر کو جو کوفہ پر ان کے گورنر تھے لکھا : اما بعد ! سنو میرے پاس ملک سے انگور کا شیرہ آیا ہے جس کو پکایا گیا ہے، اس کا دو تہائی پکنے سے کم ہو کر ایک تہائی باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح اس کا شیطان اور اس کے پاگل کردینے والی بو ختم ہوگئی ہے لیکن وہ (پڑا پڑا) جوش مارنے نہیں لگا۔ اس لیے اس کی مٹھاس اور اس کی حلت باقی رہ گئی ہے۔ اب وہ اونٹ کے طلاء (عنی جیسی نبیذ اونٹوں کو دی جاتی ہے اس) جیسا ہے۔ لہٰذا تمہارے ہاں جو اس طرح کی نبیذ پینا چاہیں ان کی گنجائش دو ۔ والسلام۔ ابن خسرو

13775

13775- عن محمود بن لبيد الأنصاري أن عمر بن الخطاب لما قدم شكا إليه أهل الشام وباء الأرض وثقلها، وقالوا: لا يصلحنا إلا هذا الشراب فقال عمر: اشربوا هذا العسل، قالوا: لا يصلحنا، فقال رجل من أهل الأرض: هل لك من هذا الشراب شيء ما لا يسكر؟ قال: نعم فطبخوه حتى ذهب منه الثلثان، وبقي الثلث فأتوا به عمر، فأدخل أصبعه فيه، ثم رفعها فتبعها يتمطط فقال: هذا الطلاء هذا مثل طلاء الإبل، فأمرهم أن يشربوه فقال له عبادة بن الصامت: أحللتها والله، فقال عمر: كلا والله، اللهم إني لا أحل لهم شيئا حرمته عليهم، ولا أحرم عليهم شيئا أحللته لهم. "مالك هق"
13775 محمود بن لبید انصاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جب ملک شام تشریف لائے تو اہل شام نے وہاں کی سرزمین کی وباء اور اس کی سختی کا رونا رویا۔ اور بولے : اس وجہ سے ہم کو شراب ہی طبیعت کو درست رکھتی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم شہد نوش کرو۔ بولے : یہ بھی ہمارے لیے درست نہیں رہتا۔ وہاں کے ایک باشندے نے عرض کیا : کیا ایسا مشروب صحیح ہے جو نشہ آور نہ ہو ؟ آپ (رض) نے اثبات میں ہاں فرمادی۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے انگور کا شیرہ پکا کر اس کا دوتہائی ختم کردیا اور ایک تہائی باقی رہنے دیا۔ پھر اس کو لے کر حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر (رض) نے اس میں انگلی ڈبو کر نکالی پھر بار بار اس میں انگلی ڈبو کر اس کا گاڑھا پن دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا : یہ طلاء (نبیذ) ہے، یہ اونٹوں کے طلاء کے مثل ہے۔ پھر آپ (رض) نے اس کے پینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
حضرت عبادۃ بن الصامت نے عرض کیا : آپ اس کو حلال کررہے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : ہرگز نہیں قسم بخدا ! اے اللہ میں ان کے لیے وہ شے حلال نہیں کررہا جو آپ نے ان کے لیے حرام کردی ہے اور آپ کو حلال کردہ شے کو ان پر حرام نہیں کررہا۔
موطا امام مالک، السنن للبیہقی

13776

13776- عن سفيان بن وهب الخولاني قال: كنت مع عمر بن الخطاب بالشام فقال أهل الذمة: إنك كلفتنا وفرضت علينا أن نرزق المسلمين العسل ولا نجده، فقال عمر: إن المسلمين إذا دخلوا أرضا فلم يوطنوا فيها اشتد عليهم أن يشربوا الماء القراح فلا بد لهم مما يصلحهم، فقالوا: إن عندنا شرابا نصلحه من العنب شيئا يشبه العسل، قال: فأتوا به فجعل يرفعه بأصبعه فيمده كهيئة العسل، فقال: كأن هذا طلاء الإبل، فدعا بماء فصبه عليه، ثم خفض فشرب منه وشرب أصحابه وقال: ما أطيب هذا فارزقوا المسلمين منه فرزقوهم منه، فلبث ما شاء الله، ثم إن رجلا خدر منه فقام المسلمون فضربوه بنعالهم، وقالوا: سكران، فقال الرجل: لا تقتلوني فوالله ما شربت إلا الذي رزقنا عمر، فقام عمر بين ظهراني الناس فقال: يا أيها الناس، إنما أنا بشر لست أحل حراما ولا أحرم حلالا وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض فرفع الوحي، فأخذ عمر بثوبه فقال: إني أبرأ إلى الله من هذا أن أحل لكم حراما فاتركوه، فإني أخاف أن يدخل الناس فيه مدخلا، وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كل مسكر حرام فدعوه. "ابن راهويه".
13776 سفیان بن وھب خولانی سے مروی ہے کہ میں ملک شام حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ تھا۔ ذمیوں نے آپ (رض) سے عرض کیا : آپ نے ہم پر لازم کردیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو شہد فراہم کریں حالانکہ وہ ہم کو دستیاب نہیں ہورہا ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مسلمان جب کسی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں اقامت نہیں کرتے (بلکہ لشکر کشی میں ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں) جس کی وجہ سے ان کو خالص سادہ پانی پینے کی شدت کے ساتھ طلب ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کو (قوت کی فراہمی کے لئے) ایسی کوئی چیز ضروری ہے جو ان کو (مضبوط) اور تندرست رکھ سکے۔ وہاں کے باشندوں نے کہا : ہمارے پاس ایسا مشروب ہے جو ہم انگور سے بناتے ہیں جو (شراب نہیں بلکہ شہد جیسا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ وہ مشروب لے کر آئے۔ حضرت عمر (رض) اس میں انگلی ڈبو کر اٹھاتے رہے شہد (دیکھنے) کی طرح (آپ (رض)) نے فرمایا : یہ تو اونٹوں کی نبیذ کی طرح ہے۔ پھر آپ نے پانی منگوایا اور اس میں ڈال دیا اور اس کو ہلکا کرکے خود بھی پیا اور آپ کے ساتھیوں نے بھی پیا۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا بہت اچھا مشروب ہے۔ ٹھیک تم مسلمانوں کو یہی دیا کرو۔ چنانچہ ذمی لوگ (جزیہ) وغیرہ میں مشروب مسلمانوں کو دیتے رہے۔ کچھ عرصہ اسی طرح بیت گیا۔ پھر ایک مسلمان آدمی نشہ میں دھت ہوگیا۔ مسلمانوں نے اس کو جوتوں سے مارا اور بولے : نشہ میں غرق ہوگیا ہے تو۔ آدمی بولا : مجھے قتل کرو۔ اللہ کی قسم ! میں نے تو وہی مشروب پیا ہے جس کی حضرت عمر (رض) نے ہمیں اجازت دی تھی تب حضرت عمر (رض) نے لوگوں کے بیچ کھڑے ہو کر خطبہ دیا اے لوگو ! میں محض ایک بشر ہوں، میں کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور نہ حلال کو حرام ٹھہرا سکتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوئی تو وحی بھی اٹھ گئی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اپنا کپڑا تھام کر (تاکیداً ) ارشاد فرمایا : میں اللہ کے ہاں اس برات کا اظہار کرتا ہوں کہ تمہارے لیے کسی حرام شے کو حلال قرار دوں۔ لہٰذا لوگو ! اس مشروب کو فوراً ترک کردو۔ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ اس میں منہمک نہ ہوجائیں۔ حالانکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ نے ارشاد فرمایا : ہر نشہ آور شے حرام ہے پس تم اس کو چھوڑ دو ۔ ابن راھویہ

13777

13777- عن عمر بن الخطاب قال: لأن أشرب قمقما من ماء محمى يحرق ما أحرق، ويبقي ما أبقى أحب إلي من أن أشرب نبيذ الجر. "عب وابن أبي الدنيا في ذم المسكر وابن جرير".
13777 حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : تانبے کے برتن میں گرم کیا ہوا پانی جو کچھ جل گیا ہو اور کچھ بچ گیا ہو، مجھے اس کا پینا مٹکے میں بنائی گئی نبیذ کے پینے سے زیادہ پسند ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی الدنیا فی ذم المسکر ، ابن جریر

13778

13778- عن الزهري أن عمر بن الخطاب أتي وهو بطريق الشام بانائين فيهما نبيذ فشرب من أحدهما وعدل عن الأخرى، فأمر بالأخرى فرفعت فجيء بها من الغد وقد اشتد ما فيها بعض الشدة فذاقه وقال: اكسروا بالماء. "حب".
13778 زہری (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) جب ملک شکام کے رستے میں تھے ، آپ کے پاس دو برتن نبیذ کے لائے گئے۔ آپ نے ایک برتن کا نبیذ نوش فرما لیا دوسرا چھوڑ دیا۔ اور دوسرا رکھ دینے کا حکم دیدیا۔ اگلے روز جب دوسرا برتن پیش کیا گیا تو وہ قدرے گاڑھا ہوگیا تھا۔ آپ نے اس کو چکھا تو فرمایا اس میں پانی ملاؤ۔ ابن حبان فی صحیحہ

13779

13779- عن ابن جريج أخبرني إسماعيل أن رجلا عب في شراب نبذ لعمر بن الخطاب بطريق المدينة فسكر فتركه عمر حتى أفاق فحده ثم أوجعه عمر بالماء فشرب منه، قال: ونبذ نافع بن عبد الحارث لعمر ابن الخطاب في المزاد وهو عامل له على مكة، فاستأخر عمر حتى عدا الشراب طوره، فدعا به عمر فوجده شديدا، فصنعه في أجفان فأوجعه بالماء ثم شرب الماء وسقى الناس. "عب".
13779 ابن جریج سے مروی ہے کہ اسماعیل نے مجھے خبر دی کہ ایک شخص نے وہ مشروب جو حضرت عمر کے لیے بنایا گیا تھا اس میں منہ ڈال کر غٹاغٹ اس کو پی گیا۔ جس سے وہ نشہ میں غرق ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو چھوڑ دیا جب اس کا نشہ اتر گیا تو حضرت عمر (رض) نے اس حد جاری فرمائی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے وہی مشروب پانی کے ساتھ ملا کر نوش فرمالیا۔
راوی کہتے ہیں : اسی طرح نافع بن عبدالحارث جو مکہ پر حضرت عمر (رض) کی طرف سے گورنر تھے، نے ایک برتن میں حضرت عمر (رض) کے لیے نبیذ بنائی۔ حضرت عمر (رض) کو پینے میں تاخیر ہوگئی حتیٰ کہ نبیذ کا مزاج بدل گیا۔ پھر حضرت عمر (رض) نے وہ منگوائی تو اس کو قدرے سخت پایا۔ آپ نے اس کو بڑے برتن میں ڈالواکر اس میں پانی ملایا پھر آپ نے بھی وہ پانی پیا اور لوگوں کو بھی پلایا۔ مصنف عبدالرزاق

13780

13780- عن ابن المسيب قال: تلقت ثقيف عمر بن الخطاب بشراب فدعاهم به، فلما قربه إلى فمه كرهه، ثم دعا بماء فكسره، ثم قال: هكذا فاشربوه. "عب ق".
13780 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ بنی ثقیف کے لوگوں نے آپ کے لیے مشروب تیار کیا آپ نے اس مشروب کے ساتھ ان کو بھی حاضر ہونے کا حکم دیا پھر اس مشروب کو پینے کے لیے منہ کو لگایا تو اس کو ناگوار پایا پھر پانی منگوایا اور اس میں ملا دیا پھر فرمایا : اس طرح پیا کرو۔
الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13781

13781- عن أسلم قال: قدمنا الجابية مع عمر فأتينا بطلاء وهو مثل عقيد الرب إنما يخاض بالمخوض خوضا، فقال عمر: إن في هذا الشراب ما انتهى إليه. "عب ق كر".
13781 حضرت اسلم سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ جابیہ پہنچے تو ہمارے سامنے نبیذ لایا گیا جو گاڑھے شیرے کی مانند سخت تھا۔ جس کو کسی چیز کے ساتھ نکالا جاسکتا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ مشروب ممنوع الاستعمال ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی، ابن عساکر

13782

13782- عن سفيان بن سلمة أن عمر بن الخطاب رزقهم الطلاء فسأله رجل عن الطلاء فقال: كان عمر يرزقنا الطلاء نجدحه في سويقنا ونأكله بادمنا وخبزنا، قال: ليس بباذقكم الخبيث. "عب".
13782 سفیان بن ابی سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان ک ونبیذ دیا (لشکری مسلمانوں کے لیے وظیفہ میں مقرر کیا) سفیان سے ایک آدمی نے نبیذ کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا : حضرت عمر (رض) یہی ہم کو دیا کرتے تھے۔ ہم اس کو ستو کے ساتھ ملا لیتے تھے اور سالن روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ وہ تمہاری گندی شراب جیسا نہیں ہوتا تھا۔

13783

13783- عن ابن سيرين قال: كتب لنوح من كل شيء اثنان أو قال: زوجان، فأخذ ما كتب له فضلت عليه حبلتان فجعل يلتمسهما فلقيه ملك، فقال: ما تبغي قال: حبلتين قال: إن الشيطان ذهب بهما، قال الملك: أنا آتيك به وبهما فجاء الملك به وبهما، قال له: إنه لك فيهما شريك فأحسن مشاركته، قال: لي الثلث وله الثلثان، قال الملك: أحسنت وأنت محسان، إن لك أن تأكل عنبا وزبيبا وخلا تطبخه حتى يذهب ثلثاه ويبقى الثلث، قال ابن سيرين: فوافق ذلك كتاب عمر ابن الخطاب. "عب".
13783 ابن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ملا تھا کہ ہر چیز کے جوڑے کو اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ چنانچہ آپ کے لیے جو لینا فرض تھا وہ لے لیا۔ لیکن انگور کی دو شاخیں گم ہوگئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو تلاش کرنے لگے۔ ایک فرشتہ ان سے ملاقات کرنے آیا۔ فرشتے نے پوچھا : آپ کیا تلاش کررہے ہیں ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : دو شاخیں انگور کی۔ فرشتے نے عرض کیا : وہ تو شیطان لے گیا ہے۔ فرشتہ نے کہا : میں شیطان کو ان شاخوں سمیت پکڑ کر لاتا ہوں۔
چنانچہ فرشتہ دونوں شاخوں کو اور شیطان کو لے آیا۔ فرشتے نے کہا : یہ شیطان بھی اب دونوں شاخوں میں آپ کا شریک ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ شراکت کو اچھی طرح نبہانا۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : میں (ان سے پیدا ہونے والے پھل میں) ایک تہائی رکھوں گا اور دو تہائی اس کے واسطے (جلنے میں) چھوڑ دوں گا۔ فرشتہ بولا : آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا اور آپ اچھے احسان کرنے والے ہیں۔ بس آپ انگور کشمش اور سرکے کو اس قدر پکائیں کہ اس کا دو تہائی اڑ جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) کا (گورنروں کو لکھا ہوا) مراسلہ بھی اس کے موافق تھا۔
الجامع لعبد الرزاق

13784

13784- عن الشعبي قال: كتب عمر بن الخطاب إلى عمار بن ياسر أما بعد، فإنه جاءتنا أشربة من قبل الشام كأنها طلاء الإبل قد طبخ حتى ذهب ثلثاه الذي فيه خبث الشيطان وريح جنونه، وبقى ثلثه فاصطبغه وأمر من قبلك أن يصطبغه. "عب وأبو نعيم في الطب" ورواه "خط" في تلخيص المتشابه عن الشعبي عن حيان الأسدي قال: أتانا كتاب عمر فذكره بلفظ ذهب شره وبقي خيره فاشربوه.
13784 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عمار بن یاسر کو لکھا : اما بعد ! ہمارے پاس ملک شام سے کچھ پینے کے مشروب آئے ہیں وہ اونٹوں کے طلاء (نبیذ) جیسے ہیں۔ ان کو پکایا گیا ہے حتیٰ کہ اس کا دو تہائی ختم ہوگیا ہے جو شیطان کا گندا حصہ اور اس کے جنون کی بو تھا۔اور ایک تہائی باقی رہ گیا ہے۔ اس کو اپنے سالن وغیرہ میں استعمال کرو۔ اور اپنی طرف کے لوگوں کو اجازت دو کہ وہ اس کو اپنے کھانے سالن وغیرہ میں استعمال کرلیں۔ الجامع لعبد الرزاق، ابونعیم فی الطب
خطیب بغدادی (رح) نے اس کو تلخیص المتشابہ میں عن الشعبی عن حیان الاسدی سے یوں نقل کیا حیان اسدی فرماتے ہیں : ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا مراسلہ پہنچا جس میں (ذرا مختلف ) یہ الفاظ تھے : ان کا شر چلا گیا اور اس کا خیر باقی رہ گیا ہے۔ پس اس کو نوش کرسکتے ہو۔

13785

13785- عن سويد بن غفلة قال: كتب عمر إلى عماله أن يرزق الناس الطلاء ما ذهب ثلثاه وبقي ثلثه. "عب وأبو نعيم في الطب".
13785 سوید بن غفلہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے گورنروں کو لکھا : لوگوں کو وہ نبیذ دیا جائے جس کا دو تہائی پکانے سے اڑ گیا ہو اور ایک تہائی باقی رہ گیا ہو۔
الجامع لعبد الرزاق، ابونعیم فی الطب

13786

13786- عن ابن نياق قال: قدم عمر فإذا عليه قميص كرابيس وسخ قد كاد ينقطع من الوسخ، فقلت يا أمير المؤمنين ألا أغسل قميصك هذا؟ قال: بلى إن شئت فدعوت بقميص قبطي فلبسه فلما وجد لينه قال: ويحك يا ابن نياق، ائتني بقميصي فجئته به ولم يجف بعد، فذهبت أدخله بيتا فرأى فيه صورة فأبى أن يدخله، أتيته بعسل فشربه، فقال: إن هذا لا يسع الناس فهل من شراب يسع الناس، فاتيته بطلاء قد طبخ على الثلثين فنظر إليه فقال: ما أشبه هذا بطلاء الإبل، ثم سقى رجلا منه فشربه فقال: أتجد دبيبا أتجد شيئا، قال: لا، ثم ثنى فقال: أتجد شيئا؟ قال: لا، ثم ثلث فقال: أتجد شيئا؟ قال: لا، قال: قم فامش فمشى حتى رجع فقال: أتجد دبيبا أتجد شيئا؟ قال: لا، قال: نعم ارزق الناس من هذا وكتب إلى سعد بالكوفة. "كر".
13786 ابن نیاق سے مروی ہے کہ خلیفہ حضرت عمر بن خطاب (رض) (ملک شام) تشریف لائے آپ کے بدن پر کھردرے کپڑے کی ایسی میلی بوسیدہ قمیص تھی جو میل کچیل کی وجہ سے پھٹنے کے قریب تھی۔ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! میں آپ کی یہ قمیص نہ دھودوں ؟ آپ نے فرمایا : چاہو تو دھو سکتے ہو۔ ابن نیاق کہتے ہیں : چنانچہ میں نے ایک دوسری قبطی قمیص لاکر آپ کو دی آپ نے وہ زیب تن فرمالی۔ لیکن جب آپ (رض) نے اس کا ملائم پن محسوس کیا توبولے : افسوس ! اے ابن نیاق ! مجھے میری ہی قمیص لادو۔ میں قمیص لے آیا جو ابھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں آپ کو ایک کمرے میں (آرام کے لئے) لایا۔ آپ (رض) نے اس میں کوئی تصویر دیکھی۔ چنانچہ آپ (رض) نے کمرے میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ پھر میں آپ کے پاس شہد لے کر آیا ۔ آپ نے شہد نوش فرمایا۔ پھر فرمایا : یہ لوگوں کو عام میسر نہیں ہے۔ ایسا کوئی دوسرا مشروب ہے جو سب کو بآسانی دستیاب ہوسکے۔ ابن نیاق کہتے ہیں میں نبیذ لے کر آپ کے پاس آیا جس کا دو ثلث (دو تہائی) پکا کر ختم کردیا گیا تھا۔ آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا : یہ اونٹوں کے نبیذ کے کس قدر مشابہ ہے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے وہ مشروب ایک آدمی کو پینے کے لیے دیا اس نے پیا تو آپ نے پوچھا : کیا (دماغ میں) سرسراہٹ تو نہیں ہے ؟ کیا کچھ (نشہ وغیرہ تو نہیں) ہے ؟ آدمی نے کہا : نہیں۔ پھر آپ نے وہ مشروب دوبارہ اس کو پلایا پھر پوچھا : کیا اب کچھ سرسراہٹ ؟ کچھ اور ہوا ؟ آدمی نے کہا : نہیں۔ پھر آپ (رض) نے تیسری مرتبہ وہ مشروب پلایا اور پوچھا : کچھ محسوس کیا ؟ عرض کیا : نہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) نے اس کو فرمایا : اچھا اٹھو اور چل کر دکھاؤ۔ وہ چل کر واپس آیا۔ پھر آپ (رض) نے دوبارہ پوچھا : کچھ سرسراہٹ ہے ؟ کوئی نشہ ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ تب آپ (رض) نے فرمایا : ٹھیک ہے لوگوں کو یہ مشروب مہیا کرو۔ اور پھر کوفہ میں حضرت سعد (رض) کو بھی اس کا حکم لکھ دیا۔ ابن عساکر

13787

13787- عن علي رضي الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والمزفت. "حم خ م1 ن وأبو عوانة والطحاوي ع حل" قال أحمد ليس بالكوفة عن علي حديث أصح من هذا.
13787 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدو کے برتن اور تار کول ملے ہوئے برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
مسند احمد، البخاری، مسلم، النسائی، ابوعوانۃ، الطحاوی، مسند ابی یعلی، حلیۃ الاولیاء
امام احمد (رح) فرماتے ہیں : کوفہ میں حضرت علی (رض) سے مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔

13788

13788- عن علي قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينبذ في الدباء والمزفت. "ع".
13788 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدو کے برتن اور تار کول ملمع کیے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ مسند ابی یعلی

13789

13789- عن علي قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والحنتم والنقير والمزفت والجعة "حم د2 ن وابن أبي عاصم وابن منده ق ص".
13789 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کدو کے برتن سے ، سبز گھڑے سے، کھجور کی جڑ میں بنائے ہوئے برتن سے، تارکول ملے ہوئے برتن سے، اور جو کی نبیذ سے۔
مسند احمد ، ابن ابی داؤد، ابن ابی عاصم، ابن مندہ، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور

13790

13790- عن علي قال: نهاني رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حلقة الذهب والقسي والميثرة والجعة. "ت ن وابن منده في غرائب شعبة ق ص".
13790 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا سونے کے چھلے، کھوٹے درہم، ریشم ودیباج کی زین اور جو کی نبیذ استعمال کرنے سے۔
الترمذی ، النسائی ، ابن مندہ فی غرائب شعبۃ، السنن للبیہقی، السنن لسعید بن منصور

13791

13791- عن علي قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فأمرني أن أنهى عن الدباء والحنتم والمزفت والميسر. "ن".
13791 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن بھیجا تو فرمایا کہ میں (لوگوں کو) کدو کے برتن، سبز گھڑے اور تار کول ملے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے اور جوا کھیلنے سے منع کروں۔ النسائی

13792

13792- عن علي أنه كان يشرب من الطلاء ما ذهب ثلثاه وبقي ثلثه. "أبو نعيم".
13792 حضرت علی (رض) کے متعلق منقول ہے کہ آپ (رض) وہ (طلاء) نبیذ نوش فرمایا کرتے تھے جو پکانے سے دو تہائی اڑ چکی ہو اور ایک تہائی باقی رہ گئی ہو۔ ابونعیم

13793

13793- عن علي أنه كان له دنان صغار من الطلاء، وكان يرزقهن المسلمين. "أبو نعيم".
13793 حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ کے پاس چھوٹے چھوٹے نبیذ کے مٹکے ہوتے تھے آپ ان میں سے مسلمانوں کو نبیذ پلاتے تھے۔ ابونعیم

13794

13794- عن البراء قال: أمرني عمر أن أنادى في القادسية: لا ينبذ في دباء ولا حنتم ولا مزفت. "ش".
13794 حضرت براء (رض) سے مروی ہے کہ مجھے حضرت عمر (رض) نے حکم فرمایا کہ میں قادسیہ میں یہ نداء لگاؤں کہ کدو کے برتن، سبز گھڑے اور تار کول ملے ہوئے برتن میں نبیذ نہ بنائی جائے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

13795

13795- عن عمر قال: اشربوا هذا النبيذ في هذه الأسقية فإنه يقيم الصلب ويهضم ما في البطن وإنه لم يغلبكم ما وجدتم الماء. "ش".
13795 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : ان برتنوں میں نبیذ بنالو کیونکہ نبیذ کمر کو سیدھا رکھتا ہے اور پیٹ کے طعام کو ہضم کرتا ہے اور جب تم اس میں پانی ملاتے رہو گے یہ (نشہ میں) تم پر غالب نہ آئے گا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13796

13796- عن عمر قال: لأن تختلف الأسنة في جوفي أحب إلي من أن أشرب نبيذ الجر. "حم في الأشربة".
13796 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : میرے پیٹ میں نیزے اتریں یہ مجھے مٹکے میں بنائی گئی شراب پینے سے زیادہ پسند ہے۔ الاشربۃ للامام احمد

13797

13797- عن ميمون بن مهران أن رجلا من الأنصار مر بعمر بن الخطاب وقد تعلق لحما، فقال له عمر: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي يا أمير المؤمنين، قال: حسن، ثم مر به من الغد ومعه لحم فقال: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي قال: حسن، ثم مر به اليوم الثالث ومعه لحم، فقال: ما هذا؟ قال: لحمة أهلي يا أمير المؤمنين، فعلا رأسه بالدرة، ثم صعد المنبر فقال: إياكم والأحمرين اللحم والنبيذ فإنهما مفسدة للدين متلفة للمال. "أبو نعيم في حديث عبد الملك بن حسن السقطي".
13797 میمون بن مہران سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس سے گزرا جو گوشت اٹھائے جارہا تھا۔ آپ (رض) نے اس سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : گھر والوں کے لیے گوشت ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ پھر اگلے دن بھی اسی طرح وہ شخص گوشت اٹھائے گزرا۔ آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ فرمایا : میرے گھر والوں کے لیے گوشت ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا : اچھا ہے۔ پھر تیسرے دن بھی وہ شخص اسی طرح گوشت اٹھائے گزرا۔ آپ (رض) نے پوچھا : کیا ہے ؟ فرمایا : میرے گھر والوں کے لیے گوشت ہے۔ آپ نے اس کے سر پر کوڑا مارا۔ پھر منبر پر چڑھ کر ارشاد فرمایا : لوگو ! دوسرخ چیزوں (کو کثرت کے ساتھ استعمال کرنے) سے احتراز کرو۔ گوشت اور نبیذ۔ یہ دونوں دین کے لیے خرابی اور مال کے لیے تباہی کی چیز ہیں۔
ابونعیم فی حدیث عبدالملک بن حسن السقطی

13798

13798- عن عاصم الأحول عن محمد بن سيرين عن أبي هريرة وعن ابن عمر أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم والآخر عن عمر بن الخطاب أنه كان ينهى عن نبيذ الجر. "العاقولي في فوائده".
13798 عاصم الاحول سے مروی ہے وہ محمد بن سیرین سے اور ابن سیرین حضرت ابوہریرہ (رض) اور حضرت عمر (رض) سے نقل کرتے ہیں ان دونوں حضرات میں سے ایک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عمر بن خطاب (رض) مٹکے میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ العاقولی فی فوائدہ

13799

13799- عن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبيذ في الدباء والحنتم. "هناد بن السري في حديثه".
13799 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدو کے برتن اور سبز گھڑے میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ ھناد بن السری فی حدیثہ

13800

13800- عن هانيء مولى عثمان قال: شهدت عثمان وأتي برجل وجد معه نبيذ في دباءة بحمله فجلده أسواطا وأهراق الشراب وكسر الدباءة. "عب".
13800 حضرت عثمان (رض) کے غلام ھانی سے مروی ہے کہ میں حضرت عثمان (رض) کی خدمت میں تھا کہ ایک آدمی لایا گیا جس کی سواری پر کدو کے برتن میں نبیذ پائی گئی تھی۔ آپ (رض) نے اس کو کوڑے مارے، اس کا مشروب گرادیا اور اس کا برتن توڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13801

13801- عن علي بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن لأقضي بينهم فقلت: إني لست أحسن القضاء، فوضع يده على صدري ثم قال: اللهم اهده للقضاء، ثم قال: علمهم الشرائع والسنن وانههم عن الدباء والحنتم والنقير والمزفت. "خلف بن عمر والعكبري في فوائده".
13801 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن بھیجا تاکہ میں (ان کا قاضی بن کر) ان کے لیے فیصلے کروں۔ میں نے عرض کیا : میں فیصلے کرنے میں اچھا نہیں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا پھر فرمایا : اللھم اھدہ للقضاء اے اللہ ! اس کو فیصلہ کرنے کی ہدایت دے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ارشاد فرمایا : کہ لوگوں کو احکام شریعت اور سنتیں سکھانا اور ان کو دباء (کدو کے برتن) حنتم (سبز گھڑے) ، نقیر (کھجور کی جڑ میں خلاء کرکے بنائے ہوئے برتن) اور مزفت (تار کول ملے ہوئے برتن) سے منع کروں۔
خلف بن عمر والعکبری فی فوائدہ

13802

13802- عن علي انه كان يشرب نبيذ الجر الإبيض. "ابن جرير".
13802 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) سفید گڑھ کی نبیذ نوش فرما لیا کرتے تھے۔ ابن جریر

13803

13803- عن أم موسى سرية علي قالت: كان علي ينبذ له في الجر الأخضر. "ابن جرير".
13803 حضرت علی (رض) کی باندی ام موسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے لیے سبزگھڑے میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔ ابن جریر

13804

13804- عن ابن أبزي عن أبيه قال: سألت أبي بن كعب عن النبيذ فقال: اشرب الماء واشرب السويق واشرب اللبن الذي نجعت1 به، قلت لا توافقني هذه الأشربة، فالخمر إذا تريد. "عب".
13804 ابن ابزی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے نبیذ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : پانی پیو، ستو پیو اور دودھ پی لو جو بچپن سے تمہاری نشو و نما کررہا ہے۔ میں نے عرض کیا : مجھے یہ مشروبات موافق نہیں آتے ۔ آپ (رض) نے فرمایا تب تو شراب پینا چاہتے ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13805

13805- عن عنبسة بن سعيد عن الزبير بن عدي عن أسيد الجعفي قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فكتب إلى أهل الطائف، إن نبيذ الغبيراء حرام. "العسكري في الصحابة".
13805 عن عنبسۃ بن سعید عن الزبیر بن عدی عن اسید الجعفی کی سند سے مروی ہے اسید (رض) کہتے ہیں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کو لکھا : چینا پودے کی بنائی گئی نبیذ حرام ہے۔ العسکری فی الصحابۃ

13806

13806- عن الحكم بن عيينة عن أنس بن حذيفة صاحب البحرين قال: كتبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن الناس قد اتخذوا بعد الخمر أشربة تسكرهم كما يسكر الخمر من التمر والزبيب يصنعون ذلك في الدباء والنقير والمزفت والحنتم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن كل شراب أسكر حرام والمزفت حرام والنقير حرام والحنتم حرام، فاشربوا في القرب وشدوا الأوكية، فاتخذ الناس في القرب ما يسكر فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقام في الناس فقال: إنه لا يفعل ذلك إلا أهل النار، ألا إن كل مسكر حرام، وكل مخدر حرام، وما أسكر كثيره فقليله حرام. "أبو نعيم" وقال الحكم عنه مرسلا.
13806 حکم بن عینیہ، بحرین کے گورنر حضرت انس بن حذیفہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انس (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھا کہ لوگوں نے شراب کے بعد کھجور اور انگور کے ایسے دوسرے مشروبات استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں جو شراب کی طرح نشہ پیدا کرتے ہیں۔ اور وہ وباء نقیر، مزفت اور حنتم میں یہ مشروب بناتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مشروب جو نشہ پیدا کرے حرام ہے، مزفت حرام ہے نقیر حرام ہے، حنتم حرام ہے۔ ہاں مشکیزوں میں نبیذ بنالو اور ان کے منہ بند کردیا کرو۔ چنانچہ لوگوں نے مشکیزوں میں نشہ آور اشیاء بنانا شروع کردیں۔ یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے لوگوں کے بیچ کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا : ایسا کام جہنمی لوگ کرتے ہیں، خبردار ! ہر نشہ آور شے حرام ہے، ہر بےحس کرنے والی شے حرام ہے اور جس کی کثیر مقدار حرام ہے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ ابونعیم، قال الحکم عنہ مرسلاً

13807

13807- عن أنس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والمزفت. "عب".
13807 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدو کے برتن اور تار کول ملے ہوئے برتن سے منع کیا ہے۔ مصنف عبدالرزاق

13808

13808- عن أنس قال: لما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل من تهامة يقال له: معافي بن زيد الحرسي فقال له: ما تقول في النبيذ؟ فذكر الحديث. "ابن النجار".
13808 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ تہامہ کا ایک آدمی جس کو معافی بن زید الحرسی کے نام سے پکارا جاتا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو اس نے آپ سے نبیذ کے بارے میں پوچھا : آپ نے مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔

13809

13809- عن أنس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الزبيب والتمر أن يخلطا. "ابن النجار".
13809 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کشمش اور کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ ابن النجار

13810

13810- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الدباء والمزفت أن ينبذ فيهما. "ن".
13810 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کدو کے برتن اور تار کول ملے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ النسائی

13811

13811- عن جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينبذ التمر والزبيب جميعا والبر والتمر جميعا. "ش خ م ن".
13811 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور اور کشمش کو ایک ساتھ اور گندم اور کھجور کو ایک ساتھ ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔
مصنف ابن ابی شیبہ، البخاری، مسلم، النسائی

13812

13812- عن جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المزفت والنقير، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لم يجد سقاء ينبذ فيه نبذ له في تور من حجارة. "عب".
13812 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تار کول ملے ہوئے برتن اور کھجور کی جڑ سے بنائے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نبیذ بنانے کے لیے کوئی برتن موجود نہ پاتے تو پتھر یا تانبے کے برتن میں بنوالیتے تھے۔
الجامع لعبد الرزاق

13813

13813- عن جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التمر والزبيب والبسر والرطب يعني أن ينبذا جميعا. "عب".
13813 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور، کشمش، ادھ نرم ادھ سخت کھجور اور مکمل پختہ نرم تازہ کھجوروں کو آپس میں ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔
الجامع لعبد الرزاق

13814

13814- عن جابر قال: البسر والرطب خمر يعني إذا جمعا. "عب".
13814 جابر (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : بسر (گدر کھجور) اور طب (پختہ تازہ کھجور) جب جمع کرلی جائیں تو وہ شراب بن جاتی ہیں۔ الجامع لعبد الرزاق

13815

13815- عن ابن جريج قال: قال لي عطاء: سمعت جابر بن عبد الله يقول: لا تجمعوا بين الرطب والبسر وبين التمر والزبيب نبيذا، قال ابن جريج وأخبرني أبو الزبير عن جابر مثل قول عطاء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ابن جريج: قلت لعطاء: أذكر جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يجمع بين نبيذين غير ما ذكرت غير البسر والرطب والزبيب والتمر، قال: لا، إلا أن أكون نسيت. "عب".
13815 ابن جریج (رح) سے مروی ہے مجھے حضرت عطاء (رح) نے فرمایا : میں نے حضرت جابر بن عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا : رطب اور بسر کھجوروں کو اور تمر (پرانی پختہ کھجور) اور کشمش کو نبیذ میں مت ملاؤ۔
ابن جریج کہتے ہیں : مجھے ابوالزبیر نے جابر (رض) سے عطاء عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مثل قول نقل کیا ہے۔
نیز ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء (رح) سے پوچھا : کیا حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ ذکر کیا ہے کہ آپ نے دو مختلف نبی ذوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہو۔ جس طرح آپ نے بسر، رطب، زبیب اور تمر کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع کیا ہے۔ حضرت عطاءؒ نے فرمایا : حضرت جابر (رض) نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ وہ نبی ذوں کو ملانے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا ہو۔ ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ میں ہی بھول گیا ہوں۔ الجامع لعبد الرزاق

13816

13816- عن جابر قال: قال عباس بن عبد المطلب: يا رسول الله أسقيك نبيذ خاصة أو نبيذ عامة. "كر ن".
13816 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں آپ کو خاص نبیذ پلاؤں یا عام نبیذ پلاؤں۔ ابن عساکر ، النسائی

13817

13817- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينبذ له في تور من حجارة. "كر".
13817 حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پتھر کے ایک برتن میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔ ابن عساکر
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 4179 ۔

13818

13818- عن دلجة بن قيس أن رجلا قال للحكم الغفاري: أتذكر يوم نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النقير وعن المقير وعن الدباء وعن الحنتم2؟ قال: نعم، وقال الآخر: وأنا أشهد على ذلك. "الحسن ابن سفيان وأبو نعيم".
13818 ولجۃ بن قیس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حکم غفاری کو کہا : کیا تمہیں یاد ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقیر، مقیر، دباء اور حنتم سے منع فرمایا۔ حکم غفاری نے کہا : ہاں مجھے یاد ہے اور ایک دوسرے صحابی نے فرمایا میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ الحسن بن سفیان، ابونعیم

13819

13819- عن ابن الرائسي عن أبيه وكان من أهل هجر، وكان فقيها قال: انطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفد بصدقة عملها إليه فنهاهم عن النبيذ في هذه الظروف، فرجعوا إلى أرضهم وهي أرض تهامة حارة، فاستوخموا فرجعوا إليه العام الثاني في صدقاتهم فقالوا: يا رسول الله، إنك نهيتنا عن هذه الأوعية فتركناها فشق ذلك علينا فقال: اذهبوا فاشربوا فيما شئتم، ولا تشربوا ما أوكي سقاؤه على إثم. "طب".
13819 ابن الرائسی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جو اہل ہجرت میں سے ہیں اور فقیہ صحابی تھے۔ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک وفد کے ہمراہ پہنچا وفد اپنی زکوۃ لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔
اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مذکورہ برتنوں میں نبیذ پینے سے منع فرمایا۔ وہ اپنی سرزمین تہامہ واپس لوٹے جو گرم ترین علاقہ تھا۔ وہاں ان کو برتنوں کو چھوڑنا طبیعت کے موافق نہ آیا۔ پھر جب وہ اگلے سال اپنے صدقات (یعنی زکوۃ ) لے کر پہنچے تو انھوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ نے ہم کو جن برتنوں سے منع کیا تھا ان کا چھوڑنا ہمارے لیے باعث مشقت ہوگیا ہے۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ جن برتنوں میں چاہو پیو۔ لیکن جن برتنوں کے منہ گناہ (شراب) پر بند کیے گئے ہوں ان کو نہ پیو۔ الکبیر للطبرانی

13820

13820- عن سليمان الشيباني عن عبد الله بن أبي أوفى قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهي عن الجر الأخضر يعني النبيذ في الجر، قال والأبيض؟ قال: لا أدري. "عب".
13820 سلیمان الشیبانی، عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے نقل کرتے ہیں، عبداللہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سبز گھڑے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔ یعنی سبز گھڑے میں نبیذ بنانے سے (حنتم اسی کا نام ہے) ۔ سلیمان نے عبداللہ سے پوچھا اور سفید گھڑے میں ؟ عبداللہ نے فرمایا : مجھے علم نہیں۔

13821

13821- عن عبد الله بن جابر قال: كنت في الوفد الذين أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم من عبد القيس، قال: ولست منهم، وإنما كنت مع أبي فنهاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشراب في الأوعية التي سمعتم الدباء والحنتم والنقير والمزفت. "حم طب وأبو نعيم وابن النجار".
13821 حضرت عبداللہ بن جابر (رض) سے مروی ہے کہ میں قبیلہ عبدالقیس کے اس وفد میں شامل تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا لیکن میرا عبدالقیس کے وفد سے تعلق نہ تھا۔ میں اپنے والد کے ساتھ آیا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع کیا جن کے بارے میں تم سن چکے ہو یعنی دباء، حنتم، نقیر، مزفت۔
مسند احمد، الکبیر للطبرانی، ابونعیم، ابن النجار

13822

13822- عن ابن عباس قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يخلط التمر والزبيب جميعا، وأن يخلط البسر والزبيب جميعا، وكتب إلى أهل جرش ينهاهم عن خلط التمر والزبيب. "ش م ن".
13822 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (تمر) پرانی کھجور اور کشمش کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ اسی طرح بسر (گدر کھجور) اور زبیب (کشمش) کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ اور اہل جرش کو اپنے خط میں تمر اور زبیب ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔
مصنف ابن ابی شیبہ، مسلم، النسائی

13823

13823- وعنه قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الدباء والنقير والمزفت والحنتم. "عب".
13823 ابن عباس (رض) سے ہی مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دباء (کدو کے برتن) مزفت (تار کول ملے برتن) اور حنتم (سبز گھڑے) سے منع فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13824

13824- وعنه قال: صلى صلى الله عليه وسلم بأصحابه يوما، فلما قضى صلاته نادى رجلا فقيل: يا رسول الله إن هذا رجل شارب فدعا النبي صلى الله عليه وسلم الرجل، فقال: ما شربت؟ قال: عمدت إلى زبيب فجعلته في جر حتى إذا بلغ فشربته فقال النبي صلى الله عليه سلم: يا أهل الوادي ألا إني أنهاكم عما في الجر الأحمر والأخضر والأسود والأبيض منه، لينتبذ أحدكم في سقاء فإذا خشيه فليشججه بالماء. "عب".
13824 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی جب نماز پڑھالی تو ایک آدمی نے پکارا : یارسول اللہ ! یہ ایک آدمی شراب نوش ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی کو بلایا اور پوچھا : تو نے کیا پیا ہے ؟ آدمی بولا : میں نے کشمش لے کر مٹکے میں ڈال دی تھیں پھر جب وہ (شراب بننے کے قریب) پہنچ گئیں تو میں نے ان کو پی لیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے دادی والو ! میں تم کو ان مشروبات سے منع کرتا ہوں جو سرخ یا سبز، یا سیاہ یا سفید گھڑے میں بنائے گئے ہوں۔ بلکہ تم اپنے مشکیزوں میں نبیذ بنالو۔ اور جب تم کو اس (کے نشہ آور ہونے) کا خطرہ ہوجائے تو اس میں پانی ملالو۔ الجامع لعبد الرزاق

13825

13825- وعنه قال: نهى نبي الله صلى الله عليه وسلم أن ينبذ في جر أو في قرعة أو في جرة من رصاص أو في جرة من قوارير وأن لا ينتبذوا إلا في سقاء يوكى عليه. "عب".
13825 ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑے میں یا ڈھال میں یا سیسے کے برتن میں آبگینے کے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ نیز ایسے مشکیزے میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا جس کا منہ باندھا جائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13826

13826- عن ابن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الجر والمزفت والدباء. "عب".
13826 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑے ، تار کول ملے ہوئے برتن اور کدو کے برتن (میں نبیذ بنانے) سے منع فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13827

13827- عن سعيد بن جبير قال: سألت ابن عمر عن نبيذ الجر قال: حرام فأخبرت بذلك ابن عباس، قال: صدق، ذلك ما حرم الله ورسوله، قلت: وما الجر؟ قال: كل شيء من مدر "عب".
13827 حضرت سعید بن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے گھڑے کی نبیذ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : حرام ہے۔ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو اس بات کی خبر دی تو انھوں نے بھی فرمایا : کہ انھوں نے سچ کہا ۔ یہ وہ چیز ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ میں نے پھر پوچھا : اچھا (الجر) گھڑا کیا ہے ؟ فرمایا : مٹی کا ہر برتن۔ الجامع لعبد الرزاق

13828

13828- عن زاذان قال: قلت لابن عمر: أخبرني عما نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم من الأوعية قال: نهى عن الحنتم وعن الجرة، ونهى عن الدباء وهي القرعة وعن النقير وهي النخلة تنسج نسجا وتنقر نقرا ونهى عن المزفت وهو النقير وأمر أن يشرب في الأسقية. "عب"
13528 زاذان (رح) سے مروی ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو عرض کیا : کہ مجھے ان برتنوں کا بتاؤ جن سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا تھا۔ آپ (رض) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبز گھڑے اور عام گھڑے میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا اور کدو کے برتن اور کھجور کی جڑ کو کھوکھلا کرکے بنائے گئے برتن اور تار کول وغیرہ ملے ہوئے برتن میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ اور مشکیزوں میں نبیذ بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ الجامع لعبد الرزاق

13829

13829- عن ابن عمر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر فأسرعت فلم أنته إليه حتى نزل فسألت الناس ما قال؟ فقالوا: نهى عن الدباء والمزفت أن ينتبذ فيهما. "عب".
13529 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے (دور سے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر دیکھا تو میں جلدی جلدی آپ کی طرف چلا لیکن میرے پہنچنے سے قبل ہی آپ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے کیا ارشاد فرمایا : لوگوں نے بتایا کہ آپ نے دبا اور مزفت سے منع فرمایا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : کدو سے مختلف چیزیں بنائی جاتی تھی۔ گداگروں کے کشکول اور اس طرح کے دوسرے برتن بنائے جاتے تھے اسی طرح کدو کی دوسری قسم لوکی سے تلوار کی نیام بھی بنائی جاتی تھی ایسے برتنوں میں نبیذ جلد خمار آور ہوجاتی تھی۔ اس لیے ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا تھا اور پانی وغیرہ اور دوسرے استعمال کے لیے ان کو منع نہیں فرمایا۔

13830

13830- عن أبي إسحاق أن رجلا سأل ابن عمر فقال: أجمع بين التمر والزبيب؟ قال: لا، قال: لم؟ قال: نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم، قلت:لم؟ قال: سكر رجل فحده النبي صلى الله عليه وسلم، ثم أمرهم أن ينظروا ما شرابه فإذا هو تمر وزبيب، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يجمع بين التمر والزبيب، وقال: يكفي كل واحد منهما وحده. "عب".
13830 ابواسحاق (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا : کیا میں تمر اور زبیب کو ملا کر نبیذ بنا سکتا ہوں ؟ آپ (رض) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ پھر پوچھا : کیوں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : ایک آدمی نشہ آور ہوگیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر حد جاری فرمائی۔ پھر لوگوں کو حکم دیا کہ وہ تفتیش کریں کہ اس نے کیا چیز پی تھی۔ جس سے وہ نشہ آور ہوا معلوم ہوا کہ وہ تمر اور زبیب (کی نبیذ) تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمر اور زبیب کو ملانے سے منع کردیا۔ اور فرمایا ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ نبیذ بنائی جاسکتی ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13831

13831- عن ابن عمر قال: نهى أن ينتبذ البسر والرطب جميعا والتمر والزبيب جميعا. "عب".
13831 ابن عمر (رض) سے مروی آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ نبیذ میں بسر اور رطب جمع کی جائیں یا تمر اور زبیب جمع کی جائیں۔ الجامع لعبد الرزاق
فائدہ : بسر مکمل طور پر پکنے سے قبل کھجور، جب اس کا کچھ حصہ گدرا اور نرم اور کچھ معمولی سخت ہوتا ہے۔ اس وقت کھجور بسر کہلاتی ہے۔ رطب جب اس کے بعد مزید پک کر بالکل نرم ہوجاتی ہے۔ تمر پختہ نرم کھجور جو پورے سال ہر وقت دستیاب رہتی ہے (زبیب) کشمش کو کہتے ہیں۔

13832

13832- عن ابن عمر قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل أصاب من الشراب فسأله النبي صلى الله عليه وسلم أي شراب هو؟ قال: نبيذ زبيب يا رسول الله وقد كاد ينكسر لسانه ومعه عقله فأمر به فجلد أربعين سوطا. "ابن جرير".
13832 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے کوئی مشروب پی رکھا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کیا مشروب پیا ہے ؟ آدمی نے کہا : کشمش کی نبیذ تھی یارسول اللہ ! حالانکہ بولتے وقت اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی لیکن اس کی عقل سلامت تھی ۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چالیس کوڑے لگوائے۔ ابن جریر

13833

13833- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي برجل سكران فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إني إن لم أشرب خمرا إنما شربت زبيبا وتمرا، فأمر به فضرب الحد ونهى عنهما أن يخلطا. "ابن جرير".
13833 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نشہ ور (لڑکھڑاتا) شخص لایا گیا ۔ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں نے سراب نہیں نوش کی بلکہ کشمش اور کھجور کی نبیذ نوش کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کو حد لگادی گئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمادیا۔ ابن جریر

13834

13834- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جلد رجلا سكران من نبيذ التمر. "ابن جرير".
13834 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو حد خمر لگوائی کھجور کی نبیذ پی کر نشہ آور ہوگیا تھا۔ ابن جریر
فائدہ : کھجور کی نبیذ ایک دن یا ایک رات تک استعمال کی جاسکتی ہے زیادہ عرصہ پڑا رہنے سے وہ نشہ آور ہوجاتی ہے۔

13835

13835- عن عمر قال: الأوعية لا تحرم شيئا ولا تحله. "ابن جرير".
13835 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : برتن کسی چیز کو حرام کرتے ہیں اور نہ حلال۔
ابن جریر

13836

13836- عن ابن عمرو قال: جاء قوم فقالوا: يا رسول الله، إنا ننبذ النبيذ ونشربه على غدائنا وعشائنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انتبذوا وكل مسكر حرام، قالوا: يا رسول الله إنا نكسره بالماء؟ فقال: حرام ما أسكر كثيره. "كر".
13836 حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ ! ہم نبیذ بناتے ہیں اور صبح شام پیتے ہیں (یعنی صبح کی شام اور شام کی صبح ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بناتے رہو، (لیکن) ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ وہ پھر بولے : یارسول اللہ ! اگر وہ نشہ آور ہوجائے تو ہم اس (کے نشے) کو پانی کے ساتھ توڑ لیتے ہیں (یعنی پانی ملالیتے ہیں ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کی کثیر مقدار نشہ آور ہو وہ حرام ہی ہے ابن عساکر

13837

13837- وعنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الأوعية فقيل له: ليس كل الناس يجد سقاء فأذن في الجر غير المزفت. "عب".
13837 ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ برتنوں سے منع فرمایا تو آپ کو عرض کیا گیا : کہ ہر آدمی مشکیزہ نہیں حاصل کرسکتا ۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے گھڑے کی اجازت مرحمت فرمادی جس کو تارکول (وغیرہ) نہ ملا گیا ہو۔ الجامع لعبد الرزاق

13838

13838- عن جويبر بن سعيد الأزدي عن الضحاك عن ابن مسعود أنه ذكر عنده تحريم النبيذ فقال: قد شهدنا تحريمه كما شهدتم، وشهدنا تحليله فحفظنا ونسيتم. "ابن جرير".
13838 جویبربن سعید الازدی سے مروی ہے وہ ضحاک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے نزدیک ذکر ہوا کو نبیذ حرام کردی گئی تھی۔ ابن مسعود (رض) نے فرمایا : ہم اس کی تحریم کے وقت حاضر تھے تمہاری طرح ۔ لیکن اس کی حلت آئی تو ہم نے اس کو بھی یاد رکھا جبکہ تم بھول گئے۔ ابن جریر

13839

13839- عن أبي سعيد قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الزهو والتمر والزبيب والتمر. "ش".
13839 ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زھو (بسر گدری کھجور) تمر (پختہ کھجور) ، زبیب (کشمش) اور تمر (کو نبیذ میں) ملانے سے منع فرمایا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13840

13840- عن أبي سعيد الخدري أن وفد عبد القيس لما أتوا النبي صلى الله عليه وسلم قالوا: يا نبي الله، جعلنا الله فداك ماذا يصلح لنا من الأشربة؟ فقال: لا تشربوا في النقير قالوا: يا رسول الله جعلنا الله فداك أو تدري ما النقير؟ قال: نعم الجذع ينقر وسطه، ولا الدباء ولا الحنتمة وعليكم بالموكي. "عب"
13840 حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ وفد عبدالقیس جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! اللہ ہم کو آپ پر قربان کرے، ہمارے لیے کون کون سے مشروب درست ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نقیر میں (کوئی مشروب) نہ پیو ۔ انھوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! اللہ ہم کو آپ پر فدا کرے، کیا آپ جانتے ہیں نقیر کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کھجور کا تنا جس کو درمیان سے کھوکھلا کرلیا جائے۔ نیز فرمایا دباء اور حنتم سے بھی احتراز کرو۔ اور ہاں سر بند مشکیزے استعمال کرو۔ الجامع لعبد الرزاق

13841

13841- وعنه قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال: جاءكم وفد عبد القيس ولا نرى شيئا فمكثنا ساعة، فإذا قد جاؤوا فسلموا على النبي صلى الله عليه وسلم فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم أبقي معكم شيء من تمركم أو قال من زادكم؟ قالوا: نعم فأمر بنطع فبسط ثم صبوا فيه بقية تمر كان معهم، فجمع النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه وجعل يقول لهم: تسمون هذا التمر البرني وهذه كذا وهذه كذا لألوان التمر؟ قالوا: نعم، ثم أمر بكل رجل منهم رجلا من المسلمين ينزله عنده ويقرئه ويعلمه الصلاة، فمكثوا جمعة ثم دعاهم فوجدهم قد كادوا أن يتعلموا وأن يفهموا فحولهم إلى غيره ثم تركهم جمعة أخرى ثم دعاهم، فوجدهم قد قرأوا وتفهموا فقالوا: يا رسول الله، إنا قد اشتقنا إلى بلادنا وقد علم الله خيرا وفقهنا، فقال: ارجعوا إلى بلادكم قالوا: لو سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شراب نشربه بأرضنا فقالوا: يا رسول الله إنا نأخذ النخلة فنجوبها ثم نضع التمر فيها ونصب عليه الماء فإذا صفا شربناه، قال: وماذا؟ قالوا: ونأخذ هذه الدباء فنضع فيه التمر، ثم نصب عليه الماء فإذا صفا شربناه، قال وماذا؟ قالوا: نأخذ هذا الحنتمة فنضع فيها التمر ثم نصب عليه الماء فإذا صفا شربناه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تنبذوا في الدباء ولا في النقير ولا في الحنتم وانتبذوا في هذه الأسقية التي يلاث على أفواهها، فإن رابكم فاكسروه بالماء. "عب"
13841 ابوسعید خدری (رض) سے منقول ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وفد عبدالقیس آگیا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ پھر ہم تھوڑی دیر ٹھہرے تھے کہ وہ لوگ آگئے۔ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا : کیا تمہارے پاس تمہاری کھجوروں یا زادراہ میں سے کچھ باقی ہے ؟ انھوں نے اثبات میں ہاں کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا۔ دستر خوان بچھ گیا تو وفد والوں نے اپنی بچی کچھی کھجوریں دستر خوان پر ڈال دیں جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو (کھانے پر) جمع کیا۔ پھر (کھانے کے دوران کھجوروں کی اقسام پر بات چیت) فرمانے لگے : تم ان کھجوروں کو برنی کھجور کہتے ہو، یہ فلاں قسم ہے، یہ فلاں کھجور ہے۔ لوگ ہاں ہاں کرتے رہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد کے ایک ایک آدمی کو ایک مقامی کے سپرد کردیا کہ وہ اس کو بطور مہمان گھر لے جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو قرآن کی تعلیم دے اور نماز (روزہ) سکھائے۔ اس طرح وہ ایک ہفتہ وہاں مقیم رہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلایا تو دیکھا کہ وہ کافی سیکھ گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان کو ایک دوسرے کے پاس تبدیل کردیا۔ اور ایک ہفتہ وہ اسی طرح مقیم رہے۔ پھر آپ نے ان کو دوبارہ بلوایا تو اب کے دیکھا کہ وہ بالکل درست پڑھنے لگے ہیں اور دین کو سمجھ گئے ہیں۔ انھوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اب ہم کو ہمارے دیار کی اشتیاق بڑھ گئی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہم (دین کی) کچھ سمجھ بوجھ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا : اپنے وطنوں کو لوٹ جاؤ۔ پھر انھوں نے آپس میں بات کی کہ اگر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان مشروبات کے متعلق پوچھ لیں جو ہم اپنے علاقے میں پیتے ہیں تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ وہ بولے : یارسول اللہ ! ہم کھجور (کے درخت) کو لے کر اس کو بڑا سوراخ کرکے اس میں کھجوریں ڈال دیتے ہیں پھر اس میں پانی ڈال دیتے ہیں جب وہ صاف ہوجاتا ہے تو تم اس کو نوش کرلیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اور کیا ؟ وہ بولے : اسی طرح ہم کدو لے کر اس میں کھجوریں ڈال دیتے ہیں پھر اس میں پانی ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ پانی صاف ہوجاتا ہے تو ہم اس کو نوش کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اور کیا ؟ وہ بولے : اور ہم یہ سبز رنگ کے گھڑے لیتے ہیں ان میں کھجوریں ڈال کر ان پر پانی ڈال دیتے ہیں جب وہ صاف ہوجاتا ہے تو ہم وہ پانی پیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کدو کے برتن میں، کھجور کے تنے (یا جڑ میں) اور نہ سبز گھڑے میں نبیذ نہ بناؤ بلکہ ان مشکیزوں میں بنالو جن کے منہ بند کیے جاتے ہیں اگر ان میں (بھی نشہ کا) تم کو شبہ ہوجائے تو ان میں مزید پانی ڈالو۔ الجامع لعبد الرزاق

13842

13842- عن أبي قتادة قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الزهو3 والرطب أن يخلطا، وعن الزبيب والتمر أن يخلطا وقال: ينبذ كل واحد منهما وحده. "عب".
13842 ابوقتادہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسر اور رطب کو ملانے سے اور زبیب اور تمر کو ملانے سے منع فرمایا۔ اور ارشاد فرمایا : ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ بنالی جائے۔
الجامع لعبد الرزاق

13843

13843- عن أبي موسى أنه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم بنبيذ جر ينش. فقال: اضرب بهذا الحائط فإنه لا يشرب هذا من كان يؤمن بالله واليوم الآخر وفي لفظ: فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله واليوم الآخر. "ع طب حل ق كر".
13843 ابوموسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گھڑے میں بنی ہوئی نبیذ لے کر آئے جو جوش ماررہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو دیوار پردے مارو۔ اس کو وہی شخص نوش کرسکتا ہے جس کا اللہ اور بوم آخرت پر ایمان نہ ہو۔ دوسرے الفاظ یہ ہیں ان لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔
مسند ابی یعلی، الکبیر للطبرانی، حلیۃ الاولیاء، السنن للبیہقی، ابن عساکر

13844

13844- عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والنقير والمزفت والحنتم. "عب".
13844 ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دباء ، نقیر، مزفت اور حنتم سے منع فرمایا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13845

13845- وعنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينبذ التمر والزبيب جميعا والزهو والرطب جميعا. "عب".
13845 ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے کہ تمر اور زبیب کو ملا کر یا بسر اور رطب کو ملا کر نبیذ بنائی جائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13846

13846- عن أبي رافع عن أبي هريرة أنه كان لا يرى بنبيذ الجر الأخضر بأسا، ويقول: إنما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الجرار الحمر المزفتة وليست بجراركم الخضر. "ابن جرير".
13846 ابورافع (رض) کے متعلق مروی ہے کہ وہ سبز گھڑے کی نبیذ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سرخ گھڑوں کی نبیذ سے منع فرماتے تھے جن پر تار کول ملا گیا ہو۔ اور تمہارے سبز گھڑوں سے نہیں روکتے تھے۔ ابن جریر

13847

13847- عن أبي هريرة قال: علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم في بعض الأيام فتحينت فطره بنبيذ صنعته في الدباء، فلما كان المساء جئت به أحملها إليه فقال: ما هذا يا أبا هريرة؟ قلت: يا رسول الله علمت أنك تصوم هذا اليوم فتحينت فطرك بهذا النبيذ، قال: ادنه مني يا أبا هريرة، فإذا هو ينش فقال: اضرب بهذا الحائط فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله واليوم الآخر. "كر".
13847 حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں جانتا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض دنوں میں روزہ رکھتے ہیں تو میں نے ایک مرتبہ آپ کی افطاری کے لیے کدو میں نبیذ بنائی جب شام کا وقت ہوا تو میں وہ اٹھا کر آپ کی خدمت میں لایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے ابو ہریرہ ! یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے معلوم تھا کہ آپ اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں نے آپ کی افطاری کے لیے یہ نبیذ بنائی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو ہریرہ ! اس کو میرے قریب لاؤ۔ آپ نے دیکھا تو اس میں جوش آرہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو دیوار پر مارو۔ یہ اس شخص کا مشروب ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔
ابن عساکر

13848

13848- عن أميمة قالت: سمعت عائشة تقول: أتعجز إحداكن ان تأخذ كل عام جلد أضحيتها تجعله سقاء تنبذ فيه، منع نبي الله صلى الله عليه وسلم أو قالت نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الجر أن ينتبذ فيه وعن وعائين آخرين إلا الخل. "عب".
13848 امیمۃ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سنا آپ نے عورتوں کو فرمایا : کیا تم میں سے ایسا نہیں ہوتا کہ ہر سال اپنی قربانی کی کھال کو لے کر اس کا مشکیزہ بنالے جس میں نبیذ بنائی جائے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹی کے برتن میں اور دوسرے دو برتنوں میں سر کے کے سوا نبیذ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ۔ الجامع لعبد الرزاق

13849

13849- عن عائشة قالت: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر. "خط في المتفق".
13849 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مٹی کے برتن (گھڑے وغیرہ) کی نبیذ سے منع فرماتے تھے۔ الخطیب فی المعفق

13850

13850- عن عقبة بن حريث قال: قعدنا إلى سعيد فذكرنا له حديث ابن عمر في نبيذ الجر قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحرمه، ولكن أصحابه وقعوا في جرار خيبر فنهاهم عنه. "ابن جرير".
13850 عقبہ بن حریث سے مروی ہے کہ ہم حضرت سعید (رح) کے پاس بیٹھے تھے۔ ہم نے آپ کو ابن عمر (رض) کی حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑے کی نبیذ کو حرام قرار نہیں دیا۔ بلکہ آپ کے اصحاب کو خیبر میں گھڑے ملے تھے آپ نے صحابہ کو صرف ان سے منع فرمایا تھا۔ ابن جریر

13851

13851- عن عكرمة قال: شق النبي صلى الله عليه وسلم المشاعل يوم خيبر وذلك أنه وجد أهل خيبر يشربون فيها. "عب".
13851 حضرت عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر میں (مسلمانوں کو ملنے والی) مشاعل (جن میں نبیذ بنایا کرتے تھے) ناپسند کردیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل خیبر کو ان میں (شراب وغیرہ) پیتے دیکھا تھا۔ الجامع لعبد الرزاق

13852

13852- عن عكرمة قال دخل النبي صلى الله عليه وسلم على أهله وقد نبذوا لصبي لهم في كوز فأهراق الشراب وكسر الكوز. "عب".
13852 عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر والوں کے پاس داخل ہوئے انھوں نے اپنے ایک بچے کے لیے کوزے (مٹی کے برتن) میں نبیذ ڈال رکھی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ نبیذ بھی گرادی اور وہ برتن بھی توڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13853

13853- عن محمد بن راشد قال: سمعت عمرو بن شعيب يحدث أن أبا موسى الأشعري حين بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن سأله قال: إن قومي يصنعون شرابا من الذرة يقال له المزر فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أيسكر؟ قال: نعم، قال: فانههم عنه قال نهيتهم ولم ينتهوا قال: فمن لم ينته منهم في الثالثة فاقتله. "عب".
13853 محمد بن راشد سے مروی ہے کہ میں نے عمرو بن شعیب کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ ابو موسیٰ اشعری (رض) کو جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یمن (گورنر کی حیثیت سے) بھیجنے لگے تو آپ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کہ میری قوم والے (یعنی اہل یمن) مکئی سے ایک مشروب بناتے ہیں جس کو مزر کہتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا وہ نشہ آور ہے ؟ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے ہاں میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر ان کو اس سے روک دو ۔ ابوموسیٰ (رض) نے عرض کیا : میں ان کو روکوں گا لیکن جو باز نہ آیا تو ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جو ان میں باز نہ آئے تیسری مرتبہ بھی اس کو قتل کردینا ۔ الجامع لعبد الرزاق

13854

13854- عن مجاهد قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن ينبذ في كل شيء بطبق. "عب".
13854 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی طرح کے طبق (طشتری) میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13855

13855- عن مجاهد قال: عمد النبي صلى الله عليه وسلم السقاية سقاية زمزم فشرب من النبيذ فشد وجهه ثم أمر به فكسر بالماء، ثم شربه الثانية فشد وجهه ثم أمر به الثالثة فكسر بالماء ثم شرب. "عب".
13855 مجاہد (رح) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمزم کا مشکیزہ لے کر اس میں نبیذ بنوا کر پیا۔ پھر اس کا منہ بند کردیا پھر دوبارہ پینے سے پہلے اس میں پانی ملانے کا حکم دیا اور پھر اس میں سے پیا۔ اور اس کا منہ بند کرکے دوبارہ چھوڑ دیا۔ پھر تیسری مرتبہ نوش کرنے سے قبل اس میں پانی ملانے کا حکم دیا پھر اس کو نوش فرمایا۔ الجامع لعبد الرزاق

13856

13856- عن ابن الديلمي أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم أنا منك بعيد وأنا أشرب شرابا من قمح فقال: أيسكر؟ فقلت: نعم، قال: لا تشربوا مسكرا فأعاد ثلاثا قال: كل مسكر حرام. "خ في تاريخه كر".
13856 ابن الدیلمی سے مروی ہے انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں آپ سے دور رہتا ہوں اور میں گندم کا مشروب پیتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا وہ نشہ آور ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی نشہ آور شے نہ پیو۔ پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا ہر نشہ آور شے حرام ہے۔ التاریخ للبخاری ابن عساکر

13857

13857- عن عبد الله بن الديلمي عن أبيه فيروز قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله إنا أصحاب كروم وأعناب وقد نزل تحريم الخمر فماذا نصنع بها؟ قال: تتخذونه زبيبا، قال: فنصنع بالزبيب ماذا يا رسول الله؟ قال: تنقعونه على غدائكم فتشربونه على عشائكم وتنقعونه على عشائكم فتشربونه على غدائكم، قلت يا رسول الله أفلا نتركه حتى يشتد؟ قال: فلا تجعلوه في الدنان واجعلوه في الشنان1 وأنه إن تأخر عن عصره صار خلا، قلت: يا رسول الله نحن ممن قد علمت ونحن بين ظهراني من قد علمت، فمن ولينا؟ قال: الله ورسوله، قلت حسبنا يا رسول الله. "البغوي كر".
13857 عبداللہ الدیلمی اپنے الد فیروز (الدیلمی) سے روایت کرتے ہیں۔ فیروز فرماتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! ہمارے انگوروں کے باغ ہیں۔ حالانکہ شراب کی حرمت نازل ہوچکی ہے (ورنہ ہم ان کی شراب بنالیتے) اب ہم ان انگوروں کا کیا کریں یارسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم ان کی کشمش بنالو۔ پوچھا : یارسول اللہ ! پھر کشمش کا ہم کیا کریں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ان کو صبح کے وقت پانی میں ڈالو پھر شام کو پی لو۔ اور شام کے وقت پانی میں ڈالو پھر صبح کو پی لو۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم اس کو کچھ دیر اور نہ چھوڑ دیں تاکہ وہ مزید گاڑھا ہوجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر تم اس کو (مٹی کے برتن) گھڑے (وغیرہ) میں نہ بناؤ بلکہ مشکیزے میں بناؤ۔ پھر اگر اس کو (نکالنے اور) عرق کھینچنے میں دیر بھی ہوجائے گی تو وہ (شراب بننے سے پہلے) سرکہ بن جائے گا۔ پھر میں نے (ایک دوسرا مسئلہ) عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ ہم کون لوگ ہیں ؟ اور کن لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، ہمارا وہاں نگہبان کون ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ اور اس کا رسول (اسی پر بھروسہ رکھو) ۔ تب میں نے عرض کیا : ہم کو یہ (دونوں) کافی ہیں یارسول اللہ۔ البغوی، ابن عساکر

13858

13858- عن عبد الله بن فيروز الديلمي عن أبيه أن قوما سألوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا رسول الله إنا كنا أصحاب أعناب وكروم وخمر، فإن الله قد حرم الخمر فما نصنع؟ قال: زببوه، قال: فما نصنع بالزبيب، قال: انقعوه في الشنان وانقعوه على غدائكم واشربوه على عشائكم قال: أفلا نؤخره حتى يشتد؟ قال: فلا تجعلوه في القلال ولا في الدباء، واجعلوه في الشنان فإذا أتى عليه العصران عاد خلا قبل أن يعود خمرا. "كر".
13858 عبداللہ بن فیرز الدیلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم انگوروں والے ہیں۔ اور اللہ نے شراب حرام کردی ہے ، اب ہم انگوروں کا کیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کی کشمش بنالو۔ پوچھا : پھر کشمش کا کیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو مشکیزے میں پانی کے ساتھ ڈال لو۔ صبح کو ڈالو اور شام کو نوش کرلو۔ پوچھا : کیا ہم زیادہ دیر تک نہ چھوڑ دیں جس سے وہ نبیذ گاڑھی ہوجائے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر اس کو تم گھڑے میں نہ ڈالو اور نہ کدو کے برتن میں، بلکہ مشکیزے میں ڈالو اور جب اس پر دو عصر (دو مرتبہ نچوڑنے) کا وقت گزر جائے گا تو وہ سرکہ بن جائے گا قبل اس سے کہ وہ شراب بنے۔ ابن عساکر

13859

13859- عن عبد الله بن الديلمي عن أبيه قال: قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم برأس الأسود العنسي الكذاب فقلنا: يا رسول الله قد علمت من نحن فإلى من نحن؟ قال: إلى الله ورسوله، قلنا يا رسول الله إن لنا أعنابا فما نصنع بها؟ قال: زببوها، قلنا يا رسول الله فما نصنع بالزبيب؟ قال: انبذوه على غدائكم، واشربوه على عشائكم، وانبذوه على عشائكم واشربوه على غدائكم، ولا تنبذوا في القلل وانبذوا في الشنان فإنه إن تأخر عن عصره صار خلا. "ابن منده كر"
13859 عبداللہ بن الدیلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم اسودعنسی کذاب کا سر لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ ہم کو جانتے ہیں کہ ہم کون لوگ ہیں اب بتائیں ہم کن پر آسرار رکھیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ہم انگوروں کے مالک ہیں ان کا ہم کیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی کشمش بنالو۔ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کشمش کا کیا کریں گے ؟ فرمایا : صبح کو ان کی نبیذ ڈالو شام کو پی لو ۔ اور شام کو ڈالو صبح کو پی لو ۔ اور ہاں گھڑوں میں نہ بناؤ بلکہ مشکیزوں میں بناؤ۔ کیونکہ اگر ان کو نچوڑنے میں دیر بھی ہوگئی تو وہ سرکہ بن جائے گا۔
ابن مندہ، ابن عساکر

13860

13860- عن عائشة أنه كان ينبذ لرسول الله صلى الله عليه وسلم في الجر الأخضر. "ابن جرير".
13860 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سبز گھڑے میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔ ابن جریر

13861

13861- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن محمد بن حاطب قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلص فأمر بقتله، فقيل: إنه سرق، فقال: اقطعوه، ثم جيء به بعد ذلك إلى أبي بكر وقد قطعت قوائمه، فقال أبو بكر: ما أجد لك شيئا إلا ما قضى فيك رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أمر بقتلك، فإنه كان أعلم بك فأمر بقتله. "ع والشاشي طب ك ص"
13861 (مسند صدیق (رض)) محمد بن حاطب سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو لایا گیا۔ آپ نے اس کے قتل کا حکم فرمایا۔ آپ کو جب بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا : اس (کے ہاتھ) کو کاٹ دو ۔ پھر وہ کئی بار (زمانہ خلافت ابی بکر (رض)) میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس لایا گیا اس حال میں کہ ہاتھ پاؤں (چوری کے جرم میں) کاٹے جاچکے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تیرے لیے اب کوئی اور فیصلہ نہیں پاتا سوائے اس کے کہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے پہل تیرے بارے میں جو فیصلہ کیا تھا اور تیرے قتل کا حکم دیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرے قتل کا بخوبی علم تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کے قتل کا حکم جاری فرمادیا۔ مسند ابی یعلی، الشاشی، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، السنن لسعیدبن منصور
کلام : اخرجہ الحاکم فی المستدرک کتاب الحدود 382/4 ۔ امام ذہبی (رح) فرماتے ہیں بل منکر۔ یہ روایت منکر ہے۔

13862

13862- عن أنس قال: قطع أبو بكر في مجن ما يساوي ثلاثة دراهم. "الشافعي عب ش ق".
13862 حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تین درہم کے برابر قیمت کی ڈھال کی چوری میں (ہاتھ) کاٹا ہے۔
الشافعی، الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، السنن للبیہقی

13863

13863- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة أن أبا بكر قطع يد عبد سرق. "عب ش".
13863: عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک غلام کا ہاتھ چوری کے جرم میں کاٹا۔ الجامع لعبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ)

13864

13864- عن ابن عمر قال: إنما قطع أبو بكر رجل الذي قطع يعلى بن أمية وكان مقطوع اليد قبل ذلك. "عب".
13864: ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے یعلی بن امیہ کا پاؤں کاٹا جس کا ہاتھ پہلے کاٹا جاچکا تھا۔ الجامع لعبد الرزاق

13865

13865- عن القاسم بن محمد أن سارقا مقطوع اليد والرجل سرق حليا لأسماء فقطعه أبو بكر الثالثة يده. "عب".
13865 قاسم بن محمد سے مروی ہے ایک چور جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں پہلے (چوری کے جرم میں) کاٹا جاچکا تھا اس نے پھر حضرت اسماء (رض) کا زیور چوری کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے تیسری مرتبہ میں اس کا دوسرا ہاتھ کاٹ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13866

13866- عن عائشة قالت: كان رجل أسود يأتي أبا بكر فيدنيه ويقرئه القرآن حتى بعث ساعيا أو قال سرية، فقال: أرسلني معه، فقال: بل تمكث عندنا فأبى فأرسله معه واستوصى به خيرا فلم يغب عنه إلا قليلا حتى جاء قد قطعت يده فلما رآه أبو بكر رضي الله عنه فاضت عيناه فقال: ما شأنك؟ قال: ما زدت على أنه كان يوليني شيئا من عمله فخنته فريضة واحدة فقطع يدي، فقال أبو بكر: تجدون الذي قطع يد هذا يخون أكثر من عشرين فريضة، والله لأن كنت صادقا لأقيدنك منه ثم أدناه ولم يخل منزلته التي كانت له فكان الرجل يقوم من الليل فيقرأ فإذا سمع أبو بكر صوته من الليل قال: ما ليلك بليل سارق، فلم يغب إلا قليلا حتى فقد آل أبي بكر حليا لهم ومتاعا، فقال أبو بكر: طرق الحي الليلة، فقام الأقطع فاستقبل القبلة ورفع يده الصحيحة والأخرى التي قطعت فقال: اللهم أظهر على من سرق أهل هذا البيت الصالحين فما انتصف النهار حتى عثروا على المتاع عنده، فقال أبو بكر: ويلك إنك لقليل العلم بالله، فأمر به فقطعت رجله، فكان أبو بكر يقول: لجرأته على الله أغيظ عندي من سرقته. "عب هق"
13866 حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک سیاہ فام آدمی حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آیا کرتا تھا۔ آپ (رض) (شفقت کے ساتھ) اس کو اپنے قریب کرتے اور اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر (رض) نے کسی کو اموال زکوۃ کی وصولی کے لیے یا کسی بطور عسکری لشکر کے بھیجا۔ سیاہ فام بولا : مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو فرمایا : تو تو ہمارے پاس ہی رہ۔ لیکن وہ نہ مانا۔ آخر حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو اس کے ساتھ بھیج دیا اور (جاتے وقت) اس کو اچھائی کی نصیحت کی۔ پھر تھوڑا عرصہ نہ گزرا تھا کہ وہ اس حال میں آیا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو دیکھا تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ آپ (رض) نے سیاہ فام سے پوچھا : تجھے کیا ہوگیا ؟ اس نے عرض کیا : میں نے اور کچھ تو نہیں کیا ۔ وہ مجھے (زکوۃ وصولی وغیرہ کے) کام پر بھیجا کرتے تھے۔ میں نے ایک زکوۃ میں خیانت کرلی اور انھوں نے میرا ہاتھ کاٹ دیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے (لوگوں) کو مخاطب ہو کر فرمایا : یہ شخص جس کا ہاتھ کاٹا گیا ہے تم دیکھنا یہ بیس سے زائد مرتبہ خیانت کرے گا۔ پھر (اس کو) فرمایا اللہ کی قسم ! اگر میری بات سچ نکلی تو میں تجھے اس جرم میں بالآخر قتل کردوں گا۔ پھر آپ (رض) نے اس کو اپنے قریب ہی ٹھہرالیا اور اس کو تنہا نہ چھوڑتے تھے۔ وہ سیاہ کیا کرتا رات کو اٹھ کر نماز میں قرآن پڑھتا۔ حضرت ابوبکر (رض) اس کی آواز سنتے تو فرماتے : تیری رات چوری کرنے والے کی رات نہیں ہے۔ پھر وہ ایک مرتبہ تھوڑی دیر کے لیے غائب ہوا تھا کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) کے گھر والوں کے زیور اور دوسرا سامان چوری ہوگیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : آج رات ہی چور ہاتھ آجائے گا۔ دوسری طرف کیے ہوئے ہاتھ والا (سیاہ فام) قبلہ رو ہو کر اور ایک سالم ہاتھ اور دوسرا کٹا ہوا ہاتھ بلند کرکے دعا کرنے (اور ابوبکر (رض)) کے گھر والوں کو اپنی پاکدامنی سنانے کے لیے کہنے لگا : اے اللہ ! جس نے اس نیک گھر والوں کی چوری کی ہے اس کو ظاہر کردے۔ چنانچہ اس کی دعا قبول ہوگئی ابھی دن آدھا نہیں ہوا تھا کہ آل ابوبکر نے اپنا سامان اسی کے پاس پالیا۔ تب حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو ارشاد فرمایا : افسوس ہے تجھ پر، تو اللہ کی طاقت کو نہیں جانتا۔ پھر آپ (رض) نے اس کے لیے حکم دیدیا اور اس کا ایک پاؤں کاٹ دیا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) فرمایا کرتے تھے : مجھے اس کی چوری سے زیادہ اس کی اللہ پر جرات زیادہ غصہ دلاتی ہے کہ وہ ہم کو سنانے کے لیے اللہ سے دعا کررہا ہے کہ اے اللہ چور کو ظاہر کردے۔ یہ اس کی اللہ پر جرات ہی تو ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13867

13867- عن نافع عن ابن عمر نحوه إلا أنه قال: كان إذا سمع أبو بكر صوته من الليل قال: ما ليلك بليل سارق. "عب".
13867 نافع (رح) بھی حضرت ابن عمر (رض) سے گزشتہ واقع کے مثل نقل کرتے ہیں مگر یہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر (رض) رات کو اس کے پڑھن کی آواز سنتے تو فرمایا کرتے تھے کہ تیری رات چور کی رات نہیں ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13868

13868- عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه أن رجلا من أهل اليمن أقطع اليد والرجل قدم على أبي بكر الصديق، فشكا إليه أن عامل اليمن ظلمه، وكان يصلي بالليل فيقول أبو بكر: وأبيك ما ليلك بليل سارق، ثم إنهم فقدوا حليا لأسماء بنت عميس امراة أبي بكر فجعل الرجل يطوف معهم ويقول: اللهم عليك بمن بيت أهل هذا البيت الصالح، فوجدوا الحلي عند صائغ، و [زعم] أن الأقطع جاء به، فاعترف به الأقطع أو شهد عليه به، فأمر به أبو بكر فقطعت يده اليسرى وقال أبو بكر: لدعاءه على نفسه أشد عندي من سرقته. "مالك والشافعي هق"
13868 عبدالرحمن بن القاسم اپنے والد قاسم (بن ابی بکر (رض)) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یمنی آدمی جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہوا تھا حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں آیا اور شکایت کی یمن کے عامل (گورنر) نے ان پر ظلم کیا ہے حالانکہ میں رات کو نماز پڑھتا ہوں (تہجد گزار آدمی ہوں) حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو فرمایا تیرے باپ کی قسم ! تیری رات تو چور کی رات نہیں ہے (دن ہوسکتا ہے) پھر ایک مرتبہ اسماء بنت عمیس جو ابوبکر (رض) کی اہلیہ تھیں، ان کا زیور گم ہوگیا وہ آدمی بھی گھروالوں کے ساتھ مل کر ڈھونڈتا رہا اور یوں کہتا رہا : اے اللہ جس نے اس نیک گھرانے کی چوری کی ہے اس کو پکڑ لے۔ پھر گھر والوں کو زیور ایک صراف کے پاس مل گیا۔ صراف نے بتایا کہ ایک کٹے ہاتھ والا لے کر آیا تھا۔ چنانچہ اس نے بھی اعتراف کرلیا یا اس پر گواہ مل گئے۔ پھر حضرت ابوبکر (رض) نے حکم دیا اور اس کا دوسرا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : اس کا اپنے خلاف بددعا کرنا مجھے اس کے چوری کرنے سے زیادہ سخت معلوم ہوتا ہے۔
موطا امام مالک، الشافعی، السنن للبیہقی

13869

13869- عن الزهري قال: أول من قطع الرجل أبو بكر. "ش".
13869 زہری (رح) سے مروی ہے کہ سب سے پہلے جس نے پاؤں کاٹا وہ ابوبکر (رض) تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ

13870

13870- "مسند عمر رضي الله عنه" عن ابن عباس قال: شهدت عمر بن الخطاب قطع بعد يد ورجل يدا في السرقة. "عق ص وابن المنذر في الأوسط قط هق".
13870 (مسند عمر (رض)) ابن عباس (رض) سے مروی ہے آپ (رض) فرماتے ہیں : میں اس موقع پر حاضر تھا جب حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک ایسے شخص کا دوسرا ہاتھ چوری کی وجہ سے کاٹا جس کا پہلے سے ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔
الضعفاء للعقیلی، السنن لسعید بن منصور، ابن المنذر فی الاوسط، الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13871

13871- عن القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق أن أبا بكر أراد أن يقطع رجلا بعد اليد والرجل، فقال له عمر: السنة اليد. "ش قط ق".
13871 قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ارادہ کیا تھا کہ جس شخص کا پہلے چوری کی وجہ سے ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹ چکا ہے اس کا (چوری کی وجہ سے) دوسرا پاؤں بھی کاٹ دیا جائے۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے فرمایا : سنت ہاتھ ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ، الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13872

13872- عن السائب بن يزيد أن عبد الله بن عمرو بن عثمان الحضرمي أتى عمر بغلام له سرق فقال: إن هذا سرق مرآة لأهلي هي خير من ستين درهما، فقال: أرسله فلا قطع عليه، خادمك أخذ متاعك ولكنه لو سرق من غيركم لقطع. "مالك والشافعي عب ش وابن المنذر في الأوسط ومسدد قط ق"
13872 سائب بن یزید سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان حضرمی اپنا ایک غلام اپنے ساتھ لے کر آئے جس نے چوری کی تھی۔ عبداللہ نے حضرت عمر (رض) کو عرض کیا : اس نے میرے گھر والوں کا آئینہ جو ساٹھ درہم سے زیادہ کا تھا چرالیا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اس کو چھوڑ دے اس پر قطع ید نہیں ہے (اس کا ہاتھ نہیں کٹے گا) کیونکہ یہ تیرا خادم ہے اور اس نے تیرا ہی مال چوری کیا ہے، ہاں اگر اس نے تمہارے سوا کسی اور کی چوری کی ہوتی تو اس کا ہاتھ ضرور کٹتا۔
موطا امام مالک، الشافعی، الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، ابن المنذر فی الاوسط، مسدد، الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13873

13873- عن عكرمة أن عمر كان يقطع اليد من المفصل والقدم من مفصلها. "عب ش وابن المنذر في الأوسط".
13873 حضرت عکرمہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) ہاتھ کو جوڑ (پونچے) سے کاٹتے تھے اور پاؤں کو بھی جوڑ (نخنے) سے کاٹتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر فی الاوسط

13874

13874- عن عكرمة بن خالد أن عمر بن الخطاب أتي بسارق قد اعترف فقال: أرى يد رجل ما هي بيد سارق، قال الرجل: والله ما أنا بسارق ولكنهم تهددوني فخلى سبيله ولم يقطعه. "عب ش".
13874 عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے اس شخص کا ہاتھ چور کا ہاتھ تو نہیں لگتا۔ آدمی بولا : اللہ کی قسم واقعی ! میں نے چوری تو نہیں کی، لیکن انھوں نے مجھے ڈرا دھمکا کر چوری کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13875

13875- عن ابن جريج قال: أخبرت عن عمر بن الخطاب أنه قطع رجلا في سرقة. "عب ش".
13875 ابن جریج (رح) سے مروی ہے فرمایا مجھے خبر ملی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے چوری کے جرم میں پاؤں کاٹا۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13876

13876- عن القاسم أن رجلا سرق من بيت المال فكتب إلى عمر بن الخطاب فكتب عمر رضي الله عنه لا تقطعه فإن له فيه حقا. "عب ش".
13876 قاسم سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بیت المال سے چوری کرلی۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یہ واقعہ لکھا گیا۔ آپ (رض) نے جواب میں لکھا : اس کا ہاتھ نہ کاٹو، کیونکہ اس کا بھی اس میں حق ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13877

13877- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة أنه وجد قوما؟؟ يختفون القبور باليمن على عهد عمر بن الخطاب فكتب إلى عمر بن الخطاب فكتب إليه عمر أن يقطع أيديهم. "عب".
13877 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے عہد خلافت میں ملک یمن میں کچھ لوگ کفن چوری کرتے تھے۔ ان کا احوال حضرت عمر کو لکھا گیا تو آپ (رض) نے جواب میں لکھا : ان کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ الجامع لعبد الرزاق

13878

13878- عن صفوان بن سليم قال: مات رجل بالمدينة فخاف أخوه أن يختفي قبره فحرسه، وأقبل المختفي فسكت عنه حتى استخرج أكفانه فضربه بالسيف حتى برد، فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فأهدر دمه. "عب".
13878 صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ ایک آدمی مدینے میں مرگیا۔ اس کے بھائی کو خوف لاحق ہوا کہ کہیں اس کی قبر کو نہ پھاڑ (کر اس کا کفن چوری کر) لیا جائے۔ چنانچہ اس نے قبر کی چوکیداری رکھی۔ کفن چور آیا تو قبر والے کا بھائی ایک طرف ہٹ کر گھات میں بیٹھ گیا۔ جب کفن چور نے اس کے کفن کے کپڑے نکال لیے تو تب مردے کے بھائی نے آکر اس پر تلوار کا وار کیا حتیٰ کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا۔ یہ قضیہ حضرت عمر (رض) کو پیش کیا گیا تو آپ (رض) نے اس کا خون بہا (معاف) کردیا۔
الجامع لعبد الرزاق

13879

13879- عن عمر قال من أخذ من التمر شيئا فليس عليه قطع يووى إلى المرابد والجرائن، فإن أخذ منه بعد ذلك ما يساوي ربع دينار قطع. "عب".
13879 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا : جس نے کھجوریں چوری کی اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اگر وہ کھجوریں باڑے اور محفوظ ٹھکانے پر لے جانے کے بعد کوئی چرالے تو اگر ان کی قیمت چوتھائی دینار بنتی ہو تب اس پر قطع ہے۔ اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13880

13880- عن عكرمة بن خالد قال: أتي عمر بن الخطاب برجل فسأله أسرقت؟ قال: لا، فتركه ولم يقطعه. "عب".
13880 عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس (چوری کے جرم میں) ایک آدمی لایا گیا۔ آپ (رض) نے اس سے پوچھا : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ اس نے انکار کیا تو آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور قطع کا حکم نہیں دیا ۔ الجامع لعبد الرزاق

13881

13881- عن الحسن قال: قال عمر: ورع السارق ولا تراعه "عب وأبو عبيد في الغريب".
13881 حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : چور سے اپنے سامان کا دفاع کرو اور اس کی گھات لگا کر مت بیٹھو۔ الجامع لعبد الرزاق، ابوعبید فی الغریب

13882

13882- عن عمر قال: لا تقطع في عذق ولا في عام السنة. "عب ش".
13882 حضرت عمر (رض) سے مروی ہے ، آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : کھجور کے خوشے میں قطع نہیں ہوگا (ہاتھ یا پاؤں نہیں کٹے گا) اور نہ ایسے سال جس میں قحط پڑا ہو۔
الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13883

13883- عن الشعبي أن رجلا اختلس طوقا عن إنسان فرفع إلى عمار بن ياسر فكتب فيه عمار إلى عمر بن الخطاب، فكتب إليه أن ذاك عادي الظهيرة3 فأنهكه عقوبة ثم خل عنه ولا تقطعه. "ص ق".
13883 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی انسان کا گلے میں سے ہار نوچ لیا۔ اس کو حضرت عمار بن یاسر کے پاس لایا گیا۔ حضرت عمار (رض) نے حضرت عمر (رض) کو یہ واقعہ لکھ بھیجا۔
حضرت عمر (رض) نے اس کے جواب میں یہ لکھا یہ کھلی چیز پر ڈاکہ ہے تم اس کو کوئی سزا دو پھر اس کا راستہ چھوڑ دو اور ہاتھ نہ کاٹو۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13884

13884- عن صفية بنت أبي عبيد أن رجلا سرق على عهد أبي بكر مقطوعة يده ورجله، فأراد أبو بكر أن يقطع رجله ويدع يده يستطيب بها ويتطهر بها وينتفع بها فقال عمر: لا والذي نفسي بيده لتقطعن يده الأخرى فأمر به أبو بكر فقطعت يده. "ص وابن المنذر في الأوسط ق".
13884 صفیہ بنت ابی عبید سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہوا تھا اس نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے عہد خلافت میں چوری کی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ارادہ کیا کہ اس کا پاؤں کاٹ دیں اور ہاتھ چھوڑ دیں تاکہ وہ اس کے ساتھ اپنا کام کاج کرسکے ، خوشبو لگا سکے استنجاء کرسکے۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کا دوسرا ہاتھ ہی کاٹا جائے گا۔ کیونکہ یہی حکم ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ السنن لسعید بن منصور، ابن المنذر فی الاوسط ، السنن للبیہقی

13885

13885- عن مكحول أن عمر قال: إذا سرق فاقطعوا يده، ثم إن عاد فاقطعوا رجله، ولا تقطعوا يده الأخرى، وذروه يأكل بها الطعام ويستنجي بها من الغائط ولكن احبسوه عن المسلمين. "ش".
13885 مکحول (رح) سے مروی ہے ، حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ پھر کرے پھر اس کا ایک پاؤں (مخالف سمت کا) کاٹ دو اور دوسرا ہاتھ نہ کاٹو اس کو چھوڑ دو تاکہ اس کے ساتھ کھانا کھا سکے اور استنجاء کرسکے۔ لیکن اس کو مسلمانوں (کو شر پہنچانے) سے روکے رکھو۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13886

13886- عن أبي الدرداء أن عمر أتي بسارقة سوداء فقال لها: أسرقت؟ قولي: لا. قالوا: أتلقنها؟ قال: جئتموني بإنسان لا يدري ما يراد به من الخير أم الشر لتقر حتى أقطعها. "ابن خسرو".
13886 حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک سیاہ فام چور عورت لائی گئی۔ آپ (رض) نے اس سے پوچھا : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ ابھی اس نے جواب نہیں دیا تھا کہ آپ (رض) نے اس کو فرمایا : تو انکار کردے۔ لوگوں نے آپ کو کہا : آپ اس کو کیوں سکھا رہے ہیں ؟ حضرت عمر (رض) نے ارشاد فرمایا : تم ایسے انسان کو لائے ہو جس کو معلوم نہیں ہے کہ اس کے اقرار کے جرم میں اس کے ساتھ بھلا ہوگا یا برا ؟ تاکہ یہ اقرار کرلے اور اپنا ہاتھ کٹوا بیٹھے۔ ابن خسرو

13887

13887- عن أبي مليكة أن ابن الزبير أتي بوصيف سرق فأمر به فشبر فوجد ستة أشبار فقطعه، وحدثنا أن عمر كتب في غلام من أهل العراق سرق فكتب أن اشبروه فإن وجدتموه ستة أشبار فاقطعوه فشبر، فوجد ستة أشبار تنقص أنملة فترك. "هب ومسدد وابن المنذر في الأوسط".
13887 ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے حضرت ابن زبیر (رض) کے پاس ایک خدمت گار لڑکا لایا گیا، جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے اس کے لیے حکم دیا اس کا بالشت سے قد پیمائش کیا گیا تو اس کا قد چھ بالشت نکلا۔ چنانچہ پھر حضرت ابن زبیر (رض) نے اس کا ہاتھ کٹوادیا۔ ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں ہمیں بیان کیا گیا ہے کہ اہل عراق کے ایک لڑکے نے چوری کرلی۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے متعلق لکھا اس کے قد کی پیمائش کرو۔ اگر اس کا قد چھ بالشت نکل آئے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ۔ چنانچہ اس کا قد پیمائش کیا گیا مگر وہ چھ بالشت سے چند پورکم نکلا جس کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیا گیا۔
شعب الایمان للبیہقی ، مسدد، ابن المنذر فی الاوسط

13888

13888- عن سليمان بن يسار أن عمر أتي بغلام سرق فأمر به فشبر فوجد ستة أشبار إلا أنملة فتركه. "ش".
13888 سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک لڑکا پیش کیا گیا جس نے چوری کی تھی اس کے قد کی پیمائش کی گئی تو اس کا قد چھ بالشت سے چند پور کم نکلا چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو چھوڑ دیا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13889

13889- عن عبد الرحمن بن عائذ الأزدي عن عمر أنه أتي برجل قد سرق يقال له سدوم فقطعه، ثم أتي به الثانية فأراد أن يقطعه فقال له علي: لا تفعل فإنما عليه يد ورجل ولكن اضربه واحبسه. "عب وابن المنذر في الأوسط".
13889 عبدالرحمن بن عائدالازدی سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک شخص جس کا نام مسدوم تھا اور اس نے چوری کی تھی لایا گیا۔ آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس کو پھر دوبارہ لایا گیا۔ آپ (رض) نے اس کا دوسرا ہاتھ کاٹنا چاہا تو حضرت علی (رض) نے آپ کو اس سے منع فرمادیا فرمایا : ایسا نہ کریں کیونکہ ایک ہاتھ اور ایک پاؤں اس کا حق ہے۔ ہاں اس کو ماریں اور اس کو قید کردیں۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن المنذر فی الاوسط

13890

13890- عن القاسم بن عبد الرحمن قال: أتي عمر بن الخطاب برجل سرق ثوبا فقال لعثمان: قومه، فقومه ثمانية دراهم فلم يقطعه. "عب هق".
13890 القاسم بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے کپڑے کی چوری کی تھی۔ آپ (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو فرمایا : اس کپڑے کی قیمت لگاؤ۔ حضرت عثمان (رض) نے اس کپڑے کی قیمت آٹھ درہم لگائی (جبکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے دس درہم کی چوری ضروری ہے) لہٰذا حضرت عمر (رض) نے اس کا ہاتھ وغیرہ نہیں کاٹا۔
الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13891

13891- عن أبان أن رجلا جاء إلى عمر بن الخطاب في ناقة نحرت فقال له عمر: هل لك في ناقتين بها عشراوين مربغتين سمينتين بناقتك فإنا لا نقطع في عام السنة المربعتان الموطيتان. "عب".
13891 ابان (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس اپنی ایک اونٹنی کے بارے میں شکایت لے کر آیا جس کو کسی نے نحر کردیا (کھانے کے لیے کاٹ دیا) تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو فرمایا : تو اپنی ایک اونٹنی کے بدلے دو موٹی گابھن اونٹنیاں لے لے کیونکہ قحط سالی میں ہاتھ نہیں کاٹتے۔ الجامع لعبد الرزاق

13892

13892- عن عمرو بن شعيب أن نفرا أربعة من بني عامر بن لؤي عمدوا على بعير رأوه فنحروه فأتي في ذلك عمر وعنده حاطب ابن أبي بلتعة أخو بني عامر بن لؤي فقال: يا حاطب قم الساعة فابتع لرب البعير بعيرين ببعيره ففعل حاطب وجلدوا أسواطا وأرسلوا. "عب".
13892 عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ بنی عامر بن لوی کے چار لوگوں نے ایک اونٹ کو دیکھا اور اس کو نحر کرلیا (کاٹ لیا) مالک اس کی شکایت حضرت عمر (رض) کے پاس لے کر حاضر ہوا۔ حضرت عمر (رض) کے پاس حاطب بن ابی بلتع تشریف فرما تھے، جو بنی عامر بن لوی کے بھائی تھے۔ حضرت عمر (رض) نے ان کو فرمایا : اے حاطب ! اسی وقت اٹھو اور اونٹ کے مالک کے واسطے اس کے ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ خرید کردو۔ چنانچہ حاطب نے آپ (رض) کے حکم کی تعمیل کردی جبکہ حضرت عمر (رض) نے ان چاروں کو کچھ کچھ کوڑے لگوا کر چھوڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13893

13893- عن عطاء الخراساني أن عمر بن الخطاب قال: إذا أخذ السارق ما يساوي ربع دينار قطع. "عب وابن المنذر في الأوسط".
13893 عطاء الخراسانی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : جب چور ایسی چیز اٹھالے جس کی قیمت چوتھائی دینار تک پہنچتی ہو تو اس پر قطع ہوگی (ہاتھ یا پاؤں کٹے گا) ۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن المنذر فی الوسط

13894

13894- "مسند عثمان رضي الله عنه" عن عمرة بنت عبد الرحمن أن سارقا سرق في زمن عثمان بن عفان أترجة فأمر بها عثمان أن تقوم فقومت ثلاث دراهم من صرف اثني عشر درهما بدينار فقطع عثمان يده. "مالك هق"
13894 (مسند عثمان (رض)) عمرۃ بنت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ ایک چور نے حضرت عثمان (رض) کے دور میں ترنج (ایک زیور) کی چوری کی۔ حضرت عثمان (رض) نے اس کی قیمت لگوائی تو اس کی قیمت ان دراہم کے مطابق جو ایک دینار کے بارہ درہم بنتے تھے تین درہم لگی۔ (چونکہ اس طرح اس نے چوتھائی دینا کی چوری کی) اس وجہ سے حضرت عثمان (رض) نے اس کا ہاٹھ کٹوادیا۔
موطا امام مالک، السنن للبیہقی

13895

13895- عن عبد الله بن عبيد بن عمير قال: أتي عثمان بغلام قد سرق فقال؛ انظروا إلى مؤتزره، فنظروا فوجدوه لم ينبت الشعر فلم يقطعه. "عب ق".
13895 عبداللہ بن عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایک لڑکا لایا گیا جس نے چوری کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ (رض) نے حکم دیا کہ اس کی ازار (شلوار کھول کر) دیکھو۔ دیکھا تو اس کے بال نہیں اگے تھے۔ چنانچہ آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کٹوایا۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13896

13896- عن سليمان بن موسى في السارق يوجد في البيت قد جمع المتاع أن عثمان قضى أن لا قطع عليه، وإن كان قد جمع المتاع، فأراد، أن يسرق حتى يحمله ويخرج به. "عب ق".
13896 سلیمان بن موسیٰ (رح) فرماتے ہیں : جو چور گھر میں اس حال میں پایا جائے کہ وہ چوری کا مال اکٹھا کرچکا ہے تو حضرت عثمان (رض) نے اس کے متعلق فرمایا اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اگر اس نے مال جمع کرلیا اور چوری کے ارادے سے اس کو اٹھا کر اس گھر سے نکل گیا تب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13897

13897- عن عبد الله بن يسار قال: أراد عمر بن عبد العزيز أن يقطع رجلا سرق دجاجة فقال له أبو سلمة بن عبد الرحمن: إن عثمان بن عفان كان لا يقطع في الطير. "عب".
13897 عبداللہ بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک چور کے (ہاتھ) کاٹنے کا ارادہ فرمایا جس نے مرغی چوری کی تھی۔ لیکن حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے ان کو عرض کیا : کہ حضرت عثمان (رض) پرندوں کی چوری میں (ہاتھ وغیرہ) نہیں کاٹتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13898

13898- عن ابن المسيب أن سارقا سرق أترجة ثمنها ثلاثة دراهم فقطع عثمان يده قال: والأترجة خرزة من ذهب تكون في عنق الصبي. "عب".
13898 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے ایک چور نے اترجہ چوری کرلیا۔ جس کی قیمت تین درہم تھی ۔ اس لیے حضرت عثمان (رض) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ابن المسیب (رح) فرماتے ہیں : اترجہ سونے کا ایک زیور تھا جو بچے کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13899

13899- عن ابن عمر أن شرط عثمان كانوا يسرقون السياط فبلغ ذلك عثمان فقال: أقسم بالله لتتركن هذا أو لأوتي برجل منكم سرق سوط صاحبه إلا فعلت به وفعلت. "عب".
13899 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے سپاہی کوڑوں کی چوری کرلیا کرتے تھے۔ یہ بات حضرت عثمان (رض) کو پہنچی تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : میں اللہ کی قسم یا تو تم اس سے باز آجاؤ ورنہ اگر کوئی میرے پاس لایا گیا جس نے اپنے ساتھی کا کوڑا چوری کیا ہوگا تو میں اس کو ایسی ایسی کڑی سزادوں گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13900

13900- عن الزهري قال: دخلت على عمر بن عبد العزيز فسألني أيقطع العبد الآبق إذا سرق؟ قلت: لم أسمع فيه شيئا، فقال عمر: كان عثمان ومروان لا يقطعانه. "عب".
13900 زہری (رح) سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کے پاس آیا۔ آپ نے مجھ سے ایک مسئلہ دریافت کیا۔ کیا بھگوڑا غلام اگر چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عثمان اور مروان تو نہیں کاٹتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13901

13901- عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال: قال عثمان بن عفان لا قطع في الطير. "ق".
13901 ابوسلمۃ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کا ارشاد ہے پرندوں میں قطع ید نہیں۔ السنن للبیہقی

13902

13902- "مسند علي رضي الله عنه" عن أبي مطر قال: رأيت عليا أتي برجل، فقالوا: إنه قد سرق جملا، فقال: ما أراك سرقت؟ قال: بلى قال: فلعله شبه لك؟ قال: بلى قد سرقت، قال: فاذهب به ياقنبر فشد أصبعه وأوقد النار وادع الجزار ليقطع، ثم انتظر حتى أجيء، فلما جاء قال له أسرقت؟ قال: لا فتركه، قالوا: يا أمير المؤمنين، لم تركته وقد أقر لك؟ قال: آخذه بقوله وأتركه بقوله، ثم قال علي رضي الله عنه: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل قد سرق فأمر فقطع يده، ثم بكى فقلت: لم تبكي قال: وكيف لا أبكي وأمتي تقطع بين أظهركم، قال: يا رسول الله أفلا عفوت عنه؟ قال: ذاك سلطان سوء الذي يعفو عن الحدود، ولكن تعافووا الحدود بينكم. "ع وضعف".
13902 (مسند علی (رض)) ابو مطر سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ لوگوں نے کہا : اس نے اونٹ چوری کیا ہے۔ آپ (رض) نے اس کو مخاطب ہو کر فرمایا : مجھے نہیں لگتا کہ تم نے چوری کی ہوگی ؟ اس نے جواب دیا کیوں نہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : ممکن ہے تم نے کسی کا اونٹ اپنا سمجھ کر ہانک لیا ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، بلکہ میں نے واقعی چوری کی ہے۔ حضرت علی (رض) نے اپنے غلام کو فرمایا : اے قنبر اس کو لے جا اور اس کی انگلی باندھ اور آگ جلا کر کاٹنے والے کو بلا لو تاکہ وہ اس کو کاٹ دے۔ پھر میرے آنے کا انتظار کرنا۔ اس سے پہلے نہ کاٹنا۔ چنانچہ پھر آپ (رض) اس کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ اس منظر کو دیکھ کر ڈر گیا اور پھر آپ (رض) نے جب اس سے پوچھا : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ تو تب اس نے انکار کردیا۔ لہٰذا آپ (رض) نے اس کو چھوڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ نے اس کو کیوں چھوڑا حالانکہ وہ اپنے جرم کا اقرار کرچکا تھا ؟ آپ (رض) نے فرمایا : میں نے اس کے اقرار پر اس کو سزا دینے کے لیے پکڑ لیا تھا لیکن پھر اسی کا انکار پر چھوڑ دیا۔ پھر آپ (رض) نے دور نبوت کا ایک واقعہ بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے چوری کی تھی۔ آپ نے حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دکھ کے مارے) رونے لگے۔ میں نے آپ سے پوچھا : آپ کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : میں کیوں نہ رؤ وں جبکہ میرے امتی کا ہاتھ تمہارے سامنے کاٹا گیا۔ عرض کیا : یارسول اللہ ! پھر آپ نے اس کو معاف کیوں نہ کردیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ حاکم برا ہے جو حدود کو معاف کردے۔ لیکن تم آپس میں ہی حدود کو معاف کردیا کرو۔ مسند ابی یعلی
کلام : روایت ضعیف ہے۔ کنزج 5

13903

13903- عن علي قال: قطع النبي صلى الله عليه وسلم في بيضة من حديد قيمتها أحد وعشرون درهما. "البزار" وفيه المختار بن نافع ضعيف.
13903 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوہے کے ایک انڈے میں (ہاتھ) کاٹا جس کی قیمت اکیس درہم تھی۔ مسند البزار
کلام : روایت کی سند میں المختار بن نافع ضعیف راوی ہے۔

13904

13904- عن الحسن قال: إن عليا قال: لا أقطع أكثر من يد ورجل. "مسدد".
13904 حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : میں ایک ہاتھ اور ایک پاؤں سے زیادہ نہیں کاٹتا۔ مسدد

13905

13905- عن علي أنه كان يقطع اليد من المفصل والرجل من الكعب. "عب".
13905 حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے آپ پونچے سے ہاتھ کاٹتے تھے اور ٹخنے سے پاؤں کاٹتے تھے (یعنی جوڑ علیحدہ کروا دیتے تھے) ۔ الجامع لعبد الرزاق

13906

13906- عن الشعبي قال: كان علي لا يقطع إلا اليد والرجل وإن سرق بعد ذلك سجن ونكل، وأنه كان يقول: إني لأستحيي من الله أن لا أدع له يدا يأكل بها ويستنجي. "عب".
13906 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) صرف ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کاٹتے تھے۔ اگر اس کے بعد بھی وہ آدمی چوری کرتا تو اس کو قید کرتے اور سزا دیتے تھے۔ نیز فرمایا کرتے تھے : مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ میں اس کا ایک ہاتھ بھی نہ چھوڑوں جس سے وہ کھاپی لے اور استنجاء وغیرہ کرسکے۔ الجامع لعبد الرزاق

13907

13907- عن أبي الضحى أن عليا كان يقول: إذا سرق قطعت يده، ثم إن سرق الثانية قطعت رجله، فإن سرق بعد ذلك لم ير عليه قطع. "عب".
13907 ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) ارشاد فرمایا کرتے تھے : جب کوئی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، دوبارہ کرے تو اس کا پاؤں کاٹا جائے گا اگر اس کے بعد بھی چوری کرے تو آپ مزید کچھ کاٹنے کو روانہ سمجھتے تھے۔ الجامع لعبد الرزاق

13908

13908- عن عكرمة بن خالد قال: كان علي لا يقطع سارقا حتى يأتي بالشهداء، فيوقفهم عليه ويثبطه فإن شهدوا عليه قطعه، وإن نكلوا تركه فأتي مرة بسارق فسجنه حتى إذا كان الغد دعا به وبالشاهدين فقيل: تغيب أحد الشاهدين، فخلى سبيل السارق ولم يقطعه. "عب".
13908 عکرمہ بن خالد سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) چور کا (ہاتھ یا پاؤں) نہ کاٹتے تھے حتیٰ کہ گواہ اس پر گواہی نہ دیدیں۔ پھر آپ ان گواہوں کو اس کے سامنے کھڑا کرتے اور پھر ان سے اس پر روبرور گواہی لیتے ۔ اگر وہ گواہی دیتے تو تب اس کا ہاتھ کاٹتے تھے۔ اگر وہ گواہی سے منکر ہوجاتے تو چور کو چھوڑ دیتے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ایک چور کو لایا گیا آپ نے اس کو قید میں ڈلوادیا۔ حتیٰ کہ جب اگلا روز ہوا تو اس کو اور دوگواہوں کو بلوایا۔ آپ کو بتایا گیا کہ ایک گواہ تو غائب ہوگیا ہے۔ چنانچہ آپ (رض) نے چور کا راستہ چھوڑ دیا اور اس کا ہاتھ وغیرہ نہ کاٹا۔ الجامع لعبد الرزاق

13909

13909- عن القاسم بن عبد الرحمن عن أبيه قال: جاء رجل إلى علي فقال: إني سرقت، فرده، فقال: إني سرقت فقال: شهدت على نفسك مرتين، فقطعه فرأيت يده في عنقه معلقة. "عب وابن المنذر في الأوسط ق".
13909 القاسم بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت علی (رض) کے پسا آیا اور عرض کیا : میں نے چوری کی ہے۔ آپ نے اس کو لوٹا دیا۔ اس نے پھر کہا میں نے چوری کی ہے۔ تب آپ نے اس کو فرمایا تو نے اپنی جان پر دو مرتبہ گواہی دیدی ہے۔ چنانچہ پھر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں : چنانچہ میں نے اس چور کو دیکھا کہ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، ابن المنذر فی الاوسط، السنن للبیہقی

13910

13910- عن علي قال: لا تقطع يد السارق حتى يخرج بالمتاع من البيت. "عب ق".
13910 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا جب تک کہ وہ سامان کو گھر سے لے کر نہ نکل پڑے۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13911

13911- عن الحارث قال: أتي علي برجل نقب بيتا فلم يقطعه، وعزره أسواطا. "عب".
13911 حارث سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے کسی گھر میں نقب زنی کی تھی لیکن آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔ اور اس کو بطور سزا چند کوڑے مارے۔
الجامع لعبد الرزاق

13912

13912- عن حجاج بن أبجر قال شهدت عليا وأتي برجل سرق منه ثوب فوجده مع إنسان وأقام عليه البينة فقال علي: ادفع إلى هذا ثوبه واتبع أنت من اشتريته منه. "ن".
13912 حجاج بن بجز سے مروی ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوا۔ ایک شخص لایا گیا جس کا کپڑا چوری ہوگیا تھا۔ پھر اس نے وہ کپڑا ایک دوسرے آدمی کے پاس پالیا اور اس پر گواہ بھی کھڑا کردیا۔ حضرت علی (رض) نے اس شخص کو جس کے پاس کپڑا تھا ارشاد فرمایا : تم یہ کپڑا اس (اصل مالک) کو لوٹا دو اور جس سے تم نے خریدا ہے اس سے اپنی قیمت واپس لو۔ النسائی

13913

13913- عن يزيد بن دثار قال: اختلس رجل ثوبا؛ فأتى به علي ابن أبي طالب فقال: إنما كنت ألعب معه، فقال: أكنت تعرفه؟ قال: نعم فخلى سبيله. "عب"
13913 یزید بن دبار سے مروی ہے ایک آدمی نے ایک کپڑا کسی کا اچک لیا۔ کپڑے والا اس کو حضرت علی بن ابی طالب کے پاس لایا۔ آدمی نے کہا : میں تو محض اس کے ساتھ مذاق کررہا تھا۔ حضرت علی (رض) نے کپڑے کے مالک سے پوچھا : کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13914

13914- عن يزيد بن دثار قال: أتي علي برجل سرق من الخمس فقال له فيه نصيب ولم يقطعه
13914 یزید بن دبار سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے مال خمس میں سے چوری کی تھی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کا بھی اس میں حصہ ہے لہٰذا آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔ السنن للبیہقی

13915

13915- عن الحسن قال: سئل علي عن الخلسة فقال: تلك الدغرة المغيلة لا قطع فيها. "ن".
13915 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) سے اچکنے (جیب کاٹنے اور راہ چلتے کسی کے مال پر ہاتھ صاف کرنے) کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : یہ دھوکا دہی ہے لیکن اس قطع (ید) نہیں ۔ النسائی

13916

13916- عن أبي الرضى قال: رفع إلى علي رجل فقيل: سرق فقال له: كيف سرقت؟ فأخبره بأمر لم ير عليه فيه قطعا فضربه أسواطا وخلى سبيله. "عب".
13916 ابوالرضی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا اور کہا گیا کہ اس نے چوری کی ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا : تو نے کیسے چوری کی ہے ؟ اس نے ایسی بات کی جس میں آپ نے ہاتھ کاٹنے کو روانہ سمجھا تو اس کو چند کوڑے مار کر اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ الجامع لعبد الرزاق

13917

13917- عن علي قال: لا تقطع الكف في أقل من ربع دينار أو عشرة دراهم. "عب".
13917 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : چوتھائی دینار یا دس درہم سے کم میں ہتھیلی (ہاتھ) نہیں کاٹی جائے گی۔ الجامع لعبد الرزاق

13918

13918- عن جعفر بن محمد عن أبيه أن عليا قطع يد سارق في بيضة من حديد ثمن ربع دينار. "عب ق".
13918 جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا ایک لوہے کے انڈے میں جس کی قیمت چوتھائی دینار تھی۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13919

13919- عن علي قال: القطع في ربع دينار فصاعدا. "الشافعي".
13919 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ قطع چوتھائی دینار یا اس سے زائد میں ہے۔ الشافعی

13920

13920- عن ابن عبيد بن الأبرص قال: شهدت عليا وهو يقسم خمسا بين الناس فسرق رجل من حضرموت مغفر حديد من المتاع، فأتي به علي فقال: ليس عليه قطع هو خائن وله نصيب. "ص ق".
13920 ابن عبید بن الابرض سے مروی ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوا۔ آپ مال غنیمت کا خمس لوگوں کے درمیان تقسیم فرما رہے تھے۔ حضرموت علاقے کے ایک آدمی نے سامان میں سے لوہے کا ایک خود (جنگی ٹوپی کو) چرالیا۔ اس کو حضرت علی (رض) کے پاس لایا گیا تو حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اس پر قطع تو نہیں ہے کیونکہ یہ خیانت باز ہے اور اس کا بھی اس میں حصہ ہے۔
السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13921

13921- عن الشعبي عن علي أنه كان يقول: ليس على من سرق من بيت المال قطع. "ص ق".
13921 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرمایا کرتے تھے : جو بیت المال کی چوری کرے اس پر قطع ید نہیں ہے۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13922

13922- عن علي قال: لا تقطع اليد إلا في عشرة دراهم، ولا يكون المهر أقل من عشرة دراهم. "قط" وقال: هذا إسناد يجمع مجهولين وضعفاء.
13922 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : ہاتھ کم از کم دس درہم میں کاٹا جائے گا اور مہر دس درہم سے کم نہیں رکھا جائے گا۔ الدارقطنی فی السنن
کلام : امام دارقطنی (رح) فرماتے ہیں : یہ ایسی سند کی روایت ہے جس میں ضعفاء اور مجہولین جمع ہیں۔

13923

13923- عن عمرو بن دينار قال: كان عمر بن الخطاب يقطع السارق من المفصل وكان علي يقطع من شطر القدم. "ص ق".
13923 عمرو بن دینار (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) چور کا ہاتھ جوڑ سے کاٹتے تھے اور حضرت علی (رض) پاؤں کو ٹخنوں کے نیچے سے آدھا کاٹتے تھے۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13924

13924- عن حجية بن عدي أن عليا قطع أيديهم من المفصل وحسمها فكأني أنظر إلى أيديهم كأنها أيور الحمر. "قط هق"
13924 جحیۃ بن غدی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) چوروں کے ہاتھ جوڑ سے کاٹتے تھے اور پھر ان کو آگ کے ساتھ داغ دیتے تھے (تاکہ خون بند ہو کر زخم مندمل ہوجائے) ۔ میں ان کے ہاتھوں کو دیکھتا تھا گویا وہ بلبل کی دبر ہیں۔ الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13925

13925- عن الشعبي أن عليا كان يقطع الرجل ويدع العقب يعتمد عليها. "قط ق".
13925 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) پاؤں کاٹتے تھے مگر ایڑی چھوڑ دیتے تھے تاکہ وہ اس پر بوجھ ڈال سکے۔ الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13926

13926- عن حجية بن عدي كان علي يقطع ويحسم ويحبس، فإذا برؤوا أرسل إليهم فأخرجهم، ثم قال: ارفعوا أيديكم إلى الله فيرفعونها فيقول: من قطعكم فيقولون: علي، فيقول: ولم؟ فيقولون: سرقنا، فيقول: اللهم اشهد اللهم اشهد. "هق"
13926 جحیۃ بن عدی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کاٹ کر داغ دیتے تھے پھر ان کو قید میں رکھتے تھے جب تک وہ صحت مند نہ ہوں صحت مند ہونے کے بعد ان کو نکلوالیتے تھے۔ پھر ان کو فرماتے اپنے ہاتھ اللہ کی طرف اٹھاؤ۔ وہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے تو آپ ان سے پوچھتے : تمہارے ہاتھ کس نے کاٹے ؟ وہ کہتے علی نے ! حضرت علی (رض) پوچھتے : کیوں ؟ وہ کہتے : ہم نے چوری کی تھی۔ پھر حضرت علی (رض) فرماتے : اے اللہ ! گواہ رہنا۔ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ السنن للبیہقی

13927

13927- عن أبي الزعراء عن علي أنه كان إذا أخذ اللص قطعه، ثم حسمه ثم ألقاه في السجن، فإذا برؤوا أخرجهم قال: ارفعوا أيديكم إلى الله كأني أنظر إليها كأنها أيور الحمر، فيقول: من قطعكم؟ فيقولون: علي؛ فيقول: اللهم صدقوا فيك قطعتهم، وفيك أرسلتهم. "هق"
13927 ابوالزعزاء سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) جب کسی چور کو پکڑ لیتے تو اس کا (ہاتھ) کاٹ دیتے پھر اس کو داغتے، پھر اس کو قید کردیتے تھے۔ جب وہ صحت مند ہوجاتے تو ان کو فرماتے : اپنے ہاتھ اٹھاؤ اللہ کی طرف۔ تب میں ان کی طرف دیکھتا گویا ان کے ہاتھ بلبل کی (سرخ) دبر کی طرح ہیں۔ آپ (رض) ان سے پوچھتے کس نے تمہارے ہاتھ کاٹے ؟ وہ کہتے : علی نے۔ تب حضرت علی (رض) فرماتے : اے اللہ ! انھوں نے سچ کہا، میں نے تیرے لیے ان کے ہاتھ کاٹے اور تیرے لیے ان کو چھوڑا۔ السنن للبیہقی

13928

13928- عن عبد الرحمن بن عائذ قال: أتي عمر بن الخطاب برجل أقطع اليد والرجل قد سرق، فأمر به عمر أن تقطع رجله، فقال علي: إنما قال الله تعالى: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} إلى آخر الآية، فقد قطعت يد هذا ورجله، ولا ينبغي أن تقطع رجله، فتدعه ليس له قائمة يمشي عليها، إما أن تعزره، وإما أن تستودعه السجن، قال: فاستودعه السجن. "ص ق".
13928 عبدالرحمن بن عائذ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس کے ہاتھ اور پاؤں دونوں کٹے ہوئے تھے۔ اس نے پھر چوری کی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے حکم دیا کہ اب اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ الخ،
اس آیت کے اندر ایسے لوگوں کے لیے صرف ایک ہاتھ ایک پاؤں کاٹنے کا حکم ہے۔
پھر فرمایا اب اس کے ہاتھ اور پاؤں دونوں کاٹے جاچکے ہیں یہ کس طرح مناسب نہ ہوگا کہ اس کا دوسرا پاؤں بھی کاٹا جائے۔
اس طرح تو آپ کے لیے ایک پاؤں بھی نہ چھوڑیں جس کے سہارے اب یہ چلتا ہے۔ یا تو آپ اس کو کوئی اور سزا دیدیں یا پھر قید کردیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں اس کو قید کردیتا ہوں۔
السنن لسعید بن منصور ، السنن للبیہقی

13929

13929- عن عبد الله بن سلمة أن عليا أتي بسارق فقطع يده، ثم أتي به فقطع رجله، ثم أتي به فقال: أقطع يده بأي شيء يمسح؟ وبأي شيء يأكل؟ ثم قال: أقطع رجله على أي شيء يمشي، إني لأستحي من الله، قال: ثم ضربه وخلده السجن. "البغوي في الجعديات هق"
13929 عبداللہ بن سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) کے پاس ایک چور کو لایا گیا آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ وہ ایک مرتبہ پھر لایا گیا پھر آپ نے اس کا پاؤں کاٹ دیا۔ وہ پھر ایک مرتبہ لایا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : اگر میں اس کا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں تو یہ کس چیز کے ساتھ پکڑے گا اور کس چیز کے ساتھ کھائے گا پھر فرمایا اور اگر میں اس کا پاؤں کاٹ دوں تو پھر یہ کس طرح چلے گا مجھے اس بات پر اللہ سے حیا آتی ہے۔ چنانچہ پھر آپ (رض) نے اس کو مارا اور لمبی مدت کے لیے قید کے حوالے کردیا۔ البغوی فی الجوریات، السنن للبیہقی

13930

13930- عن الشعبي أن رجلين أتيا عليا فشهدا على رجل أنه سرق فقطع علي يده، ثم أتياه بآخر فقالا: هذا الذي سرق وأخطأنا على الأول فلم يجز شهادتهما على الآخر، وغرمهما دية يد الأول، وقال: لو أعلم أنكما تعمدتما لقطعتكما. "الشافعي خ هق"
13930 شعبی (رح) سے مروی ہے کہ دو آدمی حضرت علی (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور ایک آدمی کے خلاف شہادت دی کہ اس نے چوری کی ہے۔ حضرت علی (رض) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ پھر وہی دونوں شخص ایک دوسرے آدمی کو لائے اور بولے : دراصل اس نے چوری کی ہے جبکہ پہلے کے متعلق ہم کو غلط فہمی ہوگئی تھی۔ لیکن حضرت علی (رض) نے اب ان کی شہادت کو غیر معتبر قرار دیدیا اور دونوں کو پہلے شخص کے ہاتھ کی دیت دینا لازم کردی اور یہ بھی فرمایا : اگر مجھے علم ہوتا کہ تم نے جان بوجھ کر پہلے کے خلاف جھوٹی شہادت دی ہے تو میں تم دونوں کے ہاتھ کاٹتا۔ الشافعی، البخاری، السنن للبیہقی

13931

13931- عن مجاهد وعطاء عن أيمن الحبشي قال: لم يقطع النبي صلى الله عليه وسلم السارق إلا في ثمن المجن وكان ثمن المجن يومئذ دينارا أو عشرة دراهم. "أبو نعيم" وقال هو أيمن بن أم أيمن وهو ابن عبيد بن عمرو من بني الخزرج ويعرف بالحبشي أخو أسامة بن زيد لأمه استشهد يوم حنين وقال ابن حجر في الإصابة: قد فرق ابن أبي خيثمة بين أيمن الحبشي وبين أيمن ابن أم أيمن وهو الصواب وقال في الأطراف: أشار الشافعي إلى أن شريكا أخطأ في قوله أيمن ابن أم أيمن وإنما هو أيمن الحبشي فإن أيمن ابن أم أيمن قتل مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين قبل مولد مجاهد وقال في مختصر التهذيب قال "عد" أيمن راوى حديث المجن تابعي لم يدرك زمن النبي صلى الله عليه وسلم وكذا قال2 "خ وابن أبي حاتم حب".
13931 مجاہد (رح) اور عطاءؒ ، ایمن حبشی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہیں کاٹا۔ اس وقت ڈھال کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی۔ ابونعیم
فائدہ : ایمن وہ ایمن بن ام ایمن اور وہ ابن عبید بن عمروخزرجی ہے جو حبشی کے نام سے معروف تھا اور اسامہ زید کا ماں شریک بھائی تھا۔ جنگ حنین میں شہادت نوش کی۔ امام ابن حجر اصابہ میں فرماتے ہیں : ابن ابی خیثمہ فرماتے ہیں : ایمن حبشی اور ایمن ابن ام ایمن میں فرق تھا۔ جنگ حنین میں شہادت نوش کی۔ امام ابن حجر اصابہ میں فرماتے ہیں : ابن ابی خیثمہ فرماتے ہیں : ایمن حبشی اور ایمن ابن ام ایمن میں فرق تھا۔ جنگ حنین میں شہادت نوش کی۔ امام ابن حجرا صابہ میں فرماتے ہیں : ابن ابی خیثمہ فرماتے ہیں : ایمن حبشی اور ایمن ابن ام ایمن میں فرق ہے۔ یہی بات درست ہے۔ اطراف میں فرماتے ہیں : امام شافعی نے اشارہ کیا ہے کہ شریک (راوی) نے اس بات میں غلطی کی ہے کہ ایمن کو ابن ام ایمن کہا جبکہ وہ ایمن الحبشی ہے۔ کیونکہ ایمن ابن ام ایمن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ حنین میں شہید ہوگیا تھا دوسرے ایمن کی ولادت سے قبل ۔ مختصر تہذیب میں ہے ابن عدی فرماتے ہیں : ایمن جو حدیث محجن (مذکورہ حدیث) روایت کرنے والے ہیں وہ ایمن تابعی ہے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ نہیں پایا، اسی طرح بخاری اور ابن ابی حاتم نے کہا۔ البخاری ، ابن ابی حاتم، ابن حبان

13932

13932- عن أيمن الحبشي قال: كانت اليد تقطع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمن المجن. "طب".
13932 ایمن الحبشی سے مروی ہے کہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہاتھ ڈھال کی قیمت میں کاٹا جاتا تھا۔ الکبیر للطبرانی
کلام : الضعیفۃ 2198 ۔

13933

13933- عن بسر بن أبي أرطاة أو ابن أرطاة قال: سمعت رسول الله يقول: لا تقطع الأيدي في الغزو. "الحسن بن سفيان وأبو نعيم".
13933 بسر بن ابی ارطاۃ یا ابن ارطاۃ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جنگوں میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔ الحسن بن سفیان و ابونعیم
کلام : ذخیرۃ الحفاظ 6127 ۔

13934

13934- عن الحارث بن حاطب قال: سرق رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتي به النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اقتلوه، فقالوا: يا رسول الله إنما سرق فقال: اقطعوه، ثم سرق على عهد أبي بكر فقطعه، ثم سرق أيضا فقطع أربع مرات، حتى قطع قوائمه كلها، ثم سرق الخامسة فقال أبو بكر: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أعلم بهذا حين أمر بقتله، اذهبوا به فاقتلوه، فقتلناه. "الحسن بن سفيان ع والشاشي طب ك وأبو نعيم ص".
13934 حارث بن حاطب سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عہد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں چوری کرلی۔ اس کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا ۔ آپ نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس نے فقط چور ی کی ہے۔ آپ نے فرمایا : اس کا (ہاتھ) کاٹ دو ۔ اسی شخص نے پھر حضرت ابوبکر (رض) کے عہد خلافت میں چوری کی۔ آپ (رض) نے بھی اس کا (پاؤں) کاٹ دیا۔ اس نے پھر چوری کی اس طرح چار مرتبہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے۔ اور وہ بالکل بےدست وپا ہوگیا۔ پھر اس نے پانچویں بار چوری کی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو بخوبی جانتے تھے۔ جب آپ نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ بس اب اس کو لے جاؤ اور قتل کردو۔ حارث کہتے ہیں چنانچہ ہم نے اس کو قتل کردیا۔ الحسن بن سفیان، مسند ابی یعلی، الشاشی، الکبیر للطبرانی، مستدرک الحاکم، ابونعیم ، السنن لسعید بن منصور

13935

13935- عن الحارث بن عبد الله بن أبي ربيعة أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بسارق فقيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه لناس من الأنصار ما لهم مال غيره، فتركه، ثم أتى به الثانية، فتركه، ثم أتي به الثالثة، فتركه، ثم أتي به الرابعة، فتركه، ثم أتي به الخامسة فقطع يمينه، ثم أتي به السادسة فقطع رجله، ثم أتي به السابعة، فقطع يده، ثم أتي به الثامنة فقطع رجله، ثم قال: أربع بأربع. "هارون في المسند وأبو نعيم".
13935 حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور کو لایا گیا۔ آپ کو عرض کیا گیا یہ انصار کا ایک آدمی ہے۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور مال نہیں ہے۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کو دوبارہ لایا گیا تو آپ نے پھر چھوڑ دیا پھر اس کو (اسی جرم میں) تیسری بار لایا گیا آپ نے پھر چھوڑ دیا۔ پھر چوتھی بار بھی چھوڑ دیا۔ پھر جب پانچویں بار اس کو لایا گیا تو آپ نے اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا پھر چھٹی بار لایا گیا تو اس کا (بایاں) پاؤں کاٹ دیا۔ پھر ساتویں بار لایا گیا تو اس کا دوسرا ہاتھ کاٹ دیا پھر آٹھویں بار اس کا دوسرا پاؤں بھی کاٹ دیا اور پھر فرمایا : چار چار کے بدلے۔ ھانرون فی المسند ، ابونعیم

13936

13936- عن زيد بن ثابت قال: الخلسة الظاهرة لا قطع فيها، ولكن نكال وعقوبة. "عب".
13936 زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے فرمایا : کھلے عام کسی کا مال اچکنے میں (ہاتھ تو) نہیں کاٹا جائے گا مگر سزا دی جائے گی۔ الجامع لعبد الرزاق

13937

13937- عن ابن عمر قال: قطع النبي صلى الله عليه وسلم يد سارق في مجن قوم ثلاثة دراهم. "عب ش".
13937 ابن عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ڈھال کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا اس ڈھال کی قیمت تین درہم تھی۔ الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13938

13938- عن ابن عمر قال كانت مخزومية تستعير المتاع وتجحده فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بقطع يدها. "عب".
13938 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مخزومی عورت سامان مانگے سے (عاریت پر) لے جاتی تھی پھر انکار کردیتی تھی۔ چنانچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
الجامع لعبد الرزاق

13939

13939- عن ابن عمر قال: قطع رسول الله صلى الله عليه وسلم في محجن "ابن النجار".
13939 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈھال میں (ہاتھ) کاٹا۔
ابن النجار

13940

13940- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قطع سارقا في مجن قيمته ثلاثة دراهم. "كر".
13940 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چور کا ہاتھ ڈھال کی چوری میں کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابن عساکر

13941

13941- عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم. "كر".
13941 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈھال میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابن عساکر

13942

13942- عن ابن مسعود قال: كان لا تقطع اليد إلا في دينار أو عشرة دراهم. "عب".
13942 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے فرمایا : ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر ایک دینار میں یا دس درہم میں۔ مصنف عبدالرزاق

13943

13943- عن ابن جريج قال: أخبرني يحيى بن سعيد أنه سمع سعيد بن المسيب يقول: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بامرأة في بيت عظيم من بيوت قريش، قد أتت ناسا، فقالت: إن آل فلان يستعيرونكم كذا وكذا فأعاروها، فأتوا أولئك، فأنكروا أن يكونوا استعاروهم، وأنكرت هي أن تكون استعارتهم، فقطعها النبي صلى الله عليه وسلم، وقال ابن جريج عن ابن المنكدر قال: آوتها امرأة أسيد بن حضير فجاء أسيد فإذا هي قد آوتها، فقال: لا أضع ثوبي حتى آتي النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه فذكر ذلك له، فقال: رحمتها رحمها الله. "عب".
13943 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ مجھے یحییٰ بن سعید نے بتایا کہ حضرت سعید بن المسیب (رح) فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عورت لائی گئی۔ یہ عورت قریش کے بڑے گھروں میں سے ایک گھر کا حوالہ دے کر کئی گھروں میں گئی اور بولی فلاں فلاں گھر والے تم سے یہ یہ چیزیں عاریت پر مانگتے ہیں۔ لوگوں نے اس کو مطلوبہ مال دیدیا۔ پھر یہ لوگ فلاں گھر میں گئے لیکن انھوں نے سرے سے انکار کردیا کہ انھوں نے کوئی چیز عاریت پر نہیں مانگی پھر اس عورت سے بات کی تو اس نے اس بات سے انکار کردیا کہ اس نے کوئی چیز نہیں لی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔
ابن جریج ابن المنکدر سے روایت کرتے ہیں کہ پھر اس عورت کو اسید بن حضیر کی بیوی نے اپنے گھر میں پناہ دی۔ اسید جب گھر آئے تو دیکھا کہ ان کی بیوی نے اس عورت کو گھر ٹھہرا رکھا ہے۔ انھوں نے کہا : میں کپڑے نہیں رکھوں گا جب تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق نہ پوچھ آؤں۔ چنانچہ انھوں نے آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری بیوی نے اس پر ترس کھایا ہے اللہ اس پر ترس کھائے۔ الجامع لعبد الرزاق

13944

13944- عن ابن المسيب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا سرق السارق ما يبلغ ثمن المجن قطعت يده وكان ثمن المجن عشرة دراهم. "عب".
13944 ابن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب چور ڈھال کی قیمت کے برابر قیمت کی کوئی شے چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس وقت ڈھال کی قیمت دس درہم ہوا کرتی تھی۔ الجامع لعبد الرزاق

13945

13945- عن عروة أن سارقا لم يقطع في عهد النبي صلى الله عليه وسلم في أدنى من محجن وحجفة أو ترس وكل واحد منهما يومئذ ذو ثمن وإن السارق لم يكن يقطع في عهد النبي صلى الله عليه وسلم في الشيء التافه. "عب".
13945 عروہ (رح) سے مروی ہے کہ کسی چور کا عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ڈھال یا ترکش سے کم قیمت والی چیز میں ہاتھ نہیں کاٹا گیا۔ اور اس وقت دونوں میں سے ہر ایک بڑی قیمت والی چیز ہوتی تھیں۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہلکی چیزوں میں کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا۔
مصنف عبدالرزاق

13946

13946- عن عروة قال: قطع النبي صلى الله عليه وسلم يد سارق في المحجن والمحجن يومئذ ذو ثمن. "عب".
13946 حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چور کا ہاتھ ڈھال کی چوری میں کاٹا ہے اور ڈھال ان دنوں بڑی قیمت والی چیز ہوتی تھی۔ الجامع لعبد الرزاق

13947

13947- عن محمد بن المنكدر أن النبي صلى الله عليه وسلم قطع سارقا ثم أمر به فحسم، ثم قال: تب إلى الله قال أتوب إلى الله قال: اللهم تب عليه، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن السارق إذا قطعت يده وقعت في النار، فإن عاد تبعها، وإن تاب استشلاها يعني استرجعها. "عب".
13947 محمد بن المنکدر سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چور کا (ہاتھ) کاٹا پھر اس (کے داغنے) کا حکم ارشاد فرمایا ۔ تو اس کو داغ دیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حکم دیا ۔ کہ اللہ کے آگے توبہ کرو۔ اس نے کہا : میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا : اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : چور کا جب ہاتھ کاٹا جاتا ہے تو اس کا کٹا ہوا ہاتھ جہنم میں چلا جاتا ہے۔ پھر اگر وہ دوبارہ چوری کرتا ہے تو دوسرا (پاؤں) بھی اس کے پیچھے چلا جاتا ہے اور اگر وہ توبہ تائب رہتا ہے تو پہلے جانے والے ہاتھ کو بھی واپس کھینچ لیتا ہے۔ الجامع لعبد الرزاق

13948

13948- "مسند ابن مسعود رضي الله عنه" أن النبي صلى الله عليه وسلم قطع في خمسة دراهم. "ش".
13948 (مسند ابن مسعود (رض)) ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانچ دراہم میں (ہاتھ) کاٹا۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13949

13949- "مسند عمر رضي الله عنه" عن أنس قال: أتي عمر بن الخطاب بسارق، فقال: والله ما سرقت قط، فقال له عمر: كذبت ورب عمر ما أخذ الله عبدا عند أول ذنب فقطعه. "ق" قال الحافظ بن حجر في أطرافه رواه ابن وهب في جامعه وهو موقوف حكمه الرفع لنبيه لصحة سنده وروى معناه عن قرة بن عبد الرحمن عن عبد الرحمن عن ابن شهاب عن أبي بكر وهو منقطع انتهى.
13949 (مسند عمر (رض)) حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس ایک چور لایا گیا۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے کبھی چوری نہیں کی۔ حضرت عمر (رض) نے اس کو ارشاد فرمایا : تو جھوٹ بولتا ہے : عمر کے رب کی قسم ! اللہ نے کبھی کسی بندے کو پہلے گناہ پر نہیں پکڑا اور اس کا ہاتھ کٹوادیا۔ السنن للبیہقی
فائدہ : حافظ ابن حجراطراف میں فرماتے ہیں : اس روایت کو ابن وھب نے اپنی جامع میں روایت کیا ہے۔ یہ روایت درحقیقت موقوف ہے اور اس کا مرفوع الی التبی کا حکم اس کی سند کی صحت کی وجہ سے لگایا گیا ہے۔ اور اسی کے ہم معنی روایت قرۃ بن عبدالرحمن عن عبدالرحمن عن ابن شہاب عن ابی بکر وھو منقطع ، انتہی۔

13950

13950- عن سنان بن سلمة قال: كنت في أغيلمة نلقط البلح، فجاءنا عمر فسعى الغلمان فقمت، فقلت: يا أمير المؤمنين، إنه مما ألقت الريح، فقال: أرنيه فإنه لا يخفى علي، فلما أريته إياه، قال: صدقت انطلق، قلت: يا أمير المؤمنين ترى هؤلاء الغلمان الساعة فإنك إذا انصرفت عني انتزعوا ما معي فمشى معي حتى بلغت مأمني. "ابن سعد ش".
13950 سنان بن سلمۃ سے مروی ہے کہ میں بچوں کے ساتھ ڈو کے (ناپختہ کھجور) چن رہا تھا، اتنے میں حضرت عمر (رض) تشریف لے آئے لو گڑ کے بھاگ کھڑے ہوئے اور میں کھڑا رہا۔ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! یہ ہوا لے گری ہوئی کھجوریں ہیں۔ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے دکھا۔ مجھے پتہ چل جائے گا۔ میں نے آپ کو ڈو کے کھجوریں دکھائیں تو آپ نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو۔ پھر آپ چلنے لگے تو میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین ! آپ ان بچوں کو دیکھ رہے تھے ابھی۔ جب آپ مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے تو یہ آکر مجھ سے میری کھجوریں چھین لیں گے ۔ چنانچہ آپ (رض) میرے ساتھ چل پڑے حتیٰ کہ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ ابن سعد ، مصنف ابن ابی شیبہ

13951

13951- عن يحيى بن جعدة أن عمر بن الخطاب رأى رجلا يسرق قدحا، فقال: ألا يستحي هذا أن يأتي بإناء يحمله يوم القيامة على رقبته؟ "عب".
13951 یحییٰ بن جعدہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک شخص کو پیالہ چراتے ہوئے دیکھا ۔ آپ نے فرمایا اس شخص کو اس بات سے شرم نہیں آتی کہ یہ قیامت کے دن اس برتن کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ مصنف عبدالرزاق

13952

13952- عن عبد الله بن أبي عامر قال: انطلقت في ركب فسرقت عيبة لي ومعنا رجل يتهم، فقال أصحابي: يا فلان أدعيبته فقال: ما أخذتها، فرجعت إلى عمر بن الخطاب، فأخبرته، فقال: كم أنتم فعددتهم، فقال: أظنه صاحبها الذي أتهم، فقلت: لقد أردت يا أمير المؤمنين أن آتى به مصفودا فتقول: أتاني به مصفودا بغير بينة قال: لا أكتب لك فيها ولا سأل عنها. قال: فغضب فما كتب لي فيها ولا سأل عنها. "عب".
13952 عبداللہ بن ابی عامر سے مروی ہے کہ میں ایک قافلہ کے ساتھ جارہا تھا ۔ میرا ایک (کپڑے رکھنے کا بیگ) تھیلا چوری ہوگیا۔ ہمارے ساتھ ایک آدمی تہمت زدہ مشہور تھا۔ میرے دوستوں نے اس کو کہا : اے فلانے اس کا تھیلا لوٹا دو ۔ اس نے کہا : میں نے نہیں لیا۔ عبداللہ کہتے ہیں : چنانچہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس واپس آیا اور آپ (رض) کو ساری خبر سنائی۔ آپ نے پوچھا : تم کتنے افراد ہو۔ میں نے ان کو گنوادیا۔ آپ نے فرمایا : میرا بھی گمان یہی ہے کہ جو مہتم ہے اس نے تھیلا اٹھایا ہوگا۔ میں نے عرض کیا : یا امیر المومنین میرا خیال ہے میں اس کو بیڑی ڈال کر آپ کے حضور حاضر کردوں۔ آپ فرمانے لگے : تو بغیر گواہوں کے باندھ کر کیسے لاسکتا ہے میرے پاس (یہ تو جائز نہیں) نہیں ، میں ایسا لکھ کر نہیں دے سکتا اور نہ اس سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ آپ (رض) (میری بات پر) غصہ ہوگئے اور نہ اس کے متعلق مجھے کچھ لکھ کردیا اور نہ اس سے پوچھ تاچھ فرمائی۔ مصنف عبدالرزاق

13953

13953- عن حمران قال أتى عثمان بسارق فقال: أراك جميلا ما مثلك يسرق فهل تقرأ من القرآن شيئا؟ قال: نعم سورة البقرة. "الزبير بن بكار في الموقوفات".
13953 حمران سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے پاس ایک چور کو لایا گیا (آپ (رض)) نے اس کو (دیکھ کر) فرمایا : تو اتنا خوبصورت انسان ہے، تیرے جیسا آدمی تو چوری نہیں کرتا۔ کیا تو کچھ قرآن پڑھا ہوا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، سورة البقرہ۔ الزبیر بن بکار فی الموقرفات

13954

13954- "مسند علي رضي الله عنه" عن ابن عبيد بن الأبرص قال: شهدت عليا أتي برجل اختلس من رجل ثوبا، فقال المختلس: إني كنت أعرفه فلم يقطعه علي. "هق".
13954 (مسند علی (رض)) ابن عبید بن الابرص سے مروی ہے کہ میں حضرت علی (رض) کے پاس حاضر خدمت تھا۔ ایک شخص لایا گیا جس نے کسی کا کپڑا اچک لیا تھا۔ اس اچکنے والے نے عرض کیا میری اس آدمی کے ساتھ جان پہچان ہے (اور میں مذاق کررہا تھا) چنانچہ حضرت علی (رض) نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

13955

13955- عن خلاس أن عليا كان لا يقطع في الدغرة، ويقطع في السرقة المستخفي بها. "ق".
13955 خلاس سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) اچکنے میں نہیں کاٹتے تھے، ہاں خفیہ چوری میں کاٹتے تھے۔ السنن للبیہقی

13956

13956- عن عكرمة بن خالد المخزومي أن اسيد بن ظهير الأنصاري حدثه أنه كان عاملا على اليمامة، وأن مروان كتب إليه أيما رجل سرقت منه سرقة فهو أحق بها حيث ما وجدها، فكتب بذلك مروان إلي فكتبت إلى مروان، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بأنه إذا كان الذي ابتاعها من الذي سرقها غير متهم فخير سيدها فإن شاء أخذ ما سرق منه بثمنه أو أتبع سارقه، ثم قضى بذلك بعد أبو بكر وعمر وعثمان فكتب بذلك مروان إلى معاوية، فكتب معاوية إلى مروان: لست أنت وأسيد بقاضيين علي ولكني قضيت عليكما فيما وليت عليكما فانفذ لما أمرتك فبعث مروان بكتاب معاوية إلي، فقلت: لست أقضي ما وليت بما قال معاوية. "طب والحسن بن سفيان" وسنده صحيح.
13956 عکرمہ بن خالد المخزومی سے مروی ہے کہ اسید بن ظہیر الانصاری (رض) نے ان کو بیان کیا کہ وہ یمامہ کے عامل (گورنر) تھے۔ مردان نے ان کو لکھ کر بھیجا کہ جس شخص کی کوئی شے چوری ہوجائے وہ جہاں بھی اس کو پائے اس کو لینے کا حقدار ہے۔ میں نے مروان کو لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر چور سے خریدنے والا شخص غیر مہتم ہے (شریف اور معزز انسان ہے) تو مالک کو اختیار ہے، چاہے قیمت دے کر اس سے اپنا مال لے لے۔ ورنہ اصل چور کو تلاش کرے۔ پھر اسی کے مطابق ابوبکر (رض) ، عمر (رض) ، عثمان (رض) نے فیصلے کیے۔ یہ بات مروان نے پڑھ کر حضرت امیر معاویہ (رض) کو لکھ بھیجی۔ حضرت معاویہ نے مروان کو لکھا : تو اور اسید مجھ پر فیصلہ تھونپنے والے نہیں ہو۔ میں جو چاہوں تم کو حکم دوں گا ۔ لہٰذا میں نے جیسا تم کو حکم دیا ہے اس کو نافذ کرو۔ پھر مروان نے معاویہ کا خط مجھے بھیج دیا۔ میں نے کہا : میں اپنی حکمرانی میں معاویہ کے کہے پر فیصلے کا نفاذ نہیں کرسکتا (سبحان اللہ) ۔ الکبیر للطبرانی، الحسن بن سفیان
اس روایت کی سند صحیح ہے۔

13957

13957- عن سالم قال: أخذ ابن عمر لصا في داره فأصلت عليه بالسيف فلولا أنا نهينا عنه لضربه به. "عب".
13957 سالم (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اپنے گھر میں چور کو پکڑ لیا آپ (رض) نے اس پر تلوار سونت لی۔ اگر ہم آپ کو نہ روکتے تو آپ اس کا کام تمام کردیتے۔ مصنف عبدالرزاق

13958

13958- عن ابن مسعود قال: أول من قطع في الإسلام أو من المسلمين رجل من الأنصار. "ن".
13958 ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ اسلام میں یا فرمایا مسلمانوں میں سب سے پہلے جس کا (ہاتھ) کاٹا گیا وہ ایک انصاری شخص تھا۔ النسائی

13959

13959- عن عائشة قالت: لعن المختفي والمختفية "عب".
13959 حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کفن چور مرد اور عورت پر لعنت ہے۔ مصنف عبدالرزاق

13960

13960- عن الحسن قال أتي النبي صلى الله عليه وسلم بسارق سرق طعاما فلم يقطعه. "عب".
13960 حضرت حسن سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے طعام چوری کیا تھا آپ نے اس کا (ہاتھ) نہیں کاٹا۔ مصنف عبدالرزاق

13961

13961- "مسند أبي بكر رضي الله عنه" عن الحسن أن أبا بكر قال في الرجل يقول للرجل: يا خبيث يا فاسق، قد قال قولا سيئا وليس فيه عقوبة ولا حد. "ش".
13961 (مسند ابی بکر (رض)) حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایسے آدمی کے متعلق ارشاد فرمایا جو دوسرے کو خبیث ، فاسق کہے کہ اگر اس نے بری بات کہی ہے مگر اس میں سزا ہے اور نہ حد۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13962

13962- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: كان أبو بكر الصديق وعمر بن الخطاب وعثمان بن عفان لا يجلدون العبد في القذف إلا أربعين، ثم رأيتهم يزيدون على ذلك. "ش".
13962 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان بن عفان (رض) اجمعین غلام کو تہمت پر چالیس کوڑے ہی مارتے تھے پھر میں نے ان کو زیادہ بھی مارتے ہوئے دیکھا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13963

13963- عن ابن جريج وابن أبي سبرة قالا: تشاتم رجلان عند أبي بكر، فلم يقل لهما شيئا، وتشاتما عند عمر فأدبهما. "عب ق".
13963 ابن جریج (رح) اور ابن ابی سبرہ (رح) سے مروی ہے کہ دو آدمی حضرت ابوبکر (رض) کے سامنے گالی گلوچ ہوئے مگر آپ نے ان کو کچھ نہیں کہا (یعنی حد تہمت جاری نہیں فرمائی) اور دو آدمی حضرت عمر (رض) کے سامنے گالی گلوچ ہوئے تو آپ نے ان کو تادیب فرمائی (یعنی کچھ سزا دی) ۔
الجامع لعبد الرزاق ، السنن للبیہقی

13964

13964- عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: أدركت أبا بكر وعمر وعثمان ومن بعدهم من الخلفاء لا يضربون المملوك في القذف إلا أربعين. "عب وابن سعد عن سعيد بن المسيب".
13964 عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مروی ہے کہ میں نے ابوبکر، عمر، عثمان (رض) اور ان کے بعد بھی کئی خلفاء کو پایا یہ سب حضرات غلام کو تہمت پر چالیس کوڑے مارتے تھے۔
الجامع لعبد الرزاق، ابن سعد عن سعید بن المسیب

13965

13965- "مسند عمر" عن عبد الله بن عامر بن ربيعة قال: أدركت عمر بن الخطاب وعثمان والخلفاء هلم جرا، فما رأيت أحدا جلد عبدا في فرية أكثر من أربعين. "مالك هق"
13965 (مسند عمر (رض)) عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے مرو ی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان (رض) اور کئی خلفاء کو پایا، سب ہی غلام کو تہمت پر صرف چالیس کوڑے ہی مارتے تھے (جو آزاد آدمی کی سزا کا نصف ہے) ۔ موطا امام مالک، السنن للبیہقی

13966

13966- عن مكحول وعطاء أن عمر وعليا كانا يضربان العبد بقذف الحر أربعين. "ش".
13966 مکحول (رح) اور عطاءؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی (رض) اس غلام کو جو کسی آزاد پر تہمت لگاتا صرف چالیس کوڑے ہی مارتے تھے۔ مصنف ابن ابی شیبہ

13967

13967- عن محمد بن يحيى بن حبان أن عمر رفع إليه غلام ابتهر جارية في شعره، فقال: انظروا في مؤتزره فنظروا فلم يجدوه أنبت الشعر فقال: لو انبت الشعر لجلدته الحد. "عب وأبو عبيد في الغريب وابن المنذر في الأوسط ق".
13967 محمد بن یحییٰ بن حبان سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک لڑکا لایا گیا جس نے اپنے شعر میں کسی باندی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ آپ (رض) نے فرمایا : اس کی ازار (شلوار کھول کر) دیکھو۔ دیکھا تو ابھی اس کے بال نہیں اگے تھے آپ (رض) نے فرمایا اگر اس کے بال اگ آئے ہوتے تو میں اس پر حد تہمت (اسی کوڑے ) جاری کرتا۔
الجامع لعبد الرزاق، ابوعبید فی الغریب، ابن المنذر فی الاوسط، السنن للبیہقی

13968

13968- عن ابن عمر أن عمر كان يضرب في التعريض بالفاحشة الحد. "عب قط ق".
13968 ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کسی فحش بات کی تہمت پر حد جاری کرتے تھے۔
الجامع لعبد الرزاق، الدارقطنی فی السنن، السنن للبیہقی

13969

13969- عن عمرة بنت عبد الرحمن أن رجلين استبا في زمن عمر بن الخطاب قال أحدهما للآخر: ما أبي بزان ولا أمي بزانية، فاستشار في ذلك عمر فقال قائل: مدح أباه وأمه، وقال آخرون: كان لأبيه وأمه مدح سوى هذا نرى أن يجلد الحد، فجلده عمر بن الخطاب ثمانين. "مالك عب هق"
13969 عمرۃ بنت عبدالرحمن سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے زمانے میں دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ کی۔ ایک نے دوسرے کو کہا : میرا باپ زانی ہے اور نہ میری ماں زانیہ۔ حضرت عمر (رض) نے اس کے بارے میں مشاورت فرمائی۔ ایک نے کہا : اس نے تو اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے۔ لیکن دوسرے لوگوں نے کہا : اس کو اپنے ماں باپ کی مدح اور الفاظ کے ساتھ کرنا چاہتے تھی۔ لہٰذا ہمارا خیال ہے اس کو حد لگنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کو اسی کوڑے لگوائے۔ موطا امام مالک، الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13970

13970- عن أبي رجاء العطاردي قال: كان عمر وعثمان يعاقبان على الهجاء. "هق".
13970 ابورجاء العطاردی سے مروی ہے کہ حضرت عمر اور عثمان (رض) ہجو (شعروشاعری میں کسی کی برائی کرنے) پر بھی سزا دیتے تھے۔ السنن للبیہقی

13971

13971- عن أبي بكر أن رجلا قذف رجلا فرفعه إلى عمر بن الخطاب فأراد أن يجلده فقال: انا أقيم البينة فتركه. "ش".
13971 ابوبکر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو تہمت لگائی۔ اس نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہوا۔ حضرت عمر (رض) نے تہمت لگانے والے کو حد جاری کرنا چاہی تو اس نے کہا : میں اس پر گواہ بھی پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ

13972

13972- عن إسماعيل بن أمية قال: قذف رجل رجلا في هجاء أو عرض له فيه، فاستأدى عليه عمر بن الخطاب فقال: لم أعن هذا، فقال الرجل فليسم لك من عنى، فقال عمر: صدق قد أقررت على نفسك بالقبيح فوركه [التوريك في اليمين نية ينويها الحالف غير ما ينويه مستحلفه] على من شئت، فلم يذكر أحدا فجلده الحد. "عب".
13972 اسماعیل بن امیہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے (اپنے شعر میں) دوسرے کی ہجو (برائی) کی۔ یا اس پر کوئی تعریض (چوٹ) کی۔ اس نے اس کے خلاف حضرت عمر (رض) سے مددطلب کی ۔ ہجو کرنے والے نے کہا : میں نے اس کا نام تو لیا نہیں۔ آدمی نے کہا پھر یہ آپ کو بتائے کہ اس کی ہجو میں کون مراد ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہاں یہ تو صحیح ہے۔ تو یہ تو اقرار کرچکا ہے کہ تو نے برائی کی ہے اب کس کی ہے اس کو واضح کر۔ لیکن اس نے کسی کا ذکر نہ کیا تو آپ (رض) نے برائی کرنے والے کو حد جاری فرمادی۔ الجامع لعبد الرزاق

13973

13973- عن ابن جريج قال: بلغني عن عمرو بن العاص، وهو أمير مصر أنه قال لرجل من تجيب يقال له قنبرة: يا منافق، فأتى عمر بن الخطاب فكتب عمر إلى عمرو بن العاص: إن أقام البينة عليك جلدتك تسعين فنشد الناس فاعترف عمرو حين شهد عليه زعموا أن عمر قال لعمرو أكذب نفسك على المنبر، ففعل فأمكن عمر وقنبرة من نفسه فعفى عنه لله عز وجل
13973 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ مجھے حضرت عمرو بن العاص کے متعلق خبر پہنچی جو مصر کے گورنر ہیں، انھوں نے قبیلہ تجیب کے ایک شخص جس کو قنبرۃ کہا جاتا تھا منافق کہہ کر پکارا۔ قنبرۃ گورنر کی شکایت لے کر حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا۔ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو اکٹھا کیا ۔ لوگوں نے عمرو بن العاص کے خلاف گواہی دیدی تو انھوں نے بھی اپنے قول کا اعتراف کرلیا۔ حضرت عمر (رض) نے عمرو (رض) کو حکم دیا کہ آپ منبر پر کھڑے ہو کر اپنی بات کو جھٹلائیں۔ حضرت عمرو (رض) نے تعمیل کی پھر قنبرۃ کو اپنے اوپر اختیار دیا (کہ وہ کوڑے مار کر اپنا بدلہ لے لیں) لیکن قنبرۃ نے ان کو اللہ عزوجل کے لیے معاف کردیا۔

13974

13974- عن الزهري أن عمر بن الخطاب جلد الحد رجلا في أم رجل هلكت في الجاهلية فقذفها. "عب".
13974 زہری (رح) سے مرو ی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک ایسے آدمی کو حد لگائی جس نے ایک آدمی کی ماں پر تہمت لگائی تھی حالانکہ اس کی وہ ماں زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) مرچکی تھی۔ الجامع لعبد الرزاق

13975

13975- عن أبي سلمة أن رجلا عير رجلا بفاحشة عملتها أمه في الجاهلية فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: لا حد عليه. "عب".
13975 ابوسلمۃ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی کو اس کی ماں کے فحش کام پر عار دلائی جو اس کی ماں نے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا۔ آدمی نے حضرت عمر (رض) کو شکایت کی حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس پر کوئی حد نہیں۔ الجامع لعبد الرزاق

13976

13976- عن يحيى بن مغيرة أن مخرمة بن نوفل افترى على أم رجل في الجاهلية فقال: أنا صنعت بأمك في الجاهلية، وأن عمر بن الخطاب بلغه ذلك، فقال: لا يعود إليها أحد بعدك إلا جلدته. "عب".
13976 یحییٰ بن مغیرۃ سے مروی ہے کہ مخرمۃ بن نوفل نے کسی آدمی کی ماں کے متعلق فحش بات کی اور کہا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں تیری ماں کے ساتھ خلوت گزینی کی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے فرمایا : آئندہ اگر اس کے متعلق اس طرح تیرے بعد کسی نے کوئی فحش بات کی تو میں اس کو کوڑے ماروں گا۔ الجامع لعبد الرزاق

13977

13977- عن عبيد الله بن عبد الله أن عمر بن الخطاب كان يجلد من يفترى على نساء أهل المدينة. "هق"
13977 عبید اللہ بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) اس شخص کو کوڑے مارتے تھے جو اہل مدینہ کی عورتوں پر تہمت لگاتا تھا۔ السنن للبیہقی

13978

13978- عن الحسن أن رجلا قال لرجل: ما تأتي امرأتك إلا زنا أو حراما فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: قذفني، فقال: قذفك بأمر يحل لك. "ق".
13978 حسن (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو کہا تو اپنی عورت کے ساتھ زنا اور بدکاری کے سوا اور کچھ کرتا ہی نہیں۔ یہ بات حضرت عمر (رض) کو عرض کی : اور بولا : اس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے (حضرت عمر (رض)) نے ارشاد فرمایا : اس نے تجھ پر ایسی بات کی تہمت لگائی ہے جو تیرے لیے حلال ہے (حرام نہیں ہے ورنہ ہم اس پر حد تہمت جاری کرتے) ۔ السنن للبیہقی

13979

13979- "مسند عثمان" عن معاوية بن قرة وغيره أن رجلا قال لرجل: يا ابن شامة الوذر2 فاستعدي عليه عثمان بن عفان، فقال: إنما عنيت به كذا وكذا، فأمر به عثمان فجلد الحد. "أبو عبيد في الغريب قط".
13979 (مسند عثمان (رض)) معاویۃ بن قرۃ وغیرہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو کہا : یا ابن شامۃ الوذر (اے) شرمگاہوں کو سونگھنے والی یعنی زانیہ کے بیٹے ! آدمی نے حضرت عثمان (رض) کو شکایت کی۔ گالی دینے والے نے کہا : میرا تو یہ یہ مطلب تھا۔ لیکن پھر بھی حضرت عثمان (رض) نے اس کے لیے حکم ارشاد فرما دیا اور اس کو تہمت کی حد (اسی کوڑے) لگائی گئی۔
ابوعبید فی الغریب ، السنن للذارقطنی

13980

13980- عن علي أنه ضرب عبدا افترى على حر أربعين. "عب".
13980 حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ (رض) نے ایک غلام پر (چالیس کوڑوں کی) حد لگائی جس نے ایک حر (آزاد) کو تہمت لگائی تھی۔ الجامع لعبد الرزاق

13981

13981- عن يحيى بن أبي كثير عن عكرمة أن امرأة قذفت وليدتها فقالت لها: يا زانية، فقال عبد الله بن عمر: أرأيتها تزني؟ قالت:لا قال: والذي نفسي بيده لتجلدن لها يوم القيامة ثمانين سوطا بسوط من حديد. "عب".
13981 یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ عکرمۃ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے اپنی باندی کو تہمت لگائی اور بولی : اے زانیہ ! حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اس عورت سے پوچھا : کیا تو نے اس کو زنا کرتے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں تو۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ قیامت کے دن تجھے لوہے کے گرز کے ساتھ اسی کوڑے مارے گی۔
الجامع لعبدالرزاق

13982

13982- "مسند عمر" عن الحسن أن رجلا تزوج امرأة سرا، فكان يختلف إليها فرآه جار له فقذفه بها، فاستعدى عليه عمر بن الخطاب فقال له: بينتك على تزويجها، فقال: يا أمير المؤمنين كان أمر دون ما شهدت عليها أهلها، فدرأ عمر الحد عن قاذفه، وقال: حصنوا فروج هذه النساء وأعلنوا هذا النكاح. "ص ق".
13982 (مسند عمر (رض)) حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی عورت سے خفیہ شادی کرلی۔ پھر وہ اس عورت کے پاس آنے جانے لگا۔ آدمی کے پڑوسی نے اس کو دیکھ لیا۔ اور اس پر تہمت لگائی۔ آدمی نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے مددمانگی۔ حضرت عمر (رض) نے اسی سے پوچھا : کیا تیری شادی پر گواہ ہیں ؟ اس نے کہا : امیر المومنین ! ایسا معاملہ تھا کہ میں اس کے گھر والوں کو مطلع نہ کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے تہمت لگانے والے سے حد معاف کردی اور شادی کرنے والے کے متعلق فرمایا : اپنی عورتوں کی شرمگاہوں کو پاکدامن رکھو اور نکاح علی الاعلان (کھلے عام) کیا کرو۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13983

13983- عن الحسن أن رجلا تزوج سرا فقال له رجل: أراك تدخل على فلانة، إنك لتزني بها، فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: هي امرأتي فلم يجلد عمر القاذف. "ص".
13983 حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے خفیہ شادی کی۔ ایک آدمی نے اس کو کہا : میں تجھے فلانی کے پاس آتا جاتا دیکھتا ہوں، تو اس کے ساتھ بدکاری میں ملوث ہے ؟ اس نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو شکایت پیش کی اور عرض کیا وہ میری بیوی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے اس کے تہمت لگانے والے کو حد نہیں لگائی۔ ایک تو شادی کے خفیہ ہونے کی وجہ سے دوسرے تہمت حلال عورت کے ساتھ لگائی تھی نہ کہ حرام۔ السنن لسعید بن منصور

13984

13984- عن عطاء وإبراهيم أن رجلا كانت عنده يتيمة فخشيت امرأته أن يتزوجها فافتضتها بأصبعها وقالت: لزوجها زنت وقالت الجارية: كذبت وأخبرته الخبر فرفع شأنها إلى علي، فقال للحسن: قل فيها، قال: أن تجلد الحد لقذفها إياها وأن تغرم الصداق لافتضاضها، فقال علي: كان يقال لو علمت الإبل طحينا لطحنت وما طحنت الإبل حينئذ فقضى بذلك علي. "عب".
13984 عطاءؒ (اور ابراہیم (رح)) سے مروی ہے کہ ایک آدمی کے پاس کوئی یتیم لڑکی رہا کرتی تھی۔ آدمی کی بیوی کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں اس کا آدمی اس لڑکی سے شادی نہ کرلے۔ چنانچہ اس نے اپنی انگلی کے ساتھ لڑکی کا پردہ بکارت پھاڑ دیا اور اپنے شوہر کے سامنے اس پر الزام عائد کیا کہ اس نے زنا کیا ہے۔ لڑکی بولی : تو جھوٹ بولتی ہے پھر اس نے اصل بات اس کے شوہر کو بتادی۔ آدمی نے یہ معاملہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کی بارگاہ میں پیش کیا۔ ان کے پاس ان کے فرزند اکبر حضرت حسن (رض) بھی حاضر خدمت تھے۔ آپ (رض) نے اپنے بیٹے حسن سے فرمایا : تم کیا کہتے ہو اس کے فیصلے کے بارے میں ؟ حضرت حسن (رض) نے فرمایا : عورت پر حد (تہمت) لگائی جائے کیونکہ اس نے ایک (معصوم) لڑکی پر تہمت عائد کی اور اس کے ساتھ اس پر لڑکی کے مہر کا تاوان بھی لازم کیا جائے کیونکہ اس نے اس کا پردہ بکارت زائل کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا :
لو علمت الا بل طحینا لطحنت وما طحنت الا بل حینئذ۔
اگر اونٹوں کو پیسنا آتا تو وہ پیستے لیکن اونٹوں نے اس وقت کچھ نہیں پیسا۔
(واللہ اعلم بمرادہ) پھر حضرت علی (رض) نے حسن (رض) کے فیصلے کے ساتھ فیصلہ صادر فرمادیا۔
الجامع لعبد الرزاق

13985

13985- عن عبد الله بن رباح أن عليا قال: لا تقولوا كفر أهل الشام ولكن قولوا: فسقوا وظلموا. "ق".
13985 عبداللہ بن رباح سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : یوں نہ کہو اہل شام نے کفر کیا بلکہ کہو : انھوں نے فسق وفجور کیا اور ظلم کیا۔ السنن للبیہقی

13986

13986- عن علي في الرجل يقول للرجل: يا كافر يا خبيث يا فاسق يا حمار قال ليس عليه حد معلوم، يعزر الوالي بما رأى. "ص ق".
13986 حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ ار ایک آدمی دوسرے کو اے کافر ! اے خبیث ! اے فاسق ! اے گدھے ! (وغیرہ) کہے تو اس پر کوئی مقرر حد نہیں بلکہ حاکم اپنی رائے کے ساتھ جو چاہے سزادیدے۔ السنن لسعید بن منصور، السنن للبیہقی

13987

13987- عن عبد الله بن أبي حدرد أنه ساب رجلا من الأنصار، فقال للأنصاري: يا يهودي، فقال له الأنصاري: يا أعرابي، قال فأتى الأنصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحدثه بالذي قال الأسلمي، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أراك قلت له الأخرى، قال له: يا أعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فليس بأعرابي ولست؟؟ بيهودي. "كر".
13987 عبداللہ بن ابی حدرد (اسلمی) سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک انصاری کو گالی دی، اے یہودی ! ان کو انصاری نے اے اعرابی ! (اے دیہاتی ! ) کہا۔ پھر وہ انصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اور میرے متعلق شکایت کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا : میرا خیال ہے تم نے بھی اس کو دوسرا کچھ کہہ لیا ہے۔ یعنی اعرابی، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حالانکہ وہ اعرابی نہیں ہے اور تم یہودی نہیں ہو۔ ابن عساکر

13988

13988- عن معاوية بن أبي سفيان أنه خطب فقال: أقيموا وجوهكم وصفوفكم في صلاتكم، وتصدقوا ولا يقول الرجل: إني مقل لا شيء لي فإن صدقة المقل أفضل عند الله من صدقة المكثر، إياكم وقذف المحصنات ولا يقولن أحدكم سمعت وبلغني فوالله ليؤخذن به، ولو كان قيل في عهد نوح. "كر".
13988 معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے متعلق مروی ہے کہ انھوں نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : اپنی نمازوں میں اپنے چہروں اور صفوں کو سیدھا رکھو۔ صدقہ خیرات کرو اور کوئی آدمی یوں نہ کہے : میرے پاس تھوڑا مال ہے، کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے۔ بیشک تھوڑے مال والے کا صدقہ اللہ کے نزدیک زیادہ مال والے کے صدقے سے افضل ہے۔ اور کوئی شخص (کسی کے متعلق بات کرتے ہوئے) یوں نہ کہے : میں نے (کسی سے) سنا ہے، مجھے خبر ملی ہے۔ اللہ کی قسم ! اس کو ایسی بات پر پکڑا جائے گا۔ خواہ وہ عہد نوح کے کسی فرد کے متعلق کچھ کہے۔ ابن عساکر

13989

13989- عن ابن جريج قال: سمعت عطاء يقول: كان من مضى يؤتى أحدهم بالسارق فيقول: أسرقت؟ قل: لا، أسرقت؟ قل: لا، علمي أنه سمي أبو بكر وعمر. "عب ش".
13989 ابن جریج (رح) سے مروی ہے کہ میں نے عطاءؒ سے سنا ہے کہ پہلے لوگوں میں کوئی چور لایا جاتا تو اس کو امیر کہتا : کیا تو نے چوری کی ہے ؟ کہہ دے نہیں۔ کیا تو نے چوری کی ہے ؟ بول : نہیں۔ ابن جریج (رح) کہتے ہیں میرا خیال ہے عطاءؒ نے امیر کا نام ابوبکر اور عمر (رض) لیا تھا۔
الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13990

13990- عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان قال: قال أبو بكر الصديق: لو لم أجد للسارق والزاني وشارب الخمر إلا ثوبي لأحببت أن أستره عليه. "عب ش".
13990 محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر چور، زانی اور شرابی پر پردہ ڈالنے کے لیے مجھے اپنے کپڑے کے سوا کوئی کپڑا نہ ملے تو میں اپنا کپڑا اس پر ڈال دوں گا (اور حتیٰ الوسع اس کی پردہ پوشی کروں گا) ۔
الجامع لعبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ

13991

13991- عن الزهري عن زبيد بن الصلت قال: قال أبو بكر الصديق: لو وجدت رجلا على حد من حدود الله لم أحده أنا، ولم أدع له أحدا حتى يكون معي غيري. "الخرائطي في مكارم الأخلاق ق".
13991 عن الزھری عن زبیدہ بن الصلت سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : اگر میں کسی آدمی کو حدود اللہ میں سے کسی حد پر دیکھوں تو میں اس کو حد جاری نہیں کروں گا (کیونکہ اکیلے آدمی کی شہادت پر حد جاری نہیں ہوتی) اور دوسرے کسی کو بھی اس پر مطلع ہونے کے لیے بلاؤں گا نہیں تاکہ وہ میرے ساتھ مل لے (اور دو گواہوں کا نصاب پورا کردے) ۔
الخرائطی فی مکارم الاخلاق، السنن للبیہقی

13992

13992- عن الأشياخ أن المهاجر بن أبي أمية وكان أميرا على اليمامة رفع إليه امرأتان مغنيتان غنت إحداهما بشتم النبي صلى الله عليه وسلم فقطع يدها ونزع ثناياها، وغنت الأخرى بهجاء المسلمين فقطع يدها ونزع ثنيتها، فكتب إليه أبو بكر: بلغني التي فعلت بالمرأة التي تغنت بشتم النبي صلى الله عليه وسلم، فلولا ما سبقتني فيها لأمرتك بقتلها، لأن حد الأنبياء ليس يشبه الحدود فمن تعاطى ذلك من مسلم فهو مرتد، أو معاهد فهو محارب غادر، وأما التي تغنت بهجاء المسلمين فإن كانت ممن يدعي الإسلام فأدب دون المثلۃ وإن كانت ذمية فلعمري لما صفحت عنه من الشرك لأعظم، ولو كنت تقدمت إليك في مثل هذا لبلغت مكروها، وإياك والمثلة في الناس، فإنها مأثم ومنفرة إلا في القصاص. "سيف في الفتوح".
13992 اشیاخ (کئی بزرگوں) سے منقول ہے کہ مہاجرین ابی امیہ جو یمامہ کے امیر تھے ان کے پاس دو گلوکارہ عورتوں کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ ایک نے گانے کے دوران نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب وشتم کی (گالی دی) تھی۔ مہاجر نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور اس کے سامنے کے چار دانت نکلوادئیے۔ اسی طرح دوسری عورت جس نے گانے میں مسلمانوں کی ہجو (برائی) کی تھی۔ مہاجربن ابی امیہ نے اس کا بھی ہاتھ کٹوادیا اور سامنے کے صرف دو دانت نکلوادیئے۔
حضرت ابوبکر (رض) نے مہاجر کو لکھا : مجھے اس عورت کی خبر ملی ہے جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تھی اور تم نے اس کو جو سزا دی اگر مجھے پہلے علم ہوجاتا تو میں تم کو اس عورت کے قتل کرنے کا حکم دیتا۔ کیونکہ انبیاء کی حد۔ ان کو گالی دینے کی سزا عام لوگوں کو گالی دینے کی طرح نہیں عام حدود کی طرح نہیں ہیں۔ اور جو مسلمان ایساکرے وہ مرتد ہے، یا پھر وہ کوئی معاہد (ذمی) ہے یا وہ محاربی غادر (کافر ملک کا کافر، دھوکا باز) ہے۔ اور جس عورت نے مسلمانوں کی برائی کی ہے اگر وہ اسلام کا دعویٰ کرنے والوں میں سے ہے تو اس کو سزا دی جائے لیکن تم نے جو مثلہ کیا ہے (اس کے جسم کا ناس کیا ہے) اس سے کم۔ اگر وہ کافر ذمی ہے تو میری عمر کی قسم ! تم نے اس کے شرک سے تو گزر کیا جو اس سے بڑا گناہ ہے (تو) اس چھوٹے گناہ سے کیوں درگزر نہ کیا۔ اگر مجھے آئندہ ایسی کوئی شکایت ملی جیسی تم نے دوسری عورت کو سزا دی ہے تو میں تمہارے ساتھ برا سلوک کروں گا۔ قصاص کے سوا لوگوں کو مثلہ کرنے سے احتراز کرو کیونکہ وہ گناہ ہے اور نفرت انگیز ہے۔
سیف فی الفتوح

13993

13993- عن يزيد الضبي أن أبا بكر رجم رجلا فلعنه رجل فقال أبو بكر: مه فاستغفر له فقال أبو بكر: مه. "ابن جرير" وقال هذا الخبر غير صحيح لأن ناقله يزيد الضبي وهو غير معروف في أهل النقل والحجة لا تثبت بنقل المجاهيل في الدين.
13993 یزید الضبی سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک آدمی کو رجم (سنگسار) کیا۔ ایک آدمی نے اس پر لعنت کی تو حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو فرمایا : رک جا۔ پھر اس نے لعنت کی بجائے اس کے لیے استغفار کیا تب بھی آپ (رض) نے فرمایا : رک جا۔ ابن جریر
کلام : یہ روایت درست نہیں ہے کیونکہ اس کا ناقل یزیدالضبی ہے جو اہل نقل وحجت میں غیر معروف ہے اور دین کا حکم مجہولوں کی نقل کردہ روایات سے ثابت نہیں ہوتا۔

13994

13994- عن أبي الشعثاء قال: استعمل عمر بن الخطاب شرحبيل بن السمط على مسلحة3 دون المدائن فقام شرحبيل فخطبهم فقال:أيها الناس إنكم في أرض الشراب فيها فاش، والنساء فيها كثير، فمن أصاب منكم حدا فليأتنا، فلنقم عليه الحد، فإنه طهوره فبلغ ذلك عمر فكتب إليه لا أحل لك أن تأمر الناس أن يهتكوا ستر الله الذي سترهم. "عب وهناد كر"
13994 ابوالشعثاء سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے شرحبیل بن السمط کو مسلمۃ دون المدائن (مدائن) کے سرحدی علاقے پر گورنر بنایا۔ شرحبیل نے ان کو خطبہ دیا اور فرمایا :
اے لوگو ! تم شراب والی سرزمین میں ہو جہاں فحاشی اور عورتیں زیادہ ہیں۔ پس جو تم میں سے کسی حد (سزا) کا مرتکب ہوجائے وہ ہمارے پاس آئے ہم اس پر حد جاری کریں گے۔ کیونکہ یہ اس کے لیے باعث طہور (پاکیزگی) ہے۔
یہ بات حضرت عمر (رض) کو پہنچی تو آپ نے فرمایا : میں تیرے لیے یہ بات جائز قرار نہیں دیتا کہ تو لوگوں کو حکم کرے کہ وہ اللہ کے پردہ کو پھاڑیں جو اللہ نے ان پر ڈھانپا ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، ھناد، ابن عساکر

13995

13995- عن القاسم بن محمد ان عمر قيل له في رجل وقع عليه حد وهو مريض إنه مريض، فقال: والله لأن يموت تحت السياط أحب إلي، من أن ألقى الله وقد ضيعت حدا من حدوده فأمر به فضرب. "ابن جرير".
13995 قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ایک شخص پر حد لازم ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) کو اس کے متعلق کہا گیا کہ وہ تو مریض ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! وہ کوڑوں کے نیچے جان دیدے یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملاقات کروں کہ میں نے حدود اللہ میں سے کسی حد کو ضائع کیا ہو۔ چنانچہ آپ نے اس کے لیے حکم دیا اور اس کو کوڑے مارے گئے۔
ابن جریر

13996

13996- عن خليد أن رجلا أتى عليا فقال: إني أصبت حدا فقال علي: سلوه ما هو؟ فلم يخبرهم، فقال علي: اضربوه حتى ينهاكم. "مسدد".
13996 خلید سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور بولا : میں ایک حد کا مرتکب ہوچکا ہوں۔ حضرت علی (رض) نے لوگوں کو فرمایا : تم اس سے پوچھو، وہ حد کس چیز کی ہے ؟ لیکن اس شخص نے لوگوں کو کچھ نہیں بتایا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اس کو مارو حتیٰ کہ یہ خود ہی انکار کردے۔ مسدد

13997

13997- عن علي قال: من عمل سوءا فأقيم عليه الحد فهو كفارة. "عب ق".
13997 حضرت علی (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی برا عمل کیا پھر اس پر حد جاری ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارۃ ہے۔ الجامع لعبد الرزاق، السنن للبیہقی

13998

13998- عن عمر أنه سئل عن حد الأمة فقال: إن الأمة قد ألقت فروة رأسها من وراء الجدار. "عب ش وأبو عبيد في الغريب وابن جرير".
13998 حضرت عمر (رض) سے باندی کی حد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا : باندی نے اپنے سر کی چادر دیوار کے پیچھے پھینک دی ہے۔
الجامع لعبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ ابوعبید فی الغریب، ابن جریر

13999

13999- عن علي قال: إن الله لم ينزل حدا في القرآن فأقيم على صاحبه إلا كان كفارة له كما يقضى الدين بالدين. "ابن جرير".
13999 حضرت علی (رض) سے مروی ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو حد بھی نازل فرمائی ہے اس کا مرتکب پر اجراء اس کے لیے باعث کفارہ ہے جس طرح قرض کے بدلے قرض چکایا جاتا ہے۔
ابن جریر

14000

14000- عن علي قال لما رجم الهمدانية، إن عقوبتها ما أصابها في الدنيا إنها لن تعاقب سوى هذه بذنبها. "ابن جرير".
14000 حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جب آپ نے ہمدانیہ کو رجم کروادیا تو فرمایا : اس کی سزا تو بس یہی تھی جو دنیا میں اس پر گزر چکی ۔ اب اس گناہ کے بدلے اس پر کوئی سزا نہ ہوگی۔ آخرت میں۔ ابن جریر

14001

14001- عن ميسرة بن أبي جميل عن علي أن جارية للنبي صلى الله عليه وسلم زنت فأمرني أن أجلدها فوجدتها في دمها لم تطهر، فقلت: يا رسول الله إنها في دمها لم تطهر قال: فإذا طهرت فأقم عليها الحد وقال: أقيموا الحدود على ما ملكت أيمانكم. "ابن جرير ق".
14001 میسرۃ بن ابی جمیل، حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک باندی نے بدکاری کرلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو کوڑے ماروں۔ میں نے دیکھا تو ابھی اس کا نفاس کا خون رکا نہیں تھا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ اپنے خون میں ہے ابھی پاک نہیں ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب وہ پاک ہوجائے تو اس پر حد قائم کردینا نیز ارشاد فرمایا : اپنے غلام باندیوں پر بھی حدود جاری کیا کرو۔ ابن جریر ، السنن للبیہقی

14002

14002- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن عليا أقام على رجل حدا فجعل الناس يسبونه ويلعنونه، فقال علي: أما عن ذنبه هذا فلا يسأل. "ق".
14002 عبدالرحمن بن ابی لیلی سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک آدمی پر حد قائم کی۔ لوگ اس کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے لگے۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : اس کے گناہ کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ السنن للبیہقی

14003

14003- عن عبد الله بن معقل أن عليا ضرب رجلا فزاده الجلاد سوطين فأقاده عنه علي. "ق".
14003 عبداللہ بن معقل سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک شخص کو حد جاری فرمائی تو جلاد نے دو کوڑے زائد کردیئے۔ پھر حضرت علی (رض) نے اس کو جلاد سے بدلا دلوایا ۔ السنن للبیہقی

14004

14004- عن خزيمة بن معمر الأنصاري قال: رجمت امرأة في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: هو كفارة ذنوبها، وتحشر على ما سوى ذلك. "أبو نعيم".
14004 خزیمہ بن معمرالانصاری سے مروی ہے کہ ایک عورت کو عہد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سنگسار کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور اس ک و اس حالت کے علاوہ (اچھی حالت) پر اٹھایا جائے گا۔ ابونعیم

14005

14005- عن مجاهد قال: إذا أصاب رجل رجلا لا يعلم المصاب من أصابه فاعترف له المصيب فهو كفارة للمصيب. "كر".
14005 عن مجاھد قال : اذا اصاب رجل رجلا لا یعلم المصاب من اصابہ فاعترف لہ المصیب فھو کفارۃ لمصیب۔ ابن عساکر
مجاہد (رح) سے مروی ہے فرمایا : جب کوئی کسی کو مصیبت پہنچائے اور مصیبت زدہ کو معلوم ہو نہ ہو کہ کس نے اس کو مصیبت پہنچائی ہے تو اگر مصیبت پہنچانے والا اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو یہ اس کے لیے باعث کفارہ ہوگا۔ ابن عساکر

14006

14006- عن يحيى بن أبي كثير أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إني أصبت حدا فأقمه علي، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بسوط، فأتي بسوط جديد عليه ثمرته فقال: لا سوط دون هذا، فأتي بسوط مكسور العجز فقال: لا سوط فوق هذا، فأتي بسوط دون السوطين فأمر به فجلد، ثم صعد المنبر، والغضب يعرف في وجهه فقال: أيها الناس، إن الله حرم عليكم الفواحش ما ظهر منها وما بطن فمن أصاب منها شيئا فليستتر بستر الله فإنه من يرفع إلينا من ذلك شيئا نقمه عليه. "عب".
14006 یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں حد کا مرتکب ہوچکا ہوں۔ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوڑہ منگوایا۔ چنانچہ ایک نیا کوڑا لایا گیا جس کا پھل بھی (نیا) تھا۔ آپ نے فرمایا : اس سے ہلکا لے کر آؤ ۔ پھر ایک کوڑا جس کا پھل بالکل ٹوٹا پھوٹا تھا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا نہیں : اس سے کچھ اوپر کوڑا لاؤ۔ چنانچہ ایک درمیانہ کوڑا لایا گیا۔ پھر آپ نے حکم دیا اور اس کے ساتھ اس کو مارا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
اے لوگو ! اللہ نے تم پر فحش کاموں کو حرام کردیا ہے، کھلے ہوں یا پوشیدہ ، پس جو ان میں سے کسی کا مرتکب ہوجائے وہ اللہ کے پردے کو اسی پر پڑا رہنے دے کیونکہ جو اس پردہ کو اٹھا کر ہمارے پاس آیا ہم اس پر حد قائم کردیں گے۔ مصنف عبدالرزاق

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔