hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

45. غزوات کا بیان

كنز العمال

29867

29867- "ما أنتم بأسمع لما أقول منهم غير أنهم لا يستطيعون أن يردوا علي شيئا". "حم، ق، ن" عن أنس "
29867 ۔۔۔ میری بات کو تم ان لوگوں سے زیادہ نہیں سننے والے ہاں البتہ اتنی بات ہے کہ یہ میری بات کا جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ (رواہ احمد بن حنبل ومسلم والنسائی عن انس (رض))

29868

29868- "من لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله". "خ" عن جابر
29868 ۔۔۔ کون کعب بن اشرف کی خبر لے گا چونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچائی ہے۔ (رواہ البخاری عن جابر)

29869

29869- "إني لست بأغنى من الأجر منكما ولا أنتما بأقوى على المشي مني". "ك" عن ابن مسعود.
29869 ۔۔۔ میں تم سے زیادہ اجر وثواب کا محتاج ہوں اور تم مجھ سے زیادہ چلنے کی قوت نہیں رکھتے ۔ (رواہ الحاکم عن ابن مسعود (رض))

29870

29870- "ما على وجه الأرض قوم يعرفون الله غيركم، فأين الزاهدون في الدنيا الراغبون في الآخرة؟ ". ابن عساكر - عن ابن مسعود قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر من قبة حمراء فقال - فذكره.
29870 ۔۔۔ سطح زمین پر تمہارے سوا کوئی قوم نہیں جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتی ہو کہاں ہیں دنیا سے بےرغبتی کرنے والے اور آخرت کی طرف رغبت کرنے والے ۔ (رواہ ابن عساکر عن ابن مسعود (رض)) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے دن سرخ خیمے سے باہر تشریف لائے یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29871

29871- "إن الله قتل أبا جهل الحمد لله الذي صدق وعده ونصر دينه". "عق" عن ابن مسعود.
29871 ۔۔۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابوجہل کو قتل کیا ہے تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے دین کی مدد کی ۔ (رواہ العقیلی عن ابن مسعود (رض)) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے ضعیف الجامع 1621 ۔

29872

29872- "الحمد لله الذي أخذاك يا عدو الله هذا كان فرعون هذه الأمة - يعني أبا جهل". "حم" عن ابن مسعود.
29872 ۔۔۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے تجھے رسوا کیا اے اللہ کے دشمن یہ (ابوجہل) اس امت کا فرعون ہے۔ (رواہ احمد بن حنبل عن ابن مسعود (رض))

29873

29873- " جزاكم الله عني من عصابة شرا، لقد خونتموني أمينا، وكذبتموني صادقا ثم التفت إلى أبي جهل فقال: إن هذا أعتى على الله من فرعون، إن فرعون لما أيقن بالهلكة وحد الله وأن هذا لما أيقن بالموت دعا باللات والعزى". "طب" والخطيب وابن عساكر قال: وقف النبي صلى الله عليه وسلم على قتلى بدر قال - فذكره.
29873 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ میری طرف سے اس جماعت کو برا بدلہ دے تم نے مجھے خائن سمجھا حالانکہ میں امانتدار ہوں تم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ میں سچا ہوں پھر ابوجہل کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اس نے فرعون سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی چونکہ فرعون کو جب ہلاکت کا یقین ہوا اس نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرلیا تھا جبکہ اس (ملعون) کو جب موت کو یقین ہوا اس وقت بھی اس نے لات اور عزی کو پکارا ۔ (رواہ الطبرانی والخطیب وابن عساکر) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے مقتولین پر کھڑے ہو کر یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29874

29874- "يا أبا جهل يا عتبة يا شيبة يا أمية هل وجدتم ما وعد ربكم حقا، فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا فقال عمر: يا رسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح فيها؟ فقال: والذي نفسي بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم غير أنهم لا يستطيعون جوابا". "حم، م" عن أنس.
29874 ۔۔۔ اے ابو جہل ! اے عتبہ ! اے شیبہ ! اے امیہ ! کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ؟ میں نے تو اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بےروح جسموں سے کلام کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میری بات کو ان (مردوں) سے زیادہ نہیں سنتے (بلکہ وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں) البتہ اتنی بات ہے کہ وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ (رواہ احمد بن حنبل ومسلم عن انس (رض))

29875

29875- "يا أهل القليب هل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ قالوا: يا رسول الله وهل يسمعون؟ قال: يسمعون كما تسمعون ولكن لا يجيبون". "طب" عن عبد الله بن سيدان عن أبيه.
29875 ۔۔۔ اے اہل قلیب کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا ! کیا یہ سن سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ اسی طرح سنتے ہیں جس طرح تم سنتے ہو ۔ لیکن یہ جواب نہیں دیتے ۔ (وراہ الطبرانی عن عبداللہ بن سیدان عن ابیہ)

29876

29876- " يا أهل القليب هل وجدتم ما وعد ربكم حقا فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا، قالوا: يا رسول الله هل يسمعون؟ قال: ما أنتم بأسمع لما أقول منهم ولكن اليوم لا يجيبون". "طب" عن عبد الله بن سيدان عن أبيه.
29876 ۔۔۔ اے اہل قلیب کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے میں نے تو اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا یہ سنتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم ان سے زیادہ نہیں سنتے (بلکہ وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں) البتہ وہ جواب نہیں دے پاتے ۔ (رواہ الطبرانی عن عبداللہ بن سیدان عن ابیہ)

29877

29877- "يا أهل القليب هل وجدتم ما وعد ربكم حقا فإني وجدت ما وعدني ربي حقا؟ قالوا: يا رسول الله تكلم أقواما موتى؟ قال: لقد علموا أن ما وعدهم ربهم حقا". "ك" عن عائشة.
29877 ۔۔۔ اے اہل قلیب کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے میں نے تو اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ مردوں سے کلام کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے ان سے وعدہ سچا کیا ہے۔ (رواہ الحاکم عن عائشۃ صدیقۃ (رض))

29878

29878- "إن لله عز وجل ليلين قلوب رجال فيه حتى تكون ألين من اللبن، وإن الله ليشدد قلوب رجال فيه حتى تكون أشد من الحجارة وإن مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم قال: {فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} ومثلك يا أبا بكر كمثل عيسى قال: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} وإن مثلك يا عمر كمثل نوح قال: {رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّاراً} وإن مثلك يا عمر كمثل موسى قال: {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِيمَ} أنتم عالة فلا ينفلتن أحد منهم إلا بفداء أو ضربة عنق إلا سهيل بن بيضاء. "حم، هق" عن ابن مسعود.
29878 ۔۔۔ اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سے لوگوں کے دلوں کو نرم کرتا ہے حتی کہ انھیں دودھ سے بھی زیادہ نرم کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعض مردوں کے دلوں کو سخت کرتا ہے حتی کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اے ابوبکر تمہاری مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسی ہے چنانچہ انھوں نے کہا تھا (اے میرے رب) جو میری اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو بلاشبہ تو بخشنے والا اور مہربان ہے اے ابوبکر تمہاری مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہے انھوں نے کہا تھا اگر تو (انھیں نافرمانوں کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کی مغفرت کر دے تو غالب ہے حکمت والا ہے اے عمر ! تمہاری مثال حضرت نوح (علیہ السلام) جیسی ہے چنانچہ انھوں نے کہا تھا : اے میرے رب زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑا اے عمر تمہاری مثال موسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہے چنانچہ انھوں نے کہا تھا اے ہمارے رب ان اموال کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں پر سختی کر اور وہ ایمان سے بہرہ مند نہ ہوں یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں ۔ تم مفلس لوگ ہو ان میں سے کوئی بھی نہیں بچ پائے گا الا یہ کہ فدیہ دے یا گردن مارے سوائے سہل بن بیضاء کے ۔ (رواہ احمد بن حنبل والبیہقی فی السنن عن ابن مسعود (رض))

29879

29879- إن مثل هؤلاء كمثل أخوة لهم كانوا من قبلهم {وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّاراً} وقال موسى: {رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ} وقال إبراهيم: {فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} وقال عيسى: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} وإنكم قوم بكم عيلة فلا ينفلتن أحد إلا بفداء أو ضربة عنق. "عق، ك" عن ابن مسعود.
29879 ۔۔۔ ان کی مثال ان بھائیوں کی سی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں چنانچہ نوح (علیہ السلام) نے کہا تھا اے میرے رب زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : اے ہمارے رب ان (کافروں) کے اموال تباہ کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو بخشنے والا ہے اور مہربان ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : اگر تو انھیں عذاب دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کی مغفرت کر دے تو تو غالب ہے اور حکمت والا ہے تم عیالدار لوگ ہو تم میں سے کوئی شخص بھی چھوٹ نہیں پائے گا مگر فدیہ دے کر یا گردن مار کر ۔ (وراہ العقیلی والحاکم عن ابن مسعود (رض))

29880

29880- "لا تبكيه ما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفعتموه". "ن" عن جابر.
29880 ۔۔۔ اس پر مت رو فرشتے اسے لگاتار اپنے پروں تلے کئے ہوئے ہیں حتی کہ اسے تم نے اٹھا لیا ۔ (رواہ النسائی عن جابر)

29881

29881- "ألا شققت عن قلبه حتى تعلم أنه من أجل ذلك قالها أم لا، من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة؟ "حم، ق، د ن" عن أسامة
29881 ۔۔۔ کیا تم نے اس کا دل چیر کر نہ دیکھا حتی کہ تمہیں علم ہوجاتا کہ اس نے کلمہ توحید کا اقرار اس وجہ سے کیا ہے یا کسی اور وجہ سے ۔ قیامت کے دن تمہارے سامنے کون کلمہ توحید پڑھے گا ؟ ۔ (رواہ احمد بن حنبل والبیہقی وابو داؤد والنسائی والبخاری ومسلم عن اسامۃ (رض))

29882

29882- " يا أسامة كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة". "م" عن جندب؛ الطيالسي والبزار - عن أسامة بن زيد.
29882 ۔۔۔ اے اسامہ ! قیامت کے دن جب آؤ گے کلمہ توحید کا کیا کرو گے ۔ (رواہ مسلم عن جندب الطیالسی والبزار عن اسامۃ بن زید)

29883

29883- "اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون". "حب، عن سهل بن سعد.
29883 ۔۔۔ یا اللہ میری قوم کی مغفرت فرما چونکہ وہ نہیں جانتے ۔ (رواہ ابن حبان والطبرانی والبیہقی فی شعب الایمان و سعید بن المنصور عن سھل بن سعید)

29884

29884- " اشتد غضب الله على قوم فعلوا بنبيه يشير إلى رباعيته خ، م عن أبي هريرة.
29884 ۔۔۔ اس قوم پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا غصہ شدت اختیار کرلیتا ہ جس قوم نے اپنے نبی کے دانت شہید کیے ہوں ۔ (رواہ البخاری ومسلم عن ابو ہریرہ (رض) ، ) (

29885

29885- اشتد غضب الله على رجل يقتله رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبيله". "حم، م، خ" عن أبي هريرة.
29885 ۔۔۔ اس شخص پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا غصہ شدید ہوتا ہے جسے اللہ کا رسول اللہ کی راہ میں قتل کر دے ۔ (رواہ احمد بن حنبل ومسلم والبخاری ، عن ابو ہریرہ (رض))

29886

29886- "اشتد غضب الله على من قتله رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى من دمى وجه رسول الله". "طب" عن ابن عباس.
29886 ۔۔۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا غضب اس شخص پر فزوں تر ہوجاتا جسے اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردے اور جو اللہ کے رسول کا چہرہ زخمی کر دے ۔ (رواہ الطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

29887

29887- "اشتد غضب الله على رجل قتله رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشتد غضب الله على رجل يسمى ملك الأملاك لا ملك إلا الله". "ك" عن أبي هريرة.
29887 ۔۔۔ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کا غصہ بڑھ جاتا ہے جسے اللہ کا رسول قتل کر دے اور اس شخص پر بھی اللہ کا غصہ بڑھ جاتا ہے جس کا نام ” ملک الاملاک “ رکھا گیا ہو جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں ۔ (رواہ الحاکم ، عن ابو ہریرہ (رض))

29888

29888- "اشتد غضب الله على قوم كلموا وجه رسول الله". "طب" عن سهل بن سعد.
29888 ۔۔۔ اس قوم پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا غصہ فزوں تر ہوجاتا ہ جو قوم اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول کا چہرہ زخمی کر دے ۔ (رواہ الطبرانی عن سھل بن سعد)

29889

29889- "أشهد على هؤلاء ما من مجروح جرح في الله إلا بعثه الله عز وجل يوم القيامة وجرحه يدمى اللون لون الدم والريح ريح مسك، انظروا أكثرهم جمعا للقرآن فقدموه أمامهم في القبر". "حم، طب، ص" عن عبد الله بن ثعلبة بن صعير قال: لما أشرف رسول الله صلى الله عليه وسلم على قتلى أحد قال فذكره.
29889 ۔۔۔ میں ان لوگوں (جو احد میں شہید ہوئے) پر گواہی دیتا ہوں جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخم آیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ٹھائیں ے جبکہ اس کے زخم سے خون رس رہا ہوگا وہ خون تازہ خون ہوگا اور زخم سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی ذرا دھان رکھنا ان میں سے جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے قبر میں پہلے اتارا جائے ۔ (رواہ احمد بن حنبل والطبرانی و سعید بن المنصور عن عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر)

29890

29890- "أنا الشهيد على هؤلاء ما من جرح يجرح في الله إلا الله يبعثه يوم القيامة وجرحه يثعب دما، اللون لون الدم، والريح ريح مسك انظروا أكثرهم جمعا للقرآن فاجعلوه أمام صاحبه في القبر". ابن منده وابن عساكر - عن عبد الله بن ثعلبة ابن صعير العذري قال أشرف رسول الله صلى الله عليه وسلم على قتلى أحد قال - فذكره.
29890 ۔۔۔ میں ان (شہداء احد) پر گواہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو زخم بھی آئے اللہ تبارک وتعالیٰ زخمی کو قیامت کے دن اٹھائیں گے جبکہ زخم سے خون پھوٹ رہا ہوگا جو بالکل تازہ ہوگا اور زخم سے مشک کی خوشبو آرہی ہوگی ذرا دیکھو جس کو زیادہ قرآن یاد ہو اسے قبر میں پہلے داخل کرو (رواہ ابن مندہ وابن عساکر عن عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر العذری) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہداء احد کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے اس موقع پر آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29891

29891- "أنا أشهد على هؤلاء القوم في دمائهم فإنه ليس مجروح يجرح في سبيل الله إلا جاء جرحه يوم القيامة يدمى لونه لون الدم وريحه ريح المسك قدموا أكثر القوم قرآنا فاجعلوه في اللحد". "طب، ق" عن كعب بن مالك.
29891 ۔۔۔ میں ان لوگوں پر گواہی دیتا ہوں کہ جو شخص بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں زخمی ہوا قیامت کے دن وہ آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہا ہوں گا اور زخم سے مشک کی خوشبو آتی ہوگی لہٰذا جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے قبر میں پہلے داخل کرو۔ (رواہ الطبرانی والبیہقی عن کعب بن مالک)

29892

29892- "أشهد أن هؤلاء شهداء عند الله يوم القيامة فأتوهم، وزوروهم والذي نفسي بيده لا يسلم عليهم أحد إلى يوم القيامة إلا ردوا عليه". "ك" عن عبيد بن عمير عن أبي هريرة.
29892 ۔۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں شہداء ہوں گے ان کے پاس آؤ اور ان کی زیارت کرو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو شخص بھی ان پر تاقیامت درود وسلام بھیجے گا یہ اس کا جواب دیں گے ۔ (رواہ الحاکم عن عبید بن عمیر ، عن ابو ہریرہ (رض))

29893

29893- "ويحك أوليس الدهر كله غدا". ابن قانع - عن عوف بن سراقة عن أخيه جعال بن سراقة قال: قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متوجه إلى أحد: يا رسول الله قيل لي: إنك تقتل غدا قال - فذكره.
29893 ۔۔۔ تیسرا ناس ہو کیا پورے کا پورا زمانہ کل نہیں ہے جعال بن سراقہ کہتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی طرف جا رہے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کل قتل کیے جائیں گے اس پر آپ نے یہ حدیث فرمائی ۔۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے ضعیف الجامع 6138 ۔

29894

29894- "أشهد أنكم أحياء عند الله فزوروهم وسلموا عليهم والذي نفسي بيده لا يسلم عليهم أحد إلا ردوا عليه إلى يوم القيامة". "طب، حل" عن عبيد بن عمير قال مر النبي صلى الله عليه وسلم على مصعب بن عمير حين رجع من أحد فوقف عليه وعلى أصحابه قال - فذكره.
29894 ۔۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کے ہاں زندہ ہو لہٰذا ان کی زیارت کرو اور انھیں سلام پیش کرو ۔

29895

29895- " وأنا شهيد على هؤلاء زملوهم في ثيابهم ودمائهم". "طب، ق" عن عبد الله بن ثعلبة بن صعير.
29895 ۔۔۔ اب ہم کفار پر چڑھائی کریں گے وہ ہمارے اوپر چڑھائی نہیں کرسکیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث غزوہ احزاب کے موقع پر ارشاد فرمائی ۔ (رواہ ابوداؤد الطیالسی واحمد بن حنبل والبخاری والطبرانی عن سلیمان بن صرد)

29896

29896- "أيها الناس زوروهم وائتوهم وسلموا عليهم، فوالذي نفسي بيده لا يسلم عليهم مسلم إلى يوم القيامة إلا ردوا عليه السلام يعني شهداء أحد". ابن سعد - عن عبيد بن عمير.
29896 ۔۔۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان (کافروں) کے دلوں اور گھروں کو آگ سے بھر دے جنہوں نے ہمیں نماز وسطی سے مشغول رکھا حتی کہ سورج بھی غروب ہوگیا ۔ (رواہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ ان علی ومسلم وابن ماجہ عن ابن مسعود (رض))

29897

29897- "اللهم إن عبدك ونبيك يشهد أن هؤلاء شهداء وأنه من زارهم أو سلم عليهم إلى يوم القيامة ردوا عليه". "ك" عن عبد الله بن أبي فروة.
29897 ۔۔۔ یا اللہ جن لوگوں نے ہمیں نماز وسطی سے مشغول رکھا ان کی گھروں کو آگ سے بھر دے ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ الطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

29898

29898- " إن إخوانكم لقوا المشركين فاقتطعوهم فلم يبق منهم أحد، وإنهم قالوا: ربنا بلغ قومنا أنا قد رضينا ورضي عنا ربنا فأنا رسولهم إليكم إنهم قد رضوا ورضي عنهم ربهم". "ك" عن ابن مسعود
29898 ۔۔۔ یا اللہ ! جن لوگوں نے ہمیں نماز وسطی (عصر) سے مشغول کیا ہے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ احمد بن حنبل ، عن ابن عباس (رض))

29899

29899- "الآن نغزوهم ولا يغزوننا" - قاله حين الأحزاب. "ط، حم، خ، طب" عن سليمان بن صرد.
29899 ۔۔۔ کافروں نے ہمیں نماز وسطی سے مشغول رکھا اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ النسائی والطحاوہ وابن حبان والطبرانی و سعید بن المنصور عن حذیفۃ) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے دن یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔ (رواہ الطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

29900

29900- "ملأ الله قلوبهم وبيوتهم نارا كما شغلونا عن الصلاة الوسطى حتى غابت الشمس". "خ، م، ت، ن، هـ" عن علي؛ "م، هـ" عن ابن مسعود.
29900 ۔۔۔ کافروں نے ہمیں نماز وسطی نماز عصر سے مشغول رکھا اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ الطبرانی عن ام سلمۃ (رض) عبدالرزاق عن علی)

29901

29901- "اللهم من شغلنا عن الصلاة الوسطى املأ بيوتهم نارا، واملأ أجوافهم نارا، واملأ قبورهم نارا". "طب" عن ابن عباس.
29901 ۔۔۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو بھی ان پر درود وسلام بھیجے گا وہ تاقیامت اسے جواب دیتے رہیں گے ۔ (رواہ الطبرانی وابو نعیم فی الحلیۃ عن عبید بن عمیر) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احد سے واپس ہوتے وقت مصعب بن عمیر (رض) اور ان کے ساتھیوں کے پاس آکر کھڑے ہوئے اور یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29902

29902- "اللهم من حبسنا عن الصلاة الوسطى فاملأ بيوتهم وقبورهم نارا. "حم" عن ابن عباس.
29902 ۔۔۔ میں ان شہداء پر گواہ ہوں انھیں انہی کے کپڑوں اور بہتے خون میں کفن دے دو ۔ (رواہ الطبرانی والبخاری ومسلم عن عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر)

29903

29903- "شغلونا عن الصلاة الوسطى ملأ الله بيوتهم وقبورهم نارا". "ن" والطحاوي، "حب، طب، ص" عن حذيفة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يوم الأحزاب - فذكره. "طب" عن ابن عباس.
29903 ۔۔۔ اے لوگو ! شہداء احد کی زیارت کرو ان کے پاس آؤ انھی سلام کرو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو مسلمان بھی تاقیامت ان پر سلام پیش کرے گا یہ اس کا جواب دیتے رہیں گے ۔ (رواہ ابن سعد عن عبید بن عمیر)

29904

29904- "شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر ملأ الله أجوافهم وقبورهم نارا". "طب" عن أم سلمة؛ عبد الرزاق - عن علي.غزوة قريظة والنضير من الإكمال
29904 ۔۔۔ یا اللہ ! تیرا بندہ اور تیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہداء ہیں جو بھی ان کی زیارت کرے گا یا ان پر سلام پیش کرے گا تاقیامت یہ اسے جواب دیں گے ۔ (رواہ الحاکم عن عبداللہ بن ابی فروۃ)

29905

29905 اللهم لا خير إلا خير الآخرة - وفي لفظ : لاعيش إلا عيش الآخرة - فاغفر للانصار والمهاجرة (ط ، حم ، خ ، م ، د ، ت ، ن - عن انس ، حم ، خ ، م - عن سهل بن سعد).
29905 ۔۔۔ تمہارے بھائیوں کی مشرکین کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی ، مشرکین نے انھیں بےدردی سے قتل کردیا اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا میں تمہاری طرف ان کا بھیجا ہوا قاصد ہوں انھوں نے کہا : اے ہمارے رب ہماری قوم کو خبر پہنچا دے کہ ہم راضی ہیں اور ہمارا رب بھی ہم سے راضی ہے میں ان کا قاصد ہوں وہ راضی ہیں اور رب تعالیٰ بھی ان سے راضی ہے۔ (رواہ الحاکم عن ابن مسعود (رض))

29906

28806 اللهم لا خير إلا خير الآخرة فاغفر للانصار والمهاجرة (ك - عن انس).
29906 ۔۔۔ یا اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور ایک روایت میں ہے آخرت کی زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں انصار و مہاجر کی اے اللہ مغفرت فرما ۔ (رواہ ابو داؤد الطیالسی واحمد بن حنبل البخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی والنسائی عن انس احمد بن حنبل والبخاری ومسلم عن سھل بن سعد) اللہم لا خیر الا خیر الاخرہ فاغفر لانصار والمھاجرۃ “۔ یا اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ۔ (رواہ الحاکم عن انس (رض))

29907

29907- "من أدخل هذا الحصن سهما فقد وجبت له الجنة" - قاله يوم قريظة والنضير. "طب" عن عتبة بن عبد.
29907 ۔۔۔ جس شخص نے اس قلعہ میں ایک تیر بھی داخل کیا اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث غزوہ قریظہ ونضیر کے دن ارشاد فرمائی ۔ (رواہ الطبرانی عن عتبۃ بن عبد)

29908

29908- "خير فرساننا اليوم أبو قتادة وخير رجالتنا سلمة". "ط، م" والبغوي، "طب، حب" عن ابن الأكوع.
29908 ۔۔۔ ابو قتادہ (رض) ہماری چوٹی کے شہسوار ہیں اور سلمہ (رض) ہمارے پیادوں میں سب سے زیادہ برق رفتار ہیں۔ (رواہ ابو داؤد الطیالسی ومسلم والبغوی والطبرانی وابن حبان عن ابن الاکوع)

29909

29909- "من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيل". "م" عن جابر
29909 ۔۔۔ جو شخص مرار گھاٹی پر چڑھے گا اس کے گناہ اسی طرح جھڑیں گے جس طرح بنی اسرائیل کے گناہ جھڑتے تھے ۔ (رواہ مسلم عن جابر (رض))

29910

29910 إنك كالذي قال الاول : الهلم أبغني حبيبا هو أحب إلي من نفسي (م - عن سلمة بن الاكوع).
29910 ۔۔۔ یقیناً آپ کی مثال ایسی ہے کوئی شخص کہے : یا اللہ مجھے ایسا دوست عطا فرما جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ (رواہ مسلم عن سلمۃ بن الاکوع)

29911

29911- "الله أكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين". "حم، خ، م، ت، ن" عن أنس؛ "حم" عن أنس عن أبي طلحة.
29911 ۔۔۔ اللہ اکبر خیبر ویران ہوگیا ۔ جب ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں تو ڈر سنائے ہوؤں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ (رواہ احمد بن حنبل والبخاری ومسلم الترمذی والنسائی عن انس (رض) واحمد بن حنبل عن انس (رض) عن ابی طلحۃ)

29912

29912- "الله أكبر خربت خيبر الله أكبر فتحت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين". "طب" عن أنس.
29912 ۔۔۔ اللہ اکبر خیبر ویران ہوگیا جب ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں تو ڈر سنائے ہوؤں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ (رواہ الطبرانی عن انس (رض))

29913

29913- "كيف بك إذا خرجت من خيبر يعدو بك قلوصك3 ليلة بعد ليلة" - قاله لابن أبي الحقيق. "خ" عن عمر.
29913 ۔۔۔ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکل بھاگو گے اونٹنی تمہیں لے کر راتوں رات بھاگی ہوگی ۔ (رواہ البخاری عن عمر (رض))

29914

29914- "هل أنتم تاركون لي أمرائي؟ إنما مثلكم ومثلهم كمثل رجل استرعي إبلا أو غنما فرعاها ثم تحين سقيها فأوردها حوضا فشرعت فيه فشربت صفوه وتركت كدره". "م" عن عوف بن مالك
29914 ۔۔۔ کیا تم میرے لیے میرے امراء کو چھوڑ دوگے ؟ تمہاری مثال اور ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس سے اونٹ یا بکریاں چروانے کا کام لیا جائے وہ بکریاں چروائے پھر جب پانی پلانے کا وقت ہو تو انھیں حوض پر لائے بکریاں حوض سے پانی بھی پینے لگیں صاف صاف پانی پی لیں اور گدلا پانی چھوڑ دیں ۔ (رواہ مسلم عن عوف بن مالک)

29915

29915 هل أنتم تاركون لي أمرائي ؟ لكم صفوة أمرهم وعليهم كدره (د - عنه).
29915 ۔۔۔ کیا تم میرے لیے میرے امراء کو چھوڑنے والے ہو ؟ تمہارے لیے ان کے معاملہ کا صاف و شفاف حصہ ہے اور ان کے لیے گندہ ۔ (رواہ ابو داؤد عن عوف بن مالک (رض)) الاکمال :

29916

29916 أخذ الراية زيد بن حارثة فقاتل بها حتى قتل شهيدا ، ثم أخذها جعفر فقاتل بها حتى قتل شهيدا ، ثم أخذها عبد الله بن رواحة فقاتل بها حتى قتل شهيدا ، لقد رفعوا لي في الجنة فيما يرى النائم على سرر من ذهب فرأيت في سرير عبد الله بن رواحة ازو رارا عن سرير صاحبيه فقلت : بم هذا ؟ فقيل لي : مضيا وتردد عبد الله بن رواحة بعض التردد ومضى (طب - عن رجل من الصحابة من بني مرة بن عوف).
29916 ۔۔۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) نے غزوہ موتہ میں اسلام کا جھنڈا تھاما اور داد شجاعت لیتے رہے حتی کہ شہید ہوگئے پھر جعفر (رض) نے جھنڈا لے لیا اور وہ بھی دیدہ دلیری سے جھنڈے کا دفاع کرتے رہے حتی کہ وہ بھی شہید ہوئے پھر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے جھنڈا تھام لیا جھنڈے کا دفاع کیا بالآخر وہ بھی شہید ہوگئے مجھے جنت میں ان کا مقام دکھلا دیا گیا ہے چنانچہ خواب میں دیکھا کہ یہ سونے کی مسہریوں پر آرام کر رہے ہیں البتہ عبداللہ بن رواحہ کی مسہری میں میں نے کچھ گنڈیاں دیکھی ہیں میں نے کہا : ایسا کیوں ہے ؟ مجھے بتایا گیا عبداللہ بن رواحہ کچھ تردد کا شکار ہوگئے تھے بالآخر تردد جاتا رہا ۔ (رواہ الطبرانی عن رجل من الصحابۃ من بنی مرۃ بن عوف)

29917

29917 التقى القوم فاقتتلوا قتالا شديدا فقتل زيد بن حارثة وأخذ الراية جعفر ، ثم مكث ما شاء الله أن يمكث ثم قتل جعفر ثم أخذ الراية عبد الله بن رواحة ، ثم مكث ما شاء الله أن يمكث ثم قتل : ثم أخذ الراية خالد بن الوليد ثم قال : الآن حمي الوطيس (ابن عائذ في مغازيه ، كر - عن العطاف بن خالد المخزومي مرسلا).
29917 ۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک جماعت ایک غزوہ پر گئے اور گھمسان کی جگ لڑی زید بن حارثہ (رض) نے پرچم تھام رکھا تھا وہ شہید ہوگئے پرچم حضرت جعفر (رض) نے لے لیا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا انھوں نے پرچم تھامے رکھا پھر وہ بھی شہید ہوگئے پھر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے پرچم تھام لیا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ پرچم کا دفاع کرتے رہے پھر وہ بھی شہید ہوگئے پھر حضرت خالد بن ولید (رض) نے پرچم اٹھا لیا اور کہا : اب جنگ سخت ہوگی ۔ (رواہ ابن غائز فی مغازیہ وابن عساکر عن العطاف عن خالد مخزومی مرسلا)

29918

29918 إن إخوانكم لقوا العدو ، وإن زيدا أخذ الراية فقاتل حتى قتل ثم أخذ الراية بعده جعفر ، فقاتل حتى قتل ، ثم أخذ الراية عبد الله بن رواحة فقاتل حتى قتل ، ثم أخذ الراية سيف من سيوف الله خالد بن الوليد ففتح الله عليه (حم ، طب ، ك ، ض - عن عبد الله بن جعفر).
29918 ۔۔۔ تمہارے بھائیوں کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی ہے زید نے پرچم اٹھا کر جنگ کی حتی کہ شہید ہوگئے پھر اس کے بعد جعفر نے پرچم تھام لیا وہ بھی بےدریغ لڑتا رہا حتی کہ وہ بھی شہید ہوگیا پھر عبداللہ بن رواحہ نے پرچم لے لیا وہ بھی بےجگری سے لڑتا رہا بالآخر وہ بھی شہید ہوگیا پھر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے پرچم تھام لیا اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں فتح نصیب فرمائی ۔ (رواہ احمد بن حنبل والطبرانی الحام الضیاء عن عبداللہ بن جعفر (رض))

29919

29919 ألا أخبركم بجيشكم هذا الغازي ؟ انهم انطلقوا حتى لقوا العدو فأصيب زيد شهيدا فاستغفروا له ، ثم أخذ اللواء جعفر ابن أبي طالب فشد على القوم حتى قتل شهيدا أشهد له بالشهادة فاستغفروا له ، ثم اخذ اللواء عبد الله بن رواحة فأثبت قدمه حتى أصيب شهيدا فاستغفروا له ، ثم أخذ اللواء خالد بن الوليد ولم يكن من الامراء هو آمر نفسه اللهم هم سيف من سيوفك فانصره انفروا فأمدوا إخوانكم ولا يتخلفن أحد (حم والدارمي ، ع ، حب ، ض - عن أبي قتادة).
29919 ۔۔۔ کیا میں تمہیں تمہارے لشکر کے اس غازی کے متعلق خبر نہ دوں ؟ یہ گھروں سے نکل کر چل پڑے تھے ، حتی کہ دشمن کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی چنانچہ زید کو شہید کردیا گیا تم اس کے لیے استغفار کرو پھر جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا لے لیا اس نے دشمن پر ٹوٹ کر حملہ کیا بالآخر وہ بھی شہید کردیا گیا میں اس کی شہادت پر گواہی دیتا ہوں تم اس کے لیے استغفار کرو اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا لے لیا وہ بھی ثابت قدمی سے لڑتا رہا بالاخر وہ بھی شہید ہوگیا اس کے لیے بھی استغفار کرو پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا حالانکہ وہ مقرر کئے ہوئے امراء میں سے نہیں تھا وہ اپنے تئیں امیر بنا ہے یا اللہ ! وہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اس کی مدد کر پھیل جاؤ اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور کوئی بھی پیچھے نہ رہنے پائے ۔ (رواہ احمد بن حنبل والدارمی وابو یعلی وا ابن حبان والنصار عن ابی قتادہ (رض))

29920

29920 على رسلك يا عبد الرحمن أخذ اللواء زيد بن حارثة فقاتل زيد حتى قتل رحم الله زيدا ، ثم أخذ اللواء عبد الله بن رواحة فقاتل فقتل رحم الله عبد الله بن رواحة ، ثم أخذ اللواء خالد ففتح الله تعالى بخالد فخالد سيف من سيوف الله تعالى (الحكيم - عن عبيد الله سمرة).
29920 ۔۔۔ اے عبدالرحمن اپنے وقار میں رہو پرچم زید بن حارثہ (رض) نے اٹھا لیا وہ بےدریغ لڑتے رہے بالآخر شہید ہوگئے اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے پھر عبداللہ بن رواحہ (رض) نے پرچم تھام لیا وہ بھی بےجگری سے لڑتے رہے بالاخر وہ بھی شہید ہوگئے اللہ تعالیٰ عبداللہ بن رواحہ پر رحم فرمائے پھر خالد بن ولید نے پرچم اٹھا لیا اللہ تعالیٰ نے خالد کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائی خالد اللہ تعالیٰ کی تلوار میں سے ایک تلوار ہے۔ (رواہ الحکیم عن عبداللہ بن سمرۃ)

29921

29921- "الآن حمي الوطيس". "حم، م" عن العباس؛ "ك" عن جابر؛ "طب" عن شيبة.
29921 ۔۔۔ اب جنگ سخت ہوگی ۔ (رواہ احمد بن حنبل ومسلم عن العباس الحاکم عن جابر الطبرانی عن شیبۃ)

29922

29922- "منزلنا غدا إن شاء الله بخيف بني كنانة حيث تقاسموا على الكفر". "ق" عن أبي هريرة.
29922 ۔۔۔ انشاء اللہ آئندہ کل ہمارا ٹھکانا بنی کنانہ کا کوہ دامن ہوگا جہاں وہ کفر پر ایک دوسرے سے قسمیں لیتے تھے ۔ (رواہ البخاری ومسلم ، عن ابو ہریرہ (رض))

29923

29923- "نحن نازلون غدا إن شاء الله بخيف بني كنانة حيث قاسمت قريش على الكفر". "هـ" عن أسامة بن زيد.
29923 ۔۔۔ انشاء اللہ کل ہم بنی کنانہ کے کوہ دامن میں اتریں گے جہاں قریش کفر پر ایک دوسرے سے قسمیں لیتے تھے ۔ (رواہ ابن ماجہ عن اسامۃ زید)

29924

29924- "شاهت الوجوه". "م" عن سلمة بن الأكوع.
29924 ۔۔۔ چہرے بدشکل ہوں ۔ (رواہ مسلم عن سلمۃ بن الاکوع)

29925

29925- "شاهت الوجوه" - قاله يوم حنين. "م" عن سلمة بن الأكوع؛ "حم" عن مر برقم 29924 عن أبي عبد الرحمن الفهري - واسمه يزيد بن أسيد - عن عبد بن حميد عن يزيد بن عامر؛ "طب" عن الحارث بن بدل السعدي؛ قال البغوي: وماله غيره، قال: وبلغني أنه لم يسمعه من النبي صلى الله عليه وسلم وإنما رواه عن عمر بن سفيان الثقفي؛ البغوي، "طب" عن شيبة بن عثمان؛ "طب" عن حكيم بن حزام أنه قاله يوم بدر؛ "ك" عن ابن عباس أنه قاله لقريش بمكة
25 299 ۔۔۔ چہرے بدشکل ہوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین کے موقع پر یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔ (رواہ مسلم عن سلمۃ بن الاکوع احمد بن حنبل 99924 نمبر کے تحت حدیث گزر چکی ہے عن ابی عبدالرحمن الفہری واسمہ یزید بن اسید عن عبد بن حمید عن یزید بن عامر الطبرانی عن الحارث بن بدل السعدی ، قال البغوی مالہ غیرہ قال وبلغنی انہ لم یسمعہ من النبی وانما رواہ عن عمر بن سفیان الثقفی لبغوی الطبرانی عن شیبۃ بن عثمان الطبرانی عن حکیم بن حزام انہ قالہ یوم بدر والحاکم ، عن ابن عباس (رض) انہ قال لقریش بمکۃ)

29926

29926- "اسكتي يا أم أيمن فإنك عسراء اللسان". ابن سعد عن أبي الحويرث أن أم أيمن قالت يوم حنين سبت الله أقدامكم فقال النبي صلى الله عليه وسلم فذكره.
29926 ۔۔۔ اے ام ایمن خاموش رہو تمہاری زبان دانی میں لکنت ہے۔ (روال ابن سعد بن ابی الحویرث) کہ ام المین نے غزوہ حنین کے موقع پر کہا : سبت اللہ اقدامکم “۔ (جبکہ سبت بجائے سین کے ثائے معجمہ کے ساتھ ہے) جس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ثابت قدم رکھے اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29927

29927- "منزلنا غدا إن شاء الله بالخيف الأيمن حيث استقسم المشركون". "طب" عن ابن عباس.
29927 ۔۔۔ انشاء اللہ ! کل ہمارے اترنے کی جگہ مقام حنیف کا دایاں کنارہ ہوگا جہاں مشرکین آپس میں قسمیں اٹھاتے تھے ۔ (رواہ الطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

29928

29928- "هلا شققت عن قلبه فنظرت أصادق هو أم كاذب". "ع، طب، ص" عن جندب البجلي.
29928 ۔۔۔ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھا کہ آیا وہ سچا ہے یا جھوٹا ۔ (رواہ ابو یعلی والطبرانی و سعید بن المنصور عن جندب البجلی)

29929

29929- " أحلت لي مكة ساعة من نهار ولم تحل لأحد من بعدي وهي حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لا يعضد شجرها، ولا يختلى خلاها، ولا ينفر صيدها ولا يلتقط لقطتها إلا لمنشد قالوا: إلا الإذخر؟ قال: إلا الإذخر". "طب" عن ابن عباس.
29929 ۔۔۔ مکہ میں میرے لیے دن کے وقت گھڑی بھر کے لیے جنگ حلال کردی گئی میرے بعد کسی کے لیے حلال نہیں ہوگی مکہ اللہ تعالیٰ کی حرمت سے محترم ہوا ہے مکہ کا درخت نہ کاٹا جائے اس کی گھاس نہ کاٹی جائے مکہ کا شکار نہ بھگایا جائے مکہ میں گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے البتہ وہ شخص اٹھاسکتا ہے جو اعلان کرکے اصل مالک تک پہنچا سکتا ہو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : کی اذخر گھاس کاٹی جاسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں صرف اذخر گھاس کاٹی جاسکتی ہے۔ (رواہ الطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

29930

29930- "إن هذا يوم قتال فأفطروا" - قاله يوم الفتح فتح مكة. ابن سعد - عن عبيد بن عمير مرسلا.
29930 ۔۔۔ یہ لڑائی کا دن ہے اپنا روزہ افطار کرلو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن یہ حکم دیا تھا ۔ (رواہ ابن سعد بن عبید بن عمیر مرسلا)

29931

29931- "أقول كما قال أخي يوسف {لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ} "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب - عن أبي هريرة؛ ابن السني في عمل يوم وليلة - عن ابن عمر.
29931 ۔۔۔ میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیہ السلام) نے کہی تھی ” لا تثریب علیکم الیوم “ یعنی آج تمہارے اوپر کوئی باز پرس نہیں اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے اور وہ خوب رحم کرنے والا ہے۔ (وراہ ابن الدنیا فی ذم العضب ، عن ابو ہریرہ (رض) ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ عن ابن عمرو (رض))

29932

29932- "ذهبت العزى فلا عزى بعد اليوم". ابن عساكر - عن قتادة مرسلا.
29932 ۔۔۔ عزی کا زمانہ ختم ہوچکا آج کے بعد عزی نہیں رہے گا ۔ (رواہ ابن عساکر عن قتادۃ (رض) مرسلا)

29933

29933- " أغر على أبنى صباحا ثم حرق. الشافعي، حم، د، هـ"، ابن سعد والبغوي في معجمه عن أسامة بن زيد.
29933 ۔۔۔ اہل ابنی پر غارت ڈال دو صبح صبح جب وہ غفلت میں ہوں پھر بستی کو آگ سے جلا دو ۔ (رواہ الشافعی واحمد بن حنبل وابوداؤد وابن ماجہ ابن سعد والبغوی فی معجمہ عن اسامہ بن زید)

29934

29934- "يا عائشة هذا المنزل لولا كثرة الهوام". البغوي - عن سفيان بن أبي نمر عن أبيه قال مر رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة ومعه عائشة فمر بجانب العقيق قال - فذكره.
29934 ۔۔۔ اے عائشہ یہ جگہ ہے اگر حشرات ارض کی کثرت نہ ہو ۔ (رواہ البغوی عن سفیان بن ابی نمر عن ابیہ) کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ پر تھے آپ کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) بھی تھیں آپ عقیق نامی جگہ سے جب گزرے یہ حدیث ارشاد فرمائی ۔

29935

29935- عن البراء بن عازب أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم غزا تسع عشرة غزوة. "ش".
29935 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انیس (19) غزوات میں حصہ لیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29936

29936- عن أبي إسحاق عن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم غزا سبع عشرة غزوة، قال أبو إسحاق: فسألت زيد بن أرقم كم غزوة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: سبع عشرة. "ش".
29936 ۔۔۔ ابو اسحاق حضرت زید بن ارقم (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سترہ (17) غزوات کیے ابو اسحاق کہتے ہیں : میں نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے پوچھا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کتنے غزوات ہوئے ؟ انھوں نے کہا : سترہ ۔

29937

29937- "مسند أنس" عن أبي يعقوب إسحاق بن عثمان قال: سألت موسى بن أنس كم غزا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ قال: سبعا وعشرين غزوة: ثمان غزوات يغيب فيها الأشهر وتسع عشرة يغيب فيها الأيام، قلت: كم غزا أنس بن مالك؟ قال: ثماني غزوات. "كر".
29937 ۔۔۔ ابو یعقوب اسحاق بن عثمان کہتے ہیں میں نے موسیٰ بن انس سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنے غزوات کئے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : ستائیں غزوات ، آٹھ غزوات میں مہینوں گھر سے غائب رہتے اور انیس غزوات میں کئی کئی دن گھر سے غائب رہتے میں نے پوچھا حضرت انس بن مالک (رض) نے کتنے غزوات میں حصہ لیا ہے جواب دیا آٹھ غزوات میں ۔ (رواہ عساکر)

29938

29938- "مسند الفاروق" عن أنس قال: أخذ عمر يحدثنا عن أهل بدر فقال: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليرينا مصارعهم بالأمس يقول: هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، وهذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، فجعلوا يصرعون عليها، قلت والذي بعثك بالحق ما أخطأوا تيك كانوا يصرعون عليها ثم أمر بهم فطرحوا في بئر فانطلق إليهم يا فلان يا فلان هل وجدتم ما وعدكم الله حقا فإني وجدت ما وعدني الله حقا، قلت: يا رسول الله أتكلم قوما قد جيفوا؟ قال: ما أنتم بأسمع لما أقول منهم ولكن لا يستطيعون أن يجيبوا". "ط، ش، حم، م، ن" وأبو عوانة، "ع" وابن جرير.
29938 ۔۔۔ ” مسند فاروق “ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ ایک دن سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ہمیں اہل بدر کا واقعہ سنانے لگے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بدر کے اگلے دن مشرکین کی قتل گاہیں دکھائیں اور فرمایا : انشاء اللہ کل یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی ، انشاء اللہ کل یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی چنانچہ آپ نے جس جس جگہ کی تعیین کی تھی کل اسی جگہ پر کفار پچھاڑے گئے میں نے عرض کیا : اس ذات کی جس نے آپ کو برحق مبعوث کیا ہے کفار آپ کی بتائی ہوئی پچھاڑ گاہوں سے ذرہ برابر بھی نہیں چوکے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا مقتولین کفار کو ایک کنویں میں پھینک دیا گیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس گئے اور آواز دے کر کہا اے فلاں اے فلاں ! کیا تم نے رب تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا میں نے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسے لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو مردہ لاشیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم ان سے زیادہ میری بات کو نہیں سنتے (یعنی وہ سنتے ہیں) البتہ وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ (رواہ ابو داؤد الطیالسی وابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل ومسلم والنسائی وابو عوانۃ وابو یعلی وابن جریر)

29939

29939- عن ابن عباس قال: حدثني عمر بن الخطاب قال: لما كان يوم بدر نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى أصحابه وهم ثلثمائة ونيف ونظر إلى المشركين فإذا هم ألف وزيادة فاستقبل النبي صلى الله عليه وسلم القبلة ومد يديه وعليه رداؤه وإزاره ثم قال: اللهم أنجز ما وعدتني اللهم أنجز ما وعدتني، اللهم إنك إن تهلك هذه العصابة من الإسلام فلا تعبد في الأرض أبدا. فما زال يستغيث ربه ويدعوه حتى سقط رداؤه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فرداه، ثم التزمه من ورائه ثم قال: يا نبي الله كفاك مناشدتك لربك فإنه سينجز لك ما وعدك وأنزل الله تعالى عند ذلك {إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ} فلما كان يومئذ والتقوا هزم الله المشركين وقتل منهم سبعون رجلا وأسر منهم سبعون رجلا، فاستشار رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا بكر وعليا وعمر فقال أبو بكر: يا نبي الله هؤلاء بنو العم والعشيرة والإخوان وإني أرى أن تأخذ منهم الفدية فيكون ما أخذتم منهم قوة لنا على الكفار وعسى الله أن يهديهم فيكونوا لنا عضدا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ترى يا ابن الخطاب؟ قلت: والله ما أرى ما رأى أبو بكر، ولكن أرى أن تمكنني من فلان قريب لعمر فأضرب عنقه، وتمكن عليا من عقيل فيضرب عنقه وتمكن حمزة من فلان أخيه فيضرب عنقه حتى يعلم الله أنه ليست في قلوبنا مودة للمشركين هؤلاء صناديدهم وأئمتهم وقادتهم، فهوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال أبو بكر ولم يهو ما قلت، فأخذ منهم الفداء، فلما كان من الغد غدوت على النبي صلى الله عليه وسلم فإذا هو قاعد وأبو بكر وهما يبكيان قلت: يا رسول الله أخبرني ما يبكيك أنت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت وإن لم أجد بكاء تباكيت لبكائكما. فقال النبي صلى الله عليه وسلم للذي عرض علي أصحابك من الفداء، لقد عرض علي عذابكم أدنى من هذه الشجرة قريبة فأنزل الله تعالى {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ} {لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} من الفداء ثم أحل لهم الغنائم، فلما كان يوم أحد من العام المقبل عوقبوا بما صنعوا يوم بدر من أخذهم الفداء فقتل منهم سبعون وفر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكسرت رباعيته، وهشمت البيضة على رأسه، وسال الدم على وجهه وأنزل الله تعالى {أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} بأخذكم الفداء. "ش، حم، م، د، ت" وأبو عوانة وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم، "حب" وأبو الشيخ وابن مردويه وأبو نعيم والبيهقي معا في الدلائل.
29939 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ مجھے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بدر کا واقعہ سنایا اور کہا بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر نظر دوڑائی ان کی تعداد تین سو سے کچھ زیادہ تھی جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کو ایک نظر دیکھا ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی فریقین میں اتنا تفاوت دیکھ کر آپ قبلہ رہو ہو کر بیٹھ گئے آپ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھالیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اوپر چادر اوڑھ رکھی تھی اور تہبند باندھی ہوئی تھی آپ نے دعا کی اور کہا : یا اللہ اپنا وعدہ پورا فرمایا اللہ ! اپنا وعدہ پورا فرمایا اللہ ! اگر تو نے اسلام کی نام لیوا اس مٹھی بھر جماعت کو ہلاک کردیا زمین پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تیری عبادت بند ہوجائے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر رب تعالیٰ سے فریاد اور دعا کرتے رہے حتی کہ محویت میں آپ کی چادر گرگئی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آگے بڑھ کر چادر اٹھائی اور آپ پر اوڑھ دی پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور عرض کیا : یا نبی اللہ ! رب تعالیٰ سے آپ کا واسطہ کافی ہوچکا اللہ تعالیٰ آپ کے وعدہ کو پورا فرمائے گا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت)” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین “۔ ترجمہ : ۔۔۔ جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی اور تمہاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ۔ چنانچہ جب میدان کارزار گرم ہوا مشرکین شکست خوردہ ہوئے ستر (70) مشرکین مارے گئے اور ستر (70) قیدی ہوئے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر ، عمر اور علی (رض) سے بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ لیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : اے اللہ کے نبی ! یہ قیدی چچا کے بیٹے ہیں رشتہ دار ہیں اور بھائی ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے فدیہ لے کر انھیں رہا کردیں اس سے ہماری (معاشی) قوت مضبوط ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت عطا فرما دے اور یہ ہمارے دست وبازو بن جائیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بن خطاب ! تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا : بخدا ! میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر (رض) کی رائے ہے میری رائے کچھ اس طرح ہے کہ آپ میرے فلاں قریبی رشتہ دار کو میرے حوالے کریں تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں عقیل کو علی کے حوالے کردیں وہ اس کی گردن اڑا دے اور فلاں شخص کو حمزہ کے حوالے کردیں وہ اس کا بھائی ہے اور وہ اس کی گردن اڑا دے تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں زرہ برابر بھی مشرکین کی محبت نہیں بلاشبہ یہ قیدی مشرکین کے روساء ہیں ان کے پیشوا ہیں اور ان کے قائدین ہیں تاہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی رائے کی طرف مائل ہوگئے اور میری رائے کی طرف توجہ نہ دی چنانچہ مشرکین سے فدیہ لے کر انھیں چھوڑ دیا دوسرے دن علی الصباح میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی ہیں اور وہ دونوں رو رہے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے بھی خبر دیں آپ اور آپ کا رفیق کیوں رو رہے ہیں ؟ اگر کوئی ایسی بات ہے تو میں بھی رؤوں اگر مجھے رونا نہ آئے کم از کم رونے کی صورت تو بنا لوں گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیدیوں نے جو فدیہ پیش کیا ہے وہ فدیہ کیا ہے وہ تو عذاب ہے جو اس درخت سے بھی قریب دکھائی دیتا ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت)” ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض لولا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم “۔ کسی نبی کے اختیار میں نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہو یہاں تک کہ زمین پر کثرت سے خون نہ بہا دے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا نوشتہ پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو لیے ہوئے ہیں اگلے سال مسلمانوں کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑی چنانچہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھاگ گئے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دانت مبارک شہید ہوئے سر مبارک میں خود کے دندانے کھب گئے جس سے آپ کے چہرے پر خون بہ پڑا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت)” اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم ان اللہ علی کل شیء قدیر “۔ کیا جب تمہیں مصیبت پیش آئی جبکہ تم دوگنی مصیبت پہنچا چکے ہو تم کہتے ہو یہ مصیبت کہاں سے آگئی کہہ دیجئے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ، واحمد بن حنبل ومسلم وابو داؤد والترمذی وابو عوانۃ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن حبان وابو الشیخ وابن مردویہ وابو نعیم والبیہقی معافی الدلائل)

29940

29940- عن علي أنه سئل عن موقف النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر قال: كان أشدنا يوم بدر من حاذى بركبتيه رسول الله صلى الله عليه وسلم "طس".
29940 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) بدرد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ٹھہرنے کی جگہ کے متعلق سوال کیا گیا تو سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ سخت حملہ کرنے والے تھے ۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)

29941

29941- عن علي قال لما قدمنا المدينة أصبنا من ثمارها فاجتويناها وأصابنا بها وعك وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتخبر عن بدر، فلما بلغنا أن المشركين قد أقبلوا سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر وبدر بئر فسبقنا المشركين إليها فوجدنا فيها رجلين منهم رجل من قريش ومولى لعقبة بن أبي معيط، فأما القرشي فانفلت وأما مولى عقبة فأخذناه فجعلنا نقول له: كم القوم؟ فيقول: هم والله كثير عددهم شديد بأسهم، فجعل المسلمون إذا قال ذلك ضربوه حتى انتهوا به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له: كم القوم؟ قال: هم والله كثير عددهم شديد بأسهم، فجهد النبي صلى الله عليه وسلم أن يخبره كم هم فأبى، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم سأله كم ينحرون من الجزر؟ فقال: عشرا كل يوم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: القوم ألف كل جزور لمائة وتبعه ا"، ثم إنه أصابنا من الليل طش من مطر، فانطلقنا تحت الشجر والحجف نستظل تحتها من المطر وبات رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو ربه ويقول: اللهم إنك إن تهلك هذه الفئة لا تعبد. فلما أن طلع الفجر نادى الصلاة عباد الله، فجاء الناس من تحت الشجر والحجف، فصلى بنا رسول الله وحرض على القتال، ثم قال: إن جميع قريش تحت هذه الضلع الحمراء من الجبل، فلما دنا القوم منا وصاففناهم إذا رجل منهم على جمل له أحمر يسير في القوم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا علي ناد لي حمزة وكان أقربهم إلى المشركين من صاحب الجمل الأحمر، وماذا يقول لهم، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن يكن في القوم أحد يأمر بخير فعسى أن يكون صاحب الجمل الأحمر، فجاء حمزة فقال: هو عتبة بن ربيعة وهو ينهى عن القتال، ويقول لهم: يا قوم إني أرى قوما مستميتين لا تصلون إليهم وفيكم خير، يا قوم اعصبوها اليوم برأسي وقولوا: جبن عتبة بن ربيعة وقد علمتم أني لست بأجبنكم فسمع ذلك أبو جهل فقال: أنت تقول هذا والله لو غيرك يقول لأعضضته قد ملأت رئتك جوفك رعبا فقال عتبة: إياي تعير يا مصفر استه؟ ستعلم اليوم أينا الجبان؟ فبرز عتبة وأخوه شيبة وابنه الوليد حمية فقالوا: من يبارز؟ فخرج فتية من الأنصار ستة فقال عتبة: لا نريد هؤلاء ولكن يبارزنا من بني عمنا من بني عبد المطلب؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قم يا علي، وقم يا حمزة وقم يا عبيدة بن الحارث فقتل الله عتبة وشيبة ابني ربيعة والوليد بن عتبة وجرح عبيدة، فقتلنا منهم سبعين وأسرنا سبعين، فجاء رجل من الأنصار بالعباس بن عبد المطلب أسيرا، فقال العباس: يا رسول الله إن هذا والله ما أسرني ولقد أسرني رجل أجلح من أحسن الناس وجها على فرس أبلق ما أراه في القوم، فقال الأنصاري: أنا أسرته يا رسول الله فقال: اسكت، فقد أيدك الله بملك كريم قال علي: وأسرنا من بني المطلب العباس وعقيلا ونوفل بن الحارث. "ش، حم" وابن جرير وصححه، "هق" في الدلائل؛ وروى ابن أبي عاصم في الجهاد بعضه.
29941 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ جب ہم ہجرت کرکے مدینہ آئے ہم نے مدینہ کے پھل کھائے اور ہمیں یہاں کی آب وہوا راس نہ آئی ہمیں بخار ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی بدر کے متعلق پوچھتے رہتے تھے جب ہمیں خبر پہنچی کہ مشرکین جنگ کے لیے آرہے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف چل دیئے بدر ایک کنویں کا نام ہے ہم مشرکین سے پہلے بدر پہنچ گئے بدر میں ہمیں دو شخص ملے ایک شخص قریشی تھا جبکہ دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام تھا قریشی تو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا رہی بات عقبہ کے غلام کی وہ ہماری ہاتھ لگ گیا ہم اس سے پوچھتے لوگوں کی کیا تعداد ہے ، وہ کہتا : بخدا ان کی تعداد زیادہ ہے اور ان کی لڑائی شدید ہے۔ جب وہ یہ بات کہتا مسلمان اسے مارتے حتی کہ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر زور دے کر پوچھا کہ مشرکین کی تعداد کیا ہے ؟ اس نے تعداد بتانے سے انکار کردیا آپ نے پوچھا وہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں غلام نے کہا : وہ روزانہ دس اونٹ ذبح کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی تعداد ایک ہزار ہے چونکہ ایک اونٹ سو آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے پھر رات کو بارش برسی ہم درختوں کے نیچے چلے گئے اور ڈھالوں سے بچاؤ کا کام لیا جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات دعا کرتے گزاری دعا میں کہتے : یا اللہ اگر تو نے یہ مختصر سی جماعت ہلاک کردی تیری عبادت نہیں کی جائے گی طلوع فجر کے وقت نماز پڑھنے کا اعلان کیا گیا لوگ درختوں کے نیچے سے نکل کر آئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر جنگ پر ہمیں ابھارا پھر فرمایا : سبھی لوگ سرخی مائل پہاڑ کے اس حصہ کے نیچے رہیں جب مشرکین ہمارے قریب ہوئے ہم نے صفیں بنالیں یکایک جماعت مشرکین کی طرف سے اس شخص کے قریب کھڑے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مشرکین میں اگر کوئی شخص بھلی بات کرنے والا ہے تو وہ یہی سرخ اونٹ کا سوار ہے عین ممکن ہے یہ کوئی بات کرے اتنے میں حضرت حمزہ (رض) تشریف لائے اور فرمایا : یہ شخص عتبہ بن ربیعہ ہے یہ جنگ سے منع کررہا ہے اور اپنی قوم سے کہہ رہا ہے : اے میری قوم : میں انھیں (مسلمانوں کو) موت کی پروا کیے بغیر لڑنے والا دیکھ رہا ہوں تم ان تک پہنچ پاؤ گے حالانکہ تمہارے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے اے میری قوم ! جنگ کا خیال ترک کرو اور اس بےعزتی کو میرے سرمنڈ دو اور کہو کہ عقبہ بن ربیعہ نے سستی اور ڈرپوکی کا مظاہرہ کیا حالانکہ تم جانتے ہو میں کاہل اور ڈرپوک نہیں ہوں یہ آفر ابوجہل نے سن لی وہ بولا : تم یہ بات کہتے ہو بخدا ! اگر تمہارے علاوہ کوئی اور ہوتا ہے اسے دانتوں سے کاٹ دیتا حالانکہ تیرے حسن منظر نے تیرے پیٹ کو رعب سے بھر دیا ہے عتبہ بولا : اے سرینوں کو زعفران سے رنگنے والے (یعنی عیاش پرست تجھے جنگی تدابیر سے کیا واسطہ) مجھے عار مت دو آج تم جان لو گے کہ ہم میں سے کون بزدل ہے ؟ چنانچہ عتبہ اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید باہر نکلے اور مدمقابل کے خواہشمند ہوئے ادھر سے انصار سے چھ نوجوان نکلے عتبہ نے کہا : ہم تمہارے خواہشمند نہیں ہیں تم ہمارے مقابل کے نہیں ہو ہم تو اپنے چچا کے بیٹوں یعنی بنی عبدالمطلب کے خواہشمند ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ! کھڑے ہوجاؤ اے حمزہ ! کھڑے ہوجاؤ اے عبیدہ بن حارث ! کھڑے ہوجاؤ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عتبہ بن ربیعہ ! شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو واصل جہنم کیا اور عبیدہ (رض) زخمی ہوگئے پھر ہم مشرکین کے ستر آدمی قتل کیے اور ستر آدمی قید پھر ایک انصاری عباس بن عبدالمطلب کو قید کر لایا عباس نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے اس نے گرفتار نہیں کیا البتہ مجھے ایک شخص نے قید کیا ہے اس کے سر سے کنارے کے بال اکھڑے ہوئے تھے وہ بہت خوبصورت تھا اور ابلق گھوڑے پر سوار تھا میں اسے نہیں دیکھ رہا انصاری نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے ہی اسے قید کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خاموش رہو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتے سے تمہاری مدد کی ہے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : بنی مطلب سے ہم نے عباس عقیل اور نوفل بن حارث کو قید کیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل وابن جریر وصحح والبیہقی فی الدلائل وروی ابن ابی عاصم فی الجھاد بعضہ)

29942

29942- "مسند علي" عن علي قال: سيماء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر الصوف الأبيض. "ش، ن".
29942 ۔۔۔ ” مسند علی “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی علاوت بدر کی دن سفید اون تھی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ والنسائی)

29943

29943- "أيضا" عن علي قال: لقد رأيتنا يوم بدر ونحن نلوذ برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أقربنا إلى العدو وكان من أشد الناس يومئذ بأسا. "ش، حم، ع" وابن جرير وصححه، "هق" في الدلائل.
29943 ۔۔۔ ” ایضا “ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کہتے ہیں بدر کے دن ہم نے دیکھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پناہ لیتے تھے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن کے قریب ہوتے اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حملہ بےمثال تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل وابن جریر وصححہ والبیہقی فی الدلائل)

29944

29944- عن علي قال: لقد رأيتنا ليلة بدر وما فينا أحد إلا نائم إلا النبي صلى الله عليه وسلم فإنه كان يصلي إلى شجرة ويدعو ويبكي حتى أصبح، وما كان فينا فارس إلا المقداد. "ط، حم" ومسدد، "ن، ع" وابن جرير وابن خزيمة، "حب، حل، هق" في الدلائل.
29944 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ بدر کی رات میں نے دیکھا کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی نہیں جاگ رہا تھا صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگ رہے تھے آپ ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے دعا میں مشغول ہوجاتے اور روتے حتی کہ اسی حالت میں صبح کی ہماری درمیان مقداد (رض) کے سوا کوئی شہسوار نہیں تھا ۔ (رواہ ابو داؤد الطیالسی واحمد بن حنبل ومسدد والنسائی وابو یعلی وابن جریر ابن خزیمۃ وابن حبان وابو نعیم فی الحلیۃ والبیہقی فی الدلائل)

29945

29945- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للناس يوم بدر: إن استطعتم أن تأسروا من بني عبد المطلب فإنهم خرجوا كرها". "حم، ش" وابن جرير وصححه.
29945 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن لوگوں سے فرمایا : اگر تم سے ہو سکے تو بنی عبدالمطلب کو قید کرلو چونکہ انھیں زبردستی گھروں سے باہر نکالا گیا ہے۔ (رواہ واحمد بن حنبل وابن ابی شیبۃ وابن جریر وصححہ)

29946

29946- عن علي قال: قيل لي ولأبي بكر يوم بدر: مع أحدكما جبريل، ومع الآخر ميكائيل، وإسرافيل ملك عظيم يشهد القتال ويقف في الصف. "ش، حم، ع" وابن أبي عاصم وابن منيع والدورقي وابن جرير وصححه، "ك، حل" واللالكائي في السنة، "هق" في الدلائل، "ض".
29946 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ بدر کے دن مجھے اور ابوبکر (رض) سے کہا گیا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل ہیں اور دوسرے کے ساتھ میکائل واسرافیل جو کہ عظیم فرشتہ ہے جنگ میں حاضر ہوتا ہے اور صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل وابو یعلی وابن ابی عاصم وا ابن منیع والدورقی وابن جریر وصححہ والحاکم وابو نعیم فی الحلیۃ واللالکائی فی السنۃ والبیہقی فی الدلائل والضیاء)

29947

29947- عن علي قال: تقدم عتبة بن ربيعة وتبعه ابنه وأخوه فنادى من يبارز؟ فانتدب له شاب من الأنصار فقال: من أنتم؟ فأخبروه، فقال: لا حاجة لنا فيكم، إنما أردنا بني عمنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " قم يا حمزة قم يا علي قم يا عبيدة بن الحارث"، وأقبل حمزة إلى عتبة، وأقبلت إلى شيبة واختلف بين عبيدة والوليد ضربتان، فأثخن كل واحد منهما صاحبه، ثم ملنا على الوليد فقتلناه واحتملنا عبيدة. "د ك، هق" في الدلائل.
29947 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ بدر کے دن عتبہ بن ربیعہ باہر نکلا اس کے پیچھے اس کا بھائی اور بیٹا بھی ہوئے پھر عتبہ مقابل کا خواہاں ہو انصار کے چند نوجوان صفوں سے باہر نکلے عتبہ نے کہا تم کون ہو نوجوانوں نے جواب دیا عتبہ بولا ہمیں تم سے کوئی کام نہیں ہم تو اپنے چچا کے بیٹوں کے خواہشمند ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حمزہ ! کھڑے ہوجاؤ اے علی ! کھڑے ہوجاؤ اے عبیدہ بن حارث ! کھڑے ہوجاؤ حمزہ (رض) نے عتبہ کی خبر لی ، میں شیبہ کے سر ہو لیا جبکہ عبیدہ اور ولید کے درمیان دو دو ہاتھ ہوئے میں اور حمزہ نے اپای اپنا مقابل قتل کرلیا پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے ہم نے اسے بھی واصل جہنم کیا اور عبیدہ (رض) کو اٹھا کرلے آئے ۔ (رواہ ابو داؤد والحاکم والبیہقی فی الدلائل)

29948

29948- عن علي قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم بدر ولأبي بكر: " مع أحدكما جبريل ومع الآخر ميكائيل، وإسرافيل ملك عظيم يشهد القتال أو يكون في الصف". الدورقي وابن أبي داود والعشاري في فضائل الصديق واللالكائي في السنة.
29948 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن مجھے اور ابوبکر (رض) کو فرمایا : تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل ہے اور دوسرے کے ساتھ میکائیل اور اسرافیل ہے جو کہ عظیم فرشتہ ہے جنگ میں حاضر ہوتا ہے یا فرمایا : صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ (رواہ الدورقی وابن ابی داؤد والعشاری فی فضائل الصدیق واللالکائی فی السنۃ)

29949

29949- عن علي قال: لما أصبح النبي صلى الله عليه وسلم ببدر من الغد أحيا تلك الليلة كلها وهو مسافر. "ع، حب".
29949 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن صبح کی آپ پوری رات بیدار رہے حالانکہ آپ مسافر تھے ۔ (رواہ ابویعلی وابن حبان)

29950

29950- عن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي تلك الليلة ليلة بدر وهو يقول: اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد، وأصابهم تلك الليلة مطر. ابن مردويه، "ص".
29950 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی رات نماز پڑھتے رہے اور یہ دعا کرتے یا اللہ ! اگر تو نے یہ تھوڑی سی جماعت ہلاک کردی تیری عبادت نہیں کی جائے گی اس رات بارش بھی ہوئی ۔ (رواہ ابن مردویہ و سعید بن المنصور)

29951

29951- عن علي قال: لما كان يوم بدر قاتلت شيئا من قتال ثم جئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا هو ساجد يقول: يا حي يا قيوم لا يزيد عليها، ثم ذهبت فقاتلت، ثم جئت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم ساجد يقول: يا حي يا قيوم فلم يزل يقول ذلك حتى فتح الله عليه. "ن" والبزار "ع" وجعفر الفريابي في الذكر، "ك، هق" في الدلائل، "ض".
29951 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ بدر کے دن میں لڑتا رہا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ آپ سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں : یا حی یا قیوم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے ہیں پھر لڑنے کے لیے چلا گیا پھر تھوڑی دیر بعد آیا پھر دیکھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں یاحی یا قیوم آپ برابر یہی ورد کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح نصیب فرمائی ۔ (رواہ النسائی والبزار وابو یعلی وجعفر الفریابی فی الذکر والحاکم والبیہقی فی الدلائل والضیاء)

29952

29952- عن عبد خير قال: كان علي يكبر على أهل بدر ستا، وعلى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خمسا، وعلى سائر الناس أربعا. الطحاوي.
29952 ۔۔۔ عبد خیر کی روایت ہے کہ حضرت علی (رض) اہل بدر پر چھ تکبیریں کہتے تھے اصحاب رسول پر پانچ اور باقی لوگوں پر چار ۔ (رواہ الطحاوی)

29953

29953- عن علي قال: كنت على قليب يوم بدر أمتح منه، فجاءت ريح شديدة، ثم جاءت ريح شديدة لم أر ريحا أشد منها إلا التي كانت قبلها، ثم جاءت ريح شديدة، فكانت الأولى ميكائيل في ألف من الملائكة عن يمين النبي صلى الله عليه وسلم، والثانية إسرافيل في ألف من الملائكة عن يسار النبي صلى الله عليه وسلم، والثالثة جبريل في ألف من الملائكة، وكان أبو بكر عن يمينه، وكنت عن يساره، فلما هزم الله الكفار حملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على فرسه، فلما استويت عليه حمل بي فضرب على عنقه فدعوت الله يثبتني عليه فطعنت برمحي حتى بلغ الدم إبطي. "ع" وابن جرير، "هق" في الدلائل؛ وفيه أبو الحويرث عبد الرحمن بن معاوية ضعيف.
29953 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ میں بدر کے دن قلیب کنویں پر تھا اور اس سے پانی نکالنا چاہتا تھا یکایک سخت ہوا چلی ، پھر دوبارہ تیز ہوا چلی میں نے ایسی تیز ہوا چلتی کبھی نہیں پائی پھر سہ بارہ تیز ہوا چلی چنانچہ پہلے میکائیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ آئے اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائیں طرف سے تھے دوسرے نمبر پر اسرافیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ آئے اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں طرف تھے تیسرے نمبر پر جبرائیل امین تشریف لائے وہ بھی ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ آئے ان کی دائیں طرف ابوبکر (رض) تھے جبکہ میں ان کی بائیں طرف تھا جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے کفار کو ہزیمت سے دوچار کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے گھوڑے پر سوار کیا آپ نے گھوڑے کی گردن پر چابک ماری میں نے رب تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے گھوڑے پر ثابت قدم رکھے میں نے اپنا نیزہ مارا حتی کہ لہو کے چھنٹے میری بغل تک پہنچے ۔ (رواہ ابو یعلی وابن جریر والبیھقی فی الدلائل وفیہ ابو الحویرث عبد الرحمن بن معاویۃ وھو ضعیف)

29954

29954- عن علي قال: "أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أغور ماء آبار بدر". "ع" وابن جرير وصححه، "حل" والدورقي، "هق".
29954 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں بدر کے کنووں کا پانی پست کر دوں ۔ (رواہ ابو یعلی وابن جریر وصححہ وابو نعیم فی الحلیب والدورق والبیہقی فی السنن)

29955

29955- "مسند البراء بن عازب" عن البراء بن عازب حسب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن شهد بدرا أنهم كانوا عدة أصحاب طالوت الذين جاوزوا معه النهر ثلثمائة وبضعة عشرة، ولا والله ما جاوز معه النهر إلا مؤمن. أبو نعيم في المعرفة.
29955 ۔۔۔ ” مسند براء بن عازب “۔ حضرت براء بن عازب (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جو غزوہ بدر میں شریک رہے کا خیال ہے کہ ان کی تعداد طالوت کے ساتھیوں کے برابر تھی ان کی تعداد تین سو دس اور چند آدمی تھی بخدا ان کے ساتھ نہر کو صرف مومن ہی عبور کر پایا تھا ۔ (رواہ ابن نعیم فی المعرفۃ)

29956

29956- عن البراء قال: عرضت أنا وابن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر فاستصغرنا - وفي لفظ: فردنا يوم بدر - وشهدنا أحدا. "ش" والروياني والبغوي وأبو نعيم، "كر".
29956 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ مجھے اور رابن عمر کو بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا آپ نے ہمیں چھوٹا (کمسن) سمجھ کر واپس کردیا البتہ غزوہ احد میں ہم پیش پیش رہے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ والرویانی والبغوی و ابونعیم وابن عساکر)

29957

29957- عن البراء بن عازب قال: كان أهل بدر ثلثمائة وبضعة عشر والمهاجرون منهم ستة وسبعون. "ش".
29957 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) روایت کی ہے کہ اہل بدر کی تعداد تین سو دس اور چند آدمی تھی ان میں سے چھتر (76) مہاجرین تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29958

29958- عن البراء قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر بضعة عشر وثلثمائة، وكنا نتحدث أنهم على عدة أصحاب طالوت الذين جاوزوا معه النهر، وما جاوزه معه إلا مؤمن. "ش"
29958 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) روایت کی ہے کہ بدر کے دن اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعداد تین سو دس اور چند نفوس تھی ہم آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ اہل بدر کی تعداد اصحاب طالوت کی تعداد کے برابر تھی جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہر عبور کی تھی جبکہ ان کے ساتھ صرف مومن ہی نے نہر عبور کی تھی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29959

29959- "مسند بشير بن تيم" عن بشير بن تيم عن عبد الله بن الأجلح عن أبيه عن عكرمة عن بشير بن تيم أن النبي صلى الله عليه وسلم فادى أهل بدر فداء مختلفا وقال للعباس: "فك نفسك". ابن أبي شيبة وأبو نعيم في الإصابة: هذا مقلوب وإنما هو الأجلح عن بشير بن تيم عن عكرمة، وبشير بن تيم شيخ مكي يروي عن التابعين وأدركه سفيان بن عيينة، ذكره البخاري وابن أبي حاتم.
29959 ۔۔۔ ” مسند بشیر بن تیم “۔ بشر بن تیم، عبداللہ بن اجلح ، اجلح ، عکرمہ کی سند سے بشیر بن تیم کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل بدر میں مختلف فدیہ دینے کا اعلان کیا اور عباس (رض) سے فرمایا : اپنی گردن آزاد کراؤ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ وابو نعیم فی الاصابۃ وقال : ھذا مقلوب یعنی سند میں ترتیب الٹ ہے اور صواب یوں ہے الاجلح عن بشیر بن تیم عن عکرمہ چونکہ بشیر بن تیم مکی شیخ ہیں اور تابعین سے روایت حدیث کرتے ہیں انھیں سفیان بن عینیہ نے پایا ہے امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔

29960

29960- عن جابر بن عبد الله أن عبد حاطب بن أبي بلتعة أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتكي حاطبا فقال: يا رسول الله ليدخلن حاطب النار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كذبت لا يدخلها إنه قد شهد بدرا والحديبية. "ش، م، ت، ن" والبغوي، "طب" وأبو نعيم في المعرفة.
29960 ۔۔۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کے غلام نے حضرت حاطب (رض) کی شکایت کی اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حاطب ضرور دوزخ میں جائے گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے جھوٹ بولا ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گا چونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک رہا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ومسلم والترمذی والنسائی والبغوی والطبرانی وابو نعیم فی المعرفۃ)

29961

29961- عن جابر قال: كنت أمنح أصحابي الماء يوم بدر. "ش" وأبو نعيم.
29961 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ میں بدر کے دن اپنے ساتھیوں کو پانی دیتا رہا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ وابو نعیم)

29962

29962- "مسند علقمة بن وقاص" عن محمد بن عمرو بن علقمة بن وقاص الليثي عن جده قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر حتى إذا كان بالروحاء خطب الناس فقال: كيف ترون؟ قال أبو بكر: يا رسول الله بلغنا أنهم بكذا وكذا، ثم خطب الناس فقال: كيف ترون؟ فقال عمر مثل قول أبي بكر ثم خطب الناس فقال: كيف ترون
29962 ۔۔۔ ” مسند علقمہ بن وقاص “ محمد بن عمرو بن علقمہ بن وقاص لیثی اپنے دادا سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے لیے گھر سے نکلے حتی کے جب مقام روحاء پر پہنچے لوگوں سے خطاب کا اور پھر فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خبر پہنچی ہے کہ مشرکین فلاں فلاں جگہ پہنچ چکے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا تمہارا کیا خیال ہے ؟ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف جوا دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے۔ فائدہ : ۔۔۔ حدیث کا حوالہ نسخہ میں موجود نہیں بیاض ہے۔

29963

29963- عن حذيفة بن اليمان قال: ما منعني أن أشهد بدرا إلا أني خرجت أنا وأبي حسل فأخذنا كفار قريش، فقالوا: إنكم تريدون محمدا، فقلنا: ما نريده ما نريد إلا المدينة، فأخذوا منا عهد الله وميثاقه لننصرفن إلى المدينة ولا نقاتل معه، فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه الخبر فقال: انصرفا ففيا لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم". "ش" والحسن بن سفيان وأبو نعيم.
29963 ۔۔۔ حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) روایت کی ہے کہ کہ مجھے بدر میں شریک ہونے سے صرف اس بات نے روکا کہ میں اور ابو حسل گھر سے نکلے ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہنے لگے : تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنا چاہتے ہو ہم نے بہانہ کیا کہ ہم مدینہ جانا چاہتے ہیں کفار نے ہم سے پختہ عہد لیا کہ ہم مدینہ واپس لوٹ جائیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جنگ نہ لڑیں چنانچہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو ماجرا سنایا آپ نے فرمایا : تم واپس لوٹ جاؤ اور قریش کا وعدہ پورا کرو ہم واپس لوٹ گئے اور کفار کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ، والحسن بن سفیان وابو نعیم)

29964

29964- عن محمود بن لبيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الملائكة قد سومت فسوموا فأعلموا بالصوف في مغافرهم وقلانسهم الواقدي وابن النجار.
29964 ۔۔۔ محمود بن لبید روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فرشتوں نے اپنے اوپر علامتیں لگا رکھی ہیں لہٰذا تم بھی اپنے اوپر علامتیں لگا لو چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے خودوں اور توپوں پر سفید اون بطور علامت لگائی ۔ (رواہ الواقدی وابن النجار)

29965

29965- "مسند حسين بن السائب الأنصاري" عن حسين بن السائب قال: لما كان ليلة العقبة أو ليلة بدر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه: كيف تقاتلون؟ فقام عاصم بن ثابت بن الأفلح فأخذ القوس وأخذ النبل فقال: أي رسول الله إذا كان القوم قريبا من مائتي ذراع أو نحو ذلك كان الرمي بالقسي، وإذا دنا القوم حتى تنالنا وتنالهم الحجارة كانت المراضخة بالحجارة، فإذا دنا القوم حتى تنالنا وتنالهم الرماح كانت المداعسة بالرماح حتى تنقصف، فإذا انقصفت وضعنا، فأخذ السيف فتقلد واستل السيف وكانت السلة والمجالدة بالسيوف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بهذا أنزلت الحرب، من قاتل فليقاتل قتال عاصم". الحسن بن سفيان وأبو نعيم.
29965 ۔۔۔ ” مسند حسین بن السائب انصاری “ حسین بن سائب کی روایت ہے کہ جب عقبہ کی رات ہوئی یا بدر کی رات ہوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم کیسے لڑائی کرو گے عاصم بن ثابت بن افلح کھڑے ہوئے اور تیر کمان لے کر کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب دشمن دو سو ذراع کے فاصلے پر ہوگا تو ان پر تیروں کی بارش کروں گا جب دشمن اتنا قریب ہوگا کہ پتھر ان پر آسانی سے برسائے جاسکتے ہوں تو ان پر پتھر برسائے جائیں گے جب دشمن اور زیادہ قریب ہوجائے گا تو نیزوں سے اس کی خبر لی جائے گی حتی کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے پھر ہم تلواریں لے لیں گے اور تلواروں سے ان کو ناکوں چنے چبوائیں گے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنگ کا حکم اسی طرح نازل ہوا ہے جو شخص بھی جنگ میں حصہ لے وہ عاصم کی طرح لڑے ۔ (رواہ الحسن بن سفیان وابو نعیم)

29966

29966- "من مسند خلاد الأنصاري" عن أسامة بن عمير نزلت الملائكة يوم بدر وعليها العمائم وكانت على الزبير يومئذ عمامة صفراء. "طب" عن أسامة بن عمير.
29966 ۔۔۔ ” مسند خلاد انصاری “ اسماء بن عمیر کی روایت ہے کہ بدر کے دن فرشتے اترے انھوں نے اپنے سروں پر عمامے باندھے رکھے تھے اس دن حضرت زبیر (رض) نے زرد رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا ۔ (رواہ الطبرانی عن اسامۃ بن عمیر)

29967

29967- "أيضاْ" عن رفاعة بن رافع لما كان يوم بدر تجمع الناس على أمية بن خلف، فنظرت إلى قطعة من درعه قد انقطعت من تحت إبطه فطعنته بالسيف فيها طعنة فقتلته، ورميت بسهم يوم بدر ففقت عيني، فبصق فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا لي فما آذاني منها شيء. "طب، ك".
29967 ۔۔۔ حضرت رفاعہ بن رافع (رض) روایت کی ہے کہ بدر کے دن مشرکین مکہ نے امین بن خلف کے پاس اجتماع کرلیا میں نے اس کی زرہ میں پھٹن دیکھ لی جو اس کی بغل کے نیچے تھی ، چنانچہ میں نے بغل کے نیچے پھٹن میں نیزہ مارا اور اپنے قتل کردیا بدر کے دن میری آنکھ میں تیر لگا میری آنکھ پھوٹ گئی میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی آپ نے میری آنکھ میں تھوکا اور میرے لیے دعا فرمائی چنانچہ میری آنکھ سے درد جاتا رہا ۔ (رواہ الطبرانی والحاکم)

29968

29968- "أيضا" عن رفاعة بن رافع لما رأى إبليس ما تفعل الملائكة بالمشركين يوم بدر أشفق أن يخلص القتل إليه فتشبث به الحارث بن هشام وهو يظن أنه سراقة بن مالك، فوكز في صدر الحارث فألقاه، ثم خرج هاربا حتى ألقى نفسه في البحر فرفع يديه وقال: اللهم إني أسألك نظرتك إياي وخاف أن يخلص القتل إليه. "طب" وأبو نعيم في الدلائل.
29968 ۔۔۔ حضرت رفاعہ بن رافع (رض) کی روایت ہے کہ جب ابلیس نے بدر کے دن مشرکین کی درگت ہوتی دیکھی تو ڈر گیا کہ جنگ کا پانسہ کہیں اس پر نہ پلٹ جائے چنانچہ حارث بن ہشام اسے سراقہ بن مالک سمجھ کر اس سے چمٹ گیا ابلیس نے حارث کے سینے پر مکا دے مارا اور وہ نیچے گرگیا پھر کیا تھا ابلیس سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور سمندر میں جا کو دا اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھالیے اور کہا : یا اللہ میں تجھ سے کرم فرمائی کا سوال کرتا ہوں ابلیس خوفزدہ تھا کہیں جنگ اسی کی طرف نہ پلٹ جائے ۔ (رواہ الطبرانی وابو نعیم فی الدلائل)

29969

29969- "أيضا" عن معاذ بن رفاعة بن رافع عن أبيه قال: خرجت أنا وأخي خلاد إلى بدر على بعير لنا أعجف حتى إذا كنا بموضع البريد الذي خلف الروجاء برك بنا بعيرنا، فقلت: اللهم لك علينا لئن أتينا المدينة لننحرن، فبينا نحن كذلك إذ مر بنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: " ما لكما؟ فأخبرناه أنه برك علينا فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فتوضأ، ثم بزق في وضوئه ثم أمرنا ففتحنا له فم البعير فصب في جوف البكر من وضوئه، ثم صب على رأس البكر، ثم على عنقه، ثم على حاركه، ثم على سنامه، ثم على عجزه، ثم على ذنبه، ثم قال: اللهم احمل رافعا وخلادا، فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقمنا نرتحل فارتحلنا، فأدركنا النبي صلى الله عليه وسلم على رأس النصف، وبكرنا أول الركب، فلما رآنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحك فمضينا: حتى أتينا بدرا حتى إذا كنا قريبا من وادي بدر برك علينا، فقلنا الحمد لله فنحرناه وتصدقنا بلحمه". أبو نعيم.
29969 ۔۔۔ معاذ بن رفاعہ بن رافع اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : میں اور میرا بھائی خلاد بدر کی طرف جانے کے لیے گھر سے نکلے اور ہم اپنے ایک کمزور سے اونٹ پر سوار تھے حتی کہ جب ہم روحاء کے قریب پہنچے اونٹ بیٹھ گیا میں نے کہا : یا اللہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے اس اونٹ کو ذبح کرکے لوگوں میں تقسیم کریں گے ہم یہیں پریشانی کے عالم میں تھے کہ اتنے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس سے گزرے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ؟ ہم نے اپنی پریشانی کے متعلق آپ کو آگاہ کیا کہ ہمارا اونٹ کمزور ہے وہ بیٹھ گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری سے نیچے اترے اور وضو کیا پھر وضو کے پانی میں تھوکا پھر ہمیں اونٹ کا منہ کھولنے کا حکم دیا ہم نے اونٹ کا منہ کھولا آپ نے منہ میں پانی انڈیلاپھر اونٹ کے سرپر پانی ڈالا پھر گردن پر پانی ڈالا پھر گردن پر پانی ڈالا پھر دونوں کندھوں کے درمیان بالائی حصہ پر پانی ڈالا پھر کوہان پر ڈالا پھر سرینوں پر ڈالا پھر دم پر وضو کا پانی ڈالا پھر فرمایا : یا اللہ ! رافع اور خلاد کی سواری کو ہمت عطا فرما ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھ گئے ہم بھی کوچ کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور اونٹ پر سوار ہو کر چل دیئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصف راستے کی مسافت پر ہم نے جالیا پھر ہم سواروں کے آگے آگے جانے والی جماعت میں شامل ہوگئے جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دیکھا ہنس پڑے اور ہم آگے بڑھ گئے حتی کہ ہم بدر پہنچ گئے جب بدر کی وادی کے قریب ہوگئے اونٹ بیٹھ گیا ہم نے کہا : الحمد اللہ ! ہم نے اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کردیا ۔ (رواہ ابو نعیم)

29970

29970- "مسند سهل بن سعد الساعدي" عن سهل بن عمرو قال: لقد رأيت يوم بدر رجالا بيضا على خيل بلق بين السماء والأرض معلمين يقتلون ويأسرون. الواقدي، "كر".
29970 ۔۔۔ ” مسند سھل بن سعد ساعدی “ سہل بن عمرو کی روایت ہے کہ میں نے بدر کے دن بہت سارے سفید فام لوگوں کو دیکھا ہے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار زمین و آسمان کے درمیان فضا میں ہے انھوں نے اپنے اوپر علامتیں لگا رکھی تھیں وہ دشمن کو قتل بھی کرتے تھے اور قید بھی کرتے تھے ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

29971

29971- عن عبد الله بن الزبير أن الزبير كانت عليه ملاءة صفراء يوم بدر فاعتم بها فنزلت الملائكة معتمين بعمائم صفر. "كر".
29971 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کی روایت ہے کہ حضرت زبیر (رض) نے بدر کے زرد رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی پھر اسی کا عمامہ باندھ لیا پھر فرشتے نازل ہوئے انھوں نے بھی زرد رنگ کے عمامے باندھ رکھے تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

29972

29972- عن ابن عباس قال: كانت عدة أهل بدر ثلثمائة عشر رجلا كان المهاجرون سبعة وسبعين رجلا، والأنصار مائتين وستة وثلاثين رجلا وكان صاحب راية المهاجرين علي بن أبي طالب وصاحب راية الأنصار سعد بن عبادة. "كر".
29972 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ اہل بدر کے تعداد تین سو دس (310) تھی ان میں سے ستتر (77) مہاجرین تھے جبکہ 236 انصار تھے مہاجرین کے جھنڈابردار حضرت علی بن ابی طالب تھے اور انصار کے جھنڈا بردار سعد بن عبادۃ (رض) تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

29973

29973- عن ابن عباس رضي الله عنه قال: كان لواء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر مع علي بن أبي طالب، ولواء الأنصار مع سعد بن عبادة. "كر".
29973 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس تھا اور انصارکا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے پاس تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

29974

29974- عن أبي اليسر قال: نظرت إلى العباس بن عبد المطلب يوم بدر وهو قائم وعيناه تذرفان، فقلت: جزاك الله من ذي رحم شرا تقاتل ابن أخيك مع عدوه؟ قال: ما فعل وهل أصابه القتل؟ قلت: الله أعز له وأنصر من ذلك قال: ما تريد إلي؟ قلت: استأسر فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن قتلك، قال: ليست بأول صلته، فأسرته ثم جئت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
29974 ۔۔۔ ابو الیسر کی روایت ہے کہ میں نے بدر کے دن عباس بن عبدالمطلب کو دیکھا وہ کھڑے رو رہے تھے میں نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو برا رشتہ دار ہونے کا بدلہ دے کیا آپ اپنے بھیجتے کو اس کے دشمن کے ساتھ مل کر قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ عباس نے کہا : کیا میرا بھتیجا قتل ہوگیا میں نے کہا اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرنے والا ہے اور ان کا مدد گار ہے پھر کہا : تم کیا چاہتے ہو میں نے کہا : میں آپ کو قید کرنا چاہتا ہو چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو قتل کرنے سے منع کیا ہے کہا : یہ اس کی کوئی پہلی صلہ رحمی نہیں ہے (بلکہ قبل ازیں بارہا صلہ رحمی کرچکا ہے) چنانچہ میں عباس (رض) کو گرفتار کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

29975

29975- عن أبي اليسر أن عمر بن الخطاب نادى أو نادى مناد يوم بدر يا رسول الله بأبي أنت البشرى قد سلم الله عمك العباس فكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " بشرك الله بخير يا عمر في الدنيا والآخرة وسلمك يا عمر في الدنيا والآخرة اللهم أعن عمر وأيده". الديلمي.
29975 ۔۔۔ ابو الیسر کی روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بدر کے دن اعلان کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ آپ پر فدا ہو آپ کو خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا عباس کو زندہ سلامت رکھا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا : اے عمر ! اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی کی خوشخبری دے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں سلامت رکھے یا اللہ ! عمر کی مدد کر اور اسے تقویت بخش ۔ (رواہ الدیلمی)

29976

29976- عن عائشة قالت: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتلى بدر أن يسحبوا إلى القليب فطرحوا فيه، ثم وقف وقال: يا أهل القليب هل وجدتم ما وعد ربكم حقا فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا؟ فقالوا: يا رسول الله تكلم قوما موتى؟ قال: لقد علموا أن ما وعدهم ربهم حق فلما رأى أبو حذيفة ابن عتبة أباه يسحب على القليب عرف رسول الله صلى الله عليه وسلم الكراهية في وجهه قال: يا أبا حذيفة كأنك كاره لما رأيت فقال يا رسول الله إن أبي كان رجلا سيدا فرجوت أن يهديه ربه إلى الإسلام، فلما وقع الموقع الذي وقع أحزنني ذلك فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي حذيفة بخير". ابن جرير.
29976 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتولین بدر کے متعلق حکم دیا کہ انھیں قلیب کی طرف کھینچ کر لایا جائے چنانچہ قلیب میں مقتولین ڈال دیئے گئے پھر آپ (رض) نے فرمایا : کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا میں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مردوں سے کلام کر رہے ہیں ؟ فرمایا : یہ لوگ جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے ان سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا ہے جب ابو حذیفہ (رض) نے اپنے باپ عتبۃ کو کھینچتے ہوئے دیکھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو حذیفہ (رض) کے چہرے پر ناگواری کے آثار بھانپ لیے اور فرمایا : اے ابو حذیفہ گویا تمہیں اس سے ناگواری ہو رہی ہے ابو حذیفہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ سردار تھا میں پرامید تھا کہ رب تعالیٰ اسے ہدایت اسلام سے سرفراز فرمائے گا لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا اس نے مجھے نہایت غم گین کردیا ہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ (رض) کے لیے دعائے خیر کی ۔ (رواہ ابن جریر)

29977

29977- عن عائشة قالت لما أمر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بأولئك الرهط عتبة بن ربيعة وأصحابه فألقوا في الطوي قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " جزى الله شرا من قوم نبي ما كان أسوأ الظن وأشد التكذيب، فقيل: يا رسول الله كيف تكلم قوما قد جيفوا؟ قال: ما أنتم بأفهم لقولي منهم أو لهم أفهم لقولي منكم". ابن جرير.
29977 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے مقتولین کو کنویں میں پھینک دینے کا حکم دیا اور یہ لوگ کنویں میں پھینک دیئے گئے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا : اللہ تبارک وتعالیٰ نبی کی قوم کو برا بدلہ دے جو انھوں نے نہایت بدگمانی کا مظاہرہ کیا اور میری تکذیب کی عرض کیا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مردوں سے کیسے بات کر رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم ان سے زیادہ میری بات کو نہیں سمجھ رہے ۔ (رواہ ابن جریر)

29978

29978- عن ابن عمر أنه عرض على النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر فلم يقبله. "كر".
29978 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ بدر کے دن انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا آپ نے انھیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی ۔ (رواہ ابن عساکر)

29979

29979- عن ابن عمر قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على القليب يوم بدر فقال: يا عتبة بن ربيعة ويا شيبة بن ربيعة ويا أبا جهل بن هشام يا فلان يا فلان قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ قالوا: أليسوا أمواتا؟ قال: والذي نفسي بيده إنهم ليسمعون قولي الآن كما تسمعون، ما أنتم بأسمع لما أقول منهم". "ش" وابن جرير.
29979 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلیب پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شبیہ بن ربیہ ! اے ابو جہل بن ہشام ! اے فلاں ! کیا تم نے رب تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا ہم نے رب تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : کیا یہ لوگ مردے نہیں ؟ آپ نے جواب دیا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ لوگ اب میری بات کو اس طرح سن رہے ہیں جس طرح تم سنتے ہو حتی کہ تم ان سے زیادہ نہیں سنتے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ وابن جریر)

29980

29980- عن ابن عمر قال: كان طلحة صاحب راية المشركين يوم بدر فقتله علي بن أبي طالب مبارزة. "ش".
29980 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت ہے کہ بدر کے دن مشرکین کا جھنڈا طلحہ نے اٹھا رکھا تھا چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اسے للکار کر قتل کیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29981

29981- عن ابن مسعود قال: اشتركت أنا وسعد وعمار يوم بدر فيما أصبنا من الغنيمة فجاء سعد بأسير، ولم أجيء أنا وعمار بشيء. "ش، كر".
29981 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کی ہے کہ میں سعد اور عمار بدر کے دن مال غنیمت جمع کرتے رہے سعد (رض) نے ایک قیدی لایا جبکہ میں نے اور عمار نے کوئی قیدی نہ لایا۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ وابن عساکر)

29982

29982- عن إبراهيم قال: " جعل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فداء العربي يوم بدر أربعين أوقية وجعل فداء المولى عشرين أوقية، والأوقية أربعون درهما". "ص، ش".
29982 ۔۔۔ ابراہیم کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن عربی قیدی کا فدیہ چالیس اوقیہ چاندی مقرر کی جبکہ عجمی کا فدیہ بیس اوقیہ مقرر کیا ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے۔ (رواہ سعید بن المنصور وابن ابی شیبۃ)

29983

29983- عن وكيع عن إسرائيل عن أبي الهيثم عن إبراهيم التيمي " أن النبي صلى الله عليه وسلم قتل رجلا من المشركين من قريش يوم بدر وصلبه إلى شجرة". "ش".
29983 ۔۔۔ ابراہیم تیمی کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن مشرکین قریش کے ایک شخص کو قتل کیا اور اسے درخت پر لٹکا دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29984

29984- عن سعيد بن جبير " أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يقتل يوم بدر صبرا إلا ثلاثة عقبة بن أبي معيط، والنضر بن الحارث، وطعيمة بن عدي". "ش".
29984 ۔۔۔ سعید بن جبیر روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن سامنے بٹھا کر صرف تین شخصوں کو قتل کیا ہے وہ یہ ہیں عقبہ بن ابی معیط خضر بن حارث اور طعیمہ بن عدی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29985

29985- عن سعيد بن المسيب قال: قتل يوم بدر خمسة رجال من المهاجرين من قريش مهجع مولى عمر يحمل يقول: "أنا مهجع وإلى ربي أرجع" وقتل ذو الشمالين وابن بيضاء وعبيدة بن الحارث وعامر بن وقاص. "ش".
29985 ۔۔۔ سعید بن مسیب (رح) کی روایت ہے کہ بدر کے دن مہاجرین میں سے پانچ اشخاص شہید ہوئے اور یہ پانچوں قریش سے تھے وہ یہ ہیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کا آزاد کردہ غلام مھجع وہ یہ رجز پڑھتا تھا انا مھجع والی ربی ارجع ترجمہ میں مھجع ہوں اور اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤں گا ذوشمالین ابن بیضاء عبیدہ بن الحارث اور عامر بن وقاص (رض) ، (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29986

29986- عن علي قال: لما كان ليلة بدر أصابنا وعك من حمى وشيء من مطر فافترق الناس يستترون تحت الشجر، وما رأيت أحدا يصلي غير النبي صلى الله عليه وآله وسلم حتى انفجر الصبح، فصاح عباد الله، فأقبل الناس من تحت الشجر، فصلى بهم، ثم أقبل على القتال، ورغبهم فيه فقال لهم: إن بني عبد المطلب قوم أخرجوا كرها لم يريدوا قتالكم، فمن لقي منكم أحدا منهم فلا يقتله وليأسره أسرا، ثم قال لهم: إن جمع قريش عند ذلك الضلع من الجبل، فلما تصاف القوم رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يسير على جمل أحمر فقال: إن يكن عند أحد من القوم خير فعند صاحب هذا الجمل الأحمر، ثم قال: يا علي انطلق إلى حمزة وكان حمزة أدنى القوم من القوم فسله عن صاحب الجمل الأحمر وماذا يقول فسأله فقال: هذا عتبة بن ربيعة وهو ينهى عن القتال قال علي: وكان الشجاع منا يومئذ الذي يقوم بإزاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما هزم الله القوم التفت فإذا عقيل مشدودة يداه إلى عنقه بنسعة فصددت عنه فصاح بي يا ابن أم علي أما والله لقد رأيت مكاني ولكن عمدا تصد عني؟ قال علي: فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله هل لك في أبي يزيد مشدودة يداه إلى عنقه بنسعة فقال: انطلق بنا إليه فمضينا إليه نمشي، فلما رآنا عقيل قال: يا رسول إن كنتم قتلتم أبا جهل بعد ظفرتم وإلا فأدركوا القوم ما داموا بحدثان فرحتهم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: قد قتله الله عز وجل". "كر".
29986 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ بدر کی رات ہمیں بخار کی شکایت ہوگئی اور بارش بھی ہوئی لوگ بارش سے بچاؤ کے لیے درختوں تلے بھاگ نکلے میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا حتی کہ فجر طلوع ہوگئی آپ نے آواز لگائی : اے اللہ کے بندو ! لوگ سنتے ہی درختوں تلے سے نکل پڑجے آپ نے نماز پڑھائی پھر جنگ کی طرف متوجہ ہوگئے لوگوں کو لڑنے کی ترغیب دی اور فرمایا : بنی عبدالطلب زبردستی لائے گئے ہیں بخوشی نہیں آئے لہٰذا تم میں سے جو بھی کسی مطلبی کو پائے اسے قید کرلے اور قتل نہ کرے پھر فرمایا : قریش پہاڑ کے اس ناکے تلے جمع ہیں جب قریس صفہ بستہ ہوگئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو سرخ اونٹ پر سوار دیکھا ، آپ نے فرمایا : اگر قریش کے کسی فرد کے پاس کوئی بھلائی ہے تو اس سرخ اونٹ والے کے پاس کچھ بھلائی ہے پھر فرمایا : اے علی جاؤ حمزہ سے پوچھو یہ شخص کیا کہہ رہا ہے حضرت حمزہ (رض) قریش کے قریب کھڑے تھے چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضرت حمزہ (رض) سے پوچھا انھوں نے کہا : یہ عتبہ بن ربیعہ ہے یہ قریش کو جنگ کرنے سے منع کررہا ہے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کہتے ہیں : ہم میں سے وہ شخص بہادر تصور کیا جاتا تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑا ہوتا تھا ، جب اللہ تعالیٰ نے قریش کو ہزیمت سے دو چار کیا کیا دیکھتا ہوں کہ عقیل کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ رسی سے گردن کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں میں ان سے طرح دے گیا مجھے چیخ کر کہا : اے علی ! کہا تمہیں میرا مقام معلوم نہیں پھر جان بوجھ کر یہ بےرخی کیسی ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کہتے ہیں۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ابو یزید کو دیکھا ہے اس کے ہاتھ اسی کے گردن سے باندھے گئے ہیں آپ نے فرمایا : چلو اس کے پاس چلتے ہیں چنانچہ ہم چلتے ہوئے عقیل کے پاس پہنچے جب عقیل نے ہمیں دیکھا کہا : یا رسول اللہ ! اگر آپ نے ابو جہل کو قتل کردیا تو آپ ظفر مند ہوگئے ورنہ قوم کی خبر لیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کو قتل کردیا ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

29987

29987- "مسند علي" عن محمد بن جبير قال: حدثني رجل من بني أود أن علي بن أبي طالب خطب الناس بالعراق، وهو يسمع فقال: بينا أنا في قليب بدر جاءت ريح لم أر مثلها قط شدة إلا التي قبلها فكانت الأولى جبريل في ألف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت الريح الثانية ميكائيل في ألف عن ميمنة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأبي بكر، وكانت الريح الثالثة إسرافيل في ألفين عن ميسرة النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأنا في الميسرة، فلما هزم الله تعالى أعداءه حملني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على فرسه فخرجت فلما جرت الفرس خررت على عنقها فدعوت الله فأمسكت حتى استويت. ابن جرير.
29987 ۔۔۔ ” مسند علی “ محمد بن جبیر کہتے ہیں : مجھے بنی اود کے ایک شخص نے حدیث سنائی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے عراق میں لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں بدر کے قلیب کنویں پر تھا یکایک تیز ہوا چلی میں نے کبھی ایسی تیز ہوا نہیں دیکھی یہ جبرائیل امین ایک ہزار فرشتوں کے ہمراہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آئے دوسری بار پھر تیز ہوا چلی اس بار میکائیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے ان کی دائیں طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) تھے تیسری بار پھر تیز ہوا چلی اس بار اسرافیل (علیہ السلام) ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میں ان کی بائیں طرف تھے جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست فاش دی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے گھوڑے پر سوار کیا جب گھوڑا چل پڑا میں گھوڑے کی گردن پر گرگیا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی میں مضبوطی سے بیٹھ گیا ۔ (رواہ ابن جریر)

29988

29988- "أيضا" عن عمير بن سعيد قال: صلى علي على ابن المكفف فكبر عليه أربعا، وصلى على سهل بن حنيف فكبر عليه خمسا فقالوا: ما هذا التكبير؟ فقال: هذا سهل بن حنيف وهو من أهل بدر ولأهل بدر فضل على غيرهم فأردت أن أعلمكم فضلهم. ابن أبي الفوارس.
29988 ۔۔۔ عمیر بن سعد کی روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے ابن مکفف کی نماز جنازہ پڑھی اور اس پر چار تکبیریں کہیں سہل بن حنیف پر نماز جنازہ پڑھی تو پانچ تکبیریں کہیں لوگوں نے پوچھا یہ پانچ تکبیریں کیسی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ سہل بن حنفی ہے اور یہ اہل بدر میں سے ہے جبکہ اہل بدر کو بقیہ لوگوں پر فضیلت حاصل ہے میں نے چاہا کہ تمہیں ان کے فضل کا احساس دلاؤں ۔ (رواہ ابن ابی الفوارس)

29989

29989- "مسند علي" عن سعد قال: رأيت عليا بارزا يوم بدر فجعل يحمحم كما يحمحم الفرس ويقول: بازل عامين حديث سني ... سنحنح الليل كأني جني لمثل هذا ولدتني أمي قال فما رجع حتى خضب سيفه دما. أبو نعيم في المعرفة.
29989 ۔۔۔ ” مسند علی “ حضرت سعد (رض) کہتے ہیں : میں نے بدر کے دن سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو للکارتے ہوئے دیکھا اور گھوڑے کے ہنہنانے کی طرح آواز نکال رہے تھے اور یہ رجز پڑھ رہے تھے ۔ ” بازل عامین حدیث سنی سنحنح اللیل کانی جنی لمثل ھذا ولدتنی امی “۔ اے آٹھ سال کے کامل اونٹ دو سال سے میری عمر نئی ہوچکی ہے اور رات کو ہنہنانے کی آواز آتی ہے گویا میں ایک جن ہے اسی جنگ کے لیے میری ماں نے مجھے جنم دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) واپس لوٹے ان کی تلوار خون آلود تھی ۔ (رواہ ابو نعیم فی المعرفۃ)

29990

29990- "أيضا" عن سعد قال: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم عمير بن أبي وقاص عن مخرجه إلى بدر، واستصغره، فبكى عمير فأجازه، قال سعد: فعقدت عليه حمالة سيفه، ولقد شهدت بدرا وما في وجهي إلا شعرة واحدة أمسحها بيدي. "كر".
29990 ۔۔۔ حضرت سعد (رض) کی روایت ہے کہ بدر کے لیے روانگی کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمیر بن ابی وقاص کو چھوٹا سمجھ کر واپس کردیا عمیر (رض) رونے لگے آپ نے انھیں اجازت دے دی حضرت سعد (رض) کہتے ہیں : میں نے ہی عمیر پر تلوار کا پر تلا باندھا تھا میں بدر میں شریک ہوا میرے چہرے پر صرف ایک ہی بال تھا میں اس پر اپنا ہاتھ پھیرتا تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

29991

29991- "مسند ابن عوف" عن عبد الرحمن بن عوف قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر على الحال التي قال الله عز وجل {وَإِنَّ فَرِيقاً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ} إلى قوله: {وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ} قال العير. "عق، كر".
29991 ۔۔۔ ” مسند ابن عوف “ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) روایت کی ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدر کی طرف نکلے ہماری حالت یہی تھی جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے ” ان فریقا من المؤمنین لکارھون اذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم “۔ یعنی ایک قافلہ اور دوسرا لشکر۔ (رواہ العقیلی وابن عساکر)

29992

29992- عن إبراهيم بن سعد عن أبيه عن جده عن عبد الرحمن بن عوف قال: إني لفي الصف يوم بدر، فالتفت عن يميني وعن شمالي فإذا غلامين حديثي السن فكرهت مكانهما فقال لي أحدهما سرا من صاحبه: أي عم أرني أبا جهل قلت: وما تريد منه؟ قال: إني جعلت لله علي إن رأيته أن أقتله، فقال أيضا الآخر سرا من صاحبه: أي عم أرني أبا جهل قلت وما تريد منه؟ قال: فإني جعلت لله علي إن رأيته أن أقتله فقال: فما سرني بمكانهما غيرهما، قلت هو ذاك فأشرت لهما إليه فابتدرا كأنهما صقران وهما ابنا عفراء حتى ضرباه. "ش".
29992 ۔۔۔ ابراہیم بن سعد عن ابیہ عن جدہ کی سند سے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کی روایت ہے کہ میں بدر کے دن ایک صف میں کھڑا تھا میرے دائیں بائیں دو نوجوان لڑکے کھڑے تھے میں نے انھیں اپنے آس ہونے کو اپنے لیے کمزوری کا باعث سمجھا اور یہ حالت مجھے ناگوار گزری ان میں سے ایک نے مجھے کہا : اے چچا مجھے ذرا ابو جہل دکھائیں میں نے کہا : بھلا تمہیں اس سے کیا کام پڑا ؟ اس نے کہا : میں نے رب تعالیٰ کے حضور منت مان رکھی ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھا ضرور اسے قتل کروں گا ۔ دوسرے لڑکے نے بھی چپکے سے کہا : اے چچا مجھے ابوجہل دکھائیں میں نے کہا : تمہیں اس ستم گر سے کیا کام پڑا ہے ؟ اس نے بھی وہی جواب دیا کہ میں نے رب تعالیٰ کے حضور منت مان رکھی ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا ضرور قتل کروں گا چنانچہ یکسر میری کیفیت بدل گئی اب میرے پاس اس کا ہونا باعث مسرت تھا میں نے ابو جہل کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ رہا پھر کیا تھا بس وہ دونوں شاہین کی طرح ابو جہل کی طرف لپکے وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے چنانچہ آنا فانا ان دونوں عقابوں نے ابوجہل کا غرور خاک میں ملا دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29993

29993- الواقدي حدثني محمد بن عبد الله عن الزهري عن عروة ومحمد صالح عن عاصم بن عمرو بن رومان قالوا: دعا عتبة يوم بدر إلى المبارزة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في العريش وأصحابه على صفوفهم فاضطجع فغشيه نوم غلبه وقال: "لا تقاتلوا حتى أوذنكم وإن كبسوكم فارموهم ولا تسلوا السيوف حتى يغشوكم"، قال أبو بكر:يا رسول الله قد دنا القوم وقد نالوا منا فاستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد أراه الله إياهم في منامه قليلا وقلل بعضهم في أعين بعض، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو رافع يديه يناشد ربه ما وعده من النصر ويقول: اللهم إن تظهر على هذه العصابة يظهر الشرك ولا يقم لك دين وأبو بكر يقول: والله لينصرنك الله وليبيض وجهك وقال ابن رواحة: يا رسول الله إني أشير عليك ورسول الله صلى الله عليه وسلم أعظم وأعلم بالأمر أن يشار عليه إن الله أجل وأعظم من أن ينشد وعده، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: يا ابن رواحة ألا لينشد الله وعده إن الله لا يخلف الميعاد"، وأقبل عتبة يعمد على القتال، قال خفاف بن إيماء: فرأيت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر وقد تصاف الناس وتزاحفوا لا يسلون السيوف وقد انتضوا القسي وقد تترس بعضهم على بعض بصفوف متقاربة لا فرج بينها والآخرون قد سلوا السيوف حتى طلعوا فعجبت من ذلك، فسألت بعد ذلك رجلا من المهاجرين فقال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن لا نسل السيوف حتى يغشونا"، فدنا الناس بعضهم من بعض فخرج عتبة وشيبة والوليد حتى فصلوا من الصف ثم دعوا إلى المبارزة فخرج إليهم فتيان ثلاثة من الأنصار وهم بنو عفراء معاذ ومعوذ وعوف بنو الحارث، فاستحيا رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك وكره أن يكون أول قتال لقي المسلمون فيه المشركين في الأنصار، فأحب أن تكون الشوكة لبني عمه وقومه، فأمرهم فرجعوا إلى مصافهم وقال لهم خيرا. ثم نادى منادي المشركين يا محمد أخرج إلينا الأكفاء من قومنا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " يا بني هاشم قوموا فقاتلوا لحقكم الذي بعث الله به نبيكم إذ جاؤوا بباطلهم ليطفئوا نور الله"، فقام حمزة بن عبد المطلب وعلي بن أبي طالب وعبيدة بن الحارث بن المطلب بن عبد مناف، فمشوا إليهم فقال عتبة تكلموا لنعرفكم، وكان عليهم البيض فأنكروهم، فإن كنتم أكفاء قاتلناكم، فقال حمزة بن عبد المطلب أنا حمزة بن عبد المطلب أنا أسد الله وأسد رسوله، قال عتبة كفؤ كريم ثم قال عتبة: وأنا أسد الحلفاء، من هذا معك؟ قال: علي بن أبي طالب وعبيدة بن الحارث قال: كفؤان كريمان، ثم قال عتبة لابنه: قم يا وليد فقام الوليد وقام إليه علي وكان أصغر النفر فاختلفا ضربتين فقتله علي، ثم قام عتبة وقام إليه حمزة فاختلفا ضربتين فقتله حمزة، ثم قام شيبة وقام إليه عبيدة بن الحارث وهو يومئذ أسن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب شيبة رجل عبيدة بذباب السيف فأصاب عضلة ساقه فقطعها، وكر حمزة وعلي على شيبة فقتلاه واحتملا عبيدة فجاءا به إلى الصف، ومخ ساقه يسيل فقال عبيدة: " يا رسول الله ألست شهيدا قال: بلى" قال: أما والله لو كان أبو طالب حيا لعلم أنا أحق بما قال منه حين يقول: كذبتم وبيت الله يبزى محمد ... ولما نطاعن دونه ونناضل ونسلمه حتى نصرع دونه ... ونذهل عن أبنائنا والحلائل ونزلت هذه الآية {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} حمزة أسن من النبي صلى الله عليه وآله وسلم بأربع سنين، والعباس أسن من النبي صلى الله عليه وسلم بثلاث سنين، قالوا: وكان عتبة بن ربيعة حين دعا إلى البراز قام إليه أبو حذيفة يبارزه فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: "اجلس" فلما قام إليه النفر أعلى أبو حذيفة بن عتبة على أبيه فضربه. "كر".
29993 ۔۔۔ واقدی محمد بن عبداللہ زہری عروہ ومحمد صالح بن عمرو بن رومان کے سلسلہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن عتبہ مدمقابل کے لیے للکارا جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھونپڑی میں تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین صف بستہ تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نیند کا غلبہ ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے (نیند کا غلبہ کیا تھا بلکہ عین حالت جنگ میں رحمت خداوندی نے ڈھانپ لیا تھا اس کی وجہ سے ڈھانپ لیا تھا جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے ” اذ یغشیکم النعاس امنۃ “۔ (الایۃ) اور فرمایا اس وقت تک جنگ شروع نہیں کرنی جب تک میں تمہیں اجازت نہ دوں اگر دشمن حرکت میں آجائے ان پر تیر برساؤ اور تلواریں نہ سونتو حتی کہ دشمن تمہیں ڈھانپ نہ لے تھوڑی دیر بعد ابوبکر (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن قریب آچکا ہے اور ہمیں گھیرے میں لے رہا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں کفار کی تعداد کم کرکے دکھائی اور یوں مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھائی دینے لگے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرا کر بیدار ہوئے اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر رب تعالیٰ سے دعائیں مانگنی شروع کیں اور کہا : یا اللہ ! اگر تو نے کفار کو اس جماعت پر غالب کردیا شرک غالب ہوجائے گا ابوبکر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ آپ کی ضرور مدد کرے گا اور آپ کو خوش وخرم کرے گا ، ابن رواحہ (رض) نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشورہ دیئے جانے سے بالاتر ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مشورہ دیئے جانے سے بالاتر ہے آپ نے فرمایا اے ابن رواحہ : کیا اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدے کا واسطہ نہ دیا جائے اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا اتنے میں عتبہ جنگ کے لیے سامنے آیا خفاف بن ایماء (رض) کہتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بدر کے دن دیکھا جبکہ لوگوں نے صفیں باندھ رکھی تھیں اور ابھی تلواریں نہیں سونتی تھیں اور تیر کمانوں میں ڈال رکھے تھے جبکہ بعض لوگ دوسروں کی صفوف کو اپنے آگے ڈھال بنائے ہوئے تھے ، صفوں میں خلا نہیں تھا جبکہ بعض لوگوں نے تلواریں سونت لی تھیں میں نے بعد میں مہاجرین میں سے ایک شخص سے اس بارے میں سوال کیا ۔ اس نے کہا : ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس وقت تک ہم تلواریں نہ سونتیں جب تک دشمن ہمیں گھیر نہ لے لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوئے اتنے میں عتبہ ، شیبہ اور ولید صف سے نکل کر باہر آئے پھر مبارزت کا نعرہ لگایا چنانچہ ان کی مبارزت پر انصار کے تین نوجوان معاذ، معوذ ، اور عوف بن حارث نکلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے شرم آئی کہ جنگ کے شروعات میں مشرکین کے مدمقابل انصار ہوں لہٰذا آپ نے چاہا کہ یہ کانٹا آپ کی قوم کے افراد کے لیے مختص ہو آپ نے انصار کو واپس کردیا اور ان کی حوصلہ افزائی میں اچھی بات کہی پھر مشرکین کی صدا سنائی دی ۔ وہ یہ کہ اے محمد ہماری قوم سے ہمارے ہمسروں کو نکالو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنی ہاشم کھڑے ہوجاؤ اور اس حق کے لیے لڑو جس کے ساتھ اللہ نے تمہارے نبی کو مبعوث کیا ہے جبکہ یہ مشرکین اللہ کے نور کو بجھانے آئے ہیں اتنے میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب بن عبد مناف (رض) کھڑے ہوئے چلتے چلتے مشرکین کے پاس آئے عتبہ نے کہا بات کرو تاکہ ہم تمہیں پہچان لیں چونکہ جنگی ٹوپیاں ہونے کی وجہ سے مشرکین انھیں پہچان نہ سکے ۔ کہا : اگر تم ہمارے ہمسر ہوئے ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے حضرت حمزہ (رض) نے کہا : میں حمزہ بن عبدالمطلب اللہ کا شیر اور اللہ کے رسول کا شیر ہوں عتبہ نے کہا : کیا خوب مدمقابل ہے پھر عتبہ نے کہا : میں حلیفوں کا شیر ہوں تمہارے ساتھ یہ دو کون ہیں حمزہ (رض) نے جواب دیا : یہ علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث ہیں عتبہ نے کہا : یہ بھی اچھے ہمسر ہیں پھر عتبہ نے اپنے بیٹے سے کہا : اے ولید کھڑے ہوجاؤ ولید کھڑا ہو اس کی طرف حضرت علی (رض) بڑھے حضرت علی (رض) اپنے دونوں ساتھیوں سے عمر میں چھوٹے تھے ، چنانچہ دونوں میں دو دو ہاتھ ہوئے تاہم حضرت علی (رض) نے ولید کو واصل جہنم کیا پھر عتبہ کھڑا ہوا حضرت حمزہ (رض) اس کی طرف بڑھے ان میں بھی دو دو ہاتھ ہوئے لیکن حمزہ (رض) نے عتبہ کو قتل کردیا پھر شیبہ کھڑا ہوا اس کی طرف عبیدہ (رض) بڑھے ، عبیدہ (رض) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں معمر شخص تھے تاہم شیبہ نے آپ (رض) کی ٹانگ تلوار سے زخمی کردی جس سے پنڈلی کا گوشت کٹ گیا یہ حالت دیکھ کر حضرت حمزہ (رض) اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے پلٹ کر شیبہ پر حملہ کردیا اور اسے واصل جہنم کیا اور دونوں عبیدہ (رض) کو اٹھائے اپنے ساتھیوں میں آملے ، جبکہ عبیدہ (رض) کی ٹانگ سے گودا بہہ رہا تھا عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں شہید نہیں ہوں آپ نے فرمایا : جی ہاں تم شہید ہو پھر کہا : کاش ابو طالب زندہ ہوتے جان لیتے کہ ان کے شعر کا میں خوب مصداق ہوں : کذبتم وبیت اللہ یبز محمد ولما نطا عن دونہ ونتاضل ونسلمہ حتی نصرع دونہ ونذھل عن ابناء نا والحلائل : بیت اللہ کی قسم ! تم جھوٹ بولتے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغلوب نہیں ہوں گے چونکہ ہم اس کے آگے پیچھے نیزوں اور تیروں سے اس کا دفاع کریں گے ہم انھیں صحیح و سلامت رکھیں گے اور اس کے آگے پیچھے ڈھیر ہوجائیں گے اور اس کی خاطر ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے ۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی ’(آیت)” ھذان خصمان اختصموا فی ربھم “۔ یہ دو جھگڑنے والے اپنے رب کے متعلق جھگڑ رہے ہیں حضرت حمزہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار سار عمر میں بڑے تھے جبکہ حضرت عباس (رض) آپ سے تین سال بڑے تھے مؤرخین کا کہنا ہے کہ جب عتبہ نے مبارزت کا نعرہ لگایا تو حضرت ابو حذیفہ (رض) اٹھ کر اس کی طرف بڑھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیٹھ جاؤ چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت اٹھ کر آگے بڑھی تو ابو حذیفہ (رض) نے لپک کر اپنے باپ عتبہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

29994

29994- عن عروة قال قدم سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل من الشام بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدر فكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب له بسهمه قال: وأجري بذلك يا رسول الله؟ قال: وأجرك". أبو نعيم في المعرفة.
29994 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ سعید بن زید بن عمر بن نفیل (رض) شام سے واپس لوٹے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر سے واپس آچکے تھے سعید بن زید (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی آپ نے ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ دیا عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا اجر وثواب کہاں ہوا فرمایا : تمہارے لیے اجر وثواب ہے۔ (رواہ ابو نعیم فی المعرفۃ)

29995

29995- عن عروة قال: قدم سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل من الشام بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من بدر" فكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم فضرب له بسهمه قال وأجري يا رسول الله قال: وأجرك". ابن عائذ،"كر"؛ الزهري - مثله "كر"؛ عن موسى بن عقبة - مثله "كر"؛ وعن ابن إسحاق - مثله.
29995 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدر سے لوٹنے کے بعد سعید بن زید بن عمرو بن نفیل شام سے واپس آئے سعید (رض) نے آپ سے بات کی آپ نے ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ دیا پھر عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا اجر وثواب آپ نے فرمایا : تمہارے لیے اجر وثواب بھی ہے۔ (رواہ ابن عائذ وابن عساکر الزھری مثلہ بن عساکر عن موسیٰ بن عقبۃ مثلہ ابن عساکر وعن ابن اسحاق مثلہ)

29996

29996- عن عروة قال: قدم طلحة بن عبيد الله من الشام بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدر فكلم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في سهمه فقال: " نعم لك سهمك فضرب له بسهمه قال: وأجري يا رسول الله؟ قال: وأجرك". ابن عائذ؛ كر؛ وعن ابن شهاب مثله "كر"؛ وعن موسى بن عقبة - مثله "كر"؛ وعن ابن إسحاق - مثله "كر".
29996 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدر سے واپس آجانے کے بعد طلحہ بن عبیدہ اللہ (رض) شام سے لوٹے انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کی آپ نے انھیں مال غنیمت سے حصہ دیا عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا اجر وثواب ؟ فرمایا : تمہارا جر وثواب بھی ہے۔ (رواہ ابن عائذ ، ابن عساکر وعن ابن شھاب ، ابن عساکر وعن موسیٰ بن عقبۃ مثلہ ابن عساکر وعن ابن اسحاق مثلہ ابن عساکر)

29997

29997- عن عروة أن رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم توفيت فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بدر وهي امرأة عثمان؛ فتخلف وأسامة ابن زيد يومئذ فبينما هم يدفنونها إذ سمع عثمان تكبيرا فقال: يا أسامة انظر هذا التكبير، فإذا زيد بن حارثة على ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم الجدعاء يبشر بقتل أهل بدر من المشركين فقال المنافقون: لا والله ما هذا بشيء إلا الباطل حتى جيء بهم مصفدين مغللين. "ش".
29997 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ رقیہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئیں جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف جا چکے تھے رقیہ (رض) حضرت عثمان کی بیوی تھیں اسی لیے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) اور حضرت اسامہ (رض) پیچھے رہ گئے جب یہ لوگ میت دفنا رہے تھے یکایک سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) نے تکبیر کی آواز آئی تو کہا اے اسامہ دیکھو یہ کیسی تکبیر ہے کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جد لماء فانی اونٹنی پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور مشرکین کے قتل عام کا اعلان کر رہے ہیں سن کر منافقین نے کہا : بخدا یہ کچھ نہیں محض ڈھکوسلا ہے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مشرکین بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے لائے گئے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29998

29998- عن عروة أن رجلا أسر أمية بن خلف فرآه بلال فقتله. "ش".
29998 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے ایک شخص نے امیہ بن خلف کو گرفتار کرلیا تھا لیکن بلال (رض) نے اسے دیکھ لیا اور قتل کردیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

29999

29999- عن عكرمة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال يوم بدر: " هذا جبريل أخذ برأس فرسه عليه أداة الحرب". "ش".
29999 ۔۔۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : یہ جبرائیل امین ہیں جو اپنے گھوڑے کا سرپکڑے کھڑے ہیں اور گھوڑے پر جنگی ہتھیار ہیں۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30000

30000- عن عكرمة مولى ابن عباس قال: لما نزل المسلمون بدرا وأقبل المشركون نظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عتبة بن ربيعة وهو على جمل أحمر فقال: " إن يكن من القوم خير فعند صاحب الجمل الأحمر إن يطيعوه ترشدوا" فقال عتبة: أطيعوني ولا تقاتلوا هؤلاء القوم فإنكم إن فعلتم لم يزل في قلوبكم ينظر الرجل إلى قاتل أخيه وقاتل أبيه فاجعلوا في جنبها وارجعوا، فبلغت أبا جهل فقال: انتفخ والله سحره حيث رأى محمدا وأصحابه والله ما ذاك به وإنما ذاك لأن ابنه معهم وقد علم أن محمدا وأصحابه أكلة جزور لو قد التقينا فقال عتبة: سيعلم مصفر استه من الجبان المفسد لقومه أما والله إني لأرى تحت القشع قوما ليضربنكم ضربا يدعون لهم السبع، أما ترون كأن رؤوسهم رؤوس الأفاعي وكأن وجوههم السيوف ثم دعا أخاه وابنه ومشى بينهما حتى إذا فصل من الصف دعا إلى المبارزة. "ش".
30000 ۔۔۔ عکرمہ مولائے ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جب مسلمان بدر پہنچے اور مشرکین سامنے سے آتے دکھائی دیئے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتبہ بن ربیعہ کی طرف دیکھا وہ سرخ اونٹ پر سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر قوم کے کسی فرد کے پاس بھلائی ہے تو وہ یہی سرخ اونٹ والا ہوسکتا ہے اگر مشرکین اس کی بات مان لیں ہدایت پاجائیں گے (چنانچہ عتبہ نے : میری بات مانو اور ان لوگوں سے جنت مت کرو چونکہ اگر تم نے جنگ کی تو آئندہ تم میں سے ہر شخص اپنے بھائی کے قاتل کو دیکھ کر کڑھتا رہے گا ، لہٰذا جنگ سے طرح دے کر چلے جاؤ ابو جہل کو عتبہ کی بات پہنچی کہنے لگا : بخدا ! اس نے محمد کو دیکھ لیا ہے اور اس کا جادو پھیلتا جا رہا ہے حالانکہ بخدا ! حقیقت اس کے برعکس ہے عتبہ کو یہ خیال اس لیے سوجھا ہے چونکہ اس کا بیٹا محمد کے ساتھیوں میں ہے جبکہ محمد اور اس کے ساتھیوں کا یہ حال ہے کہ وہ صرف ایک اونٹ کا نوالہ ہیں۔ اگر ہماری مڈبھیڑ ہوئی یہی صورت سامنے آئے گی ۔ عتبہ نے کہا : بزدلی کی وجہ سے اپنی سرینوں کو رنگنے والا عنقریب جان لے گا جو اپنی قوم میں فساد برپا کرنے والا بھی ہے۔ بخدا ! میں پوستین کے نیچے ایسی قوم کو چھپے دیکھ رہا ہوں جو تمہیں مار مار کر تمہاری درگت بنا ڈالے گی جس کا ڈر بڑی اہمیت کا حامل ہے کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ ان کے سر یوں لگتے ہیں جیسے سانپوں کے سر ہوں ان کے چہرے تلواروں کی مانند ہیں پھر عتبہ نے اپنے بھائی اور بیٹے کو بلایا اور ان دونوں کے درمیان چلتا ہوا آیا حتی کہ جب صفوں سے الگ ہوگیا تو مبازت کا نعرہ لگایا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30001

30001- عن عكرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم بدر: "من لقي منكم أحدا من بني هاشم فلا يقتله فإنهم أخرجوا كرها". "ش".
30001 ۔۔۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : تم اگر بنی ہاشم کے کسی شخص سے ملوں اسے ہرگز قتل نہ کرو چونکہ بنی ہاشم کو زبردستی گھروں سے باہر نکالا گیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30002

30002- عن مجاهد عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم إنه لما أسر الأسارى يوم بدر أسر العباس رجل من الأنصار، وقد أوعدوه أن يقتلوه، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " إني لم أنم الليلة من أجل العباس، وقد زعمت الأنصار أنهم قاتلوه، فقال عمر: ائتهم يا رسول الله فأتى الأنصار فقال: أرسلوا العباس، قالوا: إن كان لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رضا فخذه". "كر".
30002 ۔۔۔ مجاہد روایت کی ہے کہ جب بدر کے دن مشرکین کو قیدی بنا لیا گیا اور عباس (رض) کو ایک انصاری نے گرفتار کیا جبکہ لوگ انھیں ڈرا رہے تھے کہ مسلمان انھیں قتل کردیں گے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں آج رات عباس کی وجہ سے سویا نہیں ہوں جبکہ انصار کا گمان ہے کہ وہ انھیں قتل کریں گے حضرت عمر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انصار کے پاس جائیں چنانچہ آپ انصار کے پاس گئے اور فرمایا : عباس کو چھوڑ دوں انصار نے کہا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس میں رضا مندی ہے تو انھیں لے لیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30003

30003- عن مجاهد لم تقاتل الملائكة إلا يوم بدر. "ش".
30003 ۔۔۔ مجاہد کی روایت ہے کہ فرشتوں نے صرف بدر کے دن قتال کیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30004

30004- عن ابن سيرين قال: أقعص أبا جهل ابنا عفراء وذفف عليه ابن مسعود. "ش".
30004 ۔۔۔ ابن سیرین کی روایت ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابو جہل کو ادھ موا کیا پھر ابن مسعود (رض) نے اس کا کام تمام کردیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30005

30005- عن الزهري قال: " قدم سعيد بن زيد من الشام بعد مقدم النبي صلى الله عليه وسلم من بدر، فكلم النبي صلى الله عليه وسلم في سهمه قال: لك سهمك، قال: وأجري يا رسول الله؟ قال: وأجرك". "أبو نعيم".
30005 ۔۔۔ زہری کی روایت ہے کہ حضرت سعید بن زید (رض) شام سے واپس لوٹے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر سے فارغ ہو کر واپس آچکے تھے سعید بن زید (رض) نے مال غنیمت میں اپنے حصہ کے متعلق بات کی آپ نے فرمایا تمہارے لیے حصہ ہے عرض کیا میرا اجر وثواب یا رسول اللہ ؟ فرمایا : تمہارے لیے اجر وثواب بھی ہے۔ (رواہ ابو نعیم)

30006

30006- عن يحيى بن أبي كثير لما كان يوم بدر أسر المسلمون من المشركين سبعين رجلا، فكان ممن أسر عباس عم رسول الله صلى الله عليه وسلم فولي وثاقه عمر بن الخطاب، فقال عباس: أما والله يا عمر ما يحملك على شد وثاقي إلا لطمي إياك في رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فقال عمر: والله ما زادتك تلك علي إلا كرامة ولكن الله أمرني بشد الوثاق، قال: "فكان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يسمع أنين العباس فلا يأتيه النوم فقالوا: يا رسول الله ما يمنعك من النوم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كيف أنام وأنا أسمع أنين عمي"، قال فزعموا أن الأنصار أطلقوه من ثاقه وباتت تحرسه. "كر".
30006 ۔۔۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ بدر کے موقع پر مسلمانوں نے ستر مشرکین قید کر لیے قیدیوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) بھی تھے ان کی بیڑیوں کی دیکھ بھال کا کام حضرت عمر (رض) کے سپرد ہوا۔ عباس (رض) نے کہا : اے عمر ! بخدا تمہیں میری بیڑیوں پر صرف اس بات نے اکسایا ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خیر خواہ نہیں سمجھتے ہو ۔ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : بخدا ! اس سے میرے لیے تمہاری عزت میں اضافہ ہی ہوا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ایسا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عباس (رض) کے رونے کی آواز سن رہے تھے اور انھیں نیند نہیں آنے پا رہی تھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سوتے کیوں نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں کیسے سو سکتا ہوں جبکہ میں اپنے چچا کے رونے کی آواز سنتا ہوں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا : انصار نے عباس (رض) کی بیڑیاں کھول دی ہیں اور انصاران کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)

30007

30007- عن أبي جعفر قال: كانت على الزبير بن العوام يوم بدر عمامة صفراء فنزلت الملائكة وعليهم عمائم صفر. "كر".
30007 ۔۔۔ ابوجعفر کی روایت ہے کہ بدر کے دن حضرت زبیر بن عوام (رض) نے زرد رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا چنانچہ فرشتے بھی زرد عمائے باندھے ہوئے اترے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30008

30008- عن محمد بن علي بن الحسين قال: لما كان يوم بدر فدعا عتبة بن ربيعة إلى البراز قام علي بن أبي طالب إلى الوليد بن عتبة وكانا مشتبهين حدثين وقال بيده فجعل باطنها إلى الأرض فقتله ثم قام شيبة بن ربيعة فقام إليه حمزة وكانا مشتبهين وأشار بيده فوق ذلك فقتله، ثم قام عتبة بن ربيعة فقام إليه عبيدة بن الحارث وكانا مثل هاتين الأسطوانتين فاختلفا ضربتين فضربه عبيدة ضربة أرخت عاتقه الأيسر فأسف عتبة لرجل عبيدة فضربها بالسيف فقطع ساقه، ورجع حمزة وعلي على عتبة فأجهزا عليه وحملا عبيدة إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم في العريش فأدخلاه عليه فأضجعه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ووسده رجله وجعل يمسح الغبار عن وجهه، فقال عبيدة: أما والله يا رسول الله لو رآك أبو طالب لعلم أني أحق بقوله منه حين يقول: ونسلمه حتى نصرع حوله ... ونذهل عن أبنائنا والحلائل ألست شهيدا؟ قال: بلى وأنا الشاهد عليك، ثم مات فدفنه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالصفراء ونزل في قبره وما نزل في قبر أحد غيره. "كر".
30008 ۔۔۔ محمد بن علی بن حسین کی روایت ہے کہ بدر کے دن عتبہ بن ربیعہ نے للکارا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) ولید کی طرف اٹھے اور یہ دونوں نو عمر نوجوان تھے اور آپس میں ملتے جلتے تھے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ایک ہی وار میں ولید کا کام تمام کردیا پھر شیبہ اٹھا اور اس کے مقابلہ کے لیے حضرت حمزہ (رض) کھڑے ہوئے اور ایک ہی وار میں انھوں نے بھی شیبہ کا کام تمام کردیا پھر عتبہ کھڑا ہوا اس کی خبر لینے کے لیے عبیدہ بن حارث (رض) کھڑے ہوئے یہ دونوں بھی آپس میں ایک جیسے تھے ان کے آپس میں دو دو ہاتھ ہوئے حضرت عبیدہ (رض) نے تلوار کا زور دار وار کیا جس سے عتبہ کا بایاں کاندھا کٹ گیا اس نے غصہ میں تلوار چلائی جس سے حضرت عبیدہ (رض) کی پنڈلی کٹ گئی یہ حالت دیکھ کر حضرت حمزہ (رض) اور حضرت علی (رض) پلٹے اور پل جھپکنے میں عتبہ کا غرور خاک میں ملا دیا پھر یہ دونوں عبیدہ (رض) کو اٹھا لائے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جھونپڑی میں لٹا دیا آپ نے اپنی ران مبارک ان کے سر کے نیچے رکھ دی اور منہ سے غبار جھاڑنے لگے اس اثناء میں عبیدہ (رض) نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بخدا اگر آپ کو ابو طالب دیکھ لیتے وہ سمجھ لیتے کے ان کے شعر کا مصداق میں ہی ہوں ۔ (ونسلمہ حتی نصرع حولہ

30009

30009- عن الزهري قال: " ضرب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لنفر من المهاجرين والأنصار بسامهم في يوم بدر كاملة، وكانوا غيبا عنها لعذر كان بهم منهم من الأنصار أبو لبانة بن عبد المنذر والحارث بن حاطب". "طب".
30009 ۔۔۔ زہری کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن مہاجرین و انصار کے لیے مال غنیمت سے پورا پورا حصہ دیا اور ان میں سے جو لوگ جنگ میں حاضر نہیں ہو سکے انصار میں سے ابو لبانہ بن عبدالمند ر اور حارث بن حاطب (رض) بھی تھے (رواہ الطبرانی)

30010

30010- عن أبي صالح الحنفي عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر لأبي بكر وعمر: عن يمين أحدكما جبرئيل والآخر ميكائيل وإسرافيل ملك عظيم يشهد القتال ويكون في الصف". خثمة في فضائل الصحابة، "حل".
30010 ۔۔۔ ابو صالح حنفی حضرت علی (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر وعمر (رض) سے فرمایا : تم میں سے ایک کی دائیں طرف جبرائیل امین ہیں اور دوسرے کے پاس میکائیل واسرافیل ہیں جو عظیم فرشتہ ہے جنگ میں حاضر ہوتا ہے اور صفوں میں کھڑا رہتا ہے (رواہ خثمۃ فی فضائل الصحابۃ وابو نعیم فی الحلیۃ)

30011

30011- عن علي قال: لما كان ليلة بدر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من يسقي لنا من الماء؟ فأحجم الناس فقام علي فاعتصم القربة، ثم أتى بئرا بعيد القعر مظلمة فانحدر فيها فأوحى الله عز وجل إلى جبريل وميكائيل وإسرافيل تأهبوا لنصر محمد صلى الله عليه وسلم وحزبه ففصلوا من السماء لهم لغط يذعر من سمعه، فلما مروا بالبئر سلموا عليه من آخرهم إكراما وتبجيلا. ابن شاهين؛ وفيه أبو الجارود قال "حم": متروك، وقال "حب": رافضى يضع الفضائل والمثالب.
30011 ۔۔۔ حضرت علی (رض) کی روایت ہے کہ بدر کی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمیں کون پانی پلائے گا لوگ سنتے ہی دوڑ پڑے اتنے میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اٹھے اور مشکیزہ اٹھا لیا پھر عبد قصر کے کنویں پر آئے کنواں تاریک تھا کنویں میں ڈول لٹکایا اتنے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جبرائیل امین میکائیل اور اسرافیل کو حکم دیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی جماعت کی مدد کے لیے تیار ہو جاؤن چنانچہ یہ فرتے جب آسمان سے گزرے ہر طرف شور برپا تھا جب اس کنویں کے پاس سے گزرے سبھی اسے سلام پیش کر رہے تھے ۔ (رواہ ابن شاھین وفیہ ابو الجارود قال احمد بن حنبل ھذا متروک وقال ابن حبان رافضی یضع الفضائل والمثال) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے التنزیہ 39501 وذیل الالی 58 ۔

30012

30012- عن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي تلك الليلة ليلة بدر وهو يقول: اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد وأصابهم تلك الليلة مطر. ابن مردويه.
30012 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ بدر کی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں مشغول رہے اور یہ دعا پڑھتے رہے یا اللہ اگر تو نے اس مٹھی بھر جماعدت کو ہلاک کردیا تو تیری عبادت نہیں کی جائے گی چنانچہ اس رات بارش بھی ہوئی (رواہ ابن مردویہ)

30013

30013- عن الشعبي قال: قال علي ما كان فينا فارس يوم بدر إلا المقداد على فرس أبلق. ابن منده في غريب شعبة، "ق" في الدلائل.
30013 ۔۔۔ شعبی کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا بدر کے دن مقدار بن اسود (رض) کے سوا ہمارا کوئی آدمی گھوڑے پر سوار نہیں تھا چنانچہ وہ ابلق گھوڑے پر سوار تھے (رواہ ابن مندہ فی غریب شعبۃ والبیھقی فی الدلائل)

30014

30014- عن ابن عباس أن علي بن أبي طالب قال: ما كان معنا يوم بدر إلا فرسان: فرس للزبير وفرس للمقداد. "هق" في الدلائل، "كر".
30014 ۔۔۔ ابن عباد (رض) کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : بدر کے دن ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے زبیر (رض) کا گھوڑا اور مقداد (رض) اکا گھوڑا اور مقداد (رض) کا گھوڑا (رواہ البیھقفی فی الدلائل وابن عساکر)

30015

30015- عن علي قال: أعنت أنا وحمزة عبيدة بن الحارث يوم بدر على الوليد بن عتبة فلم يعب ذلك علي النبي صلى الله عليه وسلم. "طب".
30015 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا بدر کے دن میں نے اور حمزہ (رض) نے عبیدہ بن حارث کی مدد کی اور ان کے مد مقابل ولید بن عتبہ کو قتل کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر مجھے کچھ نہیں کہا (رواہ الطبرانی)

30016

30016- "مسند الأرقم" قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر: "ضعوا ما كان معكم من الأثقال فوضع أبو أسيد الساعدي سيف عائذ بن المرزبان فعرفه الأرقم: فقال سيفي يا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطله إياه". الباوردي، "طس، ك" وأبو نعيم، "ص".
30016 ۔۔۔ ” مسند ارقم “ ارقم (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : جو کچھ تمہارے پاس سامان ہے اسے بیچے رکھ دو چنانچہ ابو اسید ساعدی (رض) نے عائذ بن مرزبان کی تلوار نیچے رکھی اسے ارقم (رض) نے پہچان لیا اور کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میری تلوار ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلوار انھیں دے دی (رواہ الباوردی والطبرانی فی الا وسط والحاکم وابو نعیم و سعید بن المنصور)

30017

30017- "مسند أسامة" لما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدر بعث بشيرين إلى أهل مكة وبعث زيد بن حارثة إلى أهل السافلة. "ك".
30017 ۔۔۔ ” مسند اسامہ “ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر سے فارغ ہوئے تو بشیر (رض) کو اہل مکہ کی طرف بھیجا اور زید بن حارثہ (رض) کو اہل سافلہ کی طرف (رواہ الحاکم)

30018

30018- "أيضا" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خلفه وعثمان بن عفان على رقية بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام بدر فجاء زيد بن حارثة على العضباء ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبشارة، فوالله ما صدقت حتى رأينا الأسارى فضرب النبي صلى الله عليه وسلم لعثمان بسهمه. "هق" في الدلائل؛ وسنده صحيح.
30018 ۔۔۔ (مسند اسامہ) حضرت اسامہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اور حضرت عثمان (رض) کو رقیہ (رض) کی تیمارداری کے لیے پیچھے چھوڑ دیا تھا جب کہ آپ بدر کی طرف روانہ ہوگئے تھے چنانچہ زید بن حارثہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غضباء نامی اور نٹنی پر سوار ہو کر فتح کی بشارت سنانے کے لیے آئے بخدا : میں نے اس وقت تک تصدیق نہ کی جب تک میں نے قیدیوں کو نہ دیکھ لیا چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو مال غنیمت سے حصہ دیا (رواہ البیھقی فی الدلائل وسندہ صحیح)

30019

30019- "مسند أسامة بن عمير" عن أبي المليح عن أبيه قال: نزلت الملائكة يوم بدر عليها العمائم وكانت على الزبير يومئذ عمامة صفراء. "طب، ك".
30019 ۔۔۔ ” مسند اسامہ بن عمیر “ ابو ملیح اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ بدر کے دن فرشتے نازل ہوئے فرشتوں نے عمامے باندھ رکھے تھے جب کہ اس دن حضرت زبیر (رض) نے زرد رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا (رواہ الطبرانی والحاکم)

30020

30020- "أيضا" كان سيماء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر الصوف الأبيض. "هب".
30020 ۔۔۔ ” ایضا “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی بدر کے دن نشانی سفید اون تھی (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)

30021

30021- عن أنس قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم إقفال أبي سفيان قال: أشيروا علي فقام أبو بكر فقال له: اجلس فقام عمر فقال له: اجلس فقام سعد بن عبادة فقال؛ إيانا تريد يا رسول الله فلو أمرتنا أن نخيضها البحر لأخضناها ولو أمرتنا أن نضرب أكبادها إلى برك الغماد لفعلنا ذلك. "كر".
30021 ۔۔۔ حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو سفیان کا پیچھا کر رہے تھے ایک جگہ پہنچ کر فرمایا مجھے کوئی مشورہ دو ادتنے میں ابوبکر کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ بیٹھ جائیں پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ بیٹھ جائیں پھر حضرت سعد بن عباد (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ہمارا ارادہ کیا ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم ان کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں بھی گھس جائیں گے اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم مقام برک غماد تک ابو سفیان کا پیچھا کریں گے تو ہم اس کے لیے گھی تیار ہیں (رواہ ابن عساکر)

30022

30022- عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ينظر ما صنع أبو جهل فانطلق ابن مسعود فوجده قد ضربه ابنا عفراء حتى برد قال: أنت أبو جهل فأخذ بلحيته قال: وهل فوق رجل قتلتموه أو قتله قومه. "ش".
30022 ۔۔۔ حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کون دیکھنے جائے گا کہ ابوجہل کس حال میں ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کھڑے ہوئے اور چل پڑے کیا دیکھتے ہیں کہ اسے عفراء کے دو بیٹوں نے نیم جان کر کے چھوڑا ہوا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اسے داڑھی سے پکڑا آگے سے بولا : کیا تم نے مجھ سے بڑھ کر بھی کسی عظیم شخص کو قتل کیا ہے یا کہا : کیا ایسا کوئی عظیم شخص ہوسکتا ہے جسے اس کی قوم قتل کر دے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30023

30023- عن أنس " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شاور حيث بلغه إقفال أبي سفيان فتكلم أبو بكر فأعرض عنه، ثم تكلم عمر فأعرض عنه، فقال سعد بن عبادة: إيانا تريد يا رسول الله والذي نفسي بيده لو أمرتنا أن نضرب أكبادها إلى برك الغماد لفعلنا فندب رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقوا حتى نزلوا بدرا ووردت عليه روايا قريش وفيهم غلام أسود لبني الحجاج، فأخذوه فكان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسألونه عن أبي سفيان وأصحابه فيقول: ما لي علم بأبي سفيان ولكن هذا أبو جهل وعتبة وشيبة وأمية بن خلف، فإذا قال ذلك ضربوه فإذا ضربوه قال: نعم أنا أخبركم هذا أبو سفيان فإذا تركوه سألوه قال: مالي بأبي سفيان علم ولكن هذا أبو جهل وعتبة وشيبة وأمية بن خلف في الناس فإذا قال هذا أيضا ضربوه ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي، فلما رأى ذلك انصرف قال: والذي نفسي بيده لتضربونه إذا صدقكم وتتركونه إذا كذبكم قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا مصرع فلان يضع يده على الأرض ههنا وههنا فما ماط أحدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه وسلم". "ش".
30023 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابو سفیان کا پیچھا کرتے ہوئے ایک جگہ پہنچے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مشورہ لیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کچھ بات کی آپ نے اعراض کردیا پھر سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے بات کی آپ نے اس کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہ دی اتنے میں حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں (یعنی انصار کو) خاطر میں لانا چاہتے ہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم برک عماد تک جائیں ہم چلنے کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رائے کو اچھا سمجھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین چل پڑے حتی کہ بدر جا پہنچے یہاں کنوؤں پر پانی لینے کے لیے قریش کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے ان میں بنی حجاج کا ایک غلام بھی تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے پکڑ لیا اور اس سے ابو سفیان کے متعلق پوچھنے لگے غلام بولا : مجھے ابو سفیان کا علم نہیں البتہ ابو جہل ، عتبہ ، شیبۃ ، امیۃ بن خلف وغیرھم لوگ ادھر موجود ہیں جب غلام نے یہ جواب دیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے مارا بولا : جی میں ابھی بتائے دیتا ہوں چنانچہ بولا : ابو سفیان نہیں ہے یہ جواب سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے چھوڑ دیا پھر اس سے ابو سفیان کے متعلق پوچھا بولا مجھے ابو سفیان کا علم میں البتہ ابو جہل ، عتبہ ، شیبۃ اور امیہ بن خلف وغیرہم یہ لوگ ادھر موجود ہیں۔ جب وہ یہ جواب دیتا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اسے مارتے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے جب نماز سے فارغ ہوئے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب یہ غلام سچ بولتا ہے تم اسے مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تم اسے چھوڑ دیتے ہو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا : یہ فلاں کی پچھاڑ گاہ ہے اور یہ فلاں کی بخدا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس جس کافر کی پچھاڑ گاہ کی تعیین کی تھی اسی جگہ میں وہ مارا گیا زرہ برابر بھی کوئی وہاں سے نہیں چوکا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30024

30024- عن أنس قال: كان ابن عمي حارثة انطلق مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر فانطلق غلاما نظارا ما انطلق لقتال فأصابه سهم فقتله فجاءت عمتي أمه إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: "يا رسول الله ابني حارثة إن يك في الجنة صبرت واحتسبت وإلا فسترى ما أصنع؟ فقال: يا أم حارثة إنها جنان كثيرة وإن حارثة في الفردوس الأعلى". "ش، هب".
30024 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ میری پھوپھی کا بیٹا حارثہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گیا تھا یہ نوجوان لڑکا تھا یہ دیکھنے بھالنے کے لیے گیا تھا جنگ لڑنے نہیں گیا تھا چنانچہ دوران جنگ اسے ایک نیزا لگا یوں وہ شہید ہوگیا واپسی پر میری پھوپھی اس جوان کی ماں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا بیٹا اگر جنت میں ہے تو میں صبر کروں گی اور اسے باعث ثواب سمجھوں گی ورنہ آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام حارثہ بہشتیں تو بیشمار ہیں اور حارثہ فردوس بریں میں ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ والبیہقی)

30025

30025- "مسند الصديق" عن عائشة قالت: كان أبو بكر إذا ذكر يوم أحد بكى ثم قال: ذاك كان كله يوم طلحة ثم أنشأ يحدث قال: كنت أول من فاء يوم أحد فرأيت رجلا يقاتل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم دونه وأراه قال يحميه فقلت كن طلحة حيث فاتني ما فاتني، فقلت يكون رجلا من قومي أحب إلي وبيني وبين المشرق رجل لا أعرفه وأنا أقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم منه، وهو يخطف المشي خطفا لا أعرفه فإذا هو أبو عبيدة بن الجراح فانتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد كسرت رباعيته وشج في وجهه وقد دخل في وجنته حلقتان من حلق المغفر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "عليكما صاحبكما يريد طلحة" وقد نزف فلم يلتفت إلى قوله، وذهبت لأنزع ذلك من وجهه فقال أبو عبيدة: أقسمت عليك بحقي لما تركتني فتركته، فكره أن يتناولهما بيده فيؤذي النبي صلى الله عليه وسلم فأزم عليهما بفيه، فاستخرج إحدى الحلقتين ووقعت ثنيته مع الحلقة، وذهبت لأصنع ما صنع فقال: أقسمت عليك بحقي لما تركتني ففعل مثل ما فعل في المرة الأولى فوقعت ثنيته الأخرى مع الحلقة، فكان أبو عبيدة من أحسن الناس هتما فأصلحنا من شأن النبي صلى الله عليه وآله وسلم، ثم أتينا طلحة في بعض تلك الحفار، فإذا به بضع وسبعون أو أقل أو أكثر من طعنة ورمية وضربة وإذا قد قطعت أصبعه فأصلحنا من شأنه. "ط" وابن سعد وابن السني والشاشي والبزار، "طس، طب، قط" في الأفراد وأبو نعيم في المعرفة، "كر، ض".
25 300 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) جب غزوہ احد کو یاد کرتے رو جاتے پھر فرماتے ، غزوہ احد کا دن سارے کا سارا طلحہ کے نام ہے پھر واقعہ سنانے لگتے اور فرماتے غزوہ احد کے دن میں نے سب سے پہلے مال غنیمت سمیٹا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے پیچھے ڈھال بنے ہوئے ایک شخص کو دیکھا میں نے دل ہی دل میں کہا : اللہ کرے یہ طلحہ ہو قطع نظر اس کے کہ یہ کار خیر مجھ سے جاتا رہا میں نے پھر کہا اللہ کرے یہ طلحہ ہو قطع نظر اس کے کہ یہ کار خیر مجھ سے جاتا رہا میں نے پھر کہا اللہ کرے یہ شخص میری قوم کا ہو جبکہ مجھ سے مشرق کی طرف ایک شخص کھڑا تھا میں اسے نہیں جانتا تھا جبکہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تھا وہ شخص تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا ابھی تک میں اسے پہنچاننے سے قاصر رہا جب وہ اور قریب ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابو عبیدہ بن الجراح (رض) تھے پھر ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دانت مبارک شہید کیے گئے تھے آپ کا چہرہ بھی زخمی تھا آپ کہ چہرہ اقدس میں خود کی دو کڑیاں کھپ گئیں تھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنے ساتھی یعنی طلحہ کی خبر لو تاہم آپ کی اس بات کی توجہ نہ دی میں آگے بڑھا تاکہ آپ کے رخسار مبارک سے خود کی کڑیاں نکالوں تاہم جھٹ ابو عبیدہ بولے اور کہا : میں آپ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دیں میں پیچھے ہٹ گیا ابوعبیدہ (رض) نے ہاتھ سے کڑیاں نکالنا اچھا نہ سمجھا چنانچہ رخسار مبارک پر منہ رکھ کر کڑیاں نکالیں جب پہلی کڑی نکالی اسی کے ساتھ دانت مبارک گرگیا اب میں آگے بڑھا تاکہ دوسری کڑی میں نکالوں مگر اب کی بار بھی ابو عبیدہ بولے : میں اپنے حق کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دیں چنانچہ ابو عبیدہ (رض) نے دوسری کڑی بھی نکال دی اور دوسرا دانت مبارک بھی گرگیا ابو عبیدہ (رض) یہ کام کرنا اچھی طرح جانتے تھے پھر ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت درست کی پھر ہم طلحہ (رض) کے پاس آگئے کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بدن پر ستر سے زائد زخم ہیں ان میں سے کوئی تیروں کے زخم تھے کوئی نیزوں کے اور کوئی تلواروں کے ان کی ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی میں نے ان کی حالت بھی درست کی ۔ (رواہ ابوداؤد الطیالسی وابن سعد وابن السنی والشاشی والبزار والطبرانی فی الاوسط الطبرانی والدارقطنی فی الافراد وابو نعیم فی المعرفۃ وابن عساکر والضیاء)

30026

30026- عن أيوب قال: قال عبد الرحمن بن أبي بكر رأيتك يوم أحد فصدفت عنك فقال أبو بكر: لكني لو رأيتك ما صدفت عنك. "ش".
30026 ۔۔۔ ایوب کی روایت ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : احد کے دن میں نے آپ کو دیکھا اور آپ سے طرح دے گیا اس پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : اگر میں تمہیں دیکھ لیتا ہرگز تم سے طرح نہ دیتا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30027

30027- عن علي قال: لما انجلى الناس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد نظرت في القتلى فلم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: والله ما كان ليفر وما أراه في القتلى، ولكن أرى الله غضب علينا بما صنعنا فرفع نبيه فما في خير من أن أقاتل حتى أقتل فكسرت جفن سيفي، ثم حملت على القوم فأفرجوا لي فإذا أنا برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بينهم. "ع" وابن أبي عاصم في الجهاد والبورقي، "ص".
30027 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ جب لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے بدر کے دن چھٹ گئے میں نے آپ کو شہداء میں تلاش کیا آپ نہ ملے میں نے کہا : بخدا ! آپ جنگ سے بھاگنے والے نہیں اور نہ ہی آپ شہداء میں ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے کیے پر اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آیا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی کو آسمانوں پر اٹھا لیا ہے لہٰذا اب مجھ پر کوئی بھلائی نہیں تاوقتیکہ میں بےجگری سے لڑوں حتی کہ میں بھی راہ حق میں شہید ہوجاؤں چنانچہ میں نے اپنی تلوار کا نیام کاٹ کر پھینک دیا اور پھر دشمن پر اندھا دھند حملہ کردیا چنانچہ دشمن کا گھیرا توڑ ڈالا کیا دیکھتا ہوں کے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن کے نرغے میں ہیں۔ (رواہ ابو یعلی وابن ابی عاصم فی الجھاد والبورقی و سعید بن المنصور)

30028

30028- "من مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: قال لي أبي عبد الله: أي ابني لولا بنيات أخلفهن من بعدي من أخوات وبنات لأحببت أن أقدمك أمامي ولكن كن في نظاري المدينة قال: فلم ألبث أن جاءت بهما عمتي قتيلين يعني أباه وعمه قد عرضتهما على بعير. "ش".
30028 ۔۔۔ ” مسند جابر بن عبداللہ “ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ مجھے میرے والد عبداللہ (رض) نے کہا : اے بیٹا اگر میں نے مدینہ میں اپنے پیچھے عورتیں ، بیٹیاں اور بہنیں نہ چھوڑی ہوتیں میں تمہیں جیتے جی میدان کار زار میں پیش کرتا لیکن تم مدینہ ہی میں دیکھ بھال کے لیے رہو ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : میری پھوپھی دو شہیدوں یعنی عبداللہ (رض) ور دوسرے جابر (رض) کے چچا کی خبر لائیں ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30029

30029- عن جابر قال: خرجنا إلى قتلانا يوم أحد إذ أجرى معاوية العين فاستخرجناهم بعد أربعين سنة لينة أجسادهم تنثني أطرافهم. "ش".
30029 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ ہم احد کے مقتولین کی طرف گئے جب معاویہ (رض) نے ایک چشمہ جاری کروایا چالیس سال بعد ہم نے مقتولین کو نکالا ان کے بدن نرم ونازک تھے اور اطراف سے مڑے ہوئے تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30030

30030- عن كعب بن مالك قال: لما انكشفت الناس يوم أحد كنت أول من عرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وبشرت به المؤمنين حيا سويا وأنا في الشعب فدعا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كعبا بلأمته وكانت صفراء أو بعضها فلبسها رسول الله صلى الله عليه وسلم ونزع رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمته فلبسها كعب وقاتل كعب يومئذ قتالا شديدا حتى جرح سبعة عشر جرحا. الواقدي، "كر".
30030 ۔۔۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ جب احد کے دن لوگ پیچھے ہٹ گئے سب سے پہلے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا اور مؤمنین کو آپ کے زندہ سلامت ہونے کی بشارت دی میں ایک گھاٹی میں تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب (رض) کو بلایا اور ان کو زرع لی ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب (رض) کی رزع پہنی اور اپنی انھیں پہنائی احد کے دن کعب (رض) جوانمردی سے لڑے حتی کہ ان کے بدن پر ستر زخم آئے ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30031

30031- عن كعب قال: كنت أول من عرف رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ فعرفت عينيه من تحت المغفر، فناديت يا معشر الأنصار أبشروا هذا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأشار إلي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن أصمت. الواقدي، "كر".
30031 ۔۔۔ کعب (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن سب سے پہلے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانا میں نے خود کے نیچے آپ کی آنکھیں دیکھ کر اعلان کیا : اے انصار کی جماعت ! تمہیں بشارت ہو یہ ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف اشارہ کیا کہ خاموش رہو ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30032

30032- عن أبي بشير المازني قال: لما صاح الشيطان أزب العقبة: إن محمدا قد قتل لما أراد الله من ذلك سقط في أيدي المسلمين وتفرقوا في كل وجه وأصعدوا في الجبل فكان أول من بشرهم برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سالما كعب بن مالك، قال كعب: فجعلت أصيح ويشير إلي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بأصبعه على فيه أن أسكت. الواقدي، "كر".
30032 ۔۔۔ ابو بشیر مازنی کی روایت ہے کہ شیطان نے جب پکار کر کہا محمد کو قتل کردیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر مسلمانوں کی قدرے ہمت پست ہوگئی اور ادھر ادھر منتشر ہوگئے اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پہاڑ پر چڑھنے لگے چنانچہ سب سے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سلامتی کی خبر حضرت کعب بن مالک نے دی میں نے چیخ کر کہا : یہ ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ مجھے انگلی کے اشارے سے چپ رہنے کی تلقین فرما رہے تھے ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30033

30033- عن القاسم بن محمد عن كهيل الأزدي وكانت له صحبة قال: أصيب الناس يوم أحد وكثر فيهم الجراحات، فأتى رجل النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: " إن الناس قد كثر فيهم الجراحات، قال: انطلق فقم على الطريق فلا يمر بك جريح إلا قلت بسم الله ثم تفلت في جرحه وقلت بسم الله شفاء الحي الحميد من كل حد وحديد أو خنجر بليد اللهم اشف إنه لا شافي إلا أنت" قال كهيل: فإنه لا يقيح ولا يرم. الحسن بن سفيان، "كر".
30033 ۔۔۔ قاسم بن محمد کہل ازدی (رض) (انھیں شرف صحبت حاصل ہے) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو جنگ احد میں سکت مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ۔ بہت سارے مسلمان زخمی بھی ہوئے ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا : بہت سارے مسلمان زخمی ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ اور راستے پر کھڑے ہوجاؤ جو زخمی بھی تمہارے پاس سے گزرے یہ دعا پڑھ کر اس کے زخم پر دم کرو۔ ” بسم اللہ شفاء الحی الحمید من کل حد وحدیدا وخنجر بلید اللہم اشف انہ لا شافی الا انت “۔ اللہ کے نام سے وہی ذات شفا دینے والی ہے جو زندہ اور قابل ستائش ہے وہی شفا دیتا ہے ہر تلوار سے لوہے سے یا کند خنجر سے یا اللہ شفا عطا فرما، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے۔ حضرت کہل (رض) کہتے ہیں چنانچہ کسی شخص کے زخم میں پیپ پڑی اور نہ ہی ورم بنا ۔ (رواہ الحسن بن سفیان وابن عساکر)

30034

30034- "مسند أنس" لما كان يوم أحد مر النبي صلى الله عليه وسلم بحمزة وقد جرح ومثل به فقال: " لولا أن تجد صفية لتركته حتى يحشره الله من بطون السباع والطير، ولم يصل على أحد من الشهداء وقال: أنا شهيد عليكم". "ش".
30034 ۔۔۔ ” مسند انس (رض) “ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حمزہ (رض) کے پاس سے گزرے جبکہ آپ (رض) زخموں سے چور تھے اور آپ کا مثلہ کردیا گیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ (رض) کی میت دیکھ کر فرمایا : اگر صفیہ (رض) کے رنج کی بات نہ ہوتی میں انھیں اسی حال میں چھوڑ دیتا تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ درندوں اور پرندوں کے پیٹوں سے انھیں جمع کرتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء احد پر نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا : میں تمہارے اوپر گواہ ہوں ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30035

30035- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يوم أحد: "ادفنوا الرجلين والثلاثة في القبر الواحد وقدموا أكثرهم قرآنا. ابن جرير.
30035 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین شہدا کو دفن کرو اور ان میں سے جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے قبر میں پہلے داخل کرو ۔ (رواہ ابن جریر)

30036

30036- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم مر بحمزة يوم أحد وقد مثل فوقف عليه فقال: " لولا أني أخشى أن تجد صفية في نفسها لتركته حتى تأكله العافية فيحشر من بطونها، ثم دعا بنمرة فكانت إذا مدت على رأسه بدت رجلاه، وإذا مدت على رجليه بدا رأسه فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: مدوها على رأسه واجعلوا على رجليه الحرمل وقلت الثياب وكثرت القتلى وكان الرجل والرجلان والثلاثة يكفنون في الثوب وكان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يسأل أيهم أكثر قرآنا فيقدمه". "ش".
30036 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حمزہ (رض) کے پاس سے گزرے جبکہ آپ (رض) کا مثلہ کردیا گیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ صفیہ (رض) غمزدہ ہوں گی میں انھیں اسی حال میں چھوڑ دیتا حتی کہ انھیں درندے کھا جاتے اور قیامت کے دن درندوں کے پیٹ سے انھیں جمع کیا جاتا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چادر منگوائی اس میں حضرت حمزہ (رض) کو کفن دیا جب سر کی طرف چادر کی جاتی پاؤں ننگے ہوجاتے جب پاؤں کی طرف کی جاتی سر ننگا ہوجاتا آپ نے فرمایا : چادر سے سر ڈھانپ دو اور پاؤں پر پتے ڈال دو اس دن کپڑے کم اور مقتولین زیادہ تھے چنانچہ ایک شخص دو دو اشخاص اور تین تین کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیا جاتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھتے کہ ان میں سے کسے زیادہ قرآن یاد ہے۔ اسے قبر میں پہلے داخل کرتے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30037

30037- عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ سيفا يوم أحد فقال: من يأخذ مني هذا؟ فبسطوا أيديهم فجعل كل إنسان منهم يقول: أنا أنا فقال: من يأخذه بحقه؟ فأحجم القوم فقال سماك أبو دجانة: أنا آخذه بحقه، فأخذه ففلق به هام المشركين". "ش".
30037 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احد کے دن تلوار لی اور فرمایا : یہ تلوار مجھ سے کون لے گا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ہاتھ بڑھائے ہر شخص کہہ رہا تھا میں لوں گا میں لوں گا پھر آپ نے فرمایا اس تلوار کو کون لے کر اس کا حق ادا کرے گا لوگوں نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے اتنے میں حضرت سماک ابو دجانہ (رض) نے عرض کیا : تلوار میں لوں گا اور اس کا حق ادا کروں گا ابو دجانہ (رض) نے تلوار لے لی اور اس سے مشرکین کے سرکچلے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30038

30038- عن عكرمة قال: جاء علي بسيفه فقال: خذيه حميدا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن كنت أحسنت القتال اليوم فقد أحسنه سهل بن حنيف وعاصم بن ثابت والحارث بن الصمة وأبو دجانة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من يأخذ هذا السيف بحقه فقال أبو دجانة: أنا وأخذ السيف فضرب به حتى جاء به قد حناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أعطيته حقه؟ قال: نعم. "ش".
30038 ۔۔۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) ہاتھ میں ایک تلوار لے کر آئے اور کہا : اسے خوشی سے لے لیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو آج جنگ اچھی طرح سے لڑے تو تمہارے لیے شاباش ہے آپ کے پاس حضرت سھل بن حنیف حضرت عاصم بن ثابت حضرت حارث بن صمد اور حضرت ابو دجانہ (رض) کھڑے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلوار لے لی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے راہ میں بےدریغ چلائی ۔ حتی کہ جب تلوار لائے تلوار آگے سے مڑی ہوئی تھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کا حق ادا کیا ، عرض کیا : جی ہاں ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30039

30039- عن محمد بن كعب القرظي أن عليا لقي فاطمة يوم أحد فقال: خذي السيف غير مذموم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي إن كنت أحسنت القتال اليوم فقد أحسنه أبو دجانة ومصعب بن عمير والحارث بن الصمة وسهل بن حنيف" ثلاثة من الأنصار ورجل من قريش. "ش".
30039 ۔۔۔ محمد بن کعب قرظی کی روایت ہے کہ احد کے دن سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) حضرت فاطمہ (رض) سے ملے اور کہا تلوار لو اور اس تلوار نے مجھے پیشمان نہیں کیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ، اگر تم نے جو انمبردی سے جنگ لڑی ہے تو ابودجانہ ، مصعب بن عمیر ، حارث بن صمد اور سہل بن حنیف (یعنی انصار کے تین شخص اور قریش کا ایک شخص) بھی دلیری سے جنگ لڑ چکے ہیں۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30040

30040- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم لما رهقه المشركون يوم أحد قال: " من يردهم عنا وهو في الجنة؟ فقام رجل من الأنصار فقاتل حتى قتل ثم قام آخر فردهم حتى قتل سبعة فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: ما أنصفنا أصحابنا". "ش".
30040 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ جب احد کی دن کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نرغے میں لے لیا آپ نے فرمایا : جو شخص ان مشرکین کو مجھ سے پیچھے دھکیلے گا وہ جنت میں جائے گا ، چنانچہ ایک انصاری کھڑے ہوئے جان ہتھیلی پہ رکھ کر ہجوم پر دیوانہ وار ٹوٹ پڑے ۔ حتی کہ شہید ہوگئے پھر اور انصاری کھڑے ہوئے اور سات مشرکین کو قتل کر کے پیچھے دھکیل دیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30041

30041- عن أنس قال: كان أبو طلحة يتترس مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم بترس واحد وكان حسن الرمي، فكان النبي صلى الله عليه وسلم يتشوف إذا رمى وينظر إلى مواقع نبله. ابن شاهين في الأفراد؛ وقال تفرد به عبد العزيز عن الوليد عن الأوزاعي، لا أعلم حدث به غيره وهو حديث غريب حسن، وعبد العزيز رجل حسن من أهل الشام غريب الحديث، "كر".
30041 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ حضرت ابو طلحہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے احد کے دن ڈھال بنے رہے ، حالانکہ آپ (رض) بہت اچھے تیر انداز تھے جب ابو طلحہ (رض) تیر مارتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نشانے کو غور سے دیکھتے تھے ۔ (رواہ ابن شاھین فی الافراد وقال تفردبہ عبدالعزیز عن الولید عن الاوزاعی لا اعلم حدث بہ غیرہ وھو حدیث غریب حسن وعبد العزیز رجل حسن من اھل الشام غریب الحدیث ورواہ ابن عساکر)

30042

30042- عن كعب بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال يوم أحد: " من رأى مقتل حمزة؟ فقال رجل أعزل: أنا رأيت مقتله، قال فانطلق فأرنا فانطلق حتى وقف على حمزة؟ فرآه قد شرط بطنه وقد مثل به فقال: يا رسول الله مثل به والله فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينظر إليه ووقف بين ظهراني القتلى فقال: أنا شهيد على هؤلاء القوم لفوهم في دمائهم، فإنه ليس جريح يجرح إلا جرحه يوم القيامة يدمي لونه لون الدم وريحه ريح المسك قدموا أكثر القوم قرآنا اجعلوه في اللحد". "ش".
30042 ۔۔۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن فرمایا : حمزہ کی قتل گاہ کسی نے دیکھی ہے ایک شخص نے کہا : میں نے ان کی قتل گاہ دیکھی ہے فرمایا : چلو مجھے دکھاؤ آپ تشریف لے گئے اور حضرت حمزہ (رض) کے پاس کھڑے ہوئے دیکھا کہ ان کا پیٹ چاک کیا گیا ہے اور مثلہ کیا گیا ہے وہ شخص بولا یا رسول اللہ ! بخدا حمزہ (رض) کا مثلہ کیا گیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت حمزہ (رض) کی طرف نگاہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء کے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا : میں ان لوگوں پر گواہ ہوں انھیں ان کے خون سمیت کفن دو چونکہ قیامت کے دن یہ لوگ اٹھیں گے ان کے زخموں سے تازہ خون بہہ رہا ہوگا اور ان سے مشک کی سی خوشبو آرہی ہوگی جسے زیادہ قرآن یاد ہوا اسے پہلے قبر میں اتارو ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث پر کلام کیا گیا ہے دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ 5307 ۔

30043

30043- "من مسند حصين بن عوف الخثعمي" أن حارثة بن الربيع جاء نظارا يوم أحد وكان غلاما فأصابه سهم غرب فوقع في ثغرة نحره فقتله فجاءت أمه الربيع فقالت: يا رسول الله قد علمت مكان حارثة مني فإن يكن من أهل الجنة فأصبر، وإلا فسترى قال: يا أم حارثة إنها ليست بجنة واحدة ولكنها جنان كثيرة وهو في الفردوس الأعلى قالت فسأصبر". "طب".
30043 ۔۔۔ ” مسند حصین بن عوف خشعمی “ حضرت حارثہ بن ربیع (رض) احد کے دن جنگی تماشائی کے طور پر آئے تھے اور ابھی لڑکے تھے چنانچہ بھٹکتا ہوا ایک تیر ان کے جا لگا اور شہید ہوگئے لشکر کی واپسی پر ان کی والدہ آئے اور عرض کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو حارثہ کا مقام معلوم ہے اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو میں صبر کرتی ہوں وگرنہ بصورت دیگر آپ میری حالت دیکھ لیں گے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ام حارثہ جنت کوئی ایک نہیں بلکہ وہ بیشمار بہشتیں ہیں تمہارا فردوس بریں میں ہے ام حارثہ (رض) بولیں تب میں صبر کروں گی۔ (رواہ الطبرانی)

30044

30044- عن أنس عن المقداد قال: لما تصاففنا للقتال جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت راية مصعب بن عمير فلما قتل أصحاب اللواء هزم المشركون الهزيمة الأولى وأغار المسلمون على عسكرهم فانتهبوا، ثم كروا على المسلمين فأتوا من خلفهم، فتفرق الناس ونادى رسول الله صلى الله عليه وسلم في أصحاب الألوية، فأخذ اللواء مصعب بن عمير، ثم قتل وأخذ راية الخزرج سعد بن عبادة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم تحتها، وأصحابه محدقون به ودفع لواء المهاجرين إلى أبي الروم العبدري آخر النهار، ونظرت إلى لواء الأوس مع أسيد بن حضير، فناوشوهم ساعة واقتتلوا على الاختلاط من الصفوف ونادى المشركون بشعارهم يا للعزى يا للهبل فأوجعوا والله فينا قتلا ذريعا ونالوا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما نالوا، والذي بعثه بالحق إن رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم زال شبرا واحدا إنه لفي وجه العدو تثوب إليه طائفة من أصحابه مرة، وتتفرق عنه مرة، فربما رأيته قائما يرمي عن قوسه أو يرمي بالحجري حتى تحاجزوا، وثبت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كما هو في عصابة صبروا معه أربعة عشر رجلا سبعة من المهاجرين وسبعة من الأنصار أبو بكر وعبد الرحمن ابن عوف وعلي بن أبي طالب وسعد بن أبي وقاص وطلحة بن عبيد الله وأبو عبيدة بن الجراح والزبير بن العوام ومن الأنصار الحباب بن المنذر وأبو دجانة وعاصم بن ثابت والحارث بن الصمة وسهل بن حنيف وأسيد بن الحضير وسعد بن معاذ. الواقدي، "كر".
30044 ۔۔۔ حضرت انس (رض) حضرت مقدار (رض) سے روایت ہے نقل کرتے ہیں کہ جب ہم صف بستہ ہوگئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مصعب بن عمیر (رض) کے جھنڈے تلے تھے جب مشرکین کے علم بردار قتل ہوئے تو مشرکین ہزیمت خوردہ ہوئے اور مسلمانوں نے ان کے لشکر پر لوٹ مار ڈال دی لیکن مشرکین نے پیچھے سے پلٹ کر دوبارہ حملہ کردیا ۔ مسلمان عجیب اضطراب کا شکار ہو کر بکھر گئے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علمبر داروں میں کھڑے ہو کر آواز دی حضرت مصعب (رض) نے جھنڈا تھام لیا پھر وہ شہید کردیئے گئے ۔ خزرج کا جھنڈا حضرت بن عبادۃ (رض) نے اٹھا رکھا تھا جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہی کے جھنڈے تلے تھے مہاجرین کا جھنڈا ابو روم عبدی (رض) کے پاس تھا میں نے اوس کا جھنڈا حضرت امیہ بن جعفر (رض) کے پاس دیکھا فریقین نے صفین توڑ کر خلط ملط ہو کر جنگ لڑی ۔ مشرکین لات وعزی اور ہبل کے نعرے لگا رہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تحقیر آمیز کلمات کس رہے تھے بخدا میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اضطراب کی حالت میں بالشت بھر بھی اپنی جگہ سے پلتے نہیں دیکھا آپ دشمن کے آگے سینہ سپر رہے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کبھی آپ کے پاس آجاتی اور کبھی وہ بھی پیچھے ہٹ جاتی ، میں کبھی آپ کو کمان سے تیر برساتے دیکھتا اور کبھی پتھر پھینکتے ہوئے دیکھا آپ یوں ثابت قدم رہے جس طرح ایک مضبوط جماعت کے ساتھ ثابت قدم رہتے ۔ آپ کے ساتھ چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے ان میں سے سات مہاجرین اور سات انصار تھے وہ یہ ہیں ابوبکر ، عبدالرحمن بن عوفہ ، علی بن ابی طالب ، سعد بن ابی وقاص ، طلحہ بن عبید اللہ ، ابو عبیدہ بن الجراح ، زبیر بن عوام انصار میں سے یہ تھے حباب بن منذر ابودجانہ عاصم بن ثابت حارث بن ضعمہ سھل بن حنیف اسید بن حضیر اور سور بن معاذ (رض) اجمعین ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30045

30045- عن رافع بن خديج قال: خرجت يوم أحد فأراد النبي صلى الله عليه وآله وسلم ردي واستصغرني فقال له عمي: " يا رسول الله إنه رام فأخرجه فأصابه سهم في صدره أو نحره فأتى عمه فقال: إن ابن أخي أصيب بسهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن تدعه فيه فيموت مات شهيدا". "طب".
30045 ۔۔۔ حضرت رافع بن خدیج (رض) کی روایت ہے کہ میں بھی غزوہ احد کے موقع پر جنگ میں حصہ لینے کے لیے گھر سے نکلا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس کرنا چاہا تاہم میرے چچا نے کہا : یارسول اللہ ! یہ بہت اچھا تیر انداز ہے اسے ساتھ لے جائیں ۔ چنانچہ دوران جنگ میرے سینے پر تیر لگا اور میرے چچا نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جا کر خبر کی آپ نے فرمایا : اگر تم اسے اسی حالت میں چھوڑ دو تو وہ شہید ہوگا ۔ (رواہ الطبرانی)

30046

30046- عن هشام بن عامر قال: "شكي إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم شدة الجراح يوم أحد فقال: احفروا وأوسعوا وأحسنوا وادفنوا في القبر الاثنين والثلاثة وقدموا أكثرهم قرآنا فقدموا أبي بين يدي رجلين". "ش".
30046 ۔۔۔ ہشام بن عامر کی روایت ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی گئی کہ زخمیوں کی تعداد زیادہ ہے آپ نے فرمایا : قبریں کھو دو اور قبریں کشادہ رکھو اور ایک ایک قبر میں دو دو اور تین تین شہیدوں کو دفن کرو اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے قبر میں پہلے داخل کرو اور میرے باپ (یعنی میرے چچا حضرت حمزہ (رض)) کو دوسرے دو آدمیوں سے پہلے جنت میں داخل کرو۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30047

30047- "مسند رفاعة بن رافع" استووا حتى أثني علي ربي اللهم لك الحمد كله اللهم لا قابض لما بسطت، ولا باسط لما قبضت، ولا هادي لما أضللت ولا مضل لما هديت ولا معطي لما منعت، ولا مانع لما أعطيت ولا مقارب لما باعدت ولا مباعد لما قربت، اللهم ابسط علينا من بركاتك ورحمتك وفضلك ورزقك اللهم إني أسألك النعيم المقيم الذي لا يحول ولا يزول اللهم إني أسألك النعيم يوم العيلة والأمن يوم الخوف، اللهم عائذ بك من شر ما أعطيتنا ومن شر ما منعت منا، اللهم حبب إلينا الإيمان وزينه في قلوبنا، وكره إلينا الكفر والفسوق واجعلنا من الراشدين، اللهم توفنا مسلمين، وأحينا مسلمين وألحقنا بالصالحين غير خزايا ولا مفتونين، اللهم قاتل الكفرة الذين يكذبون رسلك ويصدون عن سبيلك واجعل عليهم رجزك وعذابك، اللهم قاتل الكفرة الذين أوتوا الكتاب إله الحق. "حم، خ" في الأدب، "ن، طب" والبغوي والباوردي، "حل، ك" وتعقب، "هق" في الدعوات، "ض" عن رفاعة بن رافع الزرقي قال لما كان يوم أحد وانكفأ المشركون قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم - فذكره؛ قال الذهبي الحديث مع نظافة إسناده منكر أخاف أن يكون موضوعا.
30047 ۔۔۔ ” مسند رفاعہ بن رافع “ جب مشرکین احد سے شکست کھا کر واپس لوٹے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زرہ توجہ کرو تاکہ میں اپنے رب کی ثناء کرلوں پھر یہ دعا کی ۔ اللہم لک الحمد کلہ اللہم لا قابض لما بسطت ولا باسط لما قبضت ولا ھادی لما اضللت ولا مضل لما ھدیت ولا معطی لما منعت ولا مانع لما اعطیت ولا مقارب لما باعدت ولا مباعد لما قوبت اللہم ابسط علینا من برکاتک ورحمتک وفضلک ورزقک اللہم انی اسالک النعیم المقیم الذی لایحول ولا یزول اللہم انی اسالک النعیم یوم العیلۃ والا من یوم الخوف اللہم عائذبک من شرما اعطیتنا ومن شر ما منعت منا اللہم حبب الینا الایمان وزینہ فی قلوبنا وکرہ الینا الکفر والفسوق واجعلنا من الراشدین اللہم توفنا مسلمین واحینا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا مفتونین اللہم قاتل الکفرۃ الذین یکذبون رسلک ویصدون عن سبیلک واجعل علیہم رجزک وعذابک اللہم قاتل الکفرۃ الذی اوتوالکتاب الہ الحق “۔۔ ترجمہ : ۔۔۔ یا اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں یا اللہ تیرے فراخی کو تنگی میں کوئی نہیں تبدیل کرسکتا اور تیری دی ہوئی تنگی کو کوئی فراخی میں نہیں تبدیل کرسکتا جسے تو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا تیرے عطا کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز کو تو روک دے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا جس چیز کو تو دور کر دے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا اور جس چیز کو تو قریب کرے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا یا اللہ اپنی برکتیں ہمیں عطا فرما ۔ اپنی رحمت فضل اور رزق سے ہمیں نواز یا اللہ میں تجھ سے دائمی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی تبدیل نہیں ہوئیں اور جن پر کبھی زوال نہیں آتا یا اللہ کم مائیگی کے دن میں تجھ سے نعمتوں کا سوال کرتا ہوں اور خوف کے دن امن کا خواستگار ہوں یا اللہ ایمان ہمیں محبوب بنا دے اور ایمان کو ہمارے دلوں میں مزین فرما ، کفر کا ناپسندیدہ کر دے فسوق سے ہمیں دور رکھ اور ہمیں رشد و ہدایت پانے والوں میں سے بنا دے یا اللہ ! ہمیں مسلمانوں کی موت عطا فرما۔ ہمیں مسلمان زندہ رکھ اور صالحین کے ساتھ شامل کر دے دراں حالیکہ ہم پشیمان نہ ہوں اور آزمائشوں میں نہ ڈالے جائیں ۔ یا اللہ کافروں کا صفایا کر دے جو تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں کافروں پر اپنا عذاب نازل فرمایا اللہ ! ان کافروں کو قتل کر دے جنہیں کتاب دی گئی اے معبود برحق۔ (رواہ احمد بن حنبل والبخاری فی الادب والنسائی والطبرانی والبغوی والباوردی وابو نعیم فی الحلیۃ والحاکم وتعقب البیہقی، فی الدعوات والضیاء عن رفاعۃ بن رافع الزرقی) ۔ کلام : ۔۔۔ حافظ ذھبی کہتے ہیں یہ حدیث باوجود نظافت اسناد کے منکر ہے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں یہ موضوع نہ ہو ۔

30048

30048- عن أبي حميد الساعدي أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم خرج يوم أحد حتى إذا جاز ثنية الوداع، فإذا هو بكتيبة خشناء قال: من هؤلاء؟ قالوا: عبد الله بن أبي في ستمائة من مواليه من اليهود من بني قينقاع، قال: وقد أسلموا؟ قالوا: لا يا رسول الله قال: مروهم فليرجعوا فإنا لا نستعين بالمشركين على المشركين. ابن النجار.
30048 ۔۔۔ ابو حمید ساعدی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احد کے موقع پر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جب ثنیۃ الوداع پہنچے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹا لشکر ہے جو مکمل طور پر اسلحہ سے لیس ہے آپ نے فرمایا : یہ کون لوگ ہیں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : عبداللہ بن ابی بنی قینقاع کے چھ سو یہودی سپاہیوں کے ہمراہ ہے آپ نے فرمایا : کیا ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے جواب دیا نہیں فرمایا : انھیں کہو واپس چلے جائیں چونکہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے ۔ (رواہ ابن النجار)

30049

30049- عن سعد بن عبادة قال: بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم عصابة من أصحابه على الموت يوم أحد حتى انهزم المسلمون فصبروا وكرموا وجعلوا يسترونه بأنفسهم يقول الرجل منهم: نفسي لنفسك الفداء يا رسول الله وجهي لوجهك الوقاء يا رسول الله وهم يحمونه ويقونه بأنفسهم، حتى قتل منهم من قتل وهم أبو بكر وعمر وعلي والزبير وطلحة وسعد وسهل بن حنيف وابن أبي الأفلح والحارث بن الصمة وأبو دجانة والحباب بن المنذر قال: ونهض رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إلى الصخرة ليعلوها وقد ظاهر بين درعين فلم يستطع فاحتمله طلحة بن عبيد الله فأنهضه حتى استوى عليها فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أوجب طلحة. "كر".
30049 ۔۔۔ حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے د صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی حتی کہ عارضی طور پر مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر مسلمان کفر کے سامنے ڈٹ گئے اور صبر و استقامت کا ثبوت دیا حتی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جسموں سے ڈھانپ لیا اور آپ کے آگے ڈھال بن گئے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یوں کہتے : یا رسول اللہ ! میری جان آپ کو جان پر قربان جائے میرا چہرہ آپ کے چہرے پر قربان ان میں سے بعض شہید ہوں وہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یہ ہیں ابوبکر ، عمر ، علی ، زبیر ، طلحہ ، سعد سھل بن حنیف ابن ابی افلح ، حارث بن صمہ ، ابو دجانہ ، حباب بن منذر ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹان پر چڑھنے لگے مگر آپ نے دو زرہیں پہن رکھی تھیں ، بوجھ بھاری ہونے کی وجہ سے چٹان پر نہ چڑھ سکے حضرت طلحہ بن عبداللہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھا کر چٹان پر رکھا آپ چٹان پر سیدھے کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا : طلحہ کے لیے جنت واجب ہوچکی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

30050

30050- عن أبي سعيد قال: لما كان يوم أحد شج رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجهه، وكسرت رباعيته فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ رافعا يديه يقول: "إن الله تعالى اشتد غضبه على اليهود أن قالوا: عزيز ابن الله، واشتد غضبه على النصارى أن قالوا: المسيح ابن الله، وإن الله اشتد غضبه على من أراق دمى وآذاني في عترتي". ابن النجار؛ وفيه زياد بن المنذر رافضي متروك.
30050 ۔۔۔ حضرت ابو سعید (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس زخمی ہوا اور سامنے کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ اوپر اٹھا کر کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب سخت ہوا چونکہ انھوں نے کہا : عزیر اللہ کا بیٹا ہے اللہ تعالیٰ کا غضب نصرانیوں پر بھی سخت ہوا چونکہ انھوں نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اس شخص پر بھی اللہ کا غضب ہوگا جس نے میرا خون بہایا اور میری اولاد کے متعلق مجھے اذیت دی ۔ (رواہ ابن النجار وفیہ زیاد بن المنذر رافضی متروک)

30051

30051- عن عبد الله بن الحارث بن نوفل أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم استقبله رجل من المشركين يوم أحد مصلتا يمشي فاستقبله رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي فقال: أنا النبي غير الكذب ... أنا ابن عبد المطلب فضربه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقتله. "ش".
30051 ۔۔۔ عبداللہ بن حارث بن نوفل کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک مشرک تلوار سونتے ہوئے آیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کا مانا کیا اور فرمایا : انا لا نبی غیر الکذب اناابن المطلب میں سچا نبی ہوں اور میرے نبی ہونے میں جھوٹ نہیں ہے ، عبید المطلب کا بیٹا ہوں چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30052

30052- عن ابن عباس قال: ما بقي مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم أحد إلا أربعة أحدهم عبد الله بن مسعود. "كر".
30052 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف چار آدمی باقی رہے تھے ان میں ایک حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بھی تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30053

30053- عن ابن عباس قال: قتل رجل من المشركين يوم أحد فأراد المشركون أن يدوه3 فأبى فأعطوه حتى بلغ الدية فأبى. "ش".
30053 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص احد کے دن قتل کیا گیا مشرکین نے اسے دوائی پلانا چاہی مگر اس نے علاج کروانے سے انکار کردیا مشرکین نے اسے دوائی دی ، حتی کہ مقام ویہ پر پہنچا اور مرگیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30054

30054- حدثنا خالد بن مخلد ثنا مالك بن أنس عن عبد الله بن أبي بكر عن رجل قال: هشمت البيضة على رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد وكسرت رباعيته، وجرح في وجهه، ودووي بحصير محرق؛ وكان علي بن أبي طالب ينقل إليه الماء في الحجفة. "ش".
30054 ۔۔۔ خالد بن مخلد ، مالک بن انس عبداللہ بن ابی بکر ایک شخص سے روایت نقل کرتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک میں خود کی کڑیاں کھب گئیں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ کا چہرہ اقدس بھی زخمی ہوا آپ کا جلے ہوئے شیرے سے علاج کیا گیا اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) آپ کے پاس مشکیزے میں پانی لاتے رہے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30055

30055- عن خالد بن معدان عن أبي بلال قال: قال ابن الشباب: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوم الشعب آخر أصحابه ليس بينه وبين العدو غير حمزة يقاتل العدو، فرصده وحشي فقتله وقد قتل الله بيد حمزة من الكفار واحدا وثلاثين وكان يدعى أسد الله. أبو نعيم.
30055 ۔۔۔ ابن شباب کی روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پیچھے تنہا رہ گئے تھے جبکہ آپ کے اور مشرکین کے درمیان حضرت حمزہ (رض) حائل تھے اور بےجگری سے لڑتے جارہے تھے اسی اثناء میں وحشی گھات لگائے بیٹھا تھا موقع ملتے ہی حضرت حمزہ (رض) کو شہید کردیا جبکہ آپ (رض) کے ہاتھ سے اکتیس (31) کفار واصل جہنم ہوئے آپ (رض) کو اسد اللہ کہہ کر پکارا جاتا تھا ۔ (رواہ ابو نعیم)

30056

30056- عن ابن عمر قال: لما كان عام أحد ردني رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر منهم أوس بن عزابة وزيد بن ثابت ورافع بن خديج. أبو نعيم.
30056 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت ہے کہ احد کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک جماعت کے ساتھ واپس کردیتا تھا ان میں اوس بن عزابہ ، زیدبن ثابت اور رافع بن خدیج (رض) بھی تھے ، رواہ ابو نعیم ۔

30057

30057- "مسند ابن عمر" " انطلق فقم على الطريق فلا يمر بك جريح إلا قلت: بسم الله، ثم تفلت في جرحه وقلت: بسم الله شفاء الحي الحميد من كل حد وحديد وحجر تليد اللهم اشف إنه لا شافي إلا أنت فإنه لا يقيح ولا يدمي". الحسن بن سفيان وابن عساكر عن أبي كهيل الأزدي قال: أتى رجل يوم أحد إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: إن الناس كثر فيهم الجراحات قال - فذكره.
30057 ۔۔۔ ” مسند ابن عمر “ جاؤ راستے میں کھڑے جاؤ اور جو زخمی بھی تمہارے پاس سے گزرے بسم اللہ پڑھ کر اس کے زخم پر دم کرو اور پھر یہ دعا پڑھ : ” بسم اللہ شفاء الحی الحمید من کل حد وحدید وحجر تلید اللہم اشف انہ لا شافی الا نت “۔ اللہ کے نام سے جو زندہ اور قابل ستائش ہے وہی شفا دینے والا ہے ہر تلخ سے تلوار سے دھاری دار پتھر سے یا اللہ شفاء دے اور تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ۔ (رواہ الحسن بن سفیان وابن عساکر عن ابی کھیل الازدی)

30058

30058- عن قتادة عن الحسن وسعيد بن المسيب أن قتلى أحد غسلوا. "ش".
30058 ۔۔۔ قتادہ حسن بصری (رح) اور سعید بن مسیب (رح) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ شہداء کو غسل دیا گیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30059

30059- عن الشعبي قال: مكر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالمشركين يوم أحد وكان أول يوم مكر فيه بهم. "ش".
30059 ۔۔۔ شعبی کی روایت ہے کہ احد کے دن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے ساتھ تدبیر (چال) چلی جبکہ تدبیر چلانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30060

30060- عن الشعبي قال: قتل حمزة بن عبد المطلب يوم أحد وقتل حنظلة ابن الراهب الذي طهرته الملائكة يوم أحد. "ش".
30060 ۔۔۔ شعبی کی روایت ہے کہ احد کے دن حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اور غسیل ملائکہ حضرت حنظلہ بن راہب شہید کیے گئے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30061

30061- عن الشعبي قال: أصيب يوم أحد أنف النبي صلى الله عليه وآله وسلم ورباعيته وزعم أن طلحة وقى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بيده فضرب فشلت أصبعه. "ش".
30061 ۔۔۔ شیبہ کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناک زخمی ہوئی آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے نیز حضرت طلحہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے بچاتے رہے حتی کہ ان کی انگلی ناکارہ ہوگئی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30062

30062- عن الشعبي أن امرأة دفعت إلى ابنها يوم أحد السيف فلم يطق حمله، فشدته على ساعده بنسعة1، ثم أتت به النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: " يا رسول الله هذا ابني يقاتل عنك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أي بني احمل ههنا أي بني احمل ههنا فأصابته جراحة، فصرع فأتي به النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: أي بني لعلك جزعت؟ قال: لا يا رسول الله". "ش".
30062 ۔۔۔ شعبی کی روایت ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر ایک عورت اپنے پیٹے کو لائی اور اس نے بیٹے کو تلوار دی لڑکا نہیں اٹھاسکتا تھا چنانچہ عورت نے رسی سے لڑکے کے بازو کے ساتھ تلوار باندھ دی پھر عورت بیٹے کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یہ میرا بیٹا ہے یہ آپ کی طرف سے لڑے گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بیٹا یہاں سے حملہ کرو اے بیٹا یہاں سے حملہ کرو چنانچہ دوران جنگ لڑ کے زخم آیا اور گھائل ہوگیا اس کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور فرمایا : اے بیٹا شاید تم جزع فزع کر رہے ہو ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30063

30063- عن عروة قال: رد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم أحد نفرا من أصحابه استصغرهم فلم يشهدوا القتال منهم عبد الله بن عمر بن الخطاب وهو يومئذ ابن أربع عشرة سنة وأسامة بن زيد والبراء بن عازب وعزابة بن أوس ورجل من بني حارثة وزيد بن أرقم وزيد بن ثابت ورافع قال: فتطاول له رافع وأذن له فسار معهم، وخلف بقيتهم فجعلوا حرسا للذراري والنساء بالمدينة. "كر، ص".
30063 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ایک جماعت کو چھوٹا سمجھ کر واپس کردیا ان میں عبداللہ بن عمر بن خطاب تھے ان کی عمر چودہ (14) سال تھی ، اسامہ بن زید ، براء بن عازب ، عزابۃ ب اوس بنی حارثہ کا ایک شخص زید بن ارقم ، زید بن ثابت اور رافع (رض) اجمعین تاہم رافع (رض) نے ایڑیاں اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو بڑا ثابت کیا یوں انھیں اجازت مل گئی اور لشکر کے ساتھ چل پڑے جبکہ بقیہ کو مدینہ میں پیچھے چھوڑ گئے اور یہ لوگ مدینہ میں عورتوں اور بچوں کی رکھوالی کرتے رہے۔ (رواہ ابن عساکر و سعید بن المنصور)

30064

30064- حدثنا محمد بن مروان عن عمارة بن أبي حفصة عن عكرمة قال: شج النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم أحد في وجهه، وكسرت رباعيته، وذلق من العطش حتى جعل يقع على ركبتيه، وترك أصحابه فجاء أبي بن خلف يطلبه بدم أخيه أمية بن خلف فقال: أين هذا الذي يزعم أنه نبي فليبرز لي فإنه إن كان نبيا قتلني؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أعطوني الحربة فقالوا: يا رسول الله وبك حراك فقال: إني قد استسقيت الله دمه فأخذ الحربة ثم مشي إليه فطعنه فصرعه عن دابته وحمله أصحابه فاستنفذوه فقالوا له: ما نرى بك بأسا؟ قال: إنه قد استسقى الله دمي إني لأجد لها ما لو كانت على ربيعة ومضر لوسعتهم". "ش".
30064 ۔۔۔ عکرمہ (رض) روایت کی ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس زخمی ہوا آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے شدت پیاس کی وجہ سے آپ گھٹنوں پر جھکا چاہتے تھے اتنے میں ابی بن خلف آیا اور وہ اپنے بھائی امیۃ بن خلف کا بدلہ لینا چاہتا تھا بولا ! کہاں ہے وہ شخص جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ ذرا میرے سامنے آئے اگر وہ سچا ہے مجھے قتل کرے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حربہ دو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ میں حربہ چلانے کی سکت ہے فرمایا : میں نے رب تعالیٰ سے اس کا خون مانگا ہے آپ نے حربہ لیا اور پھر اس کی طرف چل دئیے آپ نے حربہ اس دشمن کی طرف پھینکا ۔ حربہ نشانے پر لگا ابی بن خلف زخم کھا کر گھوڑے سے نیچے گرا اس کے ساتھی اسے گھسیٹتے ہوئے لے آئے اور کہا : تجھے کیا ہوا زخم تو گہرا نہیں ۔ اس نے کہا : محمد نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے میرے خون کی منت مان رکھی تھی میں اتنا درد پاتاہوں کہ اگر یہ درد ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں تقسیم کیا جائے انھیں بھی کافی ہو ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30065

30065- حدثنا عقال حدثنا حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن أبيه عن الزبير - مثله.
30065 ۔۔۔ عقال حماد بن سلمہ ، ہشام بن عمروہ عن ابیہ زبیر (رض) کی سند سے بھی مثل بالاحدیث مروی ہے۔

30066

30066- عن عكرمة أن أبا حذيفة بن اليمان يوم أحد قتله رجل من المسلمين وهو يرى أنه من المشركين فواده رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده قال: وكان اسمه حسيل بن اليمان أو حسل. أبو نعيم.
30066 ۔۔۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کے والد کو غزوہ احد میں ایک مسلمان نے قتل کردیا جبکہ مسلمان اسے مشرکین کافر وسمجھ رہا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہوا تو آپ نے اپنی طرف سے حذیفہ (رض) کو دیت دی چنانچہ اس کا نام حسیل یا حسل تھا ۔ (رواہ ابونعیم)

30067

30067- عن ابن شهاب: خفي خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد على الناس كلهم إلا على ستة نفر الزبير وطلحة وسعد بن أبي وقاص وكعب بن مالك وأبي دجانة وسهل بن أبي حنيف. "كر".
30067 ۔۔۔ ابن شہاب کی روایت ہے کہ احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق خبر صرف چھ آدمیوں کو ہوئی وہ یہ ہیں زبیر ، طلحہ سعد بن ابی وقاص ، کعب بن مالک ، ابودجانہ ، اور سہل بن حنیف ۔ (رواہ ابن عساکر)

30068

30068- "مسند علي" عن سعد قال: رأيت عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم وعن شماله يوم أحد عليهما ثياب بيض ما رأيتهما قبل ولا بعد يعني جبرئيل وميكائيل. "ش".
30068 ۔۔۔ ” مسند علی “ حضرت سعد (رض) کی روایت ہے کہ میں نے احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں بائیں جبرائیل امین اور میکائیل (علیہ السلام) کو دیکھا انھوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے میں نے انھیں اس سے پہلے دیکھا اور نہ ہی اس کے بعد ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30069

30069- "أيضا" عن سعد قال: " كان رجل من المشركين قد أحرق المسلمين فقال النبي صلى الله عليه وسلم لي: ارم فداك أبي وأمي فنزعت بسهم فيه نصل فأصابت جبهته فوقع فانكشفت عورته فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه". "كر"؛ ورجاله ثقات.
30069 ۔۔۔ حضرت سعد (رض) کی روایت ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص مسلمانوں کو جلانا چاہتا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیر مارو میں نے کمان میں تیر رکھ کر نشانہ درست کیا اور تیر چلایا تیر سیدھا اس شخص کی پیشانی پر جا لگا اور وہ زمین پر گرپڑا ۔ گرتے ہی اس کا ستر کھل گیا اس کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے حتی کہ آپ کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے ۔ (رواہ ابن عساکر ورحالہ ثقات)

30070

30070- "أيضا" عن سعد قال: لقد رأيتني أرمي بالسهم يوم أحد فيرده علي رجل أبيض حسن الوجه لا أعرفه حتى كان بعد فظننت أنه ملك. الواحدي، "كر".
30070 ۔۔۔ حضرت سعد (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن میں نے ایک تیر مارا ایک خوبصورت شخص نے میرا تیر مجھے واپس کردیا میں اس شخص کو نہیں جانتا تھا حتی کہ کافی دیر بعد مجھے یقین ہوا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے۔ (رواہ الواحدی وابن عساکر)

30071

30071- "مسند طلحة" عن قيس بن أبي حازم قال: رأيت يد طلحة بن عبيد الله شلاء وقى بها النبي صلى الله عليه وسلم يوم أحد. "ش، حم" وابن منده، "كر" وأبو نعيم في المعرفة.
30071 ۔۔۔ ” مسند طلحہ “ قیس بن ابی حازم کی روایت ہے کہ میں نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) کا شل ہاتھ دیکھا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچاتے رہے (رواہ ابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل وابن مندہ وابن عساکر وابو نعیم فی المعرفۃ)

30072

30072- "أيضا" عن موسى بن طلحة قال: لقد رأيت بطلحة أربعة وعشرين جرحا جرحها مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم. "ش".
30072 ۔۔۔ موسیٰ بن طلحہ کی روایت ہے کہ میں نے حضرت طلحہ (رض) کے جسم پر چوبیس (24) زخم دیکھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتے ہوئے آئے تھے ۔ (رواہ ابن شیبۃ)

30073

30073- عن طلحة أنه لما وقى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده يوم أحد فقطعت قال: حسن1، فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: " لو قلت: بسم الله لرأيت بناءك الذي بنى الله لك في الجنة وأنت في الدنيا". "قط" في الأفراد، "كر".
30073 ۔۔۔ حضرت طلحہ (رض) کی روایت ہے کہ احد میں جب وہ اپنے ہاتھ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچانے میں مصروف تھے آپ (رض) کا ہاتھ ٹوٹ گیا غفلت میں زبان سے ” حس “ کا کلمہ نکلا اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے تو اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت میں اپنا محل دیکھ لیتے جو رب تعالیٰ نے تمہارے لیے بنایا ہے۔ (رواہ الدارقطنی فی الافراد وابن عساکر)

30074

30074- عن الزهري قال: لما كان يوم أحد وانهزم المسلمون عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حتى بقي في اثني عشر رجلا من المهاجرين والأنصار منهم طلحة بن عبيد الله، فذهب رجل من المشركين يضرب وجه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالسيف فوقاه طلحة بيده، فلما أصاب طلحة السيف قال: حس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا طلحة ألا قلت بسم الله؟ لو قلت بسم الله وذكرت الله لرفعتك الملائكة والناس ينظرون إليك". "كر".
30074 ۔۔۔ زہری کی روایت ہے کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی اور مسلمان متفرق ہوئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف بارہ صحابہ کرام (رض) اجمعین باقی رہے ان میں سے ایک حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) بھی تھے چنانچہ ایک مشرک آگے بڑھا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس پر تلوار سے حملہ آور ہونا چاہتا تھا حضرت طلحہ (رض) نے آپ کے چہرہ اقدس کے آگے اپنا ہاتھ رکھ دیا جب تلوار ہاتھ پر پڑھی زبان سے ” حس “ کا کلمہ نکلا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے طلحہ رک جاؤ اگر تم بسم اللہ کہتے کیا اچھا ہوتا ؟ اگر تم بسم اللہ کہہ دیتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تمہیں فرشتے اوپر اٹھالیتے لوگ تمہیں دیکھتے رہ جاتے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30075

30075- عن طلحة قال: لما كان يوم أحد وأصابني السهم فقلت: حسن فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: لو قلت: بسم الله لطارت بك الملائكة والناس ينظرون إليك". "كر".
30075 ۔۔۔ حضرت طلحہ (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن مجھے ایک تیر لگا میری زبان سے ” حس “ نکلا اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم بسم اللہ کہتے فرشتے تمہیں لے کر فضاء میں پرواز کر جاتے اور لوگ تمہیں دیکھتے ہی رہ جاتے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30076

30076- "مسند أنس بن ظهير" عن حسين بن ثابت بن أنس بن ظهير عن أخته سعدى بنت ثابت عن أبيها عن جدها أنس قال: لما كان يوم أحد حضر رافع بن خديج مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فاستصغره وقال: هذا غلام صغير وهم برده فقال له عمه ظهير بن رافع: يا رسول الله إن ابن أخي رجل رام فأجازه النبي صلى الله عليه وآله وسلم. "خ" في تاريخه وابن السكن وابن منده وأبو نعيم في المعرفة، قال هو تصحيف من بعض الواهمين لأن الصحيح هو أسيد بن ظهير، قال في الإصابة: وأخطأ أبو نعيم في ذلك والصواب مع الجماعة وإنه أنس بن ظهير أخو أسيد بن ظهير.
30076 ۔۔۔ ” مسند انس بن ظھیر “۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ احد کے دن حضرت رافع بن خدیج (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انھیں چھوٹا سمجھ کر فرمایا : یہ چھوٹا لڑکا ہے آپ نے انھیں واپس کرنا چاہا رافع (رض) کے چچا ظہر بن رافع (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بھتیجا اچھا تیر انداز ہے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اجازت دے دی (رواہ البخاری فی تاریخہ وابن السکن وابن مندہ وابو نعیم فی المعرفۃ اور کہا ہے کہ ظہیر بن رافع (رض) کے نام میں کسی وہمی شخص سے تصحیف ہوئی ہے چونکہ صحیح نام اسید بن ظہرا ہے جبکہ الاصابہ میں ہے کہ درست وصوب وہی بات ہے جو جماعت نے کی ہے اور وہ یہ ہے انس بن ظہیر جو کہ اسید بن ظہیر کے بھائی ہیں۔ حدیث کی سند یوں ہے حسین بن ثابت بن انس بن ظہیر عن اختہ سعدی بنت ثابت عن ابیھا عن جدھا انس (رض))

30077

30077- "مسند عمر" عن عائشة قالت: خرجت يوم الخندق أقفو آثار الناس فمشيت حتى اقتحمت حديقة فيها نفر من المسلمين فيهم عمر بن الخطاب وفيهم طلحة، فقال عمر: إنك لجريئة وما يدريك لعله يكون بلاء أو تحوز فوالله ما زال يلومني حتى لوددت أن الأرض تنشق فأدخل فيها، فقال طلحة: قد أكثرت أين التحوز أين الفرار. "كر".
30077 ۔۔۔ ” مسند عمر “ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر گھر سے نکلی اور لوگوں کے پیچھے پیچھے ہوئی حتی کہ ایک باغیچے میں داخل ہوئی ۔ باغیچے میں مسلمانوں کی ایک جماعت موجود تھی ان میں حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت طلحہ (رض) بھی تھے حضرت عمر (رض) نے کہا : تم نے جرات کا مظاہرہ کیا ہے تمہیں کیا معلوم ہوسکتا ہے کوئی آزمائش پیش آجائے یا ہم کسی جنگی چال کے لیے یہاں آئے ہوں بخدا ، عمر (رض) مجھے برابر ملامت کرتے رہے حتی کہ میں نے چاہا کہ زمین شق ہوجائے اور میں اس میں دھنس جاؤں حضرت طلحہ (رض) نے کہا : اے عمر ! تم نے بہت باتیں کردیں جنگی چال کہاں ہے اور جنگ سے بھاگنا کہاں ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

30078

30078- "أيضا" عن عمر قال: ما صلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق الظهر والعصر حتى غابت الشمس. المخلص في حديثه.
30078 ۔۔۔ حضرت عمر (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن ظہر کی نماز پڑھی اور نہ ہی عصر کی نماز حتی کہ سورج غروب ہوگیا ۔ (رواہ المخلص فی حدیثہ)

30079

30079- "مسند البراء بن عازب" عن البراء قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق ينقل التراب حتى وارى التراب شعر صدره وهو يرتجز برجز عبد الله بن رواحة يقول: اللهم لولا أنت ما اهتدينا ... ولا تصدقنا ولا صلينا فأنزلن سكينة علينا ... وثبت الأقدام إن لاقينا إن الأولى قد بغوا علينا ... وإن أرادوا فتنة أبينا "ش"
30079 ۔۔۔ مسند براء بن عازب “ حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مل کر) خندق سے مٹی نکالتے رہے حتی کہ سینہ مبارک کے بال مٹی سے اٹے پڑے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زبان مبارک سے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے یہ رجزیہ اشعار پڑھتے رہے ۔ اللہم لولا انت ما اھت دینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا : ان الاولی قد بغوا علینا وان ارادو افتنۃ ابینا : یا اللہ اگر تیری توفیق نہ ہوتی تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے نہ صدقہ دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے ہم پر سکون اور اطمینان نازل فرما اور لڑائی کے وقت ہمیں ثابت قدم رکھ ان لوگوں نے ہم پر بڑا ظلم کیا ہے اور یہ جب بھی ہمیں کسی فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی بھی اسے قبول نہیں کرتے ۔

30080

30080- عن البراء بن عازب قال: لما كان حيث أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفر الخندق عرضت لنا في بعض الخندق صخرة عظيمة شديدة لا تأخذ منها المعاول، فاشتكينا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآها ألقى ثوبه وأخذ المعول فقال: بسم الله ثم ضرب ضربة فكسر ثلثها وقال: الله أكبر أعطيت مفاتيح الشام والله إني لأبصر قصورها الحمر الساعة، ثم ضرب الثانية فقطع الثلث الآخر فقال: الله أكبر أعطيت مفاتيح فارس والله إني لأبصر قصر المدائن الأبيض ثم ضرب الثالثة وقال: بسم الله فقطع بقية الحجر وقال: الله أكبر أعطيت مفاتيح اليمن، والله إني لأبصر أبواب صنعاء من مكاني هذا الساعة. "كر، خط" في المتفق والمفترق.
30080 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا خندق میں ایک جگہ بھاری چٹان آگئی جو نہ باہر نکل پائی تھی اور نہ ہی ٹوٹی تھی ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی آپ تشریف لائے جب آپ نے چٹان دیکھی اپنی چادر نیچے رکھی اور ہتھوڑا اٹھا لیا پھر بسم اللہ پڑھ کر ہتھوڑا مارا چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا اور آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا : مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں بخدا ! میں نے شام کے سرخ محلات دیکھ لیے پھر آپ نے دوسری بار ہتھوڑا مارا چٹان دوتہائی ٹوٹ گئی آپ نے ایک بار پھر نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا : مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں بخدا میں مدائن کے سفید محلات دیکھ رہا ہوں آپ نے پھر تیسری بار ہتھوڑا مارا اور بسم اللہ پڑھی لوں چٹان کا بقیہ حصہ بھی ٹوٹ گیا آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا : مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں بخدا میں اپنی اس جگہ سے یمن کے دروازے دیکھ رہا ہوں ۔ (رواہ ابن عساکر والخطیب فی المتفق والمفترق)

30081

30081- "من مسند ثعلبة بن الرحمن الأنصاري" عن زيد بن ثابت "أجازني رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق وكساني". "طب".
30081 ۔۔۔ ” مسند ثعلبہ بن عبدالرحمن انصاری ‘’‘ حضرت زید بن ثابت (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے لیے مجھے اجازت دی اور مجھے چادر پہنائی ۔ (رواہ الطبرانی)

30082

30082- عن جابر قال: لما كان يوم الأحزاب ورد الله المشركين بغيظهم لم ينالوا خيرا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من يحمي أعراض المسلمين؟ قال كعب بن مالك: أنا يا رسول الله وقال ابن رواحة: أنا يا رسول الله قال: إنك تحسن الشعر فقال حسان بن ثابت: أنا يا رسول الله قال: نعم اهجم أنت وسيعينك عليهم روح القدس". ابن منده، "كر"؛ ورجاله ثقات.
30082 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے انجام میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو رسوا کرکے واپس کیا اور انھیں کچھ غنیمت نہ ملی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمانوں کی عزت میں کون اشعار کہے گا ؟ کعب بن مالک (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کہوں گا ابن رواحہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کہوں گا فرمایا : تم اچھے اشعار کہہ لیتے ہو حضرت حسان بن ثابت (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کہوں گا ، جی ہاں مشرکین کی ہجو میں اشعار کہو جبرائیل امین تمہاری مدد کریں گے ۔ (رواہ ابن مندہ وابن عساکرورجالہ ثقات)

30083

30083- "مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: مكث النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه يحفرون الخندق ثلاثا ما ذاقوا طعاما، فقالوا: "يا رسول الله إن هنا كدية من الجبل فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: رشوا عليها الماء فرشوها، ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم فأخذ المعول أو المسحاة ثم قال: بسم الله، ثم ضرب ثلاثا فصارت كثيبا قال جابر: فحانت مني التفاتة فرأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قد شد على بطنه حجرا". "ش".
30083 ۔۔۔ ” مسند جابر بن عبداللہ “۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تین دن تک خندق کھودتے رہے اور کھانا چکھا تک نہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خندق میں ایک چٹان آگئی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر پانی ڈالو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور کدال یا ہتھوڑا لیا پھر بسم اللہ پڑھ کر تین چوٹیں لگائیں چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی حضرت جابر (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریب ہو کر دیکھا کہ آپ نے پیٹ مبارک پر (بھوک کی شدت کی وجہ سے) پتھر باندھ رکھا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30084

30084- "من مسند حذيفة بن اليمان" عن زيد بن أسلم قال: قال رجل لحذيفة أشكو إلى الله صحبتكم رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنكم أدركتموه ولم ندركه ورأيتموه ولم نره، قال حذيفة: ونحن نشكو إلى الله إيمانكم به ولم تروه والله ما أدري لو أنك أدركته كيف كنت تكون، لقد رأيتنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ليلة الخندق ليلة باردة مطيرة إذ قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: هل من رجل يذهب فيعلم لنا علم القوم جعله الله رفيق إبراهيم يوم القيامة؟ فما قام منا أحد، ثم قال: هل من رجل يذهب فيعلم لنا علم القوم ادخله الله الجنة؟ فوالله ما قام منا أحد ثم قال: هل من رجل يذهب فيعلم لنا علم القوم جعله الله رفيقي في الجنة؟ فما قام منا أحد فقال أبو بكر يا رسول الله ابعث حذيفة، قال حذيفة: فقلت دونك فوالله ما قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يا حذيفة حتى قلت يا رسول الله بأبي وأمي أنت والله مابي أن أقتل ولكن أخشى أن أؤسر، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إنك لن تؤسر، فقلت: يا رسول الله مرني بما شئت فقال: اذهب حتى تدخل في القوم فنأتي قريشا فتقول: يا معشر قريش: إنما يريد الناس أن يقولوا غدا: أين قريش أين قادة الناس أين رؤوس الناس؟ تقدموا فتقدموا فتصلوا بالقتال فيكون القتل بكم ثم ائت كنانة فقل: يا معشر كنانة إنما يريد الناس غدا أن يقولوا أين كنانة أين رماة الحدق تقدموا فتقدموا فتصلوا بالقتال فيكون القتل بكم، ثم ائت قيسا فقل: يا معشر قيس إنما يريد الناس غدا أن يقولوا: أين قيس أين أحلاس الخيل أين فرسان الناس تقدموا فتقدموا فتصلوا بالقتال ويكون القتل بكم. ثم قال لي: ولا تحدث في سلاحك شيئا قال حذيفة: فذهبت فكنت بين ظهراني القوم أصطلي معهم على نيرانهم وأذكر لهم القول الذي قال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أين قريش أين كنانة أين قيس حتى إذا كان وجه السحر قام أبو سفيان يدعو باللات والعزى ويشرك ثم قال: لينظر رجل من جليسه؟ قال: ومعي رجل يصطلي، قال: فوثبت عليه مخافة أن يأخذني فقلت: من أنت؟ قال: أنا فلان قلت: أولى فلما رأى أبو سفيان الصبح قال أبو سفيان: نادوا أين قريش أين رؤوس الناس أين قادة الناس تقدموا قالوا: هذه المقالة التي أتينا بها البارحة ثم قال: أين كنانة أين رماة الحدق تقدموا فقالوا: هذه المقالة التي أتينا بها البارحة ثم قال: أين قيس أين فرسان الناس أين أحلاس الخيل تقدموا فقالوا هذه المقالة التي أتينا بها البارحة قال: فخافوا فتخاذلوا وبعث الله عليهم الريح فما تركت لهم بناء إلا هدمته ولا إناء إلا كفأته، وتنادوا بالرحيل قال حذيفة حتى رأيت أبا سفيان وثب على جمل له معقول فجعل يستحثه للقيام ولا يستطيع القيام لعقاله فقال حذيفة: فوالله لولا ما قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تحدث في سلاحك شيئا لرميته من قريب قال: وسار القوم وجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فضحك حتى رأيت أنيابه". "د، كر".
30084 ۔۔۔ ” مسند حذیفہ بن یمان “ زید بن اسلم کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت حذیفہ (رض) سے کہا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمہاری صحبت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتا ہوں کہ تم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پایا ہم نے انھیں نہیں پایا تم نے انھیں دیکھا جبکہ ہم انھیں نہیں دیکھ سکے حضرت حذیفہ (رض) نے کہا : ہم اللہ تعالیٰ سے تمہارے ایمان کی شکایت کرتے ہیں چونکہ تم نے اللہ کو دیکھا نہیں ، بخدا میں نہیں جانتا کہ تم اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پالیتے تم کسی حال میں ہوتے ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ خندق کی وہ طوفانی رات دیکھی ہے جو شدید بارش اور سخت سردی والی رات تھی یکایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : کون جا کر دشمن کی خبر لائے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) کا رفیق بنائے گا ۔ چانچہ ہم میں سے کوئی شخص بھی تیار نہ ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : کیا کوئی شخص جا کر دشمن کی خبر لائے گا وہ جنت میں داخل ہوگا بخدا مجمع سے کوئی شخص کھڑا نہ ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کوئی شخص جائے اور دشمن کی (جاسوسی کرکے) خبر لائے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق بنائے گا چنانچہ اس بار بھی مجمع میں سے کوئی نہ اٹھا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حذیفہ کو بھیج دیں حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں میں نے کہا تم چپ رہو ، بخدا ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مخاطب نہیں کیا حتی کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے قتل ہونے کا ڈر نہیں ، البتہ مجھے گرفتار ہونے کا ڈر ہے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم گرفتار نہیں ہوں گے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے جو چاہیں حکم دیں فرمایا : جاؤ اور قریش کے مجمع میں داخل ہوجاؤ اور کہو : اے جماعت قریش ! لوگ چاہتے ہیں کہ کل کہیں : کہاں ہیں قریش کہاں ہیں لوگوں کے راہنما کہاں ہیں لوگوں کے سردار ! آگے بڑھو تم آگے بڑھنا اور جنگ شروع کردینا یوں جنگ تمہارے بل بوتے پر ہوگی پھر تم بنی کنانہ کے پاس جاؤ اور کہو : اے جماعت کنانہ ! لوگ چاہتے ہیں کل کہیں کہ کہاں ہیں بنی کنانہ کہاں ہیں تیر انداز آگے بڑھو تم آگے بڑھنا یوں جنگ میں جا ملنا اور جنگ کا پانسہ تمہارے ہاتھ میں ہوگا پھر تم قیس کے پاس آنا اور کہو : اے جماعت قیس ! لوگ چاہتے ہیں کل کہیں کہ : کہاں ہے قبیلہ قیس جو بےمثال شہسوار ہیں کہاں شہسواروں کے پیشوا آگے بڑھو تم آگے بڑھنا اور جنگ میں جا ملنا یوں جنگ کا پانسہ تمہارے ہاتھ میں ہوگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تاکید کی کہ اپنے اسلحہ سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا حتی کہ تم میرے پاس واپس آجاؤ ۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں میں قریش کی طرف چل دیا اور لشکر کے درمیان جا پہنچا اور ان کے ساتھ مل کر آگ تاپنے لگا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے کے مطابق بات کرنے لگا کہ قریش کہاں ہیں ؟ کنانہ کہاں ہیں ؟ قیس کہاں ہیں ؟ حتی کہ سحری کے وقت ابو سفیان کھڑا ہوا اور لات عزی سے مناجات کیں پھر کہا : ہر شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کی تحقیق کرے کہ کون ہے حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں : میرے پاس ایک شخص بیٹھا آگ تاپ رہا تھا میں نے پھرتی سے اسے پکڑ لیا تاکہ مجھ سے پہلے وہ مجھے نہ پکڑے میں نے کہا : تو کون ہے اس نے کہاں میں فلاں ہوں میں نے کہا : اچھا اچھا ٹھیک ہے حضرت ابو سفیان نے صبح کے آثار دیکھے کہا : آواز دو کہاں ہیں قریش ؟ کہاں ہیں لوگوں کے راہنما ؟ کہاں ہیں لوگوں کے پیشوا ؟ آگے بڑھو چنانچہ لوگوں نے کہا : یہ بات تو رات کو سنی گئی ہے ابو سفیان نے پھر کہاں کہاں ہیں کنانہ تیر انداز آگے بڑھو لوگوں نے کہا : یہ بات تو رات کو سنی گئی ہے پھر کہا : کہاں ہیں قیس کہاں ہیں شہسوار کہاں ہیں گھوڑے دوڑانے والے آگے بڑھو لوگوں نے کہا : یہ بات تو رات کو سنی گئی ہے ، یہ صورتحال دیکھ کر مشرکین ڈر گئے اور ہمت ہار گئے اللہ تعالیٰ نے تندوتیز آندھی چلائی چنانچہ مشرکین کا کوئی خیمہ نہ رہا جسے ہوا نے الٹ نہ دیا ہو اور ان کا ہر برتن الٹ گیا ہر طرف کوچ کرنے کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں : میں نے ابو سفیان کو دیکھا اس نے اپنے اونٹ پر چھلانگ لگائی اونٹ بندھا ہوا تھا حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں : بخدا ! اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کچھ نہ کرنے کی تاکید نہ کی ہوتی ہیں ابو سفیان پر تیروں کی بارش کردیتا چونکہ وہ میرے بہت قریب کھڑا تھا چنانچہ قریش رسوا ہو کر چل دئیے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں واپس لوٹ آیا اور ساری کارگزاری آپ کے گوش گزار کی آپ کار گزاری سن کر ہنس پڑے حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دانت مبارک دکھائی دینے لگے ۔ (رواہ ابو داؤد وابن عساکر)

30085

30085- عن حذيفة سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول يوم الخندق: " شغلونا عن صلاة العصر - فلم يصلها يومئذ حتى غابت الشمس - ملأ الله بيوتهم وقبورهم نارا". "هق" في عذاب القبر.
30085 ۔۔۔ حضرت حذیفہ (رض) کی روایت ہے کہ میں نے خندق کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : مشرکین نے ہمیں نماز عصر سے مشغول رکھا چنانچہ آپ نے تاغروب آفتاب نماز نہ پڑھی اللہ تعالیٰ کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ البیہقی فی عذاب القبر)

30086

30086- عن كعب بن مالك " أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لما رجع من طلب الأحزاب نزع لأمته واغتسل واستجمر". "كر" وقال: رجاله ثقات والحديث غريب.
30086 ۔۔۔ حضرت کعب بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ احزاب سے واپس لوٹے اپنی زرہ اتاری پتھروں سے استنجاء کیا اور پھر غسل کیا ۔ (رواہ ابن عساکر وقال رجالہ ثقات والحدیث غریب)

30087

30087- "من مسند رافع بن خديج" عن هرمز بن عبد الرحمن بن رافع بن خديج عن أبيه عن جده لما كان يوم الخندق لم يكن حصن أحصن من حصن بني حارثة، فجعل النبي صلى الله عليه وآله وسلم النساء والصبيان والذراري فيه فقال: إن ألم بكن أحد فألمعن بالسيف فجاءهن رجل من بني ثعلبة بن سعد يقال له بخدان أحد بني حجاش على فرس حتى كان في أصل الحصن، ثم جعل يقول للنساء: انزلن إلى خير لكن فحركن السيف فأبصره أصحاب النبي صلى الله عليه وآله وسلم فابتدر الحصن قوم فيهم رجل من بني حارثة يقال له ظهير بن رافع فقال: يا بخدان ابرز فبرز إليه فحمل عليه فقتله وأخذ رأسه فذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. "طب".
30087 ۔۔۔ ” مسند رافع بن خدیج “ ھرمز بن عبدالرحمن بن رافع بن خدیج عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر سب سے اچھا قلعہ بنی حارثہ کا قلعہ تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو اسی قلعہ میں محفوظ کیا اور عورتوں کو تاکید کردی کہ اگر کوئی شخص تمہارے اوپر حملہ آور ہو تو تلواروں سے اس کی خبر لو چنانچہ بخدان نامی شخص جو بنی حجاش سے تھا گھوڑے پر سوار ہو کر قلعہ کے عین نیچے آکھڑا ہو اور عورتوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ایک بہترین شخص کی طرف نیچے اتروعورتوں نے قلعہ کے اوپر سے تلواریں لہرائیں جنہیں مسلمانوں نے دیکھ لیا مسلمانوں کی ایک جماعت خبر لینے قلعے کی طرف دوڑ پڑی ان میں بنی حارثہ کا ایک شخص ظہیر بن رافع (رض) بھی تھا اس نے مشرک سے کہا : سامنے آکر مقابلہ کر ۔ چنانچہ ظہیر (رض) نے اس پر حملہ کردیا اور اس کی گردن اڑا دی پھر سر لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ (رواہ الطبرانی)

30088

30088- عن هرمز بن عبد الرحمن بن رافع بن خديج عن أبيه عن جده عن زيد بن ثابت قال: أجازني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق وكساني قبطية. "كر"؛ وفيه يعقوب بن محمد الزهري ضعيف.
30088 ۔۔۔ ہرمز بن عبدالرحمن بن رافع بن خدیج عن ابیہ عن جدہ کی سند سے حضرت زید بن ثابت (رض) کی حدیث مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق میں شرکت کرنے کے لیے مجھے اجازت دی اور مجھے ایک چادر بھی اوڑائی ۔ (رواہ ابن عساکر وفیہ یعقوب بن محمد الزھری ضعیف)

30089

30089- عن وهب انبأنا سعيد بن عبد الرحمن الجشمي رجل من الأنصار من بني سلمة عن أبيه عن جده ابن جهاد وكان ابن جهاد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن ابنه قال: يا أبتاه رأيتم رسول الله صلى الله عليه وسلم وصحبتموه والله لو رأيته لفعلت وفعلت فقال: يا بني اتق الله وسدد فوالذي نفسي بيده لقد رأيتنا معه يوم الخندق وهو يقول: " من يذهب فيأتيني بخبرهم جعله الله رفيقي يوم القيامة؟ فما قام من الناس أحد من صميم ما بنا من الجوع والقر، ثم نادى يا حذيفة باسمه فقال: يا رسول الله والذي نفسي بيده ما منعني أن أقوم إلا خشية أن لا آتيك بخبرهم فقال: اذهب ودعا له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بخير". "كر".
30089 ۔۔۔ ابن جہاد (رض) سے مروی ہے کہ ان کے بیٹے نے کہا (ابن جہاد (رض) کو شرف صحبت حاصل ہے) اے اباجان ! آپ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں رہے ہیں اگر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ لیتا آپ کے ساتھ ایسا اور ایسا برتاؤ کرتا ابن جہاد (رض) نے فرمایا : اے بیٹا ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اصلاح کرتے رہو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہم غزوہ خندق کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا : جو شخص مشرکین کی خبر لائے گا وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا چنانچہ لوگوں میں سے کوئی بھی نہ اٹھا چونکہ بھوک اور سردی نے لوگوں کو نہایت کسم پرسی کے عالم میں دکھیل دیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : اے حذیفہ (رض) حضرت حذیفہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں صرف اس خوف سے نہیں اٹھا کہ ممکن ہے میں آپ کے پاس مشرکین کی خبر نہ لا سکوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حذیفہ (رض) کے لیے دعائے خیر کی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30090

30090- الواقدي حدثني أبي ابن عباس بن سهل عن أبيه عن جده قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق فأخذ الكرزين وضرب به فصادف حجرا فصل الحجر فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل: يا رسول الله مم تضحك؟ قال: أضحك من قوم يؤتى بهم من المشرق في الكبول يساقون إلى الجنة وهم كارهون". ابن النجار.
30090 ۔۔۔ واقدی ابن عباس بن سہل عن ابیہ جدہ کی سند سے روایت نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھوڑا لیا اور پتھر پر ضرب لگائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرب سے پتھر کی کھوکھلی آواز آئی آپ ہنس پڑے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کیوں ہنسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں ایک قوم سے ہنسا ہوں جس کا تعلق مشرق سے ہے اسے جنت کی طرف بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جارہا ہے جبکہ وہ جنت میں نہیں جانا چاہتے ۔ (رواہ ابن النجار)

30091

30091- "مسند أبي سعيد" عن أبي سعيد حبسنا يوم الخندق عن الظهر والعصر والمغرب والعشاء حتى كفينا ذلك وذلك قوله تعالى: {وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيّاً عَزِيزاً} فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمر بلالا فأذن، ثم أقام الصلاة، ثم صلى الظهر كما كان يصليها قبل ذلك ثم أقام فصلى العصر كما كان يصليها قبل ذلك، ثم أقام المغرب فصلى المغرب كما كان يصليها قبل ذلك ثم أقام العشاء فصلاها كما كان يصليها قبل ذلك وذلك قبل أن ينزل {فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَاناً} . "ط، عب، حم، ش" وعبد بن حميد، "ن، ع" وأبو الشيخ في الأذان، "هق".
30091 ۔۔۔ ” مسند ابی سعید “۔ حضرت ابو سعید (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے دوران ہم ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں سے سے روک دیئے گئے پھر ہماری کفایت کردی گئی چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ” وکفی اللہ المؤمنین القتال وکان اللہ قویا عزیز “۔ اللہ تعالیٰ مومنین کی طرف سے جنگ کے لیے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ قوت والا اور غالب ہے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا انھوں نے اذان دی پھر نماز قائم کی پہلے ظہر کی نماز پڑھی جس طرح کہ اس سے پہلے پڑھتے تھے پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی ایسے ہی جس طرح پہلے پڑھتے تھے ، آپ نے یہ نمازیں یہ آیت نازل ہونے سے پہلے پڑھیں (آیت)” فان خفتم فرجالا اور کبانا “۔ یعنی اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ پا نماز پڑھ لو یا سوار ہو کر ۔ یعنی نماز خوف کے حکم کے نزول سے قبل کا وقعہ ہے۔ (رواہ ابو داؤد والطیالسی وعبدالرزاق واحمد بن حنبل وابن ابی شیبۃ وعبدبن حمید والنسائی وابو یعلی وابو الشیخ فی الاذان والبیہقی)

30092

30092- عن عبد الله بن أبي أوفى قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على الأحزاب فقال: " اللهم منزل الكتاب سريع الحساب هازم الأحزاب اهزمهم وزلزلهم". "ش".
30092 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احزاب (لشکروں) پر یوں بددعا کی ” اللہم منزل الکتاب سریع الحساب ھازم الاحزاب اھزمھم وزلزلھم “۔ اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے جلد از جلد حساب چکانے والے لشکروں کو شکست دینے والے ، لشکروں کو شکست دے اور انھیں جھنجھوڑ ۔ (رواہ ابن ابی شبیۃ)

30093

30093- عن مصعب قال كان ابن الزبير يحدث أنه كان في فارع أطم حسان بن ثابت مع النساء يوم الخندق ومعهم عمر بن أبي سلمة فقال ابن الزبير: ومعنا حسان بن ثابت ضاربا وتدا في ناحية الأطم، فإذا حمل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على المشركين حمل على الوتد فضربه بالسيف، وإذا أقبل المشركون انحاز على الوتد حتى كأنه يقاتل قرنا يتشبه بهم كأنه يرى أنه يجاهد جبنا عن القتال قال: وإني لأظلم ابن أبي سلمة يومئذ وهو أكبر مني بسنتين فأقول له: تحملني على عنقك حتى أنظر، فإني أحملك إذا نزلت فإذا حملني، ثم سألني أن يركب قلت: هذه المرة وإني لأنظر إلى أبي معتما بصفرة فأخبرتها أبي بعد فقال: وأين أنت حينئذ؟ قلت على عنق ابن أبي سلمة يحملني فقال: أما والذي نفسي بيده إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حينئذ ليجمع لي أبويه قال ابن الزبير: فجاء يهودي يرتقي إلى الحصن فقالت صفية لحسان: عندك يا حسان فقال: لو كنت مقاتلا كنت مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فقالت صفية له: أعطني السيف فأعطاها فلما ارتقى اليهودي ضربته حتى قتلته ثم احتزت رأسه فأعطته حسان وقالت: طرح به فإن الرجل أشد رمية من المرأة تريد أن ترعب أصحابه. الزبير بن بكار، "كر".
30093 ۔۔۔ مصعب کی روایت ہے کہ ابن زبیر (رض) حدیث سنایا کرتے تھے کہ غزوہ خندق کے دن وہ قلعہ میں ایک بلند جگہ پر تھے جبکہ حضرت حسان بن ثابت (رض) عورتوں کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ عمر بن ابی سلمہ (رض) بھی تھے ابن زبیر (رض) کا کہنا ہے کہ حسان بن ثابت (رض) نے ایک اونچی جگہ پر کھونٹا گاڑ رکھا تھا جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین مشرکین پر حملہ کرتے حسان (رض) کھونٹے پر تلوار سے حملہ کردیتے اور جب مشرکین ہجوم بنا کر آئے تب بھی کھونٹے پر حملہ کرتے تاکہ یوں لگے گویا حسان (رض) کسی بہادر دشمن سے لڑ رہے ہیں اور ایک طرح کی مشابہت بھی ہوجائے دیکھنے سے یوں لگے گویا جہاد میں مصروف ہیں وہ ایسا ضعف کی وجہ سے کرتے تھے (حضرت حسان (رض) اگرچہ دست وبازو سے جہاد کرنے سے ضعیف تھے لیکن جو جہاد انھوں نے زبان سے مشرکین کے خلاف اشعار کہہ کر کیا ہے اس کی مثال نہیں ملی) عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں اس دن میں نے ابن ابی سلمہ پر بڑا ظلم کیا وہ مجھ سے دو سال بڑا تھا میں اسے کہتا پہلے تم مجھے اپنی گردن پر اٹھاؤ تاکہ میں تماشا دیکھوں (چونکہ ابن زیبر 3، 4، سال کے بچے تھے) پھر میں تمہیں اٹھاؤں گا جب اس کے اٹھانے کی باری آتی میں کہتا اس بار نہیں اگلی بار ابھی میں اپنے باپ کو دیکھ رہا ہوں میری باپ نے زور رنگ کا عمامہ باندھ رکھا ہے ، بعد میں میں نے اپنے والد سے اس کا تذکرہ کیا انھوں نے مجھ سے پوچھا : تم اس وقت کہاں تھے ؟ میں نے کہا : میں ابن ابی سلمہ کی گردن پر تھا اس نے مجھے اٹھا رکھا تھا میرے والد (رض) نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے اپنے والدین جمع کیے (یعنی فرمایا تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں) ابن زبیر (رض) کہتے ہیں اسی اثناء میں ایک یہودی قلعہ کی طرف آنکلا اور قلعے پر چڑھنے لگا حضرت صفیہ (رض) نے حضرت حسان (رض) سے کہا : اے حسان (رض) اس یہودی کی خبر لو حسان (رض) نے کہا : اگر میں جنگ لڑسکتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتا صفیہ (رض) نے حسان (رض) سے کہا : اچھا اپنی تلوار مجھے دو حسان (رض) نے انھیں تلوار دے دی جب یہودی اوپر چڑھ آیا صفیہ (رض) نے اس پر حملہ کردیا اور یہودی کو قتل کرکے اس کا سر تن سے جدا کردیا پھر حسان (رض) کو سر دے کر کہا کہ یہ سر نیچے پھینکو چونکہ مرد عورت کی بنسبت دور تک پھینک سکتا ہے صفیہ (رض) چاہتی تھیں تاکہ یہودی کے دوسرے ساتھیوں پر رعب پڑے کہ قلعہ میں بھی کچھ مسلمان سپاہی موجود ہیں۔ (رواہ الزبیر بن بکار وابن عساکر)

30094

30094- عن ابن عباس قال: قاتل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم المشركين حتى فاتتهم الصلاة فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر ملأ الله قبورهم وأجوافهم نارا". "هق" في عذاب القبر.
30094 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے ساتھ مصروف جنگ رہے جس کی وجہ سے آپ کی نماز فوت ہوئی آپ نے فرمایا : مشرکین نے ہمیں عصر کی نماز سے مشغول رکھا جو کہ نماز وسطی ہے اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور پیٹوں کو آگ سے بھر دے ۔ (رواہ البیہقی فی السنن فی اعذاب القبر)

30095

30095- عن ابن عمر " أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم نادى فيهم يوم انصرف عنهم الأحزاب ألا لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة فأبطأ الناس فتخوفوا فوت وقت الصلاة فصلوا وقال آخرون: لا نصلي إلا حيث أمرنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وإن فاتنا الوقت، فما عنف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم واحدا من الفريقين". ابن جرير.
30095 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ جس دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ احزاب سے فارغ ہو کر واپس لوٹے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں اعلان کیا کہ کوئی شخص بھی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ کی بستی میں تاہم بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو تاخیر ہوئی اور نماز عصر فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوا اس لیے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے رستے ہی میں نماز پڑھ لی جبکہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا ہم وہیں پڑھیں گے جہاں کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا ہے گو نماز کا وقت نکل جائے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریقین میں سے کسی پر نکیر نہیں کی ۔ (رواہ ابن جریر)

30096

30096- "مسند ابن عمر" قال "ك" في مناقب الشافعي: أخبرني الفضل بن أبي نصر أخبرني أبو بكر أحمد بن يعقوب بن عبد الملك بن عبد الجبار القرشي الجرجاني حدثنا أبو العباس أحمد بن خالد بن يزيد بن غزوان حدثني رجل من ولد الفضل بن الربيع عن أبيه قال: بعث إلي الرشيد فذكر قصة في استدعائه الشافعي ودعاء دعا به ثم قوله حين سئل عنه هو الذي حدثني به مالك بن أنس عن نافع عن ابن عمر " أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم دعا به يوم الأحزاب على قريش اللهم إني أعوذ بنور قدسك وعظمة طهارتك وبركة جلالك من كل آفة وعاهة"، قال "ق" في كتاب بيان خطأ من أخطأ على الشافعي: سند هذا الحديث موضوع على الشافعي لا شك فيه ولا يدري حال الفضل بن الربيع في الرواية ولا حال ولده ومن رواه عنه، وأحمد بن يعقوب هذا كان يعرف بابن بغاطرة القرشي الأموي له من أمثال هذا أحاديث موضوعة لا استحل رواية شيء منها ولا رواية ما ذكره شيخنا ولو تورع هو أيضا عن روايته لكان أولى به، فالشافعي مبرأ من هذه الرواية وكذلك مالك ونافع وابن عمر؛ ولقد رأيته في كتاب أبي نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني: عن أبي بكر أحمد بن محمد بن موسى عن محمد بن الحسين بن مكرم عن عبد الأعلى بن حماد النرسي قال قال الرشيد يوما للفضل بن الربيع - فذكره، وذكره بسنده عن الشافعي عن مالك وهو أيضا موضوع، ورواه عن أبي بكر محمد بن جعفر البغدادي عن أبي بكر محمد بن عبيد عن أبي نصر المخزومي عن الفضل بن الربيع غير أنه لم يذكر روايته عن مالك وهذا أمثل، ولا ينكر أن يكون الشافعي جمع دعاء ودعا به وإنما المنكر رواية من رواه عنه عن مالك عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم - انتهى.
30096 ۔۔۔ ” مسند ابن عمر “ حاکم (فی مناقب الشافعی) فضل بن ابی نصر ابوبکر (رض) احمد بن یعقوب بن عبدالملک بن عبدالجبار قرشی جرجانی ابولعباس احمد بن خالد بن یزید بن غزوان فضل بن ربیع کی اولاد سے ایک شخص سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ہارون الرشید نے مجھے پیغام بھیجا پھر ہارون الرشید کے امام شافعی (رح) کو بلانے کا قصہ ذکر کیا اور اس دعا کا ذکر کیا جو امام شافعی (رح) نے کی تھی پھر وہ حدیث پوچھی جسے امام شافعی (رح) مالک بن انس ، (رض) نافع (رض) ، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے موقع پر قریش کی لیے بدعا کی جس کے الفاظ یہ ہیں اے اللہ ! میں تیرے مقدس نور اور تیری طہارت کی عظمت اور تیرے جلال کی برکت کی ہر طرح کی آفت سے پناہ چاہتا ہوں ۔۔ کلام : ۔۔۔ چنانچہ امام بیہقی (رح) نے ” کتاب بیان خطا من اخطا علی الشافعی “ میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث کی سند موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں چونکہ فضل بن ربیع کا حال مجہول ہے اور اس کی اولاد کا حال بھی مجہول ہے احمد بن یعقوب یہ ابن بغاطرہ قرشی اموی ہے اس کی اس طرح کی بیشمار موضوع احادیث ہیں جن کی روایت کسی طرح حلال نہیں اور نہ وہ روایت حلال ہے جو ہمارے شیخ نے نقل کی ہے اگر وہ اس روایت سے اجتناب کرتے بہت اچھا ہوا ، امام شافعی (رح) اس طرح کی روایت سے پاکدامن ہیں اسی طرح مالک نافع اور حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بھی مبرا ہیں البتہ میں نے یہ حدیث ابو عیم احد بن عبداللہ اصبہانی (رح) کی کتاب میں دیکھی ہے اس کی سند یوں ہے ابی بکر احمد بن محمد بن موسیٰ محمد بن حسین ابن مکرم عبدالاعلی بن حماد نرسی کا کہنا ہے کہ ایک دن رشید نے فضل بن ربیع سے کہا : پھر حدیث ذکر کی ۔ یہ حدیث اپنی سند سے شافعی مالک کے طریق سے ذکر کی ہے اور یہ بھی موضوع ہے۔ نیز ابوبکر محمد بن جعفر بغدادی ابی بکر محمد بن عبید ابو نصر مخزومی فضل بن ربیع کی سند سے ذکر کی ہے اور اس میں ذکر نہیں کہ یہ امام مالک (رح) کی روایت ہے جبکہ پڑھی اس جیسی روایت ہے یہ انکار نہیں کہ امام شافعی (رح) نے دعا نہیں کی لیکن وہ روایت منکر ہے جو شافعی مالک نافع ابن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریق سی مروی ہے۔ انتھی۔

30097

30097- عن أم حبيبة أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يوم الخندق: " شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر حتى غابت الشمس". ابن جرير.
30097 ۔۔۔ حضرت ام حبیبہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن فرمایا : مشرکین نے ہمیں نماز وسطی یعنی نماز عصر سے مشغول رکھا حتی کہ سورج غروب ہوگیا ۔ (رواہ ابن جریر)

30098

30098- عن أم سلمة قالت: أنشد النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق وهو يعاطيهم اللبن وقد اغبر شعر صدره وهو يقول: اللهم إن الخير خير الآخرة ... فاغفر للأنصار والمهاجرة "كر".
30098 ۔۔۔ حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو دودھ دے رہے تھے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے کے بال غبار آلود تھے اور آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے ۔ اللہم ان الخیر الاخرۃ فاغفرالانصار والمھاجرہ۔ اے اللہ ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما ۔

30099

30099- عن ابن مسعود " أن المشركين شغلوا النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق عن أربع صلوات حتى ذهب من الليل ما شاء الله فأمر بلالا فأذن وأقام فصلى الظهر، ثم أقام فصلى العصر، ثم أقام فصلى المغرب، ثم أقام فصلى العشاء". "ش".
30099 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غزوہ خندق کے دن چار نمازوں سے مشغول رکھا حتی کہ رات کا بھی کچھ حصہ گذر گیا پھر آپ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا انھوں نے اذان دی پھر ظہر کی نماز کے لیے اقامت کہی اور ظہر کی نماز پڑھی (جب ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے) پھر عصر کی نماز کے لیے اقامت کہی اور عصر کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی اور مغرب کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30100

30100- عن ابن إسحاق عن يزيد بن رومان عن عروة عن عبيد الله ابن كعب بن مالك الأنصاري قال: لما كان يوم الخندق خرج عمرو بن عبدود معلما ليرى مشهده فلما وقف هو وخيله قال له علي: يا عمرو إنك قد كنت تعاهد الله لقريش أن لا يدعوك رجل إلى خلتين إلا اخترت إحداهما قال: أجل قال: فإني أدعوك إلى الله وإلى رسوله وإلى الإسلام، قال: لا حاجة لي في ذلك قال: فإني أدعوك إلى المبارزة، قال: لم يا ابن أخي فوالله ما أحب أن أقتلك قال علي: ولكني والله أحب أن أقتلك فحمي عمرو عند ذلك فأقبل إلى علي فتنازلا فتجاولا فقتله علي. ابن جرير.
30100 ۔۔۔ ابن اسحاق ، یزید بن رومان اور عبیداللہ بن کعب بن مالک انصاری کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے دن عمرو بن عبدو اپنے لشکر سے نکل کر باہر آیا تاکہ میدان جنگ کا اندازہ کرے جب وہ اور اس کے شہسوار ایک جگہ رکے حضرت علی (رض) نے عمرو سے کہا : اے عمرو ! تم نے اللہ تعالیٰ سے قریش کے لیے عہد کر رکھا تھا کہ اگر تمہیں کوئی شخص دو چیزوں کی دعوت دے تو ان میں سے ایک کو اختیار کرے گا ۔ عمرو (رض) نے کہا جی ہاں ، سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے کہا میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں عمرو نے کہا : مجھے اسلام کی حاجت نہیں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : پھر میں تمہیں مبارزت (جنگ) کے لیے دعوت دیتا ہوں ، کہا : اے بھتیجے کیوں بخدا مجھے پسند نہیں کہ میں تمہیں قتل کروں ، سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : بخدا مجھے پسند ہے کہ میں تمہیں قتل کروں ۔ اس پر عمرو کو غیرت آئی اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی طرف چل پڑا چنانچہ دونوں گتم گھتا ہوگئے بلآخر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اس کا کام تمام کردیا ۔ (رواہ ابن جریر)

30101

30101- عن عروة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم صاف المشركين يوم الخندق وكان يوما شديدا لم يلق المسلمون مثله قط قال: ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم جالس وأبو بكر معه جالس، وذلك زمان طلع النخل، وكانوا يفرحون به فرحا شديدا لأن عيشهم فيه فرفع أبو بكر رأسه فبصر بطلعة وكانت أول طلعة رؤيت فقال: - هكذا بيده: طلعة يا رسول الله من الفرح فنظر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وقال: اللهم لا تنزع منا صالح ما أعطيتنا - أو: صالحا أعطيتنا. "ش".
30101 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق کے دن مشرکین کا جائزہ لے رہے تھے یہ دن بڑے آزمائش کا دن تھا اس جیسا دن مسلمانوں نے دیکھا نہیں تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین پر بیٹھے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی تھے یہ کھجوروں کے خوشے نکلنے کا موسم تھا ۔ خوشے دیکھ کر لوگوں کو بہت خوشی ہوتی تھی چونکہ ان کی سال بھر کی معیشت کا دارومدار کھجوروں پر ہوتا تھا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا انھیں ایک خوشہ نظر آیا اور یہ پہلا خوشہ تھا جو دیکھا گیا تھا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرحت و شادمانی کا خوشہ نمودار ہوچکا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یا اللہ اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کو ہم سے نہ چھیننا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30102

30102- عن عكرمة " أن نوفلا أو ابن نوفل تردى به فرسه يوم الخندق فقتل فبعث أبو سفيان إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم بديته مائة من الإبل، فأبى النبي صلى الله عليه وآله وسلم وقال: خذوه فإنه خبيث الدية خبيث الجنة". "ش".
30102 ۔۔۔ عکرمہ (رض) روایت کی ہے کہ نوفل یا ابن نوفل غزوہ خندق کے موقع پر گھوڑے سے گر کر ہلاک ہوگیا ابو سفیان نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سو اونٹ بطور دیت بھیجوائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت لینے سے انکار کردیا اور فرمایا تم خود ہی اسے لو چونکہ یہ دیت خبث ہے اور وہ جنت کا خبث ہے ۔۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30103

30103- حدثنا أبو كريب حدثنا وكيع عن سفيان عن عبد الكريم الجزري عن عكرمة قال: لما كان يوم الخندق قام رجل من المشركين فقال: من يبارز؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: قم يا زبير فقالت صفية: يا رسول الله واجدي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قم يا زبير فقام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيهما علا صاحبه قتله فعلاه الزبيرفقتله، ثم جاء النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم بسلبه فنفله صلى الله عليه وسلم إياه". ابن جرير.
30103 ۔۔۔ عکرمہ (رض) روایت کی ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر مشرکین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور مبارزت کا نعرہ لگایا یا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے زبیر ! کھڑے ہوجاؤ حضرت صفیہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! میرا غم ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے زبیر ! یارسول اللہ ہوجاؤ، زبیر (رض) کھڑے ہوگئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں میں سے جو بھی غالب ہوا وہ دوسرے کو قتل کرے گا چنانچہ زبیر (رض) مشرک پر غالب آگئے اور اسے قتل کردیا پھر اس کا سازو سامان لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سازو و سامان حضرت زبیر (رض) کو انعام میں دے دیا ۔ (رواہ ابن جریر)

30104

30104- "مسند أنس" " خرج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم غداة باردة والمهاجرون والأنصار يحفرون الخندق فلما نظر إليهم قال: اللهم إن العيش عيش الآخرة ... فاغفر للأنصار والمهاجرة فأجابوا: نحن الذين بايعوا محمدا ... على الجهاد ما بقينا أبدا "ش".
30104 ۔۔۔ ” مسند انس “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح صبح نہایت سردی میں تشریف لائے جبکہ مہاجرین اور انصار خندق کھودنے میں مصروف تھے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی طرف دیکھا تو فرمایا : اللہم ان العیش عیش الاخرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ “۔ یا اللہ درحقیقت زندگی تو آخرت کی زندگی ہے انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے جوابا کہا۔ نحن الذین بایعوا محمد ا علی الجھاد مابقینا ابدا ‘۔ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست اقدس پر بیعت کر رکھی ہے جب تک ہم زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے ۔

30105

30105- عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الخندق: " اللهم إنك أخذت عبيدة بن الحارث يوم بدر وحمزة بن عبد المطلب يوم أحد وهذا علي فلا تدعني فردا وأنت خير الوارثين". الديلمي.
30105 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن فرمایا : یا اللہ ! تو نے عبیدہ بن حارث کو بدر میں لے لیا اور حمزہ بن عبدالمطلب کو احد میں لے لیا اور یہ ہے علی یا اللہ مجھے تنہا نہ چھوڑنا بیشک تو بھلائی عطا کرنے والا ہے (رواہ الدیلمی)

30106

30106- عن ابن عباس قال: سمعت عمر يقول: جاء عمرو بن عبدود فجعل يجول بفرسه حتى جاوز الخندق وجعل يقول: هل من مبارز؟ وسكت أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل يبارزه أحد فقام علي فقال: أنا يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل يبارزه أحد؟ فقال علي: دعني يا رسول الله فإنما أنا بين حسنيين: إما أن أقتله فيدخل النار، وإما أن يقتلني فأدخل الجنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اخرج يا علي فقال له عمرو: من أنت يا ابن أخي؟ قال: أنا علي فقال: إن أباك كان نديما لي لا أحب قتالك، فقال علي: إنك كنت أقسمت لا يسألك أحد ثلاثا إلا أعطيته فاقبل مني واحدة، فقال عمرو: وما ذلك؟ فقال علي: أدعوك أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فقال عمرو: ليس إلى ذلك سبيل قال: فترجع فلا تكون علينا ولا معنا ثلاثا، قال: إني نذرت أن أقتل حمزة، فسبقني إليه وحشي، ثم إني نذرت أن أقتل محمدا، قال علي: فانزل فنزل فاختلفا في الضربة فضربه علي فقتله. المحاملي في أماليه.
30106 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ عمرو بن عبدو غزوہ خندق کے موقع پر آیا اور اپنا گھوڑا لیے چکر لگاتا رہا بالآخر ایک جگہ سے خندق عبور کر آیا اور کہنے لگا میرے مقابلہ میں کون آئے گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین خاموش رہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا کوئی شخص اس کے مد مقابل ہوگا ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کا مدمقابل ہونا چاہتا ہوں ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کیا کوئی شخص اس کا مد مقابل ہوگا ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے عرض کیا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے چھوڑیئے میں اس کا مقابلہ کرتا ہوں چونکہ مجھے دو طرح کی نیکیوں میں اختیار حاصل ہے اگر میں نے اسے قتل کیا تو وہ دوزخ میں چلا جائے گا اور اگر اس نے مجھے قتل کیا میں جنت میں داخل ہوں گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی اور فرمایا : اے علی جاؤ چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے جب اس کے قریب ہوئے نے پوچھا اے بھتیجے تم کون ہو ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے جواب دیا : میں علی ہوں عمرو نے کہا : تیرا باپ میرا شراب کا ساتھی ہے میں تجھے قتل کرنا اچھا نہیں سمجھتا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے کہا : تو نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ تجھ سے جو شخص بھی تین چیزوں کا مطالبہ کرے گا تو اسے ضرور پورا کرے گا سو میں تجھ سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کرتا ہوں عمرو نے استفسار کیا کہ وہ کیا چیز ہے ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے کہا : میں تجھے دعوت دیتا ہوں کہ تو کلمہ شہادت ” لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ “ کی گواہی دے دے عمرو نے کہا : مجھے تیری رسوائی کا اختیار نہیں چاہیے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے کہا : اچھا پھر واپس چلے جاؤ نہ ہمارے خلاف رہو اور نہ ہمارے ساتھ عمرو نے کہا : میں نے منت مان رکھی ہی کہ میں حمزہ کو قتل کروں گا لیکن وحشی مجھ پر سبقت لے گیا میں نے پھر منت مانی ہے کہ میں محمد کو قتل کروں گا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کہا اچھا پھر نیچے اترو عمرو گھوڑے سے نیچے اترا پھر دونوں کی تلواریں کوندنے لگیں تاہم سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اس کا کام تمام کردیا (رواہ المحاملی فی امالیہ)

30107

30107- عن المهلب بن أبي صفرة قال: قال أصحاب محمد: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم حفر الخندق وهو يخاف أن يبيتهم أبو سفيان: " إن بيتم فإن دعواكم حّم لا ينصرون". "ش".
30107 ۔۔۔ مہلب بن ابی صفرہ کی روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدہ ہوا کہ ابو سفیان شب خون نہ مار دے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا : اگر تمہارے اوپر شب خون مارا جائے اور تم حم کا ورد کرو تو مشرکین کی مدد نہیں ہوگی۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30108

30108- عن عائشة قالت "لما رجع رسول اله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الخندق وضع السلاح واغتسل، فأتاه جبريل وقد عصب رأسه الغبار فقال: وضعت السلاح، والله ما وضعته فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: فأين؟ قال: ههنا وأومى إلى بني قريظة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إليهم". "ش".
30108 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ خندق سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اسلحہ اتارا اور غسل کیا آپ کے پاس جبرائیل امین تشریف لائے جب کہ ان کا سر غبار سے اٹا پڑا تھا فرمایا : آپ نے اسلحہ اتار دیا ہے بخدا ! میں نے اسلحہ نہیں اتارا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب کس طرف حکم ہے ؟ جبرائیل امین نے فرمایا : اب اس طرف کا ارادہ ہے بنی قریظہ کی طرف ارادہ ہے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا چنانچہ اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی قریظہ کی طرف چل پڑے (رواہ ابن عساکر)

30109

30109- عن الحسن قال نزلت قريظة على حكم سعد بن معاذ فقتل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم منهم ثلاثمائة وقال لبقيتهم: " انطلقوا إلى أرض المحشر فإنا في آثاركم يعني أرض الشام فسيرهم إليها". "كر".
30109 ۔۔۔ حسن بصری (رح) کی روایت ہے کہ قریظہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کے فیصلہ پر اپنے قلعہ سے نیچے اترے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تین سو آدمی نہ تیغ کئے اور جو باقی بچے ان سے فرمایا سر زمین محشر کی طرف چلے جاؤ ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں یعنی شام کی طرف چنانچہ آپ نے انھیں شام کی طرف چلتا کیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30110

30110- عن الشعبي قال: رمى أهل قريظة سعد بن معاذ فأصابوا أكحله فقال: اللهم لا تمتني حتى تشفيني منهم، فنزلوا على حكم سعد بن معاذ، فحكم أن يقتل مقاتلتهم وتسبى ذراريهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بحكم الله حكمت. "ش".
30110 ۔۔۔ شعبی روایت کی ہے کہ کہ اہل قریظہ نے حضرت سعد بن معاذ (رض) کے بازو پر تیر مارا حضرت سعد (رض) نے کہا : یا اللہ ! مجھے اس وقت تک موت نہ دے جب تک مجھے ان (قریظہ) سے تشفی نہ ہوجائے چنانچہ بنو قریظہ حضرت سعد (رض) کے فیصلہ کے مطابقت قلعوں سے نیچے اترے آپ (رض) نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے فوجیوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر فرمایا : تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30111

30111- عن عروة أنهم نزلوا على حكم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فردوا الحكم إلى سعد بن معاذ فحكم فيهم سعد بن معاذ أن يقتل مقاتلتهم وتسبى النساء والذرية وتقسم أموالهم، فأخبرت أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: لقد حكمت فيهم بحكم الله. "ش".
30111 ۔۔۔ عروہ روایت کی ہے کہ بنو قریظہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر قلعوں سے نیچے اترے چنانچہ انھوں نے فیصلہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا حضرت سعد (رض) نے فیصلہ کیا کہ ان کے فوجیوں کو قتل کیا جائے جبکہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے جائیں عروہ کہتے ہیں : مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30112

30112- عن عكرمة قال: لما كان يوم بني قريظة قال رجل من يهود: من يبارز؟ فقام إليه الزبير فبارزه فقالت صفية: واجدي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيهما علا صاحبه قتله فعلاه الزبير فقتله فنفله النبي صلى الله عليه وآله وسلم سلبه". "كر".
30112 ۔۔۔ عکرمہ (رض) روایت کی ہے کہ غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر ایک یہودی نے مقابلہ کے لیے للکارا حضرت زبیر (رض) اس کی طرف اٹھ کھڑے ہوئے صفیہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر (میرا بیٹا) زبیر مارا جائے مجھے اس پر از حد دکھ ہوگا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان میں سے جو بھی غالب ہوا اور دوسرے کو قتل کر دے گا چنانچہ زبیر (رض) یہودی پر غالب ہوگئے اور اسے قتل کردیا اس کا سازو سامان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر (رض) کو انعام کے طور پردے دیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30113

30113- عن عكرمة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بعث خوات بن جبير إلى بني قريظة على فرس يقال له جناح. "ش".
30113 ۔۔۔ عکرمہ روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوات بن جبیر کو بنی قریظہ کی طرف گھوڑے پر سوار کرکے بھیجا اس گھوڑے کا نام ” جناح “ تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30114

30114- عن محمد بن سيرين قال: " قال عاهد حيي بن أخطب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن لا يظاهر عليه أحدا وجعل الله عليه كفيلا، فلما كان يوم قريظة أتي به وبابنه سلما فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: أوف الكيل فأمر به فضربت عنقه وعنق ابنه". "ش".
30114 ۔۔۔ محمد بن سیرین روایت کی ہے کہ حئی بن اخطب نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کسی کی پشت پناہی نہیں کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ کو ضامن رکھا غزوہ قریظہ کے دن حئی بن اخطب اور اس کا بیٹا لایا گیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پیمانہ پورا پورا دو چنانچہ حکم دیا اور اس کی گردن اڑا دی گئی اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی قتل کیا گیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30115

30115- عن يزيد بن الأصم قال: "لما كشف الله الأحزاب ورجع النبي صلى الله عليه وسلم إلى بيته يغسل رأسه أتاه جبريل فقال: عفا الله عنك وضعت السلاح ولم تضعه ملائكة السماء ائتنا عند حصن بني قريظة فنادى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأتاهم عند الحصن. "ش".
30115 ۔۔۔ یزید بن اصم روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لشکروں کو رسوا کرکے واپس کردیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر واپس آئے اور سر دھو رہے تھے کہ اتنے میں جبرائیل امین (علیہ السلام) آنکلے اور کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے اسلحہ کھول دیا ہے حالانکہ فرشتوں نے ابھی تک اسلحہ نیچے نہیں رکھا بنی قریظہ کے قلعہ کے پاس ہمارے ساتھ چلئے (رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بنی قریظہ کے قلعہ کے پاس جا پہنچے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30116

30116- عن ابن شهاب قال: أرسلت بنو قريظة إلى أبي سفيان وإلى من معه من الأحزاب يوم الخندق أن اثبتوا فإنا سنغير على بيضة المسلمين من ورائهم فسمع ذلك نعيم بن مسعود الأشجعي وهو موادع لرسول الله صلى الله عليه وسلم وكان عند عيينة بن حصن حين أرسلت بذلك بنو قريظة إلى الأحزاب فأقبل نعيم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره خبر ما أرسلت به بنو قريظة إلى الأحزاب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلعلنا نحن أمرناهم بذلك فقام نعيم بكلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ليحدث بها غطفان وكان نعيم رجلا لا يملك الحديث فلما ولى نعيم ذاهبا إلى غطفان قال عمر بن الخطاب: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الذي قلت إما هو من عند الله فأمضه، وإما هو رأي رأيته فإن شأن بني قريظة هو أيسر من ذلك أن تقول شيئا يؤثر عليك فيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا رأي رأيته إن الحرب خدعة، ثم أرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم في أثر نعيم فدعاه، فقال له: أرأيتك الذي سمعتني أذكر آنفا اسكت عنه فلا تذكره لأحد، فانصرف نعيم من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جاء عيينة بن حصن ومن معه من غطفان فقال لهم: هل علمتم أن محمدا صلى الله عليه وسلم قال شيئا قط إلا حقا؟ قالوا: لا قال: فإنه قد قال لي فيما أرسلت به إليكم بنو قريظة فلعلنا نحن أمرناهم بذلك، ثم نهاني أن أذكره لكم فانطلق عيينة حتى لقي أبا سفيان بن حرب، فأخبره بما أخبره نعيم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إنما أنتم في مكر من بني قريظة قال أبو سفيان: فنرسل إليهم نسألهم الرهن فإن دفعوا إلينا رهنا منهم فصدقوا وإن أبوا فنحن منهم في مكر فجاءهم رسول أبي سفيان يسألهم الرهن فقال: إنكم أرسلتم إلينا تأمروننا بالمكث وتزعمون أنكم ستخالفون محمداومن معه فإن كنتم صادقين، فارهنونا بذلك من أبنائكم وصبحوهم غدا، قالت بنو قريظة: قد دخلت علينا ليلة السبت، فأمهلوا حتى يذهب السبت فرجع الرسول إلى أبي سفيان بذلك، فقال أبو سفيان ورؤوس الأحزاب معه، هذا مكر من بني قريظة فارتحلوا فبعث الله تعالى عليهم الريح حتى ما كاد رجل منهم يهتدي إلى رحله فكانت تلك هزيمتهم، فبذلك يرخص الناس الخديعة في الحرب. ابن جرير.
30116 ۔۔۔ ابن شہاب کی روایت ہے کہ بنو قریظہ نے ابو سفیان اور اس کے اتحادیوں کی طرف غزوہ خندق کے موقع پر پیغام بھیجا کہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو ہم عنقریب مسلمانوں کے پیچھے سے ان کے مرکز پر حملہ کریں گے یہ بات نعیم بن مسعود اشجعی نے سن لی نعیم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاہدہ کر رکھا تھا نعیم اس وقت عیینہ بن حصن کے پاس تھا وہ اسی وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل دیا اور آپ کو وہ تمام خبر کردی جسے بنی قریظہ اتحادیوں کی طرف بھیجا چاہتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید ہم ہی نے انھیں اس کا حکم دیا ہو نعیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سن کر اٹھ گیا تاکہ غطفان تک پہنچا دے نعیم ایسا شخص تھا کہ اسے کوئی بات ہضم نہیں ہوتی تھی نعیم جب بنی غطفان کی طرف جانے لگا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے یہ جو کچھ فرمایا ہے اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو اسے کر گزرئیے اگر یہ آپ کی رائے ہے تو بنی قریظہ کا معاملہ اس سے آسان تر ہے کہ آپ کچھ کہیں اور اس میں آپ پر اسے ترجیح دی جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ایک رائے ہے چونکہ جنگ ایک دھوکا اور چال ہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعیم کے پیچھے قاصد دوڑایا جب نعیم واپس آگیا آپ نے اس سے کہا : میں نے جو کچھ ابھی کہا ہے اس کا کسی سے تذکرہ نہ کرنا چنانچہ نعیم چلا گیا اور عینیہ بن حصن کے پاس جا پہنچا عینیہ کے پاس بنی غطفان کے لوگ بھی تھے نعیم نے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ حق ہے لوگوں نے جواب دیا نہیں کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وہی بات بتائی ہے جسے بنو قریظہ نے تمہاری طرف بھیجا ہے ” کہ شاید ہم ہی نے انھیں اس کا حکم دیا ہے “ پھر محمد نے مجھے کسی سے تذکرہ کرنے سے منع کیا ۔ عینیہ ابو سفیان کے پاس آیا اور اسے نعیم کی کہی ہوئی بات بتلا دی ابو سفیان نے کہا : ہم بنی قریظہ کو پیغام بھیجیں گے اور ہم ان سے رہن کا مطالبہ کریں گے اگر انھوں نے ہمیں رہن دے دیا تو وہ سچے ہوں گے اور اگر انھوں نے رہن سے انکار کردیا تو لامحالہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں ، چنانچہ بنی قریظہ کے پاس ابو سفیان کا ایلچی آیا اور ان سے رہن کا مطالبہ کیا کہ اگر تم رہن دو گے تو تم محمد اور ان کے ساتھیوں کی مخالفت میں سچے ہو لہٰذا تم اپنے بچوں کو بطور رہن ہمارے حوالے کرو اور کل صبح لیتے آؤ بنی قریظہ نے کہا : اب ہفتہ کی رات داخل ہوچکی ہے لہٰذا ہمیں ایک دن کی مہلت دو تاکہ ہفتے کا د گزر جائے ۔ قاصد یہ پیغام لے کر ابو سفیان کے پاس واپس لوٹ آیا چنانچہ ابو سفیان اور دوسرے سرداروں نے کہا کہ یہ بنی قریظہ کی چال اور دھوکا ہے لہٰذا تم چلو ادھر سے اللہ تعالیٰ نے اتحادیوں پر آندھی بھیج دی حتی کہ ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو اپنی سواری تک رسائی حاصل کر پاتا ۔ یہ اتحادیوں کی شکست تھی اسی وجہ سے علماء نے جنگ میں دھوکا اور چال چلنے کی رخصت دی ہے۔ (رواہ ابن جریر)

30117

30117- عن يحيى بن سهل بن أبي خيثمة قال: أقبل مظهر بن رافع الحارثي بأعلاج من الشام عشرة ليعملوا له في أرضه، فلما نزل خيبر أقام بها ثلاثا فدخل يهود للأعلاج وحرضتهم على قتل مظهر، ودسوا لهم سكينين أو ثلاثا فلما خرجوا من خيبر كانوا بثبار، ووثبوا عليه فبعجوا بطنه فقتلوه، ثم انصرفوا إلى خيبر فزودتهم يهود وقوتهم حتى لحقوا بالشام وجاء عمر بن الخطاب الخبر بذلك فقال: إني خارج إلى خيبر فقاسم ما كان بها من الأموال، وحاد حدودها، ومورف أرفها ومجل يهود منها، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهم: " ما أقركم الله" وقد أذن الله في جلائهم، ففعل ذلك بهم. ابن سعد.
30117 ۔۔۔ یحییٰ بن سھل بن ابی حیثمہ روایت کی ہے کہ مطہر بن رافع حارثی شام کے دس غلام لایا تاکہ اس کی زمین میں کام کریں جب خیبر پہنچے تین دن وہاں قیام کیا اس دوران یہودیوں نے غلاموں کو مظہر کے قتل کرنے پر اکسایا اور انھیں یہودیوں نے دو یا تین چھریاں بھی دے دیں چنانچہ جب خیبر سے نکل کر مقام ثبار پر پہنچے غلاموں نے مظہر پر حملہ کردیا اور پیٹ کو چاک کرکے اسے قتل کردیا غلام خیبر واپس لوٹ گئے یہودیوں نے انھیں زاد راہ دیا وہ واپس شام جا پہنچے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو جب خبر ہوئی تو انھوں نے فرمایا : میں خیبر کی زمین مسلمانوں میں تقسیم کروں گا اور اموال بھی تقسیم کروں گا اس کی حدی بندی کروں گا اور نشان لگا کر یہودیوں کو وہاں سے نکال کر باہر کروں گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں سے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قرار نہیں دے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی جلاوطنی کی اجازت دی ہے چنانچہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایسا ہی کیا ۔ (رواہ ابن سعد)

30118

30118- "مسند علي" عن علي قال: لما قتلت مرحبا جئت برأسه إلى النبي صلى الله عليه وسلم. "حم، عق، ق".
30118 ۔۔۔ ” مسند علی “ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ جب میں نے مرحب یہودی کو قتل کیا اس کا سر کاٹ کر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں لے آیا ۔ (رواہ احمد بن حنبل والعقیلی والبخاری ومسلم)

30119

30119- عن علي قال: سار رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، فلما أتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث عمر ومعه الناس إلى مدينتهم وإلى قصرهم فقاتلوهم، فلم يلبثوا أن هزموا عمر وأصحابه فجاء يجبنهم ويجبنونه فساء ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "لأبعثن عليهم رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يقاتلهم حتى يفتح الله له ليس بفرار فتطاول الناس لها، ومدوا أعناقهم يرونه أنفسهم رجاء ما قال، فمكث رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة فقال: أين علي؟ فقالوا: هو أرمد قال: ادعوه لي فلما أتيته فتح عيني، ثم تفل فيها، ثم أعطاني اللواء فانطلقت به سعيا خشية أن يحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها حدثا أو في حتى أتيتهم فقاتلتهم فبرز مرحب يرتجز وبرزت له أرتجز كما يرتجز حتى التقينا، فقتله الله بيدي، وانهزم أصحابه فتحصنوا وأغلقوا الباب فأتينا الباب فلم أزل أعالجه حتى فتحه الله. "ش" والبزار، وسنده حسن.
30119 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر پر چڑھائی کی تو خیبر کے قریب پہنچ کر آپ نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی کمان میں حملہ کے لیے لوگوں کو بھیجا چنانچہ لوگوں نے جم کر حملہ کیا لیکن سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) اور آپ کے ہمراہیوں کو شکست ہوئی یوں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) لوگوں کو کوستے ہوئے اور لوگوں انھیں کوستے ہوئے واپس آئے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حالت ناگوار گزری آپ نے فرمایا : میں ایک ایسے شخص کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ، وہ اہل خیبر سے لڑائی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائے گا اور بھاگے گا بھی ، لوگوں کو اس شرف کے حاصل کرنے کی طمع ہوئی حتی کہ سر اوپر اٹھا کر دیکھنے لگے ۔ تھوڑی دیر کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علی کہاں ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : انھیں آشوب چشم ہے فرمایا : اسے میرے پاس بلاؤ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے میری آنکھیں کھولیں اور آنکھوں میں لعاب ڈال دیا ۔ پھر مجھے جھنڈا دیا میں تیزی سے چل پڑا مجھے ڈر تھا کہ آپ کوئی نئی بات نہ کردی میں اہل خیبر کے پاس آن پہنچا اور ان پر حملہ کردیا مرحب رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا میں بھی رجز پڑھتا ہوا اس کے مدمقابل ہوا حتی کہ ہماری مڈبھیڑ ہوئی اللہ تعالیٰ نے میری ہاتھ سے اسے قتل کیا اس کے ساتھی شکست خوردہ ہو کر قلعہ بند ہوگئے اور قلعے کا دروازہ بند کردیا میں دروازے پر آیا اور برابر دروازہ کھولنے میں کوشاں رہا باالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ قلعہ فتح کردیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ، والبزار وسندہ حسن) ۔ فائدہ : ۔۔۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کے مختلف قلعوں کے فتح کرنے کے لیے اعیان مہاجرین کو جھنڈا دیتے تھے یوں ہر روز جس قلعے کا ارادہ کرتے اللہ تعالیٰ اسے فتح کردیتا چنانچہ قضائے ازل ہی سے یہ مقدر تھا کہ یہ قلعہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے دس راست پر فتح ہوگا ۔ یہی بات یوں پوری ہوئی روایت سے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی شان کم نہیں ہوتی چنانچہ پہلی روایت اس کا ازالہ ہے اہل خیبر انجام کار سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ہی دور میں آپ (رض) کے حکم سے یہاں سے نکالے گئے یہ فضیلت تو لامحالہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو حاصل ہے رہی یہ بات کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں “ اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ معاذ اللہ بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت نہیں کرتے تھے یا اللہ اور اللہ کے رسول کو بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے محبت نہیں تھی آپ نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو یہ کلمات ازروئے قدردانی اور حوصلہ افزائی فرمائے ۔ اس روایت سے روافض غلط غلط نظریات گھڑ لیتے ہیں اس لیے ان نکات پر تنبیہ کرنی پڑی۔

30120

30120- "من مسند بريدة بن الخصيب الأسلمي" عن بريدة قال: لما كان يوم خيبر أخذ اللواء أبو بكر، فرجع ولم يفتح له، فلما كان من الغد أخذ عمر ولم يفتح له، وقتل ابن مسلمة، ورجع الناس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لأدفعن لوائي هذا إلى رجل يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله لن يرجع حتى يفتح عليه، فبتنا طيبة أنفسنا أن الفتح غدا فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الغداة، ثم دعا باللواء وقام قائما فما منا من رجل له منزلة من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا وهو يرجو أن يكون ذلك الرجل حتى تطاولت أنا لها ورفعت رأسي لمنزلة كانت لي منه فدعا علي بن أبي طالب وهو يشتكي عينيه فمسحها ثم دفع إليه اللواء ففتح له. ابن جرير.
30120 ۔۔۔ ” مسند بریدہ بن خصیب اسلمی “ حضرت بریدہ (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جھنڈا لیا آپ (رض) جہد مسلسل کے باوجود واپس لوٹ آئے اور قلعہ فتح نہ ہوا دوسرے دن سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے جھنڈا لیا اور یوں فتح ان کے ہاتھ پر بھی مقدر نہ تھی ابن مسلمہ قتل ہوا اور لشکر واپس لوٹ آیا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں (صبح کو) جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے وہ بغیر فتح کیے واپس نہیں لوٹے گا چنانچہ ہم نے رات گزاری اور ہم خوش تھے کہ کل فتح نصیب ہوگی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھائی پھر جھنڈا منگوایا ہم میں سے کوئی شخص بھی نہیں تھا جو اس امید میں نہ ہو کہ یہ شرف اسے حاصل ہو حتی کہ اس شرف کے حصول کے لیے میں نے طمع میں سر اوپر اٹھا لیا ، تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو بلایا انھیں آشوب چشم کی شکایت تھی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو جھنڈا دیا اور قلعہ ان کے ہاتھ پر فتح ہوا ۔ (رواہ ابن جریر)

30121

30121- عن بريدة قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم بحضرة خيبر فزع أهل خيبر فقالوا: جاء محمد في أهل يثرب، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر بن الخطاب بالناس، فلقي أهل خيبر فردوه وكشفوه هو وأصحابه، فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يجبن أصحابه ويجبنه أصحابه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لأعطين اللواء غدا رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله، فلما كان الغد تطاول لها أبو بكر وعمر فدعا عليا وهو يومئذ أرمد فتفل في عينه وأعطاه اللواء، فانطلق بالناس فلقي أهل خيبر ولقي مرحبا الخيبري فإذا هو يرتجز ويقول: قد علمت خيبر أني مرحب ... شاكي السلاح بطل مجرب إذا الليوث أقبلت تلهب ... أطعن أحيانا وحينا أضرب فالتقى هو وعلي فضربه علي ضربة على هامته بالسيف عض السيف منها بالأضراس وسمع صوت ضربته أهل العسكر، فما تتام آخر الناس حتى فتح لأولهم. "ش".
30121 ۔۔۔ حضرت بریدہ (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کے قریب پہنچے ۔ اہل خیبر گھبرا گئے اور کہنے لگے : محمد اہل یثرب کو لے کر آگیا ہے ، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کی کمان میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو چڑھائی کے لیے بھیجا یوں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے پوری جدوجہد سے قتال کیا لیکن بغیر فتح کے واپس لوٹ آئے اور آپ (رض) لوگوں کو اور لوگ انھیں کوستے رہے پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے چنانچہ دوسرے دن جھنڈا لینے کے لیے ابوبکر وعمر (رض) آرزو مند ہوئے تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو بلایا اس دن انھیں آشوب چشم کی شکایت تھی آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا پھر انھیں جھنڈا دیا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) لوگوں کو لے کر قلعے کی طرف چل پڑے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل خیبر سے سامنا ہوا خصوصا مرحب کا سامنا کرنا پڑا مرحب یہ رجز پڑھ رہا تھا : قدعلمت خیبرانی مرحب شاکی السلاح بسطل مجرب اذا للیوث اقبلت تلھب اطعن احیانا وحینا اضرب : ۔ ترجمہ : ۔۔۔ اہل خیبر کو خوب معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں سلاح پوش بہادر اور تجربہ کار میں چنانچہ جب شیر مدمقابل ہونے کے لیے سامنے آتے ہیں آگ برسا رہے ہوتے ہیں میں مہارت سے نیزے بھی چلاتا ہوں اور کبھی تلوار کے وار بھی کرتا ہوں ۔ چنانچہ مرحب اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کا آمناسامنا ہوا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اس کے سر پر تلوار کا وار کیا تلوار سر کو کچلتی ہوئی اس کے جبڑوں تک جا پہنچی تلوار اس زور سے اس کے سر پر پڑی تھی کہ سارے لشکر نے تلوار چلنے کی آواز سن لی پھر یہودیوں کی ہوا نکل گئی اور یوں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30122

30122- "مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: خرج يوم خيبر مرحب اليهودي وهو يقول: قد علمت خيبر أني مرحب ... شاكي السلاح بطل مجرب أطعن أحيانا وحينا أضرب ... إذا الليوث أقبلت تجرب وهو يقول: هل من مبارز؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لهذا؟ فقال محمد بن مسلمة: أنا له يا رسول الله أنا والله الموتور الثائر قتلوا أخي بالأمس، قال فقال: قم إليه اللهم أعنه فلما دنا أحدهما من صاحبه دخلت بينهما شجرة ثم حمل عليه مرحب فضربه فاتقى بالدرقة فوقع سيفه فيها فعضت به الدرقة فأمسكته فضربه محمد بن مسلمة فقتله. "ع" وابن جرير والبغوي، "كر".
30122 ۔۔۔ ” مسند جابر بن عبداللہ “ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر مرحب یہودی یہ رجز پڑھتا ہوا باہر آیا ۔ قدعلمت خیبرانی مرحب شبا کی السلاح بطل مجرب اطعن احیانا وحینا اضرب اذا اللیوث اقسلت تجرب : پورا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں جب شیر مدمقابل ہوتے ہیں تبھی آزمائے جاتے ہیں اور کبھی تلوار سے وار کرتا ہوں جب شیر مدمقابل ہوتے ہیں تبھی آزمائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مرحب ” ھل من مبازر “ کیا کوئی مدمقابل ہے ؟ کا نعرہ لگا رہا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا کام کون تمام کرے گا ؟ حضرت محمد بن مسلمہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کا کام تمام کرنا چاہتا ہوں اس نے کل میرے بھائی کو قتل کیا ہے بخدا اس سے میں اپنے بھائی کا بدلہ لوں گا آپ نے فرمایا : چلو اس کے طرف کھڑے ہو جو یا اللہ ! اس کی مدد کر جب دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو ان کے درمیان ایک درخت حائل ہو جاتاہم مرحب نے حضرت محمد بن مسلمہ (رض) پر تلوار سے وار کیا محمد بن مسلمہ (رض) نے ڈھال پر تلوار کا وار لیا جس سے ڈھال کٹ گئی لیکن حضرت محمد بن مسلمہ کو ڈھال نے بچا لیا اگلا وار محمد بن مسلمہ (رض) نے بڑھ کر کیا اور مرحب کا کام تمام کردیا ۔ (رواہ ابو یعلی وابن جریر والبغوی وابن عساکر)

30123

30123- "مسند حسيل بن خارجة الأشجعي" عن حسيل بن خارجة الأشجعي قال: قدمت المدينة في جلب أبيعه فأتي بي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا حسيل هل لك أن أعطيك عشرين صاع تمر على أن تدل أصحابي هؤلاء على طريق خيبر؟ ففعلت، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر أتيته فأعطاني العشرين صاع تمر، ثم أتي بي إليه، فقاللي: يا حسيل إني لم أوت بامرئ ثلاثا فلم يسلم، فخرج الحبل من عنقه الأصفر قال: فأسلمت". "طب" وأبو نعيم.
30123 ۔۔۔ ” مسند حسیل بن خارجہ اشجعی “ حضرت حسیل بن خارجہ اشجعی (رض) کی روایت ہے کہ میں تجارت کا کچھ مال لے کر مدینہ آیا مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا گیا آپ نے فرمایا : اے حسیل اگر میں تمہیں بیس صاع کھجوریں دوں کیا تم میرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے لیے خیبر تک راہبری کروگے ؟ میں نے حامی بھری جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر پہنچے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے بیس صاع کھجوریں دیں پھر مجھے فرمایا : اے حسیل ! میرے ساتھ جو شخص بھی تین دن تک رہا ہے وہ ضرور اسلام سے سرفراز ہوا ہے چنانچہ یہ سنتے ہی میں نے اسلام قبول کرلیا ۔ (رواہ الطبرانی وابو نعیم)

30124

30124- "مسند ربيعة بن كعب الأسلمي" عن أبي طلحة كنت رديف النبي صلى الله عليه وسلم فلو قلت: إن ركبتي تمس ركبته فسكت عنهم حتى إذا كان عند السحر أغار عليهم وقال: " إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين". "طب".
30124 ۔۔۔ مسند ربیعہ بن کعب اسلمی “۔ ابو طلحہ روایت کی ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا اگر میں کہوں میرے گھٹنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں کو چھوتے تھے تو میں یہ کہنے سے خاموش رہا حتی کہ سحری کے وقت اہل خیبر پر حملہ کردیا اور آپ نے فرمایا : جب ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں ان کا وہ دن بہت برا ہوتا ہے۔ (رواہ الطبرانی)

30125

30125- "من مسند رفاعة بن رافع" عن أنس عن أبي طلحة لما أصبح النبي صلى الله عليه وسلم خيبر وقد أخذوا مساحيهم ومكاتلهم وغدوا على حروثهم فلما رأوا النبي صلى الله عليه وسلم معه الخميس نكصوا مدبرين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله أكبر الله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين. "حم، طب".
25 301 ۔۔۔ ” مسند رفاعہ بن رافع “ حضرت انس بن مالک (رض) حضرت ابو طلحہ (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح صبح خیبر پہنچے جبکہ اہل خیبر کدالیں اور ٹوکرے لیے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے جب انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو دیکھا تو الٹے پاؤں واپس لپکے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور فرمایا : خیبر اجڑ گیا جب ہم قوم کے پاس جا اترتے ہیں تو ان کا وہ دن بہت برا ہوتا ہے۔ (رواہ احمد بن حنبل والطبرانی)

30126

30126- "مسند سلمة بن الأكوع" عن إياس بن سلمة قال: أخبرني أبي قال: بارز عمي يوم خيبر مرحبا اليهودي فقال مرحب: قد علمت خيبر أني مرحب ... شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب أقبلت تلهب فقال عمي عامر: قد علمت خيبر أني عامر ... شاكي السلاح بطل مغامر فاختلفا ضربتين فوقع سيف مرحب في ترس عامر فرجع السيف على ساقه فقطع أكحله فكانت فيها نفسه، قال سلمة: فلقيت من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: بطل عمل عامر قتل نفسه فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم أبكي، قلت: يا رسول الله أبطل عمل عامر؟ قال: من قال ذلك؟ قلت: أناس من أصحابك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كذب من قال ذلك بل له أجره مرتين حين خرج إلى خيبر جعل يرتجز بأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وفيهم النبي صلى الله عليه وسلم يسوق الركاب وهو يقول: تالله لولا الله ما اهتدينا ... ولا تصدقنا ولا صلينا إن الذين قد بغوا علينا ... إذا أرادوا فتنة أبينا ونحن عن فضلك ما استغنينا ... فثبت الأقدام إن لاقينا وأنزلن سكينة علينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من هذا؟ قال: عامر يا رسول الله قال: غفر لك ربك قال: وما استغفر لإنسان قط يخصه إلا استشهد فلما سمع ذلك عمر بن الخطاب قال: يا رسول الله لو ما متعتنا بعامر؟ فقام فاستشهد، قال سلمة: ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسلني إلى علي فقال: لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله، فجئت به أقوده أرمد فبصق رسول الله صلى الله عليه وسلم في عينيه ثم أعطاه الراية فخرج مرحب يخطر بسيفه فقال: قد علمت خيبر أني مرحب ... شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب أقبلت تلهب فقال علي بن أبي طالب: أنا الذي سمتني أمي حيدره ... كليث غابات كريه المنظره أوفيهم بالصاع كيل السندره ففلق رأس مرحب بالسيف وكان الفتح على يديه. "ش"
30126 ۔۔۔ ” مسند سلمہ بن اکوع “۔ ایاس بن سلمہ روایت کی ہے کہ میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے چچا نے غزوہ خیبر کے موقع پر مرحب یہودی کو مقابلہ کے لیے للکارا ۔ مرحب نے جواب میں یہ رجزیہ پڑھا۔ قد علمت خیبرانی مرحب شاکی السلاح بطل مجرب اذا الحروب اقبلت تلھب : پورا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ پوش بہادر اور تجربہ کار ہوں اس وقت کہ جب جنگوں کے شعلے بھڑک رہے ہو ۔ میرے چچا عامر نے جواب میں یہ رجز پڑھا : قد علمت خیبرانی عامر شاکی السلاح بطل مغامر : پورا خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ پوش بہادر اور نیزے سے کاری ضرب لگانے والا ہوں ۔ چنانچہ پھر دونوں میں دو دو وار ہوئے مرحب کی تلوار عامر (رض) کی ڈھال پر پڑی پھر اس کی اپنی تلوار گھٹنے پر لگی جس سے گھٹنا کٹ گیا اور اسی زخم سے اللہ کو پیارے ہوگئے حضرت سلحہ (رض) کہتے ہیں میری صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ملاقات ہوئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا : عامر کا عمل ضائع ہوگیا ، چونکہ اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عامر کا عمل باطل ہوگیا ؟ فرمایا : کون کہتا ہے میں نے عرض کیا : آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں آپ نے فرمایا : جس نے کہا ہے اس نے جھوٹ بولا بلکہ ان کے لیے دوہرا اجر وثواب ہے جب وہ خیبر کی طرف نکلے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ رجز پڑھتے رہے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان سواریاں ہانک رہے تھے اور عامر (رض) کہہ رہے تھے ۔ تاللہ لولا اللہ ما اھت دینا ولا تصدقنا ولا صلینا ان الذین قد بغوا علینا اذا ارادو فتنۃ ابینا ونحن عن فضلک ما استغنینا فثبت الاقدام ان لاقینا وانزلن سکینۃ علینا “۔ بخدا ! اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ہوتی ہم ہدایت نہ پاتے ہم صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے جن لوگوں نے ہمارے اوپر سرکشی کی ہے جب وہ کسی فتنہ کے درپے ہوتے ہیں ہم اس فتنے سے پہلو تہی کر جاتے ہیں ، ہم تیرے فضل و کرم سے بےنیاز نہیں ، ہمیں ثابت قدم رکھ اگر دشمن سے ہماری مدبھیڑ ہو اور ہمارے اوپر اپنی رحمت نازل فرما۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ رجز سن کر فرمایا : یہ کون ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ عامر ہیں فرمایا : اللہ تعالیٰ تیری مغفرت کرے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس شخص کے لیے بھی مغفرت طلب کی ہے وہ ضرور شہید ہوا ہے جب سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے یہ بات سنی عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش اگر آپ عامر سے کام لینے دیتے ، چنانچہ عامر (رض) پیروی حق کے لیے کھڑے ہوئے اور شہید ہوگئے ۔ سلمہ (رض) کہتے ہیں : پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی طرف بھیجا اور فرمایا : میں آج ایک ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے چنانچہ میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو کھینچ کر لایا چونکہ انھیں آشوب چشم کی شکایت تھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور جھنڈا انھیں دیا چنانچہ قلعہ سے مرحب تلوار لہراتا ہوا نمودار ہوا اور وہ یہ رجز پڑھ رہا تھا : قد علمت خیبرانی مرحب شاکی السلاح بطل مجرب اذا الحروب اقبلت تلھب : پورا خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ پوش بہادر اور تجربہ کار ہوں جس وقت کہ جنگیں شعلہ زن ہوں ، جواب میں حضرت علیٰ (رض) نے یہ رجز پڑھا ۔ انا الذی سمتنی امی حیدرہ کلیث غابات کر یہ المنظرہ اوفیھم بالصاع کیل السندرہ میں وہ ہوں کہ جس کا نام میری ماں نے حیدر (شیر) رکھا ہے میں ایسا ہی ہوں جیسا کہ جنگلات کا شیر جو نہایت ڈراؤنہ سماں پیش کررہا ہوتا ہے میں صاع سے پیمانہ پورا پورا ناپ کے دیتا ہوں ۔ چنانچاہ حیدر کرار (رض) نے تلوار سے مرحب کا سر کچل دیا اور فتح سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے دست راست پر ہوئی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30127

30127- عن أبي طلحة قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر فلما انتهينا وقد خرجوا بالمساحي، فلما رأونا قالوا: محمد والله محمد والخميس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الله أكبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين". "ش".
30127 ۔۔۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کی روایت ہے کہ میں خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا جب ہم خیبر پہنچے دیکھا کہ اہل خیبر کدالیں اور پھاوڑے لیے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے ہیں جب اہل خیبر نے ہمیں دیکھا کہنے لگے : بخدا محمد اور اس کا لشکر آگیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نعرہ تکبیر لگا کر فرمایا : جب ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں اس قوم کا وہ دن بہت برا ہوتا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30128

30128- عن أبي طلحة أن نبي الله صلى الله عليه وسلم لما صبح خيبر تلا هذه الآية "إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين". "كر".
30128 ۔۔۔ حضرت ابو طلحہ (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح صبح خیبر پہنچے تو یہ آیت تلاوت کی : ” انااذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین “۔ جب ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں تو اس قوم کی وہ صبح بہت ہی بری ہوتی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

30129

30129- "مسند أبي ليلى" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر: أما إني سأبعث إليهم رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله عليه فقال: ادعوا لي عليا فجيء به يقاد أرمد لا يبصر شيئا، فتفل في عينيه ودعا له بالشفاء وأعطاه الراية وقال: امض بسم الله فما ألحق به آخر أصحابه حتى فتح على أولهم. أبو نعيم في المعرفة ورجاله ثقات.
30129 ۔۔۔ ” مسند ابی لیسی “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن فرمایا : میں یہودیوں کی طرف سے ایسے شخص کو بھیجوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس رسول اس سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر قلعہ فتح کرے گا میرے پاس علی کو بھلاؤ چنانچہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) پکڑ کر لائے گے چونکہ انھیں آشوب چشم کی شکایت تھی دیکھ نہیں سکتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور شفا پانے کی دعا کی پھر جھنڈا نہیں دیا اور فرمایا : اللہ کا نام لے کر چل پڑو چنانچہ لشکر کا آخری سپاہی ان سے ملنے نہیں آیا تھا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر قلعہ فتح کردیا ۔ (رواہ ابو نعیم فی المعرفۃ ورجالہ ثقات)

30130

30130- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر: لأعطين الراية غدا رجلا يحب الله ورسوله يفتح الله على يديه، قال عمر: فما أحببت الإمارة قط إلا يومئذ فتشوقت لها رجاء أن أدعى لها، فدعا عليا فبعثه وأعطاه الراية وقال: اذهب فقاتل حتى يفتح الله على يديك ولا تلتفت، فسار علي بالناس ثم وقف ولم يلتفت فقال: يا رسول الله على ما أقاتل الناس؟ قال: قاتلهم حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فإذا قالوا ذلك منعوا منك دماءهم وأموالهم إلا بحقها، وحسابهم على الله عز وجل". ابن جرير.
30130 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن فرمایا : میں صبح کو جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائے گا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : مجھے اس دن کے سوا کبھی امارت کی خواہش نہیں ہوئی چنانچہ مجھے از حد شوق ہوا کہ اس شرف کے لیے مجھے بلایا جائے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو بلایا اور انہی کو جھنڈا دیا اور فرمایا جاؤ اور جنگ کرو یہاں تک کہ اللہ تمہارے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائے دائیں بائیں توجہ نہیں دینی سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) لشکر کو لے کر چل پڑے اور چلتے وقت عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کس چیز کی بنیاد پر جنگ لڑوں فرمایا : یہود سے لڑتے رہو تاوقتیکہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، جب وہ شہادتین کا اقرار کرلیں گویا انھوں نے تم سے اپنی جانوں اور اموال کو بچا لیا الا یہ کہ کوئی حق ان پر واجب ہوجائے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (رواہ ابن جریر)

30131

30131- عن ابن عباس قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يهود خيبر: بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله صاحب موسى وأخيه والمصدق لما جاء به موسى ألا إن الله قال لكم: يا معشر اليهود وأهل التوراة وإنكم لتجدون ذلك في كتابكم {مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ} - الآية، وإني أنشدكم بالله وبالذي أنزل عليكم وأنشدكم بالذي أطعم من كان قبلكم المن والسلوى وأيبس البحر لآبائكم حتى أنجاكم من فرعون وعمله إلا أخبرتموني، هل تجدون فيما أنزل الله عليكم أن تؤمنوا بمحمد؟ قد تبين الرشد من الغي وأدعوكم إلى الله وإلى رسوله. ابن إسحاق وأبو نعيم.
30131 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے یہودیوں کو خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا : ”’ بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی اور ان کا بھائی ہے اور ان کی تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہے کی طرف سے خبردار اللہ تعالیٰ نے تم سے کہا ہے : اے یہود کی جماعت اور اہل توراۃ بلاشبہ تم اسے اپنی کتاب میں پاتے ہو ” محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار “۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ میں وہ کفاروں کے خلاف بہت سخت ہیں الایۃ۔ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور اس کتاب کا واسطہ دیتا ہوں جو تمہارے اوپر نازل کی گئی ہے تمہیں اس ذات کا واسطہ دیتا ہوں جس نے قبل ازیں پہلے لوگوں کو من اور سلوی عطا کیا اور جس نے تمہارے آباء کے لیے دریا کو خشک کیا حتی کہ تمہیں فرعون سے نجات دی اس کے عمل سے نجات دی مگر یہ کہ تم مجھے خبر دو کہ کیا تم اپنی کتابوں میں پاتے ہو کہ تم محمد پر ایمان لاؤل گے رشد و ہدایت گمراہی سے ممتاز ہے میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ (رواہ ابن اسحاق وابو نعیم)

30132

30132- عن عائشة قالت: لما فتح الله علينا خيبر قلت يا رسول الله الآن نشبع من التمر. "كر".
30132 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے لیے خیبر فتح کردیا میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اب ہم کھجوروں سے شکم سیر ہوں گے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30133

30133- عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله صلى الله عليه وسلم شطرها. "كر".
30133 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی زمین اور باغات اہل خیبر کو اس شرط پردے دیئے کہ وہ ان کے اموال میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کام کریں گے اور آپ کے لیے اس کا نصف ہوگا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30134

30134- حدثنا الصغدي بن سنان العقيلي عن محمد بن الزبير الحنظلي عن مكحول قال: لما افتتح رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر أكل متكئا ولبس برطلة وتنور. "ش".
30134 ۔۔۔ مکحول روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر فتح کیا تکیہ لگا کر کھانا کھایا ٹوپی پہنی اور چہرہ اقدس پر تازگی آگئی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30135

30135- عن أنس قال لما افتتح رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر قال الحجاج بن علاط: " يا رسول الله إن لي بمكة مالا وإن لي بها أهلا وإني أريد أن آتيهم وأنا في حل إن نلت منك أو قلت شيئا فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقول ما شاء، فأتى امرأته حين قدم فقال: اجمعي ما كان عندك فإني أريد أن اشتري من غنائم محمد وأصحابه فإنهم قد استبيحوا وأصيبت أموالهم وفشا ذلك بمكة فانقمع المسلمون وأظهر المشركون فرحا وسرورا وبلغ الخبر العباس بن عبد المطلب فعقر وجعل لا يستطيع أن يقوم، ثم أرسل غلاما إلى الحجاج بن علاط ويلك ماذا جئت به وماذا تقول؟ فما وعد الله عز وجل خير مما جئت به فقال الحجاج: اقرأ على أبي الفضل السلام وقل له: فليخل بي في بعض بيوته لآتيه فإن الخبر على ما يسره فجاءه غلامه فلما بلغ الباب قال: أبشر يا أبا الفضل فوثب العباس فرحا حتى قبل بين عينيه فأخبره بما قال الحجاج فأعتقه، ثم جاءه الحجاج فأخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد افتتح خيبر وغنم أموالهم وجرت سهام الله في أموالهم واصطفى رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية بنت حيي واتخذها لنفسه، وخيرها بين أن يعتقها وتكون زوجة، أو تلحق بأهلها، فاختارت أن يعتقها وتكون زوجة، ولكن جئت لمال كان لي ههنا أردت أن أجمعه فأذهب به فاستأذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذن لي أن أقول ما شئت فأخف علي ثلاثا ثم اذكر ما بدا لك، فجمعت امرأته ما كان عندها من حلي أو متاع فدفعته إليه ثم انشمر به، فلما كان بعد ثلاث أتى العباس امرأة الحجاج فقال: ما فعل زوجك؟ فأخبرته أنه قد ذهب يوم كذا وكذا وقالت: لا يخزيك الله يا أبا الفضل لقد شق علينا الذي بلغك، قال: أجل لا يخزيني الله ولم يكن بحمد الله إلا ما أحببنا، فتح الله خيبر على رسوله، واصطفى رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية لنفسه، وإن كان لك حاجة في زوجك فالحقي به، قالت: أظنك والله صادقا؟ قال: فإني والله صادق والأمر على ما أخبرتك، ثم ذهب حتى أتى مجلس قريش وهم يقولون إذا مر بهم: لا يصيبك إلا خير يا أبا الفضل، قال: لم يصيبني إلا خير بحمد الله لقد أخبرني الحجاج بن علاط أن خيبر فتحها الله على رسوله وجرت سهام الله فيها، واصطفى رسول الله صلى الله عليه وسلم صفية لنفسه، وقد سألني أن أخفي عنه ثلاثا، وإنما جاء ليأخذ ماله وما كان له من شيء ههنا ثم يذهب، فرد الله الكآبة التي كانت بالمسلمين على المشركين، وخرج المسلمون من كان دخل بيته مكتئبا حتى أتوا العباس، فأخبرهم الخبر، فسر المسلمون ورد الله ما كان من كآبة أو غيظ أو حزن على المشركين. "حم، ع، طب" وأبو نعيم، "كر"؛ وروى "ن" بعضه.
30135 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر فتح کیا تو حضرت حجاج بن علاط (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مکہ میں میرا مال ہے اور میرا اہل و عیال بھی وہیں ہیں میں ان کے پاس جانا چاہتا ہوں اور مجھے کھلی چھٹی دی جائے تاکہ آپ کے متعلق کچھ کہہ کر میں مال لے آؤں ، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اجازت دے دی کہ جو جی چاہے کہو چنانچہ حجاج (رض) اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا : تمہارے پاس جو کچھ ہے جمع کرو میں محمد اور اس کے ساتھیوں کی غنیمتیں خریدنا چاہتا ہوں چونکہ انھیں شکست ہوچکی ہے اور ان کے اموال چھین لیے گئے ہیں یہی افواہ مکہ میں عام کردی مسلمان سن کر کبیدہ خاطر ہوئے جبکہ مشرکین فرحان و شاداں ہوئے حضرت عباس (رض) کو جب خبر ہوئی تو پریشانی کے عالم میں ٹانگوں میں کھڑے ہونے کی سکت باقی نہ رہی پھر اپنے غلام کو حجاج (رض) کی طرف بھیجا اور کہلوا بھیجا کہ تیرا ناس ہو تو نے کیسی خبر لائی ہے اور تو کیا کہتا پھر رہا ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خیر و بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے حجاج (رض) نے جوابا کہا : ابو الفضل (رض) کو سلام کہو اور ان سے کہو کہ مجھ سے کہیں خلوت میں ملیں میرے پاس ایسی خبر ہے جس سے وہ خوش ہوجائیں گے چنانچہ غلام واپس لوٹ آیا اور آتے ہی کہا : اے ابو الفضل خوش ہوجائیں حضرت عباس (رض) خوشی سے اچھل پڑے حتی کہ غلام کی پیشانی چوم لی پھر غلام نے حجاج (رض) کو پیغام دیا حضرت عباس (رض) نے غلام کو انعام میں آزادی سے سرفراز کیا ، پھر طے شدہ امر کے مطابق حجاج (رض) حضرت عباس (رض) کے پاس آئے اور انھیں خبر دی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر فتح کرلیا ہے اور اہل خیبر کے اموال غنیمت کی مد میں رکھے ہیں۔ اور مسلمانوں میں ان کے حصے تقسیم کردیئے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے منتخب کیا ہے پھر صفیہ کو اختیار دیا کہ انھیں آزاد کردیا پھر چاہے تو آپ کی زوجیت میں رہے یا اپنے خاندان سے جا ملے ۔ چنانچہ صفیہ (رض) نے یہ اختیار اپنایا کہ انھیں آزاد کیا جائے اور اپنی زوجیت میں لے لیا جائے البتہ میں نے یہ افواہی تدبیر محض اپنا مال حاصل کرنے کے لیے کی ہے میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لی تو آپ نے مجھے اجازت دے دی لہٰذا آپ تین دن تک یہ خبر مخفی رکھیں پھر جیسے چاہیں افشا کریں چنانچہ حجاج (رض) کی بیوی نے مال ومتاع جمع کیا جس میں زیورات بھی تھے بیوی نے حجاج (رض) کے سپرد کیا پھر حجاج (رض) نے کوچ کرنے کی تیاری کی ۔ تین دن کے بعد حضرت عباس (رض) حجاج (رض) کی بیوی کے پاس گئے اور اس سے کہا : تمہارے خاوند نے کیا کیا بیوی نے کہا وہ تو فلاں دن یہاں سے روانہ ہوگیا ہے اے ابو الفضل اللہ تعالیٰ آپ کو پریشان نہ کرے یقیناً یہ خبر سن کر ہم بھی پریشان ہوئے ہیں عباس (رض) نے کہا : جی ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے بےیارومددگار نہیں چھوڑا جبکہ حالات وہی ہیں جو ہم چاہتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کا علاقہ اپنے رسول کو فتح میں دیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کو اپنے لیے منتخب کیا ہے اگر تمہیں اپنے خاوند کی ضرورت ہے تو اس کے پاس چلی جاؤ ، حجاج (رض) کی بیوی نے کہا بخدا ! میں آپ کو سچا سمجھتی ہوں عباس (رض) نے کہا : بخدا میں سچ کہتا ہوں حقیقت وہی ہے جو میں نے تمہیں بتادی ہے پھر حضرت عباس (رض) قریش کی ایک مجلس کے پاس گئے جبکہ قریش کہہ رہے تھے اے ابوالفضل تمہیں خیر و بھلائی ملے عباس (رض) نے جوابا کہا : اللہ کا شکر ہے مجھے صرف اور صرف خیر و بھلائی ہی ملی ہے مجھے حجاج بن علاط نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کا علاقہ اپنے رسول کے لیے فتح کردیا ہے اور اس کے حصہ بھی مسلمانوں میں تقسیم کردیئے ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کو اپنے لیے منتخب کیا ہے حجاج نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا کہ میں تین دن تک حقیقت حال مخفی رکھوں وہ تو اس طرح کی افواہ پھیلا کر اپنا مال یہاں سے لے جانا چاہتا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پریشانی کو مشرکین پر پلٹ دیا اور مسلمان یہ خبر سن کر فرحان وشادان ہوگئے مسلمان جمگٹھا بنا کر حضرت عباس (رض) کے پاس آئے حضرت عباس (رض) نے مسلمانوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیا سن کر مسلمان خوش ہوگئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو رسوا کیا ۔ (رواہ احمد بن حنبل وابو یعلی والطبرانی وابو نعیم وابن عساکر وروی النسائی بعضہ) غزوہ حدیبیہ :

30136

30136- الواقدي قال: كان أبو بكر الصديق يقول: ما كان فتح أعظم في الإسلام من فتح الحديبية ولكن الناس يومئذ قصر رأيهم عما كان بين محمد وربه، والعباد يعجلون والله لا يعجل كعجلة العباد حتى يبلغ الأمور ما أراد، لقد نظرت إلى سهيل بن عمرو في حجة الوداع قائما عند المنحر يقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بدنة ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينحرها بيده، ودعا الحلاق فحلق رأسه، وأنظر إلى سهيل يلتقط من شعره وأراه يضعه على عينيه، وأذكر إباءه أن يقر يوم الحديبية بأن يكتب بسم الله الرحمن الرحيم، ويأبى أن يكتب محمد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فحمدت الله الذي هداه للإسلام. "كر
30136 ۔۔۔ واقدی کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرمایا کرتے تھے کہ حدیبہ کی فتح سے بڑھ کر اسلام میں کوئی اور فتح عظیم نہیں ۔ لیکن اس دن مسلمانوں کی آراء کوتاہ تھیں بندے تو جلد باز ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ جلد بازی سے پاک ہے حتی کہ معاملات رب تعالیٰ کے مرضی کے مطابق ہوئے میں نے سہیل بن عمرو کو حجۃ الوداع کے موقع پر دیکھا کہ وہ ذبح گاہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب کھڑا اونٹوں کو آپ کے قریب کررہا تھا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دست اقدس سے اونٹوں کا نحر کر رہے تھے پھر حجام کو بلوا کر سر منڈوایا ، میں نے سہیل کو دیکھا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال مبارک چن رہا تھا میں نے اسے دیکھا آپ کے موئے مبارک وہ اپنی آنکھوں پر لگا رہا تھا جبکہ مجھے حدیبیہ کے دن اس کی وہ بات بھی یاد ہے کہ وہ معاہدہ نامہ کی پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوانے سے انکار کررہا تھا اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھوانے سے بھی انکار کررہا تھا ، میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں جس نے سھیل کو اسلام کی ہدایت سے مالا مال کیا ۔ (رواہ ابن عساکر) ۔

30137

30137- عن ابن عباس قال: قال عمر بن الخطاب: لقد صالح رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل مكة على صلح وأعطاهم شيئا لو أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أمر علي أميرا فصنع الذي صنع نبي الله ما سمعت ولا أطعت وكان الذي جعل لهم أن من لحق من الكفار بالمسلمين ردوه، ومن لحق بالكفار لم يردوه. ابن سعد؛ وسنده صحيح.
30137 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ صلح کی اور انھیں کچھ دیا بھی اگر اللہ کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ پر کسی اور شخص کو امیر مقرر کرتے اور وہ وہی کچھ کرتا جو اللہ کے پیغمبر نے کیا ہے میں قطعا اس کی بات سنتا اور نہ اس کی اطاعت کرتا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی یہ شرط تسلیم کرلی کہ کفار سے جو شخص مسلمانوں سے آملے گا مسلمان اسے واپس کردیں گے اور جو شخص کفار سے جا ملے گا کفار اسے واپس نہیں کریں گے ۔ (رواہ ابن سعدہ وسند صحیح)

30138

30138- عن علي قال: خرج عبدان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية قبل الصلح فكتب إليه مواليهم فقالوا: يا محمد ما خرجوا إليك رغبة في دينك وإنما خرجوا هربا من الرق، فقال ناس: صدقوا يا رسول الله ردهم إليهم فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما أراكم تنتهون يا معشر قريش حتى يبعث الله عليكم من يضرب رقابكم على هذا، وأبى أن يردهم وقال: هم عتقاء الله عز وجل، وخرج آخرون بعد الصلح فردهم. "د" وابن جرير وصححه، "ق، ض".
30138 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر صلح سے قبل کچھ غلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکل کر آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان غلاموں کے آقاؤں نے خط لکھا کہ یہ لوگ تمہارے دین میں راغب ہو کر نہیں آئے وہ تو غلامی سے بھاگ کر تمہارے پاس آئے ہیں کچھ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ان کے آقاؤں نے سچ کہا ہے آپ انھیں واپس کردیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت غصہ ہوئے اور فرمایا : اے جماعت قریش ! میں تمہیں حق بات سے باز رہتے کیوں دیکھ رہا ہوں حتی کہ رب تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو مسلط کر دے جو تمہارے گردنیں مارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان غلاموں کو واپس کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ بندے ہیں جبکہ صلح کے بعد کچھ اور غلام نکل کر آپ کے پاس آئے آپ نے شرط معاہدہ کے مطابق انھیں کفار کی طرف واپس کردیا ۔ (رواہ ابو داؤد وابن جریر وصححہ والبخاری ومسلم والضیاء)

30139

30139- عن البراء قال: لما حصر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البيت صالحه أهل مكة على أن يدخلها فيقيم بها ثلاثا، ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح السيف وقرابه، ولا يخرج معه أحد من أهلها، ولا يمنع أحدا أن يمكث بها ممن كان معه فقال لعلي: اكتب الشرط بيننا: بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، فقال المشركون: لو نعلم أنك رسول الله تابعناك، ولكن اكتب محمد بن عبد الله، فأمر عليا أن يمحاها فقال علي: لا والله لا أمحاها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أرني مكانها فأراه مكانها فمحاها، وكتب ابن عبد الله فأقام فيها ثلاثة أيام، فلما كان اليوم الثالث قالوا لعلي: هذا آخر يوم من شرط صاحبك، فمره فليخرج، فحدثه بذلك، فقال: نعم فخرج". "ش".
30139 ۔۔۔ حضرت براء (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ میں جانے سے روک دیا گیا تو آپ نے اہل مکہ کے ساتھ صلح کردی اور اس کی شرائط میں یہ تھا کہ آئندہ صرف تین دن رہیں مسلمان تلواریں نیام میں کرکے آئیں اہل مکہ سے اپنے ساتھ کسی شخص کو نہیں لے کر جائیں گے اور جو شخص مکہ میں رہنا چاہے ، اسے نہیں روکیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : یہ شرائط لکھ دو چنانچہ معاہدہ نامہ کی ابتداء یوں کی : بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے مشرکین نے اسے پر اعتراض کیا کہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے آپ کی اتباع کرلیتے البتہ یوں لکھو ” محمد بن عبداللہ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے فرمایا : یہ جگہ مجھے دکھاؤ چنانچہ آپ نے اپنے دست اقدس سے مٹا دیا اور اس کی بجائے ابن عبداللہ لکھوایا چنانچہ تین دن تک قیام کیا جب تیسرا دن ہوا مشرکین نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے کہا کہ اپنے صاحب سے کہو : آج شرط کا تیسرا اور آخری دن ہے لہٰذا ان سے کہو کہ چلے جائیں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا : آپ نے فرمایا : جی ہاں چنانچہ آپ یہاں سے کوچ کرگئے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30140

30140- عن البراء قال: نزلنا يوم الحديبية فوجدنا ماءها قد شربه أوائل الناس فجلس النبي صلى الله عليه وسلم على البئر، ثم دعا بدلو منها فأخذ منه بفيه، ثم مجه فيها ودعا الله فكثر ماؤها حتى تروى الناس منها. "ش".
30140 ۔۔۔ حضرت براء (رض) کی روایت ہے کہ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر حدیبیہ اترے جو لوگ پہلے پہنچے انھوں نے پانی پی لیا جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے پانی نہ بچا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنویں پر بیٹھے پھر ڈول منگوایا پانی لیا اور کلی کرکے کنویں میں پانی ڈالا پھر اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی چنانچہ کنویں کا پانی وافر ہوگیا حتی کہ سب لوگ سیراب ہوگئے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30141

30141- عن البراء قال: كنا يوم الحديبية ألفا وأربعمائة. "ش".
30141 ۔۔۔ حضرت براء (رض) کی روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ۔ (1400) سو تھی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30142

30142- عن جابر قال: كان أصحاب الشجرة ألفا وخمسمائة. أبو نعيم في المعرفة.
30142 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں کی تعداد پندرہ (15) سو تھی ۔ (ابو نعیم فی المعرفۃ)

30143

30143- عن جابر قال: كنا يوم الحديبية ألفا وأربعمائة، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أنتم اليوم خير أهل الأرض. "ش" وأبو نعيم.
30143 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد 14 سو تھی اس دن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم آج اہل زمین میں سب سے افضل ہو ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ، وابو نعیم)

30144

30144- عن جابر قال: عطش الناس وهم بالحديبية حتى كادت أن تنقطع أعناقهم من شدة العطش، ففزعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقالوا: هلكنا يا رسول الله هلكنا، قال: كلا لن تهلكوا وأنا فيكم، ثم أدخل يده في تور كان بين يديه فيه قريب من مد ماء ففرج فيه أصابعه، فوالذي أكرمه بنبوته لرأيت الماء يفور من بين أصابعه كالعيون التي تجري، فقال: حي باسم الله فشربنا وسقينا الركاب، ثم عمدنا إلى المزاد والقرب، فملأناها حتى صدرنا فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: أشهد أن لا إله إلا الله وأني نبي الله ورسوله لا يقولها عبد بصدق قلبه ولسانه إلا دخل الجنة قيل: كم كنتم يومئذ؟ قال: أربع عشرة مائة، ولو شهد ذلك اليوم أهل منى لوسعهم وكفاهم. "كر".
30144 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) روایت کی ہے کہ حدیبیہ میں لوگوں کو شدت پیاس نے سخت تنگ کیا حتی کہ قریب تھا کہ ان کی گردنیں جھڑ جائیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم ہلاک ہوگئے آپ نے فرمایا : ہرگز نہیں میرے ہوتے ہوئے تم ہلاک نہیں ہو گے پھر آپ نے ڈول میں ہاتھ ڈالا ڈول میں مدبھر پانی تھا اس میں انگلیاں پھیلا دیں قسم اس ذات کی جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے سرفراز کیا ہے میں نے کنویں میں پھوٹ پھوت کر پانی جاتے دیکھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں کے بیچ سے نکل رہا تھا آپ نے فرمایا : اللہ کے نام سے زندہ ہوجا پھر ہم نے سیر ہو کر پانی پیا اور اپنی سواریوں کو بھی پلایا اپنی مشکیزے بھی بھر لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں دیکھ کر مسکرائے پھر فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا نبی اور اس کا رسول ہوں جو شخص بھی صدق دل سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا کسی نے جابر (رض) سے پوچھا اس دن تمہاری تعداد کیا تھی ؟ جابر (رض) نے کہا : ہم چودہ سو (1400) تھے اگر یہ لوگ منی جاتے تو ان کے لیے کافی ہوتی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30145

30145- "من مسند جرير البجلي" لما كنا بالغميم لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم خبرا من قريش أنها بعثت خالد بن الوليد في جريدة خيل يتلقى رسول الله صلى الله عليه وسلم وكره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتلقاه، وكان بهم رحيما فقال: من رجل يعدل بنا عن الطريق؟ فقلت: أنا بأبي أنت فأخذتهم في طريق قد كان مهاجري بها فدافد وعتاب، فاستوت بنا الأرض حتى أنزلته على الحديبية، وهي نزح فألقى فيها سهما أو سهمين من كنانته، ثم بصق فيها ثم دعا ففارت عيونها حتى أني أقول: لو شئنا لاغترفنا بأيدينا. "طب".
30145 ۔۔۔ ” مسند جریر بجلی “ جریر (رض) کی روایت ہے کہ جب ہم مقام غمیم پہنچے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریش کی طرف سے خبر ملی کہ انھوں نے خالد بن ولید کی کمان میں کچھ شہسوار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے بھیجے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مڈ بھیڑ کرنا اچھا نہ سمجھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر رحم دل تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کون شخص ہے جو متبادل راستے میں ہماری راہنمائی کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : میرا باپ آپ پر فدا ہو اس کام کے لیے میں تیار ہوں۔ چنانچہ ہم نے یہ راستہ چھوڑ دیا اور متبادل راستے پر چلتے ہوئے ہم حدیبیہ آن پہنچے حدیبیہ ایک کنواں ہے اسمیں آپ نے ایک یا دو تیر ڈالے پھر کنویں میں لعاب ڈالا پھر دعا کی کنواں پانی سے پھوٹ پڑا حتی کہ پانی اتنا اوپر آگیا کہ اگر ہم چاہتے چلو بھر لیتے ۔ (رواہ الطبرانی)

30146

30146- عن ناجية بن جندب بن ناجية قال: لما كنا بالغميم لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر قريش أنها بعثت خالد بن الوليد في جريدة خيل نتلقى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يلقاه وكان بهم رحيما، فقال: من رجل يعدلنا عن الطريق؟ فقلت: أنا بأبي أنت وأمي يا رسول الله، فأخذت بهم في طريق قد كان مهاجري بها فدافد وعتاب، فاستوت بي الأرض حتى أنزلته على الحديبية وهي نزح قال: فألقى فيها سهما أو سهمين من كنانته، ثم بصق فيها، ثم دعا ففارت عيونها حتى أني لأقول: لو شئنا لاغترفنا بأقداحنا. "ش" وأبو نعيم.
30146 ۔۔۔ ناجیہ بن جندب بن ناجیہ روایت کی ہے کہ جب ہم مقام غمیم پہنچے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچی کہ قریش نے خالد بن ولید کی کمان میں گھوڑ سواروں کو لشکر دے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں رکاوٹ بنانے کے لیے بھیجا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مد مقابل ہونا اچھا نہ سمجھا آپ کو ان پر رحم بھی آ رہا تھا آپ نے فرمایا : کون شخص ہمیں متبادل راستے پر لے جائے گا میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اس کام کے لیے میں تیار ہوں چنانچہ میں لشکر کو متبادل راستے پر لے کر چلا اور یوں ہم راستہ طے کرتے ہوئے حدیبیہ آپہنچے حدیبیہ ایک کنواں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ترکش سے ایک یا دو تیر کنویں میں ڈالے پھر اس میں لعاب ڈالا پھر دعا کی کنواں پانی سے پھوٹ پڑا اگر ہم چاہتے اپنے پیالے بھر لیتے (رواہ ابن ابی شیبۃ وابو نعیم)

30147

30147- عن رفاعة بن عرابة الجهني قال: أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بالكديد - أو قال: بقديد - وجعل رجال منا يستأذنون إلى أهاليهم، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يأذن لهم وقال: ما بال شق الشجرة الذي يلي رسول الله أبغض إليكم من الشق الآخر؟ فلم نر بعد ذلك من القوم إلا باكيا، فقال أبو بكر: إن الذي يستأذنك في شيء بعدها لسفيه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله وأثنى عليه وقال: أشهد عند الله، وكان إذا حلف قال: والذي نفس محمد بيده ما منكم من أحد يؤمن بالله ثم يسدد إلا سلك به في الجنة، ولقد وعدني ربي أن يدخل من أمتي الجنة سبعين ألفا لا حساب عليهم ولا عذاب، وإني لأرجو أن لا يدخلوها حتى تتبوؤا أنتم ومن صلح من أزواجكم وذرياتكم مساكن في الجنة ثم قال: إذا مضى نصف الليل - أو قال - ثلثاه - ينزل الله تعالى إلى سماء الدنيا فيقول: لا أسأل عن عبادي أحدا غيري، من ذا الذي يسألني أعطيه من ذا الذي يدعوني أستجيب له؟ من ذا الذي يستغفرني أغفر له حتى ينصدع الفجر. "حم" والدارمي وابن خزيمة، "حب، طب".
30147 ۔۔۔ رفاعہ بن عرابہ جبنی کی روایت ہے کہ جب ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مقام کدید پہنچے تو کچھ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے گھر والوں کے پاس جانے کی اجازت چاہنے لگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں اجازت دیتے رہے اور فرمایا : اس درخت کا کیا حال ہے جو اللہ کے رسول کے قریب ہے وہ غم سے نڈھال ہے اس کے بعد ہم نے جسے بھی دیکھا وہ رو رہا تھا ابوبکر (رض) نے فرمایا : جو شخص بھی آپ سے اجازت چاہے وہ بیوقوف ہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا : میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں قسم کھاتا ہوں آپ جب قسم اٹھاتے یوں کہتے قسم اس ذات کی جس کی قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے تم میں سے جو شخص بھی دولت ایمان سے بہرہ مند ہو اور پھر وہ درستی پہ رہے جنت میں جائے گا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار لوگوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا اور انھیں کوئی عذاب نہیں ہوگا میں امید کرتا ہوں کہ تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو گے جب تک تم جنت کا حق نہیں ادا کرو گے یہی حال تمہاری بیویوں اور اولاد کا ہے پھر جب نصف رات یا تہائی رات گذر چکی فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ اس وقت آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جو شخص بھی مانگتا ہے میں اسے عطا کرتا ہوں جو بھی مجھ سے دعا کرتا ہے میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں جو بھی مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے میں اس کی بخشش کرتا ہوں حتی کہ اسی حال میں فجر ہوجاتی ہے (رواہ احمد بن حنبل والدارمی وابن خزیمہ وابن حبان والطبرانی)

30148

30148- "من مسند سلمة بن الأكوع" عن إياس بن سلمة عن أبيه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة الحديبية فنحر مائة بدنة ونحن سبع عشرة مائة ومعهم عدة السلاح والرجال والخيل وكان في بدنه جمل أبي جهل فنزل الحديبية، فصالحته قريش على أن هذا الهدي محله حيث حبسناه. "ش".
30148 ۔۔۔ ” مسند سلمہ بن اکوع “ ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : ہم غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سو اونٹوں کا نحر (ذبح) کیا ہم تعداد میں سترا سو (1700) تھے ہمارے پاس اسلحہ اور گھوڑے بھی تھے آپ کے اونٹوں میں ابو جہل کے اونٹ بھی تھے آپ حدیبیہ جا اترے وہیں قریش نے صلح کی کہ یہی جگہ بدیوں کے ذبح کرنے کا مقام ہے (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30149

30149- عن إياس بن سلمة عن أبيه قال: بعثت قريش سهيل بن عمرو وحويطب بن عبد العزى ومكرز بن حفص إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصالحوه، فلما رآهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم سهيل قال: قد سهل من أمركم القوم يأتون إليكم بأرحامكم وسائلوكم الصلح: فابعثوا الهدي وأظهروا بالتلبية لعل ذلك يلين قلوبهم فلبوا من نواحي العسكر حتى ارتجت أصواتهم بالتلبية، فجاؤه فسألوه الصلح، فبينما الناس قد توادعوا وفي المسلمين ناس من المشركين وفي المشركين ناس من المسلمين، ففتك أبو سفيان فإذا الوادي يسيل بالرجال والسلاح قال سلمة: فجئت بستة من المشركين مسلحين أسوقهم ما يملكون لأنفسهم نفعا ولا ضرا فأتينا بهم النبي صلى الله عليه وسلم فلم يسلب ولم يقتل وعفا، فشددنا على ما في أيدي المشركين منا فما تركنا فيهم رجلا منا إلا استنقذناه، وغلبنا على من في أيدينا منهم، ثم إن قريشا أتت سهيل بن عمرو وحويطب بن عبد العزى فولوا صلحهم، وبعث النبي صلى الله عليه وسلم عليا وطلحة فكتب علي بينهم: بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا صالحهم على أنه لا إغلال، ولا إسلال1، وعلى أنه من قدم مكة من أصحاب محمد حاجا أو معتمرا أو يبتغي من فضل الله فهو آمن على دمه وماله، ومن قدم المدينة من قريش مجتازا إلى مصر وإلى الشام يبتغي من فضل الله فهو آمن على دمه وماله، وعلى أنه من جاء محمدا من قريش فهو رد، ومن جاءهم من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فهو لهم، فاشتد ذلك على المسلمين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من جاءهم منا فأبعده الله ومن جاءنا منهم رددناه إليهم يعلم الله الإسلام من نفسه يجعل الله له مخرجا وصالحوه على أنه يعتمر عاما قابلا في مثل هذا الشهر لا يدخل علينا بخيل ولا سلاح إلا ما يحمل المسافر في قرابه فيمكثوا فيها ثلاث ليال، وعلى أن هذا الهدي حيث حبسناه فهو محله لا يقدمه علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نحن نسوقه وأنتم تردون وجهه. "ش".
30149 ۔۔۔ ایاس بن سلمہ اپنے والد حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ قریش نے سہیل بن عمرو حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن سلمہ اپنے والد حضرت سلمہ بن حفص کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا تاکہ آپ سے صلح کریں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو دیکھا کہ ان میں سہیل بھی ہے تو فرمایا : مشرکین نے تمہارے معاملے کو اور آسان کردیا ہے تمہارے پاس رشتہ داری کا واسطہ لے کر صلح کرنے آئے ہیں لہٰذا قربانی کے اونٹوں کو اٹھاؤ اور زور زور سے تلبیہ کہو شاید یوں ان کے دل نرم ہوجائیں چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے تلبیہ کیا جس سے مضافات کی پہاڑیاں گونج اٹھیں چنانچہ یہ لوگ آئے اور صلح کی درخواست کی چنانچہ لوگ سی لے دے میں مصروف تھے کہ مسلمانوں میں بھی کچھی مشرکین تھے اور مشرکین میں بھی کچھ مسلمان تھے ابو سفیان نے معاہدہ توڑا یکایک دیکھتے ہیں کہ وادی جنگجوؤں اور اسلحہ سے اٹی پڑی ہے سلمہ (رض) کہتے ہیں میں چھ مشرکین کو ہانکتے ہوئے لے آیا جب کہ وہ مسلح تھے وہ اپنے نفع و نقصان سے یکسر بےنیاز تھے میں انھیں ہانکتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سازو سامان چھینا اور نہ انھیں قتل کیا بلکہ معاف کردیا ہم چھینٹا مار کر مشرکین کے قبضے سے مسلمانوں کو چھڑا لائے ان کے قبضے میں ایک مسلمان بھی نہ چھوڑا پھر قریش نے سہیل بن عمرو او 3 ر حویطب بن عبدالعزی کو صلح کے لیے بھیجا جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) اور حضرت طلحہ (رض) کو صلح کے لیے بھیجا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے صلح نامہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا۔ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) یہ وہ معاہدہ ہے جس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے ساتھ صلح کی ہے ان شرائط پر کہ دھوکا وہی اور چوری چکاری نہیں ہوگی یہ ک محمد کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص حج کرنے یا عمرہ کرنے یا تجارت کی غرض سے مکہ آئے وہ امن میں ہوگا اس کی جان اور اس کا مال محفوظ ہوگا قریش میں سے کوئی شخص اگر محمد کے جپ اس چلا جائے اسے واپس کیا جائے گا اور محمد کے ساتھیوں سے کوئی شخص قریش کے پاس آجائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا اس شرط پر مسلمانوں کا غصہ دوبالا ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم میں سے جو شخص قریش کے ساتھ جا ملے اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے اور ان میں سے جو شخص ہمارے پاس آجائے ہم اسے واپس کردیں گے چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسلام کو غالب اور نمایاں کرنا چاہتا ہے نیز صلح نامہ میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اس سال واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لیے آئیں اور اسی مہینہ میں آئیں ہمارے پاس گھوڑوں پر سوار اور مسلح ہو کر نہ آئیں البتہ مسافر جتنا سامان ساتھ رکھ سکتے ہیں تین دن تک رہیں پھر واپس چلے جائیں یہ کہ ذبح کے اونٹوں کے لیے یہی جگہ ہو ہمارے پاس نہ لائیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم اونٹوں کو ہانکتے ہیں تم انھیں آگے سے واپس کرنا چاہتے ہو ۔

30150

30150- عن عبد الله بن أبي أوفى قال: كنا يوم الشجرة ألفا وأربعمائة أو ألفا وثلاثمائة، وكانت أسلم يومئذ ثمن المهاجرين. "ش" وأبو نعيم في المعرفة.
30150 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) روایت کی ہے کہ کہ صلح حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو یا تیرہ سو تھی اس دن قبیلہ اسلم مہاجرین کا اٹھوں حصہ تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ وابو نعیم فی الفرفۃ)

30151

30151- عن أنس أن قريشا صالحوا النبي صلى الله عليه وسلم منهم سهيل بن عمرو فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي: أكتب بسم الله الرحمن الرحيم فقال سهيل: أما بسم الله الرحمن الرحيم فلا ندري ما بسم الله الرحمن الرحيم ولكن اكتب بما نعرف باسمك اللهم فقال: اكتب من محمد رسول الله، قالوا لو علمنا أنك رسول الله لاتبعناك، ولكن اكتب اسمك واسم أبيك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب من محمد بن عبد الله، فاشترطوا على النبي صلى الله عليه وسلم أن من جاء منكم لم نرده عليكم، ومن جاء منا رددتموه علينا، فقالوا: يا رسول الله أنكتب هذا؟ قال: نعم إنه من ذهب منا إليهم فأبعده الله ومن جاءنا منهم سيجعل الله له فرجا ومخرجا. "ش".
30151 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح کی ان میں سے ایک سہیل بن عمرو بھی تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : لکھو : بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل نے کہا : ہم نہیں جانتے بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا ہے وہی لکھو جو ہم جانتے ہیں یعنی ” باسمک اللہم “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھ : محمد رسول اللہ کی جانب سے قریش نے کہا : اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول جانتے آپ کا اعتبار کرلیتے البتہ اس کی بجائے محمد بن عبداللہ لکھو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : محمد بن عبداللہ قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ شرط عائد کی کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ہم اسے واپس نہیں کریں گے اور جو شخص ہم میں سے آپ کے پاس چلا جائے گا آپ اسے واپس کرنے کے مجاز ہوں گے صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم یہ شرط بھی لکھ دیں ؟ فرمایا جی ہاں ہم میں سے جو شخص ان کے پاس چلا جائے اسے اللہ تعالیٰ دور کرے اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے تو عنقریب اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کوئی راستہ نکال دے گا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30152

30152- عن عروة في نزول النبي صلى الله عليه وسلم الحديبية قال: وفزعت قريش لنزوله عليهم وأحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبعث إليهم رجلا من أصحابه فدعا عمر بن الخطاب ليبعثه إليهم فقال: يا رسول الله إني لألعنهم وليس أحد بمكة من بني كعب يغضب لي إن أوذيت فأرسل عثمان، فإن عشيرته بها وإنه يبلغ لك ما أردت، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان بن عفان فأرسله إلى قريش وقال: أخبرهم أنا لم نأت لقتال، وإنما جئنا عمارا وأدعهم إلى الإسلام وأمره أن يأتي رجالا من المؤمنين بمكة ونساء مؤمنات فيدخل عليهم ويبشرهم بالفتح ويخبرهم أن الله جل ثناؤه يوشك أن يظهر دينه بمكة حتى لا يستخفى فيها بالإيمان تثبيتا يثبتهم قال: فانطلق عثمان فمر على قريش ببلدح فقالت قريش: أين؟ قال: بعثني رسول الله إليك لأدعوكم إلى الله عز وجل وإلى الإسلام، ونخبركم أنا لم نأت لقتال أحد وإنما جئنا عمارا، فدعاهم عثمان كما أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: قد سمعنا ما تقول فانفذ لحاجتك، وقام إليه أبان بن سعيد بن العاص فرحب به، وأسرج فرسه فحمل عثمان على الفرس فأجاره وردفه أبان حتى جاء مكة، ثم إن قريشا بعثوا بديل بن ورقاء الخزاعي وأخا بني كنانة، ثم جاء عروة بن مسعود الثقفي - فذكر الحديث فيما قالوا وقيل لهم - ورجع عروة إلى قريش وقال: إنما جاء الرجل وأصحابه عمارا، فخلوا بينه وبين البيت، فليطوفوا فشتموه. ثم بعثت قريش سهيل بن عمرو وحويطب بن عبد العزى ومكرز بن حفص ليصلحوا عليهم فكلموا رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعوه إلى الصلح والموادعة فلما لان بعضهم لبعض وهم على ذلك لم يستقم لهم ما يدعون إليه من الصلح وقد أمر بعضهم بعضا وتزاوروا، فبينا هم كذلك وطوائف المسلمين في المشركين لا يخاف بعضهم بعضا ينتظرون الصلح والهدنة إذ رمى رجل من أحد الفريقين رجلا من الفريق الآخر فكانت معركة وتراموا بالنبل والحجارة، وصاح الفريقان كلاهما وارتهن كل واحد من الفريقين من فيهم، فارتهن المسلمون سهيل بن عمرو ومن أتاهم من المشركين، وارتهن المشركون عثمان بن عفان ومن كان أتاهم من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البيعة، ونادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا إن روح القدس قد نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بالبيعة فاخرجوا على اسم الله فبايعوا، فثار المسلمون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو تحت الشجرة، فبايعوه على أن لا يفروا أبدا، فرعبهم الله تعالى، فأرسلوا من كانوا قد ارتهنوا، ودعوا إلى الموادعة والصلح - وذكر الحديث في كيفية الصلح والتحلل من العمرة قال: وقال المسلمون وهم بالحديبية قبل أن يرجع عثمان: خلص عثمان من بيننا إلى البيت فطاف به، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ما أظنه طاف بالبيت ونحن محصورون، قالوا: وما يمنعه يا رسول الله وقد خلص؟ قال: ذاك ظني به أن لا يطوف بالكعبة حتى نطوف معا، فرجع إليهم عثمان فقال المسلمون: اشتفيت يا أبا عبد الله من الطواف بالبيت؟ فقال عثمان: بئسما ظننتم بي فوالذي نفسي بيده لو مكثت مقيما بها سنة ورسول الله صلى الله عليه وسلم مقيم بالحديبية ما طفت بها حتى يطوف بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولقد دعتني قريش إلى الطواف بالبيت فأبيت فقال المسلمون: رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أعلمنا بالله وأحسننا ظنا. "كر، ش".
30152 ۔۔۔ عروہ روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ اترے قریش میں کھلبلی مچ گئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آدمی کو مکہ بطور ایلچی بھیجنا چاہا آپ نے اس کام کے لیے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنے پاس بلایا تاکہ انھیں بھیجیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! میں قریش پر لعنت بھیجتا ہوں بنی کعب کا کوئی شخص مکہ میں نہیں جو مجھے اذیت پہنچانے پر غصہ ہو آپ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو بھیج دیں چونکہ مکہ میں ان کے رشتہ دار ہیں وہ سفارت اچھی طرح سے کریں گے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو بلایا اور انہی کو قریش کی پاس بھیجا اور فرمایا : ان سے جا کر کہو کہ ہم جنگ کے لیے نہیں آئے ہم تو عمرہ کے لیے آئے ہیں نیز انھیں اسلام کی دعوت دو اور مکہ میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے پاس جاؤ انھیں بشارت دو کہ فتح عنقریب نصیب ہونے والی ہے انھیں خبر دو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ عنقریب دین حق کو غالب کر دے گا حتی کہ دین اسلام کا نام لیوا کوئی شخص نہیں چھپے گا ۔ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) رخصت ہوئے اور مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گزرے قریش نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ آپ (رض) نے فرمایا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں دعوت اسلام دوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں نیز میں تمہیں یہ خبر کرنے آیا ہوں کہ ہم لوگ کسی شخص سے جنگ کرنے نہیں آئے ہم تو عمرہ کے لیے آئے ہیں قریش نے کہا : ہم نے تمہاری بات سن لی اپنا کام کرو اتنے میں امان بن سعید بن العاص کھڑا ہوا عثمان (رض) کو خوش آمدید کہا اپنے گھوڑے پر زین درست کی پھر سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کو گھوڑے پر سوار کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دی اور خود ان کے پیچھے سوار ہوگیا حتی کہ مکہ آن پہنچے پھر قریش نے بدیل بن ورقاء خزاعی اور بنی کنانہ کے ایک شخص کو بھیجا پھر عروہ بن مسعود ثقفی آیا (پھر پوری حدیث ذکر کی) پھر عروہ قریش کے پاس آیا اور کہا : محمد اور اس کے ساتھی عمرہ کے لیے آئے ہیں لہٰذا انھیں بیت اللہ میں عمرہ کے لیے جانے دو پھر قریش نے سہیل بن عمرو ، حویطب بن عبدالعزی اور مکرز بن حفص کو صلح کے لیے بھیجا انھوں نے آکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح اور معاہدہ کی دعوت دی جب فریقین ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور مشرکین کے پاس جو مسلمان تھے وہ بھی صلح کے انتظار میں تھے اسی اثناء میں فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کو تیر مارا اور یوں جنگ چھڑ گئی فریقین ایک دوسرے پر تیر اور پتھر برسانے لگے چنانچہ فریقین نے ایک دوسرے کے ایلچیوں کو گرفتار کرلیا مسلمانوں نے سہیل بن عمرو اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ لیا اور مشرکین نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھ جانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو پکڑ لیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو (مرمٹنے کی) بیعت کے لیے بلایا ، ایک منادی نے اعلان کیا کہ جبرائیل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ہیں اور آپ کے بیعت کا حکم دیا ہے لہٰذا اللہ کا نام لے کر نکلو اور بیعت کرو مسلمانوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بیعت کے لیے لپک پڑے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اس شرط پر بیعت کی کہ بھاگیں گے نہیں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو مرعوب کیا اور انھوں نے جن مسلمانوں کو گرفتار کرلیا تھا انھیں چھوڑ دیا اور صلح اور معاہدہ کی دعوت دینے لگے ۔ مسلمان کہنے لگے جبکہ وہ حدیبیہ میں تھے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کے واپس لوٹنے سے پہلے کہ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) بیت اللہ کی طرف ہم سے نکل کر جا چکے ہیں انھوں نے بیت اللہ کا طواف کرلیا ہوگا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا گمان نہیں کہ عثمان نے بیت اللہ کا طواف کیا ہو اور ہم یہاں محصور ہوں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں طواف کرنے میں کیا ممانعت ہے حالانکہ وہ بیت اللہ تک پہنچ گئے ہیں فرمایا : میرا گمان ہے کہ وہ طواف نہیں کرے گا تاوقتیکہ ہم سب مل کر طواف نہ کریں حتی کہ جب سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) واپس لوٹے ۔ مسلمانوں نے کہا : اے ابو عبداللہ کیا تم نے بیت اللہ کا طواف کرلیا ہے ؟ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) نے جواب دیا : تم لوگ بدگمانی کا شکار ہوئے ہو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں ایک سال تک مکہ میں قیام کئے رہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا حالانکہ مجھے قریش نے طواف کی دعوت دی تھی میں نے طواف کرنے سے انکار کردیا مسلمانوں نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ حسن ظن رکھتے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر وابن ابی شیبۃ)

30153

30153- "أيضا" حدثنا أبو أسامة حدثنا هشام عن أبيه قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحديبية وكانت الحديبية في شوال فخرج حتى إذا كان بعسفان لقيه رجل من بني كعب فقال: يا رسول الله إنا تركنا قريشا وقد جمعت أحابيشها تطعمها الخزير يريدون أن يصدوك عن البيت، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا تبرز عسفان لقيهم خالد بن الوليد طليعة لقريش، فاستقبلهم على الطريق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هلم ههنا فأخذ بين سروعتين - يعني شجرتين - ومال عن سنن الطريق حتى نزل الغميم فلما نزل الغميم خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه بما هو أهله ثم قال: أما بعد فإن قريشا قد جمعت لكم أحابيشها تطعمها الخزير يريدون أن يصدونا عن البيت فأشيروا علي بما ترون أن تعمدوا إلى الرأس - يعني أهل مكة - أم ترون أن تعمدوا إلى الذين أعانوهم فتخالفوهم إلى نسائهم وصبيانهم، فإن جلسوا جلسوا موتورين مهزومين، فإن طلبوا طلبونا طلبا متداريا ضعيفا فأخزاهم الله؟ فقال أبو بكر: يا رسول الله إن تعمد إلى الرأس فإن الله معينك، وإن الله ناصرك وإن الله مظهرك، قال المقداد بن الأسود وهو في رحله: إنا والله يا رسول الله لا نقول لك كما قالت بنو إسرائيل لنبيها: اذهب أنت وربك فقاتلا إنا ههنا قاعدون ولكن اذهب أنت وربك فقاتلا إنا معكم مقاتلون فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا غشي الحرم ودخل أنصابه بركت ناقته الجدعاء فقالوا: خلأت فقال: والله ما خلأت وما الخلأ بعادتها، ولكن حبسها حابس الفيل عن مكة، لا تدعوني قريش إلى تعظيم المحارم فيسبقوني إليها هلم ههنا لأصحابه فأخذ ذات اليمين في ثنية تدعى ذات الحنظل، حتى هبط على الحديبية، فلما نزل استسقى الناس من البئر، فنزفت ولم تقم بهم فشكوا ذلك إليه فأعطاهم سهما من كنانته، فقال اغرزوه في البئر فغرزوه في البئر فجاشت وطما ماؤها حتى ضرب الناس بعطن فلما سمعت به قريش أرسلوا إليه أخا بني حليس وهم من قوم يعظمون الهدي فقال: ابعثوا الهدي، فلما رأى الهدي لم يكلمهم كلمة، وانصرف من مكانه إلى قريش فقال: يا قوم القلائد والبدن والهدي فحذرهم وعظم عليهم. فسبوه وتجهموه وقالوا: إنما أنت أعرابي جلف لا نعجب منك ولكنا نعجب من أنفسنا إذ أرسلناك؛ اجلس، ثم قالوا لعروة بن مسعود: انطلق إلى محمد ولا تؤتين من ورائك، فخرج عروة حتى أتاه فقال: يا محمد ما رأيت رجلا من العرب سار إلى مثل ما سرت إليه سرت بأوباش الناس إلى عترتك وبيضتك التي تفلقت عنك لتبيد خضراءها تعلم أني قد جئتك من عند كعب بن لؤي وعامر بن لؤي قد لبسوا جلود النمور عند العوذ المطافيل يقسمون بالله لا تعرض لهم خطة إلا عرضوا لك أمرا منها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا لم نأت لقتال ولكنا أردنا أن نقضي عمرتنا وننحر هدينا، فهل لك أن تأتي قومك فإنهم أهل قتب وإن الحرب قد أخافتهم وإنه لا خير لهم أن تأكل الحرب منهم إلا ما قد أكلت فيخلون بيني وبين البيت فنقضي عمرتنا وننحر هدينا ويجعلون بيني وبينهم مدة تزيل فيها نساؤهم ويأمن فيها سربهم، ويخلون بيني وبين الناس فإني والله لأقاتلن على هذا الأمر الأحمر والأسود حتى يظهرني الله أو تنفرد سالفتي، فإن أصابني الناس فذاك الذي يريدون، وإن أظهرني الله عليهم اختاروا؛ إما قاتلوا معدين وإما دخلوا في السلم وافرين. قال: فرجع عروة إلى قريش فقال: تعلمن والله ما على الأرض قوم أحب إلي منكم، إنكم الإخواني، وأحب الناس إلي، ولقد استنصرت لكم الناس في المجامع، فلما لم ينصروكم أتيتكم بأهلي حتى نزلت معكم إرادة أن أواسيكم، والله ما أحب الحياة بعدكم تعلمن أن الرجل قد عرض نصفا فاقبلوه، تعلمن أني قدمت على الملوك ورأيت العظماء واقسم بالله إن رأيت ملكا ولا عظيما أعظم في أصحابه منه لن يتكلم معه رجل حتى يستأذنه، فإن هو أذن تكلم وإن لم يأذن له سكت، ثم إنه ليتوضأ فيبتدرون وضوءه ويصبونه على رؤوسهم يتخذونه حنانا. فلما سمعوا مقالته أرسلوا إليه سهيل بن عمرو ومكرز بن حفص فقالوا: انطلقوا إلى محمد فإن أعطاكم ما ذكر عروة فقاضياه على أن يرجع عامه هذا عنا ولا يخلص إلى البيت حتى يسمع من يسمع بمسيره من العرب أنا قد صددناه، فخرج سهيل ومكرز حتى أتياه وذكرا ذلك له فأعطاهما الذي سألا فقال: اكتبوا بسم الله الرحمن الرحيم قالوا: والله لا نكتب هذا أبدا قال: فكيف؟ قالوا: نكتب باسمك اللهم، قال: وهذه فاكتبوها فكتبوها قال: اكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله فقالوا: والله ما نختلف إلا في هذا، فقال: ما أكتب؟ فقالوا: إن شئت فاكتب محمد بن عبد الله قال: وهذه حسنة فاكتبوها فكتبوها، وكان في شرطهم: أن بيننا للعيبة المكفوفة وأنه لا إغلال ولا إسلال، قال أبو أسامة: الإغلال الدروع والإسلال السيوف، ويعني بالعيبة المكفوفة أصحابه يكفهم عنهم، وإنه من أتاكم منا رددتموه علينا، ومن أتانا منكم لم نرده عليكم. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ومن دخل معي فله مثل شرطي فقالت قريش: من دخل معنا فهو منا له مثل شرطنا، فقالت بنو كعب: نحن معك يا رسول الله وقالت بنو بكر: نحن مع قريش فبينما هم في الكتاب إذ جاء أبو جندل يرسف في القيود فقال المسلمون: هذا أبو جندل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو لي وقال سهيل: هو لي وقال سهيل: اقرأ الكتاب فإذا هو لسهيل فقال أبو جندل: يا رسول الله يا معشر المسلمين أرد إلى المشركين فقال عمر: يا أبا جندل: هذا السيف فإنما هو رجل ورجل فقال سهيل: أعنت علي يا عمر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هبه لي قال: لا قال: فأجره لي قال: لا قال مكرز: قد أجرته لك يا محمد فلم يبح. "ش".
30153 ۔۔۔ ابو اسامہ ہشام اپنے والد عروہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کی طرف نکل پڑے صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال کے مہینہ میں رونما ہوا چنانچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان پہنچے تو آپ کو بنی کعب کا ایک شخص ملا اس نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے قریش کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ انھوں نے اپنے تمام خاندان آپ کے خلاف جمع کرلیے ہیں اور انھیں گوشت میں بنایا گیا چورا کھلایا جاتا ہے وہ آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان میں نمودار ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قریش کے چھوٹے سے لشکر سے مڈبھیڑ ہوگئی اس کی کمان خالد بن ولید کے ہاتھ میں تھی آپ نے خالد بن ولید کی خبر پاتے ہی راستہ تبدیل کردیا حتی کہ مقام عمیم پر پہنچے اور یہاں پہنچ کر لوگوں سے خطاب کیا اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا : اما بعد ! قریش نے تمہارے خلاف انڈے بچے جمع کر لیئے ہیں اور تمہیں بیت اللہ کے پاس جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ تم لوگ جو بہتر سمجھتے ہو مجھے مشورہ دو تم اہل مکہ کی سرکوبی کرنا چاہتے ہو یا ان قبائل کی جنھوں نے اہل مکہ کی معاونت کی ہے کی عورتوں اور بچوں پر چھاپہ مارنا چاہتے ہو یوں قریش ان کے معاونین شکست خوردہ ہوجائیں گے اگر اہل مکہ ہمارا پیچھا کریں گے رسوا ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں ذلیل کرے گا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : اگر آپ اہل مکہ پر چڑھائی کرنا چاہتیے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور آپ کو غلبہ عطا کرے گا جبکہ حضرت مقداد بن اسود (رض) نے فرمایا : یا رسول اللہ ! بخدا ! ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہ انھوں نے اپنے نبی سے کہا تھا : تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور جنگ لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے لیکن ہم یوں کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کا رب جنگ کے لیے جائیں ہم آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ پہنچنے کے ارادہ سے چل پڑے جب حرم کے قریب پہنچے آپ کی جدعاء نامی اونٹنی بیٹھ گئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کہنے لگے : اونٹنی تھک گئی جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخدا ! اونٹنی نہیں تھکی اسے تو اسی ذات نے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے جس نے ہاتھیوں کو آگے جانے سے روک دیا تھا مجھے قریش حرم پاک کی تعظیم کی دعوت دیں اور مجھ سے آگے بڑھ جائیں ایسا نہ ہونے پائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا جبکہ آپ گھاٹی میں دائیں طرف مڑگئے اسی جگہ کو ذات الحنظل کہا جاتا ہے حتی کہ آپ حدیبیہ میں آن پہنچے ۔ جوں ہی حدیبیہ پہنچے لوگوں نے شدت پیاس کی شکایت کی جبکہ کنویں میں پانی برائے نام تھا آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اپنے ترکش سے تیر نکال کردیا اور فرمایا : اے کنویں میں گاڑ دو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کنویں میں پانی تیر گاڑا پانی سے پھوٹ پڑا کافی اوپر آگیا حتی کہ لوگ پانی سے سیر ہوگئے جب قریش نے شور سنا تو انھوں نے بنی حیس کا ایک شخص بھیجا یہ وہ لوگ تھے جو حرم کے جانوروں کی تعظیم کرتے تھے اس نے کہا : جانوروں کو بھیج دو جب اس نے مسلمانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ سنا واپس قریش کے پاس چلا گیا اور کہا : اے میری قوم ! مسلمانوں نے کہا : جانوروں کو نشان زدہ کرکے لایا ہے ان کے گلوں میں قلائد ڈال رکھے ہیں قریش کو ڈرایا دھمکایا اور بیت اللہ کے پاس آنے والوں کی تعظیم کرنے کی ہدایت کی قریش نے اسے سخت وسست کہا اور انھیں گالیاں دیں اور کہا : تو گنوار ہے اور اجڈ ہے ہم تجھ پر تعجب نہیں کرتے ہمیں خود اپنے اوپر تعجب ہے جو تمہیں قبل ازیں مسلمانوں کے پاس بھیجا میں تم یہیں بیٹھ جاؤ ۔ پھر قریش نے عروہ بن مسعود ثقفی سے کہا : تم محمد کے پاس جاؤ اور اپنے پیچھے خیال رکھنا عروہ چل پڑا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا اور کہا : اے محمد ! میں نے عرب کا کوئی شخص نہیں دیکھا جو تمہاری طرح چلا ہو تم اپنے نام لیواؤں کو لے کر آئے ہو اور اپنے خاندان کو ختم کرنا چاہتے ہو تمہیں معلوم ہے کہ میں کعب بن لوی کے پاس سے آرہا ہوں انھوں نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور قسمیں کھا رہے ہیں کہ تم جس طرح بھی ان سے تعرض کرو گے وہ اسی طرح تم سے پیش آئیں گے یہ سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم جنگ وجدل کے کے لیے نہیں آئے البتہ ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں اور ذبح کے لیے جانور لائے ہیں تم اپنی قوم کے پاس جاؤ تمہاری قوم اونٹ پالتی ہے اور اونٹ لڑائی سے دور بھاگتے ہیں اب ان کے لیے جنت میں کوئی بھلائی نہیں چونکہ جنگ ان میں سے چیدہ چیدہ افراد کو ہڑپ کرچکی ہے بیت اللہ تک پہنچے میں میری رکاوٹ نہ ہونا کہ ہم عمرہ ادا کریں اور لائے ہوئے جانور ذبح کرلیں وہ میرے اور اپنے درمیان مدت مقرر کردیں ان کی عورتیں اور بچے امن میں ہوں گے مجھے اور لوگوں کو چھوڑ دیں بخدا ! میں اس دعوت پر میں ہر گورے اور کالے سے لڑوں گا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ مجھے ان پر غلبہ عطا کرے اگر لوگوں نے مجھے پالیا تو یہی ان کی چاہت ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان پر غلبہ دے دیا تو انھیں اختیار ہے (یا تو حد سے بڑھتے ہوئے جنگ کرتے رہیں یا اسلام میں داخل ہوجائیں عروہ یہ گفتگو سن کر واپس لوٹ گیا اور کہا : اے لوگو ! تم جانتے ہو کہ سطح زمین پر مجھے تم سے زیادہ محبوب کوئی قوم نہیں تم میرے بھائی ہو اور لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو میں نے محبت میں تمہارے لیے لوگوں سے مدد طلب کی جب لوگوں نے تمہاری مدد نہ کی میں اپنے اہل و عیال کو لے کر تمہارے پاس آگیا تاکہ تمہاری غمخواری کرسکوں بخدا ! تمہارے بعد مجھے زندگی سے کوئی لگاؤ نہیں تم جانتے ہو میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس آگیا ہوں میں نے بڑے بڑے سرداروں کو دیکھا ہے اللہ کی قسم میں نے عقیدت تعظیم واجلال کا جو منظر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں دیکھا وہ کسی بادشاہ یا سردار کے ہاں نہیں دیکھا ۔ جب تک اس کے ساتھی اجازت نہ لیں بات نہیں کرتے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دے تب وہ بات کرنے پاتے ہیں ، اگر وہ اجازت نہ دے خاموش رہتے ہیں ، جب وہ وضو کرتا ہے وت اس کے غسالہ کو اس کے ساتھی سروں پر ملتے ہیں ، جب قریش نے عروہ کی گفتگو سنی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سہیل بن عمرو اور مکرز بن حفص کو بھیجا اور کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ اور دیکھو جو کچھ عروہ نے کہا ہے اگر سچ ہے تو اس سے صلح کرلو اور کہو کہ اس سال واپس چلے جائیں گے اور بیت اللہ کے پاس جاؤ اور دیکھو جو کچھ عروہ نے کہا ہے اگر سچ ہے تو اس سے صلح کرلو اور کہو کہ اس سال واپس چلے جائیں اور بیت اللہ کے پاس کوئی نہ جائے چنانچہ سہیل اور مکرز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے حالات دیکھ کر صلح کی پیشکش کی آپ نے صلح قبول کرلی اور فرمایا لکھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، قریش نے کہا بخدا ہم یہ کسی طرح بھی نہیں لکھیں گے فرمایا : کیوں ؟ قریش نے کہا : ہم تو ” بسمک اللہم “ لکھیں گے فرمایا چلو یہی لکھو قریش نے بسم اللہ کے بجائے یہ کلمات لکھے پھر فرمایا : لکھو یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھوایا ہے قریش نے کہا : بخدا ہمیں تو اسی میں اختلاف ہے فرمایا : پھر میں کیا لکھوں قریش نے کہا : محمد بن عبداللہ لکھو یہی بہتر ہے فرمایا یہی لکھو : چنانچہ یہی لکھ لیا ان کی شرائط میں تھا کہ دھوکا اور فریب نہیں ہوگا یہ کہ جو شخص تمہارے پاس چلا جائے گا تم اسے واپس کرو گے اور جو شخص ہمارے پاس آئے گا ہم اسے واپس نہیں کریں گے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص میرے ساتھ داخل ہوگا وہ میری شرائط میں برابر کا شریک ہوگا قریشے بھی یہی بات کہی بنو کعب نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کے ساتھ ہیں جبکہ بنو بکر نے کہا : ہم قریش کے ساتھ ہیں اسی اثناء میں ابو جندل (رض) بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آئے مسلمانوں نے کہا : ابو جندل ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ میرے حصہ میں ہے سہیل نے کہا : یہ میرے حصہ کا آدمی ہے پھر کہا : چلو صلح نامہ پڑھو چنانچہ صلح نامہ کی رو سے ابو جندل (رض) مشرکین کے حصہ میں آئے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : اے ابو جندل ! یہ ہے تلوار اور وہ بھی تو ایک آدمی ہے سہیل نے کہا : اے عمر تم نے مجھ پر ظلم کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے مجھے ہبہ کر دو سہیل نے انکار کیا فرمایا : چلو اسے میری پناہ میں دے دو اس کا بھی انکار کیا مکرز نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے اسے تمہاری پناہ میں دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30154

30154- حدثنا خالد بن مخلد حدثنا عبد الرحمن بن عبد العزيز الأنصاري حدثني ابن شهاب حدثني عروة بن الزبير "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عام الحديبية في ألف وثمان مائة وبعث بين يديه عينا له من خزاعة يدعى ناجية يأتيه بخبر القوم حتى نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم غديرا بعسفان عينه بغدير الأشطاط فقال: يا محمد تركت قومك كعب بن لؤي وعامر بن لؤي قد استنفروا لك الأحابيش من أطاعهم قد سمعوا بمسيرك وتركت غدواتهم يطعمون الخزير في دورهم وهذا خالد بن الوليد في خيل بعثوه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ماذا تقولون ماذا تأمرون؟ أشيروا علي قد جاءكم خبر من قريش مرتين وماصنعت، فهذا خالد بن الوليد بالغميم، قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: أترون أن نمضي لوجهنا ومن صدنا عن البيت قاتلناه، أم ترون أن نخالف هؤلاء إلى من تركوا وراءهم فإن اتبعنا منهم عنق قطعه الله تعالى؟ قالوا: يا رسول الله الأمر أمرك والرأي رأيك، فتيامنوا في هذا الفعل فلم يشعر به خالد ولا الخيل التي معه حتى جاوز بهم قترة الجيش، وأوفت به ناقته على ثنية تهبط على غائط القوم يقال لها: بلدح فبركت فقال: حل حل فلم تنبعث، فقالوا: خلات القصواء قال: إنها والله ما خلأت ولا هو لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل، أما والله لا يدعوني اليوم إلى خطة يعظمون فيها حرمة ولا يدعون فيها إلى صلة إلا أجبتهم إليها، ثم زجرها فوثبت فرجع من حيث جاء عوده على بدئه حتى نزل بالناس على ثمد من ثماد الحديبية ظنون قليل الماء يتبرض الناس ماءها تبرضا فشكوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قلة الماء فانتزع سهما من كنانته فأمر رجل فغرزه في جوف القليب فجاش بالماء حتى ضرب الناس عنه بعطن. فبينما هو على ذلك إذ مر به بديل بن ورقاء الخزاعي في ركب من قومه من خزاعة فقال: يا محمد هؤلاء قومك قد خرجوا بالعوذ المطافيل يقسمون بالله، ليحولن بينك وبين مكة حتى لا يبقى منهم أحد قال: يا بديل إني لم آت لقتال أحد إنما جئت لأقضي نسكي وأطوف بهذا البيت وإلا فهل لقريش في غير ذلك هل لهم إلى أن أمادهم مدة يأمنون فيها ويستجمون ويخلون فيها بيني وبين الناس، فإن ظهر فيها أمري على الناس كانوا فيها بالخيار أن يدخلوا فيما دخل فيه الناس وبين أن يقاتلوا وقد جمعوا وأعدوا قال بديل: سأعرض هذا على قومك، فركب بديل حتى مر بقريش فقالوا: من أين؟ قال: جئتكم من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن شئتم أخبرتكم بما سمعت منه فعلت؟ فقال ناس من سفهائهم: لا تخبرنا عنه شيئا وقال ناس من ذوي أسنانهم وحكمائهم: بل أخبرنا ما الذي رأيت وما الذي سمعت؟ فاقتص عليهم بديل قصة رسول الله صلى الله عليه وسلم وما عرض عليهم من المدة قال: وفي كفار قريش يومئذ عروة بن مسعود الثقفي، فوثب فقال: يا معشر قريش هل تتهموني في شيء، ألست بالولد ولستم بالوالد؟ وألست قد استنفرت لكم أهل عكاظ؟ فلما بلحوا علي نفرت إليكم بنفسي وولدي ومن أطاعني؟ قالوا: بلى قد فعلت قال: فاقبلوا من بديل ما جاءكم به وما عرض عليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم وابعثوني حتى آتيكم بمصافيها من عنده قالوا: فاذهب فخرج عروة حتى نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية فقال: يا محمد هؤلاء قومك كعب بن لؤي وعامر بن لؤي قد خرجوا بالعوذ المطافيل يقسمون لا يخلون بينك وبين مكة حتى تبيد خضراؤهم، وإنما أنت بين قتالهم من أحد أمرين: أن تحتاج قومك، فلم تسمع برجل قط اجتاح أصله قبلك وبين أن يسلمك، من أرى معك فإني لا أرى معك إلا أوباشا من الناس لا أعرف أسماءهم ولا وجوههم فقال أبو بكر وغضب: امصص بظر اللات، أنحن نخذله أو نسلمه. فقال عروة: أما والله إن لولا يد لك عندي لم أجزك بها لأجبتك فيما قلت، وكان عروة قد حمل بدية فأعانه أبو بكر فيها بعون حسن والمغيرة بن شعبة قائم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى وجهه المغفر، فلم يعرفه عروة وكان عروة يكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما مد يده فمس لحية رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعها المغيرة بقدح كان في يده حتى إذا أخرجه قال: من هذا؟ قالوا: المغيرة بن شعبة، قال عروة: أنت بذاك يا غدر، وهل غسلت عنك غدرتك إلا أمس بعكاظ. فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعروة بن مسعود مثل ما قال لبديل، فقام عروة فخرج حتى جاء إلى قومه فقال: يا معشر قريش إني قد وفدت على الملوك على قيصر في ملكه بالشام وعلى النجاشي بأرض الحبشة، وعلى كسرى بالعراق وإني والله ما رأيت ملكا هو أعظم ممن هو بين ظهريه من محمد في أصحابه والله ما يشدون إليه النظر، وما يرفعون عنده الصوت، وما يتوضأ بوضوء إلا ازدحموا عليه، أيهم يظفر منه بشيء، فاقبلوا الذي جاءكم به بديل فإنها خطة رشد قالوا: اجلس ودعوا رجلا من بني الحارث بن مناف يقال له: الحليس قالوا؛ انطلق فانظر ما قبل هذا الرجل وما يلقاك به فخرج الحليس فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا عرفه وقال: هذا الحليس وهو من قوم يعظمون الهدي، فابعثوا الهدي في وجهه فبعثوا الهدي في وجهه، قال ابن شهاب: فاختلف الحديث في الحليس؛ فمنهم من قال: جاءه فقال له مثل ما قال لبديل وعروة، ومنهم من قال: لما رأى الهدي رجع إلى قريش فقال: لقد رأيت أمرا لئن صددتموه إني لخائف عليكم أن يصيبكم غب فأبصروا بصركم، قالوا: اجلس ودعوا رجلا يقال له مكرز بن حفص بن الأحنف من بني عامر بن لؤي، فبعثوه فلما رآه النبي صلى الله عليه وسلم قال: هذا رجل فاجر ينظر بعين فقال له مثل ما قال لبديل وأصحابه في المدة، فجاءهم فأخبرهم فبعثوا سهيل بن عمرو من بني عامر بن لؤي يكاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم على الذي دعا إليه فجاء سهيل بن عمرو. فقال: قد بعثتني قريش إليك أكاتبك على قضية نرتضي أنا وأنت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم اكتب بسم الله الرحمن الرحيم قال: ما أعرف الله وما أعرف الرحمن ولكن اكتب كما كنا نكتب باسمك اللهم، فوجد الناس من ذلك وقالوا: لا نكاتبك على خطة حتى يقر بالرحمن الرحيم قال سهيل: إذا لا أكاتب على خطة حتى أرجع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اكتب باسمك اللهم هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله قال: لا، لا أقر لو أعلم أنك رسول الله ما خالفتك ولا عصيتك ولكن محمد بن عبد الله، فوجد الناس منها أيضا قال: اكتب محمد بن عبد الله سهيل بن عمرو فقام عمر بن الخطاب فقال: يا رسول الله ألسنا على الحق أو ليس عدونا على الباطل؟ قال: بلى قال: فعلام نعطي الدنية في ديننا؟ قال: إني رسول الله ولن أعصيه ولن يضيعني. وأبو بكر متنح بناحية، فأتاه عمر فقال: يا أبا بكر فقال: نعم قال: ألسنا على الحق أو ليس عدونا على الباطل؟ قال بلى قال: فعلام نعطي الدنية في ديننا؟ قال: دع عنك ما ترى يا عمر، فإنه رسول الله ولن يضيعه الله ولن يعصيه، وكان في شرط الكتاب: أنه من كان منا فأتاك فكان على دينك رددته إلينا، ومن جاءنا من قبلك رددناه إليك قال: أما من جاء من قبلي فلا حاجة لي برده، وأما التي اشترطت لنفسك فتلك بيني وبينك، فبينما الناس على ذلك الحال إذ طلع عليهم أبو جندل بن سهيل بن عمرو يرسف في الحديد قد خلا له أسفل مكة متوشح السيف فرفع سهيل رأسه فإذا هو بابنه أبي جندل فقال: هذا أول من قاضيتك عليه رده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا سهيل إنا لم نقض الكتاب بعد قال: وما أكاتبك على خطة حتى ترده قال: فشأنك به. فبهش أبو جندل إلى الناس. فقال: يا معشر المسلمين أرد إلى المشركين يفتنوني في ديني فلصق به عمر وأبوه آخذ بيده يجتره وعمر يقول: إنما هو رجل ومعك السيف فانطلق به أبوه فكان النبي صلى الله عليه وسلم يرد عليهم من جاء من قبلهم يدخل في دينه، فلما اجتمع نفر فيهم أبو بصير ردهم إليهم أقاموا بساحل البحر، فكأنهم قطعوا على قريش متجرهم إلى الشام فبعثوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا نراها منك صلة أن تردهم إليك وتجمعهم، فردهم إليه، فكان فيما أرادهم النبي صلى الله عليه وسلم في الكتاب أن يدعوه يدخل مكة فيقضي نسكه وينحر هديه بين ظهريهم، فقالوا: لا تتحدث العرب أنك أخذتنا ضغطة أبدا ولكن ارجع عامك هذا، فإذا كان قابل أذنا لك فاعتمرت وأقمت ثلاثا وقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال للناس: قوموا فانحروا هديكم واحلقوا وأحلوا، فما قام رجل ولا تحرك، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم الناس بذلك ثلاث مرات، فما تحرك أحد منهم ولا قام من مجلسه، فما رأى النبي صلى الله عليه وسلم ذلك دخل على أم سلمة وكان خرج بها في تلك الغزوة فقال: يا أم سلمة ما بال الناس أمرتهم ثلاث مرار أن ينحروا وأن يحلقوا وأن يحلوا، فما قام رجل إلى ما أمرته به، فقالت يا رسول الله: اخرج أنت فاصنع ذلك، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يمم هديه فنحره ودعا حلاقه فحلقه، فلما رأى الناس ما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبوا إلى هديهم فنحروه، وأكب بعضهم يحلق بعضا حتى كاد بعضهم أن يغم بعضا من الزحام، قال ابن شهاب: وكان الهدي الذي ساق رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه سبعين بدنة، قال ابن شهاب: فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر على أهل الحديبية على ثمانية عشر سهما لكل مائة رجل سهم. "ش".
30154 ۔۔۔ خالد بن مخلد ، عبدالرحمن بن عبدالعزیز انصاری ابن شہاب عروہ بن زبیر کہتے ہیں : حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھارہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ مدینہ سے نکلے آپ نے خزاعہ سے ناجیہ کو بطور جاسوس روانہ کیا جب آپ غدیر اشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس نے یہ اطلاع کی کہ کعب بن لوی اور عامر بن لوی نے آپ کے لیے لشکر عظیم جمع کرلیا ہے وہ آپ کے سفر کی خبر سن چکے ہیں میں نے انھیں اجتماعی طور پر کھاتے پیتے چھوڑا ہے۔ نیز خالد بن ولید بھی مقدمہ الجیش کے ساتھ مقام غمیم میں آن پہنچا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم یہ رائے دیتے ہو کہ ہم اپنی راہ پر چلتے جائیں اور جو ہماری راہ میں رکاوٹ ہے اس سے جنگ کریں یا یہ رائے دیتے ہو کہ ہم متبادل راستہ اختیار کرلیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقت میں فیصلہ آپ کا فیصلہ ہے۔ اور قابل عمل رائے آپ ہی کی رائے ہے چنانچہ مسلمانوں نے متبادل راستہ اختیار کیا حتی کہ خالد بن ولید نے مسلمانوں کی غبار بھی نہ پائی حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیے ہوئے اونٹنی مقام بلدح پر پہنچی اور بیٹھ گئی آپ نے فرمایا : اونٹنی بیٹھ گئی چنانچہ اونٹنی اٹھنے نہیں پاتی تھی لوگوں نے کہا : اونٹنی بیٹھ گئی آپ نے فرمایا : بخدا ! یہ اس کی عادت نہیں البتہ اسے ہاتھیوں کو روکنے والے نے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے ، پھر آپ نے فرمایا : بخدا ! قریش مجھ سے جس ایسے امر کی درخواست کریں گے کہ جس میں شعار اللہ کی تعظیم ہوتی ہو میں ضرور اس کو منظور کروں گا یہ کہہ کر اونٹنی کو کو چا دیا فورا اٹھ کھڑی ہوئی وہاں سے ہٹ کر آپ نے حدیبیہ میں قیام کیا گرمی کا موسم تھا پیاس کی شدت ہوئی پانی قلیل تھا گڑھے میں جس قدر پانی تھا وہ کھینچ لیا گیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکال کردیا اور فرمایا : اسے گڈھے میں گاڑ دو اسی وقت پانی جوش مارنے لگا اور پورا لشکر سیراب ہوگیا ۔ اسی دوران بدیل بن ورقاء خزاعی آپ کے پاس سے گزرا اور اس کے ساتھ اس کی قوم کے چند سوار بھی تھے بدیل نے کہا : اے محمد ! آپ کی قوم (قریش) نے نواحی حدیبیہ میں پانی کے بڑے بڑے چشموں پر آپ کے مقابلہ کے لیے لشکر عظیم جمع کیا ہے کہ آپ کو کسی طرح مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ان کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں ہیں کھاتے پیتے ہیں (یعنی طویل قیام کا ارادہ ہے) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بدیل ، ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے ہم تو عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں تاکہ بیت اللہ کا طواف کریں اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لیے صلح کی ایک مدت مقرر کر دوں اس مدت میں کوئی ایک دوسرے سے تعرض نہ کرے اور مجھ کو اور عرب کو چھوڑ دیں اگر میں لوگوں پر غالب آجاؤں تو چاہیں تو اس دین میں داخل ہوجائیں اگر بالفرض عرب غالب آجائیں تو تمہاری تمنا پوری ہوگئی ۔ بدیل نے کہا : یہ پیغام میں قریش تک پہنچائے دیتا ہوں حتی کہ جب بدیل قریش کے پاس پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو ؟ کہا میں تمہارے پاس رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے آیا ہوں اگر تم چاہو تو اس کی سنی ہوئی بات تمہیں کہوں چنانچہ قریش کے چند ناہنجار لوگوں نے کہا : ہمیں اس کی کوئی بات سننے کی حاجت نہیں جبکہ سمجھدار اور دانا لوگوں نے کہا نہیں بلکہ ہمیں خبر دو چنانچہ بدیل نے ساری بات سنائی اور مدت صلح کا بھی تذکرہ کیا ۔ کفار قریش میں اس دن عروہ بن مسعود ثقفی بھی تھا اس نے اچھل کر کہا : اے جماعت قریش کیا تم مجھ سے کوئی بدگمانی رکھتے ہو کیا میں تمہارے لیے بمنزلہ باپ کے اور تم میرے لیے بمنزلہ اولاد کے نہیں کیا میں اہل عکاظ کو تمہاری مدد کے لیے دعوت نہیں دے چکا ؟ جب انھوں نے تمہاری مدد سے انکار کیا تو میں اپنی جان اور اپنی اولاد لے کر تمہارے پاس حاضر ہوگیا ؟ قریش نے کہا : بلاشبہ تم نے یہ سب کچھ کیا عروہ نے کہا : لہٰذا یہ بدیل جو پیغام لایا ہے اور اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے اوپر پیش کیا ہے اسے بغیر لیت ولعل کے قبول کرو مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجو تاکہ میں اس سے مل کر اس معاملہ میں گفتگو کروں قریش نے عروہ کو اجازت دی اور وہ حدیبیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور کہا : اے محمد یہ تمہاری قوم کعب بن لوی اور عامر بن لوی ہے یہ دودھ دینے والی اونٹنیوں کو لے کر آئے ہیں اور قسمیں کھا رہے ہیں کہ آپ کو بیت اللہ میں نہیں جانے دیں گے حتی کہ تم ان کا صفایا نہ کر دوں آپ کو دو باتوں کا اختیار ہے (1) یہ کہ تم اپنی قوم کو استحصال کر دو حتی کہ قوم کے کسی فرد کو باقی نہ چھوڑو (2) اور یہ کہ آپ سلامتی میں رہیں اور قوم کو بھی سلامت رکھیں میں مختلف قوموں کے لوگ تمہارے ساتھ دیکھ رہا ہوں میں ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہوں اور نہ ہی ان کے چہرے دیکھے ہیں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے غصہ میں عروہ کو گالی دی کہ تو لات کی شرمگاہ چومیں ، کیا ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ دیں گے عروہ نے کہا : خدا کی قسم اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہیں چکا سکا میں تمہیں ضرور جواب دیتا کسی وقت عروہ کو دیت میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی مدد کی تھی حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے تھے عروہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گفتگو کررہا تھا جب بھی کوئی بات کرتا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگاتا مغیرہ (رض) کو دیکھ کر یہ حالت سخت ناگوار گزری اور نیزے سے عروہ کا ہاتھ پیچھے دھکیل دیا عروہ نے کہا : یہ کون ہے لوگوں نے جواب دیا : یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں عروہ نے کہا : اے دھوکا باز یہ تم ہو کیا میں نے تیری دھوکا دہی کو عکاظ کے بازار میں نہیں صاف کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عروہ سے وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی ۔ عروہ واپس اپنی قوم کی طرف چل دیا اور آکر کہا : اے جماعت قریش میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں شام میں قیصر کے پاس گیا ہوں حبشہ میں نجاشی کے پاس گیا ہوں اور عراق میں کسری کے پاس گیا ہوں خدا کی قسم میں نے ایسا عظیم بادشاہ کوئی نہیں دیکھا چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے یا اس کے سامنے کوئی آواز بلند کرے محمد کے وضو کے غسالہ پر اس کے ساتھی مرتے ہیں لہٰذا بدیل تمہارے پاس جو پیغام لایا ہے اسے بغیر کم وکاست کے قبول کرلو بلاشبہ اسی میں اچھائی ہے قریش نے عروہ سے کہا تم بیٹھ جاؤ پھر قریش نے بنی حارث بن مناف کے ایک شخص کو بلایا اسے حلیس کے نام سے پکارا جاتا تھا اس سے کہا : تم جاؤ اور حالات کا جائز لے کر آؤ چنانچہ حلیس چل پڑا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حلیس کو دیکھا فرمایا : یہ حلیس ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو بیت کی نذر کیے ہوئے جانوروں کی تعظیم کرتی ہے ، لہٰذا اس کی راہ میں جانوروں کو کھڑا کر دو ۔ اس کے بعد حلیس کے متعلق اختلاف ہے ابن شہاب کی روایت ہے کہ بعض محدثین کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلیس سے وہی بات کہی ، جو عروہ اور بدیل سے کہی تھی بعض کہتے ہیں کہ حلیس نے جونہی ہدی کے جانور دیکھے واپس لوٹ گیا اور قریش سے کہا : میں نے ایسی چیز دیکھی ہے کہ یہ لوگ صرف عمرہ کے لیے آئے ہیں پس ان کی راہوں میں رکاوٹ بننا بدبختی سے کم نہیں ہوگا قریش نے اس سے بھی کہا : تو بیٹھ جا پھر قریش نے مکرز بن حفص بن احنف جو کہ بنی عامر بن لوی سے تھا بھیجا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھا فرمایا : یہ فاجر شخص ہے اور ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے آپ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل عروہ اور اس کے ساتھیوں سے قبل ازیں کہی تھی مکرز نے قریش کو خبر کی اب کی بار قریش نے بنی عامر بن لوی سے سہیل بن عمرو کو بھیجا تاکہ وہی صلح کا معاملہ طے کرے ، اس نے کہا : مجھے قریش نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں صلح نامہ لکھو جس پر میں اور آپ راضی ہوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لکھو ! ” بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل نے کہا : میں اللہ اور رحمن کو نہیں جانتا البتہ وہی لفظ لکھو جو ہم لکھا کرتے تھے یعنی ” باسمک اللہم “ مسلمانوں کو اس پر غصہ آیا اور کہا : ہم اس وقت تک صلح نامہ نہیں لکھتے جب تک تم رحمن اور رحیم کا اقراء نہ کرلو سہیل نے کہا میں بھی صلح نامہ نہیں لکھوں گا حتی کہ میں یونہی واپس چلا جاؤں گا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاتب سے فرمایا : لکھو : باسمک اللہم “ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : سہیل نے کہا میں اس کا اقرار نہیں کرتا اگر میں آپ کو اللہ کا رسول مانتا آپ کی مخالفت نہ کرتا آپ کی نافرمانی نہ کرتا البتہ محمد بن عبداللہ لکھو مسلمانوں کو اس پر بھی گہرا غم وغصہ ہوا ۔ آپ نے کاتب سے فرمایا : لکھو : محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو اتنے میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کھڑے ہوئے اور فرمایا : یا رسول اللہ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ فرمایا : جی ہاں عرض کیا : پھر ہم کیوں اپنے دین کے معاملہ میں پستی کا مظاہرہ کریں ، فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں میں ہرگز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا جبکہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ایک طرف کھڑے تھے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے اور کہا : اے ابوبکر (رض) جواب دیا : جی ہاں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : کیا ہم حق پر نہیں ہیں کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے ؟ انھوں نے بھی جواب دیا ہاں کیا : پھر ہم اپنے دین کے معاملہ میں اتنی پستی کا مظاہرہ کیوں کریں ؟ فرمایا : اے عمر ! اپنی رائے کو چھوڑ دو چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ انھیں ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ صلح نامے کی شرائط میں یہ مندرجات تھے یہ ہمارا کوئی شخص جو تمہارے دین پر ہو اور وہ تمہارے پاس آجائے تم اسے واپس کرنے کے مجاز ہو گے اور تمہارا جو آدمی ہمارے پاس آجائے گا ہم اسے واپس کریں گے آپ نے فرمایا : رہی یہ بات کہ ہمارا کوئی آدمی تمہارے پاس چلا جائے سو ہمیں اس کے واپس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ پہلی شرط ہمیں منظور رہے ۔ اسی اثناء میں لوگ یہ شرط سن کر اس پر گفتگو کر رہے تھے اتنے میں حضرت ابو جندل بن سہیل بن عمرو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہاتھ پاؤں کے بل گھسٹتے ہوئے نمودار ہوئے جبکہ ہاتھوں میں تلوار بھی اٹھا رکھی تھی جب سہیل نے ان کا اوپر اٹھایا کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اپنا بیٹا ہے سہیل نے کہا : یہ ہمارے صلح نامہ کا پہلا فیصلہ ہوگا لہٰذا آپ اسے واپس کردیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے سہیل ہم نے صلح نامہ ابھی مکمل نہیں کیا ہے سہیل نے کہا : میں کسی بات پر آپ کے ساتھ صلح نہیں کرتا حتی کہ تم لوگ اسے واپس نہ کرو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ٹھیک ہے اسے واپس لے جاؤ، ابو جندل (رض) نے نہایت حسرت سے مسلمانوں سے کہا : اے مسلمانو ! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس لوٹایا جائے گا یوں مشرکین مجھے میرے دین میں سخت آزمائشوں میں مبتلا کردیں گے حضرت عمر (رض) ابو جندل (رض) کے ساتھ چمٹ گئے جبکہ سہیل نے ابو جندل (رض) کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچنے لگا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) فرما رہے تھے یہ بھی تو ایک آدمی ہے اور تمہارے پاس تلوار ہے چنانچہ اس شرط کی پاداش میں مشرکین سے جو شخص بھی مسلمانوں کے پاس آتا آپ اسے واپس لوٹا دیتے یو واپس جانے والوں کی اچھی خاصی جماعت اکٹھی ہوگئی ان میں حضرت ابو بصیرہ (رض) بھی تھے انھوں نے ساحل سمندر کے قریب ایک جگہ اقامت اختیار کرلی اور قریش کا جو قافلہ بھی شام تجارت کے لیے جاتا اسے لوٹ لیتے قریش نے تنگ آکر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام بھیجا کہ آپ جن لوگوں کو واپس کرتے رہے ہیں انھوں نے ہماری ناک میں دم کردیا ہے لہٰذا انھیں اپنے پاس بلوا لو اور یوں اس کڑی شرط کا خاتمہ ہوا۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال آپ لوگ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لیے آئیں اور ہدی کے جانور بھی لاسکتے ہیں نیز عمرہ کی غرض کے لیے آپ کو صرف تین دن قیام کرنے کی اجازت ہوگی اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ لوگوں کو حکم دیا کہ اٹھو جانوروں کو ذبح کرو سر منڈواؤ اور احرام سے حلال ہوجاؤ مگر بیت اللہ اور عمرہ کے شوق میں مسلمانوں میں سے کسی فرد نے حرکت تک بھی نہ کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حالت دیکھ کر حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس گئے اور ان سے کہا : اے ام سلمہ ! لوگوں کو کیا ہوا جو میں انھیں تین مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ جانور ذبح کرو ، سر منڈواؤ اور حلال ہوجاؤ مگر کسی نے حرکت تک نہیں کی ۔ حضرت ام سلمہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! پہلے آپ خود جانور ذبح کریں حجام کو بلا کر سر منڈوائیں اور حلال ہوجائیں آپ کی دیکھا دیکھی لوگ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے ، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہی کیا پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپ کو دیکھ کر کود پڑے جانور ذبح کرنے لگ اور ایک دوسرے کے سر بھی مونڈنے لگے حتی کہ شدید ازدھام ہوگیا ابن شہاب کہتے ہیں ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ستر اونٹ قربانی کے لیے لائے تھے پھر خیبر سے ملنے والا سارا مال غنیمت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں میں تقسیم کیا جو صلح حدیبیہ میں شامل تھے مال کے اٹھارہ حصے کیے اور ہر سو آدمیوں کو ایک ایک حصہ دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30155

30155- عن عطاء قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم معتمرا في ذي القعدة معه المهاجرون والأنصار، حتى أتى الحديبية فخرجت إليه قريش فردوه عن البيت حتى كان بينهم كلام وتنازع حتى كاد يكون بينهم قتال فبايع النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه - وعدتهم ألف وخمسمائة - تحت الشجرة وذلك يوم بيعة الرضوان، فقاضاهم النبي صلى الله عليه وسلم فقالت قريش: نقاضيك على أن تنحر الهدي مكانه وتحلق وترجع حتى إذا كان العام المقبل نخلي لك مكة ثلاثة أيام ففعل فخرجوا إلى عكاظ، فأقاموا فيها ثلاثا واشترطوا عليه أن لا يدخلها بسلاح إلا بالسيف ولا تخرج بأحد من أهل مكة إن خرج معك فنحر الهدي مكانه، وحلق ورجع حتى إذا كان في قابل في تلك الأيام دخل مكة وجاء بالبدن معه وجاء الناس معه فدخل المسجد الحرام، فأنزل الله تعالى {لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ} وأنزل عليه {الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ} - الآية، فأحل الله لهم إن قاتلوه في المسجد الحرام أن يقاتلهم، فأتاه أبو جندل بن سهيل بن عمرو وكان موثوقا أوثقه أبوه فرده إلى أبيه. "ش".
30155 ۔۔۔ عطاء کی روایت ہے کہ ماہ ذی القعدہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجری و انصار کے ساتھ عمرہ کے لیے تشریف لے گئے حتی کہ جب آپ حدیبیہ پہنچے قریش نے رکاوٹ کھڑی کردی اور آپ کو بیت اللہ سے روک دیا فریقین میں نرم وگرم گفتگو ہوئی حتی کہ قریب تھا کہ فریقین میں جنگ چھڑ جاتی ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بیعت لی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعداد پندرہ سو (1500) تھی آپ نے درخت کے نیچے بیعت لی ، اسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے معاہدہ کیا قریش نے کہا : ہم اس شرط پر معاہدہ کرتے ہیں کہ آپ قربانی اسی جگہ کریں گے حلق کروا کر واپس لوٹ جائیں حتی کہ آئندہ سال ہم آپ کے لیے رکاوٹ نہیں بنیں گے اور بیت اللہ تین دن کے لیے آپ کے لیے خالی چھوڑ دیں گے چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا آپ عکاظ چلے گئے وہیں تین دن قیام کیا پھر واپس لوٹ گئے قریش نے ایک شرط یہ بھی طے کی تھی کہ آپ تلوار کے سوا اسلحہ نہیں لاسکتے آپ اپنے ساتھ اہل مکہ کا کوئی شخص لے کر باہر نہیں جائیں گے ورنہ آپ کو قربانی کرنی ہوگی حتی کہ اگلے سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہی دنوں مکہ داخل ہوئے اور اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لائے لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت)” لقد صدق اللہ رسولہ الرؤیا بالحق لتدخلن المسجد الحرام انشا اللہ آمنین “۔ ” بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھلایا ہے جو مطابق واقع کے ہے تم لوگ انشاء اللہ امن کے ساتھ مسجد میں ضرور جاؤ گے “۔ نیز یہ آیت بھی نازل فرمائی : ”’ الشھرالحرام بالشھر الحرام “۔ حرمت والا مہینہ حرمت والا مہینے کے بدلے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھی دیا کہ مسجد میں اگر قریش آپ سے جنگ کریں تو آپ کے لیے بھی مسجد میں جنگ کرنا حلال ہے حدیبیہ میں صلح کے بعد ابو جندل بن سہل بن عمرو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے گھسٹ گھسٹ کر آئے انھیں باپ سہیل بن عمرو نے بیڑیوں میں جکڑ رکھا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو جندل (رض) کو باپ کو واپس کردئیے ۔ (رواہ ابن ابی)

30156

30156- عن عطاء قال: كان منزل النبي صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية بالحرم. "ش".
30156 ۔۔۔ عطاء کی روایت ہے کہ حدیبیہ والا دن آئندہ سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم پاک میں پڑاؤ کا دن تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30157

30157- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أسماء بنت أبي بكر قالت: لما كان عام الفتح خرجت ابنة لأبي قحافة فلقيتها الخيل وفي عنقها طوق من ورق، فاقتطعه إنسان من عنقها فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد قام أبو بكر فقال: أنشد بالله والإسلام طوق أختي، فوالله ما أجابه أحد ثم قال الثانية فما أجابه أحد فقال: يا أخية احتسبي طوقك، فوالله إن الأمانة اليوم في الناس لقليل. "هق" في الدلائل.
30157 ۔۔۔ ” مسند سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) “ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال ابو قحافہ کی ایک بیٹی گھر سے باہر نکلی کچھ گھڑ سواروں کی اس سے ملاقات ہوئی اور کسی شخص نے اس کے گلے سے چاندی کا ہار چھین لیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں داخل ہوئے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : میں اللہ تعالیٰ اور اسلام کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری بہن کا ہار برآمد کیا جائے بخدا کسی شخص نے بھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بات کا جواب نہ دیا آپ (رض) نے دوسری بار یہی گذارش کی مگر اب کی بار بھی کسی نے جواب نہ دیا ، یہاں آپ (رض) نے بہن سے کہا : اے بہن اپنے ہار کو اللہ کی راہ میں باعث ثواب سمجھو بخدا ! آج لوگوں میں امانتداری کا احساس کم ہے۔ (رواہ البیہقی فی الدلائل)

30158

30158- عن الزهري عن بعض آل عمر عن عمر بن الخطاب أنه قال: لما كان يوم الفتح ورسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة أرسل إلى صفوان ابن أمية وإلى أبي سفيان بن حرب وإلى الحارث بن هشام قال عمر: فقلت قد أمكن الله منهم لأعرفنهم بما صنعوا حتى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مثلي ومثلكم كما قال يوسف لإخوته: {لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ} قال عمر: فانفضحت حياء من رسول الله صلى الله عليه وسلم كراهية أن يكون بدر مني وقد قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال. "كر".
30158 ۔۔۔ زہری سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی روایت نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے آپ نے صفوان بن امیہ ، ابو سفیان بن حرب اور حارث بن ہشام کو پیغام بھیجا میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا کیا ہے اور میں انھیں جانتا ہوں کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں حتی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا ” لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین “۔ آج تمہارے اوپر کوئی باز پرس نہیں اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت کرے اور وہ رحمت کرنے والا ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا اس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حیاء آنے لگی کہ میں نے کیا بات کہہ دی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30159

30159- عن عبد الرحمن بن صفوان قال: لبست ثيابي يوم فتح مكة، ثم انطلقت فوافقت النبي صلى الله عليه وسلم حين خرج من البيت فسألت عمر أي شيء صنع النبي صلى الله عليه وسلم حين دخل البيت؟ فقال: صلى ركعتين. ابن سعد والطحاوي.
30159 ۔۔۔ عبدالرحمن بن صفوان (رض) کی روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن کپڑے پہنے پھر میں گھر سے چل پڑا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میری ملاقات ہوئی جبکہ آپ بیت اللہ سے باہر تشریف لا رہے تھے میں نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے پوچھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں کیا کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں دو رکعتیں نماز ادا کی ہے۔ (رواہ ابن سعد الطحاوی)

30160

30160- "مسند عثمان" عن معان بن رفاعة السلامى عن أبي خلف الأعمى وكان نظير الحسن بن أبي الحسن عن عثمان بن عفان أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة أخذ بيد ابن أبي سرح وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من وجد ابن أبي سرح فليضرب عنقه، وإن وجده متعلقا بأستار الكعبة، فقال: يا رسول الله فيسع ابن أبي سرح ما وسع الناس ومد إليه يده فصرف عنقه ووجهه ثم مد إليه يده فصرف عنه يده، ثم مد إليه يده أيضا فبايعه وآمنه، فلما انطلق قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما رأيتموني فيما صنعت؟ قالوا أفلا أومأت إلينا يا رسول الله قال رسول الله؟ ليس في الإسلام إيماء ولا فتك إن الإيمان قيد الفتك والنبي لا يومئ يعني بالفتك الخيانة". "كر"؛ ومعان بن رفاعة ضعيف.
30160 ۔۔۔ ” مسند عثمان “ معان بن رفاعہ سلامی ، ابو خلف اعمی سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے جبکہ سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کے ہاتھ میں ابن ابی سرح تھا جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ابن ابی سرح کو پائے وہ اس کی گردن اڑا دے اگرچہ وہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ کیوں نہ چمٹا ہو سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو معاملہ عام لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہے وہ ابن ابی سرح کے ساتھ بھی کیا جائے ابن ابی سرح نے ہاتھ آگے بڑھایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا ، پھر ہاتھ بڑھا کر اس سے بیعت لی اور اسے امن دیا پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا جب میں نے اس سے اعراض کیا تم مجھے دیکھ نہیں رہے تھے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام میں اشارے اور کنایات کی اجازت نہیں اور نبی کے شایان شان نہیں کہ وہ خیانت کے لیے اشارہ کرے ۔ (رواہ ابن عساکر ومعان بن رفاعۃ ضعیف)

30161

30161- "من مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة وفي البيت وحول البيت ثلاثمائة وستون صنما تعبد من دون الله فأمر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبت كلها لوجوهها، ثم قال: جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا، ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت فصلى فيه ركعتين فرأى فيه تمثال إبراهيم وإسماعيل وإسحاق قد جعلوا في يد إبراهيم الأزلام يستقسم بها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قاتلهم الله ما كان إبراهيم يستقسم بالأزلام ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بزعفران فلطخه بتلك التماثيل. "ش".
30161 ۔۔۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) روایت کی ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے جبکہ بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ (360) بت تھے جن کی اللہ کے سوا پوجا کی جاتی تھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو یہ بت اوندھے منہ کردیئے گئے پھر فرمایا : حق آیا اور باطل بھاگ نکلا بیشک باطل بھاگنے کا سزاوار ہے۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں بیت اللہ میں ابراہیم (علیہ السلام) اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کی تصویریں دیکھیں بایں طور کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھ میں قسمت کے تیر ہیں آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مشرکین کا ناس کرے ابراہیم (علیہ السلام) تیروں سے قسمت نہیں معلوم نہیں کرتے تھے پھر آپ نے زعفران منگوا کر ان تصویروں کو مسخ کردیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30162

30162- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة وعليه عمامة سوداء. "ش".
30162 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے آپ نے سیاہ رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30163

30163- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصور في البيت وأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر عمر بن الخطاب زمان الفتح وهو بالبطحاء أن يأتي الكعبة فيمحو كل صورة فيها فلم يدخل البيت حتى محيت كل صورة فيها. "كر".
30163 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں تصویریں رکھنے سے منع فرمایا ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا جبکہ آپ بطحاء میں تھے کہ کعبہ میں جاؤ اور تصویر بھی پاؤ اسے مٹا دو چنانچہ آپ بیت اللہ میں اس وقت تک داخل نہ ہوئے جب تک کہ ہر تصویر مٹا نہ دی گئی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30164

30164- عن الحارث بن غزية الأنصاري سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم فتح مكة: لا هجرة بعد الفتح إنما هو الإيمان والنية والجهاد متعة النساء حرام، متعة النساء حرام، متعة النساء حرام، ثم كان الغد فقال: يا معشر خزاعة والذي نفسي بيده لو قتلتم قتيلا لأديته لا أعلم أحدا أعدى على الله ممن استحل حرمة الله أو قتل غير قاتله، ثم انصرف ثم كان بعد الغد فقام فقال: والذي نفسي بيده لقد علمت أن مكة حرم الله وأمنه وأحب البلدان إلى الله ولو لم أخرج منها لم أخرج لا يعضد شجرها ولا يحتش حشيشها ولا يختلى خلاها فقال العباس: إلا الإذخر يا رسول الله فإنه للصواغين وظهور البيوت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إلا الإذخر لا ينفر صيدها ولا تحل لقطتها إلا لمنشد الحسن بن سفيان وأبو نعيم.
30164 ۔۔۔ حارث بن غزیہ انصاری کی روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ فتح کے بعد ہجرت نہیں ۔ اب بس ایمان ہی بہت ہے اور جہاد ہے متعہ نسواں حرام ہے متعہ نسواں حرام ہے متعہ نسواں حرام ہے پھر دوسرے دن فرمایا : اے خزاعہ ! قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! اگر تم کسی شخص کو قتل کر دو گے میں اس کی دیت دوں گا میں اس شخص سے بڑھ کر کسی کو اللہ تعالیٰ کا نافرمان نہیں سمجھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی حرمت کو حلال سمجھے یا غیر قاتل کو قتل کرے ۔ پھر آپ واپس لوٹ گئے اور دوسرے دن فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں جانتا ہوں کہ مکہ اللہ تعالیٰ کی حرمت والی جگہ ہے اور امن والی جگہ ہے نیز اللہ تعالیٰ کی محبوب تیرین جگہ ہے اگر مجھے اس شہر سے نہ نکالا جاتا میں یہاں سے نہ نکلتا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اس کی گھاس نہ کاٹی جائے اس کی جھاڑیاں کاٹی جائیں حضرت عباس (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! سوائے اذخر گھاس کے جو سناروں کے لیے لائی جاتی ہے چھتیں ڈھالنے کے لیے کاٹی جاتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جی ہاں سوائے اذخر کے مکہ کا شکار نہ بھگایا جائے مکہ میں گری پڑی چیز کو کوئی شخص اپنے لیے حلال نہ سمجھے البتہ اعلان کے لیے اٹھاسکتا ہے۔ (رواہ الحسن بن سفیان وابو نعیم)

30165

30165- عن الحارث بن مالك أن البرصاء الليثي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة: تغزى بعد اليوم إلى يوم القيامة. "ش" وأبو نعيم.
30165 ۔۔۔ حارث بن مالک حضرت برصاء لیثی (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا : آج کے بعد تا قیامت جہاد ہوتا رہے گا ۔ (رواہ ابن شیبۃ ابو نعیم) فائدہ : ۔۔۔ اس حدیث کو اس طرح بھی مفہوم عام میں بیان کیا جاتا ہے ” الجھاد ماض الی یوم القیامۃ “ یعنی جہاد تا قیامت جاری رہے گا ۔ (از مترجم)

30166

30166- "مسند المسور بن مخرمة" ابن إسحاق حدثني الزهري عن عروة بن الزبير عن مروان بن الحكم والمسور بن مخرمة أنهما أخبراه جميعا أن عمرو بن سالم الخزاعي ركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم عندما كان من أمر خزاعة وبني بكر بالوتير حتى قدم المدينة على رسول الله صلى الله عليه وسلم يخبره الخبر وقد قال أبيات شعر فلما قدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم أنشده إياها: لا هم إني ناشد محمدا ... حلف أبينا وأبيه الأتلدا فوالدا كنا وكنت ولدا ... ثمت أسلمنا فلم ننزع يدا فانصر رسول الله نصرا أعبدا ... فادع عباد الله يأتوا مددا فيهم رسول الله قد تجردوا ... في فيلق كالبحر يجري مزبدا إن قريشا أخلفوك الموعدا ... ونقضوا ميثاقك المؤكدا وزعموا أن لست تدعو أحدا ... فهم أذل وأقل عددا قد جعلوا لي بكداء مرصدا ... هم بيتونا بالوتير هجدا فقتلونا ركعا وسجدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نصرت يا عمرو بن سالم فما برح حتى مرت عنانة في السماء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن هذا السحابة لتستهل بنصر بني كعب، وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس بالجهاز وكتمهم مخرجه، وسأل الله أن يعمي على قريش خبره حتى يبغتهم في بلادهم. ابن منده "كر".
30166 ۔۔۔ ” مسند مسور بن مخرمہ “ ابن اسحاق ، زہری عروہ بن زبیر مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن سالم خزاعی مدینہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خزاعہ اور بنی بکر پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے متعلق حاضر ہوا اور آپ کو خبر کرنے لگا اس نے اشعار بھی کہے تھے آپ کے پاس حاضر ہو کہ یہ اشعار کہے ۔ لاھم انی ناشد محمدا حلف ابینا وابیہ الا تلدا فوالدا کنا وکنت ولدا ثمت اسلمنا فلم ننزع یدا فانصر رسول اللہ نصرا عبدا فادع عبادا اللہ یا توا مددا فیھم رسول اللہ قد تجددا فی فیلق کالبحر یجری مذبدا : ان قریشا اخلفوک الموعدا ونقضوا میثاقک المؤکدا وزعموا ان لست تدعوا حدا فھم اذل واقل عددا قد جعلوا لی بکداء مرصدا : ھم بیتونا بالوتیر ھجدا فقتلونا رکعا وسجدا : ۔ ترجمہ : ۔۔۔ اے اللہ ! میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے باپ اور ان کے باپ کا پرانا معاہدہ ہے ہم والد تھے اور آپ اولاد تھے وہیں ہم نے اسلام قبول کیا لہٰذا آپ ہم سے دست کش نہ ہوں اے اللہ کے رسول ! ہماری مدد کیجئے اور اللہ کے بندوں کو کمک کے لیے بلوائیں انہی میں اللہ کے رسول موجود ہیں وہ یکسر الگ ہوئے ہیں جس طرح سمندر کا پانی جھاگ سے الگ ہوجاتا ہے قریش نے آپ کا معاہدہ توڑ دیا ہے اور آپ کا لیا ہوا پختہ عہد ختم کردیا ہے چونکہ قریش کا دعوی ہے کہ آپ کسی کو اپنے ساتھ نہیں ملاتے یوں آپ بےیارومددگار ہیں اور آپ کی تعداد بھی کم ہے قریش نے مقام کداء میں میرے لیے گھات لگا رکھی ہے انھوں نے ہمارے اوپر مارنے کی چال چلی حتی کہ انھوں نے رکوع اور سجدے میں ہمیں قتل کیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمرو بن سالم تمہاری مدد کی جائے گی اتنے میں بادلوں کا ٹکڑا بھٹکتا ہوا فضا کے دوش پر تیرنے لگا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بادلوں کے اس ٹکڑے نے بنی کعب کی مدد میں آسانی کردی ہے اسی وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو تیار ہونے کا حکم دیا اور اپنے کوچ کرنے کی خبر کو مخفی رکھا اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انھیں ہماری روانگی کی خبر نہ ہو حتی کہ ان کے علاقے میں قریش کو آن لیا ۔ (رواہ ابن مندہ وابن عساکر) عبداللہ بن خطل کا قتل :

30167

30167- "من مسند السائب بن يزيد" رأيت النبي صلى الله عليه وسلم قتل عبد الله بن خطل يوم الفتح وأخرجوه من تحت أستار الكعبة فضرب عنقه بين زمزم والمقام ثم قال: لا يقتلن قرشي بعد هذا صبرا. "كر".
30167 ۔۔۔ ” مسند سائب بن یزید “ حضرت سائب بن یزید (رض) کی روایت ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے دن عبداللہ بن خطل کو قتل کرتے دیکھا عبداللہ بن خطل کعبہ کے پردوں تلے دبکا ہوا تھا وہاں سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے نکالا اور اس کی گردن اڑا دی گئی ۔

30168

30168- "من مسند سهل بن سعد الساعدي" عن سهل بن عمرو قال: لما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة وظهر اقتحمت بيتي وأغلقت علي بابي وأرسلت إلى ابني عبد الله بن سهيل أن أطلب لي جوارا من محمد صلى الله عليه وسلم: فإني لا آمن أن أقتل، فذهب عبد الله بن سهيل فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أبي تؤمنه؟ قال: نعم هو آمن بأمان الله، فليظهر ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن حوله: من لقي منكم سهيلا فلا يشد إليه النظر فليخرج فلعمري أن سهيلا له عقل وشرف وما مثل سهيل جهل الإسلام، ولقد رأى ما كان يوضع فيه إنه لم يكن له بنافع، فخرج عبد الله إلى أبيه فأخبره بمقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال سهيل: كان والله برا صغيرا وكبيرا فكان سهيل يقبل ويدبر وخرج إلى حنين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على شركه حتى أسلم بالجعرانة، فأعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ من غنائم حنين مائة من الإبل. الواقدي وابن سعد، "كر".
30168 ۔۔۔ ” مسند سہل بن سعد ساعدی “ حضرت سہیل بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور اہل مکہ پر غلبہ حاصل ہوا تو میں اپنے گھر میں گھسا اور دروازہ بند کردیا پھر میں نے اپنا بیٹا عبداللہ بھیجا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے لیے امن کی درخواست کرے چونکہ مجھے ڈر ہے کہ میں قتل کردیا جاؤں گا عبداللہ بن سہیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ میرے باپ کو امن دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جی ہاں اسے اللہ تعالیٰ کا امان ہے لہٰذا وہ سامنے آجائے پھر آپ نے اپنے پاس موجود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا : تم میں سے جس شخص کو بھی سہیل ملے اس کی طرف سخت نظروں سے نہ دیکھے سہیل کو اب باہر آجانا چاہیے چونکہ سہیل صاحب عقل اور صاحب شرف انسان سے سہیل جیسا شخص اسلام سے غافل نہیں رہ سکتا وہ سمجھتا ہے کہ جہالت اس کے نفع میں نہیں ہے۔ عبداللہ (رض) نے جا کر اپنے والد کو خبر کی سہیل نے کہا بخدا ! محمد جب چھوٹا تھا اس وقت بھی احسان کرتا رہا اور آج جب بڑا ہوا ہے تب بھی احسان کررہا ہے پھر سہیل آپ کے پاس آتے جاتے رہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک رہے اور بالآخر جعرانہ کے مقام پر دولت اسلام سے سرفراز ہوئے اس دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے مال غنیمت سے سو (100) اونٹ سہیل کو دیئے ۔ (رواہ الواقدی وابن سعد وابن عساکر)

30169

30169- عن يحيى بن يزيد بن أبي مريم السلولى عن أبيه عن جده قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة والهدي معكوفا فجاءه الحارث بن هشام فقال: يا محمد جئتنا بأوباش من أوباش الناس تقاتلنا بهم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اسكت هؤلاء خير منك وممن أخذ بأخذك، هؤلاء يؤمنون بالله ورسوله. "كر".
30169 ۔۔۔ یحییٰ بن یزید بن ابی مریم سلولی عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا آپ کے پاس حارث بن ہشام آیا اور کہا : اے محمد ! تم مختلف خاندانوں کے لوگوں کو لے کر آئے ہو اور ہمیں قتل کروانا چاہتے ہو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خاموش رہو یہ لوگ تم سے بہتر ہیں چونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)

30170

30170- عن عبد الله بن الزبير قال: لما كان يوم الفتح أسلمت امرأة صفوان بن أمية البغوم بنت المعدل من كنانة وأما صفوان بن أمية فهرب حتى أتى الشعب، وجعل يقول لغلامه يسار وليس معه غيره: ويحك انظر من ترى، قال هذا عمير بن وهب، قال صفوان: ما أصنع بعمير والله ما جاء إلا يريد قتلي قد ظاهر محمدا علي، فلحقه فقال: يا عمير ما كفاك ما صنعت بي حملتني على دينك وعيالك، ثم جئت تريد قتلي قال: أبا وهب جعلت فداك جئتك من عند أبر الناس وأوصل الناس وقد كان عمير قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله سيد قومي خرج هاربا ليقذف نفسه في البحر، وخاف أن لا تؤمنه فأمنه، فداك أبي وأمي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد أمنته فخرج في أثره فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أمنك فقال صفوان: لا والله لا أرجع معك حتى تأتيني بعلامة أعرفها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذ عمامتي فرجع عمير إليه بها وهو البرد الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ معتجرا به برد حبرة فخرج عمير في طلبه الثانية حتى جاء بالبرد فقال: أبا وهب جئتك من عند خير الناس وأوصل الناس وأبر الناس وأحلم الناس مجده مجدك وعزه عزك وملكه ملكك ابن أمك وأبيك وأذكرك الله في نفسك قال له: أخاف أن أقتل قال: قد دعاك إلى أن تدخل في الإسلام فإن يسرك وإلا سيرك شهرين فهو أوفى الناس وأبره، وقد بعث إليك ببرده الذي دخل به معتجرا فعرفه قال: نعم فأخرجه فقال: نعم هو هو. فرجع صفوان حتى انتهى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس العصر في المسجد، فوقفا فقال صفوان: كم يصلون في اليوم والليلة؟ قال: خمس صلوات قال: يصلي بهم محمد؟ قال: نعم، فلما سلم صاح صفوان يا محمد إن عمير بن وهب جاءني ببردك وزعم أنك دعوتني إلى القدوم عليك فان رضيت أمرا وإلا سيرتني شهرين قال: انزل أبا وهب قال: لا والله حتى تبين لي، قال: بل لك أن تسير أربعة أشهر، فنزل صفوان وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل هوازن وخرج معه صفوان وهو كافر وأرسل إليه يستعيره سلاحه، فأعاره سلاحه مائة درع بأداتها، فقال صفوان: طوعا أو كرها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عارية رادة فأعاره فأمره رسول الله صلى الله عيه وسلم فحملها إلى حنين، فشهد حنينا والطائف، ثم رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الجعرانة فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسير في الغنائم ينظر إليها ومعه صفون بن أمية فجعل صفوان بن أمية ينظر إلى شعب مليء نعما وشاء ورعاء فأدام النظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمقه فقال: أبا وهب يعجبك هذا الشعب؟ قال: نعم قال: هو لك وما فيه، فقال صفوان عند ذلك: ما طابت نفس أحد بمثل هذا إلا نفس نبي أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وأسلم مكانه. الواقدي، "كر".
30170 ۔۔۔ عبداللہ بن زبیر (رض) کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن صفوان بن امیہ کی بیوی بغوم بنت معدل نے اسلام قبول کرلیا جب کہ صفوان بن امیہ (رض) بھاگ نکلے اور ایک گھاٹی میں آ چھپے اپنے غلام یسار سے باربار کہتے کہ (جب کہ ان کے ساتھ غلام کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا تیرا ناس ہو دیکھ ذرہ تجھے کوئی نظر آ رہا ہے غلام نے کہا : یہ رہا عمیر بن وہب صفوان (رض) نے کہا میں عمیر کو کیا کروں گا بخدا یہ تو مجھے قتل کرنے آیا ہے س نے میرے خلاف محمد کی مدد کی ہے عمیر (رض) صفوان (رض) کے پاس آن پہنچے صفوان (رض) نے کہا : اے عمیر (رض) ابھی تک جو کچھ تو کر گزرا ہے اس پر بس نہیں کرتا اب مجھے قتل کرنے کے لیے یہاں تک آدھمکا ہے عمیر (رض) نے کہ اے ابو وہب میں تجھ پر فدا جاؤں میں ایسی ہستی کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے۔ قبل ازیں عمیر نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری قوم کا سردا بھاگ نکلا ہے تاکہ اپنے آپ کو سمندر میں ڈال دے وہ نہایت خوفزدہ تھا کہ آپ اسے امن نہیں دیں گے لہٰذا میں آپ سے ملتمس ہوں کہ آپ امن دے دیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاؤ میں نے صفوان (رض) کو امن دے دیا ۔ چنانچہ عمیر (رض) صفوان کے پیچھے چل پڑے اور ان کے پاس پہنچ کر کہا تمہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن دے دیا ہے صفوان (رض) نے کہا : بخدا ! میں اس وقت تک تیرے ساتھ نہیں جاؤں گا جب تک کہ تم میرے پاس کوئی نشانی نہیں لے کر آؤ گے عمیر (رض) نے واپس لوٹ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرا عمامہ لیتے جاؤ آپ کا عمامہ وہی چادر تھی جسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوڑھ کر مکہ میں داخل ہوئے تھے چنانچہ عمیر (رض) دوبارہ عمامہ لیے صفوان (رض) کی تلاش میں نکل پڑے اور جب ان کے پاس پہنچے کہا : اے ابو وہب میں ایسی ہستی کے پاس سے آیا ہوں جو سب سے افضل سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ بردبار ہے اس کی عزت تیری عزت ہے اس کی بزرگی تیری بزرگی ہے اس کی بادشاہت تیری بادشاہت ہے تمہارا خاندان ایک میں تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ بےخوف ہو کر میرے ساتھ چل پڑو۔ صفوان (رض) نے کہا : مجھے خوف ہے کہ مجھے قتل کردیا جائے گا عمیر (رض) نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں اسلام کی دعوت دی ہے اگر تم اسلام میں داخل ہوجاؤ تو بہت اچھا ورنہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو مہینوں کی مہلت لے لینا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں مہلت دے دیں گے چونکہ آپ نہایت مہربان اور نہایت صلہ رحمی کرنے والے ہیں جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس اپنی چادر بھیجی ہے یہ وہی چادر ہے جسے آپ نہایت مہربان اور نہایت صلہ رحمی کرنے والے ہیں جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے پاس اپنی چادر بھیجی ہے یہ وہی چادر ہے جسے آپ اوڑھ کر مکہ میں داخل ہوئے تھے صٖفوان (رض) نے چادر پہچان لی اور کہا ہاں یہ وہی چادر ہے چنانچہ صفوان (رض) واپس ہوئے اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو لوگوں کو عصر کی نماز پڑھا رہے تھے صفوان (رض) باہر ہی رک گئے ؟ اور کہا : مسلمان دن میں کتنی نماز میں پڑھتے ہیں ؟ عمیر (رض) نے جواب دیا : پانچ نمازیں پڑھتے ہیں پھر پوچھا : کیا مسلمانوں کو محمد نماز پڑھاتے ہیں ؟ جواب دیا جی ہاں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا تو صفوان (رض) نے چلا کر کہا : اے محمد ! عمیر بن وہب میرے پاس تمہاری چادر لے کر آیا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ تم نے مجھے واپس لوٹ آنے کی دعوت دی ہے اگر تم راضی ہو تو ٹھیک ورنہ مجھے دو مہینے کی مہلت دے دو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو وہب ! سواری سے نیچے اترو صفوان (رض) نے کہا : بخدا میں اس وقت تک نیچے نہیں اتروں گا جب تک تم معاملہ صاف نہ کر دو ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ تمہیں چار ماہ تک مہلت ہے۔ صفوان (رض) سواری سے نیچے اتر آئے ۔ پھر آپ نے ھوازن پر چڑھائی کی جبکہ صفوان (رض) آپ کے ساتھ تھے اور ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان (رض) سے اسلحہ مستعار لینا چاہا، عرض کیا : کیا آپ خوشی سے اور رضا مندی سے لینا چاہتے ہیں یا زبردستی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ عاریۃ لینا چاہتا ہوں یہ اسلحہ یعنی 100 (سو) زرہیں قابل واپسی ہوں گی چنانچہ صفوان (رض) نے زرہیں عاریۃ دے دیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بھی حنین اور طائف ساتھ جانے کا حکم دیا چنانچہ صفوان (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین اور طائف میں رہے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعرانہ واپس آگئے اسی اثناء میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں چل پھر رہے تھے اور صفوان بن امیہ (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے اور مال غنیمت سے بھری ہوئی گھاٹی کو دیکھے جا رہے تھے جو جانوروں بکریوں وغیرہ اموال سے اٹی پڑی تھی صفوان (رض) انہماک سے مال غنیمت دیکھے جا رہے تھے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنکھیوں سے صفوان (رض) کو دیکھ رہے تھے پھر فرمایا : اے ابو ہب ! کیا یہ گھاٹی مال سے بھری ہوئی تمہیں اچھی لگتی ہے ؟ عرض کیا جی ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ سارا مال تمہارا ہے پھر صفوان (رض) نے کہا : اتنی بڑی سخاوت کا مظاہرہ سوائے نبی کے کوئی نہیں کرسکتا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، چنانچہ اسی جگہ اور اسی لمحے اسلام لے آئے ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30171

30171- عن ابن عباده قال: كانت راية رسول الله صلى الله عليه وسلم في المواطن كلها راية المهاجرين مع علي بن أبي طالب، وراية الأنصار مع سعد بن عبادة حتى كان يوم فتح مكة دفعت راية قضاعة إلى أبي عبيدة بن الجراح، ودفعت راية بني سليم إلى خالد بن الوليد، وكانت راية الأنصار مع سعد بن عبادة، وراية المهاجرين مع علي ابن أبي طالب. "كر".
30171 ۔۔۔ ابن عبادہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا ہر جگہ ہوتا تھا مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس تھا انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے پاس تھا حتی کہ فتح مکہ کے دن قضاعہ کا جھنڈا حضرت ابو عبیدہ (رض) کے پاس تھا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30172

30172- "من مسند ابن عباس" ابن إسحاق حدثني الحسن بن عبد الله بن عبيد الله عن عكرمة عن ابن عباس قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم بمر الظهران قال العباس بن عبد المطلب: وقد خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة. "ق، كر".
30172 ۔۔۔ ” مسند ابن عباس (رض) “۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مدینہ کی طرف نکلے تھے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرالظھران کے مقام پر پہنچے وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی ملاقات ہوئی ، (رواہ البیہقی وابن عساکر)

30173

30173- "أيضا" الواقدي حدثني عبد الله بن جعفر قال: سمعت يعقوب بن عتبة يخبر عن عكرمة عن ابن عباس قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم بمر الظهران قال العباس بن عبد المطلب: واصباح قريش والله لئن دخلها رسول الله صلى الله عليه وسلم عنوة إنه لهلاك قريش آخر الدهر قال: فأخذت بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم الشهباء، فركبتها وقال: التمس خطابا أو إنسانا ابعثه إلى قريش يتلقون رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل أن يدخلها عليهم عنوة قال: فوالله إني لفي الأراك أبتغي إنسانا إذ سمعت كلاما يقول: والله إن رأيت كالليلة في النيران قال يقول بديل بن ورقاء: هذه والله خزاعة حاشتها الحرب، قال أبو سفيان: خزاعة أقل وأذل من أن تكون هذه نيرانهم وعشيرتهم، قال: فإذا بأبي سفيان فقلت أبا حنظلة فقال: يا لبيك أبا الفضل، وعرف صوتي مالك فداك أبي وأمي فقلت: ويلك هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم في عشرة آلاف فقلت: بأبي أنت وأمي ما تأمرني هل من حيلة؟ قلت: نعم تركب عجز هذه البغلة فأذهب بك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنه والله إن ظفر بك دون رسول الله صلى الله عليه وسلم لتقتلن. قال أبو سفيان: وأنا والله أرى ذلك قال: ورجع بديل وحكيم، ثم ركب خلفي، ثم وجهت به كلما مررت بنار من نار المسلمين قالوا: من هذا؟ فإذا رأوني قالوا: عم رسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته حتى مررت بنار عمر بن الخطاب، فلما رآني قام فقال: من هذا؟ فقلت العباس قال: فذهب ينظر فرأى أبا سفيان خلفي فقال: أبا سفيان عدو الله الحمد لله الذي أمكن منك بلا عهد ولا عقد، ثم خرج نحو رسول الله صلى اله عليه وسلم يشتد وركضت البغلة حتى اجتمعنا جميعا على باب قبة النبي صلى الله عليه وسلم. قال: فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل عمر على أثرى فقال عمر: يا رسول الله هذا أبو سفيان عدو الله قد أمكن الله منه بلا عهد ولا عقد فدعني أضرب عنقه، قال قلت: يا رسول الله إني قد أجرته قال: ثم لزمت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: والله لا يناجيه أحد الليلة دوني فلما أكثر عمر فيه قلت: مهلا يا عمر فإنه والله لو كان رجل من بني عدي بن كعب ما قلت هذا ولكنه أحد بني عبد مناف فقال عمر: مهلا يا أبا الفضل فوالله لإسلامك كان أحب إلي من إسلام رجل من ولد الخطاب لو أسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب به فقد أجرته لك فليبت عندك، حتى تغدو به علينا، فلما أصبحت غدوت به فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويحك أبا سفيان ألم يأن لك أن تعلم أن لا إله إلا الله؟ قال: بأبي أنت ما أحلمك وأكرمك وأعظم عفوك قد كان يقع في نفسي أن لو كان مع الله إله آخر لقد أغنى شيئا بعد قال: يا أبا سفيان ألم يأن لك أن تعلم أني رسول الله؟ قال: بأبي أنت وأمي ما أحلمك وأكرمك وأعظم عفوك، أما هذه فوالله إن في النفس منها لشيئا بعد فقال العباس: فقلت: ويحك اشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله قبل، والله، أن تقتل قال: فتشهد شهادة الحق فقال: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله. فقال العباس: يا رسول الله إنك قد عرفت أبا سفيان وحبه الشرف والفخر اجعل له شيئا قال: نعم من دخل دار أبي سفيان فهو آمن، ومن أغلق داره فهو آمن، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للعباس بعد ما خرج: احبسه بمضيق الوادي إلى خطم الجبل حتى تمر به جنود الله فيراها، قال العباس: فعدلت به في مضيق الوادي إلى خطم الجبل، فلما حبست أبا سفيان قال: غدرا يا بني هاشم فقال العباس: إن أهل النبوة لا يغدرون ولكن لي إليك حاجة فقال أبو سفيان: فهلا بدأت بها أولا فقلت: إن لي إليك حاجة فكان أفرغ لروعي. قال العباس: لم أكن أراك تذهب هذا المذهب وعبى رسول الله صلى الله عليه وسلم أصحابه ومرت القبائل على قادتها والكتائب على راياتها، فكان أول من قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد في بني سليم وهم ألف فيهم لواء يحمله العباس بن مرداس ولواء يحمله خفاف بن ندبة، وراية يحملها الحجاج بن علاط، قال أبو سفيان: من هؤلاء؟ قال العباس: خالد بن الوليد قال الغلام؟ قال: نعم فلما حاذى خالد العباس وإلى جنبه أبو سفيان كبروا ثلاثا، ثم مضوا، ثم مر على أثره الزبير بن العوام في خمسمائة منهم مهاجرون وأفناء الناس ومعه راية سوداء، فلما حاذى أبا سفيان كبر ثلاثا وكبر أصحابه فقال: من هذا؟ قال الزبير بن العوام قال ابن أختك؟ قال: نعم، ومرت نفر من غفار في ثلاثمائة يحمل رايتهم أبو ذر الغفاري ويقال إيماء بن رحضة، فلما حاذوه كبروا ثلاثا قال: يا أبا الفضل من هؤلاء؟ قال بنو غفار قال: مالي ولبني غفار، ثم مضت أسلم في أربعمائة فيها لواءان؟ يحمل أحدهما بريدة بن الخصيب والآخر ناجية بن الأعجم، فلما حاذوه كبروا ثلاثا فقال: من هؤلاء؟ قال: أسلم، قال: يا أبا الفضل مالي ولأسلم ما كان بيننا وبينها ترة قط قال العباس: هم قوم مسلمون دخلوا في الإسلام. ثم مرت بنو كعب بن عمرو في خمسمائة يحمل رايتهم بشر بن شيبان قال: من هؤلاء قال: بنو كعب بن عمرو، قال: نعم هؤلاء حلفاء محمد، فلما حاذوه كبروا ثلاثا، ثم مرت مزينة في ألف فيها ثلاثة ألوية وفيها مائة فرس يحمل ألويتها النعمان بن مقرن وبلال بن الحارث وعبد الله بن عمرو، فلما حاذوه كبروا فقال: من هؤلاء؟ قال مزينة قال: يا أبا الفضل مالي ولمزينة قد جاءتني تقعقع من شواهقها، ثم مرت جهينة في ثمانمائة مع قادتها فيها أربعة ألوية لواء مع أبي زرعة معبد بن خالد، ولواء مع سويد بن صخر، ولواء مع رافع بن مكيث، ولواء مع عبد الله بن بدر، فلما حاذوه كبروا ثلاثا، ثم مرت كنانة بنو ليث وضمرة وسعد بن بكر في مائتين يحمل لواءهم أبو واقد الليثي فلما حاذوه كبروا ثلاثا، فقال: من هؤلاء؟ قال بنو بكر قال: نعم أهل شؤم والله هؤلاء الذين غزانا محمد بسببهم، أما والله ماشوورت فيه ولا علمته ولقد كنت له كارها حيث بلغني ولكنه أمر حم قال العباس: قد خار الله لك في غزو محمد صلى الله عليه وسلم لكم ودخلتم في الإسلام كافة، قال الواقدي: حدثني عبد الله بن عامر عن أبي عمرو بن حماس قال: مرت بنو ليث وحدها وهم مائتان وخمسون يحمل لواءها الصعب بن جثامة، فلما مروا كبروا ثلاثا فقال: من هؤلاء؟ قال بنو ليث ثم مرت أشجع وهم آخر من مر وهم في ثلاثمائة معهم لواء يحمله معقل بن سنان ولواء مع نعيم بن مسعود فقال أبو سفيان: هؤلاء كانوا أشد العرب على محمد صلى الله عليه وسلم، فقال العباس: ادخل الله الإسلام قلوبهم، فهذا من فضل الله فسكت ثم قال: ما مضى بعد محمد؟ قال العباس: لم يمض بعد لو رأيت الكتيبة التي فيها محمد صلى الله عليه وسلم رأيت الحديد والخيل والرجال: وما ليس لأحد به طاقة قال: أظن والله يا أبا الفضل، ومن له بهؤلاء طاقة؟ فلما طلعت كتيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم الخضراء طلع سواد وغبرة من سنابك الخيل، وجعل الناس يمرون كل ذلك يقول ما مر محمد؟ فيقول العباس: لا حتى مر يسير على ناقته القصواء بين أبي بكر وأسيد بن حضير وهو يحدثهما، فقال العباس: هذا رسول الله في كتيبته الخضراء فيها المهاجرون والأنصار فيها الرايات والألوية مع كل بطل من الأنصار راية ولواء في الحديد لا يرى منه إلا الحدق، ولعمر بن الخطاب فيها زجل وعليه الحديد بصوت عال وهو يزعها، فقال أبو سفيان: يا أبا الفضل من هذا المتكلم؟ قال عمر بن الخطاب قال: لقد أمر أمر بني عدي بعد والله قلة وذلة فقال العباس: يا أبا سفيان إن الله يرفع من يشاء بما يشاء، وإن عمر ممن رفعه الإسلام وقال في الكتيبة ألفا درع وأعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رايته سعد بن عبادة فهو أمام الكتيبة، فلما مر سعد براية النبي صلى الله عليه وسلم نادى يا أبا سفيان اليوم يوم الملحمة، اليوم تستحل الحرمة، اليوم أذل الله قريشا فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا حاذى أبا سفيان ناداه: يا رسول الله أمرت بقتل قومك؟ زعم سعد ومن معه حين مر بنا فقال: يا أبا سفيان اليوم يوم الملحمة اليوم تستحل الحرمة، اليوم أذل الله قريشا، وإني أنشدك الله في قومك فأنت أبر الناس وأوصل الناس، قال عبد الرحمن بن عوف وعثمان بن عفان: يا رسول الله ما نأمن سعدا أن يكون منه في قريش صولة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا سفيان اليوم يوم المرحمة اليوم أعز الله فيه قريشا قال: وأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى سعد فعزله وجعل اللواء إلى قيس، ورأى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن اللواء لم يخرج من سعد حين صار لابنه فأبى سعد أن يسلم اللواء إلا بالأمارة من النبي صلى الله عليه وسلم فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه بعمامته فعرفها سعد فدفع اللواء إلى ابنه قيس. "كر".
30173 ۔۔۔ واقدی عبداللہ بن جعفر یعقوب بن عتبہ عکرمہ کی سند سے ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام مرا الظہران پر پہنچے حضرت عباس بن عبدالمطلب نے کہا : افسوس ہے قریش پر اللہ کی قسم اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں عنوۃ (غلبہ پاکر) داخل ہوئے تو قریش پر ہلاکت آئے گی میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خچر پکڑا اور اس پر سوار ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خطاب یا کسی اور شخص کو تلاش کرکے لے آؤ تاکہ اسے میں قریش کے پاس بھیجوں اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر ملاقات کرلیں قبل ازیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں عنوۃ داخل ہوں عباس (رض) کہتے ہیں : بخدا ! میں جھاڑیوں میں گھوم پھر کر کسی انسان کو ڈھونڈ رہا تھا یکایک میں نے باتوں کی آواز سنی کوئی کہہ رہا تھا : بخدا میں نے رات کو جگہ آگ جلتی دیکھی ہے بدیل بن ورقاء نے کہا : یہ تو قبیلہ خزاعہ ہے ابو سفیان نے کہا : خزاعہ کی تعداد بہت تھوڑی ہے انھیں اتنی زیادہ جگہوں میں آگ جلانے کی ہمت کیسے ہوئی اچانک میں دیکھتا ہوں کہ ابو سفیان ہے میں نے آواز دی : اے ابو حنطلہ ! اس نے جواب دیا : جی ہاں اے ابو الفضل اس نے میری آواز پہچان لی اور کہا : میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں یہاں کیا کر رہے ہو ؟ میں نے کہا : تیری ہلاکت ہو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ان کے ساتھ دس ہزار کا لشکر ہے ابو سفیان نے کہا میری ماں باپ فدا ہوں کوئی حیلہ ہوسکتا ہے ؟ عباس (رض) نے کہا : یہ ہے خچر میرے پیچھے سوار ہوجائیں تجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کروں گا ورنہ بصورت دیگر تو ہتھے چڑھ گیا قتل سے کم تیری سزا نہیں ہوگی ابو سفیان نے کہا : بخدا میری بھی یہی رائے ہے جبکہ بدیل اور حکیم واپس لوٹ گئے ۔ ابو سفیان میرے پیچھے بیٹھا ، میں اسے لے کر چل پڑا جب بھی مسلمانوں کی کسی آگ کے پاس سے گزرتا مسلمان پوچھتے یہ کون ہے جب مجھے دیکھتے کہتے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ہیں حتی کہ میں عمر بن خطاب کی جلائی ہوئی آگ کے پاس سے گزرا جب عمر (رض) نے مجھے دیکھا فورا کھڑے ہوگئے اور کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا : میں عباس ہوں عمر (رض) نے جو غور سے دیکھا تو میرے پیچھے ابوسفیان کو بیٹھے دیکھا اور کہا : بخدا یہ تو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے الحمد للہ ! بغیر کسی عہد اور قرار کے ہاتھ آگیا پھر کیا تھا عمر (رض) نے تلوار سونت لی اور میرے پیچھے ہو لیے جبکہ میں نے خچر کو کو چا دے کر ایڑ لگا دی چنانچہ ہم اکٹھے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے ۔ عمر (رض) میرے پیچھے تھے جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ رہا اللہ اور اس کے رسول کا دشمن بغیر کسی عہد و پیمان کے ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے مجھے چھوڑیئے تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ عباس (رض) کہتے ہیں میں نے کہا : یا رسول اللہ ! میں اسے پناہ دے چکا ہوں پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لگا رہا جب عمر (رض) نے زیادہ ہی اصرار کیا میں نے کہا : اے عمر ! رک جاؤ اگر کوئی شخص بنی عدی بن کعب سے ہوتا تم ایسی بات نہ کہتے البتہ یہ بنی عبدمناف میں سے ہے تب تمہیں جرات ہو رہی ہے۔ عمر (رض) نے کہا : اے ابو الفضل ! چھوڑو بخدا ! تمہارا اسلام مجھے خطاب کے کسی بیٹے کے اسلام قبول کرنے سے زیادہ مجبوب ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے لے چلو میں نے اسے پناہ دے دی میں نے اسے تمہاری وجہ سے پناہ دی ہے اور اسے اپنے پاس رات بسر کراؤ اور صبح دوبارہ ہمارے پاس لاؤ۔ صبح ہوتے ہی حضرت عباس (رض) ابو سفیان کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوں ہی ابو سفیان کو دیکھا فرمایا : افسوس ! اے ابو سفیان ! لاالہ الا اللہ کے اقرار کا ابھی وقت نہیں آیا ؟ ابو سفیان نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نہایت ہی حلیم اور کریم اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے ہیں خدا کی قسم اگر اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتا تو آج ہمارے کچھ کام آتا اور آپ کے مقابلہ میں اس سے مدد چاہتا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : افسوس اے ابو سفیان ! کیا تیرے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ تو مجھے اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کرے ؟ ابو سفیان نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں بیشک آپ نہایت حلیم وکریم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں ابھی تک مہربانی کر رہے ہیں ابھی مجھے اس میں ذرہ تردد ہے کہ آپ نبی ہیں یا نہیں۔ حضرت عباس (رض) کہتے ہیں ! میں نے ابو سفیان سے کہا : تیرا ناس ہو گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں بخدا قتل کئے جانے سے قبل اس کا اقرار کرلو چنانچہ ابو سفیان ابو سفیان نے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمد عبدہ ، ورسولہ “۔ عباس (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کو معلوم ہے کہ ابو سفیان صاحب جاہ اور صاحب شرف سردار ہے اور فخر کو پسند کرتا ہے لہٰذا آپ اس کے لیے کوئی ایسی شیء عطیہ کریں جو اس کے لیے باعث عزت وافتخار ہو آپ نے فرمایا : جی ہاں جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا وہ امن میں ہوگا اور جو شخص اپنا دروازہ بند رکھے گا وہ بھی امن میں ہوگا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عباس (رض) سے فرمایا : آپ اسے لے کر گھاٹی میں سرراہ کھڑے ہوجائیں تاکہ یہ اسلامی لشکر کی شان و شوکت دیکھ سکے چنانچہ جب میں ابو سفیان کو لے کر گھاٹی میں اونچی جگہ کھڑا ہو اس نے کہا : اے بنی ہاشم کیا ہم سے دھوکا کرو گے ؟ عباس (رض) نے جواب دیا : جو لوگ نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں وہ دھوکا نہیں کرتے البتہ مجھے تم سے ایک حاجت ہے۔ ابو سفیان نے کہا : اگر ایسی کوئی بات تھی تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ، عباس (رض) نے کہا : میں نہیں سمجھتا کہ تم اس راستے سے گزرتے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو کوچ کرنے کا حکم دیا اتنے میں قبائل اپنے قائدین کے ساتھ اور مختلف لشکر اپنے جھنڈوں کے ساتھ امڈ پڑے ۔ سب سے پہلے حضرت خالد بن ولید (رض) ایک ہزار کے لگ بھگ کا دستہ لے کر گزرے حضرت خالد (رض) بنی سلیم پر کمان کر رہے تھے ان کا ایک جھنڈا حضرت عباس بن مرداس (رض) نے اٹھا رکھا تھا اور دوسرا حضرت خفاف بن ندیہ (رض) نے اٹھا رکھا تھا تیسرا جھنڈا حجاج بن علاط (رض) نے اٹھایا ہوا تھا ابو سفیان نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس (رض) نے جواب دیا ، یہ خالد بن ولید ہے ابو سفیان نے کہا : یہ لڑکا فرمایا جی ہاں ۔ جب حضرت خالد (رض) عباس (رض) اور ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ان کے دستے نے تین مرتبہ نعرہ تکبیر بلند کیا پھر آگے چل پڑے پھر ان کے بعد حضرت زبیر بن عوام (رض) پانچ سو کا دستہ لے کر گزرے ان میں مہاجرین اور مضافات کے لوگ شامل تھے ان کے پاس سیاہ رنگ کا جھنڈا تھا جب ابو سفیان کے پاس سے دستہ گزرنے لگا تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا ابو سفیان نے کہا : یہ کون ہے عباس (رض) نے کہا : یہ زبیر بن عوام (رض) ابو سفیان نے کہا : یہ تمہارا بھانجا ہے فرمایا : جی ہاں پھر قبیلہ غفارکا دستہ گزرا اور یہ آٹھ سو افراد تھے ان کا جھنڈا حضرت ابو ذر غفاری (رض) نے اٹھا رکھا تھا جب یہ دستہ ابو سفیان کے پاس سے گزرا اس نے بھی تین بار نعرہ تکبیر لگایا اور پھر آگے نکل گیا ابوسفیان نے کہا : یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس (رض) نے جواب دیا : یہ بنو غفار ہیں ابو سفیان نے کہا : مجھے ان سے کیا غرض : پھر قبیلہ اسلم گزرا یہ دستہ چار نفوس پر مشتمل تھا ان کے پاس دو جھنڈے تھے ایک جھنڈا بریدہ بن خصیب (رض) نے اٹھا رکھا تھا اور دوسرا ناجیہ بن عجم (رض) نے جب یہ دستہ ابو سفیان کے قریب پہنچا اس نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا ابو سفیان نے کہا : یہ کون لوگ ہیں ؟ عباس (رض) نے کہا : یہ قبیلہ اسلم ہے ابو سفیان نے کہا : اے ابو فضل مجھے قبیلہ اسلم سے کیا غرض میری ان کے ساتھ کوئی کھنڈت نہیں عباس (رض) نے کہا یہ مسلمان لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ پھر بنوکعب کا پانچ سو افراد کا دستہ گزرا ان کا جھنڈا بشر بن شیبان نے اٹھا رکھا تھا پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : یہ بنوکعب بن عمرو ہیں کہا : جی ہاں یہ محمد کے حلیف لوگ ہیں جب یہ دستہ ابو سفیان کے قریب پہنچا اس نے بھی تین بار نعرہ تکبیر لگایا ۔ پھر مزنیہ کا دستہ گزرا یہ دستہ ایک ہزار سپاہیوں پہ مشتمل تھا ان کے پاس تین جھنڈے تھے اور سو کے لگ بھگ گھوڑے تھے ایک جھنڈا نعمان بن مقرن نے دوسرا بلال بن حارثنی اور تیسرا عبداللہ بن عمر (رض) نے اٹھا رکھا تھا جب یہ لوگ ابو سفیان کے محاذی ہوئے انھوں نے بھی نعرہ تکبیر لگایا پوچھا یہ کون لوگ ہیں فرمایا : یہ قبیلہ مزینہ کے لوگ ہیں ابو سفیان نے کہا : اے ابو فضل مجھے مزینہ سے کیا غرض : یہ اپنا پورا جمگھٹا لے آچکے ہیں پھر جہنیہ کا دستہ گزرا جو آٹھ سو نفوس پر مشتمل تھا ان میں چار جھنڈے تھے ایک جھنڈا ابو زرعہ معبد بن خالد کے پاس تھ دوسر سوید بن صخر کے پاس تیسر رافع بن مکیث کے پاس چوتھا عبدا اللہ بن بدر کی پاس جب یہ لوگ ابو سفیان کے محاذی ہوئے انھوں نے بھی تین بار بار آواز بلند نعرہ تکبیر لگایا ۔ پھر کنایہ بنولیث ضمرہ اور سعد بن بکر دو سو کے دستہ میں گزرے ان کا جھنڈا حضرت ابو واقدلیثی (رض) نے اٹھا رکھا تھا جب یہ دستہ ابو سفیان نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جی ہاں یہ نحوست والے لوگ ہیں انہی کی وجہ سے تجھ سے ہمارے اوپر چڑھائی کی ہے۔ پھر ابو سفیان نے کہا : بخدا ! اس کے متعلق مجھ سے نہ مشورہ لیا گیا اور نہ ہی میں اسے ناپسند کرتا ہوں لیکن یہ ایک معاملہ ہے جو تقدیر میں لکھاجا چکا ہے حضرت عباس (رض) نے کہا اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے پر چڑھایا ہے اور تم سبھی اسلام میں داخل ہوئے ہو۔ واقدی عبداللہ بن عامر ابو عمرو بن حماس سے مروی ہے کہ پھر بنولیث گزرے ان کی تعداد دو سو پچاس (250) تھی ان کی جھنڈا صعب بن جثامہ (رض) نے اٹھا رکھا تھا جب یہ دستہ ابو سفیان کے پاس سے گزرا اس نے بھی تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا : ابو سفیان نے کہا یہ کون لوگ ہیں عباس (رض) نے کہا یہ بنولیث ہیں پھر قبیلہ اتجع گزرا یہ آخری دستہ تھا س میں تین سو نفوس شامل تھے ان کا جھنڈا معقل بن سنان (رض) نے اٹھا رکھا تھا دوسرا جھنڈا نعیم بن مسعود (رض) کے پاس تھا ابوسفیان نے کہا یہ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عرب بھر میں سب سے زیادہ مخالف تھے عباس (رض) نے کہا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے دلوں میں اسلام ڈال دیا ہے یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل ہے ابو سفیان نے کہا : ابھی تک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں آئے ؟ عباس (رض) نے کہا : اگر تم اس دستہ کو دیکھ لو جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو تم اسلحہ گھوڑے اور بےمثال مردوں کو دیکھو گے جس کی طاقت کی مثال کہیں نہیں ملتی ابو سفیان نے کہا : میرا خیال ہے کہ یہ طاقت کسی کے پاس نہیں ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دستہ نمودار ہوا تو یوں لگا جیسے طوفان بلاخیز امڈ آیا ہو گھوڑے غبار اڑتے ہوئے چلے آرہے تھے چنانچہ جو شخص بھی گزرا ابوسفیان کہتا : محمد نہیں گزرے ؟ عباس (رض) کہتے ہیں حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تشریف لائے آپ کے ایک طرف ابوبکر (رض) اور دوسری طرف اسید بن حضیر (رض) تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سے باتیں کر رہے تھے حضرت عباس (رض) نے کہا : یہ ہیں رسول اللہ ان کے دستہ میں مہاجرین و انصار ہیں یہ دستہ چاق وچوبند دستہ ہے اور لوہے کی دیوار کی مانند ہے حضرت عمر (رض) بھی اسی دستے میں تھے انھوں نے زرہ پہن رکھی تھی اور گرجدار آواز سے باتیں کر رہے تھے ابو سفیان نے کہا : اے ابو فضل ! یہ باتیں کون کررہا ہے جواب دیا یہ عمر بن خطاب (رض) ہیں ابو سفیان نے کہا : بنو عدی کی شان و شوکت بڑھ گئی ہے حالانکہ ان کا قبیلہ قلیل اور بےمقام بےمرتبہ تھا عباس (رض) نے کہا : اے ابوسفیان اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بلندی عطا کرتا ہے عمر بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اسلام نے عزت و شوکت عطا کی ہے۔ اس دستے میں دو ہزار زرہ پوش تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ (رض) کو دیا ہوا تھا اور سعد (رض) دستے کے آگے آگے جا رہے تھے جب حضرت سعد (رض) ابوسفیان کے پاس سے گزرے آواز دی : اے ابو سفیان ! آج کا دن لڑائی کا دن ہے آج کعبہ میں قتل و قتال حلال ہوگیا آج کے دن اللہ تعالیٰ قریش کو ذلیل ورسوا کرے گا چنانچہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوسفیان کے پاس سے گزرے ابوسفیان نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے اپنی قوم کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ؟ چونکہ سعد اور ان کے ساتھیوں کا یہی خیال ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی وہی حضرت سعد والی بات کہی کہ اے ابوسفیان آج لڑائی کا دن ہے آج کے دن کعبہ میں قتل و قتال حلال ہے آج اللہ تعالیٰ قریش کو ذلیل ورسوا کرے گا ابوسفیان نے کہا میں آپ کو اپنی قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سعد پر اعتماد نہیں وہ قریش پر حملہ کر دے گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوسفیان آج کا دن رحمت و مہربانی کا دن ہے آج کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ قریش کو عزت دے گا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیغام بھیج کر حضرت سعد (رض) کو معزول کردیا اور جھنڈا ان سے لے کر حضرت قیس (رض) کو دے دیا جب سعد (رض) کو جھنڈا سپرد کرنے کا حکم ملا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاصد سے انکار کردیا اور کہا میں جھنڈا تب دوں گا جب میں کوئی نشانی دیکھوں گا تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا عمامہ بھیجا حضرت سعد (رض) نے عمامہ دیکھ کر جھنڈا اپنے بیٹے قیس (رض) کو دے دیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30174

30174- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح لما جاءه العباس بن عبد المطلب بأبي سفيان فأسلم بمر الظهران فقال العباس: يا رسول الله إن أبا سفيان رجل يحب الفخر، فلو جعلت له شيئا؟ قال: نعم من دخل دار أبي سفيان فهو آمن، ومن أغلق بابه فهو آمن. "ش".
30174 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ جب فتح مکہ والے سال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرا الظہران کے مقام پر پہنچے تو آپ کے پاس حضرت عباس (رض) ابوسفیان کو لے کر آئے ابوسفیان نے یہیں اسلام قبول کیا پھر عباس (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوسفیان قوم کا سردار ہے اور فخر کو پسند کرتا ہے اگر آپ اسے کوئی ایسی چیز دے دیں جو اس کے لیے باعث فخر ہو ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا وہ امن میں ہوگا اور جو شخص اپنا دروازہ بند کر دے گا وہ بھی امن ہیں ہوگا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30175

30175- عن ابن عباس قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح لعشر مضت من رمضان. "ش".
30175 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے لیے تشریف لائے جبکہ رمضان کے دن دن گزر چکے ہیں۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کعبہ میں داخل ہونا :

30176

30176- عن صفية بنت شيبة قالت: والله لكأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغداة حين دخل الكعبة، ثم خرج منها، ثم وقف على باب الكعبة وأن في يده لحمامة من عيدان وجدها في البيت فخرج بها في يده حتى إذا قام على باب الكعبة كسرها ثم رمى بها. "كر".
30176 ۔۔۔ صفیہ بنت شیبہ کی روایت ہے کہ بخدا ! جب صبح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں داخل ہوئے تھے مجھے یوں لگتا ہے گویا میں آپ کو دیکھ رہی ہوں چنانچہ آپ کعبہ سے باہر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں کبوتر کی شکل کی ایک مورت تھی جو لکڑی کی بنی ہوئی تھی آپ نے باہر آکر مورت کو توڑ دیا اور پھر دور پھینک دی۔ (رواہ ابن عساکر)

30177

30177- عن صفية بنت شيبة قالت: إني لأنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة فقام إليه علي بن أبي طالب ومفاتيح الكعبة في يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا نبي الله صلى الله عليه وسلم اجمع لنا الحجابة مع السقاية صلى الله عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أين عثمان بن طلحة؟ فدعا له فقال له: ها مفتاحك. "كر".
30177 ۔۔۔ صفیہ بنت شیبہ (رض) روایت کی ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے فتح مکہ کے دن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ رہی ہوں اور آپ کے ہاتھوں میں کعبہ کی کنجیاں میں حضرت علی بن ابی طالب (رض) اٹھ کر آپ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سقایہ اور حجابت (پانی کا کام اور تالا چابی کا شرف ہمیں عطا کریں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہاں ہے عثمان بن طلحہ ؟ چنانچہ آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو اپنے پاس بلوا کر کنجیاں ان کے حوالے کردیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30178

30178- عن ابن عمر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وهو على درج الكعبة وهو يقول: الحمد لله الذي أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده ألا إن كل مأثرة كانت في الجاهلية فإنها تحت قدمي اليوم إلا ما كانت من سدانة البيت وسقاية الحاج، ألا وإن ما بين العمد والخطأ القتل بالسوط والحجر فيهما مائة بعير منها أربعون في بطونها أولادها. "عب".
30178 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جبکہ آپ کعبہ کے دروازے میں کھڑے تھے آپ نے فرمایا : تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور لشکروں کو اکیلے اسی نے شکست فاش دی اپنے بندے کی مدد کی ، خبردار ! ہر وہ چیز جس کا جاہلیت میں قابل فخر ہونا اعتبار کیا جاتا تھا وہ آج میرے قدموں تلے ہے البتہ وہ عمل اور وہ چیز جس کا تعلق بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے سے تھا وہ اب بھی باقی ہے خبردار قتل عمد اور قتل خطاء کے درمیان ڈندے اور پتھر سے بھی قتل ہوتا ہے ایسی صورت میں قاتل مقتول کے ورثاء کو سو اونٹ بطور دیت دے گا ان میں سے چالیس اونٹ ایسے ہوں جن کے پیٹ میں بچے ہوں ۔ (رواہ عبدالرزاق)

30179

30179- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم لما جاء مكة دخلها من أعلاها وخرج من أسفلها. "ز".
30179 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوئے تو اوپر سے داخل ہوئے اور جاتے وقت نیچے سے گئے ۔ (رواہ البزار)

30180

30180- عن ابن عمر قال: لما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة جعل النساء يلطمن وجوه الخيل بالخمر فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر فقال: كيف قال حسان؟ فأنشده: عدمنا خيلنا إن لم تردها ... تثير النقع موعدها كداء ينازعن الأعنة مصعدات ... ويلطمهن بالخمر النساء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ادخلوها من حيث قال حسان، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم من كداء. ابن جرير.
30180 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو عورتیں چادریں گھوڑوں کے منہوں پر مارنے لگیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف رخ انور کرکے مسکرانے لگے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : حسان نے کیا خوب کہا ہے پھر یہ اشعار پڑھے : عدمنا خیلنا ان لم تردھا تشیرالنقع موعدھا کداء یناز عن الأعنۃ مصعدات ویلطمھن بالخمر النساء : ہم گھوڑوں سے آگے نکل جائیں گے اگر انھیں روکا نہ گیا گھوڑے گردو غبار اڑاتے آرہے ہیں اور ان کی گزرگاہ مقام کداء ہے تیر گھوڑوں کے لیے رکاوٹ ہیں اور وہ اوپر چڑھ رہے ہیں جبکہ عورتیں انھیں چادروں سے مار رہیں ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ میں اسی راستے سے داخل ہو جس کا حسان نے کہا ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام کداء سے داخل ہوئے ۔ (رواہ ابن جریر)

30181

30181- عن أم عثمان بنت سفيان وهي أم بني شيبة الأكابر وقد بايعت النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم دعا شيبة ففتح فلما دخل البيت ركع ورجع إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أجب فأتاه فقال: إني رأيت في البيت قرنا فغيبته، فإنه لا ينبغي أن يكون في البيت شيء يلهي المصلي. "خ" في تاريخه، "كر".
30181 ۔۔۔ ام عثمان بنت سفیان جو کہ شیبہ کے بڑے بڑے بیٹوں کی ماں ہے نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست اقدس پر بیعت کرنی تھی ان کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیبۃ کو بلایا شیبہ نے کعبہ کا دروازہ کھولا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر داخل ہوئے رکوع کرکے واپس لوٹ آئے اتنے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ساتھی آیا آپ نے فرمایا : میں نے بیت اللہ میں ایک سینگ دیکھا ہے اور میں نے اسے غائب کردیا ہے چونکہ بیت اللہ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جو نماز کو غافل کرتی ہو ۔ (رواہ البخاری فی تاریخہ وابن عساکر)

30182

30182- عن سعيد بن المسيب قال: لما كان ليلة دخل الناس مكة ليلة الفتح لم يزالوا في تكبير وتهليل وطواف بالبيت حتى أصبحوا فقال أبو سفيان لهند: أترين هذا من الله؟ ثم أصبح فغدا أبو سفيان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: قلت لهند أترين هذا من الله؟ نعم هو من الله؟ فقال أبو سفيان: أشهد أنك عبد الله ورسوله والذي يحلف به أبو سفيان ما سمع قولي هذا أحد من الناس إلا الله وهند. "كر"؛ وسنده صحيح.
30182 ۔۔۔ سعید بن مسیب (رح) کی روایت ہے کہ جب فتح مکہ کی رات ہوئی تو لوگ مکہ میں داخل ہوئے لوگ برابر تکبیر تہلیل اور طواف میں لگے رہے صبح ہوئی تو ابوسفیان نے اپنی بیوی ھند سے کہا : کیا تم یہ کچھ اللہ کی طرف سے دیکھ رہی ہو ؟ پھر صبح ہوتے ہی ابوسفیان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے ھند سے کہا تھا کیا تم سمجھتی ہو کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ؟ جی ہاں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ابوسفیان نے عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں قسم اس ذات کی جس کی ابوسفیان قسم کھاتا ہے میری یہ بات اللہ اور ھند کے سوا کسی نے نہیں سنی ۔ (رواہ ابن عساکر وسندہ صحیح) ۔ فائدہ : ۔۔۔ حدیث سے یہ استدلال قطعا ٹھیک نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی وامی) عالم الغیب تھے جس طرح کہ بعض جھال نے کیا ہے چونکہ یہ معجزہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے نیز آپ کو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آگاہ کردیا تھا ۔

30183

30183- عن سعيد بن المسيب قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم عام الفتح من المدينة بثمانية آلاف أو عشرة آلاف ومن أهل مكة بألفين. "ش".
30183 ۔۔۔ سعید بن مسیب (رح) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے موقع پر مدینہ سے آٹھ ہزار یا دس ہزار کے لشکر جرار کے ہمراہ نکلے تھے ؟ ان میں دو ہزار اہل مکہ بھی شامل تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30184

30184- عن عروة أن بلالا أذن يوم الفتح فوق الكعبة. "ش".
30184 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت بلال (رض) نے کعبہ کے اوپر کھڑے ہو کر اذان دی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30185

30185- عن عروة " أن النبي صلى الله عليه وسلم اعتمر عام الفتح من الجعرانة، فلما فرغ من عمرته استخلف أبا بكر على مكة، وأمره أن يعلم الناس المناسك، وأن يؤذن في الناس، من حج العام فهو آمن، ولا يحج بعد العام مشرك ولا يطوف بالبيت عريان. "ش".
30185 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ سے عمرہ کیا جب آپ عمرہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مکہ کا نائب مقرر کیا اور انھیں حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے مناسک کی تعلیم دو اور لوگوں میں اعلان کرو کہ اس سال جو شخص حج کرے گا وہ امن میں ہوگا اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی شخص عریاں ہو کر طواف کرسکتا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30186

30186- عن عروة لما كان يوم فتح مكة قسم النبي صلى الله عليه وسلم بين الناس قسما فقال العباس بن مرداس: أتجعل نهبي ونهب العبيـ ... ـد بين عيينة والأقرع وما كان حصن ولا حابس ... يفوقان مرداس في المجمع وقد كنت في الحرب ذا تدرأ ... فلم أعط شيئا ولم أمنع وما كنت دون امرئ منهما ... ومن تضع اليوم لا يرفع فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اذهب يا بلال فاقطع لسانه، فذهب بلال فجعل يقول: يا معشر المسلمين أيقطع لساني بعد الإسلام يا رسول الله لا أعود أبدا، فلما رأى بلال جزعه قال: إنه لم يأمرني أن أقطع لسانك أمرني أن أكسوك وأعطيك شيئا. "كر"
30186 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں غنائم تقسیم کیے حضرت عباس بن مرداس (رض) نے یہ اشعار کہے : اتجعل نھبی ونھب عبید بیت عیینۃ والاقرع وما کان حصن ولا حابس یفوقان مرداس فی المجمع وقد کنت فی الحرب ذا بدری فلم اعط شیاء ولم امنع وما کنت دون امریء منھما ومن تضع الیوم لا یرفع : ترجمہ : ۔۔۔ کیا آپ میرے تاخت و تاراج کو ان غلاموں کے برابر قرار دیں گے جو عیینہ اور اقرع کے درمیان لوٹ مار مچاتے تھے ۔ حالانکہ معرکہ میں مرداس پر نہ حصن کو فوقیت تھی اور نہ حابس کو جبکہ میں جنگ میں قوت ومدافعت والا ہوں پر مجھے کچھ دیا گیا اور نہ روکا گیا اور میں ان دونوں آدمیوں سے کم نہیں تھا لیکن آج جس شخص کو مرتبہ اور مقام گھٹا دیا گیا اس کا مقام پھر کبھی بلند نہیں ہوسکتا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال ! جاؤ اور اس کی زبان کاٹ دو حضرت بلال (رض) ان کی طرف اٹھ کر چل دیئے اور عباس بن مرداس (رض) دہائیاں دینے لگے کہ اے مسلمانو ! اسلام قبول کرنے کے بعد میری زبان کاٹی جائے گی یا رسول اللہ ! آئندہ میں ایسا کبھی نہیں کروں گا جب حضرت بلال (رض) نے عباس بن مرداس (رض) کو دہائیاں دیتے دیکھا کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فی الواقع تمہاری زبان ہی کاٹنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہے کہ میں تمہیں عالیشان جوڑا دے کر تمہاری زبان بند کر دوں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30187

30187- "من مسند علي" عن مصعب بن سعد عن أبيه قال: لما كان يوم فتح مكة أمن رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس إلا أربعة نفر وامرأتين وقال: اقتلوهم وإن وجدتموهم معلقين بأستار الكعبة: عكرمة بن أبي جهل وعبد الله بن خطل، ومقيس بن صبابة وعبد الله بن سعد بن أبي سرح، فأما عبد الله بن خطل: فأدرك وهو متعلق بأستار الكعبة فاستبق إليه سعد بن كريب وعمار فسبق سعيدا عمار وكان أشب الرجلين فقتله، وأما مقيس بن صبابة فأدركه الناس في السوق فقتلوه، وأما عكرمة فركب البحر فأصابتهم عاصف فقال أصحاب السفينة لأهل السفينة: أخلصوا فإن آلهتكم لا تغني عنكم شيئا ههنا، فقال عكرمة: والله لئن لم ينجني في البحر إلا الإخلاص ما ينجيني في البر غيره، اللهم إن لك علي عهدا إن أنت عافيتني مما أنا فيه أني آتي محمدا حتى أضع يدي في يده، فلأجدنه عفوا كريما، فجاء فأسلم، وأما عبد الله بن أبي سرح فإنه اختبأ عند عثمان، فلما دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس إلى البيعة جاء به حتى أوقفه على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله بايع عبد الله فرفع رأسه فنظر إليه ثلاثا كل ذلك يأبى فبايعه بعد الثلاث ثم أقبل على أصحابه فقال: أما كان فيكم رجل رشيد يقوم إلى هذا حيث رآني كففت يدي عن بيعته فيقتله؟ قالوا وما يدرينا يا رسول الله ما في نفسك ألا أومأت إلينا بعينك؟ قال: إنه لا ينبغي لنبي أن تكون له خائنة أعين. "ش، ع".
30187 ۔۔۔ ” مسند علی (رض) “ مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے سب لوگوں کے لیے امن عام کا اعلان کیا ان چھے کے لیے فرمایا کہ انھیں قتل کرو خواہ کعبہ کے پردوں سے کیوں نہ لپٹے ہوں وہ یہ ہیں عکرمہ بن ابی جہل عبداللہ بن خطل ، مقیس بن صبابہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رہی بات عبداللہ بن خطل کی وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا تھا چنانچہ اس کی طرف حضرت سعید بن کریب اور حضرت عمار (رض) لپکے تاہم حضرت عمار (رض) پھرتھیلے تھے کریب (رض) پر سبقت کر گئے اور عبداللہ بن خطل کو واصل جہنم کردیا ۔ رہی بات مقیس بن صبابہ کی تو مسلمانوں نے اسے بازار میں پایا اور وہیں قتل کردیا رہی بات عکرمہ کی سو اس نے سمندر کا رخ کیا جب کشتی سمندر میں تیرنے لگی زور کی آندھی چلی اور کشتی ڈانواں ڈول ہونے لگی کشتی کے صبابہ سواروں سے کہنے لگے : خالص اللہ کو پکارو چونکہ یہاں تمہارے معبودان کچھ کام نہیں آسکتے عکرمہ (رض) نے کہا : بخدا ! جب سمندری طوفان سے صرف اخلاص ربوبیت نجات دیتا ہے تو بر میں بھی رب تعالیٰ کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں یا اللہ ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں سلامت رہا تو میں نکلتے ہی واپس جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دوں گا مجھے ان کی طرف سے معانی کی امید ہے چنانچہ عکرمہ (رض) دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور دولت اسلام سے سرفراز ہوئے ۔ رہی بات عبداللہ بن ابی سرح کی چنانچہ وہ عثمان (رض) کے ہاں جا کر پوشیدہ ہوگئے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان (رض) انھیں ساتھ لے آئے اور لا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب کھڑے کردیئے : عبداللہ نے تین بار سر اٹھا کر دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار بیعت کرنے سے انکار کردیا البتہ پھر آپ نے بیعت کرلی پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : کیا تم میں کوئی سمجھدار شخص نہیں جب میں نے بیعت سے ہاتھ روک لیا تم نے اس کی گردن کیوں نہیں اڑا دی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس کا کیا علم آپ ہمیں اشارہ کردیتے آپ نے فرمایا : کسی نبی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اشارے کرے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ وابو یعلی)

30188

30188- "مسند الأسود بن ربيعة" عن الحارث بن عبيد الأيادي حدثني عباية أو ابن عباية رجل من بني ثعلبة عن الأسود بن أسود اليشكري أن النبي صلى الله عليه وسلم لما فتح مكة قام خطيبا فقال: ألا إن دماء الجاهلية وغيرها تحت قدمي إلا السقاية السدانة. ابن منده وأبو نعيم؛ قال في الإصابة: إسناده مجهول.
30188 ۔۔۔ ” مسند اسود بن ربیعہ “ حارث بن عبیدا یادی کی روایت ہے کہ اسود بن اسود کا بیان ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو آپ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : خبردار جاہلیت کے خون اور جاہلیت کے مفاخر میرے پاؤں تلے ہیں البتہ وہ امور جو بیت اللہ کی خدمت سے متعلق ہوں جیسے سقایت کا شرف وہ قابل اعتبار ہوگا ۔ (رواہ ابن مندہ وابو نعیم وقال فی الاصابہ اسنادہ مجھول)

30189

30189- عن أنس قال: لما كنا بسرف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أبا سفيان قريب منكم فافترفوا له وأخذوه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أسلم يا أبا سفيان تسلم قال: يا رسول الله قومي قومي، قال: قومك من أغلق بابه فهو آمن، قال: اجعل لي شيئا قال: من دخل دارك فهو آمن. "كر".
30189 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوسفیان تمہارے قریب ہے لہٰذا اسے پکڑنے کے لیے متفرق ہوجاؤ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ابوسفیان کو پکڑ لائے آپ نے اس سے کہا : اے ابوسفیان : اسلام قبول کرلو سلامت رہو گے ابوسفیان نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری قوم کا کیا بنے گا ؟ تمہاری قوم کا جو شخص اپنا دروازہ بند رکھے گا وہ امن میں ہوا عرض کیا : میرے لیے کوئی فخر کی چیز کردیں فرمایا : جو شخص تمہارے گھر میں داخل ہوگا وہ بھی امن میں ہوگا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30190

30190- عن أنس قال: آمن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة الناس إلا أربعة: عبد العزى بن خطل، ومقيس بن صبابة الكناني، وعبد الله بن سعد بن أبي سرح وأم سارة، فأما عبد العزى فإنه قتل وهو آخذ بأستار الكعبة، ونذر رجل من الأنصار أن يقتل عبد الله بن سعد إذا رآه وكان أخا عثمان بن عفان من الرضاعة، فأتى به رسول الله صلى الله عليه وسلم ليشفع له فلما بصر به الأنصاري اشتمل السيف، ثم خرج في طلبه فوجده عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فهاب قتله لأنه في حلقة النبي صلى الله عليه وسلم وبسط النبي صلى الله عليه وسلم يده فبايعه، ثم قال للأنصاري: قد انتظرتك أن توفي نذرك، قال: يا رسول الله هبتك أفلا أومضت إلي: قال: إنه ليس لنبي أن يومض، وأما مقيس فإنه كان له أخ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقتل خطأ فبعث معه رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من بني فهر ليأخذ عقله من الأنصار، فلما جمع له العقل، ورجع نام الفهري فوثب مقيس فأخذ حجرا فجلد به رأسه فقتله ثم أقبل وهو يقول: شفى النفس من قد بات بالقاع مسندا ... تضرج ثوبيه دماء الأخادع وكانت هموم النفس من قبل قتله ... تلم فتنسيني وطيء المضاجع قتلت به فهرا وغرمت عقله ... سراة بني النجار أرباب فارع حللت به نذري وأدركت ثورتي ... وكنت إلى الأوثان أول راجع وأما أم سارة فإنها كانت مولاة لقريش فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكت إليه الحاجة فأعطاها شيئا، ثم أتاها رجل فبعث معها كتابا إلى أهل مكة يتقرب بذلك إليهم ليحفظ عياله، وكان له بها عيال فأتى جبرئيل النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بذلك فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم في أثرها عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب، فلحقاها في الطريق ففتشاها فلم يقدرا على شيء معها، فأقبلا راجعين فقال أحدهما لصاحبه: والله ما كذبنا ولا كذبنا ارجع بنا إليها، فسلا سيفهما، ثم قالا، لتدفعن علينا الكتاب أو لنذيقنك الموت، فأنكرت ثم قالت: أدفعه إليكما على أن لا ترداني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبلا ذلك منها فحلت عقاص رأسها فأخرجت الكتاب من قرن من قرونها فدفعته، فرجعا بالكتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فدفعاه إليه فدعا الرجل فقال: ما هذا الكتاب؟ قال: أخبرك يا رسول الله ليس من رجل ممن معك إلا وله قوم يحفظونه في عياله، فكتبت هذا الكتاب ليكون لي في عيالي فأنزل الله {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} إلى آخر الآيات. "كر".
30190 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے چار آدمیوں کے سب لوگوں کو امن دیا ، وہ یہ ہیں عبدالعزی بن خطل مقیس بن صبابہ کنائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور ام سارہ چنانچہ عبدالعزی کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا تھا اسے پردوں سے الگ کرکے قتل کردیا گیا جبکہ عبداللہ بن سعد کے متعلق ایک انصاری نے نذر مان رکھی تھی کہ وہ اسے جہاں بھی دیکھے گا قتل کر دے گا عبداللہ بن سعد حضرت عثمان (رض) کے رضاعی بھائی تھی حضرت عثمان (رض) انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے اور ان کی سفارش کی ، ادھر انصاری نے تلوار بےنیام کی اور عبد بن ابی سرح کی تلاش میں نکل پڑا جب واپس لوٹا تو انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دیکھا تاہم انھیں قتل کرنے سے چوک گیا چونکہ عبداللہ بن ابی سرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلقے میں داخل ہوچکے تھے پھر آپ نے ہاتھ بڑھایا اور ان سے بیعت لے لی پھر انصاری سے فرمایا میں نے تیرا انتظار کیا تاکہ تو اپنی منت پوری کرے انصاری نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ سے ڈر گیا تھا آپ نے آنکھ سے میری طرف اشارہ کیوں نہیں کیا : فرمایا : آنکھوں سے اشارہ کرنا کسی نبی کو زیب نہیں ۔ رہی بات مقیس کی چنانچہ اس کا ایک بھائی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتا تھا وہ (کسی جنگ میں) خطا مقتول ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی فہر کا ایک شخص مقیس کے ساتھ بھیجا تاکہ انصار سے مقتول کی دیت وصول کریں جب دیت جمع کردی گئی اور دونوں واپس لوٹ آئے ایک جگہ پہنچ کر دونوں نے آرام کیا فہری سو گیا موقع ملتے ہی مقیس نے بھاری پتھر اٹھا کر فہری کے سر پردے مارا جس سے اس کا سر کچل گیا اور وہ اسی جگہ مرگیا پھر مقیس واپس لوٹ آیا اور یہ اشعار کیے : شفی النفس من قد بات بالقاع مسندا تضرج توبیہ دماع الاخادع : وکانت ھموم النفس من قبل قتلہ تلم فتنسنی وطی المضاجع : قتلت بہ فھرو غرمت عقلہ سراۃ بنی النجار ارباب فارغ : حللت بہ نذری وادرکت ثورتی وکنت التیالاوثان اول راجع : ترجمہ : ۔۔۔ ایک شخص جو کھلی جگہ ٹیک لگا کر سو گیا تھا اسے قتل کرکے میرے نفس کو شفا ملی ہے دھوکا دینے والوں کے خون سے اس کے کپڑے آلودہ تھے جبکہ اس کے قتل سے قبل میرے نفس نے نرم بستروں کو بھلا دیا تھا میں نے فہری کو قتل کیا ہے اور اس کی دیت بنی نجار کے سرداروں کو دینے کے لیے تیار ہوں اسے قتل کرکے میں نے اپنی نذر پوری کی ہے اور اپنا بدلہ لیا ہے اور اب میں سب سے پہلا وہ شخص ہو جو بتوں کی پوجا کی طرف لوٹ رہا ہے۔ رہی بات ام سارہ کی وہ قریش کی آزاد کردہ باندی تھی وہ مدینہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور آپ سے اپنی کوئی حاجت بیان کی آپ نے اس کی حاجت پوری کی پھر اس عورت کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اہل مکہ کو خط لکھ بھیجا تاکہ ان پر احسان کرے اور اہل مکہ اس کے اہل و عیال کی حفاظت کریں (خط میں فتح مکہ کی پیشگی خبر دی گئی تھی یہ ایک راز تھا جسے وہ افشا کرنا چاہتا تھا) چنانچہ جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع کردی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت علی (رض) کو اس عورت کے پیچھے دوڑایا ان دونوں حضرات نے ایک جگہ عورت کو روک لیا اور اس کی تلاشی لی اور پوچھ گچھ کی لیکن عورت نے صاف انکار کردیا دونوں حضرات واپس لوٹنے لگے پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلی ہوئی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی آپ ہم سے جھوٹ بولتے ہیں لہٰذا دوبارہ عورت پر دباؤ ڈالو اور اس سے خط لو چنانچہ دونوں حضرات دوبارہ عورت کے پاس لوٹ آئے اور اپنی تلواریں ننگی کرکے اس کے پاس آئے اور کہا : یا تو خط دے ورنہ ہم تجھے قتل کردیں گے پہلے عورت نے انکار کیا لیکن جب بس نہ چلا اس نے یہ شرط لگائی کہ میں اس شرط پر خط دوں گی کہ آپ یہ خط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واپس نہیں کریں گے انھوں نے عورت کی یہ شرط منظور کرلی عورت نے اپنے بالوں کے گچھے سے خط نکال کر انھیں دیا پھر یہ دونوں حضرات خط لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لوٹ آئے اور خط آپ کو دیا آپ نے مرسل کو بلایا اور پوچھا : یہ کیسا خط ہے اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے صرف اس لیے یہ خط لکھا ہے کہ مکہ میں میرے اہل و عیال ہیں میں نے چاہا اہل مکہ پر احسان کر دوں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء ۔۔۔ الایہ : اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ ۔ (رواہ ابن عساکر)

30191

30191- عن أنس قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح وعلى رأسه مغفر، فلما أن دخل نزعه فقيل له: يا رسول الله هذا ابن خطل متعلق بأستار الكعبة فقال: أقتلوه. "ش".
30191 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے آپ کے سر پر خود (جنگی ٹوپی) تھا جب آپ عین مکہ میں داخل ہوئے خود اتار دیا آپ کو اطلاع کی گئی کہ عبداللہ بن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے آپ نے فرمایا : اسے قتل کر دو ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ) کفار کو پناہ دینا :

30192

30192- عن أنس أن زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم أجارت أبا العاص بن عبد شمس فأجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم جوارها، وأن أم هانيء ابنة أبي طالب أجارت أخاها عقيل بن أبي طالب يوم الفتح فأجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم جوارها. "كر" وقال: هذا الحديث غير محفوظ إنما أجارت رجلين من بني مخزوم.
30192 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو عاص بن عبدشمس کو پناہ دے رکھی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پناہ کی اجازت مرحمت فرمائی ام ھانی بنت ابی طالب (رض) نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب کو پناہ دے رکھی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پناہ کو بھی برقرار رکھا (رواہ ابن عساکر کہتے ہیں کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے چونکہ ام ھانی نے بنی مخزوم کے دو آدمیوں کو پناہ دی تھی) ۔

30193

30193- عن علي قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا والزبير والمقداد فقال: انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ، فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة، فإذا نحن بالظعينة قلنا: أخرجي الكتاب، قالت ما معي كتاب، قلنا لتخرجن الكتاب أو لنلقين الثياب فأخرجت الكتاب من عقاصها فأخذنا الكتاب فأتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه من حاطب بن أبي بلتعة إلى أناس من المشركين بمكة يخبرهم ببعض أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما هذا يا حاطب؟ قال: لا تعجل علي إني كنت امرأ ملصقا في قريش ولم أكن من أنفسهم، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون أهليهم بمكة فأحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم أن أتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه قد صدقكم، فقال عمر: يا رسول الله دعني أضرب عنق هذا المنافق، فقال: إنه شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم ونزلت فيه {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ} الآية. الحميدي، "حم" والعدني وعبد بن حميد، "خ، م، د، ت، ن" وأبو عوانة، "ع" وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم، "حب" وابن مردويه وأبو نعيم، "ق" معا في الدلائل.
30193 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے زبیر (رض) اور مقداد (رض) کو بلایا اور فرمایا : جاؤ اور مقام ” روضہ خاخ “ میں تمہیں پالان میں بیٹھی ایک عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہوگا وہ خط اس سے لیتے آؤ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے روضہ خاخ تک پہنچے ہمیں یہیں پالان میں بیٹھی ایک عورت ملی میں نے کہا : خط نکالو بولی : میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا : خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے چنانچہ دھمکی سنتے ہی عورت نے اپنے بالوں سے خط نکال دیا ہم نے خط لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، خط کھولا گیا اس میں یہ مضمون مندرجہ تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی جانب سے اہل مکہ کے مشرکین کی طرف خط میں بعض اہم امور کو افشار کیا گیا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) کو بلاکر فرمایا : اے حاطب یہ کیا ہے ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلدی نہ کیجئے میں قریش میں اٹکا ہوا ہوں فی الواقع قریش سے میرا کوئی تعلق نہیں آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے اہل مکہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلقات ہیں جو ان کے اہل و عیال کی حفاظت کو سامان ہیں تاہم مکہ میں میرا کوئی تعلق دار نہیں جب میرا اہل مکہ سے کوئی خونی رشتہ نہیں میں نے چاہا ان پر کوئی احسان کر دوں تاکہ وہ میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں میں نے ایسا کفر کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی مرتد ہونے کی وجہ سے اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد میں کفر سے راضی ہوا ہوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا ہے اتنے میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) بول پڑے (اور رگ فاروقی نے جوش مارا) فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن اڑاتا ہوں یہ منافق ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تحقیق حاطب غزوہ بدر میں شریک رہا ہے اے عمر تمہیں کیا معلوم شاید اللہ تعالیٰ نے نظر رحمت سے اہل بدر کو یہ فرما دیا ہے کہ جو چاہے کرو بلاشبہ میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے حضرت حاطب (رض) کے متعلق یہ آیت نازل ہوئے : (آیت)” یا ایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء “۔ (الایۃ) (رواہ الحمیدی واحمد بن حنبل والعدنی وعبد بن حمید والبخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی وابو عوانۃ وابو یعلی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن حبان وابن مردویہ وابو نعیم والبیہقی معافی الدلائل)

30194

30194- "أيضا" عن الحارث عن علي قال: لما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يأتي مكة أسر إلى أناس من أصحابه أنه يريد مكة فيهم حاطب بن أبي بلتعة وفشا في الناس أنه يريد حنينا فكتب حاطب إلى أهل مكة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريدكم، فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعثني أنا وأبا مرثد وليس معنا رجل إلا معه فرس؟ فقال: ائتوا روضة خاخ فإنكم ستلقون بها امرأة ومعها كتاب فخذوه منها، فانطلقنا حتى رأيناها بالمكان الذي ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا لها هاتي الكتاب، فقالت: ما معي كتاب فوضعنا متاعها ففتشناه، فلم نجده في متاعها فقال أبو مرثد: فلعله أن لا يكون معها كتاب، فقلنا ما كذب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا كذبنا، فقلنا لها: لتخرجنه أو لنعرينك؟ فقالت: أما تتقون الله أما أنتم مسلمون؟ فقلنا لها: لتخرجنه أو لنعرينك؟ فأخرجته من حجزتها - وفي لفظ: من قبلها - فأتينا النبي صلى الله عليه وسلم فإذا الكتاب: من حاطب بن أبي بلتعة فقام عمر فقال: يا رسول الله خان الله وخان رسوله ائذن لي فأضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أليس قد شهد بدرا؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال عمر: بلى ولكنه قد نكث وظاهر أعداءك عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلعل الله قد اطلع على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم ففاضت عينا عمر فقال: الله ورسوله أعلم وأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حاطب فقال: ما حملك على ما صنعت؟ فقال: يا رسول الله كنت امرأ ملصقا في قريش، وكان بها أهلي ومالي ولم يكن من أصحابك أحد إلا وله بمكة من يمنع أهله وماله فكتبت إليهم بذلك والله يا رسول الله إني لمؤمن بالله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق حاطب فلا تقولوا لحاطب إلا خيرا فأنزل الله تعالى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ} . "ع" وابن جرير وابن المنذر، "كر".
30194 ۔۔۔ ” ایضا “ حارث سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا تو یہ راز محض چند صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تک محدود رکھا ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) بھی تھے جبکہ لوگوں میں یہ خبر عام کردی گئی کہ آپ حنین کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں چنانچہ حاطب (رض) نے اہل مکہ کو خط لکھ بھیجا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے اوپر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی خبر کردی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اور ابو مرثد کو بھیجا ہمارے پاس تیز رفتار گھوڑے تھے آپ نے فرمایا : روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی اس کے پاس خط ہوگا وہ خط اس سے لے لو ہم چل پڑے اور مقررہ جگہ جا پہنچے اور یہیں ہمیں ایک عورت ملی ، ہم نے عورت سے خط طلب کیا عورت نے کہا : میرے پاس خط نہیں ہے ہم نے عورت کا سامان زمین پر رکھ دیا اور تلاشی لی ہمیں اس کے سازو و سامان سے خط نہ ملا ابو مرثد (رض) بولے : شاید اس کے پاس خط نہ ہو لیکن ہم نے پھر کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی آپ ہم سے جھوٹ بولتے ہیں ہم نے عورت کو دھمکی دی کہ خط نکالو ورنہ ہم تمہیں ننگی کردیں گے عورت بولی کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کیا تم مسلمان نہیں ہو ہم نے دوبارہ دھمکی دی خط نکالو ورنہ ہم تجھے ننگی کردیں گے ۔ اب کی بار عورت نے خط اپنے نیفہ سے نکال دیا ایک روایت میں ہے کہ عورت نے شرمگاہ سے خط نکال کردیا چنانچہ ہم خط لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے خط میں لکھا تھا : حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے خط کا مضمون سنتے ہی سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا : یا رسول اللہ ! حاطب نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی ہے مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑاتا ہوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا یہ بدر میں حاضر نہیں ہوا ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : جی ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر ہوا ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : جی ہاں لیکن اس نے بدعہدی کی ہے اور آپ نے دشمنوں کی پشت پناہی کی ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر رحمت کی ہے اور فرمایا ہے کہ تم جو چاہے کرو یہ سن کر سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حاطب (رض) کو بلایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ہے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش سے میری کوئی قرابت نہیں فقط حلیفانہ تعلقات ہیں میرے اہل و عیال آج کل مکہ میں ہیں جن کا کوئی حامی اور مددگار نہیں بخلاف مہاجرین کے کہ مکہ میں ان کی قریش میں قرابتوں کی وجہ سے ان کے اہل و عیال محفوظ ہیں اس لیے میں نے یہ چاہا کہ جب قریش سے میری کوئی قرابت نہیں تو ان کے ساتھ کوئی احسان کرون جس کے صلہ میں وہ میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں خدا کی قسم میں پکا مومن ہوں اور میرا اللہ اور رسول پر ایمان ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حاطب نے سچ کہا ہے لہٰذا اس کی شان میں بری بات مت کہو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ “۔ (رواہ ابویعلی وابن جریر وابن المنذر وابن عساکر)

30195

30195- "ش" حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد عن أيوب عن عكرمة قال: لما وادع رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل مكة وكانت خزاعة حلفاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجاهلية وكانت بنو بكر حلفاء قريش فدخلت خزاعة في صلح رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخلت بنو بكر في صلح قريش، وكان بين خزاعة وبين بني بكر قتال فأمدتهم قريش بسلاح وطعام، وظلوا عليهم، فظهرت بنو بكر على خزاعة وقتلوا منهم فخافت قريش أن يكونوا قد نقضوا فقالوا لأبي سفيان: اذهب إلى محمد وأجر الحلف وأصلح بين الناس، فانطلق أبو سفيان حتى قدم المدينة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد جاءكم أبو سفيان وسيرجع راضيا بغير حاجته، فأتى أبا بكر فقال: يا أبا بكر أجر الحلف بين الناس قال: ليس الأمر إلي الأمر إلى الله وإلى رسوله وقد قال له فيما قال: ليس من قوم ظلوا على قوم وأمدوهم بسلاح وطعام أن يكونوا نقضوا، فقال أبو بكر: الأمر إلى الله وإلى رسوله، ثم أتى عمر بن الخطاب فقاله له نحوا مما قال لأبي بكر فقال له عمر: أنقضتم فما كان منه جديدا فأبلاه الله وما كان منه شديدا أو قال متينا فقطعه الله، فقال أبو سفيان: ما رأيت كاليوم شاهد عشيرة، ثم أتى فاطمة فقال: يا فاطمة هل لك في أمر تسودين فيه نساء قومك؟ ثم ذكر لها نحوا مما ذكر لأبي بكر، فقالت: ليس الأمر إلي الأمر إلى الله وإلى رسوله، ثم أتى عليا فقال له نحوا مما قال لأبي بكر، فقال له علي: ما رأيت كاليوم رجلا أضل، أنت سيد الناس فأجر الحلف، وأصلح بين الناس فضرب بإحدى يديه على الأخرى وقال: قد أجرت الناس بعضهم من بعض، ثم ذهب حتى قدم على أهل مكة فأخبرهم بما صنع، فقالوا: والله ما رأينا كاليوم وافد قوم والله ما أتيتنا بحرب فنحذر ولا أتيتنا بصلح فنأمن ارجع قال وقدم وافد خزاعة على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره بما صنع القوم ودعا إلى النصر وأنشده في ذلك شعرا: لا هم إني ناشد محمدا ... حلف أبينا وأبيه الأتلدا فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالرحيل، فارتحلوا فساروا حتى نزلوا مرا وجاء أبو سفيان حتى نزل بمر ليلا، ورأى العسكر والنيران فقال: ما هؤلاء؟ قيل: هذه تميم محلت بلادها وانتجعت3 بلادكم، قال: والله لهؤلاء أكثر من أهل منى، فلما علم أنه النبي صلى الله عليه وسلم قال: دلوني على العباس، فأتى العباس فأخبره الخبر، وذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة له فقال له: يا أبا سفيان أسلم تسلم فأسلم أبو سفيان، وذهب به العباس إلى منزله فلما أصبحوا ثار الناس لطهورهم فقال أبو سفيان: يا أبا الفضل ما للناس أمروا بشيء؟ قال: لا ولكنهم قاموا إلى الصلاة، فأمره العباس فتوضأ ثم ذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة كبر فكبر الناس، ثم ركع وركعوا، ثم رفع فرفعوا فقال أبو سفيان: ما رأيت كاليوم طاعة قوم جمعهم من ههنا ومن ههنا ولا فارس الأكارم ولا الروم ذات القرون بأطوع منهم له، قال أبو سفيان: يا أبا الفضل أصبح ابن أخيك عظيم الملك، فقال له العباس: إنه ليس بملك ولكنها نبوة قال: أو ذاك أو ذاك قال أبو سفيان: واصباح قريش، فقال العباس: يا رسول الله لو أذنت لي فأتيتهم فدعوتهم وآمنتهم وجعلت لأبي سفيان شيئا يذكر به؟ فانطلق العباس فركب بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم الشهباء، فانطلق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ردوا علي أبي ردوا علي أبي، فإن عم الرجل صنو أبيه، إني أخاف أن تفعل به قريش ما فعلت ثقيف بعروة بن مسعود، دعاهم إلى الله فقتلوه، أما والله لئن ركبوها منه لأضرمنها عليهم نارا، فانطلق العباس حتى قدم مكة فقال: يا أهل مكة أسلموا تسلموا، قد استنبطتم بأشهب بازل وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث الزبير من قبل أعلى مكة، وبعث خالد بن الوليد من قبل أسفل مكة فقال لهم العباس: هذا الزبير من قبل أعلى مكة، وهذا خالد من قبل أسفل مكة وخالد وما خالد وخزاعة المجدعة الأنوف، ثم قال: من ألقى السلاح فهو آمن، ثم قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فتراموا بشيء من النبل، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهر عليهم فأمن الناس إلا خزاعة من بني بكر فذكر أربعة: مقيس بن صبابة، وعبد الله بن أبي سرح وابن خطل وسارة مولاة بني هاشم فقاتلهم خزاعة إلى نصف النهار وأنزل الله تعالى {أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ} الآية. "ش".
30195 ۔۔۔ ابن ابی شیبہ ، سلیمان بن حرب ، حماد بن زید ، ایوب ، عکرمہ کی سند سے مروی ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ سے رخصت ہوئے اور جاہلیت میں قبیلہ خزاعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف قبیلہ تھا جبکہ قبیلہ بنو بکر قریش کا حلیف تھا چنانچہ بنو خزاعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح میں داخل تھے اور بنوبکر قریش کی صلح میں داخل تھے خزاعہ اور بنو بکر کے درمیان جنگ چھڑگئی قریش نے بنو بکر کو باہم کمک پہنچائی حتی کہ اسلحہ دیا اشیاء خوردونوش دیں اور پھر بھی ان کی پشت پناہی کی ۔ اس کی پاداش میں بنوبکر کو خزاعہ پر غلبہ حاصل ہوا اور ان کے بہت سارے جنگجوؤں کو قتل کردیا قریش خوفزدہ ہوئے کہ مسلمان معاہدہ نہ توڑ دیں تاہم اس بچاؤ کے لیے قریش نے ابو سفیان سے کہا کہ محمد کے پاس جاؤ اور معاہدے کو مضبوط کرو اور لوگوں میں صلح کراؤ چنانچہ ابو سفیان مدینہ پہنچا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس ابوسفیان آرہا ہے اور وہ اپنی حاجت پوری کئے بغیر خوش وراضی واپس لوٹ جائے گا ابوسفیان سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آیا اور کہا اے ابوبکر (رض) ! لوگوں سے کہو کہ معاہدے کی پاسداری کریں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : اس کا اختیار میرے پاس نہیں اس کا اختیار تو اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول کے پاس ہے ، پھر ابوسفیان سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا اور ان سے بھی اسی جیسی بات کہی انھوں نے فرمایا : تم نے معاہدہ توڑ دیا ہے جو معاہدہ میں جدید قدم اٹھائے اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈالے اور جو زبردست ہو اللہ سے منقطع کرے ابوسفیان نے کہا : میں نے آج تک ایسا معاشرہ نہیں دیکھا جو زبردست رائے کا حامل ہو پھر حضرت فاطمہ (رض) کے پاس آیا اور کہا : کیا تم اپنی قوم کی عورتوں کی فرماں روائی کرو گی پھر وہی مسئلہ ذکر کیا جو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ذکر کیا تھا فاطمہ (رض) نے فرمایا : اس معاملے کا اختیار میرے ہاتھ میں نہیں اس کا اختیار اللہ اور اس کے رسول کے ہاتھ میں ہے پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے پاس آیا اور ان سے بھی یہ بات کی سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : میں نے ایسا گمراہ شخص نہیں دیکھا تم لوگوں کے سردار ہو تم خود ہی معاہدہ کو جاری کرواؤ اور لوگوں میں صلح کرواؤ چنانچہ ابوسفیان نے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مارا اور کہا : میں نے لوگوں میں معاہدے کا اجراء کردیا پھر مکہ واپس لوٹ گیا اور اہل مکہ کو خبر دی اہل مکہ نے کہا : بخدا ! ہم نے آج کی طرح کوئی دن نہیں دیکھا کہ جس میں کسی قوم کا سفیر غیر واضح معاملہ لے کر واپس لوٹے تم ہمارے پاس جنگ کی خبر نہیں لائے کہ ہم کوئی بچاؤ کا سامان کریں نہ تم صلح کی خبر لائے ہو کہ ہم بےخوف ہوجائیں ۔ ادھر خزاعہ کا وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو پوری خبر دی اور مدد مانگی پھر ایک شخص نے یہ شعر پڑھا۔ لاھم ان ناشد محمدا

30196

30196- عن عكرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قدم يوم الفتح وصورة إبراهيم وإسماعيل في البيت وفي أيديهم القداح فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لإبراهيم والقداح، والله ما استقسم بها قط ثم أمر بثوب فبل ومحى به صورتهما. "ش".
30196 ۔۔۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ تشریف لائے اور کعبہ میں داخل ہوئے تو کعبہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل کی تصویریں دیکھیں دراں حالیکہ ان کے ہاتھوں میں قسمت کے تیر تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) کو قسمت کے تیروں سے کیا لگاؤ اللہ کی قسم ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی بھی قسمت آزمانے کے لیے تیر نہیں پھینکے پھر آپ نے حکم دیا ایک کپڑا پانی میں گیلا کرکے لایا گیا اور وہ تصویریں مٹا دی گئیں ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30197

30197- عن مجاهد أن النبي صلى الله عليه وسلم قدم يوم الفتح والأنصاب بين الركن والمقام، فجعل يكفئها لوجوهها، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا فقال: ألا إن مكة حرام أبدا إلى يوم القيامة لم تحل لأحد من قبلي، ولا تحل لأحد بعدي غير أنها أحلت لي ساعة من النهار لا يختلى خلاها ولا ينفر صيدها، ولا يعضد شجرها، ولا يلتقط لقطتها إلا أن تعرف فقام العباس فقال: يا رسول الله إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا وبيوتنا فقال: إلا الإذخر إلا الإذخر. "ش".
30197 ۔۔۔ مجاہد روایت کی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جبکہ کعبہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان بت نصب تھے آپ نے بتوں کو اوندھے منہ کردیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : خبردار مکہ حرمت والا شہر ہے اور تاقیامت حرمت والا رہے گا مجھے سے قبل کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور میرے بعد بھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوگا البتہ گھڑی بھر کے لیے حرم پاک میرے لیے حلال کیا گیا حرم پاک کی گھاس بھی محترم ہے ہرگز نہ کاٹے جائے حرم کا شکار نہ بھگایا جائے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں حرم میں گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے البتہ وہ شخص اٹھاسکتا ہے جو اس کا اعلان کرنا چاہتا ہو۔ حضرت عباس (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) البتہ اذخر گھاس کی اجازت ہے چونکہ سناروں قبروں اور گھروں کے لیے یہ گھاس کام آتی ہے آپ نے فرمایا : جی ہاں سوائے اذخر کے جی ہاں سوائے اذخر کے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30198

30198- عن محمد بن الحنفية قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعض حجره فجلس عند بابها، وكان إذا جلس وحده لم يأته أحد حتى يدعوه قال: ادع لي أبا بكر فجاء فجلس بين يديه فناجاه طويلا ثم أمره فجلس عن يمينه أو عن يساره، ثم قال: ادع لي عمر فجاء فجلس إلى أبي بكر فناجاه طويلا فرفع عمر صوته فقال: يا رسول الله هم رأس الكفر هم الذين زعموا أنك ساحر وأنك كاهن وأنك كذاب وأنك مفتر، ولم يدع شيئا مما كان أهل مكة يقولونه إلا ذكره، فأمره أن يجلس من الجانب الآخر فجلس أحدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ثم دعا الناس فقال: ألا أحدثكم بمثل صاحبيكم هذين؟ قالوا: نعم يا رسول الله فأقبل بوجهه إلى أبي بكر فقال: إن إبراهيم كان ألين في الله من الدهن في اللبن، ثم أقبل على عمر فقال: إن نوحا كان أشد في الله من الحجر، وإن الأمر أمر عمر فتجهزوا فقاموا فتبعوا أبا بكر، فقالوا: يا أبا بكر إنا كرهنا أن نسأل عمر، ما هذا الذي ناجاك به رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قال لي كيف تأمروني في غزو مكة؟ قلت: يا رسول الله هم قومك حتى رأيت أنه سيطيعني، ثم دعا عمر فقال عمر: إنهم لرأس الكفر حتى ذكر كل سوء كانوا يقولونه، وايم الله لا تذل العرب حتى تذل أهل مكة فأمركم بالجهاز لتغزوا مكة". "ش".
30198 ۔۔۔ محمد بن حنیفہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ایک حجرے سے باہر تشریف لائے اور دروازے پر بیٹھ گئے آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تنہائی میں بیٹھے تو آپ کے پاس کوئی نہیں آتا تھا تاوقتیکہ آپ خود نہ بلا لیں چنانچہ تھوڑی دیر بعد فرمایا : میرے پاس ابوبکر کو بلا لاؤ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو بلا لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کافی دیر تک سرگوشیاں کرتے رہے پھر سامنے سے اٹھا کر اپنے دائیں یا بائیں بٹھا رہے پھر فرمایا : عمر کو بلاؤ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بیٹھ گئے اور آپ ان سے بھی کافی دیر تک سرگوشیاں کرتے رہے دوران گفتگو سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی آواز بلند ہوگئی وہ کہہ رہے تھے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کفر کا سرغنہ ہیں ان کا گمان ہے کہ آپ جادو گر ہیں اور کاہن ہیں آپ جھوٹے ہیں اور افترا پرداز ہیں حتی کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے چیدہ چیدہ باتیں جو اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کرتے تھے کہہ ڈالیں پھر آپ نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنی ایک طرف بیٹھنے کا حکم دیا چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک طرف بیٹھ گئے اور حضرت عمر (رض) دوسری طرف پھر آپ نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا : کیا میں تمہیں ان دو اصحاب کی مثالیں نہ دوں ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی : جی ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے چہرہ اقدس سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف کرکے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں دودھ میں پڑے گھی سے بھی زیادہ نرم تھے پھر عمر (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں پتھر سے بھی زیادہ سخت تھے لہٰذا معاملہ وہی طے پایا ہے جو عمر کا تجویز کردہ ہے لہٰذا تم لوگ تیاری کرو لوگ اٹھے اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پیچھے ہو لیے اور کہنے لگے : ابوبکر (رض) ہم عمر سے نہیں پوچھتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے کیا سرگوشی کی ہے آپ ہمیں بتادیں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پوچھا کہ مکہ پر چڑھائی کے بارے میں کیا کہتے ہو اور کیا رائے ہے میں نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ آپ کی قوم ہے (گویا میں نے نرمی برتنے کا مشورہ دیا) میں سمجھا شاید آپ میری ہی بات مان لیں گے پھر آپ نے عمر کو بلایا عمر (رض) نے کہا : اہل مکہ سر غنہ کفر ہیں حتی کہ اہل مکہ کی ہر برائی بیان کی اور کہا اللہ کی قسم عرب اس وقت تک زیر نہیں ہوں گے جب تک اہل مکہ زیر نہیں ہوتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں مکہ پر چڑھائی کرنے کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30199

30199- عن جعفر عن أبيه "أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أمر أن يطمس التماثيل التي حول الكعبة يوم فتح مكة". "ش".
30199 ۔۔۔ جعفر اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ کے آس پاس بنی ہوئی تصویروں کو مٹا دینے کا حکم دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30200

30200- عن الزهري قال: قال رجل من بني الديل بن بكر، لوددت أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعت منه، فقال لرجل: انطلق معي فقال: إني أخاف أن تقتلني خزاعة، فلم يزل به حتى انطلق فلقيه رجل من خزاعة فعرفه فضرب بطنه بالسيف، قال قد أخبرتك أنهم سيقتلوني فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: إن الله تعالى هو حرم مكة ليس الناس حرموها وإنما أحلت لي ساعة من نهار وهي بعد حرم، وإن أعدى الناس على الله ثلاثة من قتل فيها، أو قتل غير قاتله، أو طلب بذحول الجاهلية فلأدين هذا الرجل."ش".
30200 ۔۔۔ زہری روایت کی ہے کہ بنی ویل بن بکر کے ایک شخص نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ لوں ایک دوسرے شخص سے کہا : میرے ساتھ چلو دوسرا بولا مجھے ڈر ہے کہ مجھے خزاعہ قتل کردیں گے چنانچہ ویلی اسے ساتھ لیتا گیا راستے میں خزاعی ایک شخص ملا اور اسے پہچان لیا خزاعہ کے اس شخص نے ویلی کے پیٹ میں تلوار ماری بولا میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ خزاعہ مجھے قتل کردیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر ہوئی آپ کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم (حرمت والا) قرار دیا ہے لوگوں نے اسے حرم نہیں بنایا لہٰذا اس کی حرمت بجا لاؤ مکہ گھڑی بھر کے لیے دن کے وقت میرے لیے حلال ہوا ہے تین شخص اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ نافرمانی کرنے والے ہیں۔ ایک وہ شخص جو مکہ میں قتل کرنے دوسرا وہ شخص جو غیر قاتل کو قتل کرے تیسرا وہ شخص جو جاہلیت کے کینہ اور بغض کا بدلہ لے میں اس شخص کی دیت ضروردلاؤں گا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30201

30201- حدثنا عبد الله بن موسى أنبأنا موسى بن عبيد عن يعقوب بن زيد بن طلحة التيمي ومحمد بن المنكدر قالا: كان بمكة يوم الفتح ستون وثلثمائة وثن على الصفا وعلى المروة صنم وما بينهما محفوف بالأوثان والكعبة قد أحيطت بالأوثان، قال محمد بن المنكدر: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه قضيب يشير به إلى الأوثان، فما هو إلا أن يشير إلى شيء منها فيتساقط حتى أتى أساف ونائلة وهما قدام المقام مستقبل باب الكعبة فقال: عفروهما فألقاهما المسلمون قال، قولوا: قالوا: ما نقول يا رسول الله؟ قال: قولوا صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده. "ش".
30201 ۔۔۔ یعقوب بن زید بن طلحہ تیمی اور محمد بن منکدر کی روایت ہے کہ مکہ میں فتح کے موقع پر صفا پر تین سو ساٹھ بت تھے مروہ پر ایک بت تھا جبکہ ان کے درمیان کا علاقہ بتوں سے اٹا پڑا تھا اور کعبہ بھی بتوں سے بھرا ہوا تھا محمد بن منکدر کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک چھڑی تھی آپ بتوں کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے اور بت گرجاتے حتی کہ آپ اساف اور نائلہ کے پاس آگئے یہ دونوں بت کعبہ کے دروازے کے بالمقابل نصب تھے آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حکم دیا کہ انھیں توڑ ڈالو اور کہو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی کیا کہیں ؟ فرمایا : کہو اللہ تعالیٰ نے وعدہ سچ کر دکھایا ۔ اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے اکیلے ہی نے لشکروں کو ہزیمت دی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30202

30202- عن ابن أبي مليكة قال: لما فتحت مكة صعد بلال البيت فأذن فقال صفوان بن أمية للحارث بن هشام: ألا ترى إلى هذا العبد؟ فقال الحارث: إن يكرهه الله يغيره. "ش".
30202 ۔۔۔ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت بلال (رض) نے بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی انھیں دیکھ کر صفوان بن امیہ نے حارث بن ہشام سے کہا کیا تم اس غلام کی طرف نہیں دیکھ رہے حارث نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ اسے ناپسند کرتا ہے تو اس کی شکل مسخ کر دے گا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30203

30203- عن ابن أبي مليكة قال: لما كان يوم الفتح هرب عكرمة بن أبي جهل فركب البحر فجعلت الصراري ومن في السفينة يدعون الله، ويستغيثون به فقال: ما هذا؟ فقيل: هذا مكان لا ينفع فيه إلا الله قال عكرمة: فهذا إله محمد الذي كان يدعو إليه ارجعوا بنا فرجع فأسلم وكانت امرأته قد أسلمت قبله فكانا على نكاحهما. "كر" من مراسيل أبي جعفر، "ش".
30203 ۔۔۔ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن عکرمہ بن ابی جہل بھاگ گئے اور سمندر میں کشتی پر جا سوار ہوئے سمندری طوفان کو دیکھ کر ملاح اور کشتی سواروں نے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لیے پکارنا شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ ہی سے فریادیں کرنے لگے عکرمہ نے توحید پرستی کی وجہ پوچھی کشتی بانوں نے کہا : اس جگہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز نفع نہیں پہنچاتی عکرمہ (رض) کہا : یہ ہی تو محمد کا معبود ہے جسے وہ پکارتا ہے مجھے واپس کرو چنانچہ عکرمہ (رض) واپس لوٹ آئے اور اسلام قبول کرلیا جبکہ ان سے پہلے ان کی بیوی اسلام قبول کرچکی تھی اور یہ دونوں اسی نکاح پر برقرار ہے۔ (رواہ ابن عساکر من مراسیل ابی جعفر وابن ابی شیبۃ)

30204

30204- حدثنا يزيد بن هارون أنبأنا محمد بن عروة عن أبي سلمة ويحيى بن عبد الرحمن بن حاطب قالا: كانت بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين المشركين هدنة فكان بين بني كعب وبين بني بكر قتال بمكة فقدم صريخ بني كعب على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لا هم إني ناشد محمدا ... حلف أبينا وأبيه الأتلدا فانصر هداك الله نصرا عتدا ... وادع عباد الله يأتوا مددا فمرت سحابة فرعدت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن هذه لترعد بنصر بني كعب ثم قال لعائشة: جهزيني ولا تعلمي بذلك أحدا، فدخل عليها أبو بكر فأنكر بعض شأنها فقال: ما هذا؟ قالت: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أجهزه قال: إلى أين؟ قالت إلى مكة قال: فوالله ما أنقضت الهدنة بيننا وبينهم بعد، فجاء أبو بكر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنهم أول من غدر ثم أمر بالطرق فحبست، ثم خرج وخرج المسلمون معه فغم لأهل مكة لا يأتيهم خبر فقال أبو سفيان لحكيم بن حزام: أي حكيم والله لقد غممنا واغتممنا، فهل لك أن تركب ما بيننا وبين مر لعلنا أن نلقى خبرا، فقال له بديل بن ورقاء الكعبي من خزاعة: وأنا معكم قالا: وأنت إن شئت فركبوا ثم إذا دنوا من ثنية مر وأظلموا فأشرفوا على الثنية، فإذا النيران قد أخذت الوادي كله، قال أبو سفيان لحكيم بن حزام، أي حكيم ما هذه النيران؟ قال بديل بن ورقاء: هذه نيران بني عمرو خدعتها الحرب، قال أبو سفيان: لا وأبيك لبنو عمرو وأذل وأقل من هؤلاء، فتكشف عنهم الأراك فأخذهم حرس رسول الله صلى الله عليه وسلم نفر من الأنصار وكان عمر بن الخطاب تلك الليلة على الحرس فجاؤوا بهم إليه، فقالوا: جئناك بنفر أخذناهم من أهل مكة فقال عمر وهو يضحك إليهم: والله لو جئتموني بأبي سفيان ما زدتم؟ قالوا: قد والله أتينا بأبي سفيان فقال: احبسوه فحبسوه، حتى أصبح فغدى به على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل له: بايع فقال: لا أجد إلا ذاك أو شرا منه فبايع، ثم قيل لحكيم بن حزام: بايع فقال: أبايعك ولا أخر إلا قائما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما من قبللنا فلن تخر إلا قائما، فلما ولوا قال أبو بكر: يا رسول الله إن أبا سفيان رجل يحب السماع يعني الشرف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دخل دار أبي سفيان فهو آمن إلا ابن خطل ومقيس بن صبابة الليثي وعبد الله بن سعد بن أبي سرح والقينتين فإن وجدتموهم متعلقين بأستار الكعبة فاقتلوهم، فلما ولوا قال أبو بكر: يا رسول الله لو أمرت بأبي سفيان فحبس على الطريق وأذن في الناس بالرحيل فأدركه العباس فقال: هل لك إلى أن تجلس حتى تنظر؟ قال: بلى ولم يكره ذلك فيرى ضعفه فسألهم فمرت جهينة فقال: أي عباس من هؤلاء؟ قال: هذه جهينة قال: مالي ولجهينة، والله ما كان بيني وبينهم حرب قط، ثم مرت مزينة فقال: أي عباس من هؤلاء؟ قال: هذه مزينة قال: مالي ولمزينة، والله ما كان بيني وبينهم حرب قط، ثم مرت سليم فقال: أي عباس من هؤلاء؟ قال: هذه سليم، ثم جعلت تمر طوائف العرب، فمر عليه أسلم وغفار فيسأل عنها فيخبره العباس حتى مر رسول الله صلى الله عليه وسلم في أخريات الناس في المهاجرين الأولين والأنصار في لأمة تلمع البصر فقال: أي عباس من هؤلاء؟ قال: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه في المهاجرين الأولين والأنصار قال: لقد أصبح ابن أخيك عظيم الملك، قال: لا والله ما هو بملك ولكنها النبوة، كانوا عشرة آلاف أو اثني عشر ألفا، ودفع رسول الله صلى الله عليه وسلم الراية إلى سعد بن عبادة فدفعها سعد إلى ابنه قيس بن سعد وركب أبو سفيان فسبق الناس حتى اطلع عليهم من الثنية قال له أهل مكة: ما وراءك؟ قال: ورائي الدهم ورائي مالا قبل لكم به ورائي من لم أر مثله، من دخل داري فهو آمن، فجعل الناس يقتحمون داره، وقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فوقف في الحجون بأعلى مكة، وبعث الزبير بن العوام في الخيل في أعلى الوادي، وبعث خالد بن الوليد في الخيل في أسفل الوادي. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنك لخير أرض الله وأحب أرَض الله إلى الله، وإني والله لو لم أخرج منك ما خرجت، وإنها لن تحل لأحد كان قبلي، ولا تحل لأحد بعدي، وإنما أحلت لي من النهار ساعة وهي ساعتي هذه حرام لا يعضد شجرها، ولا يحتش حشيشها، ولا يلتقط لقطتها إلا لمنشد فقال له رجل يقال له: أبو شاه والناس يقولون قال له العباس: يا رسول الله إلا الإذخر فإنه لبيوتنا وقيوننا أو لبيوتنا وقبورنا، فأما ابن خطل فوجدوه متعلقا بأستار الكعبة فقتل وأما مقيس بن صبابة فوجدوه بين الصفا والمروة فبادره نفر من بني كعب ليقتلوه، فقال ابن عمه نميلة خلوا عنه فوالله لا يدنو منه رجل إلا ضربته بسيفي هذا حتى يبرد، فتأخروا عنه فحمل عليه بسيفه ففلق به هامته وكره أن يفخر عليه أحد، ثم طاف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت ثم دخل عثمان بن طلحة فقال: أي عثمان أين المفتاح؟ فقال هو عند أمي سلامة ابنة سعد، فأرسل إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: لا واللات والعزى لا أدفعه إليه أبدا قال: إنه قد جاء أمر غير الأمر الذي كنا عليه فإنك إن لم تفعلي قتلت أنا وأخي، فدفعته إليه فأقبل به حتى إذا كان وجاه رسول الله صلى الله عليه وسلم عثر فسقط المفتاح منه، فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأحثى عليه بثوبه، ثم فتح له عثمان فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم الكعبة، فكبر في زواياها وأرجائها وحمد الله، ثم صلى بين الأسطوانتين ركعتين، ثم خرج فقام بين الناس فقال علي: فتطاولت لها ورجوت أن يدفع إلينا المفتاح فتكون فينا السقاية والحجابة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين عثمان هاكم ما أعطاكم الله، ثم دفع إليه المفتاح ثم رقى بلال على ظهر الكعبة فأذن، فقال خالد بن أسيد: ما هذا الصوت؟ قالوا: بلال بن رباح قال عبد أبي بكر الحبشي؟ قالوا: نعم قال: أين؟ قالوا: على ظهر الكعبة قال: على مرقة بني أبي طلحة؟ قالوا: نعم قال: ما يقول؟ قالوا: يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لقد أكرم الله أبا خالد بن أسيد عن أن يسمع هذا الصوت يعني أباه، وكان ممن قتل يوم بدر في المشركين وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حنين، وجمعت له هوزان بحنين فاقتتلوا فهزم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال تعالى: {وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئاً} الآية، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن دابته فقال: اللهم إنك إن شئت لم تعبد بعد اليوم، شاهت الوجوه، ثم رماهم بحصباء كانت في يده فولوا مدبرين، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم السبي والأموال فقال لهم: إن شئتم فالفداء، وإن شئتم فالسبي فقالوا: لن نؤثر اليوم على الحسب شيئا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خرجت فاسألوني فإني أعطيكم الذي لي، ولن يتعذر علي أحد من المسلمين، فلما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم صاحوا إليه فقال: أما الذي أعطيتكموه وقال المسلمون مثل ذلك إلا عيينة بن حصن فإنه قال: أما الذي لي فأنا لا أعطيه؛ قال: فأنت على حقك من ذلك فصارت له يومئذ عجوز عوراء، ثم حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الطائف قريبا من شهر فقال عمر بن الخطاب: أي رسول الله دعني أدخل عليهم فأدعوهم إلى الله، قال: إنهم إذا قاتلوك. فدخل عليهم عروة فدعاهم إلى الله فرماه رجل من بني مالك بسهم فقتله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مثله في قومه كمثل صاحب يس وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذوا مواشيهم، وضيقوا عليهم ثم أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم: راجعا حتى إذا كان بنخلة جعل الناس يسألونه، قال أنس: حتى انتزعوا رداءه عن ظهره، فأبدوا عن مثل فلقة القمر فقال: ردوا علي ردائي لا أبا لكم أتبخلوني فوالله أن لو كان لي ما بينهما إبلا وغنما لأعطيتكموه فأعطى المؤلفة يومئذ مائة مائة من الإبل وأعطى الناس، فقالت الأنصار عند ذلك، فدعاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: قلتم كذا وكذا، ألم أجدكم ضلالا فهداكم الله بي؟ قالوا: بلى قال: أولم أجدكم عالة فأغناكم الله بي؟ قالوا: بلى، قال: ألم أجدكم أعداء فألف الله بين قلوبكم بي؟ قالوا: بلى، قال: أما إنكم لو شئتم قلتم قد جئتنا مخذولا فنصرناك؟ قالوا: الله ورسوله أمن، قال: لو شئتم قلتم جئتنا طريدا فآويناك؟ قالوا: الله ورسوله أمن قال: ولو شئتم قلتم جئتنا عائلا فواسيناك؟ قالوا: الله ورسوله أمن قال: أفلا ترضون أن ينقلب الناس بالشاء والبعير وتنقلبون برسول الله إلى دياركم، قالوا: بلى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الناس دثار والأنصار شعار وجعل على المغانم عباد بن وقش أخا بني عبد الأشهل، فجاء رجل من أسلم عاريا ليس عليه ثوب فقال: اكسني من هذه البرود بردة قال: إنما هي مقاسم المسلمين، ولا يحل لي أن أعطيك منها شيئا فقال قومه: اكسه منها بردة، فإن تكلم فيها أحد فهي من قسمنا وأعطائنا فأعطاه بردة، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما كنت أخشى هذا عليه ما كنت أخشاكم عليه فقال: يا رسول الله ما أعطيته إياها حتى قال قومه: إن تكلم فيها أحد فهي من قسمنا وأعطائنا فقال: جزاكم الله خيرا جزاكم الله خيرا جزاكم الله خيرا. "ش".
30204 ۔۔۔ ابو سلمہ اور یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان معاہدہ تھا جبکہ بنی کعب اور بنی بکر کے درمیان مکہ میں جنگ ہوئی تھی بنی کعب کا ایک شخص فریاد رسی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ اشعار پڑھے ۔ لا ھم انی ناشد محمدا حلف ابینا وابیہ الا تلدا فانصر ھداک اللہ نصر اعتدا وادع عباد اللہ یا توا مدادا : اے میرے پروردگار میں محمد کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو میرے اور ان کے باپ کے درمیان ہوا تھا اللہ تمہیں ہدایت دے ہماری زبردست مدد کیجئے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بھی مدد کے لیے بلائیں ۔ اتنے میں بادلوں کا ایک آوارہ ٹکڑا گزرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھ کر فرمایا : بادلوں کا یہ ٹکڑا بنی کعب کی مدد کا پیغام رساں ہے پھر آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے فرمایا : میری تیاری کا سامان کرو اور کسی کو مت بتاؤ تھوڑی دیر بعد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس تشریف لائے اور انھیں متحرک دیکھ کر پوچھا : کیا وجہ ہے ؟ عرض کی : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تیاری کا حکم دیا ہے پوچھا : کہاں کے لیے عرض کی مکہ کے لیے (جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکیدا فرمایا تھا کہ معاملہ صیغہ راز میں رہے پھر حضرت عائشہ (رض) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو کیوں بتادیا ؟ مطلب یہ کہ عوام الناس میں سے کسی کو نہ بتاؤ رہی بات ابوبکر وعمر یعنی خواص کی سو انھیں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا کر سب سے پہلے انہی سے مشورہ لیا گویا ضمنا ان کے لیے اجازت ہوگئی المختصر کہ ممانعت اوروں کے لیے تھی یہ حضرات اس سے مستثنی تھے) ابوبکر (رض) نے کہا : بخدا ! بعد ازیں ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نہیں رہے گا حضرت ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے اور ان سے تذکرہ کیا آپ نے فرمایا : اہل مکہ نے دھوکا کیا ہے اور انھوں نے معاہدہ توڑ دیا ہے پھر آپ مسلمانوں کو لے کر چل پڑے آپ راز داری میں چلے تاکہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے ۔ ادھر ابوسفیان نے حکیم بن حزام سے کہا : بخدا ہم غفلت میں ہیں کیا تم مرا الظہران تک میرے ساتھ جاؤ گے تاکہ ہمیں کوئی خبر ملے بدیل بن ورقاء کعبی نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا ابوسفیان نے کہا اگر چاہو تو جاسکتے ہو چنانچہ یہ تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیئے چنانچہ اس جگہ پہنچے تاریکی پھیل چکی تھی کیا دیکھتے کہ پوری وادی میں جگہ جگہ آگ جل رہی ہے ابوسفیان نے کہا : اے حکیم ! یہ کیسی آگ ہے ؟ بدیل نے کہا : یہ بنی عمرو کی آگ ہے انھیں جنگ نے دھوکا میں ڈال دیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا : تیرے باپ کی قسم ! بنی عمرو بہت کم تعداد میں ہیں جبکہ یہ لوگ تو کہیں زیادہ ہیں۔ اتنے میں ان تینوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہرہ داروں نے آن لیا اور یہ انصار کے چند لوگ تھے جبکہ پہرے کی ذمہ داری حضرت عمر بن خطاب (رض) کے سپرد تھی پہرہ دار انھیں پکڑ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے آئے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ہنس رہے تھے اور کہا : اگر تم ابوسفیان کو پکڑ لاتے کیا ہی اچھا ہوتا پہرہ داروں نے کہا : بخدا ! ہم ابو سفیان کو پکڑ لائے ہیں فرمایا : اسے اپنے پاس گرفتار رکھو صبح ہوتے ہی سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ابوسفیان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے ابوسفیان کو بیعت کا کہا گیا یہ بولا میرے لیے بیعت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ورنہ میرا برا حال ہوگا ، پھر حکیم بن حزام کو بیعت کا کہا گیا چنانچہ انھوں نے بھی بیعت کرلی ، جب یہ لوگ واپس پلٹے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوسفیان شہرت کو پسند کرتا ہے آپ اسے شہرت کی کوئی چیز دے دیں البتہ ابن خطل مقیس بن صبابہ لیثی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور دو باندیوں کے لیے کوئی امن نہیں انھیں قتل کرو اگرچہ یہ کعبہ کے پردوں سے کیوں نہ لپٹے ہوں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : یا رسول اللہ آپ حکم دیں تاکہ ابوسفیان کو سر راہ روک لیا جائے اور وہ اسلامی لشکر کی شان و شوکت دیکھے چنانچہ عباس (رض) نے ابو سفیان کو سر راہ روک لیا اور کہا تم یہاں بیٹھو گے تاکہ مسلمانوں کو دیکھو ؟ ابوسفیان نے اثبات میں جواب دیا وہ سمجھا مٹھی بھر مسلمان ہوں گے اس لیے دیکھنے میں کیا حرج اتنے میں قبیلہ جہینہ کا رستہ گزار ابوسفیان نے کہا : اے عباس (رض) یہ کون لوگ ہیں حضرت عباس (رض) نے کہا : یہ قبیلہ جہنیہ ہے کہا : مجھے جہینیہ سے کیا غرض بخدا ان سے ہماری کبھی لڑائی نہیں ہوئی پھر مزنیہ کا دستہ گزرا اس کے متعلق پوچھا کہا : یہ مزنیہ ہے ابوسفیان بولا : میرا مزنیہ سے کیا تعلق میری ان سے کبھی لڑائی نہیں ہوئی ، پھر قبیلہ سلیم گزرا اس کے متعلق پوچھا عباس (رض) نے کہا : یہ سلیم ہے پھر فردا فردا یکے بعد دیگرے اسلامی دستے گزرتے رہے بالکل آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ مہاجرین و انصار کے دستے میں گزرے ابوسفیان نے پوچھا : اے عباس یہ کون لوگ ہیں ؟: کہا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مہاجرین و انصار کے ساتھ ابوسفیان بولا : تمہارا بھتیجا عظیم بادشاہ بن گیا ہے عباس (رض) نے کہا : نہیں بلکہ یہ نبوت کی شان و شوکت ہے مسلمانوں کی تعداد 10، 12 ہزار کے لگ بھگ تھی ۔ ابوسفیان واپس مکہ لوٹ گیا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ (رض) کو دیا ہوا تھا پھر سعد (رض) نے جھنڈا اپنے بیٹے حضرت قیس بن سعد (رض) کو دے دیا پھر ابوسفیان گھوڑے پر سوار ہو کر آگے نکل گیا حتی کہ ثنیہ میں جا پہنچا اہل مکہ نے پوچھا : تمہارے پیچھے کیا حال ہے کہا میرے پیچھے مسلمانوں کا سیل رواں ہے ایسا شوکت والا لشکر میں نے کبھی نہیں دیکھا ، جو شخص میرے گھر میں داخل ہوگا وہ امن میں رہے گا پھر لوگوں کا ہجوم ابوسفیان کے گھر پر امنڈ آیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور مقام جحون پر آکر رکے مقام جحون کے اوپر کی طرف ہے آپ نے حضرت زبیر (رض) کو شہ سواروں کے دستے پر امیر مقرر کرکے مکہ کی بالائی طرف سے روانہ کیے جبکہ حضرت خالد بن ولید کو مکہ کے زیریں حصہ سے روانہ کیا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا : اے مکہ ! تو اللہ تعالیٰ کی زمین کا سب سے اعلی و افضل حصہ ہے ، بخدا ! اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا میں کبھی نہ نکلتا مجھ سے قبل مکہ کسی کے لیے حلال نہیں ہو اور میرے بعد بھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوگا میرے لیے دن میں گھڑی بھر کے لیے حلال ہوا ہے مکہ قابل حرمت ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اس کی گھاس نہ کاٹی جائے اس کا لقطہ نہ اٹھایا جائے البتہ اعلان کرنے والا اٹھاسکتا ہے ، ابو شاہ نامی ایک شخص نے کہا جبکہ بعض محدثین نے حضرت عباس (رض) کا قول کیا ہے کہ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ اس حکم سے اذخر گھاس مستثنی ہے چونکہ اذخر گھاس ہمارے گھروں اور لوہاروں کے کام آتا ہے۔ رہی بات ابن خطل کی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اسے کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا پایا اور وہیں قتل کردیا گیا جبکہ مقیس بن صبابہ کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے صفا اور مروہ کے درمیان پایا بنی کعب کے چند لوگ اسے قتل کرنے کے لیے آگے بڑھے اس کے چچا زاد بھائی نمیلہ نے کہا : اس کا راستہ چھوڑ دو بخدا ! جو بھی اس کے قریب آئے گا میں اس کا سر قلم کر دوں گا آگے بڑھنے والے چوک گئے اور پیچھے ہٹ گئے پھر خود ہی نمیلہ نے مقیس پر تلوار سے حملہ کردیا اور تلوار سر پردے ماری جس سے اس کا سرکٹ گیا اور مقیس ٹھنڈا ہو کر زمین پر گرگیا نمیلہ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ اس کے قتل پر کوئی اور فخر نہ کرسکے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا اتنے میں عثمان بن طلحہ داخل ہوا آپ نے فرمایا : اے عثمان ! کہاں ہے بیت اللہ کی چابی ؟ کہا وہ میری ماں سلامہ بنت سعد کے پاس ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلامہ کے پاس آدمی بھیجا سلامہ نے کہا : لات اور عزی کی قسم میں کبھی بھی چابی نہیں دوں گی عثمان نے ماں سے کہا : بخدا معاملہ بدل چکا ہے اگر تو چابی نہیں دے گی مجھے اور میرے بھائی کو قتل کردیا جائے گا پھر عثمان چابی لے کر چلا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا ، چابی نیچے گرگئی اور اس پر کپڑا ڈال دیا اور پھر بیت اللہ کا دروازہ کھولا آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اس کے چاروں کونوں میں تکبیر کہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی پھر دونوں ستونوں کے درمیان دو رکعت نماز پڑھی ، پھر آپ باہر تشریف لے گئے اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے کہا : مجھے امید ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چابی مجھے عطا کریں گے یوں اس طرح سقایت اور حجابت (یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کا شرف اور دربانی) کا شرف ہمیں مل جائے گا تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہاں ہے عثمان ؟ جو شرف اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے میں اسے باقی رکھنا چاہتا ہوں یہ لو چابی ۔ پھر بلال (رض) کعبہ کی چھت پر چڑھے اور اذان دی خالد بن اسیر نے انھیں دیکھ کر کہا : یہ کیسی آواز ہے لوگوں نے کہا۔ یہ بلال بن رباح ہے خالد نے کہا : ابوبکر کا حبشی غلام لوگوں نے کہا : جی ہاں کہا یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ کہتا ہے : (اشھدان الا الہ الا اللہ واشھدان محمد رسول اللہ) کہنے لگا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے خالد کے باپ اسیر کو یہ آواز نہیں سننے دی اسیر جنگ بدر میں مشرک قتل کردیا گیا۔ مکہ فتح کرنے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین تشریف لے گئے جب کہ آپ کے مقابلہ کے لیے ھوازن نے اپنے انڈے بچے جمع کر رکھے تھے وہاں پہنچنے پر جنگ چھڑ گئی مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ویوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا) اور غزوہ حنین کے دن جب تمہیں تمہارے کثرت نے عجب میں ڈال دیا تھا جب کہ تمہاری کثرت تمہارے کچھ کام نہ آسکی پڑھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری سے نیچے اترے اور کہا : اللہ تبارک وتعالیٰ اگر تو چاہے تو سطح زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا : شاھت الوجوہ چہرے قبیح ہوجائیں پھر مٹھی بھر کنکریاں دشمن کی طرف پھینکیں کنکریاں پھینکنی تھیں کہ دشمن الٹے پاؤں بھاگ گیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں اور ان کے اموال پر قبضہ کرلیا پھر قیدیوں سے کہا : اگر چاہو تو قید میں رہو چاہو تو فدیہ دے کر جان چھڑا لو اہل حنین نے کہا : آج کے دن ہم خاندانی شرافت کو ترجیح دیں گے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا جب میں جاؤں تو مجھ سے سوال کرنا میرے پاس جو کچھ ہوا میں تمہیں دوں گا البتہ مسلمانوں میں سے کسی کو مشکل نہ پیش آئے جو کچھ میں نے تمہیں دیا ہے اسی کی مثل مسلمانوں نے کہا ہے سوائے عینیہ بن حصن کے اس نے کہا ہے کہ جو میرے لیے ہے وہ میں اسے نہیں دوں گا فرمایا : تو حق پر ہے چنانچہ اس دن اس کے حصہ میں ایک بڑھیا آئی اور وہ بھی نابینا۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ ایک مہینہ تک رہا اس دوران سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عرض کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے اہل طائف کے ہاں بھیجیں میں انھیں دعوت دوں گا فرمایا اہل طائف تو تمہیں قتل کردیں گے چنانچہ عزوہ اہل طائف کے پاس گئے اور انھیں دعوت الی اللہ دی انھیں ایک مشرک نے تیر مارا اور انھیں قتل کردیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عروہ کے متعلق فرمایا : اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کا واقعہ سورت یس میں بیان ہوا ہے پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا کہ اہل طائف کے مال مویشی پکڑ لو تاکہ انھیں سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑے۔ مہر نبوت کا دیدار : پھر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس ہوئے اور مقام نخلہ پر پہنچے تو لوگوں نے آپ سے مال مانگنا شروع کردیا حضرت انس (رض) کہتے ہیں لوگوں نے اس قدر ہمجوم کردیا حتی کہ آپ کی کمر سے چادر بھی چھین لی اور اس کی پاداش میں مہر نبوت سامنے ہوگئی یوں دکھائی دی جیسے چاند کا ٹکڑا ہوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازروئے ظرافت فرمایا : تمہارا باپ نہ رہے میری چادر مجھے واپس کرو کای تم مجھے بخیل سمجھتے ہو بخدا اگر میرے پاس اونٹ اور بکریاں ہوتیں جن سے ان دونوں پہاڑیوں کا درمیانی علاقہ بھرا پڑا ہوتا میں وہ بھی تمہیں دے دیتا اس دن آپ نے تالیف قلب کے طور پر لوگوں کو ایک ایک سو اونٹ تک عطا کیے اس موقع پر انصار نے کہا : کہ ہمیں کچھ نہ ملے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا میں نے سنا ہے کہ تم ایسی ایسی باتیں کرتے ہو کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی ؟ انصار نے کہا جی ہاں کیا میں نے تمہیں آپس میں دشمن نہیں پایا پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی ؟ انصار نے کہا : جی ہاں اگر تم کہلنا چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ بھی تو بےیارو مددگار آئے اور ہم نے آپ کی مدد کی ؟ انصار نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہترین اجر دینے والے ہیں اگر تم کہنا چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ بےگھر آئے ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا ؟ انصار نے کہا اللہ اور اس کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا بہتر صلہ دینے والے ہیں اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ کسمپرسی کے عالم میں آئے ہم نے آپ کی غمخواری کی ؟ انصار نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر صلہ دینے والے ہیں فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں میں لے کر جاؤ؟ انصار نے عرض کی : جی ہاں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگ عام ہیں اور تم خاص ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنائم پر بنی عبدالاشہل کے بھائی عباد بن رقش کو ذمہ دار بنایا تھا قبیلہ اسلم کا ایک شخص ننگا آیا اس کے پاس کوئی کپڑا نہیں تھا کہنے لگا : ان چادروں سے مجھے ایک چادر پہنا دو عباد (رض) نے کہا : نہیں یہ غنائم مسلمانوں کی ہیں میرے لیے حلال نہیں کہ ان سے تمہیں کچھ دوں ؟ اس شخص کی قوم نے کہا : ایک چادر اسے دے دو اگر کسی نے کوئی بات کی تو یہ مال ہمارا ہے اور اہمارا دیا ہوا ہے چنانچہ عباد (رض) نے اسے ایک چادر دے دی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی آپ نے فرمایا : مجھے اس کا کوئی خدشہ نہیں کہ تم نے خیانت کی ہے عباد (رض) نے عرض کی : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے اسے چادر نہیں اسے چادر نہیں دی حتی کہ اس کی قوم نے کہا : اگر کسی نے کوئی بات کی تو یہ ہمارا مال ہے اور ہمارا دیا ہوا آپ نے تین بار فرمایا : جزاکم اللہ خیرا۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30205

30205- "مسند بديل بن ورقاء" قال أبو نعيم: حدثنا الحسن بن علان حدثنا عبد الله بن ناجية حدثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري ثنا يحيى بن سعيد عن محمد بن إسحاق عن ابن أبي عبلة عن ابن لبديل بن ورقاء عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يحبس السبايا والأموال يوم حنين بالجعرانة حتى يقدم عليه فحبست. "خ" في تاريخه والبغوي؛ قال في الإصابة: إسناده حسن"1.
30205 ۔۔۔ ” مسند بدیل بن ورقاء “ ابن بدیل بن ورقاء اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین کے دن انھیں حکم دیا کہ جعرانہ کی مقام پر قیدیوں اور غنائم کو روک لیا جائے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئیں چنانچہ قیدی اور غنائم روک دیئے گئے ۔ (رواہ البخاری فی تاریخہ والبغوی وقال فی الاصابۃ اسنادہ حسن)

30206

30206- "مسند البراء بن عازب" عن أبي إسحاق قال: قال رجل للبراء: هل كنتم وليتم يوم حنين يا أبا مارة؟ قال: أشهد على النبي صلى الله عليه وسلم أنه ما ولى، ولكن انطلق أخفاء من الناس وحشر إلى هذا الحي من هوزان وهم قوم رماة فرموهم برشق من نبل كأنها رجل من جراد فانكشفوا فأقبل القوم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو سفيان بن الحارث يقود بغلته، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستنصر ودعا يقول: أنا النبي لا كذب ... أنا ابن عبد المطلب اللهم انزل نصرك. قال: والله إذا احمر البأس نتقي به، وإن الشجاع الذي يحاذي به. "ش" وابن جرير.
30206 ۔۔۔ ” مسند براء بن عازب “ ابو اسحاق کی روایت ہے کہ ایک شیخ نے براء (رض) سے کہا اے ابو مارہ ! کیا تم لوگ حنین میں پسپا ہوگئے تھے ؟ براء (رض) نے کہا : میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسپا نہیں ہوئے البتہ کچھ لوگ ھوازن کی بستی کے پاس جمع ہوگئے تھے ھوازن زبردست تیر انداز تھے انھوں نے مسلمانوں کی اس جماعت پر تیروں کی بارش کردی یہ جماعت کمک لینے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاس آگئی تھی ابو سفیان بن حارث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی نکیل پکڑے ہوئے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خچر سے نیچے اترے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی اور دعا کی آپ فرما رہے تھے ۔ روایت کی ہے کہ انا النبی لا کذب

30207

30207- عن البراء بن عازب قال: لا والله ما ولى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين دبره قال: والعباس وأبو سفيان آخذ بلجام بغلته وهو يقول: أنا النبي لا كذب ... أنا ابن عبد المطلب "ش"، وأبو نعيم.
30207 ۔۔۔ حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ بخدا ! غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسپا نہیں ہوئے جبکہ حضرت عباس (رض) اور ابو سفیان آپ کے خچر کی لگام پکڑے رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے تھے ۔ انا النبی لا کذب

30208

30208- عن البراء قال: كان أبو سفيان يقود بالنبي صلى الله عليه وسلم بغلته يوم حنين، فلما غشي النبي صلى الله عليه وسلم المشركون نزل وهو يرتجز: أنا النبي لا كذب ... أنا ابن عبد المطلب قال: فما رئي من الناس أشد منه. ابن جرير.
30208 ۔۔۔ چنانچہ اس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر حملہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا گیا ۔ (رواہ ابن جریر)

30209

30209- "من مسند بريدة بن الحصيب الأسلمي" عن عبد الله بن بريدة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين انكشف الناس عنه فلم يبق معه إلا رجل يقال له زيد آخذ بعنان بغلته الشهباء، وهي التي أهداها له النجاشي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ويحك يا زيد ادع الناس، فنادى أيها الناس هذا رسول الله يدعوكم فلم يجب أحد عند ذلك فقال: حض الأوس والخزرج فقال: يا معشر الأوس والخزرج هذا رسول الله يدعوكم فلم يجبه أحد عند ذلك فقال: ويحك ادع المهاجرين فإن لله في أعناقهم بيعة قال: فحدثني بريدة أنه أقبل منهم ألف قد طرحوا الجفون وكسروها، ثم أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى فتح عليهم. "ش".
30209 ۔۔۔ ” مسند بریدہ بن حصیب اسلمی “ ۔ عبداللہ بن برید کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن مسلمانوں کو (عارضی طور پر) پسپا ہونا پڑا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف زید نامی ایک شخص باقی رہا اس نے آپ کے خچر کی لگام پکڑی ہوئی تھی یہ خچر نجاشی نے آپ کو ہدیۃ بھیجا تھا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) سے فرمایا : اے زید ! لوگوں کو بلاؤ ، چنانچہ زید (رض) نے آواز دی اے لوگو ! یہ ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بلا رہے ہیں چنانچہ اس پکار پر کسی نے جواب نہ دیا آپ نے فرمایا : خصوصا اوس اور خزرج کو آواز دے کر بلاؤ، چنانچہ زید (رض) نے کہا : اے اوس و خزرج کی جماعت ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہیں تمہیں بلا رہے ہیں چنانچہ اب کی بار بھی کسی نے جواب نہ دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : اے زید تیرا ناس ہو مہاجرین کو بلاؤ چونکہ انھوں نے بیعت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں مجھے بریدہ (رض) نے حدیث سنائی کہ اس پر ایک ہزار مہاجرین امڈ آئے اور اپنی تلواریں بےنیام کرلیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے اور یوں اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب فرمائی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30210

30210- عن جابر قال: كان فيمن ثبت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين أيمن ابن أم أيمن وهو أيمن بن عبيد. أبو نعيم.
30210 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو لوگ ثابت قدم رہے ان میں سے ایک ایمن ابن ام ایمن یعنی ایمن بن عبید بھی تھے ۔ (رواہ ابو نعیم)

30211

30211- عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال يوم حنين: الآن حمي الوطيس، ثم انتحى ركابه وقال: هزموا ورب الكعبة. العسكري في الأمثال.
30211 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب گھمسان کارن پڑے گا پھر آپ نے اپنی رکابیں کس لیں اور فرمایا رب کعبہ کی قسم مشرکین کو شکست ہوگئی ہے (رواہ العسکری فی الامثال)

30212

30212- "مسند الحارث بن بدل السعدي" عن الحارث بن بدل قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين فانهزم أصحابه أجمعون إلا العباس بن عبد المطلب وأبا سفيان بن الحارث فرمى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجوهنا بقبضة من الأرض، فانهزمنا فما خيل إلي أن لا شجر ولا حجر إلا وهو في آثارنا. الحسن بن سفيان، "طب"، وأبو نعيم، "كر".
30212 ۔۔۔ ” مسند حارث بن بدل السعدی “ حارث بن بدل (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک تھا آپ کا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو ہزیمت ہوئی البتہ عباس بن عبدالمطلب اور ابو سفان بن حارث آپ کے ساتھ جمے رہے اتنے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے چہروں پر مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کر ماریں ہمیں شکست ہوئی میں نے دیکھا کہ کوئی درخت اور کوئی پتھر ایسا نہیں تھا جو ہمارے پیچھے بھاگ نہ رہا ہو ۔ (رواہ الحسن بن سفیان والطبرانی وابو نعیم وابن عساکر)

30213

30213- عن الحارث بن سليم بن بدل قال: كنت مع المشركين يوم حنين فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم كفا من حصى فضرب به وجوههم وقال: شاهت الوجوه فهزم الله المشركين. ابن منده، "كر".
30213 ۔۔۔ حارث بن سلیم بن بدل کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن میں مشرکین کے ساتھ تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کر مشرکین کے چہروں پر ماریں اور فرمایا شاھت الوجوہ یعنی چہرے قبیح ہوجائیں پھر یکایک اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین کو شکست سے دو چار کردیا۔ (رواہ ابن مندہ وابن عساکر)

30214

30214- "من مسند الحسين بن علي" قال الزبير بن بكار: حدثني إبراهيم بن حمزة حدثني محمد بن عثمان بن أبي حرملة مولى بني عثمان عن الحسين بن علي قال: كان ممن ثبت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين العباس وعلي وأبو سفيان بن الحارث وعقيل بن أبي طالب وعبد الله بن الزبير بن عبد المطلب والزبير بن العوام وأسامة بن زيد. "كر".
30214 ۔۔۔ ” مسند حسین بن علی “ حسین بن علی (رض) کی روایت ہے کہ حنین کے دن جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمے رہے ان میں سے یہ بھی تھے عباس ، علی ، ابو سفیان بن حارث عقیل بن ابی طالب عبداللہ بن زبیر بن عبدالمطلب زبیر بن عوام اور اسامہ بن زید (رض) ۔ (رواہ ابن عساکر)

30215

30215- عن محمد بن عثمان بن أبي حرملة مولى بني عثمان عن الحسين بن علي قال: كان ممن ثبت مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين العباس وعلي وأبو سفيان بن الحارث وعقيل بن أبي طالب وعبد الله ابن الزبير بن عبد المطلب والزبير بن العوام وأسامة بن زيد. "كر".
30215 ۔۔۔ حسین بن علی کی روایت ہے غزوہ حنین کے موقع پر جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جمے رہے ان میں یہ بھی تھے عباس ، علی ، ابو سفیان بن حارث ، عقیل بن ابی طالب عبداللہ بن زبیر بن عبد المطلب زبیر بن عوام اور اسامہ بن زید (رض) ۔ (رواہ ابن عساکر)

30216

30216- "من مسند أبي السائب خباب" عن حكيم بن حزام سمعنا صوتا من السماء وقع إلى الأرض كأنه صوت حصاة في طست، ورمى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بتلك الحصاة فانهزمنا. "طب".
30216 ۔۔۔ ” مسند ابی سائب خباب “۔ حضرت حکیم بن حزام (رض) کی روایت ہے کہ ہم نے آسمان سے زمین پر ایک آواز سنی جو یوں لگتی تھی جیسے کسی تھال میں کنکریاں پڑنے کی آواز ہوتی ہے اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ کنکریاں ماری تھیں اور ہمیں شکست ہوگئی ۔ (رواہ الطبرانی)

30217

30217- عن رافع بن خديج قال: أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين أبا سفيان بن الحارث وصفوان بن أمية وعيينة بن حصن والأقرع بن حابس مائة من الإبل، وأعطى العباس بن مرداس دون ذلك فقال العباس بن مرداس: أتجعل نهبي ونهب العبي ... د بين عيينة والأقرع وما كان بدر ولا حابس ... يفوقان مرداس في المجمع وما كنت دون امرئ منهما ... ومن يخفض اليوم لا يرفع قال: فأتم له رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة. "كر"
30217 ۔۔۔ حضرت رافع بن خدیج (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن ابو سفیان بن حارث صفوان بن امیہ عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس (رض) کو سو سو اونٹ (تالیف قلب کے طور پر) عطا کیے جبکہ حضرت عباس بن مرداس (رض) کو ان سے کم اونٹ دیئے اس پر عباس بن مرداس (رض) نے یہ اشعار ہے : انجعل نھبی ونھب العبید یدبین عینیہ والاقرع وما کان بدرو ولا حابس یفوقان مرداس فی المجع وما کنت دون امری منھا ومن یحفض الیوم لا یرفع : کیا آپ نے میرا تاخت و تاراج اور غلاموں کا تاخت و تاراج عینیہ اور اقرع کے برابر کردیا ہے جبکہ بدر اور حابس جنگ میں مرداس پر فوقیت نہیں لے جاتے تھے میں کسی طرح بھی ان دونوں سے کمتر نہیں ہوں لیکن جو شخص آج پست ہوگیا وہ کبھی بھی بلند نہیں ہو ستکا چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے بھی سو اونٹ مکمل کر رہے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30218

30218- "من مسند سلمة بن الأكوع" عن إياس بن سلمة قال: حدثني أبي قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوزان فبينما نحن نتضحى وعامتنا مشاة فينا ضعفة إذ جاء رجل على جمل أحمر، فانتزع طلقا من حقبه3 فقيد به جمله رجل شاب، ثم جاء يتغدى مع القوم، فلما رأى ضعفهم وقلة ظهرهم خرج يعدو إلى جمله، فأطلقه، ثم أناخه فقعد عليه، ثم خرج يركضه فاتبعه رجل من أسلم من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم على ناقة ورقاء هي أمثل ظهر القوم، فقعد فاتبعه فخرجت أعدو فأدركته ورأس الناقة عند ورك4 الجمل، وكنت عند ورك الناقة، ثم تقدمت حتى أخذت بخطام الجمل فأنخته، فلما وضع ركبتيه بالأرض اخترطت سيفي فأضرب رأسه فندر فجئت براحلته وما عليها أقوده فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا فقال: من قتل الرجل؟ فقالوا: ابن الأكوع، فنفله سلبه . "ش".
30218 ۔۔۔ ” مسند سلمہ بن اکوع “ ” ایاس بن سلم اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ہم ھوازن کے غزوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک تھے اسی طرح ہم بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے جبکہ ہم میں سے عموماً لوگ پیادہ تھے اور ہم میں کمزور لوگ بھی تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور وہ سرخ اونٹ پر سوار تھا، اس نے اپنے تھیلے سے رسی نکالی اور ایک نوجوان نے اس کا اونٹ باندھ دیا پھر وہ شخص آکر مسلمانوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا جب اس نے مسلمانوں کی کمزوری کا مشاہدہ کرلیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ ان کے پاس سواریاں بھی کم ہیں اٹھ کر اپنے اونٹ کی طرف دوڑ پڑا اس نے اونٹ کھولا پھر بٹھایا اور جلدی سے اس پر سوار ہو کر چل دیا اور اونٹ کو کو چا دے کر بھگانے لگا ، اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے ایک شخص اٹھا اس کا تعلق قبیلہ اسلم سے تھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار ہوا اور اس شخص کے پیچھے ہو لیا جب میں نے یہ دیکھا تو میں بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑا جب میں نے انھیں جا لیا تو دیکھا کہ اونٹنی کا سر (جاسوس کے) اونٹ کی سرینوں سے لگتا تھا اور میں اونٹنی کے عین پیچھے تھا پھر میں پھرتی سے آگے بڑھا اونٹ کی لگام پکڑلی پھر اونٹ کو بٹھایا جب اونٹ نے گھٹنے زمین پر ٹیکے میں نے جھٹ تلوار سونت لی اور لمحہ بھر میں اس کا سر کاٹ دیا یوں وہ ٹھنڈا ہوگیا میں اس کا سازو سامان اور اونٹ لے کر واپس لوٹ آیا تھوڑی دیر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور فرمایا : جاسوس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ مسلمانوں نے جواب دیا سلمہ بن اکوع نے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتول کا سازوسامان مجھے انعام میں دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30219

30219- "مسند شيبة بن عثمان العبدري صاحب الكعبة" عن مصعب بن شيبة عن أبيه قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين والله ما خرجت إسلاما ولكني خرجت آنفا أن تظهر هوزان على قريش، فوله إني لواقف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قلت: يا نبي الله إني لأرى خيلا بلقا قال: يا شيبة إنه لا يراها إلا كافر فضرب بيده في صدري فقال: اللهم اهد شيبة ففعل ذلك ثلاثا، فما رفع النبي صلى الله عليه وسلم يده عن صدري الثالثة حتى ما أحد من خلق الله تعالى أحب إلي منه، فالتقى المسلمون فقتل من قتل ثم أقبل النبي صلى الله عليه وسلم وعمر آخذ باللجام والعباس آخذ بالثفر فنادى العباس: أين المهاجرون أين أصحاب سورة البقرة بصوت عال؟ هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقبل الناس والنبي صلى الله عليه وسلم يقول قدماها: أنا النبي لا كذب ... أنا ابن عبد المطلب فأقبل المسلمون فاصطكوا بالسيوف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الآن حمي الوطيس. "كر".
30219 ۔۔۔ ” مسند شیبۃ بن عثمان عبدی صاحب کعبہ “ مصعب بن شیبۃ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : غزوہ حنین کے موقع پر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا بخدا ! میں اسلام قبول کرنے کی غرض سے نہیں گیا تھا البتہ میں اس لیے گیا تھا تاکہ ھوازن قریش پر چڑھائی کریں اور میں تماشا دیکھوں اسی اثناء میں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑا تھا یکایک میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میں ابلق گھوڑوں پر سوار لوگوں کو دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا : اے شیبہ ! ان گھڑ سواروں کو کسی کافر کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر تین بار فرمایا : یا اللہ ! شیبہ کو ہدایت عطا فرما چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی اور سطح زمین پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں تھی چنانچہ مسلمانوں نے بےجگری سے جنگ لڑی جس نے جنگ میں قتل ہونا تھا وہ ہوا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس لوٹے جبکہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) آپ کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور عباس (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے اتنے میں عباس (رض) نے اعلان کیا : کہاں ہیں مہاجرین عباس (رض) نے بااواز بلند یہ اعلان کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہیں پھر لوگوں نے آپ کی طرف امڈ آنا شروع کیا جبکہ آپ یہ رجز یہ شعر پڑھ رہے تھے : انا النبی لا کذب

30220

30220- عن عبادة بن الصامت قال: أخذ العباس بعنان دابة رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين حين انهزم المسلمون، فلم يزل آخذا بعنان دابته حتى نصر الله رسوله وهزم المشركون. الزبير بن بكار، "كر".
30220 ۔۔۔ حضرت عبادہ بن صامت (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن حضرت عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی لگام پکڑی ہوئی تھی اسی اثناء میں مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا عباس (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی لگام برابر پکڑے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح عطا کی اور مشرکین کو شکست دی ۔ (رواہ الزبیر بن بکار وابن عساکر)

30221

30221- عن العباس بن المطلب قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين وما معه إلا أنا وأبو سفيان بن الحارث، فلزمنا النبي صلى الله عليه وسلم فلم نفارقه وهو على بغلة شهباء، وأنا آخذ بلجامها أكفها وهو لا يألو ما أسرع نحو المشركين فقال لي: ناد أصحاب السمرة فأقبل المسلمون فنظر وهو كالمتطاول إلى قتالهم فقال هذا حين حمي الوطيس، ثم أخذ حصيات فرمى بها وجوههم وقال: هزموا ورب الكعبة، فهزمهم الله فكأني أنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم خلفهم يركض على بغلته. العسكري في الأمثال.
30221 ۔۔۔ حضرت عباس بن مطلب کی روایت ہے کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میں آپ کے ساتھ صرف میں اور ابوسفیان بن حارث تھے ہم دونوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چمٹے رہے آپ سے الگ نہیں ہوئے ، آپ خچر پر سوار تھے میں نے لگام پکڑی ہوئی تھی اور برابر خچر کو روک رہا تھا جبکہ خچر مشرکین کی طرف دوڑے جا رہا تھا آپ نے مجھے فرمایا : اصحاب سمرہ کو بلاؤ اتنے میں مسلمان واپس لوٹ آئے دیکھا کہ آپ لڑائی کے لیے تیار ہیں آپ نے فرمایا : اب جنگ کے شعلے بلند ہوں گے پھر آپ نے مٹھی بھر کنکریاں اٹھا کر مشرکین کی طرف پھنکیں اور فرمایا : رب کعبہ کی قسم مشرکین ہزیمت خوردہ ہوچکے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست سے دو چار کیا وہ وقت مجھے یوں یاد ہے گویا میں ابھی ابھی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میں آپ کے پیچھے ہوں ۔ (رواہ العسکری فی الامثال)

30222

30222- عن أبي بكر بن سبرة عن إبراهيم بن عبد الله عن عبيد بن عبد الله بن عتبة عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: جاءت أخت رسول الله صلى الله عليه وسلم السعدية إليه مرجعه من حنين فلما رآها رحب بها وبسط لها رداءه، لأن تجلس عليه فاعظمت ذلك، فعزم عليها فجلست فذرفت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلت دموعه لحيته فقال رجل من القوم: أتبكي يا رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم لرحمها وما دخل عليها، لو كان لأحدكم أحد ذهبا ثم أعطاه في حق رضاعه ما أدى حقها، أما حقي الذي آخذ منك فلك، وأما ما للمسلمين فلست بآخذته إلا أن يطيبوا به نفسا، قال: فلم يبق أحد من المسلمين إلا أدى ما أخذ منها. "عب"؛ قال في المغني: أبو بكر بن أبي سبرة قال "حم": كان يضع الحديث.
30222 ۔۔۔ ابوبکربن سبرہ ابراہیم بن عبداللہ عبید بن عبداللہ بن عتبہ ایک صحابی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین کی مہم سے فارغ ہو کر واپس لوٹے تو آپ کی رضاعی بہن سعدیہ (رض) آپ کے پاس تشریف لائیں آپ نے انھیں دیکھ کر مرحبا فرمایا اور ان کی لیے اپنی چادر بچھائی جب سعدیہ چادر پر بیٹھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے حتی کہ آنسوؤں سے آپ کی ڈاڑھی تر ہوگئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ رو رہے ہیں ؟ فرمایا : جی ہاں مجھے ان کی رحمت پر رونا آتا ہے بالفرض اگر تم میں سے کسی شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو پھر وہ خرچ کر دے وہ ان کی رضاعت کا حق ادا نہیں کرسکتا ، رہی بات میرے حق کی جو میں نے تم سے لیا ہے وہ تمہارا ہے رہا مسلمانوں کا حق سو وہ ان کا اپنا حق ہے میں ان کی دلی رضا مندی کے بغیر نہیں لے سکتا ۔ چنانچہ مسلمانوں نے جو بھی لیا تھا وہ دے دیا ۔ (رواہ عبدالرزاق) ۔ کلام : ۔۔۔ معنی میں ہے کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ ابوبکر بن سبرہ موضوع احادیث بیان کرتا تھا ۔

30223

30223- عن ابن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سبى يوم حنين ستة آلاف بين غلام وامرأة، فجعل عليهم أبا سفيان بن الحارث. الزبير بن بكار، "كر".
30223 ۔۔۔ ابن مسیب کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھ ہزار کے لگ بھگ مرد اور عورتیں قید کیں اور ابو سفیان بن حارث کو ان پر نگران مقرر کیا ۔ (رواہ الزبیر بن بکار وابن عساکر)

30224

30224- عن عروة بن محمد بن عطية عن أبيه عن جده عطية أنه كان ممن كلم النبي صلى الله عليه وسلم يوم سبى هوزان فقال: يا رسول الله عشيرتك وأصلك وكل المرضعين دونك، ولهذا اليوم اختبأناك، وهن أمهاتك وأخواتك وخالاتك، وكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم أصحابه فرد عليهم سبيهم إلا رجلين فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اذهبوا فخيروهما، فقال أحدهما: إني أتركه وقال الآخر: إني لا أتركه، فلما أدبر قال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم أخس سهمه فكان يمر بالجارية البكر وبالغلام فيدعه حتى مر بعجوز فقال: إني آخذ هذه فإنها أم حي ويستنقذونها مني بما قدروا عليه فكبر عطية فقال: خذها فوالله ما فوها ببارد ولا ثديها بناهد ولا وافدها بواجد عجوز بتراء شنة ما لها أحد، فلما رآها لا يعرض لها أحد تركها. "كر".
30224 ۔۔۔ عروہ بن محمد بن عطیہ عن ابیہ عن جدہ عطیہ کی سند سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عطیہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ھوازن کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ سے بات چیت کی تھی چنانچہ عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ آپ کا خاندان ہے آپ کے علاوہ سب کو دودھ پلانے والے ہیں ہم نے آج کے دن کے لیے اس رشتہ کو چھپا رکھا ہے ھوازن کی عورتیں آپ کی مائیں ہیں آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی خالائیں ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے بات چیت کی چنانچہ آپ نے قیدیوں کو واپس کردیا البتہ دو شخصوں نے قیدی واپس کرنے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا : انھیں ساتھ لے جاؤ اور انھیں اختیار دو ان میں سے ایک نے کہا کہ میں بھی اپنا حصہ چھوڑتا ہوں ، دوسرے نے کہا : میں اپنا حصہ نہیں چھوڑتا جب وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا آپ نے فرمایا : یا اللہ ! اس کے حصہ کو بےبرکت کر دے چنانچہ وہ جس غلام یا باندی کے پاس سے گزرتا چشم پوشی کرجاتا حتی کہ ایک بوڑھیا کے پاس سے گزرا کہنے لگا : میں اپنے حصہ میں اسے لوں گا چونکہ یہ بستی والوں کی ماں ہے بستی والے گراں بدل دے کر اسے چھڑائیں گے اس پر عطیہ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہا : چلو اسی کو لے لو نہ تو یہ بارونق چہرے والی ہے نہ اس کے پستانوں سے دودھ نکلے گا اور نہ ہی اس کے قرب کی کسی کو خواہش ہوتی ہے ایک بڑھیا ہے جس کی طرف کسی کو رغبت نہیں جب اس شخص نے دیکھا کہ بڑھیا کے لیے کوئی تعرض نہیں کررہا اس نے اسے بھی چھوڑا دیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30225

30225- عن أنس قال لما كان يوم حنين قال النبي صلى الله عليه وسلم: الآن حمي الوطيس، وكان علي بن أبي طالب أشد الناس قتالا بين يديه. العسكري في الأمثال.
25 302 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ حنین کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اب لڑائی کے شعلے بھڑکیں گے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اس دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے زبردست حملے کرتے تھے ۔ (رواہ العسکری فی الامثال)

30226

30226- عن أنس كان من دعاء النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين: اللهم إنك إن تشأ لا تعبد بعد هذا اليوم. "ش".
30226 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ ہے کہ حنین کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعا تھی یا اللہ اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہیں کی جائے گی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30227

30227- عن ابن شهاب قال أخبرني عمر بن محمد بن جبير عن أبيه عن جده قال: بينما هو يسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه الناس مقبلة من حنين علقت رسول الله صلى الله عليه وسلم الأعراب يسألونه حتى اضطروه إلى سمرة فخطفت رداءه، فوقف رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أعطوني ردائي، فلو كان لي عدد هذه العضاه نعم لقسمته بينكم، ثم لا تجدوني بخيلا ولا كذابا ولا جبانا. ابن جرير في تهذيبه.
30227 ۔۔۔ ابن شہاب کی روایت ہے کہ عمر بن محمد بن جبیر عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہی کہ حنین سے واپس کے موقع پر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی تھے پھر اعراب میں آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اعراب آپ سے مانگتے تھے حتی کہ اسی عالم میں آپ کی چادر ایک درخت کے ساتھ اٹک گئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رک گئے اور فرمایا : میری چادر مجھے دو اگر میرے پاس ان جھاڑیوں کے بقدر مال ہوتا میں وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتا پھر تم مجھے بخیل نہ پاتے نہ جھوٹا پاتے اور نہ بزدل پاتے۔ (رواہ ابن جریر فی تھذیب)

30228

30228- عن نافع بن جبير بن مطعم عن أبيه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال وهو عند ثنية الأراكة وهو يعطي حين فرغ من حنين، فاضطره الناس إلى سلمة فانتزع غصن من السلمة رداءه، فالتفت إلينا بوجهه مثل شقة القمر فقال: أعطوني ردائي، فأعطيناه إياه ثم قال: تخافون علي البخل فوالذي نفسي بيده لو كان عندي مثل صوحي هذا الجبل لأعطيتكموه قال: وصوحا الجبل جانباه ومقادمه ومآخره. ابن جرير؛ وقال: إنما هو صوحاة الجبل ولكن الشيخ كذا قال.
30228 ۔۔۔ نافع بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے روایت نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حنین سے فارغ ہوئے آپ ثنیۃ الارا کہ کے مقام پر تھے اور لوگوں کو مال دے رہے تھے یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جھاڑی کے پاس جا پہنچے جھاڑی کی ایک ٹہنی سے آپ کی چادر اٹک گئی آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے یوں لگے جیسے چاند کا ٹکڑا ہو فرمایا میری چادر مجھے دو ہم نے چادر آپ کو دی پھر فرمایا ! کیا تم مجھ پر بخل کا خوف کرتے ہو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میرے پاس ان دو پہاڑوں کے درمیان خلا کے برابر مال ہوتا میں وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم کردیتا ۔ (رواہ ابن جریر)

30229

30229- عن أبي الزبير عن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا ببطن نخلة واجتمع إليه الناس فركبوه فمر بشجرة فنشبت بردائه فتخرق، فأقبل علينا بوجهه كأنه فلقة قمر وكأن عكنه أساريع ذهب فقال: يا أيها الناس أمكنوني من ردائي أتخافون علي البخل؟ فوالذي نفسي بيده لو كان معي مثل شجر وطائر نعم حمر لقسمته بينكم ثم لا تجدوني بخيلا ولا جبانا ولا كذابا. أبو نعيم.
30229 ۔۔۔ حضرت جبیر بن مطعم (رض) کی روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کہا (یعنی غزوہ حنین) حتی کہ جب ہم واپسی پر مقام بطن نخلہ پر پہنچے تو وہاں آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم ہوگیا آپ لوگوں میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک درخت کے پاس سے گزرے جس سے اٹک کر آپ کی چادر اتر گئی آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے یوں لگے جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور آپ کے بدن کی سلوئیں ایسی دکھائی دیتی تھیں جیسے سونے کی لکیریں ہوں فرمایا : اے لوگو مجھے میری چادر دو کیا تم مجھے بخیل سمجھتے ہو بخدا اگر میرے پاس درختوں اور پرندوں کے بقدر چوپائے ہوتے ہیں وہ سب تمہارے درمیان تقسیم کردیتا پھر تم مجھے بخیل جھوٹا اور بزدل نہ پاتے ۔ (رواہ ابونعیم)

30230

30230- عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين سأله الناس فأعطاهم من البقر والغنم والأبل، حتى لم يبق شيء من ذلك فماذا تريدون؟ أتريدون أن تبخلوني؟ فوالله ما أنا ببخيل ولا جبان ولا كذوب، فجذبوا ثوبه حتى بدا منكبه فكأنما انظر حين بدا منكبه إلى شقة القمر من بياضه. ابن جرير؛ وسنده على شرط الشيخين.
30230 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ حنین کے موقع پر لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال مانگا آپ نے لوگوں کا گائیں اونٹ اور بکریاں دیں حتی کہ جب آپ کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا اور لوگوں نے پھر بھی آپ کا ہجوم بنائے رکھا فرمایا : اے لوگو ! تم کیا چاہتے ہو ؟ کیا تم مجھے بخیل سمجھتے ہو ؟ بخدا میں بخیل نہیں ہوں نہ بزدل ہوں اور نہ جھوٹا ہوں لوگوں نے آپ کی چادر کھینچ لی حتی کہ آپ کا کاندھا ننگا ہوگیا جب کاندھا مبارک ننگا ہوا مجھے یوں لگا جیسے میں چاند کا ٹکڑا دیکھ رہا ہوں (رواہ ابن جریر وسندہ علی شرط الشیخین)

30231

30231- عن هشام بن زيد عن أنس قال: لما كان يوم حنين جمعت هوزان وغطفان للنبي صلى الله عليه وسلم جمعا كثيرا والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ في عشرة آلاف أو أكثر من عشرة آلاف ومعه الطلقاء، فجاؤوا بالنفر والذرية، فجعلوا خلف ظهورهم، فلما التقوا ولى الناس والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ على بغلة بيضاء، فنزل فقال: إني عبد الله ورسوله ونادى يومئذ نداءين لم يخلطا بينهما كلاما، فالتفت عن يمينه فقال: أي معشر الأنصار فقالوا: لبيك يا رسول الله نحن معك، ثم التفت عن يساره فقال: يا معشر الأنصار فقالوا: لبيك يا رسول الله نحن معك، ثم نزل إلى الأرض، فالتقوا فهزموا، وأصابوا من الغنائم، فأعطى النبي صلى الله عليه وسلم الطلقاء وقسم فيها، فقالت الأنصار: ندعى عند الشدة، وتقسم الغنيمة لغيرنا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فجمعهم وقعد في قبة فقال: أي معشر الأنصار ما حديث بلغني عنكم؟ فسكتوا فقال: يا معشر الأنصار لو أن الناس سلكوا واديا، وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار، ثم قال: أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبوا برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم تحوزنه إلى بيوتكم؟ قالوا: رضينا يا رسول الله. قال هشام بن زيد: قلت لأنس: وكنت شاهد ذلك؟ قال: وأين أغيب عن ذلك. "كر. ش".
30231 ۔۔۔ ہشام بن زید حضرت انس (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر ہو ازان اور غطفان نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جم غفیر جمع کرلیا جب کہ مسلمانوں کی تعداد دس ہزار (10000) کے لگ بھگ تھی نیز مسلمانوں کے ساتھ طلقاء (وہ لوگ جن کی فتح مکہ کے دن اترے اور ر فرمایا : میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اس دن آپ نے دو مرتبہ آواز دی ان دونوں آوازوں کے درمیان کوئی اور کلام حائل نہیں تھا آپ نے دائیں طرف دیکھا فرمایا۔ اے انصار کی جماعت ! انصار کی جماعت انصار نے عرض کی : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم حاضر ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں پھر بائیں طرف دیکھا اور فرمایا : اے انصار کی جماعت انصار ! نے عرض کی : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم حاضر ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں پھر آپ آگے بڑھے فریقین کے درمیان جنگ ہوئی نتیجہ مشرکین کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کا مال کثیر غنیمت میں ملا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت (تالیف قلب کے طور پر) طلقاء میں تقسیم کیا اس پر انصار نے کہا : سختی کے وقت ہمیں بلا لیا جاتا ہے اور اموال غنیمت دوسروں میں تقسیم کردیئے جاتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر ہوئی آپ نے انصار کو جمع کیا اور آپ ایک خیمے میں تشریف لے گئے پھر فرمایا : اے جماعت انصار ! میں یہ کیا سن رہا ہوں ؟ انصار خاموش رہے آپ نے فرمایا : اے جماعت انصار اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار کسی دوسری گھاٹی میں چل رہے ہوں میں انصار کی گھاٹی میں چلنے کو ترجیح دوں گا پھر فرمایا : کیا تم راضی ہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر واپس جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں میں لے کر جاؤ انصار نے عرض کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم راضی ہیں۔ ہشام بن زید کہتے ہیں میں نے حضرت انس (رض) سے کہا : کیا آپ اس واقعہ میں موجود تھے ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا : میں کہاں غائب ہوتا۔ (رواہ ابن عساکر وابن ابی شیبۃ)

30232

30232- عن أنس قال: جاء أبو طلحة يوم حنين يضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ألم تر إلى سليم معها خنجر؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أم سليم ما أردت إليه؟ قالت: أردت غن دنا إلي أحد منهم طعنته به. "ش".
30232 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ حنین کے دن حضرت ابو طلحہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنساتے ہوئے آئے اور وہ کہہ رہے تھے : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ام سلیم (رض) کو نہیں دیکھا اس نے اپنے پاس خنجر رکھا ہوا ہے ؟ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلیم (رض) سے فرمایا : اے ام سلیم (رض) تم نے خنجر کس لیے رکھا ہوا ہے ؟ وہ بولیں : میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی دشمن میرے قریب آیا میں اسے زخمی کروں گا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30233

30233- عن أنس قال: أعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم من غنائم حنين الأقرع بن حابس مائة من الإبل وعينة بن حصن مائة من الإبل، فقال ناس من الأنصار: يعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائمنا ناسا تقطر سيوفنا من دمائهم أو تقطر سيوفهم من دمائنا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأرسم إليهم فجاؤوا فقال: فيكم غيركم؟ قالوا: لا إلا ابن أختنا قال: إن ابن أخت القوم منهم فقال: قلتم كذا وكذا أما ترضون أن يذهب الناس بالشاء والبعير وتذهبون بمحمد إلى دياركم قالوا: بلى يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الناس دثار والأنصار شعار الأنصار كرشي وعيبتي فلولا الهجرة لكنت امرءا من الأنصار. "ش".
30233 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ حنین سے ملنے والے تاخت و تاراج میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصن کو سو سو اونٹ دیئے انصار میں سے کچھ لوگ کہنے لگے : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے غنائم ایسے لوگوں کو دے دی ہیں جن کے خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہے ہیں یا کہا جن کی تلواروں سے ہمارے خون ٹپک رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی آپ نے انصار کو پیغام بھیج کر بلوایا جب انصار خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا : کیا تمہارے درمیان تمہارے علاوہ کوئی اور شخص بھی ہے ؟ انصار نے عرض کی : نہیں البتہ ہماری بہن کا بیٹا ہے۔ آپ نے فرمایا : قوم کی بہن کا بیٹا اس قوم کا فرد ہوتا ہے پھر آپ نے فرمایا : تم لوگ ایسی ویسی باتیں کرتے ہو ؟ کیا تم راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ لے کر واپس جائیں اور تم اپنے گھروں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر جاؤ؟ عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم راضی ہیں آپ نے فرمایا : لوگ عام ہیں اور انصار خاص ہیں اور انصار میری جماعت اور میرے خاص لوگ ہیں اگر ہجرت کی تقدیر نہ ہوتی میں جماعت انصار میں سے ہوتا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30234

30234- عن أنس أن هوزان جاءت بالصبيان يوم حنين والنساء والإبل والغنم فجعلوها صفوفا يكثرون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما التقوا ولى المسلمون كما قال الله تعالى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عباد الله أنا عبد الله ورسوله ثم قال: يا معشر المهاجرين أنا عبد الله ورسوله قال: فهزم الله المشركين ولم يضرب بسيف ولم يطعن برمح وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ: من قتل كافرا فله سلبه، فقتل أبو طلحة يومئذ عشرين رجلا، فأخذ أسلابهم وقال أبو قتادة: يا رسول الله إني ضربت رجلا على جبل العاتق وعليه درع له قد تحصفت عنه فأعجلت عنه، قال: فانظر من أخذها، فقام رجل فقال: انا أخذتها فأرضه عنها، وأعطنيها وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يسأل شيئا إلا أعطاه أو سكت، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال عمر: لا والله لا يفيئها الله على أسد من أسده، ويعطيكها فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: صدق عمر ولقي أبو طلحة أم سليم ومعها خنجر فقال أبو طلحة يا أم سليم: ما هذا معك؟ قالت أردت إن دنا مني بعض المشركين أن أبعج به بطنه، فقال أبو طلحة: يا رسول الله ألا تسمع ما تقول أم سليم؟ قالت: يا رسول الله اقتل من بعدنا من الطلقاء انهزموا بك يا رسول الله فقال: إن الله قد كفى وأحسن. "ش".
30234 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ ہوازن حنین کے موقع پر اپنے بچے عورتیں اونٹ اور بھیڑ بکریاں لے آئے اور صفیں بنا ڈالیں انھوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی کثرت معلوم ہو جب جنگ ہوئی تو مسلمانوں کو عارضی طور پر پسپا ہونا پڑا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے اللہ کے بندو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ پھر فرمایا : اے مہاجرین کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی کوئی تلوار نہیں چلائی اور نہ ہی کوئی نیزہ چلایا اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا کافر کا سازو و سامان قاتل کے لیے ہوگا چنانچہ ابو طلحہ (رض) نے بیس کافروں کا قتل کیا اور سب کا سازوسامان انھوں نے لے لیا ابو قتادہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے ایک شخص کے کاندھے پر کاری ضرب لگائی ہے اس نے زرہ پہن رکھی تھی زرہ کٹ گئی تھی تاہم میں اسے اسی حالت میں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تھا آپ نے فرمایا : دیکھو کس نے اس کا سازوسامان لیا ہے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : میں ن ے اس کا سازوسامان لیا ہے آپ قتادہ کو اور کچھ دے دیں اور یہ سامان مجھی کو لینے دیں چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ مانگا جاتا آپ عطا کردیتے تھے یا خاموش ہوجاتے تھے آپ اس مرتبہ خاموش رہے اتنے میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : بخدا ! ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک شیر کے مال کو چھین کر دوسرے شیر کو دے دے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور فرمایا : عمر نے سچ کہا حضرت ابوطلحہ (رض) ام سلیم (رض) سے ملے اور ام سلیم (رض) کے پاس خنجر تھا ابو طلحہ نے پوچھا : اے ام سلیم تمہارے پاس یہ کیا ہے ؟ ام سلیم (رض) نے کہا : میں چاہتی ہوں کہ اگر کوئی مشرک میرے پاس آیا وت اس سے میں اسے زخمی کروں گی اور اس کے پیٹ میں کچوکے لگاؤں گی ابو طلحہ (رض) نے عرض کی یا رسول اللہ آپ نے ام سلیم (رض) کو نہیں سنا وہ کیا کہتی ہے ؟ ام سلیم (رض) بولیں : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! طلقاء میں سے ہمارے بعد جو شخص ہوگا میں اسے قتل کروں گی اس پر آپ نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے کفایت کردی ہے اور ہمارے حق میں جنگ کا اچھا نتیجہ دیا ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30235

30235- "مسند الصديق" عن القاسم بن محمد قال: رمي عبد الله بن أبي بكر بسهم يوم الطائف فانتقض به بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بأربعين ليلة فمات فلم يزل ذلك السهم عند أبي بكر، فقدم عليه وفد ثقيف فأخرج إليهم فقال: هل يعرف هذا السهم منكم أحد؟ فقال سعد بن عبيد أخو بني العجلان: هذا سهم أنا بريته ورشته وعقبته وأنا رميت به فقال أبو بكر: إن هذا السهم الذي قتل عبد الله بن أبي بكر فالحمد لله الذي أكرمه بيدك ولم يهنك بيده فإنه واسع لكما. "هق".
30235 ۔۔۔ ” مسند صدیق “ قاسم بن محمد کی روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی بکر کو غزوہ طائف کی موقع پر ایک تیر لگا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے چالیس دن بعد عبداللہ (رض) کے لیے جان لیوا ثابت ہوا یہ تیر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس رہا حتی کہ ثقیف کا وفد آیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے وفد کو یہ تیر دکھایا اور کہا : کیا تم میں سے کوئی شخص اس تیر کو پہنچانتا ہے ؟ چنانچہ سعد بن عبید بنی عجلان کے بھائی نے کہا : یہ تیر میں نے بنایا ہے اور اس کے پر بھی میں نے ہی لگائے ہیں اور میں نے ہی یہ تیر چلایا تھا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : یہ وہی تیر ہے جس نے عبداللہ بن ابی بکر کو قتل کیا ہے تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے عبداللہ کو عزت بخشی تمہارے ہاتھ سے اور اس کے ہاتھ سے تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچنے دیا ۔ (رواہ البیہقی فی السنن)

30236

30236- عن جابر قال: لقد بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الطائف حنظلة بن الربيع إلى أهل الطائف فكلمهم، فاحتملوه ليدخلوه حصنهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لهؤلاء وله مثل أجر غزاتنا هذه؟ فلم يقم إلا العباس بن المطلب حتى أدركه في أيديهم قد كادوا أن يدخلوه الحصن، فاحتضنه العباس وكان رجلا شديدا فاختطفه من أيديهم وأمطروا على العباس الحجارة من الحصن فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يدعو له حتى انتهى به إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم. "كر".
30236 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ غزوہ طائف کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنظلہ بن ربیع کو اہل طائف کے پاس بات چیت کرنے کے لیے بھیجا ، اہل طائف حنظلہ (رض) کو اٹھا کرلے گئے اور اپنے قلعہ میں داخل کرنا چاہتے تھے : یہ حالت دیکھ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ان لوگوں سے حنظلہ کو وا گزار کرا کر لائے گا اس کے لیے اس غزوے جیسا اجر وثواب ہوگا چنانچہ اس کام کے لیے صرف عباس بن عبدالمطلب (رض) اٹھے انھوں نے دشمن کو قلعے کے دروازے پر جا لیا قریب تھا کہ وہ لوگ حنظلہ (رض) کو قلعہ میں داخل کرلیتے لیکن جھپٹ کر عباس (رض) نے حنظلہ (رض) کو ان سے چھین لیا عباس (رض) زبردست تندھی کے مالک تھے جونہی حنظلہ (رض) کو لے کر واپس پلٹے قلعہ کے اوپر سے ان پر دشمن نے پتھروں کی بارش برسا دی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عباس (رض) کی لیے دعائیں کرتے رہے حتی کہ عباس (رض) صحیح و سلامت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30237

30237- "من مسند سعد الأنصاري" عن سعيد بن عبيد الثقفي قال: رأيت أبا سفيان بن حرب يوم الطائف قاعدا في حائط أبي يعلى يأكل فرميته فأصبت عينه فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله هذه عيني أصيبت في سبيل الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن شئت دعوة الله فردت عليك، وإن شئت فالجنة قال: فالجنة. "كر".
30237 ۔۔۔ ” مسند سعد انصاری “ سعید بن عبید ثقفی کی روایت ہے کہ میں نے ابو سفیان بن حرب کو غزوہ طائف کے دن دیکھا کہ وہ ابویعلی کے باغ میں بیٹھے رہے تھے اور کچھ کھا رہے تھے میں نے آنکھ کا نشانہ لے کر تیر مارا جو سیدھا نشانے پہ جا لگا اور ان کی آنکھ جاتی رہی ابو سفیان اٹھ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں میری آنکھ شہید ہوچکی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہو تمہاری آنکھ درست ہوجائے گی اور اگر چاہو کہ اس کے بدلہ میں تمہیں جنت ملے ابو سفیان نے عرض کی : مجھے جنت ملے ۔ (رواہ ابن عساکر) ۔ فائدہ : ۔۔۔ حدیث میں ان بدباطن لوگوں کے شبے کا ازالہ ہے کہ ابوسفیان کبھی بھی دل سے مسلمان نہیں ہوئے محض جان بچانے کے لیے اسلام قبول کرلیا تھا اور ہمیشہ تاوفات نفاق پر رہے بھلا ایک شخص اسلام قبول کرے اور کفر سے تائب ہو جیسا کہ فتح مکہ کے متعلق بیشمار مرویات میں گزر چکا ہے اور پھر اپنی آنکھ کو خدا کی راہ میں شہید کرے پھر شام کی فتوحات میں اہل خانہ کے ساتھ شریک ہو اس کے متعلق لب کشائی کرنا پرلے درجے کی بےہودگی ہے کیا اسلام ماقبل کی برائیوں کو ختم نہیں کردیتا ۔

30238

30238- عن ابن عباس قال: أعتق رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم الطائف كل من خرج إليه من رقيق المشركين. "ش".
30238 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کے موقع پر مشرکین کے ہر اس غلام کو آزاد کردیا جو مشرکین کے پاس سے نکل کر آپ کے پاس پہنچ گیا تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30239

30239- عن ابن عباس قال: خرج غلامان إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الطائف فأعتقهما، أحدهما أبو بكرة فكانا مولييه. "ش".
30239 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ غزوہ طائف کے موقع پر دو غلام نکل کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاس آئے آپ نے انھیں آزاد کردیا انمیں سے ایک سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30240

30240- عن علي قال: نصب رسول الله صلى الله عليه وسلم المنجنيق على أهل الطائف. "عق"؛ وفيه عبد الله بن خراش بن حوشب، قال "خ" منكر الحديث.
30240 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف پر منجنیق نصب کی تھی ۔ (رواہ العقیلی) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث موضوع ہے چونکہ اس کی سند میں عبداللہ بن خراش بن خوکشب راوی ہے امام بخاری اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے دیکھے حسن الاثر 480 ۔

30241

30241- عن خزيمة بن ثابت قال: حضرت مؤتة فبارزت رجلا يومئذ فأصبته وعليه بيضة له فيها ياقوتة فلم يكن همي إلا الياقوتة، فأخذتها، فلما انكشفنا وانهزمنا رجعت بها إلى المدينة فأتيت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فنفلنيها فبعتها زمن عمر بمائة دينار. الواقدي، "كر".
30241 ۔۔۔ حضرت خزیمہ بن ثابت (رض) کی روایت ہے کہ میں غزوہ موتہ میں شریک رہا ہوں اس دن میں نے ایک شخص کو مقابلے کے لیے للکارا تاہم وہ میرے مقابلے پر اتر آیا اس کے سر پر خود تھا اور خود میں قیمتی موتی جڑا ہوا تھا اسے للکارنے سے میرا مقصد یہی قیمتی جو ہر تھا میں نے اسے قتل کرکے موتی لے لیا پھر جب ہم پسپا ہوئے میں یہ موتی لے کر مدینہ واپس ہوا اور موتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا آپ نے انعام میں وہ موتی مجھے عطا کردیا پھر میں نے یہ موتی حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ایک سو دینار میں فروخت کیا ۔ (رواہ الواقدی وابن و عساکر)

30242

30242- عن أبي قتادة قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش الأمراء وقال: عليكم زيد بن حارثة، فإن أصيب زيد فجعفر بن أبي طالب، فإن أصيب جعفر فعبد الله بن رواحة، فوثب جعفر فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما كنت أرتقب أن تستعمل علي زيدا قال: أمضه فإنك لا تدري في أي ذلك خير فانطلقوا فلبثوا ما شاء الله، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صعد المنبر وأمر أن ينادى: الصلاة جامعة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: باب خير وباب خير - ثلاثا - ألا أخبركم عن جيشكم هذا الغازي: انطلقوا فلقوا العدو فأصيب زيد شهيدا، فاستغفروا له فاستغفر له الناس، ثم أخذ اللواء جعفر بن أبي طالب فشد على القوم حتى قتل شهيدا، فاستغفروا له فاستغفر له الناس، ثم أخذ اللواء عبد الله بن رواحة فثبت قدميه حتى قتل شهيدا أشهد له بالشهادة، فاستغفروا له فاستغفر له الناس ثم أخذ اللواء خالد بن الوليد ولم يكن من الأمراء هو آمر نفسه، ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم ضبعيه فقال: اللهم هذا سيف من سيوفك فانتقم به - وفي لفظ: فأنت تنصره - فسمي خالد سيف الله قال: انفروا وأمدوا إخوانكم ولا يتخلفن منكم أحد فنفر الناس في حر شديد مشاة وركبانا، فبينما هم ليلة مما يلين عن الطريق إذ نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى مال عن الرحل فأتيته فدعمته بيدي فلما وجد مس يد رجل اعتدل فقال: من هذا؟ فقلت: أبو قتادة فسار أيضا، ثم نعس حتى مال عن الرحل، فأتيته فدعمته بيدي فلما وجد مس يد رجل اعتدل فقال: من هذا؟ فقلت: أبو قتادة قال في الثانية أو الثالثة: ما أراني إلا قد شققت عليك منذ الليلة؟ قلت: كلا بأبي أنت وأمي ولكن أرى الكرى أو النعاس قد شق عليك، فلو عدلت فنزلت حتى يذهب كراك؟ قال: إني أخاف أن يخذل الناس قال: كلا بأبي أنت وأمي. قال: فأبغنا مكانا خمرا فعدلت عن الطريق فإذا أنا بعقدة من شجر فجئت فقلت: يا رسول الله هذه عقدة من شجر قد أصبتها فعدل رسول الله صلى الله عليه وسلم وعدل معه من يليه من أهل الطريق فنزلوا واستتروا بالعقدة، فما استيقظنا إلا بالشمس طالعة علينا، فقمنا ونحن ذهلين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رويدا رويدا حتى تعالت الشمس ثم قال: من كان يصلي هاتين الركعتين قبل صلاة الغداة فليصلهما فصلاهما من كان يصليهما، ومن كان لا يصليهما، ثم أمر فنودي بالصلاة، ثم تقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بنا، فلما سلم قال: إنا نحمد الله أنا لم نكن في شيء من أمر الدنيا فشغلنا عن صلاتنا، ولكن أرواحنا كانت بيد الله أرسلها إن شاء ألا فمن أدركته هذه الصلاة من عبد صالح فليقض معها مثلها قالوا: يا رسول الله العطش؟ قال: لا عطش يا أبا قتادة قال: أرني الميضأة فأتيته بها فجعلها في ضبنه ثم التقم فمها فالله أعلم أنفث فيها أم لا، ثم قال: يا أبا قتادة أرني الغمر على الراحلة، فأتيته بقدح بين القدحين، فصب فيه فقال: اسق القوم، ونادى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورفع صوته: ألا من أتاه إناؤه فليشربه. فأتيت رجلا فسقيته، ثم رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بفضلة القدح، فذهبت فسقيت الذي يليه حتى سقيت أهل تلك الحلقة، ثم رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بفضلة القدح، فسقيت حلقة أخرى حتى سقيت سبع رفق وجعلت أتطاول هل بقي فيها شيء فصب رسول الله صلى الله عليه وسلم في القدح فقال لي: اشرب قلت: بأبي أنت وأمي إني لأجدني كثير عطش، قال: إليك عني فإني ساقي القوم منذ اليوم، فصب رسول الله صلى الله عليه وسلم في القدح فشرب ثم صب في القدح فشرب، ثم ركب وركبنا، ثم قال: كيف ترى القوم صنعوا حين فقدوا نبيهم وأرهقتهم صلاتهم؟ قلت: الله ورسوله أعلم قال: أليس فيهم أبو بكر وعمر إن يطيعوهما فقد رشدوا ورشدت أمهم وإن يعصوهما فقد غووا وغوت أمهم قالها ثلاثا، ثم سار وسرنا حتى إذا كنا في نحر الظهيرة إذا ناس يتبعون ظلال الشجر، فأتيناهم فإذا ناس من المهاجرين فيهم عمر بن الخطاب فقلنا لهم: كيف صنعتم حين فقدتم نبيكم وأرهقتكم صلاتكم؟ قالوا: نحن والله نخبركم، وثب عمر فقال لأبي بكر: إن الله تعالى قال في كتابه: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} وإني لا أدري لعل الله قد توفى نبيه فقم فصل، وأنطلق إني ناظر بعدك ومتلوم1، فإن رأيت شيئا وإلا لحقت بك، وأقيمت الصلاة وانقطع الحديث. "ش" والروياني؛ ورجاله ثقات وروى بعضه "هق" في الدلائل.
30242 ۔۔۔ حضرت ابوقتادہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” سوئے موتہ جیش الامراء “ کو بھیجا ، اور تاکید کی کہ تمہارا امیر زید بن حارثہ ہوگا اگر وہ شہید ہوجائے تو تمہارا امیر جعفر بن ابی طالب ہوگا ، اگر وہ بھی شہید ہوجائے تو عبداللہ بن رواحہ تمہارا امیر ہوگا جعفر (رض) نے بڑھ کر عرض کی : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں کیسے مان جاؤں کہ آپ مجھ پر زید بن حارثہ کو امیر مقرر کر رہے ہیں آپ نے فرمایا : تم چلو تمہیں کیا معلوم کس میں اللہ تعالیٰ نے بھلائی رکھی ہے چنانچہ لشکر اسلام روانہ ہوگیا پھر جیسا اللہ نے چاہا وہی انھیں پیش آیا کچھ دنوں بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : لوگوں کو مسجد میں جمع ہوجانے کے لیے اعلان کرو جب لوگ جمع ہوگئے آپ نے فرمایا : یہ چیز کا دروازہ ہے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں اس لشکر کے متعلق خبر نہ دوں ۔ چنانچہ ہمارا لشکر منزل بہ منزل روانہ ہوا پھر دشمن سے اس کا مقابلہ ہوا زید شہید ہوگیا لہٰذا تم لوگ اس کے لیے استغفار کرو چنانچہ لوگوں نے حضرت زید (رض) کے لیے استغفار کی فرمایا : پھر جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا تھام لیا اس نے بردست حملہ کیا لیکن وہ بھی شہید ہوگیا اس کے لیے استغفار کرو لوگوں نے جعفر (رض) کے لیے استغفار کیا پھر جھنڈا عبداللہ بن رواحہ (رض) نے سنبھال لیا وہ بھی استقلال سے لڑتا رہا لیکن وہ بھی شہید ہوگیا میں اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہوں اس کے لیے استغفار کرو ، ، چنانچہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے لیے استغفار کیا فرمایا : پھر خالد بن ولید نے جھنڈا سنبھال لیا حالانکہ وہ مقررہ کردہ امرء میں سے نہیں ، وہ اپنے تئیں امیر بنا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا : یا اللہ یہ (خالد بن ولید) تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد کر ، اسی لیے حضرت خالد (رض) کو سیف اللہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا : چلو جاؤ اور اپنے بھائیوں کی مدد کرو تم میں سے کوئی شخص بھی پیچھے نہ رہے چنانچہ سخت گرمی میں لوگ پیادہ وسوار ہر حال میں چل پڑے اسی دوران راستے میں ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سواری پر بیٹھے بیٹھے اونگھ آئی آپ کجاوے میں ایک طرف جھک گئے ، میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا ، آپ نے میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کی : میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا ، آپ نے میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کی : میں ابو قتادہ ہوں آپ چلتے رہے پھر تھوڑی دیر بعد آپ کو اونگھ آگئی اور کجاوے میں ایک طرف جھک گئے میں نے آکر اپنے ہاتھ سے آپ کو سہارا دیا میرے ہاتھ کی لمس محسوس کی آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا کون ہے ؟ میں نے عرض کی : ابو قتادہ ہوں چنانچہ آپ نے دوسری یا تیسری مرتبہ کے بعد فرمایا : میں نے آج رات تمہیں مشقت میں ڈال دیا ہے کہ میں نے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا ہرگز نہیں البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اونگھ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں تاکہ سواری سے نیچے اتر کر نیند پوری کرلیں ؟ فرمایا مجھے خوف ہے کہ لوگ بےیارومددگار نہ ہوجائیں عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہوگا فرمایا : ہمارے لیے کوئی جگہ تلاش کرو جہاں میں تھوڑی دیر کے لیے نیند کرلوں میں راستے سے ہٹ گیا اور جھاڑیوں کے درمیان مستور جگہ تلاش کرلی میں نے آکر عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس ہی جھاڑیوں میں ایک جگہ ہے اللہ نے رحم فرمایا، میں نے جگہ ڈھونڈلی ، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ہمراہی راستے سے الگ ہوگئے اور اس جگہ جا کر آرام کیا پھر ہم ایسے سوئے کہ سورج کی تمازت نے ہماری آنکھ کھولی ہم پشیمانی کے عالم میں اٹھے اور نماز کے دوڑ دھوپ کرنے لگے آپ نے فرمایا : آرام سے آرام سے ذرا سورج کو بلند ہونے دو پھر آپ نے فرمایا : جس نے صبح کی دو رکعتیں پڑھنی ہیں وہ جماعت سے پہلے پڑھ لے چنانچہ جس نے پڑھنی تھیں ان نے پڑھ لیں پھر آپ نے حکم دیا اذان دی گئی اور آپ نے پھر لوگوں کو نماز پڑھائی جب آپ نے سلام پھیرا فرمایا : ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں مشغول ہو کر نماز سے غافل نہیں ہوئے البتہ ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں جب چاہتا ہے روحوں کو اپنے قبضہ سے واکر دیتا ہے غور سے سن لو جس شخص کی بھی یہ نماز فوت ہوجائے وہ اسی طرح کی نماز ادا کرے ۔ برتن پانی سے ابل پڑا : پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدت پیاس کی شکایت کی فرمایا : اے ابوقتادہ : کوئی پیاس نہیں میرے پاس کوزہ لاؤ میں کوزہ لے آیا آپ نے کوزہ گود میں رکھ لیا پھر آپ نے کوزے پر منہ کیا واللہ اعلم آپ نے کوزے میں پھونکا یا نہیں پھر فرمایا : اے ابو قتادہ مجھے چھوٹا پیالہ لا دو چنانچہ میں کجاوے سے چھوٹا سا پیالہ لے آیا آپ نے پیالہ کوزے میں انڈیلا پھر فرمایا : لوگوں کو پانی پلاؤ پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا : جس کے پاس برتن ہیں وہ آئے پانی پی لے میں ایک آدمی کے پاس کیا اسے پانی پلایا پھر میں پیالے میں بچا ہوا پانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا پھر میں نے حلقہ میں موجود سبھی لوگوں کو پلایا پھر میں بچا ہوا پانی لے آیا میں طمع کرتے ہوئے پیالہ میں دیکھنے لگا کہ اس میں پانی بچا ہے آپ نے پیالے میں اور پانی ڈالا اور فرمایا : پیو میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھے شدید پیاس لگی ہوئی ہے آپ نے فرمایا : پیو مجھے رہنے دو چونکہ میں آج قوم کا ساقی ہوں (اور ساقی آخر میں پیتا ہے) پھر آپ نے پیالے میں پانی ڈالا اور خود پیا پھر اور ڈال کر پیا پھر سوار ہوگئے اور ہم بھی سوار ہو کر چل دیئے ۔ آپ نے فرمایا : تم نے اس وقت لوگوں کو کس حال میں پایا جب انھوں نے اپنے نبی کو گم پایا اور پھر نماز کا وقت بھی ہوگیا تھا ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا : کیا لوگوں میں ابوبکر اور عمر نہیں اگر لوگ ان دونوں کی اطاعت کرتے رہیں گے تو ہدایت پر قائم رہیں گے اگر ان کی نافرمانی کی تو وہ بھی گمراہ ہوجائیں گے آپ نے یہ بات تین بار فرمائی حتی کہ آپ چل دیئے اور ہم چل دیئے جب ہم نحر الظہرہ کے مقام پر پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ لوگ درختوں کے سائے تلے ہیں ہم ان کے پاس آئے مہاجرین کے کچھ لوگوں میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ہیں ہم نے ان سے پوچھا : جب تم لوگوں نے اپنے نبی کو گم پایا اور نماز کا وقت بھی ہوگیا تم نے کیا کیا ؟ لوگوں نے کہا : بخدا ہم تمہیں خبر دیتے ہیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) آگے بڑھے اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے : ” انک میت وانھم میتون “ آپ نے بھی مرنا ہے اور لوگوں نے بھی مرنا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلایا ہو لہٰذا آپ نماز پڑھائیں میں جا کر ادھر ادھر دیکھتا ہوں اگر میں نے کچھ دیکھا ورنہ میں آپ کے ساتھ مل جاؤں گا چنانچہ نماز کھڑی کردی گئی اور بات یوں ختم ہوگئی۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ ، والرویانی ورحالہ ثقات وروری بعضہ البیہقی فی الدلائل)

30243

30243- عن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم جيشا واستعمل عليهم زيد بن حارثة، فإن قتل واستشهد فأميركم جعفر بن أبي طالب، فإن قتل واستشهد فأميركم عبد الله بن رواحة، فانطلقوا فلقوا العدو فأخذ الراية زيد بن حارثة فقاتل حتى قتل، ثم أخذ الراية جعفر بن أبي طالب فقاتل حتى قتل، ثم أخذ الراية عبد الله بن رواحة، فقاتل حتى قتل ثم أخذ الراية خالد بن الوليد، ففتح الله عليه فأتى خبرهم النبي صلى الله عليه وسلم فخرج فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما بعد فإن إخوانكم لقوا العدو، فأخذ الراية زيد بن حارثة فقاتل حتى قتل واستشهد، ثم أخذ الراية جعفر فقاتل حتى قتل، واستشهد ثم أخذ الراية عبد الله بن رواحة فقاتل حتى قتل، واستشهد ثم أخذ الراية سيف من سيوف الله خالد بن الوليد ففتح الله عليه، ثم أمهل آل جعفر ثلاثا أن يأتيهم، ثم أتاهم فقال: لا تبكوا عليه بعد اليوم، ثم قال: ادعوا لي بني أخي، فجيء بنا كأنا أفراخ فقال: ادعوا لي الحلاق فأمره فحلق رؤوسنا، ثم قال: أما محمد فشبيه عمنا أبي طالب وأما عون فشبيه خلقي وخلقي، ثم أخذ بيدي فشالهما فقال: اللهم اخلف جعفرا في أهله وبارك لعبد الله في صفقة يمينه قالها ثلاث مرات فجاءت أمنا فذكرت يتمنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أالعيلة تخافين عليهم وأنا وليهم في الدنيا والآخرة. "حم، طب، كر".
30243 ۔۔۔ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر حضرت زید بن حارثہ (رض) کو امیر مقرر کیا اور تاکید فرمائی کہ اگر یہ شہید ہوجائے تو تمہارا امیر جعفر بن ابی طالب ہوگا اگر وہ بھی شہید ہوجائے تو عبداللہ بن رواحہ تمہارا امیر ہوگا چنانچہ لشکر منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا اور جھنڈا حضرت زید بن حارثہ (رض) نے لے لیا دشمن سے جنگ ہوئی دلیری سے لڑتے رہے لیکن شہید ہوگئے ان کے بعد حضرت جعفر بن طالب (رض) نے جھنڈا سنبھالا وہ بھی دلیری سے لڑے مگر وہ بھی شہید ہوگئے ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے جھنڈا اٹھا لیا وہ بھی ثابت قدمی سے لڑے مگر وہ بھی شہید ہوگئے ان کے بعد حضرت خالد بن ولید (رض) نے جھنڈا اٹھا لیا اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لشکر کی خبر پہنچی آپ گھر سے باہر تشریف لائے آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی پھر فرمایا : بعد ! تمہارے بھائی نے دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے جھنڈا زید بن حارثہ نے اٹھایا اور لڑتا رہا بالآخر وہ شہید ہوگیا پھر جعفر نے جھنڈا سنبھالا وہ بھی دلیری سے لڑتا رہا لیکن وہ بھی شہید ہوگیا اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا اٹھایا اور وہ بھی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا پھر جھنڈا اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے سنبھال لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعفر کے گھر والوں کو تین دن تک سوگ کرنے کی مہلت دی پھر آپ تین دن کے بعد آئے اور فرمایا آج کے بعد جعفر پر مت رو پھر آپ نے فرمایا میرے پاس میرے بھائی کے بیٹوں کو لے آؤ چنانچہ ہمیں آپ کے پاس لایا گیا ہم یوں لگتے تھے جیسے چھوٹے چھوٹے چوزے ہوں پھر آپ نے حجام کو بلایا اور آپ نے ہمارے سر منڈوائے پھر آپ نے فرمایا : رہی بات محمد کی سو یہ ہمارے چچا ابو طالب کے زیادہ مشابہ ہے رہی بات عون کی یہ صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہے پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یا اللہ اسے جعفر کا اس کے گھر میں اچھا جانشین بنا دے اور عبداللہ کے ہاتھ کے سودے میں برکت عطا فرما آپ نے تین بار یہ دعا فرمائی ہماری ماں آپ کے پاس آئی اور ہماری یتیمی کا تذکرہ کرنے لگی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہیں ان بچوں کے فقر وفاقہ کا خوف ہے حالانکہ دنیا و آخرت میں میں خود ان کا ولی ہوں ۔ (رواہ احمد بن حنبل والطبرانی وابن عساکر)

30244

30244- عن أبي اليسر قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتاه أبو عامر الأشعري فقال: يا رسول الله بعثتني في كذا وكذا، فلما أتيت مؤتة، وصف القوم، ركب جعفر فرسه ولبس الدرع وأخذ اللواء فمشى قدما حتى رأى القوم فنزل ثم قال: من يبلغ هذه الفرس صاحبه؟ فقال رجل: أنا فبعث به، ثم نزع درعه فقال: من يبلغ هذا الدرع صاحبها؟ فقال رجل: أنا فبعث بها، ثم تقدم فضرب بسيفه حتى قتل فتغرغرت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم دموعا فصلى بنا الظهر ولم يكلمنا، ثم أقيمت العصر، فخرج فصلى ثم دخل ولم يكلمنا وفعل ذلك في المغرب والعشاء يدخل ولا يكلمنا وكان إذا صلى أقبل علينا بوجهه، فخرج علينا قبل الفجر في ساعة كان يخرج فيها وأنا وأبو عامر الأشعري جلوس فجلس بيننا فقال: ألا أحدثكم عن رؤيا رأيتها؟ أدخلت الجنة فرأيت جعفرا ذا جناحين مضرجا بالدماء وزيدا مقابله وابن رواحة معهم كأنه معرض عنهم، وسأخبركم عن ذلك؛ إن جعفرا حين تقدم فرأى القتل لم يصرف وجهه وزيدا كذلك وابن رواحة صرف وجهه. "كر"
30244 ۔۔۔ ابویسر کی روایت ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابو عامر اشعری (رض) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے مجھے فلاں کام کے لیے بھیجا تھا چنانچہ جب میں موتہ پہنچا لوگوں نے صفیں بنالیں پھر جعفر (رض) اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے زرہ پہنی اور جھنڈا ہاتھ میں اٹھا لیا پھر آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ دشمن کو دیکھ لیا پھر گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور کہا : یہ گھوڑا اس کے مالک تک کون پہنچائے گا ؟ ایک شخص بولا میں پہنچا دوں گا پھر ذرہ اتاری اور کہا : یہ ذرہ اس کے مالک تک کون پہنچائے گا ؟ ایک دوسرے شخص بولا میں پہنچا دوں گا پھر آگے بڑھے اور اپنی تلوار سے بہادری کے جواہر دکھاتے ہوئے شہید ہوگئے خبر سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے چنانچہ آپ نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ کوئی بات نہ کی پھر عصر کی نماز پڑھائی اور آپ بغیر کوئی بات کئے مسجد سے باہر تشریف لے گئے آپ نے مغرب و عشاء کی نمازوں میں بھی یہی کیا حالانکہ نماز کے بعد آپ کا معمول ہوتا تھا کہ رخ انور ہماری طرف پھیر لیتے تھے چنانچہ آپ صبح کو حسب معمول نماز کے وقت سے قبل تشریف لائے میں اور ابو عامر بیٹھے ہوئے تھے آپ یہیں آکر ہمارے درمیان بیٹھ گئے اور فرمایا : کیا میں تمہیں ایک خواب نہ بتاؤں جو میں نے دیکھا ہے ؟ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ میں جنت میں داخل ہوا میں نے جعفر کو دو پروں کے ساتھ دیکھا جبکہ اس کا بدن خون آلود تھا زیدا س کے آگے تھا ابن رواحہ بھی ان کے ساتھ تھا لیکن ابن رواحہ (رض) ان سے بےرخی کیے ہوا تھا اس کی میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ جب جعفر جنگ کے لیے آگے بڑھا اس نے جنگ سے منہ نہیں موڑا اس طرح زید نے بھی جنگ سے منہ نہیں موڑا جبکہ ابن رواحہ نے موڑا لیا تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30245

30245- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث إلى مؤتة فاستعمل زيدا فإن قتل زيد فجعفر، فإن قتل جعفر فابن رواحة، فتخلف ابن رواحة يجمع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما خلفك؟ قال: أجمع معك قال: لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها. "ش"
30245 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موتہ کی طرف لشکر روانہ کیا اور زید (رض) کو اس کا امیر مقرر کیا ساتھ تاکید فرمائی کہ اگر زید شہید ہوجائے تو جعفر امیر ہوگا اگر جعفر بھی شہید ہوجائے تو ابن رواحہ امیر ہوگا چنانچہ ابن رواحہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پیچھے رہ گئے انھیں لشکر کے پیچھے دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبب پوچھا ابن رواحہ (رض) نے عرض کی میں آپ کے ساتھ تھوڑی دیر گزارنا چاہتا ہوں اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام صرف کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30246

30246- "مسند عبد الله بن عمر" أمر النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة مؤتة زيد بن حارثة وقال إن قتل زيد فجعفر وإن قتل جعفر فعبد الله بن رواحة قال ابن عمر: وكنت معهم في تلك الغزوة فالتمسنا جعفرا فوجدنا فيما أقبل من جسمه بضعا وتسعين ما بين ضربة بسيف وطعنة برمح ورمية. "طب".
30246 ۔۔۔ ” مسند عبداللہ بن عمر “ غزوہ موتہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ (رض) کو امیر مقرر کیا اور ساتھ فرما دیا کہ اگر زید شہید ہوجائے تو جعفر امیر ہو اگر جعفر بھی شہید کردیا جائے تو عبداللہ بن رواحہ امیر ہوگا حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کا بیان ہے کہ اس غزوہ میں میں لشکر کے ساتھ تھا چنانچہ ہم نے جعفر (رض) کو تلاش کیا چلنے پر دیکھا کہ ان کے بدن پر تلوارورں ، نیزوں اور تیروں کے نوے (90) سے زیادہ زخم آئے ہیں۔ (رواہ الطبرانی)

30247

30247- عن ابن عمر عن عبد الرحمن بن سمرة قال وجهني يوم مؤتة خالد بن الوليد إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلما أتيته قال: اسكت يا عبد الرحمن أخذ اللواء زيد فقاتل زيد فقتل زيد فرحم الله زيدا، ثم أخذ اللواء جعفر فقاتل جعفر فقتل جعفر فرحم الله جعفرا، ثم أخذ اللواء عبد الله بن رواحة فقاتل عبد الله، فقتل عبد الله فرحم الله عبد الله، ثم أخذ اللواء خالد بن الوليد فقاتل خالد ففتح الله لخالد. يعقوب بن سفيان، "كر".
30247 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے غزوہ موتہ کے موقع پر خالد بن ولید (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : اے عبدالرحمن خاموش رہو (میں خود خبر دیتا ہوں) زید نے جھنڈا اٹھایا اور بےجگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اللہ تعالیٰ زید پر رحم فرمائے پھر جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا اور وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگیا ، اللہ تعالیٰ جعفر پر رحم فرمائے پھر عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا لے لیا اور وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگیا اللہ تعالیٰ عبداللہ پر رحم فرمائے پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا اور تن دہی سے دشمن کا مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائی ۔ (رواہ یعقوب بن سفیان وابن عساکر)

30248

30248- عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث زيدا وجعفرا وعبد الله بن رواحة فدفع الراية إلى زيد فأصيبوا جميعا قال أنس: فنعاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الناس قبل أن يجيء الخبر قال: قال أخذ الراية زيد فأصيب، ثم أخذها جعفر فأصيب، ثم أخذها عبد الله فأصيب، ثم أخذ الراية بعد سيف من سيوف الله خالد بن الوليد فجعل يحدث الناس وعيناه تذرفان. "ع، كر".
30248 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید جعفر اور عبداللہ بن رواحہ (رض) جہاد کے لیے روانہ کئے اور لشکر کا جھنڈا زید (رض) کو دے دیا چنانچہ یہ تینوں حضرات جنگ میں شہید ہوئے حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر ملنے سے قبل ہی ان حضرات کے شہید ہونے کی خبر دے دی اور فرمایا : جھنڈا زید کے پاس تھا وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگیا پھر جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا وہ بھی شہید ہوگیا پھر ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگیا اس کے بعد جھنڈا سیف اللہ خالد بن ولید نے لے لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو خبر سنا رہے تھے جبکہ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے ۔ (رواہ ابویعلی وابن عساکر)

30249

30249- عن ابن عباس قال: جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد خروجه من الطائف بستة أشهر، ثم أمره الله بغزوة تبوك وهي التي ذكر الله في ساعة العسرة وذلك في حر شديد وقد كثر النفاق وكثر أصحاب الصفة، والصفة بيت كان لأهل الفاقة يجتمعون فيه فتأتيهم صدقة النبي صلى الله عليه وسلم والمسلمين، وإذا حضر غزو عمد المسلمون إليهم فاحتمل الرجل الرجل أو ما شاء الله يشيعه فجهزوهم غزوا معهم واحتسبوا عليهم، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين بالنفقة في سبيل الله والحسبة فأنفقوا احتسابا، وأنفق رجال غير محتسبين، وحمل رجال من فقراء المسلمين، وبقي أناس، وأفضل ما تصدق به يومئذ أحد عبد الرحمن بن عوف تصدق بمائتي أوقية، وتصدق عمر بن الخطاب بمائة أوقية، وتصدق عاصم الأنصاري بتسعين وسقا من تمر، وقال عمر بن الخطاب: يا رسول الله إني لا أرى عبد الرحمن إلا قد احتوب ما ترك لأهله شيئا فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم هل تركت لأهلك شيئا؟ قال: نعم أكثر مما أنفقت وأطيب قال: كم؟ قال: ما وعد الله ورسوله من الرزق والخير. ابن عساكر.
30249 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ میں غزوہ طائف کے چھ ماہ بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو غزوہ تبوک کا حکم دیا یہ وہی غزوہ ہے جسے غزوہ ذات العسرہ بھی کہا جاتا ہے چونکہ یہ غزوہ شدید گرمی کے موسم میں پیش آیا جبکہ لوگوں میں نفاق بھی بڑھا ہوا تھا اہل صفہ کی تعداد آئے دن بڑھتی رہتی تھی صفہ ایک مکان تھا جو فقیروں کے لیے بنایا گیا تھا اس میں فقراء جمع رہتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے صدقات ان کے پاس آتے تھے جب کوئی غزوہ پیش آتا تو کوئی ایک شخص ان فقیروں میں سے کسی کو اپنے ساتھ سوار کرلیتا تھا یوں مسلمان ان فقیروں کو ثواب کی نیت سے اپنے ساتھ لے جاتے چنانچہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو دل کھول کر خرچ کرنے کا حکم دیا جبکہ بہت سارے لوگوں نے دکھلاوے کے لیے خرچ کیا بہت سارے لوگ متذکرہ بالا فقراء کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے گئے اور کچھ تھوڑے سے لوگ باقی رہ گئے تھے اس دن سب سے زیادہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا انھوں نے دو سو اوقیہ چاندی اللہ کی راہ میں لا کر جمع کرائی سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک سو اوقیہ چاندی لا کردی جبکہ حضرت عاصم انصاری (رض) نے نوے وسق کھجوریں دیں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا خیال ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن سے پوچھا : کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے عرض کی : میں نے اس سے کہیں زیادہ اور کہیں اچھا مال گھر والوں کے لیے چھوڑا ہے آپ نے پوچھا : بھلا اس کی مقدار کیا ہے عرض کی میں نے وہ رزق اور وہ مال گھر والوں کے لیے چھوڑا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کیا ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

30250

30250- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغ تبوك فبعث منها علقمة بن مجزز إلى فلسطين. "كر"
30250 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک پہنچے آپ نے وہاں سے علقمہ بن مجزز کو فلسطین روانہ کیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30251

30251- عن الحسن قال: آخر غزوة غزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم تبوك. "كر".
30251 ۔۔۔ حسن (رح) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے آخری غزوہ غزوہ تبوک ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

30252

30252- ابن عائذ أنبأنا الوليد بن محمد عن محمد بن مسلم الزهري قال: ثم غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك وهو يريد الروم وكفار العرب بالشام، حتى إذا بلغ تبوك أقام بها بضع عشرة ليلة، ولقيه بها وفد اذرح ووفد أيلة فصالحهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجزية ثم قفل رسول الله صلى الله عليه وسلم من تبوك ولم يجاوزها. "كر".
30252 ۔۔۔ ابن عائذ کی روایت ہے کہ ولید بن محمد محمد بن مسلم زہری سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رومیوں اور شام کے عرب کفار سے نبرد آزما ہونا چاہتے تھے، حتی کہ جب آپ تبوک پہنچے تو آپ نے بیس پچیس دن یہیں قیام کیا اور یہیں اذرح اور ابلہ کے وفود آپ سے ملنے آئے ان سے جزیہ پر صلح کی پھر آپ تبوک ہی سے واپس لوٹ آئے اس سے آگے تجاوز نہیں کیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30253

30253- ابن عائذ أخبرني الوليد بن مسلم عن عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود عن عروة قال: ثم غزوة عمرو بن العاص ذات السلاسل من مشارق الشام بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم في بلي وهم أخوال العاص بن وائل وبعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم فيمن يليهم من قضاعة، وأمره عليهم فخاف عمرو من جانبه الذي هو به، فبعث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمده فلما قدم رسول عمرو على رسول الله صلى الله عليه وسلم يستمده ندب له المهاجرين فانتدب أبو بكر وعمر في سراة من المهاجرين وأمر عليهم أبا عبيدة بن الجراح، ثم أمد بهم عمرو بن العاص، وعمرو يومئذ في سعة الله وتلك الناحية من قضاعة، فلما قدم مدد رسول الله صلى الله عليه وسلم من المهاجرين الأولين وأميرهم أبو عبيدة بن الجراح قال عمرو: أنا الأمير، وإنما أرسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم استمده وأمدني بكم، قال المهاجرون: أنت أمير أصحابك وأبو عبيدة أمير المهاجرين، فقال عمرو: إنما أنتم مدد مددت به فأنا الأمير، فلما رأى أبو عبيدة ذلك وكان رجلا حسن الخلق لين الشيمة قال: إن آخر ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن قال: " إذا قدمت على عمرو فتطاوعا"، وإنك والله إن عصيتني لأطيعنك فسلم أبو عبيدة لعمرو بن العاص. "كر".
30253 ۔۔۔ ابن عائذ ، ولید بن مسلم ، عبداللہ بن لہیہ ، ابو اسود کی سند سے عروہ کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے شام کے مشرق میں غزوہ ذات السلاسل کیا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ بلی جو کہ عاص بن وائل کے ننھال کا خاندان تھا کی طرف روانہ کیا نیز قضاعہ کی ایک جماعت کی سرکوبی بھی اس سریہ سے مقصود تھی جب سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) مقام مقصود پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن کی تعداد لشکر اسلام سے کہیں زیادہ ہے تو انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آدمی بھیجا اور کمک کی درخواست کی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو ایک دستے پر امیر مقرر کرکے بھیجا اس دستے میں ابوبکر وعمر (رض) بھی تھے چنانچہ جب حضرت ابوعبیدہ (رض) پہنچے ان کے ساتھ مہاجرین اولین تھے حضرت عمر (رض) نے کہا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں امیر ہوں چونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد مانگی ہے اور آپ نے میری مدد کے لیے تمہیں بھیجا ہے جبکہ مہاجرین نے کہا : تم اپنے ساتھیوں کے امیر ہو اور ہمارا امیر ابوعبیدہ ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : تمہیں میری مدد کے لیے بھیجا گیا ہے لہٰذا میں امیر ہوں جب ابوعبیدہ (رض) نے فریقین کے درمیان اختلاف بڑھتا ہوا دیکھا تو کہا مجھے آتے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید کی تھی کہ آپس میں ایک دوسرے کی اطاعت کرنا لہٰذا اگر تم میری نافرمانی کرو گے بخدا میں تمہاری اطاعت کروں گا چنانچہ ابو عبیدہ (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی امارت تسلیم کرلی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30254

30254- عن أبي موسى قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة ونحن ستة نفر بيننا بعير نعتقبه فنقبت أقدامنا وسقطت أظفاري، فكنا نلف على أرجلنا الخرق، فسميت الغزوة ذات الرقاع لما كنا نعصب على أرجلنا من الخرق. "ع، كر"
30254 ۔۔۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ کے لیے روانہ ہوئے چھ چھ آدمیوں کو سواری کے لیے ایک اونٹ ملا تھا ہم باری باری اونٹ پر سوار ہوتے گویا ہمیں سوار ہونے کی نسبت چلنا زیادہ پڑھتا یوں ہمارے پاؤں میں چھالے پڑگئے اور میرے تو ناخن بھی گرگئے ہم نے بچاؤ کے لیے اپنے پاؤں پر چیتھڑے (کپڑے) لپیٹ لیے اسی لیے اسے غزوہ ذات الرقاع کہا جاتا ہے۔ (رواہ ابو یعلی وابن عساکر)

30255

30255- عن حبيب بن أبي ثابت أن الحارث بن هشام وعكرمة بن أبي جهل وعياش بن أبي ربيعة خرجوا يوم اليرموك حتى أثبتوا فدعا الحارث بن هشام بماء ليشربه ، فنظر إليه عكرمة فقال : ادفعه إلى عكرمة ، فلما أخذه عكرمة نظر إليه عياش فقال : ادفعه إلى عياش ، فما وصل إلى عياش حتى مات وما وصل إلى أحد منهم حتى ماتوا (ابن نعيم ، كر).
30255 ۔۔۔ حبیب بن ابی ثابت روایت کی ہے کہ حارث بن ہشام عکرمہ بن ابی جہل اور عیاش بن ابی ربیعہ (رض) میدان جنگ میں لڑنے کے لیے نکلے جو انمبردی اور ثابت قدمی سے لڑتے رہے (اور بدن زخموں سے چور چور تھے) پھر حارث بن ہشام (رض) نے پینے کے لیے پانی مانگا پانی لایا گیا چنانچہ عکرمہ (رض) نے پانی کی طرف دیکھا حارث (رض) نے ساقی سے کہا عکرمہ کو دو عکرمہ (رض) نے جام ہاتھ میں لیا اتنے میں عیاش (رض) جام کی طرف دیکھنے لگے فرمایا : جام عیاش کو دو چنانچہ پانی عیاش (رض) تک پہنچے نہیں پایا تھا کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ساقی واپس عکرمہ (رض) اور حارث (رض) کی طرف پلٹتا مگر وہ بھی جام بہشت نوش کرنے کے لیے کوچ کرچکے تھے ۔ (رواہ ابونعیم وابن عساکر) فائدہ : ۔۔۔ یہ مقام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حاصل تھا بخدا ایثار کی ایسی مثال ان کے سوا کوئی نہیں پیش کرسکتا ۔

30256

30256- عن أبي بردة عن أبي موسى الأشعري قال: لما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس فلقي دريد بن الصمة فقتل الله دريدا وهزم أصحابه، قال أبو موسى: وبعثني مع أبي عامر فرمي أبو عامر في ركبته، رماه رجل من بني جشم بسهم فأثبته في ركبته، فانتهيت إليه فقلت يا عم من رماك؟ فأشار أبو عامر إلى هذا، فأتيته فجعلت أقول: ألا تستحيي ألست عربيا ألا تثبت؟ فالتقيت أنا وهو فاختلفنا ضربتين فضربته بالسيف فقتلته، ثم رجعت إلى أبي عامر فقلت: قد قتل الله صاحبك، قال: فانتزع هذا السهم فنزعته فقال: يا ابن أخي انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأقرأه مني السلام وقل له: يقول لك استغفر لي واستخلفني أبو عامر على الناس فمكث يسيرا ثم إنه مات، فلما رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم دخلت عليه وهو في بيت على سرير مرمل وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وجسده، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، فقلت: يقول لك: استغفر لي فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء فتوضأ، ثم رفع يديه فقال: اللهم اغفر لعبدك أبي عامر حتى رأيت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعل له يوم القيامة نورا كثيرا فقلت: ولي يا رسول الله استغفر فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم فاغفر لعبد الله بن قيس ذنبه وأدخله يوم القيامة مدخلا كريما قال أبو بردة: أحدهما لأبي عامر والآخر لأبي موسى. "كر".
30256 ۔۔۔ ابو بردہ (رض) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) روایت نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ نے ابو عامر (رض) کو لشکر دے کر اوطاس پر چڑھائی کے لیے بھیجا چنانچہ درید بن صمہ سے مقابلہ ہوا درید مقتول ہوا اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ گئے ابو موسیٰ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بھی ابو عامر کے ساتھ بھیجا تھا بنی جشم کے ایک شخص نے تیر مارا جو ابو عامر (رض) کے گھٹنے میں پیوست ہوگیا میں ابو عامر (رض) کے پاس آیا اور ان سے پوچھا : اے چچا ! آپ کو کس نے تیر مارا ہے انھوں نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا میں جھٹ سے اس شخص کے پاس جا پہنچا میں نے کہا : کیا تو عربی نہیں ہے کیا تجھے شرم نہیں آتی ؟ پھر میں نے اس پر حملہ کردیا ہماری تلواریں ٹکرائیں بالآخر میں نے اسے قتل کردیا پھر میں ابو عامر (رض) کے پاس واپس لوٹ آیا اور میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو قتل کردیا ہے جس نے آپ کو تیر مارا ہے ابو عامر (رض) نے کہا : میرے گھٹنے سے تیر نکلا لو میں نے تیر کھینچ کر نکال دیا پھر کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلو اور انھیں میری طرف سے سلام کہو بعد سلام کہو : میرے لیے استغفار کریں پھر ابو عامر (رض) نے مجھے لشکر کا امیر بنایا اور تھوڑی دیر بعد اللہ کو پیارے ہوگئے جب میں واپس لوٹا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھر میں چارپائی پر تشریف فرما تھے چارپائی کی رسیوں کے نشانات جسم اقدس پر پڑے ہوئے تھے میں نے ابو عامر (رض) کی خبر دی اور عرض کی : ابو عامر (رض) نے آپ سے استغفار کی درخواست کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی مانگا اور وضو کیا پھر دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا : یا اللہ ! اپنے بندے ابو عامر کی مغفرت فرما آپ نے اتنے اوپر ہاتھ اٹھائے کہ میں نے بغلوں کی سفیدی دیکھ لی پھر فرمایا : یا اللہ ، قیامت کے دن ابو عامر کو نور عظیم عطا فرما ، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے لیے بھی دعا کریں فرمایا : یا اللہ ! عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری (رض) کا نام ہے) کی مغفرت فرما اور قیامت کے دن اسے بہشت میں داخل فرما ابو بردہ کہتے ہیں ، ایک دعا ابو عامر (رض) کے لیے کی اور دوسری دعا ابو موسیٰ کے لیے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30257

30257- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أغار على بني المصطلق وهم غارون ونعمهم تسقى على الماء فكانت جويرة بنت الحارث مما أصاب وكنت في الخيل. "ش". سرية عاصم
30257 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبی مصطلق پر حملہ کیا اس وقت بنی مصطلق اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے جویریہ بنت حارث (رض) اسی غزوہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غنیمت ملی تھیں میں گھوڑ سواروں میں تھا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30258

30258- "مسند أنس" ذكر سبعين من الأنصار كانوا إذا جنهم الليل أووا إلى معلم بالمدينة فيبيتون يدرسون القرآن فإذا أصبحوا فمن كان عند قوة أصاب من الحطب واستعذب من الماء ، ومن كانت عنده سعة أصابوا الشاة وأصلحوها فكانت تصبح معلقة بحجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما أصيب خبيب بعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان فيهم خالي حرام وأتوا حيا من بني سليم فقال حرام لاميرهم : ألا أخبر هؤلاء أنا لسنا إياهم نريد فيخلوا وجوهنا ؟ فأتاهم فقال لهم ذلك فاستقبله رجل منهم برمح ، فأنفذه به ، فلما وجد حرام مس الرمح في جوفه قال : الله أكبر فزت ورب الكعبة ، فأبطأوا عليهم فما بقي منهم مخبر فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على سرية وجده عليهم ، لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما صلى الغداة رفع يديه يدعو عليهم ، فلما كان بعد ذلك أتاه أبو طلحة فقال له : هل لك في قاتل حرام ؟ قلت : ما له فعل الله به وفعل ؟ فقال أبو طلحة : لا تفعل فقد أسلم (طب ، وأبو عوادنة).
30258 ۔۔۔ ” مسند حضرت انس بن مالک (رض) “ ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ انصار کے ستر سے زائد افراد ایسے تھے کہ جب رات چھا جاتی وہ مدینہ میں کسی معلم کے پاس آجاتے وہیں رات بسر کرتے اور قرآن مجید پڑھتے تھے صبح ہوتی اور جس کے پاس کچھ ہوتا کھا لیتا اور پانی پی لیتا اور جن کے پاس زیادہ خرچ کرنے کی وسعت ہوتی وہ بکری ذبح کرلیتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے کے سامنے لٹکا دیتے جب حضرت خبیب (رض) پر مصیبت نازل ہوئی تو انصار کے ان آدمیوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روانہ کیا ان میں میرے ماموں حرام (رض) بھی تھے چنانچہ یہ لوگ بنی سلیم کی ایک بستی میں آئے ، حرام (رض) نے اپنے امیر سے کہا : کیا ہم اس بستی والوں کو خبر نہ کردیں کہ ہم ان پر حملہ کرنے نہیں آئے تاکہ جنگ کا خیال ان کے دلوں سے نکل جائے ؟ چنانچہ حرام (رض) بستی والوں کے پاس آئے اور انھیں یہ بات کہی تاہم ایک شخص نے حرام (رض) کو پیٹ میں تیر مارا تیر لگتے ہی حرام (رض) کے منہ سے نکلا : اللہ اکبر فزت برب الکعبۃ ‘: اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا چنانچہ مسلمان ان لوگوں کا انتظار کرتے رہے تاہم کوئی خبر دینے والا بھی باقی نہ رہا ۔ ان لوگوں کی شہادت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو از حد دکھ اور رنج ہوا میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ ہر روز صبح کی نماز میں ہاتھ اٹھا کر بنی سلیم کے لیے بددعا کرتے رہے کچھ عرصہ بعد ابو طلحہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا : کیا تمہیں حرام کے قاتل کا کوئی علم ہے ؟ اللہ اسے غارت کرے ابو طلحہ (رض) نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ایسا نہ فرمائیں حرام (رض) کا قاتل مسلمان ہوچکا ہے۔ (رواہ الطبرانی وابو عوانۃ)

30259

30259 - (مسند خباب بن الارت) عن خباب بن الارث بعثني النبي صلى الله عليه وسلم عينا إلى قريش فجئت إلى خشبة خبيب وأنا اتخوف العيون فرقيت فيها فحللت خبيبا فوقع إلى الارض فانتبذت غير بعيد ثم التفت فلم أر خبيبا كأنما ابتلعته الارض فلم يذكر لخبيب رمة (1) حتى الساعة (طب - عن عمرو بن امية الضمري).
30259 ۔۔۔ ” مسند خباب بن الارت “ حضرت خباب بن الارت (رض) کی روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاسوس بنا کر قریش کے پاس بھیجا تاکہ خبیب (رض) کی لاش اتار لاؤں چنانچہ جس درخت پر خبیب (رض) کی لاش لٹکی ہوئی تھی میں اس درخت پر چڑھا ، لاش کھولی لاش زمین پر گری نیچے اتر کر لاش میں نے بہت تلاش کی لیکن مجھے لاش نہ ملی گویا انھیں زمین نگل گئی (یا آسمان نے اٹھا لیا) چنانچہ آج تک خبیب (رض) کی بوسیدہ ہڈی کا بھی تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ (رواہ الطبرانی عن عمرو بن امیۃ الضمری)

30260

30260- عن عائشة قالت: أتانا زيد بن حارثة فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يجر ثوبه فقبل وجهه قالت عائشة: وكانت أم قرفة جهزت أربعين راكبا من ولدها وولد ولدها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقاتلوه فأرسل إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة فقتلهم وقتل أم قرفة وأرسل بدرعها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فنصبه بالمدينة بين رمحين. "كر".
30260 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ ہمارے پاس زید بن حارثہ آئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں دیکھ کر اٹھ کر ساتھ اپنے کپڑے بھی لیتے گئے پھر زید بن حارثہ (رض) کا بوسہ لیا ام قرفہ نے اپنی اولاد میں سے چالیس سوار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے بھیجے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ (رض) کو ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا زید بن حارثہ (رض) کے دستہ نے ام قرفہ اور اس کے سبھی آدمیوں کو قتل کیا ام قرفہ کی زرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجی زرہ دو نیزوں کے سہارے مدینہ میں سرراہ نصب کردی گئی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30261

30261- عن عائشة قالت: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم عريانا قط إلا مرة واحدة جاء زيد بن حارثة من غزوة يستفتح، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم صوته فقام عريانا يجر ثوبه فقبله. "كر".
30261 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ میں نی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی بھی عریاں نہیں دیکھا البتہ ایک مرتبہ زید بن حارثہ (رض) ایک غزوہ سے فتح یاب ہو کر واپس آئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آواز سنی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عریاں اٹھ کر ان کی طرف لپکے اور اپنے کپڑے ساتھ کھینچتے لے گئے ۔ (رواہ ابن عساکر) ۔ فائدہ : ۔۔۔ حدیث کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ آپ زید بن حارثہ (رض) کے پاس عریاں پہنچ گئے اور اسی حالت میں ان کا بوسہ لیا ، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر اور حجرے کے اندر عریاں ہوئے اور آپ کو عریاں دیکھنے والی صرف حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) تھیں اور دروازے سے نکلنے سے پہلے پہلے کپڑوں سے ستر کرلیا یا باہر بھی عریاں گئے لیکن واجبی ستر کا اہتمام ضرور کرلیا صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے کبھی عریاں نہیں ہوئے حتی کہ تعمیر کعبہ کے دوران قریش کے عہد میں جب آپ بچے تھے ستر کھل گیا تھا اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اور عریاں ہونے سے بچا لیا ۔

30262

30262- عن عائشة قالت: قدم زيد بن حارثة من سرية أم قرفة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فأتى زيد فقرع الباب فقام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يجر ثوبه عريانا ما رأيته عريانا قبلها حتى اعتنقه وقبله ثم سأله فأخبره بما ظفره الله. الواقدي، "كر".
30262 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) روایت کی ہے کہ ام فرقہ کی مہم سے فارغ ہو کر زید بن حارثہ (رض) واپس آئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں تھے زید بن حارثہ (رض) نے دروازے پر دستک دی آپ فورا اٹھ کھڑے ہوئے آپ عریاں تھے اور اسی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے آپ کپڑے ساتھ کھینچ رہے تھے قبل ازیں میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی عریاں نہیں دیکھا تھا حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے پر آئے زید (رض) کا بوسہ لیا اور انھیں گلے لگا لیا پھر مہم کے متعلق پوچھا اور زید بن حارثہ (رض) نے آپ کو فتح کی خبر سنائی ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30263

30263- عن عروة قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة على الأنصار مهاجره إليها، وجه الأنصار حلفاء ممن حولهم من قبائل العرب وبينهم عقد وعهد على من نصرهم وعلى من قاتلهم من قبائل العرب، فأخبروه بذلك وأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبرؤا إليهم من حلفهم وأن يؤذنوهم بحرب ففعلوا، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرايا إلى من قرب منهم أو استناء عنه فيما بينه وبين مكة إلى ما بينهم وبين مؤتة من حسمى جذام فبعث بضعا وعشرين سرية منها الرجل يبعثه وأكثر من ذلك إلى ما بعث من سرية زيد بن حارثة بمؤتة في ستة آلاف. ابن عائذ، "كر".
30263 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو انصار نے اپنے اردگرد کے حلیف قبائل کو عرب کے طول وعرض میں مختلف قبائل کے ہاں بھیجا جن کے ساتھ انصار کے جنگی کمک کے معاہدے تھے یا جن کے ساتھ جنگ وجدال تھا چنانچہ انصار نے تمام امور سے قبائل کو آگاہ کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو حکم دیا کہ قبائل کے معاہدوں سے دستبردار ہوجائیں اور انھیں جنگ کا اعلان کریں چنانچہ انصار نے ایسا ہی کیا چنانچہ مکہ تک قرب و جوار میں مختلف سریا بھیجے حتی کہ موتہ جو جذام کا علاقہ ہے یہاں تک بیس سے زائد سرایا بھیجے اور موتہ زید بن حارثہ (رض) کو چھ ہزار کا لشکر دے کر بھیجا ۔ (رواہ ابن عائذ وابن عساکر)

30264

30264- عن عروة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان قد قطع بعثا قبل مؤتة وأمر عليهم أسامة بن زيد وفي ذلك البعث أبو بكر وعمر فكان أناس من الناس يطعنون في ذلك لتأمير رسول الله صلى الله عليه وسلم أسامة عليهم فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطب الناس ثم قال: إن أناسا منكم قد طعنوا في تأمير أسامة وإنما طعنوا في تأمير أسامة كما طعنوا في تأمير أبيه من قبله، وايم الله إن كان لخليقا للإمارة وإن كان من أحب الناس إلي وإن ابنه من أحب الناس إلي من بعده، وإني لأرجو أن يكون من صالحيكم فاستوصوا به خيرا. "ش".
30264 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے موتہ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی امارت میں ایک لشکر بھیجا اس لشکر میں ابوبکر وعمر (رض) (ابو عبیدہ (رض)) جیسے اساطین اسلام بھی شامل تھے کچھ لوگ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی امارت پر (ان کے لڑکا ہونے کی وجہ سے) طعنے کرنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو جمع کر کے ان سے خطاب کیا فرمایا : تم میں سے کچھ لوگ اسامہ کی امارت پر طعنے دیتے ہیں جبکہ لوگ قبل ازیں اس کے والد زید کی امارت پر بھی طعنے دے چکے ہیں اللہ کی قسم زید امارت کا سزوار تھے اور مجھے سب سے زیادہ وہ محبوب تھا اس کے بعد اس کا بیٹا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے مجھے امید ہے کہ اسامہ صالحین میں سے ہے لہٰذا اس سے بہتری اور خیر خواہی کا سلوک کرو ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30265

30265- عن عروة قال: كان أسامة بن زيد قد تجهز للغزو وخرج ثقله إلى الحرب فأقام تلك الأيام لوجع رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم على جيش عامتهم المهاجرون فيهم عمر ابن الخطاب أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يغير على أهل مؤتة وعلى جانب فلسطين حيث أصيب زيد بن حارثة، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ذلك الجذع، فاجتمع المسلمون يسلمون عليه، ويدعون له بالعافية فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم أسامة بن زيد فقال: اغد على بركة الله والنصر والعافية، ثم اغز حيث أمرتك أن تغير، قال أسامة: بأبي أنت وأمي قد أصبحت مفيقا وأرجو أن يكون الله قد شفاك، فأذن لي أن أمكث حتى يشفيك الله، فإني إن خرجت على هذه الحال خرجت وفي قلبي قرحة من شأنك وأكره أن أسأل عنك الناس، فسكت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فلم يراجعه وقام فدخل بيت عائشة. "كر".
30265 ۔۔۔ عروہ روایت کی ہے کہ حضرت اسامہ بن زید (رض) نے جہاد کے لیے تیاری کی اور سازوسامان پہلی منزل مقام جرف میں منتقل کردیا جرف پہنچ کر حضرت اسامہ بن زید (رض) نے قیام کرلیا چونکہ انھیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیمار ہونے کی خبر پہنچ گئی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو لشکر کا امیر مقرر کیا تھا لشکر میں مہاجرین بھی تھے ، حتی کہ عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ موتہ پر جا کر چڑھائی کر دو اور فلسطین کی جانب جہاں زید بن حارثہ (رض) کو شہید کیا گیا وہاں پر بھی حملہ کرو لوگ جوق در جوق آتے اور آپ سے ملاقات کرتے اور آپ کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرتے رخصت ہوتے رہے ، ، بالآخر آپ نے اسامہ (رض) کو بلا کر فرمایا : اللہ تعالیٰ کی برکت اور مدد پر صبح یہاں سے کوچ کر جاؤ میں نے تمہیں جہاں حملہ آور ہونے کا حکم دیا ہے وہیں جا کر حملہ کرو حضرت اسامہ (رض) نے عرض کی : آپ کو صبح کے وقت افاقہ ہوا ہے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرمائے گا آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں رک جاؤں تاوقتیکہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو شفایاب کر دے اگر اسی حالت میں میں چلا گیا میرے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تردد رہے گا میں اچھا نہیں سمجھتا کہ آپ کے متعلق پھر لوگوں سے پوچھتا پھروں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے گھر میں تشریف لے گئے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30266

30266- "مسند الصديق" الواقدي حدثني عبد الله بن جعفر بن عبد الرحمن بن أزهر بن عوف عن الزهري عن عروة عن أسامة بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره أن يغير على أهل أبني صباحا، وأن يحرق قالوا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأسامة: امض على اسم الله، فخرج بلوائه معقودا فدفعه إلى بريدة بن الحصيب الأسلمي، فخرج به إلى أسامة وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أسامة فعسكر بالجرف وضرب عسكره في موضع سقاية سليمان اليوم، وجعل الناس يأخذون بالخروج إلى العسكر فيخرج من فرغ من حاجته إلى معسكره، ومن لم يقض حاجته فهو على فراغ ولم يبق أحد من المهاجرين الأولين إلا انتدب في تلك الغزوة: عمر بن الخطاب وأبو عبيدة وسعد بن أبي وقاص وأبو الأعور سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل في رجال من المهاجرين والأنصار وكان أشدهم في ذلك عدة قتادة بن النعمان وسلمة بن أسلم بن حريش فقال رجال من المهاجرين وكان أشدهم في ذلك قولا عياش بن أبي ربيعة: يستعمل هذا الغلام على المهاجرين الأولين فكثرت القالة في ذلك فسمع عمر بن الخطاب بعض ذلك القول فرده على من تكلم به وجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره بقول من قال، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم غضبا شديدا فخرج وقد عصب على رأسه بعصابة وعليه قطيفة ثم صعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: أما بعد أيها الناس فما مقالة بلغتني عن بعضكم في تأميري أسامة فوالله لئن طعنتم في إمارتي أسامة لقد طعنتم في إمارتي أباه من قبله، وايم الله إن كان للإمارة لخليق وإن ابنه من بعده لخليق للإمارة، وإن كان لمن أحب الناس إلي وإن هذا لمن أحب الناس إلي وإنهما لمخيلان لكل خير فاستوصوا به خيرا، فإنه من خياركم. ثم نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل بيته وذلك يوم السبت لعشر ليال خلون من ربيع الأول، وجاء المسلمون الذين يخرجون مع أسامة يودعون رسول الله صلى الله عليه وسلم وفيهم عمر بن الخطاب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أنفذوا بعث أسامة ودخلت أم أيمن فقالت: أي رسول الله لو تركت أسامة يقيم في معسكره حتى تتماثل فإن أسامة إن خرج على حاله هذه لم ينتفع بنفسه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنفذوا بعث أسامة فمضى الناس إلى العسكر فباتوا ليلة الأحد ونزل أسامة يوم الأحد ورسول الله صلى الله عليه وسلم ثقيل مغمور وهو اليوم الذي لدوه فيه فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعيناه تهملان وعنده العباس والنساء حوله فطأطأ عليه أسامة فقبله ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا يتكلم فجعل يرفع يديه إلى السماء ثم يصبهما على أسامة، فأعرف أنه كان يدعو لي قال أسامة: فرجعت إلى معسكري، فلما أصبح يوم الاثنين غدا من معسكره وأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم مفيقا فجاءه أسامة فقال اغد على بركة الله، فودعه أسامة ورسول الله صلى الله عليه وسلم مفيق مريح وجعلت نساءه يتماشطن سرورا براحته، ودخل أبو بكر الصديق فقال: يا رسول الله أصبحت مفيقا بحمد الله، واليوم يوم ابنة خارجة فأذن لي فأذن له، فذهب إلى السنح وركب أسامة إلى معسكره وصاح في أصحابه باللحوق إلى العسكر، فانتهى إلى معسكره ونزل وأمر الناس بالرحيل وقد منع النهار، فبينا أسامة بن زيد يريد أن يركب من الجرف أتاه رسول أم أيمن وهي أمه تخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يموت، فأقبل أسامة إلى المدينة ومعه عمر وأبو عبيدة بن الجراح فانتهوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يموت فتوفي صلى الله عليه وسلم حين زاغت الشمس يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلة خلت من ربيع الأول، ودخل المسلمون الذين عسكروا بالجرف إلى المدينة، ودخل بريدة بن الحصيب بلواء أسامة معقودا حتى أتى به باب رسول الله صلى الله عليه وسلم فغرزه عنده، فلما بويع لأبي بكر أمر بريدة أن يذهب باللواء إلى بيت أسامة ولا يحله حتى يغزوهم أسامة فقال بريدة: فخرجت باللواء حتى انتهيت به إلى بيت أسامة ثم خرجت به إلى الشام معقودا مع أسامة، ثم رجعت به إلى بيت أسامة فما زال معقودا في بيت أسامة حتى توفي أسامة فلما بلغ العرب وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وارتد من ارتد منها عن الإسلام قال أبو بكر لأسامة أنفذ في وجهك الذي وجهك فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأخذ الناس بالخروج وعسكروا في موضعهم الأول، وخرج بريدة باللواء حتى انتهى إلى معسكرهم الأول، فشق على كبار المهاجرين الأولين ودخل على أبي بكر عمر وعثمان وأبو عبيدة وسعد ابن أبي وقاص وسعيد بن زيد فقالوا: يا خليفة رسول الله إن العرب قد انتقضت عليك من كل جانب وإنك لا تصنع بتفريق هذا الجيش المنتشر شيئا اجعلهم عدة لأهل الردة ترمي بهم في نحورهم، وأخرى لا تأمن على أهل المدينة أن يغار عليها وفي الذراري والنساء فلو استأنيت بغزو الروم حتى يضرب الإسلام بجرانه ويعود أهل الردة إلى ما خرجوا منه أو يفنيهم السيف ثم تبعث أسامة حينئذ فنحن نأمن الروم أن تزحف إلينا؟ فلما استوعب أبو بكر كلامهم قال: هل منكم أحد يريد أن يقول شيئا؟ قالوا: لا قد سمعت مقالتنا فقال: والذي نفسي بيده لو ظننت أن السباع تأكلني بالمدينة لأنفذت هذا البعث ولا بدأت بأول منه كيف ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عليه الوحي من السماء يقول: " أنفذوا جيش أسامة" ولكن خصلة أكلم بها أسامة أكلمه في عمر يخلفه يقيم عندنا فإنه لا غنى بنا عنه، والله ما أدري يفعل أسامة أم لا، والله إن أبى لا أكرهه فعرف القوم أن أبا بكر قد عزم على إنفاذ بعث أسامة، ومشى أبو بكر إلى أسامة في بيته فكلمه في أن يترك عمر ففعل أسامة، وجعل يقول له: اذنت ونفسك طيبة؟ فقال أسامة: نعم، قال: وخرج فأمر مناديه ينادي: عزمة مني أن لا يتخلف عن أسامة من بعثه من كان انتدب معه في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني لن أوتى بأحد أبطأ عن الخروج معه إلا ألحقته به ماشيا، وأرسل إلى النفر من المهاجرين الذين كانوا تكلموا في إمارة فغلظ عليهم وأخذهم بالخروج، فلم يتخلف عن البعث إنسان واحد، وخرج أبو بكر يشيع أسامة والمسلمين، فلما ركب أسامة من الجرف في أصحابه وهم ثلاثة آلاف رجل، وفيهم ألف فرس، فسار أبو بكر إلى جنب أسامة ساعة ثمن قال: استودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك، إني سمعت رسول الله يوصيك فأنفذ لأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فإني لست آمرك ولا أنهاك عنه، إنما منفذ لأمر أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرج سريعا فوطئ بلادا هادئة لم يرجعوا عن الإسلام مثل جهينة وغيرها من قضاعة، فلما نزل وادي القرى قدم عينا له من بني عذرة يدعى حريثا فخرج على صدر راحلته أمامه منفذا حتى انتهى إلى أبنى فنظر إلى ما هناك وارتاد الطريق، ثم رجع سريعا حتى لقي أسامة على مسيرة ليلتين من أبنى، فأخبره أن الناس غارون ولا جموع لهم وأمره أن يسرع السير قبل أن تجتمع الجموع وأن يشنها غارة. "كر"
30266 ۔۔۔ ” مسند صدیق “ واقدی عبداللہ بن جعفر بن عبدالرحمن بن ازھر بن عوف زہری عروہ کی سند سے حضرت اسامہ بن زید (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں حکم دیا کہ اہل ابنی پر صبح صبح حملہ کریں اور ان کے اموال (گھر وغیرہ) جلا دیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ سے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لے کر کوچ کر جاؤ اور آپ نے اپنے دست اقدس پرچم کو گرہیں لگا کر بریدہ بن حصیب اسلمی (رض) کو عطا کیا بریدہ (رض) پرچم لے کر اسامہ (رض) کی طرف چل پڑے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے لشکر کا پہلا پڑاؤ مقام جرف میں کیا چنانچہ لوگ مدینہ سے نکل کر جرف میں لشکر کے ساتھ شامل ہوجاتے اور جسے کوئی تھوڑی بہت مشغولیت ہوتی یا کوئی کام ہوتا وہ فارغ ہو کر لشکر سے جا ملتا چنانچہ مہاجریں سابقین و اولین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس لشکر میں شامل نہ ہواہو حتی کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ، ابو عبیدہ ، سعد بن ابی وقاص ، ابو اعور ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (رض) اجمعین جیسے عمائدین اسلام بھی اس لشکر میں شامل تھے اس لشکر میں قتادہ بن نعمان اور سلمہ بن اسلم بن حریش بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے جبکہ مہاجرین میں سے بعض لوگ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی امارت کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے لگے اس میں عباس بن ابی ربیعہ (رض) پیش پیش تھے اور کہتے تھے اس لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنادیا گیا ہے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے سن کر پرزور تردید کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر شکایت کی اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت غصہ آیا آپ (بیماری کی حالت ہی میں) گھر سے باہر تشریف لائے آپ نے سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی تھی اور اپنے اوپر چادر اوڑھی ہوئی تھی پھر منبر پر تشریف لے گئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثناء کی اور پھر فرمایا : امابعد ! اے لوگو ! میں کچھ چہ میگوئیاں سن رہا ہوں جو اسامہ کو امیر مقرر کرنے پر کی جا رہی ہیں اگر تم نے اسامہ کو امیر مقرر کرنے پر طعنے دیئے ہیں تو قبل ازیں تم لوگ اس کے باپ کو امیر مقرر کرنے پر طعنے دے چکے ہو بلاشبہ اس کا باپ امارت کا سزاوار تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کا سزاوار ہے اس کا باپ مجھے محبوب تھا اور یہ بھی مجھے محبوب ہے یہ دونوں (باپ بیٹا) طالب خیر ہیں لہٰذا تمہیں اسامہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہیے چونکہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہوگئے یہ واقعہ بروز ہفتہ 10 ربیع الاول کا ہے اس کے بعد مسلمانوں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو الوداع کہہ کر اسامہ (رض) کے پاس (صرف میں) چلے جاتے ، رخصت ہونے والوں میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے فرمایا : اسامہ کے لشکر کو بھیج دو اسی اثناء میں ام ایمن (اسامہ (رض) کی والدہ محترمہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں داخل ہوئیں اور عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر آپ اسامہ کو یہیں لشکر گاہ ہی میں عارضی طور پر قیام کی اجازت مرحمت فرما دیں حتی کہ آپ کی صحت اچھی ہوجائے چونکہ اگر وہ آپ کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا اس کے دل میں آپ کے متعلق تردد رہے گا ؟ آپ نے فرمایا : اسامہ کے لشکر کو جانے دو چنانچہ جو لوگ پس وپیش میں تھے وہ بھی لشکر سے جا ملے یوں گیارہ ربیع الاول کی رات لوگوں نے لشکر گاہ میں گزاری پھر اتوار کو حضرت اسامہ بن زید (رض) خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کا بدن بیماری کی وجہ سے بوجھل ہوا جا رہا تھا اور آپ پر غشی بھی طاری ہوجاتی تھی اسی دن لوگوں نے آپ کو لدود (ایک دوائی) پلایا تھا چنانچہ اسامہ (رض) آپ کے پاس داخل ہوئے جبکہ اسامہ (رض) کی آنکھیں اشکبار تھیں آپ کے پاس حضرت عباس (رض) تھے اور آپ کے اردگرد عورتیں جمع تھیں حضرت اسامہ بن زید (رض) نے قریب پہنچ کر سر جھکا لیا اور آپ کا بوسہ لیا جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات نہیں کرسکتے تھے آپ دونوں ہاتھ اوپر آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر حضرت اسامہ بن زید (رض) پر ڈال دیتے اسامہ (رض) کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ آپ میرے لیے دعا کر رہے ہیں بالآکر میں لشکر گاہ میں چلا گیا پیر کی صبح اسامہ (رض) اپنی لشکرگاہ میں تھے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آج صبح افاقہ تھا اسامہ (رض) خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا نام لے کر روانہ ہوجاؤ ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو افاقہ : حضرت اسامہ بن زید (رض) نے آپ کو الوداع کہا آپ کو افاقہ تھا اور عورتوں نے آپ کو افاقہ میں دیکھ کر کنگھی کرنی شروع کردی اور عورتیں خوش ہوگئیں اتنے میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بھی تشریف لائے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے آج آپ کو افاقہ ہے آج میری ابن خارجہ کے ہاں جانے کی باری ہے آپ مجھے اجازت مرحمت فرمائیں چنانچہ آپ نے ابوبکر (رض) کو اجازت مرحمت فرمائی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مقام سخ کی طرف روانہ ہوگئے اور ادھر اسامہ (رض) بھی اپنی لشکر گاہ کی طرف چل پڑے اور لوگوں کو بھی لشکر سے جا ملنے کا حکم دیا جب لشکر گاہ میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کرکے کوش کرنے کا حکم دیا حتی کہ کوچ کی تیاریاں مکمل ہوگئیں حضرت اسامہ بن زید (رض) سوار ہو کر بس کوچ کرنے لگے تھے کہ اتنے میں ام ایمن (اسامہ (رض) کی والدہ) کا قاصد پہنچ گیا اس نے پیغام دیا کہ ام ایمن کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ آخری وقت ہے چنانچہ حضرت اسامہ بن زید (رض) سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت ابو عبیدہ (رض) مدینہ واپس لوٹ آئے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے آپ دنیا سے رخصت ہوئے جا رہے تھے چنانچہ جب سورج بلند ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ یہ 12 ربیع الاول سوموار کا دن تھا مسلمانوں کا جو لشکر مقام صرف میں جمع تھا وہ بھی مدینہ میں واپس لوٹ آئے حضرت بریدہ اسلمی (رض) بھی لپٹا ہوا جھنڈا لے کر واپس لوٹ آئے اور جھنڈا لا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر گاڑ دیا جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ پر بیعت ہوگئی تو آپ (رض) نے بریدہ (رض) کو حکم دیا کہ پرچم اسامہ (رض) کے گھر لے جاؤ اور اسے کھولنا نہیں چنانچہ میں جھنڈا لے کر اسامہ کے پاس گیا پھر یہ جھنڈا اسی حالت میں میں لے کر بسوئے شام گیا اور جھنڈا برابر لپٹا رہا پھر یہ جھنڈا لے کر میں اسامہ (رض) کے گھر آیا اور اسی حالت میں ان کے گھر رہا حتی کہ اسامہ (رض) دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جب عرب کے طول وعرض میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پہنچی تو بہت سارے لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے کہا تم اسی مہم کے لیے روانہ ہوجاؤ جس کے لیے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا چنانچہ لوگ پہلی لشکر گاہ مقام جرف میں جمع ہونے شروع ہوئے بریدہ (رض) بھی پرچم لے کر لشکر گاہ میں تشریف لائے ، قبائل کی ارتدادی حالت دیکھ کر مہاجرین اولین نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کے لشکر کو مہم کے لیے جانا مناسب نہ سمجھا حتی کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) ، سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین (رض) ابو عبیدہ (رض) سعد بن ابی وقاص (رض) اور سعید بن زید (رض) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے اور کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ! مرتدین نے چاروں طرف سے پر تولنے شروع کردیئے ہیں لہٰذا اس لشکر کا جانا حالات کے موافق نہیں فی الحال آپ لشکر کو مرتدین کے فتنہ کو رفو کرنے کے لیے بھیجیں تاکہ آپ مرتدین کے فتنہ کا سد باب کرسکیں دوسری بات یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ لشکر میں چلے جائیں گے پیچھے مدینہ خالی رہ جائے گا کیا معلوم عورتوں اور بچوں پر کوئی حملہ کر دے یوں جب داخلی شورش ختم ہوجائے گی اور مرکز پر کسی قسم کی یلغار کا امکان نہیں رہے گا تب آپ اسامہ کے لشکر کو روانہ کردیں ، جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی گفتگو سنی فرمایا : کیا تم میں سے کسی اور شخص نے بھی کچھ کہنا ہے ؟ انھوں نے عرض کی : نہیں ہم نے جو کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر مجھے چرند پرند مدینہ میں نوچ لیں میں تب بھی اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں کا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی رہی ہے اور آپ آخر وقت تک اس لشکر کے روانہ کرنے کی تاکید فرماتے رہے ہیں البتہ میں اسامہ سے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کے متعلق بات کروں گا کہ وہ عمر کو ہمارے پاس چھوڑ جائیں چونکہ عمر کے بغیر ہمارا کوئی چارہ کار نہیں بخدا مجھے معلوم نہیں اسامہ ایسا کرے گا یا نہیں ۔ اسامہ (رض) کی امارت پر اظہار اطمینان : چنانچہ سب ہی لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ اسامہ (رض) کے لشکر کو روانہ کرنے کا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پختہ عزم کرلیا ہے ابوبکر (رض) اسامہ کے ساتھ ان کے گھر تک گئے اور سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو چھوڑ دینے کے متعلق گفتگو کی چنانچہ اسامہ (رض) نے عمر (رض) کو پیچھے چھوڑ دیا حتی کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسامہ (رض) سے کہا : کیا تم خوشی سے عمر کو پیچھے رہنے کی اجازت دیتے ہو ؟ عرض کی : جی ہاں پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اعلان عام کرایا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس لشکر کے لیے نکلا تھا وہ ضرور جائے اور پیچھے نہ رہے اگر میں نے کسی کو پیچھے پالیا میں اسے پیادہ لشکر سے ملاؤں گا جن حضرات مہاجرین نے اسامہ (رض) کی امارت پر تنقید کی تھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے انھیں سختی سے ڈانٹا اور لشکر کے ساتھ جانے کا حکم دیا ، چنانچہ لشکر سے پیچھے کوئی شخص نہ رہا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اسامہ (رض) اور مسلمانوں کے ساتھ مشابہت کے لیے چلے لشکر میں تین ہزار افراد شامل تھے ان میں سے ایک ہزار گھوڑا سوار تھے مقام جرف سے جب لشکر نے جمع کیا اسامہ (رض) اپنی سواری پر سوار ہوئے ابوبکر (رض) ان کے ساتھ تھوڑا آگے تک چلتے رہے اور فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو نافذ کیا ہے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام تر نصیحت کردی ہے میں تمہیں مزید کچھ حکم نہیں دیتا اور نہ منع کرتا ہوں اسامہ (رض) منزل بہ منزل آگے بڑھتے گئے جب کہ قبیلہ جہنیہ اور قضاعہ تقریبا پورا ہی اسلام سے برگشتہ ہوگیا تھا جب اسامہ (رض) مقام وادی القری میں پہنچے تو یہاں سے ایک جاسوس روانہ کیا یہ جاسوس بنی عذرہ کا ایک حریث نامہ آدمی تھا چنانچہ جاسوس اونٹنی پر سوار ہو کر لشکر سے پہلے ہی روانہ ہوگیا اور ابنی جا پہنچا یوں راستہ اور حالات کا جائز لے کر جاسوس واپس لوٹ آیا اور ابنی سے دو دن کی مسافت کی دوری پر اسامہ (رض) سے ملاقات ہوئی اس نے خبر دی کہ دشمن غفلت میں ہے اور دشمن نے ہمارے خلاف کوئی جمعیت اکٹھی نہیں کی جاسوس نے یہ بھی کہا کہ اب تمہیں وقت ضائع کیے بغیر بہت جلد منزل مقصود تک پہنچ جانا چاہیے تاکہ دشمن کو جمع ہونے کی فرصت نہ ملے اور یوں ان پر دفعۃ حملہ ہوجائے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30267

30267- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حين أمر أسامة بن زيد وبلغه أن الناس عابوا إمارته، فطعنوا فيها فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فقال: ألا إنكم تعيبون أسامة وتطعنون في إمارته وقد فعلتم ذلك بأبيه من قبل، وإن كان لخليقا بالإمارة، وإن كان لأحب الناس كلهم إلي، وإن ابنه من بعده لأحب الناس إلي، فاستوصوا به خيرا، فإنه من خياركم، قال سالم: ما سمعت عبد الله بن عمر يحدث بهذا الحديث قط إلا قال: والله ما حاشا فاطمة. "كر".
30267 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ (رض) کو لشکر کا امیر مقرر کیا تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اسامہ (رض) کی امارت پر تنقید کر رہے ہیں تو آپ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : خبردار ! شنید ہے کہ تم لوگ اسامہ کی امارت پر تنقید کر رہے ہو جبکہ تم لوگ قبل ازیں اس کے باپ پر بھی تنقید کرچکے ہو بلاشبہ اس کا باپ امارت کا سزاوار تھا اور مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا اس کے بعد اس کا بیٹا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے لہٰذا اس کے ساتھ بہتر سلوک کرو چونکہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔ سالم کہتے ہیں : ابن عمر (رض) نے جب بھی یہ حدیث سنائی ضرور کہا : بخدا ! سوائے فاطمہ (رض) کے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا کہ اسامہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے اس سے فاطمہ (رض) کو مستثنی رکھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30268

30268- "مسند الصديق" سيف بن عمر عن الزهري عن أبي ضمرة وأبي عمر وغيرهما عن الحسن بن أبي الحسن قال: ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا قبل وفاته على أهل المدينة ومن حولهم وفيهم عمر بن الخطاب وأمر عليهم أسامة بن زيد فلم يجاوز آخرهم الخندق حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم فوقف أسامة بالناس ثم قال لعمر: ارجع إلى خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنه يأذن لي فأرجع بالناس فإن معي وجوه الناس ولا آمن على خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم وثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأثقال المسلمين أن يتخطفهم المشركون وقالت الأنصار: فإن أبى إلا أن نمضي فأبلغه عنا واطلب إليه أن يولي أمرنا رجلا أقدم سنا من أسامة، فخرج عمر بأمر أسامة فأتى أبا بكر فأخبره بما قال أسامة، فقال أبو بكر، لو اختطفتني الكلاب والذئاب لم أرد قضاء قضاه رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فإن الأنصار أمروني أن أبلغك أنهم يطلبون إليك أن تولي أمرهم رجلا أقدم سنا من أسامة، فوثب أبو بكر وكان جالسا، فأخذ بلحية عمر وقال: ثكلتك أمك وعدمتك يا ابن الخطاب استعمله رسول الله صلى الله عليه وسلم وتأمرني أن أنزعه، فخرج عمر إلى الناس فقالوا له: ما صنعت؟ فقال: امضوا ثكلتكم أمهاتكم ما لقيت من سببكم اليوم من خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم خرج أبو بكر حتى أتاهم فأشخصهم وشيعهم وهو ماش وأسامة راكب وعبد الرحمن بن عوف يقود دابة أبي بكر فقال له أسامة: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم لتركبن أو لأنزلن؟ فقال: والله لا تنزل ووالله لا أركب وما علي أن أغبر قدمي ساعة في سبيل الله فإن للغازي بكل خطوة يخطوها سبعمائة حسنة تكتب له وسبعمائة درجة ترفع له، وتمحى عنه سبعمائة خطيئة حتى إذا انتهى قال له: إن رأيت أن تعينني بعمر بن الخطاب فأفعل، فأذن له وقال: يا أيها الناس قفوا أوصيكم بعشر فاحفظوها عني: لا تخونوا، ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا، ولا تقتلوا طفلا صغيرا، ولا شيخا كبيرا، ولا امرأة، ولا تعقروا نخلا، ولا تحرقوه، ولا تقطعوا شجرة مثمرة، ولا تذبحوا شاة ولا بقرة ولا بعيرا إلا لمأكلة، وسوف تمرون بأقوام قد فرغوا أنفسهم في الصوامع فدعوهم وما فرغوا أنفسهم له، وسوف تقدمون على أقوام يأتونكم بآنية فيها ألوان الطعام، فإذا أكلتم منها شيئا بعد شيء فاذكروا اسم الله عليه، وسوف تلقون أقواما قد فحصوا أوساط رؤوسهم وتركوا حولها مثل العصائب، فاخفقوهم بالسيوف خفقا، اندفعوا باسم الله أغناكم الله بالطعن والطاعون. "كر".
30268 ۔۔۔ ” مسند صدیق “ سیف بن عمر ، زہری، ابو ضمرہ وابوعمرو غیرھما حسن ابن ابی الحسن سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر ترتیب دیا لشکر میں سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے اور حضرت اسامہ (رض) کو لشکر کا امیر مقرر کیا چنانچہ لشکر کے آخری فرد نے خندق عبور نہیں کر پائی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوگئے اسامہ (رض) نے لشکر وہیں روک لیا اور سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے کہا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ کے پاس واپس جائیں اور اجازت لیں کہ میں لشکر لے کر واپس آجاؤ چونکہ میرے ساتھ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں چونکہ مجھے خوف ہے کہ مشرکین مسلمانوں کو کوئی گزند نہ پہنچائیں انصار نے کہا : اگر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نہ مانیں تو ہماری بات ان تک پہنچا دیں کہ ہمارا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر کریں جو عمر میں اسامہ سے بڑا ہو چنانچہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) اسامہ (رض) کا پیغام لے کر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے اور انھیں اسامہ کا پیغام دیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : اگر میرے بدن کو کتے اور بھیڑئیے نوچ نوچ کر کھا جائیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کیے ہوئے فیصلہ کو کسی قیمت رد نہیں کرسکتا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : مجھے انصار نے کہا ہے کہ آپ کو ان کا پیغام پہنچا دوں کہ آپ کسی ایسے شخص کو امیر مقرر کردیں جو عمر میں اسامہ سے بڑا ہو انصار اس کا مطالبہ کر رہے ہیں چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیٹھے ہوئے تھے جھٹ سے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی داڑھی پکڑ لی اور فرمایا : اے ابن خطاب تیری ماں تجھے گم پائے اسامہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیر مقرر کیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں اپنے معزول کر دوں چنانچہ عمر (رض) مایوس ہو کر لشکر میں واپس لوٹ آئے اور لوگوں سے کہا : تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں چلو آگے بڑھو ، مجھے آج تمہاری وجہ سے خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت ڈانٹ پڑی ہے۔ پھر بذات خود سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) لشکر کے پاس تشریف لائے تاکہ لشکر کو رخصت کریں اور چند قدم بطور مشابہت کے لشکر کے ساتھ چلیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدل چل رہے تھے جبکہ اسامہ (رض) سوار تھے اور عبدالرحمن بن عوف (رض) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی سواری کو پکڑے چل رہے تھے اسامہ (رض) نے کہا : اے خلیفہ رسول یا تو آپ بھی سوار ہوجائیں یا پھر میں بھی نیچے اتر جاؤں گا ؟ فرمایا : بخدا ! تم نیچے نہ اترو بخدا میں سوار نہیں ہوں گا میں تو اس لیے پیدل چل رہا ہوں تاکہ گھڑی بھر کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میرے قدم غبار آلود ہوں چنانچہ مجاہد کے لیے ہر قدم کے بدلہ میں سات سو نیکیاں لکھنی جاتی ہیں اور سات سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اس کے بعد فرمایا : اگر تم سے ہو سکے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو میری مدد کے لیے چھوڑ دو چنانچہ اسامہ (رض) نے اجازت دے دی پھر آپ (رض) نے لشکر کو مخاطب کرکے فرمایا : اے لوگو ! رک جاؤ میں تمہیں دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں انھیں یاد رکھو خیانت مت کرو ، مال غنیمت میں دھوکا مت کرو ، غدر سے اجتناب کرو لاشوں کا مثلہ نہیں کرنا چھوٹے بچے کو قتل نہیں کرنا نہ ہی بوڑھے کو قتل کرنا عورت کو بھی قتل نہیں کرنا باغات نہ کاٹنا اور نہ باغات جلانا پھلدار درخت بھی نہیں کاٹنا بکری گائے اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا ہاں اگر انھیں ذبح کرو تو کھاؤ عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جو گرجوں میں پڑے ہوں گے انھیں اپنے حال پر رہنے دینا عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہارے پاس برتن لائیں گے جو طرح طرح کے کھانوں سے سجیہوں گے جب تم اس سے کھاؤ تو اللہ تعالیٰ کا نام لو عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جنہوں نے اپنے سر درمیان سے مونڈھے ہوں گے اور اطراف سے چھوڑے ہوں گے تو تلواروں سے انھیں کچل دینا اب اللہ کا نام لے کر چل پڑو اللہ تعالیٰ تمہیں طعن وطاعون سے محفوظ رکھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30269

30269- "مسند الصديق" ابن عائذ حدثنا الوليد بن مسلم عن عبد الله بن لهيعة عن أبي الأسود عن عروة قال: لما فرغوا من البيعة واطمأن الناس قال أبو بكر لأسامة: امض لوجهك الذي بعثك له رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمه رجال من المهاجرين والأنصار وقالوا: أمسك أسامة وبعثه فإنا نخشى أن تميل علينا العرب إذا سمعوا بوفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أبو بكر وكان أحزمهم أمرا: أنا أحبس جيشا بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد اجترأت على أمر عظيم فوالذي نفسي بيده لأن تميل علي العرب أحب إلي من أن أحبس جيشا بعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، امض يا أسامة في جيشك للوجه الذي أمرت به، ثم اغز حيث أمرك رسول الله صلى الله عليه وسلم من ناحية فلسطين وعلى أهل مؤتة، فإن الله سيكفي ما تركت، ولكن إن رأيت أن تأذن لعمر بن الخطاب فأستشيره وأستعين به، فإنه ذو رأي ومناصح للإسلام فافعل، ففعل أسامة ورجع عامة العرب عن دينهم وعامة أهل المشرق وغطفان وبنو أسد وعامة أشجع وتمسك طيء بالإسلام وقال عامة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمسك أسامة وجيشه ووجههم نحو من ارتد عن الإسلام من غطفان وسائر العرب، فأبى ذلك أبو بكر وقال: إنكم قد علمتم أنه قد كان من عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم في المشورة فيما لم يمض من نبيكم فيه سنة ولم ينزل عليكم به كتاب وقد أشرتم وسأشير عليكم فانظروا أرشد ذلك فائتمروا به فإن الله لن يجمعكم على ضلالة، والذي نفسي بيده ما أرى من أمر أفضل في نفسي من جهاد من منع عنا عقالا كان يأخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم فانقاد المسلمون لرأي أبي بكر. "كر".
30269 ۔۔۔ ” مسند صدیق (رض) “ ابن عائذ ولید بن مسلم عبداللہ بن لہیہ ابو اسود کی سند سے عروہ کی روایت ہے کہ جب مسلمان سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دست حق پرست پر بیعت کرنے سے فارغ ہوئے تو آپ (رض) نے اسامہ (رض) سے فرمایا : اپنی اس مہم کے لیے چلو جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں حکم دیا تھا مہاجرین اور انصار میں سے کچھ حضرات نے آپ (رض) سے بات کی کہ فی الحال حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسامہ (رض) اور ان کے لشکر کو روک لیں چونکہ ہمیں ڈر ہے کہ عرب ہمارے اوپر پل نہ پڑیں چونکہ جب عرب کے طول وعرض میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر پھیلے گی لوگ اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی شخصیت زبردست معاملہ فہم تھی فرمایا ! میں اس لشکر کو روک لوں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھیجا ہے تب تو میں بڑی جرات کر بیٹھوں گا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر سبھی عرب مجھ پر ٹوٹ پڑیں یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسامہ کے لشکر کو روک لوں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھیجا ہے اے اسامہ تم اپنے لشکر کو لے کر چلو اور وہاں پہنچ جاؤ جہاں جہاد کرنے کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں حکم دیا ہے ، یعنی فلسطین اور موتہ کی طرف البتہ اگر تم بہتر سمجھو تو عمر کو اپنے دو میں ان سے مشورہ لوں گا اور میری مدد کریں گے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کو چھوڑ دیا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رخصت کی خبر سن کر عام عرب دین سے پھرگئے اسی طرح عامہ اہل مشرق غطفان ، بنو اسد اور عامہ اشجع بھی دین اسلام سے برگشتہ ہوگئے البتہ بنی طے اسلام پر ڈٹے رہے ان حالات کے پیش نظر عام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ اسامہ اور ان کے لشکر کو روک لیں اور فی الحال انھیں غطفان اور دیگر مرتدین عرب کی سرکوبی کے لیے بھیجیں ابوبکر (رض) نے صاف انکار کردیا اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم لوگوں سے جدا ہوئے چند دن ہوئے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے مشورہ لیتے تھے اس پر تمہارے اوپر کوئی حجت نازل نہیں ہوئی تم مشورہ دیتے رہے میں نے بھی تم سے مشورہ لیا ہے تمہیں جو ہدایت والی راہ ملے اس کا امتثال کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اس گمراہی پر جمع نہیں کرے گا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں جہاد سے افضل کوئی کام نہیں سمجھتا حتی کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بکری کی رسی دیتا تھا اور اب وہ اس سے انکار کرے گا میں اس سے بھی جہاد کروں گا چنانچہ سبھی مسلمانوں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی رائے پر سر جھکا لیا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30270

30270- "مسند الحسين بن علي" أوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته بثلاث: أوصى أن ينفذ جيش أسامة، ولا يسكن معه المدينة إلا أهل دينه قال محمد: ونسيت الثالثة. "طب" عن محمد بن علي بن حسين عن أبيه عن جده.
30270 ۔۔۔ ” مسند حسین بن علی “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بوقت وفات تین چیزوں کی وصیت کی (1) حضرت اسامہ بن زید (رض) کا لشکر بہرحال روانہ کیا جائے ۔ (2) مدینہ میں دین اسلام کا نام لیوا ہی رہے کسی دوسرے دین کے پیروکار کو نکال باہر کیا جائے محمد کہتے ہیں تیسری بات میں بھول گیا ہوں ۔ (رواہ الطبرانی عن محمد بن علی بن حسین عن ابیہ عن جدہ) فائدہ : ۔۔۔ دوسری روایت میں ہے کہ تیسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ میرے بعد اختلاف نہ کیا جائے یا نماز کی پابندی کی وصیت کی یا جہاد کرنے کی وصیت کی ۔

30271

30271- عن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم قد ضرب بعث أسامة ولم يستتب لوجع النبي صلى الله عليه وسلم ولخلع مسيلمة والأسود وقد أكثر المنافقون في تأمير أسامة حتى بلغ النبي صلى الله عليه وسلم فخرج عاصبا رأسه من الصداع لذلك من الشأن ولبشارة أريها في بيت عائشة وقال: إني رأيت البارحة فيما يرى النائم في عضدين سوارين من ذهب فكرهتهما فنفختهما فطارا فأولتهما هذين الكذابين صاحب اليمامة وصاحب اليمن، وقد بلغني أن أقواما يقولون في إمرة أسامة ولعمري لئن قالوا في إمارته لقد قالوا في إمارة أبيه من قبله، وإن كان أبوه لخليقا لها وإنه لها لخليق فأنفذوا بعث أسامة وقال: لعن الله الذين يتخذون قبور أنبيائهم مساجد". فخرج أسامة فضرب بالجرف وثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يستتم الأمر انتظر أولهم آخرهم حتى توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم. سيف، "كر".
30271 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ کا لشکر روانہ کیا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرض الوفات کی وجہ سے لشکر جرف سے آگے نہ جاسکا نیز مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے بھی اپنی جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا تھا بعض لوگ اسامہ (رض) کی امارت پر بھی تنقید کر رہے تھے حتی کہ بیماری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی تو آپ گھر سے باہر تشریف لائے آپ نے سر درد کی وجہ سے سر مبارک پر پٹی باندھ رکھی تھی آپ نے فرمایا : میں نے عائشہ (رض) کے گھر میں خواب دیکھا ہے میں دیکھتاہوں کہ میرے بازوؤں میں سونے کے دو کنگن ہیں میں نے انھیں سخت ناپسند کیا اور پھینک دیئے میں نے ان کی تعبیر ان دو کذابوں سے لی ہے یعنی صاحب یمامہ اور صاحب یمن میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اسامہ کی امارت پر تقید کر رہے ہیں بخدا قبل ازیں لوگ اس کے باپ کی امارت پر بھی تنقید کرچکے ہیں بلاشبہ اس کا باپ امارت کا سزاوار تھا اور اسامہ بھی امارت کا سزوار ہے لہٰذا اسامہ کے لشکر کو چلتا کرو پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر لعنت کرے جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا چنانچہ اسامہ (رض) نے مدینہ سے نکل کر مقام جرف میں پڑاؤ ڈال لیا اسی اثناء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض میں شدت آگئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحت یابی کے انتظار میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ۔ (رواہ سیف و ابن عساکر)

30272

30272- "مسند أسامة" عن أسامة قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أغير على أبنى صباحا وأحرق. "ق، ط" والشافعي، حم، د، هـ" والبغوي، "طب".
30272 ۔۔۔ ” مسند اسامہ “ اسامہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں ابنی پر حملہ کروں اور ان کے اموال جلاؤں ۔ (رواہ البخاری ومسلم وابو داؤد الطیالسی والشافعی واحمد بن حنبل وابو داؤد وابن ماجہ والبغوی والطبرانی)

30273

30273- "أيضا" استعملني النبي صلى الله عليه وسلم على سرية. "قط" في الأفراد.
30273 ۔۔۔ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے لشکر کا امیر مقرر کیا ۔ (رواہ الدارقطنی فی الافراد)

30274

30274- عن حذيفة "أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث بعثا إلى دومة الجندل فقال: إنكم ستجدون أكيدر خارجا يتصيد الصيد فخذوه، فانطلقوا فوجدوه كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذوه وعلموا أهل المدينة وأشرفوا على المسلمين يكلمونهم، فقال رجل من المسلمين: أذكرك الله هل تجدون محمدا في كتابكم؟ فقال: لا فقال رجل إلى جنبه: إنا نجده في كتابنا فقال الرجل لأبي بكر: يا أبا بكر أليس قد كفر هؤلاء الآن؟ قال: بلى فاسكت وأنتم سوف تكفرون وسكت الرجل ودخل البيت وخرج مسيلمة يتنبأ فقال رجل: سمعتك تقول ونحن بدومة الجندل وأنتم سوف تكفرون، وذلك خروج مسيلمة فقال: لا ولكن في آخر الزمان. ابن منده والمحاملي في أماليه وأبو نعيم في المعرفة، "كر".
30274 ۔۔۔ ” حضرت حذیفہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دومۃ الجندل کی طرف ایک سریہ روانہ کیا اور فرمایا : تم لوگ اکیدر کو بستی سے باہر شکار کرتا دیکھو گے چنانچہ سریہ مہم سر کرنے چل پڑا اور اکیدر کو اسی حال میں پایا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : مسلمان اکیدر کو پکڑ لائے اور مدینہ میں مسلمانوں کے پاس آوارد ہوئے مسلمانوں میں سے ایک شخص نے اکیدر سے کہا : میں تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں بتاؤ کیا تم اپنی کتابوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پاتے ہو ؟ وہ وبولا ! نہیں جبکہ اس کے پہلو میں ایک شخص کھڑا تھا وہ بولا : ہم اپنی کتاب میں محمد کا ذکر پاتے ہیں۔ اسی شخص نے ابوبکر (رض) سے کہا : اے ابوبکر (رض) کیا ان لوگوں نے ابھی ابھی کفر نہیں کردیا فرمایا جی ہاں پس تم خاموش رہو تم بھی عنقریب کفر پر اتر آؤ گے چنانچہ وہ شخص خاموش ہو کر گھر میں داخل ہوگیا چنانچہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کردیا ایک شخص نے کہا : میں نے تجھے دومتہ الجندل میں کہتے سنا ہے کہ تم عنقریب کفر پر اتر آؤ گے اور یہ مسیلمہ کا خروج ہے کہا : نہیں البتہ وہ آخر زمانہ میں ہوگا ۔ (رواہ ابن مندہ والحاملی فی امالیہ وابو نعیم فی المعرفۃ وابن عساکر)

30275

30275- "من مسند خالد بن الوليد" " بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فقال: من مررت به من العرب فسمعت فيهم الأذان فلا تعرض له، ومن لم تسمع فيهم الأذان فادعهم إلى الإسلام فإن لم يجيبوا فجاهدهم. "طب" عن خالد بن سعيد بن العاصي.
30275 ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید (رض) کی روایت ہے کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف دستہ دے کر بھیجا اور فرمایا : تم عرب کی جس بستی کی پاس سے گزرو اگر ان کی اذان کی آواز سنو تو ان سے تعرض مت کرو ، اگر اذان کی آواز نہ سنو تو انھیں اسلام کی دعوت دو اگر اسلام قبول نہ کریں ان پر چڑھائی کر دو ۔ (رواہ الطبرانی عن خالد بن سعید بن العاص)

30276

30276 - "مسند بجير بن بجرة الطائي" عن أبي المعارك الشماخ بن المعارك بن مرة بن صخر بن بجير بن بجرة قال: حدثني أبي عن جدي عن أبيه بجير بن بجرة قال: كنت في جيش خالد ابن الوليد حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أكيدر ملك دومة الجندل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إنك تجده يصيد البقر" قال فوافيناه في ليلة مقمرة، قد خرج كما نعته رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذناه وقتلنا أخاه كان قد حاربنا وعليه قباء ديباج، فبعث به خالد إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلما أتينا النبي صلى الله عليه وسلم أنشدته: تبارك سائق البقرات إن ... رأيت الله يهدي كل هاد فمن يك عائدا عن ذي تبوك ... فإنا قد أمرنا بالجهاد فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لا يفضض الله فاك" قال: فأتت عليه تسعون سنة ما تحركت له سن ولا ضرس. أبو نعيم وابن منده، "كر".
30276 ۔۔۔ ” مسند بجیر بن بجرہ طائی “ ابو معارک شماخ بن معارک بن مرہ بن صخر بن بجیر بن بجرہ معارک بن مرہ بن ضحر ، مرہ بن ضحر کی سند سے یجیر بن نجبرہ (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو دومتہ الجندل کے بادشاہ اکیدر کی طرف لشکر دے کر بھیجا میں بھی اس لشکر میں شامل تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے پاؤں گے چنانچہ ہم نے اکیدر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشنگوئی کے عین مطابق پایا چاندنی رات میں وہ باہر شکار کے لیے نکلا تھا ہم نے اکیدر کو پکڑ لیا اور اس کا بھائی ہمارے مقابلے پہ اتر آیا ہم نے اسے قتل کردیا اس نے دیباج کی قباء پہن رکھی تھی خالد (رض) نے یہ قباء نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیج دی جب ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے یہ اشعار کہے ۔ تبارک سائق البقرات انی رایت اللہ یھدی کل ھاد : فمن یک عائدا عن ذی تبوک فانا قد امرنا بالجھاد : گائیوں کو ہانکنے والی ذات بڑے برکت والی ہے میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا ہے کہ وہ ہر ہادی کو ہدایت دیتا ہے جو بھی تبوک والے سے واپس لوٹے گا ہمیں تو جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (رض) نے یہ اشعار سن کر فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے دانتوں کو گرنے سے محفوظ رکھ ، چنانچہ بجیر (رض) کی عمر نوے سال ہوئی اور ان کے منہ میں کوئی دانت ہلا تک نہیں اور نہ کوئی داڑھ ہلنے پائی ۔ (رواہ ابونعیم وابن مندہ وابن عساکر)

30277

30277- قال ابن إسحاق حدثني يزيد بن رومان وعبد الله بن أبي بكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث خالد بن الوليد إلى أكيدر بن عبد الملك رجل من كندة كان ملكا على دومة وكان نصرانيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لخالد: " إنك ستجده يصيد البقر" فخرج خالد حتى إذا كان من حصنه بمنظر العين وهي ليلة مقمرة فلقيه في ركب من أهل بيته فأخذه وقتل أخاه حسانا وقدم بالأكيدر على رسول الله صلى الله عليه وسلم فحقن له دمه وصالحه على الجزية، ثم خلى سبيله فرجع إلى قريته فقال رجل من طييء يقال له بجير بن بجرة فذكر قول رسول الله صلى الله عليه وسلم لخالد إنك ستجده يصيد البقر تلك الليلة حتى أخرجه لتصديق قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: تبارك سائق البقرات ليلا ... كذاك الله يهدي كل هاد فمن يك عائدا عن ذي تبوك ... فإنا قد أمرنا بالجهاد ابن منده وأبو نعيم، "كر"؛ قال ابن منده: هذا حديث مرسل في المغازي.
30277 ۔۔۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ مجھے یزید بن رومان اور عبداللہ بن ابی بکر نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو دومہ کے بادشاہ اکیدر بن عبدالملک کندی کی طرف بھیجا اور ان سے فرمایا ، تم اسے نیل گائے شکار کرتے ہوئے پاؤں گے خالد (رض) تشریف لے گئے اور جب اکیدر کے قلعہ کے قریب پہنچے تو چاندنی رات میں اس سے ملے وہ اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ باہر گھوم رہا خالد (رض) نے اسے گرفتار کرلیا اس کا بھائی مقابلے پہ اتر آیا اور مقتول ہوا پھر خالد (رض) اکیدر کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی جان بخشی کی اور جزیے پر اس سے صلح کرلی پھر اسے رہا کردیا اور وہ اپنی بستی میں واپس لوٹ آیا ، چنانچہ قبیلہ طی کے بجیر بن بجرہ نامی ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خالد (رض) سے کہے ہوئے فرمان کہ ” تم اکیدر کو نیل گائے شکار کرتے پاؤ گے “ کا تذکرہ کیا اور یہ اشعار کئے ۔ تبارک سائق البقرات لیلا کذاک اللہ یھدی کل ھاد فمن یک عائذا عن ذی تبوک فاناقدامرنا بالجھاد : (رواہ ابن مندہ وابو نعیم وابن عساکر قال ابن مندہ ھذا حدیث مرسل فی المغازی)

30278

30278- عن خالد بن سعيد بن العاص أيضا بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى قيصر صاحب الروم بكتاب فقلت: استأذنوا لرسول رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى قيصر فقيل له: إن على الباب رجلا يزعم أنه رسول رسول الله ففزعوا لذلك فقال: أدخله فأدخلني عليه وعنده بطارقته فأعطيته الكتاب فقرئ عليه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قيصر صاحب الروم فنخر ابن أخ له أحمر أزرق سبط فقال: لا يقرأ الكتاب اليوم لأنه بدأ بنفسه وكتب صاحب الروم ولم يكتب ملك الروم، فقرئ الكتاب حتى فرغ منه ثم أمرهم فخرجوا من عنده، ثم بعث إلي فدخلت عليه فسألني فأخبرته، فبعث إلى الأسقف فدخل عليه، فلما قرأ الكتاب قال الأسقف: هو والله الذي بشرنا به موسى وعيسى الذي كنا ننتظره قال قيصر: فما تأمرني؟ قال الأسقف: أما أنا فإني مصدقه ومتبعه فقال قيصر: أعرف أنه كذلك ولكن لا أستطيع أن أفعل، إن فعلت ذهب ملكي وقتلني الروم. "طب" عن دحية الكلبي.
30278 ۔۔۔ خالد بن سعید بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خط دے کر روم کے بادشاہ قیصر کے پاس بھیجا جب میں قیصر کے دربار میں پہنچا میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قاصد کو اجازت دو قیصر کو اطلاع کی گئی کہ دروازے پر ایک شخص سے اس کا دعوی ہے کہ وہ اللہ کے رسول کا قاصد ہے درباری سن کر ہکا بکا رہ گئے اور ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی قیصر نے دربان سے کہا : اسے اندر داخل کرو دربان مجھے اندر لے گیا قیصر کے پاس اس کے وزراء اور مشیر بیٹھے ہوئے تھے میں نے اسے نامہ والا دیا قیصر کو نامہ مبارک پڑھ کر سنایا گیا خط میں لکھا تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم محمداللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے قیصر صاحب روم کی طرف اس پر قیصر کے ایک بھتیجے نے جو گورا نیلگوں آنکھوں والا اور سیدھے لمبے بالوں والا تھا نے کہا : آج خط نہ پڑھا جائے چونکہ خط کے مرسل نے خط کی ابتداء اپنے نام سے کی ہے اور پھر ملک روم (روم کا بادشاہ) کی بجائے صاحب روم لکھا ہے ، چنانچہ خط پڑھا گیا اور ختم کردیا گیا پھر قیصر نے دربار میں موجودین کو چلے جانے کا حکم دیا پھر پیغام بھیج کر مجھے اپنے پاس بلایا مجھ سے خط کے متعلق دریافت کیا میں نے اسے خبر کی پھر اس نے ایک پادری اپنے پاس بلوایا جب پادری نے خط پڑھا بولا : اللہ کی قسم یہ وہی پیغمبر ہے جس کی موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں بشارت دی ہے اور جس کے آج تک ہم منتظر تھے قیصر نے کہا : تم مجھے کیا حکم دیتے ہو ؟ پادری نے کہا میں تو اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی اتباع کرتا ہوں قیصر نے کہا : میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ کا رسول پر حق ہے لیکن میں اس کی اتباع کی طاقت نہیں رکھتا چونکہ اگر میں ایسا کروں گا تو میری بادشاہت ختم ہوجائے گی اور رومی مجھے قتل کردیں گے ۔ (رواہ الطبرانی عن دحیہ کلبی (رض))

30279

30279- "مسند أبي السائب خباب" عن خريم بن أوس سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "هذه الجيرة البيضاء قد رفعت لي وهذه الشيماء بنت نفيلة الأزدية على بغلة شهباء معتجرة بخمار أسود فقلت: يا رسول الله وإن نحن دخلنا الحيرة ووجدتها على هذه الصفة فهي لي؟ قال: هي لك"، ثم ارتد العرب فلم يرتد أحد من طيئ وكنا نقاتل قيسا على الإسلام وفيهم عيينة بن حصن وكنا نقاتل بني أسد وفيهم طلحة بن خويلد الفقعسي، ثم سار خالد إلى مسيلمة فسرنا معه، فلما فرغنا من مسيلمة وأصحابه أقبلنا إلى ناحية البقرة فلقينا هرمز بكاظمة في جمع عظيم فبرز له خالد بن الوليد، ودعا إلى البراز فبرز له هرمز فقتله خالد وكتب بذلك إلى أبي بكر فنفله سلبه، ثم سرنا على طريق الطف، حتى دخلنا الحيرة فكان أول من تلقانا فيها شيماء بنت نفيلة الأزدية على بغلة لها شهباء بخمار أسود كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فتعلقت بها وقلت: هذه وهبها لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعاني خالد عليها البينة، فأتيته بها فسلمها إلي. "طب" عن خريم بن أوس
30279 ۔۔۔ ” مسند ابی سائب خباب “ حضرت خریم بن اوس (رض) کی روایت ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ حیرہ کی سرزمین مجھے دکھائی گئی میں نے شیماء بنت نفیلہ ازدیہ کو سفید خچر پر سوار دیکھا ہے اس نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی ہے میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اگر ہم سرزمین حیرہ میں داخل ہوئے اور میں نے شیماء کو اسی حالت میں پالیا تو وہ میری ہوجائے گی آپ نے فرمایا : اچھا وہ تمہاری ہوئی چنانچہ آپ کی رحلت کے بعد عرب اسلام سے پھرگئے لیکن بنی طے کا کوئی شخص بھی مرتد نہ ہوا ہم قیس سے اسلام پر لڑتے رہے ان میں عینیہ بن حصن بھی تھا اسی طرح ہم بنی اسد سے بھی لڑتے رہے ان میں طلحہ بن خویلد فقعسی بھی تھا : پھر خالد (رض) مسلیمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے میں بھی ان کے ساتھ تھا جب ہم مسلیمہ کذاب اور اس کے اتباع سے فارغ ہوئے تو ہم نے بقر کے مضافات کی خبر لی کا ظمیہ میں ہر مزجم غفیر کے ساتھ ہمارا مقابل ہوا خالد (رض) نے اسے قتل کردیا اور تمام احوال سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لکھ بھیجے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ہرمز کا سازوسامان خالد (رض) کو انعام میں دیا پھر ہم طف کے راستے پر چلے اور حیرہ میں داخل ہوئے اور حیرہ میں سب سے پہلے ہماری جس سے ملاقات ہوئی وہ شیماء بنت نفیلۃ ازدیہ تھی وہ سفید خچر پر سوار تھی اور اس نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا تھا میں فورا شیماء کے ساتھ لپٹ گیا اور میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ عورت مجھے ہبہ کی ہے خالد (رض) نے مجھ سے گواہ طلب کیے میں نے گواہ پیش کیے خالد (رض) نے شیماء میرے حوالے کردی ۔ (رواہ الطبرانی عن حریم بن اوس)

30280

30280- "مسند ابن عباس" الواقدي حدثني ابن أبي حبيبة عن داود بن الحصين عن عكرمة عن ابن عباس ومحمد بن صالح عن عاصم بن عمر ابن قتادة ومعاذ بن محمد عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة وإسماعيل بن إبراهيم عن موسى بن عقبة فكل قد حدثني من هذا الحديث بطائفة وعماده حديث ابن أبي حبيبة قالوا: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد من تبوك في أربعمائة وعشرين فارسا إلى أكيدر بن عبد الملك بدومة الجندل وكان أكيدر من كندة قد ملكهم، وكان نصرانيا فقال خالد: يا رسول الله كيف لي به وسط بلاد كلب، وإنما أنا في أناس يسير؟ فقال رسول الله صلى اله عليه وسلم: ستجده يصيد البقر فتأخذه، فخرج خالد حتى إذا كان من حصنه بمنظر العين وفي ليلة مقمرة طائفة وهو على سطح له ومعه امرأته الرباب بنت أنيف بن عامر من كندة فصعد على ظهر الحصن من الحر وقينته تغنيه ثم دعا بشراب فشرب فأقبلت البقر تحك بقرونها باب الحصن فأقبلت امرأته الرباب فأشرفت على الحصن فرأت البقر فقالت: ما رأيت كالليلة في اللحم هل رأيت مثل هذا قط؟ قال: لا، ثم قالت: من يترك مثل هذا؟ قال لا أحد قال: يقول أكيدر: والله ما رأيت جاءتنا بقر ليلا غير تلك الليلة، ولقد كنت أضمر لها الخيل إذا أردت أخذها شهرا أو أكثر، ثم أركب بالرجال وبالآلة فنزل فأمر بفرسه فأسرجت وأمر بخيل فأسرجت، وركب معه نفر من أهل بيته معه أخوه حسان ومملوكان له فخرجوا من حصنهم بمطاردهم فلما فصلوا من الحصن وخيل خالد تنظرهم لا يصهل فيها فرس ولا تتحرك فساعة فصل أخذته الخيل فاستأسر أكيدر وامتنع حسان فقاتل حتى قتل وهرب المملوكان ومن كان معه من أهل بيته فدخلوا الحصن وكان على حسان قباء ديباج مخوص بالذهب فاستلبه خالد فبعث به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مع عمرو بن أمية الضمري وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لخالد بن الوليد: " إن ظفرت بأكيدر فلا تقتله وائت به إلي فإن أبى فاقتله"، فطاوعهم فقال خالد بن الوليد لأكيدر: هل لك أن أجيرك من القتل حتى آتي بك رسول الله صلى الله عليه وسلم على أن تفتح لي دومة قال نعم ذلك لك، فلما صالح خالد أكيدر وأكيدر في وثاق، وانطلق به خالد حتى أدناه من باب الحصن نادى أكيدر أهله افتحوا باب الحصن، فأرادوا ذلك، فأبى عليهم مصاد أخو أكيدر فقال أكيدر لخالد: تعلم والله لا يفتحون لي ما رأوني في وثاقك فحل عني فلك الله والأمانة أن أفتح لك الحصن إن أنت صالحتني على أهله، قال خالد: فإني أصالحك فقال أكيدر: إن شئت حكمتك وإن شئت حكمتني؟ قال خالد: بل نقبل ما أعطيت فصالحه على ألفي بعير وثمانمائة رأس وأربع مائة درع وأربعمائة رمح على أن ينطلق به وأخيه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيحكم فيها حكمه، فلما قاضاه خالد على ذلك خلى سبيله ففتح الحصن فدخله خالد وأوثق مصادا أخا أكيدر وأخذ ما صالح عليه من الإبل والرقيق والسلاح، ثم خرج قافلا إلى المدينة ومعه أكيدر ومصاد فلما قدم بأكيدر على رسول الله صلى الله عليه وسلم صالحه على الجزية وحقن دمه ودم أخيه وخلى سبيلهما وكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا فيه أمانهم وما صالحهم وختمه يومئذ بظفره. "كر".
30280 ۔۔۔” مسند ابن عباس “ واقدی ، ابن ابی حبیبہ ، داؤد بن حصین عکرمہ ، ابن عباس ، ومحمد بن صالح ، عاصم بن عمر بن قتادہ ومعاذ بن محمد ، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ واسماعیل بن ابراہیم موسیٰ بن عقبہ ان تمام اسناد سے حدیث مروی ہے اور اس کا اساس ابن ابی حبیبہ کی حدیث ہے روایت یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو چار سو بیس شہسواروں کے لشکر کا امیر مقر کرکے بسوئے تبوک دومۃ الجندل کے بادشاہ اکیدر بن عبد الملک کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اکیدر کا تعلق قبیلہ کندہ سے تھا اور نصرانی تھا خالد (رض) نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں اکیدر کو اپنی گرفت میں کیسے لیے سکتا ہوں حالانکہ وہ کلب کے علاقوں کے بیچوں بیچ ہے ، جبکہ میرے پاس تھوڑی سی جمعیت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اکیدر کو نیل گائے شکار کرتے پاؤ گے اسے گرفتار کرلینا حضرت خالد (رض) کا نام لے کر چل پڑے ، جب اکیدر کے قلعہ کے قریب پہنچے چاندنی رات تھی اور سماں واضح دکھائی دیتا تھا اکیدر گرمی سے بچاؤ کے لیے قلعہ کی چھت پر بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی رباب بنت انیف بن عامر کندیہ بھی تھی ، اس کے آس پاس کنیزیں گانا بجا رہی تھیں ، پھر اکیدر نے شراب طلب کی اور شکم سیر ہو کر پی اتنے میں نیل گایوں کا نموار ہوا اور کچھ گائیں قلعہ کے دروازے کو سینگوں سے کھرچنے لگیں اکیدر کی بیوی نے کہا : آج رات کی طرح میں نے کوئی رات نہیں دیکھی جس میں اتنی کثرت سے ہمارے پاس گوشت آیا ہو کیا تم نے ایسی دیکھی ہے ؟ اکیدر نے کہا : نہیں پھر کہنے لگی ان جیسی گایوں کو کون چھوڑتی ہے ؟ اکیدر نے کہا : کوئی نہیں چھوڑتا بخدا ! میں نے اتنی کثرت میں کبھی بھی گائیں نہیں دیکھیں میں نے انہی کے لیے اپنے گھوڑے تیار کر رکھے ہیں جنہیں تیار کرنے میں مجھے ایک ماہ سے زیادہ وقت لگا ہے۔ پھر اوپر چھت سے نیچے اترا اور اپنا گھوڑاتیار کرنے کا حکم دیا گھوڑے پر زیں ڈال دی گئی چنانچہ اس کے ساتھ اس کے گھر کے بھی چند افراد گھوڑوں پر سوار ہوئے اس کے ساتھ اس کا بھائی حسان اور دو غلام بھی تھے چنانچہ شکار کے اوزار لے کر قلعہ سے باہر نکلے جب قلعے سے تھوڑا آگے پہنچے جبکہ خالد (رض) کے شہسوار اکیدر اور اس کے ساتھیوں کو نمایاں دیکھ رہے تھے مسلمانوں کے گھوڑوں نے ہنہنانا بند کردیا حتی کہ کسی گھوڑے نے حرکت تک نہ کی جب اکیدر مسلمانوں کے احاطہ میں آگیا فورا اسے پکڑ لیا جبکہ اس کے بھائی حسان نے لڑنا چاہا لیکن مقتول ہوا جبکہ غلام اور دوسرے ساتھ بھاگ کر قلعہ میں داخل ہوگئے حسان نے دیباج کی قباء پہن رکھی تھی جو سونے کے تروں سے جڑی ہوئی تھی خالد (رض) نے قباء اتارلی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ارسال کردی اس قباء کو حضرت عمرو بن امیہ ضمری (رض) لے کر آئے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد (رض) کو وصیت کی تھی کہ اکیدر کو زندہ گرفتار کر کے لاؤ اگر وہ جھڑپ پر اتر آئے تو اسے قتل کر دو لیکن بغیر جھڑپ کے اکیدر مسلمانوں کی گرفت میں آگیا حضرت خالد (رض) نے اس سے کہا : میں تمہیں قتل سے پناہ دیتا ہوں کیا تم سے یہ ہوسکتا ہے ہمارے لیے دومہ کا قلعہ کھول دو اور میں تمہیں محفوظ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جاؤں گا ۔ اکیدر نے اس کی حامی بھر لی اکیدر کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بیڑیوں میں جکڑ رکھا تھا خالد (رض) اسے قعلہ تک لے گئے اکیدر نے بآواز بلند اہل قلعہ کو پکارا کہ دروازہ کھولو اہل قلعہ نے دروازہ کھولنے کا ارادہ کیا لیکن اکیدر کے بھائی مصاد نے دروازہ کھولنے سے انکار کردیا اکیدر نے خالد (رض) سے کہا : جب تک اہل قلعہ مجھے بیڑیوں میں دیکھیں گے دروازہ نہیں کھولیں گے ، لہٰذا تم میری بیڑیاں کھول دو میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہوں کہ دروازہ کھلواؤں گا خالد (رض) نے کہا : چلو میں اس پر تمہارے ساتھ حلم کرتا ہوں اکیدر نے کہا میں دروازہ کھلواتا ہوں بشرطیکہ اہل قلعہ سے تم صلح کرلو خالد (رض) نے حامی بھر لی پھر اکیدر نے کہا : بدل صلح کے لیے اگر چاہو تو مجھے حکم تسلیم کرو چاہو تم خود فیصلہ کرو خالد (رض) نے کہا : تم جو کچھ دو گے ہم اسے قبول کرلیں گے چنانچہ اکیدر نے دو ہزار اونٹ آٹھ سو غلام چار سو زرہیں اور چار سو نیزوں پر صلح کی اور خالد (رض) نے ساتھ یہ شرط رکھیں کہ اکیدر اور اس کا بھائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کئے جائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان دونوں کے متعلق فیصلہ کریں گے چنانچہ جب فریقین کا اتفاق ہوگیا اور کی بیڑیاں کھول دی گئیں اکیدر نے قلعے کا دروازہ کھول دیا حضرت خالد (رض) اندر داخل ہوگئے اور اکیدر کے بھائی مصاد کو گرفتار کرکے بیڑیوں میں جکڑ لیا پھر بدل صلح یعنی اونٹ غلام اور اسلحہ لیا پھر مدینہ واپس لوٹ آئے آپ (رض) کے ساتھ اکیدر اور اس کا بھائی مصاد بھی تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیہ پر اکیدر کے ساتھ صلح کرلی اور اکیدر اور اس کے بھائی کی جان بخشی کی اور ان کا راستہ چھوڑ دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح نامہ بھی لکھوایا اور اس پر اپنے ناخن سے مہر لگائی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30281

30281- عن عمرو بن يحيى بن وهب بن أكيدر صاحب دومة الجندل عن أبيه عن جده قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابن أكيدر ولم يكن معه خاتمه فختمه بظفره. "كر".
30281 ۔۔۔ عمرو بن یحییٰ بن وہب بن اکیدر (بادشاہ دومۃ الجندل) عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیدر کے بیٹے کی طرف خط لکھا اب کے پاس اس وقت مہر نہیں تھی آپ نے ناخن سے مہر لگائی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30282

30282- عن ابن عمر قال: قال عمر لخالد بن الوليد: ويحك يا خالد أخذت بني جذيمة بالذي كان من أمر الجاهلية أو ليس الإسلام قد محا ما كان في الجاهلية؟ فقال: يا أبا حفص والله ما أخذتهم إلا بالحق اغرت على قوم مشركين فامتنعوا فلم يكن لي بد إذا امتنعوا من قتالهم فأسرتهم ثم حملتهم على السيف فقال عمر: أي رجل تعلم عبد الله بن عمر: قال: أعلمه والله رجلا صالحا، قال: فهو الذي أخبرني غير الذي أخبرتني وكان معك في ذلك الجيش: فقال خالد: فإني أستغفر الله وأتوب إليه فانكسر عنه عمر وقال: ويحك ائت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستغفر لك. الواقدي، "كر".
30282 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ کہ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت خالد بن ولید (رض) سے کہا : اے خالد تیرا ناس ہو تم نے بنی جذیمہ سے وہ سلوک کیا جو جاہلیت کا عیاں کار ہے کیا اسلام جاہلیت کی گندگی کو مٹا نہیں دیتا ؟ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا : اے ابو حفص میں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ مبنی برحق ہے میں نے مشرکین پر حملہ کیا جب وہ مقابلے پر اتر آئے میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا میں نے انھیں گرفتار کیا پھر تلوار کی دھار پر لے آیا ، سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا : کون شخص ہے جو عبداللہ بن عمر کو جانتا ہو ؟ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا : میں اسے جانتا ہوں بخدا وہ نیک صالح شخص ہے پس حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے مجھے تمہارے بیان کے الٹ بات بتائی ہے۔ حالانکہ وہ اس لشکر میں تمہارے ساتھ تھا حضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا : میں اللہ کے حضور استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں اس پر سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) طرح دے گئے اور کہا : تیرا ناس ہو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ تاکہ وہ تمہارے لیے استغفار کریں ۔ (رواہ ابوقدی وابن عساکر)

30283

30283- عن قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث خالد بن الوليد إلى العزى وكانت لهوازن وكانت سدنتها بنو سليم فقال: انطلق فإنه تخرج عليك امرأة شديدة السواد طويلة الشعر عظيمة الثديين قصيرة فشد عليها خالد فضربها فقتلها، وجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا خالد ما صنعت؟ قال: قتلتها قال: ذهبت العزى فلا عزى بعد اليوم. "كر". بعث جرير
30283 ۔۔۔ قتادہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) کو ہوازن کے بت عزی کو گرانے کے لیے بھیجا اس بت کی دیکھ بھال کا کام بنو سلیم کے سپرد تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید (رض) سے فرمایا : جاؤ تمہارے پاس ایک عورت آئے گی جو بہت سیاہ لمبے بالوں والی بڑے بڑے پستانوں والی اور کوتاہ قد ہوگی چنانچہ اسی صفات کی عورت حضرت خالد بن ولید (رض) کے پاس آئی حضرت خالد بن ولید (رض) نے تلوار سے اس پر حملہ کیا اور اسے قتل کردیا پھر خالد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لوٹ آئے آپ نے پوچھا اے خالد تم نے کیا کیا ؟ عرض کی : میں نے اس عورت کو قتل کردیا ہے آپ نے فرمایا : عزی کا خاتمہ ہوا آج کے بعد عزی کا وجود نہیں رہے گا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30284

30284- عن جرير قال: بعث إلي علي بن أبي طالب ابن عباس والأشعث بن قيس وأنا بقرقيسياء فقالا: إن أمير المؤمنين يقرئك السلام ويقول: نعم ما أراك الله من مفارقتك معاوية، وإني أنزلك مني بمنزلة رسول الله صلى الله عليه وسلم التي أنزلتكها، فقلت: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني إلى اليمن أقاتلهم وأدعوهم أن يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوها حرمت دماؤهم وأموالهم" فلا أقاتل أحدا يقول لا إله إلا الله فرجعا على ذلك. "طب".
30284 ۔۔۔ حضرت جریر (رض) کی روایت ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور اشعث بن قیس کو میرے پاس بھیجا میرا قیام مقام قرقیساء میں تھا ان دونوں نے کہا : امیر المؤمنین آپ کو سلام کہتے ہیں اور انھوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھا کیا ہے جو تمہیں معاویہ سے جدا کردیا میں تمہیں وہی مقام دوں گا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں دیتے تھے میں نے جواب میں کہا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن بھیجا تھا تاکہ اہل یمن سے جہاد کروں اور انھیں اسلام کی دعوت دوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلیں جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو انھوں نے اپنے اموال اور جانیں محفوظ جکر لیں میں ایسے شخص سے جنگ نہیں کروں گا جو ” لا الہ الا اللہ “ کا اقرار کرتا ہو۔ چنانچہ حضرات واپس لوٹ گئے ۔ (رواہ الطبرانی)

30285

30285- عن جرير قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا جرير ألا تريحني من ذي الخلصة؟ فنفرت في خمسين ومائة فارس من أحمس فحرقتها بالنار فبعث جرير رجلا يقال له أبو أرطاة، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي بعثك بالحق ما جئتك حتى تركتها كأنها جمل أجرب". أبو نعيم في المعرفة.
30285 ۔۔۔ حضرت جریر (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : اے جریر ! کیا تم مجھے یمن کے ذی الخلصہ ، بتکدہ سے راحت نہیں پہنچاتے ؟ چنانچہ میں 150 سواروں کا دستہ لے کر بسوئے یمن روانہ ہوا میں نے ذی الخلصہ کو آگ سے جلا دیا پھر جریر (رض) نے ابوارطاۃ (رض) کو مابن ابی شیبۃ دہ سنانے بھیجا ابو ارطاۃ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب میں یمن سے روانہ ہوا میں نے ذی الخلصہ کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑا ہے۔ (رواہ ابو نعیم فی المعرفۃ)

30286

30286- عن ابن عباس قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جرير بن عبد الله إلى ذي الكلاع اسمه بديع بن باكوراء وإلى ذي ظليم حوشب بن طخية. "كر".
30286 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جریر بن عبداللہ (رض) کو ذی الکلاع بدیع بن باکوراء اور ذی ظلیم حوشب بن طخیہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا ۔ رواہ ابن عساکر)

30287

30287- "من مسنده" قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فأصابنا العطش وليس معنا ماء، فتنوخت ناقة لبعضنا وإذا بين رجليها مثل السقاء فشربنا من لبنها. "طب" عن خباب.
30287 ۔۔۔ حضرت خباب بن ارت (رض) روایت کی ہے کہ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دستہ دے کر بھیجا راستے میں ہمیں شدت سے پیاس لگی جبکہ ہمارے پاس نام کا پانی بھی نہیں تھا ہمارے ایک ساتھی کی اونٹنی بیٹھ گئی یکایک اس کی ٹانگوں کے درمیان مشکیزے کی مانند کوئی چیز نمودار ہوئی چنانچہ ہم نے سیر ہو کر اس کا دودھ لیا ۔ (رواہ الطبرانی عن جابر)

30288

30288- عن ابن عباس قال: بعث النبي صلى الله عليه وآله وسلم ضرار بن الأزور الأسدي إلى عوف الورقاني من بني الصيداء. "كر"
30288 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ضرار بن ازور اسدی (رض) کو بنی صیداء کے عوف ورقانی کی سرکوبی کے لیے بھیجا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30289

30289- عن ابن عمر قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن عوف فقال: تجهز فإني باعثك في سرية من يومك هذا أو من الغد إن شاء الله تعالى، قال ابن عمر: فسمعت ذلك فقلت: لأدخلن ولأصلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الغداة، ولأسمعن وصية عبد الرحمن، فقعدت فصليت فإذا أبو بكر وعمر وناس من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف وإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كان أمره أن يسير من الليل إلى دومة الجندل فيدعوهم إلى الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعبد الرحمن: ما خلفك عن أصحابك؟ قال ابن عمر وقد مضى أصحابه من سحر وهم معتدون بالجرف، وكانوا سبعمائة رجل، قال : أحببت يا رسول الله أن يكون آخر عهدي بك وعلي ثياب سفري قال : وعلى عبد الرحمن عمامة قد لفها على رأسه فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم فأقعده بين يديه ، فنقض عمامته بيده ، ثم عممته بعمامة سوداء ، فأرخى بين كتفية منها ثم قال : هكذا يا ابن عوف فاعتم ، وعلى ابن عوف السيف متوشحه ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اغز بسم الله وفي سبيل الله ، قاتل من كفر بالله ، لا تغال ولا تغدر ولا تقتل وليدا ، فخرج عبد الرحمن حتى لحق أصحابه فسار حتى قدم دومة الجندل ، فلما دخلها دعاهم إلى الاسلام فمكث ثلاثة أيام يدعوهم إلى الاسلام ، وقد كانوا أبوا أول ما قدم أن يعطوه إلا السيف ، فلما كان اليوم الثالث أسلم أصبغ بن عمرو الكلبي وكان نصرانيا وكان رأسهم وكتب عبد الرحمن إلى النبي صلى الله عليه وسلم يخبره بذلك وبعث رجلا من جهينة يقال له : رافع بن مكيث فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أراد أن يتزوج فيهم فكتب إليه النبي صلى الله عليه وسلم أن يتزوج ابنة الاصبغ تماضر ، فتزوجها عبد الرحمن وبنى بها ، ثم أقبل بها وهي أم أبي سلمة بن عبد الرحمن (قط في الافراد ، كر)
30289 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو اپنے پاس بلایا اور حکم دیا کہ تیاری کرو میں تمہیں آج ہی ایک سریہ کے ساتھ بھیج رہا ہوں یا فرمایا کل انشاء اللہ بھیجوں گا ، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں میں نے جب یہ فرمان سنا میں نے کہا : میں صبح ضرور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد میں داخل ہوں گا اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں گا تاکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو کی گئی وصیت سن سکوں چنانچہ میں مسجد میں بیٹھا رہا پھر نماز پڑھی جب نماز سے فارغ ہوا دیکھا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور کچھ دیگر لوگ کھڑے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دے رہے ہیں کہ تم لوگ آج رات ہی دومتہ الجندل کی طرف کوچ کر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دو چنانچہ دوسرے لوگ چلے گئے لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) پیچھے رہ گئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پیچھے رہ جانے کی وجہ دریافت کی ابن عمر (رض) کہتے ہیں حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کے ساتھی سحری کے وقت کوچ کر گئے تھے اور مقام جرف میں جا ٹھہرے تھے ، ان کی تعداد سات سو تھی حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں چاہتا ہوں سفر پر رورانہ ہوتے وقت میری آخری ملاقات آپ سے ہو حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے سر پر عمامہ پہن رکھا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو اپنے سامنے بٹھایا اور اپنے دست اقدس سے ان کا عماملہ کھولا پھر سیاہ عمامہ باندھا اور اس کا شملہ دونوں کاندھوں کے درمیان رکھا پھر فرمایا : اے ابن عوف یوں عمامہ باندھنا چاہے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اپنے بدن پر تلوار لٹکا رکھی تھی پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے روانہ ہوجاؤ جو بھی اللہ تعالیٰ کا انکار کرے اس سے قتال کرو مال غنیمت میں خیانت نہیں کرنی کسی سے دھوکا نہیں کرنا اور بچوں کو قتل نہیں کرنا ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) رخصت ہو کر چل پڑے اور اپنے ساتھیوں سے جا ملے پھر لشکر لے کر دومتہ الجندل جا پہنچے جب مطلوبہ بستی میں داخل ہوئے تو وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی چنانچہ تین دن تک انھیں اسلام کی دعوت دیتے رہے تاہم پہلے اور دوسرے دن ان لوگوں نے اسلام سے انکار کیا اور جنگ کا عندیہ دیا البتہ تیسرے دن اصبغ بن عموہ کلبی نے اسلام قبول کرلیا یہ نصرانی تھا اور اپنے قبیلے کا سردار تھا حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے اطلاع کے لیے خط لکھ کر رافع بن مکیث کو بھیجا اور خط میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھا کہ میں ان لوگوں میں شادی کرنا چاہتا ہوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابا لکھا بلکہ اصبغ کی بیٹی تماضر سے شادی کرو چنانچہ عبدالرحمن (رض) نے تماضر سے شادی کرلی اور یہیں زفاف ہوئی پھر اسے لے کر واپس لوٹے اور اسی عورت کے بطن سے سلمہ بن عبدالرحمن مشہور تابعی پیدا ہوئے ۔ (رواہ الدارقطنی فی الافراد وابن عساکر)

30290

30290 عن عطاء الخراساني عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم. بعث عبد الرحمن بن عوف في سرية وعقد له اللواء بيده (كر).
30290 ۔۔۔ عطاء خراسانی ابن عمر (رض) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو ایک سریہ کے ہمراہ روانہ کیا اور ان کے لیے پرچم اپنے دست اقدس سے باندھا تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30291

30291- عن معاذ بن جبل "أن النبي صلى الله عليه وسلم لما بعثه إلى اليمن مشى أكثر من ميل يوصيه قال: يا معاذ أوصيك بتقوى الله العظيم وصدق الحديث، وأداء الأمانة، وترك الخيانة، وحفظ الجار، وخفض الجناح، ولين الكلام، ورحمة اليتيم، والتفقه في القرآن - وفي لفظ: في الدين - والجزع من الحساب، وحب الآخرة، يا معاذ لا تفسدن أرضا، ولا تشتم مسلما، ولا تصدق كاذبا، ولا تكذب صادقا، ولا تعص إماما عادلا، يا معاذ أوصيك بذكر الله عند كل حجر وشجر وأن تحدث لكل ذنب توبة السر بالسر والعلانية بالعلانية، يا معاذ إني أحب لك ما أحب لنفسي وأكره لك ما أكره لها، يا معاذ إني لو أعلم أنا نلتقي إلى يوم القيامة لأقصرت عليك من الوصية، ولكني لا أرى نلتقي إلى يوم القيامة، يا معاذ إن أحبكم إلي لمن لقيني يوم القيامة على مثل هذه الحالة التي فارقني عليها، وكتب له في عهده أن لا طلاق لامرئ فيما لا يملك ولا عتق فيما لا يملك، ولا نذر في معصية ولا في قطيعة رحم ولا فيما لا يملك ابن آدم، وعلى أن تأخذ من كل حالم دينارا أو عدله معافر، وعلى أن لا تمس القرآن إلا طاهرا، وإنك إذا أتيت اليمن يسألونك نصاراها عن مفتاح الجنة فقل: مفتاح الجنة لا إله إلا الله وحده لا شريك له". "كر"؛ وفيه ركن الشامي متروك.
30291 ۔۔۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن روانہ کیا میرے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک میل سے زیادہ چلے اور فرمایا : اے معاذ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو سچائی کا دامن مت چھوڑو ، امانت ادا کرو خیانت ترک کر دو پڑوسی کے حقوق کی رعایت کرو نرمی اپناؤ نرم کلام کرو ، یتیم پر شفقت کرو قرآن میں سمجھ بوجھ پیدا کرو یوم حساب سے ڈرتے رہو آخرت سے محبت کرو ، اے معاذ زمین پر ہرگز فساد مت پھیلاؤ مسلمان کو گالی مت دو جھوٹے کی تصدیق نہ کرو سچے کی تکذیب مت کرو امام عادل کی نافرمانی مت کرو اے معاذ ! میں تمہیں ہر وقت اللہ کا تعالیٰ ذکر کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ ہر گناہ کے لیے توبہ کرتے رہو اگر خفیہ گناہ کیا ہے تو خفیہ توبہ کروا اگر اعلانیہ گناہ کیا ہے تو اعلانیہ توبہ کرو ، اے معاذ میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں اور وہی چیز تمہارے لیے ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں اے معاذ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تاقیامت ہماری ملاقات ہوگی میں تمہیں کم سے کم وصیت کرتا ہوں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تاقیامت ہماری ملاقات ہوگی اے معاذ ! تم میں سے وہ شخص مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے جو مجھ سے اسی حالت میں ملاقات کرے جس حالت پر میں نے اسے چھوڑا ہے نیز معاذ (رض) کو یہ فرمان بھی دیا کہ آدمی جس عورت کا مالک نہیں اسے طلاق نہیں ہوتی آدمی جس غلام کا مالک نہیں اسے آزاد بھی نہیں کرسکتا معصیت میں مانی ہوئی نذر کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ نذر بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو قطع رحمی میں مانی گئی ہو اور اس چیز کی نذر بھی نہیں جس کا آدمی مالک نہ ہو اور یہ کہ ہر بالغ سے ایک دینار لو یا اس کے برابر کی قیمت کے کپڑے قرآن کو غیر طہارت سے مت چھوؤ جب تم یمن پہنچو گے تو یمن کے نصرانی تم سے پوچھیں گے کہ جنت کی کنجی کیا چیز ہے ؟ تم کہو : لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ جنت کی کنجی ہے۔ (رواہ ابن عساکر وفیہ رکن الشافی متروک)

30292

30292- " يا معاذ إنك تقدم على أهل الكتاب وإنهم يسألونك عن مفاتيح الجنة فأخبرهم أن مفاتيح الجنة لا إله إلا الله وأنها تحرق كل شيء حتى تنتهي إلى الله عز وجل لا يحجب دونه، من جاء بها إلى يوم القيامة مخلصا رجحت بكل ذنب، يا معاذ تواضع لله عز وجل يرفعك الله، واستدق الدنيا يؤتك الله الحكمة، فإنه من تواضع لله واستدق الدنيا أظهر الله تعالى الحكمة من قلبه على لسانه ولا تغضبن ولا تقولن إلا بعلم، فإن أشكل عليك أمر فاسأل ولا تستحي، واستشر فإن المستشير معان، والمستشار مؤتمن، ثم اجتهد فإن الله عز وجل إن يعلم منك يوفقك، وإن التبس عليك فقف، وأمسك حتى تبينه أو تكتب إلي فيه، ولا تضربن فيما لم تجد في كتاب الله ولا في سنتي على قضاء إلا عن ملأ، واحذر الهوى فإنه قائد الأشقياء إلى النار، وإذا قدمت عليهم فأقم فيهم كتاب الله وأحسن أدبهم، وأقرئهم القرآن يحملهم القرآن على الحق وعلى الأخلاق الجميلة، وأنزل الناس منازلهم فإنهم لا يستوون إلا في الحدود لا في الخير ولا في الشر على قدر ما هم عليه من ذلك، ولا تحابين في أمر الله، وأد إليهم الأمانة في الصغير والكبير، وخذ ممن لا سبيل عليه العفو، وعليك بالرفق، وإذا أسأت فاعتذر إلى الناس، فعاجل التوبة، وإذا أسروا عليك من الجهالة فبين لهم حتى يعرفوا، ولا تحاقدهم وأمت أمر الجاهلية إلا ما حسنه الإسلام، وأعرض الأخلاق على أخلاق الإسلام، ولا تعرضها على شيء من الأمور، وتعاهد الناس في المواعظ والقصد القصد والصلاة الصلاة، فإنها قوام هذا الأمر اجعلوها همكم، وآثروا شغلها على الأشغال وترفقوا بالناس في كل ما عليهم ولا تفتنوهم، وانظروا في وقت كل صلاة فإن كان أرفق بهم فصلوا بهم أوله وأوسطه وآخره، صلوا الفجر في الشتاء وغلسوا بها، وأطل في القراءة على قدر ما يطيقون لا يملون أمر الله ولا يكرهونه، ويصلون الظهر في الشتاء مع أول الزوال، والعصر في أول وقتها والشمس حية، والمغرب حين يجب القرص صلها في الشتاء والصيف على ميقات واحد إلا من عذر، وأخر العشاء شيئا ما، فإن الليل طويل إلا أن يكون غير ذلك أرفق بهم، وإذا كان الصيف فأسفر بالفجر فإن الليل قصير فيدركها النوام، وصل الظهر بعد ما يتنفس الظل وتبرد الرياح، وصل العصر في وسط وقتها، وصل المغرب إذا سقط القرص، والعشاء إذا غاب الشفق إلا أن يكون غير ذلك أرفق بهم، وتعاهدوا الناس بالتذكير وأتبعوا الموعظة بالموعظة، فإنه أقوى للعاملين على العمل بما يحب الله، ولا تخافوا في الله لومة لائم، واتقوا الله الذي إليه ترجعون، يا معاذ إني عرفت بلاءك في الدين والذي ذهب من مالك وركبك في الدين، وقد طيبت لك الهدية، فإن هدي إليك شيء فاقبل". أبو نعيم وابن عساكر - عن عبيد بن صخر بن لوذان الأنصاري السلمي.
30292 ۔۔۔ اے معاذ ! تم اہل کتاب کے پاس جاؤ گے وہ تم سے جنت کی کنجیوں کے متعلق سوال کریں گے ، انھیں کہہ دو کہ لا الا الہ اللہ جنت کی کنجیاں ہیں ، یہ کلمہ ہر طرح کی رکاوٹ کو توڑ کر اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے جو شخص بھی اخلاص کے ساتھ اس کلمے کو لائے گا تو یہ کلمہ ہر طرح کے گناہ پر بھاری رہے گا اے معاذ ! اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے تواضع کرو اللہ تعالیٰ تمہارا مرتبہ بلند فرمائے گا دنیا کو حقیر سمجھو اللہ تعالیٰ تمہیں حکمت کی دولت سے مالا مال کر دے گا چنانچہ جو شخص دنیا کو حقیر سمجھتا ہے اور اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ حکمت کو اس کے دل میں امر کردیتے ہیں پھر وہ منہ سے جو بات بھی نکالتا ہے اس سے علم کے موتی ٹپک رہے ہوتے ہیں اگر کسی معاملہ میں تمہیں مشکل پیش آئے کسی دوسرے سے پوچھ لو اور شرم نہ کرو مختلف امور میں مشورہ کرتے رہو چونکہ مشورہ کرنے والا بےیارومددگار نہیں رہتا ، جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانتدار ہونا چاہیے پھر اجتھاد سے کام لو اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے اجتھاد میں بھلائی دیکھی تو اس کی توفیق دے گا اگر کوئی معاملہ متلبس (مشتبہ) ہو تو اسے موقوف کر دو اور رک جاؤ تاوقتیکہ اس کی کوئی صورت واضح ہوجائے یا مجھے لکھ بھیجو ایسا فیصلہ ہرگز نہ کرو جو کتاب اللہ یا میری سنت کے موافق نہ ہو الا یہ کہ وہ درست اجتھاد پر مبنی ہو ، خواہش نفس سے دور رہو چونکہ خواہش نفس بدبختوں کا قائد ہے جو انھیں انجام کار دوزخ میں لے جاتا ہے جب تم اہل یمن کے ہاں پہنچوں ان میں کتاب اللہ کا نفاذ کرو اور اچھے طریقے سے ان کی تربیت کرو اہل یمن کو قرآن پڑھاؤ چونکہ قرآن انھیں حق بات اور اخلاق جمیلہ پر ابھارے گا لوگوں کو ان کے مقام پر اتارو اور ان کے مراتب کی رعایت کرو چنانچہ حدود کے معاملہ میں لوگوں میں مساوات ہونی چاہیے خیر وشر میں لوگ برابر نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں سستی مت کرو امانت کی چیز خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اسے مالک تک ضرور پہنچاؤ جس شخص کے لیے معافی اور درگزر کی راہ نہیں نکل پاتی اسے اپنی گرفت میں لو نرمی کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو جب تم سے غلطی ہوجائے تو لوگوں سے معذرت کرلو توبہ کرنے میں عجلت کرو ، جب لوگ تم سے جہالت سے پیش آئیں تو معاملہ عیاں کر دو تاکہ لوگوں کو بخوبی آگاہی ہوجائے لوگوں کے متعلق دل میں کینہ مت رکھو جاہلی امور کا سختی سے خاتمہ کرو البتہ اس چیز کو باقی رہنے دو جسے اسلام نے اچھا سمجھا ہے۔ غیر اسلامی اخلاق کا اسلامی اخلاق کے ساتھ موازنہ کرو اور اسلامی اخلاق کو غیر اسلامی تہذیب پر مت پیش کرو ، لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہو میانہ روی اختیار کرو اور نماز کا اہتمام کرو چونکہ نماز دین اسلام کی بنیاد ہے گویا نماز کو اپنا مقصد بنا لو نماز کی مشغولیت کو بقیہ اشغال پر ترجیح دو ، لوگوں سے نرمی کا معاملہ کرو اور لوگوں کو فتنوں میں نہ ڈالو ہر نماز کے وقت کی رعایت رکھو ایسی نماز پڑھاؤ جوان کے حال کے زیادہ موافق ہو سردیوں میں نماز فجر اندھرے اندھیرے میں پڑھ لو اور قرات اتنی ہی طویل کرو جس کی لوگوں میں طاقت ہو لوگوں کو اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا ایسا نہ ہو کہ لو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ناپسند کرنے لگیں سردیوں میں ظہر کی نماز زوال کے فورا بعد پڑھ لو عصر کی نماز اول وقت میں پڑھو دراں حالیکہ سورج بالکل واضح ہو مغرب کی نماز اس وقت پڑھو جب سورج غروب ہوجائے گرمی سردی میں مغرب کی نماز ایک ہی وقت پر پڑھو البتہ عذر کی حالت اس سے مستثنی ہے عشاء کی نماز ذرا تاخیر سے پڑھو چونکہ رات لمبی ہوتی ہے ہاں البتہ اگر عشاء کی نماز اول وقت میں نمازیوں کی حالت کے لیے موزوں ہو تو اول وقت میں پڑھ لو ، گرمی کے موسم میں فجر کی نماز سفیدی کر کے پڑھو چونکہ گرمیوں کی راتیں چھوٹی ہوتی ہیں یوں ایسا کرنے سے سونے والا بھی نماز کو پاسکتا ہے ظہر کی نماز (گرمیوں میں) تب پڑھو جب سایہ بڑھنے لگے اور ہوا میں ٹھنڈک پیدا ہوجائے عصر کی نماز درمیانی وقت میں پڑھو مغرب اس وقت پڑھو جب سورج کی ٹکیہ غائب ہوجائے عشاء کی نماز تب پڑھو جب شفق غائب ہوجائے الا یہ کہ اس کے علاوہ کی صورت لوگوں کے لیے زیادہ باعث راحت ہو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہو چونکہ وعظ و نصیحت سے عمل میں پختگی پیدا ہوتی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس کی طرف سبھی نے لوٹ کر جانا ہے ، اے معاذ ! مجھے دین کے معاملہ میں تمہاری آزمائش کا اعتراف ہے جو تمہارے مال اور سواری کو لے چکی ہے البتہ میں نے ہدیہ تمہارے لیے حلال کیا ہے اگر تمہیں ہدیہ میں کوئی چیز دے اسے قبول کرلو ۔ (رواہ ابونعیم وابن عساکر عن عبید بن صخر بن لوذان الانصاری السلمی) سریہ عمرو بن مرہ :

30293

30293- عن عمرو بن مرة قال: كان رسول اله صلى الله عليه وسلم بعث جهينة ومزينة إلى أبي سفيان بن الحارث بن عبد المطلب الهاشمي وكان منابد النبي صلى الله عليه وسلم فلما ولوا غير بعيد قال أبو بكر الصديق: يا رسول الله بأبي أنت وأمي على ما تبعث كبشين قد كادا يتهاينان في الجاهلية أدركهم الإسلام وهم على بقية منها، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بردهم حتى وقفوا بين يديه فقال: يا مزينة حي جهينة يا جهينة حي مزينة فعقد لعمرو بن مرة على الجيشين على جهينة ومزينة ثم قال: سيروا على بركة الله، فساروا إلى أبي سفيان بن الحارث فهزمه الله وكثر القتل في أصحابه. "كر".
30293 ۔۔۔ حضرت عمرو بن مرہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہینہ اور مزینہ کو ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ھاشمی کی سرکوبی کے لیے بھیجا ابو سفیان نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا جب یہ دستہ تھوڑا آگے گیا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے کونسی مہم سر کرنے کے لیے دو مینڈھوں کو بھیجا ہے جو جاہلیت میں تیار ہوتے رہے اور پھر اسلام نے انھیں پالیا حالانکہ ان کا بقیہ جاہلیت پر ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دستے کو واپس بلانے کا حکم دیا حتی کہ دستہ واپس لوٹ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اے مزینہ جہینہ (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی خبر لو اے جہینہ مزینہ (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے) کی خبر لو ، عمرو بن عمر (رض) کو جہنیہ اور مزینہ دونوں پر امیر مقرر کیا پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چل پڑو چنانچہ لشکر ابو سفیان بن حارث کی طرف چل پڑا اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان حارث کو شکست سے دو چار کیا اور اس کے بہت سارے ساتھ مقتول ہوئے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30294

30294- عن الزهري قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثين إلى كلب وغسان وكفار العرب الذين كانوا بمشارف الشام، وأمر على أحد البعثين أبا عبيدة بن الجراح، وأمر على البعث الآخر عمرو بن العاص فانتدب في بعث أبي عبيدة أبو بكر وعمر، فلما كان عند خروج البعث دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم أبا عبيدة وعمرا فقال: لا تعاصيا، فلما فصلا من المدينة خلا أبو عبيدة بعمرو فقال له: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي وإليك أن لا تعاصيا، فإما أن تطيعني وإما أن أطيعك؟ قال: لا بل أطعني فأطاع أبو عبيدة، وكان عمرو أميرا على البعثين كليهما، فوجد عمر من ذلك قال: أتطيع ابن النابغة وتؤمره على نفسك وعلى أبي بكر وعلينا ما هذا الرأي؟ فقال أبو عبيدة لعمر: يا ابن أم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي وإليه أن لا تتعاصيا، فخشيت إن لم أطعه أن أعصى رسول الله صلى الله عليه وسلم ويدخل بيني وبينه الناس، وإني والله لأطيعنه حتى أقفل فلما قفلوا كلم عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وشكا إليه ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: " لن أؤمر عليكم بعد هذا إلا منكم يريد المهاجرين". "كر"
30294 ۔۔۔ زہری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کلب غسان اور شام کے مضافات کے کفار کی سرکوبی کے لیے دوسرے بھیجے ان میں سے ایک سریہ کے امیر ابو عبیدۃ ابن الجراح (رض) کیے دوسرے سریہ پر حضرت عمرو بن العاص (رض) کو امیر مقرر کیا ابو عبیدہ (رض) کے سریہ میں ابوبکر (رض) اور عمر (رض) بھی شامل تھے ، روانگی کے وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوعبیدہ اور عمرو (رض) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا : ایک دوسرے کی اطاعت کرنا اور اختلاف نہیں کرنا جب دونوں سریے مدینہ سے باہر نکلے ابو عبیدہ (رض) عمرو کو لے کر الگ ہوئے اور کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اور تمہیں چلتے وقت وصیت کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی نافرمانی نہ کریں یا تم میری اطاعت کرو یا میں تمہاری اطاعت کروں ؟ عمرو (رض) نے کہا : نہیں بلکہ تم میری اطاعت کرو چنانچہ ابو عبیدہ (رض) عمرو (رض) کی اطاعت کرنے لگے اور عمرو (رض) دونوں سریوں کے امیر رہے اس پر عمرو رضی کو کچھ تردو ہوا (چونکہ ابو عبیدہ (رض) سابقین اولین میں سے تھے اور عمرو (رض) دونوں سریوں کے امیر رہے اس پر عمرو (رض) کو کچھ تردو ہوا (چونکہ ابو عبیدہ (رض) سابقین اولین میں سے تھے اور عمرو بن العاص سے رتبہ میں افضل تھے) اور کہا : کیا تم نے نابغہ کے بیٹے کی اطاعت اختیار کرلی اور اسے اپنے اوپر امارت کا اختیار دے دیا اور ابوبکر پر بھی اسی کو امیر تسلیم کرلیا اور ہمارے اوپر بھی اسی کو امیر بنادیا یہ کیسا فیصلہ کیا ؟ ابو عبیدہ (رض) نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) سے کہا : اے میرے ماں جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چلتے وقت ہم دونوں کو حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی نافرمانی نہ کریں اور اختلاف سے گریز کریں مجھے خوف ہے کہ اگر میں اس کی اطاعت نہیں کروں گا تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا شکار ہوجاؤں گا اور ہمارے درمیان لوگ منقسم ہوجائیں گے بخدا میں تا واپسی اس کی اطاعت کروں گا جب لشکر واپس لوٹا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں آج کے بعد عمرو کو تمہارے اوپر امیر نہیں مقرر کروں گا البتہ اسی شخص کو امیر مقرر کروں گا جسے مہاجرین چاہیں گے ۔ (رواہ ابن عساکر)

30295

30295- عن أبي قتادة قال: انتهينا إلى بني قريظة: فلما رأونا أيقنوا بالشر وغرز علي الراية عند أصل الحصن فاستقبلونا في صياصيهم يشتمون رسول الله صلى الله عليه وسلم وأزواجه وسكتنا وقلنا: السيف بيننا وبينكم وطلع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رآه علي رجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمرني أن ألزم اللواء فلزمته، وكره أن يسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أذاهم وشتمهم، فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم ويقدمه أسيد بن حضير فقال: يا أعداء الله لا أبرح حصنكم حتى تموتوا جوعا، إنما أنتم بمنزلة ثعلب في جحر، قالوا: يا ابن الحضير نحن مواليك دون الخزرج وجاروا فقال: لا عهد بيني وبينكم ولا إل الواقدي، "كر".
30295 ۔۔۔ ابوقتادہ (رض) کی روایت ہے کہ جب ہم بنی قریظ کے قلعہ تک پہنچے تو انھوں نے ہمیں دیکھا انھیں جنگ کا یقین ہوگیا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے پرچم قلعے کی دیوار کے عین نیچے گاڑ دیا بنی قریظ اپنے قلعوں کے اوپر سے سامنے ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں کرنے لگے اور آپ کی ازواج مطہرات کو گالیاں دینے لگے ہم خاموش رہے اور ہم نے کہا : ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمودار ہوئے آپ کو دیکھ کر حضرت علی (رض) آپ کی طرف چل دیئے اور مجھے کہا کہ پرچم کے پاس رہو ، چنانچہ میں جم کر پرچم کے پاس کھڑا ہوگیا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اچھا نہ سمجھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی قریظ کی گستاخیاں سنیں تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلعہ کی طرف چل دیئے آپ کے آگے آگے حضرت اسید بن حضیر (رض) تھے انھوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو ! میں یہاں سے نہیں ہلوں گا تاوقتیکہ تم بھوکوں مرجاؤ تم مکار لومڑ کی طرح ہو جو اپنے سوارخ میں گھسا ہوتا ہے (جب سوراخ میں پانی ڈالا جائے یا دھواں کیا جائے لومڑ باہر آجاتا ہے) بنی قریظ نے چیخ کر کہا اے ابن حضیر ہم تمہارے دوست ہیں خزرج کے دوست ہیں اسید بن حضیر (رض) نے کیا خوب جواب دیا کہا : میرے اور تمہارے درمیان عہد ہے اور نہ ہی دوستی ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30296

30296- عن محمد بن مسلمة " أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه إلى بني النضير وأمره أن يؤجلهم في الجلاء ثلاثا". "كر".
30296 ۔۔۔ محمد بن مسلمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بنی نضیر کی طرف بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ بنی نضیر کو جلاوطنی کی تین سال کی مہلت دے دیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30297

30297- عن محمد بن مسلمة قال: "بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاثين راكبا فيهم عباد بن بشر إلى بني أبي بكر بن كلاب، فأمرنا أن نسير الليل ونكمن النهار وأن نشن عليهم الغارات". "كر".
30297 ۔۔۔ محمد بن مسلمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تیس سواروں کے دستہ کے ساتھ بنی بکر بن کلاب کی طرف بھیجا دستے میں عباد بن بشر (رض) بھی تھے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ رات کو چلیں اور دن کو چھپ جائیں اور منزل مقصود تک پہنچ کر غارتگری ڈال دیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30298

30298- عن الزهري قال: "بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم كعب بن عمير الغفاري في خمسة عشر رجلا حتى انتهوا إلى ذات أطلاح من أرض الشام فوجدوا جمعا كثيرا فدعوهم إلى الإسلام فلم يستجيبوا لهم ورشقوهم بالنبل، فلما رأى ذلك أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قاتلوهم أشد القتال حتى قتلوا، فأفلت منهم رجل جريحا فلما برد عليه الليل تحامل حتى أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره الخبر فشق ذلك على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهم بالبعثة إليهم فبلغه أنهم قد ساروا إلى موضع آخر فتركهم". الواقدي، "كر".
30298 ۔۔۔ زہری کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عمیر غفاری (رض) کو پندرہ (15) سواروں کے دستہ کے ساتھ سرزمین شام کے نواح میں ذات اطلاع کی طرف روانہ کیا جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین منزل مقصود پر پہنچے تو وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تاہم انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین پر تیروں کی بارش برسا دی جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے یہ صورتحال دیکھی تو دشمن پر حملہ کردیا حتی کہ سبھی صحابہ شہید ہوئے اور ان میں سے ایک صحابی کسی طرح دشمن سے جان بچا کر نکل آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آکر خبر کی آپ کو سن کر بڑا رنج ہوا اور لشکر جرار بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کو خبر ہوئی کہ دشمن وہاں سے کہیں اور نقل مکانی کرچکا ہے آپ نے لشکر بھیجنے کے ارادہ کو ترک کردیا ۔ (رواہ الواقدی وابن عساکر)

30299

30299 عن الزهري وعروة وموسى بن عقبة قالوا : بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم كعب بن عمير نحو ذات أباطح من البلقاء فأصيب كعب ومن معه (يعقوب بن سفيان ، هق ، كر).
30299 ۔۔۔ زہری وعروہ اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب بن عمیر (رض) کو بلقاء کے نواحی علاقہ ذات اباطح کی طرف بھیجا چنانچہ عمیر (رض) اور ان کے سبھی ساتھی شہید ہوگئے ۔ (رواہ یعقوب بن سفیان والبیہقی فی السنن وابن عساکر)

30300

30300- "من مسند بريدة بن الحصيب الأسلمي" عن بريدة "أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث سرية وبعث معها رجلا يكتب إليه بالأخبار. "كر" ورجاله ثقات.
30300 ۔۔۔ ” مسند بریدہ بن حصیب اسلمی “ بریدہ (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ روانہ کیا اور سریہ کے ساتھ ایک شخص بھی بھیجا جو آپ کی طرف حالات کی خبریں لکھ کر بھیجے ۔ (رواہ ابن عساکر ورجالہ ثقات)

30301

30301- "مسند بشير بن يزيد الضبعي" عن الأشهب الضبعي قال: حدثني بشير بن يزيد الضبعي وكان قد أدرك الجاهلية قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوم ذي قار هذا أول يوم انتصف فيه العرب من العجم. "خ" في تاريخه وبقي بن مخلد والبغوي وابن السكن "طب" وأبو نعيم
30301 ۔۔۔ ” مسند بشیر بن یزید ضبعی “ اشھب ضبعی کہتے میں مجھے بشیر بن یزید ضبعی نے حدیث سنائی بشیر بن یزید (رض) نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی قار کی جنگ کے دن فرمایا : یہ پہلا دن ہے کہ جس میں عرب نے عجمیوں سے انتقام لیا ہے۔ (رواہ البخاری فی تاریخہ وبقی بن مخلد والبغوی وابن السکن والطبرانی وابو نعیم) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے الضعیفۃ 579 ۔

30302

30302- "من مسند جابر بن سمرة" عن جابر بن سمرة بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فهزمنا، فاتبع سعد راكبا منهم فالتفت إليه فرأى ساقه خارجة من الغرز فرماه بسهم فرأيت الدم يسيل كأنه شراك فأناخ. "طب" عن جابر بن سمرة.
30302 ۔۔۔ ” مسند جابر بن سمرہ “ حضرت جابر بن سمرہ (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک سریہ کے ہمراہ روانہ کیا ہمیں شکست ہوئی ان کے پیچھے سعد کو بھیجا اور وہ سوار ہو کر آئے انھیں پنڈلی پر تیر لگا جس سے خون بہہ نکلا میں نے خون بہتے دیکھا ایسے لگا جیسے جوتے کا تسمہ ہو ۔ (رواہ الطبرانی عن جابر بن سمرۃ)

30303

30303- عن البراء كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة وأخرجني خالي وأنا لا أستطيع أن أرمي بحجر. "طب".
30303 ۔۔۔ حضرت براء (رض) روایت کی ہے کہ عقبہ والی رات میں ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے میرے ماموں نے مجھے باہر نکالا میں پتھر مارنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا تھا ۔ (رواہ الطبرانی)

30304

30304- "مسند خباب الكناني" عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن خابط بن خباب الكناني عن أبيه قال: كنت بالفلاة إذ مر علينا جيش عرمرم فقيل: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم. أبو نعيم.
30304 ۔۔۔ ” مسند خباب کنانی “ زہری ، سعید بن مسیب ، حابط بن خباب کنانی اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں جنگل میں تھا اتنے ہمارے پاس سے لشکر جرار گزرا کسی نے کہا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لشکر ہے۔ (رواہ ابونعیم)

30305

30305- عن عبد الملك بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزام عن أبيه عن جده أن عمرو بن حزم قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم لجنادة: بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من محمد رسول الله لجنادة وقومه ومن تبعه بإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وأطاع الله ورسوله وأعطى من الغنائم خمس الله ورسوله، وفارق المشركين فإن له ذمة الله وذمة محمد صلى الله عليه وسلم" وكتب علي. أبو نعيم.
30305 ۔۔۔ عبدالملک بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزام عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ عمرو بن حزام نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنادہ کے لیے یہ خط لکھا ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ یہ خط محمد اللہ کے رسول کی طرف سے جنادہ اور اس کی قوم کی جانب ہے جس شخص نے نماز قائم کی زکوۃ ادا کی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے غنائم سے خمس دے اور مشرکین سے الگ رہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذمہ میں ہے ، یہ خط حضرت علی (رض) نے لکھا ، (رواہ ابونعیم)

30306

30306- وبه عن عمرو بن حزم "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب لحصين بن نضلة الأسدي كتابا: بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لحصين بن نضلة الأسدي أن له ترمدا وكتيفة لا يحاقه فيهما أحد" وكتب المغيرة. أبو نعيم.
30306 ۔۔۔ مذکورہ بالا سند سے عمرو بن حزام کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حصین بن نضلہ اسدی کی طرف ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ یہ خط محمد اللہ کے رسول کی طرف سے حصین بن نضلہ اسدی کی جانب ترمد اور کتیفہ کے علاقے اس کی عملداری میں رہیں گے ان میں اس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرے گا یہ خط مغیرہ (رض) نے لکھا : (رواہ ابونعیم 9

30307

30307- وبه عن عمرو بن حزم قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم لجميل بن رذام: هذا ما أعطى محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم جميل بن رذام العدوي أعطاه الرمد لا يحاقه فيه أحد، وكتب علي. أبو نعيم.
30307 ۔۔۔ مذکورہ بالا سند سے عمرو بن حزم کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیل بن رذام کو لکھا جس کا مضمون تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمیل بن رذام کو رمد کے علاقے دیے ان سے متعلق ان سے کوئی نہیں جھگڑے گا اور یہ خط حضرت علی (رض) نے لکھا۔ رواہ ابو نعیم

30308

30308- عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب عن أبيه عن جده حاطب بن أبي بلتعة عال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المقوقس ملك الإسكندرية فجئته بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنزلني في منزل فأقمت عنده ليالي، ثم بعث إلي وقد جمع بطارقته فقال: إني سأكلمك بكلام فأحب أن تفهمه مني، فقلت كلم فقال: أخبرني عن صاحبك أليس هو نبي؟ فقلت: بلى وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فما له حيث كان هكذا لم يدع على قومه حين أخرجوه من بلده؟ فقلت: عيسى ابن مريم أليس هو نبي؟ قال: أشهد أنه رسول الله، قلت فما له حيث أخذه قومه فأرادوا أن يصلبوه أن لا يكون دعا عليهم بأن يهلكهم الله حتى رفعه الله إليه في سماء الدنيا قال: أحسنت أنت حكيم جاء من عند حكيم هذه هدايا أبعث بها معك إلى محمد صلى الله عليه وسلم، وأبعث معك ببدرقة يبدرقونك إلى مأمنك، قال فأهدى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث جواري منهن أم إبراهيم بن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وواحدة وهبها رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي جهم بن حذيفة العدوي، وواحدة لحسان بن ثابت، وأرسل إليه بثياب مع طرف من طرفهم. أبو نعيم.
30308: یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب عن ابیہ عن جدہ حاطب بن ابی بلتعہ کی سند سے حدیث مروی ہے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے پاس بھیجا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط لے کر مقوقس کے پاس گیا مقوقس نے مجھے ایک مکان میں ٹھہرایا میں کئی دنوں تک اس کے پاس رہا پھر مقوقس نے مجھے اپنے پاس بلایا اس نے اپنے امراء اور وزاء بھی اپنے پاس بٹھا رکھے تھے اس نے کہا : میں تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ تم اسے سمجھو میں نے کہا جو کچھ کہنا ہے کہو مقوقس نے کہا : مجھے اپنے صاحب کے متعلق بتاؤ کیا وہ نبی نہیں ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں وہ نبی ہیں اور اللہ کے رسول ہیں مقوقس نے کہا : جب قوم نے تمہارے رسول کو جلاوطن کیا تو پھر کیا وجہ ہے تمہارا نبی ان کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتا ؟ میں نے کہا : کیا عیسی بن مریم (علیہ السلام) نبی نہیں تھے ؟ بولا : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول تھے میں نے کہا پھر کیا وجہ ہے جب ان کی قوم انھیں پکڑ کر سولی پر چڑھانا چاہتی تھی تاہم اللہ تعالیٰ نے انھیں آسمان پر اٹھا لیا انھوں نے اپنی قوم کے لیے بددعا کیوں نہ کی ؟ مقوقس نے کہا : بہت اچھا شاباش بلاشبہ تو حکیم ہے اور حکیم کے پاس سے آیا ہے۔ یہ کچھ تحائف ہیں جو میں تمہارے ہاتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنا چاہتا ہوں حاطب (رض) کہتے ہیں : مقوقس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تین باندیاں ہدیہ میں بھیجیں ان باندیوں میں سے ایک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم (رض) کی ماں بھی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک باندی ابو جہم بن حذیفہ عدوی کو ہبہ کردی اور پھر تیسری حضرت حسان بن ثابت (رض) کو ہبہ کردی مقوقس نے عمدہ عمدہ کپڑے اور کچھ خوبصورت نوادرات بھی تحفہ میں بھیجے ۔ (رواہ ابونعیم)

30309

30309- "مسند الصديق" عن شرحبيل بن مسلم عن أبي أمامة الباهلي عن هشام بن العاص الأموي قال: بعثت أنا ورجل آخر إلى هرقل صاحب الروم ندعوه إلى الإسلام فخرجنا حتى قدمنا الغوطة يعني دمشق، فنزلنا على جبلة بن الأيهم الغساني فدخلنا عليه فإذا هو على سرير له، فأرسل إلينا برسول نكلمه فقلنا: والله لا نكلم رسولا إنما بعثنا إلى الملك، فإن أذن لنا كلمناه وإلا لم نكلم الرسول، فرجع إليه فأخبره بذلك، فقال: فأذن لنا فقال: تكلموا فكلمه هشام بن العاص ودعاه إلى الإسلام وإذا عليه ثياب سواد فقال له هشام: وما هذه التي عليك؟ فقال: لبستها وحلفت أن لا أنزعها حتى أخرجكم من الشام، قلنا ومجلسك هذا فوالله لنأخذنه منك ولنأخذن منك الملك الأعظم إن شاء الله، أخبرنا بذلك نبينا محمد صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم قال: لستم بهم بل هم قوم يصومون بالنهار ويقومون بالليل فكيف صومكم؟ فأخبرناه فملئ وجهه سوادا فقال: قوموا وبعث معنا رسولا إلى الملك فخرجنا حتى إذا كنا قريبا من المدينة قال لنا الذي معنا إن دوابكم هذه لا تدخل مدينة الملك، فإن شئتم جملناكم على براذين وبغال؟ قلنا: والله لا ندخل إلا عليها فأرسلوا إلى الملك إنهم يأبون فدخلنا على رواحلنا متقلدين بسيوفنا حتى انتهينا إلى غرفة له فأنخنا في أصلها وهو ينظر إلينا، فقلنا: لا إله إلا الله والله أكبر، والله لقد تنفضت الغرفة حتى صارت كأنها عذق تصفقه الرياح، فأرسل إلينا ليس لكم أن تجهروا علينا بدينكم، وأرسل إلينا أن ادخلوا فدخلنا عليه وهو على فراش له وعنده بطارقة من الروم، وكل شيء في مجلسه أحمر وما حوله حمرة وعليه ثياب من الحمرة، فدنونا منه فضحك وقال: ما كان عليكم لو حييتموني بتحيتكم فيما بينكم، وإذا عنده رجل فصيح بالعربية كثير الكلام، فقلنا: إن تحيتنا فيما بيننا لا تحل لك وتحيتك التي تحيي بها لا تحل لنا أن نحييك بها قال: كيف تحيتكم؟ قلنا: السلام عليكم قال: كيف تحيون مليككم؟ قلنا: بها قال: وكيف يرد عليكم؟ قلنا بها، قال: فما أعظم كلامكم؟ قلنا: لا إله إلا الله والله أكبر فلما تكلمنا قال: فوالله يعلم لقد تنفضت الغرفة حتى رفع رأسه إليها قال: فهذه الكلمة التي قلتموها حيث تنفضت الغرفة كلما قلتموها في بيوتكم تنفضت بيوتكم عليكم؟ قلنا لا رأيناها فعلت هكذا قط إلا عندك قال: لوددت أنكم كلما قلتم تنفض كل شيء عليكم، وإني خرجت من نصف ملكي، قلنا: لم؟ قال: لأنه كان أيسر لشأنها وأجدر أن لا يكون من أمر النبوة وأن يكون من حيل الناس، ثم سألنا عما أراد فأخبرناه ثم قال: كيف صلاتكم وصومكم؟ فأخبرناه فقال: قوموا فقمنا وأنزلنا بمنزل حسن ومنزل كبير، فأقمنا ثلاثا، إلينا فدخلنا عليه فاستعاد قولنا فأعدناه، ثم دعا بشيء كهيئة الربعة العظيمة مذهبة فيها بيوت صغار عليها أبواب ففتح بيتا وقفلا فاستخرج حريرة سوداء فنشرها فإذا فيها صورة، وإذا فيها رجل ضخم العينين عظيم الأليتين لم أر مثل طول عنقه، وإذا ليست له لحية وإذا ضفيرتان أحسن ما خلق الله قال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا آدم عليه السلام، فإذا هو أكثر الناس شعرا، ثم فتح لنا بابا آخر فاستخرج منه حريرة سوداء، وإذا فيها صورة بيضاء وإذا له شعر كشعر القطط أحمر العينين ضخم الهامة حسن اللحية فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا نوح عليه السلام، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة سوداء، فإذا فيها رجل شديد البياض حسن العينين صلت الجبين طويل الخد أبيض اللحية كأنه يبتسم فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا إبراهيم عليه السلام، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة سوداء، فإذا فيها صورة بيضاء فإذا والله رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: نعم محمد رسول الله قال: وبكينا، والله يعلم أنه قام قائما ثم جلس وقال: والله إنه لهو؟ قلنا: نعم إنه لهو كأنما ننظر إليه، فأمسك ساعة ينظر إليها ثم قال: أما إنه كان آخر البيوت ولكني عجلته لكم لأنظر ما عندكم ثم فتح بابا آخر استخرج منها حريرة سوداء وإذا فيها صورة أدماء شحباء وإذا رجل جعد قطط غائر العينين حديد النظر عابسا متراكب الأسنان مقلص الشفة كأنه غضبان فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا موسى عليه السلام وإلى جنبه صورة تشبهه إلا أنه مدهان الرأس عريض الجبين في عينيه قبل فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا هارون بن عمران، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة بيضاء فإذا فيها صورة رجل أدم سبط ربعة كأنه غضبان فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا لوط عليه السلام، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة، فإذا فيها صورة رجل أبيض مشرب بحمرة أقنى الأنف خفيف العارضين حسن الوجه فقال: تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا إسحاق عليه السلام، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة بيضاء فإذا فيها صورة تشبه صورة إسحاق إلا أنه على شفته السفلى خال فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا يعقوب عليه السلام ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حريرة سوداء فإذا فيها صورة رجل أبيض حسن الوجه أقنى الأنف حسن القامة يعلو وجهه نور يعرف في وجهه الخشوع يضرب إلى الحمرة فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا إسماعيل جد نبيكم عليهما السلام، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حريرة بيضاء، فإذا هي صورة كأنها صورة آدم كأن وجهه الشمس، فقال: هل تعرفون هذا؟ قال: لا قال: يوسف عليه السلام، ثم فتح بابا آخر، فاستخرج منه حريرة بيضاء فإذا فيها صورة رجل أحمر حمش الساقين أخفش العينين ضخم البطن ربعة متقلدا سيفا فتح بابا أخر، فاستخرج منه حريرة بيضاء فإذا فيها صورة رجل ضخم الأليتين طويل الرجلين راكب فرسا فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا سليمان بن داود عليهما السلام، ثم فتح بابا آخر فاستخرج منه حريرة سوداء فإذا فيها صورة بيضاء، وإذا رجل شاب شديد سواد اللحية كثير الشعر حسن العينين حسن الوجه فقال: هل تعرفون هذا؟ قلنا: لا قال: هذا عيسى ابن مريم عليه السلام، قلنا: من أين لك هذه الصور لأنا نعلم أنها على ما صورت عليها الأنبياء عليهم السلام لأنا رأينا صورة نبينا عليه السلام مثله؟ فقال: إن آدم عليه السلام سأل ربه أن يريه الأنبياء من ولده فأنزل الله عليه صورهم وكان في خزانة آدم عليه السلام عند مغرب الشمس فاستخرجها ذو القرنين من مغرب الشمس فدفعها إلى دانيال ثم قال: أما والله إن نفسي طابت بخروجي من ملكي، وإن كنت عبدا لأميركم ملكه حتى أموت، ثم أجازنا فأحسن جائزتنا وسرحنا، فلما أتينا أبا بكر الصديق رضي الله عنه حدثناه مما رأينا وما قال لنا وما أجازنا، فبكى أبو بكر الصديق رضي الله عنه وقال: مسكين لو أراد الله عز وجل به خيرا لفعل ثم قال أخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنهم واليهود يجدون نعت محمد صلى الله عليه وسلم عندهم. "هق" في الدلائل قال ابن كثير: هذا حديث جيد الإسناد ورجاله ثقات.
30309 ۔۔۔ ” مسند صدیق “ شرجیل بن مسلم ابو امامہ باہلی ، ہشام بن عاص اموی کی سند سے حدیث مروی ہے کہ ہشام بن عاص (رض) کہتے ہیں میرے ساتھ ایک اور شخص کو روم کے بادشاہ ہرقل کے پاس دعوت اسلام کے لیے بھیجا گیا چنانچہ ہم دمشق جا پہنچے اور جبکہ بن ایھم کے پاس ٹھہرے ہم جبلہ کے پاس داخل ہوئے وہ عالیشان تخت پر بیٹھا ہوا تھا ، جبلہ نے اپنا قاصد ہمارے پاس بھیجا تاکہ ہم اس سے بات کریں ہم نے کہا بخدا ! ہم قاصد سے بات نہیں کریں گے ہمیں تو بادشاہ کے پاس بھیجا گیا ہے ، اگر بادشاہ ہمیں اجازت دے تو ہم بات کریں گے ورنہ ہم قاصد سے بات نہیں کرتے قاصد نے جبکہ کو خبر کردی چنانچہ ہمیں بات کرنے کی اجازت دے دی اور جبلہ نے کہا : بات کرو چنانچہ ہشام بن عاص (رض) نے اس سے بات کی اور اسے اسلام کی دعوت دی جبلہ نے سیاہ رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے ہشام (رض) نے کہا : یہ کیسے کپڑے ہیں ؟ میں نے یہ کپڑے پہنے ہیں اور قسم کھائی ہے کہ یہ کپڑے اس وقت تک نہیں اتاروں گا جب تک تمہیں شام سے باہر نہ کر دوں ہم نے کہا : بخدا ! یہ جگہ جہاں تو بیٹھا ہوا ہے ہم اسے تجھ سے چھین لیں گے اور تجھ سے یہ عظیم بادشاہت چھین کر چھوڑیں گے انشاء اللہ ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی خبر دی ہے جبلہ بولا : وہ تم نہیں ہو ، وہ لوگ تو ایسے ہوں گے جو دن کو روزہ رکھیں گے اور رات کو قیام کریں گے تمہارے روزے کا کیا حال ہے ؟ ہم نے اسے روزے کے متعلق خبر دی چنانچہ گھبرا کر اس نے منہ بسور لیا جبلہ نے کہا : چلو جاؤ پھر اس نے ہمارے ساتھ ایک قاصد بھیجا جو ہمیں بادشاہ ہرقل کے پاس لے گیا : چنانچہ جب ہم ہرقل کے شہر کے قریب پہنچے تو ہمارے راہبر نے کہا : تمہارے یہ جانور بادشاہ کے شہر میں داخل نہیں ہوں گے اگر تم چاہو ہم تمہیں برذون گھوڑوں اور خچروں پر سوار کرکے لے جاؤ ہم نے کہا : بخدا ! ہم اپنی سواریوں پر سوار ہو کر داخل ہوں گے چنانچہ دربانوں نے بادشاہ کے پاس پیغام بھیجا کہ عرب کے ایلچی نہیں مانتے وہ اپنی سواریوں پر ہی شہر میں داخل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ ہم اپنی سواریوں پر ہی داخل ہوئے ہم نے تلواریں لٹکا رکھی تھیں اور ہم نے سواریاں بادشاہ کے محل کے عین سامنے بٹھائیں بادشاہ ہمیں دیکھ رہا تھا ، ہم نے کلمہ طیبہ ” لاالہ الا اللہ “ پڑھا اور پھر نعرہ تکبیر بلند کیا بخدا ! ہماری آواز سے محل لرز اٹھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ پتا ہے جسے ہوا ادھر ادھر پٹخ رہی ہے بادشاہ نے ہمیں پیغام بھیجوایا کہ تم زبردستی اپنے دین کو ہمارے اوپر نہ پیش کرو بادشاہ نے پیغام بھیجوا کر ہمیں اندر داخل ہونے کو کہا : ہم اندر داخل ہوئے بادشاہ عالیشان بچھونے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے پاس اس کے امراء وزراء جمع تھے اس کے پاس موجود ہر چیز سرخ تھی اس نے کپڑے بھی سرخ پہن رکھے تھے ہم اس کے قریب ہوئے وہ ہمیں دیکھ کر ہنسا اور کہا : کیا اچھا ہوگا اگر تم مجھے اپنے مروج طریقے سے سلام کرو بادشاہ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جو فصیح عربی میں گفتگو کررہا تھا اور بہت باتیں کرتا تھا ہم نے کہا : ہمارا طریقہ سلام وہ ہمارے درمیان مروجہ ہے وہ تیرے لیے حلال نہیں اور جو تمہارا مروجہ طریقہ سلام ہے وہ ہمارے لیے حلال نہیں پوچھا : تمہارا سلام کیا ہے ؟ ہم نے کہا : ہم کہا کرتے ہیں : السلام علیکم “ بادشاہ نے کہا : تم اپنے بادشاہ کو کیسے سلام کرتے ہو ؟ ہم نے کہا : ہم اپنے بادشاہ کو بھی یہ سلام کرتے ہیں کہا : بادشاہ کیسے جواب دیتا ہے ؟ ہم نے کہا : وہ جواب میں یہی کلمات دہراتا ہے بادشاہ نے کہا : تمہارا عظیم کلام کیا ہے ؟ ہم نے کہا : ” لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر “ جب ہم نے یہ کلمہ پڑھا ہرقل بولا : بخدا ! ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کمرہ کپکپا رہا ہے حتی کہ بادشاہ نے چھت کی طرف سر اٹھایا پھر کہا : یہ کلمہ تم جونہی پڑھتے ہو کمرہ کپکپانے لگتا ہے کیا اس کلمے سے تمہارے کمرے بھی کپکپاتے تھے ؟ ہم نے کہا : ہم نے اپنے کمروں میں ایسا ہوتے نہیں دیکھا ہمیں اس کا مشاہدہ صرف تمہارے پاس ہو رہا ہے بادشاہ نے کہا : میں چاہتا ہوں تم یہ کلمہ پڑھتے رہو اور کمرہ جھولتا رہے اور اس سے میں اپنی نصف بادشاہت سے نکل جاؤں ہم نے کہا : وہ کیوں ؟ چونکہ یہ ایسا ہونے سے عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ سزاوار نبوت نہ ہو اور تم لوگوں کی جادو گری ہو ۔ پھر ہرقل نے ہم سے مختلف سوالات کیے ہم نے ترکی بہ ترکی ہر ہر سوال کا جواب دیا ۔ پھر ہرقل نے کہا : تمہاری نماز اور روزہ کیا ہے ؟ ہم نے اس کا جواب بھی دیا ، پھر ہرقل نے کہا : اٹھ جاؤ ہم اٹھ کر چل دیئے پھر ہمیں عالیشان مکان میں ٹھہرایا گیا ، ہم اس مکان میں تین دن تک رہے پھر ہمیں اپنے بلایا اور اپنی بات دہرائی ہم نے جواب دہرا دیا ، پھر ہرقل نے مربع شکل کی ایک صندوق نما چیز منگوائی اس میں سونے کے چھوٹے چھوٹے گھروندے رکھے ہوئے تھے اور ان میں دروازے بھی تھے بادشاہ نے ایک دروازہ کھولا اور پھر اس سے ریشم کا ایک دیوان نکالا جو رنگت میں سیاہی مائل تھا اس میں تصویر بنی ہوئی تھی تصویر ایک ایسے شخص کی بنی ہوئی تھی کہ اس کی آنکھیں بڑی بڑی سرینیں موٹی لمبی گردن اس کی داڑھی نہیں تھی اس کے گیسو خدائی تخلیق کا شاہکار تھے بادشاہ نے کہا : کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں بولا : یہ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ پھر بادشاہ نے ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے ریشم کا پرت نکالا یہ بھی سیاہی مائل ریشم کا پرت نکالا اس میں ایک خوبصورت سفید رنگت کی تصویر تھی بخدا ! یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصویر تھی ہم یہ تصویر دیکھ کر رو دئیے بادشاہ پہلے کھڑا ہوا پھر بیٹھ گیا اور کہا : بخدا ! کیا یہ وہی شخص ہے ؟ ہم نے کہا : جی ہاں یہ ہمارے نبی آخر الزمان ہیں گویا ہم آپ کی طرف دیکھ رہے تھے تھوڑی دیر بادشاہ خاموش رہا اور تصویر کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا یہ آخری گھرروندہ ہے البتہ میں نے جلدی کردی تاکہ میں تمہارا امتحان لے سکوں پھر ایک اور گھروندے کا دروازہ کھولا : اس سے ریشم کا پرت نکالا اس میں بھی کسی شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی یوں لگتا تھا کہ وہ شخص گندم گوں ہے اس کے بال سیدھے نسبتا گھنگھریالے تھے ، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تیز نظر والا چہرے پر ترشی کے آثار نمایاں ، دانت باہم جڑے ہوئے ہونٹ سکڑے ہوئے جیسے یہ شخص غصہ میں ہو بادشاہ نے کہا : کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں کہا : یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس تصویر کے پہلو میں ایک دوسری تصویر بھی تھی جو پہلی تصویر کے مشابہ تھی البتہ اس کے سر پر تیل لگا ہوا تھا پیشانی کشادہ آنکھوں کے درمیان کا حصہ نمایاں تھا کہا کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں کہا یہ ہارون بن عمران (علیہ السلام) ہیں۔ بادشاہ نے پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سفید ریشم کا پرت نکالا اس میں ایک تصویر بنی ہوئی تھی جس شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی وہ گندم گوں تھا بال سیدھے میانہ قد یوں دکھائی دیتا تھا جیسے وہ شخص غصہ میں ہو ، بادشاہ نے کہا : کیا تم اسے جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں بولا : یہ حضرت لوط (علیہ السلام) ہیں ، بادشاہ نے پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس گھروندے سے سفید ریشم کا پرت نکالا اس میں بھی ایک شخص کی تصویر تھی اس کی رنگت سرخی مائل سفیدی تھی ستوان ناک چھوئے رخسار اور چہرہ خوبصورت کہا : کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں کہا یہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سفید ریشم کا پرت نکالا اس میں ایک تصویر تھی جو اسحاق (علیہ السلام) کی تصویر کے مشابہ تھی البتہ اس کے نیچے ہونٹ پر تل تھا کہا کیا تم اسے جانتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں کہا یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سیاہی مائل ریشم کا پرت نکالا اس میں بھی ایک شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی جو خوبصورت چہرے والا اور سفید رنگت والا تھا ستواں ناک خوبصورت قدوقامت اس کے چہرے سے نور کے تارے بٹ رہے تھے اس کے چہرے سے خشوع ٹپک رہا تھا کہا کیا تم اسے پہچانتے ہو ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں جو تمہارے نبی کے جدامجد ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سفید ریشم کا پرت نکالا اس میں بھی ایک تصویر بنی ہوئی تھی جو آدم (علیہ السلام) کی تصویر کے مشابہ تھی البتہ اس کا چہرہ سورج کی طرح چمک رہا تھا ، کہا : کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں ، پھر بادشاہ نے ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سفید ریشم کا پرت نکالا اس میں بھی ایک شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی جو دیکھنے سے لگتا تھا کہ اس کی رنگت سرخ پنڈلیاں چھوٹی آنکھیں قدرے چندھیائی ہوئی پیٹ نسبتا بڑا میانہ قد اور تلوار لٹکائی ہوئی تھی کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) ہیں پھر اس نے ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سفید ریشم کا ایک پرت نکالا اس پر بھی کسی شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی جو بڑی سرینوں والی لمبی ٹانگیں اور گھوڑے پر سوار تھا کہا کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) ہیں پھر ایک اور دروازہ کھولا اور اس سے سیاہی مائل ریشم کا پرت نکالا اس پر بھی کسی شخص کی تصویر بنی ہوئی تھی یہ کوئی نوجوان سفید فام شخص تھا داڑھی سیاہ جسم پر بال غیر معمولی تھے آنکھیں خوبصورت چہرہ بھی خوبصورت بادشاہ نے کہا : کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں کہا یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ ہم نے تصویر میں دیکھ لینے کے بعد کہا یہ تصویریں تمہارے پاس کہاں سے آئی ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہا کہ واقعی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شکلیں ایسی ہی تھیں چونکہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصویر انہی کی ہمشکل تھی ؟ بادشاہ نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ انھیں انبیاء کرام (علیہ السلام) جو ان کی اولاد میں ہوں گے دکھادے اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ تصویریں اتاری تھیں یہ تصویریں آدم (علیہ السلام) کے خزانے میں تھیں اور یہ مغرب شمس میں محفوظ تھیں وہاں سے ذوالقرنین نکال لایا اور اس نے دانیال (علیہ السلام) کو دیں ، پھر کہا : بخدا ! میں اس بات پر خوش ہوں کہ اپنی بادشاہت سے دستبردار ہوجاؤں اور تمہارے امیر کا ادنی غلام بن جاؤں پھر اسی کی غلامی میں مجھے موت آجائے پھر بادشاہ نے ہمیں قیمتی قیمتی تحائف دے کر رخصت کیا پھر ہم سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا انھیں سنایا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سن کر رو دیئے اور کہا : ہرقل بچارہ مسکین ہے اگر اللہ تعالیٰ اس سے بھلائی چاہتا وہ ایسا کر گزرتا پھر فرمایا : ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ نصرانی اور یہودی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکل مبارک کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں۔ (رواہ البیہقی فی الدلائل قال ابن کثیر ھذا حدیث جید الاسناد ورجالہ ثقات)

30310

30310- عن أبي غديرة عبد الرحمن بن خصفة الضبي قال: وفدنا إلى عمر بن الخطاب في وفد بني ضبة فقضوا حوائجهم غيري، فمر بي عمر فوثبت فإذا أنا خلف عمر على راحلته فقال: من الرجل؟ قلت ضبي قال: خشن؟ قلت: على العدو يا أمير المؤمنين، قال: وعلى الصديق فقال: هات حاجتك فقضى حاجتي ثم قال: فرغ لنا ظهر راحلتنا. ابن سعد والحاكم في الكنى.
30310 ۔۔۔ ابو غدیرہ عبدالرحمن بن خصفۃ ضبی کی روایت ہے کہ ہم بنی ضبہ کے وفد کے ساتھ سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) میرے پاس سے گزرے میں نے چھلانگ لگائی اور ان کے پیچھے سوار ہوگیا آپ (رض) نے پوچھا : کون شخص ہے ؟ میں نے جواب دیا ضبی ہوں فرمایا یہ درشتی کیسی ؟ میں نے عرض کیا : اے امیر المؤمنین میری درشتی دشمن کے لیے ہے فرمایا : اور دوست پر بھی ہے فرمایا : اپنی حاجت بیان کرو پھر میری حاجت پوری کی اور فرمایا : اب میری سواری کی پیٹھ فارغ کر دو ۔ (رواہ ابن سعد والحاکم فی الکنی)

30311

30311- "من مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: حملني خالي جد بن قيس في السبعين راكبا الذين وفدوا على النبي صلى الله عليه وسلم من الأنصار فخرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه عمه العباس فقال: يا عم خذ لي على أخوالك فقال له السبعون: سلنا لربك وسل لنفسك ما شئت قال: أما الذي أسألكم لربي فتعبدونه ولا تشركون به شيئا، وأما الذي أسألكم لنفسي فتمنعوني مما تمنعون منه أنفسكم وأموالكم، قالوا: فما لنا إذا فعلنا ذلك؟ قال: الجنة. أبو نعيم.
30311 ۔۔۔ ” مسند جابر بن عبداللہ “ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ مجھے میرے ماموں جد بن قیس (رض) نے ستر آدمیوں کے ہمراہ اپنے ساتھ سوار کیا یہ انصار کی ایک جماعت تھی اور ان لوگوں کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس (رض) بھی تھے آپ نے فرمایا : اے چچا ! مجھ سے اپنے ماموں کے متعلق عہد لے لیں، چنانچہ انصار کے ان ستر لوگوں نے کہا : ہم سے اپنے رب کے لیے کسی چیز کا سوال کریں اور اپنے لیے بھی جو چاہیں ہم سے سوال کریں آپ نے فرمایا : میں اپنے رب کے لیے تم سے جس چیز کا مطالبہ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہی ٹھہراؤ اور جس چیز کا تم سے میں اپنے لیے سوال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس چیز سے تم رکتے ہو اس سے مجھے بھی روکتے رہو وفد نے کہا : جب ہم ایسا کریں گے ہمارے لیے کیا ہوگا آپ نے فرمایا : تمہارے لیے جنت ہوگئی ۔ (رواہ ابو نعیم)

30312

30312- "مسند جرى بن عمرو العذري" عن جرى بن عمرو العذري أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فكتب له أن ليس عليكم عشر ولا حشر أبو نعيم
30312 ۔۔۔ ” مسند جری بن عمرو عذری “ جری بن عمرو عذری کی روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے وثیقہ لکھا کہ تمہارے اوپر ٹیکس ہوگا اور نہ ہی جلاوطنی ۔ (رواہ ابن نعیم)

30313

30313- "مسند جزء بن الحدرجان بن مالك" قال: وفد أخي قداد بن الحدرجان بن مالك إلى النبي صلى الله عليه وسلم من اليمن من موضع يقال له القنونى بسروات الأزد بإيمانه وإيمان من أعطى الطاعة من أهل بيته وهم إذ ذاك ستمائة بيت ممن أطاع الحدرجان وآمن بمحمد صلى الله عليه وسلم فخرج قداد مهاجرا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم برسالة أبيه الحدرجان وإيمانهم، فلقيت في بعض الطريق سرية النبي صلى الله عليه وسلم فقتلت قدادا فقال قداد: أنا مؤمن فلم يقبلوا وقتلوه في جوف الليل، فبلغنا ذلك وخرجت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته وطلبت ثأري فنزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا} الآية فأعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم ألف دينار دية أخي وأمر لي بمائة ناقة حمراء وقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يمنعني أن أصير لك المائة الناقة دية أخرى إلا أني لا أتعب سرية للمسلمين من بعد فتكون دية المسلم ديتين فرضيت وسلمت وعقد لي رسول الله صلى الله عليه وسلم على سرية من سرايا المسلمين فخرجت إلى حي حاتم طيء وغنمت مغنما كثيرا وأسرت أربعين امرأة من حي حاتم، فأتيت بالنسوة وهداهن الله للإسلام وزوجهن رسول الله صلى الله عليه وسلم. أبو نعيم
30313 ۔۔۔ ” مسند جزء بن حدر جان بن مالک “ جزء (رض) کی روایت ہے کہ میرا بھائی قداد بن حدر جان بن مالک یمن سے ایک وفد کو لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مقام قنونی سے قبیلہ ازد کی تولیوں کے ساتھ چلا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اور اپنے مطیعین کے ایمان کی خبر دیں ان میں سے اکثر ان کے خاندان کے لوگ تھے ان کی تعداد چھ سو گھرانوں کے لگ بھگ تھی ، چنانچہ قداد اپنے والد جدر جان کا خط لے کر محو سفر ہوگیا راستے میں قداد کی ملاقات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی لشکر سے ہوئی لشکر کے سواروں نے قداد پر حملہ کردیا قداد نے بارہا کہا کہ میں مؤمن ہوں لیکن لشکر نے اس کی بات قبول نہ کی اور اسے قتل کردیا ہمیں اس کی خبر ہوئی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چل پڑا اور آپ کو ماجرا سنایا اور اپنے بھائی کے قصاص کا مطالبہ کیا اسی موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی ” یا ایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “۔ الایۃ اے ایمان والو ! جب تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کرلیا کرو ۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے میرے بھائی کی دیت میں ایک ہزار دینار دیئے اور میرے لیے ایک سو اونٹوں کا حکم دیا پھر فرمایا : میں تمہیں ایک سو اونٹ اور دیتا لیکن ہم نے اور لشکر بھی بھیجنے ہیں یوں وہم ہوجائے گا کہ مسلمان کی دیت دگنی ہے چنانچہ میں نے سرتسلیم خم کردیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے مسلمانوں کے ایک سریہ پر امیر مقرر کیا اور میں نے قبیلہ طی کی ایک بستی پر حملہ کیا وہاں سے مجھے بہت سارا مال غنیمت میں ملا اور میں اپنے ساتھ چالیس عورتیں بھی قید کر کے لے آیا ان عورتوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل سے اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی شادیاں کرا دیں ۔ (رواہ ابونعیم)

30314

30314- "مسند جنادة بن زيد الحارثي" عن سودة بنت المتلمس عن جدتها أم المتلمس بنت جنادة بن زيد قال: وفدت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: " يا رسول الله إني وافد قومي من بلحارث من أهل البحرين فادع الله أن يعيننا على عدونا من ربيعة ومضر حتى يسلموا، فدعا وكتب بذلك كتابا وهو عندنا". أبو نعيم
30314 ۔۔۔ ” مسند جنادہ بن زید حارثی “۔ سودہ بنت متلمس اپنی دادی ام متلمس بنت جنادہ بن زید سے روایت نقل کرتی ہیں کہ ان کے والد جنادہ بن زید کا بیان ہے کہ میں ایک وفد لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بحرین سے اپنی قوم کا وفد لے کر حاضر ہوا ہوں آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمارا دشمن مضر اور ربیعہ کے خلاف ہماری مدد کرے تاوقتیکہ وہ اسلام قبول کرلیں آپ نے دعا فرمائی اور ایک ایک وثیقہ لکھا وہ وثیقہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ (رواہ ابونعیم)

30315

30315- "مسند جندب بن مكيث بن جراد" عن جندب بن مكيث أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم عليه الوفد لبس أحسن ثيابه وأمر أصحابه بذلك فرأيته وفد عليه وفد كندة وعليه حلة يمانية وعلى أبي بكر وعمر مثله. الواقدي وأبو نعيم
30315 ۔۔۔ ” مسند جندب بن مکیث بن جراد “ جندب بن مکیث کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی وفد حاضر ہوتا آپ اچھے کپڑے زیب تن کرتے اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بھی اچھے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ، چنانچہ میں نے دیکھا کہ آپ کی خدمت میں کندہ کا وفد حاضر ہوا آپ نے یمانی جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا جبکہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) نے بھی ایسے ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ (رواہ الواقدی وابو نعیم)

30316

30316- عن جابر قال: جاءت بنو تميم بشاعرهم وخطيبهم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فنادوه يا محمد اخرج إلينا فإن مدحنا زين وإن سبنا شين، فسمعهم النبي صلى الله عليه وسلم فخرج عليهم وهو يقول: إنما ذلكم الله عز وجل فما تريدون؟ قالوا: نحن ناس من بني تميم جئناك بشاعرنا وخطيبنا لنشاعرك ونفاخرك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بالشعر بعثنا ولا بالفخار أمرنا ولكن هاتوا فقال الأقرع بن حابس لشاب من شبابهم: يا فلان قم فاذكر فضلك وفضل قومك فقال: الحمد لله الذي جعلنا خير خلقه وآتانا أموالا نفعل فيها ما نشاء فنحن من خير أهل الأرض وأكثرهم عددا وأكثرهم سلاحا فمن أنكر علينا قولنا فليأت بقول هو أحسن من قولنا، وبفعال هو أفضل من فعالنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس بن شماس الأنصاري وكان خطيب النبي صلى الله عليه وسلم: قم فأجبه فقام ثابت فقال: الحمد لله أحمده وأستعينه وأؤمن به وأتوكل عليه وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ودعا المهاجرين من بني نمر أحسن الناس وجوها وأعظم الناس أحلاما فأجابوه، الحمد لله الذي جعلنا أنصاره ووزراء رسوله وعزا لدينه فنحن نقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله فمن قالها منع منا ماله ونفسه، ومن أباها قاتلناه، وكان رغمه في الله علينا هينا، أقول قولي هذا وأستغفر الله للمؤمنين والمؤمنات، فقال الزبرقان بن بدر لرجل منهم: يا فلان قم واذكر أبياتا تذكر فيها فضلك وفضل قومك فقام فقال: نحن الكرام فلا حي يعادلنا ... نحن الرؤوس وفينا يقسم الربع ونطعم الناس عند المحل كلهم ... من السديف إذا لم يؤنس القزع2 إذا أبينا فلا يأبى لنا أحد ... إنا كذلك عند الفخر نرتفع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: علي بحسان بن ثابت فذهب إليه الرسول فقال: وما يريد مني رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنما كنت عنده آنفا؟ قال: جاءت بنو تميم بشاعرهم وخطيبهم فتكلم خطيبهم فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ثابت بن قيس فأجابه وتكلم شاعرهم فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إليك لتجيبه، فقال حسان: قد آن لكم أن تبعثوا إلي هذا العود - والعود الجمل الكبير - فلما أن جاء قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا حسان قم فأجبه فقال: يا رسول الله مره فليسمعني ما قال فقال: أسمعه ما قلت فأسمعه فقال حسان: نصرنا رسول الله والدين عنوة ... على رغم باد من معد وحاضر بضرب كإيزاع المخاض مشاشه ... وطعن كأفواه اللقاح الصوادر وسل أحدا يوم استقلت شعابه ... بضرب لنا مثل الليوث الخوادر ألسنا نخوض الموت في حومة الوغى ... إذا طاب ورد الموت بين العساكر ونضرب هام الدارعين وننتمي ... إلى حسب من جذم4 غسان قاهر فأحياؤنا من خير من وطئ الحصى ... وأمواتنا من خير أهل المقابر فلولا حياء الله قلنا تكرما ... على الناس بالخيفين5 هل من منافر فقام الأقرع بن حابس فقال: إني والله يا محمد لقد جئت لأمر ما جاء له هؤلاء إني قد قلت شعرا فاسمعه فقال: هات فقال: أتيناك كيما يعرف الناس فضلنا ... إذا اختلفوا عند ادكار المكارم وإنا رؤوس الناس من كل معشر ... وأن ليس في أرض الحجاز كدارم وإن لنا المرباع في كل غارة ... تكون بنجد أو بأرض التهائم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا حسان فأجبه" فقام وقال: بنو دارم لا تفخروا إن فخركم ... يعود وبالا بعد ذكر المكارم هبلتم علينا تفخرون وأنتم ... لنا خول ما بين قن وخادم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقد كنت غنيا يا أخا بني دارم إن يذكر منك ما قد كنت ترى أن الناس قد نسوه منك فكان قول رسول الله صلى الله عليه وسلم أشد عليه من قول حسان، ثم رجع حسان إلى قوله: وأفضل ما نلتم من الفضل والعلى ... ردافتنا من بعد ذكر المكارم فإن كنتم جئتم لحقن دمائكم ... وأموالكم أن تقسموا في المقاسم فلا تجعلوا لله ندا وأسلموا ... ولا تفخروا عند النبي بدارم وإلا ورب البيت مالت أكفنا ... على رأسكم بالمرهفات الصوارم فقام الأقرع بن حابس فقال: يا هؤلاء ما أدري ما هذا الأمر تكلم خطيبنا فكان خطيبهم أرفع صوتا وأحسن قولا، وتكلم شاعرنا فكان شاعرهم أرفع صوتا وأحسن قولا، ثم دنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "أشهد أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يضرك ما كان قبل هذ ا ". الروياني وابن منده وأبو نعيم وقال: غريب تفرد به المعلى بن عبد الرحمن بن الحكيم الواسطي، قال "قط": هو كذاب، "كر".
30316 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ بنی تمیم کے (سرکردہ) لوگ اپنے ایک شاعر اور ایک خطیب کو لے کر رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور باہر کھڑے ہو کر آوازیں لگانے لگے کہ اے محمد ! باہر نکلو اور ہمارے پاس آؤ ہماری مدح باعث زینت ہے اور ہمیں گالی دینا سراسر عیب و رسوائی ہے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کا شور سن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا : یہ تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی شان ہے بتاؤ تم کیا چاہتے ہو شرکائے وفد نے کہا : ہم بنی تمیم کے سرکردہ لوگ ہیں ہم تمہاریے پاس اپنا ایک شاعر اور ایک خطیب لائے ہیں ہم تمہارے ساتھ مشاعرہ چاہتے ہیں اور تمہارے اوپر اپنا فخر قائم رکھنا چاہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمیں شعر گوئی کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی ہمیں فخر کرنے کا حکم دیا گیا البتہ اپنے شاعر کو سامنے لاؤ چنانچہ اقرع بن حابس نے ایک نوجوان سے کہا : اے فلاں کھڑا ہوجا اور اپنے اور اپنی قوم کے فضائل بیان کرو نوجوان نے اٹھ کر کہنا شروع کیا ، تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی مخلوق پر فضیلت دی ہمیں اموال کثرت سے عطا کیے ہم جو چاہیں ان میں کرتے ہیں ہم زمین پر رہنے والوں میں سب سے افضل ہیں اور تعداد میں زیادہ ہیں ہمارے پاس اسلحہ کی بھی بہتات ہے جو ہماری فضیلت اور برتری کا انکار کرے وہ ہمارے دعوی سے اچھا دعوی لائے اور ہمارے کام سے اچھا کام کرکے دکھائے ۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس انصاری (رض) سے فرمایا : اٹھو اور اس کا جواب دو ثابت بن قیس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاص خطیب تھے ثابت (رض) نے اٹھ کر کہنا شروع کیا ” تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس کی میں حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں اس پر ایمان رکھتا ہوں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں پھر ثابت بن قیس (رض) نے بنی نمر کے مہاجرین کو لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت قرار دیا اور لوگوں میں سب سے زیادہ دانشمند قرار دیا پھر کہا : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انصار اور وزراء بنایا اور اپنے دین کو عزت بخشی ، ہم اس وقت تک لوگوں سے چنگ کرتے رہیں گے جب تک لوگ لا الاالہ اللہ کا اقرار نہ کریں جس نے بھی اس کلمے کا اقرار کیا اس نے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی جس نے انکار کیا ہم اس سے جنگ کریں گے یوں اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں اس کی شان ہمارے سامنے ہیچ ہے بس میں یہی بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں ، پھر زبرقان بن بدر نے ایک شخص سے کہا : اے فلاں اٹھو اور اشعار کہو جن میں اپنی اور اپنی قوم کی برتری کا بیان ہو ، چنانچہ اس نے یہ اشعار کہے ۔ نحن الکرام فلا حی یعادلنا نحن الرؤوس وفینا یقسم الربع ونطعم والناس عندا المحل کلھم من السیف اذا لم یؤنس القزع اذا ابینا فلا یابی لنا احد انا کذالک عند الفخر نرتفع : ہم لطف و کرم کے خوگر لوگ ہیں کوئی قبیلہ نہیں جو شرافت و عظمت میں ہمارا ہمسر ہو ہم سردار ہیں اور ہماری سرداری ہمیں میں تقسیم ہوتی ہے جب قحط پڑتا ہے اور آسمان پر بادلوں کا نام ونشان نہیں ہوتا تب ہم ہی سبھی لوگوں کو کھانا کھلاتا ہیں جب ہم انکار کردیں تو اس کا ہمیں حق حاصل ہے جبکہ کوئی اور ہمارے لیے انکار نہیں کرسکتا ہمیں جب ایسا فخر حاصل ہے تو اسی فخر سے ہمارا مقام بلند ہوا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فرمایا : حسان بن ثابت کو بلا لاؤ چنانچہ ایک صحابی گئے اور حضرت بن ثابت (رض) سے کہا کہ آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلا رہے ہیں ، حسان (رض) نے کہا : میں ابھی ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا آپ کو مجھ سے کیا کام پڑگیا قاصد نے کہا : بنو تمیم اپنے ایک شاعر اور ایک خطیب کو لائے ہیں ان کے خطیب نے تقریر کی اور اس کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیس بن ثابت کو کھڑا کیا انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دے دیا ۔ پھر بنو تمیم کے شاعر نے اشعار کہے اب ان کو جواب دینے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں کو بلایا ہے ، حسان (رض) نے کہا : اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ تم میرے پاس یہ بڑا اونٹ بھیجو جب حسان (رض) حاضر خدمت ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حسان کھڑے ہوجاؤ اور اس شاعر کو جواب دو عرض کی : یا رسول اللہ اسے حکم دیں کہ مجھے اپنا کلام سنائے چنانچہ تمیمی شاعر نے اشعار دوبارہ کہے پھر حسان (رض) نے کہا اب بھیجے پہ ہاتھ رکھ کر مجھے بھی سنو ۔ اور یہ اشعار کہے : نصرنا رسول اللہ والدین عنوۃ علی رغم باد من معد و حاضر بضرب کما یزاع المحاض مشاشہ وطعن کا فواہ اللقاح الصوادر وسل احدا یوم استقلت شعابہ بضرب لنا مثل اللیوث الخوادر السنا نخوض الموت فی حومۃ الوغی اذا اطاب وردالموت بین العساکر ونضرب ھام الدارعین وننتمنی السی خسسب من جذم غسان قاھر واحیاء نا من خیر من وطی الحصی وامواتنا من خیر اھل المقابر فلولا حیاء اللہ قلنا تکرما علی الناس بالخیفین ھل من منافر : ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین حق کی بھر پور مدد کی ہماری مدد کا جادو دشمنوں کے سر چڑھ کر بولا باوجودیکہ معد کے دیہاتی اور شہری ذلیل ورسوا ہوئے دشمن پر ہماری کاری ضرب ایسی ہوتی ہے جیسے دردزہ کا متفرق کردہ پیشاب اور ہمارئے دیئے ہوئے زخم ایسے ہوتے ہیں جیسے پیاسی اونٹنیوں کے کھلے ہوئے منہ جو گھاٹ پر وارد ہونا چاہتی ہوں یقین نہیں آتا تو احد سے جا کر پوچھ لو اس کی ہر ہر گھاٹی ہمارے استقلال کا ثبوت دیگی وہاں ہم نے ایسی کاری ضربیں لگائیں ہیں جیسے کھ چاروں میں چھپے ہوئے شیروں کے حملے ۔ کیا ہم گھمسان کی جنگ میں موت کو گلے سے نہیں لگا لیتے جب موت لشکروں کے درمیان خوشی سے گھوم رہی ہوتی ہے ہم زرہ پوشوں کے سر کچل دیتے ہیں اور پھر تمام تر شرافت اور فضیلت ہماری ملکیت بن جاتی ہے زمین پر چلنے والوں میں سب سے زیادہ ہماری بستیاں اور ہمارے قبیلے افضل واعلی ہیں اور ہمارے مردے قبروں میں پڑے ہوئے سب مردوں سے افضل ہیں اگر مجھے رب تعالیٰ سے حیاء نہ آرہی ہوتی میں تمہیں بتا دیتا کہ لوگوں پر ہمیں کتنی بڑی فضیلت حاصل ہے اگر کسی کو انکار ہے تو وہ سامنے آئے ۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت (رض) کے مسکت اشعار سن کر اقرع بن حابس کھڑا ہوا اور کہا : اے محمد ! میں ایک ایسے کام کے لیے آیا ہوں جس کے لیے یہ لوگ نہیں آئے میں اشعار کہتا ہوں تم انھیں سنو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہو چنانچہ اقرع نے یہ اشعار کہے : اتیناک کی ما یعرف الناس فضلنا اذا اختلفوا اعنداد کار المکارم وانا رؤوس الناس من کل معشر : وان لیس فی ارض الحجاز کدارم وان لنا المرباع فی کل غارۃ تکون بنجد او بارض التھائم : ۔ ترجمہ : ۔۔۔ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ لوگوں کو ہماری برتری کا علم ہوجائے خصوصا اس وقت جب لوگ شرافتوں کے تذکرہ میں اختلاف کر رہے ہوں ہم نہ صرف سرزمین حجاز بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کے سردار ہیں ہمارے پاس سرزمین نجد وتہامہ میں پائی جانے والی تیز رفتار اونٹنیاں ہیں جنھوں نے ابھی تک صرف ایک ہی اگر بچہ جنم دیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان (رض) سے فرمایا : اے حسان اسے جواب دو حضرت حسان (رض) جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا : بنودارم لا تفخروا ان فخرکم یعودو بالا بعد ذکر المکارم ھبلتم علینا نفخرون وانتم لنا خول ما بین قن و خادم : بنو دار ہمارے اوپر فخر نہیں جتلا سکتے چونکہ تمہارا فخر تمہارے لیے وبال بن جائے گا بعد ازیں کہ تم مکارم کا ذکر کرچکے ہیں تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں تم ہمارے اوپر فخر جتلا رہے ہو حالانکہ تم ہمارے غلام ہو تم میں سے بعض غلام ہیں اور بعض خادم ہیں۔ یہ شعر کہنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنی دارم کے بھائی تم غنی ہو اگر تمہارے فضائل گنوائے جائیں تم دیکھو گے کہ لوگ انھیں بھول چکے ہیں یوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بات بنی تمیم کے لیے حسان (رض) کے شعر سے زیادہ سخت واقع ہوئی پھر حسان (رض) دوبارہ اشعار کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : و افضل مانلتم من الفضل والعلی ردافتنا من بعد ذکر المکارم فان کنتم جئتم لحقن دمائکم واموالکم ان تقسموا فی الماقسم فلا تجعلوا اللہ ندا واسلموا ولا تفخروا عند انبی بدارم والا ورب البیت مالت اکفنا علی راسکم بالمر ھفات الصوارم تم نے جو بڑی بڑی برتریاں اور بلندیاں حاصل کر رکھی ہیں وہ مکارم کے تذکرہ کے بعد ہمارے پ چھوڑے میں پڑی ہیں ، اگر تم اپنی جانوں اور اموال کو محفوظ بنانے آئے ہو کہ وہ غنیمت میں تقسیم ہونے سے بچے رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور اسلام قبول کرلو اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دارم کا نام لے کر فخر مت کرو ، ورنہ رب کعبہ کی قسم ہمارے ہاتھ تمہارے سروں پر ہوں گے ۔ اور ہماری کوندتی ہوئی تلواریں تمہاری کھوپڑیاں کچل رہی ہوں گی ۔ یہ اشعار سن کر اقرع بن حابس کھڑا ہوا اور کہا : اے لوگو ! مجھے نہیں معلوم یہ کیا مہمہ ہے ہمارے خطیب نے تقریر کی لیکن ان کے خطیب کی آواز بلند تھی اور کیا خوبصورت تقریر کی ہے ہمارے شاعر نے اپنا کلام پیش کیا لیکن ان کے شاعر کا کلام کیا خوب تھا اور اس کی آواز کتنی زبردست تھی پھر اقرع بن حابس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے قبل ازیں جو کچھ کہا ہے وہ تمہارے لیے باعث ضرر نہیں ۔ (رواہ الرویانی وابن مندہ وابو نعیم وقال : غریب تفرد بہ المعلی بن عبدالرحمن بن الحکیم الواسطی وقال الدارقطنی ھو کذاب ورواہ ابن عساکر)

30317

30317- عن عمران بن حصين قال: قدم وفد بني نهد بن زيد على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله أتيناك من غوري تهامة على أكوار الميس، ترتمي بنا العيس، نستجلب الصبير، ونستخلب الخبير، ونستعضد البرير، ونستخيل الرهام، ونستجيل الجهام، من أرض غائلة النطا، غليظة الوطا قد نشف المدهن، ويبس الجعثن، وسقط الأملوج من البكارة، ومات العسلوج، وهلك الهدي، ومات الودي، برئنا يا رسول الله من الوثن والعنن وما يحدث الزمن، لنا دعوة المسلمين وشريعة الإسلام، ما طما البحر وقام تعار ولنا نعم همل، أغفال لا تبض ببلال، ووقير كثير الرسل قليل الرسل، أصابنا سنية حمراء مؤزلة ليس لها علل ولا نهل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم بارك لهم في محضها ومخضها ومذقها وفرقها واحبس ويانع الثمر، وافجر لهم الثمد وبارك لهم في الولد من أقام الصلاة كان مؤمنا، ومن أدى الزكاة لم يكن غافلا، ومن شهد أن لا إله إلا الله كان مسلما، لكم يا بني نهد ودائع الشرك، ووضائع الملك، ما لم يكن عهد ولا موعد، ولا تثاقل عن الصلاة، ولا تلطط في الزكاة، ولا تلحد في الحياة، من أقر بالإسلام فله ما في الكتاب، ومن أقر بالجزية، فعليه الربوة، وله من رسول الله صلى الله عليه وسلم الوفاء بالعهد والذمة. الديلمي
30317 ۔۔۔ عمران بن حصیر کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نہد بن زید کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا وفد کے نمائندے نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم سر زمین تہامہ کے زیریں علاقہ سے آئے ہیں اور ہم درخت کے کجاؤں پر سوار ہو کر آئے ہیں پہاڑی بکرے ہمارے اوپر کودتے رہے ہم موسلادہار بارش کے متلاشی ہیں چونکہ زمین سے اگنے والی نباتات ختم ہوچکی ہیں ، پیلو کے درخت ختم ہوچکے (چلو ہم ان کے پھل کھا کر گزارا کرلیتے تھے) اگر آسمان پر بادلوں کا کوئی آوارہ ٹکڑا دکھائی دیتا ہے ہم بوچھاڑ کی آس لگا بیٹھے ہیں مگر بادلوں کا وہ آوارہ ٹکڑا بانجھ نکلتا ہے ہمیں دور دراز علاقوں میں پانی کی بوند بوند کے لیے گھومنا پڑتا ہے جہاں ہر طرف ہلاکت منہ کو لے کھڑی ہوتی ہے ہم کوئی نشیب و فراز نہیں چھوڑتے جہاں پانی کی تلاش میں گھومتے نہ ہوں مگر وائے رہے ناکامی بوندیں بھی خشک ہوگئیں مضافات پانی سے خالی ہوگئے نباتات اور جڑی بوٹیوں کی جڑیں بھی خشک ہوچکی ہیں جو اونٹ فربہ تھے ان کی فربہی جاتی رہی قحط کی وجہ سے ٹہنیوں کی طراوت ختم ہوگئی گویا اونٹ ہلاک ہوگئے اور باغات سوکھ گئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بتوں اور ان کی عبادت سے بیزار ہوچکے ہیں دہریت کا عقیدہ ختم کردیا ہے اب ہم مسلمانوں کی دعوت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور شریعت اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتے ہیں جب تک سمندر کی موجوں میں تلاطم ہے اور جب تک نعار پہاڑ قائم ہے ہمارے چوپائے شبان کے بغیر گھوم رہے ہیں اونٹنیوں کے تھنوں میں دودھ نام کی کوئی چیز نہیں حتی کہ ایک قطرہ بھی ان کے تھنوں سے نہیں ٹپکنے پاتا ہماری بکریاں کوسوں دور بھٹکتی پھرتی ہیں مگر ان کے چرنے کے لیے سبزہ نام کی کوئی چیز نہیں ان کے تھن قحط زدہ ہوچکے ہیں قحط سالی نے ہمارا برا حال کردیا ہے قحط کی وجہ سے ہمیں پہلے پینا ملتا ہے نہ بعد میں ۔ وفد کے نمائندے کی غیر مانوس الفاظ سے لبریز تقریر سننے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یا اللہ انھیں نہد کے خالص دودھ میں برکت عطا فرما ان کے بلوئے جانے والے دودھ میں بھی برکت عطا فرما ، ان کی چھاچھ اور ان کے پیمانے میں بھی برکت عطا فرما اور ان کی سرزمین کو شاداب بنا دے اور ان کے درختوں کو پھلوں سے بھر دے ان کے تھوڑے پانی کو زیادہ کر دے یا اللہ ان کی اولاد میں سے جو مؤمن ہو اور نماز قائم کرتا ہو اسے برکت عطا فرما اسے بھی برکت عطا فرما جو زکوۃ ادا کرتا ہو اور غافل نہ جو لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو وہ مسلمان ہے اے بنی نہد مضافات کے کفار کے ساتھ تمہارے معاہدے ہیں اور تم بادشاہی ٹیکس دیتے ہو ۔ نماز سے غافل نہ رہو زکوۃ سے انکار نہیں کرنا جب تک زندہ رہو بےدینی سے گریز کرو جو شخص اسلام پہ کار بند رہتا ہے اس کے لیے وہی کچھ ہے جو کتاب میں ہے جو شخص جزیہ کا اقرار کرتا ہے اس پر زکوۃ سے زائد بوجھ پڑتا ہے البتہ اس کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے وفائے عہد اور ذمہ کا پاس ہے۔ (رواہ الدیلمی)

30318

30318- عن حبيب بن فديك بن عمرو السلاماني أنه وفد على رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفد سلامان. أبو نعيم.
30318 ۔۔۔ حبیب بن فدیک بن عمرو سلامانی کی روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سلامان کے وفد کے ساتھ حاضر ہوئے ۔ (رواہ ابو نعیم)

30319

30319- عن أبي ظبيان عمير بن الحارث الأزدي أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم في نفر من قومه منهم الحجن بن المرقع أبو سبرة ومخلف وعبد الله بن سليمان وعبد شمس بن عفيف بن زهير وسماه النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله وجندب بن زهير وجندب بن كعب والحارث بن الحارث وزهير بن مخشى والحارث بن عامر وكتب لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا: أما بعد فمن أسلم من غامد فله ما للمسلمين حرمة ماله ودمه ولا يحشر ولا يعشر وله ما أسلم عليه من أرض. "خط" في المتفق والمفترق، "كر"
30319 ۔۔۔ ابو ظبیان عمیر بن حارث ازدی کی روایت ہے کہ وہ اپنی قوم کے وفد کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے شرکائے وفد میں یہ لوگ بھی تھے حجن بن مواقع ابو سبرہ مخلف عبداللہ بن سلیمان ، عبد شمس بن عفیف بن زہیر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام عبداللہ رکھا جندب بن زبیر جندب بن کعب، حارث بن حارث ، زبیر بن مخشی ، حارث بن عامر ، اس وفد کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وثیقہ بھی لکھا جس کا مضمون یہ تھا : قبیلہ غامد میں سے جو لوگ اسلام لائے ہیں ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہیں یعنی ان کے اموال اور جانیں محفوظ ہوں گی انھیں جنگوں میں لایا جائے گا اور نہ ٹیکس لیا جائے گا جو اسلام قبول کرے گا اس کے لیے جائیداد کا حصہ ۔ (رواہ الخطیب فی المتفق والمفترق وابن عساکر)

30320

30320- "مسند حصين بن عوف الخثعمي3 وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فبايعه بيعة الإسلام وصدق إليه صدقة ماله وأقطعه النبي صلى الله عليه وسلم مياها عدة بالمروت وإسناد أجراد منها أصهب ومنها الماعرة ومنها أهوى ومنها المهاد ومنها السديرة وشرط النبي صلى الله عليه وسلم على حصين بن مشمت فيما قطع له أن لا يقطع مرعاه ولا يباع ماؤه، وشرط النبي صلى الله عليه وسلم على حصين بن مشمت أن لا يبيع ماءه ولا يمنع فضله فقال زهير بن عاصم بن حصين شعرا: إن بلادي لم تكن أملاسا ... بهن خط القلم الأنقاسا من النبي حيث أعطى الناسا ... فلم يدع لبسا ولا التباسا "طب" وأبو نعيم - عن حصين بن مشمت الجماني.
30320 ۔۔۔ ” مسند حصین بن عوف خثعمی “ حصین بن عوف (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست اقدس پر بیعت اسلام کی اور آپ کی خدمت میں اپنے مال کے صدقات پیش کئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جائداد میں مختلف علاقے دیئے جن میں بہت سارے چشمے بھی تھے ان جگہوں میں کچھ قابل ذکر یہ ہیں۔ مروت اسناد اجرا اصہب عامرہ اھوی مہاد سدیرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حصین بن مشت پر یہ شرط لگا دی کہ چراگاہ سے انتقاع بند نہیں کرو گے اور پانی نہیں بیچو گے اور فالتو پانی بیچنے سے بھی احتراز کرو گے زبیر بن عاصم بن حصین نے یہ اشعار کہے : ان بلادی لم تکن املاسا بھن خط القلم الا نقاسا من النبی حیث اعطی الناسا فلم یدع لبسا ولا التباسا : ہمارا علاقہ جنگل اور بیابان نہیں ہمارے علاقے پر قلم کی روشنائی سے خط کھینچا گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ آپ لوگوں کو عطایا دیئے ہیں اور ان میں کوئی شک وشبہ نہیں چھوڑا ۔ (رواہ الطبرانی وابو نعیم عن حصین بن مشمت الجمانی)

30321

30321- "مسند حوشب ذي ظليم" عن محمد بن عثمان بن حوشب عن أبيه عن جدع قال: لما أن أظهر الله محمدا صلى الله عليه وسلم انتدبت إليه من الناس في أربعين فارسا مع عبد شر فقدموا عليه المدينة بكتابي فقال: أيكم محمد؟ قالوا: هذا قال: ما الذي جئتنا به فإن يك حقا اتبعناك؟ قال: تقيموا الصلاة وتعطوا الزكاة وتحقنوا الدماء وتأمروا بالمعروف وتنهوا عن المنكر فقال عبد شر: إن هذا لحسن مد يدك أبايعك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما اسمك؟ قال: عبد شر قال: لا بل عبد خير، وكتب معه الجواب إلى حوشب ذي ظليم فآمن". أبو نعيم.
30321 ۔۔۔ ” مسند حوشب ذی ظلیم “ محمد بن عثمان بن حوشب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا تو میں نے عبد شر کے ساتھ چالیس سواروں کو روانہ کیا یہ لوگ میرا خط لے کر مدینہ پہنچے اور وہاں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے پوچھا : تم میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا : یہ ہیں وفد کے نمائیدہ عبد شر نے کہا : آپ کون سی تعلیمات لائے ہیں اگر وہ حق ہیں تو ہم آپ کی پیروی کریں گے آپ نے فرمایا : نماز قائم کرو زکوۃ دو اور اپنی جانوں کو محفوظ بنا لو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو عبد شر نے کہا : یہ تو بیعت اچھی تعلیمات ہیں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں بیعت کرلو ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے ؟ جواب دیا : میرا نام عبد شر ہے فرمایا : نہیں بلکہ تمہارا نام عبد خیر ہے آپ نے حوشب ذی ظلیم کی طرف جوابا خط لکھا ۔ (رواہ ابونعیم)

30322

30322- عن أبي حميد قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ابن العلماء من صاحب أيلة بكتاب وأهدى له بغلة فكتب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهدى له بردا. ابن جرير.
30322 ۔۔۔ ابو حمید کی روایت ہے کہ ایلہ کے حکمران کا ایک قاصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے خچر تحفہ میں بھیجا اور خط بھی بھیجا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابا خط لکھا اور تحفہ میں چادریں بھیجیں ۔ (رواہ ابن جریر)

30323

30323- عن أبي هريرة قال: قدم جهيش بن أويس النخعي على رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من أصحابه من مذحج فقالوا: يا رسول الله إنا حي من مذحج، ثم ذكر حديثا طويلا فيه أبيات شعر. أبو نعيم
30323 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ جھیش بن اویس نخعی قبیلہ مذحج کے وفد کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے شرکائے وفد نے عرض کی ـ: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم قبیلہ مذحج کی شاخ ہیں پھر راوی نے طویل حدیث ذکر کی جس میں کچھ اشعار بھی ہیں۔ (رواہ ابونعیم)

30324

30324- عن أنس قال: لما قدم أهل البحرين وقدم الجارود وافدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فرح به وقربه وأدناه. أبو نعيم.
30324 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ جب بحرین کے لوگوں کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا وفد کے ساتھ جارود بھی آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اسے اپنے قریب بٹھایا۔ (رواہ ابونعیم)

30325

30325- عن علي أن وفد نهد قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم ومنهم طهفة بن زهير فقال: أتيناك يا رسول الله على غورى تهامة على أكوار الميس، ترتمي بنا العيس، نستحلب الصبير، ونستخلب الخبير، ونستخيل الرهام، ونستحيل الجهام، من أرض بعيدة النطا غليظة الوطا، قد نشف المدهن، ويبس الجعثن، وسقط الأملوج ومات العسلوج، وهلك الهدي، ومات الودي، برئنا إليك يا رسول الله من الوثن والعنن، وما يحدث الزمن، ولنا نعم همل أغفال ووقير قليل الرسل، يسير الرسل، أصابتها سنة حمراء أكدى ليس لها علل ولا نهل؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم بارك لهم في مخضها ومحضها ومذقها واحبس راعيها على الدثر، ويانع الثمر، وافجر لهم الثمد، وبارك لهم في الولد، ثم كتب معه كتابا نسخته: بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بني نهد: السلام عليكم من أقام الصلاة كان مؤمنا، ومن آتى الزكاة كان مسلما، ومن شهد أن لا إله إلا الله لم يكتب غافلا، لكم في الوظيفة الفريضة ولكم الفارض والفريش وذو العنان والركوب والفلو والضبيس لا يمنع سرحكم، ولا يعضد طلحكم ولا يحبس دركم ما لم تضمروا إماقا، ولم تأكلوا رباقا. ابن الجوزي في الواهيات وقال: لا يصح، فيه مجهولون وضعفاء.
30325 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) روایت کی ہے کہ قبیلہ نہد کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا وفد میں طھفہ بن زہیر بھی تھا اس نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے ان الفاظ میں تقریر کی یا رسول اللہ ! ہم سرزمین تہام کے زیریں حصہ سے آئے ہیں اور میس کے بنے ہوئے کجاؤں پر سوار ہو کر آئے ہیں اور پہاڑی بکرے ہمارے اوپر کودتے رہے ہم موسلادہار بارش کے متلاشی ہیں چونکہ زمین سے اگنے والی نباتات ختم ہوچکی ہیں ، پیلو کے درخت ختم ہوچکے (چلو ہم ان کے پھل کھا کر گزارا کرلیتے تھے) اگر آسمان پر بادلوں کا کوئی آوارہ ٹکڑا دکھائی دیتا ہے ہم بوچھاڑ کی آس لگا بیٹھے ہیں مگر بادلوں کا وہ آوارہ ٹکڑا بانجھ نکلتا ہے ہمیں دور دراز علاقوں میں پانی کی بوند بوند کے لیے گھومنا پڑتا ہے جہاں ہر طرف ہلاکت منہ کو لے کھڑی ہوتی ہے ہم کوئی نشیب و فراز نہیں چھوڑتے جہاں پانی کی تلاش میں گھومتے نہ ہوں مگر وائے رہے ناکامی بوندیں بھی خشک ہوگئیں مضافات پانی سے خالی ہوگئے نباتات اور جڑی بوٹیوں کی جڑیں بھی خشک ہوچکی ہیں جو اونٹ فربہ تھے ان کی فربہی جاتی رہی قحط کی وجہ سے ٹہنیوں کی طراوت ختم ہوگئی گویا اونٹ ہلاک ہوگئے اور باغات سوکھ گئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم بتوں اور ان کی عبادت سے بیزار ہوچکے ہیں دہریت کا عقیدہ ختم کردیا ہے اب ہم مسلمانوں کی دعوت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور شریعت اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتے ہیں جب تک سمندر کی موجوں میں تلاطم ہے اور جب تک نعار پہاڑ قائم ہے ہمارے چوپائے شبان کے بغیر گھوم رہے ہیں اونٹنیوں کے تھنوں میں دودھ نام کی کوئی چیز نہیں حتی کہ ایک قطرہ بھی ان کے تھنوں سے نہیں ٹپکنے پاتا ہماری بکریاں کوسوں دور بھٹکتی پھرتی ہیں مگر ان کے چرنے کے لیے سبزہ نام کی کوئی چیز نہیں ان کے تھن قحط زدہ ہوچکے ہیں قحط سالی نے ہمارا برا حال کردیا ہے قحط کی وجہ سے ہمیں پہلے پینا ملتا ہے نہ بعد میں ۔ رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طھفہ کی تقریر سن کر فرمایا : یا اللہ انھیں بنی نہد کے خالص دودھ میں برکت عطا فرما ان کے بلوئے جانے والے دودھ دہی لسی اور پیمانے میں بھی برکت عطا فرما اور ان کی زمینوں کو سرسبز اور شاداب بنا دے اور ان کے درختوں کو پھلوں سے بھر دے ان کے تھوڑے پانی کو زیادہ کر دے یا اللہ ان کی اولاد میں سے جو مؤمن ہو اور نماز پڑھتا ہو اسے برکت عطا فرما جو زکوۃ ادا کرتا ہو اسے بھی برکت عطا فرما ۔ پھر آپ نے خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بنی نہد کی جانب السلام علیکم ، جو نماز قائم کرتا ہو وہ مسلمان ہے جو زکوۃ ادا کرتا ہو وہ مسلمان ہے جو لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو وہ غافل نہیں ہے تمہارے اوپر زکوۃ فرض ہے اور زکوۃ میں ہم ردی مال نہیں لیتے (جس طرح بڑھایا مال نہیں لیتے) لاغر اور عمدہ مال تمہارا ہے ہم اسے نہیں لیں گے سواری کے جانور جانوروں کے بچے اور جس گھوڑے کی سواری مشکل ہو وہ سب زکوۃ سے فارغ ہیں تمہارے جانوروں کو چراگاہوں سے نہیں روکا جائے گا اور تمہارے غیر مشمر اشجار نہیں کاٹے جائیں گے ہم زکوۃ میں دودھ دینے والے جانور بھی نہیں لیں گے جب تک تم حمیت کے طور پر انھیں متروک نہ کر دو یہ عہد اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک تم اسلام سے پھرگئے پھر تمہارے اوپر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو کفر پر عائد ہوتی ہیں۔ (رواہ الجوزی فی الواھیات وقال لا یصح وفیہ مجھولون وضعفاء) ۔ کلام : ۔۔۔ حدیث ضعیف ہے دیکھئے المتناھیۃ 284 ۔

30326

30326- عن ابن عباس أن الحجاج بن علاط أهدى لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سيفه ذا الفقار، ودحية الكلبي أهدى له بغلته الشهباء. أبو نعيم.
30326 ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) روایت کی ہے کہ کہ حجاج بن علاط (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذوالفقار نامی تلوار ہدیہ میں دی اور حضرت دحیہ کلبی (رض) نے سفید خچر ہدیہ میں دیا ۔ (رواہ ابونعیم)

30327

30327- الواقدي حدثني إبراهيم بن جعفر عن أبيه قال: قال مروان بن الحكم وهو على المدينة وعنده ابن بابين النضري: كيف كان قتل كعب بن الأشرف؟ قال ابن بابين: كان غدرا ومحمد بن مسلمة جالس شيخ كبير فقال: يا مروان أيغدر رسول الله صلى الله عليه وسلم عندك؟ والله ما قتلناه إلا بأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يأويني وإياك سقف بيت إلا المسجد وأما أنت يا ابن بابين فلله علي لا قدرت عليك وفي يدي سيف إلا ضربت به رأسك. "كر".
30327 ۔۔۔ واقدی ابراہیم بن جعفر اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ مروان بن حکم مدینہ کا گورنر تھا اور اس کے پاس ابن بابین نضری بیٹھا ہوا تھا : کعب بن اشرف کیسے قتل ہو بن بابین نے کہا : اس کا قتل ایک دھوکا اور غدر تھا حضرت محمد بن مسلمہ (رض) بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھے ہوچکے تھے انھوں نے فرمایا : اے مروان تیرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا باز کہلایا جا رہا ہے بخدا ہم نے کعب بن اشرف کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے قتل کیا ہے جبکہ مجھے اور تمہیں صرف مسجد کی چھت تلے پناہ ملی ہے اے ابن بابین ! اگر مجھے تم پر قدرت حاصل ہوئی اور میرے ہاتھ میں تلوار ہوئی میں تیرا سر قلم کروں گا ۔ (رواہ ابن عساکر)

30328

30328- "مسند حشيش بن الديلمي" عن الضحاك عن فيروز عن حشيش بن الديلمي قال: قدم علينا زبر بن يحنس بكتاب النبي صلى الله عليه وسلم يأمرنا فيه بالقيام على ديننا والنهوض في الحرب والعمد في الأسود إما غيلة وإما مصادمة وأن نبلغ عنه من رأينا أن عنده نجدة أو دينا فعملنا في ذلك، وكتب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أهل نجران إلى عربهم وساكني الأرض من غير العرب، فثبتوا وقتل الأسود، وأعز الله الإسلام وأهله، وتراجع أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى أعمالهم فاصطلحنا على معاذ فكان يصلي بنا وكتبنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالخبر، فأتاه الخبر من ليلته، وقدمت رسلنا وقد قبض النبي صلى الله عليه وسلم صبيحة تلك الليلة فأجابنا أبو بكر. "هـ"، سيف، "كر".
30328 ۔۔۔ ” مسند حشیش بن دیلمی “ ضحاک ، فیروز حشیش بن دیلمی کی روایت ہے کہ ہمارے پاس زبر بن یحنس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط لے کر آئے خط میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دین پر قائم اپنے جہاد کے لیے تیار رہنے اور اسود عنسی کی خبر لینے کا حکم دیا آپ نے ہمیں تاکید بھی کی کہ ہم آپ کو بروقت حالات سے آگاہ کرتے رہیں نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے عرب اور عرب میں رہنے والے عجمیوں کو بھی خطوط لکھے چنانچہ مختلف قبائل زیر کر لیے گئے اور اسود عنسی قتل ہوا اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا فرمائی پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین واپس لوٹ آئے اور اپنی عملداریوں میں قیام پذیر ہوگئے ہم حضرت معاذ (رض) کی عملداری میں تھے ، معاذ (رض) ہمیں نماز پڑھاتے پھر ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا چنانچہ ہمارا خط جب پہنچا آپ دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ہمارے خط کا جواب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے دیا ۔ (رواہ ابن ماجہ وسیف وابن عساکر)

30329

30329- عن عمرو بن يحيى بن وهب بن أكيدر صاحب دومة الجندل عن أبيه عن جده قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابن أكيدر ولم يكن معه خاتمه فختمه بظفره. "كر".
30329 ۔۔۔ عمرو بن یحییٰ بن وہب بن اکیدر (دومۃ الجندل کا بادشاہ) عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن اکیدر کو خط لکھا آپ کے پاس مہر نہیں تھی تاہم آپ نے ناخن سے مہر لگائی ۔ (رواہ ابن عساکر)

30330

30330- عن سعيد بن المسيب قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى كسرى وقيصر والنجاشي أما بعد {تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} قال سعيد: فمزق كسرى الكتاب ولم ينظر فيه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: مزق ومزقت أمته، وأما النجاشي فآمن وآمن من كان عنده، وأرسل إلى النبي صلى الله عليه وسلم بهدية حلة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اتركوه ما ترككم، وأما قيصر فقرأ كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: هذا كتاب لم أسمع به بعد سليمان النبي، بسم الله الرحمن الرحيم ثم أرسل إلى أبي سفيان والمغيرة بن شعبة وكانا تاجرين بأرضه، فسألهما عن بعض شأن رسول الله صلى الله عليه وسلم وسألهما من تبعه؟ فقالا: تبعه النساء وضعفة الناس فقال: أرأيتما الذين يدخلون معه يرجعون؟ قالا: لا قال: هو نبي ليملكن ما تحت قدمي لو كنت عنده لغسلت قدميه. "ش"
30330 ۔۔۔ سعید بن مسیب کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسری ، قیصر اور نجاشی کو خطوط لکھے جن کا مضمون یہ تھا : اما بعد ! ایسے کلمہ پہ آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم اللہ کے علاوہ کسی کو رب نہ مانیں اگر تم اس سے روگردانی کرو تو گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں سعید بن مسیب (رض) کہتے ہیں : کسری نے آپ کا نامہ مبارک چاق کردیا اور اس میں دیکھا تک نہیں اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اور اس کی سلطنت بھی پاش پاش ہوگی ، رہی بات نجاشی کی سو اس نے ایمان لایا اور اس کے پاس جو لوگ موجود تھے وہ بھی ایمان لے آئے نجاشی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جوڑے ارسال کئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اپنے حال پر رہنے دو رہی بات قیصر کی سو اس نے نامہ مبارک پڑھا اور پھر کہا میں نے سلیمان (علیہ السلام) کے بعد ایسا خط نہیں پڑھا جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہو پھر قیصر نے ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو اپنے پاس بلایا یہ دونوں سرزمین شام میں تجارت کی غرض سے گئے تھے چنانچہ قیصر نے ان سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مختلف سوالات کیے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس کی اتباع کیسے لوگوں نے کی ہے انھوں نے جواب دیا عورتوں اور کمزور لوگوں نے اس کی اتباع کی ہے ایک سوال یہ بھی کیا کہ مجھے بتاؤ اس کے دین میں داخل ہو کر کوئی شخص اس کے دین سے نکلا بھی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا نہیں قیصر بولا : یقیناً وہ شخص نبی برحق ہے وہ میری حکومت پر قبضہ کرلے گا اگر میں اس کے پاس ہوتا اس کے پاؤں دھوتا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

30331

30331- عن عروة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى زرعة بن سيف ذي يزن: بسم الله الرحمن الرحيم أما بعد من محمد النبي صلى الله عليه وسلم إلى زرعة بن ذي يزن إذا أتاكم رسلي فآمركم بهم خيرا. معاذ بن جبل وابن رواحة ومالك بن عبادة وعقبة بن نمر - ابن منده، "كر"
30331 ۔۔۔ عروہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زرعہ بن سیب ذی یزن کو خط لکھا خط کا مضمون یہ تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم اما بعد ، محمد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے زرعہ بن ذی یزن کی طرف جب میرے قاصد بن تمہارے پاس آئیں تو میں تمہیں ان کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہوں ۔ (رواہ معاذ بن جبل وابن رواحۃ ومالک بن عبادۃ وعقبۃ بن غروان بن مندہ وابن عساکر)

30332

30332- عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى كسرى وقيصر وأكيدر دومة يدعوهم إلى الله. "ع، كر".
30332 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسری قیصر اور دومہ کے اکیدر کو خطوط لکھے اور انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ (رواہ ابو یعلی وابن عساکر)

30333

30333- عن المسور بن مخرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث بكتابه مع دحية بن خليفة الكلبي إلى قيصر، وبعث شجاع بن وهب إلى المنذر بن الحارث بن أبي شمر الغساني. "كر"، ابن إسحاق.
30333 ۔۔۔ مسور بن مخرمہ روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی (رض) کو خط دے کر قیصر کے پاس بھیجا اور شجاع بن وہب کو منذر بن حارث بن ابی شمر غسانی کی طرف خط دے کر بھیجا ۔ (رواہ ابن عساکر وابن اسحاق)

30334

30334- عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن المسور بن مخرمة عن خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم وخبره عن بعث عيسى ابن مريم الحواريين واختلافهم عليه وشكيته ذلك إلى ربه وصياح كل امرئ منهم يتكلم بلسان الأمة الذي بعث إليها وقيام المهاجرين إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقولهم لرسول الله صلى الله عليه وسلم: مرنا وابعثنا نحوا من هذا الحديث وقال عيسى ابن مريم للحواريين: هذا أمر قد عزم الله لكم عليه فامضوا فافعلوا فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: نحن نؤدي عنك فابعثنا حيث شئت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب أنت يا شجاع ابن أبي وهب إلى هرقل وليذهب معك دحية بن خليفة الكلبي فإنه من تخوم الشام فلا بأس عليه. "كر"
30334 ۔۔۔ ابن شہاب عروہ بن زبیر کی سند سے مروی ہے کہ مسور بن مخرمہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ اور عسی (علیہ السلام) کا فرستادوں کے بھیجنے کے متعلق خبر دی اور حواریوں کے اختلاف عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکایت اور ہر حواری کا قوم کی زبان میں کلام کرنا اور مہاجرین کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کھڑا ہونا اور مہاجرین نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : آپ ہمیں حکم دیں اور آپ ہمیں اسی طرح بھیجیں کے متعلق خبر دی عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے کہا : دعوت کا معاملہ ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر عزم کرلیا ہے لہٰذا چلو اور دعوت دو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم آپ کی طرف سے یہ کام (دعوت کا کام) کریں گے آپ ہمیں جہاں چاہیں بھیجیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے شجاع ! ہرقل کے پاس جاؤ اور تمہارے ساتھ دحیہ بن خلیفہ کلبی بھی جائے گا چونکہ وہ سرزمین شام سے بخوبی واقف ہے۔ (رواہ ابن عساکر) :

30335

30335- عن المسور بن خرمة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله بعثني رحمة للعالمين كافة فأدوا عني رحمكم الله، ولا تختلفوا كما اختلف الحواريون على عيسى فإنه دعاهم إلى مثل ما أدعوكم إليه، فأما من قرب مكانه فكرهه فشكا عيسى ابن مريم ذلك إلى الله تعالى، فأصبحوا وكل رجل منهم يتكلم بلسان القوم الذي وجه إليهم، فقال لهم عيسى: هذا أمر قد عزم الله لكم عليه فامضوا فافعلوا فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: نحن يا رسول الله نؤدي عنك فابعثنا حيث شئت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذهب أنت يا شجاع بن أبي وهب إلى هرقل، وليذهب معك دحية بن خليفة الكلبي فإنه من تخوم الشام فلا بأس عليه. "كر".
30335 ۔۔۔ مسور بن مخرمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے اے لوگو ! میری طرف سے اس فریضہ کو ادا کرو اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے اوپر رحمت کرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرح اختلاف نہیں کرنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسی چیز کی انھیں دعوت دی تھی جس کی میں تمہیں دعوت دیتا ہوں چنانچہ جس کی جگہ قریب ہوتی وہ اسے ناپسند کرتا عیسیٰ (علیہ السلام) نے رب تعالیٰ سے اس کی شکایت کی چنانچہ وہ لوگ جس قوم کی طرف بھیجے جاتے انہی کی زبان میں بات کرنے لگتے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس امر کا عزم کرلیا ہے چلو اور یہ کام کرو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کی طرف سے یہ کام کریں گے آپ ہمیں جہاں چاہیں بھیجیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے شجاع بن ابی وہب تم ہرقل کے پاس جاؤ اور ساتھ دحیہ بن خلیفہ کلبی کو لیتے جاؤ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

30336

30336- عن المسور بن مخرمة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله بعثني رحمة للعالمين كافة فأدوا عني رحمكم الله ولا تختلفوا كما اختلف الحواريون على عيسى فإنه دعاهم إلى مثل ما أدعوكم إليه، فأما من قرب مكانه فكرهه فشكا عيسى ابن مريم ذلك إلى الله تعالى، فأصبحوا وكل رجل منهم يتكلم بلسان القوم الذي وجه إليهم فقال لهم عيسى: هذا أمر قد عزم الله لكم عليه فامضوا فافعلوا فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: نحن يا رسول الله نؤدي عنك، فابعثنا حيث شئت، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن حذافة السهمي إلى كسرى، وبعث سليط بن عمرو إلى هوذة بن علي صاحب اليمامة، وبعث العلاء بن الحضرمي إلى المنذر بن ساوى صاحب هجر، وبعث عمرو بن العاص إلى جيفر وعياذ ابني الجلندي ملكي عمان، وبعث دحية إلى قيصر، وبعث شجاع بن وهب الأسدي إلى المنذر بن الحارث بن أبي شمر الغساني، وبعث عمرو بن أمية الضمري إلى النجاشي فرجعوا جميعا قبل وفاة النبي صلى الله عليه وسلم إلا عمرو بن العاص فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي وهو في البحرين. الديلمي.
30336 ۔۔۔ مسور بن مخرمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے میری طرف دعوت کا فریضہ ادا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر رحم فرمائے ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرف اختلاف نہیں کرنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں اسی چیز کی دعوت دی جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں چنانچہ جس حواری کو قریب کی جگہ میں بھیجتے وہ بخوشی چلا جاتا اگر دور بھیجتے تو بوجھل ہو کر بیٹھ جاتا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت کی چنانچہ ہر شخص جس قوم کی طرف بھیجا جاتا وہ اسی قوم کی زبان میں بات کرنے لگا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس امر کا تمہارے اوپر عزم کرلیا ہے لہٰذا تم چلو اور یہ کام کرو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کی طرف سے یہ کام کریں گے آپ ہمیں جہاں چاہیں بھیجیں چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن حذیفہ سہمی (رض) کو کسری کے دربار میں بھیجا سلیط بن عمر (رض) کو یمامہ کے بادشاہ ھوذہ بن علی کی طرف بھیجا سیدنا حضرت عمر بن خطاب (رض) بن العاض (رض) کو عمان کے بادشاہاں جیفر اور عیاذ کے پاس بھیجا حضرت وحیہ (رض) کو قیصر کے پاس بھیجا حضرت شجاع ی سبھی قاصد بن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رخصت سے پہلے واپس لوٹ آئے البتہ حضرت عمروبن العاص واپس نہ لوٹ سکے چنانچہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے وقت بحرین میں تھے (رواہ الدیلمی)

30337

30337- عن دحية الكلبي بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قيصر صاحب الروم بكتاب فقلت: استأذنوا لرسول رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى قيصر فقيل له: إن على الباب رجلا يزعم أنه رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففزعوا لذلك فقال: أدخله فأدخلني عليه وعنده بطارقة فأعطيته الكتاب فقرئ عليه، فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قيصر صاحب الروم فنخر ابن أخ له أحمرأزرق سبط فقال: لا تقرأ الكتاب اليوم لأنه بدأ بنفسه وكتب صاحب الروم ولم يكتب ملك الروم، فقرئ الكتاب حتى فرغ منه، ثم أمرهم فخرجوا من عنده ثم بعث إلي فدخلت عليه فسألني فأخبرته فبعث إلى الأسقف فدخل عليه فلما قرئ الكتاب عليه قال الأسقف: هو والله الذي بشرنا به موسى وعيسى الذي كنا ننتظر قال قيصر: فما تأمرني؟ قال الأسقف: أما أنا فإني مصدقه ومتبعه فقال قيصر: أعرف أنه كذلك لا أستطيع أن أفعل، إن فعلت ذهب ملكي وقتلني الروم. "طب".
30337 ۔۔۔ حضرت دحیہ کلبی (رض) کی روایت ہے کہ مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم کے بادشاہ قیصر کے پاس خط دیے کر بھیجا چنانچہ میں نے روم پہنچ کر دربانوں سے کہا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قاصد کے لیے اجازت طلب کرو چنانچہ دربانوں نے قیصر سے کہا کہ دروازے پر ایک شخص ہے اس کا خیال ہے کہ وہ اللہ کے رسول کا قاصد ہے چنانچہ درباری سن کر ہکا بکا رہ گئے قیصر نے دربانوں سے کہا : اسے اندر لے آؤ میں اندر داخل ہوا اس کے پاس عیسائی مذہبی پیشوا بیٹھے ہوئے تھے میں نے اسے خظ دیا چنانچہ قیصر کو خط پڑھ کر سنایا گیا خط میں (بسم اللہ الرحمن الرحیم) لکھی ہوئی تھی اور اس کے بعد لکھا تھا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے قیصر شاہ روم کی طرف خط کی اس طرز سے قیصر کا بھتیجا جو سرخ نیلگوں آنکھوں وا الا اور سیدھے بالوں والا تھا چیں بجبیں ہوگیا اور کہا آج خط نہ پڑھا جائے چونکہ مرسل نے خط میں پہلے اپنا نام لکھا ہے اور پھر ملک روم کی بجائے صاحب روم لکھا ہے۔ بہرحال خط پڑھا گیا پھر دربار میں بیٹھے ہوئے مذہبی پیشواؤں کو وہاں سے چلے جانے کا کہا پھر مجھے اپنے پاس بلایا مجھ سے مخلتف سوالات کیے میں نے بحسن وخوابی اسے خبر دی پھر اس نے ایک پادری اپنے پاس بلایا اور جب پادری کو خط پڑھ کا سنایا گیا اس نے کہا اللہ کی قسم یہ وہی نبی آخر الزماں ہے جس کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں خبر دی ہے اور جس کا ہم انتظار کر رہے تھے قیصر نے کہا تم مجھے کیا حکم دیتے ہو ؟ پادری نے کہا رہی بات میری میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کا اتباع اختیار کرتا ہوں قیصر نے کہا : میں جانتا ہوں کہ معاملہ یونہی ہے لیکن میں اس کی طاقت نہیں رکھتا چونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو میری بادشاہت ختم ہوجائے گی اور رومی مجھے قتل کردیں گے ۔ (رواہ الطبرانی)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔