hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

30. آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان

كنز العمال

17807

17807- "كان فخما مفخما يتلألأ وجهه تلألأ القمر ليلة البدر أطول من المربوع وأقصر من المشذب عظيم الهامة رجل الشعر إن انفرقت عقيصته فرق، وإلا فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه، إذا هو وفره أزهر اللون واسع الجبين أزج الحواجب سوابغ في غير قرن بينهما عرق يدره الغضب، أقنى العرنين له نور يعلوه يحسبه من لم يتأمله أشم، كث اللحية سهل الخدين ضليع الفم أشنب مفلج الأسنان دقيق المسربة كأن عنقه جيد دمية في صفاء الفضة معتدل الخلق بادنا متماسكا سواء البطن والصدر عريض الصدر بعيد ما بين المنكبين ضخم الكراديس أنور المتجرد موصول ما بين اللبة والسرة بشعر يجري كالخط عاري الثديين والبطن مما سوى ذلك أشعر الذراعين والمنكبين وأعالي الصدر طويل الزندين رحب الراحة سبط القصب شثن الكفين والقدمين سائل الأطراف خمصان الأخمصين مسيح القدمين ينبو عنهما الماء إذا زال زال تقلعا ويخطو تكفئا، ويمشي هونا ذريع المشية إذا مشى كأنما ينحط من صبب وإذا التفت التفت جميعا، خافض الطرف نظره إلى الأرض أطول من نظره إلى السماء جل نظره الملاحظة يسوق أصحابه ويبدأ من لقيه بالسلام."ت في الشمائل طب هب عن هند بن أبي هالة).
17807 ۔۔۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات میں شاندار اور لوگوں کے نزدیک بھی شاندار اور عظیم ترین انسان تھے ۔ آپ کا رخ زیبا چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا ، میانہ قد سے قدرے طویل قامت تھے اور لانبے قد والے کی طرح نہ تھے ، سر اقدس بڑا اور مناسب تھا ۔ سر کے بال گھنے اور قدرے گھنگھریالے تھے ۔ اگر سر کے بالوں میں از خود بسہولت مانگ نکل آئے تو نکال لیتے ورنہ جب کنگھی میسر ہوتی تو اس وقت نکالتے ۔ آپ کے سر اقدس کے بال زیادہ سے زیادہ کانوں کی لو سے متجاوز تھے ۔ آپ کا رنگ نہایت چمکدار تھا ، کشادہ پیشانی کے مالک تھے ۔
آپ کی ابروئیں باریک لمبی ، بالوں سے بھری ہوئیں اور ایک دوسرے سے جدا تھیں ۔ دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت پھڑکتی تھی ۔ آپ کی ناک بلندی مائل تھی ۔ اس سے ایک نور اور (روشنی) بلند ہوتی تھی ۔ (اور حقیقت وہ روشنی ناک کی اپنی چمک دمک تھی ) جس کی وجہ سے ناک بلند محسوس ہوتی تھی آپ کی ریش مبارک گھنی تھی ۔ آپ کے رخسار مبارک نرم تھے گوشت لٹکے ہوئے نہ تھے آپ کا دہن مناسب کشادہ تھا آپ کے سامنے کے دندان مبارک باریک آبدار اور قدرے کھلے کھلے تھے سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی ۔ آپ کی گردن مبارک خوبصورتی میں خالص چاندی کی جیسی گردن تھی ۔ آپ کے تمام اعضاء مناسب پر گوشت اور گٹھے ہوئے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکم مبارک سینے کے برابر تھا اور آپ کا سینہ چوڑا اور برابر تھا اور آپ کا سینہ چوڑا اور کاندھے مبارک بڑے اور فراخ تھے آپ کے جوڑ پر گوشت مضبوط بالوں سے عاری اور خوبصورت تھے ۔ لبہ (سینے پر ہارپڑنے کی جگہ) سے ناف تک بالوں کا ایک باریک خط تھا اس کے علاوہ پستان اور شکم مبارک بالوں سے صاف تھا ۔ بازو اور شانے مبارک پر بال تھے ۔ اونچا سینا تھا کلائیاں دارز تھیں کشادہ ہتھلیاں تھیں ۔ دونوں ہاتھ اور پاؤں پر گوشات تھے انگلیاں مناسب لمبی تھیں۔ پاؤں کے پنجوں اور ایڑیوں کے درمیان کی جگہ شگاف تھا چلتے وقت زمین پر یہ حصہ نہ پڑتا تھا ۔ یعنی تلوے گہرے تھے ۔ دونوں پاؤں یوں ہموار اور صاف شفاف تھے کہ پانی ان پر ٹھہرتا نہیں تھا جب آپ چلتے تو قدم مبارک قوت سے اکھاڑتے تھے اور گویا جھکتے ہوئے قدم مبارک اٹھاتے تھے آہستہ اور نرمی کے ساتھ چلتے تھے ۔ کشادہ کشادہ قدم اٹھاتے تھے جب آپ چلتے تو گویا بلندی سے پستی کی طرف اتر رہے ہیں جب آپ کسی طرف متوجہ ہوتے تو کن انکھیوں سے نہیں بلکہ پورے سراپا کے ساتھ متوجہ ہوتے تھے آپ کی نظریں پست رہتی تھیں آسمان سے زیادہ زمین کی طرف نظریں زیادہ مرکوز رہتی تھیں ۔ آپ کا زیادہ دیکھنا صرف ملاحظہ فرمانا ہوتا تھا۔ (یعنی گھور کر مسلسل نہ دیکھتے تھے) آپ صحابہ کرام (رض) کے آگے ن چلتے تھے اور جو آپ کو ملتا آپ سلام میں پہل کرتے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل الکبیر للطبرانی شعب الایمان للبیھقی عن ھند بن ابی ھالہ)

17808

17808- "كان أبيض كأنما صيغ من فضة رجل الشعر". "ت فيها عن أبي هريرة".
17808 ۔۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گوری رنگت کے مالک تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں اور بال مبارک آپ کے گھنگریالے تھے۔ (ترمذی فی الشمائل عن ابوہریرہ (رض))

17809

17809- "كان أبيض مشربا بياضه بحمرة وكان أسود الحدقة أهدب الأشفار". "البيهقي في الدلائل عن علي"
17809 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مائل بہ سرخی گوری رنگت والے تھے ، آپ کی آنکھوں کی پتلی انتہائی سیاہ اور دراز پلکیں تھیں ۔ (البیھقی فی الدلائل عن علی (رض))

17810

17810- "كان أبيض مشربا بحمرة ضخم الهامة أغر أبلج أهدب الأشفار". "البيهقي عن علي"
17810 ۔۔۔ آپ صاف شفاف گوری رنگ مائل بہ سرخی والے تھے ۔ آپ کا سر اقدس بڑا اور خوبصورت تھا ، چمکدار پیشانی اور ابروؤں کے درمیانی کشادگی اور دراز پلکوں کے ساتھ حسین چہرے کے مالک تھے (البیھقی فی الدلائل عن علی (رض))

17811

17811- "كان أحسن الناس وجها وأحسنهم خلقا ليس بالطويل البائن ولا بالقصير". "ق عن البراء"
17811 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ حسین اور خوبصورت اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے ، نہ بہت زیادہ لمبے اور نہ پست قد تھے ۔ (بلکہ لوگوں کے درمیان چلتے ہوئے معجزانہ طور پر سب سے زیادہ وجیہہ اور قد آور معلوم ہوتے تھے) ۔ (بخاری ، مسلم عن البراء (رض))

17812

17812- "كان أحسن البشر قدما". "ابن سعد عن عبد الله بن بريدة، مرسلا".
17812 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فداہ ابی وامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے اچھے چال ڈھال والے تھے ۔ (ابن سعد عن عبداللہ بن بریدہ مرسلا)

17813

17813- "كان أحسن الناس خلقا"."م د عن أنس"
17813 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں میں سب سے زیادہ عمدہ اخلاق کے مالک تھے ۔ (مسلم ، ابو داؤد عن انس (رض))

17814

17814- "كان أحسن الناس وأجود الناس وأشجع الناس". "ق ت هـ عن أنس"
17814 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ حسین ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ عن انس (رض))

17815

17815- "كان أحسن الناس صفة وأجملها، كان ربعة إلى الطول ما هو بعيد ما بين المنكبين أسيل الخدين، شديد سواد الشعر أكحل العينين أهدب إذا وطيء بقدمه وطيء بكلها ليس له أخمص، إذا وضع رداءه عن منكبه فكأنه سبيكة فضة، وإذا ضحك يتلألأ". "البيهقي عن أبي هريرة".
17815 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ اچھی صفات والے اور سب سے زیادہ حسن و جمال والے تھے ، مائل بہ درازی میانہ قد والے تھے ۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی والے اور نرم و خوبصورت رخساروں والے تھے ۔ آپ کے بال مبارک انتہائی سیاہ اور آنکھیں سرمگیں اور دراز پلکوں والی تھیں ۔ جب آپ چلتے تو پورے قدموں کے ساتھ چلتے اور جلدی کی وجہ سے آدھا پاؤں نہ ٹیکتے تھے ، جب شانہ مبارک سے چادر اتارتے تو لگتا گویا چاندی کا مجسمہ کھل گیا ہو ، جب آپ ہنستے تو دندان مبارک چمکتے تھے ۔ (البیھقی فی الدلائل عن ابوہریرہ (رض))

17816

17816- "كان أزهر اللون كأن عرقه اللؤلؤ إذا مشى تكفأ". "م عن أنس".
17816 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فداہ ابی وامی ودنیای چمکدار صاف شفاف رنگت کے مالک تھے ، آپ کا پسینہ موتیوں کی مانند چمکتا تھا ، جب آپ چلتے گویا قدرے جھکتے ہوئے نیچے کو اتر رہے ہیں۔ (مسلم عن انس (رض))

17817

17817- "كان أشد حياء من العذراء في خدرها". "حم ق هـ عن أبي سعيد".
17817 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنواری لڑکی سے زیادہ باحیاء تھے ، جس قدر وہ اپنے پردے میں شرم وحیاء کی پیکر ہوتی ہے اس سے زیادہ حیاء رکھنے والے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ابن ماجہ عن ابی سعید (رض))

17818

17818- "كان أصبر الناس على أقذار الناس". "ابن سعد عن إسماعيل بن عياش مرسلا".
17818 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی تکلیف پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے ۔ (ابن سعد عن اسماعیل بن عباس مرسلا)

17819

17819- "كان أفلج الثنيتين إذا تكلم رؤي كالنور يخرج من بين ثناياه". "ت في الشمائل طب والبيهقي عن ابن عباس".
17819 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے دانت قدرے کشادہ (اور آبدار) تھے۔ جب آپ کلام کے لیے لب وا فرماتے تو یوں محسوس ہوتا گویا آپ کے دانتوں کے درمیان سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ (ترمذی فی الشمائل ، الکبیر للطبرانی ، البیھقی عن ابن عباس (رض))

17820

17820- "كان حسن السبلة". "طب عن العداء بن خالد"
17820 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے اچھی داڑھی اور مونچھ والے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن العداء بن خالد)

17821

17821- "كان خاتم النبوة في ظهره بضعة ناشزة". "ت فيها عن أبي سعيد".
17821 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہر نبوت آپ کی کمر مبارک میں گوشت کا ابھرا ہوا ایک حصہ تھی ۔ (ترمذی فی الشمائل عن ابی سعید خدری (رض))

17822

17822- "كان خاتمه غدة حمراء مثل بيضة الحمامة". "ت عن جابر بن سمرة".
17822 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہر نبوت گوشت کا ابھرا ہوا ایک سرخ ٹکڑا تھا جو کبوتری کے انڈے کی مانند تھا ۔ (ترمذی عن جابر بن سمرۃ (رض))

17823

17823- "كان ربعة من القوم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير، أزهر اللون ليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط"."ق ت عن أنس"
17823 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوم میں درمیانہ قد و قامت کے مالک تھے ، نہ بہت لمبے اور نہ بہت پست قامت تھے ، چمکتی ہوئی صاف شفاف رنگت والے تھے ، نہ بالکل چٹے سفید اور نہ گندم گوں سانولے تھے ، آپ کے بال سخت گھنگھریالے بھی نہ تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے (بلکہ کسی قدر گھنگھریالے خمدار تھے) ۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، عن انس (رض))

17824

17824- "كان شبح الذراعين، بعيد ما بين المنكبين، أهدب أشفار العينين". "البيهقي عن أبي هريرة".
17824 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چوڑے اور دراز بازوؤں والے تھے آپ کے شانے چوڑے چکلے تھے اور آپ کی آنکھوں کی پلکیں دراز تھیں ۔ (البیھقی عن ابوہریرہ (رض))

17825

17825- "كان في ساقيه حموشة". "ت ك عن جابر بن سمرة".
17825 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باریک پنڈلیوں والے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن جابر بن سمرۃ (رض))

17826

17826- كان كثير شعر اللحية. "م عن جابر بن سمرة".
17826 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈاڑھی مبارک کے بال گھنے اور گنجان تھے ۔ (مسلم عن جابر بن سمرہ (رض))

17827

17827- كان وجهه مثل الشمس والقمر وكان مستديرا. "م عن جابر بن سمرة"
17827 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چہرہ مبارک آفتاب اور ماہتاب کی مانند چمکتا تھا ، آپ کا چہرہ اقدس گول (اور کتابی) تھا۔ (مسلم عن جابر بن سمرۃ (رض))

17828

17828- كان كثير العرق. "م عن أنس".
17828 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسینہ زیادہ آتا تھا ۔ (مسلم عن انس (رض))

17829

- كان شعره دون الجمة وفوق الوفرة. "ت في الشمائل، هـ عن عائشة".
17829 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال کانوں تک لمبے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل ، ابن ماجہ عن عائشۃ (رض))

17830

17830- "كان شيبه نحو عشرين شعرة"."ت فيها هـ عن ابن عمر".
17830 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بڑھاپا تقریبا بیس بالوں تک محدود تھا ۔ (ترمذی فی الشمائل ، ابن ماجۃ عن ابن عمر (رض))

17831

17831- "كان ضخم الرأس واليدين والقدمين"."خ عن أنس"
17831 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خوبصورتی کی حد تک) بڑے سر اور بڑے ہاتھوں اور قدموں والے تھے ۔ (بخاری عن انس (رض))

17832

17832- "كان ضليع الفم أشكل العين منهوس العقب". "م ت عن جابر بن سمرة".
17832 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دہانہ اقدس مناسب حد تک بڑا تھا ۔ آپ کی آنکھوں کی سفیدی انتہائی سفید اور قدرے مائل بہ سرخی تھی اور آپ کی ایڑیاں پتلی اور سبک رو تھیں ۔ (مسلم ، ترمذی عن جابر (رض) بن سمرۃ)

17833

17833- "كان ضخم الهامة عظيم اللحية"."البيهقي عن علي".
17833 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مناسب اور بڑے سر والے اور گنجان داڑھی والے تھے ۔ (البیھقی عن علی (رض))

17834

17834- "كان إذا توضأ أخذ كفا من ماء فنضح به فرجه". "حم د 1ن هـ ك عن الحكم بن سفيان".
17834 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرما لیتے تو ایک چلو پانی لے کر اپنی شرمگاہ پر چھڑک لیتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن الحکم بن سفیان)

17835

17835- "كان إذا توضأ فضل موضع سجوده بماء حتى يسيله على موضع سجوده". "طب عن الحسن، ع عن الحسين".
17835 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرماتے تو موضع سجود (جن اعضاء پر سجدہ ہوتا ہے ان) کو پانی کے ساتھ خوب فضیلت دیتے یعنی ان پر خوب پانی بہاتے تھے ۔ (اسراف کی حد سے بچتے ہوئے) ۔ (الکبیر للطبرانی عن الحسن ، مسند ابی یعلی عن الحسین (رض)

17836

17836- "كان إذا توضأ حرك خاتمه". "هـ عن أبي رافع"
17836 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو فرماتے تو اپنی انگوٹھی کو (ہاتھ دھوتے وقت) ہلا لیتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابی رافع)

17837

17837- "كان إذا توضأ أدار الماء على مرفقيه". "قط عن جابر".
17837 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو فرماتے تو اپنی کہنوں پر پانی گھماتے تھے ۔ (الدارقطنی عن جابر (رض))
فائدہ : ۔۔۔ یعنی چلو میں پانی لے کر چلو کو اوپر اٹھاکر پانی نیچے بازو پر گراتے تھے جس سے پانی کہنیوں پر گھوم کر گرتا تھا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

17838

17838- "كان إذا توضأ خلل لحيته بال ماء". "حم ك عن عائشة، ت 1ك عن عثمان ت ك عن عمار بن ياسر ك عن بلال هـ ك عن أنس طب عن أبي أمامة وعن أبي الدرداء وعن أم سلمة طس عن ابن عمر".
17838 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو فرماتے تو پانی کے ساتھ اپنی ڈاڑھی مبارک کا خلال کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن بلال (رض) ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن انس (رض) ، الکبیر للطبرانی عن ابی امامہ وعن ابی الدرداء عن ام سلمۃ ، الاوسط للطبرانی عن ابن عمر (رض))

17839

17839- "كان إذا توضأ أخذ كفا من ماء فأدخله تحت حنكه فخلل به لحيته وقال: هكذا أمرني ربي". "د ك عن أنس"
17839 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لے کر نرخرے کی طرف سے داڑھی مبارک میں ڈال کر خلال کرتے اور فرماتے تھے مجھے میرے پروردگار نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (ابودؤاد ۔ مستدرک الحاکم ، عن انس (رض))

17840

17840- "كان إذا توضأ عرك عارضيه بعض العرك، ثم شبك لحيته بأصابعه من تحتها". "هـ عن ابن عمر".
17840 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرماتے تھے تو اپنے رخساروں کو کسی قدرے رگڑتے اور پھر انگلیاں پھیلا کر ڈاڑھی کے نیچے سے خلال فرماتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عمر (رض))

17841

17841- "كان إذا توضأ صلى ركعتين ثم خرج إلى الصلاة". "هـ عن عائشة".
17841 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرما لیتے تو پھر (گھر ہی میں) دو رکعت نماز ادا کرکے نماز (پڑھانے) نکل جاتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

17842

17842- "كان إذا توضأ دلك أصابع رجليه بخنصره". "د ت هـ عن المستورد".
17842 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وضو فرما لیتے تو (آخر میں پاؤں دھوتے وقت) چھنگلیا (الٹے ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی) کو پاؤں کو انگلیوں کے درمیان رگڑتے تھے ۔ (ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجۃ عن المستورد)

17843

17843- "كان إذا توضأ مسح وجهه بطرف ثوبه"."ت عن معاذ"
17843 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو فرما لینے کے بعد اپنے کپڑے (رومال وغیرہ) کے پلو کے ساتھ چہرہ صاف کرلیتے تھے۔ (ترمذی عن معاذ (رض))
امام ترمذی (رح) نے کتاب الطہارت باب فی التمدل بعد الوضو رقم 54 پر اس روایت کو تخریج فرمایا اور اس کے بعد فرمایا ھذا حدیث غریب واسنادہ ضعیف ۔ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔

17844

17844- "كان له خرقة ينشف بها بعد الوضوء". "ت ك عن عائشة"
17844 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک کپڑے کا ٹکڑا تھا (رومال کی مانند) وضو کے بعد اس کے ساتھ اعضاء صاف کرلیتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))
کلام :۔۔۔ ترمذی کتاب الطہارۃ باب رقم 40 ورقم الحدیث 53 امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے اس میں سلیمان بن ارقم (ضعیف) راوی ہے۔

17845

17845- "كان لا يكل طهوره إلى أحد ولا صدقته التي يتصدق بها يكون هو الذي يتولاها بنفسه". "هـ عن ابن عباس".
17845 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طہارت میں کسی پر تکیہ نہ کرتے تھے (کہ دوسرا پانی وغیرہ ڈالے اور آپ وضو کرتے جائیں) اور نہ اپنے صدقے میں کسی پر بھروسہ کرتے بلکہ از خود صدقہ کیا کرتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

17846

17846- "كان يأكل مما مست النار ثم يصلي ولا يتوضأ". "طب عن ابن عباس".
17846 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگ پر پکے ہوئے کھانے کو تناول فرماتے پھر وضو کیے بغیر (پہلے وضو کے ساتھ) نماز ادا فرما لیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

17847

17847- "كان يحب التيامن ما استطاع في طهوره وتنعله وترجله وفي شأنه كله". "حم م ق عن عائشة"
17847 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طہارت میں ، جوتا پہننے میں ، سواری سے اترنے چڑھنے میں اور غرض ہر کام میں دائیں طرف کو مقدم کرنے کو پسند کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجۃ ، نسائی ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

17848

17848- "كان يصغي للهرة الإناء فتشرب ثم يتوضأ بفضلها". "طس حل عن عائشة".
17848 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلی کے لیے پانی کا برتن ٹیڑھا کردیتے تھے ، بلی پانی پی لیتے تو آپ بچے ہوئے پانی کے ساتھ وضو کرلیتے تھے ۔ (الاوسط للطبرانی ، حلیۃ الاولیاء عن عائشۃ (رض))

17849

17849- "كان يعجبه أن يتوضأ في مخضب من صفر". "ابن سعد عن زينب بنت جحش".
17849 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صقر (ایک پودا جس کے پتے خس کی مانند ہوتے ہیں) سے رنگے ہوئے برتن میں وضو کرنے کو پسند فرماتے تھے ۔ (ابن سعد عن زینب بنت جحش (رض))

17850

17850- "كان يقبل بعض أزواجه ثم يصلي ولا يتوضأ". "حم د ن عن عائشة"
17850 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کا بوسہ لے لیتے پھر بغیر وضو کے نماز ادا فرما لیتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی عن عائشۃ (رض))

17851

17851- "كان يمسح على وجهه بطرف ثوبه في الوضوء". "طب عن معاذ".
17851 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کے بعد اپنے کپڑے کے پلو کے ساتھ چہرہ مبارک پونچھ لیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن معاذ (رض))

17852

17852- "كان ينام حتى ينفخ، ثم يقوم فيصلي ولا يتوضأ". "حم عن عائشة".
17852 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بغیر ٹیک بیٹھے بیٹھے) اس قدر سو جاتے کہ منہ سے (خراٹے کی مانند) پھونکنے کی آواز آتی پھر کھڑے ہو کر بغیر وضو کیے نماز ادا فرما لیتے تھے ۔ (مسند احمد عن عائشۃ (رض))

17853

17853- "كان يتوضأ عند كل صلاة". "حم خ عن أنس"2
17853 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے وقت (تازہ) وضو فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری عن انس (رض))

17854

17854- "كان يتوضأ مما مست النار". "طب عن أم سلمة".
17854 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگ پر پکے ہوئے کھانے کو تناول فرمانے کے بعد وضو کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ام سلمۃ (رض))
فائدہ :۔۔۔ یعنی ہاتھ دھوتے اور کلی کرتے نہ کہ پورا وضو فرماتے تھے ، واللہ اعلم بالصواب ۔ یا پہلے زمانے میں مامست النا سے وضو کامل فرماتے تھے لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگا ۔ مامست النار سے وضو نہ کرنے کا عمل آخر تک رکھا ۔

17855

17855- "كان يتوضأ ثم يقبل ويصلي ولا يتوضأ". "حم، هـ عن عائشة".
17855 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو فرماتے پھر اپنی کسی بیوی کا بوسہ بھی لے لیتے تو بغیر وضو کیے نماز پڑھ لیتے تھے ۔ (مسند احمد عن عائشۃ (رض))

17856

17856- "كان لا يتوضأ من موطأ"3 "طب عن أبي أمامة".
17856 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راستے کی گندگیوں پر پاؤں پڑنے سے وضو نہ فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامہ)
فائدہ : ۔۔۔ کوئی گندگی کپڑوں یا جسم وغیرہ پر لگ جائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کو دھونا صاف کرنا ضروری ہے۔

17857

17857- "كان يتوضأ واحدة واحدة واثنتين اثنتين وثلاثا ثلاثا. كل ذلك يفعل". "طب عن معاذ".
17857 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک دو دو اور تین تین مرتبہ وضو کرتے تھے ہر ایک طریقہ اپناتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن معاذ (رض))
فائدہ : ۔۔۔ یعنی کبھی اعضاء وضو صرف ایک ایک مرتبہ دھوتے اور کبھی دو دو اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے ، اس سے زائد اسراف ہے۔

17858

17858- "كان إذا استن أعطى السواك الأكبر وإذا شرب أعطى الذي عن يمينه". "الحكيم عن عبد الله بن كعب".
17858 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسواک کرلیتے تو حاضرین میں سے سن رسیدہ کو مسواک عطا فرماتے اور جب اپنا جھوٹا دودھ پانی وغیرہ کسی کو دیتے تو دائیں طرف والے کو ترجیح دیتے ۔

17859

17859- "كان إذا دخل بيته بدأ بالسواك". "م د ن هـ عن عائشة"
17859 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو مسواک کرنے کے ساتھ پہل فرماتے تھے ۔ (مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

17860

17860- "كان يستاك بفضل وضوئه". "ع عن أنس".
17860 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وضو کے بچے ہوئے پانی کے ساتھ مسواک فرما لیا کرتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی عن انس (رض))

17861

17861- "كان يستاك عرضا ويشرب مصا ويتنفس ثلاثا ويقول هو أهنأ وأمرأ". "البغوي وابن قانع طب وابن السني وأبو نعيم في الطب عن بهز، هق عن ربيعة بن أكثم".
17861 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دانتوں پر) عرضا مسواک فرماتے (یعنی ایک باچھ سے دوسری باچھ کی طرف مسواک کھینچتے تھے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف) اور آپ (پانی وغیرہ) چسکی چسکی پیتے تھے ، تین مرتبہ دوران نوش سانس لیتے تھے اور فرماتے تھے یہ زیادہ خوشگوار اور اچھا ہے۔ (البغوی ، ابن قانع ، الکبیر للطبرانی ، ابن السنی ، ابو نعیم فی الطلب ، عن بھز ، شعب الایمان للبیھقی عن ربیعہ بن اکثم)

17862

17862- "كان يسلت المني من ثوبه بعرق الإذخر، ثم يصلي فيه ويحته من ثوبه يابسا ثم يصلي فيه". "حم عن عائشة".
17862 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذخر بوٹی کی ساتھ منی کو اتار دیتے تھے پھر اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے ، اور خشک منی کو کھرچ کر اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے ۔ (مسند احمد عن عائشۃ (رض))

17863

17863- "كان يغتسل بالصاع ويتوضأ بالمد". "ق د عن أنس"
17863 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک صاع (ساڑھے تین سیر پانی) کے ساتھ غسل فرما لیا کرتے تھے اور ایک مد (دو رطل اہل عراق کے نزدیک ایک رطل اور ایک تہائی رطل اہل حجاز کے نزدیک ، خلاصہ کلام تقریبا ایک سیر پانی سے کچھ کم) کے ساتھ وضو فرما لیا کرتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد عن انس (رض))

17864

17864- "كان لا يتوضأ بعد الغسل". "حم، ت، ن، هـ، ك عن عائشة"
17864 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل کے بعد وضو نہیں فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض) ترمذی حسن صحیح ہے)

17865

17865- "كان إذا التقى الختانان اغتسل". "الطحاوي عن عائشة"
17865 ۔۔۔ (بیوی سے مباشرت کے وقت محض) شرم گاہوں کے مل جانے سے بھی غسل فرما لیا کرتے تھے (الطحاوی عن عائشۃ (رض))

17866

17866- "كان إذا أراد الحاجة أبعد". "هـ عن بلال بن الحارث؛ حم ن هـ عن عبد الرحمن بن أبي قراد"
17866 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قضاء حاجت کا ارادہ فرماتے تو دور نکل جاتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن بلال بن الحارث ، مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن عبدالرحمن بن ابی قراد)

17867

17867- "كان إذا أراد الحاجة لم يرفع ثوبه حتى يدنو من الأرض"."د ت عن أنس وعن ابن عمر؛ طس عن جابر"
17867 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضاء حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین کے قریب نہ ہوجاتے کپڑا نہ اٹھاتے تھے ۔ (ابوداؤد ، ترمذی عن انس (رض) وعن ابن عمر (رض) ، الاوسط للطبرانی عن جابر (رض))
کلام ـ: ۔۔۔ ابو داؤد نے کتاب الطہارت باب کیف التکشف عند الحاجۃ رقم 14 پر اس کو تخریج فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ روایت ضعیف ہے۔ اور مرسل ہے۔

17868

17868- "كان إذا أراد أن يبول فأتى عزازا5 الأرض أخذ عودا فنكت به الأرض حتى يثير من التراب، ثم يبول فيه". "د في مراسيله والحارث عن طلحة بن أبي قنان، مرسلا".
17868 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب پیشاب کرنے کا ارادہ فرماتے اور سخت زمین پر آجاتے تو لکڑی لے کر زمین کھود کھود کر نرم کرلیتے پھر اس میں پیشاب کرتے ۔ (تاکہ چھینٹیں نہ اڑیں) ۔ (ابوداؤد فی مراسیلہ والحارث عن طلحۃ بنابی قنان مرسلا)

17869

17869- "كان إذا خرج من الغائط قال: غفرانك". "حم حب ك عن عائشة"
17869 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء سے نکلتے تو فرماتے : غفرانک (اے اللہ میں تیری مغفرت کا طلبگار ہوں) ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، صحیح ابن حبان ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

17870

17870- "كان إذا خرج من الخلاء قال: الحمد لله الذي أذهب عني الأذى وعافاني". "هـ، حب ك عن أنس".
17870 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب (قضاء حاجت کے بعد) خلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے :
(الحمد للہ الذی اذھب عن الاذی وعافانی)
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے عافیت بخشی ۔ (ابن ماجۃ عن انس (رض) ، نسائی عن ابی ذر (رض))

17871

17871- "كان إذا خرج من الغائط قال: الحمد لله الذي أحسن إلي في أوله وآخره". "ابن السني عن أنس".
17871 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضاء حاجت کرکے نکلتے تو یہ دعا (بھی) پڑھتے تھے :
(الحمد للہ الذی احسن الی فی اولہ واخرہ)
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میرے ساتھ اول میں بھی اور آخر میں اچھائی اور خیر کا معاملہ کیا ۔ (ابن السنی عن انس (رض))

17872

17872- "كان إذا دخل الخلاء وضع خاتمه". "، حب ك عن أنس".
17872 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء جانے کا ارادہ فرماتے تو انگوٹھی (جس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا) نکال کر رکھ دیتے تھے ۔ (ابن ماجۃ ، ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ، ابن حبان عن انس (رض))

17873

17873- "كان إذا دخل الخلاء قال: اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث". "حم ق عن أنس".
17873 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء جانے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث :
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں خبیث جنوں اور جنیوں سے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو دؤاد ، ابن ماجۃ ، نسائی ، ترمذی عن انس (رض))

17874

17874- "كان إذا دخل الكنيف قال: بسم الله اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث". "ش عن أنس"
17874 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت الخلاء میں جانے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے :
بسم اللہ اللم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث : (مصنف ابن ابی شیبۃ)

17875

17875- "كان إذا دخل الغائط قال: اللهم إني أعوذ بك من الرجس النجس الخبيث المخبث الشيطان الرجيم". "د في مراسيله عن الحسن مرسلا؛ ابن السني عنه عن أنس 34 عن بريدة، مرسلا".
17875 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء جانے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللہم انی اعوذ بک من الرجس النجس الخبیث المخبث اللشیطان الرجیم :
اے اللہ میں گندے ناپاک ، مخفی خبیث شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (ابوداؤد فی مراسیلہ عن الحسن مرسلا ، ابن السنی عنہ عن انس (رض) ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ ، عن بریدۃ مرسلا)

17876

17876- "كان إذا دخل المرفق لبس حذاءه وغطى رأسه". "ابن سعد عن حبيب بن صالح مرسلا".
17876 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت الخلاء جاتے تو جوتے پہن لیتے اور سر مبارک ڈھانپ لیتے تھے ۔ (ابن سعد عن حبیب بن صالح مرسلا)

17877

17877- "كان إذا دخل الخلاء قال: اللهم إني أعوذ بك من الرجس النجس الخبيث الشيطان الرجيم، وإذا خرج قال: الحمد لله الذي أذاقني لذته وأبقى في قوته وأذهب عني أذاه". "ابن السني عن ابن عمر".
17877 ۔۔۔ جب آپ بیت الخلاء داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے :
اللہم انی اعوذبک من الرجس النجس الخبیث المخبث الشیطان الرجیم :
اور جب بیت الخلاء سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے :
الحمد للہ الذی اذاقنی لذتہ وابقی فی قوتہ واذھب عن اذاہ :
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے کھانے کی لذت چکھائی اس کی قوت مجھ میں باقی رکھی اور اس کی گندگی مجھ سے دور کردی (ابن السنی عن ابن عمر (رض))

17878

17878- "كان إذا دخل الخلاء قال: يا ذا الجلال". "ابن السني عن عائشة".
17878 ۔۔۔ جب آپ خلاء میں داخل ہوتے تو یہ کلمہ پڑھتے : یاذالجلال ، ابن السنی عن عائشۃ (رض))

17879

17879- "كان إذا ذهب المذهب أبعد". " ك عن المغيرة"
17879 ۔۔۔ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو دور نکل جاتے تھے ۔ (ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ مستدرک الحاکم عن المغیرۃ) قال الترمذی حسن صحیح)

17880

17880- "كان يتبوأ لبوله كما يتبوأ لمنزله". "طس عن أبي هريرة".
17880 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضائے حاجت کے لیے یونہی جگہ تلاش کرتے تھے جس طرح سفر میں پڑاؤ ڈالنے کے لیے تلاش کرتے تھے (الاوسط للطبرانی عن ابوہریرہ (رض))

17881

17881- "كان يغسل مقعدته ثلاثا". "هـ عن عائشة".
17881 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مقعد کو تین مرتبہ دھوتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

17882

17882- "كان أحب ما استتر به لحاجته هدف أو حائش نخل". "حم م د هـ عن عبد الله بن جعفر".
17882 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاجت کے لیے بلند جگہ یا کھجور کے جھنڈ کا پردہ زیادہ پسند فرماتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ابو داؤد ، ابن ماجۃ ، عن عبداللہ بن جعفر)

17883

17883- "كان يتمم بالصعيد فلم يمسح يديه ووجهه إلا مرة واحدة". "طب عن معاذ".
17883 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاک مٹی کے ساتھ تیمم فرماتے تھے اور ہاتھوں اور منہ کے مسح میں ایک مرتبہ سے زیادہ ضرب نہیں ماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن معاذ (رض))

17884

17884- "كان إذا واقع بعض أهله فكسل أن يقوم ضرب يده على الحائط فتيمم" "طس عن عائشة".
17884 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے اہل خانہ کے ساتھ مباشرت کرلیتے اور اٹھنے کی ہمت نہ ہوتی تو دیوار پر ہاتھ مار کر تیمم کرلیتے تھے ۔ (الاوسط للطبرانی عن عائشۃ (رض))

17885

17885- "كان من أخف الناس صلاة في تمام". "م ت ن عن أنس".
17885 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے ہلکی نماز پڑھنے والے تھے امامت میں ۔ (مسلم ، ترمذی ، نسائی عن انس (رض))

17886

17886- "كان أخف الناس صلاة على الناس وأطول الناس صلاة لنفسه". "حم ع عن أبي واقد".
17886 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نماز پڑھانے میں سب سے ہلکی نماز پڑھنے والے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو سب سے لمبی نماز پڑھنے والے تھے (مسند احمد ، مسند ابی یعلی عن ابی واقد)

17887

17887- "كان إذا استفتح الصلاة قال: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك". "د ت هـ ك عن عائشة ن هـ ك عن أبي سعيد طب عن ابن مسعود وعن واثلة".
17887 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم (رض) جب نماز کی ابتداء فرماتے تو یہ ثناء پڑھتے تھے :
سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک : (ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض) ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن ابی سعید الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود وعن واثلۃ ۔

17888

17888- "كان إذا اشتد البرد بكر بالصلاة، وإذا اشتد الحر أبرد بالصلاة" [يعني الجمعة] . "خ ن عن أنس"
17888 ۔۔۔ جب سردی سخت ہوتی تو آپ نماز (جمعہ) جلد پڑھا لیتے اور جب گرمی سخت ہوتی تو نماز (دن) کو ٹھنڈا کرکے پڑھاتے تھے ۔ (بخاری و نسائی عن انس (رض))

17889

17889- "كان إذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثا، ثم قال: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام"."حم م عن ثوبان"
17889 ۔۔۔ جب آپ نماز سے لوٹتے (یعنی سلام پھیرتے) تو تین مرتبہ استغفار کرتے تھے پھر یہ دعا پڑھتے تھے :
(اللہم انت السلام ومنک السلام تبارک یا ذالجلال والاکرام :
اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور تجھی سے سلامتی ہے تو بابرکت ہے اے بزرگی اور کرم والے ۔ (مسند احمد ، مسلم ابن ماجہ ، ترمذی ، ابودادؤ ، نسائی عن ثوبان (رض))

17890

17890- "كان إذا انصرف انحرف". "د عن يزيد بن الأسود".
17890 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ لیتے تو اس جگہ سے اٹھ جاتے (اور بقیہ نماز وہاں نہیں پڑھتے تھے) ۔ (ابود اؤد عن یزید بن الاسود)

17891

17891- "كان إذا رفع رأسه من الركوع في صلاة الصبح في آخر ركعة قنت". "محمد بن نصر عن أبي هريرة".
17891 ۔۔۔ (جس زمانے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین پر بددعا کرتے تھے تو) صبح کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قنوت (نازلہ پڑھتے تھے) (محمد بن نصر عن ابوہریرہ (رض))

17892

17892- "كان إذا ركع سوى ظهره حتى لو صب عليه الماء لاستقر". "هـ عن وابصة؛ طب عن ابن عباس وعن أبي برزة وعن أبي مسعود".
17892 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع کرتے تو اپنی پشت مبارک کو بالکل سیدھا ہموار کرلیتے تھے کہ اگر اس پر پانی ڈالا جاتا تو وہ ٹھہر جاتا ۔ (ابن ماجۃ عن وابصۃ ، الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض) وعن ابی بررزۃ وعن ابن مسعود (رض))
کلام : ۔۔۔ ابن ماجہ (رح) نے اس روایت کو کتاب اقامۃ الصلوۃ باب الرکوع فی الصلوۃ رقم 872 پر اس کو تخریج فرمایا اور زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی اسناد طلحہ بن زید ایسا راوی ہے جس کے متعلق بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے اور احمد بن المدینی (رح) فرماتے ہیں یہ شخص حدیث گھڑتا ہے۔

17893

17893- "كان إذا ركع قال: سبحان ربي العظيم وبحمده، ثلاثا وإذا سجد قال: سبحان ربي الأعلى وبحمده ثلاثا". "د عن عقبة بن عامر"
17893 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو یہ کلمات تین مرتبہ پڑھتے : ” سبحان ربی العظیم وبحمدہ “۔ اور جب سجدہ کرتے تو یہ کلمات تین مرتبہ پڑھتے : سبحان ربی الاعلی وبحمدہ ، ابو داؤد عن عقبۃ بن عامر ۔

17894

17894- "كان إذا ركع فرج أصابعه، وإذا سجد ضم أصابعه". "ك هق عن وائل بن حجر".
17894 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع فرماتے تو اپنی انگلیوں کو کھول لیتے تھے ، اور جب سجدہ کرتے تو انگلیوں کو ملا لیتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم ، شعب الایمان للبیھقی عن وائل بن حجر)
کلام : ۔۔۔ قال الحاکم صحیح علی شرط مسلم ووافقہ الذھبی :

17895

17895- "كان إذا سجد جافى حتى يرى بياض إبطيه". "حم عن جابر"
17895 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو پیٹ کو رانوں سے دور اوپر کرلیتے تھے اور ہاتھ علیحدہ کرلیتے تھے حتی کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی ۔ (مسند احمد عن جابر (رض))

17896

17896- "كان إذا سجد رفع العمامة عن جبهته". "ابن سعد عن صالح بن حران، مرسلا".
17896 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرتے تو عمامہ مبارک کو پیشانی سے اوپر کرلیتے تھے (تاکہ سجدہ میں پیشانی زمین پر ٹکے) ۔ (ابن عد عن صالح بن حران مرسلا)

17897

17897- "كان إذا سلم من الصلاة قال ثلاث مرات: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} ". "ع عن أبي سعيد".
17897 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے سلام پھیرتے تو تین مرتبہ یہ آیات (دعائیہ انداز میں پڑھتے )
” سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین “۔ (مسند ابی یعلی عن ابی سعید)

17898

17898- "كان إذا سلم لم يقعد إلا مقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام". "م عن عائشة".
17898 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سلام پھیرتے تو صرف اس دعا کو پڑھنے کی بقدر تشریف فرماتے تھے ۔
اللہم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام “۔ (مسلم ، ابن ماجہ ، نسائی ، ابو داؤد ، ترمذی عن عائشۃ (رض))

17899

17899- "كان إذا صلى الغداة جلس في مصلاه حتى تطلع الشمس". "حم م عن جابر بن سمرة".
17899 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی جائے نماز پر تشریف فرما رہتے حتی کہ سورج طلوع ہو ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد عن جابر بن سمرۃ (رض))

17900

17900- "كان إذا صلى بالناس الغداة أقبل عليهم بوجهه فقال: هل فيكم مريض أعوده؟ فإن قالوا: لا، قال: هل فيكم جنازة أتبعها؟ فإن قالوا: لا، قال: من رأى منكم رؤيا يقصها علينا. "ابن عساكر عن ابن عمر"
17900 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا لیتے تو ان کی طرف چہرہ اقدس کے ساتھ متوجہ ہوتے اور پوچھتے کیا تم میں کوئی مریض ہے جس کی میں عیادت کروں ؟ اگر جواب انکار میں ملتا تو پھر دریافت فرماتے : کیا تمہارا کوئی جنازہ ہے جس کی مشایعت کروں ؟ پھر بھی جواب میں انکار ملتا تو پھر ارشاد فرماتے : کیا کسی شخص نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ دیکھا ہے تو وہ بتائے ۔ (ابن عساکر عن ابن عمر (رض))

17901

17901- كان إذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن. "خ عن عائشة".
17901 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعات (سنت) ادا فرما لیتے تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے ۔ (بخاری عن عائشۃ (رض))

17902

17902- "كان إذا صلى صلاة أثبتها". "م عن عائشة".
17902 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھتے تو پوری نماز خوب اچھی طرح اور کامل نماز ادا فرماتے تھے ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

17903

17903- "كان إذا قرأ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} قال: سبحان ربي الأعلى". "د، ك عن ابن عباس"
17903 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ آیت تلاوت فرماتے : ” سبح اسم ربک الاعلی “۔ (اپنے پروردگار اعلی کے نام کی تسبیح کر) تو آپ یہ کلمات پڑھتے : ” سبحان ربی الاعلی “۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض))

17904

17904- "كان إذا تلا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} قال: آمين حتى يسمع من يليه من الصف الأول". "د عن أبي هريرة"
17904 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ تلاوت فرماتے :
(آیت)” غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “۔
تو اتنی آواز کے ساتھ آمین کہتے کہ پہلی صف والے اس کو سن لیتے ۔ (ابو داؤد عن ابوہریرہ (رض))

17905

17905- "كان إذا قرأ {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى} قال: بلى، وإذا قرأ"أليس الله بأحكم الحاكمين" قال: بلى". "ك هب عن أبي هريرة".
17905 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ آیت تلاوت فرماتے :
(آیت)” الیس ذلک بقادر علی ان یحی الموتی “۔
کیا وہ ذات اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے !
تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے : بلی ، کیوں نہیں ۔ یونہی جب آپ یہ آیت تلاوت کرتے : (آیت)” الیس اللہ باحکم الحاکمین “۔ کیا اللہ حاکموں کا حاکم نہیں ہے ؟ تب بھی آپ فرماتے : بلی ، کیوں نہیں ، (مستدرک الحاکم ، شعب الایمان للبیھقی)

17906

17906- "كان إذا مر بآية خوف تعوذ، وإذا مر بآية رحمة سأل، وإذا مر بآية فيها تنزيه لله سبح". "حم م عن حذيفة".
17906 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی آیت خوف کی تلاوت فرماتے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگتے جب کسی آیت رحمت کی تلاوت فرماتے تو اس کا سوال کرتے اور جب ایسی کسی آیت پر گزرتے جس میں اللہ کی پاکی کا بیان ہوتا تو اللہ کی تسبیح کرتے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ عن حذیفۃ (رض))

17907

17907- "كان إذا مر بآية فيها ذكر النار قال: ويل لأهل النار أعوذ بالله من النار". "ابن قانع عن ابن أبي ليلى".
17907 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (دوران نماز) جس کسی آیت پر گزرتے جس میں جہنم کا ذکر ہوتا تو یہ فرماتے :
” ویل لاھل النار اعوذ باللہ من النار “۔
” ہلاکت ہے اہل جہنم کے لیے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم سے “۔ (ابن قانع عن این ابی لیلی)

17908

17908- "كان قراءته المد ليس فيها ترجيع". "طب عن أبي بكرة".
17908 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات مدا ہوتی تھی جس میں ترجیع نہ ہوتی تھی ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی بکرۃ (رض))
فائدہ : ۔۔۔ آج کل کے پیشہ ور قاریوں کی طرح ایک ہی آیت کو کبھی پست اور کبھی بلند ، کبھی ایک قرات میں تو کبھی دوسری قرات میں نہیں پڑھتے تھے ۔ بلکہ مد کے ساتھ یعنی ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر روانی کے ساتھ پڑھتے جاتے تھے ۔

17909

17909- "كان يحب هذه السورة {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} ". "حم عن علي".
17909 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کو پسند فرماتے تھے : (آیت)” سبح اسم ربک الاعلی “۔ (مسند احمد عن علی (رض))

17910

17910- "كان لا يقرأ القرآن في أقل من ثلاث". ابن سعد عن عائشة".
17910 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین دنوں سے کم میں کبھی قرآن پورا نہ فرماتے تھے ۔ (ابن سعد عن عائشۃ (رض))

17911

17911- "كان يعد الآي في الصلاة". "طب عن ابن عمرو".
17911 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آیات کو تیار کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو)
فائدہ : ۔۔۔ یعنی خاص نمازوں میں خاص خاص سورتوں کو پڑھا کرتے تھے ۔

17912

17912- "كان يعقد التسبيح". "ت ن ك عن ابن عمرو".
17912 ۔۔۔ کان یعقد التسبیح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں تسبیح (کا شمار) باندھتے تھے ۔ (ترمذی ، نسائی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو)
فائدہ : ۔۔۔ انگلیوں پر یا کسی اور طرح شمار کرنا مراد نہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے بلکہ یادداشت کے ساتھ تین تین پانچ پانچ یا سات سات وغیرہ پڑھا کرتے تھے ۔

17913

17913- "كان يقطع قراءته آية آية {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} ، ثم يقف {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} ثم يقف". "ت ك عن أم سلمة".
17913 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قرات کو آیت آیت کرکے پڑھا کرتے تھے ۔ الحمد للہ رب العالمین “۔ پڑھ کر سانس لیتے پھر ”’ الرحمن الرحیم “۔ پڑھ کر سانس لیتے اسی طرح آخر تک پڑھتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ام سلمۃ (رض))
کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) کتاب القرات باب فی فاتحۃ الکتاب رقم 2927 پر اس روایت کو تخریج فرمایا اور غریب یہ روایت ضعیف ہے۔

17914

17914- "كان يمد صوته بالقراءة مدا"."حم، ن3 هـ، ك عن أنس".
17914 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرات میں مد کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے ۔ (مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))
الصلوۃ : ۔۔۔ فرض نماز :

17915

17915- "كان إذا صلى مسح بيده اليمنى على رأسه ويقول: بسم الله الذي لا إله غيره الرحمن الرحيم، اللهم أذهب عني الهم والحزن". "خط عن أنس".
17915 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب (فرض) نماز پڑھ لیتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو سر پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے :(بسم اللہ الذی لا الہ غیرہ الرحمن الرحیم اللھم اذھب عنی الھم والحزن ۔ (الخطیب فی التاریخ عن انس (رض))

17916

17916- "كان إذا صلى الغداة في السفر مشى عن راحلته قليلا". "حل هق عن أنس".
17916 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں فجر کی نماز تو کچھ دیر کے لیے بغیر سواری کے پیدل چلا کرتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء ، شعب الایمان للبیھقی عن انس (رض))

17917

17917- "كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر صلاها بعد الركعتين بعد الظهر". "هـ عن عائشة".
17917 ۔۔۔ ظہر کی نماز میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل الظہر چار رکعات سنتیں چھوٹ جاتیں تو بعد الظہر دو سنتوں کے بعد ان کو ادا فرما لیتے تھے (ابن ماجہ عن عائشۃ (رض))

17918

17918- "كان لا يدع أربعا قبل الظهر وركعتين قبل الغداة". "خ د ن عن عائشة".
17918 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر سے قبل کی چار رکعات سنت اور فجر سے قبل کی دو رکعات سنت کبھی نہ چھوڑتے تھے ۔ (بخاری ، ابو داؤد ، نسائی عن عائشۃ (رض))

17919

17919- "كان لا يدع ركعتي الفجر في السفر، ولا في الحضر، ولا في الصحة، ولا في السقم". "خط عن عائشة".
17919 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعات سنت سفر میں چھوڑتے تھے اور نہ حضر میں ، صحت میں اور نہ مرض میں ، ہمیشہ ان پر مواظبت فرماتے تھے ۔ (التاریخ للخطیب عن عائشۃ (رض))

17920

17920- "كان يصلي قبل الظهر ركعتين وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين في بيته، وبعد العشاء ركعتين، وكان لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين في بيته". "مالك، ق، د، ن عن ابن عمر"
17920 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر سے قبل دو رکعتیں ، ظہر کے بعد دو رکعتیں ، مغرب کے بعد گھر میں دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں نماز سنت پڑھا کرتے تھے ۔ اور جمعہ کے بعد کوئی نماز (مسجد میں) نہ پڑھا کرتے تھے حتی کہ گھر میں آجاتے پھر دو رکعتیں سنت ادا فرماتے تھے ۔ (مؤطا امام مالک، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی عن ابن عمر (رض))

17921

17921- "كان يصلي قبل الظهر أربعا إذا زالت الشمس لا يفصل بينهن بتسليم وقال: إن أبواب السماء تفتح إذا زالت الشمس". "هـ، عن أبي أيوب".
17921 ۔۔۔ زوال شمس کے بعد اور ظہر (کے فرض) سے قبل چار رکعات (سنت) ادا فرماتے تھے اور ان کے درمیان (یعنی دو رکعات کے بعد) سلام پھیر کر فصل نہیں کرتے تھے ، اور ارشاد فرماتے تھے ، جب آفتاب کا زوال ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (ابن ماجہ عن ابی ایوب (رض))

17922

17922- "كان إذا قال بلال: قد قامت الصلاة نهض فكبر". "سمويه طب عن ابن أبي أوفى".
17922 ۔۔۔ حضرت بلال (حبشی (رض)) اقامت میں جب ” قد قامت الصلوۃ “۔ (نماز کھڑی ہوگئی) کہتے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کھڑے ہوتے اور تکبیر کہتے ۔ (سمویہ، الکبیر للطبرانی عن ابن ابی اوفی)

17923

17923- "كان إذا قام إلى الصلاة رفع يديه مدا". "ت عن أبي هريرة".
17923 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑتے تو ہاتھوں کو بلند کرتے (اور تکبرتحریمہ کہتے) ۔ (ترمذی عن ابوہریرہ (رض))

17924

17924- "كان إذا قام إلى الصلاة قبض على شماله بيمينه". "طب عن وائل بن حجر".
17924 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے کھڑتے تو دائیں ہتھیلی کے ساتھ بائیں کلائی کو تھام لیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن وائل بن حجر)

17925

17925- "كان إذا كان في وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا". "د ت عن مالك بن الحويرث".
17925 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کی طاق رکعت سے اٹھتے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک (سجدے سے اٹھ کر) سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جاتے ۔ (ابو داؤد ، ترمذی حسن صحیح عن مالک ابن الحویرث)

17926

17926- "كان إذا كان راكعا أو ساجدا قال: سبحانك وبحمدك أستغفرك وأتوب إليك". "طب عن ابن مسعود".
17926 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع یا سجدے میں ہوتے تو یہ کلمات (بھی) پڑھتے تھے :
” سبحانک وبحمدک استغفرک اتوب الیک “۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض))

17927

17927- "كان إذا كبر للصلاة نشر أصابعه". "ت2، ك عن أبي هريرة".
17927 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے تکبیر (تحریمہ) کہتے تو ہاتھ کی انگلیاں کھول لیتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم ، عن ابوہریرہ (رض) قال الترمذی حسن)

17928

17928- "كان ربما يضع يده على لحيته في الصلاة من غير عبث". "عد هق عن ابن عمر".
17928 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بسا اوقات ہاتھ اپنی ڈاڑھی پر رکھ لیتے تھے بغیر بےکار کے ۔ (الکامل لابن عدی ، شعب الایمان للبیھقی )

17929

17929- "كان له حربة يمشي بها بين يديه فإذا صلى ركزها بين يديه". "طب عن عصمة بن مالك
17929 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک برچھی تھی ، جس کو اپنے ساتھ رکھتے تھے جب نماز پڑھتے تو (سترہ کے طور پر) آگے گاڑ لیتے تھے) (الکبیر للطبرانی عن عصمۃ بن مالک)

17930

17930- "كان لا يركع بعد الفرض في موضع يصلي فيه الفرض". "قط في الأفراد عن ابن عمر".
17930 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس جگہ فرض نماز ادا کی ہوتی پھر اس جگہ کوئی ایک رکعت نماز بھی نہ پڑھتے ۔ (الدارقطنی فی الافراد عن ابن عمر (رض))

17931

17931- "كان لا يكون في المصلين إلا كان أكثرهم صلاة، ولا يكون في الذاكرين إلا كان أكثرهم ذكرا". "أبو نعيم في أماليه، خط وابن عساكر عن ابن مسعود".
17931 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازیوں کے درمیان ہوتے تو سب سے زیادہ نماز پڑھنے والے ہوتے اور ذاکرین میں ہوتے تو سب سے زیادہ ذکر کرنے والے ہوتے تھے ۔ (ابو نعیم فی امالیہ ، الخطیب فی التاریخ ، ابن عساکر عن ابن مسعود (رض))

17932

17932- "كان لا يلهيه عن صلاة المغرب طعام، ولا غيره". "قط عن جابر".
17932 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب کی نماز سے کوئی چیز کھانا وغیرہ غافل نہیں کرتی تھی ۔ (الدارقطنی عن جابر (رض))

17933

17933- "كان يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء في السفر". "حم خ عن أنس"
17933 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری عن انس (رض))

17934

17934- "كان يحب أن يليه المهاجرون والأنصار في الصلاة ليحفظوا عنه". "حم ن هـ ك عن أنس".
17934 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ فرض نماز میں آپ کے پیچھے قریب ترین مہاجرین اور انصار کھڑے ہوں تاکہ وہ آپ کے احوال کو محفوظ رکھ سکیں ۔ (مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

17935

17935- "كان يحب أن تكون له فروة مدبوغة يصلي عليها". "ابن سعد عن المغيرة".
17935 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسند کرتے تھے کہ کوئی دباغت دی ہوئی کھال ہو جس پر آپ نماز پڑھیں ۔ (ابن سعد عن المغیرۃ (رض)

17936

17936- "كان يستحب الصلاة في الحيطان". "ت عن معاذ"
17936 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باغوں میں نماز پڑھنے کو (بہت) پسند فرماتے تھے ۔ (ترمذی عن معاذ (رض))
کلام : ۔۔۔ امام ترمذی نے کتاب ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی الصلوۃ فی الحیطان رقم 334 پر اس کو تخریج فرمایا اور فرمایا یہ روایت ضعیف ہے۔ اور یو بھی یہ روایت امام ترمذی کی متفرد روایات میں سے ہے۔

17937

17937- كان يستغفر للصف المقدم ثلاثا وللثاني مرة. "حم هـ ك عن العرباض".
17937 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی صف کے لیے تین مرتبہ استغفار فرماتے تھے اور دوسری صف کے لیے ایک مرتبہ ۔ (مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن العرباض)
فائدہ : ۔۔۔ اس روایت سے صف اول کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے اور اس شی کو ذہن نشین کرانا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقصود تھا ۔

17938

17938- كان يسجد على مسح "طب عن ابن عباس".
17938 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ننگی زمین پر (بغیر کسی کپڑے وغیرہ کے بچھائے) سجدہ فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

17939

17939- كان يشير في الصلاة. "حم د عن أنس".
17939 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں (دوران تشہد شہادت کی انگلی کے ساتھ) اشارہ فرماتے تھے ۔ مسند احمد ، ابو داؤد عن انس (رض))

17940

17940- كان يصلي في نعليه. "حم ق ن عن أنس"
17940 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوتوں میں نماز ادا فرما لیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی عن انس (رض))

17941

17941- كان يصلي على الخمرة. "خ د ن هـ عن ميمونة".
17941 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔ (بخاری ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن میمونۃ (رض))

17942

17942- كان يصلي على راحلته حيث ما توجهت به، فإذا أراد أن يصلي المكتوبة نزل واستقبل القبلة. " ق عن جابر".
17942 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر (نفلی) نماز پڑھ لیتے تھے خواہ اس کا رخ کسی طرف بدلتا جائے پھر جب فرض نماز کا ارادہ فرماتے تو سواری سے اتر کر قبلہ رو ہو کر نماز ادا فرماتے ۔ بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن جابر (رض))

17943

17943- كان يصلي بين المغرب والعشاء. "طب عن عبيد مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم".
17943 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب اور عشاء کے درمیان (نفل) نماز ادا فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن عبید مولی (غلام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

17944

17944- كان يصلي بعد العصر وينهي عنها، ويواصل وينهى عن الوصال. "د عن عائشة"
17944 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز کے بعد (نفل) نماز ادا فرماتے تھے اور (دوسروں کو) اس سے منع فرماتے تھے اور مسلسل (نماز روزہ) کرتے تھے اور دوسروں کو اس سے باز رکھتے تھے ۔ (ابو داؤد عن عائشۃ (رض) )
کلام : ۔۔۔ ابو داؤد (رح) نے کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ بعد العصر رقم 1280 پر اس کو تخریج فرمایا ہے ، اس کی سند میں محمد بن اسحاق بن یسار راوی متکلم فیہ ہے۔

17945

17945- كان يصلي على الحصير والفروة المدبوغة."حم د ك عن المغيرة".
17945 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چٹائی اور دباغت دی ہوئی کھال پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن المغیرۃ (رض))

17946

17946- كان يصلي على بساط."هـ عن ابن عباس".
17946 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

17947

17947- كان يصلي والحسن والحسين يلعبان ويقعدان على ظهره. "حل عن ابن مسعود".
17947 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے اور حسن و حسین (رض) کھیل کود رہے ہوتے اور آپ کی پشت مبارک پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابن مسعود (رض))

17948

17948- كان يضع اليمنى على اليسرى في الصلاة، وربما مس لحيته وهو يصلي. "هق عن عمرو بن الحريث".
17948 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا کرتے تھے ، اور بعض اوقات نماز میں ڈاڑھی کو بھی چھو لیا کرتے تھے ۔ (شعب الایمان للبیھقی عن عمرو بن الحریث)

17949

17949- كان يكره التثاؤب في الصلاة. "طب عن أبي أمامة".
17949 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں جمائی لینے کو مکروہ خیال کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ)

17950

17950- كان يلحظ في الصلاة يمينا وشمالا ولا يلوي عنقه خلف ظهره. "ن عن ابن عباس".
17950 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اوائل اسلام میں) نماز میں دائیں بائیں التفات فرما لیا کرتے تھے لیکن پیچھے کبھی گردن نہ موڑتے تھے ۔ (نسائی عن ابن عباس (رض))

17951

17951- كان يليه في الصلاة الرجال ثم الصبيان ثم النساء. "هق عن أبي مالك الأشعري".
17951 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں پہلے مردوں کو پھر بچوں کو اور ان کے بعد عورتوں کو رکھتے تھے ۔ (شعب الایمان للبیھقی عن ابی مالک الاشعری (رض))

17952

17952- كان يقصر في السفر ويتم ويفطر ويصوم. "قط هق عن عائشة".
17952 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں قصر نماز پڑھتے اور پوری بھی پڑھتے ، اور روزہ چھوڑتے بھی اور رکھتے بھی ۔ (الدارقطنی ، شعب الایمان للبیھقی عن عائشۃ (رض))

17953

17953- كان ينصرف من الصلاة عن يمينه. "ع عن أنس".
17953 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا سلام پھیر کر دائیں طرف سے مڑتے تھے ۔ (مسند ابن یعلی عن انس (رض))

17954

17954- كان يوتر أول الليل وأوسطه وآخره. "حم عن أبي مسعود".
17954 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے اول ، درمیان اور آخر میں بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابن مسعود (رض))

17955

17955- كان يوتر على البعير."ق عن ابن عمر".
17955 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے ۔ بخاری ، مسلم عن ابن عمرو (رض))

17956

17956- كان آخر كلامه: الصلاة الصلاة، اتقوا الله فيما ملكت أيمانكم." د هـ عن علي
17956 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی زندگی) کا آخری کلام یہ تھا :
نماز ! (کی حفاظت کرو) نماز ! (کی حفاظت کرو) اپنے غلام باندیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ (ابو داؤد ابن ماجہ ، عن علی (رض))

17957

17957- كان إذا سمع المؤذن قال مثل ما يقول حتى إذا بلغ حي الصلاة حي على الفلاح، قال: لا حول ولا قوة إلا بالله."حم عن أبي رافع".
17957 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن کی آواز سنتے تو جیسے وہ کہتا آپ بھی جواب میں وہی کلمات ارشاد فرماتے ۔ لیکن جب مؤذن حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ (مسند احمد عن ابی رافع (رض))

17958

17958- كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنان: بلال وابن أم مكتوم الأعمى."م عن ابن عمر"
17958 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو مؤذن تھے : حضرت بلال (رض) اور حضرت ابن ام مکتوم (رض) نابینا صحابی ۔ (مسلم عن ابن عمرو (رض))

17959

17959- كان إذا سمع المؤذن يتشهد قال: وأنا وأنا."د، ك عن عائشة"
17959 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن کو شہادت دیتے ہوئے سنتے تو فرماتے وانا وانا (یعنی میں بھی یہی شہادت دیتا ہوں) ۔ (ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

17960

17960- كان إذا سمع المؤذن قال: حي على الفلاح، قال: اللهم اجعلنا مفلحين."ابن السني عن معاوية"4
17960 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مؤذن کو ” حی علی الفلاح “ کہتے ہوئے سنتے تو یہ دعا پڑھتے : ” اللہم اجعلنا مفلحین “۔ (اے اللہ ہم کو کامیاب بنا) (ابن السنی عن معاویۃ (رض))

17961

17961- كان إذا دخل المسجد قال: أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم، قال أقط؟ قلت نعم قال: فإذا قال ذلك، قال الشيطان: حفظ مني سائر اليوم. "د عن ابن عمرو
17961 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے :
” اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم “۔
میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں جو عظمت والا ہے ، اس کے چہرے کی پناہ لیتا ہوں جو کرم والا ہے اور اس کی بادشاہت کی پناہ لیتا ہوں جو ہمیشہ سے ہے شیطان مردود سے ۔
پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کافی ہے یہ دعا ؟ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : بندہ جب یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے یہ شخص آج سارا دن مجھ سے محفوظ ہوگیا ۔ (ابو داؤد عن ابن عمرو (رض))

17962

17962- كان إذا دخل المسجد يقول: بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك، وإذا خرج قال: بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلك. "حم هـ طب عن فاطمة الزهراء"2
17962 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے ۔
” بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک “۔
اللہ کے نام سے (مسجد میں داخل ہوتا ہوں) اور سلام ہو اللہ کے رسول پر اے اللہ ! میرے گناہوں کی مغفرت فرما اور اپنی رحمت کے دروازے مجھ پر کھول دے ۔
اسی طرح جب مسجد سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :
” بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک “ ۔ (مسنداحمد، ابن ماجۃ ، الکبیر للطبرانی عن فاطمۃ الزھراء (رض))

17963

17963- كان إذا دخل المسجد صلى على محمد وسلم وقال: رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب رحمتك، وإذا خرج صلى على محمد وسلم وقال: رب اغفر لي ذنوبي وافتح لي أبواب فضلك. "ت عن فاطمة"
17963 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں داخل ہوتے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام پڑھتے پھر یہ دعا پڑھتے :
رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک “۔
اور جب مسجد سے نکلتے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے :
” رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک “۔ (ترمذی عن فاطمۃ (رض))

17964

17964- كان إذا دخل المسجد قال: بسم الله اللهم صل على محمد [وأزواج محمد] . "ابن السني عن أنس"
17964 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے :
” بسم اللہ اللہم صل علی محمد (وازواج محمد) ابن السنی عن انس (رض))

17965

17965- كان لا يصلي الركعتين بعد الجمعة ولا الركعتين بعد المغرب إلا في أهله "الطيالسي عن ابن عمر".
17965 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے بعد دو رکعت (سنت) نہ ادا کرتے تھے اور نہ مغرب کے بعد دو رکعت (سنت) ادا کرتے تھے جب تک اپنے گھر میں نہ آجاتے ۔ (الطیالسی عن ابن عمرو (رض))

17966

17966- كان يركع قبل الجمعة أربعا [وبعدها أربعا] لا يفصل في شيء منهن."هـ عن ابن عباس".
17966 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ سے قبل چار رکعات (اور جمعہ کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے) ان کے درمیان کوئی فصل نہیں فرماتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

17967

17967- كان ينزل من المنبر يوم الجمعة فيكلمه الرجل في الحاجة فيكلمه ثم يتقدم إلى مصلاه فيصلي. "حم ك عن أنس".
17967 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن (خطبہ کے بعد) منبر سے اترتے اور کوئی شخص کوئی سوال پوچھ بیٹھتا تو آپ اس سے بات چیت فرماتے پھر اپنے مصلی کی طرف جاتے اور نماز پڑھاتے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ ، ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

17968

17968- كان ربما اغتسل يوم الجمعة وربما تركه أحيانا. "طب عن ابن عباس".
17968 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جمعوں کو غسل فرمایا کرتے اور کبھی چھوڑ دیا کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

17969

17969- كان لا يطيل الموعظة يوم الجمعة. "د، ك عن جابر بن سمرة".
17969 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن خطبوں کو لمبا نہ کرتے تھے ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن جابر بن سمرۃ (رض))

17970

17970- كان يجلس إذا صعد المنبر حتى يفرغ أراه المؤذن، ثم يقوم فيخطب، ثم يجلس فلا يتكلم، يقوم فيخطب. "د عن ابن عمر".
17970 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تھے پھر مؤذن اذان دیتا پھر آپ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے پھر بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہو کر (دوسرا) خطبہ ارشاد فرماتے ۔ (ابو داؤد عن ابن عمرو (رض))

17971

17971- كان يخطب قائما ويجلس بين الخطبتين، ويقرأ آيات ويذكر الناس. "حم م د ن هـ عن جابر بن سمرة".
17971 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے اور دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ جاتے تھے ، اور خطبوں میں قرآن کی آیات پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن جابر بن سمرۃ (رض))

17972

17972- كان يخطب بقاف كل جمعة. "د عن بنت الحارثة ابن النعمان"
17972 ۔۔۔ ہر جمعہ میں آپ (خطبہ کے اندر) سورة قاف پڑھا کرتے تھے ۔ (ابو داؤد عن بنت الحارثۃ بن النعمان)

17973

17973- كان يغتسل يوم الجمعة، ويوم الفطر، ويوم النحر، ويوم عرفة. "حم هـ طب عن الفاكه بن سعد".
17973 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے روز ، عید الفطر ، عید الضحیٰ اور عرفہ کے روز (ضرور) غسل فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجۃ ، الکبیر للطبرانی عن الفاکۃ بن سعد)

17974

17974- كان إذا خطب احمرت عيناه، وعلا صوته، واشتد غضبه كأنه منذر جيش يقول: صبحكم مساكم. "هـ حب ك عن جابر".
17974 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں ، آواز بلند ہوجاتی تھی ، آپ کا غصہ عروج پر پہنچ جاتا تھا یوں محسوس ہوتا تھا گویا کسی غارتگر لشکر سے ڈرا رہے ہوں کہ وہ صبح کو حملہ آور ہونے والا شام کو حملہ آور ہونے والا ہے۔ (ابن ماجہ ، ابن حبان ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض))

17975

17975- كان إذا خطب في الحرب خطب على قوس، وإذا خطب يوم الجمعة خطب على عصاه. "هـ ك هق عن سعد القرظ"
17975 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے دوران خطبہ دیتے تو کمان ہاتھ میں لے کر خطبہ دیتے تھے ۔ اور جب جمعہ کے دن خطبہ دیتے تو عصا کے ساتھ خطبہ دیتے تھے ۔ (ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم ، بخاری ، مسلم عن سعد القرظ)

17976

17976- كان إذا خطب يعتمد على عنزة أو عصا. "الشافعي عن عطاء، مرسلا".
17976 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ دیتے تو نیزہ یا عصاء کے ساتھ خطبہ دیتے تھے ۔ (الشافعی عن عطاء مرسلا)

17977

17977- كان إذا صعد المنبر سلم. "هـ عن جابر"
17977 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منبر پر چڑھتے تو سلام کرتے تھے ۔ (ابن ماجہ عن جابر (رض))

17978

17978- كان إذا دنا من منبره يوم الجمعة سلم على من عنده من الجلوس، فإذا صعد المنبر استقبل الناس بوجهه ثم سلم قبل أن يجلس. "هق عن ابن عمر".
17978 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن جب منبر کے قریب پہنچتے تو پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرتے ، پھر منبر پر چڑھ جاتے تو بیٹھنے سے قبل لوگوں کی طرف رخ انور کرکے سب کو سلام کرتے ۔ (شعب الایمان للبیھقی عن ابن عمرو (رض))

17979

17979- كان إذا قام على المنبر استقبله أصحابه بوجوههم. "هـ عن ثابت".
17979 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھ جاتے تو لوگ اپنے چہرے آپ کی طرف کرلیتے تھے ۔ ابن ماجہ عن ثابت (رض))

17980

17980- كان يذكر الله تعالى على كل أحيانه. "م د ت هـ عن عائشة".
17980 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔ (مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

17981

17981- كان يكثر الذكر، ويقل اللغو، ويطيل الصلاة، ويقصر الخطبة، وكان لا يأنف ولا يستكبر أن يمشي مع الأرملة والمسكين والعبد حتى يقضي له حاجته. "ن ك عن ابن أبي أوفى؛ ك عن أبي سعيد".
17981 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ ابی وامی وعشیرتی) کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ، لغو (ہنسی مذاق کی) بات کم کرتے ، نماز لمبی کرتے ، خطبہ مختصر کرتے ، ناک بھوں چڑھاتے اور نہ بڑائی کرتے اسی بات سے کہ محتاج ، مسکین اور غلام کے ساتھ چل کر اس کی حاجت روائی کریں ۔ (نسائی ، مستدرک الحاکم ، عن ابن ابی اوفی (رض) ، مستدرک الحاکم عن ابی سعید (رض))

17982

17982- كان أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه. "خ هـ عن عائشة".
17982 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے اچھا عمل وہ لگتا تھا جس پر عمل کرنے والا مداومت کرے ۔ (بخاری ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

17983

17983- كان أحب العمل إليه ما دووم عليه وإن قل. "ت ن عن عائشة وأم سلمة". "صلاة النوافل - قيام الليل"
17983 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک سب سے اچھا عمل وہ ہوتا تھا جس پر دوام اور ہمیشگی کے ساتھ عمل کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہو ۔ (ترمذی ، نسائی عن عائشۃ (رض)، وام سلمۃ (رض))
صلوۃ النوافل (تہجد)

17984

17984- كان إذا تهجد يسلم بين كل ركعتين. "ابن نصر عن أبي أيوب".
17984 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کی نماز پڑھتے تو ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے ۔ (ابن نصر عن ابی ایوب (رض))

17985

17985- كان إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك. "حم ق د ن هـ عن حذيفة".
17985 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو دانتوں کو مسواک ملتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد، نسائی ابن ماجۃ عن حذیفۃ (رض))

17986

17986- كان إذا قام من الليل ليصلي افتتح صلاته بركعتين خفيفتين. "م عن عائشة"
17986 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے تو پہلی ہلکی سی دو رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

17987

17987- كان إذا قام من الليل رفع طورا وخفض طورا. "ابن نصر عن أبي هريرة"
17987 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کبھی بلند آواز میں تلاوت کرتے اور کبھی پست آواز میں ۔ (ابن نصر عن ابوہریرہ (رض))

17988

17988- كان إذا نام من الليل أو مرض صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة. "م د عن عائشة"
17988 ۔۔۔ جس رات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرض یا کسی وجہ سے سوتے رہ جاتے تو دن میں بارہ رکعات نوافل ادا فرماتے تھے ۔ (مسلم ، ابوداؤد، عن عائشۃ (رض))

17989

17989- كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، منها الوتر وركعتا الفجر. "ق د عن عائشة".
17989 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تیرا رکعات نماز پڑھتے تھے (تین رکعت) دن میں وتر اور دو رکعت فجر کی سنتیں ہوا کرتی تھیں ۔ (بخاری ، مسلم ، ابوداؤد، عن عائشۃ (رض))

17990

17990- كان لا يدع قيام الليل، وكان إذا مرض أو كسل صلى قاعدا. "د3 ك عن عائشة".
17990 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی بھی رات کی (تہجد) کی نماز نہیں چھوڑا کرتے تھے ، کبھی مریض یا کسل مند ہوجاتے تو بیٹھ کر ادا فرما لیتے تھے ۔ (ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

17991

17991- كان يصلي بالليل ركعتين ركعتين ثم ينصرف فيستاك. "حم ن هـ عن ابن عباس".
17991 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو دو دو رکعت نماز پڑھتے تھے پھر لوٹتے تو مسواک کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

17992

17992- كان يعجبه التهجد من الليل. "طب عن جندب".
17992 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی تہجد کی نماز پڑھنا بہت پسند کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن جندب (رض))

17993

17993- كان يقوم إذا سمع الصارخ. "حم ق د ن عن عائشة"
17993 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرغ کی آواز سنتے تو اٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نسائی عن عائشۃ (رض))

17994

17994- كان يقوم من الليل حتى تتفطر قدماه. "ق ت ن هـ عن المغيرة".
17994 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اس قدر طویل قیام فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک ورما (کر پھٹنے کو ہو) جاتے ۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ عن المغیرۃ (رض))

17995

17995- كان يصلي الضحى أربعا ويزيد ما شاء الله. "حم م عن عائشة".
17995 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضحی (چاشت) کی نماز چار رکعات ادا فرماتے تھے اور جب اللہ چاہتا اس سے زائد بھی کردیتے تھے (مسند احمد ، مسلم عن عائشۃ (رض))

17996

17996- كان يصلي الضحى ست ركعات. "ت: في الشمائل عن أنس" "صلاة الكسوف"
17996 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاشت کی چھ رکعات نماز پڑھا کرتے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل عن انس (رض))

17997

17997- كان إذا انكشفت الشمس أو القمر صلى حتى تنجلي. "طب عن النعمان بن بشير"
17997 ۔۔۔ جب سورج یا چاند گرہن ہوجاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز شروع کردیتے حتی کہ سورج یا چاند کھل جاتا (تب آپ نماز پوری کرتے۔ (الکبیر للطبرانی عن النعمان بن بشیر)

17998

17998- كان يأمر بالعتاقة في صلاة الكسوف. "د ك عن أسماء".
17998 ۔۔۔ سورج گرہن کی نماز کے وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ (ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن اسماء)

17999

17999- كان إذا أهمه الأمر رفع رأسه إلى السماء وقال: سبحان الله العظيم، وإذا اجتهد في الدعاء قال: يا حي يا قيوم. " ت عن أبي هريرة".
17999 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی اہم مسئلہ پیش آجاتا تو آسمان کی طرف سر اٹھاتے اور کہتے : (سبحان اللہ العظیم) ، اور جب دعا میں انتہائی آہ وزاری کرتے تو یہ فرماتے : ” یاحی یاقیوم “۔ ترمذی عن ابوہریرہ (رض))

18000

18000- كان إذا حزبه أمر قال: لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين. "حم عن عبد الله ابن جعفر"
18000 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی پریشان کن امر پیش آجاتا تو یہ کلمات پڑھتے : ” لا الہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمد للہ رب العالمین “۔

18001

18001- كان إذا حزبه أمر صلى. "حم د عن حذيفة".
18001 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کن بات پیش آتی تو نماز پڑھتے تھے ۔ (مسنداحمد ، ابو داؤد عن حذیفہ (رض))

18002

18002- كان إذا خاف قوما قال: اللهم إنا نجعلك في نحورهم، ونعوذ بك من شرورهم. " حم د ك هق عن أبي موسى".
18002 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی قوم سے کوئی خطرہ درپیش ہوتا تو یہ دعا پڑھتے : ” اللہم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم “۔ اے اللہ ہم تیری ذات کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کے شروفساد سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، مستدرک الحاکم ، شعب الایمان للبیھقی عن ابی موسیٰ (رض))

18003

18003- كان إذا كربه أمر قال: يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث. " ك عن أنس".
18003 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی مصیبت اور تکلیف پیش آتی تو یہ کلمات ورد زبان ہوجاتے :” یاحی یا قیوم برحمتک استغیث “۔ اے زندہ ! اے تھامنے والے تیری رحمت کے ساتھ میں فریاد کرتا ہوں ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18004

18004- كان إذا نزل به هم أو غم قال: يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث. "ك عن ابن مسعود"
18004 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب کوئی رنج یا غم نازل ہوتا تو یہ کلمات پڑھتے :” یاحی یا قیوم برحمتک استغیث “۔ (مستدرک الحاکم عن ابن مسعود (رض))

18005

18005- كان يدعو عند الكرب: لا إله إلا الله العظيم الحليم لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السموات السبع، ورب الأرض ورب العرش الكريم. " حم ق ت هـ عن ابن عباس، طب وزاد: اصرف عني شر فلان".
18005 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصیبت کے وقت یہ کلمات پڑھا کرتے تھے :” لا الہ الا اللہ العظیم الحلیم لا الہ الا اللہ رب العرش العظیم لا الہ الا اللہ رب السموات السبع ورب الارض ورب العرش الکریم “۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عظیم (اور) بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا پروردگار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو ساتوں آسمانوں کا رب ، زمین کا رب اور عرش کریم کا رب ہے۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض)) الکبیر للطبرانی میں یہ اضافہ ہے :

18006

18006- كان إذا اهتم أكثر من مس لحيته. "ابن السني وأبو نعيم في الطب عن عائشة، أبو نعيم عن أبي هريرة".
18006 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کوئی اہم مسئلہ در پیش ہوتا تو (ازخود) داڑھی مبارک پر ہاتھ جاتا۔ (ابن السنی و ابونعیم فی الطب عن عائشۃ (رض) ابو نعیم عن ابوہریرہ (رض))

18007

18007- كان إذا اغتم أخذ لحيته بيده بنظر فيها. "الشيرازي عن أبي هريرة".
18007 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی رنج وغم پیش آتا تو داڑھی کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اس کو دیکھتے رہتے ۔ (الشیرازی عن ابوہریرہ (رض))

18008

18008- كان إذا أصابته شدة فدعا رفع يديه حتى يرى بياض إبطيه. "ع عن البراء"
18008 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی سختی پیش آتی تو دعا کے لیے اس قدر بلند ہاتھ اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۔ p^(مسند ابی یعلی عن البراء (رض))

18009

18009- كان إذا أصابه غم أو كرب يقول: حسبي الرب من العباد، حسبي الخالق من المخلوقين حسبي الرازق من المرزوقين حسبي الله الذي هو حسبي، حسبي الله ونعم الوكيل، حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم."ابن أبي الدنيا في الفرج من طريق الخليل بن مرة عن فقيه أهل الأردن بلاغا".
18009 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی غم یا مصیبت لاحق ہوتی تو یہ فرماتے : ” حسبی الرب من العباد ، حسبی الخالق من المخلوقین ، حسبی الرازق من المرزوقین ، حسبی اللہ الذین ھو حسبی ، حسبی اللہ ونعم الوکیل حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم “۔
پروردگار مجھے بندوں کی طرف سے کافی ہے ، خالق مجھے مخلوق کی طرف سے کافی ہے ، رازق مجھے رزق کے محتاجوں کی طرف سے کافی ہے ، مجھے اللہ کافی ہے وہی مجھے کفایت کرتا ہے ، مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ، مجھے اللہ کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے۔ (ابن ابی الدنیا فی الفرج من طریق الخلیل بن مرۃ عن فقیہ اھل الاردن بلاغا)

18010

18010- كان إذا أصبح وأمسى يدعو بهذه الدعوات: اللهم إني أسألك من فجأة الخير وأعوذ بك من فجأة الشر، فإن العبد لا يدري ما يفجأه إذا أصبح وإذا أمسى. " ع وابن السني عن أنس".
18010 ۔۔۔ صبح وشام حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات پڑھتے تھے اللہم انی اسالک من فجاۃ الخیر واعوذبک من فجاۃ الشرفان العبد لایدری مایفجاہ اذا اصبح واذا امسی “ اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اچانک خیر کا اور تیری پناہ مانگتا ہوں اچانک شر سے ۔ بیشک بندہ نہیں جانتا کہ صبح وشام کیا اچانک پیش آجاتا ہے۔ مسند ابی یعلی وابن السنی عن انس (رض))

18011

18011- كان إذا أصبح وإذا أمسى قال: أصبحنا على فطرة الإسلام وكلمة الإخلاص ودين نبينا محمد وملة أبينا إبراهيم حنيفا مسلما وما كان من المشركين. "حم طب عن عبد الرحمن بن أبزى".
18011 ۔۔۔ صبح اور شام کے وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے تھے اصبحنا علی فطرۃ الاسلام وکلمۃ الاخلاص ودین نبینا محمد وملۃ ابینا ابراھیم حنیفا مسلما وما کان من المشرکین م نے صبح (اور شام) کی فطرت اسلام ، کلمہ اخلاص، اپنے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر اور آپ مشرکین میں سے نہیں تھے ۔ (مسند احمد ، الکبیر اللطبرانی ، عن عبدالرحمن بن ابزی)

18012

18012- كان إذا دعا لرجل أصابته، وأصابت ولده، وولد ولده. "حم عن حذيفة".
18012 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شے کے لیے نیک دعا کرتے تو اس کا اچھا اس شخص کو ، اس کی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو بھی پہنچتا تھا ۔ (مسند احمد ، عن حذیفۃ (رض))

18013

18013- كان إذا دعا بدأ بنفسه. "طب عن أبي أيوب".
18013 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کے لیے دعا کرتے تو اپنی ذات سے ابتداء کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی ایوب (رض))

18014

18014- كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه. "د عن يزيد".
18014 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دعا کرتے تو ہاتھ اٹھالیتے اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے ۔ (ابوداؤد عن یزید)

18015

18015- كان إذا دعا جعل باطن كفه إلى وجهه. "طب عن ابن عباس".
18015 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دعا کرتے تو ہاتھوں کا اندرونی حصہ اپنے چہرے کی طرف کرلیتے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

18016

18016- كان إذا ذكر أحدا فدعا له بدأ بنفسه. " حب ك عن أبي بن كعب".
18016 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کسی کا ذکر ہوتا اور آپ اس کے لیے دعا کرتے تو پہلے اپنے آپ کے لیے دعا کرتے تھے ۔ (ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد ، ابن حبان ، مستدرک الحاکم عن ابی بن کعب (رض))

18017

18017- كان إذا رفع يديه في الدعاء لم يحطهما حتى يمسح بهما وجهه. "ت ك عن ابن عمر".
18017 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو ان کو اس وقت تک نہیں گراتے تھے جب تک ان کو اپنے چہرے پر نہیں پھیر لیتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18018

18018- كان إذا سأل جعل باطن كفيه إليه، وإذا استعاذ جعل ظاهرهما إليه. "حم عن السائب بن خلاد".
18018 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب (اللہ سے) سوال کرتے تو ہاتھوں کی پشت اپنے چہرے کی طرف کرلیتے ۔ (مسند احمد عن السائب بن خلاد)

18019

18019- كان أكثر دعائه: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك فقيل له في ذلك فقال: إنه ليس آدمي إلا وقلبه بين أصبعين من أصابع الله، فمن شاء أقام ومن شاء أزاغ. "ت " عن أم سلمة".
18019 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اپنے دلوں کو پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما ۔

18020

18020- كان أكثر دعوة يدعو بها: ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار. " حم ق د عن أنس".
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو ارشاد فرمایا کوئی آدمی ایسا نہیں جس کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو ، جس کے دل کو وہ چاہتا ہے سیدھا کردیتا ہے اور جس کے دل کو چاہتا ہے کج کردیتا ہے۔ (ترمذی عن ام سلمۃ (رض))

18021

18021- كان يستحب الجوامع من الدعاء ويدع ما سوى ذلك. "د ك عن عائشة".
18020 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے (آیت)” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار ” اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ۔ (مسند احمد، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد عن انس (رض))

18022

18022- كان يستفتح دعاءه بسبحان ربي العلي الأعلى الوهاب. "حم ك عن سلمة بن الأكوع".
18021 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جامع (کلمات والی) دعائیں پسند فرماتے تھے اور غیر جامع دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18023

18023- كان يستفتح ويستنصر بصعاليك المسلمين. "ش طب عن أمية بن خالد بن عبد الله".
18022 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا اس کلمے کے ساتھ شروع فرماتے تھے سبحان ربی الاعلی الوھاب “۔ (مسند احمد ، مستدرک الحاکم عن سلمۃ بن الاکوع)

18024

18024- كان يصلي على الرجل يراه يخدم أصحابه. "هناد عن علي ابن أبي رباح، مرسلا".
18023 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمان فقیروں کے طفیل مدد مانگتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، الکبیر للطبرانی عن امیۃ بن خالد بن عبداللہ)

18025

18025- كان إذا استسقى قال: اللهم اسق عبادك وبهائمك وانشر رحمتك وأحي بلدك الميت. " د عن عمرو بن شعيب"
18025 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کی دعا مانگتے تو یہ دعا کرتے : ” اللہم اسق عبادک وبھائمک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت اے اللہ ! اپنے بندوں کو اور جانوروں کو پانی کے ساتھ سیراب کر، اپنی رحمت عام کر اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش ۔ (ابو داؤد عن عمرو بن شعیب)

18026

18026- كان إذا استسقى قال: اللهم أنزل في أرضنا بركتها وزينتها وسكنها وارزقنا وأنت خير الرازقين. " أبو عوانة طب عن سمرة".
18026 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کی دعا مانگتے تو یہ دعا پڑھتے اللہم انزل فی ارضنا برک تھا وزینتھا وسکنھا وارزقنا وانت خیر الرازقین اے اللہ ! ہماری سرزمین میں برکت اور زینت اور سکونت نازل فرما اور ہمیں رزق عطا فرما ۔

18027

18027- كان يستمطر في أول مطرة ينزع ثيابه كلها إلا الإزار. "حل عن أنس".
18027 ۔۔۔ پہلی بارش میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھلے میں آکر نہاتے تھے اور ازار کے سوا اپنے تمام کپڑے نکال دیتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن انس (رض))

18028

18028- كان إذا رأى المطر قال: اللهم صيبا نافعا. "خ عن عائشة".
18028 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارش کو دیکھتے تو یہ دعا کرتے ” اللھم صیبانافعا “۔ اے اللہ ! نفع دہ بارش عطا فرما ۔ (بخاری عن عائشۃ (رض))

18029

18029- كان إذا سال السيل قال: أخرجوا بنا إلى هذا الوادي الذي جعله الله طهورا فنتطهر منه ونحمد الله عليه. "الشافعي هق عن يزيد ابن الهاد، مرسلا".
18029 ۔۔۔ جب کسی جگہ بارش سے وادی بہہ پڑتی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے چلو اس وادی کی طرف جس کو اللہ نے پاکیزہ کردیا ہے ہم بھی اس کے ساتھ سا پاک ہوں اور اس پر اللہ کی حمد کریں ۔ (الشافعی شعب الایمان للبیھقی عن یزید ابن الھاد مرسلا)

18030

18030- كان يبدو إلى هذه التلاع. "د حب عن عائشة".
18030 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان گھاٹیوں کی طرف نکل آیا کرتے تھے ۔ (جہاں سے پانی اکٹھا ہو کر نیچے وادیوں میں جاتا تھا) ۔ (ابو داؤد ، ابن حبان عن عائشۃ (رض))

18031

18031- كان إذا اشتدت الريح الشمال قال: اللهم إني أعوذ بك من شر ما أرسلت فيها. " ابن السني طب عن عثمان بن أبي العاص".
18031 ۔۔۔ جب باد شمال چل پڑتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے اللہم انی اعوذبک من شر ما ارسلت فیھاے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جو اس ہوا میں بھیجا گیا ہے۔ (ابن السنی الکبیر للطبرانی عن عثمان بن ابی العاص)
کلام : ۔۔۔ اس روایت کو علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد 10 ، 135 میں نقل فرمایا اور فرمایا : اس کو بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ابو شیبہ عبدالرحمن بن اسحق ضعیف ہے۔

18032

18032- كان إذا عصفت الريح قال: اللهم إني أسألك خيرها وخير ما فيها وخير ما أرسلت به، وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها وشر ما أرسلت به. "حم م ت عن عائشة".
18032 ۔۔۔ جب ہوا تیز اور سخت چل پڑتی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے ” اللہم انی اسالک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت ہ ، واعوذبک من شرھا وشر ما فیھا وشر ما ارسلت بہے اللہ ! میں تجھ سے اس ہوا کی خیر جو کچھ اس میں ہے اس کی خیر اور جس چیز کے ساتھ اس کو بھیجا گیا ہے اس کو خیر کا سوال کرتا ہوں ۔ اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں ، اس ہوا کے شر سے ، جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے اور جس چیز کے ساتھ اس کو بھیجا گیا ہے اس کے شر سے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی عن عائشۃ (رض))

18033

18033- كان إذا هاجت الريح استقبلها بوجهه، وجثا على ركبتيه ومد يديه وقال: اللهم إني أسألك من خير هذه الريح وخير ما أرسلت به وأعوذ بك من شرها وشر ما أرسلت به، اللهم اجعلها رحمة ولا تجعلها عذابا، اللهم اجعلها رياحا ولا تجعلها ريحا. " طب3 عن ابن عباس".
18033 ۔۔۔ جب آندھی شدت اختیار کر جاتی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آندھی کی طرف رخ فرما کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور ہاتھ دراز کرکے یہ دعا کر ” اللہم انی اسالک من خیر ھذہ الریح وخیر ما ارسلت بہ واعوذبک من شرھا وشرما ارسلت بہ اللہم اجعلھا رحمۃ ولا تجعلھا عذابا اللہم اجعلھا ریاحا ولا تجعلھا ریحاے اللہ ! میں تجھ سے اس ہوا کی خیر اور جو چیز دے کر یہ ہوا بھیجی گئی ہے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس ہوا کے شر اور جو چیز دے کر یہ ہوا بھیجی گئی ہے اس کے شر سے ۔ اے اللہ ! اس ہوا کو رحمت بنا دے اور اس کو عذاب نہ بنا ۔ اے اللہ اس کو خیر کی ہوائیں بنا دے اور اس کو ہلاکت والی آندھی مت بنا ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں 10 ۔ 135 پر اس کو نقل فرمایا اور فرمایا : اس میں ایک راوی حسن بن قیس متروک ہے جبکہ بقیہ روای ثقہ ہیں۔

18034

18034- كان إذا اشتدت الريح قال: اللهم لقحا ولا عقيما. "حب ك عن سلمة بن الأكوع".
18034 ۔۔۔ جب ہوا آندھی کی صورت میں شدت اختیار کر جاتی تو یہ دعا فرماتے اللہم لقحا ولا عقیما “ اے اللہ ! اس ہوا کو بار آور بنا اور اس کو بانجھ اور بیکار نہ بنا ۔ (ابن حبان مستدرک الحاکم عن سلمۃ بن الاکوع)

18035

18035- كان إذا سمع صوت الرعد والصواعق قال: اللهم لا تقتلنا بغضبك، ولا تهلكنا بعذابك وعافنا قبل ذلك. "حم ت، ك عن ابن عمر".
18035 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گرج اور کڑکڑاہٹ کی آواز سنتے تو یہ دعا کر ” اللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک وعافنا قبل ذل کے اللہ ! ہمیں اپنے غضب کے ساتھ ہلاک نہ فرما ، نہ اپنے عذاب کے ساتھ تباہ کردینا بلکہ اس سے پہلے ہی اپنی عافیت کی پناہ میں لے لے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18036

18036- كان يتعوذ من جهد البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء وشماتة الأعداء. "ق ن عن أبي هريرة".
18036 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مصیبت کی شدت ، بدبختی کے آنے ، بری تقدیر اور دشمنوں کے خوش ہونے سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، نسائی عن ابوہریرہ (رض))

18037

18037- كان يتعوذ من خمس: من الجبن، والبخل، وسوء العمر وفتنة الصدر، وعذاب القبر. "د ن هـ عن عمر".
18037 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے بزدلی سے ، کنجوسی سے ، بری عمر سے ، سینے کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے (ابوداؤد نسائی ، ابن ماجۃ عن ابن عمرو (رض))

18038

18038- كان يتعوذ من الجان وعين الإنسان حتى نزلت المعوذتان، فلما نزلت أخذ بهما وترك ما سواهما. "ت ن هـ والضياء عن أبي سعيد".
18038 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں سے اور انسان کی بری نظر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے حتی کہ معوذتین سورتیں نازل ہوگئیں ، پھر آپ ان کے ساتھ تعوذ فرمانے لگے اور دوسری چیزوں کے ساتھ تعوذ کرنا چھوڑ دیا ۔ (ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، الضیاء عن ابی سعید)

18039

18039- كان يتعوذ من موت الفجأة وكان يعجبه أن يمرض قبل أن يموت. "طب عن أبي أمامة".
18039 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اچانک موت سے خدا کی پناہ مانگتے تھے اور آپ کو یہ بات بہت پسند تھی کہ انسان موت سے قبل مرض الموت میں مبتلا ہوجائے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض))

18040

18040- كان إذا رأى الهلال قال: هلال خير ورشد، آمنت بالذي خلقك ثلاثا، ثم يقول: الحمد لله الذي ذهب بشهر كذا وجاء بشهر كذا. "د عن قتادة، بلاغا؛ وابن السني عن أبي سعيد".
18040 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا چاند دیکھتے تو تین بار فرماتے ” ھلال خیر ورشد امنت بالذی خلقک “۔ خیر اور بھلائی کا چاند ہے ، میں ایمان لایا اس ذات پر جس نے تجھے خلقت بخشی ، پھر یہ دعا پڑھتے الحمد للہ الذی ذھب بشھر کذا وجاء بشھر کذا “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو فلاں مہینے کو لے گیا اور فلاں مہینے کو لے آیا ۔ (ابوداؤد عن قتادہ بلاغا ، ابن السنی عن ابی سعید)

18041

18041- كان إذا رأى الهلال قال: هلال خير ورشد، ثم قال: اللهم إني أسألك من خير هذا ثلاثا، اللهم إني أسألك من خير هذا الشهر وخير القدر، وأعوذ بك من شره ثلاث مرات. " طب3 عن رافع بن خديج".
18041 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نئے ماہ کا چاند دیکھتے تو فرماتے : ” ھلال خیرورشد “۔ یہ بھلائی اور کامیابی کا چاند ہے پھر تین مرتبہ یہ دعا پڑھ ” اے اللہ میں تجھ سے اس (ماہ) کی خیر کا سوال کرتا ہوں ور تین بار یہ دعا پڑھتے اللہم انی اسالک من خیر ھذا الشھر وخیر القدر، واعوذبک من شر ہے اللہ ! میں تجھ سے اس ماہ کی خیر کا اور تقدیر کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الکبیر للطبرانی عن رافع بن خدیج (رض))

18042

18042- كان إذا رأى الهلال قال: اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله. " حم ت ك عن طلحة".
18042 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نئے ماہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھ ” اللہم اھلہ علینا بالیمن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ “ اے اللہ اس چاند کو ہم پر برکت اور ایمان کے ساتھ سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع کر اور اے چاند میرا اور تیرا رب اللہ ہے “۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک ، الحاکم عن طلحۃ)

18043

18043- كان إذا رأى الهلال قال: الله أكبر الله أكبر الحمد لله لا حول ولا قوة إلا بالله، اللهم إني أسألك من خير هذا الشهر، وأعوذ بك من شر القدر ومن شر يوم المحشر. " حم طب عن عبادة بن الصامت".
18043 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا چاند دیکھتے تو فرما ” اللہ اکبر اللہ اکبر الحمد للہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ اللہم انی اسالک من خیر ھذا الشھر واعوذ بک من شر القدر ومن شر یوم المحشر “ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، کسی برائی سے بچنے کی ہمت اور کسی نیکی اور بھلائی کی قوت صرف اللہ کی مدد کے ساتھ ممکن ہے ، اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ماہ کی خیر کا اور تیری پناہ مانگتا ہوں تقدیر کے شر اور قیامت کے دن کے شر سے ۔ (مسند احمد ، الکبیر للطبرانی عن عبادۃ بن الصامت)

18044

18044- كان إذا رأى الهلال قال: اللهم أهله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام والتوفيق لما تحب وترضى ربنا وربك الله. " طب3 عن ابن عمر".
18044 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چاند دیکھتے تو فرما ” اللہم اھلہ علینا بالیمن والایمان والسلامۃ والاسلام والتوفیق لما تحب وترضی ربنا وربک اللہ “ اے اللہ اس چاند کو ہم پر امن اور ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع کر اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ جس کو تو چاہے اور جس سے تو راضی ہو (اے چاند) ہم سب کا اور تیرا رب اللہ ہے۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عمرو (رض))
کلام :۔۔۔ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد 10 ۔ 139 ۔ پر اس کو روایت کیا اور فرمایا اس میں ایک راوی عثمان بن ابراہیم حالبی ضعیف ہے ، جبکہ بقیہ رواۃ ثقہ ہیں۔

18045

18045- كان إذا رأى الهلال قال: اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام والسكينة والعافية والرزق الحسن. " ابن السني عن حدير السلمي"
18045 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھ ” اللہم ادخلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والسلام والسکینۃ والعافیۃ والرزق الحسنے اللہ ! اس ماہ کو ہم پر امن ، ایمان ، سلامتی ، اسلام ، سکینہ ، عافیت اور اچھے رزق کے ساتھ طلوع کر ۔ (ابن سنی عن جدیر المسلمی)

18046

18046- كان إذا رأى الهلال صرف وجهه عنه. "د عن قتادة، مرسلا".
18046 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاند دیکھ لیتے تو اپنا چہرہ اس سے پھیر لیتے ۔ (ابو داؤد عن قتادۃ مرسلا)

18047

18047- كان إذا رأى الهلال قال: هلال خير ورشد، الحمد لله الذي ذهب بشهر كذا وجاء بشهر كذا، أسألك من خير هذا الشهر ونوره وبركته وهداه وطهوره ومعافاته. " ابن السني عن عبد الله ابن مطرف"
18047 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیا چاند دیکھتے یہ دعا فرماتے ھلال خیر ورشد، الحمد للہ الذی ذھب بشھر کذا وجاء بشھر کذا، اسالک من خیر ھذا الشھر ونورہ وبرکتہ وھداہ وطھورہ ومعافاتہ “۔ خیر اور بھلائی کا چاند ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے فلاں ماہ کو پورا کردیا اور فلاں ماہ کو طلوع کررہا ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ماہ کی خیر کا ، اس کے نور کا ، اس کی برکت کا اس کی ہدایت کا ، اس کی پاکی کا اور اس کی عافیت کا ۔ (ابن السنی عن عبداللہ بن مطرف)

18048

18048- كان إذا نظر إلى الهلال قال: اللهم اجعله هلال يمن ورشد آمنت بالله الذي خلقك فعدلك فتبارك الله أحسن الخالقين. " ابن السني عن أنس"
18048 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے اللہم اجعلہ ھلال یمن ورشد امنت باللہ الذی خلقک فعدلک فتبارک اللہ احسن الخالقینے اللہ ! اس چاند کو برکت اور بھلائی کا سرچشمہ کر ، میں ایمان لایا اس ذات پر جس نے تجھ پیدا کیا اور تجھے خوبصورت اور درست بنایا پس بابرکت ہے اللہ جو سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے۔ (ابن السنی عن انس (رض))

18049

18049- كان إذا دخل رجب قال: اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان، وكان إذا كانت ليلة الجمعة قال: هذه ليلة غراء ويوم أزهر. "هب وابن عساكر عن أنس".
18049 ۔۔۔ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضانے اللہ ! ہم کو رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما، اور ہم کو رمضان کا مہینہ نصیب کر ، اور جب جمعہ کی رات ہوتی تو فرماتے یہ روشن رات ہے اور روشن دن ہے۔ (شعب الایمان للبیھقی ، ابن عساکر عن انس (رض))

18050

18050- كان يعجبه أن يدعو ثلاثا ويستغفر ثلاثا. "حم د عن ابن مسعود".
18050 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بہت پسند تھی کہ تین مرتبہ دعا کرتے اور تین مرتبہ استغفار کرتے ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد عن ابن مسعود (رض))

18051

18051- كان إذا أتاه قوم بصدقتهم قال: اللهم صل على آل فلان. "حم ق د ن هـ عن ابن أبي أوفى".
18051 ۔۔۔ جب کوئی قوم اپنے صدقات (زکوۃ وغیرہ) لے کر آتی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو یہ دعا دیتے ۔ ” اللہم صل علی آل فلان “۔ اے اللہ ! فلاں قوم پر رحمت نازل فرما (مسند احمد بخاری مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ابن ماجۃ عن ابن ابی اوفی)

18052

18052- كان إذا أراد أن يدعو على أحد أو يدعو لأحد قنت بعد الركوع. "خ عن أبي هريرة".
18052 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر بددعا کرتے یا کسی کے لیے دعا کرتے تو رکوع کے بعد قنوت (نازلہ) پڑھتے ۔ (بخاری ان عن ابوہریرہ (رض))

18053

18053- كان إذا أراد أمرا قال: اللهم خر لي واختر لي. " ت عن أبي بكر"
18053 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کام کا ارادہ کرتے ۔ ” اللہم خرلی واخترلی “ اے اللہ میرے لیے خیر فرما اور صحیح بات پسند فرما “۔ (ترمذی عن ابی بکر (رض))
کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) نے کتاب الدعوات میں اس کو تخریج کر کے اس پر غریب ضعیف کا حکم فرمایا ہے۔

18054

18054- كان إذا رفع بصره إلى السماء قال: يا مصرف القلوب ثبت قلبي على طاعتك. " ابن السني عن عائشة".
18054 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے تو یہ دعا کر ” یا مصرف القلوب ثبت قلبی علی طاعتک “ اے دلوں کو پلٹنے والے : میرے دل کو اپنی اطاعت پر ثابت قدم فرما ۔ (ابن السنی عن عائشۃ (رض))

18055

18055- كان إذا أفطر قال: ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله. " د ك عن ابن عمر".
18055 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب روزہ افطار کرتے تو یہ فرما ” ذھب الظلماء وابتلت العروق ، وثبت الاجران شاء اللہ “۔ تشنگی رفع ہوئی ، آنتیں تر ہوگئیں اور اجر انشاء اللہ ثابت ہوگیا ۔ ابو داؤد مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18056

18056- كان إذا أفطر قال: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت. "د عن معاذ بن زهرة، مرسلا".
18056 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب روزہ افطار کرتے تو فرما ” اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرتے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر روزہ کھولا ۔ (ابوداؤد ، عن معاذ بن زہرۃ مرسلا “۔

18057

18057- كان إذا أفطر قال: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت فتقبل مني إنك أنت السميع العليم. " طب وابن السني عن ابن عباس".
18057 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا کرتے اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرت فتقبل منی انک انت السمیع العلیمے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا ، تیرے رزق کے ساتھ افطار کیا ، پس مجھ سے اس کو قبول فرما ۔ بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔ (الکبیر للطبرانی ، عن انس (رض) ، عن ابن عباس (رض))

18058

18058- كان إذا أفطر قال: الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت. "ابن السني، هب عن معاذ".
18058 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطار کے وقت یہ دعا کرتے تھے : ” الحمد للہ الذی اعاننی فصمت ورزقنی فافطرت “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری مدد کی تو میں روزہ رکھ سکا اور جس نے مجھے رزق دیا تو میں روزہ کھول سکا ۔ (ابن السنی، شعب الایمان للبیہقیعن معاذ (رض))

18059

18059- كان إذا دخل قال: هل عندكم طعام؟ فإذا قيل: لا، قال: إني صائم. "د عن عائشة"
18059 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صبح کو) گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کیا کچھ کھانا ہے ؟ اگر جواب انکار میں ملتا تو فرماتے میں روزہ دار ہوں ۔ (ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18060

18060- كان إذا دخل رمضان أطلق كل أسير وأعطى كل سائل. "هب عن ابن عباس، ابن سعد عن عائشة".
18060 ۔۔۔ جب رمضان کا مہینہ آجاتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر اسیر (قیدی) کو آزاد کردیتے اور ہر سائل کو خیرات دیتے ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، عن ابن عباس (رض) ، ابن سعد عن عائشۃ (رض))

18061

18061- كان إذا دخل شهر رمضان شد مئزره، ثم لم يأت فراشه حتى ينسلخ."هب عن عائشة".
18061 ۔۔۔ جب رمضان کا ماہ داخل ہوجاتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازار باندھ لیتے پھر اس وقت تک اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے جب تک رمضان نہ رخصت ہوجاتا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

18062

18062- كان إذا دخل رمضان تغير لونه، وكثرت صلاته، وابتهل في الدعاء، وأشفق لونه. "هب عن عائشة".
18062 ۔۔۔ جب رمضان کا ماہ شروع ہوتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رنگ متغیر ہوجاتا ، نماز میں کثرت ہوجاتی ، دعاؤں میں آہ زاری بڑھ جاتی اور آپ کا رنگ پھیکا پڑجاتا تھا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

18063

18063- كان إذا كان الرطب لم يفطر إلا على الرطب، وإذا لم يكن الرطب لم يفطر إلا على التمر. "عبد بن حميد عن جابر".
18063 ۔۔۔ اگر تازہ کھجوریں میسر ہوتیں تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہی کے ساتھ روزہ افطار کرتے اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک (پرانی) کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے ۔ (عبد بن حمید عن جابر (رض))

18064

18064- كان إذا كان صائما أمر رجلا فأوفى على نشز1، فإذا قال: غابت الشمس أفطر. "ك عن سهل بن سعد؛ طب عن أبي الدرداء".
18064 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ دار ہوتے تو (غروب شمس کے وقت) کسی شخص کو حکم دیتے اور وہ بلند ٹیلہ پر کھڑا ہوجاتا جب وہ کہتا کہ سورج غروب ہوگیا ہے تو آپ روزہ افطار کرلیتے ۔ (مستدرک الحاکم عن سہل بن سعد ، الکبیر للطبرانی عن ابی الدرداء (رض))

18065

18065- كان أكثر ما يصوم الإثنين والخميس فقيل له، فقال: الأعمال تعرض كل إثنين وخميس فيغفر الله لكل مسلم إلا المتهاجرين، فيقول: أخروهما. " حم عن أبي هريرة".
18065 ۔۔۔ (رمضان کے علاوہ) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کا روزہ کثرت کے ساتھ رکھتے تھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی بابت پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا : ہر پیر اور جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں تب اللہ پاک ہر مسلمان کو بخش دیتے ہیں سوائے دو ان شخصوں کے جو آپس میں بول چال بند کئے ہوئے ہوں ان کے متعلق اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ان کو چھوڑے رکھو۔ (مسند احمد عن ابوہریرہ (رض))

18066

18066- كان أكثر صومه السبت والأحد ويقول: هما يوما عيد المشركين وأحب أن أخالفهم. " حم طب ك هق عن أم سلمة".
18066 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکثر روزے ہفتہ اور اتوار کو ہوا کرتے تھے اور آپ فرماتے تھے یہ دو مشرکین کی عید کے دن ہیں میں چاہتا ہوں ک (روزہ رکھ کر) ان کی مخالفت کروں ۔ (مسند احمد ، الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم السنن للبیھقی عن ام سلمۃ (رض))

18067

18067- كان لا يجيز على شهادة الإفطار إلا رجلين. "عق عن ابن عباس وابن عمر".
18067 ۔۔۔ افطار کے لیے سورج غروب ہونے پر دو آدمیوں کی شہادت قبول فرماتے تھے ۔ (الضعفاء للعقیلی عن ابن عباس (رض) ، و عن ابن عمرو (رض))

18068

18068- كان لا يدع صوم أيام البيض في سفر ولا حضر. "طب عن ابن عباس".
18068 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایام بیض (چاند کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں) کے روزے سفر میں چھوڑتے تھے اور نہ حضر میں ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

18069

18069- كان لا يصلي المغرب حتى يفطر ولو على شربة من ماء. "ك هب عن أنس".
18069 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کی نماز ادا نہ فرماتے تھے جب تک افطار نہ کرلیتے خواہ ایک گھونٹ پانی سے کیوں نہ ہوں۔ (مستدرک الحاکم ، شعب الایمان للبیہقی، عن انس (رض))

18070

18070- كان يبدأ بالشراب إذا كان صائما، وكان لا يعب، يشرب مرتين أو ثلاثا. "طب عن أم سلمة".
18070 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطار میں پینے کے ساتھ ابتداء کرتے تھے اور بغیر سانس لیے مسلسل نہ پیتے تھے بلکہ دو یا تین سانسوں میں پیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ام سلمۃ (رض))

18071

18071- كان يبدأ إذا أفطر بالتمر. "ن عن أنس".
18071 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افطار کے وقت پر کھجور کے ساتھ ابتداء فرماتے تھے ۔ (نسائی عن انس (رض))
فائدہ : ۔۔۔ کھجور کی موجودگی میں کھجوروں کے ساتھ افطار فرماتے تھے لیکن کھجور نہ ہونے کی صورت میں پانی کو ترجیح دیتے تھے ۔

18072

18072- كان يتحرى صيام الإثنين والخميس. "ت ن عن عائشة".
18072 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی جستجو میں رہتے تھے ۔ (ترمذی ، نسائی عن عائشۃ (رض))

18073

18073- كان يصوم الإثنين والخميس. "هـ عن أبي هريرة".
18073 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابوہریرہ (رض))

18074

18074- كان يحب أن يفطر على ثلاث تمرات أو شيء لم تصبه النار. "ع عن أنس".
18074 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین کھجوروں یا ایسی چیز کے ساتھ افطار کرنے کو پسند کرتے تھے جس کو آگ پر نہ پکایا گیا ہو (پھل فروٹ وغیرہ) ۔ (مسند ابی یعلی عن انس (رض))

18075

18075- كان يدركه الفجر وهو جنب من أهله، ثم يغتسل ويصوم. "مالك ق عن عائشة وأم سلمة".
18075 ۔۔۔ بعض اوقات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فجر کا وقت ہوجاتا اور آپ اپنے اہل کے ساتھ جنبی حالت میں ہوتے پھر آپ غسل کرتے اور روزہ دار ہوجاتے ۔ (مؤطا امام مالک ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ابن ماجہ ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض) ، وام سلمۃ (رض))

18076

18076- كان يستحب إذا أفطر أن يفطر على لبن. "قط عن أنس".
18076 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یہ بھی) پسند فرماتے تھے کہ دودھ کے ساتھ روزہ کشائی فرمائی۔ (الدار قطنی عن انس (رض))

18077

18077- كان يصوم عاشوراء ويأمر به. "حم عن علي".
18077 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشورا (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے اور اس کا حکم بھی فرماتے تھے ۔ (مسند احمد عن علی (رض))

18078

18078- كان يصوم من غرة كل شهر ثلاثة أيام، وقلما كان يفطر يوم الجمعة. "ت عن ابن مسعود
18078 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں کے روزے (بھی) رکھتے تھے اور ایسا تو بہت کم ہوتا تھا کہ جمعہ کے دن روزہ نہ رکھیں ۔ (ترمذی ، عن ابن مسعود (رض))

18079

18079- كان يصوم تسع ذي الحجة، ويوم عاشوراء، وثلاثة أيام من كل شهر أول إثنين من الشهر، والخميس والإثنين من الجمعة الأخرى. "حم د ن عن حفصة".
18079 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نو ذی الحجہ ، عاشوراء ہر مہینے کے تین دن یعنی پہلے پیر اور دوسرے ہفتہ کے پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد نسائی عن حفصۃ)

18080

18080- كان يصوم من الشهر: السبت والأحد والإثنين، ومن الشهر الآخر: الثلاثاء والأربعاء والخميس. "ت عن عائشة".
18080 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ماہ کے ہفتہ ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے اور دوسرے ماہ کے منگل ، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے ۔ (ترمذی عن عائشۃ (رض))

18081

18081- كان يعجبه أن يفطر على الرطب ما دام الرطب، وعلى التمر إذا لم يكن رطب، ويختم بهن ويجعلهن وترا ثلاثا أو خمسا أو سبعا. "ابن عساكر عن جابر".
18081 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند تھی کہ تازہ کھجوروں کی موجودگی میں انہی کے ساتھ روزہ کھولیں اور ان کی عدم موجودگی میں خشک (پرانی) کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کریں اور انہی کے ساتھ افطار ختم کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے یعنی تین یا پانچ یا سات۔ (ابن عساکر عن جابر (رض))

18082

18082- كان يفطر على رطبات قبل أن يصلي، فإن لم تكن فتمرات، فإن لم تكن تمرات، حسا حسوات من ماء. "حم د ت عن أنس".
18082 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب ادا کرنے سے قبل تر کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار فرماتے تھے اگر تروتازہ کھجوریں میسر نہ ہوتیں تو پرانی خشک کھجوروں کے ساتھ افطار کرلیتے تھے ۔ اگر وہ بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند چسکیاں لے لیتے ۔ (مسند احمد ابو داؤد ، ترمذی عن انس (رض))

18083

18083- كان يقبل وهو صائم. "حم ق عن عائشة".
18083 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ ۔ ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18084

18084- كان يكتحل بالإثمد وهو صائم. "طب، هق عن أبي رافع".
18084 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ کی حالت میں سرمہ آنکھوں میں لگاتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، السنن للبیھقی عن ابی رافع (رض))

18085

18085- كان أحب الشهور إليه أن يصومه شعبان. "د عن عائشة".
18085 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (رمضان کے بعد) روزہ رکھنے کے لیے پسندیدہ مہینہ شعبان تھا ۔ (ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18086

18086- كان إذا أفطر عند قوم قال لهم: أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وتنزلت عليكم الملائكة. " حم هق عن أنس".
18086 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم کے پاس روزہ افطار فرماتے تو ان کو (دعائیہ انداز میں فرماتے تمہارے پاس روزہ داروں نے افطار کیا ، تمہارا کھانا متقیوں نے کھایا اور ملائکہ نے تمہارے ہاں نزول کیا ۔ (مسند احمد ۔ السنن للبیھقی عن انس (رض))

18087

18087- كان إذا أفطر عند قوم قال: أفطر عندكم الصائمون، وصلت عليكم الملائكة. " طب عن ابن الزبير". "الإعتكاف"
18087 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس کے پاس روزہ کھولتے تو ان کو یہ فرماتے روزہ داروں نے تمہارے ہاں روزہ افطار کیا اور ملائکہ نے تم پر رحمت بھیجی ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن الزبیر (رض))

18088

18088- كان إذا أراد أن يعتكف صلى الفجر ثم دخل معتكفه. "د ت عن عائشة".
18088 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو پہلے فجر کی نماز پڑھاتے پھر اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہوجاتے ۔ (ابو داؤد ترمذی عن عائشۃ (رض))

18089

18089- كان يعود المريض وهو معتكف. "د عن عائشة"
18089 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کی حالت میں مریض کی عیادت فرما لیتے تھے ۔ (ابو داؤد ، عن عائشۃ (رض))

18090

18090- كان إذا دخل العشر شد مئزره وأحيى ليله وأيقظ أهله. "ق د ن هـ عن عائشة".
18090 ۔۔۔ جب عشرہ اخیرہ داخل ہوتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ازار سخت باندھ لیتے (رمضان کا) راتوں کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے ۔ (بخاری مسلم ، ابو داؤد نسائی ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18091

18091- كان إذا كان مقيما اعتكف العشر الأواخر من رمضان، وإذا سافر اعتكف من العام المقبل عشرين. "حم عن أنس".
18091 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مقیم ہوتے تو رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے اور اگر حالت سفر میں ہوتے تو آئندہ سال کے بیس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے ۔ (مسند احمد عن انس (رض))

18092

18092- كان يجتهد في العشر الأواخر ما لا يجتهد في غيرها. "حم م ت هـ عن عائشة".
18092 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری عشرہ میں اس قدر محنت و ریاضت کرتے تھے جو اور دنوں میں نہ کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ عن عائشۃ (رض))

18093

18093- كان لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يطعم يوم النحر حتى يذبح. "حم ت د ك عن بريدة".
18093 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کے دن (عید کے لئے) گھر سے نہ نکلتے تھے جب تک کچھ کھا پی نہ لیتے اور عید الاضحی کے دن کچھ نہ کھاتے تھے جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کریں ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم ، ابو داؤد عن بریدۃ (رض) ، قال الترمذی غریب)

18094

18094- كان لا يصلي قبل العيد شيئا فإذا رجع إلى منزله صلى ركعتين. "هـ عن أبي سعيد"
18094 ۔۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید سے قبل کوئی (نفلی) نماز نہ پڑھتے تھے پھر جب گھر واپس آجاتے تو دو رکعت گھر میں پڑھا کرتے ۔ (ابن ماجہ عن ابی سعید (رض))

18095

18095- كان لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل سبع تمرات. "طب عن جابر بن سمرة"
18095 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الفطر کو (عید کے لیے ) نہ نکلتے تھے حتی کہ سات کھجوریں کھالیتے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن جابر بن سمرۃ (رض))

18096

18096- كان لا يكاد يدع أحدا من أهله في يوم عيد إلا أخرجه. "ابن عساكر عن جابر".
18096 ۔۔۔ عید کے روز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کسی گھر کے فرد کو نہ چھوڑتے تھے بلکہ سب کو (عید کے لیے) نکال لاتے تھے ۔ (ابن عساکر عن جابر (رض))

18097

18097- كان يأمر بإخراج الزكاة قبل الغدو إلى الصلاة يوم الفطر. "ت عن ابن عمر".
18097 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کے دن نماز عید کے لیے نکلنے سے قبل زکوۃ (صدقہ الفطر) کی ادائیگی کا حکم دیا کرتے تھے ۔ (ترمذی عن ابن عمرو (رض))

18098

18098- كان يأمر بناته ونساءه أن يخرجن في العيدين. "حم عن ابن عباس".
18098 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین میں نکلنے کا حکم دیتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابن عباس (رض))

18099

18099- كان يخرج إلى العيد ماشيا ويرجع ماشيا. "هـ عن ابن عمر".
18099 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کے روز پیدل نکلتے تھے اور پیدل واپس تشریف لاتے تھے۔ (ابن ماجہ عن ابن عمرو (رض))
کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن عبداللہ عمری ضعیف راوی ہے۔

18100

18100- كان يخرج إلى العيدين ماشيا ويصلي بغير أذان ولا إقامة ثم يرجع ماشيا في طريق آخر. "هـ عن أبي رافع".
18100 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں پیدل نکل جاتے تھے اور بغیر اذان اور بغیر اقامت کے نماز عید ادا فرماتے پھر دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے ۔ (ابن ماجہ عن ابی رافع)

18101

18101- كان يخرج في العيدين رافعا صوته بالتهليل والتكبير. "هب عن ابن عمر".
18101 ۔۔۔ عیدین میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہلیل اور تکبیر بلند آواز میں پڑھتے ہوئے نکلتے تھے ۔ (شعب الایمان للبیہقی، عن ابن عمرو (رض))
فائدہ : ۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ یہ کلمات تکیبر تشریق ہیں ان میں تہلیل وتکبیر کا مجموعہ ہے ، جن کو پڑھتے ہوئے عیدین میں نکلنا چاہیے ۔

18102

18102- كان يقلس له يوم الفطر. "حم ھـ عن قيس بن سعد".
18102 ۔۔۔ عید الفطر کے روز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دف بجایا جاتا تھا ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ عن قیس بن سعد (رض))
کلام : ۔۔۔ فائدہ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ قیس کی حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال سب ثقہ ہیں۔

18103

18103- كان يكبر بين أضعاف الخطبة يكثر التكبير في خطبة العيدين. "هـ ك عن سعد القرظ"
18103 ۔۔۔ عیدین کے خطبہ کے دوران حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت کے ساتھ تکبیر کہتے تھے ۔ (ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن سعد القرظ)

18104

18104- كان يكبر يوم الفطر من حين يخرج من بيته حتى يأتي المصلى. "ك3 هق عن ابن عمر".
18104: عید الفطر کے روز آپ جس وقت گھر سے نکلتے عید گاہ پہنچنے تک تکبیر کہتے۔ المستدرک للحاکم، السنن للبیہقی عن ابن عمر (رض)

18105

18105- كان إذا خرج يوم العيد في طريق رجع في غيره. "ت4 ك عن أبي هريرة".
18105 ۔۔۔ عید الفطر کے روز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس راستے سے نکلتے واپس دوسرے راستے سے تشریف لاتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض))

18106

18106- كان إذا كان يوم عيد خالف الطريق. "خ عن جابر".
18106 ۔۔۔ جب عید کا دن ہوتا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالف راستہ استعمال فرماتے تھے ۔ (بخاری عن جابر (رض))

18107

18107- كان لا يؤذن له في العيدين. "م د، ت عن جابر بن سمرة".
18107 ۔۔۔ عیدین کے لیے کوئی اذان نہ دی جاتی تھی ۔ (مسلم ابو داؤد ، ترمذی عن جابر بن سمرۃ (رض))

18108

18108- كان إذا رمي الجمار مشى إليه ذاهبا وراجعا. "ت عن ابن عمر".
18108 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمی جمار (شیطانوں کو کنکری مارنے) کے لیے پیدل آتے جاتے تھے ۔ (ترمذی عن ابن عمرو (رض))

18109

18109- كان إذا رمى جمرة العقبة مضى ولم يقف. "هـ عن ابن عباس".
18109 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمرہ عقبہ کی رمی فرماتے ہوئے ٹھہرتے نہ تھے بلکہ گزرتے چلے جاتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

18110

18110- كان إذا فرغ من تلبيته سأل الله رضوانه ومغفرته، واستعاذ برحمته من النار. "هق عن خزيمة بن ثابت".
18110 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلبیہ سے فارغ ہو کر اللہ سے اس کی رضا اور مغفرت کا سوال کرتے تھے ۔ اور اللہ کی رحمت کے طفیل جہنم سے پناہ مانگتے تھے ۔

18111

18111- كان إذا كان قبل يوم التروية بيوم خطب الناس فأخبرهم بمناسكهم. "ك هق عن ابن عمر".
18111 ۔۔۔ یوم الترویہ سے ایک دن پہلے (یعنی سات ذی الحجہ کو) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو خطبہ دیتے اور حج کے احکام سے روشناس کراتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم ، السنن للبیھقی عن ابن عمرو (رض))

18112

18112- كان إذا نظر إلى البيت قال: اللهم زد بيتك هذا تشريفا وتعظيما وتكريما وبرا ومهابة. " طب عن حذيفة بن أسيد".
18112 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کی طرف نظر ڈالتے تو یہ دعا فرماتے اللہم ذدبیتک ھذا تشریفا وتعظیما وتکریما وبرا ومھابۃ ے اللہ اپنے اس گھر کو زیادہ سے زیادہ شرف ، عظمت ، کرامت بزرگی اور دبدبہ عطا فرما ۔ (الکبیر للطبرانی عن حذیفہ بن اسید (رض))

18113

18113- كان أكثر دعائه يوم عرفة لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير. " عن ابن عمرو".
18113 ۔۔۔ عرفہ کے روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر دعا یہ ہوتی تھی : ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر وھو علی کل شیء قدیر “۔ (عن ابن عمرو (رض))

18114

18114- كان لا يستلم إلا الحجر والركن اليماني. "ن عن ابن عمر".
18114 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استلام (بوسہ) صرف حجر اسود اور رکن یمانی کا فرماتے تھے ۔ (نسائی عن ابن عمرو (رض))

18115

18115- كان يذبح أضحيته بيده. "حم عن أنس".
18115 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد عن انس (رض))

18116

18116- كان يضحي بكبشين أقرنين أملحين وكان يسمي ويكبر. "حم ق ن هـ عن أنس".
18116 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو سینگوں والے خوبصورت مینڈھوں کی قربانی دیا کرتے تھے اور ذبح کے وقت ان پر اللہ کا نام لیتے اور تکبیر کہتے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن ماجہ عن انس (رض))

18117

18117- كان يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله. "ك عن عبد الله بن هشام".
18117 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بکری اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے ذبح کردیا کرتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن عبداللہ بن ہشام)

18118

18118- كان يقبل وهو محرم. "خط عن عائشة".
18118 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محرم ہونے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیتے تھے ۔ (الخطیب فی : التاریخ عن عائشۃ (رض))

18119

18119- كان إذا أراد أن يحرم يتطيب بأطيب ما يجد. "م عن عائشة"
18119 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احرام باندھنے کا ارادہ فرماتے تو اپنے پاس موجود سب سے اچھی خوشبو لگا لیتے تھے ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

18120

18120- كان إذا استلم الركن قبله، ووضع خده الأيمن عليه. "هق عن ابن عباس".
18120 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکن کا استلام کرتے تو اس کو چومتے تھے اور اپنا دایاں رخسار اس پر رکھ دیتے تھے ۔ (السنن للبیھقی عن ابن عباس (رض))

18121

18121- كان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة إلى صلاة العصر آخر أيام التشريق. "هق عن جابر".
18121 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفہ کے روز فجر کی نماز سے ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر تشریق پڑھا کرتے تھے ۔ (السنن اللبیھقی عن جابر (رض))

18122

18122- كان يلزق وجهه وصدره بالملتزم. "هق عن ابن عمرو".
18122 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملتزم کے ساتھ اپنے چہرے اور سینے کو چمٹا لیا کرتے تھے ۔ (السنن للبیھقی عن ابن عمرو (رض))

18123

18123- كان ينحر أضحيته بالمصلى. "خ د ن هـ عن ابن عمر".
18123 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قربانی عید گاہ میں ذبح کیا کرتے تھے ۔ (بخاری ، ابو داؤد نسائی ، ابن ماجۃ عن ابن عمرو (رض))

18124

18124- كان إذا طاف بالبيت استلم الحجر والركن في كل طواف. "ك عن ابن عمر".
18124 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیت اللہ کا طواف فرماتے تو ہر چکر میں حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے (یعنی بوسہ لیتے) (مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18125

18125- كان إذا بعث سرية أو جيشا بعثهم أول النهار. "د 1ت هـ عن صخر".
18125 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سریہ یا جیش کو روانہ فرماتے تو دن کے شروع میں روانہ فرماتے ۔ (ابو داؤد ترمذی ، ابن ماجۃ عن صخر)

18126

18126- كان إذا بعث أميرا قال: أقصر الخطبة وأقل الكلام الكلام سحرا. "طب عن أبي أمامة".
18126 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو اس کو ارشاد فرماتے خطبہ مختصر رکھنا اور سحر انگیز کلام تھوڑا کرنا۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض))

18127

18127- كان إذا بعث أحدا من أصحابه في بعض أمره قال: بشروا ولا تنفروا ويسروا ولا تعسروا. " د عن أبي موسى".
18127 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے اصحاب میں سے کسی کو اپنے کسی حکومتی معاملات میں روانہ فرماتے تو اس کو حکم دیتے لوگوں کو خوشخبری دو اور ان کو نفرت نہ دلاؤ اور آسانی و سہولت پیش کرو اور لوگوں کو تنگی میں نہ ڈالو۔ (ابو داؤد عن ابی موسیٰ (رض))

18128

18128- كان إذا غزا قال: اللهم أنت عضدي وأنت نصيري [بك أحول وبك أصول] وبك أقاتل. "حم د3 ت هـ حب والضياء عن أنس".
18128 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ میں ہوتے تو ارشاد فرما ” اللہم انت عضدی وانت نصیری (بک احول وبک اصول) وبک اقاتل “ اے اللہ ! تو میرا بھروسہ ہے اور تو میرا مددگار ہے۔ (تیری مدد کے ساتھ میں درست حالت میں ہوں اور تیری مدد کے ساتھ ہی میں حملہ کرتا ہوں) اور تیری مدد کے ساتھ میں قتال کرتا ہوں ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، الضراء عن انس (رض))

18129

18129- كان رايته سوداء ولواؤه أبيض. "د عن ابن عباس".
18129 ۔۔۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (حالت جنگ میں) دیکھا کہ سیاہ کپڑوں میں مبلوس ہیں اور آپ کا جھنڈا سفید ہے۔ (ابو داؤد ، عن ابن عباس (رض))

18130

18130- كان لا يولي واليا حتى يعممه ويرخي لها عذبة من جانب الأيمن نحو الأذن. "طب عن أبي أمامة".
18130 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو والی (شہر یا کسی لشکر کا امیر) نہ بناتے تھے جب تک اس کو عمامہ نہ باندھ دیتے اور دائیں جانب کی طرف اس کا شملہ لٹکا دیتے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ (رض))

18131

18131- كان يعجبه أن يلقى العدو عند زوال الشمس. "طب عن ابن أبي أوفى".
18131 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند تھی کہ زوال شمس کے وقت دشمن سے مڈ بھیڑ ہو ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن ابی اوفی)

18132

18132- كان يكره رفع الصوت عند القتال. "طب، ك عن أبي موسى".
18132 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتال کے وقت شوروغوغا کو ناپسند کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن ابی موسیٰ)

18133

18133- كان إذا أتاه الفيء قسمه في يومه فأعطى الآهل حظين وأعطى العزب حظا. "د ك عن عوف بن مالك".
18133 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب مال غنیمت آتا تو اسی دن تقسیم فرما دیا کرتے تھے بال بچوں والے کو دو حصے دیتے اور تنہا ذات کو ایک حصہ دیا کرتے تھے ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن عوف بن مالک (رض))

18134

18134- كان إذا أتي بالسبي أعطى أهل البيت جميعا كراهية أن يفرق بينهم. "حم هـ عن ابن مسعود".
18134 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب قیدی لائے جاتے تو ایک گھر کے قیدیوں کو ایک ہی جگہ عطا فرماتے تھے تاکہ ان کو جدا نہ کردیں ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ عن ابن مسعود (رض))

18135

18135- كان إذا بايع الناس يلقنهم فيما استطعت. "حم عن أنس".
18135 ۔۔۔ جب آپ کسی کو بیعت فرماتے تو اس کو تلقین فرماتے کہ حتی الامکان تم ان باتوں پر عمل کرو گے ۔ (مسند احمد عن انس (رض))

18136

18136- كان إذا أراد أن يستودع جيشا قال: استودع الله دينكم وأمانتكم وخواتيم أعمالكم. "د 3 ك عن عبد الله بن يزيد الخطمي".
18136 ۔۔۔ جب آپ کسی لشکر کو رخصت فرماتے تو یہ فرما ” استودع اللہ دینکم وامانتکم وخواتیم اعمالکم “۔ میں تمہارے دین تمہاری امانت اور تمہارے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن عبداللہ بن یزید الخطمی)

18137

18137- كان إذا أراد غزوة ورى بغيرها. "د، ك عن كعب بن مالك".
18137 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جب کسی غزوہ کا ارادہ ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اصل جگہ کے علاوہ) کہیں اور کا خیال گمان کرواتے (تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل جائے اور جاسوس جا کر اطلاع نہ پہنچا دیں) ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن کعب بن مالک)

18138

18138- كان له سيف محلى قائمته من فضة، ونعله من فضة وفيه حلق من فضة، وكان يسمى ذا الفقار، وكان له قوس تسمى ذا السداد وكان له كنانة تسمى ذا الجمع، وكان له درع موشحة بنحاس تسمى ذات الفضول، وكان له حربة تسمى النبعاء، وكان له مجن يسمى الذقن، وكان له فرس أشقر يسمى المرتجز، وكان له فرس أدهم يسمى السكب3 وكان له سرج يسمى الراح، وكان له بغلة شهباء تسمى الدلدل، وكان له ناقة تسمى القصوى، وكان له حمار يسمى يعفور وكان له بساط يسمى الكز، وكان له عنزة تسمى النمر، وكان له ركوة تسمى الصادر، وكان له مرآة تسمى بالمدلة، وكان له مقراض يسمى الجامع، وكان له قضيب شوحط يسمى الممشوق. "طب عن ابن عباس".
18138 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک تلوار تھی جس کا دستہ چاندی کے کام سے آراستہ تھا تلوار کی میان کا نچلا حصہ چاندی کا تھا اور تلوار میں ایک حلقہ بھی چاندی کا تھا اس تلوار کا نام ذوالفقار تھا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک کمان تھی جس کا نام ذوالسداد تھا (یعنی سیدھا نشانہ مارنے والی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ترکش تھا جس کا نام ذوالجمع تھا (یعنی تیروں کو جمع کرنے والا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک زرہ تھی جو پیتل سے رنگی ہوئی تھی اور اس کا نام ذات الفضول تھا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک پرچھی تھی جس کا نام الئبغاء تھا۔ (یعنی سیراب کرنے کا چشمہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک ڈھال تھی جس کا نام الذقن (بمعنی ٹھوڑی) تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک سرح زرد رنگ کا گھوڑا تھا جس کا نام مرتجز تھا ۔ (بمعنی مسلسل ہنہنا کر حملہ کرنے والا) اسی طرح ایک سیاہ رنگ کا گھوڑا تھا جس کا نام سکب تھا (بمعنی پانی کی طرح چلنے والا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک زین تھی جس کا نام راح تھا ۔ (بمعنی راحت) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک مادہ خچر تھی شیرنی کی مانند جس کا نام دلدل تھا (بمعنی بڑی اہم سواری) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام قصوی تھا (بمعنی آخری حد تک جانے والی) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا ، (بمعنی خاکستری رنگ والا) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک چٹائی تھی جس کا نام الکز تھا (بمعنی خشک) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک نیزہ تھا جس نام نمر تھا (بمعنی غضبناک) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ڈونگہ (برتن) تھا جس کا نام صادر تھا (بمعنی اترنے والا یعنی ہر وقت دستیاب) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک آئینہ تھا جس کا نام مدلہ تھا ۔ (بمعنی راستہ دکھانے والا) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک قینچی تھی جس کا نام جامع تھا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمان والی لکڑی کی ایک چھڑی تھی ، جس کا نام ممشوق تھا (بمعنی پتلی لمبی شاخ) ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

18139

18139- كان فرسه يقال له المرتجز، وناقته القصوى، وبغلته الدلدل، وحماره عفير، ودرعه ذات الفضول، وسيفه ذو الفقار. "ك هق عن علي".
18139 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گھوڑا تھا جس کا نام مرتجز تھا ۔ ایک اونٹنی تھی قصوی نامی ، ایک مادہ خچر تھی دلدل نامی ، ایک گدھا تھا عفیر نامی ، ایک زرہ تھی ذات الفضول نامی ، اور ایک تلوار تھی ذوالفقار نامی ۔ (مستدرک الحاکم ، السنن للبیھقی عن علی (رض))

18140

18140- كان له حمار اسمه عفير. "حم عن علي؛ طب عن ابن مسعود".
18140 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گدھا تھا جس کا اسم گرامی عفیر تھا ۔ (مسند احمد ، عن علی (رض) ، الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض))

18141

18141- كان له فرس يقال له اللحيف "خ عن سهل بن سعد".
18141 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گھوڑا لحیف نامی (چونکہ اس کی دم لمبی تھی جو زمین کو ڈھانپ لیتی تھی اس لیے اس کو لحیف کہتے تھے) ۔ (بخاری عن سھل بن سعد)

18142

18142- كان له فرس يقال له الظرب، وآخر يقال له اللزاز. "هق - عنه".
18142 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گھوڑا ظرب نامی تھا (بمعنی ابھرنے والا) اور دوسرا گھوڑا الزاز تھا (بمعنی سخت لڑائی والا) (السنن للبیھقی عن سھل بن سعد)

18143

18143- كانت ناقته تسمى العضباء، وبغلته الشهباء، وحماره يعفور، وجاريته حضرة. "هق عن جعفر بن محمد عن أبيه مرسلا".
18143 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اونٹنی عضباء نامی تھی ۔ (بمعنی جس کا خدا مددگار ہو) ایک مادہ خچر تھی شہباء نامی ایک خاکستری گدھا تھا جس کا نام یعفور تھا اور ایک باندی حضرۃ تھی ۔ (السنن للبیہقی عن جعفر بن محمد عن ابیہ مرسلا)

18144

18144- كان يركب الحمار عريا 1ليس عليه شيء. "ابن سعد عن حمزة بن عبد الله بن عتبة، مرسلا".
18144 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدھے پر بغیر کسی پالان وغیرہ کے سوار ہوجاتے تھے ۔ (ابن سعد عن حمزۃ بن عبداللہ بن عتبۃ مرسلا)

18145

18145- كان يردف خلفه، ويضع طعامه على الأرض، ويجيب دعوة المملوك، ويركب الحمار. "ك عن أنس".
18145 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پیچھے کسی کو بٹھا لیتے تھے ، اپنا کھانا زمین پر رکھ لیتے تھے اور غلام وغیرہ کی دعوت قبول کرلیا کرتے تھے اور گدھے پر سواری فرما لیا کرتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18146

18146- كان يركب الحمار، ويخصف النعل، ويرقع القميص ويلبس الصوف، ويقول: من رغب عن سنتي فليس مني. "ابن عساكر عن أبي أيوب".
18146 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدھے پر سواری فرمایا کرتے تھے ، اپنے جوتے سی لیا کرتے تھے ، اپنی قمیص کو پیوند لگا لیا کرتے تھے ، اون پہن لیتے تھے اور یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے : جس شخص نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ (ابن عساکر عن ابی ایوب (رض))

18147

18147- كان يسمي الأنثى من الخيل فرسا. "د، ك عن أبي هريرة".
18147 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مادہ گھوڑی کو فرس کہا کرتے تھے ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض))

18148

18148- كان يضمر الخيل. "حم عن ابن عمر".
18148 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑے کی تضمیر فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، عن ابن عمرو (رض))
فائدہ : ۔۔۔ گھوڑے کو پہلے خوب چارہ کھلا کر موٹا تازہ کیا جاتا ہے پھر اس کو بقدر کفایت چارہ دے کر سدھایا جاتا ہے۔

18149

18149- كان يكره الشكال من الخيل. "حم م 34 عن أبي هريرة".
18149 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شکال گھوڑے کو ناپسند فرماتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ عن ابوہریرہ (رض))
فائدہ : ۔۔۔ شکال وہ گھوڑا جس کی تین ٹانگیں ایک رنگ کی وہ اور چوتھی کسی اور رنگ کی ۔

18150

18150- كان إذا أراد سفرا قال: اللهم بك أصول، وبك أحول وبك أسير. "حم عن علي".
18150 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا کر ” اللہم بک اصول وبک احول وبک اسیرے اللہ ! میں تیری مدد کے ساتھ حملہ کرتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ اچھی حالت میں ہوتا ہوں اور تیری قوت کے ساتھ قید کرتا ہوں ۔ (مسند احمد عن علی (رض))

18151

18151- كان إذا عرس وعليه ليل توسد يمينه، وإذا عرس قبل الصبح وضع رأسه على كفه اليمنى وأقام ساعده. "حم حب ك عن أبي قتادة".
18151 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر میں آخر رات پڑتی تو دائیں کروٹ سو جاتے اور اگر صبح سے تھوڑی دیر قبل آرام کا ارادہ کرتے تو دائیں ہتھیلی پر سر رکھ لیتے اور کلائی کو کھڑا کرلیتے ۔ (مسند احمد ، ابن حبان ، مستدرک الحاکم عن ابی قتادۃ (رض))

18152

18152- كان إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلى فيه ركعتين ثم يثني بفاطمة ثم يأتي أزواجه. "طب ك عن أبي ثعلبة".
18152 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں اترتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا فرماتے پھر حضرت فاطمہ (رض) کے حالات کی خبر لیتے اس کے بعد اپنی بیویوں کے پاس تشریف لاتے ۔ (الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن ابی ثعلبۃ)

18153

18153- كان إذا قدم من سفر تلقي بصبيان أهل بيته. "حم م د عن عبد الله بن جعفر".
18153 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر سے واپس رنجہ قدمی فرماتے تو پہلے گھر کے بچوں کے ساتھ محبت فرماتے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ابو داؤد ، عن عبداللہ بن جعفر)

18154

18154- كان إذا قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على كل شرف من الأرض ثلاث تكبيرات، ثم يقول: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده. "مالك، حم ق د ن عن ابن عمر".
18154 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ حج یا عمرہ سے واپس تشریف لاتے تو ہر بلند جگہ پر تین تکبیریں کہتے پھر فرما ” لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر آئبون تائبون عابدون ساجدون ، لربنا حامدون ، صدق اللہ وحدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لیے ساری بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، ہم لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں ، عبادت کرنے والے ہیں ، سجدہ کرنے والے ہیں ، اپنے رب کی حمد و بڑائی بیان کرنے والے ہیں ، بیشک اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی ۔ (مؤطا امام مالک ، مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نسائی عن ابن عمرو (رض))

18155

18155- كان إذا نزل منزلا لم يرتحل حتى يصلي الظهر. "حم د ن عن أنس".
18155 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو وہاں سے کوچ نہ فرماتے جب تک وہاں ظہر کی نماز ادا نہ فرما لیتے ۔ (مسند احمد ابوداؤد ، نسائی عن انس (رض))

18156

18156- كان إذا نزل منزلا في سفر أو دخل بيته لم يجلس حتى يركع ركعتين. "طب عن فضالة بن عبيد".
18156 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر میں کسی جگہ فروکش ہوتے یا اپنے گھر میں واپس تشریف لاتے تو اس وقت تک تشریف نہ فرماتے تھے جب تک دو رکعت نماز ادا نہ کرلیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن الضالۃ بن عبید)

18157

18157- كان إذا نزل منزلا لم يرتحل حتى يصلي فيه ركعتين. "هق عن أنس".
18157 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو جب تک وہاں دو رکعت نماز نہ پڑھ لیتے اس وقت تک وہاں سے کوچ نہ فرماتے تھے ۔ (السنن للبیھقی عن انس (رض))

18158

18158- كان لا ينزل منزلا إلا ودعه بركعتين. "ك عن أنس".
18158 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جگہ عارضی پڑاؤ ڈالتے تو اس کو دو رکعت نماز کے ساتھ الوداع کہتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18159

18159- كان إذا ودع رجلا أخذ بيده فلا يدعها حتى يكون الرجل هو يدع يده ويقول: أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك. "حم ت ن هـ ك عن ابن عمر".
18159 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو الوداع کہتے تو اس کا ہاتھ تھام لیتے تھے ، پھر اس وقت تک ازخود نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ اس کو رخصت کرتے ہوئے یہ فرما ” استودع اللہ دینک وامانتک خواتیم عملک “۔ میں اللہ کو سپرد کرتا ہوں تیرا دین ، تیری امانت اور تیرے آخری اعمال۔ (ترمذی ، مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن ابی عمر (رض))

18160

18160- كان لا يطرق أهله ليلا. "حم ق ن عن أنس". مر برقم [17491] .
18160 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اپنے گھر واپس نہ آتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی عن انس (رض))

18161

18161- كان لا يفارقه في السفر ولا في الحضر خمس: المرآة، والمكحلة، والمشط، والسواك، والمدرى. "هق عن أنس". مر برقم [17614] .
18161 ۔۔۔ پانچ چیزیں سفر میں اور نہ حضر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا نہ ہوتی تھیں ، آئینہ ، سرمہ دانی کنگھی ، مسواک ، کھلانے کی چھوٹی چھڑی۔ (السنن للبیھقی عن انس (رض))

18162

18162- كان يتخلف في المسير فيزجي الضعيف ويردف، ويدعو لهم. "د ك عن جابر".
18162 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں پیچھے رہتے تھے اور کمزور کو آگے بلاتے تھے اور پیچھے رہ جانے والے کو ساتھ بٹھا لیتے تھے ، اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے تھے ۔ (ابوداؤد ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض))

18163

18163- كان يحب أن يخرج إذا غزا يوم الخميس. "حم خ عن كعب بن مالك".
18163 ۔۔۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ کے لیے نکلتے تو جمعرات کا دن نکلنے کے لیے پسند فرماتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری عن کعب بن مالک (رض))

18164

18164- كان يستحب أن يسافر يوم الخميس. "طب عن أم سلمة".
18164 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعرات کے دن سفر کرنے کو پسند فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ام سلمۃ (رض))

18165

18165- كان أحب الشاة إليه مقدمها. "ابن السني وأبو نعيم في الطب؛ هق عن مجاهد، مرسلا".
18165 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بکری کے گوشت میں اس کا اگلا حصہ (دستی وغیرہ) زیادہ پسند تھا ۔ (ابن السنی وابو نعیم فی الطلب ، السنن البیہقی عن مجاہد مرسلا)

18166

18166- كان أحب الصباغ إليه الخل. "أبو نعيم عن ابن عباس".
18166 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبوب سالن سرکہ تھا ۔ (ابونعیم عن ابن عباس (رض))

18167

18167- كان أحب الطعام إليه الثريد من الخبز، والثريد من الحيس. "د 1ك عن ابن عباس".
18167 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسندیدہ ترین کھانوں میں روٹی کا ثرید اور حیس کا ثرید تھا ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ امام ابوداؤد نے کتاب الاطعمۃ باب فی اکل الثرید میں اس کو تخریج فرمایا اور اس پر ضعیف ہونے کا حکم عائد کیا ہے۔ امام منذری (رح) فرماتے ہیں اس کی سند میں ایک مجہول شخص ہے عون المعبود 10 ۔ 256 ۔
فائدہ : ۔۔۔ حیس وہ کھانا ہے جو کھجور ، پنیر ، گھی ، آٹا یا موٹی پسی ہوئی گندم کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔

18168

18168- كان أحب العراق إليه ذراع الشاة. "حم د وابن السني وأبو نعيم عن ابن مسعود".
18168 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ گوشت والی ہڈی بکری کی دستی پسند تھی ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن السنی ، ابو نعیم عن ابن مسعود (رض))

18169

18169- كان أحب اللحم إليه الكتف. "أبو نعيم عن ابن عباس".
18169 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بکری کے بازو (دستی) کا گوشت بہت پسند تھا ۔ (ابوداؤد عن ابن مسعود (رض))

18170

18170- كان يعجبه الذراع."د عن ابن مسعود"
18171 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دونوں دستی اور شانے کا گوشت بہت پسند تھا ۔ (ابن السنی وابو نعیم فی الطب عن ابوہریرہ (رض))

18171

18171- كان يعجبه الذراعان والكتف. "ابن السني وأبو نعيم في الطب عن أبي هريرة".
18172 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کوئی کھانا پیش کیا جاتا تو آپ پوچھتے ، یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ؟ پس اگر کہا جاتا صدقہ ہے ، تو آپ اپنے اصحاب (رض) کو فرماتے : کھاؤ اور خود تناول نہ فرماتے ۔ اور اگر کہا جاتا : یہ ہدیہ ہے تو آپ بھی ہاتھ آگے بڑھا دیتے اور اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر کھاتے ۔ (بخاری ، مسلم ، نسائی عن ابوہریرہ (رض))

18172

18172- كان إذا أتي بطعام سأل عنه هدية أم صدقة، فإن قيل: صدقة، قال لأصحابه: كلوا ولم يأكل، وإن قيل هدية ضرب بيده فأكل معهم. "ق ن عن أبي هريرة".
18173 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس طعام لایا جاتا تو اپنے قریب سے تناول فرماتے اور اگر پھل وغیرہ پیش کیا جاتا تو آپ کا ہاتھ گھومتا رہتا ۔ (التاریخ للخطیب عن عائشۃ (رض))

18173

18173- كان إذا أتي بطعام أكل مما يليه، وإذا أتي بالثمر جالت يده. "خط عن عائشة".
18174 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے سے فراغت کے بعد اپنی تین انگلیوں کو چاٹ لیتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی عن انس (رض))

18174

18174- كان إذا أكل طعاما لعق أصابعه الثلاث. "حم م 3 عن أنس".
18175 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانا تناول فرماتے تو آپ کی انگلیاں سامنے کے کھانے سے تجاوز نہیں کرتی تھیں ۔ (البخاری فی التاریخ عن جعفر بن ابی الحکم مرسلا ، ابو نعیم فی المعرفۃ عنہ عن الحکم بن رافع بن یسار الکبیر للطبرانی عن الحکم بن عمرو الغفاری)

18175

18175- كان إذا أكل لم تعد أصابعه ما بين يديه. "تخ عن جعفر بن أبي الحكم، مرسلا؛ أبو نعيم في المعرفة عنه عن الحكم بن رافع بن يسار، طب عن الحكم بن عمرو الغفاري".
18176 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانا تناول فرماتے یا پانی نوش فرماتے تو یہ دعا کر ” الحمد للہ الذی اطعم وسقی وسوغہ وجعل لہ مخرجا “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا اور ان کو نرم کیا اور ان کے نکلنے کا راستہ بنایا ۔ (ابو داؤد ، نسائی ، صحیح ابن حبان عن ابی ایوب (رض))

18176

18176- كان إذا أكل أو شرب قال: الحمد لله الذي أطعم وسقى وسوغه وجعل له مخرجا. "د ن حب عن أبي أيوب".
18177 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن کو کھانا کھالیتے تو شام کو نہ کھاتے تھے اور جب شام کو کھالیتے تو صبح کو نہ کھاتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابی سعید)

18177

18177- كان إذا تغدى لم يتعش، وإذا تعشى لم يتغد. "حل عن أبي سعيد".
18178 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے جب دسترخوان اٹھایا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھ الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکۃ فیہ الحمد للہ الذی کفانا واروانا غیر مکفی ولا مکفور ولا مودع ولا مستغنی عنہ ربنا “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کثرت کے ساتھ ہوں ، پاکیزہ بابرکت ہوں ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو (کھلا کر) کفایت بخشی اور ہمیں سیر کردیا جبکہ اس ذات کو کوئی کفایت کرنے والا نہیں اور ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اس کی نعمتوں کے امیدوار ہیں اور ان کے محتاج ہیں اے ہمارے پروردگار۔ (مسند احمد ، بخاری ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن ابی امامۃ (رض))

18178

18178- كان إذا رفعت مائدته قال: الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، الحمد لله الذي كفانا وأروانا غير مكفي ولا مكفور ولا مودع ولا مستغنى عنه ربنا. "حم خ د ن هـ عن أبي أمامة".
18179 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھانے سے فراغت فرما لیتے تو یہ دعا پڑھتے ۔ الحمد للہ الذی اطعنا وسقانا وجعلنا من المسلمین “ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا پلایا اور ہم کو مسلمانوں میں سے بنایا ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد ، ابن ماجۃ الضیاء عن ابی سعید (رض))

18179

18179- كان إذا فرغ من طعامه قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمين. "حم والضياء عن أبي سعيد".
18180 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے سے فراغت کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اللہم لک الحمد اطعمت وسقیت واشبعت وارویت فلک الحمد غیر مکفور ولا مودع ولا مستغنی عن کے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں تو نے کھلایا پلایا اور سیر طعام کیا اور سیر آب کیا پس تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آپ کی نعمتوں کا انکار نہیں اور نہ آپ کی نعمتوں کو رخصت ہے۔ اور نہ آپ سے بےنیازی ہے۔ (مسند احمد ، عن رج من بنی سلیم)

18180

18180- كان إذا فرغ من طعامه قال: اللهم لك الحمد أطعمت وسقيت وأشبعت وأرويت، فلك الحمد غير مكفور ولا مودع ولا مستغنى عنك. "حم عن رجل من بني سليم"
18181 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھانا قریب کیا جاتا تو آپ بسم اللہ کہتے اور جب کھانے سے فارغ ہوجاتے تو یہ دعا پڑھتے : ۔

18181

18181- كان إذا قرب إليه طعامه قال: بسم الله، فإذا فرغ من طعامه قال: اللهم إنك أطعمت وأسقيت وأغنيت وأقنيت وهديت وأحييت اللهم فلك الحمد على ما أعطيت. "حم عن رجل خدم النبي صلى الله عليه وسلم".
اللہم انک اطعمت واسقیت وغنیت واقنیت وھدیت واحییت اللہم فلک الحمد علی ما اعطیتے اللہ ! تو نے کھلایا ، پلایا، بےنیاز کیا ، مالدار کیا ، ہدایت بخشی ، اور زندگی بخشی ، اے اللہ تیرے لیے ہی سب تعریفیں ہیں ان چیزوں پر جو تو نے عطا فرمائیں ۔ (مسند احمد ، عن رجل خادم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

18182

18182- كان له جفنة لها أربع حلق. "طب عن عبد الله بن بسر".
18182 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک بڑا پیالہ تھا جس کے چار تھامنے والے حلقے (کنڈے ) تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن بسر)

18183

18183- كان له قصعة يقال لها الغراء يحملها أربعة رجال. "د عن عبد الله بن بسر".
18183 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک بڑا پیالہ تھا جس کو غراء کہا جاتا تھا اور چار اشخاص اس کو اٹھاتے تھے ۔ (ابوداؤد عن عبداللہ بن بسر)

18184

18184- كان لا يأكل الثوم ولا البصل ولا الكراث من أجل أن الملائكة يأتيه وأنه يكلم جبريل. "حل خط عن أنس".
18184 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لہسن ، پیاز اور کر اث (ایک بودار سبزی) نہ کھاتے تھے ، کیوں ک آپ کے پاس ملائکہ آتے تھے اور جبرائیل امین (علیہ السلام) آپ سے بات چیت فرمایا کرتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء الخطیب فی التاریخ عن انس (رض))

18185

18185- كان لا يأكل الجراد ولا الكلوتين ولا الضب من غير أن يحرمها. "ابن صصرى في أماليه عن ابن عباس".
18185 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹڈی ، گردے اور گوہ نہ کھایا کرتے تھے اور نہ ان کو حرام قرار دیتے تھے ۔ (ابن صصری فی امالیہ عن ابن عباس (رض))

18186

18186- كان لا يأكل متكئا، ولا يطأ عقبه رجلان. "حم عن ابن عمرو".
18186 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگا کر نہ کھاتے اور نہ آپ کے پیچھے دو آدمی چلتے تھے ۔ (مسند احمد ، عن ابن عمرو (رض))

18187

18187- كان لا يأكل من هدية حتى يأمر صاحبها أن يأكل منها للشاة التي أهديت له بخيبر. "طب عن عمار بن ياسر".
18187 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدیہ اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک صاحب ہدیہ کھانے کو نہ کہتا اس (زہر آلود) بکری کی وجہ سے جو آپ کو (خیبر کی (فتح) کے موقع پر ہدیہ کی گئی تھی ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن عمار بن یاسر)

18188

18188- كان لا ينفخ في طعام ولا شراب ولا يتنفس في الإناء. "هـ عن ابن عباس".
18188 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے اور پینے کی چیز میں (ٹھنڈا وغیرہ کرنے کی غرض سے) پھونک نہیں مارتے تھے اور نہ برتن میں سانس لیتے تھے (ابن ماجۃ عن انس (رض))

18189

18189- كان يؤتى بالتمر فيه دود فيفتشه يخرج السوس منه. "د عن أنس".
18189 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کیڑا لگی کھجور لائی جاتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے صاف کرتے اور اس میں سے کیڑے نکال دیتے ۔ (ابوداؤد عن انس (رض))

18190

18190- كان يأخذ الرطب بيمينه والبطيخ بيساره فيأكل الرطب بالبطيخ وكان أحب الفاكهة إليه. "طس ك وأبو نعيم في الطب عن أنس".
18190 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں ہاتھ میں تازہ کھجور لے لیتے اور بائیں ہاتھ میں خربوزہ پھر کھجور اور خربوزہ ملا کر کھاتے اور یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پسندیدہ ترین پھل تھا ۔ (الاوسط للطبرانی ، مستدرک الحاکم ، ابو نعیم فی الطب عن انس (رض))

18191

18191- كان يأكل البطيخ بالرطب. "هـ عن سهل بن سعد ت عن عائشة طب عن عبد الله بن جعفر".
18191 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خربوزہ کو تازہ کھجور کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے ۔ (ابن ماجہ عن سھل (رض) بن سعدی ، ترمذی عن عائشۃ (رض) ، الکبیر للطبرانی ، عن عبداللہ بن جعفر)

18192

18192- كان يأكل الرطب ويلقي النوى على القنع والقنع الطبق. "ك عن أنس"
18192 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تازہ کھجوریں تناول فرماتے اور گٹھلیاں طاق میں ڈال دیتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18193

18193- كان يأكل العنب خرطا. "طب عن ابن عباس".
18193 ۔۔۔ انگوروں کو گچھے گھچے کی صورت میں تناول فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

18194

18194- كان يأكل الخربز 1بالرطب ويقول: هما الأطيبان. "الطيالسي عن جابر".
18194 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خربوزے کو تازہ کھجور کے ساتھ تناول فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے یہ دونوں عمدہ چیزیں ہیں۔ (الطیالسی عن جابر (رض))

18195

18195- كان يأكل الهدية ولا يأكل الصدقة. "حم طب عن سلمان بن سعد عن عائشة وعن أبي هريرة".
18195 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدیہ تناول فرماتے تھے لیکن صدقہ نہ تناول فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، الکبیر للطبرانی ، عن سلمان بن سعد عن عائشۃ (رض)، عن ابوہریرہ (رض))

18196

18196- كان يأكل القثاء بالرطب. "حم، ق عن عبد الله بن جعفر".
18196 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ککڑی کھیرہ کو تازہ کھجور کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجۃ ، ابوداؤد، نسائی عن عبداللہ بن جعفر (رض))

18197

18197- كان يأكل بثلاث أصابع، ويلعق يده قبل أن يمسحها. "حم3 م د عن كعب بن مالك".
18197 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین انگلیوں کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے ۔ اور ہاتھوں کو پونچھنے (یا دھونے) سے قبل چاٹ لیا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ابو داؤد ، عن کعب بن مالک (رض))

18198

18198- كان يأكل البطيخ بالرطب ويقول: يكسر حر هذا ببرد هذا وبرد هذا بحر هذا. "د هق عن عائشة".
18198 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خربوزہ کو تازہ کھجور کے ساتھ تناول فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے ۔ اس کی گرمی اس کی ٹھنڈک کے ساتھ ختم کی جائے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی کے ساتھ ختم کیا جائے ۔ (ابوداؤد ، السنن للبیھقی عن عائشۃ (رض))

18199

18199- كان يعجبه البطيخ بالرطب. "ابن عساكر عن عائشة".
18199 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خربوزہ تازہ کھجور کے ساتھ تناول فرمانا ، بہت مرغوب تھا ۔ (ابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18200

18200- كان يأكل بثلاث أصابع ويستعين بالرابعة. "طب عن عامر بن ربيعة".
18200 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین انگلیوں کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے اور چوتھی انگلی کے ساتھ بھی مدد لے لیا کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن عامر بن ربیعۃ)

18201

18201- كان يجعل يمينه لأكله، وشربه، ووضوئه، وثيابه، وأخذه وعطائه، وشماله لما سوى ذلك. "حم عن حفصة".
18201 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دائیں ہاتھ کو کھانے ، پینے ، وضو کرنے ، لباس پہننے اور لینے دینے کے لیے استعمال کرتے تھے اور بائیں ہاتھ کو ان کے علاوہ اور کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ (مسند احمد عن حفصۃ (رض))

18202

18202- كان يجمع بين الخربز والرطب. "حم ت في الشمائل عن أنس".
18202 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خربوزے اور تر کھجور کو ایک ساتھ تناول فرماتے تھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی فی الشمائل عن انس (رض))

18203

18203- كان يحب الدباء. "حم ت في الشمائل ن هـ عن أنس".
18203 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کدو کو پسند فرماتے تھے ۔ (مسند احمد ترمذی فی الشمائل ، نسائی ، ابن ماجۃ عن انس (رض))

18204

18204- كان يحب من الفاكهة العنب والبطيخ. "أبو نعيم في الطب عن معاوية بن يزيد العبسي".
18204 ۔۔۔ پھلوں میں سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انگور اور خربوزہ پسند تھا ۔ (ابونعیم فی الطب عن ماویۃ بن یزید عبسی)

18205

18205- كان يحب الحلواء والعسل. "ق عن عائشة".
18205 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میٹھی شے اور شہد کو پسند فرمایا کرتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ابن ماجۃ ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18206

18206- كان يحب القثاء. "طب عن الربيع بنت معوذ".
18206 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ککڑی کو پسند فرماتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن الربیع بنت معوذ)

18207

18207- كان يحب الزبد والتمر. "د هـ عن ابني بسر"
18207 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکھن کھجور کو پسند فرماتے تھے ۔ (ابوداؤد ، ابن ماجۃ عن ابی بسر)

18208

18208- كان يدعى إلى خبز الشعير والإهالة السنخة. "ت في الشمائل عن أنس".
18208 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کی روٹی اور باس تیل یا گھی کے کھانے پر بلالیا جاتا تھا ۔ (ترمذی فی الشمائل عن انس (رض))

18209

18209- كان يسمي التمر واللبن الأطيبين. "ك عن عائشة".
18209 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجور اور دودھ کو اطیبین (دو سب سے عمدہ چیزیں) فرمایا کرتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18210

18210- كان يعجبه الثفل. "حم، ت في الشمائل، ك عن أنس".
18210 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچا کھچا کھانا بھی رغبت سے کھایا کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، فی الشمائل ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18211

18211- كان يعجبه القرع. "حم حب عن أنس".
18211 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کدو کو رغبت کے ساتھ کھاتے تھے ۔ (مسند احمد ، ابن حبان عن انس (رض))

18212

18212- كان يكره أن يؤخذ من رأس الطعام. "طب عن سلمى".
18212 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ کھانے کے درمیانی بالائی حصہ سے کھایا جائے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن سلمی)

18213

18213- كان يكره أن يؤكل حتى يذهب فورة دخانه. "طب عن جويرية".
18213 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے کو گرم حالت میں کھانا ناپسند کرتے تھے جب تک اس کی بھاپ نہ اڑ جائے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن جویریۃ)

18214

18214- كان يكره أن يأكل الضب. "خط عن عائشة".
18214 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گوہ کا کھانا ناپسند کرتے تھے ۔ (التاریخ للخطیب عن عائشۃ (رض))

18215

18215- كان يكره من الشاة سبعا: المرارة، والمثانة، والحيا، والذكر، والأنثيين، والغدة والدم، وكان أحب الشاة إليه مقدمها. "طس عن ابن عمر؛ هق عن مجاهد، مرسلا؛ عد، هق عنه عن ابن عباس".
18215 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکرے کی سات (7) چیزیں کھانا مکروہ خیال کرتے تھے ۔ ’ پتا ، مثانہ ، آنت (اوجڑی) ذکر (شرم گاہ) خصیتین، غدہ (کھال اور گوشت کے درمیان کسی بیماری سے پیدا ہونے والے غدود) اور خون۔ بکری کا سامنے کا حصہ (بازو) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ پسند تھا ۔ (الاوسط للطبرانی ، عن ابن عمرو (رض) ، السنن للبیھقی عن مجاھد مرسلا ، الکامل لابن عدی ، للبیھقی عن مجاھد عن ابن عباس (رض))

18216

18216- كان يكره الكليتين لمكانهما من البول. "ابن السني في الطب عن ابن عباس".
18216 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گردوں کا کھانا بھی مکروہ سمجھتے تھے کیونکہ ان کا مقام پیشاب کے مقام کے قریب ہوتا ہے۔ (ابن السنی فی الطب عن ابن عباس (رض))

18217

18217- كان أحب التمر إليه العجوة. "أبو نعيم عن ابن عباس".
18217 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھجوروں میں عجوہ سب سے زیادہ پسندیدہ کھجور تھی ۔ (ابونعیم عن ابن عباس (رض))

18218

18218- كان أحب الفاكهة إليه الرطب والبطيخ. "عد عن عائشة؛ النوقاني في كتاب البطيخ عن أبي هريرة".
18218 ۔۔۔ پھلوں میں پسندیدہ پھل تازہ کھجور اور خربوزہ تھا ۔ (الکامل ابن عدی عن عائشۃ (رض)، العوقانی فی کعاب البطیخ عن ابوہریرہ (رض))

18219

18219- كان إذا أتي بباكورة الثمرة وضعها على عينيه ثم شفتيه وقال: اللهم كما أريتنا أوله فأرنا آخره، ثم يعطيه من كان عنده من الصبيان. "ابن السني عن أبي هريرة؛ طب عن ابن عباس؛ الحكيم عن أنس".
18219 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موسم کا پہلا پھل آتا تو اس کو اپنی آنکھوں سے لگاتے پھر ہونٹوں سے اس کے بعد یہ دعا پڑھ ” اللہم کما اریتنا اولہ فارنا اخرہ “ اے اللہ جیسے تو نے اس پھل کا شروع دکھایا اس کا آخر بھی دکھا ۔ پھر اس کے بعد قریب موجود کسی بھی بچے کو وہ پھل عنایت فرما دیتے ۔ (ابن السنی عن ابوہریرہ (رض) ، الکبیر للطبرانی ، عن ابن عباس (رض) ، الحکیم عن انس (رض))

18220

18220- كان يعجبه الإناء المنطبق. "مسدد عن أبي جعفر مرسلا".
18221 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسندیدہ ترین پانی میٹھا پانی تھا ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18221

18221- كان أحب الشراب إليه الحلو البارد. "حم ت ك عن عائشة".
18222 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محبوب مشروب میٹھا اور ٹھنڈا تھا ۔ (ابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18222

18222- كان يعجبه الحلو البارد. "ابن عساكر عن عائشة".
18223 ۔۔۔ تمام پینے کی چیزوں میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک محبوب ترین شی دودھ تھا ۔ (ابو نعیم فی الطب عن ابن عباس (رض))

18223

18223- كان أحب الشراب إليه اللبن. "أبو نعيم في الطب عن ابن عباس".
18224 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب دودھ پیش کیا جاتا تو فرماتے یہ برکت ہے (یا برکتیں ہیں) ۔ (ابن ماجہ عن عائشۃ (رض))

18224

18224- كان إذا أتى بلبن قال: بركة [أو بركتان] ." هـ عن عائشة"
18225 ۔۔۔ پینے کی چیزوں میں شہد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت مرغوب تھا ۔ (ابن السنی وابو نعیم فی الطب عن عائشۃ (رض))

18225

18225- كان أحب الشراب إليه العسل. "ابن السني وأبو نعيم في الطب عن عائشة".
18226 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی نوش فرما کر یہ دعا کرتے الحمد للہ الذی سقانا عذبا فراتا برحمتہ ولم یجعلہ ملحا اجاجا بذنوبنا “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو میٹھا وملائم پانی اپنی رحمت کے ساتھ پلایا اور اس کو ہمارے گناہوں کی وجہ سے کھارا اور نمکین نہیں بنایا ۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابی جعفر مرسلا)

18226

18226- كان إذا شرب الماء قال: الحمد لله الذي سقانا عذبا فراتا برحمته، ولم يجعله ملحا أجاجا بذنوبنا. "حل عن أبي جعفر مرسلا".
18227 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی پیتے تو دوران نوش تین مرتبہ سانس لیتے ، اور فرماتے یہ طریقہ زیادہ خوشگوار سہل اور سیر کرنے والا ہے۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم عن انس (رض))

18227

18227- كان إذا شرب تنفس ثلاثا ويقول: هو أهنأ وأمرأ وأبرأ. "حم ق عن أنس".
18228 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی پیتے تو دو مرتبہ سانس لیتے تھے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے۔

18228

18228- كان إذا شرب تنفس مرتين. "ت، هـ عن ابن عباس".
18229 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب پانی پیتے تو تین مرتبہ سانس لیتے اور ہر سانس میں بسم اللہ کہتے اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرتے ۔ (ابن السنی ، الکبیر للطبرانی ، عن ابن مسعود (رض))

18229

18229- كان إذا شرب تنفس في الإناء ثلاثا يسمي عند كل نفس، ويشكر في آخرهن. "ابن السني، طب عن ابن مسعود".
18230 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شیشے کا پیالہ تھا جس میں آپ پانی پیتے تھے ۔ (ابن ماجہ عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند میں مندل بن علی اور محمد بن اسحق دونوں ضعیف راوی ہیں۔

18230

18230- كان [لرسول الله صلى الله عليه وسلم] قدح قوارير يشرب فيه. "هـ عن ابن عباس".
18230 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شیشے کا پیالہ تھا جس میں آپ پانی پیتے تھے ۔ (ابن ماجہ عن ابن عباس (رض))

18231

18231- كان يبعث إلى المطاهر فيؤتى بالماء فيشربه يرجو بركة أيدي المسلمين. "طس حل عن ابن عمر".
18231 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چشموں کی طرف سے پانی منگواتے تھے اور پیتے تھے اور اس میں مسلمانوں کے ہاتھوں کی برکت کی امید کرتے تھے ۔ (کیونکہ چشمے پر تمام لوگ آتے جاتے ہیں اور پانی استعمال کرتے ہیں) ۔ (الاوسط للطبرانی ، حلیۃ الاولیاء عن ابن عمرو (رض))

18232

18232- كان يستعذب له الماء من بيوت السقيا وفي لفظ: يستقى له الماء العذب من بئر السقيا. "حم د ك عن عائشة".
18232 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بئر سقیان سے میٹھا پانی لایا جاتا تھا ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18233

18233- كان يشرب بثلاثة أنفاس يسمي الله في أوله، ويحمد الله في آخره. "ابن السني عن نوفل بن معاوية".
18233 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین سانسوں میں پانی پیتے تھے پہلے بسم اللہ پڑھتے اور آخر میں الحمد للہ کہتے ۔ (ابن السنی عن نوفل بن معاویۃ)

18234

18234- كان إذا أخذ مضجعه جعل يده اليمنى تحت خده الأيمن. "طب عن حفصة".
18234 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر جاتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں رخسار کے نیچے رکھتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن حفصۃ (رض))

18235

18235- كان إذا أخذ مضجعه من الليل وضع يده تحت خده ثم يقول: باسمك اللهم أحيى وباسمك أموت، وإذا استيقظ قال: الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور. "حم م ن عن البراء؛ حم خ، عن حذيفة؛ حم ق عن أبي ذر".
18235 ۔۔۔ رات کے وقت جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے پھر کہ ” باسمک اللہم احی وباسمک اموتے اللہ ! میں تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں (سوتا ہوں) اور تیرے نام کے ساتھ جیتا ہوں (جاگتا ہوں) ۔ اور جب جاگتے تو کہ ” الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ جس نے ہم کو موت دینے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔ (مسند احمد ، مسلم ، نسائی عن البراء ، مسند احمد ، بخاری ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ابن ماجۃ عن حذیفہ (رض) ، مسنداحمد ، بخاری ، مسلم عن ابی ذر (رض))

18236

18236- كان إذا أخذ مضجعه من الليل قال: بسم الله وضعت جنبي، اللهم اغفر لي ذنبي واخسأ شيطاني، وفك رهاني، وثقل ميزاني واجعلني في الندي الأعلى. "د ك عن أبي الأزهر".
18236 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھ بسم اللہ وضعت جنبی ، اللہم اغفرلی ذنبی واخسا شیطانی ، وفک رھانی وثقل میزانی واجعلنی فی الندی الاعلی للہ کے نام کے ساتھ میں نے پہلو ڈالا ۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کی مغفرت فرما ، میرے شیطان کو خائب و خاسر کر ، میری گردن کو آزاد کر ، میرے میزان عمل کو وزن دار کر اور مجھے ملاء اعلی میں شامل کر دے ۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن ابی الازھر)

18237

18237- كان إذا أخذ مضجعه قرأ {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} حتى يختمها. "طب عن عباد بن أخضر".
18237 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بستر پر جاتے تو سورة کافرون پڑھتے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن عباد بن اخضر)

18238

18238- كان إذا أراد أن ينام وهو جنب غسل فرجه، وتوضأ وضوءه للصلاة. "ق د ن هـ عن عائشة".
18238 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنبی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو اپنی شرم گاہ کو دھولیتے اور نماز کی طرح کا وضو کرلیتے ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18239

18239- كان إذا أراد أن ينام وهو جنب توضأ وضوءه للصلاة، وإذا أراد أن يأكل أو يشرب وهو جنب غسل يديه، ثم يأكل ويشرب. "د ن هـ عن عائشة".
18239 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنبی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو نماز کا وضو کرتے اور اگر اس حالت میں کھانے پینے کا ارادہ ہوتا تو اپنے ہاتھوں کو دھو کر کھا پی لیتے ۔ (ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ عن عائشۃ (رض))

18240

18240- كان إذا أراد أن يرقد وضع يده اليمنى تحت خده، ثم يقول: اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك ثلاث مرات. "د عن حفصة".
18240 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سونے کا ارادہ کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر یہ دعا تین مرتبہ پڑھ ” اللہم قنی عذابک یوم تبعث عبادک اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچائیے گا جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا ۔ (ابو داؤد عن حفصۃ (رض))

18241

18241- كان إذا أوى إلى فراشه قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا، فكم ممن لا كافي له ولا مؤوي له. "حم، م عن أنس".
18241 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بستر پر جاتے تو یہ دعا پڑھ ” الحمد للہ اطعمنا وسقانا وکفانا واوانا فکم ممن لا کافی لہ ولا مووی لہ “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور پلایا اور ہم کو (ہر بات میں) کفایت بخشی اور ہم کو ٹھکانا دیا ، پس کتنے لوگ ہیں جن کی کفایت کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ان کو کوئی ٹھکانا دینے والا ۔ (مسند احمد ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی عن انس (رض))

18242

18242- كان إذا تضور من الليل قال: لا إله إلا الله الواحد القهار رب السموات والأرض وما بينهما العزيز الغفار. "ن ك عن عائشة".
18242 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فداہ وابی وامی کو جب رات کے پہر بھوک کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی لاحق ہوتی تو یہ کلمات پڑھ ” لا الہ الا اللہ الواحد القھار رب السموات والارض وما بینھما العزیز الغفار للہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے زبردست ہے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کا پروردگار ہے غالب ہے ، بخشنے والا ہے۔ (نسائی ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18243

18243- كان إذا تعار من الليل قال: رب اغفر وارحم واهد للسبيل الأقوم. "محمد بن نصر في الصلاة عن أم سلمة".
18243 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب رات کو آنکھ کھلتی تو یہ دعا پڑھتے رب اغفر وارحم واحد للسبیل الاقومے پروردگار مغفرت فرما ، رحم فرما اور درست راہ کی ہدایت بخش ۔ (محمد بن نصر فی الصلوۃ عن ام سلمۃ (رض))

18244

18244- كان إذا نام نفخ. "حم ق عن ابن عباس".
18244 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سوتے تھے تو منہ سے پھونکنے کی آواز آتی رہتی تھی ۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم عن ابن عباس (رض))

18245

18245- كان إذا نام وضع يده اليمنى تحت خده وقال: اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك. "حم ت ن عن البراء؛ حم ت عن حذيفة حم هـ عن ابن مسعود".
18245 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سوتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے اور یہ دعا پڑھ ” اللہم قنی عذابک یوم تبعث عبادک “۔ (مسند احمد ، ترمذی ، نسائی عن البراء ، مسند احمد ترمذی عن حذیفہ (رض) ، مسند احمد ابن ماجۃ عن ابن مسعود (رض))

18246

18246- كان إذا وجد الرجل راقدا على وجهه ليس على عجزه شيء ركضه برجله وقال: هي أبغض الرقدة إلى الله. "حم عن الشريد بن سويد".
18246 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو چہرے کے بل سویا ہوا پاتے اور دیکھتے کہ اس کی سرین سے کپڑا کھسک گیا ہے تو اس کو لات مار کر اٹھاتے اور فرماتے سونے کی یہ ہئیت اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ (مسند احمد ، عن الشرید بن سوید)

18247

18247- كان لا يتعار من الليل إلا أجرى السواك على فيه. "ابن نصر عن ابن عمر".
18247 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کو جب بھی آنکھ کھلتی تو مسواک ضرور فرماتے ۔ (ابن نصر عن ابن عمرو (رض))

18248

18248- كان لا يرقد من ليل ولا نهار فيستيقظ إلا تسوك [قبل أن يتوضأ] . "ش د عن عائشة".
18248 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات یا دن کو جب بھی نیند فرماتے اور آنکھ کھلتی تو مسواک ضرور فرماتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18249

18249- كان لا ينام حتى يستن. "ابن عساكر عن أبي هريرة".
18249 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے سے پہلے مسواک ضرور کیا کرتے تھے ۔ (ابن عساکر عن ابوہریرہ (رض))

18250

18250- كان لا ينام إلا والسواك عند رأسه، فإذا استيقظ بدأ بالسواك. "حم ك ومحمد بن نصر عن ابن عمر".
18250 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے وقت اپنے سرہانے مسواک ضرور رکھتے تھے ۔ پھر جب اٹھتے تو مسواک سے شروعات کرتے ۔ (مسند احمد ، مستدرک الحاکم محمد بن نصر عن ابن عمرو (رض))

18251

18251- كان لا ينام حتى يقرأ بني إسرائيل والزمر. "حم ت ك عن عائشة".
18251 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک سورة بنی اسرائیل اور سورة زمر نہ تلاوت فرما لیتے تھے سوتے نہ تھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18252

18252- كان لا ينام حتى يقرأ ألم تنزيل السجدة وتبارك الذي بيده الملك. "حم ت ن ك عن جابر".
18252 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة الم سجدہ اور تبارک الذی پڑھنے بغیر سوتے نہ تھے ۔ (مسند احمد ترمذی ، نسائی ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض))

18253

18253- كان فراشه نحوا مما يوضع للإنسان في قبره وكان المسجد عند رأسه. "د عن بعض آل أم سلمة".
18253 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ایسا ہوتا تھا جیسا کسی انسان کے لیے قبر میں بچھایا جاتا ہے اور جائے نماز آپ کے ساہانے ہوتی تھی۔ (ترمذی فی الشمائل عن حفصہ (رض))

18254

18254- كان فراشه مسحا. "ت3 في الشمائل عن حفصة".
18254 ۔۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر کھردے اون کا ہوتا تھا۔ (ترمذی فی الشمائل عن حفصہ (رض))

18255

18255- كان له قدح من عيدان تحت سريره يبول فيه بالليل. "د ن ك عن أميمة بنت رقيقة".
18255 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک لکڑی بڑا برتن ہوتا تھا جو آپ کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ رات کے وقت اس میں پیشاب کرتے تھے ۔ (ابو داؤد ، نسائی مستدرک الحاکم عن امیہ بنت رقیقۃ)

18256

18256- كان وسادته التي ينام عليها بالليل من أدم حشوها ليف. "حم د ت هـ عن عائشة".
18256 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تکیہ جس کو رات کے وقت سر کے نیچے رکھتے تھے چمڑے کا ہوتا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی تھی ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18257

18257- كان يأمر نساءه إذا أرادت إحداهن أن تنام أن تحمد ثلاثا وثلاثين، وتسبح ثلاثا وثلاثين، وتكبر ثلاثا وثلاثين. "ابن منده عن حلبس".
18257 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی بھی سونے کا ارادہ کرتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو حکم فرماتے کہ تینتیں مرتبہ الحمداللہ کہے تنیتیں مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیں مرتبہ اللہ اکبر کہے۔ (ابن مندہ عن حلبس)

18258

18258- كان يعبر على الأسماء. "البزار عن أنس".
18258 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناموں کے حساب سے تعبیر دیا کرتے تھے (الزار عن انس (رض))

18259

18259- كان يعجبه الرؤيا الحسنة. "حم ن عن أنس".
18259 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھے خواب پسند تھے (مسند احمد نسائی عن انس (رض))

18260

18260- كان ينام وهو جنب لا يمس ماء. "حم3 ت ن هـ عن عائشة".
18260 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنبی حالت میں بھی سو جاتے اور پانی کو چھوتے تک نہ تھے ۔ (مسند احمد ترمذی نسائی ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18261

18261- كان إذا جاء الشتاء دخل البيت ليلة الجمعة، وإذا جاء الصيف خرج ليلة الجمعة، وإذا لبس ثوبا جديدا حمد الله وصلى ركعتين وكسا الخلق. "خط وابن عساكر عن ابن عباس".
18261 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں میں جمعہ کی رات گھر میں بستر کرتے تھے اور گرمیوں میں جمعہ کی رات گھر سے نکل جاتے تھے اور جب نیا لباس زیب تن کرتے تو اللہ کی حمد کرتے اور دو رکعت نماز پڑھتے اور پرانے کپڑے بھی پہنتے تھے ۔ (الخطیب فی التاریخ ، ابن عساکر عن ابن عباس (رض))

18262

18262- كان إذا ظهر في الصيف استحب أن يظهر ليلة الجمعة، وإذا دخل البيت في الشتاء استحب أن يدخل ليلة الجمعة. "ابن السني، وأبو نعيم في الطب عن عائشة".
18262 ۔۔۔ گرمیوں میں باہر ہوتے تو جمعہ کی رات کو باہر رہنا چاہتے تھے اور سردیوں میں گھر میں جانا چاہتے تو جمعہ کی رات کو داخل ہونا پسند کرتے تھے ۔ (ابن السنی وابو نعیم فی الطب عن عائشۃ (رض))

18263

18263- كان أحب الألوان إليه الخضرة. "طس ابن السني وأبو نعيم في الطب عن أنس".
18263 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پسندیدہ رنگ سبز تھا ۔ (الاوسط للطبرانی ، ابن السنی ، ابو نعیم فی الطب عن انس (رض))

18264

18264- كان أحب الثياب إليه القميص. "د ت، ك عن أم سلمة".
18264 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کپڑوں میں پسند قمیص تھی ۔ (ابوداؤد ، ترمذی مستدرک الحاکم عن ام سلمۃ (رض))

18265

18265- كان أحب الثياب إليه الحبرة. "ق د ن عن أنس".
18265 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کپڑوں میں محبوب یمنی چادر تھی ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی عن انس (رض))

18266

18266- كان أحب الصبغ إليه الصفرة. "طب عن ابن أبي أوفى".
18266 ۔۔۔ رنگائی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زرد رنگ پسند تھا ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن ابن ابی اوفی)

18267

18267- كان إذا استجد ثوبا سماه باسمه قميصا أو عمامة أو رداء ثم يقول: اللهم لك الحمد أنت كسوتنيه أسألك من خيره وخير ما صنع له، وأعوذ بك من شره وشر ما صنع له. "حم، د ت ك عن أبي سعيد".
18267 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے یعنی قمیص ہے یا عمامہ یا چادر پھر یہ دعا پڑھ ” اللہم لک الحمد انت کسوتنیہ اسالک من خیرہ وخیر ما صنع لہ واعوذبک من شرہ وشرما صنع ل ہے اللہ ! تیرے لیے تمام تعریفیں ہیں تو نے مجھے اس لباس کے ساتھ زینت بخشی ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس لباس کی خیر کا اور جس کے لیے اس کو بنایا گیا ہے اس کی خیر کا اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کے لیے اس کو بنایا گیا ہے اس کے شر سے ۔ (مسند احمد ، ابوداؤد، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابی سعید (رض))

18268

18268- كان إذا استجد ثوبا لبسه يوم الجمعة. "خط عن أنس".
18268 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا کپڑا پہنتے تو جمعہ کے دن پہنا کرتے تھے ۔ (الخطیب فی التاریخ عن انس (رض))

18269

18269- كان إذا اعتم سدل عمامته بين كتفيه. "ت عن ابن عمر".
18269 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب عمامہ پہنتے تو دونوں شانوں کے درمیان شملہ لٹکا دیتے تھے ۔ (ترمذی عن ابن عمرو (رض))

18270

18270- كان يدير العمامة على رأسه، ويغرزها من ورائه، ويرسل لها ذؤابة بين كتفيه. "طب هب عن ابن عمر".
18270 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمامہ کو سر پر گھماتے اور سر کے پچھلے حصے کی طرف دبا دیتے تھے اور شانوں کے درمیان اس کی چوٹی چھوڑ دیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، شعب الایمان للبیہقی عن ابن عمرو (رض))

18271

18271- كان إذا لبس قميصا بدأ بميامنه. "ت3 عن أبي هريرة".
18271 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قمیص پہنتے تو دائیں طرف سے شروع کرتے تھے ۔ (مثلا پہلے دایاں بازو پہنتے) ۔ (ترمذی عن ابوہریرہ (رض))

18272

18272- كان قميصه فوق الكعبين، وكان كمه مع الأصابع. "ك عن ابن عباس".
18272 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص (جبر کی مانند) ٹخنوں سے اوپر تک ہوتی تھی ، اور آستینیں انگلیوں کے برابر ہوتی تھیں ۔ (مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض))

18273

18273- كان كم قميصه إلى الرسغ. "دت عن أسماء بنت يزيد".
18273 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص کی آستینیں پہنچوں تک ہوتی تھیں ، (ابوداؤد ، ترمذی عن اسماء بنت یزید)

18274

18274- كان له برد يلبسه في العيدين والجمعة. "هق عن جابر".
18274 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک چادر تھی جس کو آپ عیدین اور جمعہ میں پہنچتے تھے ۔ (السنن للبیہقی عن جابر (رض))

18275

18275- كان له ملحفة مصبوغة بالورس والزعفران يدور بها على نسائه، فإذا كانت ليلة هذه رشتها بالماء، وإذا كانت ليلة هذه رشتها بالماء وإذا كانت ليلة هذه رشتها بالماء. "خط عن أنس".
18275 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک چادر تھی جو ورس (ایک گھاس ہے تیل کی مانند جس سے رنگائی کی جاتی ہے) اور زعفران کے ساتھ رنگی ہوئی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو زیب تن فرما کر اپنی عورتوں کے پاس جاتے تھے ۔ جب ایک کی باری ہوتی تو اس پر پانی کے چھینٹے مار لیتے ۔ جب دوسری بیوی کی باری ہوتی پھر پانی کے چھینٹے مار لیتے اور جب تیسری کی باری ہوتی تو پھر پانی کے چھینٹے اس پر مار لیتے تھے (اسی طرح سب کے ساتھ کرتے) ۔ (الخطیب فی التاریخ عن انس (رض))

18276

18276- كان يتبع الحرير من الثياب فينزعه. "حم عن أبي هريرة".
18276 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لباس میں حریر کی جو آمیزش ہوتی تھی اس کو چن چن کر نکال دیتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابوہریرہ (رض))

18277

18277- كان يرخي الإزار من بين يديه ويرفعه من ورائه. "ابن سعد عن يزيد بن حبيب، مرسلا".
18277 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازار کو سامنے کی طرف سے قدرے جھکا لیتے تھے اور پیچھے کی طرف سے قدرے اٹھالیتے تھے ۔ (ابن سعد عن یزید بن حبیب مرسلا)

18278

18278- كان يكثر القناع. "ت في الشمائل هب عن أنس".
18278 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اکثر وبیشتر (عمامہ اور ٹوپی کے نیچے) کوئی کپڑا ضرور رکھتے تھے (جو سر کے میل کو جذب کرتا رہتا تھا) ۔ (ترمذی فی الشمائل ، شعب الایمان للبیہقی عن انس (رض))

18279

18279- كان يكثر القناع ويكثر دهن رأسه ويسرح لحيته. "هب عن سهل بن سعد"
18279 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر سر پر کپڑے کا ٹکڑا رکھتے تھے اور تیل کثرت کے ساتھ استعمال کرتے تھے اور ڈاڑھی مبارک کو کنگھی کرتے تھے ۔ (شعب الایمان للبیہقی عن سھل بن سعد)

18280

18280- كان يكسو بناته خمر القز والإبريسم. "ابن النجار عن ابن عمر".
18280 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیٹیوں کو ریشم اور دیباج کی اوڑھنیاں سر پر ڈالتے تھے ۔ (ابن النجار عن ابن عمرو (رض))

18281

18281- كان يلبس برده الأحمر في العيدين والجمعة. "هق عن جابر".
18281 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سرخ چادر کو عیدین اور جمعہ میں زیب تن فرمایا کرتے تھے ۔ (السنن للبیہقی عن جابر (رض))

18282

18282- كان يلبس قميصا قصير الكمين والطول. "هـ عن ابن عباس".
18282 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھوٹی آستینوں اور چھوٹے دامن کی قمیص بھی پہنا کرتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))
کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی سند میں مسلم بن کیسان کوفی ایک راوی ہے جس کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ اس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔

18283

18283- كان يلبس قميصا فوق الكعبين مستوي الكمين بأطراف أصابعه. "ابن عساكر عن ابن عباس".
18283 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹخنوں سے اوپر دامن کی اور انگلیوں کے پوروں تک آستینوں والی قمیص زیب تن فرمایا کرتے تھے ۔ (ابن عساکر عن ابن عباس (رض))

18284

18284- كان يلبس قلنسوة بيضاء. "طب عن ابن عمر".
18284 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفید ٹوپی پہنا کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن ابن عمرو (رض))

18285

18285- كان يلبس قلنسوة بيضاء لاطئة. "ابن عساكر عن عائشة".
18285 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر پر چپک جانے والی سفید ٹوپی پہنا کرتے تھے ۔ (ابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18286

18286- كان يلبس القلانس تحت العمائم وبغير العمائم، ويلبس العمائم بغير القلانس، وكان يلبس القلانس اليمانية وهن البيض المضربة ويلبس ذوات الآذان في الحرب، وكان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه وهو يصلي، وكان من خلقه أن يسمي سلاحه ودوابه ومتاعه. "الروياني وابن عساكر عن ابن عباس".
18286 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹوپی عمامہ کے ساتھ اور بغیر عمامہ کے بھی پہنا کرتے تھے اور عمامہ بھی بغیر ٹوپی کے باندھ لیا کرتے تھے ۔ نیز یمنی ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے جو سفید اور موٹی سلی ہوتی تھیں ، جبکہ جنگوں میں کانوں تک ڈھانپنے والی (دھات کی) ٹوپی پہنتے تھے ۔ بسا اوقات یوں بھی کرتے کہ ٹوپی سر سے اتار کر بطور سترہ کے سامنے رکھ لیتے اور پھر نماز پڑھ لیتے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادات شریفہ میں سے یہ بات بہت اہم تھی کہ آپ اپنے اسلحہ جات ، جانور مویشی اور سازوسامان کا نام رکھ دیتے تھے ۔ (الرویانی ، ابن عساکر عن ابن عباس (رض))

18287

18287- كان إذا قدم عليه الوفد لبس أحسن ثيابه وأمر علية أصحابه بذلك. "البغوي عن جندب بن مكيث
18287 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کوئی وفد آتا تو آپ خود بھی اچھے کپڑے زیب تن فرماتے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی ہدایت فرماتے تھے ۔ (البغوی عن جندب بن مکیث)

18288

18288- كان أحب الرياحين إليه الفاغية "طس، هب عن أنس".
18288 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاغیہ خوشبو بہت پسند تھی ۔ (الاوسط للطبرانی عن شعب الایمان للبیہقی عن انس (رض)) فائدہ : ۔۔۔ فاغیہ حناء کی کلی کو کہتے ہیں ، نیز وہ پھول جو حناء کی شاخ کو الٹا گاڑنے سے نکلتا ہے اور وہ حناء سے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ اور یوں بھی فاغیہ ہر خوشبودار کلی کو کہتے ہیں۔

18289

18289- كان إذا أتي بمدهن الطيب لعق منه ثم ادهن."ابن عساكر عن سالم بن عبد الله بن عمر، والقاسم مرسلا".
18289 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب خوشبودار تیل لایا جاتا تو پہلے اس سے چاٹتے پھر اس کو لگا لیتے تھے ۔ (ابن عساکر عن سالم بن عبداللہ بن عمر ، والقاسم مرسلا)

18290

18290- كان له سكة يتطيب منها."د عن أنس"
18290 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خوشبو تھی جس سے آپ خوشبو لگایا کرتے تھے ۔ (ابو داؤد عن انس (رض))

18291

18291- كان لا يرد الطيب. "حم خ4 ت ن هـ عن أنس".
18291 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشبو کو رد نہیں کرتے تھے ۔ (مسند احمد بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجۃ عن انس (رض))

18292

18292- كان يأخذ المسك فيمسح به رأسه ولحيته. "ع عن سلمة بن الأكوع".
18292 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشک لیتے اور اپنے سر اور ڈاڑھی پر مل لیتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی عن سلمۃ بن الاکوع)

18293

18293- كان يتتبع الطيب من رباع النساء. "الطيالسي عن أنس".
18293 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عورتوں کے گھروں سے خوشبو کی تلاش میں رہتے تھے ۔ (الطیالسی عن انس (رض))

18294

18294- كان يستجمر بالألوة غير مطراة وبكافور يطرحه مع الألوة. "م عن ابن عمر"
18294 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص اگر (لکڑی) کے دھوئیں کے ساتھ خوشبو لیتے تھے اور کبھی کافور کے ساتھ ملا کر اس کی دھونی کی خوشبو لیتے تھے ۔ (مسلم عن ابن عمرو (رض))

18295

18295- كان يعجبه الفاغية. "حم عن أنس".
18295 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فاغیہ خوشبو بہت پسند تھی ۔ (مسند احمد عن انس (رض))

18296

18296- كان يعجبه الريح الطيبة. "د ك عن عائشة".
18296 ۔۔۔ عمدہ خوشبو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت مرغوب تھی ۔ (ابو داؤد مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18297

18297- كان يكره ريح الحناء. "حم د ن عن عائشة".
18297 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حناء کی بو ناپسند تھی ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی عن عائشۃ (رض)) فائدہ : ۔۔۔ فاغیہ خوشبو آپ کو پسند تھی وہ حناء کی کلی یا اور پھولوں کی کلی کی خوشبو کہلاتی ہے جبکہ حناء (مہندی) پسی ہوئی جو ہاتھوں پر لگاتے ہیں اس کی بو آپ کو پسند نہ تھی ۔

18298

18298- كان يعرف بريح الطيب إذا أقبل."ابن سعد عن إبراهيم، مرسلا".
18298 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں کہیں جاتے تھے آپ کے جسم کی عمدہ خوشبو پہلے ہی وہاں آپ کی آمد کی خبر پہنچا دیتی تھی ۔ (ابن سعد عن ابراھیم مرسلا)

18299

18299- كان إذا ادهن صب في راحته اليسرى فبدأ بحاجبيه ثم عينيه ثم رأسه. "الشيرازي في الألقاب عن عائشة".
18299 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تیل لگاتے تھے تو پہلے اپنی بائیں ہتھیلی پر تیل ڈال لیتے تھے پھر (دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ساتھ) پہلے ابروؤں پر پھر آنکھوں پر اور پھر سر پر لگاتے تھے ۔ (الشیرازی فی الالقاب عن انس رضی

18300

18300- كان إذا نظر وجهه في المرآة قال: الحمد لله الذي سوى خلقي فعدله، وكرم صورة وجهي فحسنها، وجعلني من المسلمين. "ابن السني عن أنس".
18300 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے تو یہ دعا پڑھ ” الحمد للہ الذی سوی خلقی فعدلہ و کرم صورۃ وجھہ فحسنھا وجعلنی من المسلمین “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے اچھی حالت پر پیدا کیا ٹھیک ٹھیک بنایا میرے چہرے کو عزت بخشی اور اس کو حسین بنایا اور مجھے مسلمانوں میں سے بنایا ۔ (ابن السنی عن انس (رض))

18301

18301- كان إذا نظر في المرآة قال: الحمد لله الذي حسن خلقي وخلقي وزان مني ما شان من غيري، وإذا اكتحل جعل في كل عين اثنتين وواحدة بينهما، وكان إذا لبس نعله بدأ باليمين، وإذا خلع خلع اليسرى، وكان إذا دخل المسجد أدخل رجله اليمنى، وكان يحب التيمن في كل شيء أخذا وإعطاء. "ع طب عن ابن عباس".
18301 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئینہ دیکھتے تو یہ دعا پڑھ ” الحمد للہ الذی حسن خلقی وخلقی وزان منی ماشان من غیری “۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری تخلیق اچھی کی اور میرے اخلاق اچھے بنائے اور اوروں کی جو چیزیں عیب دار بنائیں وہ میرے لیے زینت دار حسین و جمیل بنائیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سرمہ لگاتے تو دو دو سلائیاں دونوں آنکھوں میں لگاتے اور ایک ایک سلائی دونوں آنکھوں میں لگاتے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جوتا پہنتے تھے تو پہلے دائیں پاؤں میں پہنتے تھے ۔ اور جب جوتے نکالتے تو پہلے بایاں جوتا نکالتے ، جب مسجد میں داخل ہوتے تو پہلے اپنا دایاں پاؤں مسجد میں داخل کرتے اور ہر چیز کے دینے لینے میں (دایاں ہاتھ اور) دائیں طرف کو پسند کرتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی ، الکبیر للطبرانی ، عن ابن عباس (رض))

18302

18302- كان يشتد عليه أن يوجد منه الريح. "د عن عائشة".
18302 ۔۔۔ یہ بات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت شاق اور ناگوار گزرتی تھی کہ آپ کے بدن سے کسی طرح کی بدبو آئے ۔ (ابوداؤد عن عائشۃ (رض))

18303

18303- كان يأمر بتغيير الشعر مخالفة للأعاجم. "طب عن عتبة بن عبد".
18303 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عجمیوں کی مخالفت میں بالوں کو رنگنے کا حکم دیتے تھے ۔ (مثلا سفید بالوں کو مہندی کے خضاب کا حکم دیتے تھے) (الکبیر للطبرانی ، عن عتبۃ بن عبد)

18304

18304- كان إذا اكتحل اكتحل وترا، وإذا استجمر استجمر وترا. "حم عن عقبة بن عامر"
18304 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرمہ لگاتے تو طاق عدد میں لگاتے تھے اور جب دھونی کی خوشبو لیتے وہ بھی طاق مرتبہ لیتے۔ (مسند احمد عن عقبۃ بن عامر)

18305

18305- كان له مكحلة يكتحل منها كل ليلة ثلاثة في هذه وثلاثة في هذه. "ت هـ عن ابن عباس".
18305 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک سرمہ دانی تھی ہر رات اس سے تین سلائیاں دائیں آنکھ میں اور تین سلائیاں بائیں آنکھ میں لگاتے تھے ۔ (ترمذی ، ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

18306

18306- كان خاتمه من ورق وكان فصه حبشيا. "م عن أنس"
18306 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور چاندی کا نگینہ حبشی (سیاہ) تھا ۔ (مسلم عن انس (رض))

18307

18307- كان خاتمه من فضة وكان فصه منه. "خ عن أنس".
18307 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی چاندی کی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا ۔ (بخاری عن انس (رض))

18308

18308- كان يكره أن يرى الخاتم. "طب عن عبادة بن عمرو".
18308 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے (تاکہ دائیں کو فضیلت ملے )

18309

18309- كان يتختم في يمينه. "خ ت عن ابن عمر؛ م ن عن أنس حم ت هـ عن عبد الله بن جعفر".
18309 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے (تاکہ دائیں کو فضیلت ملے) (بخاری ترمذی عن ابن عمر مسلم نسائی عن انس (رض) مسند احمد ترمذی ابن ماجۃ عن عبداللہ بن جعفر)

18310

18310- كان يتختم في يساره. "م عن أنس د عن ابن عمر".
18310 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کبھی ) بائیں ہاتھ میں (بھی) انگوٹھی پہن لیتے تھے (مسلم عن انس ابو داؤد عن ابن عمر (رض))

18311

18311- كان يتختم في يمينه ثم حوله في يساره. "عد عن ابن عمر، ابن عساكر عن عائشة".
18311 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے پھر اس کو بائیں ہاتھ میں بدل لیتے تھے۔ (الکامل لا بن عدی عن ابن عمر (رض) ابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18312

18312- كان يتختم بالفضة. "طب عن عبد الله بن جعفر".
18312 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاندی کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے (فداہ ابی وامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم))

18313

18313- كان يجعل فصه مما يلي كفه. "هـ - عن أنس وعن ابن عمر".
18313 ۔۔۔ انگوٹھی کا نگینہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے (ابن ماجہ عن انس (رض) وعن ابن عمر (رض))

18314

18314- كان إذا أطلى بدأ بعورته فطلاها بالنورة، وسائر جسده أهله. "هـ عن أم سلمة".
18314 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بال صاف کرتے تھے تو نورہ (چونے کے پاؤڈر ) کے ساتھ بال صاف کرتے اور پہلے اپنی شرمگاہ کے بال خود صاف کرتے پھر باقی جسم کے اضافی بال آپ کے اہل خانہ صاف کرتے (ابن ماجہ عن ام سلمۃ (رض))

18315

18315- كان إذا أطلى بالنورة ولي عانته وفرجه بيده. "ابن سعد عن إبراهيم وعن حبيب بن أبي ثابت، مرسلا".
18315 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونے کے ساتھ بال صاف کرتے اور زیر ناف اور شرمگاہ کے بال اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ۔ (ابن سعد عن ابراھیم وعن حبیب بن ابی ثابت مرسلا)

18316

18316- كان يتنور في كل شهر ويقلم أظفاره في كل خمسة عشر يوما. "ابن عساكر عن ابن عمر".
18316 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ماہ چونا استعمال فرماتے اور ہر پندرہ دن میں اپنے ناخن کاٹ لیتے تھے ۔ (ابن عساکر عن ابن عمرو (رض))

18317

18317- كان يدخل الحمام ويتنور. "ابن عساكر عن واثلة".
18317 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمام میں داخل ہوتے اور چونا استعمال کرتے تھے ۔ (ابن عساکر عن واثلہ (رض))

18318

18318- كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها. "ت عن ابن عمرو".
18318 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ریش مبارک کے عرض وطول سے (زائد بال کاٹ) لیتے تھے ۔ (ترمذی عن ابن عمرو (رض))

18319

18319- كان يأمر بدفن الشعر والأظفار. "طب عن وائل بن حجر".
18319 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بال اور ناخن دفن کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن واثل بن حجر (رض))

18320

18320- كان يأمر بدفن سبعة أشياء من الإنسان: الشعر والظفر والدم والحيضة والسن والعلقة والمشيمة. "الحكيم عن عائشة".
18320 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان کی سات چیزیں دفن کرنے کا حکم دیتے تھے ، بال ، ناخن ، خون ، حیض کے کپڑے کے ٹکڑے وغیرہ ، دانت ، خون کے لوتھڑے اور پیدائش کے وقت کی بچے کی جھلی ۔ (الحکیم عن عائشۃ (رض))

18321

18321- كان يحفي شاربه. "طب عن أم عياش مولاته صلى الله عليه وسلم".
18321 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مونچھوں کو تراش(کر ہلکا کر) لیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن ام عیاش ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزاد کردہ باندی)

18322

18322- كان يقلم أظفاره، ويقص شاربه يوم الجمعة قبل أن يروح إلى الصلاة. "هب عن أبي هريرة".
18322 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ناخن کاٹ لیتے تھے ، اپنی مونچھیں ہلکی کرلیتے تھے اور یہ دونوں کام جمعے کے دن نماز جمعہ کے لیے جانے سے قبل کرتے تھے ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، عن ابوہریرہ (رض))

18323

18323- كان يأمر من أسلم أن يختتن، وإن كان ابن ثمانين سنة. "طب عن قتادة الرهاوي".
18323 ۔۔۔ جو شخص اسلام لے آتا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ختنہ کرانے کا حکم دیتے تھے خواہ وہ شخص اسی سال کی عمر کو پہنچ چکا ہو ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن قتادہ الرھاوی)

18324

18324- كان إذا أراد أن يزوج امرأة من نسائه يأتيها من وراء الحجاب فيقول لها: يا بنية إن فلانا قد خطبك، فإن كرهتيه فقولي: لا فإنه لا يستحي أحد أن يقول لا، وإن أحببت فإن سكوتك إقرار. "طب عن عمر".
18324 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی خاتون کی شادی کرنا چاہتے تو پردے کے پیچھے سے اس سے بات کرتے اور پوچھتے : اے بیٹی ! فلاں شخص تجھے پیغام نکاح دیتا ہے اگر تو اس کو ناپسند کرتی ہے تو ناں کر دے کیونکہ کوئی شخص ناں کرنے سے شرم نہیں کرتا اور اگر تو اس کو پسند کرتی ہے تو تیرا خاموش رہنا ہی اقرار ہے۔ (الکبیر للطبرانی ، عن ابن عمرو (رض))

18325

18325- كان إذا خطب المرأة قال: اذكروا لها جفنة سعد بن عبادة. "ابن سعد عن أبي بكر بن محمد بن محمد بن عمرو بن حزم وعن عاصم بن عمر بن قتادة، مرسلا".
18325 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی عورت کو پیغام نکاح دیتے تو فرماتے فلاں عورت کو سعد بن عبادہ (رض) کے پیالے کا ذکر کر دو ۔ (ابن سعد عن ابی بکر بن محمد بن محمد بن عمرو بن حزم وعن عاصم بن عمر بن قتادہ مرسلا) فائدہ : ۔۔۔ یہ پیالہ ثرید سے بھرا سعد بن عبادہ (رض) ہر روز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجتے تھے ، اور کسی عورت کو نکاح کے پیغام دینے کا انتہائی مہذب طریقہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اختیار کرتے تھے کہ اگر وہ اس پیالے میں ہمارے ساتھ اکل وشرب کرنا چاہے تو بتادے ۔

18326

18326- كان إذا خطب فرد لم يعد، فخطب امراة فأبت، ثم عادت فقال: قد التحفنا لحافا غيرك. "ابن سعد عن مجاهد مرسلا".
18326 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی عورت کو پیغام نکاح دیتے اور انکار ہوجاتا تو دوبارہ اصرار نہیں کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ کسی خاتون کو پیغام بھجوایا لیکن اس نے انکار کردیا بعد میں اس نے ہاں کہلوا بھیجی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم نے تو تیرے علاوہ دوسرا بستر لے لیا ہے۔ (ابن سعد عن مجاھد مرسلا)

18327

18327- كان إذا خلا بنسائه ألين الناس وأكرم الناس ضاحكا بساما. "ابن سعد وابن عساكر عن عائشة".
18327 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عورتوں کے ساتھ خلوت فرماتے تو تمام انسانوں میں سب سے زیادہ نرم اور سب سے زیادہ ہنسنے بولنے اور مسکرانے والے ہوتے تھے ۔ (ابن سعد وابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18328

18328- كان إذا رفأ الإنسان إذا تزوج قال: بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في خير. "حم 4 ك عن أبي هريرة".
18328 ۔۔۔ جب کوئی شخص شادی کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مبارک باد دیتے تو فرماتے اللہ تجھے برکت دے اور اس میں تیرے لیے برکت رکھے اور تم دونوں کو خیر و بھلائی کے ساتھ اکٹھا رکھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض))

18329

18329- كان إذا زوج أو تزوج امرأة نثر تمرا. "هق عن عائشة".
18329 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی شادی کراتے یا خود شادی فرماتے تو خشک کھجوریں تقسیم کرتے تھے ۔ (السنن للبیھقی عن عائشۃ (رض))

18330

18330- كان يأمر بالباءة وينهى عن التبتل نهيا شديدا."حم عن أنس".
18330 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شادی کا حکم دیتے تھے اور تنہائی کی زندگی سے انتہائی سختی کے ساتھ ممانعت فرماتے تھے ۔ (مسند احمد عن انس (رض))

18331

18331- كان يخطب النساء ويقول: لك كذا وكذا وجفنة سعد تدور معي إليك كلما درت."طب عن سهل بن سعد".
18331 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کو نکاح کا پیغام دیتے اور فرماتے تم کو یہ ملے گا یہ ملے گا اور سعد کا پیالہ تم کو میری طرف سے ملتا رہے گا ۔ (الکبیر للطبرانی ، عن سھل بن سعد)

18332

18332- كان يكره نكاح السر حتى يضرب بدف. "عم عن أبي حسن المازني".
18332 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخفی نکاح کو ناپسند کرتے تھے جب تک کہ دف نہ بجا لیا جاتا ۔ (مسند عبداللہ بن احمد عن ابی حسن المازنی)

18333

18333- كان يكره أن يرى المرأة ليس في يدها أثر حناء وأثر خضاب. "هق عن عائشة".
18333 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ناپسند تھی کہ عورت کو خالی ہاتھ دیکھیں کہ اس میں مہندی اور خضاب کا رنگ نہ ہو۔ (السنن للبیھقی عن عائشۃ (رض))

18334

18334- كان رحيما بالعيال. "الطيالسي عن أنس".
18334 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل و عیال پر بہت مہربان تھے ۔ (الطیالسی عن انس (رض))

18335

18335- كان كثيرا ما يقبل عرف فاطمة. "ابن عساكر عن عائشة".
18335 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی لخت جگر فاطمۃ الزہرا (رض) کی خوشبو بہت زیادہ سونگھتے تھے (اس طرح کے ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے تھے) (ابن عساکر عن عائشۃ (رض))

18336

18336- كان إذا يؤتى بالشيء أعطى أهل البيت جميعا كراهية أن يفرق بينهم. "حم عن ابن مسعود".
18336 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی چیز (ہدیہ) لائی جاتی تو آپ تمام گھر والیوں کو تقسیم کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان امتیاز اور فرق نہ ہو ۔ (مسند احمد عن ابن مسعود (رض))

18337

18337- كان إذا أراد سفرا أقرع بين نسائه، فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه. "ق د هـ عن عائشة".
18337 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی عورتوں کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اس کو اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے ۔ (بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18338

18338- كان يقسم بين نسائه فيعدل ويقول: اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك. "حم ك عن عائشة".
18338 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عورتوں کے درمیان (ہر چیز کی) تقسیم فرما دیا کرتے تھے اور عدل کے ساتھ کام لیتے تھے اور بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے تھے ۔ اے اللہ ! جس چیز کا میں مالک ہوں اس میں میری یہ تقسیم ہے ، سو جس چیز (محبت قلبی) کا میں مالک نہیں بلکہ تو مالک ہے اس میں مجھے ملامت نہ فرما ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18339

18339- كان إذا ذبح شاة قال: أرسلوا بها إلى أصدقاء خديجة. "م عن عائشة"
18339 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بکری ذبح فرماتے تو ارشاد فرماتے یہ (کچھ) خدیجہ کی سہیلیوں کو دے آؤ۔ (مسلمعن عائشۃ (رض))

18340

18340- كان إذا أراد أن يباشر امرأة من نسائه وهي حائض أمرها أن تتزر، ثم يباشرها. "خ د عن ميمونة".
18340 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کے ساتھ مباشرت (آرام) فرمانا چاہتے اور وہ حائضہ ہوتی تو اس کو ازار باندھنے کا حکم دیدیتے ۔ پھر اس کے ساتھ ہم بستر ہوجاتے ۔ (بخاری ابو داؤد عن میمونۃ (رض))

18341

18341- كان إذا أراد من الحائض شيئا ألقى على فرجها ثوبا. "د عن بعض أمهات المؤمنين".
18341 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی حائضہ بیوی کے ساتھ کچھ مباشرت کا ارادہ فرماتے تو اس کا شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے تھے ۔ (ابو داؤد عن بعض امھات المؤمنین)

18342

18342- كان إذا رمدت عين امرأة من نسائه لم يأتها حتى تبرأ عينها. "أبو نعيم في الطب عن أم سلمة".
18342 ۔۔۔ جب کسی بیوی کو آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوجاتا تو اس وقت تک اس کے پاس نہ جاتے جب تک وہ صحیح نہ ہوجاتی ۔ (ابو نعیم فی الطب عن ام سلمۃ (رض))

18343

18343- كان يباشر نساءه فوق الإزار وهن حيض. "م د عن ميمونة".
18343 ۔۔۔ حضور اپنی بیویوں کے ساتھ ازار کے اوپر مباشرت فرما لیتے تھے جب کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں ۔ (مسلم ابو داؤد عن میمونۃ (رض))

18344

18344- كان يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار. "خ ن عن أنس".
1044 2 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی گھڑی میں رات اور دن میں اپنی بیویوں کے پاس چکر لگا لیتے تھے ۔ (بخاری نسائی عن انس (رض))

18345

18345- كان يطوف على جميع نسائه في ليلة بغسل واحد. "حم ق عن أنس".
18345 ۔۔۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات میں ایک غسل کے ساتھ تمام عورتوں کے پاس ہو آتے تھے ۔ (مسند احمد بخاری مسلم ابو داؤد ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ عن انس (رض))

18346

18346- كان يكره سورة الدم ثلاثا، ثم يباشر بعد الثلاث. "طب عن أم سلمة".
18346 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین مرتبہ کے خون کو ناپسند کرتے تھے تین مرتبہ کے بعد مباشرت فرما لیتے تھے (الکبیر للطبرانی عن ام سلمہ (رض))

18347

18347- كان إذا اجتلى النساء أقعى فقبل. "ابن سعد عن أبي أسيد الساعدي".
18347 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب عورتوں کے پاس جاتے تو چار زانوں بیٹھتے اور بیوی کو بوسہ دیتے (ابن سعد عن ابی اسید الساعدی)

18348

18348- كان يمص اللسان. "الترفقي في جزئه عن عائشة".
18348 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بیوی کی) زبان کو چوسا کرتے تھے (الترفقی فی جزنہ عن عائشۃ (رض))

18349

18349- كان إذا اشتكى تقمح كفا من شونيز وشرب ماء وعسلا. "خط عن أنس".
18349 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیمار ہوجاتے تو ایک مٹھی کلونجی لے کر پھانک لیتے اور پھر پانی میں شہد مل کر نوش کرلیتے۔ (الخطیب فی التاریخ عن انس (رض))

18350

18350- كان إذا اشتكى أحد رأسه قال: اذهب فاحتجم، وإذا اشتكى رجله قال: اذهب فاخضبها بالحناء. "طب عن سلمى امرأة أبي رافع".
18350 ۔۔۔ جب کسی شخص کو سر میں درد ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو حکم فرماتے کہ جاؤ پچھنے (سینگی) لگوالو ۔ اور جب کسی کے پاؤں میں تکلیف ہوتی تو فرماتے جا اور پاؤں میں مہندی لگالے (الکبیر للطبرانی عن سلمی امرا ( ابی رافع)

18351

18351- كان إذا حم دعى بقربة من ماء فأفرغها على قرنه فاغتسل. "طب ك عن سمرة".
18351 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخار ہوجاتا تو پانی کا ایک مشکیزہ منگواتے اور اس کو اپنے سر پر ڈالتے اور غسل کرلیتے ۔ ( الکبیر للطبرانی مستدرک الحاکم عن سمرۃ (رض))

18352

18352- كان ربما أخذته الشقيقة فيمكث اليوم واليومين لا يخرج. "ابن السني وأبو نعيم في الطب عن بريدة".
18352 ۔۔۔ بسا اوقات آپ کو آدھا سر درد ہوجاتا تو آپ ایک دو دن باہر نہ نکلتے۔ ( ابن السنی وابو نعیم فی الطب عن بریدۃ (رض)) فائدہ :۔۔۔ باہر نہ نکلنے سے مراد گھر اور مسجد کے علاوہ اور جگہ کے لیے نہ نکلنا ہے۔

18353

18353- كان لا يصيبه قرحة ولا شوكة إلا وضع عليها الحناء. "هـ عن سلمى أم رافع مولاة رسول الله صلى الله عليه وسلم
18353 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی زخم یا کانٹا لگتا تو اس پر مہندی لگا لیتے تھے (ابن ماجہ عن سلمی ام رافع مولاۃ ) آزاد کردہ باندی)

18354

18354- كان يحتجم في رأسه ويسميها أم مغيث. "خط عن ابن عمر".
18354 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر میں پچھنے لگواتے اور اس کو ام مغیث کہتے ۔ (التاریخ للخطیب عن ابن عمرو (رض))

18355

18355- كان يحتجم في الأخدعين والكاهل، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين. "ت ك عن أنس".
18355 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخدعین (گردن کی دونوں جانبوں میں مخفی رگ) میں اور کا ھل (گردن کی پشت پر پشت کے بالائی حصہ) میں پچھنے لگواتے تھے ۔ اور چاند کی سترہ انیس اور اکیس تاریخوں میں پچھنے لگواتے تھے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18356

18356- كان يحتجم "ق عن أنس".
18356 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پچھنے لگواتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم عن انس (رض))

18357

18357- كان يحتجم على هامته وبين كتفيه ويقول: من أهراق من هذه الدماء فلا يضره أن لا يتداوى بشيء لشيء. "د، هـ عن أبي كبشة"ٓ
18357 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر میں اور شانوں کے درمیان پچھنے لگواتے اور ارشاد فرماتے : جو ان (جگہوں کے) خونوں کو نکلوا دے تو اس کو کوئی نقصان نہ ہوگا خواہ وہ کسی چیز کے لیے کوئی علاج نہ کرے ۔ (ابوداؤد ، ابن ماجۃ عن ابی کشتر)

18358

18358- كان يصعد بالسمسم ويغسل رأسه بالسدر. "ابن سعد عن أبي جعفر؛ مرسلا".
18358 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرمی کے ساتھ چڑھتے تھے اور بیری کے پتوں کے ساتھ سر دھولیا کرتے تھے ۔ (ابن سعد عن ابی جعفر مرسلا)

18359

18359- كان يكره الكي والطعام الحار ويقول: عليكم بالبارد فإنه ذو بركة ألا وإن الحار لا بركة له. "حل عن أنس".
18359 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داغ لگوانے کو ناپسند کرتے تھے اور گرم کھانے کو بھی ناپسند فرماتے تھے ، اور ارشاد فرماتے تھے : ٹھنڈا کھانا کھاؤ اس میں برکت ہے اور گرم کھانے میں برکت نہیں ہے۔ (حلیۃ الاولیاء عن انس (رض))

18360

18360- كان يكتحل كل ليلة، ويحتجم كل شهر، ويشرب الدواء كل سنة. "عد عن عائشة".
18360 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات سرمہ لگاتے تھے ، ہر مہینہ پچھنے لگواتے تھے اور ہر سال دوا پیتے تھے ۔ (الکامل لابن عدی عن عائشۃ (رض))

18361

18361- كان إذا أخذ أهله الوعك أمر بالحساء فصنع، ثم أمرهم فحسوا منه وكان يقول: إنه ليرتق فؤاد الحزين ويسرو عن فؤاد السقيم كما تسرو إحدكن الوسخ بالماء عن وجهها. "ت هـ ك عن عائشة".
18361 ۔۔۔ جب آپ 6 کے گھر والوں کو بخاری آجاتا تو حساء بنانے کا حکم دیتے (آٹے کے ساتھ کچھ بھی ملا کر بنایا جانے والا کھانا) اور پھر اس کو چسکی چسکی پینے کا حکم دیتے اور ارشاد فرماتے یہ رنجیدہ کے دل کو جوڑتا ہے اور بیمار کے دل سے بیماری کو یوں کھینچ لیتا ہے جس طرح تمہارے چہرے سے میل کو پانی دھو دیتا ہے۔ (ترمذی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18362

18362- كان إذا اشتكى يقرأ على نفسه بالمعوذات وينفث فلما اشتد وجعه كنت أقرأ عليه وأمسح عنه بيده رجاء بركتها. "ق د هـ عن عائشة".
18362 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوجاتے تو معوذتین پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرلیتے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : جب مرض شدت کی صورت اختیار کرجاتا تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کرکے آپ کے ہاتھوں کو آپ کے جسم پر پھیرتی تھی آپ کے ہاتھوں کی برکت کی وجہ سے ۔ (بخاری مسلم ، ابو داؤد ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18363

18363- كان إذا صلى الغداة جاء خدم أهل المدينة بآنيتهم فيها الماء فما يأتون بإناء إلا غمس يده فيه. "حم م عن أنس".
18363 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اہل مدینہ اپنے اپنے برتنوں میں پانی بھر کر لاتے اور آپ ہر برتن میں ہاتھ ڈبوتے جاتے ۔ (پھر وہ اپنے ساتھ یہ برکت والا پانی لے جاتے) (مسند احمد ، مسلم عن انس (رض))

18364

18364- كان إذا اشتكى رقاه جبريل: بسم الله يبريك ومن كل داء يشفيك ومن شر حاسد إذا حسد وشر كل ذي عين. "م عن عائشة"
18364 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار پڑجاتے تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ پر ان کلمات کے دم کرتے تھے : ” بسم اللہ یبریک ومن کل داء یشفیک ومن شر حاسد اذا حسد وشرکل ذی عین للہ کا نام لیتا ہوں جو آپ کو اس مرض سے بری کرے گا اور آپ کو ہر بیماری سے شفاء دے گا اور ہر حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے اور ہر بد نظر کے شر سے آپ کو شفاء دے گا ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

18365

18365- كان إذا أصابه رمد أو أحدا من أصحابه دعا بهؤلاء الكلمات: اللهم متعني ببصري واجعله الوارث مني، وأرني في العدو ثأري وانصرني على من ظلمني. "ابن السني ك عن أنس".
18365 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آشوب چشم کا مرض ہوجاتا یا آپ کے کسی صحابی کو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات پڑھ ” اللہم متعنی ببصر واجعلہ الوارث منی وارنی فی العدو ناری وانصرنی علی من ظلمنیے اللہ ! میری آنکھوں کے ساتھ فائدہ دے اور اس بینائی کو میرے آخر دم تک سلامت رکھ ! اور دشمن میں مجھے اپنا انتقام دکھا اور میرے ظالم دشمن پر میری مدد فرما ۔ (ابن السنی مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18366

18366- كان إذا خاف أن يصيب شيئا بعينه قال: اللهم بارك لي فيه ولا تضره. "ابن السني عن حكيم بن حزام".
18366 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آنکھوں میں کسی تکلیف کا احساس ہوتا تو یہ دعا کر ” اللہم بارک لی فی ولا تض رہے اللہ ! مجھے اس میں برکت دے اور اس کو نقصان نہ پہنچنے دے ۔ (ابن السنی عن حکیم بن حزام)

18367

18367- كان إذا راعه شيء قال: الله الله الله ربي لا شريك له. "ن عن ثوبان".
18367 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی شی کا خوف ہوتا تو یہ کلمات پڑھ ” اللہ اللہ اللہ ربی لا شریک لہ للہ اللہ اللہ ! میرا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ (نسائی عن ثوبان (رض))

18368

18368- كان إذا مرض أحد من أهل بيته نفث عليه بالمعوذات. "م عن عائشة".
18368 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو معوذتین کی سورتیں پڑھ کر دم کردیتے ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

18369

18369- كان يأمرها أن تسترقي من العين. "م عن عائشة"
18369 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کو حکم دیتے کہ بدنظری سے جھاڑ پھونک کریں ۔ (مسلم عن عائشۃ (رض))

18370

18370- كان يعلمهم من الحمى ومن الأوجاع كلها أن يقولوا: بسم الله الكبير أعوذ بالله العظيم من شر كل عرق نعار ومن شر حر النار. "حم ت ك عن ابن عباس".
18370 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو بخار اور ہر طرح کے ورد میں یہ کلمات پڑھنا سکھاتے تھے : ” بسم اللہ الکبیر اعوذ باللہ العظیم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار للہ کے نام سے جو بڑا ہے ، میں اللہ عظمت والے کی پناہ لیتا ہوں ہر پھڑکنے والی رگ سے اور جہنم کی گرمی (بخار) سے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)) کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل بن ابی حبیبہ ضعیف ہے۔

18371

18371- كان ينفث في الرقية. "هـ عن عائشة".
18371 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھاڑ پھونک کے کلمات پڑھنے کے بعد پھونک دیا کرتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18372

18372- كان إذا أتى مريضا أو أتي به قال: أذهب البأس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما. "ت هـ عن عائشة"
18372 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مریض کے پاس آتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو یہ کلمات پڑھ ” اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاء ک شفاء لا یغادر سقماے اللہ ! بیماری کو دفع فرما ، اے لوگو کے رب ! اور شفاء بخش بیشک تو شفاء دینے والا ہے ، کوئی شفاء نہیں تیری شفاء کے سوا ایسی شفاء جو بیماری قطعا نہ چھوڑے ۔ ترمذی ، ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض))

18373

18373- كان يتفاءل ولا يتطير، وكان يحب الاسم الحسن. "حم عن ابن عباس".
18373 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیک فالی لیتے تھے لیکن بدفالی نہ لیتے تھے اور اچھے نام کو پسند فرماتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابن عباس (رض))

18374

18374- كان يعجبه إذا خرج لحاجة أن يسمع: يا راشد يا نجيح. "ت ك عن أنس".
18374 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کام کے لیے نکلتے تو آپ کو یہ بات پسند تھی کہ کوئی آپ کو ” یا راشد یا نجیع “۔ (اے بھلائی والے ، اے فلاح و کامیابی پانے والے) کہہ کر پکارے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18375

18375- كان يعبر على الأسماء. "البزار عن أنس".
18375 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناموں پر تعبیر دے دیا کرتے تھے ۔ (مسند البزار عن انس (رض))

18376

18376- كان يعجبه الفأل الحسن ويكره الطيرة. "هـ عن أبي هريرة ك عن عائشة".
18376 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیک فال پسند تھا اور بدشگونی انتہائی ناپسند تھی۔ (ابن ماجۃ عن ابوہریرہ (رض) ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18377

18377- كان لا يتطير ولكن يتفاءل. "الحكيم والبغوي عن بريدة".
18377 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدفالی نہ لیتے تھے جبکہ فالی لیا کرتے تھے ۔ (الحکیم والبغوی عن بریدۃ (رض))

18378

18378- كان خلقه القرآن. "حم م د عن عائشة"
18378 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق قرآن تھا ۔ (مسند احمد ، مسلم ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18379

18379- كان أبغض الخلق إليه الكذب. "هب عن عائشة".
18379 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹ سے انتہائی نفرت تھی ۔ (شعب الایمان للبیہقی ، عن عائشۃ (رض))

18380

18380- كان إذا عمل عملا أثبته. "م د عن عائشة".
18380 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی عمل کرتے تو بہت اچھی طرح پابندی کے ساتھ اس کو برقرار رکھتے ۔ (مسلم ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18381

18381- كان إذا اطلع على أحد من أهل بيته كذب كذبة لم يزل معرضا عنه حتى يحدث توبة. "حم ك عن عائشة".
18381 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب علم ہوتا کہ آپ کے گھر والوں میں سے کسی نے جھوٹ بولنے کا ارتکاب کیا ہے تو آپ اس سے مسلسل کنارہ کشی فرماتے رہتے جب تک کہ وہ اس جھوٹ سے توبہ ظاہر نہ کرے ۔ (مسند احمد ، مستدرک الحاکم ، عن عائشۃ (رض))

18382

18382- كان إذا أتاه رجل فرأى في وجهه بشرا أخذه بيده. "ابن سعد عن عكرمة مرسلا".
18382 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کوئی شخص آتا اور آپ اس کو مسرور اور خوش دیکھتے تو اس کا ہاتھ تھام لیتے ۔ (ابن سعد عن عکرمہ مرسلا)

18383

18383- كان إذا بلغه عن الرجل الشيء لم يقل: ما بال فلان يقول، ولكن يقول: ما بال أقوام يقولون كذا وكذا. "د عن عائشة".
18383 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی شخص کی طرف سے کوئی ناگوار بات پہنچتی تو یوں نہ کہتے کہ فلاں شخص کو کیا ہوگیا کہ ایسا کہتا ہے۔ بلکہ یوں ارشاد فرماتے : لوگوں کا کیا حال ہوگیا ہے کہ ایسے ایسے کہتے ہیں۔ (ابوداؤد عن عائشۃ (رض))

18384

18384- كان إذا رضي شيئا سكت. "ابن مندة عن سهيل بن سعد الساعدي أخي سهل".
18384 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بات سے راضی ہوتے تو سکوت (فرمانے کے ساتھ اس کا اظہار) کرتے تھے ۔ (ابن مندۃ عن سھل بن سعد الساعدی اخی سھل)

18385

18385- كان مما يقول للخادم: ألك حاجة؟. "حم عن رجل".
18385 ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خادم سے (دل لگی کی باتوں میں) یہ بھی فرماتے تھے : کیا تم کو کسی چیز کی کوئی ضرورت ہے۔ (مسند احمد عن رجل)

18386

18386- كان إذا كره شيئا رئي ذلك في وجهه. "طس عن أنس".
18386 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے میں اس کا اثر دکھائی دیتا تھا ۔ (الاوسط للطبرانی عن انس (رض))

18387

18387- كان لا يأخذ بالقرف ولا يقبل قول أحد على أحد. "حل عن أنس".
18387 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہمت کی وجہ سے کسی س باز پرس نہ فرماتے تھے ۔ اور نہ کسی کا الزام کسی پر قبول فرماتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن انس (رض))

18388

18388- كان لا يدفع عنه الناس ولا يضربون عنه. "طب عن أنس".
18388 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے لوگوں کو دفع نہ فرماتے تھے اور نہ لوگ آپ کے پاس سے دوسروں کو ہٹاتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن انس (رض))

18389

18389- كان لا يواجه أحدا في وجهه بشيء يكرهه. "حم خد د ن عن أنس".
18389 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شخص سے ایسی صورت میں ملاقات نہ فرماتے تھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو ۔ (مسند احمد ، الادب المفرد للبخاری ، ابو داؤد ، نسائی عن انس (رض))

18390

18390- كان يحمل ماء زمزم. "ت ك عن عائشة"
18390 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمزم کا پانی منگواتے تھے ۔ (ترمذی مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18391

18391- كان إذا أتاه الأمر يسره قال: الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات وإذا أتاه الأمر يكرهه قال: الحمد لله على كل حال. "ابن السني في عمل يوم وليلة، ك عن عائشة".
18391 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی خوش کن معاملہ پیش آتا تو یہ دعا پڑھ ” الحمد للہ الذی بنعتہ تتم الصالحات ‘۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کی نعمت کی بدولت خوشیاں پوری ہوتی ہیں۔ اور جب کوئی ناگوار بات پیش آجاتی تو فرما ” الحمد للہ علی کل حال رحال میں اللہ کی تعریف ہے۔ (ابن السنی فی عمل یوم ولیلۃ ، مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18392

18392- كان إذا سر استنار وجهه كأنه قطعة قمر. "ق عن كعب بن مالك".
18392 ۔۔۔ جب رسول اکرم کو کوئی خوشی پہنچتی تو آپ کا چہرہ چمک اٹھتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ (بخاری ، مسلم عن کعب بن مالک (رض))

18393

18393- كان إذا جاءه أمر يسره خر ساجدا شكرا لله. "د هـ ك عن أبي بكرة".
18393 ۔۔۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی خوشگوار بات پیش آتی تو اللہ کے شکر میں سجدہ ریز ہوجاتے ۔ (ابو داؤد ، ابن ماجۃ مستدرک الحاکم عن ابی بکرۃ (رض))

18394

18394- كان إذا رأى ما يحب قال: الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات، وإذا رأى ما يكره قال: الحمد لله على كل حال [رب أعوذ بك من حال أهل النار] . "هـ عن عائشة".
18394 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پسندیدہ بات پیش آتی تو یہ دعا پڑھ ” الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ور جب کوئی ناگوار بات پیش آتی تو فرما ” الحمد للہ علی کل حال (رب اعوذبک من حال اھل النار) تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں (اے رب میں اہل جہنم کے حال سے تیری پناہ مانگتا ہوں) ۔ (ابن ماجۃ عن عائشۃ (رض)) کلام : ۔۔۔ روایت کا آخری ٹکڑا الگ حدیث ہے جو عن ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے اور اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہے۔

18395

18395- كان إذا جرى به الضحك وضع يده على فيه. "البغوي عن والد مرة".
18395 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسی آتی تو منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے ۔ (البغوی عن والدمرۃ)

18396

18396- كان لا ينبعث في الضحك. "طب عن جابر بن سمرة".
18396 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسی کی آواز کو بلند نہیں ہونے دیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن جابر بن سمرۃ (رض))

18397

18397- كان طويل الصمت قليل الضحك. "حم عن جابر بن سمرة".
18397 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طویل سکوت اور قلیل ہنسی والے تھے ۔ (مسند احمد عن جابر بن سمرۃ (رض))

18398

18398- كان فيه دعابة قليلة. "خط وابن عساكر عن ابن عباس".
18398 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہنسی مذاق بہت کم تھا ۔ (التاریخ للخطیب ، ابن عساکر عن ابن عباس (رض))

18399

18399- كان من أضحك الناس وأطيبهم نفسا. "طب عن أبي أمامة".
18399 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے زیادہ ہنس مکھ انسان تھے اور سب سے زیادہ اچھے دل کے مالک تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ)

18400

18400- كان من أفكه الناس. "ابن عساكر عن أنس".
18400 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ خوش طبع انسان تھے ۔ (ابن عساکر عن انس (رض))

18401

18401- كان لا يحدث حديثا إلا تبسم. "حم - عن أبي الدرداء".
18401 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کوئی بات کرتے تو مسکراتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابی الدرداء (رض))

18402

18402- كان لا يضحك إلا تبسما. "حم ت ك عن جابر بن سمرة".
18402 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراہٹ کی حد تک ہنستے تھے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن جابر بن سمرۃ (رض))

18403

18403- كان يلاعب زينب بنت أم سلمة ويقول: يا زوينب يا زوينب مرارا. "الضياء عن أنس".
18403 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام سلمہ (رض) کی بچی زینب کے ساتھ کھیلتے اور اس کو محبت کے ساتھ یا زوینب یا زوینب بار بار فرماتے تھے ۔ (الضیاء عن انس (رض))

18404

18404- كان إذا غضب وهو قائم جلس، وإذا غضب وهو جالس اضطجع، فيذهب غضبه. "ابن أبي الدنيا في ذم الغضب عن أبي هريرة".
18404 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب استادہ (کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آجاتا تو بیٹھ جاتے ۔ اور اگر بیٹھنے کی صورت میں غصہ آجاتا تو کروٹ کے بل لیٹ جاتے اور اس طرح غصہ فرو ہوجاتا ۔ (ابن ابی الدنیا فی ذم الغضب عن ابوہریرہ (رض))

18405

18405- كان إذا غضب لم يجترئ عليه أحد إلا علي. "حل ك عن أم سلمة".
18405 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ ہوتے تو کوئی آپ پر جرات نہ کرسکتا تھا سوائے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے ۔ (حلیۃ الاولیاء ، مستدرک الحاکم عن ام سلمۃ (رض))

18406

18406- كان إذا غضب احمرت وجنتاه. "طب عن ابن مسعود عن أم سلمة".
18406 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ ہوتے تو آپ کے رخسار سرخ ہوجاتے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن مسعود (رض) ، عن ام سلمۃ (رض))

18407

18407- كان يقول لأحدهم عند المعاتبة: ماله ترب جبينه. "حم خ عن أنس".
18407 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو سرزنش کے وقت کہتے تھے ، کیا ہوگیا اس کو ، اس کا سر خاک آلود ہو۔ (مسند احمد ، بخاری عن انس (رض))

18408

18408- كان شديد البطش. "ابن سعد عن محمد بن علي مرسلا".
18408 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت پکڑ والے انسان تھے۔ (ابن سعد عن محمد بن علی مرسلا)

18409

18409- كان إذا غضبت عائشة عرك بأنفها وقال: يا عويش قولي: اللهم رب محمد اغفر لي ذنبي، وأذهب غيظ قلبي، وأجرني من مضلات الفتن. "ابن السني عن عائشة".
18409 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) جب غصہ ہوجاتیں تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ٹھنڈا فرماتے اور ارشاد فرماتے : اے عویش (پیار کی وجہ سے عائشہ نام کی تصغیر) یوں کہہ ” اللہم رب محمد اغفرلی ذنبی واذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتنے اللہ ! اے محمد کے پروردگار ! میرے گناہ بخش دے اور میرے دل کا غصہ فرو کردے اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے پناہ دیدے ۔ (ابن السنی عن عائشۃ (رض))

18410

18410- كان رحيما، وكان لا يأتيه أحد إلا وعده وأنجز له إن كان عنده. "خد عن أنس".
18410 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت مہربان تھے اور جب بھی آپ کے پاس کوئی (حاجت مند) آتا تو ضرور اس کو (کچھ عنایت فرماتے ، نہ ہوتا تو اس کو ) وعدہ دیتے اور اس کو پورا کرتے جب آپ کے پاس کچھ ہوتا ۔ (الادب المفرد للبخاری عن انس (رض))

18411

18411- كان لا يمنع شيئا يسأله. "حم عن أبي أسيد الساعدي".
18411 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو اس کا انکار نہ فرماتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابی اسید الساعدی)

18412

18412- كان لا يدخر شيئا لغد. "ت عن أنس".
18412 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کل کے لیے کوئی چیز اٹھا نہ رکھتے تھے ۔ (ترمذی عن انس (رض)) کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) نے اس روایت کو کتاب الزہد ما جاء فی معیشۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رقم 2362 پر تخریج فرمایا اور اس کو غریب (ضعیف) ہونے کا حکم لگا دیا ۔

18413

18413- كان لا يسأل شيئا إلا أعطاه أو سكت. "ك عن أنس".
18413 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو اس کو ضرور عطا کرتے یا خاموش ہوجاتے ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18414

18414- كان لا يجد من الدقل ما يملأ بطنه. "طب عن النعمان بن بشير".
18414 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بسا اوقات اس قدر ردی کھجوریں بھی میسر نہ ہوتی تھیں جو شکم پری کردیں۔ (الکبیر للطبرانی ، عن النعمان بن بشیر)

18415

18415- كان يشد صلبه بالحجر من الغرث "ابن سعد عن أبي هريرة".
18415 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت آجاتی تھی ۔ (ابن سعد عن ابوہریرہ (رض))

18416

18416- كان يبيت الليالي المتتابعة طاويا وأهله لا يجدون عشاء وكان أكثر خبزهم خبز الشعير. "حم ت هـ عن ابن عباس".
18416 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل کئی کئی راتیں پیٹ لپیٹ کر (بھوک میں) کاٹتے تھے ۔ اور آپ کے اہل خانہ رات کو کچھ بھی کھانے کے لیے نہ پاتے تھے اور ان حضرات کی روٹی زیادہ تر جو کی ہوتی تھی (اور وہ بھی اکثر میسر نہ ہوتی تھی) (مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجۃ عن ابن عباس (رض))

18417

18417- كان إذا خرج من بيته قال: بسم الله لا حول ولا قوة إلا بالله التكلان على الله. "هـ ك وابن السني عن أبي هريرة".
18417 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم (رض) گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھ ” بسم اللہ لا حوال ولا قوۃ الا باللہ التکلان علی اللہ “ اللہ کے نام سے ابدی سے بچنے کی ، نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ کی مدد کے ساتھ ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ (ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم ، ابن السنی عن ابوہریرہ (رض)) کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت میں عبداللہ بن حسین ایک روای ہے جس کو امام بخاری (رح) اور امام ابن حبان (رح) نے ضعیف قرار دیا ہے۔

18418

18418- كان إذا خرج من بيته قال: بسم الله توكلت على الله، اللهم إنا نعوذ بك من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا. "ت وابن السني عن أم سلمة".
18418 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر سے نکلتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے : ” بسم اللہ توکلت علی اللہ ، اللہم انا نعوذبک من ان نزل اونضل اونظلم او نجھل او یجھل علینا للہ کے نام سے ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ، اے اللہ ہم تیری پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ (سیدھی راہ سے) پھسل جائیں یا گمراہ ہوجائیں یا کسی پر ظلم کریں یا ہم خود ظلم کرنے والے بن جائیں یا ہم جہالت کا ارتکاب کریں یا ہمارے ساتھ کوئی جہالت کا برتاؤ کرے ۔ (ترمذی ، ابن السنی عن ام سلمۃ (رض))

18419

18419- كان إذا خرج من بيته قال: بسم الله، رب أعوذ بك من أن أزل أو أضل أو أظلم أو أظلم، أو أجهل أو يجهل علي. "حم ن ه ك عن أم سلمة. زاد ابن عساكر: أو أن أبغي أو أن يبغى علي".
18419 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے گھر سے نکلتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے : ” بسم اللہ ، رب اعوذبک من ان ازل اواضل اؤ اظلم ، او اظلم ، اواجھل اویجھل علی) (مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجۃ ، مستدرک الحاکم ، عن ام سلمۃ (رض)) ابن عساکر نے یہ اضافہ کیا ہے : او ان ابغی او ان یبغی علی ۔ یا میں کسی پر زیادتی کروں یا مجھ پر زیادتی کی جائے ۔

18420

18420- كان إذا خرج من بيته قال: بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله، اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أضل أو أزل أو أزل أو أظلم أو اظلم أو أجهل أو يجهل علي أو أبغي أو يبغى علي. "طب عن بريدة".
18420 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھ ” بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حوال ولا قوۃ الا باللہ ، اللہ انی اعوذبک ان اضل اواضل او ازل او ازل اواظلم اواظلم اواجھل اویجھل علی اوابغی اویبغی علی ، (الکبیر للطبرانی ، عن بریدۃ (رض))

18421

18421- كان إذا مشى لم يلتفت. "ك عن جابر".
18421 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب راہ چلتے تو ادھر ادھر متوجہ نہ ہوتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن جابر (رض))

18422

18422- كان إذا مشى مشى أصحابه أمامه، وتركوا ظهره للملائكة. "هـ ك عن جابر".
18422 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے تو آپ کے اصحاب آپ سے آگے چلتے تھے۔ اور (آپ کے پیچھے چلنے کیلئے فرشتوں کا راستہ چھوڑ دیتے تھے ۔ (ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم عن جابر (رض))

18423

18423- كان إذا مشى أسرع حتى يهرول الرجل وراءه ولا يدركه. "ابن سعد عن بريدة بن مرثد، مرسلا".
18423 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چلتے تو تیزی کے ساتھ چلتے تھے حتی کہ آپ کے پیچھے سے کوئی شخص دوڑنے کی سی ہئیت میں چل کر بھی آپ کو نہ پاسکتا تھا ۔ (ابن سعد عن بریدۃ بن مرثد مرسلا)

18424

18424- كان إذا مشى أقلع. "طب عن أبي عتبة".
18424 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چلتے تو قدم کو قوت سے اکھاڑتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی عتبۃ)

18425

18425- كان إذا مشى كأنه يتوكأ. "د ك عن أنس".
18425 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چلتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا گویا اوپر سے نیچے اتر رہے ہیں۔ (ابو داؤد ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18426

18426- كان لا يلتفت وراءه إذا مشى، وكان ربما تعلق رداءه بالشجرة فلا يلتفت حتى يرفعوه عليه. "ابن سعد والحكيم وابن عساكر عن جابر".
18426 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے ہوئے اپنے پیچھے متوجہ نہ ہوتے تھے ، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ کی چادر کسی درخت میں اٹک جاتی پھر بھی آپ اس طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ آپ کے اصحاب چادر درخت سے چھڑاتے تھے ۔ (ابن سعد ، الحکیم ، ابن عساکر عن جابر (رض))

18427

18427- كان يمشي مشيا يعرف فيه أنه ليس بعاجز ولا كسلان. "ابن عساكر عن ابن عباس".
18427 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی چال کے ساتھ چلتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا آپ نہ عاجز ہیں اور نہ سست رو ۔ (ابن عساکر عن ابن عباس (رض))

18428

18428- كان يكره أن يطأ أحد عقبه ولكن يمين وشمال. "ك عن ابن عمر".
18428 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی آپ کے پیچھے چلے بلکہ دائیں یا بائیں (کسی کا چلنا گوارا) فرما لیتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18429

18429- كان يلبس النعال السبتية ويصفر لحيته بالورس والزعفران. "ق د عن ابن عمر".
18429 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دباغت شدہ اور رنگی ہوئی بغیر بالوں والی کھال کے جوتے پہن لیتے تھے اور اپنی ریش مبارک کو ورس (تل کی مانند گھاس جس سے رنگائی کی جاتی ہے) کے اور زعفران کے ساتھ رزد رنگ لیتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد عن ابن عمرو (رض))

18430

18430- كان يكره أن يطلع من نعليه شيء عن قدميه. "حم في الزهد عن زياد بن سعد مرسلا".
18430 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات ناپسند تھی کہ جوتوں میں سے کہیں سے بھی پاؤں کا کچھ حصہ نظر آئے ۔ (الزھد للامام احمد عن زیاد بن سعد مرسلا)

18431

18431- كان لنعله قبالان. "ت عن أنس"
18431 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتوں کے اوپر دوپٹے ہوتے تھے (جو ایک دوسرے کو کر اس کرتے تھے) ۔ (ترمذی ، عن انس (رض))

18432

18432- كان في كلامه ترتيل أو ترسيل. "د عن جابر".
18432 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو ٹھہر ٹھہر کر اور نرمی کے ساتھ ہوتی تھی ۔ (ابو داؤد عن جابر (رض))

18433

18433- كان كلامه كلاما فصلا يفهمه كل من سمعه. "د عن عائشة".
18433 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ایسا صاف ستھرا ہوتا تھا کہ ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا ۔ (ابوداؤد عن عائشۃ (رض))

18434

18434- كان إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا حتى تفهم عنه، وإذا أتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا. "حم خ ت عن أنس".
18434 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی بات ارشاد فرماتے تو تین مرتبہ اس کو دہراتے تھے حتی کہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جاتا ۔ اور جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قوم کے پاس آتے تو تین مرتبہ ان کو سلام کرتے تھے ۔ (مسند احمد ، بخاری ، ترمذی عن انس (رض))

18435

18435- كان إذا قال الشيء ثلاث مرات لم يراجع. "الشيرازي عن أبي حدرد".
18435 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی بات کو تین مرتبہ ارشاد فرما لیتے تو کسی کو دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ رہتی تھی ۔ (الشیرازی عن ابی حدرد)

18436

18436- كان يعيد الكلمة ثلاثا لتعقل عنه. "ت ك عن أنس".
18436 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات کو تین مرتبہ دہراتے تھے تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے ۔ (ترمذی ، مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18437

18437- كان لا يراجع بعد ثلاث. "ابن قانع عن زياد بن سعد".
18437 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین بار کلام کو دہرا لیتے تو پھر اس کو کوئی نہ پوچھتا تھا ۔ (ابن قانع عن زیاد بن سعد)

18438

18438- كان يحدث حديثا لو عده العاد لأحصاه. "ق د عن عائشة".
18438 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح بات چیت فرماتے کہ اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہتا تو شمار کرلیتا تھا ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18439

18439- كان لا يكاد يسأل شيئا إلا فعله. "طب عن طلحة".
18439 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بھی کسی شی کے بارے میں سوال کیا جاتا آپ اس کو ضرور انجام دیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن طلحۃ (رض))

18440

18440- كان لا يكاد يقول لشيء: لا، فإذا هو سئل فأراد أن يفعل قال: نعم، وإذا لم يرد أن يفعل سكت. "ابن سعد عن محمد ابن الحنفية، مرسلا".
18440 ۔۔۔ ایسا نہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کے متعلق اس کو ممتاز فرما دیں ، چنانچہ جب آپ سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتا اور آپ کا رادہ کرنے (اور دینے) کا ہوتا تو ہاں (نعم) فرما دیتے ، اور اگر ارادہ نہ ہوتا تو خاموش ہوجاتے ۔ (ابن سعد عن محمد بن الحنفیۃ مرسلا)

18441

18441- كان يكره المسائل ويعيبها فإذا سأله أبو رزين أجابه وأعجبه. "طب عن أبي رزين".
18441 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ سوالات کو ناپسند کرتے تھے اور ان کو معیوب بتاتے تھے ۔ لیکن جب ابو رزین سوال کر ہی بیٹھتا تو اس کو اچھی طرح قبول کرتے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی رزین)

18442

18442- كان يكره أن يرى الرجل جهيرا رفيع الصوت، وكان يحب أن يراه خفيض الصوت. "طب عن أبي أمامة".
18442 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کسی شخص کو تیز آواز میں بولتا سنتے بلکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند تھی کہ پست آواز میں بات کی جائے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابی امامۃ)

18443

18443- كان آخر ما تكلم به أن قال: قاتل الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد، لا يبقين دينان بأرض العرب. "هق عن أبي عبيدة بن الجراح".
18443 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری گفتگوؤں میں سے یہ بات بھی تھی : اللہ لعنت کرے یہودونصاری پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا ، سرزمین عرب میں دو دین کبھی باقی نہ رہیں گے ۔ (السنن للبیھقی عن ابی عبیدۃ ابن الجراح)

18444

18444- كان آخر كلامه: الصلاة الصلاة اتقوا الله فيما ملكت أيمانكم. "د هـ عن علي".
18444 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری کلام یہ تھا : نماز ! نماز اور اللہ سے اپنے غلام باندیوں کے بارے میں ڈرو۔ (ابو داؤد ، ابن ماجۃ عن علی (رض))

18445

18445- كان آخر ما تكلم به جلال ربي الرفيع قد بلغت، ثم قضى. "ك عن أنس".
18445 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری کلاموں میں سے یہ بھی تھا : میرا پروردگار بزرگی والا بلند رتبہ والا ہے میں نے پیغام رسالت پہنچا دیا ۔ اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کر گئے ۔ (مستدرک الحاکم عن انس (رض))

18446

18446- كان إذا اجتهد في اليمين قال: لا والذي نفس أبي القاسم بيده. "حم عن أبي سعيد".
18446 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قسم میں انتہائی تاکید فرماتے تو یوں فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے۔ (مسند احمد عن ابی سعید)

18447

18447- كان إذا حلف على يمين لا يحنث حتى نزلت كفارة اليمين. "ك عن عائشة".
18447 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قسم اٹھالیتے تھے تو اس کو توڑتے نہ تھے حتی کہ کفارہ قسم نازل ہوگیا ۔ (پھر قسم توڑتے تو اس کا کفارہ ادا فرما دیتے) ۔ (مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18448

18448- كان إذا حلف قال: والذي نفس محمد بيده. "هـ عن رفاعة الجهني".
18448 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (تاکیدا) قسم اٹھاتے تو یوں فرماتے : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ (ابن ماجہ عن رفاعۃ الجھنی) کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

18449

18449- كان أكثر أيمانه: لا ومصرف القلوب. "هـ عن ابن عمر".
18449 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکثر قسموں میں سے یہ قسم ہوتی تھی : ” لا ومصرف القلوب : ” ہرگز نہیں ، قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی ! (ابن ماجۃ عن ابن عمرو (رض))

18450

18450- كان إذا استراث الخبر تمثل ببيت طرفة "ويأتيك بالأخبار من لم تزود". "حم عن عائشة".
18450 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی خبر کا انتظار ہوتا اور وہ دیر ہوجاتی تو طرفہ شاعر کا یہ بیت پڑھ ” ویاتیک بالاخبار من لم تزود ور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لے کر آئے گا جو توشہ کا محتاج نہیں ۔ (مسند احمد عن عائشۃ (رض))

18451

18451- كان يتمثل بالشعر "ويأتيك بالأخبار من لم تزود". "طب عن ابن عباس ت عن عائشة".
18451 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شعر کے ساتھ مثال دیتے تھے : ” ویاتیک بالاخبار من لم تزود : (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض) ، ترمذی عن عائشۃ (رض))

18452

18452- كان يتمثل بهذا البيت "كفى بالإسلام والشيب للمرء ناهيا". "ابن سعد4 عن الحسن مرسلا".
18452 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شعر کے ساتھ بھی تشبیہ دیتے تھے : ” کفی بالاسلام والشیب للمرء ناھی آدمی کو منکرات سے باز رکھنے کے لیے اسلام اور بڑھاپا بہت ہے۔ ابن سعد عن الحسن مرسلا “۔

18453

18453- كان إذا أراد أن يتحف الرجل بتحفة سقاه من ماء زمزم. "حل عن ابن عباس".
18453 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو (خوش کرنے کے لئے) کوئی تحفہ پیش کرنا چاہتے تو اس کو زمزم کا پانی پلاتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن ابن عباس (رض))

18454

18454- كان إذا أشفق من الحاجة ينساها ربط في خنصره أو في خاتمه الخيط. "ابن سعد والحكيم عن ابن عمر".
18454 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ضرورت پیش آتی اور اس کو بھولنے کا ڈر ہوتا تو اپنی چھنگلیاں میں یا اپنی انگوٹھی میں کوئی دھاگہ باندھ لیتے تھے ۔ (ابن سعد ، الحکیم عن ابن عمرو (رض))

18455

18455- كان إذا انتسب لم يجاوز في نسبته معد بن عدنان بن أدد ثم يمسك ويقول: كذب النسابون قال الله تعالى: {وقرونا بين ذلك كثيرا} . "ابن سعد عن ابن عباس".
18455 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کا نسب بیان کرتے تو اس کی نسبت میں معد بن عدنان بن ادد سے تجاوز نہ کرتے تھے اور فرماتے تھے : سب بیان کرنے والوں نے جھوٹ باندھے ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت)” وقرونا بین ذلک کثیرا ور اس کے درمیان بہت سے زمانے (والے) گزرے ہیں۔ (ابن سعد عن ابن عباس (رض))

18456

18456- كان إذا دخل السوق قال: اللهم إني أسألك من خير هذه السوق وخير ما فيها وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها، اللهم إني أعوذ بك أن أصيب فيها يمينا فاجرة، أو صفقة خاسرة. "طب ك عن بريدة".
18456 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بازار میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : ” اللہم انی اسالک من خیر ھذہ السوق وخیر ما فیھا واعوذبک من شرھا وشرما فیھا ، اللہم انی اعوذبک ان اصیب فیھا یمینا فاجرۃ اوصفقۃ خاسرۃ ے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس بازار کی خیر کا اور جو کچھ اس بازار میں ہے سب کی خیر کا اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے سب کے شر سے اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ بازار میں کسی جھوٹی قسم یا گھاٹے کے سودے کا ارتکاب کر بیٹھوں ، (الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن بریدۃ (رض)) کلام : ۔۔۔ امام حاکم نے مستدرک میں 1 ۔ 539 پر اس کو تخریج فرمایا اور امام ذہبی (رح) نے اس پر یہ تعلیق فرمائی ہے کہ اس روایت میں مسروق بن المرزبان ہے جو حجت نہیں ہے۔

18457

18457- كان إذا رأى سهيلا قال: لعن الله سهيلا فإنه كان عشارا فمسخ. "ابن السني عن علي".
18457 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سہیل کو دیکھتے تو فرماتے : اللہ پاک سہیل پر لعنت کرے وہ عشر وصول کرنے والا تھا جس کی وجہ سے مسخ ہوگیا ۔ (ابن السنی عن علی (رض))

18458

18458- كان إذا قام اتكأ على إحدى يديه. "طب عن وائل بن حجر".
18458 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھڑے ہوتے تو اپنے ایک ہاتھ کے سہارے کھڑے ہوتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن وائل بن حجر)

18459

18459- كان يضرب في الخمر بالنعال والجريد. "هـ عن أنس".
18459 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شراب پینے کی سزا میں جوتے اور چھڑی کے ساتھ مارتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن انس (رض))

18460

18460- كان يعجبه النظر إلى الأترج، وكان يعجبه النظر إلى الحمام الأحمر. "د، طب وابن السني وأبو نعيم في الطب عن أبي كبشة؛ ابن السني وأبو نعيم عن علي؛ وأبو نعيم عن عائشة".
18460 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اترج پھل کو دیکھنا اچھا لگتا تھا اور سرخ کبوتر کر دیکھنا بھی اچھا لگتا تھا ۔ (ابوداؤد ، الکبیر للطبرانی ، ابن السنی ، ابو نعیم فی الطب عن ابی کبشہ ، ابن السنی وابو نعیم عن علی (رض) ، ابو نعیم عن عائشۃ (رض))

18461

18461- كان يعجبه النظر إلى الخضرة والماء الجاري. "ابن السني وأبو نعيم عن ابن عباس".
18461 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سبزہ اور جاری پانی کی طرف دیکھنا پسند تھا ۔ ابن السنی وابو نعیم عن ابن عباس (رض))

18462

18462- كان يعجبه العراجين أن يمسكها بيده. "ك عن أبي سعيد".
18462 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھجور کی خشک ٹہنی کا ہاتھ میں لینا پسند تھا ۔ (مستدرک الحاکم عن ابی سعید)

18463

18463- كان يحب العراجين ولا يزال في يده منها. "حم د عن أبي سعيد".
18463 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھجور کی شاخ پسند تھی اور اس کا کچھ ٹکڑا آپ کے ہاتھ میں رہتا تھا ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد عن ابی سعید (رض))

18464

18464- كان إذا أنزل عليه الوحي نكس رأسه ونكس أصحابه رؤوسهم فإذا أقلع عنه رفع رأسه. "م عن عبادة بن الصامت"
18464 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تھی تو اپنا سر مبارک جھکا لیتے اور آپ کے اصحاب بھی سر جھکا لیتے تھے ، جب وحی ختم ہوجاتی تو سر اٹھالیتے تھے ۔ (مسلم عن عبادۃ الصامت)

18465

18465- كان إذا أنزل عليه الوحي أثر عليه كرب لذلك وتربد وجهه. "حم م عنه".
18465 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تھی تو اس کی شدت کے آثار آپ کے چہرے پر نظر آتے اور چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا ۔ (مسند احمد ، مسلم عن عبادۃ بن الصامت)

18466

18466- كان إذا أنزل عليه الوحي سمع عند وجهه كدوي النحل. "حم ت ك عن عمر".
18466 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے چہرے کے پاس شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض))

18467

18467- كان إذا أوحي إليه وقذ لذلك ساعة كهيئة السكران. "ابن سعد عن عكرمة مرسلا".
18467 ۔۔۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تھی تو ایک گھڑی تک آپ مدہوش رہتے تھے نشہ آور کی طرح ۔ (ابن سعد عن عکرمۃ مرسلا)

18468

18468- كان إذا جاءه جبريل فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم علم أنها سورة. "ك عن ابن عباس".
18468 ۔۔۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لاتے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوجاتا کہ نازل ہونے والی چیز کوئی سورت ہے۔ (مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض))

18469

18469- كان إذا نزل عليه الوحي ثقل لذلك وتحدر جبينه عرقا كأنه جمان وإن كان في البرد. "طب عن زيد بن ثابت".
18469 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ گراں بار ہوجاتے اور آپ کی پیشانی سے یوں پسینہ پھوٹتا تھا گویا موتی گر رہے ہیں خواہ سردی کا زمانہ ہو ۔ (الکبیر للطبرانی عن زید بن ثابت (رض))

18470

18470- كان إذا نزل عليه الوحي صدع فيغلف رأسه بالحناء. "ابن السني وأبو نعيم في الطب عن أبي هريرة".
18470 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کے سر میں درد ہوجاتا تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر پر مہندی کا لیپ کرتے تھے ۔ (ابن السنی وابو نعیم فی الطب عن ابوہریرہ (رض))

18471

18471- كان لا يعرف فصل السورة حتى تنزل عليه بسم الله الرحمن الرحيم. "د عن ابن عباس".
18471 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورت کا ختم اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل نہ ہوجاتی ۔ (ابوداؤد عن ابن عباس (رض))

18472

18472- كان يأخذ القرآن من جبريل خمسا خمسا. "هب عن عمر".
18472 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پانچ پانچ (آیات) قرآن کی سیکھتے تھے ۔ شعب الایمان عن ابن عمرو (رض))

18473

18473- كان إذا جلس احتبى بيديه. "د هق عن أبي سعيد".
18473 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھتے تو ہاتھوں کا حبوہ بنالیتے تھے ۔ (ابوداؤد السنن للبیھقی عن ابی سعید (رض)) فائدہ : ۔۔۔ اکڑوں بیٹھ کر دونوں ہاتھ ٹانگوں کے گرد ڈال کر ہاتھوں سے سہارے بیٹھنا حبوہ کہلاتا ہے ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کام کبھی ہاتھوں کے بجائے کپڑے رومال وغیرہ سے بھی لے لیتے تھے ۔

18474

18474- كان إذا جلس يتحدث يكثر أن يرفع طرفه إلى السماء. "د عن عبد الله بن سلام مرسلا".
18474 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی بیٹھ کر بات کرتے اکثر آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے ۔ (ابو داؤد عن عبداللہ بن سلام مرسلا)

18475

18475- كان إذا جلس يتحدث يخلع نعليه. "هب عن أنس".
18475 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی بیٹھ کر ارشاد فرماتے تو جوتے نکال دیتے ۔ (شعب الایمان للبیھقی عن ابن عمرو (رض))

18476

18476- كان إذا جلس جلس إليه أصحابه حلقا حلقا. "البزار عن قرة ابن إياس".
18476 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی نشست فرماتے تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین حلقہ بنا کر آپ کے پاس بیٹھ جاتے تھے ۔ (البزار عن قرۃ بن ایاس)

18477

18477- كان إذا جلس مجلسا فأراد أن يقوم استغفر الله عشرا إلى خمس عشرة. "ابن السني عن أبي أمامة".
18477 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مجلس فرماتے اور پھر اٹھنا چاہتے تو دس پندرہ بار اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ۔ (یعنی استغفار کرتے) اور پھر اٹھ جاتے ۔ (ابن السنی عن ابی امامۃ (رض))

18478

18478- كان إذا قام من المجلس استغفر الله عشرين مرة فأعلن. "ابن السني عن عبد الله الحضرمي".
18478 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مجلس سے کھڑے ہوتے تو بیس مرتبہ استغفار کرتے اور قدرے بلند آواز سے کرتے ۔ (ابن السنی عن عبداللہ بن حضرمی)

18479

18479- كان لا يقوم من مجلس إلا قال سبحانك اللهم ربي وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك وقال: لا يقولهن أحد حيث يقوم من مجلسه إلا غفر له ما كان منه في ذلك المجلس. "ك عن عائشة".
18479 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی مجلس سے کھڑے ہوتے تو یہ کلمات پڑھ ” سبحانک اللہم ربی وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک “۔ پاک ہے تیری ذات اے اللہ ! میرے پروردگار ! اور تیرے لیے ہی سب تعریفیں ہیں ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور ان سے توبہ کرتا ہوں اور فرماتے جو شخص بھی مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ کلمات کہے تو اس کی مجلس کی تمام خطائیں اور فضول باتیں معاف کردی جائیں گی ۔ (مستدرک الحاکم عن عائشۃ (رض))

18480

18480- كان لا يقعد في بيت مظلم حتى يضاء له بالسراج. "ابن سعد عن عائشة".
18480 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی تاریک گھر میں تشریف نہ فرماتے تھے جب تک چراغ نہ جلا دیا جائے ۔ (ابن سعد عن عائشۃ (رض))

18481

18481- كان يجلس القرفصاء. "طب عن إياس بن ثعلبة".
18481 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکڑوں بیٹھ کر ٹانگوں کے گرد ہاتھوں کو باندھ لیا کرتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ایاس بن معاویۃ)

18482

18482- كان يجلس على الأرض، ويأكل على الأرض، ويعتقل الشاة، ويجيب دعوة المملوك على خبز الشعير. "طب عن ابن عباس". "أخلاق تتعلق بحقوق الصحبة"
18482 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور زمین پر کھانا کھالیتے تھے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور جو کی روٹی پر دعوت دینے والے غلام کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

18483

18483- كان إذا فقد الرجل من إخوانه ثلاثة أيام سأل عنه، فإن كان غائبا دعا له، وإن كان شاهدا زاره، وإن كان مريضا عاده. "ع عن أنس".
18483 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے (مسلمان) بھائیوں میں سے کسی کو تین ایام تک مفقود (غیرحاضر) پاتے تو اس کے متعلق سوال کرتے تھے پھر اگر غائب ہوتا تو اس کے لیے دعا کرتے اور کہیں حاضر ہوتا تو جا کر اس کی زیارت فرماتے اور اگر مریض ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی عن انس (رض))

18484

18484- كان إذا دخل على مريض يعوده قال: لا بأس طهور إن شاء الله. "خ عن ابن عباس"
18484 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مریض کے پاس عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو اس کو فرما ” لاباس طھور ان شاء اللہ “۔ کوئی ڈر کی بات نہیں ، ان شاء اللہ پاکی (و شفاء) نصیب ہوگی ۔ (بخاری عن ابن عباس (رض))

18485

18485- كان لا يعود مريضا إلا بعد ثلاث. "هـ عن أنس".
18485 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مریض کی عیادت تین دن کے بعد ہی فرماتے تھے ۔ (ابن ماجۃ عن انس (رض))

18486

18486- كان إذا لقيه أحد من أصحابه فقام معه قام معه فلم ينصرف حتى يكون الرجل هو الذي ينصرف عنه، وإذا لقيه أحد من أصحابه فتناول يده ناوله إياها فلم ينزع يده منه حتى يكون الرجل هو الذي ينزع يده عنه، وإذا لقيه أحد من أصحابه فتناول أذنه ناوله إياها ثم لم ينزعها عنه حتى يكون الرجل هو الذي ينزعها عنه. "ابن سعد عن أنس".
18486 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب کوئی صحابی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور پھر (ملاقات کے بعد) اٹھ کھڑا ہوتا تو آپ بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے اور اس وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ آدمی خود ہی نہ چلا جاتا ۔ اور جب کوئی صحابی ملاقات کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ تھامنا چاہتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیتے اور اس وقت تک نہ چھڑاتے تھے جب تک وہ خود ہی نہ چھوڑ دیتا تھا ۔ اور اگر کوئی آدمی ملاقات کے وقت آپ کا کان اپنی طرف کرلیتا تو آپ کان اس کی طرف کردیتے اور خود نہ چھڑاتے تھے جب تک وہ خود ہی نہ چھوڑ دیتا تھا ۔ (اس طرح وہ راز ونیاز کی برکت حاصل کرتا تھا) ۔ (ابن سعد عن انس (رض))

18487

18487- كان إذا لقيه الرجل من أصحابه مسحه ودعا له. "ن عن حذيفة".
18487 ۔۔۔ جب کوئی شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرتا تو آپ شفقت کے ساتھ اس پر ہاتھ پھیرتے اور اس کو دعائے خیر کردیتے ۔ (نسائی عن حذیفۃ (رض))

18488

18488- كان يزور الأنصار ويسلم على صبيانهم، ويمسح على رؤوسهم. "ن هـ عن أنس".
18488 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کی زیارت کو جاتے اور ان کے بچوں کو سلام کرتے اور ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے ۔ (نسائی ، ابن ماجۃ عن انس (رض))

18489

18489- كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم ويحنكهم ويدعو لهم. "ق د عن عائشة".
18489 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بچوں کو لایا جاتا تو آپ ان کو اپنے پاس بٹھاتے اور ان کو کھانے کی کوئی موجود چیز کھجور وغیرہ چبا کردیتے اور ان کے لیے دعائے خیر فرماتے تھے ۔ (بخاری ، مسلم ، ابو داؤد عن عائشۃ (رض))

18490

18490- كان أرحم الناس بالصبيان والعيال. "ابن عساكر عن أنس".
18490 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں پر اور گھر والوں پر سب سے زیادہ رحم فرمانے والے تھے ۔ (ابن عساکر عن انس (رض))

18491

18491- كان يأتي ضعفاء المسلمين ويزورهم ويعود مرضاهم ويشهد جنائزهم. "ع طب ك عن سهل بن حنيف".
18491 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےسہارا کمزور مسلمانوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے ان کی زیارت کرتے ان کے مریضوں کی عیادت کرتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی ، الکبیر للطبرانی ، مستدرک الحاکم عن سھل بن حنیف)

18492

18492- كان يجل العباس إجلال الولد والده. "ك عن ابن عباس"
18492 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اپنے چچا) حضرت عباس (رض) کی یوں تعظیم فرمایا کرتے تھے جس طرح بیٹا باپ کی تعظیم کرتا ہے۔ (مستدرک الحاکم عن ابن عباس (رض)) کلام : ۔۔۔ صحیح وافقہ الذھبی ۔ 3 ۔ 325 ۔

18493

18493- كان يرى للعباس ما يرى الولد لوالده، يعظمه ويفخمه ويبر قسمه. "ك عن عمر"
18493 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عباس (رض) کو یوں دیکھتے تھے جس طرح بیٹا باپ کو دیکھتا ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کرتے اور آپ کی قسموں کو پورا کرتے تھے ۔ (مستدرک الحاکم عن ابن عمرو (رض)) کلام : ۔۔۔ المستدرک 3 ۔ 334 ۔ امام ذہبی (رح) فرماتے ہیں : یہ روایت جزء البانی اس میں غلو کے ساتھ ہے جبکہ حضرت انس (رض) کی حدیث سے اس کے مثل صحیح روایت منقول ہے اور داؤد راوی اس میں متروک ہے۔

18494

18494- كان يأمر بالهدية صلة بين الناس. "ابن عساكر عن أنس".
18494 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے درمیان صلہ رحمی کے لیے ہدیہ کا حکم دیتے تھے ۔ (ابن عساکر عن انس (رض))

18495

18495 - كان إذا أتى باب قوم لم يستقبل الباب من تلقاء وجهه ولكن من ركنه الأيمن أو الأيسر، ويقول: السلام عليكم السلام عليكم. "حم د عن عبد الله بن بسر".
18495 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کے گھر کے دروازے پر تشریف لاتے تو دروازے کے روبرو نہ کھڑے ہوتے تھے بلکہ چوکھٹ کے دائیں یا بائیں جانب رک جاتے اور (نکلنے والے کو) السلام علیکم السلام علیکم کہتے ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد عن عبداللہ بن یسر) کلام : ۔۔۔ ابوداؤد (رح) نے اس کو کتاب الادب باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستئذان 5164 پر تخریج فرمایا اور امام منذری (رح) فرماتے ہیں اس کی سند میں بقیہ بن الولید ایک روای ہے جس کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ (عون 14 ۔ 90)

18496

18496- كان يقرع بابه بالأظافير. "الحاكم في الكنى عن أنس".
18496 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے پر دستک ناخنوں کے ساتھ دیا کرتے تھے ۔ (الحاکم فی الکنی عن انس (رض))

18497

18497- كان يمر بالصبيان فيسلم عليهم. "خ عن أنس".
18497 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے تھے ۔ (بخاری عن انس (رض))

18498

18498- كان يمر بنساء فيسلم عليهن. "حم عن جرير".
18498 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو بھی سلام کرتے تھے ۔ (مسند احمد عن جریر (رض)) فائدہ : ۔۔۔ چونکہ وہ مسلمان عورتیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتی تھیں اور آپ سے پردہ بھی کرتی تھیں اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر سلامتی بھیجتے تھے ۔

18499

18499- كان إذا لقى أصحابه لم يصافحهم حتى يسلم عليهم. "طب عن جندب".
18499 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ ملاقات کرتے تو ان کے ساتھ مصافحہ اس وقت تک نہ کرتے تھے جب تک ان کو سلام نہ کرلیں ۔ (الکبیر للطبرانی عن جندب)

18500

18500- كان لا يصافح النساء في البيعة. "حم عن ابن عمرو".
18500 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیعت کرنے میں عورتوں کے ساتھ مصافحہ نہ کرتے تھے ۔ (مسند احمد عن ابن عمرو (رض))

18501

18501- كان يصافح النساء من تحت الثوب. "طس عن معقل بن يسار".
18501 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑے کے ساتھ عورتوں سے مصافحہ کرتے تھے ۔ (الاوسط عن معقل بن یسار) فائدہ : ۔۔۔ فداہ ابی وامی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی نامحرم عورت کو نہیں چھوا۔ اور اس روایت کا مطلب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پردہ کی آڑ میں ایک کپڑے کا سرا عورتیں پکڑ لیتی تھی اور دوسرا سرا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھام لیتے تھے یوں آپ عورتوں سے بیعت کرتے اور ان سے قول وقرار لیتے تھے ۔

18502

18502- كان إذ عطس حمد الله فيقال له: يرحمك الله فيقول: يهديكم الله ويصلح بالكم. "طب عن عبد الله بن جعفر".
18502: حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھینک آتی تو آپ اللہ کی حمد کرتے (اور الحمدللہ کہتے) آپ کو یرحمک اللہ کہا جاتا تو آپ یھدیکم اللہ و یصلح بالکم فرماتے۔ (الکبیر للطبرانی عن عبداللہ بن جعفر)

18503

18503- كان إذا عطس وضع يده أو ثوبه على فيه، وخفض بها صوته."د ت ك عن أبي هريرة".
18503 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھینک آتی تو ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے تھے ۔ اور آواز کو پست رکھتے تھے ۔ (ابو داؤد ، ترمذی ، حسن صحیح ، مستدرک الحاکم عن ابوہریرہ (رض))

18504

18504- كان يكره العطسة الشديدة في المسجد. "هق عن أبي هريرة".
18504 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تیز آواز کے ساتھ چھینکنے کو مکروہ سمجھتے تھے ۔ (السنن للبیھقی عن ابوہریرہ (رض))

18505

18505- كان إذا أتاه الرجل وله اسم لا يحبه حوله. "ابن منده عن عتبة بن عبد".
18505 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کوئی ایسا شخص حاضر ہوتا جس کا نام آپ کو پسند نہ ہوتا تو اس کا نام بدل دیتے تھے ۔ (ابن مندہ عن عتبۃ بن عبد)

18506

18506- كان إذا سمع بالاسم القبيح حوله إلى ما هو أحسن منه. "ابن سعد عن عروة مرسلا".
18506 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی برا نام سنتے تو اس کو اچھے نام سے بدل دیتے تھے ۔ (ابن سعد عن عروۃ مرسلا)

18507

18507- كان يعجبه أن يدعى الرجل بأحب أسمائه إليه وأحب كناه. "ع طب وابن قانع والباوردي عن حنظلة بن حذيم".
18507 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند تھی کہ آدمی کو اچھے نام اور اچھی کنیت کے ساتھ پکارا جائے ۔ (مسند ابی یعلی ، الکبیر للطبرانی ، ابن قانع ، الباوردی عن حنظلۃ بن حذیم)

18508

18508- كان يغير الاسم القبيح. "ت عن عائشة".
18508 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے نام کو بدل دیا کرتے تھے ۔ (ترمذی عن عائشۃ (رض))

18509

18509- كان إذا لم يحفظ اسم الرجل قال: يا ابن عبد الله. "ابن السني عن حارثة الأنصاري".
18509 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی کا نام یاد نہ رہتا تو اس کو یا ابن عبداللہ (اے بندہ خدا کے بیٹے ! ) کہہ کر پکارتے ۔ (ابن السنی عن حارثہ الانصاری)

18510

18510- كان إذا وضع الميت في لحده قال: بسم الله وبالله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله. "د ت هـ هق عن ابن عمر".
18510 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی میت کو لحد میں اتارتے تو یہ دعا پڑھتے : ” بسم اللہ وباللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ “۔ ہم اللہ کے نام سے اللہ کی مدد کے ساتھ ، اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ کی ملت پر اس کو قبر میں اتارتے ہیں۔ (ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، السنن للبیہقی عن ابن عمرو (رض))

18511

18511- كان إذا شهد الجنازة أكثر الصمات وأكثر حديث نفسه. "ابن المبارك وابن سعد عن عبد العزيز بن أبي رواد مرسلا".
18511 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جنازے میں حاضر ہوتے تو اکثر خاموش رہتے اور دل ہی دل میں کچھ پڑھتے رہتے ۔ (ابن المبارک ، ابن سعد عن عبدالعریز بن ابی داؤد مرسلا)

18512

18512- كان إذا شهد جنازة رئيت عليه كآبة وأكثر حديث نفسه. "طب عن ابن عباس".
18512 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی جنازے میں حاضر ہوتے تو آپ پر غم کی کیفیت طاری ہوتی اور اکثر پست آواز میں کچھ پڑھتے رہتے ۔ (الکبیر للطبرانی عن ابن عباس (رض))

18513

18513- كان إذا شيع جنازة علا كربه وأقل الكلام وأكثر حديث نفسه. "الحاكم في الكنى عن عمران بن حصين".
18513 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنازے کی مشایعت فرماتے تو آپ کا رنج وغم بڑھ جاتا کلام کم ہوجاتا اور دل ہی دل میں کثرت کے ساتھ (دعائیں) پڑھتے ۔ (الحاکم فی الکنی عن عمران بن حصین)

18514

18514- كان إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت، فإنه الآن يسأل. "د عن عثمان".
18514 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو اس پر کھڑے ہوجاتے اور ارشاد فرماتے : اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اللہ سے اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال جواب ہوں گے ۔ (ابوداؤد عن عثمان (رض))

18515

18515- كان إذا أتي بامرئ قد شهد بدرا والشجرة كبر عليه تسعا، وإذا أتي به قد شهد بدرا ولم يشهد الشجرة أو شهد الشجرة ولم يشهد بدرا كبر عليه سبعا، وإذا أتي به لم يشهد بدرا ولا الشجرة كبر عليه أربعا. "ابن عساكر عن جابر".
18515 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب ایسے شخص کو جنازہ لایا جاتا جس نے جنگ بدر اور (شجرہ) صلح حدیبیہ میں شرکت کی ہوتی تو اس پر نماز جنازہ پڑھتے ہوئے تو تکبیریں کہتے ، اور اگر ایسا جنازہ لایا جاتا جس نے جنگ بدر میں یا صلح حدیبیہ میں کسی بھی ایک معرکہ میں شرکت کی ہوتی تو اس پر نماز جنازہ پڑھتے ہوئے سات تکبیریں کہتے اور اگر ایسا کسی کا کوئی جنازہ لایا جاتا جس نے جنگ بدر یا صلح حدیبیہ میں بھی شرکت نہ کی ہوتی تو اس پر چار تکبیریں کہتے ۔ (ابن عساکر عن جابر (رض))

18516

18516- كان إذا مر بالمقابر قال: السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات والصالحين والصالحات، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون. "ابن السني عن أبي هريرة".
18516 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جب قبرستان پر سے گزر ہوتا تو اہل قبرستان کو مخاطب ہو کر یہ دعا پڑھتے : السلام علیکم اھل الدیار من المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات والصالحین والصالحات وانا ان شاء اللہ بکم لا حقون “۔

18517

18517- كان إذا دخل الجبانة يقول: السلام عليكم أيتها الأرواح الفانية، والأبدان البالية، والعظام النخرة، التي خرجت من الدنيا وهي بالله مؤمنة، اللهم أدخل عليهم روحا منك وسلاما منا. "ابن السني عن ابن مسعود".
اے (بوسیدہ) گھروں والو ! مؤمن مردو اور مؤمن عورتو ! مسلمان مردو اور مسلمان عورتو ! تم سب پر سلام ہو ۔ انشاء اللہ ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ ملنے والے ہیں۔ (ابن السنی عن ابوہریرہ (رض))

18518

18518- كان يخيط ثوبه، ويخصف نعله، ويعمل ما يعمل الرجال في بيوتهم. "حم عن عائشة".
18517 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قبرستان میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : ” السلام علیکم ایتھا الارواح الفانیۃ والابدان البالیۃ والعظام النخرۃ التی خرجت من الدنیا وھی باللہ مؤمنۃ اللہم ادخل علیھم روحا منک وسلاما منا “۔ اے فناء ہونے والی روحو ! بوسیدہ جسمو ! ریزہ ریزہ ہوجانے والی ہڈیو ! جو دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلے ہو تو سب پر سلام ہو۔ اے اللہ ! ان پر اپنی طرف سے رحمت اور ہماری طرف سے سلام نازل فرما ۔ (ابن السنی عن ابن مسعود (رض))

18519

18519- كان يرى بالليل في الظلمة كما يرى بالنهار في الضوء. "البيهقي في الدلائل عن ابن عباس، عد عن عائشة".
18518 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کپڑے سی لیا کرتے تھے ۔ اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے اور وہ تمام کام کرلیا کرتے تھے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ (مسند احمد عن عائشۃ (رض))

18520

18520- كان يعمل عمل البيت، وأكثر ما يعمل الخياطة. "ابن سعد عن عائشة".
18519 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی تاریکی میں اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح دن کے اجالے میں دیکھتے تھے ۔ (البیہقی فی الدلائل عن ابن عباس (رض) الکامل لابن عدی عن عائشۃ (رض))

18521

18521- كان يغسل ثوبه، ويحلب شاته، ويخدم نفسه. "حل عن عائشة".
18520 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر کے کام کرلیتے تھے اور اکثر سینے پرونے کا کام کرتے تھے ۔ (ابن سعد عن عائشۃ (رض))

18522

18522- كان يقبل بوجهه وحديثه على شر القوم يتألفه بذلك. "طب عن عمرو بن العاص".
18521 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کپڑے دھو لیتے تھے ، اپنی بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور اپنے کام خود انجام دے لیتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء عن عائشۃ (رض))

18523

18523- كان يمص اللسان. "الترفقي في جزئه عن عائشة". مر برقم [18348] .
18522 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بری اور شریر قوم کے ساتھ بھی ہنس مکھ اور خوش کلام ہو کر ملتے تھے تاکہ ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ (الکبیر للطبرانی عن عمرو بن العاص (رض))

18524

18524- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أبي هريرة قال: قدم راهب على قعود له فقال: دلوني على منزل أبي بكر الصديق، فدل عليه، فقال: صف لي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: لم يكن بالطويل ولا بالقصير ربعة، أبيض اللون، مشرب بحمرة، جعد ليس بالقطط شارع الأنف، واضح الجبين، صلت الخدين، مقرون الحاجبين، أدعج العينين، مفلج الثنايا كأن عنقه إبريق فضة، بين كتفيه خاتم النبوة، فقال الراهب: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله وحسن إسلامه. "الزوزني عب".
18523 ۔۔۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اپنی بیوی کی) زبان کو چوستے تھے ۔ (الترفقی فی جزء ہ عن عائشۃ (رض))

18525

18525- عن أبي بكر الصديق قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم واضح الخد. "كر".
18524 ۔۔۔ (مسند سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض)) ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے آپ (رض) فرماتے ہیں ، ایک راہب کچھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس آیا اور اس نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے گھر کا ٹھکانا پوچھا ، اس کو گھر کی رہنمائی کردی گئی ۔ راہب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا : مجھے نبی (کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیہ مبارک) بیان کرو ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ قامت ، آپ کی رنگت سرخی مائل گوری تھی ، آپ کے بال قدرے گھنگھریالے تھے ۔ ناک لمبی اور ستواں تھی ۔ پیشانی کشادہ اوفراخ تھی ، رخسار ہموار اور خوبصورت تھے ۔ ابروئیں ، باریک اور لمبی تھیں ۔ آنکھوں کی سفیدی سفید اور سیاہی انتہائی سیاہ تھی ، سامنے کے دانت قدرے کشادہ تھے ، آپ کی گردن مبارک گویا چاندی کی صراحی تھی ، دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حلیہ مبارک سن کر راہب (نے اسلام قبول کرلیا اور) بولا : ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ پھر وہ سابق راہب بہت اچھا مسلمان ثابت ہوا ۔ (الزوزنی ، عبدالرزاق)

18526

18526- عن أبي بكر الصديق قال: كان وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم كدارة القمر. "أبو نعيم في الدلائل".
18525 ۔۔۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہموار رخساروں والے (کتابی چہرے کے مالک) تھے ۔ ابن عساکر)

18527

18527- عن أم هانئ قالت: قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة وله أربع غدائر تعني ضفائر. "ش".
18526 ۔۔۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے ارشاد فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس کامل چمکتے چاند کی ٹکیہ تھا ۔ (ابو نعیم فی الدلائل)

18528

18528- عن قتادة عن مطرف عن عائشة قالت: أهدي للنبي صلى الله عليه وسلم شملة سوداء فلبسها وقال: كيف ترينها علي يا عائشة؟ قلت: ما أحسنها عليك يا رسول الله تشرب سوادها ببياضك وبياضك بسوادها قالت: فخرج فيها إلى الناس. "كر".
18527 ۔۔۔ ام ہانی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فتح مکہ کے موقع پر) مکہ تشریف لائے تو آپ کے بالوں کی چار مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18529

18529- عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لونه ليس بالأبيض الأمهق، وكان أزهر اللون. "ابن جرير".
18528 ۔۔۔ قتادہ عن مطرف عن عائشہ (رض) کی سند کے ساتھ مروی ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سیاہ عمامہ مبارک ہدیہ میں آیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ عمامہ پہنا اور پوچھا : اے عائشہ (رض) تم کو یہ مجھ پر کیسا لگ رہا ہے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے چہرے پر اس کا حسن کس قدر بڑھ گیا ہے۔ اس کی سیاہی آپ کے چہرہ انور کی سفیدی پر اور آپ کے چہرہ انور کی سفیدی اس کی سیاہی پر خوب خوب گھل رہی ہے ، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں مزین ہو کر لوگوں کے درمیان پہنچ گئے ۔ (ابن عساکر (رح))

18530

18530- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أشعر. "ش".
18529 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے ارشاد فرماتی ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اقدس بالکل (لٹھے کی طرح) سفید نہ تھا بلکہ آپ کا چہرہ خوبصورت چمکدار رنگت والا تھا ۔ (ابن جریر)

18531

18531- عن أبي هريرة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم شبح الذراعين، أهدب أشفار العينين، بعيد ما بين المنكبين، يقبل جميعا، ويدبر جميعا لم يكن فاحشا ولا متفحشا، ولا سخابا في الأسواق. "ط، حم ق في الدلائل".
18530 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں آپ خوبصورت بالوں والے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18532

18532- عن أبي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ضخم الكفين ضخم القدمين حسن الوجه لم أر بعده مثله ما مشى مع أحد إلا طاله. "كر".
18531 ۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوبصورت چوڑی اور دراز کلائیوں والے ، لمبی پلکوں والے اور چوڑے کاندھے والے تھے ، پورے سراپا کے ساتھ متوجہ ہوتے تھے اور پورے سراپا کے ساتھ مڑ جاتے تھے ۔ لغو اور بےکار باتوں سے کوسوں دور رہنے والے اور بازاروں میں شور وشغب سے اجتناب فرمانے والے تھے ۔ (ابو داؤد الطیالسی ، مسند احمد ، البیہقی فی الدلائل)

18533

18533- عن أبي هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أصحابه متكئا، فجاء رجل من أهل البادية فقال: أيكم ابن عبد المطلب، فقالوا: هذا الأمغر المرتفق فدنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض مشربا بحمرة. "كر".
18532 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گوشت ہتھیلیوں اور پر گوشت قدموں والے حسین و جمیل چہرے کے مالک تھے ، آپ کے بعد میں نے کوئی ایسا حسین و جمیل انسان نہیں دیکھا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (میانہ قدوقامت کے باوجود) جب بھی کسی کے ساتھ چلتے تو اس سے لمبے معلوم ہوتے تھے ۔ (ابن عساکر)

18534

18534- عن أبي قرصافة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم حسن الجسم ولم يكن بالفارغ الجسم، وكان جعد الشعر، مفروش القدم، يعني مستوية. "كر".
18533 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے درمیان تکیہ لگائے ہوئے رونق افروز تھے کہ ایک دیہاتی شخص آپ کی مجلس میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا تم میں سے عبدالمطلب کی اولاد کون ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا : یہ سفید وسرخ رنگت والے جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ اور واقعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص سفید مائل بہ سرخی رنگت والے تھے ۔ (ابن عساکر)

18535

18535- عن هند أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان فخما مفخما يتلألأ وجهه تلألأ القمر ليلة البدر، أطول من المربوع وأقصر من المشذب، عظيم الهامة، رجل الشعر إن انفرقت عقيقته فرق وإلا فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه إذا هو وفره، أزهر اللون، واسع الجبين، أزج الحواجب سوابغ في غير قرن بينهما عرق يدره الغضب، أقنى العرنين له نور يعلوه يحسبه من لم يتأمله أشم، كث اللحية أدعج، سهل الخدين ضليع الفم، أشنب مفلج الأسنان دقيق المسربة، كأن عنقه جيد دمية في صفاء الفضة، معتدل الخلق بادن متماسك، سواء البطن والصدر، عريض الصدر، بعيد ما بين المنكبين، ضخم الكراديس، أنور المتجرد موصول ما بين اللبة والسرة بشعر يجري كالخط، عاري الثديين والبطن مما سوى ذلك، أشعر الذراعين والمنكبين وأعالي الصدر، طويل الزندين رحب الراحة سبط القصب، شثن الكفين والقدمين، سائل الأطراف خمصان الأخمصين، مسيح القدمين، ينبو عنهما الماء، إذا زال زال قلعا ويخطو تكفئا، ويمشي هونا، ذريع المشية إذا مشى كأنما ينحط من صبب فإذا التفت التفت جميعا، خافض الطرف، نظره إلى الأرض أطول من نظره إلى السماء، جل نظره الملاحظة، يسوق أصحابه يبدأ من لقي بالسلام، كان متواصل الأحزان، دائم الفكرة ليست له راحة، لا يتكلم في غير حاجة، طويل السكوت يفتتح الكلام ويختمه بأشداقه ويتكلم بجوامع الكلم، فصل لا فضول ولا تقصير، دمث ليس بالجافي ولا بالمهين، يعظم النعمة وإن دقت، لا يذم منها شيئا غير أنه لم يكن يذم ذواقا4 ولا يمدحه. ولا تغضبه الدنيا ولا ما كان لها، فإذا تعدي الحق لم يعرفه أحد ولم يقم لغضبه شيء حتى ينتصر له، لا يغضب لنفسه ولا ينتصر لها، إذا أشار أشار بكفه كلها، وإذا تعجب قلبها، وإذا تحدث اتصل بها فضرب بباطن راحته اليمنى باطن إبهامه اليسرى، وإذا غضب أعرض وأشاح، وإذا فرح غض بصره، جل ضحكه التبسم، ويفتر عن مثل حب الغمام، كان إذا أوى إلى منزله جزأ نفسه ثلاثة أجزاء، جزء لله، وجزء لأهله، وجزء لنفسه، ثم جزأ جزءه بينه وبين الناس، فيرد ذلك على العامة بالخاصة ولا يدخر عنهم شيئا، فكان من سيرته في جزء الأمة إيثار أهل الفضل بإذنه، وقسمه على قدر فضلهم في الدين، فمنهم ذو الحاجة، ومنهم ذو الحاجتين، ومنهم ذو الحوائج فيتشاغل بهم فيما أصلحهم والأمة عن مسألة عنه وإخبارهم بالذي ينبغي لهم، ويقول لهم: ليبلغ الشاهد منكم الغائب، وأبلغوني حاجة من لا يستطيع إبلاغها إياي، فإنه من أبلغ سلطانا حاجة من لا يستطيع إبلاغها إياه، ثبت الله قدميه يوم القيامة، لا يذكر عنده إلا ذلك، ولا يقبل من أحد غيره، يدخلون روادا، ولا يفترقون إلا عن ذواق، ويخرجون أدلة. كان يخزن لسانه إلا مما كان يعينهم، ويؤلفهم ولا يفرقهم، ويكرم كريم كل قوم، ويوليه عليهم، ويحذر الناس ويحترس منهم من غير أن يطوي عن أحد منهم بشره ولا خلقه، يتفقد أصحابه، ويسأل الناس عما في الناس، ويحسن الحسن ويقويه، ويقبح القبيح ويوهيه، معتدل الأمر غير مختلف، لا يغفل مخافة أن يغفلوا أو يميلوا، لكل حال عنده عتاد، لا يقصر عن الحق ولا يجاوزه، الذين يلونه من الناس خيارهم، أفضلهم عنده أعمهم نصيحة، وأعظمهم عنده منزلة أحسنهم مواساة ومؤازرة، كان لا يجلس ولا يقوم إلا على ذكر، لا يوطن الأماكن وينهى عن إيطانها، وإذا انتهى إلى قوم جلس حيث ينتهي به المجلس ويأمر بذلك، ويعطي كل جلسائه نصيبه حتى لا يحسب جليسه أن أحدا أكرم عليه منه، من جالسه أو أقامه في حاجة صابره حتى يكون هو المنصرف عنه، ومن سأله حاجة لم يرده إلا بها أو بميسور من القول، قد وسع الناس منه بسطة وخلقة فصار لهم أبا وصاروا له أبناء عنده في الحق سواء، مجلسه مجلس حلم وحياء وصبر وأمانة، لا ترفع فيه الأصوات ولا توبن فيه الحرم ولا تنثى فلتاته متعادلين متواصين فيه بالتقوى متواضعين، يوقرون الكبير ويرحمون الصغير، ويؤثرون ذوي الحاجة ويحفظون الغريب، كان دائم البشر سهل الخلق، لين الجانب ليس بفظ ولا غليظ ولا صخاب ولا فحاش ولا عياب ولا مداح يتغافل عما لا يشتهى ولا يوئس منه راجيه ولا يخيب فيه، قد ترك نفسه من ثلاث: المراء، أو الإكثار، وما لا يعنيه. وترك الناس من ثلاث، كان لا يذم أحدا ولا يعيره، ولا يطلب عورته، ولا يتكلم إلا فيما رجا ثوابه، وإذا تكلم أطرق جلساؤه كأنما على رؤوسهم الطير وإذا تكلم سكتوا، وإذا سكت تكلموا، ولا يتنازعون عنده الحديث من تكلم عنده أنصتوا له حتى يفرغ، حديثهم عنده حديث أولهم يضحك مما يضحكون منه، ويتعجب مما يتعجبون منه ويصبر للغريب على الجفوة في منطقه ومسألته حتى إن كان أصحابه ليستجلبونهم ويقول: إذا رأيتم صاحب الحاجة يطلبها فأرشدوه، ولا يقبل الثناء إلا من مكافئ، ولا يقطع على أحد حديثه حتى يجوزه، فيقطعه بنهي أو قيام، كان سكوته على أربع: على العلم، والحذر، والتدبر، والتفكر، فأما تدبره ففي تسوية النظر واستماع بين الناس، وأما تفكره ففيما يبقى ويفنى، وجمع له الحلم والصبر، فكان لا يوهنه ولا يستفزه، وجمع له الحذر في أربع: أخذه بالحسن ليقتدى به، وترك القبيح ليتناهى عنه، واجتهاده الرأي فيما يصلح أمته، والقيام لها فيما يجمع لهم أمر الدنيا والآخرة. "ت في الشمائل والرؤياني طب ق في الدلائل هب كر". مر برقم [17807] .
18534 ۔۔۔ ابو قرصافہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسین جسم والے تھے اور آپ کے جسم میں زائد (اور فالتو) گوشت پوست نہ تھا ۔ بال قدرے گھنگھریالے اور قدم مبارک بچھے ہوئے اور ہموار تھے ۔ (ابن عساکر)

18536

18536- عن أنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل الشعر ليس بالسبط ولا بالجعد القطط. "ت فيها".
18535 ۔۔۔ ہند (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات میں شاندار اور لوگوں کے نزدیک بھی بڑے رتبے والے انسان تھے ، آپ کے رخ اقدس سے چودھویں کے چاند کی طرح کرنیں پھونتی تھیں ۔ میانہ قد سے قدرے طویل قامت تھے اور بالکل لمبے قد والے نہ تھے ، سر مبارک بڑا تھا ، سر کے بال قدرے گھنگھریالے تھے ۔ بالوں میں از خود مانگ نکل آتی تو نکال لیتے ورنہ جب کنگھی میسر ہوتی تو اس وقت نکال لیتے ۔ آپ کیے بال کانوں کی لو سے لمبے تھے ۔ آپ کا رنگ نہایت چمکدار تھا اور آپ کی پیشانی فراخ اور کشادہ تھی ، آپ کی ابروئیں باریک ، لمی گھنی اور ایک دوسرے سے جدا تھیں ، دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت پھڑ اٹھتی تھی۔

18537

18537- عن جبير بن مطعم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير الشعر رجله."ق فيها".
آپ کی ناک لمبی تھی اور اس سے خوبصورتی کی وجہ سے کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے غور سے نہ دیکھنے والے کو ناک لمبی معلوم ہوتی تھی ، آپ کی ریش مبارک گھنی تھی ، آپ کے رخسار نرم وہموار تھے لٹکے ہوئے گوشت والے نہ تھے ، آپ کا دہن مناسب حد تک کشادہ تھا آپ کے دندان سامنے والے قدرے کشادہ کشادہ تھے ، سینے سے ناف تک بالوں کی پتلی اور لمبی لکیر تھی ، آپ کی گردن مبارک خوبصورتی میں خالص چاندی کی مورتی جیسی گردن تھی ، آپ کے تمام اعضاء مناسب ، پر گوشت اور گٹھے ہوئے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ اور پیٹ دونوں برابر تھے ۔ آپ کا سینہ چوڑا اور کشادہ تھا ۔ دونوں کاندھوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا ۔ آپ کے جوڑ جوڑ پر گوشت ، مضبوط ، بالوں سے عاری اور خوبصورت تھے ۔ لبہ (حلق) سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی ۔ اس کے علاوہ پستان اور شکم مبارک بالوں سے صاف تھا ، بازوؤں اور شانوں پر کچھ کچھ بال تھے ۔ اور آپ کا سینہ ابھرا ہوا تھا ۔ دراز کلائیاں اور کشادہ ہتھیلیوں والے تھے ۔ ہتھلیاں اور قدم مبارک گوشت سے بھرے ہوئے تھے ۔ (مخروط اور) لمبی انگلیاں تھیں ، پاؤں کے پنجوں اور ایڑیوں کے درمیان تلوے اوپر کو اٹھے ہوئے تھے جو چلتے وقت زمین پر نہ پڑتے تھے ۔ دونوں پاؤں یوں ہموار اور چکنے تھے کہ پانی ان پر ٹھہرتا نہیں تھا ، جب آپ چلتے تھے تو قدم مبارک قوت سے اکھاڑتے تھے ، اور نرمی کے ساتھ چلتے تھے ، کشادہ کشادہ قدم اٹھاتے تھے ۔ جب چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا اوپر سے نیچے اتر رہے ہیں ، جب آپ کسی طرف متوجہ ہوتے تو پورے سراپا کے ساتھ متوجہ ہوتے تھے ، آپ کی نگاہیں پست رہتی تھیں ۔ آسمان کی نسبت زمینر پر نظریں زیادہ مرکوز رہتی تھیں ۔ آپ کا زیادہ سے زیادہ دیکھنا ایک لمحہ کو ملاحظہ فرمانا ہوتا تھا (کسی کو گھور کر مسلسل نہیں دیکھتے تھے) اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پیچھے چلتے تھے ۔ جو ملتا اس کو پہلے خود سلام کرتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل رنجیدہ اور دائمی فکر میں غرق رہتے تھے ، آپ کو (کسی پل) راحت و آرام نہ تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر حاجت کے بات چیت نہ فرماتے تھے ۔ اکثر اوقات خاموشی کے ساتھ رہتے تھے ۔ خوش مزاجی کے ساتھ بات شروع کرتے اور ختم کرتے تھے ۔ جامع کلام کیا کرتے تھے ۔ ایسا واضح اور صاف ستھرا کلام فرماتے تھے کہ اس میں کوئی فالتو بات ہوتی تھی اور نہ وہ اتنی مختصر ہوتی تھی کہ بات سمجھ میں نہ آئے ۔ نرم اخلاق والے تھے ، سخت خو تھے اور نہ کسی کی اہانت کرنے والے تھے ، نعمت کی قدر کیا کرتے تھے اور مذمت تو بالکل نہ کرتے تھے ۔ دنیا آپ کو غصہ میں نہ لاسکتی تھی اور نہ آپ کو دنیا سے کوئی سروکار تھا ، جب حق کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا تو پھر کوئی آپ کو پہچان نہ سکتا تھا اور نہ اس وقت آپ کے غصہ کے آگے کوئی چیز ٹھہر سکتی تھی ۔ جب تک آپ حق کی خاطر بدلہ نہ لے لیتے حق کا دفاع نہ فرما لیتے آپ کے غضب کا یہی حال رہتا ،۔ لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے لیے کبھی کسی پر غصہ ہوتے تھے اور نہ اس کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی کے ساتھ اشارہ فرماتے تھے ۔ جب کسی چیز میں عجب مبتلا ہوتے تو اس کو بدل ڈالتے اور جب بات کرتے تو (دلائل کے ساتھ) اس کو مؤکد اور منسوب کرتے ۔ بات فرماتے وقت بائیں انگوٹھے کو دائیں ہتھیلی پر مارتے (اور اس سے بات کی پختگی مقصود ہوتی تھی) جب غصہ ہوتے تو اعراض برتتے ۔ جب خوش اور مسرور ہوتے تو نگاہیں جھک جاتی تھی ۔ ہنسنے کی زیادہ سے زیادہ حد مسکراہٹ ہوتی تھی ۔ (سخاوت میں) بادلوں کی طرح برستے تھے ۔ جب گھر تشریف لے جاتے تھے تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں منقسم فرما لیتے تھے ۔ ایک حصہ اللہ کے لیے ، ایک حصہ گھر والوں کے لیے اور ایک حصہ اپنی راحت و آرام کے لیے وقف کرلیتے تھے ۔ پھر اپنے حصہ میں سے بھی کچھ وقت لوگوں کے لیے نکال لیتے تھے ۔ اور یہ خاص وقت عام لوگوں کی بھلائی کے لیے خرچ کرتے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام لوگوں سے بچا کر کچھ ذخیرہ اندوزی نہ کرتے تھے ۔ امت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت مبارکہ کا یہ پہلو بہت خاص تھا کہ آپ نے اپنے مال اور جان کو ان کے لیے وقف فرما دیا تھا ۔ اور جو شخص دین میں جس قدر فضیلت کا حامل ہوتا تھا وہ اسی قدر زیادہ آپ کی عنایات کا مرکز ہوتا تھا ۔ ان میں سے کوئی ایک آدھ حاجت والا ہوتا ، کوئی دگنی حاجت و ضروریات کا محتاج ہوتا اور کچھ لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں بہت زیادہ ہوتی تھیں ۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کی حاجات کو روا فرماتے اور ان کو پورا کرنے کا بند و بست فرماتے تھے ۔

18538

18538- عن جهضم بن الضحاك قال: قلت للعداء بن خالد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قلت: صفه لي، قال: كان حسن السبلة. "طب كر". مر برقم [17820] .
لوگوں سے پوچھ پوچھ کر ان کے مسائل حل فرماتے اور ان کو یہ بھی فرماتے کہ تم میں سے جو حاضر باش ہیں وہ غائب اور غیر موجودوں کو خبر پہنچائیں اور جو ان میں سے حاجت مند ہیں ان کی حاجتیں میرے سامنے لائیں ارشاد فرماتے کہ جس شخص نے کسی حاجت کی حاجت کو بادشاہ تک پہنچایا جس کو وہ خود نہ پہنچا سکتا تھا تو اللہ پاک اس حاجت پہنچانے والے کو قیامت کے دن ثابت قدم رکھیں گے ۔ بشرطیکہ وہ بادشاہ کے سامنے صرف حاجت مند کی حاجت ہی کو ذکر کرے ۔ اور اس کی حاجت کے سوا کچھ اور قبول نہ کرے ۔ ایسے لوگ اپنے پیچھے والوں کے لیے گویا چارے پانی وغیرہ کی تلاش میں نکلنے والے ہیں اور ان میں طبیعتوں کے سوا کچھ فرق نہیں ہے۔ وہ لوگ درحقیقت اپنے لوگوں کے لیے رہنما ہیں۔

18539

18539- عن ابن مسعود قال: كنت إذا رأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت كأنه دينار هرقلي. "كر".
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان کے موتیوں کو خزانہ کرتے تھے ہاں مگر جہاں کسی کی مدد مقصود ہوتی تھی وہاں ان موتیوں کو نچھاور کرتے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے دلوں کو محبت کے رشتے میں جوڑتے تھے ۔ ان کو تفرقہ میں پڑنے سے بچاتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوم کے سردار کی عزت و تکریم فرماتے تھے اور اسی کو ان پر دوبارہ سردار مقرر فرما دیتے تھے ۔ لوگوں کو تکلیف اور اذیت سے بچاتے اور ان کی حفاظت وچوکیداری فرماتے تھے اور کسی کے ساتھ بدخلقی یا سختی سے پیش نہ آتے تھے ۔ اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے تھے ۔ لوگوں سے ان کے مشاغل ومصروفیات کو پوچھتے رہتے تھے ۔ اچھے اور بھلے مانس کی تحسین اور اچھائی کرتے اس کو تقویت پہنچاتے ۔ بد کو برائی سے ڈانٹتے اس کو برائی میں پڑنے سے کمزور کرتے ۔ اعتدال کو سامنے رکھتے ۔ اختلاف سے اجتناب برتتے تھے ۔ کبھی غافل وبے پروانہ ہوتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں لوگ غفلت کا شکار نہ ہوجائیں برائی کی طرف مائل نہ ہوجائیں ۔ ہر حال آپ کے ہاں انجام کو پہنچتا تھا ۔ حق سے کوتاہی برتتے اور نہ اس سے تجاوز کرتے تھے ۔ لوگوں میں شریف اور عمدہ لوگ آپ کے قریب ترین رہتے تھے ۔ آپ کے ہاں سب سے زیادہ فضیلت والا وہ ہوتا تھا جو سب کے لیے زیادہ خیر خواہ اور نفع رساں ہوتا ۔ اور آپ کے نزدیک عظیم ترین شخص وہ ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ غمخواری برتنے والا اور ان کے دکھ سکھ بانٹنے والا ہوتا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نشست وبرخاست صرف خدا کو یاد کرنے والوں کے پاس رکھتے تھے ۔ ادھر ادھر خود بیٹھتے تھے اور نہ اپنے اصحاب کو بیٹھنے دیتے تھے ۔ جب کسی منعقد مجلس میں پہنچتے تو جہاں بیٹھنے کی جگہ ملتی بیٹھ جاتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کا حکم دیتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مجلس کے سارے شرکاء کو ان کی عزت و مرتبہ دیتے تھے چنانچہ کوئی شخص یہ گمان نہ کرسکتا تھا کہ فلاں شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک مجھ سے زیادہ عزت و مرتبہ والا ہے۔ جو کوئی شخص آپ کے پاس آکر بیٹھتا یا کسی ضرورت کے تحت آپ کے پاس آتا تو آپ اپنے آپ کو اس کے ساتھ روکے رکھتے حتی کہ وہ خود ہی خوشدلی کے ساتھ لوٹ جاتا ۔ جو کوئی شخص کسی حاجت کا آپ سے سوال کرتا اس کو رد نہ فرماتے اور اس کی حاجت پوری نہ فرما سکتے تو نرمی و محبت کے میٹھے بول کے ساتھ اس کو جواب دیتے ۔ سب لوگ آپ کے ہاں سے فراخی و کشادگی اور اچھے اخلاق کا برتاؤ پاتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں آپ ان کے شفیق باپ اور وہ آپ کے بیٹے بن گئے تھے ۔ حقیقت میں تمام لوگ آپ کے ہاں برابر رتبہ والے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس بردباری شرم وحیاء صبر اور امانت داری کی مجلس ہوا کرتی تھی ۔ آپ کی مجلس میں آواز بلند ہوتی تھی اور نہ کسی کی عزت پر آنچ آتی تھی اور نہ کسی کی لغزش پر نوک جھونک ہوا کرتی تھی ، سب لوگ تقوی و تواضع کے ساتھ باہم برابری ، ہمدردی وغم خواری کا برتاؤ کرتے تھے ۔ سب لوگ بڑے کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹے پر شفقت کرتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ کشادہ روئی اور نرم اخلاق کے ساتھ ملتے جلتے تھے ۔ نرم گوشہ اور نرم رویہ رہتے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بد خلق نہ تھے ۔ نہ سخت خو تھے ، نہ شوروشغب کرنے والے ، نہ فحش بات کرنے والے تھے ، نہ عیب لگانے والے تھے اور نہ خوش آمد ومدح کرنے والے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناپسند چیزوں سے غفلت برتتے تھے ۔ کوئی امید وآسرا رکھنے والا آپ سے ناامید نہ ہوتا تھا ۔ اور نہ ناکام ہو کر واپس لوٹتا تھا ۔ لوگوں کو تین باتوں میں آزاد چھوڑ دیا تھا ۔ یعنی کسی کی مذمت کرتے تھے اور نہ اس کو عار دلاتے تھے نہ کسی کی بری بات کی ٹوہ میں رہتے تھے اور ہمیشہ اسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے جس میں کسی ثواب کی امید ہوتی تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کلام ارشاد فرماتے تو حاضرین مجلس اپنے سروں کو جھکا لیتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بات کرتے تو سب خاموش ہوجاتے ، اور جب آپ خاموش ہوتے ۔ تب ہی لوگ اپنی بات کرتے ۔ حاضرین مجلس آپ ی موجودگی میں کسی بات پر تنازع نہ کرتے تھے ۔ جو کوئی آپ کی خدمت میں کوئی بات کرتا تو سب خاموش ہوجاتے جب تک وہ فارغ نہ ہو، سب کی بات آپ کے ہاں بڑے کی بات ہوتی تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر ہنستے تھے جس پر دوسرے ہنستے تھے ۔ اور اس پر تعجب فرماتے تھے جس پر دوسرے تعجب فرماتے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غریب کی بات پر صبر کرتے خواہ وہ بولنے میں ظلم کرتا ، اور آپ کے اصحاب اس کو آپ کے پاس سے کھینچتے ، آپ ان کو فرماتے جب کوئی حاجت والا اپنی حاجت کا سوال کرے تو (اس کو زجر و تنبیہ کے بجائے) صحیح بات کی طرف رہنمائی کرو ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سے تعریف کو قبول نہ فرماتے تھے ہاں مگر اس شخص سے جو کسی احسان کا بدلہ اتارنا چاہتا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی بات کو کاٹتے نہ تھے حتی کہ وہ (خودہ ہی بات پوری کرلیتا) یا ناجائز بات کرتا تب آپ اس کو منع فرما دیتے یا اٹھ کھڑے ہوتے ۔

18540

18540- عن الحسن عن سمرة بن جندب قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ليلة أضحيان وعليه حبر، فكنت أنظر إليه وإلى القمر فلهو في عيني أزين من القمر. "كر وقال المحفوظ عن جابر بن سمرة".
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار چیزوں پر سکوت فرماتے تھے : علم ، حذر ، (احتیاط) ، تدبر ، اور فکر (ان چار چیزوں کی سوچ میں خاموش رہتے تھے) تدبر تو لوگوں کو دیکھنے اور سننے میں فرماتے تھے ، فکر دنیا کی فانی چیزوں اور آخرت کی باقی چیزوں میں فرماتے تھے ، اور بردباری اور صبر کا آپ کو خزانہ نصیب ہوا تھا پس کوئی شی آپ کو کمزور کرسکتی تھی اور نہ آپ کو اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ صبر چھوڑنے پر مجبور کرسکتی تھی ۔ احتیاط آپ کو چار چیزوں میں ملی تھی ۔ اچھی چیز کو لینے میں تاکہ اس کی اقتداء و پیروی کی جائے ، برائی کو چھوڑنے میں تاکہ اس سے روکا جائے ، امت کی اصلاح میں اپنے رائے میں احتیاط کرنا اور امت کے لیے دنیا و آخرتکی بھلائی جمع کرنا ۔ (ترمذی فی الشمائل ، الرویانی ، الکبیر للطبرانی ، البیھقی فی الدلائل ، مصنف عبدالرزاق ، ابن عساکر)

18541

18541- عن جابر بن عبد الله قال: ما رأيت أحسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم في حلة حمراء. "ابن شاهين في الأفراد كر".
18536 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قدر گھنگھریالے بالوں والے تھے ۔ آپ کے بال نہ تو بہت ہی سخت گھنے تھے اور نہ بالکل لمبے سیدھے ۔ (ترمذی فی الشمائل)

18542

18542- عن قتادة عن أنس أو جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ضخم الساقين، ضخم القدمين لم ير بعده مثله. "الرؤياني، كر".
18537 ۔۔۔ جبیر بن مطعم (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں پر بال تھے ۔ (البیہقی فی الدلائل)

18543

18543- عن جابر بن سمرة قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ليلة أضحيان وعليه حلة حمراء، فكنت أنظر إليه وإلى القمر فلهو أزين في عيني من القمر. "أبو نعيم".
18538 ۔۔۔ جہبضم بن ضحاک سے مروی ہے کہ میں نے عداء (رض) بن خالد سے پوچھا : کیا آپ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے ؟ انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے عرض کیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان کرو ، انھوں نے فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوبصورت مونچھ (اور ڈاڑھی) والے تھے ۔ (الکبیر للطبرانی ابن عساکر)

18544

18544- وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد شمط مقدم رأسه ولحيته، فإذا ادهن وامتشط لم يتبين فإذا أشعث رأيته مبينا، وكان كثير شعر الرأس واللحية، ورأيت عند غضروف "غضروف الكتف: رأس لوحه، النهاية. "3/370" ص." كتفه مثل بيضة الحمامة تشبه جسده. "كر".
18539 ۔۔۔ ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ دیکھا تو میں نے کہا یہ تو ہرقل کا دینار ہے۔ (عن ابن مسعود (رض))

18545

18545- وعنه كأني أنظر إلى شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم وجمته تضرب إلى هذا المكان وضرب فوق ثديه. "طب".
18540 ۔۔۔ حسن (رح) حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاندنی رات میں دیکھا آپ پر یمنی چادر پڑی ہوئی تھی میں آپ کو اور چاند کو دیکھنے لگا آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری آنکھوں میں چاند سے زیادہ مزین نظر آئے ۔ (ابن عساکر) ابن عساکر (رح) فرماتے ہیں یہ روایت جابر بن سمرہ (رض) سے محفوظ ہے۔

18546

18546- عن البراء قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حلة حمراء مترجلا، فما رأيت أحدا كان أجمل منه. "كر".
18541 ۔۔۔ جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرخ جوڑے میں دیکھا اس کے بعد میں نے آپ سے زیادہ کسی کو حسین نہیں دیکھا ۔ (ابن شاھین فی الافراد ، ابن عساکر)

18547

18547- عن البراء قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم شديد البياض كثير الشعر يضرب شعره منكبيه. "كر".
18542 ۔۔۔ حضرت قتادہ (رح) حضرت انس ب سے یا حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھری ہوئی پنڈلیوں والے اور بھرے ہوئے قدموں والے تھے میں نے آپ سے زیادہ کوئی حسین شخص نہیں دیکھا ۔ (الرؤیانی ، ابن عساکر)

18548

18548- عن أبي إسحاق قال: قال رجل للبراء: أكان وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم حديدا مثل السيف؟ قال: لا، ولكن كان مثل القمر. "كر".
18543 ۔۔۔ جابر بن سمرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک کھلی ہوئی چاندنی رات میں دیکھا آپ کے جسم پر سرخ جوڑا میں کبھی آپ کو دیکھتا اور کبھی چاند کو آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری آنکھوں میں چاند سے زیاد حسین جچ گئے ۔ رواہ ابو نعیم۔

18549

18549- عن البراء قال: ما رأيت أحسن شعرا ولا أحسن بشرا في ثوبين أحمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
1044 2 ۔۔۔ جابر بن سمرہ (رض) سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر کے (اگلے حصے) اور ڈاڑھی کے بال الجھا رکھے تھے پھر آپ نے بالوں میں تیل لگایا اور کنگھی کی تو آپ کے بالوں کی کیفیت واضح نہیں ہوئی ۔ پھر جب بال پراگندہ اور چکٹ گئے تو بال واضح ہوگئے اور کھل گئے تب میں نے جانا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ڈاڑھی اور سر میں بہت زیادہ بال ہیں ، اور میں نے آپ کے شانہ اقدس کے اوپری حصہ میں کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جو آپ کے جسم سے مشابہت رکھتی تھی ۔ (رواہ ابن عساکر)

18550

18550- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حسن الجسم ليس بالقصير ربعة، ليس بالطويل، أسمر اللون، كان شعره ليس بجعد ولا سبط، إذا مشى يتوكأ. "ابن جرير".
18545 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ گویا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ کے بال یہاں تک آرہے ہیں۔ پستانوں پر ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے ۔ (الکبیر للطبرانی)

18551

18551- عن أنس قال: ما مسست شيئا قط خزة ولا حريرة ألين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شممت رائحة قط مسكا ولا عنبر أطيب من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
18546 ۔۔۔ حضرت براء (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرخ جوڑے میں بالوں کو سنوارا ہوا دیکھا پس میں نے پھر آپ سے زیادہ کوئی حسین نہیں دیکھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18552

18552- عن أنس قال: كان لون رسول الله صلى الله عليه وسلم أسمر. "ع وابن جرير".
18547 ۔۔۔ حضرت براء (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سرخی مائل) بہت سفید رنگت والے ، گھنے بالوں والے تھے آپ کے بال آپ کے شانوں کو چھوتے تھے ۔ (ابن عساکر)

18553

18553- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض كأنما صيغ من فضة. "كر".
18548 ۔۔۔ ابو الاسحاق (رح) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت براء (رض) سے پوچھا : کیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ تلوار کی طرح لوہے جیسا تھا ؟ تو انھوں نے فرمایا نہیں ، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ چاند جیسا تھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18554

18554- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ربعة حسن الجسم ليس بالطويل ولا بالقصير، وكان شعره إلى شحمة أذنيه ليس بالجعد ولا بالسبط، أسمر اللون إذا مشى كأنه يتوكأ. "ع كر".
18549 ۔۔۔ حضرت براء (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیاد حسین بالوں والا اور زیادہ خوبصورت دو سرخ جوڑوں میں کوئی اور نہیں دیکھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18555

18555- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس قواما وأحسن الناس وجها، وأحسن الناس لونا، وأطيب الناس ريحا، وألين الناس كفا، وكانت له جمة إلى شحمة أذنيه، وكانت لحيته قد ملأت من ها هنا إلى ها هنا وأمر يديه على عارضيه، وكان إذا مشى كأنه يتكفأ، وكان ربعة ليس بالطويل ولا بالقصير، كان أبيض بياضه إلى السمرة."كر".
18550 ۔۔۔ حضرت انس (رض) ارشاد فرماتے ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسین ومعتدل جسم کے مالک تھے ۔ نہ بالکل لمبے تھے اور نہ کوتاہ قد بلکہ میانہ قد والے (اور ہمیشہ عام لوگوں سے زیادہ قد آور معلوم ہوتے تھے) (سفید رنگت میں) گندم گوں (سرخی مائل) رنگت والے تھے ۔ آپ کے بال مبارک قدرے گھنگھریالے تھے جب آپ چلتے تو آگے کو کسی قدر جھکے ہوئے چلتے تھے ۔ (رواہ ابن جریر)

18556

18556- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يرسل شعره إلى أنصاف أذنيه، وكان يتوكأ إذا مشى. "كر".
18551 ۔۔۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : میں نے کبھی کوئی چیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں چھوئی خواہ وہ ریشم ہو یا دیباج اور نہ میں نے کبھی کوئی خوشبو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشبو سے زیادہ اچھی سونگھی مشک ہو یا عنبر ۔ (رواہ ابن جریر)

18557

18557- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض الوجه، كث اللحية، ضخم الهامة، أحمر المآقي، أهدب الأشفار، شثن الكفين والقدمين، ضخم الساقين، لطيف المسربة، ليس بالقصير ولا بالطويل، وهو إلى الطول أقرب منه إلى القصر، كثير العرق، إذا مشى تقلع كأنه يمشي في صعد لم أر قبله ولا بعده مثله. "كر".
18552 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سفید رنگت والے مائل بہ) گندم گوں رنگت تھے ۔ (مسند ابی یعلی وابن جریر)

18558

18558- وعنه قال: ما مسست بكفي ألين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا وجدت رائحة أطيب من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصحبته عشر سنين فما قال لي لشيء: لم صنعت كذا وكذا ولا صنعت كذا وكذا. "كر".
18553 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (چمکدار) سفید رنگت والے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)

18559

18559- عن علي قال: ما بعث الله نبيا قط إلا صبيح الوجه، كريم الحسب حسن الصوت، وكان نبيكم صلى الله عليه وسلم صبيح الوجه كريم الحسب حسن الصوت، مادا ليس له ترجيع. "ابن مردويه وأبو سعيد الأعرابي في معجمه والخرائطي في اعتلال القلوب".
18554 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میانہ قد و قامت والے تھے ، نہ لمبے اور نہ کوتاہ قد تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال کانوں تک تھے ، نہ بالکل سخت چھلے دار تھے ، اور نہ بالکل سیدھے تھے ۔ (سفید رنگت والے) گندم گوں تھے ۔ جب چلتے تھے تو گویا آگے کو جھکتے ہوئے چلتے تھے ۔ (مسند ابی یعلی ، ابن عساکر)

18560

18560- عن أبي هريرة قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الإثنين لاثنتي عشر خلت من شهر ربيع الأول، فلما كان صبيحة الخميس إذا نحن بشيخ قد جاء فقال: أنا حبر من أحبار بيت المقدس، فقال: يا علي صف لي صفات رسول الله صلى الله عليه وسلم كأني أنظر إليه، فقال: بأبي وأمي، لم يكن بالطويل الذاهب ولا بالقصير، كان ربعة من الرجال، أبيض مشربا بحمرة، جعد المفرق شعره إلى شحمة أذنيه، صلت الجبين، واضح الخدين مقرون الحاجبين أدعج العينين سبط الأظفار، أقنى الأنف، دقيق المسربة، مفلج الثنايا، كث اللحية كأن عنقه إبريق فضة، كأن الذهب يجري في تراقيه، عرقه في وجهه كاللؤلؤ، شثن الكفين والقدمين، له شعرات ما بين لبته وصدره تجري كالقضيب، لم يكن على بطنه ولا على ظهره شعرات غيرها، يفوح منه ريح المسك، إذا قام غمر الناس، وإذا مشى فكأنما يتقلع من صخرة، إذا التفت التفت جميعا، وإذا انحدر فكأنما ينحدر في صبب، أطهر الناس خلقا، وأشجع الناس قلبا، وأسخى الناس كفا، لم يكن قبله مثله ولا يكون بعده مثله أبدا، فقال الحبر: يا علي إني أصبت في التوراة هذه الصفة وقد أيقنت أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله. "كر".
18555 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ڈھانچے والے تھے ، سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے تھے ، سب سے زیادہ اچھے رنگ والے تھے ، سب سے زیادہ اچھی خوشبو والے تھے اور سب سے زیادہ اچھی ہتھیلی والے تھے ۔ آپ کے (جمہ) بال کانوں کی لو تک تھے ۔ پھر حضرت انس (رض) نے اپنے رخساروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا آپ کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی ، جب چلتے تھے آگے کو کسی قدر جھک کر چلتے تھے ۔ درمیانے قدوقامت کے مالک تھے ، نہ بالکل لمبے تھے اور نہ بالکل کوتاہ قد، آپ کی سفید رنگت مائل بہ گندمی تھی ۔ (رواہ ابن عساکر)

18561

18561- عن علي قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فإني لأخطب يوما على الناس وحبر من أحبار اليهود واقف في يده سفر ينظر فيه فناداني فقال: صف لنا أبا القاسم، فقال علي: رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالقصير ولا بالطويل البائن، وليس بالجعد القطط ولا بالسبط، هو رجل الشعر أسوده، ضخم الرأس، مشرب بحمرة، عظيم الكراديس، شثن الكفين والقدمين، طويل المسربة وهو الشعر الذي يكون في النحر إلى السرة، أهدب الأشفار، مقرون الحاجبين، صلت الجبين، بعيد ما بين المنكبين إذا مشى يتكفأ كأنما ينزل من صبب، لم أر قبله مثله ولم أر بعده مثله، قال علي: ثم سكت، فقال لي الحبر: وماذا؟ قال علي: هذا ما يحضرني، فقال الحبر: في عينيه حمرة حسن اللحية، حسن الفم، تام الأذنين، يقبل جميعا ويدبر جميعا، فقال علي: هذه والله صفته، فقال الحبر: وشيء آخر، قال علي: وما هو؟ قال الحبر: وفيه حياء، فقال علي: هو الذي قلت لك كأنما ينزل من صبب، قال الحبر: فإني أجد هذه الصفة في سفر آبائي، ونجده يبعث من حرم الله وأمنه وموضع بيته، ثم يهاجر إلى حرم يحرمه هو، وتكون له حرمة كحرمة الحرم الذي حرم الله، ونجد أنصاره الذين هاجروا إليهم قوما من ولد عمرو بن عامر أهل نخل وأهل الأرض قبلهم يهود، فقال علي: هو هو رسول الله، فقال الحبر: فإني أشهد أنه نبي وأنه رسول الله وأنه أرسل إلى الناس كافة فعلى ذلك أحيى وعليه أموت وعليه أبعث إن شاء الله. "ابن سعد كر".
18556 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بال کانوں کی آدھی لو تک چھوڑ رکھے تھے اور جب آپ چلتے تھے تو گویا ٹیک لگا کر آگے کو جھکتے ہوئے چلتے تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18562

18562- عن علي قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أزهر اللون، كث اللحية. "ق في الدلائل".
18557 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رنگ سفید ، داڑھی گھنی ، سر بڑا ، ناک کی طرف والے گوشہ چشم سرخ ، پلکیں گھنی ، سر بڑا ، ناک کی طرف والے گوشہ چشم سرخ ، پلکیں گھنی ، ہاتھ پاؤں اور پنڈلیاں بھری ہوئیں ، سینے سے ناف تک بالوں کی لمبی لکیر ، قد میانہ ، طویل نہ کوتاہ اور قدرے لمبے تھے ۔ آپ کو پسینہ بہت آتا تھا ۔ جب چلتے تھے تو قدم قوت سے اٹھاتے تھے گویا کسی بلندی پر چڑھ رہے ہیں۔ میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد آپ جیسا کوئی حسین دیکھا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18563

18563- عن نافع بن جبير قال: وصف لنا علي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لم يكن بالطويل ولا بالقصير، وكان أبيض مشربا بحمرة، ضخم الهامة عظيم اللحية، كثير الشعر رجله، شثن الكفين والقدمين، ضخم الكراديس طويل المسربة إذا مشى يمشي قلعا كأنما ينحدر من صبب لم أر قبله ولا بعده مثله. "ابن جرير ق فيه؛ ع كر".
18558 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں سے زیادہ نرم کسی چیز کو نہیں چھوا۔ اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کوئی اچھی خوشبو سونگھی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں دس سال رہا ، آپ نے مجھے کبھی نہیں فرمایا ، کہ یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ ۔ (رواہ ابن عساکر)

18564

18564- عن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض مشربا بياضه حمرة، وكان أسود الحدقة أهدب الأشفار لا قصير ولا طويل، وهو إلى الطول أقرب، من رآه حيره، لا جعد ولا سبط، عظيم المناكب في صدره مسربة، شثن الكف والقدم، كأن عرقه اللؤلؤ، إذا مشى تكفأ كأنما يمشي في صعد لم أر قبله ولا بعده مثله. "ابن جرير ق فيه؛ كر".
18559 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے ، آپ (رض) ارشاد فرماتے تھے : للہ پاک نے ہر نبی کو سفید اور خوبصورت چہرے والا بنا کر بھیجا نیز عالی حسب ونسب اور عمدہ آواز والا بنا کر بھیجا ۔ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سفید اور خوبصورت چہرے والے ، اعلی ، حسب ونسب والے اور عمدہ آواز والے تھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرات کھینچ کر ترتیل کے ساتھ فرماتے تھے اور ترجیع (ایک ہی وقت میں ایک ہی آیت کو مختلف آوازوں اور قرآء توں) میں نہیں پڑھتے تھے ۔ (ابن مردویہ ، ابو سعید الاعرابی فی معجمہ ، الخرائطی فی اعتلال القلوب)

18565

18565- عن يوسف بن مازن الراسبي أن رجلا قال لعلي: انعت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: كان أبيض مشربا بحمرة، ضخم الهامة، أغر أبلج أهدب الأشفار، ليس بالذاهب طولا وفوق الربعة، إذا جاء مع القوم غمرهم، شثن الكفين والقدمين، إذا مشى تقلع كأنما يمشي في صبب كأن العرق في وجهه اللؤلؤ. "ق فيه؛ كر".
18560 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) ارشاد فرماتے ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو رحلت فرما گئے ، جمعرات کی صبح کو اچانک ایک بوڑھا راہب عالم ہمارے پاس آیا اور بولا میں بیت المقدس کے علماء سے تعلق رکھتا ہوں ، پھر اس نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا : ے علی ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات یوں بیان کرو گویا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔

18566

18566- عن علي سئل عن نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض اللون مشربا بحمرة، أدعج العينين سبط الشعر ذا وفرة، دقيق المسربة سهل الخد، كث اللحية، كأن عنقه إبريق فضة من لبته إلى سرته شعر يجري كالقضيب، ليس في بطنه ولا ظهره شعر غيره، شثن الكف والقدم، إذا مشى كأنما ينحدر من صبب وإذا مشى كأنما يتقلع من صخرة، وإذا التفت التفت جميعا، كأن عرقه في وجهه اللؤلؤ، ولريح عرقه أطيب من المسك الأذفر، ليس بالطويل ولا بالقصير ولا العاجز ولا اللئيم، لم أر قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم. "ق فيه كر"
سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بالکل لمبے اور نہ کوتاہ قد تھے بلکہ عام لوگوں سے زیادہ قد آور تھے ۔ سرخی مائل سفید رنگت والے تھے ۔ گھنگھریالے بالوں والے تھے ، آپ کے بال کانوں کی لو تک جا رہے تھے ، ہموار پیشانی والے اور ہموار رخساروں والے ، ملی ہوئی بھنوؤں والے ، آپ کی آنکھیں بڑی اور سیاہ تھیں ۔ (سیدھی انگلیوں اور سیدھے ناخنوں والے تھے) ناک کا بانسہ بلند تھا۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک لمبی لکیر تھی ، سامنے کے دانتوں میں کشادگی تھی ، داڑھی گھنی تھی ، آپ کی گردن چاندی کی صراحی جیسی تھی ، آپ کی ہنسلیوں میں گویا سونا چلتا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور پر پسینہ موتیوں کی طرح چمکتا تھا ۔ ہاتھ اور پاؤں بھرے بھرے تھے سینے پر جو بالوں کی لمبی لکیر تھی اس کے علاوہ کمر اور پیٹ پر بال نہ تھے آپ کے منہ سے مشک کی خوشبو پھوٹتی تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کھڑے ہوتے تو فضیلت و شرافت میں سب پر حاوی ہوجاتے تھے ۔ جب چلتے تھے تو گویا کسی چٹان سے پاؤں اکھاڑ رہے ہیں (یعنی قوت سے قدم اٹھاتے تھے سستی وکاہلی سے قدم کھینچتے نہ تھے) جب کس طرف متوجہ ہوتے تو پورے سراپا کے ساتھ متوجہ ہوتے جب نیچے اترتے تو محسوس ہوتا گویا کسی نشیبی وادی میں اتر رہے ہیں تمام انسانوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ اخلاق والے تھے ، آپ کا ہاتھ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھا۔ آپ سے پہلے جیسا کوئی نہیں گذرا اور نہ آپ کے بعد آپ جیسا کوئی بھی آسکتا ہے۔

18567

18567- عن يوسف بن مازن أن رجلا سأل عليا فقال: انعت لنا النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ليس بالذاهب طولا وفوق الربعة، إذا قام في القوم غمرهم أبيض شديد الوضح ضخم الهامة أغر أبلج ضخم القدمين والكعبين إذا مشى يتقلع كأنما ينحدر في صبب، كأن العرق في وجهه اللؤلؤ لم أر قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم."الدورقي".
یہ اوصاف سن کر اسرائیلی عالم بولا : اے علی (رض) میں نے توراۃ میں بھی آخری نبی کی یہی نشانیاں پڑھی ہیں پس میں یقین کے ساتھ کلمہ اسلام پڑھتا ہوں ۔

18568

18568- عن إبراهيم بن محمد من ولد علي بن أبي طالب قال: كان علي إذا وصف النبي صلى الله عليه وسلم قال: لم يكن بالطويل الممغط ولا بالقصير المتردد، وكان ربعة من القوم، ولم يكن بالجعد القطط ولا بالسبط، كان جعدا رجلا، ولم يكن بالمطهم ولا بالمكلثم، وكان في وجهه تدوير، أبيض مشربا حمرة، أدعج العينين أهدب الأشفار، جليل المشاش والكتد أجرد ذا مسربة شثن الكفين والقدمين، إذا مشى تقلع كأنما يمشي في صبب وإذا التفت التفت معا، بين كتفيه خاتم النبوة، وهو خاتم النبيين أجود الناس كفا، وأرحب الناس صدرا، وأصدق الناس لهجة، وأوفى الناس ندمة وألينهم عريكة وأكرمهم عترة من رآه بديهة هابه، ومن خالطه معرفة أحبه، يقول ناعته لم أر قبله ولا بعده مثله صلى الله عليه وسلم. "ت وقال إسناده متصل؛ وهشام بن عمار في البعث والكجي ق في الدلائل".
” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ رواہ ابن عساکر)

18569

18569- عن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالقصير ولا بالطويل، ضخم الرأس واللحية، شثن الكفين والقدمين، مشربا وجهه حمرة، طويل المسربة، ضخم الكراديس، إذا مشى تكفأ تكفأ كأنما ينحط من صبب لم أر قبله ولا بعده مثله. "ط حم والعدني وابن منيع ت وقال: حسن صحيح؛ وابن أبي عاصم وابن جرير حب، ك، ق، في الدلائل؛ ص".
18561 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا ۔ ایک دن میں یمن میں لوگوں کو خطبہ دے رہا تھا ۔ یہود کا ایک عالم کھڑا ہوا ، اس کے ہاتھ میں کچھ دستاویزات تھیں اور وہ ان کو دیکھ رہا تھا : پھر وہ بولا : (اے علی ! ) ہم کو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان کرو۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : میں نے کہنا شروع کیا :

18570

18570- عن أبي هريرة قال: كان عمر بن الخطاب ينشد قول زهير بن أبي سلمى في هرم بن سنان: لو كنت في شيء سوى بشر ... كنت المضيء لليلة البدر ثم يقول عمر وجلساؤه: كذلك كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يكن كذلك غيره. "أبو بكر ابن الأنباري في أماليه".
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ کوتاہ قد تھے اور نہ بہت لمبے ۔ آپ کے بال مبارک نہ سخت چھلے دار تھے اور نہ بالکل سیدھے ۔ بلکہ آپ قدرے گھنگھریالے اور سیاہ بالوں والے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر اقدس بڑا تھا سفید رنگت سرخی کے ساتھ ملی ہوئی تھی ۔ چوڑے اور دراز بازوؤں والے تھے ۔ ہاتھ ہاتھ پاؤں گوشت سے بھر پور تھے حلق کے نیچے ہڈی سے لے کر ناف تک بالوں کی لمبی اور باریک سے لکیر تھی آپ کی پلکیں لمبی (اور گھنی) تھیں بھنوئیں ملی ہوئی تھیں ۔ پیشانی سیدھی اور ہموار تھی دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان فاصلہ تھا چلتے تو گویا (جھکے ہوئے) نیچے کو اتر رہے ہیں میں نے آپ سے پہلے آپ جیسا کوئی دیکھا اور نہ آپ کے بعد آپ جیسا کوئی دیکھا ۔ حضرت علی (رض) پھر خاموش ہوئے تو یہودی عالم نے کہا : اور کچھ بھی بیان کرو حضرت علی (رض) نے فرمایا : فی الحال میرے ذہن میں یہی تھا یہودی عالم نے کہا : آپ کی آنکھوں میں کچھ کچھ سرخی تھی ۔ آپ کی ڈاڑھی خوبصورت (اور بھری ہوئی) تھی حسین دہانہ تھا کان مکمل (اور حسین تھے) پورے متوجہ ہوتے اور پورے مڑتے تھے ۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : قسم اللہ کی ! یہ بھی آپ کی صفات تھیں ۔ عالم بولا : اور کچھ ؟ حضرت علی (رض) نے دریافت فرمایا اور کیا ؟ عالم بولا : آپ حیادار تھے حضرت علی (رض) نے فرمایا وہ تو میں نے کہا تھا کہ آپ قدرے جھکے ہوئے چلتے تھے گویا ن نیچے کو اتر رہے ہیں۔ یہودی عالم بولا یہ صفات میں نے اپنے آباء و اجداد کی دستاویزات میں آخری نبی کی پائی ہیں نیز ہم نے یہ بھی لکھا دیکھا ہے کہ وہ نبی اللہ کے حرم اللہ کے امن کی جگہ اور اس کے گھر کے پاس نبی بنا کر بھیجے جائیں گے پھر وہ دوسرے حرم کی طرف ہجرت کریں گے جس کو وہ خود حرم قرار دیں گے اور اس کی حرمت بھی اللہ کے حرم کے برابر ہوگی ۔ نیز ہم نے یہ بھی لکھا پایا ہے کہ آپ ایسی قوم کی طرف ہجرت کریں گے جو آپ کے مددگار و انصار ہوں گے اور عمرو بن عامر کی اولاد ہوں گے وہ کھجوروں کے باغات والے ہوں گے اور ایسی سر زمین میں فروکش ہوں گے جہاں ان سے پہلے یہود بھی آباد ہوں گے ۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : ہاں ہاں یہی ہمارے اللہ کے رسول ہیں۔ یہودی عالم بولا : پس میں بھی شہادت دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں اللہ کے رسول ہیں اور وہ تمام انسانوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ پس میں اسی (دین اسلام) پر زندگی گزاروں گا اور اسی پر مروں گا اور ان شاء اللہ اسی ) دین) پر اٹھایا جاؤں گا ۔ (ابن سعد ابن عساکر)

18571

18571- عن عمر بن الخطاب أنه سئل عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: كان أبيض اللون مشربا بحمرة أدعج العينين كث اللحية ذا وفرة رقيق المسربة، كأن عنقه إبريق فضة، كأنما يجري له شعر من لبته إلى سرته كالقضيب لم يكن في بطنه ولا في جسده شعرة غيره، شثن الأصابع، شثن الكفين والقدمين، إذا التفت التفت جميعا، وإذا مشى كأنما يتقلع على صخر أو ينحط في صبب، إذا جاء القوم غمرهم، كأن ريح عرقه المسك، بأبي وأمي لم أر قبله ولا بعده أحدا مثله. "كر".
18562 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صف شفاف رنگت اور گھنی ڈاڑھی والے تھے ۔ (البیھقی فی الدلائل)

18572

18572- عن أبي سعيد الخدري أن رجلا سأله فقال: إن شعري كثير فقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر شعرا منك وأطيب. "ش".
18563 ۔۔۔ نافع بن جبیر (رح) سے مروی ہے کہ ہم کو حضرت علی (رض) نے حضور بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف (حلیہ) بیان فرمائے ۔ ارشاد فرمایا : ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ قد ۔ آپ سفید رنگت مائل بہ سرخی والے تھے بڑا سر اور گھنی ڈاڑھی والے تھے۔ آپ کثیر اور لچھے دار بالوں والے تھے ۔ ہاتھ پاؤں پر گوشت تھے ۔ بازو اور کلائیاں چوڑی دراز اور گوشت تھیں سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی جب چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے اور تھوڑا جھک کر چلتے تھے گویا کسی نشیب میں اتر رہے ہوں ۔ میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد جیسا کوئی (حسین و جمیل) شخٰص دیکھا (ابن جریر البیھقی فی الدلائل مسند ابی یعلی ابن عساکر)

18573

18573- عن عمار قال: لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وما معه إلا خمسة أعبد وامرأتان وأبو بكر. "كر".
18564 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سرخی سے ملا ہوا سفید رنگ تھا آپ کی آنکھوں کی پتلیاں نہایت سیاہ تھیں پلکیں ددراز تھیں آپ کا قد بہت لمبا نہ تھا بلکہ عام لوگوں سے قدرے لمبے تھے جو شخص آپ کو دیکھتا حیران ہوجاتا تھا آپ کے بال کسی قدر گولائی لیے ہوئے تھے آپ چوڑے چکلے کاندھے والے تھے آپ کے سینے میں بالوں کی لمبی لکیر تھی ۔ ہاتھ پاؤں کا گوشت بھرا ہوا تھا ۔ آپ کا پسینہ موتیوں کے دانے محسوس ہوتے تھے ۔ جب چلتے تو کچھ جھک کر چلتے تھے گویا اوپر سے نیچے کو اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ جیسا کوئی حسین نہیں دیکھانہ پہلے نہ بعد میں (ابن جریر البیھقی فی الدلائل ابن عساکر)

18574

18574- عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما منذ نزل القرآن. "ن".
18565 ۔۔۔ یوسف بن مازن رابسی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی (رض) سے عرض کیا : ہمیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان کیجئے : حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا : رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرخی مائل گوری رنگت والے تھے آپ بڑے سر روشن پیشانی سامنے کے کشادہ دانت اور دراز پلکوں کے مالک تھے بہت لمبے نہ تھے اور نہ کوتاہ قد بلکہ قدرے دراز قد تھے جب قوم کے ساتھ تشریف لاتے تو سب سے وجیہہ اور قد آور معلوم ہوتے تھے ہاتھ پاؤں گوشت سے بھرے ہوئے تھے چلتے وقت قوت سے قدم اٹھاتے تھے ۔ اور نشیب میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور پسینہ آپ کے چہرے پر چمکتے ہوئے موتیوں جیسا لگتا تھا (البیھقی فی الدلائل ابن عساکر)

18575

18575- عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقوم حتى تزلع رجلاه. "ابن النجار".
18566 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت کے بارے میں سوال کیا گیا حضرت علی (رض) نے ارشاد فامایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفید رنگت والے قدرے سرخی مائل تھے ۔ آپ کی آنکھیں بڑی بڑی اور نہایت سیاہ تھیں ۔ آپ کے بال سیدھے (اور قدرے خمدار) تھے جو کانوں کی لو کو چھوتے تھے ۔ سینے پر ناف تک بالوں کا باریک خط تھا ۔ آپ کے رخسار نرم ونازک تھے ۔ ریش مبارک گنجان اور گھنی تھی ۔ آپ کی گردن چاندی کی صراحی کی مانند تھی ۔ آپ کے سینے پر بالوں کے خط کے سوا سینے اور پشت پر مزید بال نہ تھے ۔ ہاتھ پاؤں پر گوشت تھے ۔ جب چلتے تھے گویا پشت کی طرف اتر رہے ہیں اور پاؤں گویا چٹان سے اٹھا رہے ہیں (یعنی اٹھا اٹھا کر رکھ رہے ہیں نہ کہ ہموار زمین پر گھسیٹ رہے ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی طرف متوجہ ہوتے تھے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے تھے آپ کے چہرے پر پسینہ چمکتے موتی محسوس ہوتے تھے ۔ آپ کے سینے کی خوشبو مشک سے زیادہ اچھی محسوس ہوتی تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت لمبے تھے اور نہ کوتاہ قامت نہ عاجزوکمزور اور نہ گھٹیا انسان تھے بلکہ میں نے آپ جیسا عظیم انسان پہلے دیکھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھا ۔ (البیھقی فی الدلائل ابن عساکر)

18576

18576- عن أسامة بن أبي عطاء قال: كنت عند النعمان بن بشير فدخل سويد بن غفلة فقال له النعمان: ألم يبلغني أنك صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم مرة؟ قال: لا بل مرارا، كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نودي بالأذان كأنه لا يعرف أحدا. "كر".
18567 ۔۔۔ یوسف بن مازن سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے سوال کیا : کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیہ (کیسا تھا ؟ ) ہمیں بیان فرما دیجیے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت لمبے تھے (اور نہ کوتاہ قد) بلکہ میانہ قد سے قدرے اونچے تھے ۔ جب آپ کھڑے ہوتے تو تمام لوگوں (سے وجیہہ اور قد آور محسوس ہوتے تھے اور سب پر چھا جاتے تھے ۔ انتہائی ستھری گوری رنگت والے تھے ۔ سر بڑا روشن پیشانی ، دانت باریک ، آبدار ، سفید اور سامنے والے دانت کچھ کھلے کھلے تھے ۔ پاؤں اور ٹخنے گٹھے ہوئے تھے ۔ جب چلتے تھے تو مضبوطی کے ساتھ چلتے تھے گویا نیچے کو اتر رہے ہیں ، پسینے کے قطرے آپ کے چہرے پر موتیوں کی طرح چمکتے تھے ۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا حسین و جمیل پہلے اور نہ کبھی بعد میں دیکھا ۔ (الدورفی)

18577

18577- عن صفوان بن المعطل السلمي قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فرمقت صلاته ليلة فصلى العشاء الآخرة، ثم نام، فلما كان نصف الليل انتبه فتلا العشر آيات آخر سورة آل عمران ثم نام، ثم قام ثم تسوك، ثم توضأ وصلى ركعتين، فلا أدري أقيامه أم ركوعه أم سجوده كان أطول، ثم انصرف فنام، ثم استيقظ فتلا العشر آيات من آخر سورة آل عمران، ثم قام ثم تسوك ثم قام فتوضأ وصلى ركعتين فلا أدري أقيامه أم ركوعه أم سجوده أطول، ثم انصرف فنام ثم استيقظ ففعل مثل ذلك فلم يزل يفعل كما فعل أو ل مرة حتى صلى إحدى عشرة ركعة."كر".
18568 ۔۔۔ آل علی بن ابی طالب کے ایک فرزند ابراہیم بن محمد سے مروی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان فرماتے تھے تو یہ ارشاد فرماتے تھے : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہت اونچے لمبے تھے اور نہ بالکل پست قد تھے ۔ بلکہ لوگوں میں سب سے قد آور معلوم ہوتے تھے ۔ آپ کے بال نہ بالکل سخت چھلے دار تھے اور نہ بالکل سیدھے لمبے کسی قدر گولائی لیے ہوئے سیدھے بال تھے ۔ نہ آپ موٹے تھے اور نہ آپ کے چہرے پر گوشت لٹکا ہوا تھا ، آپ کا چہرہ گول (اور کتابی) تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرخی مائل سفید رنگت والے تھے ۔ آنکھوں کی پتلیاں نہایت سیاہ تھیں اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں ۔ پلکیں دراز تھیں ۔ مضبوط اور گٹھے ہوئے اعصاب کے مالک تھے ، سینے پر بالوں کے باریک خط کے سوا سینے اور کمر پر اور بال نہ تھے ۔ ہاتھ اور پاؤں گوشت سے بھرے ہوئے تھے ۔ جب چلتے تھے تو قدم اکھاڑ کر رکھتے تھے ۔ اور قدرے جھک کر چلتے تھے ۔ کسی طرف دیکھتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوجاتے تھے ۔ دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین تھے ۔ سب سے زیادہ سخی دست تھے ۔ سب سے زیادہ کشادہ سینے والے تھے ۔ سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے ۔ سب سے زیادہ وفادار دوست تھے ، سب سے زیادہ ہنس مکھ اور نرم مزاج انسان تھے ، سب سے زیادہ عزت والے خاندان والے تھے ۔ جو آپ کو اچانک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا ۔ جو آپ کے ساتھ کچھ دیر کے لیے ساتھ رہ لیتا وہ آپ سے محبت کرنے لگ جاتا تھا ۔ آپ کی صفت بیان کرنے والا ہر ایک شخص کہتا تھا کہ میں نے آپ جیسا کوئی عظیم و خوبصورت انسان نہیں دیکھا ۔ پہلے اور نہ بعد میں ۔ (ترمذی واسنادہ متصل ، ہشام بن عمار فی البعث ، الکجی ، الدلائل للبیھقی) یارب صل وسلم دائما ابدا ابدا ۔۔ علی حبیبک خیر الخلق کلھم :

18578

18578- عن ربيعة بن كعب الأسلمي قال: كنت أبيت عند باب حجرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يصلي يقول: سبحان الله رب العالمين الهوي ثم يقول: سبحان ربي العظيم وبحمده الهوي. " عب ش ك".
18569 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ کوتاہ قد تھے اور نہ بالکل لمبے ۔ گنجان ڈاڑھی اور بڑے سر کے مالک تھے ۔ ہاتھ پاؤں پر گوشت تھے ۔ چہرہ میں سرخی کی طرف میلان تھا ۔ سینے پر ناف تک بالوں کا طویل اور باریک خط تھا ۔ چوڑی اور دراز کلائیوں اور بازوؤں والے تھے ۔ جب چلتے تھے تو قوت کے ساتھ چلتے تھے اور پستی میں اترتے معلوم ہوتے تھے ۔ میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا ۔ (ابوداؤد الطیالسی ، مسند احمد ، العدنی ، ابن منیع ، ترمذی حسن صحیح ، ابن ابی عاصم ، ابن جریر ، ابن حبان مستدرک الحاکم ، البیھقی فی الدلائل ، السنن لسعید بن منصور “۔

18579

18579- عن أنس قال: ما كنا نشاء أن نرى رسول الله صلى الله عليه وسلم مصليا إلا رأيناه، ولا نشاء أن نراه قائما إلا رأيناه. "ابن النجار".
18570 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) زہیر بن ابی سلمی کا شعر (حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں) پڑھتے تھے جو زہیر نے ہرم بن سنان کے لے پڑھا تھا : ” لوکنت فی شیء سوی بشر : کنت المضی للیۃ البدر : گر آپ انسان کے سوا کچھ اور ہوتے تو چودھویں رات کو روشن کرنے والے ہوتے ۔ پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) اور آپ کے ہم نشین کہتے : درحقیقت یہ صفت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تھی کوئی اور ایسا نہیں تھا ۔ (ابوبکر ابن الانباری فی اعالیہ)

18580

18580- عن أنس قال: تعبد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى صار كالشن البالي، قالوا: يا رسول الله، ما يحملك على هذا؟ أليس قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر؟ قال: بلى أفلا أكون عبدا شكورا. "ابن النجار".
18571 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت پوچھی گئی تو آپ (رض) نے ارشاد فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرخی مائل سفید رنگت والے تھے ۔ آنکھیں بڑی اور سیاہ تھیں ، ریش مبارک گھنی اور گنجان تھی ، کانوں تک بال تھے ۔ سینے پر ناف تک بالوں کا باریک خط تھا ، آپ کی گردن گویا چاندی کی صراحی تھی ، سینے پر ناف تک بالوں کی باریک لکیر کے سوا جسم پر زائد بال نہ تھے ۔ انگلیاں ، پاؤں اور ہتھیلیاں گوشت سے بھرے ہوئے تھے ۔ جب کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل وجود کے ساتھ متوج ہوجاتے تھے ۔ جب چلتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا چٹان پر سے قدم اٹھا رہے ہیں اور نشیب میں اتر رہے ہیں۔ جب کسی قوم کے پاس آتے تو فضیلت و شرافت کے ساتھ سب سے وجیہہ اور قد آور معلوم ہوتے تھے ۔ آپ کا پسینہ مشکل سے زیادہ خوشبودار ہوتا تھا ، میرے ماں باپ کی قسم میں نے آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا ، پہلے اور نہ بعد میں ۔ (رواہ ابن عساکر)

18581

18581- عن أنس قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قدماه، أو قال ساقاه، فقيل له: أليس قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر؟ قال: أفلا أكون عبدا شكورا. "د".
18572 ۔۔۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ ان سے کسی شخص نے کہا : میرے بال بہت زیادہ (لمبے) ہیں۔ حضرت ابو سعید (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے زیادہ (لمبے) اور اچھے بالوں والے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18582

18582- عن أسامة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسرد الصوم فيقال: لا يفطر ويفطر فيقال: لا يصوم. "ن ع ص".
18573 ۔۔۔ حضرت عمار (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اس وقت) دیکھا جب آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام ، دو عورتیں اور صرف سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) (اسلام لائے) تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18583

18583- عن أنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر بين كل خطوتين. "ابن شاهين في الترغيب في الذكر؛ وفيه بشر بن الحسين عن الزبير بن عدي؛ قال الذهبي: بشر بن الحسين الأصبهاني له عن الزبير بن عدي نسخة باطلة".
18574 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ساری ساری رات عبادت میں) کھڑے رہتے تھے حتی کہ قرآن نازل ہوگیا ۔ فائدہ : ۔۔۔ سورة مزمل نازل ہوئی تو اس میں آپ کو رات کو عبادت میں کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا سوائے کچھ حصہ آرام کرنے کے ۔ پھر آپ اس قدر نماز نفل نماز میں کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں مبارک ورما جاتے تھے ، پھر سورة طہ نازل ہوئی جس میں آپ کو کہا گیا کہ قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں ۔ پھر آپ نے رات کی عبادت میں کچھ تخفیف فرمائی ۔ (رواہ نسائی)

18584

18584- عن عبد الله بن قيس بن مخرمة بن المطلب بن عبد مناف، قال: قلت لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين ركعتين، حتى صلى ثلاث عشرة ركعة بواحدة أو تربها، كل ثنتين صلاهما أقصر من اللتين قبلهما، صنع ذلك حتى فرغ من صلاته، واضطجع على شقه الأيمن. "ابن سعد والبغوي".
18575 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عبادات میں) کھڑے رہتے تھے حتی کہ آپ کی ٹانگیں (ورما کر) پھٹنے کو ہوجاتی تھیں ۔ (رواہ ابن النجار)

18585

18585- عن ابن جريج قال: أخبرني عبد الكريم عن رجل قال: أخبرني بعض أهل النبي صلى الله عليه وسلم أنه بات معه فقام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل يقضي حاجته، ثم جاء إلى القربة فاستكب ماء فغسل كفيه ثلاثا ثم توضأ فقرأ بالطوال السبع في ركعة واحدة. "عب".
18576 ۔۔۔ اسامہ بن ابی عطاء (رح) سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نعمان بن بشیر (رض) کے پاس تھا ، اتنے میں سوید بن غفلہ (رض) تشریف لے آئے ۔ نعمان بن بشیر (رض) نے ان سے پوچھا : مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز ادا فرمائی ہے ؟ حضرت سوید (رض) نے فرمایا : نہیں بلکہ کئی بار پڑھی ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذان کی آواز کانوں میں پڑتی تھی تو اس وقت (آپ ہر شی سے) ایسے (غافل) ہوجاتے تھے گویا کسی کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ (رواہ ابن عساکر)

18586

18586- عن الأسود بن يزيد قال: سألت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: كان ينام أول الليل ويقوم آخر فيصلي ما قضى فإذا قضى صلاته قام إلى فراشه، فإذا كانت له حاجة إلى أهله أتى أهله، ثم نام كهيئته لم يمس ماء، فإذا سمع المنادي الأول قام، فإن كان جنبا اغتسل، وإن لم يكن جنبا توضأ وضوءه للصلاة، ثم صلى ركعتين، ثم خرج إلى الصلاة. "ص".
18577 ۔۔۔ صفوان بن معطل سلمی (رض) سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا ، ایک رات میں نے آپ کی نماز کی ٹوہ لی ۔ آپ نے عشاء کی نماز ادا کی پھر سو گئے ۔ جب آدھی رات بیت گئی تو اٹھ گئے اور سورة آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائی اور سو گئے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد اٹھے ، مسواک کی ، وضو کیا اور پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ قیام ، رکوع ، سجدوں میں کون سی زیادہ لمبی تھی (کیونکہ ہر ایک میں بہت دیر تک مشغول رہے) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ گئے اور سو گئے ۔ پھر دوبارہ بیدار ہوئے اور دوبارہ سورة آل عمران کی وہی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں اور اٹھ کھڑے ہوئے ، مسواک کی پھر کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی معلوم نہیں کہ ان میں قیام ، رکوع یا سجدے کون سی چیز زیادہ لمبی تھی ، پھر اٹھ کر سو گئے ۔ پھر بیدار ہوئے اور پہلے کی طرح عمل کیا اور مسلسل اسی طرح آپ کرتے رہے حتی کہ آپ نے گیارہ رکعات نماز ادا فرما لیں ۔ (رواہ ابن عساکر) فائدہ : ۔۔۔ اس میں آٹھ رکعت تہجد کی نماز ہوئی اور تین رکعت وتر کی نماز ہوئی ۔

18587

18587- عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام قدر ما يقرأ إنسان أربعين آية. "ابن النجار".
18578 ۔۔۔ ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے کے دروازے کے پاس رات گذارتا تھا ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت کھڑے ہوتے میں آپ کو ہمیشہ یہ فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا : ” سبحان اللہ رب العالمین سبحان ربی العظیم وبحمدہ “۔ پاک ہے جہانوں کا پروردگار پاک ہے میرا رب عظمت والا ، اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ ، مستدرک الحاکم)

18588

18588- عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى قائما في التطوع يشق عليه القيام ركع ثم سجد سجدتين ثم قعد فقرأ ما بدا له وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام فقرأ بعض ما يريد أن يقرأ، ثم يركع ويسجد. "ابن شاهين في الأفراد".
18579 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے ہم جب بھی چاہتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتا ہوا دیکھیں تو اس طرح دیکھ لیتے تھے اور جب بھی ہمیں خواہش ہوتی کہ آپ کو فارغ دیکھیں تو فارغ دیکھ لیتے تھے ۔ (رواہ ابن النجار)

18589

18589- عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي فيما بين أن يفرغ من العشاء الآخرة إلى أن ينصدع الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم بين كل ثنتين ويوتر بواحدة، ويمكث في سجوده بقدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه."ابن جرير".
18580 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر عبادت فرمائی کہ پرانے مشکیزے کی طرح (سوکھ کر کمزور) ہوگئے تھے ۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو اس قدر مشقت کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف نہیں کردیئے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو پھر کیا مجھے اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہیں بننا چاہیے ؟ (رواہ ابن النجار)

18590

18590- عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ست ركعات يسلم من كل ركعتين، ثم يجلس فيسبح ويكبر، ثم يقوم فيصلي ركعتين. "ابن جرير".
18581 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک اور پنڈلیوں پر ورم آجاتا تھا ۔ آپ کو کہا گیا : کیا اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ معاف نہیں کردیئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تو کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ (رواہ ابو داؤد)

18591

18591- عن عائشة قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاثة عشرة فيها خمس يوتر بهن، ولا يجلس إلا في آخرهن ثم يسلم. "ابن جرير".
18582 ۔۔۔ حضرت اسامہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی اس قدر روزے رکھتے کہ کہا جانے لگتا کہ آپ کسی دن بھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ، پھر کبھی روزہ رکھنے کو اس قدر طویل مدت تک چھوڑ دیتے کہ کہا جانے لگتا کہ آپ تو روزہ رکھیں گے ہی نہیں ۔ (نسائی ، مسند ابی یعلی ، السنن لسعید بن منصور)

18592

18592- عن أنس قال: حلبت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فشرب من لبنها، ثم أخذ ماء فمضمض وقال: إن له دسما. "ابن جرير".
18583 ۔۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قدم پر اللہ کا ذکر کرتے تھے ۔ (ابن شاھین فی الترغیب فی الذکر) کلام : ۔۔۔ اس روایت میں بشر بن الحسین عن الزبیر بن عدی کا طریق منقول ہے علامہ ذہبی (رح) فرماتے ہیں بشر بن الحسین اصبہانی عن الزبیر بن عدی کا طریق نسخہ باطل ہے۔ (کنز ج 7 صفحہ 180)

18593

18593- عن علي قال: كان أحب ما في الشاة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الذراع. "كر".
18584 ۔۔۔ عبداللہ بن قیس بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رات کی) نماز دیکھی ، آپ نے دو دو رکعات نماز پڑھی ۔ حتی کہ تیرہ رکعات پڑھ لیں ، آخر میں ایک رکعت کے ساتھ وتر کرلیا تھا ۔ ہر دو رکعت پہلے والی دو رکعات سے مختصر ہوا کرتی تھی ، اسی طرح نماز پڑھتے پڑھتے آپ فارغ ہوگئے اور پھر دائیں کروٹ پر استراحت فرمانے کے لیے لیٹ گئے ۔ (ابن سعد ، البغوی)

18594

18594- عن يحيى بن أبي كثير قال: كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم من سعد بن عبادة جفنة من ثريد كل يوم تدور معه أينما دار من نسائه. "كر".
18585 ۔۔۔ ابن جریح (رح) سے مروی ہے کہ مجھے عبدالکریم نے ایک شخص کے متعلق خبر دی کہ وہ شخص کہتا ہے کہ مجھے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی اہل خانہ کے فرد نے خبر دی کہ اس نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رات گذاری ۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو کھڑے ہوئے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوئے ، پھر مشکیزے کے پاس آئے اور اس سے پانی بہا کر تین بار ہاتھ دھوئے ، پھر وضو کیا پھر ایک ہی رکعت میں سات لمبی سورتیں قراءت فرمائیں ۔ (مصنف عبدالرزاق)

18595

18595- عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: كنت مع عمر بن الخطاب فقال: رأيت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم وعليه جبة شامية ضيقة الكمين. "ابن سعد وسنده صحيح".
18586 ۔۔۔ اسود بن یزید سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رات کی) نماز کے بارے میں پوچھا ، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے ارشاد فرمایا ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے اول پہر سو جاتے تھے اور آخری پہر اٹھ کھڑے ہوتے تھے ، جس قدر مقدرد میں لکھا ہوتا نماز ادا فرماتے پھر نماز سے فارغ ہو کر اپنے بستر پر چلے جاتے ، پھر سو جاتے بغیر پانی کو چھوئے ، پھر جب اذان کی پہلی آواز سنتے تو اٹھ کھڑے ہوتے اور جنبی ہوتے تو غسل فرماتے اگر جنبی نہ ہوتے تو نماز کے لیے وضو فرماتے پھر دو رکعت نماز (سنت محمد) ادا فرماتے ۔ پھر نکل کر فجر کی نماز پڑھاتے ۔ (السنن لسعید بن منصور)

18596

18596- عن أبي هريرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه قميص أصفر ورداء أصفر وعمامة صفراء. "كر وابن النجار وفيه: سليمان بن أرقم متروك".
18587 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قعدہ (التحیات) کی حالت میں قرات فرماتے پھر جب رکوع فرمانا چاہتے تو (قیام فرماتے اور) کھڑے ہوجاتے جس قدر کہ کوئی چالیس آیات پڑھ لے ۔ (رواہ ابن النجار)

18597

18597- "مسند الصديق" عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: بينما أنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ رأيته يدفع عن نفسه شيئا، ولا أرى شيئا، فقلت: يا رسول الله ما الذي تدفع عن نفسك ولا أرى شيئا؟ قال: الدنيا تطولت لي فقلت: إليك عني قال: أما إنك لست بمدركي. "البزار وضعف".
18588 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (نفل نماز کے) قیام کی حالت میں جب قرات کرتے کرتے تھک جاتے تو رکوع کرلیتے پھر دو سجدے کرکے قعدہ میں بیٹھ جاتے اور جس قدر ممکن ہوتا اسی حالت میں قرآن پڑھتے پھر جب رکوع کا ارادہ ہوتا تو اٹھ کھڑے ہوتے (یعنی قیام فرماتے) اور کچھ تھوڑی بہت تلاوت فرماتے پھر رکوع اور سجدے کرکے نماز پوری فرماتے (ابن شاھین فی الافراد)

18598

18598- عن زيد بن أرقم أن أبا بكر الصديق استسقى فأتي بإناء فيه ماء وعسل، فلما وضع على يده بكى وانتحب، فما زال يبكي حتى بكى من حوله فسألوه مالذي هيجك على البكاء؟ فقال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعل يدفع عنه شيئا إليك عني إليك عني، ولم أر معه أحدا، فقلت: يا رسول الله أراك تدفع شيئا ولا أرى معك أحدا، فقال: هذه الدنيا تمثلت لي بما فيها فقلت لها إليك عني فتنحت، ثم رجعت فقالت: أما والله إن أفلت مني فلن ينفلت مني من بعدك، فخشيت أن تكون لحقتني فذاك أبكاني. "ك حل هب".
18589 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد سے فجر ہونے تک گیارہ رکعات نماز پڑھ لیتے تھے ، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت (ملا کر) وتر بنا لیتے تھے ۔ آپ اپنے سجدوں میں سر اٹھانے سے قبل پچاس آیات کے بقدر توقف فرماتے تھے ۔ (ابن جریر)

18599

18599- عن عمر قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع على خصفة1، وإن بعضه لعلى التراب متوسد وسادة أدم محشوة ليفا وفوق رأسه إهاب معطون معلق في سقف العلية وفي زاوية منها شيء من قرظ "هناد".
18590 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو چھ رکعات نماز ادا فرماتے تھے ۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے اور بیٹھ کر تسبیح وتکبیر (کے ساتھ ذکر اللہ ) میں مشغول رہتے ۔ پھر کھڑے ہو کر دو رکعات نماز پڑھتے ۔ (ابن جریر)

18600

18600- عن الأسود أن عمر بن الخطاب دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في شكاة شكاها، فإذا هو على عباءة قطوانية ومرفقة من صوف حشوها الإذخر، فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله كسرى وقيصر على الديباج وأنت على هذه؟ فقال: يا عمر أما ترضى أن تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة، ثم إن عمر مسه فإذا هو شديد الحمى، فقال: تحم هكذا وأنت رسول الله؟ فقال: إن أشد هذه الأمة بلاء نبيها، ثم الخير فالخير، وكذلك كانت الأنبياء عليهم السلام قبلكم والأمم. "ابن خسرو".
18591 ۔۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں تیرہ رکعات نماز پڑھتے تھے ۔ پانچ رکعات کے ساتھ وتر ادا فرماتے تھے اور صرف آخری رکعات میں بیٹھتے تھے ۔ پھر پھیر دیتے تھے ۔ (ابن جریر) فائدہ :۔۔۔ آٹھ رکعات تو تہجد کی ہوتی تھیں پھر تین رکعات وتر کی اس کے بعد دو رکعت فجر کی سنتیں ہوا کرتی تھیں ۔ تین رکعت وتر کی ادائیگی میں طویل قعدہ آخری رکعت میں کرتے تھے جس سے اس رکعت کا پہلی دو رکعات کے ساتھ اتصال ہوتا تھا ۔

18601

18601- عن عمرو بن دينار وعبيد الله بن أبي يزيد قالا: لم يكن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم على بيت النبي صلى الله عليه وسلم حائط فكان أول من بنى عليه جدارا عمر بن الخطاب قال عبيد الله بن أبي يزيد: كان جداره قصيرا، ثم بناه عبد الله بن الزبير بعده وزاد فيه. "ابن سعد".
18601 ۔۔۔ عمرو بن دینار اور عبید اللہ بن ابی یزید (رض) سے مروی ہے دونوں حضرات ارشاد فرماتے ہیں : عہد نبوی میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کی کوئی دیوار نہ ہوتی تھی ۔ پھر بعد میں سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے (اپنے دور خلافت میں) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کی چار دیواری بنائی ، عبید اللہ بن ابی یزید (رض) فرماتے ہیں : یہ دیواریں بھی چھوٹی چھوٹی تھیں ، پھر اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے (اپنے دور خلافت میں) دیواریں بنائیں اور ان میں اضافہ کیا ۔ (رواہ ابن سعد)

18602

18602- عن الحسن قال: دخل عمر بن الخطاب على النبي صلى الله عليه وسلم فرآه على حصير أو سرير قد أثر بجنبه، وفي البيت أهب عطنة، فبكى عمر، فقال: ما يبكيك يا عمر؟ قال: أنت نبي الله وكسرى وقيصر على أسرة الذهب، قال: يا عمر أما ترضى أن تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة. "ابن سعد".
18602 ۔۔۔ حضرت حسن (رح) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چٹائی یا تخت پر لیٹادیکھا جس کے اثرات آپ کے جسم پر نمایاں نظر آرہے تھے ۔ کمرے میں جانور کی کھال دباغت میں پڑی ہوئی تھی ، سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) رو پڑے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! کیوں رو رہے ہو ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے عرض کیا : آپ اللہ کے نبی ہیں۔ جب کہ قیصر و کسری (شاہان روم وفارس) سونے کے تختوں پر آرام کرتے ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے عمر ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ۔ (رواہ ابن سعد)

18603

18603- عن عطاء قال: دخل عمر بن الخطاب على النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم وهو مضطجع على ضجاع من أدم محشو ليفا وفي البيت أهبة ملقاة فبكى عمر، فقال: ما يبكيك يا عمر؟ قال: أبكي أن كسرى في الخز والقز والحرير والديباج، وقيصر مثل ذلك، وأنت حبيب الله وخيرته كما أرى، قال: لا تبك يا عمر، فلو أشاء أن تسير الجبال ذهبا لسارت، ولو أن الدنيا تعدل عند الله جناح ذباب ما أعطي كافر منها شيئا. "ابن سعد".
18603 ۔۔۔ حضرت عطاء (رح) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چمڑے کے بچھونے پر استراحت فرما رہے تھے ۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ، کمرے میں کچھ کھالیں دباغت میں پڑی ہوئی تھیں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) رونے لگے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عمر ! تم کو کس چیز نے رلایا ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے عرض کیا میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ کسری (شاہ ایران) ریشم ، دیباج اور حریر پر سوتے ہیں۔ اسی طرح قیصر بھی ، اور آپ اللہ کے محبوب ہیں اس کے سب سے بہترین بندے ہیں اور اس حال میں جیسے کہ میں دیکھ رہا ہوں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! نہ رو ۔ لیکن اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی ہوتی تو کسی کافر کو دنیا میں سے کچھ نہ ملتا ۔ (رواہ ابن سعد)

18604

18604- عن عروة قال: كان على باب عائشة ستر فيه تصاوير، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا عائشة أخري هذا، فإني إذا رأيته ذكرت الدنيا. "كر".
18604 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ ـحضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے دروازے پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جس میں کچھ تصویریں تھیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ (رض) اس کو ہٹاؤ کیونکہ میں جب بھی اس کو دیکھتا ہوں مجھے دنیا یاد آتی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

18605

18605- عن عائشة قالت: ما شبع رسول الله صلى الله عليه وسلم من خبز بر ثلاثة أيام تباعا منذ قدم المدينة حتى مضى لسبيله. "ابن جرير".
18605 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی مدینہ تشریف لائے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا حتی کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کے راستے پر چلے گئے ۔ (ابن جریر)

18606

18606- عن عائشة قالت: ما شبع آل محمد من خبز الشعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
18606 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے فرماتی ہیں : آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی مسلسل دو دن جو کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ۔ (ابن جریر)

18607

18607- عن عائشة قالت: قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم وما شبع من الأسودين التمر والماء. "ابن جرير".
18607 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے حتی کہ کبھی کھجور اور پانی سے بھی پیٹ نہیں بھرا (ابن جریر)

18608

18608- عن عائشة قالت: لقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وما شبع من خبز وزيت في يوم واحد مرتين. "ابن جرير ورواه ابن النجار بلفظ من خبز ولحم".
18608 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات فرما گئے اور کبھی دن میں دو مرتبہ روٹی اور زیتون کے تیل سے بھی پیٹ نہیں بھرا۔ (ابن جریر) ابن النجار نے یہ الفاظ روایت کیے ہیں۔ اور روٹی اور گوشت سے ۔

18609

18609- عن عروة قال: قالت عائشة: إن كنا لنمكث أربعين صباحا لا نوقد في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم نارا مصباحا ولا غيره، قلت: بأي شيء كنتم تعيشون؟ قالت: بالأسودين التمر والماء إذا وجدنا. "ابن جرير".
18609 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے منقول ہے کہ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں چالیس چالیس دن تک اس حال میں رہتے تھے کہ چولہا نہیں جلتا تھا ۔ اور نہ ہی چراغ جلتا تھا ۔ میں نے عرض کیا : پھر کس چیز پر آپ لوگ زندگی بسر کرتے تھے ؟ فرمایا اسودین پر یعنی پانی اور کھجور پر ۔ وہ بھی جب میسر ہوتیں ۔ (ابن جریر)

18610

18610- عن عائشة قالت: إن كنا لننظر إلى الهلال ثم الهلال ثم الهلال في شهرين، وما أوقد في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم نارا، قلت: يا خالة وما كان يعيشكم؟ قالت: كان لنا جيران من الأنصار نعم الجيران كانت لهم منائح من غنم، فكانوا يرسلون من ألبانها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم."ابن جرير".
18610 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے پھر دوسرا چاند دیکھتے پھر تیسرا چاند بھی دیکھ لیتے اور دو دو مہینے بسر ہوجاتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں آگ نہ جلتی تھی ، حضرت عروہ (رض) نے عرض کیا : خالہ ! پھر آپ کس چیز پر زندہ رہتی تھیں ؟ فرمایا : ہمارے پڑوسی تھے ، انصار ! اور وہ بہترین پڑوسی تھے ۔ ان کے پاس دودھ والی بکریاں ہوتی تھیں وہ ان کا دودھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا کرتے تھے ۔ (ابن جریر)

18611

18611- عن عائشة قالت: أهدى أبو بكر رجل شاة فإني لأقطعها أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ظلمة البيت فقيل لها: فهلا أسرجتم؟ قالت: لو كان لنا ما نسرج به أكلناه. "ابن جرير"
18611 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک مرتبہ بکری کی ٹانگ ہدیہ میں بھیجی ۔ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کاٹ رہے تھے کسی نے پوچھا : آپ لوگوں نے چراغ کیوں نہیں جلا لیا تھا ۔ فرمانے لگیں اگر ہمارے پاس جلانے کا تیل ہوتا تھا تو اس کو (روٹی کے ساتھ) کھالیتے تھے ۔ (ابن جریر)

18612

18612- عن عائشة قالت: دخلت علي امرأة من الأنصار فرأت فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم عباءة مثنية، فبعثت بفراش حشوه الصوف فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ما هذا؟ قلت: بعثت فلانة فقال: رديه يا عائشة فوالله لو شئت لأجرى الله معي جبال الذهب والفضة فلم أرده، وأعجبني أن يكون في بيتي، حتى قال ذلك ثلاث مرات. "الديلمي".
18612 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک انصاری عورت میرے پاس آئی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر دیکھا کہ ایک عباء کو دوہرا کرکے بچھا رکھا ہے۔ پھر اس نے ایک بستر بھیج دیا جس میں اون بھری ہوئی تھی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا فلاں عورت نے بھیجا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو واپس کر دو ۔ اللہ کی قسم ! اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے ۔ پھر میں اس کو نہ لوٹاتا ۔ اب مجھے اس کا گھر میں ہونا اچھا نہیں لگتا۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمائی ۔ (الدیلمی)

18613

18613- عن عائشة قالت: ما أكل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى لقي الله إلا خبز شعير. "خط في المتفق".
18613 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے جا ملے مگر گندم کی روٹی (پیٹ بھر کر) نہیں کھائی (المتفق للخطیب)

18614

18614- عن أبي السليل قال: أخبرني أبي قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في دار رجل من الأنصار يقال له: أوس بن حوشب، فأتي بعس فوضع في يده، فقال: ما هذا؟ فقالوا: يا رسول الله لبن وعسل، فوضعه في يده ثم قال: هذا شرابان لا نشربه ولا نحرمه، من تواضع رفعه الله ومن تجبر قصمه الله، ومن أحسن تدبير معيشته رزقه الله. "ابن النجار".
18614 ۔۔۔ ابی السلیل سے مروی ہے کہ مجھے میرے والد نے خبر دی کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوس بن حوشب انصار کے گھر میں تشریف فرما تھے ۔ آپ کی خدمت میں ایک لٹیا نما برتن لا کر آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا گیا ۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ دودھ اور شہد ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنے ہاتھ میں روک کر فرمایا : یہ دونوں مشروب ہم ان کو پی سکتے ہیں اور نہ اس کو حرام کہہ سکتے ہیں۔ جس نے اللہ کے لیے تواضع برتی اللہ پاک اسے بلند کریں گے اور جس نے سرکشی کی اللہ پاک اسے توڑ دیں گے ۔ اور جس نے اپنی گذر بسر کی اچھی تدبیر کی اللہ اسے رزق پہنچائیں گے ۔ (رواہ ابن النجار)

18615

18615- عن عبد الله الهوزني قال: لقيت بلالا مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا بلال حدثني كيف كان نفقته صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما كان له شيء كنت أنا الذي ألي ذلك منه منذ بعثه الله عز وجل حتى توفي، وكان إذا أتاه الإنسان المسلم فرآه عاريا يأمرني به فأنطلق فأستقرض فأشتري البردة فأكسوه وأطعمه، حتى اعترضني رجل من المشركين فقال: يا بلال إن عندي سعة فلا تستقرض من أحد إلا مني ففعلت فلما كان ذات يوم توضأت ثم قمت لأؤذن بالصلاة، فإذا المشرك قد أقبل في عصابة من التجار، فلما رآني قال: يا حبشي قلت: لبيك فتجهمني، وقال لي قولا عظيما فقال: أتدري كم بينك وبين الشهر؟ قلت: قريب قال: إنما بينك وبينه أربع، وآخذك بالذي لي عليك، فإني لم أعطك الذي أعطيتك من كرامتك، ولا كرامة صاحبك علي، ولكن أعطيتك لأتخذك لي عبدا، فأردك ترعى الغنم كما كنت قبل ذلك، فأخذ في نفسي ما يأخذ في أنفس الناس، فانطلقت ثم أذنت بالصلاة حتى إذا صليت العتمة رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أهله، فاستأذنت عليه فأذن لي فقلت: يا رسول الله إن المشرك الذي كنت أدنت منه قال لي كذا وكذا وليس عندك ما تقضي عني، وليس عندي وهو فاضحي، فأذن لي أن آتي إلى بعض هؤلاء الأحياء الذين قد أسلموا حتى يرزق الله رسوله ما يقضي عني فخرجت حتى أتيت منزلي فجعلت سيفي وجرابي ومحجني ونعلي عند رأسي، واستقبلت بوجهي الأفق، فكلما نمت ساعة انتبهت، فإذا رأيت علي ليلا نمت حتى ينشق عمود الصبح الأول. فأردت أن أنطلق فإذا إنسان يسعى يدعو يا بلال أجب رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت حتى أتيته، فإذا أربع ركائب مناخات عليهن أحمالهن فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنت فقال: أبشر فقد جاءك الله بقضاءك، فحمدت الله عز وجل فقال: ألم تمر على الركائب المناخات الأربع؟ قلت: بلى قال: إن لك رقابهن وما عليهن فإن عليهن كسوة وطعاما أهداهن إلي عظيم فدك فاقبضهن ثم اقض دينك ففعلت، فحططت عنهن أحمالهن ثم علفتهن، ثم قمت إلى تأذيني صلاة الصبح، حتى إذا صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خرجت إلى البقيع فجعلت أصبعي في أذني فناديت، فقلت: من كان يطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم بدين فليحضر، فما زلت أبيع وأقضي حتى لم يبق على رسول الله صلى الله عليه وسلم دين في الأرض، حتى فضل في يدي أوقيتان أو أوقية ونصف، ثم انطلقت إلى المسجد وقد ذهب عامة النهار، وإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد في المسجد وحده فسلمت عليه فقال لي: ما فعل ما قبلك؟ قلت قد قضى الله كل شيء كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يبق شيء، فقال: أفضل شيء؟ فقلت: نعم، قال: انظر أن تريحني منها، فإني لست داخلا على أحد من أهلي حتى تريحني منه، فلم يأتنا أحد حتى أمسينا، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة دعاني فقال لي: ما فعل الذي قبلك؟ قلت: هو معي لم يأتنا أحد فبات في المسجد حتى أصبح فظل اليوم الثاني حتى كان في آخر النهار جاء راكبان، فانطلقت بهما فأطعمتهما وكسوتهما حتى إذا صلى العتمة دعاني فقال لي: ما فعل الذي قبلك؟ فقلت قد أراحك الله منه يا رسول الله، فكبر وحمد الله شفقا من أن يدركه الموت وعنده ذلك ثم اتبعته حتى جاء أزواجه، فسلم على امرأة امرأة حتى أتى مبيته فهو الذي سألتني عنه."طب".
18615 ۔۔۔ عبداللہ ہوزنی (رح) سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن حضرت بلال (رض) سے ملا، میں نے عرض کیا : اے بلال ! مجھے بتاؤ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھانے کا کیا حال تھا ؟ حضرت بلال (رض) نے ارشاد فرمایا : آپ کے پاس کوئی شی نہ ہوتی تھی ۔ جب سے اللہ نے آپ کو مبعوث کیا تھا وفات تک میں ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھانے پینے کا بند و بست کرتا تھا ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی ننگا بھوکا مسلمان آتا تو آپ مجھے حکم کردیتے میں قرض لے کر اس کو پہناتا اور کھلاتا پلاتا تھا ۔ حتی کہ ایک مشرک مجھے ملا اور بولا اے بلال ! کسی اور سے قرض مت لیا کر ، میرے پاس مال کی فراوانی ہے۔ جو ضرورت پڑے مجھ سے قرض لے لیا کرو۔ پس میں اس سے قرض لینے لگا ۔ ایک دن میں وضو کرکے نماز کے لیے اذان دینے کو کھڑا ہوا ۔ اتنے میں وہی مشرک تاجروں کی ایک جماعت کے ساتھ آیا اور مجھے دیکھ کر بولا : اے حبشی ! میں نے کہا : لبیک ۔ پھر وہ مجھ پر چڑھ دوڑا اور مجھے بہت برا بھلا کہا ۔ بولا : تو جانتا ہے مقررہ مہینہ ہونے میں کتنا وقت رہ گیا ہے ؟ میں نے کہا : قریب ہے۔ بولا صرف چار دن رہ گئے ہیں اگر تم نے وعدہ ادائیگی پورا نہ کیا تو میں اپنے حق کے بدلے تم کو پکڑ لوں گا ۔ میں نے تم کو قرض اس لیے نہیں دیا کہ تم میرے نزدیک کوئی عزت دار شخص ہو اور نہ ہی تمہارے ساتھی کی میرے ہاں کوئی وقعت ہے میں نے تم کو قرض اس لیے دیا ہے کہ تم کو اپنا غلام بنا سکوں اور پھر تم سے اپنی بکریاں چرواؤں جو کام تم پہلے کرتے تھے ۔ حضرت بلال (رض) فرماتے ہیں : پس میرے دل میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح خطرات پیدا ہونے لگے ۔ پھر میں چلا اور اذان دی ۔ حتی کہ جب میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے گھر والوں کے پاس چلے گئے ۔ میں اجازت لے کر حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے جس مشرک سے قرض لیا تھا وہ مجھے فلاں فلاں دھمکیاں دے گیا ہے۔ اور آپ کے پاس بھی کوئی بند و بست نہیں ہے کہ میرے قرض کا دفعیہ فرما سکیں اور نہ میرے پاس کوئی صورت ادائیگی ہے۔ اور وہ مجھے رسوا کرنے پر تلا ہوا ہے آپ مجھے اجازت دیں میں ان قبیلوں کے پاس جاتا ہوں جو اسلام لا چکے ہیں شاید اللہ پاک آپ کو ادائیگی کی صورت پیدا فرما دیں ۔ حضرت بلال (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ میں اجازت لے کر پہلے اپنے گھر آیا ۔ اپنی تلوار ، اپنا تھیلا ، اپنی ڈھال اور جوتے اٹھا کر اپنے سرہانے کی طرف رکھ لیے اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے آرام کے لیے لیٹ گیا۔ ہر تھوڑی دیر بعد جاگتا اور رات سر پر باقی ہوتی تو پھر سو جاتا حتی کہ صبح کی پہلی پو پھٹی ۔ میں نے نکلنے کا ارادہ کیا ۔ لیکن ایک آدمی آوازیں دیتا ہوا آیا : اے بلال ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دربار میں حاضری دو ، میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔ دیکھا کہ باہر چار اونٹنیاں سامان سے لدی بیٹھی ہیں۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا اور حاضری کی اجازت لی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مجھے اندر بلا کر ارشاد) فرمایا : خوشخبری ہو ، اللہ نے تمہارا کام کردیا ہے۔ میں نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا۔ آپ نے فرمایا : کیا تم چار سامان سے لدی سواریوں کے پاس سے نہیں آئے ؟ میں نے عرض کیا بالکل ضرور یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ سواریاں بھی اور ان پر بار کیا ہوا ، کپڑا اور اناج بھی تم کو آیا ۔ یہ مال مجھے فدک کے سردار نے ہدیہ بھیجا ہے۔ تم ان کو اپنے قبضے میں لے اور ان سے اپنا قرض اتارو ۔ چنانچہ میں نے تعمیل ارشاد کی ۔ سواریوں سے ان کا بار اتارا ۔ ان کو چارا ڈالا۔ پھر صبح کی نماز کے لیے اذان دینے کھڑا ہوا ۔ پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز پڑھالی تو میں بقیع گیا اور کانوں میں انگلیاں دے کر بلند آواز سے پکارا : جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کوئی قرض ہو وہ آجائے ۔ پس لوگ (آتے رہے اور) میں خریدو فروخت کرتا رہا اور لوگوں کے قرض چکاتا رہا ۔ حتی کہ روئے زمین پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرض کا مطالبہ کرنے والا کوئی باقی نہ رہا ۔ اور پھر بھی میرے ہاتھ میں ڈیڑھ دو اوقیہ (چاندی) بچ گئی ۔ پھر میں مسجد آیا جبکہ دن کا اکثر حصہ نکل گیا تھا ۔ رسول اللہ مسجدہ میں تنہا تشریف فرما تھے ۔ میں سلام کیا آپ نے مجھے جواب سے نوازا اور پوچھا تمہارے اس سامان نے کیا کام دیا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سارا قرض اتار دیا ہے۔ آپ نے پوچھا کیا کچھ بچا ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : دیکھ ! مجھے اس سے بھی راحت دے دے ۔ کیونکہ میں گھر واپس نہ جاؤں گا جب تک اس میں سے کچھ بھی باقی ہے ؟ چنانچہ شام ہوگئی مگر ہمارے پاس کوئی حاجت مند نہیں آیا پھر عشاء کی نماز پڑھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا اور پوچھا : کیا کچھ باقی ہے ؟ میں نے عرض کیا سارا بقیہ مال اسی طرح جوں کا توں موجود ہے ، کوئی آیا ہی نہیں ہے۔ آخر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ رات مسجد ہی میں گذاری اور پھر صبح ہوئی اور اگلا دن بھی آخر ہونے کو پہنچ گیا ۔ پھر دو مسافر سوار آئے میں نے ان کو لے کر جا کر کھلایا پلایا اور لباس بھی دیا ۔ پھر عشاء کے بعد آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا : کیا ہوا ؟ عرض کیا : اللہ نے آپ کو اس مال سے نجات اور راحت دے دی ہے۔ آپ نے (خوشی سے) اللہ اکبر کہا اور اللہ کی حمد وثناء کی کہ کہیں موت آجاتی اور مال آپ کے پاس موجود رہتا ۔ پھر میں آپ کے پیچھے ہو لیا اور آپ اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لے گئے اور ایک ایک بیوی کو جا کر سلام کیا حتی کہ پھر اس بیوی کے پاس چلے گئے جہاں رات گذارنے کی باری تھی ۔ پس یہ ہے تمہارے سوال کا جواب ۔ (الکبیر للطبرانی)

18616

18616- عن الحسن عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتاني ملك فقال: يا محمد إن ربك يقرأ عليك السلام ويقول: إن شئت جعلت لك بطحاء مكة ذهبا قال: فرفع رأسه إلى السماء وقال: لا يا رب اشبع يوما فأحمدك وأجوع يوما فأسألك. "العسكري".
18616 ۔۔۔ حضرت حسن (رض) سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور بولا : اے محمد ! اللہ آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے : اگر تم چاہو تو میں وادی بطحاء کو تمہارے لیے سونے کا بنا دوں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کیا : اے پروردگار ! میں ایک دن سیر ہو کر کھاؤں اور تیرا شکر کروں اور ایک دن بھوکا رہوں اور آپ سے سوال کروں (یہ مجھے زیادہ پسند ہے) ۔ (رواہ العسکری)

18617

18617- عن أبي البختري عن علي قال: قال عمر بن الخطاب للناس: ما ترون في فضل فضل عندنا من هذا المال؟ فقال الناس: يا أمير المؤمنين قد شغلناك عن أهلك وضيعتك وتجارتك فهو لك، فقال لي: ما تقول أنت؟ فقلت قد أشاروا عليك فقال لي: قل فقلت: لم تجعل يقينك ظنا فقال: لتخرجن مما قلت، فقلت أجل والله لأخرجن منه، أتذكر حين بعثك نبي الله صلى الله عليه وسلم ساعيا فأتيت العباس بن عبد المطلب فمنعك صدقته، فكان بينكما شيء فقلت لي انطلق معي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فلنخبره بالذي صنع، فانطلقنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فوجدناه خاثرا فرجعنا ثم غدونا عليه الغد، فوجدناه طيب النفس، فأخبرته بالذي صنع العباس، فقال لك: أما علمت أن عم الرجل صنو أبيه، وذكرنا له الذي رأينا من خثوره في اليوم الأول، والذي رأينا من طيب نفسه في اليوم الثاني، فقال: إنكما أتيتماني في اليوم الأول، وقد بقي عندي من الصدقة ديناران فكان ذلك الذي رأيتما من خثوري لذلك وأتيتماني اليوم وقد وجهتهما فذلك الذي رأيتما من طيب نفسي فقال عمر: صدقت أما والله لأشكرن لك الأولى والآخرة. "حم ع والدورقي هق ز وقال فيه: إرسال بين أبي البختري وعلي".
18617 ۔۔۔ ابوالبختری سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت کرتے ہیں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے لوگوں کو ارشاد فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اس مال (بیت المال) میں سے ہمارا کیا حق ہے ؟ لوگوں نے کہا : یا امیر المؤمنین ! ہم نے آپ کو آپ کے گھر والوں کے کام کاج سے ، آپ کی گذر بسر اور تجارت وغیرہ سے مشغول کردیا ہے۔ پس آپ جو چاہیں لے لیں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے مجھے فرمایا : آپ کیا کہتے ہیں ؟ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : لوگ آپ کو مشورہ دے چکے ہیں۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے مجھے تاکیدا فرمایا : نہیں تم بتاؤ میں نے کہا کہ آپ اپنے یقین کو گمان نہ بنائیں (جس قدر خرچ کا آپ کو یقین ہے وہ لے لیں اور ظن و گمان کی بناء پر زائد نہ لیں) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : پھر آپ خود میرے لیے حصہ نکال دیں ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : میں نے کہا : ہاں میں ضرور نکال دوں گا ۔ کیا آپ کو وہ واقعہ یاد ہے کہ آپ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا تھا ۔ پھر آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب کے پاس آئے انھوں نے آپ کو صدقہ (زکوۃ ) دینے سے انکار کردیا۔ پھر آپ دونوں کے درمیان کچھ تکرار ہوئی ۔ آپ نے مجھے کہا : میرے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلو ۔ تاکہ ہم دونوں عباس کے متعلق حضور کو خبر دیں ۔ چنانچہ ہم دونوں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوگئے ۔ اگلے روز آپ کے پاس گئے تو آپ کو ہشاش بشاش پایا ۔ تب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عباس (رض) کے متعلق ساری خبر سنائی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجائے مجھے خبر دینی چاہیے تھی) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں پھر ہم نے آپ سے پچھلے دن آپ کی طبیعت کی ناسازی کی اور آج کے دن طبیعت کی خوشگواری کی وجہ پوچھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم جب پچھلے دن میرے پاس آئے تھے اس دن صدقہ کے مال میں سے دو دینار میرے پاس بچ گئے تھے جن کی وجہ سے میری طبیعت پر ان کا بار تھا ۔ اور آج جب تم آئے ہو اور مجھے ہشاش بشاش اور خوش دیکھ رہے اس کی وجہ بھی وہی دینار ہیں کیونکہ وہ (راہ خدا میں) خرچ ہوچکے ہیں۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : تب سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) (بات سمجھ گئے اور) مجھے ارشاد فرمایا : میں دنیا و آخرت میں تمہارا شکر گزار ہوں ۔ (مسند احمد ، مسند ابی یعلی ، الدورقی ، السنن للبیھقی ، مسند البزار) امام بزار (رح) فرماتے ہیں اس روایت کی سند میں سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اور ابو البختری کے درمیان کوئی (ارسال ہے اور) کوئی راوی متروک ہے۔

18618

18618- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن يحيى بن عبيد الله عن أبيه عن أبي هريرة قال: حدثني أبو بكر قال: فاتني العشاء ذات ليلة فأتيت أهلي فقلت هل عندكم عشاء؟ قالوا: لا والله ما عندنا عشاء، فاضطجعت على فراشي فلم يأتني النوم من الجوع، فقلت: لو خرجت إلى المسجد فصليت وتعللت حتى أصبح، فخرجت إلى المسجد فصليت ما شاء الله، ثم تساندت إلى ناحية المسجد، فبينا أنا كذلك إذ طلع عمر بن الخطاب فقال: من هذا؟ فقلت أبو بكر، قال ما أخرجك هذه الساعة؟ فقصصت عليه القصة، فقال: والله ما أخرجني إلا الذي أخرجك، فجلس إلى جنبي، فبينا نحن كذلك إذ خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنكرنا فقال: من هذا؟ فبادرني عمر فقال: هذا أبو بكر وعمر فقال: ما أخرجكما هذه الساعة؟ فقال عمر: خرجت فدخلت المسجد فرأيت سواد أبي بكر، فقلت: من هذا؟ فقال: أبو بكر، فقلت ما أخرجك هذه الساعة؟ فذكر الذي كان، فقلت: وأنا والله ما أخرجني إلا الذي أخرجك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وأنا والله ما أخرجني إلا الذي أخرجكما،فانطلقوا بنا إلى الواقفي أبي الهيثم بن التيهان فلعلنا نجد عنده شيئا يطعمنا، فخرجنا نمشي وانطلقنا إلى الحائط في القمر فقرعنا الباب فقالت المرأة: من هذا؟ فقال عمر: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر، ففتحت الباب، فدخلنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين زوجك؟ قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء من حش بني حارثة، الآن يأتيكم. فجاء يحمل قربة حتى أتى بها نخلة وعلقها على كرنافة من كرانيفها ثم أقبل علينا وقال: مرحبا وأهلا ما زار ناس أحدا قط مثل من زارني، ثم قطع لنا عذقا فأتانا به، فجعلنا ننقي منه في القمر ونأكل، ثم أخذ الشفرة فجال في الغنم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياك والحلوب أو قال: إياك وذوات الدر، فأخذ شاة فذبحها وسلخها وقال لامرأته: قومي، فطبخت وخبزت وجعلت تقطع في القدرمن اللحم وتوقد تحتها حتى بلغ الخبز واللحم فثرد وغرف لنا وعليه من المرق واللحم، ثم أتانا به فوضعه بين أيدينا فأكلنا حتى شبعنا، ثم قام إلى القربة وقد شففها الريح فبرد فصب في الإناء ثم ناول رسول الله صلى الله عليه وسلم فشرب، ثم ناولني فشربت، ثم ناول عمر فشرب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحمد لله خرجنا لم يخرجنا إلا الجوع، ثم رجعنا وقد أصبنا هذا لتسألن عن هذا يوم القيامة هذا من النعيم، ثم قال للواقفي: مالك خادم يسقيك الماء؟ قال: لا والله يا رسول الله قال: فإذا أتانا سبي فأتنا حتى نأمر لك بخادم، فلم يلبث إلا يسيرا حتى أتاه سبي فأتاه الواقفي، فقال: ما جاء بك؟ قال: يا رسول الله وعدك الذي وعدتني، قال: هذا سبي فقم فاختر منه، فقال: كن أنت تختار لي، فقال: خذ هذا الغلام وأحسن إليه، فأخذه وانطلق به إلى امرأته، فقالت: ما هذا؟ فقص عليها القصة، قالت: فأي شيء قلت له؟ قال: قلت له كن أنت الذي تختار لي، قالت: قد أحسنت قال لك: أحسن إليه فأحسن إليه، قال: ما الإحسان إليه؟ قالت: أن تعتقه، قال: هو حر لوجه الله. "ع وابن مردويه ويحيى وأبوه ضعيفان"
18618 ۔۔۔ (مسند صدیق (رض)) یحییٰ بن عبید اللہ عن ابیہ عن ابوہریرہ (رض) کی سند سے مروی ہے ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں مجھے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک رات مجھ سے عشاء کا کھانا رہ گیا میں گھر والوں کے پاس آیا ان سے کچھ کھانے کو پوچھا انھوں نے کہا ایسی کوئی چیز گھر میں نہیں جو آپ کو پیش کرسکیں ۔ پھر میں اپنے بستر پر کروٹ لے کر لیٹ گیا ۔ لیکن بھوک نے نیند کو نہیں آنے دیا ۔ آخر میں نے کہا : چلو مسجد میں چلتا ہوں نماز پڑھتا ہوں اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہو کر اس تکلیف کو دفع کرتا ہوں ۔ سو میں مسجد میں گیا نماز پڑھی ، پھر مسجد کے گوشہ میں ٹیک لا کر بیٹھ گیا ۔ میں اسی حال میں تھا کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) بھی آگئے ۔ انھوں نے پوچھا : کون ؟ میں نے کہا : ابوبکر ۔ انھوں نے پوچھا آپ کو اس وقت کس چیز نے یہاں بھیجا ہے ؟ میں نے ان کو سارا واقعہ سنایا ۔ انھوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! مجھے بھی اسی چیز نے نکالا ہے جس نے آپ کو نکال کر یہاں بھیجا ہے۔ چنانچہ وہ بھی میرے پہلو میں بیٹھ گئے ، ہم اسی حال میں بیٹھے تھے ک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ادھر آنکلے ۔ اور ہمیں نہ پہچان کر پوچھا : کون لوگ ہیں ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے جواب دینے میں مجھ پر سبقت لی اور عرض کیا ابوبکر ، اور عمر ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : تم کو کیا چیز اس وقت یہاں لائی ہے ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے عرض کیا : میں نکل کر مسجد میں آیا تو میں نے ابوبکر (رض) کا سایہ دیکھا پوچھنے پر انھوں نے فرمایا : ہاں میں ابوبکر ہوں ۔ میں نے ان سے اس وقت یہاں آنے کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے اصل حقیقت بتائی تب میں نے ان کو کہا کہ اللہ کی قسم مجھے بھی یہی چیز لانے والی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم مجھے بھی اسی چیز نے یہاں آنے پر مجبور کیا ہے جس نے تم کو مجبور کیا ہے۔ چلو ہم چلتے ہیں میرے واقف کار ابی الہیثم بن التیہان کے پاس ۔ شاید وہاں ہم کو کوئی چیز کھانے کو مل جائے چنانچہ ہم نکل کر چاند کی روشنی میں چل پڑے اور ابو الہیثم کے باغ میں پہنچ کر ان کے گھر کا دروازہ بجایا ۔ ایک عورت بولی : کون ؟ حضرت عمر (رض) نے آواز دی یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر وعمر آئے ہیں عورت نے دروازہ کھول دیا ۔ ہم اندر داخل ہوگئے ۔ اور واقعی وہ آگئے انھوں نے ایک مشکیزہ اٹھایا ہوا تھا ۔ باغ میں داخل ہو کر انھوں نے مشکیزہ ایک کھونٹی پر لٹکا دیا ۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : مرحبا خوش آمدید بہت اچھا کیا ایسے مہمان کس کے ہاں نہ آئے ہوں گے جو میرے ہاں تشریف لائے ہیں۔ پھر کھجور کا ایک خوشہ توڑ کر ہمارے سامنے پیش کردیا ۔ ہم چاند کی روشنی میں خوشے سے کھجور چن چن کر کھانے لگے ۔ ابو الہیثم نے چھری تھامی اور بکریوں کے درمیان پھرنے لگے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دودھ والی بکری کو ذبح نہ کرنا ۔ پھر انھوں نے ایک بکری ذبح کی اور اس کی کھال اتاری اور بیوی کو فرمایا : کھڑی ہو ۔ چنانچہ انھوں نے گوشت پکایا روٹی بنائی اور دیگچی میں گوشت کو گھمانے لگی ۔ نیچے آگ دھونکتی رہی حتی کہ روٹی اور گوشت تیار ہوگیا ۔ پھر انھوں نے ثرید تیار کیا اور اس پر مزید گوشت اور سالن ڈالا اور ہمارے سامنے پیش کردیا ۔ ہم نے کھایا اور (خوب) سیر ہوگئے ۔ پھر الہیثم نے مشکیزہ اتارا جس کا پانی اب تک ٹھنڈا ہوگیا تھا ۔ انھوں نے برتن میں پانی ڈال کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تھمایا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی نوش فرمایا پھر وہ مجھے یعنی (ابوبکر) کو دیا ۔ میں نے بھی پی کر عمر (رض) کو دیدیا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے نوش فرمایا ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ہم گھروں سے نکلے اور ہمیں گھروں سے نکالنے والی شی صرف بھوک تھی ۔ پھر ہم یہاں لوٹے اور یہ کھانا پایا ۔ بیشک قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقفی کو فرمایا : کیا بات ہے تمہارے پاس کوئی خادم نہیں ہے جو تمہارا پانی وغیرہ بھر دیا کرے ۔ انھوں نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہمارے پاس غلام آئیں تو تم چلے آنا ہم تمہارے لیے کوئی غلام مہیا کردیں گے ، پھر ، کچھ ہی عرصہ گزرا ہوگا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ غلام آگئے ۔ چنانچہ واقفی بھی آپ کے پاس پہنچے ۔ آپ نے وجہ آمد دریافت کی ، انھوں نے عرض کیا وہی وعدہ جو آپ نے مجھ سے فرمایا تھا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ غلام ہیں کھڑے ہو کر ان میں سے پسند کرلو ۔ واقفی نے عرض کیا : آپ ہی میرے لیے پسند فرما دیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ غلام لے لو ۔ لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ واقفی اس غلام کو بیوی کے پاس لے گئے ۔ بیوی نے غلام کے تعلق پوچھا تو واقفی نے سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ عورت نے پوچھا : تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا کہا ؟ واقفی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہہ دیا تھا کہ آپ ہی میرے لیے غلام پسند کردیں ۔ بیوی نے کہا : یہ تم نے بہت اچھا کیا ۔ پس جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم کو اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک ہی روا رکھنا ۔ واقفی نے بیوی سے پوچھا : اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہونا چاہیے ؟ بیوی نے کہا : اس کو آزاد کردیں ، واقفی نے کہا : یہ اللہ کے لیے آزاد ہے۔ (مسند ابی یعلی ، ابن مردویہ) کلام : ۔۔۔ روایت کی سند میں یحییٰ اور اس کا والد دونوں ضعیف ہیں۔ مجمع الزوائد 10 ۔ 319 ۔

18619

18619- عن أبي هريرة قال: حدثني أبو بكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له ولعمر: انطلقوا بنا إلى الواقفي، فانطلقنا في القمر حتى أتينا الحائط فقال: مرحبا وأهلا، ثم أخذ الشفرة ثم جال في الغنم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إياك والحلوب أو قال: ذوات الدر. "هـ عن طارق بن شهاب".
18619 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اور سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو ارشاد فرمایا : چلو ہمارے ساتھ واقفی کے گھر چلو ۔ چنانچہ ہم چاند کی روشنی میں واقفی کے گھر کے لیے چل پڑے حتی کہ اس کے باغ میں گھر پر پہنچ گئے ۔ واقفی نے ہم کو خوش آمدید اور مبارک باد دی ۔ پھر چھری لے کر بکریوں میں چکر لگانے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فرمایا : دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا ۔ (ابن ماجہ عن طارق بن شھاب) کلام : ۔۔۔ زوائد ابن ماجہ میں ہے کہ اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ ایک راوی ہے جس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں وہ واھی الحدیث ہے۔

18620

18620- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عمر قال: لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يظل اليوم يلتوي من الجوع ما يجد من الدقل ما يملأ به بطنه. "ط وابن سعد حم م هـ وأبو عوانة ع حب وابن جرير ق في الدلائل".
18620 ۔۔۔ (مسند عمر (رض)) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے بےچینی میں ادھر ادھر کروٹ لے رہے ہیں۔ آپ کو اس قدر ردی کھجوریں بھی میسر نہ تھیں کہ جو شکم کو کفایت کرسکیں۔ (مسند ابوداؤد ۔ الطیالسی ، ابن سعد، مسند احمد ، مسلم ، ابن ماجہ ، ابوعوانہ ، مسند ابی یعلی ، صحیح ابن حبان ، ابن جریر، البیہقی فی الدلائل)

18621

18621- عن ابن عباس أنه سمع عمر بن الخطاب يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الظهيرة فوجد أبا بكر في المسجد، فقال: ما أخرجك في هذه الساعة؟ فقال: أخرجني الذي أخرجك يا رسول الله، وجاء عمر بن الخطاب فقال: ما أخرجك يا ابن الخطاب؟ قال: أخرجني الذي أخرجكما فقعد عمر، وأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثهما، ثم قال: هل بكما قوة تنطلقان إلى هذا النخل، فتصيبان طعاما وشرابا وظلا؟ قلنا نعم، قال: سيروا بنا إلى منزل أبي الهيثم التيهان الأنصاري فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أيدينا فسلم، فاستأذن ثلاث مرات، وأم الهيثم وراء الباب تسمع الكلام وتريد أن يزيد لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أراد أن ينصرف خرجت أم الهيثم خلفه فقالت: يا رسول الله قد سمعت والله تسليمك، ولكن أردت أن تزيدنا من صلاتك، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم خيرا، وقال لها: أين أبو الهيثم ما أراه؟ قالت هو قريب ذهب يستعذب لنا الماء، ادخلوا فإنه يأتي الساعة إن شاء الله فبسطت لنا بساطا تحت شجرة فجاء أبو الهيثم وفرح بهم وقرت عينه بهم، وصعد على نخلة فصرم عذقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حسبك يا أبا الهيثم، قال: يا رسول الله تأكلون من رطبه ومن بسره ومن تذنوبه، ثم أتاهم بماء فشربوا عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا من النعيم الذي تسألون عنه، وقام أبو الهيثم ليذبح لهم شاة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياك واللبون، وقامت أم الهيثم تعجن لهم وتخبز، ووضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر رؤوسهم للقائلة، فانتبهوا وقد أدرك طعامهم، فوضع الطعام بين أيديهم فأكلوا وشبعوا وحمدوا الله، وردت عليهم أم الهيثم بقية العذق، فأكلوا من رطبه ومن تذنوبه، فسلم عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا لهم بخير، ثم قال لأبي الهيثم: إذا بلغك أن قد أتانا رقيق فأتنا، وقالت له أم الهيثم: لو دعوت لنا؟ قال: أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة، قال أبو الهيثم: فلما بلغني أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رقيق أتيته فأعطاني رأسا فكاتبته على أربعين ألف درهم، فما رأيت رأسا كان أعظم بركة منه. "البزار ع عق وابن مردويه ق في الدلائل ص"
18621 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو فرماتے ہوئے سنا : کہ ایک دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت باہر نکلے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو مسجد میں پایا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) سے پوچھا : اس وقت تم کو یہاں کس چیز نے آنے پر مجبور کیا ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : یا رسول اللہ ! مجھے اسی چیز نے یہاں آنے پر مجبور کیا ہے جس نے آپ کو یہاں آنے پر مجبور کیا ہے۔ اسی اثناء میں عمر بن خطاب (رض) بھی وہاں آگئے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بھی وہاں آنے کی وجہ دریافت کی ۔ انھوں نے عرض کیا : مجھے بھی وہی چیز یہاں لائی ہے۔ جو آپ دونوں کو لائی ہے۔ پھر عمر بھی بیٹھ گیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کو کچھ باتیں ارشاد فرماتے رہے ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حضرات سے دریافت فرمایا : کیا تم دونوں فلاں باغ تک چلنے کی سکت رکھتے ہو ؟ وہاں کھانا پانی اور سایہ ملے گا ۔ دونوں حضرات نے اثبات میں جواب دیا ۔ لہٰذا آپ نے فرمایا : پھر چلو ہمارے ساتھ ابوالہیثم بن التیہان انصاری کے گھر ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) فرماتے ہیں : چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چل دیئے اور ہم بھی ان کے پیچھے ہو لیے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کیا اور تین بار اجازت لی ، ام الہیثم دروازے کے پیچھے کھڑی ہوئی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سن رہی تھی ان کی منشاء تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک بول اور زیادہ سنیں ۔ جب آخر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹنے لگے تو ام الہیثم جھٹ نکلیں اور دروازے کی اوٹ سے بولیں کہ یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں نے آپ کا سلام سنا تھا ۔ بس میرے میں خواہش ہوئی کہ آپ کی مزید دعائیں ہم کو ملیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خیر ہے ، پھر پوچھا : ابو الہیثم کہاں ہے مجھے نظر نہیں آرہے ؟ ام الہیثم نے عرض کیا : قریب ہی ہیں ، گھر کے لیے میٹھا پانی بھرنے گئے ہیں۔ آپ اندر تشریف لے آئیے ، وہ بھی آتے ہی ہوں گے ان شاء اللہ ۔ پھر انھوں نے ہمارے لیے چٹائی بچھا دی ۔ چنانچہ ابو الہیثم آئے تو ہم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان کی آنکھیں بھی ہم سے ٹھنڈی ہوگئیں ۔ وہ آکر فورا ایک درخت پر چڑھے اور کھجور کا ایک خوشہ توڑ لائے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کافی ہے ابو الہیثم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے ساتھی اس سے نرم اور سخت من پسند کھجوریں کھائیں ۔ پھر وہ پانی لے کر آئے ، ہم نے کھجوروں کے ساتھ پانی بھی پیا، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ وہ نعمتیں ہیں ، جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ۔ پھر ابو الہیثم کھڑے ہو کر بکری ذبح کرنے اٹھے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ والی بکری ذبح کرنے سے اجتناب کا حکم دیا ۔ ام الہیثم آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے میں مصروف ہوگئیں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر اور عمر (رض) نے اپنے سر قیلولہ (دوپہر میں آرام ) کے لیے رکھ دیئے ۔ جب کچھ دیر بعد وہ اٹھے تو کھانا تیار ہوچکا تھا ۔ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا ۔ سب نے کھایا انھوں نے کھانا کھایا اور سیر ہوگئے اور اللہ کی حمد وثناء اور شکر ادا کیا ، پھر ام الہیثم نے بچا ہوا کھجوروں کا خوشہ سامنے رکھ دیا ۔ انھوں نے کچی پکی کھجوریں کھائیں ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سلام کیا اور ان کے لیے خیر کی دعا کی پھر ابو الہیثم کو فرمایا : جب تم کو خبر ملے کہ ہمارے پاس قیدی آئے ہیں تو آجانا ۔ ام الہیثم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : اگر آپ ہمارے لیے دعا کردیں تو اچھا ہو ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” افطر عندکم الصائمون واکل طعامکم الابرار وصلت علیکم الملائکۃ “۔ روزے دار تمہارے پاس افطار کریں ، تمہارا کھانا متقی لوگ کھائیں اور ملائکہ تم پر رحمتیں بھیجیں ۔ ابوالہیثم (رض) فرماتے ہیں : جب مجھے خبر ملی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس غلام آئے ہیں تو میں حاضر خدمت ہوا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک غلام عطا کیا ۔ میں نے اس غلام کے ساتھ چالیس ہزار درہم پر مکاتبت کا سودا کرلیا میں نے اس سے زیادہ برکت والا غلام کوئی نہیں دیکھا ۔ (البزار ، مسند ابی یعلی ، الضعفاء للعقیلی ، ابن مردویہ ۔ البیھقی ، فی الدلائل ، السنن لسعید بن منصور)

18622

18622- عن أم هانئ قالت: ما رأيت بطن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ذكرت القراطيس يثنى بعضها على بعض. "الرؤياني والشاشي كر".
18622 ۔۔۔ ام ہانی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکم اطہر دیکھا تو مجھے کاغذوں کے پلندے یاد آگئے جو ایک دوسرے پر لپیٹے جاتے ہیں۔ (الرؤیانی ، الشاشی ، ابن عساکر)

18623

18623- عن عائشة قالت كنا نأكل الكراع على عهد رسول الله بعد عاشرة.
18623 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دسویں روز کے بعد پائے کھاتے تھے) (الخطبیب فی المتفق)

18624

18624- عن عائشة قالت: كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم قطريان غليظان فكان إذا قعد فيهما عرف ثقلا عليه، وقدم فلان اليهودي ببز من الشام، فقالت عائشة: لو بعثت إليه فاشتريت منه ثوبين إلى الميسرة؟ فبعث إليه فقال: قد علمت ما تريد إنما تريد أن تذهب بهما أو تذهب بمالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كذب، قد علم أني من أتقاهم لله وأداهم للأمانة. "ن كر".
18624 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو موٹی کسی قدر سرخ چادریں تھیں جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں میں ملبوس ہو کر بیٹھتے تو چادروں کا بوجھ محسوس کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ فلاں یہودی شام سے بز (ریشم) کا کپڑا لے کر آیا ۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : آپ کسی کو بھیج کر اس سے دسو کپڑے خرید لیں اس شرط پر کہ جب سہولت ہوگی قیمت ادا کردیں گے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو اس کام کے لیے بھیج دیا ۔ یہودی بولا : مجھے معلوم ہے تم کیا چاہتے ہو ؟ تم یہ کپڑے یا کہا میرا مال لے کر بھاگنا چاہتے ہو ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ سن کر) فرمایا : وہ جھوٹ بولتا ہے ، وہ بخوبی جانتا ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ امانت ادا کرنے والا ہوں ۔ (نسائی ، ابن عساکر)

18625

18625- عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن الشفاء بنت عبد الله قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم فسألته وشكوت إليه فجعل يعتذر إلي، وجعلت ألومه، ثم حانت صلاة الأولى، فدخلت بيت ابنتي وهي عند شرحبيل بن حسنة، فوجدت زوجها في البيت فوقعت به ألومه حضرت الصلاة الأولى وأنت ها هنا، فقال: يا عمة لا تلوميني كان لي ثوبان استعار أحدهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجدت في نفسي من ذلك، فقلت: ومن يلومه وهذا شأنه. "كر".
18625 ۔۔۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن (رض) حضرت شفاء بنت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے کہ فرماتی ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے ۔ میں آپ سے آپ کا حال پوچھنے لگی ۔ اور شکوہ و شکایت بھی کیا (کہ مجھے کچھ دیتے نہیں) آپ بھی مجھ سے معذرت فرمانے لگے ۔ پھر نماز کا وقت آگیا ۔ میں اپنی بیٹی کے گھر میں داخل ہوئی جو شرجیل بن حسنہ کے عقد میں تھیں ۔ میں نے بیٹی کے شوہر شرجیل کو گھر میں موجود پایا وت اس کو ملامت وسرزنش کی کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے (حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کو چلے گئے ہیں) اور تم یہاں بیٹھے ہو۔ انھوں نے کہا : اے پھوپھی جان ! مجھے برا بھلا نہ کہو ۔ میرے پاس دو ہی کپڑے تھے ۔ ایک کپڑا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مانگے سے (عاریتا) لے گئے ہیں ، شفاء فرماتی ہیں : تب مجھے اپنے دل میں شرمندگی کا احساس ہوا اور کہنے لگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حال ہے اور پھر کس کو زیب دیتا ہے کہ آپ کو ملامت کرے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18626

18626- عن أبي هريرة قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي جالسا فقلت: يا رسول الله أراك تصلي جالسا فما أصابك؟ قال: الجوع يا أبا هريرة، فبكيت فقال: لا تبك فإن شدة القيامة لا تصيب الجائع إذا احتسب. "ابن النجار".
18626 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتا دیکھ رہا ہوں ۔ آپ کو کیا تکلیف لاحق ہوئی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوہریرہ (رض) بھوک نے یہ حال کردیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں رو پڑا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رو نہ ، بیشک قیامت کے دن کی سختی اور شدت بھوکے کو نہ پہنچے گی اگر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے ۔ (رواہ ابن النجار)

18627

18627- عن أبي هريرة قال: ما أشبع النبي صلى الله عليه وسلم أهله ثلاثا تباعا من خبز البر حتى فارق الدنيا. "ابن جرير".
18627 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں کو کبھی تین دن مسلسل گندم کی روٹی کے ساتھ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھلایا حتی کہ دنیا سے جدا ہوگئے ۔ (ابن جریر)

18628

18628- عن أبي هريرة قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي جالسا، فقلت: يا رسول الله أراك تصلي جالسا، فما أصابك؟ قال: الجوع يا أبا هريرة، فبكيت، فقال: لا تبك يا أبا هريرة فإن شدة الحساب يوم القيامة، لا تصيب الجائع إذا احتسب في دار الدنيا. "حل خط، كر".
18628 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا ۔ آپ بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے تھے ۔ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتا دیکھ رہا ہوں ، آپ کو کیا تکلیف پیش آئی ہے ؟ فرمایا : ابوہریرہ ! یہ بھوک ہے۔ میں رو پڑا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوہریرہ ! رو مت بیشک حساب کتاب کی سختی قیامت کے روز بھوکے کو نہیں ہوگی جب وہ دنیا میں اس کے عوض ثواب کی امید (میں صبر) کرے ۔ (حلیۃ الاولیاء الخطیب فی التاریخ ، ابن عساکر)

18629

18629- ابن مندة أنا خيثمة بن سليمان، ثنا محمد بن عوف بن سفيان الطائي الحمصي: ثنا أبي عوف: ثنا شقير مولى العباس عن الهدار صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه رأى العباس وإسرافه في خبز السميذ وغيره قال: لقد توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وما شبع من خبز بر حتى فارق الدنيا. "كر وقال شقير مولى العباس بن الوليد بن عبد الملك بن مروان: روى عن الهدار رجل زعم أن له صحبة، قال ابن منده: هذا حديث غريب، ويقال أن أحمد بن حنبل سمعه من محمد بن عوف، وقال: عبد الغني بن سعيد شقير روى عن هدار عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثا واحدا لا أعلم حدث به غير محمد بن عوف الطائي".
18629 ۔۔۔ ابن مندہ فرماتے ہیں : ہمیں خیثمہ بن سلیمان ، محمد بن عوف بن سفیان طائی حمصی ، ابو عوف ، شفیر مولی عباس عن الہدار صحابی (رض) ۔ ہدار (رض) فرماتے ہیں : انھوں نے عباس کو سفید آنے وغیرہ نفیس چیزوں میں اسراف کرتے دیکھا تو فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی مگر کبھی آپ نے گندم کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ۔ (رواہ ابن عساکر) کلام : ۔۔۔ عباس بن الولید بن عبدالملک بن مروان (جن کا اوپر ذکر ہوا ان) کے غلام شقیر کہتے ہیں ہدار سے روایت کرنے والے کا گمان ہے کہ ان کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میسر ہوئی ہے۔ بن مندہ کہتے ہیں یہ روایت غریب ہے۔ (ضعیف ہے) کہا جاتا ہے کہ امام احمد بن حنبل (رح) نے اس روایت کو محمد بن عوف سے سنا ہے۔ عبدالغنی بن سعید کہتے ہیں شقیر نے ہدار عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ایک حدیث روایت کی ہے معلوم نہیں کہ اس کو محمد بن عوف طائی کے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے یا نہیں ۔

18630

18630- عن سماك بن حرب قال: سمعت النعمان بن بشير يقول على المنبر: احمدوا ربكم، فربما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتلوى ما شبع من الدقل، وأنتم لا ترضون دون ألوان التمر والزبد
18630 ۔۔۔ سماک بن حرب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا اپنے رب کی حمد (اور اس کا شکر) کرو ، میں نے اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے بل کھاتے تھے ، آپ کو ردی کھجوریں بھی میسر نہ ہوتی تھیں جن سے آپ شکم سیری فرما لیتے اور اب تم طرح طرح کی کھجوروں اور مکھن کے بغیر خوش نہیں ہوتے ہو ۔ (رواہ الترمذی)

18631

18631- عن طلحة بن عمرو النضري قال: كان أحدنا إذا قدم المدينة فإن كان له عريف نزل على عريفه بغير المعرفة، وإن لم يكن له عريف نزل الصفة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن بين الرجلين ويرزقهما مدا كل يوم من تمر بينهما، فأتيت فنزلت في الصفة مع رجل، فكان بيني وبينه كل يوم مد من التمر، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم بعض الصلوات، فلما انصرف قال رجل من أهل الصفة: يا رسول الله أحرق بطوننا التمر، وتخرقت عنا الخنف فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب فحمد الله وأثنى عليه، وذكر ما لقي من قومه من الشدة والأذى حتى قال: لقد مكثت أنا وصاحبي ثمانية عشر يوما وليلة وما طعامنا إلا البرير حتى قدمنا المدينة على إخواننا من الأنصار فواسونا في طعامهم وعظم طعامهم هذا التمر، والله لو وجدت اللحم والخبز لأطعمتكموه ولكن لعلكم أن تدركوا أو أدرك منكم زمانا تلبسون فيه مثل أستار الكعبة، ويغدى عليكم ويراح بالجفان، أنتم خير منكم يومئذ، أنتم اليوم إخوان، وأنتم يومئذ يضرب بعضكم رقاب بعض. "ابن جرير".
18631 ۔۔۔ طلحہ بن عمرو نضری سے مروی ہے کہ ہم میں سے جب کوئی شخص مدینہ آتا تھا تو اگر مدینہ میں کوئی اس کا واقف کار ہوتا تو وہ اس کے پاس ٹھہر جاتا ۔ ورنہ وہ صفہ میں آکر ٹھہرتا تھا ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صفہ کے) دو دو آدمیوں کو ساتھی بنا دیتے تھے ۔ اور ہر روز ان ہر دو آدمیوں کو ایک مد کھجور دیتے تھے ۔ طلحہ بن عمرو فرماتے ہیں : چنانچہ میں مدینہ آیا تو صفہ میں ایک شخص کے ساتھ ٹھہر گیا ۔ ہم دونوں کو ہر روز ایک مد (دورطل) کھجوریں ملتی تھیں ۔ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی نماز پڑھائی ۔ جب آپ لوٹنے لگے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجوروں نے ہمارے پیٹ جلا دیئے ہیں اور ہمارے جسموں پر ردی کپڑے بھی پھٹ کر جھول گئے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر چڑھ گئے ۔ اللہ کی حمد وثناء کی ۔ پھر اپنے اور قوم کے مصائب کا ذکر کیا ۔ حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں اور میرا ساتھی اٹھارہ دن رات تک اس حال میں رہے کہ ہمارا کھانا پیلو درخت کے (بےمزہ) پھل کے سوا کچھ کھانا نہیں تھا ۔ حتی کہ ہم مدینہ آگئے ۔ ہمارے انصاری بھائیوں نے ہمارے ساتھ کھانے میں ہمدردی وغم خواری کا برتاؤ کیا ۔ ان کا زیادہ تر کھانا یہی کھجوریں ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں گوشت اور روٹی پاتا تو ضرور تم کو کھلاتا ۔ لیکن عنقریب تم ایسا زمانہ پاؤ گے جب تم کعبہ کے پردوں جیسا (ملائم) کپڑا پہنو گے ۔ بڑے بڑے پیالوں میں تمہارے پاس صبح وشام کھانے آئیں گے ۔ آج تم اس آنے والے دن سے بہتر ہو۔ کیونکہ آج تم بھائی بھائی ہو اور اس دن تم ایک دوسرے کی گردن اڑاؤ گے ۔ (رواہ ابن جریر)

18632

18632- عن عبد الرحمن بن عوف قال: هلك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يشبع هو وأهل بيته من خبز الشعير فلا أرانا أخرنا لما هو خير لنا. "ابن جرير".
18632 ۔۔۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور کبھی آپ اور آپ کے گھر والوں نے جو کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ۔ پس ہمارا خیال ہے کہ ہمارے لیے بہترین چیزوں کو مؤخر کردیا گیا ہے۔ (رواہ ابن جریر)

18633

18633- عن عتبة بن غزوان قال: خطبنا علي على منبر البصرة قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم سابع سبعة أو ثامن ثمانية ما كان لنا طعام إلا ورق الشجر حتى قرحت أشداقنا. "أبو الفتح بن البطي في فوائده وقال إنه وهم بل الحديث لعتبة والخطبة له".
18633 ۔۔۔ عتبہ بن عزوان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ہم کو بصرہ کے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا : میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ساتواں یا آٹھواں اسلام قبول کرنے والا شخص تھا ۔ ہمارا کھانا صرف درخت کے پتے ہوتے تھے ۔ حتی کہ ہماری باچھیں چھل گئی تھیں ۔ (ابوالفتح بن البطی فی فوائدہ)

18634

18634- عن أبي قلابة عن علي قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض طرق المدينة بالهاجرة، فقلت: بأبي أنت وأمي ما أخرجك هذه الساعة؟ قال: وصل يا علي الجوع إلي، فقلت: بأبي أنت وأمي هل أنت منتظري حتى آتيك؟ قال: فجلس في ظل حائط فأتيت رجلا بالمدينة له ودي قد غرسه، فقلت: هل أنت معطي أستقي كل جرة بتمرة لا تعطني حشفه ولا مذره، قال: أعطيك من خير صنيع عندي فجعلت كلما استقيت جرة وضع تمرة حتى اجتمع قبضة من تمر، فقلت: هل أنت واهب لي صرة من كراث يعني قبضة، فأعطاني فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس فبسط طرف ثوبه، فألقيته عليه، فأكل ثم قال: أشبعت جوعي أشبع الله جوعك. "الحافظ أبو الفتح ابن أبي الفوارس في الأفراد".
18634 ۔۔۔ ابو قلابہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت کرت ہیں۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ کے راستے میں دوپہر کے وقت ملا۔ میں نے غرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، اس وقت (کڑی دوپہر میں) کس چیز نے آپ کو باہر نکالا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے علی : مجھے بھوک نے تنگ کیا ہے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کیا آپ انتظار کرسکتے ہیں جب تک کہ میں واپس آؤں ۔ چنانچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ میں مدینے میں ایک شخص کے پاس آیا جس نے کھجور کے چھوٹے چھوٹے پودے لگائے تھے ۔ میں نے اس سے بات کی کہ میں ان پودوں میں ایک ایک مٹکا پانی دیتا ہوں تم مجھے ہر مٹکے کے عوض ایک کھجور دو لیکن وہ کھجور نہ خشک سوکھی ہوئی ہو یا بغیر گٹھلی کے ہو اور نہ گندی اور ردی ہو ۔ جب بھی میں ایک مٹکا پانی ڈالتا وہ ایک کھجور نکال کر رکھ دیتا ۔ حتی کہ ایک مٹھی کھجوروں کی جمع ہوگئی ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا : کیا تم مجھے گندنے (ترکاری) کی ایک مٹھی دو گئے ؟ اس نے مجھے دے دی ، پھر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا ۔ ٓپ (رض) (اسی جگہ) تشریف فرما تھے ۔ آپ نے اپنے کپڑے کا ایک حصہ بچھا دیا میں نے وہ کھجوریں اس پر رکھ دیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ کھجوریں تناول فرمائیں پھر فرمایا : تم نے میری بھوک مٹائی اللہ تمہاری بھوک مٹائے ۔ (الحافظ ابو الفتح ابن ابی الفوارس فی الافراد)

18635

18635- عن أم سليم قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصبري فوالله ما في آل محمد شيء منذ سبع ولا أوقد تحت برمة لهم منذ ثلاث، والله لو سألت الله يجعل جبال تهامة كلها ذهبا لفعل. "طب".
18635 ۔۔۔ ام سلیم سے مروی ہے کہ ان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : صبر کرو ، اللہ کی قسم ! سات دنوں سے آل محمد کے گھروں میں کچھ نہیں ہے اور تین دن سے ان کے گھروں میں ہانڈی کے نیچے آگ نہیں جلائی گئی ، اللہ کی قسم ! اگر میں اللہ سے سوال کرتا کہ وہ تہامہ کے سب پہاڑوں کو سونا بنا دے تو اللہ پاک ایسا کردیتے ۔ (الکبیر للطبرانی)

18636

18636- عن الحصين بن يزيد الكلبي قال: ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ضاحكا ما كان إلا تبسما، وربما شد النبي صلى الله عليه وسلم الحجر على بطنه من الجوع."ابن منده وأبو نعيم كر".
18636 ۔۔۔ حصین بن یزید کلبی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسکرانے کے علاوہ کبھی ہنستے نہیں دیکھا ۔ اور اکثر اوقات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے ۔ (ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن عساکر)

18637

18637- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عمر قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله أن يعطيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما عندي شيء، ولكن استقرض حتى يأتينا شيء فنعطيك، فقال عمر: يا رسول الله هذا أعطيته ما عندك فما كلفك ما لا تقدر عليه، فكره النبي صلى الله عليه وسلم قول عمر حتى عرف في وجهه، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله أنفق ولا تخف من ذي العرش إقلالا، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى عرف البشر في وجهه بقول الأنصاري، ثم قال: بهذا أمرت. "ت في الشمائل والبزار وابن جرير والخرائطي في مكارم الأخلاق. ص".
18637 ۔۔۔ (مسند عمر (رض)) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا ۔ اور کچھ سوال کیا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فی الحال میرے پاس کچھ نہیں ہے تم ایسا کرو کسی سے قرض لے لو جیسے ہی ہمارے پاس کچھ آئے گا ہم تم کو عطا کردیں گے ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے جو کچھ آپ کے پاس ہے عطا کردیا ۔ جو ہمارے پاس نہیں ہے اللہ نے ہمیں اسے دینے کا مکلف نہیں کیا ۔ یہ بات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناگوار لگی ۔ جس کا اثر آپ کے چہرے میں بھی محسوس ہوا ۔ ایک انصاری شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! خرچ کیجئے اور عرش والے سے کمی کا ڈر نہ کیجئے ۔ یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا دیئے حتی کہ اس انصاری کے قول کا خوش گوار اثر آپ کے چہرے میں بھی دیکھا گیا ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے اسی کا حکم ملا ہے۔ (ترمذی ، فی الشمائل ، البزار ، ابن جریر ، الخرائطی فی مکارم الاخلاق ، الضیاء للمقدسی)

18638

18638- عن سهل بن سعد قال: جاءت امرأة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ببردة، قال سهل: هي شملة منسوجة فيها حاشيتها، فقالت: يا رسول الله جئتك أكسوك هذه، فأخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان محتاجا إليها فلبسها، فرآها عليه رجل من أصحابه فقال: يا رسول الله ما أحسن هذه أكسنيها، فقال: نعم، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم لامه أصحابه وقالوا: ما أحسنت حين رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذها محتاجا إليها، ثم سألته إياها وقد عرفت أنه لا يسأل شيئا فيمنعه، قال: والله ما حملني على ذلك إلا رجوت بركتها حين لبسها رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي أكفن فيها. "ابن جرير".
18638 ۔۔۔ سہل بن سعد سے مروی ہے کہ ایک عورت ایک چادر لے کر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ حضرت سہل (رض) نے فرمایا : اس چادر کے حاشیے بنے ہوئے ہیں (اور یہ عمدہ چادر ہے) عورت بولی : یا رسول اللہ ! میں اس لیے حاضر ہوئی ہوں کہ آپ کو یہ چادر پہننے کے لیے دوں ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ چادر لے لی اور آپ اس کے محتاج بھی تھے ۔ لہٰذا آپ نے وہ چادر لے کر زیب تن فرما لی ۔ اصحاب میں سے ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیسی عمدہ چادر ہے یہ آپ مجھے عنایت کردیں تو ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں بالکل۔ (اور آپ نے وہ چادر اس صحابی کو عنایت فرما دی) جب آپ کھڑے ہو کر چلے گئے تو دوسرے اصحاب نے اس صحابی کو ملامت کی کہ تم نے اچھا نہیں کیا تم نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس چادر کے محتاج ہیں پھر تم نے وہ مانگ لی جب کہ تم کو معلوم ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس چیز کا سوال کیا جاتا ہے آپ اس سے منع نہیں فرماتے ۔ اس صحابی نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے اس کام پر اس برکت کی امید نے مجبور کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہناوے کو میں لے لوں پھر اس میں مجھے کفن دیا جائے ۔ (ابن جریر)

18639

18639- وعنه قال: حيكت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حلة أنمار صوف سوداء فجعل حاشيتها بيضاء، فخرج فيها إلى أصحابه، فضرب بيده على فخذه فقال: ألا ترون إلى هذه ما أحسنها؟ فقال أعرابي: بأبي أنت وأمي يا رسول الله هبها لي، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يسأل شيئا أبدا فيقول: لا، فقال: نعم فأعطاه الجبة ودعا بمعوزين له فلبسهما وأمر بمثلها فحيكت له، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي في المحاكة. "ابن جرير".
18639 ۔۔۔ سہل بن سعد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک سیارونی حلہ (جوڑا) بنایا گیا ۔ جس کے کنارے سفید رکھے گئے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ پہن کر اپنے اصحاب کی طرف نکلے ۔ آپ نے اپنی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا : دیکھتے نہیں کس قدر حسین حلہ ہے یہ ؟ ایک اعرابی (دیہاتی) بولا : آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یا رسول اللہ ! یہ حلہ مجھے ہدیہ فرما دیں ۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تھا کبھی لا (نہیں) نہیں کرتے تھے ۔ لہٰذا آپ نے فرمایا : ہاں ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے اس کو وہ حلہ عنایت فرما دیا ۔ پھر (اپنے) دو پرانے کپڑے منگوائے اور پہن لیے پھر اس حلہ کے مثل دوسرا بننے کا حکم دیا ، چنانچہ وہ بنا جانے لگا اسی دوران آپ وفات پاگئے ۔ (اور وہ بنائی کے مرحلے ہی میں رہا) ۔ (رواہ ابن جریر)

18640

18640- عن ثابت عن أنس قال: جاء سائل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأمر له بتمرة فوحش بها، وأتاه آخر فأمر له بتمرة فقال: سبحان الله تمرة من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال للجارية: اذهبي إلى أم سلمة فمريها فلتعطه الأربعين درهما التي عندها. "هب".
18640 ۔۔۔ حضرت ثابت (رض) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سائل حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا آپ نے اس کے لیے ایک کھجور کا حکم دیا۔ سائل نے وہ کھجور لے کر پھینک دی۔ پھر دوسرا سائل آیا آپ نے اس کے لیے بھی ایک کھجور کا حکم دیا ۔ اس نے کہا سبحان اللہ ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملی ہوئی کھجور ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک باندی کو حکم دیا : ام سلمہ (رض) کے پاس جاؤ اور اس کو کہو کہ جو تمہارے پاس چالیس درہم ہیں وہ اس سائل کو دے دے ۔ شعب الایمان للبیہقی

18641

18641- عن الحسن أن سائلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فأعطاه تمرة، فقال الرجل: سبحان الله نبي من الأنبياء يتصدق بتمرة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أو ما علمت أن فيها مثاقيل ذر كثير، فأتاه آخر فسأله فأعطاه تمرة فقال: تمرة من نبي من الأنبياء لا تفارقني هذه التمرة ما بقيت، ولا أزال أرجو بركتها أبدا، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بمعروف، وما لبث الرجل أن استغنى. "هب".
18641 ۔۔۔ حضرت حسن (رح) سے مروی ہے کہ ایک سائل حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوا ۔ آپ نے اس کو ایک کھجور عنایت فرمائی ، آدمی بولا : سبحان اللہ ! انبیاء میں سے ایک نبی ایک کھجور کا صدقہ کرتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہیں معلوم نہیں کہ اس میں بہت سے باریک باریک مثقال ہیں ؟ پھر ایک دوسرا سائل آیا آپ نے اس کو بھی ایک کھجور عنایت فرما دی ، اس نے کہا : انبیاء میں سے ایک نبی نے مجھے یہ کھجور عطا کی ہے۔ لہٰذا یہ کھجور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے جدا نہ ہوگی میں ہمیشہ اس کی برکت حاصل کرتا رہوں گا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے بھلائی کا حکم دیا ۔ پھر وہ شخص ہمیشہ مالدار ہوتا گیا ۔ شعب الایمان للبیہقی

18642

18642- عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يسأل عن شيء، فقال: لا. "كر".
18642 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا پھر آپ نے (نہیں) فرمایا ہو ۔ (رواہ ابن عساکر)

18643

18643- عن جابر قال: ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط فقال: لا. "ابن جرير".
18643 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا آپ نے کبھی لا (نہیں) نہیں فرمایا ۔ (رواہ ابن جریر) ۔

18644

18644- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع قارئا يقرأ: " إن لدينا أنكالا وجحيما" فصعق. "ابن النجار".
1044 2 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قاری کو یہ پڑھتے ہوئے سنا : ” ان لدینا انکالا وجحیما “۔ ہمارے پاس (مختلف) عذاب اور دوزخ ہے۔
یہ سننا تھا کہ آپ بےہوش ہوگئے ۔ (رواہ ابن النجار)

18645

18645- عن أبي الهيثم عمن أخبره أنه سمع أبا سفيان بن حرب مازح النبي صلى الله عليه وسلم في بيت ابنته أم حبيبة ويقول: والله إن هو إلا أن تركتك فتركتك العرب أن انتطحت فيك وقالوا: جماء ولا ذات قرن، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك ويقول: أنت تقول ذلك يا أبا حنظلة. "الزبير بن بكار في كر".
18645 ۔۔۔ ابو الہیثم (رض) روایت کرتے ہیں اس شخص سے جس نے حضرت ابو سفیان بن حرب (رض) سے سنا ۔ حضرت ابوسفیان (رض) اپنی بیٹی (ام المؤمنین) ام حبیبہ (رض) کے گھر بیٹھے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاق فرمانے لگے ۔ بولے : واللہ ! میں نے آپ کو چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے سارے عرب نے آپ کو چھوڑ دیا اور میں نے آپ کو اس قدر سینگ مارے کہ لوگ کہنے لگے یہ کیا اس سر پر تو بال ہیں اور نہ سینگ ۔ بو سفیان (رض) کہتے رہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنستے رہے اور فرماتے رہے : اے ابو حنظلہ ! یہ تم کہہ رہے ہو ۔ (الزبیر بن بکار فی ابن عساکر)

18646

18646- عن ابن عباس أن رجلا سأله فقال: أكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمزح؟ قال: نعم، فقال رجل: ما كان مزاحه، فقال ابن عباس: كسا النبي صلى الله عليه وسلم بعض نسائه ثوبا واسعا قال: البسيه، واحمدي الله، وجري من ذيلك هذا كذيل العروس. "كر وضعفه".
18646 ۔۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزاح فرماتے تھے ؟ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ہاں ۔ اس شخص نے پوچھا : آپ کا مزاح کیسا ہوتا تھا ؟ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بیوی کو ایک بڑا کپڑا پہنایا اور فرمایا : اس کو پہن لے اور اس پر اللہ کا شکر کر اور اس کپڑے کو دلہن کی طرح کھینچتی پھر ۔ (رواہ ابن عساکر) کلام : ۔۔۔ یہ روایت ضعیف ہے۔

18647

18647- عن سهل بن حنيف قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأتي ضعفاء المسلمين، ويزورهم، ويعود مرضاهم، ويشهد جنائزهم. "هب".
18647 ۔۔۔ سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمزور اور غریب مسلمانوں کے پاس تشریف لاتے تھے ، ان کی زیارت کرتے ، ان کے مریضوں کی عیادت کرتے اور ان کے جنازوں میں حاضری دیتے تھے ۔ شعب الایمان للبیہقی

18648

18648- عن أنس قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم وأنا مع غلمان، فسلم علينا وأخذ بيدي، فأرسلني برسالة فقالت لي أمي: لا تخبر بسر رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدا. "كر".
18648 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گذر رہے تھے میں بچوں کے ساتھ (کھیل کود میں) مصروف تھا ۔ آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے کوئی پیغام دے کر بھیجا ۔ مجھے میری ماں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راز کی کسی کو خبر نہ دینا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18649

18649- عن أنس قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم في حاجة فمررت بصبيان فجلست إليهم، فلما استبطأني، خرج فمر بالصبيان فسلم عليهم. "ك".
18649 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کسی کام سے بھیجا میں بچوں کے پاس سے گذرا تو ان کے پاس بیٹھ گیا (اس وقت آپ کی عمر کم تھی) جب مجھے دیر ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (میری تلاش میں) نکلے اور بچوں کے پاس سے گذرے تو ان کو سلام کیا ۔ (مستدرک الحاکم)

18650

18650- عن أنس قال: ما كان في الدنيا شخص أحب إليهم رؤية من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانوا إذا رأوه لم يقوموا إليه ما رأوا من كراهته لذلك. "ابن جرير".
18650 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ دنیا میں کوئی ذات زیارت کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ پسند نہیں تھی ۔ اس کے باوجود جب بھی آپ کو دیکھتے تو آپ کے استقبال میں کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔ کیونکہ کھڑے میں وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناگواری کو جانتے تھے ۔ (رواہ ابن جریر)

18651

18651- عن أنس قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما المسجد وعليه برد نجراني غليظ الصنعة، فأتاه أعرابي من خلفه، فأخذ بجانب ردائه حتى أثرت الصنعة في صفح عنق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد أعطنا من مال الله الذي عندك، فالتفت رسول الله صلى الله عليه وسلم فتبسم فقال: مروا له. "ابن جرير".
18651 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن مسجد میں داخل ہوئے آپ کے جسم اقدس پر (ایک موٹی) نجرانی چادر پڑی تھی ۔ ایک دیہاتی آپ کے پیچھے سے آیا اس نے آپ کی چادر کا کونا پکڑ کر کھینچا جس کی وجہ سے چادر آپ کی گردن میں کھینچ گئی ۔ پھر دیہاتی بولا : اے محمد ! ہمیں وہ مال دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ (اس کے باوجود) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اس کو مال وغیرہ کا حکم کرو۔ (ابن جریر)

18652

18652- عن أنس قال: كنت مع الصبيان فمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: السلام عليكم يا صبيان. "الديلمي".
18652 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں بچوں کے ساتھ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا : السلام علیکم اے بچو ! (الدیلمی)

18653

18653- عن أنس قال: خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين لا والله ما سبني سبه قط، ولا قال لي: أف قط، ولا قال لشيء فعلته لم فعلته؟ ولا لشيء لم أفعله لم لا فعلته. "عب".
18653 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس سال تک خدمت کی لیکن اللہ کی قسم ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی مجھے گالی دی (اور نہ برا بھلا کہا بلکہ) کبھی اف تک نہ کہا ۔ نہ کبھی کسی ہوئے کام پر فرمایا : کہ کیوں کیا اور نہ کبھی چھوٹے ہوئے کام پر فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا ۔ (مصنف عبدالرزاق)

18654

18654- وعنه: خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين، فلا والله ما قال لي لشيء صنعته لم صنعته؟ ولا لشيء لم أصنعه ألا صنعته؟ ولا لامني، فإن لامني بعض أهله قال: دعه، وما قدر فهو كائن أو ما قضي فهو كائن. "عب".
18654 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) ہی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس سال خدمت کی ۔ اللہ کی قسم آپ نے مجھے کبھی کسی کیے ہوئے کام پر نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور ایسے کسی کام پر جو میں نے نہ کیا ہو کہ کیوں نہیں کیا ؟ ۔ نہ کبھی آپ نے مجھے ملامت کی اور اگر کبھی آپ کے کسی گھر والے نے ملامت کی بھی تو پس آپ نے یہ کہا آپ اس کو چھوڑ دیں ۔ یا یہ کہا جو لکھا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور جس کا فیصلہ ہوگیا وہ بھی انجام کو پہنچے گا ۔

18655

18655- عن أسيد بن حضير قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان فيه مزاح يحدث القوم ليضحكهم، فطعنه رسول الله صلى الله عليه وسلم في خاصرته، فقال: أصبرني، فقال: اصطبر، قال: إن عليك قميصا وليس علي قميص، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصه فأحتضنه وجعل يقبل كشحه ويقول: إنما أردت هذا يا رسول الله. "طب".
18655 ۔۔۔ اسید بن حضیر سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت تھے ۔ اسید بن حضیر فرماتے ہیں میں لوگوں سے ہنسی مزاح کررہا تھا ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کولہے پر کچوکا لگایا پھر فرمایا : لو مجھ سے بھی بدلہ لے لو ۔ اسید میں نے عرض کیا : بدلہ لوں ؟ حالانکہ مجھ پر قمیص نہیں تھی جبکہ آپ پر قمیص ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قمیص اٹھا دی۔ میں آپ کو چمٹ گیا اور آپ کے پہلو کو بوسے دینے لگا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرا یہی ارادہ تھا ۔ (الکبیر للطبرانی)

18656

18656- عن أنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا فيقول لأخ لي: يا أبا عمير ما فعل النغير، ونضع بساطا لنا فيصلي عليه."ش"
18656 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ۔ میرا ایک بھائی تھا آپ اس کو فرماتے : اے ابو عمیر تمہاری فاختہ کا کیا ہوا اسی طرح آپ ہمارے لیے چادر بچھا دیا کرتے تھے اور اسی پر آپ نماز پڑھ لیتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) فائدہ : ۔۔۔ یہ ابو عمیر چھوٹے بچے تھے انھوں نے ایک مرتبہ فاختہ پکڑی تھی جو اڑ گئی تھی اس پر آپ ان کو چھیڑتے تھے ۔

18657

18657- وعنه قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم سبابا ولا لعانا ولا فحاشا، كان يقول لأحدنا: ما له ترب جبينه. "خ حم ورواه العسكري في الأمثال بلفظ: ما له ترب يمينه". مر برقم [18407] .
18657 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے ، نہ لعنت کرنے والے تھے اور نہ فحش اور لغو بات فرماتے تھے ۔ (زیادہ سے زیادہ) کسی کو یہ کہتے تھے : کیا ہوگیا اس کی پیشانی مٹی میں ملے ۔ (بخاری ، مسند احمد ، العسکری فی الامثال)

18658

18658- وعنه قال: صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين وشممت العطر كله فلم أشم نكهة أطيب من نكهة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا لقيه رجل من أصحابه فقام قام معه، فلم ينصرف حتى يكون الرجل هو الذي ينصرف عنه، وإذا لقيه أحد من أصحابه فتناول يده ناولها إياه فلم ينزع يده منه حتى يكون الرجل هو الذي ينزع يده منه، وإذا لقيه أحد من أصحابه فتناول أذنه ناولها إياه فلم ينزع يده عنه حتى يكون الرجل هو الذي ينزع عنه. "ابن سعد كر".
18658 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں دس سال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہا ۔ میں نے ہر طرح کی خوشبو سونگھی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انفاس معطر سے زیادہ اچھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی شخص ملاقات کرتا پھر اٹھنے لگتا تو آپ بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ۔ اور جب تک وہ خود نہ چلا جاتا اس کا ساتھ نہ چھوڑتے تھے ۔ جب کوئی آپ کا ہاتھ تھامنا چاہتا تو آپ اس کو اپنا ہاتھ تھموا دیتے اور پھر اس وقت تک نہ چھڑاتے جب تک وہ خود نہ چھوڑ دیتا تھا ۔ (ابن سعد ابن عساکر)

18659

18659- وعنه قال: ما رأيت رجلا التقم أذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فينحي رأسه حتى يكون هو الذي ينحي رأسه، وما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد رجل فيترك يده حتى يكون هذا الذي ينزعها، فيدع يده. "د، كر".
18659 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا کہ اس نے کان آپ کی طرف کیا ہو (تاکہ کوئی راز کی بات کرے) پھر آپ نے خود سر پھیرلیا ہو ۔ بلکہ وہی شخص آخر آپ سے اپنا سر ہٹا لیتا تھا ۔ اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کا ہاتھ تھاما ہو پھر آپ نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا ہو ۔ حتی کہ وہ شخص خود ہی اپنا ہاتھ چھڑا لیتا اور آپ چھوڑ دیتے تھے ۔ (ابودؤاد ، ابن عساکر)

18660

18660- وعنه كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صافح الرجل لم ينزع يده من يده حتى يكون هو الذي ينزعها، ولم يعرض بوجهه عنه، ولم ير مقدما ركبتيه بين يدي جليسه. "الرؤياني كر وهو حسن".
18660 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سے مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک نہ چھڑاتے تھے جب تک وہ نہ چھوڑ دیتا تھا ۔ نہ اپنا چہرہ اس سے پھیرتے تھے ۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی اپنے سامنے بیٹھنے والے کے آگے گھٹنے نہیں کرتے تھے ۔ (الرؤیانی ۔ ابن عساکر ، وھو حسن)

18661

18661- وعنه أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بغلمان وأنا غلام فسلم علينا. "أبو بكر في الغيلانيات كر".
18661 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں کے پاس سے گذرے میں بھی اس وقت بچہ تھا ۔ پھر آپ نے ہم کو سلام کیا ۔ (ابوبکر فی الغیلانیات ، ابن عساکر)

18662

18662- عن عباد بن زاهر قال: سمعت عثمان يخطب فقال: إنا والله قد صحبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر والحضر، وكان يعود مرضانا ويشيع جنائزنا ويغزو معنا ويواسينا بالقليل والكثير، وإن ناسا يعلموني به عسى أن لا يكون أحدهم رآه قط. "حم والبزار والمروزي في الجنائز والشاشي ع ض".
18662 ۔۔۔ عباد بن زاہر سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا فرمایا : واللہ ! ہم سفر میں اور حضر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہے ہیں۔ ٓپ ہمارے مریضوں کی عیادت فرماتے تھے ، ہمارے جنازوں کے پیچھے چلتے تھے ۔ ہمارے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ لیتے تھے ، مال تھوڑا ہو یا زیادہ ، اس کے ساتھ ہمارے ساتھ ہمدردی وغم خواری برتتے تھے ۔ اور اب کچھ لوگ مجھے آپ کی باتیں بتاتے ہیں ممکن ہے کہ ان میں سے کسی نے کبھی حضور کو دیکھا ہی نہ ہو ۔ (مسند احمد ، البزار ، المروزی فی الجنائز الشاشی ، مسند ابی یعلی ، الضیاء للمقدسی)

18663

18663- عن أنس أهدى بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم قصعة فيها ثريد وهو في بيت بعض أزواجه، فضربت القصعة فوقعت وانكسرت، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يأخذ الثريد فيرده إلى القصعة بيده ويقول: كلوا غارت أمكم، ثم انتظر حتى جاءت قصعة صحيحة، فأخذها فأعطاها صاحبة القصعة المكسورة. "ش".
18663 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ آپ کی کسی زوجہ مطہرہ نے آپ کو ہدیہ میں ایک ثرید کا پیالہ بھیجا ۔ آپ اس وقت کسی اور زوجہ مطہرہ کے گھر میں مقیم تھے ۔ اس بیوی نے اسی پیالہ پر ہاتھ مار کر اس کو گرا دیا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثرید ہاتھ سے اٹھا اٹھا کر پیالے میں ڈالنے لگے اور ساتھ میں فرماتے رہے تمہاری ماں مرے کھاؤ ، پھر آپ نے کچھ توقف فرمایا حتی کہ وہی بیوی دوسرا سالم پیالہ لے آئی ۔ آپ نے وہ پیالہ لے کر اس بیوی کو بھیج دیا جس کا پیالہ ٹوٹا تھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ) فائدہ : ۔۔۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کی وجہ سے بیویوں کے آپس میں غیرت کا معاملہ تھا ، اس بیوی سے یہ برداشت نہ ہوا کہ حضور میرے پاس ہوتے ہوئے کسی اور بیوی کے کھانے کو بھی تناول فرمائیں ۔ (رض) ۔

18664

18664- عن خوات بن جبير قال: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مر الظهران فخرجت من خبائي، فإذا أنا بنسوة يتحدثن فأعجبنني، فرجعت فاستخرجت عييبتي، فاستخرجت منها حلة فلبستها وجئت فجلست معهن، وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبته فقال: أبا عبد الله ما يجلسك معهن؟ فلما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم هبته واختلطت قلت: يا رسول الله جمل لي شرد، وأنا أبتغي له قيدا، فمضى واتبعته فألقى رداءه ودخل الأراك، كأني أنظر إلى بياض متنه في خضرة الأراك، فقضى حاجته وتوضأ فأقبل والماء يسيل من لحيته على صدره فقال: أبا عبد الله ما فعل شراد جملك؟ ثم ارتحلنا فجعل لا يلحقني في المسير إلا قال: السلام عليك يا أبا عبد الله ما فعل شراد ذلك الجمل، فلما رأيت ذلك تعجلت إلى المدينة واجتنبت المسجد والمجالسة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فلما طال ذلك تحينت ساعة خلوة المسجد، فأتيت المسجد فقمت أصلي، وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعض حجره، فجاء فصلى ركعتين خفيفتين، وطولت رجاء أن يذهب ويدعني، فقال: طول أبا عبد الله ما شئت أن تطول فلست ذاهبا حتى تنصرف، فقلت في نفسي: والله لأعتذرن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأبرئن صدره، فلما انصرفت، قال: السلام عليك أبا عبد الله ما فعل شراد ذلك الجمل؟ فقلت: والذي بعثك بالحق ما شرد ذلك الجمل منذ أسلمت، فقال: رحمك الله ثلاثا ثم لم يعد لشيء مما كان. "طب".
18664 ۔۔۔ خوات بن جبیر (رض) سے مروی ہے کہ ہم نے (سفر میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وادی مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا۔ میں وہاں اپنے خیمے سے باہر نکلا ۔ دیکھا کہ چند عورتیں آپس میں بات چیت میں مصروف ہیں۔ مجھے ان کا حسن و جمال اچھا لگا ۔ میں دوبارہ اپنے خیمے میں داخل ہوا۔ اپنا تھیلا نکالا ، پھر اس میں سے اپنا جوڑا نکالا اور زیب تن کر کے باہر نکلا اور ان عورتوں کے پاس جا بیٹھا ۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قبہ سے باہر نکلے ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا : اے ابو عبداللہ ! کس وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھے ہو ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو مرعوب اور پریشان ہوگیا ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا اونٹ بدک گیا ہے۔ میں اس کے لیے رسی کی تلاش میں ان کے پاس آگیا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے راستے ہو لیے ۔ میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر اتاری اور پیلو کے جھنڈ میں داخل ہوگئے گویا میں اب بھی پیلو کے درختوں کے سبزے میں آپ کی پشت مبارک کی سفیدی کو چمکتا دیکھا رہا ہوں ، آپ نے اپنی حاجت پوری کی ۔ اور وضو کیا اور واپس ہو لیے ۔ پانی آپ کی ریش مبارک سے سینہ اقدس پر گر رہا تھا ۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : تمہارے اونٹ بدکنے کا کیا ہوا ؟ پھر ہم اس جگہ سے کوچ کر گئے ۔ دوران سفر جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ملتے یہی بات ارشاد فرماتے : السلام علیک ، اے ابو عبداللہ ! تمہارے اونٹ بدکنے کا کیا ہوا ۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں جلد ہی مدینہ آگیا ۔ مسجد اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس سے دور رہنے لگا ۔ جب کافی عرصہ اس طرح بیت گیا تو میں ایک مرتبہ خالی مسجد میں تھوڑی دیر کے لیے گیا ۔ وہاں جا کر نماز کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ اسی دوران نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے حجرے سے نکل کر مسجد میں گئے ۔ آپ نے ہلکی سی دو رکعت نماز ادا فرمائی ۔ جبکہ میں نے اپنی نماز طویل کردی تاکہ آپ جائیں اور مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔ (یہ دیکھ کر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے ابو عبداللہ ! جس قدر ہو سکے نماز لمبی کرلے ۔ میں بھی جانے والا نہیں ہوں جب تک تم نماز پوری نہیں کرلیتے ۔ تب میں نے اپنے جی میں کہا : اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے فعل پر معذرت کرتا ہوں اور آپ کے سینے کو صاف کرتا ہوں ۔ چنانچہ میں نے نماز پوری کی ، آپ نے فرمایا السلام علیک اے ابو عبداللہ تمہارے اونٹ بدکنے کا کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں جب سے اسلام لایا ہوں ۔ میرا اونٹ کبھی نہیں بدکا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمایا : یرحمک اللہ اللہ تم پر رحم کرے ، اس کے بعد کسی چیز پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نہیں ٹوکا ۔ (الکبیر للطبرانی)

18665

18665- عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل على الأرض، ويعقل الشاة، ويجيب دعوة المملوك على خبز الشعير. "ابن النجار".
18665 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ننگی) زمین پر بیٹھ کر کھانا کھالیتے تھے ۔ بکری کا دودھ دوھ لیتے تھے ، اور جو کی روٹی پر بھی (ادنی) غلام کی دعوت قبول فرما لیتے تھے ۔ (رواہ ابن النجار)

18666

18666- عن قيس بن وهب عن رجل من بني سراة قال: قلت لعائشة: أخبريني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: أما تقرأ القرآن "وإنك لعلى خلق عظيم" قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أصحابه فصنعت له طعاما، وصنعت له حفصة طعاما، فسبقتني حفصة، فقلت للجارية انطلقي فاكفئي قصعتها، فأهوت أن تضعها بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فكفأتها فانكسرت القصعة فانتثر الطعام فجمعها النبي صلى الله عليه وسلم وما فيها من الطعام على الأرض فأكلوا، ثم بعثت بقصعتي، فدفعها النبي صلى الله عليه وسلم إلى حفصة فقال: خذوا ظرفا مكان ظرفكم، وكلوا ما فيها، قالت: فما رأيته في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ش".
18666 ۔۔۔ قیس بن وہب سے مروی ہے کہ وہ بنی سراۃ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے دریافت فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کیسے تھے ؟ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو : ” وانک لعلی خلق عظیم “۔ ور بیشک آپ عظیم اخلاق پر (قائم) تھے ۔ پھر فرمایا ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ تھے ۔ میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا ۔ حفصہ (رض) نے بھی آپ کے لیے کھانا تیار کیا ۔ لیکن حفصہ (رض) نے مجھ سے پہلے تیار کرلیا ، میں نے باندی کو کہا تو جا اور حفصہ (رض) کے کھانے کا پیالہ گرا دے ۔ پس حفصہ (رض) آپ کے سامنے کھانا رکھ رہی تھی کہ باندی نے ہاتھ مار کر کھانا گرا دیا ۔ پیالہ بھی ٹوٹ گیا اور کھانا بکھر گیا ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹوٹے پیالہ کو اٹھایا اور جو کچھ اس میں کھانا تھا وہ بھی زمین سے اٹھا اٹھا کر اس میں ڈلا۔ پھر آپ نے اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر وہی کھانا تناول فرما لیا ۔ پھر میں نے اپنا پیالہ آپ کے پاس بھیج دیا ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ پیالہ کھانے سے بھرا ہوا حضرت حفصہ (رض) کو بھیج دیا اور کہلوایا پیالہ پیالے کے بدلے ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ تم کھالو ۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں میں نے آپ کے چہرے پر اس فعل کی وجہ سے کوئی (ناگوار) اثرات نہیں دیکھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18667

18667- "مسند الصديق رضي الله عنه" عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: نزل النبي صلى الله عليه وسلم منزلا فبعثت إليه امرأة مع ابن لها بشاة فحلب، ثم قال: انطلق به إلى أمك، فشربت حتى رويت، ثم جاءه بشاة أخرى فحلب، ثم سقى أبا بكر، ثم جاءه بشاة أخرى فحلب ثم شرب. "ع".
18667 ۔۔۔ (مسند صدیق (رض)) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جگہ اترے اور پڑاؤ ڈالا۔ وہاں کی ایک عورت نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنی بکری دودھ دوہنے کے لیے بھیجی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دودھ دوہا ۔ پھر لڑکے کو وہ دودھ دے کر فرمایا : اس کو اپنی ماں کے پاس لے جاؤ، چنانچہ اس کی ماں نے وہ دودھ پیا اور سیراب ہوگئی پھر وہ لڑکا دوسری بکری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا دودھ بھی نکالا اور پھر اس کو نوش فرمایا پھر ابوبکر کو پلایا ۔ لڑکا پھر ایک اور بکری لے آیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا دودھ نکالا اور نوش فرمایا (مسند ابی یعلی)

18668

18668- عن عمر قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وغليم له حبشي يغمز ظهره، فقلت: يا رسول الله أتشتكي شيئا؟ قال: إن الناقة تقحمت بي البارحة. "البزار، طب، وابن السني، وأبو نعيم معا في الطب، ض".
18668 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوا ۔ آپ کے پاس آپ کا ایک چھوٹا حبشی غلام بیٹھا تھا جو آپ کی کمر دبا رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ بیمار ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اونٹنی نے گزشتہ رات مجھے گرا دیا تھا ۔ (البزار ، الکبیر للطبرانی ، ابن السنی وابو نعیم معا فی الطب ، الضیاء للمقدسی)

18669

18669- عن عمر أن رجلا نادى النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا، كل ذلك يجيبه: يا لبيك يا لبيك يا لبيك. "ع حل وتمام خط في تلخيص المتشابه وفيه جبارة بن المغلس ضعيف".
18669 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین بار آواز دی آپ نے ہر بار فرمایا : یا لبیک ، یالبیک ، یالبیک ۔ (مسند ابی یعلی ، حلیۃ الاولیاء ، الخطیب فی تلخیص المتشابہ) کلام : ۔۔۔ اس روایت میں ایک راوی جبارہ بن المغلس ضعیف ہے۔

18670

18670- عن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسمر عند أبي بكر الليلة كذلك في أمر من أمور المسلمين وأنا معه. "مسدد وهو صحيح".
18670 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بیٹھ کر رات کو باتیں کرتے تھے ۔ اسی طرح مسلمانوں کے معاملات میں بات چیت کرتے تھے اور میں آپ کے ساتھ ہوتا تھا ۔ (رواہ مسدد) کلام : ۔۔۔ حدیث صحیح ہے۔

18671

18671- عن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركب حمارا اسمه عفير. "حم ص".
18671 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گدھے پر سوار ہوتے تھے جس کا نام عفیر تھا۔ (مسند احمد ، السنن لسعید بن منصور)

18672

18672- عن علي قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم فرس يقال له: المرتجز وحمار يقال له: عفير، وبغلة يقال لها: دلدل، وناقته: القصوى، وسيفه: ذو الفقار، ودرعه ذات الفضول. "الجرجاني في الجرجانيات ق في الدلائل".
18672 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک گھوڑا تھا جس کا نام مرتجز تھا ۔ ایک گدھا تھا جس کا نام عفیر تھا ۔ (ایک خچر تھا جس کا نام دلدل تھا ۔ ایک اونٹنی تھی جس کا نام قصوی تھا ۔ آپ کی تلوار ذوالفقار اور زرہ ذات الفضول تھی ۔ (الجرجانی فی الجرجانیات ، الدلائل للبیہقی)

18673

18673- قال العسكري في الأمثال: حدثني يحيى بن عبد العزيز الجلودي: ثنا محمد بن سهل: ثنا البلوى، ثنا عمارة بن زيد: ثنا زياد بن خيثمة عن السدي عن أبي عمارة عن علي قال: قدم بنو نهد بن زيد على النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: أتيناك من غوراء تهامة، وذكر خطبتهم وما أجابهم به النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا: يا نبي الله نحن بنو أب واحد، ونشأنا في بلد واحد وإنك لتكلم العرب بلسان ما نفهم أكثره، فقال: إن الله عز وجل أدبني فأحسن تأديبي، ونشأت في بني سعد بن بكر. "ابن الجوزي في الواهيات وقال: لا يصح".
18673 ۔۔۔ حضرت عسکری اپنی کتاب امثال میں فرماتے ہیں : یحییٰ بن عبدالعزیز جلودی ، محمد بن سہل ، البلوی ، عمارۃ بن زید ، زیاد بن خثیمہ ، سدی ، ابی عمارۃ کی سند سے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت ہے ک بنی نہد بن زید حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے ، کہنے لگے : ہم آپ کے پاس تہامہ کے نشیبی علاقے سے آئے ہیں۔ س کے بعد حضرت علی (رض) نے ان کے خطبے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان کو جواب کا ذکر فرمایا : پھر انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ہم ایک باپ کی اولاد ہیں۔ ایک ہی شہر میں پلے بڑھے ہیں ، آپ عرب سے ایسی زبان میں بات چیت فرما رہے ہیں۔ جس کا اکثر حصہ ہم سمجھ نہی پاتے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : للہ عزوجل نے مجھے ادب دیا ہے اور بہت اچھا ادب دیا ہے اور میں بنی سعد بن بکر میں پلا بڑھا ہوں ۔ (ابن الجوزی فی الواھیات ، وقال لا یصح) کلام : ۔۔۔ بقول امام ابن جوزی (رح) یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اور اس کو انھوں نے کتاب الواہیات میں ذکر فرمایا ہے۔

18674

18674- عن علي قال: ما سمعت كلمة عربية من العرب إلا وقد سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعته يقول: مات حتف أنفه وما سمعتها من عربي قبله. "العسكري".
18674 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے عرب کا کوئی کلمہ نہیں سنا جو میں پہلے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سن چکا ہوں ، اسی طرح یہ کلمہ مات حتف انفہ (وہ اپنی موت آپ مرا) میں نے آپ سے پہلے کسی سے نہیں سنا ۔ (رواہ العسکری)

18675

18675- عن علي قال: إن الله عز وجل عمر نبيه صلى الله عليه وسلم بمكة ثلاث عشرة سنة. "ك".
18675 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو مکہ میں (بعثت کے بعد) تیرہ سال تک رکھا ۔ (مستدرک الحاکم)

18676

18676- عن علي قال: مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم إبل الصدقة فأخذ وبرة من ظهر بعير، فقال: ما أنا أحق بهذه الوبرة من رجل من المسلمين. "ش حم وابن منيع والحارث ع ص".
18676 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب صدقے کے اونٹ گذرے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اونٹ کی کمر سے کچھ بال لے لیے پھر فرمایا : میں ان بالوں کا ایک عام مسلمان سے زیادہ حق دار نہیں ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد ، ابن منیع ، الحارث ، مسند ابی یعلی ، السنن السعید بن منصور)

18677

18677- عن علي قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم أجرأ الناس صدرا. "ابن جرير".
18677 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ جرات مند دل کے مالک تھے ۔ (ابن جریر)

18678

18678- عن جابر كانت راية النبي صلى الله عليه وسلم سوداء. "طب".
18678 ۔۔۔ حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا ۔ (الکبیر للطبرانی)

18679

18679- عن عنبسة بن الأزهر عن أبي الأسود النهدي عن أبيه قال: ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فأصيب إصبع رجله فقال: هل أنت إلا أصبع دميت ... وفي سبيل الله ما لقيت "البغوي وابن منده وأبو نعيم وقال: الصحيح ما رواه الثوري وشعبة وابن عيينه وغيرهم عن الأسود بن قيس عن جندب البجلي
18679 ۔۔۔ عنسبہ بن الازہر ، ابو الاسود نہدی سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حراء میں گئے تو آپ کی پاؤں والی کسی انگلی میں کوئی چوٹ آئی ، آپ نے انگلی کو مخاطب ہو کر فرمایا : ” ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ مالقیت : تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوگئی اور اللہ کے راستے میں تجھے یہ تکلیف پیش آئی ہے۔ (البغوی ، ابن مندہ ، ابو نعیم) ابو نعیم (رح) فرماتے ہیں صحیح سند وہ ہے جو ثوری ، شعبہ ، ابن عیینہ وغیرہ نے عن الاسود بن قیس عن جندب الجبلی کے ساتھ روایت کی ۔

18680

18680- عن الأسود بن سريع خطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أما بعد: "تمام".
18680 ۔۔۔ اسود بن سریع سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : ما بعد ! ۔۔۔ (تمام)

18681

18681- عن أنس قال: احتبس رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة وكان بين يدي نسائه شيء، فجعل يرد بعضهن على بعض، فأتاه أبو بكر فقال: يا رسول الله احث في أفواههن التراب واخرج إلى الصلاة. "ابن النجار".
18681 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے رک گئے ۔ آپ کی ازواج کے سامنے کوئی چیز تھی اور وہ ایک دوسرے سے الجھ رہی تھیں ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مونہوں میں مٹی ڈادلیے اور آپ نماز کے لیے آجائیے ۔ (رواہ ابن النجار)

18682

18682- عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخر شيئا لغد. "ت".
18682 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں فرماتے تھے ۔ (رواہ الترمذی)

18683

18683- عن أنس قال: قال أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله مالك أفصحنا لسانا وأبيننا بيانا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن العربية اندرست فجاءني بها جبريل غضة طرية كما شق على لسان إسماعيل. "كر وسنده واه".
18683 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ہم میں سب سے اچھی اور صاف زبان والے اور عمدہ بیان کرنے والے ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عربیت ناپید ہوگئی تھی ۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) اس کو تروتازہ صورت میں میرے پاس لے کر آئے ہیں جیسے کہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) کی زبان پر جاری تھی (رواہ ابن عساکر) کلام : ۔۔۔ اس کی سند (واہ) بےکار ہے۔

18684

18684- عن قتادة قال سألت أنس بن مالك كيف كانت قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: كان يمد صوته مدا. "كر".
18684 ۔۔۔ حضرت قتادہ (رح) سے مروی ہے میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے سوال کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرات کیسی تھی ؟ حضرت انس بن مالک (رض) نے ارشاد فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آواز کو مد کے ساتھ (کھینچ کر) پڑھتے تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18685

18685- عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يطوف على جميع نسائه في ليلة بغسل واحد. "ص حم ق
18685 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غسل کے ساتھ تمام عورتوں کے پاس ایک رات میں ہو آتے تھے ۔ (السنن لسعید بن منصور ، مسند احمد ، السنن للبیہقی ، ترمذی ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، نسائی)

18686

18686- أنبأنا ابن جريج قال: أخبرت عن أنس بن مالك قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: أعطيت الكفيت، قيل: وما الكفيت؟ قال: قوة ثلاثين رجلا في البضاع، وكانت له تسع نسوة وكان يطوف عليهن جميعا في ليلة. "عب".
18686 ۔۔۔ (عبدالرزاق (رح) فرماتے ہیں :) ابن جریج نے ہمیں خبر دی کہ مجھے حضرت انس بن مالک (رض) کی طرف سے خبر ملی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے کیفیت عطا کی گئی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا : کیفیت کیا ہے ؟ فرمایا : مباشرت میں تیس آدمیوں کی طاقت ۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : آپ کی نو بیویاں تھیں اور آپ ایک ہی رات میں سب بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے ۔ (مصنف عبدالرزاق)

18687

18687- عن أنس قال: ما ورثتني أم سليم إلا برد رسول الله صلى الله عليه وسلم وقدحه الذي كان يشرب فيه، وعمود فسطاطه، وصلاية كانت تعجن عليها أم سليم الرامك بعرق رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون في بيت أم سليم، فينزل عليه الوحي وهو على فراشها، فيجدل كما يجدل المحموم فيعرق، فكانت أم سليم تعجن الرامك بعرقه. "كر".
18687 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ام سلیم نے مجھے صرف ان چند چیزوں کا وارث بنایا تھا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر ، آپ کا پینے کا پیالہ ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیمے کی لکڑی ، سل (جس پر مسالے وغیرہ پیسے جاتے ہیں) اس سل پر ام سلیم (رض) رامک (خوشبو) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسینے کے ساتھ ملا کر پیستی تھیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام سلیم (رض) کے گھر میں ان کے بستر پر ہوتے تھے پھر آپ پر وحی اترتی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر پسینہ پسینہ ہوجاتے تھے ، جس طرح بخار زدہ ہوجاتا ہے۔ پھر ام سلیم (رض) اس پسینے اور رامک خوشبو کو ساتھ ملا کر پیس لیتی تھیں ۔ (رواہ ابن عساکر)

18688

18688- عن أنس كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقا. "كر".
18688 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے اچھے اخلاق والے انسان تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18689

18689- عن أنس كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو والزمام بين أصبعيه فسقط الزمام، فأهوى ليأخذه، وقال بأصبعه التي تلي الإبهام فرفعها. "عب وفيه إبان".
18689 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کر رہے تھے ، لگام آپ کی دو انگلیوں کے بیچ میں دبی ہوئی تھی ۔ لگام چھوٹ کر گرگئی ۔ آپ لگام اٹھانے کے لے آگے کو جھکے اور انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کے ساتھ اٹھالی ۔ (اور دعا کرتے ہی رہے ) ۔ (مصنف عبدالرزاق۔ اس میں ایک راوی ابان ہے)

18690

18690- عن أنس كان النبي صلى الله عليه وسلم يطوف على تسع نسوة في ضحوة. "أبو نعيم".
18690 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چاشت کے وقت میں اپنی نو بیویوں کے پاس چکر لگا لیتے تھے ۔ (رواہ ابو نعیم)

18691

18691- عن جابر بن سمرة قال: كنت أجالس النبي صلى الله عليه وسلم وكان طويل الصمت قليل الضحك. "ابن النجار".
18691 ۔۔۔ جابر بن سمرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا ۔ آپ طویل سکوت اور قلیل ہنسی والے تھے ۔ (رواہ ابن النجار)

18692

18692- عن حبشي بن جنادة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أفكه الناس خلقا. "كر وفيه حصن بن مخارق واه".
18692 ۔۔۔ حبشی بن جنادہ (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ خوش اخلاق اور ہنس مکھ انسان تھے ،۔ (رواہ ابن عساکر) کلام :۔۔۔ اس روایت میں حصن بن مخارق راوی (واہ) لغو اور ناقابل اعتبار ہے۔

18693

18693- عن أبي ليلى الكندي قال: سمعت رب هذه الدار حريزا قال: انتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب بمنى، فوضعت يدي على رحله فإذا ميثرته مسك ضائنة. "أبو نعيم".
18693 ۔۔۔ ابو لیلیٰ کندی سے مروی ہے میں نے اس گھر کے مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ میں منیٰ میں جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے آپ سے ملا ، میں نے آپ کی سواری کے کجاوے پر ہاتھ رکھا تو کجاوے کے گدے سے مشک کی خوشبو آرہی تھی ۔ (رواہ ابو نعیم)

18694

18694- عن الحسين بن علي قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن ما خلق الله خلقا. "عد كر".
18694 ۔۔۔ حسین بن علی (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس قدر بھی مخلوق پیدا فرمائی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب میں سے اچھی خلقت (اور اچھے اخلاق) والے تھے ۔ (الکامل لابن عدی ، ابن عساکر)

18695

18695- عن الحصين بن يزيد الكلبي قال: ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ضاحكا ما كان إلا تبسما، وربما شد النبي صلى الله عليه وسلم الحجر على بطنه من الجوع. "ابن منده وأبو نعيم، كر". مر برقم [18636] .
18695 ۔۔۔ حصین بن یزید کلبی سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسنے میں صرف مسکراہٹ کی حد تک دیکھا اور اکثر اوقات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر بھی باندھ لیتے تھے ۔ (ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن عساکر)

18696

18696- عن قرة بن إياس بن هلال بن رباب المزني قال: كنت مع أبي حيث أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا غلام، فوجدته محلول الإزار. "طب".
18696 ۔۔۔ قرۃ بن ایاس بن ہلال بن رباب مزنی سے مروی ہے کہ میں بچپن میں اپنے والد کے ہمراہ تھا کہ ہم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ۔ میں نے آپ کو کھلی ہوئی ازار میں دیکھا ۔ (الکبیر للطبرانی)

18697

18697- عن عبد الرحمن بن كعب عن أبيه عن جده سعد القرظ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخطب في الحرب وهو متكيء على قوسه. "كر".
18697 ۔۔۔ عبدالرحمن اپنے والد کعب سے وہ اپنے والد سعد قرظ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ جنگ کے موقع پر اپنی کمان کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18698

18698- عن صهيب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى همس شيئا لا يخبرنا به، فقلنا: يا رسول الله إنك مهما إذا صليت همست شيئا لا نفقهه؟ قال: فطنتم بي؟ فقلت: نعم، قال: ذكرت نبيا من الأنبياء أعطاه الله جنودا من قومه فنظر إليهم فقال: من يكافئ هؤلاء؟ وقال: اختر لقومك إحدى ثلاث: إما أن نسلط عليهم عدوا من غيرهم، أو الجوع أو الموت، فعرض ذلك على قومه، فقالوا: أنت نبي الله فاختر لنا فقام إلى الصلاة: وكانوا مهما إذا فزعوا، فزعوا إلى الصلاة، فصلى بهم ثم قال: اللهم أما أن تسلط عليهم عدوا من غيرهم فلا، أو الجوع فلا، ولكن الموت، فسلط عليهم الموت، فمات منهم سبعون ألفا في ثلاثة أيام قال: فهمسي الذي تسمعون أني أقول: اللهم بك أحاول وبك أصاول ولا قوة إلا بك. "ص".
18698 ۔۔۔ حضرت صہیب (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز پڑھ لیتے تھے تو منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے تھے ۔ جس کی ہم کو خبر نہ دیتے تھے ایک مرتبہ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ جب بھی نماز پڑھ لیتے ہیں تو پست آواز میں کچھ پڑھتے ہیں جو ہم کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم نے مجھ سے سننے کی کوشش کی ؟ صہیب (رض) فرماتے ہیں میں نے عرض کیا : جی ہاں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں نے انبیاء (علیہ السلام) میں سے کسی نبی کو یاد کیا ۔ اللہ نے اس کو اسی کی قوم میں سے ایک لشکر عطا کیا تھا ۔ اس نبی نے ایک مرتبہ ان کو دیکھ کر فرمایا تھا : کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے ؟ تب اللہ پاک نے (بطور عتاب) اس پیغمبر کو فرمایا : اب اپنی قوم کے لیے تین باتوں میں سے کوئی ایک پسند کرلو، یا تو ہم ان پر کسی اور قوم میں سے دشمن مسلط کردیں ، یا عام موت یا عام بھوک سب کو آجائے ، پیغمبر نے اپنی قوم سے اس کا تذکرہ کیا اور ان سے مشورہ لیا ، قوم نے کہا : آپ اللہ کے نبی ہیں ، آپ ہی کوئی چیز اختیار فرما لیں ، چنانچہ پیغمبر نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ یہ لوگ جب بھی کسی مصیبت کا شکار ہوتے تھے تو نماز میں مشغول ہوجاتے تھے ۔ پیغمبر نے قوم کو نماز پڑھائی پھر دعا کی : اے اللہ ! اگر تو ان پر ان کے کسی مخالف دشمن کو مسلط کرے یہ تو ہم کو منظور نہیں ، بھوک بھی ہم کو قبول نہیں ، ہاں موت کو ان پر مسلط فرما دے ، لہٰذا اللہ پاک نے ان پر موت کی ہوا چلا دی، پس تین دنوں میں ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے ، پس تب سے میں اندر ہی اندر یہ دعا کرتا ہوں : ” اللہم بک احاول وبک اصاول ولا قوۃ الا بک “۔ ے اللہ میں تیری مدد کے ساتھ ہی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تیری مدد کے ساتھ کسی پر حملہ کرتا ہوں اور ہر طرح کی طاقت وقوت تیری مدد کے ساتھ ممکن ہے۔ ” السنن لسعید بن منصور “۔

18699

18699- عن صهيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أيام حنين يحرك شفتيه بعد صلاة الفجر، فقيل: يا رسول الله إنك تحرك شفتيك بشيء ما كنت تفعله فما الذي تقول؟ قال أقول: اللهم بك أحول وبك أصول وبك أقاتل - في لفظ: بك أحاول وبك أصاول. "ابن جرير".
18699 ۔۔۔ حضرت صہیب (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ حنین میں فجر کی نماز کے بعد ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے ۔ آپ کو کہا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ابھی ہونٹوں کو حرکت دینے لگے ہیں ، پہلے آپ ایسا نہیں کرتے تھے ۔ آپ کیا پڑھتے ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میں یہ پڑھتا ہوں : ” اللہم بک احوال وبک اصول وبک اقاتل “۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : ” اللہم بک احاول وبک اصاول وبک اقاتل “۔ (ابن جریر)

18700

18700- عن العداء بن خالد قال: خرجت مع أبي فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب. "أبو نعيم".
18700 ۔۔۔ عداء بن خالد سے مروی ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ نکلا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا ۔ (رواہ ابو نعیم)

18701

18701- عن ابن عمر قال: رأيت المسك في مفرق رسول الله صلى الله عليه وسلم وما كنا نعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم في ظلمة الليل إلا بالغالية في لحيته. "الخفاف في معجمه، وابن النجار".
18701 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مانگ میں مشک دیکھی اور ہم رات کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی میں لگی ہوئی خوشبو سے پہچانتے تھے ۔ (الخفاف فی معجمہ ، ابن النجار)

18702

18702- عن ابن عمر قال: كان لنعل النبي صلى الله عليه وسلم قبالان. "عد كر" مر برقم [18431] .
18702 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتے میں دو پٹی تھیں ۔ (الکامل لابن عدی) 18431 پر یہ روایت گذر چکی ہے۔

18703

18703- عن ابن عمر أن عمر قال: يا نبي الله ما لك أفصحنا؟ قال: جاءني جبريل فلقنني لغة أبي إسماعيل. "الديلمي".
18703 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے عرض کیا : کیا بات ہے آپ ہم سے اچھی اور فصیح زبان کے مالک ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تھے انھوں نے آکر مجھے اسماعیل (علیہ السلام) کی زبان سکھا دی ۔ (الدیلمی)

18704

18704- عن عبد الرحمن بن كيسان عن أبيه أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي عند البئر العليا. "خ في تاريخه كر".
18704 ۔۔۔ عبدالرحمن بن کیسان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالائی کنوئیں کے پاس نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (التاریخ للبخاری ، ابن عساکر)

18705

18705- عن معاوية بن حيدة أخذ النبي صلى الله عليه وسلم ناسا من قومي فحبسهم، فجاء رجل من قومي النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال: يا محمد علام تحبس جيراني؟ فصمت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن ناسا يقولون: إنك تنهى عن الشر وتستخلي به؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما تقول؟ فجعلت أعرض بينهما بكلام مخافة أن يسمعها، فيدعو على قومي دعوة لا يفلحون بعدها، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى فهمها، فقال: أقد قالوها أو قال قائلها منهم؟ والله لو فعلت لكان علي وما كان عليهم، خلوا له عن جيرانه. "عب".
18705 ۔۔۔ معاویہ بن حیدہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری قوم کے چند افراد کو قید کرلیا ۔ میری قوم میں سے ایک شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا ۔ آپ اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ اس نے کہا : اے محمد ! میری قوم کے لوگوں کو آپ نے کس وجہ سے قید کر رکھا ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے ۔ آدمی بولا : لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ شر و فساد کو روکتے ہیں ، ادھر تو آپ خود اکیلے اس میں مبتلا ہیں۔ معاویہ بن حیدہ (رض) فرماتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فرمایا : تم کیا کہتے ہو ؟ تو میں بیچ میں آکر دونوں کے درمیان نرم رویے اور افہام تفہیم کی کوشش کرنے لگا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کی سخت بات سن کر کہیں میری قوم کو بددعا نہ دے دیں جس کے خمیازے میں ان کے لیے ہمیشہ کے واسطے فوز و فلاح کے دروازے بند ہوجائیں ، چنانچہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل بات سننے سمجھنے لگے حتی کہ آپ کو بات سمجھ آگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا : کیا ان لوگوں نے (اس کلمہ اسلام) کو کہہ لیا ہے ؟ یا ان میں سے کچھ ہی لوگوں نے کہہ لیا ہے ؟ واللہ اگر ایسا ہے اور میں نے ان کو قید کیا تب تو ان کا وبال مجھ پر ہوگا اور ان پر کوئی (قید وبند اور) سزا نہیں ہے۔ لہٰذا اس شخص کے ساتھیوں کو چھوڑ دو ۔ (مصنف عبدالرزاق)

18706

18706- عن أبي الطفيل قال: انطلق النبي صلى الله عليه وسلم في نفر، منهم عبد الله بن مسعود فأتى دارا. "خ في تاريخه كر".
18706 ۔۔۔ ابو الطفیل (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند لوگوں کے ہمراہ جن میں حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) بھی تھے گھر تشریف لائے ۔ (جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) کا آپ کے گھر آنا جانا تھا) ۔ (التاریخ للبخاری ، ابن عساکر)

18707

18707- عن أبي طلحة قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ظهر على قوم أقام بالعرصة ثلاثا. "ابن النجار".
18707 ۔۔۔ ابو طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن تک وہاں ٹھہرتے ۔ (ابن النجار)

18708

18708- عن أبي هريرة قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا ولا سخابا في الأسواق. "كر".
18708 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدخلق تھے اور نہ بد زبان ، اور نہ بازاروں میں شور وشغب کرنے والے تھے ۔ (رواہ ابن عساکر)

18709

18709- وعنه قال: كنا نقعد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالغدوات في المسجد فإذا قام إلى بيته لم نزل قياما حتى يدخل بيته، فقام يوما فلما بلغ وسط المسجد أدركه أعرابي فقال: يا محمد احملني على بعيرين فإنك لا تحملني من مالك ولا مال أبيك وجذب بردائه حين أدركه فاحمرت رقبته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، وأستغفر الله لا أحملك حتى تقيدني قالها ثلاث مرات، ثم دعا رجلا فقال له: احمله على بعيرين، على بعير شعير وعلى بعير تمر. "ابن جرير".
18709 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد میں بیٹھے رہتے تھے ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے اور جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر میں داخل نہ ہوجاتے ہم کھڑے ہی رہتے ۔ یونہی ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے تو ابھی مسجد کے درمیان تک ہی پہنچے تھے کہ ایک اعرابی آپ کو آملا ۔ بولا : اے محمد ! مجھے دو اونٹ دیجئے ، کیونکہ یہ آپ اپنے مال سے دیتے ہو اور نہ اپنے باپ کے مال سے ۔ ساتھ میں وہ اعرابی آپ کو چادر سے پکڑ کر (بدتمیزی کے ساتھ) کھینچنے لگا ۔ حتی کہ (چادر آپ کے گلے میں بل کھا گئی اور) آپ کی گردن سرخ ہوگئی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ارشاد فرمایا : نہیں ، میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور میں تمہاری یہ خواہش پوری نہیں کروں گا جب تک تم مجھے باندھ نہیں لوگے ۔ (یعنی تم جس قدر بدتمیزی زیادہ کرلو میں پھر بھی تم کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کروں گا بلکہ تمہاری بات پوری کروں گا) پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو بلایا اور اس کو فرمایا : اس آدمی کو دو اونٹ دے دو ۔ ایک جو سے لدا ہوا ہو اور ایک کھجور سے ۔ (ابن جریر) ۔

18710

18710- وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس معنا في المجالس يحدثنا فإذا قام قمنا حتى نراه قد دخل بعض بيوت أزواجه. "ابن النجار".
18710 ۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ مجالس میں اٹھتے بیٹھتے تھے اور ہم سے بات چیت کرتے تھے ۔ آپ جب کھڑے ہوتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔ حتی کہ آپ کو اپنی کسی بیوی کے گھر میں داخل ہوتا ہوا دیکھ لیتے ۔ (رواہ ابن النجار)

18711

18711- عن حفصة كانت يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعامه وشرابه وطهوره وثيابه وصلاته وكانت شماله لما سوى ذلك. "ش".
18711 ۔۔۔ حضرت حفصہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دایاں ہاتھ کھانے ، پینے ، پاکیزگی حاصل کرنے ، کپڑے پہننے اور نماز کے (کاموں) کے لیے تھا اور بایاں ہاتھ دوسرے کاموں کے لیے تھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18712

18712- عن عائشة قالت: كانت يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعامه وصلاته، وكانت شماله لما سوى ذلك. "ش".
18712 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دایاں ہاتھ کھانے پینے اور نماز کے لیے تھا ۔ اور بایاں ہاتھ اور کاموں کے لیے تھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18713

18713- وعنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يكن إثما، فإن كان إثما كان أبعد الناس منه، وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه في شيء قط إلا ان تنتهك حرمة الله فينتقم لله بها. "مالك خ م د ن".
18713 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا گیا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ آسان کام کو پسند کیا جب کہ وہ گناہ نہ ہو ۔ اگر اس میں گناہ ہوتا تو سب سے زیادہ آپ اس سے دور بھاگنے والے تھے ۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ کی حرمت پامال کی جا رہی ہو تو تب آپ ضرور اس کے لیے انتقام لیتے تھے ۔ (مؤطا امام مالک ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد نسائی )

18714

18714- وعنها قالت: ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم خادما ولا امرأة قط. "د".
18714 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی خادم کا مارا اور نہ کبھی کسی بیوی کا یا کسی کو بھی نہیں مارا ۔ (رواہ ابو داؤد)

18715

18715- وعنها قالت: ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده خادما قط ولا امرأة ولا شيئا إلا أن يجاهد في سبيل الله، ولا انتقم لنفسه من شيء يؤتى به إليه حتى تنتهك محارم الله فيكون هو ينتقم لله عز وجل، ولا خير بين أمرين إلا اختار أيسرهما حتى يكون إثما فإذا كان إثما كان أبعد الناس من الإثم. "عب حم وعبد بن حميد كر".
18715 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی خادم کا مارا اور نہ کبھی کسی بیوی کا یا کسی کو بھی نہیں مارا الایہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوں (تو ضرور کافروں کا مارا ہے) نہ کبھی آپ نے اپنی ذات کے لیے کوئی انتقام لیا ۔ خواہ انتقام کے لیے سامنے پیش کردیا جائے ہاں مگر جب کبھی اللہ کی حرمتوں کا پامال کیا گیا تو آپ نے ضرور اللہ کے لیے انتقام لیا ہے (مثلا کسی اور فاطمہ نے چوری کی او آپ نے اس کا ہاتھ کٹوایا) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا آپ نے ہمیشہ آسان شی کو قبول کیا الایہ گناہ کی صورت ہو اگر گناہ کی صورت ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے کوسوں دور بھاگنے والے تھے (مصنف عبدالرزاق مسند احمد عبد بن حمید ابن عساکر)

18716

18716- وعنها قالت: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم منتصرا من ظلامة ظلمها قط إلا أن ينتهك من محارم الله شيء، فإذا انتهك من محارم الله شيء كان أشدهم في ذلك، وما خير بين أمرين قط إلا اختار أيسرهما. "ع كر".
18716 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب بھی کوئی ظلم ڈھایا گیا آپ نے کبھی کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا لیکن جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی شی کا پامال کیا گیا تو آپ سب سے زیادہ اس کا بدلہ لینے والے تھے اور جب بھی آپ کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا آپ نے ہمیشہ آسان شی کو قبول کیا ۔ (مسند ابی یعلی ابن عساکر)

18717

18717- عن أبي عبد الله الجدلي قال: قلت لعائشة: كيف كان خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم في أهله؟ قالت: كان أحسن الناس خلقا لم يكن فاحشا ولا متفحشا ولا سخابا في الأسواق ولا يجزي بالسيئة مثلها، ولكن يعفو ويصفح. "ط حم كر".
18717 ۔۔۔ ابو عبداللہ جدلی سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا اخلاق تھا ؟ انھوں نے فرمایا : آپ تمام انسانوں میں سب سے بہترین اخلاق کے حامل تھے ۔ آپ نہ بد خلق تھے اور نہ فحش گوطعن تشنیع کرنے والے نہ آپ بازاروں میں شوورشغب کرتے تھے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے لیتے تھے بلکہ عفو و در گذر سے کام لیتے تھے ۔ (ابو داؤد الطیالسی مسند احمد ابن عساکر)

18718

18718- عن عائشة أنها سئلت عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: كان خلقه القرآن يرضى لرضاه ويسخط لسخطه. "كر".
18718 ۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ ان سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے یہ کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق قرآن تھا قرآن (کے حکم) کی وجہ سے خوش ہوتے تھے اور اسی کی وجہ سے ناراض ہوتے تھے ۔ (ابن عساکر)

18719

18719- عن عمرة قالت: سألت عائشة كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خلا مع نسائه قالت: كان كالرجل من رجالكم إلا أنه كان أكرم الناس وألين الناس ضحاكا بساما. "الخرائطي كر".
18719 ۔۔۔ حضرت عمرۃ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کے ساتھ خلوت میں ہوتے تھے تو کیا (اخلاق) برتنے تھے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں کی طرح رہتے تھے ہاں مگر وہ سب سے زیادہ کریم النفس اور سب سے زیادہ ہنسنے مسکرانے والے تھے (الخر ائطی ابن عساکر)

18720

18720- عن شقيق عن جابر عن أم محمد عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يقعد في بيت مظلم حتى يضاء له بسراج. "ابن النجار".
18720 ۔۔۔ عن شقیق عن جابر عن ام محمد سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاریک جگہ میں نہ بیٹھتے تھے جب تک وہاں چراغ نہ جلا دیا جاتا تھا (رواہ ابن النجار)

18721

18721- عن عمر بن عبد العزيز عن يوسف بن عبد الله بن سلام قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا جلس يتحدث يكثر أن يرفع بصره إلى السماء. "ك".
18721 ۔۔۔ عمر بن عبد العزیز یوسف بن عبداللہ بن سلام سے روایت کرتے ہیں کہ بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بیٹھ کر بات چیت فرماتے تو اکثر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے رہتے تھے (مستدرک الحاکم)

18722

18722- "من مسند عبادة بن الصامت" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رأى الهلال قال: الله أكبر الله أكبر لا حول ولا قوة إلا بالله، اللهم إني أسألك خير هذا الشهر، وأعوذ بك من شر القدر، وأعوذ بك من شر يوم المحشر. "ش".
18722 ۔۔۔ (مسند عبادۃ بن صامت) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چاند دیکھتے تو یہ فرماتے : للہ اکبر اللہ اکبر لا حول ولا قوۃ الا باللہ اللھم انی اسائک خیر ھذا الشھر واعوذبک من شر القدرو اعوذبک من شر یوم المحشر) اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کی مدد کے بغیر برائی سے اجتناب ممکن نہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نیکی پر قوت نہیں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس ماہ کی خیرو برکت کا اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تقدیر کے شر سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں حشر کے دن کے شر سے (مصنف ابن ابی شیبہ)

18723

18723- "مسند ابن مسعود" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤتى بالسبي من الخمس فيعطي أهل البيت جميعا ويكره أن يفرق بينهم.
18723 ۔۔۔ (مسند ابن مسعود (رض)) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خمس (مال غنیمت کے پانچویں حصے) سے قیدی لائے جاتے تو آپ ایک گھر والے قیدیوں کو الگ الگ نہیں کرتے تھے بلکہ آپ ناپسند کرتے تھے کہ ان کے درمیان جدائی ڈالیں ۔ (ابن ماجۃ ترمذی نسائی ابو داؤد)

18724

18724- عن الحسن قال: أهدى أكيدر دومة الجندل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جرة فيها المن الذي رأيتم وبالنبي صلى الله عليه وسلم وأهل بيته يومئذ والله بها حاجة، فلما قضى الصلاة أمر طائفا فطاف بها على أصحابه فجعل الرجل يدخل يده فيستخرج فيأكل، فأتى على خالد بن الوليد، فأدخل يده فقال: يا رسول الله أخذ القوم مرة وأخذت مرتين، فقال: كل وأطعم أهلك. "ابن جرير".
18724 ۔۔۔ حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ دومۃ الجندل کے بڑے سردار اکیدر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مٹکا ہدیہ بھیجا جس میں من تھا ۔ اور اس دن اللہ کے بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل خانہ کو اس کی سخت حاجت بھی تھی۔ لیکن آپ نے نماز پڑھ کر لوگوں کا بلانے کا حکم دیا ۔ پھر وہ مٹکا سب کے سامنے ایک ایک کر کے پیش کیا گیا ۔ ہر آدمی اپنا ہاتھ ڈال کر اس سے نکالتا اور کھاتا ۔ جب حضرت خالد بن ولید کی باری آئی تو انھوں نے بھی ہاتھ ڈالا اور کھایا انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب نے ایک ایک بار کھایا اور میں نے دو متربہ نکالا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خود بھی کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاؤ ۔ رواہ ابن جریر)

18725

18725- عن سهل بن سعد أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يخطب المرأة ويصدق لها صداقها ويشرط لها صحفة سعد تدور معي إذا درت إليك وكان سعد بن عبادة يرسل إلى النبي صلى الله عليه وسلم بصحفة كل ليلة حيث كان جاءته. "الرؤياني، كر".
18725 ۔۔۔ حضرت سہل بن سعد (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی عورت کو پیغام نکاح دیتے ، اس کے لیے مہر بتاتے اور اس کو حضرت سعد (رض) کے پیالے کی امید دیتے کہ میں جب بھی ان کی باری میں ان کے پاس آؤں گا میرے ساتھ سعد (رض) کا ثرید کا پیالہ بھی آئے گا ۔ حضرت سعد (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہر رات جہاں بھی ہوں ثرید کا بھرا پیالہ بھیجتے تھے ۔ (الرؤیانی ، ابن عساکر)

18726

18726- عن أنس قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم على رأس أربعين فأقام بمكة عشرا وبالمدينة عشرا، وتوفي على رأس ستين سنة. "ش".
18726 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی مدت میں نبوت عطا ہوئی ، پھر آپ دس سال مکہ میں رہے اور دس سال مدینے میں مقیم رہے اور ساٹھ سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ)

18727

18727- عن أنس توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين سنة. "أبو نعيم".
18727 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تریسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔ (رواہ ابو نعیم)

18728

18728- عن عكرمة عن ابن عباس قال: أنزل على النبي صلى الله عليه وسلم الوحي وهو ابن أربعين سنة، ثم مكث بمكة ثلاث عشرة سنة، وكان بالمدينة عشر سنين، فقبض وهو ابن ثلاث وستين سنة. "ش".
18728 ۔۔۔ حضرت عکرمہ (تلمیذ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض)) حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چالیس سال کی عمر میں وحی کا نزول شروع ہوا۔ پھر آپ تیرہ سال مکہ میں مقیم رہے ۔ مدینہ میں دس سال رہے اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی ۔ (ابن ابی شیبۃ)

18729

18729- عن عمار مولى بني هاشم عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وآل وسلم بعث وهو ابن أربعين، وأقام بمكة خمس عشرة وبالمدينة عشر سنين، فقبض وهو ابن خمس وستين سنة. "ش".
18729 ۔۔۔ بنی ہاشم کے غلام حضرت عمار (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے ۔ مکہ میں پندرہ سال اور مدینہ میں دس سال رہے ۔ اور پینسٹھ سال کی عمر میں انتقال فرمایا (ابن ابی شیبۃ)

18730

18730- عن ابن عباس قال: نزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي وهو ابن أربعين سنة، فمكث ثلاث عشرة سنة، ثم أمر بالهجرة فهاجر إلى المدينة، فمكث بها عشر سنين ثم توفي. "ابن النجار".
18730 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چالیس سال کی عمر میں وحی نازل ہونا شروع ہوئی ، تیرہ سال مکہ میں رہے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں دس سال رہ کر وفات پائی ۔ (رواہ ابن النجار)

18731

18731- عن ابن عباس قال: قبض النبي صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين سنة. "أبو نعيم في المعرفة".
18731 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی جب آپ تریسٹھ سال کی عمر میں تھے ۔ (ابونعیم فی المعرفۃ)

18732

18732- عن سعيد بن المسيب قال: مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين سنة. "أبو نعيم في المعرفة".
18732 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ تریسٹھ سال کی عمر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا ۔ (ابونعیم فی المعرفۃ)

18733

18733- عن قباث بن أشيم أنه سئل أنت أكبر أو رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم أكبر مني، وأنا أقدم منه بعشرين سنة، ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفيل، ووقفت بي أمي على روث الفيل محيلا أعقله، ونبئ رسول الله صلى الله عليه وسلم على رأس أربعين من الفيل."كر". "وفاته صلى الله عليه وسلم"
18733 ۔۔۔ قباث بن اشیم (رض) سے مروی ہے ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ انھوں نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے بڑے ہیں اور میں آپ سے بیس سال پہلے پیدا ہوا تھا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان ہاتھیوں کے گوبر پر میری مجھے لے کر کھڑی ہوئی تھی ، اور مجھے اس واقعے کی پوری سمجھ تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقع کی اطلاع چالیسویں سال دی گئی تھی ۔ (رواہ ابن عساکر) فائدہ : ۔۔۔ سورة فیل میں اس واقعے کا ذکر ہے ، عام الفیل یعنی ہاتھیوں والے سال ۔ اس سال ابرہہ کافر بادشاہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ کعبۃ اللہ پر حملہ کیا تھا جس میں اس کو دردناک شکست کا سامنا ہوا ۔ اسی سال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے ۔ جبکہ قباث بن اشیم (رض) اس سال بیس سال کی عمر میں تھے ۔ ابرہہ کی شکست کے بعد عرب کعبہ کے گرد اکٹھا ہوئے تو ان میں یہ بھی اپنی والدہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات اور میراث کا ذکر :

18734

18734- عن أنس قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو بكر لعمر: انطلق بنا نزور أم أيمن كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يزورها فانطلقنا، فجعلت تبكي، فقالا لها: يا أم أيمن إن ما عند الله خير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: قد علمت ما عند الله خير لرسول الله، ولكن أبكي على خبر السماء انقطع عنا، فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها. "ش م ع وأبو عوانة".
18734 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو فرمایا : چلو ام ایمن کی زیارت کریں ، جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی زیارت کو جاتے تھے ۔ (انہوں نے نبی اکرم کی پرورش فرمائی تھی یہ باندی آپ کو اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی جسے آپ نے بڑے ہو کر آزاد فرما دیا تھا۔ ) یہ حضرات ام ایمن کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ دونوں حضرات نے ان سے عرض کیا ، ام ایمن ! اللہ کے ہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زیادہ خیر ہے۔ ام ایمن بولی : میں جانتی ہوں کہ اللہ کے ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زیادہ خیر ہے لیکن میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ آسمان کی خبریں ہم پر آنا بند ہوگئی ہیں۔ اس بات نے دونوں حضرات کو بھی برانگیختہ کردیا (اور بھڑکا دیا) پھر دونوں حضرات بھی ام ایمن کے ساتھ خوب روئے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، مسلم ، مسند ابی یعلی ، ابو عوانہ)

18735

18735- عن ابن جريج قال: أخبرني أبي أن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لم يدروا أين يقبروا النبي صلى الله عليه وسلم حتى قال أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لم يقبر نبي إلا حيث يموت، فأخروا فراشه وحفروا له تحت فراشه صلى الله عليه وسلم. "عب حم، قال ابن كثير وابن حجر: هذا منقطع".
18735 ۔۔۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ میرے والد (رض) فرماتے ہیں : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو یہ بات ذہن میں نہ آرہی تھی کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہاں دفن کریں ؟ حتی کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے نبی کی قبر وہیں بنتی ہے جہاں وہ مرتا ہے ، چنانچہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر (جس پر آپ وفات کے بعد آرام فرما تھے) وہاں سے ہٹایا گیا اور اسی بستر کی جگہ قبر کھودی گئی۔ (عبدالرزاق ، مسند احمد) کلام : ۔۔۔ امام ابن حجر (رح) اور امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں : یہ رواریت منقطع ہے۔

18736

18736- عن ابن عباس أن أبا بكر الصديق خرج حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمر يكلم الناس، فقال: اجلس يا عمر، فتشهد ثم قال: أما بعد فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله تعالى حي لا يموت، فإن الله تعالى قال: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ} الآية، قال: والله لكأن الناس لم يعلموا أن الله أنزل هذه الآية حتى تلاها أبو بكر، فتلقاها منه الناس كلهم فما يسمع بشر من الناس إلا يتلوها، وقال عمر بن الخطاب: والله ما هو إلا أن سمعت أبا بكر تلاها فعقرت حتى ما تقلني رجلاي وحتى أهويت إلى الأرض وعرفت حين سمعته تلاها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد مات. "عب وابن سعد ش حم والعدني خ حب حل هق".
18736 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) باہر نکلے ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو تقریر کر رہے تھے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو فرمایا : اے عمر ! بیٹھ جاؤ ، چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حمد وثناء کے بعد فرمایا : ما بعد ! جان لو ! جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ پاک زندہ ہیں کبھی مریں گے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم “۔۔۔ الخ اور محمد صرف رسول ہی تو ہیں۔ آپ سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا پس اگر وہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے مڑ جاؤ گے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم ! ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا پہلے لوگوں کو علم نہ تھا کہ اللہ پاک نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ حتی کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی تلاوت فرمائی ، تب لوگوں کو اس کا پتہ چلا ، تب ہر طرف ہر کوئی دوسرے کو اسی کو تلاوت کرتا سننے لگا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! جب میں نے یہ آیت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے سنی تو بالکل میرے پاؤں کٹ گئے ۔ میری ٹانگوں نے میرا جھوٹ اٹھانے سے انکار کردیا ۔ اور میں زمین بوس ہوگیا ۔ کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعتا وفات پا گئے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ، ابن سعد ، مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد ، العدنی ، بخاری ، ابن حبان ، حلیۃ الاولیاء ، السنن للبیھقی)

18737

18737- عن عائشة أن أبا بكر أقبل على فرس من مسكنه بالسنح حتى نزل فدخل المسجد، فلم يكلم الناس حتى دخل على عائشة، فتيمم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مسجى ببرد حبرة فكشف عن وجهه وأكب عليه فقبله وبكى، ثم قال: بأبي أنت والله لا يجمع الله عليك موتتين أبدا أما الموتة التي كتب الله عليك فقد متها. "خ وابن سعد هق".
18737 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مقام سخ میں اپنی رہائش گاہ سے اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر مسجد آئے ۔ اور کسی سے بات چیت کیے بغیر (حجرہ میں) حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے پاس پہنچے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یمنی چادر اوڑھے ہوئے (موت کی نیند سو رہے) تھے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا ، آپ پر جھکے ، آپ کو بوسہ دیا اور رونے لگے پھر فرمایا : میرا باپ آپ پر فدا ہو ، اللہ کی قسم ! اللہ پاک آپ پر دو موتیں کبھی جمع نہیں کرے گا اور ایک موت جو اللہ نے آپ کے لیے لکھ دی تھی وہ آپ نے پالی ہے۔ (بخاری ، ابن سعد، السنن للبیہقی)

18738

18738- عن أنس قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأصبح أبو بكر يرى الناس يترامسون، فأمر غلامه يستمع، ثم يخبره، فقال: سمعتهم يقولون: مات محمد، فاشتد أبو بكر وهو يقول: وانقطاع ظهري فما بلغ المسجد حتى ظنوا أنه لم يبلغ. "ابن خسرو".
18738 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) لوگوں کے تاثرات کا جائزہ لینے لگے ، آپ (رض) نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ جاؤ دیکھو لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں ، آکر خبر دو ۔ غلام نے واپس آکر کہا : ہر طرف یہی چرچہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو انتہائی صدمہ پہنچا اور آپ کی زبان پر یہ بات جاری ہوگئی اور میری کمر ٹوٹ گئی ۔ پھر آپ (رض) مسجد میں بھی پہنچے تھے مگر لوگ گمان کرنے لگے آپ (رض) نہیں پہنچے ۔ (ابن خسرو)

18739

18739- عن علي بن أبي طالب كرم الله وجهه قال: لما أخذنا في جهاز رسول الله صلى الله عليه وسلم أغلقنا الباب دون الناس جميعا، فنادت الأنصار نحن أخواله ومكاننا من الإسلام مكاننا، ونادت قريش نحن عصبته، فصاح أبو بكر: يا معشر المسلمين كل قوم أحق بجنائزهم من غيرهم فننشدكم الله فإنكم إن دخلتم أخرتموهم عنه، والله لا يدخل أحد إلا من دعي. "ابن سعد".
18739 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ جب ہم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکفین وغیرہ کی تیاری میں مصروف ہوئے تو ہم نے تمام لوگوں پر دروازہ بند کردیا۔ تب انصار نے آواز دی ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ننہیال والے ہیں اور ہمارا اسلام میں بھی اچھا مرتبہ ہے۔ (لہذا ہم کو اندر آنے کی اجازت دی جائے) قریش کہنے لگے : ہم آپ کے قبیلے والے ہیں۔ (ہمیں اندر آنے دیا جائے) تب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) بولے ہم تم سب کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں۔ اگر تم اندر آگئے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکفین تدفین میں بہت تاخیر ہوجائے گی ۔ اس لیے اللہ کی قسم ! صرف وہی شخص داخل ہو جس کو بلایا جائے ۔ (ابن سعد)

18740

18740- عن علي بن الحسين قال: نادت الأنصار إن لنا حقا وإنما هو ابن أختنا ولمكاننا من الإسلام مكاننا، فطلبوا إلى أبي بكر، فقال: القوم أولى به، فاطلبوا إلى علي وعباس، فإنه لا يدخل عليهم إلا من أرادوا. "ابن سعد".
18740 ۔۔۔ علی بن الحسین سے مروی ہے کہ اس موقع پر انصار نے کہا : ہمارا حق ہے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری بہن کے بیٹے تھے (حضرت آمنہ انصار کے قبیلے بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں) اور اس کے علاوہ اسلام میں ہمارا ایک مقام ہے۔ چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو بلا کر ارشاد فرمایا : آپ کی قوم آپ کی زیادہ حق دار ہے تم علی (رض) اور عباس (رض) سے بات کرو ۔ آپ کے پاس وہی جاسکے گا جس کو یہ حضرات بلائیں گے ۔ (ابن سعد)

18741

18741- عن موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي قال: وجدت هذا في صحيفة بخط أبي فيها: لما كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع على سريره دخل أبو بكر وعمر فقالا: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار قدر ما يسع البيت فسلموا كما سلم أبو بكر وعمر، وصفوا صفوفا لا يؤمهم عليه أحد، فقال أبو بكر وعمر وهما في الصف الأول حيال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم إنا نشهد أن قد بلغ ما أنزل إليه ونصح لأمته وجاهد في سبيل الله حتى أعز الله دينه وتمت كلماته فآمن به وحده لا شريك له، فاجعلنا يا إلهنا ممن يتبع القول الذي أنزل معه واجمع بيننا وبينه حتى يعرفنا ونعرفه، فإنه كان بالمؤمنين رؤفا رحيما، لا نبتغي بالإيمان بدلا، ولا نشتري به ثمنا أبدا، فيقول الناس: آمين آمين، ثم يخرجون ويدخل عليه آخرون حتى صلوا عليه، الرجال، ثم النساء، ثم الصبيان، فلما فرغوا من الصلاة تكلموا في موضع قبره. "ابن سعد"
18741 ۔۔۔ موسیٰ بن محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد کا لکھا ہوا ایک مکتوب گرامی پایا جس میں لکھا تھا : جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفن دیا گیا اور آپ کو چارپائی پر رکھ دیا گیا تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) اندر داخل ہوئے اور بولے : ” السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ ان دونوں حضرات کے ساتھ اور بھی لوگ داخل ہوئے جس قدر اس کمرے میں سما سکتے تھے ۔ جو مہاجرین اور انصار دونوں گروہوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ انھوں نے بھی حضرات ابوبکر وعمر (رض) کی طرح سلام کیا ۔ پھر سب نے صفیں بنالیں ۔ حضرات ابوبکر وعمر (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پہلی صف میں تھے ۔ دونوں نے کہنا شروع کیا : للہم انا نشھد ان قد بلغ ما انزل الیہ ونصح لا متہ وجاھد فی سبیل اللہ حتی اعز اللہ دینہ وتمت کلماتہ فامن بہ وحدہ لا شریک لہ ، فاجعلنا یا الھنا ممن یتبع القول الذی معہ واجمع بیننا وبینہ حتی یعرفا ونعرفہ فانہ کان بالمؤمنین رؤفا رحیما، لا نبتغی بالایمان بدلا، ولا نشتری بہ ثمنا ابدا “۔ ” اے اللہ ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق رسالت ادا کردیا ، امت کے لیے پوری خیر خواہی برتی ، اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا حتی کہ اللہ نے ان کے دین کو غالب کردیا ان کے دین کے احکام مکمل ہوئے۔ آپ اللہ پر ایمان لے آئے جو وحدہ لاشریک ہے۔ اے اللہ ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو اس کلام پر عمل کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل ہوا ۔ ہم کو اور ان کو آپس میں جمع کر دے تاکہ یہ ہم کو پہچانیں اور ہم ان کو پہچانیں بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤمنین پر مہربان اور رحم کرنے والے ہیں۔ ہم ایمان کا کوئی بدل نہیں چاہتے ، اور نہ اس کے عوض کوئی مال چاہتے کبھی بھی ۔
بقیہ حضرات سب آمین آمین کہتے رہے ۔ پھر یہ نکل جاتے اور دوسرے لوگ داخل ہوجاتے حتی کہ یوں پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچوں نے آپ پر درود وسلام بھیجا ۔ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو پھر آپ کی قبر کی جگہ کی بحث چھڑ گئی ۔ (ابن سعد)

18742

18742- عن عروة قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل أصحابه يتشاورون أين يدفنونه؟ فقال أبو بكر: ادفنوه حيث قبضه الله فرفع الفراش فدفن تحته."ابن سعد"
18742 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ آپ کو کہاں دفن کریں ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : آپ کو اسی جگہ دفن کر دو ، جہاں اللہ نے ان کی روح قبض فرمائی ہے۔ پس آپ کو بستر سمیت اس جگہ سے ہٹایا گیا اور اس کے نیچے قبر کھود کر آپ کو دفن کیا گیا ۔ (ابن سعد)

18743

18743- عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ويحيى بن عبد الرحمن بن حاطب قالا: قال أبو بكر: أين يدفن؟ فقال قائل منهم: عند المنبر يدفن وقال قائل منهم: حيث كان يصلي يؤم الناس، فقال أبو بكر: بل يدفن حيث توفى الله نفسه، فأخر الفراش، ثم حفر له تحته."ابن سعد"
18743 ۔۔۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب (رض) دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہاں دفن کیا جائے ؟ ایک کہنے والے نے کہا : منبر کے پاس دفن کیا جائے ، کسی نے کہا اس جگہ دفن کیا جائے جہاں کھڑے ہو کر آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے ۔ تب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : جہاں اللہ پاک نے آپ کی روح قبض فرمائی ہے وہیں آپ کو دفن کیا جائے ، پس وہاں سے بستر ہٹایا گیا اور اس جگہ گڑھا کھودا گیا ۔ (ابن سعد)

18744

18744- عن عائشة قالت: لما مات النبي صلى الله عليه وسلم قالوا: أين يدفن؟ فقال أبو بكر: في المكان الذي مات فيه. "ابن سعد وسند صحيح"
1044 2 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو لوگوں میں یہ سال اٹھا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : اسی جگہ جہاں آپ نے وفات پائی ہے۔ (ابن سعد) کلام : ۔۔۔ سند صحیح ہے۔

18745

18745- عن ابن عباس قال: لما فرغ من جهاز رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الثلاثاء وضع على سريره في بيته، وكان المسلمون قد اختلفوا في دفنه فقال قائل: ادفنوه في مسجده، وقال قائل: ادفنوه مع أصحابه بالبقيع، قال أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما مات نبي إلا دفن حيث يقبض، فرفع فراش النبي صلى الله عليه وسلم الذي توفي عليه، ثم حفر له تحته. "ابن سعد "وسنده متصل ورجاله ثقات، إلا أن فيه الواقدي والشواهد تجبره".
18745 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب منگل کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکفین وغیرہ سے فارغ ہوئے اور آپ کو آپ کے کمرے میں آپ کی چارپائی پر لٹا دیا گیا تو پھر مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ۔ کسی نے کہا : آپ کو مسجد میں دفن کردیا جائے ۔ کسی نے کہا : آپ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان (جنت البقیع) میں دفن کیا جائے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ جب بھی کوئی نبی فوت ہوا ہے اس کو اسی جگہ دفن کیا گیا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر جس پر آپ نے وفات پائی تھی ۔ وہاں سے ہٹایا گیا ۔ پھر اس کے نیچے قبر کھودی گئی ۔ (رواہ ابن سعد) کلام : ۔۔۔ اس کی سند متصل اور روات ثقہ ہیں مگر اس میں واقدی بھی ہے۔ لیکن شواہد اس کی روایت کے نقصان کو پورا کر رہے ہیں۔

18746

18746- عن عمر بن ذر قال: سمعت أبا بكر بن عمرو بن حفص قال: سمعت أبا بكر قال: سمعت خليلي صلى الله عليه وسلم يقول: ما مات نبي قط في مكان إلا دفن فيه. "ابن سعد"
18746 ۔۔۔ عمر بن ذر سے مروی ہے کہ میں نے ابوبکر بن عمرو بن حفص کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ کبھی کوئی نبی نہیں مرا مگر وہ اسی جگہ مدفون ہوا ہے جہاں اس کی وفات ہوئی ہے۔ (رواہ ابن سعد)

18747

18747- عن القاسم بن عبد الرحمن قال: قالت عائشة: رأيت في حجرتي ثلاثة أقمار، فأتيت أبا بكر فقال: ما أولتيها؟ قلت: أولتها ولدا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسكت أبو بكر حتى قبض النبي صلى الله عليه وسلم، فأتاها فقال لها: هذا خير أقمارك ذهب به، ثم كان أبو بكر وعمر، دفنوا جميعا في بيتها. "ابن سعد".
18747 ۔۔۔ قاسم بن عبدالرحمن (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں میں نے خواب میں اپنے کمرے میں تین چاند دیکھے ۔ میں (اپنے والد) سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئی اور ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ نے مجھی سے پوچھا تم نے اس کی کیا تعبیر لی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس سے مراد اولاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) خاموش ہوگئے حتی کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاکر وہاں دفن ہوگئے تو حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئیں تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : یہ تیرے تین چاندوں میں سے سب سے اچھا چاند تھا جو رخصت ہوگیا ۔ پھر ابوبکر پھر عمر سب کے سب حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے کمرے میں ہی مدفون ہوئے ۔ (رواہ ابن سعد)

18748

18748- عن يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال: قالت عائشة لأبي بكر: إني رأيت في المنام كأن ثلاثة أقمار سقطن في حجرتي، فقال أبو بكر: خير، قال يحيى: سمعت الناس يحدثون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قبض فدفن في بيتها، قال لها أبو بكر: هذا أحد أقمارك وهو خيرها. "ابن سعد ومسدد"
18748 ۔۔۔ یحییٰ بن سعید (رح) حضرت سعید بن المسیب (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا : میں نے نیند میں تین چاند دیکھے جو میرے کمرے میں آکر گرے ہیں۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : خیر ہے۔ حضرت یحییٰ فرماتے ہیں : میں نے لوگوں کو بات کرتے سنا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات کر گئے تو حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے کمرے میں دفن ہوئے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کو فرمایا : یہ تیرے چاندوں میں سے ایک تھا جو سب سے اچھا چاند تھا ۔ (ابن سعد ، مسدد)

18749

18749- عن عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع قال: جاء علي بن أبي طالب يوما متقنعا متحازنا، فقال له أبو بكر: أراك متحازنا فقال له: إنه عناني ما لم يعنك، قال أبو بكر: اسمعوا ما يقول أنشدكم الله أترون أحدا كان أحزن على رسول الله صلى الله عليه وسلم مني؟ "ابن سعد".
18749 ۔۔۔ عبدالرحمن بن سعید بن یربوع سے مروی ہے کہ ایک دن سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) چادر اوڑھے ہوئے رنجیدہ وغمزدہ حالت میں تشریف لائے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو فرمایا : کیا بات ہے میں آپ کو رنجیدہ دیکھ رہا ہوں ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : مجھے وہ تکلیف پیش آئی ہے جو آپ کو نہیں آئی ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : دیکھو سنو ان کی بات ! میں تم لوگوں کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں بتاؤ کیا تم نے کسی کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر مجھ سے زیادہ رنجیدہ دیکھا ہے ؟ (رواہ ابن سعد)

18750

18750- عن البهي أن النبي صلى الله عليه وسلم لما قبض أتاه أبو بكر فقبله فقال: بأبي وأمي ما أطيب حياتك وأطيب ميتتك. "ابن سعد والمروزي في الجنائز".
18750 ۔۔۔ البہی (رح) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے پاس آئے اور بوسہ دے کر فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ کی زندگی بھی کس قدر اچھی تھی اور آپ کی موت بھی کس قدر عمدہ ہے۔ (ابن سعد ، المروزی فی الجنائز)

18751

18751- عن البهي أن أبا بكر لم يشهد موت النبي صلى الله عليه وسلم فجاء بعد موته، فكشف الثوب عن وجهه، ثم قبل جبهته، ثم قال: ما أطيب محياك ومماتك، لأنت أكرم على الله من أن يسقيك مرتين. "ابن سعد والمروزي".
18751 ۔۔۔ بہی (رح) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) عین وفات کے وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہ تھے ۔ بلکہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے پاس آئے ۔ آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا آپ کی پیشانی کو چوما ۔ پھر فرمایا : آپ کی زندگی اور موت کس قدر اعلی تھی ۔ آپ اللہ کے ہاں اس سے زیادہ باعزت ہیں کہ اللہ پاک آپ کو دو مرتبہ موت کا مزہ دے ۔ (ابن سعد ، المروزی)

18752

18752- عن عائشة قالت: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء أبو بكر فدخل عليه، فرفعت الحجاب، فكشف الثوب عن وجهه فاسترجع فقال: مات والله رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم تحول من قبل رأسه فقال: وانبياه، ثم حدر فمه فقبل جبهته، ثم رفع رأسه فقال: واخليلاه، ثم حدر فمه فقبل جبهته، ثم رفع رأسه فقال: واصفياه، ثم حدر فمه فقبل جبهته ثم سجاه بالثوب ثم خرج. "ابن سعد".
18752 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ کے پاس تشریف لائے میں نے (کمرے کا) پردہ اٹھا دیا آپ نے آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا ، ان للہ پڑھی اور فرمایا : اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے پھر سر کی طرف آئے اور بولے : ہائے نبیا ! پھر اپنا منہ نیچے کرکے آپ کی پیشانی کو چوما ۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا : ہائے دوست ! پھر منہ نیچے لے جر کر دوبارہ آپ کی پیشانی چومی اور پھر سر اٹھا کر فرمایا : ہاے صفیا ! (مخلص دوست) پھر سہ بارہ منہ نیچے لے جا کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا پھر کپڑے کے ساتھ چہرہ ڈھانپ کر باہر نکل گئے ۔ (رواہ ابن سعد)

18753

18753- عن ابن أبي مليكة أن أبا بكر استأذن على النبي صلى الله عليه وسلم بعد ما مات، فقالوا: لا إذن عليه اليوم، قال: صدقتم، فدخل فكشف الثوب عن وجهه وقبله. "ابن سعد".
18753 ۔۔۔ ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ، لوگوں نے کہا : آج ان کے پاس آنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں رہی ۔ آپ (رض) نے فرمایا : تم سچ کہتے ہو پھر آپ اندر گئے اور چہرے سے کپڑا ہٹا کر چہرہ کو بوسہ دیا ۔ (رواہ بن سعد)

18754

18754- عن سعيد بن المسيب قال: لما انتهى أبو بكر إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو مسجى قال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده، صلوات الله عليك، ثم انكب عليه فقبله، وقال: طبت حيا وميتا. "ابن سعد".
18754 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ پر کپڑا ڈھکا ہوا تھا سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری (بھی) جان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے۔ آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکے اور آپ کو بوسلہ دیا اور فرمایا : آپ نے زندگی بھی اچھی گزاری اور موت بھی عمدہ پائی ۔ (رواہ ابن سعد)

18755

18755- عن عائشة قالت: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم استأذن عمر والمغيرة بن شعبة فدخلا عليه فكشفا الثوب عن وجهه، فقال عمر: واغشيا ما أشد غشي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قاما فلما انتهيا إلى الباب قال المغيرة: يا عمر مات والله رسول الله، قال عمر: كذبت ما مات رسول الله ولكنك رجل تحوشك فتنة، ولن يموت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يفني المنافقين، ثم جاء أبو بكر وعمر يخطب الناس، فقال أبو بكر: اسكت فسكت، فصعد أبو بكر: فحمد الله وأثنى عليه، ثم قرأ {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} ثم قرأ {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ} حتى فرغ من الآية، ثم قال: من كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، فقال عمر: هذا في كتاب الله؟ قال: نعم، فقال: أيها الناس هذا أبو بكر وذو شيبة المسلمين فبايعوه، فبايعه الناس. "ابن سعد"
18755 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے اندر آنے کی اجازت مانگی پھر دونوں اندر آئے اور آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : ہائے مدہوشی ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غشی (مدہوشی) کس قدر سخت تھی ! پھر دونوں اٹھ کر جانے لگے ، جب دروازے تک پہنچے تو حضرت مغیرہ (رض) نے فرمایا : اے عمر ! واللہ ! رسول اللہ وفات پاگئے ہیں۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : تو جھوٹ کہتا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرے نہیں ہیں بلکہ تم کو فتنے (آزمائش) نے دبوچ لیا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک منافقوں کو ختم نہ کردیں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) تشریف لے آئے ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ کو حکم فرمایا : خاموش رہو۔ (خاموش رہو) چنانچہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) خاموش ہوگئے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) منبر پر چڑھے ۔ اللہ کی حمد وثناء کی ۔ پھر یہ آیت تلاوت کی : (آیت)” انک میت وانھم میتون “۔ بیشک آپ مرنے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم “۔ ” اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرے رسول ہی تو ہیں ، آپ سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں ، کیا پس اگر وہ مرجائیں یا شہید کردیئے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل الٹے جاؤ گے ۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا : جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادتد کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اس کو کبھی موت نہیں آئے گی ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے پوچھا کیا یہ کتاب اللہ میں ہے ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ہاں ۔ تب سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے لوگوں کو مخاطب ہو کر فرمایا : اے لوگو ! یہ ابوبکر ہیں مسلمانوں کے سردار ، ان کی بیعت کرلو ، پس لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی ۔ (رواہ ابن سعد)

18756

18756- عن سعيد بن المسيب أنه سمع أبا هريرة يقول: دخل أبو بكر المسجد وعمر يكلم الناس، فمضى حتى دخل بيت النبي صلى الله عليه وسلم الذي توفي فيه وهو بيت عائشة، فكشف عن وجه النبي صلى الله عليه وسلم برد حبرة كان مسجى به، فنظر إلى وجهه ثم أكب عليه فقبله، فقال: بأبي أنت وأمي، فوالله لا يجمع الله عليك موتتين لقد مت الموتة التي لا تموت بعدها، ثم خرج أبو بكر إلى الناس في المسجد وعمر يكلمهم، فقال أبو بكر: اجلس يا عمر، فأبى أن يجلس، فكلمه أبو بكر مرتين أو ثلاثا فلما أبى عمر أن يجلس، قام أبو بكر فتشهد، فأقبل الناس إليه وتركوا عمر، فلما قضى أبو بكر تشهده قال: أما بعد فمن كان منكم يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، قال الله تبارك وتعالى: "وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل" إلى "الشاكرين"، فلما تلاها أبو بكر أيقن الناس بموت النبي صلى الله عليه وسلم وتلقاها الناس من أبي بكر حين تلاها أو كثير منهم حتى قال قائل من الناس: والله لكأن الناس لم يعلموا أن هذه الآية أنزلت حتى تلاها أبو بكر، فزعم سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قال: والله ما هو إلا أن سمعت أبا بكر يتلوها، فعثرت وأنا قائم حتى خررت إلى الأرض، وأيقنت أن النبي صلى الله عليه وسلم قد مات. "ابن سعد"
18756 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ انھوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسجد میں تشریف لائے تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو خطاب فرما رہے تھے : سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) گذرتے چلے گئے حتی کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمرے میں داخل ہوگئے ۔ جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی اور یہی حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کا کمرہ تھا ۔ آپ (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے یمنی چادر ہٹائی جس سے آپ کے جسم کو ڈھانپا گیا تھا ۔ آپ (رض) نے چہرے کی زیارت کی پھر اس پر جھک گئے۔ اور آپ کو بوسہ دیا پھر فرمایا : آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا ، وہ موت تو آپ پاچکے ہیں جس کے بعد کبھی موت نہیں آئے گی ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسجد میں لوگوں کے پاس گئے ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) ان کو خطاب کر رہے تھے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو بیٹھنے کا حکم دیا ۔ لیکن اولا سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے بیٹھنے سے انکار کردیا پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے دو تین مرتبہ آپ کو بیٹھنے کے لیے فرمایا مگر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نہ بیٹھے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کھڑے ہوگئے اور اللہ رسول کی شہادت دی سو لوگ آپ کی طرف آگئے اور سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو چھوڑ دیا۔ سو جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تشہد مکمل کرلیا تو پھر فرمایا : ” اما بعد ! اے لوگو ! تم میں سے جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو محمد مرگئے ہیں۔ اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (سے) الی الشاکرین۔ (تک) جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی تلاوت کرلی تو تب لوگوں کو یقین آگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے۔ اور لوگوں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے منہ سے اس آیت کو یاد کرلیا حتی کہ کچھ لوگ کہنے لگے کہ لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ آیت بھی نازل ہوئی جب تک کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کو تلاوت نہ فرما لیا ۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) کا گمان ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے یہ فرمایا : اللہ کی قسم مجھے اس آیت کو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے تلاوتے کرنے سے پتہ چلا پھر میں زمین پر گرگیا اور مجھے یقین ہو چلا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاچکے ہیں۔ (رواہ ابن سعد)

18757

18757- عن الحسن قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ائتمر أصحابه فقال: تربصوا نبيكم لعله عرج به، فقال أبو بكر: من كان يعبد محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت. "ابن سعد".
18757 ۔۔۔ حضرت حسن (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان یہ بات طے پائی کہ کچھ انتطار کرو شاید آپ کو اوپر اٹھا لیا جائے ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا ۔ (رواہ ابن سعد)

18758

18758- عن ابن عمر قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أبو بكر في ناحية المدينة، فجاء فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مسجى فوضع فاه على جبين رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل يقبله ويبكي ويقول: بأبي أنت وأمي طبت حيا وطبت ميتا، فلما خرج مر بعمر بن الخطاب وهو يقول: ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يموت حتى يقتل المنافقين وحتى يخزي الله المنافقين، قال: وكانوا قد استبشروا بموت رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفعوا رؤوسهم، فمر به أبو بكر فقال: أيها الرجل أربع على نفسك فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد مات، ألم تسمع الله يقول: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} ، وقال تعالى: {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ} ، قال: ثم أتى المنبر فصعد فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: أيها الناس إن كان محمد إلهكم الذي تعبدون فإن إلهكم محمدا قد مات، وإن كان إلهكم الذي في السماء فإن إلهكم لم يمت، ثم تلا {وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم} حتى ختم الآية ثم استبشر المسلمون بذلك واشتد فرحهم، وأخذ المنافقين الكآبة، قال عبد الله بن عمر: فو الذي نفسي بيده لكأنما كانت على وجوهنا أغطية فكشفت. "ش والبزار".
18758 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسجد کے گوشے میں تھے ، آپ (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ۔ آپ چادر میں لپٹے ہوئے تھے ۔ آپ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی پر منہ رکھا اور بوسہ دیتے ہوئے روتے رہے اور یہ فرماتے رہے : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کی زندگی بھی اچھی رہی اور موت بھی ، پھر نکل کر جانے لگے تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے پاس سے گزرے ، سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو فرما رہے تھے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرے ہیں اور نہ مریں گے جب تک منافقوں کو قتل نہ کردیں اور اللہ پاک منافقوں کو ذلیل ورسوا نہ کر دے ۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) فرماتے ہیں : منافقین حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر خوش ہوئے تھے لہٰذا انھوں نے اس موقع پر سر اٹھالیے ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ (رض) کے پاس سے گزرے تو فرمایا : اے آدمی ! اپنے آپ پر قابو رکھ ! بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے ہیں۔ کیا تو نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا : (آیت)” انک میت وانھم میتون “۔ بیشک آپ مرنے والے ہیں اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ نیز فرمان الہی ہے : (آیت)” وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افان مت فھم الخالدون “۔ ور آپ سے قبل ہم نے کسی بشر کے لیے دوام نہیں رکھا ۔ تو کیا اگر آپ مرجائیں گے تو وہ ہمیشہ رہ لیں گے ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) منبر پر تشریف لائے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا : ے لوگو ! اگر محمد تمہارے معبود تھے جس کی تم پرستش کرتے تھے تو تب معبود محمد وفات پاچکے ہی ۔ اور اگر تمہارا معبود وہ ہے جو آسمانوں میں ہے تو تمہارا معبود نہیں مرا ۔ پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت کی : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت میں قبلہ الرسل أفان مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم “۔ الی اخر الایۃ ۔ مسلمان لوگ یہ سن کر خوش ہوگئے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا (کہ ہمارا دین لازوال اور ہمارا معبود لازوال ہے) لیکن منافقوں کو تکلیف نے دبوچ لیا ۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) فرماتے ہیں : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے گویا کہ ہمارے چہروں پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جو اس تقریر سے چھٹ گیا ۔ (ابن ابی شیبہ ، مسند البزار)

18759

18759- عن ابن جريج عن أبيه أنهم شكوا في قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أين يدفنونه، فقال أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن النبي لا يحول عن مكانه يدفن حيث يموت، فنحوا فراشه فحفروا له موضع فراشه. "ش حم ولفظه: لن يقبر نبي إلا حيث يموت؛ قال ابن كثير: هذا منقطع من هذا الوجه فإن والد ابن جريج فيه ضعف ولم يدرك أيام الصديق".
18759 ۔۔۔ ابن جریج (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کی جگہ کے بارے میں تردد ہوا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اپنی جگہ سے نہیں ہٹایا جاتا بلکہ جہاں اس کی موت آتی ہے وہیں اس کو دفن کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ کے بستر کو ہٹا کر وہاں قبر کھودی گئی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد) کلام : ۔۔۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں یہ روایت اس طریق سے منقطع الاسناد ہے کیونکہ ابن جریج کے والد جریج میں ضعف ہے اور انھوں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا زمانہ نہیں پایا ہے۔

18760

18760- عن محمد بن إسحاق عن أبيه أن أبا بكر الصديق قال: عند وفاة النبي صلى الله عليه وسلم: اليوم فقدنا الوحي ومن عند الله عز وجل الكلام. "أبو إسماعيل الهروي في دلائل التوحيد".
18760 ۔۔۔ محمد بن اسحاق اپنے والد کے توسط سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا تھا : ٓج ہم سے وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اللہ عزوجل سے کلام کا ذریعہ چھوٹ گیا ۔ (ابو اسماعیل الھروی فی دلائل التوحید)

18761

18761- عن عائشة قالت: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم اختلفوا في دفنه، فقال أبو بكر: سمعت من النبي صلى الله عليه وسلم شيئا ما نسيته قال: ما قبض الله نبيا إلا في الموضع الذي يحب أن يدفن فيه، [ادفنوه في موضع فراشه] . "ت وقال: غريب وفيه المليكي يضعف في الحديث من قبل حفظه، قال وقد روى هذا الحديث من غير هذا الوجه "ع" ولفظه: سمعته يقول: لا يقبض النبي إلا في أحب الأمكنة إليه: ادفنوه حيث قبض".
18761 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی تو مسلمانوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دفن کرنے میں اختلاف ہوا ، تب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے جس کو میں بھولا نہیں ہوں کہ اللہ نجے کسی نبی کی روح قبض نہیں فرمائی ، مگر اسی جگہ میں جہاں اس نبی کو مدفون ہونا پسند تھا ۔ (پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی آپ کے بستر کی جگہ دفنا دو ) ۔ (رواہ الترمذی) کلام : ۔۔۔ امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں یہ روایت غریب (ضعیف) ہے۔ اس میں ایک راوی ملی کی ہے جس کو حدیث کے باب میں یادداشت کے حوالہ سے ضعیف قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسی روایت کو دوسرے طریق سے ابی یعلی سے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : کسی نبی کی روح اللہ اسی جگہ قبض فرماتے ہیں جو اس کو دوسری جگہوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ پس آپ کو وہاں دفن کر دو جہاں ان کی روح قبض ہوئی ہے۔

18762

18762- عن عمرة بنت عبد الرحمن عن أمهات المؤمنين أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا: كيف نبني قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أنجعله مسجدا؟ فقال أبو بكر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد، قالوا: فكيف نحفر له: فقال أبو بكر: إن من أهل المدينة رجلا يلحد، ومن أهل مكة رجل يشق، اللهم فأطلع علينا أحبهما إليك أن يعمل لنبيك، فاطلع أبو طلحة وكان يلحد، فأمره أن يلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثم دفن ونصب عليه اللبن. "أبو بكر محمد بن حاتم بن زنجويه البخاري في كتاب فضائل الصديق".
18762 ۔۔۔ عمرہ بنت عبدالرحمن ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے روایت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے موقع پر کہنے لگے : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کیسے بنائیں ؟ کیا اس کو مسجد بنادیں ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : للہ پاک یہود و نصاری پر لعنت کرے انھوں نے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے پوچھا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کیسی بنائیں ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ایک شخص مدینہ کا لحدی (بغلی) قبر بناتا ہے اور ایک شخص مکہ کا شق (سیدھی) قبر بناتا ہے۔ پس اے اللہ تیرے نزدیک جو محبوب قبر ہو اس کے بنانے والے کو مطلع کر دے وہ تیرے نبی کی قبر بنا دے ، پس ابو طلحہ جو لحدی قبر بناتے تھے اس کو اطلاع ہوگئی ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے قبر بنائیں ، چنانچہ پھر آپ کو (لحدی قبر میں) دفن کیا گیا اور اس پر (کچی) اینٹیں پاٹ دی گئیں ۔ (ابوبکر محمد بن حاتم بن زنجویہ البخاری فی کتاب فضائل الصدیق)

18763

18763- عن محمد بن إسحاق عن حسين عن عكرمة عن ابن عباس قال: لما أرادوا أن يحفروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم وكان أبو عبيدة بن الجراح يحفر لأهل مكة، وكان أبو طلحة زيد بن سهل هو الذي يحفر لأهل المدينة وكان يلحد، فدعا العباس رجلين، فقال لأحدهما: اذهب إلى أبي عبيدة، وقال للآخر: اذهب إلى أبي طلحة، اللهم خر لرسولك، فوجد صاحب أبي طلحة أبا طلحة فجاء به، فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغ من جهازه يوم الثلاثاء وضع على سريره، وقد كان المسلمون اختلفوا في دفنه، فقال قائل: ندفنه في مسجده، وقال قائل: ندفنه مع أصحابه، فقال أبو بكر: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما قبض نبي إلا ودفن حيث قبض، فرفع فراش رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي توفي فيه فدفن تحته، ثم دعي الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلون عليه أرسالا: الرجال حتى إذا فرغ منهم، أدخل النساء حتى إذا فرغ من النساء، أدخل الصبيان، ولم يؤم الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد، فدفن رسول الله صلى الله عليه وسلم من أوسط الليل ليلة الأربعاء، ونزل في حفرته علي والفضل وقثم وشقران، وقال أوس بن خولى: أنشدك بالله وحظنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له علي: أنزل وقد كان شقران أخذ قطيفة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبسها فدفنها في القبر، وقال: والله لا يلبسها أحد بعده أبدا. "ابن المديني ع. قال ابن المديني: في إسناده بعض الضعف وحسين بن عبد الله بن العباس منكر الحديث".
18763 ۔۔۔ محمد بن اسحاق عن حسین عن عکرمہ عن ابن عباس کی سند کے ساتھ روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے ارشاد فرمایا : صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے قبر کھودنے کا ارادہ فرمایا ۔ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح (رض) اہل مکہ کے لیے (شق) قبریں کھودتے تھے اور حضرت ابو طلحہ زید بن سہل اہل مدینہ کے لیے (لحدی) قبریں کھودتے تھے ۔ حضرت عباس (رض) نے دو آدمیوں کو ملایا اور ایک کو فرمایا : تم ابو عبیدۃ کے پاس جاؤ اور دوسرے کو فرمایا : تم ابو طلحہ کے پاس جاؤ پھر حضرت عباس (رض) نے دعا کی : اے اللہ ! اپنے رسول کے لیے تو ہی جو چاہے پسند فرما لے ۔ چنانچہ ابو طلحہ (رض) کو بلانے والا پہلے ابوطلحہ کے پاس پہنچ گیا اور ان کو ساتھ لے آیا ۔ پس لحدی قبر تجویز ہوگئی اور انھوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحدی قبر تیار کی ۔ منگل کے روز جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیار کرکے فارغ ہوگئے اور آپ کو چارپائی پر رکھ دیا گیا تو مسلمانوں میں دفن کرنے کے مقام پر اختلاف رائے پیدا ہوگیا ۔ کسی نے مسجد میں تدفین کی رائے دی ، کسی نے جنت البقیع میں دوسرے اصحاب کے پاس دفن کرنے کی تجویز دی ، تب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : کسی نبی کی روح قبض نہیں ہوتی مگر وہ اسی جگہ دفن ہوتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر جس پر آپ کی وفات پائی تھی وہاں سے اٹھایا گیا اور اس کے نیچے آپ کو دفن کیا گیا ، پھر لوگوں کو بلایا گیا لوگ ہاتھ چھوڑ کر آپ پر نماز (درود وسلام) پڑھ رہے تھے ، پہلے آدمی آئے ، پھر عورتیں آئیں اور پھر داخل ہوئے ۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز پڑھانے میں کسی نے امامت نہیں کی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدھ کی نصف رات کو دفن ہوئے ۔ آپ کی قبر میں حضرت علی ، فضل قثم اور شقران داخل ہوئے تھے ۔ وس بن خولی نے کہا : میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ہمارا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حصہ ہے۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : اتر آؤ شقران نے چادر پکڑ رکھی تھی جو آپ پہنا کرتے تھے ۔ اس کو بھی قبر میں دفن کردیا اور فرمایا : اللہ کی قسم ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کو کوئی اور نہیں پہنے گا ۔ (ابن المدینی ، مسند احمد یعلی) کلام : ۔۔۔ ابن المدینی فرماتے ہیں اس کی سند میں کچھ ضعف ہے اور حسین بن عبداللہ بن عباس منکر الحدیث ہے۔

18764

18764- عن عمر مولى عفرة قال: لما ائتمروا في دفن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال قائل: ندفنه حيث كان يصلي في مقامه، وقال أبو بكر: معاذ الله أن نجعله وثنا يعبد، وقال آخرون: ندفنه في البقيع حيث دفن إخوانه من المهاجرين، قال أبو بكر: إنا نكره إن خرج قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البقيع فيعوذ به عائذ من الناس، لله عليه حق، وحق الله فوق حق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن أخذنا به ضيعنا حق الله، وإن أخفرناه أخفرنا قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: فما ترى أنت يا أبا بكر؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما قبض الله نبيا قط إلا دفن حيث قبض روحه، قالوا: فأنت والله رضي مقنع، ثم خطوا حول الفراش خطا ثم احتمله علي والعباس والفضل وأهله، ووقع القوم في الحفر يحفرون حيث كان الفراش. "محمد بن حاتم في فضائل الصديق. قال ابن كثير، وهو منقطع من هذا الوجه، فإن عمر مولى عفرة مع ضعفه لم يدرك أيام الصديق".
18764 ۔۔۔ عفرۃ کے غلام عمر سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدفین کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اختلاف ہوا تو کسی نے کہا : ہم آپ کو اس جگہ دفنا دیتے ہیں جہاں کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھاتے تھے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : معاذ اللہ اللہ کی پناہ مانگو کہ ہم آپ کو معبود بنالیں ۔ دوسروں نے کہا : جہاں آپ کے مہاجرین بھائی مدفون ہیں وہاں البقیع میں دفن کردیتے ہیں۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : ہم کو یہ بات ناپسند ہے کہ قبرستان میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر ہو اور وہاں کوئی دعا مانگنے والا آپ سے دعا مانگنے لگ جائے حالانکہ یہ حق اللہ کا ہے اور اللہ کا حق رسول کے حق پر مقدم ہے۔ اگر ہم ایسا ہونے دیں گے تو اللہ کا حق ضائع ہوگا ، اور اگر پھر بعد میں وہاں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کو کھودیں گے تو یہ کھلی بےادبی ہوگی ۔ لوگوں نے کہا : پھر آپ کا کیا خیال ہے اے ابوبکر ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے جس نبی کی روح قبض فرمائی اس کو وہیں دفن کیا گیا جہاں اس کی روح قبض ہوئی تھی ، لوگوں نے کہا : پس اللہ کی قسم ! آپ کی بات بالکل درست ہے اس پر سب کی رضا مندی ہے۔ پھر لوگوں نے آپ کے بستر کے گرد خط کھینچا ۔ پھر آپ کو علی ، عباس ، فضل اور آپ کے گھر والوں نے اٹھایا اور دوسرے لوگ اس جگہ قبر کھودنے لگے جہاں بستر تھا ۔ (محمد بن حاتم فی فضائل الصدیق) کلام : ۔۔۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں یہ روایت اس طریق کے ساتھ منقطع ہے۔ کیونکہ عفرۃ کے غلام عمر ضعیف ہونے کے ساتھ ایام خلافت صدیق میں نہیں تھے ۔

18765

18765- عن عائشة أن أبا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد وفاته، فوضع فمه بين عينيه، ووضع يده في صدغيه وقال: وانبياه واصفياه واخليلاه."ع".
18765 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی وفات کے بعد آپ کے جسم اطہر کے پاس آئے اور آپ کی آنکھوں کے درمیان اپنا منہ رکھ کر بوسہ دیا اور آپ کی کلائیوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا : ہائے نبیا ! ہائے صفیا ! ہائے خلیلا ۔ (مسند ابی یعلی)

18766

18766- عن ابن عمر قال: لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال أبو بكر: أيها الناس إن كان محمد إلهكم الذي تعبدون فإنه قد مات، وإن كان إلهكم الذي في السماء، فإن إلهكم لم يمت، ثم تلا {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ} الآية. "خ في تاريخه، وعثمان بن سعيد الدارمي في الرد على الجهمية، والأصبهاني في الحجة، قال ابن كثير: رجال إسناده ثقات".
18766 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ے لوگو ! اگر محمد تمہارے وہ معبود تھے جس کی تم عبادت کرتے تھے تب تو تمہارے معبود وفات پاگئے اور اگر تمہارا معبود وہ ہے جو آسمانوں میں ہے تو جان لو کہ تمہارا معبود (زندہ ہے) کبھی نہیں مرے گا ۔ پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل “۔ الی آخر الایۃ۔ (التاریخ للبخاری ، الرد علی الجھمیہ لعثمان بن سعید الدارقی ، الاصبھانی فی الحجۃ ، رجال ثقات)

18767

18767- عن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع عند المنبر، فجعل الناس يصلون عليه أفواجا. "ابن راهويه".
18767 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر کے پاس رکھ دیا گیا تھا ۔ لوگ فوج در فوج آپ پر نماز (یعنی درود وسلام) پڑھ رہے تھے ۔ (ابن راھویہ)

18768

18768- عن مالك بن أوس بن الحدثان قال: أرسل إلي عمر بن الخطاب فجئته حين تعالى النهار، قال: فوجدته في بيته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله متكئا على وسادة من أدم، فقال لي: يا مال إنه قد دف3 أهل أبيات من قومك وقد أمرت فيهم برضخ فخذه فاقسمه بينهم، قال فقلت: لو أمرت بهذا غيري، قال: فخذه يا مال قال: فجاء يرفأ1، فقال: هل لك يا أمير المؤمنين في عثمان وعبد الرحمن بن عوف والزبير وسعد، فقال عمر: نعم فأذن لهم، فدخلوا، ثم جاء فقال: هل لك في عباس وعلي؟ قال: نعم، فأذن لهما، قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، فقال بعض القوم: أجل يا أمير المؤمنين فاقض بينهم وأرحهم، قال مالك: فخيل إلي أنهم كانوا قدموهم لذلك، قال عمر: اتئد أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا نورث ما تركنا صدقة؟ قالوا: نعم.فأقبل على عباس وعلي فقال: أنشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا نورث ما تركنا صدقة؟ قالا: نعم، قال عمر: فإن الله خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخص بها أحدا غيره قال: {مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى} ما أدري هل قرأ الآية التي قبلها أم لا؟ قال: فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم بينكم أموال بني النضير، فوالله ما استأثر بها عليكم ولا أخذها دونكم حتى بقي هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ منه نفقة سنة، ثم يجعل ما بقي أسوة المال، ثم قال: أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض أتعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، ثم نشد عليا وعباسا بمثل ما نشد به القوم أتعلمان ذلك؟ قالا: نعم، قال: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو بكر: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئتما تطلب ميراثك من ابن أخيك ويطلب هذا ميراث امرأته من أبيها، فقال أبو بكر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نورث ما تركنا صدقة، فرأيتماه [كاذبا آثما غادرا خائنا] والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفي أبو بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله وولي أبي بكر، فرأيتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق فوليتها ثم جئتني أنت وهذا وأنتما جميع وأمركما واحد، فقلتما: ادفعها إلينا، فقلت إن شئتما دفعتها إليكما على أن عليكما عهد الله وميثاقه أن تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، فأخذتماها بذلك، فقال: أكذلك كان؟ قالا: نعم قال: ثم جئتماني لأقضي بينكما لا والله، لا أقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فرداها إلي. "عب حم وأبو عبيد في الأموال، وعبد بن حميد خ م د ت ن وأبو عوانة حب وابن مردويه هق".
18768 ۔۔۔ مالک بن اوس بن الحدثان سے مروی ہے کہ مجھے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے بلایا میں دن میں آپ کے پاس حاضر ہوا ۔ میں نے آپ کو اپنے گھر میں چارپائی پر لیٹے دیکھا ، وہ چارپائی کھجور کی چھال سے بنی ہوئی تھی اور ایک چمڑے کے تکیے پر آپ نے ٹیک لگا رکھی تھی ۔ آپ (رض) نے مجھے دیکھ کر فرمایا : اے مال (مالک کا مخفف) تیری قوم والے میرے پاس دیر کردیتے ہیں آنے میں ، میں نے ان کے لیے اس تھوڑے سے مال کا حکم دیا تھا تم یہ مال مجھ سے وصول کرلو اور اپنی قوم والوں کے درمیان تقسیم کردینا ۔ میں نے عرض کیا : اگر آپ مجھے کوئی اور حکم دیتے ۔ لیکن آپ (رض) نے فرمایا : تم لے لو ۔ مالک (رض) (پھر اصل واقعہ جو مقصود بیان ہے) بیان فرماتے ہیں پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کا غلام یرفا آیا اور عرض کیا یا امیر المؤمنین عثمان (رض) ، عبدالرحمن بن عوف (رض) ، زبیر (رض) اور سعد (رض) آنا چاہتے ہیں۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : ہاں ان کو (اجازت دو ) غلام نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی ، یہ سب حضرات اندر تشریف لائے ، غلام دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا : حضرت علی (رض) ، اور عباس (رض) اندر آنا چاہتے ہیں۔ فرمایا ہاں ۔ چنانچہ غلام نے ان کو بھی بلایا ۔ حضرت عباس (رض) نے عرض کیا : یا امیر المؤمنین ! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرما دیں ۔ پہلے آنے والے لوگوں میں سے کسی نے کہا ہاں امیر المؤمنین ان کے درمیان فیصلہ کرکے ان کو راحت دے دیں ، راوی مالک (رض) فرماتے ہیں میرا خیال ہوا کہ انھوں نے ان حضرات کو پہلے اس کام کے لیے اندر بھیجا تھا ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : صبر ! صبر ! میں تم کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس کی اجازت اور مشیت کے ساتھ آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں ! کیا تم جانتے ہو کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا ۔ ہم (انبیاء) جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا : ہاں (ایسا ہی فرمایا تھا) پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) حضرت عباس (رض) اور سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو بھی یونہی واسطہ دیا کہ میں تم کو واسطہ دیتا ہوں اللہ کا جس کی مشیت کے ساتھ آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ قائم ہیں کیا تم دونوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ دونوں نے کہا : ہاں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : اللہ پاک نے اپنے رسول کو ایسی خصوصیات کے ساتھ خاص فرمایا تھا جو کسی اور کو مرحمت نہیں ہوئی تھیں ۔ فرمان خداوندی ہے : (آیت)” ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی “۔ للہ پاک اپنے رسول پر جو بستی والوں کی غنیمتیں اتارے وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں کے لیے ہیں۔ مالک (رض) فرماتے ہیں : مجھے معلوم نہیں آپ (رض) نے اس سے پہلی والی آیت بھی تلاوت فرمائی تھی یا نہیں ۔ خیر تو پھر ارشاد فرمایا : پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی نضیر کے اموال تمہارے درمیان تقسیم فرمائے ۔ اللہ کی قسم ! تم پر کسی کو ترجیح نہیں دی اور نہ تم سے چھپا کر کچھ لیا ، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ۔ (یہ مال ایک باغ تھا) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے سال بہ سال خرچہ لیتے تھے اور بقیہ بچ جانے والا مال اصل مال میں شامل کردیتے تھے ۔ (جس سے اس کی باغبانی ونگہداشت انجام پذیر ہوتی) پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس بات کو جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی (رض) کو عباس (رض) کو بھی اسی طرح اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا انھوں نے بھی اثبات بھی جواب دیا ۔ پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے ارشاد فرمایا : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کا والی بنتا ہوں ۔ (یعنی جس مال سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سال سال کا نفقہ لے ک گھر کا خرچ چلاتے تھے اب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس مال سے آپ کی بیویوں کا خرچ چلاتے تھے) ۔ پھر تم دونوں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آئے ، تم (اے عباس) اپنے بھتیجے کی میراث لینے آئے تھے اور تم (اے علی) اپنی بیوی کے باپ کی میراث لینے آئے تھے ۔ لیکن سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، جو ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ لیکن تم نے ان کو جھوٹا ، گناہ گار ، عذر کرنے والا ، اور خائن سمجھا ، حالانکہ اللہ جانتا ہے میں سچا ، نیکو کار ، سیدھی راہ پر قائم اور حق کی اتباع کرنے والا ہوں ۔ پھر میں اس مال کا والی بنا پھر تم دونوں میرے پاس بھی آئے اور اس وقت تم دونوں میں اتفاق تھا تم دونوں کی ایک بات تھی ، تم نے کہا وہ مال ہمیں دے دو ، میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں تم کو دے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اللہ کو عہد ومثیاق دود کہ تم اس مال میں وہی تصرف اور کام کرو گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کرتے رہے ۔ پھر تم نے اس مال کو لے لیا ، کیا ایسا ہی ہوا تھا ؟ دونوں نے کہا ہاں ۔ پھر سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : اب تم دوبارہ میرے پاس آئے ہو کہ اب میں دونوں کے درمیان یہ مال تقسیم کر دوں ۔ نہیں ، اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں قیامت قائم ہونے تک میں اس کو تقسیم نہیں کروں گا ۔ اگر تم اس کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے تو مجھے واپس کر دو ۔ (عبدالرزاق ، مسند احمد ، ابو عبید فی الاموال ، عبد بن حمید ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابو عوانۃ ، ابن حبان ، ابن مردویۃ ، السنن للبیہقی)

18769

18769- عن عائشة أن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم سألت أبا بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقسم لها ميراثها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم مما أفاء الله، فقال لها أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا نورث ما تركنا صدقة، فغضبت فاطمة فهجرت أبا بكر، فلم تزل مهاجرة له حتى توفيت، وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر، فكانت فاطمة تسأل أبا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر وفدك وصدقته بالمدينة، فأبى أبو بكر ذلك، وقال: لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به، فإني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ، فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلى علي والعباس فغلب علي عليها، وأما خيبر وفدك فأمسكهما عمر وقال: هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه وأمرهما إلى من ولي الأمر، قال: فهما على ذلك إلى اليوم. "حم خ م هق".
18769 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو غنیمت کے مال میں سے ترکہ چھوڑا ہے وہ ہمارے درمیان تقسیم فرما دیں۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کو فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے : ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ اس بات پر فاطمہ (رض) غصہ ہوگئیں اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے بات چیت چھوڑ دی ، اور اسی ترک تعلقات کی حالت میں وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔ حضرت فاطمہ (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد چھ ماہ زندہ رہی تھیں ۔ فاطمہ (رض) ابوبکر (رض) سے اپنے حصہ کا سوال کر رہی تھیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر ، فدک ، اور مدینہ کے صدقا میں سے پیچھے چھوڑا تھا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس سے انکار فرما دیا تھا اور فرمایا تھا : میں کوئی کام جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے تھے نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں اس پر عمل کروں گا ، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپ کا کوئی کام چھوڑ دیا تو میں راستے سے بھٹک جاؤں گا ۔ پھر مدینہ والا صدقہ تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے علی وعباس (رض) کو دے دیا تھا ۔ لیکن علی (رض) عباس (رض) پر غالب آگئے ،۔ جبکہ خیبر اور فدک کو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے اپنے پاس روک لیا اور فرمایا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ صدقہ ہے جو اسلام میں پیش آمدہ مصائب اور درپیش مسائل پر خرچ ہوتا تھا اور ان دونوں صدقات کا محافظ وہ ہوگا جو مسلمانوں کا امیر ہوگا ، پس وہ دونوں مال اسی حالت پر ہیں۔ (مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، السنن للبیہقی)

18770

18770- عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: صلي على رسول الله صلى الله عليه وسلم بغير إمام، يدخل المسلمون عليه زمرا زمرا يصلون عليه، فلما فرغوا نادى عمر خلوا الجنازة وأهلها. "ابن سعد"
18770 ۔۔۔ جعفر بن محمد (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بغیر امام کے نماز پڑھی گئی ۔ مسلمان آپ پر جماعت جماعت داخل ہوتے تھے اور نماز پڑھتے تھے ۔ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : اب جنازہ کو اس کے اہل کے پاس تنہا چھوڑ دو ۔ (رواہ ابن سعد)

18771

18771- عن عمر بن الخطاب قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم وبيننا وبين النساء حجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اغسلوني بسبع قرب، وأتوني بصحيفة ودواة أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا، فقالت النسوة: ائتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بحاجته، قال عمر فقلت: اسكتن فإنكن صواحبه إذا مرض عصرتن أعينكن، وإذا صح أخذتن بعنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هن خير منكم. "ابن سعد"
18771 ۔۔۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھے ۔ ہمارے اور عورتوں کے درمیان حجاب حائل تھا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : مجھے (موت کے بعد) سات مشکیزوں سے غسل کرانا ، اور میرے پاس صحیفہ (کاغذ) اور دوات لے کر آؤ۔ میں تمہارے لیے ایک کتاب (وثیقہ) لکھ دیتا ہوں ، تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ عورتوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حاجت پوری کر دو ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) فرماتے ہیں میں نے کہا (اے عورتو ! ) تم خاموش رہو کیونکہ تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساتھی (بیوی) ہو ، جب آپ مریض ہوں گے تو تم آنکھیں نچوڑوگی اور جب تندرست ہوں گے تو تم آپ کی گردن پکڑ لوگی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : یہ عورتیں تم (مردوں) سے زیادہ بہتر ہیں۔ (رواہ ابن سعد)

18772

18772- عن أنس بن مالك قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى الناس فقام عمر في المسجد خطيبا فقال: لأسمعن أحدا يقول: إن محمدا قد مات، وإن محمدا لم يمت ولكنه أرسل إليه ربه كما أرسل إلى موسى بن عمران فلبث عن قومه أربعين ليلة، والله إني لأرجو أن يقطع أيدي رجال قوم وأرجلهم يزعمون أنه مات. "ابن سعد كر".
18772 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو لوگ رونے لگے ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے فرمایا : میں کسی کو یہ بات نہ کہتا ہوا سنوں کہ محمد وفات پا گئے ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات نہیں ہوئی بلکہ ان کے رب نے ان کو پیغام بھیج کر بلوایا ہے جس طرح موسیٰ بن عمران چالیس دن تک اپنی قوم سے دور رہے تھے ۔ اللہ کی قسم ! میرا خیال ہے میں ایسے لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے۔ (ابن سعد ، ابن عساکر)

18773

18773- "مسند عمر رضي الله عنه" عن عكرمة قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: إنما عرج بروحه كما عرج بروح موسى، وقام عمر خطيبا يوعد المنافقين وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يمت، ولكن إنما عرج بروحه كما عرج بروح موسى، لا يموت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يقطع أيدي أقوام وألسنتهم فلم يزل عمر يتكلم، حتى أزبد شدقاه فقال العباس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأسن كما يأسن البشر، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد مات فادفنوا صاحبكم، أيميت أحدكم إماتة ويميته إماتتين هو أكرم على الله من ذلك، فإن كان كما تقولون فليس على الله بعزيز أن يبحث عنه التراب فيخرجه إن شاء الله، ما مات حتى ترك السبيل نهجا واضحا، أحل الحلال وحرم الحرام، ونكح وطلق وحارب وسالم، وما كان راعي غنم يتبع بها صاحبها رؤوس الجبال يخبط عليها العضاه بمخبطه، ويمدر حوضها بيده بأنصب ولا أدأب من رسول الله صلى الله عليه وسلم كان فيكم. "ابن سعد خ ق في الدلائل".
18773 ۔۔۔ (مسند عمر (رض)) حضرت عکرمہ (رح) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو لوگ کہنے لگے : پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح اوپر (آسمانوں پر) چلی گئی ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی روح گئی تھی ۔ پھر حضرت عمر (رض) خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور منافقوں کو ڈرانے لگے اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپ کی روح اوپر چلی گئی ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی روح گئی تھی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک نہیں مرسکتے جب (منافق قوم کے) لوگوں کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹ ڈالیں ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) اسی طرح بات چیت فرماتے رہے حتی کہ شدت کی وجہ سے ان کی باچھیں چھینٹے مارنے لگیں ۔ حضرت عباس (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعش مبارک کی حالت بھی متغیر ہوسکتی ہے عام انسانوں کی طرح ۔ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا تم اپنے صاحب کی تدفین (کرنے میں تاخیر نہ) کرو۔ کیا تم میں سے ہر شخص ایک موت مرتا ہے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو موتیں مریں گے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے ہاں اس سے زیادہ مرتبہ والے ہیں۔ اگر ایسا ہے جیسا تم کہہ رہے ہو کہ (آپ کی موت نہیں ہوئی) تو اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے کہ آپ کے (زندہ ہونے کی صورت میں) آپ کی قبر کو اکھاڑ کر آپ کو نکال دے ۔ ان شاء اللہ رسول تب ہی مرے ہیں جب آپ نے ہمارے لیے بالکل واضح اور سچا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ حلال کو حلال قرار دیا ہے اور حرام کو حرام متعارف کرا دیا ہے۔ آپ نے نکاح کیے، طلاق دی ، جنگ اور مصالحت کی ، اور بکریوں کا چرواہا اپنے بکریوں کے پیچھے چلتا ہے اور ان کی نگہبانی کرتا ہے حتی کہ پہاڑ کی چوٹی تک ان کے پیچھے جاتا ہے ان کی راہ میں آنے والی جھاڑ جھنکار صاف کرتا ہے اور ان کے حوض کو اپنے ہاتھ سے گچ (لیپ) کرتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سب سے زیادہ ادب سکھانے والے تھے ۔ (ابن سعد ، بخاری ، البیہقی فی الدلائل)

18774

18774- عن أنس بن مالك أنه سمع عمر بن الخطاب الغد حين بويع أبو بكر في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستوى أبو بكر على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم تشهد قبل أبي بكر ثم قال: أما بعد فإني قلت لكم أمس مقالة لم تكن كما قلت وإني والله ما وجدتها في كتاب أنزله الله ولا في عهد عهده إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولكن كنت أرجو أن يعيش رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال كلمة يريد حتى يكون آخرنا فاختار الله لرسوله الذي عنده على الذي عندكم، وهذا الكتاب الذي هدى الله به رسولكم فخذوه تهتدوا لما هدي له رسول الله صلى الله عليه وسلم. "خ هق في الدلائل".
18774 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو آئندہ روز تقریر کرتے سنا ، جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی مسجد میں بیعت کی گئی اور ابوبکر پر چڑھے ، اس سے پہلے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے حمد وثناء اور خدا اور رسول کی شہادت دی ، پھر اما بعد کے بعد فرمایا : میں نے کل گزشتہ روز تم سے بات کی تھی جو حقیقت نہ تھی ۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس کو کتاب اللہ میں پایا اور نہ اس عہد میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے کر گئے تھے ۔ لیکن مجھے امید تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جئیں گے ، پس آپ نے ایسی بات کہی اور ارشاد فرمائی جس سے (شاید) آپ کی مراد ہماری آکر تھی ۔ خیر اللہ نے اپنے رسول کے لیے وہ شئی پسند کرلی جو اس کے پاس ہے بہ نسبت اس کے جو ہمارے پاس ہے۔ اب یہ کتاب ہے جس کے ساتھ اللہ نے تمہارے نبی کو ہدایت دی پس تم بھی اس کو تھام لو اور تم کو بھی وہی ہدایت ملے گی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی تھی ۔ (بخاری ، البیھقی فی الدلائل)

18775

18775- عن عروة قال: لما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قام عمر بن الخطاب يخطب الناس ويوعد من قال مات بالقتل والقطع ويقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غشيته لو قد قام قتل وقطع، وعمرو بن أم مكتوم قائم في مؤخر المسجد يقرأ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ} إلى قوله {وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} والناس في المسجد قد ملأوه يبكون ويموجون لا يسمعون فخرج العباس بن عبد المطلب على الناس فقال: يا أيها الناس هل عند أحد منكم عهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفاته فليحدثنا؟ قالوا: لا قال: هل عندك يا عمر من علم؟ قال: لا، قال العباس: أشهد أيها الناس أن أحدا لا يشهد على النبي صلى الله عليه وسلم بعهد عهده إليه في وفاته، والله الذي لا إله إلا هو، لقد ذاق رسول الله صلى الله عليه وسلم الموت، فأقبل أبو بكر من السنح على دابته حتى نزل بباب المسجد، ثم أقبل مكروبا حزينا، فاستأذن في بيت ابنته عائشة، فأذنت له فدخل ورسول الله صلى الله عليه وسلم قد توفي على الفراش، والنسوة حوله فخمرن وجوههن واستترن من أبي بكر إلا ما كان من عائشة، فكشف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فحنا عليه يقبله ويبكي ويقول: ليس ما يقول ابن الخطاب بشيء، توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده رحمة الله عليك يا رسول الله ما أطيبك حيا، وما أطيبك ميتا، ثم غشاه بالثوب ثم خرج سريعا إلى المسجد يتوطأ رقاب الناس حتى أتى المنبر، وجلس عمر حين رأى أبا بكر مقبلا إليه. فقام أبو بكر إلى جانب المنبر ثم نادى الناس، فجلسوا وأنصتوا، فتشهد أبو بكر وقال: إن الله نعى نبيكم إلى نفسه، وهو حي بين أظهركم ونعاكم إلى أنفسكم فهو الموت حتى لا يبقى أحد إلا الله قال الله تعالى: " {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ} إلى قوله {وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} فقال عمر: هذه الآية في القرآن؟ فوالله ما علمت أن هذه الآية أنزلت قبل اليوم، وقال: قال الله لمحمد: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} ثم قال: قال الله تعالى: {كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} وقال: {كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْأِكْرَامِ} وقال: {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ} ، ثم قال: إن الله عمر محمدا صلى الله عليه وسلم وأبقاه حتى أقام دين الله وأظهر أمره، وبلغ رسالة الله، وجاهد في سبيل الله، ثم توفاه الله على ذلك، وقد ترككم على الطريق، فلن يهلك هالك إلا من بعد البينة والشفاء، فمن كان الله ربه فإن الله حي لا يموت، ومن كان يعبد محمدا ويقول له إلها فقد هلك إلهه، فاتقوا الله أيها الناس واعتصموا بدينكم وتوكلوا على ربكم، فإن دين الله قائم، وإن كلمة الله تامة، وإن الله ناصر من نصره ومعز دينه، وإن كتاب الله بين أظهرنا وهو النور والشفاء وبه هدى الله محمدا صلى الله عليه وسلم وفيه حلال الله وحرامه، والله لا نبالي من يغلب علينا من خلق الله، إن سيوف الله لمسلولة ما وضعناها بعد، وإنا لمجاهدون من خالفنا كما جاهدنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا يبقين أحد إلا على نفسه. "هق في الدلائل
18775 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) لوگوں کو خطبہ دینے لگے اور ان لوگوں کو قتل اور ہاتھ پاؤں کے کاٹنے کے ڈراوے دھمکاوے دینے لگے جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہیں گے کہ آپ مرگئے ہیں۔ نیز فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیہوشی میں ہیں۔ جب کھڑے ہوں گے تو ان لوگوں کو قتل کریں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو آپ کی موت کی بات کرتے تھے ۔ جبکہ حضرت عمرو بن ام مکتوم مسجد کے آخری سرے پر کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت کر رہے تھے : (آیت)” وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (سے) وسیجزی اللہ الشاکرین “۔ (تک) لیکن لوگ مسجد میں ٹھاٹھیں مار رہے تھے ، گریہ وزاری میں لگے ہوئے تھے ، عمرو بن ام مکتوم کی بات کوئی نہ سن رہا تھا ۔ آخر عباس بن عبدالمطلب (رض) لوگوں کے بیچ سے نکلے اور (بلند آواز میں) فرمایا : ے لوگو ! کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی عہد ہے (نہ مرنے کا) جو اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں کیا ہو ، وہ آئے اور ہم کو بتائے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ۔ پھر آپ (رض) نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے پوچھا : اے عمر ! کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے ؟ انھوں نے عرض کیا نہیں ۔ تب حضرت عباس (رض) نے فرمایا : ے لوگو ! میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی عہد و پیمان کی شہادت دے سکے جو آپ نے اس سے اپنی زندگی موت کے متعلق کیا ہو۔ اور اللہ ہی سب کا ایک معبود ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سخ مقام سے اپنی سواری پر سوار ہو کر تشریف لائے اور مسجد کے دروازے پر اترے ۔ پھر بڑے رنج وغم کی حالت میں اندر آئے اور اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی ۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے آپ (رض) کو اجازت مرحمت فرمائی آپ (رض) اندر داخل ہوئے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بستر پر موت کی نیند سوئے ہوئے تھے ۔ عورتیں آپ کے گردوپیش بیٹھی ہوئی تھیں آپ (رض) کو دیکھ کر گھونگھٹ نکال بیٹھیں ۔ سوائے حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور ان کو چومنے لگے اور فرماتے رہے : ابن خطاب جیسے کہہ رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ قسم ! میری جان کے مالک کی ! آپ کی روح پرواز کرچکی ہے۔ اور آپ وفات پاچکے ہیں۔ یا رسول اللہ ! آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔ آپ نے کس قدر اچھی زندگی بسر کی اور آپ کی موت بھی کیا عمدہ ہے ! پھر آپ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر کپڑا ڈھک دیا ۔ پھر سرعت کے ساتھ لوگوں کی گردنیں پھاندتے ہوئے مسجد کی طرف نکلے حتی کہ منبر پر آگئے ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھا تو بیٹھ گئے ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) منبر کے برابر میں کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نداء دی ۔ لوگ بیٹھ گئے اور شور وغوغا بند ہوگیا ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شہادت دی (اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھا) اور فرمایا : اللہ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اور اللہ زندہ ہے تمہارے بیچ موجود ہے اللہ نے تمہارے نفسوں کو بھی بلاوا دے دیا ہے لہٰذا کوئی زندہ نہ رہے گا سوائے اللہ کے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” وما محمد الا رسول (سے) وسیجزی اللہ الشاکرین “۔ (تک) سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے پوچھا : یہ آیت قرآن میں ہے ؟ اللہ کی قسم ! مجھے تو نہیں معلوم کہ یہ آیت آج سے پہلے کبھی نازل ہوئی ہے ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : یہی نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھی فرمایا ہے : (آیت)” انک میت وانھم میتون “۔ نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت)” کل شیء ھالک الا وجہہ لہ الحکم والیہ ترجعون “۔ ہر شے ہلاک ہونے والی ہے سوائے اللہ کی ذات کے اور اسی کے لیے حکم ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔ نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت)” کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام “۔ ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم قیامت کے دن پورا بدلہ دیئے جاؤ گے ۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندگی دی اور ان کو اس وقت تک باقی رکھا جب تک انھوں نے اللہ کے دین کو قائم کیا اللہ کے دین کو غالب کردیا ۔ اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا حتی کہ اللہ نے پھر اسی پر ان کو موت دے دی ۔ اور تم کو ایک واضح سیدھے راستے پر چھوڑ دیا ہے۔ پس اب جو ہلاک ہوگا وہ واضح دلیل اور شفاء کی بات نہ ماننے کے بعد ہلاک ہوگیا ۔ جس شخص کا رب اللہ ہے تو وہ اللہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا ۔ اور جو محمد کی عبادت کرتا تھا اور انہی کو معبود سمجھتا تھا پس اس کا معبود ہلاک ہوگیا ہے۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈرو ! اپنے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنے رب پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ کا دین قائم ہے ، اللہ کا کلمہ تام ہوگیا ہے۔ اللہ پاک اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا اور اس کے دین کو عزت دے گا ۔ اللہ کی کتاب ہمارے درمیان ہے۔ وہ (کھلا) نور اور شفاء ہے۔ اس کے ساتھ اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت بخشی ، اس میں اللہ کی حلال کردہ اور حرام کردہ چیزوں کا بیان ہے۔ اللہ کی قسم ! ہم کو کوئی پروا نہیں جو ہم پر غالب آنے کی کوشش کرے ۔ اللہ کی تلوار لٹک رہی ہے ہم آئندہ اس کو کبھی نیچے نہیں رکھیں گے ۔ اور ہم ہر اس شخص سے جہاد کریں گے جو ہماری مخالفت کرے گا ۔ جس طرح ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کیا ، پس کوئی باقی نہ رہے ۔ مگر اپنی جان کی حفاظت کرلے ۔ (البیہقی فی الدلائل)

18776

18776- عن ابن عباس أن عمر بن الخطاب ذكر له ما حمله على مقالته التي قال حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كنت أتأول هذه الآية: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ} ، فوالله إن كنت لأظن أنه سيبقى في أمته حتى يشهد عليها بآخر أعمالها، وإنه الذي حملني على أن قلت ما قلت. "هق في الدلائل".
18776 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) سے پوچھا گیا کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے موقع پر وہ بات کہنے پر کس چیز نے مجبور کیا تھا ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : میں آیت کی تفسیر کرتا تھا : (آیت)” وکذلک جعلنا کم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس “۔ ور اسی طرح ہم نے تم کو معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔ للہ کی قسم میں خیال کرتا تھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت میں باقی رہیں گے تاکہ ان کے آخری اعمال پر گواہی دے سکیں اور اسی بات نے مجھے یہ بات کہنے پر مجبور کیا تھا ۔ (البیہقی فی الدلائل)

18777

18777- عن سعيد بن المسيب قال: التمس علي من النبي صلى الله عليه وسلم لما غسل ما يلتمس من الميت، فلم يجد شيئا فقال: بأبي أنت وأمي طبت حيا وطبت ميتا. "ش وابن منيع، د في مراسيله هـ والمروزي في الجنائز ك ص".
18777 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے ، ارشاد فرمایا : سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا تو وہ کچھ تلاش کیا جو میت سے کیا جاتا ہے۔ مگر ایسی کوئی چیز نہ پائی تو تب سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، زندگی بھی پاکیزہ بسر ک اور موت بھی پاکیزہ پائی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، ابن منیع، ابو داؤد فی مراسیلہ ، ابن ماجۃ ، المروزی فی الجنائز، مستدرک الحاکم ، السنن السعید بن منصور ، المستدرک 3 ۔ 59 صحیح ووافقہ المذھبی)

18778

18778- عن علي أن فاطمة لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت تقول واأبتاه من ربه ما أدناه، واأبتاه جنان الخلد مأواه، واأبتاه ربه يكرمه إذا أدناه، الرب والرسل تسلم عليه حتى تلقاه."ك"
18778 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو حضرت فاطمہ (رض) کہہ رہی تھیں : ہائے باوا آپ پروردگار کے کس قدر قریب ہو چلے گئے : ہائے باوا ! جنت الخلد کیا آپ کا ٹھکانا ہے ! ہائے باوا پروردگار آپ کا کس قدر اکرام کرے گا جب آپ اس کے قریب جائیں گے پروردگار بھی اور رسول بھی آپ پر سلام کرتے رہے حتی کہ آپ اپنے رب سے جا ملے ۔ (مستدرک الحاکم)

18779

18779- قال ابن عساكر أنبأنا أبو سعيد ابن الطيوري عن الحسن بن محمد بن إسماعيل قال: سمعت إسحاق بن عيسى بن علي يحدث عن أبيه عن أبي العباس السفاح حدثني إبراهيم بن محمد يرويه عن أبي هاشم عبد الله بن محمد بن علي بن أبي طالب عن أبيه عن جده علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر أنه يفد عليه وافدان في يوم واحد، من السند وافريقة بسمعهم وطاعتهم، وتلك علامة وفاته، قال أبو بكر الصولي: ولا نعلم أن السفاح روى عنه حديثا مسندا غير هذا يعني أن ذلك وفاة السفاح، لا وفاة النبي صلى الله عليه وسلم قال "كر" وقد روى الجلال هذا الحديث في قصة طويلة بإسناد آخر عن السفاح.
18779 ۔۔۔ ابن عساکر (رح) فرماتے ہیں ، ہمیں ابوسعید ابن الطیوری عن الحسن بن محمد بن اسماعیل ، اسحاق بن عیسیٰ بن علی بن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ علی (رض)۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس دو وفد آتے ہیں ایک دن میں ، ایک سندھ سے اور دوسرا افریقہ سے اور وہ مکمل سمع وطاعت بجا لاتے ہیں۔ ور یہ ان کی وفات کی علامت ہے۔ ابوبکر صولی (رح) کہتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ اس روایت کے علاوہ بھی ابو العباس سفاح سے کوئی اور سند روایت منقول ہے۔ اور وفات سے مراد ابو العباس کی وفات ہے نہ کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ۔ بن عساکر (رح) فرماتے ہیں جلال نے یہ روایت سفاح سے دوسری سند کے ساتھ طویل قصے کے ذیل میں نقل فرمائی ہے۔

18780

18780- عن علي بن الحسين عن أبيه عن جده قال: أوصى النبي صلى الله عليه وسلم عليا أن يغسله، فقال علي: يا رسول الله أخشى أن لا أطيق ذلك قال: إنك ستعان، قال علي: فوالله ما أردت أن أقلب من رسول الله صلى الله عليه وسلم عضوا إلا قلب. "كر".
18780 ۔۔۔ عن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو وصیت فرمائی کہ وہ ان کو غسل دیں گے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے ڈر ہے کہ میں اس کی طاقت نہ رکھ سکوں گا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہاری اس پر مدد کی جائے گی ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : للہ کی قسم ! غسل کے وقت میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی عضو کو حرکت دینا چاہتا تو وہ خود آرام سے بدل جاتا ۔ (رواہ ابن عساکر)

18781

18781- عن علي قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إذا أنا مت فاغسلني بسبع قرب من بئري بئر غرس. "أبو الشيخ في الوصايا وابن النجار".
18781 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے میرے کنوئیں بئر غرس کے سات مشکیزے پانی کے ساتھ غسل دینا ۔ (ابوالشیخ فی الوصایا ، ابن النجار)

18782

18782- عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من يقضي ديني وينجز وعدي وأدعو الله أن يجعله معي يوم القيامة، أو كلمة تشبهها. "ش ورجاله ثقات".
18782 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جو میرے قرض کو ادا کرے گا اور میرے وعدے کو پورا کرے گا میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس کو قیامت میں میرا ساتھ نصیب کرے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ یا اس کے مثل بات ارشاد فرمائی ۔ (ابن ابی شیبہ ۔ رجالہ ثقات) ۔

18783

18783- عن علي قال: غسلت النبي صلى الله عليه وسلم فذهبت أنظر ما يكون من الميت، فلم أر شيئا، وكان طيبا حيا وميتا، وولي دفنه وإجنانه دون الناس أربعة: علي، والعباس، والفضل بن العباس، وصالح مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وألحد لرسول الله لحدا، وأنصب عليه اللبن نصبا. "مسدد والمروزي في الجنائز ك ق"
18783 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا میں دیکھنے لگا جو میت سے دیکھتے ہیں (صفائی کرتے ہیں) مگر مجھے کچھ نظر نہ آیا ۔ آپ زندگی اور موت دونوں اچھی بسر فرماگئے ۔ ٓپ کو دفنانے اور قبر میں اتارنے اور پردہ لٹکائے رکھنے کا کام چار اشخاص نے انجام دیا : علی ، عباس ، فضل بن عباس اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام صاح ، رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لحد میں لٹایا گیا اور لحد کو کچی اینٹوں سے بند کردیا گیا ۔ (مسدد۔ المروری فی الجنائز ، مستدرک الحاکم ، السنن للبیہقی )

18784

18784- عن علي قال: أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يغسله أحد غيري، فإنه لا يرى عورتي أحد إلا طمست عيناه. "ابن سعد والبزار عق وابن الجوزي في الواهيات زاد ابن سعد: قال علي: فكان الفضل وأسامة يناولاني الماء من وراء الستر وهما معصوبا العين، قال علي: فما تناولت عضوا إلا كأنما يقلبه معي ثلاثون رجلا حتى فرغت من غسله.
18784 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ مجھے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے علاوہ کوئی اور آپ کو غسل نہ دے ۔ کیونکہ جو شخص میرا ستر دیکھے گا اس کی آنکھیں مٹ جائیں گے ۔ (ابن سعد ، البزار ، العقیلی وابن الجوزی فی الواھیات) ۔ بن سعد (رح) نے یہ اضافہ نقل فرمایا ہے : سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : فضل اور اسامہ پردے کے پیچھے سے مجھے پانی لا لا کر دے رہے تھے اور ان کی آنکھیں بندھی ہوئی تھیں ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : میں جس عضو کو بھی ہاتھ لگاتا محسوس ہوتا کہ اس عضو کو میرے ساتھ تیس (مخفی) دوسرے آدمی ہیں جو آپ کے اعضاء کو حرکت دے رہے ہیں حتی کہ میں بسہولت غسل سے فارغ ہوگیا ۔ کلام : ۔۔۔ علامہ ابن جوزی اور علامہ عقیلی نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔

18785

18785- عن علي قال: لما كان قبل وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام أهبط الله جبريل إليه، فقال: يا أحمد إن الله عز وجل أرسلني إليك إكراما لك، وتفضيلا لك، وخاصة لك، يسألك عما هو أعلم به منك، يقول: كيف تجدك؟ قال: أجدني يا جبريل مكروبا، ثم جاءه اليوم الثاني فقال: يا أحمد إن الله أرسلني إليك إكراما لك، وتفضيلا لك، وخاصة لك يسألك عما هو أعلم به منك يقول: كيف تجدك؟ قال: أجدني يا جبريل مكروبا، ثم عاد اليوم الثالث فقال: يا أحمد إن الله أرسلني إليك إكراما لك، وتفضيلا لك، وخاصة لك يسألك عما هو أعلم به منك يقول: كيف تجدك؟ قال: أجدني يا جبريل مكروبا، وأجدني يا جبريل مغموما، وهبط مع جبريل ملك في الهواء يقال له: إسماعيل على سبعين ألف ملك، فقال له جبريل: يا أحمد هذا ملك الموت يستأذن عليك، ولم يستأذن على آدمي قبلك، ولا يستأذن على آدمي بعدك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ايذن له، فأذن له جبريل فدخل، فقال له ملك الموت: يا أحمد إن الله أرسلني إليك وأمرني أن أطيعك، إن أمرتني بقبض نفسك قبضتها، وإن كرهت تركتها، فقال جبريل: يا أحمد إن الله قد اشتاق إلى لقائك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ملك الموت امض لما أمرت به، فقال جبريل: يا أحمد عليك السلام هذا آخر وطئي الأرض، إنما كنت أنت حاجتي من الدنيا، فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم وجاءت التعزية جاء آت يسمعون حسه ولا يرون شخصه، فقال: السلام عليكم أهل البيت ورحمة الله، في الله عزاء من كل مصيبة، وخلف من كل هالك، ودرك من كل ما فات، فبالله ثقوا، وإياه فارجوا فإن المحروم محروم الثواب، وإن المصاب من حرم الثواب، والسلام عليكم، قال علي: هل تدرون من هذا؟ قالوا: لا، قال: هذا الخضر. "العدني وابن سعد هق في الدلائل".
18785 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے تین یوم قبل اللہ پاک نے جبرائیل (علیہ السلام) کو آپ کے پاس بھیجا ۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے احمد ! اللہ عزوجل نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے آپ کے اکرام آپ کی فضیلت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے کہ پروردگار آپ سے زیادہ آپ کو جانتا ہے پھر بھی پوچھتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جبرائیل (علیہ السلام) ! میں اپنے آپ کو تکلیف زدہ محسوس کررہا ہوں ۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) دوسرے روز تشریف لائے اور فرمایا : اے احمد اللہ نے مجھے آپ کے پاس آپ کے اکرام ، آپ کی فضیلت اور آپ کی خصوصیت کی وجہ سے بھیجا ہے پروردگار آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ اپنے کو کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ حالانکہ پروردگار آپ سے زیادہ جانتا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جبرائیل ! میں تکلیف محسوس کررہا ہوں ، پھر جبرائیل (علیہ السلام) تیسرے روز تشریف لائے اور فرمایا : اے احمد ! اللہ نے مجھے آپ کے اکرام اور آپ کو فضیلت دینے کے لیے اور آپ کو خصوصیت بخشنے کے لیے بھیجا ہے پروردگار آپ سے زیادہ جانتا ہے پھر بھی پوچھتا ہے کہ اب آپ اپنے کو کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے آپ کو تکلیف زدہ پاتا ہوں ۔ اور اے جبرائیل (علیہ السلام) ! میں اپنے آپ کو رنجیدہ وغمزدہ محسوس کررہا ہوں ۔ جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا میں اور ایک اور فرشتہ بھی اترا جس کو اسماعیل کہا جاتا تھا وہ ستر ہزار فرشتوں کا سردار تھا ، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے احمد ! یہ ملک الموت ہے جو آپ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ اس نے آپ سے پہلے کسی سے یہ اجازت نہیں مانگی اور نہ آپ کے بعد کسی سے مانگے گا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو اجازت دے دو ۔ چنانچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور وہ بھی تشریف لے آئے ۔ انھوں نے کہا : اے احمد ! اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور مجھے آپ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ مجھے اپنی جان قبض کرنے کا فرمائیں گے تو میں قبض کرلوں گا اور اگر آپ اس کو ناپسند کرتے ہیں تو میں آپ کو چھوڑ دوں گا ۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے احمد ! اللہ پاک آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ملک الموت ! کر گزر جس کا تجھے حکم ملا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : اے احمد ! تجھ پر (اس زندگی کا آخری) سلام ہو ۔ یہ میرا اس زمین پر آخری چکر ہے۔ دنیا میں میں صرف آپ کی وجہ سے آتا تھا ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوگئی اور تعزیت ہر طرف سے رونے کی آواز شروع ہوئیں تو ایک آنے والا آیا جس کی آہٹ لوگ محسوس کر رہے تھے مگر اس کا وجود نہیں دیکھ پا رہے تھے ۔ اس نے کہا : اے اہل بیت ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ ۔ اللہ سے ہر مصیبت و تکلیف پر ثواب کی امید رکھو ۔ ہر ہلاک ہونے والے کے اچھے جانشین کا آسرا کرو ۔ ہر فوت شدہ شی کو اللہ سے پاؤ ۔ اللہ پر بھروسہ کرو ۔ اسی سے امید رکھو ، محروم تو وہ ہے جو ثواب سے محروم ہے۔ مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہوگیا ۔ پس تم پر سلام ہو۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے پوچھا : جانتے ہو یہ کون تھے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : یہ خضر (علیہ السلام) تھے ۔ (العدنی، ابن سعد ، البیہقی فی الدلائل)

18786

18786- عن ابن عباس قال: خرج العباس وعلي من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي فيه فلقيهما رجال، فقالوا: كيف أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يا أبا الحسن؟ قال: أصبح بحمد الله بارئا.
18786 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اور حضرت عباس (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے آپ کے مرض کی حالت میں نکلے ۔ آپ حضرات کو کچھ ملے ۔ انھوں نے پوچھا : اے ابو الحسن ! (حضرت علی (رض) کی کنیت) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا : اللہ کی تعریف کے ساتھ آپ بہتر ہیں۔ (العدنی ، بخاری ، البیہقی فی الدلائل)

18787

18787- عن عبد الله بن الحارث بن نوفل أن عليا غسل النبي صلى الله عليه وسلم وعلى النبي قميص وبيد علي خرقة يتبع بها تحت القميص. "ق"."العدني خ هق في الدلائل".
18787 ۔۔۔ عبداللہ بن حارث بن نوفل سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قمیص تھی ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے ہاتھ پر کپڑا لپٹا ہوا تھا ۔ جس کو قمیص کے نیچے لے جا کر غسل دے رہے تھے ۔ (رواہ السنن للبیھقی)

18788

18788- عن علي قال: دخلت على نبي الله صلى الله عليه وسلم وهو مريض فإذا رأسه في حجر رجل أحسن ما رأيت من الخلق والنبي صلى الله عليه وسلم نائم، فلما دخلت عليه قلت: أدنو؟ فقال الرجل: ادن إلى ابن عمك فأنت أحق مني فدنوت منهما، فقام الرجل، وجلست مكانه ووضعت رأس النبي صلى الله عليه وسلم في حجري كما كان في حجر الرجل، فمكثت ساعة، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم استيقظ، فقال: أين الرجل الذي كان رأسي في حجره؟ فقلت: لما دخلت عليك دعاني، ثم قال: ادن إلى ابن عمك فأنت أحق به مني، ثم قام فجلست مكانه، قال: فهل تدري من الرجل؟ قلت: لا بأبي وأمي، قال: ذاك جبريل كان يحدثني حتى خف عني وجعي، ونمت ورأسي في حجره. "أبو عمر الزاهد في فوائده، وفيه محمد بن عبيد الله بن أبي رافع، ضعيف".
18788 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوا آپ اس وقت مریض تھے ۔ آپ کا سر ایک ایسے آدمی کی گود میں رکھا ہوا تھا کہ اس سے زیادہ میں نے کوئی حسین نہیں دیکھا ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو رہے تھے ۔ میں داخل ہوا تو میں نے پوچھا : کیا میں قریب آجاؤں ؟ اس آدمی نے کہا : قریب ہوجاؤ اپنے چچا کے بیٹے کے تم مجھ سے زیادہ حقدار ہو ۔ پس میں دونوں کے قریب ہوا ، وہ آدمی اٹھ کھڑا ہوا اور میں اس کی جگہ بیٹھ گیا ۔ میں نے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر اپنی گود میں رکھ لیا جس طرح پہلے آدمی کی گود میں تھا ۔ تھوڑی دیر گذری تھی کہ آپ بیدار ہوگئے ۔ آپ نے پوچھا وہ شخص کہاں ہے جس کی گود میں میرا سر رکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا کہ جب میں اندر داخل ہوا تو اس نے مجھے بلا لیا اور کہا کہ اپنے چچا زاد کے قریب آجاؤ تم اس کے مجھ سے زیادہ حقدار ہو ۔ لہٰذا وہ اٹھے اور میں بیٹھ گیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جانتے ہو وہ آدمی کون تھا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں ۔ آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ فرمایا : وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے ۔ وہ مجھ سے بات چیت کر رہے تھے جس کی وجہ سے درد میں تخفیف ہوگئی ۔ اور میں سو گیا اور میرا سر اس کی گود میں رکھا رہ گیا ۔ (ابو عمر الزاھد فی فوائدہ) کلام : ۔۔۔ اس روایت میں محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ضعیف راوی ہے۔

18789

18789- عن جابر بن عبد الله أن كعب الأحبار قدم زمن عمر ابن الخطاب فقال ونحن جلوس عنده: يا أمير المؤمنين ما كان آخر ما تكلم به النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال عمر: سل عليا، فقال: أين هو؟ قال: هو ذا فسأله، فقال علي: أسندته إلى صدري فوضع رأسه على منكبي وقال: الصلاة الصلاة، فقال كعب: كذلك عهد الأنبياء وبه أمروا وعليه يبعثون، قال: فمن غسله يا أمير المؤمنين؟ قال: سل عليا فسأله، فقال: كنت أغسله وكان عباس جالسا وكان أسامة وشقران يختلفان إلي بالماء. "ابن سعد، وسنده ضعيف".
18789 ۔۔۔ جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار (رح) سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے زمانہ میں (مدینہ) تشریف لائے ۔ ہم لوگ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کے پاس ہی بیٹھے تھے ۔ کعب (رح) نے عرض کیا : یا امیر المؤمنین ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری کلام کیا کیا تھا ؟ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : علی سے سوال کرو ۔ پوچھا : علی کہاں ہیں ؟ فرمایا : وہ ادھر رہے ان سے سوال کرو۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے سینے کے ساتھ ٹیک لگایا آپ نے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ دیا اور فرمایا : ” الصلوۃ ! الصلوۃ !: (نماز کی پابندی کرو ، نماز کی پابندی کرو) حضرت کعب (رح) نے فرمایا : یہی انبیاء کا عہد رہا ہے ، اسی کا ان کا حکم دیا گیا ہے اور اسی پر ان کو اٹھایا جائے گا ۔ حضرت کعب احبار (رح) نے پوچھا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل کس نے دیا ہے ؟ یا امیر المؤمنین ! فرمایا علی سے سوال کرو ۔ انھوں نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے پوچھا تو آپ (رض) نے فرمایا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دے رہا تھا ۔ عباس (رض) بیٹھے تھے ۔ اسامہ اور شقران میرے پاس پانی لے کر آ جا رہے تھے ۔ (رواہ ابن سعد) کلام : ۔۔۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

18790

18790- عن علي قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه: ادعوا لي أخي فدعي له فقال: ادن مني فدنوت منه، فاستند إلي فلم يزل مستندا إلي وإنه يكلمني حتى أن بعض ريق النبي صلى الله عليه وسلم ليصيبني، ثم نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم وثقل في حجري، فصحت يا عباس أدركني، فإني هالك، فجاء العباس فكان جهدهما جميعا أن أضجعاه. "ابن سعد، وسنده ضعيف".
18790 ۔۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض میں ارشاد فرمایا : میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ۔ (حضرت علی (رض)) کو بلایا گیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قریب ہوجاؤ ۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں میں قریب ہوگیا ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے سینے کے ساتھ ٹیک لگالی اور مجھ سے بات کرتے رہے حتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعاب مبارک مجھ پر گر رہا تھا ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول شروع ہوگیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری گود میں انتہائی ثقیل بوجھل ہوگئے حتی کہ میں چیخ پڑا : یا عباس ! آؤ ، میں مر رہا ہوں ۔ پس عباس (رض) آئے ۔ دونوں نے انتہائی محنت کر کے آپ کو لٹا دیا ۔ (رواہ ابن سعد) کلام : ۔۔۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

18791

18791- عن أبي غطفان قال: سألت ابن عباس أرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي ورأسه في حجر أحد؟ قال: توفي وهو إلى صدر علي؟ قلت: فإن عروة حدثني عن عائشة أنها قالت: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري ونحري، فقال ابن عباس: أتعقل والله لتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مستند إلى صدر علي وهو الذي غسله وأخي الفضل بن عباس وأبى أبي أن يحضر وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نستتر فكان عند السترة."ابن سعد، وسنده ضعيف".
18791 ۔۔۔ ابو غطفان سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وفات کے وقت دیکھا کہ کس کی گود میں آپ کا سر تھا ؟ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے سینے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ میں نے کہا کہ عروۃ (رح) حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے روایت کرتے ہیں حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات میرے سینے اور حلق کے درمیان (ٹیک لگائے ہوئے) ہوئی تھی ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا : کیا تم عقل رکھتے ہو ۔ اللہ کی قسم ! حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ نے حضرت علی (رض) کے سینے کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی ۔ آپ (رض) اور میرے بھائی فضل بن عباس نے آپ (رض) کو غسل دیا تھا ، میرے والد نے (غسل کی جگہ آنے سے) انکار کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو حکم دیا تھا کہ ہم پردہ رکھیں ۔ لہٰذا وہ پردے کے اس طرف بیٹھے تھے ۔ (رواہ ابن سعد) کلام : ۔۔۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

18792

18792- عن علي قال: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الأربعاء لليلة بقيت من شهر صفر سنة إحدى عشرة، وتوفي يوم الإثنين لاثنتي عشرة مضت من ربيع الأول ودفن يوم الثلاثاء. "ابن سعد".
18792 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدھ کے دن رات کے وقت سن گیارہ ہجری ماہ صفر کی آخری رات کو بیمار ہوئے اور بارہ ربیع الاول پیر کے روز وفات پائی اور منگل کے روز مدفون ہوئے ۔ (رواہ ابن سعد)

18793

18793- عن علي قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاثة أثواب من كرسف سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة. "ابن سعد".
18793 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین مسحولی کپڑے کی چادروں میں کفن دیا گیا جن میں قمیص تھی اور نہ عمامہ ۔ (رواہ ابن سعد)

18794

18794- عن عبد الله بن محمد بن عبد الله بن عمر بن علي بن أبي طالب عن أبيه عن جده عن علي قال: لما وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السرير قال: لا يقوم عليه أحد هو إمامكم حيا وميتا، فكان يدخل الناس رسلا رسلا فيصلون عليه صفا صفا ليس لهم إمام ويكبرون، وعلي قائم بحيال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته اللهم إنا نشهد أن قد بلغ ما نزل إليه، ونصح لأمته وجاهد في سبيل الله حتى أعز الله دينه، وتمت كلمته، اللهم فاجعلنا ممن يتبع ما أنزل إليه وثبتنا بعده، واجمع بيننا وبينه، فيقول الناس آمين، حتى صلى عليه الرجال، ثم النساء، ثم الصبيان. "ابن سعد".
18794 ۔۔۔ عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن عمر بن علی بن ابی طالب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور وہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چارپائی پر لٹایا گیا تو سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے امام ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی (لہذا کوئی آپ کی نماز پڑھانے کی جرات نہیں کرے گا) پس پھر لوگ گروہ گروہ آتے تھے اور صف بہ صف کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے ۔ ان کا کوئی امام نہ تھا ۔ خود ہی تکبیریں کہتے تھے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے : لسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، اللہم انا نشھد ان قد بلغ ما نزل الیہ ، ونصح لامتہ وجاھد فی سبیل اللہ حتی اعز اللہ دین ، وتمت کلمتہ ، اللہم فاجعلنا ممن یتبع ما انزل الیہ وثبتنا بعدہ واجمع بیننا وبینہ “۔ ے نبی ! آپ پر سلامتی ہو ، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں ، اے اللہ ! ہم شہادت دیتے ہیں کہ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق تبلیغ ادا کردیا ، امت کے لیے پوری خیر خواہی برت لی ۔ اللہ کی راہ میں اس قدر جہاد کیا کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کردیا ، اللہ کا کلمہ مکمل ہوگیا ۔ اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو آپ پر نازل شدہ کی پیروی کرنے والے ہیں اور ہمیں آپ کے بعد ثابت قدمی نصیب فرما ۔ ہمیں آپ کے ساتھ جمع فرما ۔ س طرح سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) دعا فرما رہے تھے اور لوگ آمین آمین کہہ رہے تھے ۔ حتی کہ پہلے لوگوں نے نماز پڑھی ، پھر عورتوں نے اور پھر بچوں نے ۔ (رواہ ابن سعد)

18795

18795- عن علي أنه غسل النبي صلى الله عليه وسلم وعباس وعقيل بن أبي طالب وأوس بن خولي وأسامة بن زيد. "ابن سعد".
18795 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انھوں نے ، عباس ، عقیل بن ابی طالب ، اوس بن خولی اور اسامہ بن زید (رض) کے ساتھ مل کر غسل دیا تھا ۔ (رواہ ابن سعد)

18796

18796- عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما ثقل قال: يا علي، ائتني بطبق أكتب فيه ما لا تضل أمتي بعدي، فخشيت أن تسبقني نفسه، فقلت: إني أحفظ ذراعا من الصحيفة، فكان رأسه بين ذراعي وعضدي فجعل يوصي بالصلاة والزكاة وما ملكت أيمانكم، قال كذلك حتى فاضت نفسه وأمر شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله حتى فاضت نفسه من شهد بها حرم على النار. "ابن سعد".
18796 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بوجھل ہوگئے تو فرمایا : اے علی ! میرے پاس کوئی تختہ لاؤ جس میں میں کچھ لکھ دوں تاکہ میری امت میرے بعد گمراہ نہ ہو ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں : مجھے ڈر ہوا کہ کہیں مجھ سے پہلے آپ کی جان نہ نکل جائے ۔ اس لیے میں نے عرض کیا : میں بازو پر لکھتا جاتا ہوں ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر میرے بازو اور کہنی کے درمیان تھا ۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصیت کرتے جاتے تھے آپ نے نماز ، زکوۃ اور غلاموں کے ساتھ خیر خواہی کی وصیت کی پھر آپ کی سانسیں اٹکنے لگیں اور آپ نے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ “۔ پڑھا پھر سانس اٹکی اور آپ نے فرمایا جس نے اس کلمے کی شہادت دی اس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ۔ (رواہ ابن سعد)

18797

18797- عن عبد الله بن الحارث أن عليا لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم قام فأرتج الباب قال: فجاء العباس معه بنو عبد المطلب فقاموا على الباب وجعل علي يقول: بأبي أنت طبت حيا وميتا، قال: وسطعت ريح طيبة لم يجدوا مثلها قط، قال: فقال العباس لعلي: دع حنينا كحنين المرأة وأقبلوا على صاحبكم، فقال علي: أدخلوا علي الفضل، قال: وقالت الأنصار نناشدكم الله في نصيبنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم فأدخلوا رجلا منهم يقال له أوس بن خولي يحمل جرة بإحدى يديه، قال: فغسله علي يدخل يده تحت القميص، والفضل يمسك الثوب عليه والأنصاري ينقل الماء، وعلى يد علي خرقة، يدخل يده وعليه القميص. "ابن سعد"
18797 ۔۔۔ عبداللہ بن الحارث سے مروی ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو (قریب بیٹھے) سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازہ پر تیز دستک ہوئی اور عباس بنو عبدالمطلب کے ساتھ تشریف لائے اور دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرما رہے تھے : میرے (ماں) باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ نے کس قدر اچھی زندگی بسر کی اور کس قدر اچھی موت پائی ، راوی کہتے ہیں : اس وقت بہت اچھی ہوا چلی پہلے کسی نے ایسی ہوا نہ محسوس کی ہوگی ، حضرت عباس (رض) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو فرمایا : چھوڑو عورتوں کو رونے دو تم ہمارے بھی کچھ حصہ کا خیال کرو ۔ چنانچہ انھوں نے بھی اپنا ایک آدمی جس کو اوس بن خولی کہا جاتا تھا جو (بھرا ہوا) مٹکا ایک ہاتھ میں اٹھالیتا تھا ، کو اندر بھیج دیا ۔ پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا ، قمیص کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر غسل دیتے رہے ۔ فضل آپ پر کپڑا تانے کھڑے رہے اور انصاری پانی ڈھوتا رہا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کے ہاتھ پر کپڑا بھی لپٹا ہوا تھا ۔ اس کپڑے کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قمیص کے نیچے ہاتھ ڈالتے تھے ۔ (اس طرح غسل دیا گیا ) ۔ (رواہ ابن سعد)

18798

18798- عن عبد الواحد بن أبي عون قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي بن أبي طالب في مرضه الذي توفي فيه: اغسلني يا علي إذا مت، فقال: يا رسول الله ما غسلت ميتا قط، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنك ستهيأ أو تيسر، قال علي: فغسلته، فما آخذ عضوا إلا تبعني والفضل آخذ بحضنه يقول: اعجل يا علي انقطع ظهري. "ابن سعد"
18798 ۔۔۔ عبدالواحد بن ابی عون سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس مرض میں انتقال ہوا اسی مرض کی حالت میں آپ (رض) نے حضرت علی (رض) کو ارشاد فرمایا : اے علی ! جب میں مرجاؤں تو مجھے تم خود غسل دینا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے تو کبھی کسی میت کو غسل دیا ہی نہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تمہاری مدد کی جائے گی ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) فرماتے ہیں پھر میں نے آپ کو غسل دیا ۔ میں جس عضو کو بھی پکڑتا وہ گویا میرا حکم مانتا تھا ۔ جبکہ فضل نے آپ کی کمر پکڑی ہوئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے ۔ اے علی ! جلدی جلدی ! جلدی ! میری کمر ٹوٹی جا رہی ہے۔ (رواہ ابن سعد)

18799

18799- "مسند علي رضي الله عنه" أنبأنا عفان بن مسلم أنا حماد بن سلمة عن عبد الله بن محمد بن عقيل عن محمد بن علي بن الحنفية عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كفن في سبعة أثواب. "ابن سعد، وهذا إسناد صحيح"
18799 ۔۔۔ (مسند علی (رض)) عفان بن مسلم ، حماد بن سلمہ ، عبداللہ بن محمد بن عقیل ، محمد بن علی بن الحنفیۃ عن ابیہ کی سند کے ساتھ مروی ہے علی بن الحنفیۃ فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا : (رواہ ابن سعد) کلام : ۔۔۔ یہ سند صحیح ہے۔

18800

18800- عن عروة عن عائشة قالت: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب يمانية، وفي لفظ: سحولية بيض كرسف ليس فيها قميص ولا عمامة، قال عروة: فأما الحلة فإنما شبه على الناس فيها إنما اشتريت للنبي صلى الله عليه وسلم ليكفن فيها، فتركت، وكفن في ثلاثة أثواب بيض سحولية، قالت عائشة: فأخذها عبد الله بن أبي بكر فقال: أحبسها حتى أكفن فيها، قالت: ثم قال: لو رضيها الله لنبيه صلى الله عليه وسلم لكفنه فيها فباعها وتصدق بثمنها. "ابن سعد"
18800 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے فرمایا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ کو تین یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا ۔ دوسرے الفاظ یہ منقول ہیں : سفید سوت سے بنی ہوئی چادر میں کفن دیا گیا ۔ جس میں قمیص تھی اور نہ عمامہ ۔ حضرت عروہ (رح) فرماتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک جوڑا تھا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفن کے لیے ہی خریدا گیا تھا ۔ لیکن پھر اس کو چھوڑ دیا گیا ، بلکہ دوسرے تین سفید سوتی کپڑوں میں کفن دیا گیا ۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں : پھر عبداللہ بن ابی بکر نے وہ جوڑا لے لیا اور کہا کہ میں اس کو اپنے پاس رکھتا ہوں تاکہ مجھے اس میں کفن دیا جائے ۔ لیکن پھر خود ہی ان کو خیال آیا اور کہنے لگے کہ اگر اس کپڑے میں کوئی خیر ہوتی تو اللہ پاک اپنے نبی کو اس میں ضرور کفناتے ۔ لہٰذا انھوں نے وہ بیچ دیا اور اس کی قیمت راہ خدا میں صدقہ کردی ۔ (رواہ ابن سعد)

18801

18801- عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب بيض يمانية. "ابن سعد".
18801 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین سفید یمنی کپڑوں (چادروں) میں کفن دیا گیا ۔ (رواہ ابن سعد)

18802

18802- عن أبي إسحاق قال: دفعت إلى مجلس بني عبد المطلب وهم متوافرون فقلت: في أي شيء كفن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: في ثلاثة أثواب ليس فيها قباء ولا قميص ولا عمامة. "ابن سعد".
18802 ۔۔۔ ابو اسحاق سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بنی عبدالمطلب کی مجلس میں گیا ۔ میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس چیز میں کفن دیا گیا تھا ؟ انھوں نے کہا : تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا جن میں قباء تھی اور نہ قمیص اور نہ عمامہ ۔ (رواہ ابن سعد)

18803

18803- عن ابن عباس قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثوبين أبيضين وبرد أحمر. "ابن سعد".
18803 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک سرخ چادر اور دو سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا ۔ (رواہ ابن سعد)

18804

18804- عن أبي بن كعب قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاثة أثواب منها برد حبرة. "ابن سعد".
18804 ۔۔۔ ابی بن کعب (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا جن میں ایک یمنی چادر بھی تھی ۔ (رواہ ابن سعد)

18805

18805- عن الشعبي قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاثة أثواب برود يمانية غلاظ: إزار ورداء ولفافة."ابن سعد".
18805 ۔۔۔ شعبی (رح) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین موٹے کپڑوں میں کفن دیا گیا ازار ، رداء اور لفافہ ۔ (رواہ ابن سعد)

18806

18806- عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في حلة حمراء نجرانية كان يلبسها وقميص. "ابن سعد".
18806 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک سرخ نجرانی حلے (جوڑے) اور قمیص میں کفن دیا گیا ۔ (رواہ ابن سعد)

18807

18807- عن الحسن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في حلة حبرة وقميص. "ابن سعد".
18807 ۔۔۔ حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک یمنی جوڑے اور ایک قمیص میں کفن دیا گیا ۔ (رواہ ابن سعد)

18808

18808- عن إبراهيم النخعي قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في حلة يمانية وقميص. "ابن سعد".
18808 ۔۔۔ ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک یمنی جوڑے اور ایک قمیص میں کفن دیا گیا تھا ۔ (رواہ ابن سعد)

18809

18809- عن أيوب قال: قال أبو قلابة: ألا تعجب من اختلافهم علينا في كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن سعد"
18809 ۔۔۔ ایوب (رح) سے مروی ہے کہ ابوقلابہ (رح) نے فرمایا : کیا تم کو اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفن میں لوگوں کا کس قدر اختلاف ہے۔ (رواہ ابن سعد)

18810

18810- عن علي أنه نزل في حفرة النبي صلى الله عليه وسلم هو، وعباس، وعقيل بن أبي طالب، وأسامة بن زيد، وأوس بن خولي، وهم الذين ولوا كفنه. "ابن سعد".
18810 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے کہ وہ عباس، عقیل ابن ابی طالب ، اسامہ بن زید اور اوس بن خولی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں اترے تھے اور انہی حضرات نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفن کا کام سنبھالا تھا ۔ (رواہ ابن سعد)

18811

18811- عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم أن المغيرة بن شعبة ألقى في قبر النبي صلى الله عليه وسلم بعد أن خرجوا خاتمه لينزل فيه، فقال علي بن أبي طالب: إنما ألقيت خاتمك لكي تنزل فيه فيقال: نزل في قبر النبي صلى الله عليه وسلم، والذي نفسي بيده لا تنزل فيه أبدا ومنعه. "ابن سعد".
18811 ۔۔۔ عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے مروی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں اپنی انگوٹھی گرا دی تھی ۔ جبکہ قبر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتارنے والے حضرات پہلے نکل چکے تھے ۔ حضرت مغیرہ (رض) نے یہ کام اس لیے کیا تھا تاکہ ان کو قبر میں اترنے کا موقعہ مل جائے ۔ لہٰذا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے ان کو فرمایا : تم نے انگوٹھی قبر میں اس لیے گرائی ہے تاکہ تم بھی اترو اور کہا جائے کہ مغیرہ بھی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں اترا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ہرگز قبر میں نہیں اترو گے ۔ اور ان کو روک دیا ۔ (رواہ ابن سعد)

18812

18812- عن عبد الله بن محمد بن علي عن أبيه قال: قال علي بن أبي طالب: لا يتحدث الناس أنك نزلت فيه ولا يتحدث الناس أن خاتمك في قبر النبي صلى الله عليه وسلم، ونزل علي وقد رأى موقعه، فتناوله فدفعه إليه. "ابن سعد".
18812 ۔۔۔ عبداللہ بن محمد بن علی (رح) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے (مغیرہ (رض) کو) فرمایا نہ تو لوگ یہ بیان کریں گے کہ تم قبر میں اترے ہو اور نہ ہی یہ بیان کریں گے کہ تمہاری انگوٹھی نبی کی قبر میں ہے۔ پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) خود اترے اور آپ انگوٹھی گرنے کی جگہ دیکھ چکے تھے لہٰذا سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے وہ انگوٹھی اٹھائی اور مغیرہ (رض) کو دے دی ۔ (رواہ ابن سعد)

18813

18813- عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده أن عليا غسل النبي صلى الله عليه وسلم والعباس يصب الماء وأسامة وشقران يحفظان الباب، فلما فرغوا، قال العباس: محزنة على رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أدفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في التراب، ولكن أعد له صندوقا واجعله في بيتي، فإذا كربني أمر نظرت إليه، فقال علي للعباس: يا عم ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدفن أولاده؟ ثم تلا هذه الآية: {مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} ثم تلا: {أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتاً أَحْيَاءً وَأَمْوَاتاً} ، فبينما هم كذلك إذ هتف بهم هاتف من ناحية البيت، فقال: السلام عليكم أهل البيت، كل نفس ذائقة الموت وإنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب، فقال علي للعباس: اصبر يا عم رسول الله، فقد ترى ما وعد الله على لسان نبيه، فقال العباس: يا علي إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: تكون قبور الأنبياء في موضع فرشهم، قال: فكفنوه في قميصين أحدهما أرق من الآخر وصلى عليه العباس وعلي صفا واحدا وكبر عليه العباس خمسا ودفنوه. "ابن معروف وفيه عبد الصمد".
18813 ۔۔۔ عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غسل دیا ، عباس (رض) پانی ڈالتے جا رہے تھے ، اسامہ اور شقران (رض) دروازے کی حفاظت پر مامور تھے ۔ جب غسل دینے سے فارغ ہوئے تو حضرت عباس (رض) نے فرمایا : رنج کا مقام ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مٹی میں ڈالیں ۔ لہٰذا میں آپ کے لیے ایک صندوق تیار کراتا ہوں اور اس (میں آپ کو لٹا کر) صدوق کو اپنے گھر کے کونے میں رکھ لوں گا ۔ پس جب مجھے رنج وغم ہوگا تو میں آپ کو دیکھ لیا کروں گا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضرت عباس (رض) کو فرمایا : اے چچا جان ! کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی اولاد کو دفن کرتے نہیں دیکھا ؟ پھر آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت)” منھا خلقنا کم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری “۔ سی (زمین) سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تم کو دوبارہ نکالیں گے ۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت)” الم نجعل الارض کفاتا احیاء وامواتا “۔ کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں (سب) کے لیے کفایت کرنے والی نہیں کردیا ۔ بھی لوگ اسی طرح کی باتوں میں مصروف تھے کہ گھر کے کونے سے ایک غیبی آواز آئی : لسلام علیکم اے گھر والو ! (آیت)” کل نفس ذائقۃ الموت وانما یوفون اجرھم بغیر حساب “۔ ہر جی کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور لوگوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے پورا پورا دیا جائے گا ۔ پھر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضرت عباس (رض) کو فرمایا : اے رسول اللہ کے چچا ! آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ ان کی زبان پر کیا کیا وعدے کیے ہیں ؟ پھر حضرت عباس (رض) نے فرمایا : اے علی ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : انبیاء کی قبریں انھیں کے (مرنے کے) بستروں کی جگہ ہوتی ہیں۔ پھر لوگوں نے آپ کو دو قمیصوں میں کفن دیا ایک قمیص دوسری سے کچھ باریک تھی ۔ اور آپ پر سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) اور حضرت عباس (رض) نے ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور حضرت عباس (رض) نے آپ پر پانچ تکبیریں ادا فرمائیں ۔ اور آپ کو دفن کیا (ابن معروف وفی عبدالصمد)

18814

18814- عن عبد الله بن الحارث قال: جعل علي على يده خرقة وجعلها بين قميص النبي صلى الله عليه وسلم وجلده. "المروزي في الجنائز".
18814 ۔۔۔ عبداللہ بن حارث سے مروی ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا اور اس کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص اور جسم کے درمیان پھیرتے تھے ۔ (المروزی فی الجنائز)

18815

18815- عن أنس أن أبا بكر كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم من مكة إلى المدينة، وكان أبو بكر يختلف إلى الشام، فكان يعرف، وكان النبي صلى الله عليه وسلم لا يعرف، فكانوا يقولون: يا أبا بكر من هذا الغلام بين يديك؟ فيقول: هاد يهديني السبيل، فلما دنوا من المدينة نزلا بحرة، وبعث إلى الأنصار فجاؤا، قال: فشهدته يوم دخل المدينة، فما رأيت يوما كان أحسن ولا أضوء من يوم دخل علينا فيه، وشهدته يوم مات فما رأيت يوما كان أقبح ولا أظلم من يوم مات فيه. "ش".
18815 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ ہجرت کے موقع مکہ سے مدینہ تک کے سفر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سواری پر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو پیچھے بٹھائے ہوئے تھے ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا ملک شام آنا جانا تھا اس لیے وہ پہچانے جاتے تھے جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف نہ تھا ۔ اس لیے لوگ راستے میں ملتے اور حضرت ابوبکر (رض) سے پوچھتے تھ کہ تمہارے آگے بیٹھا ہوا یہ غلام کون ہے ؟ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں یہ میرے رہنما ہیں جو مجھے سیدھا راستہ بتاتے ہیں۔ جب یہ دونوں حضرات مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو حرہ مقام پر اتر گئے اور انصار کو پیغام بھیج دیا ۔ انصار مدینہ آگئے ۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں اس دن میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا تھا ، اس دن سے اچھا اور روشن چمکدار دن میں نے کوئی نہیں دیکھا جس دن ہمارے پاس تشریف لائے تھے ۔ اور میں اس دن بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا جس دن آپ کا انتقال ہوا ، اس دن سے زیادہ برا اور تاریک دن میں نے کوئی نہیں دیکھا جس دن آپ کی وفات ہوئی تھی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)

18816

18816- عن أنس قال: كان بالمدينة قباران: أحدهما يلحد، والآخر يضرح، فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
18816 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ مدینہ میں دو آدمی قبریں بنانے والے تھے ۔ ایک لحدی قبر بناتا تھا اور دوسرا سیدھی قبر بناتا تھا ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحدی (بغلی) قبر بنوائی گئی ۔ (ابن جریر)

18817

18817- عن علي قال: كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبعة أثواب. "ش حم وابن سعد وابن الجوزي في الواهيات ص".
18817 ۔۔۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔ (ابن ابی شیبہ ، مسند احمد ابن سعد، ابن الجوزی فی الواھیات ، السنن لسعید بن منصور) کلام : ۔۔۔ ابن جوزی (رح) نے اس کو موضوع میں شمار فرمایا ہے۔

18818

18818- عن أنس قال: لما وجد النبي صلى الله عليه وسلم من كرب الموت ما وجد، قالت فاطمة: واكرب أبتاه، قال: لا كرب على أبيك بعد اليوم قد حضر من أبيك ما الله تبارك وتعالى بتارك منه أحدا وفي لفظ: ما ليس بناج منه أحد، الموافاة يوم القيامة. "ع وابن خزيمة كر".
18818 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب موت کی تکلیف پائی تو حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا : ہائے باپ کا غم اور تکلیف ، سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے فرمایا : آج کے بعد تمہارے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہوگی ، تمہارے باپ کو جو تکلیف پیش آئی ہے اس سے اللہ پاک کسی کو چھٹکارا نہیں دیں گے ۔ دوسرے الفاظ یہ ہیں : س تکلیف سے کوئی نجات نہیں پاسکتا لیکن قیامت کے دن اس کا بدلہ دے دیا جائے گا ۔ (مسند ابی یعلی ، ابن خزیمۃ ، ابن عساکر)

18819

18819- عن أنس قال: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم فثقل ضمته فاطمة إلى صدرها ثم قالت: واكرباه لكرب أبتاه، ثم قالت: يا أبتاه من ربه ما أدناه، يا أبتاه إلى جبريل ننعاه، يا أبتاه جنات الفردوس مأواه يا أبتاه أجاب ربا دعاه، ثم قالت: يا أنس كيف طابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب؟. "ع كر".
18819 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مریض ہوئے اور کافی بوجھل ہوگئے تو حضرت فاطمہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا : ہائے باپ کے غم کا غم ! ہائے بابا جان اپنے رب کے کس قدر قریب ہوئے ہیں ، ہائے بابا جان جبرائیل (علیہ السلام) سے ملنے والے ہیں ! ہائے بابا جان جنات الفردوس میں ٹھکانا بنانے والے ہیں ! ہائے بابا جان کو ان کے رب نے بلایا اور انھوں نے رب کی پکار پر لبیک کہا ۔ پھر حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت انس بن مالک (رض) کو فرمایا : اے انس ! تمہارے دل کیسے گوارا کریں گے کہ تم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالو گے ۔ (مسند ابی یعلی ، ابن عساکر)

18820

18820- عن أنس قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل يبسط رجلا ويقبض أخرى ويبسط يدا ويقبض أخرى، قالت فاطمة: يا كرباه لكربك يا أبتاه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي بنية لا كرب على أبيك بعد اليوم، فلما توفي قالت: يا أبتاه أجاب ربا دعاه، يا أبتاه إلى جبريل أنعاه، يا أبتاه من ربه ما أدناه، يا أبتاه جنة الفردوس مأواه، فلما دفناه قالت لي فاطمة: يا أنس كيف طابت أنفسكم أن تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب؟. "ع كر".
18820 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافی بیمار ہوگئے تو تکلیف کی شدت سے کبھی ایک ٹانگ اکٹھی کرلیتے اور دوسری کھول دیتے اور کبھی ایک کھولتے اور دوسری اکٹھی کرلیتے (اس طرح آپ کی تکلیف کی شدت کا احساس ہوتا تھا) اس طرح کبھی ایک مٹھی کھولتے دوسری بند کرتے اور کبھی دوسری کھولتے اور پہلی بند کرلیتے ۔ تب فاطمہ (رض) نے فرمایا : ہائے بابا کی تکلیف ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے بیٹی آج کے بعد تمہارے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہوگی ، پھر جب آپ کی روح پرواز کرگئی تو حضرت فاطمہ (رض) بولیں ہائے بابا کو رب نے بلا لیا اور بابا نے لبیک کہا ۔ ہائے بابا جبرائیل کے پاس چلے گئے ۔ ہائے بابا اپنے رب کے کس قدر قریب پہنچ گئے۔ ہائے بابا ! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا بن گیا ۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : جب ہم نے آپ کو دفن کرلیا تو فاطمہ (رض) مجھے بولیں : اے انس ! تمہارے دلوں نے کیسے گوارا کرلیا کہ تم اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالو۔ (مسند ابی یعلی ، ابن عساکر)

18821

18821- عن أنس قال: آخر نظرة نظرتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الإثنين كشف الستارة والناس خلف أبي بكر، فنظرت إلى وجهه كأنه ورقة مصحف، فأراد الناس أن يتحركوا فأشار إليهم أن اثبتوا وألقى السجف وتوفي آخر ذلك اليوم صلى الله عليه وسلم. "حم م".
18821 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے میں نے آخری نظر جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ڈالی وہ بروز پیر کو تھا جب لوگ ابوبکر کے پیچھے (نماز پڑھ رہے) تھے ۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پردہ اٹھایا تھا ۔ تب میں نے آپ کو دیکھا تو گویا آپ کا چہرہ کتاب کا ورقہ ہے لوگوں نے حرکت میں آنے کا ارادہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ جمے رہو ۔ پھر آپ نے پردہ گرا دیا ۔ اسی دن کے آخر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پالی ۔ (مسند احمد ، مسلم)

18822

18822- عن أنس قال: لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه أتاه بلال فآذنه بالصلاة، فقال: يا بلال قد بلغت فمن شاء فليصل ومن شاء فليدع، قال: يا رسول الله فمن يصلي بالناس؟ قال: مروا أبا بكر فليصل بالناس، فلما تقدم أبو بكر رفعت الستور عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظرنا إليه كأنه ورقة بيضاء عليه خميصة سوداء، فظن أبو بكر أنه يريد الخروج فتأخر فأشار إليه رسول الله أن صل مكانك فصلى أبو بكر فما رأينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى مات من يومه. "ع كر".
18822 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو حضرت بلال (رض) نے آکر آپ کو نماز کی اطلاع دی ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال ! تم نے پیغام دے دیا ۔ جو چاہے نماز پڑھ لے اور جو چاہے چھوڑ دے ۔ (یعنی تم مجھے چلنے پر مجبور نہ کرو) حضرت بلال (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر لوگوں کو نماز کون پڑھائے گا ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ، جب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نماز کے لیے آگے بڑھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے سے پردہ اٹھا ۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : ہم نے آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو گویا وہ ایک سفید ورقہ تھا آپ پر سیاہ قمیص پڑی ہوئی تھی ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سمجھے شاید آپ نکلنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ رہ کر نماز پڑھاؤ ۔ پس سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نماز پڑھائی ، پھر ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوبارہ نہیں دیکھا حتی کہ آپ کا انتقال ہوگیا ۔ (مسند ابی یعلی ، ابن عساکر)

18823

18823- عن أنس قال: لم يخرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا فأقيمت الصلاة وذهب أبو بكر يصلي بالناس فرفع النبي صلى الله عليه وسلم الحجاب فما رأينا منظرا أعجب إلينا منه حين وضح لنا وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فأومى النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر أن يقوم وأرخى الحجاب، فلم ير حتى مات. "ع وابن خزيمة".
18823 ۔۔۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین دن تک ہماری طرف نکل کر تشریف نہ لائے ، نماز قائم ہوتی رہی ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے ۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پردہ اٹھایا تو اس وقت ہم نے اس سے اچھا کوئی نظارہ نہیں دیکھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ ہم پر کھلا ۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اشارہ فرمایا کہ کھڑے رہیں خود پردہ گرا دیا ۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت نصیب نہ ہوئی حتی کہ آپ وفات پاگئے ۔ (مسند ابی یعلی ، ابن خزیمۃ)

18824

18824- عن جرير قال: كنت باليمن فلقيت رجلين من أهل ذا كلاع وذا عمرو فجعلت أخبرهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالا: إن كان حقا ما تقول فقد مر صاحبك على أجله منذ ثلاث، فأقبلت وأقبلا معي حتى إذا كنا في بعض الطريق رفع لنا ركب من قبل المدينة، فسألناهم فقالوا: قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر والناس صالحون، قال: فقالا لي: أخبر صاحبك أنا قد جئنا ولعلنا سنعود إن شاء الله ورجعا إلى اليمن، قال: فأخبرت أبا بكر بحديثهم قال: أفلا جئت بهم؟ قال: فلما كان بعد قال لي ذو عمرو: يا جرير إن بك علي كرامة وإني مخبرك خبرا أنكم معشر العرب لن تزالوا بخير ما كنتم: إذا هلك أمير تأمرتم في آخر، فإذا كانوا بالسيف كانوا ملوكا يغضبون غضب الملوك ويرضون رضى الملوك. "ش".
18824 ۔۔۔ حضرت جریر (رض) سے مروی ہے میں یمن میں دو آدمیوں سے ملا ایک ذی الاکلاع تھا دوسرا ذی عمرو تھا ۔ میں ان دونوں کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر دینے لگا ۔ دونوں نے کہا : اگر تم سچ بیانی سے کام لے رہے ہو تو پھر تمہارا یہ صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گذر چکا ہے۔ اور اس کو تین دن ہوگئے ہیں۔ حضرت جریر (رض) کہتے ہیں میں اور یہ دونوں حضرات چل پڑے اور مدینے کے راستے پر ہو لیے ۔ پھر ہمیں مدینہ سے ایک قافلہ آتا دکھائی دیا ۔ ہم نے ان سے خبر چارلی ۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوچکی ہے ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلفیہ بنا دیئے گئے ہیں ، لوگ آپ پر رضا مند ہیں ، تب ان دونوں نے مجھے کہا : اپنے صاحب (یعنی سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض)) کو خبر دینا کہ ہم آئے تھے اور شاید ہم دوبارہ بھی آئیں ان شاء اللہ ۔ پھر وہ دونوں یمن لوٹ گئے ۔ حضر جریر (رض) کہتے ہیں : میں نے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو ان دونوں (عجیب لوگوں) کے بارے میں خبر دی تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : پھر تم دونوں کو لے کر کیوں نہیں آئے ؟ حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں : پھر بعد میں ذی عمر ملا اس نے مجھے کہا : اے جریر ! تمہارے میرے دل میں عزت ہے۔ میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں وہ یہ کہ تم عرب کے لوگ ہمیشہ بھلائی اور عافیت میں رہو گے جب تک ایک امیر کے جانے کے بعد دوسرے امیر کو بناتے رہو گے ۔ لیکن جب تلوار کے ساتھ امارت لی جانے لگے گی تو یہ لوگ امیر کی بجائے بادشاہ بن بیٹھیں گے بادشاہوں کی طرف غضب ناک ہوں گے اور انہی کی طرح راضی ہوں گے (اور یہ برا زمانہ ہوگا) (ابن ابی شیبۃ)

18825

18825- عن المطلب بن عبد الله بن حنطب قال: لما كان قبل وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام هبط عليه جبريل فقال: يا محمد إن الله عز وجل أرسلني إليك إكراما لك، وتفضيلا لك، وخاصة لك يسألك عما هو أعلم به منك، يقول: كيف تجدك؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أجدني يا جبريل مغموما وأجدني يا جبريل مكروبا، فلما كان اليوم الثالث، هبط جبريل وهبط مع ملك الموت وهبط معهما ملك في الهواء يقال له: إسماعيل على سبعين ألف ملك، ليس فيهم ملك إلا على سبعين ألف ملك يشيعهم جبريل فقال: يا محمد إن الله أرسلني إليك إكراما لك، وتفضيلا لك، وخاصة لك يسألك عما هو أعلم به منك، يقول: كيف تجدك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أجدني يا جبريل مغموما، وأجدني يا جبريل مكروبا، فاستأذن ملك الموت على الباب فقال له جبريل: يا محمد هذا ملك الموت يستأذن عليك، ولا استأذن على آدمي قبلك، ولا يستأذن على آدمي بعدك،فقال: ائذن له، فأذن له جبريل فأقبل حتى وقف بين يديه فقال: يا محمد إن الله أرسلني إليك وأمرني أن أطيعك، فيما أمرتني به، إن أمرتني أن أقبض نفسك قبضتها، وإن كرهت تركتها، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتفعل يا ملك الموت؟ قال: نعم وبذلك أمرت أن أطيعك فيما أمرتني به، فقال له جبريل: إن الله قد اشتاق إلى لقائك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: امض لما أمرت به، فقال له جبريل: هذا آخر وطئي الأرض، إنما كنت حاجتي في الدنيا، فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وجاءت التعزية جاء آت يسمعون حسه ولا يرون شخصه، فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، كل نفس ذائقة الموت، إن في الله عزاء من كل مصيبة، وخلفا من كل هالك، ودركا من كل ما فات، فبالله ثقوا، وإياه فارجوا فإن المصاب من حرم الثواب، والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته. "طب عن علي بن الحسين وفيه: عبد الله بن ميمون القداح، قال أبو حاتم وغيره متروك"
18825 ۔۔۔ المطلب بن عبداللہ بن حنطب سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے تین یوم قبل حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے ۔ اور فرمایا : اے محمد ! اللہ عزوجل نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ کی عزت ظاہر ہو ، آپ کی فضیلت پتہ چلے اور آپ کی خصوصیت معلوم ہو ، اللہ پاک آپ سے زیادہ جاننے کے باوجود آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جبرائیل میں مغموم ہوں ۔ اے جبرائیل ! میں تکلیف میں ہوں ، جب تیسرا دن ہوا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ، ملک الموت اور ایک تیسرا فرشتہ بھی ہوا میں اترا جس کا نام اسماعیل تھا وہ ستر ہزار فرشتوں پر نگران تھا اور ان ستر ہزار فرشتوں میں سے ہر فرشتہ دوسرے ستر ہزار فرشتوں پر سردار تھا ۔ یہ سب فرشتے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے ۔ (اور سب ہوا میں موجود تھے ۔ اندر صرف حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) داخل ہوئے تھے) حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ان سب پر نگران تھے ۔ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا : اے محمد ! اللہ نے مجھے آپ کے پاس آپ کی عزت ، فضیلت اور خصوصیت کے لیے بھیجا ہے ، اللہ پاک آپ سے زیادہ جاننے کے باوجود آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کیسا محسوس فرما رہے ہیں (آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اے جبرائیل ! میں اپنے آپ کو مغموم پاتا ہوں ، اے جبرائیل ! میں اپنے آپ کو تکلیف میں پاتا ہوں ۔ پھر ملک الموت نے دروازے پر آکر اجازت مانگی ۔ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا : اے محمد ! یہ ملک الموت ہیں آپ سے اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انھوں نے پہلے کسی آدمی سے اجازت مانگی اور نہ آئندہ مانگیں گے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ان کو اجازت دے دو ۔ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی ۔ حضرت ملک الموت اندر تشریف لائے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گئے اور عرض کیا : اے محمد ! اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اگر آپ مجھے اپنی روح قبض کرنے کا حکم فرمائیں گے تو میں قبض کرلوں گا اور اگر آپ اس کو ناپسند کریں تو میں چھوڑ دوں گا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ملک الموت کیا تم (میرے حکم پر) عمل کرو گے ؟ انھوں نے عرض کیا : ضرور اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے کہ آپ جو بھی مجھے حکم فرمائیں میں اس پر عمل کروں پھر حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : اللہ پاک آپ کی ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملک الموت کو فرمایا : تم کو جو حکم ملا ہے کر گزرو۔ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا : یہ میرا زمین پر آخری مرتبہ آنا ہے۔ پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح پرواز کرگئی اور (چیخ و پکار کی شکل میں) تعزیت آنا شروع ہوئی تو ایک غیبی شخص آیا جس کی آہٹ محسوس ہو رہی تھی لیکن اس کا وجود معلوم نہیں ہو رہا تھا ۔ اس نے کہا : ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ ہر جی کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اللہ پاک ہر مصیبت پر صبر دینے والا ہے ، وہ ہر ہلاک ہونے والے کا جانشین دینے والا ہے۔ ہر فوت شدہ کا تدارک کرنے والا ہے ، اللہ ہی پر بھروسہ رکھو ، اسی سے امید رکھو ۔ مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو ۔ پس تم پر سلام ہو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۔ (الکبیر للطبرانی عن علی بن الحسین) کلام : ۔۔۔ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن میمون القداح ایک راوی ہے جس کو ابو حاتم وغیرہ نے متروک (ناقابل اعتبار) قرار دیا ہے۔ مجمع الزوائد 9 ۔ 35 ۔

18826

18826- عن أبي إسحاق قال: سألت كبراء أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وفيهم ابن نوفل في أي شيء كفن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالوا: في حلة حمراء ليس فيها قميص، وجعل في لحده شق قطيفة كانت لهم. "طب".
18826 ۔۔۔ ابو اسحاق سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے جن میں ابن نوفل بھی تھے پوچھا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس چیز میں کفن دیا گیا تھا :؟ انھوں نے بتایا : ایک سرخ جوڑے میں ، جس میں قمیص نہیں تھی ۔ اور آپ کی قبر میں لوگوں نے ایک چادر کا ٹکڑا بچھا دیا تھا ۔ (الکبیر للطبرانی)

18827

18827- عن العباس بن عبد المطلب قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم عند وفاته فجعل سكرة الموت تذهب به طويلا، ثم سمعته يهمس: مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا، ثم يغلب عليه، ثم يعود فيقول مثلها، ثم قال: أوصيكم بالصلاة أوصيكم بما ملكت أيمانكم ثم قضى عندها. "كر".
18827 ۔۔۔ عباس بن عبدالمطلب سے مروی ہے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت آپ کے پاس موجود تھا ۔ سکرۃ الموت (موت کی کیفیت) آپ پر طویل ہوتی جا رہی تھی پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پست آواز میں پڑھتے ہوئے سنا : ” مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا “۔ (اے اللہ ! مجھے وفات دے کر شامل کر دے) ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے : انبیاء صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ بہت اچھے رفیق ہیں۔ پھر آپ پر بےہوشی طاری ہوجاتی پھر افاقہ ہوتا تو یہی پڑھتے پھر (ایک مرتبہ) آپ نے فرمایا : میں تم کو نماز کی وصیت کرتا ہوں ، میں تم کو وصیت کرتا ہوں اپنے مملوکوں کے ساتھ خیر خواہی کی ۔ س کے بعد آپ کی روح قبض ہوگئی ۔ (رواہ ابن عساکر)

18828

18828- عن ابن عباس قال: الذين نزلوا قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم: الفضل وقثم وشقران مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأوس بن خولي. "أبو نعيم".
18828 ۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں اترنے والے لوگ فضل ، قثم ، شقران غلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اوس بن خولی (رض) تھے ۔ (رواہ ابونعیم)

18829

18829- عن أبي سعيد قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما ونحن في المسجد، وهو عاصب رأسه بخرقة في المرض الذي مات فيه فأهوى قبل المنبر حتى استوى عليه، فأتبعناه فقال: والذي نفسي بيده إني لقائم على الحوض الساعة وقال: إن عبدا عرضت عليه الدنيا وزينتها، فاختار الآخرة فلم يفطن لها أحد إلا أبو بكر، فذرفت عيناه فبكى وقال: بأبي أنت وأمي بل نفديك بآبائنا وأمهاتنا وأنفسنا وأموالنا قال: ثم هبط فما قام عليه حتى الساعة. "ش".
18829 ۔۔۔ ابو سعید (رض) سے مروی ہے ایک دن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس نکل کر تشریف لائے ۔ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر پر پٹی باندھی ہوئی تھی اسی مرض کی وجہ سے جس میں آپ کی وفات ہوئی ۔ پھر آپ منبر پر تشریف لائے۔ ہم آپ کے قریب اکٹھے ہوگئے ۔ ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قیامت کے دن میں حوض پر کھڑا ہوا ملوں گا ۔ پھر فرمایا : ایک بندے پر دنیا اور اس کی زیب وزینت پیش کی گئی تھی لیکن اس نے آخرت کو پسند کرلیا ہے۔ اس بات کو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سوا کوئی نہ سمجھ سکا ، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ رو پڑے ، انھوں نے عرض کیا : آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ کے بدلے ہمارے ماں باپ ، ہماری جانیں اور ہمارے اموال حاضر ہیں۔ پھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیچے اتر کر تشریف لے گئے اس کے بعد اس منبر پر قیامت تک نہیں کھڑے ہوئے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

18830

18830- عن أبي ذؤيب الهذلي قال: قدمت المدينة ولأهلها ضجيج بالبكاء كضجيج الحجيج أهلوا جميعا بالإحرام، فقلت: مه؟ فقالوا: قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن منده كر".
18830 ۔۔۔ ابی ذیب ہذلی سے مروی ہے میں مدینہ آیا تو اہل مدینہ میں چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں جیسے تمام حاجی مل کر احرام باندھ کر تسبیح پڑھ رہے ہوں میں نے کہا : کیا ہوا ؟ لوگ کہنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی ہے۔ (ابن مندۃ ، ابن عساکر)

18831

18831- عن أبي ذؤيب الهذلي قال: بلغنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عليل. "ابن عبد البر في الاستيعاب".
18831 ۔۔۔ ابو ذویب ہذلی سے مروی ہے کہ ہمیں یہ خبر مل گئی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہیں۔ (ابن عبدالبر فی الاستیعاب)

18832

18832- عن أبي ذر قال: أرسل إلي النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي توفي فيه، فأتيته فوجدته نائما فأكببت عليه فرفع يده فالتزمني. "ع".
18832 ۔۔۔ حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے مجھے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں پیغام بھیج کر بلوایا ۔ میں پہنچا تو آپ سوئے ہوئے تھے ۔ میں آپ پر جھک گیا آپ نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر مجھے اپنے سے چمٹا لیا ۔ (مسند ابی یعلی)

18833

18833- عن عائشة قالت: كان بالمدينة حفاران، فانتظر أحدهما فجاء الذي يلحد فلحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم. "ابن جرير".
18833 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں مدینہ میں دو قبریں کھودنے والے تھے پس دونوں میں سے کسی ایک کا انتظار کیا گیا تو وہ شخص آگیا جو لحدی قبر کھودتا تھا ۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لحدی قبر کھودی گئی ۔ (رواہ ابن جریر)

18834

18834- عن عائشة قالت: ما مر علي ليلة مثل ليلة مات رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يا عائشة هل طلع الفجر؟ فأقول: لا يا رسول الله حتى إذا أذن بلال بالصبح، ثم جاء بلال فقال: السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته، الصلاة يرحمك الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما هذا؟ فقلت: بلال، فقال: مري أباك يصلي بالناس. "أبو الشيخ في الأذان".
18834 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے جس رات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے ایسی کوئی رات مجھ پر کبھی نہیں گذری ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بار بار) پوچھ رہے تھے ۔ اے عائشہ ! کیا فجر طلوع ہوگئی ہے ، میں کہتی رہی نہیں یا رسول اللہ حتی کہ بلال نے صبح کی اذان دی اور پھر آئے اور عرض کیا : (السلام علیک یا رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ) نماز کا وقت ہوگیا ہے اللہ آپ پر رحم کرے ۔ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا بلال ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے والد (ابوبکر (رض)) کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ۔ (ابوالشیخ فی الاذان)

18835

18835- عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ بهذه الكلمات: أذهب البأس رب الناس، واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما، فلما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه أخذت بيده فجعلت أمسحها وأقولها، فنزع يده من يدي وقال: اللهم ألحقني بالرفيق الأعلى، فكان هذا آخر ما سمعت من كلامه. "ش وابن جرير".
18835 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ (بیماری وغیرہ سے) تعوذ فرمایا کرتے تھے : ” اذھب الباس رب الناس ، واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاء ک شفاء لا یغادر سقما “۔ ے لوگوں کے رب تکلیف کو ختم فرما ، تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کسی کی شفاء نہیں ، پس ایسی شفاء دے جو بیماری کو بالکل نہ چھوڑے ۔ چنانچہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر یہ کلمات پڑھنے لگی تو آپ نے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑا لیا اور فرمایا : ” اللم الحقنی بالرفیق الاعلی “۔ ے اللہ مجھے رفیق اعلی (اچھے دوست) کے ساتھ ملا دے (یعنی اپنا وصل عطا کر) پس یہ آخری بات تھی جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ۔ (ابن ابی شیبۃ ، ابن جریر)

18836

18836- عن عائشة قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يموت وعنده قدح فيه ماء، فيدخل يده في القدح ويمسح وجهه بالماء، ثم يقول: اللهم أعني على سكرات الموت. "ش".
18836 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ جانکنی کے عالم میں تھے ۔ آپ کے پاس پیالہ رکھا تھا جس میں پانی تھا ، آپ اس میں (بار بار) ہاتھ ڈبو کر اپنے چہرے پر مل رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے ۔ ” اللہم اعنی علی سکرات الموت “۔ ے اللہ میری مدد فرما موت کی سختیوں پر ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18837

18837- عن عائشة قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اللهم اغفر لي وألحقني بالرفيق الأعلى، قالت: فكان هذا آخر ما سمعت من كلامه. "ش".
18837 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو یہ دعا فرمانے لگے : ” اللہم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلی “۔ ے اللہ ! میری مغفرت فرما اور مجھے اعلی دوست کے ساتھ ملا دے ۔ یہ آخری بات تھی جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے سنی ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18838

18838- عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة قال: أتيت عائشة، فقلت حدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: نعم مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم فثقل فأغمي عليه، فأفاق فقال: ضعوا لي ماء في المخضب ففعلنا، فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال: ضعوا لي ماء في المخضب ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال: ضعوا لي ماء في المخضب ففعلنا، فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال: أصلى الناس بعد؟ فقلنا: لا يا رسول الله هم ينتظرونك، قالت: والناس عكوف ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي بهم العشاء الآخرة، فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال أصلى الناس بعد؟ قلت: لا، فأرسل إلى أبي بكر أن يصلي بالناس، فأتاه الرسول فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تصلي بالناس: فقال: يا عمر صل بالناس فقال: أنت أحق، إنما أرسل إليك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى بهم أبو بكر تلك الصلاة، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فخرج لصلاة الظهر بين العباس ورجل آخر، فقال لهما: أجلساني عن يمينه، فلما سمع أبو بكر ذهب يتأخر، فأمره أن يثبت مكانه، فأجلساه عن يمينه فكان أبو بكر يصلي بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس والناس يصلون بصلاة أبي بكر قال: فأتيت ابن عباس، فقلت ألا أعرض عليك ما حدثتني عائشة؟ قال هات فعرضت عليه هذا، فلم ينكر منه شيئا إلا أنه قال: أخبرتك من الرجل الآخر؟ قلت: لا، قال: هو علي. "ش".
18838 ۔۔۔ عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے مروی ہے میں حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) کے پاس آیا ۔ میں نے عرض کیا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض کے بارے میں بتایئے ۔ آپ (رض) نے فرمایا : ہاں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مریض ہوئے، پھر بوجھل ہوگئے اور آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی پھر ہوش میں آئے تو فرمایا : لگن (ٹب) میں میرے لیے پانی بھر دو ، ہم نے آپ کے حکم کی تعمیل ارشاد کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل کیا پھر بڑی مشقت کے ساتھ اٹھنے لگے تو پھر بےہوش ہوگئے ۔ پھر ہوش میں آئے اور فرمایا : میرے لیے پانی بھر دو ۔ ہم نے بھر دیا پھر آپ کے غسل فرمایا ۔ پھر بڑی مشکل اور تکلیف کے ساتھ اٹھنے کی کوشش فرمائی اور پھر بےہوش ہوگئے ۔ پھر ہوش میں آکر فرمایا : میرے لیے پانی بھر دو ۔ ہم نے بھر دیا ۔ آپ نے غسل فرمایا اور پھر اٹھنے کی کوشش میں بےہوش ہوگئے ۔ پھر ہوش میں آئے تو پوچھا : کیا میرے پیچھے سے لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ ہم نے عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! وہ آپ ہی کا انتظار فرما رہے ہیں۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں : لوگ سر ڈالے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انتظار میں تھے کہ آپ آکر ان کو عشاء کی نماز پڑھائیں ، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قاصد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بھیجا کہ وہ نماز پڑھا دیں ۔ قاصد نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) کو فرمایا : اے عمر تم نماز پڑھا دو ۔ سیدنا حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے فرمایا : آپ زیادہ حقدار ہیں۔ کیونکہ پیغام آپ کو ملا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ۔ چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائی ۔ پھر (اگلے روز) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس کی تو ظہر کی نماز پڑھانے کے لیے حضرت عباس (رض) اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان ان کے سہارے کے ساتھ نکلے ، ان دونوں کو آپ نے فرمایا : مجھے ابوبکر کی دائیں طرف بٹھا دو ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ کی آواز سنی تو (نماز ہی میں) پیچھے کو ہٹنے لگے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ اپنی جگہ ٹھہرے رہیں ۔ چنانچہ دونوں حضرات نے آپ کو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دائیں طرف بٹھا دیا ۔ پس سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کر رہے تھے اور آپ بیٹھے ہوئے ان کو نماز پڑھا رہے تھے جبکہ پیچھے لوگ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی اقتداء کر رہے تھے ۔ راوی عبید اللہ کہتے ہیں یہ سن کر میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا : مجھے حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) نے بیان کیا ہے میں آپ کو سناؤں ؟ آپ نے سنانے کا حکم دیا تو میں نے ساری روایت ان کو سنائی آپ نے کسی بات پر انکار نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ یہ پوچھا : عائشہ نے تم کو دوسرے شخص کے بارے میں بتایا وہ کون تھا ؟ میں نے کہا نہیں ، فرمایا وہ علی (رض) تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18839

18839- عن إبراهيم بن علي الرافعي عن أبيه عن جدته زينب بنت أبي رافع قالت: رأيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم أتت بابنيها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في شكواه الذي توفي فيه، فقالت: يا رسول الله هذان ابناك فورثهما، فقال: أما الحسن فله هيبتي وسوددي، وأما الحسين فله جرأتي وجودي. "ابن منده كر. إبراهيم، قال "خ" فيه نظر".
18839 ۔۔۔ ابراہیم بن علی رافعی اپنے والد سے وہ اپنی دادی زینب بنت ابی رافع سے روایت کرتے ہیں : زینب فرماتی ہیں میں نے فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ (رض) اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین (رض) کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے مرض الموت میں تشریف لائیں ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ کے دو بیٹے ہیں ، آپ ان کو اپنا وارث مقرر کر دیجئے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : حسن کے لیے تو میری ہیبت اور سرداری ہے اور حسین کے لیے میری جرات اور بہادری اور سخاوت ہے۔ (ابن مندۃ ، ابن عساکر) کلام : ۔۔۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں ابراہیم میں کلام ہے۔

18840

18840- عن أسماء بنت عميس قالت: أول ما اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت ميمونة فاشتد مرضه حتى أغمي عليه، فتشاور نساؤه في لده فلدوه فلما أفاق قال: ما هذا؟ أفعل نساء جئن من ها هنا، وأشار إلى أرض الحبشة، وكانت فيهن أسماء بنت عميس، فقالوا: كنا نتهم بك ذات الجنب يا رسول الله، قال: إن ذلك لداء ما كان الله ليعذبني به لا يبقين في البيت أحد إلا لد إلا عم رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني عباسا، فلقد ألدت ميمونة يومئذ وإنها لصائمة لعزيمة رسول الله صلى الله عليه وسلم. "كر".
18840 ۔۔۔ اسماء بنت عمیس (رض) سے مروی ہے پہلی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میمونہ (رض) کے گھر میں بیمار ہوئے ، آپ کے مرض کی شدت ہوگئی اور آپ بےہوش ہوگئے ، آپ کی بیویوں نے آپ کے بارے میں مشورہ کیا اور آپ کو منہ میں دوا ٹپکا دی پھر آپ ہوش میں آگئے آپ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ کیا ان عورتوں کا کام جو وہاں سے آئی ہیں (حبشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔ ان میں اسماء بنت عمیس بھی تھیں) قریب موجود لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم سمجھے تھے کہ آپ کو ذات الجنب (غونیہ ) ہے۔ (اس لیے ہم نے دوا آپ کے منہ میں ٹپکا دی) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ منہ میں ٹپکانے والی دوا ، اللہ پاک مجھے اس کے ساتھ عذاب دینے والا نہیں ہے۔ لہٰذا (اس کی سزا میں) یہاں موجود سب لوگوں کو یہ دوا منہ میں ٹپکا کر پلائی جائے سوائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس کے ۔ پس سب کو وہ دوا پلائی گئی حتی کہ میمونہ جو اس دن روزہ دار تھیں انھوں نے بھی پی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزیمت (و خوشی) میں ۔ (رواہ ابن عساکر)

18841

18841- عن أبي مويهبة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة بعد ما قضى حجة التمام فتحلل به السير، فضرب على الناس بعثا وأمر عليهم أسامة بن زيد وأمره أن يوطئ آبل الزيت من مشارف الشام بالأردن، فقال المنافقون في ذلك، ورد عليهم النبي صلى الله عليه وسلم إنه لخليق لها أي: حقيق بالإمارة، ولئن قلتم فيه لقد قلتم في أبيه من قبله، وإن كان لها لخليقا وطارت الأخبار لتحلل السير بالنبي صلى الله عليه وسلم، وإن النبي صلى الله عليه وسلم قد اشتكى، ووثب الأسود باليمن، ومسيلمة باليمامة، وجاء النبي صلى الله عليه وسلم الخبر عنهما، ثم وثب طليحة في بلاد بني أسد بعد ما أفاق النبي صلى الله عليه وسلم، ثم اشتكى في المحرم وجعه الذي توفاه الله فيه. "سيف كر".
18841 ۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام ابو مویہبہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجۃ التمام (حجۃ الوداع) کے بعد مدینہ کی طرف واپس آئے ، راستے میں آپ حلال ہوگئے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کا ایک لشکر ترتیب دیا جن پر حضرت اسامہ بن زید کو امیر بنایا ، اور ان کو حکم دیا کہ اردن شام کی چوٹیوں کی طرف آبل الزیت مقام پر پہنچیں ، منافقوں نے اسامہ کے متعلق اعتراضات شروع کیے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اعتراضات مسترد کردیئے اور فرمایا اسامہ اس منصب کے لیے بالکل موضوع ہے ، اگر تم ان کے بارے میں اعتراض کرتے ہو تو پہلے ان کے والد کے بارے میں بھی کرچکے ہو اور وہ بھی اس منصب کے اہل تھے ، پھر ہر طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپسی سفر اور آپ کی بیماری کی خبریں پھیل گئیں ، پھر بنی اسد کے قبائل میں طلیحہ نے نبوت کا دعوی کردیا اس وقت تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیماری سے افاقہ ہوگیا تھا ۔ پھر اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محرم میں اس مرض میں مبتلا ہوگئے جس میں آخر کار آپ کی وفات ہوئی ۔ (سیف ، ابن عساکر)

18842

18842- عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه: صبوا علي من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي استريح فأعهد إلى الناس، فأجلسناه في مخضب لحفصة من نحاس وسكبنا عليه الماء منهن حتى طفق يشير إلينا أن قد فعلتن، ثم خرج. "عب".
18842 ۔۔۔ ـحضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا : مجھ پر سات مشکیزوں سے پانی ڈالو، جن کے منہ نہ کھلے ہوں (یعنی سالم بھرے ہوئے ہوں) شاید مجھے کچھ سکون آجائے پھر میں لوگوں سے مل سکوں ، چنانچہ میں نے آپ کو حفصہ (رض) کے ایک پیتل کے لگن (ٹب) میں بٹھا دیا ۔ اور آپ پر ان مشکیزوں سے پانی ڈالا ۔ حتی کہ آپ اشارہ کرنے لگے کہ بس تم نے کام کردیا ، پھر آپ ٹب سے نکل آئے ۔ (رواہ عبدالرزاق)

18843

18843- عن عائشة قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه وإنه ليهادى بين رجلين حتى دخل الصف. "ش".
18843 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) سے مروی ہے میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرض الموت میں دیکھا کہ آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لیے چل رہے ہیں حتی کہ آپ صف میں داخل ہوگئے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18844

18844- وعنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو مستند إلى صدري: اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى. "ش".
18844 ۔۔۔ حضرت عائشۃ صدیقہ (رض) ہی سے مروی ہے میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جبکہ آپ میرے سنے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے فرمایا : ” اللہم اغفرلی وارحمنی والحقنی بالرفیق الاعلی “۔ ے اللہ ! میری مغفرت فرما ، مجھ پر رحم اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ ملا دے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18845

18845- عن طارق بن شهاب قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم جعلت أم أيمن تبكي، فقيل لها: لم تبكين يا أم أيمن؟ قالت: أبكي على خبر السماء انقطع عنا. "ش".
18845 ۔۔۔ طارق بن شہاب سے مروی ہے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض ہوئی تو ایم ایمن رونے لگیں ان کو کہا گیا : اے ام ایمن ! تم کیوں روتی ہو ؟ فرمایا : روتی ہوں اس بات پر کہ آسمان کی خبر ہم سے منقطع ہوگئی ہے۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18846

18846- عن سعيد بن المسيب أن الذي ولي دفن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإجنانه أربعة نفر دون الناس: علي والعباس والفضل وصالح مولى النبي صلى الله عليه وسلم فلحدوا له ونصبوا عليه اللبن نصبا."ش".
18846 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفنانے اور پردہ کرنے میں تمام لوگوں میں صرف چار لوگوں نے کام انجام دیا : علی ، عباس ، فضل اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام صالح ، پس ان لوگوں نے آپ کے لیے لحد تیار کی اور آپ کے اوپر لحد کو کچی اینٹوں سے پاٹ دیا ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18847

18847- عن سعيد بن المسيب قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وضع على سريره، فكان الناس يدخلون عليه زمرا زمرا يصلون عليه ويخرجون ولم يؤمهم أحد، وتوفي يوم الإثنين، ودفن يوم الثلاثاء. "ش".
18847 ۔۔۔ حضرت سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا ۔ لوگ جماعت جماعت آپ کے پاس داخل ہو رہے تھے نماز پڑھتے اور نکل جاتے ، امامت کا منصب کوئی نہ اٹھا رہا تھا ۔ آپ پیر کے روز وفات فرما گئے اور منگل کے روز مدفون ہوئے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18848

18848- عن الشعبي قال: دخل قبر النبي صلى الله عليه وسلم وغسله علي والفضل وأسامة، قال: وحدثني مرحب أو ابن أبي مرحب أن عبد الرحمن بن عوف دخل معهم القبر. "ش".
18848 ۔۔۔ شعبی (رح) سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں داخل ہونے والے اور آپ کو غسل دینے والے حضرات علی ، فضل اور اسامہ تھے ۔ شعبی (رح) کہتے ہیں : مجھے مرحب نے یا ابن ابی مرحب نے بتایا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) بھی ان کے ساتھ قبر میں داخل ہوئے تھے (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18849

18849- عن عروة قال: لما فتح الله خيبر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقتل من قتل منهم، أهدت زينب بنت الحارث اليهودية وهي بنت أخي مرحب شاة مصلية وسمته فيها، وأكثرت في الكتف والذراع حين أخبرت أنهما أحب أعضاء الشاة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه بشر بن البراء بن معرور أخو بني سلمة قدمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتناول الكتف والذراع، فانتهش منهما، وتناول بشر عظما آخر وانتهش منه، فلما أدغم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما في فيه أدغم بشر ما في فيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ارفعوا أيديكم فإن كتف الشاة تخبرني أني قد بغيت فيها، فقال بشر بن البراء: والذي أكرمك لقد وجدت ذلك في أكلتي التي أكلت وإن منعني أن ألفظها إلا إني كرهت أن أنغصك طعامك، فلما أكلت ما في فيك لم أرغب بنفسي عن نفسك ورجوت أن لا تكون أدغمتها وفيها بغي، فلم يقم بشر من مكانه حتى عاد لونه كالطيلسان وماطله وجعه حتى كان ما يتحول إلا حول وبقي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعده ثلاث سنين حتى كان وجعه الذي مات فيه. "طب، ش".
18849 ۔۔۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے خیبر کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں پر فتح فرما دیا اور ان میں بہت سوں کو قتل کردیا تو زینب بنت الحارث یہودیہ نے جو مرحب یہودی کی بھتیجی تھی ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی ۔ اور اس میں زہر ملا دیا ۔ اور جب اس کو خبر ملی کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شانے اور ستیوں کا گوشت زیادہ پسند فرماتے ہیں تو اس نے ان اعضاء میں زہر خوب اچھی طرح ملا دیا ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنی سلمہ کے بشر بن البراء بن معرور دونوں تشریف لائے تو اس عورت نے وہ بکری ہدی میں پیش کی ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شانے اور دستیوں کو نوچ کر کھایا ، جبکہ بشر نے دوسری ہڈی سے گوشت نوچ کر کھایا ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ میں موجود گوشت نگل لیا تو بشر نے بھی نگل لیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بکری سے ہاتھ اٹھالو ، بکری کا شانہ مجھے بتارہا ہے کہ مجھے اس میں دھوکا دیا گیا ہے۔ بشر نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو عزت دی ! میں نے وہ زہر اپنے لقمے میں محسوس کرلیا تھا لیکن مجھے تھوکنے سے یہ مانع ہوئی کہ آپ کے کھانے کو منغص (کرکرا) کر دوں ۔ جب آپ نے کھالی تو مجھے بھی آپ کی جان کے بعد اپنی جان کے ساتھ کوئی رغبت نہیں رہی ۔ میری خواہش تھی کہ آپ اس کو نہ نگلتے ۔ پھر بشر اپنی جگہ سے بھی نہ اٹھے تھے کہ ان کا رنگ سبز چادر کی طرح ہوگیا اور تکلیف نے ان کو دہرا کردیا ۔ اور ان کو جس طرح کیا جاتا ہوجاتے تھے ۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بعد تین سال زندہ رہے اور پھر اس زہر کی تکلیف میں آپ کو مرض الموت لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی ۔ (الکبیر اللطبرانی ، ابن ابی شیبۃ)

18850

18850- عن ابن جريج عن عطاء قال: بلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم حين مات، أقبل الناس يدخلون فيصلون عليه ويخرجون، ويدخل آخرون كذلك، قلت لعطاء: أيصلون ويدعون؟ قال: يصلون ويستغفرون. "ش".
18850 ۔۔۔ ابن جریج حضرت عطاء (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ ہم کو خبر ملی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو لوگ داخل ہوتے اور نماز پڑھ کر نکل جاتے تھے پھر یونہی دوسرے لوگ داخل ہوتے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں میں نے عطاء (رح) سے پوچھا : کیا لوگ نماز پڑھتے اور دعا کرتے تھے ؟ فرمایا : نماز پڑھتے اور استغفار کرتے تھے ۔ (رواہ ابن ابی شیبۃ)

18851

18851- عن عكرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم فرش في قبره قطيفة بيضاء بعلبكية. "كر".
18851 ۔۔۔ عکرمہ (رح) سے مروی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر میں ایک سفید بعلبک کی بنی ہوئی چادر بچھائی گئی ۔ (رواہ ابن عساکر)

18852

18852- "مراسيل عبد الرحمن بن القاسم" عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه قال: صلى صلى الله عليه وسلم في اليوم الذي مات فيه صلاة الصبح في المسجد، فمن الناس من يقول: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر يصلي، فقعد عند رجليه، ومن الناس من يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم المتقدم وعظم يرون أن أبا بكر كان المتقدم، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يا صفية بنت عبد المطلب يا عمة رسول الله، ويا فاطمة بنت محمد، اعملا فإني لا أغني عنكما من الله شيئا، قال أبو بكر: يا رسول الله أراك اليوم بحمد الله مفيقا، واليوم يوم ابنة خارجة، فاستأذن إليها فأذن له وهي بالسنح فزعموا أنه ميل أو ميلان من المدينة، وثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم فتوفي من يومه. "ابن جرير".
18852 ۔۔۔ (مراسیل عبدالرحمن بن القاسم) عبدالرحمن بن القاسم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : جس روز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی اس روز صبح کی نماز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں ادا فرمائی تھی ۔ بعض لوگ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ابوبکر کے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے تھے ۔ لیکن اکثر لوگوں کا خیال کہتا ہے کہ ابوبکر (رض) آگے تھے ۔ پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھ لی تو فرمایا : اے صفیہ بنت عبدالمطلب ! اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی ! اور اے فاطمہ بنت محمد ! عمل کرتی رہنا ، میں اللہ سے تم کو کوئی چھٹکارا نہیں دلا سکتا ۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آج میں آپ کو افاقہ مند (صحت مند) دیکھ رہا ہوں ، اور خارجہ کی بیٹی کا دن ہے۔ (سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی اہلیہ) چنانچہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان کے پاس جانے کے لیے اجازت مانگی آپ نے اجازت دے دی ، یہ سخ میں رہتی تھی جو مدینہ سے ایک یا دو میل کے فاصلہ پر تھا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بوجھل ہوگئے اور اس دن وفات پا گئے ۔ (رواہ ابن جریر)

18853

18853- عن معمر عن قتادة أن عليا قضى عن النبي صلى الله عليه وسلم أشياء بعد وفاته كان عامتها عدة حسبت أنه قال: خمس مائة درهم، قيل لعبد الرزاق: وأوصى إليه النبي صلى الله عليه وسلم ذلك؟ قال: نعم لا أشك أن النبي صلى الله عليه وسلم أوصى إلى علي فلولا ذلك ما تركوه أن يقضي. "عب".
18853 ۔۔۔ عن معمر عن قتادہ کی سند سے مروی ہے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے آپ کی وفات کے بعد چند چیزیں ادا فرمائی تھیں جو معمولی معمولی تھیں ایک اہم قرض پانچ سو درہم تھا ۔ صاحب کتاب عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ کیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) کو وصیت فرمائی تھی ؟ عبدالرزاق (رح) نے فرمایا : ہاں اور اگر یہ وصیت نہ بھی فرمائی ہوتی تو تب بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین فورا یہ قرض ادا فرما دیتے ۔ (عبدالرزاق فی الجامع)

18854

18854- عن جعفر عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم لما أرادوا أن يغسلوه كان عليه قميص، فأرادوا أن ينزعوه، فسمعوا نداء من البيت: لا تنزعوا القميص. "ش".
18854 ۔۔۔ جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب غسل دینے والوں نے غسل دینے کا ارادہ فرمایا تو آپ کے جسم پر قمیص تھی ۔ انھوں نے نکالنے کا ارادہ کیا تو گھر سے ایک (غیبی) آواز آئی کہ قمیص نہ نکالو۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

18855

18855- عن جعفر عن أبيه قال: لم يؤم على النبي صلى الله عليه وسلم إمام وكانوا يدخلون أفواجا يصلون ويخرجون. "ش".
18855 ۔۔۔ جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی نے امامت نہیں کرائی ۔ لوگ جماعت جماعت اندر جاتے ، نماز پڑھ کر واپس لوٹ جاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

18856

18856- عن محمد بن علي قال: غسل النبي صلى الله عليه وسلم في قميص علي سفلته، والفضل محتضنه، والعباس يصب الماء، والفضل يقول: أرحني قطعت وتيني إني لأجد شيئا ينزل علي، قال: وغسل من بئر سعد بن خيثمة بقباء وهي البئر التي يقال لها: بئر أريس. "ش".
18856 ۔۔۔ محمد بن علی سے مروی ہے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قمیص میں غسل دیا گیا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضی (رض) نچلی جانب سے غسل دے رہے تھے ، فضل آپ کی کمر تھامے ہوئے تھے ۔ حضرت عباس (رض) پانی ڈال رہے تھے ، فضل (رض) کہہ رہے تھے مجھے بچاؤ میری شہ رگ ٹوٹی جا رہی ہے۔ مجھے اپنے اوپر کوئی شئی اترتی محسوس ہو رہی ہے۔ فرمایا : حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سعد بن خیثمہ کے کنوئیں جو قباء میں تھا کہ پانی سے غسل دیا گیا ۔ اسی کنوئیں کو بئراریس کہا جاتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

18857

18857- عن جعفر عن أبيه قال: لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم قال: أين أكون غدا؟ قالوا: عند فلانة، قال: أين أكون بعد غد؟ قالوا: عند فلانة، فعرفن أزوجه أنه إنما يريد عائشة، فقلن: يا رسول الله قد وهبنا أيامنا لأختنا عائشة. "ش".
18857 ۔۔۔ جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بوجھل ہوگئے تو پوچھنے لگے میں کل کو کہاں ہوں گا ؟ لوگوں نے جواب دیا فلاں بیوی پاس ۔ پھر پوچھا پرسوں کہاں ہوں گا ؟ لوگوں نے جواب دیا : فلاں بیوی کے پاس ۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے جانا کہ آپ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی باری کے انتطار میں ہیں لہٰذا سب بیویوں نے عرض کیا : ہم سب نے اپنے دن اپنی بہن عائشہ (رض) کو ہبہ کردیئے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

18858

18858- عن العباس بن عبد المطلب قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء فيهن أسماء وهي تدق سعطة لها، فقال: لا يبقى أحد في البيت شهد اللد إلا لد، فإني قد أقسمت أن يميني لم تصب العباس. "كر".
18858 ۔۔۔ عباس بن عبدالمطلب (رض) سے مروی ہے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس داخل ہوا تو آپ کے پاس آپ کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے ساتھ اسماء (رض) بھی تھیں ۔ وہ ناک کی دوا کوٹ رہی تھیں ، (چھینک لانے والی دوا کے مثل) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گھر میں کوئی نہ رہے جس نے بھی مجھے دیکھا ہے کہ مجھے یہ دوا دی جا رہی تھی ۔ (بےہوشی کی حالت میں اور اس نے منع نہیں کیا) یہ دوا دی جائے سوائے عباس (رض) کے ، میں نے قسم کھائی تھی کہ عباس (رض) کے سوا سب کو میری قسم پوری کرنی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔