hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

39. بدشگونی نیک شگون اور چھوت چھات کا بیان

كنز العمال

28554

28554- "اقروا الطير على مكناتها "1. "د"، عن أم كرز.
28554 ۔۔۔ پرندوں کو اپنے انڈوں پر رہنے دو ۔ (ابو داؤد عن ام کرز)

28555

28555- "الطير تجري بقدر". "ك" عن عائشة.
28555 ۔۔۔ (نیک یا بد) فال جاری واقع ہوتی ہے تقدیر کے مطابق ۔ (مستدرک حاکم ، عن عائشۃ صدیقۃ (رض))

28556

28556- "الطيرة شرك". "حم، خد، ك" عن ابن مسعود.
28556 ۔۔۔ بدشگونی کرنا شرک کی بات ہے۔ (مسند احمد بخاری فی الادب المفرد ، مستدرک حاکم عن ابن مسعود (رض))

28557

28557- كان أهل الجاهلية يقولون: إنما الطيرة في المرأة مكناتها: في الأصل: بيض الضباب، واحدتها مكنة بكسر الكاف وقد تفتح يقال: مكنت الضبة، وأمكنت، ومعناه: أن الرجل في الجاهلية كان إذا أراد حاجة أتى طيرا ساقطا أو في وكره فنفره، فإن طار ذات اليمين مضى لحاجته وإن طار ذات الشمال رجع، فنهوا عن ذلك. أي لا تزجروها وأقروها على مواضعها التي جعلها الله لها فإنها لا تضر ولا تنفع. النهاية 4/350. ب. والدابة والدار. "ك، هق" عن عائشة.
28557 ۔۔۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ کہتے تھے کہ نحوست عورت میں ہے اور سواری میں ہے اور گھر میں ہے۔ (مستدرک حاکم ، سنن کبری ، للبیہقی عن عائشۃ صدیقۃ (رض))

28558

28558- "الشؤم في ثلاث: في المرأة والمسكن والدابة". "ت، ن" عن ابن عمر.
28558 ۔۔۔ نحوست تین چیزوں میں ہے عورت میں اور رہائش گاہ میں اور سواری میں ۔ (ترمذی نسائی عن ابن عمرو (رض))

28559

28559- "الطيرة في الدار والمرأة والفرس". "حم" عن أبي هريرة.
28559 ۔۔۔ نحوست گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہے۔ (مسند احمد ، عن ابو ہریرہ (رض) ، )

28560

28560- "إنما الشؤم في ثلاث: في الفرس والمرأة والدار". "خ، د، هـ" عن ابن عمر.
28560 ۔۔۔ تین چیزوں میں تو نحوست ہی ہے : گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ۔ (بخاری ، ابوداؤد ، ابن ماجہ عن ابن عمرو (رض))

28561

28561- "إن كان الشؤم في شيء ففي الدار والمرأة والفرس". مالك، "حم، خ، هـ" عن سهل بن سعد؛ "ق" عن ابن عمر؛ "م، ن" عن جابر.
28561 ۔۔۔ اگر کسی چیز میں نحوست ہے تو گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہے۔ (مالک احمد ، بخاری ابن ماجہ ، عن سھل بن سعد (رض) ، بخاری و مسلم عن ابن عمرو (رض) ، مسلم نسائی عن جابر (رض))

28562

28562- "العيافة والطيرة والطرق من الجبت2". "د" عن قبيصة.
28562 ۔۔۔ بدفالی یا نیک فالی کے لیے پرندوں کو اڑنے پر اکسانا اور کسی کو منحوس قرار دینا اور پیش گوئی کے لیے کنکریاں پھینکنا بتوں(کو ماننے) کی قبیل سے ہے۔ (ابو داؤد عن قبیصہ (رض) ضعیف ابی داؤد 842 ضعیف الجامع 3900 ۔

28563

28563- " في الإنسان ثلاثة: الطيرة والظن والحسد فمخرجه من الطير أن لا يرجع ومخرجه من الظن أن لا يحقق، ومخرجه من الحسد ألا يبغي". "هب" عن أبي هريرة.
28563 ۔۔۔ انسان کے اندر تین چیزیں ہیں بدشگونی اور گمان (بد) قائم کرلینا اور حسد کرنا پس شگون سے اس کو نکالنے والی بات یہ ہے کہ (کلام سے) نہ پھرے اور گمان سے اس کو نکالنے والی بات یہ ہے کہ تحقیق میں نہ پڑے اور حسد سے اس کو نکالنے والی بات یہ ہے کہ زیادتی نہ کرے ۔ (البیہقی فی شعب الایمان، عن ابو ہریرہ (رض) ، ضعیف الجامع 3993)

28564

28564- " في المؤمن ثلاث خصال: الطيرة والظن والحسد، فمخرجه من الطيرة أن لا يرجع ومخرجه من الظن أن لا يحقق، ومخرجه من الحسد أن لا يبغي". ابن صصرى في أماليه، "فر" عن أبي هريرة.
28564 ۔۔۔ مومن میں تین خصلتیں ہیں بدشگونی (بد) گمانی اور حسد پس بدشگونی سے اس کو نکالنے والی یہ بات ہے کہ وہ (اس شگون کی بنا پر کام کر گذرنے سے نہ پھرے اور گمان سے اس کو نکالنے والا وصف یہ ہے کہ کھوج نہ لگائے اور حسد سے اس کو نکالنے والا وصف یہ ہے کہ حد سے تجاوز نہ کرے ۔ (ابن صصری فی امالیہ فردوس دیلمی ، عن ابو ہریرہ (رض) ، ضعیف الجامع 4006 ۔

28565

28565- "ليس منا من تطير ولا من تطير له أو تكهن أو تكهن له سحر أو سحر له". "طب" عن عمران بن حصين.
28565 ۔۔۔ نہیں ہے ہم میں سے وہ شخص جس نے شگون لیا یا اس کے لیے شگون کیا گیا یا عمل کہانت کیا یا اس کے لیے کیا گیا یا جادو کیا یا کروایا ۔ (طبرانی عن عمران بن حصین (رض))

28566

28566- "من ردته الطيرة عن حاجته فقد أشرك". "حم، طب" عن ابن عمر.
28566 ۔۔۔ جس کو بدشگونی نے اپنے کام سے روک دیا اس نے شرک کیا ۔ (مسند احمد، طبرانی کبیر عن ابن عمرو (رض))

28567

28567- "إن العيافة والطرق والطيرة من الجبت". ابن سعد، "حم، طب" عن قطن بن قبيصة عن أبيه.
28567 ۔۔۔ بیشک پرندوں کو اڑنے پر اکسانا (بغرض راہ نمائی) اور پیش گوئی کے لیے کنکریاں پھینکنا اور (کسی شیء میں) نحوست سمجھنا بتوں کو ماننے کی قبیل سے ۔ (ابن سعد ، احمد ، طبرانی ، فی الکبیر عن قطن بن قبیصہ عن ابیہ)

28568

28568- "الطيرة شرك الطيرة شرك". "ط، حم، د، هـ، ك، هب" عن ابن مسعود.
28568 ۔۔۔ بدشگونی شرک ہے بدشگونی شرک ہے۔ (ابوداؤد طیالسی ، احمد ابو داؤد ، ابن ماجہ ، حاکم فی المستدرک بیہقی فی الثعب عن ابن مسعود (رض))

28569

28569- "الطيرة من الشرك". "ت": حسن صحيح - عنه.
28569 ۔۔۔ بدشگونی شرک کی قبیل سے ہے ترمذی عن ابن مسعود (رض) کہا کہ حدیث حسن ہے۔

28570

28570- "من خرج يريد سفرا فرجع من طير فقد كفر بما أنزل على محمد". الديلمي - عن أبي ذر.
28570 ۔۔۔ جو شخص سفر کے ارادہ سے نکلا پھر نحس (کے تصور) سے رک گیا تو اس نے اس وحی کا انکار کیا جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی ۔ (دیلمی عن ابی ذر (رض))

28571

28571- "إنما الطيرة ما أمضاك أو ردك". "حم" عن الفضل ابن عباس.
28571 ۔۔۔ بدشگونی وہی ہے جو تجھے چلا دے یا روک دے ۔ (احمد عن الفضل بن عباس (رض))

28572

28572- "لا هام لا هام". ابن جرير - عن أبي هريرة.
28572 ۔۔۔ ھام رات کی تاریکی میں طلب انتقام کے لیے گشت کرنے والا پرندہ کچھ نہیں ہے ھام کچھ نہیں ہے (یعنی من گھڑت بات ہے) الو جو اہل جاہلیت کے زعم کے مطابق مقتول کی روح ہوتی ہے یا میت کی بوسیدہ ہڈیاں ہوتی ہیں جو الو بن جاتی ہیں۔ (حاشیہ مشکوۃ 20392 ۔

28573

28573- " إن يكن الشؤم في شيء ففي المرأة والدابة والمسكن". ابن جرير - عن سهل بن سعد.
28573 ۔۔۔ اگر کسی چیز میں نحوست ہے تو عورت میں اور سواری کے جانور میں اور گھر میں ہے۔

28574

28574- "لا شؤم فإن يك شؤم ففي الفرس والمرأة والمسكن". "طب" عن عبد المهيمن عن ابن عباس عن سهل بن سعد عن أبيه عن جده.
28574 ۔۔۔ نحوست نہیں ہے پس اگر نحوست موجود ہے تو گھوڑے میں اور عورت میں اور رہائش گاہ میں ہے۔ (طبرانی عن عبدالمھیمن ، عن ابن عباس (رض) عن سھل بن سعد عن ابیہ عن جدہ)

28575

28575- "لا طيرة والطيرة على من تطير فإن يك في شيء ففي الدار والفرس والمرأة". "حب" وابن جرير، "ص" عن أنس.
28575 ۔۔۔ بدفالی ہے ہی نہیں اور بدفالی اس پر (بوجھ) ہے جو یہ کرتا ہے سو اگر کسی شے میں ہے تو گھر میں اور گھوڑے میں اور عورت میں ہے۔ (ابن حبان ، ابن جریر ، سعید بن منصور عن انس (رض))

28576

28576- "الطيرة في المسكن والمرأة والفرس". ابن جرير - عن ابن عمر.
28576 ۔۔۔ بدفالی رہائش گاہ میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہے۔ (ابن جریر عن ابن عمرو (رض))

28577

28577- " اخرجوا منها وهي ذميمة". "هب" عن ابن مسعود.
28577 ۔۔۔ اس سے نکلو اس حال میں کہ یہ لائق مذمت ہے۔ (البیہقی فی شعب الایمان، عن ابن مسعود (رض))

28578

28578- "ذروها ذميمة". "د، ق" عن أنس
28578 ۔۔۔ اس کو مذموم سمجھ کر چھوڑ دو (پشت پر دیکھیں) ، ابو داؤد ، سنن کبری للبیہقی عن ابن مسعود (رض))

28579

28579- "من أصابه من ذلك يعني الطيرة شيء فليقل: اللهم لا طير إلا طيرك ولا إله غيرك". "ن" عن سلمان بن بريدة عن أبيه.
28579 ۔۔۔ جس کسی کو اس سے کچھ حصہ پہنچے تو چاہیے کہ یوں کہے : ” اللہم لا طیر الا طیرک والا الہ غیرک (اے اللہ نہیں کوئی نحوست مگر تیری (پیدا کردہ) اور نہیں کوئی معبود مگر تو۔ (نسائی عن سلمان ابن بریدۃ عن ابیہ) 1 ۔ ہام اور ہامہ بغیر تشدید کے ہے تشدید کے ساتھ اس کا معنی زہریلی چیز ہے جیسے سانپ بچھو چنانچہ تعوذات میں جہاں ھامہ ہے وہ مشدد ہے جس کی جمع ھوام ہے اور معنی زہریلا جانور ہے۔ (از مترجم) 2 ۔ ذروھا ذمیمۃ ۔ ہاضمیر کا مرجع دار ہے چنانچہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے۔ عن انس (رض) قال قال رجل یا رسول اللہ انا کنا فی دار کثر فیھا عدنا واموالنا فتحولنا الی دار قل فیھا عدنا واموالنا فقا “۔ ذروھا ذمیمۃ شکوۃ 392 ۔ روایت اولی جو ابن مسعود (رض) سے مروی ہے وہ بھی شاید یہی واقعہ ہے۔ فلینظر۔

28580

28580- "من ردته الطيرة عن حاجة فقد أشرك قالوا: يا رسول الله وما كفارة ذلك؟ قال: يقول: اللهم لا طير إلا طيرك ولا خير إلا خيرك ولا إله غيرك". "حم، طب" وابن السني في عمل يوم وليلة - عن ابن عمر.
28580 ۔۔۔ جس شخص کو بدفالی اس کی حاجت سے روک دے تو اس نے شرک کیا ، عرض کیا یا رسول اللہ ! اور اس کا کفارہ کیا ہے ؟ فرمایا کہے : اللہم لا طیر الا طیرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غیرک “۔ (الشذرہ 157 کشف الخفار احمد طبرانی ابن السنی فی عمل الیوم والیلۃ عن ابن عمرو (رض))

28581

28581- "الفأل مرسل والعطاس شاهد عدل". الحكيم عن الرويهب.
28581 ۔۔۔ فال (نیک) مرسل ہے (چھڑانے والی ہے) اور چھینک سچی شاہد ہے۔ (الحکیم عن الروھیب ، ضعیف الجامع 4023)

28582

28582- "أخذنا فألك من فيك ". "د" عن أبي هريرة؛ ابن السني وأبو نعيم معا في الطب - عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده؛ "فر" عن ابن عمر.
28582 ۔۔۔ ہم نے تیری فال تیرے منہ سے حاصل کی ، (ابوداؤد ، عن ابو ہریرہ (رض) ابن السنی ابو نعیم فی الطب عن کثیر بن عبداللہ عن ابیہ ، عن جدہ فردوس دیلمی عن ابن عمرو (رض) ، الاسرار المرفوعہ 216 اسنی المطالب 86 ۔

28583

28583- " أحسن الطيرة الفأل، ولا ترد مسلما، فإذا رأى أحدكم من الطيرة ما يكره فليقل: اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يرفع السيئات إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بك. "د، هق" عن عروة بن عامر القرشي.
28583 ۔۔۔ بہترین شگون خوش فالی ہے اور شگون مسلمان کو مانع نہیں بنتا پس جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ شگون دیکھے تو چاہیے کہ یہ کہے : ” اللہم لایاتی بالحسنات الا انت ولا یرفع السیات الا انت ولا حول قوۃ الا بک “۔ (ابو داؤد ، سنن کبری بیہقی عن عروۃ بن عامر القرشی)

28584

28584- "أصدق الطيرة الفأل، ولا ترد مسلما، وإذا رأيتم من الطيرة شيئا تكرهونه فقولوا: اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يذهب بالسيئات إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بالله". ابن السني عن عقبة بن عامر.
28584 ۔۔۔ سجا شگون فال نیک ہے اور یہ شگون مسلمان کو نہیں روکتا اور جب تم شگون میں سے کوئی چیز ناپسندیدہ دیکھو تو کہو : اللہم لا یاتی بالحسنات الا انت ولا یذھب بالسیات الا انت ولا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ (ابن السنی عن عقبۃ بن عامر القرشی ضعیف الجامع 99)

28585

28585- "كان أهل الجاهلية يقولون: إنما الطيرة في المرأة والدابة والدار". "ك، هق" عن عائشة.
28585 ۔۔۔ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے کہ نحوست تو عورت اور سواری کے جانور اور گھر میں ہے۔ (مستدرک سنن کبری بیہقی عن عائشۃ صدیقۃ (رض))

28586

28586- "لا شؤم وقد يكون اليمن في الدار والمرأة والفرس". "ت، هـ" عن حكيم بن معاوية.
28586 ۔۔۔ نحوست کچھ نہیں ہے اور بعض اوقات برکت گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔ (ترمذی ابن ماجہ عن حکیم بن معاویۃ)

28587

28587- "لا شيء في الهام، والعين حق وأصدق الطيرة الفأل". "حم، ت" عن حابس.
28587 ۔۔۔ الو میں کچھ نہیں ہے اور نظر حق ہے اور سچی شگون خوش فالی ہے۔ (احمد ، ترمذی عن حابس ، ضعیف الترمذی 385 ضعیف الجامع 6295)

28588

28588- "لا هامة ولا عدوى ولا طيرة وإن تكن الطيرة في شيء ففي الفرس والمرأة والدار". "حم، د" عن سعد بن مالك.
28588: الو ( کی شکل میں کوئی روح) بیماری کا متعدی ہونا اور بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھوڑا، عورت اور گھر میں ہوتی۔ احمد، ابو داؤد عن سعد بن مالک۔

28589

28589- "الشؤم في ثلاث: في المرأة والمسكن والدابة". "ت، ن" عن ابن عمر.
28589 ۔۔۔ نحوست تین چیزوں میں ہے عورت میں اور رہائش گاہ میں اور سواری کے جانور میں ۔ (ترمذی نسائی ، عن ابن عمرو (رض) ، ضعیف الترمذی 534)

28590

28590- "لا طيرة وخيرها الفأل الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم". "حم، م" عن أبي هريرة.
28590 ۔۔۔ شگون کچھ نہیں اور اس میں کا بہتر فال ہے (یعنی) وہ بہترین کلمہ جو تم میں سے کوئی سنے ۔ (احمد ، مسلم ، عن ابو ہریرہ (رض))

28591

28591- " خير الطيرة الفأل والعين حق". الديلمي - عن أبي هريرة.
28591 ۔۔۔ شگونوں میں سے بہتر فال ہے اور نظر حق ہے۔ (دیلمی ، عن ابو ہریرہ (رض))

28592

28592- "لا طيرة وخيرها الفأل قيل: يا رسول الله وما الفأل؟ قال: الكلمة الصالحة يسمعها أحدكم". "حم، م" عن أبي هريرة.
28592 ۔۔۔ نہیں کوئی نحس (بدشگون) اور اس میں کی بہتر ہے عرض کیا گیا اور کیا ہے فال اے اللہ کے رسول، فرمایا اچھی بات درآنحالیکہ اس کو تم میں کا کوئی فرد سنے ۔ (احمد مسلم ، عن ابو ہریرہ (رض))

28593

28593- "نعم الشيء الفأل الكلمة الحسنة يسمعها أحدكم". الديلمي - عن أبي هريرة.
28593 ۔۔۔ خوب شے ہے فال (یعنی) وہ بہتر کلمہ جس کو تم میں کوئی فرد سنے ۔ (دیلمی ، عن ابو ہریرہ (رض))

28594

28594- "يا لبيك نحن أخذنا فألك من فيك اخرجوا بنا إلى خضرة". "طب"، أبو نعيم في الطب، عن كثير بن عبد الله المزني عن أبيه عن جده.
28594 ۔۔۔ اے فلاں ! ہم موجود ہیں تیرے استقبال کو ہم نے تیری فال تیر سے منہ سے لی ، لے چلو ہمیں ہریالی کی طرف۔ (طبرانی ، ابو نعیم فی الطب عن کثیر بن عبداللہ لمزنی عن ابیہ عن جدہ الشذرۃ 38)

28595

28595- "لا عدوى ولا هامة ولا طيرة وأحب الفأل الصالح". "م" عن أبي هريرة.
28595 ۔۔۔ نہیں کوئی تعدیہ اور نہیں الو (کی شکل میں کوئی روح) اور نہ بدشگونی اور محبوب رکھتا ہوں میں نیک فال کو ۔ (مسلم ، عن ابو ہریرہ (رض))

28596

28596- "لا عدوى ولا طيرة، وإنما الشؤم في ثلاث: في الفرس والمرأة والدار. "حم، ق" عن ابن عمر.
28596 ۔۔۔ نہیں کوئی تعدیہ مرض اور نہ بدشگون اور بس نحوست تین چیزوں میں ہے : گھوڑے میں ، عورت میں اور گھر میں ۔ (احمد ، بخاری و مسلم عن ابن عمرو (رض))

28597

28597- "لا عدوى ولا طيرة ويعجبني الفأل الصالح، والفأل الصالح: الكلمة الحسنة". "حم، ق د، ت، هـ" عن أنس.
28597 ۔۔۔ نہیں ہے کچھ چھوت اور نہ شگون اور پسند ہے مجھے فال نیک اور فال نیک اچھا کلمہ ہے۔ (احمد بخاری ، مسلم ابو داؤد ترمذی ، ابن ماجہ عن انس (رض))

28598

28598- "لا عدوى ولا هامة ولا نوء ولا صفر". "د" عن أبي هريرة.
28598 ۔۔۔ نہیں چھوت اور نہ ھامہ (الو اور نہ ہی مشرق میں مقابل کے طلوع کے ساتھ مغربی تارہ کا غروب دخل انداز ہے (بارش میں) ۔ (ابو داؤد ، عن ابو ہریرہ (رض))

28599

28599- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة قيل: يا رسول الله أرأيت البعير يكون به الجرب فيجرب الإبل كلها؟ قال: ذلكم القدر فمن أجرب الأول. "حم، هـ" عن ابن عمر.
28599 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ نحس ہے اور نہ کوئی روح الو کی شکل میں ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! خیال فرمائیے کہ ایک اونٹ جس کو خارچ ہو تمام اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے ، فرمایا یہ فیصلہ الہی ہے بھلا پہلے کو کس نے خارش زدہ کیا ۔ (احمد ابن ماجہ عن ابن عمرو (رض))

28600

28600- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر وفر من المجذوم كما تفر من الأسد". "حم، خ" عن أبي هريرة.
28600 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے نہ بدشگون ہے اور نہ الو (کی شکل میں کوئی پیاسی روح ہے اور نہ کوئی اصفر ہے اور جذام والے سے تو ایسے بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگے ۔ (صفر کیا ہے ؟ ) اس میں مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفی فرمائی ۔

28601

28601- "لا يعدي شيء شيئا فمن أجرب الأول لا عدوى ولا صفر خلق الله كل نفس فكتب حياتها ورزقها ومصائبها". "حم، ن" عن ابن مسعود.
28601 ۔۔۔ کوئی چیز دوسری چیز کو تعدیہ نہیں کرتی (اگر یہ بات ہے تو) پھر اول کو کس نے لگائی کوئی چھوت چھات نہیں ہے اور نہ صفر کچھ ہے اللہ نے پیدا کیا ہے ہر نفس کو پھر اس کی حیات لکھی اور اس کا رزق اور مصائب لکھے ۔ (احمد نسائی ، عن ابن مسعود (رض))

28602

28602- "لا يوردن ممرض على مصح". "حم، ق د، هـ" عن أبي هريرة.
28602 ۔۔۔ بیمار ریوڑ والا ہرگز نہ لائے (اپنے ریوڑ کو) تندرست ریوڑ والے کے پاس ۔ (احمد ، بخاری مسلم ابو داؤد ابن ماجہ عن ابو ہریرہ (رض))

28603

28603- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر ولا غول ". "حم، م" عن جابر.
28603 ۔۔۔ نہ کوئی چھوت چھات ہے اور نہ بدشگون ہے اور نہ (کسی مقتول میت کی روح یا ڈھانچہ بشکل الو کا وجود ہے۔ (جو طلب انتقام کے لیے بھٹکتی پھر رہی ہو) اور نہ صفر ہے اور نہ غول بیابانی ہے۔

28604

28604- "لا عدوى ولا صفر ولا هامة". "حم، ق، د، هـ" عن أبي هريرة؛ "حم، م" عن السائب بن يزيد.
28604 ۔۔۔ نہ کوئی چھوت چھات ہے اور صفر ہے اور نہ مقتول بےانتقام کی (یا نہ الو ہے جو کسی روح کا قالب ہو ۔ (احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، ، عن ابو ہریرہ (رض) احمد ، مسلم عن السائب بن یزید (رض))

28605

28605- "فمن أعدى الأول". "ق، د" عن أبي هريرة.
28605 ۔۔۔ سوا دل کو کس نے مرض لگایا ؟ بخاری مسلم ابو داؤد ، عن ابو ہریرہ (رض))

28606

28606- "لا غول". "د" عن أبي هريرة.
28606 ۔۔۔ بیایان کے بھوت کا کوئی وجود نہیں ۔ (ابو داؤد ، عن ابو ہریرہ (رض))

28607

28607- "لا صفر، ولا هامة، ولا يعدي سقيم صحيحا". القاضي محمد بن الباقي الأنصاري في جزء من حديثه عن شيوخه - عن علي.
28607 ۔۔۔ نہ صفر ہے اور نہ مقتول بےانتقام کا سر کوئی کچھ ہے اور نہ کوئی بیمار کسی تندرست کو مرض لگاتا ہے (قاضی محمد بن باقی انصاری نے اپنے شیوخ سے روایت کردہ احادیث کے ایک جزء میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت کیا)

28608

28608- "لا صفر، ولا هامة، ولا عدوى، ولا يتم شهران ستين يوما، ومن خفر ذمة الله لم يرح ريح الجنة". "طب" وابن عساكر - عن عبد الرحمن بن أبي عميرة المزني.
28608 ۔۔۔ نہ صفر ہے اور نہ مقتول کی روح بشکل الو ہے اور نہ چھوت چھات ہے اور نہیں پورے ہوتے دو مہینے ساٹھ دن کے اور جس نے اللہ کے ذمہ کو توڑا نہیں سونگھ سکے گا جنت کی خوشبو۔ (طبرانی ابن عساکر ، عن عبدالرحمن بن ابی عمیرۃ المزنی)

28609

28609- "لا عدوى"."طب" عن ابن عباس.
28609 ۔۔۔ کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ (طبرانی عن ابن عباس (رض))

28610

28610- " لا عدوى، ولا صفر ولا هامة ولا يتم شهران ستين يوما ومن خفر بذمة الله لم يرح رائحة الجنة". "طب" عن أبي أمامة.
28610 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ صفر ہے اور نہ ہامہ (مقتول کی روح) ہے اور دو مہینے ساٹھ دن کے پورے نہیں ہوتے اور جس نے اللہ کے ذمہ کو توڑا اور جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا ۔ (طبرانی کبیر عن ابی امامۃ (رض))

28611

28611- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة إن تكن الطيرة في شيء فهو في المرأة والفرس والدار، فإذا سمعتم بالطاعون بالأرض فلا تهبطوا عليه، وإن وقع وأنتم بها فلا تفروا منه. ابن خزيمة والطحاوي، "حب" عن سعد بن أبي وقاص.
28611 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ بدشگونی ہے اور نہ ہامہ (مقتول کی روح ہے) اگر نحوست کسی چیز میں ہے تو وہ عورت میں اور گھوڑے میں اور گھر میں ہے پس جب تم کسی زمین میں طاعون کا سنو تو اس میں جا کر نہ ٹھہرو اور اگر وہ واقع ہوجائے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے نہ بھاگو۔ (ابن خزیمۃ طحاوی ، ابن حبان عن سعد بن ابی وقاص (رض))

28612

28612- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة، ألم تروا إلى البعير يكون في الصحراء فيصبح وفي كركرته أو في مراق بطنه نكتة من جرب لم تكن قبل ذلك فمن أعدى الأول". الشيرازي في الألقاب، "طب، حل، ك" عن عمير بن سعد الأنصاري، وماله غيره.
28612 ۔۔۔ نہ کوئی چھوت چھات ہے اور نہ نحوست ہے اور نہ ہامہ (مقتول کی بھٹکتی روح) کا وجود ہے کیا تم نے نہیں دیکھا اونٹ کو کہ صحراء میں رہتا ہے ، پس وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے سینے کے نیچے والے حصہ میں جو زمین سے ٹکتا ہے) اس اس کے پیٹ کے چپکے ہوئے حصہ میں خارش کا ایک چھوٹا سا نشان ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے نہ تھا پس (اس) پہلے اونٹ کو کس نے مرض منتقل کیا ۔ (شیرازی فی الالقاب ، طبرانی کبیر حلیہ ابی نعیم مستدرک حاکم بروایت عمیر بن سعد انصاری (رض))

28613

28613- "لا عدوى ولا هامة ولا صفر خلق الله كل نفس فكتب حياتها وموتها ومصيباتها ورزقها". "حم" والخطيب - عن أبي هريرة.
28613 ۔۔۔ نہ کوئی چھوت کی بیماری ہے اور نہ ہام ہے اور نہ صفر ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا پھر اس کی حیات لکھی اور اس کی موت لکھی اور اس کی مصبیتیں اور روزی لکھی ۔ مسند احمد ، و خطیب، عن ابوہریرہ ۔

28614

28614- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر، فمن أعدى الأول". "حم، هـ، طب" عن ابن عباس.
28614 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ بدشگون ہے اور نہ ہامہ (مقتول کی بھٹکتی روح) ہے اور نہ صفر ہے پس اول فرد کو کس نے مرض لگایا۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ ، طبرانی ، کبیر بروایت عن ابن عباس (رض))

28615

28615- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة قيل: يا رسول الله أرأيت البعير يكون به الجرب فيجرب الإبل كلها؟ قال ذلكم القدر فمن أجرب الأول". "حم، هـ" عن ابن عمر.
28615 ۔۔۔ نہ چھوت چھات والی بیماری ہے اور نہ بدشگون ہے اور نہ ہامہ ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! خیال فرمائیے ایک ایسا اونٹ ہے جس کو خارش ہے پس وہ تمام اونٹوں کو خارشی بنا دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ فیصلہ الہی ہے پس پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ ، بروایت عن ابن عمرو (رض))

28616

28616- "لا عدوى ولا هامة ولا صفر ولا يحل الممرض على المصح وليحل المصح حيث شاء قيل: ولم ذاك؟ قال: لأنه أذى". "ق" عن أبي هريرة.
28616 ۔۔۔ نہیں کوئی بیماری چھوت والی اور نہ ہامہ (یعنی پرندہ کی شکل میں طلب انتقام کے لیے رات کو بھٹکنے والی روح) اور نہ صفر (پیٹ کا کیڑا جو بھوک میں ڈستا ہے یا ماہ صفر باعتبار آفات وبلیات) اور چاہیے کہ نہ اترے کوئی بیماری جانوروں کے ریوڑ والا تندرست جانوروں کے ریوڑ والے کے پاس ۔ اور تندرست ریوڑ والا جہاں چاہے پڑاؤ کرے ۔ عرض کیا گیا اور یہ کس وجہ سے فرمایا اس لیے کہ یہ (امر) باعث تکلیف (دیگراں ہے) بیہقی بروایت ابوہریرہ )

28617

28617- "لا عدوى ولا هامة ولا صفر واتقوا المجذوم كما تتقوا الأسود". "ق" عن أبي هريرة.
28617 ۔۔۔ نہیں کوئی اڑ کر لگنے والی بیماری اور نہ کسی مقتول کی روح (جو آکر انتقام مانگے) اور نہ صفر اور پرہیز کرو جذامی سے ایسے جیسے کہ پرہیز کرتے ہو تم شیروں سے ۔ (بیہقی بروایت ، عن ابو ہریرہ (رض))

28618

28618- "لا عدوى ولا طيرة ويعجبني الفأل". "قط" في المتفق - عنه.
28618 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ ہامہ (روح مقتول ہے) بدشگون ہے اور پسند ہے مجھ کو فال۔ (دارقطنی (فی المتفق) بروایت ، عن ابو ہریرہ (رض))

28619

28619- "لا عدوى ولا هامة ولا غول ولا صفر". ابن جرير - عنه.
28619 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ ہامہ (روح مقتول) ہے اور نہ بیابانی بھوت ہے اور نہ صفر کچھ ہے۔ (ابن جریر بروایت ، عن ابو ہریرہ (رض))

28620

28620- "لا عدوى ولا طائر". ابن جرير - عنه.
28620 ۔۔۔ نہ تعدیہ مرض ہے اور نہ نحوست ہے۔

28621

28621- "لا عدوى ولا طير". ابن جرير عنه.
28621 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ نحوست ہے۔ (ابن جریر بروایت ، عن ابو ہریرہ (رض))

28622

28622- "لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، وخير الطير الفأل والعين حق". ابن جرير - عنه.
28622 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ نحوست ہے اور نہ کسی مقتول کی بھٹکتی روح کا پرندہ ہے اور بہترین شگون فال ہے۔ (اور نظر برحق ہے) ۔ (ابن جریر بروایت سعد (رض))

28623

28623- "لا عدوى ولا طيرة ولا هامة". ابن جرير- عن سعد.
28623 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور بدشگون ہے اور نہ کسی مقتول کی بھٹکتی روح ہے۔ (ابن جریر بروایت سعد (رض))

28624

28624- "لا عدوى ولا طيرة فمن أعدى الأول". ابن جرير - عن أبي أمامة.
28624 ۔۔۔ نہ چھوت چھات ہے اور نہ شگون بد ہے بھلااول کو کس نے مرض لگایا ۔ (ابن جریر بروایت ابو امامہ (رض))

28625

28625- "لا عدوى ولا طيرة {وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ} . ابن جرير - عن جابر.
25 286 ۔۔۔ نہ اڑ کر لگنے والی بیماری ہے اور نہ بدشگون ہے اور ” وکل انسان الزمناہ طائرہ فی عنقہ “۔ اور ہر آدمی کے لگا دی ہے ہم نجے اس کی بری قسمت اس کی گردن سے ۔ (سورة بنی اسرائیل آیت 13)

28626

28626- عن النعمان بن رازية أنه قال: يا رسول الله إنا كنا نعتاف في الجاهلية وقد جاء الله بالإسلام فماذا تأمرنا يا رسول الله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نفى الإسلام صدقها ولكن لا يمتنعن أحدكم من سفر. "كر" عن أبي سلمة
28626 ۔۔۔ نعمان بن رازیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم زمانہ جاہلیت میں پرندے اڑا کر فال معلوم کرنے کا مشغلہ رکھتے تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے اسلام عطا فرمایا ہے پس آپ ہمیں اے اللہ کے رسول کیا حکم فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اسلام نے اس کی صداقت (واقعیت) کی نفی کی اور لیکن تم میں سے کوئی ہرگز سفر سے نہ رکے ۔ (ابن عساکر بروایت ابی سلمہ (رض))

28627

28627- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا صفر ولا طيرة ولا هامة فقال الأعرابي: يا رسول الله فما بال الإبل تكون في الرمل كأنها الظباء فيجيء البعير الأجرب فيدخل فيها فيجربها كلها؟ قال: فمن أعدي الأول. "خ، م، د" وابن جرير.
28627 ۔۔۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مروی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نہ بیماری کا اڑ کر لگنا ہے اور نہ صفر ہے اور نہ بدشگونی ہے اور نہ کسی مقتول کی پرندہ کے قالب میں انتقام کے لیے بھٹکنے والی روح ہے پس ایک اعرابی نے کہا اے اللہ کے رسول ! پس کیا شان ہے اونٹوں کی کہ ہوتے ہیں بیابان میں ایسے جیسے کہ ہرن پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے اور ان میں داخل ہوتا ہے پس ان سب کو خارشی کردیتا ہے ارشاد فرمایا بھلا اول کو کس نے یہ مرض لگایا ۔ (بخاری مسلم ، ابو داؤد ، ابن جریر)

28628

28628- عن ابن شهاب أن أبا سلمة حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا عدوى" ويحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا يورد ممرض على مصح" فقال أبو سلمة كان أبو هريرة يحدثهما كليهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صمت بعد ذلك عن قوله لا عدوى وأقام على قوله لا يورد ممرض على مصح. ابن جرير.
28628 ۔۔۔ ابن شہاب سے مروی ہے کہ بیشک ابو سلمہ نے انھیں بیان کیا کہ تحقیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لاعدوی (مرض سے مرض پیدا ہونا کچھ نہیں) اور وہ (ابوسلم (رض)) بیان کرتے ہیں بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیمار موشیوں والا (اپنے مویشیوں کو) تندرست مویشیوں والے کے پاس نہ لائے اور ابو سلمہ نے (ابن شہاب کو) کہا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) یہ دونوں باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرکے بیان کرتے تھے پھر اس کے بعد اپنے قول لا عدوی کی روایت سے خاموش ہوگئے اور قائم رہے اپنے قول لا یورد ممرض علی مصح پر ۔ یعنی پہلی روایت کو بیان کرنا چھوڑ دیا اور دوسری کی روایت کو بیان کرنا باقی رکھا ۔

28629

28629- عن أبي هريرة قال: جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله النقبة تكون بمشفر البعير أو بعجبه فتشمل الإبل كلها جربا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فما أعدى الأول لا عدوى ولا هامة ولا صفر خلق الله كل نفس فكتب حياتها ومصيباتها ورزقها. ابن جرير.
28629 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! خارش کا نشان اونٹ کے موٹے ہونٹ میں ہوتا ہے یا اس کی دم کی جڑ میں ہوتا ہے ، پھر وہ تمام اونٹوں میں کھجلی پھیلا دیتا ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پہلے کو کس نے لگایا ؟ نہ چھوت چھات ہے اور نہ کسی مقتول کی بھٹکتی روح ہے اور نہ صفر ہے اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا پھر اس کی زندگی لکھی اور اس کو پیش آنے والی مصبیتیں لکھیں اور اس کی روزی لکھی ۔ (رواہ ابن جریر) یہ مضمون بخاری شریف میں بھی ہے وہاں یہ بھی ہے کہ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ اس حدیث کے سوا کسی حدیث میں نسیان کا شکار ہوتے ہوں ۔

28630

28630- عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا طيرة ولا هامة ولا عدوى ولا صفر فقال رجل: يا رسول الله أليس البعير يكون به الجرب فيكون في الإبل فيعديها؟ أفرأيت الأول من أعداه"، وفي لفظ: قال فمن أجرب الأول. ابن جرير.
28630 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نہ کوئی بدشگونی ہے اور نہ کسی مقتول کی بھٹکتی روح ہے اور نہ بدشگونی ہے اور نہ صفر ہے پس ایک شخص بولا اے اللہ کے رسول ! کیا کوئی اونٹ ایسا نہیں کہ اس کو خارش ہوتی ہے پھر وہ دوسرے اونٹوں میں رہتا ہے اور انھیں بھی مرض لگا دیتا ہے۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا) کیا تو نے خیال کیا کہ اول کو کس نے مرض لگایا ؟ اور ایک عبارت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بھلا پہلے کو کس نے خارش لگائی ؟ (رواہ ابن جریر)

28631

28631- عن ابن مليكة قال: قلت لابن عباس: كيف ترى في جارية لي في نفسي منها شيء فإني سمعتهم يقولون: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " إن كان شيء ففي الربع والفرس والمرأة"، قال: فأنكر أن يكون سمع ذلك من النبي صلى الله عليه وسلم أشد النكرة، وفي رواية: فأنكر أن يكون رسول الله صلى الله عليه وسلم قاله وأن يكون الشؤم في شيء وقال: إذا وقع في نفسك منها شيء ففارقها أو بعها أو أعتقها. ابن جرير.
28631 ۔۔۔ ابن ابی ملیکہ (رض) سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے عرض کیا ، کیا رائے رکھتے ہیں آپ میری اس لونڈی کے متعلق جس کی طرف سے میرے دل میں کچھ بات ہے ؟ اس لیے کہ میں نے لوگوں (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین وتابعین (رض)) سے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر کچھ (نحوست) ہے تو وہ گھر میں ہے اور گھوڑے میں ہے اور عورت میں ہے۔ ابن ابی ملیکہ (رح) کہتے ہیں کہ انھوں نے اس بات کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سننے کا سختی سے انکار کیا ، اور ایک روایت میں یہ ہے کہ ابن عباس (رض) نے اس احتمال کا انکار کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی ہو اور اس بات کا بھی کہ نحوست کس چیز میں ہو اور فرمایا کہ جب تیری طبیعت میں اس کی طرف سے کچھ (خلجان) بیٹھ گیا ہے تو اس سے جدائی اختیار کر دے یا اس کو فروخت کر دے یا اس کو آزاد کر دے ۔ (رواہ ابن جریر)

28632

28632- عن قتادة عن أبي حسان أن رجلين دخلا على عائشة فحدثاها أن أبا هريرة قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "الطيرة في المرأة والفرس والدار" فغضبت غضبا شديدا وطارت سعة في الأرض وسعة في السماء وقالت: ما قاله، إنما قال: "كان أهل الجاهلية يتطيرون من ذلك". ابن جرير.
28632 ۔۔۔ قتادہ ابو حسان سے روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی اماں عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس داخل ہوئے اور آپ کو بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ نحوست عورت میں ہے اور گھوڑے میں ہے اور گھر میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سخت غصہ ہوئیں اور طیش میں آپ کو (گویا کہ) بھونچال آگیا ۔ فرمانے لگیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات نہیں فرمائی ، بس یہ فرمایا ہے کہ اہل جاہلیت اس سے بدشگونی لیتے تھے ۔ (رواہ ابن جریر)

28633

28633- عن أبي حسان قال: قيل لعائشة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "الطيرة في المرأة والفرس والدار" فقالت: ما قاله إنما قال: "كان أهل الجاهلية يتطيرون من ذلك". ابن جرير.
28633 ۔۔۔ ابو حسان (رح) سے روایت ہے کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) سے کہا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نحوست عورت اور گھوڑے اور گھر میں ہے اس پر آپ کہنے لگیں ، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا بس یہ فرمایا کہ اھل جاہلیت اس سے بدشگونی لیتے تھے ۔ (رواہ ابن جریر)

28634

28634- عن ابن عمر أن امرأة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله سكنا دارا ونحن ذو وفر فأحتجنا وساءت ذات بيننا واختلفنا فقال: بيعوها أو ذروها وهي ذميمة. ابن جرير.
28634 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی اے اللہ کے رسول ! ہم نے ایک گھر میں سکونت اختیار کی اور اس وقت ہم (تمام انواع میں) کثرت وفراوانی والے تھے پس ہم احتیاج میں آگئے اور ہمارے آپس میں تعلقات خراب ہوگئے اور ہم میں اختلاف ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس کو فروخت کر دو یا اس کو بحالت مذمومیت چھوڑ دو ۔ (رواہ ابن جریر)

28635

28635- عن عبد الرحمن بن أبي عميرة قال: خمس حفظتهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا صفر ولا هامة ولا عدوى ولا يتم شهران ستين يوما ومن خفر ذمة الله لم يرح ريح الجنة". "كر".
28635 ۔۔۔ عبدالرحمن بن ابی عمیرہ (رض) سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے پانچ چیزیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محفوظ کی ہیں (یاد کی ہیں) آپ نے ارشاد فرمایا ۔ نہیں ہے صفر اور ھامہ (کسی مقتول کی انتقام کی خاطر بھٹکتی روح) اور نہ اڑ کر لگنے والی بیماری اور (یہ کہ) نہیں پورے ہوتے دو مہینے ساٹھ دن کے اور جس نے توڑا اللہ کے ذمہ کو اور نہیں سونگھ سکے گا جنت کی خوشبو ۔ (رواہ ابن عساکر)

28636

28636- "مسند علي رضي الله عنه" عن ثعلبة بن يزيد الحماني قال: سمعت عليا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا صفر ولا هامة ولا يعدي سقيم صحيحا" قلت: أنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم سمعت أذني وبصرت عيني. ابن جرير وصححه.
28636 ۔۔۔ مسند علی (رض) ، ثعلبہ بن یزید حمانی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نہ تو صفر ہے اور نہ ھامہ (کسی مقتول کی روح جو الو یا کسی اور پرندہ کی شبیہ کی شکل میں طلب انتقام کی خاطر آتی ہو) اور مرض نہیں لگاتا کوئی مریض کسی تندرست کو میں نے کہا ! کیا آپ نے سنا اس کلام کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ؟ فرمایا ہاں ! سنا میرے کان نے اور دیکھا میری آنکھ نے ۔ (رواہ ابن جریر)

28637

28637- "أيضا" عن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن كانت الطيرة شيئا، وفي لفظ: إن يكن التطير، وفي لفظ: إن يكون الطير في شيء فهو في المرأة والفرس"، وفي لفظ: والدابة والدار. ابن جرير.
28637 ۔۔۔ مزید ۔ حضرت سعد (رض) سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر کچھ ہے یا کسی چیز میں ہے تو وہ عورت میں ہے اور گھوڑے میں ہے اور گھر میں ہے۔ (رواہ ابن جریر)

28638

28638- عن سهل بن سعد قال: ذكر الشؤم عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "إن كان في شيء ففي المرأة وفي المسكن والفرس". ابن جرير.
28638 ۔۔۔ سہل بن سعد (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے منحوسیت کا ذکر کیا گیا ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اگر وہ کسی چیز میں ہے تو عورت میں اور رہائش گاہ میں اور گھوڑے میں ہے۔ (رواہ ابن جریر)

28639

28639- عن أبي حازم قال: ذكر الشؤم عند سهل بن سعد فقال: كنا نقول: إن كان شيء ففي المرأة والمسكن والفرس. ابن جرير.
28639 ۔۔۔ ابو حازم سے مروی ہے کہ سہل بن سعد (رض) کے سامنے منحوسیت کا ذکر ہوا تو انھوں نے کہا کہ ہم کہتے تھے اگر کچھ ہے (یعنی نحوست کا کچھ حصہ ہے) تو وہ عورت میں اور رہائش گاہ میں اور گھوڑے میں ہے۔ (رواہ ابن جریر)

28640

28640- عن أنس قال: قال رجل: يا نبي الله إنا كنا في الدار كثير فيها عددنا وكثير فيها أموالنا فتحولنا إلى دار أخرى فقل فيها عددنا وقلت فيها أموالنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوها أو ذروها وهي ذميمة". "د ابن جرير، "هق".
28640 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اے اللہ کے نبی بیشک ہم ایک دار میں مقیم تھے اس میں ہماری تعداد بہت تھی اور اس میں ہمارے اموال بکثرت تھے پس ہم ایک دوسرے دار کی طرف منتقل ہوئے تو وہاں ہماری تعداد گھٹ گئی اور وہاں ہمارے اموال کم ہوگئے پس اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھوڑ دو اس کو (دعوھا فرمایا یا ذروھا فرمایا ، معنی ایک ہے) بحالت مذمومیت۔

46253

46241- "أفضل الهجرتين الباتة، والهجرة الباتة أن تثبت مع رسول لله صلى الله عليه وسلم، والهجرة البادية أن ترجع إلى باديتك، وعليك السمع والطاعة في عسرك ويسرك ومكرهك ومنشطك وأثرة عليك. "طب - عن واثلة".
46241 سب سے افضل ہجرت ہجرت باتہ ہے اور ہجرت باتہ یہ ہے کہ تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ثابت قدم رہو اور ہجرت بادیہ یہ ہے کہ تم اپنے بادیہ (گاؤں دیہات) کی طرف واپس لوٹ جاؤ تمہیں ہر حال میں اطاعت و فرمان برداری کرنی چاہیے خواہ تم تنگدستی میں ہو یا آسائش میں کسی کے دباؤ تلے ہو یا کشائش میں، ہر حال میں فرمان برداری تمہارے اوپر واجب ہے۔ رواہ الطبرانی عن واثلۃ

46254

46242- إن الله تعالى أوحى إلي: أي هذه الثلاثة نزلت فهي دار هجرتك: المدينة، أو البحرين، أو قنسرين. "ت، ك - عن جرير".
46242 اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی نازل کی ان تین جگہوں میں سے جس جگہ بھی تم اترو گے وہی تمہارا ادرا ہجرت ہوگا۔ وہ یہ ہیں مدینہ منورہ، بحرین اور قسرین۔ رواہ الترمذی والحاکم عن جریر

46255

46243 -" ذهب أهل الهجرة بما فيها. " طب، كر - عن مجاشع ابن مسعود".
46243 اہل ہجرت ہجرت کی برکات اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔۔ رواہ الطبرانی وابن عساکر عن مجاشع بن مسعود

46256

46244- "لكم أنتم أهل السفينة هجرتان. " ق - عن أبي موسى".
46244 اے کشتی والوں تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔ رواہ البخاری ومسلم عن ابی موسیٰ

46257

46245- "الهجرة هجرتان: هجرة الحاضر وهجرة البادي، أما البادي فيجيب إذا دعى ويطيع إذا أمر؛ وأما الحاضر فهو أعظمها بلية وأعظمها أجرا. " ن - عن ابن عمر".
46245 ہجرت کی دو قسمیں ہیں : (1) شہری کی ہجرت (2) دیہاتی کی ہجرت۔ دیہاتی کی ہجرت یہ ہے کہ جب اسے دعوت دی جائے تو وہ دعوت قبول کرلے۔ اور جب اسے حکم دیا جائے وہ اطاعت کرے شہری ہجرت آزمائشوں سے بھر پور ہے اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہے۔۔ رواہ النسائی عن ابن عمر

46258

46246- "ويحك! إن شأن الهجرة لشديد، فهي لك من إبل تؤدي صدقتها؟ فاعمل من وراء البحار فإن الله لن يترك من عملك شيئا. " حم، ق، د، ن - عن أبي سعيد.
46246 تمہارا ناس ہو ، ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے کیا تیرے پاس اونٹ ہیں جن کا توصدقہ دیتا ہے عرض کیا جی ہاں تم دیہاتوں کے ماوراء بھی عمل کرو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ رواہ احمد بن حنبل والبخاری ومسلم وابوداؤد والنسائی عن ابی سعید

46259

46247- "أريت دار هجرتكم سبخة بين ظهراني حرة، فاما أن يكون هجر أو تكون يثرب. " طب، ك - عن صهيب".
46247 مجھے تمہارا دار ہجرت دکھا دیا گیا ہے جو سیاہ پتھریلی زمین کے درمیان شور زمین تھی یا وہ ” ھجر “ ہے یایثرب۔ رواہ الطبرانی والحاکم عن صھیب ۔ کلام : حدیث ضعیف ہے دیکھئے ضعیف الجامع 790

46260

46248- "لن تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار. " حم، ن، حب - عن عبد الله بن وقدان السعدي".
46248 جب تک کفار کے ساتھ جنگ جاری رہے گی تب تک ہجرت ختم نہیں ہوگی۔۔ رواہ احمد بن حنبل والنسائی وابن حبان عن عبداللہ بن وقد ان السعدی

46261

46249- "لا تنقطع الهجرة حتى تنقطع التوبة، ولا تنقطع التوبة حتى تطلع الشمس من مغربها. " م، د - عن معاوية".
46249 ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک توبہ کا دروازہ نہ بند ہوجائے اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔۔ رواہ مسلم وابوداؤد عن معاویۃ

46262

46250- "لا هجرة بعد الفتح، ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا. " م 1 - عن عائشة؛ حم، ن - عن صفوان بن أمية؛ حم، ت، ن - عن ابن عباس".
46250 فتح کے بعد ہجرت نہیں رہی : لیکن جہاد اور خلوص نیت (ہجرت کا قائم مقام) ہے اور جب تم سے جہاد میں نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو جہاد کے لیے نکگو۔ رواہ مسلم عن عائشۃ واحمد بن حنبل والنسائی عن صفوان بن امیۃ واحمد بن حنبل والنسائی والترمذی عن ابن عباس

46263

46251- "لا هجرة بعد فتح مكة. " خ - عن مجاشع بن مسعود".
46251 فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ رواہ البخاری عن مجاشع بن مسعود

46264

46252- "لا هجرة، ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، فإن هذا بلد حرمه الله يوم خلق السماوات والأرض، وهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لأحد قبلي ولم يحل إلا ساعة من نهار فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يعضد شوكه ولا ينفر صيده، ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها، ولا يختلى خلاها إلا الإذخر. " حم، ق، د، ن - عن ابن عباس.
46252 ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد ہے اور خلوص نیت ہے جب تم سے جہاد میں نکلنے کا مطالبہ کیا جائے تو جہاد کے لیے نکلو۔ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس دن سے اس شہر (مکہ مکرمہ) کو حرمت والا قرار دیا ہے۔ اس شہر میں مجھ سے قبل جنگ حلال نہیں ہوئی اور اب میرے لیے دن کے کچھ وقت کے لیے حلال کی گئی ہے اس شہر میں تاقیامت جنگ حرام ہے۔ اس شہر کے کانٹے بھی نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس کے شکار کو بھگایا جائے اور نہ ہی اس شہر میں گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے البتہ وہ شخص اسے اٹھاسکتا ہے جو اسے پہچانتا ہو۔ اور سوائے اذخرگھاس کی کوئی اور گھاس نہ کاٹی جائے۔ رواہ احمد بن حنبل والبخاری ومسلم وابوداؤد والنسائی عن ابن عباس

46265

46253- "لا يقبل الله من مشرك أشرك بعد ما أسلم عملا حتى يفارق المشركين إلى المسلمين. " هـ - عن معاوية بن حيدة".
46253 جو شخص اسلام لانے کے بعد شرک کرے اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ وہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان فرق نہ کردے۔ رواہ ماجہ عن معاویہ بن حیدۃ

46266

46254- "ارجع أبا وهب إلى أباطح مكة فقروا عن سكنتكم، فقد انقطعت الهجرة ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا. " ق - عن ابن عباس".
46254 اے ابو وہب ! بطحاء مکہ کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور اپنے گھروں میں ٹھہرے رہو چونکہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ لیکن جہاد اور خلوص نیت باقی ہے۔ جب تم سے جہاد میں نکلے کا مطالبہ کیا جائے تو جہاد کے لیے نکلو۔ رواہ البخاری ومسلم

46267

46255- "أزمعت بذاك يا عثمان! فليكن وجهك إلى الرجل بالحبشة - يعني النجاشي، فإنه ذو وفاء، واحمل معك رقية فلا تخلفها، ومن رأى معك من المسلمين مثل رأيك فليتوجهوا هناك وليحملوا معهم نساءهم ولا يخلفوهم. " ابن منده، كر - عن أسماء بنت أبي بكر".
46255 اے عثمان ! میں نے اسی کا پختہ ارادہ کررکھا ہے تم اپنا رخ حبشہ کے عظیم شخص یعنی نجاشی کی طرف کرو۔ چونکہ وہ بڑا وفادارت شخص ہے اپنے ساتھ رقیہ کو بھی لیتے جاؤ اسے اپنے پیچھے مت چھوڑ کر جاؤ اور مسلمانوں میں سے جو لوگ تمہاری طرح کی رائے رکھتے ہوں وہ بھی وہیں کا رخ کرلیں اور وہ بھی اپنے ساتھ اپنی عورتوں کو لیتے جائیں انھیں اپنے پیچھے چھوڑ کر نہ جائیں۔۔ رواہ ابن مندہ وابن عساکر عن اسماء بنت ابی بکر

46268

46256- "زعمت أسماء أن عثمان ورقيه قد سارا فذهبا، والذي نفسي بيده إنه لأول من هاجر بعد إبراهيم ولوط. " ابن منده، وابن عساكر - عن أسماء بنت أبي بكر".
46256 حضرت اسمائ (رض) کہتی ہیں کہ حضرت عثمان اور حضرت رقیہ (رض) ہجرت حبشہ پر چل پڑے ہیں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کے بعد یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہجرت کی۔ روا ہ ابن مندہ و اسن عساکر عن اسماء بنت ابی بکر

46269

46257- "صحبهما الله! إن عثمان لأول من هاجر إلى الله تعالى بأهله بعد لوط. " ع، ق في...... - عن أنس أن عثمان هاجر إلى الحبشة ومعه امرأته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم - فذكره".
46257 اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ ہے۔ حضرت عثمان (رض) لوط (علیہ السلام) کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (رواہ ابویعلی والبیہقی فی۔۔۔حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث ارشاد فرمائی) ۔

46270

46258- "أما ترضون أن تكون للناس هجرة ولكم هجرتان. " ابن قانع - عن خالد بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص عن أبيه وكان في مهاجرة الحبشة هو وأخوه عمرو بن سعيد، فلما قدموا جزعوا أن لا يكونوا شهدوا بدرا فقال النبي صلى الله عليه وسلم - فذكره".
46258 کیا تم لوگ راضی نہیں ہو کہ لوگوں کے لیے ایک ہی ہجرت ہے اور تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔ (رواہ ابن قانع عن خالد بن سعید بن عمرو بن سعید بن العاص عن ابیہ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بھائی عمرو بن سعید کے ساتھ ہجرت حبشہ کی جب مدینہ واپس لوٹے تو سخت غمزدہ ہوئے کہ وہ بدر کی جنگ میں شریک نہ ہوسکے اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث فرمائی)

46271

46259- "أنا وأصحابي حيز، والناس حيز، لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية. " ط، ش، حم، طب، ك، ق في الدلائل - عن أبي سعيد وزيد بن ثابت ورافع بن خديج معا".
46259 میں اور میرے صحابہ کرام (رض) اپنی جگہوں پر ہیں اور لوگ بھی اپنے جگہوں پر ہیں فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد ہے اور نیت ہے۔ رواہ الطبرانی وابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل والحاکم والبیہقی فی الدلائل عن ابی سعید وزید بن ثابت ورافع بن خدیج معا

46272

46260- "أيها الناس هاجروا وتمسكوا بالإسلام، فإن الهجرة لا تنقطع ما دام الجهاد. " طب - عن أبي قرصافة".
46260 اے لوگو ! ہجرت کرو اور اسلام پر کاربند رہو جب تک جہاد باقی ہے ہجرت ختم نہیں ہوگی۔ رواہ الطبرانی عن ابی قرصافۃ

46273

46261- "المهاجر من هجر السوء والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده. " ابن عساكر - عن ابن عمرو".
46261 مہاجر تو وہ ہے جو برائیوں کو چھوڑ دے اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ رواہ ابن عساکر عن ابن عمرو

46274

46262- "الهجرة هجرتان: إحداهما أن تهجر السيئات، والأخرى أن تهاجر إلى الله تعالى ورسوله، ولا تنقطع الهجرة ما تقبلت التوبة، ولا تزال التوبة مقبولة حتى تطلع الشمس من المغرب، فإذا طلعت طبع على كل قلب بما فيه، وكفى الناس العمل. " حم، طب - عن عبد الرحمن بن عوف ومعاوية وابن عمر".
46262 ہجرت کی دو قسمیں ہیں : ایک یہ کہ تم برائیوں کو چھوڑ دو ، دوسری یہ کہ تم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف ہجرت کرکے آجاؤ۔ جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی ہجرت ختم نہیں ہوگی اور ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا دلوں پر مہر لگادی جائے گی اور لوگوں کے اعمال لپیٹ دیئے جائیں گے۔۔ رواہ احمد بن حنبل والطبرانی عن عبدالرحمن بن عوف و معاویۃ وابن عمرو

46275

46263- "أفضل الهجرة أن تهجر ما كره الله. " حم، وعبد ابن حميد - عن جابر؛ ن، ق - عن ابن عمر".
46263 سب سے افضل ہجرت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے مکروھات کو چھوڑ دو ۔۔ رواہ احمد بن حنبل وعبد بن حمید عن جابر والنسائی والبخاری ومسلم عن ابن عمر

46276

46264- "أفضل الهجرة أن تهجر السوء. " طب - عن عمرو بن عبسة".
46264 سب سے افضل ہجرت یہ ہے کہ تم برائیوں کو چھوڑ دو ۔ رواہ الطبرانی عن عمرو بن عبسۃ

46277

46265- "أفضل الإسلام أن يسلم المسلمون من لسانك ويدك، وأفضل الهجرة أن تهجر ما كره ربك، والهجرة هجرتان: هجرة الحاضر، وهجرة البادي، فهجرة البادي أن يجيب إذا دعي ويطيع إذا أمر، وهجرة الحاضر أعظمها بلية وأفضلها أجرا. " ط، حم، حب، ك - عن ابن عمرو".
46265 سب سے افضل اسلام یہ ہے کہ دوسرے مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں اور افضل ترین ہجرت یہ ہے کہ تم اپنے رب تعالیٰ کے مکروھات کو چھوڑ دو ۔ ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت۔ دیہاتی کی ہجرت یہ ہے کہ جب اسے دعوت دی جائے وہ اسے قبول کرلے اور جب اسے حکم دیا جائے وہ اطاعت بجا لائے جب کہ شہری کی ہجرت آزمائشوں سے پر ہے اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہے۔۔ رواہ الطبرانی واحمد بن حنبل وابن حبان والحاکم عن ابن عمرو

46278

46266- "يا فديك! أقم الصلاة وأد الزكاة، واهجر السوء واسكن من أرض قومك حيث شئت تكن مهاجرا. " حب، ق، وابن عساكر - عن صالح بن بشير بن فديك قال قال فديك يا رسول الله! إنهم يزعمون أنه من لم يهاجر هلك، قال - فذكره".
46266 اے فدیک ! نماز قائم کرو، زکوۃ دیتے رہو برائیاں چھوڑ دو اور جہاں چاہو اپنی قوم کی سرزمین پر سکونت پذیر ہو اس طرح تم مہاجر ہو جاؤ گے۔ (رواہ ابن حبان والبیہقی واسن عساکر عن صالح بن بشیر بن فدیک کہ فدیک (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ لوگوں کا خیال ہے کہ جس شخص نے ہجرت نہ کی وہ ہلاک ہوگیا اس پر یہ حدیث ارشاد فرمائی) ۔

46279

46267- "يا فديك! أقم الصلاة، وصم رمضان، وحج البيت واقر الضيف، وأسكن أي أرض قومك شئت. " البغوي والبارودي عن صالح بن بشير بن فديك عن أبيه؛ قال البغوي: ولا أعلم له غير هذا".
46267 اے فدیک ! نماز قائم کرو رمضان کے روزے رکھو بیت اللہ کا حج کرو مہمان نوازی کرو اپنی قوم کی سرزمین میں سکونت پذیر رہو۔۔ رواہ البغوی والبارودی عن صالح بن بشیر بن فدیک عن ابیہ وقال البغوی ولااعلم لہ غیر ھذا

46280

46268- "وما تحزنون! للناس هجرة واحدة ولكم هجرتان: هاجرتم حين خرجتم إلى صاحب الحبشة، ثم جئتم من عند صاحب الحبشة مهاجرين إلي. " ابن منده، وابن عساكر - عن خالد بن سعيد بن العاص".
46268 تم لوگ کیوں غم کرتے ہو لوگوں کے لیے ایک ہجرت ہے جب کہ تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں ایک ہجرت تم نے اس وقت کی جب تم حبشہ کے بادشاہ کی طرف چل پڑے دوسری ہجرت تمہاری یہ ہوئی کہ تم حبشہ سے میری طرف آئے۔۔ رواہ ابن مندہ وابن عساکر عن خالد بن سعید بن العاص

46281

46269- "كذب من قال ذاك، لكم هجرتان: هاجرتم إلى النجاشي، وهاجرتم إلي. " طب - عن أسماء بنت عميس".
46269 جس نے ایسا کہا اس نے جھوٹ بولا : تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔ ایک ہجرت تم نے نجاشی کی طرف کی ہے اور دوسری ہجرت میری طرف کی ہے۔ رواہ الطبرانی عن اسماء بنت عمیس

46282

46270- "حاجتك خير من حوائجهم، لا تنقطع الهجرة ما قوتل العدو. " حم - عن رجل من بني مالك".
46270 ۔۔ فرمایا کہ تیری ضرورت ان کی ضرورتوں سے بہتر ہے ہجرت ختم نہیں ہوگی جب تک دشمن سے قتال ہوتار ہے۔ مسنداحمد، عن رجل من بنی کنانہ۔

46283

46271- "عليك بالهجرة، فإنه لا مثل لها. " ن - عن أبي فاطمة".
46271 م ہیں ہجرت کرلینی چاہیے چونکہ ہجرت جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔۔ رواہ النسائی عن ابی فاطمۃ

46284

46272- "فضل عمل المهاجر على الأعرابي سبعين ضعفا، وفضل عمل العالم على العابد سبعين ضعفا، وفضل عمل السر على العلانية سبعين ضعفا، ومن استوت سريرته وعلانيته باهى الله تعالى به ملائكته ثم يقول: يا ملائكتي! هذا عبدي حقا. " الخطيب في المتفق والمفترق، الديلمي - عن ابن عباس؛ وفيه عمر بن أبي البلخي شيخه الحكيم الترمذي ضعيف".
46272 مہاجر کا عمل دیہاتی کے عمل پر ستر گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے عالم کا عمل عابد کے عمل پر ستر گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے پوشیدہ عمل اعلانیہ عمل سے ستر گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ اور جس شخص کا ظاہر اور باطن برابر ہو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس شخص پر فخر کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے میرے فرشتو ! یہ میرا سچا بندہ ہے۔ رواہ الخطیب فی المتفق والمفترق والدیلمی عن ابن عباس وفیہ عمر بن ابی البلخی شیخہ الحکیم الترمذی ضعیف

46285

46273- "لا تنقضي الهجرة ما قوتل الكفار. " حم، طب، وابن منده، ق - عن عبد الله بن السعدي؛ البغوي، وابن منده، وأبو نعيم في المعرفة - عن عبد الله السعدي المصري - وقيل: البصري".
46273 جب تک کفار کے ساتھ قتال جاری رہے گا اس وقت تک ہجرت ختم نہیں ہوگی۔۔ رواہ احمد بن حنبل والطبرانی وابن مندہ والبخاری ومسلم عن عبداللہ بن السعدی والبغوی وابن مندہ و ابونعیم فی المعرفۃ عن عبداللہ بن السعدی المصری وقیل البصری

46286

46274- "لا تنقطع الهجرة ما دام العدو يقاتل. " البغوي - عن ابن السعدي".
46274 ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک دشمن کے ساتھ قتال جاری رہے گا۔۔ رواہ البغوی عن ابن السعدی

46287

46275- "ويحك! إن شأن الهجرة لشديد، فهل لك من إبل تؤدي صدقتها. قال: نعم، قال فاعمل من وراء البحار، فإن الله لن يترك من عملك شيئا. " حم، خ، م د، ن، حب - عن أبي سعيد أن أعرابيا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن الهجرة قال - فذكره".
46275 تیری ہلاکت ہو ! ہجرت کا معاملہ بڑا سخت ہے۔ کیا تیرے اونٹ ہیں جن کی تو زکوۃ دیتا ہو ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ فرمایا : دیہاتوں میں رہتے ہوئے عمل کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں کمی نہیں کرے گا۔ (رواہ احمد بن حنبل والبخاری ومسلم وابوداؤد وابن حبان عن ابی سعید کہ ایک دیہاتی ۔ (اعرابی) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت کے متعلق سوال کیا آپ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی) ۔

46288

46276- "لا تنقطع الهجرة ما تقبلت التوبة، ولا تزال التوبة مقبولة حتى تطلع الشمس من المغرب، فإذا طلعت من المغرب ختم على كل قلب بما فيه وكفي الناس العمل. " كر - عن عبد الرحمن ابن عوف ومعاوية بن عمرو".
46276 جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی اس وقت تک ہجرت ختم نہیں ہوگی اور توبہ کا دروازہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا ہر دل پر مہر لگادی جائے گی اور لوگوں کے اعمال لپیٹ دیئے جائیں گے۔۔ رواہ ابن عساکر عن عبدالرحمن بن عوف و معاویۃ بن عمرو

46289

46277- "لا هجرة بعد الفتح، ولكن إنما هو الإيمان والنية والجهاد؛ ومتعة النساء حرام. " الحسن بن سفيان، والبغوي، والباوردي وابن السكن وابن منده، وابن قانع، طب، وأبو نعيم - عن الحارث ابن غزية الأنصاري".
46877 فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، لیکن ایمان، نیت اور جہاد پھر بھی باقی ہیں اور عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ حرام ہے۔۔ رواہ الحسن بن سفیان والبغوی والباوردی وابن السکن وابن مندہ وابن قانع والطبرانی و ابونعیم عن الحارث ابن غزیۃ الانصاری

46290

46278- "لا هجرة بعد الفتح. " عب - عن أنس".
46278 فتح کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ رواہ عبدالرزاق عن انس

46291

46279- عن أبي بكر قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم وهو في الغار: لو أن أحدهم نظر إلى قدميه لأبصرنا تحت قدميه، فقال: "يا أبا بكر! ما ظنك باثنين الله ثالثهما. " ابن سعد، ش، حم، خ، م، ت، وابن جرير في تهذيب الآثار، وابن المنذر، وأبو عوانة، حب، وابن مردويه، وأبو نعيم في المعرفة".
46279 حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا دراں حالیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار (ثور) میں تھے : یارسول اللہ ! ان کفار میں سے اگر کسی کی نظر اپنے قدموں پر پڑجائے تو یقیناً ہمیں دیکھ پائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ رواہ ابن سعد وابن شیبۃ واحمد بن حنبل والبخاری ومسلم عن الترمذی وابن جریر فی تھذیب الآثار وابن المنذر وابوعوانۃ وابن حبان وابن مردویہ و ابونعیم فی العرفۃ

46292

46280- عن أبي بكر قال: جاء رجل من المشركين حتى استقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم بعورته يبول فقلت: يا رسول الله! أليس الرجل يرانا؟ قال: "لو رآنا لم يستقبلنا بعورته - يعني وهما في الغار. "ع، وضعف".
46280 حضرت ابوبکر (رض) کی روایت ہے کہ مشرکین میں سے ایک آدمی آیا حتیٰ کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منہ کرکے پیشاب کرنے لگا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا یہ آدمی ہمیں نہیں دیکھ پاتا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : اگر یہ شخص ہمیں دیکھ سکتا تو وہ ہماری طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرتا یعنی یہ دونوں حضرت اس وقت غار ثور میں تھے۔ رواہ ابویعلی وضعف

46293

46281- عن أبي بكر قال: رأيت رجلا مواجه الغار، فقلت: يا رسول الله! إنه لو نظر إلى قدميه - لرآنا، قال: "كلا! إن الملائكة تستره، فلم ينشب الرجل أن قعد يبول مستقبلنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أبا بكر! لو كان يراك ما فعل هذا. " أبو نعيم في الدلائل من طريق آخر".
46281 حضرت ابوبکر (رض) کی روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو غار کی طرف آئے ہوئے دیکھا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اگر اس شخص نے اپنے قدموں پر نظر ڈال دی یقیناً ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ (رض) نے فرمایا : ہرگز نہیں چونکہ فرشتوں نے اس کے آگے پردہ کر رکھا ہے تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ شخص ہماری طرف منہ کرکے پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ اے ابوبکر ! اگر یہ ہمیں دیکھ سکتا ایسا ہرگز نہ کرتا۔ رواہ ابونعیم فی الدلائل من طریق آخر

46294

46282- عن أبي بكر أنهما لمن انتهيا إلى الغار فإذا جحر فألقمه أبو بكر رجليه وقال: يا رسول الله! إن كانت لدغة أو لسعة كانت في. "ش، وابن المنذر، وأبو الشيخ، وأبو نعيم في الدلائل".
46282 حضرت ابوبکر (رض) کی روایت ہے کہ جب وہ دونوں حضرات غار ثور میں پہنچے تو حضرت ابوبکر (رض) نے غار میں ایک سوراخ دیکھا جس پر اپنے پاؤں رکھ دیئے اور عرض کیا : اگر کوئی بچھو یا سانپ ہو تو اس کے ڈسے کا گزند مجھی کو پہنچے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ وابن المنذر وابوالشیخ و ابونعیم فی الدلائل

46295

46283- عن عائشة قالت: قال أبو بكر: لو رأيتني ورسول الله صلى الله عليه وسلم إذ صعدنا الغار! فأما قدما رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقطرتا دما، وأما قدماي فعادت كأنهما صفوان، قالت عائشة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يتعود الحفية. "ابن مردويه".
46283 حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جب ہم غار ثور میں داخل ہونے کے لیے اوپر چڑھ رہے تھے میں نے دیکھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں سے خون رس رہا تھا جب کہ میرے پاؤں چلنے کے عادی ہونے کی وجہ سے چٹان کی مانند تھے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ننگے پاؤں چلنے کے عادی نہیں تھے۔ رواہ ابن مردویہ

46296

46284- عن عمرو بن الحارث عن أبيه أن أبا بكر الصديق قال: أيكم يقرأ سورة التوبة؟ قال رجل: أنا قال: اقرأ، فلما بلغ {إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ} بكى وقال: أنا والله صاحبه. "ابن أبي حاتم".
46284 عمرو بن حارث اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم میں سے کون سورت توبہ کی قرات کرے گا ؟ ایک شخص بولا : میں قرات کرتا ہوں فرمایا : پڑھو۔ چنانچہ جب وہ شخص اس آیت پر پہنچا۔ اذیقول لصاحبہ لا تحزن “ جب انھوں نے اپنے ساتھی سے کہا : غم نہ کرو حضرت ابوبکر صدیق (رض) روپڑے اور فرمایا : اللہ کی قسم ! ان کا ساتھی میں ہی ہوں۔ رواہ ابن ابی حاتم

46297

46285- عن حبشي بن جنادة قال قال أبو بكر: يا رسول الله لو أن أحد المشركين رفع رأسه لأبصرنا، فقال: "يا أبا بكر! لا تحزن إن الله معنا. " ابن شاهين، وفيه حصن بن مخارق واه".
46285 حبشی بن جنادہ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ! اگر کوئی مشرک اپنا سر اوپر اٹھالیتا ہے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوبکر ! غم نہ کیجئے چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ رواہ ابن شاھین وفیہ حصن بن مخارق واہ

46298

46286- عن البراء بن عازب قال: اشترى أبو بكر من عازب سرجا بثلاثة عشر درهما، فقال أبو بكر لعازب: مر البراء فيحمله إلى منزلي، فقال: لا، حتى تحدثنا كيف صنعت حين خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنت معه، فقال أبو بكر: خرجنا فأدلجنا فأحثثنا يومنا وليلتنا حتى أظهرنا وقام قائم الظهيرة فضربت ببصري هل أرى ظلا نأوي إليه، فإذا أنا بصخرة فأهويت إليها، فإذا بقية ظلها فسويته لرسول الله صلى الله عليه وسلم وفرشت له فروة وقلت: اضطجع يا رسول الله! فاضطجع، ثم خرجت هل أرى أحدا من الطلب، فإذا أنا براعي غنم، فقلت: لمن أنت يا غلام! فقال: لرجل من قريش، فسماه فعرفته، فقلت، فهل في غنمك من لبن؟ قال: نعم، قلت: هل أنت حالب لي؟ قال: نعم، فأمرته فاعتقل شاة منها ثم أمرته فنفض ضرعها من الغبار ثم أمرته فنفض كفيه من الغبار ومعي إداوة على فمها خرقة فحلب لي كثبة من اللبن، فصببت - يعني الماء - على القدح حتى برد أسفله، ثم أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فوافيته وقد استيقظ، فقلت: اشرب يا رسول الله! فشرب حتى رضيت، ثم قلت: هل أتى الرحيل! فارتحلنا والقوم يطلبوننا، فلم يدركنا أحد منهم إلا سراقة بن مالك بن جعشم على فرس له، فقلت: يا رسول الله! هذا الطلب قد لحقنا! فقال: "لا تحزن إن الله معنا، حتى إذا دنا منا فكان بيننا وبينه قدر رمح أو رمحين أو ثلاثة، قلت: يا رسول الله! هذا الطلب قد لحقنا! وبكيت، قال: لم تبكي؟ قلت: أما والله ما على نفسي أبكي ولكني أبكي عليك! فدعا عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "اللهم! أكفناه بما شئت، فساخت قوائم فرسه إلى بطنها في أرض صلدة، ووثب عنها، فقال: يا محمد! قد علمت أن هذا عملك، فادع الله أن ينجيني مما أنا فيه، فوالله لأعمين على من ورائي من الطلب، وهذه كنانتي فخذ منها سهما، فإنك ستمر بإبلي وغنمي في موضع كذا وكذا فخذ منها حاجتك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا حاجة لي فيها، ودعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم فأطلق ورجع إلى أصحابه، ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا معه حتى قدمنا المدينة ليلا، فتلقاه الناس، فخرجوا في الطرق وعلى الأجاجير فاشتد الخدم والصبيان في الطريق: الله أكبر! جاء رسول الله! جاء محمد؟ وتنازع القوم أيهم ينزل عليه! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أنزل الليلة على بني النجار أخوال عبد المطلب لأكرمهم بذلك، فلما أصبح غدا حيث أمر. "ش، حم، خ، م 1 وابن خزيمة، هب، ق في الدلائل".
46286 حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے میرے والد عازب سے تیرہ (13) درہم کے بدلہ میں ایک زین خریدی ابوبکر (رض) نے والد صاحب سے فرمایا : براء سے کہو وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچا دے۔ والد نے کہا : نہیں۔ حتیٰ کہ آپ مجھے بتادیں کہ جب آپ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر پر نکلے تھے اس وقت آپ کے ساتھ کیا بیتی تھی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہم (اپنے گھروں سے) نکل پڑے ہم پورا دن اور پوری رات چلتے رہے حتیٰ کہ دوپہر کا وقت ہوگیا میں نے ادھر، ادھر دیکھا تکہ مجھے کوئی سایہ نظر آئے جس کے نیچے ہم پناہ لے سکیں چنانچہ یکایک ہم ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے میں اس کی طرف آگے بڑھا۔ دیکھا کہ اس کا کچھ سایہ نکل چکا ہے میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جگہ درست کی اور آپ کے لیے ایک کپڑا بچھا دیا۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ لیٹ جائیں چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیٹ گئے پھر میں وہاں سے تھوڑا آگے چل دیا تاکہ میں دیکھوں کہ ہماری تلاش میں تو کوئی نہیں آرہا ۔ اچانک بکریں کے ایک چرواہے پر میری نظر پڑی میں نے اس سے پوچھا : اے چرواہے ! تو کس کا غلام ہے ؟ چرواہے نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا کہ میں اس کا غلام ہوں میں اسے جانتا تھا ۔ میں نے کہا : کیا تیری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں۔ میں نے کہا : کیا تم مجھے دودھ دوھ کر دے سکتے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں میں نے اسے دودھ دوھنے کا حکم دیا اس نے ایک بکری پکڑی، پھر میں نے اس سے کہا کہ بکری کے تھنوں سے غبار اچھی طرح جھاڑلو اس نے تھنوں سے غبار جھاڑ دیا پھر میں نے ہاتھوں سے غبار جھاڑنے کو کہا : اس نے ہاتھوں سے غبار جھاڑ دیا میرے پاس ایک برتن تھا جس کے منہ پر ایک کپڑا بندھا ہوا تھا چنانچہ اس نے میرے لیے کچھ دودھ دوہا، پھر میں نے برتن میں تھوڑا سا پانی ڈالا حتیٰ کہ برتن کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس لوٹ آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیدار ہوچکے تھے۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! دودھ پی لیں آپ نے دودھ نوش فرمایا حتیٰ کہ میں راضی ہوگیا۔ پھر میں نے عرض کیا : ہمیں یہاں سے کوچ کرنے کا وقت ہوچکا ہے۔ ہم وہاں سے کوچ کر گئے جب کہ لوگ ہماری تلاش میں تھے۔ ہمیں بجز سراقہ بن مالک بن جعشم کے کوئی نہیں پاسکا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ شخص ہماری تلاش میں نکلا ہے جو ہمارے قریب پہنچ چکا ہے۔ آپ نے فرمایا : غم مت کرو چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ حتیٰ کہ جب سراقہ ہمارے قریب ہوگیا حتیٰ کہ ہمارے اور اس کے درمیان ایک نیزے یا نیزوں یا تین نیزوں کا فرق رہ گیا تھا میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ شخص ہماری تلاش میں ہمارے پاس پہنچ چکا ہے۔ میں رونے لگا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کیوں روتے ہو ؟ میں نے عرض کیا بخدا ! میں اپنے لیے نہیں روہا ہوں میں تو آپ کے رو رہا ہوں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بددعا دی اور فرمایا : یا اللہ ! ہماری طرف سے تو جیسے چاہے اس سے نمٹ لے۔ چنانچہ اسی وقت سراقہ کا گھوڑا گھٹنوں تک پتھریلی زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے فوراً گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگادی اور بولا : اے محمد ! میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کے بددعا کا اثر ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اب دعا کرو کہ مجھے اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے اللہ کی قسم میں اپنے پیچھے کے جمع لوگوں کو آپ کی بابت عدم دستیابی کا یقین دلادوں گا یہ رہا میرا ترکش اس سے ایک تیر نکال میں اور یقیناً آپ کا گزر فلاں جگہ سے میری بکریوں کے پاس سے ہوگا ان بکریوں سے اپنی ضرورت پوری کرلینا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے تیری بکریوں کی کوئی ضرورت نہیں پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے دعا کی اور وہ عذاب سے آزاد ہوگیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف واپس چلا گیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے چل پڑے میں آپ کے ہمراہ رہا حتیٰ کہ ہم رات کو مدینہ پہنچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لوگ ملنے لگے لوگ راستوں اور گلیوں میں نکل آئے الغرض خدام اور بچوں تک سب ہی ہجوم کر آئے اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاچکے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے ہیں لوگ آپس میں جھگڑنے لگے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس کے یہاں تشریف لے جائیں اس پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں آج رات بنو نجار جو کہ عبدالمطلب کے ماموں ہیں کے پاس ٹھہروں گا تاکہ میں ان کا احترام کرسکوں۔ صبح کو جہاں آپ کا حکم ملا وہاں پہنچ گئے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ واحمد بن حنبل والبخاری ومسلم وابن خزیمۃ والبیہقی فی شعب الایمان والبیہقی فی الدلائل

46299

46287- عن أبي بكر قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة فانتهينا إلى حي من أحياء العرب، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بيت متنحيا فقصد إليه، فلما نزلنا لم يكن فيه إلا امرأة فقالت: يا عبد الله! إنما أنا امرأة وليس معي أحد فعليكما بعظيم الحي إذا أردتما القرى! فلم يجبها، وذلك عند المساء فجاء ابن لها بأعنز له يسوقها، فقالت له: يا بني! انطلق بهذه العنز والشفرة إلى هذين الرجلين فقل لهما: تقول لكما أمي: اذبحا هذه، وكلا وأطعمانا، فلما جاء قال له النبي صلى الله عليه وسلم: "انطلق بالشفرة وجئني بالقدح، قال: إنها قد عزبت وليس لها لبن؟ قال: انطلق، فانطلق فجاء بقدح فمسح النبي صلى الله عليه وسلم ضرعها، ثم حلب حتى ملأ القدح، ثم قال انطلق به إلى أمك، فشربت حتى رويت، ثم جاء به فقال: انطلق بهذه وجئني بأخرى، ففعل بها كذلك، ثم سقى أبا بكر، ثم جاء بأخرى ففعل بها كذلك، ثم شرب النبي صلى الله عليه وسلم، فبتنا ليلتنا ثم انطلقنا، فكانت تسمية المبارك، وكثرت غنمها حتى جلبت جلبا إلى المدينة فمر أبو بكر الصديق فرآه ابنها فعرفه فقال: يا أمه! إن هذا الرجل الذي كان مع المبارك، فقامت إليه فقالت: يا عبد الله! من الرجل الذي كان معك، قال: وما تدرين ما هو؟ قالت: لا، قال: هو النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: فأدخلني عليه، فأدخلها عليه، فأطعمها وأعطاها، وأهدت له شيئا من أقط ومتاع الأعراب، فكساها وأعطاها؛ وأسلمت. "ق في الدلائل، كر، قال ابن كثير: سنده حسن".
46287 حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں : میں (ہجرت کے موقع پر) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ چل پڑا ہم عرب کی بستیوں میں سے ایک بستی کے قریب پہنچے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بستی کی ایک طرف ایک گھر دیکھا آپ اس کی طرف چل دیئے جب ہم اس گھر میں گئے وہاں صرف ایک عورت تھی وہ بولی : اے اللہ کے بندے ! میں عورت ہوں میرے ساتھ کوئی نہیں ہے جب تم کسی بستی میں جاؤ تو تمہیں بستی کے کسی بڑے آدمی کے پاس جانا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات کا جواب نہ دیا۔ یہ شام کا وقت تھا اتنے میں اس عورت کا ایک بیٹا بکریاں ہانکتے ہوئے آگیا۔ عورت نے اپنے بیٹے سے کہا : اے بیٹا ! یہ بکری اور چھری ان دو آدمیوں کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میری امی کہہ رہی ہے کہ اس بکری کو ذبح کرو، خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔ چنانچہ جب وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : چھری واپس لے جاؤ اور میرے پاس کوئی برتن لاؤ لڑکا بولا : یہ بکری بانجھ ہوچکی ہے اور اس میں دودھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جاؤ میرے پاس برتن تو لاؤ چنانچہ لڑکا گیا اور اپنے ساتھ برتن لیتا آیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برتن جھاڑے پھر دودھ دوہا حتیٰ کہ برتن بھر گیا پھر فرمایا کہ یہ دودھ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ۔ چنانچہ اس عورت نے سیر ہو کر دودھ پیا، لڑکا برتن لے کر واپس آگیا آپ نے فرمایا : یہ بکری لے جاؤ اور دوسری لے آؤ آپ نے اس بکری کو بھی پہلی کی طرح دوہا پھر مجھے دودھ پلایا۔ پھر لڑکا ایک اور بکری لیتا آیا آپ نے اسے بھی پہلی کی طرح دوہا اور پھر خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ پیا ہم نے یہیں پر یہ رات گزاری پھر ہم (صبح ہوتے ہی) چل پڑے چنانچہ یہ عورت آپ کو بابرکت (مبارک) شخصیت کے نام سے پکارتی تھی اس عورت کی بکریاں بہت زیادہ بڑھ گئیں حتیٰ کہ مدینہ تک اس کی بکریوں کا شور وغل رہتا تھا (اس کے بعد) ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا یہیں سے گزر ہوا اس عورت کے بیٹے نے آپ (رض) کو دیکھا تو آپ کو پہچان لیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا : اے امی ! یہ وہی شخص ہے جس کے ساتھ وہ بابرکت شخصیت ہمارے یہاں ٹھہری تھی چنانچہ لڑکے کی ماں کھڑی ہوئی اور کہنے لگی اے اللہ کے بندے ! تمہارے ساتھ وہ کوئی شخصیت تھی ؟ جواب دیا : کیا تم انھیں نہیں جانتی ہو ؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : وہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ عورت نے عرض کیا : مجھے ان کے پاس لے چلو۔ چنانچہ ابوبکر (رض) عورت کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو کھانا کھلایا اور عطیہ عنایت فرمایا جب کہ عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ پنیر اور دیہات کا کچھ سامان دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کو تحفہ میں کپڑے پہنائے اور عطیہ دیا ۔ چنانچہ وہ عورت متاثر ہو کر اسلام لے آئی۔۔ رواہ البیہقی فی الدلائل وابن عساکر قال ابن کثیر مسندہ حسن۔ فائدہ : یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے اس عورت کا نام ام معبد (رض) ہے جو اسلام لے آئی تھی

46300

46288- عن عمر قال: لا هجرة بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ن، ع، وابن منده في غرائب شعبة، ص".
46288 حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ رواہ النسائی وابویعلی وابن مندہ فی غرابت شعبہ و سعید بن المنصور

46301

46289- عن عمر قال: كنا قد استبطأنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في القدوم علينا وكانت الأنصار يغدون إلى ظهر الحرة فيجلسون عليها حتى يرتفع النهار، فإذا ارتفع النهار وحميت الشمس رجعت إلى منازلها، فكنا ننتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رجل من اليهود قد أوفى على أطم من آطامهم، فقال: يا معشر العرب! هذا صاحبكم الذي تنتظرون! ّوسمعت الوجبة في بني عمرو بن عوف. "البزار، وحسنه الحافظ ابن حجر في فوائده".
46289 حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : ہم مدینہ میں سخت انتظار میں دیتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس کب تشریف لائیں گے ۔ انصار صبح کو ایک ٹیلے پر چڑھ جاتے اور اس پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ سورج بلند ہوجاتا جب سورج بلند ہو کر تپش دینے لگتا لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے اسی دوران ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتنظار میں تھے اچانک ایک یہودی جو ٹیلے پر کھڑا تھا پکارنے لگا : اے جماعت عرب ! یہ ہیں تمہارے صاحب جن کا انتظار میں تم لگے ہوئے ہو۔ رواہ البزار وحسنہ الحافظ ابن حجر فی فوائد

46302

46290- عن ابن عمر أن عمر قال: لا تتخذوا من وراء الروحاء مالا، ولا ترتدوا على أعقابكم بعد الهجرة؛ ولا تنكحوا نساء طلقاء مكة، وأنكحوا نساءكم في بيوتهن. "المحاملي في أماليه".
46290 ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : روحاء کے ماوراء اپنا مال مت رکھو اور نہ ہی ہجرت کے بعد واپس لوٹو مکہ کے چھوڑے ہوئے لوگوں کی بیویوں سے نکاح مت کرو بلکہ اپنی عورتوں سے ان کے گھروں میں نکاح کرو۔ رواہ المحاملی فی امالیہ

46303

46291- عن عثمان قال: النفقة في أرض الهجرة مضاعفة بسبعمائة ضعف. "كر".
46291 حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ سر زمین ہجرت میں سات سو گنا زیادہ نفقہ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ رواہ ابن عساکر

46304

46292- عن علي قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال لجبريل: من يهاجر معي؟ قال: أبو بكر الصديق. "ك".
46292 حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل امین سے دریافت کیا : ہجرت میں میرے ساتھ کون ہونا چاہیے ؟ جبرائیل نے کہا : ابوبکر صدیق (رض) ۔ رواہ الحاکم

46305

46293- عن علي قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم وخرج أبو بكر معه، فلم يأمن على نفسه غيره حتى دخلا الغار. "أبو بكر في الغيلانيات".
46293 حضرت علی (رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے لیے نکلے آپ کے ساتھ ابوبکر (رض) بھی نکلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ غار میں داخل ہوئے۔ رواہ ابوبکر فی الغیلانیات

46306

46294- "مسند البراء بن عازب" أول من قدم علينا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم مصعب بن عمير، وابن أم مكتوم، فجعلا يقرآننا القرآن، ثم جاء عمار وبلال وسعد، ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما رأيت أهل المدينة فرحوا بشيء فرحهم به، فما قدم حتى قرأت {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} في سور من المفصل. "ش".
46394” مسند براء بن عازب “ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) میں سے سب سے پہلے یہ حضرات ہمارے پاس تشریف لائے ہیں حضرت مصعب بن عمیر (رض) ، ابن ام مکتوم یہ دونوں حضرات ہمیں قرآن پڑھاتے تھے پھر حضرت عمار (رض) ، بلال (رض) سعید (رض) آئے پھر حضرت عمر بن خطاب (رض) بیس آدمیوں کے ہمراہ تشریف لائے ۔ پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے میں نے اہل مدینہ کو اتنا زیادہ خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر خوش ہوئے تھے آپ اس وقت تشریف لائے جب میں نے سورت ” سبح اسم ربک الاعلیٰ “ پڑھ لی جو کہ اوساط مفصل میں سے ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

46307

46295- "مسند بشير بن فديك" قال أبو نعيم: يقال إن له رواية - عن الأوزاعي وغيره عن الزهري عن صالح بن بشير بن فديك أن جده فديكا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إنهم يزعمون أن من لم يهاجر هلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "يا فديك! أقم الصلاة، وآت الزكاة، واهجر السوء، واسكن من أرض قومك حيث شئت تكن مهاجرا. " البغوي، وابن منده، وأبو نعيم وقال: ذكره عبد الله بن عبد الجبار الخبائري عن الحارث بن عبيدة عن محمد بن وليد الزبيدي عن الزهري فقال عن صالح بن بشير عن أبيه قال: جاء فديك".
46295” مسند بشیر بن فدیک “ ابونعیم کہتے ہیں ان کی ایک ہی روایت ہے اوزاعی، زہری ، صالح بن بشیر بن فدیک سے مروی ہے کہ ان کے دادا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ ! لوگوں کا خیال ہے کہ جس نے ہجرت نہ کی وہ ملاک ہوگیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے فدیک ! نماز قائم کرو، زکوۃ ، دو برائیاں چھوڑ دو اپنی قوم کی سرزمین میں جہاں چاہو رہو تم مہاجر ہوجائے گے۔ رواہ البغوی وابن مندہ و ابونعیم وقال ذکرہ عبداللہ بن عبدالجار الخبائری عن الحارث بن عبیدۃ عن محمد بن ولید الزبیدہ عن الزھری فقال عن صالح بن بشیر عن ابیہ قال جاء فدیک

46308

46296- عن جرير البجلي قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى خثعم، فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم النبي صلى الله عليه وسلم بنصف العقل، وقال: "أنا بريء من كل مسلم مقيم بين أظهر المشركين، قالوا: يا رسول الله! ولم؟ قال: لا تراآى ناراهما. " العسكري في الأمثال، هب".
46296 جریربجلی کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خثعم کی طرف سریہ (لشکر) روانہ کیا لیکن لوگوں نے سجدہ کرکے اپنے آپ کو بچا لیا۔ (یعنی یہ ظاہر کیا کہ ہم مسلمان ہیں) لیکن صحابہ کرام (رض) نے ان کا عذر خاطر میں نہ لاتے ہوئی ان کا قتل عام شروع کردیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سا کی خبر کی گئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کو مقتولین کی نصف دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! وہ کیوں ؟ فرمایا : کیا تم ان کی جلتی ہوئی آگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔ رواہ العسکری فی الامثال والبیہقی وفی شعب الایمان

46309

46297- عن خالد بن الوليد عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. "العسكري".
46297 حضرت خالد بن ولید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی ایک روایت نقل کرتے ہیں۔ رواہ العسکری

46310

46298- عن جنادة بن أمية الأزدي قال: هاجرنا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فاختلفنا في الهجرة، فقال بعضنا: قد انقطعت، وقال بعضنا: لم تنقطع، فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألته عن ذلك، فقال: "لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار. " الحسن بن سفيان، وأبو نعيم".
46298 جنادہ بن امیہ ازدی (رض) کی روایت ہے کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ہجرت کی چنانچہ ہجرت کے متعلق ہمارا آپس میں اختلاف ہوگیا۔ ہم میں سے بعض کہنے لگے : ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے جب کہ بعض کہہ رہے تھے کہ ابھی منقطع نہیں ہوا۔ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا اور یہی مسئلہ آپ سے دریافت کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک کفار کے ساتھ قتال جاری رہے گا تب تک ہجرت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا۔۔ رواہ الحسن بن سفیان و ابونعیم

46311

46299- عن الحارث بن خزمة بن أبي غنم الأنصاري قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة يوم الاثنين لأربع عشرة من ربيع الأول وكان يوم بدر يوم الاثنين من رمضان، وتوفي يوم الاثنين لخمس عشرة من ربيع الأول. "أبو نعيم".
46299 حارث بن خزیمہ بن ابی غنم انصاری کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 14 ربیع الاول بروز سوموار (پیر) مدینہ منورہ تشریف لائے تھے جنگ بدر رمضان المبارک میں بروز سوموار ہوئی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی پندرہ (15) ربیع الاول بروز سوموار حلت فرمائی۔ رواہ ابونعیم

46312

46300- "مسند حبيش بن خالد بن الأشعر الخزاعي القديدي وهو أخو عاتكة أم معبد" عن حزام بن هشام بن حبيش بن خالد الخزاعي عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج من مكة وخرج منها مهاجرا إلى المدينة هو وأبو بكر ومولى أبي بكر عامر ابن فهيرة ودليلهما الليثي عبد الله بن الأريقط مروا على خيمتي أم معبد الخزاعية، وكانت برزة جلدة تحتبي بفناء القبة، ثم تسقى وتطعم فسألوها لحما وتمرا ليشتروه منها، فلم يصيبوا عندها شيئا من ذلك، وكان القوم مرملين مسنتين 1 فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شاة في كسر الخيمة، فقال: "ما هذه الشاة يا أم معبد؟ قالت: خلفها الجهد عن الغنم، قال: "فهل بها من لبن؛ قالت: هي أجهد من ذلك، قال: "أتأذنين أن أحلبها؛ قالت: بلى بأبي أنت وأمي! نعم إن رأيت بها حلبا فاحلبها، فدعا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فمسح بيده ضرعها، وسمى الله عز وجل، ودعا لها في شاتها، فتفاجت 1 عليه ودرت واجترت، ودعا بإناء يربض 2 الرهط، فحلب فيها ثجا حتى علاه الهاء، ثم سقاها حتى رويت، وسقى أصحابه حتى رووا، وشرب آخرهم صلى الله عليه وسلم، ثم أراضوا، ثم حلب فيها ثانيا بعد بدء حتى ملأ الإناء، ثم غادره عندها، ثم بايعها، وارتحلوا عنها، فقلما لبثت حتى جاء زوجها أبو معبد يسوق أعنزا عجافا تساوكن 3 هزلا ضحى مخهن قليل، فلما رأى أبو معبد اللبن عجب وقال: من أين لك هذا اللبن يا أم معبد والشاء عازب 4 حيال 5 ولا حلوبة في البيت؟ قالت: لا، والله إلا أنه مر بنا رجل مبارك من حاله كذا وكذا، قال: صفيه لي يا أم معبد! فقالت: رأيت رجلا ظاهر الوضاءة، أبلج الوجه، حسن الخلق، لم تعبه ثجلة 1، ولم تزر به صعلة 2، وسيم قسيم 3، في عينيه دعج 4، وفي أشفاره وطف 5، وفي صوته صحل 6، وفي عنقه سطع 7، وفي لحيته كثاثة 8 أزج 1، أقرن 2، إن صمت فعليه الوقار، وإن تكلم سماه وعلاه البهاء، أجمل الناس وأبهاه من بعيد، وأحلاه وأحسنه من قريب، حلو المنطق، فصل، لا هذر ولا نزر، كأن منطقه خرزات نظم يتحدرن، ربع لا تشنؤه 3 من طول، ولا تقتحمه عين من قصر، غصن بين غصنين فهو أنظر الثلاثة منظرا، وأحسنهم قدرا، له رفقاء يحفون به، إن قال انصتوا لقوله، وإن أمر تبادروا إلى أمره، محفود محشود؛ لا عابس ولا مفند؛ قال أبو معبد: هو والله صاحب قريش الذي ذكر لنا من أمره ما ذكر بمكة، ولقد هممت أن أصحبه، ولأفعلن إن وجدت إلى ذلك سبيلا، فأصبح صوت بمكة عاليا، يسمعون الصوت ولا يدرون من صاحبه، وهو يقول: جزى الله رب الناس خير جزائه ... رفيقين قالا خيمتي أم معبد هما نزلاها بالهدى واهتدت به ... فقد فاز من أمسى رفيق محمد فيا لقصي ما زوى الله عنكم ... به من فعال لا تجازى وسؤدد ليهن بني كعب مكان فتانهم ... ومقعدها للمؤمنين بمرصد سلوا أختكم عن شاتها وإنائها ... فإنكم إن تسألوا الشاة تشهد دعاها بشاة حائل فتحلبت ... عليه صريحا ضرة الشاة مزبد فغادرها رهنا لديها بحالب ... يرددها في مصدر ثم مورد فلما أن سمع حسان بن ثابت بذلك شبب 1 يجيب الهاتف وهو يقول: لقد خاب قوم زال عنهم نبيهم ... وقدس من يسري إليه ويغتدي ترحل عن قوم فضلت عقولهم ... وحل على قوم بنور مجدد هداهم به بعد الضالة ربهم ... وأرشدهم من يتبع الحق يرشد وهل يستوي ضلال قوم تسكعوا 1 ... عمايتهم هاد به كل مهتد وقد نزلت منه على أهل يثرب ... ركاب هدى حلت عليهم بأسعد نبي يرى ما لا يرى الناس حوله ... ويتلو كتاب الله في كل مسجد وإن قال في يوم مقالة غائب ... فتصديقها في اليوم أو في ضحي الغد ليهن بني كعب مكان فتاتهم ... ومقعدها للمؤمنين بمرصد ليهن أبا بكر سعادة جده ... بصحبته من أسعد الله يسعد "طب، وأبو نعيم، كر".
46300” مسند حبیش بن خالد بن اشعرخزاعی قدیدی جو کہ عاتکہ معبد کے بھائی ہیں۔ “ حزام بن ہشام بن حبیش بن خالد خزاعی اپنے والد اور دادا کے واسطہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ اور ابوبکر (رض) اور مولائے ابوبکر عامر بن فہیرہ اکٹھے تھے ان حضرات کے رہبر عبداللہ بن اریقط لیثی تھے چنانچہ یہ حضرات ام معبد خزاعیہ کے خیمہ کے پاس سے گزرے ام معبد ایک قوی اور دلیر خاتون تھیں عموماً خیمے کے باہر چادر اوڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں اور ادھر سے گزرنے والے مسافروں کو کھانا کھلاتی اور پانی پلاتی تھیں چنانچہ ان حضرات نے ام معبد سے دریافت کیا : کہ تمہارے پاس گوشت یا کھجوریں ہوں تو ہم خریدنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے پاس کوئی چیز دستیاب نہ ہوسکی اتفاق سے زادراہ ختم ہوچکا تھا جب کہ اس بستی والے لوگ قحط کی حالت میں تھے ام معبد نے کہا : بخدا، اگر ہمارے پاس کچھ موجود ہوتا تو میں ہرگز آپ کو کسی کا محتاج نہ پاتی اتنے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر ایک بکری پر پڑی جو خیمہ کے ایک کونے میں بندھی ہوئی تھی آپ نے فرمایا : ام معبد ! یہ بکری کیسی ہے ؟ عرض کیا اس بکری کو تھکن نے پیچھے کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اس میں کچھ دودھ ہے ؟ عرض کیا : اس بکری کا دودھ دینا اس کے جنگل میں جانے سے زیادہ دشوار ہے۔ آپ نے فرمایا : مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں ۔ ام معبد نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اگر آپ اس میں دودھ دیکھیں تو لیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ کہہ کر تھنوں پر ہاتھ پھیر اور فرمایا : یا اللہ، ام معبد کو اس بکری سے برکت عطا فرما۔ چنانچہ بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں کثرت سے دودھ دیا اور فرمان بردار ہوگئی آپ نے ان سے ایسا برتن مانگا جو ساری قوم کو سیراب کردے چنانچہ برتن لایا گیا آپ نے اس میں سیلاب کی طرح دودھ دوہا یہاں تک کہ جھاگ برتن کے اوپر آگئی چنانچہ وہ دودھ ام معبد نے پیا حتیٰ کہ وہ سیراب ہوگئیں پھر آپ نے صحابہ کرام (رض) کو پلایا وہ بھی سیراب ہوگئے سب سے آخر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوش فرمایا : (چونکہ قوم کے ساقی کو آخر میں بینا چاہیے) سب نے پینے کے بعد دوبارہ پیا اور سب سیر ہوگئے آپ نے پھر پہلے کی طرح دوبارہ دوہا اور اس مرتبہ کا دودھ ام معبد کے پاس چھوڑ دیا (اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رفقاء کے ساتھ کوچ کر گئے) تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اتنے میں ام معبد کے شوہر ابو معبد اپنی بکریاں ہنکاتے ہوئے آگئے، جو دبلی پتلی تھیں اور اچھی طرح چل بھی نہیں سکتی تھیں گویا ان کی ہڈیوں میں گودا ہی نہیں رہا۔ (اور نہ ہی ان میں چربی تھی ابومعبد نے خیمہ میں دودھ دیکھ کر تعجب کیا اور پوچھا :) تمہیں یہ دودھ کہاں سے مل گیا جب کہ بکریاں چرنے کے لیے گھر سے بہت دور گئی ہوئی تھیں اور نہ ہی گھر پر کوئی دودھ دینے والی بکری تھی ام معبد نے کہا : اللہ کی قسم ! اس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت بزرگ گزرے ہیں جن کی یہ برکتیں تھیں۔ ابومعبد نے کہا میرے خیال میں یہ وہی قریش کے صاحب ہیں جن کی تلاش کی جارہی ہے اے ام معبد مجھے ذرا ان کی صفات تو بتاؤ۔ ام معبد نے کہا : میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جن کی صفائی اور پاکیزگی کی مثال نہیں ملتی ان کا چہرا نہایت نورانی ہے حسین و جمیل ہیں، آنکھوں میں کافی سیاہی ہے چلک کے بال خوب گھنے ہیں آواز میں بلندی ہے سیاہی کی جگہ میاں خوب تیز ہے سفیدی کی جگہ سفیدی تیز سے آبروئیں باریک ہیں اور آپس میں ملی ہوئی ہیں بالوں کی سیاہی بھی خوب تیز ہے گردن میں بلندی اور داڑھی میں گھنا پن ہے ، جب خاموش ہوتے ہیں تو ان پر وقار چھا جاتا ہے، اور جب ہنستے ہیں تو حسن کا غلبہ ہوجاتا ہے، گفتگو ایسی ہے جیسے موتیوں کی لڑی گررہی ہو شیریں گفتار ہیں دو ٹوک بات کرنے والے ہیں ، ایسے کم گو نہیں کہ جن سے مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی فضول گو ہیں، دور سے دیکھو تو سب سے زیادہ بارعب و حسین ہیں، قریب سے سب سے زیادہ شیریں گفتار اور جمیل ہیں ایسے متوسط اندام ہیں کہ تم درازی قدم کا عیب نہ لگاؤ گے اور نہ ہی کوئی آنکھ انھیں کوتاہ قد ہونے کی وجہ سے حقیر جانے گی، دو دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ معلوم ہوتے ہیں دیکھنے میں وہ تینوں میں سب سے زیادہ بارونق اور مقدار میں حسین ہیں ان کے رفقاء انھیں گھیرے رکھتے ہیں، جب کچھ فرماتے ہیں تو لوگ بغور آپ کا ۔ کلام سنتے ہیں، جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب ان کا حکم بجا لانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں وہ مخدوم ہیں وہ نہ ترش رو ہیں اور نہ ہی زیادہ کو ابو معبد نے کہا ہو اللہ یہ قریش کے وہی صاحب ہیں جن کا ہم سے تذکرہ کیا گیا تھا۔ اے ام معبد ! اگر میں اس وقت موجود ہوتا ضرور درخواست کرتا کہ میں ان کی صحبت میں رہوں، اگر میں نے ایسا موقع پایا تو ضرور ایسا کروں گا۔ اسی دوران مکہ میں ایک غیبی آواز سنی گئی، جسے لوگ سنتے تو تھے لیکن آواز والے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ کوئی یہ اشعار پڑھ رہا تھا : جزی اللہ رب الناس خیر جزاہ ۔ رفیقین قالا خیمتی ام معبد۔ اللہ تعالیٰ جو پروردگار ہے تمام لوگوں کا بہترین جزا دے ان دونوں رفیقوں کو جو ام معبد کے خیموں میں اترے ۔ ھما نزلالھا یا لھدی واتھدبہ۔ فقد فاز من امسبی رفیق محمد۔ وہ دونوں ام معبد کے پاس ہدایت لے کر اترے اور وہ ہدایت یافتہ ہوگئی اور جو محمد کا رفیق ہوا وہ کامیاب ہوگیا۔ فیا لقصی مازوی اللہ عنکم۔ نہ من فعال لا تجازی وسودد۔ اے قبیلہ اقصی تمہیں کیا ہوگیا اللہ نے تمہیں ایسے کام اور ایسی سرداری کی توفیق نہیں دی جس کی جزا مل سکے۔ لیھن بنی کعب مکان قتاتھم۔ ومقعد ھا للمومنین بمر صد۔ مبارک ہو بنی کعب کو ان کی عورت کا مقام اور اہل ایمان کے لیے اس کے ٹھکانا کا کام آنا۔ سلوا اختکم عن شانھا وانا ئھم۔ فانکم ان تسالوا الشاۃ تشھد۔ تم اپنی بہن سے اس کی بکری اور برتن کا حال تو دریافت کرو اگر تم بکری سے بھی دریافت کرو گے تو بکری بھی گواہی دے گی۔ دعاھا بشاۃ حائل فتحلبت۔ علیہ صریحا ضرۃ الشاۃ مزبد۔ آپ نے اس سے بکری مانگی پس اس نے اس قدر دودھ دیا کہ کف سے بھرا ہوا تھا۔ فغادرھا رہنا لدیھا بجالب۔ یرددھا فی مصد رثم مورد۔ پھر وہ بکری آپ اسی کے پاس چھوڑ آئے جو ہر آنے اور جانے والے کے لیے دودھ نچوڑتی تھی۔
حضرت حسان بن ثابت (رض) کو جب ہاتف کے یہ اشعار پہنچے تو آپ (رض) نے اس کے جواب میں یہ اشعار فرمائے :
لقد خاب قوم غاب عنھم نبیھم
وقدس من یسری الیہ ویغتدی
البتہ خائب و خاسر ہوئے وہ لوگ جس میں ان سے ان کا پیغمبر چلا گیا اور وہ پاک ومقدس ہوگیا۔
ترحل عن قوم فضلت عقولھم
وحل علی قوم بنور مجدد
اس نبی نے ایسی قوم سے کوچ کیا جن کی عقلیں گم ہوچکی ہیں جب کہ ایک دوسری قوم کے پاس ایک نیانور لے کر اترے۔
ھداھم بہ بعد الضلال ربھم
وارشد ھم من یتبع الحق برشد
خدا نے گمراہی کے بعد اس نور سے ان کی رہنمائی کی اور جو حق کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پائے گا
وھل یستوی ضلال قوم تسکعوا
عمایتھم ھاربہ کل مھتد
اور کیا ہدایت پانے والے اور گمراہی میں گھرے ہوئے برابر ہوسکتے ہیں۔
وقد نزلت منہ علی اھل یثرب
رکاب ھدی حلت علیھم باسعد
اور اہل یثرب پر ہدایت کا قافلہ سعادتوں اور برکتوں کو لے کر اترا ہے۔
نبی یری مالا یری الناس حولہ
ویتلو کتاب اللہ فی کل مشھد
وہ نبی ہیں جنہیں وہ چیزیں نظر آتی ہیں کہ جو ان کے پاس بیٹھنے والوں کو نظر نہیں آتیں اور وہ ہر مجلس میں لوگوں کے سامنے اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔
وان قال فی یوم مقالۃ غائب
فتصدیقھا فی الیوم اوفی ضحی الغد
اور اگر وہ کوئی غیب کی خبر سناتے ہیں تو آج ہی یا کل صبح تک اس کا صدق اور اس کی سچائی ظاہر ہوجاتی ہے۔
لیھن بنی کعب مکان فتاتھم
ومقعد ھا للمومنین بمرصد
مبارک ہو بنی کعب کو ان کی عورت کا مقام اور اہل ایمان کے لیے اس کے ٹھکانا کا کام آنا۔
لیھن ابابکر سعادۃ جدہ
بصحبتہ من اسعد اللہ یسعد
ابوبکر کو اپنے نصیب کی سعادت جو بوجہ صحبت آنحضرت انھیں حاصل ہوئی مبارک ہو جس کو اللہ تعالیٰ سعادت دیتا ہے وہی سعید ہوتا ہے۔ رواہ الطبرانی و ابونعیم وابن عساکر

46313

46301- عن إياس بن مالك بن الأوس عن أبيه قال: لما هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر مروا بإبل لنا في الجحفة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لمن هذه الإبل؟ قال: لرجل من أسلم، فالتفت إلى أبي بكر فقال: سلمت إن شاء الله تعالى! فقال: ما اسمك؟ فقال: مسعود، فالتفت إلى أبي بكر، فقال: سعدت إن شاء الله تعالى! فأتاه أبي فحمله على جمل. "ابن العباس السراج في تاريخه، وأبو نعيم".
46301 ایاس بن مالک بن اوس اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) ہجرت کے لیے نکلے، مقام حجفہ میں ہمارے اونٹوں کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا : یہ کس کے اونٹ ہیں ؟ جواب دیا : کہ یہ قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کے ہیں، آپ نے ابوبکر (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : انشاء اللہ سلامتی میں رہیں گے۔ آپ نے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے۔ جواب دیا : میرا نام مسعود ہے آپ نے ابوبکر (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : انشاء اللہ تم سعادت پالو گے۔ چنانچہ میرے والد آپ (رض) کے پاس آئے اور آپ کو سواری کے لیے ایک اونٹ پیش کیا۔۔ رواہ ابن العباس السراج فی تاریخہ و ابونعیم

46314

46302- عن خالد بن سعيد بن العاص وكان من مهاجرة الحبشة هو وأخوه عمرو لما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم تلقاهم حين دنوا منه، وذلك بعد بدر بعام، فحزنوا أن لا يكونوا شهدوا بدرا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "وما تحزنون! إن للناس هجرة واحدة ولكم هجرتان: هاجرتم حين خرجتم إلى صاحب الحبشة، ثم جئتم من عند صاحب الحبشة مهاجرين إلي. " ابن منده، كر".
46302 خالد بن سعید بن عاص اور ان کے بھائی ہجرت کرکے حبشہ گئے ہوئے تھے جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس (مدینہ) لوٹے تو آپ سے ملاقات کی جب کہ جنگ بدر کو ایک سال گزر چکا تھا۔ ان حضرات نے جنگ بدر میں غیر حاضری پر غم کا اظہار کیا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کیوں غمزدہ ہوتے ہو چونکہ لوگوں کو ایک ہجرت کا ثواب ملا ہے جب کہ تمہیں دو ہجرتوں کا ثواب ملا ہے۔ تم نے ایک ہجرت صاحب حبشہ (نجاشی) کی طرف کی پھر تم صاحب حبشہ کے پاس سے میرے پاس ہجرت کرکے آئے ہو۔ رواہ ابن مندہ وابن عساکر

46315

46303- "من مسند خالد بن الوليد" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ناس من خثعم، فاعتصموا بالسجود، فقتلهم فوادهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بنصف الدية ثم قال: "أنا بريء من كل مسلم أقام مع المشركين لا تراأى ناراهما. " طب".
46303” مسند خالد بن ولید “ حضرت خالد بن ولید (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے قبیلہ خثعم کی طرف بھیجا۔ چنانچہ قبیلہ والوں نے سجدہ کرکے پناہ لینی چاہی لیکن ہم نے ان کا قتل عام کیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے نصف دیت کا فیصلہ کیا پھر فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے ساتھ رہ رہا ہو تم ان کی آگ اکٹھے جلتی ہوئی نو دیکھو۔ رواہ الطبرانی

46316

46304- عن خالد بن الوليد عن واثلة بن الأسقع قال: خرجت من أهلي وأريد الإسلام فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فصففت في آخر الصفوف فصليت بصلاتهم، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة انتهى إلي وأنا في آخر الصفوف فقال: "ما حاجتك؟ قلت: الإسلام، قال: هو خير لك، قال: وتهاجر؟ قلت: نعم، قال: هجرة البادي أو هجرة الباتي؟ قلت: أيتها خير؟ قال: هجرة الباتي، قال: وهجرة الباتي أن تثبت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهجرة البادي أن يرجع إلى باديته، قال: وعليك الطاعة في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك! قلت: نعم، فقدم يده وقدمت يدي، فلما رآني لا أستثني لنفسي شيئا، قال: فيما استطعت، فقلت فيما استطعت، فضرب على يدي. "ابن جرير".
46304 حضرت خالد بن ولید (رض) کی روایت ہے کہ حضرت واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں : میں اسلام لانے کی غرض سے اپنے گھر سے چل پڑا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا چنانچہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں تھے میں نے آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوئے میرے پاس آئے میں آخری صف میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا : تمہاری کیا حاجت ہے ؟ میں نے عرض کیا : میں اسلام لانے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ فرمایا : اسلام تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ فرمایا : کیا تم ہجرت کرکے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں : فرمایا : دیہاتی کی ہجرت کی ہے یا یقینی ہجرت کی ہے ؟ میں نے عرض کیا : ان دونوں میں سے کونسی ہجرت افضل ہے ؟ فرمایا یقینی ہجرت افضل ہے آپ نے فرمایا : یقینی ہجرت یہ ہے کہ تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ثابت قدم رہو اور دیہاتی کی ہجرت یہ ہے کہ تم واپس اپنے گاؤں میں چلے جاؤ۔ آپ نے فرمایا : تمہیں ہر حالت میں اطاعت کرنی چاہے خواہ تنگی ہو یا آسانی من کو گوارا گزرے یا ناگوار گزرے۔ تم واپس چلے جاؤ۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا میں نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جب آپ نے دیکھا کہ میں اپنے لیے کسی چیز کو نہیں اپنا رہا ہوں فرمایا : تم کس چیز کی استطاعت رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا : میں کسی چیز میں استطاعت رکھتا ہوں۔ آپ نے میرے ہاتھ پر مارا۔ رواہ ابن جریر

46317

46305- عن محمد بن سليمان بن سليط الأنصاري حدثني أبي عن أبيه عن جده سليط وكان بدريا قال لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في الهجرة ومعه أبو بكر الصديق وعامر بن فهيرة.... 1 "كر".
46305 محمد بن سلیمان بن سلیط انصاری کہتے ہیں مجھے میرے والد نے دادا سے یہ حدیث سنائی ہے۔ میرے دادا سلیط بدری صحابی ہیں کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے لیے تشریف لے گئے آپ کے ساتھ ابوبکر صدیق (رض) اور عامربن فہیرہ تھے۔ رواہ ابن عساکر

46318

46306- ابن سعد انبأنا عمرو بن عاصم حدثنا حماد بن سلمة عن علي بن زيد عن أبي الطفيل قال: كنت أطلب النبي صلى الله عليه وسلم فيمن يطلبه ليلة الغار فقمت على باب الغار وما أدري فيه أحد أم لا. "كر، قال ابن سعد، هذا الحديث غلط، أبو الطفيل لم يولد تلك الليلة، وينبغي أن يكون حدث بالحديث عن غيره، فأوهم الذي حمله عنه".
46306 ابن سعد، عمرو بن عاصم، حماد بن سلمہ، علی بن زید کی سلسلہ سند سے ابو طفیل (رض) کی روایت ہے کہ غار ثور والی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے والوں میں، میں بھی شامل تھا چنانچہ میں غار کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا، مجھے معلوم نہیں تھا اندر کوئی ہے یا نہیں۔ (رواہ ابن عساکر وقال ابن سعد : ھذا الحدیث غلط۔ چونکہ غار ثور والی رات تک یہ پیدا نہیں ہوئے تھے ممکن ہے یہ کسی اور کی روایت نقل کررہے ہوں اور ان سے روایت نقل کرنے والے کو ہم ہوگیا ہو) ۔

46319

46307- عن أبي معبد الخزاعي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة هاجر من مكة. "ابن سعد، وابن منده، كر".
46307 ابومعبدخزاعی کی روایت ہے کہ ہجرت والی رات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے تشریف لے گئے۔ رواہ سعد وابن مندہ وابن عساکر

46320

46308- "مسند أبي موسى الأشعري" لقي عمر بن الخطاب أسماء بنت عميس فقال: نعم القوم أنتم لولا أنا سبقناكم بالهجرة! فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: "بل لكم الهجرة مرتين: هجرة إلى أرض الحبشة، وهجرة إلى المدينة. " ط، وأبي نعيم".
46308” مسند ابی موسیٰ اشعری “ حضرت عمر بن خطاب (رض) کی حضرت اسماء بنت عمیس سے ملاقات ہوئی آپ نے فرمایا : تم بہت اچھی قوم ہوتے اگر ہم ہجرت میں تمہارے اوپر سبقت نہ لے چکے ہوتے۔ حضرت اسماء نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا آپ نے فرمایا : بلکہ تم نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے، ایک مرتبہ سر زمین حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مدینہ کی طرف۔۔ رواہ الطبرانی و ابونعیم

46321

46309- عن أبي موسى قال: بلغنا خروج النبي صلى الله عليه وسلم ونحن باليمن، فخرجنا أنا وإخوان له وأنا أصغرهم في ثلاثة أو اثنين وخمسين رجلا من قومي فألقتنا سفينتنا إلى النجاشي بالحبشة، فوافقنا جعفر بن أبي طالب وأصحابه عنده فقال جعفر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثنا ههنا وأمرنا بالإقامة فأقيموا معنا، فأقمنا معه حتى قدمها جميعا فوافينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح خيبر، فأسهم لنا وقال: "يا أهل السفينة! لكم أنتم هجرتان. " الحسن بن سفيان، وأبو نعيم".
46309 حضرت ابوموسیٰ (رض) کی روایت ہے کہ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکہ سے نکل جانے کی خبر پہنچی ہم اس وقت یمن میں تھے ، میں اپنے قوم کے دوستوں کے ساتھ چل پڑا ان کی تعداد باون یا ترپین (53, 52) تھی جب کہ میں ان سب میں سے چھوٹا تھا ہماری کشتی نے ہمیں سرزمین حبشہ میں نجاشی کے پاس لاڈلا۔ وہاں جعفر بن ابی طالب (رض) اور ان کے ساتھیوں سے ہماری ملاقات ہوئی، جعفر (رض) نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہیں اقامت کا حکم دیا ہے، لہٰذا تم بھی ہمارے ساتھ مقیم ہوجاؤ، چنانچہ ہم بھی ان کے ساتھ مقیم ہوگئے پھر ہم سب مدینہ ہجرت کرکے آگئے اور فتح خیبر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہماری ملاقات ہوئی آپ نے مال غنیمت سے ہمیں بھی حصہ دیا اور فرمایا : اے کشتی والو : تمہاری دو ہجرتیں ہوگئیں۔ رواہ الحسن بن سفیان و ابونعیم

46322

46310- عن عبد الله بن السعدي قال: وفدت في نفر من بني سعد بن بكر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعة أو ثمانية وأنا من أحدثهم سنا، فأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقضوا حوائجهم وخلفوني في رحل لهم فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله! أخبرني عن حاجتي، فقال: "م احاجتك؟ قلت: رجال يقولون: قد انقطعت الهجرة! فقال: أنت خيرهم حاجة - أو حاجتك خير من حاجاتهم - لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار. " ابن منده، كر".
46310 عبداللہ بن سعدی کی روایت ہے کہ میں نبی سعد بن بکر کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ہم سات یا آٹھ آدمی تھے جب کہ میں ان سب میں عمر میں چھوٹا تھا میرے ساتھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے میری حاجت کے متعلق خبردیں، آپ نے فرمایا : تمہاری حاجت کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : لوگوں کو کہنا ہے کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ آپ نے فرمایا : تمہاری حاجت ان سب کی حاجتوں سے بہتر ہے جب تک کفار کے ساتھ قتال جاری رہے گا ہجرت منقطع نہیں ہوگی۔ رواہ ابن مندہ وابن عساکر

46323

46311- عن ابن عباس قال: نام علي على فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم وتسجى بثوبه، وكان المشركون يرمون رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء أبو بكر فقال: أي رسول الله! فأخرج علي رأسه فقال: لست برسول الله، أدرك رسول الله ببئر ميمون، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل معه، فكان المشركون يرمون عليا فيتضور 1، فلما أصبح فقالوا: إنا كنا نرمي محمدا فلا يتضور وقد استنكرنا ذلك منك. "أبو نعيم في المعرفة، وفيه أبو بلج، قال خ: فيه نظر".
46311 ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر پر حضرت علی (رض) سوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر اوڑھ لی جب کہ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انتظار میں تھے اتنے میں ابوبکر (رض) تشریف لائے اور کہنے لگے : یارسول اللہ ! آگے سے حضرت علی (رض) نے چادر کے نیچے سے اپنا سر باہر نکالا اور کہا : میں رسول اللہ نہیں ہوں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیر میمون پہنچ چکے ہیں، ابوبکر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے گئے جب کہ مشرکین حضرت علی (رض) کی تاڑ میں تھے اور حضرت علی برابر پیچ وتاب کھا رہے تھے جیسا کہ کسی کو بخار ہو۔ جب صبح ہوئی مشرکین کہنے لگے ہم تو محمد کی تاڑ میں تھے جب کہ انھیں تو پیچ وتاب کی شکایت نہیں تھی ہم تمہاری طرف سے اس بات کو اوپری سمجھتے تھے۔ رواہ ابونعیم فی المعرفۃ وفیہ ابوبلج وقال البخاری : فیہ نظر

46324

46312- عن ابن عباس قال: قيل لصفوان بن أمية وهو بأعلى مكة إنه لا دين لمن لم يهاجر، فقال: لا أصل إلى بيتي حتى أقدم فقدم المدينة فنزل على العباس بن عبد المطلب ثم أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "ما جاء بك يا أبا وهب؟ قال: قيل إنه لا دين لمن لم يهاجر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "ارجع أبا وهب إلى أباطح مكة فقروا على مسكنكم، فقد انقطعت الهجرة ولكن جهاد ونية، فإن استنفرتم فانفروا. " كر".
46312 ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ صفوان بن امیہ (رض) مکہ میں اوپر کے حصہ میں تھے ان سے کہا گیا کہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ۔ صفوان (رض) نے کہا : میں اس وقت تک اپنے گھر واپس نہیں جاؤں گا۔ جب تک میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچ جاؤں۔ چنانچہ صفوان (رض) مدینہ آگئے اور حضرت عباس بن عبدالمطلب کے یہاں ٹھہرے۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا : اے ابو وھب ! تم کیوں آئے ہو ؟ عرض کیا : مجھ سے کہا گیا ہے کہ جو شخص ہجرت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو وہب ! بطحاء مکہ واپس چلے جاؤ اور اپنے گھر میں رہو چونکہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ لیکن جہاد ہے اور نیت ہے لہٰذا جب تم سے جہاد میں نکلنے کے لیے مطالبہ کیا جائے تو فوراً نکلو۔۔ رواہ ابن عساکر

46325

46313- عن ابن عباس سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "اجتمع الكفار يتشاورون في أمري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ليتني بالغوطة بمدينة يقال لها دمشق حتى آتى الموضع مستغاث الأنبياء حيث قتل ابن آدم أخاه فأسأل الله أن يهلك قومي فإنهم ظالمون! فأتاه جبريل فقال يا محمد! ائت بعض جبال مكة فأو بعض غاراتها، فإنها معقلك من قومك، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر حتى أتيا الجبل فوجدا غارا كثير الدواب. "كر".
46313 ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ کفار ایک جگہ جمع ہوئے اور آپس میں مشورہ کرنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے کاش میں ایک شہر جسے دمشق کہا جاتا ہے میں مقام غوطہ میں ہوتا حتیٰ کہ میں موضع مستغاث انبیاء میں آتا، جہاں آدم (علیہ السلام) کے بیٹے نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا، میں اپنے رب سے سوال کرتا کہ میری قوم کو ہلاک کردے چونکہ وہ ظالم ہیں اتنے میں آپ کے پاس جبرائیل تشریف لائے اور کہا : اے محمد ! مکہ کی کسی غار میں جاؤ اور اس میں پناہ لو بلاشبہ غار تمہارے لیے قوم سے بچنے کی محفوظ پناہ گاہ ہے چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رض) کے ہمراہ نکل پڑے ، حتیٰ کہ پہاڑ پر پہنچ گئے جس میں ایک غار پائی جس میں کثرت سے حشرات الارض تھے۔ رواہ ابن عساکر

46326

46314- عن ابن عباس قال: خرج جعفر بن أبي طالب إلى أرض الحبشة ومعه امرأته أسماء بنت عميس، فولدت له بأرض الحبشة عبد الله ومحمدا ابني جعفر. "ابن منده وقال غريب بهذا الإسناد، كر".
46314 ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے اپنی بیوی اسماء بنت عمیس (رض) کے ساتھ سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور حبشہ ہی میں ان کے دو بیٹے عبداللہ اور محمد پیدا ہوئے تھے۔ رواہ ابن مندہ وقال غریب ھذا لاسناد وابن عساکر

46327

46315- عن ابن عباس قال: إن الذين طلبوا النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر صعدوا الجبل فلم يبق إلا أن يدخلوا، فقال أبو بكر: أتينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أبا بكر! لا تحزن، إن الله معنا، وانقطع الأثر فذهبوا يمينا وشمالا. "ابن شاهين".
46315 ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی تلاش میں تھے وہ پہاڑ پر چڑھے قریب تھے کہ غار میں داخل ہوجاتے انھیں دیکھ کر ابوبکر (رض) نے کہا : دشمن ہمارے پاس پہنچ چکا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوبکر غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے، چنانچہ آپ کا پیچھا نہ کرسکے اور دائیں بائیں چلے گئے۔ رواہ ابن شاھین

46328

46316- عن أسماء بنت أبي بكر قالت: كنت أحمل الطعام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى وهما في الغار، فجاء عثمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إني أسمع من المشركين من الأذى فيك ما لا صبر عليه، فوجهني وجها أتوجه فلأهجرنهم في ذات الله! فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "أزعمت يداك يا عثمان؟ قال: نعم، قال: فليكن وجهك إلى هذا الرجل بالحبشة - يعني النجاشي، فإنه ذو وفاء، واحمل معك رقية فلا تخلفها، ومن رأى معك من المسلمين مثل رأيك فليتوجهوا هناك، وليحملوا معهم نساءهم، ولا يخلفوهم، فودع عثمان نبي الله صلى الله عليه وسلم وقبل يديه، فبلغ عثمان رسالة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال لهم: إني خارج من تحت ليلتي، ونقيم لكم بجدة ليلة أو ليلتين، فإن أبطأتم فوجهي إلى باضع - جزيرة في البحر - قالت: فحملت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: ما فعل عثمان ورقية؟ قلت: قد سارا فذهبا، فقال: قد سارا فذهبا؟ قلت: نعم، فالتفت إلى أبي بكر فقال: زعمت أسماء أن عثمان ورقية قد سارا فذهبا، والذي نفسي بيده إنه لأول من هاجر بعد إبراهيم ولوط. "كر
46316 اسماء بنت ابی بکر (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میرے والد (ابوبکر (رض)) غار میں تھے ان کے پاس کھانا میں ہی لے جایا کرتی تھی، چنانچہ ایک دن عثمان (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ ! میں مشرکین سے آپ کے متعلق اذیت بھری باتیں سنتا ہوں، جنہیں سن کر صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے ، لہٰذا آپ مجھے کہیں بھیج دیں تاکہ میں یہاں سے چلا جاؤں میں ان مشرکین کو محض اللہ کی خاطر ضرور چھوڑ دوں گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اے عثمان ! تم نے پختہ عزم کرلیا ہے ؟ عرض کیا : جی ھاں۔ فرمایا : تم حبشہ میں نجاشی کے پاس چلے جاؤ چونکہ وہ بڑا وفادار ہے اور اپنے ساتھ رقیہ کو بھی لیتے جاؤ اسے اپنے پیچھے مت چھوڑ کر جاؤ۔ اور مسلمانوں میں سے جس کی بھی تمہاری جیسی رائے ہو وہ بھی چلا جائے اور وہ بھی اپنے ساتھ اپنی عورتوں کو لے کر جائیں چنانچہ عثمان (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الوداع کہا اور آپ کے ہاتھ مبارک چومے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عثمان (رض) کا پیغام ملا وہ یہ کہ انھوں نے کہا : میں آج رات نکل جاؤں گا اور ہم ایک یا دو راتیں جدہ قیام کریں گے اگر آپ سے تاخیر ہوجائے تو میں جزیرہ باضع میں چلا جاؤں گا۔ اسمائ (رض) کہتی ہیں یہ پیغام میں ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا : عثمان اور رقیہ نے کیا کیا ؟ میں نے جواب دیا : وہ دونوں جاچکے ہیں فرمایا : کیا وہ جاچکے ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ پھر آپ نے ابوبکر (رض) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اسماء کہتی ہے کہ عثمان اور رقیہ جاچکے ہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ابراہیم اور لوط کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہجرت کی ہے۔ رواہ ابن عساکر

46329

46317- عن أسماء بنت أبي بكر قالت: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وخرج معه أبو بكر احتمل أبو بكر ماله كله خمسة آلاف درهم، فانطلق بها معه، فدخل جدي أبو قحافة وقد ذهب بصره فقال: والله إني لأراكم قد فجعتم بماله مع نفسه، قلت: كلا يا أبت! إنه قد ترك خيرا كثيرا، فأخذت أحجارا فوضعتها في كوة من البيت التي كان أبي يضع ماله فيها، ثم وضعت عليها ثوبا، ثم أخذت بيده فقلت: يا أبت! ضع يدك على هذا المال، فوضع يده عليه، وقال: لا بأس، إذا ترك لكم هذا فقد أحسن، وفي هذا بلاغ لكم؛ لا والله ما ترك لنا شيئا ولكن أردت أن أسكت الشيخ بذلك، قالت: فلما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر أتانا نفر من قريش فيهم أبو جهل فوقف على باب أبو بكر، فخرجت إليهم فقالوا: أين أبوك يا ابنة أبي بكر؟ قلت: لا أدري والله أين أبي، فرفع أبو جهل يده، وكان فاحشا خبيثا فلطم خدي لطمة طرح منها قرطي، ثم انصرفوا، فمكثنا ثلاث ليال، ما ندري أين وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أقبل رجل من الجن من أسفل مكة يتغنى بأبيات من شعر غناء العرب وإن الناس ليتبعونه، يسمعون صوته ولا يرونه حتى خرج من أعلى مكة: جزى الله رب الناس خير جزائه ... رفيقين حلا خيمتي أم معبد هما نزلا بالبر ثم تروحا ... فأفلح من أمسى رفيق محمد ليهن بني كعب مكان فتاتهم ... ومقعدها للمؤمنين بمرصد "ابن إسحاق".
46317 حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) کے ساتھ ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو ابوبکر (رض) اپنے ساتھ اپنا سارا مال جو پانچ ہزار درہم تھا لیتے گئے ان کے چلے جانے کے بعد میرے دادا ابوقحافہ گھر میں داخل ہوئے ان کی بصارت ختم ہوچکی تھی کہنے لگے : بخدا ! میں سمجھتا ہوں ابوبکر نے تمہیں اپنی جان کے ساتھ ساتھ اپنے مال سے بھی تکلیف پہنچائی ہے میں نے کہا : اے دادا جان ! ہرگز نہیں وہ بہت سارا مال ہمارے لیے چھوڑ کر گئے ہیں چنانچہ میں نے کچھ کنکریاں لیں اور گھر میں اس جگہ ڈال دیں جہاں میرے والد مال رکھتے تھے، پھر میں نے کنکریوں پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ اور دادا کا ہاتھ پکڑ کرلے آئی اور کہا : دادا جان اس مال پر اپنا ہاتھ رکھیں، دادا مال رکھتے تھے، پھر میں نے کنکریوں پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ اور دادا کا ہاتھ پکڑ کرلے آئی اور کہا : دادا جان اس مال پر اپنا ہاتھ رکھیں ، دادا نے اپنا ہاتھ رکھا اور کہا : کوئی حرج نہیں جب تمہارے لیے اتنا مال چھوڑ گیا ہے تو اس نے بہت اچھا کیا، اس سے تمہارا اچھا خاصا گزارا چل جائے گا۔ حضرت اسماء کہتی ہیں اللہ کی قسم ! ابوبکر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں چھوڑ کر گئے تھے لیکن میں نے اس بوڑھے کو خاموش کرنا چاہا۔ چنانچہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) جاچکے تو قریش کی ایک جماعت ہمارے پاس آئی جن میں ابوجہل بھی تھا، وہ دروازے پر آیا اور ابوبکر ! ابوبکر پکارنے لگا۔ میں نے ان کی طرف گھر سے باہر نکلی ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا : اے دختر ابی بکر تمہارا بات کہاں ہے ؟ میں نے جواب دیا : اللہ کی قسم مجھے پتا نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے ہیں ابوجہل فاحش مزاج اور خبیث سرشت انسان تھا اس نے جو اپنا ہاتھ اٹھایا تو مجھے ایک تھپڑ دے مارا جس سے میری بالی وہ جالگی۔ پھر وہ لوگ واپس لوٹ گئے تین دن ہم نے بیخبری کے عالم میں گزارے ہمیں نہیں پتہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہاں لے گئے حتیٰ کہ مکہ کے نشیبی حصہ میں کسی جن کی آواز سنائی دی جو عربوں کی لے میں اشعار گنگنارہا تھا جب کہ لوگ آواز سن سکتے تھے مگر آواز والے کو نہیں دیکھ سکتے تھے حتیٰ کہ آواز والا مکہ کے اوپر والے حصہ سے کہیں غائب ہوگیا۔ چند اشعار یہ ہیں :
جزی اللہ رب الناس خیر جزاہ
رفیقین حلا خیمتی ام معبد
اللہ تعالیٰ جو کہ سب لوگوں کا پروردگار ہے دوررفیقوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جو ام معبد کے خیمہ میں اترے۔
ھما نزلا بالبر ثم تروحا
فافلح من اسمی رفیق محمد
وہ دونوں خشکی میں اترے پھر کوچ کر گئے اور جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفیق سفر ہوا وہ کامیاب ہوگیا۔
لیھن بنی کعب مکان فتاتھم
ومقعدھا للمومنین بمر صد
مبارک ہو بنی کعب کو ان کی عورتوں کا مقام اور اہل ایمان کو ان کے مقام کا ٹھکانا ہے۔
رواہ ابن اسحاق

46330

46318- عن عائشة قالت: بينا أنا ألعب في ظهيرة في ظل جدار وأنا جارية جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتددت إلى أبي فقلت: هذا عمي قد جاء! فخرج إليه فرحب برسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا أبا بكر! ألم ترني كنت استأذن الله في الخروج؟ قال أجل، قال: فقد أذن لي، قال: أبو بكر: الصحابة! قال الصحابة، قال أبو بكر: إن عندي راحلتين قد علفتهما من ستة أشهر لهذا فخذ أحدهما، فقال: بل أشتريها، فاشتراها منه، فخرجا، فكانا في الغار، وكان عامر بن فهيرة مولى أبي بكر يرعى غنما لأبي بكر، فكان يأتيهما إذا أمسيا باللبن واللحم، وكان عبد الله بن أبي بكر يسمى إليهما فيأتيهما بما يكون بمكة من خبرهم، ثم يرجع فيصبح بمكة، فلا يرون إلا أنه بات معهم، فكان ذلك حتى سار رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته وعامر بن فهيرة يمشي مع أبي بكر مرة وربما أردفه، وكانت أسماء تقول: لما صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي سفرتهما وجد أبو قحافة ريح الخبز فقال: ما هذا؟ لأي شيء هذا؟ فقلت: لا شيء، هذا خبز عملناه نأكله، ثم إني لم أجد حبلا للسفرة، فنزعت حبل منطقي وربطت السفرة، فلذلك سميت ذات النطاقين، فلما خرج أبو بكر جعل أبو قحافة يلتمسه ويقول: أقد فعلها! خرج وترك عياله علي! ولعله قد ذهب بماله! وكان قد عمى، فقلت: لا، فأخذت بيده فذهبت به إلى جلد فيه أقط فمسه، فقلت: هذا ماله. "البغوي، قال ابن كثير: حسن الإسناد".
46318 حضرت عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت دیوار کے سائے تلے کھیل رہی تھی میں ابھی چھوٹی لڑکی تھی۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے میں بھاگ کر اپنے والد صاحب کے پاس گئی اور کہا : یہ میرے چچا ہیں جو آچکے ہیں۔ میرے والد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکلے اور خوش آمدید کہا، آپ نے فرمایا : اے ابوبکر ! کیا مجھے خبر نہیں دو گے کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہاں سے نکل جانے کی اجازت طلب کرتا رہا ہوں ؟ عرض کیا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا : لو مجھے اجازت مل گئی ہے حضرت ابوبکر نے کہا : آہا پھر تو مزیدار صحبت ہوگی۔ میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنہیں میں چھ ماہ سے چارا کھلاتا رہا ہوں ایک آپ لے لیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ میں خریدوں گا چنانچہ آپ نے اونٹنی خریدی اور پھر دونوں گھر سے نکل گئے دونوں حضرات نے غار میں پڑاؤ کیا جب کہ عامر بن فھیرہ مولائے ابی بکر بکریاں چرایا کرتا تھا شام کے وقت وہ ان کے پاس دودھ اور گوشت لے کر حاضر ہوجاتا جب کہ عبداللہ بن ابی بکر بھی مکہ والوں کی خبریں لے کر ان کے پاس جاتے رہتے پھر واپس لوٹ آتے اور صبح کو مکہ سے اٹھتے، لوگ یہی سمجھتے کہ عبداللہ نے یہیں رات گزاری ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتیٰ کہ رسول اللہ وہاں سے کوچ کر گئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر سوار رہتے جب کہ عامر بن فہیرہ ابوبکر (رض) کے ساتھ چلتے اور کبھی ابوبکر انھیں اپنے پاس بٹھالیتے حضرت اسمائ (رض) کہا کرتی تھیں جب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے لیے زادراہ تیار کرتی تو ابو قحافہ روٹی پکنے کی بوسونگھتے، پوچھتے یہ کیسی بو ہے میں کہہ دیتی۔ کچھ نہیں : میں روٹی پکارہی ہوں تاکہ اسے ہم کھائیں۔ پھر میں نے زادراہ باندھنے کے لیے کوئی رسی نہ پائی میں نے اپنے کمربند کی رسی کھولی اور اس سے زادراہ باندھا (اسی وجہ سے حضرت سمائ (رض) کو ذات النطا قین کا لقب دیا گیا ہے) چنانچہ جب ابوبکر جاچکے تو ابوقحافہ نے انھیں تلاش کرنا شروع کردیا اور کہتے ابوبکر چلا گیا اور اپنے عیال کا بوجھ مجھ پر ڈالتا گیا۔ شاید مال بھی اپنے ساتھ لیتا چلا گیا ہے ابوقحافہ نابینا ہوچکے تھے میں نے کہا : ایسا نہیں، میں نے ابوقحافہ کا ہاتھ پکڑا اور ایک تھلے کے اس لے گئے جس میں پنیر کے کچھ ٹکڑے تھے ابوقحافہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور میں نے کہا : یہ رہا ابوبکر کا مال۔ رواہ البغوی وقال ابن کثیر حسن الاسناد

46331

46319- عن ابن عمر قال قال أهل المدينة لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ادخل المدينة راشدا مهديا، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة فخرج الناس فجعلوا ينظرون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلما مر على قوم قالوا: يا رسول الله! ههنا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دعوها فإنها مأمورة - يعني ناقته - حتى بركت على باب أبي أيوب الأنصاري. "عد، كر".
46319 ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ اہل مدینہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے : مدینہ میں رشد و ہدایت کے ساتھ داخل ہوجائیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں داخل ہوئے تو لوگ راستوں اور گلیوں میں نکل آئے آپ جن لوگوں کے پاس سے بھی گزرتے وہ کہتے : یارسول اللہ ! ہمارے یہاں قیام کریں رسول اللہ فرماتے : اسے (یعنی اونٹنی کو) چھوڑ دو اسے اللہ کی طرف سے حکم ملا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری (رض) کے دروازے پر جابیٹھی۔
رواہ ابن عدی وابن عساکر

46332

46320- عن ابن مسعود قال: إن أول من هاجر من هذه الأمة غلامان من قريش. "ش".
46320 ابن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے قریش کے دو لڑکوں نے ہجرت کی ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

46333

46321- ابن هشام في السيرة: حدثني بعض أهل العلم أن الحسن بن أبي الحسن قال: انتهى رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار ليلا، فدخل أبو بكر قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم فلمس الغار لينظر أفيه سبعا أو حية يقي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه.
46321 ابن ہشام نے سیرت میں نقل کیا ہے مجھے بعض اہل علم نے حدیث سنائی ہے کہ حسن ابن ابی الحسن کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت غار میں پہنچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ابوبکر (رض) غار میں داخل ہوئے اور اندر سے اچھی طرح معائنہ کیا کہ کوئی درندہ نہ ہو یا کوئی سانپ نہ ہو اتنی دیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر کھڑے رہے۔

46334

46322- عن عروة أن عبد الله بن أبي بكر كان الذي يختلف بالطعام إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وهما في الغار. "ش".
46322 عروہ کی روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی بکر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کے پاس کھانا لاتے تھے جب کہ یہ دونوں حضرات غار میں تھے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

46335

46323- عن عروة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما هاجر إلى المدينة هو وأبو بكر وعامر بن فهيرة استقبلتهم هدية طلحة إلى أبي بكر في الطريق فيها ثياب بيض، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر المدينة. "ش".
46323 حضرت عروہ (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) اور عامر بن فہیرہ (رض) کے ساتھ ہجرت مدینہ کی تو راستے میں حضرت طلحہ (رض) کا ہدیہ ابوبکر (رض) کو ملا جس میں کچھ کپڑے اور انڈے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) مدینہ میں داخل ہوگئے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

46336

46324- عن علي قال: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة في الهجرة أمرني أن أقيم بعده حتى أؤدي ودائع كانت عنده للناس، وإنما كان يسمى الأمين، فأقمت ثلاثا وكنت أظهر، ما تغيبت يوما واحدا، ثم خرجت فجعلت أتبع طريق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قدمت بني عمرو بن عوف ورسول الله صلى الله عليه وسلم مقيم، فنزلت على كلثوم بن الهدم وهنالك منزل رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن سعد".
46324 حضرت علی (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت مدین کی تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے بعد یہیں مکہ میں مقیم رہوں حتیٰ کہ لوگوں کی جو امانتیں آپ کے پاس تھیں وہ ادا کردوں۔ چنانچہ آپ کو امین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ میں نے آپ کے بعد تین دن قیام کیا اور سرعام گھومتا پھرتا تھا۔ میں ایک دن بھی روپوش نہیں ہوا ہوں پھر میں بھی رسول اللہ کے پیچھے چل پڑا حتیٰ کہ بنی عمروبن عوف کے پاس جا اترا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقیم ہوچکے تھے میں کلثوم بن الھدم کے پاس اترا اور یہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کئے ہوئے تھے۔ رواہ ابن سعد

46337

46325- عن ابن شهاب قال: خرج قبل خروج النبي صلى الله عليه وسلم أبو سلمة بن عبد الأسد وأم سلمة ومصعب بن عمير وعثمان بن مظعون وأبو حذيفة بن عتبة بن ربيعة وعبد الله بن جحش وعمار بن ياسر وشماس بن عثمان بن الشريد وعامر بن ربيعة ومعه امرأته أم عبد الله بنت أبي حثمة، فنزل أبو سلمة وعبد الله بن جحش في بني عمرو بن عوف في أصحاب لهم، ثم خرج عمر بن الخطاب وعياش ابن أبي ربيعة في أصحاب لهم، فنزلوا على بني عمرو بن عوف. "كر".
46325 ابن شہاب کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل جن صحابہ کرام (رض) نے ہجرت کی وہ یہ ہیں ابوسلمہ بن عبدالاسد، ام سلمہ، مصعب بن عمیر، عثمان مظعون، ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ، عبداللہ بن جحش ، عمار بن یاسر، شماس بن عثمان بن شرید، عامر بن ربیعہ اور ان کی بیوی ام عبداللہ بنت ابی حثمہ چنانچہ ابوسلمہ اور عبداللہ بن جحش اپنے ساتھیوں کے ساتھ بنی عمروہ بن عوف میں اترے، پھر حضرت عمر بن خطاب اور عیاش بن ابی ربیعہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لے گئے اور یہ بھی بین عمرو بن عوف کے پاس جا اترے۔ رواہ ابن عساکر

46338

46326- عن نافع بن عمر الجمحي عن ابن أبي مليكة أن النبي صلى الله عليه وسلم لما خرج هو وأبو بكر إلى ثور، فجعل أبو بكر يكون أمام النبي صلى الله عليه وسلم مرة وخلفه مرة، فسأله النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: إذا كنت أمامك خشيت أن تؤتي من ورائك، وإذا كنت خلفك خشيت أن تؤتي من أمامك، حتى إذا انتهى إلى الغار من ثور، قال أبو بكر: كما أنت حتى أدخل يدي فأحسه وأقصه! فإن كانت فيه دابة أصابتني قبلك، قال نافع: فبلغني أنه كان في الغار جحر فألقم أبو بكر رجله ذلك الجحر تخوفا أن يخرج منه دابة أو شيء يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم. "البغوي، قال ابن كثير: هذا مرسل حسن، قال: وقد رواه وكيع بن الجراح عن نافع عن ابن عمر الجمحي المكي عن رجل لم يسمه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبا بكر لما انتهينا إلى الغار إذا جحر في الغار قال: فألقمها أبو بكر رجله فقال: يا رسول الله! إن كانت لدغة أو لسعة كانت بي دونك".
46326 نافع بن عمر حمحی، ابن ابی ملیکہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) غارثور کی طرف نکلے ابوبکر (رض) کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے چلتے اور کبھی آپ کے پیچھے چلتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) سے اس کی وجہ پوچھی، ابوبکر (رض) نے جواب دیا جب میں آپ کے آگے چلتا ہوں اس وقت مجھے خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی پیچھے سے نہ آن لے اور جب آپ کے پیچھے چلتا ہوں مجھے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں آپ کو کوئی آگے سے نہ آن لے حلیٰ کہ جب غارثور تک پہنچے تو ابوبکر (رض) نے عرض کیا : آپ یہیں کھڑے رہیں میں اندر جاکر معائنہ کرلو تاکہ اگر کوئی سانپ بچھو ہو آپ سے قبل مجھے گزند پہنچائے نافع کہتے ہیں : غار میں ایک سوراخ تھا جس پر ابوبکر (رض) نے اپنا پاؤں رکھ دیا تھا کہ کوئی سانپ یا بچھو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت نہ پہنچاسکے۔ (رواہ البغوی وقال ابن کثیر ھذا مرسل حسن قال وقدرواہ وکیع ابن الجراح عن نافع عن ابن عمر المکی المکی عن رجل لم یسمہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) جب غارثور میں پہنچے تو غار میں ایک سوراخ تھا ابوبکر (رض) نے سوراخ پر اپنا پاؤں رکھ دیا اور عرض کیا یارسول اللہ ! اگر بچھو یا سانپ ہو تو اس کا ڈس آپ کے علاوہ مجھے لگے) ۔

46339

46327- عن أبي برزة أن أبا بكر الصديق قال لابنه: يا بني! إن حدث في الناس حدث فائت الغار الذي رأيتني اختبأت فيه أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم فكن فيه، فإنه سيأتيك فيه رزقك غدوة وعشية. "ابن أبي الدنيا في المعرفة، والبزار، وفيه موسى بن مطير القرشي واه".
46327 ابوبرزہ (رض) کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے اپنے بیٹے سے کہا : اے بیٹا ! لوگوں میں کوئی نئی بات ہوجائے تو اس کی مجھے خبر دینے غار میں آجانا جس میں میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روپوش ہوں گے۔ یقیناً اس غار میں صبح شام تمہارا رزق پہنچتا رہے گا۔۔ رواہ ابن ابی الدنیا فی المعرفۃ والبزار وفیہ موسیٰ بن مطیر القرش واہ

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔