hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

1. ایمان کا بیان

كنز العمال

1

1- الإيمان: "أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله وتؤمن بالجنة والنار والميزان وتؤمن بالبعث بعد الموت وتؤمن بالقدر خيره وشره". (هب (1) عن عمر)
١۔۔۔ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ عزوجل ، اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، ، جنت ، جہنم، اور میزان پر ایمان لاؤ، اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر اور اچھی تقدیر پر ایمان لاؤ، شعب الایمان للبیہقی بروایت عمر (رض)۔

2

2- الإيمان " معرفة بالقلب وقول باللسان وعمل بالأركان ". (طب عن علي) .
٢۔ ایمان یہ ہے کہ دل میں معرفت رکھو ، زبان سے اقرار کرو، اور اعضا سے عمل بجالاؤ۔ طبرانی بروایت علی (رض)۔
کلام۔۔۔ روایت ہے۔ دیکھئے۔۔۔ التعقبات ٢، التنزیہ ١۔ ١٥١۔ التنکبیت والافادہ ١٥، الجامع المصنف ٢٩ ، جنہ المرتاب ٢٥۔

3

3- الإيمان بالله: "الإقرار باللسان وتصديق بالقلب وعمل بالأركان" (الشيرازي في الألقاب عن عائشة) .
٣۔ اللہ عزوجل پر ایمان لانازبان سے اقرار کرنے ، دل سے یقین رکھنے اور اعضاء سے عمل بجالانے کا نام ہے۔ الالقاب للشیرازی، بروایت عائشہ (رض)۔

4

4 – "الإيمان بالقلب واللسان والهجرة بالنفس والمال" (عبد الخالق بن زاهر الشحابي (1) في الأربعين.
٤۔۔۔ دل اور زبان سے ایمان حاصل ہوتا ہے اور جان ومال سے ہجرت۔ الاربعین لعبد الخالق بن زاھر الشحابی بروایت عمر (رض)۔
تشریح۔۔ یعنی ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے ساتھ شہادتیں کے اقرار سے حاصل ہوتا ہے اور دیار کفر سے دریار اسلام کی طرف ہجرت جان ومال کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

5

5 - الإيمان: " أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه وبلقائه وبرسله وتؤمن بالبعث" (حم ق هـ عن أبي هريرة) .
٥۔۔ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ عزوجل، اس کے ملائکہ اس کی کتابوں اس سے ملاقات پر، اس کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ۔ بخاری، ومسلم، ابن ماجہ، مسنداحمد، بروایت ابوھریرہ (رض) ۔

6

6 – "آمركم بأربع، وأنهاكم عن أربع، آمركم بالإيمان بالله وحده أتدرون ما الإيمان بالله؟ شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدوا خمس ماغنمتم، وأنهاكم عن الدباء والنقير والحنتم والمزفت احفظوهن وأخبروا بهن من وراءكم" (ق 3 عن ابن عباس)
٦۔۔۔ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتاہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں میں تمہیں حکم کرتا ہوں اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کا۔ کیا تمہیں معلوم ہے اللہ عزوجل پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے ؟ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دینا اور تمہیں حکم کرتا ہوں نماز قائم کرنے کا، اور زکوۃ دینے کا رمضان کے روزے رکھنے کا اور جہاد میں حاصل کردہ مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں منع کرتا ہوں شراب کے لیے بنائے گئے ان چار برتنوں کو استعمال کرنے سے کدو کے برتن سے کھجور کی جڑ کے بنائے ہوئے برتن سے سبز رنگ کے گھڑے سے، تارکول کے ساتھ ملمع کیے ہوئے برتن سے اور ان باتوں کو ذہن نشین کرلو اور اپنے آس پاس لوگوں کو بھی خبردار کردو۔ بخاری ، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، بروایت ابن عباس (رض)۔
فائدہ۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار امور کے متعلق حکم کا وعدہ فرمایا تھا لیکن پھر پانچ شمار کروائے اس کے جواب میں شارح بخاری علامہ ابن بطال (رح) فرماتے ہیں چونکہ مخاطبین ، وفد عبدالقیس تھے جن کی کفار مضر سے جنگ چھڑی رہتی تھی ، جس کی وجہ سے آپ نے بطور زائدہ فائدہ کے اداء خمس کا حکم بھی فرمادیا، اور ان کی آمد کب ہوئی ، اس کے متعلق قاضی عیاض (رح) فرماتے ہیں ، وفد عبدالقسی فتح مکہ کے سال آپ کے مکہ کی طرف کوچ فرمانے سے قبل آپ کی خدمت میں بغرض تعلیم اسلام حاضر ہوا تھا،اور ان کی تعداد کل چودہ تھی، جن کے اسماء گرامی کے لیے رجوع کیجئے۔ الدیاج العبدالرحمن السیوطی ج ١ ص ٢٤۔
الدبائ۔۔۔ عرب خشک کدو کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس میں شراب بناتے تھے جس سے شراب اچھی بنتی تھی اسی کا نام حدیث میں الدباء استعمال کیا گیا ہے۔
النقیر۔۔۔ اور کھجور کے تنے کی جڑ کو کھوکھلا کرکے اس میں بھی شراب سازی کرتے تھے۔ اس کا نام حدیث میں النقیر استعمال کیا گیا ہے ، اور بقیہ دوقسم کے برتنوں پر سبز یاسرض رنگ یاتارکول کی ملمع سازی کرکے ان میں شراب سازی کرتے تھے ، اور درحقیقت یہ حکم شراب سے انتہائی درجہ احتیاط سے برتنے کے لیے دیا تھا، کیونکہ حرمت شراب کا حکم تازہ تازہ نازل ہوا تھا،کہ کہیں ان برتنوں سے دوبارہ شراب کی طرف دھیان نہ جائے، اسی وجہ سے جب عام مسلمانوں کے دلوں میں شراب کی نفرت اچھی طرح جاگزیں ہوگئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال کی عام اجازت مرحمت فرمادی، اب جمہور علماء ان برتنوں کی ممانعت کی تنسیخ کے قائل ہیں۔

7

7 – "آمركم بأربع وأنهاكم عن أربع اعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة وصوموا رمضان وأعطوا الخمس من الغنائم، وأنهاكم عن أربع عن الدباء (2) والخنتم والمزفت والنقير". (حم م عن أبي سعيد) .
٧۔۔۔ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتاہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں اللہ عزوجل کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ، نماز قائم کروزکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور اموال غنیمت سے پانچواح حصہ اداکرو۔ اور تمہیں منع کرتا ہوں شراب کے لیے بنائے گئے ان چاربرتنوں کو استعمال کرنے سے کدو کے برتن سے ، سبز رنگ کے گھڑے سے ، تارکول کے ساتھ ملمع سازی کیے ہوئے برتن سے، کھجور کی جڑ کے بنائے ہوئے برتن سے ۔ مسند احمد، مسلم، بروایت ابوسعید۔

8

8- "بحسب امرئ من الإيمان أن يقول رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا" (طس عن ابن عباس) .
٨۔۔ آدمی کے ایمان کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ یہ کہے میں اللہ عزوجل کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد کے رسول ہونے پر راضی ہوں۔ الکبیر للطبرانی، (رح) ، بروایت ابن عباس (رض)۔

9

9 – "ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا" (حم م ت عن العباس بن عبد المطلب) .
٩۔۔ جو شخص اللہ عزوجل کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے محمد کے رسول ہونے پر راضی ہوا یقیناً اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔ مسند احمد ، مسلم، ترمذی، بروایت عباس (رض) بن عبدالمطلب۔

10

10 – "ثلاث من فعلهن فقد طعم طعم الإيمان من عبد الله وحده وأنه لاإله إلا الله وأعطى زكاة ماله طيبة بها نفسه رافدة عليه كل عام ولايعطي الهرمة ولا الرديئة (1) ولا المريضة ولا الشرط اللئيمة (2) ولكن من أوسط أموالكم فإن الله لم يسألكم خيره ولا (3) يأمركم بشره وزكى نفسه" (د عن عبد الله بن معاوية العامري (4)
١٠۔۔۔ جس شخص نے تین کام انجام دے لیے یقیناً اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا محض ایک اللہ کی عبادت کی، لاالہ الا اللہ کا اقرار کیا، دل کی خوشی کے ساتھ ہر سال اپنے مال کی زکوۃ ادا کی۔ بوڑھاجانور دیا، نہ بےوقت۔ مریضہ نہ بےمصرف۔ بلکہ اپنے اوسط درجہ کا مال دیا بیشک اللہ تعالیٰ تم سے بہترین مال کا سوال کرتا اور نہ ردی مال کا حکم کرتا۔ اور نہ تمہیں اپنے نفسوں کی بڑائی جتانے کی حکم کرتا ہے۔ ابوداؤد بروایت عبداللہ بن معاویہ ، الغامری۔
الھرمہ۔۔۔ ایسی بوڑھی اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے دانت گرچکے ہوں اور اس کالعاب منہ میں نہ ٹھہرتا ہو۔
الدرنہ۔۔۔ گھٹیامال کو کہتے ہیں اصل لفظ الدرئنہ، ہی ہے معاجم احادیث کی کتب میں اسی طرح مذکور ہے جبکہ بعض کتب میں الردینہ لفظ ہے الشرط اللتیمہ، ایسے بےکارو بےمصرف جانور کو کہتے ہیں جو بہت زیادہ چھوٹا ہو یا بہت بڑا بکری کے انتہائی کمسن بچوں کو بھی کہتے ہیں۔

11

11 – "ليس الإيمان بالتمنى ولا بالتحلي، ولكن: هو ما وقر في القلب وصدقه العمل" (ابن النجار فرص عن أنس) .
١١۔۔ ایمان تمنا اور تزئین سے حاصل نہیں ہوتابل کہ ایمان تو وہ ہے جو دل میں راسخ ہوجائے اور عمل اس کی تصدیق کرنے لگ جائے۔ ابن النجار، الفردوس للدیلمی، (رح) ، السنن لسعید، بروایت انس (رض)۔
حدیث میں تمناوتزئین سے مراد محض زبان سے ایمان کا اقرار کرنا مراد ہے کیونکہ تمنا قرآۃ کے معنی میں بھی مستعمل ہے جیسے فرمان باری ہے ، اذاتمنی، الخ۔ یعنی جب آپ قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں سو حدیث بالا میں دل کی گہرائی میں ایمان کو راسخ کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن حدیث ضعیف ہے۔

12

12 – "إن لكل شيء حقيقة ومابلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطاه لم يكن ليصيبه" (حم طب عن أبي الدرداء) الإكمال.
١٢۔۔۔ ہرچیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور کوئی بندہ ایمان کی حقیقت اس وقت نہیں پاسکتا جب تک کہ یہ بات اچھی طرح نہ جان لے کہ جو مصیبت اس کو پہنچی ہے وہ ہرگز چوک کرنے والی نہ تھی ، اور جو نہ پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی۔ مسنداحمد ، الطبرانی، فی الکبر، بروایت ابوالدردائ، (رض) ۔

13

13 – "الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته والكتاب والنبيين وتؤمن بالقدر" (ن عن أبي هريرة وأبي ذر معا) .
١٣۔۔۔ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ عزوجل ، اس کے فرشتوں اس کی کتاب اور اس کے نبیوں پر ایمان لاؤ اور تقدیر پر ایمان لاؤ۔ النسائی بروایت ابوہریرہ ، (رض) وابوذر (رض) ۔

14

14 – "الإيمان أن تؤمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين والموت والحياة بعد الموت وتؤمن بالجنة والنار والحساب والميزان وتؤمن بالقدر خيره وشره فإذا فعلت ذلك فقد آمنت" (حم عن أبي عامر وأبي مالك) (ن عن أنس) (ابن عساكر عن عبد الرحمن ابن غنم) .
١٤۔۔۔ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، یوم آخرت پر فرشتوں پر کتاب پر، نبیوں پر موت پر موت کے بعد زندہ کیے جانے پر ایمان لاؤ اور جنت جہنم اور حساب و میزان پر ایمان لاؤ، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ، پس جب تم نے یہ کام انجام دے دیا تویقینا ایمان لاچکے۔ مسند احمد بروایت ابوعامر (رض) وابومالک (رض) النسائی، بروایت انس (رض) ابن عساکر، بروایت عبدالرحمن ابن غنم (رض) ۔

15

15 – "أربع من كن فيه فهو مؤمن ومن جاء بثلاث وكتم واحدة فهو كافر شهادة أن لاإله إلا الله وأني رسول الله وأنه مبعوث من بعد الموت وإيمان بالقدر خيره وشره" (تمام وسمويه كر عن أبي سعيد) .
١٥۔۔ جس شخص میں چار باتیں ہوں گی یقیناً مومن ہوگا، اور جو شخص تین باتوں پر ایمان لایا اور ایک کو چھوڑ دیابلاشبہ وہ کافر ہوگا، اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں محمد اللہ کا رسول ہوں اور یہ کہ مرنے کے بعد اس کو ضرور اٹھایا جائے گا اور اچھی بری تقدیر پر بھی ایمان لائے ، تمام سمویہ، ابن عساکر، بروایت ابوسعید۔

16

16 – " أربع لم يجد رجل طعم الإيمان حتى يؤمن بهن أن لا إله إلا الله وأني رسول الله بعثني بالحق وأنه ميت ثم مبعوث من بعد الموت ويؤمن بالقدر كله" (كر عن علي) .
١٦۔۔۔ چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان پر ایمان لائے بغیر آدمی کا مزہ نہیں چکھ سکتا۔
١۔ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ٢۔ میں اللہ کا رسول ہوں جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ٣۔ یہ کہ اس کو ضرور مرنا ہے پھر مرنے کے بعد ضرور اٹھایاجانا ہے۔ ٤۔ اور ہر طرح کی تقدیر پر ایمان رکھے۔ ابن عساکر، بروایت علی (رض)۔

17

17- " الإسلام أن تسلم قلبك ويسلم المسلمون من لسلنك ويدك قيل فأي الإسلام أفضل [قال؟؟] الإيمان. قيل وما الإيمان؟ قال أن تؤمنوا بالله وملائكته وكتبه ورسله والبعث بعد الموت. قيل فأي الإيمان أفضل؟ قال: الهجرة. قيل: وما الهجرة؟ قال: أن تهجر السوء. قيل: فأي الهجرة أفضل؟ قال: الجهاد. قيل: وما الجهاد؟ قال: أن تقاتل الكفار إذا لقيتهم قيل فأي الجهاد أفضل؟ قال: من عقر جواده وأهريق دمه. ثم عملان أفضل الأعمال إلا من عمل بمثلهما: حجة مبرورة أو عمرة". (حم طب عن عمرو بن عبسه) ورجاله ثقات.
١٧۔۔ اسلام یہ ہے کہ تیرا دل اسلام لے آئے اور مسلمان تیری زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے محفوظ ہوجائیں آپ سے پوچھا گیا کہ کون سا اسلام اضل ہے آپ نے فرمایا ایمان دریافت کیا گیا ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ، دریافت کیا گیا کون سا ایمان افضل ہے ؟ فرمایا ہجرت ۔ دریافت کیا گیا ہجرت کیا ہے ؟ فرمایا تم گناہوں کو چھوڑ دو دریافت کیا گیا کون سی ہجرت افضل ہے ؟ فرمایا جہاد۔ دریافت کیا گیا جہاد کیا ہے ؟ فرمایا جہاد یہ ہے کہ جب کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تم ان سے قتال کرو۔ دریافت کیا گیا کون ساجہاد افضل ہے ؟ فرمایا جس جہاد میں مجاہد کا گھوڑا زخمی ہوجائے اور اس کا خون بہہ جائے پھر ان کے بعد دوعمل سب سے افضل ہیں۔ الایہ کہ کوئی انہی جیسا عمل کرے مقبول حج یاعمرہ۔ مسند احمد الطبرانی، فی الکبیر، بروایت عمرو بن عبسہ، رجالہ ثقاب۔

18

18 – "حقيقة الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا". (م 3 عن عمر) .
١٨۔۔ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تم لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کردو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو اور اگر اس کے سفر کی وسعت ہو، مسلم ابوداؤد، ترمذی، نسائی، بروایت عمر (رض)۔

19

19 – "الإسلام علانية والإيمان في القلب" (ش عن أنس) .
١٩۔۔۔ اسلام ظاہر میں ہوتا ہے اور ایمان دل میں۔ ابن ابی شیبہ، بروایت انس (رض)۔

20

20 – " إن للإسلام صنوا (1) ، ومنارا كمنار الطريق ورأسه، وجماعه شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد ورسوله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وتمام الصوم" (طب عن أبي الدرداء) .
٢٠۔۔۔ مثل راستہ کی علامات کے اسلام کی علامات اور سر اور دیگر اعضا بھی ہیں اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں نماز قائم کرنا زکوۃ ادا کرنا، اور تمام روزے رکھنا، الطبرانی، فی الکبیر، بروایت ابولداردائ، (رض) ۔

21

21 – "بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان" (حم ق ت ن عن ابن عمر)
٢١۔۔۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔ مسنداحمد بخاری مسلم، ترمذی، نسائی، بروایت ابن عمر (رض)۔

22

22 – "رأس هذا الأمر الإسلام، ومن أسلم سلم، وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد، لا يناله إلا أفضلهم" (طب عن معاذ) .
٢٢۔۔۔ اس دین کی اصل اسلام ہے اور جو اسلام لے آیا اس کی جان ومال محفوظ ہوگئے، اور اس دین کا ستون نماز ہے، اور اس کی سربلندی جہاد ہے اس کو نہیں پاسکتا مگر افضل ترین آدمی۔ الطبرانی، فی الکبیر، بروایت معاذ (رض)۔

23

23– "عرى الإسلام وقواعد الدين ثلاثة عليهن أسس الإسلام من ترك واحدة منهن فهو بها كافر حلال الدم: شهادة أن لا إله إلا الله والصلاة المكتوبة وصوم رمضان" (ع عن ابن عباس) .
٢٣۔۔۔ اسلام ہر عیب سے پاک ہے ، اور دین کی تین بنیادیں ہیں جن پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے جس نے ان میں سے ایک کو بھی ترک کیا وہ کافر ہے اس کا خون حلال ہے۔ لاالہ الا اللہ کی شہادت فرض نماز، رمضان کے روزے۔ مسندابویعلی، بروایت ابن عباس (رض) مسند ابویعلی میں حضرت ابن عباس کی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد حضرت ابن عباس کا یہ فرمان منقول ہے کہ بقیہ دوفریضے زکوۃ اور حج اگر وسعت مال کے باوجود ادا نہ کرے تو وہ بھی کافر ہے مگر اس کا خون حلال نہیں۔ اور یہی روایت الطبرانی ، فی الکبیر میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے جس میں اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قرار دی گئی، ہے مگر اس میں ابن عباس (رض) کا اپنا موقوف قول مروی نہیں ہے۔

24

24 – "يا عدي ابن حاتم أسلم تسلم أشهد (1) أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وتؤمن بالأقدار كلها خيرها وشرها، حلوها ومرها" (هـ عن عدي بن حاتم) .
٢٤۔۔۔ اے عدی ابن حاتم ! اسلام لے آمامون ہوجائے گا، شہادت دے اس بات کی کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں اور ہر تقدیر پر خواہ اچھی ہو یا بری پسندیدہ ہو یا کڑوی، کسیلی ، ایمان لے آ۔ ابن ماجہ ، بروایت عدی ابن حاتم۔

25

25 – " الإسلام إقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم شهر رمضان والاغتسال من الجنابة" (د عن عمر)
٢٥۔۔۔ اسلام نام ہے نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے بیت اللہ کا حج کرنے رمضان کے روزے رکھنے اور جنابت سے غسل کرنے کا۔ ابودرداء بروایت عمر (رض)۔

26

26 – "الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان وتحج البيت" (حم ق هـ عن أبي هريرة وأبي ذر معا) الإكمال.
٢٦۔۔ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فریضۃ زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو۔ مسند احمد ، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ ، (رض) ابی ذر (رض) ۔

27

27 – "بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله والصلاة وصيام رمضان فمن ترك واحدة منهن كان كافرا حلال الدم" (طب عن ابن عباس) .
٢٧۔۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، لاالہ الا اللہ کی شہادت، نماز، اور رمضان، کے روزے۔ جس شخص نے ان میں سے ایک کو بھی ترک کردیا، وہ کافر ہے اسکاخون حلال ہے ، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس (رض)۔

28

28 – "بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان والجهاد والصدقة من العمل الصالح" (طب عن ابن عمر) .
٢٨۔۔۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیز و پر ہے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا، اور جہاد اور صدقہ عمل صالح ہیں۔ الطبرانی، فی الکبیر بروایت ابن عمرو (رض) ۔

29

29 – "بني الإسلام على خمس خصال: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت، وصوم رمضان. والجهاد والصدقة من العمل الصالح" (طب عن ابن عمر) .
٢٩۔۔۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ، لاالہ الا اللہ کی شہادت اور اس بات کی شہادت کہ محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اور جہاد اور صدقہ عمل صالح ہیں۔ الطبرانی فی الکبیربروایت ابن عمر (رض)۔

30

30 – "بني الإسلام على خصال: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، والإقرار بما جاء من عند الله، والجهاد ماض منذ بعث رسله إلى آخر عصابة تكون من المسلمين يقاتلون الدجال لا ينقصهم جور من جار ولا عدل من عدل، وأهل لا إله إلا الله فلا تكفروهم بذنب ولا تشهدوا عليهم بشرك، والقدر خيره وشره من الله تعالى" (ابن النجار ابن عمر) .
٣٠۔۔ اسلام کی بنیاد اس چیز پر رکھی گئی ہے ، کہ لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی جائے اور جو کچھ آپ اللہ کے پاس سے لائے ہیں اس کا اقرار کیا جائے اور اس بات کا اقرار بھی ہے کہ جب اللہ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے جہاد جاری ہے جب تک کہ مسلمانوں کی آخری جماعت ائے وہ بھی دجال سے قتال کرے گی، ان کو اپنے مقصد سے کسی ظالم کا ظلم ہٹا سکے گانہ کسی عادل کا عدل۔ وہ لاالہ الا اللہ کہنے والے ہوں گے ، پس ان کی کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرنا۔ نہ ہی ان پر شرک کا حکم عائد کرنا۔ اور اسلام کی بنیاد تقدیر پر بھی ہے ، کہ خواہ اچھی ہو یا بری اس کے من جانب اللہ ہونے پر یقین رکھاجائے۔ ابن النجار ، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

31

31 – "أتاني جبريل فقال يا محمد الإسلام عشرة أسهم وخاب من لاسهم له. أولها شهادة أن لا إله إلا الله، والثاني الصلاة وهي الطهرة، والثالث الزكاة وهي الفطرة، والرابع الصوم وهو الجنة، والخامس الحج وهو الشريعة، والسادس الجهاد وهو الغزوة (1) ، والسابع الأمر بالمعروف وهو الوفاء، والثامن من؟؟ النهي عن المنكر وهو الحجة، والتاسع الجماعة وهي الألفة، والعاشر الطاعة وهي العصمة" (أبو نعيم محمد بن أحمد العجلي في فوائده والرافعي في تاريخ قزوين من طريق إسحاق الدبري عن عبد الرزاق عن معمر عن قتادة عن أنس.
٣١۔۔ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا۔ اے محمد ! اسلام کے دس حصے ہیں ، اور خائب و خاسر ہو وہ شخص جس کے پاس کوئی حصہ نہیں ہے۔
پہلا ! لاالہ الا اللہ کی شہادت ہے۔
دوسرا ! نماز ہے اور وہ پاکیزگی ہے۔
تیسرا ! زکوۃ ہے اور وہ فطرت ہے۔
چوتھا ! روزہ ہے اور وہ جہنم سے ڈھال ہے۔
پانچواں ! حج ہے اور وہ شریعت ہے۔
چھٹا ! جہاد ہے اور وہ غزوہ ہے۔
ساتواں ! امربالمعروف ہے اور وہ وفادار ہے۔
آٹھواں ! نہی عن المنکر ہے اور وہ ججت ہے۔
نواں۔ جماعت ہے اور وہ الفت ہے۔
دسواں۔ اطاعت ہے اور وہ حفاظت ہے۔ فوائد ابونعیم محمد بن احمد العجلی، تاریخ قزوین، للرافعی ، من طریق ، اسحاق الدبری عن عبدالرزاق عن معمر عن قتادہ عن انس (رض)۔

32

32 – " الإسلام ثمانية أسهم: الإسلام سهم والصلاة سهم والزكاة سهم وحج البيت سهم والجهاد في سبيل الله سهم وصوم رمضان سهم والأمر بالمعروف سهم والنهي عن المنكر سهم. وقد خاب من لاسهم له" (ط ن عن حذيفة وحسن ع قط في الأفراد والرافعي عن علي) ضعف.
٣٢۔۔ اسلام کے آٹھ حصے ہیں۔ اسلام کا ایک حصہ ہے نماز کا ایک حصہ ہے۔ زکوۃ ایک حصہ ہے۔ بیت اللہ کا حج ایک حصہ ہے جہاد ایک حصہ ہے رمضان کے روزے ایک حصہ ہیں۔ امربالمعروف ایک حصہ ہے، نہی عن المنکر ایک حصہ ہے ، اور خائب و خاسر ہو وہ شخص جس کے پاس کوئی حصہ نہیں۔ النسائی ، بروایت حذیفہ ، (رض) ، حسنہ، المسند لابی یعلی، الدارقطنی، فی الافراد، الرافعی، بروایت علی (رض)۔

33

33 – "أربع فرضهن الله عز وجل في الإسلام، من جاء بثلاث لم يغنين عنه شيئا حتى يأتي بهن جميعا: الصلاة والزكاة وصيام رمضان وحج البيت" (حم طب عن عمارة بن حزم وحسن، حم والبغوي عن زياد بن نعيم) .
٣٣۔۔ اللہ تعالیٰ نے چار چیزیں اسلام میں فرض فرمائی ہیں، اگر کوئی صرف تین بجالائے تب بھی وہ اس کو کچھ فائدہ نہ پہنچاسکیں گے حتی کہ تمام پر پیراعمل ہو۔ نماز زکوۃ ، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج۔ الکبیر، للطبرانی، بروایت عمارہ بن حزم وحسنہ، مسند احمد والبغوی بروایت زیاد بن نعیم۔

34

34 – "إن للإسلام صنوا كمنار الطريق فمن ذلك أن يعبد الله ولا يشرك به شيئا، و؟؟ أقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، ويحج البيت، ويصوم رمضان، والأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر، والتسليم على بني آدم فإن ردوا عليك ردت عليك وعليهم الملائكة وإن لم يردوا عليك ردت عليك الملائكة ولعنتهم أوسكتت عنهم، وتسليمك على أهل بيتك إذا دخلت، ومن انتقص منهن شيئا فهو سهم من سهام الإسلام ترك، ومن تركهن كلهن فقد ترك الإسلام" (ابن السني في عمل اليوم والليلة) (طب (1) عن أبي هريرة) .
٣٤۔۔۔ مثل راستہ کی علامات کے اسلام کی علامات ہیں۔ انھیں میں سے ہے اللہ کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا۔ رمضان کے روزے رکھنا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، بنی آدم کو سلام کرنا، اگر انھوں نے سلام کا جواب دیدیا، تو فرشتے تم پر اور ان پر رحمت بھیجیں گے اور اگر انھیں سلام کا جواب نہ دیا، تو فرشتے تم پر رحمت بھیجیں گے اور ان پر لعنت یا ان کے لیے خاموش رہیں گے اور جب گھر میں داخل ہواتواہل خانہ کو بھی سلام کرو۔ اور جس سے کوئی ایک چیز کم ہوگی، یقینا، اسلام کے حصوں میں سے ایک حصہ اس سے چھوٹ گیا۔ اور اس جس نے تمام کو چھوڑ دیا، اور بلاشبہ اس نے اسلام کو چھوڑ دیا۔ عمل الیوم واللیلہ، لابن السنی، الکبیر، للطبرانی، (رح) علیہ بروایت ابوہریرہ (رض)۔

35

35 – "لم آتكم إلا بخير، آتيتكم أن تعبدوا الله وحده لاشريك له وأن تدعوا اللات والعزى وأن تصلوا بالليل والنهار خمس صلوات وأن تصوموا من السنة شهرا وأن تحجوا البيت وأن تأخذوا من أموال أغنيائكم فتردوها على فقرائكم" (حم) عن رجل من بني عامر.
٣٥۔۔ میں تمہارے پاس خیر کے سوا کچھ نہیں لایا، میں تمہارے پاس آیاہوں کہ تم اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرو۔ لات اور عزی بتوں کو چھوڑ دو ، دن اور رات میں پانچ نمازیں پڑھو۔ سال بھر میں ایک ماہ رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، اپنے مالداروں سے اموال صدقات وزکوۃ وصول کرو اور اپنے فقراء کو دو۔ مسند احمد بروایت رجل من بنی عامر۔

36

36 – "يا عدي بن حاتم أسلم تسلم قال وما الإسلام قال أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وتؤمن بالأقدار كلها خيرها وشرها حلوها ومرها" (هـ) عن عدي بن حاتم.
٣٦۔۔ اے عدی بن حاتم اسلام لے آمامون ہوجائے گا، دریافت کیا اسلام کیا ہے ؟ فرمایا، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو اور تقدیر پر ایمان لے آؤ، اچھی ہو یا بری پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ۔ ابن ماجہ بروایت ابن عدی۔

37

37 – "يا عدي بن حاتم أسلم تسلم قال مالإسلام قال تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله وتؤمن بالقدر خيره وشره حلوه ومره يا عدي بن حاتم لا تقوم الساعة حتى تفتح خزائن كسرى وقيصر يا عدي بن حاتم تأتي الظعينة من الحيرة حتى تطوف بهذه الكعبة بغير خفير، يا عدي بن حاتم لا تقوم الساعة حتى يحمل الرجل جراب المال فيطوف به فلا يجد أحد يقبله فيضرب به الأرض فيقول ليتك لم تكن ليتك كنت ترابا " (طب) الخطيب وابن عساكر عن عدي ابن حاتم.
٣٧۔۔ اے عدی بن حاتم ! اسلام لے آ، مامون ہوجائے گا، دریافت کیا اسلام کیا ہے ؟ فرمایا کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اور تقدیر پر ایمان لے آؤ، اچھی ہو یا بری ، پسندیدہ ہوناپسندیدہ۔ اے عدی بن حاتم، قیامت قائم نہیں ہوسکتی ۔۔۔ حتی کہ کسری اور قیصر کے خزانے فتح ہوں اے عدی بن حاتم۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک عورت حیرہ سے تنہاچل کر اس بیت اللہ کا طواف کرے گا، اے عدی بن حاتم، قیامت قائم نہیں ہوسکتی، حتی کہ کوئی شخص مال سے بھرا تھیلا اٹھائے آئے گا اور کعبہ کا طواف کرے گا مگر کوئی ایساشخص نہ ملے گا جو اس مال کو قبول کرلے، آخر کار وہ شخص اس تھیلے کو زمین پر مارتا ہواپکارے گا، کاش !۔۔۔ تو نہ ہوتا، کاش تومٹی ہوتا۔ الکبیر اللطبرانی، (رح) ، الخطیب، ابن عساکر، بروایت عدی بن حاتم۔
حدیث کا پس منظر
یہ عدی بن حاتم شروع میں اسلام سے سخت بےزار تھے خود فرماتے ہیں جب تک میں اسلام سے بہرمند نہ ہوا تھا آپ کی ذات گرامی سے متعلق میرے اندر سب سے زیادہ بغض بھرا ہوا تھا،پھر جب حضور نے ایک لشکر ہماری طرف روانہ فرمایا میں وہاں سے فرار ہو کر سرزمین شام چلا گیا وہاں بھی یہ اطلاع ملی کہ خالد بن ولید ہماری طرف متوجہ ہونے کو ہیں، میں وہاں سے فرار ہو کر سرزمین روم کی طرف کوچ کرگیا، یہ تھے کہ اسلام سے اپنا دامن بچائے پھر رہے تھے مگر ہدایت ان کے مقدر میں لکھی جاچکی تھی، لہٰذا فرماتے ہیں میں سرزمین روم میں تھا کہ میری پھوپھی میری تلاش میں وہاں پہنچ گئیں اور اپنی داستان سرائی کرتے ہوئے کہا اے عدی بن حاتم تم ہمیں چھوڑ کر یہاں پہنچ گئے اور ہم پر خالد بن ولید نے لشکر کشی کی اور ہم کو قیدی بنا کر حضور کی خدمت میں پہنچایا آپ کا میرے پاس سے گزر ہوا تو میں نے عرض کیا میرے والد ہلاک ہوگئے اور میرے محسن مجھے چھوڑ گئے ہیں مجھے تو آزادی بخش دیجئے۔ (آپ نے فرمایا تمہارے محسن کون ہیں ؟ میں نے عرض کیا عدی بن حاتم) آپ نے فرمایا وہ تو اللہ اور اس کے رسول سے فرار ہونے والا ہے۔ یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے اور مزید کوئی گفتگو نہ کی تین یوم تک یہی مکالمہ رہا پھر آپ کے پاس کچھ مال پہنچاتو آپ نے مجھے یہ سواری عنایت کی اور میں تمہارے پاس چلی آئی، لہٰذا اے عدی بن حاتم، تم محمد کے پاس چلو، اسلام سے اپنے حصہ کو دامن بھرلو۔۔۔ کہیں تمہاری قوم کا کوئی فرد اس نعمت کے حصول میں تم سے سبقت نہ لے جائے آخر میں ان کے اصرار پر لوٹ آیا۔ جب میں مدینہ پہنچا تو لوگوں میں غلغلہ مچ گیا کہ عدی بن حاتم آگئے (عدی بن حاتم آگئے) میں حضور کی خدمت میں پہنچا آپ نے فرمایا، اے عدی بن حاتم، تم اللہ اور اس کے رسول سے کیوں بھاگے پھر رہے ہو، میں نے عرض کیا میں اپنے دین کو لیے پھر رہاہوں آپ نے فرمایا میں تمہارے دین کو جانتاہوں تم اسلام سے محض اس لیے اعراض کررہے ہو کہ اسلام کے نام لیوا کس مپرسی اور غربت حالی کا شکار ہیں۔ یاد رکھو۔۔ ایک ایساوقت ضرور آئے گا کہ اے عدی بن حاتم قیامت قائم نہیں ہوسکتی (حتی کہ کسی اور قیصر کے خزانے فتح ہوں۔ اے عدی بن حاتم ! ایک وقت آئے گا کہ ایک عورت حیرہ سے تنہاچل کر اس بیت اللہ کا طواف کرے گا، اے عدی بن حاتم، قیامت قائم نہیں ہوسکتی، حتی کہ کوئی شخص مال سے بھرا تھیلا اٹھائے آئے گا اور کعبہ کا طواف کرے گا مگر کوئی ایساشخص نہ ملے گا جو اس مال کو قبول کرلے، آخر کار وہ شخص اس تھیلے کو زمین پر مارتا ہواپکارے گا، کاش (تو نہ ہوتا) کاش تومٹی ہوتا) ۔
آخر اللہ نے اپنے پیغمبر کے اس فرمان کو سچ کر دکھایا، اور جس اسلامی لشکر نے کسری کے خزانے پر غارت گری کی میں بذات خود اس میں لشکر میں شریک تھا اور میں نے ایسی عورت کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھاجس نے حیرہ کے دوردراز مقام سے تنہا چل کر بغیر کسی خوف و خطرے کے کعبہ کا طواف کیا، اور خدا کی قسم آپ کی تیسری بات تھی روز روشن کی طرح صادق ہوگی، اور ضرور مسلمانوں پرکشادگی کا ایساوقت آئے گا کہ کوئی مال کو قبول کرنے والانہ ملے گا۔ خلاصہ از المعجم الاوسط ٦ ص ٣٦٠۔

38

38 – "الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا" (حم د ت ن هـ عن عمر) .
٣٨۔۔ اسلام یہ ہے کہ تم لاالہ الاالہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو ۔ نماز قائم کرو۔ زکوۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر اس تک جانے کی وسعت ہو۔ مسند احمد ، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ بروایت عمر (رض)۔

39

39 – "الإسلام أن تسلم وجهك لله عز وجل وأن تشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم شهر (1) رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا فإذا فعلت ذلك فقد أسلمت" (2) (حم ن عن ابن عباس) (حم عن أبي عامر وأبي مالك) (ن عن أنس) (ابن عساكر عن عبد الرحمن بن غنم) .
٣٩۔۔۔ اسلام یہ ہے تم اپنی ذات اللہ کے سپرد کردو، اور شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا شریک کوئی نہیں اور محمداللہ کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اور بیت اللہ کا حج وعمرہ کرو اگر تم اس تک جانے کی وسعت ہو۔ اگر تم نے یہ کام سرانجام دے لیے تو تم مسلمان ہوگئے۔ مسند احمد ، نسائی، بروایت ابن عباس (رض)۔ مسند احمد بروایت ابوعامر، ابومالک (رض) نسائی بروایت انس (رض) ابن عساکر بروایت عبدالرحمن بن عوف۔

40

40 – " الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتعتمر وتغتسل عن الجنابة وأن تتم الوضوء وتصوم رمضان" (حب عن عمر) .
٤٠۔۔ اسلام یہ ہے کہ تم لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو ۔ نماز قائم کرو۔ زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کرو، جنابت سے غسل کرو، وضوکامل طریقے سے کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ ابن حبان، بروایت عمر (رض)۔

41

41 – "الإسلام شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وأن تؤمن بالأقدار خيرها وشرها" (ن) عن عدي بن حاتم
٤١۔ اسلام شہادت ہے اس بات کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ عزوجل کا رسول ہوں اور یہ کہ تم اچھی بری تمام تقدیروں پر ایمان لاؤ۔ نسائی، بروایت عدی بن حاتم (رض) ۔

42

42 – "الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم وتحج، والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر" وتسليمك على أهل بيتك (1) فمن انتقص شيئا منهن فهو سهم من الإسلام يدعه ومن تركهن فقد ولى الإسلام ظهره" (هـ ك عن أبي هريرة) .
٤٢۔۔ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، روزے رکھو، حج ادا کرو، امربالمعروف نہی عن المنکر ، بجالاؤ، اور اپنے گھروالوں کو سلام کرو۔ جس نے کسی ایک چیز کو چھوڑ دیا اس نے اسلام کا ایک حصہ چھوڑ دیا، اور جس نے سب کو چھوڑ دیا۔۔۔ اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا، ابن ماجہ، مستدرک ، بروایت ابوھریرہ۔

43

43 – "الإسلام عشرة أسهم وقد خاب من لاسهم له شهادة أن لا إله إلا الله وهي الملة والثانية الصلاة وهي الفطرة (2) والثالثة الزكاة وهي الطهرة والرابعة الصوم وهي الجنة والخامسة الحج وهي الشريعة والسادسة الجهاد وهو الغزوة والسابعة الأمر بالمعروف وهو الوفاء والثامنة النهي عن المنكر وهي الحجة والتاسعة الجماعة وهي الألفة والعاشرة الطاعة وهي العصمة" (طب طس عن ابن عباس) وفيه حامد بن آدم المروزي يضع الحديث.
اسلام کے دس حصے ہیں۔
٤٣۔۔۔ اسلام کے دس حصے ہیں اور نامراد ہو وہ شخص جس کے پاس کوئی حصہ نہیں۔
پہلا۔۔۔ لاالہ الا اللہ کی شہادت اور یہ ملت ہے۔
دوسرا۔۔۔ نماز اور یہ فطرت ہے بمطابق منتخب کنزالعمال خزانہ ہے۔
تیسرا۔۔۔ زکوۃ ہے اور وہ مال کی پاکیزگی ہے۔
چوتھا۔۔ روزہ ہے اور وہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔
پانچواں۔۔ حج ہے اور وہ شریعت ہے۔
چھٹا۔۔ جہاد ہے اور وہ غزوہ ہے۔
ساتواں۔۔ امربالمعروف ہے اور وہ وفاداری ہے۔
آٹھواں۔۔ نہی عن المنکر ہے اور وہ حجت ہے۔
نواں۔۔ جماعت مسلمین ہے اور وہ الفت ہے۔
دسواں۔۔ اطاعت ہے اور وہ حفاظت ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، والاوسط بروایت ابن عباس (رض)۔ اس روایت میں ایک روای حامد بن آدم المروزی ہیں جو واضع حدیث ہیں۔

44

44 – " الإسلام علانية والإيمان في القلب التقوى في القلب وأشار بيده إلى صدره" (حم ن ع عن أنس) وصحح.
٤٤۔۔ اسلام ظاہر میں ہوتا ہے اور ایمان دل میں۔ اور تقوی دل میں ، دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ مسند احمد، نسائی، مسند ابی یعلی، بروایت انس (رض) ، اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

45

45 – "ألا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا. اعبدوا ربكم وصلوا خمسكم وصوموا شهركم وحجوا بيتكم وأدوا زكاة أموالكم (3) طيبة أنفسكم وأطيعوا إذا أمرتكم تدخلوا جنة ربكم" (محمد بن نصر عن أبي أمامة)
٤٥۔۔۔ آگاہ رہو شاید تم اس سال کے بعد مجھے نہ دیکھ سکو۔ اپنے پروردگار کی عبادت بجالاؤ، پنجگانہ نماز ادا کرتے رہو، ماہ رمضان روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو۔ دل کی خوشی کے ساتھ اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرتے رہو، اور جب تمہیں کوئی حکم دوں، بجالاؤ (بمطابق منتخب کنزالعمال) اپنے حاکم کا حکم بجالاؤ، اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ محمد بن نصر، بروایت ابوامامہ (رض) ۔

46

46 - "ألا تستمعون. اعبدوا ربكم وصلوا خمسكم وصوموا شهركم وأدوا زكاة أموالكم وأطيعوا إذا أمرتكم (4) تدخلوا جنة ربكم" (حم وابن منيع حب قط ك ص عن أبي أمامة) .
٤٦۔۔ کیا تم نہیں سنتے ؟ اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پنجگانہ نماز ادا کرو ماہ صیام کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرو اور جب تمہیں کوئی حکم دوں ، بجالاؤں (بمطابق منتخب کنزالعمال) اپنے حاکم کا حکم بجالاؤ۔ اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ مسنداحمد، ابن منیع، ابن حبان، الدارقطنی، مستدرک، سنن سعید، ابن منصور، بروایت ابوامامہ (رض) ۔

47

47 – "أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وكل مسلم من مسلم حرام، ياحكيم بن معاوية هذا دينك أينما تكن يكفيك" (1) (ابن أبي عاصم والبغوي طب ك عن معاوية بن حكيم عن معاوية النميري عن أبيه) أنه قال يا رسول الله بما أرسلك ربك قال فذكره.
٤٧۔۔ تم اللہ عزوجل کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، اور یاد رکھو ہر مسلمان کی جان ومال مسلمان پر حرام ہے اے حکیم بن معاویہ۔ یہ تمہارا دین ہے تم جہاں بھی ہو تمہیں کافی ہوگا۔ ابن ابی عاصم ، والبغوی، الطبرانی فی الکبیر، مستدرک ، بروایۃ معاویہ، بن حکیم عن معاویہ النمیری عن ابیہ۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت حکیم بن معاویہ (رض) نے حضور اکرم سے دریافت کیا تھا یارسول اللہ آپ کے پروردگار نے آپ کو کس چیز کے ساتھ مبعوث فرمایا ؟ تب آپ نے مذکورہ بالاجواب مرحمت فرمایا تھا۔

48

48 – " أن تقول أسلمت وجهي لله وتخليت وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة. كل مسلم على مسلم محرم أخوان نصير أن لا يقبل الله من مشرك بعد ما أسلم عملا أو يفارق المشركين إلى المسلمين" (ن ك عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده) أنه قال ما آيات الإسلام قال فذكره.
٤٨۔۔ کہو میں نے اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کیا اور اس کے لیے یکسو ہوا اور نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو، اور جان رکھو، ہر مسلمان کی جان ومال مسلمان پر حرام ہے دونوں بھائی بھائی ہیں، باہم مددگار ہیں، اور یاد رکھو، کسی مشرک کے مسلمان ہوجانے کے بعداللہ تعالیٰ اس کے کسی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے ، تاوقتیکہ وہ مشرکوں سے علیحدہ ہو کر مسلمانوں سے نہ آملے۔ نسائی مستدرک، بروایت بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ ان صحابی نے حضور سے اسلام کی علامات دریافت کی تھیں تب آپ نے مذکورہ بالاجواب مرحمت فرمایا تھا۔

49

49 – "أن تشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله وأن يكون الله ورسوله أحب إليك مما سواهما وأن تحترق في النار أحب إليك من أن تشرك بالله وأن تحب ذا نسب لا تحبه إلا لله فإذا كنت كذلك فقد دخل حب الإيمان في قلبك كما دخل حب الماء للظمآن في اليوم القائظ" (حم عن أبي رزين العقيلي) أنه قال يا رسول الله ما الإيمان؟ قال فذكره وحسن.
٤٩۔۔ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور تمہارے نزدیک اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا ہر ایک سے زیادہ محبوب ہوں اور یہ کہ تمہیں آگ میں جل جانا ہے اس سے کہیں زیادہ محبوب ہو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ اور کسی سے بھی خواہ وہ صاحب قرابت ہو اللہ ہی کے لیے محبت کرو۔ پس جب تم اس حال کو پہنچ جاؤ گے تویقینا ایمان تمہارے دل میں یوں داخل ہوجائے گا جس طرح کہ تپتے دن میں پیاسے کو پانی سے محبت ہوجاتی ہے۔ مسنداحمد بروایت ابورزین العقیلی۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ حدیث کے راوی صحابی نے حضور اکرم سے دریافت فرمایا تھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تب حضور نے مذکورہ بالاجواب مرحمت فرمایا تھا اور کیا ہی خوب فرمایا تھا۔

50

50- "أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان (1) وتحج وتعتمر وتسمع وتطيع وعليك بالعلانية وإياك والسر" (حب عن ابن عمر) أن رجلا قال يا رسول الله أوصني قال فذكره.
٥٠۔۔ تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو زکوۃ اد اکرو، رمضان کے روزے رکھو، حج اور عمرہ کروامیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اور تم ظاہر کے مکلف ہو، لہٰذا کسی کے اندرونی معاملات کی ٹوہ میں نہ پڑو۔ ابن حبان بروایت ابن عمر (رض)۔ پس منظر۔ ایک شخص نے عرض کیا تھا یارسول اللہ۔۔ مجھے نصیحت فرمائیے، تو آپ نے مذکورہ بالا بات ارشاد فرمائی تھی۔

51

51 – "هل تدرون من هذا، هذا جبريل أتاكم يعلمكم دينكم خذوا عنه والذي نفسي بيده ماشبه علي منذ أتاني قبل مرتي هذه وما عرفته حتى ولى" (حب عن ابن عمر) . الفصل الثاني في المجاز والشعب
٥١۔۔ کیا تم جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں ان کی باتوں کو محفوظ کرلو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جب سے یہ میرے پاس آناشروع ہوئے ہیں کبھی بھی مجھ پر مشتبہ نہیں ہوئے) سوائے اس مرتبہ کے اور اس مرتبہ میں نے ان کو اس وقت پہچانا جب وہ منہ موڑ کر چل پڑے۔ ابن حبان بروایت ابن عمر (رض)، حضرت جبرائیل آپ کے پاس اکثر وبیشتر حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں تشریف لاتے تھے ، اور جب بھی تشریف لاتے آپ روز روشن کی مانند ان کو جان لیتے مگر اس مرتبہ نہ پہچان سکے اور یہ وہی مشہور واقعہ ہے جس میں حضور نے مشہور حدیث جبرائیل ارشاد فرمائی تھی۔

52

52 – "الإيمان بضع وسبعون شعبه فأفضلها قول لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق والحياء شعبة من الإيمان" (م د ن هـ عن أبي هريرة) .
٥٢۔ ایمان کے ستر سے کچھ زائد حصے ہیں۔ سب سے اضل لاالہ الا اللہ اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

53

53 – "الإيمان بضع وستون شعبه والحياء شعبة من الإيمان" (خ عن أبي هريرة) .
٥٣۔۔ ایمان کے ستر سے زائد کچھ حصے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے بخاری بروایت ابوہریرہ (رض)۔

54

54 – "الإيمان أربع وستون بابا" (ت عن أبي هريرة) .
٥٤۔ ایمان کے چونسٹھ دروازے ہیں۔ ترمذی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

55

55 – "إن لله تعالى مائة خلق وسبعة عشر خلقا من أتى بخلق منها دخل الجنة" (ع هب عن عثمان) .
٥٥۔۔ اللہ تعالیٰ کے ایک سو سترہ اخلاق ہیں۔ اگر کوئی ایک اخلاق کے ساتھ بھی متصف ہوگیا جنت میں داخل ہوگا۔ مسند ابویعلی عن عثمان بن عفان (رض) ۔ حدیث ضعیف ہے۔

56

56- "الإيمان بضع وسبعون بابا. فأدناها إماطة الأذى عن الطريق وأرفعها قول لا إله إلا الله" (ت عن أبي هريرة) .
٥٦۔۔ ایمان کے ستر سے کچھ زائد دروازے ہیں اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے۔ اور سب سے اعلی لاالہ الا اللہ ہے۔ ترمذی بروایت، ابوہریرہ (رض)۔

57

57 – "الإيمان الصبر والسماحة" (ع طب في مكارم الأخلاق عن جابر) .
٥٧۔۔ ایمان صبر اور فیاضی کا نام ہے ، مسندابویعلی ، الطبرانی، فی الکبیر، فی مکارم الاخلاق بروایت جابر (رض)۔

58

58 – "الإيمان عفيف عن المحارم عفيف عن المطامع" (حل عن محمد ابن نضر الحارثي مرسلا) .
٥٨۔ ایمان حرام اشیاء اور نفسانی خواہشات سے عفت اور پاکدامنی کا نام ہے ، الحلیہ لابی نعیم بروایت محمد ابن نضر الحارثی مرسلا ۔

59

59 – "الإيمان والعمل أخوان شريكان في قرن (1) لا يقبل الله أحدهما إلا بصاحبه" (ابن شاهين في السنة عن علي) .
٥٩۔۔ ایمان اور عمل دوبھائی ہیں دونوں ایک چیز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو ایک دوسرے کے بغیر قبول نہ فرمائیں گے۔ السنۃ لابن شاھین، بروایت علی (رض)۔ اس لیے کہ جو ایمان جو تصدیق قلبی کا نام ہے عمل کے بغیر بےفائدہ ہے ، اور ایمان جو تصدیق قلبی کا نام ہے اس کے بغیر عمل کا فائدہ متصور ہی نہیں ہوسکتا۔

60

60 – "الإيمان والعمل قرينان لا يصلح واحد منهما إلا مع صاحبه" (ابن شاهين عن محمد بن علي مرسلا) .
٦٠۔۔ ایمان اور عمل دو ساتھی ہیں کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں رہ سکتا، ابن شاھین بروایت محمد بن علی مرسلا۔

61

61 – "الإيمان نصفان فنصف في الصبر ونصف في الشكر" (هب عن أنس) .
٦١۔۔ ایمان دونصف حصوں کا نام ہے نصف صبر میں ہے اور نصف شکر میں ۔ شعب الایمان للبیہقی بروایت انس (رض)۔
لوگوں کی دوقسمیں ہیں نعمت و آسائش کے پروردہ ان کے لیے شکر باعث اجر ہے۔ اور مشقت و مصیبت کے آزردہ، ان کے لیے صبر باعث اجر ہے۔

62

62 – "إذا سئل أحدكم أمؤمن هو فلا يشك في إيمانه" (طب عن عبد الله بن زيد الأنصاري) .
٦٢۔۔ جب تم میں سے کسی سے اس کے بھائی کے بارے میں پوچھا جائے کیا وہ مومن ہے ؟ تو اس کو اس کے ایمان میں شک نہ کرنا چاہیے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عبداللہ بن زید الانصاری (رض) ۔

63

63 – "أسلم المسلمين إسلاما من سلم المسلمون من لسانه ويده" (حب عن جابر) صحيح.
٦٣۔۔ سب سے سلامت اسلام والامسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ابن حبان بروایت جابر (رض) حدیث صحیح ہے۔

64

64 – "أكمل المؤمنين من سلم المؤمنون من لسانه ويده" (ك عن جابر) .
٦٤۔۔ سب سے کامل ایمان والاوہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مستدرک ، بروایت جابر (رض)

65

65 – "أشرف الإيمان أن يأمنك الناس وأشرف الإسلام أن يسلم الناس من لسانك ويدك وأشرف الهجرة أن تهجر السيئات وأشرف الجهاد أن تقتل ويعقر فرسك" (طس عن ابن عمر) رواه ابن النجار في تاريخه وزاد "وأشرف الزهد أن يسكن قلبك على مارزقت وإن أشرف ماتسأل من الله تعالى العافية في الدين والدنيا".
٦٥۔۔ سب سے اعلی ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے مامون ہوجائے اور سب سے اعلی اسلام یہ ہے کہ انسانیت تیرے ہاتھ اور تیری زبان سے محفوظ ہوجائے اور سب سے اعلی ہجرت یہ ہے کہ تم برائیوں کو چھوڑ دو اور سب سے اعلی جہاد یہ ہے کہ تم شہید ہوجاؤ اور تمہارا گھوڑا زخمی ہوجائے ۔ الطبرانی الاوسط، بروایت ابن عمر (رض)۔
ابن لنجار نے بھی اپنی تاریخ میں اس کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے اور سب سے اعلی زھد یہ ہے کہ اپنی روزی پر تمہارا دل مطمئن ہو اور سب سے اعلی دعایہ ہے کہ تم اللہ سے دین ودنیا کی عافیت کا سوال کرو۔

66

66 – " أفضل الإيمان أن تعلم أن الله معك حيث ماكنت" (طب حل عن عبادة بن الصامت) .
٦٦۔۔ سب سے افضل ایمان یہ ہے کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ الطبرانی، فی الکبیر الحلیہ لابی نعیم بروایت عبادہ بن صامت۔ مضمون حدیث بلاشبہ ایک وقیع بات پر مشتمل ہے لیکن اس کے ایک روای پر کلام کیا گیا ہے۔

67

67 – "أفضل الإيمان أن تحب لله وتبغض لله وتعمل لسانك في ذكر الله عز وجل وأن تحب للناس ماتحب لنفسك وتكره لهم ماتكره لنفسك وأن تقول خيرا أو تصمت" (طب عن معاذ بن جبل) .
٦٧۔۔ ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ تم اللہ عزوجل ہی کے لیے محبت کرو اللہ کے لیے نفرت کرو، اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں رطب للسان رکھو، اور جو چیز اپنے لیے پسند کرو اور دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرو، اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرو دوسروں کے لیے بھی وہ ناپسند کرو اور اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو۔ الکبیر للطبرانی، بروایت معاذ بن جبل (رض)۔

68

68 – "خمس من الإيمان من لم يكن فيه شيء منهن فلا إيمان له التسليم لأمر الله والرضاء بقضاء الله والتفويض إلى الله والتوكل على الله والصبر عند الصدمة الأولى" (البزار عن ابن عمر) .
٦٨۔۔ ایمان کی پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان ہی نہیں حکم الٰہی کے آگے سرتسلیم خم کرنا فیصلہ الٰہی پر راضی برضا رہنا، اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنا، اللہ پر بھروسہ کرنا مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔ البزار بروایت ابن عمر (رض) ۔ عدم ایمان سے کلیہ ایمان کی نفی نہیں ہے بلکہ ایمان کامل کی نفی ہے اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا یہ فرمان رسول اللہ ایک عورت کو صبر کی تلقین کے وقت بھی ارشاد ہوا تھا،جس کے متعلق علامہ ابن حجر فرماتے ہیں روایۃ الاحکام اور مسلم میں محض صدمہ کا ذکر ہے اس صورت میں ہر مرتبہ صدمہ کے تازہ ہونے پر اجر ہوگا، لیکن کامل اجر پہلے صدمہ کے وقت ہی ہوگا۔

69

69 – "ذروة الإيمان أربع خصال الصبر للحكم والرضاء بالقدر والإخلاص للتوكل والاستسلام للرب" (حل ص عن أبي الدرداء) .
٦٩۔۔ ایمان کی بلندی چار باتوں میں ہے حکم الہی پر صبر کرنا ، تقدیر پر راضی رہنا، اخلاص کے ساتھ اللہ پر توکل کرنا اور پروردگار کا فرمان بردار رہنا۔ الحلیہ لابی نعیم، سنن سعید ، ابن منصور، بروایت ابولداردائ۔

70

70 – "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين" (حم ق ن هـ عن أنس) .
٧٠۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے نزدیک میری ذات اس کی اولاد اس کے والد اور تمام انسانیت سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے۔ مسنداحمد بخاری مسلم نسائی، ابن ماجہ، بروایت انس (رض)۔ ایمان کی نفی سے کمال ایمان کی نفی مراد ہے۔

71

71- "والذي نفسي بيده لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب الناس إليه من والده وولده" (حم خ ع عن أبي هريرة) .
٧١۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے نزدیک میری ذات اس کی اولاد اور اس کے والد سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے ۔ مسنداحمد ، بخاری، مسندابی یعلی، بروایت ابوہریرہ (رض) ۔

72

72 – "ثلاث من كن فيه ذاق طعم الإيمان من كان لا شيء أحب إليه من الله ورسوله ومن كان لأن يحرق بالنار أحب إليه من أن يرتد عن دينه ومن كان يحب لله ويبغض لله" (سمويه طب عن أنس) .
٧٢۔۔ جس شخص میں تین باتیں ہوں گی یقیناً ایمان کا ذائقہ چکھے گا، اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ کوئی چیز اس کو محبوب نہیں ہو، اپنے دین سے پھرنے کی بجائے آگ میں جل جانا اس کو محبوب ہو۔ اور کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے اور نفرت کرے تو اللہ کے لیے ۔ سمویہ ، لکبیر للطبرانی، بروایت انس (رض)۔

73

73 - الإكمال – "أفضل الإيمان أن تحب لله وتبغض لله وتعمل لسانك في ذكر الله" ابن مندة (عن إياس ابن سهل لجهني) .
٧٣۔۔ الاکمال ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ تم اللہ ہی کے لیے محبت کرو، اور اللہ عزوجل ہی کے لیے نفرت کرو اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں رطب للسان رکھو۔ ابن مندہ ، عباس بن سھل الجھنی۔

74

74 – "أفضل الإيمان الصبر والسماحة" (خ في التاريخ من حديث عبيد بن عمير عن أبيه) (الديلمي عن معقل بن يسار) .
٧٤۔۔ افضل ایمان صبر اور فیاضی کا نام ہے۔ التاریخ للبخاری، من حدیث عبدین عمیر عن ابیہ، الدیلمی، عن معقل بن یسار۔

75

75 – "أفضل الإيمان خلق حسن" (طب عن عمرو بن عبسة) .
٧٥۔۔ افضل ایمان اچھا اخلاق ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمروبن عبسہ۔

76

76 – "أفضل الإسلام من سلم المسلمون من لسانه ويده" (خ م ت ن طب عن أبي موسى) (طب عن عمرو بن عبسة) (ط والدارمي وعبد بن حميد ع طس طص عن جابر) (طب ق عن ابن عمر) .
٧٦۔۔ افضل اسلام والاوہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفو ظ رہے۔ بخاری ، مسلم، ترمذی، نسائی، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابوموسی (رض) الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمرو بن عبسہ، ابوداود الطیالسی، الدارمی، عبد بن حمید، مسند ابی یعلی، الطبرانی فی الاوسط، والصغیر، بروایت جابر (رض) الطراسی فی الکبیر، بخاری و مسلم ، بروایت ابن عمر (رض)۔

77

77 – "أفضل الإسلام من سلم المسلمون من لسانه ويده وأكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا وأفضل الصلاة طول القنوت وأفضل الصدقة جهد المقل" (ابن نصر عن جابر) .
٧٧۔۔ افضل اسلام والا وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور سب سے کامل ایمان والاشخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور سب سے اچھی نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو۔ اور سب سے افضل صدقہ تنگدست شخص کا ہے۔ ابن نصیر بروایت جابر (رض)۔

78

78 – "إن لله مائة وسبعة عشر شريعة من وافاه بخلق منها دخل الجنة" (بز عن عثمان) .
٦٨۔ اللہ کے ایک سوسترہ اخلاق ہیں اگر کوئی ایک اخلاق کے ساتھ بھی متصف ہوگیا جنت میں داخل ہوگیا۔ ابوحامد بروایت عثمان (رض) ۔ حدیث ضعیف ہے۔

79

79 – "إن لله مائه خلق وسبعة عشر خلقا فمن أتاه بخلق واحد منها دخل الجنة" (ط والحكيم ع عن عثمان) وضعف.
٧٩۔۔ اللہ کے ایک سوسترہ اخلاق ہیں اگر کوئی ایک اخلاق کے ساتھ بھی متصف ہوگیا جنت میں داخل ہوگیا۔ ابوداؤد الطیالسی، الحکیم، مسندابی یعلی، بروایت عثمان (رض) ۔ یہ حدیث ضعیف ہے بحوالہ کلام بالا۔

80

80 – "إن لله عز وجل لوحا من زبرجد أخضر جعله تحت العرش كتب فيه أني أنا الله لا إله إلا أنا أرحم الراحمين خلقت بضعة عشر وثلثمائة خلق من جاء بخلق منها مع شهادة أن لا إله إلا الله دخل الجنة" (طس وأبوالشيخ في العظمة عن أنس) وضعف.
٨٠۔۔ اللہ عزوجل کی ایک سبز برجد کی لوح مبار ہے جو عرش کے نیچے رکھی ہے جس میں لکھا ہوا ہے۔ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہوں میں نے تین سودس سے کچھ اوپرخلق پیدا کیے جو ان میں سے کوئی ایک خلق کے ساتھ اور لاالہ الا اللہ کی شہادت کے ساتھ آئے گا جنت میں داخل ہوگا۔ الطبرانی، فی الاوسط، وابوشیخ فی العظمہ، بروایت انس (رض)۔

81

81 – "إن لله تعالى ثلثمائة وخمس عشر شريعة يقول الرحمن وعزتي لا يأتيني عبد من عبادي لا يشرك بي شيئا بواحدة منهن إلا أدخلته الجنة" (الحكيم عن أبي سعيد) .
٨١۔۔ اللہ کے تین سوپندرہ اوصاف ہیں۔ اور رحمن کی ذات فرماتی ہے میری عزت کی قسم میرا کوئی بندہ میرے پاس اس حال میں آئے کہ ان اوصاف میں میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو تو اس کو جنت میں ضرور داخل کروں گا۔ الحکیم بروایت ابوسعید۔

82

82 – "إن بين يدي الرحمن لوحا فيه ثلثمائة وخمس عشر شريعة يقول الرحمن وعزتي وجلالي لا يأتي عبد من عبادي لا يشرك بي شيئا فيه واحدة منها إلا دخل الجنة" (عبد بن حميد عن أبي سعيد) ضعف.
٨٢۔۔ رحمن عزوجل کے سامنے ایک لوح مبارک ہے جس میں تین سوپندرہ اوصاف ہیں رحمن فرماتے ہیں میری عزت و جلال کی قسم میرا کوئی بندہ ان اوصاف میں میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہوا آئے تو وہ یقیناً جنت میں داخل ہوگا۔ عبد بن حمید بروایت ابوسعید۔

83

83 – "الإيمان ثلثمائة وثلاثون شريعة من وافى شريعة (1) منها دخل الجنة" (طس طب حب (2) وابن النجار عن المغيرة بن عبد الرحمن بن عبيد عن أبيه عن جده) وضعف.
٨٣۔۔ ایمان تین سو تیس اوصاف کا نام ہے اگر کوئی ایک کے ساتھ بھی متصف ہوگا تو جنت میں داخل ہوگا۔ الطبرانی فی الکبیر، والاوسط، ابن حبان، ابن النجار، بروایت المغیرہ بن عبدالرحمن بن عبید عن ابیہ عن جدہ۔

84

84 – "الإيمان سبعون أو اثنان وسبعون بابا أرفعه لا إله إلا الله وأدناه إماطة الأذى عن الطريق والحياء شعبة من الإيمان" (حب عنه) .
٨٤۔۔ ایمان کے ستر یا بہتر دروازے ہیں سب سے اعلی لاالہ الا اللہ ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے ابن حبان، بروایت المغیرہ بن عبدالرحمن بن عبید عن ابیہ عن جدہ وضعف۔

85

85 – "إن الرجل لا يكون مؤمنا حتى يكون قلبه مع لسانه سواء ويكون لسانه مع قلبه سواء ولايخالف قوله عمله ويأمن جاره بوائقه" (ابن بلال في مكارم الأخلاق) .
٨٥۔۔ آدمی مومن ہوسکتا۔۔ حتی کہ اس کا دل اس کی زبان کے برابرنہ ہوجائے اور اس کی زبان دل کے برابر نہ ہوجائے اور اس کا عمل اس کے قول کی مخالفت نہ کرے۔ اور اس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ ہوجائے ابن بلال فی مکارم الاخلاق۔

86

86 – "الإيمان في قلب الرجل يحب الله عز وجل" (الديلمي وابن النجار عن أبي هريرة) .
٨٦۔۔ یقیناً ایمان اسی شخص کے دل میں ٹھہرتا ہے جو اللہ عزوجل سے محبت رکھتا ہے۔ الدیلمی، ابن النجار، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

87

87 – "الإيمان عريان وزينته الحياء ولباسه التقوى وماله الفقه" (ابن النجار عن أبي هريرة) (الخرائطي في مكارم الأخلاق عن وهب (ابن منبه) معروف
٨٧۔۔ ایمان مجرد ہے اس کی زینت حیا ہے اس کالباس تقوی ہے اس کا سرمایہ عفت ہے۔ ابن النجار بروایت ابوہریرہ (رض) الخرایظی فی مکارم الاخلاق بروایت وھب ابن منبہ ۔

88

88 – "ثلاث من الإيمان الإنفاق في الإقتار وبذل السلام للعالم والإنصاف من نفسك" (بز طب عن عمار) ورجح بز وقفه
٨٨۔۔ تین چیزیں ایمان سے تعلق رکھتی ہیں تنگدستی میں خرچ کرنا عالم کو سلام کرنا اور اپنے نفس سے انصاف کرنا۔ ابوحامد ، الطبرانی، فی الکبیر، بروایت عمار رضیا للہ عنہ۔ بزار نے اس کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔

89

89 – "ثلاث خلال من جمعهن فقد جمع خلال الإيمان الانفاق من الاقتار والانصاف من نفسك وبذل السلام للعالم" (حل عن عمار) .
٨٩۔۔ تین خصلتوں کو جس نے جمع کرلیا بلاشبہ اس نے ایمان کی خصلتوں کو جمع کرلیا، تنگدستی میں خرچ کرنا، اپنے نفس سے انصاف کرنا، اور عالم کو سلام کرنا۔ الحلیہ بروایت عمار رضی الہ عنہ۔ خرچ کرنے کا مصرف عام ہے خواہ اہل و عیال پر کیا جائے یا کسی مفلس تنگدست پر۔ علامہ نووی فرماتے ہیں یہاں اگر عالم کو سلام کی تاکید ہے تو دوسرے مقام پر آیا ہے کہ سلام کروہر مسلمان شخص کو خواہ اس سے تعارف ہو یا نہیں ، اور سلام کو خوب رواج دو ۔ اور یہی چیز باہمی فسادات کا قلع قمع کرنے والی بھی ہے۔
اور اپنے نفس سے انصاف کرو، اس ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات سے جو حقوق متعلق ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی مت کرو خواہ خالق خداوندی کے حقوق ہوں یابندگان خالق کے سب کو بکمالہ ادا کرو۔ اور اپنے نفوس پر زائد از طاقت بوجھ ڈالنے سے بھی گریز کرو نیز اپنے لیے ایسے دعوی نہ کرو جس کے تم حامل نہیں۔

90

90 – "من أحب لله وأبغض لله وأعطى لله ومنع لله فقد استكمل الإيمان" (حم عن معاذ بن أنس) .
٩٠۔۔ جس نے اللہ عزوجل کے لیے محبت کی اللہ کے لیے نفرت کی اللہ کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے ہی منع کیا تویقینا اس نے ایمان مکمل کرلیا۔ مسنداحمد بروایت معاذ بن انس۔

91

91 – "والله لا يكون أحدكم مؤمنا حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده" (ك عن فاطمة بنت عتبة) .
٩١۔ قسم ہے اللہ کی۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے نزدیک میری ذات، اس کی اولاد اس کے والد سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے مستدرک بروایت فاطمہ بن عتبہ۔

92

92 – "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من نفسه" (حم عن عبد الله بن هشام) .
٩٢۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے نزدیک میری ذات ہے اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے۔ مسند احمد ، بروایت عبداللہ بن ھناد۔

93

93 – "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من نفسه، وأهلي أحب إليه من أهله، وعترتي أحب إليه من عترته، وذريتي أحب إليه من ذريته" (طب هب عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أبيه) .
٩٣۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کے نزدیک میری ذات اس کی ذات سے اور میرے اہل اس کے اہل سے اور میرا خاندان اس کے خاندان سے اور میری آل اس کی آل سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے۔ الطبرانی فی الکبیر، شعب الایمان، للبیقی ، بروایت عبدالرحمن بن ابی لیلی عن ابیہ۔

94

94 – "لا يؤمن أحدكم حتى يحب المرء لا يحبه إلا لله" (حم عن أنس) .
٩٤۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اللہ ہی کے لیے محبت نہ کرنے والابن جائے۔ مسنداحمد بروایت انس (رض)۔

95

95 – "لا يؤمن عبد حتى يحب للناس مايحب لنفسه من الخير" (الخرايطي في مكارم الأخلاق عن أنس) .
95 ۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جو تک وہ لوگوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ((الخرايطي في مکارم الأخلاق عن أنس) .

96

96 – "لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه مايحب لنفسه والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، لا يؤمن أحدكم حتى يأمن جاره شره" (ابن عساكر عن اسيد بن عبد الله بن زيد القسري عن أبيه عن جده) .
٩٦۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا پڑؤسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوجائے۔ ابن عساکر بروایت سید بن عبداللہ بن زید القسری عن ابیہ عن جدہ۔

97

97 – "لا يؤمن عبد حتى يكون لسانه وقلبه سواء وحتى يأمن جاره بوائقه ولايخالف قوله فعله" (ابن النجار عن أنس) .
٩٧۔۔ بندہ اس وقت تک مشرف باایمان نہیں ہوسکتا، تاوقتیکہ اس کی زبان اور دل یکساں نہ ہوجائیں اور جب تک اس کا پڑوسی اس کی تکالیف سے محفوظ نہ ہوجائے اور اس کا عمل اس کے قول کی مخالفت نہ کرے۔ ابن النجار بروایت انس (رض)۔

98

98 – "لا يجد العبد صريح الإيمان حتى يحب ويبغض لله فإذا أحب لله وأبغض لله فقد استحق الولاية من الله وإن أولياي من عبادي وأحباي من خلقي الذين يذكرون بذكري وأذكر بذكرهم" (طب عن ابن عمرو بن الحمق) .
٩٨۔۔ بندہ اچھی طرح ایمان کو اس وقت تک نہیں پاسکتا، جب تک کہ اس کی محبت ونفرت اللہ ہی کے لیے نہ ہوجائے پس جب وہ اللہ ہی کے لیے محبت ونفرت کرنے لگے تو وہ اللہ عزوجل کی جانب سے ولایت کا مستحق ہوگیا اور میرے بندوں میں سے میرے اولیا میری مخلوق میں سب سے میرے محبوب بندے وہ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں انکاذکر کرتا ہوں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمرو بن الحمق۔

99

99 – "لا يحق العبد حقيقة الإيمان حتى يغضب لله ويرضى لله فإذا فعل ذلك فقد استحق حقيقة الإيمان وإنما أحباي وأولياي الذين يذكرون بذكري وأذكر بذكرهم" (طس عن محمد بن عمرو بن الحمق) *وضعف
٩٩۔۔ بندہ ایمان کی حقیقت اس وقت تک حق دار نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا غصہ اور ناراضگی اللہ کے لیے نہ ہوجائے پس جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو وہ ایمان کی حقیقت کا مستحق ہوجاتا ہے ، اور میرے محبوب اور میرے اولیاء وہ لوگ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ الطبرانی فی الاوسط بروایت عمرو بن الحمق۔

100

100 – " لا يحق العبد حق صريح الإيمان حتى يحب لله ويغضب فإذا أحب لله وأبغض فقد استحق الولاية من الله تعالى فإن أولياي من عبادي وأحباي من خلقي الذين يذكرون بذكري وأذكر بذكرهم" (حم عن ابن عمر بن الحمق) .
١٠٠۔۔ بندہ کامل طرح ایمان کا حقدار اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی محبت ونفرت اللہ ہی کے لیے نہ ہوجائے پس جب وہ اللہ ہی کے لیے محبت ونفرت کرنے لگے تو وہ اللہ کی جانب سے ولایت کا مستحق ہوگیا، اور میرے بندوں میں سے میرے اولیاء اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب بندے وہ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ مسنداحمد بروایت عمرو بن الحمق۔

101

101 – "لا يبلغ العبد حقيقة الإيمان حتى يحب للناس مايحب لنفسه من الخير" (ع حب ص عن أنس) .
١٠١۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی وہی بھلائی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ مسندابی یعلی ، ابن حبان، سنن سعید، ابن منصور، بروایت انس (رض)۔

102

102 – "لا يبلغ العبد حقيقة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه" (س وحسنه طب كر عن أبي الدرداء) .
١٠٢۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ یہ یقین نہ کرلے کہ جو مصیبت اس کو پہنچی ہے وہ چوک جانے والی نہ تھی، اور جو نہیں پہنچی وہ پہنچنے والی نہ تھی، الطبرانی فی الکبیر، ابن عساکر، بروایت ابوالدرداء (رض) ۔

103

103 – " لكل شيء حقيقة ومايبلغ العبد حقيقة الإيمان حتى يحب للناس مايحب لنفسه وحتى يأمن جاره من بوائقه" (كر عن ابن عمر) .
١٠٣۔۔ ہرچیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی وہی بھلائی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جب تک کہ اس کا پڑؤسی اس کی ایذا رسانیوں سے مامون نہ ہوجائے۔ ابن عساکر ، بروایت ابن عمر (رض)۔

104

104 – "لا يبلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يحب للناس مايحب لنفسه" (ابن جرير عن ابن عمر) .
١٠٤۔ کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی وہی بھلائی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ ابن جریر بروایت ابن عمرو (رض) ۔

105

105 – " أوثق عرى الإسلام أن تحب في الله وتبغض في الله" (ابن أبي الدنيا في كتاب الإخوان عن البراء) .
١٠٥۔۔ اسلام کو آراستہ کرو، اس طرح کہ تم اللہ کے لیے ہی محبت کرو اور للہ کے لیے ہی نفرت کرو۔ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاخوان بروایت المورج۔

106

106 – "لا يستكمل عبد الإيمان حتى يحب لأخيه مايحب لنفسه وحتى يخاف الله في مزاحه وجده" (أبو نعيم في المعرفة عن أبي مليكة الداري (1)
١٠٦۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کو مکمل نہیں کرسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہیا ورجب تک اپنے مذاق اور سنجیدہ پن میں بھی اللہ سے نہ ڈرے۔ المعرفۃ لابی نعیم بروایت ابی ملیکہ الدارمی۔

107

107- "لايستكمل العبد الإيمان حتى يكون فيه ثلاث خصال الانفاق في الاقتار والانصاف من نفسه وبذل السلام" (الخرائطي في مكارم الأخلاق عن عمار بن ياسر) الديلمي عن أنس.
107 ۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کو مکمل نہیں کرسکتا، جب تک کہ اس میں تین خصلتیں نہ پیدا ہوجائیں تنگدستی میں خرچ کرنا اپنے نفس سے انصاف کرنا، اور سلام کرنا، الخرائطی فی مکارم الاخلاق ، بروایت عمار بن یاسر، الدیلمی بروایت انس (رض)۔

108

108 – "تطعم الطعام وتقري السلام على من عرفت ومن لم تعرف" (حم خ م د ن هـ عن ابن عمر) "إن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أي الإسلام خير قال" فذكره.
١٠٨۔۔ کھانا کھلاؤ اور ہر ایک کو سلام کروخواہ جان پہچان ہو یا نہیں۔ احمد بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بروایت ابن عمرو (رض) ۔
اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا تھا کہ اسلام میں کیا چیز بہتر ہے ، آپ نے ان کو مذکورہ بالاجواب ارشاد فرمایا تھا۔

109

109 – "إن الله سيخلص رجلا من أمتي على رؤوس الخلائق يوم القيامة فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا كل سجل مثل مد البصر ثم يقول أتنكر من هذا شيئا أظلمك كتبتي الحافظون فيقول لا يا رب فيقول أفلك عذر فيقول لا يا رب فيقول بلى إن لك عندنا حسنة وإنه لا ظلم عليك اليوم فتخرج بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فيقول أحضر وزنك فيقول يا رب ماهذه البطاقة مع هذه السجلات فيقال فإنك لا تظلم فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة فطاشت السجلات وثقلت البطاقة ولايثقل مع اسم الله تعالى شيء" (حم ت ك هب عن ابن عمر) .
١٠٩۔۔ اللہ عزوجل قیامت کے روز امت کے ایک فرد کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے پھر اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے پیش ہوں گے ہر دفتر انتہانظر تک پھیلاہوگا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے ؟ شاید نامہ اعمال لکھنے والے محافظ فرشتوں نے کچھ ظلم کردیاہو، وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کیا تیرے پاس ان کا کوئی عذر ہے وہ عرض کرے گایا پروردگار نہیں۔ پھر للہ اس سے فرمائیں گے لیکن ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے اور آج کے دن تجھ پر ظلم کوئی نہیں ہوگا، پھر ایک کاغذ کا ٹکڑانکلا جائے گا، جس میں اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ وردولہ، درج ہوگا، اللہ فرمائیں گے جا اس کو وزن کرالے۔ بندہ عرض کرے گا پروردگار اتنے عظیم دفتروں کے مقابلے میں یہ اتنا ساپرزہ کیا کرے گا ؟ کہا جائے گا کہ آج کے دن پر تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا، اور پھر تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں اور اس کاغذ کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا، اور کاغذ والاپلڑا اس قدر وزنی ہوگا کہ وہ تمام دفتر اڑتے پھریں گے بیشک اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔ مسنداحمد مستدرک ، شعب الایمان بروایت ابن عمرو (رض) ۔

110

110 – "يصاح برجل من أمتي يوم القيامة على رؤوس الخلائق فينشر له تسعة وتسعون سجلا كل سجل مد البصر ثم يقول الله تبارك وتعالى هل تنكر من هذا شيئا فيقول لا يا رب فيقول أظلمك كتبتي الحافظون فيقول لا يا رب ثم يقول ألك عذر ألك حسنة فيهاب الرجل فيقول لا فيقول بلى إن لك عندنا حسنة وإنه لا ظلم عليك اليوم فتخرج له بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فيقول يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات فيقول إنك لا تظلم فتوضع السجلات في كفة فطاشت السجلات وثقلت البطاقة " (خ ك عن ابن عمرو) .
١١٠۔۔ قیامت کے روز میری امت کے ایک فرد کو بلایا جائے گا، پھر اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے ہر دفتر انتہا نظر تک پھیلاہوگا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تو ان میں سے کسی کا انکار کرتا ہے تو وہ کہے گا نہیں پر اللہ اس سے فرمائیں گے شاید نامہ اعمال لکھنے والے محافظ فرشتوں نے کچھ ظلم کردیاہو، وہ عرض کرے گا نہیں، پھر اللہ اس سے فرمائیں کیا تیرے پاس کوئی ان کا عذر ہے یا تیرے پاس کوئی نیکی ہے آدمی خوفزدہ ہو کر عرض کرے گا نہیں، پھر اللہ اس سے فرمائیں گے لیکن ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے اور آج کے دن پر تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک کاغذ کا ٹکڑا لایا جائے گا جس میں جس میں اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ وردولہ، درج ہوگا، اللہ فرمائیں گے جا اس کو وزن کرالے۔ بندہ عرض کرے گا پروردگار اتنے عظیم دفتروں کے مقابلے میں یہ اتنا سا پرزہ کیا کرے گا ؟ کہا جائے گا کہ آج کے دن پر تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا، اور پھر تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں اور اس کاغذ کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا، اور کاغذ والاپلڑا اس قدر وزنی ہوگا کہ وہ تمام دفتر اڑتے پھریں گے بیشک اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔ بخاری، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمرو۔

111

111 – "أذن في الناس أن من شهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له مخلصا دخل الجنة " (ع عن عمر) .
١١١۔۔ لوگوں کو یہ مژدہ سنادو کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہایکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ شخص جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسندابی یعلی ، بروایت عمر (رض)۔

112

112 – "اذهب بنعلي هاتين فمن لقيت من وراء هذا الحائط يشهد أن لا إله إلا الله مستيقنا بها قلبه فبشره بالجنة" (م عن أبي هريرة) .
١١٢۔۔ اے ابوہریرہ بطور نشانی میرے یہ دوجوتے لے جاؤ اور اس دیوار کے پیچھے جو بھی ایساشخص ملے وہ دل کے یقین کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو تو اس کو جنت کی خوش خبری سنادو۔ مسلم، بروایت ابوہریرہ۔

113

113 – "يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس: لا يدخل الجنة إلا المؤمنون" (حم م عن عمر) .
١١٣۔ اے ابن خطاب جاؤ لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت میں مومنین کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔ مسنداحمد مسلم، بروایت عمر (رض)۔

114

114 – "يا ابن عوف اركب فرسك ثم ناد: إن الجنة لا تحل إلا لمؤمن" (د عن العرباض) .
١١٤۔۔ اے ابن عوف۔ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ اور لوگوں میں اعلان کردو کہ مومن کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ابوداؤد بروایت العرباض۔

115

115 – "يا بلال قم فأذن لا يدخل الجنة إلا مؤمن وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر" (خ عن أبي هريرة) .
١١٥۔۔ اے بلال کھڑے ہو اور لوگوں میں اعلان کردو کہ مومن کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کسی فاسق شخص کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کروالیتے ہیں بخاری ، بروایت ابوہریرہ۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم غزوہ خیبر میں بغرض جہاد حضور کے ہمراہ تھے ایک شخص جو اسلام کا دعویددار تھا آپ نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جہنمی ہے پھر جب جنگ کا بازار گرم ہوا تو اس شخص نے اسلام کی حمایت میں خوب شدت کے ساتھ جنگ کی حتی کہ اس کا کاری زخم لگا، اس شخص کی اسلام کی راہ میں جانفشانی دیکھ کر صحابہ کو تعجب کا سامنا ہوا۔ آخر بارگاہ نبوت میں سوال کیا گیا یارسول اللہ جس شخص کے متعلق آپ نے جہنمی ہونے کا حکم عائد فرمایا اس نے تو راہ خدا میں اپنی جان کی بازی لگادی، لیکن آپ اپنی رائے مبارک پر قائم رہے انجام کار اس شخص نے جنگ کے زخم سے عاجز آکر خود کشی کرلی۔ اور یہ خبر بارگاہ رسالت میں پہنچی تو آپ نے حضرت بلال کو حکم فرمایا اے بلال کھڑے ہو اور لوگوں میں اعلان کروادو کہ مومن کے سوا کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور للہ کسی فاسق شخص کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کروالیتے ہیں۔

116

116 – "أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقاني بهما عبد غير شاك فيهما إلا دخل الجنة"(حم م عن أبي هريرة) .
١١٦۔۔ جو شخص لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے ساتھ مجھ سے اس طرح ملے کہ اس میں کچھ شک نہ کرتا ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ مسنداحمد مسلم، بروایت ابوہریرہ۔

117

117 – "إني لأعلم كلمة لا يقولها عبد عند موته إلا كانت نورا لصحيفته وإن جسده وروحه ليجدان لها روحا عند الموت" (ن هـ حب عن طلحة) .
١١٧۔ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں جو بندہ موت کے وقت اس کو کہہ لیتا ہے ۔۔ وہ کلمہ اس کے اعمال ناموں کے لیے نور بن جاتا ہے اور اس کا جسم اور روح موت کے وقت اس کلمہ کی وجہ سے خوشی اور تروتازگی پاتے ہیں۔ نسائی، ابن ماجہ، الصحیح لابن حبان، بروایت طلحہ (رض) ۔

118

118 – "بشر الناس أنه من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له وجبت له الجنة" (ن عن سهل بن حنيف وعن زيد بن خالد الجهني) .
١١٨۔۔ لوگوں کو خوش خبری سنادو کہ جس نے لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ نسائی ، بروایت سھل بن حنیف۔ وبروایت زید بن خالد جھنی۔

119

119 – "لن يوافى عبد يوم القيامة يقول لا إله إلا الله يبتغي بها وجه الله إلا حرم الله عليه النار" (حم خ عن عتبان بن مالك) .
١١٩۔۔ ہرگز کوئی بندہ قیامت کے روز اللہ کی رضاء کے لیے لاالہ الاللہ کہتا ہوانہ آئے گا مگر اللہ اس پر جہنم کی آگ حرام فرمادیں گے ۔ مسنداحمد ، بخاری، بروایت عتبان بن مالک۔

120

120 – "ما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة وإن زنى وإن سرق وإن زنى وإن سرق وإن زنى وإن سرق وان رغم أنف أبي ذر" (حم ق هـ عن أبي ذر) .
٢٠۔۔ کسی بھی بندہ نے لاالہ الا اللہ کا اقرار نہیں کیا۔۔ پھر اسی پر مرگیا مگر وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا خواہ اس نے چوری کی ہو یازناکیاہو، خو اس نے چوری نہ کی ہو، اور زنا کیا ہو۔ خواہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ مسنداحمد بخاری، مسلم، ابن ماجہ، بروایت ابوذر (رض)۔ یہ مضمون مختلف احادیث میں آیا ہے علامہ ابن حجر حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ امام بخاری (رح) کے نزدیک حدیث میں ایساشخص مراد ہے جو قبل از وفات توبہ تائب ہوجائے۔ اور دیگرمحدثین کے نزدیک حدیث عموم پر محمول ہے کہ دخول جنت عام ہے خواہ اول وہلہ میں ہوجائے یا اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد۔

121

121 – "ذروا العارفين المحدثين من أمتي لا تنزلوهم الجنة ولا النار حتى يكون الله الذي يقضي فيهم يوم القيامة" (خط عن علي) .
١٢١۔۔ چھوڑو۔۔۔ میری امت کے عارفین محدثین کونہ تم ان کو جنت میں پہنچاسکتے نہ جہنم میں۔ بس ان کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے روز فرمائیں گے ۔ خطیب۔ بروایت علی (رض)۔
محدثین دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ مراد وہ خالصان خدا ہیں جن کے دلوں میں ملااعلی کی طرف سے الہام والقا کیا جاتا ہے مراد ایسے مجذوب اور مغلوب الحال افراد ہیں جن سے بسا اوقات خلاف شرع امور مشاہدہ میں آتے ہوں تو تم ایسے افراد سے تعرض نہ کرو، اور نہ ان پر کسی قسم کا حکم عائد کرو۔۔ بلکہ ان کا معاملہ خدا کے سپرد کرو۔

122

122 – "ما من نفس تموت وهي تشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله يرجع ذلك إلى قلب موقن إلا غفر الله له" (حم ن هـ حب عن معاذ) .
١٢٢۔۔ ایسا کوئی نفس نہیں جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ، کی شہادت دیتاہو اور دل کے یقین کے ساتھ اس کی گواہی دیتاہو مگر اللہ اس کی مغفرت فرمادیں گے ۔ مسنداحمد، نسائی، ابن ماجہ، الصحیح لابن حبان بروایت معاذ (رض)۔

123

123 – "من مات وهو يعلم أن لا إله إلا الله دخل الجنة" (حم م عن عثمان) .
١٢٣۔۔ کسی بھی بندہ نے لاالہ الا اللہ کا اقرار نہیں کیا پھر اسی پر مرگیا مگر وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، مسنداحمد، مسلم ، بروایت عثمان (رض) ۔

124

124 – "لا يشهد أحد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فيدخل النار أوتطعمه" (م عن عتبان بن مالك) .
١٢٤۔۔ ایسا کوئی شخص نہیں جو لاالہ الاالہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہو پھر وہ جہنم میں داخل ہوجائے گایا جہنم کی آگ اس کو جلادے ۔ مسلم، بروایت عتبان بن مالک۔

125

125 – "يا معاذ بن جبل ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله أفلا أخبر الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا" (حم ق عن أنس) .
١٢٥۔۔ اے معاذ بن جبل ! ایسا کوئی بندہ نہیں جو دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو مگر اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام فرمادیں گے ۔ حضرت معاذ نے عرض کیا یارسول اللہ، کیا میں لوگوں کو اطلاع نہ دے دوں ؟ ان کو خوشخبری مل جائے گی ؟ آپ نے فرمایا نہیں تب تو وہ بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے ۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، بروایت انس (رض)۔

126

126 – "يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير مايزن شعيرة ثم يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير مايزن برة ثم يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير مايزن ذرة" (حم ق ن عن أنس) .
١٢٦۔۔ جہنم سے ہراس شخص کو نکال لیا جائے گا جس نے لاالہ الاللہ کا اقرار کیا ہو اور اس کے دل میں جو کے وزن برابر بھی خیر ہو۔ اور پھر ہراس شخص کو نکالا جائے گا جس نے لاالہ الا اللہ کا اقرار کیا ہو اس کے دل میں گندم کے وزن برابر بھی خیرہو۔ اور پھر ہراس شخص کو بھی نکال لیا جائے گا جس نے لاالہ اللہ کا اقرار کیا ہو اور اس کے دل میں مکئی کے دانے کے وزن کے برابر بھی خیرہو۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، نسائی، بروایت انس (رض)۔

127

127 – "قال الله تعالى أنا الله لا إله إلا أنا من أقر لي بالتوحيد دخل حصني ومن دخل حصني أمن من عذابي" (الشيرازي عن علي) .
١٢٧۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں جس شخص نے بھی میری توحید کا اقرار کیا۔۔ وہ میرے قلعہ میں داخل (رح) ہوگیا، اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو، اور وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔ الشیرازی، بروایت علی (رض)۔
حدیث معنی عمدہ کلام پر مشتمل ہے ، امام رازی اس کے رموز و اسرار بیان کرتے ہوئے، فرماتے ہوئے، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، میں چوبیس حروف ہیں، دن رات میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص دن رات میں کسی وقت ان کلمات کو کہہ لے گا، اللہ تعالیٰ اس کے دن رات کے تمام گناہ معاف فرمادیں گے ۔ اور لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں سات کلمات ہیں اور جہنم کے بھی سات باب ہیں، لہٰذا جو اس کلمہ کو سچے دل سے کہہ لے گا، اور اس پر جہنم کے ساتوں باب بند فرمادے گا۔

128

128 – "ليس على أهل لا إله إلا الله وحشة في الموت ولا في القبر (1) ولا في النشور كأني أنظر إليهم عند الصيحة ينفضون رؤوسهم من التراب يقولون الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن" (طب عن ابن عمر) .
١٢٨۔۔ لاالہ الا اللہ ، والوں پر موت میں، وحشت ہوگی، نہ قبر میں۔ اور نہ ہی دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت کوئی وحشت ہوگی، گویا اب میں صور پھونکنے کے وقت ان کی طرف دیکھ رہاہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے یہ پڑھ رہے ہیں !۔۔ الحمدللہ الذی اذھب عناالحزن ، الکبیر للطبرانی (رح) بروایت ابن عمرو (رض) ۔

129

129 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله حرم الله عليه النار" (حم م ت عن عبادة) .
١٢٩۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام فرمادیں گے۔ مسنداحمد، مسلم، ترمذی، بروایت عبادہ (رض) ۔

130

130 – " من شهد أن لا إله إلا الله دخل الجنة" (البزار عن عمر) .
١٣٠۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کو شہادت دی ، وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، مسند البزار ، بروایت عمرو (رض) ۔

131

131 – "أبشروا وبشروا من وراءكم من شهد أن لا إله إلا الله صادقا بها دخل الجنة" (حم طب عن أبي موسى) .
١٣١۔۔ خوش خبری ، سنوا اور اپنے گردوپیش لوگوں کو بھی سنادو، جس شخص نے دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الللہ کی شہادت دی، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ مسنداحمد، الکبیر، للطبرانی، بروایت ابوموسی (رض) ۔

132

132 – "أخرج فنادي في الناس من قال لا إله إلا الله وجبت له الجنة" (ع عن أبي بكر) .
١٣٢۔۔ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر عو کہ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کہا اس کے لیے جنت واجب ہوگی۔ المسندلابی یعلی، بروایت ابوبکر (رض)۔

133

133 – "إذا كان يوم القيامة شفعت فقلت يا رب أدخل الجنة من كان في قلبه خردلة من الإيمان فيدخلون ثم يقول ادخل الجنة من كان في قلبه أدنى شيء" (خ عن عائشة) .فضل الشهادتين من الإكمال
١٣٣۔۔ جب قیامت کا روز ہوگا عرض کروں گا پروردگار ! ہراس شخص کو جنت میں داخل کر دیجئے جس کے دل میں ایمان کا ذرہ بھی ہو، پھر ایسے لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہراس شخص کو بھی جنت میں داخل کردو، جس کے دل میں کچھ بھی ایمان ہو۔ بخاری، بروایت عائشہ (رض)۔

134

134 – "أخرج فناد في الناس: من قال لا إله إلا الله فله الجنة وإن زنى وإن سرق على رغم أنف أبي ذر" (طب عن أبي الدرداء) .
١٣٤۔۔ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کردو کہ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کہا، اس کے لیے جنت ہے، خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو، خواہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔۔ الکبیر للطبرانی، (رح) بروایت ابوالدردائ۔
یہ مضمون کئی احادیث میں آیا ہے ، علامہ ابن حجر (رح) حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک حدیث میں ایساشخص مراد ہے جو قبل ازوفات توبہ تائب ہوجائے۔ اور دیگر محدثین کے نزدیک حدیث عموم پر محمول ہے کہ دخول جنت عام ہے خواہ اول وہلہ میں ہوجائے یا اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد۔

135

135 – "إذا قال العبد المسلم لا إله إلا الله خرقت السموات حتى تقف بين يدي الله فيقول اسكني فتقول كيف اسكن ولم تغفر لقائلي فيقول ما أجريت على لسانه إلا وقد غفر له" (الديلمي عن أنس) .
١٣٥۔۔ جب مسلمان بندہ ، لاالہ الا اللہ کہتا ہے ہے تو وہ کلمہ آسمان پر حرکت میں آجاتا ہے۔۔ حتی کہ پروردگار کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ پروردگار فرماتے ہیں ٹھہرجاؤ عرض کرتا ہے کیسے ٹھہرجاؤں۔۔ جبکہ میرے قائل کی بخشش نہیں ہوئی تو پروردگار فرماتے ہیں جس کی زبان پر تو جاری ہو اس کی بخشش کردی گئی۔ الدیلمی ، بروایت انس (رض)۔

136

136 – "إذا قال العبد أشهد أن لا إله إلا الله قال الله يا ملائكتي علم عبدي أنه ليس له رب غيري أشهدكم أني غفرت له" (كر عن أنس) .
١٣٦۔۔ جب بندہ اشھد ان لاالہ الا اللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ! اے میرے ملائکہ دیکھو میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا اس کا کوئی پروردگار نہیں پس میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اس کی بخشش کردی۔ ابن عساکر۔ بروایت انس (رض)۔

137

137 – "ارفعوا أيديكم وقولوا لا إله إلا الله والحمد لله اللهم إنك بعثتني بهذه الكلمة وأمرتني بها ووعدتني عليها الجنة وإنك لا تخلف الميعاد إلا أبشروا فإن الله قد غفر لكم" (حم ن طب ك ص عن يعلى بن شداد عن أبيه وعبادة بن الصامت) .
١٣٧۔۔ اپنے ہاتھ بلند کرو اور کہو ! لاالہ الا اللہ والحمدللہ ، اے اللہ آپ نے مجھے اس کلمہ کے ساتھ بھیجا ہے اور مجھے اس کا حکم دیا ہے ، اور اس پر میرے ساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے اور بیشک آپ وعدہ خلافی نہیں فرماتے۔ اور مجھ سے خوش خبری سن لو کہ تمہاری مغفرت کردی گئی۔ مسنداحمد، نینائی، الکبیر، للطبرانی، (رح) ، المستدرک للحاکم، السنن لسعید ابن منصور، بروایت یعلی بن شداد عن ابیہ وعبادہ بن صامت۔ حدیث ثابت ہے۔

138

138 – "أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله عبد مؤمن بهما إلا حجبت عنه النار يوم القيامة" (حم وابن سعد والبغوي وابن قانع والبارودي طب ك ص عن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري عن أبيه) .
١٣٨۔۔ اشھد ان لاالہ الللہ واشھد ان محمد رسول اللہ ، جو بندہ اس کلمہ کے اقرار کے ساتھ اللہ سے ملے گا، تو اس کو قیامت کے روز جہنم کی آگ سے بچالیا جائے گا۔ مسند احمد، ابن سعد، البغوی، ابن قانع الباوردی، الکبیر للطبرانی، المستدرک للحاکم، السنن لسعید ابن منصور، بروایت عبدالرحمن بن ابی عمرۃ الانصاری عن ابیہ۔

139

139 – "أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله. لا يلقاه بها أحد يوم القيامة إلا أدخله (1) الجنة على ما كان فيه" (طس عنه) وصحح.
١٣٩۔۔ اشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔ جو بندہ قیامت کے روز ان کے اقرار کے ساتھ اللہ سے ملے گا، اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا خواہ کیسے اعمال لائے۔ الطبرانی فی الاوسط، بروایت عبدالرحمن بن ابی عمرہ الانصاری عن ابیہ۔

140

140 – "أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وأشهد أن لا يقولها عبد من حقيقة قلبه إلا وقاه الله من حر النار" (ن والحاكم في الكنى عن ابن عمر) .
١٤٠۔۔ اشھدان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ۔ جو بندہ دل کی حقیقت اور گہرائی کے ساتھ ان کلمات کو کہے گا اللہ عزوجل اس کو جہنم کی جھلس سے بھی نجات دیدیں گے۔ نسائی، الکنی للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

141

141 – "أشهد عند الله أن لا يموت عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله صدقا من قلبه ثم يسدد إلا سلك في الجنة فقد وعدني ربي عز وجل أن يدخل من أمتي الجنة سبعين ألفا لاحساب عليهم ولاعقاب وإني لأرجو أن لا يدخلوها حتى تتبوؤا أنتم ومن صلح من آبائكم وأزواجكم وذرياتكم مساكن في الجنة" (حم حب والبغوي والبارودي وابن قانع طب عن رفاعة بن رفاعة الجهني ورجاله موثوقون وروى (هـ) بعضه.
١٤١۔۔ باری تعالیٰ کے استحضار کے ساتھ میں شہادت دیتاہوں کہ جو بندہ دل کے اخلاص کے ساتھ، اشھد ان لاالہ الللہ واشھد ان محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہو اور وہ مرجائے تو ضرور وہ جنت کی راہ پر چل پڑے گا۔ میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میری امت سے ایسے ستر ہزار افراد کو جنت میں داخل فرمائیں گے جن پر حساب ہوگا نہ عذاب۔ اور مجھے امید ہے کہ جب تک تم اور تمہارے نیک آباء اور ازواج اور آل جنت میں اپنا مقام نہ بنالیں تب تک وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ مسند احمد، الصحیح لاابن حبان، البغوی ، ابن قانع، الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت رفاعہ ، بن رفاعہ، الجھنی ، اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔

142

142- "اعلم أن من مات يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله دخل الجنة" (ط حم ش د ع حل عن أنس) وصحح.
١٤٢۔۔ جان لے ! کہ جو شخص لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیا ہوامرے تو جنت میں داخل ہوگا۔ طبرانی، مسنداحمد، مصنف ، ابی بن شیبہ ، ابوداؤد، المسند، لابی یعلی، الحلیہ، بروایت انس (رض)۔ حدیث صحیح ہے۔

143

143 – "إن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله" (ح م عن محمود بن الربيع عن عتبان بن مالك) صح.
١٤٣۔۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے جہنم کو اس شخص پر حرام فرمادیا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے لاالہ الا اللہ کہے۔ مسند احمد، بروایت محمود بن الربیع عن عتبان بن مالک۔ حدیث صحیح ہے۔

144

144 – "اذهب فناد في الناس: أنه من شهد أن لا إله إلا الله موقنا أو مخلصا فله الجنة" (ابن خزيمة حب ص عن جابر) صح
١٤٤۔۔ جاؤ ! لوگوں میں اعلان کردو کہ جو دل کے یقین یا اخلاص کے ساتھ لاالہ الللہ کی شہادت دے اس کے لیے جنت ہے۔ ابن خزیمہ، الصحیح لابن حبان ، السنن لسعید، ابن منصور، بروایت جابر (رض)۔ حدیث صحیح ہے۔

145

145 – "إن الله عز وجل حرم النار على من شهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله" (عبد بن حميد عبادة بن الصامت) .
١٤٥۔۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے جہنم کو اس شخص پر حرام فرمادیا ہے ، جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دے۔ عبد بن حمید، بروایت عبادہ بن صامت۔

146

146 – "إن الله عهد إلي أن لا يأتيني أحد من أمتي بلا إله إلا الله لا يخلط بها شيئا إلا وجبت له الجنة قالوا يا رسول الله وماالذي يخلط بلا إله إلا الله قال حرصا على الدنيا وجمعا لها ومنعا لها يقولون قول الأنبياء ويعملون عمل الجبابرة" (الحكيم عن زيد بن أرقم) .
١٤٦۔۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت میں سے کوئی لاالہ الللہ کے ساتھ اس طرح نہ آئے گا، کہ اس کے ساتھ کچھ خلط ملط نہ کرتا ہو، مگر یہ کہ جنت اس کے لیے واجب ہوجائے گ، صحابہ نے عرض کیا، یارسول اللہ لاالہ الا اللہ کے ساتھ کچھ خلط ملط کرنے کاکیامطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا دنیا کی حرص اور اس کو جمع کرنے کی لالچ اور اس کو روک رکھنے کی عادت، باتیں تو انبیاء کی سی کریں لیکن اعمال سرکشوں کے سے ہوں۔ الحکیم بروایت زید بن ارقم۔

147

147 – "إن الأرض لتقبل من هو شر منه ولكن الله أحب أن يريكم تعظيم حرمة لا إله إلا الله" (هـ عن عمران بن حصين) .
١٤٧۔۔ زمین تو اس سے بھی بدتر کو قبول کر لیت ہے ، مگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، کہ لاالہ الا اللہ کی عظمت و حرمت کو دکھائیں، ابن ماجہ، بروایت عمران بن حصین، اس روایت کا عبرتناک پس منظر ہے ، حضرت عمران بن حصین (رض) ، فرماتے ہیں رسول اللہ نے ایک لشکرمشرکین کے مقابلہ میں روانہ فرمایا جس میں بھی شریک تھا، مشرکین سے شدت کی خون ریزی ہوئی۔ دوران جنگ مسلمانوں کا ایک سپاہی کسی مشرک پر حملہ آور ہوا اور وہ مشرک مسلمان کے نرغہ میں پھنس گیا، مشرک نے فوراکلمہ لاالہ الا اللہ پڑھا اور پکارا کہ میں مسلمان ہوتاہوں لیکن اس مسلمان نے پھر بھی اس پر حملہ کرکے اس کو تہ تیغ کرڈالا۔ بعد میں یہ شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہو اور ساراماجرا بیان کیا، آپ نے فرمایا تم نے کیوں نہیں اس کا شکم چاک کرکے دیکھ لیا کہ وہ سچے دل سے کلمہ پڑھ رہا ہے ؟ جب تم کو اس کے دل کا حال معلوم نہ تھا، تو کیوں تم نے اس کی زبان پر اعتبار نہیں کیا ؟ آپ نے دو تین مرتبہ ایسا فرمایا۔ پھر آپ نے سکوت فرمالیا کچھ عرص بعد اس شخص کو انتقال ہوگیا، تو ہم نے اس کو سپرد خاک کردیا۔ مگر آئندہ روز اطلاع ملی کہ اس شخص کو نعش زمین سے باہر پڑی ہے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید کسی دشمن نے اپنی عداوت نکالی ہے۔ اور ہم نے اس کو دوبارہ دفن کردیا، اور اپنے غلاموں کو نگرانی پر مامور کردیا۔ لیکن آئندہ روز پھر وہی سابقہ پیش آیا، اور اس کی نعش باہر پڑی ملی۔ ہم نے سوچاشاید نگرانوں کی آنکھ لگ گئی ہو اور کسی نے ان کو غفلت میں ایسا کردیا ہو۔ لہذادوبارہ دفن کرنے کے بعد ہم نے بذاتہ اس کی قبر کی نگرانی کی۔ مگر صبح پھرا سکی نعش قبر سے باہرپڑی ملی۔ اب ہمیں یقین ہوچلا کہ یہ قدرت کی طرف سے ہے۔ اور لاالہ الا اللہ کے قائل تو قتل کرنے کا انجام ہے۔ ہم نے اس واقعہ کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا۔۔ تب آپ نے حدیث کے یہ عبرت انگیز کلمات ارشاد فرمائے زمین تو اس سے بھی بدتر کو قبول کرلیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لاالہ الاللہ کی عظمت و حرمت کو دکھائیں۔

148

148 – "إن العبد من أمتي إذا قال لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله تطلست ذنوبه كما يطلس أحدكم الكتاب الأسود من الرق الأبيض فإذا قال أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فتحت له أبواب الجنة ولايمر بصف من صفوف الملائكة إلا قال محمد رسول الله ولم يردها شيء دون الجبار عز وجل" (السجزي في الإبانة عن ابن مسعود) وقال غريب جدا.
١٤٨۔۔ جب میری امت کا کوئی بندہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اس کے گناہ یوں مٹ جاتے ہیں جس طرح سیاہ تحریر سفید، سیال، سے مٹ جاتی ہے۔ اور جب بندہ اشھد ان لاالہ الللہ واشھد ان محمد رسول اللہ، کہتا ہے تو اس کے لیے جنت کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ اور جب فرشتوں کی کسی صف کے قریب سے اس کا گزرہوتا ہے ، اور وہ محمد رسول اللہ کہتا ہے تو پروردگار اس کا جواب مرحمت فرماتے ہیں، السجزی، فی الابانہ، بروایت ابن مسعود (رض)۔ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔

149

149 – "إني لأعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه إلا حرم على النار لا إله إلا الله" (حل عن عمر) .
١٤٩۔۔ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کہ کوئی بندہ اس کو دل کی گہرائی کے ساتھ نہیں کہتا مگر اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ وہ ہے لاالہ لا اللہ ، الحلیہ ، بروایت عمر (رض)۔ حدیث صحیح ہے۔

150

150 – "إني لأعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه إلا حرمه الله على النار" (حم ع وابن خزيمة حب ك عن عثمان) .
١٥٠۔۔ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کوئی بندہ اس کو دل کی گہرائی کے ساتھ نہیں کہتامگر اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ مسنداحمد ، المسند لابی یعلی، ابن خزیمہ، الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت عثمان (رض) راویان حدیث ثقہ ہیں۔

151

151 – "إني لأعلم كلمة لا يقولها رجل يحضره الموت إلا وجد روحه لها روحا حين تخرج من جسده وكانت له نورا يوم القيامة لا إله إلا الله" (حم س ع ك عن طلحة بن عبيد الله) .
١٥١۔۔ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کوئی بندہ اس کو موت کے وقت نہیں مگر اس بندہ کی روح نکلتے وقت اس کلمہ کی وجہ سے نئی زندگی پاتی ہے اور وہ کلمہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ثابت ہوگا وہ ہے لاالہ الا اللہ۔ مسنداحمد ، ابن ابی شیبہ، المسند لابی یعلی، المستدرک للحاکم، بروایت طلحہ بن عبیداللہ۔ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

152

152 – "إني لأعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه فيموت على ذلك إلا حرمه الله على النار" (حب ك عن عثمان عن عمر) .
١٥٢۔۔ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کوئی بندہ اس کو دل کی گہرائی کے ساتھ نہیں کہتا اور پھر اسی پر مرجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتے ہیں۔ الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت عثمان عن عمر (رض)۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

153

153 – "إني لأرجو أن لا يموت أحد يشهد أن لا إله إلا الله صادقا من قلبه فيعذبه الله" (الديلمي عن ابن عمر) .
١٥٣۔۔ مجھے امید ہے کہ جو بندہ دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہوا وفات پاجائے۔۔ اللہ اسے اپنے عذاب سے دو چار نہ فرمائیں گے۔ الدیلمی ، بروایت ابن عمر (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

154

154 – "إني لأرجو أن لا يموت أحد يشهد أن لا إله إلا الله مخلصامن قلبه فيعذبه الله عز وجل" (الديلمي والخطيب عن ابن عمر) .
١٥٤۔۔ مجھے امید ہے کہ جو بندہ دل کے اخلاص کے ساتھ ، لاالہ الللہ کی شہادت دیتا ہواوفات پاجائے۔۔ اللہ اسے اپنے عذاب سے دوچار نہ فرمائیں گے۔ الدیلمی ، الخطیب، بروایت ابن عمرو (رض) ۔ حدیث ضعیف ہے۔ الجامع المصنف۔

155

155 – " من قال لا إله إلا الله يصدق لسانه وقلبه دخل من أي أبواب الجنة الثمانية شاء" (ابن النجار عن عقبة بن عامر عن أبي بكر) .
١٥٥۔۔ جس نے اپنے دل اور زبان کی سچائی سے لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت کے آٹھ دروازوں میں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ ابن الجار ، بروایت عقبہ بن عامر عن ابی بکر۔

156

156 – "أول شيء خطه الله في الكتاب الأول إني أنا الله لا إله إلا أنا سبقت رحمتي غضبي فمن شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فله الجنة" (الديلمي عن ابن عباس) .
١٥٦۔۔ سب سے پہلی چیز جس کو اللہ نے سب سے پہلی کتاب میں تحریر فرمایا وہ یہ ہے ، میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں میری رحمت غضب سے سبقت کرگئی ہے۔ جو گواہی دے اشھدان لاالہ الا اللہ وان محمد عبدہ ورسولہ۔ اس کے لیے جنت ہے۔ الدیلمی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

157

157 – "ثمن الجنة لا إله إلا الله وثمن النعمة الحمد لله" (الديلمي عن الحسن عن أنس) .
١٥٧۔۔ جنت کی گراں مایہ قیمت لاالہ الا اللہ ہے ، اور نعمت کی قیمت الحمدللہ ہے، الدیلمی ، بروایت الحسن عن انس (رض)۔

158

158 – "حدثني جبريل فقال يقول الله تعالى لا إله إلا الله (1) حصني فمن دخل حصني أمن من عذابي" (ابن عساكر عن علي) .
١٥٨۔۔ مجھے جبرائیل نے بیان کیا، کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، لاالہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔ ابن عساکر ، بروایت علی (رض)۔

159

159 – "حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بها وجه الله" (طب عن عتبان بن مالك) .
١٥٩۔۔ جہنم پر حرام ہے ، وہ شخص جو اللہ کی خوشنودی کے لیے لاالہ الا اللہ کہے، الکبیر للطبرانی، (رح) بروایت عثمان بن مالک۔

160

160 – "من جاء بشهادة أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله حرم على النار" (مسدد وابن النجار عن أبي موسى) .
١٦٠۔ جو شخص اس بات کی شہادت دیتا ہوا آیا کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو آگ پر حرام ہے کہ اس کو جلائے ، مسدد، ابن النجار، بروایت ابی موسیٰ۔

161

161 – "سأل موسى ربه حين أعطاه التوراة أن يعلمه دعوة يدعو بها فأمره بأن يدعو بلا إله إلا الله فقال موسى كل عبادك يدعو بها وأنا أريد أن تخصني بدعوة أدعوك بها فقال تعالى يا موسى لو أن االسموات وساكنها والبحار ومافيها وضعوا في كفة ووضعت لا إله إلا الله في كفة لوزنت لا إله إلا الله" (ع عن أبي سعيد) .
١٦١۔۔ جب موسیٰ کو ان کے پروردگار نے توراۃ عطا کی، موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا پروردگار مجھے کوئی ایسی دعا تلقین کر دیجئے جس سے میں آپ کو پکاراکروں، ارشاد ہوا ، لاالہ الا اللہ کے ساتھ ہمیں یاد کیا کرو، موسیٰ نے عرض کیا پروردگار یہ کلمہ تو ساری ہی مخلوق کہتی ہے۔۔ میں تو ایسی چیز کا طلب گار ہوں جو میرے لیے خاص ہو۔۔ جس سے میں تجھے یاد کیا کروں، ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ تمام آسمانوں اور ان کے اندر بسنے والی مخلوق، اور تمام سمندروں اور ان کے اندر بسنے والی مخلوق کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں صرف اس کلمہ کو رکھ دیا جائے توکلمہ والاپلڑا بھاری ہوجائے گا۔ المسندلابی یعلی ، بروایت ابوسعید۔

162

162 – "في الكلمة التي راودت عليها عمي فأباها شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله" (طس عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن عبد الله ابن العاص عن عثمان بن عفان عن أبي بكر الصديق) قال قلت يا رسول الله فيم نجاة هذا الأمر قال فذكره.
١٦٢۔۔ اسی کلمہ میں ساری نجات ہے جس کو میں نے اپنے چچاپرپیش کیا تھا مگر انھوں نے انکار فرمادیا تھا یعنی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت۔ الطبرانی فی الاوسط، عن الزھری، عن سعید (رح) بن المسیب عن عبداللہ بن العاص ، (رض) عن عثمان (رض) عفان عن ابی بن بکر الصدیق (رض) ۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ راوی نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یارسول اللہ اس دین کی نجات کس چیز میں ہے تب سرورکار دوعالم نے مذکورہ جواب مرحمت فرمایا۔

163

163 – " من قال الكلمة التي راودت عمي عليها فردها علي لا يقولها عبد عند موته إلا فسح له فوجد لها روحا تخرج نفسه" (ابن عساكر عن ابن عمر) .
١٦٣۔ جو کلمہ میں نے اپنے چچاپرپیش کیا تھا مگر انھوں نے انکار فرمادیاتھاجس شخص نے بھی وہ کلمہ جان کنی کے وقت کہہ لیا، یقیناً اس کے لیے آسانی کردی جائے گی اور روح نکلتے وقت ایک نئی زندگی محسوس کرے گا، ابن عساکر، بروایت ابن عمر (رض)۔

164

164 – "من قبل مني الكلمة التي عرضتها على عمي فردها علي فهي له نجاة" (حم ش ع هب عن أبي بكر الصديق) ، وصحح،.
١٦٤۔۔ جس شخص نے مجھ سے وہ کلمہ قبول کرلیا، جو میں نے اپنے چچاپرپیش کیا تھا، مگر انھوں نے انکار فرمادیا تھا، سو وہ کلمہ اس کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ مسنداحمد، مصنف، ابن ابی شیبہ، المسند لابی یعلی، شعب الایمان، بروایت ابوبکر الصدیق، (رض) ۔ حدیث صحیح ہے۔

165

165 – " ينجيكم من ذلك أن تقولوا مثل الذي أمرت به عمي عند الموت فلم يفعل" (حم ع أبي بكر) قال سألت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ماالذي ينجينا من هذا الحديث الذي يلقي الشيطان في أنفسنا قال فذكره، وحسن،.
١٦٥۔۔ اس سے تمہاری نجات کے لیے وہ کافی ہے جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا ان کے موقت کے وقت مگر انھوں نے انکار فرمادیا تھا۔ مسنداحمد ، المسند ابی یعلی، بروایت ابی بکر (رض) ۔ روایت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے رسالت ماب سے استفسار کردیا تھا کہ جو وسوسے وغیرہ شیطان ہمارے دلوں میں ڈال دیتا ہے ان کے کفارہ کے لیے کیا چیز کافی ہے ؟ تو حضور سرور دو عالم نے مذکورہ جواب مرحمت فرمایا۔ اور کیا ہی خوب فرمایا۔

166

166 – "قاد الناقة لي جبريل عليه السلام فلما أسهلت (1) التفت إلي وقال أبشر وبشر أمتك أنه من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له دخل الجنة فضحكت وكبرت ربي ثم سار رتوه (2) ثم التفت إلي وقال أبشر وبشر أمتك أنه من قال لا إله إلا الله وحده لاشريك له دخل الجنة وقد حرم الله عليه النار فضحكت وكبرت ربي وفرحت بذلك لأمتي" (طس وتمام كر عن أنس) . وحسن.
١٦٦۔۔ جبرائیل میری اونٹنی کی مہارتھامے چل رہے تھے۔۔ جب میں سہل زمین پر پہنچاتومیری طرف متوجہ ہو کرکہا، خوش خبری سنو اور اپنی امت کو بھی دو کہ جس شخص نے لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، کا اقرار کرلیا۔۔ جنت میں داخل ہوگیا تو میں خوشی سے مسکرایا اور اللہ اکبر کہا، پھر کچھ آگے چلے توجبرائیل دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا خوش خبری سنو اور اپنی امت کو بھی دو کہ جس شخص نے لاالہ لا اللہ کا اقرار کرلیا، جنت میں داخل ہوگیا، اور اللہ نے اس پر آگ حرام فرمادی، تو میں پھر خوشی سے مسکرایا اور اللہ اکبر کہا، اور اپنی امت کے لیے اس پر مسرور وفرحاں ہوگیا۔ الطبرانی، فی الاوسط، تمام، ابن عساکر، بروایت انس رضی الہ عنہ حدیث حسن ہے۔

167

167 – "قال الله عز وجل لا إله إلا الله كلامي وأنا هو فمن قالها دخل حصني ومن دخل حصني أمن عقابي" (ابن النجار عن علي) .
١٦٧۔۔ اللہ نے فرمایا، لاالہ لا اللہ میرا کلام ہے اور میں ہی اللہ ہوں، پس جس نے اس کا اقرار کرلیا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا۔ اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عقاب سے مامون ہوگیا۔ ابن النجار، بروایت علی (رض) روایت سے متعلق کلام اور موزواسرار کے لیے گزشتہ حدیث نمبر ١٢٧ ملاحظہ کیجئے۔

168

168 – "قال الله لا إله إلا الله حصني من قالها أمن عذابي" (ابن النجار عن أنس) .
١٦٨۔۔ اللہ فرماتے ہیں، لاالہ الا اللہ میرا قلعہ ہے جس نے اس کو کہا میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔ ابن النجار، بروایت انس (رض)۔

169

169 – "قلت يا رب شفعني فيمن قال لا إله إلا الله قال ذلك إلي" (الديلمي عن أنس) .
١٦٩۔۔ میں بارگاہ رب العزت میں عرض کروں گا پروردگار، جس نے بھی لاالہ لا اللہ کہا، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیجئے۔ ارشاد ہوگا یہ ہمارے ذمہ ہے۔ الدیلمی، بروایت انس (رض)۔

170

170 – "كفر الله عنك كذبك بصدقك بلا إله إلا الله" (عبد بن حميد عن أنس) " أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال يا فلان فعلت كذا وكذا قال لا والذي لا إله إلا هو ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلم أنه فعله " قال فذكره.
١٧٠۔۔ اللہ تمہارے جھوٹ کو تمہاری ، لاالہ لا اللہ کی سچائی کے ساتھ دھودیں گے عبد بن حمید، بروایت انس (رض)۔ پس منظر نبی کریم نے کسی سے پوچھا اے فلاں تم نے فلاں فلاں کام کیا ؟ اس نے کہا نہیں قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے یہ کام نہیں کیا، جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ وہ اس نے کیا ہے، تب آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

171

171 – "لقد كفر الله عنك كذلك بصدقك بلا إله إلا الله" (ع عن أنس) "أن رسول الله قال لرجل فعلت كذا وهو يعلم أنه فعلة قال لا والذي لا إله إلا هو مافعلت" فذكره.
١٧١۔۔ اللہ تمہارے جھوٹ کا تمہاری لاالہ الا اللہ کی سچائی کے ساتھ کفار فرمادیں گے۔ المسند لابی یعلی، بروایت انس۔ پس منظر حضور اکرم نے کسی سے پوچھا تم نے فلاں کام کیا ؟ اور آپ کو معلوم تھا کہ اس نے وہ کام کیا ہے مگر اس نے کہا نہیں قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے نہیں کیا پھر آپ مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

172

172 – "لقيت الملك فأخبرني أنه من مات يشهد أن لا إله إلا الله كان له الجنة فما زلت أقول وإن زنى وإن سرق وإن زنى وإن سرق" (ابن عساكر عن أبي ذر) .
١٧٢۔۔ میں نے ایک فرشتہ سے ملاقات کی۔ اس نے مجھے خبر دی، جو شخص لاالہ لا اللہ کی شہادت دیتا ہو انتقال کرجائے اس کے لیے جنت ہے میں باربارکہتا رہاخو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو ؟ خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہوِ ، بروایت ابوذر (رض)۔

173

173 – "لكل شيء مفتاح ومفتاح السموات والأرض قول لا إله إلا الله" (طب عن معقل بن يسار) .
١٧٣۔۔ ہرچیز کی ایک کنجی ہوتی ہے اور آسمانوں اور زمین کی کنجی لاالہ الا اللہ ہے۔ الکبیر للطبرانی، بروایت معقل بن یسار۔

174

174 – "لما خلق الله جنة عدن وهي أول ما خلق (1) الله قال لها تكلمي قالت لا إله إلا الله محمد رسول الله قد أفلح المؤمنون قد أفلح من دخل في وشقي من دخل النار" (طاهر بن محمد بن الواحد الطبري المفسر في كتاب فضائل التوحيد والرافعي عن أنس) .
١٧٤۔۔ جب اللہ نے جن عد کو پیدا فرمایا، جو اللہ کی تخلقات میں پہلی چیز ہے تو اللہ نے اس کو فرمایا کلام کر، وہ گویا ہوئی، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ یقیناً مومن لوگ فلاح پاگئے بیشک جو شخص میرے اندرداخل ہوا کامیاب ہوگیا، اور جو جہنم میں گیا نامراد ہوگیا۔ طایر بن محمد بن الواحد المفسرفی کتاب فضائل التوحید والرافعی ، بروایت انس (رض)۔

175

175 – "لما خلق الله عز وجل جنة عدن خلق فيها ما لا عين رأت ولاخطر على قلب بشر ثم قال لها تكلمي قالت قد أفلح المؤمنون" (طب عن ابن عباس زاد (ك) "قالت أنا حرام على كل بخيل ومراء".
١٧٥۔ جب اللہ نے جنت عدن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ وہ اشیاء پیدا فرمائیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا نہ کسی دل میں اس کا خیال گذرا ہوگا پھر اللہ نے اس کو فرمایا، مجھ سے کلام کرلو وہ گویا ہوئی، یقیناً مومن لوگ فلاح پاگئے۔ الکبیر للطبرانی، بروایت ابن عباس (رض)۔ اور المستدرک للحاکم میں یہ اضافہ ہے کہ ہر بخیل اور ریاکار پر حرام ہوں۔

176

176 – "ليس على أهل لا إله إلا الله وحشة في قبورهم ولا في محشرهم ولا في منشرهم وكأني بأهل لا إله إلا الله وقد خرجوا من قبورهم ينفضون التراب عن رؤوسهم ويقولون الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن" (عد هب وقال غير قوي وإسماعيل بن عبد الغافر (1) الفارسي في الأربعين وابن عساكر عن ابن عمر) .
١٧٦۔۔ لاالہ الا اللہ والوں پر قبروں میں وحشت ہوگی نہ ہی دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت گویا اب میں صور پھونکنے کے وقت لاالہ الا اللہ والوں کی طرف دیکھ رہاہوں کہ وہ اپنی قبروں سے نکلتے ہوئے اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں اور یہ پڑھ رہے ہیں۔ الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن۔ ابوداود ، شعب الایمان، وقال غیر، قوی الاربعین، لاسماعیل بن عبدالغافر، الفارسی، ابن عساکر بروایت ابن عمر (رض) حدیث ضعیف ہے۔

177

177 – "ليس على أهل لا إله إلا الله وحشة في الموت ولا في الحشر ولا في النشر كأني أنظر إليهم عند الصيحة ينفضون رؤوسهم من التراب يقولون الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن" (طب عن ابن عمر) .
١٧٧۔۔ لاالہ الا اللہ والوں پر موت میں وحشت ہوگی نہ حشر میں اور ن ہی دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت کوئی وحشت ہوگی گویا اب میں صور پھونکنے کے وقت ان کی طرف دیکھ رہاہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے یہ پڑھ رہے ہیں۔ الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن۔ حدیث ضعیف ہے۔

178

178 – "ليس أحد يشهد أن لا إله إلا الله فتطعمه النار" (حل عن عتبان بن مالك) .
١٧٨۔۔ ایسا کوئی شخص نہیں جو لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتاہوں پھر جہنم کی آگ اس کو جلا دے۔ الحلیہ، بروایت عتبان بن مالک۔ حدیث صحیح ہے۔

179

179 – "ليس من عبد يقول لا إله إلا الله مائة مرة إلا بعثه الله يوم القيامة ووجهه كالقمر ليلة البدر ولم يرفع لأحد يومئذ عمل أفضل من عمله إلا من قال مثل قوله أو زاد" (طب عن أبي الدرداء) .
١٧٩۔۔ جو بندہ لاالہ الا اللہ سو مرتبہ کہے تو اللہ پاک اس کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائیں گے کہ اس کا چہرہ چودھویں چاند کی مانند چمکتا ہوگا اور اس روز اس کے عمل سے بڑھ کر کسی کا عمل نہیں ہوسکتا، الایہ کہ کوئی اسی جیسا عمل کرے یا اس سے بھی زیادہ۔ الکبیر للطبرانی، بروایت ابوالدردا (رض) ۔ حدیث میں ایک راوی ضعیف ہے۔

180

180 – "مازلت أشفع إلى ربي فيشفعني حتى أقول شفعني فيمن قال لا إله إلا الله فيقول ليست هذه لك يا محمد إنما هي لي أنا وعزتي وحلمي ورحمتي لا أدع في النار أحدا قال لا إله إلا الله" (ع عن أنس) .
١٨٠۔۔ میں مسلسل اپنے رب سے سفارش کرتا رہوں گا حتی کہ عرض کروں گا پروردگار ہراس شخص کے بارے میں میری سفارش قبول فرمائیے جس نے لاالہ الا اللہ کہا ہو، پروردگار فرمائیں گے نہیں محمد یہ تمہارا حق نہیں ہے ، یہ میرا حق ہے میری عزت کی قسم میرے حلم کی قسم میری رحمت کی قسم، میں آج جہنم میں کسی بھی ایسے شخص کونہ چھوڑوں گا، جس نے لاالہ الالہ کہا ہو۔ المسند لابی یعلی، بروایت انس (رض)۔

181

181 – "ماقال عبد لا إله إلا الله مخلصا إلا صعدت لا يردها حجاب وإذا وصلت إلى الله تعالى نظر الله إلى قائلها وحق على الله أن لا ينظر إلى موحد إلا رحمه" (الخطيب عن أبي هريرة) .
١٨١۔۔ کسی بندہ نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ نہیں کہا مگر وہ کلمہ اوپرجاتا ہے اور اس کو کوئی حجاب مانع نہیں ہوتا لہٰذا جب وہ بارگاہ الہی میں پہنچتا ہے تو اللہ اس کے قائل کی طرف نظر فرماتے ہیں، اور اللہ پر حق ہے کہ جب بھی کسی اپنے توحید پرست کی طرف نظر فرمائیں تو اس پر رحمت فرمائیں۔ الخطیب، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

182

182 – " ما من رجل يشهد أن لا إله إلا الله إلا دخل الجنة وإن زنى وإن سرق، ورغم أنف أبي الدرداء" (حم ومسد ع د حب عن أبي الدرداء.
١٨٢۔۔ نہیں ہے کوئی ایسابندہ جو لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہوم گروہ جنت میں داخل ہوگا، اس نے چوری کی ہو اور زناکیاہو ؟ خواہ ابودرداء کی ناک خاک آلود ہو۔ مسنداحمد ، المسند، لابی یعلی، ابوداؤد، الصحیح لابن حبان، بروایت ابوالدرداء (رض) ۔
علامہ ابن حجر کی وضاحت اس حدیث میں فرماتے ہیں کہ امام بخاری کے نزدیک حدیث میں ایساشخص مراد ہے جو قبل ازوفات توبہ تائب ہوجائے اور دیگرمحدثین کے نزدیک حدیث عموم پر محمول ہے ، کہ دخول جنت عام ہے اور خواہ اول وہلہ میں ہوجائے یا اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد ۔

183

183 – "مامن عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة. قال أبو ذر: قلت وإن زني وإن سرق. قال: وإن زنى وإن سرق. قال في الرابعة: وإن رغم أنف أبي ذر" (حم عن أبي ذر) .
١٨٣۔۔ نہیں ہے کوئی بندہ جو لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو اور اسی پر انتقال کرجائے مگر وہ جنت میں داخل ہوگا، ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو، اور جب میں نے چوتھی مرتبہ بھی یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا خواہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ مسنداحمد ، بروایت ابوذر (رض)۔

184

184 – "ما من عبد يقول لا إله الله مائة مرة إلا بعثه الله عز وجل يوم القيامة ووجهه كالقمر ليلة البدر ولم يرفع لأحد يومئذ عمل أفضل من عمله إلا من قال مثل قوله أو زاد عليه" (أبوالشيخ والديلمي عن أبي ذر رضي الله عنه) .
١٨٤۔۔ جو بندہ لاالہ الا اللہ سو مرتبہ کہے تو اللہ پاک اس کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائیں گے اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا، اور اس روز اس کے عمل سے بڑھ کر کسی کا عمل نہیں ہوسکتا، الایہ کہ کوئی اسی جیسا کوئی عمل کرے یا اس سے بھی زیادہ۔ ابوالشیخ والدیلمی، بروایت ابوذر (رض)۔

185

185 – "مكتوب على باب الجنة لا إله إلا أنا لا أعذب من قالها" (الديلمي عن أبي سعيد) .
١٨٥۔۔ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے ، میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ۔۔ جو اس کا قائل ہوا میں اس کو عذاب نہ دوں گا۔ الدیلمی بروایت ابوسعید (رض) ۔

186

186 – "مكتوب على العرش لا إله إلا الله محمد رسول الله لا أعذب من قالها" (اسمعيل بن عبد الغافر الفارسي في الأربعين عن ابن عباس) .
١٨٦۔۔ عرش پر لکھا ہوا ہے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ جو اس کا قائل ہوا میں اس کو عذاب سے دوچار نہیں کروں گا۔ الاربعین لاسماعیل، بن عبدالغافر الفارسی، بروایت ابن عباس (رض)۔

187

187 – "من ختم له عند الموت بلا إله إلا الله دخل الجنة" (ابن عساكر عن جابر) .
١٨٧۔۔ جس کا انتقال کے وقت لاالہ الا اللہ پر خاتم ہوا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ابن عساکر بروایت جابر (رض)۔

188

188 – "من سره أن يزحزح عن النار وأن يدخل الجنة فلتأته منيته وهويشهد أن لا إله إلا الله محمدا رسول الله ويأتي إلى الناس مايحب أن يؤتى إليه" (طب حل عن ابن عمر) .
١٨٨۔۔ جس کی تمنا ہو اور خواہش ہو کہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے توا سکی موت اس حال میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو۔ اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لیے چاہتا ہو۔ الکبیر للطبرانی ، الحلیہ، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

189

189 – "من شهد أن لا إله إلا الله وشهد أني رسول الله فذل بها لسانه واطمأن بها قلبه لم تطعمه النار" (سمويه وابن مردويه هب والخطيب في المتفق والمفترق عن أبي قتادة) .
١٨٩۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی، اور اس کی زبان اس کے ساتھ مانوس ہوگئی اور اس کا دل اس پر مطمئن ہوگیا تو جہنم کی آگ اس کو جھلسا نہ سکے گی۔ سمویہ، ابن مردویہ، شعب الایمان، المتفق والمفترق، للخطیب، (رح) بروایت ابی قتادہ۔

190

190 – "من شهد أن لا إله إلا الله مخلصا من قلبه دخل الجنة" (حب عن معاذ) صح.
١٩٠۔۔ جو دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دے ، جنت میں داخل ہوجائے گا۔ الصحیح لابن حبان، بروایت معا ذ(رض) ۔ ابن حبان نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

191

191 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لم تطعمه النار" (حم عن أنس) .
١٩١۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی جہنم کی آگ اس کونہ کھاسکے گی۔ مسند احمد بروایت انس (رض)۔

192

192 – "من شهد أن لا إله إلا الله مخلصا بها يموت على ذلك حرمه الله عز وجل على النار" (قط في الأفراد) (ص عن النضر بن أنس عن أبيه) قال النضر أمرنا أن نكتب هذا الحديث ولم يأمرنا أن نكتب حديثا غيره.
١٩٢۔۔ جس شخص نے دل کی سچائی کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دی اور اسی پر مرگیا، اللہ عزوجل اس کو جہنم پر حرام کردیں گے ۔ الدارقطنی ، فی الافراد، السنن لسعید ابن منصور ، بروایت النضر بن انس (رض) عن ابیہ۔ حضرت نضر (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت انس (رض) اس حدیث کو لکھنے کا حکم فرمایا۔ اس کے علاوہ کسی حدیث لکھنے کا حکم نہ دیا۔

193

193 – "من شهد أن لا إله إلا الله وحافظ على صلاة الفجر ولم يتند (1) بدم حرام دخل الجنة" (ص عن حذيفة) .
١٩٣۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کی شہادت دی اور فجر کی نماز کی محافظت کی اور کسی ناجائز خون ریزی سے اپنے ہاتھ رنگین نہ کیے تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ السنن لسعید ابن منصور بروایت حذیفہ (رض)۔

194

194 – "من شهد أن لا إله إلا الله فهو له نجاة" (ع وابن منيع عن ابن عمر عن عمر عن أبي بكر) .
١٩٤۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کی شہادت دی۔۔ یہی اس کے لیے نجات ثابت ہوگی۔ المسند لابی یعلی ابن منیع ، عن ابن عمر عن عمر عن ابی بکر۔

195

195 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله مخلصا دخل الجنة" (طس عن أبي الدرداء والبارودي وابن مندة عن سعيد بن وائل الجذامي) .
١٩٥۔۔ جو شخص دل کے اخلاص کے ساتھ، اشھد ان لاالہ الا اللہ ، واشھد ان محمد ، عبدہ ورسولہ ، کا قائل ہواوہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ الطبرانی فی الاوسط، بروایت ابوالدرداء ، الباوردی ، ابن مندہ ، بروایت ابوسعید بن وایل الجذامی۔

196

196 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله مخلصا بهما دخل الجنة وصلى وصام وأقام الصلاة وآتى الزكاة وحج البيت حرمه الله على النار" (طس عن أنس) (طس عن عتبان بن مالك بلفظ حرم الله وجه على النار) .
١٩٦۔۔ جس نے دل کے اخلاص کے ساتھ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں۔ اور میں اللہ کا رسول ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور اس نے نماز قائم کی روزے رکھے زکوۃ ادا کی بیت اللہ کا حج کیا تو اللہ تبارک وتعالی اس کو جہنم کی آگ پر حرام فرمادیں گے۔ الطبرانی فی الاوسط، بروایت انس (رض) ، الطبرانی فی الاوسط بروایت عتبان بن مالک۔

197

197 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله مخلصا من قلبه وأن محمدا عبده ورسوله دخل الجنة ولم تمسه النار" (طب والخلعي هب عن معاذ بن جبل (ابن خزيمة عن عبد الله بن سلام) .
١٩٧۔۔ جس نے دل کے اخلاص کے ساتھ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور اس کو جہنم کی آگ نہ چھونہ سکے گی۔ الکبیر للطبرانی، الخلعی، شعب الایمان، بروایت معاذ (رض) بن جبل ابن خزیمہ بروایت عبداللہ بن سلام۔

198

198 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وآمن بالبعث والحساب دخل الجنة" (ابن صهري في أماليه عن راعي النبي صلى الله عليه وآله وسلم) .
١٩٨۔۔ جس شخص نے شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب پر ایمان لایا، جنت میں داخل ہوگا۔ الامانی، لابن صصری بروایت راعی النبی۔

199

199 – "من شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يغفر له إن هاجر أو قعد حيث ولدته أمه قيل يا رسول الله ألا أخرج فاؤذن الناس قال لاذر الناس يعملون فإن الجنة مائة درجة بين كل درجتين فيها مثل ما بين السماء والأرض وأعلى درجة منها الفردوس وعليها يكون العرش وهي أوسط شيء من الجنة ومنها تفجر أنهار الجنة وإذا سألتم الله شيئا فاسألوه الفردوس" (طب عن معاذ) .
١٩٩۔۔ جس شخص نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ ہے کہ اس کی مغفرت فرمائیں خواہ وہ شخص ہجرت کرے یا اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا، آپ سے کسی صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ کیا میں لوگوں میں اس خوش خبری کا اعلان نہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں لوگوں کو عمل کرنے دو ، بیشک جنت کے سو درجات ہیں۔ ہر دودرجوں کے درمیان آسمان و زمین کے درمیان جتنی مسافت ہے۔ اور سب سے اعلی درجہ جنت الفردوس ہے اسی پر عرش الٰہی قائم ہے۔ اور یہ جنت کے وسط میں ہے ، (اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں) اور جب تم اللہ سے کسی چیز کا سوال کروتو جنت الفردوس ہی کا سوال کرو الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی بکر (رض) ۔

200

200 – "من شهد أن لا إله إلا الله يصدق قلبه لسانه دخل من أي أبواب الجنة شاء" (ع عن أبي بكر) .
٢٠٠۔۔ جس شخص نے یوں لاالہ الا اللہ کی شہادت دی اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق کرتا ہو تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ المسند ابی یعلی ، بروایت ابی بکر (رض) ۔

201

201 – "من قال لا إله إلا الله طلست ما في صحيفته من السيئات حتى يعود إلى مثلها" (الخطيب عن أنس) .
٢٠١۔۔ جس شخص نے لاالہ الا اللہ کہا اس کے اعمال نامہ کی برائیاں دھل جاتی ہیں الایہ کہ دوبارہ ان کا مرتکب ہو۔ الخطیب بروایت انس (رض)۔

202

202 – " من قال لا إله إلا الله ومدها هدمت له أربعة آلاف ذنب من الكبائر" (ابن النجار عن أنس)
٢٠٢۔۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہا اور ببانگ بلند کہا تو اس کے چار ہزار کبیرہ گناہ محو ہوجاتے ہیں، ابن النجار ، بروایت انس (رض)۔

203

203 – "من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قيل ابشر الناس قال إني أخاف أن يتكلوا" (ابن النجار عن أنس) .
٢٠٣۔۔ جس نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ابن النجار ، بروایت انس (رض)۔

204

204 – "من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له دخل الجنة، قال أبو الدرداء وإن زنى وإن سرق قال وإن زنى وإن سرق، ثلاثا قال في الثالثة رغم أنف أبي الدرداء" (حم ن طب عن أبي الدرداء) وصحح.
٢٠٤۔۔ جس شخص نے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں جنت میں داخل ہوگا ابوالدرداء کہتے ہیں میں نے دریافت کیا خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو جب تین مرتبہ یہی سوال و جواب ہواتوتیسری مرتبہ میں آپ نے فرمایا۔۔۔ خواہ ابوالدرداء کی ناک خاک آلود ہو۔ مسنداحمد ، نسائی، الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابوالدردائ۔ حدیث صحیح ہے۔

205

205 – "من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قيل وما اخلاصها قال أن تحجزه عن محارم الله" (الحكيم طب حل عن زيد بن أرقم) .
٢٠٥۔۔ جس نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، دریافت کیا گیا اخلاص کاکیامطلب ہے فرمایا، وہ کلمہ تمہیں اللہ کی حرام کردہ اشیاء سے روک دے۔ الحکیم، الکبیر للطبرانی، (رح) ، الحلیہ، بروایت زید بن ارقم (رض) ۔

206

206 – "من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قالوا يا رسول الله وما اخلاصها قال أن تحجزه عما حرم الله عليكم" (الخطيب عن أنس) .
٢٠٦۔۔ جس شخص نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، صحابہ کرام نے دریافت کیا، اخلاص کاکیامطلب ہے ؟ یارسول اللہ ، فرمایا جو اللہ نے تم پر حرام فرما رکھا ہے ان سے تم باز آجاؤ، الخطیب بروایت انس (رض)۔

207

207 – "من قال لا إله إلا الله وحده لاشريك له أطاع بها قلبه وذل بها لسانه وشهد أن محمدا رسول الله حرمه الله على النار" (طس عن سعد بن عبادة) .
٢٠٧۔۔ جس شخص نے لاالہ الاللہ وحدہ لاشریک لہ کہا، اور اس پر اس کا دل مطمئن ہوگیا اور اس کی زبان اس کیس اتھ مانوس ہوگئی اور اشھد ان محمد رسول اللہ کا بھی قائل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ پر حرام فرمادیں گے۔ الطبرانی فی الاوسط بروایت سعد بن عبادہ۔

208

208 – "من قال لا إله إلا الله دخل الجنة وإن زني وإن سرق" (طس عن سلمة بن نعيم الأشجعي) .
٢٠٨۔۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ الطبرانی فی الاوسط، بروایت سلمہ بن نعیم الاشجعی۔

209

209 – "من قال لا إله إلا الله لم تضره معها خطيئة كما لو أشرك بالله لم تنفعه معه حسنة" (طب عن ابن عمرو) .
٢٠٩۔۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہا اس کو کوئی گناہ نقصان نہ پہنچاسکے گا، جس طرح کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے کوئی نیکی نفع نہیں پہنچاسکتی ۔ الکبیر للطبرانی، (رح) بروایت ابن عمرو (رض) ۔ حدیث ضعیف ہے۔ حدیث ضعیف النظر التنزیہ ج ١ ص ١٥٣۔

210

210 – "من قال لا إله إلا الله وجبت له الجنة ومن قال سبحان الله وبحمده كتبت له مائة ألف حسنة وأربعة وعشرون ألف حسنة قالوا يا رسول الله إذا لا يهلك منا أحد قال بلى إن أحدكم ليجيء بالحسنات له لو وضعت على جبل ثقلته ثم يجيء وبالنعم (1) فتذهب بتلك ثم يتطاول الرب بعد ذلك برحمته" (ك عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة عن أبيه عن جده
٢١٠۔۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ، اور جس نے سبحان اللہ وبحمدہ کہا اس کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ تب تو ہم میں کوئی ہلاک نہ ہوگا، آپ نے فرمایا ہاں بعض کی اس قدر نیکیاں ہوں گی کہ اگر کسی پہاڑ پر رکھ دی جائیں تو وہ پہاڑ بھی دب جائے لیکن پھر اس پر کی گئی نعمتوں کو بھی لایا جائے گا، اور وہ تمام نیکیاں ان نعمتوں کے عوض برابر ہوجائیں گی پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا معاملہ فرمائیں گے۔ المستدرک للحاکم، بروایت اسحاق بن عبداللہ ابی طلحہ عن ابیہ جدہ۔

215

215 – "من لقي الله وهو يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله دخل الجنة" (طب عن عبادة بن الصامت) .
٢١٥۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہوا آئے وہ جنت میں داخل ہوجائے ۔ الطبرانی فی الکبیر بروایت عبادہ بن صامت۔

216

216 – "من مات وهو يشهد أن لا إله إلا الله فقد حل له أن يغفر له" (الخطيب عن جابر) (كر عن بريدة) ، وفيه يحيى بن عباد ضعيف.
٢١٦۔۔ جس شخص کی موت لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہوئے آئے اس کے لیے مغفرت الٰہی حلال ہوجاتی ہے۔ الخطیب، بروایت جابر (رض) ، ابن عساکر، بروایت بریدہ۔ لیکن اس روایت میں یحییٰ بن عبادہ نامی ایک روای ضعیف ہے۔

217

217 - "من مات وهو يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صادقا من قلبه دخل الجنة" (حم عن معاذ) .
٢١٧۔۔ جس شخص کی موت اس حال میں آئی کہ وہ دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسندالامام احمد، بروایت معاذ (رض)۔

218

218 - "من يقول لا إله إلا الله يقينا من قلبه (1) دخل الجنة" (طب عن معاذ) .
٢١٨۔۔ جو شخص دل کی یقین کے ساتھ لالہ الا اللہ کا قائل ہوا جنت میں داخل ہوجائے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، براویت معاذ (رض)۔

219

219 - "ناد في الناس: "من قال لا إله إلا الله وجبت له الجنة" (ابن عساكر عن أبي بكر الصديق) .
٢١٩۔۔ عوام الناس میں ندا دے دو کہ جس نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ ابن عساکر، بروایت ابی بکر الصدیق (رض) ۔

220

220 – "لا إله إلا الله كلمة عظيمة كريمة على الله تعالى من قالها مخلصا استوجب الجنة ومن قال كاذبا عصم ماله ودمه وكان مسيره إلى النار" (ابن النجار عن دينار عن أنس) .
٢٢٠۔۔ کلمہ لاالہ الا اللہ اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی عزت و عظمت والاکلمہ ہے۔ جس نے اخلاص کے ساتھ کہہ لیا اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس نے نفاق کے ساتھ کہا اس کی بھی جان اور مال تو محفوظ ہو ہی گئے لیکن بالاخراس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ ابن النجار ، بروایت دینار عن انس (رض)۔

221

221 – " لا إله إلا الله تمنع العباد من سخط الله ما لم يؤثروا صفقة ديناهم على دينهم فإن آثروا صفقة ديناهم على دينهم ثم قالوا لا إله إلا الله ردت عليهم وقال الله كذبتم" (الحكيم عن أنس) .
٢٢١۔ کلمہ لاالہ الا اللہ پروردگار کی ناراضگی سے پناہ میں رکھتا ہے ۔۔ جب تک لوگ دنیا کی رنگینی کو آخرت کی حقیقت پر ترجیح نہ دیں لیکن اگر لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے لگیں اور پھر لاالہ الا اللہ کہیں تو یہ کلمہ ان پر رد کردیاجاتا ہے اور اللہ عزوجل فرماتے ہیں تم جھوٹ بولتے ہو۔ الحکیم بروایت انس (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

222

222 – "لا تزال لا إله إلا الله تحجب غضب الرب عن الناس مالم يبالوا ما ذهب من دينهم إذا صلحت لهم ديناهم فإذا قالوا قيل لهم كذبتم لستم من أهلها" (ابن النجار عن زيد بن أرقم)
٢٢٢۔۔ کلمہ لاالہ الا اللہ مسلسل پروردگار عزوجل کے غضب کو لوگوں سے روکتا رہتا ہے ، جب تک کہ وہ اپنی دنیا کو سنوارنے کے لیے دین کو ضائع نہ کرنا شروع کردیں لیکن جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے اور پھر وہ اپنی زبانوں پر یہ کلمہ جاری کردیں تو ان کو کہا جاتا ہے نہیں نہیں اب تم اس کے اہل نہیں رہے۔ ابن النجار ، بروایت زید بن ارقم (رض) ۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔

223

223 – "لا تزال لا إله إلا الله تنفع من قالها حتى يستخف بها والاستخفاف بحقها أن يظهر العمل بالمعاصي فلا ينكروه ولا يغيروه" (ك في تاريخه عن ابان عن أنس) .
٢٢٣۔۔ لاالہ الا اللہ ہمیشہ اپنے کہنے والے کو نفع دیتارہتا ہے ، جب تک کہ اس کی اہانت نہ کی جائے اس کے حق کی اہانت یہ ہے کہ معاصی کا دور دورہ ہوجائے مگر ان کو روکنے والا اور بند کرنے والا کوئی نہ ہو۔ الحاکم فی التاریخ بروایت انس (رض)۔

224

224 – "لا يزال قول لا إله إلا الله يرفع سخط الله عن العباد حتى إذا نزلوا بالمنزل الذي لا يبالون مانقص من دينهم إذا سلمت لهم دنياهم فقالوا عند ذلك قال الله كذبتم" (الحكيم عن أنس) .
٢٢٤۔۔ لاالہ الا اللہ کہنا مسلسل اللہ پاک کی ناراضگی کو بندوں سے روکتا ہے حتی کہ جب وہ اس منزل پر پہنچ جائیں کہ انھیں پروا نہ رہے کہ ان کی دینی حالت کس قدر انحطاط کا شکا رہے بلکہ وہ صرف اپنی دنیا درست ہونے پر مطمئن ہوجائیں اور پھر اپنی جھوٹی زبانوں سے یہ کلمہ کہیں تو اللہ فرماتے ہیں تم جھوٹ کہتے ہو۔ الحکیم بروایت انس (رض)۔

225

225 – "من لقي الله وهو يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وآمن بالبعث والحساب دخل الجنة" (ن والبغوي وابن عساكر عن أبي سلمة راعي النبي صلى الله عليه وسلم) .
٢٢٥۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اس بات کی شہادت دیتا ہوا آئے کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور مرنے کے بعددوبارہ اٹھائے جانے پر اور حساب کتاب پر ایمان لائے وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ النسائی، البغوی، ابن عساکر، بروایت ابی سلمہ (رض) راعی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

226

226 – " لا إله إلا الله تدفع عن قائلها تسعة وتسعين بابا من البلاء أدناه الهم" (الديلمي عن ابن عباس) .
٢٢٦۔۔ لاالہ الا اللہ اپنے کہنے والے سے مصیبتوں کے ننانوے دروازوں کو بند رکھتا ہے جن میں سب سے کم رنج وغم ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) ، بروایت ابن عباس (رض) ۔

227

227 – "لا إله إلا الله كلمة كريمة على الله ولها عند الله مكان جمعت وسولت من قالها صدقا من قلبه دخل الجنة ومن قالها كاذبا حقنت دمه واحرزت ماله ولقي الله عز وجل غدا يحاسبه" (أبونعيم عن عياض الأشعري) .
٢٢٧۔۔ کلمہ لاالہ الا اللہ اللہ کے ہاں انتہائی عزت و تکریم والاکلمہ ہے۔ اس کا عمدہ وقابل رشک مقام ہے جس نے اس کو اخلاص کے ساتھ کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس نے نفاق کے ساتھ کہا، اس کی بھی جان اور مال محفوظ تو ہوگئے لیکن کل اس کی اللہ سے ملاقات ہوگئی تو اللہ اس کا احتساب فرمائیں گے ۔ ابونعیم بروایت عیاض الاشعری۔

228

228 – "لا إله إلا الله نصف الميزان والحمد لله تملأه" (الديلمي عن شداد بن أوس) .
٢٢٨۔۔ لاالہ الا اللہ نصف میزان ہے اور الحمدللہ اس کو بھر دیتا ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت شداد بن اوس۔

229

229 – "لا أزال أشفع وأشفع حتى أقول يا رب شفعني فيمن قال لا إله إلا الله فيقال ليست هذه لك ولا لأحد هذا إلي (2) قلا يبقى أحد قال لا إله إلا الله إلا أخرج منها" (الديلمي عن أنس) .
٢٢٩۔۔ میں مسلسل اپنے پروردگار سے سفارش کرتا رہوں گا کرتا رہوں گا حتی کہ عرض کردوں گا پروردگار ہرای سے شخص کے بارے میں میری سفارش قبول فرما جس نے لاالہ الا اللہ کہا ہو، کہا جائے گا نہیں محمد، یہ تمہارا حق نہیں ہے نہ اور کسی کا۔ یہ میرا حق ہے اور میں آج جہنم میں کسی بھی ایسے شخص کونہ چھوڑوں گا جس نے لاالہ الا اللہ کہا ہو۔ الفردوس للدیلمی، (رح) بروایت انس (رض)۔

230

230 – "لا يموت عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله يرجع ذلك إلى قلب المؤمن إلا دخل الجنة" (مسدد عن معاذ) .
٢٣٠۔۔ کوئی بندہ اس حال میں نہیں مرتا کہ وہ دل کے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دے رہا ہوم گروہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسدد بروایت معاذ (رض)۔

231

231 – "يا بلال ناد في الناس: من قال لا إله إلا الله قبل موته بسنة دخل الجنة أو شهر أو جمعة أو يوم أو ساعة قال إذا يتكلوا قال وإن اتكلوا" (طب عن بلال) وفيه المنهال؟؟ بن خليفة منكر الحديث) .
٢٣١۔۔ اے بلال ، لوگوں میں ندادیدو کہ جس شخص نے اپنی موت سے ایک سال قبل یا ایک ماہ قبل یا ایک ہفتہ قبل یا ایک دن قبل یا ایک گھڑی قبل ہی کیوں نہ لاالہ الا اللہ کہہ لیا، وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، حضرت بلال (رض) نے عرض کیا پھرتولوگ بھروسہ کربیٹھیں گے ؟ اپ نے فرمایا خواہ بھروسہ کرلیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت بلال (رض)۔ اس روایت میں منہال بن خلیفہ منکرالحدیث ہے لہٰذا اس روایت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

232

232 – "يا سهيل بن البيضاء أنه من شهد أن لا إله إلا الله حرمه الله على النار وأوجب له الجنة"(عبد بن حميد حم ش ع حب والبغوي وابن قانع عن سهيل بن البيضاء.
٣٢۔۔ اے سہیل بن البیضاء جس نے لاالہ الا اللہ کی شہادت دی اللہ عزوجل اس کو جہنم کی آگ پر حرام فرمادیں گے اور اس کے لیے جنت واجب فرمادیں گے۔ عبد بن حمید، مسندالامام احمد، ابن ابی شیبہ، المسند لابی یعلی، الصحیح لابن حبان، البغوی، ابن قانع بروایت سھیل بن البیضا۔

233

233 – "يؤتى برجل يوم القيامة ثم يؤتى بالميزان ثم يؤتى بتسعة وتسعين سجلا كل سجل منها مد البصرفيها خطاياه وذنوبه فتوضع في كفة الميزان ثم يخرج له قرطاس مثل هذا وأمسك بابهامه على نصف أصبعه فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله فتوضع في كفة أخرى فترجح بخطاياه وذنوبه" (عبد بن حميد عن ابن عمرو) .
٢٣٣۔۔ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا پھر میزان بھی لائی جائے گی اور اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے پیش ہوں گے ۔ ہر دفتر انتہا نظر تک پھیلا ہوگا، جن میں اس کی خطائیں اور گناہ ہوں گے۔۔ پھر تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا پھر آدھے پور جتنا کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا جس میں اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمداعبدہ ورسولہ، درج ہوگا۔ اور اس کاغذ کے پرزے کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔۔۔ اور پھر کاغذ کا وہ پرزہ اس کی تمام خطاؤں اور گناہوں پر بھاری ہوجائے گا۔ عبد بن حمید بروایت ابن عمرو۔

234

234 – "يقول الله عز وجل قربوا أهل لا إله إلا الله من ظل عرشي فإني أحبهم" (الديلمي عن أنس) .
٢٣٤۔۔ قیامت کے روز اللہ ارشاد فرمائیں گے لاالہ الا اللہ والوں کو میرے عرش کے قریب کردو کیونکہ میں ان سے محبت رکھتاہوں ۔ الفردوس الدیلمی، (رح) بروایت انس (رض)۔

235

235 – "يقول الله تعالى لا إله إلا الله حصني فمن دخله أمن عذابي" (ابن النجار عن على بن النجار عن أنس) .
٢٣٥۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لاالہ الا اللہ میرا قلعہ ہے سو جو اس میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔ ابن النجار ، عن علی بن النجار، بروایت انس (رض)۔

236

236 – "يقول الله تعالى أنا الله لا إله إلا أنا كلمتي من قالها أدخلته جنتي ومن أدخلته جنتي فقد أمن والقرآن كلامي ومني خرج" (الخطيب عن ابن عباس) .
٢٣٦۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اللہ ہوں اور لاالہ الا اللہ میرا کلمہ ہے جس نے اس کو کہہ لیا میں اسے اپنی جنت میں داخل کردوں گا اور جو میرے جنت میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا اور قرآن میرا کلام ہے اور مجھ سے نکلا ہے۔ الخطیب بروایت ابن عباس (رض)۔

237

237 – "أتاني جبريل فقال بشر أمتك من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت يا جبريل وإن زنى وإن سرق قال نعم وإن زنى وإن سرق قال نعم وإن زنى وإن سرق قال نعم وإن شرب الخمر" (حم ت ن حب ق عن أبي ذر) صح.
٢٣٧۔۔ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی امت کو خوش خبری دیدیجئے کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اور میں نے جبرائیل سے استفسار کیا اے جبرائیل خواہ اس نے چوری کی ہو یازنا کیا ہوفرمایاجی ہاں خواہ اس نے چوری کی ہو یازنا کیا ہو۔ خواہ اس نے چوری کی ہو یا زناکیاہو، خواہ اس نے شراب کیوں نہ پی ہو۔ بخاری ، مسلم، مسندالامام احمدا لجامع للترمذی، النسائی، الصحٰح لابن حبان، بروایت ابی ذر (رض) ۔ حدیث صحیح ہے۔

238

238 – "أتاني جبريل فبشرني أنه من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق؟ قال وإن زنى وإن سرق" (ق عن أبي ذر) .
٢٣٨۔۔ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور خوش خبری دی کہ آپ کی امت سے جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا فرمایا خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو ۔ بخاری ، مسلم، بروایت ابی ذر۔

239

239 – "قال لي جبريل من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت وإن زنى وإن سرق؟ قال: وإن" (1) (خ عن أبي ذر) .
٢٣٩۔۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے کہا، آپ کی امت سے جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا، خواہ اس نے چوری کی ہوزنا کیا ہو ؟ فرمایا جی ہاں، خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔ بخاری بروایت ابی ذر (رض) ۔

240

240 – "إذا أدخل الله الموحدين النار أماتهم فيها فإذا أراد أن يخرجهم منها أمسهم ألم العذاب تلك الساعة". (فر عن أبي هريرة) .
٢٤٠۔۔ جب اللہ تعالیٰ توحید پرست لوگوں کو ان کے کسی گناہ کی وجہ سے جہنم میں داخل فرمائیں گے تو وہاں ان کو موت دے دیں گے پھر جب ان کو نکالنے کا ارادہ فرمائیں گے اس گھڑی ان کو تھوڑا سا عذاب چکھادیں گے۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت ابوہریرہ (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

241

241 – " أفضل الأعمال الإيمان بالله وحده، ثم الجهاد ثم حجة مبرورة وتفضل سائر الأعمال كما بين مطلع الشمس إلى مغربها" (طب عن عامر)
٢٤١۔۔ اعمال میں سب سے افضل اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانا ہے پھر جہاد پھر گناہوں سے مبراحج اور بقیہ تمام اعمال کی باہمی فضیلت یوں ہے جس طرح طلوع شمس سے غروب شمس تک سارادن ایک سا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عامر، اعمال کی فضیلت کا دارومدار احوال واشخاص پر ہے اسی وجہ سے دیگر احادیث میں اس سے مختلف مضمون آیا ہے اور بقیہ اعمال کے ہم رتبہ ہونے کے لیے دن کی مثال بیان فرمائی ہے۔

242

242 – "أفلح من هدي إلى الإسلام كان عيشه كفافا، وقنع به" (طب عن فضالة بن عبيد) .
٢٤٢۔۔ فلاح پا گیا وہ شخص جسے اسلام کی ہدایت مل گئی ۔ اور بقدر کفایت روزی مل گئی اور پھر وہ اس پر قناعت پسند بھی بن گیا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت فضالہ بن عبید۔

243

243 – "الإسلام يجب ما كان قبله". (ابن سعد عن الزبير وعن جبير بن مطعم) .
٢٤٣۔۔ اسلام اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتا ہے۔ ابن سعید بروایت زبیر (رض) وبروایت جبیر بن مطعیم۔

244

244 – "الإسلام ذلول لا يركب إلا ذلولا" (حم عن أبي ذر) .
٢٤٤۔۔ اسلام نرم و مہربان سواری ہے۔ لہٰذا اپنے لیے سوار بھی ایساہی منتخب کرتی ہے۔ مسنداحمد ، بروایت ابی ذر (رض) ۔

245

245 – "الإسلام يزيد ولا ينقص" (حم د ك هق عن معاذ) .
٢٤٥۔۔ اسلام بڑھتا ہے۔ مگر گھٹتا نہیں۔ مسنداحمد ، ابوداؤد ، المستدرک للحاکم، بیہقی، بروایت معاذ (رض)۔

246

246 – "الإسلام يعلو ولا يعلى". (الروياني قط هق والضياء عن عائذ بن عمر) .
٢٤٦۔۔ اسلام ہمیشہ بلندرہتا ہے، کبھی مغلوب نہیں ہوتا، الرویانی ، الدارقطنی، بیہقی، الضیا، بروایت عاید بن عمر۔

247

247 – "أما علمت أن الإسلام يهدم ما كان قبله وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها وأن الحج يهدم ماكان قبله" (م عن عمرو بن العاص) .
٢٤٧۔۔ کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ اسلام اپنے سے پہلے برے اعمال کو منہدم کردیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتی ہے اور حج بھی اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتا ہے۔ الصحیح للامام مسلم (رح) بروایت عمرو بن العاص۔

248

248 – "طوبى لمن أدركني وآمن بي وطوبى لمن لم يدركني ثم آمن بي" (ابن النجار عن أبي هريرة) .
٢٤٨۔۔ واہ۔۔ کیا ہی خوشی کی بات ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے پایا پھر مجھ پر ایمان لایا، اور اس شخص کے لیے بھی جو مجھے نہ پائے مگر پھر بھی مجھ پر ایمان لایا۔ ابن النجار، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

249

249 – "طوبى لمن رآني وآمن بي ثم طوبى ثم طوبى ثم طوبى لمن آمن بي ولم يرني" (حم عن أبي سعيد) .
٢٤٩۔۔ واہ۔۔ کس قدر خوشی کی بات ہے اور اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، لیکن اس شخص کے لیے تو کس قدرخوشی کی بات ہے کس قدر خوشی کی بات ہے کس قدر خوشی کی بات ہے اور جو مجھ پر ایمان لایا اور باوجودیکہ اس نے مجھے دیکھا نہیں۔ مسند امام احمد ، بروایت ابی سعید۔

250

250 – "طوبى لمن رآني وآمن بي مرة، وطوبى لمن لم يرني وآمن بي سبع مرات" (حم تخ حب ك عن أبي أمامة حم عن أنس) .
٢٥٠۔۔ کیا ہی خوشی کی بات ہے ایک بار، اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔ اور اس کے لیے توسات بار بےانتہا خوشی کی بات ہے جس نے مجھے دیکھا نہیں مگر پھر بھی مجھ پر ایمان لایا۔ بخاری ، الصحیح الابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت ابی امامہ ، (رض) مسند امام احمد، بروایت انس (رض)۔

251

251 – "طوبى لمن رآني وآمن بي وطوبى لمن آمن بي ولم يرني ثلاث مرات" (الطيالسي وعبد بن حميد عن ابن عمر) .
٢٥١۔۔ خوشی کی بات ہے ایک بار اس شخص کے لیے ، جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔ لیکن اس شخص کے لیے تین مرتبہ خوشی کی بات ہے جس نے مجھے دیکھا نہیں پھر بھی ایمان لایا مجھ پر۔ الطیالسی ، عبد بن حمید، بروایت ابن عمر (رض)۔

252

252 - " قال الله تعالى "يا ابن آدم مهما عبدتني ورجوتني ولم تشرك بي شيئا غفرت لك ماكان منك وإن استقبلتني بملاء السماء والأرض خطايا وذنوبا استقبلتك بملئهن من المغفرة وأغفر لك ولا أبالي" (طب عن أبي الدرداء) وحسن.
٢٥٢۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں تجھ سے سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کرتا رہوں گا، اور مجھ سے آص لگائے رکھے گا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا میں تجھ سے سرزد ہونے والے گناہوں کو معاف کرتا رہوں گا، اور اگرچہ تو آسمان اور زمین بھر گناہوں کے ساتھ بھی مجھ سے ملے گا، میں بھی آسمان و زمین بھربخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔ اور تیری مغفرت کرتا رہوں گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الدرداء (رض) ۔ حدیث حسن ہے۔

253

253 - " قال الله تعالى "من علم أني ذو قدوة على مغفرة الذنوب غفرت له ولا أبالي مالم يشرك بي شيئا" (طب ك عن ابن عباس) .
٣٥٣۔۔ پروردگار عزوجل فرماتے ہیں گناہوں کے بخشنے پر جس کو میری قدرت کا یقین ہو میں اس کی مغفرت کرتا رہوں گا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ الطبرانی ، فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عباس (رض)۔

254

254 - "قال ربكم "أنا أهل أن أتقى فلا يجعل معي إله فمن اتقى أن يجعل معي إله فأنا أهل أن أغفر له" (حم ت ن هـ ك عن أنس) .
٢٥٤۔۔ تمہارے پروردگار عزوجل نے فرمایا میں اس بات کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے لہٰذا میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے پس جو شخص میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے ڈرا اور اس سے باز رہا تومیر اس کو بخش دینا بھی مجھے زیب دیتا ہے۔ مسند امام احمد الجامع للترمذی، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، بروایت انس (رض)۔

255

255 – "قد أفلح من أخلص قلبه للإيمان، وجعل قلبه سليما، ولسانه صادقا، ونفسه مطمئنة، وحيقته مستقيمة، وأذنه مستمعة، وعينه ناظرة" (حم عن أبي ذر) .
٢٥٥۔۔ یقیناوہ شخص فلاح و کامرانی پا گیا جس کا دل ایمان میں مخلص ہوگیا اور اس نے اپنے دل کو سلیم الطبع کرلیا اپنی زبان کو سچ کا عادی بنالیا اپنے نفس کو مطمئن کرلیا، اپنی گردش حیات کو درست کرلیا، اپنے کانوں کو حق سننے کا عادی بنالیا، اور اپنی آنکھوں کو عبرتوں کا نظآرہ کرنے والابنالیا۔ مسند امام احمد، بروایت ابی ذر ۔

256

256 – "كما لا ينفع مع الشرك شيء، كذلك لا يضر مع الإيمان شيء". (خط عن عمر حل عن ابن عمر) .
٢٥٦۔۔ جس طرح شری کے ساتھ کوئی نیکی سود مند نہیں یونہی ایمان کے ساتھ کوئی چیز نقصان دہ نہیں۔ حطب بغدادی بروایت عمر (رض) ، الحلیہ، بروایت بن عمر (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

257

257 – "من علم أن الله ربه، وأني نبيه، موقنا من قلبه، حرمه الله على النار". (البزار عن عمران) .
٢٥٧۔۔ جس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور یقین ہوگیا کہ اللہ اس کا پروردگار ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں اللہ اس کو آگ پر حرام کردیں گے ۔ مسند البزار بروایت عمران۔

258

258 – " من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة". (حم خ عن أنس) .
٢٥٨۔۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اسے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسند امام احمد ، بخاری بروایت انس (رض)۔

259

259 – "من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة". (حم ق عن ابن مسعود) .
٢٥٩۔۔ جس شخص کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسند امام احمد ، بخاری و مسلم، بروایت ابن مسعود (رض)۔

260

260 – "لا يقبل إيمان بلا عمل، ولا عمل بلا إيمان". (طب عن ابن عمر) .
٢٦٠۔۔ بغیر عمل ایمان مقبول نہ بغیر ایمان کوئی عمل سود مند ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمر (رض)۔

261

261 – "إن الله لا يعذب من عباده إلا المارد والمتمرد على الله، وأبى أن يقول لا إله إلا الله". (هـ عن ابن عمر) .
٢٦١۔۔ اللہ اپنے بندوں کو عذاب نہیں کرتے مگر سرکش اور اللہ پر جرات کرنے والے کو جو لاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کردے۔ ابن ماجہ ۔ بروایت ابن عمرو (رض) ۔

262

262 – "إن الله تعالى لا يظلم المؤمن حسنة، يعطى عليها في الدنيا، ويثاب عليها في الآخرة، وأما الكافر فيعطى بحسناته في الدنيا. حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يعطى بها خيرا". (حم م عن أيس) .
٢٦٢۔۔ اللہ تعالیٰ کسی مومن کی نیکی کو کم نہیں کرتے بلکہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ عطا کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اس پر ثواب مرحمت فرماتے ہیں مگر کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی نمٹا دیتے ہیں اور جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوتی، جس کا بدلہ وہ اچھا پائے۔ مسند امام احمد ، الصحیح الامام مسلم (رح) بروایت انس (رض)۔

263

263 – "لا يموت رجل مسلم إلا أدخل الله مكانه النار يهوديا أونصرانيا" (حب طب عن أبي موسى) .
٢٦٣۔۔ اگر کوئی مرد مومن مرتا ہے تو اللہ اس کی جگہ کسی یہودی یا نصرانی کو جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ الصحیح لابن حبان، الطبرانی، فی الکبیر، بروایت ابوموسی۔

264

264 – "إني رأيت في المنام، كأن جبريل عند رأسي، وميكائيل عند رجلي، يقول أحدهما لصاحبه: اضرب له مثلا، فقال: اسمع سمعت أذنك، واعقل عقل قلبك، إنما مثلك ومثل أمتك كمثل ملك اتخذ دارا، ثم بنى فيها بيتا، ثم بعث رسولا يدعو الناس إلى طعامه، فمنهم من أجاب الرسول، ومنهم من تركه فالله هو الملك، والدار الإسلام، والبيت الجنة، وأنت يا محمد رسوله، فمن أجابك دخل الإسلام، ومن دخل الإسلام دخل الجنة، ومن دخل الجنة أكل مما فيها". (خ ت عن جابر) .
٢٦٤۔۔ میں نے جبرائیل کو خواب میں دیکھا گویا وہ میرے سرہانے کھڑے ہیں اور میکائل میرے پاس پائتی کی طرف کھڑے ہیں ایک دوسرے سے کہہ رہا ہے ان کی کوئی مثال بیان کرو۔۔۔ دوسرے نے مجھے مخاطب ہو کر کہا سنیے آپ کے کان تو سنتے رہیں اور آپ کا دل سمجھتا رہے کہ آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی طرح ہے جس نے ایک گھربنوایا اور اس میں ایک کمرہ بنوایا پھر ایک قاصد بھیجا۔۔۔ جو لوگوں کو دعوت پر بلالائے پس کچھ لوگوں نے دعوت قبول کرلی اور کچھ نے چھوڑ دیا۔ پس اللہ تو بادشاہ ہیں اور وہ گھراسلام ہے اس میں بنایا گیا کمرہ جنت ہے اور اے محمد۔۔ آپ اللہ کے قاصد ہیں۔ لذا جس نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا وہ اسلام میں داخل ہوا اور جو اسلام میں داخل ہواجنت میں داخل ہوگیا۔ اور جو جنت میں داخل ہوگیا وہاں کی نعمتیں کھائے گا۔ بخاری ، للترمذی، بروایت جابر (رض)۔

265

265 – "إذا أسلم العبد فحسن إسلامه، يكفر الله عنه كل سيئة كان أزلفها، وكان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها، إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عنها". (خ ن عن أبي سعيد) .
٢٦٥۔۔ جب بندہ اسلام سے مشرف ہو اور پھر پوری طرح اسلام کو اپنی زندگی میں بھی ڈھال لے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر خطا جو اس سے سرزد ہوئی تھی کا کفارہ فرما دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اس کی ہرنی کی کے بدلہ دس نیکیاں ملتی ہیں، جو سات سو گنا تک بڑھ سکتی ہیں، لیکن برائی صرف ایک گناہ ہی رہتی ہے۔ بلکہ امید ہے اللہ پاک اس سے بھی درگزر فرمائیں گے۔ بخاری، نسائی، بروایت ابی سعد۔

266

266 – "إذا أحسن أحدكم إسلامه، فكل حسنة يعملها تكتب بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف، وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها حتى يلقى الله". (حم ق عن أبي هريرة) .
٢٦٦۔۔ جب تم میں سے کوئی اسلام پر اچھی طرح کاربند ہوجائے تو اس کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھ جاتی ہے لیکن برائی صرف ایک ہی رہتی ہے ، حتی کہ اللہ تعالیٰ سے جاملے۔ مسند امام احمد، بخاری، مسلم، بروایت ابوہریرہ (رض) ۔

267

267 – "إذا أسلم العبد فحسن إسلامه، كتب الله له كل حسنة كان أزلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان أزلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عنها" (ن حب عن أبي سعيد) .
٢٦٧۔۔ جب بندہ مسلمان ہوجائے اور پھر پوری طرح اسلام کو اپنی زندگی میں ڈھال لے تو اللہ اس کی ہرنی کی جو اس نے انجام دی تھی اس کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اور ہر برائی جو اس سے صادر ہوئی تھی اس کو مٹا دیتے ہیں پھر یوں بدلہ دیاجاتا ہے کہ ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھ جاتی ہے اور برائی صرف ایک گنا ہی رہتی ہے بلکہ امید ہے اللہ اس سے بھی درگزر فرمادیں گے۔ لابن حبان، النسائی، بروایت ابی سعید۔

268

268 – "أفضل الأعمال الإيمان بالله وحده، ثم الجهاد، ثم حجة مبرورة، تفضل سائر الأعمال كما بين مطلع الشمس إلى مغربها". (حم عن ماعز) .
٢٦٨۔۔ اعمال میں سب سے افضل، اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانا ہے پھر جہاد، پھر گناہوں سے مبراحج، اور بقیہ تمام اعمال کی باہمی فضیلت یوں ہے جس طرح طلوع شمس سے غروب شمس تک سارے دن کی ایک سی حیثیت ہے۔ مسند امام احمد، بروایت ماعز۔

269

269 – "أفضل العمل إيمان بالله وحده، وجهاد في سبيله". (حب عن أبي ذر) .
٢٦٩۔۔ سب سے افضل عمل، اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانا ہے اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ الصحیح لابن حبان، بروایت ابی ذر (رض) ۔

270

270 – "إن الله يعذب الموحدين في جهنم بقدر نقصان إيمانهم، ثم يردهم إلى الجنة خلودا دائما بإيمانهم". (حل عن أنس) .
٢٧٠۔۔ اللہ تعالیٰ توحید پرست بندوں کو جہنم میں اگر عذاب دیں گے تو وہ ان کے ایمان کی کمی کے بقدر دیں گے پھر ان کے ایمان کے سبب ہمیشہ کے لیے ان کو جنت میں داخل فرمادیں گے ۔ الحلیہ۔ بروایت انس (رض)۔

271

271 – "إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة؛ وأيام منى أيام أكل وشرب". (حم ن ط عن بشر بن سحيم عن كعب بن مالك) .
٢٧١۔۔ بیشک جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوسکتا ہے اور ایام منی کھانے پینے کے دن ہیں۔ مسند امام احمد، النسائی، ابوداود، بروایت بشر بن سحیم، بروایت کعب بن مالک۔

272

272 – "إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر". (حم ن عن أبي هريرة) .
٢٧٢۔۔ بیشک جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوسکتا ہے اللہ پاک کسی فاسق شخص کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کروالیتے ہیں۔ مسنداحمد، النسائی، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ روایت سے متعلق اہم امور حدیث ١١٥ کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

273

273 – "أنا زعيم لمن آمن بي، وأسلم وهاجر، ببيت في ربض الجنة، وببيت في وسط الجنة، وببيت في أعلى غرف الجنة فمن فعل ذلك لم يدع للخير مطلبا ولا من الشر مهربا يموت حيث شاء أن يموت". (ن حب ك هق عن فضالة بن عبيد) .
٢٧٣۔۔ جو مجھ پر ایمان لایا، اسلام سے بہرہ مند ہوا، اور ہجرت کی میں اس کے لیے جنت کے آس پاس گھر کا ذمہ دارہوں اور جنت کے عین وسط میں گھر کا ذمہ دار ہوں اور جنت کے اعلی بالاخانوں میں گھر کا ذمہ دارہوں پس جو ان اعمال میں پورا اترا اس نے خیر کا کوئی کام نہ چھوڑا اور شر کے لیے کوئی رہنے کی جگہ نہ چھوڑی پس جہاں چاہے انتقال کرے۔ النسائی، ابن حبان، المستدرک للحاکم، بیہقی، بروایت فضالہ بن عبید۔

274

274 – "أفضل الإسلام الحنيفية السمحة". (طس عن ابن عباس) .
٢٧٤۔۔ افضل اسلام ملت ابراہیمی والا ہے۔ الاوسط للطبرانی، بروایت ابن عباس (رض)۔

275

275 – "من آمن بالله ورسوله، وأقام الصلاة وآتى الزكاة وصام رمضان، كان حقا على الله أن يدخله الجنة، هاجر في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها". (حم خ عن أبي هريرة) .
٢٧٥۔۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے۔ خواہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اسی سرزمین میں بیٹھا رہے جہاں اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔ مسنداحمد، بخاری بروایت ابویرہرہ (رض) ۔

276

276 – "من جاء يعبد الله ولا يشرك به شيئا ويقيم الصلاة ويؤتي الزكاة ويصوم رمضان ويتقي الكبائر فإن له الجنة، قالوا ما الكبائر؟ قال: الاشراك بالله، وقتل النفس المسلمة، وفرار يوم الزحف". (حم ن حب ك عن أبي أيوب) .
٢٧٦۔۔ جو شخص اس حال میں آیا کہ وہ اللہ کی عبادت کرتا رہا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا نماز قائم کی زکوۃ ادا کی رمضان کے روزے رکھے اور کبائر سے بچتارہا تو یقیناً اس کے لیے جنت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کبائر کیا چیز ہیں۔ فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا مسلمان جان کو ناحق قتل کرنا جنگ کے روز پشت دے کر بھاگنا۔ مسنداحمد، النسائی، ابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت ابی ایوب۔

277

277 – "من شهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله، وأن عيسى عبد الله ورسوله وابن أمته وكلمته ألقاها إلى مريم وروح منه، وأن الجنة حق، والنار حق، وأن البعث حق، أدخله الله الجنة على ما كان من عمل، من أي أبواب الجنة الثمانية شاء" (حم ق عن عبادة بن الصامت) .
٢٧٧۔۔ جس شخص نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور عیسی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی باندی کے بیٹے ہیں اور اس کی نشانی ہیں جن کو اللہ نے مریم میں القاء کیا اور اللہ کے حکم سے پیدا ہوئے ہیں اور جنت حق ہے جہنم حق ہے ، دوبارہ اٹھایا جانا حق ہے تو اللہ ایسے شخص کو جنت کے آٹھویں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل فرمادیں گے خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، بروایت عبادہ بن صامت۔

278

278 – "من فارق الدنيا على الإخلاص لله وحده وعبادته لاشريك له وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة، مات والله عنه راض". (هـ ك عن أنس) .
٢٧٨۔۔ جس شخص نے دنیا سے اس حال میں کوچ کیا کہ وہ اللہ کے ساتھ مخلص ایمان والا تھا خالص اسی کی عبادت کرتا تھا نماز قائم کرتا تھا زکوۃ ادا کرتا تھا، تو اللہ کی قسم اس کی یہ موت اس حال میں آئی کہ اللہ پاک اس سے راضی تھے۔ ابن ماجہ، بروایت انس۔

279

279 – "من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار". (حم م عن جابر) .
٢٧٩۔۔ جس شخص کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گ اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہوا مرا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ مسنداحمد، الصحیح مسلم، بروایت جابر (رض)۔

280

280 – "والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به، إلا كان من أصحاب النار". (حم م عن أبي هريرة) .
٢٨٠۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس امت کا خواہ کوئی یہودی ہو یا نصرانی جس نے بھی میرے متعلق سنا اور پھر یونہی مرگیا میری دعوت پر ایمان نہ لایا تویقینا وہ اصحاب جہنم میں داخل ہوگا۔ مسند احمد، مسلم، بروایت ابوہریرہ۔

281

281 – "الوائدة والموؤودة في النار إلا أن تدرك الوائدة الإسلام فتسلم". (حم ن عن سلمة بن يزيد الجعفي) .
٢٨١۔۔ زندہ درگور کرنے والی ہو اور ہونے والی دونوں جہنم میں ہوں گی۔ الایہ کہ زندہ درگور کرنے والی بعد میں اسلام کو پالے اور اس سے وابستہ ہوجائے ۔ مسنداحمد ، النسائی، بروایت سلمہ بن یزید الجعفی سلمہ بن یزید جعفی (رض) نعہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضرہوا، اور ہم نے عرض کیا کہ ہماری والدہ ملیکہ زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتی تھیں مہمان نوازی کرتی تھیں اور اس طرح کے دیگرنیک کام انجام دیتی تھیں، وہ زمانہ جاہلیت میں انتقال کرگئیں تو کیا یہ خیر کے کام اس کے لیے کچھ سودمند ثابت ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں۔
ہم نے مزید عرض کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ہماری ایک بہن تھی جس کو ہماری والدہ نے زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق زندہ درگور کردیا، کیا ہماری والدہ کے نیک اس گناہ کو دھودیں گے ، تب آپ نے فرمایا زندہ درگور کرنے والی اور ہونے والی دونوں جہنم میں ہیں، الایہ کہ زندہ درگور کرنے والی اسلام کو پالے اور اس سے وابستہ ہوجائے۔ قاتلہ کے جہنم جانے کے مسئلہ تو واضح ہے مگر مقتولہ زندہ درگور ہونے والی کیوں جہنم میں جائے گی اس کی وجہ زندہ درگور ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مدار اس مسئلہ پر ہے کیا اولاد مشرکین جہنم میں جائیں گے یا جنت میں ۔ اس بارے میں نصوص متعارض ہیں۔

282

282 – " يا أبا سعيد من رضي بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، وجبت له الجنة، وأخرى يرفع بها العبد مائة درجة في الجنة، ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، الجهاد في سبيل الله الجهاد في سبيل الله الجهاد في سبيل الله". (حم م ن عن أبي سعيد) .
٢٨٢۔۔ اے ابوسعید، جو شخص اللہ کے رب ہونے پرا اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے پیغمبر ہونے پر اضی ہوگیا، اور اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور دوسراعمل جس کے ذریعے بندہ جنت کے سو درجات تک پہنچ سکتا ہے جبکہ ایک درجہ زمین و آسمان کے درمیان جتنا ہے وہ جہاد فی سبیل الہ ہے جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مسنداحمد، امام مسلم، النسائی بروایت ابوسعید۔

283

283 – "يا معاذ بن جبل، هل تدري ماحق الله على عباده؛ وماحق العباد على الله؛ فإن حق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا، وحق العباد على الله أن لا يعذب من لا يشرك به شيئا". (حم ق ت هـ عن معاذ بن جبل) .
٢٨٣۔۔ اے معاذ بن جبل کیا تجھے پتہ ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے ؟ اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے۔ سو جان لو کہ اللہ کا بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ بندے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اللہ ان کو عذاب نہ دے۔ مسنداحمد، بخاری و مسلم، الجامع للترمذی، ابن ماجہ، بروایت معاذ (رض)۔

284

284 – "يخرج من النار من كان في قلبه مثقال ذرة من إيمان". (ت عن أبي سعيد) .
٢٨٤۔۔ جہنم سے ہراس شخص کو نکال کیا جائے گا جس کے دل میں ایمان کا ذرہ بھی ہوگا۔ ترمذی، بروایت ابوسعید۔

285

285 – "إن الله تعالى يقول لأهون أهل النار عذابا. لو أن لك ما في الأرض من شيء كنت تفتدي به؟ قال نعم، قال: فقد سألتك ما هو أهون من هذا وأنت في صلب آدم؛ أن لا تشرك بي شيئا فأبيت إلا الشرك". (ق عن أنس) .
٢٨٥۔۔ اللہ سب سے ہلکے عذاب والے سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس زمین بھر مال ہو تو کیا و اس کے عوض اپنی جان چھڑانا چاہے گا، بندہ عرض کرے جی پروردگار۔ پروردگار فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی چیز کا سوال کیا تھا، جبکہ توابھی آدم کی پشت میں تھا یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، مگر تو شرک پر مصر رہا۔ بخاری مسلم، بروایت انس (رض)۔

286

286 – "يقال للرجل من أهل النار يوم القيامة: أرأيت لو كان لك مافي الأرض من شيء أكنت مفتديا به. فيقول نعم؛ فيقول: قد أردت منك أهون من ذلك؛ قد أخذت عليك في ظهر آدم أن لا تشرك بي شيئا فأبيت إلا أن تشرك". (حم ق عن أنس) .
٢٨٦۔۔ قیامت کے دن ایک جہنمی شخص کو کہا جائے گا اگر تیرے پاس زمین بھر مال ہو تو کیا تو اس کے عوض اپنی جان چھڑا ناپسند کرے گا، بندہ عرض کرے گا، بالکل پروردگار۔ اللہ فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی چیز پسند کی تھی۔۔ میں نے تجھ سے عہد لیا تھا جبکہ توابھی آدم کی پشت میں تھا یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، مگر تو شرک کرنے پر مصررہا۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، بروایت انس۔

287

287 – "إذا كان يوم القيامة أعطى الله تعالى كل رجل من هذه الأمة رجلا من الكفار فيقال له هذا فداؤك من النار". (م عن أبي موسى) .
٢٨٧۔۔ جب قیامت کا دن ہوگا، اللہ اس امت کے ہر شخص کو ایک ایک کافر عطا فرمائیں گے اور اس کو کہا جائے گا جہنم میں جانے سے یہ تیرا فدیہ ہے۔ امام مسلم، (رح) بروایت ابی موسیٰ۔ ہر شخص کی جنت وجہنم میں سے ایک جگہ مقرر ہوتی ہے اگر وہ اسلام لے آیا تو جنت میں گیا اور اس کی جہنم والی جگہ کافر کو مل جاتی ہے اور اگر کفر کی وجہ سے جہنم میں گیا تو جنت والی جگہ مسلمان کو مل جاتی ہے۔

288

288 – " إذا كان يوم القيامة بعث الله تعالى إلى كل مؤمن ملكا معه كافر؛ فيقول الملك: للمؤمن يا مؤمن هاك هذا الكافر فهذا فداؤك من النار". (طب والحاكم في الكنى عن أبي موسى) .
٢٨٨۔۔ جب قیامت کا دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر مومن کے پاس ایک فرشتہ بھیجیں گے جس کے ساتھ ایک کافر ہوگا فرشتہ مومن سے کہے گا، لے اے مومن یہ کافر تیرا جہنم سے فدیہ ہے۔ الطبرانی، فی الکبیر، الکنی للحاکم، بروایت ابی موسیٰ۔

289

289 - الإكمال "أحب الأديان إلى الله الحنيفية السمحة" (حم خ في الأدب طب عن ابن عباس) (ن عن عمر بن عبد العزيز عن أبيه عن جده) .
289 ۔۔ اللہ کے نزدیک تمام ادیان سے زیادہ محبوب خالص ملت حنیفہ والا آسان دین ہے۔ مسنداحمد، الادب للبخاری، الطبرانی فی الکبیر ، بروایت ابن عباس ، النسائی بروایت عمر بن عبدالعزیز عن ابیہ عن جدہ۔
یعنی پہلے انبیاء کی ملل وشرائع کے منسوخ و مبدل ہونے سے قبل یہ ملت بہتر ہے۔ ورنہ وہ منسوخ و مبدل ہونے کے بعد بالکل ناجائز العمل ہیں حنیفہ کا مطلب ہے باطل سے کلیہ منحرف ہو کر محض حق کی طرف گامزن ہے اور سمحہ سے مراد آسان وسہل العمل ہے۔

290

290 – "إن أحب الأديان إلى الله الحنيفية السمحة" (1) (طس عن أبي هريرة) .
290 ۔۔ اللہ کے نزدیک تمام ادیان میں سب سے زیادہ محبوب دین خالص ملت حنیفہ والادین ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت ابوہریرہ۔ ملت حنیفہ والے دین سے مراد وہ دین ہے جو باطل سے کلیہ منقطع ہو کرحق کی طرف مائل ہونے والا ہو۔

291

291 – " أحب الأديان إلى الله الحنيفية فإذا رأيت أمتي لا يقولون للظالم أنت ظالم فقد تودع منهم". (ك وأبو موسى النرسي في الغرائب) (ك وأبو موسى المديني في معرفة الصحابة عن جعفر بن الأزهر بن قريظ عن جده عن أبي أمه سليمان بن كثير بن أمية بن سعيد عن أبيه أسعد عن عبد الله بن مالك الخزاعي) .
٢٩١۔۔ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک ملت حنیفہ والا ہے پس جب تو میری امت کو دیکھے وہ ظالم کو ظالم نہیں کہتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ المستدرک للحاکم، الغرائب لابی موسیٰ، معرفۃ الاصحابہ، لابی موسیٰ ، المدینی ، روایۃ السند عن جعفر بن الازھر، بن قریظ عن جدہ عن ابی امہ سلیمان بن کثیر، بن امیہ، بن سعید عن ابیہ اسعد عن عبداللہ بن مالک۔

292

292 – "إذا بعث الله الخلائق يوم القيامة؛ نادى مناد من تحت العرش ثلاثة أصوات: يامعشر الموحدين؛ إن الله قد عفا عنكم فيعف بعضكم عن بعض". (ابن أبي الدنيا في ذم الغضب عن أنس) .
٢٩٢۔۔ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو اٹھائیں گے ایک منادی عرش کے نیچے سے تین مرتبہ ندادے گا اے توحید پرست لوگو اللہ نے تمہین معاف فرمادیا ہے لہٰذا تم بھی آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو۔ ابن ابی الدنیا فی دم الغضب بروایت انس۔

293

293 – "إذا كان يوم القيامة جمع الله الخلائق في صعيد واحد؛ ثم يرفع لكل قوم آلهتهم التي كانوا يعبدونها؛ فيوردونهم النار؛ ويبقى الموحدون فيقال لهم ماتنتظرون فيقولون ننتظر ربا كنا نعبده بالغيب؛ فيقال لهم أو تعرفونه فيقولون: إن شاء عرفنا نفسه فيتجلى لهم فيخرون سجودا فيقال لهم: يا أهل التوحيد ارفعوا رؤوسكم؛ فقد أوجب الله لكم الجنة؛ وجعل مكان كل رجل منكم يهوديا أو نصرانيا في النار". (حل عن أبي موسى) .
٢٩٣۔۔ جب قیامت کے دن ہوگا، اللہ ایک میدان میں تمام مخلوقات کو جمع فرمائیں گے پھر ہر قوم کے معبودان باطلہ کو اٹھائیں گے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے اور وہ معبودان باطلہ اپنے پجاریوں کو جہنم کی طرف ہانک کرلے جائیں گے پیچھے صرف توحید پرست لوگ بچ جائیں گے ان سے استفسار کیا جائے گا، کہ تم کس کے منتظر ہو وہ کہیں گے ہم اپنے اس رب کے منتظر ہیں جس کی ہم غائبانہ پرستش کیا کرتے تھے ان سے کہا جائے کیا تم اس کو پہچانتے ہو وہ جواب دیں گے اگر ہمارا رب چاہے گا تو ہم اس کو ضرور پہچان لیں گے اس وقت اللہ ان پر اپنی تجلی ظاہر فرمائیں گے اور وہ تمام لوگ سجدہ ریز ہوجائیں گے پھر اس عالم میں ان کو خوش خبری سنائی جائے گی اے اہل توحید اپنے سروں کو اٹھاؤں پس اللہ نے تمہارے لیے جنت واجب فرمادی ہے اور تم میں سے ہر ایک کی جگہ جہنم میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھیج دیا گیا ہے۔ الحلیہ۔ بروایت ابی موسیٰ۔

294

294 – "إذا كان يوم القيامة جاء الإيمان والشرك يجثوان بين يدي الرب؛ فيقول: للإيمان انطلق أنت وأهلك إلى الجنة". (ك في تاريخه عن صفوان بن عسال) .
٢٩٤۔۔ جب قیامت کا روز ہوگا، ایمان اور شرک آئیں گے اور پروردگار کے سامنے بحث وتمحیص کرنے لگیں گے تو پروردگار ایمان کا فرمائیں گے تو اپنے اہل کو لے کر جنت میں جا۔ التاریخ للحاکم، بروایت صفوان بن عسال۔

295

295 – "إذا أحسن أحدكم إسلامه فكل حسنة يعملها تكتب له بعشر حسنات إلى سبع مائة ضعف؛ وكل سيئة يعملها تكتب له بمثلها حتى يلقى الله". (حم خ م عن أبي هريرة) .
٢٩٥۔۔ جب تم میں سے کوئی اسلام پر اچھی طرح کاربند ہوجائے تو اس کی کوئی ہوئی ہرنی کی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا کر لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن برائی صرف ایک گنا تک لکھی رہتی ہے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ سے جاملے۔ مسنداحمد، بخاری ، صحیح مسلم، بروایت ابوہریرہ۔

296

296 – "إذا أسلم العبد كتب الله له كل حسنة قدمها ومحا عنه كل سيئة أزلفها ثم قيل له: استأنف العمل؛ الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف؛ والسيئة بمثلها إلى أن يعفو الله وهو الغفور". (سمويه عن أبي سعيد) .
٢٩٦۔۔ جب بندہ مسلمان ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہرنی کی جو اس نے پہلے کی ہو اور اس کو محفوظ رکھتے ہیں اور ہر برائی جو اس سے صادر ہوئی تھی اس کو مٹا دیتے ہیں پھر از سرنو معاملہ شروع ہوتا ہے اس طرح کہ ایک نیکی دس گنا تک بڑھ جاتی ہے اور برائی صرف ایک ہی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کو بھی اللہ معاف فرمادیں۔

297

297 – "إن الإسلام يجب ما كان قبله؛ والهجرة تجب ما كان قبلها". (طب عن ابن عمر) .
297 ۔۔۔ اور اسلام اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتا ہے۔ اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمر (رض)۔

298

298 – "إذا أسلم العبد فحسن إسلامه؛ تقبل الله كل حسنة كان أزلفها؛ وكفر عنه كل سيئة أزلفها وكان في الإسلام ما كان، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف؛ والسيئة بمثلها إلى أن يمحوها الله". (طب عن عطاء بن يسار مرسلا) .
٢٩٧۔۔ جب بندہ مسلمان ہوجائے اور پھر پوری طرح اسلام کو اپنی زندگی میں بھی ڈھال لے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نیکی جو اس نے انجام دی تھی اس کو قبول فرمالیتے ہیں اور ہر برائی جو اس سے سرزد ہوئی تھی اس کا کفارہ فرما دیتے ہیں اور اسلام میں وہ جو عمل کرے اس کے ساتھ یہ معاملہ فرماتے ہیں۔ کہ ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھ جاتی ہے اور برائی صرف ایک گنا رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی محو فرمادیں گے ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عطا بن یسار مرسلا۔

299

299 – "أما علمت أن الإسلام يهدم ما قبله؛ وأن الهجرة تهدم ما كان قبلها؛ وأن الحج يهدم ما كان قبله". (ص عن عمرو بن العاص) .
٢٩٩۔۔ کیا تمہین علم نہیں ہے کہ اسلام اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتا ہے اور ہجرت بھی اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتی ہے اور حج بھی اپنے سے پہلے اعمال کو منہدم کردیتا ہے۔ السنن لسعید، بروایت عمروبن العاص۔

300

300 – " إن الله عز وجل يغفر لعبده ما لم يقع الحجاب، قيل وما وقوع الحجاب؟ قال تخرج النفس وهي مشركة". (حم خ في التاريخ ع) حب والبغوي في الجعديات ك ص عن أبي ذر رضي الله عنه) .
٣٠٠۔۔ اللہ تعالیٰ بندہ کو معاف فرماتے رہتے ہیں، جب تک پردہ حائل نہ ہو دریافت کیا گیا، پردہ کیا ہے فرمایا، اس حال میں روح نکلے کہ وہ مشرک ہو۔ مسنداحمد، بخاری ، فی التاریخ المسند لابی یعلی، الصحیح لابن حبان، البغوری، فی الجعدیات، المستدرک للحاکم۔ السنن لسعید، بروایت ابی ذر (رض) ۔

301

301 – "إن المسلم في ذمة الله مذ ولدته أمه إلى أن يقوم بين يدي الله تبارك وتعالى؛ فإن وافى الله بشهادة أن لا إله إلا الله صادقا؛ أو باستغفار صادقا كتب الله له براءة من النار". (ز عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبيه ولم يسمع منه) .
٣٠١۔۔ مسلمان جب سے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہے اللہ کے سامنے کھڑے ہونے تک مسلسل اللہ کی ذمہ داریاں میں رہتا ہے پس اگر اللہ سے اس حال میں سامنا ہوا کہ اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دیاہو یا اخلاص کے ساتھ استغفار کرتا ہو آئے تو اللہ اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دیتے ہیں۔ البزار بروایت ابی سلمہ، بن عبدالرحمن عن ابیہ ولم یسمع عنہ۔

302

302 – "إن النور إذا دخل الصدر انفسح قيل هل لذلك من علم يعرف به قال: نعم التجافي عن دار الغرور والانابة إلى دار الخلود والاستعداد للموت قبل نزوله". (ك وتعقب عن ابن مسعود) .
٣٠٢۔۔ نورجب سینے میں داخل ہوجاتا ہے توسینہ کشادہ ہوجاتا ہے دریافت کیا گیا کہ اس کی کوئی علامت ہے ؟ جس سے اس اس کا علم ہوسکے فرمایا، ہاں دھوکا دینے سے پہلوتہی کرنا، دائمی گھر کی طرف متوجہ ہونا، اور موت کے آنے سے قبل اس کی تیاری کرلینا۔ المستدرک للحاکم، وتعقب عن ابن مسعود، (رض) ۔

303

303 – "أسلم يا ابن مسهر، لا تبع دينك بدنياك". (ابن سعد عن الشعبي مرسلا) .
٣٠٣۔۔ اے مسہر، اسلام سے دامن گیر ہوجانا، اور اپنے دین کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرو۔ ابن سعد۔ بروایت الشعبی مرسلا۔

304

304 – "أسلم تسلم". (طب ك عن أسماء بنت أبي بكر) .
٣٠٤۔۔ اسلام لے آ، سلامتی پاجائے گا، الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بروایت اسما بنت ابی بکر (رض) ۔

305

305 – "أسلم تسلم قيل وما الإسلام؟ قال تسلم قلبك لله ويسلم المسلمون من لسانك ويدك قال فأي الإسلام أفضل؟ قال: الإيمان قال: فما الإيمان؟ قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله وبالبعث بعد الموت قال فأي الإيمان أفضل؟ قال الهجرة قال وما الهجرة؟ قال أن تهجر السوء قال فأي الهجرة أفضل؟ قال الجهاد قال وما الجهاد؟ قال أن تقاتل الكفار إذا لقيتهم ولا تغل ولا تجبن ثم عملان هما من أفضل الأعمال إلا من عمل عملا بمثلها: حجة مبرورة أوعمرة مبرورة". (هب عن أبي قلابة عن رجل من أهل الشام عن أبيه) .
٣٠٥۔۔ اسلام لے آ، سلامتی پاجائے گا، دریافت کیا گیا اسلام کیا ہے ؟ فرمایا۔۔۔ اسلام یہ ہے کہ تیرا دل اسلام لے آئے اور مسلمان تیری زبان اور ہاتھ کی ایذا سے محفوظ رہیں ، اور آپ سے پوچھا گیا کون اسلام افضل ہے آپ نے فرمایا ایمان دریافت کیا گیا ایمان کیا چیز ہے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لاؤ دریافت کیا گیا کون سا ایمان افضل ہے ؟ فرمایا ہجرت ۔ دریافت کیا گیا، ہجرت کیا ہے ؟ فرمایا تم گناہوں کو چھوڑ دو ، دریافت کیا گیا کون سی ہجرت افضل ہے ، فرمایا جہاد، دریافت کیا گیا جہاد کیا ہے ؟ فرمایا جہاد یہ ہے کہ جب کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو تم ان سے قتال کرو اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، اور بزدلی نہ دکھاؤ، پھر ان کے بعد دوعمل سب سے افضل ہیں۔ الایہ کہ کوئی انہی جیساعمل کرے گناہوں سے مبراحج یاعمرہ، شعب الایمان، بروایت ابی قلابہ عن رجل من اھل شام عن ابیہ۔

306

306 – "أسلموا تسلموا واعلموا أن الأرض لله ورسوله وأني أريد أن أجليكم من هذه الأرض فمن يجد منكم بماله شيئا فليبعه ألا فاعلموا أن الأرض لله ورسوله". (خ عن أبي هريرة "أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لليهود فذكره".
٣٠٦۔۔ اسلام سے بہرمند ہوجاؤ مامون ہوجاؤ گے اور جان رکھو کہ ساری دھرتی اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میرا خیال ہے کہ میں تم کو اس سرزمین سے جلاوطن کردوں پس جو شخص تم میں سے کچھ مال پائے اس کو فروخت کرڈالے۔ اور جان رکھو کہ ساری دھرتی اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ بخاری بروایت ابوہریرہ۔ حضور نے یہود کو جلاوطن کرنے ہوئے ان سے فرمایا تھا۔

307

307 – "الإيمان ثمن الجنة والحمد ثمن كل نعمة ويتقاسمون الجنة بأعمالهم". (الديلمي عن أنس) .
٣٠٧۔۔ ایمان جنت کی قیمت ہے۔ الحمدللہ تمام نعمتوں کی قیمت ہے۔ اور جنت لوگوں میں ان کے اعمال کے مطابق تقسیم ہوگی۔ الفردوس الدیلمی، بروایت انس (رض)۔

308

308 – "إن لله عز وجل حرمات ثلاثا من حفظهن حفظ الله له أمر دينه ودنياه ومن لم يحفظهن لم يحفظ الله له شيئا حرمة الإسلام وحرمتي وحرمة رحمي". (طب وأبو نعيم عن أبي سعيد) .
٣٠٨۔۔ اللہ عزوجل کے تین حرم ہیں جس نے ان کی حفاظت کی اللہ اس کے دین ودنیا کی حفاظٹ فرمائیں گے اور جس نے ان کا خیال نہ رکھا اللہ کو بھی اس کی پروا نہیں اسلام کی حرمت ، میری حرمت، اور میری قرابت کی حرمت۔ الطبرانی فی الکبیر، ابونعیم، بروایت ابی سعید۔

309

309 – "الإسلام بيت واسع فمن دخله وسعه والهجرة بيت واسع فمن دخله وسعه ومن دعي إلى الإسلام فأسلم ودعي إلى الهجرة فهاجر لم يدع للخير مطلبا ولا للشر مهربا". (طب عن فضاله ابن عبيد) .
٣٠٩۔۔ اسلام ایک کشادہ گھر ہے جو اس میں داخل ہوگیا فراخی پا گیا، اور ہجرت کشادہ گھر ہے جو اس میں داخل ہوگیا فراخی پا گیا، اور جس کو اسلام کی دعوت پہنچی وہ مسلمان ہوگیا، اور ہجرت کی دعوت پہنچی اس نھے ہجرت اختیار کی تو اس نے خیر کا کوئی کام نہ چھوڑا اور شر کے لیے کوئی جائے فرارنہ چھوڑی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت فضالہ بن عبید۔

310

310 – "الإسلام أعز من ذلك والإسلام يعلو ولا يعلى". (الروياني قط ق ص عن عائذ بن عمرو المزني) .
٣١٠۔۔ اسلام اس سے زیادہ باعزت ہے اور اسلام بلند ہوتا ہے مگر اس پر کوئی چیز بلند نہیں ہوتی۔ الرویانی ، الدارقطنی، بخاری مسلم، بروایت عائذ بن عمروالمزنی۔

311

311 – "الإسلام يسبك الرجال كما يسبك النارخبث الحديد والذهب والفضة". (الديلمي عن أبي سعيد) .
٣١١۔۔ اسلام انسانوں کو پگھلاکر یوں مہذب بنادیتا ہے جس طرح آگ لوہے اور سونے اور چاندی کو پگھلاکرمہذب بنادیتی ہے۔ الفردوس للدیلمی، (رح) ، بروایت ابی سعید۔

312

312 – "إنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن وأيام منى أيام أكل وشرب" (طب عن كعب بن مالك) .
٣١٢۔۔ بیشک جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوسکتا ہے اور ایام منی کھانے پینے کے ایام ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت کعب بن مالک۔

313

313 – "إنما زوجت مولاي زيد بن حارثة زينب بنت جحش وزوجت المقداد ضباعة بنت الزبير لتعلموا أن أكرمكم عند الله أحسنكم إسلاما". (الديلمي عن ابن عباس) .
٣١٣۔۔ میں نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارچہ کی شادی زینب بنت جحش سے کردی ہے اور مقداد کی شادی ضباعہ بنت زبیر سے تاکہ تم اچھی طرح جان لو کہ اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے اچھے اسلام والا ہے۔ الفردوس دیلمی، بروایت ابن عباس (رض)۔

314

314 – "إني زعيم لمن آمن وأسلم وهاجر ببيت في ربض الجنة وببيت في وسط الجنة وببيت في أعلى الجنة من فعل ذلك لم يدع للخير مطلبا ولا من الشر مهربا فليمت حيث شاء أن يموت". (طب عن فضالة بن عتيد) .
٣١٤۔۔ جو مجھ پر ایمان لایا، اسلام سے بہرمند ہوا۔ اور ہجرت کی میں اس شخص کے لیے جنت کے آس پاس گھر کا ذمہ دار ہوں اور جنت کے عین وسط میں گھر کا ذمہ دار ہوں اور جنت کے اعلی بالاخانوں میں گھر کا ذمہ دارہوں پس جو ان اعمال میں پورا اترا، اس نے خیر کا کوئی کام نہ چھوڑا ، اور شر کے کے لیے کوئی رہنے کی جگہ نہ چھوڑی، پس جہاں چاہے انتقال کرے۔ الطبرانی ، فی الکبیر، بروایت فضالہ بن عبید۔

315

315 – "الموجبتان: من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار". (الديلمي عن جابر) .
٣١٥۔۔ دوچیزں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور جو اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتاہو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ الفردوس للدیلمی ، بروایت جابر (رض)۔

316

316 – "قال ربكم تعالى لو أن عبدي استقبلني بقراب الأرض ذنوبا لا يشرك بي شيئا استقبلته بقرابها مغفرة". (طب عن أبي الدرداء) .
٣١٦۔۔ تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے اگر میرا بندہ آسمان و زمین بھر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے گامین بھی آسمان و زمین بھربخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا بشرطیکہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الدردائ۔

317

317 – "قم يا عمر فناد: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون" (2) (ن حسن صحيح عن عمر) .
٣١٧۔۔ اے عمر کھڑے ہو اور جاؤ ، لوگوں میں اعلان کرو کہ جنت میں مومنین کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔ النسائی بروایت ، عمر (رض)۔ حدیث حسن صحیح ہے۔

318

318 – "لن يلج النار من مات لا يشرك بالله شيئا وكان يبادر صلاته قبل طلوع الشمس وقبل غروبها". (طب عن عمارة بن رويبة) .
٣١٨۔۔ ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا، وہ شخص جو اس حال میں انتقال کرے ، کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو اور طلوع شمس ، غروب شمس سے قبل نماز کا اہتمام کرتا ہو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی عمارہ بن رویہ۔

319

319 – " لن يدخل الجنة إلا نفس مسلمة". (ابن سعد طب عن سلمان الفارسي) .
٣١٩۔۔ نفس مسلم کے سوا جنت میں ہرگز کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔ ابن سعد ، الطبرانی فی الکبیر، بروایت سلمان الفارسی۔

320

320 – "ما أحب الله من عبده ذكر شيء من النعم ما أحب أن يذكره بما هداه له من الإيمان به وملائكته ورسله له وإيمان بقدره خيره وشره". (أبونعيم عن أسعد بن زرارة بن مندة عن أخيه سعيد بن زرارة ووهمه أبو نعيم، أبو علي الحسن بن أحمد بن البنا في مشيخته وابن النجار من طريق أبي الرجال عن أبيه عن جده سعد) .
٣٢٠۔۔ بندہ اللہ کی جن نعمتوں کا ذکر کرتا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب اور پسندیدہ نعمت ایمان ہے ، کہ بندہ اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لایا اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لایا۔ ابونعیم، بروایت اسعد بن زرارہ بن مندہ ، عن اخیہ سعید بن زرارہ۔ ابونعیم نے روای کے بھائی کے شیوخ میں گمان کیا ہے۔ ابن النجار ، من طریق ابی رجال عن ابیہ عن جدہ سعد۔

321

321 – "من أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة فلتدركه منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر ويأتي الناس بما يحب أن يؤتى إليه". (حم عن ابن عمرو) .
٣٢١۔۔ جس کی تمنا ہو کہ اس کو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کردیا جائے اس پر لازم ہے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ اور لوگوں سے بھی وہی سلوک کرتا ہو جو اپنے لیے چاہتاہو۔ مسند امام احمد، بروایت ابن عمرو۔

322

322 – "من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا وجبت له الجنة وأخرى يرفع الله بها أهلها في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض الجهاد في سبيل الله".(حب ك هب عن أبي سعيد) .
٣٢٢۔۔ جو شخص اللہ کے رب العزت ہونے پر اور اسلام کے اپنے دین ہونے پر اور محمد کے پیغمبر ہونے پر راضی ہوگیا، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے اعمال جن کے ذریعہ بندہ کو اللہ جنت کے سو درجات تک پہنچاسکتا ہے جبکہ ایک درجہ زمین و آسمان کے درمیان جتنا ہے وہ دوسرے اعمال جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ صحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، شعب الاایمان بروایت ابی سعید۔

323

323 – "من علم أن الله ربه وأني نبيه موقنا من قلبه حرم الله لحمه على النار". (بزك وعبد الغافر الفارسي في أماليه عن ابن عمر كر بن خزيمة طب حل والخطيب عن عمران بن حصين) .
٣٢٣۔۔ جس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور یقین ہوگیا کہ اللہ اس کا پر دوگار ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں اللہ عزوجل اس کے گوشت کو آگ پر حرام فرمادیں گے ۔ مسندالبزرا، المستدرک للحاکم، عبدالغافر ، الفارسی، فی امالیہ۔ بروایت ابن عمر (رض) ابن خزیمہ، الطبرانی فی الکبیر، الحلیہ، الخطیب بروایت عمران بن حصین۔

324

324 – "من عبد الله لا يشرك به شيئا وأقام الصلاة وآتى الزكاة وسمع وأطاع أدخله الله من أي أبواب الجنة شاء ومن عبد الله لا يشرك به شيئا وأقام الصلاة وآتى الزكاة وسمع وعصى فإن الله من أمره بالخيار إن شاء رحمه وإن شاء عذبه". (حم طب وابن عساكر عن عبادة بن الصامت) .
٣٢٤۔۔ جو شخص اللہ کی عبادت کرتا رہا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا نماز قائم کی ، زکوۃ ادا کی حق کوسنا اور اس کی اطاعت کی تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے ، جس سے وہ چاہے جنت میں داخل فرمادیں گے اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا رہا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی حق کوسنا، مگر اس کی اطاعت نہ کی، تو اللہ کی مرضی ہے خواہ اس پر رحم فرمائیں یا عذاب دیں۔ مسند احمد۔ طبرانی فی الکبیر، ابن عساکر، بروایت عبادہ بن الصامت۔

325

325 – "من لقي الله وهو لا يشرك به شيئا دخل الجنة". (حم خ عن أنس) (ك عن معاذ وسعيد بن الحارث بن عبد المطلب معا) (حم عن معاذ وأبي الدرداء معا) .
٣٢٥۔۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسند احمد، بخاری، بروایت انس (رض) ، المستدرک للحاکم، بروایت معاذ و سعید بن الحارث، بن عبدالمطلب معا مسنداحمد بروایت معاذ ابی الدرداء معا۔

326

326 – "من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة ومن لقي الله يشرك به شيئا دخل النار". (هب وابن عساكر عن جابر)
٣٢٦۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال ملاقات کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور اس کے برعکس کے جو اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ شعب الایمان ابن عساکر، بروایت جابر (رض)۔

327

327-. "من لقي الله لا يشرك به شيئا ويصلي الخمس ويصوم رمضان غفر له" (حم عن معاذ)
٣٢٧۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو اور پانچ وقت نماز کا پابند ہو اور رمضان کے روزے رکھتا ہو اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ مسنداحمد، بروایت معاذ (رض)۔

328

328 – "من لقي الله وهولا يشرك به شيئا دخل الجنة ولم يضره معه خطيئة، كما لو لقيه وهويشرك به دخل النار، ولم تنفعه معه حسنة". (حم طب عن ابن عمرو) * وصحح *.
٣٢٨۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور اس کے ساتھ کوئی گناہ نقصان دہ نہیں ۔ اسی طرح اگر شرک کی حالت میں اس سے ملا تو جہنم میں جائے گا۔ اور اس کے ساتھ کوئی نیکی سودمند نہیں۔ مسند احمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمرو۔ حدیث صحیح ہے۔

329

329 – "من لقي الله لا يشرك به شيئا ولا يقتل نفسا لقي الله وهو خفيف الظهر". (طب عن ابن عباس) .
٣٢٩۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور کسی معصوم الدم کو قتل نہ کیا ہو تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی بار نہ ہوگا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس (رض)۔

330

330 – "من لقي الله يوم القيامة بالصلوات الخمس، وصيام رمضان، والاغتسال من الجنابة، كان عبد الله حقا، ومن اختان منهن شيئا كان عدو الله حقا". (طب عن ابن عمرو) * وضعف *.
٣٣٠۔۔ قیامت کے روز جو شخص اللہ سے پنجگانہ نمازوں کے ساتھ ، رمضان کے روزوں کے ساتھ اور جنابت کے بعد غسل کرنے کے ساتھ ملاقات کرے گا تو وہ اللہ کا سچا بندہ ہوگا، اور جو ان میں سے کسی چیز کی خیانت کے ساتھ ملے تو وہ اللہ کا دشمن ہوگا۔ بروایت ابن عمرو۔ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی حجاج بن رشید ین بن سعد ہے جس کو ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مجمع الزوائد ج ١ ص ٤٥۔

331

331 – "من لقي الله لا يشرك به شيئا وأدى زكاة ماله طيبة بها نفسه محتسبا وسمع وأطاع فله الجنة". (حم عن أبي هريرة) .
٣٣١۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اپنے مال کی زکوۃ کی خوشی کے ساتھ ادائیگی کرتا ہو اور حق سنتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو تو اس کے لیے جنت ہے۔ مسند امام احمد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

332

332 – "من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة وإن زنى وإن سرق". (حم عن عبد بن حميد والبغوي وابن قانع طب ص عن سلمة بن نعيم الأشجعي) ، وماله غيره.
٣٣٢۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا خواہ اس نے زنا کیا ہوا اور چوری کی ہو۔ مسنداحمد، بروایت عبدبن حمید، ابن قانع۔ الطبرانی فی الکبیرالسنن لسعید بروایت سلمہ بن نعیم الاشجعی۔ اس کے لیے اس کے سوا کوئی ٹھکانا نہیں۔

333

333 – "دعوا المذنبين العارفين لا تنزلوهم جنة ولا نارا ليكون الله الحكم فيهم". (الديلمي عن عائشة) .
٣٣٣۔ خطاکار عارفین کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان کو جنت یا جہنم میں داخل نہ کرو، اللہ ہی ان کے بارے میں فیصلہ فرمائیں گے۔ الفردوس للدیلمی (رح) ، بروایت عائشہ (رض)۔

334

334 – "لا تنزلوا عبادي العارفين الموحدين من المذنبين الجنة ولا النار، حتى أكون أنا الذي أنزلهم بعلمي فيهم، ولا تكلفوا من ذلك ما لم تكلفوا، ولا تحاسبوا العباد دون ربهم". (طب عن زيد بن أرقم) .
٣٣٤۔۔ میرے گناہ کا رموحدین عارفین بندوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان کو جنت یا جہنم میں داخل نہ کرو۔ میں خود اپنے علم کے ساتھ ان کے بارے میں فیصلہ کروں گا اور جو گراں باری خود برداشت نہیں کرسکتے ان کو بھی ایسی مشقت میں نہ ڈالو، اور بندگان خدا کے اندرونی معاملات کی ٹوہ میں نہ لگو خدا خود ان کا محاسبہ فرمائے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت زید بن ارقم۔

335

335 – "قال الله تعالى لا تنزلوا عبادي العارفين المذنبين الجنة ولا النار، حتى يكون الرب الذي يقضي بينهم". (الديلمي عن علي) .
٣٣٥۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یرے گناہ گار موحدین عارفین بندوں کو جنت یا جہنم میں داخل نہ کرو۔ حتی کہ پروردگار خود ان کے متعلق فیصلہ فرمائیں گے ۔ الفردوس للدیلمی (رح) ، بروایت علی (رض)۔

336

336 – "من لقي الله تعالى لا يشرك به شيئا لم يتند بدم حرام دخل الجنة". (حم هـ طب ك عن عقبة بن عامر) .
٣٣٦۔۔ جو شخص اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو اور کسی ناجائز خون ریزی میں اپنے ہاتھ رنگین نہ کیے ہوں۔۔۔ تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، الطبرانی، فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بروایت عقبہ بن عامر۔

337

337 – "من لقي الله بخمس من الإيمان دخل الجنة، الصلوات الخمس طهورهن وركوعهن وسجودهن وصيام رمضان وحج البيت من استطاع إليه سبيلا والزكاة وهي فطرة الإسلام وأداء الأمانة والاغتسال من الجنابة". (هب عن أبي الدرداء) .
٣٣٧۔۔ جو شخص اللہ سے ایمان کی پانچ باتوں کے ساتھ ملا، جنت میں داخل ہوجائے گا، پنجگانہ نمازوں کو کامل طہارت، اچھی طرح رکوع و سجود کے ساتھ ادا کرتا ہو، رمضان کے روزے رکھتاہو، بیت اللہ جانے کی استطاعت ہو تو حج کرتا ہو، زکوۃ کی ادائیگی کرتا ہو، جو اسلام کی فطرت ہے امانت داری رکھتاہو، اور جنابت سے غسل کرتا ہو۔ شعب الایمان بروایت ابی الدردائ۔

338

338 – "من لم يشرك بالله شيئا بعد إذ آمن به، وأقام الصلاة المكتوبة وأدى الزكاة المفروضة وصام رمضان وسمع وأطاع، فمات على ذلك وجبت له الجنة". (طب عن مالك الأشعري) وضعف.
٣٣٨۔۔ جو شخص ایمان لانے بعد کسی شرک میں مبتلا نہیں ہوا، فرض نماز ادا کرتا ہو، فرض زکوۃ ادا کرتا ہو، رمضان کے روزے رکھتا ہو اور حق سنتا اور اس کی اطاعت کرتا ہتو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت مالک الاشعری۔ حدیث ضعیف ہے۔

339

339 – "من مات لم يكن مؤمنا حقا فهو كافر حقا". (ابن النجار عن سمعان عن أنس) .
٣٣٩۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ سچا مومن نہ تھا تو وہ قطعا کافر ہے۔ ابن النجار بروایت سمعان بن انس (رض)۔

340

340 – "من مات لا يعدل بالله شيئا، ثم كانت عليه من الذنوب مثل الرمال غفر له". (ابن مردويه عن أبي الدرداء) .
٣٤٠۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو برابر نہ ٹھہراتا ہو۔۔ پھر خواہ ریت کے ذرات کے برابر گناہ لائے مگر اللہ اس کی مغفرت فرمادیں گے ۔ ابن مردویہ، بروایت ابی الدردائ۔

341

341 – "من مات لا يشرك بالله شيئا، ولم يتند بدم حرام دخل من أي أبواب الجنة شاء". (طب ك عن جرير) (نعيم بن حماد في الفتن عن عقبة بن عامر) .
٣٤١۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور کسی ناجائز خون ریزی میں اپنے ہاتھ رنگین نہ کیے ہوں تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ الطبرانی فی البیر، المستدرک للحاکم، بروایت جریر الفتن لنعیم بن حماد بروایت عقبہ بن عامر۔

342

342 – "من مات على هذا كان مع النبيين والصديقين والشهداء يوم القيامة ما لم يعق والديه". (حم بز ومحمد بن نصر وابن منده طس هب عن عمرو بن مرة الجهني) أن رجلا قال يا رسول الله إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الصلوات الخمس وصمت رمضان وقمته وآتيت الزكاة قال فذكره.
٣٤٢۔۔ جو شخص اس حال میں مرا کہ تو وہ قیامت کے روز نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔۔۔ جب تک کہ والدین کے ساتھ بدسلوکی سے پیش نہ آیا ہو۔ مسنداحمد، بزار محمد بن نصیر، ابن مندد، الاوسط للطبرانی ، (رح) شعب الایمان بروایت عمرو بن مرہ الجھنی۔
ایک شخص نے آپ سے استفسار کیا یارسول اللہ اگر میں شہادت دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، پنج وقتہ نماز ادا کروں رمضان کے روزے رکھوں زکوۃ کی ادائیگی کروں تو مجھے کیا اجر ملے گا ؟ تب آپ نے مذکورہ بالاجواب مرحمت فرمایا۔

343

343 – "من مات وهولا يشرك بالله شيئا فقد حلت له مغفرته". (طب عن النواس بن سمعان) وحسن.
٣٤٣۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو اس کے مغفرت حلال ہوگئی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت نواس بن سمعان۔ حدیث حسن ہے۔

344

344 – "من مات وهولا يشرك بالله شيئا فتحت له أبواب الجنة يدخل من أيها شاء ولها ثمانية أبواب". (طس عن عقبة بن عامر) .
٣٤٤۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ الاوسط للطبرانی، (رح) ، بروایت عقبہ بن عامر۔

345

345 – "من مات يؤمن بالله واليوم الآخر، قيل له ادخل الجنة من أي أبواب الجنة الثمانية شئت". (ط حم وابن مردويه عن عمر) .
٣٤٥۔ جس کا اس حال میں انتقال ہوا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اس کو کہا جائے گا جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے۔ داخل ہوجائے۔ ابوداؤد الطیالسی ، مسند امام احمد، ابن مردویہ، بروایت عمر (رض)۔

346

346 – "من مات لا يشرك بالله شيئا فإن النار محرمة عليه". (ابن عساكر عن عبادة بن الصامت) .
٣٤٦۔۔ جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ ابن عساکر، بروایت عبادہ بن صامت۔

347

347 – "من مات وهو يعلم أن الله حق دخل الجنة". (ع عن عثمان بن عفان) .
٣٤٧۔۔ جس کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کو یقین تھا کہ اللہ کی ذات برحق ہے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ المسند لابی یعلی، بروایت عثمان بن عفان۔

348

348 – "من مات وهو موقن بثلاث، أن الله عز وجل حق، وأن الساعة قائمة، وأن الله يبعث من في القبور، دخل الجنة". (طب كر عن معاذ) .
٣٤٨۔۔ جو اس حال میں مرا کہ اس کو تین باتوں کا یقین تھا کہ اللہ کی ذات برحق ہے قیامت برحق ہے اور اللہ عزوجل قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو دوبارہ اٹھائیں گے۔۔ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، ابن عساکر، بروایت معاذ (رض)۔

349

349 – "من مات لا يشرك بالله شيئا، وجبت له الجنة"، (طب عن معاذ) .
٣٤٩۔۔ جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت معاذ (رض)۔

350

350 – "من مات يجعل لله ندا دخل النار، والصلوات الخمس كفارات لما بينهن ما اجتنبت الكبائر"، (طب عن ابن مسعود) .
٣٥٠۔۔ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ ایسی کو ہمسرٹھہراتا تھا جہنم میں داخل ہوجائے گا، اور پنجگانہ نمازیں درمیانی اوقات کے لیے کفارہ ہیں جب تک کہ کبائر سے بچتا رہے ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن مسعود (رض)۔

351

351 – "ناد يا عمر في الناس، أنه من مات يعبد الله مخلصا من قلبه أدخله الله الجنة وحرم عليه النار". (عبد بن حميد ع ص عن جابر) .
٣٥١۔۔ اے عمرو جاؤ، لوگوں میں اعلان کردو اور دخول کے اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہوا انتقال کرجائے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جہنم کی آگ اس پر حرام فرمادیں گے۔ عبد بن حمید، المسند لابی یعلی ، السنن لسعید بروایت جابر (رض)۔

352

352 – "هما الموجبتان من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار" (طب عن عمارة بن رويبة) .
٣٥٢۔۔ دوچیزیں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور جو اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمارہ بن رویہ۔

353

353 – "لا يدخل الجنة كافر، ولا يدخل النار مؤمن". (الديلمي عن أبي شريح) .
٣٥٣۔۔ جنت میں کافر داخل نہ ہوگا، اور جہنم میں مومن داخل نہ ہوگا۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت ابی شریح۔

354

354 – "لا يحصن أهل الشرك بالله تعالى شيئا". (عد ق عن ابن عمر) .
٣٥٤۔۔ اہل الشرک کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے کوئی پناگاہ میسر نہیں ۔ ابوداؤد ، بخاری و مسلم، بروایت ابن عمر (رض)۔

355

355 – "لا يضر مع الإسلام ذنب، كما لا ينفع مع الشرك عمل". (حل عن ابن عمر) .
٣٥٥۔۔ جس طرح اسلام کے ساتھ کوئی گناہ نقصان دہ نہیں یونہی شرک کے ساتھ کوئی عمل سود مند نہیں۔ الحلیہ بروایت ابن عمر (رض)۔

356

356 – "يا معاذ هل سمعت من اليوم جاء، إنه أتاني آت من ربي، فبشرني أنه من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، قال أفلا أخرج إلى الناس فأبشرهم قال دعهم فيستبقوا الصراط". (طب عن معاذ) .
٣٥٦۔۔ اے معاذ کیا تم نے اس کی بات سنی، جو آج میرے پاس آیا ہے۔ میرے پروردگار کی طرف سے آنے والے ایک فرشتہ نے مجھے خوش خبری دی ہے جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا حضرت معاذ نے عرض کیا کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ دے دوں ؟ آپ نے فرمایا انھیں چھوڑ دوپل صراط سے سب گذریں گے۔ الطبرانی فی الکبیر ، بروایت معاذ (رض)۔

357

357 – "يا معاذ من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، قال ألا أخبر الناس قال: دعهم فليتنافسوا في الأعمال فإني أخاف أن يتكلوا". (طب حل عن أنس) .
٣٥٧۔۔ اے معاذ ! جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، حضرت معاذ نے عرض کیا یارسول اللہ کیا میں لوگوں کو اطلاع نہ دیدوں ؟ آپ نے فرمایا انھیں چھوڑ دو تاکہ وہ اعمال میں ایکد وسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔ الطبرانی فی الکبیر، الحلیہ، بروایت انس (رض)۔

358

358 – " يا معاشر العرب إني رسول الله إلى الأنام كافة أدعوهم إلى عبادة الله وحده وأني رسوله وعبده، وأن تحجوا البيت وأن تصوموا شهرا من اثني عشر شهرا وهو رمضان فمن أجابني فله الجنة نزلا وثوابا ومن عصاني كانت له النار متقلبا". (ابن عساكر عن محمد بن الحارث بن هاني بن مدلج بن المقداد بن رمل بن عمرو بن العذري عن آبائه عن رمل بن عمرو) .
٣٥٨۔۔ اے عرب کی جماعتو ! میں تمام مخلوق کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔ ان کو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتاہوں، اور اس بات کے اقرار کرنے کی کہ میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں۔ اور یہ کہ تم بیت اللہ کا حج کرو۔ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ کے روزے رکھو، یعنی رمضان کے۔ پس جس نے میری دعوت پر لبیک کہا، اس کے لیے بطور مہمان نوازی اور ثواب کے جنت ہے۔ اور جس نے میری دعوت سے روگردانی کی اس کے لیے ہر طرف سے آگ ہے۔ ابن عساکر، بروایت محمد بن حارث، بن ھانی بن مدلج بن المقداد بن رمل بن عمرو بن العذری عن ابانہ عن رمل بن عمرو۔

359

359 – "ياسائب قد كنت تعمل أعمالا في الجاهلية لا تقبل منك وهي اليوم تقبل منك". (حم وابن سعد طب عن السائب بن أبي السائب) .
٣٥٩۔۔ اے سائب تم ایام جاہلیت میں جو نیک اعمال کرتے تھے وہ اس وقت قبول نہ ہوتے تھے مگر آج وہ تمہاری جانب سے قبول کیے جارہے ہیں مسند امام احمد، ابن سعد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت سائب بن ابی سائب۔

360

360 – "إن هم أسلموا فهو خير لهم، وإن هم أقاموا فالإسلام واسع عريض". (ابن سعد طب والبغوي عن مجمع بن عتاب بن شمير عن أبيه) .
٣٦٠۔۔ اگر وہ اسلام لے آئیں تو ان کے لیے بہتر ہو۔ اگر وہ اسلام میں رکناچا ہیں تو اسلام وسیع و کشادہ مذہب ہے۔ ابن سعد ، الطبرانی فی الکبیر، البغوی، بروایت ، مجمع بن عتاب بن شمیر عن ابیہ۔

361

361 – "هؤلاء خير منك ومن أجدادك، يؤمنون بالله واليوم الآخر، والذي نفسي بيده لقد رضي الله عنهم". (طب عن مالك بن ربيعة السلولي) .
٣٦١۔۔ یہ لوگ تم سے اور تمہارے آباء و اجداد سے بہتر ہیں۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور ہر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اللہ ان سے راضی ہوچکا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت مالک بن ربیعہ الساولی۔

362

362 – "يا معاذ لأن يهدي الله على يدك رجلا من أهل الشرك خير لك من أن تكون لك حمر النعم".(حم عن معاذ) .
٣٦٢۔۔ اے معاذ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کسی مشرک کو ہدایت بخش دیں تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ مسند امام احمد، بروایت معاذ (رض)۔

363

363 – "إن الله لا يرضى فعل عبد حتى يرضى قوله". (الديلمي عن أنس) .
٣٦٣۔۔ اللہ عزوجل کسی بندہ کے عمل سے اس وقت تک راضی نہیں ہوتے۔ جب تک کہ اس کے قول سے راضی نہ ہوں۔ الفرودس للدیلمی (رح) ، بروایت انس (رض)۔

364

364 – "إذا كان يوم القيامة لم يبق مؤمن إلا أتى بيهودي أو نصراني حتى يدفع إليه فيقال هذا فداؤك من النار". (حم عن أبي موسى) .
٣٦٤۔۔ جب قیامت کروز ہوگا، اللہ پاک ہر مومن کو ایک یہودی یا نصرانی دیں گے اور اس کو کہا جائے گا جہنم میں جانی سے یہ تیرا فدیہ ہے۔ الصحیح لامام مسلم (رح) ، بروایت ابی موسیٰ۔

365

365 – "قاتلهم حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فإذا فعلوا ذلك فقد منعوا منك دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله". (م عن أبي هريرة) .
٣٦٥۔۔ ان سے قتال جار رکھو، حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں ۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا۔ تو اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ پر ہے، الصحیح للامام مسلم (رح) بروایت ابوہریرہ (رض)۔

366

366 – "من قال لا إله إلا الله، وكفر بما كان يعبد من دون الله حرم الله ماله ودمه، وحسابه على الله عز وجل". (حم م عن والد أبي مالك الأشجعي) .
٣٦٦۔۔ جس نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا، اور ماسواے اللہ کے جن کی بھی پرستش کی جاتی ہے ، سب کا انکار کردیا، تو اللہ اس کے مال اور جان کو محترم کردیں گے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ مسنداحمد، الصحیح لامام مسلم، (رح) ، بروایت والدبی مالک الاشجعی۔

367

367 – "لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث، رجل زنى بعد إحصان فإنه يرجم، ورجل خرج محاربا لله ورسوله فإنه يقتل أويصلب أوينفى من الأرض، أويقتل نفسا فيقتل بها". (د ت عن عائشة) .
٣٦٧۔۔ کسی ایسے مسلمان کا خون کرنا حلال نہیں جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو۔ مگر تین باتوں میں سے کسی ایک کی وہ سے اس نے احصان کے بعد زنا کیا ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے گا، یا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ مول لی ہو تو اس کو قتل کیا جائے گایاسولی لٹکایا جائے گایا اس سرزمین سے جلاوطن کردیا جائے گایا اس نے کسی جان کو قتل کر ڈالاہو تو اس کو قصاصا قتل کیا جائے گا۔۔ ابوداؤد ، ترمذی، بروایت عائشہ ، (رض) ۔

368

368 – " لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث الثيب الزاني والنفس بالنفس والتارك لدينه المفارق للجماعة". (حم ق 4 عن ابن مسعود) .
٣٦٨۔۔ کسی ایسے مسلمان کا خون کرنا حلال نہیں ہے ، جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو۔ مگر تین باتوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے شادی شدہ ہونے کے باوجود اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہو۔ یا اس نے کسی جان کو قتل کرڈالا ہو تو اس کو قصاصا قتل کیا جائے گایاوہ اپنے دین کو ترک کرکے جماعت مسلمین سے بچھڑ گیا ہو۔ (مرتد ہوگیا ہو) مسند احمد، بخاری مسلم، بروایت ابن مسعود (رض)۔

369

369 – "إذا انتزع أحدكم الرمح إلى رجل فكان سنانه عند ثغرة نحره فقال لا إله إلا الله فليدفع عنه الرمح". (طس حل عن ابن مسعود) .
٣٦٩۔۔ جب کوئی شخص کی طرف نیزہ تان لے اور نیزہ کی نوک مدد مقابل کے عین سینہ میں ہو، اس وقت وہ مدمقابل شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے تو صاحب نیزہ کو چاہیے کہ اس سے اپنا نیزہ دور کرلے۔ الاوسط للطبرانی ، (رح) ، الحلیہ ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

370

370 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله" (م عنه) .
٣٧٠۔۔ مجھے حکم ہوا کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں، حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں اگر انھوں نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیامگران کے حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ الصحیح للامام مسلم (رح) علیہ، بروایت ابومسعود (رض) ۔

371

371 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني كذا في صحيح مسلم فمن قال لا إله إلا الله عصم مني رسول الله، ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله". (ق عن ابن عمر) .
٣٧١۔۔ مجھے حکم ہوا کہ لوگوں سے جنگ جاری رکھوں ، حتی کہ وہ لاالہ الللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں ، نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں ، اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا، مگر ان کے حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ بخاری مسلم بروایت ابن عمر (رض)۔

372

372 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ويؤمنوا بي وبما جئت به فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله عز وجل". (م عن أبي هريرة) .
٣٧٢۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے جنگ جاری رکھوں حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں اور جو کچھ میں لایا ہوں مجھ سمیت اس پر ایمان لائیں اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے حق کی وجہ سے ۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ الصحیح لامام مسلم (رح) علیہ بروایت ابوہریرہ (رض)۔

373

373 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله". (ق 4 عن أبي هريرة وهو متواتر) . الإقرار بالشهادتين من الإكمال
٣٧٣۔۔ مجھے حکم ہوا کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں ، حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ اور اگر انھوں نے اس کو کہہ لیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے ھق کی وجہ سے ، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ بخاری و مسلم بروایت ابوہریرہ یہ خبرمتواتر ہے۔

374

374 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأن يستقبلوا قبلتنا ويأكلوا ذبيحتنا ويصلوا صلاتنا فإذا فعلوا ذلك حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها لهم ما للمسلمين وعليهم ما على المسلمين". (حم خ د ت حسن صحيح غريب حب قط عن أنس) .
٣٧٤۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے جنگ جاری رکھوں۔۔۔ حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں ہمارے قبلہ کا رخ کریں ہمارا ذبیحہ کھائیں، ہماری نماز قائم کریں ۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا۔۔ تو ان کی جان ومال ہم پر حرام ہوگئے مگر ان کے حق کی وجہ سے ۔ اور آئندہ جو مسلمانوں کے لیے سود مند ہے وہ ان کے لیے بھی سود مند ہے اور جو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے وہ ان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ مسند امام احمد، بخاری ، ابوداؤد ، ترمذی۔ حدیث حسن صحیح اور غریب ہے۔ الصحیح لابن حبان، الدار قطنی، بروایت انس (رض)۔

375

375 – " أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها قيل وما حقها قال زنى بعد إحصان وكفر بعد إيمان أو قتل نفس فيقتل بها". (طس عن أبي بكرة وابن جرير عن أنس وحسن) .
٣٧٥۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں۔۔ حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمدر سول اللہ کی شہادت دیں۔ اگر انھوں نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر ان کے حق کی وجہ سے ۔ استفسار کیا گیا ان کا حق کیا ہے ؟ فرمایا محصن ہونے کے باوجود اس نے زناکا ارتکاب کیا ہو یا ایمان کے بعد کفر کا مرتکب ہوا ہو۔ یا اس نے کسی جان کو قتل کرڈالا ہو۔ تو اس کو ان وجوہ کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابی بکرہ، وابن جریر بروایت انس (رض)۔ حدیث حسن ہے۔

376

376 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة". (هـ عن معاذ) .
٣٧٦۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں حتی کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ اداکریں۔ ابن ماجہ عن معاذ۔

377

377 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يقيموا الصلاة ويشهدوا أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله إلا بحقها فإذا فعلوا ذلك فقد عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها حسابهم على الله عز وجل". (تمام عن معاذ بن جبل) .
377 ۔۔۔ اور مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ نماز قائم کریں اور شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیامگران کے حق کی وجہ سے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ تمام بروایت معاذ بن جبل (رض)۔

378

378 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة". (ك عن أنس عن أبي بكر) .
٣٧٨۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں ، المستدرک للحاکم، بروایت انس (رض) بروایت ابی بکرہ (رض) ۔

379

379 – "أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا من أمر بحق". (البغوي عن رجل من بلقين) .
٣٧٩۔۔ مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے قتال جاری رکھوں حتی کہ وہ لاالہ الا اللہ کہیں ، اگر انھوں نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا تو مجھ سے اپنی جان اور مال کو محفوظ کرلیا مگر کسی حق کی وجہ سے ۔ البغوی بروایت رجل من بلقین۔

380

380 – " والذي لا إله غيره لا يحل دم أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا بإحدى ثلاث، التارك للإسلام المفارق للجماعة والثيب الزاني والنفس بالنفس". (ابن النجار عن ابن مسعود) .
٣٨٠۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کسی ایسے شخص کا خون حلال نہیں ہے جو لاالہ الاللہ محمدر سول اللہ کی شہادت دیتاہو مگر تین باتوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے ۔ اسلام سے برگشتہ ہو کر کافروں سے جاملا ہو یا وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہواہویا اس نے کسی جان کو قتل کرڈالا ہو۔ تو اس کو قصاصا قتل کیا جائے گا۔ ابن النجار ، بروایت ابن مسعود (رض) ۔

381

381 – " لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث رجل كفر بعد إسلامه أو زنى بعد إحصانه أو قتل نفسا بغير نفس". (كر عن عائشة وعمار بن ياسر معا) .
٣٨١۔۔ کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں ہے مگر تین باتوں میں سے کسی ایک وجہ سے ۔ اسلام سے برگشتہ ہوگیا ہو، محصن ہونے کے بعد زناکا مرتکب ہوا ہو یا بغیر قصاص کے کسی جان کو مارڈالا ہو۔ ابن عساکر بروایت عائشہ (رض) وعمار بن یاسر (رض) ۔

382

382 – "لا يحل دم إلا في ثلاث: النفس بالنفس والثيب الزاني والمرتد عن الإيمان". (طب عن عمار) .
٣٨٢۔۔ تین باتوں کے سوا کسی کا خون حلال نہیں ، جان کے بدلے جان۔ شادی شدہ زنا کار ، ایمان سے مرتد ہونے والا۔ الطبرانی فی الکبیر، براویت عمار (رض) ۔

383

383 – "لا يحل دم أحد من أهل القبلة إلا رجلا قتل فيقتل والثيب الزاني والمفارق للجماعة". (ك عن عائشة) .
٣٨٣۔۔ کسی اھل قبلہ کا خون حلال نہیں ۔ مگر ایسے شخص کا، جس نے کسی کو قتل کرڈالا ہو تو اس کو قصاصا قتل کیا جائے گا شادی شدہ زنا کار اور جماعت سے کٹ جانے والا (مرتد ) المستدرک للحاکم بروایت عائشہ (رض)۔

384

384 – "لا يقتل إلا أحد ثلاثة رجل قتل رجل فيقتل به ورجل زنى بعد ما أحصن ورجل ارتد عن الإسلام". (ك عن عائشة) .
٣٨٤۔۔ تین شخصوں کے سوا کسی کو قتل نہ کیا جائے گا جس نے کسی کو قتل کرڈالا و اس کو قصاصا قتل کیا جائے گا، اور وہ شخص جو محصن ہونے کے بعد زنا کا مرتکب ہو۔ اور اسلام کے بعد مرتد ہونے والا شخص۔ المستدرک للحاکم، بروایت عائشہ (رض)۔

385

385 – "لا يصلح القتل إلا في ثلاث رجلا يقتل فيقتل به الرجل ورجل يكفر بعد إسلامه ورجل أصاب حدا بعد إحصانه فيرجم". (ك ر م عن عائشة) .(الارتداد)
٣٨٥۔۔ تین باتوں کے سوا کسی کو قتل کرنا درست نہیں ۔ ایساشخص جس نے کسی کو قتل کرڈالا ہو تو اس کو قصاصا قتل کیا جائے گا اور اسلام کے بعد مرتد ہونے والاشخص۔ اور وہ شخص جو احصان کے بعد حد کا مستوجب ہو اس کو سنگسار کیا جائے گا۔ المستدرک للحاکم، ابوداؤد ، الصحیح لامام مسلم ، (رح) بروایت عائشہ (رض)۔

386

386 – "من ارتد عن دينه فاقتلوه". (طب عن عصمة بن مالك) .
٣٨٦۔۔ جو شخص اپنے دین سے برگشتہ ہوگیا اس کو قتل کرڈالو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عصمہ بن مالک۔
مرتد وہ شخص ہے جو اسلام کے دائرہ سے نکل کر کفر کے ظلمت کدہ میں چلا جائے ۔ احناف کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اس پر اسلام کی دعوت دوبارہ پیش کی جائے اور اس کے اشکلالات جن کی وجہ سے وہ اسلام سے منحرف ہوا ہے ان کو دور کیا جائے اگرچہ واجب نہیں ہے کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہے۔ لیکن مستحب ضرور ہے، اور یہ بھی مستحب ہے کہ اس کو تین یوم کے لیے قید کردیا جائے تاکہ اس کو کچھ مہلت مل جائے اور بعض اہل علم کے نزدیک مہلت مرتد کی طلب پر منحصر ہے ورنہ مہلت کی ضرورت نہیں۔ جبکہ امام شافعی (رح) کے نزدیک مہلت دیناواجب ہے انجام کار اگر وہ راہ راست پر آجائے تو یہی اسلام کا مطلوب ہے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے۔
مرتد عورت کا حکم اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائے اس کو قید میں ڈالے رکھاجائے اور ہر تیسرے دین اس کو بطور تنبیہ مارا جائے تاکہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ کرکے دائرہ اسلام میں آجائے لیکن اگر کوئی شخص کسی مرتد عورت کو قتل کردے توقاتل پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔

387

387 – "من بدل دينه فاقتلوه" (حم خ عن ابن عباس) .
٣٨٧۔۔ جس نے اپنے دین کو بدل ڈالا، اس کو قتل کرڈالو، مسند امام احمد، بخاری، بروایت ابن عباس (رض)۔

388

388 - من الإكمال "إن من أبغض الخلق إلى الله تعالى لمن آمن ثم كفر". (طب عن معاذ) .
٣٨٨۔۔ ماخوذ از اکمال ، اللہ کے نزدیک شدید ترین قابل نفرت شخص وہ ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر کا مرتکب ہوگیا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت معاذ (رض)۔

389

389 – "لن يخرج أحد من الإيمان إلا بجحود ما دخل فيه". (طس عن أبي سعيد) .
٣٨٩۔۔ کوئی شخص ایمان اسے اس چیز کا انکار کیے بغیر خارج نہیں ہوسکتا جس کا اقرار کرکے وہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت ابی سعید۔

390

390 – "أيما رجل ارتد عن الإسلام فادعه، فإن تاب فاقبل منه وإن لم يتب فاضرب عنقه وأيما امرأة ارتدت عن الإسلام فادعها فإن تابت فاقبل منها وإن أبت فاستتبها". (طب عن معاذ) .
٣٩٠۔۔ جو شخص اسلام سے برگشتہ ہوجائے اس کو اسلام میں لوٹ آنے کی دعوت دو ۔ سوا گروہ توبہ تائب ہوجائے تو اس کو قبل کرلو۔ لیکن اگر وہ تائب نہ ہو تو اس کی گردن اڑاد دو ۔ اور اگر کوئی عورت اسلام سے برگشتہ ہوجائے تو اس کو بھی دعوت دو ۔ اگر وہ تائب ہوجائے قبول کرلو اور اگر انکار کرے تومزید اس کو راہ راستے پر لانے کی کوشش کرو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت معاذ (رض)۔

391

391 – "من بدل دينه، أو رجع عن دينه فاقتلوه، ولا تعذبوا عباد الله بعذاب الله يعني النار". (عب عن ابن عباس) .
٣٩١۔۔ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے یا اپنے دین سے پھرجائے تو اس کو قتل کرڈالو۔ لیکن اللہ کے بندوں کو اللہ کے عذاب ، یعنی آگ کے ساتھ عذاب میں مت ڈالو۔ المصنف لعبد الرزاق ، بروایت ابن عباس (رض)۔

392

392 – "من بدل دينه فاقتلوه، لا يقبل الله توبة عبد كفر بعد إسلامه". (طب عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده) .
٣٩٢۔۔ جس نے اپنے دین کو بدل ڈالا، اس کو قتل کرڈالو، اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی توبہ قبول نہیں فرماتے جو اسلام کے بعد کفر کا مرتکب ہواہو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت بھز بن حکیم عن ابیہ جدہ۔

393

393 – "من رجع عن دينه فاقتلوه، ولا تعذبوا بعذاب الله أحدا يعني النار". (حب عن ابن عباس) .
٣٩٣۔۔ جو شخص اپنے دین سے لوٹ جائے اس کو قتل کردو۔ لیکن اللہ کے بندوں کو اللہ کے عذاب یعنی آگ کے ساتھ عذاب میں مت ڈالو۔ الصحیح لابن حبان بروایت ابن عباس (رض)۔

394

394 – "من غير دينه فاضربوا عنقه". (الشافعي ق عن زيد بن أسلم) .الفرع الثاني في أحكام الإيمان المتفرقة
٣٩٤۔۔ جو اپنے دین تبدیل کردے اس کی گردن اڑاد و۔ الشافعی بخاری و مسلم ، بروایت زید بن اسلم۔

395

395 – "إذا أسلم الرجل فهو أحق بأرضه وماله". (حم عن صخر بن العيلة) .
٣٩٥۔۔ جب آدمی مشرف بایمان ہوجائے تو وہ اپنی زمین اور مال کا مالک وحق دار ہے ۔۔ مسند امام احمد، بروایت صخر بن العلیہ۔

396

396 – "من جحد آية من القرآن فقد حل ضرب عنقه ومن قال لا إله إلا الله وحده لاشريك له وأن محمدا عبده ورسوله فلا سبيل لأحد عليه إلا أن يصيب حدا فيقام عليه". (هـ عن ابن عباس) .
٣٩٦۔۔ جس شخص نے قرآن کی ایک آیت کا بھی انکار کیا اس کی گردن اڑانا حلال ہے اور جس نے لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وان محمد عبد اور ورسولہ ، کہہ دیاتواب کسی کوا سے قتل کرنے کا کوئی حق نہیں رہا۔ الایہ کہ وہ خود کسی قابل حد گناہ کو پہنچ جائے تو پھر اس پر حد قائم کی جائے گی۔ ابن ماجہ ، بروایت ابن عباس (رض)۔

397

397 – "لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه". (د عن حذيفة الرقاشي) .
٣٩٧۔۔ کسی مسلمان کا مال حلال نہیں ہے مگر اس کے دل کی خوشی کے ساتھ ۔ ابوداؤد ، بروایت حذیفہ الرقاشی۔

398

398 – "من صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا وأكل ذبيحتنا فذاكم المسلم الذي له ذمة الله وذمة رسوله فلا تخفروا الله في ذمته". (خ ن عن أنس) .
٣٩٨۔۔ جس نے ہماری نماز ادا کی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایاپس وہ مسلمان ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے سوا اس کے بارے میں اللہ کے ذمہ کی اہانت نہ کرو۔ بخاری النسائی، بروایت انس (رض)۔

399

399 – "لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث، رجل زنى بعد إحصان، أو ارتد بعد إسلام، أو قتل نفسا بغير حق فيقتل به". (حم ت ن هـ ك عن عثمان) ، (حم ن عن عائشة) .
٣٩٩۔۔ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے مگر تین باتوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے محصن ہونے کے بعد زنا کا مرتکب ہواہو، یا اسلام سے برگشتہ ہوگیا یا ایساشخص جس نے کسی کو ناحق قتل کیا ہو، تو اس کو قصاص کے طور پر قتل کردیا جائے گا۔ مسند امام احمد، النسائی، ترمذی، ابن مجاہ، المستدرک للحاکم، بروایت عثمان ، مسند امام احمد، النسائی، بروایت عائشہ (رض)۔

400

400 – "سيصدقون ويجاهدون إذا أسلموا". (د عن جابر) .
٤٠٠۔۔ جب وہ اسلام سے بہتربند ہوجائیں گے تو ضرور تصدیق کریں گے اور جہاد کریں گے۔ ابوداؤد بروایت جابر (رض)۔

401

401 – "ما أطيبك وأطيب ريحك، ما أعظمك وأعظم حرمتك، يعني الكعبة، والذي نفس محمد بيده لحرمة المؤمن أعظم عند الله حرمة منك: ماله ودمه وأن يظن به إلا خيرا". (هـ عن ابن عمر) .
٤٠١۔۔ اے خدا کے گھر ، کعبۃ اللہ توکتناعمدہ ہے اور تیری خوشبو بھی کتنی عمدہ ہے ، توکتنی عظیم الشان والا ہے ، اور تیری عزت کتنی بلند ہے ؟ لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۃ قدرت میں محمد کی جان ہے ایک مومن کی عزت و حرمت پروردگار کے ہاں تیری عظمت و حرمت سے بڑھ کر ہے۔ اس کا مال اور خون بہت محترم ہے۔ ابن ماجہ، بروایت ابن عمر (رض) ، اس روایت میں نصر بن محمد ایک راوی ہیں جس کو امام ابوحاتم نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ابن حبان نے اس کی توثیق فرمائی ہے۔ بقیہ دیگررواۃ ثقہ ہیں۔ مصباح الزجاجہ ٤ ص ١٦٤۔

402

402 – "المؤمنون تتكافأ دماؤهم، وهم يد على من سواهم، ويسعى بذمتهم أدناهم، ألا لا يقتل مؤمن بكافر، ولا ذوعهد في عهده، من أحدث حدثا فعلى نفسه، ومن أحدث حدثا أو آوى محدثا لعنه الله وفي المنتخب عليه اللعنة والملائكة والناس أجمعين". (د ن ك عن علي) .
٤٠٢۔۔ تمام مومنین کی جان ہم رتبہ، اور ایک سی ہے۔ اور وہ اپنے ماسوا غیرمسلموں کے خلاف ہم پلہ اور ایک ہاتھ ہیں ان میں سے ادنی مسلمان کی بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ آگاہ رہو کسی مومن کو کسی کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے گا اور نہ کسی صاحب عہدذمی شخص کو عہد کے ہوتے ہوئے قتل کیا جائے گایادر کھو جس نے کوئی بدعت جاری کی اس کا وبال وہی اٹھائے گا، اور جس نے کوئی بدعت جاری کی یا کسی بدعتی شخص کو پناہ میسر کی اس پر اللہ اور اس کے ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ابوداؤد ، النسائی، المستدرک للحاکم، بروایت علی (رض)۔
تمام مومنین کی جان ہم رتبہ اور ایک سی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ قصاص اور دیت میں تمام مسلمان یکساں ہیں شریف اور رذیل میں چھوٹے اور بڑے ہیں عالم اور جاہل میں تنگ دست اور مالدار میں مردو عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا خون رنگ کی مانند مساوی ہے ہر ایک کی دیت یکساں ہے۔ اور ہر ایک کو دوسرے کے بدلہ قتل کردیاجائیگا۔ آگے فرمایا وہ اپنے ماسوا غیر مسلموں کے خلاف ہم پلہ اور ایک ہاتھ ہیں یعنی جس طرح ایک ہاتھ پورے جسم کے دفاع کے لیے حرکت میں آجاتا ہے اور ے پورے جسم کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح تمام مسلمان آپس میں متحد اور یک جان ہیں۔
آگے فرمایا ان میں سے کسی ادنی مسلمان کی بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی عام مسلمان بھی کسی کافر کو امن اور پناہ دے تو تمام مسلمانوں پرا س کی جان ومال محفوظ ہوجاتی ہے۔ پھر فرمایا کسی صاحب عہد ذمی شخص کو عہد کے ہہوتے ہوئے قتل نہ کیا جائے گایہاں ، کافر ، سے مراد ذمی کافر ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ذمی کافر جزیہ ٹیکس ادا کرکے اسلامی سلطنت کا وفادار شہری بن گیا ہے اور اسلامی سلطنت نے اس کے جان ومال کی حفاظت کا عہد و پیمان کرلیا ہے تو جب تک وہ ذمی ہے اور اپنے ذمی ہونے کے منافی کوئی کام نہیں کرتا اس کو کوئی مسلمان قتل نہ کرے بلکہ اس کی حفاظت کو ذمہ داری سمجھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون و حکومت کی نظر میں ایک ذمی کے خون کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک مسلمان کی قیمت ہے لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو ناحق قتل کردے تو اس کے قصاص میں اس قاتل مسلمان کو قتل کردینا چاہیے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ اس نکتہ سے حدیث کے اس جملہ ، کافر کے بدلے میں مسلمان کونہ مارا جائے ، کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ یہاں کافر سے مراد حربی کافر ہے نہ کہ ذمی کافر ، حاصل یہ ہے کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک کسی مسلمان کو حربی کافر کے قصاص میں تو قتل نہ کیا جائے گا لیکن ذمی کے قصاص میں قتل کیا جائے گا اور حضرت امام شافعی کے نزدیک کسی بھی مسلمان کو کسی بھی کافر کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے گا، خواہ وہ کافر حربی ہو یا ذمی۔

403

403 – "المسلمون تتكافأ دماؤهم، ويسعى بذمتهم أدناهم، ويجير عليهم أقصاهم، وهم يد على من سواهم، يرد مشدهم على مضعفهم، ومسرعهم على قاعدهم، لا يقتل مؤمن بكافر ولا ذوعهد في عهده". (د هـ عن ابن عمر) .
٤٠٣۔۔ تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہے ان میں سے کسی ادنی مسلمان کو بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ انکادور والامسلمان بھی تمام مسلمانوں پر حق رکھتا ہے اور وہ غیرمسلموں کے خلاف ہم پلہ ہیں انکاطاقت ور اپنے کمزور کو سہارادیتا ہے اور ان کا شہ سوار جنگ میں شریک نہ ہونے والے اپنے مسلمان بھائی کو مال غنیمت میں ساتھ رکھتا ہے پس کسی مومن کو کسی کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے اور نہ کسی صاحب عہد ذمی شخص کو عہد کے ہوتے ہوئے قتل کیا جائے۔ ابوداؤد، ابن ماجہ، بروایت ابن عمر (رض)۔ ان کا دور والامسلمان بھی تمام مسلمانوں پر حق رکھتا ہے ، اور دوروالا مسلمان بھی حق رکھتا ہے ، اس جملہ کے دومطلب ہیں ایک تو یہ اگر کسی مسلمان نے جو دارالحرب سے دور رہا ہے کسی کافر کو امان دے رکھی ہے تو ان مسلمانوں کے لیے جو دارالحرب کے قریب ہیں یہ جائز نہیں ہے کہ اس مسلمان کے عہد امان کو توڑ دیں اور اس کافر کو کوئی گزند پہنچائیں۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب مسلمانوں کا لشکر دارالحرب میں داخل ہوجائے اور مسلمانوں کا امیر لشکر کے ایک دستے کو کسی دوسری سمت بھیج دے اور پھر وہ دستہ مال غنیمت لے کر واپس آئے تو وہ مال غنیمت صرف اسی دستے کا حق نہیں ہوگا بلکہ وہ سارا لشکر کو تقسیم کیا جائے گا۔ یعنی دوروالابھی اسمیں شامل ہے۔

404

404 – "حرمة مال المسلم كحرمة دمه". (حل عن ابن مسعود) .
٤٠٤۔۔ مسلمان کا مال بھی یونہی محترم ہے جس طرح اس کا خون محترم ہے۔ الحلیہ بروایت ابن مسعود (رض)۔

405

405 – "الإيمان قيد الفتك لا يفتك مؤمن". (تخ د ك عن أبي هريرة) (حم عن الزبير ومعاوية) .
٤٠٥۔۔ ایمان اپنے حامل یعنی مومن کو اس بات سے منع کرتا ہے وہ کسی کو اس کی غفلت میں ناگہاں قتل کردے لہٰذا کوئی مومن کسی کا خون دھوکا دہی سے نہ بہائے۔ التاریخ للبخاری، ابوداؤد، المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ (رض) ، مسند امام احمد، بروایت الزبیر (رض) و معاویہ (رض) ۔

406

406 – "ظهر المؤمن حمى إلا بحقه". (طب عن عصمة بن مالك) .
٤٠٦۔۔ مومن کی پشت محفوظ ہے مگر ایمان ہی کے کسی حق کی وجہ سے ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عصمہ بن مالک۔

407

407 – "كل المسلم على المسلم حرام ماله وعرضه ودمه حسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم". (د هـ عن أبي هريرة) .
٤٠٧۔۔ مسلمان کا سب کچھ مسلمان پر حرام ہے۔ اس کا مال، اس کی آبرو اور اس کا خون سب کچھ محترم ہے۔ آدمی کے شر کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ، ابوداؤد ، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

408

408 – "كل سارحة ورائحة على قوم حرام على غيرهم". (طب عن أبي أمامة) .
٤٠٨۔۔ کسی قوم کے مال مویشی ، دوسروں پر حرام ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی امامہ۔

409

409 – "من أحسن في الإسلام لم يؤاخذ بما عمل في الجاهلية، ومن أساء في الإسلام أخذ الأول والآخر." (ق هـ عن ابن مسعود) .
٤٠٩۔۔ جس نے اسلام میں اپنی زندگی کو اچھی طرح سنوارا اس سے زمانہ جاہلیت کی لغزشوں کی باز پرس نہ ہوگی۔ اور جس نے زمانہ اسلام میں بھی برائی کو جاری رکھا اس سے اول وآخر کی باز پرس ہوگی۔ بخاری و مسلم، ابن ماجہ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

410

410 – "أسلم وإن كنت كارها". (حم ع والضياع عن أنس) .
٤١٠۔۔ اسلام کے دامن سے وابستہ ہوجا، خواہ تجھے ناپسند ہو۔ مسند امام احمد، المسند لابی یعلی ، والضیاء بروایت انس (رض)۔

411

411 – "ياقتادة اغتسل بماء وسدر واحلق عنك شعر الكفر". (طب وابن شاهين عن قتادة الرهاوي) .
٤١١۔۔ اے قتادہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرو اور کفر کے بالوں سے نجات حاصل کرو۔ الطبرانی فی الکبیر ، ابن شاھین بروایت قتادہ الرھاوی۔

412

412 – "ياواصلة اذهب فاحلق عنك شعر الكفر، واغتسل بماء وسدر". (تمام وك كر عن واصلة) .
٤١٢۔۔ اے واصلہ ، جاؤ اور کفر کے بال منڈواؤ اور پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرو۔ تمام۔ ابن عساکر، المستدرک للحاکم بروایت واصلہ۔

413

413 – "اغتسل بماء وسدر، واحلق عنك شعر الكفر". (طص حل عن واصلة) .
١٤٣۔۔ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرو اور کفر کے بالوں سے نجات حاصل کرو۔۔۔ الصغیر للطبرانی (رح) ، الحلیہ۔ بروایت واصلہ۔

414

414 – "إن امرأة لتأخذ على القوم تجير على المسلمين". (ت حسن غريب عن أبي هريرة) .
٤١٤۔۔ ایک عورت بھی مسلمانوں پر کسی کو پناہ دے سکتی ہے۔ ترمذی، حسن غریب بروایت ابوہریرہ (رض)۔

415

415 – "أيها الناس إنه لا علم لي بهذا حتى سمعتموه، وإنه يجير على المسلمين أدناهم". (طب ق ك عن أم سلمة) .
٤١٥۔۔ اے لوگو مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے حتی کہ تم خود سن لو۔ اور مسلمانوں پر ان کا کوئی ادنی شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، السنن للبہقی ، المستدرک للھاکم، بروایت ام سلمہ (رض)۔

416

416 – "يجير على المسلمين أدناهم". (طب عن أنس) (حم طب عن عمرو) (طب عن أم سلمة) .
٤١٦۔۔ مسلمانوں پر، ان کا کوئی ادنی شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت انس (رض) مسند امام احمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمرو الطبرانی فی الکبیر بروایت ام سلمہ (رض)۔

417

417 - "يجير على المسلمين بعضهم". (حم عن أبي عبيدة) (حم طب عن أبي أمامة) .
٤١٧۔۔ مسلمانوں کے حق میں ان کا کوئی بھی شخص کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔ مسنداحمد، بروایت ابی عبیدہ (رض) ، مسند احمد، طبرانی فی الکبیر، بروایت ابی امامہ۔

418

418 – "إن المسلم أخوالمسلم لا يظلمه، ولا يخذله، ولا يسلمه، في مصيبة نزلت به، وإن يكن خيار العرب والموالي يحب بعضهم بعضا لا يجدون من ذلك بدا". (طب عن ابن عمر) .
٤١٨۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ کسی مصیت میں اس کو بےآسرا چھوڑتا ہے اور اگر عرب کے شرفاء معززین اور آزاد کردہ طبقہ آپس میں محبت کرنے لگے تو ان کو اس کے سوا چارہ کار نہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی عمر (رض)۔

419

419 – "الإيمان قيد الفتك لا يفتك مؤمن" . (حم ك طب عن معاوية) ش حب والبغوي في الجعديات طس عن الزبير بن العوام (ش خ في تاريخه د ك عن أبي هريرة) .
٤١٩۔۔ ایمان کسی کا اس کی غفلت میں خون بہانے سے آڑ ہے ، لہٰذا کسی مومن کا خون دھوکا دہی سے نہ بہایا جائے ۔ مستدرک للحاکم، مسنداحمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت معایہ (رض) ، الصحیح لابن حبان، البغوی فی الجعدیات الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت الزبیر بن العوام ابن بی شیبہ، بخاری فی التاریخ ، ابوداؤد المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ (رض) ۔

420

420 – "يا صخر إن القوم إذا أسلموا أحرزوا دماءهم وأموالهم". (ابن سعد حم والدارمي والبغوي وابن قانع طب عن صخر بن العيلة) .
٤٢٠۔۔ اے صخر۔ جب کوئی قوم اسلام کے آغوش میں آجاتی ہے تو اپنے خون اور اموال کو محفوظ کرلیتی ہے۔ ابن سعد، مسنداحمد، الدرامی، البغوی، ابن قانع، الطبرانی فی الکبیر، بروایت صخر بن العیلہ۔

421

421 – "الإيمان والعمل شريكان في قرن، لا يقبل الله تعالى أحدهما إلا بصاحبه". (س في تاريخه والديلمي عن علي) .
421 ۔۔ ایمان اور عمل دو ساتھی ہیں اللہ تعالیٰ کسی ایک کو دوسرے کے بغیر قبول نہیں فرمائیں گے۔ سنن فی تاریخ، الفردوس للدیلمی بروایت علی۔

422

422 – "الإيمان قول وعمل يزيد وينقص". (ابن النجار عن عبد الله بن أبي أوفى) .
422 ۔۔ ایمان قول اور عمل کا نام ہے بڑھتا اور گھٹتارہتا ہے ابن النجار بروایت عبداللہ بن اوفی۔

423

423 – "الإيمان الصلاة فمن فرغ لها قلبه وحافظ عليها بخدها ووقتها وسننها فهو مؤمن". (ابن النجار عن أبي سعيد) .
٤٢٣۔۔ نماز ایمان ہے جس نے اس کے لیے اپنے دل و دماغ کو فارغ کرلیا، ہمہ تن اس کے اوقات اور اس کے سنن کی محافظت کی تو وہ مومن ہے۔ ابن النجار بروایت ابی سعید۔

424

424 – "أهل الذمة لهم ما أسلموا عليه من أموالهم وعبيدهم وديارهم وأرضهم ومواشيهم ليس عليهم فيه إلا الصدقة". (ق عن بريدة) .
٤٢٤۔۔ اھل ذمہ جن اموال، حشم وخدم، علاقوں، زمین اور چوپایوں کے ساتھ اسلام لائیں وہ انہی کے لیے برقرار رہیں گے اور پھر ان پر ان چیزوں پر صرف صدقہ زکوۃ عائد ہوگی۔ السنن للبیہقی (رح) ، بروایت بریدہ۔

425

425 – "لأهل الذمة ما أسلموا عليه من ذراريهم وأموالهم وأراضيهم وعبيدهم ومواشيهم وليس عليهم إلا الصدقة". (حم عن سليمان بن بريدة عن أبيه) .
٤٢٥۔۔ اہل ذمہ جن اموال ، چشم وخدم، علاقوں، زمین اور چوپایوں کے ساتھ اسلام لائیں وہ انہی کے لیے برقرار رہیں گے اور پھر ان پر ان چیزوں پر صرف صدقہ زکوۃ عائد ہوگی۔ السنن للبیہقی (رح) ، بروایت بریدہ عن ابیہ۔

426

426 – "من أسلم من أهل الكتابين فله أجره مرتين، وله مثل الذي لنا وعليه مثل الذي علينا ومن أسلم من المشركين فله أجره وله مثل الذي لنا وعليه مثل الذي علينا". (حم طب عن أبي أمامة) .
٤٢٦۔۔ اہل کتاب میں سے جو شخص اسلام لے آیا اس کو دوہرا اجر نصیب ہوگا اور جو حقوق ہمیں حاصل ہیں اس کو بھی حاصل ہوں گے اور جو بات ہمارے لیے نقصان دہ ہے اس کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی اور جو مشرک اسلام لے آئے اس کو اکبر اجرنصیب ہوگا، اور جو حقوق ہمیں حاصل ہیں اس کو بھی حاصل ہوں گے اور جو بات ہمارے لیے نقصان دہ ہے اس کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔ مسنداحمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی امامہ۔

427

427 – "بعثني الله بالإسلام أن تقول أسلمت نفسي لله ووجهت وجهي إليه وتخليت وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة كل مسلم على مسلم حرام أخوان نصيران لا يقبل الله من مسلم أشرك بعد ما أسلم عملا حتى يفارق المشركين إلى المسلمين، مالي آخذ بحجزكم عن النار إلا أن ربي داعني ألا وإنه سائلي هل بلغت عبادي وإني قائل رب قد بلغتهم فليبلغ شاهدكم غائبكم ثم إنكم تدعون مفدمة أفواهكم بالفدام ثم أول ما يبين عن أحدكم فخذه وكفه هذا دينكم وأينما تكن يكفيك". (حم طب ك عن أبيه عن جده) .
٤٢٧۔۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تم کہو کہ میں نے اپنی ذات اللہ کے سپرد کی ہے اس کی طرف اپنا رخ کرلیا، اس کے لیے ہمہ تنیک سوئیہوگیا، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، ہر مسلمان کی جان ومال دوسرے مسلمان پر حرام ہے ہر دو مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ باہم مددگار ہیں جان لو، اللہ کسی ایسے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے جو اسلام سے بہرہ مند ہونے کے بعداس سے رشتہ توڑ لے حتی کہ وہ دوبارہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں سے نہ آملے۔ آہ، دیکھو توسہی میں تمہیں کمر سے پکڑ کر جہنم سے ہٹارہاہوں اور تم ہو کہ اس میں گرے جارہے ہو۔ آگاہ رہو، میرا رب مجھے بلانے والا ہے ، آگاہ رہو، میرا رب مجھ سے سوال کرے گا کیا تم نے میرے بندوں تک پیغام پہنچادیا ؟ میں عرض کروں گا ہاں پروردگار میں نے ان تک آپ کا پیغام پہنچادیا ہے پس اے لوگو جو حاضرین ہیں وہ غائبین تک یہ دعوت پہنچادیں یاد رکھو تم کو بلایاجانے والا ہے اس حال میں کہ تمہارے مونہوں پر بندش لگی ہوگی پھر سب سے پہلے کسی کا جو عضو گویا ہوگا وہ اس کی ران اور ہتھیلی ہوگی۔ یہ تمہارا دین ہے جہاں چلے جاؤ تمہارے لیے کافی ہوگا۔ مسنداحمد ، الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم بروایت ابیہ عن جدہ۔

428

428 – "كيف لك بلا إله إلا الله يوم القيامة". (طب عن أسامة ابن زيد) ، قال أوجرت رجلا بالرمح وهويقول لا إله إلا الله فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم فذكره.
٤٢٨۔۔ آہ ! تم قیامت کے روز لاالہ الا اللہ کو کیا جواب دو گے ؟ الطبرانی فی الکبیر، بروایت اسامہ ابن زید (رض) ۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت اسامہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کوس حال میں نیزہ پار کردیا تھا، کہ وہ لاالہ الللہ پکار اٹھا تھا، اس وقت آپ نے مذکورہ بالا وعید فرمائی ۔

429

429 – "لا تقتله فإنه بمنزلتك قبل أن تقتله وإنك بمنزلته قبل أن يقول كلمته التي قال". (حم خ م ز عن المقداد بن عمر والكندي أنه قال "يا رسول الله أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعها ثم لاذمني بشجرة فقال أسلمت لله أأقتله" قال فذكره) .
٤٢٩۔۔ نہیں تم اس کو قتل نہ کرو ورنہ تمہاری طرح معصوم الدم ہوجائے گا تمہارے اس کو قتل کرنے سے بیشتر اور تم اس کی طرح مباح الدم ہوجاؤ گے اس کے کلمہ لاالہ الا اللہ کہنے سے بیشتر۔ مسند احمد، بخاری، الصحیح للامام مسلم، مسند بزار، بروایت المقداد بن عمرو الکندی ۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں سوال کیا تھا کہ یارسول اللہ آپ کی کیا رائے ہے ۔۔ اگر میری کسی کافر سے مڈبھیڑ ہوجائے اور ہم باہم برسرپیکار ہوجائیں لڑائی کے دوران وہ میرے ہاتھ پر تلوار کا وار کرکے اس کو کاٹ دے اور پھر میرے حملہ سے بچنے کے لیے وہ کسی درخت کی آڑ لے لیتا ہے اور اس وقت کہتا ہے میں اللہ کے لیے مسلمان ہوا۔ تو کیا میں اب اس کو قتل کرسکتا ہوں، یہ سن کر آپ نے مذکورہ بالا جواب مرحمت فرمایا۔

430

430 – "من أحسن في الإسلام لم يؤاخذ بما عمل في الجاهلية ومن أساء منكم في الإسلام أخذ بما عمل في الجاهلية والإسلام". (طس عن جابر) .
٤٣٠۔۔ جو شخص اسلام میں اچھا کردار اپنالے، اس سے زمانہ جاہلیت کی لغزشوں کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی۔ اور جو اسلام میں بھی برائی کا شیوہ نہ چھوڑے اس سے زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت جابر (رض)۔

431

431 – " من أسلم قلا جزية عليه" (طس عن ابن) .
٤٣١۔۔ جو اسلام سے وابستہ ہوگیا اس پر جزیہ نہیں ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ۔

432

432 – "من أسلم على يد رجل فهو مولاه". (عب عن تميم الداري وسنده صحيح) .
٤٣٢۔۔ جو شخص کسی کے ہاتھ پر مشرک باسلام ہوا ہو وہی اس کامولی ہے المصنف لعبدالرزق بروایت تمیم الداری اس روایت کی سند صحیح ہے۔

433

433 – "من أسلم على يديه رجل فهو مولاه ويدي عنه". (ص عن راشد بن سعد مرسلا) .
٤٣٣۔۔ جو شخص کسی کے ہاتھوں مشرف باسلام ہوا وہی اس کامولی ہے اور میرا ہاتھ بھی اس کے ساتھ ہے۔ السنن لسعید بروایت راشد بن سعد مرسلا۔

434

434 – "من خالف دينه دين المسلمين فاضربوا عنقه، وإذا شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فلا سبيل عليه إلا أن يأتي شيئا فيقام عليه حده". (طب ك عن ابن عباس) .
٤٣٤۔۔ جس کا دین مسلمانوں کے دین کے مخالف ہو اس کا سرقلم کردو۔ اور جب کوئی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دے دے تواب اس کے خلاف کسی کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے الایہ کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہوجائے تو اس پر حد قائم کی جائے گی۔ الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عباس (رض)۔

435

435 – "من مررت به من العرب فسمعت الأذان فيهم فلا تعرض له ومن لم تسمع فيهم الأذان فادعهم إلى الإسلام فإن لم يجيبوا فجاهدهم". (طب عن خالد بن سعيد بن العاص) .
٤٣٥۔۔ تم عرب کے کسی علاقے سے گذرو اور تم کو وہاں اذان کی آواز سنائی دے تو ان سے تعرض نہ کرو، اور جن علاقوں میں اذان کی آواز سنائی نہ دے ان کو اسلام کی دعوت دو ۔ اگر وہ دعوت قبول نہ کریں تو ان سے جہاد کرو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت خالد بن سعید بن العاص۔

436

436 – "ويحك يا أبا سفيان قد جئتكم بالدنيا والآخرة فأسلموا تسلموا". (طب عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أبيه) .
٤٣٦۔۔ افسوس اے ابوسفیان میں تمہارے پاس دین ودنیا کی فلاح لے کر آیاہوں پس اسلام لاکرتم محفوظ ہوجاؤ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عبدالرحمن بن ابی لیلی عن ابیہ۔

437

437 – "لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر ولا وبر إلا أدخل الله عليهم كلمة الإسلام بعز عزيز وبذل ذليل إما يعزهم الله فيجعلهم من أهلها أو يذلهم فيدينون لها". (حم طب ق ك عن المقداد بن الأسود) .
٤٣٧۔۔ روئے زمین میں کوئی کچا یا پکا گھر نہ رہے گا مگر اللہ اس میں کلمہ اسلام کو داخل کریں گے عزیز کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ یا تو اسلام کی بدولت ان کو عزت نصیب ہوگی کہ وہ اسلام سے بہرہ مند ہوجائیں گے یا اسلام کی وجہ سے ان کو رسوائی کا سامنا ہوگا، کہ اس کے آگے جزیہ دے کر سرنگوں ہوں گے۔ مسند احمد، الطبرانی فی الکبیر، السنن للبیہقی (رح) ، المستدرک للحاکم، بروایت المقداد بن الاسود۔

438

438 – "لا يترك مفرح في الإسلام حتى يضم إلى قبيلته". (طب عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده) .
٤٣٨۔۔ اسلام میں کوئی فقیر وگمنام شخص نہ رہے گا مگر اسلام کو وہ اپنے قبیلہ تک پہنچاکر رہے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ۔

439

439 – "المؤمنون تتكافأ دماؤهم ويسعى بذمتهم أدناهم لا يقتل مسلم بكافر ولا ذوعهد في عهده ولا يتوارث أهل ملتين ولا تنكح المرأة على عمتها ولا خالتها ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ولا تسافر المرأة ثلاث ليال إلا مع ذي محرم". (ق عن عائشة) .
٤٣٩۔۔ تمام مومنین کی جان ہم رتبہ ہی ہے اور ایک سی ہے ، ان میں سے کسی ادنی مسلمان کی بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عاید ہوتی ہے اور آگاہ رہو کسی مومن کو کسی کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے گا اور نہ کسی صاحب عہد ذمی شخص کو عہد کے ہوتے ہوئے قتل کیا جائے گا اور دومختلف ملتوں والے باہم ایک دوسرے کے وارث نہیں قرار دیے جاسکتے۔ اور کسی عورت سے اس کی پھوپھی کے عقد میں ہوتے ہوئے نکاح کیا جاسکتا نہ اس کی خالہ کے عقد میں ہوتے ہوئے نکاح کیا جاسکتا ہے اور عصر کے بعد غروب شمس تک کوئی نماز نہیں ، اور کوئی عورت کسی ذی محرم کے بغیر تین رات سے زیادہ عرصہ کا سفر نہیں کرسکتی۔ السنن للبیہقی ، (رح) ، بروایت عائشہ۔

440

440 – "المسلمون تتكافأ دماؤهم وهم يد على من سواهم". (طب عن ابن عمرو) .
٤٤٠۔۔ تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہے اور وہ غیرمسلمنوں کے خلاف ہم پلہ ہے۔ الطبرانی فی الکبیر ، بروایت ابن عمرو۔

441

441 – "المسلمون يد على من سواهم تتكافأ دماؤهم ويسعى بذمتهم أدناهم ولا يقتل مسلم بكافر ولا ذوعهد في عهده". (عب عن الحسن مرسلا) .
٤٤١۔۔ تمام مسلمان غیرمسلموں کے خلاف ہم پلہ ہیں اور ان کا خون مساوی ہے ان میں سے کسی ادنی مسلمان کی بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور آگاہ رہو، کسی مومن کو کسی کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے گا اور نہ کسی صاحب عہدذمی شخص کو عہد کے ہوتے ہوئے قتل کیا جائے گا۔ المصنف لعبدالرزاق ، بروایت الحسن۔

442

442 – "المسلمون يد على من سواهم ويرد أدناهم على أقصاهم والمتسري على القاعد والقوي على الضعيف". (العسكري في الأمثال عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده) .
٤٤٢۔۔ تمام مسلمان اپنے غیروں کے خلاف ہم پلہ ہیں، ان کا ادنی شخص ان کے کسی دوردراز شخص کے بارے میں ذمہ داری اٹھاسکتا ہے ان کا شہ سوار جنگ میں شریک نہ ہونے والے اپنے مسلمان بھائی کو مال غنیمت میں ساتھ رکھتا ہے اور ان کا طاقت ور اپنے کمزور کو سہارا دیتا ہے۔ العسکری ، فی الامثال ، عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔

443

443 – "المسلمون يد على من سواهم تتكافأ دماؤهم". (هـ طب عن معقل بن يسار) .
٤٤٣۔۔ تمام مسلمان غیرمسلموں کے خلاف ہم پلہ ہیں اور ان کا خون مساوی ہے ، ابن ماجہ ، الطبرانی فی الکبیر، بروایت معقل بن یسار۔

444

444 – "المسلمون تتكافأ دماؤهم وهم يد على من سواهم يسعى بذمتهم أدناهم ويرد عليهم أقصاهم". (هـ عن ابن عباس) .
٤٤٤۔۔ تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہے اور وہ غیرمسلموں کے خلاف ہم پلہ ہیں ان میں سے سکی ادنی مسلمان کی بھی اٹھائی ہوئی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ان کا دور والامسلمان بھی تمام مسلمانوں پر حق رکھتا ہے۔ ابن ماجہ، براویت عن عباس (رض)۔

445

445 - "من شبه الله بشيء أو ظن أن الله يشبهه شيء فهو من المشركين". (أبونعيم عن جويبر عن الضحاك عن ابن عباس) .
٤٤٥۔۔ جس شخص نے اللہ کو کسی چیز کے ساتھ تشبیہ دی یاگمان کیا کہ اللہ کے مشابہ کوئی چیز ہے تو وہ یقیناً مشرکین میں داخل ہے۔ ابونعیم عن جویر عن الضحاک عن ابن عباس۔

446

446 – "أبايعكم على أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ولا تعصوني في معروف فمن وفى منكم فأجره على الله ومن أصاب من ذلك شيئا فأخذ به في الدنيا فهو كفارة له وطهور ومن ستره الله فذلك إلى الله عز وجل إن شاء عذبه وإن شاء غفر له، " (حم ق ت ن عن عبادة بن الصامت) .
٤٤٦۔۔ میں ان چیزوں پر تم سے بیعت لیتاہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ چوری نہ کرو، زناکاری نہ کرو، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو کوئی کھلاجھوٹ گھڑ کر بہتان طرازی نہ کرو۔ اور کسی نیک بات میں میری نافرمانی نہ کرو، جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اگر کوئی ان میں سے کسی جرم کا مرتکب ہوا اور دنیا میں اس پر مواخذہ ہوگیا تو وہ اس گناہ کے لیے کفارہ اور پاکیزگی ہوگا، اور جس گناہ پر اللہ نے پردہ پوشی فرمائی، اس کا حساب آخرت میں اللہ پر ہے خواہ معاف کرے خواہ عذاب دے۔ مسند امام احمد، بخاری مسلم، ترمذی ، نسائی، بروایت عبادہ بن صامت۔

447

447 – "أبايعك على أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤتي الزكاة وتنصح لكل مسلم وتبرأ من الشرك". (حم ن عن جرير) .
٤٤٧۔۔ میں اس بات پر تجھ سے بیعت لیتاہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے فرض نماز قائم کرے۔ زکوۃ ادا کرے اور ہر مسلمان کا بھلاچا ہے اور شرک سے بری رہے۔ مسنداحمد، النسائی، بروایت جریر۔

448

448 – "ادع إلى ربك الذي إن مسك ضر فدعوته كشف عنك والذي إن أضللت بأرض قفر فدعوته رد عليك والذي إن أصابتك سنة فدعوته أنبت لك". (حم د هق عن أبي جري) .
٤٤٨۔۔ اپنے اس پروردگار کو یاد کرو اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے اور تم اس کو پکارو تو وہ تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلائے اور اگر تم کسی بےآب وگیاہ جنگل میں راہ بھٹک جاؤ اور تم اس کو پکارو ا تو وہ تمہیں سیدھی راہ لگادے اور اگر تم قحط سالی میں مبتلا ہوجاؤ اور اس کو پکارو تو وہ تمہارے لیے نباتات اگا دے ۔ مسنداحمد، ابوداؤد بیہقی ، بروایت ابن جریر۔

449

449 – "آمركم بثلاث وأنهاكم عن ثلاث آمركم أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأن تعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا وتسمعوا وتطيعوا لمن ولاه الله أمركم، وأنهاكم عن قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال". (حل عن أبي هريرة) .
٤٤٩۔۔ میں تمہیں تین باتوں کا حکم دیتاہوں اور تین باتوں سے منع کرتا ہوں میں تمہیں حکم دیتاہوں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، س شخص کی سنو اور طاعت کرو جس کو اللہ نے تم پر حاکم و امیر بنایا ہے۔ اور تمہیں منع کرتا ہوں بےفائدہ بحث وتمحیص سے کثرت سوال سے اضاعت مال سے ۔ الحلیہ ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

450

450 – "ألا تبايعوني على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وأن تقيموا الصلوات الخمس وتؤتوا الزكاة وتسمعوا وتطيعوا ولا تسألوا الناس شيئا". (م ن عن عوف بن مالك) .
٤٥٠۔۔ کیا تم اس بات پر میری بیعت نہیں کرتے کہ اللہ کی عبادت کرو گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے پانچوں نمازوں کی پابندی کرو گے ۔ فریضہ زکوۃ کی ادائیگی کرو گے سنو گے اور اطاعت کرو گے اور لوگوں کے آگے دست سوال دراز نہ کرو گے۔ الصحیح امام مسلم ، النسائی بروایت عوف بن مالک۔

451

451 – "ليبلغ الشاهد الغائب". (طب عن وابصة) .
٤٥١۔۔ حاضر کو غائب تک یہ بات پہنچا دینا چاہیے، الطبرانی فی الکبیر، بروایت وابصہ۔

452

452 – "مضت الهجرة لأهلها أبايعه على الإسلام والجهاد". (ق عن مجاشع بن مسعود) .
٤٥٢۔۔ ہجرت کا زمانہ مہاجرین کے ساتھ پورا ہوگیا اب میں اسلام اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں۔ بخاری مسلم، بروایت مجاشع بن مسعود۔

453

453 – "تعالوا بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم، ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ولا تعصوني في معروف، فمن وفى منكم فأجره على الله، ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب به في الدنيا فهو له كفارة، ومن أصاب من ذلك شيئا فستره الله فأمره إلى الله إن شاء عاقبه وإن شاء عفا عنه" (خ عن عبادة بن الصامت)
٤٥٣۔۔ آؤ میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو زناکاری سے باز رہو، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، کوئی کھلاجھوٹ گھڑ کر بہتان طرازی نہ کرو، اور کسی نیک بات میں میری نافرمانی نہ کرو، جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ پر ہے۔ اگر کوئی ان میں سے کسی جرم کا مرتکب ہوا اور دنیا میں اس پر مواخذہ ہوگیا تو وہ اس گناہ کے لیے کفارہ اور پاکیزگی ہوگا اور جس گناہ پر اللہ نے پردہ پوشی فرمائی اس کا حساب آخرت میں اللہ عزوجل پر ہے خواہ معاف فرمادے خواہ عذاب دے۔ بخاری ، بروایت عبادہ بن صامت۔

454

454 – "لا أمس أيدي النساء." (طس عن عقيلة بنت عبيد) .
٤٥٤۔۔ میں عورتوں کے ہاتھ کو نہیں چھوتا۔ الاوسط للطبرانی (رح) علیہ، براویت عقیلہ بنت عبید۔

455

455 – "لا أبايعك حتى تغيري كفيك كأنهما كفا سبع". (د عن عائشة) .
٤٤٥۔۔ میں تم سے بیعت نہ لوں، جب تک کہ تو اپنی ہتھیلوں کی حالت تبدیل نہ کرلے گی گویا درندوں کی ہتھیلیاں ہیں۔ ابوداؤد بروایت عائشہ (رض)۔

456

456 –"لا يدخل النار أحد ممن بايع تحت الشجرة". (حم د ت عن جابر) (م عن أم مباشر) .
٤٥٦۔۔ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی ان اشخاص میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ مسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی، بروایت جابر (رض) ، الصحیح امام مسلم، بروایت ام مباشر ۔

457

457 – "ليدخلن الجنة من بايع تحت الشجرة إلا صاحب الجمل الأحمر". (ت عن جابر) .
٤٥٧۔۔ جس نے درخت کے نیچے بیعت کی ، وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا، سوائے سرخ اونٹ والے کے۔ ترمذی، بروایت جابر۔

458

458 – "كلكم مغفورون إلا صاحب الجمل الأحمر" (ك عن جابر) .
٤٥٨۔۔ تم سب کی مغفرت کردی گئی سوائے سرخ اونٹ والے کے۔ المستدرک للحاکم ، بروایت جابر۔

459

459 – "أبايعك على أن تعبد الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتناصح المسلم وتفارق المشرك". (ك عن أبي اليسر) .
٤٥٩۔۔ میں تجھ سے بیعت لیتاہوں کہ تو اللہ کی عبادت کرے گا نماز قائم کرے گا، زکوۃ ادا کرے گا، مسلمان کی خیرخواہی کرے گا اہل شرک سے جدا رہے گا، المستدرک للحاکم ، بروایت ابی الیسر۔

460

460 - "أبايعكم على أن لا تشركوا بالله شيئا، ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق، ولا تزنوا، ولا تسرقوا، ولا تشربوا فمن فعل من ذلك شيئا فأقيم عليه حده فهو كفارة له، ومن ستره الله عليه فحسابه على الله، ومن لم يفعل من ذلك شيئا فيمت ضمنت له على الله الجنة". (طس وهناد عد عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده) .
٤٦٠۔۔ میں ان چیزوں پر تم سے بیعت لیتاہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اللہ نے جس نفس کو محترم قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو ۔ زناکاری سے باز رہو چوری نہ کرو اور شراب نوشی نہ کرو اگر کوئی ان میں سے کسی جرم کا مرتکب ہوا اور دنیا میں اس پر مواخذہ ہوگیا تو وہ اس گناہ کے لیے کفارہ اور پاکیزگی ہوگا، اور جس گناہ پر اللہ نے پردہ پوشی فرمائی، اس کا حساب آخرت میں اللہ پر ہے۔ اور جو ان گناہوں سے باز رہا تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ الاوسط للطبرانی ، ھناد ، عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ۔

461

461 – " أبايعه على الجهاد، وقد انقطعت الهجرة". (ق ك عن يعلى بن أمية) .
٤٦١۔۔ میں اس سے بیعت لیتاہوں جہاد پر اور آئندہ کے لیے فرض ہجرت کا عمل منقطع ہوچکا ہے۔ السنن للبیہقی ، المستدرک للحاکم، بروایت یعلی بن امیہ۔

462

462 – "ذهب أهل الهجرة بما فيها، أبايعه على الإسلام والجهاد". (طب ك عن مجاشع بن مسعود) .
٤٦٢۔۔ اھل ہجرت کا ثواب حاصل کرکے چلے گئے۔ اب میں صرف اسلام اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں۔ الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بروایت مجاشع بن مسعود۔

463

463 – "من مات ولا بيعة عليه مات ميتة جاهلية". (حم ابن سعد عن ابن عمر) .
٤٦٣۔۔ جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے کوئی بیعت نہ کی تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔ مسنداحمد، ابن سعد، بروایت ابن عمرو۔

464

464 – "من مات بغير إمام مات ميتة جاهلية" (حم طب عن معاوية) .
٤٦٤۔۔ جو شخص بغیر امام کے مرا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ مسنداحمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت معاویہ۔

465

465 – "أخرجوا إلى اثني عشر منكم، يكونوا كفلاء على قومهم كما كفلت الحواريون بعيسى بن مريم ولا يجدن أحدكم في نفسه ان يؤخذ غيره فإنما يختار لي جبريل". (ابن إسحاق وابن سعد عن عبد الله ابن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم) ، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للنفر الذين لقوه بالعقبة فذكره.
٤٦٥۔۔ تم میں سے بارہ افراد میری طرف نکل آؤ ، جو اپنی قوم کی نمائندگی کریں گے جس طرح عیسیٰ بن مریم کے حواری تھے اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کو آگے کیا جائے گا کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) افراد کو منتخب فرمائیں گے ابن اسحاق ، ابن سعد ، بروایت عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اس روایت کا پس م نظریہ ہے کہ بیعت عقبہ میں شامل افراد کو حضور نے یہ حکم فرمایا تھا۔

466

466 – "أيكم يبايعني على هؤلاء الآيات الثلاث {قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ} إلى ثلاث آيات فمن وفى بهن فأجره على الله ومن انتقص منهن شيئا فأدركه الله في الدنيا كان عقوبته ومن أخره إلى الآخرة كان أمره إلى الله إن شاء أخذه وإن شاء عفا عنه". (عبد بن حميد في تفسيره وابن أبي حاتم وأبو الشيخ وابن مردويه ك عن عبادة ابن الصامت) .
٤٦٦۔۔ تم میں سے کون ان تین آیتوں پر میری بیعت کرتا ہے ؟ کہہ دیجئے آؤ میں تم کو پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا حرام فرمایا ہے ؟ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ جس نے اس کی پابندی کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے کچھ کوتاہی کی اور اللہ نے دنیا ہی میں اس کی گرفت فرمالی تو یہ اس کی سزا اور کفارہ ہوگی اور جس کو اللہ نے آخرت تک مہلت عطا کی اس کا حساب اللہ پر ہے خواہ باز پرس کریں خواہ معاف فرمادیں۔ المستدرک للحاکم بروایت عبادہ بن صامت۔

467

467 – "من بايعني على هؤلاء الآيات، {قل تعالوا أتل ماحرم ربكم عليكم} حتى ختم الآيات الثلاث، فمن وفى بهن فأجره على الله، ومن انتقص شيئا أدركه الله بها في الدنيا كانت عقوبته ومن أخره إلى الآخرة كان أمره إلى الله إن شاء عذبه وإن شاء غفر له" (ك عن عبادة بن الصامت) .
٤٦٧۔۔ تم میں سے جو ان تین آیتوں پر میری بیعت کرتا ہے کہہ دیجئے آؤ میں تم کو پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے تم پر کیا حرام کیا ہے ؟ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ جس نے اس کی پابندی کی اس کا اجر اللہ پر ہے۔ اور جس نے کچھ کوتاہی کی ، اور اللہ نے دنیا ہی میں اس کی گرفت فرمالی تو یہ اس کی سزا اور کفارہ ہوگی۔ اور جس کو اللہ نے آخرت تک مہلت عطا کی اس کا حساب اللہ پر ہے خواہ باز پرس کریں خواہ معاف فرمادیں۔ المستدرک للحاکم بروایت عبادہ بن الصامت۔

468

468 – "يا عبادة اسمع وأطع في عسرك ويسرك ومنشطك ومكرهك وأثرة عليك وإن أكلوا مالك وضربوا ظهرك إلا أن تكون معصية الله بواحا" . (حب عن عبادة بن الصامت) .
٤٦٨۔۔ اے عبادہ ! امیر وقت کی سنو اور اطاعت کرو، حالات خواہ کیسے ہوں (تنگی ہو یا آسانی ) تمہیں اچھا محسوس ہو، یا ناگوار ، خواہ وہ تم پر اوروں کو ترجیح دیں یاتمہارامال کھاجائیں اور تمہیں سزا دیں (ہر حال میں ان کی اطاعت کرو) الایہ کہ اللہ کی کھلم کھلانافرمانی ہو تو پیچھے ہٹ جاؤ۔ الصحیح لابن حبان اوالطبرانی فی الکبیر، بروایت عبادہ بن صامت۔

469

469 – "ألا تبايعوني على مابايع عليه النساء لا تشركوا بالله شيئا وتسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ولا تعصوا في معروف فمن أصاب بعد ذلك ذنبا فنالته به عقوبة فهي له كفارة ومن لم تنله به عقوبة فأمره إلى الله إن شاء غفر له وإن شاء عاقبه به". (ن وابن سعد عن عبادة بن الصامت) .
469 ۔۔ کیا تم بھی انہی چیزوں پر میری بیعت نہیں کرتے ، جن پر عورتوں نے میری بیعت کی ہے ؟ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زناکاری سے باز رہو، اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ، کوئی کھلا جھوٹ گھڑ کر بہتان طرازی نہ کرو، اور کسی نیک بات میں میری نافرمانی نہ کرو۔ اگر کوئی ان میں سے کسی جرم کا مرتکب ہوا اور دنیا میں اس پر مواخذہ ہوگیا تو وہ اس گناہ کے لیے کفارہ اور پاکیزگی ہوگا اور جس گناہ پر اللہ نے پردہ پوشی فرمائی ، اس کا حساب آخرت میں اللہ عزوجل پر ہے خواہ معاف فرمادے خواہ عذاب دے۔ النسائی ، ابن سعد، بروایت عبادہ بن صامت۔

470

470 – "أما الذي أسألكم لربي فتعبدوه ولا تشركوا به شيئا وأما الذي أسألكم لنفسي فتمنعوني مما تمنعون منه أنفسكم". (طب عن جابر) .
٤٧٠۔۔ بہرحال جس چیز کا میں تم سے اپنے پروردگار کے لیے سوال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کی عبادت بجالاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، جس چیز کا میں تم سے اپنے لیے سوال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن چیزوں سے اپنی حفاظت کرتے ہو ان سے میری بھی حفاظت کرو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت جابر (رض)۔

471

471 – " أما الذي أسأل لربي أن تؤمنوا به ولا تشركوا به شيئا وأما الذي أسأل لنفسي فإني أسألكم أن تطيعوني أهدكم سبيل الرشاد وأسألكم لي ولأصحابي أن تواسونا في ذات أيديكم وأن تمنعونا مما منعتم منه أنفسكم فإذا فعلتم ذلك فلكم على الله الجنة وعلي" (طب عن ابن مسعود) .
٤٧١۔۔ بہرحال جس چیز کا میں تم سے اپنے پروردگار کے لیے سوال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور جس چیز کا تم سے اپنے لیے سوال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میری پیروی کرو۔۔۔ میں تمہیں سیدھی راہ پر لگادوں گا اور میں اپنے اور اپنے مہاجرین اصحاب کے لیے تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم اپنے درمیان ہمارے ساتھ غم خواری سے پیش آؤ، اور جن چیزوں سے اپنی حفاظت کرتے ہو ان سے ہماری بھی حفاظت کرو اگر تم ان کاموں میں پورے اترے تو تمہارے لیے اللہ کے ذمہ جنت ہے بمطابق منتخب کنزالعمال ، پھر ہم نے اپنے ہاتھ دراز کردیے اور آپ کی بیعت کرلی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن مسعود۔

472

472 – "لا أقبل منك حتى تبايع على النصح لكل مسلم" (طس عن جرير) .
٤٧٢۔۔ میں تم سے بیعت نہ لوں گا جب تک تم اس بات پر بیعت نہ کرو کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی سے پیش آؤ گے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت جریر۔

473

473 – "أبايعكن على أن لا تشركن بالله شيئا ولا تسرقن ولا تزنين ولا تقتلن أولادكن ولا تأتين ببهتان تفترينه بين أيديكن وأرجلكن ولا تعصينني في معروف قلن نعم قال: فيما استطعتنه". (حم طب عن عائشة بنت قدامة بن مظعون) .
٤٧٣۔۔ اے خواتین ! میں تم سے بیعت لیتاہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی چوری نہ کرو گی زناکاری سے باز رہو گی اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی۔ کوئی کھلاجھوٹ گھڑ کر بہتان طرازی نہ کرو گی ، اور کسی نیک بات میں میری نافرمانی نہ کرو گی خواتین نے عرض کیا جی بالکل آپ نے فرمایا یہ کہو جس قدر ہم سے ہوسکا ۔ مسند امام احمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت عائشہ بنت قدامہ بن مظعون۔

474

474 – "انطلقي فاختضبي ثم تعالي حتى أبايعك". (ابن سعد طب عن السوداء) .
٤٧٤۔۔ غالبا حضرت سودا (رض) سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا جاؤ پہلے خضاب لگا آؤ پھر تم سے بیعت لوں گا۔ ابن سعد الطبرانی فی الکبیر ، بروایت سودا (رض) ۔

475

475 – "إني لست أصافح النساء". (ابن سعد عن أسماء بنت يزيد) .
٤٧٥۔۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا۔ ابن سعد بروایت اسمابنت یزید۔ یعنی جب خواتین نے بیعت کے وقت ہاتھ میں ہاتھ لے کر مردوں کی طرح بیعت کرنے کی درخواست کی تب آپ نے یہ جواب مرحمت فرمایا۔

476

476 – "إني لا أصافح النساء ولكن آخذ عليهن ما أخذ الله عليهن". (حم طب عن أسماء بنت يزيد) .
٤٧٦۔۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا، لیکن جو عہد و پیمان اللہ نے ان سے لیے ہیں میں بھی ان سے وہی عہد و پیمان لیتاہوں۔ مسنداحمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت اسماء بنت یزید۔

477

477 – " إني لا أصافح النساء إنما قولي لمائة امرأة كقولي لامرأة واحدة". (ابن سعد عن عبد الله بن الزبير) (حم ت حسن صحيح ن وابن سعد طب ق عن أميمة بنت رقيقة) وروى (هـ) صدره.
٤٧٧۔۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا، اور سو عورتوں سے بھی میری یہی بات ہے جو ایک عورت سے ہے۔ ابن سعد بروایت عبداللہ بن زبیر مسنداحمد، ترمذی حسن صحیح النسائی، ابن سعد، الطبرانی فی الکبیر، السنن للبیہقی (رح) ، بروایت امیمہ بنت رقیقہ۔ ابن ماجہ نے اس کا شروع حصہ روایت فرمایا ہے۔

478

478 – "إني لا أصافح النساء قولي لألف امرأة كقولي لامرأة واحدة". (ابن سعد عن أم عامر الأشهلية) .
٤٧٨۔۔ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا، اور ہزار عورتوں سے بھی میری یہی بات ہے جو ایک عورت سے ہے۔ ابن سعد بروایت ام عامر اشیصلیہ۔

479

479 – "إني لا أصافحكن ولكن آخذ عليكن ما أخذ الله عليكن". (ابن سعد عن أسماء بنت يزيد) .
٤٧٩۔۔ میں تم عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا لیکن جو عہد و پیمان اللہ نے تم سے لیے ہیں میں بھی تم سے وہی عہد و پیمان لیتاہوں۔ ابن سعد بروایت اسمابنت یزید۔

480

480 – "الإيمان بالقدر نظام التوحيد. " (فر عن أبي هريرة) .
٤٨٠۔۔ ایمان بالقدر توحید پرستی کا نظام ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

481

481 – "الإيمان بالقدر يذهب الهم والحزن". (ك في تاريخه والقضاعي عن أبي هريرة) .
481 ۔۔ ایمان بالقدر رنج وغم کو زائل کرتا ہے۔ المستدرک للحاکم ، فی تاریخہ القضاعی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

482

482 - " قال الله تعالى: من لم يرض بقضائي وقدري فليلتمس ربا غيري". (هب عن أيس) .
٤٨٢۔۔ اللہ فرماتے ہیں جو بندہ میری قضا وقدر پر راضی نہیں۔۔ اے چاہیے کہ میرے سوا اپنا کوئی اور خدا تلاش کرے۔ شعب الایمان ، بروایت انس (رض)۔

483

483 - "قال الله تعالى: من لم يرض بقضائي ويصبر على بلائي فليلتمس ربا سواي". (طب عن أبي هند الداري) .
٤٨٣۔۔ اللہ فرماتے ہیں جو بندہ میرے قضا یعنی فیصلہ پر راضی نہیں اور میری نازل کردہ بلا پرا سے صبر نہیں، توا سے چاہیے کہ میرے سوا اپنا کوئی اور خدا تلاش کرے ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی ھندالداری۔

484

484 – "من كذب بالقدر، فقد كفر بما جئت به". (عد عن ابن عمر) .
٤٨٤۔۔ جس نے تقدیر کو جھٹلایا اس نے میرے لائے ہوئے دین کو جھٹلایا ۔ ابوداؤد ، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

485

485 – "القدر سر الله، من لم يؤمن بالقدر خيره وشره فأنا بريء منه". (ع عن أبي هريرة) .
٤٨٥۔۔ تقدیر خدا کا راز ہے۔ سوجوشخص اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لایا میرا ذمہ اس سے بری ہے۔ المسند ابی یعلی، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ انسان ازل سے تقدیر کے مسئلہ میں الجھتا آیا ہے لیکن کبھی اس کی حقیقت کی تہہ تک رسائی نہ ہوسکی۔ اور بھلا خدا کے راز کی جھلک بھی کوئی پاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ، اس لیے انسان کو چاہے کہ اس معاملہ میں محض سرتسلیم خم کیے بغیر چارہ کار نہ سمجھے۔ اور اس میدان میں حرف زنی سے ہمیشہ احتراز کرے۔

486

486 – "من لم يرض بقضاء الله ويؤمن بقدر الله فليلتمس إلها غير الله". (طس عن أنس) .
٤٨٦۔۔ جو شخص اللہ کے فیصلہ قضا الٰہی پر راضی نہ ہو اور تقدیر خداوندی پر ایمان نہ لایاوہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا تلاش کرلے۔ الاوسط للطبرانی ، (رح) ، بروایت انس (رض)۔

487

487 – "لا يغني حذر من قدر". (ك عن عائشة) .
٤٨٧۔۔ کوئی تدبیر و احتیاط تقدیر خداوندی کو نہیں ٹال سکتی ۔ المستدرک للحاکم ، بروایت عائشہ (رض)۔

488

488 – "القدر نظام التوحيد، فمن وحد الله وأمن بالقدر فقد استمسك بالعروة الوثقى". (طس عن ابن عباس) .
٤٨٨۔۔ تقدیر توحید پرستی کا نظام ہے پس جو اللہ کی توحید کا قائل ہوا اور تقدیر الٰہی پر ایمان لایا یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عباس۔

489

489 – "خلق الله الخلق فكتب آجالهم وأعمالهم وأرزاقهم". (خط عن أبي هريرة) .
٤٨٩۔۔ اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو ان کی عمریں ، ان کے اعمال، ان کے رزق کی مقدار بھی لکھ دی۔ خطیب بغدادی ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

490

490 – " خلق الله يحيى بن زكريا في بطن أمه مؤمنا، وخلق فرعون في بطن أمه كافرا". (عد طب عن ابن مسعود) .
٤٩٠۔۔ اللہ نے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو شکم مادر سے ہی مومن پیدا فرمایا تھا اور فرعون کو بھی شکم مادر سے ہی کافر پیدا فرمایا تھا۔ ابوداؤد الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن مسعود (رض)۔

491

491 – "السعيد من سعد في بطن أمه والشقي من شقي في بطن أمه". (طس عن أبي هريرة) .
٤٩١۔۔ نیک بخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں نیک بخت ہوگیا تھا اور بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت ہوگیا تھا۔ الاوسط للطبرانی (رح) ۔ بروایت ابوہریرہ (رض)۔

492

492 – "فرغ الله إلى كل عبد من خمس من أجله ورزقه وأثره ومضجعه وشقي أوسعيد". (حم طب عن أبي الدرداء) .
٤٩٢۔۔ اللہ پاک ہر بندے کی پانچ چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرماکر ان سے فارغ ہوچکے ہیں ، عمر، رزق، زندگی ، جائے قیام اور سعید یاشقی۔ مسنداحمد، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الدردائ۔

493

493 – "فرغ الله إلى كل عبد من خمس من عمله وأجله ورزقه وأثره ومضجعه لا يتعداهن عبد". (طب عن أبي الدرداء) .
٤٩٣۔۔ اللہ پاک ہر بندے کی پانچ چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرماکر ان سے فارغ ہوچکے ہیں عمل، عمر، رزق ، زندگی جائے قیام۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الدردائ۔

494

494 – "فرغ الله الخلق من أربع من الخلق والخلق والرزق والأجل" (ابن عساكر عن أنس) .
494 ۔۔۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کی چار چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرما کر ان سے فارغ ہوچکے ہیں۔ پیدائش، اوصاف و اخلاق، رزق، مدت زندگی۔

495

495 – "فرغ الله من المقادير وأمور الدنيا قبل أن يخلق السموات والأرض بخمسين ألف سنة." (طب عن ابن عمرو) .
495 ۔۔ اللہ تعالیٰ تمام اعداد و شمار اور دنیا کے امور کے متعلق آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے فیصلہ فرماکرفارغ ہوچکے ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمرو۔

496

496 – "فرغ الله إلى ابن آدم من أربع الخلق والخلق والرزق والأجل". (طس عن ابن مسعود) .
٤٩٦۔۔ اللہ ابن آدم کی چار چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرماکر ان سے فارغ ہوچکے ہیں۔ پیدائش ، اوصاف، و اخلاق، رزق ، مدت زندگی۔ الاوسط للطبرانی (رح) علیہ، ابن مسعود۔

497

497 – "قدر الله المقادير وكتبها قبل أن يخلق السموات والأرضين بخمسين ألف سنة". (حم ت عن ابن عمر) .
٤٩٧۔۔ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ تمام اعداد و شمار کو مقرر کرنے اور دنیا کے تمام امور کے متعلق فیصلہ فرمانے سے فارغ ہوچکے ہیں۔ مسنداحمد، ترمذی، بروایت ابن عمر۔

498

498 – "كتب الله تعالى مقادير الخلائق قبل أن يخلق السموات والأرض بخمسين ألف سنة وعرشه على الماء." (م عن ابن عمر) .
٤٩٨۔۔ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے جبکہ عرش خدا نودی ابھی پانی پر مستقر تھا، اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کے اعداد و شمار مقرر فرمادیے ۔ اور ان کو لکھ دیا۔ الصحیح للامام مسلم (رح) ، بروایت ابن عمر۔

499

499 – "وكل شيء بقدر حتى العجز والكيس" (حم م عن ابن عمر) .
٤٩٩۔۔ ہرچیز تقدیر سے متعلق ہے حتی کہ عجز اور عقل مندی بھی۔ مسنداحمد، الصحیح للامام مسلم (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

500

500 – "لو أن ابن آدم هرب من رزقه كما يهرب من الموت لأدركه رزقه كما يدركه الموت". (حل عن جابر) .
٥٠٠۔۔ ابن آدم جس طرح موت سے بھاگتا ہے اگر اسی طرح رزق سے بھاگے تو رزق بھی اس کو یونہی ہر جگہ پہنچتا ہے ، جس طرح موت اس کی تاک میں لگی ہوتی ہے۔ الحلیہ ، بروایت جابر (رض)۔

501

501 – "لو دعا لك إسرافيل وجبريل وميكائيل وحملة العرش وأنا فيهم ماتزوجت إلى المرأة التي كتبت لك". (ابن عساكر عن محمد السعدي) .
٥٠١۔۔ اگر اسرافیل ، جبرائیل، میکائیل، اور عرش خداوندی اٹھانے والے فرشتے مجھ سمیت تیرے لیے دعا کریں تب بھی تیری شادی اسی عورت سے ہو کر رہے گی جو تیرے لیے لکھی جاچکی ہے۔ ابن عساکر، بروایت محمدالسعدی۔

502

502 – "لو قضي كان". (قط في الأفراد حل عن أنس) .
٥٠٢۔۔ جو فیصلہ لکھا جاچکا ہے وہ ہو کر رہے گا، الدارقطنی ، فی الافراد ، الحلیہ بروایت انس۔

503

503 – "ليس أحد منكم بأكسب من أحد. قد كتب الله المصيبة والأجل، وقسم المعيشة والعمل، فالناس يجرون فيها إلى منتهى". (حل عن ابن مسعود) .
٥٠٣۔۔ تم میں سے کوئی ایک دوسرے سے زیادہ کمانے والا نہیں ہے بیشک اللہ نے مصیبت اور موت کو لکھ دیا ہے اور رزق اور عمل کو تقسیم فرمادیا ہے لہٰذا لوگ اپنے اپنے انجام کی طرف کھینچے چلے جارہے ہیں۔ الحلیہ بروایت ابن مسعود۔

504

504 – " ما أصابني شيء منها إلا وهو مكتوب علي وآدم في طينته". (هـ عن ابن عمر) .
٥٠٤۔۔ مجھے کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر وہ اس وقت میری قسمت میں لکھی جاچکی تھی جبکہ آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی کے قالب میں تھے۔ ابن ماجہ، بروایت ابن عمر (رض)۔

505

505 – " لا تكثر همك ما يقدر يكن وما ترزق يأتك". (حب عن مالك بن عبادة) (البيهقي في القدر عن ابن مسعود) .
٥٠٥۔۔ زیادہ رنج وغم نہ کیا کر جو تیری تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا، اور جو رزق تیرے نام لکھا جاچکا ہے وہ بھی تجھ تک پہنچ کررہے گا۔ الصحیح لابن حبان ، بروایت مالک بن عبادہ ، البیہقی فی القدر، بروایت ابومسعود۔

506

506 – "لا تيأسا من الرزق ماتهز هزت رؤوسكما فإن الإنسان تلده أمه أحمر لاقشر عليه ثم يرزقه الله". (حم هـ جب والضياء عن حبة وسواء ابني خالد) .
٥٠٦۔۔ جب تک تمہارے سرحرکت میں ہیں رزق سے مایوس نہ ہو۔ یقیناانسان کو جب اس کی ماں نے جنم دیا تھا وہ اس وقت ایسی نازک حالت میں تھا کہ سرخ رنگ تھا اس کے جسم پر کوئی چھلکا تک نہ تھا، لیکن رزق رساں پروردگار الٰہی نے پھر بھی اس کو رزق پہنچایا۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، ابن حبان، الضیائ، بروایت حبہ وسوا ابنی خالد۔

507

507 – "الرزق أشد طلبا للعبد من أجله". (القضاعي عن أبي الدرداء) .
٥٠٧۔۔ رزق انسان کو موت سے زیادہ شدت کے ساتھ طلب کرتا ہے۔ القضاعی بروایت ابی الدردائ۔

508

508 – "إذا أراد الله أن يزيغ عبدا أعمى عليه الحيل". (طس عن عثمان) .
٥٠٨۔۔ جب قدرت الٰہی کسی بندہ کو راہ سے بھٹکانا چاہتی ہے اس کی تدبیروں کو نظروں سے اوجھل کردیتی ہے۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت عثمان (رض)

509

509 – "إذا أراد الله إنفاذ قضائه وقدره سلب ذوي العقول عقولهم حتى ينفذ فيهم قضاؤه وقدره فإذا أمضى أمره رد إليهم عقولهم ووقعت الندامه". (فر عن أنس وعلي) .
٥٠٩۔۔ جب اللہ عزوجل اپنے فیصلہ اور تقدیر کو نافذ فرمانا چاہتے ہیں عقل مندوں کی عقلوں کو سلب فرمالیتے ہیں حتی کہ جب وہ فیصلہ اور تقدیر نافذ ہوجاتی ہے تو ان کی عقلوں کو واپس لوٹادیاجاتا ہے اسی وجہ سے سر سے پانی گزرنے کے بعد وہ نام و پشیمان نظر آتے ہیں۔ الفردوس للدیلمی ، (رح) بروایت الدیلمی۔

510

510 – "إن الله إذا أحب إنفاذ أمر سلب كل ذي لب لبه". (خط عن ابن عباس) .
٥١٠۔۔ جب اللہ کسی امر کو نافذ فرمانا چاہتے ہیں توہردانشور کی دانش کو سلب فرما دیتے ہیں ، خطیب، بروایت ابن عباس۔

511

511 – "إن الله إذا أراد إمضاء أمر نزع عقول الدجال حتى يمضي أمره فإذا أمضاه رد إليهم عقولهم ووقعت الندامة". (أبوعبد الرحمن السلمي في سنن الصوفية عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده) .
٥١١۔۔۔ اللہ تعالیٰ جب کسی حکم کا جاری فرمانا چاہتے ہیں تو لوگوں کی عقل زائل فرما دیتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ حکم جاری ہوجاتا ہے تو ان کی عقل واپس لوٹادیجاتی ہے اور وہ ندامت کے مارے حیران پریشان ہوجاتے ہیں۔ ابوعبدالرحمن السلمی ، فی سنن الصوفیہ عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن جدہ۔

512

512 – "إذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء". (م عن أبي سعيد) .
٥١٢۔۔ جب اللہ کسی چیز کو پیدا فرمانا چاہتا ہے کوئی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔ الصحیح للامام مسلم (رح) ، بروایت ابی سعید ۔

513

513 – "اعملوا فكل ميسر لما خلق له". (طب عن ابن عباس وعمران بن حصين) .
٥١٣۔۔ عمل کرتے رہو۔۔ ہر انسان کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس و عمران بن حصین۔

514

514 – " اعملوا فكل ميسر لما يهدى له من القول". (طب عن عمران بن حصين) .
514 ۔۔ عمل کرتے رہو ہر انسان اسی بات پر کاربند ہوتا ہے جس کی اس کو ہدایت ملتی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر بروایت عمران بن حصین۔

515

515 – "كل امرئ مهيأ لما خلق له". (حم طب ك عن أبي الدرداء) .
٥١٥۔۔ ہر انسان جس چیز کے لیے پیدا ہوا ہے وہ اس کے لیے آسان کردی جاتی ہے۔ مسنداحمد، طبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم بروایت ابی الدردائ۔

516

516 – "كل ميسر لما خلق له". (حم ق د عن عمران) ، (ت عن عمر) ، (حم عن أبي بكر) .
٥١٦۔۔ ہر انسان کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، ابوداؤد بروایت عمران، ترمذی، بروایت عمر، مسنداحمد بروایت ابی بکر۔

517

517 – "من خلقه الله لواحدة من المنزلتين وفقه لعملها". (طب عن عمران) .
٥١٧۔۔ دونوں مقام میں سے جس کے لیے اللہ نے کسی کو پیدا فرمایا ہے اسی کے لیے عمل کرنے کی اس کو توفیق ملتی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمران۔

518

518 – "من يرد الله به خيرا يصب منه". (حم خ عن أبي هريرة) .
٥١٨۔۔ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں وہ بھلائی کو پہنچ جاتا ہے۔ مسنداحمد ، بخاری بروایت ابوہریرہ ۔

519

519 – "إن الله تعالى إذا قضى على عبد قضاء لم يكن لقضائه مرد". (ابن قانع عن شرحبيل بن السمط) .
٥١٩۔۔ جب اللہ کسی بندے کے متعلق کوئی فیصلہ فرما دیتے ہیں اس کے فیصلہ کو کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔ ابن قانع بروایت شرجیل بن السمط۔

520

520 – " إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة، بعث الله إليها ملكافصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها وعظمها، ثم قال يا رب أذكر أم أنثى، فيقضي ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول يا رب أجله، فيقول ربك ما شاء، ويكتب الملك، ثم يقول يا رب رزقه، فيقضي ربك ما شاء ويكتب الملك، ثم يخرج الملك بالصحيفة في يده ولا يزيد على ما أمر ولاينقص". (م عن حذيفة بن أسيد) .
٥٢٠۔۔ مادر رحم میں جب نطفہ پر بیالیس راتیں بیت جاتی ہیں اللہ عزوجل اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتے ہیں وہ اس کی صورت تشکیل دیتا ہے اس کے کان آنکھیں ، جلد، گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ، پھر وہ فرشتہ بارگاہ خداوندی سے دریافت کرتا ہے اے اللہ یہ جان مذکر ہے یامونث پھر اللہ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں اور فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار اس کی زندگی کتنی ہے پھر اللہ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں اور فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار رزق کتنا ہے پھر اللہ اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں اور وہ فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے اور پھر فرشتہ اس صحیفہ کو ہاتھ میں لیے نکلتا ہے اور اس حکم الٰہی میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ الصحیح امام مسلم، براویت حذیفہ بن اسید۔

521

521 – "إن النطفة تقع في الرحم أربعين ليلة ثم يتصور عليها الملك الذي يخلقها فيقول يا رب أذكر أم أنثى، فيجعله الله ذكرا أو أنثى، ثم يقول يا رب أسوي أم غير سوي فيجعله الله سويا أو غير سوي، ثم يقول يا رب ما رزقه ما أجله ما خلقه ثم يجعله الله شقيا أو سعيدا". (م عن حذيفة بن أسيد) .
٥٢١۔۔ مادر رحم میں جب نطفہ پر چالیس راتیں گذرجاتی ہیں تو ایک فرشتہ اس کی صورت بناتا ہے اور بارگاہ الٰہی میں پوچھتا ہے اے اللہ عزوجل یہ جان مذکر ہے یامونث ؟ پھر اللہ مشیت کے مطابق اس کو مذکر یامونث کردیتے ہیں فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار اس کو درست اور صحیح سالم پیدا کرنا ہے یا کچھ تبدیلی کرنا ہے ؟ پروردگار اس کے متعلق بھی فیصلہ فرما دیتے ہیں فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے اس کی زندگی کتنی ہے اس کا رزق کتنا ہے اس کے اوصاف کیسے ہوں گے ؟ پھر اللہ عزوجل اپنی مشیت کے مطابق اس کو نیک بخت ، یا بدبخت پیدا فرماتے ہیں۔ الصحیح لامام مسلم ، بروایت حذیفہ بن اسید۔

522

522 – "يدخل الملك على النطفة بعد ماتستقر في الرحم بأربعين ليلة فيقول يا رب ماذا أشقي أم سعيد أذكر أم أنثى فيقول الله فيكتبان ويكتب عمله وأثره ومصيبته ورزقه وأجله ثم تطوى الصحيفة فلا يزاد على مافيها ولا ينقص". (حم عن حذيفة بن أسيد) .
522 ۔۔ نطفہ کے رحم مادر میں چالیس رات تک مستقر رہنے کے بعد ایک فرشتہ اس کے پاس حاضر ہوتا ہے اور پروردگار سے دریافت کرتا ہے اے اللہ عزجل یہ جان نیک بخت ہے یا بدبخت مذکر ہے یامونث اللہ فیصلہ فرما دیتے ہیں اور وہ لکھ دیاجاتا ہے اور اس کا عمل زندگی مصیبت رزق اور اس کی موت کا وقت تک لکھ دیاجاتا ہے اور اس صحیفہ کو ہمیشہ کے لیے بند کردیاجاتا ہے اور آئندہ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔ مسنداحمد ، بروایت حذیفہ بن اسید۔

523

523 – "إذا استقرت النطفة في الرحم أربعين يوما (2) وأربعين ليلة بعث إليها ملك فيقول يا رب أذكر أم أنثى فيعلم فيقول يا رب أشقي أم سعيد فيعلم". (حم عن جابر) .
٥٢٣۔۔ نطفہ جب چالیس دن اور رات تک رحم مادر میں قرار پکڑتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ بھی جاجاتا ہے وہ دریافت کرتا ہے اے اللہ عزجل یہ مذکر ہے یامونث وہ بتادیاجاتا ہے فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار سعید یاشقی، پھر وہ بھی بتادیاجاتا ہے۔ مسنداحمد، بروایت جابر (رض)۔

524

524 – "إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما نطفة ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله إليه ملكا ويؤمر بأربع كلمات ويقال له اكتب عمله ورزقه وأجله وشقي أوسعيد ثم ينفخ فيه الروح فإن الرجل منكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل النار فيدخل النار وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة فيدخل الجنة". (ق 4 عن ابن مسعود) .
٥٢٤۔۔ جب تم میں سے کسی کی رحم مادر میں تخلیق کی جاتی ہے تو چالیس دن تک وہ ایک نطفہ کی شکل میں آتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں وہ منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں وہ لوتھڑا بنتا ہے پھر اللہ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں اور اس کی چار باتوں کا حکم کیا جاتا ہے ۔۔ کہ لکھ اس کا عمل ، رزق، زندگی اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے یقینابعض اوقات کوئی شخص اہل جنت کے اعمال کرتا رہتا ہے۔
حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن اس پر نوشتہ خداوندی غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کے عمل کرنے لگتا ہے اور انجام کار جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ، اور بعض اوقات کوئی شخص اہل جہنم کے اعمال کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن اس پر نوشتہ خداوندی غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت کے عمل کرنے لگتا ہے اور انجام کار جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ بخاری مسلم، بروایت ابن مسعود۔

525

525 – "إن الرجل ليعمل عمل الجنة فيما يبدو للناس وهومن أهل النار وإن الرجل ليعمل عمل أهل النار فيما يبدو للناس وهو من أهل الجنة". (ق عن سهل بن سعد) زاد (خ) وإن الأعمال بخواتيمها.
٥٢٥۔۔ بعض مرتبہ کوئی شخص ظاہراً اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے جب کہ وہ اہل جہنم میں شامل ہوجاتا ہے بعض مرتبہ کوئی شخص ظاہراً اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے جب کہ وہ اہل جنت میں شامل ہوتا ہے بخاری، مسلم، بروایت سھل بن سعد۔ اور بخاری میں یہ اضافہ فرمایا ہے اور اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔

526

526 – "أتدرون ماهذا الكتابان، هذا كتاب من رب العالمين، فيه أسماء أهل الجنة وأسماء آبائهم وقبائلهم ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولاينقص منهم أبدا، وهذا كتاب من رب العالمين، فيه أسماء أهل النار وأسماء آبائهم وقبائلهم، ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولاينقص منهم أبدا، سددوا وقاربوا، فإن صاحب الجنة يختم له بعمل أهل الجنة وإن عمل أي عمل، وإن صاحب النار يختم له بعمل أهل النار وإن عمل أي عمل، فرغ من العباد، فريق في الجنة وفريق في السعير". (حم ق ن عن ابن عمرو) .
٥٢٦۔۔ کیا تم جانتے ہو ان دو کتابوں کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کتاب پروردگار رب العالمین کی ہے، اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اجداد اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں۔ اور اسی پر ان کو جمع کیا جائے گا کبھی بھی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ اور یہ کتاب پروردگار رب العالمین کی ہے، اس میں اہل جہنم اور ان کے آبا اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں اور اسی پر ان کو جمع کیا جائے گا کبھی بھی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ پس درست رہو اور قریب قریب رہو۔ بےصاحب جنت کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہوگا خواہ وہ کیسے ہی اعمال کرتا رہے اور بیشک صاحب جہنم کا خاتمہ اہل جہنم کے عمل پر ہوگا خواہ وہ کیسے ہی اعمال کرتا رہے ۔ اللہ بندوں کے فیصلہ فارغ ہوچکے ہیں۔ ایک فریق جنت میں ہے اور ایک فرق جہنم میں ۔ مسنداحمد، بخاری ، مسلم، النسائی بروایت ابن عمر (رض) نعہ۔

527

527 – "أحسنوا فإن غلبتم فكتاب الله تعالى وقدره ولا تدخلوا اللو فإن من أدخل اللو دخل عليه عمل الشيطان". (خط عن عمر) .
٥٢٧۔۔ اچھے اعمال بجالاتے رہو۔۔ اگر انجام کار اچھا رہا تو یہی نوشتہ الٰہی اور تقدیر الٰہی تھا، اور کاش کاش کی بات مت کرو کیونکہ جس نے ایسا کرنا شروع کردیا، یقیناً اس پر شیطانی عمل کا اثر ہوگیا خطیب بروایت عمر۔

528

528 – "إن الله آخذ ذرية آدم من ظهره ثم أشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى ثم أفاض بهم في كفيه فقال هؤلاء في الجنة وهؤلاء في النار فأهل الجنة ميسرون لعمل أهل الجنة وأهل النار ميسرون لعمل أهل النار". (البزار طب هق في الأسماء عن هشام بن حكيم) .
٥٢٨۔۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تمام اولاد کو آدم کی پشت سے نکالا، اور ان سے شہادت لی کہ کیا میں تمہیں پروردگار نہیں ہوں سب نے بیک زبان کہا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے دومٹھیاں بھریں اور ایک کے بارے میں فرمایا، یہ جنت میں جائیں گے۔ اور دوسری کی بارے میں فرمایا یہ جہنم میں جائیں گے ۔ اور اھل جنت کو اہل جنت کے اعمال کی توفیق ہوگی اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال کی توفیق ہوگی۔ مسندبزار، الطبرانی فی الکبیر، بیہقی ، فی الاسمائ، بروایت ہشام بن حکیم۔

529

529 – "إن الله خلق آدم ثم مسح ظهره بيمينه فاستخرج منه ذرية فقال: خلقت هؤلاء للجنة وبعمل أهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال خلقت هؤلاء للنار، وبعمل أهل النار يعملون، إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل أهل الجنة حتى يموت على عمل من أعمال أهل الجنة فيدخل به الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل أهل النار حتى يموت على عمل من أعمال أهل النار فيدخله به النار"مالك حم د ت ك عن عمر) .
٥٢٩۔۔ اللہ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں دست قدرت پھیراتو اس سے ان کی اولاد کا ایک گروہ نکلا اللہ نے فرمایا میں نے ان کو جنت کے لیے پیدا فرمایا ہے ، اور یہ جنتی عمل کریں گے اللہ نے پھر ان کی پشت پر اپنا دست قدرت پھیراتو اس ان کی اولاد کا دوسرا گروہ نکلا اللہ نے فرمایا میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا فرمایا ہے اور یہ جہنمی عمل کریں گے۔
اللہ جس بندہ کو جنت کے لیے پیدا فرماتے ہیں اس کو اس کے عمل میں مصروف فرما دیتے ہیں حتی کہ وہ جنتی اعمال پر مرتا ہے اور پھر اللہ اس کو جنت میں داخل فرما دیتے ہیں۔ اللہ جس بندہ کو جہنم کے لیے پید ا فرماتے ہیں اس کو اس کے عمل میں مصروف فرما دیتے ہیں حتی کہ وہ جہنمی اعمال پر مرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل فرما دیتے ہیں۔ مالک ، مسنداحمد، ابوداؤد ، ترمذی، المستدرک للحاکم، بروایت عمر (رض)۔

530

530 – " إن الله خلق آدم ثم أخذ الخلق من ظهره فقال: هؤلاء في الجنة ولا أبالي وهؤلاء في النار ولا أبالي". (حم د ت عن عبد الرحمن ابن قتادة السلمي) .
٥٣٠۔۔ اللہ نے آدم کو پیدا فرمایا ہے اور ان کی تمام اولاد کو ان کی پشت سے نکالا اور فرمایا، یہ جنت کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ جہنم کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں ۔ مسنداحمد ، ابوداؤد ، ترمذی، بروایت عبدالرحمن ابن قتادہ السلمی۔

531

531 – "إن الله قبض قبضة فقال: هذه إلى الجنة برحمتي، وقبض قبضة فقال هذه إلى النار ولا أبالي". (ع عن أنس) .
٥٣١۔۔ اللہ پاک نے ایک مٹھی بھری اور فرمایا یہ میری رحمت سے جنت میں جائیں گے پھر دوسری مٹھی بھری اور فرمایا یہ جہنم میں جائیں گے اور مجھے کوئی پروا نہیں ۔ المسند ابی یعلی، انس (رض)۔

532

532 – "إن الله من على قوم فألهمهم الخير فأدخلهم في رحمته وابتلى قوما فخذلهم وذمهم على أفعالهم فلم يستطيعوا أن يرحلوا عما ابتلاهم به فعذبهم وذلك عدله فيهم". (قط في الأفراد فر عن أبي هريرة) .
٥٣٢۔۔ اللہ نے ایک قوم پر احسان فرمایا اور ان کو خیر سمجھائی پھر اپنی رحمت میں ان کو داخل فرمالیا۔ اور دوسری قوم کو آزمائش میں جکڑا اور ان کو رسوا کرڈالا، اور مذموم حرکتوں میں ان کو مبتلا کردیا۔ پس اب وہ اس آزمائش کے جال سے نکل نہیں پاتے۔ اور پروردگار ان کو عذاب فرمائیں گے اور یہ ان کے بارے میں پروردگار کا عین عدل ہے۔ الدارقطنی ، فی الافردا، الفردوس للدیلمی، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

533

533 – "إنهما قبضتان قبضة في النار وقبضة في الجنة" (حم طب عن معاذ) .
٥٣٣۔۔ یہ دومشت ہیں۔ ایک جہنم میں جائے گی اور ایک جنت میں جائے گی۔ مسنداحمد، اطبرانی فی الکبیر، بروایت معاذ۔

534

534 – "إن الله خلق الجنة وخلق النار فخلق لهذه أهلا ولهذه أهلا". (م عن عائشة) .
٥٣٤۔۔ اللہ نے جنت کو پیدا فرمایا اور جہنم کو پیدا فرمایا۔ اور اس کے اہل بھی پیدا فرمائے اور اس کے اہل بھی پیدا فرمائے۔ مسلم، بروایت عائشہ (رض)۔

535

535 – "إن أهل الجنة ميسرون لعمل أهل الجنة وإن أهل النار ميسرون لعمل أهل النار". (د عن عمر) .
٥٣٥۔۔ یقینااہل جنت کو اہل جنت کے اعمال میسرہوں گے اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال میسر ہوں گے۔ ابوداؤد، بروایت عمر (رض)۔

536

536 – "لكل بشر رزقه من الدنيا هو يأتيه لا محالة فمن رضي به بورك له فيه ووسعه ومن لم يرضه لم يبارك له فيه ولم يسعه". (فر عن ابن عباس) .
٥٣٦۔۔ ہر بشر کا دنیا میں رزق مقدر ہے ۔۔ جو لامحالہ اس کو حاصل ہو کر رہے گا، سو جو اس پر راضی ہوگیا، اسے اس میں برکت ہوگی اور فراخی میسر ہوگی اور جو اس پر راضی نہ ہوا اسے اس رزق میں برکت ہوگی نہ فراخی میسر ہوگی۔ الفردوس دیلمی، بروایت ابن عباس (رض)۔

537

537 – "لو أن الله عذب أهل سماواته وأهل أرضه لعذبهم وهوغير ظالم لهم ولو رحم لكانت رحمته لهم خيرا من أعمالهم ولوأنفقت مثل أحد ذهبا في سبيل الله ما قبله منك حتى تؤمن بالقدر فتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك وما أخطأك لم يكن ليصيبك ولو مت على غير هذه لدخلت النار". (حم عن زيد بن ثابت) (حم د هـ حب طب عن أبي بن كعب وزيد بن ثابت وحذيفة وابن مسعود) .
٥٣٧۔۔ اگر اللہ عزوجل تمام اہل زمین و آسمان کو عذاب دیں تو یہ پروردگار ان پر قطعا ظلم نہ ہوگا، اور اگر ان پر اپنی رحمت برسائیں تو اس کی یہ رحمت ان کے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔
اور اگر تو اس کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سوناخرچ کرے تو پروردگار اس کو اسوقت تک ہرگز قبول نہ فرمائیں گے۔۔ جب تک کہ تو تقدیر پر ایمان نہ لائے اور اس بات کا یقین نہ رکھے کہ تجھ کو پہنچنے والی مصیبت ہرگز ٹلنے والی نہ تھی ، اور جس سے تو محفوظ رہا، وہ ہرگز تجھ کو پہنچنے والی نہ تھی اور اگر اس کے سوا کسی اعتقاد پر تیری موت آئی توتوسیدھا جہنم میں جائے گا۔ مسنداحمد، بروایت زید بن ثابت ، مسند امام احمد، ابن ماجہ، ابوداؤد ، الصحیح لابن حبان، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی بن کعب ، زید بن ثابت حذیفہ وابن ماجہ۔

538

538 – "ما من نفس منفوسة إلا وقد كتب الله مكانها من الجنة والنار، وإلا وقد كتبت شقية أو سعيدة قيل أفلا نتكل؟ قال لا اعملوا ولا تتكلوا فكل ميسر لما خلق له، أما أهل السعادة فييسرون لعمل أهل السعادة، وأما أهل الشقاوة فييسرون لعمل أهل الشقاوة". (حم ق 4 عن علي) .
٥٣٨۔۔ کوئی جاندار نفس ایسا نہیں ہے جس کے لیے اللہ نے جنت اور جہنم دونوں میں جگہ نہ بنائی ہو۔۔ اور اس کے لیے شقاوت یا سعادت نہ لکھ دی ہو، استفسار کیا گیا تو کیا ہم بھروسہ نہ کربیٹھیں۔ فرمایا نہیں عمل کرتے رہو۔۔۔ اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کے نہ بیٹھو۔ کیونکہ ہر شخص جس کام کے لیے پیدا ہوا ہے اس کی اس کو توفیق ملتی ہے پس سعادت مندوں کے لیے سعادت مندوں کے اعمال آسان کردیے جاتے ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختوں کے اعمال آسان کردیے جاتے ہیں۔ مسنداحمد ، بخاری، ومسلم، بروایت علی۔

539

539 – " من تكلم في شيء من القدر سئل عنه يوم القيامة، ومن لم يتكلم فيه لم يسأل عنه". (هـ عن عائشة) .
٥٣٩۔۔ جس نے تقدیر کے بارے میں حرف زبانی کی، اس سے قیامت کے روز باز پرس ہوگی، اور جس نے اس بارے میں سکوت اختیار کیا اس سے اس کے بارے میں باز پرس نہ ہوگی۔ ابن ماجہ، بروایت عائشہ۔

540

540 – "المؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف، وفي كل خير، احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولا تعجز، وإن أصابك شيء فلا تقل: لو أني فعلت لكان كذا وكذا، ولكن قل قدر الله وما شاء فعل، فان لو تفتح عمل الشيطان" (حم انتهى. عن أبي هريرة) .
٥٤٠۔۔ طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے اور ہر ایک میں خیر ہے ، جو چیز تیرے لیے سودمند ہو اس کو سمیٹ لے اور اللہ سے نصرت کا طلب گار رہ۔ لاچار اور مایوس ہو کرمت بیٹھ۔ اگر کوئی مصیبت پہنچ جائے تویوں مت کہہ کہ کاش اگر یوں کرلیتا تویوں نہ ہوتا بلکہ یوں کہہ اللہ نے تقدیر میں یہی لکھا تھا جو ضرور وقوع پذیر ہونا تھا کیونکہ کاش کاش، شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، امام مسلم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

541

541 – "لا يؤمن عبد حتى يؤمن بالقدر خيره وشره وحتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه". (ت عن جابر) .
٥٤١۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا۔۔ جب تک کہ خیر سوئے تقدیر پر اس کا ایمان مستحکم نہ ہو۔ اور اس بات کا یقین نہ رکھے کہ اس کو پہنچنے والی مصیبت ہرگز ٹلنے والی نہ تھی، اور جس سے وہ محفوظ رہاوہ ہرگز اس کو پہنچے والی نہ تھی۔ ترمذی، بروایت جابر۔

542

542 – "لايؤمن عبد حتى يؤمن بأربع: يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله بعثني بالحق ويؤمن بالموت ويؤمن بالبعث بعد الموت ويؤمن بالقدر خيره وشره". (حم ت هـ ك عن علي) .
٥٤٢۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا (جب تک کہ چار باتوں پر اس کا ایمان کامل نہ ہو) لاالہ الا اللہ کی شہادت دے۔ اور اس بات کی شہادت دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، موت اور بعثت بعد الموت پر ایمان رکھے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، بروایت علی (رض)۔ حدیث کے رواۃ ثقہ ہیں۔ سنن الترمذی، ج ١ ص ٤٥٢۔

543

543 – "يا أبا هريرة جف القلم بما أنت لاق فاختص على ذلك أو ذر". (خ ن عن أبي هريرة) .
٥٤٣۔۔ اے ابوہریرہ ، جو تیرے ساتھ بیتنے والا ہے ، اس پر تقدیر کا قلم خشک ہوچکا ہے لہٰذا س پر مضبوط رہ یاہٹ جا۔ بخاری، النسائی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

544

544 – "يا عائشة إن الله خلق للجنة أهلا خلقهم لها وهم في أصلاب آبائهم". (حم م د هـ عن عائشة) .
٥٤٤۔۔ اے عائشہ اللہ نے جن کو جنت کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ جب اپنے آباء کی پشتوں میں تھے تبھی سے اللہ نے ان کو جنتی لکھ دیا۔ مسنداحمد، مسلم، ابوداؤد ، ابن ماجہ، براویت عائشہ۔

545

545 – "إن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل أهل الجنة، ثم يختم له بعمل أهل النار وإن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل أهل النار ثم يختم عمله بعمل أهل الجنه". (م عن أبي هريرة) .
٥٤٥۔۔ بسا اوقات آدمی زمانہ دراز تک اہل جنت کے اعمال پرکاربند رہتا ہے لیکن خاتمہ اہل جہنم کے اعمال پر ہوتا ہے اور بسا اوقات آدمی زمانہ دراز تک اہل جہنم کے اعمال پرکاربند رہتا ہے لیکن خاتمہ اہل جہنم کے اعمال پر ہوتا ہے۔ مسلم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

546

546 – "بعثت داعيا ومبلغا وليس إلي من الهدى شيء وخلق إبليس مزينا وليس إليه من الضلالة شيء". (عق عد عن عمر) .
٥٤٦۔۔ مجھے تو محض داعی اور مبلغ بناکر بھیجا گیا ہے اور ہدایت میرے ہاتھ میں نہیں ہے ابلیس کو محض جھوٹی ملمع سازی کرنے والا بناکر پیدا کیا گیا ہے ورنہ کسی کی ضلالت اور گمراہی اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ الضعفاء للعقیلی ، (رح) ابوداؤد بروایت عمر۔

547

547 – "احتج آدم وموسى فحج آدم وموسى". (خط عن أنس) .
547 ۔۔۔ آدم (علیہ السلام) اور موسی کا باہم مناظرہ ہوا۔ اور آدم (علیہ السلام) موسیٰ پر غالب آگئے۔ خطیب بغدادی بروایت انس۔

548

548 – "احتج آدم وموسى فقال موسى أنت الذي خلقك الله بيده ونفخ فيك من روحه وأسجد لك ملائكته وأسكنك جنته أخرجت الناس من الجنة بذنبك واشقيتهم قال يا موسى أنت اصطفاك الله برسالته وكلامه وأنزل عليك التوراة أتلومني على أمر كتبه الله علي قبل أن يخلقني فحج آدم موسى". (حم ق د ت هـ عن أبي هريرة) .
548 ۔۔ آدم (علیہ السلام) اور موسی کا باہم مناظرہ ہوا۔ موسیٰ نے فرمایا آپ ہی وہ برگزیدہ شخص ہیں جن کو اللہ نے اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا ہے اور پھر روح پھونکی اور آپ کو ملائکہ سے سجدہ کروایا، اور جنت میں سکونت بخشی پھر آپ نے اپنے گناہ کی بدولت ہم کو اور اپنے آپ کو جنت سے نکلوایا اور ان کو اس سے محروم کردیا۔ آدم نے فرمایا اے موسیٰ کیا تم وہی ہو۔۔ جن کو اللہ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا اپنے ساتھ کلام کے لیے چنا، اور آپ پر توراۃ نازل فرمائی اور اس کے باوجود آپ مجھے اس بات پر ملامت کر تیہ و جو اللہ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے پہلے لکھ دی تھی ؟ بالاآخر آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ۔

549

549 – "إن موسى قال يا رب أرنا آدم الذي أخرجنا ونفسه من الجنة فأراه الله آدم فقال أنت أبونا آدم فقال له آدم نعم قال أنت الذي نفخ الله فيك من روحه وعلمك الأسماء كلها وأمر الملائكة فسجدوا لك قال نعم قال فما حملك على أن أخرجتنا ونفسك من الجنة فقال له آدم ومن أنت قال أنا موسى قال أنت نبي بني إسرائيل الذي كلمك الله من وراء حجاب لم يجعل بينك وبينه رسولا من خلقه قال نعم قال فما وجدت أن ذلك كان في كتاب الله قبل أن أخلق قال نعم قال فبم تلومني في شيء سبق من الله فيه القضاء قبلي، فحج آدم موسى فحج آدم موسى" (د عن عمر) .
٥٤٩۔۔ موسیٰ نے اللہ سے درخواست کی اے اللہ مجھے آدم کی زیارت کروا دیجئے جنہوں نے اپنے کو اور ہم تمام لوگوں کو جنت سے نکلوایا اللہ نے ان کو آدم کی زیارت کروائی ، موسیٰ نے فرمایا، آپ ہی ہمارے جدامجد آدم (علیہ السلام) ہیں ؟ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا جی ہاں۔ موسیٰ نے فرمایا آپ میں اللہ نے روح پھونکی، اور آپ کو تمام اسماء سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں پھر کیوں آپ نے ہم کو اور اپنے آپ کو جنت سے نکلوایا ؟ آدم نے فرمایا تم کون ہو ؟ فرمایا میں موسیٰ ہوں دریافت کیا کیا بنی اسرائیل کے پیغمبر موسیٰ ، جن سے اللہ نے پس پردہ کلام کیا تھا، فرمایا جی ہاں۔ دریافت کیا کیا تم نے توراۃ میں نہیں پایا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں میری پیدائش سے قبل یہ میری تقدیر لکھ دی تھی، فرمایا جی ہاں۔ آدم نے فرمایا پھر کس وجہ سے تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جو اللہ نے مجھ سے پہلے میرے لیے فیصل کردی تھی تو آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ ابوداؤد بروایت عمر (رض)۔

550

550 – "فرغ الله من المقادير وأمور الدنيا قبل أن يخلق السماوات والأرض بخميسين ألف سنة". (طب عن ابن عمرو) .
٥٥٠۔۔ اللہ تمام اعداد و شمار اور دنیا کے جمیع امور کے متعلق آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے فیصلہ فرماکرفارغ ہوچکے ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، براویت ابن عمر۔

551

551 – "فرغ الله من أربع من الخلق والخلق والرزق والأجل". (ابن عساكر عن أنس) .
٥٥١۔۔ اللہ چار چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرماکر ان سے فارغ ہوچکے ہیں۔ پیدائش، اوصاف، و اخلاق، رزق، مدت زندگی۔ ابن عساکر، بروایت انس۔

552

552 – "فرغ الله إلى كل عبد من خمس من عمله وأجله ورزقه وأثره ومضجعه لا يتعداهن عبد". (طب عن أبي الدرداء) .
٥٥٢۔۔ اللہ پاک ہر بندے کی پانچ چیزوں کے بارے میں فیصلہ فرماکر ان سے فارغ ہوچکے ہیں عمل، عمر، رزق، زندگی ، جائے قیام۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی افرع۔

553

553 – "إن مجوس هذه الأمة: المكذبون بأقدار الله، إن مرضوا فلا تعودهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم، وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم". (هـ عن جابر) .
٥٥٣۔۔ اس امت کے مجوسی تقدیر خداوندی کو جھٹلانے والے ہیں لہٰذا اگر وہ مرض میں مبتلاہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو، اور اگر ان سے ملاات ہوجائے تو ان کو سلام نہ کرو۔ ابن ماجہ، بروایت جابر۔

554

554 – "لكل أمة مجوس، ومجوس أمتي الذين يقولون لا قدر، إن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم". (حم عن ابن عمر) .
٥٥٤۔۔ ہر امت میں کچھ مجوسی لوگ ہوتے ہیں اور اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں لہٰذا اگر وہ مرض میں مبتلاہوجائیں تو ان کی عیادت کونہ جاؤ، اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو۔ مسنداحمد، بروایت ابن عمر۔

555

555 – "لكل أمة مجوس، ومجوس هذه الأمة الذين يقولون لا قدر، فإن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم وهم شيعة الدجال، وحق على الله أن يحشرهم معه". (ق ن عن حذيفة) .
٥٥٥۔۔ ہر امت میں کچھ مجوسی لوگ ہوتے ہیں اور اس امت کے مجوسی، وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں لہٰذا اگر وہ مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو، اور وہ دجال کے گروہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ ضرور ان کا انہی کے ساتھ حشر فرمائیں گے۔ بخاری، مسلم، النسائی، بروایت حذیفہ۔

556

556 – "إن أمر هذه الأمة لا يزال مقاربا، حتى يتكلموا في الولدان والقدر". (طب عن بن عباس) .
٥٥٦۔۔ یہ امت مسلسل خیر کے قریب رہے گی، جب تک کہ ولدان اور تقدیر کے مسئلہ میں نہ الجھے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس۔

557

557 – "سيكون في أمتي أقوام يكذبون بالقدر". (حم ك عن ابن عمر) .
٥٥٧۔۔ عنقریب میری امت میں ایسی اقوام آئیں گی جو تقدیر کا انکار کریں گی۔ مسنداحمد، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

558

558 – "صنفان من أمتي ليس لهم من الإسلام نصيب: المرجئة والقدرية". (تخ ن هـ عن ابن عباس عن جابر خط عن ابن عمر) ، (طس عن أبي سعيد) .
٥٥٨۔۔ میری امت کی دوجماعتوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے ، مرجہ ، اور قدریہ، بخاری فی التاریخ النسائی ، ابن ماجہ، بروایت ابن عباس (رض) ، بروایت جابر ، خطیب، بروایت ابن عمر (رض) نعہ ، الاوسط للطبرانی بروایت ابی سعید۔

559

559 – "صنفان من أمتي لا تنالهم شفاعتي يوم القيامة المرجئة والقدرية". (حل عن أنس طس عن واثلة عن جابر) .
٥٩۔۔۔ میری امت کی دوجماعتوں کی قیامت کے روز میری شفاعت حاصل نہ ہوگی۔ مرجیہ، اور قدریہ۔ الحلیہ، بروایت انس ، الاوسط طبرانی، بروایت واثلہ عن جابر۔

560

560 – "صنفان من أمتي لا يردان علي الحوض ولا يدخلان الجنة: القدرية والمرجئة". (طس عن أنس) .
٥٦٠۔۔ میری امت کی دوجماعتیں قیامت کے روز حوض پر مجھ سے نہ مل سکیں گی ۔ اور نہ جنت میں داخل ہوسکیں گی۔ قدریہ مرجیہ،۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت انس۔

561

561 – "عزمت على أمتي أن لا يتكلموا في القدر". (خط عن ابن عمر) .
٥٦١۔۔ میں اپنی امت کو انتہائی سختی سے تاکید کرتا ہوں کہ وہ تقدیر کے مسئلہ میں کبھی نہ الجھیں۔ خطیب براویت ابن عمر (رض)۔

562

562 – "عزمت على أمتي أن لا يتكلموا في القدر، ولا يتكلم في القدر إلا أشرار أمتي في آخر الزمان". (عد عن أبي هريرة) .
٥٦٢۔۔ میں اپنی امت کو انتہائی سختی سے تاکید کرتا ہوں کہ وہ تقدیر کے مسئلہ میں کبھی نہ الجھیں۔ اور اس مسلہ کے متعلق اخیرزمانہ میں امت کے بدترین افراد الجھیں گے۔ ابوداؤد ، بروایت ابوہریرہ ۔

563

563 -"لعنت القدرية على لسان سبعين نبيا". (قط في العلل عن علي) .
٥٦٣۔۔ سترانبیاء کی زبانی قدریہ پر لعنت کی گئی ہے۔ الدارقطنی ، فی العلل، بروایت علی۔

564

564 – "لا تجالسوا أهل القدر ولا تفاتحوهم". (حم د ك عن عمر) .
٥٦٤۔۔ قدریہ کے ساتھ نشست وبرخاست بھی نہ رکھو۔ اور نہ ان سے بات چیت کرنے میں پہل کرو۔ مسنداحمد، ابوداود، المستدرک للحاکم بروایت عمر۔

565

565 – "اتقوا القدر فإنه شعبة من النصرانية". (ابن أبي عاصم طب عد عن ابن عباس) .
٥٦٥۔۔ قدریہ سے احتراز کرو۔ کیونکہ وہ نصاری کا گروہ ہے ، ابن ابی عاصم، الطبرانی فی الکبیر، ابوداؤد ، بروایت ابن عباس (رض)۔

566

566 – "القدرية مجوس هذه الأمة إن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم" (د ك عن ابن عمر) .
٥٦٦۔۔ اس امت کے مجوسی قدریہ ہیں، لہٰذا اگر وہ بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی عیادت کونہ جاؤ ، اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو۔ ابوداؤد المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

567

567 – " أخاف على أمتي من بعدي خصلتين: تكذيبا بالقدر وتصديقا بالنجوم". (عد عن في كتاب النجوم عن أنس) .
٥٦٧۔۔ اپنے بعد میں اپنی امت کے بارے میں دوخصلتوں سے ڈرتاہوں تقدیر کا انکار ، اور ستارہ شناسی کی تصدیق ۔ ابوداؤد بروایت فی کتاب النجوم بروایت انس۔ یعنی ستارہ شناسوں (نجومیوں ) سے غیب کی باتیں پوچھنا اور ان کی تصدیق کرنا۔

568

568 – "آخر الكلام في القدر لشرار أمتي في آخر الزمان". (طس ك عن أبي هريرة)
٥٦٨۔۔۔ تقدیر کے متعلق آخری بحث و مباحثہ کرنے والے آخرزمانہ میں میری امت کے بدترین افراد ہوں گے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

569

569 – "إذا كان يوم القيامة نادى مناد ألا ليقم خصماء الله وهم القدرية". (طس عن عمر) .
٥٦٩۔۔ قیامت کے روز ایک منادی ندا دے گا۔۔ اے وہ لوگو جو اللہ کے دشمن ہیں کھڑے ہوجائیں اور وہ قدریہ کی جماعت ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت عمر۔

570

570 – "أحسنوا، فإن غلبتهم فكتاب الله وقدره، ولا تدخلوا اللو، فإن من أدخل اللو، دخل عليه عمل الشيطان". (خط عن عمرو) ، ورواه في المتفق والمفترق بلفظ فمن أدخل اللو أدخل على نفسه عمل الشيطان وفيه إسحاق بن عبد الله بن أبي فروة متروك.
٥٧٠۔۔ اچھے اعمال بجالاتے رہو۔۔ اگر انجام کار اچھا رہا تو جان لو کہ نوشتہ الٰہی اور تقدیر الٰہی تھا، اور کاش کاش کی بات مت کرو، کیونکہ جس نے ایسا کرنا شروع کردیا، یقیناً اس پر شیطانی عمل کا اثر ہوگیا۔ خطیب بروایت عمر خطیب (رح) نے اس کو المتفق والمفترق میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جس نے کاش کاش کرنا شروع کردیا اس نے شیطانی عمل کو اپنی جان پر مسلط کرلیا۔ لیکن اس روایت میں اسحاق بن عبداللہ بن ابی فرعوہ ایک راوی ہیں جو متروک ہیں۔

571

571 – "إذا أراد الله عز وجل أن يخلق النطفة خلقا قال ملك الأرحام معرضا أي رب أشقي أم سعيد ذكر أم أنثى أي رب أحمر أم أسود فيقضي الله أمره ثم يكتب بين عينيه ماهو لاق من خير أو شر حتى النكبة ينكبها". (ابن جرير قط في الأفراد عن ابن عمر) .
٥٧١۔۔ جب پروردگار کسی نطفہ کو پیدا فرمانا چاہتے ہیں تو رحم والا فرشتہ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے اے پروردگار یہ شقی ہوگا یاسعید ؟ مذکر ہوگا یامونث ؟ سرخ رنگ ہوگا یاسیاہ ؟ پھر پروردگار فیصلہ فرما دیتے ہیں۔ اور فرشتہ ہراس خیریاشر امر کو اس کی پیشانی پر لکھ دیتا ہے جس سے بھی مستقبل میں اس کا سابقہ پیش آئے گا حتی کہ غلہ کی مقدار جو اس کے نصیب میں ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے۔ ابن جریر، الدارقطنی فی الافراد ، بروایت ابن عمر (رض)۔

572

572 – "إذا استقرت النطفة في الرحم اثنين وسبعين صباحا أتى ملك الأرحام فخلق لحمها وعظمها وسمعها وبصرها ثم قال يا رب أشقي أم سعيد فيقضي ربك ما شاء ويكتب الملك ثم يكتب رزقه وأجله وعمله ثم يخرج الملك". (البارودي عن أبي الطفيل عامر بن واثلة عن حذيفة بن أسيد) .
٥٧٢۔۔ جب رحم مادر میں نطفہ پر بہتر دن بیت جاتے ہیں تو رحم والا فرشتہ آتا ہے اور اس کا گوشت ہڈیاں ، کان اور آنکھیں بناتا ہے پھر بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے اے پروردگار یہ شقی ہوگا یاسعید ؟ پھر پروردگار اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرما دیتے ہیں، اور فرشتہ اس کا رزق عمر اور عمل لکھ لیتا ہے اور پھر نکل جاتا ہے۔ الباوردی بروایت ابی الطفیل عامر بن واثلہ بروایت حذیفہ بن اسید۔

573

573 – " إذا مضت على النطفة خمس وأربعون ليلة قال الملك أذكرأم أنثى فيقضي الله ويكتب الملك فيقول الملك أشقي أم سعيد فيقضي الله ويكتب الملك فيقول رزقه وأجله وعمله فيقضي الله ويكتب الملك ثم يطوي الصحيفة فلا يزاد فيها ولا ينقص". (طب عن حذيفة بن أسيد) .
573 ۔۔ جب نطفہ پر پنتالیس راتیں بیت جاتی ہیں فرشتہ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے اے پروردگار مذکر ہوگا یامونث ؟ پھر اللہ فیصلہ فرما دیتے ہیں اور فرشتہ لکھ لیتا ہے پھر فرشتہ عرض کرتا ہے اے پروردگار یہ شقی ہوگا یا سعید ؟ پروردگار فیصلہ فرما دیتے ہیں اور فرشتہ لکھ لیتا ہے فرشتہ پھر بارگاہ خداوندی میں اس کے رزق ، عمر اور عمل کے متعلق سوالات کرتا ہے اور فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے اور اس صحیفہ کو ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیتا ہے آئندہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ الطبرانی فی الکبیر بروایت حذیفہ بن اسید۔

574

574 – " إن الله تعال قد وكل بالرحم ملكا يقول أي رب نطفة أي رب علقة أي رب مضغة فإذا أراد الله أن يقضي قال أي رب أشقي أم سعيد ذكر أم أنثى فما الرزق فما الأجل فيكتب كذلك في بطن أمه". (ط حم خ م وأبوعوانة عن عبد الله بن أبي بكر بن أنس عن جده عن حذيفة بن أسيد) .
٥٧٤۔۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو رحم میں پیدا ہونے والی جان پر وکیل بنایا ہے۔ وہ فرشتہ پھر بارگاہ خداوندی میں ہر مرحلہ کی تبدیلی پر عرض کرتا ہے اے پروردگار وہ نطفہ کی شکل میں ہے۔ اے پروردگار اس نطفہ نے اب منجمد خون کی شکل اختیار کرلی ہے، اے پروردگار اس نے اب لوتھڑے کی شکل اختیار کرلی ہے، پس جب اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمانا چاہتے ہیں تو فرشتہ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے اے پروردگار یہ شقی ہوگا یاسعید ؟ اے پروردگار یہ مذکر ہوگا یامونث ؟ اے پروردگار اس کا رزق کتنا ہوگا ؟ اے پروردگار اس کی عمر کتنی ہوگی، پھر فرشتہ حکم خداوندی کے مطابق مادر رحم میں ہی یہ چیزیں لکھ لیتا ہے۔ ابوداؤد الطیالسی ، مسند امام احمد، بخاری، الصحیح لامام مسلم (رح) علیہ، ابوعوانہ ، عن عبداللہ ابی بکر بن انس عن جدہ عن حذیفہ بن اسید۔

575

575 – "إن النطفة إذا استقرت في الرحم فمضى لها أربعون يوما جاء ملك الرحم فصور عظمه ولحمه ودمه وشعره وبشره وسمعه وبصره فيقول: يا رب أذكر أم أنثى، أشقي أم سعيد، فيقول الله عز وجل ما شاء فيكتب ثم تطوى الصحيفة فلا تنشر إلى يوم القيامة". (طب عن حذيفة بن أسيد) .
٥٧٥۔۔ جب نطفہ مادر میں استقرار پکڑ لیتا ہے اور اس پر چالیس یوم گزرجاتے ہیں تو رحم کافرشتہ آتا ہے اور اس کی ہڈیاں ، گوشت خون، بال ، کھال ، کان اور آنکھ وغیرہ سب چیزوں کی صورت بناتا ہے ، فرشتہ پھر بارگاہ خداوندی میں، کرتا ہے ! اے پروردگار یہ مذکر ہوگا یامونث ؟ یہ شقی ہوگا یاسعید ؟ تو پروردگار اپنی مشیت کے مطابق جو چاہتے ہیں فرما دیتے ہیں اور فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے اور اس صحیفہ کو ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیتا ہے آئندہ قیامت تک اس کو کھولا نہیں جائے گا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت حذیفہ بن اسید۔

576

576 – "إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما نطفة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يبعث الله إليه ملكا يؤمر بأربع كلمات ويقال له اكتب عمله ورزقه وأجله وشقي أو سعيد ثم ينفخ فيه الروح فإن الرجل منكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتى ما يكون بينه وبين الجنة إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل النار فيدخل النار وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار حتى ما يكون بينه وبين النار إلا ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة فيدخل الجنة". (حم خ م د ت هـ عن ابن مسعود) .
٥٧٦۔۔ جب تم میں سے کسی کی رحم مادر میں تخلیق کی جاتی ہے تو چالیس دن میں وہ ایک نطفہ کی شکل میں آجاتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں وہ منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے پھر اتنے ہی دنوں میں وہ لوتھڑا بن جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں اور اس کو چار باتوں کا حکم کیا جاتا ہے ، کہ لکھ اس کا عمل ، رزق، زندگی ، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے یقینابعض اوقات کوئی شخص اہل جنت کے اعمال کرتا رہتا ہے۔۔ حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن اس پر نوشتہ خداوندی غالب آجاتا ہے۔ اور اہل جنت کے عمل کرنے لگ جاتا ہے اور انجام کار جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، ابن ماجہ، ابن مسعود

577

577 – "إن ملكا موكل بالرحم بضعا وأربعين ليلة إذا أراد الله أن يخلق ما يشاء يأذن الله فيقول أي رب أذكر أم أنثى فيقضي ربك ويكتب الملك ثم يطوى ما زاد ولا نقص". (طب عن حذيفة بن أسيد) .
٥٧٧۔۔ جب نطفہ کو بیالیس راتیں بیت جاتی ہیں اللہ ایک فرشتہ کو رحم میں پیدا ہونے والی جان پر وکیل بناتا ہے جب اللہ کچھ پیدا فرمانا چاہتے ہیں تو فرشتہ بارگاہ خداوندی میں عرض کرتا ہے اے پروردگار یہ مذکر ہوگا یامونث اللہ فیصلہ فرما دیتے ہیں فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے اور اس صحیفہ کو ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیتا ہے آئندہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت حذیفہ بن اسید۔

578

578 – "تقع النطفة في الرحم أربعين ثم يتصور عليها الذي يخلقها فيقول يا رب ذكر أم أنثى فيجعلها ذكرا أو أنثى فيقول يا رب أسوي أم غير سوي فيجعله الله سويا أو غير سوي فيقول يا رب أشقي أم سعيد فيجعله الله شقيا أو سعيدا". (طب عن حذيفة بن أسيد) .
٥٧٨۔۔ مادر رحم میں جب نطفہ چالیس راتیں گزرجاتی ہیں تو ایک فرشتہ اس کی صورت بناتا ہے اور بارگاہ الٰہی سے پوچھتا ہے اے پروردگار یہ جان مذکر ہے یامونث ؟ پھر اللہ تعالیٰ مشیت کے مطابق اس کو مذکر یامونث کردیتے ہیں ، فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار اس کو درست اور صحیح سالم پیدا کرنا ہے یا کچھ تبدیلی کرنی ہے ؟ پروردگار اس کے متعلق بھی فیصلہ فرما دیتے ہیں فرشتہ دوبارہ عرض کرتا ہے پروردگار اس کو شقی لکھوں یاسعید ؟ پھر پروردگار عزوجل اپنی مشیت کے مطابق اس کو نیک بخت یا بدبخت پیدا فرما دیتے ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت حذیفہ بن اسید۔

579

579 – "ما من نسمة يخلقها الله في بطن أمه إلا أنه شقي أو سعيد". (أبونعيم عن ثابت بن الحارث الأنصاري) .
٥٧٩۔۔ اللہ ہر پیدا ہونے والی جان کے متعلق اس کے مادر رحم میں ہی فیصلہ فرما دیتے ہیں کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت۔ ابونعیم عن ثابت الحارث الانصاری۔

580

580 – "ما من نفس منفوسة إلا وقد كتب الله مكانها من الجنة أوالنار وإلا وقد كتبت شقية أو سعيدة قيل أفلا نتكل قال لا اعملوا ولا تتكلوا فكل ميسر لما خلق له أما أهل السعادة فييسرون لعمل السعادة وأما أهل الشقاوة فييسرون لعمل أهل ثم قرأ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى} " الآية. (حم خ د ت هـ عن علي) .
٥٨٠۔۔ کوئی جی دار نفس ایسا نہیں ہے جس کے لیے اللہ نے جنت اور جہنم دونوں میں جگہ نہ بنائی ہو، اور اس کے لیے شقاوت یا سعادت نہ لکھ دی ہو۔ استفسار کیا گیا تو کیا ہم بھروسہ نہ کربیٹھیں ؟ فرمایا نہیں عمل کرتے رہو۔ اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کے نہ بیٹھو کیونکہ ہر شخص جس کام کے لیے پیدا ہوا ہے اسی کی اس کو توفیق ہوتی ہے پس سعادت مندوں کے لیے سعادت مندوں کے اعمال آسان کردیے جاتے ہیں اور بدبختوں کے لیے اعمال بدبختوں والے آسان کردیے جاتے ہیں پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔ فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی، یعنی جس نے عطا کیا اور تقوی اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی۔ مسنداحمد، بخاری، ابوداؤد ، ترمذی، ابن ماجہ، بروایت علی۔

581

581 – "إن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة وإنه لمكتوب في الكتاب من أهل النار فإذا كان قبل موته بحول فعمل بعمل أهل النار فمات فدخل النار وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار وإنه لمكتوب في الكتاب من أهل الجنة فإذا كان قبل موته بحول فيعمل بعمل أهل الجنة فمات فدخلها". (حم عن عائشة) .
٥٨١۔۔ آدمی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے ، جبکہ کتاب میں وہ جہنمی لکھاجاتا ہے لہٰذا موت سے چند لمحات قبل اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ اہل جہنم کے عمل شروع کردیتا ہے اور مرکر جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اس کے برعکس آدمی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے جبکہ کتاب میں وہ جنتی لکھا ہوا ہوتا ہے لہٰذا موت سے چند لمحات قبل اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ اہل جنت کے عمل شروع کردیتا ہے اور مرکر جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ مسنداحمد، بروایت عائشہ۔

582

582 – "إن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار وإنه لمن أهل الجنة، تدركه الشقاوة والسعادة عند خروج نفسه فيختم له بها". (طب حل عن اكتم أبي الجون) .
٥٨٢۔۔ بعض اوقات آدمی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ اہل جہنم میں شامل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اس کے برعکس آدمی اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ اہل جنت میں شامل ہوجاتا ہے اور روح نکلتے وقت شقاوت یا سعادت مسلط ہوجاتی ہے اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، الحلیہ، عن اکثم بن الجون۔

583

583 – "إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض وهوعنده فوق العرش والخلق منهون إلى ما في ذلك الكتاب". (ابن مردويه والديلمي عن أنس) .
٥٨٣۔۔ اللہ نے ـآسمان اور زمین کی پیدائش سے قبل ایک کتاب لکھی تھی اور وہ اللہ کے پاس عرش پر موجود ہے اور تمام مخلوق کی تقدیر اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے ابن مردویہ ، الفردوس للدیلمی (رح) بروایت انس۔

584

584 – "إن الله تعالى خلق خلقه في ظلمة ثم ألقى عليهم من نوره فمن أصابه من ذلك النور اهتدى ومن أخطأه ضل فلذلك أقول جف القلم على علم الله". (حم ت حسن وابن جرير طب ك ق عن ابن عمر) .
٥٨٤۔۔ اللہ نے تمام مخلوق کو ظلمت اور تاریکی کے سناٹے میں پیدا کیا، پھر ان پر اپنے نور کی بارش کی۔ جس کو نور پہنچ گیا اس نے ہدایت پائی ، اور جس کو وہ نور نہ پہنچا گمراہ ہوا۔ اسی وجہ سے میں کہتاہوں کہ قلم علم باری پر خشک ہوگیا ہے۔ مسنداحمد، ترمذی، حسن ، ابن جریر ، الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بخاری مسلم، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

585

585 – " إن الله عز وجل خلق الجنة وخلق لها أهلا بعشائرهم وقبائلهم ثم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم، وخلق النار وخلق لها أهلا بعشائرهم وقبائلهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم اعملوا فكل امرئ ميسر لما خلق له". (الخطيب عن أبي هريرة) .
٥٨٥۔۔ اللہ عزوجل نے جنت کو پیدا فرمایا اور اس کے اہل بھی چھوٹے بڑے قبیلوں کی صورت میں پیدا فرمایا، اور اب ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، اور جہنم کو پیدا فرمایا اور اس کے اہل بھی چھوٹے بڑے قبیلوں کی صورت میں پیدا فرمایا، اور اب ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، اور جہنم کو پیدا فرمایا اور اس کے اہل بھی چھوٹے بڑے قبیلوں کی صورت میں پیدا فرمایا، اور اب ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، سو عمل کرتے رہو، ہر شخص کو وہی عمل میسر آتا ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا۔ الخطیب بروایت ابوہریرہ (رض)۔

586

586 – "إن الله قبض قبضة بيمينه وأخرى باليد الأخرى قال هذه لهذه وهذه لهذه ولا أبالي". (م عن أبي عبد الله) .
٥٨٦۔۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مشیت اپنے دائیں دست قدرت سے بھری اور دوسری بائیں دست قدرت سے بھری اور فرمایا یہ اس کے لیے ہے اور یہ اس کے لیے اور مجھے کوئی پروا نہیں ۔ الصحیح امام مسلم (رح) بروایت ابی عبداللہ۔

587

587 – " إن الله عز وجل يقول: لا إله إلا أنا خلقت الخير وقدرته فطوبي لمن خلقته للخير وخلقت الخير له وأجريت الخير على يديه أنا الله لا إله إلا أنا خلقت الشر وقدرته فويل لمن خلقته للشر وخلقت الشر له وأجريت الشر على يديه". (ابن النجار عن أبي أمامة) .
٥٨٧۔۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں میں نے ہی خیر کو پیداک یا اور جس کے حق میں چاہا میں نے اسکومقدر کیا کیا ہی بہتری ہے اس کے لیے جس کو میں نے خیر کے لیے پیدا کیا اور خیر کو اس کے لیے پیدا کیا اور خیر کو اس کے ہاتھوں سے جاری کردیا۔ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں میں نے ہی شر کو پیدا کیا اور جس کے حق میں چاہا میں نے اس کو مقدر کردیا افسوس حسرت ہے اس شخص کے لیے جس کو میں نے شر کے واسطے پیدا کیا اور شر کو اس کے واسطے پیدا کیا اور اس کے ہاتھوں سے شر کو جاری کردیا۔ ابن النجار ، بروایت ابی امامہ۔

588

588 - " إن الله تعالى يقول: أنا أرجف الأرض بعبادي في خير فيافي فمن قبضته فيها من المؤمنين كانت له رحمة وكانت آجالهم التي كتبت عليهم ومن قبضت من الكفار كانت عذابا لهم وكانت آجالهم التي كتبت عليهم". (نعيم بن حماد في الفتن عن عروة بن رويم مرسلا) .
٥٨٨۔۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں میں اپنے بندوں پر زمین میں زلزلہ برپا کرتا ہوں سو اس زلزلہ میں جن مومنین کی روح قبض کرتا ہوں یہ زلزلہ ان کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے اور یہی ان کی موت کا مقررہ وقت ہوتا ہے اور اس زلزلہ میں جن کافروں کی روح قبض کرتا ہوں یہ زلزلہ ان کے لیے باعث عذاب اور رسوائی ہوتا ہے اور یہی ان کی موت کا مقرر وقت ہوتا ہے۔ نعیم بن حماد فی الفتن ، بروایت عروہ بن رویم مرسلا۔

589

589 – " لا عليكم أن تعجبوا بأحد حتى تنظروا بما يختم له فإن العامل يعمل زمانا من عمره أو برهة من دهره بعمل صالح لو مات عليه دخل الجنة ثم يتحول فيعمل عملا سيئا وإن العبد ليعمل البرهة بعمل سيء لو مات عليه لدخل النار ثم يتحول فيعمل عملا صالحا وإذا أراد الله بعبد خيرا استعمله قبل موته قالوا يا رسول الله كيف يستعمله قال يوفقه لعمل صالح ثم يقبضه عليه". (حم وعبد بن حميد وابن أبي عاصم وابن منيع ع ض عن أنس) .
٥٨٩۔۔ تم کسی پر شک اور تعجب مت کرو، جب تک کہ اس کا خاتمہ اعمال نہ دیکھ لو۔ بسا اوقات کوئی پرہیزگار اپنی زندگی کے عرصہ دراز تک نیک عمل انجام دیتارہتا ہے حتی کہ اگر اسی پر خاتمہ ہوجائے توسید ھا جنت میں داخل ہو لیکن پھر اس کی زندگی نیاموڑ اختیار کرتی ہے اور وہ برے اعمال میں منہمک ہوجاتا ہے اور بعض مرتبہ کوئی بندہ عرصہ دراز تک برائیوں میں مبتلارہتا ہے حتی کہ اگر اسی پر اس کا خاتمہ ہوجائے تو سیدھا جہنم میں جاگرے مگر آخر میں اس کی زندگی کی کایاپلٹ جاتی ہے اور وہ نیک عمل میں مصروف ہوجاتا ہے اور جب اللہ کسی بندہ کا بھلا چاہتے ہیں تو اس کو موت سے قبل عمل میں مصروف فرما دیتے ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ کیسے عمل میں مصروف فرما دیتے ہیں فرمایا نیک عمل کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں اور اسی پر اس کی روح قبض کرلیتے ہیں۔ مسنداحمد، عبد بن حمید، ابن ابی عاصم، ابن منیع ، بروایت ضیاء مقدسی ، بروایت انس (رض)۔

590

590 – "إن العبد ليعمل عمل أهل الجنة فيما يرى الناس وإنه لمن أهل النار وإنه ليعمل عمل النار فيما يرى الناس وإنه لمن أهل الجنة وإنما الأعمال بالخواتيم" وفي لفظ "بخواتمها" (حم خ طب قط في الأفراد عن سهل بن سعد) .
٥٩٠۔۔ بعض مرتبہ کوئی شخص ظاہراً لوگوں کی نگاہوں میں اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے جب کہ وہ اہل جہنم میں شامل ہوجاتا ہے بعض مرتبہ کوئی شخص ظاہراً لوگوں کی نگاہوں میں اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے جب کہ وہ اہل جنت میں شامل ہوجاتا ہے اور اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ مسنداحمد، بخاری، طبرانی فی الکبیر، الدارقطنی فی الافراد، بروایت سھل بن سعد۔

591

591 – "إن الرزق ليطلب العبد كما يطلبه أجله".
٥٩١۔۔ رزق بندہ کو یونہی تلاش کرتا ہے جس طرح موت اس کو تلاش کرتی ہے۔

592

592 – " إن العبد يلبث مؤمنا أحقابا ثم أحقابا ثم يموت والله عز وجل عليه ساخط وإن العبد يلبث كافرا أحقابا ثم أحقابا ثم يموت والله عز وجل عنه راض ومن مات همازا لمازا ملقبا للناس كان علامته يوم القيامة أن يسمه الله على الخرطوم من كلا الشفتين". (طب عن ابن عمر) .
٥٩٢۔۔ کوئی بندہ طویل ترین مدت تک مومن رہتا ہے۔ پھر مزید طویل ترین مدت تک مومن رہتا ہے ، اور پھر انتقال کرجاتا ہے مگر اس کے باوجود اللہ اس پر برافروختہ اور ناراض ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ اس کے برعکس کوئی بندہ طویل ترین مدت تک کافر رہتا ہے پھر مزید طویل ترین مدت تک کافر رہتا ہے اور پھر انتقال کرجاتا ہے مگر اس کے باوجود اللہ اس سے راضی اور خوش ہوتے ہیں اور جو اس حال میں مرا کہ طعنہ زنی اور چغل خوری اور بندگان خدا کو برے القاب سے ستانا اس کی عادت تھی تو قیامت کے روز اللہ اس کی یہ نشانی مقرر فرمائیں گے کہ اس کے دونوں ہونٹوں کو اس کی ناک پر داغ دیں گے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمر (رض)۔

593

593 – "أما إنك لم تأتها لأتتك يعني تمرة". (طب هب عن ابن عمر) .
٥٩٣۔۔ اگر تم اس درخت کے پاس نہ آتے تو یقیناً بہرصورت یہ کھجوریں تمہارے پاس آجاتیں۔ الطبرانی فی الکبیر، شعب الایمان ، بروایت ابن عمر (رض)۔

594

594 – "إن العبد ليعمل الزمن الطويل من عمره أو كله بعمل أهل الجنة وإنه مكتوب عند الله من أهل النار وإن العبد ليعمل الزمن الطويل من عمره أو أكثره بعمل أهل النار وإنه لمكتوب عند الله من أهل الجنة". (خط عن عائشة) .
٥٩٤۔۔ بندہ اپنی عمر کے طویل زمانہ تک یابل کہ پوری زندگی تک اہل جنت کے عمل انجام دیتارہتا ہے جبکہ وہ اللہ کے ہاں اہل جہنم میں لکھا ہواہوتا ہے اور کبھی بندہ طویل زمانہ تک یا اپنی زندگی کے بیشتر زمانہ تک اہل جہنم کا عمل کرتا ہے جبکہ وہ اللہ کے ہاں اہل جنت میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خطط، بروایت عائشہ (رض)۔

595

594- "إن العبد يولد مؤمنا ويعيش مؤمنا ويموت كافرا وإن العبد يولد كافرا أو يعيش كافرا ويموت مؤمنا وإن العبد ليعمل برهة من دهره بالسعادة ثم يدركه ما كتب له فيموت شقيا وإن العبد ليعمل برهة من دهره بالشقاء ثم يدركه ما كتب له فيموت سعيدا". (طب عن ابن مسعود) .
٥٩٥۔۔ بندہ مومن پیدا ہوتا ہے اور مومن بن کر جیتا ہے، لیکن کافر ہو کرمرتا ہے اور کبھی اس کے عکس بندہ کافر پیدا ہوتا ہے اور کفر کی حالت میں جیتا ہے مگر مومن ہو کرمرتا ہے بسا اوقات بندہ ایک زمانہ تک عمل کرتا رہتا ہے ، لیکن پھر کتاب کا لکھا اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ شقاوت کی موت مرتا ہے۔ اور بسا اوقات اس کے برعکس بندہ ایک زمانہ تک شقاوت کے عمل کرتا رہتا ہے لیکن پھر کتاب کا لکھا ہوا اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ سعادت کی موت مرتا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن مسعود۔

596

595 – "إن أخوف ما أخاف على أمتي تصديق بالنجوم وتكذيب بالقدر ولا يجد حلاوة الإيمان حتى يؤمن بالقدر خيره وشره حلوه ومره". (ابن النجار عن أنس) .
٥٩٦۔۔ سب سے بڑا خوف اپنی امت کے بارے میں جو مجھے دامن گیر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ستارہ شناسوں کی تصدیق کرنا شروع ہوجائیں گے اور تقدیر خداوندی کا انکار کرنا شروع ہوجائیں گے اور جب تک خیروبد، خوشگوار وتلخ تقدیر پر کامل ایمان نہ رکھیں گے ہرگز ایمان کی حلاوت نہ پائیں گے ۔ ابن النجار بروایت انس۔

597

596 – " إن أمتي لا تزال متمسكة بدينها مالم يكذبوا بالقدر فإذا كذبوا بالقدر فعند ذلك هلاكهم". (طب عن أبي موسى) .
٥٩٧۔۔ میری امت اس دین کو مسلسل مضبوطی کے ساتھ تھامے رہے گی، تاوقتیکہ وہ تقدیر کونہ جھٹلائیں گے ۔ اور جب وہ تقدیر کو جھٹلانے لگیں گے تو یہی ان کی ہلاکت کا زمانہ ہوگا ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی موسیٰ۔

598

597 – "إن أول ما خلق الله القلم، ثم قال له اكتب فقال وما أكتب قال اكتب القدر فجرى في تلك الساعة بما هو كائن إلى يوم القيامة". (حم ش وابن منيع وابن جرير ع طب ص عن أبي ذر) .
٥٩٨۔۔ پروردگار کی سب سے پہلے تخلیق شدہ چیز قلم ہے۔ پھر جب پروردگار نے اسکوپیدا کیا تو اس سے فرمایا لکھ ۔۔ اس نے دریافت کیا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ۔ پس جو کچھ بھی قیامت تک ہونے والا تھا سارا اس گھڑی لکھ دیا گیا۔ ابوحاتم، ابن ابی شیبہ، ابن منیع، ابن جریر، المسند لابی یعلی ، الطبرانی فی الکبیر، السنن لسعید، بروایت ابی ذر (رض) ۔

599

598 – "إنما هلك من كان قبلكم، بسؤالهم أنبياءهم، واختلافهم عليهم ولن يؤمن أحد حتى يؤمن بالقدر خيره وشره". (طب عن عمرو) .
٥٩٩۔۔ تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کا سبب ان کا اپنے انبیاء سے کثرت سوال اور آپس میں اختلاف کرنا تھا، اور یاد رکھو کوئی شخص اس وقت تک ہرگز مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمرو۔

600

599 – "إنكم قد أخذتم في شعبتين بعيدي الفوز فيهما هلك أهل الكتاب من قبلكم هذا كتاب من الرحمن الرحيم فيه تسمية أهل النار بأسمائهم وأسماء آباءهم وقبائلهم وعشائرهم أجمل على آخرهم لا ينقص منهم أحد فريق في الجنة وفريق في السعير هذا كتاب من الرحمن الرحيم فيه تسمية أهل الجنة بأسمائهم وأسماء آباءهم وقبائلهم وعشائرهم مجمل على آخرهم لا ينقص منهم أحد فريق في الجنة وفريق في السعير". (قط في الأفراد عن ابن عباس) قال "خرج النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوما فسمع ناسا من أصحابه يذكرون القدر" قال فذكره.
٦٠٠۔۔ تم فلاح کے بارے میں جھگڑتے ہوئے دو حصوں میں بٹ گئے جبکہ اسی وجہ سے تم سے پہلی اقوام قعر ہلاکت میں جاگریں۔ سنو ! یہ رحمن ورحیم کی کتاب ہے ، اس میں اہل جہنم اور ان کے آبا و اجداد اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں، اور آخر میں لکھا ہوا ہے ان میں سے کبھی ایک فرد کی کمی بھی نہیں ہوسکتی، اور ایک فریق جنت میں ہے اور ایک فریق جہنم میں۔
اور یہ کتاب بھی رحمن ورحیم کی ہے اور اس میں اہل جنت اور ان کے آباء و اجداد اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں اور آخر میں لکھا ہوا ہے ان میں سے کبھی ایک فرد کی کمی بھی نہیں ہوسکتی۔ اور ایک فریق جنت میں ہے اور ایک فریق جہنم میں۔ الدار قطنی فی الافراد بروایت ابن عباس (رض)۔
حدیث مذکورہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تقدیر کے مسئلہ میں الجھ رہے ہیں تب آپ نے مذکورہ خطاب فرمایا۔

601

600 – "أهل الجنة بأسمائهم وأسماء آباءهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم إلى يوم القيامة أهل النار بأسمائهم وأسماء آباءهم وقبائلهم لا يزاد فيهم إلى يوم القيامة وقد يسلك بأهل السعادة طريق الشقاء حتى يقال منهم بل هم هم فتدركهم السعادة فتخرجهم من طريق الشقاء وقد يسلك بأهل الشقاء طريق السعادة حتى يقال منهم هم هم فيدركهم الشقاء فيخرجهم من طريق السعادة فكل ميسر لما خلق له". (طب عن عبد الله بن بسر) .
٦٠١۔۔ اہل جنت اپنے اور اپنے آباء کے اسماء کے ساتھ لکھ دیے گئے ہیں اس میں قیامت تک کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، اہل جہنم اپنے اور اپنے آباء اور قبائل کے اسماء کے ساتھ لکھ دیے گئے ہیں اس میں قیامت تک کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی، کبھی سعادت مندوں پر بھی شقاوت کی راہیں کھل جاتی ہیں اور حتی کہ ان پر آوازے کسے جاتے ہیں ، اور کبھی اہل شقاوت پر بھی سعادت کی راہیں کھل جاتی ہیں حتی کہ ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں کہ دیکھوانکو، دیکھوانکو۔ لیکن پھر عدل خداوندی ہوتا ہے اور شقاوت ان پرچھاجاتی ہے اور سعاد سے ان کو نکال دیاجاتا ہے سو ہر ایک کو اسی کی توفیق ہوتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عبداللہ بن یسر۔

602

601 – " هل تدرون ما هذا، هذا كتاب من رب العالمين، فيه أسماء أهل الجنة وأسماء آبائهم وقبائلهم، ثم أجمل على آخرهم فلا يزاد فيهم ولاينقص منهم أبدا، قالوا ففيم إذن نعمل إن كان هذا أمر قد فرغ منه قال بل سددوا وقاربوا، فإن صاحب الجنة يختم له بعمل أهل الجنة وإن عمل أي عمل، وإن صاحب النار يختم له بعمل أهل النار، وإن عمل أي عمل فرغ ربكم من العباد، فرغ ربكم من الخلق، فريق في الجنة وفريق في السعير العمل إلى خواتمه". (ابن جرير عن رجل من الصحابة) .
٦٠٢۔۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ یہ پروردگار رب العالمین کی کتاب ہے اس میں اہل جنت اور ان کے آباء و اجداد ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں اور آخر میں لکھا ہوا ہے کبھی اسمیں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کرام نے پوچھا ہم پھر عمل کیوں کریں ؟ جبکہ اس امر سے فراغت ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا سیدھے رہے اور قریب قریب رہو، کیونکہ صاحب جنت کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہوگا، خواہ پہلے کیسے ہی اعمال کرتا رہاہو۔ اور صاحب جہنم کا خاتمہ اہل جہنم کے عمل پر ہوگا، خواہ پہلے کیسے ہی اعمال کرتا رہاہو، تمہارا رب بندوں کے فیصلوں سے فارغ ہوچکے ہیں اور تمہارا رب مخلوق سے بھی فارغ ہوچکا ہے۔ ایک فریق جنت میں ہے اور ایک فریق جہنم میں، اور اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور ابن جریر ، بروایت رجل من الصحابہ۔

603

602 – "أولى لكم إن كدتم لترجئون أتاني الروح الأمين فقال أخرج على أمتك يا محمد فقد أحدثت". (طب عن ثوبان) . قال اجتمع أربعون رجلا من الصحابة ينظرون في القدر والجبر فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم". فذكره.
٦٠٣۔۔ قریب ہے کہ تم کہیں مرجئیہ نہ بن جاؤ میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا یامحمد اپنی امت کی خبرلیجئے وہ راہ سے ہٹ رہی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ثوبان۔ راوی کہتے ہیں کہ چالیس صحابہ کرام اجمعین قدر اور جبر کے بارے میں بحث کررہے تھے پھر رسول اللہ ان کے پاس تشریف لائے اور مذکورہ خطاب فرمایا۔

604

603 – "خلق الله عز وجل الخلق فكتب آجالهم وأعمالهم وأرزاقهم". (الخطيب عن أبي هريرة) .
٦٠٤۔۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور ان کی عمریں اعمال اور رزق بھی لکھ دیے۔ الخطیب بروایت ابوہریرہ (رض)۔

605

604 – "فيما قد فرغ منه يا ابن الخطاب وكل ميسر أما من كان من أهل السعادة فإنه يعمل السعادة، وأما من كان من أهل االشقاوة فإنه يعمل للشقاوة". (حم ت حسن صحيح عن ابن عمر) قال قال عمر "يا رسول الله أرأيت مايعمل فيه أمر مبتدأ أو فيما قد فرغ منه". قال فذكره.
٦٠٥۔۔ اے ابن خطاب ! تمام چیزوں کے فیصلوں سے فراغت ہوچکی ہے اور ہر ایک اسی کے موافق عمل میں مصروف ہے سعادت مند سعادت کے عمل انجام دے رہا ہے اور اہل شقاوت شقاوت کا عمل انجام دے رہا ہے۔ مسنداحمد، ترمذی، بروایت ابن عمر (رض)۔
پس منظر۔۔۔ حضرت عمر (رض) نے بارگاہ رسالت میں سوال کیا تھا کہ بندہ جو عمل سرانجام دیتا ہے وہ از سرنو معاملہ ہوتا ہے یا پہلے سے اس کے بارے میں خدا کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے ؟ تب آپ نے مذکورہ جواب مرحمت فرمایا۔ اس حدیث پر امام ترمذی (رح) نے حسن اور صحیح کا حکم جاری فرمایا ہے۔

606

605 – "فيما جف به القلم وجرت به المقادير، فاعملوا فكل ميسر لما خلق له ثم قال: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} ". (ابن شاهين وعبد بن حميد وابن قانع عن بشير بن كعب العدوي) . إن سائلا قال يا رسول الله فيم العمل قال فذكره ورجح إرساله وأنه لا صحبة له. (حم م وأبوعوانة حب عن جابر) .
٦٠٦۔۔ جس کے بارے میں قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے اور امو ر تقدیر جاری ہوچکے ہیں عمل کرتے رہو (کیونکہ ہر ایک کو اسی کی توفیق حاصل ہوتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے) پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی، فامامن اعطی واتقی وصدق للحسنی ، فسنیسرہ للیسری، یعنی جس نے عطا کیا اور تقوی اختیار کیا، اور اچھی بات کی تصدیق کی ہم اس کو نیک کام میں سہولت دیں گے۔ عبد بن حمید ابن شاھین، ابن قانع ، بروایت بشیر بن کعب العدوی،۔
پس منطر۔۔ ایک سائل نے آپ سے سوال کیا یارسول اللہ انسان عمل کس تحریک کی بنا پر انجام دیتا ہے تب آپ نے مذکورہ جواب مرحمت فرمایا ۔ اس حدیث کو مرسل ہونے کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ راوی اول کی آپ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ مسنداحمد، امام مسلم، ابوعوانہ، الصحٰح لابن حبان، براویت جابر۔

607

606 - "قال الله عز وجل: علامة معرفتي في قلوب عبادي. حسن موقع قدري أن لا أشتكى ولا أستبطى ولا أستخفى". (الديلمي عن أبي هريرة) .
٦٠٧۔۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں، میری معرفت کی علامت میرے بندوں کے دلوں میں ہے۔

608

607 - " قال لي جبريل قال الله عز وجل: يا محمد من آمن بي ولم يؤمن بالقدر خيره وشره فليلتمس ربا غيري". (الشيرازي في الألقاب عن علي) وفيه محمد بن عكاشة الكرماني.
٦٠٨۔۔ مجھے جبرائیل نے کہا اللہ عزوجل فرماتے ہیں، اے محمد جو شخص مجھ پر ایمان لایا، مگر خیر و شر تقدیر پر ایمان نہ لایا تو وہ میرے سوا اپنا کوئی اور پروردگار تلاش کرلے۔ الشیرازی فی الالقاب، بروایت علی (رض)۔ اس روایت میں محمد بن عکاشہ الکرمانی ہے۔

609

608 – "جري القلم بالشقي والسعيد وفرغ من أربع، من الخلق والخلق والرزق والأجل". (الديلمي عن ابن مسعود) .
٦٠٩۔۔ شقی اور سعید ہر ایک کے متعلق قلم ہوچکا ہے اور چار چیزوں سے فراغت پاچکا ہے۔ تخلیق، اخلاق، رزق اور عمر۔ الدیلمی بروایت ابن مسعود۔

610

609 – "سيفتح على أمتي باب من القدر في آخر الزمان لا يسده شيء يكفيكم منه أن تلقوه بهذه الآية: {مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ} " الآية. (الديلمي عن سليم ابن جابر الهجيمي) .
٦١٠۔۔ آخرزمانہ میں میری امت پر تقدیر ایک باب منکشف ہوگا جس کا کوئی سدباب نہیں ہوسکے گا، تمہیں اس سے نجات کے لیے یہی آیت کفایت کرسکے گی۔ مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولافی انفسکم الا فی کتاب۔ کوئی مصیبت دھرتی پر اور خود تم پر نہیں پڑتی، مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں ہے۔ الدیلمی بروایت سلیم ، بن جابر الھجیمی۔

611

610 – "قدر الله المقادير وكتبها قبل أن يخلق السموات والأرضين بخمسين ألف سنة". (حم ت حسن صحيح. غريب طب عن ابن عمرو) .
٦١١۔۔ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے تمام تقدیروں کو مقدر کردیا ہے اور ان کو لکھ دیا ہے۔ مسنداحمد، ترمذی، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمرو۔ امام ترمذی نے مذکورہ حدیث کو حسن صحیح اور غریب لکھا ہے۔

612

611 – "لقي آدم موسى فقال موسى: أنت آدم الذي خلقك الله بيده وأسكنك جنته وأسجد لك ملائكته ثم فعلت ما فعلت فأخرجت ذريتك من الجنة قال آدم أنت موسى الذي اصطفاك الله برسالته وكلمك وقربك نجيا قال نعم قال فأنا أقدم أما الذكر قال بل الذكر فحج آدم موسى فحج آدم موسى". (طب عن جندب وأبي هريرة) .
٦١٢۔۔ آدم (علیہ السلام) کی موسیٰ سے ملاقات ہوئی تو موسی نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی جنت میں رہائش بخشی، اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کروایا، پھر آپ نے جو کیا، کیا۔ اور اپنی ذریت کو جنت سے نکلوادیا ؟ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا، آپ وہی موسیٰ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا اور آپ کو اپنے ساتھ شرف کلام سے بخشا، اور آپ کو راز ونیاز کے لیے اپنے قریب کیا، موسیٰ نے فرمایا جی ہاں۔ آدم نے کہا کیا میرا وجود مقدم ہے یا تقدیر کا ؟ موسیٰ نے کہا تقدیر کا اور آدم (علیہ السلام) موسیٰ پر غالب آگئے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت جندب ابوہریرہ (رض)۔

613

612 – "لو أن عبدا هرب من رزقه لطلبه رزقه كما يطلبه الموت". (ابن عساكر عن أبي الدرداء) .
٦١٣۔۔ اگر کوئی بندہ رزق سے فرار ہو۔۔ تو رزق اس کو موت کی طرح تلاش کرے گا۔ ابن عساکر، بروایت ابی الدردائ۔

614

613 – "لو أن الله عذب أهل سمواته وأهل أرضه لعذبهم وهوغير ظالم لهم، ولو رحمهم لكانت رحمته لهم خيرا لهم من أعمالهم، ولو أنفقت ملء أحد ذهبا في سبيل الله ماقبله الله منك حتى تؤمن بالقدر فتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك وما أخطأك لم يكن ليصيبك ولو مت على غير هذا لدخلت النار". (ط حم عن زيد) ، (حم وعبد بن حميد ت ع حب طب ض هب عن أبي بن كعب وزيد بن ثابت وحذيفة وابن مسعود) .
٦٢٤۔۔ اگر اللہ عزوجل تمام اہل زمین و آسمان کو عذاب دیں تو یہ پروردگار کا ان پر قطعا ظلم نہ ہوگا اور اگر ان پر اپنی رحمت برسائیں تو اس کی یہ رحمت ان کے اعمال کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ اور اگر تو اس کے راہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سوناخرچ کردے تو پروردگار اس کو اس وقت تک ہرگز قبول نہ فرمائیں گے جب تک کہ تو تقدیر پر ایمان نہ لائے اور اس بات کا یقین نہ رکھے کہ تجھ کو پہنچنے والی مصیبت ہرگز ٹلنے والی نہ تھی ، اور جس سے تو محفوظ رہا وہ ہرگز تجھ کو پہنچنے والی نہ تھی ، اور اگر اس کے سوا کسی اعتقاد پر تیری موت آئی تو سیدھا جہنم میں جائے گا۔ ابوداؤد الطیالسی مسنداحمد، بروایت زید۔ مسند احمد عبد بن حمید، ترمذی، المسندابی یعلی، الصحیح لابن حبان ، الطبرانی فی الکبیر، ضیا المقدسی شعب الایمان بروایت ابی بن کعب وزید بن ثابت و حذیفہ وابن مسعود۔

615

614 – " لو أن الله عذب أهل السماء والأرض عذبهم غير ظالم، ولو أدخلهم في رحمته كانت رحمته أوسع من ذنوبهم، ولكنه كما قضى يعذب من يشاء ويرحم من يشاء، فمن عذب فهو الحق، ومن رحم فهو الحق، ولو كان مثل أحد ذهبا تنفقه في سبيل الله ما قبل منك حتى تؤمن بالقدر خيره وشره". (طب عن عمران بن حصين) .
٦١٥۔۔ اگر اللہ تعالیٰ تمام اہل زمین و آسمان کو عذاب دیں تو یہ اللہ کا ان پر قطعا ظلم نہ ہوگا اور اگر ان پر اپنی رحمت برسائیں تو اس کی یہ رحمت ان کے گناہوں سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ لیکن وہ جیسے چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے کسی کو عذاب کے شکنجہ میں جکڑتا ہے اور کسی پر رحم فرماتا ہے جس کو عذاب سے دوچار کرتا ہے بالکل برحق کرتا ہے۔ اور جس پر اپنی رحمت نچھاور کرتا ہے وہ بھی برحق ہے اور اگر تو اس کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سوناخرچ کردے تو وہ تجھ سے اس وقت تک ہرگز قبول نہ کیا جائے گا جب تک کہ تو اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت عمران بن حصین۔

616

615 – " ما من نفس تموت ولها عند الله مثقال نملة من خير إلا طين عليها طينا". (طب عن معاذ) .
٦١٦۔۔ نہیں ہے ایسا کوئی نفس، جو موت کی آغوش میں چلا جائے ، اور چیونٹی برابر بھی اس کی کوئی نیکی اللہ کے پاس ہو مگر اللہ تعالیٰ اس کو بھی گارے سے لیپ کر رکھیں گے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت معاذ۔ گارے سے لیپ کر رکھنا کنایہ ہے اس کو اچھی طرح محفوظ رکھنے سے۔

617

616 – " من تكلم في القدر في الدنيا سئل عنه يوم القيامة، فإن أخطأ هلك، ومن يتكلم لم يسأل عنه يوم القيامة". (قط في الأفراد عن أبي هريرة) .
٦١٧۔۔ جس نے دنیا میں تقدیر کے متعلق حرف زنی کی اس سے قیامت کے روز باز پرس ہوگی اور اگر اس سے لغزش ہوگئی تو ہلاک ہوجائے گا اور جس نے اس بارے میں سکوت اختیار کیا اس سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ الدارقطنی فی الافراد بروایت ابوہریرہ (رض)۔

618

617 – "من كان الله خلقه لواحدة من المنزلتين يهيئه لعملها". (حم عن عمران بن حصين) .
٦١٨۔۔ دونوں مقام میں سے جس کے لیے اللہ نے کسی کو پیدا فرمایا ہوتا ہے اسی کے لیے عمل کرنے کی اس کو توفیق ملتی ہے۔ مسنداحمد، بروایت عمران بن حصین۔

619

618 – "من لم يرض بقضاء الله ولم يؤمن بقدر الله فليلتمس إلها غير الله عز وجل". (الخطيب عن أنس) .
٦١٩۔۔ جو شخص اللہ کے فیصلہ قضا الٰہی پر راضی نہ ہو اور تقدیر خداوندی پر ایمان نہ لایا وہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا تلاش کرلے۔ الخطیب بروایت انس (رض)۔

620

619 – "مه مه، اتقوا الله يا أمة محمد، واديان عميقان، قعران مظلمان، لا تهيجوا عليكم وهج النار، بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من الرحمن الرحيم بأسماء أهل الجنة وآبائهم وأمهاتهم وعشائرهم، فرغ ربكم فرغ ربكم، بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من الرحمن الرحيم بأسماء أهل النار وآبائهم وأمهاتهم وعشائرهم فرغ ربكم فرغ ربكم فرغ ربكم، أعذرت أنذرت اللهم إني بلغت". (طب عن أبي الدرداء وواثلة وأبي أمامة وأنس) ، قالوا "خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ونحن نتذاكر القدر" قال فذكره.
٦٢٠۔۔ ٹھہرو، ٹھہرو۔ اے امت محمدیہ یہ دوگہری وادیاں ہیں دوتاریک گڑھے ہیں جوش و اضطراب سے جہنم میں نہ گرو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم، سنویہ رحمن ورحیم کی کتاب ہے اس میں اہل جنت اور ان کے آبا اور اجداد اور امہات اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں تمہارا رب بندوں کے فیصلہ جات سے فارغ ہوچکا ہے اور تمہارا رب فارغ ہوچکا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سنویہ رحمن ورحیم کی کتاب ہے اس میں اہل جہنم اور ان کے آباء و اجداد اور امہات اور ان کے قبائل وغیرہ کے نام ہیں تمہارا پروردگار فارغ ہوچکا ہے، تمہارا پروردگار فارغ ہوچکا ہے، تمہارا پروردگار فارغ ہوچکا ہے، میں حجت قائم کرچکا، میں تمہیں ڈراچکا۔ اے اللہ میں تیرا پیغام رسالت پہنچاچکا۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الدرداء ، وواثلہ ، وابی امامہ ، وانس۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں رسول اللہ ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ ہم تقدیر کے متعلق بحث وتمحیص میں مصروف تھے یہ دیکھ کر آپ نے مذکورہ خطاب فرمایا۔

621

620 – "لا تعجل إلى شيء تظن أنك إن استعجلت إليه أنك مدركه، وإن كان الله لم يقدر ذلك، ولا تستأخرن عن شيء تظن أنك إن استأخرت عنه أنه مدفوع عنك، وإن كان الله قد قدره عليك". (طب عن معاذ) .
٦٢١۔۔ ایسی کسی چیز میں جلدی سے کام مت لوجس کے متعلق تمہارا گمان ہے کہ تم جلد بازی کے ساتھ اس کو حاصل کرلو گے خواہ اللہ نے اس کو تمہارے لیے مقدر نہ کیا ہو اور اسی طرح ایسی کسی چیز میں تاخیر سے کام مت لو، جس کے متعلق تمہارا گمان ہے کہ تمہاری تاخیر کے ساتھ وہ چیز تمہارے سر سے ٹل جائے گی خواہ اللہ نے اس کو تمہارے لیے مقدور کردیا ہو۔ الطبرانی فی البیر، بروایت معاذ۔

622

621 – "لا تكلموا في القدر فإنه سر الله فلا تفشوا الله سره". (حل عن ابن عمر) .
622 ۔۔ تقدیر کے متعلق بحث نہ کرو، کیونکہ یہ اللہ کا راز ہے پس اللہ کے راز کو اس پر افشاء کرنے کی کوشش نہ کرو۔ الحلیہ، بروایت ابن عمر (رض) نعہ۔

623

622 – "لا يؤمن عبد حتى يؤمن بالقدر". (طب عن سهل بن سعد) .
٦٢٣۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا۔۔۔ جب تک کہ تقدیر خداوندی پر ایمان نہ لائے ۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت سھل بن سعد۔

624

623 – "لا يؤمن المرء حتى يؤمن بالقدر خيره وشره". (حم عن ابن عمر) .
٦٢٤۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔ مسنداحمد، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

625

624 – "ما أصابني شيء منها إلا وهو مكتوب علي وآدم في طينته". (هـ عن ابن عمر) قال قالت أم سلمة يا رسول الله لا يزال يصيبك كل عام وجع من الشاة المسمومة قال فذكره.
٦٢٥۔۔ مجھے کوئی مصیبت نہیں پہچنی مگر وہ اس وقت سے میری قسمت میں لکھی جاچکی ہے جبکہ آدم ابھی مٹی کے قالب میں تھے۔ ابن ماجہ، بروایت ابن عمر (رض)۔
پس منظر راوی کہتے ہیں کہ ام سلمہ (رض) نے رسالت ماب سے استفسار کیا یارسول اللہ آپ کو ہر سال اس زہریلی بکری سے تکلیف پہنچتی ہے ؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ تب آپ نے مذکورہ بالاجواب مرحمت فرمایا تھا۔

626

625 – "لا يتقي الله عبد حق تقاته حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه". (الخطيب عن أنس) .
٦٢٦۔۔ کوئی بندہ اللہ سے ڈرنے کا حق اس وقت تک ادا نہیں کرسکتا، جب تک کہ یقین نہ کرلے کہ جو مصیبت اس کو پہنچی ہے وہ ہرگز چوک کرنے والی نہ تھی اور جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی ۔ الخطیب ، بروایت انس۔

627

626 – "لا يجد عبد حلاوة الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطيه". (ابن أبي عاصم ص عن أنس) .
٦٢٧۔۔ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتا ، جب تک کہ یقین نہ کرلے کہ جو مصیبت اس کو پہنچی ہے وہ ہرگز خطا ہونے ولی نہ تھی ۔ ابی عاصم، السنن لسعید، بروایت انس۔

628

627 – "لا يغني حذر من قدر والدعاء ينفع مما نزل ومما ينزل، فإن البلاء ينزل فيلقاه الدعاء، فيعتلجان إلى يوم القيامة". (عد ك وتعقب والخطيب عن عائشة) .
٦٢٨۔۔ کوئی تدبیر و احتیاط تقدیر خداوندی کو نہیں ٹال سکتی، لیکن دعا نازل شدہ اور غیرنازل شدہ ہر مصیبت کے لیے سود مند ہے کیونکہ کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس سے جاملتی ہے اور یوں وہ دونوں قیامت تک ایکد وسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ابوداؤد ، المستدرک للحاکم، وتعقب ، والخطیب ، بروایت عائشہ (رض)۔

629

628 – "يا زبير إن الرزق مفتوح من لدن العرش إلى قرار بطن الأرض يرزق الله كل عبد على قدر همته ونهمته (حل عن الزبير رضي الله عنه) .
٦٩٢۔۔ اے زبیر ! رزق عرش خداوندی سے زمین کی گہرائیوں تک کھلاہوا ہے اور اللہ ہر بندہ کو اس کی ہمت اور وسعت کے بقدر رزق دیتے ہیں الحلیہ، بروایت الزبیر (رض)۔

630

629 – "يا سراقة اعمل لما جف به القلم، وجرت به المقادير، فإن كلا ميسر". (طب عن سراقة بن مالك) .
٦٣٠۔۔ اے سراقہ ! جس بات پر تقدیر کا قلم خشک ہوچکا ہے اور تقادیر کا فیصلہ ہوچکا ہے اس کے لیے عمل کرتے رہو۔۔ یقیناہر ایک کو اسی کی توفیق ہوتی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، سراقہ بن مالک۔

631

630 – "يا غلام احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك وإذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم يكتبه الله لك لم يقدروا على ذلك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يكتبه الله عليك لم يقدروا على ذلك قضى القضاء وجفت الأقلام وطويت الصحف". (هب عن ابن عباس) .
٦٣١۔۔ اے لڑکے ! اللہ کے حق کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا، اللہ کے حق کی حفاظت کر تو اللہ کو اپنے سامنے پائے گا اور جان لے اور جب تو سوال کرے تو صرف اللہ ہی کے آگے دست سوال دراز کر۔ اور جب مدد مانگے تو اللہ ہی سے مددمانگ کہ اگر ساری امت اس بات پر متفق ہوجائے کہ تجھ کوئی نفع پہنچائے ۔۔۔ جبکہ اللہ نے وہ نفع تیرے حق میں نہیں رکھا تو تمام لوگ اس پر قادر نہیں ہوسکتے اور اگر ساری امت اس بات پر متفق ہوجائے کہ تجھ کو کوئی ضرر پہنچائے ۔۔ جبکہ اللہ نے وہ ضرر تیرے لیے نہیں لکھا تو تمام لوگ اس پر قادر نہیں ہوسکتے ہرچیز کا فیصلہ کردیا گیا ہے قلم خشک ہوچکے ہیں صحیفے ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیے گئے ہیں۔ شعب الایمان ، بروایت ابن عباس (رض)۔

632

631 – "يا غلام ألا أعلمك كلمات ينفعك الله بهن احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده أمامك، تعرف إلى الله في الرخاء يعرفك في الشدة، واعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك، وأن ما أخطأك لم يكن ليصيبك،وأن الخلائق ولو اجتمعوا على أن يعطوك شيئا لم يرد أن يعطيكه، لم يقدروا على ذلك، أو أن يصرفوا عنك شيئا أراد الله أن يعطيكه لم يقدروا على ذلك، وأن قد جف القلم بما هو كائن إلى يوم القيامة، فإذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، وإذا اعتصمت فاعتصم بالله، واعمل لله بالشكر في اليقين، واعلم أن الصبر على ما تكره خير كثير، وأن النصر مع الصبر، وأن الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا". (طب عن ابن عباس) ، (حب عن أبي سعيد) .
٦٣٢۔۔ اے لڑکے ! کیا میں تجھ کو ایسی بات نہ بتاوں جو تیرے لیے نفع رساں ہو۔۔ اللہ کے حق کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کے حق کی حفاظت کر تو اللہ کو اپنے سامنے پائے گا۔ فراخی اور خوشحالی میں اللہ کو یاد رکھ وہ تجھے سختی وشدت میں یاد رکھے گا یہ یقین کرلے کہ جو مصیبت تجھ کو پہنچی ہے وہ ہرگز چوکنے والی نہ تھی اور جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی اور یقین کر کہ اگر تمام مخلوق اس بات پر مجتمع ہوجائے کہ تجھے کوئی چیز عطا کرے مگر اللہ کی یہ منشاء نہ ہو تو وہ تمام لوگ اپنے فیصلہ پر قادر نہیں ہوسکتے اور اگر تمام مخلوق تجھ سے کوئی چیز چھیننا چاہے مگر پروردگار تجھے عطا کرنا چاہے تو ساری مخلوق اپنے فیصلہ پر قادر نہیں ہوسکتی۔
قیامت تک رونما ہونے والی تمام چیزوں کا قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے اور یاد رکھ جب تو سوال کرے تو صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کر اور جب مدد مانگے تو اللہ ہی سے مددمانگ اور جب تو کسی سے حفاظت اور پناہ طلب کرے تو اللہ ہی سے طلب کر۔ شکر اور یقین کے ساتھ اللہ کی عبادت کر۔ جان لے کہ ناپسند اور کراہت آمیز چیز پر صبر کرنا خیر کثیر کا باعث ہے اور نصرت خداوندی بھی صبر پر موقوف ہے کشادگی مصیبت و کرب کے ساتھ ہے اور ہر تنگی کے ساتھ دو گنا آسانی ہے۔ الطبرانی فی البیر، بروایت ابن عباس ، بروایت ابی سعید۔

633

632 – "يا فتى ألا أهب لك ألا أعلمك كلمات ينفعك الله بهن احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده أمامك وإذا استعنت بالله فاستعن بالله واعلم أن قد جف القلم بما هو كائن إلى يوم القيامة واعلم أن الخلائق لو أرادوك بشيء لم يكتب عليك لم يقدروا عليك واعلم أن النصر مع الصبر وأن الفرج مع الكرب وأن مع العسر يسرا". (طب عن عبد الله بن جعفر) .
٦٣٣۔۔ اے نوجوان۔ کیا میں تجھے نفع دینے والی چند باتوں کا تحفہ نہ دوں اور نہ سکھاؤں ؟ اللہ کے حق کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت فرمائے گا اور اللہ کے حقوق کی حفاظت کر تو اللہ کو اپنے سامنے پائے گا اور جب تو مدد مانگے تو اللہ ہی سے مدد مانگ۔
اور جان لے۔ قیامت تک رونما ہونے والی تمام چیزوں کو قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے اور اگر تمام مخلوقات تیرے لیے کسی چیز کا ارادہ کریں جو تیرے لیے نہ لکھی گئی ہو تو وہ تمام مخلوقات اپنے فیصلہ پر قادر نہیں ہوسکتیں۔ اور جان لے نصرت خداوندی صبر پر موقوف ہے کشادگی مصیبت وکرب کے ساتھ ہے۔ اور ہر تنگی کے ساتھ دو گنا آسانی ہے۔ الطبرانی فی الکبیر۔ بروایت عبداللہ بن جعفر۔

634

633 – "يا كعب بل هي من قدر الله". (حب عن كعب بن مالك) قال يا رسول الله أرأيت دواء نتداوى به ورقي نسترقي بها وأشياء نفعلها هل ترد من قدر الله. قال فذكره.
٦٣٤۔۔ اے کعب۔۔ یہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہیں۔ الصحیح لابن حبان بروایت کعب بن مالک۔
حضرت کعب بن مالک نے نبی کریم سے استفسار کیا کہ یارسول اللہ کیا جو ہم دواؤں کے ساتھ علاج کرتے ہیں اور جھاڑ پھونک کرتے ہیں یادیگراشیاء جن کو ہم بطور تدبیر کے استعمال کرتے ہیں وہ تقدیر خداوندی کو ٹال سکتی ہیں ؟ تب آپ نے مذکورہ جواب مرحمت فرمایا۔

635

634 – "لو قضى لكان أو قد كان". (قط في الأفراد حل عن أنس) .
٦٣٥۔۔ جس بات کا فیصلہ کردیا گیا (وہ واقع ہو کر رہے گی) الدارقطنی فی الافراد، الحلیہ، بروایت انس (رض) نعہ۔

636

635- "إن الله عز وجل لم يبعث نبيا قبلي إلا كان في أمته من بعده مرجئة وقدرية يشوشون عليه أمر أمته من بعده ألا إن الله عز وجل لعن المرجئة والقدرية على لسان سبعين نبيا ألا وإن أمتي هذه لأمة مرحومة لا عذاب عليها في الآخرة وإنما عذابها في الدنيا إلا صنفين من أمتي لا يدخلون الجنة المرجئة والقدرية". (ابن عساكر عن معاذ) .
٦٣٦۔۔ اللہ نے مجھ سے قبل جتنے پیغمبروں کو بھی مبعوث فرمایا ہر ایک کے بعد اس کی امت میں مرجیہ اور قدریہ ضرور پیدا ہوئے جوان کے بعد ان کی امتوں کو غلط راستے پر ڈالتے رہے آگاہ رہو اللہ نے مرجیہ اور قدریہ پر سترانبیاء کی زبانوں سے لعنت فرمائی ہے۔ خبردار۔ میری یہ امت امت مرحومہ ہے اس پر آخرت میں عذاب نہ ہوگا، اور اس کا عذاب تو دنیا میں ہی ہے۔ سوائے میری امت کے دو گروہوں کے جو جنت میں قطعا داخل نہ ہوں گی مرجیہ اور قدریہ۔ ابن عساکر۔ بروایت معاز۔
آپ کا ارشاد کہ اس امت پر آخرت میں عذاب نہ ہوگا، اس کا عذاب تو دنیا ہی میں ہے اس کا مقصد ہے کہ آخرت میں ان کو دائمی عذاب نہ ہوگا جو گناہ گار ہیں وہ بالاخر جنت میں ضرور داخل ہوجائیں گے سوائے مرجیہ اروقدریہ کے۔ کہ وہ تقدیر کے انکار کی بنا پر کفر کے مرتکب ہوں گے اور پھر کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کی لعنت میں گرفتار ہوں گے۔

637

636 – "صنفان من أمتي لعنهم الله على لسان سبعين نبيا القدرية والمرجئة الذين يقولون الإيمان اقرار ليس فيه عمل". (الديلمي عن حذيفة) .
٦٣٧۔۔ میری امت کے دو گروہوں پر اللہ نے سترانبیا کی زبانوں سے لعنت فرمائی ہے ، قدریہ اور مرجیہ۔ جو کہتے ہیں کہ ایمان فقط زبان سے اقرار کا نام ہے جس میں عمل ضروری نہیں ۔ الفردوس دیلمی ، (رح) بروایت حذیفہ ۔

638

637 – "لعنت المرجئة على لسان سبعين نبيا الذين يقولون الإيمان قول بلا عمل". (ك في تاريخه عن أبي أمامة) .
٦٣٨۔۔ مرجیہ پر سترانبیاء کی زبانوں سے لعنت کی گئی ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان قول بلاعمل کا نام ہے۔ حاکم فی التاریخ بروایت ابی امامہ۔

639

638 – "ما بعث الله نبيا إلا وفي أمته قدرية ومرجئة يشوشون عليه أمر أمته ألا وإن الله تعالى قد لعن القدرية والمرجئة على لسان سبعين نبيا". (طب عن معاذ) (عد عن ابن مسعود) .
٦٣٩۔۔ اللہ نے جس بھی پیغمبر کو مبعوث فرمایا اس کی امت میں قدریہ اور مرجیہ ضرور ہے جو ان کی امت کو خراب کرتے ہیں آگاہ رہو اللہ نے قدریہ اور مرجیہ پر سترانبیاء کی زبانوں سے لعنت فرمائی ۔ الطبرانی فی الکبیر، براویت معاذ بروایت ابن مسعود۔

640

639 – "ما بعث الله نبيا قبلي فاستجمع له أمر أمته إلا كان فيهم المرجئة والقدرية يشوشون عليه أمر أمته ألا وإن الله تعالى قد لعن المرجئة والقدرية على لسان سبعين نبيا أنا آخرهم". (ابن الجوزي في الواهيات عن أبي هريرة) .
٦٤٠۔۔ اللہ نے مجھ سے قبل جس پیغمبر کو مبعوث فرمایا اور اس کی امت سیدھی راہ پر جمع ہوئی تو ضرور مرجیہ اور قدریہ نے ان کے درمیان دراڑیں ڈال دیں آگاہ رہو اللہ نے قدریہ اور مرجیہ پر سترانبیاء کی زبانوں سے لعنت فرمائی ہے اور ان میں سے آخری میں ہوں۔ ابن الجوزی فی الواھیات بروایت ابوہریرہ۔

641

640 – "أربعة أصناف من أمتي ليس لهم في الإسلام نصيب ولا في الجنة نصيب ولا تنالهم شفاعتي ولا ينظر الله إليهم ولا يكلمهم ولهم عذاب أليم المرجئة والقدرية والجهمية والرافضة". (الديلمي عن أنس) (وفيه إسحاق بن نجيح) .
٦٤١۔۔ میری امت کے چار گروہوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے جنت میں کوئی حصہ نہیں نہ انھیں میری شفاعت نصیب ہوگی اور نہ اللہ ان پر نظر رحمت فرمائیں گے نہ ان سے ہم کلام ہوں گے بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے مرجیہ قدریہ، جہیمہ، اور رافضیہ۔ الفردوس للدیلمی، (رح) بروایت انس۔ اس روایت میں ایک راوی اسحاق بن بجیح ہے۔

642

641 – "صنفان من أمتي لا سهم لهم في الإسلام أهل القدر وأهل الارجاء". (عد عن معاذ) .
٦٤٢۔۔ میری امت کے دو گروہوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ، اہل قدر ، اہل رجائ۔ ابوداؤد بروایت معاذ۔

643

642 – "صنفان من أمتي لا سهم لهم في الإسلام المرجئة والقدرية، قيل وما المرجئة قال الذين يقولون الإيمان قول بلا عمل (2)) . قيل فما القدرية قال الذين يقولون لم يقدر الشر". (ق عن ابن عباس) .
٦٤٣۔۔ میری امت کے دوگراہوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں مرجیہ اور قدریہ۔ دریافت کیا گیا مرجیہ کون ہیں ؟ فرمایا جو ایمان میں محض قول کے قائل ہیں اور عمل کا انکار کرتے ہیں۔ دریافت کیا گیا قدریہ کون ہیں ؟ فرمایا جو شر کو اللہ کی طرف سے مقدر نہیں مانتے۔ السنن بیہقی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

644

643 – "صنفان من أمتي لا سهم لهم في الإسلام القدرية والمرجئة وجهادهم أحب إلي من جهاد فارس والديلم والروم". (الديلمي عن أبي سعيد) .
٦٤٤۔۔ میری امت کے دوگرہوں کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں قدریہ ، اور مرجیہ۔ ان سے جہاد کرنا مجھے فارس دیلم، اور روم والوں کے ساتھ جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ الفردوس دیلمی، بروایت ابی سعد۔

645

644 – "إن لكل أمة مجوسا وإن مجوس أمتي هذه القدرية". (الشيرازي في الألقاب عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده) .
٦٤٥۔۔ ہر امت میں مجوسی گذرے ہیں اور میری اس امت کے مجوسی قدریہ ہیں۔ الشیرازی فی الالقاب ، بروایت جعفر بن محمد بروایت ابیہ عن جدہ۔

646

645 – "القدري أوله مجوسي وآخره زنديق". (أبونعيم عن أنس) .
٦٤٦۔۔ قدری شخص کی ابتداء مجوسیت سے ہو کرزندیقیت پر انتہا ہوتی ہے۔ ابونعیم براویت انس۔

647

646 – "القدرية مجوس أمتي". (خ في تاريخه عن ابن عمر) .
٦٤٧۔۔ قدریہ میری امت کے مجوسی ہیں۔ بخاری، فی تاریخہ بروایت ابن عمرو (رض) ۔

648

647 – " لكل أمة مجوس وإن هؤلاء القدرية مجوس أمتي فإن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم". (حم عن ابن عمر) .
٦٤٨۔۔ ہر امت میں مجوسی گزرے ہیں اور قدریہ میری اس امت کے مجوسی ہیں۔ پس جب وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادتنہ کرو اور گرمرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو۔ مسنداحمد بروایت عمر۔

649

648 – "يهود أمتي المرجئة ثم قرأ {فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ} " (أبو نصر ربيعة بن علي العجلي في كتاب هدم الإعتزال والرافعي عن ابن عباس) .
٦٤٩۔۔ میری امت کے یہودی مرجیہ ہیں پھر اپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ فبدل الذین ظلمواقولا غیرالذی قیل لھم۔ سوجوظالم تھے انھوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اور لفظ کہناشروع کردیا۔ ابونصر ربیعہ بن علی العجلی ، فی کتاب ھدم الاعتزال والرافعی بروایت ابن عباس (رض)۔

650

649 – " لعلك أن تبقى بعدي حتى تدرك قوما يكذبون بقدرة الله يحملون الذنوب على عباده اشتقوا كلامهم ذلك من النصرانية، فإذا كان كذلك فابرؤوا إلى الله تعالى منهم". (طب عن ابن عباس) .
٦٥٠۔۔ شاید تم میرے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہو۔ حتی کہ ایسی قوم کو پاؤ جو پروردگار عالم کی قدرت کو جھ لائے گی اور اس کے بندوں کو گناہوں پر اکسائے گی۔۔ ان کی باتوں کا ماخذ اور سرچشمہ نصرانیت ہوگا۔ سو جب ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو ان سے تم اللہ کے لیے بےزاری کا اظہار کردو۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس (رض)۔

651

650 – "أول ما يكفأ الدين كما يكفأ الإناء على وجهه قول الناس في القدر". (الديلمي عن ابن عمر) .
٦٥١۔۔ اولاجوچیز دین کو اوندھا کرے گی اور اس کا حلیہ بگاڑ دے گی جس طرح کہ برتن کو اوندھا کیا جاتا ہے وہ لوگوں کا قدرت خداوندی میں کلام کرنا ہوگا۔ الفردوس دیلمی ، بروایت ابن عمر (رض)۔ ٦٥٢۔۔ قدریہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خیر اور شر ہمارے ہاتھوں کا کرشمہ ہے ایسے لوگوں کو میری شفاعت شمہ بھرنصیب نہ ہوگی۔ میرا ان سے کوئی تعلق نہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق۔ ابوداؤد، بروایت ابن عمر (رض)۔

652

651 – "القدرية الذين يقولون الخير والشر بأيدينا ليس لهم في شفاعتي نصيب ولا أنا منهم ولا هم مني". (عد عن أنس) .
٦٥٢۔۔ قدریہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خیر اور شر ہمارے ہاتھوں کا کرشمہ ہے ایسے لوگوں کو میری شفاعت شمہ بھر نصیب نہ ہوگی میرا ان سے کوئی تعلق۔ ابوداود بروایت انس۔

653

652 – "سيكون في هذه الأمة مسخ إلا وذلك في المكذبين بالقدر والزنديقية". (حم عن ابن عمر) .
٦٥٣۔۔ اس امت میں بھی مسخ واقع ہوگا۔ آگاہ رہو اس کا ظہور تقدیر کے جھٹلانے والے زندیقوں میں ہوگا۔ مسنداحمد بروایت ابن عمر (رض)۔

654

653 – "سيكون في آخر الزمان قوم يكذبون بالقدر أولئك مجوس هذه الأمة فإن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم". (عد عن ابن عمر) .
٦٥٤۔۔ عنقریب آخرزمانہ میں ایک قوم آئے گی جو تقدیر کو جھٹلائے گی، وہ اس امت کے مجوسی ہوں گے پس اگر وہ مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی عیادت کونہ جانا اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہونا۔ ابوداؤد بروایت ابن عمر (رض)۔

655

654 – "سيكون بعدي قوم يكذبون بالقدر ألا من أدركهم فليقتلهم إني بريء منهم وهم براء مني جهادهم كجهاد الترك والديلم". (الديلمي عن معاذ) .
٦٥٥۔۔ میرے بعد ایک قوم آئے گی جو تقدیر کا انکار کرے گی، خبردار ، جو ان کو پائے وہ ان سے قتال کرے۔ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، ان سے جہاد کرنا، ترک اور دیلم کے کافروں سے جہاد کی مانند ہے۔ الفردوس للدیلمی ، (رح) بروایت معاذ۔

656

655 – "سيكون في آخر الزمان قوم يقولون لا قدر فإن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تشهدوهم فإنهم شيعة الدجال وحق على الله أن يلحقهم به". (ط عن حذيفة) .
٦٥٦۔۔ عنقریب آخرزمانہ میں ایک قوم آئے گی ، جو کہیں گے تقدیر کی کچھ حقیقت نہیں ہے پس اگر وہ مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی عیادت کونہ جانا۔ اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہونا۔ یقیناوہ دجال کا گروہ ہے اور اللہ پر لازم ہے کہ ان کا انہی کے ساتھ حشر فرمائے۔ ابوداؤد الطیالسی ، براویت حذیفہ۔

657

656 – "يجيء قوم يقولون لا قدر ثم يخرجون منها إلى الزندقة، فإذا لقيتموهم فلا تسلموا عليهم وإن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوا جنائزهم، فإنهم شيعة الدجال". (ك في تاريخه عن ابن عمر) .
٦٥٧۔۔ ایک قوم آئے گی جوک ہے گی تقدیر کچھ نہیں ہے پھر وہ لوگ زندیقیت کے مرتکب ہوں گے سو اگر تمہارا ان سے سامنا ہوجائے تو ان کو سلام نہ کرو۔ اور اگر وہ مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی عیادت کونہ جاؤ، اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں حاضر نہ ہوؤ۔ یقیناً وہ دجال کا گروہ ہے۔ حاکم فی تاریخ براویت ابن عمر (رض)۔

658

657 – "صنفان لا يدخلون الجنة القدرية، والمرجئة". (عد عن أبي بكر) .
٦٥٨۔۔ دوجماعتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی ۔ قدریہ اور مرجیہ۔ ابوداؤد بروایت ابی بکر۔

659

658 – "صنفان من أمتي لا يدخلون الجنة القدرية والحرورية". (عد عن أنس) .
٦٥٩۔۔ میری امت کے دو گروہ جنت میں داخل نہ ہوں گے قدریہ اور حروریہ۔ ابوداؤد بروایت انس (رض)۔

660

659 – " لو أن قدريا أو مرجئا مات فنبش بعد ثلاث لوجد إلى غير القبلة". (ك عن معروف الخياط عن واثلة ومعروف منكر الحديث جدا) .
٦٦٠۔۔ اگر فرقہ قدریہ یامرجیہ کا کوئی شخص مرجائے ۔ اور تین یوم بعد اس کی قبر کو کھودا جائے تویقینا اس کا رخ قبلہ رو نہ ملے گا۔ المستدرک للحاکم ، بروایت معروف الحیاظ عن واثلہ۔
اس روایت میں معروف نامی جو راوی ہیں بہت زیادہ منکرالحدیث ہے لہٰذا اس روایت کی صحت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ابوسیوطی (رح) ۔

661

660 – "ما هلكت أمة قط إلا بالشرك بالله عز وجل وما كان يبدئ شركها إلا التكذيب بالقدر". (كر عن ابن عمر) .
٦٦١۔۔ کوئی امت سوائے شرک بااللہ کے کسی اور گناہ کی وجہ سے قعر ہلاکت میں نہ پڑی اور شرک کی تحریف وابتدا محض تکذیب بالقدر سے ہوئی ۔ ابن عساکر، بروایت ابن عمر۔

662

661 – "ما هلكت أمة قط إلا بالشرك بالله عز وجل وما أشركت أمة حتى يكون بدء شركها التكذيب بالقدر". (طب وتمام وابن عساكر عن يحيى بن القاسم عن أبيه عن جده عبد الله بن عمر) .
٦٦٢۔۔ کوئی امت سوائے شرک باللہ کے کسی اور گناہ کی وجہ سے قعرہلاکت میں پڑی اور کوئی امت شرک کی نجاست میں اس وقت تک نہ پڑی جب تک کہ تکذیب بالقدر میں مبتلا نہ ہوجائے۔ الطبرانی فی الکبیر، تمام ، ابن عساکر، بروایت یحییٰ بن قاسم، عن ابیہ عن جدہ عبیداللہ بن عمر۔

663

662 – " من جعل الاستطاعة إلى نفسه فقد كفر". (الديلمي عن أنس) .
٦٦٣۔۔ جس نے ہمت اور استطاعت کو اپنی ذات پر منحصر سمجھا اس نے کفر کیا۔ الفردوس دیلمی ، (رح) بروایت انس۔

664

663 – " من قال لا قدر فاقتلوه". (الديلمي عن أبي هريرة) .
٦٦٤۔۔ جوک ہے کہ تقدیر کی حقیقت کچھ نہیں اس کو قتل کرڈالو۔ الفردوس دیلمی بروایت ابوہریرہ۔

665

664 – "من كذب بالقدر أو عاصم فقد كفر بما جئت به". (عد عن ابن عمر) .
٦٦٥۔۔ جس نے تقدیر کو جھٹلایا یا محفوظ رہا اس نے میرے لائے ہوئے دین سے کفر کیا۔ ابوداؤد بروایت ابن عمر۔

666

665 – "لا تموت حتى تسمع بقوم يكذبون بالقدر يحملون الذنوب على العباد اشتقوا قولهم من قول النصارى فأبرأ إلى الله منهم". (الخطيب عن ابن عباس) .
٦٦٦۔۔ تجھے موت اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک کہ ایسی قوم کے بارے میں نہ سن لے جو تقدیر کا انکار کرے گی اور بندوں کو گناہوں میں مبتلا کرے گی۔۔۔ اپنی بات کا محور اور مرکز نصاری کا قول بنائے گی۔ پس تو اللہ کے لیے ان سے بےزاری کا اظہار کردینا۔ الخطیب بروایت ابن عباس۔

667

666 – "لا يزال هذا الأمر مقاربا ما لم يتكلموا في الولدان والقدر". (ك عن ابن عباس) .
٦٦٧۔۔ یہ دین کا امر مسلسل درست قائم رہے گا جب تک کہ لوگ اولاد اور تقدیر کے متعلق بحث و مباحثہ نہ کریں۔ مستدرک للحاکم، براویت ابن عباس۔

668

667 – "ينعق الشيطان بالشام نعقة يكذب ثلثاهم بالقدر". (ق كر عن أبي هريرة) .
٦٦٨۔۔ شیطان نے ایک مرتبہ ملک شام میں کا ؤ ں کا ؤں کی جس کے نتیجے میں شام کی دوتہائی آبادی تقدیر کی منکر ہوچلی۔ البیہقی ، ابن عساکر، بروایت ابوہریرہ۔

669

668 – " ينادي يوم القيامة مناد، ألا ليقم خصماء الله وهم القدرية". (ابن راهويه ع) .
٦٦٩۔۔ قیامت کے روز ایک منادی ندا دے گا خبردار۔ آج اللہ کے دشمن کھڑے ہوجائیں اور وہ قدریہ ہیں۔ ابن راھویہ، المسند ابی یعلی۔

670

669 – "إن من أخلاق المؤمن قوة في دين وحزم في لين وإيمانا في يقين وحرصا في علم وشفقة في مقت وحلما في علم وقصدا في غنى وتجملا في فاقة وتحرجا عن طمع وكسبا في حلال وبرا في استقامة ونشاطا في هدى ونهيا عن شهوة ورحمة للمجهود وإن المؤمن من عباد الله لا يحيف على من يبغض، ولا يأثم فيمن يحب، ولا يضيع ما استودع، ولا يحسد ولا يطعن ولا يلعن، ويعترف بالحق، وإن لم يشهد عليه ولا يتنابز بالألقاب، في الصلاة متخشعا، إلى الزكاة مسرعا، في الزلازل وقورا، في الرخاء شكورا قانعا بالذي له لا يدعي ما ليس له، ولا يجمع في الغيظ ولا يغلبه الشح عن معروف يريده، يخالط الناس كي يعلم، ويناطق الناس كي يفهم، وإن ظلم وبغي عليه صبر حتى يكون الرحمن هو الذي ينتصر له". (الحكيم عن جندب بن عبد الله) .
٦٧٠۔۔ مومن کے اخلاق میں سے ہے کہ وہ دین میں قوی ہو، نرمی و مہربانی میں احتیاط پیش نظر ہو۔ اس کا ایمان یقین کے ساتھ متصف ہو علم کا حریص ہو۔ ناراضگی میں شفقت کا دامن نہ چھوڑے ، تونگری میں میانہ روی اختیار کرے۔ فاقہ کشی کی حالت میں استغناء اور جمال کو ملحوظ رکھے حرص وطمع سے محفوظ رہے حلال پیشہ کو اپنی وطیرہ بنائے۔ بھلی بات پر مستقیم رہے۔ راہ ہدایت میں خوشی کے ساتھ گامزن رہے۔ شہوت اور ہوس پرستی کا غلام نہ ہو۔ مشقت زدہ پر رحم کھائے۔
بندگان خدا میں سے مومن بندہ کبھی پر دشمن پر ظلم نہیں رکھتا، دوست کے بارے میں گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا، امانت خیانت کا مرتکب نہیں ہوتا، حسد، تشنیع ، اور لعنت بازی سے کوسوں دور رہتا ہے حق بات کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے اور خواہ اس موقع پر موجود نہ ہوبرے القاب کے ساتھ کسی مسلمان کو ستاتا نہیں ہے۔
نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ مستغرق ہوتا ہے اور ادائیگی زکوۃ میں سبک روی کرتا ہے حوادثات اور سختیوں میں وقار سکینت کا دامن اس سے نہیں چھوٹتا، خوشی و آسانی کے مواقع پر شکرگزار رہتا ہے موجود پر قانع رہتا ہے غیر موجودہ کا دعوی نہیں کرتا غصہ میں ظلم کی نہیں ٹھان بیٹھتا۔ کسی نیک کام میں بخل کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ حصول علم کی خاطر لوگوں سے میل جول رکھتا ہے لوگوں سے قابل فہم گفتگو کرتا ہے اس پر ظلم وستم ڈھایا جائے تو صبر کرتا ہے حتی کہ رحمن خود اس کا انتقام لیتا ہے۔ الحکیم بروایت جند ب بن عبداللہ۔

671

670 – " المؤمن يأكل في معى واحد والكافر يأكل في سبعة أمعاء". (حم ق ت م عن ابن عمر حم م عن جابر حم ق هـ عن أبي هريرة) (م هـ عن أبي موسى) .
٦٧١۔۔ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، ترمذی، الصحیح لمسلم براویت ابن عمر ، مسنداحمد، مسلم بروایت جابر، بخاری و مسلم ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ۔

672

671 – "المؤمن يشرب في معى واحد، والكافر يشرب في سبعة أمعاء". (حم م ت عن أبي هريرة) .
٦٧٢۔۔ مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔ مسنداحمد، الصححیح لمسلم ۔ ترمذی، عن ابوہریرہ۔

673

672 – " المؤمن مرآة المؤمن". (طس والضياء عن أنس) .
٦٧٣۔۔ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ الاوسط للطبرانی ، الضیا، بروایت انس (رض)۔

674

673 – "المؤمن مرآة المؤمن والمؤمن أخو المؤمن يكف عليه ضيعته ويحوطه من ورائه ". (خد، د عن أبي هريرة) .
٦٧٤۔۔ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے اور مومن مومن کا بھائی ہے اس کے مال ومتاع کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ الادب للبخاری ، ابوداؤد بروایت ابوہریرہ۔

675

674 – "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا". (ق ت ن عن أبي موسى) .
٦٧٥۔۔ مومن مومن کے لیے مضبوط عمارت کی مانند ہے کہ اس کا بعض حصہ دوسرے بعض حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے۔ بخاری مسلم، ترمذی، بروایت ابی موسیٰ۔

676

675 – "إذا لقي المؤمن كان كهيئة البناء يشد بعضه بعضا". (طب عن أبي موسى) .
٦٧٦۔۔ جب مومن مومن سے ملاقات کرتا ہے تو وہ دونوں ایک عمارت کی مثل ہوتے ہیں جس کے ارکان ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی موسیٰ۔

677

676 – "المؤمن من أمنه الناس على أموالهم وأنفسهم والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب". (هـ عن فصالة) .
٦٧٧۔۔ مومن صرف وہی شخص ہے جس سے لوگ پانی جان اور اپنے مال کے متعلق بےخوف وخطر ہوجائیں اور اصل مہاجر وہ شخص ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو ترک کردے۔ ابن ماجہ۔ بروایت فضالہ۔

678

677 – "المؤمن يموت بعرق الجبين" (حم ت ن هـ ك عن بريده) .
٦٧٨۔۔ مومن خندہ پیشانی کے ساتھ مرتا ہے۔ مسنداحمد، نسائی، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، ترمذی، بروایت بریدہ۔

679

678 – "المؤمن يألف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف". (حم عن سهل بن سعد) .
٦٧٩۔۔ مومن محبت والفت رکھتا ہے اور جو کسی سے محبت والفت نہ رکھے اور نہ خود اس قابل ہو کہ کوئی اس سے محبت والفت رکھے تو اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے۔ مسنداحمد، بروایت سھل بن سعد۔

680

679 – "المؤمن يألف ويؤلف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف وخير الناس أنفعهم للناس". (قط في الأفراد والضياء عن جابر) .
٦٨٠۔۔ مومن خود بھی محبت والفت رکھتا ہے اور دوسرے بھی اس سے محبت رکھتے ہیں اور جو کسی سے محبت والفت نہ رکھے نہ خود اس قابل ہو کہ کوئی اس سے محبت والفت رکھے تو اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے اور لوگوں میں سب سے بھلا شخص وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔ الدارقطنی فی الافردا، الضیاء بروایت جابر۔

681

680 – " المؤمن يغار والله أشد غيرة". (م عن أبي هريرة) .
٦٨١۔۔ مومن غیرت کھاتا ہے اور اللہ سب سے زیادہ غیرت مند ہے۔ الصحیح لمسلم ، بروایت ابوہریرہ۔

682

681 – "المؤمن غر كريم، والفاجر خب لئيم". (د ت ك عن أبي هريرة) .
٦٨٢۔۔ مومن غیرضرررساں اور کریم صفت ہوتا ہے اورفاسق شخص دھوکا باز اور کمینہ صفت ہوتا ہے۔ ابوداؤد ، ترمذی، المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ۔

683

682 – "المؤمن بخير على كل حال تنزع نفسه من بين جنبيه وهو يحمد الله". (ن عن ابن عباس) .
٦٨٣۔۔ مومن ہر حال میں خیروبھلائی کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا سانس پہلوؤں کے درمیان سے یوں آسانی کے ساتھ نکلتا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی حمد کررہا ہوتا ہے۔ النسائی ، بروایت ابن عباس۔

684

683 – " المؤمن من أهل الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد يألم المؤمن لأهل الإيمان كما يألم الجسد لما في الرأس". (حم عن سهل بن سعد) .
٦٨٤۔۔ اہل ایمان میں کوئی مومن بمنزلہ سر کے ہے جسم کے مقابلہ میں۔ مومن اہل ایمان کے لیے یوں ترپ اٹھتا ہے جس طرح سر کی تکلیف کی وجہ سے پوراجسم بےچین ہوجاتا ہے۔ مسنداحمد، بروایت سھل بن سعد۔

685

684 – "المؤمن يكفر" (ك عن سعد) .
٦٨٥۔۔ مومن کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ المستدرک للھاکم، بروایت سعید۔

686

685 – "المؤمن يسير المؤنة". (حل هب عن أبي هريرة) .
٦٨٦۔۔ مومن اپنے شانہ پر ہلکابار رکھتا ہے۔ الحلیہ، شعب الایمان، بروایت ابوہریرہ۔

687

686 – "المؤمن الذي يخالط الناس ويصبر على أذاهم أفضل من المؤمن الذي لا يخالط الناس ولا يصبر على أذاهم". (حم خد ق هـ عن ابن عمر) .
٦٨٧۔۔ جو مومن لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی ایذارسانیوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بدرجہا بہتر ہے جو لوگوں سے دور ہے اور ان کی ایذارسانیوں پر صبرنہ کرسکے۔ مسنداحمد، ادب ، للبخاری، بخاری و مسلم ابن ماجہ، عن ابن عمر (رض)۔

688

687 – "المؤمن أخو المؤمن لا يدع نصيحته على كل حال". (ابن النجار عن جابر) .
٦٨٨۔۔ مومن مومن کا بھائی ہے جو اس کی خیرخواہی سے کبھی نہیں اکتاتا ۔ ابن النجار، عن جابر۔

689

688 – "المؤمن لا يثرب عليه بشيء أصابه في الدنيا وإنما يثرب على الكافر". (طب عن ابن مسعود) .
٦٨٩۔۔ مومن کو دنیا میں کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچتی اسے کوئی افسوس نہیں افسوس تو کافر کو ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن مسعود۔ مومن کو افسوس اس لیے نہیں ہے کہ اس کو اس کا اجر آخرت میں ضرور ملے گا بخلاف کافر کے کہ اگر اس کو دنیا میں کوئی مصیبت پہنچی ہے تو آخرت میں اس کا کوئی مداوا نہ ہوگا۔

690

689 – "المؤمن كيس فطن" حذر. (القضاعي عن أنس) .
٦٩٠۔۔ مومن عقل مند، سمجھ دار اور ہوشیار رہتا ہے۔ القضاعی بروایت انس (رض)۔

691

690 – "المؤمن هين لين حتى تخاله من اللين أحمق". (هب عن أبي هريرة) .
٦٩١۔۔ مومن سہل طبیعت اور نرم خو عادت کا مالک ہوتا ہے حتی کہ اس کی نرمی و مہربانی کی وجہ سے تمہیں اس کی بیوقوفی کا خیال گزرے گا۔ شعب الایمان بروایت ابوہریرہ رو۔

692

691 – "المؤمن واه راقع فالسعيد من مات على رقعه". (البزار عن جابر) .
٦٩٢۔۔ مومن بےضرر اور سادہ طبیعت کا مالک ہوتا ہے سوجوشخص اس حال میں اس دنیا سے کوچ کرجائے وہ کتنا سعادت مند ہے۔ مسندالبزار ، بروایت جابر۔

693

692 – "المؤمن منفعة إن ماشيته نفعك، وإن شاورته نفعك وإن شاركته نفعك وكل شيء من أمره منفعة". (حل عن ابن عمر) .
٦٩٣۔۔ مومن سراسر نفع رساں ہوتا ہے اگر تم اس کے ساتھ چلو گے تو تم کو نفع پہنچائے گا اور اگر اس سے مشورہ کرو گے نفع پہنچائے گا اگر اس کے ساتھ شرک کرو گے نفع پہنچائے گا الغرض اس کا ہر کام نفع رساں ہوتا ہے۔ الحلیہ۔ بروایت ابن عمر (رض)۔

694

693 – "المؤمنون هينون لينون كالجمل الأنف إن قيد انقاد وإن أنيخ على صخرة استناخ". (ابن المبارك عن مكحول مرسلا) ، (هب عن ابن عمر) .
٦٩٤۔۔ مومن لوگ سہل اور نرم طبیعت جیسے اوصاف کے مالک ہوتے ہیں نکیل پڑے ہوئے اونٹ کی مانند اگر اس کو ہانکا جاتا ہے تو فرمان برداری کے ساتھ چل دیتا ہے اور اگر کسی سخت چٹان پر بٹھایاجاتا ہے تو وہاں بھی بیٹھ جاتا ہے۔ ابن مبارک، بروایت مکحول ، مرسلا، شعب الایمان بروایت ابوہریرہ۔

695

694 – "المؤمنون كرجل واحد إن اشتكى رأسه تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر". (م عن النعمان بن بشير) .
٦٩٥۔۔ تمام مومنین ایک فرد کی مانند ہیں اگر اس کا محض سرتکلیف زدہ ہوتا ہے تب بھی اس کا ساراجسم اس کی وجہ سے بخارا اور بیداری کے ساتھ پریشان ہوجاتا ہے۔ الصحیح المسلم ، بروایت النعمان بن بشیر۔

696

695 – "المؤمنون كرجل واحد إن اشتكى رأسه اشتكى كله وإن اشتكى عينه اشتكى كله". (حم م عن النعمان بن بشير) .
٦٩٦۔۔ تمام مومنین ایک فرد کی مانند ہیں، اگر اس کا محض سرتکلیف زدہ ہوتا ہے توساراجسم تکلیف کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور اگر آنکھ تکلیف زدہ ہوتی ہے تب بھی ساراجسم تکلیف کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ مسنداحمد، مسلم، بروایت النعمان بن بشیر۔

697

696 – "الإيمان قيد الفتك لا يفتك مؤمن". (تخ د ك عن أبي هريرة عن الزبير وعن معاوية) .
٦٩٧۔۔ ایمان کسی کا اس کی غفلت میں خون بہانے سے آڑ ہے لہٰذا کسی مومن کا خون دھوکا دہی سے نہ بہایا جائے۔ التاریخ للبخاری، ابوداؤد، المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ ، عن زبیر عن معاویہ۔

698

697 – "أبى الله أن يرزق عبده المؤمن إلا من حيث لا يحتسب". (فر عن أبي هريرة) (هب عن علي) .
٦٩٨۔۔ اللہ نے انکار فرمادیا ہے کہ اپنے مومن بندے کے جسم پر بلاء تکلیف کی کوئی نشانی باقی نہ چھوڑے۔ الفردوس للدیلمی ، بروایت انس (رض)۔

699

698 – "أبى الله أن يجعل للبلاء سلطانا على بدن عبده المؤمن". (فر عن أنس) .
٦٩٩۔۔ جب تجھے تیری نیکی اچھی محسوس ہو اور برائی سے تو دل گرفتہ ہو تو مومن ہے۔ مسند احمد، الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم ، شعب الایمان ، الضیاء براویت ابی امامہ۔

700

699 – "إذا سرتك حسنتك وساءتك سيئتك فأنت مؤمن". (حم حب طب ك هب والضياء عن أبي أمامة) .
٧٠٠۔۔ جس کو نیکی اچھی محسوس ہو اور برائی سے دل گرفتہ ہو تو وہ مومن ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

701

700 – "من سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن" (طب عن أبي موسى) .
٧٠١۔۔ مومن کی اس کے چہرے پر تعریف کی جاتی ہے تو ایمان اس کے دل میں بڑھتا رہتا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، المستدرک للحاکم بروایت اسامہ بن زید۔

702

701 – "إذا مدح المؤمن في وجهه ربا الإيمان في قلبه". (طب ك عن أسامة بن زيد) .
٧٠٢۔۔ لوگوں میں سب سے زیادہ غم والا وہ مومن شخص ہے جو اپنی دنیاوآخرت دو ونوں کی فکر کرے ابن ماجہ، بروایت انس (رض) ۔

703

702 – "أعظم الناس هما المؤمن يهتم بأمر دنياه وأمر آخرته". (هـ عن أنس) .
٧٠٣۔۔ مومنین میں افضل ترین شخص ہے وہ جس کے اخلاق سب میں عمدہ ہوں۔ ابن ماجہ، المستدرک للحاکم بروایت ابن عمر (رض)۔

704

703 – "أفضل المؤمنين أحسنهم خلقا". (هـ ك عن ابن عمر) .
٧٠٤۔۔ مومنین میں افضل تروہ شخص ہے جب وہ اللہ سے مانگے اسے عطا ہو۔ اور جب لوگوں کی طرف سے اسے نہ دیا جائے تو وہ بھی بے پروا ہوجائے۔ التاریخ للخطیب، (رح) بروایت ابن عمرو۔

705

704 – "أفضل المؤمنين إيمانا الذي إذا سأل أعطي وإذا لم يعط استغنى". (خط عن ابن عمرو) .
٧٠٥۔۔ مومنین میں افضل تر وہ شخص ہے جب فروخت کرے تب بھی نرمی برتے اور جب خریدے تب بھی نرمی برتے جب فیصلہ کرے تب بھی نرمی کرے ۔ الاوسط للطبرانی (رح) علیہ بروایت ابی سعید۔

706

705 – "أفضل المؤمنين رجل سمح البيع سمح الشراء سمح القضاء سمح الاقتضاء". (طس عن أبي سعيد) .
٧٠٦۔۔ شیطان مومن سے اس طرح مذاق کرتا ہے جس طرح سفر میں کوئی اپنے اونٹ سے کرتا ہے۔ مسنداحمد، ابی ابن الدنیا فی مکاند الشیطان بروایت ابوہریرہ (رض)۔

707

706 – "إن المؤمن ينضي شيطانه كما ينضي أحدكم بعيره في السفر". (حم والحكيم وابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان عن أبي هريرة) .
٧٠٧۔۔ مومنین پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کے لیے آزردہ خاطرہوں جیسے ساراجسم محض سر کی تکلیف سے بیمار ہوجاتا ہے۔ ابوالشیخ فی التوبیخ بروایت محمد بن کعب مرسلا۔

708

707 – "إن حقا على المؤمنين أن يتوجع بعضهم لبعض كما يألم الجسد للرأس". (أبوالشيخ في التوبيخ عن محمد بن كعب مرسلا) .
٧٠٨۔۔ مومن کو تو دیکھے گا کہ جس عمل کی طاقت رکھتا ہے اس میں انتہائی محنت ومشقت کرے گا اور جس کی طاقت نہیں رکھتا اس پر حسرت و افسوس کرے گا۔ مسنداحمد، فی الزھد، بروایت عبید بن عمرمرسلا۔

709

708 – "تجد المؤمن مجتهدا فيما يطيق متلهفا على ما لا يطيق". (حم في الزهد عن عبيد بن عمر مرسلا) .
٧٠٩۔۔ عصا اٹھانا مومن کی علامت ہے۔ اور انبیاء کی سنت ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت انس (رض)۔

710

709 – "حمل العصا علامة المؤمن، وسنة الأنبياء". (فر عن أنس) .
٧١٠۔۔ مومن کا بھی عجیب معاملہ ہے اس کے سارے کام خیر ہیں۔ یہ بات صرف مومن ہی کو حاصل ہے۔ اگر اس کو راحت پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے یہ سراسر خیر ہے۔ اور اگر اس کو مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ سراسر خیر ہے۔ مسنداحمد، الصحیح لمسلم ، بروایت صھیب ۔

711

710 - "عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله خير وليس ذلك لأحد إلا للمؤمن إن أصابته سراء شكر وكان خير له إن أصابته ضراء صبر فكان خيرا له". (حم م عن صهيب) .
٧١١۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے مومن بندے مجھے بعض ملائکہ سے بھی زیادہ پسند ہیں۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

712

711 – "قال الله تعالى عبدي المؤمن أحب إلي من بعض ملائكتي". (طس عن أبي هريرة) .
٧١٢۔۔ مومن اللہ کے ہاں بعض ملائکہ سے بھی زیادہ مکرم ہے۔ ابن ماجہ بروایت ابوہریرہ (رض)۔

713

712 – "المؤمن أكرم على الله من بعض ملائكته ". (هـ عن أبي هريرة) .
٧١٣۔۔ اللہ کے ہاں مومن سے زیادہ مکرم کوئی شی نہیں ۔ الاوسط للطبرانی (رح) براویت ابن عمر (رض)۔

714

713 – "ليس شيء أكرم على الله تعالى من المؤمن". (طس عن ابن عمر)
٧١٤۔۔ مومن کا دل حلوان کو پسند کرتا ہے۔ شعب الایمان بروایت ابی امامہ، التاریخ للخطیب (رح) علیہ براویت ابی موسیٰ (رض) ۔

715

714 – "قلب المؤمن حلو يحب الحلاوة". (هب عن أبي أمامة) (خط عن أبي موسى) .
٧١٥۔۔ مومن کے چار دشمن ہیں۔ مومن جو اس پر رشک کرتا ہے۔ منافق جو اس سے بغض رکھتا ہے۔ شیطان جو اس کی گمراہی کے درپے ہے۔

716

715 – "للمؤمن أربعة أعداء مؤمن يحسده ومنافق يبغضه وشيطان يضله وكافر يقاتله". (فر عن أبي هريرة) .
٧١٦۔۔ نہ ہو اور نہ قیامت تک کوئی مومن ہوگا مگر اس کا ہمسایہ اس کو گزند پہنچائے گا۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت علی۔

717

716 – "ما كان ولا يكون إلى يوم القيامة مؤمن إلا وله جار يؤذيه". (فر عن علي) .
٧١٧۔۔ مومن اگر گوہ کے بل میں بھی چلا جائے وہاں بھی اللہ اس کے لیے ایذارساں پیدا کریں گے۔ الاوسط للطبرانی (رح) شعب الایمان براویت انس (رض)۔

718

717 – "لو كان المؤمن في جحر ضب لقيض الله له ما فيه من يؤذيه". (طس هب عن أنس) .
٧١٨۔۔ مومن اگر سمندر میں کسی لکڑی پر بیٹھا ہو وہاں بھی الہ اس کے لیے ایذارساں پیدا کردیں گے ۔ ابن ابی شیبہ براویت ۔

719

718 – "لو كان المؤمن على قصبة في البحر لقيض الله له من يؤذيه". (ش عن ... ) .
٧١٩۔۔ نہ ہو اور نہ قیامت تک کوئی مومن ہوگا مگر اس کا ہمسایہ اس کو گزند پہنچائے گا۔ ابوسعید النقاش فی معجمہ وابن النجار براویت علی (رض)۔

720

719 – "لم يكن مؤمن ولا يكون إلى يوم القيامة إلا وله جار يؤذيه". (أبوسعيد النقاش في معجمه وابن النجار عن علي) .
٧٢٠۔۔ مومن۔۔۔ طعنہ زن ، لعنت کرنے والا اور فحش گو نہیں ہوتا۔ مسنداحمد، بخاری، لابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت ابن مسعود (رض)۔

721

720 – "ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش البذيء". (حم خد حب ك عن ابن مسعود) .
٧٢١۔۔ مومن خیر کے سننے سے کبھی سیر نہیں ہوگا حتی کہ جنت میں چلا جائے۔ الصحیح للترمذی (رح) الصحیح لابن حبان بروایت ابی سعید۔

722

721 – "لن يشبع المؤمن من خير يسمعه حتى يكون منتهاه الجنة". (ت حب عن أبي سعيد) .
٧٢٢۔۔ ہم مبت سے بڑھ کر مومن کے سوا کسی چیز کو نہیں جانتے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

723

722 – "لا نعلم شيئا خيرا من ألف مثله إلا الرجل المؤمن".(طس عن ابن عمر) .
٧٢٣۔۔ مومن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ بروایت ابوہریرہ ، مسنداحمد، ابن ماجہ، بروایت ابن عمر (رض)۔

724

723 – "لا يلدغ المؤمن من جحر مرتين". (حم ق د هـ عن أبي هريرة) (حم هـ عن ابن عمر) .
٧٢٤۔۔ افضل الناس وہ مومن ہے جو دوکریم کے درمیان ہو۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت کعب بن مالک۔

725

724 – "أفضل الناس مؤمن بين كريمين". (طب عن كعب بن مالك)
٧٢٥۔۔ مومنین کی ارواح آپس میں ایک دن رات کی مسافت سے مل لیتی ہیں جبکہ ابھی ایک دوسرے کے چہرے نہیں دیکھے ہوتے۔ الادب للبخاری، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عمر (رض)۔

726

725 – "إن روحي المؤمنين تلتقي على مسيرة يوم وليلة وما رأى واحد منهما وجه صاحبه". (خد طب عن ابن عمر) .
٧٢٦۔۔ مومن کی مثال عطر فروش کی سی ہے اگر تو اس کے ساتھ بیٹھے گا تو تجھے نفع دے گا اگر ساتھ چلے گا نفع دے گا اگر اس سے شرکت کرتے گا نفع دے گا۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت ابن عمر (رض)۔

727

726 – "مثل المؤمن كمثل العطار إن جالسته نفعك وإن ماشيته نفعك وإن شاركته نفعك". (طب عن ابن عمر) .
٧٢٧۔۔ مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے اس سے جو لے لو اس کی ہر شے نفع دہ ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت ابن عمر (رض)۔

728

727 – "مثل المؤمن مثل النخلة ما أخذت منها من شيء نفعك". (طب عن ابن عمر) .
٧٢٨۔۔ مومن مومن سے ملتا ہیا ورسلام کرتا ہے تو ان کی مثال عمارت کی سی ہے جو ایکد وسرے کو تقویت پہنچاتی ہے۔ التاریخ للخطیب بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

729

728 – "مثل المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه البنيان يشد بعضه بعضا". (خط عن أبي موسى) .
٧٢٩۔۔ مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے اچھا کھاتا ہے اور اچھا پھل دیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، الصحیح لابن حبان، بروایت ابی رزین۔

730

729 - " المؤمن كمثل النحلة لا تأكل إلا طيبا ولا تضع إلا طيبا". (طب حب عن أبي رزين) .
٧٣٠۔۔ مومن کی مثال نرم بالی کی سی ہے، جو کبھی جھک جاتی ہے تو کبھی سیدھی ہوجاتی ہے۔ المسند لابی یعلی بروایت انس (رض)۔

731

730 – "مثل المؤمن مثل السنبله تميل أحيانا وتقوم أحيانا". (ع عن أنس) .
٧٣١۔۔ مومن کی مثال نرم بالی کی ہے جو کبھی سرخ ہوجاتی ہے اور کبھی زرد ہوجاتی ہے اور کافر صنوبر کی طرح ہے۔ مسنداحمد، بروایت ابی (رض) ۔

732

731 – "مثل المؤمن مثل الخامة تحمر مرة وتصفر أخرى، والكافر كالأرزة" (2) (حم عن أبي) .
٧٣٢۔۔ مومن کی مثال نرم بالی کی ہے جو کبھی سیدھی اور سرخ ہوجاتی ہے اور کافر کی مثال صنوبر کی طرح ہے جو ہمیشہ سیدھا اکڑارہتا ہے لیکن کبھی اچانک یوں اکھڑ جاتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا۔ مسنداحمد بروایت جابر (رض)۔

733

732 – "مثل المؤمن مثل السنبلة تستقيم مرة وتحمر مرة ومثل الكافر مثل الأرزه لا تزال مستقيمة حتى تخر ولا تشعر". (حم عن جابر) .
٧٣٣۔۔ مومن کی مثال کھیتی کے نوخیز پودے کی سی ہے ، ہوا آتی ہے تو اس کو جھکنے پر مجبور کردیتی ہے جب ہوا پرسکون ہوجاتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے اسی طرح مومن کو مصائب و حالات جھکا دیتے ہیں اور کافر کو صنوبر کی طرح ہے کہ ہمیشہ سیدھا اکڑا ہوا ہے پھر کبھی اللہ ہی جب چاہے اس کی بیخ کنی فرما دیتے ہیں۔

734

733 – "مثل المؤمن كمثل خامة الزرع من حيث أتتها الريح كفأتها فإذا سكنت اعتدلت وكذلك المؤمن يكفأ بالبلاء ومثل الفاجر كالأرزة صماء معتدلة حتى يقصمها الله إذا شاء". (ق عن أبي هريرة) .
٧٣٤۔۔ ایسے مومن کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے ، اترج لیموں کے پھل کی طرح ہے جس کی خوشبو عمدہ اور ذائقہ بھی عمدہ۔ اور اس مومن کی مثال جو تلاوت قرآن سے غافل ہے کھجور کی طرح ہے جس کی خوشبو تو کچھ نہیں ہوتی مگر اس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبودار پھول کی طرح ہے جس کی خوشبوعمدہ ہوتی ہے پر ذائقہ کڑواہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا ایلوے کی طرح ہے جس کی بو بھی بد اور ذائقہ بھی کڑوا۔ مسنداحمد، بخاری ، ومسلم ، براویت ابی موسیٰ۔

735

734 – "مثل المؤمن الذي يقرأ القرأن كمثل الأترجة ريحها طيب وطعمها طيب ومثل المؤمن الذي لا يقرأ القرآن كمثل التمر لا ريح لها وطعمها حلوو مثل المنافق الذي يقرأ القرآن كمثل الريحانة ريحها طيب وطعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرأ القرآن كمثل الحنظلة ليس لها ريح وطعمها مر". (حم ق 4 عن أبي موسى) .
٧٣٥۔۔ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے کھائے بھی عمدہ شے اور دے بھی عمدہ شے۔ اور اگر کسی بوسیدہ لکڑی پر بیٹھ جائے تولکڑی لوٹے بھی نہ ہو۔ اور مومن کی مثال پگھلے ہوئے سونے کی طرح ہے۔ اگر تم اس کو پھونکو توسرخ ہوجائے اور وزن کروتو وزن بھی کم نہ ہو۔ شعب الایمان بروایت ابن عمر (رض)۔

736

735 – "مثل المؤمن كمثل النحلة، إن أكلت أكلت طيبا وإن وضعت وضعت طيبا وإن وقعت على عود نخر لم تكسره، ومثل المؤمن مثل سبيكة الذهب إن نفخت عليها احمرت وإن وزنت لم تنقص". (هب عن ابن عمرو) .
٧٣٦۔۔ مومن کی مثال ظاہر اجڑے گھر کی ہے لیکن اگر تم اس میں داخل ہو توسنوار پاؤ۔ اورفاسق کی مثال رنگین اور اونچے مقبرے کی طرح ہے دیکھنے والے کو دلکش لگے مگر اس کا باطن بدبو سے پر ہے۔ شعب الایمان ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

737

736 – "مثل المؤمن كالبيت الخرب في الظاهر فإذا دخلته وجدته مؤنقا ومثل الفاجر كمثل القبر المشرف المجصص يعجب من رآه وجوفه ممتلئ نتنا". (هب عن أبي هريرة) .
٧٣٧۔۔ مومنوں کی باہمی محبت اور شفقت ورحمت کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کا ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوجائے توساراجسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مسند احمد، الصحیح لامام مسلم ، بروایت النعمان بن بشیر۔

738

737 – "مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى". (حم م عن النعمان بن بشير) .
٧٣٨۔۔ مسلمان تو وہی شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ الصحیح مسلم ، بروایت جابر۔

739

738 – "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده". (م عن جابر) .
٧٣٩۔۔ مسلمان تو وہی شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذاء سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مومن وہی شخص ہے جس سے انسانیت اپنے جان ومال کے بارے میں مطمئن ہو۔ مسنداحمد، ترمذی، النسائی، المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

740

739 – "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمؤمن من آمنه الناس على دمائهم وأموالهم". (حم ت ن ك عن أبي هريرة) .
٧٤٠۔۔ مسلمان تو وہی شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا، سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ شخص ہے جو پروردگار کی منہیات سے باز رہے۔ مسنداحمد، ابوداؤد، بروایت سوید بن الحنظلہ۔

741

740 – "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه". (حم د ن عن ابن عمر)
٧٤٠۔۔ مسلمان تو وہی شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا، سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ شخص ہے جو پروردگار کی منہیات سے باز رہے۔ مسنداحمد، ابوداؤد، بروایت سوید بن الحنظلہ۔

742

741 – "المسلم أخو المسلم". (د عن سويد بن حنظلة) .
741 ۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ ابوداؤد بروایت سوید بن حنظلہ

743

742 – "المسلم مرآة المسلم فإذا رأى به شيئا فليأخذه". (ابن منيع عن أبي هريرة) .
٧٤٢۔۔ مسلمان اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے جب اس کے ذریعہ اپنی کسی غلطی پر مطلع ہوتا ہے توا سکی اصلاح کرلیتا ہے۔ ابن منیع بروایت ابوہریرہ۔
آئینہ کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے مقابل چہرے کے عیوب کو صرف مقابل پر ہی ظاہر کرتا ہے لہٰذا مسلمان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کو صرف اسی پر بغرض اصلاح پیش کرے۔

744

743 – "المسلمون أخوة لا فضل لأحد على أحد إلا بالتقوى". (طب عن حبيب بن خراش) .
٧٤٣۔۔ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں مگر تقوی کی وجہ سے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت حبیب بن خراش۔

745

744 – "صدقت المسلم أخو المسلم". (حم هـ ك عن سويد بن حنظلة) .
٧٤٤۔۔ تو نے سچ کہا ! واقعی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، المستدرک ، بروایت سوید بن حنظلہ۔

746

745 – "المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يشتمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه بها كربة من كرب يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة". (حم ق 3 عن ابن عمر) .
٧٤٥۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم روا رکھتا ہے نہ اس کے ساتھ گالی گلوچ سے پیش آتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مشغول ہوتا ہے اللہ اس کی حاجت روائی میں مشغول ہوتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی مشقت ومیصبت دور کرتا ہے اللہ قیامت کے روز اس کو مصیبتوں سے چھٹکارا نصیب فرمائیں گے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، بروایت ابن عمر۔

747

746 – "المسلم أخو المسلم يسعهما الماء والشجر ويتعاونان على الفتان . (د عن صفية ودحيبة ابنتي عليبة) .
٧٤٦۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے دونوں کو پانی اور درخت کافی ہے۔ اور دونوں فتنہ انگیز پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ابوداود ، بروایت صفیہ ودحیہ ، دختران علیہ۔

748

747 – " المسلم أخوالمسلم لا يخونه ولا يكذبه ولا يخذله، كل المسلم على المسلم حرام عرضه وماله ودمه، التقوى ههنا، وأشار إلى القلب، بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم". (ت عن أبي هريرة) .
غالبا مقصود یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کو ان چھوٹی موٹی چیزوں میں انکار نہیں کرتا بلکہ ضرورت کے موقع پر مہیا کردیتا ہے دوسرا حصہ دونوں فتنہ انگیزپر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں میں فتنہ انگیز سے مقصود شیطان لعین ہے یعنی برائی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

749

748 – " المؤمن من آمنه الناس، والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر السوء، والذي نفسي بيده لا يدخل الجنة عبد لا يأمن جاره بوايقه"، (حم ن ع حب ك) (والعسكري في الأمثال عن أنس) .
٧٤٧۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے نہ اس کے ساتھ غلط بیانی سے کام لیتا ہے اور نہ اس کو رسوا کرتا ہے مسلمان پر ہر مسلمان کی آبرو مال ومتاع اس کی جان حرام ہے۔ اور تقوی یہاں ہے۔ دل کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اور آدمی کے شر کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حقارت سے پیش آئے۔ ترمذی، بروایت ابوہریرہ۔

750

749 – "ألا أخبركم بالمؤمن، من آمنه الناس على أموالهم وأنفسهم، والمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمجاهد من جاهد نفسه في طاعة الله، والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب". (حب طب ك عن فضالة بن عبيد) .
٧٤٨۔۔ مومن وہ ہے جس سے انسانیت امن میں ہو، اور مسلمان تو وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو برائی کو خیرباد کہہ دے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کوئی ایسابندہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، جس کی ایذارسانیوں سے اس کے ہمسائے محفوظ نہ ہوں۔ مسنداحمد، النسائی، المسند لابی یعلی ، الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، العسکری فی الامثال، بروایت انس (رض)۔

751

750 – "أفضل المسلمين من سلم المسلمون من لسانه ويده". (حم حب والخرائطي في مكارم الأخلاق عن جابر) . (طب الخرائطي عن عمير بن قتادة الليثي) .
٧٤٩۔۔ سنو ! کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ مومن شخص کون ہے ؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال اور جان کے بارے میں مطمئن ہوں۔ اور مومن وہ ہے جس سے انسانیت امن میں ہو۔ اور مسلمان تو وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرتا رہے اور مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور معاصی سے اجتناب کرے۔ الصحیح لابن حبان، الکبیر للطبرانی (رح) ، المستدرک للحاکم، بروایت فضالہ بن عبید۔

752

751 – "إن أفضل المسلمين إسلاما من سلم المسلمون من لسانه ويده". (ابن النجار عن ابن عمر) .
٧٥٠۔۔ مسلمانوں میں سب سے افضل وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہین ۔ مسنداحمد، الصحیح ، لابن حبان، الخرائطی فی مکارم الاخلاق، بروایت جابر ، الکبیر للطبرانی (رح) ، الخرائطی بروایت عمیر بن قتادہ للیثی۔

753

752 – "المؤمن الذي نفسه منه في عناء والناس في راحة". (أبو نعيم عن أنس) .
٧٥١۔۔ سب سے افضل اسلام اس مسلمان کا ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ابن النجار ، بروایت ابن عمر (رض)۔

754

753 – "المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله، والذي نفس محمد بيده ما تواد إثنان فيفرق بينهما إلا بذنب يحدث أحدهما، للمرء المسلم على أخيه من المعروف ستة: يشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، وينصحه إذا غاب أو شهده، ويسلم عليه إذا لقيه، ويجيبه إذا دعاه، ويتبعه إذا مات". (حم عن أبي هريرة) .
٧٥٢۔۔ مومن وہ شخص ہے جس کا نفس اس سے مشقت میں ہو لیکن انسانیت اس سے راحت و آرام میں ہو۔ ابونعیم، بروایت انس (رض)۔

755

754 – "المسلم أخو المسلم إذا لقيه رد عليه السلام بمثل ما حياه أو أحسن من ذلك، وإذا استأمره نصح له وإذا استنصره على الأعداءنصره وإذا استنعته قصد السبيل يسره ونعت له، وإذا استعاره الحد على العدو أعاره فإذا استعاره الحد على المسلم لم يعره، وإذا استعاره الجنة أعاره ولايمنعه الماعون، قالوا يا رسول الله ما الماعون قال في الحجر وفي الماء والحديد، قالوا أي الحديد قال: قدر النحاس وحديد الفأس الذي يمتهنون به، قالوا فما الحجر قال: القدر الذي من حجارة". (يعقوب بن سفيان والبارودي وابن السكن وابن قانع عن الحارث ابن شريح النميري) .
٧٥٣۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم وستم ڈھاتا ہے نہ اس کو رسوا کرتا ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے دومحبت کرنے والوں کے درمیان جدائی نہیں ہوتی مگر کسی ایک کے گناہ کی وجہ سے ۔ جان لو ! مسلمان آدمی پر اس کے بھائی کے لیے چھ حق لازم ہیں جب اس کو چھینک آئے توالحمدللہ کہے، مرض میں مبتلا ہوجائے تو اس کی عیادت کو جائے وہ غائب ہو یا حاضر ، اس کے ساتھ خیرخواہی رکھے، ملاقات ہو تو اس کو سلام کرے دعوت دے تو اس کو قبول کرے اور مرجائے توجنازے کے ساتھ جائے۔ مسنداحمد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

756

755 – "المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله، التقوى ههنا وأومأ بيده إلى صدره، وما تواد رجلان في الله فيفرق بينهما إلا حدث يحدث أحدهما والمحدث شر". (حم والبغوي وابن قانع عن رجل من بني سليط) .
٧٥٤۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جب اس سے ملاقات کرے تو اس کے سلام کا جواب دے ، جیسا اس نے سلام کیا ہو یا اس سے بھی بڑھ کر جب اس سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیرخواہی مطلوب رکھے۔ جب وہ اپنے دشمنوں کے خلاف مدد طلب کرے تو اس کی مدد کو جائے۔ جب اس سے درست راہ بیان کرنے کو کہے تو اس کو آسان اور سہل راہ سمجھادے ۔ جب دشمن کے خلاف سزا طلب کرے تو اس کی بات کو پورا کردے لیکن اگر مسلمان کے خلاف طلب کرے تو انکار کردے۔ اگر ڈھال طلب کرے تودے دے اور حقیر اشیاء کے سوال کو رد نہ کرے۔ صحابہ کرام نے استفسار کیا، یارسول اللہ حقیر اشیاء کیا ہیں، آپ نے فرمایا، پتھر، پانی، اور لوہا وغیرہ صحابہ نے پھر عرضک یا یارسول اللہ سے لوہے سے کون سالوہامراد ہے ؟ فرمایا، پیتل ، کی ہانڈی، اور پھاؤرے کا پھل، جس سے لوگ لکڑی وغیرہ کاٹتے ہیں۔ صحابہ کرام نے پھر استفسار کیا، یارسول اللہ پتھر سے کون ساپتھر مراد ہے ؟ فرمایا پتھر کی ہانڈی۔ یعقوب بن سفیان، الباوردی، ابن السکن، ابن قانع، بروایت الحارث ابن شریح النمیری۔

757

756 – "المؤمن أخو المؤمن من حيث يغيب يحفظه من ورائه ويكف عليه ضيعته، والمؤمن مرآة المؤمن". (الخرائطي في مكارم الأخلاق عن المطلب بن عبد الله بن حنطب) .
٧٥٥۔۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم روارکھتا ہے نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور تقوی یہاں ہے دل کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اور دومحبت کرنے والوں کے درمیان جدائی نہیں ہوتی، مگر کسی ایک طرف سے نئی بات پیدا ہونے کے ساتھ، اور وہ نئی بات سراسر شر ہوتی ہے۔ مسنداحمد، البغوی، ابن قانع، بروایت رجل من بنی بسط۔

758

757 – "المؤمنون بعضهم لبعض نصحة وادون، وإن افترقت منازلهم وأبدانهم، والفجرة بعضهم لبعض غششة متخاذلون وإن اجتمعت منازلهم وأبدانهم". (عبد الرزاق الجيلي في الأربعين عن أنس) .(الديلمي عن علي) .
٧٥٦۔۔ مومن مومن کا بھائی ہے جب وہ کہیں سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے سامان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اور مومن مومن کا آئینہ ہے۔ الخرائطی فی مکارم الاخلاق بروایت المطلب بن عبداللہ بن حنطب۔

759

758 – "ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى". (خ عن النعمان بن بشير) .
٧٥٧۔۔ مومن آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور ایک دوسرے کو چاہنے والے ہیں خواہ ان کے وطن اور جسم جدا جدا ہوں اورفاسق لوگ ایک دوسرے کو دھوکنہ دینے والے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں خواہ ان کی جائے سکونت اور جسم ایک جگہ ہوں۔ عبدالرزاق الجیلی ، فی الاربعین، بروایت انس، الفردوس للدیلمی (رح) بروایت علی۔

760

759 – "المسلمون كالرجل الواحد إذا اشتكى عضو من أعضائه تداعى له سائر جسده". (الرامهر مزي في الأمثال عن النعمان بن بشير) .
٧٥٨۔۔ تو مومنوں کی باہمی محبت اور شفقت ورحمت میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ اگر اس کا ایک عضو تکلیف میں پڑجائے توساراجسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخاری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الصحیح للبخاری (رح) ، بروایت النعمان بن بشیر۔

761

760 – "المسلمون كرجل واحد إن اشتكى عينه اشتكى كله وإن اشتكى رأسه اشتكى كله". (م عن النعمان بن بشير) .
٧٥٩۔۔ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوجائے توساراجسم بےچین ہوجاتا ہے۔ الامثال للرامھزی بروایت النعمان بن بشیر۔

762

761 – "مثل المؤمن من أهل الإيمان مثل الرأس في الجسد يألم مما يصيب أهل الإيمان كما يألم الرأس مما يصيب الجسد". (طس عن سهل بن سعد) .
٧٦٠۔۔ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر اس کی آنکھ آشوب زدہ ہو توساراجسم شکایت آمیز ہوجاتا ہے اور اگر سر میں درد ہوتب بھی سارے جسم میں تکالیف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ الصحیح امام مسلم (رح) اللہ تعالیٰ بروایت النعمان بن بشیر۔

763

762 – "منزلة المؤمن بمنزلة الرأس من الجسد متى اشتكى شيء من الجسد اشتكى له الرأس ومتى اشتكى شيء من الرأس اشتكى له سائر الجسد". (ابن قانع وأبو نعيم وابن عساكر عن بشير بن سعد والد نعمان وضعف) .
٧٦١۔۔ اہل ایمان کے مقابلہ میں مومن کی مثال ایسی ہے جیسے پورے جسم کے مقابلہ میں سر کی مثال مومن اہل ایمان کی تکلیف کی وجہ سے ایسے ہی پریشان ہوجاتا ہے جس طرح سرجسم کے کسی بھی حصہ کی وجہ سے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت سھل بن سعد۔

764

763 – "منزلة المؤمن من أهل الإيمان بمنزلة الرأس من الجسد يألم المؤمن لما يصيب أهل الإيمان كما يألم الرأس لما يصيب الجسد".(ابن النجار عن سهل بن سعد) .
٧٦٢۔۔ مومن کا مرتبہ ایسا ہی ہے جیساجسم میں سر کا مرتبہ جسم کے کسی حصہ میں تکلیف کوئی بھی ہو تو سر میں بھی تکلیف کی ٹیس اٹھنے لگتی ہے۔ ابن قانع، ابن عساکر، ابونعیم، بروایت بشیر بن سعد ابوالنعمان۔ لیکن اس حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

765

764 – "منزلة المؤمن من المؤمنين بمنزلة الرأس من الجسد متى اشتكى الجسد اشتكى الرأس ومتى اشتكى الرأس اشتكى سائر الجسد". (ابن السني في الطب عن قيس بن سعد) .
٧٦٣۔۔ اہل ایمان کے مقابلہ میں مومن کی مثال ایسی ہے جیسے پورے جسم کے مقابلہ میں سر کی مثال ہو مومن اہل ایمان کی تکلیف کی وجہ سے ایسے ہی پریشان ہوجاتا ہے جس طرح سرجسم کے کسی بھی حصہ کی وجہ سے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ابن النجار بروایت سھل بن سعد۔

766

765 – "مثل المؤمن وأخيه كمثل الكفين تنقي أحدهما الأخرى". (ابن شاهين عن دينار عن أنس) .
٧٦٤۔۔ اہل ایمان کے مقابلہ میں مومن کا مرتبہ ایساہی ہے جیساجسم میں سرکامرتبہ ، جب بھی جسم میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سر میں درد ہوجاتا ہے اور جب سر میں درد ہوجاتا ہے توساراجسم بیمار پڑجاتا ہے۔ ابن السنی فی الطب بروایت قیس بن سعد۔

767

766 – "ينبغي للمؤمنين أن يكونوا فيما بينهم كمنزلة رجل واحد إذا اشتكى عضو من جسده تداعى سائر جسده". (طب عن النعمان بن بشير) .
٧٦٥۔۔ مومن اور اس کے بھائی کی مثال دوہتھیلوں کی مانند ہے کہ ہر ایک دوسری ہتھیلی کو صاف کرتی ہے۔ ابن شاھین بروایت دینار عن انس (رض)۔

768

767 – " المؤمن مرآة المؤمن والمؤمن أخو المؤمن من حيث لقيه يكف عليه ضيعته ويحوطه من ورائه". (د والعسكري ق وابن جرير عن أبي هريرة) .
٧٦٦۔۔ مومنوں کو چاہے کہ وہ آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ جب اس کے کسی ایک عضو کو شکایت پہنچتی ہے توساراجسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت النعمان بن بشیر۔

769

768 – "المؤمن مرآة أخيه المؤمن". (العسكري في الأمثال عن أبي هريرة) .
٧٦٧۔۔ مومن مومن کا آئینہ ہے مومن مومن کا بھائی ہے کہ جب بھی اس سے میل جول ہوتا ہے اس کے سامان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اور اس کی عدم موجودگی میں اس کے سامان کی حفاظت کرتا ہے۔ ابوداؤد العسکری ، السنن للبیہقی ، ابن جریر بروایت ابوہریرہ (رض)۔

770

769 – "إن المسلم الذي يخالط الناس ويصبر على أذاهم أفضل من الذي لا يخالط الناس ولا يصبر على آذاهم". (هب عن ابن عمر) .
٧٦٨۔۔ مومن اپنے مومن بھائی کا آئینہ دار ہے۔ العکسری فی الامثال۔

771

770 – "إن أرواح المؤمنين تلتقي على مسيرة يوم، ما رأى أحدهم صاحبه". (حم قط عن ابن عمر) .
٧٦٩۔۔ جو مومن لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بدرجہابہتر ہے جو لوگوں سے دور ہے اور ان کی ایذارسانیوں پر صبرنہ کرسکے۔ شعب الایمان ، عن ابن عمر (رض)۔

772

771 – "المؤمن يألف ويؤلف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف". (حم طب عنه) .
٧٧٠۔۔ مومنین کی ارواح آپس میں ایک یوم کی مسافت سے ملاقات کرلیتی ہیں جبکہ ابھی دونوں نے ملاقات نہیں کی ہوتی۔ مسنداحمد، دارقطنی بروایت ابن عمر (رض)۔

773

772 – "المؤمن يألف ويؤلف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف وخير الناس أنفعهم للناس". (قط في الأفراد والخلعي عن جابر) .
٧٧١۔۔ مومن خود بھی محبت والفت رکھتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس سے محبت والفت رکھتے ہیں اور اس شخص میں کوئی خیروبھلائی نہیں ہے جو خود کسی سے محبت رکھے نہ اس سے کوئی محبت رکھے اور لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ الدارقطنی فی الافراد، الخمعی بروایت جابر۔

774

773 – "دخول المؤمن على المؤمن ترعة ودخول المؤمن على الكافر حجة والمؤمن يزهو نوره لأهل السماء". (الديلمي عن ابن عباس) . قال الديلمي ترعة أي روضة ويروى فرحة) .
٧٧٢۔۔ مومن کا مومن کے پاس آنا تازگی وخوشگواری ہے اور مومن کا کافر کے پاس آناحجت ہے اور مومن کانوراہل آسمان کے لیے چمکتا ہے۔ الدیلمی بروایت ابن عباس (رض)۔

775

774 – "من لم يأنف من ثلاث فهو مؤمن خدمة العيال والجلوس مع الفقراء والأكل مع الخادم هذه الأفعال من علامات المؤمنين الذين وصفهم الله في كتابه أولئك هم المؤمنون حقا". (الديلمي عن أبي هريرة) .
٧٧٤۔۔ جس نے تین باتوں میں عار محسوس نہ کی وہ مرد مومن ہے اہل و عیال کی خدمت فقراء کے ساتھ نشست وبرخاست اور خادم کے ساتھ کھاناپینا یہ کام مومنین کی ملاقات میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا، اولئک ھم المومنون حقا۔ یہی مومنین حق ہیں۔ الدیلمی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

776

775 – "من أخلاق المؤمن حسن الحديث إذا حدث وحسن الاستماع إذا حدث وحسن البشر إذا لقي ووفاء بالوعد إذا وعد". (الديلمي عن أنس) .
٧٧٥۔۔ مومن کے اخلاق میں سے ہے کہ جب گفتگو کرے تو اچھی گفتگو کرے اور جب اسے کچھ کہا جائے توتوجہ کے کان سے سنے اور جب اس سے ملاقات ہو تو خوش خبری سنائے اور وعدہ کرے تو وفا کرے ۔ الدیلمی بروایت انس۔

776

776 – "خصلتان لا يكونان في منافق حسن سمت ولا فقه في الدين". (ابن المبارك عن بن محمد بن عبد الله بن سلام مرسلا) .
٧٧٦۔۔ دوخصلتیں کسی منافق میں جمع نہیں ہوسکتیں وقار کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا، دین میں فقہ یعنی سمجھ بوجھ پیدا کرنا۔ ابن مبارک، عن محمد بن عبداللہ ۔

777

777- "المؤمن لين حتى تخاله من اللين أحمق". (هب والثقفي في الثقفيات والديلمي عن أبي هريرة) .
٧٧٧۔۔ مومن ایسانرم مزاج ہوتا ہے کہ تم اس کو اس کی نرمی و مہربانی کی وجہ سے بیوقوف خیال کرو گے۔ شعب الایمان ، الثقفی فی العقفات الدیلمی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

778

778 – "المؤمن لين المنكب يوسع على أخيه، والمنافق يتجافى يضيق على أخيه، والمؤمن يبدأ بالسلام والمنافق يقول حتى يبدأ بي". (قط في الأفراد عن أنس) .
٧٧٨۔۔ مومن کا کام سخیوں والا ہوتا ہے اپنے بھائی پر وسعت وفراخی کرتا ہے اور منافق کنارہ کش رہنے والاہوتا ہے جو اپنے بھائی پر سختی کرتا ہے مومن ابتداء بالسلام کرتا ہے اور منافق منتظر رہتا ہے کہ ودسراخود مجھے سلام کرے ۔ الدارقطنی فی الافراد بروایت انس۔

779

779 – "المؤمن يأكل بشهوة عياله والمنافق يأكل أهله بشهوته". (الديلمي عن أبي أمامة) .
٧٧٩۔۔ مومن اپنے اہل و عیال کی خواہش کے مطابق کھاتا ہے۔

780

780 – "المؤمن يأكل في معي واحد والمنافق يأكل في سبعة أمعاء". (طب عن سمرة) .
٧٨٠۔۔ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت سمرہ۔

781

781 – "لو كان المؤمن في جحر فارة لقيض الله له فيه من يؤذيه". (الديلمي عن أنس) وقال تفرد به أبو معين الحسن بن الحسن الرازي) .
٧٨١۔۔ مومن اگر کسی شو ہے کے بل میں بھی چلا جائے تو اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس کے لیے موذی ہمسایہ پیدا فرما دیتے ہیں۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت انس (رض)۔ لیکن اس روایت میں ابومعین الحسن بن الحسن الرازی متفرد ہیں۔

782

782 – "لم يكن مؤمن ولا يكون إلى يوم القيامة إلا وله جار يؤذيه". (أبوسعد سعيد بن محمد بن علي بن عمر النقاش الأصبهاني في معجمه وابن النجار عن عبد الله بن أحمد بن عامر عن أبيه عن علي الرضا عن آبائه عن علي) قال في الميزان هي نسخة موضوعة باطلة ما تنفعك عن وضع عبد الله أو وضع أبيه.
٧٨٢۔۔ نہ کوئی مومن گزرا، آئندہ گزرے گا مگر اس کو کسی ایذارساں ہمسائے سے ضرور سابقہ پڑے گا۔ ابوسعد سعید بن محمد بن علی بن عمرالنقاش الاصبھانی فی معجمہ ، ابن نجار، بروایت عبداللہ بن احمد، بن عامر عن ابیہ عن علی الرضا عن آباہ عن علی۔
لیکن میزان میں مصنف نے فرمایا ہے کہ یہ نسخہ جس سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے من گھڑت ہے اور باطل ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔ مذکورہ عبداللہ یا اس کے والد کی طرف سے وضع شدہ ہے۔

783

783 – "أفضل المؤمنين كل مؤمن مخموم القلب صدوق اللسان، قالوا يا رسول الله ما مخموم القلب قال التقي النقي الذي لا إثم فيه ولا بغي ولا غل ولا حسد قالوا فمن يليه قال الذين نسوا الدنيا وأحبوا الآخرة قالوا فمن يليه قال المؤمن في خلق حسن". (الحكيم والخرائطي في مكارم الأخلاق عن ابن عمر) .
٧٨٣۔۔ مومنوں میں سب سے افضل وہ مومن ہے جس کا قلب مخموم یعنی حسد وکینہ وغیرہ سے پاک صاف اور اس کی زبان سچائی کی عادی ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استفسار کیا، یارسول اللہ یہ مخموم القلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جو متقی گناہوں کی آلائش سے پاک صاف ہو، حسد اور کینہ وغیرہ سے پاک دل رکھتا ہے۔ صحابہ کرام نے پھر استفسار کیا ان صفات کے حامل شخص کے بعد کس مرتبہ ہوسکتا ہے تو فرمایا وہ لوگ جو دنیا سے غافل ہیں اور آخرت کو محبوب رکھنے والے ہیں صحابہ کرام نے پھر استفسار کیا ان کے بعد کس کا مرتبہ ہوسکتا ہے تو فرمایا وہ مومن جو عمدہ اخلاق سے متصف ہو۔ الحکیم ، الخرائطی فی مکارم الاخلاق ، بروایت ابن عمر (رض)۔

784

784-[؟؟ حديث هذا الرقم غير موجود في طبعة مؤسسة الرسالة]
٧٨٥۔۔ مومنین میں سب سے افضل وہ مومن ہے کہ جب وہ سوال کرے تو عطا کیا جائے بمطابق منتخب کنزالعمال اگر اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا کرے اور اگر اس کو محروم رکھاجائے تومستغنی ہوجائے۔ خطیب ، عمرو بن شعب عن ابیہ عن جدہ۔

785

785 – "أفضل المؤمنين إيمانا الذي إذا سأل أعطي، وإذا لم يعط استغنى". (خط عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده) .
٧٨٦۔۔ بیشک مومن کو راستہ سے کوئی تکلیف دہ شی دور کرنے پر بھی اجرملتا ہے۔ سیدھی راہ گامزن رہنے میں بھی اجرملتا ہے کسی سے اچھی گفتگو کرنے پر بھی اجرملتا ہے۔ دودھ کا عطیہ دینے میں بھی اجرملتا ہے۔۔ حتی کہ اس بات پر بھی اجرملتا ہے کہ اس نے کپڑے میں سامان لپیٹ رکھا تھا، اس نے اس کو چھونے کے لیے ہاتھ لگایاتوہاتھ سامان کی جگہ سے چوک گیا تو اس ذرا سی دیر کی پریشانی پر بھی اجرملتا ہے۔ المسند لابی یعلی ، بروایت انس۔

786

786 – "إن المؤمن ليؤجر في إماطة الأذى عن الطريق، وفي هدايته السبيل، وفي تعبيره عن الأرتم (2) وفي منحه اللبن حتى إنه ليؤجر في السلعة تكون مصرورة في ثوبه فيلمسها فتخطيها يده". (ع عن أنس) .
٧٨٧۔۔ کیا تم مجھ سے نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا ؟ مجھے پروردگار کے اپنے بندے کے لیے فیصلہ پر تعجب ہوا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے لیے جو بھی فیصلہ فرماتے ہیں وہ اس کے لیے سراسر خیرکاباعث ہوتا ہے اور ایسا کوئی بندہ نہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ سراسر خیر کا فیصلہ فرمائیں سوائے مسلم بندہ کے ۔ الحلیہ بروایت صہیب۔

787

787 - "ألا تسألوني مم ضحكت عجبت من قضاء الله للعبد المسلم إن كل ما قضى الله له خير وليس كل أحد قضى الله له خيرا إلا العبد المسلم". (حل عن صهيب) .
٧٨٧۔۔ کیا تم مجھ سے نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا مجھے پروردگار کے اپنے بندے کے لیے فیصلہ پر تعجب ہوا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے لیے جو بھی فیصلہ فرماتے ہیں وہ اس کے لیے سراسر خیرکاباعث ہوتا ہے اور ایسا کوئی بندہ نہیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ سراسر خیر کا فیصلہ فرمائیں سوائے مسلم بندہ کے۔ الحلیہ بروایت صھب۔

788

788 – " عجيب من قضاء الله للمسلم، كله خير إن أصابته سراء فشكر آجره الله عز وجل وإن أصابته ضراء فصبر آجره الله عز وجل وكل قضاء قضاه الله للمسلمين خير". (طب عن صهيب) .
٧٨٨۔۔ اللہ کا فیصلہ مسلم بندہ کے لیے عجیب تر ہے کہ اگر اس کو کوئی خیر پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اجر سے نوازتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اجر سے نوازتے ہیں اور اللہ نے جو فیصلہ بھی مسلمانوں کے لیے فرمایا خیرکاسرچشمہ ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت صھیب۔

789

789 – " عجبت من قضاء الله للمؤمن، إن أصابه خير حمد ربه وشكر، وإن أصابته مصيبة حمد ربه وصبر، ويؤجر المؤمن في كل شيء، حتى في اللقمة يرفعها إلى في امرأته ". (حم وعبد بن حميد ق ص عن سعد بن أبي وقاص) .
٧٨٩۔۔ مومن کے لیے اللہ کے فیصلہ پر مجھے تعجب ہے کہ اگر اس کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی حمد کرتا ہے اور اس کا شکر بجالاتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اللہ کی حمد کرتا ہے اور صبر کرتا ہے اور مومن کو ہرچیز میں اجر دیاجاتا ہے ۔۔ حتی کہ اس لقمہ میں بھی اجر دیاجاتا ہے جو وہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے۔ مسنداحمد، عبد بن حمید، سنن للبیہقی (رح) ، السنن لسعید ، بروایت سعد بن ابی وقاص۔

790

790 – " إنما مثل المؤمن مثل شجرة لا يسقط ورقها: النخلة". (طب عن ابن عمر) .
٧٩٠۔۔ مومن کی مثال اس درخت کی ہے جس کا پتہ نہیں گرتا، یعنی کھجور۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عمر (رض)۔

791

791 – "مثل الرجل المسلم مثل شجرة خضراء لا يسقط ورقها ولا يتحات هي النخلة". (طب والخطيب عن ابن عمر) .
٧٩١۔۔ مسلمان شخص کی مثال اس درخت کی سی ہے ، جس کا پتہ گرتا ہے نہ جھڑتا ہے۔ الکبیر للطبرانی رحمہ علیہ، الخطیب بروایت ابن عمر (رض)۔

792

792 – "مثل المؤمن كمثل النحلة أكلت طيبا ووضعت طيبا ووقعت فلم تفسد ولم تكسر، ومثل العبد المؤمن مثل القطعة الجيدة من الذهب نفخ عليها فخرجت طيبة ووزنت فلم تنقص". (الرامهرمزي في الأمثال ك هب عن ابن عمر) .
٧٩٢۔۔ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے ، جو کھاتی بھی عمدہ شے ہے اور دیتی بھی عمدہ شے ہے۔ اگر کسی چیز پر بیٹھ جائے تو اس کو توڑتی ہے نہ خراب کرتی ہے اور مومن کی مثال سونے کے اس عمدہ ٹکڑے کی ہے جس کو بھٹی میں خوب پھونکا گیا ہو تو وہ عین عمدہ ہو کرنکلے اور پھروزن کیا جائے تو وزن بھی کم نہ ہو۔ الرامھرمزی فی الامثال ، المستدرک للحاکم ، شعب الایمان بروایت ابن عمر (رض)۔

793

793 – "مثل المؤمن مثل النحلة إن شاورته نفعك وإن ماشيته نفعك". (الرامهرمزي في الأمثال عن ابن عمر) وفيه ليث بن أبي سليم.
٧٩٣۔۔ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے، اگر مومن کے ساتھ تم باہم مشورہ کرو تو وہ تم کو نفع پہنچائے گا اور اگر اس کے ساتھ چلو گے تب بھی تم کو نفع پہنچائے گا۔ الرمھزمزی فی الامثال ، بروایت ابن عمر (رض)۔ اس میں ایک راوی لیث بن سلیم ہیں۔

794

794 – "والذي نفس محمد بيده إن مثل المؤمن كمثل القطعة من الذهب ينفخ عليها صاحبها لم تتغير ولم تنقص والذي نفسي بيده إن مثل المؤمن كمثل النحلة أكلت طيبا وضعت طيبا لم تكسر ولم تفسد". (هب عن ابن عمر) .
٧٩٤۔۔ قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے کہ مومن کی مثال توسونے کے اس ٹکڑے کی ہے جس پر اس کا مالک بھٹی میں خوب پھونکے مگر وہ متغیر ہو نہ کم وزن ہو۔ اور قسم ہے اس پروردگار کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مومن کی مثال توشہد کی مکھی کی سی ہے جو کھاتی بھی عمدہ شی ہے اور دیتی بھی عمدہ شی ہے اگر کسی چیز پر بیٹھ جائے تو اس کو توڑتی ہے نہ خراب کرتی ہے۔ شعب الایمان بروایت ابن عمر (رض)۔

795

795 – "مثل المؤمن القوي كمثل النخلة ومثل المؤمن الضعيف كمثل خامة الزرع ". (الرامهرمزي والديلمي عن أبي هريرة) . وفيه أبو رافع الصائغ.
795 ۔۔۔ طاقت ور مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے اور کمزور مومن کی مثال کھیتی کے نوخیز پودے کی سی ہے۔
اس میں ایک راوی ابورافع الصنائغ ہیں۔

796

796 – "مثل المؤمن مثل السنبلة تميل أحيانا وتقوم أحيانا ومثل الكافر كمثل أرز يخر ولا يشعر به". (طب عن عمار) .
٧٩٦۔۔ مومن کی مثال اس شاخ کی ہے جو کبھی تند ہوا سے جھک جاتا ہے تو کبھی سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے اور کفر کی مثال صنوبر کے تناؤ درخت کی ہے جو کبھی آخر کاریوں گرپڑتا ہے کہ احساس بھی نہیں ہوپاتا۔ الکبیر للطبرانی (رح) علیہ، بروایت عمار۔

797

797 – "مثل هذه الشجر مثل المؤمن إذا اقشعر من خشية الله عز وجل وقعت عنه ذنوبه وبقيت له حسناته". (هب عن العباس) "مثل المؤمن كمثل ريشة بفلاة تقلبها الرياح مرة وتفيئها أخرى". (البزار عن أنس) .
٧٩٧۔۔ یہ درخت مومن کی مثال ہے جب وہ خشیت خداوندی سے لرز جاتا ہے تو اس کے گناہ محو ہوجاتے ہیں اور نیکیاں یوں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔ الصحیح لابن حبان بروایت العباس ۔ مومن کی مثال جنگل میں پڑے ہوئے اس پر کی ہے جس کو ہوائیں کبھی کہیں اڑاتی ہیں تو کبھی کہیں۔ مسند البزار بروایت انس۔

798

798 – "مثل المؤمن كمثل الخامة من الزرع تفيئها الرياح تعدلها مرة وتقيمها أخرى حتى يأتيه أجله ومثل الكافر كمثل الأرزة المحدبة على أصلها لا تقيمها حتى يكون انجعافها مرة واحدة". (الرامهرمزي في الأمثال عن كعب بن مالك) .
٧٩٨۔۔ مومن کی مثال کھیتی کے اس نوخیز پودے کی ہے جس کو ہوائیں کبھی آکر سیدھا کرتی ہیں تو دوبارہ جھکا دیتی ہیں ۔۔ حتی کہ اس کی مدت پورا ہونے کا وقت آپہنچتا ہے۔ اور کافر کی مثال صنوبر کے اس توانا اور اپنی جڑ پر سیدھے کھڑے ہوئے درخت کی ہے جس کو کوئی چیز بل نہیں دے سکتی حتی کہ ایک ہی مرتبہ وہ ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ الرامھزی فی الامثال ، بروایت کعب بن مالک۔

799

799 – "أتدرون من المؤمن المؤمن من لا يموت حتى يملأ مسامعه مما يحب، هل تدرون من الفاجر الذي لا يموت حتى يملأ الله مسامعه مما يكره ولو أن عبد الله اتقى الله جوف بيته إلى سبعين على كل بيت باب من حديد ألبسه الله رداء عمله حتى يتحدث الناس بها ويزيدون". (ك في تاريخه عن أنس) .
٧٩٩۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے ؟ مومن وہ شخص ہے جس کی موت اس وقت تک نہ آئے جب تک کہ اس کے کان جی بھر کر اپنی مطلوب و محبوب شے نہ سن لیں ۔ اورفاسق وہ شخص ہے جس کی موت اس وقت تک نہ آئے جب تک کہ اس کے کان اپنی ناپسندمکروہ شے اچھی طرح نہ سن لیں۔ اور اگر اللہ کا کوئی بندہ ستر کمروں کے اندر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرے اور ہر کمرہ پر لوہے کا دروازہ ہوتب بھی اللہ تعالیٰ اس کو اس کے عمل کے عظمت کی چادر ضرور زیب تن فرمائیں گے حتی کہ وہ لوگوں سے بیان کرکے اژدھام نہ کروائے۔ المستدرک للحاکم فی تاریخہ بروایت انس۔

800

800 – "ما من أمتي عبد يعمل حسنة فيعلم أنها حسنة وأن الله عز وجل يجازيه بها خيرا ولا يعمل سيئة فيعلم أنها سيئة ويستغفر الله عز وجل منها ويعلم أنه لا يغفر الذنوب إلا هو إلا هو مؤمن". (حم طس عن أبي رزين العقيلي) قال قلت يا رسول الله كيف لي بأن أعلم أني مؤمن قال فذكره.
٨٠٠۔۔ میری امت کا کوئی بندہ نیکی انجام نہیں دیتا اور اس کے نیکی ہونے کو نہیں جانتا ، مگر اللہ تعالیٰ اس کو ضرور اچھے اجر سے نوازتے ہیں اور کسی بندہ سے کوئی لغزش صادر نہیں ہوتی، اور اس کو اس کے برائی ہونے کا یقین ہوتا ہے اور وہ اللہ سے استغفار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی مغفرت نہیں کرسکتا توایسابندہ یقیناً مومن ہے۔ مسنداحمد، الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابی رزین العقیلی۔
پس منظر صحابی راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا، کہ کیسے مجھے علم ہو کہ میں مومن ہوں ؟ تو آپ نے یہ جواب مرحمت فرمایا ۔

801

801 – "من أشفق من سيئة ورجا حسنة فهو مؤمن". (ابن النجار عن ابن عمر) .
٨٠١۔۔ جو معصیت سے ڈرتا ہے اور نیکی کی امید رکھتا ہے وہ مومن ہے۔ ابن نجار، بروایت ابن عمر (رض)۔

802

802 – "من أشفق من سيئة ورجا حسنة فهو أمارة المؤمن ". (خ في التاريخ عن عمر) .
٨٠٢۔۔ جو معصیت سے ڈرتا ہو اور نیکی امید رکھتا ہے پس یہ اس کے مومن ہونے کی علامت ہے۔ صحیح بخاری فی التاریخ بروایت عمر (رض)۔

803

803 – "من ساءته سيئة فهو مؤمن". (طب ك عن علي) .
٨٠٣۔۔ جس شخص کو اس کا گناہ نادم اور پریشان کردے وہ مومن ہے۔ الطبرانی فی الکبیر المستدرک للحاکم بروایت علی۔

804

804 – "من ساءته سيئة وسرته حسنة فهو مؤمن". (طب ك عن أبي أمامة) (تمام عن أبي أمامة وعمرو) ، (ع وأبوسعيد السمان في مشيخته عن عمر) وصحح.
٨٠٤۔۔ جس شخص کو اپنا گناہ برا محسوس اور نیکی سے دل خوش ہو تو وہ مومن ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، عن ابی امامہ تمام بروایت ابی امامہ وعمر المسند ابی یعلی ابوسعید السمان فی مشیختہ بروایت عمر۔ یہ حدیث صحیح ہے۔

805

805 – "من ساءته سيئة وسرته حسنة فهي أمارة المؤمن". (خ في التاريخ عن عمر) .
٨٠٥۔۔ جس شخص کو اپنا گناہ برا محسوس ہو اور نیکی سے دل خوش ہو تو یہ اس کے مومن ہونے کی علامت ہے۔ البخاری فی التاریخ بروایت عمر (رض)۔

806

806 – "من عمل سيئة فكرهها حين عمل بها وعمل حسنة فسر بها فهو مؤمن". (حم ك طب عن أبي موسى) .
٨٠٦۔۔ جس سے کوئی برائی سرزد ہوئی اور سرزد ہونے کے وقت اس کا دل اس کو ملامت کررہا تھا یا کوئی نیک کی اس پر اس کا دل خوش ہوا تو وہ مومن ہے۔ مسنداحمد، المستدرک للحاکم، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی موسیٰ۔

807

807 – "المؤمن أشعث أغبر مغبر ذو طمرين لو أقسم على الله لأبره". (ابن أبي عاصم ص عن أنس) .
٨٠٧۔۔ مومن پراگندہ بال، گرد، آلود، اجڑی ہوئی حالت، دوپرانے کپڑے جسم پر ڈالے ہوئے اگر اللہ پر کوئی قسم کھابیٹھے تو اللہ اس کو قسم سے بری فرمادیں گے۔ ابن ابی عاصم، السنن لسعید، بروایت انس۔

808

808 – "المؤمن عبد بين مخافتين من ذنب قد مضى لا يدري ما يصنع الله فيه ومن عمر قد بقي لا يدري ماذا يصيب فيه من الهلكات". (ابن المبارك) بلاغا.
٨٠٨۔۔ مومن پر دوقسم کے خوف مسلط رہتے ہیں ، سابقہ گناہ معلوم نہیں اللہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ اور بقیہ لمحات زندگی معلوم نہیں اس میں کن کن ہلاکت خیز گناہوں سے واسطہ پڑے گا۔ ابن مبارک بلاغا۔

809

809 – "المؤمن بين خمس شدائد مؤمن يحسده ومنافق يبغضه وكافر يقاتله ونفس تنازعه وشيطان يضله". (ابن لال عن أبان عن أنس) .
٨٠٩۔۔ مومن پانچ سخت حالات کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے مومن اس سے حسد رکھتا ہے منافق اس سے نفرت اور بغض رکھتا ہے کافر اس سے قتال کے درپے ہوتا ہے خود اس کا نفس اس سے نزاع کرتا رہتا ہے اور شیطان لعین اس کو گمراہ کرنے کے لیے گھات لگائے رہتا ہے۔ ابن لال عن ابان عن انس۔

810

810 – "المؤمن بيته قصب وطعامه كسر وثيابه خلق ورأسه شعث، وقلبه خاشع، ولا يعدل بالسلامة شيئا". (الديلمي عن أبان عن أنس)
٨١٠۔۔ مومن کا گھر سرکنڈوں کا ہوتا ہے۔ کھاناسوکھے ٹکڑے ہوتے ہیں کپڑے پھٹے پرانے اور بوسیدہ ہوتے ہیں پراگندہ بال سرہوتا ہے لیکن اس کا دل خشوع سے پر اور خدا سے لو لگائے ہوتا ہے اور کوئی چیز اس سے سلامتی کے بغیر صادر نہیں ہوتی۔ الدیلمی عن ابان عن انس۔

811

811 – "المؤمن على لسانه ملك ينطق والكافر على لسانه شيطان ينطق والمؤمن حبيب الله والله يصنع له". (الديلمي عن أبان عن أنس) .
٨١١۔۔ مومن کی زبان پر ایک فرشتہ خداوندی ہوتا ہے جو کلام کرتا ہے اور کافر کی زبان پر ایک شیطان ہوتا ہے جو ہرزہ سرائی کرتا ہے اور مومن اللہ کا حبیب ہے اللہ اس کے کام بناتا ہے۔ الدیلمی عن ابان عن انس۔

812

812 – "المؤمن كيس فطن حذر وقاف ثبت لا يعجل عالم ورع والمنافق همزة لمزة حطمة لا يقف عند شبهة ولا عند محرم كحاطب الليل لا يبالي من أين أكتسب ولا فيما أنفق" (الديلمي عن أبان عن أنس) .
٨١٢۔۔ مومن عقل مند، ذہین، محتاط، شبہات سے اجتناب کرنے والا، ثابت قدم متین ، وباوقار، عالم اور پرہیزگار ہوتا ہے اور منافق نکتہ چیں ، عیب گو، بےرحم، کسی شبہ سے اجتناب کرنے والانہ حرام سے احتراز کرنے والارات کو لکڑیاں چننے والے کی مانند جس کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ کہاں سے کمایا ؟ کہاں خرچ کیا، الدیلمی عن ابان عن انس۔

813

813 – "المؤمن كالغريب في الدنيا لا يأنس في عزها ولا يجزع من ذلها للناس حال مقبلون عليه وله حال، الناس منه في راحة وجسده منه في عناء". (أبو نعيم عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده) .
٨١٣۔۔ مومن دنیا میں اجنبی مسافر کی طرح ہے جو دنیا کے معززین سے انس حاصل کرتا ہے نہ اس کے شرپسند لوگوں کی شکایت کرتا ہے عوام الناس اس کے پاس امڈ آتے ہیں لیکن وہ اپنے حال میں مستغفر ق رہتا ہے انسانیت اس سے امن میں ہوتی ہے لیکن خود اس کا جسم اس کی طرف سے مشقت میں پڑا ہوتا ہے۔ ابونعیم بروایت بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ ۔

814

814 – "المؤمن قيده القرآن عن كثير من هوى نفسه". (طس عن معاذ) .
٨١٤۔۔ مومن کو قرآن نے اس کی اکثر خواہشات سے باز رکھا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت معاذ۔

815

815 – "خيار أمتي فيما أنبأني الملأ الأعلى قوم يضحكون جهرا في سعة رحمة ربهم ويبكون سرا من خوف عذاب ربهم يذكرون ربهم بالغداة والعشي في البيوت الطيبة المساجد ويدعونه بألسنتهم رغبا ورهبا ويسألونه بأيديهم خفضا ورفعا ويقبلون بقلوبهم عودا وبدأ فمؤنتهم على الناس خفيفة وعلى أنفسهم ثقيلة يدبون في الأرض حفاة على أقدامهم كدبيب النمل بلا مدح ولا بذح يمشون بالسكينة ويتقربون بالوسيلة يقرؤون القرآن ويقربون القربان ويلبسون الخلقان عليهم من الله شهود حاضرة وعين حافظة يتوسمون العباد ويتفكرون في البلاد أرواحهم في الدنيا وقلوبهم في الآخرة ليس لهم هم إلا إمامهم أعدوا الجهاز لقبورهم والجواز لسبيلهم والاستعداد لمقامهم ثم تلا: {ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ} ". (حل ك وتعقب هب وضعفه ابن النجار عن عياض بن سليمان) وكانت له صحبة قال الذهبي هذا حديث عجيب منكر وعياض لا يدري من هو ابن النجار ذكره أبو موسى المديني في الصحابة.
٨١٥۔۔ میری امت کے بہترین لوگ جن کی مجھے ملااعلی نے خبردی وہ لوگ ہیں جو ظاہراتو اپنے رب کی رحمت کی وجہ سے ہنستے ہیں لیکن درون دل اپنے رب کے عذاب کی وجہ سے گریہ وزاری کرتے ہیں خدا کے پاکیزہ گھروں یعنی مساجد میں صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں اپنی زبانوں سے اللہ کو امید وہم کی حالت میں پکارتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں کو پست وبلند کرتے ہوئے اس سے بھیک مانگتے ہیں دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس کو بار بار یاد کرتے ہیں، آہ ، لوگوں پر ان کا بوجھ انتہائی خفیف ہے لیکن اپنی ذات کو انھوں نے گراں بار کررکھا ہے چیونٹی کی مانند اللہ کی دھرتی پر عاجزی کے ساتھ قد چلتے ہیں نہ مدح سرائی سے ان کو کوئی سروکار بمطابق منتخب، نہ اتراہٹ و برائی جتاتے ہیں وقار وسکینت کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں خدا سے فریاد کے وقت وسیلہ کا سہارا لیتے ہیں تلاوت قرآن ان کا مشغلہ ہے راہ خدا میں قربانیوں سے تقرب حاصل کرتے ہیں موٹا چھوٹا جو میسر ہوخوشی سے زیب تن کرلیتے ہیں، آہ ! ایسے لوگوں کے ہی جلو میں خدا کے نگہبان فرشتے حاضر رہتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی عطا کردہ فراست سے بندگان خدا کے چہروں کو پڑھ لیتے ہیں دنیا میں عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے جسم دنیا میں توقلوب آخرت میں مستغرق ہوتے ہیں انھیں کوئی فکر نہیں ۃوتی سوائے آگے کے۔ انھوں نے اپنی قبروں کو توشہ تیار کرلیا ہے اپنے راستے کا اجازت نامہ ساتھ لے لیا ہے مقام محشر میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی تیاری کرلی ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ذالک لمن خاف مقامی وخاف وعید۔ یہ اس لیے کہ جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر اور میرے عذاب سے ڈرا۔ الحلیہ۔ المستدرک للحاکم۔ لیکن اس پر علامہ بیہقی نے شعب الایمان میں کلام فرمایا ہے۔ اور ابن انجار نے عیاض بن سلیمان کے طریق سے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ ذھمی نے فرمایا یہ حدیث عجیب اور منکر ہے عیاض کے متعلق نہیں معلوم کہ وہ کون تھا ؟۔

816

816 – "يا معاذ المؤمن لدى الحق أسير يعلم أن عليه رقيبا على سمعه وبصره ولسانه ويده ورجله وبطنه وفرجه إن المؤمن قيده القرآن عن كثير من هوى نفسه وشهواته وحال بينه وبين أن يهلك فيما يهوى بإذن الله يا معاذ، إن المؤمن لا يأمن قلبه ولا تسكن روعته ولا يأمن اضطرابه حتى يخلف الجسر وراء ظهره إنه يتوقع الموت صباحا ومساء فالتقوى رقيبه والقرآن دليله والخوف محجته والشوق مطيئته، والحذر قرينه، والوجل شعاره، والصلاة كنفه (2) والصوم جنته، والصدقة فكاكه، والصدق أميره، والحياء وزيره، وربه من وراء ذلك كله بالمرصاد، يا معاذ إن المؤمن يسأل يوم القيامة عن جميع سعيه حتى عن كحل عينه يا معاذ إني أحب لك ما أحب لنفسي وأنهيت إليك ما أنهى إلي جبريل فلا ألفينك تأتي يوم القيامة وأحد أسعد بما أتاك الله منك". (حل عن معاذ) .
٨١٦۔۔ اے معاذ ! مومن حق کے ہاتھوں اسیر ہوتا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کے کان ، نگاہ ، زبان، ہاتھ ، پاؤں ، شکم اور شرم گاہ پر بھی ایک نگہبان ہے بیشک مومن کو قرآن نے اکثر خواہشات سے روک رکھا ہے اور اللہ کے حکم سے از خود اپنے اور اپنی مہلک خواہشات کے درمیان آچکا ہے یقیناً مومن کا دل اللہ کے عذاب کی طرف سے مطمئن نہیں ہوتا، نہ اس کا ہیجان سکون پاتا ہے نہ اس کی اضطرابی کیفیت کو تسکین ملتی ہے وہ اسی حالت میں حیران و پریشان رہتا ہے۔۔۔ حتی کہ وہ پل صراط سے پار ہوجائے۔ اس کو صبح وشام موت کا کھٹکا لگارہتا ہے پس تقوی اس کا ہم سفر ساتھی ہے قرآن اس کا رہنما ہے خوف اس کا تازیانہ ہے شوق اس کی سواری ہے تدبیر و احتیاط اس کا ساتھی ہے اللہ سے ڈرنا اس کا شعار ہے نماز اس کی پناہ گاہ ہے روزہ اس کی ڈھال ہے صدقہ اس کی جان کا نذرانہ ہے سچائی اور راست بازی اس کی امیر و فرمانروا ہے حیاء اس کا وزیر ہے اور ان تمام باتوں کے پس پردہ اس کا پروردگار گھات لگائے ہوئے ہے۔
اے معاذ ! قیامت کے روز مومن سے اس کی تمام کاوشوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حتی کہ اس کے آنکھ میں سرمہ لگانے کے متعلق بھی استفسار کیا جائے گا اے معاذ میں تیرے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں اور تجھے بھی ان چیزوں سے باز رکھنا چاہتاہوں جن سے جبرائیل نے مجھے باز رکھا۔ پس میں تم کو قیامت کے روز ایسی صورت حال میں نہ پاؤں کہ جس کام کی تمہیں خدا کی طرف سے توفیق ملی ہے اس میں تم سے زیادہ کوئی سعادت مند ہو۔ الحلیہ، بروایت معاذ۔

817

817 – "لقد شرفك الله وعظمك والمؤمن أعظم حرمة منك يعني الكعبة". (طس عن ابن عمرو) .
٨١٧۔۔ اے خدا کے گھر ! یقیناً اللہ نے بہت باشرف اور باعظمت بنایا ہے لیکن مومن تجھ سے حرمت میں بڑھا ہوا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

818

818 – "مرحبا بك من بيت ما أعظمك وأعظم حرمتك وإن المؤمن أعظم حرمة منك". (هب د عن ابن عباس) .
٨١٨۔۔ مرحبا اے خانہ خدا کس قدر تیری عظمت ہے اور کس قدر تیری حرمت ہے لیکن مومن تجھ سے حرمت میں بڑھا ہوا ہے۔ شعب الایمان ، ابوداؤد، بروایت ابن عباس۔

819

819 – " لا إله إلا الله ما أطيبك وأطيب ريحك وأعظم حرمتك والمؤمن أعظم حرمة منك الله جعلك حراما وحرم من المؤمن ماله ودمه وعرضه وأن يظن به ظنا سيئا". (طب عن ابن عباس) .
٨١٩۔۔ اے کلمہ لاالہ الا اللہ توکتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی عمدہ ہے لیکن مومن تجھ سے حرمت میں بھی بڑھا ہوا ہے اللہ نے تجھے محترم بنایا اور مومن کے بھی مال اور جان اور آبرو کو محترم قرار دیا ہے نیز یہ کہ اس کے ساتھ کوئی بدگمانی رکھی جائے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس رضی الل ہعنہ۔

820

820 – "يا كعبة ما أطيب ريحك ويا حجر ما أعظم حقك والله للمسلم أعظم حقا منكما". (عق عن أبي هريرة) .
٨٢٠۔۔ اے کعبہ ! تیری خوشبو کتنی عمدہ ہے ؟ اور اے حجراسود تیرا کتناعظیم حق ہے لکن اللہ کی قسم تم دونوں سے مومن کا حق زیادہ ہے۔ الضعفاء للعقیلی ، بروایت ابوہریرہ (رض) نعہ۔

821

821 – "المؤمن أكرم على الله من ملائكته المقربين". (ابن النجار عن حكامة حدثنا أبي عن أخيه مالك بن دينار عن أنس) .
٨٢١۔۔ مومن اللہ کے نزدیک مقرب ملائکہ سے زیادہ باعزت ہے۔ ابن النجار ، بروایت حکامہ حدثنا عن اخیہ، مالک بن دینار عن انس۔

822

822 – "المؤمن ملحم" (2) (الديلمي عن أنس) .
٨٢٢۔۔ مومن شبہات کے مواقع پر ٹھہرجاتا ہے۔ الدیلمی بروایت انس۔

823

823 – "المؤمن ينظر بنور الله الذي خلق منه". (الديلمي عن ابن عباس) .
٨٢٣۔۔ مومن اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ الدیلمی بروایت انس (رض)۔

824

824 – "المؤمنون في الدنيا على ثلاثة أجزاء الذين آمنوا بالله ورسوله ثم لم يرتابوا وجاهدوا بأموالهم وأنفسهم في سبيل الله، والذي يأمنه الناس على أموالهم وأنفسهم، ثم الذي أشرف له طمع تركه لله عز وجل". (حم والحكيم عن أبي سعيد) وحسن.
٨٢٤۔۔ مومنین دنیا میں تین قسموں کے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر کسی شک وشبہ میں مبتلانہ ہوئے اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیا، اور وہ لوگ جن سے انسان اپنے اموال وجان کے بارے میں مطمئن ہوں پھر وہ شخص جس کے سامنے کوئی لالچ ظاہر ہو، مگر وہ اللہ کی رضا کے خاطر اس کو ترک کردے۔ مسنداحمد، الحکیم، بروایت ابی سعید۔ حدیث حسن ہے۔

825

825 – "للمؤمن في كل يوم دعوة مستجابة". (تمام في جزء من حديثه عن أبي سعيد) .
٨٢٥۔۔ مومن کی ہر روز ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ تمام فی جزء من حدیثہ بروایت ابی سعید۔

826

826 – "ليس شيء أطيب من ريح المؤمن وإن ريحه ليوجد في الآفاق وريحه عمله والثناء عليه". (أبونعيم عن أنس) .
٨٢٦۔۔ مومن کی خوشبو سے بہتر کوئی خوشبو نہیں ہے اور اس کی خوشبو سارے آفاق میں مہکتی ہے اور اس کی خوشبو کا عمل اور اس پر شکر ہے۔ ابونعیم بروایت انس۔

827

827 – " مثل المؤمن كمثل البيت الخرب في الظاهر إذا دخلته وجدته مزينا ومثل الفاجر كمثل القبر المشرف المفضض يعجب من رآه وجوفه ممتلئ نتنا". (أبو نعيم عن أبي هريرة) .
٨٢٧۔۔ مومن کی مثال ظاہر اجڑے ہوئے گھر کی ہے لیکن اگر تم اس میں داخل ہوجاؤ توسنوراہ پاؤ، اورفاسق کی مثال رنگین اور اونچے مقبرے کی طرح ہے دیکھنے والے کو دل کش لگے مگر اس کا باطن بدبو سے پر ہے۔ ابونعیم بروایت ابوہریرہ (رض)۔

828

828 – "لا يكون المؤمن مؤمنا ولا يستكمل الإيمان حتى يكون فيه ثلاث خصال اقتباس العلم والصبر على المصائب وترفق في المعاش وثلاث تكون في المنافق إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان". (أبونعيم عن علي) .
٨٢٨۔۔ مومن مومن ہوسکتا نہ اس کا ایمان کامل ہوسکتا ہے جب تک کہ اس میں تین خصلتیں پیدانہ ہوجائیں تحصیل علم ، مصائب پر صبر، نرمی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا۔ اور تین باتیں منافق ہی میں پائیں جاسکتی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وفا نہ کرے جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو۔ ابونعیم بروایت علی (رض)۔

829

829 – " ليس بمؤمن مستكمل الإيمان من لم يعد البلاء نعمة والرخاء مصيبة قالوا كيف يا رسول الله قال لأن البلاء لا يتبعه إلا الرخاء وكذلك الرخاء لا يتبعه إلا البلاء والمصيبة، وليس بمؤمن مستكمل الإيمان من لم يكن في غم ما لم يكن في الصلاة قالوا ولم يا رسول الله قال لأن المصلي يناجي ربه وإذا كان في غير صلاة إنما يناجي ابن آدم". (طب عن ابن عباس) .
٨٢٩۔۔ وہ شخص کامل ایمان والامومن نہیں ہے جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی و آسانی کو مصیبت نہ سمجھے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے تو فرمایا کہ ہر مصیبت کے بعد نرمی وفراخی اور ہرنرمی وفراخی کے بعد بلا و مصیبت تو آتی ہی ہے فرمایا کوئی مومن کامل الایمان نہیں ہوتا سوائے نماز کی حالت کے۔ کیونکہ اس وقت وہ مکمل سنجیدگی وغم میں مبتلا ہوتا ہے۔ عرض کیا وہ کیسے کیونکر ؟ تو فرمایا اس لیے کہ بندہ نماز میں اللہ سے مناجات کرتا ہے اور غیر نماز میں ابن آدم سے گفتگو کرتا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، ابن عباس (رض)۔

830

830 – "لا يلدغ المؤمن من جحر واحد مرتين". (حم خ م د هـ عن أبي هريرة) (عق عن جابر) (ط هـ حم طب) (والحكيم عن ابن عمر) (طب عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده)
٨٣٠۔۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاسکتا۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ (رض) الضعفاء للعقیلی ، (رح) ، بروایت جابر ، ابوداؤد الطیالسی، ابن ماجہ، مسنداحمد، الکبیر للطبرانی (رح) الحکیم، بروایت انس (رض)، الکبیر للطبرانی (رح) بروایت کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ۔

831

831 – "لا يلسع المؤمن من جحر مرتين". (العسكري في الأمثال كر، حل عن أبي هريرة) .
٨٣١۔۔ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاسکتا۔ العکسری فی الامثال، ابن عساکر، الحلیہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔
اس سے ماقبل حدیث میں ڈسے جانے کا ذکر تھا، ظاہراً کوئی رفرق نہیں محسوس ہوتا، مگر ماقبل حدیث میں ڈنگ کے لیے لفظ ، لدغ ، استعمال ہوا ہے جو منہ سے ڈسنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس حدیث میں ، السع، کا لفظ استعمال ہوا ہے جو ڈنک سے ڈسنے کے لیے استعمال ہوتا ہے نیز لدغ سانپ کے لیے اور لسع بچھو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

832

832 – "المؤمن يطبع على كل خلق إلا الكذب والخيانة". (هب عن عبد الله بن أبي أوفى) .
٨٣٢۔۔ مومن ہر بات کا عادی ہوسکتا ہے مگر جھوٹ اور خیانت کا عادی نہیں ہوسکتا۔ شعب الایمان ، بروایت عبداللہ بن ابی اوفی۔

833

833 – "يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الكذب والخيانة ". (حم عن أبي أمامة) .
٨٣٣۔۔ مومن تمام خصلتوں کا عادی ہوسکتا ہے سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ مسنداحمد، بروایت ابی امامہ۔

834

834 – "يطبع المؤمن على كل شيء إلا الخيانة والكذب". (قط في الأفراد عد ق وابن النجار عن سعد) .
٨٣٤۔۔ مومن کی طبیعت ہر کام پر مصر ہوسکتی ہے مگر جھوٹ اور خیانت ۔ الدارقطنی فی الافراد ابوداؤد السنن للبیقی ، ابن النجار، بروایت سعد۔

835

835 – "يطبع المؤمن على كل خلة غير الخيانة والكذب". (بز عن سعد) *وحسن*.
٨٣٥۔۔ مومن ہر خصلت کا عادی ہوسکتا ہے سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ مسندالبزار، بروایت سعد۔ حدیث حسن ہے۔

836

836 – "يطبع المؤمن على كل خلة ليس الخيانة والكذب". (طب عن ابن عمر) .
٨٣٦۔۔ مومن ہر خصلت کا عادی ہوسکتا ہے۔ سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

837

837 – "يا أبا أمامة إن من المؤمنين من يلين له قلبي". (حم طب وتمام عن أبي أمامة) .
٨٣٧۔۔ اے ابوامامہ۔ بعض مومنین کے لیے میرا دل نرم پڑجاتا ہے۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی ، تمام بروایت ابی امامہ۔

838

838 – "أبى الله أن يرزق عبده المؤمن إلا من حيث لا يعلم". (الديلمي عن أبي هريرة) .
٨٣٨۔۔ اللہ نے تہیہ کرلیا ہے کہ مومن کو ضرور ایسی جگہ سے رزق نوازیں گے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ الفردوس للدیلمی ، (رح) بروایت ابوہریرہ (رض)۔

839

839 – "موت المؤمنين بعرق الجبين". (البزار عن ابن مسعود) .
٨٣٩۔۔ مومنوں کی موت ان کی پیشانی پر رکھی رہتی ہے۔ البزار بروایت ابن مسعود۔ یعنی وہ موت کے لیے ہرگھڑی توشتہ تیار رکھتے ہیں۔

840

840 – " نفس المؤمن تخرج رشحا ولا أحب موتا كموت الحمار موت الفجأة وروح الكافر تخرج من أشداقه". (طس عن ابن مسعود) .
٨٤٠۔۔ مومن کی روح دھیرے دھیرے سے نکلتی ہے اور میں گدھے کی موت کی مانند مرنے کو پسند نہیں کرتا جو اچانک موت ہوتی ہے اور کافر کی روح اس کی باچھوں سے نکلتی ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابن مسعود۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح بھی سہج سہج نکلی تھی اسی وجہ سے ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور کی جان کنی کے عالم کو دیکھنے کے بعد اگر میں کسی کے متعلق سنتی ہوں کہ اس کی موت ، بھدو، آگئی تو مجھے اس سے کوئی خوشی نہیں ہوتی، اس صورت حال میں انسان کوئی وصیت وغیرہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

841

841 – "لا يشبع مؤمن من خير يسمعه حتى يكون منتهاه الجنة". (حب ك هب ص عن أبي سعيد) .
٨٤١۔۔ مومن خیر کی بات سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔۔۔ حتی کہ اس کا آخری ٹھکانا جنت ہوجائے۔ الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، شعب الایمان ، السنن لسعید عن ابیہ۔

842

842 – "آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان". (ق ن ت عن أبي هريرة) .
٨٤٢۔۔ منافق کی تین علامات ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وفانہ کرے جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو۔ بخاری و مسلم ، النسائی، ترمذی، بروایت ابوہریرہ۔

843

843 – "آيات المنافق إذا حدث كذب وإذا ائتمن خان وإذا وعد أخلف". (طس عن أبي بكر) .
٨٤٣۔۔۔ منافق کی علامت یہ ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو اور وعدہ کرے تو وفانہ کرے ۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابی بکر۔

844

844 – "آية بيننا وبين المنافقين شهود العشاء والصبح لا يستطيعونهما". (ص عن سعيد بن المسيب مرسلا) .
٨٤٤۔۔ ہمارے اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرنے والی علامت ، عشائ، اور صبح کی نماز میں حاضر ہونا ہے اور وہ ان دونوں نمازوں میں حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔ السنن لسعید، بروایت سعید بن المسیب مرسلا۔

845

845 – " إحذروا صفر الوجوه فإنه إن لم يكن من علة أو سهر فإنه من غل في قلوبهم للمسلمين". (فر عن ابن عباس) .
٨٤٥۔۔ زرد رنگ کے چہرے والوں سے اجتناب کرو کیونکہ اگر یہ کسی بیماری یابیداری کی وجہ سے نہیں ہے توضروریہ ان کے دلوں میں مسلمانوں سے حسد کی وجہ سے ہے۔ الفردوس دیلمی ، بروایت ابن عباس۔

846

846 – "إذا رأيتم الرجل أصفر الوجه من غير مرض ولا علة فذلك من غش الإسلام في قلبه". (ابن السني وأبو نعيم في الطب عن أنس وهو مما بيض له الديلمي) .
٨٤٦۔۔ جب تم کسی شخص کا چہرہ زرد رنگ دیکھو جس کی کوئی بیماری نہ ہو تو یہ اس کے دل میں اسلام کی طرف سے کھوٹ کی وجہ سے ہے۔ ابن السنی ، ابونعیم فی الطب بروایت انس۔ لیکن دیلمی نے یہاں کچھ جگہ بیاض چھوڑی ہے۔

847

847 – "إذا تم فجور العبد ملك عينيه فبكى منهما متى شاء". (عد عن عقبة بن عامر) .
٨٤٧۔۔۔ جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا، اگر کوئی ایک خصلت ہوگی تونفاق کی ایک خصلت ہوگی حتی کہ اس کو ترک کرے جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے وعدہ کرے تو وفانہ کرے معاہدہ کرے تودھو کہ دہی کرے اور لڑائی کے وقت گالی گلوچ اختیار کرے۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، بروایت ابن عمر (رض)۔

848

848 – "أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كان فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر". (حم ق 3 عن ابن عمر) .
848 ۔۔ جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اگر کوئی خصلت ایک ہوگی تونفاق کی ایک خصلت ہوگی، حتی کہ اس کو ترک کرے، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو وفا نہ کرے معاہدہ کرے تو دھوکا دہی کرے اور لڑائی کے وقت گالی گلوچ اختیار کرے۔ مسنداحمد، بخاری و مسلم بروایت ابن عمر (رض)۔

849

849 – "أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها، إذا ائتمن خان، وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر". (ق عن ابن عمر) .
849 ۔۔ جس شخص میں یہ چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اگر کوئی ایک خصلت ہوگی تو نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتی کہ اس کو ترک کرے۔ جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے گی تو اس میں خیانت کا مرتکب ہوگا جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے معاہدہ کرے تودھو کہ دہی کرے اور لڑائی کیو قت گالی گلوچ اختیار کرے۔ بخاری، مسلم، بروایت ابن عمر (رض)۔

850

850 – "بكاء المؤمن من قلبه وبكاء المنافق من هامته". (عق طب حل عن حذيفة) .
٨٥٠۔۔ مومن کا رونا اس کے دل سے ہوتا ہے اور منافق کا رونا دماغ کی عیاری سے ہوتا ہے۔ الضعفاء للعقیلی ، الکبیر للطبرانی ، الحلیہ بروایت حذیفہ ۔

851

851 – " في المنافق ثلاث خلال إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان". (البزار عن جابر) .
٨٥١۔۔۔ منافق میں تین خصلتیں ہوتی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وفانہ کرے ، جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو۔ مسندالبزار ، بروایت جابر۔

852

852 – "مثل المنافق كمثل الشاة العائرة بين الغنمين تعير إلى هذه مرة وإلى هذه مرة لا تدري أيهما تتبع". (حم م ن عن ابن عمر) .
٨٥٢۔۔ منافق اس بکری کی مانند ہے جو دوریوڑوں کے درمیان حیران و پریشان چکر لگاتی ہے اور معلوم نہیں ہوپاتا کہ وہ کس ریور کے ساتھ ہے ؟ مسنداحمد، النسائی، الصحیح للامام مسلم ، بروایت ابن عمر (رض)۔

853

853 – "من أرى الناس فوق ما عنده من الخشية فهو منافق". (ابن النجار عن أبي ذر رضي الله عنه) .
٨٥٣۔۔ جو شخص خشیت خداوندی کا درجہ لوگوں میں ظاہر کرے جو اس کو حاصل نہیں ہے تو وہ شخص منافق ہے۔ ابن النجار، بروایت ابی ذر (رض) ۔

854

854 – "المنافق يملك عينيه يبكي كما يشاء". (فر عن علي) .
٨٥٤۔۔ منافق اپنی آنکھوں خامالک ہے روئے جتناچا ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) بروایت علی۔

855

855 – "ثلاث من كن فيه فهو منافق وإن صام وصلى وحج واعتمر وقال إني مسلم من إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان". (رسته في الإيمان وأبوالشيخ في التوبيخ عن أنس) .
٨٥٥۔۔ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا خواہ روزے رکھے نماز ادا کرے حج وعمرہ کرے اور کہے کہ میں مسلم ہوں وہ خصلتیں یہ ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وفانہ کرے جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو۔ رسنہ فی الایمان ، ابوالشیخ فی التوبیخ بروایت انس۔ رستہ ۔ عبدالرحمن بن عمر ابی الحسن الزھری الاصبہانی کالقب ہے۔

856

856 – " إن في أصحابي اثني عشر منافقا منهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط". (حم م عن حذيفة) .
٨٥٦۔۔ میرے ساتھیوں میں بارہ اشخاص منافق ہیں جن میں سے آٹھ توقطعا جنت میں داخل نہیں ہوسکتے الایہ کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو۔ مسنداحمد، الصحیح لامام مسلم ، بروایت حذیفہ۔

857

857 – " إن في أمتي اثني عشر منافقا لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيهم الدبيلة سراج من النار يظهر في أكتافهم حتى ينجم من صدورهم". (م عن حذيفة) .
٨٥٧۔۔ میری امت کے بارہ افراد منافق ہیں وہ جنت میں داخل ہوں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے۔ حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہو۔ ان کے لیے یہی مصیبت کافی ہے ، کہ جہنم کا ایک چراغ ان کی پشت پر ظاہر ہوگا اور ان کے سینوں سے طلوع ہوگا۔ الصحیح لامام مسلم ، بروایت حذیفہ۔

858

858 – "أخر عني يا عمر إني خيرت بين أمرين فاخترت، قد قيل لي استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم لو أني أعلم لوزدت على السبعين غفر لهم لزدت". (ت ن عن عمر) .
٨٥٨۔۔ چھوڑو مجھے اے عمر ! مجھے دونوں چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا ہے مجھے کہا گیا ہے۔ استغفرلھم اولا تستغفرلھم ، ان تستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم۔ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں برابر ہے۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے تب بھی اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے سے ان کی بخشش ہوجائے گی تو میں زیادہ بھی کرلیتا۔ ترمذی، نسائی، بروایت عمر (رض)۔

859

859 – "ما أظن فلانا وفلانا يعلمان (2) من ديننا شيئا". (ت خ عن عائشة) .
٨٥٩۔۔ میں فلاں اور فلاں شخص کے متعلق خیال نہیں کرتا کہ انھیں ہمارے دین کے بارے میں کچھ علم ہوگا۔ ترمذی، بخاری، (رح) بروایت عائشہ۔

860

860 – "لا تقولوا للمنافق سيدنا فإنه إن يكن سيدكم فقد أسخطتم ربكم". (حم د ن عن بريدة) .
٨٦٠۔۔ منافق کو اپنا سردار مت کہو، اگر تم نے منافق کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تویقینا تم نے خدا کو ناراض کردیا۔ مسنداحمد، ابوداؤد، النسائی، بروایت بریدہ۔

861

861 – "إذا قال الرجل للمنافق يا سيدنا فقد أغضب ربه". (ك هب عن بريدة) .
٨٦١۔۔ جس شخص نے کسی منافق کو اے ہمارے سردار کے ساتھ مخاطب کیا بیشک اس نے اپنے رب کو غضب دلایا۔ المستدرک للحاکم، شعب الایمان بروایت بریدہ۔ منافق کو صرف سردار کہہ کر پکارناہی ممنوع نہیں بلکہ کسی طرح بھی اس کی تعظیم کرنا جائز نہیں۔

862

862 – "للمنافقين علامات يعرفون بها تحيتهم لعنة وطعامهم نهمة وغنيمتهم غلول لا يقربون المساجد إلا هجرا ولا يأتون الصلاة إلا دبرا مستكبرين لا يألفون ولا يؤلفون خشب بالليل سخب بالنهار". (حم وابن نصر وأبو الشيخ وابن مردويه هب عن أبي هريرة) .
٨٦٢۔۔ منافقین کی بعض علامت ہیں جن کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں ان کا سلام لعنت ہوتا ہے طعام لوٹ کا ہوتا ہے ان کی غنیمت مال غنیمت میں خیانت کرنا ہوتی ہے مساجد سے دورہی رہتے ہیں ، نمازوں میں شریک نہیں ہوتے مگر بالکل آخر میں، ناحق بڑائی کرتے ہیں محبت والفت خود رکھتے ہیں نہ ان سے کوئی رکھتا ہے۔ رات کو سخت اور کھردرے ہوجاتے ہیں ، دن کو شوروغوغا برپاکئے رکھتے ہیں۔ مسنداحمد، ابن نصر، ابوالشیخ، ابن مردویہ، شعب الایمان، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

863

863 – "ثلاث في المنافق إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان". (طس والخرائطي في مكارم الأخلاق عن جابر) .
٨٦٣۔۔ منافق میں تین خصلتیں ہوتی ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وفانہ کرے جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔ الاوسط للطبرانی (رح) فی مکارم الاخلاق بروایت جابر۔

864

864 – "ثلاث من كن فيه فهو منافق إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان، قال رجل يا رسول الله فإذا ذهب اثنتان وبقيت واحدة قال فإن عليه شعبة من نفاق ما بقي فيه منهن شيء". (ابن النجار عن أبي هريرة) .
٨٦٤۔۔ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی وہ منافق ہوگا جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے وفا نہ کرے جب اس کو کئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو، ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ اگر دوصفات تو اس سے ختم ہوجائیں مگر صرف ایک باقی رہ جائے کیا تب بھی وعید ہے ؟ آپ نے فرمایا اس میں نفاق کا ایک شعبہ باقی رہے گا جب تک ہ اس کی ایک صفت بھی باقی ہے۔ ابن النجار، بروایت ابوہریرہ ۔

865

865 – "ثلاث من كن فيه فهو منافق وإن صام وصلى وقال إني مؤمن إذا حدث كذب وإذا ائتمن خان وإذا وعد أخلف". (ابن النجار عن أنس) (الخرائطي في مكارم الأخلاق عن أبي هريرة) .
٨٦٥۔۔ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا خواہ روزے رکھے نماز ادا کرے حج وعمرہ کرے ، اور کہے کہ میں مسلم ہوں وہ خصلتیں یہ ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب اس کو کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو، جب وعدہ کرے تو وفانہ کرے۔ ابن النجار، بروایت انس الخرائطی فی مکارم الاخلاق بروایت ابوہریرہ۔

866

866 – "من أعلام المنافق إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمنته خانك". (طس عن أبي سعيد) .
٨٦٦۔۔ منافق کی علامت یہ ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔ اور جب تو اس کے پاس امانت رکھوائے تو اس میں خیانت کا مرتکب ہو۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابی سعید۔

867

867 – " من خلال المنافق إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان فقيل يا رسول الله كيف قال المنافق إذا حدث وهو يحدث نفسه إنه يكذب وإذا وعد وهو يحدث نفسه أنه يخلف وإذا ائتمن وهو يحدث نفسه أنه يخون". (طب عن سلمان) .
867 ۔۔۔ منافق کی خصلتیں یہ ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے ۔ اور جب تو اس کے پاس امانت رکھوائے تو اس میں خیانت کرے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ کس طرح ؟ فرمایا جب وہ گفتگو شروع کرتا ہے تو اپنے دل میں خیال بٹھالیتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لے گا۔ جب وعدہ کرتا ہے تو اسی وقت یہ تہیہ کرلیتا ہے اس کو وفانہ کرے گا، جب امانت اس کو سونپی جاتی ہے توت بھی سے دل میں خیانت کرنے کا عزم کرلیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت سلمان۔

868

868 – "بيننا وبين المنافقين شهود العشاء والصبح لا يستطيعونهما". (الشافعي ق عن عبد الرحمن بن حرملة مرسلا) .
٨٦٨۔۔ ہمارے اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرنے والی علامت ، عشاء اور صبح کی نماز میں حاضر ہونا ہے وہ ان نمازوں میں حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ الشافعی، السنن للبیہقی ، بروایت عبدالرحمن بن حرملہ، قتادہ مرسلا۔

869

869 – "مثل المؤمن والمنافق والكافر كمثل رهط ثلاثة وقعوا إلى نهر فوقع المؤمن فقطع ثم وقع المنافق حتى إذا كاد أن يصل إلى المؤمن ناداه الكافر أن هلم إلي فإني أخشى عليك وناداه المؤمن أن هلم إلي فإن عندي وعندي يحظى له ماعنده فما زال المنافق يتردد بينهما حتى أتى عليه أذى فغرقه وإن المنافق لم يزل في شك وشبهة حتى أتى عليه الموت وهو كذلك". (ابن جرير عن قتادة مرسلا) .
٨٦٩۔۔ مومن، منافق ، اور کفر کی مثال، تین نفوس پر مشتمل ایک جماعت کی سی ہے ، جو چلتے چلتے ایک نہر تک پہنچے ، پہلے مومن نہر میں اترا اور عبور کرگیا پھر منافق نہر میں اترا، حتی کہ جب وہ مومن کے قریب پہنچنے لگا تو کافر نے آواز دی وہ میرے پاس آجا ورنہ مجھے تیری ہلاکت کا اندیشہ ہے مومن نے بھی اس کو آواز دی کہ میرے پاس یہ دوچیزیں ہیں تجھے دوں گا ادھرآجا، اب منافق حیران و پریشان دونوں کو دیکھ رہا ہے مگر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا وہ اسی پریشانی میں تھا کہ ایک موج نے آکر اس کو غرق کردیا۔ تویوں منافق شک وشبہ میں رہاحتی کہ اس کو موت نے آدبوچا، یہی مثال منافق کی ہے۔ ابن جریر، بروایت قتادہ مرسلا۔

870

870 – "يا أيها الناس إني تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا: كتاب الله، وعترتي أهل بيتي". (ن عن جابر) .
٨٧٠۔۔ اے لوگو میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھام لیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے کتاب اللہ اور میرا خاندان یعنی اہل بیت۔ النسائی، بروایت جابر۔

871

871 – "أيها الناس قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا كتاب الله وعترتي أهل بيتي". (ت عن جابر) .
٨٧١۔۔ اے لوگو میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھام لیا تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے کتاب اللہ اور میرا خاندان یعنی اہل بیت ، النسائی ، بروایت جابر۔

872

872 – "إني تارك فيكم خليفتين، كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض". (حم طب عن زيد بن ثابت) .
٨٧٢۔۔ میں تمہارے درمیان دوخلیفہ چھوڑے جارہاہوں کتاب اللہ یہ اللہ کی رسی ہے آسمان اور زمین کے درمیان تک پہنچی ہوئی ہے ، دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت اور کتاب اللہ میرا خاندان باہم کبھی جدانہ ہوگا۔ حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آجائیں۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی ، بروایت زید بن ثابت۔

873

873 – "إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي أحدهما أعظم من الآخر كتاب الله حبل ممدودمن السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما". (ت عن زيد بن أرقم) .
٨٧٣۔۔ میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھام لیا تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے وہ ہے کتاب اللہ یہ اللہ کی رسی آسمان اور زمین کے درمیان تک پہنچتی ہوئی ہے ، دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت اور کتاب اللہ میرا خاندان باہم کبھی جدانہ ہوگا، حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آجائیں سو خیال رکھنا میرے بعد تم ان سے کسی طرح پیش آتے ہو ؟ ترمذی، بروایت زید بن ارقم۔

874

874 – " أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن أمر عليكم عبد حبشي فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة". (حم د ت هـ ك عن العرباض بن سارية) .
٨٧٤۔۔ میں تمہیں اللہ کے تقوی اور امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ تم پر کسی حبشی غلام کو امیر مقرر کردیا جائے یقیناجو میرے بعد عرصہ تک حیات رہابہت سے اختلافات دیکھے گا سو تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت تھامنالازم ہے ان کو مضبوطی سے تھام اور کچیلی سے خوب سختی کے ساتھ پکڑلو۔ اور نئے پیدا شدہ امور سے ہمیشہ اجتناب کرو بیشک ہرنئی چیز بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ مسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، بروایت العرباض بن سادیہ۔ امام ترمذی روایت کی تخریج کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سنن الترمذی ج ٥ ص ٤٤۔

875

875 – "خلفت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي ولن يتفرقا حتى يردا على الحوض". (أبو بكر الشافعي في الغيلانيات عن أبي هريرة) .
٨٧٥۔۔ میں تمہارے درمیان دوچیزں چھوڑے جارہاہوں ان کو تھامنے کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے کتاب اللہ اور میری سنت اور ان دونوں چیزوں کے درمیان کبھی افتراق و انتشار نہیں ہوسکتا، حتی کہ یہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں۔ ابوبکر الشافعی فی الغیلانیات بروایت ابوہریرہ (رض)۔

876

876 – "تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي ولن يتفرقا حتى يردا على الحوض". (ك عن أبي هريرة) .
٨٧٦۔۔ میں تمہارے درمیان دوچیزں چھوڑے جارہاہوں ان کو تھامنے کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔ کتاب اللہ اور میری سنت اور یہ دونوں چیزیں باہم کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔۔۔ حتی کہ حوض پر میرے پاس آجائیں۔ المستدرک للحاکم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

877

877 – "ألا هل عسى رجل يبلغه الحديث عني وهو متكئ على أريكته فيقول بيننا وبينكم كتاب الله فما وجدنا فيه حلالا استحللناه وما وجدنا فيه حراما حرمناه وإن ما حرم رسول الله كما حرم الله".(ت عن المقدام بن معد يكرب) .
٨٧٧۔۔ خبردار ! قریب ہے کہ کسی شخص کے پاس میری حدیث پہنچے اور وہ مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہو اور کہے ہمارے تمہارے درمیان کتاب اللہ کافی ہے ہم اسمیں جو حلال پائیں گے اس کو حلال قرار دیں گے اور جو حرام پائیں گے اس کو حرام قرار دیں گے۔ تولوگو ! یاد رکھو یہ شخص غلط کہہ رہا ہے بلکہ جو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا وہ بھی ایساہی ہے جیسا کہ اللہ نے حرام قراردیا ہے۔ ترمذی، عن المقدام بن معدیکرب۔

878

878 – "لا أعرفن ما يحدث أحدكم عني الحديث وهو متكئ على أريكته فيقول اقرأ قرآنا ما قيل من قول حسن فأنا قلته". (هـ عن أبي هريرة) .
٨٧٨۔۔ مجھے معلوم نہ ہو کہ کسی شخص کے پاس میری حدیث پہنچے اور وہ مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا کہے میں تو قرآن پڑھتاہوں اور اس طرح وہ میری سنت سے اعراض کرے یاد رکھو جو میری طرف سے اچھی بات کہی گئی ہے اس کا قائل میں ہوں۔ لہٰذا وہ بھی قرآن کی طرح قابل عمل ہے۔ ابن ماجہ۔ بروایت ابوہریرہ۔

879

879 – "لا ألفين أحدكم متكئا على أريكته يأتيه الأمر من أمري مما أمرت به أو نهيت عنه فيقول لا أدري ما وجدناه في كتاب الله اتبعناه". (حم د ت هـ ك عن أبي رافع) .
٨٧٩۔۔ میں تم میں سے کسی کونہ پاؤں کہ اس کے پاس میری باتوں میں سے کوئی حکم یا ممانعت پہنچے لیکن وہ کہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں بس ہم جو کتاب اللہ میں پائیں گے اسی کی اتباع کریں گے۔ مسنداحمد، ابوداود، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم بروایت ابی رافع۔

880

880 – "ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه وما وجدتم فيه من حرام فحرموه ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي ولا كل ذي ناب من السباع ولا لقطة معاهد إلا أن يستغني عنها صاحبها ومن نزل بقوم فعليهم أن يقروه فإن لم يقروه فله أن يغصبهم بمثل قراه". (حم د عن المقدام بن معد يكرب) .
٨٨٠۔۔ خبردارآگاہ رہو، مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل کچھ اور دیا گیا ہے ، خبردار شاید کوئی پیٹ بھرا مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا یہ کہے کہ تم پر صرف اس قرآن کو تھامنا کافی ہے جو اس میں حلال پاؤ اس کو حلال سمجھو۔ اور جو حرام پاؤ اس کو حرام سمجھو، خبردرا، تمہارے لیے اہلی گدھاحلال ہے نہ کوئی ذی ناب درندہ حلال ہے، اور کسی معاہد ذمی شخص کالقطہ بھی حلال نہیں الایہ کہ ا سکامالک اس سے بے پروا ہوجائے اور جو کسی قوم کے پاس پہنچے تو ان پر اس کی مہمان نوازی لازم ہے۔ اگر وہ اپنا یہ ذمہ نبھائیں تو اس کے لیے جائز ہے کہ ان سے اپنی مہمان نوازی کی خاطر زبردستی کچھ وصول کرلے۔ مسنداحمد، ابوداؤد، بروایت المقدام بن معدیکرب۔

881

881 – " أيحسب أحدكم متكئا على أريكته أن الله تعالى لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن، ألا وإني والله قد أمرت ووعظت ونهيت عن أشياء، إنها كمثل القرآن أو أكثر وإن الله تعالى لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا أكل ثمارهم إذا أعطوكم الذي عليهم". (د عن العرباض) .
٨٨١۔۔ کیا تم میں سے کوئی اپنی مسہری پر ٹیک لگائے یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ نے بعض چیزوں کو حرام نہیں فرمایا، اس کے جو اس قرآن میں ہے سوآگاہ رہو، وہ خبردار ہو، اللہ کی قسم میں نے بعض چیزوں کا حکم کیا ہے اور نصیحت کی ہے اور بعض چیزوں سے منع کیا ہے وہ بھی قرآن کی طرح ہیں یا زیادہ، اور اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہوجاو، نہ ان کی عورتوں کو مارنا، نہ ان کے پھلوں کو کھانا، جبکہ وہ اپنے ذمہ کے فرض کو ادا کرچکے ہوں۔ ابوداؤد، بروایت العرباض۔

882

882 – " يوشك أن يقعد الرجل متكئا على أريكته يحدث بحديث من حديثي فيقول بيننا وبينكم كتاب الله فما وجدنا فيه من حلال استحللناه وما وجدنا فيه من حرام حرمناه ألا وإن ما حرم رسول الله مثل ما حرم الله". (حم هـ ك عن المقداد) .
٨٨٢۔۔ قریب ہے کہ کوئی شخص اپنی مسہری پر میری حدیث بیان کرتا ہواک ہے ہمارے تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے ہم اس میں جو حلال پائیں گے اس کو حلال قرار دیں اور جو حرام پائیں گے اسے حرام قرار دیں گے۔ تولوگو یاد رکھو، یہ شخص غلط کہہ رہا ہے بلکہ جو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا وہ بھی ایساہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، بروایت المقدام بن معدیکرب۔

883

883 – "أيتلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم". (م عن محمود بن لبيد) .
٨٨٣۔۔ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جائے گا حالانکہ ابھی تو میں تمہارے درمیان ہوں۔ مسلم، بروایت محمود بن لبید۔

884

884 – "القائم بسنتي عند فساد أمتي له أجر شهيد". (ك في تاريخه عن محمد بن عجلان عن أبيه) .
٨٨٤۔۔ میری امت میں فساد برپا ہونے کے وقت جو میری سنت کو تھامے رکھے گا اس کے لیے شہید کا اجر ہے۔ کک فی تاریخۃ، بروایت محمد بن عجلان عن ابیہ۔

885

885 – "ما أمرتكم به فخذوه وما نهيتكم عنه فانتهوا". (هـ عن أبي هريرة) .
٨٨٥۔۔ جس بات کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اس کو لے لو، اور جس بات سے تم کو روکا ہے اس سے باز آجاؤ۔ ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

886

886 – "من فارق الجماعة شبرا فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه". (حم د ك عن أبي ذر) .
٨٨٦۔۔ جو شخص ایک بالشت بھی جماعت سے منحرف ہوا یقیناً اس نے اسلام کی مالا یعنی ہار کو اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ مسنداحمد، ابوداؤد، المستدرک للحاکم، بروایت ابی ذر (رض) ۔

887

887 – "إنها ستكون فتنة قيل فما المخرج منها قال كتاب الله فيه نبأ من قبلكم وخبر من بعدكم وحكم ما بينكم هو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى من غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم هو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تشبع منه العلماء ولا تلتبس به الألسن ولا يخلق عن الرد ولا تنقضي عجائبه هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته عن أن قالوا إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد من قال به صدق ومن حكم به عدل ومن عمل به أجر ومن دعا إليه هدي إلى صراط مستقيم". (ت عن علي) .
٨٨٧۔۔ یقیناً عنقریب فتنہ برپا ہوگا ، استفسار کیا گیا تو اس سے خلاصی کی کیا صورت ہے فرمایا کتاب اللہ اس میں ماقبل کی خبریں ہیں مابعد کی پیشن گوئی ہیں یہ تمہارے درمیان اختلافات کا حکم اور فیصلہ ہے یہ فیصلہ کن قول ہے کوئی ہزل گوئی نہیں ہے جس نے اس کو سرکشی کی وجہ سے ترک کیا اللہ اس کو کاٹ کر رکھ دیں گے ، اور جس نے اس کے سوا کہیں اور ہدایت تلاش کی اللہ اس کو گمراہ کردیں گے یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے ، دانائی کا تذکرہ ہے سیدھی راہ ہے ، خواہشات نفسانیہ اس میں کج روی پیدا نہیں کرسکتیں، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے ۔ زبانیں اس کے ساتھ ملتبس نہیں ہوتیں بارہا دھرانے سے پرانا نہیں ہوتا اس کے عجائبات کا خزانہ ختم نہیں ہوتا، یہ وہی کلام ہے جس سے جن بھی دور نہ رہ سکے قرآن سناتو بےساختہ پکاراٹھے ہم نے عجیب کلام سنا ہے جو ہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے جس نے یہ کہا سچ کہا، جس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا، عدل و انصاف کا فیصلہ کیا، جو اس پر عمل بجالایا اجرپا گیا۔ جس نے اس کی دعوت دی اس کو سیدھی راہ کی راہنمائی مل گئی۔ ترمذی، بروایت علی (رض)۔

888

888 – "أبشروا فإن هذا القرآن طرفه بيده الله وطرفه بأيديكم فتمسكوا به فإنكم لن تهلكوا ولن تضلوا بعده أبدا". (طب عن جبير) .
٨٨٨۔۔ لوخوش خبری سنویہ قرآن ہے اس کا ایک سر اللہ کے دست قدرت میں ہے تو دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے پس اس کو مضبوطی سے تھام لو پھر تم ہرگز ہلاک نہ ہوؤں گے اور نہ اس کے بعد کبھی گمراہ ہو گے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت جبیر۔

889

889 – "أتاني جبريل فقال يا محمد إن الأمة مفتونة بعدك قلت له فما المخرج يا جبريل قال كتاب الله فيه نبأ ما قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم وهو حبل الله المتين وهو الصراط المستقيم وهو قول فصل ليس بالهزل إن القرآن لا يليه من جبار فيعمل بغيره إلا قصمه الله ولا يبتغي علما سواه إلا أضله الله ولا يخلق عن رده وهو الذي لا تفنى عجائبه من يقل به يصدق ومن يحكم به يعدل ومن يعمل به يؤجر ومن يقسم به يقسط". (حم عن علي) .
٨٨٩۔۔ میرے پاس جبرائیل امین تشریف لائے اور کہا اے محمد، یقیناً آپ کے بعد امت آزمائش میں مبتلا ہوگی ، میں نے ان سے کہا تو اس سے خلاصی کیا ہے اے جبرائیل کہا اللہ کی کتاب اس میں ماقبل کی خبریں ہیں تومابعد کی پیشین گوئی ہیں تمہارے درمیان اختلافات کا حکم اور فیصلہ ہے اللہ کی مضبوط رسی ہے سیدھی راہ ہے ، فیصلہ کن قول ہے کوئی ھزل نہیں جس کسی سرکشی نے اس کو ترک کردیا اللہ اس کو تباہ کردیں گے جس نے اس کے سوا علم تلاش کرلیا اللہ اس کو گمراہ کردیں گے ، باربا دہرانے سے اس کالطف کم نہیں ہوتا، اس کے عجائبات کا خزانہ ختم نہیں ہوتا، جو اس کی بات کرتا ہے سچ کہتا ہے اور جو اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے عین عدل و انصاف کا فیصلہ کرتا ہے جو اس پرکاربند ہوتا ہے اجرپاتا ہے اور جو اس کے ذریعہ تقسیم کرتا ہے انصاف کرتا ہے۔ مسنداحمد، بروایت علی (رض)۔

890

890 – "اقرؤا كما علمتم فإنما أهلك من كان قبلكم اختلافهم على أنبيائهم". (ابن جرير في تفسيره عن ابن مسعود) .
٨٩٠۔۔ جیسے تم جانتے ہو پڑھتے رہو، اگلے لوگوں کی اسی بات نے برباد کیا کہ وہ اپنے انبیاء کے متعلق اختلاف کرنے لگے۔ ابن جریر، فی تفسیر ، بروایت ابن مسعود۔

891

891 – "أما إنه لم تهلك الأمم قبلكم حتى وقعوا في مثل هذا يضربون القرآن بعضه ببعض ما كان من حلال فأحلوه وما كان من حرام فحرموه وما كان من متشابه فآمنوا به". (طب عن ابن عمرو) .
٨٩١۔۔ یاد رکھو، تم سے پہلی اقوام اس وقت تک ہلاک نہ ہوئیں حتی کہ ان بحث وتمحیص میں پڑگئے کلام الٰہی کا بعض حصہ بعض حصہ کے ساتھ ملا کر کہنے لگے اس طرح جو حلال پاؤ اس کو حلال سمجھو اور حرام پاؤ اس کو حرام سمجھو، اور جو مشتبہ اس پر فقط ایمان لے آؤ۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عمرو۔

892

892 – "إن أحبكم إلي وأقربكم مني الذي يلحقني على العهد الذي فارقني عليه". (ع عن أبي ذر) .
892 ۔۔ تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو اسی عہد پر مجھ سے آ ملے جس پر جدا ہوا تھا۔ المسند لابی یعلی بروایت ابی ذر (رض) ۔

893

893 – "إن بني إسرائيل كتبوا كتابا فاتبعوه وتركوا التوراة". (طب عن أبي موسى) .
893 ۔۔ بنی اسرائیل نے از خود ایک کتاب لکھ لی اور اسی کی اتباع کرنے لگے اور توراۃ کو پس پشت ڈال دیا۔ الطبرای فی الکبیر، بروایت ابی موسیٰ۔

894

894 – "لا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا". (خ عن ابن مسعود) .
٨٩٤۔۔ باہم اختلاف میں مت پڑو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے آپس میں اختلاف کیا تو اسی چیز نے ان کو تباہ کرڈالا۔ بخاری، بروایت ابن مسعود۔

895

895 – "لا تختلفوا فتختلف قلوبكم". (حم د ن عن البراء) .
٨٩٥۔۔ آپس میں اختلاف مت کرو۔۔۔ ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف پڑجائے گا۔ مسنداحمد، ابوداؤد، بروایت البرائ۔

896

896 – "مثلي كمثل رجل استوقد نارا فلما أضاءت ما حولها جعل الفراش وهذه الدواب التي يقعن في النار يقعن فيها وجعل يحجزهن ويغلبنه فيقتحمن فيها فذلك مثلي ومثلكم أنا آخذ بحجزكم عن النار هلم عن النار هلم عن النار فتغلبوني فتقتحمون فيها". (حم ق ت عن أبي هريرة) .
٨٩٦۔۔ سنومیری مثال ، ایک شخص ہے جس نے آگ کا آلاؤ روشن کیا جب آگ روشن ہوگئی تو آگ پر منڈلانے والے یہ پروانے اس کے گردوپیش جھومنے لگے اور آآکر اس میں گرنے لگے ، اب وہ آدمی ان کو پکڑ پکڑ کر پیچھے ڈال رہا ہے ، لیکن وہ پروانے اس پر غالب آرہے ہیں اور آگ میں گر رہے ہیں تو یہی میری اور تمہاری مثال ہے میں تم کو کمرے پکڑ پکڑ کر جہنم سے بچارہاہوں کہ بچو اس آگ سے بچو اس آگ سے ، لیکن تم ہو کہ مجھ پر بڑھ بڑھ کے اس میں گرے جارہے ہو۔ مسنداحمد، ترمذی، بخاری، مسلم بروایت ابوہریرہ۔

897

897 – "مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير أصاب أرضا فكان منها نقية قبلت الماء وأنبتت الكلأ والعشب الكثير وكانت منها أجادب أمسكت الماء فنفع الله بها الناس فشربوا منها وسقوا ورعوا وأصاب طائفة منها أخرى إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلأ فذلك مثل من فقه في دين الله ونفعه ما بعثني الله به فعلم وعلم ومثل من لم يرفع بذلك رأسا ولم يقبل هدى الله الذي أرسلت به". (ق عن أبي موسى) .
٨٩٧۔۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اور علم مجھے عطا فرماکر بھیجا، اس کی مثال اس موسلادھار بارش کی سی ہے ، جو کسی زمین پر برسی۔ اب اس زمین کے ایک حصہ نے جو صاف ستھرا تھا اس پانی کو اندر جذب کیا، اور اس کے نتیجہ میں نباتات اگائے اور دوسری گھاس پھونس اگائی۔ اور زمین کا ایک دوسراحصہ جو نشیبی اور سخت تھا اس نے بھی پانی کو اپنے اندر روک لیا اللہ نے اس کے ذریعہ لوگوں کو نفع پہنچایا اور انھوں نے اس سے پانی پیا اور جانوروں کو پانی پلایا اور اپنی اپنی زمینوں کو بھی سیراب کیا اور اس کے علاوہ زمین کا ایک اور حصہ تھا جو بالکل چٹیل میدان تھا پانی کو اپنے اندر روکتا تھا نہ نباتات اگاتا تھا۔
تو یہ مثال اس شخص کی جس کو اللہ نے دین کا علم عطا کیا اور جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے اس کے ساتھ اس نے خوب نفع اٹھایا خود بھی سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور مثال ہے اس شخص کی جس نے اس کی طرف توجہ کے لیے سر تک اوپر نہ اٹھایا اور نہ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ بخاری، مسلم، بروایت ابی موسیٰ۔

898

898 – "أما بعد أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور من استمسك به وأخذ به كان على الهدى ومن أخطأه ضل فخذوا بكتاب الله تعالى واستمسكوا به وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي". (حم وعبد بن حميد م عن زيد بن أرقم) .
٨٩٨۔۔ امابعد ! اے لوگو، بلاشبہ میں بھی ایک انسان اور بشر ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں، تو دیکھو، میں تمہارے درمیان دوعظیم چیزیں چھوڑے جارہاہوں کتاب اللہ جو ہدایت ونور کا سرچشمہ ہے جس نے اس کو تھام لیا اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تویقیناوہ ہدایت پر گامزن ہوچلا، اور جس نے اس کو بھلا دیا، گمراہ ہوگیا، سو اللہ کی کتاب کو تھام لو اور مضبوطی سے اس کو پکڑ لو، اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں ان کے بارے میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتاہوں کہ ان کا خیال رکھنا۔ مسنداحمد، عبد بن حمید، مسلم، بروایت زید بن ارقم۔

899

899 – "أحب الأديان إلى الله الحنيفية السمحة". (حم خد طب عن ابن عباس) .
٨٩٩۔۔ تمام ادیان میں اللہ کے نزدیک محبوب ترین دین تمام آلائشوں سے پاک اور صاف ستھرادین محمدی ہے جو ملت ابراہیمی کا پرتو ہے۔

900

900 – "بعثت بالحنيفية السمحة ومن خالف سنتي فليس مني". (خط عن جابر) .
٩٠٠۔۔ مجھے سیدھا اور توحید والادین دے کر بھیجا گیا ہے اور جس نے میری سنت کی مخالفت کی اس کا مجھ سے واسطہ نہیں ۔ حطیب بروایت جابر۔

901

901 – " إذا ذكر أصحابي فأمسكوا وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا وإذا ذكر القدر فأمسكوا". (طب عن ابن مسعود وعن ثوبان) (عد عن عمر) .
٩٠١۔۔ جب میرے اصحاب کا ذکر کیا جائے تو اس کو لے لو اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو اس کو بھی لے لو، اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے اس کو بھی لے لو۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن مسعود، بروایت ثوبان، ابوداؤد، بروایت عمر۔

902

902 – "إذا سمعتم الحديث عني تعرفه قلوبكم وتلين له أشعاركم وأبشاركم وترون أنه منكم قريب فأنا أولاكم به وإذا سمعتم الحديث عني تنكره قلوبكم وتنفر منه أشعاركم وأبشاركم وترون أنه بعيد منكم فأنا أبعدكم منه" (حم ع أبي أسيد أو أبي حميد) .
٩٠٢۔۔ جب تم میری طرف سے کوئی حدیث سنو، جس سے تمہارے دل مانوس ہوں اور تمہارے بال اور کھال اس سے نرم پڑجائیں اور تم محسوس کرو وہ حدیث تمہارے اذہان سے قریب تر ہے تو پس میں اس کے زیادہ لائق ہوں یعنی واقعی وہ میرا کلام ہے۔
اور اگر ایسی کوئی حدیث سنو جس سے تمہارے دل مانوس نہ ہوں اور تمہارے بال اور کھال اس سے وحشت محسوس کریں اور تم خیال کرو کہ وہ حدیث تمہارے اذہان سے دور ہے تو میں بھی اس سے دور ہوں یعنی وہ میرا کلام نہیں ہے۔ مسنداحمد، ابی یعلی، بروایت ابی اسید بابی حمید۔

903

903 – " إذا ظهرت البدع ولعن آخر هذه الأمة أولها فمن كان عنده علم فلينشره فإن كاتم العلم يومئذ ككاتم ما أنزل الله على محمد". (ابن عساكر عن معاذ) .
٩٠٣۔۔ جب بدعتوں کا ہر طرف چرچا ہوجائے اور اس امت کا آخری طبقہ اول طبقہ کو لعن وطعن کرنے لگے توچا ہے کہ جس کے پاس علم ہو وہ اس کو عام کرے اگر اس نے اس روز علم کو چھپایا توگویاس نے محمد پر نازل شدہ دین کو چھپایا۔ ابن عساکر، بروایت معاذ۔

904

904 – "إذا كان آخر الزمان واختلفت الأهواء فعليكم بدين أهل البادية والنساء". (حب في الضعفاء فر عن ابن عمر) .
٩٠٤۔۔ جب آخری زمانہ ہوگا اور ہوس و خواہشات خوب ہوجائیں گی توای سے وقت پر تم پر لازم ہے کہ دیہات والوں اور عورتوں کا دین لے کر بیٹھ جاؤ۔ ابن حبان فی الضعفاء الفردوس دیلمی (رح) بروایت ابن عمر (رض)۔

905

905 – "إذا لعن آخر هذه الأمة أولها فمن كتم حديثا فقد كتم ما أنزل الله عز وجل علي". (هـ عن جابر) .
٩٠٥۔۔ جب اس امت کا آخری طبقہ اول طبقہ کو لعن طعن کرنے لگ جائیں تو اس وقت جس نے میری حدیث کو مخفی رکھا اس نے دین کو مخفی رکھا جو اللہ نے مجھ پر نازل فرمایا ہے۔ ابن ماجہ، بروایت جابر۔

906

906 – " أطيعوني ما كنت بين أظهركم وعليكم بكتاب الله أحلوا حلاله وحرموا حرامه". (طب عن عوف بن مالك) .
٩٠٦۔۔ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں میری پیروی کرتے رہو۔ اور تم پر کتاب اللہ کا تھامنالازم ہے اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت عوف بن مالک۔

907

907 – "اعرضوا حديثي على كتاب الله فإن وافقه فهو مني وأنا قلته". (طب عن ثوبان) .
٩٠٧۔۔ میری حدیث کو کتاب اللہ پر پیش کرو اگر موافق نکلے تو سمجھ لو کہ وہ میری حدیث ہے اور میں ہی اس کا قائل ہوں۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت چوہان۔

908

908 - "اعلم يا بلال أنه من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي كان له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا ومن ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله كان عليه مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزار الناس شيئا". (ت عن عوف بن مالك) .
٩٠٨۔۔ جان لے اے بلال ! جس نے میری کسی ایک سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد بھلائی جاچکی ہے تو اس کو اس پر تمام عمل کرنے والوں کا اجرملے گا بغیر ان کے اجر میں کمی کیے اور جس نے کوئی بدعت جاری کی جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی نہیں تھے تو اس کو اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا گناہ ہوگا بغیر ان کے گناہ میں کبھی کمی کیے گئے۔ ترمذی، بروایت عوف بن مالک۔

909

909 – "إن أمتي لن تجتمع على ضلالة فإذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم". (هـ عن أنس) .
٩٠٩۔۔ میری امت کبھی کسی گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی، سو جب تم اختلاف کو دیکھوتم پر سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کی اتباع لازم ہے۔ ابن ماجہ، بروایت انس۔

910

910 – "السنة سنتان من نبي أو من إمام عادل". (فر عن ابن عباس) .
٩١٠۔۔ سنت تودو ہی ہیں نبی کی یا امام عادل کی ۔ الفردوس دیلمی ، بروایت ابن عباس۔

911

911 – "صاحب السنة إن عمل خيرا قبل منه وإن خلط غفر له". (خط في المؤتلف عن ابن عمر) .
٩١۔۔ صاحب سنت اگر اچھا عمل کرے تو اس سے قبول کیا جائے گا اور اگر کچھ خلط ملط ہوجائے تو اس کی مغفرت کردی جائے گی۔ التاریخ للخطیب (رح) فی الموتلف بروایت ابن عمر (رض)۔

912

912 – "إنما هلك من كان قبلكم باختلافهم في الكتاب". (م عن ابن عمرو) .
٩١٢۔۔ تم سے پہلے لوگ کتاب میں اختلاف کرنے کے باعث ہلاک ہوگئے ۔ الصحیح امام مسلم بروایت ابن عمر (رض)۔

913

913 – " إنكم اليوم على دين وإني مكاثر بكم الأمم فلا تمشوا بعدي القهقرى". (حم عن جابر) .
٩١٣۔۔ یقیناآج تم ایک دین کے حامل ہو۔ اور میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگرامم پر فخر کروں گا، پس تم میرے بعد الٹے پاؤں واپس نہ پھرجانا۔ مسنداحمد، بروایت جابر۔

914

914 – "مثلي ومثل ما بعثني الله به كمثل رجل أتى قوما فقال يا قوم إني رأيت الجيش بعيني وإني أنا النذير العريان فالنجاء النجاء فأطاعته طائفة من قوم فأدلجوا وانطلقوا على مهلهم فنجوا وكذبته طائفة منهم فأصبحوا مكانهم فصبحهم الجيش فأهلكهم واجتاحهم فذلك مثل من أطاعني واتبع ما جئت به ومثل من عصاني وكذب بما جئت به من الحق". (ق عن أبي موسى) .
٩١٤۔۔ میری اور اس چیز کی مثال جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجی ہے ایک شخص کی مانند ہے جو ایک قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے قوم میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں کھلکم کھلا تم کو اس سے ڈرانے والاہوں سو نجات کی راہ پکڑو، نجات کی راہ پکڑو، پس ان میں سے ایک قوم نے اس کی اطاعت کی اور رات کے آخری پہر ہی کوچ کرگئے اور اطمینان کے ساتھ نجات پاگئے۔
اور دوسری قوم نے اس کی تکذیب کی اور اپنے اپنے مقام پر جمے رہے ، آخر کار صبح صبح دشمن کے لشکر نے ان کو آلیا، اور ان کو تباہ و برباد کردیا اور ان کی بیخ کنی کرڈالی۔ سو یہ مثال ہے اس جماعت کی جس نے میری اتباع کی اور میرے لائے ہوئے دین کی اتباع کی اور اس جماعت کی جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے دین حق کی تکذیب کی۔ بخاری مسلم، بروایت ابی موسیٰ۔

915

915 – "تعمل هذه الأمة برهة من كتاب الله ثم تعمل برهة بسنة رسول الله ثم تعمل بالرأي فإذا عملوا بالرأي فقد ضلوا واضلوا". (ع عن أبي هريرة) .
٩١٥۔۔ یہ امت ایک عرصہ تک کتاب اللہ پر عمل پیرا رہے گی ، پھر ایک عرصہ سنت رسول اللہ پر عمل پیرا رہے گی، پھر اپنی رائے پر عمل شروع کر دے گی سو جب وہ اپنی رائے کو قابل عمل ٹھہرائے گی تو یہی وقت ہوگا کہ خود بھی گمراہ ہوگی اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گی۔ المسندابی یعلی ، براویت ابوہریرہ۔

916

916 – "ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم فإذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم وإذا نهيتكم عن شيء فدعوه". (حم م ن هـ عن أبي هريرة) .
٩١٦۔۔ میں نے تم کو چھوڑ دیا تم بھی مجھے چھوڑ دو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے کثرت سے سوال کیے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنا شروع کردیا، پس جب میں تم کو کوئی حکم کروں تو اس کو اپنی وسعت کے بقدر بجالاؤ، اور جب کسی چیز سے تم کو منع کروں توباز آجاؤ۔ مسنداحمد، امام مسلم، النسائی، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ۔

917

917 – "سألت ربي فيما يختلف فيه أصحابي من بعدي فأوحى إلي يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أضوأ من بعض فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى". (السجزي في الإبانة وابن عساكر عن عمر) .
٩١٧۔۔ میں نے اپنے رب سے اپنے بعد اپنے صحاب کے درمیان واقع ہونے والے اختلافات کے بارے میں سوال کیا تھا تو مجھ پر وحی کی گئی کہ اے محمد، تیرے اصحاب میرے نزدیک آسمان کے تاروں کی طرح ہیں، بعض بعض سے زیادہ روشن ہیں، سو جس نے ان کے اختلافی پہلو سے بھی کچھ لیا وہ بھی میرے نزدیک ہدایت پر گامزن ہے۔ السجری فی الاہانہ ، وابن عساکربروایت عمر (رض) عن۔

918

918 – "لم يزل أمر بني إسرائيل معتدلا حتى نشأ فيهم المولدون وأبناء سبايا الأمم التي كانت بنو إسرائيل تسبيها فقالوا بالرأي فضلوا وأضلوا". (طب عن ابن عمرو) .
٩١٨۔۔ مسلسل بنی اسرائیل کا معاملہ اعتدال پذیررہا، حتی کہ ان میں حرامکاری کی وجہ سے بچے پیدا ہونے لگے اور دیگرمفتوح اقوام کی باندیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کی کثرت ہوگی توتب بنی اسرائیل اپنی رائے پر فیصلے کرنے لگے اور خود بھی گمراہ ہوئے دوسروں کو بھی گمراہ کرڈالا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عمر (رض)۔

919

919 - "ستكون بعدي هنات وهنات فمن رأيتموه فارق الجماعة أو يريد أن يفرق أمر أمة محمد كائنا من كان فاقتلوه فإن يد الله على الجماعة وإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض". (ن حب عن عرفجة) .
٩١٩۔۔ میرے بعد بری بری خصلتیں جنم لیں گی پس جس کو تم دیکھو کہ جماعت سے جدا ہورہا ہے یا امت محمدیہ کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے تو خواہ وہ کوئی شخص ہو اس کو قتل کرڈالو۔ بیشک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت سے جدا ہونے والے کو شیطان ایڑ مارتا ہے۔ النسائی، ابن حبان، بروایت عرفجہ۔

920

920 – "أذهبتم من عندي جميعا وجئتم متفرقين إنما أهلك من كان قبلكم الفرقة". (حم عن سعد) .
٩٢٠۔۔ تم میرے پاس سے مجتمع ہو کرجا رہے ہو مگر افسوس کل روز قیامت کو منتشر ہو کرآؤ گے اور اسی تفرقہ بازی نے تم سے پہلی اقوام کو تباہ کیا۔ مسنداحمد، بروایت سعد۔

921

921 – "ضرب الله مثلا صراطا مستقيما وعلى جنبتي الصراط سوران فيهما أبواب مفتحة وعلى الأبواب ستور مرخاة وعلى باب الصراط داع يقول يا أيها الناس ادخلوا الصراط جميعا ولا تتعوجوا وداع يدعو من فوق الصراط فإذا أراد الإنسان أن يفتح شيئا من تلك الأبواب قال ويحك لا تفتحه فإنك إن تفتحه تلجه فالصراط الإسلام والسوران حدود الله والأبواب المفتحة محارم الله وذلك الداعي على رأس الصراط كتاب الله والداعي من فوق واعظ الله في قلب كل مسلم". (حم ك عن النواس) .
٩٢١۔۔ اللہ نے سیدھی راہ کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اس راہ کے جانبین دودیواریں ہیں دیواروں میں دروازہ کھلے ہوئے ہیں ، اور دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اوعین اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک منادی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہا ہے اے انسانو سب سیدھے راہ پر چلے آؤ اورادھرادھر دروازوں میں نہ مڑو۔ اور اس راہ کے اوپر کی طرف بھی ایک منادی پکار رہا ہے اور جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ منادی پکاراٹھتا ہے تف ہو تجھ پر اس دروازے کو مت کھول اگر کھولے گا تو اس میں داخل ہوجائے گا۔ پس یہ راہ اسلام کی سیدھی راہ ہے اور اس کے جانبین کی دیواریں حدود اللہ ہیں، کھلے ہوئے دروازے اللہ کے محارم ہیں اور راہ کے سرے پر کھڑامنادی ، کتاب اللہ ہے اور راہ کے اوپرکھڑا منادی واعظ اللہ یعنی ہر سلیم الطبع انسان کا ضمیر ہے۔ ھمم، المستدرک للحاکم، بروایت نواس۔

922

922 – " قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك ومن يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بما عرفتم من سنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين عضوا عليها بالنواجذ وعليكم بالطاعة وإن عبدا حبشيا فإنما المؤمن كالجمل الأنف حيثما قيد انقاد". (حم هـ ك عن عرباض) .
٩٢٢۔۔ میں تمہیں ایک روشن ملت پر چھوڑے جارہاہوں جس کی رات بھی دن کے مانند روشن وچمکدار ہے اس ملت سے میرے بعد کوئی منحرف نہ ہوگا مگر وہی جس کے مقدر میں ہلاکت ہے جو تم میں سے میرے بعد حیات رہا وہ بہت سے اختلافات کو رونما دیکھے گا پس تم پر میری سنت اور خلفا راشدین مہیدین کی سنت کو لازم ہے جس کو تم جانتے ہو، اپنی کچیلی کے ساتھ مضبوطی سے تھام لینا اور تم پر ہر حال میں امام کی اتباع لازم ہے خواہ تم پر کسی حبشی غلام کو ہی کیوں نہ امیر بنادیا جائے کیونکہ مومن تونکیل پڑے ہوئے اونٹ کی مانند ہے ، اس کو جہاں ہانکا جائے خاموشی سے چل دیتا ہے۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم بروایت عرباض۔

923

923 – "كتاب الله هو حبل الله الممدود من السماء إلى الأرض".(ش وابن جرير عن أبي سعيد) .
٩٢٣۔۔ کتاب اللہ ، اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابن ابی شیبہ۔ ابن جریر بروایت ابی سعید۔

924

924 – "كل شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط". (البزار طب عن ابن عباس) .
٩٢٤۔۔ ہر ایسی شرط جو کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہے خواہ سو شرائط کیوں نہ ہوں ؟ البزار ، الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابن عباس (رض)۔

925

925 – "كيف أنتم إذا كنتم من دينكم مثل القمر ليلة البدر لا يبصره منكم إلا البصير". (ابن عساكر عن أبي هريرة) .
٩٢٥۔۔ اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب دین میں تم چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوگے ؟ جس چاند کو بس آنکھوں سے بینا شخص ہی دیکھ پائے گا۔ ابن عساکر، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

926

926 – "كيف بكم إذا كنتم من دينكم كرؤية الهلال". (ابن عساكر عن أبي هريرة) .
٩٢٦۔۔ تمہاری کیا شان ہوگی جب دین میں تم کو چاند کی مانند دیکھاجائے گا ابن عساکر، بروایت ابوہریرہ۔

927

927 – "لو نزل موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم أنا حظكم من النبيين وأنتم حظي من الأمم". (هب عن عبد الله بن الحارث) .
٩٢٧۔۔ اگر موسی (علیہ السلام) بھی نازل ہوں اور تم ان کی اتباع کرنے لگ جاو، اور مجھے چھوڑ دو تویقیناتم گمراہ ہوجاؤ گے نبیوں میں سے میں تمہارے لیے منتخب کیا گیا ۔ اور اقوام میں سے تم میرے لیے منتخب کیے گئے۔ شعب الایمان بروایت عبداللہ بن حارث۔

928

928 – "ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا واحدة قالوا من هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي". (ق عن ابن عمر) .
٩٢٨۔۔ ضرور میری امت پر بھی وہی حالات پیش آئیں گے جو بنی اسرائیل پر پیش آئے جس طرح کہ ایک جو تادوسرے جوتے کی ہوبہو نقل ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر ان کے کسی فرد نے علانیہ اپنی ماں کے ساتھ بدفعلی کی تھی تو میری امت کا بھی کوئی فرد اس کا مرتکب ہوگا۔ اور بنی اسرائیل بہتر گروہوں میں بٹ گئے تھے تو میری امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی اور سوائے ایک کے سب گروہ جہنم میں جائیں گے صحابہ کرام نے عرض کیا وہ ایک گروہ کون سا ہے یارسول اللہ ؟ فرمایا وہ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر پیرا عمل ہوگا۔ بخاری مسلم ، برویات ابن عمر (رض)۔

929

929 – "ما اختلفت أمة بعد نبيها إلا ظهر أهل باطلها على أهل حقها". (طس عن عمر) .
٩٢٩۔۔ جس کسی امت نے اپنے پیغمبر کے بعد باہم نزاع اختلاف کیا اس کے اہل باطل اہل حق پر غالب آگئے۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

930

930 – "من اتبع كتاب الله هداه من الضلال ووقاه سوء الحساب يوم القيامة". (طس عن ابن عباس) .
930 ۔۔۔ جس نے کتاب اللہ کی اتباع کی ، سو اللہ نے اس کو ہدایت سے نواز دیا، اور قیامت کے روز سخت حساب سے بچا لیا۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

931

931 – "من أجل سلطان الله أجله الله يوم القيامة". (طب عن أبي بكرة) .
٩٣١۔۔ جس نے اللہ کے سلطان کی عزت توقیر کی قیامت کے روز اللہ اس کی عزت و توقیر کریں گے۔ الطبرانی فی الکبیر ، بروایت ابی بکرہ۔

932

932 – "من أهان سلطان الله في الأرض أهانه الله". (ت عن أبي بكرة) .
٩٣٢۔۔ جس نے دھرتی پر اللہ کے سلطان کی اہانت کی اللہ اس کی اہانت فرمائیں گے۔ ترمذی بروایت ابی بکرہ۔

933

933 – "من أحيا سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي في الجنة". (السجزي عن أنس) .
٩٣٣۔۔ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے مجھ سے محبت رکھی اس کو جنت میں میرا ساتھ نصیب ہوگا۔ السحری ، بروایت انس۔

934

934 – " من أخذ بسنتي فهو مني ومن رغب عن سنتي فليس مني". (ابن عساكر عن ابن عمر) .
٩٣٤۔۔ جس نے میری سنت کو لیا وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ابن عساکر، بروایت ابن عمر (رض)۔

935

935 – "من تمسك بالسنة دخل الجنة". (قط في الأفراد عن عائشة) .
٩٣٥۔۔ جس نے سنت کو تھام لیا جنت میں داخل ہوگیا۔ الدارقطنی فی الافراد بروایت عائشہ (رض)۔

936

936 – "المتمسك بسنتي عند فساد أمتي له أجر شهيد". (طس عن أبي هريرة) .
٩٣٦۔۔ میری امت میں فساد برپا ہونے کے وقت جو میری سنت کو تھامے رکھے گا اس کے لیے شہید کا اجر ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت ابوہریرہ (رض)۔

937

937 – "المتمسك بسنتي عند اختلاف أمتي كالقابض على الجمر". (الحكيم عن ابن مسعود) .
٩٣٧۔۔ میری سنت کو تھامنے والاجب کہ میری امت نزاع واختلاف کا شکار ہوگی ایسا ہے جیسے کہ انگارے کو تھامنے والا ہے۔ الحکیم بروایت ابن مسعود۔

938

938 – "يا أيها الناس لا تعلقوا علي بواحدة ما أحللت إلا ما أحل الله وما حرمت إلا ما حرم الله تعالى". (ابن سعد عن عائشة) .
٩٣٨۔۔ اے لوگو ! میرے ساتھ کسی چیز کو مت جوڑو جو میں نے حلال کیا وہ درحقیقت اللہ نے حلال کیا اور جو میں نے حرام کیا وہ درحقیقت اللہ نے حرام کیا ۔ ابن سعد عن عائشہ (رض)۔

939

939 – "ما اختلط حبي بقلب عبد إلا حرم الله جسده على النار". (حل عن ابن عمر) .
٩٣٩۔۔ میری محبت کسی قلب میں جاگزیں نہیں ہوئی مگر اللہ نے اس کے جسم کو جہنم پر حرام کردیا ۔ الحلیہ بروایت ابن عمر (رض)۔

940

940 – "أبشروا أليس تشهدون أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وأن هذا القرآن سبب طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم فتمسكوا به فإنكم لن تضلوا ولن تهلكوا بعده أبدا". (ش طب حب عن أبي شريج الخزاعي) .
٩٤٠۔۔ خوش خبری سنو، کیا تم شہادت نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ اللہ کا قرآن ہے اس کا ایک سرا اللہ کے دست قدرت میں ہے تودوسراسرا تمہارے ہاتھ میں پس اس کو مضبوطی سے تھام لو پھر تم ہرگز گمراہ ہوگے نہ ہلاک ہو گے۔ ابن ابی شیبہ ، الکبیر للطبرانی ، الصحیح لابن حبان، بروایت شریح الخزاعی۔

941

941 – "إن الشيطان قد يئس أن يعبد بأرضكم ولكن رضي أن يطاع فيما سوى ذلك مما تخافون من أعمالكم فاحذروا إني قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا كتاب الله وسنة نبيكم إن كل مسلم أخو المسلم المسلمون أخوة ولا يحل لامرئ من مال أخيه إلا ما أعطاه عن طيب نفس ولا تظلموا ولا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض". (ك عن ابن عباس) .
٩٤١۔۔ بیشک شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمہاری اس سرزمین میں اس کی عبادت کی جائے لیکن اس کے سوا جن اعمال کا تمہیں بھی خطر ہے ان میں وہ اپنی اطاعت کیے جانے پر راضی ہوگیا۔ سو انتہائی محتاط رہو، میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب اور تمہارے نبی کی سنت ہے بیشک ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تمام مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کا مال حللا نہیں ہے الایہ کہ وہ خود اپنی رضا ورغبت سے دوسرے کو کچھ دیدے ، اور ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اور میرے بعد کافر ہو کرنہ پھرجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ المستدرک للحاکم بروایت ابن عباس (رض)۔

942

942 – "إني تارك فيكم كتاب الله هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة". (ش حب عن زيد بن أرقم) .
٩٤٢۔۔ میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہاہوں اللہ کی رسی ہے جو اس کے پیچھے چلا ہدایت پر گامزن ہوا اور جس نے اس کو ترک کیا گمراہی کے راستے پر جاپڑا۔ ابن ابی شبیہ ، ابن حبان، بروایت زید بن ارقم،۔

943

943 – "إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعده كتاب الله سبب طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض". (البارودي عن أبي سعيد)
٩٤٣۔۔ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب ہے اس کا ایک سر اللہ کے دست قدرت میں ہے تودوسراسرا تمہارے ہاتھ میں۔ دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت اور کتاب اللہ اور میرا خاندان باہم کبھی جدا نہ ہوں گے حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں۔ الباوردی بروایت ابی سعید۔

944

944 – "إني أوشك أن أدعى فأجيب وإني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي وإن اللطيف الخبير خبرني أنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما". (ش وابن سعد حم ع عن أبي سعيد) .
٩٤٤۔۔ قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہہ دوں تودیکھومیں تمہارے درمیان دوعظیم چیزیں چھوڑے جارہاہوں کتاب اللہ جو اللہ کی رسی ہے آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت سو خیال رکھنا میرے بعد تم ان کے کیساسلوک کرتے ہو۔ ابن ابی شیبہ، ابن سعد، مسنداحمد، لابی یعلی، بروایت ابی سعید۔

945

945 – "إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به بعدي لن تضلوا كتاب الله وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض". (عبد الله بن حميد وابن الأنباري عن زيد بن ثابت) .
٩٤٥۔۔ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب اور میرا خاندان یعنی اہل بیت ۔ اور یہ دونوں باہم کبھی جدا نہیں ہوں گے حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں۔ عبد بن حمید، ابن الانباری، بروایت زید بن ثابت۔

946

946 – " إني لكم فرط إنكم واردون علي الحوض عرضه ما بين صنعاء إلى بصرى فيه عدد الكواكب من قدحان الذهب والفضة فانظروا كيف تخلفوني في الثقلين قيل وما الثقلان يا رسول الله قال الأكبر كتاب الله سبب طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم فتمسكوا به لن تزلوا ولا تضلوا، والأصغر عترتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض وسألت لهما ذلك ربي ولا تقدموهما فتهلكوا ولا تعلموهما فإنهما أعلم منكم". (طب عن زيد بن ثابت) .
٩٤٦۔۔ میں تمہارے لیے آگے جانے والاہوں، اور تم میرے پاس حوض پرآؤ گے جس کی چوڑائی صنعاء سے بصری تک ہوگی، اس میں ستاروں کی طرح لاتعداد سونے چاندی کے آبخورے ہوں گے پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تہارا ان دونوں عظیم چیزوں کے بارے میں کیا رویہ ہے پوچھا گیا وہ دوعظیم چیزیں کیا ہیں یارسول اللہ ؟ فرمایا بڑی تو کتاب اللہ ہے جس کا ایک سر اللہ کے دست قدرت میں ہے تو دوسرا تمہارے ہاتھ میں۔ اس کو مضبوطی سے تھام لو تو ہرگز کبھی لغزش میں مبتلا ہو گے نہ کبھی گمراہی میں پڑو گے ۔ اور اس سے چھوٹی چیز میرا خاندان یعنی اہل بیت۔ اور یہ دونوں باہم کبھی جدا نہ ہوں گے ۔۔ حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں۔ اور اس چیز کا میں نے ان کے لیے اپنے رب سے سوال کیا تھا، اور تم ان دونوں سے آگے بڑھنے کی کبھی مت سوچنا اور ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور نہ ان کو کچھ سکھانے کی کوشش کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ اعلم ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت زید بن ثابت (رض)۔

947

947 – "إني تارك فيكم خليفتين، كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض". (حم طب ص عن زيد بن ثابت) (طب عن زيد بن أرقم) .
٩٤٧۔۔ میں تم میں دوخلیفہ چھوڑے جارہاہوں کتاب اللہ جو اللہ کی رسی ہے ، آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت۔ اور یہ دونوں باہم کبھی جدا نہ ہوں گے۔۔ حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں۔ مسند احمد الکبیر، للطبرانی (رح) ، السنن لسعید، بروایت زید بن ثابت (رض) ، الکبیر للطبرانی (رح) بروایت زید بن ارقم۔

948

948 – "تركت فيكم ما لن تضلوا إن اعتصمتم كتاب الله وعترتي أهل بيتي". (ش والخطيب في المتفق والمفترق عن جابر) .
948 ۔۔ میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لو تو ہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے ، وہ اللہ کی کتاب اور میرا خاندان یعنی اہل بیت ۔ ابن ابی شیبہ الخطیب فی المتفق والمفترق بروایت جابر (رض)۔

949

949 – "إني قد خلفت فيكم ما لن تضلوا بعدهما ما أخذتم بهما أوعملتم بهما كتاب الله وسنتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض". (ق عن أبي هريرة) .
949 ۔۔ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوں گے یا سیکھتے رہو گے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری سنت دونوں جدا نہ ہوں گی حتی کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں۔ بیہقی عن ابوہریرہ (رض)۔

950

950 – "أيها الناس إني تارك فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا بعدي أمرين أحدهما أكبر من الآخر كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض". (ع طب عن أبي سعيد) .
950 ۔۔ اے لوگو میں تم میں دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہاہوں اگر تم میرے بعد ان کو مضبوط پکڑو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ایک دوسری سے بڑھی ہوئی ہے ایک اللہ کی کتاب جو ایک رسی کی مانند ہے جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے دوسرا میرا خاندان اور اہل بیت یہ دونوں چیزیں جدا نہ ہوں گی حتی کہ میرے پاس حوض کوثر پر آجائیں۔ عبدالرزاق طبرانی عن ابی سعید۔

951

951 – "أيها الناس إني تارك فيكم أمرين لن تضلوا إن اتبعتموهما كتاب الله وأهل بيتي عترتي تعلمون أني أولى بالمؤمنين من أنفسهم من كنت مولاه فعلي مولاه". (ك عن زيد بن أرقم) .
٩٥١۔۔ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب ہے اور میرا خاندان یعنی اہل یت ۔ ابن ابی شیبہ ، الخطیب فی المتفق ، والمتفرق بروایت جابر (رض)۔

952

952 – "كأني قد دعيت فأجبت إني تارك فيكم الثقلين، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما". (ع طب عن أبي سعيد) ؟؟
٩٥٢۔۔ گویا میرا بلاوا آگیا ہے اور میں نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا ہے میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کتاب اللہ جو اللہ کی رسی ہے آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے ، دوسرا میرا خاندان یعنی اہل بیت ۔ اور یہ یہ دونوں باہم کبھی جدا نہ ہوں گے حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں ، پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تمہارا ان دونوں کے بارے میں کیا رویہ ہے۔ المسند لابی یعلی ، الطبرانی فی الکبیر، ابی سعید۔

953

953 – "كأني قد دعيت فأجبت إني تارك فيكم الثقلين أحدهما أكبر من الآخر كتاب الله وعترتي أهل بيتي فانظروا كيف تخلفوني فيهما فإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض إن الله مولاي وأنا ولي كل مؤمن من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه". (طب ك عن أبي الطفيل عن زيد بن أرقم) .
٩٥٣۔۔ گویا میرا بلاوا آگیا ہے اور میں نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا ہے میں تم میں دوعظیم چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں ایک کا مرتبہ دوسرے سے بڑھا ہوا ہے کتاب اللہ اور میرا گھرانہ اہل بیت۔ پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تمہارا ان دونوں کے بارے میں کیا رویہ ہے، اور یہ دونوں باہم کبھی جدا نہ ہوں گے حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں اللہ میرا مولی ہے اور میں ہر مومن کا ولی ہوں، اور جس کا میں مولی علی بھی اس کے مولی۔ اے اللہ جو ان سے محبت رکھے آپ بھی اس سے محبت رکھے اور جو ان سے دشمنی رکھے آپ بھی اس سے دشمنی رکھئے۔ الکبیر للطبرانی ، المستدرک للحاکم، بروایت ابی الطفیل ، عن زید بن ارقم۔

954

954 – "يا أيها الناس إني تارك فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا كتاب الله وسنة نبيه ". (ق عن ابن عباس) .
٩٥٤۔۔ اے لوگو ! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں اگر تم اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی گمراہی میں نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب، اور اس کے نبی کی سنت ہے۔ بخاری مسلم ، بروایت ابن عباس (رض)۔

955

955 – "كتاب الله وسنتي لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض".(أبوالنصر السجزي في الإبانة وقال غريب جدا عن أبي هريرة) .
٩٥٥۔۔ اللہ کی کتاب ، اور میری سنت دونوں باہم کبھی جدا نہ ہوں گے۔۔ حتی کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں۔ ابونصر السجزی ، فی الابانہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ لیکن صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔

956

956 – "كتاب الله هو حبل الله الممدود من السماء إلى الأرض". (ش وابن جرير عن أبي سعيد) .
٩٥٦۔۔ کتاب اللہ اللہ کی رسی ہے ہے جو آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ ابن ابی شبیہ، ابن جریر بروایت ابی سعید۔

957

957 – "إني لا أجد لنبي إلا نصف عمر الذي كان قبله وإني أوشك أن أدعى فأجيب فما أنتم قائلون قالوا نصحت قال أليس تشهدون أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وأن الجنة حق وأن النار حق وأن البعث بعد الموت حق قالوا نشهد قال وأنا أشهد معكم ألا هل تسمعون فإني فرطكم على الحوض وأنتم واردون علي الحوض وإن عرضه أبعد ما بين صنعاء وبصرى فيه أقداح عدد النجوم من فضة فانظروا كيف تخلفوني في الثقلين قالوا وما الثقلان يا رسول الله قال كتاب الله طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم فاستمسكوا به ولا تضلوا والآخر عترتي وأن اللطيف الخبير نبأني أنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فسألت ذلك لهما ربي فلا تقدموهما فتهلكوا ولا تقصروا عنهما. فتهلكوا ولا تعلوهم فإنهم أعلم منكم من كنت أولى به من نفسه فعلي وليه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه". (طب عن أبي الطفيل عن زيد بن أرقم) .
٩٥٧۔۔ قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہہ دوں، تو تمہارا میرے متعلق کیا خیال ہے صحابہ کرام نے عرض کیا آپ مکمل طور پر ہمارے ساتھ خیرخواہی فرماچکے ہیں۔ کیا تم شہادت نہیں دیتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں۔ اور یہ کہ جنت حق ہے۔ جہنم حق ہے دوبارہ اٹھایاجانا حق ہے صحابہ کرام رضوان اللہ نے عرض کیا ہم ضرور اس کی شہادت دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، اور میں بھی تمہارے ساتھ شہادت دیتاہوں۔
توجہ سے میری بات سنو۔۔ میں تمہارے لیے آگے جانے والاہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پرآؤ گے جس کی چوڑائی صنعاء سے بصری تک ہوگی اس میں ستاروں کی طرح لاتعداد سونے چاندی کے آبخورے ہوں گے پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تمہارا ن دونوں عظیم چیزوں کے بارے میں کیا رویہ ہے۔ پوچھا گیا وہ دوعظیم چیزیں کیا ہیں یارسول اللہ فرمایا بڑی تو کتاب اللہ ہے جس کا ایک سر اللہ کے دست قدرت میں ہے تودوسراسرا تمہارے ہاتھ میں اس کو مضبوطی سے تھام لوتوہرگز کبھی لغزش میں مبتلا نہیں ہوں گے نہ کبھی گمراہی میں پڑو گے دوسرا میرا خاندان۔ اور مجھے لطیف وخبیرذات نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی باہم جدا نہ ہوں گے حتی کہ یہ حوض پر میرے پاس آجائیں اور اس چیز کا میں نے ان کے لیے اپنے پروردگار سے سوال کیا تھا، سو تم ان دونوں سے آگے بڑھنے کی کبھی سوچنا مت، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے نہ ان کی متعلق کوتاہی کرنا، نہ ان کو کچھ سکھانے کی کوشش کرنا، کیونکہ وہ تم سے زیادہ علم والا ہے۔ اور میں ہر مومن کا ولی ہوں، اور جس کا میں مولی علی بھی اس کامولی ہے ، اے اللہ جو ان سے محبت رکھے آپ بھی اس سے محبت رکھئے۔ اور جو ان سے دشمنی رکھے آپ بھی اس سے دشمنی رکھئے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابی الطفیل، بروایت زید بن ارقم۔

958

958 – "يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير إنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله وإني قد يوشك أن أدعى فأجيب وإني مسؤول وإنكم مسؤولون فما أنتم قائلون قالوا نشهد أنك قد بلغت ورسوله وأن جنته حق وناره حق وأن الموت حق وأن البعث حق بعد الموت وأن الساعة آتية لا ريب فيها وأن الله يبعث من في القبور يا أيها الناس إن الله مولاي وأنا مولى المؤمنين أولى بهم من أنفسهم فمن كنت مولاه فهذا مولاه يعني عليا اللهم وال من والاه وعاد من عاداه يا أيها الناس إني فرطكم وإنكم واردون علي الحوض أعرض ما بين بصرى إلى صنعاء فيه عدد النجوم قدحان من فضة وإني سائلكم حين تردون علي عن الثقلين فانظروا كيف تخلفوني فيهما الثقل الأكبر كتاب الله عز وجل سبب طرفه بيد الله وطرفه بأيديكم فاستمسكوا به لا تضلوا ولا تبدلوا وعترتي أهل بيتي فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنهما لن ينقضيا حتى يردا علي الحوض". (الحكيم طب عن أبي الطفيل عن حذيفة بن أسيد) .
٩٥٨۔۔ اے لوگو مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی کہ کسی نبی نے اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر جتنی زندگی سے زیادہ زندگی نہیں پائی سو قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کی دعوت پر لبئیک کہہ دوں، اور مجھ سے بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا تو تم کیا کہو گے صحابہ کرام نے عرض کیا ہم شہادت دیں گے کہ آپ نے حق تبلیغ ادا کردیا۔ آپ نے فرمایا، کیا تم شہادت نہیں دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں ، اور یہ کہ جنت حق ہے جہنم حق ہے موت کے بعد دوبارہ اٹھایاجانا حق ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ قبروں کے مردوں کو دوبارہ اٹھائیں گے اے انسانو، اللہ میرا مولا ہے ، اور میں مومنین کامولی ہوں، ان کے نفوس سے زیادہ ان پرولایت رکھتا ہوں پس جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کے مولی ہیں اے اللہ جو انھیں دوست رکھے آپ بھی ان کو دوست رکھئے۔ اور جو ان سے دشمنی رکھے آپ بھی اس سے دشمنی رکھو۔ میں تمہارے لیے آگے جانے والا اور تم میرے پاس حوض کوثر پرآؤ گے جس کی چوڑائی صنعاء سے بصری تک ہوگی۔ اس میں ستاروں کی تعداد سے زیادہ سونے چاندی کے آبخورے ہوں گے اور جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں تم سے ان دو چیزوں عظیم کے بارے میں سوال کروں گا، کہ ان کے بارے میں تمہارا کیا رویہ ہے ان میں سے بڑی اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کے دست قدرت میں ہے تو دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں۔ اس کو مضبوطی سے تھام لو تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے اور دوسرا میرا خاندان اہل بیت ہے اور مجھے لطیف وخبیر ذات نے خبر دی کہ یہ دونوں کبھی ختم نہ ہوں گے حتی کہ میرے پاس حوض پر آجائیں۔ الحکیم الطبرانی فی الکبیر، بروایت ابی الطفیل ، عن حذیفہ بن اسید۔

959

959 – "يا أيها الناس إنه لم يبعث نبي قط إلا عاش نصف ما عاش الذي قبله وإني أوشك أن أدعى فأجيب وإني تارك فيكم ما لن تضلوا بعده كتاب الله". (طب عن زيد بن أرقم) .
٩٥٩۔۔ اے لوگو۔ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے مگر انھوں نے اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر جتنی زندگی پائی سو قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہہ دوں میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں کہ تم اس کے بعد ہرگز کبھی گمراہی نہ پڑو گے وہ اللہ کی کتاب ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت زید ن ارقم۔

960

960 – "أطيعوني ما دمت بين أظهركم فإذا ذهبت فعليكم بكتاب الله أحلوا حلاله وحرموا حرامه فإنه سيأتي زمان يسري على القرآن في ليلة فيسلخ من القلوب والمصاحف". (الديلمي عن معاذ) .
٩٦٠۔۔ جب تک میں تمہارے درمیان ہوں ، میری اطاعت کرتے رہو، اور جب گزرجاؤں تو کتاب اللہ کی لازمی طور پر تھام لینا، اس کے حلال کو حال اور حرام کو حرام قرار دینا، عنقریب قرآن پر ایک زمانہ آئے گا کہ وہ ایک رات میں مصاحف اور قلوب سے نکل جائے گا۔ الفردوس دیلمی، بروایت معاذ (رض)۔

961

961 – "أنا محمد النبي الأمي أنا محمد النبي الأمي أنا محمد النبي الأمي ولا نبي بعدي أوتيت فواتح الكلم وخواتمه وجوامعه وعلمت كم خزنة النار حملة العرش وبحوة ربي وعوفيت وعوفيت أمتي فاسمعوا وأطيعوا ما دمت فيكم فإذا ذهب بي فعليكم بكتاب الله أحلوا حلاله وحرموا حرامه". (حم عن ابن عمر) .
٩٦١۔۔ میں محمد امی پیغمبر ہوں میں محمدامی پیغمبر ہوں، میں محمد امی پیغمبر ہوں ، میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، مجھے ابتدائی کلمات اختتامی کلمات اور جامع کلمات دیے گئے اور مجھے معلوم ہے کہ جہنم کے کتنے داروغے ہیں اور حاملین عرش کی کیا تعداد ہے اور میرے رب میں اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے عافیت کا طلب گار ہوں سو جب تک میں تمہارے درمیان ہوں مجھ سے سن سن کر اطاعت کرتے رہو، جب مجھے اٹھالیا جائے گا تو کتاب اللہ کو لازم پکڑو۔ اس کے حلال کو حلال سمجھو اور حرام کو حرام۔ مسنداحمد، بروایت ابن عمر (رض)۔

962

962 – "إن أفضل الحديث كتاب الله وأحسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وآله وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة ومن ترك مالا فلأهله ومن ترك دينا أو ضياعا فعلي". (طس عن جابر) .
٩٦٢۔۔ سب سے افضل بات کتاب اللہ کی ہے ، اور سب سے اچھا طریقہ محمد کا طریقہ ہے اور سب سے بدترامردین میں نئی بات پیدا کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جس نے مال چھورا اس کے اہل و عیال کے لیے اور جس نے قرض یا بےآسرا اہل وغیرہ چھوڑے اس کا بوجھ میرے ذمہ ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت جابر (رض)۔

963

963 – "أصدق الحديث كتاب الله وأحسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وآله وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة". (حم عن ابن مسعود) .
٩٦٣۔۔ سب سے سچی بات کتاب اللہ کی ہے سب سے عمدہ طریقہ محمد کا طریقہ ہے اور سب سے بدترین امردین میں نئی پیدا کردہ باتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ مسنداحمد، بروایت ابن مسعود۔

964

964 – "اعملوا بكتاب الله فما أشتبه عليكم فاسألوا أهل العلم يخبروكم وآمنوا بالتوراة والانجيل وآمنوا بالفرقان فإن فيه البيان وهو الشافع وهو المشفع والماحل والمصدق". (ك عن معقل بن يسار) .
٩٦٤۔۔ کتاب اللہ پر عمل کرتے رہو، جو بات مشتبہ ہوجائے اس کو اہل علم سے دریافت کرلو، وہ تمہیں خبر دے گیں، اور توراۃ پر بھی ایمان لاؤ اور اس فرقان پر بھی ایمان لاؤ اس میں ہرچیز کا بیان ہے یہ شفاعت کنندہ ہے اور مقبول الشفاعہ، ہے اور ایسامزاحم ہے جس کی مزاحمت تسلیم کی جاتی ہے۔ المستدرک للحاکم، بروایت معقل بن یسار۔

965

965 – "اعملوا بالقرآن أحلوا حلاله وحرموا حرامه واقتدوا به ولا تكفروا بشيء منه وما تشابه عليكم منه فردوه إلى الله عز وجل وإلى أولي العلم من بعدي كيما يخبروكم وآمنوا بالتوراة والإنجيل والزبور وما أوتي النبيون من ربهم وليسعكم القرآن وما فيه من البيان فإنه شافع مشفع وما حل مصدق ألا وإن لكل آية نورا يوم القيامة ألا وإني أعطيت سورة البقرة من الذكر الأول وأعطيت طه والطواسين من ألواح موسى وأعطيت فاتحة الكتاب وخواتيم سورة البقرة من كنز تحت العرش وأعطيت المفصل نافلة". (محمد بن نصر طب ك ق كر عن معقل بن يسار) .
٩٦٥۔۔ قرآن پر عمل پیرارہو، اس کے حلال اور حرام کو حرام جانتے ہو، اس کی اقتداء کو لازم پکڑلو، اس کی کسی بات کا انکار ہرگز کبھی نہ کرنا۔ جو بات مشتبہ ہوجائے اس کو میرے کوچ کرجانے کے بعد اللہ عزوجل اور اہل علم پر پیش کرو وہ تمہیں خبردیں گے توراۃ انجیل، زبور، اور جو کچھ دیگر انبیاء کو دیا گیا ہے ان سب پر ایمان لاؤ۔ لیکن قرآن اور جو کچھ اس میں ہے وہ تمہیں کافی ہے یہ شفاعت کنندہ اور مقبول الشفاعہ، بھی ہے۔ اور ایسامزاحم ہے جس کی مزاحمت تسلیم کی جاتی ہیی ۔ آگاہ رہو، ہر آیت کا قیامت کے دن اپنانور ہوگا اور مجھے اول ذکر سے سورة بقرہ دی گئی ہے موسیٰ کی تختیوں سے طہ وارطاسین عطا کی گئی ہیں تحت العراشہ خزانہ سے سورة فاتحہ اور سو رہ بقرہ کی اختتامی آیات دی گئی ہیں اور مفصل کی سورتیں بطور نفل عطا کی گئی ہیں۔ محمد بن نصر، الطبرانی فی الکبیر، المستدرک للحاکم، بخاری، مسلم، ابن عساکر، بروایت معقل بن یسار۔

966

966 – "عليكم بالقرآن فإنه كلام رب العالمين هو منه فآمنوا بمتشابهه واعتبروا بأمثاله" (الديلمي عن جابر) وفيه الكديمي "أبهذا أمرتم ولهذا خلقتم أن تضربوا كتاب الله بعضا ببعض انظروا ما أمرتم به فاتبعوه وما نهيتم عنه فانتهوا". (نصر المقدسي في الحجة عن ابن عمرو) .
٩٦٦۔۔ تم پر قرآن تھامنالازم ہے کیونکہ وہ رب العالمین کا کلام ہے اسی سے اس کا صدور ہوا ہے اس کی متشابہ آیات پر ایمان لاؤ اور اس کی مثال سے عبرت پکڑو۔ الفردوس دیلمی (رح) ۔ بروایت جابر۔ اور اس میں ایک راوی کدیمی ہیں ۔۔ جن کے الفاظ یہ ہیں کیا تم کو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کیا تم اسی لی پیدا کیے گئے ہو کہ کتاب اللہ کے حصوں کو ایک دوسرے پرلے کر آپس میں بحث کرو۔ دیکھو میں جس بات کا حکم کروں اس بجالاؤ۔ جس سے منع کروں اس سے باز آجاؤ۔ نصر المقدسی ، فی الحجہ، بروایت ابن عمرو۔

967

967 – "أبهذا أمرتم أو بهذا عنيتم إنما هلك الذين من قبلكم بأشباه هذا ضربوا كتاب الله بعضه ببعض أمركم الله بأمر فاتبعوا ونهاكم عن شيء فانتهوا". (قط في الأفراد والشيرازي في الألقاب عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى قوما يتراجعون في القدر قال فذكره.
٩٦٧۔۔ کیا اسی بات کا تم کو حکم دیا گیا ہے ؟ کیا تم سے یہی مطلوب تھا ؟ تم سے پہلے جو لوگ ہلاکت میں پڑے انھوں نے بھی اسی طرح کتاب اللہ کے حصوں کو ایک دوسرے پرلے کر آپس میں بحث کرنا شروع کردی پس جس بات کا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اس پر کا بند ہوجاؤ، اور جس بات سے منع کیا ہے۔ اس سے باز آجاؤ۔ الدارقطنی فی الافراد، الالقاب للثیرازی ، بروایت انس (رض)۔ راوی حدیث حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قوم کو دیکھا کہ باہم تقدیر کے مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں تو آپ نے مذکورہ ارشاد فرمایا۔

968

968 – "أبهذا أمرتم أم بهذا أرسلت إليكم إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الأمر عزمت عليكم أن لا تنازعوا فيه". (ت حسن عن أبي هريرة) .
٩٦٨۔۔ کیا اسی کا تم کو حکم دیا گیا ہے کیا یہی چیز دے کر مجھے تمہارے پاس بھیجا گیا ہے پہلے کے لوگ بھی اسی وجہ سے قعر ہلاکت میں پڑے جب انھوں نے ایسے مسائل میں جھگڑناشروع کردیا سو میں تم کو انتہائی سختی سے تاکید کرتا ہوں کہ تم ان مسائل میں مت الجھو۔ ترمذی بروایت ابوہریرہ ۔ حدیث حسن ہے۔ ترمذی۔

969

969 – "أبهذا بعثتم أم بهذا أمرتم ألا لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض". (بز وابن الضريس طس عن أبي سعيد مثله) .
٩٦٩۔۔ کیا اسی بات کیس اتھ مبعوث کیا گیا ہوں ؟ کیا اسی بات کا تم کو حکم ملا ہے خبردار میرے بعد کافر بن کر الٹے پاؤں نہ پھرجانا کہ ایک دوسرے کے سرقلم کرنے لگو۔ مسندالبزار، ابن الضر ۔ الاوسط للطبرانی بروایت ابی سعید مثلہ۔

970

970 – "إنما هلك من كان قبلكم بهذا ضربوا كتاب الله بعضه بعضا وإنما نزل كتاب الله يصدق بعضه بعضا ولا يكذب بعضه بعضا ما علمتم فيه فقولوا وما جهلتم فكلوه إلى عالمه". (هب عن ابن عمرو) .
٩٧٠۔۔ تم سے پہلے لوگوں کے ہلاک ہونے کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے اسی طرح کتاب اللہ کے بعض حصوں کو بعض حصوں کے ساتھ معارضانہ پیش کرکے بحث وتمحیص کا دروازہ کھول لیا تھا، حالانکہ کتاب اللہ اس طرح نازل ہوئی ہے کہ یہ آپس کے ایک دوسرے حصوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس کا کوئی حصہ کسی حصہ کی تردید یا تکذیب ہرگز نہیں کرتا، پس اس کے متعلق جس بات کا تم کو علم ہوا اس کو زبان پر لاسکتے ہو اور اگر علم نہیں ہے تو اس کو عالم کے سپرد کردو۔ شعب الایمان بروایت ابن عمرو۔

971

971 – "إنما أهلك من كان قبلكم الإختلاف". (حب ك عن ابن مسعود) .
٩٧١۔۔ پہلے لوگوں کو محض ان کے اختلاف نے تباہی تک پہنچایا۔ صحیح لابن حبان، المستدرک لحاکم، بروایت ابن مسعود (رض)۔

972

972 – "ذروني ما تركتكم فإنما أهلك من كان قبلكم اختلافهم على أنبيائهم فما أمرتكم به من شيء فأتوا منه ما استطعتم وما نهيتكم عنه فاجتنبوه ما استطعتم". (طس عن أبي هريرة) .
٩٧٢۔۔ میں نے تم کو چھوڑ دیاتم بھی مجھ چھوڑ دو ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا پس جب میں تم کو کوئی حکم کروں تو اس کو اپنی وسعت کے بقدر بجالاؤ۔ اور جب کسی چیز سے تم کو منع کروں توہمت اور وسعت کے مطابق اس سے باز آجاؤ۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

973

973 – "ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم فما أمرتكم به من شيء فأتوا منه ما استطعتم وما نهيتكم عنه فانتهوا ". (طس عن المغيرة) .
٩٧٣۔۔ میں تم کو چھوڑ دیا تم بھی مجھے چھوڑ دو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے کثرت سے سوال کرنا شروع کردیے انبیاء سے اختلاف کرنا شروع کردیا، پس جب میں تم کو کوئی حکم دوں تو اس کو اپنی وسعت کے بقدر بجالاؤاورجب کسی چیز سے منع کروں توباز آجاؤ۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت المغیرہ۔

974

974 – "ذروني ما تركتكم فإنما هلك من كان قبلكم بسؤالهم واختلافهم على أنبيائهم فما أمرتم به فأتوا منه ما استطعتم وما نهيتم عنه فانتهوا وما أخبرتكم به أنه من عند الله فهو لا شك فيه". (حب عن أبي هريرة) .
٩٧٤۔۔ میں نے تم کو چھوڑ دیا تم بھی مجھے چھوڑ دو ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے کثرت سے اپنے انبیاء سے سوال کرنا اور ان سے اختلاف کرنا شروع کردیا تھا، پس جب تم کو کوئی حکم دیا جائے تو اس کو اپنی وسعت کے بقدر بجالاؤ، اور جب کسی چیز سے منع کیا جائے توا س سے باز آجاؤ۔ اور جس بات کے متعلق میں تمہیں بتاؤں کہ وہ من جانب اللہ ہے تو اس میں کسی شک وشبہ کی قطعا گنجائش نہیں۔ ابن حبان، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

975

975 – "لو أني أحرم عليكم لاحترقتم وإن تحريم الأشياء لا تطيقه الجبال". (طب عن سمرة) .
٩٧٥۔۔ اگر میں تم پر اشیاء کو یوں حرام قرار دینے لگ جاؤ تو تم شدت اور سختی کی وجہ سے بھسم ہو کررہ جاؤ۔ کیونکہ اشیاء کو حرام قرار دینے کی پہاڑ بھی طاقت نہیں رکھتے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت سمرۃ۔

976

976 – "سيكون ناس من أمتي يضربون القرآن بعضه ببعض ليبطلوه ويتبعون ما تشابه منه ويزعمون أن لهم في أمر ربهم سبيلا ولكل دين مجوس وهم مجوس أمتي وكلاب النار". (ابن عساكر عن البحتري بن عبيد عن أبيه عن أبي هريرة) والبحتري متروك.
٩٧٦۔۔ عنقریب میری امت کے بعض لوگ آئیں گے جو قرآن میں بعض مواضع سے دوسرے بعض مواضع پر اشکال کریں گے تاکہ اس کو باطل قرار دے سکیں اور اس کی متشابہ آیات میں غوروخوض کریں گے اور وہ اس زعم باطل میں گرفتار ہوں گے کہ وہی اپنے رب کے دین میں سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔ ہر دین میں مجوسی چلے آئے ہیں اور میری امت کے مجوسی یہی لوگ ہیں جو جہنم کے کتے ہیں۔ ابن عساکر، بروایت البحتری، بن عبید عن ابیہ عن ابوہریرہ (رض)۔

977

977 – "مالكم تضربون كتاب الله بعضه ببعض بهذا هلك من كان قبلكم". (حم عن ابن عمر) .
٩٧٧۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ کتاب خداوندی کی آیات کو دوسری آیات پر تضا د میں پیش کرتے ہو ؟ جبکہ اسی وجہ سے اگلی اقوام ہلاک ہوئیں۔ مسنداحمد، بروایت ابن عمر (رض)۔

978

978 – "مهلا يا قوم بهذا هلكت الأمم من قبلكم باختلافهم على أنبيائهم وضربهم الكتب بعضها ببعض إن القرآن لم ينزل يكذب بعضه بعضا بل يصدق بعضه بعضا فما عرفتم منه فاعملوا وما جهلتم منه فردوه إلى عالمه". (حم عن ابن عمرو) .
٩٧٨۔۔ ذرا ٹھہرا اے قوم ! تم سے پہلی اقوام اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوجائیں کہ وہ اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے لگیں، اور کلام خداوندی کی آیات میں معارضہ پیش کرنے لگیں بیشک قرآن یوں نازل نہیں ہوا کہ اس کی آیات آپس میں معارض ہوں بلکہ اس کی آیات تو آپس میں ایک دوسرے کے مضمون کی تصڈیق کرتی ہیں سو جس کا تم کو علم ہو اس پر عمل بجالاؤ اور جس سے ناواقف ہو اس کو کسی عالم پر پیش کردو۔

979

979 – "إذا رأيتم الذين يتبعون ما تشابه منه فأولئك الذين سمى الله فاحذروهم". (حم خ م د ن هـ عن عائشة) .
٩٧٩۔۔ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کی تحقیق و جستجو میں سرگرداں ہیں تو جان لو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تشخیص فرمائی ہے پس ان سے اجتناب کرو۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بروایت عائشہ (رض)۔

980

980 – "إن الله عز وجل فرض فرائض فلا تضيعوها وحد حدودا فلا تعتدوها وحرم أشياء فلا تقربوها وترك أشياء غير نسيان رحمة لكم فلا تبحثوا عنها". (طب حل ق عن أبي ثعلبة الخشني) .
٩٨٠۔۔ اللہ نے بعض فرائض مقرر فرمائے ہیں ان کو پس پشت نہ ڈال بیٹھو اور بعض حدود بھی مقرر فرمائی ہیں ان سے کبھی تجاوز نہ کرو، اور بعض اشیاء کو حرام قرار دیا ہے سو ان کے قریب بھی نہ پھٹکنا ، اور بہت سی اشیا سے بغیر کسی بھول اور نسیان کے محض تم پر نظر رحمت کرتے ہوئے سکوت فرمایا ہے سو ان کے متعلق کھود کرید میں نہ پڑو۔ الطبرانی فی الکبیر، الحلیہ، بخاری، مسلم، بروایت ابی ثعلبہ۔

981

981 – "إن الله عز وجل افترض فرائض فلا تضيعوها وحد حدودا فلا تعتدوها وسكت عن كثير من غير نسيان فلا تكلفوها رحمة لكم فاقبلوها". (طس عن أبي الدرداء) .
٩٨١۔۔ اللہ نے بعض فرائض مقرر فرمائے ہیں ان کو پس پشت نہ ڈال بیٹھو، اور بعض حدود بھی مقرر فرمائی ہیں ان سے کبھی تجاوز نہ کرو، اور بعض اشیاء کو حرام قرار دیا ہے سو ان کے قریب بھی نہ پھٹکنا ، اور بہت سی اشیاء سے بغیر کسی بھول اور نسیان کے محض تم پر نظررحمت کرتے ہوئے سکوت فرمایا ہے سو ان کی خاطر مشقت میں نہ پڑو۔ بلکہ ان کو قبول کرلو۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت ابی الدرداء (رض) ۔

982

982 – "أيحسب أحدكم متكئا على أريكته أن الله تعالى لم يحرم شيئا إلا ما في هذا ألا وإني قد أمرت ووعظت ونهيت عن أشياء، وإنها كمثل القرآن أو أكثر، وإن الله عز وجل لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا أكل ثمارهم إذا أعطوكم الذي عليهم". (د ق عن العرباض بن سارية) .
٩٨٢۔۔ کیا تم میں سے کوئی اپنی مسہری پر ٹیک لگائے یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو حرام کردہ اشیاء کے سو اکچھ بھی حرام نہیں فرمایا ؟ حالانکہ میں نے بھی بعض اشیاء کا حکم دیا ہے اور نصیحت کی ہے اور کئی اشیاء سے منع کیا ہے اور وہ بھی قرآن کی طرح ہیں یا اسے بھی مرتبہ میں بڑھ کر آگاہ رہو کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں فرمایا کہ تم کسی اہل کتاب کے گھر اس کی اجازت کے بغیر داخل ہوجاؤ، نہ ان کی عورتوں کو مارنا نہ ان کے پھلوں کو کھاناحلال فرمایا جبکہ وہ اپنے ذمہ فرض کو ادا کرچکے ہوں۔ ابوداؤد، بخاری، مسلم، بروایت العرباض بن ساریہ (رض) ۔

983

983 – "عسى أحدكم أن يكذبني وهو متكئ على أريكته يبلغه الحديث عني فيقول ما قال ذا رسول الله دع هذا وهات ما في القرآن". (أبونصر السجزي في الابانة وقال غريب عن جابر) ، (أبونصر عن أبي سعيد) .
٩٨٣۔۔ قریب ہے کہ تمہارے میں سے کوئی فرد مسہری پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو وہ اس کی تکذیب کرے اور کہے کہ یہ اللہ کے رسول کا کہا، ترک کردو۔۔۔ صرف قرآن کے فرمان کو مان لو۔ ابونصر السجزی فی الابانہ بروایت جابر، (رض) ابونصر ابی سعید۔ حدیث غریب ہے۔

984

984 – "ماذا يحل لكم من أموال المعاهدين بغير حقها يقولون ما وجدنا في كتاب الله من حلال أحللناه وما وجدنا فيه من حرام حرمناه ألا وإني أحرم أموال المعاهدين وكل ذي ناب من السباع وما سخر من الدواب إلا ما سمى الله عز وجل". (طب عن المقدام) .
٩٨٤۔۔ معاہدین کے اموال بغیر حق کے تمہارے لیے حلال نہیں بعض لوگ آئیں گے اور کہیں گے ہم جو کتاب اللہ میں حلال پائیں گے اس کو حلال قرار دی گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اس کو حرام قرار دیں گے سوآگاہ رہو میں معاہدین ذمیوں کے اموال کو اور ہر ذی ناب درندہ اور جن چوپایوں سے بیگار لی جاتی ہے ان کو حرام قرار دیتا ہوں ماسوا ان کے جن کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔ الطبرانی فی الکبیر، بروایت المقدام۔

985

985 – "لا أعرفن أحدا منكم أتاه عني وهو متكئ على أريكته يقول اتلوا علي به قرآنا ما جاءكم عني من خير قلته أو لم أقله فإني أقوله وما أتاكم عني من شر فإني لا أقول الشر". (حم عن أبي هريرة) .
٩٨٥۔۔ میں تمہارے کسی شخص کو یوں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میری حدیث پہنچے اور وہ تکیہ لگائے ہوئے ہو اور کہے مجھے اس کے بجائے قرآن پڑھ کرسناؤ پس آگارہ رہو میری طرف سے جو بھلی بات تم کو پہنچے خواہ وہ میں نے کہی ہو یا نہ کہی ہو اسے میرا ہی قول سمجھو۔ اور جو شربات میری طرف سے تم کو پہنچے یاد رکھو کہ میں کبھی کوئی شر کی بات نہیں کیا کرتا۔ مسنداحمد، بروایت ابوہریرہ ۔

986

986 – "يوشك أحدكم أن يقول هذا كتاب الله ما كان فيه من حلال حللناه وما كان فيه من حرام حرمناه ألا من بلغه حديث فكذبه فقد كذب الله ورسوله والذي حدثه". (أبونصر السجزي في الإبانة عن جابر) .
٩٨٦۔۔ عنقریب تمہارا کوئی فرد یوں کہے گا یہ کتاب اللہ ہے جو اس میں حلال ہے ہم اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور جو اس میں حرام ہے ہم اس کو حرام قرار دیتے ہیں خبردار، جس کو میری حدیث پہنچے وہ اس کی تکذیب کردے تو گویا اس نے اللہ اور اس کے رسول اور اس حدیث کے مبلغ کی بھی تکذیب کردی۔ ابونصر السجری فی الابانہ ، بروایت جابر (رض)۔

987

987 – "إني والله لا يمسك الناس علي بشيء، وإني لا أحل إلا ما أحل في كتابه ولا أحرم إلا ما حرم الله في كتابه". (الشافعي وابن سعد ق عن عقبة بن عمير الليثي مرسلا) .
٩٨٧۔۔ اللہ کی قسم لوگ میری طرف کسی چیز کو منسوب نہ کریں میں کسی چیز کو حلال کرتا اور نہ حرام، مگر جو اللہ نے اپنی کتاب مقدس میں حرام فرمایا ہے۔ الشافعی، ابن سعد، بخاری، ومسلم، بروایت عقبہ بن عمیر اللیثی مرسلا۔

988

988 – " لا يمسكن الناس علي شيئا إني لا أحل إلا ما أحل الله في كتابه ولا أحرم إلا ما حرم الله في كتابه". (الشافعي وابن سعد ق عن عقبة) .
٩٨٨۔۔ لوگ مجھ پر کسی چیز کونہ ڈالیں میں کسی چیز کو حلال نہیں کرتا مگر جو اللہ نے حلال فرمایا اور کسی چیز کو حرام نہیں کرتا مگر جو اللہ نے حرام فرمایا ہے۔ الشافعی، ابن سعد، بخاری، مسلم، بروایت عقبہ ۔

989

989 – "لا تمسكوا علي شيئا فإني لا أحل إلا ما أحل الله في كتابه ولا أحرم إلا ما حرم الله في كتابه". (طس عن عائشة) .
٩٨٩۔۔ مجھ پر کسی چیز کا بار نہ ڈالو میں کسی چیز کو حلال نہیں کرتا مگر جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اور کسی چیز کو حرام نہیں کرتا مگر جو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا۔ الاوسط للطبرانی بروایت عائشہ (رض)۔

990

990 – "لا يمسكن الناس علي شيئا وإني لا أحل لهم إلا ما أحل الله ولا أحرم عليهم إلا ما حرم الله". (الشافعي ق في المعرفة عن طاووس) . مرسلا.
٩٩٠۔۔ لوگ میری طرف کسی چیز کو منسوب نہ کریں میں ان کے لیے کسی چیز کو حلال کرتا اور نہ حرام، مگر جو اللہ نے حرام فرمایا ۔ الشافعی ، بخاری و مسلم فی المعرفۃ بروایت طاؤوس۔ یہ حدیث مرسل ہے۔

991

991 – "يا أيها الناس أنزل الله كتابه على لسان نبيه وأحل حلاله وحرم حرامه فما أحل في كتابه على لسان نبيه فهو حلال إلى يوم القيامة وما حرم في كتابه على لسان نبيه فهو حرام إلى يوم القيامة". (أبونصر السجزي في الإبانة وقال حسن غريب عن أنس بن عمير الليثي) مرسلا.
٩٩١۔۔ اے انسانو، اللہ نے اپنے پیغمبر کی زبان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس میں حلال کو حلال فرمایا اور حرام کو حرام۔ سو جو اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر کی زبان سے حلال فرمایا وہ تاقیامت حلال رہے گا، اور جو اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر کی زبان سے حرام فرمایا وہ تاقیامت حرام رہے گا۔ ابونصر السجزی فی الابانہ بروایت انس بن عمیر اللیثی۔ یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔

992

992 – "ألا إن رحى الإسلام دائرة قيل فكيف نصنع يا رسول الله قال اعرضوا حديثي على الكتاب فما وافقه فهو مني وأنا قلته". (طب وسمويه عن ثوبان) .
٩٩٢۔۔ آگاہ رہو ، اسلام کی چکی اپنے دائرہ میں رواں ہے آپ سے دریافت کیا گیا پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے یارسول اللہ آپ نے فرمایا میری حدیث کا کتاب اللہ سے تقابل کرو، سوجوموافق پاؤ تو جان لو کہ وہ حدیث مجھ سے صادر ہوئی ہے اور میں ہی اس کا قائل ہوں۔ الطبرانی فی الکبیر، سمویہ بروایت ثوبان۔

993

993 – "سئلت اليهود عن موسى فأكثروا فيه وزادوا ونقصوا حتى كفروا وإنه ستفشوعني أحاديث فما أتاكم من حديثي فاقرؤوا كتاب الله واعتبروه فما وافق كتاب الله فأنا قلته وما لم يوافق كتاب الله فلم أقله". (طب عن ابن عمر) .
٩٩٣۔۔ یہود سے موسیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کے جواب میں مبالغہ کیا اور کمی بیشی کی۔۔ حتی کہ کفر کے مرتکب ہوگئے اور عنقریب میری احادیث کی کثرت سے ترویج ہوجائے گی، پس تمہارے پاس جو میری حدیث پہنچے تو کتاب اللہ پڑھو اور حدیث کو کتاب اللہ پر قیاس کروسو اگر موافق پاؤ تو جان لو کہ میں ہی اس حدیث کا قائل ہوں اور اگر وہ حدیث کتاب اللہ کے ناموافق پاؤ تو سمجھ لو کہ میں اس کا قائل نہیں ہوسکتا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عمر (رض)۔

994

994 – "ستكون عني رواة يروون الحديث فاعرضوه على القرآن فإن وافق القرآن فخذوها وإلا فدعوها" . (ابن عساكر عن علي) .
٩٩٤۔۔ عنقریب بہت سے راویان حدیث میری طرف سے احادیث روایت کریں گے سو تم ان احادیث کو کتاب اللہ پر پیش کرنا اور اگر وہ کتاب اللہ سے مطابقت رکھتی ہوں تو ان کو لے لینا، ورنہ ترک کردینا۔ ابن عساکر، بروایت علی (رض)۔

995

995 – "عليكم بكتاب الله وسترجعون إلى قوم يحبون الحديث عني ومن قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار فمن حفظ شيئا فليحدث به". (ابن الضريس عن عقبة بن عامر حم ك عن أبي موسى الغافقي) .
٩٩٥۔۔ تم کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہو، قریب زمانہ میں تمہارا سابقہ ایسی قوم سے پڑے گا جو میری احادیث سے بہت محبت رکھتی ہے تو جس شخص نے میری طرف سے ایسی بات نقل کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اور جو شخص کچھ احادیث وغیرہ یاد کرے تو وہ اس کو آگے بیان کردے۔ ابن الضریس بروایت عقبہ بن عامر، مسنداحمد، المستدرک للحاکم، بروایت ابی موسیٰ الغافقی۔

996

996 – "عليكم بكتاب الله فإنكم سترجعون إلى قوم يشتهون الحديث عني فمن عقل شيئا فليحدث به ومن افترى علي فليتبوأ مقعدا وبيتا من جهنم". (طب عن مالك بن عبد الله الغافقي)
٩٩٦۔۔ کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہو، عنقریب تمہارا سابقہ ایسی قوم سے پڑے گا، جو میری احادیث کو بہت چاہیں گے سو جس کی سمجھ میں بات آجائے وہ اس کو بیان کردے اور جس نے مجھ پر افترا بازی کی وہ اپنا ٹھکانا اور گھر جہنم میں بنالے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت مالک بن عبداللہ الغافقی۔

997

997 – "ألا إنها ستكون فتنة قيل ما المخرج منها يا رسول الله قال كتاب الله فيه نبأ من قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم هو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم وهو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تلتبس به الألسنة ولا تشبع منه العلماء ولا يخلق عن كثرة الرد ولا تنقضي عجائبه، هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا: {إنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ} من قال به صدق ومن عمل به أجر، ومن حكم به عدل ومن دعا إليه هدى إلى صراط مستقيم". (ش ت وضعفه عن علي) .
٩٩٧۔۔ آگاہ رہو۔ عنقریب فتنہ رونما ہوگا دریافت کیا گیا یارسول اللہ اس سے خلاصی کی کیا صورت ہوگی فرمایا کتاب اللہ اس میں تم سے ماقبل اور مابعد کی خبریں ہیں۔ اور تمہارے درمیان وقوع پذیر اختلاف کا فیصلہ ہے یہ فیصلہ کن قول ہے نہ کہ یا وہ گوئی۔ جس نے اس کو سرکشی کی وجہ سے ترک کیا اللہ اس کو کاٹ کردکھ دیں گے۔ اور جس نے اس کے سوا کہیں اور ہدایت تلاش کی اللہ اس کو گمراہ کردیں گے یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے دانائی کا تذکرہ ہے سیدھی راہ ہے۔ خواہشات نفسانیہ اس میں کج روی پیدا نہیں کرسکتیں۔ زبانیں اس میں ملتبس نہیں ہوسکتیں، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے۔ بار بار دہرانے سے پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائبات کا خزانہ ختم نہیں ہوتا، یہ وہی کلام ہے جس سے جن بھی باز نہ رہ سکے قرآن سنا تو بےساختہ پکار اٹھے ہم نے بہت ہی عجیب کلام سنا جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے سو ہم اس پر ایمان لائے جس کا بھی یہ کلام ہے سچاکلام ہے جس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا عدل و انصاف کا فیصلہ کیا۔ جو اس پر عمل بجالاؤ اجرپا گیا۔ جس نے اس کی دعوت دی ، اسے سیدھی راہ کی راہنمائی مل گئی۔ ترمذی، بروایت علی (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

998

998 – "يأتي على الناس زمان لا تطاق المعيشة فيهم إلا بالمعصية حتى يكذب الرجل ويحلف فإذا كان ذلك الزمان فعليكم بالهرب قيل يا رسول الله وإلى أين المهرب قال إلى الله وإلى كتابه وإلى سنة نبيه ".(الديلمي عن أنس) .
٩٩٨۔۔ لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا جس میں معیشت معصیت کے سوا باقی نہ رہ سکے گی۔۔۔ حتی کہ آدمی جھوٹ اور قسم بازی سے بھی دریغ نہ کرے گا، سو جب ایسازمانہ سرپرامنڈ آئے تو راہ فراراختیار کرو۔ دریافت کیا گیا کس طرف راہ فرار اختیار کریں یارسول لالہ فرمایا اللہ اور اس کی کتاب مقدس اور اس کے پیغمبر کی سنت کی طرف راہ پکڑو۔ الفردوس دیلمی، بروایت انس (رض)۔

999

999- "ما بال أقوام يشرفون المترفين ويستخفون بالعابدين ويعملون بالقرآن ما وافق أهواءهم، وما خالف تركوه، فعند ذلك يؤمنون ببعض الكتاب ويكفرون ببعض يسعون فيما يدرك بغير سعي من القدر والمقدور والأجل المكتوب والرزق المقسوم، ولا يسعون فيما لا يدرك إلا بالسعي من الجزاء الموفور والسعي المشكور والتجارة التي لا تبور" (طب وابن منده في غرائب شعبه حل هب والخطيب عن ابن مسعود) ، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات.
٩٩٩۔۔ کیا حال ہوگا ایسی قوم کا، جو عیاش و مالدار لوگوں کو حسرت زندہ نگاہوں سے تکتے ہیں ؟ اور عبادت گزار بندگان خدا کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ؟ اور اپنی ہوس و خواہشات کے موافق قرآن پر عمل کرتے ہیں، اور خواہشات کے مخالف احکام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں یوں وہ قرآن کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں تو بعض حصوں کی تکفیر کرتے ہیں، اور جو عمل رزق ، عمر وغیرہ ایسے اعمال ان کے مقدر میں بغیر سعی و محنت کے لکھ دیئے گئے ہیں محض ان پر اکتفا کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور جو عظیم اجر اور نہ ختم ہونے والی تجارت سعی و محنت پر موقوف ہے اس سے کتراتے ہیں۔ الکبیر للطبرانی (رح)، ابن مندہ فی غرائب شعبہ ، الحلیہ، شعب الاایمان الخطیب عن ابن مسعود (رض)۔ ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوع احادیث میں شمار کیا ہے۔

1000

1000 – "من اتبع كتاب الله هداه الله من الضلالة، ووقاه سوء الحساب يوم القيامة، وذلك أن الله يقول: {فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى} ". (طس عن ابن عباس) .
١٠٠٠۔۔ جس نے کتاب اللہ کی پیروی کی اللہ اسے قعر ضلالت سے نکال کر نور ہدایت سے نوازیں گے اور روز قیامت حساب کتاب کی شدت سے مامون فرمائیں گے اور یہ اس لیے کہ فرمان باری ہے۔ فمن اتبع ھدای فلایضل ولایشقی، سو جس نے میری ہدایت کی اتباع کی وہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبخت۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت ابن عباس (رض)۔

1001

1001 – "يا حذيفة عليك بكتاب الله فتعلمه واتبع ما فيه". (هب عن حذيفة) .
١٠٠١۔۔ اے حذیفہ ! تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم کتاب اللہ کو تھام لو، اس کو سیکھو اور اس کے فرمودات پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ شعب الایمان ، بروایت حذیفہ (رض)۔

1002

1002 – "مهما أوتيتم من كتاب الله فالعمل به لا عذر لأحد في تركه، فإن لم يكن في كتاب الله فسنة مني ماضية، فإن لم تكن سنة مني فما قال أصحابي، إن أصحابي بمنزلة النجوم في السماء فأيها أخذتم اهتديتم واختلاف أصحابي لكم رحمة". (ق في المدخل وأبو نصر السجزي في الإبانةوقال غريب والخطيب وابن عساكر والديلمي عن سليمان ابن أبي كريمة عن جويبر الضحاك عن ابن عباس) وسليمان ضعيف وكذا جويبر.
١٠٠٢۔۔ خبردار تم کو اللہ کی کتاب مل چکی ہے ، اب اس پر عمل کرنا لازم ہوگیا ہے کسی کو اس کے ترک کرنے کا کوئی عذر نہیں ۔ سو اگر کوئی بات کتاب اللہ میں نظر نہ آئے تو میری سنت جاریہ کو پکڑو، اور اگر اس کے متعلق میری سنت نہ پاؤ تو پھر میرے اصحاب کے قول کو لازم پکڑ لو بیشک میرے اصحاب آسمان کے تاروں کی مانند ہیں کسی کی راہ بھی تھام لو ہدایت یاب ہوجاؤ گے اور میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لیے باعث رحمت ہے۔ بخاری و مسلم ، فی المدخل، ابونصر السجری ، فی الابانہ، الخطیب ابن عساکر، الدیلمی ، بروایت سلیمان بن ابی کریمہ عن جویر عن الضحاک عن ابن عباس (رض)۔ سلیمان اور جویر دونوں راوی حدیث ضعیف ہیں اور ابونصر السجری نے بھی اس حدیث کو غریب فرمایا ہے۔

1003

1003 – "ما هذه الكتب التي يبلغني أنكم تكتبونها، أكتاب مع كتاب الله؟ يوشك أن يغضب الله لكتابه؟؟ فسيرى عليه ليلا فلا يترك في ورقة ولا قلب عنه حرفا إلا ذهب به، من أراد الله به خيرا أبقى في قلبه لا إله إلا الله". (طس عن ابن عباس وابن عمر) .
١٠٠٣۔۔ یہ کیسی تمہاری لکھی ہوئی تحریر ات میرے پاس پہنچتی ہیں کیا کتاب اللہ کی موجودگی میں کسی اور کتاب کے لکھنے کی گنجائش ہے ؟ قریب ہے کہ اللہ اپنی کتاب کی وجہ سے غضبناک ہوجائے عنقریب رات کے وقت اس پر نظرثانی فرمائیں گے تو کسی کسی ورق پر یا کسی دل پر کوئی نقش باقی نہیں چھوڑیں گے جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرمائیں گے اس کے دل میں ، لاالہ الا اللہ ، کو باقی رکھیں گے۔ طبرانی فی الاوسط، بروایت ابن عمر (رض)۔

1004

1004 – "يا أيها الناس، ماهذا الكتاب الذي تكتبون: أكتاب مع كتاب الله؟ يوشك أن يغضب الله لكتابه فلا يدع في ورق ولا في يد أحد منه شيئا إلا أذهبه، قالوا يا رسول الله فكيف بالمؤمنين والمؤمنات يومئذ؟ قال: من أراه الله به خيرا أبقى الله في قلبه لا إله إلا الله". (ابن عساكر عن ابن عمر) .
١٠٠٤۔۔ اے لوگو ! یہ کون سی ہے جس کو تم لکھ رہے ہو، کیا کتاب اللہ کے ہوتے ہوئے اور کتاب لکھنے کی ضرورت ہے ، ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنی کتاب کی وجہ سے غضبناک ہو اور کسی کاغذ میں یا کسی ہاتھ میں کسی چیز نہ چھوڑے۔ سب کو ملیامیٹ کردے۔ پوچھا گیا یارسول لالہ اس زمانہ میں مومن مرد اور عورت کا کیا حال ہوگا، آپ نے فرمایا جس کے ساتھ اللہ خیرکا ارادہ فرمائے گا تو اس کے دل میں لاالہ الا اللہ کو باقی رکھے گا۔ ابن عساکر، بروایت ابن عمر (رض)۔

1005

1005 – "لا تكتبوا عني إلا القرآن، فمن كتب عني غير القرآن فليمحه، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ومن كذب علي فليتبوأ مقعده من النار". (بز عن أبي هريرة) .
١٠٠٥۔۔ مجھ سے قران کے سوا نہ لکھو۔۔ سو جس نے قرآن کے سوا لکھا ہو وہ اس کو محو کردے۔ اور بنی اسرائیل سے مروی روایات کو روایت کرلیاکروتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ مسندالبزار بروایت ابوہریرہ ۔

1006

1006 – "لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء فإني أخاف أن يخبروكم بالصدق فتكذبوهم أو يخبروكم بالكذب فتصدقوهم، عليكم بالقرآن فإن فيه نبأ من قبلكم وخبر ما بعدكم وفصل ما بينكم". (ابن عساكر عن ابن مسعود) .
١٠٠٦۔۔ اہل کتاب سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کرو، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تم سے صدق بیانی سے کام لیں گے توتب بھی تم ان کو جھٹلاؤ گے ، یا وہ تم سے غلط بیانی کرین گے توشاید تم ان کو سچاجان لو۔۔ لہٰذا تم پر قرآن کو تھامنا لازم ہے ، کیونکہ اس میں تم سے اگلے لوگوں کی خبریں ہیں اور تم سے بعد والوں کی بھی خبریں ہیں اور تمہارے باہمی جھگڑوں کے فیصلے ہیں۔ ابن عساکر، بروایت ابن مسعود۔

1007

1007 – "لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء فإنهم لن يهدوكم وقد ضلوا، إما أن تصدقوا بباطل وتكذبوا بحق، وإلا لو كان موسى حيا بين أظهركم ما حل له إلا أن يتبعني". (هب والديلمي وأبو نصر السجزي في الإبانة عن جابر) .
١٠٠٧۔۔۔ اہل کتاب سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کرو وہ ہرگز تمہارے لیے ہدایت رساں نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ تم کسی باطل بات پر ان کی تصدیق کرنے لگو یا کسی حق بات پر ان کو جھٹلانے لگو۔ اور مزید برآں جان رکھو۔ اگر موسی بھی تمہارے درمیان حیات ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا چارہ کار نہ ہوتا۔ شعب الایمان ۔ الفردوس دیلمی، ابونصر السجزی ، فی الابانۃ بروایت جابر (رض)۔

1008

1008 – "لا تحملوا دينكم على مسائلة أهل الكتاب فإنهم قد ضلوا وأضلوا من كان قبلكم ضلالا مبينا". (ابن عساكر عن أبي أسلم الحمصي عن مالك عن الزهري عن أنس) .
١٠٠٨۔۔ اے دینی مسائل کے استفسار کے لیے اہل کتاب سے رجوع مت کرو، کیونہ وہ خود بھی گمراہ ہوچکے ہیں اور تم سے اگلی اقوام بھی کھلی گمراہی کی راہ پر ڈال چکے ہیں۔ کرر، ، بروایت ابی اسلم، الحمصی، عن ابی مالک عن الزھری عن انس (رض)۔

1009

1009 – "أمتهوكون فيها يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده لقد جئتكم بها بيضاء نقية لا تسألوهم عن شيء فيخبروكم بحق فتكذبونه وبباطل فتصدقونه والذي نفسي بيده لو أن موسى كان حيا ما وسعه إلا أن يتبعني".(حم هـ عن ابن عباس) إن عمر أتى النبي بكتاب أصابه من بعض أهل الكتاب فغضب قال فذكره.
١٠٠٩۔۔ اے ابن خطاب ! کیا تم اس ملت میں حیران وشک زدہ ہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں یہ خالص اور صاف ستھری ملت تمہارے پاس لایاہوں لہٰذا تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ کے متعلق سوال مت کرو ممکن ہے کہ وہ تم سے حق بیانی سے کام لیں مگر تم اس کی تکذیب میں مبتلا ہوجاؤ یا وہ دروغ گوئی کریں مگر تم ان کی تصدیق کرنے لگو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر موسی بھی حیات ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے سوا کوئی ٹھکانا نہ ہوتا۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، بروایت ابن عباس (رض)۔ روایت بالا کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق حضور انور کی خدمت عالیہ میں اہل کتاب کی کتاب کا ایک نسخہ لے کر حاضر خدمت ہوئے جس کی وجہ سے نبی کریم غضبناک ہوگئے اور آپ نے مندرجہ بالا وعید ارشاد فرمائی۔

1010

1010 – "لتهوكون كما تهوكت اليهود والنصارى لقد جئتكم بها بيضاء نقية لو كان موسى حيا ما وسعه إلا اتباعي". (حب عن جابر) .
١٠١٠۔۔ تم بھی یونہی حیران و سرگرداں پھرو گے جس طرح یہود و نصاری حیران و پریشان ہوئے حالانکہ میں ایسی خالص اور صاف ستھری ملت تمہارے پاس لایاہوں کہ اگر موسی بھی تمہارے درمیان حیات ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے سوا گنجائش نہ ہوتی۔ الصحیح لابن حبان ، بروایت ابن جابر (رض)۔

1011

1011 – "والذي نفس محمد بيده لو أصبح فيكم موسى ثم اتبعتموه وتركتموني لضللتم ضلال بعيدا ألا إنكم حظي من الأمم وأنا حظكم من الأنبياء". (ابن سعد حم والحاكم في الكنى طب هب عن عبد الله بن ثابت الأنصاري. (طب عن أبي الدرداء هب عن عبد الله بن الحارث) .
١٠١١۔۔ قسم ہے اس ہستی کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے اگر تمہارے درمیان موسیٰ بھی آموجود ہوں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو ضرور تم انتہائی دور کی گمراہی میں جاگرو گے ، آگاہ رہو تم تمام امم میں سے میرے لیے منتخب کردیے گئے ہو اور میں تمام انبیاء میں سے تمہارے لیے منتخب کیا جاچکاہوں۔ ابن سعد، مسنداحمد، الحاکم فی الکبیر، الکبیر للطبرانی شعب الایمان، بروایت عبداللہ بن ثابت انصاری، الکبیر للطبرانی بروایت ابی الدردائ، شعب الایمان بروایت عبداللہ بن الحارث۔

1012

1012 – " والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لا اتبعني". (الدارمي عن جابر) .
١٠١٢۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر موسی بھی تمہارے لیے رونماہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کو تھام لو تویقینا تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے ۔ اور اگر موسی حیات ہوں اور وہ میری نبوت کو پالیسی تو ضرور میری پیروی کریں۔ الدارمی بروایت جابر۔

1013

1013 – "والذي نفسي بيده لو أتاكم يوسف وأنا بينكم فاتبعتموه وتركتوني لضللتم ". (عب هب عن الزهري) مرسلا.
١٠١٣۔۔ قسم ہے اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارے پاس یوسف صدیق (علیہ السلام) بھی آجائیں جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو بیشک گمراہی میں جاپڑو گے۔ المصنف لعبدالرزاق ، شعب الایمان ، بروایت الزھری مرسلا۔

1014

1014 – "اتبعوني تكونوا بيوتا وهاجروا تورثوا أبناءكم مجدا". (العسكري في الأمثال عن أنس) وفيه العباس بن بكار.
١٠١٤۔۔ میری اتباع کرلوآباد ہوجاؤ گے در ہجرت کرلو تو اپنی اولاد کو عظمت و بزرگی کے وارث کردو گے ۔ العسکری فی الامثال ، بروایت انس (رض)۔ اس میں عباس بن بکار ایک راوی ہے جو ضعیف ہے۔

1015

1015 – "إنما مثلي ومثلكم ومثل الأنبياء كمثل قوم سلكوا مفازة غبراء لا يدرون ما قطعوا منها أكثر أم ما بقي فحسر ظهورهم ونفذ زادهم وسقطوا بين ظهراني المفازة فأيقنوا بالهلكة فبينما هم كذلك إذ خرج عليهم رجل في حلة يقطر رأسه فقالوا إن هذا لحديث عهد بالريف فانتهى إليهم فقال: مالكم يا هؤلاء قالوا: ما ترى حسر ظهرنا ونفد زادنا وسقطنا بين ظهراني المفازة ولا ندري ماقطعنا منه أكثر أم ما بقي علينا قال ما تجعلون لي إن أوردتكم ماء روى ورياضا خضرا قالوا نجعل لك حكمك قال تجعلون لي عهودكم ومواثيقكم أن لا تعصوني فجعلوا له عهودهم ومواثيقهم أن لا يعصوه فما بهم فأوردهم رياضا خضرا وماء روى فمكث يسيرا فقال هلموا إلى رياض أعشب من رياضكم وماء أروى من مائكم فقال جل القوم ما قدرنا على هذا حتى كدنا ألا نقدر عليه وقالت طائفة منهم ألستم قد جعلتم لهذا الرجل عهودكم ومواثيقكم أن لا تعصوه وقد صدقكم في أول حديثه، وآخر حديثه مثل أوله فراح وراحوا معه فأوردهم رياضا خضرا وماء روى وأتى الآخرين العدو من تحت ليلتهم فأصبحوا ما بين قتيل وأسير". (الرامهرمزي في الأمثال كر عن ابن المبارك قال بلغنا عن الحسن) وقال كر هذا مرسل وفيه انقطاع عن ابن المبارك والحسن.
١٠١٥۔۔ میری ، تمہاری اور دیگرانبیاء کی مثال اس جماعت کی سی ہے ۔۔ جو چلتے چلتے ایک ایسے بےنشان جنگل میں جاپہنچی۔ کہ انھیں یہ بھی معلوم نہ ہورہا کہ اب تک قطع کی ہوئی مسافت زیادہ ہے یا باقی ماندہ ۔ حتی کہ وہ اسی سرگردانی میں تھک ہارچکے زادہ راہ ختم ہوچکی آخرجنگل کے درمیان بےآسرا گرپڑے۔ اب انھیں اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہوگیا ہے اسی یاس وقنوط کی حالت میں ان پر ایک بہترین پوشاک زیب تن کے شخص کا گذر ہوا جس کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں، اسے دیکھ کر اہل جماعت آپس میں کہنے لگے یہ شخص تازہ تازہ کسی شاداب وتروتازہ جگہ سے آیا ہے یہ سوچ کر وہ اس کی طرف گئے اس خوش عیش نے اس جماعت سے دریافت کیا یہ تمہارا کیا ماجرا ہے ؟ کہنے لگے تم دیکھ رہے ہو ہم انتہائی لاغر وناتواں ہوچکے ہیں ہمارا زاد سفر ختم ہوچکا ہے اور جنگل کے درمیان بےآسراپڑا ہے ہمیں یہ تک نہیں معلوم کہ کتناسفر طے ہوچکا ہے اب تک قطع کی ہوئی مسافت زیادہ ہے یا باقی ماندہ۔ اس خوش پوشاک نے کہا کہ اگر میں تمہیں کسی بہتے چشمے اور سرسبز و شاداب باغ میں اتاردوں تو میرا کیا صلہ ہوگا ؟ اہل جماعت نے کہا ہم تمہیں منہ مانگا دیں گے۔ خوش عیش بھلا کیا تم مجھے اس بات کا عہد و پیمان دیتے ہو کہ میری نافرمانی نہ کرو گے ؟ اہل جماعت نے اس شخص کو کامل یقین دلایا کہ وہ اس کی کسی حکم کی نافرمانی نہ کریں گے۔ آخر اس بھلے شخص نے ان کو شاداب باغات اور جاری چشموں کی جگہ پہنچادیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ نیک شخص بولا اب اٹھو اور ان باغات سے بڑھ کر عمدہ شاداب باغات اور اس پانی سے بہتر پانی کی طرف چلو اس پر قوم کے سربرآور وہ اشخاص بولے یہی ہمارے لیے کافی ہے ہم تو قریب تھا کہ اس پر بھی قادر نہ ہوتے لیکن دوسرے کچھ لوگ بولے کیا تم نے پہلے اس شخص سے قول وقرار نہ کیے تھے کہ ہم تیری اطاعت سے منہ نہ موڑیں گے اب اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے ؟ اس نے پہلی بار تم سے سچ بولا تھا اور ضروریہ دوسری بات بھی پہلی کی طرح سچی ہوگی، لہٰذا وہ اس خیرخواہ کے ساتھ چل دیے ۔ اور اس نے انھیں پہلی سے بھی بدرجہا بہتر جگہ پر جا اتارا اور وہاں پانی کے میٹھے چشمے بہہ رہے تھے اور سرسبز شادابی اپنے عروج پر تھی۔ اور پچھلے جن لوگوں نے اس کی اطاعت سے سرتابی کی تھی ، ان پر دشمن نے راتوں رات آکریلغار کی، حتی کہ ان کی صبح اس حالت میں ہوئی کہ کچھ تہ تیغ ہوگئے اور بقیہ اسیر ہوگئے۔ الامثال للرامھزمزی ، ابن عساکر، بروایت ابن المبارک، قال بلغنا عن الحسن وقال ابن عساکر، ھذامرسل وشبہ، انقطاع بروایت اس المبارک والحسن۔

1016

1016 - " إنه أتاني الليلة آتيان ملكان فقعد واحد عند رأسي والآخر عند رجلي قال أحدهما للآخر اضرب مثله ومثل أمته فقال إن مثله ومثل أمته كمثل قوم سفر انتهوا إلى رأس مفازة فلم يكن معهم من الزاد ما يقطعون به المفازة ولا يرجعون فبينما هم كذلك إذ أتاهم رجل مرجل في حلة حبرة فقال: أرأيتم إن أوردت بكم رياضا معشبة وحياضا رواء فأكلوا وشربوا وسمنوا فقال لهم ألم آتكم على تلك الحال فقلت لكم فصدقتم فقالوا بلى فقال إن بين أيديكم أرضا أعشب من هذا وحياضا أروى من هذه فاتبعوني فقال طائفة صدق والله لنتبعن وقال طائفة قد رضينا بهذه نقيم عليه". (ك عن سمرة) .
١٠١٦۔۔ میرے پاس گزشتہ رات دو فرشتے آئے ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائینتی بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا، اس کی اور اس کی امت کوئی مثال بیان کرو دوسرا گویا ہوا اس کی اور اس کی امت کی مثال اس مسافر قوم کی سی ہے جو چلتے چلتے ایک بےآب وگیاہ جنگل کے سرے پر جاپہنچی ، لیکن ان کے ساتھ زاد رہ انھیں ہے، جس سے جنگل کو قمع کرسکیں واپس اپنے مستقر پر پہنچ سکیں۔ اسی پیچ وتاب میں تھے کہ ایک سنورے بالوں والا یمنی چادر میں ملبوس شخص کا ان پر گزر ہوا۔ اور ان کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے ان سے کہنے لگا آؤ میں تم کو شاداب باغیچوں اور جاری پانی کے حوضوں پر اتاردوں۔ وہ چل دیے۔ اور اس سرسبز مقام پر عیش و عشرت کے ساتھ کھاتے پیتے خوب فربہ ہوگئے۔ پھر اس ہمدرد نے ان کو دوبارہ کہا : کیا میں تمہارے پاس تمہاری سابقہ پریشانی اور پراگندہ ہیبت میں نہیں آیا تھا، اور تم سے صدق بیانی سے کام لیا تھا ؟ وہ بیک آواز بولے بےشک۔ اس پر اس شخص نے کہا تو آؤ اب تمہارے آگے اس بھی کہیں زیادہ سرسبز عمدہ زمین اور بہتے چشمے ہیں، سو میری اتباع کرو۔ ایک جماعت نے کہا، بیشک یہ سچ گو انسان ہے خدا کی قسم ہم اس کی ضرور پیروی کریں گے دورسری جماعت انجام سے بےخبر بولی ہم تو اسی پر خوش ہیں اور یہیں قیام کریں گے۔ المستدرک للحاکم، بروایت سمرہ۔

1017

1017 – "ألا أخبركم عني وعن ملائكة ربي البارحة حفوا بي عند رأسي وعند رجلي وعن يميني وعن يساري فقالوا يا محمد تنام عينك ولا ينام قلبك فليفعل قلبك ما نقول فقال بعضهم لبعض اضربوا لمحمد مثلا قال مثله كمثل رجل بنى دارا وبعث داعيا يدعو فمن أجاب الداعي دخل الدار وأكل مما فيها ومن لم يجب الداعي لم يدخل الدار ولم يأكل مما فيها وسخط السيد عليه فالله السيد ومحمد الداعي فمن أجاب محمدا دخل الجنة وأكل مما فيها ومن لم يجب محمدا لم يدخل الجنة ولم يأكل مما فيها". (ك في تاريخه والديلمي عن عبد الرحمن بن سمرة) .
١٠١٧۔۔ کیا میں تم کو اپنی اور پروردگار کے فرشتوں کی سرگزشت نہ سناؤں جو آج رات میرے ساتھ بیتی ہے۔ وہ میرے پاس آئے اور مجھ پرچھاگئے میرے سرہانے ، پائنتی اور دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ اور کہنے لگے اے محمد، تیری آنکھ سوتی رہے مگر دل نہ سوئے ۔ اور تیرا دل وہی کرے جو ہم کہیں ، پھر ایک نے کہا محمد کے لیے کوئی مثال بیان کرو، دوسرے نے کہا، ان کی مثال اس شخص کی سی ہے ، جس نے ایک گھر بنایا۔ اور ایک پیغام رساں کو بھیجا کہ جاکرلوگوں کو بلالائے۔ پس جس نے داعی کی پکار پر لبیک کہا، وہ گھر میں داخل ہوگیا اور وہاں کی دعوت میں شریک ہوا۔ اور جس نے داعی کی پکار پر توجہ نہ دی وہ گھر میں داخل نہ ہوسکا، اور نہ شریک دعوت ہوسکا اور سردار بھی اس پر غضبناک ہوا سو جان لو، سردار تو اللہ ہے۔ محمد داعی ہے۔ جس نے محمد کی دعوت پر لبیک کہا جنت میں داخل ہوگیا اور وہاں کی مرغوبات سے تناول کیا اور جس نے محمد کی ، دعوت کو قبول نہ کیا وہ جنت میں داخل ہوسکا نہ وہاں کی نعمتوں سے متمتع ہوسکا۔ التاریخ للحاکم، الدیلمی، بروایت عبدالرحمن بن سمرہ۔

1018

1018 – "بينا أنا بين النائم واليقظان إذا أتاني ملكان فقال أحدهما إن له مثلا فاضرب له مثلا فقال سيد بنى دارا واتخذ مأدبة وبعث مناديا فالسيد الله والدار الجنة والمأدبة الإسلام والداعي محمد". (الرامهرمزي في الأمثال عن جويبر عن الضحاك أوغيره) . مرسلا.
١٠١٨۔۔ میں بیداری وخواب کی حالت کے درمیان تھا کہ میرے پاس دوسرے فرشتے آئے ایک دوسرے سے مخاطب ہوا کہ اس کی کوئی مثال بیان کروتودوسرے نے جواب دیا، ایک سردار نے گھربنایا، اور دعوت کا اہتمام کیا، پھر کسی منادی کو بھیجا کہ لوگوں کو بلالائے، سو سردار اللہ ہے ، گھر جنت ہے دعوت اسلام ہے اور داعی محمد ہیں۔ الامثال للرامھرمزی ، بروایت جویبر عن الضحاک وغیرہ۔

1019

1019 – "قيل لي لتنم عينك وليعقل قلبك ولتسمع أذنك فنامت عيني وعقل قلبي وسمعت أذني ثم قيل سيد بنى دارا ثم صنع مأدبة وأرسل داعيا فمن أجاب الداعي دخل الدار وأكل من المأدبة ورضي عنه السيد ومن لم يجب الداعي لم يدخل الدار ولم يأكل من المأدبة ولم يرض عنه السيد فالله السيد والدار الإسلام والمأدبة الجنة والداعي محمد". (ابن جرير عن أبي قلابة) مرسلا (طب عن أبي قلابة عن عطية عن ربيعة الجرشي) .
١٠١٩۔۔ مجھے کہا گیا آپ کی آنکھ سوتی رہے دل جاگتا رہے اور کان سنتے رہیں۔ پس میری آنکھ سو گئی ، میرا دل جاگتا رہا اور میرے کان سنتے رہے اور پھر کہا گیا ایک سردار نے گھربنایا پھر دستر خوان کا اہتمام کیا اور ایک پیغام رساں کو بھیجا سو جس نے داعی کی پکار لبیک کہا گھر میں داخل ہوگیا اور وہاں کے دسترخوان سے کھایا اور جس نے داعی کے بلاوے کا لحاظ نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوسکا اور نہ وہاں کی دعوت کھاسکا، اور سردار بھی اس پر ناراض ہواپس اللہ سردار ہے اسلام گھر ہے جنت دسترخوان ہے داعی محمد ہیں۔ ابن جریر ، بروایت ابی قلابہ، مرسلا، الکبیر للطبرانی (رح) ، عن ابی قلابہ عن عطیہ عن ربیعہ الجرشی۔

1020

1020 – "قيل لي يا محمد لتنم عينك ولتسمع أذنك وليع قلبك فنامت عيني ووعى قلبي وسمعت أذني". (ابن سعد عن أبي بكر بن عبد الله بن أبي مريم) مرسلا.
١٠٢٠۔۔ مجھے کہا گیا ! اے محمد آپ کی آنکھ سوتی رہے، آپ کے کان سنتے رہیں لیکن دل آپ کا بیدار رہے پس میری آنکھ سو گئی، میرا دل بیداررہا، اور میرے کان سنتے رہے۔ ابن سعد، بروایت ابی بکر بن عبداللہ بن ابی مریم، مرسلا۔

1021

1021 – "سيد بنى دارا واتخذ مأدبة وبعث داعيا فالسيد الجبار والمأدبة القرآن والدار الجنة والداعي أنا فأنا اسمي في القرآن محمد وفي الإنجيل أحمد وفي التوراة أحيد وإنما سميت أحيد لأني أحيد عن أمتي جهنم فأحبوا العرب بكل قلوبكم". (عد ابن عساكر عن ابن عباس) وفيه إسحاق بن بشر متروك.
١٠٢١۔۔ ایک سردار نے گھربنایا اور دعوت کا اہتمام کیا پھر ایک قاصد کو بھیجا، سو سردار توجبار عزوجل کی ذات ہے ، دعوت قرآن ہے ، گھر جنت ہے قاصد میں ہوں، اور قرآن میں میرا نام محمد ہے، انجیل میں احمد ہے ، توراۃ میں احید ہے، اور احید میرا نام اس وجہ سے ہے کہ میں اپنی امت کو جہنم سے چھٹکارا دلاؤں گا، پس تم عرب کے ساتھ اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت رکھو۔ ابن عدی، ابن عساکر، بروایت ابن عباس (رض)۔ اس میں ایک راوی اسحاق بن بشر متروک ہے لہٰذا حدیث ضعیف ہے۔

1022

1022 – "يا أيها الناس تدرون ما مثلي ومثلكم إنما مثلي ومثلكم مثل قوم خافوا عدوا يأتيهم فبعثوا رجلا يتراءى لهم فبينما هم كذلك أبصر العدو فأقبل لينذرهم وخشي ليدركهم العدو قبل أن ينذر قومه فأهوى بثوبه أيها الناس أتيتم ثلاث مرات". (حم والرؤياني ص عن عبد الله بن يزيد) .
١٠٢٢۔۔ اے لوگو ! کیا تمہیں علم ہے کہ میری اور تمہاری کیا مثال ہے ؟ سو میری اور تمہاری مثال اس قوم کی سی ہے ، جسے کسی آنے والے دشمن کا خوف ہو، جس کی وجہ سے انھوں نے ایک آدمی کو دشمن کی خبرلانے کے لیے بھجیجا، ابھی قوم اسی پریشان کن حالت میں تھی کہ اس قاصد نے دشمن کو دیکھ لیا اور اپنی قوم کو ڈرانے کے لیے متوجہ ہوالیکن قاصد کو یہ خطرہ دامن گیرہوا کہ کہیں اس کے اطلاع دینے سے قبل ہی دشمن میری قوم پر حملہ نہ کر بیٹھے اس خطرہ کے پیش نظر قاصد نے دورہی سے کپڑے کو زور زور ہلانا اور چلانا شروع کردیا، اے لوگو ! تم گھیر لیے گئے۔۔ اے لوگو ! تم گھیر لیے گئے ۔۔ اے لوگو تم گھیر لیے گئے۔۔ مسنداحمد، الرویانی، السنن لسعید، بروایت عبداللہ بن یزید۔

1023

1023 – "آمركم بثلاث وأنهاكم عن ثلاث، آمركم أن لا تشركوا بالله شيئا وأن تعتصموا بالطاعة جميعا حتى يأتيكم أمر من الله وأنتم على ذلك وأن تناصحوا ولاة الأمر من الذين يأمرونكم بأمر الله وأنهاكم عن قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال". (طب عن عمر ابن مالك الأنصاري) .
١٠٢٣۔۔ میں تمہیں تین باتوں کا حکم کرتا ہوں اور تین باتوں سے منع کرتا ہوں، ایک تو حکم کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور یہ کہ فرمان برداری کا دامن عین مضبوطی سے تھامے رہو، حتی کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے فیصلہ کن امر آپہنچے اور تم اسی حالت پرکاربندملو۔ اور تیسری بات یہ کہ ان صاحب اقتدار حاکموں سے خیرخواہی رکھو، جو تمہیں اللہ کے اوامر کا حکم دیں۔ اور تمہیں لایعنی بحث و مباحثہ ، کثرت سے سوال اور اضاعۃ مال سے منع کرتا ہوں۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت عمر بن مالک الانصاری۔

1024

1024 – " إن الله تعالى رضي لكم ثلاثا وكره لكم ثلاثا رضي لكم أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا وأن تعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا وتسمعوا وتطيعوا لمن ولى الله أمركم وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال". (البغوي عن ابن جعدية) .
١٠٢٤۔۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتوں میں راضی ہو اور تین باتوں میں ناراض ہواتمہارے لیے راضی ہوا کہ تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کوئی ساجھی قرار نہ دو ، اور یہ کہ سب مل کر اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو، اور آپس میں ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجاؤ، اور اللہ نے جن بندوں کو تم پرولایت عطا کی ہے۔۔ ان کی سنو اور اطاعت کرو۔ اور تمہارے لیے ناپسند کیا، بحث وتمحیص کو، کثرت سوال کو مال کے ضائع کرنے کو۔ البغوی ، بروایت ابن جعدیہ۔

1025

1025 – "إثنان خير من واحد وثلاثة خير من اثنين وأربعة خير من ثلاثة فعليكم بالجماعة فإن يد الله على الجماعة ولم يجمع الله عز وجل أمتي إلا على هدى واعلموا أن كل شاطن هوى في النار". (كر عن البحتري ابن عبيد عن أبيه عن أبي هريرة) .
١٠٢٥۔۔ دو کی جماعت تنہاشخص سے ، تین کی دو سے چار کی تین سے بہتر ہے۔ پس جماعت کو تھامے رہو، کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور اللہ تعالیٰ میری تمام امت کو ہدایت کے سوا کسی بات پر جمع نہیں فرماتے۔ اور یاد رکھو، حق سے دور ہر شخص جہنم میں گرنے والا ہے۔ ابن عساکر، عن البحتری ابن عبید عن ابیہ عن ابوہریرہ ۔

1026

1026 – "إن الشيطان ذئب الإنسان كذئب الغنم يأخذ الشاة الشاذة القاصيية والناحية وإياكم والشعاب وعليكم بالجماعة والعامة والمسجد". (عب حم عن معاذ) .
١٠٢٦۔۔ شیطان انسان کے لیے بھیڑیا ہے جس طرح بیڑیا، ادھر ادھر بدکی ہوئی تنہا بکری کو دبوچ لیتا ہے، شیطان بھی جماعت سے برگشتہ شخص کو یونہی اپنے جال میں پھانس لیتا ہے لہٰذا ٹکڑیوں میں بٹنے سے کلی اجتناب کرو۔ اور جماعت اور عامۃ الناس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور اللہ کے گھرمسجد کو لازم پکڑ لو۔ المصنف ، لعبدالرزاق ، مسنداحمد، بروایت معاذ۔

1027

1027 – "الشيطان ذئب الإنسان كذئب الغنم يأخذ الشاة الشاذة والقاصية والناحية فعليكم بالجماعة والإلفة والعامة والمساجد وإياكم والشعاب". (طب والسجزي في الإبانة عن معاذ) .
١٠٢٧۔۔ جس طرح بھیڑیا بکری کا دشمن ہے اسی طرح شیطان انسان کے لیے بھیڑیا ہے اور اپنے ریوڑ سے جدا ہونے والی ، بھٹکی ہوئی بکری کو بھیڑیا پکڑلیتا ہے پس تم بھی جماعت کو اور اس سے الفت رکھنے کو، عام الناس کو اور مساجد کو لازم پکڑ لو، اور گروہوں میں منتشر ہوجانے سے بچو۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، السجزی فی الابانہ بروایت معاذ۔

1028

1028 – "أيها الناس عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة". (حم عن رجل) .
١٠٢٨۔۔ اے لوگو ! جماعت کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور فرقہ بازی سے اجتناب کرو۔ مسنداحمد، بروایت رجل۔

1029

1029 – "لن تجتمع أمتي على ضلالة أبدا فعليكم بالجماعة وإن يد الله على الجماعة". (طب عن ابن عمر)
١٠٢٩۔۔ میری امت گمراہی پر ہرگز کبھی جمع نہیں ہوسکتی۔ سو تم لوگ اجتماعیت قائم کیے رکھو۔ اور بیشک اللہ کا ہاتھ جماعت ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

1030

1030 – "لا يجمع الله عز وجل أمر أمتي على ضلالة أبدا اتبعوا السواد الأعظم يد الله مع على الجماعة من شذ شذ في النار". (الحكيم وابن جرير ك عن ابن عمر) (ك عن ابن عباس) .
1030 ۔۔ پروردگار عزوجل میری امت کا مسئلہ کبھی گمراہی پر جمع نہ فرمائیں گے ۔ پس سواد اعظم بڑی جماعت کی اتباع کرو۔ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے جو تنہا ہوا تنہا ہی جہنم کی نذر کیا جائے گا۔ الحکیم بن جریر، المستدرک للحاکم بروایت ابن عمر (رض) ، المستدرک للحاکم ابن عباس (رض) ۔

1031

1031 – "يد الله على الجماعة، والشيطان مع من خالف الجماعة يركض". (طب عن عرفجة) .
١٠٣١۔۔ اللہ کا دست نصرت جماعت پر ہے، اور جماعت سے کٹ جانے والوں کو شیطان ایڑیاں رہتا ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت عرفجہ۔

1032

1032 – "يد الله على الجماعة فإذا اشتذ الشاذ منهم اختطفه الشيطان كما يختطف الذئب الشاة الشاذة من الغنم". (طب وابن قانع قط في الأفراد وأبو نعيم في المعرفة عن أسامة بن شريك) .
١٠٣٢۔۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔ اور جب کوئی شخص جماعت سے کٹ جاتا ہے تو شیطان اس کو اچک لیتا ہے جس طرح بھیڑیا ریوڑ سے بھاگی ہوئی بکری کو اچک لیتا ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، ابن قانع، الدارقطنی ، فی الافراد، المعرفہ لابی نعیم بروایت اسامہ بن شریک۔

1033

1033 – " من سره أن يسكن بحبوحة الجنة فليزم الجماعة فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد". (الديلمي عن ابن عمر) .
١٠٣٣۔۔ جس کو خواہش ہو کہ وسط جنت میں گھربنائے اس کو لازم ہے جماعت کو مضبوطی سے تھامے رہے، اور بیشک شیطان تنہاشخص کے ہمراہ ہوتا ہے اور دو سے دوربھاگتا ہے الفردوس دیلمی بروایت ابن عمر (رض)۔

1034

1034 – "من عمل لله في الجماعة فأصاب قبل الله تعالى منه وإن أخطأ غفر الله له ومن يبتغي الفرقة فأصاب لم يتقبل الله منه وإن أخطأ فليتبوأ مقعده من النار". (طب عن ابن عباس) .
١٠٣٤۔۔ جس نے جماعت کے ساتھ وابستگی رکھتے ہوئے کوئی نیک عمل کیا اللہ کو قبول فرمائیں گے اور کوئی لغزش بھی صادر ہوئی تو اس کو درگذر فرمائیں گے ۔ اور جو تفرقہ بازی کا خواہش مند ہواپھر کوئی نیک عمل انجام دیا اللہ اس کو قبول نہ فرمائیں گے ۔ اور اگر وہ کسی غلطی کا مرتکب ہواتب تو اس کو چاہتے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانا منتخب کرلے۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت ابن عباس (رض)۔

1035

1035 – "من خرج من الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه حتى يراجعه ومن مات وليس عليه إمام جماعة فإن موتته موتة جاهلية". (ك عن ابن عمر) .
١٠٣٥۔۔ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی نکلا، اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال دیا۔۔ حتی کہ وہ واپس جماعت میں آجائے اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس پر کوئی امیرجماعت نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

1036

1036 – "من شق عصا المسلمين، والمسلمون في إسلام رامح فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه". (الرامهرمزي في الأمثال طب والخطيب في المتفق والمفترق عن ابن عباس) .
١٠٣٦۔۔ جس نے عصائے اسلام کو توڑ ڈالا جبکہ تمام مسلمان باہم مجتمع تھے تو بلاشبہ اس نے اسلام کی مالااپنی گردن سے اتارپھین کی۔الامثال للرامھرمزی ، الکبیر للطبرانی ، المتفق اوالمفترق ، للخطیب بروایت ابن عباس (رض)۔

1037

1037 – "من فارق المسلمين قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه ومن مات ليس عليه إمام فميتته ميتة الجاهلية ومن مات تحت راية عمية يدعوإلى عصيبة أو ينصر عصيبة فقتلة جاهلية". (طب عن ابن عباس) .
١٠٣٧۔۔ جو بالشت بھر بھی مسلمانوں سے علیحدہ ہوا یقیناً اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ اور جس کی موت اس حال میں آئی کہ اس پر امام کا ہاتھ نہ تھا تو بیشک اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو کسی اندھے گمراہی کے جھنڈے تلے عصبیت کی دعوت دیتا ہوایاعصبیت کی نصرت کرتا ہوامراتو بیشک جاہلیت کی موت مرا۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1038

1038 – "من فارق جماعة المسلمين شبرا أخرج من عنقه ربقة الإسلام والمخالفين بألويتهم يتناولونها يوم القيامة من وراء ظهورهم ومن مات من غير إمام جماعة مات ميتة جاهلية". (ك عن ابن عمر) .
١٠٣٨۔۔ جو مسلمانوں کی جماعت سے بالشت بھرجدا ہوا اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے نکال دیا، اور اپنے جھنڈے کو جدا کرنے والے قیامت کے روز ان جھنڈوں کو اپنے پس پشت نصب کیے ہوں گے ۔ اور جو شخص اس حال میں مرا کہ امام جماعت کی سرپرستی میں نہ تھا تو وہ بلاشہ جاہلیت کی موت مرا۔ المستدرک للحاکم ، بروایت ابن عمر (رض)۔

1039

1039 – "من فارق الجماعة شبرا دخل النار". (ك عن معاوية) .
١٠٣٩۔۔ جو مسلمان جماعت سے ایک بالشت بھی کٹ گیا، جہنم میں داخل ہوگیا۔ المستدرک للحاکم، بروایت معاویہ (رض)۔

1040

1040 – "من فارق أمته أوعاد أعرابيا بعد هجرته فلا حجة له". (ك عن ابن عمر) .
١٠٤٠۔۔ جس شخص نے امت سے علیحدگی اختیار کی ، یا ہجرت کے بعد اعرابیت اختیار کرتے ہوئے جاہلیت میں آگیا تواب اس کے پاس نجات کے لیے کوئی حجت نہ رہی۔ المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

1041

1041 – "من فارق الجماعة واستذل الإمارة لقي الله ولا وجه له عنده". (حم ك عن حذيفة) .
١٠٤١۔۔ جو جماعت سے جدا ہوا اور امارت اسلامی کی اہانت کی، وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہ ہوگیا اور انتہائی پست مرتبہ ہوگا۔ مسنداحمد، المستدرک للحاکم، حذیفہ (رض)۔

1042

1042 – "من فارق الجماعة شبرا فارق الإسلام". (ن عن حذيفة) .
١٠٤٢۔۔ جو آدمی بالشت برابر جماعت سے منحرف ہواوہ یقیناً اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھا ۔ النسائی ، بروایت حذیفہ۔

1043

1043 – "من فارق الجماعة فهو في النار على وجهه، لأن الله تعالى يقول: {أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الأَرْضِ} فالخلافة من الله فإن كان خيرا فهو يذهب به وإن كان شرا فهو يؤخذ به عليك أنت بالطاعة فيما أمرك الله تعالى". (ط عن سعد بن عبادة) .
١٠٤٣۔۔ جس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی وہ اپنے چہر کے بل جہنم میں گرے گا، اس لیے فرمان باری ہے : امن یجیب المضطر اذادعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الارض۔ کون ہے جو مضطرحال کو جواب دیتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے ؟ اور وہ اس کی پریشانی کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین کی خلافت سونپتا ہے پس خلافت من جانب اللہ ہے ، اگر بھلی ہے تو وہ اس کو بھی لے جائے گا، اور اگر بری ہے تو اس کا مواخذہ کرے گا سو تم پر اللہ کے حکم کے مطابق اطاعت واجب ہے۔ الخطیب، بروایت سعد بن عبادہ۔

1044

1044 – "من فارق الجماعة فاقتلوه". (الخطيب عن ابن مسعود) .
١٠٤٤۔۔ جو جماعت سے کنارہ کش ہوجائے اس کو قتل کرڈالو۔ الخطیب بروایت ابن مسعود۔

1045

1045 – "من فرق بين أمتي وهم جميع فاضربوا رأسه كائنا من كان". (ش طب عن أسامة بن شريك) .
١٠٤٥۔۔ جس نے میری امت میں تفرقہ ڈالا درآنحالیکہ وہ سب باہم مجتمع تھے تو اس کی گردن اڑاد و خواہ وہ شخص جو بھی ہو۔ ابن ابی شیبہ ، الکبیر للطبرانی ، (رح) ، بروایت اسامہ بن شریک۔

1046

1046 – "من قاتل على الخلافة فاقتلوه كائنا من كان". (الديلمي عن أبي ذر) .
١٠٤٦۔۔ جو شخص خلافت پر جھگڑا کرے اس کو قتل کرڈالو خواہ کوئی بھی ہو، الدیلمی بروایت ابی ذر (رض) ۔

1047

1047 – " من بلغه عني حديث فكذب به فقد كذب ثلاثة كذب الله ورسوله والذي حدث به". (طس وابن عساكر عن جابر) .
١٠٤٧۔۔ جس کو میری حدیث پہنچی پھر اس نے اس کی تکذیب کی تو درحقیقت اس نے تین کی تکذیب کی، اللہ کی، اس کے رسول کی، اور حدیث بیان کرنے والے کی۔ الاوسط للطبرانی (رح) ابن عساکر، بروایت جابر (رض)۔

1048

1048 – "من قال في الدين برأيه فقد اتهمني". (أبو نعيم عن جابر) .
١٠٤٨۔۔ جس نے دین میں اپنے خیال سے حرف زنی کی اس نے مجھ پر تہمت عائد کی ، الدیلمی بروایت انس۔

1049

1049 – "لا تقيسوا الدين، فإن الدين لا يقاس وأول من قاس إبليس". (الديلمي عن علي) .
١٠٤٩۔۔ دین میں قیاس آرائی مت کرو۔ کیونکہ دین میں قیاس کو دخل نہیں۔ اور سب سے پہلے قیاس کرنے والاشخص ابلیس تھا۔ الدیلمی بروایت علی (رض)۔ اس سے اس قیاس کی مذمت مقصود نہیں جو مجتہدین امت کرتے آئے ہیں کیونکہ وہ درحقیقت قرآن وحدیث کے مخفی احکام سے پردہ اٹھانے کا نام ہے اور شیطان نے قیاس اس طرح کیا کہ آدم کی اصل مٹی ہے اور میں آگ سے پیدا کردہ ہوں اور مٹی کی فطرت پستی ہے اور آگ کی فطرت اوپراٹھنا ہے توبھلاایک عالی وبلند چیز مشت خاکی کو کیوں سجدہ کرے ؟۔

1050

1050 – "من قاس حديثي برأيه فقد اتهمني". (الديلمي عن أنس) .
١٠٥٠۔۔ جس نے میری حدیث میں قیاس بازی سے کام لیا اس نے مجھ پر تہمت لگائی۔ الدیلمی بروایت انس (رض)۔

1051

1051 – "من تكلم بالرأي فقد اتهمني في الدين". (الديلمي عن أنس) .
١٠٥١۔۔ جس نے اپنی رائے سے دین میں کلام کیا، اس نے دین میں مجھ کو تہمت زدہ کیا۔ الدیلمی بروایت انس (رض)۔

1052

1052 – " افترقت بنو إسرائيل على إحدى وسبعين فرقة وتزيد أمتي عليها فرقة ليس فيها فرقة أضر على أمتي من قوم يقيسون الدين برأيهم، فيحلون ما حرم الله ويحرمون ما أحل الله". (طب عد حل كر عن عوف بن مالك وضعف) .
١٠٥٢۔۔ بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت کے مزید دوفرقے زیادہ ہوں گے ۔ اور سب سے زیادہ مضرت رساں فرقہ، دین میں اپنی رائے سے حرف زنی کرنے والاہوگا، وہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دیں گے۔ اور اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام بتلائیں گے۔ الکبیر للطبرانی (رح)، الکامل لابن عدی، الحلیہ، کرر، بروایت عوف بن مالک (رض) ۔ حدیث ضعیف ہے۔

1053

1053 – "إن بني إسرائيل نفرقت إحدى وسبعين فرقة فهلك سبعون فرقة، وخلصت فرقة واحدة وإن أمتي ستفترق على اثنتين وسبعين فرقة تهلك إحدى وسبعون وتخلص فرقة قيل يا رسول الله من تلك الفرقة قال الجماعة الجماعة". (حم عن أنس) .
١٥٠٣۔۔ بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے ستر فرقے قعر ہلاکت میں پڑے، صرف ایک فرقہ نجات یافتہ بنا۔ اور میری امت بہتر فرقوں میں منتشر ہوجائے گی صرف ایک فرقہ نجات پائے گا استفسار کیا گیا یارسول اللہ وہ فرقہ کون سا ہے ؟ فرمایا جماعت ، جماعت۔ مسنداحمد، بروایت انس (رض)۔

1054

1054 – "إن أهل الكتابين افترقوا في دينهم على ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الأمة ستفترق على ثلاث وسبعين ملة كلها في النار إلا واحدة وهي الجماعة وإنها ستخرج من أمتي أقوام تتجارى بهم تلك الأهواء كما يتجارى الكلب بصاحبه فلا يبقى منهم عرق ولا مفصل إلا دخله". (حم طب ك عن معاوية) .
١٠٥٤۔۔ اہل کتاب نے اپنے دین میں بہتر فرقے بنالیے تھے اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقہ کے۔ اور وہ جماعت ہے اور میری امت میں سے ایسے فرقے نکلیں گے کہ ہوائے نفسانی و خواہشات ان کی رگ ورپے میں اس طرح سرایت کرجائے گی، جس طرح کسی کو کوئی پاگل کتاکاٹ لے۔ پس یہ بیماری ان کی رگ رگ اور ہر جوڑ میں داخل ہوجائے گی۔ مسنداحمد، الکبیر، للطبرانی ، (رح)، المستدرک للحاکم، بروایت معاویہ (رض)۔

1055

1055 – "افترقت بنو إسرائيل على إحدى وسبعين ملة ولن تذهب الليالي ولا الأيام حتى تفترق أمتي على مثلها وكل فرقة منها في النار إلا واحدة وهي الجماعة". (عبد بن حميد عن سعد بن أبي وقاص) .
١٠٥٥۔۔ بنی اسرائیل اکہتر ملوں میں بٹ گئے تھے اور بیشک گردش لیل ونہار اسی طرح جاری وساری رہے گی۔۔ حتی کہ میری امت بھی اسی طرح پارہ پارہ نہ ہوجائے۔ اور ان میں سے ہر فرقہ جہنم رسید ہوگا سوائے ایک کے اور وہ جماعت ہے۔ عبد بن حمید بروایت سعد بن وقاص۔

1056

1056 – "تفترق أمتي على نيف وسبعين فرقة أضرها على أمتي قوم يقيسون الأمور برأيهم فيحلون الحرام ويحرمون الحلال". (كر عن عوف بن مالك) .
١٠٥٦۔۔ میری امت ستر سے زائد فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں امت کے لیے سب سے زیادہ ضرررساں فرقہ وہ ہوگا جو اپنی رائے سے مسائل کو قیاس کریں گے پس حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے ۔ ابن عساکر، بروایت عوف بن مالک۔

1057

1057 – "تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة كلهن في النار إلا واحدة ما أنا عليه اليوم وأصحابي ". (طس عن أنس) .
١٠٥٧۔۔ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ سوائے ایک کے سب جہنم میں جائیں گے۔ اور وہ ایک جماعت وہ ہے جس پر آج میں اور میرے اصحاب کاربند ہیں۔ الاوسط للطبرانی (رح) بروایت انس (رض)۔

1058

1058 – "تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة أعظمها فتنة على أمتي قوم يقيسون الأمور برأيهم فيحلون الحرام ويحرمون الحلال". (طب عن عوف بن مالك) .
١٠٥٨۔۔ میری امت تہترفرقوں میں منقسم ہوجائے گی۔ سب سے زیادہ فتنہ انگیز فرقہ وہ ہوگا جو دین کے مسائل اپنی رائے سے حل کریں گے۔ پس حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت عوف بن مالک۔

1059

1059 – "جاءكم جبرائيل يتعاهد دينكم لتسلكن سنن من قبلكم حذو النعل بالنعل ولتأخذن بمثل أخذهم إن شبرا فشبرا وإن ذراعا فذراعا وإن باعا فباعا حتى لو دخلوا في جحر ضب دخلتم فيه، ألا إن بني إسرائيل افترقت على موسى سبعين فرقة كلها ضالة إلا فرقة واحدة الإسلام وجماعتهم (2) ثم أنكم تكونون على ثنتين وسبعين فرقة كلها ضالة إلا واحدة الإسلام وجماعتهم". (طب ك عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده) .
١٠٥٩۔۔ جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے پاس تشریف لائے ہیں اور تمہارے دین کی حفاظت کی تجدید کررہے ہیں یقیناً تم لوگ اپنے پیش رؤوں کے نقش قدم پر اس طرح ہوبہو چلو گے۔ جس طرح جوتا جوتے کے کلیہ ہم مثل ہوتا ہے۔ اور عین انہی کی طرح ہوجاؤ گے۔ جس طرح بالشت بالشت کے بازو بازو کے اور ہاتھ ہاتھ کے بالکل ہم مثل ہوتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے تھے تو ضرور تم بھی گوہ کے بل میں داخل ہو گے۔ آگاہ رہو قوم بنی اسرائیل موسیٰ کی نبوت میں سترفرقوں میں بٹ گئی تھی، تمام گمراہی پر جمع تھے سوائے ایک فرقہ کے اور وہ اسلام اور اس کی جماعت تھی۔ پھر تم بھی بہترفرقوں میں بٹ جاؤ گے اور سوائے ایک کے تمام گمراہی کے رستہ پر ہوں گے اور وہ ایک ناجی فرقہ اسلام اور اس کی جماعت ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، المستدرک للحاکم، بروایت کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ۔

1060

1060 – "سيأتي على أمتي ما أتى على بني إسرائيل مثلا بمثل حذوالنعل بالنعل حتى لو كان فيهم من نكح أمه علانية كان في أمتي مثله إن بني إسرائيل تفرقوا على اثنتين وسبعين ملة وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلها في النار غير واحدة قيل وما تلك الواحدة؟ قال ما أنا عليه اليوم وأصحابي". (ك وابن عساكر عن ابن عمرو) .
١٠٦٠۔۔ میری امت پر بھی وہ تمام حالات گذریں گے جو بنی اسرائیل پر گزرے ہیں، اسی طرح ہم مثل ہوں گے جس طرح جو تاجوتے کے ہم مثل ہوتا ہے حتی کہ اگر ان کے کسی شخص نے علانیہ اپنی ماں سے بدکاری کی تو تم میں سے بھی ضرور ایسا کوئی شخص پیدا ہوگا جو ایسی حرکت کرے گا بیشک بنی اسرائیل بہترٹکڑوں میں منقسم ہوگئے تھے اور عنقریب میری امت تہتر ٹکڑوں میں منقسم ہوجائے گی سب جہنم کا ایندھن بنیں گے سوائے ایک کے۔ استفسار کیا گیا وہ ایک کون سافرقہ ہے ؟ فرمایا وہ جس پر میں اور میرے اصحاب کار بند ہیں۔ المستدرک للحاکم، ابن عساکر، بروایت ابن عمرو۔

1061

1061 – "لتسلكن سنن من كان قبلكم إن بني إسرائيل افترقت على موسى سبعين فرقة كلها ضالة إلا فرقة واحدة الإسلام وجماعتهم ثم إنها افترقت على عيسى إحدى وسبعين فرقة كلها ضالة إلا واحدة الإسلام وجماعتهم وإنكم تكونون على ثنتين وسبعين فرقة كلها ضالة إلا الإسلام وجماعتهم". (ك عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف عن أبيه عن جده) .
١٠٦١۔۔ ضرور تم پچھلے لوگوں کی راہ اختیار کرو گے ۔ بنی اسرائیل موسیٰ پر ستر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور تمام گمراہ ہوئے سوائے ایک فرقہ کے اور وہ ایک فرقہ اسلام اور اس کی جماعت ہے۔ پھر یہ بنی اسرائیل عیسیٰ مسیح پر اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور سوائے ایک کہ تمام گمراہی کی راہ لگے اور وہ ایک فرقہ حلقہ اسلام اور اس کی جماعت ہے۔ اور یقیناً تم بہترفرقوں میں منتشر ہوجاؤ گے اور سوائے ایک کے تمام گمراہ ہوں گے اور وہ ایک فرقہ اسلام اور اس کی جماعت ہے۔ المستدرک للحاکم، بروایت کثیر بن عبداللہ (رض) بن عمرو بن عوف عن ابیہ عن جدہ۔

1062

1062 – "لقد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك ومن يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بما عرفتم من سنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين وعليكم بالطاعة وإن كان عبدا حبشيا عضوا عليها بالنواجذ فإنما المؤمن كالجمل الأنف حيثما قيد انقاد". (حم طب عن العرباض) .
١٠٦٢۔۔ میں تمہیں ایک روشن اور صاف ملت پر چھوڑ رہاہوں اس کی رات بھی اس کے دن کی مانند روشن ہے میرے بعداس سے کوئی متحرف نہ ہوگا سوائے تباہ و برباد ہونے والے کے۔ اور جو میرے بعد بھی حیات رہا وہ عنقریب بہت اختلافات دیکھے گا۔ پس ایسے وقت تم کو جو میری سنن معلوم ہوں ان کو اور خلفاء راشدین کی سنن کو مضبوطی سے تھام لینا۔ اور امیر کی سمیع وطاعت کو اپنا شعار بناناخواہ وہ امیر سیاہ فام حبشی غلام کیوں نہ ہو ان باتوں کو اپنی کچیلیوں سے پکڑلو۔ بیشک مومن نکیل پڑے اونٹ کی مانند ہے اس کو جہاں ہانکا جائے وہ چل پڑے۔ مسنداحمد۔ الکبیر للطبرانی، بروایت العرباض۔

1063

1063 – "يا معشر قريش إنكم الولاة بعدي لهذا الأمر ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا ولا تكونوا كالذين تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءتهم البينات وما أمروا إلا ليعبدوا الله مخلصين له الدين حنفاء ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة وذلك دين القيمة يا معشر قريش احفظوني في أصحابي وأبنائهم رحم الله الأنصار وأبناء الأنصار وأبناء أبناء الأنصار". (طب عن كثير عن عبد الله بن عمرو بن عوف عن أبيه عن جده) .
١٠٦٣۔۔ اے گروہ قریش ! میرے بعد تم اس خلافت کے والی بنائے جاؤ گے سو تم اسلام کے سوا کسی حالت پر اپنی جان نہ دینا۔ اور تمام آپس میں ایک ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔ اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں نہ بٹ جانا، اور دیکھو، ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو باہم انتشار کا شکار ہوچلے حالانکہ ان کے پاس پہلے واضح نشانیاں بھی آچکی تھیں۔ اور ان کو اسی بات کا پابند کیا گیا تھا، کہ وہ خالص ایک اللہ کی پرستش کریں گے ہر طرف سے کٹ کر اسی کے لیے دین کو خالص کریں گے نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کرتے رہیں گے اور یہی دین مستقیم ہے اے جماعت قریش ! میرے اصحاب اور ان کی اولاد سے میرے رشتے ناطے کا خیال رکھنا، انصار اور ال انصار پر اللہ رحم فرمائے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف عن ابیہ عن جدہ۔

1064

1064 – "أعهد إليكم أن تقيموا الصلاة وتؤتوا الزكاة وتحجوا البيت الحرام وتصوموا رمضان فإن فيه ليلة خير ألف شهر وتحرم دم المسلم ماله والمعاهد إلا بحقه وتعتصموا بالله والطاعة". (هب عن قرة بن دعموص) .
١٠٦٤۔۔ میں تم سے عہد و پیمان لیتاہوں کہ نماز قائم کرتے رہنا، زکوۃ کی ادائیگی کرتے رہنا، بیت الحرم کا حج کرتے رہنا رمضان کے روزے رکھنا اور اس ماہ مقدس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے ، اور یاد رکھو کہ مسلمان اور ذمی شخص کے خون ومال کی حرمت قائم رکھنا، الایہ کہ کسی حق کی وجہ سے اس کو جائز رکھاجائے۔ اور اللہ کی اطاعت کرتے رہنا۔ شعب الایمان ، بروایت قرۃ بن عموس۔

1065

1065 – "أعهد إليكم أن تتقوا الله وتلزموا سنتي وسنة الخلفاء الهادية المهدية فعضوا عليها بالنواجذ وإن استعمل عليكم عبد حبشي فاسمعوا له وأطيعوا فإن كل بدعة ضلالة". (البغوي من طريق سعيد بن خيثم عن شيخ من أهل الشام) .
١٠٦٥۔۔ میں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو، میری اور ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لو۔ اور انتہائی مضبوطی سے ان کو تھام لو اور اگر کسی حبشی غلام کو بھی تم پر امارت دی جائے۔ اس کو بھی سنو اور اطاعت کرو، بیشک ہر بدعت گمراہی ہے۔ البغوی من طریق سعید بن خیثم بروایت شیخ من اھل الشام۔

1066

1066 – " إنكم اليوم على دين وإني مكاثر بكم الأمم فلا تمشوا بعد القهقرى". (حم عن جابر) .
١٠٦٦۔۔ آج تم ایک دین برحق پر قائم ہو، اور دیکھو ! میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخرکناں ہوں گا۔ پس میرے بعد اس دین سے منہ موڑ کر الٹے پاؤں نہ پھرجانا۔ مسنداحمد، بروایت جابر (رض)۔

1067

1067 – "إنكم أمة مرحومة معافاة فاستقيموا وخذوا طاقة الأمر". (طب عن أبي مالك الأشعري) .
١٠٦٧۔۔ تم امت مرحومہ ومغفورہ ہو، سو ثابت قدم رہو، اور خلافت اسلام سے وابستہ رہو۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت مالک الاشعری۔

1068

1068 – "إن أقربكم مني مجلسا يوم القيامة من خرج من الدنيا كهيئته يوم تركته عليه". (حم وابن سعد وهناد حل ق طب عن أبي ذر) .
١٠٦٨۔۔ روز قیامت تم میں مجھ سے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو دنیا سے اسی حالت میں کوچ کرجائے جس حالت میں اس کو چھوڑ کرگیا تھا۔ مسنداحمد، ابن سعد، ھناد، الحلیہ، بخاری و مسلم، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1069

1069 – " أنتم اليوم على بينة من ربكم تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتجاهدون في سبيل الله ثم تظهر فيكم السكرتان سكرة العيش وسكرة الجهل وستحولون إلى غير ذلك يفشوا فيكم حب الدنيا فإذا كنتم كذلك لم تأمروا بالمعروف ولم تنهوا عن المنكر ولم تجاهدوا في سبيل الله والقائلون يومئذ بالكتاب والسنة في السر والعلانية السابقون الأولون". (الحكيم عن السلط بن طريف عن شيخ من أهل المداين) .
١٠٦٩۔۔ آج کے روز تم اپنے پروردگار کی واضح دلیل پر قائم ہو۔ امربالمعروف نہی عن المنکر کررہے ہو، اور راہ خدا میں جہاد بھی کررہے ہو پھر عنقریب تم میں دونشے سرایت کرجائیں گے عیش و عشرت کا نشہ اور جہالت کا نشہ۔ اور عنقریب تم ان حالات کی طرف منتقل ہوجاؤ گے دنیا کی محبت تمہارے اندر گھر کرجائے گی۔ پس جب یہ صورت حال پیدا ہوجائے تو تم امربالمعرف ونہی عن المنکر کو چھور بیٹھو گے اور راہ خدا میں جہاد بھی تم سے چھوٹ جائے گا۔ ایسے دن اپنے ظاہر و باطن میں کتاب وسنت کو تھامنے والے سابقین اولین کا مرتبہ پائیں گے۔ الحکیم عن الصلت بن طریف عن شیخ من اھل المداین۔

1070

1070 – "أنتم اليوم على بينة من ربكم تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتجاهدون في الله ثم يظهر فيكم السكرتان سكرة الجهل وسكرة حب العيش وستحولون عن ذلك فلا تأمرون بالمعروف ولا تنهون عن منكر ولا تجاهدون في الله القائمون يومئذ بالكتاب والسنة لهم أجر خمسين صديقا قالوا يا رسول الله منا أو منهم قال: لا بل منكم". (حل عن أنس) (حل عن معاذ) .
١٠٧٠۔۔ آج کے روز تم اپنے رب کی واضح دلیل پر قائم ہو۔ امربالمعروف نہی عن المنکر کررہے ہو اور اہ خدا میں جہاد بھی کررہے ہو، پھر عنقریب تم میں دونشے سرایت کرجائیں گے جہالت کا نشہ اور دنیاوی زندگی کی محبت کا نشہ۔ اور عن قریب تمہاری یہ دینی حالت بدل جائے گی، پھر تم امربالمعروف ونہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھو گے ۔ اور راہ خدا میں جہاد بھی تم سے چھوٹ جائے گا اس دن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر قائم لوگوں کے لیے پچاس صدیقوں کا اجر ہوگا۔ صحابہ کرام نے استفسار کیا یارسول اللہ وہ پچاس صدیق ہم میں سے یا ان میں سے ؟ فرمایا نہیں بلکہ تم میں سے ۔ الحلیہ بروایت انس (رض)۔ الحلیہ بروایت معاز (رض) ۔

1071

1071 – "المتمسك بسنتي عند فساد أمتي له أجر شهيد". (طس حل عن أبي هريرة) .
١٠٧١۔۔ میری امت کے فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے کے وقت جو میری سنت کو تھامے رکھے گا وہ شہید کا اجر پائیگا۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1072

1072 – "من أكرم سلطان الله في الدنيا أكرمه الله يوم القيامة ومن أهان سلطان الله في الدنيا أهانه الله يوم القيامة". (حم خ في التاريخ والرؤياني طب عن أبي بكرة) .
١٠٧٢۔۔ جس نے دنیا میں اللہ کے سلطان کا اکرام کیا، قیامت کے روز اللہ اس کا اکرام فرمائیں گے اور جس نے دنیا میں سلطان الٰہی کی توہین کی اللہ قیامت کے روز اس کو ذلیل فرمائیں گے۔ مسنداحمد، التاریخ للبخاری، الرویانی، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی بکرہ (رض) ۔

1073

1073 – "من أهان سلطان الله في الأرض أهانه الله ومن أكرم سلطان الله في الأرض أكرمه الله عز وجل". (طب عن أبي بكرة) .
١٠٧٣۔۔ جس نے روئے زمین پر سلطان الٰہی کی اہانت کی اللہ اس کی تذلیل فرمائیں گے اور جس نے روئے زمین پر اللہ کے سلطان کی توقیر و عزت کی اللہ اس کا اکرام فرمائیں گے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی بکرہ (رض) ۔

1074

1074 – "من مشى إلى سلطان الله ليذله أذله الله يوم القيامة مع ما ذخر له من العذاب". (السجزي في الإبانة عن ابن عباس) .
١٠٧٤۔۔ جو سلطان الٰہی کی طرف اس مذموم ارادے سے چلے کہ اس کو ذلیل کرے گا، اللہ قیامت کے روز اس عذاب سے اس کو ذلیل فرمائے گا جو اس کے لیے ذخیرہ کررکھا ہے السجزی فی الاہانہ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1075

1075 – "أول فرقة تسير إلى السلطان في الأرض لتذله يذلهم الله قبل يوم القيامة". (الديلمي عن حذيفة) .
١٠٧٥۔۔ سب سے اول فرقہ جو روئے زمین پر سلطان کی اہانت کی غرض سے چلے گا، اللہ اس کو قیامت سے قبل ہی قعرمذلت میں ڈال دیں گے۔ الدیلمی بروایت حذیفہ (رض)۔

1076

1076 – "والذي نفسي بيده لتدخلن الجنة كلكم إلا من أبى وشرد الله شراد البعير قيل يا رسول الله ومن يأبى أن يدخل الجنة قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى، ولفظ طس دخل النار". (طس حب عن أبي سعيد) .
١٠٧٦۔۔ اس پروردگار کی قسم، جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔۔ تم سب جنت میں داخل ہوگے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا اور اللہ کی اطاعت سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح نکل گیا۔ پوچھا گیا یارسول اللہ جنت میں داخل ہونے سے کس کو انکار ہوگا ؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی جنت میں داخل ہوا اور جس نے نافرمانی کی درحقیقت اس نے انکار کیا، بمطابق اوسط للطبرانی کے وہ جہنم میں داخل ہوا۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، الصحیح لابن حبان، بروایت ابی سعید (رض) ۔

1077

1077 – "لا تكفروا أهل ملتكم وإن عملوا الكبائر وصلوا خلف كل إمام وصلوا على كل على ميت وجاهدوا مع كل أمير". (ابن عمثليق في جزئه وابن النجار عن واثلة) .
١٠٧٧۔۔ اپنے اہل ملت کی تکفیرنہ کرو۔۔ خواہ وہ کبائر کے مرتکب ہوں اور ہر امام کی اقتداء میں نماز پڑھو۔ اور ہر میت پر نماز پڑھو۔ اور ہرامیر کے ماتحت جہاد کرو۔ ابن عمثلیق فی جزہ ، ابن النجار بروایت واثلہ۔

1078

1078 – " لا تكفروا أحدا من أهل القبلة بذنب وإن عملوا الكبائر وصلوا مع كل إمام وجاهدوا مع كل أمير". (طس عن عائشة) .
١٠٧٨۔۔ کسی اہل قبلہ کو محض کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہو۔۔ خواہ وہ کبائر کے مرتکب ہوں اور ہر امام کی اقتداء میں نماز پڑھو۔ اور ہرامیر کے ماتحت جہاد کرو ۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت عائشہ (رض)۔

1079

1079 – "رحم الله من كف لسانه عن أهل القبلة إلا بأحسن ما يقدر عليه". (ابن أبي الدنيا في الصمت عن هشام بن عروة) معضلا.
١٠٧٩۔۔ اللہ رحم فرمائے اس شخص پر جو اہل قبلہ کے متعلق حرف زنی کرنے سے اپنی زبان کو روک لے۔ الایہ کہ اپنی مقدور بھرسعی کے موافق عمدہ طریق سے کلام کرے۔ ابن ابی الدنیا فی الصمت، بروایت ہشام بن عروہ ، معضلا۔

1080

1080 – " خذوا العطايا مادام عطاء، فإذا صار رشوة على الدين فلا تأخذوه ولستم بتاركيه يمنعكم الفقر والحاجة ألا إن الكتاب والسلطان سيفترقان فلا تفارقوا الكتاب ألا إنه سيكون عليكم أمراء يقضون لأنفسهم ما لا يقضون إن عصيتموهم قتلوكم وإن أطعتموهم أضلوكم قالوا يا رسول الله كيف نصنع قال: كما صنع أصحاب عيسى بن مريم نشروا بالمناشير وحملوا على الخشب وموت في طاعة الله خير من حياة في معصية الله". (طب عن معاذ)
١٠٨٠۔۔ ہدایا وعطایا وصول کرتے رہو، جب تک کہ وہ عطایاہی رہیں، مگر جب وہ دین کے معاملہ میں رشوت بن جائیں تو ہاتھ روک لو۔ اور فقر وفاقہ اس سلسلہ میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔ آگاہ رہو کہ عنقریب کتاب اور امام جدا ہوجائیں گے مگر تم کتاب کونہ چھوڑنا۔ خبردار عنقریب تم پر ایسے مسلط حاکم ہوں گے جو اپنے لیے تو بہتر فیصلے کریں گے مگر دوسروں کے لیے ایسے فیصلہ نہ کریں گے اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تم کو تہ تیغ کر ڈالیں گے اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تم کو گمراہ کر ڈالیں گے صحابہ کرام نے استفسار کیا یارسول اللہ پھر ہم کیا کریں ؟ فرمایا جس طرح عیسیٰ بن مریم کے اصحاب نے کیا۔ وہ آریوں سے چیر دیے گئے اور سولیوں پر لٹکائے گئے اور جان رکھو، اللہ کی اطاعت میں مرجانا، اللہ کی معصیت میں زندگی گزارنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت معاذ (رض)۔

1081

1081 – "خذوا العطاء ما دام عطاء فإذا كان إنما هو رشا فاتركوه ولا أراكم تفعلون يحملكم على ذلك الفقر والحاجة ألا وإن رحى بني مرج قد دارت وإن رحا الإسلام دائرة وإن الكتاب والسلطان سيفترقان فدوروا مع الكتاب حيث دار وستكون عليكم أئمة إن أطعتموهم أضلوكم وإن عصيتموهم قتلوكم قالوا فكيف نصنع يا رسول الله قال كونوا كأصحاب عيسى نصبوا على الخشب ونشروا بالمناشير موت في طاعة خير من حياة في معصية". (ابن عساكر عن ابن مسعود) .
١٠٨١۔۔ عطایاوصول کرتے رہو (جب تک کہ وہ عطایار ہیں گے) مگر جب وہ رشوت بن جائیں توترک کردو۔ اور میں تم کونہ پاؤں کہ فقر وفاقہ تم کو ان کے وصول کرنے پر مجبور کردے خبردار بنی مرجیہ کی چکی چل پڑی ہے۔ اور اسلام کی چکی بھی چل رہی ہے۔ اور یاد رکھو کتاب اور امام عنقریب جدا جد ا ہوجائیں گے سو تم کتاب اللہ کے ساتھ ہولینا۔ جہاں بھی وہ جائے عنقریب تم پر ایسے حاکم مسلط ہوں گے اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تم کو گمراہ کر ڈالیں گے ۔ اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تم کو تہ تیغ کر ڈالیں گے صحابہ کرام نے استفسار کیا یارسول اللہ پھر ہم کیا کریں ؟ فرمایا جس طرح عیسیٰ بن مریم کے اصحاب نے کیا، وہ آریوں سے چیر دیے گئے اور سولیوں پر لٹکائے گئے اور جان رکھو اللہ کی اطاعت میں مرجانا، اللہ کی معصیت میں زندگی گزارنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ابن عساکر، بروایت ابن مسعود۔

1082

1082 – "ثلاث من السنة الصلاة خلف كل إمام لك صلاتك وعليه إثمه والجهاد مع كل أمير لك جهادك وعليه شره والصلاة على كل ميت من أهل التوحيد وإن كان قاتل نفسه". (قط والديلمي عن ابن مسعود) .
١٠٨٢۔۔ تین باتیں سنت کی ہیں ہر امام کے پیچھے نماز ادا کرنا، تجھ کو نماز کا ثواب ضرور ملے گا، وہ اگر باطل پر ہوگا تو اس کو گناہ ہوگا اور ہرامیر کے ساتھ جہاد کرنا تجھ کو جہاد کا ثواب ملے گا وہ اگر باطل پر ہوگا تو وہ اپنا گناہ خود اٹھائے گا اور ہر توحید پرست پر نماز جنازہ ادا کرنا۔ خواہ وہ خودکشی کا مرتکب کیوں نہ ہو۔ الدارقطنی ، الدیلمی بروایت ابن مسعود (رض)۔

1083

1083 – "لا قول إلا بعمل ولا قول ولا عمل إلا بنية ولا قول ولا عمل ولا نية إلا بإحياء السنة". (الديلمي عن علي) .
١٠٨٣۔۔ عمل کے بغیر قول کا اعتبار نہیں اور نیت کے بغیر قول کا اعبتار اور نہ ہی عمل کا اعتبار۔ اور احیاء سنت کے بغیر قول عمل اور نیت کسی چیز کا اعتبار نہیں۔ الدیلمی، بروایت علی (رض)۔

1084

1084 – "لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه متبعا لما جئت به". (الحكيم وأبو نصر السجزي في الإبانة وقال حسن غريب والخطيب عن ابن عمرو) .
١٠٨٤۔۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا۔۔ جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔ الحکیم، ابونصر، السجری فی الابانہ، الخطیب عن ابن عمرو (رض) ۔ ابونصر فرماتے ہیں حدیث حسن اور غریب ہے۔

1085

1085 – "من تناول أمرا بمعصيتي كان أفوت لما رجا وأقرب لمجيء ما اتقى". (تمام وابن عساكر عن عبد الله بن بشر المازني) .
١٠٨٥۔۔ جس نے امر خلافت کو میری معصیت کے ساتھ حاصل کیا میں اس کی امید کو خاک میں ملادوں گا، اور حوادث و خطرات کو اس کے قریب تر کردوں گا۔ تمام ابن عساکر، بروایت عبداللہ بن بشر المازنی۔

1086

1086 – "إن أحاديثي ينسخ بعضها بعضا كنسخ القرآن". (الديلمي عن ابن عمر) .
١٠٨٦۔۔ میری احادیث بعض بعض کو اسی طرح منسوخ کرتی ہیں۔۔ جس طرح قرآن بعض بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ الدیلمی بروایت انس (رض)۔

1087

1087 – "إن أحمق الحمق وأضل الضلال قوم رغبوا عما جاء به نبيهم إلى نبي غير نبيهم وإلى أمة غير أمتهم". (الديلمي عن يحيى بن جعدة عن أبي هريرة) .
١٠٨٧۔۔ احمقوں میں احمق ترین اور گمراہی کے گڑھے میں سب سے زیادہ دھنسنے والی وہ قوم ہے جو اپنے نبی کی تعلیمات سے اعراض کرکے دوسرے نبی کی تعلیمات کی خواہش مند ہوجائے۔ اور خود کو دوسری امت میں شامل ہو ناپسند کرے۔ الدیلمی بروایت یحییٰ بن جعدہ عن ابوہریرہ ۔

1088

1088 – "إن بني إسرائيل اختلفوا فلم يزل اختلافهم بينهم حتى بعثوا حكمين فضلا وأضلا وإن هذه الأمة ستختلف فلا يزال اختلافهم بينهم حتى يبعثوا حكمين ضلا وضل من اتبعهما". (ق عن علي) .
١٠٨٨۔۔ بنی اسرائیل باہمی نزاع واختلاف کا شکار ہوگئے۔۔ پھر مسلسل اسی اختلاف و انتشار کی حالت میں تھے کہ آخر انھوں نے اختلاف کو رفع کرنے کے لیے اپنے دونمائندوں کو حکم وفیصل بنا کر بھیجا، مگر وہ دونوں خود بھی گمراہی کا شکار ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستہ پر لٹکادیا۔ اور یقیناً یہ امت بھی عنقریب افتراق و انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ اور یہ باہمی اختلاف ونزاع اسی طرح برقرار ہوگا کہ وہ دوفیصل بھیجں گے لیکن وہ دونوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور اپنے متبعین کو بھی گمراہ کردیں گے۔ بخاری مسلم ، بروایت علی (رض)۔

1089

1089 – "إن بني إسرائيل كتبوا كتابا فاتبعوه وتركوا التوراة ". (طب عن أبي موسى) .
١٠٨٩۔۔ بنی اسرائیل نے اپنی طرف سے ایک کتاب لکھ کر توراۃ کو پس پشت ڈال دیا اور اسی کو اتباع میں لگ گئے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

1090

1090 – "إذا رأيتم شابا يأخذ بزي المسلم بتقصيره وتشميره فذاك من خياركم وإذا رأيتم طويل الشاربين يسحب ثيابه فذاك من أشراركم". (الديلمي عن أبي أمامة) .
١٠٩٠۔۔ جب تم کسی نوجوان کو دیکھو کہ مسلمان کی ہیئت وتہذیب کو اپنائے ہوئے ہے تنگدستی وفراخی ہر حال میں تو وہ تم میں بہترین انسان ہے اور اگر کسی کو اس حالت میں دیکھو کہ دراز مونچھیں لیے ہوئے کپڑوں کو گھسیٹ رہا ہے پس وہ تم میں بدترین شخص ہے۔ الدیلمی بروایت ابی امامہ۔

1091

1091 – "ما أخبرتكم إنه من عند الله فهو الذي لا يشك فيه". (البزار عن أبي هريرة) .
١٠٩١۔۔ جس بات کے متعلق میں تم کو یہ اطلاع دوں کہ وہ منجانب اللہ ہے تو اس میں شک وتردد کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔ البزار بروایت ھرر۔

1092

1092 – "إن السامع المطيع لا حجة عليه وإن السامع العاصي لا حجة له". (طس ص عن معاوية) .
١٠٩٢۔۔ سن کر اطاعت کرنے والے فرمان بردار کے خلاف کوئی حجت نہیں اور سن کرنا فرمانی کرنے والے عاصی کے حق میں کوئی حجت نہیں۔ الاوسط للطبرانی ، السنن لسعید، بروایت معاویہ (رض)۔

1093

1093 – "الأمر المفظع والحمل المضلع والشر الذي لا ينقطع إظهار البدع". (طب عن الحكم بن عمير) .
١٠٩٣۔۔ گھبراہٹ میں مبتلا کردینے والا امر اور کمرتوڑنے والا گراں بار اور ایساشرجونہ ختم ہونے والاہو وہ بدعتوں کا غلبہ و ظہور ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت الحکیم بن عمیر۔

1094

1094 – "أصحاب البدع كلاب النار". (أبو حاتم الخزاعي في جزئه عن أبي أمامة) .
١٠٩٤۔۔ حاملین بدعت جہنمی کتے ہیں۔ ابوحاتم الخزاعی فی جزہ بروایت ابی امامہ (رض) ۔

1095

1095 – "أهل البدع شر الخلق والخليقة". (حل عن أنس) .
١٠٩٥۔۔ اہل بدعت شرالخلائق لوگ ہیں۔ الحلیہ بروایت انس (رض)۔

1096

1096 – "عمل قليل في سنة خير من عمل كثير في بدعة". (الرافعي عن أبي هريرة) (فر ص عن ابن مسعود) .
١٠٩٦۔۔ سنت کا کوئی معمولی ساعمل بھی بدعت کے بہت زیادہ عمل سے بدرجہا بہتر ہے۔ الرافعی بروایت ہریرہ الفردوس للدیلمی ، (رح) ، السنن لسعید، بروایت ابن مسعود (رض)۔

1097

1097 – "ليس منا من عمل بسنة غيرنا". (فر عن ابن عباس) .
١٠٩٧۔۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اغیار کی سنتوں پر عمل پیرا ہو۔ الفردوس للدیلمی ، (رح) بروایت ابن عباس (رض)۔

1098

1098 – "ما أحدث قوم بدعة إلا رفع مثلها من السنة". (حم عن غضيف بن الحارث) .
١٠٩٨۔۔ کسی قوم نے کوئی بدعت ایجاد نہیں کی مگر اس کے مثل سنت ان سے اٹھالی گئی۔ مسندا حمد، بروایت غضیف بن الحارث۔

1099

1099 – "ما من أحد يحدث في هذه الأمة حدثا لم يكن فيموت حتى يصيبه ذلك". (طب عن ابن عباس) .
١٠٩٩۔۔ جو شخص اس امت میں کوئی نئی چیز جاری کرے گا جس کا پہلے وجود نہ تھا تو اس کا دائمی گناہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس تک پہنچتا رہے گا۔ الکبیر لطبرانی ، (رح) ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1100

1100 – "ما من أمة ابتدعت بعد نبيها في دينها بدعة إلا أضاعت مثلها من السنة". (طب ص عن غضيب بن الحارث) .
١١٠٠۔۔ کسی امت نے اپنے پیغمبر کی وفات کے بعد کوئی اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی مگر وہ اس کے مثل کو کھوبیٹھی۔ الکبیر للطبرانی (رح) ۔ السنن لسعید، غضب بن الحارث۔

1101

1101 – "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد". (ق ع د هـ عن عائشة) .
١١٠١۔۔ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی بات پیدا کی جو اس میں داخل نہیں تو وہ بلاشبہ مردود ہے۔ بخاری و مسلم، المسندلابی یعلی ، السنن لابی داؤد، ابن ماجہ، بروایت عائشہ (رض)۔

1102

1102 – "من وقر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام". (طب ص عن عبد الله بن بشير) .
١١٠٢۔۔ جس نے کسی بدعتی شخص کی توقیر و عزت کی ، یقیناً وہ اسلام کو ڈھانے میں مددگار بنا۔ الکبیر للطبرانی رحمہ اللہ تعالیٰ ، بروایت عبداللہ بن بشیر۔

1103

1103 – "أبى الله أن يقبل عمل صاحب بدعة حتى يدع بدعته". (هـ وابن عاصم في السنة عن ابن عباس) .
١١٠٣۔۔ اللہ نے کسی بدعتی شخص کے عمل کو قبول فرمانے سے انکار فرمادیا ہے۔۔ جب تک کہ وہ اس بدعت سے کنارہ کش نہ ہوجائے۔ ابن ماجہ، السنہ لابن عاصم، بروایت ابن عباس (رض)۔

1104

1104 – "إذا مات صاحب بدعة فقد فتح في الإسلام فتحا". (خط فر ص عن أنس) .
١١٠٤۔۔ کسی بدعتی سے دنیا کا پاک ہوجانا درحقیقت اسلام کی کھلی فتح ہے۔ الخطیب ، الفردوس للدیلمی (رح) ، السنن لسعید ، بروایت انس (رض)۔

1105

1105 – "إن الله احتجر التوبة على صاحب كل بدعة". (ابن قيل طس هب ع والضياء عن أنس) .
١١٠٥۔۔ پروردگار عزوجل نے صاحب بدعت کے لیے توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے۔ ابن قیل ، الاوسط للطبرانی ، (رح) ، شعب الایمان ، المسند لابی یعلی ، الضیاء بروایت انس (رض)۔ بدعتی شخص چونکہ بدعت کو عین دین خیال کرکے انجام دیتا ہے اس لیے اس کو اس سے توبہ کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ یہی مطلب ہے حدیث بالا ک اور نہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے۔

1106

1106 – "إن الإسلام يشيع ثم تكون له فترة فمن كانت فترته إلى غلو وبدعة فأولئك أهل النار". (طب عن ابن عباس وعائشة) .
١١٠٦۔۔ اسلام اولاپھلتا پھولتا جائے گا پھر اس کی ترویج وقفہ آجائے گا۔۔۔ سویادرکھو ! اس عرصہ میں جو بدعت وغلو کی طرف مائل ہوئے وہی درحقیقت جہنم کا ایندہن بنیں گے ۔ الکبیر، لطبرانی (رح) بروایت ابن عباس (رض) ل عنہما عائشہ (رض)۔

1107

1107 – "ما ظهر أهل بدعة إلا أظهر الله فيهم حجة على لسان من شاء من خلقه" (ك في تاريخه عن ابن عباس) .
١٠٧۔۔ جب بھی اہل بدعت غلبہ پائیں گے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کی زبان سے بھی ان پر حجت تام فرمادیں گے۔ حاکم فی التاریخ ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1108

1108 – "لا يقبل الله لصاحب بدعة صلاة ولا صوما ولا صدقة ولا حجا ولا عمرة ولا جهادا ولا صرفا ولا عدلا يخرج من الإسلام كما تخرج الشعرة من العجين". (هـ عن حذيفة) .
١١٠٨۔۔ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی شخص کی نہ نماز قبول فرماتے نہ روزہ نہ صدقہ، نہ حج، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ نفل، اور نہ ہی کوئی فرض۔۔ حتی کہ وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح گندھے ہوئے آتے سے بال نکال دیاجاتا ہے۔ ابن ماجہ۔ بروایت حذیفہ (رض)۔

1109

1109 – "من صنع أمرا على غير أمرنا فهو رد". (د عن عائشة) .
١١٠٩۔۔ جس نے ہمارے دین کے علاوہ کوئی بدعت رائج کی وہ بالکل مردود ہے۔ السنن لابی داؤد، بروایت عائشہ (رض)۔

1110

1110 – "ما من داع دعا رجلا إلى شيء إلا كان معه موقوفا يوم القيامة لا زما به لا يفارقه وإن دعا رجل رجلا". (تخ والدارمي ت ك عن أنس) (هـ عن أبي هريرة) .
١١١٠۔۔ جس داعی نے کسی کو کسی چیز کی دعوت دی تو وہ داعی روز قیامت اس چیز کے ساتھ کھڑا ہوگا اور وہ اس کے ساتھ اس طرح لازم ہوگی کہ اس سے جدانہ ہوسکے گی۔ خواہ کسی نے کسی کو دعوت دی ہو۔ التاریخ للبخاری، الدارمی، الصحیح للترمذی (رح) ۔ المستدرک للحاکم، بروایت انس (رض) ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ ۔

1111

1111 – "لا خزام ولا زمام ولا سياحة (2) ولا تبتل ولا ترهب في الإسلام". (هب عن طاوس) مرسلا.البدع والرفض من الإكمال
١١١١۔۔ اسلام میں جبر واکراہ اور تعذیب رسائی نہیں اور نہ آبادیوں سے دور جانے کا حکم اور نہ دنیا سے کنارہ کشی اور رہبانیت کا حکم ہے۔ شعب الایمان بروایت طاوس مرسلا۔
حدیث میں خزام، زمام، سیاحہ، اور تبتل کے الفاظ آئے ہیں خزام اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے کو کہتے ہیں جس کو محاورہ اردو کے مطابق ناک میں نتھ ڈال دی ، بھی کہتے ہیں، یعنی اس کو مجبور وبے بس کردیا۔ اور زمام کا بھی یہی مطلب ہے اور س کا معنی لگام وعنان ڈالنا۔ دونوں کا مقصود ایک ہی ہے سیاحہ سے یہاں مقصود آبادیوں سے دور چلے جانا اور تجرد کی زندگی اپنانا ہے تبتل کا بھی یہی مطلب ہے۔

1112

1112 – "اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم". (طب عن ابن مسعود) .
١١١٢۔۔۔ اتباع کرتے رہو۔۔۔ اور کسی نئی بدعت میں نہ پڑو بیشک یہ دین تمہارے لیے کافی ووافی ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

1113

1113 – "إياكم والبدع فإن كل بدعة ضلالة وكل ضلالة تسير إلى النار". (كر عن رجل) .
١١١٣۔۔ بدعات سے کلیہ اجتناب کرو۔ یقیناہربدعت صریح گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ابن عساکر۔ بروایت رجل۔

1114

1114 – "إن العبد إذا عمل بالبدعة خلاه الشيطان والعبادة وألقى عليه الخشوع والبكاء". (أبو نصر عن أنس) .
١١١٤۔۔ جب کوئی شخص بدعت کو اپنا شیوہ بنالیتا ہے تو شیطان اس سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور وہ عبادت میں منہمک ہوجاتا ہے اور شیطان اس پر خشوع و خضوع اور خشیت طاری کردیتا ہے ابونصر بروایت انس (رض)۔
درحقیقت کسی صاحب بدعت شخص کے قعر مذلت و گمراہی میں پڑنے کے لیے شیطان کا یہ کامیاب ترین حربہ ہے بدعتی شخص اپنی ان کیفیات باطنیہ کو دیکھ کر اپنے حق ہونے کا پختہ یقین کرلیتا ہے اور پھرا سے توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کا کوئی عمل ہی قبول نہیں فرماتے ۔ اس طرح گمراہی کا یہ جال اپنی گرفت کو بدعتی شخص کے گرد سخت کرتا جاتا ہے۔ اعاذنا اللہ منہا۔

1115

1115 – "إن الله تعالى لا يقبل لصاحب بدعة صوما ولا صلاة ولا صدقة ولا حجا ولا عمرة ولا جهادا ولا صرفا ولا عدلا حتى يخرج من الإسلام كما تخرج الشعرة من العجين". (الديلمي عن أنس) .
١١١٥۔۔ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی شخص کانہ روز قبول فرماتے ہیں نہ نماز، نہ صدقہ، نہ حج، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ نفل اور نہ ہی کوئی فرض۔۔ حتی کہ وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال دیاجاتا ہے۔ الدیلمی بروایت انس (رض)۔

1116

1116 – "إن الله تعالى احتجب التوبة". (هب وفي لفظ حجب التوبة 4 عب وفي لفظ احتجر التوبة عن كل صاحب بدعة. (ابن قيل في جزئه هب أبو نصر السجزي في الإبانة كر وابن النجار عن أنس) .
١١١٦۔۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو بدعتی سے پردہ میں مستور فرمادیا ہے۔ شعب الایمان۔ اور ایک روایت میں احتجب کے بجائے حجب کا لفظ آیا ہے۔ المصنف لعبدالرزاق ۔ اور ایک روایت میں احتجر کا لفظ آیا ہے جس کے مطابق معنی یہ ہے پروردگار عزوجل نے صاحب بدعت کے لیے توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے۔ ابن قیل فی جزفہ۔ شعب الایمان۔ الابانہ، کرر، ابن النجار، بروایت انس (رض)۔

1117

1117 – "من عمل ببدعة خلاه الشيطان في العبادة وألقى عليه الخشوع والبكاء". (الديلمي عن أنس) .
١١١٧۔۔ جو بدعت پر عمل پیرا ہوتا ہے شیطان اس کی عبادتوں میں رخنہ ڈالنے سے پہلوتہی کرلیتا ہے اور اس پر خشوع و خضوع اور خشیت طاری کردیتا ہے۔ الفردوس للدیلمی (رح) ، بروایت انس (رض)۔

1118

1118 – "من غش أمتي فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين قالوا يا رسول الله وما الغش قال: أن يبتدع لهم بدعة فيعملوا بها". (قط في الأفراد عن أنس) .
١١١٨۔۔ جس نے میری امت کو دھوکا میں مبتلا کیا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ دھوکا دہی کیا ؟ فرمایا ان کے لیے کوئی بدعت ایجاد کرے اور پھر وہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔ الدارقطنی فی الافراد بروایت انس (رض)۔

1119

1119 – "لا يذهب من السنة شيء حتى يظهر من البدعة مثله حتى تذهب السنة وتظهر البدعة حتى يستوفي البدعة من لا يعرف السنة فمن أحيا ميتا من سنتي قد أميتت كان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا ومن أبدع بدعة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها لا ينتقص من أوزارهم شيئا". (ابن الجوزي في الواهيات عن ابن عباس) .
١١١٩۔۔ کسی سنت کا رواج اس وقت تک ختم نہیں ہوتاجب تک کہ اسی کے مثل کسی بدعت کی نحوست طاری نہ ہوجائے۔۔ حتی کہ سنت معدوم ہوجاتی ہے اور بدعت کا دور دور ہوجاتا ہے۔ اور پھر سنت سے بےبہر شخص بدعت ہی کو عین دین سمجھ کر گمراہ ہوجاتا ہے۔ سو جان لو ! جس نے مریی کسی مردہ معدوم سنت کو زندہ کیا تو اس کو اس کا بھی اجرملے گا اور جو بھی آئندہ اس سنت پر عمل پیرا ہوتے رہیں گے۔۔ سب کا ثواب اس کو ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب سے بھی کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ اور جس نے کسی بدعت کو رواج دیا اس کا وبال تو اس پر ہوگا ہی بلکہ آئندہ جو بھی اس پر عمل کرتے رہیں گے سب کے گناہوں کا وبال اور مصیبت بھی اس پر پڑے گی، لیکن ان عمل کرنے والوں سے بھی کسی گناہ کو کم نہ کیا جائے گا۔ ابن الجوزی فی الواہیات ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1120

1120 – "من أحدث حدثا أو أوى محدثا أو ادعى إلى غير أبيه أو تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا". (ت عن ثوبان، طب عن ابن عباس) .
١١١٢٠۔۔ جس نے کوئی بدعت جاری کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی یا اپنے کو کسی غیرباپ کی طرف منسوب کیا یا کسی غلام نے اپنے کو کسی غیرمولی کی طرف منسوب کیا تو اس پر اللہ کی ملائکہ کی اور تمام فرشتوں کی لعنت ہے۔ روز قیامت اللہ اس کا کوئی فرض قبول فرمائیں گے اور نہ نفل۔ الصحیح للترمذی، بروایت ثوبان، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1121

1121 – "من أحدث حدثا في هذه الأمة لم يكن يموت حتى يصيبه ذلك الحدث". (طس والخطيب في المفتق والمفترق عن ابن عباس) .
١١٢١۔۔ جس نے اس امت میں کوئی بدعت پیدا کی وہ اس وقت تک نہ مرے گا جب تک کہ اس کا وبال اس کونہ پہنچ جائے۔ الاوسط للطبرانی ، المتفق والمفترق للخطیب ، بروایت ابن عباس رضی الہ عنہما۔

1122

1122 – "من خالف جماعة المسلمين شبرا فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه". (ك عن أبي ذر) .
١١٢٢۔۔ جس نے بالشت بھر بھی جماعت مسلمین کی مخالفت کی اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ المستدرک للحاکم، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1123

1123 – "من مشى إلى صاحب بدعة ليوقره فقد أعان على هدم الإسلام". (طب حل عن معاذ) .
١١٢٣۔۔ جو کسی بدعتی شخص کی تعظیم کے لیے قدم بھرتا ہے وہ یقیناً عمارت اسلام کو مسمار کرنے کا مددگار بنتا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، الحلیہ بروایت معاذ (رض)۔

1124

1124 – "يجيء قوم يميتون السنة ويوغلون في الدين فعلى أولئك لعنة الله ولعنة اللاعنين والملائكة والناس أجمعين". (الديلمي عن أبي هريرة) .
١١٢٤۔۔ ایک قوم آئے گی جو سنت نبی کو نیست ونابود کردے گی اور دین میں انتہائی غلوبازی سے کام لے گی، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ، فرشتوں اور جمیع مسلمانان کی لعنت ہے۔ الدیلمی بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1125

1125 – "أهل البدع. كلاب أهل النار". (قط في الأفراد عن أبي أمامة) .
١١٢٥۔۔ اہل بدعت لوگ جہنمی کتے ہیں۔ الدارقطنی فی الافراد بروایت ابی امامہ۔

1126

1126 – "أهل البدع شر الخلق والخليقة". (حل وابن عساكر عن أنس) .
١١٢٦۔۔ اہل بدعت شریر ترین مخلوق ہیں۔ الحلیہ، ابن عساکر، بروایت انس (رض)۔

1127

1127 – "إنك وشيعتك في الجنة وسيأتي قوم لهم نبز يقال لهم الرافضة فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإنهم مشركون". (حل عن علي) .
١١٢٧۔۔ تو اور تیری جماعت جنت میں جائے گی اور عن قریب ایک قوم آئے گی جس کالقب رافضی ہوگا جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرکین ہیں۔ الحلیہ، بروایت علی (رض)۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج ٣، ص ٦۔ ٧۔ ١٠٩٨ پر اس مضمون کی کئی احادیث ذکر کی گئی ہیں اور ان میں رافضیہ فرقہ سے متعلق مزید وضاحت مذکور ہے منجملہ یہ بھی ہے کہ وہ ابوبکر (رض) پر سب وشتم کریں گے۔

1128

1128 – "يكون قوم في آخر الزمان يسمون الرافضة يرفضون الإسلام ويلفظونه فاقتلوهم فإنهم مشركون" (عبد بن حميد طب عن ابن عباس) .
١١٢٨۔۔ آخرزمانہ میں ایک قوم آئے گی جن کا نام رافضی پڑجائے گا اور وہ اسلام کو چھوڑ بیٹھیں گے اور اسلام کو پھینک دیں گے سو ان سے قتال کرو وہ مشرک ہیں۔ عبد بن حمید، الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1129

1129 – "ما تقولون في قوم تدخل قادتهم الجنة وأتباعهم النار قالوا يا رسول الله وإن عملوا بمثل أعمالهم قال وإن عملوا بمثل أعمالهم يدخل هؤلاء بما سبق لهم الجنة ويدخل هؤلاء بما أحدثوا النار". (سمويه عن جندب البجلي) .
١١٢٩۔۔ تمہارا کیا خیال ہے ایسی قوم کے بارے میں جن کے قائدین و پیشوا جنت میں جائیں گے مگر ان کے متبعین وپیروکار جہنم واصل ہوں گے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، خواہ وہ متبعین اپنے پیشواؤں کا ساعمل کریں ؟ فرمایا خواہ وہ اپنے پیشواؤں کا ساعمل کریں۔ یہ پیشواخدا کے فیصلہ کے مطابق جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے متبعین نئی نئی باتیں ایجاد کرنے کی بدولت جہنم میں جائیں گے۔ سمویہ بروایت جندب البجلی ، (رض) ۔

1130

1130 – "إن يمين الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم يغض ما في يمينه وعرشه على الماء وبيده الأخرى القبض يرفع ويخفض". (حم ق عن أبي هريرة) .
١١٣٠۔۔ اللہ کا دایاں دست مبارک خیر سے پر ہے، اس کو کوئی خرچ کم نہیں کرسکتا، دن رات وہ بہتا ہے کیا تم سوچ سکتے ہو کہ جب سے اللہ نے ارض وسماوات کو پیدا کیا کس قدر خرچ کرچکا ہے لیکن اب تک اس کے خزائنہ یمین میں کوئی سرمو بھی کمی نہیں آئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے دست مبارک میں میزان ہے جس کو بالاوپست کرتا رہتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری و مسلم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1131

1131 – "يد الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم يغض ما في يده وكان عرشه على الماء وبيده الأخرى الميزان يخفض ويرفع". (حم ق ت عن أبي هريرة) .
١١٣١۔۔ اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اس کو خرچ کرنے سے ذرہ بھر کمی واقع نہیں ہوتی وہ دن رات بہتا ہے کیا خیال ہے کہ جب سے اللہ نے ارض وسماوات کو پیدا کیا کس قدر خرچ کرچکا ہے لیکن اب تک اس کے خزائنہ یمین میں کوئی سرمو بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے دست مبارک میں میزان ہے جس کو پست وبالا کرتا رہتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، للترمذی، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1132

1132 – " ويحك إنه لا يستشفع بالله على أحد إن شاء والله أعظم من ذلك ويحك أتدري ما الله؟ إن الله فوق عرشه وعرشه على سمواته، وأرضه مثل القبة وإنه ليئط به أطيط الرحل بالراكب". (د عن جبير بن مطعم) .
١١٣٢۔۔ تف ہو تجھ پر ! اگر اللہ نہ چاہے توا سکے آگے کسی کی سفارش نہیں چل سکتی۔ اللہ تع اس سے بہت عظیم ہے افسوس، تجھے کیا علم کہ اللہ کیسی عظیم ہستی ہے اللہ عرش پر ہے اور وہ عرش آسمانوں پر ہے اور اس کی زمین قبلہ کی مانند ہے اور وہ عرش ، خدائی جبروت وسطوت کی وجہ سے یوں چڑاچڑاتا ہے جس طرح کجاوہ سوار کی وجہ سے چڑچڑاتا ہے۔ السنن لابی داؤد بروایت جبیر بن مطعم۔

1133

1133 – "يقول الله من عمل حسنة فله عشر أمثالها أو أزيد ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها أو أغفر ومن عمل قراب لأرض خطيئة ثم لقيني لا يشرك بي شيئا جعلت له مثلها مغفرة ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت منه باعا ومن أتاني يمشي أتيته هرولة". (حم انتهى. عن أبي ذر) .
١١٣٣۔۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے ایک نیکی انجام دی اس کے لیے اس کا دس مثل ہے یا میں اس میں بھی اضافہ کرسکتا ہوں، اور جس سے کوئی لغزش سرزد ہوگئی تو اس کی سزا اسی کے مثل ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ میں اس کو بھی بخش شوں۔ اور جس نے زمین کی وسعتوں بھر گناہ کیے پھر مجھ سے اس حال میں آملا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا تو میں اس کے لیے اسی قدر مغفرت عطا کروں گا۔ اور جو بالشت بھر بھی میرے قریب آیا میں ہاتھ بھر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور جو ہاتھ بھر مجھ سے قریب ہوا میں باع بھر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور جو میری طرف چل کر آیا میں اس کی طرف دوڑ کرآؤں گا۔ مسنداحمد، ابن ماجہ، مسلم، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1134

1134 – "قال الله تعالى يا ابن آدم إن ذكرتني في نفسك ذكرتك في نفسي وإن ذكرتني في ملأ ذكرتك في ملأ خير منهم وإن دنوت مني شبرا دنوت منك ذرعا وإن دنوت مني ذراعا دنوت منك باعا وإن أتيتني تمشي أتيتك هرولة". (ت عن أنس) .
١١٣٤۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے ابن آدم ! اگر تو مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجلس میں یاد کرے گا تو میں تجھے اس سے بہتر مجلس میں یاد کروں گا۔ اور اگر توبالشت بھر بھی میرے قریب آئے گا تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو ہاتھ بھر میرے قریب آئے تو میں گز بھر تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو میری طرف چل کر آئے میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ الصحیح للترمذی، بروایت انس (رض)۔

1135

1135 - "يقول الله تعالى: أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذكرني فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي وإن ذكرني في ملأ ذكرته في ملأ خير منهم وإن تقرب إلي شبرا تقربت إليه ذراعا وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا وإن أتاني يمشي أتيته هرولة". (حم ق ت هـ عن أبي هريرة) .
١١٣٥۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتاہوں پس اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کو یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتاہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف سبقت کرتا ہے تو میں ایک گز اس کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔ مسنداحمد، بخاری، مسلم، للترمذی، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ ۔

1136

1136 - "يقول الله: أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه حين يذكرني والله لله أفرح بتوبة عبده من أحدكم يجد ضالته بالفلاة ومن تقرب إلي شبرا تقربت إليه ذراعا ومن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا وإذا أقبل إلي يمشي أقبلت إليه هرولة". (م عن أبي هريرة) .
١١٣٦۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتاہوں اور اللہ اپنے بندے کی توبہ سے بےانتہا خوش ہوتا ہے تمہارے اس شخص سے بھی زیادہ جو کسی بیابان جنگل میں اپنی گمشدہ سواری کو پالے اور جو بالشت بھر بھی میرے قریب آیا میں ہاتھ بھر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور جو ہاتھ بھر مجھ سے قریب ہوا میں باع بھر اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور اگر میری طرف چل کر آیا میں اس کی طرف دوڑ کرآؤں گا۔ الصحیح مسلم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1137

1137 – "قال الله تعالى: إذا تقرب إلي العبد شبرا تقربت إليه ذراعا وإذا تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا وإذا أتاني يمشي أتيته هرولة". (خ عن أنس وعن أبي هريرة) (طب عن سلمان) .
١١٣٧۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب بندہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتاہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف سبقت کرتا ہے تو میں ایک گز اس کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔ بخاری، بروایت انس (رض)، بروایت ابوہریرہ ۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت سلمان۔

1138

1138 - "قال الله تعالى: يا ابن آدم قم إلي أمش إليك وامش إلي أهرول إليك". (حم عن رجل) .
١١٣٨۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اے بندے میرے اٹھ کھڑا ہوجا میں تیری طرف چل کرآؤں گا میری طرف چل کر آ میں تیری طرف دوڑ کرآؤں گا۔ مسنداحمد، بروایت رجل۔

1139

1139 – "إن الله تعالى لا ينام ولا ينبغي له أن ينام يخفض القسط ويرفعه يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل حجابه النور لو كشفها لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه". (م هـ عن أبي موسى) .
١١٣٩۔۔ اللہ عزوجل سوتے ہیں اور نہ سونا ان کو زیب دیتا ہے ترازو کو پست وبالا کرتے رہتے ہیں، دن سے قبل ہی رات کے اعمال اس کی بارگاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور رات سے قبل دن کے اعمال پہنچ جاتے ہیں اس کا پردہ نور ہے اگر وہ اپنے پردے کو منکشف فرمادے تو اس کے چہرے کی کرنیں ہراس چیز کو جلا کر بھسم کردے جہاں تک باری تعالیٰ کی نظر جائے۔ الصحیح لمسلم ابن ماجہ، بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

1140

1140 – "إذا قاتل أحدكم أخاه فليتق الوجه". (حم عن أبي سعيد) .
١١٤٠۔۔ جب تمہاری اپنے کسی بھائی سے لڑائی ہوجائے تو اس کو چہرے پر مارنے سے حتی الواسع احتراز کرے۔ مسنداحمد، بروایت ابی سعید (رض) ۔

1141

1141 – "إذا قاتل أحدكم فليتق الوجه فإن الله عز وجل خلق آدم على صورة وجهه". (طب في السنة عن أبي هريرة) .
١١٤١۔۔ جب تم میں سے کوئی قتال کرے توچہرے پر نہ مارے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1142

1142 – "إذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه فإن الله تعالى خلق آدم على صورته". (م عن أبي هريرة) (عبد بن حميد عن أبي سعيد) .
١١٤٢۔۔ جب تم میں سے کوئی قتال کرے توچہرے پر مارنے سے احتراز کرے کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ عبد بن حمید بروایت ابی سعید۔

1143

1143 – "إذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه فإن صورة الإنسان على صورة وجه الرحمن". (طب في السنة عن أبي هريرة) .
١١٤٣۔۔ جب تم میں سے کوئی قتال کرے توچہرے پر مارنے سے احتراز کرے کیونکہ انسان کی صورت رحمن کی صورت پر پیدا کی گئی ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) فی السنہ ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1144

1144 – "إذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه". (عب حم وعبد بن حميد ع قط في الأفراد ص عن أبي سعيد) .
١١٤٤۔۔ جب تم میں سے کوئی قتال کرے توچہرے پر مارنے سے احتراز کرے۔ المصنف لعبدالرزاق ، مسنداحمد، عبد بن حمید، المسند ابی یعلی، الدارقطنی فی الافراد، السنن لسعید، بروایت ابی سعید (رض) ۔

1145

1145 – "إذا ضرب أحدكم فليجتنب الوجه ولا يقل قبح الله وجهك ووجه من أشبه وجهك فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته". (عب حم قط في الصفات طب السنة كر عن أبي هريرة) .
١١٤٥۔۔ جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے توچہرے پر مارنے سے اجتناب کرے اور نہ کسی کو یوں بددعا دے کہ اللہ تیرے چہرے کو برا کرے۔ یا تیرے چہرے جیسے چہروں کا برا کرے۔ المصنف لعبدالرزاق، مسنداحمد، الدارقطنی فی الصفات، الکبیر للطبرانی ، ابن عساکر، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1146

1146 – "إذا ضرب أحدكم فليجتنب الوجه فإن صورة الإنسان على صورة الرحمن". (قط في الصفات عن أبي هريرة) .
١١٤٦۔۔ جب تم میں سے کوئی کسی کو مارے توچہرے پر مارنے سے اجتناب کرے کیونکہ انسان کی صورت رحمن کی صورت پر پیدا کی گئی ہے۔ الدارقطنی فی الصفات ، بروایت ابوہریرہ۔

1147

1147 – "إذا ضربتم فاتقوا الوجه فإن الله تعالى خلق آدم على صورته". (عب عن قتادة مرسلا) .
١١٤٧۔۔ جب تم کسی کو زودوکوب کروتوچہرے کو بچاؤ کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پید ا فرمایا ہے ، المصنف عبدالرزق ، بروایت قتادہ مرسلا۔

1148

1148 – "لا تقبحوا الوجه فإن الله خلق آدم على صورته وفي لفظ على صورة الرحمن". (قط في الصفات عن ابن عمر) .
١١٤٨۔۔ کسی کی شکل و صورت کو برابھلامت کہو، کیونکہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے ، اور دوسری روایت کے مطابق رحمن کی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ الدارقطنی فی الصفات بروایت ابن عمر (رض)۔

1149

1149 – "لا تقبحوا الوجه فإن ابن آدم على صورة الرحمن". (طب كر ك عن ابن عمر) .
١١٤٩۔۔ کسی کی صورت کو برابھلامت کہو، کیونکہ ابن آدم رحمن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، کرر، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

1150

1150 – "لا يقولن أحدكم لأخيه قبح الله وجهك ووجه من أشبه وجهك فإن الله عز وجل خلق آدم على صورته". (طب في السنة عن أبي هريرة) (والخطيب عن ابن عمر) .
١١٥٠۔۔ کوئی تم میں سے اپنے کسی بھائی کو یوں ہرگز بددعانہ دے کہ اللہ تیرے چہرے کو براے یا تیرے جیسے چہروں کا برا کرے۔ الکبیر للطبرانی (رح) فی السنہ، بروایت ابوہریرہ ، الخطیب بروایت ابن عمر (رض)۔

1151

1151 – "رأيت ربي في أحسن صورة فقال: لي يا محمد أتدري فيم يختصم الملأ الأعلى فقلت يا رب في الكفارات قال وما الكفارات قلت إبلاغ الوضوء أماكنه على الكراهيات والمشي على الأقدام إلى الصلاة وانتظار الصلاة بعد الصلاة". (طب عن عبيد الله بن أبي رافع عن أبيه) .
١١٥١۔۔ میں نے اپنے پروردگار کو سب سے اچھی صورت میں دیکھا تو مجھے پروردگار نے فرمایا، اے محمد، کیا جانتا ہے ملااعلی کے فرشتے کس بات میں بحث و مباحثہ کررہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا پروردگار کفارات کے بارے میں۔ فرمایا کفارات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا کراہت وتنگی کے باوجود وضو کو کامل طریقہ سے ادا کرنا نماز کی طرف قدموں کا اٹھانا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت عبیداللہ بن ابی رافع بروایت ابیہ۔

1152

1152 – "رأيت ربي في صورة شاب له وفرة (طب في السنة عن ابن عباس) ونقل عن أبي زرعة أنه قال: هو حديث صحيح قلت (2) وهو محمول على رؤية المنام وكل الحديث السابق كالآتي.
١١٥٢۔۔ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان کی صورت میں دیکھا جس کے بال کانوں کی لوتک آئے ہوئے تھے۔ الکبیر للطبرانی (رح) فی السنہ ، بروایت ابن عباس (رض)۔ ابوزرعہ سے منقول ہے کہ یہ حدیث صحیح وثابت ہے۔ علامہ سیوطی فرماتے ہیں یہ خواب پر محمول ہے اسی طرح آنے والی اس قسم کی تمام احادیث خواب پر محمول ہیں۔

1153

1153 - " رأيت ربي في المنام في صورة شاب موفر في الخضر عليه نعلان من ذهب وعلى وجه فراش من ذهب". (طب في السنة عن أم الطفيل) .
١١٥٣۔۔ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان کی صورت میں دیکھا جس کے بال طویل و شاداب تھے سونے کے دوجوتے پہنے ہوئے تھا اور چہرے پر بھی سونے کی چادر تھی۔ الکبیر للطبرانی (رح) فی السنہ ، بروایت ام طفیل۔

1154

1154 – "رأيت ربي في حظيرة من الفردوس في صورة شاب عليه تاج يلتمع البصر". (طب في السنة عن معاذ بن عفراء) .
١١٥٤۔۔ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان کی صورت میں فردوس کے حظیرۃ القدس یعنی جنت میں دیکھا اس پر ایک ایسامنور تاج تھا جو نظروں کو خیرہ کیے دے رہا تھا۔الکبیر للطبرانی ، (رح) فی السنہ، بروایت معاذ بن عفرائ۔

1155

1155 - " إن الله تعالى يقول: من أهان لي وليا فقد بارزني بالعداوة ابن آدم لن تدرك ما عندي إلا بأداء ما افترضت عليك ولا يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فأكون أنا سمعه الذي يسمع به وبصره الذي يبصر به ولسانه الذي ينطق به وقلبه الذي يعقل به فإذا دعاني أجبته وإذا سألني أعطيته وإذا استنصرني نصرته وأحب ما تعبد لي عبدي به النصح لي". (طب حل في الطب عن أبي أمامة) .
١١٥٥۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے میری کسی ولی کی اہانت کی اس نے مجھے جنگ کے لیے دعوت مبارزت دیدی۔ اے ابن آدم میرے پاس جو ہے وہ اس وقت تک تجھے نہیں مل سکتا جب تک کہ میرے فرض کردہ اوامر کو ادا نہ کرلے۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔ پھر میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے اور اس کا دل بن جاتاہوں جس سے وہ سوچتا ہے پس جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں۔ اور جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور جب وہ مجھ سے مددکاطلب گار ہوتا ہے تو میں اس کی مدد کرتا ہوں اور میرے نزدیک بندے کی محبوب ترین عبادت ہردم میرا خیال رکھنا ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، الحلیہ، فی الطب، بروایت ابی امامہ۔

1156

1156 - "قال الله تعالى: من أخاف لي وليا فقد بارزني بالمحاربة وما تقرب إلي عبدي المؤمن بمثل أداء ما افترضت عليه ولا يزال عبدي المؤمن يتنفل حتى أحبه ومن أحببته كنت له سمعا وبصرا ويدا ومؤيدا إن سألني أعطيته وإن دعاني أجبته وما ترددت في شيء أنا فاعله ما ترددت في قبض نفس عبدي المؤمن يكره الموت وأنا أكره مساءته ولا بد له منه وإن من عبادي المؤمنين لمن يشتهي الباب من العبادة فأكفه عنه لئلا يدخله عجب فيفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الغني ولو أفقرته لأفسده وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الفقر ولوبسطت له لأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الصحة ولو أسقمته لأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا السقم ولو صححته لأفسده ذلك إني أدبر عبادي بعلمي بقلوبهم إني عليم خبير". (ابن عساكر عن أنس) وفيه الحسن بن يحيى الخشني.
١١٥٦۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے میرے کسی ولی کو خوف زدہ کیا اس نے مجھے کھلے عام جنگ کی دعوت دی۔ اور کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ مجھ سے زیادہ تقرب حاصل نہیں کرسکتا۔ اور بندہ مسلسل نفلی عبادات میں مشغول رہتا ہے تو وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اس کے لیے میں کان ، آنکھ، اور ہاتھ بن جاتاہوں اور اس کا حمایتی و مددگار بن جاتاہوں اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں۔ اور مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں۔ اور میں کسی چیز میں تردد کا شکار نہیں ہوتا سو اے اس کے جب میرے بندے کا آخری وقت آپہنچتا ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ میں اس کی برائی کو ناپسند کرتا ہوں اور اس کے سواچارہ کار نہیں۔ اور بعض میرے بندے اپنے لیے کسی عبادت کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں مگر میں اس بات کے پیش نظر اس دروازے کو اس پر بند رکھتاہوں کہ کہیں وہ عجب میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اور یہ کہ اس کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن جائے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو غنی ومالداری کے سوا کوئی چیز راس نہیں آتی۔ اگر میں ان کو فقر میں مبتلا کردوں تو وہ ان کو فتنہ فساد کا شکار کردے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو فقر ہی درست رکھتا ہے اگر میں ان کو غنی ومالداری بخش دوں تو یہی ان کی تباہی کا ذریعہ بن جائے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کے لیے صحت و تندرستی خیر کا باعث بنتی ہے اگر میں ان کو بیماری میں مبتلا کردوں تو یہ بیماری ان کو خراب کردے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کو بیماری ہی مناسب رہتی ہے اگر میں ان کو صحت و تندرستی عنایت کردوں تو وہ فساد و خرابی کا شکار ہوجائیں میں اپنے بندوں کے دلوں کا بھید جانتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں میں علیم وخبیر ذات ہوں۔ ابن عساکر۔ اس میں ایک راوی حسن بن یحییٰ الخشنی ۔ یہ راوی کمزور ہے۔ الحسن بن یحییٰ الخشنی واہ، المقتی، فی سرد الکنی ج ١ ص ٣٧٨۔

1157

1157 - "قال الله تعالى: من آذى لي وليا فقد استحل محاربتي وما تقرب إلي عبدي بمثل أداء الفرائض وما يزال العبد يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت عينه التي يبصر بها وأذنه التي يسمع بها ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بها وفؤاده الذي يعقل به ولسانه الذي يتكلم به إن دعاني أجبته وإن سألني أعطيته وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن وفاته وذاك لأنه يكره الموت وأنا أكره مساءته". (حم والحكيم ع طس وأبو نعيم في الطب ق في الزهد وابن عساكر عن عائشة) .
١١٥٧۔۔ اللہ فرماتے ہیں جس نے میرے ولی کو ایذاء دی اس نے مجھ سے جنگ مول لے لی۔ اور کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ مجھ سے زیادہ تقرب حاصل نہیں کرسکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس کو اپنا محبوب بنالیتاہوں پھر میں اس کی نگاہ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کا ہتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اس کا دل بن جاتاہوں جس سے وہ سوچتا ہے اور اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں اور مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور میں کسی چیز میں تردد کا شکار نہیں ہوتاسوائے اس کے کہ جب میرے بندے کا آخری وقت ہوتا ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ میں اس کی برائی کو ناپسند کرتا ہوں۔ مسنداحمد، الحکیم المسند لابی یعلی، الاوسط للطبرانی ، ابونعیم فی الطب، السنن للبیہقی ، ابن عساکر، بروایت عائشہ (رض)۔

1158

1158 - "قال الله تعالى: ما تقرب إلي عبدي بمثل أداء فرائضي وإنه ليتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت رجله التي يمشي بها ويده التي يبطش بها ولسانه الذي ينطق به وقلبه الذي يعقل به إن سألني أعطيته وإن دعاني أجبته". (ابن السني في الطب عن سمويه) .
١١٥٨۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ مجھ سے زیادہ تقرب حاصل نہیں کرسکتا ، اور بندہ مسلسل نفلی عبادات میں مشغول رہتا ہے توتقرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس کو اپنا محبوب بنالیتاہوں پھر میں اس کا پاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے اور اس کا دل بن جاتاہوں جس سے وہ سوچتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور اگر مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں۔ ابن السنی فی الطب، بروایت سمویہ۔

1159

1159 - "قال الله عز وجل: ما تحبب إلي عبدي بأحب إلي من أداء ما فترضت عليه". (الخطيب وابن عساكر عن علي) .
١١٥٩۔۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کوئی بندہ میرا تقرب اس سے بڑھ کر حاصل نہیں کرسکتا کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی کرے جو میں نے اس پر فرض کردیے ہیں۔ الخطیب ابن عساکر، بروایت علی (رض)۔

1160

1160 - "يقول الله تعالى: من أهان لي وليا فقد بارزني بالمحاربة وإني لأسرع شيء إلى نصرة أوليائي إني لأغضب لهم كما يغضب الليث الحرب وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن قبض روحي عبدي المؤمن وهو يكره الموت وأكره مساءته ولا بد له منه وما تعبدني عبدي المؤمن بمثل الزهد في الدنيا ولا تقرب إلي عبدي المؤمن بمثل أداء ما افترضت عليه ولا يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت له سمعا وبصر ويدا ومؤيدا إن سألني أعطيته وإن دعاني استجبت له وإن من عبادي المؤمنين لمن سألني من العبادة فأكفه عنه ولو أعطيته إياه لدخله العجب وأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الغنى ولو أفقرته لأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الفقر ولو أغنيته لأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا الصحة ولو أسقمته لأفسده ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلحه إلا السقم ولو أصححته لأفسده ذلك وإني أدبر لعبادي بعلمي بقلوبهم إني عليم خبير". (ابن أبي الدنيا في كتاب الأولياء والحكيم وابن مردويه حل في الأسماء وابن عساكر عن أنس) .
١١٦٠۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے میرے کسی دوست کی اہانت کی اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کردیا اور میں اپنے اولیاء کی نصرت میں سب سے زیادہ سرعت سے کام لیتاہوں اور ان کے لیے اس حملہ آور شیر کی طرح غضبناک ہوتاہوں۔ اور میں کسی چیز میں تردد کا شکار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ جب میرے بندہ کا آخری وقت آپہنچتا ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے۔ جبکہ میں اس کی برائی کو ناپسند کرتا ہوں اور اس کے سوا چارہ کار نہیں اور کسی بندے نے دنیا کی بےرغبتی سے بڑھ کر میری عبادت نہیں کی۔ اور نہ کسی بندہ نے میرے فرائض کی ادائیگی کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ مجھ سے زیادہ تقرب حاصل کیا۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا جاتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اور اس کے لیے میں کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتاہوں اور اس کا حمایتی و مددگار بن جاتاہوں اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور مجھے پکارتا ہے تو میں اس کو جواب دیتاہوں اور بعض میرے بندے اپنے لیے کسی عبادت کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں مگر میں اس بات کے پیش نظر اس دروازے کو اس پر بند رکھتاہوں کہ کہیں وہ عجب میں مبتلا نہ ہوجائے اور یہ اس کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن جائے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو فقرہی درست رکھتا ہے اگر میں ان کو مالداری بخش دوں تو یہی ان کی تباہی کا ذریعہ بن جائے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کے لیے صحت و تندرستی خیر کا باعث بنتی ہے اگر میں ان کو بیماری مبتلا کردوں تو یہ بیماری ان کو خراب کردے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کو بیماری ہی مناسب رہتی ہے۔ اگر میں ان کو صحت و تندرستی عنایت کردوں تو وہ فساد و خرابی کا شکار ہوجائیں۔ میں اپنے بندوں کے دلوں کا بھید جانتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں میں علیم وخبیر ذات ہوں۔ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاولیاء الحکیم وابن مردویہ الحلیہ فی الاسماء ، ابن عساکر، بروایت انس (رض)۔

1161

1161 - "يقول الله تبارك وتعالى: من عادى لي وليا فقد ناصبني بالمحاربة وما ترددت عن شيء أنا فاعله كترددي عن موت المؤمن يكره وأكره مساءته وربما سألني وليي المؤمن الغنى فأصرفه إلى الفقر ولو صرفته إلى الغنى لكان شرا له وربما سألني وليي المؤمن الفقر فأصرفه إلى الغنى ولو صرفته إلى الفقر لكان شرا له إن الله تعالى يقول وعزتي وجلالي وعلوي وبهائي وجمالي وارتفاع مكاني لا يؤثر عبد هواي على هوى نفسه إلا أثبت أجله عند بصره وضمنت السماء والأرض رزقه وكنت له من وراء تجارة كل تاجر". (طب عن ابن عباس) .
١١٦١۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے میرے کسی ولی سے عدوات مول لی اس نے مجھے محاربت کی دعوت دیدی اور میں کسی چیز میں تردد وشکار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ جب میرے بندے کا آخری وقت آپہنچتا ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ میں اس کی برائی و تونگری عطا کردوں تو یہ اس کے لیے انتہائی براثابت ہو۔ اور بسا اوقات میرا مومن دوست مجھ سے فقر وفاقہ کا متمنی ہوتا ہے لیکن میں اس کو فراخی و کشادگی سے نہیں نکالتا اور اگر میں اس کو فقر وفاقہ کی مصیبت چکھادوں تو یہ اس کے لیے مصیبت وفتنہ کا باعث بن جائے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم میرے عالی شان کی قسم، میرے حسن جمال جہاں آراء کی قسم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم میرا جوبندہ میری خواہش و چاہت کے آگے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتا ہے اور ان کو قربان کرتا ہے ۔۔۔ تو میں اس کی موت کا وقت اس کی نگاہوں میں پہلے سے پھیر دیتاہوں اور ارض وسماوات کو اس کے لیے رزق رسانی پر مامور کردیتاہوں اور ہر تاجر کی تجارت سے بڑھ کر میں اس کا ضامن وکفیل بن جاتاہوں۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1162

1162 – "يمين الله عز وجل طباق السموات والأرض". (الديلمي عن أبي أمامة وشداد بن أوس معا) .
١١٦٢۔۔ تمام آسمان و زمین اللہ کی مٹھی میں ہیں۔ الدیلمی بروایت ابی امامہ (رض) ۔

1163

1163 – "يمين الله ملأى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار أرأيتم ما أنفق منذ خلق السموات والأرض فإنه لم ينقص ما في يمينه وعرشه على الماء وبيده الأخرى الميزان يخفض ويرفع ". (قط في الصفات عن أبي هريرة) .
١١٦٣۔۔ اللہ کا دایاں دست مبارک خیر سے پر ہے اس کو کوئی خرچ کم نہیں کرسکتا، دن رات وہ بہتا ہے کیا تم سوچ سکتے ہو کہ جب سے اللہ نے ارض وسماوات کو پیدا کیا کس قدر خرچ کرچکا ہے لیکن اب تک اس کے خزانہ یمین میں کوئی سرمو بھی کمی نہیں آئی، اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے دست مبارک میں میزان ہے جس کو پست وبالا کرتا رہتا ہے۔ الدارقطنی فی الصفات ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1164

1164 – "إن قلوب بني آدم بين أصبعين من أصابع الرحمن كقلب واحد يقول بها هكذا". (ك عن جابر) .
١١٦٤۔۔ بیشک تمام بنی آدم کے قلوب ایک قلب کی مانند اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں جس طرح چاہے الٹتا ہے۔ المستدرک للحاکم بروایت جابر (رض)۔

1165

1165 – "إن قلوب بني آدم بين أصبعين من أصابع الله كقلب واحد فإذا شاء صرفه وإذا شاء بصره". (ابن جرير عن أبي ذر) .
١١٦٥۔۔ بیشک تمام بنی آدم کے قلوب ایک قلب کی مانند اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں جب چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کو دیکھ لیتا ہے۔ ابن جریر بروایت ابی ذر (رض) ۔

1166

1166 – "ما من آدمي إلا قلبه بين أصبعين من أصابع الرحمن إن شاء أن يزيغه أزاغة وإن شاء أن يقيمه أقامه وكل يوم الميزان بيد الله يرفع أقواما ويضع آخرين إلى يوم القيامة". (طب عن نعيم بن هماز
١١٦٦۔۔ ہر آدمی کا دل رحمن کی دوانگلیوں کے درمیان رہتا ہے چاہے تو اس کو کج رو کردے اور چاہے توسیدھا مستقیم رکھے اور ہر دن میزان اللہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اقوام کو رفعت عطا کرتا ہے اور دوسری بعض کو پستی میں دھکیلتارہتا ہے اور قیامت تک یہی معاملہ جاری وساری رہتا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت نعیم بن ھماز۔

1167

1167 – "يا أم سلمة إنه ليس آدمي إلا وقلبه بين أصبعين من أصابع الله فمن شاء أقام ومن شاء أزاغ". (ت أم سلمة) .
١١٦٧۔۔ اے ام سلمہ ! کوئی ایسا آدمی نہیں ہے مگر اس کا دل اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے وہ اپنی مشیت سے اس کو مستقیم رکھے یاکج روکردے۔ الصحیح للترمذی ، بروایت ام سلمہ (رض)۔

1168

1168 – "ما من قلب إلا وهو معلق بين أصبعين من أصابع الرحمن إذا شاء أن يقيمه أقامه وإذا شاء أن يزيغه أزاغه والميزان بيد الرحمن يرفع أقواما ويضع آخرين إلى يوم القيامة". (حم هـ ك طب عن النواس بن سمعان) .
١١٦٨۔۔ کوئی ایسادل نہیں ہے جو رحمن کی دوانگلیوں کے درمیان معلق نہ ہوں وہ اپنی مشیت سے اس کو مستقیم رکھے یاکج رو کردے۔ اور میزان اللہ کے ہاتھوں میں ہے اس کو قیامت تک اوپرنیچے کرتا رہے گا۔ مسند احمد، ابن ماجہ، الکبیر للطبرانی بروایت نواس بن سمعان۔

1169

1169 – "الموازين بيد الله يرفع قوما ويضع قوما وقلب ابن آدم بين أصبعين من أصابع الرحمن إذا شاء أزاغه وإذا شاء أقامه". (ابن جرير الديلمي عن سمرة بن فاتك الأسدي) .
1169 ۔۔ تمام میزان اللہ کے ہاتھوں میں ہے ، وہ کسی قوم کو بلند کرتا ہے تو کسی کو پستی کا شکار کرتا ہے اور بنی آدم کا دل پروردگار عزوجل کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ، جب چاہے ٹیڑھا کردے اور جب چاہے سیدھا کردے۔ ابن جریر ، الدیلمی بروایت سمرۃ بن فاتک الاسدی۔

1170

1170 – "الميزان بيد الله يرفع قوما ويضع قوما وقلب ابن آدم بين أصبعين من أصابع الرب عز وجل إذا شاء أزاغه وإذا شاء أقامه". (ابن قانع طب وابن مندة في غرائب شعبه والديلمي وابن عساكر عن سبرة) وقيل سمرة بن فاتك أخي خريم بن فاتك. (ك عن النواس بن سمعان) .
1170 ۔۔ تمام میزان اللہ کے ہاتھوں میں ہیں وہ کسی قوم کو بلند کرتا ہے تو کسی کو پستی کا شکار کرتا ہے اور بنی آدم کا دل پروردگار عزوجل کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے جب چاہے ٹیڑھا کردے اور جب چاہے سیدھا کردے۔ ابن قانع ، الکبیر للطبرانی ، ابن مندہ فی غرائب شعبہ الدیلمی ، ابن عساکر بروایت سبرہ وقیل سمرۃ بن فاتک اخی خریم بن فاتک المستدرک للحاکم، بروایت النواس بن سمعان۔

1171

1171 – "لا تزال جهنم يلقى فيها وتقول هل من مزيد حتى يضع فيها رب العزة قدمه فتنزوي بعضها إلى بعض وتقول قط قط، وعزتك وكرمك، ولا يزال في الجنة فضل حتى ينشيء الله خلقا آخر فيسكنهم في فضول الجنة". (حم وعبد بن حميد حم م ت حسن غريب) (ن وأبو عوانة حب عن أنس) .
١١٧١۔۔ مسلسل جہنم میں ڈالاجاتا رہے گا، اور مسلسل پکارتی رہے گی ھل من مزید حتی کہ رب العزت اپنا قدم مبارک اس میں رکھ دیں گے تو جہنم کے بعض حصے بعض حصوں میں گھس جائیں گے اور جہنم چیخ اٹھے گی تیری عزت کی قسم ! تیرے کرم کی قسم، بس ، بس ، اور جنت میں آخر تک فراخی وکشادتی باقی رہے گی حتی کہ اللہ تعالیٰ ایک جنت کو پر فرمانے کے لیے دوسری مخلوق پیدا فرمائیں گے اور ان کو جنت کے باقی بچ جانے والے حصوں میں سکونت عطا فرمائیں گے۔ مسنداحمد، عبد بن حمید، الصحیح لمسلم ، الصحیح للترمذی، حسن غریب ، النسائی ، ابوعوانہ، الصحیح لابن حبان، بروایت انس (رض)۔

1172

1172 – "إن جهنم تسأل المزيد حتى يضع الجبار فيها قدمه فينزوي بعضها إلى بعض وتقول قط قط". (قط في الصفات عن أبي) .
١١٧٢۔۔ جہنم آخر تک زیادتی کی طلب گار رہے گی حتی کہ جبار الٰہی اس میں اپنا قدم رکھ دیں گے تو اس کے حصے ایک دوسرے میں اٹ جائیں گے اور جہنم قط قط ! بس بس ، پکار اٹھے گی۔ الدار قطنی فی الصفات بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1173

1173 – "لا تزال جهنم يلقى فيها وتقول هل من مزيد حتى يضع الجبار فيها قدمه فهنالك تنزوي وتقول قط قط". (قط في الصفات عن أبي هريرة) .
١١٧٣۔۔ مسلسل جہنم میں ڈالا جاتا رہے گا اور مسلسل پکارتی رہے گی ، ھل من مزید، حتی کہ رب العزت اپنا قدم مبارک اس میں رکھ دیں گے اور وہ بس بس پکار اٹھے گی۔ الدار قطنی فی الصفات بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1174

1174 – "يلقى في النار وتقول هل من مزيد حتى يضع فيها قدمه وتقول قط قط". (قط في الصفات عن أنس) .
١١٧٤۔۔ جہنم میں مسلسل اس کے اہل کو ڈالا جاتا رہے گا۔۔۔ اور وہ ھل من مزید، کی صدا بلند کرتی رہے گی حتی کہ اللہ تعالیٰ آئیں گے اور اپنا قدم مبارک اس میں رکھ دیں گے اور وہ بس بس پکار اٹھے گی۔ الدارقطنی فی الصفات ، بروایت ابوہریرہ (رض) ۔

1175

1175 – "يلقى في النار أهلها وتقول هل من مزير حتى يأتيها تبارك وتعالى فيضع فيها قدمه فتنزوي وتقول قط قط". (قط في الصفات عن أبي هريرة) .
١١٧٥۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے بندے میرے اٹھ کھڑا ہو میں تیری طرف چل کرآؤں گا میری طرف چل کر آ میں تیری طرف دوڑ کر آوں گا۔ مسنداحمد ، بروایت رحل۔

1176

1176 - "قال الله تعالى: يا ابن آدم قم إلي أمش إليك وامش إلي أهرول إليك". (حم عن رجل) .
١١٧٦۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے ابن آدم ! اگر تو مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجلس میں یاد کرے گا تو میں تجھے اس سے بہتر مجلس میں یاد کروں گا اور اگر توبالشت بھر بھی میرے قریب آئے گا تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو ہاتھ بھر میرے قریب آئے گا تو میں گز بھرتیرے قریب آؤں گا اور اگر تو میری طرف چل کر آئے میں تیری طرف دوڑ کرآؤں گا۔ مسنداحمد، عبد بن حمید، بروایت انس (رض)۔

1177

1177 - "قال الله تعالى "يا ابن آدم إن ذكرتني في نفسك ذكرتك في نفسي وإن ذكرتني في ملأ ذكرتك في ملأ خير منه وإن دنوت مني شبرا دنوت منك ذراعا وإن دنوت مني ذراعا دنوت منك باعا وإن أتيتني تمشي أتيتك هرولة". (حم وعبد بن حميد عن أنس) .
١١٧٧۔۔ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم اگر تو مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجلس میں یاد کرے گا تو میں تجھے اس سے بہتر مجلس میں یاد کروں گا اور اگر توبالشت بھر بھی میرے قریب آئے گا تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو ہاتھ بھر میرے قریب آئے تو میں گز بھر تیرے قریب آؤں اور اگر تو میری طرف چل کر آئے میں تیری طرف دوڑ کرآؤں گا۔ مسنداحمد، عبدابن حمید، بروایت انس (رض)۔

1178

1178 - " قال ربكم عز وجل: "الحسنة بعشر والسيئة بواحدة أو أغفرها ومن لقيني بقراب الأرض خطيئة لا يشرك بي لقيته بقراب الأرض مغفرة ومن هم بحسنة فلم يعملها كتبت له حسنة ومن هم بسيئة فلم يعملها لم يكتب عليه شيء ومن تقرب مني شبرا تقربت منه ذراعا ومن تقرب مني ذراعا تقربت منه باعا". (طب عن أبي ذر) .
١١٧٨۔۔ تمہارے پروردگار عزوجل نے فرمایا نیکی کی جزاء دس گنا ہوگی اور بدی کی سزا ایک گناہی رہے گی بلکہ ممکن ہے کہ میں اس کو بھی معاف فرمادوں اور جو زمین بھر گناہوں کے ساتھ مجھ سے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ رکھتاہو تو میں بھی اس سے زمین بھر مغفرت کے ساتھ ملوں گا جس نے نیکی فقط ارادہ کیا اور اس کو انجام نہ دیا اس کے لیے بھی نیکی لکھ دی جائے گی، اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور اس کا مرتکب نہ ہوا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو میرے بالشت بھر قریب آئے گا تو میں ہاتھ بقدر اس کی طرف بڑھوں گا اور اگر کوئی ہاتھ بقدر میری طرف آئے گا تو میں ایک گز اس کے قریب آؤں گا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1179

1179 – "من تقرب إلى الله شبرا تقرب إليه ذراعا ومن تقرب إلى الله ذراعا تقرب إليه باعا ومن أقبل إلى الله ماشيا أقبل الله إليه مهرولا والله أعلى وأجل والله أعلى وأجل". (ابن أبي خيثمة والبغوي وابن السكن وأبو نعيم في المعرفة عن أبي زياد الغفاري) وما له غيره. (طب وأبونعيم والحسن بن سفيان عن أبي ذر) .
١١٧٩۔۔ جو بندہ اللہ کی طرف ایک بالشت سبقت کرے گا اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ سبقت فرمائیں گے اور جو اللہ کی طرف ایک ہاتھ بڑھے گا اللہ اس کی طرف ایک گز بڑھیں گے اور جو اللہ کی طرف چلتے ہوئے متوجہ ہوگا اللہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے متوجہ ہوں گے اور اللہ بزرگ و برتر ہیں اور اللہ بزرگ و برتر ہیں۔ ابن ابی خیثمہ ، البغوی ، ابن السکن، ابونعیم فی المعرفہ، بروایت ابی زیاد الغفاری ، ، الکبیر للطبرانی ، ابونعیم ، الحسن ، بن سفیان بروایت ابی ذر (رض) ۔

1180

1180 – "من تقرب إلى الله شبرا تقرب إليه ذراعا ومن تقرب إلى الله ذراعا تقرب إليه باعا ومن أتاه يمشي أتاه هرولة". (حم عن أبي سعيد) .
١١٨٠۔۔ جو بندہ اللہ کی طرف ایک بالشت سبقت کرے گا اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ سبقت فرمائیں گے اور جو اللہ کی طرف ایک ہاتھ بڑھے گا اللہ اس کی طرف ایک گز بڑھیں گے اور جو اس کی طرف چل کر آئے گا وہ اس کی طرف دوڑ کر آئے گا۔ مسنداحمد، بروایت ابی سعید۔

1181

1181 - "يقول الله: يا ابن آدم إن ذكرتني في نفسك ذكرتك في نفسي وإن ذكرتني في ملأ ذكرتك في ملأ أفضل منه وأكرم وإن دنوت مني شبرا دنوت منك ذراعا وإن دنوت مني ذراعا دنوت منك باعا وإن مشيت إلي هرولت إليك". (ابن شاهين في الترغيب عن ابن عباس) وفيه معمر بن زائدة قال العقيلي لا يتابع على حديثه.
١١٨١۔۔ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم، اگر تو مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں تجھے اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو مجھے کسی مجلس میں یاد کرے گا تو میں تجھے اس سے بہتر مجلس میں یاد کروں گا اور اگر توبالشت بھر میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو ہاتھ بھر میرے قریب آئے گا تو میں گز بھر تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو میری طرف چل کر آئے گا میں تیری طرف دوڑ کرآؤں گا۔ ابن شاھین فی الترغیب ، بروایت ابن عباس۔ اسمیں معمر بن زائدہ ایک راوی ہیں جن کی حدیث کا متابع نہیں ہے۔

1182

1182 - "يقول الله: إذا تقرب مني عبدي شبرا تقربت منه ذراعا وإذا تقرب مني ذراعا تقربت منه باعا وإذا أتاني ماشيا أتيته هرولة". (ط حم خ عن قتادة) (خ عن التميمي عن أنس عن أبي هريرة) .
١١٨٢۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب بندہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتاہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف سبقت کرتا ہے تو میں ایک گز اس کی طرف سبقت کرتا ہوں اور گروہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔ طبرانی، مسنداحمد، بخاری، بروایت قتادہ ، بخاری ، عن التیمی عن انس عن ابوہریرہ ۔

1183

1183 - "يقول الله عز وجل: ابن آدم قم إلي أمش إليك وامش إلي أهرول إليك، ابن آدم إن دنوت مني شبرا دنوت منك ذراعا، وإن دنوت مني ذراعا دنوت منك باعا، ابن آدم إن حدثت نفسك بحسنة فلم تعملها كتبتها لك حسنة وإن عملتها كتبتها لك عشرا وإن هممت بسيئة فحجزك عنها هيبتي كتبتها لك حسنة واحدة وإن عملتها كتبتها لك سيئة". (ك وابن النجار عن أبي ذر) .
١١٨٣۔۔ اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم میری طرف اٹھ کھڑا ہو میں تیری طرف چل کرآؤں گا میری طرف چل کر آ میں تیری طرف دوڑ کر آوں گا، اے ابن آدم، اگر توبالشت بھر میرے قریب آئے گا تو میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا اور اگر تو ہاتھ بھر میرے قریب آئے گا تو میں گز بھر تیرے قریب آؤں گا، اور اگر تو اپنے دل میں کسی نیکی کو پیدا کردے خواہ اسے انجام نہ دیا ہوگا تو میں اس کی نیکی لکھ دوں گا اور اگر تو اس پر عمل کرلے گا تو اس کو دس گنا اجر لکھ دوں گا، اور اگر تو کسی بدی کا خیال دل میں کرے گا لیکن میرا خوف تجھے ارتکاب سے رکاوٹ بن جائے گا تو میں اس کا کوئی گناہ نہ لکھوں گا، اور اگر وہ گناہ سرزد ہو ہی گیا تو اس کو ایک گناہ ہی لکھوں گا۔ المستدرک للحاکم، ابن النجار، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1184

1184 – "إن الله ليضحك من أياس العباد وقنوطهم وقرب الرحمة لهم". (الخطيب عن عائشة) .
١١٨٤۔۔ اللہ عزوجل بندوں کے ہجوم یاس وقنوط اور ان کی طرف بڑھتی ہوئی اپنی رحمت کا موازنہ کرتے ہوئے بندوں پر تعجب فرماتے ہیں۔ الخطیب بروایت عائشہ (رض)۔

1185

1185 – "كان في عماء تحته هواء ثم خلق عرشه على الماء". (ابن جرير وابو الشيخ في العظمة عن أبي رزين) قال قلت يا رسول الله أين كان ربنا قبل أن يخلق السموات والأرض قال فذكره.
١١٨٥۔۔ وہ سفید بادلوں میں تھا، ان بادلوں کے نیچے ہوا تھی پھر پروردگار نے اپنا عرش پانی پر پیدا فرمایا۔ ابن جریر، ابوالشیخ ، فی العظمہ، بروایت ابی رزین۔ صحابی فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ یارسول اللہ آسمان و زمین کی پیدائش سے قبل ہمارا رب کہاں تھا، تو آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

1186

1186 – "لا تقوم الساعة حتى تكون خصومتهم في ربهم". (أبو نصر والديلمي عن أبي هريرة) .
١١٨٦۔۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ لوگ اپنے رب کے متعلق بحث و مباحثہ میں مشغول نہ ہوجائیں۔ ابونصر الدیلمی ، بروایت ابویرہرہ (رض) ۔

1187

1187 – "لا تقوم الساعة حتى يكفر بالله جهرا وذلك عند كلامهم في ربهم". (ك في تاريخه طس عن أبي هريرة) .
١١٨٧۔۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی، جب تک کہ خدا کے بارے میں بحث آرائی کرتے ہوئے لوگ علی العلانیہ خدا کا انکار نہ کرنے لگ جائیں۔ المستدرک للحاکم، الاوسط للطبرانی ، بروایت ابوہریرہ ۔

1188

1188 – "يوشك قلوب الناس أن تمتلئ شرا حتى يخرج الشر فضلا بين الناس ما تجد قلبا يدخله لا يزال الناس يتسائلون عن كل شيء حتى يقول لو كان الله قبل كل شيء فما كان قبل الله فإذا قالوا لكم ذلك فقولوا كان الله قبل كل شيء وليس قبله شيء وهو الآخر بعد كل شيء وليس بعده شيء وهو الظاهر فوق كل شيء وليس فوقه شيء وهو الباطن دون كل شيء وليس دونه شيء وهو بكل شيء عليم فإن هم أعادوا المسألة فابصقوا في وجوههم فإن لم ينتهوا فاقتلوهم". (الديلمي عن أبي سعيد) .
١١٨٨۔۔ عنقریب لوگوں کے قلوب شر سے پر ہوجائیں گے۔۔ حتی کہ شر لوگوں کے درمیان ہر طرف پھوٹ پڑے گا، ہر ہر دل میں جگہ بنالے گا لوگ ہر ہر چیز کے متعلق بحث میں مبتلا ہوجائیں گے حتی کہ کہیں گے اگر تمام اشیاء سے قبل اللہ تھا تو اللہ سے قبل کیا تھا، پس جب تم کو یہ کہیں تم کہنا ہرچیز سے قبل اللہ تھ اور اللہ سے قبل کچھ نہ تھا، اور وہی تمام چیزوں کے آخر میں بھی ہے اس کے بعد کچھ نہیں ، اور وہ ہرچیز پر غالب وبالا ہے ، اس سے اوپر کچھ نہیں ، اور وہی باطن بھی ہے اس سے ورے اور راز کی شی کچھ نہیں ہے اور ہرچیز کا خوب علم رکھنے والا ہے پس اگر پھر بھی وہ لوگ اس بارے میں سوال آرائی کریں تو ان کے چہروں کی طرف تھوک دو ۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کو تہ تیغ کرڈالو۔ الدیلمی بروایت ابی سعید (رض) ۔

1189

1189 – " لينقضن الإسلام عروة عروة". (حم عن فيزوز الديلمي) .
١١٨٩۔۔ اسلام ٹکڑے ٹکڑے ہو کربکھرے جائے گا۔۔ مسنداحمد، بروایت فیروز الدیلمی ۔

1190

1190 – " لينقضن الإسلام عروة عروة فكلما انتقضت عروة تشبث الناس بالتي تليها فأولهن نقضا الحكم وآخرهن الصلاة". (حم حب ك عن أبي أمامة) .
١١٩٠۔۔ اسلام ٹکڑے ٹکڑے ہو کربکھر جائے گا جب بھی کوئی حکم اسلام ٹوٹے گا تو لوگ اس کے ساتھ والے حکم کو تھام لیں گے۔ اور سب سے پہلے اسلام کے مطابق فیصلہ کرنا چھوڑ دیا جائے گا اور سب سے آخر میں نماز کو ترک کردیا جائے گا۔ مسنداحمد، الصحیح لابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت ابی امامہ (رض) ۔

1191

1191 – "إن الإسلام بدأ جذعا ثم ثنيا ثم رباعيا ثم سديسا ثم بازلا". (حم عن رجل) .
١١٩١۔۔ اسلام اونٹ کے بچہ کی مانند توخیزی وکس میرسی کے عالم میں اٹھا پھر اس کے سامنے کے ثنائی دانت نکلے پھر برابر کے رباعی دانت نکلے پھر رباعی کے بعد والے دانت نکلے پھر اسلام اپنے عنفوان شباب کے آخری مرحلہ پر آیا اور اس کے کیچیلی والے دانت بھی نکل بچے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کی ارتقائی منازل کو بیان کیا گیا ہے آخری مرحلہ بزدل کا فرمایا حالت بزدل میں اونٹ آٹھویں سال میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ اس کی قوت کا انتہائی زمانہ ہوتا ہے اسی وجہ سے دوسرے مقام پر اس روایت کے آخر میں حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہے کہ بزدل کے بعد سوائے نقصان وتنزلی کے کچھ نہیں رہ جاتا ۔ یعنی عنقریب اسلام اس حالت میں پہنچ کر حاملین اسلام کی زبوں حالی کی وجہ سے اپنا عروج واقبال کھوبیٹھے گا۔

1192

1192 – "إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا كما بدأ فطوبى للغرباء". (م هـ عن أبي هريرة ن هـ عن ابن مسعود هـ عن أنس) (طب عن سلمان وسهل بن سعد وابن عباس) .
١١٩٢۔۔ اسلام غرب واجنبی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا سو خوش خبری ہو، غرباء کے لیے۔ الصحیح لمسلم ، ابن ماجہ ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ النسائی ، ابن ماجہ ، بروایت ابن مسعود ، ابن ماجہ ، بروایت انس۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت سلیمان وسھل بن سعد وابن عباس (رض)۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ حاملین اسلام فقط غرباء رہ جائیں گے بلکہ غرابت اجنبیت کے معنی میں ہے یعنی اسلام اور اس کے احکام کو نامانوس اور تعجب کی نگاہوں سے دیکھاجائے گا کہ یہ پرانے وقتوں کی دقیانوسیت کہاں سے ـآگئی۔

1193

1193 – "إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود كما بدأ ويأرز بين المسجدين كما تأرز الحية في جحرها".(م عن ابن عمر) .
١١٩٣۔۔ اسلام غربت و اجنبیت کے ساتھ شروع ہو اور عنقریب اسی طرح اجنبیت کی حالت میں لوٹ جائے گا اور صرف مسجدوں کی حدود تک اس طرح منحصر ہو کر رہ جائے جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ کر چلاجاتا ہے۔ الصحیح لمسلم ، بروایت ابن عمر (رض)۔

1194

1194 – "إن الدين ليأرز إلى الحجاز كما تأرز الحية إلى جحرها وليعقلن الدين من الحجاز معقل الأروية من رأس الجبل إن الدين بدأ غريبا ويرجع غريبا فطوبى للغرباء الذين يصلحون ما أفسد الناس بعدي من سنتي". (ت عن عمر بن عوف المزني) .
١١٩٤۔۔ بیشک دین سرزمین حجاز کی طرف یوں سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ کر چلا آتا ہے اور دین ارض حجاز کو قلعہ بنا کر اس میں یوں جگہ پکڑ لے گا جس طرح اپنے ریوڑ سے بچھڑی ہوئی پہاڑی بکری پہاڑ کی چوٹی کی طرف لپک کر قلعہ بندر ہوجاتی ہے اور یقیناً دین غربت و اجنبیت کے عالم میں اٹھا اور اسی طرح غربت کے عالم میں واپس ہوجائے گا پس خوش خبری ہو غرباء کے لیے جو میرے بعد میری سنن کو زندہ کریں گے۔ الصحیح للترمذی (رح)، بروایت عمرو بن عوف المزنی۔

1195

1195 – "إن الدين سيرجع إلى حيث خرج إلى مكة". (ابن النجار عن أبي هريرة) .
١١٩٥۔۔ عنقریب دین اسی سرزمین مکہ کی طرف واپس آجائے گا جہاں سے نکلا تھا۔ ابن النجار، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1196

1196 – "طلب الحق غربة". (ابن عساكر عن علي) .
١١٩٦۔۔ حق کی طلب و تلاش غربت ہے۔ ابن عساکر، بروایت علی (رض) یعنی حق کو قبول کرنا اور اس کی راہ میں قدم اٹھانا مانند پڑگیا ہے۔

1197

1197 – "إن الإيمان ليأرز إلى المدينة كما تأرز إلى جحرها". (حم ق هـ عن أبي هريرة) .
١١٩٧۔۔ ایمان مدینہ کی طرف یوں لپک آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لپک آتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری و مسلم، ابن ماجہ ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1198

1198 – "إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا فطوبى للغرباء قالوا يا رسول الله وما الغرباء قال: الذين يصلحون عند فساد الناس". (طب عن سهل بن سعد) (طب وأبو نصر السجزي في الإبانة عن عبد الرحمن ابن سنة
١١٩٨۔۔ اسلام غربت واجنبی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا، سو خوش خبری ہو ! غرباء کے لیے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! غرباء کون ہیں ؟ فرمایا جو دین کے فساد کے وقت اس کی اصلاح کریں۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت سھل بن سعد، الکبیر للطبرانی ، الابانہ، بروایت عبدالرحمن بن السنہ۔

1199

1199 – "إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا فطوبى للغرباء بين يدي الساعة". (نعيم بن حماد في الفتن عن مجاهد) مرسلا.
١١٩٩۔۔ اسلام غربت واجنبی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا، سوقرب قیامت میں خوش خبری ہو غرباء کے لیے۔ نعیم بن حماد، فی الفتن بروایت مجاہد ، مرسلا۔

1200

1200 – "إن الإيمان بدأ غريبا فسيعود كما بدأ فطوبى يومئذ للغرباء إذا فسد الناس والذي نفس أبي القاسم بيده ليأرز الإيمان بين هذين المسجدين كما تأرز الحية في جحرها". (حم ص عن سعد بن أبي وقاص) .
١٢٠٠۔۔ اسلام غربت واجنبی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا سوای سے دن خوش خبری ہو غرباء کے لیے جب لوگ فتنہ و فساد کا شکار ہوجائیں گے۔ اور قسم ہے اس ہستی کی جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم کی جان ہے ! کہ ایمان ان دومسجدوں کی طرف اس طرح سمٹ کر منحصر ہوجائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لپک آتا ہے۔ مسنداحمد، السنن لسعید، بروایت سعد بن ابی وقاص۔

1201

1201 – "بدأ الإسلام غريبا ثم يعود كما بدأ فطوبى للغرباء الذين يصلحون إذا فسد الناس والذي نفسي بيده لينحازن الإيمان إلى المدينة كما يحوز السيل والذي نفسي بيده ليأرزن الإسلام ما بين المسجدين كما تأرز الحية إلى جحرها". (عبد الرحمن بن سنة الأسجعي
١٢٠١۔۔ اسلام غربت واجنبی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا سوای سے دن خوش خبری ہو غرباء کے لیے جب لوگ فتنہ و فساد کا شکار ہوجائیں گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ایمان مدینہ کی طرف یوں تیزی سے آئے گا جس طرح سیلاب نشیب میں آنافانا اترجانا ہے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اسلام ان دومسجدوں کی طرف اس طرح سمٹ کر منحصر ہوجائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لپک کر داخل ہوجاتا ہے۔ عبدالرحمن بن سنہ الاسجعی۔

1202

1202 – "ليأرزن الإسلام إلى ما بين مكة والمدينة كما تأرز الحية إلى جحرها فبينما هم كذلك إذا استغاثت العرب بأعرابها فخرج كالصالح ممن مضى وخير من بقي حتى يلتقون هم والروم فيقتتلون". (طب عن عبد الرحمن بن سنة) .
١٢٠٢۔۔ اسلام مکہ و مدینہ کے درمیان ہی منحصر ہو کر رہ جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں محبوس ہو کررہ جاتا ہے پھر اسی اثنا میں عرب اپنے اعراب لوگوں سے اعانت کے طلب گار ہوں گے تو اس آواز پر پیش روں میں سے صلاح کار اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے معزز واخیار لوگ نکلیں گے اور پھر ان کے اور ام کے مابین جنگ چھڑ جائے گی۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت عبدالرحمن بن سنہ۔

1203

1203 – "يوشك أن ينطوي الإسلام في كل بلد إلى المدينة كما تنطوي الحية إلى جحرها". (الرامهرمزي في الأمثال عن أبي هريرة) .
١٢٠٣۔۔ قریب ہے کہ اسلام دوسرے شہروں کو چھوڑ کر مدینہ میں آجائے۔ جس طرح سانپ اپنے بل میں آٹھہرتا ہے۔ الرامھزی فی الامثال بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1204

1204 – " ليأرز الإسلام كما يأرز السيل الدمن". (الخطيب عن عائشة) .
١٢٠٤۔۔ اسلام مدینہ کی طرف یوں تیزی سے آئے گا جس طرح سیلاب نشیب میں آنا فانا اترجاتا ہے۔ الخطیب بروایت عائشہ (رض)۔

1205

1205 – "القلب ملك وله جنود فإذا صلح الملك صلحت جنوده وإذا فسد الملك فسدت جنوده والأذنان قمع والعينان مسلحة واللسان ترجمان واليدان جناحان والرجلان بريد والكبد رحمة والطحال ضحك والكليتان مكر والرئة نفس". (هب عن أبي هريرة) .
١٢٠٥۔۔ دل بادشاہ ہے۔ دیگر جمیع اعضاء اس کے لشکری ہیں، پس جب بادشاہ درست ہوتا ہے تو اس کے لشکری بھی درست رہتے ہیں، جب بادشاہ بگڑجاتا ہے تولشکری بھی بگڑجاتے ہیں، دونوں کان نہ بھرنے والے برتن ہیں آنکھ اسلحہ ہے، زبان ترجمان ہے دونوں ہاتھ دوپر ہیں، دونوں ٹانگیں دوقاصد ہیں جگر رحمت ہے تلی ، ضحک وقہقہ ہے دونوں گردے مکروخدع ہیں، پھیپھڑا نفس ہے۔ شعب الایمان بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1206

1206 – "العينان دليلان والأذنان قمعان واللسان ترجمان واليدان جناحان والرجلان بريدان والكبد رحمة والطحال ضحك والرئة نفس والكليتان مكر والقلب ملك فإذا صلح الملك صلحت رعيته وإذا فسد الملك فسدت رعيته" (أبو الشيخ في العظمة وأبو نعيم في الطب عن أبي سعيد) (الحكيم عن عائشة) .
١٢٠٦۔۔ دونوں آنکھیں دورہنما ہیں۔ دونوں کان نہ بھرنے والے برتن ہیں۔ زبان ترجمان ہے۔ دونوں ہاتھ دوپر ہیں، دونوں ٹانگیں دوقاصد ہیں۔ جگر رحمت ہے تلی، ضحک، وقہقہ ، دونوں گردے مکروخدع ہیں۔ دل بادشاہ ہے۔ پس جب بادشاہ درست ہوتا ہے تو اس کی عوام بھی درست رہتی ہے جب بادشاہ ب گرجاتا ہے توعوام بھی بگڑ جاتی ہے۔ ابوالشیخ فی العظمہ ابونعیم فی الطب ، بروایت ابی سعید، الحکیم بروایت عائشہ۔

1207

1207 – "إن لله تعالى آنية من أهل الأرض وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين وأحبها إليه ألينها وأرقها". (طب عن ابن عيينة) .
١٢٠٧۔۔ بعض اہل ارض اللہ کے لیے ظروف ہیں۔ اور اس کے نیکوکار بندوں کے دل اللہ کے گھر ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ بندہ جو سب سے زیادہ نرم و مہربان ہو۔ الکبیر للطبرانی (رح) ۔ بروایت ابن عیینہ۔

1208

1208 – "يدخل الجنة أقوام أفئدتهم مثل أفئدة الطير". (حم م عن أبي هريرة) .
١٢٠٨۔۔ جنت میں ایسی قوم داخل ہوں گی جن کے دل پرندوں کی طرح نرم وآشفتہ ہوں گے۔ مسنداحمد، الصحیح لمسلم ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1209

1209 – "ما من القلوب إلا وله سحابة كسحابة القمر بينما القمر يضيء إذا علته سحابة فأظلم إذ تجلت". (طس عن علي) .
١٢٠٩۔۔ ہر دل پر ایک بادل سایہ فگن ہوتا ہے چاند کی مانند ! کہ چاند اپنی آب وتاب پر ہوتا ہے کہ اچانک بادل اس کی روشنی پرچھاجاتا ہے پھر بادل چھٹتا ہے تو دوبارہ چاند ضو، فشاں ہوجاتا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت علی (رض)۔

1210

1210 – "إنما سمي القلب من تقلبه إنما مثل القلب مثل ريشة بالفلاة تعلقت في أصل شجرة تقلبها الريح ظهر البطن". (طب عن أبي موسى) .
١٢١٠۔۔ دل کو دل اس کے ہر آن الٹنے پلٹنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے دل کی مثال چٹیل صحراء میں کسی درخت کی جڑ سے اٹکے پر کی مانند ہے جس کو ہوائیں الٹتی پلٹتی رہتی ہیں۔ الکبیر للطبرانی (رح)، بروایت ابی موسیٰ۔

1211

1211 – "مثل القلب مثل الريشة تقلبها الرياح بفلاة". (هـ عن أبي موسى) .
١٢١١۔۔ دل کی مثال صحراء میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہے جس کو ہوائیں الٹتی پلٹتی رہتی ہیں۔ ابن ماجہ ، بروایت ابی موسیٰ۔

1212

1212 – "لقلب ابن آدم أشد تقلبا من القدر إذا استجمعت غليانا". (حم ك عن المقداد بن الأسود) .
١٢١٢۔۔ ابن آدم کا دل اس ہانڈی سے زیادہ الٹتا پلٹتا ہے جو شدت غلیان سے جوش ماررہی ہو۔ مسنداحمد، المستدرک للحاکم، بروایت المقداد بن الاسود۔

1213

1213 – "قلب ابن آدم مثل العصفور تتقلب في اليوم سبع مرات". (هب عن أبي عبيدة بن الجراح) .
١٢١٣۔۔ ابن آدم کا دل چڑیا کی مانند ہے جو دن میں سات سے زیادہ مرتبہ بدلتا ہے۔ شعب الایمان بروایت ابی عبیدہ الجراح۔

1214

1214 – "إن قلب ابن آدم مثل العصفور تتقلب في اليوم سبع مرات". (ابن أبي الدنيا في الإخلاص ك هب عن أبي عبيدة) .
١٢١٤۔۔ ابن آدم کا دل چڑیا کی مانند ہے جو دن میں سات سے زیادہ مرتبہ الٹتا پلٹتا ہے۔ ابن ابی الدنیا فی الاخلاص ، المستدرک للحاکم، شعب الایمان ، بروایت ابی عبیدہ۔

1215

1215 – "ما من قلب إلا وهو معلق بين أصبعين من أصابع الرحمن إن شاء أقامه وإن شاء أزاغه والميزان بيد الرحمن يرفع أقواما ويخفض آخرين إلى يوم القيامة". (حم هـ ك عن النواس) .
١٢٥١۔۔ ہر آدمی کا دل رحمن کی دوانگلیوں کے درمیان رہتا ہے۔ چاہے تو سیدھا مستقیم رکھے اور چاہے تو اس کو کج رو کردے۔ اور ہر دن میزان اللہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اقوام کو رفعت عطا کرتا ہے اور دوسری بعض کو پستی میں دھکیلتا رہتا ہے اور قیامت تک یہی معاملہ جاری وساری ہے۔ مسنداحمد ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، بروایت النواس۔

1216

1216 – "إن القلوب بين أصبعين من أصابع الرحمن يقلبها". (حم ت ك عن أنس) .
١٢١٦۔۔ تمام دل اللہ کے ہاتھوں میں ہیں وہ ان کو الٹتا پلٹتا ہے۔ مسنداحمد، الصحیح للترمذی، المستدرک للحاکم، بروایت انس (رض)۔

1217

1217 – "إن قلوب بني آدم كلها بين أصبعين من أصابع الرحمن كقلب واحد يصرفه كيف شاء" (حم م عن ابن عمر) .
١٢١٧۔۔ بیشک تمام بنی آدم کے قلوب ایک قلب کی مانند اللہ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں جیسے چاہے وہ ان کو الٹتا پلٹتا ہے۔ مسنداحمد، مسلم، بروایت ابن عمر (رض)۔

1218

1218 – "يا أم سلمة إنه ليس آدمي إلا وقلبه بين أصبعين من أصابع الله فمن شاء أقام ومن شاء أزاغ". (ت عن أم سلمة) .
١٢١٨۔۔ اے ام سلمہ ! کوئی ایسا آدمی نہیں ہے مگر اس کا دل اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہے، وہ اپنی مشیت سے اس کو مستقیم رکھے یاکج رو کردے۔ ترمذی، بروایت ام سلمہ (رض)۔

1219

1219 – "من كان له قلب صالح تحنن الله عليه". (الحكيم عن يزيد) .
١٢١٩۔۔ جو بھی قلب سلیم کا مالک ہوتا ہے اللہ اس پر رحم کھاتا ہے الحکیم بروایت یزید ۔

1220

1220 – "ليس الأعمى من يعمى بصره إنما الأعمى من تعمى بصيرته". (الحكيم هب عن عبد الله بن جراد) .
١٢٢٠۔۔ وہ شخص اندھا نہیں ہے جس کی بصارت زائل ہوجائے بلکہ اندھا وہ ہے جس کی بصیرت زائل ہوجائے۔ الحکیم ، شعب الایمان بروایت عبداللہ بن الجردا۔

1221

1221 – "والذي نفسي بيده لو كنتم تكونون في بيوتكم على الحالة التي تكونون عليها عندي لصافحتكم الملائكة ولأظلتكم بأجنحتها ولكن يا حنظلة ساعة وساعة". (حم ت هـ عن حنظلة الأسدي) .
١٢٢١۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تمہاری وہ حالت و کیفیت جو میری مجلس میں ہوتی ہے ، ہردم برقرار رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کرنے لگیں۔ اور اپنے پروں کے ساتھ تم پر سایہ فگن ہوجائیں۔ لیکن اسے حنظلہ ، یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ مسنداحمد، الصحیح للترمذی، ابن ماجہ، بروایت حنظلہ الاسدی۔

1222

1222 – "إذا طاب قلب المرء طاب جسده وإذا خبث القلب خبث الجسد". (ابن السني وأبو نعيم في الطب عن أبي هريرة) .
١٢٢٢۔۔ جب آدمی کا دل درست ہوتا ہے تو اس کا ساراجسم درست ہوتا ہے جب دل خبیث ہوجائے توپوراجسم خباثت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ابن السنی، ابونعیم فی الطب، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1223

1223 – "إن في الرجل مضغة إذا صحت صح لها سائر جسده وإن سقمت سقم لها سائر جسده قلبه". (ابن السني وأبو نعيم في الطب هب عن النعمان بن بشير) .
١٢٢٣۔۔ انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہوتا ہے توساراجسم صحیح ہوتا ہے جب وہ بیمار پڑجاتا ہے توساراجسم بیمار پڑجاتا ہے۔ ابن السنی ، ابونعیم فی الطب، بروایت ابوہریرہ (رض)، شعب الایمان ، بروایت النعمان بن بشیر۔

1224

1224 – "إن لله عز وجل في أرضه آنية وأحب آنية الله إليه مارق وصفا وآنية الله في الأرض قلوب العباد الصالحين". (حل عن أبي أمامة) .
١٢٢٤۔۔ زمین میں اللہ کے کچھ برتن ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب برتن وہ ہیں جو نرم وصاف ستھرے ہوں اور اللہ کے یہ برتن زمین میں اللہ کے صالحین بندوں کے قلوب ہیں۔ الحلیہ، بروایت ابی امامہ (رض) ۔

1225

1225 – "إن لله تعالى في الأرض أواني ألا وهي القلوب فأحبها إلى الله أرقها وأصفاها وأصلبها أرقها للإخوان وأصفاها من الذنوب وأصلبها في ذات الله". (الحكيم عن سهل بن سعد) .
١٢٢٥۔۔ زمین میں اللہ کے کچھ برتن ہیں یاد رکھو وہ قلوب ہیں۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب برتن وہ ہیں جو نرم وصاف ستھرے ہوں اور مضبوط ہوں ۔ بھائیوں کے لیے نرم و مہربان ہوں اور گناہوں سے صاف ستھرے ہوں اور اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں مضبوط وسخت ہوں۔ الحکیم بروایت سعد بن عبادہ۔

1226

1226 – "القلوب أربعة قلب أجرد فيه مثل السراج يزهر وقلب أغلف مربوط على غلافه وقلب منكوس وقلب مصفح فأما القلب الأجرد فقلب المؤمن سراجه فيه نوره وأما القلب الأغلف فقلب الكافر وأما القلب المنكوس فقلب المنافق عرف ثم أنكر وأما القلب المصفح فقلب فيه إيمان ونفاق ومثل الإيمان فيه كمثل البقلة يمدها الماء الطيب ومثل النفاق كمثل القرحة يمدها القيح والدم فأي المدتين غلبت على الآخرى غلبت عليه". (حم طس عن أبي سعيد) وصحح (ش عن حذيفة) موقوفا (ابن أبي حاتم عن سلمان موقوفا) .
١٢٢٦۔۔ قلوب چار قسم کے ہیں :
ایک تو وہ قلب جو صاف ستھرا ہوجی سے چراغ روشن ہو، وہ مومن کا قلب ہے اور اس میں نور کا چراغ روشن ہے۔
دوسرا وہ قلب جو پردہ میں مستور اور بند ہو کافر کا قلب ہے اس پر کفر کا پردہ پڑا ہوا ہے۔
اور تیسرا وہ قلب جو اوندھا ہو، منافق کا دل ہے کہ وہ اولاایمان سے آراستہ ہوالیکن پھر کفر انکار کی ظلمت میں اوندھا ہوگیا۔
چوتھا وہ قلب جو خلط ملط ہو وہ ایساقلب ہے جس میں بیک وقت ایمان کی روشنی بھی ہے اور نفاق کی ظلمت بھی ، اس میں ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ترکاری ، جس کو عمدہ پانی شادابی میں فروانی کرتا رہتا ہے۔ اور اس میں نفاق کی مثال اس ناسور زخم کی ہے، جس کو پیپ اور خون مزید بڑھاتے رہتے ہیں پس دونوں طاقتوں میں سے جو غالب آگئی قلب اسی کا مسکن بن جائے گا۔ مسنداحمد، للطبرانی، بروایت ابی سعید۔ حدیث صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ ، بروایت حذیفہ (رض)۔ حدیث موقوف ہے۔ ابن ابی حاتم بروایت سلمان موقوفا۔

1227

1227 – "ما من القلوب قلب إلا وله سحابة كسحابة القمر بينما القمر يضيء إذا علته سحابة إذ تجلت". (طس عن علي) .
١٢٢٧۔۔ ہر دل پر ایک بادل سایہ فگن ہوتا ہے چاند کی مانند، کہ چاند اپنی آب وتاب پر ہوتا ہے کہ اچانک بادل کی اس کی روشنی پرچھاجاتا ہے۔ پھر بادل چھٹتا ہے تو دوبارہ چاند ضو فشاں ہوجاتا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت علی (رض)۔

1228

1228 – "مثل هذا القلب مثل ريشة بفلاة من الأرض تقلبها الرياح ظهر البطن". (طب هب عن أبي موسى) .
١٢٢٨۔۔ اس دل کی مثال چٹیل صحراء میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہے۔ جس کو ہوائیں الٹتی رہتی ہیں۔ شعب الایمان، ابن النجار، بروایت انس (رض)۔

1229

1229 – "مثل القلب كمثل ريشة بأرض فلاة تقلبها الرياح". (هب وابن النجار عن أنس) .
1229 ۔۔ دل کی مثال چٹیل صحرا میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہے جس کو ہوائیں الٹتی پلٹتی رہتی ہیں۔ شعب الایمان ، ابن النجار، بروایت انس (رض)۔

1230

1230 – "إن أحدكم يأتيه الشيطان فيقول من خلقك فيقول الله فيقول من خلق الله فإذا وجد أحدكم ذلك فليقل آمنت بالله ورسوله فإن ذلك يذهب عنه". (حم عن عائشة) .
١٢٣٠۔۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا ؟ بندہ کہتا ہے اللہ نے پیدا کیا، شیطان کہتا ہے اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال سے وابستہ پڑے تو وہ کہے۔ امنت باللہ ورسولہ تو یہ کلمہ اس کے وسوسہ کو دفع کردے گا۔ مسنداحمد، بروایت عائشہ (رض)۔ اس کے رواہ ثقہ ہیں۔ مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٣

1231

1231 - "قال الله تعالى: إن أمتك لا تزال تقول ما كذا ما كذا حتى يقولوا هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله". (حم م عن أنس) .
١٢٣١۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تیری امت مسلسل بحث وتمحیص میں مبتلا رہے گی، حتی کہ کہنے لگے گی تمام مخلوق کو تو اللہ نے پیدا کیا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ مسنداحمد، الصحیح لمسلم ، بروایت انس (رض)۔

1232

1232 – "لن يبرح الناس يتساءلون هذا الله خالق كل شيء فمن خلق الله". (خ عن أنس) .
١٢٣٢۔۔ لوگ مسلسل اس سوال آرائی کا شکار رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ توہرچیز کا پیدا کرنے والاہوا پھر اللہ کو کون پیدا کرنے والا ہے ؟ صحیح بخاری، بروایت انس (رض)۔

1233

1233 – "إن للشيطان كحلا ولعوق ونشوقا فأما لعوقه فالكذب وأما نشوقه فالغضب وأما كحله فالنوم". (هب عن أنس) .
١٢٣٣۔۔ شیطان کے پاس سرمہ ہے چاٹنے والی شی ہے اور سنگھانے والی شے ہے۔ چاٹنے والی شی تو جھوٹ ہے سونگھانے والی شے غصہ ہے اور اس کا سرمہ نیند ہے۔ شعب الایمان ، بروایت انس (رض)۔

1234

1234 – "إن للشيطان كحلا ولعوقا فإذا كحل الإنسان من كحله نامت عيناه عن الذكر وإذا لعقه من لعوقه ذرب لسانه بالشر". (ابن أبي الدنيا في مكائد الشيطان طب عب عن سمرة) .
١٢٣٤۔۔ شیطان کے پاس سرمہ ہے ، چاٹنے والی شی ہے، پس جب وہ کسی کو سرمہ لگا دیتا ہے تو اس پر نیند مسلط ہوجاتی ہے اور جب وہ چاٹنے والی شی سے کسی کو چٹوانا ہے تو اس کی زبان ہذیان اور جھوٹ بازی میں محو ہوجاتی ہے۔ ابن ابی الدنیا فی مکاند الشیطان ، الکبیر للطبرانی (رح) ، المصنف لعبدا الرزاق ، بروایت سمرہ رضی الہ عنہ۔

1235

1235 – "يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا من خلق كذا حتى يقولوا (2) من خلق ربك فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينتهي". (ق عن أبي هريرة) .
١٢٣٥۔۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ یہ کس نے پیدا کیا ؟ یہ کسی نے پیدا کیا ؟ حتی کہ کہتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ پس جب وہ اس پر پہنچے تو اس کو اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ بخاری و مسلم بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1236

1236 – "يوشك الناس يتساءلون حتى يقول قائلهم هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله فإذا قالوا ذلك فقولوا الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد ثم ليتفل عن يساره ثلاثا وليستعذ بالله من الشيطان الرجيم". (دو ابن السني عن أبي هريرة) .
١٢٣٦۔۔ ممکن ہے کہ لوگ آپس میں سوال آرائی کریں حتی کہ ان میں سے کوئی فرد یہ کہے کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا پھر اللہ کو کس نے پیدا فرمایا ؟ پس جب لوگ یہ کہنے لگیں تو تم کہو : قل ھواللہ احد، اللہ الصمد، لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفوا احد۔ اللہ تن تنہا ہے ، بےنیاز ہے اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ ہی اس کو جنم دیا گیا اور نہ اس کا کوئی ثانی وہمسر ہے۔ پھر وہ اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے ۔ اور شیطان مردود کے وساوس سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ السنن لابی داؤد، ابن السنی ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1237

1237 – "يأتي أحدكم الشيطان فيقول من خلق السماء فيقول الله فيقول من خلق الأرض فيقول الله فيقول من خلق الله فإذا وجد ذلك أحدكم فليقل آمنت بالله ورسوله". (طب عن ابن عمر) .
١٢٣٧۔۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے تو اور اس کو کہتا ہے کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ نے پیدا لیا۔ شیطان کہتا ہے اچھا زمین تو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ نے پیدا کیا۔ پھر شیطان کہتا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا بندہ کہتا ہے اللہ نے پیدا کیا شیطان کہتا ہے اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال سے واسطہ پڑجائے تو وہ کہے : امنت بااللہ ورسولہ، الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عمر (رض)۔

1238

1238 – "إن الشيطان يأتي أحدكم فيقول من خلقك فيقول الله فيقول فمن خلق الله فإذا وجد أحدكم ذلك فليقل آمنت بالله ورسله فإن ذلك يذهب عنه" (ابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان عن عائشة) .
١٢٣٨۔۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا ؟ بندہ کہتا ہے اللہ نے پیدا کیا شیطان کہتا ہے اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال سے واسطہ پڑے تو وہ کہے ۔ امنت باللہ ورسولہ یہ کلمہ اس کے وسوسہ کو واقع کردے گا۔ ابن ابی الدنیا فی مکائد الشیطان ، بروایت عائشہ (رض)۔

1239

1239 – "إن للشيطان مصالي وفخوخا وإن من مصاليه وفخوخه البطر بنعم الله والفخر بعطاء الله والكبرعلى عباد الله واتباع الهوى في غير ذات الله". (ابن عساكر عن النعمان بن بشير) .
١٢٣٩۔۔ شیطان نے بہت سے پھندے اور جال ہیں اور اس کے پھندے اور جال اللہ کی نعمتوں پر اکڑنا اور اس کی عطاکی ہوئی پر شیخی بکھارنا بندگان الٰہی پر اپنی بڑائی جتانا، اور اللہ کی ناپسندیدہ اشیاء میں خواہشات کے پیچھے پڑنا۔ ابن عساکر، بروایت النعان بن بشیر۔

1240

1240 – "إن للشيطان لمة بابن آدم وللملك لمة فأما لمة الشيطان فإيعاد بالشر وتكذيب بالحق وأما لمة الملك فإيعاد بالخير وتصديق بالحق فمن وجد ذلك فليعلم أنه من الله فليحمد الله ومن وجد الآخرى فليتعوذ بالله من الشيطان". (ت ن حب عن ابن مسعود) .
١٢٤٠۔۔ ابن آدم پر شیطان کا کچھ اثر ہوتا ہے اور فرشتہ کا کچھ اثر ہوتا ہے جب شیطان کا اثر ہوتا ہے تو وہ شکر کا القاء کرتا ہے اور حق کی تکذیب کرنے والابنادیتا ہے اور جب فرشتہ کا اثر ہوتا ہے تو وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے اور حق کا تصدیق کنندہ بنادیتا ہے پس جب کوئی اس صورت کو محسوس کرے تو اس کو جاننا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور پھر اس کا شکر کرنا چاہیے۔ اور جو پہلی صورت محسوس کرے توا سے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ الصحیح للترمذی، النسائی، صحیح لابن حبان، بروایت ابن مسعود۔

1241

1241 – "لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله ورسوله". (د عن أبي هريرة) .
١٢٤١۔۔ لوگ مسلسل باہم سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھیں گے حتی کہ کہا جائے گا کہ اللہ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ توجوایسی بات پائے تو کہہ دے ۔ امنت باللہ ورسولہ ۔ السنن لابی داؤد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1242

1242 – "ما منكم من أحد إلا وقد وكل به قرينه من الجن وقرينه من الملائكة قالوا وإياك قال وإياي إلا أن الله أعانني عليه فأسلم فلا يأمرني إلا بخير". (حم م عن ابن مسعود) .
١٢٤٢۔۔ تم میں سے کوئی ایسامتنفس نہیں ہے جس کے ساتھ دورقیب ہمہ وقت ساتھ نہ ہوں ایک جنوں میں سے دوسرا فرشتوں میں سے صحابہ کرام نے استفسار کیا اور آپ نے فرمایا ہاں، میرے ساتھ بھی لیکن اس پر اللہ نے میری مدد فرمادی ہے اور وہ میرا مطیع ہوگیا ہے اب مجھے سوائے خیر کے کسی بات حکم نہیں کرتا۔ مسنداحمد، الصحیح لمسلم ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

1243

1243 – "ما منكم من أحد إلا ومعه شيطان قالوا وأنت يا رسول الله قال وأنا إلا أن الله أعانني عليه فأسلم". (م عن عائشة) .
١٢٤٣۔۔ تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے ساتھ شیطان نہ ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے استفسار کیا اور آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اس پر اللہ نے میری مدد فرما دی ہے وہ میرا مطیع ہوگیا ہے۔ الصحیح لمسلم ، بروایت عائشہ (رض)۔

1244

1244 – "لا تقل تعس الشيطان فإنه يعظم حتى يصير مثل البيت فيقول بقوتي صرعته ولكن قل بسم الله فإنك إذا قلت ذلك تصاغر الشيطان حتى يصير مثل الذباب". (حم د ن ك عن والد أبي المليح) .
١٢٤٤۔۔ یوں مت کہو : شیطان کا ناس ہو، برا ہو، کیونکہ وہ اس سے وہ شیخی میں آکر پھول جاتا ہے حتی کہ ایک کمرے کے بقدر پھول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس کو اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے پر زیر کرلیا۔ بلکہ اس کو اس کے بجائے بسم اللہ کہہ لینی چاہیے کیونکہ جب بندہ بسم اللہ کہتا ہے تو شیطان حقیر و چھوٹا ہوتا ہوتا مثل مکھی کے ہوجاتا ہے۔ مسنداحمد، السنن لابی داؤد، النسائی، المستدرک للحاکم، بروایت والد ابی الملیح۔

1245

1245 – " من وجد من هذا الوسواس فليقل آمنت بالله ورسوله ثلاثا فإن ذلك يذهب عنه". (ابن السني عن عائشة) .
١٢٤٥۔۔ جو شخص یہ وساوس محسوس کرے ، اس کو چاہے کہ تین بار کہے، امنت بااللہ ورسولہ، کیونکہ یہ کلمہ ان وساوس کو دفع کردے گا۔

1246

1246 – "إن الشيطان قد يئس أن يعبده المصلون ولكن في التحريش بينهم". (حم م ت عن جابر) .
١٢٤٦۔۔ شیطان اس بات سے کلیۃ مایوس ہوگیا ہے کہ اب نمازی اس کی پرستش کریں گے لیکن مسلمانوں کے آپس میں پھوٹ ڈالنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ مسنداحمد، مسلم، ترمذی (رح) ، بروایت جابر (رض)۔

1247

1247 - "إن الشيطان يأتي أحدكم فيقول من خلق السماء فيقول الله فيقول من خلق الأرض فيقول الله فيقول من خلق الله فإذا وجد ذلك أحدكم فليقل آمنت بالله ورسوله". (طب عن ابن عمر) .
١٢٤٧۔۔ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے او اس کو کہتا ہے کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ نے پیدا کیا، شیطان کہتا ہے اچھا زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ نے پیدا کیا۔ پھر شیطان کہتا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال سے واسطہ پڑے تو وہ کہے ، امنت باللہ ورسولہ، الکبیر للطبرانی ، (رح) تعلای ، بروایت ابن عمر (رض)۔

1248

1248 – "إن رجالا سترتفع بهم المسألة حتى يقولوا الله خلق الخلق فمن خلقه". (طب عن أبي هريرة) .
١٢٤٨۔۔ لوگوں میں سے یہ سوال اٹھے گا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ الکبیر للطبرانی (رح) ، عن ابوہریرہ (رض)۔

1249

1249 – "قال الله تعالى: إن أمتك لا يزالون يقولون ما كذا ما كذا حتى يقولوا هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله" (حم م وأبو عوانة عن أنس) .
١٢٤٩۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تیری امت مسلسل بحث وتمحیص میں مبتلا رہے گی۔۔ حتی کہ کہنے لگے گی تمام مخلوق کو تو اللہ نے پیدا کیا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ مسنداحمد، مسلم، ابوعوانہ، بروایت انس (رض)۔

1250

1250 – "لن يدع الشيطان أن يأتي أحدكم فيقول من خلق السموات والأرض فيقول الله فيقول فمن خلقك فيقول الله فيقول فمن خلق الله فإذا أحس أحدكم بذلك فليقل آمنت بالله ورسوله". (حب عن عائشة) .
١٢٥٠۔۔ شیطان اس سے باز نہ آئے گا شیطان کہے گا اور اللہ کو کس نے پیدا کیا پس جب کوئی اس بات کو محسوس کرے تویوں کہہ لے : امنت باللہ ورسولہ الصحیح لابن حبان ، بروایت عائشہ (رض)۔

1251

1251 – "لا يزال الناس يقولون كان الله قبل كل شيء فما كان قبله". (ن عن المحرر ابن أبي هريرة عن أبيه) وضعف.
١٢٥١۔۔ لوگ مسلسل اس بات کو دھرائیں گے کہ اللہ ہرچیز سے پہلے تھا لیکن اللہ سے پہلے کیا تھا ؟ النسائی، بروایت المحرر بن ابوہریرہ عن ابیہ۔ حدیث ضعیف ہے۔

1252

1252 – "لا يزال الناس يسألون عن كل شيء حتى يقولوا هذا الله قبل كل شيء فما كان قبل الله فإن قالوا لكم ذلك فقولوا هو الأول قبل كل شيء وهو الآخر فليس بعده شيء وهو الظاهر فوق كل شيء وهو الباطن دون كل شيء وهو بكل شيء عليم". (أبو الشيخ في العظمة عن ابن عمر وأبي سعيد معا) .
١٢٥٢۔۔ لوگ مسلسل ہر ہرچیز کے متعلق بحث وتمحیص میں مبتلا ہوجائیں گے حتی کہ کہیں گے اگر تمام اشیاء سے قبل اللہ تھا تو اللہ سے قبل کیا تھا ؟ پس جب تم کو یہ کہیں تو تم کہنا، ہرچیز سے قبل اللہ تھا اور اللہ سے قبل کچھ نہ تھا، اور وہی تمام چیزوں کے آخر میں بھی ہے اس کے بعد کچھ نہیں اور وہ ہرچیز پر غالب وبالا ہے۔ اس سے اوپر کچھ نہیں ۔ اور وہی باطن بھی ہے اس سے درے اور راز کی شی کچھ نہیں۔ اور ہر وہ چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

1253

1253 – "لا يزال الناس يسألون حتى يقولوا كان الله قبل كل شيء فما كان قبله". (حم كر عن أبي هريرة) .
١٢٥٣۔۔ لوگ مسلسل اس سوال کو دھرائیں گے کہ اللہ ہرچیز سے پہلے تھا لیکن اللہ سے پہلے کیا تھا ؟ مسنداحمد، کرر بروایت ابوہریرہ ۔

1254

1254 – "لا يزال الناس يسألون عن كل شيء حتى يسألوا من خلق الله عز وجل". (سمويه عن أنس) .
١٢٥٤۔۔ لوگ مسلسل اس سوال کو دھرائیں گے کہ اللہ عزوجل کو کس نے پیدا کیا ؟ سمویہ ، بروایت انس (رض)۔

1255

1255 – "يأتي الشيطان الإنسان فيقول من خلق السموات فيقول الله فيقول من خلق الأرض فيقول الله حتى يقول فمن خلق الله فإذا وجد أحدكم ذلك فليقل آمنت بالله ورسله". (حم وعبد بن حميد طب عن خزيمة بن ثابت) (طب عن ابن عمرو) .
١٢٥٥۔۔ انسان کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ آصمان کو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ نے پیدا کیا ۔ شیطان کہتا ہے اچھا زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ وہ جو ابد یتا ہے اللہ نے پیدا کیا۔ پھر شیطان کہتا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب تم میں سے کسی کو ایسی صورت حال سے واسطہ پڑے تو وہ کہے ۔ امنت بااللہ ورسولہ۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عمرو اس میں ایک راوی ابن لہیعہ بھی ہیں۔ مجمع الزوائد۔ ١، ص ٣٢۔

1256

1256- "إنما يختبر بهذا المؤمن". (ع عن عائشة) قالت سئل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الوسوسة فكبر ثلاثا ثم قال فذكره.
١٢٥٦۔۔ اس کے ساتھ مومن کو آزمایا جاتا ہے ؟ المسند لابی یعلی بروایت عائشہ (رض)، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں آپ سے وسوسہ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا اور یہ جواب ارشاد فرمایا۔

1257

1257 – "ذاك صريح الإيمان إن الشيطان يأتي العبد فيما دون ذلك فإن عصم منه وقع فيما هنالك". (ن عن عمار بن أبي الحسن المازني عن عمه عبد الله بن زيد بن عاصم) إن الناس سألوا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الوسوسة التي يجدها أحدهم لأن يسقط عن الثريا أحب إليه أن يتكلم به قال فذكرهوصحح.
١٢٥٧۔۔ یہ توعین ایمان ہے۔ شیطان اولا اس سے ہلکاحملہ کرواتا ہے ، اگر اس سے بندہ محفوظ رہا تو پھر اس میں پڑجاتا ہے۔ النسائی، بروایت عمار بن الحسن ، المازنی ، عن عمہ ، عن عبداللہ بن زید بن عاصم۔ صحابہ کرام نے آپ سے وسوسہ کے بارے میں عرض کیا کہ اتنے کریہہ وحساس وساوس کو گھیرتے ہیں کہ ثریا آسمان سے گرادیاگجاتا ہے ہمیں اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان وساوس کو نوک زبان پر لایا جائے۔ تو آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

1258

1258 – "ذاك محض الإيمان". (حم عن عائشة) قالت شكوا إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم ما يجدون من الوسوسة قال فذكره. (ع عن أنس) (طب عن ابن مسعود) .
١٨٥٨۔۔ یہ تو واضح اور روشن ایمان ہے۔ مسنداحمد، بروایت عائشہ (رض)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام نے آپ کی خدمت عالیہ میں وساوس کا شکوہ کیا : تو آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ الکبیر للطبرانی (رح) بروایت ابن مسعود (رض)۔

1259

1259 – "ذاك صريح الإيمان". (م د ن عن أبي هريرة) (طس عن ابن عباس) .
١٢٥٩۔۔ یہ توصریح ایمان ہے۔ الصحیح لمسلم ، النسائی ، لابی داؤد، النسائی، بروایت ابوہریرہ (رض) للطبرانی (رح) ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1260

1260 – "لا يلقى ذلك الكلام إلا مؤمن". (طس عن أم سلمة) إن رجلا قال يا رسول الله إني أحدث نفسي بالشيء لو تكلمت به لأحبطت أجري قال فذكره.
١٢٦٠۔۔ اس کلام سے تو مومن ہی کا سابقہ پڑتا ہے۔ الاوسط للطبرانی (رح) ، بروایت ام سلمہ (رض)۔ ایک شخص نے بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ میں اپنے نفس میں ایسے ایسے خیالات محسوس کرتا ہوں کہ اگر ان کو زبان پر لاؤں تو میرے اعمال حبط وضائع ہوجائیں یہ سن کر آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ اس کی اسناد میں سیف بن عمیرہ ہیں، علامہ ازدی فرماتے ہیں یہ متکلم فیہ راوی ہیں۔ مجمع الزوائد ج ١، ص ٣٤۔

1261

1261 – "الله أكبر الحمد لله الذي رد كيده إلى الوسوسة". (حم د عن ابن عباس) .
١٢٦١۔۔ اللہ اکبر حمدوثنا اسی کے لیے جس نے اس کے مکر وخدع کو محض وسوسہ تک محدود کردیا۔ مسنداحمد، ابی داؤد، بروایت ابن عباس (رض)۔

1262

1262 – "الحمد لله الذي لم يقدره منكم إلا على الوسوسة". (ط طب هب عن ابن عباس) .
١٢٦٢۔۔ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے شیطان کی قدرت کو تم پر وسوہ اندازی ہی تک محدود رکھا۔ ابواداؤد، الکبیر للطبرانی، شعب الایمان ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1263

1263 – "الحمد لله إن الشيطان قد آيس أن يعبد بأرضي هذه ولكن قد رضي بالمحقرات من أعمالكم". (طب عن معاذ) قال: قلت يا رسول الله إنه ليعرض في نفسي الشيء لأن أكون حممة أحب إلي من أن أتكلم به قال فذكره.
١٢٦٣۔۔ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں شیطان اس بات سے بالکل مایوس ہوگیا ہے کہ میری اس سرزمین میں اس کی پرستش کی جائے وہ فقط تمہارے حقیر اعمال کو برباد کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت معاذ (رض)۔ حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں نے آپ سے عرض کیا کہ میں اپنے دل میں ایسے خیالات وساوس پاتاہوں کہ ان کو زبان پر لانی سے مجھے کوئلہ بن جانا زیادہ محبوب ہے۔ تو آپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔

1264

1264 – "الوسوسة محض الإيمان". (محمد بن عفان الأذرعي في كتاب الوسوسة عن إبراهيم) .
١٢٦٤۔۔ وسوسہ صریح ایمان ہے۔ محمد بن عفان، الاذر، فی کتاب الوسوسہ عن ابراہیم۔

1265

1265 – "الوسوسة في الصلاة من الدين من صريح الإيمان ولا تكاد تخطئ مؤمنا". (الأوزاعي عن عقيل بن مدرك السلمي) .
١٢٦٥۔۔ نماز میں وساوس کا گھیرنا صریح ایمان ہے اور یہ وساوس کسی مومن کو نہیں چھوڑتے ۔ الاوزاعی بروایت عقیل بن مدرک السلمی۔

1266

1266 – "إن إبليس له خرطوم كخرطوم الكلب واضعه على قلب ابن آدم يذكره الشهوات واللذات ويأتيه بالأماني ويأتيه بالوسوسة على قلبه ليشككه في ربه، فإذا قال العبد أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم وأعوذ بالله أن يحضرون إن الله هو السميع العليم خنس الخرطوم عن القلب". (الديلمي عن معاذ) .
١٢٦٦۔۔ ابلیس کی کتے کی طرح ایک سونڈ ہوتی ہے جس کو وہ ابن آدم کے قلب پر ڈالے رکھتا ہے اس کے ذڑیعہ سے وہ اس قلب میں شہوات اور لذات کی رغبت ڈالتا رہتا ہے اور طرح طرح کی تمنائیں دلاتا ہے اور اس کے قلب پر وسوسہ انگیزی کرتا ہے۔۔ حتی کہ اس کو اپنے رب کی ذات کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار بنالیتا ہے۔ پھر اگر بندہ یہ دعا پڑھ لے۔ اعوذ بااللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم، واعوذ بااللہ ان یحضرون ان اللہ ھوالسمیع العلیم۔ کہہ لے تو شیطان ہڑبڑا کر اپنی سونڈ فورا کھینچ لیتا ہے۔ الدیلمی بروایت معاذ (رض)۔

1267

1267 – "إن للوسواس خطما كخطم الطائر فإذا غفل ابن آدم وضع ذلك المنقار في أذن القلب يوسوس فإن ابن آدم ذكر الله عز وجل نكص وخنس فذلك سمى الوسواس". (ابن شاهين في الترغيب في الذكر عن أنس) . وهو ضعيف.
١٢٦٧۔۔ وسوسہ انداز شیطان کی پرندے کی مانند ایک چونچ ہوتی ہے جب ابن آدم اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے توہ شیطان اپنی چونچ کے ذریعہ سے قلب کے کان میں وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے پھر جب ابن آدم اللہ کا ذکر کرنے لگتا ہے تو وہ شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اپنی سونڈ کھینچ لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام وسواس پڑگیا ہے۔ ابن شاہین فی الترغیب فی الذکر بروایت انس (رض)۔ حدیث ضعیف ہے۔

1268

1268 – " لكل قلب وسواس فإذا فتق الوسواس حجاب القلب نطق به اللسان وأخذ به العبد وإذا لم يفتق القلب ولم ينطق به اللسان فلا حرج". (الديلمي وابن عساكر عن عائشة وفيه محمد بن سليمان بن أبي كريمة قال عق حدث ببواطيل لا أصل لها) .
١٢٦٨۔۔ ہر دل کے لیے ایک وسوسہ انداز شیطان ہوتا ہے پس جب وہ شیطان دل کا پردہ پھاڑ دیتا ہے تو اس بندہ کی زبان اسی کے بول بولتی ہے اور بندہ کو شیطانی خیالات گھیرلیتے ہیں ، لیکن اگر وہ پردہ نہ پھاڑ سکے اور نہ زبان اس پر زیراثر کلام کرے توتب کوئی حرج نہیں ہے۔ الدیلمی ، ابن عساکر، بروایت عائشہ (رض)۔ اس روایت میں ایک راوی محمد بن سلیمان بن ابی کریمہ ، علامہ عقیلی ان کے متعلق فرماتے ہیں یہ شخص ایسی باطل احادیث بیان کرتا ہے جن کا کوئی ثبوت نہیں۔

1269

1269 – "إن الشيطان يأتي أحدكم وهو في صلاته حتى يفتح مقعدته فيخيل إليه إنه أحدث ولم فإذا وجد أحدكم ذلك فلا ينصرف حتى يسمع صوت ذلك بأذنه أو يجد ريح ذلك بأنفه". (طب عن ابن عباس) .
١٢٦٩۔۔ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور وہ اپنی نماز میں مشغول ہوتا ہے شیطان اس کی مقعد کو کھولتا ہے اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ اس کی ہواخارج ہوگئی ہے اور اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے حالا کہ اس کا وضو نہیں ٹوٹا ہوتاجب کسی کو ایسی صورت پیش آجائے تو وہ نماز سے نہ لوتے جب تک کہ اپنے کانوں سے اس کی آواز نہ سن لے یا اس ریخ کی بو کا احساس نہ ہوجائے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1270

1270 – "إن الشيطان يأتي أحدكم فينقر عند عجانه فلا يخرجن حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا أو يفعل ذلك متعمدا". (طب عن ابن عباس) .
١٢٧٠۔۔ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے اور اس کی دبر کے پاس چونچ مارتا ہے تو وہ اس وقت تک نماز سے نہ نکلے جب تک کہ آواز نہ سن لے یاریح کے نکلنے کا یقینی احساس نہ ہوجائے۔ یا خود عمدا ایسانہ کرلے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1271

1271- "إن أحدكم إذا كان في الصلاة جاء الشيطان فأيس به كما يئس الرجل بدابته فإذا سكن له أضرط بين اليتيه ليفتنه عن الصلاة فإذا وجد أحدكم شيئا من ذلك فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا". (حم عن أبي هريرة) .
١٢٧١۔۔ جب تم میں سے کوئی نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور جس طرح کوئی اپنے جانور کو کچوکے لگاتا ہے اسی طرح شیطان اس کو کچوکے لگاتا ہے جب وہ پرسکون ہوجاتا ہے تو اس کو اپنی سرین کے قریب آواز محسوس ہوتی ہے تاکہ وہ شک میں مبتلا ہوجائے سو جب کوئی ایسی صورت سے دوچار ہو اور اس کو شک گزرے کہ کچھ خارج ہوا ہے یا نہیں ؟ تو وہ وضو کے لیے مسجد سے ہرگز نہ نکلے جب تک کہ آواز نہ سن لے یاریح محسوس نہ کرلے۔ مسنداحمد، بروایت ابوہریرہ ۔

1272

1272 – "إن أحدكم إذا كان في المسجد جاء الشيطان فايس منه كما يئس الرجل بدابته فإذا سكن له زنقه وألجمه". (حم وأبو الشيخ في الثواب عن أبي هريرة) .
١٢٧٢۔۔ جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور جس طرح کوئی اپنے جانور کو کچوکے لگاتا ہے اسی طرح شیطان اس کو کچوکے لگاتا ہے جب وہ پرسکون ہوجاتا ہے تو شیطان اپنی لگام اور کڑوں کیس اتھ اس سے کھیلتا ہے۔ مسنداحمد، ابوالشیخ فی الثواب ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1273

1273 – "إذا وجدت ذلك يعني الوسوسة فارفع أصبعك السبابة اليمنى فاطعنه في فخذك اليمنى وقل بسم الله فإنه سكين الشيطان". (الحكيم والبارودي طب عن أبي المليح عن أبيه) .
١٢٧٣۔۔ جب تجھے یہ وسوسہ گزرے تو تو اپنی شہادت کی انگلی اپنی دائیں ران میں چبھودے اور بسم اللہ کہہ لے پس یہ شیطان کے لیے چھری ہے۔ الحکیم، الباوردی، الکبیر للطبرانی، بروایت ابی الملیح عن ابیہ۔

1274

1274 – "لا تقل تعس الشيطان فإنك إذا قلت ذلك تعاظم فإنه يعظم حتى يصير مثل البيت ويقول بقوتي صرعته ولكن قل بسم الله فإنك إذا قلت ذلك تصاغر حتى يصير مثل الذباب". (حم د ن ع والبارودي طب وابن السني في عمل اليوم والليلة ك قط في الأفراد ص عن أبي المليح عن أبيه) (حم والبغوي حب عن أبي تميمة الهجيمي عن رديف النبي صلى الله عليه وآله وسلم) .
١٢٧٤۔۔ یوں مت کہہہ، شیطان کا ناس ہو براہو، کیونکہ اس سے وہ شیخی میں آکرپھول جاتا ہے حتی کہ ایک کمرے کے بقدر پھول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس کو اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر زیر کرلیا ہے۔ بلکہ اس کو اس کے بجائے بسم اللہ ۔۔ کہہ لینی چاہیے کیونکہ جب بندہ بسم اللہ کہتا ہے تو شیطان حقیر و چھوٹا ہوتا ہوتا مثل مکھی کے ہوجاتا ہے۔ مسنداحمد، ابی داؤد، نسائی، المسند ابی یعلی، الباوردی، الکبیر للطبرانی ، ابن السنی فی عمل الیوم، واللیلہ۔ المستدرک للحاکم، الدارقطنی فی الافراد، السنن لسعید، بروایت ابی الملیح عن ابیہ مسند احمد، البغوی، صحیح لابن حبان، بروایت ابی تمیمہ ، الھجیمی عن ردیف النبی۔

1275

1275 – "ليس منكم من أحد إلا وقد وكل به قرينه من الشيطان قالوا وأنت يا رسول الله قال نعم ولكن الله أعانني عليه فأسلم". (حم ع طب ص عن ابن عباس) .
١٢٧٥۔۔ تم میں سے کوئی ایساشخص نہیں ہے جس کے ساتھ شیطان نہ ہو۔ صحابہ کرام نے استفسار کیا، اور آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اس پر اللہ نے میری مدد فرمادی ہے وہ میرا مطیع ہوگیا ہے۔ مسنداحمد، المسند لابی یعلی، الکبیر للطبرانی، السنن لسعید، بروایت ابن عباس (رض)۔

1276

1276 – "ما من أحد إلا جعل معه قرين من الجن قالوا ولا أنت يا رسول الله قال ولا أنا إلا أن الله تعالى أعانني عليه فأسلم فلا يأمرني إلا بخير". (طب عن المغيرة) .
١٢٧٦۔۔ تم میں سے کوئی ایساشخص نہیں ہے جس کے ساتھ شیطان نہ ہو، صحابہ کرام نے عرض کیا اور نہ آپ ؟ فرمایا ہاں نہ میں باقی بچا ہوں لیکنا للہ نے میری مدد فرمادی ہے وہ میرا مطیع ہوگیا ہے اور مجھے خیر کے سوا کوئی حکم نہیں کرتا۔ الکبیر للطبرانی، بروایت المغیرہ (رض) ۔

1277

1277 – "ما منكم من أحد إلا وله شيطان قالوا ولك يا رسول الله قال ولي ولكن الله أعانني عليه فأسلم وما منكم من أحد يدخله عمله الجنة قالوا ولا أنت يا رسول الله قال ولا أنا إلا أن يتغمدني الله برحمته". (حب والبغوي وابن قانع طب عن شريك بن طارق) . قال البغوي لا أعلم له غيره.
١٢٧٧۔۔ تم میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے ساتھ شیطان نہ ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ اور آپ ؟ کے ساتھ بھی، فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اللہ میری مدد فرمادی ہے اور وہ میرا مطیع ہوگیا ہے اور تم میں سے کوئی ایساشخص نہیں ہے جو اپنے عمل کے زور پر جنت میں داخل ہوجائے صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ اور نہ آپ ؟ فرمایا نہ میں لیکن اللہ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا ہے۔ صحیح لابن حبان، البغوی، ابن قانع، الکبیر للطبرانی ، بروایت شریک بن طارق ۔ امام بغوی فرماتے ہیں میں شریک کی اس کے سوا کسی اور روایت سے واقف نہیں ۔

1278

1278 – "ما من عبد يخرج من بيته إلا كان بين حفافين من خلق الله كلهم باسط يده فاغر فاه يريد هلكته ولولا ما قدر الله به من الحفظة لأهلكوه وتقول الحفظة إليكم إليكم حتى يأذن الله عز وجل فيه فيدرؤون عنه ما لم يقدر عليه في اللوح المحفوظ ولا يدرؤون عنه شيئا مما قدر عليه ولو تراءى لابن آدم ما وكل به من الشياطين لتراءى له في السهل والجبل بمنزلة الذباب على الجيفة". (الديلمي عن ابن عمرو) .
١٢٧٨۔۔ کوئی بھی بندہ جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو وہ مخلوق خدا کے دواطراف میں گھرا ہوا ہوتا ہے مخلوق خدا اپنے ہاتھ پھیلائے منہ کھولے اس کی ہلاکت کی تاک میں ہوتی ہے اگر اللہ اس کی نگہبانی کے لیے حفاظت فرشتے مقرر نہ کیے ہوتے تو مخلوق خدا اس کو ہلاک کر ڈالتی ، نگہبان فرشتے مسلسل ان کو دفع کرتے رہتے ہیں اللہ عزوجل فرشتگان کو حفاظت کا حکم دیتے ہیں اور وہ ہراس بلا کی مصیبت کو اس سے ٹالتے رہتے ہیں جو لوح محفوظ میں اس کے مقدر میں نہیں لکھی ہوتی، لیکن جو مصیبت اس کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے اس کو فرشتے ہرگز دور نہیں کرتے اگر ابن آدم ان شیطان وغیرہ مرئی مخلوق کو دیکھ لے جو اس کو نقصان دہی کے درپے ہوتی ہے تویوں محسوس کرے گا جس طرح پہاڑوں اور وادیوں ہر جگہ میں کسی مردار پر مکھیوں کے بھٹ کے بھٹ اٹے ہوئے ہیں۔ الدیلمی ، بروایت ابن عمرو۔

1279

1279 – "وكل بالمؤمن ستون وثلاثمائة ملك يذبون عنه ما لم يقدر عليه، من ذلك للنظر تسعة أملاك يذبون عنه كما يذبون قصعة العسل من الذباب في اليوم الصائف وما لوبدا لكم لرأيتموهم على كل جبل وسهل كلهم باسط يده فاغر فاه وما لو وكل العبد فيه إلى نفسه طرفة عين خطفته الشياطين". (ابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان وابن قانع طب عن أبي أمامة) .
١٢٧٩۔۔ مومن کی نگہبانی کے لیے تین سو ساٹھ فرشتے مامور ہوتے ہیں جو اس سے ہر غیر مقدر بلا و مصیبت کو ہٹاتے رہتے ہیں ان میں سے نوفرشتے آنکھ کی حفاظت کے لیے مقرر ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح اس کی حفاظت کرتے ہیں جس طرح گرمی کے دن شہد کے پیالہ سے مکھیوں کو بار بار دور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ ان دیکھی مخلوق تم پر ظاہر ہوجائے تویوں محسوس کرو گے کہ پہاڑوں وادیوں ہر جگہ میں بلائیں اپنے ہاتھ پھیلائے منہ کھولے اس کی ہلاکت کی تاک میں ہیں اور اگر بندہ کو پلک جھپکنے تک اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو شیطان اس کو اچک لیں۔ ابن ابی الدنیا، فی مکائد الشیطان، ابن قانع، الکبیر لطبرانی، بروایت ابی امامہ (رض) ۔

1280

1280 – "إن الشيطان كان يلقي علي شرر النار ليفتنني عن الصلاة فتناولته فلو أخذته ما انفلت مني حتى يناط إلى سارية من سواري المسجد ينظر إليه ولدان أهل المدينة". (طب عب حم والبارودي ص عن جابر بن سمرة) .
١٢٨٠۔۔ شیطان مجھ پر آگ کے شرار ڈال رہا تھا تاکہ میری نماز خراب کرے میں نے اس کو پکڑ نے کا ارادہ کیا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو مجھ سے چھوٹ نہ پاتا حتی کہ مسجدوں کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیاجاتا۔ اور مدینہ کے بچے اس کو دیکھتے۔ الکبیر للطبرانی ، المصنف لعبدالرزاق ، مسنداحمد، الباوردی، السنن لسعید، بروایت جابر بن سمرہ (رض) ۔

1281

1281 – "إن الشيطان أراد أن يمر بين يدي فخنقته حتى وجدت برد لسانه على يدي وايم الله لولا ما سبق إليه أخي سليمان لارتبط إلى سارية من سواري المسجد حتى تطيف به ولدان أهل المدينة". (قط طب ق عن جابر بن سمرة) .
١٢٨١۔۔ شیطان نے نماز میں میرے سامنے سے گزرناچاہا میں نے اس کو گردن سے دبوچ لیا۔۔ حتی کہ میں نے اس کی زبان کی خنکی اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اور اللہ کی قسم اگر میرے بھائی سلیمان کی بات نہ ہوتی تو وہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوتا اور مدینہ کے بچے اس کے گرد گھومتے۔ الدارقطنی ، طبرانی، بخاری و مسلم، بروایت جابر بن سمرہ۔ حضرت سلیمان کو جنوں پر حکومت حاصل تھی، اور انھوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو اس وجہ سے حضور نے ابلیس جن کونہ پکڑا کہ کہیں ان کی اس حکمرانی میں ایک گونہ مجھے شرکت حاصل نہ ہو۔ یہ محض محبت اور قلبی تعلق کی خاطر آپ نے ایسا فرمایا۔

1282

1282 – "إن عدو الله إبليس جاء بشهاب من نار ليجعله في وجهي فقلت: أعوذ بالله منك ثلاث مرات ثم قلت ألعنك بلعنة الله التامة فلم يستأخر ثلاث مرات ثم أردت أخذه والله لولا دعوة أخينا سليمان لأصبح موثقا يلعب به ولدان أهل المدينة". (م ن عن أبي الدرداء) .
١٢٨٢۔۔ دشمن خدا ابلیس میرے پاس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ میرے چہرے پر ڈال دے ، میں نے تین بارکہا، اعوذ بااللہ منک، پھر میں نے تین بار کہا، العنک بلعنۃ اللہ التامہ۔ لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا تو میں نے ارادہ کیا کہ اس کو پکڑ لوں لیکن اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو وہ شیطان صبح کو جکڑا ملتا اور مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے۔ مسلم، نسائی، بروایت ابی الدردائ۔

1283

1283 – "ذاك شيطان ألقى على قدمي شرارا من النار ليفتني عن صلاتي وقد انتهرته ولو أخذته لنيط إلى سارية من سواري المسجد حتى يطيف به ولدان أهل المدينة". (طب عن جابر بن سمرة) قال صلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم الصبح فجعل ينتهر شيئا قدامه فلما انصرف سألناه قال فذكره.
١٢٨٣۔۔ اس شیطان نے میرے قدموں پر آگ کا ایک شعلہ ڈال دیا تاکہ میری نماز فاسد کردے لیکن میں نے اس کو جھڑک دیا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتا تو وہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوتا۔ اور مدینہ کے بچے اس کے گرد گھومتے۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت جابر بن سمرہ (رض) ۔
پس منظر :۔۔ حضور اکرم صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے سامنے کسی چیز کو دھتکارنے لگے پھر نماز سے فراغت کے بعد ہمارے سوال کرنے پر مذکورہ ارشاد فرمایا۔

1284

1284 – "لقد أتاني شيطان فنازعني ثم نازعني فأخذت بحلقه فوالذي بعثني بالحق ما أرسلته حتى وجدت برد لسانه على يدي ولولا دعوة سليمان أصبح طريحا في المسجد". (ابن أبي الدنيا في مكايد الشيطان عن الشعبي) مرسلا.
١٢٨٤۔۔ شیطان میرے پاس آیا اور مجھ سے بار بار مخاصمت کرنے لگا میں نے اس کو حلق سے پکڑلیا، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان میں نے اس کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اس کی زبان کی خنکی اپنے ہاتھ پر محسوس نہ کی۔ اور اللہ کی قسم اگر میرے بھائی سلیمان کی دعانہ ہوتی تو وہ مسجد میں پڑا ملتا۔ ابن ابی الدنیا فی مکائد الشیطان ، عن الشعبی مرسلا۔

1285

1285 – " لو رأيتموني وإبليس فأهويت بيدي فما زلت أخنقه حتى وجدت برد لعابه بين أصبعي هاتين ولولا دعوة أخي سليمان لأصبح مربوطا بسارية من سواري المسجد يتلاعب به صبيان المدينة فمن استطاع منكم أن لا يحول بينه وبين القبلة أحد فليفعل". (حم عن أبي سعيد) .
١٢٨٥۔۔ کاش تم مجھے اور ابلیس کو دیکھ لیتے میں نے اس کو اپنی طرف ہاتھ بڑھایا اور مسلسل اس کا گلاگھونٹتا رہا ، حتی کہ میں نے اس کے تھوک کی خنکی اپنی ان دوانگلیوں پر محسوس کی۔ اگر میرے بھائی سلیمان کی دعانہ ہوتی تو وہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ صبح کو جکڑا ملتا اور مدینہ کے بچے اس سے کھیلتے پس اگر کوئی ایسا کرسکتا کہ اس کے اور قبلہ کے درمیان نماز کے دوران کوئی نہ آئے تو وہ اس پر عمل کرے۔ مسنداحمد، بروایت ابی سعید۔

1286

1286 – "مر علي الشيطان فتناولته فأخذته فخنقته حتى وجدت برد لسانه على يدي وقال أوجعتني أوجعتني ولولا دعاء سليمان لأصبح مناطا إلى اسطوانة من أساطين المسجد ينظر إليه ولدان أهل المدينة".(حم ق عن ابن مسعود) .
١٢٨٦۔۔ شیطان نماز میں میرے سامنے سے گزرا، میں نے اس کو پکڑا لیا اور گردن سے دبوچ لیا۔۔ حتی کہ میں نے اس کی زبان کی خنکی اپنے ہاتھ پر محسوس کی اور وہ کہنے لگا اہ مار دیا، ماردیا، اگر سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح کو مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ جکڑاملتا اور مدینہ کے بچے اس کی طرف دیکھ رہے ہوتے۔ مسنداحمد، السنن للبیہقی ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

1287

1287 – "جاء الشيطان فانتهرته ولو أخذته لربطته إلى سارية من سوراي المسجد حتى يطوف به ولدان أهل المدينة". (ك عن عتبة ابن مسعود) .
١٢٨٧۔۔ شیطان میرے پاس آیا میں نے اس کو جھڑ ک دیا اور اگر میں اس کو پکڑ لیتاتو وہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوتا۔ اور مدینہ کے بچے اس کے گرد گھومتے ۔ المستدرک للحاکم، بروایت عتبہ بن مسعود۔

1288

1288 – "خرجت لصلاة الصبح فلقيني شيطان في السدة سدة المسجد فزحمني حتى إني لأجد مس شعره فاستمكنت منه فخنقته حتى إني لأجد برد لسانه على يدي فلولا دعوة أخي سليمان لأصبح مقتولا ينظرون إليه". (عبد بن حميد وابن مردويه عن أبي سعيد) .
١٢٨٨۔۔ میں صبح کی نماز کے لیے نکلا ، مسجد کے دروازے پر مجھے شیطان ملا، اور مجھ سے مزاحم ہوا حتی کہ میں نے اس کے بالوں کے لمس کو محسوس کیا پھر میں نے اس پر قابو پالیا اور اس کا گلا گھونٹا، حتی کہ میں نے اس کی زبان کی خنکی اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اگر سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح کو مقتول پڑاملتا لوگ اس کی طرف دیکھتے۔ عبدبن حمید، وابن مردویہ، بروایت ابی سعید۔

1289

1289 – "إذا أصبح إبليس بعث جنوده فيقول من أضل اليوم مسلما ألبسته التاج فيجيؤون فيقول هذا لم أزل به حتى طلق امرأته فيقول يوشك أن يتزوج ويجيء هذا فيقول لم أزل به اليوم حتى عق والديه فيقول يوشك أن يبر ويجيء هذا فيقول لم أزل به حتى أشرك فيقول أنت أنت ويلبسه التاج". (طب ك عن أبي موسى) .
١٢٨٩۔۔ صبح کے وقت ابلیس اپنے لشکر کو بھیجتا ہے کہتا ہے جس نے آج کسی مسلمان کو گمراہ کیا ہوگا میں اس کو تاج پہناؤں گا، پس اس کے کارندے اس کے پاس اپنی سرگزشت لاتے ہی، ایک کہتا ہے میں ایک شخص کو ورغلانے میں مسلسل مصروف رہا۔۔ حتی کہ بالاخر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالی۔ شیطان کہتا ہے یہ کوئی اہم کام سرانجام نہیں دیا، ممکن ہے کہ یہ دو بار ہ شادی کرلے، پھر دوسرا آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے آج میں مسلسل اس پر محنت میں مصروف رہا۔۔ حتی کہ اس نے اپنے والدین سے رشتہ توڑ لیا۔ شیطان کہتا ہے کوئی اہم کام سرانجام نہیں دیا ممکن ہے وہ پھر حسن سلوک کرنے لگ جائے۔ پھر ایک اور آگے آتا ہے اور کہتا ہے میں فلاں بندے کے ساتھ مسلسل مصروف رہا حتی کہ وہ شرک میں مبتلا ہو ہی گیا شیطان کہتا ہے ہاں تو تو واقعی کوئی کام کر آیا ہے پھر شیطان اس کو تاج پہناتا ہے۔ الکبیر للطبرانی ، المستدرک للحاکم، بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

1290

1290 – "إن إبليس ليضع عرشه على البحر دونه الحجب يتشبه بالله عز وجل ثم يبث جنوده فيقول من لفلان الآدمي فيقوم إثنان فيقول قد أجلتكما سنة فإن أغويتماه وضعت عنكما البعث وإلا صلبتكما" (طب وابن عساكر عن أبي ريحانة) .
١٢٩٠۔۔ ابلیس اپنے عرش کو سمندر پربچھاتا ہے اور اپنے گردوپیش پردے حائل کرلیتا ہے یوں وہ اس ہیئت کے ساتھ اللہ کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر اپنے لشکر کو پھیلاتا ہے اور پوچھتا ہے فلاں آدمی کو کون گمراہ کرے گا، ؟ دو شیطان کھڑے ہوتے ہیں ابلیس ان کو کہتا ہے میں ایک سال کی تمہیں مہلت دیتاہوں اگر تم نے اس کو گمراہ کردیا تو میں تم سے تکلیف کو دور کردوں گا، ورنہ دونوں کو سولی چڑھادوں گا۔ الکبیر للطبرانی ، ابن عساکر، بروایت ابی ریحانہ۔

1291

1291 – "إذا سمعتم من يتعزى بعزاء الجاهلية فأعضوه ولا تكنوا". (حم ن حب طب والضياء عن أبي) .
١٢٩١۔۔ جب تم کسی کو جاہلیت کی نسبتوں پر فخر وشیخی جتلاتے دیکھو اسے دور کردو اور اس کو کسی کنیت کے ساتھ بھی مت پکارو۔ مسنداحمد، النسائی، ابن حبان، الکبیر للطبرانی، الضیاء بروایت ابی شرح۔ کنیت عرب میں بطور عزت کے خطاب کے استعمال ہوتی تھی اس وجہ سے اس کے ساتھ ایسے شخص کو پکارنے سے منع کیا گیا۔

1292

1292 – "إذا رأيتم الرجل يتعزى بعزاء الجاهلية فأعضوه بهن آباءه ولا تكنوا". (حم ت عن أبي) .
١٢٩٢۔۔ جب تم کسی کو جاہلیت کی نسبتوں پر فخر وشیخی جتلاتے دیکھو اسے دور کردو اور اس کو کسی کنیت جو عزت کا خطاب ہے اس کے ساتھ بھی مت پکارو۔ مسنداحمد، ترمذی، بروایت ابی۔

1293

1293 – "من انتسب إلى تسعة آباء كفار يريد بهم عزا وكرما كان عاشرهم في النار". (حم د عن أبي ريحانة) .
١٢٩٣۔۔ جو شخص اپنی عزت و توقیر کی خاطر اپنے نوکافر آباء کے ساتھ نسبت جتلائے وہ جہنم میں انہی کے ساتھ دسواں ہوگا۔ مسنداحمد، السنن لابی داؤد، بروایت ابی ریحانہ۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں۔ مسنداحمد کے رجال صحیح ہیں۔ مجج ج ٨ ص ٨٥۔۔

1294

1294 – "إن الله قد أذهب عنكم عبية الجاهلية وفخرها بالآباء مؤمن تقي وفاجر شقي، أنتم بنو آدم وآدم من تراب ليدعن رجال فخرهم بأقوام إنما هم من فحم جهنم أو ليكونن أهون على الله من الجعلان التي تدفع بأنفها النتن" (حم د عن أبي هريرة) .
١٢٩٤۔۔ اللہ نے تم سے جاہلیت کے تفاخر اور آباء و اجداد پر فخر کو دفع کردیا ہے۔ مومن متقی ہو یافاسق ، شقی ، تم سب آدم کے بیٹے ہو۔ اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے پس لوگوں کو اپنے قبیلوں پر فخروغرور کرنا ترک کردینا چاہیے، ایسے کفر کی حالت میں چلے جانے والے لوگ جہنم کے کوئلے ہیں۔ یا وہ ان گبریلے جانوروں سے بھی زیادہ جو غلاظت و گندگی کو اپنی ناک سے سونگھتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک ذلیل ترین ہیں۔ مسنداحمد، سنن ابی داؤد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ شرح فحم، کوئلہ الجعل الذی یدھدہ الخرابانفہ۔ یعنی وہ گبریلا کی مانند جانور جو گندگی میں منہ مارتا ہو۔ النھایہ ، فی غریب الحدیث ج ١ ص ٢٧٧۔

1295

1295 – "لينتهين أقوام يفتخرون بآبائهم الذين ماتوا إنما هم فحم جهنم أو ليكونن أهون على الله من الجعل الذي يدهده الخرأ بأنفه إن الله أذهب عنكم عبية الجاهلية وفخرها بالآباء إنما هو مؤمن تقي وفاجر شقي، الناس كلهم بنو آدم وآدم خلق من تراب". (ت عن أبي هريرة) .
١٢٩٥۔۔ اقوام و قبائل والے اپنے مردہ آباء و اجداد پر فخر سے باز آجائیں، ایسے کفر کی حالت میں چلے جانے والے لوگ جہنم کے کوئلے ہیں یا وہ ان گبریلے جانوروں سے بھی زیادہ جو غلاظت و گندگی کو اپنی ناک سے سونگھتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک ذلیل ترین ہیں، اللہ نے تم سے جاہلیت کے تفاخر اور آباء و اجداد پر فخر و غرور کو دفع کردیا ہے مومن متقی ہو یا فاسق شقی، سب آدم کے بیٹے ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہے۔ الصحیح ترمذی، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1296

1296 – "يا أيها الناس إن الله قد أذهب عنكم عبية الجاهلية وتعاظمها بآبائها فالناس رجلان رجل بر تقي كريم على الله وفاجر شقي هين على الله والناس بنو آدم وخلق الله آدم من تراب". (ت عن ابن عمر) .
١٢٩٦۔۔ اے لوگو ! اللہ نے تم سے جاہلیت کے تفاخر اور آباء و اجداد پر فخر کے ساتھ اپنی عظمت جتانے کو ختم فرمادیا ہے۔ سو تمام لوگ فقط دو قسموں پر منقسم ہیں۔ پارسا و متقی شخص، یہ اللہ کے ہاں باعزت ومکرم ہے۔ دوسرافاسق وفاجر، شخص ، یہ اللہ کے ہاں پست مرتبہ ہے اور سب انسان آدم کے فرزند ہیں۔ اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا ہے۔ ترمذی، بروایت ابن عمر (رض)۔

1297

1297 – "انتسب رجلان على عهد موسى فقال أحدهما أنا فلان ابن فلان حتى عد تسعة فمن أنت لا أم لك قال: أنا فلان ابن فلان ابن الإسلام فأوحى الله إلى موسى أن قل لهذين المنتسبين أما أنت أيها المنتسب إلى تسعة في النار فأنت عاشرهم وأما أنت أيها المنتسب إلى اثنين في الجنة فأنت ثالثهما في الجنة". (ن هب والضياء عن أبي) .
١٢٩٧۔۔ عہد موسوی (علیہ السلام) میں دو شخصوں نے اپنا اپنا حسب ونسب بیان کیا، ایک نے کہا میں فلاں ابن فلاں ابن فلاں ہوں، اس طرح اس نے ساتھ پشتوں کو گنوادیا، اور دوسرے سے کہا، توبتا ! تیری ماں گم ہو، تو کون ہے ؟ دوسرے نے کہا میں فلاں ابن فلاں اسلام کا فرزند ہوں، اللہ نے حضرت موسیٰ کو وحی فرمائی کہ ان کو کہو ! اے نوپشتوں تک اپنے نسب بیان کرنے والے توتوانہی نو کے ساتھ جہنم میں دسواں بن کرجائے گا۔ اور اے دوپشتوں تک اپنے نسب پر اکتفا کرنے والے تو جنت میں ان کا تیسرا ساتھی ہوگا۔ النسائی، شعب الایمان، الضیاء بروایت ابی۔ عبداللہ بن احمد نے اس کو روایت کیا اس کے اصحاب روایت صحیح کے اصحاب ہیں سوائے یزید بن ابی الجعد کے اور وہ بھی ثقہ راوی ہے۔ مجمع ج ٨، ص ٨٥۔

1298

1298 – "انتسب رجلان من بني إسرائيل على عهد موسى أحدهما كافر والآخر مسلم فانتسب الكافر إلى تسعة آباء فقال مسلم: أنا فلان ابن فلان وبرئت من سواهم فخرج منادي موسى أيها المنتسبان قد قضي بينكما ثم قال: أيها الكافر أما أنت فانتسبت إلى تسعة آباء وأنت عاشرهم في النار، وأما أنت أيها المسلم فقصرت على أبوين مسلمين وتبرأت ممن سواهم فأنت من أهل الإسلام وبرئت ممن سواهم" (هب عن معاذ) .
١٢٩٨۔۔ عہد موسیٰ (علیہ السلام) میں دو شخصوں نے اپنا اپنا حسب ونسب بیان کیا ایک کافر تھادوسرامسلم، تھا۔ کافر نے نوآباء تک اپنا نسب بیان کیا ۔ مسلم نے کہا، میں فلاں ابن فلاں ہوں اور باقی سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں۔ توموسی کافر ستادہ منادی آپہنچا اور کہنے لگا اے اپنے نسب بیان کرنے والو، تمہارے متعلق فیصلہ کردیا گیا ہے لہٰذا اے کافر نوپشتوں تک اپنے نسب بیان کرنے والے توتوانہی نو کے ساتھ دسواں بن کرجائے گا۔ اور اے مسلم ، دومسلم پشتوں تک اپنے نسب پر اکتفا کرنے والے تو نے ان کے ماسوائے سے برات کا اظہار کیا تو جنت میں ان کا تیسرا ساتھی ہوگا۔ تو مسلم ہے اور باقی سے مبرا ہے۔ شعب الایمان بروایت معاذ (رض) ۔

1299

1299 – "انتسب رجلان من بني إسرائيل على عهد موسى أحدهما مسلم والآخر مشرك فقال أنا فلان ابن فلان حتى عد تسعة آباء ثم قال لصاحبه انتسب لا أم لك فقال: أنا فلان ابن فلان وأنا بريء مما وراء ذلك فنادى موسى في الناس فجمعهم ثم قال: قد قضي بينكما أما أنت الذي انتسبت إلى تسعة آباء فأنت توفيهم العاشر في النار وأما أنت الذي انتسبت إلى أبويك فأنت امرؤ من أهل الإسلام". (طب عن معاذ) .
١٢٩٩۔۔ عہد موسیٰ (علیہ السلام) میں دو شخصوں نے اپنا اپنا حسب ونسب بیان کیا، ایک کافر تھادوسرامسلم، کافر نے کہاں میں فلاں ابن فلاں ہوں اس طرح اس نے سات پشتوں کو گنوایا۔ پھر دوسرے سے کہا، توبتا تیری ماں گم ہو تو کون ہے ؟ دوسرے نے کہا میں فلاں ابن فلاں ہوں اور باقی سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں موسی نے لوگوں میں منادی کروائی، اور ان کو جمع کیا، پھر فرمایا تمہارے متعلق فیصلہ کردیا گیا ہے ، لہٰذا اے نوپشتوں تک اپنے نسب بیان کرنے والے تو جہنم میں ان کی دس کی تعداد پوری کرے گا، اور اے دوباپوں تک اپنے نسب پر اکتفار کرنے والے تو اہل اسلام کا فرزند ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح)، بروایت معاذ (رض) ، موقوف ، رجال احد ایسانید طبرانی صحیح مجمع ج ٨ ص ٨٦۔

1300

1300 – "إن أنسابكم هذه ليست بسباب على أحد وإنما أنتم بنو آدم كطف الصاع أن تملئوه ليس لأحد على أحد فضل إلا بدين أوعمل صالح حسب أمرء أن يكون فاحشا بذيا بخيلا جبانا". (حم وابن جرير طب عن عقبة بن عامر) .
١٣٠٠۔۔ تمہارے یہ انساب کسی کے لیے گالی اور برتری کی چیز نہیں ہیں۔ اے بنوآدم تم ان پر صاع کی طرح ہو، اب تم اس کو بھرو کسی کو کسی پر فوقیت و برتری حاصل نہیں، مگر تقوی وعمل صالح کے ساتھ۔ کسی کے براوبدنسب ہونے کے لیے یہی کافی ہے، کہ وہ فاحش ہزیان گو، بخیل اور بزدل ہو۔ مسنداحمد، ابن جریر ، الکبیر للطبرانی بروایت عقبہ بن عامر شرح ، انتم بنوآدم کطف الصاع، ان تملنوہ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ، طف الصاع، ایسے صاع یعنی برتن کو کہتے ہیں، جو بھرنے کے قریب تر ہو لیکن مکمل بھرا ہوانہ ہو، تو مقصود یہ ہے اے بنی آدم تم سب نسبت میں ان بھرے صاع کی طرح ایک باپ کی اولاد ہو یعنی ہم درجہ وہم رتبہ ہو، اور باقی ماندہ صاع کر پر کرنا تمہارے اپنے اپنے عمل پر موقوف ہے۔ الفائق ، ج ٢، ص ، ٣٦٤۔

1301

1301 – "إن أنسابكم هذه ليست بمسبة على أحد كلكم بنو آدم ليس لأحد على أحد فضل إلا بدين أو تقوى الله وكفى بالرجل أن يكون بذيئا فاحشا بخيلا". (هب عن عقبة بن عامر) .
١٣٠١۔۔ تمہارے یہ انساب کسی کے لیے گالی اور برتری کی چیز نہیں ہیں۔ تم سب بنوآدم ہو اور بس کسی کو کسی پر فوقیت و برتری حاصل نہیں، مگر دین تقوی کی وجہ سے کسی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ فاحش ہذیان گو، اور بخیل ہو۔ شعب الایمان ، بروایت عقبہ بن عامر، (رض) ۔

1302

1302 – "من اتصل بالقبائل فأعضوه بهن أبيه ولا تكنوا". (ش عن أبي) .
١٣٠٢۔۔ جو قبائل کے ساتھ اپنی فاخرانہ نسبت کرے اس کو انہی کے ساتھ کردو اور اس کو کنیت کے ساتھ مت پکارو۔ ابن ابی شیبہ بروایت ابی

1303

1303 – "من تعزى بعزاء الجاهلية فأعضوه بهن أبيه ولا تكنوا". (حم ز حب والرؤياني في الأفراد عن أبي) .
١٣٠٣۔۔ جو جاہلیت کی نسبتوں پر فخر وشیخی جتلائے اسے دور کردو اور اس کو کسی کنیت کے ساتھ بھی مت پکاروا۔ مسنداحمد، ابن حبان، الرویائی فی الافراد، بروایت ابی۔

1304

1304 – "لا تفتخروا بآبائكم الذين ماتوا في الجاهلية فوالذي نفسي بيده لما يدفع هذا الجعل بأنفه خير منهم". (طب هب عن ابن عباس) .
١٣٠٤۔۔ ایام جاہلیت میں مرجانے والے اپنے آباء پر فخر گھمنڈ مت کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ گندگی میں منہ مارنے والاگبریلا کی مانند جانور ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ الکبیر للطبرانی ، المصنف عبدالرزاق، بروایت ابن عباس (رض)۔

1305

1305 – "لا تفتخروا بآبائكم الذين ماتوا في الجاهلية فو الذي نفسي بيده لما يدهده (2) الجعل بمنخره خير من آبائهم الذين ماتوا في الجاهلية". (ط حم عن ابن عباس) .
١٣٠٥۔۔ ایام جاہلیت میں مرجانے والے اپنے اباء پر فخر و گھمنڈ مت کرو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ گندگی میں منہ مارنے والاگبریلا کی مانند جانور ان ایام جاہلیت میں مرجانے والوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ ابوداؤد ، مسنداحمد، بروایت ابن عباس۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں مسنداحمد کے رجال صحیح ہیں۔ مجمع، ج ٨، ص ٨٥۔

1306

1306 – "كل مولود يولد على الفطرة حتى يعرب عنه لسانه فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه". (ع طب هق عن الأسود ابن سريع) .
١٣٠٦۔۔ ہرنومولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے حتی کہ وہ بات چیت کرنے کے لائق ہوتا ہے پھرس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں۔ المسندابی یعلی، طبرانی، بیہیقی، بروایت الاسود ابن سریع۔

1307

1307 – "كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه ويشركانه قيل فمن هلك قبل ذلك قال: الله أعلم بما كانوا عاملين" (ت عن أبي هريرة) .
١٣٠٧۔۔ ہرنومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مشرک بنادیتے ہیں پوچھا گیا اور اس سے قبل جو مرگئے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے جس پر وہ عمل کرنے والے تھے۔ ترمذی، بروایت ابویرہرہ۔ شرح۔۔ یعنی جو بچے سن شعور تک پہنچنے سے قبل وفات پاگئے اور وہ کافروں کے بچے ہیں ان کا کیا ہوگا، تو اس معاملہ کو حضور نے اللہ کے سپرد فرمادیا۔ اور یہی محتاط اور مناسب طریقہ ہے۔

1308

1308 – "ما من مولود إلا ولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه ويمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء" (ق د عن أبي هريرة) .
١٣٠٨۔۔ ہرنومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، جس طرح جانور درست اعضا والابچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی نک کٹایا کوئی اور عضو کٹا دیکھتے ہو ؟ بخاری و مسلم، السنن لابی داؤد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1309

1309 – "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يقتل حين يقتل وهو مؤمن". (حم ن خ عن ابن عباس) .
١٣٠٩۔۔ کوئی زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا ہے اور کوئی شراب نوشی کرنے والاشراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا اور کوئی قاتل قتل کے وقت مومن نہیں رہتا۔ مسنداحمد، النسائی، صحیح بخاری، بروایت ابن عباس (رض)۔

1310

1310 – "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها وهومؤمن". (حم ق ن هـ عن أبي هريرة) زاد حم م ولا يغل حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم
١٣١٠۔۔ کوئی زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا اور کوئی شراب نوشی کرنے والاشراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی ڈاکہ زن کسی اعلی شے پر ڈاکہ ڈالتے وقت مومن نہیں ہوتا، جب کہ لوگ اس کی طرف بےبس نظریں اٹھائے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، النسائی، ابن ماجہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ مسنداحمد، یہ اضافہ ہے کہ اور کوئی خیانت کے وقت مومن نہیں ہوتا۔ سوا اجتناب کرواجتناب کرو۔

1311

1311 – "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد". (م 3 عن أبي هريرة) .
١٣٠١١۔۔ کوئی زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی شراب نوشی کرنے والاشراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد توبہ پیش ہوتی ہے۔ الصحیح لمسلم، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1312

1312 – "مثل الإيمان مثل القميص تقمصه مرة وتنزعه مرة". (ابن قانع عن معدان) .
١٣١٢۔۔ ایمان کی مثال قمیص کی سی ہے۔ جس کو کبھی زیب تن کرلیاجاتا ہے اور کبھی اتار پھینکا جاتا ہے۔ ابن قانع بروایت معدان۔ نہایت ضعیف روایت ہے۔ المعیر ص ١٢٢۔۔

1313

1313 – "إن الإيمان ليخلق في جوف أحدكم كما يخلق الثوب فاسألوا الله أن يجدد الإيمان في قلوبكم". (طب ك عن ابن عمر) .
١٣١٣۔۔ ایمان تمہارے شکم میں مثل بوسیدہ کپڑے کے پرانا ہوجاتا ہے پس اللہ سے سوال کرو کہ وہ تمہارے قلوب میں ایمان کو تازہ کردے۔ الکبیر للطبرانی، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض) حدیث کی اسناد حسن ہے۔ مجمع ج ١، ص، ٥٢۔

1314

1314 – "إن الله تعالى خلق خلقه في ظلمة فألقى عليهم من نوره فمن أصابه من ذلك النور يومئذ اهتدى ومن أخطأه ضل". (حم ت ك عن ابن عمر) .
١٣١٤۔۔ اللہ تعالیٰ نے ظلمت وتاری کی میں اپنی مخلوق پیدا فرمائی پھر ان پر اپنانور ڈالا، سو جس کو وہ نور پہنچا ہدایت یاب ہوا اور جو رہ گیا وہ گمراہ ہوا۔ مسنداحمد، ترمذی، المستدرک للحاکم، بروایت ابن عمر (رض)۔

1315

1315 – "أسلمت على أسلفت من خير". (حم ق عن حكيم بن حزام) .
١٣١٥۔۔ تم پچھلی خیر کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہو۔ مسنداحمد، بخاری مسلم، بروایت حکیم بن حزام (رض) ۔
شرح۔۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں تم نے جو خیر کے امورسرانجام دیے تھے ان کا ثواب تم کو حاصل ہوگا۔

1316

1316 – "لو آمن بي عشرة من اليهود لآمن بي اليهود". (خ عن أبي هريرة) .
١٣١٦۔۔ اگر مجھ پردس یہودی ایمان لے آئیں تو تمام یہودی ایمان لے آئیں۔ صحیح بخاری ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔ یہاں دس یہود سے ان کے علماء مراد ہیں دوسری روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے اور اس سے یہودیوں کی ہٹ دھرمی بیان کرنا مقصود ہے اور درحقیقت حدیث مذکور قرآن کی اس آیت کی وضاحت تفسیر ہے۔ لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین امنوالیھود۔ یعنی اے نبی ! تم مومنوں کے لیے سب سے سخت دشمن یہود کو پاؤ گے۔

1317

1317 – "من بلغه عن الله فضيله فلم يصدق بها لم ينلها". (طس عن أنس)
١٣١٧۔۔ جس کو اللہ کی طرف سے کوئی بات پہنچی مگر اس نے اس کی تصدیق نہ کی اور وہ اس کو حاصل نہ کرسکے گا۔ الاوسط للطبرانی ، بروایت انس (رض)۔

1318

1318 – "إن الله هوالحكيم وإليه الحكم". (د ن حب ك عن هانئ بن يزيد) .
١٣١٨۔۔ اللہ حکیم ہے اور اسی کی طرف سب حکم لوٹتے ہیں۔ السنن لابی داؤد، النسائی، ابن حبان، المستدرک للحاکم، بروایت ھائی بن یزید۔

1319

1319 – "إن الله تعالى صانع كل صانع وصنعته". (خ في خلق أفعال العباد ك والبيهقي في الأسماء عن حذيفة) .
١٣١٩۔۔ ہر موجد اور اس کی ایجاد کا موجد وصانع اللہ ہے۔ البخاری، فی خلق افعال العباد المستدرک للحاکم، البیہیقی فی الاسمائ، بروایت حزیفہ (رض) ۔

1320

1320 – "كان الرجل قبلكم يؤخذ فيحفر له الأرض فيجعل فيها فيجاء بالمنشار فيوضع على رأسه فيشق باثنين ما يصده ذلك عن دينه ويمشط بأمشاط الحديد مما دون لحمه من عظم أو عصب ما يصده ذلك عن دينه والله ليتمن هذا الأمر حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت لا يخاف إلا الله والذئب على غنمه ولكنكم تستعجلون". (حم خ د ت عن خباب) .
١٣٢٠۔۔ تم سے قبل لوگوں کو اس طرح دین کے بارے میں ستایا جاتا کہ ایک شخص کو پکڑاجاتا ہے اور زمین میں گڑھا کھود کر اس کے اندر اس کو ڈالا جاتا اور اوپر سے سرپرآرا راکھ دوٹکڑے کردیاجاتا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کو اس کے دین سے منحرف نہ کرسکتے تھے اس طرح لوہے کی کنگھیوں سے اس کے بدن کو چھلتی کرتے ہوئے اس کی ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچا دیتے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کو اس کے دین سے منحرف نہ کرسکتے تھے اور اللہ کی قسم یہ دین مکمل وتام ہو کر رہے گا۔۔ حتی کہ ایک سوار صنعاء سے حضرت موت تک خدا کے سوا کسی اور کے خوف کے دامن گیر کیے بغیر چلا جائے گا اور بھیڑیے سے بکریوں کو امن ملے گا۔ لیکن تم عجلت باز ہو۔ مسنداحمد، بخاری، ابوداؤد، ترمذی، بروایت خباب (رض) ۔

1321

1321 – "اذهب فاغتسل بماء وسدر وألق عنك شعر الكفر". (طب عن واثلة) .
١٣٢١۔۔ جاؤ اور پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرو اور ان کفر کے بالوں سے نجات حاصل کرو۔ الکبیر للطبرانی، بروایت واثلہ (رض) ۔

1322

1322 – "ألق عنك شعر الكفر واختتن". (حم د عن أبي كليب) .
١٣٢٢۔۔ اپنے سے ان کفر کے بالوں کو دور کرو ، (اور سنت ختنہ کی ادائیگی کرو) مسنداحمد، السنن ابی داؤد، بروایت ابی کلیب۔

1323

1323 – "إنما الإيمان بمنزلة القميص يقمصه الرجل مرة وينزعه مرة أخرى". (الحكيم وابن مردويه عن عتبة بن عبد الله بن خالد بن معدان عن أبيه عن جده) .
١٣٢٣۔۔ ایمان قمیص کی طرح ہے جس کو آدمی کبھی زیب تن کرلیتا ہے اور کبھی اتا ر پھینکتا ہے۔ الحکیم وابن مردویہ، عن عتبہ بن عبداللہ بن خالد، بن معدان، عن ابیہ عن جدہ۔ ضعیف روایت ہے۔ المغیر، ص ١٢٢۔

1324

1324 – "لا يزني العبد حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولايشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يقتل وهو مؤمن". (عق حم خ ن عن ابن عباس وزاد عب ولا ينهب النهبة وهو مؤمن) .
١٣٢٤۔۔ کوئی بندہ زنا کے وقت مومن نہیں رہتا اور کوئی بندہ چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی شراب نوشی کرنے والا شراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی قاتل قتل کے وقت مومن نہیں رہتا۔ الضعفاء للعقیلی ، مسنداحمد، النسائی، صحیح بخاری ، بروایت ابن عباس (رض)۔ اور المصنف لعبدالرزاق نے اس کا اضافہ کیا ہے کہ کوئی ڈاکہ زنی کے وقت بھی مومن نہیں رہتا۔

1325

1325 – "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولايسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن". (طس عن عائشة بز عن أبي سعيد) .
١٣٢٥۔۔ کوئی زانی کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی چور چوری کیو قت مومن نہیں رہتا، اور کوئی شراب نوشی کرنے والاشراب نوشی کے وقتھ مومن نہیں رہتا۔ الاوسط للطبرانی، بروایت عائشہ (رض)، مسندالبزار، بروایت ابی سعید۔ (رض) ۔

1326

1326 – "لا يزني الرجل وهو مؤمن ولايشرب الخمر وهو مؤمن ينزع منه الإيمان ولا يعود إليه حتى يتوب فإذا تاب عاد إليه". (حل عن أبي هريرة) .
١٣٢٦۔۔ کوئی آدمی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی آدمی شراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، اس حالت میں ایمان اس سے سلب کرلیاجاتا ہے ، اور اس وقت تک نہیں لوٹتا جب تک کہ وہ توبہ کرلے پس اگر وہ توبہ کرلیتا ہے ، (تو پروردگار اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں اور ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ الحلیہ، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1327

1327 – "لا يزني الرجل وهو مؤمن ولا يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف وهو مؤمن فإن تاب تاب الله عليه". (بز طب والخطيب من طريق عكرمة عن ابن عباس وأبي هريرة وابن عمر) .
١٣٢٧۔۔ کوئی آدمی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی آدمی چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور نہ کسی کی ذمی شرف شی پر ڈاکہ ڈالتے وقت مومن رہتا ہے اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو پروردگار اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں۔ مسندالبزار، الکبیر للطبرانی، الخطیب، من طریق عکرمہ ، عن ابن عباس (رض)، ابوہریرہ وابن عمر (رض)۔

1328

1328 – "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولايسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن يخرج
١٣٢٨۔۔ کوئی زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی شراب نوشی کرنے والا شراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، اس سے ایمان نکل جاتا ہے پس اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ الاوسط للطبرانی، بروایت ابی سعید (رض) ۔

1329

1329 - "لا يسرق السارق وهو مؤمن ولا يزني الزاني وهو مؤمن الإيمان أكرم على الله من ذلك". (بز عن أبي هريرة) .
١٣٢٩۔۔ کوئی چور چوری کیو قت مومن نہیں رہتا، اور کوئی زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، ایمان اللہ کے ہاں اس سے بہت مکرم ومعزز ہے۔ مسنداحمد، البزرا، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1330

1330 – "من زنى خرج من الإيمان ومن شرب الخمر غير مكره خرج من الإيمان ومن انتهب نهبة يستشرفها الناس خرج من الإيمان". (ابن قانع عن شريك غير منسوب) .
١٣٣٠۔۔ جس نے زنا کا ارتکاب کیا وہ ایمان سے نکل گیا۔ جس نے بغیر اکراہ وجبر کے شراب نوشی کی وہ ایمان سے نکل گیا۔ اور جس نے کسی اعلی شی پر ڈاکہ ڈالا حالانکہ لوگ اس کی طرف بےبس نظریں اٹھائے دیکھ رہے ہیں وہ بھی ایمان سے نکل گیا۔ ابن قانع، عن شریک غیر منسوب ۔

1331

1331 – "مثل المؤمن والإيمان كمثل الفرس في آخيته يجول ثم يرجع في آخيته وإن المؤمن يسهو ثم يرجع إلى الإيمان فأطعموا طعامكم الأتقياء وأولوا معروفكم المؤمنين". (ابن المبارك حم ع حب حل هب ص عن أبي سعيد) .
١٣٣١۔۔ مومن اور ایمان کی مثال اس گھورے کی سی ہے جو اپنے احاطہ میں بندھا ہوا ہے چکرلگاتا ہے پھر اپنے مرکز کی طرف عود کر آتا ہے اس طرح مومن بھول سے خطا کر بیٹھتا ہے لیکن پھر ایمان کی طرف رجوع کرلیتا ہے پس تم اپنا کھانا متقی لوگوں اور معروف مومنین کو کھلایا کرو۔ ابن المبارک، مسنداحمد، ابی یعلی، ابن حبان، شعب الایمان ، السنن لسعید، بروایت ابی سعید (رض) ۔

1332

1332 - "مثل المؤمن والإيمان كمثل الفرس في آخيته يجول ثم يرجع إلى آخيته وكذلك المؤمن يقترف ما يقترف ثم يرجع إلى الإيمان فأطعموا طعامكم الأبرار وخصوا بمعروفكم المؤمنين". (الرامهرمزي عن ابن عمر) وسنده صحيح.
١٣٣٢۔۔ مومن اور ایمان کی مثال اس گھورے کی سی ہے جو اپنے احاطہ میں بندھا ہوا ہے چکرلگاتا ہے پھر اپنے مرکز کی طرف عود کر آتا ہے اسی طرح مومن کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے لیکن پھر ایمان کی طرف رجوع کرلیتا ہے۔ پس تم اپنا کھانا نیک، متقی لوگوں کو کھلایاکرو، اور اپنی نیکی و بھلائی کا رخ مومنین کی طرف خاص رکھا کرو۔ الرامھرمزی بروایت ابن عمر (رض)۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

1333

1333 – "لا يخرج المؤمن من إيمانه ذنب كما لا يخرج الكافر من كفره إحسان". (الديلمي عن أنس) .
١٣٣٣۔۔ کسی مومن کو اس کے ایمان سے کوئی گناہ نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح کسی کافر کو کوئی احسان کفر سے نہیں نکال سکتا۔ الدیلمی ، بروایت انس (رض)۔

1334

1334 – "أيها الناس اتقوا الله واصبروا، فوالله إن كان الرجل من المؤمنين قبلكم ليوضع المنشار على رأسه فيشق باثنين وما يرتد عن دينه، اتقوا الله عز وجل فاتح لكم وصانع" (طب ك عن خباب) .
١٣٣٤۔۔ اے انسانو ! اللہ سے ڈرو ! صبر کا دامن تھامے رکھو، بیشک اللہ کی قسم تم سے قبل کسی مومن کے سرپرآراء رکھ دو ٹکڑے کردیاجاتا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دین سے منحرف نہ ہوتا تھا سو اللہ سے ڈرو، وہی تمہارے لیے کشادگی فراہم کرے گا اور تمہارے کام بنائے گا۔ طبرانی، المستدرک للحاکم، بروایت خباب (رض) ۔

1335

1335 – "من أحب الله ورسوله صادقا غير كاذب ولقي المؤمنين فأحبهم وكان أمر الجاهلية عنده كمنزلة نار ألقي فيها فقد طعم طعم الإيمان أو قال فقد بلغ ذروة الإيمان". (طب عن المقداد بن الأسود) .
١٣٣٥۔۔ جس نے کسی کھوٹ کے بغیر اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت رکھی، اور مومنین سے ملا اور ان سے بھی سچی محبت رکھی، اور امر جاہلیت یعنی کفر اس کے نزدیک آگ میں ڈالے جانے کی طرح ہوگیا۔ تویقینا اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا فرمایا اس نے ایمان کی بلندی پالی۔ الکبیر للطبرانی، بروایت المقداد بن اسود۔

1336

1336 – "كل مولود يولد من والد كافرأو مسلم فإنه يولد على الفطرة على الإسلام كلهم ولكن الشياطين أتتهم فاجتالتهم عن دينهم فهودتهم ونصرتهم ومجستهم وأمرتهم أن يشركوا بالله مالم ينزل به سلطان". (الحكيم عن أنس) .
١٣٣٦۔۔ ہر پیدا ہونے والا، بچہ ، خواہ کسی کافر کے ہاں جنم لے یا مسلم کے ہاں، وہ فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے لیکن شیطان ان کے پاس آتے ہیں اور ان کو ان کے دین اصلی سے بھٹکاتے ہیں پس یہودی اور نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، اور ان کو اللہ کے ساتھ ان باطل معبود ان کو شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ الحکیم بروایت انس (رض)۔

1337

1337 – "كل إنسان تلده أمه على الفطرة أبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه فإن كانا مسلمين فمسلم، كل إنسان تلده أمه يلكزه الشيطان في خصيتيه (2) إلا مريم وابنها". (هب عن أبي هريرة) .
١٣٣٧۔۔ ہر انسان کو اس کی ماں فطرت پر جنم دیتی ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں، پس اگر ماں باپ مسلمان ہوں تونومولود بھی مسلمان ہوتا ہے اور ہر بچہ جب اس کی ماں اس کو جنم دیتی ہے تو اس کو شیطان شرمگاہ کے پاس کچوکے لگاتا ہے سوائے مریم اور اس کے فرزند کے۔ شعب الایمان بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1338

1338 – "ما من مولود يولد إلا الفطرة، وأبواه يهودانه وينصرانه، كما تنتجون الإبل فهل تجدون فيها جدعاء حتى تكونوا أنتم تجدعونها قالوا يا رسول الله أرأيت من يموت صغيرا قال: الله أعلم بما كانوا عاملين".(حم عن أبي هريرة) .
١٣٣٨۔۔ ہرنومولود فطرت پر جنم پاتا ہے، اور اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں، جیسے اونٹ کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا پاتے ہو ؟ بلکہ تم خود ہی اس کا ناک یا کان وغیرہ کاٹ ڈالتے ہو، صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ جو بچپن ہی کی حالت میں وفات پاجائے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا اللہ خوب جانتا ہے وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔ مسندحمد، بروایت ابوہریرہ (رض)۔

1339

1339 – "إن من أفضل إيمان المرء أن يعلم أن الله معه حيث كان". (هب عن عبادة بن الصامت) .
١٣٣٩۔۔ انسان کے افضل الاایمان ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو اس بات کا کامل یقین ہوجائے کہ وہ جہاں بھی ہو، اللہ اس کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔ شعب الایمان ، بروایت عبادہ بن الصامت ، (رض) ۔

1340

1340 – " إن أفضل إيمان العبد أن يعلم العبد أن الله معه حيث كان". (الحكيم عن عبادة بن الصامت) .
١٣٤٠۔۔ بندہ کا افضل ایمان یہ ہے کہ اس کو اس بات کا کامل یقین ہوجائے کہ وہ جہاں بھی ہو، اللہ اس کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔ الحکیم، ، بروایت عبادہ بن الصامت (رض) ۔

1341

1341 – "أسلمت على ما سبق لك من الأجر". (ك عنه) .
١٣٤١۔۔ تم پچھلی خیر کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہو، المستدرک للحاکم، بروایت عبادہ بن الصامت (رض) ۔
شرح :۔۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں تم نے خیر کے امور سرانجام دیے تھے ان کا ثواب تم کو حاصل ہوگا۔

1342

1342 – "أسلمت على ما فرط لك من الأجر". (طب عن صعصعة بن ناجية) .
١٣٤٢۔۔ پچھلے اجر کے ساتھ تم مسلمان ہوئے ہو۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت صعصعہ بن ناجیہ۔

1343

1343 – "إن الله عز وجل اشتد غضبه على اليهود أن قالوا: عزير بن الله، واشتد غضبه على النصارى أن قالوا: المسيح ابن الله، وإن الله اشتد غضبه على من أراق دمي وآذاني في عترتي". (ابن النجار عن أبي سعيد) .
١٣٤٣۔۔ اللہ عزوجل یہود پر اس بات سے شدت غضب میں آگئے کہ انھوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہا، اور نصاری پر اس وہ سے غضب نازل کیا کہ انھوں نے مسیح کو اللہ کا بیٹا گردانا۔ اور ان لوگوں پر اللہ شدید ترین غضبناک ہوئے جنہوں نے میرا خون بہایا اور میرے اہل کے بارے میں مجھے ایذا پہنچائی۔ ابن النجار، بروایت ابی سعید۔

1344

1344 – "لم يبق من طواغيت الجاهلية إلا ذو الخلصة" (2) (طب عن جرير) .
١٣٤٤۔۔ اصنام جاہلیت میں سے سوائے ذوالخلصہ کے اور کوئی بت باقی نہ رہا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت جریر۔ یہ اس زمانہ میں فارس کے شہروں میں پایاجاتا تھا۔

1345

1345 – "ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار ولا يترك الله عز وجل بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين يعز عزيزا أو يذل ذليلا عزا يعز الله به الإسلام وذلا يذل الله به الكفر". (حم طب ك ق ص عن تميم) .
١٣٤٥۔۔ ضرور بالضرور یہ امراسلام جاری وساری رہے گا، جب تک کہ گردش لیل ونہار جاری ہے ، اور اللہ کسی پختہ اور ناپختہ مکان کونہ چھوڑیں گے ۔۔ بلکہ ہر گھر میں اس دین کو داخل فرمادیں گے معزز کو اس کی عزت کے ساتھ ذلیل کو اس کی ذلت کیس اتھ یعنی اسلام ومسلمین کو اس کے ساتھ عزت سے ہمکنار فرمائیں گے۔ اور کفر وکافر کو ان کے ساتھ ذلیل ورسوا کریں گے۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی ، المستدرک لحاکم، السنن للبیہقی ، السنن لسعید، بروایت تمیم (رض) ۔

1346

1346 – "ليس من أتى الإسلام طائعا كمن عصب رأسه بالسيف". (أبو نعيم عن أنس) .
١٣٤٦۔۔ جو سر پر تلوار لٹکتے ہوئے اسلام لایا، اس شخص کا ہمسر نہیں ہوسکتا، جو اپنی خوشی ورغبت کے ساتھ اسلام لایا۔ ابونعیم بروایت انس (رض)۔

1347

1347 – " لو آمن بي عشرة من أحبار اليهود لآمن بي كل يهودي على وجه الأرض". (حم عن أبي هريرة) .
١٣٤٧۔۔ اگر علماء یہود میں سے دس افراد بھی ایمان مجھ پر لے آئیں توروئے زمین کے تمام یہودی مجھ پر ایمان لے آئیں۔ مسنداحمد، بروایت ابوہریرہ۔

1348

1348 – "من سمع بي من يهودي أو نصراني ثم لم يتبعني فهو في النار". (قط في الأفراد عن ابن مسعود) .
١٣٤٨۔۔ جس یہودی یا نصرانی نے میری بات سنی لیکن میری اتباع نہ کی (وہ جہنم میں جائے گا) ۔ الدار قطنی فی الافراد ، بروایت ابن مسعود (رض)۔

1349

1349 – "من سمع بي من أمتي أو يهودي أو نصراني فلم يؤمن بي لم يدخل الجنة". (حم وابن جرير طب عن أبي موسى) .
١٣٤٩۔۔ میری امت میں سے کسی نے یا یہودی یا نصرانی نے میری بات سنی لیکن مجھ پر ایمان نہ لایا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔ مسنداحمد، ابن جریر، طبرانی، بروایت ابی موسیٰ (رض) ۔

1350

1350 – "لا يقولن أحدكم للمرء لا يعرفه خليلي حتى يعلم أنه مؤمن". (الديلمي عن ابن عباس) .
١٣٥٠۔۔ تم میں سے کوئی کسی کو یوں نہ کہے کہ اس کو میرا دوست نہیں جانتا، جب تک کہ اس کا علم نہ ہوجائے کہ وہ مومن ہے۔ الدیلمی ، بروایت ابن عباس (رض)۔

1351

1351 – "يا أخا تنوخ أني كتبت بكتاب إلى كسرى فمزقه والله يمزقه ويمزق ملكه وكتبت إلى النجاشي بصحيفة فخرقها والله مخرقه ومخرق ملكه وكتبت إلى صاحبك بصحيفة فأمسكها فلن يزال الناس يجدون منه بأسا ما دام في العيش صفوة". (حم عن التنوخي رسول هرقل) .
١٣٥١۔۔ اے برادر تنوخ ! میں نے کسری کو خط لکھا تھا مگر اس نے اس کو پھاڑ ڈالا، اب اللہ اس کو اور اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا، اور میں نے شاہ نجاشی کو دعوت نامہ لکھا اس نے بھی پھاڑ ڈالا، اللہ اس کو اور اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے گا، اور اے تنوخ، میں نے تیرے ساتھی ھرقل کو بھی ایک دعوت نامہ لکھا تھا اس نے اس کو محفوظ رکھا، سو جب تک زندگی میں اچھائی کو اختیار کیے رکھے گا لوگ مسلسل اس سے جنگ کی حالت میں پائیں گے۔ مسنداحمد، بروایت التنوخی قاصد ھرقل۔
حدیث میں جس نجاشی کا تذکرہ ہے یہ دوسرانجاشی ہے اس سے پہلے نجاشی جس کا نام ، اصحمہ ، تھا حضورپر ایمان لے آیا تھا اسی نے مسلمانوں کو پناہ میسر کی تھی اور اسی کی حضور نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی۔

1352

1352 – "يا قتادة اغتسل بماء وسدر واحلق عنك شعر الكفر". (عن قتادة الرهاوي) .
١٣٥٢۔۔ اے قتادہ بیری کے پتوں اور پانی سے غسل کرو اور زمانہ کفر کے یہ بال اتروا آؤ، بروایت قتادہ الرھاوی۔

1353

1353 – "اغتسل بماء وسدر واحلق عنك شعر الكفر". (طص حل عن واثلة) .
١٣٥٣۔۔ بیری کے پتوں اور پانی سے غسل کرو اور اپنے سے کفر کے یہ بال منڈوا دو ۔ الصغیر للطبرانی ، بروایت واثلہ۔

1354

1354 – "يا واثلة اذهب فاغتسل عنك شعر الكفر واغتسل بماء وسدر". (تمام وابن عساكر عن واثلة) .
١٣٥٤۔۔ اے واثلہ ! جاؤ اور کفر کے بال اپنے سے دھوؤ اور پانی وبیری کے پتوں سے غسل کرلو۔ تمام، ابن عساکر، بروایت واثلہ (رض) ۔

1355

1355 - (من مسند عمر رضي الله عنه) عن يحيى بن يعمر عن ابن عمر قال: حدثني عمر بن الخطاب أنه كان عند رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فجاءه رجل عليه ثوبان أبيضان مقوم حسن النحو والناحية فقال: "أدنو منك يا رسول الله فقال: ادنوا فلم يزل يدنو حتى كانت ركبته عند ركبة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ثم قال: أسألك قال: سل قال أخبرني عن الإسلام قال شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان قال: فإذا فعلت ذلك فأنا مسلم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم نعم قال الرجل صدقت فجعلنا نعجب من قوله لرسول الله صلى الله عليه وأسلم صدقت كأنه أعلم منه ثم قال يا رسول الله أخبرني عن الإيمان قال: أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله والبعث بعد الموت والجنة والنار وتؤمن بالقدر خيره وشره قال فإذا فعلت ذلك فأنا مؤمن قال: نعم قال: صدقت قال: فأخبرني عن الساعة قال: ما المسؤول عنها بأعلم من السائل هن خمس لا يعلمهن إلا الله إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث الآية، فقال الرجل: صدقت". (ط) .
١٣٥٥۔۔ ازمسند عمر (رض) یحییٰ بن یعمر، ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے عمر (رض) بن خطاب نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ کے پاس حاضر خدمت تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا، اس کے جسم پر دوسفید کپڑے تھے متناسب الاعضائ، اور اچھی شکل و صورت کا مالک تھا، اس نے آکر آپ سے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا میں آپ کے قریب ہوسکتا ہوں، آپ نے فرمایا ہوجاؤ، قریب تو وہ قریب ہوتے ہوتے اتناقریب آگیا کہ اس کے گھٹنے رسول اللہ کے گھٹنوں سے آملے۔ پھر اس نووارد نے عرض کیا : کیا میں کچھ سوال کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ کرو سوال۔ عرض کیا مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجئے ؟ فرمایا اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا، اس نے عرض کیا تو کیا میں ان افعال کی ادائیگی کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا ؟ فرمایا جی ہاں۔ اس شخص نے عرض کیا، آپ نے سچ فرمایا اس پر ہم کو تعجب ہوا کہ وہ شخص سائل ہونے کے باوجود جو کہ لاعلم ہوتا ہے تصدیق کررہا ہے، گویا اس کو پہلے اس کا علم تھا، پھر اس شخص نے سوال کیا یارسول اللہ مجھے ایمان کے بارے میں خبر دیجئے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ اور اس کے ملائکہ اور فرشتوں اور رسولوں اور بعث بعد الموت پر ایمان لاؤ اور اس بات پر کہ جنت حق ہے جہنم حق ہے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ، سائل نے عرض کیا اگر میں ایسا کرلوں تو کیا میں مومن ہوجاؤں گا، فرمایا جی ہاں سائل نے پھر سوال کیا مجھے قیامت کے متعلق خبر دیجئے ؟ فرمایا اس کے متعلق مسوئل کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے، یہ ان اشیاء خمسہ میں ہے جن کا علم ماسوا اللہ کے کسی کو نہیں۔ بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ وہی بارش برساتا ہے ، اس پر سائل نے کہا، آپ نے سچ فرمایا۔ ابوداؤد الطیالسی۔

1356

1356 - عن عمر قال: "الإيمان بالنية واللسان، والهجرة بالنفس والمال". (قط في الأفراد قال تفرد به أبو عصمة نوح بن مريم وهو كذاب) .
١٣٥٦۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایمان نیت اور زبان سے حاصل ہوتا ہے اور ہجرت جان ومال کے ذریعہ سے ہوتی ہے الدارقطنی فی الافراد فرماتے ہیں کہ اس کی روایت میں ابوعصمہ نوح بن مریم متفرد ہے اور وہ کذاب ہے لہٰذا اس روایت کا اعتبار نہیں۔

1357

1357 – "عن محارب بن دثار عن عمر قال: " بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا أتاه رجل أبيض الثياب طيب الريح فوضع يده على ركبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ما الإيمان قال أن تؤمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين والجنة والنار وبالقدر خيره وشره قال فإذا فعلت ذلك فأنا مؤمن؟ قال نعم قال صدقت فتعجبنا من قوله لرسول الله صلى الله عليه وسلم صدقت، قال: فما الإسلام قال تقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتصوم رمضان وتغتسل من الجنابة قال فإذا فعلت ذلك فأنا مسلم قال نعم، قال: صدقت فتعجبنا من قوله لرسول الله صلى الله عليه وسلم صدقت، قال: فما الإحسان قال تعمل لله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك قال: صدقت، قال: فمتى الساعة قال ما المسؤول عنها بأعلم من السائل قال صدقت، ثم أدبر وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بالرجل فالتمسوه فلم يقدروا عليه فقال هذا جبرئيل جاءكم ليريكم دينكم وما أتاني في صورة قط إلا عرفته قبل مرتي هذه". (رسته في الإيمان) .
١٣٥٧۔۔ محارب بن دثار ، حضرت عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا، ہم حضور کے پاس حاضر خدمت تھے کہ آپ کی خدمت میں ایک سفید لباس میں ملبوس ، عمدہ خوشبو میں بسا ہوا شخص حاضر ہوا، اور اس نے آکر اپنا ہاتھ حضور کے گھٹنوں پر رکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا، ایمان کیا ہے، یارسول اللہ فرمایا یہ کہ تم اللہ پر یوم آخرت پر، ملائکہ پر کتاب اللہ پرا اور انبیاء پر ایمان لاؤ، نیز جنت اور جہنم پر ایمان لاؤ، اور اس بات پر ایمان لاؤ کہ تقدیر اچھی اور بری برحق ہے سائل نے عرض کیا اگر میں ایسا کرلوں تو کیا میں مومن ہوجاؤں گا، ؟ فرمایا بالکل۔ سائل نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ اس پر ہم کو تعجب ہوا کہ وہ شخص سائل ہونے کے باوجود آپ کی تصدیق کررہا ہے۔ سائل نے پھر سوال کیا اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، جنابت سے غسل کرو، سائل نے عرض کیا تو کیا میں ان افعال کی ادائیگی کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا۔ فرمایا بالکل ۔ سائل نے پھر سوال کیا : احسان کیا چیز ہے ؟ فرمایا تم اللہ کے لیے یوں عمل کرو گویا کہ اسے دیکھ رہے ہو۔۔ پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے وہ تویقینا تمہیں دیکھ ہی رہا ہے سائل نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ پھر سوال کیا، وقوع قیامت کب ہوگا ؟ فرمایا اس کے متعلق مسوئل سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا، سائل نے کہا، آپ نے سچ فرمایا، پھر سائل منہ موڑ کر چل دیا، آپ نے فرمایا سائل کو میرے پاس حاضر کرو اور اس کو تلاش کرو لیکن اصحاب رسول پر اس پر قادر نہ ہوسکے۔ تب آپ نے فرمایا، یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے تمہیں تمہارا دین سمجھانے آئے تھے اور سوائے اس مرتبہ کے اس سے قبل جب بھی کسی صورت میں میرے پاس تشریف لائے میں نے ان کو پہچان لیا۔ رسہ فی الایمان۔

1358

1358 - عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: "بينا نحن جلوس عند النبي صلى الله عليه وسلم في أناس إذ جاء رجل ليس عليه سحناء السفر وليس من أهل البلد حتى ورك بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يجلس أحدنا في الصلاة ثم وضع يده على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا محمد ما الإسلام قال: الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وأن تقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتعتمر وتغتسل من الجنابة وتتم الوضوء وتصوم رمضان قال فإن فعلت هذا فأنا مسلم قال نعم قال صدقت يا محمد، قال ما الإيمان قال الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله وتؤمن بالجنة والنار والميزان وتؤمن بالبعث بعد الموت وتؤمن بالقدر خيره وشره قال: فإذا فعلت هذا فأنا مؤمن قال: نعم قال: صدقت". (اللا لكائي ق في البعث) .
١٣٥٨۔۔ عمر بن خطاب (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگوں کے ایک مجمع کے ساتھ رسول اکرم کے گردوپیش بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایساشخص حاضر مجلس ہوا جس پر نہ توآثار سفر تھے اور نہ ہی وہ اہل شہر میں سے تھا، وہ اہل مجلس کو عبور کرتا ہوا حتی کہ عین رسول اکرم کے سامنے آکر دوزانو بیٹھ گیا۔ جس طرح ہم میں سے کوئی نماز میں بیٹھتا ہے۔ اور پھر اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ دیے پھر کہا اے محمد ! اسلام کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا، اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو ، کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج وعمرہ کرو، جنابت سے غسل کرو، وضو کو تام کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، سائل نے عرض کیا، تو کیا میں ان افعال کی ادائیگی کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا ؟ فرمایا بالکل ۔ سائل نے کہا، آپ نے سچ فرمایا اے محمد، پھر پوچھا ایمان کیا ہے۔ فرمایا یہ کہ تم اللہ پر اور اس کے ملائکہ پر کتابوں اور رسولوں پر ایمان لاؤ، نیز جنت جہنم اور میزان پر ایمان لاؤ۔ اور بعث بعد الموت پر ایمان لاؤ اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ، سائل نے عرض کیا اگر میں ایسا کرلوں تو کیا میں مومن ہوجاؤ ں گا۔ ؟ فرمایا جی ۔ پھر کہا آپ نے سچ فرمایا، اللالکائی بخاری و مسلم فی البعث۔

1359

1359 - عن عمر "أن رجلا شابا عليه ثياب بياض وذلك في آخر عمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أتاه فقال: أنت رسول الله قال نعم قال أدنو منك؟ قال ادن مني فوضع يده على ركبتيه فقال أنت رسول الله؟ قال نعم مرتين قال ما الإسلام قال أن تشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت، قال فما الإيمان قال: تؤمن بالله ملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر كله، قال فما الإحسان قال تعبد الله كأنك تراه فإن كنت لا تراه فإنه يراك قال فإذا فعلت ذلك فأنا محسن قال نعم" قال عمر وحدثني نبي الله صلى الله عليه وسلم "أن موسى عليه الصلاة والسلام لقي آدم فقال أنت آدم الذي خلقك الله بيده وأسجد لك ملائكته ولولا الذي ركبت لم يدخل أحد من ولدك النار قال أنت موسى الذي اصطفاك الله برسالته وبكلامه فكيف تلومني في أمر قد كان كتب علي قبل أن أخلق فتحاجا فحج آدم موسى". (ابن جرير) .
١٣٥٩۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور کے اخیرزمانہ میں ایک نوجوان سفید لباس میں ملبوس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکراستفسار کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ فرمایا بیشک ۔ پھر اجازت طلب کی کہ کیا میں آپ کے قریب ہوسکتا ہوں ؟ فرمایا قریب آسکتے پھر اس شخص نے اپنے ہاتھ آپ کے گھٹنوں پر رکھ دیے ، پھر اس نووارد نے مکرر استفسار کیا کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ فرمایا یقیناً دو مرتبہ یہ مکالمہ ہوا ۔ پھر سائل نے سوال کیا : اسلام کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں وہ تنہا معبود ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ساجھی نہیں۔ اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ تم نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، پھر پوچھا ایمان کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ پر اور اس کے ملائکہ پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوم آخرت اور ہر طرح کی تقدیر پر ایمان لاؤ، پھر پوچھا احسان کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت یوں کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم نہیں دیکھ رہے وہ تویقینا تمہیں دیکھ رہا ہے سائل نے عرض کیا اگر میں کیفیت کو پالوں تو کیا مین محسن شمار ہوں گا ؟ فرمایا بالکل۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ کے پیغمبر نے بیان کیا کہ حضرت موسیٰ کی حضرت آدم کی حضرت آدم سے ملاقات ہوئی حضرت موسیٰ نے حضرت آدم سے سوال کیا : کیا آپ وہی آدم ہیں۔۔ کہ اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے تخلیق فرمایا ؟ اور پھر آپ کو مسجود ملائکہ بنایا ؟ اگر آپ اس عصیان کا ارتکاب نہ فرماتے تو آپ کی اولاد میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہوتا حضرت آدم نے فرمایا کیا آپ وہی موسیٰ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے ساتھ کلام کرنے کے لیے منتخب فرمایا ؟ اس کے باوجود تم مجھ پر ایسی چیز کے متعلق کیسے ملامت کررہے ہو جبکہ اللہ نے اس کو میری پیدائش سے قبل میری تقدیر میں لکھ دیا تھا ؟ الغرض دونوں کا مناظرہ ہو اور حضرت آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ ابن جریر۔

1360

1360 - (من مسند علي رضي الله عنه) عن علي قال "الإيمان منذ بعث الله آدم شهادة أن لا إله إلا الله والإقرار بما جاء من عند الله لكل قوم ما جاءهم من شريعة ومنهاج ولا يكون المقر تاركا ولكنه مضيع". (ابن جرير في تفسيره) .
١٣٦٠۔۔ ازمسند علی (رض) حضرت علی (رض) سے مروی ہے ، آپ نے فرمایا، جب سے اللہ نے آدم کو مبعوث فرمایا تب سے ایمان یہی چلاآرہا ہے کہ لاالہ الا اللہ کی شہادت دینا اور اس بات کا اقرار کرنا کہ ہر قوم کے لیے اللہ کے ہاں سے جو شریعت اور طریقہ نازل ہوا ہے سب برحق ہے اور کوئی اقرار کنندہ اپنی شرعیت کو چھوڑنے والا نہیں ہوسکتا، لیکن غفلت وتساہل کی بنا پر اس کو ضائع کرنے والا ہوسکتا ہے۔ ابن جریر فی تفسیرہ۔

1361

1361 - عن علي قال سألت النبي صلى الله عليه وآله وسلم عن الإيمان ما هو قال " معرفة بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالأركان". (أبوعمرو بن حمدان في فوائده) .
١٣٦١۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم سے سوال کیا کہ ایمان کس چیز کا نام ہے ؟ آپ نے فرمایا قلبی معرفت ، اقرار باللسان ، اور عمل بالاعضاء کا نام ہے۔ ابوعمرو بن حمدان فی فوائدہ۔

1362

1362 - عن علي قال: قال صلى الله عليه وآله وسلم "الإيمان اقرار باللسان، وعقد بالقلوب، وعمل بالجوارح والأركان، وهو يزيد وينقص". (ابن مردويه) وسنده ضعيف.
١٣٦٢۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا کہ ایمان زبان سے اقرار کرنے دل میں یقین رکھنے اور اعضاء کے ساتھ عمل بجالانے کا نام ہے اور یہ گھٹتا و بڑھتا رہتا ہے۔ ابن مردویہ۔ اس کی اسنادی حیثیت ضعیف ہے۔

1363

1363 - (من مسند علقمة) ابن سويد بن علقمة بن الحارث عن أبي سليمان الداراني قال سمعت علقمة بن سويد بن علقمة بن الحارث يقول سمعت جدي علقمة بن الحارث يقول "قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا سابع سبعة من قومي، فسلمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد علينا فكلمناه فأعجبه كلامنا وقال: ما أنتم؟ قلنا مؤمنون، قال لكل قول حقيقة فما حقيقة إيمانكم؟ قلنا: خمس عشرة خصلة، خمس أمرتنا بها، وخمس أمرتنا بها رسلك، وخمس تخلقنا بها في الجاهلية، ونحن عليها إلى الآن إلا أن تنهانا يا رسول الله قال: وما الخمس التي أمرتكم بها؟ قلنا: أمرتنا أن نؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسوله والقدر خيره وشره، قال: وما الخمس التي أمرتكم بها رسلي؟ قلنا: أمرتنا رسلك أن نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنك عبده ورسوله ونقيم الصلاة المكتوبة ونؤدي الزكاة المفروضة ونصوم شهر رمضان ونحج البيت إن استطعنا إليه السبيل، قال: وما الخصال التي تخلقتم بها في الجاهلية؟ قلنا: الشكر عند الرخاء والصبر عند البلاء والصدق في مواطن اللقاء والرضاء بمر القضاء وترك الشماتة بالمصيبة إذا حلت بالأعداء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فقهاء أدباء كادوا أن يكونوا أنبياء من خصال ما أشرفها وتبسم إلينا ثم قال: أوصيكم بخمس خصال ليكمل الله لكم خصال الخير لا تجمعوا ما لا تأكلون ولا تبنوا ما لا تسكنون، ولا تنافسوا فيما غدا عنه تزولون، واتقوا الله الذي إليه تحشرون وعليه تقدمون وارغبوا فيما إليه تصيرون وفيه تخلدون". (ك) .
١٣٦٣۔۔ ازمسند علقمہ (رض) ابن سوید بن علقمہ بن الحارث ابی سلمہ الدرانی سے روایت کرتے ہیں کہ ابوسلیمان الدارنی نے کہا میں نے علقمہ بن سوید بن علقمہ بن الحارث سے سناوہ کہتے ہیں میں نے اپنے جدامجد علقمہ بن الحارث سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ میں حضور اکرم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور میں اپنی قوم کے حاضر ہونے والے دیگر افراد سمیت ساتواں شخص تھا ہم نے حضور اکرم کو سلام عرض کیا آپ نے جواب مرحمت فرمایا، پھر ہم نے حضور سے گفتگو کی ، آپ کو ہماری گفتگو خوشگوار گزری تو آپ نے پوچھا کہ تم کون سے قبیلے کے لوگ ہو ؟ ہم نے عرض کیا ہم مومن ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمہارے اس قول ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا پندہ باتیں اس قول کی حقیقت ہیں۔ پانچ کا آپ نے ہمیں حکم فرمایا تھا اور دیگرپانچ ہمیں آپ کے قاصدوں کے ذریعہ معلوم ہوئیں اور آخری پانچ وہ ہیں جن کے ساتھ ہم زمانہ جاہلیت میں متصف ہوگئے تھے اور ہم اب تک ان باتوں پر عمل پیرا ہیں، الایہ کہ آپ کسی کی ممانعت فرمادیں۔۔ آپ نے استفسار فرمایا، میری کہی ہوئی پانچ باتیں کون سی ہیں ؟ ہم نے عرض کیا آپ نے ہمیں حکم دیا ہم اللہ پر اور اس کے ملائکہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اور پانچویں یہ کہ اچھی وہ بری تقدیر پر بھی ایمان لائیں، آپ نے فرمایا اور وہ پانچ جو میرے قاصدوں نے کہیں۔۔ کون سی ہیں ؟ ہم نے عرض کیا : آپ کے قاصدوں نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ تن تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں ۔ اور آپ اس کے بندے اور رسول ہیں، اور یہ کہ ہم فرض نماز قائم کریں ، فرض زکوۃ ادا کریں ماہ رمضان کے روزے رکھیں اور گرجانے کی استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج بھی کریں۔ آپ نے مزید استفسار کیا کہا اور وہ پانچ باتیں کون سی ہیں جن کو تم نے زمانہ جاہلیت میں اپنایا ؟ ہم نے عرض کیا، فراخی کے وقت شکر کرنا، مصیبت کے وقت صبر کرنا ملاقات کے وقت سچ بولنا، قضاء الٰہی پر راضی رہنا اور دشمنوں پر مصیبت آن پرے تو اس پر خوشی نہ کرنا، یہ سن کر رسول اللہ نے فرمایا یہ تو بڑے فقیہ وادیب لوگ ہیں۔ ان خصال کو اپنانے سے ممکن ہے کہ نبوت کی فصلیں پالیں۔ پھر آپ ہماری طرف مسکراتے ہوئے متوجہ ہوئے اور فرمایا میں مزید پانچ باتوں کی تم کو بطور خاص نصیحت کرتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ لیے خیری کی تمام خصلتیں مکمل رمادے۔۔ جس چیز کونہ کھانا ہوا سے جمع نہ کرو۔ جس جگہ رہائش اختیار نہ کرنی ہو اس کی تعمیر نہ کرو۔ جو چیز کہ کل کو تم سے چھوٹ جانے والی ہے اس میں مقابلہ بازی نہ کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو، جس کی طرف تم کو جانا ہے اور اسمیں رغبت و کوشش کرو، جس کی طرف تم کو کوچ کرنا ہے ، اور جہاں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ المستدرک للحاکم۔

1364

1364 - عن أبي موسى قال: " أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل في صورة أعرابي ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا يعرفه فقال يا محمد ما الإيمان قال أن تؤمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين والبعث بعد الموت والقدر خيره وشره، قال فإذا فعلت ذلك؟ فأنا مؤمن؟ قال نعم قال: صدقت، قال فما الإسلام قال أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتصوم شهر رمضان قال فإذا فعلت ذلك فأنا مسلم؟ قال نعم قال صدقت، قال فما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فهو يراك قال صدقت ثم انصرف فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم يطلب الرجل فلم يقدر عليه فقال النبي صلى الله عليه وسلم هذا جبرئيل جاءكم يعلمكم دينكم وفي لفظ أمر دينكم". (كر) .
١٣٦٤۔۔ حضرت ابوموسی سے مرو ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک اعرابی کی صورت میں رسول اکرم کے پاس تشریف لائے رسول اکرم اس صورت میں ان کو پہچان نہ سکے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : اے محمد ! ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر یوم آخرت پر ملائکہ پر کتاب اللہ پر، نبیوں پر اور بعث بعد الموت پر ایمان لاؤ، نیز اچھی بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے عرضک یا اگر میں ان پر ایمان لے آؤں تو کیا میں مومن ہوجاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا بالکل ، جبرائیل نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر استفسار کیا اسلام کیا ہے ؟ یہ کہ تم لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، کی شہادت دو ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا، اگر میں ان کو بجالاؤں تو کیا میں مسلمان ہوجاؤں گا، ؟ آپ نے فرمایا بالکل ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر استفسار کیا احسان کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت یوں کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔۔ پس اگر یہ کیفیت نہیں حاصل ہوتی اور تم اللہ کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تویقینا تمہیں دیکھ رہا ہے جبرائیل نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر جبرائیل لوٹ گئے اور ابوہریرہ (رض) ان کی تلاش میں نکل پڑے مگر نہ پاسکے۔ پھر آپ نے فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے بمطابق دوسری روایت کے تمہیں تمہارا امردین سکھانے آئے تھے۔ کرر۔

1365

1365 - (من مسند الصديق) رضي الله عنه عن ابن سيرين قال "إن أبا بكر وعمر كانا يعلمان الناس الإسلام تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة التي افترض الله عليك لوقتها فإن في تفريطها الهلكة وتؤدي الزكاة طيبة بها نفسك وتصوم رمضان وتسمع وتطيع لمن ولي الأمر". (عب ش ورسته في الإيمان وابن جرير) .
١٣٦٥۔۔ ازمسند صدیق (رض) ابن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ ابوبکر وعمر (رض) لوگوں کو اسلام سکھاتے تھے اور فرماتے تھے اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اللہ کی فرض کردہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرو، کیونکہ اس کی کوتاہی میں ہلاکت کا اندیشہ ہے اور اپنے نفس کی خوشی کے ساتھ ادائیگی زکوۃ کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، اور جس کو خلافت سونپی گئی ہو اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ المصنف لعبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ ، رستہ ففی الایمان ، ابن جریر۔

1366

1366 - (ومن مسند عمر) رضي الله عنه عن الحسن قال: "جاء أعرابي إلى عمر فقال يا أمير المؤمنين علمني الدين، قال: تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتصوم رمضان وعليك بالعلانية وإياك والسر وإياك وكل شيء يستحيا منه فإنك إن لقيت الله فقل أمرني بهذا عمر". (هب والأصبهاني في الحجة) قال هب قال خ هذا مرسل لأن الحسن لم يدرك عمر وما هو بإرساله أصح من حديث سعيد بن عبد الرحمن الجمحي الآتي في مسند ابن عمر.
١٣٦٦۔۔ ازمسند عمر (رض) حضرت حسن سے مروی ہے کہ ایک اعرابی حضرت عمر (رض) کی خدمت میں آیا اور کہا اے امیرالمومنین مجھے دین کی تعلیم دیجئے آپ نے فرمایا یہ کہ تم لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کروماہ صیام کے روزے رکھو، اور تم ظاہر کے مکلف ہو لہٰذا کسی کے اندرونی معاملات کی ٹوہ میں نہ پڑو، اور ہر ایسی چیز کے اختیار کرنے سے اجتناب کرو جس سے حیا کی جاتی ہے پھر اگر تم اللہ سے ملاقات کرو تو کہہ دینا مجھے ان باتوں کا عمرنے حکم دیا تھا۔ شعب الایمان ، الاصبہانی فی الحجہ۔
علامہ بیہقی نے فرمایا کہ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ حضرت حسن نے حضرت عمر کر نہیں پایا، سعید بن عبدالرحمن اجمعحی کے حوالہ سے آئندہ آنے والی مسند ابن عمر میں یہ حدیث اس مرسل مذکورہ سے زیادہ اصح ہے۔

1367

1367 - عن عمر قال عرى الإيمان أربع: "الصلاة والزكاة والجهاد والأمانة". (ش) .
١٣٦٧۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایمان کی زیب وزینت چار اشیاء ہیں نماز ، زکوۃ ، جہاد اور امانت داری، ابن ابی شیبہ۔ ،

1368

1368 - عن الحسن قال جاء أعرابي إلى عمر فقال "يا أمير المؤمنين:علمني الدين، قال: تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج البيت وتصوم رمضان، وعليك بالعلانية وإياك والسر وكلما يستحيا منه وإذا لقيت الله فقل أمرني بهذا عمر، ثم قال يا عبد الله خذ بهذا فإذا لقيت الله فقل ما بدا لك". (عد هب واللالكائي) .
١٣٦٨۔۔ حضرت حسن سے مروی ہے کہ ایک اعرابی حضرت عمر کی خدمت میں آیا اور کہا اے امیرالمومنین مجھے دین کی تعلیم دیجئے آپ نے فرمایا یہ کہ تم لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو ۔ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، بیت اللہ کا حج کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو اور تم ظاہر کے مکلف ہو لہٰذا کسی کے اندرونی معاملات کی ٹوہ میں نہ پڑؤ۔ اور ہر ایسی چیز کے اختیار کرنے سے اجتناب کرو جس سے حیا کی جاتی ہے پھر اگر تم اللہ سے ملاقات کروتو کہہ دینا مجھے ان باتوں کا عمر نے حکم دیا تھا پھر حضرت عمر نے فرمایا اے عبداللہ ان باتوں کو مضبوطی سے تھام لو پھر جب پروردگار سے ملاقات ہو توجی آئے کہو۔ الکامل لابن عدی ، شعب الایمان ، الالکانی۔

1369

1369 - عن عمر قال "عرى الإسلام أربعة: إقام الصلاة لميقاتها وأداء الزكاة طيبة بها نفسك وصلة الرحم وإيتاء العهد فمن ترك منهن شيئا ترك عروة من الإسلام". (أبويعلى الخليلي في جزء من حديثه) .
١٣٦٩۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ ایمان کی مضبوطی چار اشیا ہیں اپنے وقت پر نماز قائم کرنا، نفس کی رضا، ورغبت کے ساتھ زکوۃ ادا کرنا، صلہ رحمی کرنا اور عہد کی پاسداری کرنا۔ سو جس نے ان میں سے کسی کو ترک کردیا اس نے اسلام کا ایک مضبوط کڑا چھوڑ دیا۔ ابویعلی الخلیلی فی جزء من حدیثہ۔

1370

1370 - (ومن مسند علي) رضي الله عنه عن إسمعيل بن يحيى التيمي عن سفيان بن سعيد عن الحارث عن علي وعن الأوزاعي عن يحيى بن أبي كثير عن سعيد بن المسيب عن علي وعن ابن جريج عن أبي الزبير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بني الإسلام على ثلاث: أهل لا إله إلا الله لا تكفروهم بذنب ولا تشهدوا لهم بشرك، ومعرفة المقادير خيرها وشرها من الله، والجهاد ماض إلى يوم القيامة منذ بعث الله محمدا إلى آخر عصابة من المسلمين لا ينقض ذلك جور جائر ولا عدل عادل". (طس) وقال لم يروه عن الثوري وابن جريج والأوزاعي إلا إسمعيل.
١٣٧٠۔۔ از مسند علی (رض) سے مروی ہے اور حضرت زبیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اسلام کی بنا تین چیزوں پر ہے اہل لاالہ الا اللہ ، سو تم کسی کلمہ گو کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہو، اور نہ ان پر شرک کرنے کی شہادت دو اور تقادیر کے منجانب اللہ ہونے کی معرفت خواہ اچھی ہوں یابری۔ اور یہ کہ جب سے اللہ نے محمد کو مبعوث کیا، تب سے آخری مسلم جماعت تک جہاد جاری وساری رہے گا کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا عدل اس کو گزند نہ پہنچا سکے گا۔ الاوسط للطبرانی (رح) ۔ علامہ طبرانی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ثوری، ابن جریج، اور اوزاعی سے اسماعیل کے سوا کوئی اور روایت کرنے والا نہیں ہے۔ عن اسماعیل بن یحییٰ التیمی عن سفیان بن سعید عن الحارث عن علی وعن الاوزاعی عن یحییٰ بن ابی کثیر عن سعید بن المسیب عن علی وعن ابن جریج عن ابی الزبیر عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

1371

1371 - عن علي قال إنما الإيمان ثلاثة أثافي: "الإيمان، والصلاة،والجماعة، فلا تقبل صلاة إلا بالإيمان فمن آمن صلى ومن صلى جامع ومن فارق الجماعة قدر شبر خلع ربقة الإسلام من عنقه". (ش في الإيمان واللالكائي) .
١٣٧١۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ایمان کے قائم ہونے کے تین سہارے ہیں ایمان، نماز اور جماعت۔ پس کوئی نماز ایمان کے بغیر مقبول نہیں پھر جس نے ایمان اختیار کیا نماز ادا کی۔ اور جس نے نماز ادا کی جماعت کے ساتھ شامل ہوا۔ اور جو جماعت سے بالشت بھر جدا ہوا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ ابن ابی شیبہ فی الایمان ، الالکائی۔
حدیث کے الفا، انماالایمان ثلاثہ اثافی، کا ترجمہ کیا گیا ہے ایمان کے قائم ہونے کے تین سہارے ہیں۔ اثافی اثفیہ کی جمع ہے اثافی چولہے کے تین کونے جن پر ہانڈی رکھی جاتی ہے اس مناسبت سے اس کا ترجمہ سہارا کیا گیا ہے۔ مختار الصحیح ج ١ ص ٣٦۔

1372

1372 - عن الحارث عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "الصلاة عماد الإيمان، والجهاد سنام العمل، والزكاة، يثبت ذلك ثلاث مرات". (أبو نعيم في عواليه) .
١٣٧٢۔۔ جناب حارث سے مروی ہے کہ حضرت علی نے حضور سے روایت کی کہ نماز ایمان کا ستون ہے جہاد عمل کی کوہان ہے اور زکوۃ اس کو پختہ کرتی ہے یہ فرمان آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔ ابونعیم فی عوالیہ۔

1373

1373 - (ومن مسند أنس بن مالك) عن أنس أن شيخا أعرابيا يقال له علقمة بن علاثة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال "يا رسول الله: إني شيخ كبير وإني لا أستطيع أن أتعلم القرآن ولكني أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده (كذا) ورسوله حق اليقين فلما مضى الشيخ قال النبي صلى الله عليه وسلم فقه الرجل أو فقه صاحبكم". (كر) .
١٣٧٣۔۔ ازمسندانس بن مالک ، حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک بوڑھا اعرابی ، جس کو علقمہ بن علاثہ کہا جاتا تھا نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا یارسول اللہ میں ایک انتہائی بوڑھا آدمی ہوں اور قرآن سیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا، لیکن اس بات کی عین یقین کے ساتھ شہادت دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے رسول ہیں اور اس کے بندے ہیں پھر جب وہ بوڑھا آپ کی خدمت سے اٹھ کر چلا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا آدمی فقیہ ہے یا فرمایا تمہارا ساتھی فقیہ ہے۔ ابن عساکر۔

1374

1374 - عن أنس قال "كنا نهينا أن نسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء فكان يعجبنا أن يأتيه الرجل من أهل البادية فيسأله ونحن نسمع فأتاه رجل فقال: "يا محمد أتانا رسولك فزعم أنك تزعم أن الله أرسلك، قال صدق، فقال فمن خلق السماء قال الله، قال فمن خلق الأرض قال الله قال فمن نصب هذه الجبال قال الله، قال فمن جعل فيها هذه المنافع قال الله قال فبالذي خلق السموات والأرض ونصب الجبال وجعل هذه المنافع آلله أرسلك قال نعم، قال وزعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلنا، قال صدق، قال بالذي أرسلك، آلله أمرك بهذا؟ قال نعم، قال وزعم رسولك أن علينا صوم شهر في سنتنا، قال صدق، قال فبالذي أرسلك، آلله أمرك بهذا؟ قال نعم، قال والذي بعثك بالحق نبيا لا أزيد عليهن ولا أنقص منهن، فلما مضى قال لئن صدق ليدخلن الجنه". (كر) .
١٣٧٤۔۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ ہم کو حضور سے زیادہ سوال کرنے سے ممانعت کی گئی تھی تو یہ ہماری خواہش ہوتی تھی کہ آپ کے پاس کوئی دیہاتی آکرسوال کرے اور ہم بھی اسے سنیں۔ تو ایک شخص نے آپ کے پاس آکرکہا، اے محمد ! ہمارے پاس تیرا ایک قاصد آیا تھا اس کا خیال تھا کہ تم اس بات کا دعوی کرتے ہو کہ اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا ہے ؟ کیا یہ سچ ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے دیہاتی نے پوچھا آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ نے فرمایا اللہ نے دیہاتی نے پھر پوچھا زمین کو کس نے پیدا کیا آپ نے فرمایا اللہ نے پھر پوچھا ان پہاڑوں کو ان کی جگہ کس نے نصب کیا ؟ فرمایا اللہ نے پوچھا اس میں ان منافع کو کس نے رکھا آپ نے فرمایا اللہ نے پھر دیہاتی نے کہا پس آپ کو اس ذات کیق سم اور اس کا واسطہ جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا پہاڑوں کو نصب کیا اور ان میں منافع کو رکھا، کیا واقعی اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا بالکل۔ دیہاتی نے کہا اور آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہمارے دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں فرمایا س نے سچ کہا دیہاتی نے کہا، آپ کوا س ذات کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا کیا واقعی اللہ نے اس کا آپ کو حکم دیا ہے فرمایا بالکل۔ دیہاتی نے کہا اور آپ کے قاصد کا یہ بھی خیال ہے کہ ہم پر ایک سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے ہیں ؟ فرمایا س نے سچ کہا، دیہاتی نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے کیا واقعی اللہ نے اس کا آپ کو حکم فرمایا ہے ؟ فرمایا بالکل پھر دیہاتی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو مبعوث فرمایا میں اس میں کچھ کمی و زیادتی نہ کروں گا پھر جب دیہاتی چلا گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس نے سچ بولا ہے تو جنت میں ضرور داخل ہوجائے گا۔ کرر۔

1375

1375 – "تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت وتحب للناس ما تحب لنفسك وتكره لهم ما تكره لنفسك". (طب عن جرير) قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن الإسلام قال فذكره.
١٣٧٥۔۔ تم ، ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، کی شہادت دو ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو۔ اور لوگوں کے لیے بھی اس چیز سے کراہت کرو جس سے اپنی ذات کے لیے کراہت کرتے ہو۔ الکبیر للطبرانی (رح) ، بروایت جریر۔
پس منظر۔۔۔ ایک شخص نے آکرحضور اکرم سے اسلام کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے یہ جواب عنایت فرمایا۔

1376

1376 - (ومن مسند جرير) عن جرير قال: " جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال علمني الإسلام، قال: تشهد ان لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت وتحب لنفسك وتكره لهم ما تكره لنفسك". (ابن جرير) .
١٣٧٦۔۔ از مسند جریر جریر (رض) سے مروی ہے کہ ایک اعرابی شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اسلام سکھائیے آپ نے فرمایا تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکوۃ اد اکرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو اور لوگوں کے لیے بھی اس چیز سے کراہت کروجس سے اپنی ذات کے لیے کراہت کرتے ہو۔ ابن جریر۔

1377

1377 - (ومن مسند حكيم بن معاوية النميري) عن حكيم بن معاوية أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال "يا رسول الله بما أرسلك ربنا؟ قال أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وكل مسلم من مسلم حرام يا حكيم بن معاوية هذا دينك أينما تكن يكفك". (أبو نعيم) .
١٣٧٧۔۔ ازمسند حکیم بن معاویہ النمیر حکیم (رض) بن معاویہ سے مروی ہے کہ وہ حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ہمارے رب نے آپ کو کس بات کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو، اور ہر مسلمان کی جان ومال دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اے حکیم بن معاویہ یہ تیرا دین ہے تو جہاں بھی ہو یہ تیرے لیے کافی ہے۔ ابونعیم۔

1378

1378 - (ومن مسند سراقة بن مالك) عن المغيرة بن سعد بن الأخزم عن أبيه أو عن عمه قال "أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أريد أن أسأله فقيل لي هو بعرفة فاستقبلته فأخذت بزمام الناقة فصاح بي أناس من أصحابه فقال: دعوه فارب ماجاء به فقلت يا رسول الله دلني على عمل يقربني من الجنة ويباعدني من النار فقال إن كنت أوجزت في الخطبة فقد أعظمت وأطولت فسكت ساعة ثم رفع رأسه إلى السماء فنظر فقال: تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحب للناس ما تحب أن يأتوا إليك، وما كرهت أن يأتوك إليك فدع الناس منه، خل زمام الناقة". (ابن جرير) .
١٣٧٨۔۔ ازمسند سراقہ (رض) بن مالک مغیرہ بن سعد بن الاخزم اپنے والد سے یا اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں میں حضور سے کچھ سوال کرنے کی غرض سے حاضر ہوا مجھے بتایا گیا کہ آپ میدان عرفات میں ہیں۔ میں آپ کے پاس پہنچا اور اونٹنی کی مہار میں نے تھام لی آپ کے اصحاب یہ دیکھ کر مجھ پرچیخے۔ مگر اپ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو معلوم ہوا کہ اس کی کیا حاجت ہے ؟ پھر میں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے ایسا کوئی عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت سے قریب تر اور جہنم سے بعید تر کردے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ تو نے مختصر سی بات کہی ہے مگر درحقیقت یہ بہت بڑی اور عظیم بات ہے۔ پھر آپ نے کچھ سکوت فرمایا اور پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، ماہ صیام کے روزے رکھو، لوگوں کے لیے بھی وہی پسند کر جو لوگوں سے اپنے لیے چاہتیہ و اور جو بات کہ لوگوں سے اپنے لیے ناپسند کرتے ہو لوگوں کے لیے بھی اس کو چھوڑ دو ۔ اب ناقہ کی زمام چھوڑ دو ۔ ابن جریر۔

1379

1379 - (ومن مسند عبد الله بن الشخير) عن عبد الله بن عامر المنتفق قال " وصف لي رسول الله صلى الله عليه وسلم فطلبته بمكة فقيل هو بمنى أو بعرفات فانطلقت إليه فأخذت بخطام راحلته فقلت شيئان أسألك عنهما، ما ينجيني من النار ويدخلني الجنة؟ فنظر إلى السماء وقال: لئن كنت أوجزت المسئلة لقد أعظمت وطولت اعبد الله ولا تشرك به شيئا، وأقم الصلاة المكتوبة وأد الزكاة المفروضة وصم رمضان وما تحب أن يفعله بك الناس فافعله بهم، وما تكره أن يأتي الناس فذر الناس منه،
١٣٧٩۔۔ از مسند عبداللہ بن الشخیر ، عبداللہ بن عامر المتفق سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم کے متعلق خبر ملی تو میں آپ کی تلاش میں نکلا، کسی نے مجھے کہا کہ آپ وادی منی میں ہیں یا میدان عرفات میں۔ میں آپ کے پاس پہنچا اور آپ کی سواری کی نکیل میں نے تھام لی پھر میں نے کہا میں آپ سے دو چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا یہ کہ مجھے کیا چیز جہنم سے نجات دلائے گی اور کیا چیز جنت میں دخول کا سبب بنے گی پھر آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا اگرچہ تو نے مختصر سی بات کہی ہے مگر درحقیقت یہ بہت بڑی اور عظیم بات ہے اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور فرض نماز قائم کرو، فریضہ ادا کرو، زکوۃ کا، رمضان کے روزے رکھو، اور لوگوں کو جو سلوک اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی ان کیس اتھ بھی کرو، اور جو بات کہ لوگوں سے اپنے لیے ناپسند کرتے ہو لوگوں کے بھی اس کو چھوڑ دو ۔ اب سواری کا راستہ چھوڑ دو ۔ الدیلمی۔

1380

1380 - (ومن مسند ابن عمر) عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الدين خمس لا يقبل الله منهن شيئا دون شيء شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله والإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله والجنة والنار والحياة بعد الموت هذه واحدة، والصلوات الخمس عمود الإسلام لا يقبل الله الإيمان إلا بالصلاة والزكاة ومن فعل هذا ثم جاء رمضان فترك صيامه متعمدا لم يقبل الله الإيمان، ومن فعل هؤلاء الأربع ثم تيسر له الحج ولم يحج عنه بعض أهله لم يقبل الله منه الإيمان ولا الصلاة ولا الزكاة ولا صيام رمضان ألا إن الحج فريضة من فرائض الله ولن يقبل الله شيئا من فرائضه دون بعض". (ابن جرير) وسنده ضعيف.
١٣٨٠۔۔ ازمسند ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا دین پانچ اشیاء کا نام ہے ان میں سے اللہ کسی کو دوسری کے بغیر قبول نہ فرمائیں گے اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے رسول ہیں اور اس کے بندے ہیں اور اللہ پر اس کے ملائکہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پرا اور جنت جہنم پر اور اس موت کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانایہ ایک چیز ہوئی اور دوسری نماز ہے اور پنج گانہ اسلام کا ستون ہے اللہ تعالیٰ ایمان کو نماز وزکوۃ جو تیسرارکن ہے کے بغیر قبول نہ فرمائیں گے اور جس نے ان کو انجام دیا لیکن رمضان کے روزے جو چوتھا رکن ہے عمداچھوڑ دیا تب بھی اللہ ایمان کو قبول نہ فرمائیں گے ۔ اور جس نے ان چاروں اشیاء کو انجام دیا اور اس کے لیے حج کی کشادگی میسر ہوئی لیکن اس نے حج نہیں کیا اور نہ اس کی طرف سے اس کے اہل نے حج بدل کیا تو اللہ اس کے ایمان کو قبول نہ فرمائیں گے اور نہ نماز ، زکوۃ اور روزوں کو قبول فرمائیں گے ۔ آگاہ رہو۔۔ حج اللہ کے فریضوں میں سے ایک فریضہ ہے اور اللہ فرائض میں سے کسی کو کسی کے بغیر قبول نہ فرمائیں گے۔ ابن جریر۔ اس کی اسنادی حیثیت ضعیف ہے۔

1381

1381 - ومن (مسند عبد الرحمن بن غنم الأشعري) عن عبد الرحمن بن غنم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " أنه أتاه جبريل في صورة لم يعرفه فيها حتى وضع يده على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ما الإسلام؟ قال: الإسلام أن تسلم وجهك لله وتشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة، قال فإذا فعلت ذلك فقد أسلمت؟ قال نعم، قال صدقت فما الإيمان يا رسول الله؟ قال: الإيمان تؤمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وبالموت والحياة بعد الموت والحساب والميزان والجنة والنار والقدر كله خيره وشره، قال فإذا فعلت ذلك فقد آمنت؟ فقال نعم، قال صدقت قال فما الإحسان يا رسول الله؟ قال تخشى الله كأنك تراه فإنك إن لا تك تراه فإنه يراك، قال فإذا فعلت ذلك فقد أحسنت؟ قال نعم، قال صدقت، قال فمتى الساعة يا رسول الله؟ قال سبحان الله سبحان الله خمس من الغيب لا يعلمهن إلا الله ما المسؤول عنهن بأعلم بهن من السائل: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت، وإن شئت أخبرتك بعلم ما قبلها. إذا ولدت الأمة ربتها وتطاول البنيان ورأيت الحفاة العالة على رقاب الناس، قال ومن هم يا رسول الله عريب. ثم ولى الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين السائل قالوا ما رأينا طريقه بعد، قال ذاكم جبريل يعلمكم دينكم وما جاءني قط إلا عرفته إلا اليوم". (كر) .
١٣٨١۔۔ ازمسند عبدالرحمن بن غنم الاشعری عبدالرحمن بن غنم سے مروی ہے کہ وہ آپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کے پاس جبرائیل اس صورت میں تشریف لائے جس میں آپ پہلے ان کو پہچانتے نہ تھے اور انھوں نے آکر آپ کے گھٹنوں پر اپنا ہاتھ رکھ دی اور کہا یارسول اللہ اسلام کیا ہے ؟ فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اپنی ذات اللہ کے سپرد کرو۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، کی شہادت دو نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، جبرائیل نے کہا اگر میں ان کو بجالاؤں تو کیا میں مسلمان ہوجاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا بالکل۔ جبرائیل نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر استفسار کیا، ایمان کیا ہے یارسول اللہ ، فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر یوم آخرت پر ملائکہ پر کتاب اللہ پر، انبیاء پر ممات اور حیات پر حیات بعد الموت پر ایمان لاؤ۔ نیز حساب کتاب پر میزان پر جنت جہنم پر ایمان لاؤ، اور ہر بھلی وبری تقدیر پر ایمان لاؤ، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اگر میں یہ کرلوں تو کیا میں مومن ہوجاؤں گا، فرمایا جی۔ جبرائیل نے کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر استفسار کیا احسان کیا ہے یارسول اللہ ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ سے یوں ڈرو گویا اسے دیکھ رہے ہو۔۔ جبرائیل نے کہا آپ نے سچ فرمایا پھر استفسار کیا قیامت کب واقع ہوگی یارسول اللہ فرمایا سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، غیب کی پانچ باتوں کو اللہ کے ماسوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اس بارے میں جس سے سوال کیا گیا ہے وہ خودسائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام، وماتدری نفس ماذاتکسب غدا وماتدری نفس بای ارض تموت۔ بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کو ہے وہی بارش نازل کرتا ہے اور رحموں میں جو کچھ ہے اس کو جانتا ہے اور کل آئندہ کو کوئی جی کیا کمانے والا ہے کوئی نہیں جانتا ہے اور کوئی جی نہیں جانتا کہ اس کی کہا موت آئے گی۔ اور اگر تم قبل از قیامت کے متعلق کچھ جانناچاہوتو میں تمہیں بتاتاہوں کہ اس کی کیا علامت ہیں وہ یہ ہیں کہ جب باندی اپنی مالکہ کو جنم دینے لگے اور عمارتیں فلک بوس ہونے لگیں اور توننگے پاؤں والے فقیر لوگوں کو دیکھے کہ وہ لوگوں کی گردنوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا پوچھا یارسول اللہ وہ کون لوگ ہیں ؟ لیکن پھر وہ سائل شخص منہ موڑ کر چلا گیا آپ نے پوچھا سائل کہاں ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہم پھر اس کا راستہ نہیں پاسکے۔ حضور نے فرمایا یہ جبرائیل تھے تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے اور جب بھی وہ میرے پاس آئے میں نے ان کو پہچان لیا سوائے آج کی اس صورت کے ۔ ابن عساکر۔

1382

1382 - ومن (مسند معوية بن حيدة) عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال: " أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله ما جئتك حتى حلفت بعدد أصابعي هذه أن لا أتبعك ولا أتبع دينك فإني أتيت أمرا لا أعقل شيئا إلا ما علمني الله ورسوله وإني أسألك بم بعثك ربك إلينا؟ قال اجلس،ثم قال: بالإسلام، فقلت: وما آية الإسلام؟ قال: تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتفارق الشرك وإن كل مسلم على كل مسلم حرام أخوان نصيران لا يقبل من مشرك أشرك مع إسلامه عملا وإن ربي داعي فسائلي هل بلغت عبادي فليبلغ شاهدكم غائبكم وإنكم تدعون مفدما على أفواهكم بالفدام فأول ما يسأل عن أحدكم فخذه وكفه، قلت يا رسول الله فهذا ديننا، قال نعم وأينما تحسن يكفك وإنكم تحشرون على وجوهكم وعلى أقدامكم وركبانا". (هب) .
١٣٨٢۔۔ از مسند معاویہ بن حیدہ بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ میں آپ کے پاس اپنی انگلیوں کے شمار برابر قسم اٹھا کر آیاہوں اس بات پر کہ میں آپ کی اتباع کرو گا اور نہ آپ کے دین کی اتباع کرو، کیونکہ آپ ایسی بات لائے ہیں جو میں نہیں سمجھ سکا سوائے اس کے اب اللہ اور اس کا رسول جو کچھ سکھادیں پس اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ تیرے رب نے کس بات کے ساتھ تجھ کو مبعوث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ فرمایا اسلام کے ساتھ میں نے کہا اسلام کی نشانی کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم ۔ لاالہ الللہ محمد رسول اللہ ، کی شہادت دو ۔ نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، شرک سے قطعا جدا ہوجاؤ اور ہر مسلمان کی جان ومال دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔ دونوں بھائی بھائی ہیں۔ باہم مددگار ہیں۔ جس نے اسلام کیس اتھ کسی کو شریک کیا اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائیں گے۔ اور میرا رب مجھے بلانے والا ہے پھر مجھ سے سوال کرے گا کہ میرے بندوں کو دعوت پہنچادی یا نہیں ؟ پس تم میں سے حاضرین وغائبین کو یہ دعوت پہنچادیں۔ اور تم قیامت کے روز مونہوں پر مہر لگے ہوئے بلائے جاؤ گے پس سب سے پہلے جو کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ ران اور ہاتھ ہیں، میں نے کہا یارسول اللہ کیا یہ ہمارا دین ہے فرمایا ہاں اور تم جہاں ہو گے یہ تمہیں کافی ہوگا اور تم اس حالت میں جمع کیے جاؤ گے کہ کچھ تم میں سے مونہوں کے بل آئیں گے اور کچھ قدموں پر اور کچھ سوار ہو کر آئیں گے۔ شعب الایمان۔

1383

1383 - عن عروة بن رويم عن معوية بن حكيم القشيري أنه قدم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " والذي بعثك بالحق ودين الحق ما تخلصت إليك حتى حلفت لقومي عدد هؤلاء يعني يعني عدد أنامل كفيه بالله لا أتبعك ولا أؤمن بك ولا أصدقك وإني أسألك بالله بما بعثك؟ قال بالإسلام، قال وما الإسلام؟ قال أن تسلم وجهك لله وأن تخلي له نفسك قال فما حق أزواجنا علينا قال أطعم إذا طعمت واكس إذا كسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبحه ولا تهجر إلا في البيت كيف وقد أفضى بعضكم إلى بعض وأخذن منكم ميثاقا غليظا ثم أشار بيده قبل الشام فقال ههنا تحشرون ههنا تحشرون ركبانا ورجالا وعلى وجوهكم الفدام أول شيء يعرب عن أحدكم فخذه". (كر) .
١٣٨٣۔۔ عروہ بن رویم ، معاویہ بن حکیم القشیری ، سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسوال اکرم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق اور دین حق کے مبعوث کیا ہے کہ میں آپ تک اس وقت تک نہیں آیا جب تک کہ اپنی قوم کو ان دونوں ہاتھ کی انگلیوں کے شمار برابر حلف نہیں دیا، کہ میں آپ کی اتباع کروں گا اور نہ آپ پر ایمان لاؤ ں گا، اور آپ کی تصدیق بھی نہ کروں گا، سو میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتاہوں کہ مجھے بتائیے کہ اللہ نے آپ کو کس بات کے ساتھ مبعوث کیا ہے آپ نے فرمایا اسلام کے ساتھ میں نے پوچھا اسلام کیا ہے فرمایا یہ کہ تم اپنی ذات اللہ کے سپردو کرو۔ اس کے لیے اپنے نفس کو فارغ کرلو۔ پوچھا پھر ہماری ازواج کا ہم پر کیا حق ہے فرمایا جب تم کو کھانا ملے تو ان کو بھی کھلاؤ اور جب تمہیں پہننے کو ملے تو انھیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو۔ برابھلا نہ کہو اور ان سے جدائی گھر سے باہر نہ کرو۔ جبکہ تم ان سے صحبت کرچکے ہو اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہیں۔ پھر آپ نے شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم وہاں سوار پیدل اور مہر زدہ چہروں کے بل پیش کیے جاؤ گے اور اول چیز جو کلام کرے گی وہ اس کی ران ہوگی۔ کرر۔

1384

1384 - عن قتادة قال ذكر لنا أن عمر بن الخطاب كان يقول: "عروة الإسلام شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والطاعة لمن ولاه الله من المسلمين". (رسته في الإيمان) .
١٣٨٤۔۔ حضرت قتادہ (رض) سے مروی ہے کہ ہمیں ذکر کیا گیا کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب فرماتے تھے کہ اسلام کے مضبوط کڑے۔۔ لاالہ الا اللہ کی شہادت نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، اور اللہ کے قائم کردہ مسلمان حاکم کی اطاعت کرنا۔ رستہ فی الایمان۔

1385

1385 - عن سويد بن حجير قال أخبرني قال "لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بين عرفة والمزدلفة فأخذت بخطام ناقته فقلت ماذا يقربني من الجنة ويباعدني من النار فقال أما والله إن كنت أوجزت المسألة لقد أعظمت وأطولت أقم الصلاة المكتوبة وأد الزكاة المفروضة واحجج البيت وما أحببت أن يفعل بك الناس فافعله بهم وما كرهت أن يفعله الناس بك فدع الناس منه، خل خطام الناقة". (ابن جرير) .
١٣٨٥۔۔ سوید بن حجیر سے مروی ہے کہ میں آپ سے عرفہ مزدلفہ کے درمیان ملا تو میں نے آپ کی ناقہ کی نکیل تھام لی اور کہا مجھے ایساعمل بتا دیجئے جو مجھے جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے ؟ فرمایا اگرچہ تو نے مختصرا سی بات کہی ہے مگر درحقیقت یہ بہت بڑی اور عظیم بات ہے فرض نماز قائم کرو۔ فریضہ زکوۃ اد اکرو، بیت اللہ کا حج کرو، اور لوگوں کا جو سلوک اپنے پسند کرتے ہو وہی ان کے ساتھ بھی کرو۔ اور جو بات کہ لوگوں سے اپنے لیے ناپسند کرتے لوگوں کے لیے بھی اس کو چھوڑ دو اب ناقہ کی لگام چھوڑ دو ۔ ابن جریر۔

1386

1386 - (مسند عمر رضي الله عنه) عن سعيد بن المسيب رضي الله عنه قال " جاء عمر إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال والله لأحبك فقال النبي صلى الله عليه وسلم لن يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من نفسه وأهله قال عمر: والله لأنت أحب إلي من نفسي وأهلي". (العدني ورسته في الإيمان) .
١٣٨٦۔۔ از مسند عمر (رض) سعید بن المسیب (رح) سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) حضور کے پاس حاضر ہوئے ، اور کہا کہ اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ حضور نے فرمایا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی ذات سے اس کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ! حضرت عمر (رض) نے فرمایا، اللہ کی قسم ۔ آپ مجھے میری جان اور میرے اہل سے زیادہ محبوب ہیں۔ المدنی رستہ فی الایمان۔

1387

1387 - (ومن مسند علي كرم الله وجهه) عن العلاء بن عبد الرحمن قال قام رجل إلى علي بن أبي طالب فقال يا أمير المؤمنين ما الإيمان قال:"الإيمان على أربع دعائم على الصبر والعدل واليقين والجهاد". (هب) .
١٣٨٧۔۔ از مسند علی (رض) علاء بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی (رض) کی طرف اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان چار ستونوں پر قائم ہے ، صبر ، عدل ، یقین اور جہاد۔ شعب الایمان۔

1388

1388 - عن قبيضة بن جابر الأسدي قال "قام رجل إلى علي فقال "يا أمير المؤمنين ما الإيمان، قال: الإيمان على أربع دعائم على الصبر واليقين والجهاد والعدل، فالصبر على أربع شعب على الشوق والشفقة والزهادة والرقب فمن اشتاق إلى الجنة سلا عن الشهوات ومن أشفق عن النار رجع عن المحرمات ومن أبصر بالدنيا تهاون بالمصائبات ومن ارتقب الموت سارع إلى الخيرات، واليقين على أربع شعب على تبصرة الفطنة وتأول الحكمة وموعظة العبرة وسنة الأولين، فمن تبصر في الفطنة تأول الحكمة ومن تأول الحكمة عرف العبرة ومن عرف العبرة فكأنما كان في الأولين، والعدل على أربع شعب على غائص الفهم وزهرة العلم وشريعة الحكم وروضة الحلم فمن فهم فسر جميع العلم ومن علم عرف شرائع الحكم ومن أحكم لم يفرط أمره وعاش في الناس وهو في راحة، والجهاد على أربع شعب أمر بمعروف ونهي عن المنكر والصدق في المواطن وشنآن الفاسقين فمن أمر بالمعروف شد ظهر المؤمن ومن نهى عن المنكر أرغم أنف المنافق ومن صدق في المواطن قضى ما عليه ومن شنأ الفاسقين وغضب لله، غضب الله له فقام السائل عند هذا فقبل رأس علي". (ابن أبي الدنيا في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر واللالكائي، كر) .
١٣٨٨۔۔ قبیض بن جابر الاسدی سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی (رض) کی طرف کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین ایمان کیا ہے ؟ فرمایا ایمان چار ستونوں پر قائم ہے اور صبر یقین جہاد اور عدل، پھر صبر کے چار شعبے ہیں شوق ، خوف، زہد اور انتظار ، جو جنت کا مشتاق ہو وہ شہوتوں سے کنارہ کش ہوگیا۔ اور جس کو جہنم کا خوف دامن گیر ہواوہ محرمات کے ارتکاب سے باز آگیا۔ اور جس نے دنیا کی حقیقت کو دیکھ لیا اور اس پر دنیا کے مصائب آسان ہوگئے۔ اور یہی زہد ہے اور جو موت کا منتظر ہوا اور امور خیر کی طرف سرعت سے رواں ہوا۔
اور یقین کے بھی چار شعبے ہیں ذہانت میں غور کرنا دانائی حکمت کو سمجھنا اور عبرت انگیزی اختیار کرنا اور اگلے لوگوں کی سنت اپنانا سو جس نے ذہانت میں غور و تدبر سے کام لیا، حکمت و دانائی کو جان گیا۔ اور جس نے حکمت و دانائی کو پالیا اس نے عبرت حاصل کرلی اور جس نے عبرت حاصل کرلی وہ درحقیقت اولین میں شمار ہے۔ اور عدل کے بھی چار شعبے ہیں تعمق فہم، رونق ، علم شرعیت حکم روضہ حلم۔ سو جس نے تعمق فہم سے کام لیا اس نے جمیع علوم کی تفسیر کرلی۔ اور جس نے علم کو جان لیا اس نے احکام شرائع کی معرفت حاصل کی۔ اور جو احکام شریعت پر مستحکم ہوا اس نے دین میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور وہ لوگوں میں بھی راحت وفراخی کے ساتھ جی سکے گا۔ اور جہاد کے بھی چار شعبے ہیں امربالمعروف نہی عن المنکر ہر کام میں سچائی اورفاسقین کے فسق سے بغض۔ سو جس نے معروف ونی کی کا حکم دیا اور اس نے مومن کی پشت پناہی کی اور جس نے منکر وشنیع بات سے منع کیا اس نے منافق کی ناک مٹی میں ملادی۔ اور جس نے ہر کام میں سچائی اختیار کی اپنے پر پڑنے والی ذمہ داریوں سے عہدہ برآمد ہوا اور جس نے فاسقین سے ان کے فسق کی وجہ سے بغض رکھا اور اللہ ہی کے لیے غضب آلود ہوا اللہ اس کے لیے غضب ناک ہوا۔ اس کے بعد سائل کھڑا ہو اور حضرت علی کے سراقدس کو بوسہ دیا۔ ابن ابی الدنیا فی الامر بالمعروف ونہی عن المنکر ، الالکائی ، کرر۔

1389

1389 - عن خلاس بن عمرو قال كنا جلوسا عند علي بن أبي طالب إذا أتاه رجل من خزاعة فقال: "يا أمير المؤمنين هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينعت الإسلام قال نعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "بني الإسلام على أربعة أركان: على الصبر واليقين والجهاد والعدل، والصبر أربع شعب الشوق والشفقة والزهادة والترقب فمن اشتاق إلى الجنة سلا عن الشهوات ومن أشفق عن النار رجع عن المحرمات ومن زهد في الدنيا تهاون بالمصيبات ومن ارتقب الموت سارع في الخيرات، ولليقين أربع شعب تبصرة الفطنة وتأول الحكمة ومعرفة العبرة واتباع السنة فمن أبصر الفطنة تأول الحكمة ومن تأول الحكمة عرف العبرة ومن عرف العبرة اتبع السنة فمن اتبع السنة فكأنما كان في الأولين، وللجهاد أربع شعب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والصدق في المواطن وشنآن الفاسقين فمن أمر بالمعروف شد ظهر المؤمن ومن نهى عن المنكر أرغم أنف المنافقين ومن صدق في المواطن قضى الذي عليه العلم ومن وعى زهرة العلم عرف شرائع الحكم ومن ورد روضة الحلم لم يفرط في أمره وعاش في الناس وهو في راحة". (حل) وقال كذا رواه خلاس بن عمرو مرفوعا ورواه الحارث عن علي مرفوعا مختصرا ورواه قبيصة بن جابر عن علي من قوله ورواه العلاء بن عبد الرحمن عن علي من قوله.
١٣٨٩۔۔ خلاس بن عمرو سے مروی ہے کہ فرمایا کہ ہم حضرت علی بن ابی طالب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس خزاعہ قبیلہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے امیرالمومنین کیا آپ نے رسول اکرم سے اسلام کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ فرمایا ہاں میں نے رسول اکرم سے سنااسلام کی بناء چار چیزوں پر ہے صبر، یقین ، جہاد اور عدل پھر صبر کے چار شعبے ہیں شوق خوف ، زہد اور انتظار۔ جو جنت کا مشتاق ہواوہ شہوتوں سے کنارہ کش ہوگیا اور جس کو جہنم کا خوف دامن گیر ہواوہ محرمات کے ارتکاب سے باز آگیا۔ اور جس نے دنیا کی حقیقت کو دیکھ لیا اس پر دنیا کے مصائب آسان ہوگئے اور یہی زہد ہے اور جو موت کا منتظر ہوا امور خیر کی طرف سرعت رواں ہوا۔
اور یقین کے بھی چار شعبے ہیں ذہانت میں غور و فکر کرنا دانائی و حکمت کو سمجھنا اور عبرت انگیزی اختیار کرنا، اگلے لوگوں کی سنت اپنانا، سو جس نے ذہانت میں غورو سے کام لیا، حکمت و دانائی کو جان گیا اور جس نے حکمت و دانائی کو پالیا اس نے عبرت حاصل کرلی۔ اور جس نے عبرت حاصل کرلی سنت کا متبع ہوگیا۔ اور جس نے سنت کی اتباع کرلی وہ درحقیقت اولین میں شمار ہے اور جہاد کے بھی چار شعبے ہیں امربالمعروف نہی عن المنکر ، ہر کام میں سچائی اورفاسقین کے فسق سے بغض۔ سو جس نے معروف نیکی کا حکم دیا۔ اور اس نے مومنین کی پشت پناہی کی اور جس نے منکر وشنیع بات سے منع کیا اس نے منافق کی ناک میں مٹی ڈال دی۔ اور جس نے ہر کام میں سچائی اختیار کی اپنے پر پڑنے والی ذمہ داریوں سے عہدہ بڑا ہوا ، اور اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی۔ اور جس نے فاسقین سے ان کے فسق کی وجہ سے بغض رکھا اور اللہ ہی کے لیے غضب آلود ہوا اللہ اس کے لیے غضب ناک ہوا۔ عدل کے بھی چار شعبے ہیں گہری سوچ، علم کی فروانی ، احکام سے متعلق شریعت اور حلم وبردباری کی شادابی۔ سو جس نے گہرے غور تدبر سے کام لیا اور اس نے مجمل ولاینحل کی وضاحت حاصل کرلی۔ اور جس نے ذخیرہ علم کا محفوظ کرلیا اس نے احکام سے متعلق شرعیت کو جان لیا۔ اور جو حلم وبردباری کے شاداب باغ میں اتر اور وہ دین میں کامل رہا اور وہ لوگوں میں بھی ہنسی خوشی بسر کرے گا۔ الحلیہ۔
فرمایا کہ خلاس بن عمرو نے اس کو مرفوعا روایت کیا ہے اور حارث نے اس کو حضرت علی سے مرفوعا روایت کیا ہے اور قبیصہ بن جابر نے حضرت علی سے اپنے قول سے روایت کیا ہے اور علاء بن عبدالرحمن نے بھی حضرت علی سے اپنے قول کے ساتھ روایت کیا ہے۔

1390

1390 - (مسند إياس بن سهل الجهني) عن إياس بن سهل الجهني قال قال معاذ: "يا نبي الله أي الإيمان أفضل قال: تحب لله وتبغض لله وتعمل لسانك في ذكر الله". (ابن مندة وأبو نعيم) وقال ذكره بعض المتأخرين في الصحابة وهو فيما أراه من التابعين.
١٣٩٠۔۔ از مسند ایاس بن سہل الجہنی (رح) ایاس بن سہل الجہنی سے روایت ہے کہ حضرت معاذ نے کہا اے اللہ کے نبی کون سا ایمان افضل ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے لیے محبت کرواللہ کے لیے نفرت رکھو۔۔ اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں تروتازہ رکھو۔ ابن مندہ، ابونعیم ایاس بن سہل (رح) کو بعض متاخرین نے صحابہ کرام میں شمار کیا ہے لیکن بندہ سیوطی (رح) کا خیال ہے کہ یہ تابعین میں سے ہیں۔

1391

1391 - ومن (مسند البراء بن عازب) عن البراء "أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سئل أي عرى الإيمان أوثق فقال الحب لله والبغض لله". (هب) .
١٣٩١۔۔ ازمسند براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم سے سوال کیا گیا کہ ایمان کا کون ساکڑا مضبوط ترین ہے ؟ فرمایا اللہ ہی کے لیے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیے نفرت۔ شعب الایمان۔

1392

1392 - (ومن مسند جابر) عن محمد بن المنكمدر عن جابر "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الإيمان قال الصبر والسماحة". (ع هب) .
١٣٩٢۔۔ ازمسند جابر (رض) محمد بن منکدر حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : صبر وسخاوت ۔ المسند لابی یعلی، شعب الایمان۔

1393

1393 - عن الحسن عن جابر قال قيل "يا رسول الله أي الأعمال أفضل قال الصبر والسماحة". (ع هب) .
١٣٩٣۔۔ حضرت حسن ، حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم سے سوال کیا گیا کہ کون ساعمل افضل ہے ؟ فرمایا صبر وسخاوت ۔ المسند لابی یعلی ، شعب الایمان۔

1394

1394 - عن الحسن أيضا قال "الإيمان، الصبر، والسماحة، الصبر عن محارم الله وأداء فرائض الله". (هب) .
١٣٩٤۔۔ حضرت حسن ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ایمان صبر وسخاوت کا نام ہے اور صبر اللہ کے محرمات سے اجتناب کرنا اور فرائض الٰہی کی ادائیگی کرنا۔ شعب الایمان۔

1395

1395 - (ومن مسند ابن عباس) عن ابن عباس أنه صلى الله عليه وآله وسلم قال لأبي ذر "يا أبا ذر أي عرى الإيمان أوثق قال الله ورسوله أعلم قال الموالاة في الله والحب لله والبغض في الله". (هب) .
١٣٩٥۔۔ ازمسند ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابوذر (رض) سے فرمایا بتاؤ! ایمان کا مضبوط ترین کڑا کون سا ہے ؟ انھوں نے عرضک یا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں تو آپ نے فرمایا اللہ ہی کے لیے دوستی کا رشتہ استورا کرنا، اور اللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے نفرت کرنا۔ شعب الایمان۔

1396

1396 - عن مجاهد عن ابن عباس أنه قال "عاد في الله ووال في الله فإنه لا ينال ولاية الله إلا بذاك ولا يجد رجل طعم الإيمان وإن كثرت صلاته وصيامه حتى يكون كذلك". (هب) .
١٣٩٦۔۔ مجاہد (رح) سے منقول ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا اللہ ہی کے لیے دشمنی مول لو اور اللہ ہی کے لیے دوستی رکھو، کیونکہ ولایت الٰہی اس کے سوا حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی شخص ایمان کا مزہ نہیں چکھ سکتا خواہ نماز روزوں کی کتنی ہی کثرت کرلے۔۔ جب تک کہ وہ اس بات کونہ پالے یعنی اللہ ہی کے لیے دشمنی و دوستی۔ شعب الایمان۔

1397

1397 - (ومن مسند عمار) عن عمار قال "ثلاث من كن فيه استكمل الإيمان أو ثلاث من كمال الإيمان الإنفاق من الإقتار والإنصاف من نفسك وبذل السلام للعالم". (ابن جرير) .
١٣٩٧۔۔ از مسند عمار (رض) فرمایا جس میں تین خصائل پیدا ہوگئے اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا فرمایا تین باتیں ایمان کی تکمیل ہیں، تھوڑے میں سے تھوڑا خرچ کرنا، اپنی جان سے انصاف کرنا، عالم کو سلام کرنا۔ ابن جریر۔
خرچ کرنے کا مصرف عام ہے خواہ اہل و عیال پر کیا جائے یا کسی مفلس وتنگدست پر۔ علامہ نووی فرماتے ہیں یہاں اگر عالم کو سلام کی تاکید ہے تو دوسرے مقام پر آیا ہے کہ سلام کروہر مسلمان شخص کو خواہ اس سے تعارف ہو یا نہیں۔ اور سلام کو خوب رواج دو ۔ اور یہی چیز باہمی فسادات کا قلع قمع کرنے والی بھی ہے۔
اور اپنے نفس سے انصاف کرو اس ارشاد نبوی کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات سے جو حقوق متعلق ہیں ان کی ادائیگی میں کوتاہی مت کرو خواہ خالق خداوندی کے حقوق ہوں یابندگان خالق کے سب کو بکمالہ ادا کرو۔ اور اپنے نفوس پر زائد از طاقت بوجھ ڈالنے سے بھی گریز کرو۔ نیز اپنے لیے ایسے دعوی نہ کرو جس کے تم حامل نہیں۔

1398

1398 - (عن عمار) قال "ثلاث من كن فيه فقد استكمل الإيمان الإنفاق من الإقتار أن ينفق وهو يحسن بالله الظن والإنصاف من نفسك أن لا تذهب بالرجل إلى السلطان حتى تنصفه وبذل السلام للعالم" (ابن جرير) .
١٣٩٨۔۔ ازمسند عمار (رض) فرمایا جس میں تین خصائل پیدا ہوگئے اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا، تنگدستی میں بھی خرچ کرنا یعنی اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے خرچ کرنا اور اپنی جان سے انصاف کرنا۔۔ مثلا کسی کو سلطان وقت کے پاس اس وقت تک نہ لے جائے جب تک کہ خود اسکوقصو وار نہ گرداں لے، اور عالم کو سلام کرنا۔ ابن جریر۔

1399

1399 - عن عمار قال "ثلاث من الإيمان من جمعهن جمع الإيمان، الإنفاق من الإقتار تنفق وأنت تعلم أن الله سيخلفك وإنصاف الناس منك لا تلجئهم إلى قاض وبذل السلام للعالم" (كر) .
١٣٩٩۔۔ حضرت عمار سے مروی ہے کہ فرمایا تین ایمان سے تعلق رکھتی ہیں جس نے ان کو جمع کرلیا اس نے یقیناً ایمان کو جمع کرلیا تھوڑے میں سے تھوڑا خرچ کرنا، اس بات پر اعتماد رکھتے ہوئے کہ اللہ اس کا عمدہ بدل ضرور دے گا، اور اپنی جان سے انصاف کرنا، (مثلا لوگوں کو قاضی کے پاس بغیر جرم کے نہ کھینچنا) اور عالم کو سلام کرنا۔ کرر۔

1400

1400 - (ومن مسند عمير بن قتادة الليثي) عن عبد الله بن عبيد الليثي عن ابيه عن جده قال "بينما أنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل فقال: يا رسول الله ما الإيمان قال الصبر والسماحة قال يا رسول الله فأي الإسلام أفضل قال من سلم المسلمون من لسانه ويده قال يا رسول الله فأي الهجرة أفضل قال من هجر السوء قال: يا رسول الله فأي الجهاد أفضل؟ قال: من أهريق دمه وعقر جواده قال يا رسول الله فأي الصدقة أفضل قال جهد المقل قال يا رسول الله فأي الصلاة أفضل قال طول القنوت". (طب هب) .
١٤٠٠۔۔ ازمسند عمیر بن قتادہ اللیثی، عبداللہ بن عبید اللیثی سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے رویت کرتے ہیں کہ دریں اثناء کہ میں رسول اللہ کے پاس حاضر تھا کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور استفسار کیا کہ یارسول اللہ ایمان کیا ہے ؟ فرمایا صبر وسخاوت۔ استفسار کیا یارسول اللہ کون سا اسلام افضل ہے ؟ فرمایا وہ جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہے ۔ استفسار کیا یارسولا للہ کون سی ہجرت افضل ہے ؟ فرمایا جو برائیوں سے ہجرت یعنی کنارہ کشی کرلے۔ استفسار کیا یارسول اللہ کون ساجہاد افضل ہے ؟ فرمایا جس میں خون بہہ پڑے اور گھوڑا زخمی ہوجائے ۔ استفسار کیا یارسول اللہ کون صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا کم میں سے بھی خرچ کرنا۔ استفسار کیا یارسول اللہ کون سی نماز افضل ہے ؟ فرمایا جس میں قیام طویل ہو۔ الکبیر للطبرانی ، شعب الایمان۔

1401

1401 - عن أبي الدرداء قال "ذروة الإيمان أربع: الصبر للحكم والرضاء بالقضاء والإخلاص للتوكل والاستسلام للرب". (كر) .
١٤٠١۔۔ ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا ایمان کی بلندی چار چیزوں میں ہے : حکم الٰہی پر صابر رہنا قضا پر راضی رہنا، توکل میں اخلاص رکھنا اور رب کے آگے جھکا رہنا۔ ابن عساکر۔

1402

1402 - عن أبي رزين قال قلت "يا رسول الله ما الإيمان قال أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا ويكون الله ورسوله أحب مما سواهما وتكون أن تحرق بالنار أحب إليك من أن تشرك بالله شيئا وتحب غير ذي نسب لا تحبه إلا لله فإذا فعلت ذلك فقد دخل حب الإيمان في قلبك كما دخل قلب الظمآن حب الماء في اليوم القائظ". (كر) .
١٤٠٢۔۔ حضرت ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم سے دریافت کیا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ آپنے فرمایا :
تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانو، اور تمہارے نزدیک اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا ہر ایک سے زیادہ محبوب ہوں اور تمہیں آگ میں جل جانا اس سے کہیں زیادہ محبوب ہو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ اور کسی سے بھی خواہ وہ غیرصاحب نسب ہو اللہ ہی کے لیے محبت کرو۔ پس جب تم اس حال کو پہنچ جاؤ گے تویقینا ایمان تمہارے دل میں یوں داخل ہوجائے جس طرح کہ تپتے دن میں پیاسے کو پانی کی محبت دل میں گھر کرجاتی ہے۔ ابن عساکر۔

1403

1403 - عن أبي هريرة قال "سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الإيمان أفضل قال إيمان بالله قيل ثم ماذا قال الجهاد في سبيل الله قيل ثم ماذا قال حج مبرور". (ن ) .
١٤٠٣۔۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم سے پوچھا گیا کہ کون سا ایمان افضل ہے ؟ فرمایا اللہ پر ایمان لانا پوچھا گیا پھر کیا افضل ہے ؟ فرمایا جہاد فی سبیل اللہ پوچھا گیا پھر کیا ؟ فرمایا گناہوں سے پاک حج۔ النسائی ١۔

1404

1404 - (من مسند الصديق) عن عثمان "أن رجالا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم حزنوا عليه حتى كاد بعضهم يوسوس وكنت منهم فقلت لأبي بكر توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم قبل أن أسأله عن نجاة هذا الأمر قال أبو بكر: قد سألته عن ذلك فقال: "من قبل مني الكلمة التي عرضتها على عمي فردها علي فهي له نجاة". (ابن سعد ش حم ع في الأفراد عق هب ص) .
١٤٠٤۔۔ ازمسند صدیق (رض) عثمان (رض) سے مروی ہے کہ اصحاب رسول حضور کی وفات پر سخت غمزدہ اور افسوسناک تھے حتی کہ لوگ طرح طرح کے وساوس کا شکار ہورہے تھے میں بھی انہی میں سے تھا، میں نے ابوبکر (رض) سے کہا اللہ نے اپنے نبی کو اٹھالیا اور میں اس دین کی نجات کے متعلق سوال نہ کرسکا، ابوبکر نے فرمایا میں اس بارے میں سوال کرچکا ہوں آپ نے فرمایا تھا کہ مجھ سے جس نے وہ کلمہ قبول کرلیاجو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا لیکن انھوں نے انکار فرمادیا تھا پس وہی اس دین کی نجات ہے۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، المسند لابی یعلی، الضعفاء للعقیلی (رح) ، شعب الایمان، السنن لسعید۔

1405

1405 - عن عثمان قال "تمنيت أن أكون سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم ماذا ينجينا مما يلقي الشيطان في أنفسنا قال أبو بكر قد سألت عن ذلك قال: "ينجيكم عن ذلك أن تقولوا ما أمرت به عمي عند الموت أن يقوله فلم يفعله". (حم ع ص) .
١٤٠٥۔۔ عثمان (رض) سے مروی ہے کہ میرے دل میں یہ تمنااٹھی کہ کاش میں نے آپ سے سوال کرلیا ہوتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وسوسے ڈالتا ہے اس کے لیے کیا چیز نجات دہندہ ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا میں اس بارے میں آپ سے پوچھ چکاہوں آپ نے فرمایا تھا کہ اس کی نجات یہ ہے کہ تم وہی کلمہ کہو۔۔۔ جس کا میں نے اپنے چچا کو ان کی موت کے وقت حکم دیا تھا، کہ اس کو کہہ لیں مگر انھوں نے نہیں کیا۔ مسنداحمد، المسند لابی یعلی، السنن لسعید۔

1406

1406 - عن أبي بكر قال قلت "يا رسول الله ما نجاة هذا الأمر الذي نحن فيه فقال من شهد أن لا إله إلا الله فهو له نجاة". (ع وابن منيع عق قط في الأفراد) .
1402 ۔۔ حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ اس بات کی نجات کس چیز میں ہے جس میں ہم ہیں ، فرمایا جس نے لاالہ الا اللہ کی شہادت دیدی یہی اس کے لیے نجات ثابت ہوگا۔ المسند لابی یعلی ، ابن منیع، الضعفاء للعقلی (رح) ، الدارقطنی فی الافراد۔

1407

1407 - عن أبي بكر قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أخرج فناد في الناس: من شهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وجبت له الجنة فخرجت فلقيني عمر فسألني فاخبرته فقال عمر ارجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقل له دع الناس يعملون فإني أخاف أن يتكلوا عليها فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته ما قال عمر فقال صدق عمر فأمسكت". (ع واللالكائي في الذكر) وفيه سويد بن عبد العزيز متروك قال الحافظ بن كثير الحديث غريب جدا من حديث أبي بكر والمحفوظ عن أبي هريرة.
1407 ۔۔ حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ مجھے آپ نے حکم فرمایا کہ نکل کرجاؤ اور لوگوں میں منادی کردو کہ جس نے شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، میں نکلا تو مجھے عمر (رض) سے ملے اور مجھ سے سوال کیا تو میں نے خبردیدی لیکن عمر (رض) نے کہا آپ کے پاس واپس جائیں اور آپ سے کہیں کہ لوگوں کو عمل کرنے دیجئے کیونکہ مجھے خوف کہ لوگ بھروسہ کر بیٹھے رہیں گے میں حضور کے پاس واپس آیا اور آپ کو حضرت عمر کی بات کہی ، آپ نے فرمایا عمر نے سچ کہا پس میں رک جاتاہوں۔ المسند لابی یعلی ، الالکائی فی الذکر۔
اس میں ایک راوی سوید بن عبدالعزیز متروک ہے نیز حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) کی طرف منسوب احادیث میں سے یہ حدیث بہت غریب ہے لیکن حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث محفوظ ہے۔

1408

1408 - عن أبي بكر قال قلت يا رسول الله فيم نجاة هذا الأمر قال "في الكلمة التي أردت عليها عمي فأبى، شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وفي لفظ وأني رسول الله". (طس وأبو مسهر في نسخته) .
١٤٠٨۔۔ حضرت ابوبکر سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ اس بات کی نجات کس چیز میں ہے ؟ فرمایا اسی کلمہ میں جس کو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا، مگر انھوں نے انکار فرمادیا تھا وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ، کی شہادت ہے۔ دوسری جگہ محمد کی بجائے، انی، کا لفظ ہے معنی میں کوئی تفاوت نہیں۔ الاوسط للطبرانی ، ابومسھر فی نسختہ۔

1409

1409 - عن أبي وائل قال: حدثت أن أبا بكر لقي طلحة بن عبيد الله فقال: "ما لي أراك واجما قال كلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إنها موجبة" فلم أسأل عنها فقال أبو بكر أنا أعلمها هي لا إله
١٤٠٩۔۔ ابو وائل سے مروی ہے کہ مجھے بیان کیا گیا کہ حضرت ابوبکر کی طلحہ بن عبیداللہ سے ملاقات ہوئی توطلحہ نے آپ سے پوچھا کہ میں نے ایک کلمہ کے متعلق نبی اکرم سے سنا تھا، کہ وہ جنت کو واجب کرنے والا ہے، مگر مجھے اس کلمہ کے متعلق سوال کرنے کی نوبت نہیں آئی ، حضرت ابوبکر نے فرمایا میں وہ کلمہ جانتا ہوں وہ لاالہ الا اللہ ہے۔ ابن رواھویہ، المسند ابی یعلی، ابن منیع، الدار قطنی فی الافراد، المعرفہ لابی نعیم۔ اس کے روات ثقہ لوگ ہیں۔

1410

1410 - عن أبي بكر قال قلت يا رسول الله ما نجاة هذا الأمر قال: "من قبل الكلمة التي عرضتها على عمي فردها فهي له نجاة" (ع) (والمحاملي في أماليه) .
١٤١٠۔۔ ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم سے سوال کیا اس امر کی نجات کس چیز میں ہے ؟ فرمایا جس نے مجھ سے وہ کلمہ قبول کرلیا جو میں نے اپنے چچاپر پیش کیا تھا مگر انھوں نے انکار کردیا تھا، تو وہ کلمہ اس کے لیے نجات ثابت ہوجائے گا۔ المسند لابی یعلی، المحاملی فی الامالیہ۔

1411

1411 - عن محمد بن جبير أن عمر مر على عثمان فسلم عليه فلم يرد عليه فدخل على أبي بكر فاشتكى ذلك إليه فقال أبو بكر: "ما منعك أن ترد على أخيك؟ قال والله ما سمعت وأنا أحدث نفسي قال أبو بكر فبماذا تحدث نفسك قال خلاف الشيطان فجعل يلقي في نفسي أشياء ما أحب أني تكلمت بها وإن لي ما على الأرض قلت في نفسي حين ألقى الشيطان ذلك في نفسي يا ليتني سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ينجينا من هذا الحديث الذي يلقي الشيطان في أنفسنا فقال أبو بكر والله لقد اشتكيت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسألته ما الذي ينجينا من هذا الحديث الذي يلقي الشيطان في أنفسنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ينجيكم من ذلك أن تقولوا مثل الذي أمرت به عمي عند الموت فلم يفعل". (ع) قال: البوصيري في زوائد العشرة سنده حسن.
١٤١١۔۔ محمد بن جبیر سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کا حضرت عثمان پر گزرا ہوا اور ان کو سلام کیا مگر انھوں نے جواب نہ دیا، حضرت عمر (رض) حضرت ابوبکر کے پاس جاکر اس کی شکایت کی حضرت ابوبکر نے حضرت عثمان سے پوچھا کیا بات ہے تم نے اپنے بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا ؟ حضرت عثمان نے عرض کیا، اللہ کی قسم میں نے ان کا سلام سناہی نہیں ، میں تو اپنے آپ میں مگن تھا، حضرت ابوبکر نے پوچھاتم کن خیالات میں محو تھے ؟ عرض کیا شیطان کے خلاف کچھ خیالات تھے وہ میرے نفس میں ایسے ایسے خیالات القا کررہا تھا کہ جن کو میں روئے زمین کے خزانوں کے عوض بھی اپنی زبان پر بھی لا ناپسند نہیں کرتا، جب شیطان میرے دل میں ایسے وساوس پیدا کرتا ہے تو میرے دل میں تمنا اٹھتی ہے کہ کاش میں اس سے نجات کے متعلق حضور سے سوال کرچکا ہوتا۔۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ سے اس کی شکایت کی تھی اور اس سے نجات کے متعلق بھی سوال کیا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے نجات کے لیے تم وہی کلمہ کہوجو میں نے اپنے چچا پر ان کی موت کے وقت پیش کیا تھا مگر انھوں نے انکار فرمادیا تھا۔ المسند لابی یعلی۔ علامہ بویصری زوائد العشرہ میں اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔

1412

1412 - عن أبي بكر الصديق قال سألت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن كفارة أحداثنا قال "شهادة أن لا إله إلا الله". (أبو بكر الشافعي في الغيلانيات) .
١٤١٢۔۔ ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم سے ہمارے قلوب میں جنم لینے والے وساوس کے بارے میں سوال کیا تھا آپ نے فرمایا، لاالہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ ابوبکر الشافعی فی الغیلالیات۔

1413

1413 - عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن عبد الله بن عمرو عن عثمان بن عفان عن أبي بكر الصديق قال قال النبي صلى الله عليه وسلم: "النجاة من هذا الأمر ما الممت عليه عمي أبا طالب عند الموت شهادة أن لا إله إلا الله". (خط) .
١٤١٣۔۔ امام زہری ، سعید بن المسیب، سے سعید عبداللہ بن عمرو (رض) سے ، عبداللہ عثمان (رض) سے وہ حضرت ابوبکر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، اس امر کی نجات اسی کلمہ میں ہے جو میں نے اپنے چچا ابوطالب پر ان کی موت کے وقت پیش کیا تھا وہ ہے ، لاالہ الا اللہ کی شہادت۔ خطط۔

1414

1414 - (ومن مسند عمر بن الخطاب) عن جابر بن عبد الله قال سمعت عمر بن الخطاب يقول لطلحة بن عبيد الله "ما لي أراك قد شعثت وأغبرت مذ توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلك ساءتك أمارة ابن عمك قال: معاذ الله! ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إني لأعلم كلمة لا يقولها رجل عند حضرة الموت إلا وجد روحه لها روحا حين تخرج من جسده وكانت له نورا يوم القيامة فلم أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها ولا أخبرني بها فذلك الذي دخلني قال عمر فأنا أعلمها قال فلله الحمد، فما هي؟ قال هي الكلمة التي قالها لعمه لا إله إلا الله قال صدقت". (ش حم ن ع قط في الأفراد وأبو نعيم في المعرفة) (رواه حم ع هـ ك وأبو نعيم ص عن طلحة عن ابن عمر) .
١٤١٤۔۔ ازمسند عمر (رض) بن الخطاب جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن خطاب سے سنا وہ طلحہ بن عبیداللہ کو فرما رہے تھے کہ کیا بات ہے کہ جب سے حضور کی وفات ہوئی۔۔۔ میں تمہیں پراگندہ و غبار آلود اور پریشان دیکھ رہاہوں ؟ شاید تمیہں اپنے چچازاد بھائی کی امارت سے گرانی گزری ہے طلحہ نے کہا، معاذ اللہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں ایک ایساکلمہ جانتا ہوں کہ جو شخص موت کے وقت اس کو کہہ لے وہ روح نکلتے وقت ایک نئی روح اور تازگی محسوس کرے گا اور وہ کلمہ قیامت کے روز اس کے لیے نورثابت ہوگا لیکن پھر میں رسول اللہ سے اس کلمہ کے بارے میں پوچھ نہ سکا اور نہ آپ نے مجھے اس کی خبر دی پس یہی بات میرے لیے پریشان کن ہے حضرت عمر نے فرمایا وہ کلمہ میں جانتا ہوں ۔ حضرت طلحہ نے کہا اللہ ہی کے لیے اس پر تمام تعریفیں ہیں وہ کون ساکلمہ ہے ؟ فرمایا وہ وہی کلمہ لاالہ الللہ ہے جو آپ نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا، طلحہ نے عرض کیا آپ نے سچکہا۔ ابن ابی شیہ، مسنداحمد، النسائی، المسند لابی یعلی، الدارقطنی ، المعرفہ لابی نعیم رواہ مسنداحمد، المسند لابی یعلی، ابن ماجہ، المستدرک للحاکم، ابونعیم ، السنن لسعید، عن طلحۃ بن عمر (رض)۔ کیا آپ کو چچازاد کی امارت سے گرانی گزری ہے ؟ اس سے خلافت ابی بکر (رض) مراد ہے۔

1415

1415 - عن حمران أن عثمان قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:"إني لأعلم كلمة لا يقولها عبد حقا من قلبه يموت على ذلك إلا حرمه الله على النار فقال عمر بن الخطاب: "أنا أحدثكم ما هي، هي كلمة الإخلاص التي ألزمها الله محمدا وأصحابه وهي كلمة التقوى التي ألاص عليها نبي الله عمه أبا طالب عند الموت شهادة أن لا إله إلا الله". (حم ع والشافعي وابن خزيمة حب ق ك في البعث ص) .
١٤١٥۔۔ حمران سے مروی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا میں نے رسول اکرم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کہ کوئی بندہ تہہ دل سے اس کو نہیں کہتا ، کہ وہ پھر اسی پر مرجائے مگر اللہ اس کو جہنم کی آگ پر حرام فرمادیں گے۔ عمر (رض) بن الخطاب نے فرمایا میں تمہیں بتاتاہوں کہ وہ کون ساکلمہ ہے ؟ وہ وہی کلمہ اخلاص ہے جو اللہ نے محمد، اور اس کے اصحاب کے لیے لازم کیا، اور وہی کلمہ تقوی ہے ، جس پر اللہ کے نبی نے اپنے چچا ابوطالب کو اصرار کیا ، وہ لاالہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ مسنداحمد، المسند لابی یعلی، ابن خزیمہ، صحح لابن حبان، بخاری و مسلم، المستدرک للحاکم فی البعث، السنن لسعید۔

1416

1416 - عن يحيى بن طلحة بن عبيد الله قال:"رأى عمر طلحة بن عبيد الله حزينا فقال ما لك؟ فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم (2) إني لأعلم كلمة وفي لفظ كلمات لا يقولهن عبد عند الموت إلا نفس عنه وفي لفظ إلا نفس الله عنه كربة وأشرق لها لونه ورأى ما يسره فما منعني أن أسأل عنها إلا القدرة عليها حتى مات فقال عمر إني لأعلم ما هي؟ قال: هل تعلم كلمة هي أفضل من كلمة دعا إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم عمه عند الموت قال طلحة هي والله هي قال عمر لا إله إلا الله" (حم ع والجوهري في أماليه) .
١٤١٦۔۔ یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے طلحہ بن عبیداللہ کو غم گین دیکھا انھوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے فرمایا میں نے رسول اکرم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں اور دوسرے روایت کے مطابق میں ایسے کلمات جانتاہوں جن کو کوئی بندہ موت کے وقت نہیں کہتا، مگر اس کو کشادگی مل جاتی ہے ، اور دوسری روایت کے مطابق اللہ اس کو مصیبت سے نجات و کشادگی میسر فرما دیتے یہں ، اور اس کی وجہ سے اس کا چہرہ منور روشن ہوجاتا ہے ، اور وہ خوش کن چیزیں دیکھتا ہے لیکن میں اس کے بارے میں قسمت سے سوال نہ کرسکا۔۔ حتی کہ آپ کی وفات ہوگئی ، حضرت عمر نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ وہ کون ساکلمہ ہے پھر حضرت عمر نے پوچھا کیا کوئی کلمہ اس کلمہ سے بہتر جانتے ہو جس کی طرف رسول اکرم نے اپنے چچا کو ان کی موت کے وقت بلایا، تھا حضرت طلحہ چونک کر بولے ہاں وہی اللہ کی قسم ہاں وہی۔۔ حضرت عمر نے فرمایا وہ لاالہ الا اللہ ہے۔ مسنداحمد، المسند لابی یعلی، الجوھری فی امالیہ۔

1417

1417 - عن عمر قال: "أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أؤذن في الناس أن من شهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له مخلصا دخل الجنة فقلت: يا رسول الله إذا يتكلوا قال فدعهم". (ع وابن جرير حب) ورواه البزار بلفظ قال دعهم يتكلوا عن سعدي زوج طلحة قالت "مر عمر بطلحة بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ما لك كئيبا أساءتك إمرة ابن عمك؟ قال لا ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إني لأعلم كلمة لا يقولها أحد عند موته إلا كانت نورا لصحيفته، وإن جسده وروحه ليجدان بها روحا عند الموت" فلم أسأله حتى توفي قال أنا أعلمها هي التي أراد عمه عليها ولو علم أن شيئا أنجى له منها لأمره". (ن هـ والبغوي طب وابن خزيمة ع حب والمرزوي في الجنائز وابن مندة في غرائب شعبة ص) .
١٤١٧۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم نے حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں منادی اعلان کردوں کہ جس نے اخلاص کے ساتھ اس بات کی شہادت دیدی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں وہ جنت میں داخل ہوجائے گا میں نے عرض کیا یارسول اللہ تب تو لوگ اعتماد کرکے بیٹھ جائیں گے و آپ نے فرمایا پھر چھوڑ دو ۔ المسند لابی یعلی، ابن جریر ، الصحیح لابن حبان۔
زوجہ طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور کی وفات کے بعد حضرت عمر کا طلحہ پر گزر ہوا تو حضرت عمر (رض) سے دریافت کیا کیا بات ہے کہ میں تم کو پریشان وپراگندہ ہیبت دیکھ رہاہوں کیا تم کو اپنے چچازاد کی امارت ناگوار گزری ہے ؟ حضرت طلحہ نے عرض کیا ہرگز نہیں لیکن میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں ایک ایساکلمہ جانتاہوں کہ اگر کوئی اس کو اپنی موت کے وقت کہہ لے توہ وہ کلمہ اس کے صحیفہ اعمال کے لیے نورثابت ہوگا اور اس کے جسم روح موت کے لمحہ میں اس کی وجہ سے ایک نئی روح اور فرحت محسوس کریں گے لیکن میں آپ سے اس کلمہ کو پوچھ نہ سکا۔ حتی کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ حضرت عمر نے فرمایا میں جانتا ہوں وہ وہی کلمہ ہے جو آپ نے اپنے چچاپران کی موت کے وقت پیش کیا تھا۔ اور آپ کو اگر اس سے زیادہ نجات والا کوئی اور کلمہ معلوم ہوتا تو ضرور اس کا حکم فرماتے۔ النسائی، ابن ماجہ، البغوی، الکبیر للطبرانی، ابن خزیمہ، المسند لابی یعلی، الصحیح لابن حبان، المروزی فی الجنائز، ابن منذہ فی غرائب شعبہ، السنن لسعید۔

1418

1418 - (ومن مسند أنس بن مالك) عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة قال يا نبي الله أفلا أبشر الناس قال إني أخاف أن يتكلوا". (ابن النجار) .
١٤١٨۔۔ ازمسند انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کہہ لیا جنت میں داخل ہوجائے گا حضرت انس نے عرض کیا یارسول اللہ کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سنادوں ؟ فرمایا نہیں مجھے خوف ہے کہ لوگ بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے۔ ابن النجار۔

1419

1419 - (ومن مسند عبد الله بن سلام) عن عبد الله بن سلام قال "سمع النبي صلى الله عليه وسلم نداء وهو (2) يشهد أن لا إله إلا الله فقال وأنا أشهد أن لا يشهد بها أحد إلا برئ من النار" (أبوالشيخ في الأذان) .
١٤١٩۔۔ ازمسند عبداللہ بن سلام عبداللہ بن سلام (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم کو لاالہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہوئے سنا اور اس کے ساتھ آپ فرما رہے تھے کہ میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ جو بندہ اس کی شہادت دے گا وہ جہنم سے بری قرار پائے گا۔ ابوالشیخ فی الاذان۔

1420

1420 - عن يوسف بن عبد الله بن سلام عن أبيه قال: " بينا نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ سمع القوم وهم يقولون أي الأعمال أفضل يا رسول الله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إيمان بالله وجهاد في سبيل الله وحج مبرور ثم سمع نداء في الوادي أشهد أن لا إلا إلا الله وأشهد ان محمدا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أشهد ولا يشهد بها أحد إلا برئ من الشرك". (كر) .
١٤٢٠۔۔ یوسف بن عبداللہ بن سلام سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے روایت کی وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ محوسفر تھے کہ آپ نے ایک قوم کی بات سنی وہ آپ سے دریافت کررہی تھی کہ یارسول اللہ کون ساعمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ پر ایمان لانا، راہ خدا میں جہاد کرنا، اور گناہوں کی آلائش سے پاک حج کرنا۔ پھر آپ نے وادی میں کسی کوسنا وہ ، اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ کہہ رہا تھا آپ نے فرمایا میں بھی شہادت دیتاہوں کہ کوئی اس کلمہ کی شہادت نہ دے گا مگر وہ شرک سے بری ہوجائے گا۔ ابن عساکر۔

1421

1421 - (ومن مسند عبد الله بن عمر) "أن الله سيخلص رجلا من أمتي على رؤوس الخلائق يوم القيامة فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا كل سجل مثل مد البصر فيقول أتنكر من هذا شيئا أظلمك كتبتي الحافظون؟ فيقول لا يا رب فيقول أفلك عذر فيقول لا يا رب فيقول بلى عندنا لك حسنة، وإنه لا ظلم عليك اليوم فتخرج بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فيقول أحضر وزنك فيقول يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات فيقال فإنك لا تظلم فتوضع البطاقة في كفة والسجلات في كفة فطاشت السجلات وثقلت البطاقة ولا يثقل مع اسم الله تعالى شيء". (حمت حسن غريب ك هب عن ابن عمرو) .
١٤٢١۔۔ ازمسند عبداللہ بن عمررضی الہ عنہما۔۔ اللہ عزوجل قیامت کے روز میری امت کے ایک فرد کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے پھر اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے پیش ہوں گے ۔ ہر دفتر انتہا نظر تک پھیلاہوگا پھر اللہ اس سے فرمائیں گے کیا تو ان میں سے سکی چیز کا انکار کرتا ہے ؟ شاید اعمال نامہ لکھنے والے محافظ فرشتوں نے کچھ ظلم کردیاہو ؟ وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار۔۔ پھر اللہ اس سے فرمائیں گے کیا تیرے پاس ان کا کوئی عذر ہے ؟ وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار۔۔ پھر اللہ اس سے فرمائیں گے لیکن ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے اور آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔۔۔ پھر ایک کاغذ کا پرزہ نکالا جائے گا جس میں اشھد ان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ، درج ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جا اس کو وزن کرالے۔ بندہ عرض کرے گا پروردگار اتنے عظیم دفتروں کے مقابلے میں یہ اتناساپرزہ کیا کرے گا، کہا جائے گا آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔۔ اور پھر تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں اور اس کاغذ کے پرزے کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔۔ اور کاغذ کا وہ پرزہ اس قدر وزنی ہوجائے گا کہ وہ تمام دفتر اڑتے پھریں گے ۔ بیشک اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی شی وزنی نہیں ہے۔ مسنداحمد، صحیح ترمذی، حسن غریب۔ المستدرک للحاکم، شعب الایمان، بروایت ابن عمرو (رض) ۔

1422

1422 - عن أبي الصلت الهروي حدثنا علي بن موسى الرضي حدثني أبي موسى حدثني أبي جعفر حدثني أبي محمد حدثني أبي علي حدثني أبي الحسن حدثني أبي علي بن أبي طالب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "سمعت جبريل يقول قال الله عز وجل أنا الله الذي لا إله إلا أنا يا عبادي فمن جاء منكم بشهادة أن لا إله إلا الله بالإخلاص دخل حصني ومن دخل حصني أمن من عذابي". (كر) .
١٤٢٢۔۔ علی (رض) ابی طالب فرماتے ہیں میں نے حضور کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے کہ میں نے جبرائیل سے سنا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ۔ اے میرے بندو ! جو میرے پاس اس حال میں آیا کہ اخلاص کے ساتھ لاالہ الا اللہ کی شہادت دے رہاہو ووہ میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگیا۔ ابن عساکر۔

1423

1423 - عن عتبان بن مالك قال: " أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت إني قد أنكرت بصري وإن السيول تحول بيني وبين مسجد قومي ولوددت أنك جئت فصليت في مسجد بيتي مكانا أتخذه مسجدا فقال النبي صلى الله عليه وسلم افعل إن شاء الله فمر النبي صلى الله عليه وسلم على أبي بكر فاستتبعه فانطلق معه فاستأذن فدخل فقال وهو قائم أين تريد أن أصلي؟ فأشرت إليه حيث أريد، ثم حبسناه على خزيرة صنعناه له فسمع به أهل الوادي يعني أهل الدار فثابوا إليه حتى امتلأ البيت فقال أين مالك بن الدخشن أوالدخيشن فقال إن ذلك رجل منافق لا يحب الله ورسوله فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا تقل وهو يقول لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله فقالوا يا رسول الله أما نحن فنرى وجهه وحديثه في المنافقين فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا يقال (2) وهويقول لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله قالوا: بلى يا رسول الله قال: فلن يوافي بها عبد يوم القيامة يقول لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله إلا حرم على النار". (عب) .
١٤٢٣۔۔ عتبان بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ میں رسول اکرم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نابیناانسان ہوں ، میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان کیچڑ وغیرہ کا پانی پڑتا ہے تو میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور میرے گھر کی مسجد میں ایک مرتبہ نماز ادا فرمادیں تاکہ میں اس مقام کو نماز کے لیے منتخب کرلوں، حضور نے فرمایا ان شاء اللہ کرلوں گا۔ پھر آپ حضرت ابوبکر کے پاس سے گزرے تو حضرت ابوبکر کو آپ نے اپنے ساتھ چلنے کا فرمایا۔ حضرت ابوبکر آپ کے ساتھ چل دیے آپ نے عتبان بن مالک کے گھر پہنچ کر اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی پھر اجازت ملنے پر اندر داخل ہوگئے پھر آپ نے بیٹھنے سے قبل دریافت کیا کہ تم کہاں مجھ سے نماز پڑھوانا چاہتے ہو ؟ حضرت عتبان کہتے ہیں کہ میں نے اپنی مطلوبہ جگہ کی طرف اشارہ کردیا پھر نماز سے فراغت کے بعد ہم نے آپ کو خزیرہ گوشت اور آٹے سے تیار شدہ کھانے پر روک لیا، جو ہم نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، پھر اہل محلہ کو بھی آپ کی آمد کی اطلاع ہوگئی اور آپ سے ملاقات کی خواہش میں لوگوں کا جم غفیر ہوگیا۔۔ حتی کہ گھرلوگوں سے بھرگیا۔ آپ نے دریافت کیا مالک بن الدخشن یا الدخشین کہاں ہے ؟ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا وہ منافق آدمی ہے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ حضور نے فرمایا ایسامت کہو کیونکہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا کا متلاشی ہے لوگوں نے کہا ہم تو یارسول اللہ اس کے چہرے اور اس کی باتوں کو منافقین کی طرف مائل دیکھتے ہیں آپ نے فرمایا ایسا کہنا مناسب نہیں کیونکہ وہ لاالہ الا اللہ کا قئل ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا کا طالب ہے لوگوں نے کہا یارسول اللہ بیشک پھر آپ نے فرمایا قیامت کے روز کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے لاالہ الا اللہ کہتا ہوا نہ آئے گا مگر اس کو آگ پر حرام کردیا جائے گا۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1424

1424 - عن أيوب قال: "إن نبي الله صلى الله عليه وسلم أخبرني أنه لا يدخل النار أحد يقول لا إله إلا الله". (كر) .
١٤٢٤۔۔ حضرت ایوب (رض) سے مروی ہے کہ مجھے رسول اکرم نے خبر دی کہ لاالہ الا اللہ کا قائل کوئی شخص جہنم میں نہ داخل ہوگا ۔ رواہ ابن عساکر۔

1425

1425 – "يا أبا ذر بشر الناس أنه من قال لا إله إلا الله دخل الجنه" (ط عنه) .
١٤٢٥۔۔ اے ابوذر ! لوگوں میں خوشخبری پہنچادو کہ جس نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ابوداؤد الطیالسی ، بروایت ابی ذر (رض) ۔

1426

1426 - عن علي أن النبي صلى الله عليه وسلم قال "كنا وأنتم بنو عبد مناف فنحن وأنتم اليوم بنو عبد الله ". (الشيرازي في الألقاب) .
١٤٢٦۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : ہم اور تم پہلے بنی عبدمناف کہلاتے تھے آج سے ہم فقط بنی عبداللہ ہیں۔ الشیرازی فی الاالقاب۔

1427

1427 - من مسند حصين بن عوف الخثعمي " وافينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة فسألنا من نحن؟ فقلنا بنو عبد مناف فقال أنتم بنو عبد الله". (طب عن جهم البلوي) .
١٤٢٧۔۔ ازمسند حصین بن عوف الخثعمی ، حصین بن عوف سے روایت ہے کہ ہم رسول اکرم کے پاس جمعہ کے روز پہنچے تو آپ نے ہم سے سوال کیا کہ ہم کون ہیں ؟ ہم نے عرض کیا بنی عبدمناف۔ آپ نے فرمایا نہیں تم بنی عبداللہ ہو، یعنی اللہ کے بندے ہو اور اب اباء و اجداد پر فخر کرنا ترک کردو۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت جھم البلوی۔

1428

1428 - (من مسند الصديق رضي الله عنه) عن طارق بن شهاب عن رافع بن الطائي قال "قال لي أبو بكر إن الله بما بعث نبيه صلى الله عليه وسلم دخل الناس في الإسلام فمنهم من دخل فيه فهداه الله ومنهم من أكره بالسيف فأجارهم الله من الظلم وكلهم أعوان الله وجيران الله في خفارة (2) الله وفي ذمة الله ومن يظلم أحدا منهم فإنه يخفرن به". (ابن راهويه وابن أبي عاصم والبغوي وابن خزيمة) .
١٤٢٨۔۔ از صدیق (رض)۔ طارق بن الشہاب رافع بن الطائی سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا اللہ نے اپنے نبی کو ہدایت دے کر مبعوث فرمایا لوگ اسلام میں داخل ہوئے بعض توای سے ہیں کہ وہ اسلام میں داخل ہوئے تو اللہ نے ان کو ہدایت سے نوازا اور بعض ایسے ہیں کہ ان کو اسلام میں تلوار کے ذریعہ مجبور کیا گیا پھر اللہ نے اسی کی بدولت ان کو ظلم وستم کا نشانہ بننے سے امان بخشی ، اور یہ سب اللہ کے اعوان و انصار ہیں اور اللہ کے عہد اور ذمہ میں اللہ کے ہمسائے ہیں۔ اور جو ان پر ظلم کرے گا وہ درحقیقت اللہ کے ذمہ کو توڑنے والا ہوگا۔ ابن راھویہ، ابن ابی عاصم، البغوی ، ابن خزیمہ۔

1429

1429 - عن سعيد بن عامر عن جويرية بن أسماء قال: "أغلط أبو بكر يوما لأبي سفيان فقال له يا أبا بكر لأبي سفيان تقول هذه المقالة قال يا أبت إن الله رفع بالإسلام بيوتا ووضع فكان بيتي فيما رفع وبيت أبي سفيان فيما وضع الله". (كر) .
١٤٢٩۔۔ سعید بن عامر جویریہ بن اسماء سے روایت کرتے ہیں کہ یوم ابوبکر (رض) کی ابوسفیان سے سخت کلامی ہوگئی۔ ابوقحافہ والد ابی بکر نے فرمایا تم کیا کہتے ہو ابوسفیان کو ؟ حضرت ابوبکر (رض) سے عرض کیا ! اے اباجان اللہ نے اسلام کے ذریعہ بعض گھرانوں کو ہدایت سے سرفراز فرمایا ، اور بعض کو پست ورسوا کیا۔ سومیراگھر ان گھرانوں میں شامل ہے جن کو رفعت عطا کی گئی۔ اور ابوسفیا کا گھران گھرانوں میں ہے جن کو اللہ نے پست ورسوا کیا۔ ابن عساکر۔

1430

1430 - عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية "أن رجلا من خولان أسلم فأراده قومه على الكفر فألقوه في النار فلم يحترق إلا أمكنة لم يكن فيما مضى يصيبها الوضوء فقدم على أبي بكر فقال له استغفر لي قال أنت أحق قال أبو بكر إنك ألقيت في النار فلم تحترق فاستغفر له ثم خرج إلى الشام فكانوا يشبهونه بإبراهيم". (كر) .
١٤٣٠۔۔ ابوبشر جعفر بن ابی وحشیہ سے مروی ہے کہ قبیلہ خولان کا ایک شخص اسلام سے مشرف ہوگیا تو اس کی قوم نے اس کو کفر میں داخل کرنا چاہا اور اس پر ظلم ڈھایا، حتی کہ اس کو آگ میں ڈال دیا۔ لیکن ان کے جسم کے فقط وہ حصے جل سکے جن کو پہلے وضو کا پانی مس نہ ہوتا تھا۔ وہ شخص ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا ہے میرے لیے بخشش کی دعا مانگو، اس شخص نے عرض کیا آپ زیادہ حق دار ہیں تو آپ نے فرمایا تم آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ تم کونہ جلاس کی ۔ پھر آپ نے ان کے لیے استغفار کیا۔ پھر وہ شخص وہاں سے چلے آئے اور ملک شام میں سکونت اختیار کرلی ۔ لوگ ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تشبیہ دینے لگے۔ ابن عساکر۔

1431

1431 - عن شرحبيل بن مسلم الخولاني أن الأسود بن قيس بن ذي الخمار "تنبأ باليمن فبعث إلى أبي مسلم الخولاني فأتاه فقال: أتشهد أني رسول الله قال: ما أسمع قال: أتشهد محمدا رسول الله قال: نعم فأمر بنار عظيمة ثم ألقى أبا مسلم فيها فلم تضره فقيل للأسود بن قيس إن لم تنف هذا عنك أفسد عليك من اتبعك فأمره بالرحيل فقدم المدينة وقد قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف أبو بكر فأناخ راحلته بباب المسجد ودخل يصلي إلى سارية فبصر به عمر بن الخطاب فقام إليه فقال: ممن الرجل فقال من أهل اليمن فقال: ما فعل الذي حرقه الكذاب؟ قال: ذاك عبد الله بن ثوب قال فنشدتك بالله أنت هو؟ قال اللهم نعم فاعتنقه عمر وبكى ثم ذهب به وأجلسه فيما بينه وبين أبي بكر الصديق فقال: الحمد لله الذي لم يمتني حتى أراني في أمة محمدا صلى الله عليه وسلم من صنع به كما صنع بإبراهيم خليل الرحمن فلم تضره النار". (كر) .
١٤٣١۔۔ شرحبیل بن مسلم الخولانی سے مروی ہے کہ اسود بن قیس بن ذمی الخمار نے یمن میں نبوت کا دعوت کیا۔ پھر اس نے ابی مسلم الخولانی کو پیغام بھیجا۔ وہ اس کے پاس پہنچے تواسود نے ان سے پوچھا کیا تم میرے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہو ؟ ابومسلم الخولانی نے فرمایا نے سنا نہیں کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ اسود نے کہا کیا تم محمد کے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہو ؟ ابومسلم نے فرمایا بالکل اس پر اسود نے آگ بھڑکانے کا حکم دیا اور پھر ابومسلم کو اس میں ڈال دیا گیا۔ لیکن آگ ان پر کچھ بھی اثر انداز نہ ہوسکی۔ اسود بن قیس کو کسی نے مشورہ دیا کہ اگر تم اس شخص کو اپنے ہاں سے نہ نکالوگے تو یہ تمہارے پیروکاروں کو بھی تم سے گمراہ کردے گا۔ تواسود نے ان کے نکلنے کا حکم دے دیا، یہ مدینہ تشریف لائے اس وقت آپ کی وفات ہوچکی تھی اور حضرت ابوبکر کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی ابومسلم نے اپنی سواری کو مسجد کے دروازے پر بٹھایا، اور اتر کر مسجد کے ستون کے عقب میں نماز ادا کرنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت عمر بن خطاب کی نظر ان پر پڑگئی حضرت عمر اٹھ کر ان کی طرف آئے اور دریافت کیا کہ کس علاقے کے باشندے ہو ؟ ابومسلم نے کہا اہل یمن سے تعلق ہے حضرت عمر نے دریافت کیا اس شخص کا کیا ہوا جس کو کذا ب اسود نے نذر آتش کردیا تھا عرض کیا وہ عبداللہ بن ثوب ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتاہوں کیا تم وہی شخص ہو ؟ عرض کیا اللہ کا فضل ہے ہاں میں وہی شخص ہوں حضرت عمر (رض) ان سے لپٹ پڑے اور رو دیے پھر ان کو لے کر حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے اور اپنے اور حضرت ابوبکر کے درمیان ان کو بٹھالیا۔ فرمایا تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے مجھے موت سے قبل امت محمدیہ میں وہ شخص دکھایا جس کے ساتھ ابراہیم خلیل اللہ کا ساسلوک ہوا لیکن آگ اس کو گزند نہ پہنچا سکی۔ ابن عساکر۔

1432

1432 - ومن مسند عمر رضي الله عنه عن مجاهد قال: قال عمر: "أنا فئة كل مسلم". (الشافعي عب ش ق) .
١٤٣٢۔۔ ازمسند عمر (رض)، حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا میں ہر مسلمان کا پشت پناہ ہوں۔ الشافعی ، المصنف لعبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ ، بخاری و مسلم۔

1433

1433 - عن عقبة بن عامر عن عمر بن الخطاب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من مات وهو موقن بالله فإن للجنة ثمانية أبواب فيدخل من أيها شاء". (ابن مردويه) .
١٤٣٣۔۔ عقبہ بن عامر حضرت عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا جو اللہ پر یقین تام رکھتے ہوئے وفات کرجائے تو وہ جنت کے آٹھویں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ ابن مردویہ۔

1434

1434 - (ومن مسند علي رضي الله عنه) عن علي قال: "أفصح الناس وأعلمهم بالله عز وجل أشد الناس حبا وتعظيما لحرمة أهل لا إله إلا الله". (حل) .
١٤٣٤۔۔ از مسند علی (رض)، حضرت علی سے منقول ہے کہ لوگوں میں فصیح ترین اور اعلم بااللہ وہ شخص ہوگا جو اہل لاالہ الا اللہ کی تعظیم و حرمت میں تمام لوگوں سے سخت اور زیادہ محبت کرنے والاہوگا۔ الحلیہ۔

1435

1435 - (ومن مسند أنس بن مالك) خرج النبي صلى الله عليه وسلم ومعاذ بالباب فقال: "يا معاذ قال لبيك يا رسول الله قال: من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. قال: معاذ ألا أخبر الناس قال لا دعهم فليتنافسوا في الأعمال فإني أخاف أن يتكلوا". (حل) .
١٤٣٥۔۔ ازمسند انس بن مالک (رض) ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلنے لگے تو دروازے میں حضرت معاذ (رض) کو پایا فرمایا اے معاذ۔ عرض کیا لبیک یارسول اللہ ، فرمایا جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو جنت میں داخل ہوجائے گا حضرت معاذ نے عرض کیا کیا لوگوں کو خوش خبرنہ سنادوں فرمایا چھوڑ دو ، تاکہ اعمال میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی سعی و کوشش جاری رکھیں کیونکہ مجھے ان کے اعتمار کرکے بیٹھے رہنے کا خوف ہے۔ الحلیہ۔

1436

1436 - عن معاذ بن جبل كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم فقال " بشر الناس أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة فقال: إني أخشى أن يتكلوا عليها قال فلا". (حل ع) .
١٤٣٦۔۔ حضرت معاذ سے مروی ہے کہ وہ حضور کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا لوگوں کو خوش خبری سنادو کہ جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو جنت میں داخل ہوجائے گا معاذ نے عرض کیا مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں لوگ بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں تو فرمایا پھر چھوڑ دو ۔ الحلیہ، المسند لابی یعلی۔

1437

1437 - عن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "ما جزاء من أنعم الله عليه بالتوحيد إلا الجنة". (ابن النجار) .
١٤٣٧۔۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا اس شخص کی جزاء و انعام جس پر اللہ نے توحید کا انعام فرمایا جنت ہی ہے۔ ابن النجار۔

1438

1438 - (ومن مسند بشر بن سحيم الغفاري) عن بشر بن سحيم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "انطلق فناد في الناس أنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة وفي لفظ إلا مؤمن وإن أيام التشريق أيام أكل وشرب فلا تصوموهن". (ط وابن جرير وأبو نعيم كر) .
١٤٣٨۔۔ ازمسند بشر بن سحیم الغفاری۔ بشر بن سحیم سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جاؤ لوگوں میں نداء کردو کہ جنت میں مسلم جان کے سوا کوئی داخل نہ ہوسکے گایا فرمایا مومن کے سوا کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔ اور ایام تشریق کھانے پینے کے ایام ہیں ان میں روزہ نہ رکھو۔ ابوداؤد ، ابن جریر ، ابونعیم ، ابن عساکر۔ ایام تشریق پانچ ایام ہیں عیدین اور عیدالاضحی کے بعد کے تین یوم۔

1439

1439 - عن بشر بن سحيم قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم أيام الحج فقال: "إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة وفي لفظ إلا مؤمن، فإن هذه أيام أكل وشرب يعني أيام التشريق". (ابن جرير) .
١٤٣٩۔۔ بشر بن سخیم سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے ایام حج میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ جنت میں مسلم جان کے سوا کوئی داخل نہ ہوسکے گایا فرمایا مومن کے سوا کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔ اور یہ کھانے پینے کے ایام ہیں ، یعنی ایام تشریف ۔ ابن جریر۔

1440

1440 - (ومن مسند جابر بن عبد الله) عن جابر بن عبد الله قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "يا رسول الله ما الموجبتان؟ قال: من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة، ومن مات يشرك بالله شيئا دخل النار".(الديلمي) .
١٤٤٠۔۔ از مسند جابر بن عبداللہ۔ جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یارسول اللہ دو واجب کرنے والی چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا جابر بن عبداللہ جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا اور جو اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے گا۔ الدیلمی۔

1441

1441 - (ومن مسند الجارود بن المعلى) عن الجارود العبدي قال:أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: "إن لي دينا فإن تركت ديني ودخلت في دينك فلي أن لا يعذبني الله في الآخرة قال نعم". (أبو نعيم) .
١٤٤١۔۔ ازمسند الجارود بن المعلی، الجارود العبدی سے مروی ہے کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک دین پر کاربند ہوں اب اگر میں اپنا دین ترک کرکے آپ کا دین اپنالوں و کیا مجھے یہ پروانہ مل سکتا ہے کہ الہ مجھے آخرت میں عذاب نہ فرمائیں۔ فرمایا جی ہاں ۔ ابونعیم۔

1442

1442 - (ومن مسند عبد الله بن عمرو) عن عبد الله بن عمرو قال: "قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا خطيبا فقال: من سره أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة فليدركه موته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليأت إلى الناس ما يحب أن يؤتى إليه". (ابن جرير) .
١٤٤٢۔۔ ازمسند عبداللہ بن عمرو (رض) ۔ عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اکرم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا جس کی خواہش ہو کہ اس کو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کردیا جائے ، تو اس کی موت اس حال میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو۔ اور لوگوں کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ ابن جریر۔

1443

1443 - (ومن مسند عقبة بن عامر الجهني) عن عقبة بن عامر الجهني قال "كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره وكان على كل رجل منا رعية الإبل يوما فكان اليوم الذي أرعي فيه فانصرفت فبصرت بالنبي صلى الله عليه وسلم في حلقة يحدثهم فسعيت إليه فأدركته يقول: من توضأ فأحسن وضوءه، ثم ركع ركعتين يريد بهما وجه الله غفر الله له ما كان قبلهما من الذنوب" فكبرت فإذا رجل يضرب على كتفي فالتفت فإذا هو أبو بكر الصديق فقال له التي قبلها يا ابن عامر أفضل منها قلت وما هي؟ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال لا إله إلا الله يصدق لسانه قلبه دخل من أي أبواب الجنة الثمانية شاء". (ابن النجار) .
١٤٤٣۔۔ ازمسند عقبہ بن عامر الجہنی، عقبہ بن عامر الجہنی سے مروی ہے کہ ہم کسی سفر میں رسول اللہ کے ہمراہ تھے اور ہر دن ہم میں سے کسی کی اونٹوں کی چرانے کی باری ہوتی تھی تو جس دن میری باری آئی میں لوٹا تو دیکھا کہ رسول اکرم ایک حلقہ میں اصحاب کرام سے فرما رہے تھے کہ جس نے اچھی طرح وضوء کیا پھر دورکعات نماز اللہ کی رضا کے لیے ادا کیں تو اللہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرمادیں گے یہ سن کر میں نے خوشی کے مارے اللہ کہا پیچھے سے کسی نے میرے شانوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر موجود ہیں آپ نے فرمایا اے ابن عامر، اس سیپہلے بات اس سے زیادہ افضل ہے میں نے عرض کیا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا رسول اللہ نے فرمایا جو لاالہ الا اللہ کہتاہو اور اس کی زبان اس کے دل کی تصدیق کرتی ہو تو وہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ ابن النجار۔

1444

1444 - عن عقبة بن عامر قال "جئت في اثني عشر راكبا حتى حللنا برسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أصحابي من يرعى لنا إبلنا وننطلق فنقتبس من نبي الله صلى الله عليه وسلم فإذا أراح ورحنا اقتبسناه مما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ففعلت ذلك أياما ثم فكرت في نفسي فقلت لعلي مغبون يسمع أصحابي ما لم أسمع ويتعلمون ما لم أتعلم من نبي الله صلى الله عليه وسلم فحضرت يوما فسمعت رجلا يقول قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: "من توضأ كاملا كان (2) من خطيئته كيوم ولدته أمه". فعجبت لذلك فقال عمر بن الخطاب: فكيف لو سمعت الكلام الأول كنت أشد عجبا! فقلت أردد علي جعلني الله فداك! قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من مات لا يشرك بالله شيئا فتح الله له أبواب الجنة يدخل من أيها شاء، ولها ثمانية أبواب". فخرج علينا رسول الله فجلست مستقبله (3) فصرف وجهه عني، حتى فعل ذلك مرارا فلما كانت الرابعة قلت يا نبي الله بأبي أنت وأمي لم تصرف وجهك عني؟ فأقبل علي فقال: أوأحِدٌ أحب إليك أم اثنا عشر؟ [يعني: هل أحب إليك أن أكون ملتفتا إليك وحدك، أم أن أكون ملتفتا إلى الأحد عشر رجل الآخرين؟ دار الحديث]ـ فلما رأيت ذلك رجعت إلى أصحابي. (كر) .
١٤٤٤۔۔ عقبہ بن عامر سے منقول ہے کہ میں بارہ سواروں کے ساتھ چلا۔۔ حتی کہ ہم دربار رسول میں پہنچ گئے پھر میرے رفقاء نے کہا ہمارے پیچھے سے کون ہمارے اونٹوں کو چرائے گاتا کہ ہم آپ کے ملفوظات سے کچھ اقتباس کر آئیں، پس جب وہ جائے گا توتب ہم سننے جائیں گے میں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا، اور چند یوم کرتا رہا، پھر میرے دل میں خیال ہوا کہ شاید میں دھوکا میں پڑگیا ہوں کہ جو میرے ساتھی سنتے ہوں گے وہ مجھے کہاں نصیب ہوگا ، اور وہ جو کچھ رسول اللہ سے سیکھتے ہوں گے میں اس سے محروم رہ جاتاہوں تو پھر میں بھی ایک دن حاضر ہوا ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کہہ رہا ہے نبی نے فرمایا جس نے وضو کامل طریقہ سے ادا کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی مان نے اس کو جنم دیا تھا، میں نے اس پر تعجب کا اظہار یا تو مجھے عمر نے فرمایا گرتم اس سے قبل والاکلام سن لیتے تو اس سے زیادہ تعجب کرتے میں نے عرض کیا مجھے سنائیے اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ حضرت عمر نے فرمایا رسول اللہ نے فرمایا جس کی اس حالت میں وفات آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو اللہ اس کے لیے جنت کے تمام دروازے کھول دیتے ہیں جس سے وہ چاہے داخل ہوجائے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ابوہریرہ رسول اللہ کے پاس سے نکلے تو میں آپ کی سامنے رخ پر بیٹھ گیا لیکن آپ نے مجھ سے اپنا رخ زیبا موڑ لیا، میں پھر سامنے آگیا آپ نے پھرچہرہ اقدس موڑ لیا کئی مرتبہ ایسا ہوا آخرچوتھی مرتبہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ مجھ سے بےرخی کیوں فرما رہے ہیں ؟ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تجھے ایک محبوب یابارہ ؟ پھر میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں لوٹ گیا۔ رواہ ابن عساکر۔

1445

1445 - عن عمرو بن مرة الجهني قال جاء رجل من قضاعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " يا رسول الله أرأيت إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الصلاة الخمس وأديت الزكاة وصمت رمضان وقمته فممن أنا؟ قال أنت من الصديقين والشهداء وفي لفظ من مات على هذا كان من الصديقين والشهداء. (ابن مندة كر وابن الجارود.
١٤٤٥۔۔ عمروبن مرۃ الجہنی ، فرماتے ہیں قبیلہ قضاعہ کا ایک شخص حضور انور کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ اگر میں شہادت دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور پنجگانہ نماز اداکروں، ادائیگی زکوۃ کروں ماہ صیام کے روزے رکھو اور اس کی راتوں میں قیام کروں تو میں کون ہوں گا، فرمایا تم صدیقین اور شہداء میں شامل ہوجاؤ گے یا فرمایا جو اس حال میں وفات پاجائے وہ صدیقین اور شہداء میں شامل ہوگا۔ ابن مندہ ، ابن عساکر، ابن الجارود۔

1446

1446 - (ومن مسند كعب بن مالك) عن كعب بن مالك " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه والأوس بن الحثان في أيام التشريق فناديا أن لا يدخل الجنة إلا مؤمن وأيام مني وفي لفظ وأيام التشريق أيام أكل وشرب". (ابن جرير وأبو نعيم) .
1446 ۔۔۔ از مسند کعب (رض) ، حضرت کعب (رض) بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے انھیں اور اوس بن الحدثان کو ایام تشریق میں یہ پیغام دے کر اعلان کرنے کو بھیجا کہ جنت میں مومن کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا، اور ایام منی ، اور بمطابق دوسری روایت کے ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریر ، ابونعیم۔

1447

1447 - (ومن مسند معاذ بن جبل) عن معاذ بن جبل قال " كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم على حمار يقال له عفير فقال يا معاذ هل تدري ما حق الله على العباد قال الله ورسوله أعلم قال: حق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا وحقهم على الله أن لا يعذب من لا يشرك به شيئا فقلت يا رسول الله أفلا أبشر الناس قال لا تبشروهم فيتكلوا". (كر) .
1447 ۔۔ ازمسند معاذ (رض) بن جبل، سے مروی ہے کہ میں ایک گدھے پر جس کا نام عفیر تھا، رسول اللہ کے پیچھے سوار تھا، حضور نے حضرت معاذ سے فرمایا اے معاذ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ بندوں پر کیا حق ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں فرمایا اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی پرستش کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ شریک نہ کرتا ہوں اس کو اپنے عذاب سے مامون رکھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا میں لوگوں کو خوش خبری نہ سنادوں ؟ فرمایا ان کو خوش خبری مت سناؤ ممکن ہے فرمایا ان کو خوش خبری مت سناؤ ممکن ہے کہ وہ اسی پر اعتماد بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے۔ ابن عساکر۔

1448

1448 - (ومن مسند أبي ثعلبة الخشني) عن أبي ثعلبة الخشني قال "قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة له فدخل المسجد فصلى فيه ركعتين وكان يعجبه إذا قدم من سفر أن يدخل المسجد فيصلي فيه ركعتين ويثني بفاطمة ثم يأتي أزواجه فقدم من سفره مرة فأتى فاطمة فبدأ بها قبل بيوت أزواجه فاستقبلته على باب البيت فاطمة فجعلت تقبل وجهه وفي لفظ فاه وعينيه وتبكي فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يبكيك قالت أراك يا رسول الله قد شحب لونك واخلولقت ثيابك فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم يا فاطمة لا تبكي فإن الله بعث أباك على أمر لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر ولا وبر ولا شعر إلا أدخله الله به عزا أو ذلا حتى يبلغ حيث يبلغ الليل". (طب حل ك) .
١٤٤٨۔۔ از مسند ابی ثعلبہ الخشنی ، ابی ثعلبہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہو کردوگانہ ادا کی۔ اور آپ کو یہ بات محبوب تھی کہ جب بھی سفر سے واپس تشریف لاتے تومسجد جاکر دو رکعت نماز ادا فرماتے ہیں، پھر حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ازواج مطہرات کے ہاں جاتے تو اسی طرح ایک مرتبہ سفر سے واپسی کے بعد حضرت فاطمہ کے ہاں ازواج مطہرات سے قبل تشریف لے گئے۔ پہنچے تو دروازے پر ہی حضرت فاطمہ سے سامنا ہوگیا۔ حضرت فاطمہ آپ کے چہرہ انور کو بوسہ دینے لگیں اور دوسرے الفاظ میں آپ کے دہان منہ مبارک اور آنکھوں کو بوسہ دینے لگیں، اور ساتھ میں رونے لگیں اور آپ کے کپڑے بھی بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے فاطمہ مت رو، بلاشک اللہ نے تیرے والد کو ایسے امر پر مبعوث فرمایا ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایساگھر باقی نہ رہے گا، کچانہ پکا، مگر اللہ اس میں اسلام کو ضرور داخل فرمائیں گے معزز کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ حتی کہ یہ اسلام وہاں تک جاپہنچے گا جہاں تک کہ رات اپنے تاریکی کے پردے ڈالتی ہے۔ الکبیر للطبرانی، الحلیہ، المستدرک للحاکم۔

1449

1449 - (ومن مسند أبي الدرداء) عن كثير بن عبد الله عن أبي ادريس عن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من أقام الصلاة وآتى الزكاة ومات لا يشرك بالله شيئا كان حقا على الله أن يغفر له هاجر أو مات في بلده وفي لفظ في مولده قال فقلنا يا رسول الله ألا نخبر بها الناس فيستبشروا قال إن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ولولا أن أشق على المؤمنين ولا أجد ما أحملهم عليه ولا تطيب أنفسهم أن يتخلفوا بعدي ما قعدت خلف سرية ولوددت أني أن أقتل ثم أحيى ثم أقتل". (ن طب كر) .
١٤٤٩۔۔ ازمسند ابوالدرداء ، کثیر بن عبداللہ ابوادریس سے اور وہ حضرت ابوالدرداء سے روایت کرتے ہیں کہ کہ رسول اکرم نے فرمایا جس نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، اور پھر اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا تھا تو اللہ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے شہر میں۔ بمطابق دوسرے الفاظ کے اسی سرزمین میں وفات کرگیا، جہاں اس کی ماں نے اس کو جنم دیاتھاہم نے عرض کیا یارسول اللہ کیا ہم لوگوں کو خوش خبری نہ پہنچادیں ؟ فرمایا جنت میں سو مراتب ہیں ہر دومرتبوں کے مابین زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے اللہ نے ان مراتب کو راہ خدا کے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے مجھے مومنین پر مشقت کا خوف ہے اور میں اس قدر سواریاں بھی نہیں پاتا کہ سب کو مہیاکردوں اور ان کو میرے جہاد میں جانے کے بعد پیچھے رہ جانے پر گرانی بھی گزرے گی، اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو میں کسی غزوہ سے کبھی پیچھے نہ رہتا۔ اور میری تمنا ہے کہ میں راہ خدا میں قتل ہوجاؤں پھر زندگی ملے اور پھر قتل ہوجاؤں۔ النسائی، الکبیر للطبرانی، ابن عساکر۔

1450

1450 - عن أبي الدرداء أنه قال عند موته "إنه لم يكن يمنعني أن أحدثكم إلا أن تسترسلوا إني أبشركم أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة". (كر) .
١٤٥٠۔۔ حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے کہ مجھے ایک حدیث بیان کرنے سے یہ خوف مانع ہے کہ کہیں تم سعی وعمل میں نرم وسست نہ ہوجاؤ وہ حدیث یہ ہے کہ میں تم کو خوش خبری سناتاہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتاہو تو وہ جنت میں ضرور داخل ہوجائے گا۔ ابن عساکر۔

1451

1451 - (مسند بديل بن ورقاء) قال ابن أبي عاصم ثنا عبد الرحمن ابن محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن بشر بن عبد الله عن أبيه عبد الله بن سلمة ابن بديل بن ورقاء حدثني أبي عن أبيه عبد الرحمن عن أبيه محمد بن بشر بن عبد الله عن أبيه عبد الله بن سلمة عن أبيه سلمة قال "دفع إلى أبي بديل بن ورقاء كتابا فقال يا بني هذا كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن توقنوا به فلن تزالوا بخير مادام فيكم بسم الله".
١٤٥١۔۔ ازمسند بدیل بن ورقائ۔ سلمہ کہتے ہیں کہ میرے والد بدیل بن ورقاء نے ایک خط حوالہ کرکے فرمایا اے فرزند یہ رسول اللہ کا خط ہے اگر تم اس کو محفوظ رکھو تو تم ہمیشہ خیروبھلائی میں رہو گے۔ جب تک یہ اللہ کا نام تمہارے درمیان موجود ہے۔ قال ابن ابی عاصم، ثناعبدالرحمن بن محمد بن عبدالرحمن بن محمد بن بشر بن عبداللہ عن ابیہ عبداللہ بن سلمہ، ابن بدیل بن ورقاء حدثنی ابی عن ابیہ عبدالرحمن عن ابیہ محمد بن بشر بن عبداللہ عن ابیہ عبداللہ بن سلمہ عن ابیہ سلمہ قال۔۔۔ الخ۔

1452

1452 - عن تميم الداري قال "كان النبي صلى الله عليه وسلم في مسيرة فقال: "إنا مدلجون فلا يرحل معنا مضعف ولا مصعب فارتحل رجل على ناقة صعبة فصرعته فاندقت فخذه فمات فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلاة عليه ثم أمر بلالا فنادى إن الجنة لا تحل لعاص". (حم طب ك عن زياد بن نعيم) .
١٤٥٢۔۔ تمیم الداری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ کو کوئی سفر درپیش تھا تو آپ نے فرمایا ہم رات کی تاریکی میں سفر جاری رکھیں گے لہٰذا ہمارے ساتھ کوئی لاغر سواری یا اڑیل سواری والا ہمرکاب نہ ہو، لیکن اس کے باوجود ایک شخص ایک اڑیل ناقہ پر ہمارے ساتھ ہولیا اور انجام کار اسی ناقہ نے اس کو پچھاڑ دیا اور گرادیا اس کی ران ٹوٹ گئی۔ پھر اسی تکلیف میں وہ چل بسا۔ آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی اور بلال کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردو کہ جنت کسی عاصی کے لیے حلال نہیں۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی، المستدرک للحاکم، بروایت زیاد بن نعیم۔

1453

1453 - عن عمارة بن حزم عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: "أربع من جاء بهن مع الإيمان كان من المسلمين ومن لم يأت بواحدة لم تنفعه الثلاثة قلت لعمارة بن حزم ما هن قال: الصلاة والزكاة وصوم رمضان والحج". (كر) .
١٤٥٣۔۔ عمارہ بن حزم رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص ایمان کی چار چیزوں کے ساتھ آیاوہ مسلمانوں میں شمار ہوگا اور جو کسی ایک کو ترک کر آیا، اس کو بقیہ تین کوئی نفع نہ دیں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کیا ہیں فرمایا نماز ، روزہ، صوم رمضان، اور حج۔ ابن عساکر۔

1454

1454 - عن معاذ قال "كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا معاذ ألا تسألني إذا خلوت معي قلت الله ورسوله أعلم قال يا معاذ هل تدري ما حق الله على العباد قلت الله ورسوله أعلم قال: أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا قال فهل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك قلت الله ورسوله أعلم قال يدخلهم الجنة". (كر) .
١٤٥٤۔۔ حضرت معاذ سے مروی ہے کہ میں رسوال کریم کے پیچھے سواری پر ہمرکاب تھا، آپ نے فرمایا جب تم میرے ساتھ خلوت میں ہوتے ہو تو مجھ سے سوال کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ اعلم ہیں اور فرمایا اے معاذ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ، فرمایا اللہ کا بندوں پر حق ہے کہ وہ اس کی پرستش کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، آپ نے فرمایا اے معاذ کیا تم جانتے ہو جب بندے یہ کام کرلیں تو ان کا اللہ پر حق کیا ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ کہ وہ ان کو جنت میں داخل فرمادے۔ ابن عساکر۔

1455

1455 - عن ابن المنتفق ويكنى أبا المنتفق قال "وصف لي رسول الله صلى الله عليه وسلم وحلى لي فطلبته بمكة فقيل لي هو بمنى فأتيته بمنى فقيل لي بعرفات فانطلقت إليه فزاحمت عليه فقيل لي إليك عن طريق رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: دعوا الرجل فزاحمت عليه حتى خلصت إليه فأخذت بخطام راحلته أو قال زمامها حتى التقت أعناق راحلتينا فما وزعني (2) رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت اثنتان أسألك عنهما، ما ينجيني من النار ويدخلني الجنة؟ فنظر إلى السماء ثم أقبل بوجهه فقال لئن كنت أوجزت في المسئلة لقد أعظمت وأطولت فاعقل عني تعبد الله ولا تشرك به شيئا وأقم الصلاة المكتوبة وأد الزكاة المفروضة وصم رمضان وحج البيت واعتمر وما تحب أن يفعله بك الناس فافعله بهم وما تكره أن يأتي إليك الناس فذر الناس منه ثم خل سبيل الراحلة". (حم وابن جرير والبغوي طب) .
١٤٥٥۔۔ ابن المنتفق یا ابوالمنتفق سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کسی نے رسول اللہ کا تذکرہ کیا تو میں مکہ میں آپ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، پھر مجھے معلوم ہوا کہ آپ منی میں میں منی میں آپ کے پاس پہنچاوہاں سے معلوم ہوا کہ آپ میدان عرفات میں ہیں میں وہاں آپ کے پاس پہنچا، اور آپ کے سامنے جاکھڑا ہوا مجھے کہا گیا رسول اللہ کا راستہ چھوڑ دو ، لیکن آپ نے فرمایا آدمی کو چھوڑ دو ، پھر میں لوگوں سے چھوٹ کر آپ کے پاس پہنچا اور اس آپ کی سواری کی نکیل یافرمایالگام تھام لی اور ہم دونوں کی سواریوں کی گردنیں آپ میں مل گئیں اور آپ نے مجھے بالکل منع نہیں فرمایا، میں نے عرض کیا میں آپ سے دو چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا یہ کہ مجھے کیا چیز جہنم سے نجات دلائے گی اور کیا چیز جنت میں دخول کا سبب بنے گی، پھر آپ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا اگرچہ تو نے مختصر سی بات کی ہے مگر درحقیقت یہ بہت بڑی اور عظیم بات ہے۔ سویاد رکھ کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج وعمرہ کرو، اور لوگوں کا جو سلوک اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی سلوک ان کے ساتھ بھی کرو، اور جو بات لوگوں سے اپنے لیے ناپسند کرتے ہو لوگوں کے لیے بھی اس کو چھوڑ دول۔ اب سواری کا راستہ چھوڑدو۔ مسنداحمد، ابن جریر، البغوی، الکبیر للطبرانی (رح)۔

1456

1456 - عن أبي هريرة تراءى الناس الهلال ذات ليلة فقالوا ما أحسنه ما أنيقه "فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف أنتم إذا كنتم في دينكم مثل القمر ليلة البدر لا يبصره منكم إلا البصير". (كر والديلمي) وسنده لا بأس به.
١٤٥٦۔۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک رات عوام الناس چاند کو دیکھ کر کہنے لگے کیساخوبصورت چاند ہے ؟ کتنابارونق ہے ؟ آپ نے فرمایا اور اسی وقت تمہاری کیسی شان ہوگی جب تم دین میں مثل چودھویں رات کے چاند کے ہوگے اور تمہاری وقعت کا صحیح اندازہ کوئی صاحب بصیرت ہی کرسکے گا۔ ابن عساکر، الدیلمی، اس کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ہے۔

1457

1457 - عن أوس بن أوس الثقفي قال "دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في قبة في مسجد فأتاه رجل فساره بشيء لا ندري ما يقول فقال اذهب قل لهم يقتلوه ثم دعاه فقال لعله يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فقال نعم فقال اذهب فقل لهم يرسلوه فإني أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأني رسول الله فإذا قالوها حرمت علي دماؤهم وأموالهم إلا بحقها وكان حسابهم على الله". (ط حم والدارمي والطحاوي) .
١٤٥٧۔۔ اوس بن اثقفی سے مروی ہے کہ رسول اکرم ہمارے پاس تشریف لائے ہم مسجد کے ایک قبہ میں بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا آپ کے ساتھ اس نے کچھ سرگوشی کی ہمیں نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی، پھر آپ نے فرمایا جاؤ، اور ان کو کہو کہ اسے تہ تیغ کر ڈالیں، لیکن آپ نے اس کو پھر واپس بلالیا، اور کہا شاید وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو اس شخص نے عرض کیا جی ہاں تب آپ نے فرمایا تو ان کو کہیں کہ اسے چھوڑ دیں۔ کیونکہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ نہیں کہہ لیتے ، پس جب وہ یہ کہہ لیں تو ان کا خون اور ان کا مال محترم ہوجائے گا الایہ کہ اسی کا کوئی حق اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ ابوداؤد، مسنداحمد، الدارمی، الطحاوی۔

1458

1458 - عن عبد الله بن عدي الأنصاري "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس بين ظهراني الناس جاءه رجل يستأذنه أن يساره في قتل رجل من المنافقين فجهر رسول الله صلى الله عليه وسلم بكلامه فقال أليس يشهد أن لا إله إلا الله قال بلى ولا شهادة له قال أليس يشهد أني رسول الله قال بلى ولا شهادة له قال أليس يصلي قال بلى ولا صلاة له قال أولئك الذين نهيت عنهم". (عب والحسن بن سفيان) .
١٤٥٨۔۔ عبداللہ بن عدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص آی اور آپ کے ساتھ سرگوشی کی حالت میں ایک منافق کی گردن اڑ آنے کی اجازت کا خواہش مند ہوا آپ نے ببانگ بلند فرمایا کیا وہ لاالہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتا، عرض کیا شہادت تو دیتا ہے لیکن اس کی شہادت کا کیا اعتبار ؟ پھر آپ نے دریافت کیا کیا وہ میرے رسول اللہ ہونے کی شہادت نہیں دیتا، عرض کیا شہادت تو دیتا ہے لیکن اس کی شہادت کا اعتبار نہیں، پھر آپ نے دریافت کیا کیا وہ نماز ادا کرتا ہے عرض کیا کیوں نہیں لیکن اس کی نماز ؟ تب آپ نے فرمایا، انہی لوگوں کے متعلق قتال سے ممانعت کی گئی ہے۔ المصنف لعبدالرزاق، الحسن بن سفیان۔

1459

1459 - (ومن مسند من لم يسم) عن النعمان بن سالم عن رجل قال: "دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن في قبة المسجد، فأخذ بعمود القبة فجعل يحدثنا إذ جاءه رجل فساره ما أدري ما ساره فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اذهبوا به فاقتلوه فلما قفى الرجل دعاه فقال: لعله يقول لا إله إلا الله قال: أجل قال النبي صلى الله عليه وسلم: اذهب فقل لهم يرسلوه فإنه أوحى إلي أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله فإذا قالوا لا إله إلا الله حرمت علي دماؤهم وأموالهم إلا بالحق وكان حسابهم على الله". (عب) .
١٤٥٩۔۔ ازمسند نامعلوم شخص ۔ نعمان بن سالم کسی صاحب رسول سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم مسجد کے قبہ میں بیٹھے ہوئے تھے آپ قبہ کے ایک ستون کو تھام کر ہمیں کچھ بیان فرمانے لگے۔۔ اچانک ایک شخص آپ کے پاس آی اور آپ کے ساتھ اس نے سرگوشی کی مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی پھر آپ نے فرمایا جاؤ اس کو لے جاؤ اور قتل کردو۔۔ جب وہ شخص پشت دے کر چل دیاتو آپ نے اس کو دوبارہ بلایا اور کہا شاید وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتاہو اس نے عرض کیا جی ہاں تب آپ نے فرمایا تو ان کو کہیں کہ اسے چھوڑ دیں، کیونکہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ نہیں کہ لیتے پس جب وہ یہ کہہ لیں تو ان کا خون اور ان کا مال محترم ہوجائے گا الایہ کہ اسی کا کوئی حق ہو اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1460

1460 - عن أسامة بن زيد قال: "بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فصبحنا الحرقات من جهينة فأدركت رجلا فقال: لا إله إلا الله فطعنته فوقع في نفسي من ذلك فذكرته للنبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: قال لا إله إلا الله وقتلته قلت: يا رسول الله قالها خوفا من السلاح قال: أفلا شققت عن قلبه حتى تعلم من أجل ذلك قالها أم لا من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة فما زال يكررها حتى تمنيت أسلمت يومئذ ". (طس حم خ م والعدني د ن وأبو عوانة والطحاوي ك ق)
١٤٦٠۔۔ اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ فرمایا ہمیں رسول اللہ نے ایک سریہ میں بھیجا ہم نے صبح کے وقت قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقات پر حملہ کیا۔ میں نے ایک شخص کو جالیا اس نے لاالہ الا اللہ کہا مگر میں نے اس کو نیزہ مار دیا، لیکن پھر میرے دل میں اس سے خلجان پیدا ہوا اور میں نے اس کا ذکر رسول اللہ سے کیا آپ نے فرمایا اس نے لاالہ الا اللہ کہا اس کے باوجود تم نے اس کو قتل کرڈالا ؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ اس نے اسلحہ کے خوف سے وہ کہا تھا، آپ نے فرمایا پھر تم نے اس کا سینہ چیر کر کیوں نہ دیکھا تاکہ تمہیں علم ہوجاتا کہ اس نے اس خوف سے کلمہ کہا تھا یا نہیں ؟ تمہارا کون حامی ہوگا، جب قیامت کے روز، لاالہ الا اللہ ، آئے گا، ؟ آپ اس کو بار بار دھراتے رہے، حتی کہ میرے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ کاش میں اسی دن اسلام قبول کرتا۔ الاوسط للطبرانی، مسنداحمد، بخاری، مسلم، العدنی، ابی داؤد، النسائی، ابوعوانہ، طحاوی، ابن حبان، المستدرک للحاکم۔ بخاری و مسلم۔
کاش میں اسی دن اسلام قبول کرتا اس قول کی وجہ یہ پیش آئی کہ اسی دن اسلام قبول کرنے سے میرا یہ فعل معاف ہوجاتا کیونکہ اسلام تمام گناہوں کو دھو دیتا ہے یا یہ مطلب کہ میں اس سے قبل اسلام کی حالت میں نہ ہوتا، بلکہ اسی دن اسلام قبول کرتا اور اس طرح مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں شرکت ہوتی اور نہ یہ مجھ سے قتل سرزد ہوتا۔

1461

1461 - وعنه قال حملت على رجل فقطعت يده فقال لا إله إلا الله فأجهزت عليه فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "أقتلته بعدما قال لا إله إلا الله؟ كيف تصنع بلا إله إلا الله يوم القيامة فرددها مرارا حتى تمنيت أني لم أكن أسلمت إلا تلك الساعة". (قط والبزار) وقال لا يعلم أبو عبد الرحمن السلمي عن أسامة غيره.
١٤٦١۔۔ حضرت اسامہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک شخص پر ہتھیار اٹھایا اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا، اس نے لاالہ الا اللہ کہا مگر پھر بھی میں نے جلدی سے ختم کرڈالا، یہ بات رسول اللہ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اس نے لاالہ الا اللہ کہا اس کے باوجود تم نے اس کو قتل کرڈالا، تم کیا کرو گے جب قیامت کے روز، لاالہ الا اللہ آئے گا آپ و اس کو بار بار دھراتے رہے۔ حتی کہ میرے دل میں تمناپیدا ہوئی کہ کاش میں اسی گھڑی اسلام کو قبل کرتا۔ الدارقطنی۔ البزار۔ مصنف فرماتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن السلمی عن اسامہ کا طریق کہیں اور نہیں ہے۔

1462

1462 - عن أسامة بن زيد قال: " أدركت مرداس بن نهيك أنا ورجل من الأنصار فلما شهرنا عليه السيف قال أشهد أن لا إله إلا الله فلم نزع عنه حتى قتلناه فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم، أخبرناه بخبره فقال: يا أسامة من لك بلا إله إلا الله فقلت: يا رسول الله إنما قالها تعوذا من القتل قال: من لك يا أسامة بلا إله إلا الله فو الذي بعثه بالحق مازال يرددها علي حتى لوددت أن ما مضى من إسلامي لم يكن لي وأني أسلمت يومئذ ولم أقتله فقلت: إني أعطي الله عهدا أن لا أقتل رجلا يقول لا إله إلا الله أبدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعدي يا أسامة قلت: بعدك". (كر) .
١٤٦٢۔۔ اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ میں نے اور ایک انصاری شخص نے مرداس بن نہیک پر تلوار سونت لی اس نے کہا، اشھد ان لاالہ الا اللہ، لیکن ہم اس سے ہٹے نہیں۔ حتی کہ ہم نے اس کو قتل کرڈالا، پھر جب ہم رسول اللہ کے پاس پہنچے تو آپ کو اس کی خبر دی آپ نے فرمایا اے اسامہ لاالہ الا اللہ ، کے مقابلہ میں تیرا کون ساتھ دے گا، میں نے عرض کیا اس نے قتل سے بچاؤ کے لیے یہ کہا تھا، آپ نے پھر فرمایا، اے اسامہ، لاالہ الا اللہ ، کے مقابلہ میں تیرا کون ساتھ دے گا، حضرت اسامہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم آپ اسی بات کو دھراتے رہے حتی کہ میرے دل میں تمناپیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے قبل اسلام کی حالت میں نہ ہوتا بلکہ اسی دن اسلام قبول کرتا، اور اس طرح یہ قتل مجھ سے سرزد نہ ہوتا پھر میں نے رسول اللہ کو یہ عہد دیا کہ آئندہ میں کسی ، لاالہ الا اللہ ، کے قائل کو ہرگز قتل نہ کروں گا، آپ نے فرمایا میرے بعد، اے اسامہ۔ میں نے عرض کیا جی آپ کے بعد۔ ابن عساکر۔

1463

1463 - عن أبي موسى قال "ما خصم أبغض إلي لقاءً يوم القيامة من رجل تشخب أوداجه دما يحبسني عند ميزان القسط فيقول يا ربي سل عبدك مم قتلني ولا أستطيع أن أقول كان كافرا فيقول: أنت أعلم بعبدي مني؟. (نعيم) .
١٤٦٣۔۔ حضرت ابوموسی سے مروی ہے کہ قیامت کے روز مجھے اس خصم اور مدمقابل کے سوا کسی اور کا اس قدر خطرہ نہیں جس قدر اس خصم اور مدمقابل کا خطرہ ہے کہ قیامت کے روز اس کی گردن کی رگیں خون کا فوارہ ابل رہی ہوں اور وہ مجھے میزان کے پاس گھیر لے اور بارگاہ ذوالجلا میں فریاد کرے۔۔ کہ پروردگار اپنے اس بندے سے پوچھ ! کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ اور میں اس کے متعلق نہ کہہ سکوں کہ یہ کافر تھا کہ کہیں رب ذوالجلال فرمائیں کیا تم میرے بندے کو مجھ سے زیادہ جانتے تھے۔ ابونعیم۔

1464

1464- (ومن مسند عقبة بن مالك) "بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فأغارت على قوم فشذ رجل من القوم فأتبعه رجل من أهل السرية معه السيف شاهره فقال الشاذ من القوم إني مسلم فضربه فقتله فنمى الحديث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال فيه قولا شديدا فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب إذ قال القائل يا رسول الله ما قال الذي قال إلا تعوذا من القتل فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمن قبله من الناس ثم قال: الثانية يا رسول الله ما قال الذي قال إلا تعوذا عن القتل فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمن قبله من الناس وأخذ في خطبته ثم لم يصبر أن قال الثالثة يا رسول الله ما قال الذي قال إلا تعوذا من القتل فأقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم تعرف المساءة في وجهه ثم قال إن الله أبى على لمن قتل مؤمنا قالها ثلاثا". (خط في المتفق والمفترق) .
١٤٦٤۔۔ ازمسند عقبہ بن مالک۔ رسول اکرم نے ایک سریہ کسی مہم پر روانہ فرمایا، اس سریہ نے ایک قوم پر حملہ کیا۔ دوران جنگ اس قوم کا ایک شخص جدا ہو کربھاگ کھڑا ہوا سریہ کا بھی ایک سپاہی اس کے تعاقب میں تلوار سونتے ہوئے روانہ ہوگیا، اس بچ کر بھاگ نکلنے والے نے پیچھے ان کو آواز دی کہ میں مسلمان ہوں لیکن اس سپاہی نے اس کے باوجود اس کو قتل کرڈالا۔ یہ بات حضور تک پہنچی حضور نے اس پر سخت تنبیہ ونکیر فرمائی۔ آپ کے تنبیہ فرمانے کے دوران ایک شخص نے کہا یارسول اللہ اس مقتول نے وہ بات اپنے قبل سے محفوظ ہونے کے لیے کہی تھی آپ نے اس سے اور اس کے ہم خیال افراد سے اعراض فرمالیا۔ اور اپنے خطبہ میں شروع ہوگئے لیکن اس شخص سے نہ رہا گیا تو اس نے پھر وہی بات کہی کہ اس نے قتل سے اپنی حفاظت کی غرض سے کہا تھا، پھر آپ نے اس شخص کی طرف توجہ اور ناگواری آپ کے رخ انور سے عیاں تھی اور فرمایا اللہ نے مومن کے قاتل کے لیے مجھ سے ممانعت فرمادی ہے۔ الخطیب فی المتفق والمفترق۔

1465

1465 - عن المقداد قلت: يا رسول الله أرأيت إن اختلفت أنا ورجل من المشركين ضربتين فقطع يدي فلما هويت إليه لأضربه قال: لا إله إلا الله أقتله أم أدعه؟ قال: "دعه قلت وإن قطع يدي قال وإن فعل فراجعته مرتين أو ثلاثا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن قتلته بعد أن قال لا إله إلا الله فأنت مثله قبل أن يقولها وهو مثلك قبل أن تقتله". (الشافعي عب ش حم د ن)
١٤٦٥۔۔ مقدار (رض) سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میرا کسی مشرک کا ٹکراؤ ہوجائے اور دونوں جانبین سے تلوار چل پڑیں، اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے پھر جب میں اس کی طرف حملہ کی غرض سے بڑھوں تو وہ لاالہ الا اللہ کہہ لے تو میں اس کو قتل کردوں یا یونہی چھوڑ دوں۔ فرمایا چھوڑے دے۔ میں نے عرض کیا اگرچہ اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالاہو، آپ نے فرمایا ہاں خواہ اس نے ایسا کردیاہو۔ دویاتین بار میرا اور آپ کا یہی مکالمہ ہوا۔ پھر آپ نے فرمایا اگر تم اس کو قتل کرتے ہو جب کہ وہ اس سے قبل لاالہ الاللہ کہہ چکا ہے تم اس کے مثل سزاوار قتل ہوجاتے ہو اس کے لاالہ الا اللہ کہنے سے قبل اور وہ تمہارے مثل معصوم الدم ہوجائے گا تمہارے اس کو قتل کرنے سے قبل۔ الشافعی ، المصنف لعبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، السنن لابی داود، النسائی۔
شرح۔۔۔ فرمایا اگر تم اس کو قتل کرتے ہو جب کہ وہ اس قتل سے قبل لالہ الا اللہ کہہ چکا ہے لہٰذا وہ مسلمان ہے اور مسلمان کو قتل کرنا موجب قصاص ہے لہٰذا اب اس کو قتل کرنے سے قصاص لازم آئے گا، اور وہ تمہارے مثل معصوم الدم ہوجائے گا تمہارے اس کو قتل کرنے سے قبل۔ کیونکہ جب تک تم نے اس کو قتل نہیں کیا تم پر قصاص نہیں بلکہ تمہارا خون کرنا حرام ہے تواب وہ مسلمان ہونے کے ناطہ سے معصوم الدم ہے۔

1466

.1466 - (ومن مسند عمر) رضي الله عنه عن عبد الرحمن القاري قال:"قدم على عمر بن الخطاب رجلا من قبل أبي موسى فسأله عن الناس فأخبره ثم قال: هل كان فيكم من مغربة خبر؟، فقال: نعم رجل كفر بعد إسلامه قال: فما فعلتم به قال قربناه (2) فضربنا عنقه قال عمر: فهل حبستموه ثلاثا وأطعمتموه كل يوم رغيفا واستتبتموه لعله يتوب ويراجع أمر الله؟ اللهم إني لم أحضر ولم آمر ولم أرض إذ بلغني" (مالك والشافعي عب وأبو عبيد في الغريب ق) .
١٤٦٦۔۔ ازمسند عمر (رض)، عبدالرحمن القاری فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابوموسی کی طرف سے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر نے اس سے لوگوں کے حالات کے متعلق خیریت دریافت کی تو اس نے خبر دی۔ پھر حضرت عمر نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے درمیان کوئی نیاحادثہ رونما ہوا ہے اس نے عرض کیا جی ہاں ! ایک شخص اسلام میں داخل ہونے کے بعد کفر کا مرتکب ہوگیا ہے حضرت عمر نے فرمایا تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ عرض کیا ہم نے اسے جاکر قتل کردیا ہے۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس کو تین یوم کی مہلت کی غرض سے محبوس رکھا تھا ؟ اور ہر دن اس کو عمدہ کھانا مثلا چپاتی وغیرہ کھلائی تھی پھر اس کے تم نے اس سے توبہ طلب کی تھی ؟ شاید وہ تائب ہوجاتا اور اللہ کے امر دین میں واپس آجاتا۔۔ اے اللہ میں اس موقع پر حاضر تھا اور نہ میں نے اس کا حکم دیا تھا اور بات مجھ تک پہنچی تو میں اس پر راضی بھی نہیں تھا۔ مالک الشافعی، المصنف لعبدالرزاق، الغریب لابی عبید۔ بخاری و مسلم۔
مرتد وہ شخص ہے جو اسلام کے دائرہ سے نکل کر کفر کے ظلمت کدہ میں چلا جائے احناف کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اس پر اسلام کی دعوت دوبارہ پیش کی جائے اور اس کے اشکالات جن کی وجہ سے وہ اسلام سے منحرف ہوا ہے کو دور کیا جائے اگرچہ یہ واجب نہیں ہے کیونکہ اس کو اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہے۔ لیکن مستحب ضرور ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ اس کو تین یوم کے لیے قید کردیا جائے تاکہ اس کو کچھ مہلت مل جائے اور بعض اہل علم کے نزدیک مہلت مرتد کی طلب پر منحصر ہے ورنہ مہلت کی ضرورت نہیں ۔ جبکہ امام شافعی (رح) کے نزدیک مہلت دینا واجب ہے انجام کار اگر وہ راہ راست پر آجائے تو یہی اسلام کا مطلوب ہے ورنہ اس کو قتل کردیا جائے۔
مرتد عورت کا حکم ! اگر کوئی عورت مرتد ہوجائے تو اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائے اس کو قید میں ڈالے رکھاجائے اور ہر تیسرے دن اس کو بطور تنبیہ مارا جائے تاکہ وہ اپنے ارتداد سے توبہ کرکے دائرہ اسلام میں آجائے لیکن اگر کوئی شخص کسی مرتد عورت کو قتل کردے توقاتل پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔

1467

1467 - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال "كتب عمرو بن العاص إلى عمر يسأله عن رجل أسلم ثم كفر ثم أسلم ثم كفر حتى فعل ذلك مرارا أيقبل منه الإسلام فكتب إليه عمر أن اقبل منه الإسلام ما قبل الله منهم اعرض عليه الإسلام فإن قبل فاتركه وإلا فاضرب عنقه". (مسدد وابن عبد الحكم) .
١٤٦٧۔۔ عمرو (رح) بن شعیب (رح) اپنے والد شعیب سے اور شعیب اپنے دادا عبداللہ (رض) بن عمرو (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص نے امیرالمومنین حضرت عمر (رض) کو سوال لکھا کہ ایک شخص اسلام میں داخل ہونے کے بعد کفر کا مرتکب ہوا اور پھر اسلام قبول کرکے دوبارہ کفر کا مرتکب ہوا ہے۔۔ حتی کہ اس نے یہ حرکت کئی مرتبہ کی تواب اس کا اسلام لانا قبول کیا جائے یا نہیں ؟ حضرت عمر نے ان کو لکھا کہ جب تک اللہ سے اسلام کو قبول فرماتا ہے ۔۔ تم بھی قبول کرتے ہو رہو یعنی ہر بار اس کا اسلام قبول کرلو۔ اور اب اس کو اسلام پیش کرو اگر وہ قبول کرتا ہے تو چھوڑ دو ورنہ اس کی گردن اڑادو۔ مسدد ابن الحاکم۔

1468

1468 - عن أنس قال: "بعثني أبو موسى بفتح إلى عمر فسألني عمر وكان ستة نفر من بكر بن وائل قد ارتدوا عن الإسلام ولحقوا بالمشركين فقال: ما فعل النفر من بكر بن وائل قلت: يا أمير المؤمنين قوم قد ارتدوا عن الإسلام ولحقوا بالمشركين ما سبيلهم إلا القتل فقال عمر: لئن أكون أخذتهم سلما أحب إلي مما طلعت عليه الشمس من صفراء وبيضاء قلت: يا أمير المؤمنين وما كنت صانعا بهم لو أخذتهم؟ قال لي: كنت عارضا عليهم الباب الذي خرجوا منه أن يدخلوا فيه فإن فعلوا ذلك قبلت منهم وإلا استودعتهم السجن". (عب) .
١٤٦٨۔۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ مجھے حضرت ابوموسی نے فتح کے ساتھ حضرت عمر کے پاس بھیجا اور قبیلہ بکر بن وائل کے چھ افراد اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے حضرت عمر نے مجھ سے ان کی متعلق پوچھا بکر بن وائل کے اس گروہ نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا اے امیرالمومنین وہ قوم اسلام سے برگشتہ ہو کر مشرکوں سے جاملی ہے لہٰذا اب ان کو قتل کے سوا چار ہ کار نہیں ہے حضرت عمر نے فرمایا گر میں ان کو اسلام کی حالت میں پالوں تو مجھے یہ ہراس چیز سے محبوب ہے جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے خواہ وہ سونا چاندی ہو۔ میں نے عرض کیا اے امیرالمومنین اگر آپ ان کو پالیں تو آپ ان کے ساتھ کیا معاملہ فرمائیں گے ؟ آپ نے مجھے فرمایا میں ان پر وہی دروازہ پیش کروں گا، جس سے وہ نکل گئے ہیں کہ وہ دوبارہ اس میں داخل ہوجائیں۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا تو میں ان کے اسلام کو قبول کرلوں گا۔۔ ورنہ ان کو قید خانہ کے سپرد کردوں گا۔۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1469

1469 - عن يحيى بن سعيد"أن عمر بن الخطاب باع المرتدة بدومة الجندل من غير أهل دينها". (عب) .
١٤٦٩۔۔۔ یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک مرتدہ کو دومۃ الجندل میں اس کے غیراہل مذہب کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا۔ المصنف لعبدالرزاق۔ حضرت عمر (رض) کا یہ فیصلہ کسی حکمت وسیاست پر مبنی تھا۔

1470

1470 - ومن مسند عثمان رضي الله عنه عن ابن شهاب أن عثمان بن عفان كان يقول: "من كفر بعد إيمانه طائعا فإنه يقتل". (ق) .
١٤٧٠۔۔ ازمسند عثمان (رض) ، ابن شہاب سے مروی ہے کہ حضرت عثمان فرماتے ہیں جو ایمان کے بعد اپنی خوشی سے کفر کا مرتکب ہوجائے اس کو قتل کیا جائے گا۔ بخاری و مسلم۔

1471

1471 - عن سليمان بن موسى قال: "كان عثمان بن عفان يدعو المرتد ثلاث مرات ثم يقتله". (ق)
١٤٧١۔۔ سلیمان (رح) بن موسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن عفان مرتد کو تین مرتبہ اسلام کی دعوت پیش فرماتے تھے پھر عدم قبول کی صورت میں اس کو قتل فرما دیتے تھے۔ بخاری و مسلم۔

1472

1472 - عن سليمان بن موسى أنه بلغه عن عثمان بن عفان "أن إنسانا كفر بعد إيمانه فدعاه إلى الإسلام ثلاثا فأبى فقتله". (عب ق) .
١٤٧٢۔۔ سلیمان (رح) بن موسیٰ سے مروی ہے کہ ان کو حضرت عثمان بن عفان کی جانب سے یہ خبر پہنچی کہ کسی انسان نے ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب کیا آپ نے اس کو تین مرتبہ اسلام کی طرف دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا، تو آپ نے اس کو قتل فرمادیا۔ المصنف لعبدالرزاق ، بخاری و مسلم۔

1473

1473 - عن عبد الله بن مسعود قال: "أخذ ابن مسعود قوما ارتدوا عن الإسلام من أهل العراق فكتب فيهم إلى عثمان، فكتب إليه أن أعرض عليهم دين الحق وشهادة أن لا إله إلا الله فإن قبلوها فخل عنهم وإن لم يقبلوها فاقتلهم". (عب ق) .
١٤٧٣۔۔ عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ابن مسعود نے اہل عراق کی ایک قوم جو اسلام سے برگشتہ ہوگئی تھی کو پکڑا، اور ان کے متعلق حضرت عثمان کو لکھا حضرت عثمان نے جواب میں لکھا کہ ان پر دین حق اور لاالہ الا اللہ کی شہادت پیش کروا گروہ قبول کرلیتے ہیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ، ورنہ ان کو قتل کرڈالو۔ المصنف لعبدالرزاق ، بخاری و مسلم۔

1474

1474 - عن أبي عثمان النهدي "أن عليا استتاب رجلا كفر بعد إسلامه شهرا فأبى فقتله". (عب) .
١٤٧٤۔۔ ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ حضرت علی ایک شخص سے جو اسلام کے بعد کفر کا مرتکب ہوگیا تھا ایک مہینہ تک توبہ کا مطالبہ کرتے رہے آخر تک وہ انکار کرتا رہا، پھر حضرت علی نے اس کو قتل فرمادیا۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1475

1475 - عن علي قال "يستتاب المرتد ثلاثا فإن عاد قتل". (ق) .
١٤٧٥۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ مرتد سے تین مرتبہ توبہ قبول کی جائے گی۔ اس کے بعد بھی کفر کا مرتکب ہوا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔ بخاری و مسلم۔

1476

1476 - عن أبي الطفيل قال: "كنت في الجيش الذي بعثهم علي بن أبي طالب إلى بني ناجية فانتهينا إليهم فوجدناهم على ثلاث فرق فقال الأمير: لفرقة منهم ما أنتم؟ قالوا نحن قوم كنا نصارى فأسلمنا فثبتنا على إسلامنا وقال للثانية: ما أنتم؟ قالوا نحن قوم كنا نصارى فثبتنا على نصرانيتنا، وقال للثالثة ما أنتم؟ قالوا نحن قوم كنا نصارى فأسلمنا فرجعنا على نصرانيتنا فلم نرى دينا أفضل من ديننا فقال لهم: أسلموا فأبوا فقال: لأصحابه إذا مسحت رأسي ثلاث مرات فشدوا عليهم ففعلوا فقتلوا المقاتلة وسبوا الذرية فجيء بالذراري إلى علي وجاء مسقلة بن هبيرة فاشتراهم بمأتي ألف فجاء بمائة ألف إلى علي فأبى علي أن يقبل فانطلق مسقلة بدراهمه وعمد مسقلة إليهم فأعتقهم ولحق بمعاوية فقيل لعلي ألا تأخذ الذرية فقال: لا فلم يعرض لهم". (ق) .
١٤٧٦۔۔ ابوالطفیل سے مروی ہے کہ میں اس لشکر میں شامل تھا جس کو حضرت علی نے بنی ناجیہ کی طرف بھیجا تھا ، ہم وہاں پہنچے ہم نے ان کو تین گروہوں میں بٹا ہوا پایا۔ امیر لش کرنے ان میں سے ایک گروہ سے پوچھا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا ہم پہلے نصاری تھے، پھر ہم نے اسلام قبول کرلیا، اور اب اسی پر ثابت قدم ہیں۔ دوسرے گروہ سے پوچھا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا ہم پہلے نصاری تھے پھر ہم نے اسلام قبول کرلیا اور اب اسی پر ثابت قدم ہیں۔ دوسرے گروہ سے پوچھا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا ہم پہلے بھی نصاری تھے اور اب تک اسی پر ثابت قدم ہیں۔ تیسرے گروہ سے پوچھا تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا ہم پہلے نصاری تھے پھر ہم نے اسلام قبول کرلیا لیکن پھر اپنے سابق مذہب نصرانیت کی طرف لوٹ گئے کیونکہ ہم نے اس سے بہتر دین اور کوئی نہیں پایا۔ امیرلشکر نے اس تیسرے گروہ سے فرمایا تم اسلام لے آؤ لیکن انھوں نے انکار کردیا۔ امیرلشکر نے فرمایا جب میں اپنے سر پر تین مرتبہ ہاتھ پھیروں تو تم ان پر ہلہ بول دینا انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور مرتدین کے جنگجوؤں کو تہ تیغ کردیا اور ان کی آل واولاد کو قید کردیا۔ یہ قیدی حضرت علی کی خدمت میں پیش ہوئے پھر مستقلہ بن ہبیرہ آیا اور اس نے ان تمام قیدیوں کو دولاکھ دراہم میں خرید لیا، پھر صرف ایک لاکھ پیش کیے۔ حضرت علی وصول فرمانے سے انکار کردیا۔ مستقلہ نے اپنے دراہم لیے اور ان قیدیوں کو آزاد کرکے حضرت معاویہ سے جاملا۔ حضرت علی سے کسی نے کہا آپ وہ دراہم وصول فرمائیں لیکن آپ نے فرمایا رہنے دو ۔ اور آپ نے انسے کچھ تعرض نہ کیا۔ بخاری و مسلم۔

1477

1477 - عن عبد الملك بن عمير قال: "شهدت علي أتى بأخي بني عجل المستورد بن قبيصة تنصر بعد إسلامه فقال له علي ما حدثت عنك؟ قال ما حدثت عني قال حدثت عنك أنك تنصرت قال أنا على دين المسيح فقال له علي: وأنا على دين المسيح فقال علي: ما تقول فيه فتكلم بكلام خفي على علي فقال علي طؤوه فوطئ حتى مات قلت للذي يليني ما قال، قال المسيح ربه". (قط ق) .
١٤٧٧۔۔ عبدالملک بن عمیر فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی کے پاس حاضر ہوا قبیلہ بنی عجل کے ایک شخص مستورد بن قبیصلہ کو آپ (رض) کی خدمت میں پیش کیا گیا اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد نصرانیت اختیار کرلی تھی ، حضرت علی نے اس سے فرمایا تمہارے متعلق مجھے کیا خبر ملی ہے ؟ اس نے کہا میری طرف سے آپ کو کوئی اطلاع نہیں ملی، آپ نے فرمایا مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے نصرانیت اختیار کرلی ہے اس نے کہا میں دین مسیح پر قائم ہوگیا ہوں، آپ نے فرمایا دین مسیح پر تو میں بھی قائم ہوں تیرا اس کے متعلق کیا خیال ہے اس نے حضرت علی سے کوئی مخفی بات کہی ، جس پر حضرت علی نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو ماریں اور روندیں، تو اس کو اتنامارا گیا کہ وہ جان گنوا بیٹھا۔ میں نے اپنے برابر بیٹھے ہوئے ایک شخص سے دریافت کیا کہ اس نے آہستہ سے کیا کہا تھا اس نے جواب دیا کہ اس نے کہا تھا کہ میرا تومسیح ہی پروردگار ہے۔ الدارقطنی بخاری و مسلم۔

1478

1478 - عن أبي موسى قال "بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم أنا ومعاذ إلى اليمن فأتاني ذات يوم وعندي يهودي قد كان مسلما فرجع عن الإسلام إلى اليهودية فقال: لا أنزل حتى تضرب عنقه وكان أبو موسى دعاه أربعين يوما". (ش) .
١٤٧٨۔۔ حضرت ابوموسی سے مروی ہے کہ مجھے اور حضرت معاذ کو حضور نے یمن کی طرف بھیجا۔ کسی دن میرے پاس ایک ایسا یہودی بیٹھا تھا جو پہلے مسلمان تھا پھر یہودیت اختیار کرلی تو اس وقت حضرت معاذ میرے پاس تشریف لائے اور کہا جب تک تم اس یہودی کی گردن نہ اڑاؤ گے میں تمہارے پاس ہرگز نہ بیٹھوں گا۔ چونکہ اس سے قبل اس کو چالیس یوم تک اسلام کی طرف دوبارہ لوٹ آنے کی مسلسل دعوت دی جاتی رہی تھی۔ ابن ابی شیبہ۔

1479

1479 - (ومن مسند أبي بكر الصديق رضي الله عنه) عن طاووس قال "قطع النبي صلى الله عليه وسلم لعيينة بن حصين أرضا فلما ارتد عن الإسلام بعد النبي صلى الله عليه وسلم قبض منه فلما جاء فأسلم كتب له كتابا فدفعه عيينة إلى عمر فشقه وألقاه وقال: إنما كان لو أنك لم ترجع عن الإسلام فأما إذ ارتددت فليس لك شيء فذهب عيينة إلى أبي بكر فقال: أما أنت الأمير أم عمر قال بل هو إن شاء الله قال فإنه لما قرأ كتابه شقه وألقاه فقال أبو بكر أما إنه لم يألني وإياك خيرا". (عب) .
١٤٧٩۔۔ ازمسند ابوبکر صدیق (رض)۔ طاؤوس سے مروی ہے کہ حضور نے عیینہ بن حصین کو زمین کا ایک ٹکڑا بطور جاگیر کے عطا فرمایا تھا لیکن جب حضور کی وفات کے بعد عیینہ دوبارہ کافر ہوگیا تو حضرت ابوبکر نے وہ زمین اس سے واپس لے لی۔ عیینہ دوبارہ مسلمان ہوگیا اور حضرت ابوبکر کے پاس آیا تاکہ جاگیر دوبارہ واپس لے ۔ حضرت ابوبکر نے ایک رقعہ حضرت عمر کے نام لکھا کہ اس کو اس کی زمین واپس کردی جائے یہ شخص حضرت عمر کے پاس وہ خط لے کر پہنچا تو حضرت عمر نے وہ خط پھاڑ دیا اور فرمایا اگر تم اسلام سے مرتدنہ ہوتے تو تم کو زمین ضرور مل جاتی لیکن اب زمین واپس نہیں ہوسکتی۔ عیینہ حضرت ابوبکر کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ امیر آپ ہیں یا وہ عمر ؟ انھوں نے وہ خط پھاڑ دیا ہے حضرت ابوبکر نے فرمایا ان شاء اللہ امیروہی ہیں۔ انھوں نے جو فیصلہ کیا وہ میرے اور تمہارے دونوں کے لیے بہتر اور سود مند ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1480

1480 - عن معمر بن قتادة قال "تسبى المرتدة وتباع، كذلك فعل أبو بكر بنساء أهل الردة باعهن". (عب) .
1480 ۔۔ حضرت معمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ مرتد عورت کو قیدی بنایا جائے گا اور فروخت کردیا جائے گا، حضرت ابوبکر نے بھی مرتدین کی خواتین کے ساتھ یہی سلوک فرمایا تھا، کہ ان کو فروخت کر ڈالا تھا۔المصنف لعبدالرزاق۔

1481

1481 - عن يزيد بن أبي مالك الدمشقي "أن أبا بكر الصديق قتل امرأة يقال لها أم قرفة في الردة". (ص ق) .
١٤٨١۔۔ یزید بن ابی مالک الدمشقی سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایک عورت کو جس کا نام ام قرفہ لیاجاتا تھا اس کے مرتد ہونے کی بنا پر اس کو قتل کرڈالا۔ السنن لسعید، بخاری و مسلم۔

1482

1482 - عن سعيد بن عبد العزيز التنوخي "أن امرأة يقال لها أم قرفة كفرت بعد إسلامها فاستتابها أبو بكر فلم تتب فقتلها". (قط ق) .
١٤٨٢۔۔ سعید بن عبدالعزیز التنوخی سے مروی ہے کہ ایک عورت جسکانام ام قرفہ لیاجاتا تھا اسلام کے بعد کفر کی مرتکب ہوگئی حضرت ابوبکر نے اس سے توبہ طلب کی، مگر اس نے توبہ کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت ابوبکر نے اس کو قتل کرڈالا۔ الدارقطنی ، بخاری و مسلم۔

1483

1483 - (من مسند عمر رضي الله عنه) عن عبد الله بن عمرو بن العاص "أن عمر قال له إنما لنا من الناس ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن يقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة ويصوموا رمضان ويخلى بينهم وبين ربهم". (أبومحمد بن عبد الله بن عطاء الإبراهيمي في كتاب الصلاة) .
١٤٨٣۔۔ ازمسند عمر (رض)۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ان کو فرمایا لوگوں کے ساتھ ہمیں وہی غرض ہے جو رسول اللہ نے فرمائی کہ وہ نماز قائم کرتے رہیں اور ادائیگی زکوۃ کرتے رہیں اور رمضان کے روزے رکھتے رہیں اور پھر ان کی بقیہ زندگی میں ان کو ان کے رب کے حوالہ کرکے ان کا راستہ چھوڑ دیا جائے۔ ابومحمد بن عبداللہ بن عطا الابراہیمی فی کتاب الصلاۃ۔

1484

1484 - عن أبي عون محمد بن عبيد الثقفي عن عمر وعلي قالا "إذا أسلم وله أرض وضعن عنه الجزية وأخذنا منه خراجها". (ش) .
١٤٨٤۔۔ ابی عون محمد بن عبیدالثقفی ، حضرت عمر حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں دونوں نے فرمایا جب کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور وہ زمین کا مالک ہو تو ہم اس سے جزیہ لیناختم کردیں گے فقط زمین کا خراج وصول کریں گے ۔ ابن ابی شیبہ۔ مسلمان کفار پر طاقت کے بل غلبہ حاصل کرلیں اور علاقہ کو فتح کرلیں تو امام وقت کو دواختیار حاصل ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ کافروں سے زمین لے لے اور مسلمانوں میں تقسیم کردے ۔ دوسراختیار یہ ہوتا ہے کہ کافروں کو ہی زمین واپس کردے اور ان کے افراد پر فردا فردا کچھ لازم کردے اور ان کی زمینوں پر خراج لازم کردے یعنی پیداوار میں سے کچھ حصہ۔ بدایہ، ج ١۔ ص، ١١٦۔

1485

1485 - عن عمر قال: "إذا كان المشرك مملوك فأسلم انتزع منه فبيع للمسلمين ورد ثمنه على صاحبه". (ش) .
١٤٨٥۔۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے فرمایا کہ اگر کسی مشرک کے پاس کوئی غلام ہوپھروہ غلام اسلام قبول کرلے تو اس غلام کو اس کے مشرک مالک سے چھین لیا جائے گا اور کسی مسلمان کے ہاتھوں فروخت کردیا جائے گا اور اس کی قیمت اس مشرک مالک کو لوٹا دی جائے گی۔ ابن ابی شیبہ۔

1486

1486 - عن عمر قال: "لا كنيسة في الإسلام ولا خصاء". (أبو عبيدة) .
١٤٨٦۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے فرمایا کہ اسلام میں گرجاگھری اور خصی ہوجانے کا کوئی تصور نہیں۔ ابوعبیدہ۔ گرجاگھری سے مقصود دنیائے سے کٹ کر بالکل علیحدہ ہوجانے کی مذمت مقصود ہے اور خصی ہونے سے ممانعت کا مطلب ہے کہ آدمی نکاح سے اجتناب کرنے کے لیے خصی ہوجائے ۔ یہ دونوں چیزیں نصاری نے خود اختیار کی تھیں، اسلام میں ان کا کوئی تصور نہیں ہے۔

1487

1487 - عن أبي أمامة أن عمر بن الخطاب قال: "أدبوا الخيل وإياك وأخلاق الأعاجم ومجاورة الخنازير وأن يرفع بين أظهركم الصليب". (أبو عبيدة) .
١٤٨٧۔۔ ابوامامہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب نے فرمایا گھوڑوں کو جنگ کے لیے سدھاؤ، اور عجمیوں کے اخلاق سے اجتناب کرو خنزیروں کے ماحول سے بچو۔ اور اس بات سے قطعا احتراز کرو کہ تمہارے درمیان کہیں صلیب آویزاں نہ ہو۔ ابوعبیدہ۔

1488

1488 - عن عمرو بن دينار أن شيخا من أهل الشام أخبره عن عمر بن الخطاب "أنه دفن امرأة من أهل الكتاب حبلى من مسلم في مقبرة المسلمين من أجل ولدها". (عب ش ق) .
١٤٨٨۔۔ عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ اہل شام کے ایک شیخ نے ان کو خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک اہل کتاب عورت کو کسی مسلمان سے حاملہ ہوئی تھی اس کے شکم کے مسلمان بچہ کی وجہ سے مسلمانوں ہی کے قبرستان میں دفن کردیا۔ المصنف لعبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ، بخاری و مسلم۔

1489

1489 - (ومن مسند ابن عمر) عن عمر قال: "بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد إلى بني جذيمة فدعاهم إلى الإسلام فلم يحسنوا أن يقولوا أسلمنا فجعلوا يقولون صبأنا صبأنا فجعل خالد بهم قتلا وأسرا ودفع إلى كل رجل منا أسيرا حتى إذ كان يوما أمرنا خالد أن يقتل كل منا أسيره فقلت والله لا أقتل أسيري ولا يقتل رجل من أصحابي أسيره فقدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم فذكر له صنيع خالد فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ورفع يديه اللهم إني أبرأ إليك مما صنع خالد اللهم إني أبرأ إليك مما صنع خالد". (عب) .
١٤٨٩۔۔ ازمسندا بن عمر (رض)۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ حضور نے خالد بن الولید کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا خالد بن الولید نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔ لیکن وہ اپنی زبان کی وجہ سے اچھی طرح یوں کہنے پر قادر نہ ہوسکے کہ ، اسلمنا، یعنی ہم مسلمان ہوگئے۔ بلکہ ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلنے لگے صبانا، صبانا، یعنی ہم اپنے پرانے دین سے پھرگئے ہم اپنے پرانے دین سے پھرگئے حضرت خالد بن ولید ان کا مطلب سمجھ نہ سکے انھوں نے دین قبول کرنے سے انکار کردیا ہے وہ یہی سمجھے۔ لہٰذا آپ نے ان کو قتل کرنے اور قیدی بنانے لگ گئے اور ہم میں سے ہر شخص ایک ایک قیدی حوالہ کردیا۔ حتی کہ ایک دن خالد بن ولید کہنے لگے کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کرے میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو ہرگز قتل نہ کروں گا۔ اور نہ میرے حامی ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ ہم اسی حال میں حضور کے پاس پہنچے اور خالد بن ولید کا ماجرا آپ کی خدمت میں ذکر کیا گیا۔ حضور نے سنتے ہی اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور کہا اے اللہ میں خالد کے اس فعل سے بری الذمہ ہوں ۔ اے اللہ میں خالد کے اس فعل سے بری الذمہ ہوں۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1490

1490 - (ومن مسند أبي الدرداء) عن أبي الدرداء قال: "الإيمان يزيد وينقص". (كر) .
١٤٩٠۔۔ ازمسند ابی الدرداء (رض) ۔ ابی الدرداء سے منقول ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ ابن عساکر۔ داجہ یہاں مہمل المغنی ہے جس طرح پانی وانی میں وانی غیرمقصود لفظ ہے الغریب لابن قتیبہ ج ١ ص ٤١٠

1491

1491 - (ومن مسند أبو طويل) عن أبي طويل سطر الممدود أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "أرأيت رجلا عمل الذنوب كلها فلم يترك منها شيئا وهو في ذلك لم يترك حاجة ولا داجة إلا اقتطعها بيمينه فهل لذلك من توبة قال: "فهل أسلمت أما أنا فأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنك رسوله قال: نعم قال: الله أكبر، فما زال يكبر حتى توارى". (كر) .
1491 ۔۔ از مسند ابی طویل۔۔ حضرت ابوالطویل سطر الممد ودیاشطب الممد سے مروی ہے کہ وہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ آپ کی رائے ہے کہ اگر کسی شخص نے ہر طرح کے گناہ انجام دیے ہوں ، کوئی گناہ اس کے کرنے سے نہ رہا ہو کوئی خواہش نفسانی ایسی نہ ہو جس کو اس نے لپک کر پورا نہ کیا ہو۔ تواب فرمائیے کہ کیا ایسے شخص کے لیے بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے ؟ فرمایا کیا تم مسلمان ہو ؟ عرض کیا میں شہادت دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں حضور نے فرمایا اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اسی طرح اللہ اکبر کہتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رواہ ابن عساکر۔
فائدہ۔۔ داجہ یہاں مہمل المعنی ہے جس طرح پانی وانی میں وانی غیر مقصود لفط ہے۔ الغریب لابن قتیبہ ج 1 ص 410

1492

1492 - (مسند علي رضي الله عنه) عن أبي الهياج الأسدي قال: قال علي: "أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا تدع تمثالا في بيت إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلا سويته". (ط حم والعدني ص د ت والدورقي وابن جرير) .
١٤٩٢۔۔ مسندعلی (رض) ۔ ابی الھیاج الاسدی سے مروی ہے کہ حضرت علی نے مجھے فرمایا ، میں تم کو اسی کام کے لیے بھیج رہاہوں جس کام کے لیے حضور نے مجھے بھیجا تھا یعنی تم جاؤ اور کسی گھر میں کوئی مورتی نہ چھوڑو مگر اس کا نام ونشان تک مٹاڈالو، اور نہ کسی قبر کے قبہ کو اونچا چھوڑو مگر اس کو زمین کے برابر کردو۔ ابوداؤد الطیالسی، مسنداحمد، العدنی، السنن لسعید، السنن لابی داؤد، الصحیح للترمذی، الدورقی، ابن جریر۔

1493

1493 - (مسند طلق بن علي) "خرجنا وفدا إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فأخبرناه أن بأرضنا بيعة لنا فاستوهبناه فضل طهوره فدعا بماء فتوضأ ثم مضمض ثم جعله لنا في أداوة فقال أخرجوا به معكم فإذا قدمتم بلدكم فأكثروا بيعتكم وانضحوا مكانها بالماء واتخذوها مسجدا". (ش) .
١٤٩٣۔۔ ازمسند طلق (رض) بن علی۔ طلق (رض) بن علی فرماتے ہیں کہ ہم ایک وفد کی صورت میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے دیس میں ایک گرجاگھر ہے۔ ہمیں آپ اپناوضو کا بچاہوا پانی عطا فرمائیں ۔ آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو شروع کردیا اور کلی کرکے ہمارے برتن میں ڈال دی، پھر فرمایا کہ یہ اپنے ساتھ اپنے علاقہ میں لے جاؤ اور وہاں پہنچ کر اس گرجا گھر کو مسمار کرڈالو، اور اس جگہ اس پانی کو چھڑک دو پھر اس جگہ مسجد بنالو۔ ابن ابی شیبہ۔

1494

1494 - عن ابن عباس في النصرانية تكون تحت النصراني فتسلم قبل أن يدخل بها قال "يفرق بينهما ولا صداق لها". (عب) .
1494 ۔۔ ابن عباس نے ایک ایسی نصرانیہ عورت کے لیے جو کسی نصرانی کے عقد نکاح میں آئی تھی لیکن ابھی نصرانی نے اس سے مجامعت نہیں کی تھی کہ وہ عورت مشرف بااسلام ہوگئی فرمایا کہ دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور عورت کو کچھ بھی مہرنہ ملے گا۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1495

1495 - عن ابن جريج قال: "سألت عطاء أبلغك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقر الناس على ما أدركهم عليه قبل الإسلام من طلاق أو نكاح أو ميراث قال ما بلغنا إلا ذلك". (عب) .
١٤٩٥۔۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عطا سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضور نے لوگوں کو اسلام سے قبل کے نکاح طلاق اور میراث پر برقرار رکھا تھا ؟ فرمایا ہمیں اس کے سوا کچھ خبر نہیں پہنچی کہ آپ نے انہی سابقہ عقدوں کو برقرار رکھا تھا۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1496

1496 - عن عكرمة مولى ابن عباس قال: "فرق الإسلام بين أربع وبين بعولتهن حبيبة (2) بنت أبي طلحة بن عبد العزى بن عثمان ابن عبد الدار كانت عند خلف بن سعد بن عامر بن بياضة الخزاعي فخلف عليها الأسود بن خلف وفاخته بنت الأسود بن عبد المطلب (3) بن أسد كانت عند أمية بن خلف فخلف عليها (4) أبو قيس بن الأسلت من الأنصار ومليكة بنت خارج بنت سنان بن أبي خارج (5) كانت عند زبان بن سنان فخلف عليها منظور بن زبان بن سنان وجاء الإسلام وعند قيس بن حارث بن عميرة الأسدي ثمان نسوة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " طلق (6) وأمسك أربعا" وجاء الإسلام وعند صفوان بن أمية بن خلف ست نسوة وعند عروة بن مسعود عشر نسوة وعند سفيان بن عبد الله الثقفي تسع نسوة وعند أبي سفيان بن حرب ست نسوة. (عب) .
١٤٩٦۔۔ حضرت ابن عباس کے غلام حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اسلام نے چار عورتوں اور ان کے خاوندوں کے درمیان تفریق وجدائی کردی ہے۔ حبیبہ بنت ابی طلحۃ، بن عبدالعزی بن عثمان ابن عبدالدار، یہ خاتون پہلے خلف بن سعد بن عامر بن بیاضہ الخزاعی کے عقد نکاح میں تھی۔ پھر الاسود بن الخلف کے عقد نکاح میں چلی گئیں۔ اورفاختہ بنت الاسود بن عبدالمطلب بن اسد یہ پہلے امیہ بن خلف کے عقد نکاح میں تھیں پھر ابوقیس بن الاسلت ایک انصاری شخص کے عقد میں آگئیں، اور ملیکہ بنت خارج بن سنان بن ابی خارج، یہ پہلے زبان بن سنان کے عقد میں تھیں پھر منظور بن زبان بن سنان کے عقد میں آگئیں اور جب اسلام طلوع ہواتوقیس بن حارث بن عمیرہ الاسدی، کے پاس آٹھ عورتیں تھیں۔ حضور نے ان کو فرمایا کہ چارکو اپنے پاس رکھو اور بقیہ کو طلاق دیدو اور صفوان بن امیہ بن خلف کے پاس چھ عورتیں تھیں اور عروہ بن مسعود کے پاس دس عورتیں تھیں۔ اور سفیان بن عبداللہ الثقفی کے پاس نوعورتیں تھیں۔ اور ابوسفیان بن حرب کے پاس چھ عورتیں تھیں۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1497

1497 - عن عبد الله بن عكيم قال: "بايعت عمر بيدي هذه على السمع والطاعة فيما استطعت". (ابن سعد) .
١٤٩٧۔۔ عبداللہ بن عکیم سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر سے اپنے اس ہاتھ پر بیعت ہوا کہ میں جہاں تک ہوسکا سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔

1498

1498 - عن عمير بن عطية الليثي قال "أتيت عمر بن الخطاب فقلت: يا أمير المؤمنين ارفع يدك رفعها الله أبايعك على سنة الله وسنة رسوله فرفع يده فضحك فقال هي لنا عليكم ولكم علينا". (ابن سعد) .
١٤٩٨۔۔ عمیر بن عطیہ اللیثی کہتے ہیں میں حضرت عمر بن خطاب سے بیعت کے لیے حاضر ہوا اور عرض کیا اے امیرالمومنین اپنا ہاتھ بڑھائیے اللہ اسکوہمیشہ بلند رکھے میں آپ کی اللہ اور اس کے رسول کی سنت پر بیعت کرتا ہوں۔ حضرت عمر نے اپنا دست اقدس بڑھادیا اور فرمایا ہمارے لیے تم پر حجت ہے اور اگر تم اس بیعت کی پاسداری نہ کرو۔ اور تمہارے لیے حجت ہے اگر ہم تمہاری صحیح راہنمائی نہ کریں۔ ابن سعد۔

1499

1499 - عن أنس بن مالك قال "قدمت المدينة وقد مات أبو بكر واستخلف عمر فقلت لعمر ارفع يدك أبايعك على ما بايعت عليه صاحبك قبلك على السمع والطاعة ما استطعت". (ط وابن سعد، ش) .
١٤٩٩۔۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ میں مدینہ آیا اس وقت حضرت ابوبکر کی وفات ہوچکی تھی اور حضرت عمر کے کاندھوں پر خلافت کا بار آن پڑا تھا میں نے حضرت عمر سے عرض کیا اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں اس بات پر جس پر آپ کے ساتھی سے بیعت کی تھی کہ بات سنیں گے اور جہاں تک ہوسکے گا فرمان برداری کریں گے۔ طبرانی ۔ ابن سعد، ابن ابی شیبہ۔

1500

1500 - عن بشر بن قحيف قال أتيت عمر بن الخطاب فقلت: "يا أمير المؤمنين إني أتيتك أبايعك فقال: أليس قد بايعت أميري فقد بايعتني". (ابن سعد) .
1500 حضرت بشیر بن قحیف سے مروی ہے حضرت عمر بن خطاب کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے حضرت عمر سے عرض کیا اے امیرالمومنین میں آپ سے بیعت ہونے کے لیے حاضر ہواہوں آپ نے فرمایا، کیا تم میرے امیر سے بیعت نہیں ہوئے اس کی بیعت ہی میری بیعت ہے۔ ابن سعد۔
فائدہ یعنی تمہارے علاقے میں میرے مقرر کردہ عامل و امیر کی بیعت کرنا میری بیعت کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس کو میں نے بیعت پر اپناوکیل ونائب بنایا ہے اور وکیل سے بیعت ہونا درحقیقت موکل سے بیعت ہونا ہوتا ہے۔

1501

1501 - عن بشر بن قحيف أن عمر أتاه رجل فبايعه فقال "أبايعك فيما رضيت وفيما كرهت فقال عمر لا بل فيما استطعت". (ابن سعد) .
١٥٠١۔۔ بشر بن قحیف سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور ان الفاظ میں آپ سے بیعت ہونے لگا کہ ہراس چیز میں جو میری طبیعت کے موافق یا مخالف ہے میں آپ سے بیعت ہوتا ہوں، آپ (رض) نے فرمایا نہیں بلکہ یوں کہو کہ جس قدر مجھ سے ممکن ہے اس کے مطابق میں آپ سے بیعت ہوتاہوں ۔ ابن سعد کیونکہ ہرچیز میں کماحقہ اطاعت بجالانا بسا اوقات انسانی وسعت سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور پھر اس صورت میں وعدہ شکنی لازم آتی ہے۔

1502

1502 - عن بشر بن قحيف قال: "شهدت عمر بن الخطاب وهو يطعم فجاءه رجل فقال إني أريد أن أبايعك فقال: أو ما بايعت أميري قال بلى قال: إذا بايعت أميري فقد بايعتني قال: إني أريد أن تمس يدي يدك فأخذ عظما وقال: يا عباد الله اعرقوا فجعل يعرقه وألقاه فمسح يده إحداهما على الأخرى ثم قال أبايعك على السمع والطاعة". (ابن جرير) .
١٥٠٢۔۔ بشر بن قحیف سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا دیکھا کہ آپ کھانا کھانے میں مشغول ہیں اسی اثنا میں ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے بیعت ہونے کے لیے حاضر ہوا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم نے میرے امیر کی بیعت نہیں کی ؟ عرض کیا کیوں نہیں، فرمایا اس کی بیعت میری بیعت ہے۔ اس شخص نے عرض کیا، لیکن میری خواہش ہے کہ میرے ہاتھوں کو آپ کے ہاتھوں کالمس نصیب ہو۔ حاضرین مجلس بھی کھانے میں چونکہ شریک تھے اس لیے فرمایا اللہ کے بندوہڈیوں سے ساراگوشت اچھی طرح نوچ لیا کرو پھر آپ بھی اس میں منہمک ہوئے اور ہڈی صاف کرکے ایک طرف ڈال دی اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے پونچھا اور پھر فرمایا میں تم سے بیعت لیتاہوں کہ تم سنتے رہو گے اور اطاعت کرتے رہو گے۔ ابن جریر۔

1503

1503 - عن أم عطية قالت "لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم جمع نساء الأنصار في بيت ثم بعث إلينا عمر فقام فسلم فرددنا السلام فقال: إني رسول رسول الله إليكم قلنا: مرحبا برسول الله وبرسول رسول الله فقال: أتبايعنني على أن لا تزنين ولا تسرقن ولا تقتلن أولادكن ولا تأتين ببهتان تفترينه بين أيديكن وأرجلكن ولا تعصين في معروف قلنا نعم فمددنا أيدينا من داخل البيت ومد يده من خارجه وأمرنا أن نخرج الحيض والعواتق في العيدين ونهانا عن اتباع الجنائز ولا جمعة علينا فقيل فما المعروف الذي نهين عنه قال النياحة". (ابن سعد وعبد بن حميد والكجي في سننه ع طب وابن مردويه ق ص) .
١٥٠٣۔۔ ام عطیہ (رض) سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم تشریف لائے تو آپ نے انصار کی خواتین کو ایک گھر میں جمع کیا اور پھر حضرت عمر کو ہمارے پاس بھیجا، حضرت عمر آکرکھڑے ہوئے اور فرمانے لگے میں تمہارے پاس تمہارے رسول کا رسول یعنی قاصد بن کر آیاہوں ۔ پھر فرمایا کیا تم ان باتوں پر میری بیعت کرتی ہو۔۔ کہ بدکاری نہ کرو گی ؟ چوری نہ کروگی ؟ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی ؟ اور اپنے ہاتھوں پیروں سے کوئی جھوٹ گھڑ کر نہ لاؤ گی ؟ اور کسی نیکی کے کام میں نافرمانی نہ کرو گی ؟ ہم سب عورتوں نے کہا بالکل پھر ہم نے اپنے ہاتھ کمرے میں پھیلادیے اور حضرت عمر (رض) نے کمرے سے باہراپناہاتھ دراز کرلیا۔ اور اس کے علاوہ ہم کو یہ حکم بھی دیا کہ ہم حائضہ اور قریب البلوغ عورتوں کو بھی نماز عیدین میں شریک کیا کریں۔ اور جنازوں کے پیچھے جانے سے ہم کو ممانعت فرمائی۔ اور فرمایا کہ ہم پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے کسی عورت نے کہا کہ وہ نیکی کی بات کون سی ہے، جس کی مخالفت نہ کرنے کا ہم سے عہد لیا گیا فرمایا یہ کہ تم مرنے والوں پر نوحہ بازی نہ کرو۔ ابن سعد، عبد بن حمید، الکجی فی سننہ، المسند لابی یعلی، الکبیر للطبرانی، ابن مردویہ ، بخاری و مسلم، السنن لسعید۔
اپنے ہاتھوں پیروں سے کوئی کھوٹ گھڑکرنہ لاؤ گی۔ یہ محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی سے بدکاری کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہوئی اور اس کو شوہر کے سرتھونپ دیا کہ یہ تمہارے تعلق سے ہے۔ پھر ہم نے اپنے ہاتھ کمرے میں پھیلادیے اور حضرت عمر نے کمرے سے باہر اپنا ہاتھ دراز کرلیا۔ اس کا مطلب ہے کہ حضرت عمر کمرے سے باہر تھے اور عورتیں اندر تھیں۔ حضرت عمر نے ان عورتوں کے ہاتھوں کو دیکھایاچھوا اور نہ ہی عورتوں نے حضرت عمر کے ہاتھ کو دیکھا یاچھوا۔ بلکہ جانبین سے ہاتھ پھیلا کر محض بیعت کی شکل اختیار کرلی تھی۔

1504

1504 - (ومن مسند عثمان رضي الله عنه) عن سليم أبي عامر "أن وفد الحمراء أتوا عثمان فبايعوه على أن لا يشركوا بالله شيئا ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكاة ويصوموا رمضان ويدعوا عيد المجوس فلما قالوا نعم بايعهم". (حم في السنة) .
١٥٠٤۔۔ از مسند عثمان (رض) سلیم ابی عامر سے مروی ہے کہ الحمراء کا ایک وفد حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور وہ اس بات پر آپ (رض) سے بیعت ہوئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے نماز قائم کریں گے زکوۃ ادا کریں گے۔ رمضان کے روزے رکھیں گے اور مجوسیوں کی عید میں کسی طرح کی بھی شرکت سے باز رہیں گے۔ پھر جب انھوں نے ان باتوں پر اقرار کرلیا تو آپ (رض) نے ان سے بیعت لے لی۔ مسنداحمد، فی السنہ۔

1505

1505 - (ومن مسند أسود بن خلف الخزاعي) عن محمد بن الأسود بن خلف أن أباه حدثه عند قرن عصقلة قال "فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم يبايع الناس فجاء الرجال والنساء والصغار والكبار فبايعوه على الإسلام والشهادة قال عبد الله بن عثمان بن خثيم قلت وما الشهادة فأخبرني محمد بن الأسود قال: الشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله". (حم والبغوي وابن السكن ك وأبونعيم) .
١٥٠٥۔۔ از مسند اسود بن خلف الخزاعی ۔ محمد بن الاسود بن خلف سے مروی ہے کہ ان کے والد اسود نے ان کو قرن عصقلہ کے پاس یہ روایت بیان کی کہ انھوں نے نبی کریم کو لوگوں سے بیعت لیتے ہوئے دیکھا کہ مرد اور عورتیں ، بچے اور بوڑھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسلام اور شہادتین پر آپ سے بیعت ہوئے۔ روایت کے لیے ایک راوی عبداللہ بن عثمان بن خثیم کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ شہادت کیا چیز ہے ؟ تو محمد بن الاسود حجرنے فرمایا شہادت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے رسول ہیں۔ مسنداحمد، البغوی، ابن السکن، المستدرک للحاکم، ابونعیم۔

1506

1506 - (ومن مسند أنس بن مالك) عن أنس قال: "بايعت النبي صلى الله عليه وسلم بيدي هذه على السمع والطاعة فيما استطعت". (ابن جرير) .
١٥٠٦۔۔ ازمسند انس بن مالک ۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ میں اس ہاتھ سے آپ سے اپنی سعی و امکان بھرسمع وطاعت پر بیعت ہوا۔ ابن جریر۔

1507

1507 - (ومن مسند جرير) عن جرير قال: " بايعنا النبي صلى الله عليه وسلم على مثل ما بايع عليه النساء فمن مات لم يأت منهن شيئا ضمن له الجنة ومن مات وقد أتى منهن وقد أقيم عليه الحد فهو كفارته ومن مات وأتى شيئا فستر عليه فعلى الله حسابه ". (ابن جرير طب) .
١٥٠٧۔۔ از مسند جریر۔ حضرت جریر (رض) سے مروی ہے کہ ہم آپ سے انہی باتوں پر بیعت ہوئے جن باتوں پر عورتیں آپ سے بیعت ہوئیں اور جس نے مرتے دم تک ان باتوں میں کمی کوتاہی نہ کی۔ اور آپ اس کے لیے جنت کے ضامن بنے۔ اور جو اس حال میں مرا کہ اس سے کوتاہی سرزد ہوئی تھی ، لیکن اس پر حد خداوندی کا اجراء ہوگیا تھا تو وہ حد اس کے لیے کفارہ ثابت ہوگی۔ اور جو اس حال میں مرا کہ اس سے کوئی کوتاہی سرزد ہوئی تھی اور اس پر پردہ پڑا رہا تو اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔ ابن جریر ۔ الکبیر للطبرانی۔

1508

1508 - عن جرير قال: "بايعني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصلاة والنصح لكل مسلم". (ابن جرير) .
١٥٠٨۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ حضور نے مجھ سے نماز اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کا برتاؤ رکھنے پر بیعت لی۔ ابن جریر (رض) ۔

1509

1509 - عن جرير قال "أتيت النبي صلى الله عليه وسلم أبايعه على الإسلام فقال: والنصح لكل مسلم". (ابن جرير) .
١٥٠٩۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں حضور سے اسلام پر بیعت ہونے پر حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا مزید اور یہ کہ تم ہر مسلمان سے خیرخواہی کا سلوک رکھو گے۔ ابن جریر (رض) ۔

1510

1510 - عن جرير قال "أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت أبايعك على السمع والطاعة فيما أحببت وفيما كرهت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أتسطيع ذلك أو تطيق ذلك؟ فاحترز قل فيما استطعت فقلت فيما استطعت فبايعني والنصح للمسلمين". (ابن جرير) .
١٥١٠۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں سمع وطاعت پر آپ کی بیعت کرنا چاہتاہوں۔۔ خواہ مجھے خوشگوار ہو یا نہ ہو۔ آپ نے فرمایا کیا تم اس کی استطاعت رکھتے ہو یا فرمایا کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو ؟ یوں کہنے سے احتراز کرو اور یوں کہو جس قدر مجھ سے ہوسکا۔۔ پھر آپ نے مجھے منجملہ دیگرباتوں کے ساتھ اس بات پر بیعت فرمالیا کہ تمام مسلمانوں سے خیرخواہی کا برتاؤ کرو گے۔ ابن جریر۔

1511

1511 - عن جرير قال قلت يا رسول الله ابسط يدك فلنبايعك واشترط فأنت أعلم بالشرط مني قال: "أبايعك على أن تعبد الله لا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتنصح للمسلمين وتفارق الشرك". (ابن جرير) .
١٥١١۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ اپنا دست اقدس پھیلائیے تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں ؟ اور ساتھ میں شرط بھی عائد فرما دیجئے کیونکہ آپ مجھ سے زیادہ شرط کو جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو مسلمانوں کے خیرخواہ رہو اور مشرکین سے جدائی اختیار کرو۔ ابن جریر۔

1512

1512 - عن جرير "أن النبي صلى الله عليه وسلم بايعه على أن ينصح للمسلم ويقاتل الكافر". (ابن جرير) .
١٥١٢۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ آپ نے ان سے اس بات پر بیعت لی کہ مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کا سلوک رکھو گے اور کافروں سے قتال جاری رکھو گے۔ ابن جریر۔

1513

1513 - عن جرير قال: " بايعت النبي صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة وإيتاء الزكاة والنصح لكل مسلم". (ابن جرير) .
١٥١٣۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں حضور سے اس بات پر بیعت ہوا کہ نماز قائم کروں گا زکوۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان سے خیرخواہی رکھوں گا۔ ابن جریر۔

1514

1514 - عن جرير قال: "بايعت النبي صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة والنصح للمسلمين. (ابن جرير) .
١٥١٤۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں حضور سے سمع وطاعت اور ہر مسلمان سے خیرخواہی رکھنے پر بیعت ہوا۔ ابن جریر۔

1515

1515 - عن جرير "أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: مد يدك يا جرير فقال على مه قال: "أن تسلم وجهك لله والنصيحة لكل مسلم فأذن له وكان رجلا عاقلا فقال يا رسول الله فيما استطعت و فكانت رخصة للناس بعده". (طب) .
١٥١٥۔۔ حضرت جریر سے مروی ہے کہ میں حضور کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا اے جریراپناہاتھ دراز کرو، حضرت جریر نے عرض کیا کس بات کے لیے ؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی ذات اللہ کے سپرد کرو اور ہر مسلمان سے خیرخواہی رکھو۔ حضرت جریر نے رخصت طلب کی یارسول اللہ جس کی میں استطاعت رکھوں ؟ تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی، یہ حضرت جریر (رض) کی عقل مندی تھی جس کی وجہ سے ان کے بعد دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ رخصت متعین ہوگئی۔ الکبیر للطبرانی (رح) ۔

1516

1516 - (ومن مسند سهل بن سعد الساعدي) عن سهل بن سعد قال: "بايعت النبي صلى الله عليه وسلم أنا وأبو ذر وعبادة بن الصامت وأبو سعيد الخدري ومحمد بن مسلمة وسادس على أن لا تأخذنا في الله لومة لائم وأما السادس فاستقاله فأقاله". (الشاشي، كر) .
١٥١٦۔۔ ازمسند سہل بن سعد الساعی، سہل بن سعد سے مروی ہے کہ میں اور ابوذر ، عبادہ ، بن صامت ابوسعید خدری ، محمد (رض) بن مسلمہ، اور ایک اور چھٹا شخص تھا ہم حضور سے اس بات پر بیعت ہوئے کہ ہمیں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کنندہ کی ملامت کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ لیکن چھٹے شخص نے اس بیعت سے ہاتھ کھینچ لیا اور آپ نے بھی اس سے بیعت واپس لے لی۔ الشاشی، ابن عساکر۔

1517

1517 - (ومن مسند عبادة بن الصامت) عن عبادة بن الوليد ابن عبادة بن الصامت قال: " بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره والأثرة علينا وأن لا ننازع الأمر أهله وأن نقول الحق حيثما كنا لا نخاف في الله لومة لائم". (ش وابن جرير والخطيب في المتفق والمفترق) .
١٥١٧۔۔ از مسند عبادہ (رض) بن صامت۔ عبادہ بن الولید ، عبادہ (رض) بن صامت سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کی اس بات پر بیعت کی کہ تنگدستی ہو یا فراخی، خوشگواری ہو یا ناگواری اور خواہ ہم پر لوگوں کو ترجیح دی جائے۔۔ ہر حال میں ہم امیر وقت کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے اور اہل حکومت سے حکومت کے لیے منازعت نہ کریں گے اور جہاں کہیں ہوں گے حق بات کہنے سے دریغ نہ کریں گے اللہ کے لیے کسی کام میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال ہرگز نہ کریں گے۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، الخطیب فی المتفق والمتفرق۔

1518

1518 - عن عبادة بن الصامت قال: "كنا أحد عشر رجلا في العقبه الأولى فبايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة النساء قبل أن يفرض علينا الحرب بايعناه على أن لا نشرك بالله شيئا ولا نسرق ولا نزني ولا نأتي ببهتان نفتريه بين أيدينا وأرجلنا ولا نقتل أولادنا ولا نعصيه في معروف فمن وفى فله الجنة ومن غشى شيئا فأمره إلى الله إن شاء عذبه وإن شاء غفر له ثم انصرفوا العام المقبل عن بيعتهم". (ابن إسحاق وابن جرير كر) .
١٥١٨۔۔ عبادہ (رض) سے مروی ہے کہ عقبہ اولی میں ہم کل گیارہ افراد تھے ہم حضور سے عورتوں کی بیعت پر بیعت ہوئے اور ابھی جہاد فرض نہ ہوا تھا تو ہم نے بیعت کی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے چوری نہ کریں گے بدکاری نہ کریں گے کوئی جھوٹ گھڑ کر نہ لائیں گے اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے۔ اور کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گے سو جس نے ان کی پاسداری کی۔۔ اس کے لیے جنت ہے اور جس نے کچھ دھوکا دہی سے کام لیا اس کا حساب اللہ پر ہے چاہے تو عذاب دے یا مغفرت فرمادے پھر آئندہ سال بھی اس بیعت کی تجدید کرنے کے لیے واپس آئے۔ ابن اسحاق ، ابن جریر ، ابن عساکر۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں سے بیعت لینے کا حکم فرمایا اور اس میں جن جن باتوں پر بیعت لی گئی مردوں سے بھی ان باتوں پر بیعت لی جاتی تھی یہی مطلب ہے کہ ہم عورتوں کی بیعت پر بیعت ہوئے گا۔

1519

1519 - عن عبادة بن الصامت قال: "أنا من النقباء الذين بايعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: بايعنا على أن لا نشرك بالله شيئا ولا نسرق ولا نزني ولا نقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا ننهب ولا نعصي بالجنة إن فعلنا ذلك، فإن غشينا من ذلك شيئا كان قضاؤه إلى الله". (م) .
١٥١٩۔۔ عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ فرمایا میں ان ساتھیوں میں سیہوں جنہوں نے عقبہ اولی میں حضور کی بیعت کی اور فرمایا کہ ہم ان باتوں پر آپ سے بیعت ہوئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے چوری نہ کریں گے بدکاری نہ کریں گے اور کسی جان کو قتل نہ کریں گے جس کو اللہ نے محترم قرار دیا ہو مگر کسی حق کی وجہ سے اور نہ لوٹ مار کریں گے اور نہ نافرمانی کریں گے اور اگر ہم ان پر عمل درآمد رہے تو ہمارے لیے جنت ہے اگر کسی چیز میں خیانت کے مرتکب ہوئے تو اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم۔

1520

1520 - عن عبادة بن الصامت قال: أخذ علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم كما أخذ على النساء " أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم ولا يعضه بعضكم بعضا ولا تعصوني في معروف آمركم به فمن أصاب منكم حدا فعجلت له العقوبة وفي لفظ عقوبته فهو كفارة ومن أخرت عقوبته فأمره إلى الله إن شاء عذبه وإن شاء غفر له وفي لفظ وإن شاء رحمه. (الرؤياني وابن جرير كر) .
١٥٢٠۔۔ عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ ہم سے رسول اللہ نے یونہی عہد پیمان لیاجس طرح عورتوں سے لیا تھا، یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے بدکاری نہ کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور ایک دوسرے پر بہتان طرازی نہ کرو گے کسی نیکی کا حکم کروں گا تو میری نافرمانی نہ کرو گے۔ اور جو کسی قابل حد جرم کا مرتکب ہوا اور اس کو دنیا میں اس کی سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے گناہ کے لیے کفارہ ثابت ہوگی اور جس کی سزا آخرت پر ٹل گئی ۔۔ تو اس کا حساب اللہ پر ہے چاہے تو عذاب سے دوچار کرے یا مغفرت فرمادے ۔ دوسرے الفاظ میں چاہے رحم فرمادے۔ الرویانی، ابن جریر، ابن عساکر۔

1521

1521 - عن عبادة بن الصامت قال: " كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال: بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا فمن وفى منكم فأجره على الله ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب به كان كفارة له ومن أصاب من ذلك شيئا فستره الله كان إلى الله إن شاء عذبه وإن شاء غفر له". (ابن جرير) .
١٥٢١۔۔ عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ کے پاس حاضر تھے آپ نے فرمایا کہ میری اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کیس اتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے چوری نہ کرو گے بدکاری نہ کرو گے جس نے ان عہد کو نبھایا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو ان میں سے کسی بات کا منکر ہوا اور دنیاہی میں اس کو سزا دے دی گئی تو یہ اسزا اس کے لیے کفارہ ہوگی۔ اور جو کسی بات کا مرتکب تو ہوا مگر اللہ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے چاہے تو عذاب سے دوچار کرے یا مغفرت فرمادے۔ ابن جریر۔

1522

1522 - (ومن مسند ابن عمر رضي الله عنه) عن ابن عمر قال "كنا إذا بايعنا النبي صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة يلقننا هو فيما استطعت". (ابن جرير) .
١٥٢٢۔۔ ازمسند عبداللہ بن عمر ابن عمر سے مروی ہے کہ جب حضور سے سمع وطاعت پر بیعت ہوتے تھے تو آپ ہم کو تلقین فرماتے تھے کہ استطاعت بھر کی قید عائد کرلو۔ ابن جریر۔

1523

1523 - عن ابن عمر قال: " كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة فيقول: لنا فيما استطعتم". (ن) .
١٥٢٣۔۔ ابن عمر سے مروی ہے کہ جب حضور سے سمع وطاعت پر بیعت ہوتے تھے تو آپ تلقین فرماتے تھے کہ جس قدر تم میں استطاعت ہے۔ النسائی۔ از مسند عتبہ بن عبدالسلمی ، عتبہ بن عبید سے مروی ہے کہ میں رسول اکرم سے سات بار بیعت ہوا پانچ طاعت پر اور دومحبت پر تھیں۔ البغوی ، ابونعیم، ابن عساکر۔

1524

1524 - (ومن مسند عتبة بن عبد السلمي) عن عتبة بن عبد قال: " بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع بيعات، خمس على الطاعة واثنتين على المحبة". (البغوي وأبو نعيم كر) .
1524 ۔۔ از مسند عتبہ بن عبدالسلمی ۔ عتبہ بن عبد سے مروی ہے کہ رسول اللہ سے سات بار بیعت ہوا پانچ طاعت پر اور دو محبت پر تھیں۔ البغوی ، ابونعیم ابن عساکر۔

1525

1525 - (ومن مسند عقيل بن أبي طالب) عن أبي إسحاق السبيعي عن الشعبي وعن عبد الملك بن عمير عن عبد الله بن عمر عن عقيل بن أبي طالب ومحمد بن عبد الله بن أخي الزهري عن الزهري "أن العباس ابن عبد المطلب مر بالنبي صلى الله عليه وسلم وهو يكلم النقباء ويكلمونه فعرف صوت صلى الله عليه وسلم فنزل وعقل راحلته ثم قال: لهم يا معشر الأوس والخزرج هذا ابن أخي وهو أحب الناس إلي فإن كنتم صدقتموه وآمنتم به وأردتم إخراجه معكم فإني أريد أن آخذ عليكم موثقا تطمئن به نفسي ولا تخذلوه ولا تغروه فإن جيرانكم اليهود وهم لكم عدو ولا آمن مكرهم عليه فقال: أسعد بن زرارة وشق عليه قول العباس حين اتهم عليه أسعد وأصحابه يا رسول الله ايذن لي فلنجبه غير مخشنين (2) لصدرك ولا متعرضين لشيء مما تكره إلا تصديقا لإجابتنا إياك وإيمانا بك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أجيبوه غير متهمين"، فقال أسعد بن زرارة وأقبل على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إن لكل دعوة سبيلا إن لين وإن شدة وقد دعوتنا اليوم إلى دعوة متجهمة (3) للناس متوعرة عليهم دعوتنا إلى ترك ديننا واتباعك إلى دينك وتلك مرتبة (4) صعبة فأجبناك إلى ذلك ودعوتنا إلى قطع ما بيننا وبين الناس من الجوار والأرحام والقريب والبعيد وتلك رتبة صعبة فأجبناك إلى ذلك، ودعوتنا ونحن جماعة في عز (5) ومنعة لا يطمع فينا أحد أن يرأس علينا رجل من غيرنا قد أفرده قومه وأسلمه أعمامه وتلك رتبة صعبة فأجبناك إلى ذلك وكل هؤلاء الرتب مكروهة عند الناس إلا من عزم الله على رشده والتمس الخير في عواقبها وقد أجبناك إلى ذلك بألسنتنا وصدورنا إيمانا بما جئت به وتصديقا بمعرفة ثبتت في قلوبنا نبايعك على ذلك ونبايع الله ربنا وربك، يد الله فوق أيدينا ودماؤنا دون دمك وأيدينا دون يدك نمنعك مما نمنع منه أنفسنا وأبناءنا ونساءنا فإن نف بذلك فبالله نفي ونحن به أسعد وإن نغدر فبالله نغدر ونحن به أشقى هذا الصدق منا يا رسول الله والله المستعان، ثم أقبل على العباس بن عبد المطلب بوجهه وأما أنت أيها المعترض لنا القول دون النبي صلى الله عليه وسلم فالله أعلم بما أردت بذلك ذكرت أنه ابن أخيك وأنه أحب الناس إليك فنحن قد قطعنا القريب والبعيد وذا الرحم ونشهد أنه رسول الله أرسله من عنده ليس بكذاب وإن ما جاء به لا يشبه كلام البشر وأما ما ذكرت أنك لا تطمئن إلينا في أمره حتى تأخذ مواثيقنا فهذه خصلة لا نردها على أحد لرسول الله صلى الله عليه وسلم فخذ ما شئت، ثم التفت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله خذ لنفسك ما شئت واشترط لربك ما شئت فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أشترط لربي أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا ولنفسي أن تمنعوني مما تمنعون منه أنفسكم وأبناءكم ونساءكم، وقالوا فذلك لك يا رسول الله". (أبو نعيم) .
1525 ۔۔ ازمسند عقیل بن ابی طالب۔ عم رسول اللہ حضرت عباس بن عبدالمطلب کا حضور پر سے گزر ہوا اس وقت تک حضرت عباس مسلمان نہ ہوئے تھے آپ بیعت عقبہ کے نقباء پر فقاء سے محو تکلم تھے حضرت عباس آپ کی آواز پہچان کر اپنی سواری سے اتر آئے اور سواری باندھ کر رفقاء رسول کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے اے اوس خزرج کی جماعتو ! یہ میرا بھتیجا ہے تمام انسانوں میں مجھے محبوب ترین ہے سو اگر تم اس کی تصدیق کرتے ہو اور اس پر ایمان لاتے ہو اور مکہ سے نکال کر اپنے ہاں بسانا چاہتے ہو تومیرادل کرتا ہے کہ میں تم سے کچھ عہد و پیمان لوں جس سے میری جان مطمئن ہوجائے۔ وہ یہ کہ تم اس کے ساتھ کبھی رسوا نہ کرنا، اس کو دھوکا نہ دینا یقیناً تمہارے گردوپیش یہودی آبا ہیں اور وہ تمہارے کھلے دشمن ہیں اس وجہ سے میں اس بھتیجے کے بارے میں ان کے مکرو خداع سے مامون نہیں ہوں۔ اسعد بن زرارہ کو عباس کی باتیں شاق گزریں کیونکہ حضرت عباس نے گویا ان پر اور ان کے رفقاء پر الزام عائد کیا تھا، تواسعد (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں ان کو جواب دوں۔۔ میری کسی بات سے آپ کے سینہ اطہر کو کوئی ٹھیس نہ پہنچے گی اور آپ کو ناگوار گزرنے والی کسی بات سے میں تعرض نہ کروں گا۔ فقط آپ کی عوت پر ہمارے لبیک کہنے کی صداقت اور آپ پر ایمان لانے کی حقانیت واضح کردوں گا۔ آپ نے فرمایا جواب تودو لیکن کسی تہمت زدہ بات سے احتراز کرو۔
اسعد بن زرارہ نے حضور کی طرف رخ کرکے عرض کیا یارسول اللہ ہر دعوت کا ایک راستہ ہوتا ہے۔۔ خواہ وہ نرم ہو یا دشوار ہو آج آپ نے ہمین ایسی دعوت دی ہے جس سے لوگ ترش روئی کے ساتھ پیش آرہے ہیں وہ دعوت لوگوں پر سخت اور گراں بار ہے۔ آپ نے ہمیں ہمارے دین کو چھوڑ کر اپنے دین میں آنے کی دعوت دی ہے یقینایہ انتہائی کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے آپ کی دعوت پر صدق دل سے لبیک کہا۔ اور آپ نے ہم لوگوں سے رشتہ ناطہ، ہر طرح کی قرابت داری ، قریب کی ہو یا دور کی جو بھی آپ کی دعوت میں آڑ بنے اس سے قطع تعلق کا حکم فرمایا یہ بھی یقیناً بہت سخت اور انتہائی دشوار مرحلہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے ہر طرح کی مخالفت مول لے کر آپ کی دعوت پر لبیک کہا۔ اور آپ نے ہم کو دعوت دی جبکہ ہم ایک عزت مند اور شان و شوکت اور طاقت والی جماعت ہیں کوئی ہم پر فتح یابی کی طمع نہیں کرسکتا۔ اور چہ جائیکہ ایک ایسا شخص جس کو اس کی قوم نے تنہاچھوڑ دیا ہو اس کے چچاؤں نے اس کو بےآسرا کرکے دوسروں کے حوالہ کردیاہو۔۔ وہ ہم پر سرداری کرے۔ یارسول اللہ بلاشبہ یہ انتہائی مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہے لیکن اس کے باجود ہم نے آپ کی دعوت پر سرورفرحت کے ساتھ لبیک کہا۔ بیشک یہ تمام مراحل لوگوں کے نزدیک سخت اور ناپسندہ ہیں۔ سوائے ان اشخاص کے جن کی بھلائی کے لیے اللہ نے عزم فرمالیا ہو۔ اور جن کے لیے بہترین انجام مطلوب و مقصود ہوجائے اور ہم نے اس بھلائی کی طرف اپنی زبانوں اور اپنے قلب وجگر کے ساتھ آپ کو لبیک کہا جو آپ نے لاکر پیش فرمایا ہم اس پر ایمان لائے اور اس معرفت کے ساتھ تصدیق کی جو ہمارے دلوں کی اقلیم میں جگہ پکڑ چکی ہے پس ہم اس پر آپ سے بیعت ہوتے ہیں اور اللہ سے بیعت ہوتے ہیں جو ہمارا اور آپ کا پروردگار ہے اس حال میں کہ اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں پر۔ اور ہمارے خون آپ کے مقدس خون کے لیے نچھاور ہیں۔ ہمارے ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہیں ہم ہراس چیز سے آپ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جانوں کی اور اپنے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں ہم اگر ان عہد و پیمان کی وفاداری کریں تو درحقیقت اللہ سے وفاداری کرنے والے ہوں گے اور ہم اس وفاداری سے سعادت مند نیک بخت ہوجائیں گے اور اگر ہم خدانخواستہ غدر کریں تو بلاشبہ اللہ کے ساتھ غدر ہوگا اور ہم اس کی وجہ سے شقی و بدبخت ہوجائیں گے بس یہ ہمارا صدق و اخلاص ہے یارسول اللہ اور اللہ ہی ہمارا مددگار ہے۔
پھر حضرت اسعد بن زرارہ حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اے حضور کے متعلق ہم پر اعتراض کرنے والے ؟ اللہ بہترجانتا ہے جو آپ کے دل میں ہے۔ آپ نے کہا یہ میرا بھتیجا ہے اور لوگوں میں مجھے محبوب ترین ہے تو ہم نے قریب اور دور کے سب رشتے ناطے اور قرابت داری آپ کے لیے توڑ دلی۔ اور ہم شہادت دیتے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ نے اپنے طرف سے ان کو بھیجا ہے یہ کذاب نہیں ہیں اور جو یہ لے کر آئے ہیں کسی بشر کے کلام کے مشابہ نہیں ہے اور جو آپ نے ذکر کیا کہ اس کے بارے میں میرا دل مطمئن نہیں ہوگا، جب تک آپ ہم سے عہد و پیمان نہ لے لیں تو یہ بات ہم رسول اللہ کے لیے کسی پر رد نہیں کریں گے بلکہ جو عہد و پیمان آپ لیناچا ہے لے لیں۔
پھر حضرت اسعد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ آپ اپنے لیے جو عہد ہم سے لیناچا ہیں ضرور لیں اور اپنے رب کے لیے جو بھی شرط ہم پر عائد فرماناچا ہیں ضرور فرمائیں۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لیے تم سے یہ شرط لیتاہوں کہ تم اسی کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے اور جن چیزوں سے اپنی جان اور اولاد عورتوں کی حفاظت کرتے ہو ان سے میری ذات کی حفاظت بھی تمہارے ذمہ ہے۔ رفقاء نے عرض کیا یارسول اللہ ہم آپ کو اس کا پختہ عہد دیتے ہیں۔ ابونعیم ، عن ابی اسحاق السبیعی ، وعن الشعبی، وعن عبداللہ بن عمیر عن عبداللہ بن عمر عن عقیل بن ابی طالب ومحمد بن عبداللہ بن اخی الزھری عن الزھری ان العباس بن عبدالمطلب مر بالنبی۔

1526

1526 - (ومن مسند عوف بن مالك الأشجعي) عن عوف بن مالك الأشجعي قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسعة أو ثمانية أو سبعة فقال: "ألا تبايعون رسول الله صلى الله عليه وسلم فرددها ثلاث مرات فقدمنا فبايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا يا رسول الله قد بايعناك فعلى أي شيء نبايعك فقال على أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا والصلوات الخمس وأسر كلمة خفية أن لا تسألوا الناس شيئا قال فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوطه فما يقول لأحدينا وله إياه". (الرؤياني وابن جرير كر) .
١٥٢٦۔۔ از مسند عوف بن مالک الاشجعی۔ عوف بن مالک الاشجعی سے مروی ہے کہ ہم نویا آٹھ یاسات افراد رسول اللہ کے پاس حاضر خدمت تھے ۔ آپ نے فرمایا کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں ہوتے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ دھرائی ۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ہم آپ سے پہلے بیعت ہوچکے ہیں اب دوبارہ کس بات پر بیعت ہوں ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانو گے پنجگانہ نمازوں کا اہتمام کرو گے پھر آپ نے آہستہ آواز سے فرمایا اور یہ کہ کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرو گے۔
عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد ان ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کا کوڑا نیچے گرا ہو اور اس نے کسی اٹھانے کے لیے کہا ہو۔ الرویانی ، ابن جریر ابن عساکر۔

1527

1527 - ومن مسند مالك بن عبد الله الخزاعي عن أبي عثمان مالك عن مجاشع بن مسعود قال "أتيت النبي صلى الله عليه وسلم أنا وأخي فقلت: يا رسول الله بايعنا على الهجرة قال مضت الهجرة لأهلها فقلت: على ما (2) نبايعك يا رسول الله قال: على الإسلام والجهاد قال: فلقيت أخاه فسألته فقال صدق مجاشع". (ش) .
١٥٢٧۔۔ مجاشع بن مسعود سے مروی ہے کہ میں اور میربھائی نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم سے ہجرت پر بیعت لیجئے۔ فرمایا ہجرت اپنے اہل کے ساتھ گذر گئی میں نے عرض کیا پھر ہم کس بات پر آپ سے بیعت ہوں ؟ یارسول اللہ فرمایا، اسلام اور جہاد پر۔ راوی حدیث ابوعثمان مالک کہتے ہیں کہ میں مجاشع کے بھائی سے ملا اور ان سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا مجاشع سچ کہتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ۔ من مسند مالک بن عبداللہ الخزاعی عن ابی عثمان مالک عن مجاشع بن مسعود۔

1528

1528 - (من مراسيل الشعبي) عن الشعبي قال: "انطلق العباس مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى الأنصار فقال تكلموا ولا تطيلوا الخطبة إن عليكم عيونا وإني أخشى عليكم كفار قريش فتكلم رجل منهم يكنى أبا أمامة وكان خطيبهم يومئذ وهو أسعد بن زرارة فقال للنبي صلى الله عليه وسلم: سلنا لربك وسلنا لنفسك وسلنا لأصحابك وما الثواب على ذلك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: أسألكم لربي أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئا ولنفسي أن تؤمنوا بي وتمنعوني مما تمنعون منه أنفسكم وأسألكم لأصحابي المواساة في ذات أيديكم قالوا فما لنا إذا فعلنا ذلك، قال: لكم على الله الجنة". (ش كر) .
١٥٢٨۔۔ از مراسیل شعبی، شعبی سے مروی ہے کہ حضرت عباس حضور کے ہمراہ انصار کے پاس گئے، اور انصار سے فرمایا بات شروع کرو لیکن بات کا زیادہ طول مت دو ۔ جاسوسوں کی آنکھیں تمہاری نگرانی کررہی ہیں۔ اور مجھے تم پر کفار قریش کا بھی خطرہ ہے توحاضرین مجلس میں سے ایک شخص جس کی کنیت ابوامامہ تھی اور وہ ان دنوں میں انصار کے خطیب سمجھے جاتے تھے اور ان کا نام اسعد بن زرارہ تھا وہ بات کرنا شروع ہوئے اور آپ سے عرض کیا یارسول اللہ ہم سے اپنے رب کے لیے سوال کیجئے۔ اور اپنی ذات کے لیے سوال کیجئے اور اپنے اصحاب کے لیے بھی سوال کیجئے اور ساتھ میں یہ بھی فرما دیجئے کہ ہم کوا سپرکیاثواب حاصل ہوگا۔ آپ نے فرمایا میں تم سے اپنے رب کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور اپنی ذات کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں سے میری حفاظت کرو جن سے تم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اور میں اپنے اصحاب کے لیے تم سے سوال کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ تم غم خواری کا معاملہ کرو۔ انصار نے عرض کیا اگر ہم ایساکریں گے تو ہمارے لیے کیا ثواب ہے۔ فرمایا تمہارے لیے اللہ کے ذمہ جنت واجب ہوگئی۔ ابن ابی شیبہ، ابن عساکر۔

1529

1529 - من مراسيل عروة عن عروة قال: "أخذ العباس بن عبد المطلب بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم في العقبة حين وافاه السبعون على الأنصار فأخذ لرسول الله صلى الله عليه وسلم واشترط له وذلك والله في غرة الإسلام وأوله من قبل أن يعبد الله أحد علانية". (كر) .
١٥٢٩۔۔ از مراسیل عروہ ۔ حضرت عروہ (رح) سے مروی ہے کہ بیعت عقبہ میں جب رسول اکرم سر انصاری صحابہ سے وفاداری کا حلف لے رہے تھے توس وقت حضرت عباس بن عبدالمطلب نے آپ کا دست اقدس تھاما ہوا تھا اور آپ نے انصار سے آپ کے لیے کچھ معاہدے کیے اور چندشرائط بھی عائد کیں۔ اور اللہ کی قسم یہ اسلام کے طلوع کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا، اور ابھی تک کسی نے اعلانیہ اللہ کی عبادت نہ کی تھی۔ ابن عساکر۔

1530

1530 - عن جابر قال: "إنما كانت بيعة الشجرة في عثمان بن عفان خاصة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن قتلوه لأنابذهم فبايعناه ولم نبايعه على الموت ولكنا بايعناه على أن لا نفر ونحن ألف وثلاث مائة". (عق كر) .
١٥٣٠۔۔ جابر (رض) سے مروی ہے کہ بیعت شجرہ خصوصا حضرت عثمان بن عفان کے لیے تھی حضور نے فرمایا تھا کہ اگر کفار نے واقعۃ عثمان کو قتل کردیا ہے تو میں ان سے کیے معاہدہ کو توڑ دیتاہوں پھر ہم اپ سے بیعت ہوئے بیعت میں صراحت موت کا ذکرنہ تھا بلکہ ہم نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ ہم میدان جنگ سے آخردم تک راہ فرار اختیار نہ کریں گے اور اس وقت ہماری تعداد تیرہ سو کے قریب تھی ۔ الضعفاء للعقیلی ، ابن عساکر۔

1531

1531 - عن محمد بن عثمان بن حوشب عن أبيه عن جده قال "لما أن أظهر الله عز وجل محمدا صلى الله عليه وسلم انتدبت إليه مع الناس في أربعين فارسا مع عبد شر فقدموا عليه المدينة فقال: أيكم محمد قالوا هذا قال ما الذي جئتنا به فإن يك حقا اتبعناك قال: تقيموا الصلاة وتؤتوا الزكاة وتحقنوا الدماء وتأمروا بالمعروف وتنهوا عن المنكر قال عبد شر إن هذا لحسن جميل مد يدك أبايعك فقال النبي صلى الله عليه وسلم ما اسمك؟ قال عبد شر قال أنت عبد خير وكتب معه الجواب إلى حوشب ذي ظليم فآمن " (ابن مندة كر قال كر) أدرك ذو ظليم النبي صلى الله عليه وسلم ولم يره وراسله النبي صلى الله عليه وسلم بجرير بن عبد الله وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا ثم روى عن أحمد بن محمد ابن عيسى قال في الطبقة العليا التي تلي أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل حمص ذي ظليم الألهاني قدم على أبي بكر وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم نعته له فعرف أبو بكر النعت الذي نعت له رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه".
١٥٣١۔۔ محمد بن عثمان بن حوشب اپنے والد عثمان سے اور عثمان محمد کے دادا یعنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ نے محمد کو ظاہر فرمادیا تو میں نے چالیس شہسواروں کا دستہ عبدشر کی ہمراہی میں آپ کی خدمت میں بھیجا۔ یہ قافلہ مدینہ پہنچاتوعبد شر نے اصحاب کرام سے کہا کہ تم میں سے محمد کون ہے۔ صحابہ نے آپ کی طرف اشارہ فرمادیا۔ عبدشر نے کہا کہ آپ فرمائیے کہ ہمارے پاس کیا لائے ہیں ؟ اگر وہ سچ ہواتوہم آپ کی اتباع کریں گے آپ نے فرمایا نماز، قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، جانوں کا احترام کرو، امربالمعروف نہی عن المنکر کرو، عبد شر نے کہا بیشک یہ چیز تو بہت اچھی ہے لائیے اپنا ہاتھ دراز کیجئے۔ تاکہ میں آپ سے بیعت ہوجاؤں ، آپ نے فرمایا تیرا نام کیا ہے عرض کیا عبد شر یعنی شر کا بندہ۔ آپ نے فرمایا نہیں تم عبد خیرہو یعنی خیر کے بندے ہو۔ پھر آپ نے عبد خیر کو حوشب ذی ظلیم کے لیے جواب لکھواکر بھیجا توحوشب بھی ایمان لائے۔ ابن مندہ ابن عساکر۔
ابن عساکر فرماتے ہیں کہ حوشب ذی ظلیم نے نبی کریم کا مبارک زمانہ توپایا لیکن زیارت سے مشرف نہ ہوسکے۔ حضور نے ان کے ساتھ بذریعہ جریر بن عبداللہ مراسلت بھی فرمائی۔ اور انھوں نے نبی کریم سے مرسلاروایت کیا ہے۔ ابن عساکر (رح) ، احمد (رح) بن محمد بن عیسیٰ سے روایت کرتے ہیں آگے فرماتے ہیں کہ احمد بن محمد نے ذی ظلیم الھانی ھوشب کو حضور کے زمانہ سے متصل طبقہ محدثین میں شمار کیا اور فرمایا کہ یہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور چونکہ نبی کریم ان کی تعریف فرماگئے تھے تو اس حوالہ سے حضرت ابوبکر نے ان کو پہچان لیا۔

1532

1532 - عن إياس بن سلمة عن أبيه قال: "بعثت قريش خارجة ابن كرز يطلع لهم طليعة فرجع حامدا يحسن الثناء فقالوا: إنك أعرابي قعقعوا لك السلاح فطار فؤادك فما دريت ما قيل لك وما قلت ثم أرسلوا عروة بن مسعود فجاء فقال: يا محمد ما هذا الحديث تدعو إلى ذات الله ثم جئت قومك بأوباش الناس من تعرف ومن لا تعرف لتقطع أرحامهم وتستحل حرمهم ودماءهم وأموالهم فقال: إني لم آت قومي إلا لأصل أرحامهم يبدلهم الله بدين خير من دينهم ومعاش خير من معاشهم" فرجع حامدا يحسن الثناء قال سلمة: فاشتد البلاء على من كان في يد المشركين من المسلمين فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر فقال: يا عمر هل أنت مبلغ عني أخوانكم من أسارى المسلمين قال: لا يا رسول الله والله مالي بمكة من عشيرة غيري أكثر عشيرة مني فدعا عثمان فأرسله إليهم فخرج عثمان على راحلته حتى جاء عسكر المشركين فعبثوا به وأساءوا له القول ثم أجاره إبان بن سعيد بن العاص ابن عمه وحمله على السرج وردفه فلما قدم قال يا ابن عم ما لي أراك متخشعا اسبل وكان إزاره إلى نصف ساقيه فقال: له عثمان هكذا آزرة صاحبنا فلم يدع بمكة أحدا من أسارى المسلمين إلا بلغهم ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال سلمة فبينا نحن قائلون نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيها الناس البيعة البيعة نزل روح القدس فسرنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو تحت شجرة سمرة فبايعناه وذلك قول الله: {لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ} قال فبايع لعثمان إحدى يديه على الأخرى فقال الناس هنيئا لأبي عبد الله يطوف بالبيت ونحن ههنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو مكث كذا وكذا سنة ما طاف حتى أطوف". (ش) .
١٥٣٢۔۔ ایاس بن سلمہ اپنے والد سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ قریش نے خارجہ بن کر زکو بطور ہراول دستہ کے آپ کی طرف بھیجا تاکہ آپ کی عسکری قوت کے احوال و کوائف لے کر آئے۔ تو یہ اس مہم سے واپس آیا اور آپ اور آپ کی عسکری کی مدح وثنا کرنے لگا قریش نے اس کو کہا کہ تو ایک دیہاتی آدمی ہے انھوں نے اپنا اسلحۃ وغیر کی جھنکار سے تجھے مرعوب کرلیا اسی میں تیرا دل اڑ کیا ہے پھر قریش نے عروہ بن مسعود کو اس غرض کے لیے بھیجا ۔ یہ آکر آپ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا اے محمد یہ کیا بات ہے ؟ تم اللہ کی طرف دعوت دیتے۔۔ اور اپنی قوم کے پاس اوباش قسم کے لوگوں کا نبوہ جمع کر لائے ہو ؟ کوئی پتہ نہیں وہ کون ہیں کون نہیں ہیں۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس طرح تم صلہ رحمی کا ناطہ توڑو اور اہل قرابت کی حرمتوں کی پامال کرو ان کی جانوں اور مالوں سے کھیلو۔
حضور نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا بلکہ میری آمد کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں ٹوٹے ہوئے رشتوں کو پھر سے جوڑؤں اور یہ کہ اللہ ان میری قوم والوں کو ان کے دین سے بہتر دین مرحمت فرمائے اور ان کو ان کی معیشت سے اعلی معیشت عطا فرمائے۔ یہ شخص بھی بالآخر آپ کی مدح وثنا گاتے ہوئے واپس پہنچا۔
حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ان مسلمان قیدیوں پر جو مشرکین کے ہاتھوں میں تھے ظلم وستم کی چکی سخت ہوگئی تو حضور نے حضرت عمر کو بلایا اور پوچھا اے عمر کیا تم اپنے مسلمان قیدی بھائیون کو میرا پیغام پہنچاسکتے ہو ؟ آپ (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ نہیں کیونکہ اللہ کی قسم مکہ میں مجھ سے بڑے خاندان کوئی نہیں ہے اور میری وجہ سے ان کو گزند پہنچنے کا قوی امکان ہے پھر آپ نے حضرت عثمان کو بلا کر اس مہم پر روانہ فرمایا۔ حضرت عثمان اپنی سواری پر سوار ہو کر مشرکین کے لشکر میں جاپہنچے مشرکین نے آپ کے ساتھ نازیبا برتاؤ کیا اور آپ کو برابھلا کہناشروع کردیا۔ پھر آپ کے چچازاد ابان بن سعید نے آپ کو پناہ دیدی۔ اور اپنے پیچھے زین پر بٹھایا پھر آپ کے اترنے پر آپ کے چچازاد نے کہا اے ابن عم۔ کیا بات ہے کہ میں تمہیں بہت زیادہ منکسرالمزاج دیکھ رہاہوں کہ تم نے اپنے ازار کو بہت اونچا کررکھا ہے اور حضرت عثمان کا ازار اس وقت نصف پنڈلیوں تک تھا تو حضرت عثمان نے فرمایا میرے ساتھ حضور کا ازار اسی طرح ہوتا ہے۔ پھر آپ نے مکہ میں کسی مسلمان قیدی کو آپ کا پیغام پہنچائے بغیر نہ چھوڑا۔
حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ ادھرہم لوگ دوپہر کے وقت قیلولہ کررہے تھے کہ رسول اللہ کے منادی نے نداء دی کہ اے لوگو بیعت کی طرف بڑھو، بیعت کی طرف بڑھو، جبرائیل امین کوئی حکم خداوندی لے کر اترے ہیں، توہم رسول اللہ کی طرف تیزی سے لپکے آپ ببول کے درخت کے سایہ میں تھے تو وہیں ہم آپ سے بیعت ہوئے اور یہی واقعہ ہے جس کے متعلق فرمان الٰہی ہے۔ لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔ اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت ہورہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا۔
حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ اس بیعت میں آپ نے حضرت عثمان کی جانب سے اپنے ایک ہاتھ پر دوسرے ہاتھ سے بیعت لی لوگوں نے کہا ابوعبداللہ حضرت عثمان (رض) کو مبارک ہو کہ وہ تو بیت اللہ کے طواف میں مشغول ہوں گے اور ہم ادھر اس سعادت سے محروم ہیں رسول اللہ نے فرمایا اگر وہ اتنے سالوں تک بھی وہاں ٹھہرتے رہیں۔۔ پھر بھی میرے بغیر ہرگز طواف نہ کریں گے۔ رواہ ابن ابی شیبہ۔

1533

1533 - عن أبي عقيل زهرة بن معبد عن جده عبد الله بن هشام وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وذهبت به أمه زينب بنت جميل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: " يا رسول الله بايعه فقال النبي صلى الله عليه وسلم هذا صغير ومسح رأسه ودعا له وكان يضحي بالشاة الواحدة عن جميع أهله" (كر) .
١٥٣٣۔۔ ابوعقیل زھرہ بن معبد اپنے دادا عبداللہ بن ہشام سے روایت کرتے ہیں کہ اور عبداللہ بن ہشام نے نبی اکرم کا زمانہ مبارک پایا تھا تو ان کی والدہ زینب بنت جمیل ان کو نبی کریم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا یارسول اللہ اس کو بیعت فرمالیجئے آپ نے فرمایا ابھی یہ بچہ ہے پھر آپ نے ان کے سرپر اپنا دست شفقت پھیرا، اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ اور یہ عبداللہ بن ہشام اپنے جمیع اہل خانہ کے لیے ایک بکری قربانی کرتے تھے۔ ابن عساکر۔

1534

1534 - عن عقبة بن عمرو الأنصاري قال: "وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أصل العقبة الأضحى ونحن سبعون رجلا إني من أصغرهم فأتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أوجزوا في الخطبة فإني أخاف عليكم كفار قريش قلنا يا رسول الله سلنا لربك وسلنا لنفسك وسلنا لأصحابك وأخبرنا ما الثواب على الله عز وجل وعليك فقال: أسألكم لربي أن تؤمنوا به ولا تشركوا به شيئا وأسألكم أن تطيعوني أهدكم سبيل الرشاد وأسألكم لي ولأصحابي أن تواسونا في ذات أيديكم وأن تمنعونا مما منعتم منه أنفسكم فإذا فعلتم ذلك فلكم على الله الجنة وعلي فمددنا أيدينا فبايعناه". (ش كر) .
١٥٣٤۔۔ عقبہ بن عمروالانصاری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ نے عقبہ کی کھوہ میں یون اضحی کو عہد و پیمان لیاہم ستراشخاص تھے میں ان میں سب سے کم سن تھا تو رسول اللہ نے ہمارے پاس تشریف لاکر فرمایا مختصر بات کرو، کیونکہ مجھے تم پر کفار قریش کا خطرہ ہے۔
ہم نے عرض کیا یارسول اللہ آپ ہم سے اپنے رب کے لیے سوال کیجئے اپنی ذات کے لیے سوال کیجئے اور اپنے اصحاب کے لیے بھی سوال کرلیجئے اور یہ بھی بتا دیجئے کہ ہمارے لیے اللہ پر اور آپ پر کیا اجر ہوگا ؟ فرمایا میں اپنے رب کے لیے تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس پر ایمان لاؤ اس کیس اتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور تم سے سوال کرتا ہوں کہ میری اطاعت فرمان برداری کرو، میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤ ں گا، اور میں اپنے اور اپنے اصحاب کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ تم ہم سے غم خواری کا سلوک کرو، اور جن خطرات سے اپنی حفاظت کرتے ہو اور ان سے ہماری بھی حفاظت کرو، جب تم یہ کرلو گے تو تمہارے اللہ اور میرے ذمہ جنت کا وعدہ ہے۔ انصار فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے اپنے ہاتھ دراز کیے اور آپ سے بیعت ہوگئے۔ ابن ابی شیبہ، ابن عساکر۔

1535

1535 - عن الشعبي قال: "أول من بايع النبي صلى الله عليه وسلم بيعة الرضوان تحت الشجرة أبو سنان بن وهب الأسدي أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أبايعك فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم على ما تبايعني قال أبايعك على ما في نفسك فبايعه فأتاه رجل آخر فقال أبايعك على ما بايعك عليه أبو سنان فبايعه ثم تتابع الناس فبايعوه بعد". (ش) .
١٥٣٥۔۔ شعبی سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ بیعت رضوان میں سب سے پہلے جو شخص نبی کریم سے بیعت ہوا وہ ابوسنان بن الاسدی تھے پہلے یہ بیعت ہوئے اس کے بعد لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ اور سب نے ان کے بعد بیعت کی۔ ابن ابی شیبہ۔

1536

1536 - (ومن مسند الصديق رضي الله عنه) عن طلحة بن عبد الله بن الرحمن بن أبي بكر الصديق عن أبيه قال سمعت أبي يذكر أن أباه سمع أبا بكر الصديق يقول قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا رسول الله العمل على ما فرغ منه أم على أمر مؤتنف؟ قال: بل على أمر قد فرغ منه. قال: ففيم العمل يا رسول الله؟ قال: كل ميسر لما خلق له". (حم طب وأبو زكريا بن مندة في جزء من روى عن النبي صلى الله عليه وسلم هو وولده وولد ولده) .
١٥٣٦۔۔ ازمسند صدیق (رض)۔ طلحہ (رح) بن عبداللہ (رح) بن عبدالرحمن (رض) ابی بکر (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد عبداللہ سے سنا، وہ بھی فرما رہے تھے کہ ان کے والد عبدالرحمن نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم سے عرض کیا، یارسول اللہ عمل کے بارے میں فیصلہ کیا جاچکا ہے ؟ یا عمل از سرنو انجام پاتا ہے فرمایا نہیں بلکہ عمل کے متعلق فیصلہ سے فراغت ہوگئی ہے عرض کیا پھر عمل کرنے کا فائدہ ؟ فرمایا ہر انسان کو اسی عمل کی توفیق ہوتی ہے ، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ مسنداحمد، الکبیر للطبرانی، ابوزکریا بن مندہ فی جزء من روی عن النبی ھو وولدہ وولد ولدہ۔

1537

1537 - عن ابن عمر قال جاء رجل إلى أبي بكر قال: "أرأيت الزنا بقدر؟ قال: نعم. قال: الله قدره ثم يعذبني به؟ قال: نعم يا ابن اللخناء. أما والله لو كان عندي إنسان لأمرته أن يجأ أنفك". (ابن شاهين واللالكائي معا في السنة) .
١٥٣٧۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ زناء کا تعلق بھی تقدیر سے ہے ؟ فرمایا بالکل۔ وہ شخص کہنے لگا کہ تو اللہ نے اس کو مقدر میں لکھا پھر اس کی وجہ سے مجھے عذاب بھی کرتا ہے ؟ فرمایا بالکل ، اے غیرمختون عورت کے بیٹے ! اگر میرے پاس ابھ کوئی شخص ہوتا تو میں اس کو حکم کرتا کہ وہ تیری ناک کاٹ دیتا۔ ابن شاھین والالکانی معافی السنہ۔ عرب عورتوں میں ختنہ کاروان تھا وہ پردہ بکارت سے اوپر ایک جھلی کو کٹوا دیتی تھیں اور غیرمختون عورت کے بیٹے ! بسا اوقات ان کے ہاں برابھلا کہتے وقت استعمال کرتے تھے۔

1538

1538 - عن عبد الرحمن بن سابط قال قال أبو بكر الصديق "خلق الله الخلق فكانوا في قبضته، قال لمن في يمينه ادخلوا الجنة بسلام وقال لمن في يده الأخرى ادخلوا النار ولا أبالي، فذهبت إلى يوم القيامة". (حسين بن أصرم في الاستقامة واللالكائي في السنة) .
١٥٣٨۔۔ عبدالرحمن بن سابط کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا اللہ نے ایک مخلوق پیدا فرمائی پھر وہ اس کی مٹھی میں آگئی اللہ نے دائیں ہاتھ والی مخلوق کو فرمایا تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، اور دوسرے ہاتھ والی مخلوق کو فرمایا تم جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اور مجھے کوئی پروا نہیں تو قیامت تک اسی کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ حسین بن اصرم فی الاستقامۃ ، والالکائی فی السنہ۔

1539

1539 - عن محمد بن عكاشة الكرماني قال أنبأنا والله عبد الرزاق قال أنبأنا والله سلمة قال أنبأنا والله عبد الله بن كعب أنبأنا والله عبد الله ابن عباس ثنا والله علي بن أبي طالب أنا والله أبو بكر الصديق قال: "سمعت والله من حبيبي محمد صلى الله عليه وسلم قال سمعت والله من جبريل قال سمعت والله من ميكائيل قال سمعت والله من إسرافيل قال سمعت والله من الرقيع قال سمعت والله من اللوح المحفوظ قال سمعت والله من القلم قال سمعت والله الرب تبارك وتعالى يقول: إني أنا الله لا إله إلا أنا فمن آمن بي ولم يؤمن بالقدر خيره وشره فليلتمس ربا غيري فلست له برب". (الحافظ أبو الحسين علي بن الفضل المقدسي في مسلسلاته) ومحمد بن عكاشة كذاب وأخرجه أبو القاسم محمد بن عبد الواحد الغافقي في جزء ما اجتمع في سنده أربعة من الصحابة وقال عقبة قال المحدث أبو القاسم بن بشكوال هذا حديث شريف انتظم في إسناده أربعة من الصحابة وهم أبو بكر وعلي وابن عباس واختلف في صحبة عبد الله بن كعب ابن مالك وهي صحيحة عندنا فهو رابع أربعة من الصحابة نظمهم الإسناد وهذا عزيز الوجود، - انتهى.
١٥٣٩۔۔ محمد بن عکاشہ الکرمانی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہمیں عبدالرزاق نے خبر دی وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم ہمیں سلمہ نے خبر دی وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم ! ہمیں عبداللہ بن کعب نے خبر دی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہمیں عبداللہ بن عباس نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم سے علی بن ابی طالب نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہمیں حضرت ابوبکر صدیق نے خبر دی وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے اپنے محبوب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، اور آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے جبرائیل امین (علیہ السلام) سے سنا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے میکائیل (علیہ السلام) سے سنا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے اسرافیل سے سنا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے لوح محفوظ سے سنا لوح محفوظ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میں نے قلم سے سنا، قلم کہتا ہے اللہ کی قسم میں نے اللہ تعالیٰ کو فرماتے ہوئے سنا بیشک میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ۔۔۔ جو مجھ پر ایمان لایا لیکن اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لایا تو وہ میرے سوا کوئی اور پروردگار تلاش کرلے میں اس کا پروردگار نہیں ہوں۔ الحافظ، ابوالحسین ، علی بن الفضل المقدسی فی مسلسلاتہ۔
اس روایت میں محمد بن عکاشہ کذاب راوی ہیں۔ ابوالقاسم محمد بن عبدالواحد نے اس روایت کو اپنے اس رسالہ میں ذکر کیا جس کی احادیث کی اسناد میں چار چار صحابہ کرام راوی ہیں۔ اور عقبہ (رح) فرماتے ہیں کہ محدث ابوالقاسم بن بشکوال نے فرمایا کہ اس حدیث شریف کی اسناد میں چار صحابہ کرام موجود ہیں اور وہ ابوبکر ، علی، ابن عباس ، اور عبداللہ بن کعب بن مالک (رض) کی صحابیت میں اختلاف ہے لیکن ہمارے نزدیک ان کی صحابیت تسلیم ہے۔ تو اس طرح یہ روایت کے چار صحابہ میں سے چوتھے صحابی شمار ہوں گے اور اس طرح کی اسناد نادرالوجود ہیں۔

1540

1540 - عن عبد الله بن شداد قال قال أبو بكر الصديق "خلق الله قبضتين فقال لهؤلاء ادخلوا الجنة هنيئا ولهؤلاء ادخلوا النار ولا ابالي". (حسين في الاستقامة) .
١٥٤٠۔۔ عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اللہ نے دومٹھی مخلوق پیدا فرمائی اور ان دائیں والوں کو فرمایا تم جنت میں خوشی کے ساتھ داخل ہوگئے اور ان بائیں والوں کو فرمایا تم جہنم میں جاؤ اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ حسین فی الاستقامہ۔

1541

1541 - عن عائشة قالت كان لأبي بكر دعاء يدعو به إذا أصبح وأمسى يقول: "اللهم اجعل خير عمري آخره وخير عملي خواتمه وخير أيامي يوم ألقاك فقيل يا أبا بكر أتدعو بهذا الدعاء وأنت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وثاني اثنين في الغار قال إن العبد ليعمل حقبا من دهره بعمل أهل الجنة فيختم له بعمل أهل النار وإن العبد ليعمل بعمل أهل النار حقبا فيختم له بعمل أهل الجنة". (حسين) .
١٥٤١۔۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ایک دعا تھی جو حضرت ابوبکر صبح وشام مانگا کرتے تھے ۔ اللھم اجعل خیرعمری آخرہ وخیر عملی خواتمہ وخیر ایامی یوم القاک۔ اے اللہ میری عمرکا بہترین حصہ آخری حصہ بنا، اور میرے اعمال میں عمدہ ترین اعمال خاتمے کے وقت کے بنا، اور میرے لیے بہترین دن وہ دن بناجس میں میری آپ سے ملاقات ہو۔
حضرت ابوبکر (رض) سے کسی نے کہا، اے ابوبکر آپ یہ دعا مانگتے ہیں جبکہ رسول اللہ کے ساتھ اور ثانی اثنین فی الغار، ہیں حضرت ابوبکر نے فرمایا آدمی بسا اوقات زمانہ بھر اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے لیکن اس کا خاتمہ اہل جہنم کے عمل پر ہوجاتا ہے اور بسا اوقات آدمی عرصہ دراز تک اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے لیکن اس کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہوجاتا ہے۔ رواہ حسین۔

1542

1542 - سفيان بن عيينة في جامعه عن عمرو بن دينار أن أبابكر الصديق قام على المنبر فقال "إن الله خلق الخلق فكانوا قبضتين فقال للتي في يمينه ادخلوا الجنة هنيئا وقال للتي في اليد الأخرى ادخلوا النار ولا أبالي".
١٥٤٢۔۔ سفیان بن عیینہ اپنی جامع میں عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق پیدا فرمائی اور وہ دومٹھی میں آگئی۔ دائیں ہاتھ والوں کو فرمایا تم جنت میں خوشی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اور بائیں ہاتھ والوں کو فرمایا تم جہنم میں جاؤ اور مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔

1543

1543 - ومن مسند عمر رضي الله عنه عن يحيى بن يعمر قال: "كان أول من قال في القدر بالبصرة معبد الجهني، فانطلقت أنا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حاجين أو معتمرين، فقلنا، لو لقينا أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسألناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوافق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد فاكتنفته أنا وصاحبي أحدنا عن يمينه والآخر عن شماله فظننت أن صاحبي سيكل الأمر (2) إلي فقلت أبا عبد الرحمن إنه قد ظهر قبلنا أناس يقرؤون القرآن يتفقرون (3) العلم وذكر من شأنهم وإنهم يزعمون أن لا قدر وأن الأمر أنف (4) قال إذا لقيت أولئك فأخبرهم أني بريء منهم وأنهم برآء مني والذي يحلف به عبد الله بن عمر لو أن لأحدهم مثل أحد ذهبا فأنفقه ما قبل الله منه حتى يؤمن بالقدر ثم قال حدثني أبي عمر بن الخطاب قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلععلينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذيه وقال: يا محمد أخبرني عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا قال صدقت فعجبنا له يسأله ويصدقه قال فأخبرني عن الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره قال: صدقت، قال فأخبرني عن الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال فأخبرني عن الساعة قال: ما المسؤول عنها بأعلم من السائل، قال: فأخبرني عن أماراتها، قال أن تلد المرأة ربتها وأن ترى الحفاه العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان ثم انطلق فلبثت مليا ثم قال يا عمر أتدري من السائل قلت الله ورسوله أعلم قال فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم". (ش حم م د ت ن هـ وابن جرير وابن خزيمة وأبو عوانة حب ق في الدلائل) وفي رواية ابن خزيمة وحب "أن تقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتحج وتعتمر وتغتسل من الجنابة وأن تتم الوضوء وتصوم رمضان" وفي رواية (حب) "ولكن أن شئت نبأتك عن أشراطها إذا رأيت العالة من الحفاة العراة يتطاولون في البنيان وكانوا ملوكا، قيل ما العالة الحفاة العراة قال العرب وإذا رأيت الأمة تلد ربتها وذلك من أشراط الساعة" ولفظ (ت) فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم بثلاث فقال: يا عمر أتدري من السائل ذاك جبريل أتاكم يعلمكم مقالة دينكم" وفي لفظ (ق) وولدت الإماء أربابهن ثم قال علي بالرجل فطلبوه فلم يروا شيئا فلبث يوما أو يومين أو ثلاثة ثم قال يا ابن الخطاب أتدري من السائل؟ عن كذا وكذا".
١٥٤٣۔۔ از مسند عمر (رض)۔ یحییٰ بن یعمر فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے تقدیر کے متعلق بصرہ میں جس نے بحث آرائی کی وہ معبدالجہنی تھا تو میں حمید بن عبدالرحمن کے ہمراہ نکلا ہمارا ارادہ حج یاعمرہ کا تھا۔ ہم نے کہا کاش اگر کوئی صاحب رسول مل جائے تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق بحث کرنے والوں کے بارے میں سوال کریں تو اتفاق سے ہمارا سامنا حضرت عبداللہ بن عمر سے ہوگیا آپ (رض) مسجد میں داخل ہورہے تھے کہ ہم نے آپ کو جالیا، ہم میں سے ایک آپ کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب ہوگیا میرا غالب خیال یہی تھیا کہ میرا ساتھی گفتگو کرنے کا موقع مجھے دے گا لہٰذا میں نے آپ سے کہا اے ابوعبدالرحمن ہمارے دیار میں چند ایسے لوگ سرابھار رہے ہیں جو قران کی تلاوت کرتے ہیں اور علم کی باتیں کرتے ہیں پھر اور بھی ان کے کچھ حالات گنوادیے نیز یہ کہ ان کا خیال ہے کہ تقدیر کوئی وجود نہیں بلکہ ہر کام ازسرنوانجام پاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا جب تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان کو یہ خبر دے دینا کہ میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں میں ان سے بری وروہ مجھ سے بری ہیں اور قسم ہے اس ہستی کی کہ عبداللہ بن عمر جس کی قسم اٹھایا کرتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص احد پہاڑ برابر سونے کا مالک ہو اور وہ اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالے ۔۔ تب بھی وہ اس کی جانب سے اس وقت تک ہرگز شرف قبولیت کو نہ پہنچے گا جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر نے مجھے بیان کیا کہ میرے والد عمر بن خطاب نے مجھے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ کے پاس حاضرمجلس تھے کہ ایک ایساشخص ہمارے پاس آیا اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال گھنے سیال تھے اس کے جسم پر آثار سفر نہ تھے اور ہم میں سے کوئی شخص بھی ان کو پہچانتا نہ تھا وہ اس قدر نبی کریم کے قریب آکر بیٹھا کہ اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں کے ساتھ ملادیے۔ اور آپ کی رانوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے پھر کہنے لگا کہ اے محمد مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجئے آپ نے فرمایا یہ کہ تم لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، ماہ صیام کے روزے رکھواگرجانے کی استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو، اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا ہمیں اس کی بات سے تعجب ہوا کہ سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تصڈیق کرتا ہے پھر استفسار کیا مجھے خبر دیجئے کہ ایمان کیا ہے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر ملائکہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر، یوم آخرت پر ایمان لاؤ، اور ہر بھلی وبری تقدیر پر ایمان لاؤ کہا آپ نے سچ فرمایا، پھر استفسار کیا احسان کیا ہے فرمایا یہ کہ تم اللہ کی یوں عبادت کروگویا اسے دیکھ رہے ہو۔۔ ورنہ وہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے پھر کہا مجھے قیامت کے متعلق خبر دیجئے کہ کب واقع ہوگی ؟ فرمایا س بارے میں مسوئل سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا، پھر کہا اچھا مجھے اس کی علامات کے متعلق خبر دیجئے فرمایا یہ کہ باندی اپنی مالکہ کو جنم دینے لگے اور عمارتیں فلک بوس ہونے لگیں ، پھر وہ سائل شخص چلا گیا پھر میں کچھ وقت ٹھہرارہا، پھر آپ نے پوچھا اے عمر جانتے ہو سائل کون تھا عرض کیا اللہ اور س کا رسول بہترجانتے ہیں فرمایا یہ جبرائیل تھے تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، مسلم، ابی داؤد، ترمذی، النسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن خزیمہ، ابوعوانہ، صحح ابن حبان، ق فی الدلائل۔
ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تم نماز قائم کرو، زکوۃ اد اکرو، حج وعمرہ کرو، غسل پاکی کرو، اور وضوء کو تام کرو اور ماہ صیام کے روزے رکھو، اور ابن حبان میں اس بات کا اضافہ ہے لیکن اگر تم چاہوتو میں تم کو اس کی علامات کی خبردے دیتاہوں وہ یہ کہ جب تم دیکھو کہ فقیر لوگ ، ننگے پاؤں والے ننگے جسموں والے لمبی لمبی عمارتوں کے بنانے میں مقابلہ بازی کررہے ہیں اور وہ بادشاہ بن بیٹھے ہیں پوچھا گیا کہ مالعالہ الحفاٹ العراۃ، یعنی یہ فقیر لوگ ننگے پاؤں والے ننگے جسموں والے کون ہیں ؟ فرمایا عرب۔ اور یہ کہ تم باندی کو دیکھو کہ وہ اپنی مالکہ کو جنم دینے لگی ہے تو جان لو کہ یہ قیامت کی علامات ہیں الجامع ترمذی کے الفاظ یہ ہیں پھر نبی کریم مجھ سے تین یوم بعد ملے تو مجھ سے دریافت کیا اے عمرجانتے ہو سائل کون تھا ؟ پھر فرمایا یہ جبرائیل تھے تمہیں تمہارے دین کی بات سکھانے آئے تھے اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں اور باندیاں اپنی آقاؤں کو جنم دینے لگیں گی پھر آپ نے فرمایا میرے پاس اس سائل کو تلاش کرکے لاؤ صحابہ کرام اجمعین نے اس کو تلاش کیا لیکن وہاں اس کے کچھ آثار بھی نہ پاسکے۔ پھر آپ ایک دن یادویاتین دنوں تک ٹھہرے رہے پھر پوچھا اے ابن خطاب جانتے ہو وہ سائل کون تھا ؟ پھر آگے وہی تفصیل ہے۔
” باندیاں اپنی آقاؤں کو جنم دینے لگیں گی ، کا مطلب ہے کہ ماں جس اولاد کو جنم دے گی وہ اولاد ماں کی اس قدر نافرمان اور سرکش اور اس پر اپنا حکم چلانے والی ہوگی ، گویا ماں اس کی باندی ہے اور وہ اولاد اس کی آقا ہے۔ گویا ماں نے بیٹے کو کیا جنم دیا، بلکہ اپنے مالک کو جنم دے دیا یہ مطلب ہے کہ باندیاں اپنی آقاؤں کو جنم دینے لگیں گی۔

1544

1544 - عن عمر قال قال رجل من مزينة أو جهينة " يا رسول الله فيم نعمل أفي شيء قد خلا ومضى أو شيء يستأنف الآن قال في شيء قد خلا ومضى فقال الرجل أو بعض القوم ففيم العمل قال إن أهل الجنة ميسرون لعمل أهل الجنة وإن أهل النار ميسرون لعمل أهل النار". (حم د والشاشي ص) .
١٥٤٤۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ مزینینہ یاجہینہ کے ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ ہم کسی بنا پر عمل کرتے ہیں کیا عمل اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس کے متعلق فیصلہ ہوگیا اور وہ گزر گیا کہ انسان اس کو ضرور انجام دے گا ؟ یا عمل از سرنو ہوتا ہے کہ پہلے کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ کرے یا نہ کرے ؟ آپ نے فرمایا اسی کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے متعلق حکم صادر ہوچکا اور گزر گیا، تو اسی شخص نے یا قوم کے کسی اور فرد نے عرض کیا، یارسول اللہ پھر عمل کا کیا فائدہ۔ فرمایا اہل جنت کو اہل جنت ہی کے عمل میں لگایاجاتا ہے۔ اور اہل جہنم کو اہل جہنم ہی کے عمل میں لگایاجاتا ہے۔ مسنداحمد، السنن لابی داؤد، الشاشی، السنن لسعید۔

1545

1545 - عن عمر قال: " قلت يا رسول الله أرأيت ما نعمل فيه أمر مبتدع أو مبتدأ أو ما قد فرغ منه؟، قال فيما قد فرغ منه، قلنا: أفلا نتكل؟ قال فاعمل يا ابن الخطاب فكل ميسر لما خلق له ومنكان من أهل السعادة فإنه يعمل بالسعادة أو للسعادة وأما من كان من أهل الشقاوة فإنه يعمل بالشقاء أو للشقاوة". (ط حم ورواه مسدد إلى قوله وقد فرغ منه وزاد قلت ففيم العمل قال لا ينال إلا بالعمل قلت إذا نجتهد والشاشي قط في الأفراد وعثمان بن سعيد الدارمي في الرد على الجهمية ص خ في خلق أفعال العباد - ابن جرير وحسين في الاستقامة) .
١٥٤٥۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کا کیا خیال ہے ہم جو عمل کرتے ہیں یہ از سرنو ہوتا ہے یا اس سے فراغت ہوگئی ہے فرمایا اس کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا ہے ؟ حضرت عمر نے عرض کیا تو کیوں نہ پھر ہم توکل کرکے بیٹھ جائیں ؟ فرمایا ابن خطاب عمل کرتا رہ ۔ ہر شخص کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ جو اہل سعادت سے ہے وہ سعادت ہی کا عمل کرتا ہے۔ اور جو اہل شقاوت سے ہے وہ شقاوت ہی کا عمل کرتا ہے۔ ابوداؤد الطیالسی ، مسنداحمد۔ مسدد نے اس روایت کو یہاں تک روایت کیا ہے، وقد فرغ منہ ، یعنی اس کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکا ہے اور مزید یہ اضافہ بھی ہے۔ قلت ففیم العمل، ؟ قال لاینال الابالعمل قلت اذا نجتھد۔ یعنی حضرت عمرنے عرض کیا پھر عمل کا کیا فائدہ ؟ فرمایا وہنوشتہ تقدیر کا فیصلہ بھی عمل کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا۔ عرض کیا تب تو ہم خوب سعی و محنت کریں گے۔ الشاشی ، قط فی الافراد الرد علی اجھمیہ ، لعثمان بن سعید الدارمی ، السنن لسعید، افعال العباد اللبخاری ابن جریر، الاستقامہ لجسین ۔

1546

1546 - عن عمر لما نزلت فمنهم شقي وسعيد سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: "يا نبي الله فعلى ما نعمل على شيء قد فرغ منه أو على شيء لم يفرغ منه؟ قال بل على شيء قد فرغ منه وجرت به الأقلام يا عمر ولكن كل لما خلق له". (ت وقال حديث حسن غريب ع وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وأبو الشيخ وابن مردويه) .
١٥٤٦۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : فمنھم شقی و سعید، ومن سعید ۔ ان میں بعض بدبخت ہیں اور بعض سعید۔
تو میں نے رسول اکرم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی ہم عمل کس بنا پر کریں آیا اس بنا پر کہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ کون شقی ہوگا اور کون سعید یا نہیں ہوا فرمایا بل کہ ہرچیز کے فیصلہ سے فراغت ہوگئی ہے اور قلم ان پر چل چکے ہیں اے عمر لیکن ہر ایک اسی عمل میں مصروف ہوتا ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ صحیح ترمذی، حدیث حسن غریب ، المسند لابی یعلی ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ ، ابن مردویہ۔

1547

1547 - عن عمر أنه خطب بالجابية فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: "من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له فقال له قس بين يديه كلمة بالفارسية فقال عمر لمترجم يترجم له ما يقول قال: يزعم أن الله لا يضل أحدا فقال عمر: كذبت يا عدو الله بل الله خلقك وهو أضلك وهو يدخلك النار إن شاء الله ولولا ولت (2) عقدا لضربت عنقك ثم قال إن الله لما خلق آدم نثر ذريته فكتب أهل الجنة وماهم عاملون وأهل النار وما هم عاملون ثم قال هؤلاء لهذه وهؤلاء لهذه فتفرق الناس ويختلفون في القدر". (د في كتاب القدرية وابن جرير وابن أبي حاتم وأبو الشيخ وأبو القاسم بن بشران في أماليه، وعثمان ابن سعيد الدارمي في الرد على الجهمية وابن مندة في غرائب شعبه وحسين في الاستقامة واللالكائي في السنة والأصبهاني في الحجة وابن خسر وفي مسند أبي حنيفة) .
١٥٤٧۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ (رض) سے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی پھر کہا اللہ جس کو ہدایت پر گامزن رکھناچا ہے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جس کو وہی گمراہ کردے اور اس کو کوئی سیدھی راہ پر نہیں لاسکتا، اس موقعہ پر ایک عیسائی راہب نے جو آپ (رض) کے سامنے بیٹھا تھا فارسی میں کچھ بات کہی۔ حضرت عمر نے اپنے ترجمان سے دریافت کیا یہ کیا کہہ رہا ہے اس نے جواب دیا کہ اس کا خیال ہے کہ اللہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر نے اس کو فرمایا اللہ کے دشمن تو جھوٹ بولتا ہے دیکھ اللہ ہی نے تجھے پیدا کیا پھر اسی نے اب تجھ کو گمراہ کررکھا ہے اور وہی تجھے جہنم رسید بھی کرے گا، انشاء اللہ۔ اگر میں مصالحت نہ کرچکا ہوتا تو ابھی تیری گردن اڑا دیتا پھر آپ نے فرمایا، جب اللہ نے آدم کو تخلیق فرمایا تو اسی وقت اس کی ذریت کو چیونٹیوں کی شکل میں پھیلایا، اور اہل جنت اور ان کے اعمال لکھ دیے۔ اور اہل جہنم اور ان کے اعمال لکھ دیے ۔ پھر اللہ نے فرمایا یہ مخلوق اس کے لیے ہے اور وہ اس کے لیے توت بھی سے لوگ مختلف بٹ گئے ہیں اور ان کی تقدیر بھی مختلف ہے۔ ابوداؤد، فی کتاب القدریہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابوالشیخ، ابوالقاسم، بن بشر فی امالیہ، الرد علی الجھمیہ، لعثمان بن سعید الدارمی، الاستقامۃ لحسین، الالکانی فی السنۃ الاصبھانی فی الحجہ، ابن خسر، مسندابی حنیفہ۔

1548

1548 - عن عبد الرحمن بن أبزي قال أتى عمر فقيل له إن أناسا يتكلمون في القدر فقام خطيبا فقال: "يا أيها الناس إنما هلك من كان قبلكم من الأمم في أمر القدر والذي نفس عمر بيده لا أسمع برجلين يتكلمان فيه إلا ضربت أعناقهما فاحجم الناس فما تكلم أحد حتى ظهر نابغة بالشام زمن الحجاج" (حسين في الاستقامة واللالكائي كر) .
١٥٤٨۔۔ عبدالرحمن بن ابزی سے روایت ہے کہ حضرت عمر تشریف لائے تو آپ سے ذکر کیا گیا چند لوگ تقدیر کے متعلق بحث آرائی کرتے ہیں وہ تقدیر کے مسئلہ میں الجھنے لگ جاتے ہیں آپ نے فرمایا قسم ہے اس ہستی کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ آئندہ میں کوئی بھی دو شخصوں کو تقدیر کے مسئلہ میں گفتگو کرتے نہ دیکھوں ورنہ ان کی گردن تن سے جدا کردوں گا، تو لوگ سرجھکائے اس مسئلہ سے بالکل خاموش ہوگئے پھر اس میں حرف زنی کسی نے نہ کی۔ حتی کہ پھر حجاج کے زمانہ میں ملک شام میں یہ بولنے والے معبدالجہنی پیدا ہوا۔ الاستقامۃ لحسین، الالکانی ، ابن عساکر۔

1549

1549 - عن عمر قال: "كل شيء بقدر حتى العجز والكيس" (سفيان) .
١٥٤٩۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے فرمایا کہ ہرچیز تقدیر کے ساتھ معلق ہے حتی کہ کم ہمتی اور دانائی بھی۔ سفیان (رح)۔

1550

1550 - عن عمر بن الخطاب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن كذا في كنز العمال وفي المنتخب خشيش - وقال صاحب تهذيب التهذيب خشيش بن أصرم وله كتاب الاستقامة في الرد على أهل الأهواء.موسى قال يا رب أرنا آدم الذي أخرجنا ونفسه من الجنة فأراه الله آدم فقال: أنت أبونا آدم؟ فقال له آدم نعم قال أنت الذي نفخ الله فيك من روحه وعلمك الأسماء كلها وأمر الملائكة فسجدوا لك قال نعم قال فما حملك على أن أخرجتنا ونفسك من الجنة فقال له آدم ومن أنت؟ قال: أنا موسى قال أنت نبي بني إسرائيل الذي كلمك الله من وراء حجاب لم يجعل بينك وبينه رسولا من خلقه؟ قال: نعم قال: فما وجدت أن ذلك كان في كتاب الله قبل أن أخلق قال: نعم قال فيم (2) تلومني في شيء سبق فيه القضاء قبلي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك فحج آدم موسى". (د وابن أبي عاصم في السنة وابن جرير وابن خزيمة وأبو عوانة والشاشي وابن مندة في الرد على الجهمية والأجري في الثمانين والأصبهاني في الحجة ص) .
١٥٥٠۔۔ حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار آدم سے میری ملاقات کرائیے جنہوں نے ہم کو اپنے سمیت جنت سے نکلوایا ؟ تو اللہ نے حضرت آدم سے ان کا سامنا کروادیا، حضرت موسیٰ نے کہا آپ ہی ہمارے باپ آدم ہیں۔ فرمایا جی۔ حضرت موسیٰ نے کہا آپ ہی میں اللہ نے اپنی روح پھونکی اور تمام اسماء کی آپ کو تعلیم دی ؟ اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا، حضرت آدم نے فرمایا جی بالکل۔ حضرت موسیٰ نے کہا پھر کس بات نے آپ کو اس پر اکسایا کہ آپ نے ہم کو بھی اور اپنے آپ کو بھی جنت سے نکلوایا ؟
حضرت آدم نے فرمایا : اور تم کون ہو ؟ کہا میں موسیٰ ہوں۔ فرمایا کیا تم وہی بنی اسرائیل کے پیغمبر ہو جن کو اللہ نے اپنے ساتھ بغیر کسی قاصد کے صرف پردے کے حجاب میں کلام کرنے کا شرف بخشا، حضرت موسیٰ نے کہا جی۔ حضرت آدم نے فرمایا تو کیا تم نے اپنی کتاب میں نہیں پایا کہ یہ فیصلہ تو میری تخلیق سے قبل ہی میرے لیے لکھ دیا گیا تھا ؟ حضرت موسیٰ نے کہا جی ہاں۔ حضرت آدم نے فرمایا توپھرکس بات پر تم مجھے ملامت کرتے ہو کیا ایسی بات پر جس کا فیصلہ مجھ سے پہلے ہوگیا تھا۔ حضور نے اس موقعہ پر فرمایا کہ پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ السنن لابی داؤد، ابن ابی عاصم فی السنہ، ابن جریر، ابن خزیمہ، ابوعوانہ، الشاشی، ابن مندہ فی الرد، علی الجھمیہ، الاجری، فی الثمانین، الاصبھانی فی الحجہ، السنن لسعید۔

1551

1551 - عن عمر قال "إنا وجدنا هذا الأمر قد فرغ الله منه قبل أن يخلق الخلق، والمال قد قسم قبل أن يجمع، والناس يجرون على مقادير الله ولن تموت نفس إلا ولله الحجة عليها إن شاء أن يعذبها عذبها وإن شاء أن يغفر لها غفر لها". (حسين (3) في الاستقامة) .
١٥٥١۔۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہم نے اس امر تقدیر کو اس حال میں پایا کہ مخلوق کی پیدائش سے قبل ہی اس کے متعلق فیصلہ سے فراغت ہوگئی ہے اور مال کے جمع ہونے سے قبل اس کی تقسیم کردی گئی ہے اور لوگ تقدیرالٰہی کے موافق کھینچے چلے جارہے ہیں اور کوئی جی موت کے گھاٹ نہیں اترتا مگر اللہ کے ہاں اس پر حجت ہوتی ہے اب وہ چاہے تو اس کو عذاب کرے اور چاہے تو مغفرت کرے۔ الاستقامہ لحسین۔

1552

1552 - ومن مسند علي رضي الله عنه عن علي قال "كنا في جنازة في بقيع الغرقد فأتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس وجلسنا حوله ومعه مخصرة ينكت بها ثم رفع بصره فقال: ما منكم من نفس منفوسة إلا وقد كتب مقعدها من الجنة والنار (2) إلا قد كتبت شقية أو سعيدة فقال (3) القوم يا رسول الله أفلا نمكث على كتابنا وندع العمل فمن كان من أهل السعادة فسيصير إلى السعادة ومن كان من أهل الشقاوة فسيصير إلى الشقاوة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بل اعملوا فكل ميسر، أما من كان من أهل الشقاوة فإنه ميسر لعمل أهل الشقاوة وأما من كان من أهل السعادة فإنه ميسر لعمل أهل السعادة ثم قرأ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى} . (ط حم خ م د ت ن هـ وخشيش في الاستقامة ع حب هب) .
١٥٥٢۔۔ ازمسند علی (رض)۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ہم بقیع الغرقد ، (جنت البقیع) میں کسی جنازہ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ ہمارے پاس تشریف لائے اور بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے گردوپیش بیٹھ گئے آپ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کریدنے لگے پھر آپ نے اپنی نگاہ اٹھائی اور فرمایا کہ ایساجی نہیں ہے جس کے لیے جنت یا جہنم کا ٹھکانا نہ لکھ دیا گیا ہو جس کے لیے شقی یاسعید ہونا نہ لکھ دیا ہو قوم نے عرض کیا یارسول اللہ اور جو اہل شقاوت سے ہوگا اور وہ شقاوت ہی کی طرف لوٹے گا، رسول اللہ نے فرمایا نہیں بلکہ عمل کرتے رہو۔۔ ہر ایک کو مصروف کردیا گیا ہے سوجواہل شقاوت سے ہے اسے اہل شقاوت ہی کے عمل کی توفیق دی گئی اور جو اہل سعادت سے تعلق رکھتا ہے اسے اہل سعادت ہی کے عمل کی توفیق دی گئی ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ فامامن اعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنیسرہ للیسری) ۔ سو جس نے راہ خدا میں عطا کیا، اور پرہیزگاری اختیار کی اور نیکی کی بات کو سچ ماناتوہم اس کو آسان راستے کی توفیق دیں گے۔ ابوداؤد، مسنداحمد، بخاری، مسلم، السنن لابی داؤد، الصحیح لترمذی، النسائی، ابن ماجہ، خشیش فی الاستقامہ، المسند لابی یعلی، ابن حبان، شعب الایمان۔

1553

1553 - عن علي قال: "صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فحمد الله وأثنى عليه وقال: كتاب كتب الله فيه أهل الجنة بأسمائهم وأنسابهم فيجمل عليهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم إلى يوم القيامة ثم قال: كتاب كتب الله فيه أهل النار بأسمائهم وأنسابهم فيجمل عليهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم إلى يوم القيامة، صاحب الجنة مختوم له بعمل أهل الجنة وإن عمل أي عمل، وصاحب النار مختوم له بعمل أهل النار وإن عمل أي عمل وقد يسلك بأهل السعادة طريق الشقاء حتى يقال ما أشبههم بهم بل هم منهم وتدركهم السعادة فتستنقذهم وقد يسلك بأهل الشقاء طريق السعادة حتى يقال ما أشبههم بهم بل هم منهم ويدركهم الشقاء فيستخرجهم، من كتبه الله سعيدا في أم الكتاب لم يخرجه من الدنيا حتى يستعمله بعمل يسعده به قبل موته ولو بفواق ناقة ومن كتبه الله في الكتاب شقيا لم يخرجه من الدنيا حتى يستعمله بعمل يشقى به قبل موته ولو بفواق ناقه والأعمال بخواتمها". (طس وأبو سهل الجنديسابوري في الخامس من حديثه) .
١٥٥٣۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ منبرپرجلوہ افروز ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا ایک کتاب ہے جس میں اللہ نے اہل جنت اور ان کے اسماء اور انساب لکھے ہیں اسی پر ان کو جمع کیا جائے گا قیامت تک کبھی بھی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، پھر فرمایا ایک کتاب اور ہے جس میں اللہ نے اہل جہنم اور ان کے اسماء اور انساب لکھے ہیں اسی پر انکوجمع کیا ۔ صاحب جنت کا خاتمہ اہل جنت ہی کے عمل پر ہوگا اور خواہ وہ کیسے ہی اعمال کرتا رہے ، صاحب جہنم کا خاتمہ اہل جہنم ہی کے عمل پر ہوگا خواہ کیسے ہی وہ اعمال کرے ، کبھی اہل سعادت میں اہل شقاوت کا طریقہ رائج ہوجاتا ہے ۔۔ حتی کہ کہا جانے لگتا ہے کہ یہ لوگ کس بری طرح ان بدبختوں کے ہوبہو ہوگئے ہیں لیکن پھر سعادت ان کو جالیتی ہے اور ان کو اس سے نجات دیتی ہے اور کبھی اہل شقاوت میں اہل سعادت کا طریقہ رائج ہوجاتا ہے حتی کہ کہا جانے لگتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر نیک بختوں کے مشابہ ہوگئے ہیں لیکن پھر شقاوت ان کو جالیتی ہے اور ان کو اس سے نکال لاتی ہے جس کے لیے اللہ نے ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں سعید ہونا لکھ دیا ہے ، اس کو اللہ دنیا سے نہیں نکالے گا جب تک اس کو موت سے قبل اہل سعادت کے عمل میں نہ لگادیے۔۔۔ خواہ وہ اس وقت اونٹنی کے دودھ دوہنے کی دودھاروں کے درمیانی وقفہ کے بقدر ہو، اور جس کے لیے اللہ نے ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں شقی ہونا لکھ دیا ہے اس کو اللہ دنیا سے نہیں نکالے گا جب تک کہ اس کو موت سے قبل اہل شقاوت کے عمل میں نہ لگادے۔۔ خواہ وہ وقت اونٹنی کے دودھ دوہنے کی دودھاروں کے درمیانی وقفہ کے بقدر ہو ، پس اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ الاوسط للطبرانی ابوسھل الجند یسابوری فی الخامس من حدیثہ۔

1554

1554 - عن الشعبي أن عليا خطب فقال "ليس منا من لم يؤمن بالقدر خيره وشره". (ابن بشران) .
١٥٥٤۔۔ حضرت شعبی سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ہم کو خطبہ دیا اس میں فرمایا اس شخص کا ہم سے کوئی سروکار نہیں جو اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ رکھے۔ ابن بشران۔

1555

1555 - عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: "والله ما من نفس منفوسة إلا قد كتب لها من الله شقاء أو سعادة فقام رجل فقال يا رسول الله ففيم إذا العمل؟ قال: اعملوا فكل ميسر لما خلق له". (ابن أبي عاصم في السنة) .
١٥٥٥۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا اللہ کی قسم کوئی جی دار نفس ایسا نہیں ہے جس کے لیے بدبختی یا نیک بختی نہ لکھ دی گئی ہو۔ یہ سن کر ایک شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ پھر عمل کس کے لیے کریں ؟ فرمایا کرتے ہو۔۔ کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ملتی ہے جس کے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ السنہ لابن ابی عاصم۔

1556

1556 - عن علي قال: "إن الله يدفع الأمر المبرم". (جعفر الفريابي في الذكر) .
١٥٥٦۔۔ حضرت علی سے مروی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ امرمبرم کو بھی دفع فرما دیتے ہیں۔ جعفر الفریابی فی الذکر امرمبرم۔ تقدیر دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے امرمبرم امرمعلق ، امر مبرم کا مطلب ہے جس کا وقوع قطعی و یقینی ہے۔ اور امر معلق کا مطلب ہے جو بندہ کے اختیار پر محمول ہو اگر وہ ایسا کرے گا تب تو اس کا وقوع ہوگا ورنہ نہیں۔

1557

1557 - عن علي "إن أحدكم لن يخلص الإيمان إلى قلبه حتى يستيقن يقينا غير ظن أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه ويقر بالقدر كله". (اللالكائي) .
١٥٥٧۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ایمان کس کے قلب میں اخلاص کے ساتھ ہرگز اس وقت تک جگہ نہیں بناسکتا۔ جب تک کہ وہ مکمل یقین کے ساتھ جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو، اس بات کا یقین نہ کرے کہ جو چیز اس کو پہنچی وہ ہرگز چوکنے والی نہ تھی اور وہ جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی۔ اور ہر شی تقدیر کے ساتھ مقرر ہے۔ الاالکائی۔

1558

1558 - عن علي "أنه ذكر عنده القدر يوما فأدخل أصبعيه السبابة الوسطى في فيه فرقم بها باطن يده فقال أشهد أن هاتين الرقمتين كانتا في علم الكتاب". (اللالكائي) .
١٥٥٨۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک دن ان کے پاس کسی نے تقدیر کا مسئلہ چھیڑا تو آپ نے اپنی شہادت اور اس کے برابروالی انگلی اپنے منہ میں ڈالی، اور پھر ہتھیلی کے میں ان کو پھیرا اور فرمایا میں شہادت دیتاہوں کہ ان دوانگلیوں کے ساتھ یہ لکھنا بھی یقیناً علم الکتاب یعنی لوح محفوظ میں تھا۔ الالکانی۔ مقصود یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل خواہ اختیاری ہو یاغیراختیاری سب تقدیر کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔

1559

1559 - عن جعفر بن محمد عن أبيه قال "قيل لعلي بن أبي طالب إن ههنا رجلا يتكلم في المشيئة فقال: يا عبد الله خلقك الله لما شاء أو لما شئت قال لما شاء قال فيمرضك إذا شاء أو إذا شئت قال بل إذا شاء قال فيميتك إذا شاء أو إذا شئت قال إذا شاء قال فيدخلك حيث شاء أو حيث شئت قال والله لو قلت غير هذا لضربت الذي فيه عيناك بالسيف ثم تلا علي: {وَمَا تَشَاءُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ} ". (ابن أبي حاتم والأصبهاني واللالكائي والخلعي في الخلعيات) .
١٥٥٩۔۔ جعفر بن محمد اپنے والد محمد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب سے کہا گیا کہ یہاں ایک ایساشخص ہے جو مشیت الٰہی یعنی قدرت میں کلام کرتا ہے آپ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے مخاطب فرمایا، اے اللہ کے بندے بتا کہ اللہ نے جب چاہا تجھے پیدا کیا تو نے جب چاہا تجھے پیدا کیا ؟ عرضک یا جب اللہ نے چاہاپیدا کیا، دریافت فرمایا جب وہ چاہتا ہے تب تجھے بیمار کرتا ہے یا جب تو چاہتا ہے تب تجھے بیمار کرتا ہے عرض کیا جب وہ چاہتا ہے تب بیمار کرتا ہے فرمایا جب وہ چاہے گا تجھے موت دے گا یا جب توچا ہے گا تو وہ موت دے گا، عرض کیا جب وہ چاہے گا موت دے فرمایا پھر جہاں وہ چاہے گا تجھے داخل کرے گایاجہاں توچا ہے گا وہ داخل کرے گا، پھر حضرت علی نے فرمایا اگر تم اس کے سوا کوئی اور جواب دیتے تو میں تمہارا یہ سر قلم کردیتا جس میں یہ دوآنکھیں ہیں۔ پھر حضرت علی نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ وماتشاو ون الاان یشاء اللہ۔ ھو اھل التقوی واھل المغفرۃ) ۔ تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو خدا کو منظور ہو، وہی ڈرنے کے لائق اور بخشش کا مالک ہے۔ ابن ابی حاتم ، اللالکانی، الخلعی، فی الخلعیات۔

1560

1560 - عن محمد بن زكريا العلائي ثنا العباس بن بكار حدثنا أبو بكر الهذلي عن عكرمة قال "لما قدم علي من صفين قام إليه شيخ من أصحابه (2) يا أمير المؤمنين أخبرنا عن مسيرنا إلى الشام بقضاء وقدر فقال والذي خلق الحبة وبرأ النسمة ما قطعنا واديا ولا علونا تلعة إلا بقضاء وقدر، فقال الشيخ: عند الله احتسب عنائي فقال علي بل عظم الله أجركم في مسيركم وأنتم مصعدون وفي منحدركم وأنتم منحدرون وما كنتم في شيء من أموركم مكرهين ولا إليها مضطرين فقال الشيخ كيف يا أمير المؤمنين والقضاء والقدر ساقنا إليها؟ فقال ويحك لعلك ظننته قضاء لازما وقدرا حاتما لو كان ذلك لسقط الوعد والوعيد وبطل الثواب والعقاب ولا أتت لائمة من الله لمذنب ولا محمدة من الله لمحسن ولا كان المحسن أولى بثواب الإحسان من المذنب ذلك مقال أحزاب (2) عبدة الأوثان وجنود الشيطان وخصماء الرحمن وهم قدرية هذه الأمة ومجوسها ولكن الله أمر بالخير تخييرا ونهى عن الشر تحذيرا ولم يعص مغلوبا ولم يطع مكرها ولا يملك تفويضا ولا خلق السماوات والأرض وما أرى فيهما من عجائب آياتهما باطلا ذلك ظن الذين كفروا فويل للذين كفروا من النار، فقال الشيخ: يا أمير المؤمنين فما كان القضاء والقدر الذي كان فيه مسيرنا ومنصرفنا قال: ذلك أمر الله وحكمته، ثم قرأ علي: {وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ} . (كر) والعلائي وشيخه كذابان.
١٥٦٠۔۔ محمد بن زکریا، العلائی سے مروی ہے کہ ہم کو عباس بن البکار نے بیان کیا وہ حضرت عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی جنگ صفین سے واپس تشریف لائے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک شیخ نے کھڑے ہو کر سوال کیا اے امیرالمومنین ہمیں بتائیے کہ کیا ہمارا شام کی طرف یہ سفر کرنا قضاوقدر کے موجب تھا ؟ فرمایا قسم ہے اس ہستی کی جس نے دانے کو چاک کیا جان کو پیداکیاہم نے کوئی وادی طے کی اور نہ کوئی ٹیلہ عبور کیا مگر سب قضا وقدر کے موجب تھا، شیخ نے عرض کیا پھر تو میں اللہ کے ہاں اپنی جہد وسعی پر ثواب کی امید رکھتاہوں۔ حضرت علی نے فرمایا بلکہ اللہ تمہارے کسی بلندی کو عبور کرنے اور کسی نشیب میں اترنے پر بھی اجرعظیم مرحمت فرمائیں گے اور یہ یاد رکھو، کہ تم اپنے کسی بھی معاملہ میں کراہت وجبرا مصروف نہیں کیے جاتے اس پر شیخ نے عرض کیا اے امیرالمومنین تو کیا قضاوقدر ہم کو اس طرف نہیں کھینچتی۔ فرمایا افسوس شاید کہ تم اس کو قضا لازمی اور تقدیر حتمی سمجھ بیٹھے ہو ؟ اگر یہ بات ہوتی تو خوش خبری ووعید کالعدم ہوجاتیں، اور کارخانہ ثواب عذاب بےکار ہوجاتا۔ اور اللہ کی طرف سے کسی گناہ گار پر کوئی ملامت ہوتی اور نہ ہی کسی محسن پر کوئی مدحت ہوتی اور کوئی محسن احسان کی وجہ سے گناہ کی بجائے ثواب کا زیادہ مستحق نہ ہوتا۔ لہذایہ بات کہ انسان مجبور محض ہو کرعمل سرانجام دیتا ہے بتوں کے پجاریوں کی بات ہے۔ اور شیطان کے کارندوں رحمان کے دشمنوں کی بات ہے اور یہ لوگ اس امت کے مجوسی اور قدریہ ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خیر کا اختیار نہ بخشا اور شر سے ڈرایا۔ اور کسی کو مغلوب وبے بس کرکے گناہ کروایا اور نہ ہی کسی سے جبرا اطاعت کروائی۔ اور نہ کسی کو مکمل مالک بنایا، اور نہ آسمان و زمین میں ان میں نظر آنے والی اشیاء کو بےمقصد پیدا کیا۔ یہ خیال کہ سب یونہی بےمقصد ہے اور حساب کتاب کا وجود نہیں ان لوگوں کا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے سو ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو جہنم کے انکار ہیں شیخ نے عرض کیا یا امیرالمومنین پھر کیا ہماری یہ آمدورفت قضاقدر تھی ؟ فرمایا یہ اللہ کا امر اور اس کی حکمت تھی پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وقضی ربک الاتعبدوا الاایاہ۔ تیرے رب نے فیصلہ کیا ہے کہ تم محض اس کی پرستش کرو۔ ابن عساکر۔ اس روایت کے دونوں راوی محمد بن زکریا، العلائی، اور عباس بن البکار کذاب ہیں۔

1561

1561 - عن الحارث قال جاء رجل إلى علي فقال: "يا أمير المؤمنين أخبرني عن القدر. قال: طريق مظلم، لا تسلكه. قال: يا أمير المؤمنين أخبرني عن القدر. قال بحر عميق، لا تلجه. قال: يا أمير المؤمنين أخبرني عن القدر. قال: سر الله قد خفي عليك، فلا تفشه. قال: يا امير المؤمنين أخبرني عن القدر. قال: يا أيها السائل، إن الله خالقك كما شاء أو كما شئت؟ قال: بل كما شاء. قال: فيستعملك كما شاء أو كما شئت؟ قال: بل كما شاء. قال: فيبعثك يوم القيامة كما شاء أو كما شئت؟ قال: بل كما شاء. قال: أيها السائل ألست تسأل الله ربك العافية؟ قال بلى. قال: فمن أي شيء تسأله العافية؛ أمن البلاء الذي ابتلاك به، أم من البلاء الذي ابتلاك به غيره؟ قال: من البلاء الذي ابتلاني به. قال: يا أيها السائل، تقول لا حول ولا قوة إلا بمن؟ قال: إلا بالله العلي العظيم. قال: فتعلم ما في تفسيرها؟ قال: تعلمني مما علمك يا أمير المؤمنين. قال: إن تفسيرها: لا يقدر على طاعة الله، ولا يكون له قوة في معصية الله، في الأمرين جميعا، إلا بالله. أيها السائل ألك مع الله مشيئة فإن قلت لك دون الله مشيئة، فقد اكتفيت بها عن مشيئة الله، وإن زعمت أن لك فوق الله مشيئة، فقد ادعيت مع الله شركا في مشيئته. أيها السائل، إن الله يشج ويداوي؛ فمنه الدواء ومنه الداء. أعقلت عن الله أمره؟ قال نعم. قال علي: الآن أسلم أخوكم، فقوموا فصافحوه. ثم قال علي: لو أن عندي رجلا من القدرية لأخذت برقبته ثم لا أزال أجأها حتى أقطعها فإنهم يهود هذه الأمة ونصارها ومجوسها". (كر) .
١٥٦١۔۔ حارث (رح) سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت علی کی خدمت میں آیا اور عرض کیا اے امیرالمومنین مجھے تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے فرمایا، یہ انتہائی تاریک راہ ہے ، اس پر مت چل۔ عرض کیا اے امیرالمومنین مجھے تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے ، فرمایا یہ اتھاہ گہرائیوں والا سمندر ہے اس میں مت گھس عرض کیا اے امیرالمومنین مجھے تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے یہ اللہ کا راز ہے ، اس سے پردہ اٹھانے کی کوشش مرت کر، عرض کیا اے امیرالمومنین مجھے تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے فرمایا اے سائل اچھا بتا جیسے پروردگار نے چاہا تجھے پیدا کیا یا جیسے تو نے چاہا پیدا کیا، عرض کیا جی سے اللہ نے چاہا پیدا کیا فرمایا اور جیسے اللہ نے چاہا تجھے کام میں لگایا یا جیسے تو نے چاہا اللہ نے کام میں لگایا، عرض کیا جیسے اس نے چاہاکام میں لگادیا، فرمایا قیامت کے رو ز جس حالت میں وہ چاہے گا تجھے اٹھائے گا یا جس حالت میں توچا ہے گا ویسے اٹھائے گا، عرض کیا جس حالت میں وہ چاہے گا اٹھائے گا حضرت علی نے پھر فرمایا اے سائل بتا کیا تو اللہ سے جو تیرا رب ہے عافیت مانگتا ہے یا نہیں ؟ عرض کیا ضرور۔ فرمایا تو کس چیز سے عافیت مانگتا ہے آیا اس مصیبت سے جس نے تجھے گھیر رکھا ہے یا اس مصیبت سے جس نے کسی اور کو پریشان کررکھا ہے ؟ عرض کیا اس مصیبت سے جس نے مجھے گھیر رکھا ہے پھر فرمایا اے سائل تیرا اعتقاد ہے کہ گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی پر عمل پیرا ہونے کی قوت صرف اس ہستی کی بدولت ہے بتاوہ کون سی ہے ہستی ؟ عرض کیا اللہ جو عالی شان اور عظیم المراتبت ہے فرمایا بس اسی کی تفسیر جان لے تیرا مقصود حل ہوجائے گا، عرض کیا اے امیرالمومنین اللہ نے جو آپ کو سکھایا مجھے بھی سکھا دیجئے فرمایا اس کی تفسیر یہ ہے کہ بندہ کو اطاعت خداوندی کی قدررت ہے اور نہ ہی معصیت خداوندی کی قوت وہ دونوں معاملوں میں اللہ کا محتاج ہے۔ اے سائل بتا کیا اللہ کی مشیت و ارادے کے ساتھ تیری مشیت بھی شامل ہے پھر اگر تو کہتا ہے کہ تیری مشیت بھی اللہ کی مشیت کے تابع ہے تو بس تجھے اپنی مشیت مشیت ایزدی کی طرف سے کفایت کرے گی اور اگر خدانخواستہ تیرا یہ خیال ہے کہ تیری مشیت مستقل بالذات ہے جس میں خدائی مشیت کو کوئی دخل نہیں پھر تو یقیناً اللہ کے ساتھ اس کی مشیت میں دعوی شرک کا مرتکب ہوچکا ہے۔ اے سائل اللہ ہی زخمی کرتا ہے پھر وہی اس کی دوا کرتا ہے تو دوا کا سرچشمہ وہی ہے تو دوا و مرض بھی اسی کی طرف سے ہے پھر حضرت علی نے سائل سے دریافت کیا کیا اب اللہ کے امر قدرت کو سمجھے ؟ شیخ نے کہا جی بالکل۔ پھر آپ نے دیگر حاضرین کو مخاطب ہو کے فرمایا اب جا کے تمہارا بھائی مسلمان ہوا ہے اٹھو اور اس سے مصافحہ کرو۔ پھر حضرت علی نے فرمایا اگر میرے پاس کوئی قدری شخص وہ جس کا عقیدہ ہو کہ انسان مجبور محض ہے ہوتا تو میں اس کی گردن دبوچتا۔۔ اور اس کو گلا گھونٹنے گھونٹتے مارڈالتا کیونکہ بیشک یہ لوگ اس امت کے یہودی، نصرانی اور مجوسی ہیں۔ ابن عساکر۔

1562

1562 - عن علي قال لكل عبد حفظة يحفظونه لا يخر عليه حائط أو يتردى في بئر إو تصيبه دابة. حتى إذا جاء القدر الذي قدر له، خلت عنه الحفظة، فأصابه ما شاء الله أن يصيبه". (د في القدر) .
١٥٦٢۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا کہ ہر بندہ پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں کہ کہیں اس پر کوئی دیوار نہ آگرے ، یا یہ کسی کنویں میں گر کر ہلاک نہ ہوجائے یا کوئی جانور اس پر حملہ نہ کر بیٹھے حتی کہ جب تقدیر کا لکھا آجاتا ہے تو فرشتے اس کی راہ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر جو اللہ کو منظور ہوتی ہے وہ مصیبت اس کو آلیتی ہے۔ السنن لابی داؤد فی القدر۔

1563

1563 - عن أبي نصير قال "كنا جلوسا حول الأشعث بن قيس إذ جاء رجل بيده عنزة فلم نعرفه وعرفه فقال يا أمير المؤمنين قال نعم قال تخرج هذه الساعة وأنت رجل محارب قال إن علي من الله جنة حصينة فإذا جاء القدر لم يغن شيئا إنه ليس من الناس أحد إلا وقد وكل به ملك فلا تريده دابة ولا شيء إلا قال اتقه اتقه فإذا جاء القدر خلى عنه". (د في القدر كر) .
١٥٦٣۔۔ ابونصیر سے مروی ہے کہ ہم اشعث بن قیس کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص ہاتھ میں نیزہ تھامے آپ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا ہم تو اس کو نہ پہچان سکے مگر آپ پہچان گئے اس نے کہا، امیرالمومنین فرمایا جی عرض کیا، آپ اس وقت میں بےدھڑک نکلتے ہیں جبکہ آپ سے جنگ چھڑی ہوئی ہے ، فرمایا اللہ کی طرف سے ایک ڈھال میری حفاظت پر مامور ہے جو میرے لیے قلعہ گاہ بھی ہے پس جب نوشتہ تقدیر آجائے گا تو کوئی چیز مفید نہ رہے گی۔ بیشک کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس پر کوئی نگہبان فرشتہ مقرر نہ ہو۔ کوئی بھی جانور یا کوئی اور شے اسے گزند پہنچانے کا ارادہ کرتی ہے تو وہ فرشتہ اسے کہتا ہے کہ ہٹو، ہٹو ! پس جب قدرت کا فیصلہ آجاتا ہے تو وہ فرشتہ اس کی راہ چھوڑ دیتا ہے۔ ابوداؤد، فی القدر ابن عساکر۔

1564

1564 - عن يعلى بن مرة قال: "كان علي يخرج بالليل إلى المسجد يصلي تطوعا فجئنا نحرسه فلما فرغ أتانا فقال ما يجلسكم؟ قلنا نحرسك فقال أمن أهل السماء تحرسون أم من أهل الأرض؟ قلنا: بل من أهل الأرض قال إنه لا يكون في الأرض شيء حتى يقضى في السماء، وليس من أحد إلا وقد وكل به ملكان يدفعان عنه ويكلآنه حتى يجيء قدره فإذا جاء قدره خليا بينه وبين قدره وإن علي من الله جنة حصينة فإذا جاء أجلي كشف عني وإنه لا يجد طعم الإيمان حتى يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه". (د في القدر وخشيش في الاستقامة كر) .
١٥٦٤۔۔ یعلی بن مرہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رات میں مسجد جاکر نوافل ادا کیا کرتے تھے تو ہم آپ کی چوکیداری کی غرض سے حاضر ہوئے جب آپ فارغ ہوئے تو ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کس چیز نے تمہیں بٹھا رکھا ہے ؟ ہم نے عرض کیا ہم آپ کی چوکیداری کررہے ہیں، فرمایا کیا آسمان والوں سے میری حفاظت کررہے ہو، یا زمین والوں سے ؟ ہم نے عرض کیا زمین والوں سے ۔ فرمایا زمین میں کوئی شے نقصان رساں نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ آسمان پر اس کا فیصلہ نہ کردیا جائے۔ بیشک کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس پر دونگہبان فرشتے مقرر نہ ہوں۔ جو اس سے سے ہر مصیبت کو دفع کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس کی حفاظت سپرد کرتے رہتے ہیں حتی کہ اس کی تقدیر آجاتی ہے پس جب اس کی تقدیر آجاتی ہے تو وہ فرشتے اس کے اور تقدیر کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور اللہ کی طرف سے ایک ڈھال میری حفاظت پر مامور ہے جو میرے لیے قلعہ گاہ ہے سو جب میرا وقت آجائے گا تو مجھ سے یہ حفاظت اٹھ جائے گی اور بیشک کوئی شخص ایمان کا مزہ اس وقت تک نہیں چکھ سکتا جب تک وہ اس بات کا یقین نہ کرلے کہ جو چیز اس کو پہنچی وہ ہرگز چوکنے والی نہ تھی اور وہ جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی۔ ابوداؤد فی القدر، خشیش فی الاستقامہ، ابن عساکر۔

1565

1565 - عن قتادة قال: "إن آخر ليله أتت على علي جعل لا يستقر فارتاب به أهله فجعل يدس بعضهم إلى بعض حتى أجمعوا فناشدوه قال إنه ليس من عبد إلا ومعه ملكان يدفعان عنه ما لم يقدر أو قال ما لم يأت القدر فإذا أتى القدر خليا بينه وبين القدر ثم خرج إلى المسجد فقتل" (د في القدر كر) .
١٥٦٥۔۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی کی زندگی کی آخری رات آئی تو آپ اپنی جگہ ٹھہرتے نہ تھے اہل خانہ کو تشویش ہوئی اور وہ آپس میں آپ کو روکنے کے لیے حیلہ سازی کرنے لگے، پھر جمع ہو کر آپ کو رک جانے کے لیے واسطے دیے۔ آپ نے فرمایا بیشک کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس پر دونگہبان فرشتے مقرر نہ ہوں، جو اس سے ہر غیر مقدر مصیبت کو دفع کرتے رہتے ہیں یا فرمایا جب تک تقدیر نہیں آجاتی۔ پس جب تقدیر آجاتی ہے تو وہ فرشتے اس کے اور تقدیر کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں یہ فرما کر آپ مسجد کی طرف گئے اور شہید کردیے گئے ۔ ابوداؤد، فی القدر، ابن عساکر۔

1566

1566 - عن أبي مجلز قال "جاء رجل إلى علي وهو يصلي في المسجد فقال احترس فإن ناسا من مراد يريدون قتلك فقال إن مع الرجل ملكين يحفظانه مما لم يقدر فإذا جاء القدر خلوا (2) بينه وبينه وإن الأجل جنة حصينة". (ابن سعد كر) .
١٥٦٦۔۔ ابی مجلز سے مروی ہے کہ حضرت علی کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اس وقت آپ (رض) مسجد میں نماز میں مشغول تھے اس شخص نے آکر عرض کیا اپنی حفاظت کا کچھ خیال کیجئے کیونکہ مراد کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں آپ نے فرمایا بیشک ہر آدمی پر دو نگہبان فرشتے مقرر ہیں جو اس کی ہر غیر مقدر مصیبت کی طرف سے حفاظت کرتے ہیں پس جب تقدیرآجاتی ہے تو وہ فرشتے اس کے اور تقدیر کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں۔ اور موت خود انسان کے لیے ایک ڈھال اور قلعہ گاہ ہے۔ ابن سعد، ابن عساکر۔

1567

1567 - عن محمد بن إدريس الشافعي عن يحيى بن سليم عن جعفر ابن محمد عن أبيه عبد الله بن جعفر عن علي بن أبي طالب "أنه خطب الناس يوما فقال في خطبته وأعجب ما في الإنسان قلبه وله مواد من الحكمة وأضداد من خلافها فإن سنح له الرجاء أولهه الطمع، وإن هاج به الطمع أهلكه الحرص وإن ملكه اليأس قتله الأسف وإن عرض له الغضب اشتد به الغيظ، وإن أسعد بالرضا نسي التحفظ وإن ناله الخوف شغله الحزن وإن أصابته مصيبة قصمه الجزع وإن أفاد مالا أطغاه الغنى وإن عضته فاقة شغله البلاء وإن جهده الجوع قعد به الضعف فكل تقصير به مضر وكل إفراط له مفسد قال: فقام إليه رجل ممن كان شهد معه الجمل فقال: يا أمير المؤمنين أخبرنا عن القدر فقال: بحر عميق فلا تلجه قال: يا أمير المؤمنين أخبرنا عن القدر قال: سر الله فلا تتكلفه قال: يا أمير المؤمنين أخبرنا عن القدر قال: أما إذ أبيت فإنه أمر بين أمرين لا جبر ولا تفويض قال: يا أمير المؤمنين إن فلانا يقول بالاستطاعة وهو حاضرك فقال: علي به فأقاموه فلما رآه سل سيفه قد أربع أصابع فقال الاستطاعة تملكها مع الله أو من دون الله وإياك أن تقول أحدهما فترتد فأضرب عنقك قال: فما أقول يا أمير المؤمنين؟ قال: قل أملكها بالله الذي إن شاء ملكنيها". (حل) .
١٥٦٧۔۔ محمد بن ادریس الشافعی، یحییٰ بن سلیم سے اور یحییٰ ، جعفر بن محمد سے ، جعفر اپنے والد عبداللہ بن جعفر سے ۔ عبداللہ حضرت علی (رض) بن ابی طالب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا، انسان کے اندر عجیب ترین شے اس کا دل ہے جو حکمت و دانائی کا ذخیرہ ہے تو اس کی اضداد کے لیے بھی جائے پناہ ہے۔ اگر اس میں امید کو آسرا ملتا ہے تو طمع اس کو مجبور کردیتی ہے اور اگر طمع بھڑکتی ہے تو حرص اس کو ہلاک کر ڈالتی ہے اور اگر یاس واناامیدی کا ہجوم اس میں گھربساتا ہے توحسرت و افسوس اس کو قتل کیے دیتا ہے اور اگر اس پر غصہ طاری ہوتا ہے تو غضبناکی اس میں بھڑک اٹھتی ہے اور اگر اس کو رضا بالقضاء کی سعادت میسر ہوتی ہے تو یہ اپنی حفاظت سے غافل ہوجاتا ہے اور اگر خوف اس پر مسلط ہوتا ہے تو یہ حزن وملال کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو آہ واویلا اس کو کاٹ ڈالتا ہے اگر یہ مال حاصل کرلیتا ہے تو غنی واسراف اس کو سرکشی میں مبتلا کیے دیتے ہیں، اگر اس کو فاقہ کاٹتا ہے تو بلاء و مصیبت اس کو گھیر لیتی ہے اور اگر بھوک اس کو لاچار کرتی ہے توضعف وکسمپرسی اس کو لے بیٹھتی ہے الغرض ہر کمی اس کے لیے مضر ہے اور ہر طرح کی فراوانی اس کے بگاڑ و فساد کا سرچشمہ ہے۔
ایک شخص جو جنگ جمل میں آپ کے ہمراہ کھڑا ہوا اور عرض کیا اے امیرالمومنین ہمیں تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے فرمایا یہ اتھاہ گہرا سمندر ہے اس میں مت گھس۔ اس نے پھر اصرار کیا اے امیرالمومنین ہمیں تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے فرمایا یہ خدائی راز سے اس کی کلفت میں مت پڑو۔ اس نے پھر اصرار کیا اے امیرالمومنین ، ہمیں تقدیر کے متعلق کچھ بتا دیجئے فرمایا اگر تم نہیں مانتے توسنو کہ یہ دوراہوں کے درمیان ایک راہ ہے جس میں کلی چبر ہے اور نہ مکمل اختیار وتفویض اس نے عرض کیا امیرالمومنین یہاں ایک شخص آپ کے حاضر ہے جس کا خیال ہے کہ ہر شی کا تعلق بندہ کی استطاعت کے ساتھ ہے۔ آپ (رض) نے فرمایا اس کو سامنے لاؤ لوگوں نے اس کو کھڑا کردیا، آپ (رض) نے اپنی تلوار چارانگلیوں کیے برابر نیام سے سونتی اور اس سے دریافت فرمایا، کیا تم اللہ کے ساتھ ہو کر استطاعت رکھنے کا دعوی کرتے ہو یا اللہ کے بغیر استطاعت رکھنے کا دعوی کرتے ہو اور یاد رکھو کسی ایک کے متعلق بھی ہاں کہی تو تم مرتد ہوجاؤ گے اور پھر میں تمہاری گردن اڑادوں گا اس شخص نے عرض کیا اے امیرالمومنین تو پھر میں کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ میں استطاعت رکھتاہوں اللہ کی مدد سے اگر وہ چاہتا تو مجھے اس کا مالک بنادیتا۔ الحلیہ۔

1568

1568 - عن يحيى بن أبي كثير قال: "قيل لعلي ألا نحرسك فقال حرس امرأ أجله". (حل) .
١٥٦٨۔۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ حضرت علی سے اجازت طلب کی گئی کہ کیا ہم آپ کی حفاظت نہ کریں ؟ فرمایا موت انسان کی حفاظت کرتی ہے الحلیہ یعنی جب تک موت کا وقت نہ آئے تو کوئی چیز گزند و نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔ تو گویا موت ہی اس کی حفاظت کرتی ہے۔

1569

1569 - ومن مسند أبي بن كعب عن أبي الأسود الدؤلي أنه أتى إلى عمران بن حصين فقال: "إني خاصمت أهل القدر حتى أخرجوني فهل عندك من حديث لعل الله أن ينفعني به؟ قال: لعلي إن حدثتك حديثا تيأس عليه أذنك صار كأنك لم تسمعه قال: ما جئت لذلك قال: فإن الله تبارك وتعالى لو عذب أهل السموات السبع، وأهل الأرضين السبع عذبهم وهو غير ظالم لهم ولو أدخلهم في رحمته لكانت رحمته أوسع من ذنوبهم كما قال: {يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ} ، فمن عذب فهو الحق ومن رحم فهو الحق ولو كانت الجبال ذهبا أو ورقا فأنفقها (2) في سبيل الله ولم يؤمن بالقدر خيره وشره لم ينفعك (2) (كذا) واخرج فاسأل قال: فخرجت إلى المسجد فإذا بعبد الله بن مسعود وأبي بن كعب فسألتهما فقال عبد الله بن مسعود يا أبي أخبره قال: أبي بل أنت يا أبا عبد الرحمن أخبره فجاء بمثل حديث عمران بن حصين لم يزد قليلا ولا كثيرا كأنه يسمع قوله ثم قال يا أبي أكذلك تقول قال: نعم". (ابن جرير) .
١٥٦٩۔۔ ازمسند ابی بن کعب (رض)۔ ابولاسود (رح) سے مروی ہے کہ وہ حضرت عمران بن حصین (رض) کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا اہل القدر تقدیر کے منکرین سے جھگڑا ہوگیا ہے حتی کہ انھوں نے مجھے تنگ کرڈالا ہے لہٰذا مجھے کوئی حدیث سنائیے شاید اس کے ذریعہ اللہ مجھے نفع دے فرمایا اگر میں کچھ کہوں توشاید تمہارے کانوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے ، گویا تم اس کو سنی اب سنی کردو میں نے عرض کیا میں اس لیے خاص نہیں ہوتا تو آپ (رض) نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ وتعالی ساتوں آسمان اور ساتوں زمین والوں کو عذاب میں مبتلا فرمادیں تو اس کا ذرہ بھران پر ظلم نہ ہوگا اور اگر ان سب کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے تو اس کی رحمت سب کے گناہوں پر حاوی ہوگی جیسا کہ اس ذات نے خود فرمایا ۔ یعذب من یشاء ویرحم من یشائ۔ وہ جس کو چاہے عذاب دے اور جس کو چاہے رحم کرے۔ وہ جس کو بھی عذاب سے دوچار کرے عین برحق ہے اور جس پر بھی رحم کرے عین برحق ہے۔
اگر سارے پہاڑ سونے یا چاندی کے ہوجائیں اور وہ شخص جو اچھی بری تقدیر کا منکر ہے۔ اور ان کو راہ خدا صرف کرڈالے توتب بھی کچھ نفع نہ دے اب تم جاؤ اور دیگر صحابہ سے بھی سوال کرو۔ ابوالاسود الدولی فرماتے ہیں میں مسجد کی طرف نکلا تو وہاں حضرت عبداللہ بن مسعود رضیا للہ عنہ اور ابی بن کعب کو پایا۔ میں نے دونوں سے سوال کیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے ابی بن کعب سے فرمایا اے ابی اس کو بتاؤ ، حضرت ابی نے فرمایا آپ ہی فرمائیں اے ابوعبدالرحمن تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے عین اسی کے مثل فرمایا جو حضرت عمران بن حصین فرماچکے تھے کچھ بھی کمی بیشی نہ فرمائی گویا انہی سے سن کر جواب دیا ہے پھر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا اے ابی کیا تم بھی یہی کہتے ہو ؟ انھوں نے فرمایا بالکل۔ ابن جریر۔

1570

1570 - ومن مسند أكثم بن الجون الخزاعي عن أبي نهيك عن شبل بن خليد المزني عن أكثم بن أبي الجون قال قلنا يا رسول الله فلان لجريء في القتال قال: هو من أهل النار قلنا يا رسول الله إذا كان فلان في عبادته واجتهاده ولين جانبه في النار فأين نحن؟ قال: إنما ذلك إخبات النفاق وهو في النار قال كنا نتحفظ عليه في القتال كان لا يمر به فارس ولا راجل إلا وثب عليه فكثر عليه جراحه فأتينا النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا يا رسول الله استشهد فلان قال هو في النار فلما اشتد ألم جراحه أخذ سيفه فوضعه بين ثدييه ثم اتكأ عليه حتى خرج من ظهره فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت أشهد أنك رسول الله فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار وإنه لمن أهل الجنة تدركه الشقوة والسعادة عند خروج نفسه فيختم له بها". (ابن مندة طب وأبو نعيم) .
١٥٧٠۔۔ ازمسند کثم بن الجوان الخزاعی (رض) ۔ ابونہیک (رح) ، شبل بن خلید المزنی (رح) سے روایت کرتے ہیں اور وہ اکثم بن ابی الجون، سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ فلاں شخص قتال میں بڑا ہی جرات مند ہے آپ نے فرمایا وہ تو جہنمی ہے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ اگر وہ فلاں شخص اپنی عبادت اور جدوجہد اور نرم رویہ کے باجو ود جہنمی ہے توہم کس کھاتے میں ہوں گے ؟ فرمایا یہ محض نفاق کی عجز و انکساری ہے اور یہ جہنم میں جائے گی ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم قتال میں ان کی خاص نگرانی رکھتے تھے تو دیکھا کہ اس کے پاس سے کوئی بھی شہسوار یاپیداہ پاگزرتا ہے تو یہ اس پر کود کر حملہ آور ہوجاتا ہے۔۔ حتی کہ یہ زخموں سے چور ہوگیا یہ ماجرادیکھ کر ہم بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ وہ توشہید ہواجاتا ہے تب بھی آپ نے فرمایا وہ جہنمی ہے تو بالآخر جب وہ زخموں کی تاب نہ لاسکا تو اس نے اپنی تلوار تھامی اور عین اپنے سینے کے درمیان رکھی اور پھر اس پر اپنازور صرف کرڈالا۔۔ حتی کہ وہ تلوار اس کی پشت سے جانکلی۔ اکثم بن ابی الجون الخزاعی فرماتے ہیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں شہادت دیتاہوں کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں۔ تب آپ نے فرمایا آدمی اہل جنت کا عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ جہنمیوں میں داخل ہوتا ہے اور کبھی آدمی اہل جہنم کا عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ جنتیوں میں داخل ہوتا ہے لیکن روح نکلتے وقت اس کو شقاوت یا سعادت آلیتی ہے اور اسی پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ابن مندہ ، الکبیر للطبرانی ، (رح) ابونعیم۔

1571

1571 - ومن مسند أنس بن مالك قال (كر) حدثنا أبو الحسن علي بن مسلم الفقيه وأخذ بلحيته ثنا عبد العزيز بن أحمد وأخذ بلحيته أنبأنا أبوعمرو عثمان بن أبي بكر وأخذ بلحيته ثنا محمد بن إسحاق العبدي وأخذ بلحيته أنبأنا أحمد بن مهران وأخذ بلحيته ثنا سليمان بن شعيب الكيساني وأخذ بلحيته حدثنا شهاب بن خراش وأخذ بلحيته ثنا يزيد الرقاشي وأخذ بلحيته ثنا أنس وأخذ بلحيته قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يؤمن العبد حتى يؤمن بالقدر خيره وشره وحلوه ومره وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم على لحيته وقال: آمنت بالقدر خيره وشره وحلوه ومره إن المرء ليعمل بعمل أهل النار البرهة من دهره ثم يعرض له الجادة من جواد الجنة فيعمل بها حتى يموت عليها وذلك لما كتب له وإن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة البرهة من دهره ثم تعرض له الجادة من جواد النار فيعمل بها حتى يموت عليها وذلك لما كتب له." (طب عن الغرس بن عميرة) .
١٥٧١۔۔ ازمسند بن مالک (رض) ۔ ابن عساکر (رح) فرماتے ہیں خہ ہمیں ابوالحسن علی بن مسلم الفقیہ نے اپنی ریش تھامے ہوئے بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں عبدالعزیز بن احمد نے اپنی ریش تھامے ہوئے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوعمرو عثمان بن ابی بکر نے اپنی ریش تھامے ہوئے خبر دی وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں محمد بن اسحاق العبدی نے اپنی ریش تھامے ہوئے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں احمد بن مہران نے اپنی ریش تھامے ہوئے خبر دی وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں سلیمان بن شعیب الکیسانی نے اپنی ریش تھامے ہوئے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت انس نے اپنی ریش تھامے ہوئے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو اپنی ریش تھامے ہوئے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اچھی بری شیریں وتلخ ہر طرح کی تقدیر پر ایمان نہ لائے پھر آپ نے اپنی ریش مبارک کو مٹھی میں پکڑتے ہوئے فرمایا میں بھی ہر تقدیر پر خواہ اچھی ہو یا بری اور شیریں ہو یا تلخ، ایمان لاتاہوں اور سنو، آدمی بسا اوقات عرصہ دراز تک اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے سامنے جنت کی راہوں میں سے کوئی راہ پیش آجاتی ہے اور اس پر گامزن ہوجاتا ہے ۔۔ حتی کہ اسی پر اس کی موت آتی ہے اور یہ محض اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے مقدر میں یہی لکھا تھا اور بسا اوقات آدمی عرصہ دراز تک اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے پھر اس کے سامنے جہنم کی راہوں میں سے کوئی راہ پیش آجاتی ہے اور وہ اس پر گامزن ہوجاتا ہے حتی کہ پھر اسی پر اس کو موت آجاتی ہے۔ اور یہ محض اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے مقدر میں یہی لکھا تھا۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت الغرس بن عمیرہ۔

1572

1572 - عن ثوبان اجتمع أربعون من الصحابة ينظرون في القدر والجبر فمنهم أبو بكر وعمر فنزل الروح الأمين جبرئيل فقال: يا محمد أخرج على أمتك فقد أحدثوا فخرج عليهم في ساعة لم يكن يخرج عليهم في مثلها فأنكروا ذلك وخرج عليهم ملتمعا (2) لونه متوردة وجنتاه كأنما تفقأ بحب الرمان الحامض فنهضوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاسرين أذرعهم ترعد أكفهم وأذرعهم فقالوا تبنا إلى الله ورسوله فقال أولى لكم إن كدتم لتوجبون (3) أتاني الروح الأمين فقال أخرج إلى أمتك يا محمد فقد أحدثت". (طب) .
١٥٧٢۔۔ حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ چالیس اصحاب رسول جمع ہوئے اور قدروجبر میں گفتگو کرنے لگے انہی میں حضرت شیخین یعنی حضرت ابوبکر وعمر بھی موجود تھے اسی اثناء میں حضرت جبرائیل آپ کے پاس نازل ہوئے اور فرمایا اے محمد اپنی امت کی خبر لیجئے وہ گمراہ ہورہی ہے آپ اسی گھڑی ان کے پاس پہنچے، حالانکہ اس وقت آپ کبھی نہیں نکلتے تھے صحابہ کرام کو یہ بات اجنبی محسوس ہوئی، اور آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ غصہ کی وجہ سے سرخی میں بھڑک رہا تھا،اور آپ کے رخسار مبارک ایسے محسوس ہورہے تھے گویا ان پر ترش انار کے دانے نچوڑ دیے گئے ہوں آپ کی یہ حالت دیکھ کر صحابہ کرام کی ہتھیلیاں اور بازوخوف کے مارے پھڑپھڑاٹھے اور وہ سب اپنی آستینیں چڑھاتے ہوئے اٹھے اور لجامت آمیز لہجے میں بولے یارسول اللہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے آگے تائب ہوتے ہیں آپ نے فرمایا قریب تھا کہ تم جہنم کو اپنے پر واجب کر بیٹھتے میرے پاس ابھی جبرائیل نازل ہوئے تھے انھوں نے فرمایا اے محمد اپنی امت کی خبرلیجئے وہ گمراہ ہورہی ہے۔ الکبیر للطبرانی (رح)۔

1573

1573 - (ومن مسند زيد بن ثابت) عن ابن أبي ليلى قال أتيت أبي ابن كعب فقلت: "وقع في قلبي شيء من القدر فحدثني بشيء يذهب به عني قال: إن الله تبارك وتعالى لو عذب أهل سمواته وأهل أرضه عذبهم وهو غير ظالم، ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من أعمالهم ولو أنفقت مثل جبل أحد ذهبا في سبيل الله ما تقبله الله منك حتى تؤمن بالقدر وتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك وما أخطأك لم يكن ليصيبك ولو مت على غير ذلك لدخلت النار، فأتيت حذيفة فقال لي مثل ذلك فأتيت عبد الله بن مسعود فقال: مثل ذلك فأتيت زيد بن ثابت فحدثني عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك" (ابن جرير) .
١٥٧٣۔۔ ازمسند زید بن ثابت (رض)، ابن ابی لیلی سے مروی ہے کہ میں حضرت ابی بن کعب کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا میرے دل میں تقدیر کی طرف سے کچھ خلجان واقع ہوگیا ہے لہٰذا مجھے کچھ بیان کیجئے تاکہ وہ میرے دل کو صاف کردے۔ تو آپ (رض) نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا فرمادیں تو اس کا ذرہ بھران پر ظلم نہ ہوگا، اور گران سب کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے تو اس کی رحمت سب کے اعمال سے بڑھ کر ہوگی، اور اگر تو اس کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر بھی سوناخرچ کرے تب بھی اللہ اس کو تجھ سے اس وقت تک ہرگز قبول نہ فرمائیں گے جب تک کہ تو تقدیر پر ایمان نہ لائے ۔ اور اس بات کا اچھی طرح یقین نہ کرلے کہ جو چیز تجھ کو پہنچی وہ ہرگز چوکنے والی نہ تھی اور وہ جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی، اور اگر تو اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر مرگیا تو تو جہنم واصل ہوگا، ابن ابی لیلی کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے بھی بعینہ اسی کے مثل بات بیان فرمائی۔ پھر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے بھی بعینہ اسی کے مثل بیان فرمائی۔ پھر میں حضرت زید بن ثابت (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں بھی اسی کے مثل نبی کریم سے روایت بیان فرمائی۔ ابن جریر۔

1574

1574 - ومن مسند سهل بن سعد الساعدي عن سهل بن سعد " أن رجلا كان من أعظم المسلمين عناء عن المسلمين في غزاة غزاها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: من أحب أن ينظر إلى رجل من أهل النار فلينظر إلى هذا فاتبعه رجل من القوم وهو على تلك الحال من أشد الناس على المشركين حتى جرح فاستعجل الموت فجعل ذباب سيفه بين ثدييه حتى خرج من كتفيه فأقبل الرجل الذي كان معه إلى النبي صلى الله عليه وسلم مسرعا فقال أشهد أنك رسول الله فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما ذاك قال قلت من أحب أن ينظر إلى رجل من أهل النار فلينظر إلى هذا وكان من أعظمنا عناء عن المسلمين فقلت إنه لا يموت على ذلك فلما جرح استعجل الموت فقتل نفسه فقال النبي صلى الله عليه وسلم إن العبد ليعمل عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار ويعمل عمل أهل النار وإنه لمن أهل الجنة وإنما الأعمال بالخواتيم". (د) .
١٥٧٤۔۔ ازمسند سہل بن سعد الساعدی (رض) ۔ سہل بن سعد سے مروی ہے کہ ایک شخص جو عظیم مسلمانوں میں سے تھا، اس نے نبی کریم کے ساتھ ایک غزوہ میں مسلمانوں کی حمایت میں لڑتے ہوئے خوب مشقت اٹھائی رسول اللہ نے اس کی طرف دیکھا تو فرمایا جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، تو قوم کا ایک شخص اس کی ٹوہ میں لگ گیا، دیکھا کہ وہ اسی سخت جانفشانی میں ہے مشرکین پر حملوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ حتی کہ وہ زخمی ہوگیا لیکن تکلیف و مصیبت کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے موت کی از خود آرزو کی اور اپنی تلوار کی نوک عین سینے میں درمیان رکھدی۔۔ حتی کہ وہ اس کے شانوں سے جانکلی تو یہ شخص جو اس کی ٹوہ میں تھا تیزی سے رسول اللہ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا یارسول اللہ میں شہادت دیتاہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ نے دریافت کیا کیا بات ہے ؟ عرض کیا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے جبکہ وہ ہم میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی حمایت میں مشقت اٹھانے والا تھا تو میں نے کہا یہ شخص اس حالت میں نہیں مرسکتا۔ جب وہ زخمی ہوگیا تو اس نے از خود موت کی جلد آرزو کی۔ اور اپنے آپ کو قتل کرڈالا۔ تب آپ نے فرمایا آدمی اہل جنت کا عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ جہنمیوں میں داخل ہوتا ہے اور کبھی آدمی اہل جہنم کا عمل کرتا رہتا ہے جبکہ وہ جنتیوں میں داخل ہوتا ہے لیکن اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ السنن لابی داؤد۔

1575

1575 - (ومن مسند عبادة بن الصامت) عن الوليد بن عبادة "أن عبادة بن الصامت لما احتضر قال له ابنه عبد الرحمن يا أبتاه أوصي قال يا بني اتق الله ولن تتق الله حتى تؤمن بالله ولن تؤمن بالله حتى تؤمن بالقدر خيره وشره وتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك وما أخطأك لم يكن ليصيبك سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول القدر على هذا من مات على غير هذا أدخله الله النار". (كر) .
١٥٧٥۔۔ از مسند عبادۃ بن صامت (رض) ، ولید بن عبادہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبادہ بن صامت کا آخری وقت آیاتوان کے فرزند نے پوچھا اے اباجان مجھے کچھ وصیت فرما دیجئے فرمایا اے بیٹے اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم اللہ سے ڈرنے کا مقام اس وقت تک پیدا نہیں کرسکتے جب تک کہ اللہ پر ایمان نہ لاؤ، اور اللہ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاسکتے جب کہ اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ لاؤ اور اس بات کا یقین نہ کرلو کہ جو چیز تجھ کو پہنچی وہ ہرگز چوکنے والی نہ تھی اور جو نہیں پہنچی وہ ہرگز پہنچنے والی نہ تھی، میں نے رسول کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تقدیریہی ہے سو جو اس کے علاوہ پر مرا اللہ اس کو جہنم میں داخل فرمادیں گے۔ ابن عساکر۔

1576

1576 - ومن مسند ابن عمر عن ابن عمر قال " خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو قابض على شيئين في يده ففتح يده اليمنى ثم قال: بسم الله الرحمن الرحيم كتاب من الرحمن الرحيم فيه أهل الجنة بأعدادهم وأحسابهم وأنسابهم مجمل عليهم (2) لا ينقص منهم أحد ولا يزاد فيهم، ثم فتح يده اليسرى فقال: بسم الله الرحمن الرحيم كتاب من الرحمن الرحيم فيه أهل النار بأعدادهم وأحسابهم وأنسابهم مجمل عليهم لا ينقص منهم ولا يزاد فيهم أحد وقد يسلك بالأشقياء طريق أهل السعادة حتى يقال هم منهم هم هم ما أشبههم بهم ثم يدرك أحدهم شقاوة ولو قبل موته بفواق ناقة (2) وقد يسلك بالسعداء طريق أهل الشقاوة حتى يقال هم منهم هم هم ما أشبههم بهم ثم يدرك أحدهم سعادته ولو قبل موته بفواق ناقة، ثم قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم العمل بخواتيمه العمل بخواتيمه". (ابن جرير) .
١٥٧٦۔۔ ازمسندا بن عمر ۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں میں کوئی شے لیے ہوئے باہر تشریف لائے پھر آپ نے دایاں ہاتھ کھولا اور فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ رحمن ورحیم کی کتاب ہے اس میں اہل جنت کی تعداد اور ان کے حسب ونسب وغیرہ کے ہیں اور اسی پر ان کو اٹھایا جائے گا۔
کبھی بھی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی پھر آپ نے بایاں ہاتھ کھولا اور فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ رحمن ورحیم کی کتاب ہے اس میں اہل جہنم کی تعداد اور ان کے حسب ونسب وغیرہ کے ہیں اور اسی پر ان کو اٹھایا جائے گا کبھی بھی اسمین کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ کبھی اہل شقاوت میں اہل سعادت کا طریقہ رائج ہوجاتا ہے۔۔ حتی کہ کہا جانے لگتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر نیک بختوں میں مشابہ ہوگئے ہیں لیکن پھر شقاوت ان کو جالیتی ہے اور ان کو اس سے نکال لاتی ہے کبھی اہل سعادت میں اہل شقاوت کا طریقہ رائج ہوجاتا ہے حتی کہ کہا جانے لگتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح بری حالت ان بدبختوں کے ہوبہو ہوگئے ہیں لیکن پھر سعادت ان کو جالیتی ہے اور ان کو اس سے نجات دیتی ہے بس اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے پس اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ ابن جریر۔

1577

1577 - ومن مسند عبد الله بن عمرو عن عبد الله بن عمرو قال: "أول ما يكفأ الإسلام كما يكفأ الإناء قول الناس في القدر". (ش) .
١٥٧٧۔۔ ازمسند عبداللہ بن عمرو ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا کہ اول شے جو اسلام کو اوندھا کردے گی جس طرح کہ برتن کو اوندھا کردیاجاتا ہے وہ لوگوں کا تقدیر کے بارے میں گفتگو کرنا ہے۔ ابن ابی شیبہ۔

1578

1578 - عن ابن الديلمي قال قلت: لعبد الله بن عمرو بلغنى أنك تقول: "إن القلم قد جف فقال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الله خلق الناس في ظلمة ثم أخذ نورا من نوره فألقاه عليهم فأصاب من شاء وأخطأ من شاء وقد علم من يخطئه ممن يصيبه فمن أصابه من نوره شيء اهتدى ومن أخطأه ضل" فعند ذلك أقول إن القلم قد جف". (ابن جرير) .
١٥٧٨۔۔ ابن الدیلمی سے مروی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو سے عرض کیا کہ مجھے آپ کی طرف سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ قلم خشک ہوچکا ہے۔ تو آپ نے فرمایا میں رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو تاریکی میں پیدا کیا پھر اپنے نور میں سے ان پرنور ڈالا، سو جس کو چاہا اس کو وہ نور پہنچا اور جس کو چاہا نہیں پہنچا، اور پہنچنے والوں میں سے نہ پہنچنے والوں کو اللہ نے اچھی طرح جان لیا ہے سو جس کو نور پہنچا وہ ہدایت یاب ہوا۔ اور جس کو خطا کرگیا وہ گمراہ ہوا تو اس موقعہ پر میں کہتاہوں کہ قلم خشک ہوچکا ہے۔ رواہ ابن جریر۔

1579

1579 - ومن مسند ابن مسعود عن ابن مسعود قال: "أربع قد فرغ منهن الخلق والخلق والرزق والأجل". (كر) .
١٥٧٩۔۔ ازمسندابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا کہ چار چیزوں سے فراغت ہوچکی ہے۔ تخلیق، اخلاق، رزق، اور موت۔ ابن عساکر۔

1580

1580 - عن راشد بن سعد قال حدثني عبد الرحمن بن قتادة السلمي وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "خلق الله آدم ثم أخذ الخلق من ظهره فقال هؤلاء في الجنة ولا أبالي وهؤلاء في النار ولا أبالي قال قائل يا رسول الله فعلى م نعمل قال: على مواقع القدر". (ابن جرير) .
١٥٨٠۔۔ راشد بن سعد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمن بن قتادہ السلمی نے بیان کیا کہ جو اصحاب رسول میں سے تھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے آدم کو پیدا فرمایا پھر ان کی پشت سے ان کی تمام اولاد کو لیا اور فرمایا یہ جنت میں جائیں گے اور مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ جہنم میں جائیں گے اور مجھے کوئی پروا نہیں ایک کہنے والے نے کہا یارسول اللہ پھر ہم عمل کس لیے کریں ؟ فرمایا تقدیر کے وقوع کے لیے۔ ابن جریر۔

1581

1581 - ومن مسند محمد بن عطية بن عروة السعدي قال: (كر) يقال: "إن له صحبة عن عروة بن محمد السعدي عن أبيه أن رجلا من الأنصار أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أريد أن أتزوج امرأة فادع لي فأعرض عنه ثلاث مرات كل ذلك يقول ثم التفت إليه فقال لودعا لك إسرافيل وجبرائيل وميكائيل وحملة العرش وأنا فيهم ما تزوجت إلا المرأة التي كتبت لك" (ابن مندة وقال غريب كر) .
١٥٨١۔۔ ازمسند محمد بن عطیہ بن عروہ السعدی، ابن عساکر، فرماتے ہیں کہ منقول ہے محمد بن عطیہ کو عروہ بن محمد السعدی سے ملاقات حاصل ہے لہٰذا دونوں کے درمیان انقطاع نہ ہوگا اور عروہ اپنے والد محمد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ میں ایک عورت سے نکاح کرنے کا خواہش مند ہوں سو میرے لیے دعا فرمائیے، آپ نے اس سے اعراض فرمایا اس نے تین مرتبہ کہا اور ہر مرتبہ آپ نے اعراض فرمایا، پھر آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ اگر اسرافیل (علیہ السلام) جبرائیل میکائیل اور حاملین عرش مجھ سمیت تیرے لیے دعامانگیں تب بھی تیرا نکاح اسی عورت سے ہوگا جو تیرے لیے لکھ دی گئی ہے ابن مندہ حدیث غریب ہے۔ ابن عساکر۔

1582

1582 - ومن مسند أبي الدرداء عن الأوزاعي عن حسان قال "شكا أهل دمشق إلى أبي الدرداء قلة الثمار فقال: إنكم أطلتم حيطانها وأكثرتم حراسها فجاءها الوباء من فوقها". (ابن جرير) .
١٥٨٢۔۔ از مسند ابی الدرداء ۔ اوزاعی (رح) ، حسان (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ اہل دمشق نے حضرت ابی الدرداء کو پھلوں کی کمی کی شکات کی، آپ نے فرمایا تم ان باغوں کی دیواروں کو طویل کردیا ہے اور ان پر پہرہ داری سخت کردی ہے جس کی وجہ سے اوپر سے وباء آگئی ہے۔ ابن جریر۔

1583

1583 - عن أبي الدرداء أن عمر بن الخطاب قال "يا رسول الله أرأيت ما نعمل أمر قد فرغ منه أو شيء نستأنفه قال أمر قد فرغ منه قال: فكيف العمل بعد القضاء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن كل امرئ مهيأ لما خلق له". (ابن جرير) .
١٥٨٣۔۔ ابی الدرداء سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن خطاب نے عرض کیا یارسول اللہ آپ کی رائے سے کہ جو ہم عمل کرتے ہیں کہ ان کے وقوع کا فیصلہ ہوچکا ہے یا وہ عمل از سرنوہوتا ہے ؟ فرمایا اس کے فیصلہ سے فراغت ہوچکی ہے عرض کیا پھر فیصلہ ہوجانے کے بعد عمل کیسے ہے ؟ رسول اللہ نے فرمایا ہر آدمی کو اسی عمل میں لگایاجاتا ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ ابن جریر۔

1584

1584 - عن حسان بن عطية قال "شكا أهل دمشق إلى أبي الدرداء قلة الثمر فقال: إنكم أطلتم حيطانها وأكثرتم حراسها فأتاها الويل من فوقها". (كر) .
١٥٨٤۔۔ حسان بن عطیہ سے مروی ہے کہ اہل دمشق نے حضرت ابی الدرداء (رض) کو پھلوں کی کمی کی شکایت کی، اور آپ (رض) نے فرمایا تم ان باغوں کی دیواروں کو طویل کردیا ہے اور ان پر پہرہ داری کو سخت کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے اوپر سے وباء آگئی ہے۔ رواہ ابن عساکر۔

1585

1585 - ومن مسند أبي ذر "يا أبا ذر لا تيأس من رجل يكون على شر فيرجع إلى خير فيموت عليه ولا تأمن رجلا يكون على خير فيرجع إلى شر فيموت عليه ليشغلك عن الناس ما تعلم من نفسك". (ابن السني عن أبي ذر) .
١٥٨٥۔۔ ازمسند ابی ذر (رض) ، حضرت ابوذر اپنے آپ کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے ابوذر اس شخص سے امیداوآسرا قطع مت کروشر میں لگا ہوا ہے ممکن ہے کہ وہ خیر کی طرف لوٹ آئے اور پھر اسی حالت پر اس کی موت آجائے اور کسی خیر پرکاربند شخص سے بھی مطمئن مت ہو ممکن ہے وہ شر کی طرف واپس چلا جائے اور اسی پر اس کی موت آجائے۔ یہ بات ذہن نشین رکھ تاکہ یہ بات تجھے لوگوں سے اعراض کرکے اپنے آپ کو مشغول کردے۔ ابن السنی بروایت ابی ذر (رض) ۔

1586

1586 - (ومن مسند أبي هريرة) عن أبي هريرة أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "تحاج آدم وموسى فقال آدم لموسى أنت موسى الذي اصطفاك الله على خلقه وبعثك برسالاته ثم صنعت الذي صنعت يعني النفس الذي قتل فقال موسى لآدم وأنت الذي خلقك الله بيده وأسجد لك ملائكته وأسكنك جنته ثم فعلت الذي فعلت فلولا ما فعلت لدخلت ذريتك الجنة فقال آدم: لموسى أتلومني في أمر قد قدر علي قبل أن أخلق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فحج آدم موسى ثلاثا". (ابن شاهين في الأفراد) وقال لا يعرف هذا الكلام إلا في هذه الرواية فيما ألزم آدم موسى قبل أن يلزم موسى آدم في القتل (كر) .
١٥٨٦۔۔ ازمسند ابوہریرہ ۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ آدم وموسی (علیہما السلام) کا مناظرہ ہوا آدم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا آپ موسیٰ ہیں جن کو اللہ نے کسی وقت میں تمام مخلوق میں سے منتخب کیا ؟ اور اپنے پیغامات کے ساتھ تمہیں مبعوث کیا ؟ پھر تم نے کیا جو کیا یعنی ایک جان کو قتل کرڈالا پھر موسی نے آدم (علیہ السلام) سے کہا آپ وہی ہیں ناں کہ اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ؟ اور پھر آپ کو مسجود ملائکہ بنایا پھر اپنی جنت میں آپ کو سکونت بخشی ؟ پھر آپ نے کیا جو کیا ؟ اگر آپ وہ نہ کرتے تو آپ کی ذریت بھی جنت میں داخل ہوجاتی ؟ آدم نے موسیٰ کو فرمایا کیا تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جس کا وقع میری تخلیق ہی سے قبل مقدر میں ہوچکا تھا ؟ آپ نے تین بار فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ ابن شاھین۔ فی الافراد۔
مولف (رح) فرماتے ہیں کہ یہ واحد روایت ایسی ہے جس میں حضرت آدم اولاحضرت موسیٰ پر قتل کا الزام وارد کرتے ہیں۔ ابن عساکر۔

1587

1587 - عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إن الله خلق الجنة وخلق لها أهلا بعشائرهم وقبائلهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم وخلق النار وخلق لها أهلا بعشائرهم وقبائلهم لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم قيل يا رسول الله ففيم العمل قال: اعملوا فكل ميسر لما خلق له". (خط) .
١٥٨٧۔۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ نے جنت کو تخلیق فرمایا توا س کے اہل کو بھی ان کے خاندان اور قبائل کے ساتھ تخلیق فرمایا سو ان میں کسی ایک فرد کی زیادتی ہوسکتی ہے ، اور نہ ہی کمی۔ عرض کیا یارسول اللہ پھر عمل کس لیے۔ فرمایا عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کو اسی کی توفیق ہوتی جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ الخطیب۔

1588

1588 - يا أبا هريرة "جف القلم بما أنت لاق فاختصر على ذلك أو ذر". (خ ن عن أبي هريرة) .
١٥٨٨۔۔ اے ابوہریرہ جو تم کو پیش آنے والا ہے قلم اس پر خشک ہوچکا ہے۔ پس اسی پر اختصار کرلویاچھوڑ دو ۔ الصحیح لبخاری، النسائی، بروایت ابوہریرہ ۔

1589

1589 - ومن مسند ابن عباس عن ابن عباس قال "خرج النبي صلى الله عليه وسلم فسمع أناسا من أصحابه يذكرون القدر فقال: إنكم قد أخذتم في شعبتين بعيدتي الغور فيهما هلك أهل الكتاب من قبلكم ولقد أخرج يوما كتابا فقال وهو يقرأ هذا كتاب من الرحمن الرحيم فيه تسمية أهل النار بأسمائهم وأسماء آبائهم وقبائلهم وعشائر مجمل على آخره لا ينقص منهم، فريق في الجنة وفريق في السعير ثم أخرج كتابا آخر فقرأه عليه كتاب من الرحمن الرحيم فيه تسمية أهل الجنة بأسمائهم وأسماء آبائهم وقبائلهم وعشائرهم مجمل على آخرهم لا ينقص منهم أحد فريق في الجنة وفريق في السعير". (ابن جرير) .
١٥٨٩۔۔ ازمسند ابن عباس (رض)۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ باہر تشریف لائے توچنداصحاب کو تقدیر کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا تم دوجانبوں میں بٹ گئے ہو اور ہر ایک اپنی جانب کی گہرائی میں اتر گیا ہے اسی میں تو تم سے قبل اہل کتاب تبا ہ ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کسی دن آپ نے ایک کتاب نکالی اور اس کو پڑھتے ہوئے فرمایا یہ کتاب رحمن ورحیم کی ہے اس میں اہل جہنم کے نام ان کی آباء و اجداد اور خاندان و قبائل کے ناموں سمیت درج ہیں اسی پر ان کو جمع کیا جائے گا، ان میں کوئی کمی مقصود نہیں ایک فریق جنت میں اور دوسرا جہنم میں ہے پھر آپ نے ایک اور کتاب نکالی اور فرمایا یہ رحمن ورحیم کی ہے اس میں اہل جنت کے نام ان کی آباء و اجداد اور خاندان و قبائل کے ناموں سمیت درج ہیں۔ اسی پر ان کو جمع کیا جائے گا، ان میں کسی فرد واحد کی کمی بھی متصور نہیں ایک فریق تو جنت میں اور دوسرا جہنم میں ہے۔ ابن جریر۔

1590

1590 - عن ابن عباس قال: أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فأخلف يده وراء ظهره فقال: "يا غلام ألا أعلمك كلمات احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده أمامك جفت الأقلام ورفعت الصحف، فإذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله والذي نفس محمد بيده لوجهدت الأمة على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك ولو أرادت أن تنفعك بشيء لم تنفعك إلا بشيء قد كتبه الله لك". (د) .
١٥٩٠۔۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا، پھر اپنا دست مبارک اپنی پشت کے پیچھے لاکر مجھے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا اے لڑکے ! کیا میں تجھے ایسی باتیں نہ بتاؤں کہ اگر تو ان کی حفاظت رکھے تو اللہ تیری حفاظت رکھے ؟ اللہ کے حق کی رعایت کر، تو تو اس کو ہر کٹھن وقت میں اپنے سامنے پائے گا اقلام خشک ہوچکے ہیں اور صحائف اٹھ چکے ہیں پس جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کرے۔ اور جب تو مدد کا محتاج ہو تو اللہ ہی سے مدد کا طلب گار ہو، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ساری امت اس امر پر متفق ہوجائے کہ تجھے کسی چیز کا ضرر پہنچائے تو ہرگز وہ تجھ کو کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتی مگر اسی چیز کا جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دی ہے اور اگر ساری امت تجھے نفع رسانی کا ارادہ کرے تو ہرگز تجھ کو کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی مگر اسی چیز کا جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دی ہے۔ السنن لابی داؤد۔

1591

1591 - عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "التقى آدم وموسى فقال له موسى: أنت آدم الذي خلقك الله بيده وأسجد لك ملائكته وأدخلك جنته ثم أخرجتنا منها، فقال له أدم: أنت موسى الذي اصطفاك الله برسالته وقربك نجيا وأنزل عليك التوراة فأسألك بالذي أعطاك ذلك بكم تجده كتب علي قبل أن أخلق قال أجده كتب في التوراة بألفي عام قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فحج آدم موسى فحج آدم موسى فحج آدم موسى".
١٥٩١۔۔ ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، آدم وموسی کی ملاقات ہوئی پھر موسی نے آدم سے کہا آپ وہی آدم ہیں ناں کہ اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ؟ اور پھر آپ کو مسجود ملائکہ بنایا ؟ پھر اپنی جنت میں آپ کو سکونت بخشی، پھر آپ نے ہم کو جنت سے نکلوادیا ؟ حضرت آدم نے فرمایا ، آپ وہی موسیٰ ہیں ناں کہ اللہ نے آپ کو اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا اور آپ کو راز ونیاز کے لیے اپنا قرب بخشا ؟ اور آپ پر توراۃ نازل کی۔ پس میں آپ سے اس ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جس نے آپ کو یہ سب عطا فرمایا کہ کتنا عرصہ قبل یہ میرے لیے لکھ دیا گیا تھا ؟ فرمایا میں توراۃ میں اس کو آپ سے دو ہزار سال قبل لکھاپاتاہوں، آپ نے فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے۔ پس آدم (علیہ السلام) موسیٰ پر غالب آگئے۔

1592

1592 - ومن مسند عمران بن حصين عن عمران بن حصين قال: قال رجل: يا رسول الله أعلم أهل الجنة من أهل النار قال: نعم قال ففيم العمل قال اعملوا فكل ميسر لما خلق له". (كر ) .
١٥٩٢۔۔ ازمسند عمران بن حصین (رض) ۔ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ کیا اہل جنت کاہل جنت سے امتیاز کردیا گیا ہے۔ ؟ فرمایا بالکل۔ عرض کیا پھر عمل کس لیے ؟ فرمایا عمل کرتے رہو۔ کیونکہ ہر شخص کو اسی کی توفیق ہوتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ ابن عساکر۔ یا ابن جریر۔

1593

1593 - عن أبي مجلز قال: قال رجل لعلي احترس إن أناسا يريدون قتلك فقال: "إن مع كل رجل ملكان يحفظانه مما لا يقدر فإذا جاء القدر خليا بينه وبينه وإن الأجل جنة حصينة. (ابن جرير) .
١٥٩٣۔۔ ابی مجلز سے مروی ہے کہ حضرت علی سے ایک شخص نے عرض کیا اپنی حفاظت کا کچھ خیال کیجئے کیونکہ لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں آپ (رض) نے فرمایا بیشک ہر آدمی پر دونگہبان فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو اس کی ہر غیر مقدر مصیبت کی طرف سے حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ پس جب تقدیر آجاتی ہے تو وہ فرشتے اس کے اور تقدیر کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور موت خود انسان کے لیے ایک ڈھال اور قلعہ گاہ ہے۔ ابن جریر۔

1594

1594 - عن علي قال: "إياكم والاستنان بالرجال فإن الرجل يعمل بعمل أهل الجنة الزمن الطويل لو مات لقلت: من أهل الجنة، ثم ينقلب لعلم الله فيه فيعمل عمل أهل النار فيموت وهو من أهل النار، وإن الرجل ليعمل بعمل أهل النار الزمن الطويل فينقلب لعلم الله فيه فيعمل بعمل أهل الجنه فيموت وهو من أهل الجنة فإن كنتم لا بد فاعلين فبالأموات لا بالأحياء". (خشيش في الاستقامة وابن عبد البر) .
١٥٩٤۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا کہ لوگوں کی راہ مت اپناؤ۔ آدمی طویل عرصہ تک اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے اگر وہ مرجائے تو تم یقیناً کہو کہ وہ جنتی لیکن پھر وہ علم الٰہی کی وجہ سے منقلب ہوجاتا ہے۔ اور اہل جہنم کے عمل کرنے لگتا ہے اور اسی حالت پر مر کر جہنم واصل ہوجاتا ہے اور کبھی آدمی طویل عرصہ تک اہل جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے۔ لیکن پھر وہ علم الٰہی کی وجہ سے منقلب ہوجاتا ہے اور اہل جنت کے عمل شروع کردیتا ہے اور اسی پر مر کر اہل جنت میں سے ہوجاتا ہے پس اگر تم بھروسہ کرنا ہی چاہتے ہو تومردوں پر کرونہ کہ زندوں پر۔ خشیش فی الاستقامۃ ، ابن عبدالبر۔

1595

1595 - عن ذي اللحية (2) الكلابي قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم العمل في أمر مستأنف أو أمر قد فرغ منه قال بل في أمر قد فرغ منه قلت: ففيم العمل قال اعملوا فكل ميسر لما خلق له. (عم طب) .
1595 ۔۔ حضرت ذواللحیہ کلابی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کو اس کی توفیق ہوتی ہے جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ طبرانی ۔

1596

1596 - ومن مسند رافع بن خديج عن عمرو بن شعيب كنت عند سعيد بن المسيب جالسا فذكروا أن قوما يقولون قدر الله كل شيء إلا الأعمال فوالله ما رأيت سعيد بن المسيب غضب غضبا أشد منه حتى هم بالقيام ثم سكن، فقال: "تكلموا إنه حدثني رافع بن خديج أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "يكون قوم من أمتي يكفرون بالله وبالقرآن وهملا يشعرون كما كفرت اليهود والنصارى قلت: جعلت فداءك يا رسول الله وكيف ذاك قال: يقرون ببعض القدر ويكفرون ببعضه قلت ثم ما يقولون قال يقولون: الخير من الله والشر من إبليس فيقرؤون على ذلك كتاب الله ويكفرون بالقرآن بعد الإيمان والمعرفة، فيما تلقى أمتي منهم من العداوة والبغضاء والجدال أولئك زنادقة هذه الأمة في زمانهم، يكون ظلم السلطان فياله من ظلم وحيف وأثرة ثم يبعث الله طاعونا فيفني عامتهم، ثم يكون الخسف فما أقل من ينجو منهم المؤمن يومئذ قليل فرحه شديد غمه، ثم يكون المسخ فيمسخ الله عامة أولئك قردة وخنازير ثم يخرج الدجال على اثر ذلك ثم بكى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بكينا لبكائه قلنا ما يبكيك قال: رحمة لهم الاستيصال لأن فيهم المتعبد وفيهم المتهجد مع إنهم ليسوا بأول من سبق إلى هذا القول وضاق بحمله ذرعا إن عامة من هلك من بني إسرائيل بالتكذيب بالقدر فقال: جعلت فداك يا رسول الله فقل لي فكيف الإيمان بالقدر قال تؤمن بالله وحده وإنه لا يملك معه أحد ضرا ولا نفعا وتؤمن بالجنة والنار، وتعلم أن الله عز وجل خالقها قبل خلق الخلق ثم خلقهم فجعل من شاء منهم للجنة ومن شاء منهم للنار عدلا ذلك منه، وكل يعمل لما فرغ له منه وهو صائر إلى ما فرغ منه فقلت صدق الله ورسوله". (طب من طريقين عن عمرو بن شعيب) وفي الأول حجاج بن نصير ضعيف وفي الثاني ابن لهيعة فالحديث حسن. (ورواه الحارث ع من طريقين آخرين عنه ورواه خط في المتفق والمفترق من طريق الحارث) وقال في إسناده من المجهولين غير واحد.
1596 ۔۔ از مسند رافع بن خدیج (رض) ، عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ میں حضرت سعید بن المسیب کے پاس بیٹھا تھا کہ اصحاب مجلس نے ایک قوم کا ذکر چھیڑا اس کا کہنا ہے کہ اللہ نے اعمال کے ماسواہرچیز کو مقدر فرمایا ہے۔ عمرو کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے حضرت سعید بن المسیب کو اس وقت سے زیادہ غضبناک کبھی نہیں دیکھا۔۔ حتی کہ آپ نے شدت غضب سے کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا، لیکن پھر ٹھنڈے ہوگئے۔ اور فرمایا ان کو کہو کہ مجھے رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ انھوں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے ایک قوم ہوگی جو اللہ اور قرآن کا انکار کرے گی لیکن ان کو اس بات کا شعور بھی نہ ہوگا، جس طرح یہود و نصاری نے کفر کا ارتکاب کیا رافع کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں آپ پر فداء ہوں یہ کس طرح ہوگا فرمایا وہ بعض تقدیر کا اقرار کریں گے تو بعض کا انکار کریں گے میں نے عرض کیا وہ کیا کہیں گے فرمایا خیر اللہ کی طرف سے ہے اور شر ابلیس کی طرف سے، اور پھر وہ اس قرآن کو پڑھیں گے اور اس سے غلط استدلال کریں گے اور یوں وہ ایمان معرفت کے بعد قرآن کا بھی انکار کریں گے اس میں میری امت کو ان کی طرف سے بغض و عداوت اور جنگ وجدال بھی پیش آئے گی یہ اپنے وقت میں اس امت کے زندیق لوگ ہوں گے سلطان وقت کا ظلم وستم ان کا سایہ اور پناہ گاہ ہوگا، پھر اللہ ان پر طاعون کی وبا مسلط فرمادیں گے جو ان کی کثرت کو فناء کردے گی پھر ان کو زمین میں دھنسادیا جائے گا، اور بہت کم اس سے بچ سکیں گے مومن اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے۔
ان کی خوشی بھی شدت غم سے عبارت ہوگی پھر اللہ ان اکثر منکرین کی صورتوں کو بندروں اور خنزیروں کی صورت سے مسخ فرمادیں گے پھر اسی حالت میں خروج دجال ہوگا پھر آپ روپڑے ہم بھی آپ کے رونے کی وجہ سے روپڑے اور عرض کیا آپ کو کیا چیز رلارہی ہے فرمایا ان کی بیخ کنی پر رحم کھاتے ہوئے کہ ان مبتلائے عذاب میں تہجد گزار عبادت کرنے والے بھی ہوں گے اور یہ پہلے لوگ نہ ہوں گے جنہوں نے تقدیر کے انکار میں یہ بات کہی ہوگی جس کے بوجھ کو اٹھاتے ہوئے ان کے ہاتھ شل ہوگئے بلکہ اکثر اسرائیل تقدیر کے جھٹلانے کی وجہ سے ہی گرفتار ہلاکت ہوئے کہا یارسول اللہ میں آپ پر فداء ہوجاؤں مجھے بتائیے کہ کیسے تقدیر پر ایمان لایا جائے ؟ فرمایا اللہ وحدہ پر ایمان لاؤ، اور اس بات پر کہ اس کے ساتھ کوئی بھی ضرر ونفع رسائی کا مالک نہیں ہے اور جنت وجہنم پر ایمان لاؤ۔ اور اس بات پر ایمان لاؤ کہ اللہ نے تخلیق خلق سے قبل ہی تقدیر کو پیدا فرمادیا تھا، پھر مخلوق کو پیدا فرمایا، اور جس کو چاہا جنت کا اہل بنایا اور جس کو چاہا جہنم کا اہل بنادیا، اور یہ بلاشک وشبہ اس کی طرف سے سراسر عدل و انصاف ہے اور ہر ایک اسی پر عمل پیرا ہے جو اس کے لیے طے ہوچکا ہے اور وہ اپنی تقدیر کی طرف بڑھتاجارہا ہے میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا۔
علامہ طبرانی (رح) نے اس کو عمرو بن شعیب سے دوطریق کے ساتھ روایت فرمایا۔ پہلے میں حجاج بن نصیر ضعیف ہے۔ اور دوسرے میں ابن لہیعہ ہے سو حدیث حسن ہے۔ اور حارث عقیلی نے اس کو دوسرے طریق کے ساتھ انہی سے روایت کیا عقیلی اور علامہ خطیب نے اس کو المسند لابی یعلی المتفق والمفترق میں حارث کے طریق سے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کئی ایک مجہول روایتیں ہیں۔

1597

1597 - من مسند علي رضي الله عنه عن حاتم بن إسمعيل قال: "كنت عند جعفر بن محمد فأتاه نفر فقالوا يا ابن رسول الله حدثنا أينا شر كلاما قال: هاتوا ما بدا لكم قالوا أما أحدنا فقدري وأما الآخر فمرجئ وأما الثالث خارجي فقال حدثني أبي محمد عن أبيه علي عن أبيه الحسين عن أبيه علي بن أبي طالب أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لأبي أمامة الباهلي: " لا تجالس قدريا ولا مرجئا ولا خارجيا، إنهم يكفئون الدين كما يكفأ الإناء، ويغلون كما غلت اليهود والنصارى ولكل أمة مجوس ومجوس هذه الأمة القدرية فلا تشيعوهم ألا إنهم يمسخون قردة وخنازير ولولا ما وعدني ربي أن لا يكون في أمتي خسف لخسف بهم في الحياة الدنيا" وحدثني أبي عن أبيه عن علي أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الخوارج مرقوا من الدين كما يمرق السهم من الرمية وهم يمسخون في قبورهم كلابا ويحشرون يوم القيامة على صور الكلاب وهم كلاب النار، وحدثني أبي عن أبيه عن علي أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "صنفان من أمتي لا تنالهم شفاعتي المرجئة والقدرية والقدرية يقولون لا قدر وهم مجوس هذه الأمة والمرجئة يفرقون بين القول والعمل وهم يهود هذه الأمة". (السلفي في انتخاب حديث القراء) .
١٥٩٧۔۔ از مسند علی ۔ حاتم بن اسماعیل سے مروی ہے کہ میں جعفر بن محمد کے پاس تھا، آپ کے پاس چند لوگوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی اور کہنے لگی اے رسول اللہ کے فرزند ، ہمیں بتائیے کہ ہم میں سے کس کی بات شرانگیز ہے ؟ فرمایا لاؤ، تمہیں کیا بات پیش آئی ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے ایک قدری ہے اور دوسرامرجی ہے اور تیسراخارجی ہے حضرت جعفر نے فرمایا مجھے میرے والد محمد نے بیان کیا وہ اپنے والد علی سے روایت کرتے ہیں کہ اور وہ اپنے والد حضرت حسین سے روایت کرتے ہیں کہ اور وہ اپنے والد بزرگوار حضرت علی بن ابی طالب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم کوسنا آپ امامہ الباھلی کو فرما رہے تھے کہ تو کسی قدری کے پاس بیٹھ اور نہ ہی کسی مرجی کے پاس اور نہ کسی خارجی کے پاس بیٹھ وہ دین کو یوں اوندھا کرنے والے ہیں جس طرح برتن کو اوندھا کردیاجاتا ہے اور وہ اس طرح غلوبازی سے کام لینے والے ہیں جس طرح یہود و نصاری نے غلوبازی سے کام لیاہرامت میں کچھ مجوسی ہوتے ہیں اور اس امت کے مجوسی قری ہیں پس ان کی جماعت میں نہ جاؤ، خبردار ! وہ بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ کردیے جائیں گے اور اگر میرے رب کا مجھ سے وعدہ نہ ہوتا کہ میری امت میں خسف زمین میں دھنسایانہ جائے گا تو وہ اس دنیا میں ضرور خسف میں مبتلا ہوجاتے اور مجھے میرے والد نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت علی سے روایت کی کہ حضرت علی نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوارج دین سے یوں دور نکل گئے ہیں جس طرح تیرکمان سے نکل جاتا ہے اور وہ اپنی قبروں میں کتوں کی شکل میں ہوجائیں گے۔ اور روز قیامت بھی کتوں ہی کی شکل میں اٹھائے جائیں گے اور یہ جہنم کے کتے ہیں۔ اور مجھے میرے والد نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت علی سے روایت کیا کہ حضرت علی نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے دو گروہوں کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی مرجیہ اور قدریہ، قدریہ وہ ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس امت کے مجوسی ہیں اور مرجیہ وہ ہیں جو قول وعمل میں تفریق کرتے ہیں اور یہ اس امت کے یہودی ہیں۔ السلفی فی انتخاب حدیث القرائ۔ مرجیہ کہتے ہیں کہ جس طرح کفر کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی معصیت مضر نہیں فقط ایمان قول کا نام ہے۔ عمل کی حاجت نہیں اس طرح یہ عمل اور قول میں فرق کرتے ہیں جبکہ ایمان عمل اور قول ہر دوکانام ہے۔

1598

1598 - عن علي قال: "ليأتين على الناس زمان يكذبون على القدر تجيء المرأة سوقا إلى حاجتها فترجع إلى منزلها وقد مسخ بعلها بتكذيبه القدر". (اللالكائي) .
١٥٩٨۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسازمانہ آنے والا ہے، کہ لوگ تقدیر کا انکار کرنے لگیں گے حتی کہ کوئی عورت سامان لینے بازار نکلے گی اور واپس آکر دیکھے گی کہ اس کے شوہر کا چہرہ تقدیر کے انکار کی وجہ سے مسخ ہوچکا ہے۔ الالکائی۔

1599

1599 - ومن مسند عبد الله بن عمرو عن أبي الزاهرية عن عبد الله ابن عمرو بن العاص وكان النبي صلى الله عليه وسلم يفضل عبد الله على أبيه قال: "خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر حديثا في القدرية". (كر) .
١٥٩٩۔۔ ازمسند عبداللہ بن عمرو (رض) ، ابوالزاھریہ سے مروی ہے کہ عبداللہ (رض) بن عمرو (رض) بن العاص جن کو حضور ان کے والد عمرو بن العاص پر بھی فوقیت دیتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ہمارے پاس آئے اور قدریہ کے متعلق حدیث بیان فرمائی۔ ابن عساکر۔

1600

1600 - ومن مسند أبي هريرة عن أبي هريرة قال: "قال رجل من الناس يا رسول الله ما العاديات ضبحا؟ فأعرض عنه، ثم رجع إليه من الغد فقال: ما الموريات قدحا؟ فأعرض عنه، ثم رجع إليه الثالث فقال: ما المغيرات صبحا فرفع العمامة والقلنسوة عن رأسه بمخصرته فوجده مفرعا عن رأسه فقال لو وجدته طاما رأسه لوضعت الذي فيه عيناه ففزع الملأ من قوله قالوا يا نبي الله ولم قال: إنه سيكون أناس من أمتي يضربون القرآن بعضه ببعض ليبطلوه ويتبعون ما تشابه منه ويزعمون أن لهم في أمر سبيلا ولكل دين مجوس وهم مجوس أمتي وكلاب النار فكان يقول هم القدرية". (كر) وفيه البحتري بن عبيد ضعيف.
١٦٠٠۔۔ ازمسند ابوہریرہ ۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا العادیات ضبحا، ان سرپڑے دوڑنے والے گھوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں سورة العادیات کیا ہے ؟ یارسول اللہ آپ نے اس سے اعراض فرمالیا، وہ شخص آئندہ روز پھر حاضر ہو اور عرض کیا، الموریات قدحا، وہ جو پتھر پر لعل ماکرآگ نکالنے والے ہیں کیا ہے ؟ یارسول اللہ آپ نے پھر اس سے اعراض برتاپھر تیسرے روز حاضر ہوا اور عرض کیا، المغیرات صبحا۔ جو صبح کو چھاپہ مارنے والے ہیں کیا ہے ؟ یارسول اللہ آپ نے چھڑی کے ساتھ اس کیس رسے عمامہ اور ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ وہ گھنے بالوں والا ہے، تو آپ نے فرمایا اگر میں اس کو بالوں سے بےنیاز پاتو اس کو سرکواڑا دیتا جس میں اس کی دوآنکھیں ہیں۔ حاضرین مجلس گھبراگئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ان کی کیا وجہ ہے فرمایا میری امت میں عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کے بعض حصوں کو بعض حصوں کے ساتھ تعارض میں پیش کریں گے تاکہ اس کو باطل کریں اور اس میں متشابہ آیات جن کی مراد صرف اللہ کو معلوم ہے ان سے تعرض کریں گے اور وہ خیال کریں گے کہ ان کا دین میں اپنانیاراستہ ہے اور ہر دین میں مجوسی ہوتے ہیں اور یہ لوگ اس امت کے مجوسی اور جہنم کے کتے ہوں گے آپ فرماتے تھے کہ وہ قدری ہوں گے ابن عساکر اس روایت میں ایک راوی البحتری بن عبید ضعیف ہے۔

1601

1601 - من مراسيل محمد بن كعب القرظي عن محمد بن كعب قال: "والذي نفسي بيده ما أنزلت هذه الآيات إلا في أهل القدر {إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ} إلى آخر الآية". (كر) .
١٦٠١۔۔ از مراسیل محمد بن کعب القرظی ۔ محمد بن کعب القرظی (رح) سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہ آیات اہل قدر کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔ (ان المجرمین فی ضلال وسعر) کہ یقیناً مجرمین گمراہی اور جہنم میں ہیں۔ ابن عساکر۔

1602

1602 - ومن مراسيل مكحول عن مكحول، أنه قال: لغيلان "ويحك يا غيلان بلغني أنه يكون في هذه الأمة رجل هو أضر عليه من الشيطان". (د في القدر كر) .
١٦٠٢۔۔ از مراسیل مکحول (رح) ۔ مکحول (رح) سے مروی ہے کہ آپ (رح) نے غیلان سے فرمایا، افسوس تجھ پر اے غیلان ! مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اس امت میں غیلان نامی ایک شخص ہوگا جو شیطان سے زیادہ اس پر ضرررساں اور بھاری ہوگا۔ ابوداؤد، فی القدر ابن عساکر۔

1603

1603 - عن مكحول أنه قال: ويحك يا غيلان إني حدثت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "سيكون في أمتي رجل يقال له غيلان هو أضر على أمتي من إبليس" فاتق الله ولا تكونه إن الله كتب ما هو خالق وما الخلق عامل". (د في القدر.) .
١٦٠٣۔۔ از مراسیل مکحول (رح)۔ مکحول (رح) سے مروی ہے کہ آپ نے غیلان سے فرمایا افسوس تجھ پر اے غیلان مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اس امت میں غیلان نامی ایک شخص ہوگا جو شیطان سے زیادہ اس پر ضرررساں اور بھاری ہوگا۔ تو تو اللہ سے ڈر اور نوہ نہ بن ۔ اللہ نے جو پیدا کرنا ہے وہ لکھ دیا ہے اور جس پر خلق کو عمل کرنا ہے وہ بھی لکھ دیا ہے۔ ابوداؤد فی القدر ۔

1604

1604 - من مسند عمر رضي الله عنه عن عمر "لا تجد المؤمن كذابا". (ابن أبي الدنيا في الصمت هب) .
١٦٠٤۔۔ از مسند عمر (رض)۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے فرمایا تم مومن کو کذاب نہ پاؤ گے۔ ابن ابی الدنیا فی الصمت ، شعب الایمان۔

1605

1605 - عن الحارث بن سويد "أن رجلا أتى عمر فقال إني أخاف أن أكون منافقا قال عمر ما خاف النفاق على نفسه منافق". (ابن خسرو) .
١٦٠٥۔۔ حارث بن سوید سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں منافق نہ ہوجاؤں ، حضرت عمر نے فرمایا منافق اپنے نفس پر نفاق کا خوف نہیں کرتا۔ ابن خسرو۔

1606

1606 - عن محمد بن سليم وهو أبو هلال قال: "سأل أبان الحسن وقال تخاف النفاق قال وما يؤمنني منه وقد خاف عمر بن الخطاب". (جعفر الفريابي في صفة المنافقين) .
١٦٠٦۔۔ محمد بن سلیم ، یعنی ابوھلال سے مروی ہے کہ ابان نے حسن سے یہی سوال کیا تو انھوں نے فرمایا تم نفاق کا خوف کرتے ہو مجھے بھی اس سے امن نہیں ہے اور حضرت عمر کو بھی اس کا ڈھر کا لگارہتا تھا۔ جعفر الفریابی فی صفۃ المنافقین۔

1607

1607 - ومن مسند علي رضي الله عنه عن علي قال: "المؤمنون بعضهم لبعض نصحاء وادون وإن افترقت منازلهم والفجرة بعضهم لبعض غششة خونة وإن اجتمعت أبدانهم". (الديلمي)
١٦٠٧۔۔ از مسند علی (رض)۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا مومن مومن آپس میں ایک دوسرے کے لیے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں خواہ ان کے مراتب میں تفاوت ہو اورفاسقین ایک دوسرے کے لیے دھوکا باز اور خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں خواہ ان کے اجسام ایک جگہ جمع ہوں۔ الدیلمی۔

1608

1608 - (ومن مسند نضلة بن عمرو الغفاري عن محمد بن معن بن نضلة عن أبيه عن جده، أنه لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم بمران ومعه شق إبل فحلب لرسول الله صلى الله عليه وسلم في إناء فشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم شرب من إناء واحد ثم قال: يا رسول الله والذي بعثك بالحق إن كنت لا شرب سبعة فلا أشبع ولا أمتلئ - فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن المؤمن يشرب في معى واحد وإن الكافر يشرب في سبعة أمعاء". (خ كر في تاريخه (2) وابن مندة والبغوي) .
١٦٠٨۔۔ از مسند نصلہ بن عمرو الغفاری محمد بن معن بن نضلہ اپنے والد معن سے اور وہ محمد کے دادا یعنی اپنے والد نضلہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ سے مقام مران میں ملے ان کے ساتھ چند اونٹ تھے تو انھوں نے رسول اللہ کے لیے ایک برتن میں دودھ دوھا اور آپ کو پیش کیا تو رسول اللہ نے صرف اسے ایک برتن کے دود ھ کو نوش فرمایا انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر میں سات مرتبہ نہ پیوں تو میں سیرہی نہیں ہوتا۔ اور نہ میرا پیٹ بھرتا ہے رسول اللہ نے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔ الصحیح للبخاری، ابن عساکر، ابن مندہ البغوی۔ سات آنتوں کا یہ مطلب نہیں کہ حقیقت میں وہ سات آنتیں رکھتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ چونکہ اللہ کے نام سے ابتداء نہیں کرتا، جس کی وجہ شیطان اس کے ساتھ شریک طعام ہوجاتا ہے۔

1609

1609 - عن أبي أمامة قال: "المؤمن في الدنيا بين أربعة بين مؤمن يحسده ومنافق يبغضه وكافر يقاتله وشيطان قد وكل به". (كر) .
١٦٠٩۔۔ ابی امامہ سے مروی ہے کہ مومن دنیا میں چار طرح کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے مومن کے ساتھ جو اس سے رشک اور مسابقت کی کوشش رکھتا ہے منافق، جو اس سے بغض رکھتا ہے کافر، جو اس کے قتل کے درپے ہوتا ہے شیطان اس کے تو مومن حوالہ ہی کردیاجاتا ہے۔ ابن عساکر۔

1610

1610 - (ومن مسند ابن عمر) عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن مثل المؤمن كمثل النخلة إن صاحبته نفعك وإن شاورته نفعك وإن جالسته نفعك وكل شأنه منافع وكذلك النخلة كل شأنها منافع". (هب) .
١٦١٠۔۔ از مسند ابن عمر (رض)۔ ابن عمر (رض) حضور سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے اگر تم اس کے ساتھ رہو گے تو وہ تمہیں نفع پہنچائے گا۔ اور اگر اس سے مشاورت کرو گے تب بھی نفع پہنچائے گا اور اگر اس کے ساتھ مجالست کرو گے تب بھی نفع پہنچائے گا، الغرض اس کی ہر شان نفع مند ہے ، اسی طرح کھجور کی بھی ہرچیز نفع مند ہے۔ شعب الایمان۔

1611

1611 - عن جهجاه الغفاري قال: "قدمت في نفر من قومي يريدون الإسلام فحضروا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب فلما سلم قال يأخذ كل رجل بيد جليسه فلم يبق في المسجد غير رسول الله صلى الله عليه وسلم وغيري وكنت عظيما طويلا لا يقدم علي أحد فذهب بي رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى منزله فحلب لي عنزا فأتيت عليها حتى حلب لي سبع أعنز فأتيت عليها (2) وقالت أم أيمن أجاع الله من أجاع رسول الله الليلة قال مه يا أم أيمن أكل رزقه ورزقنا على الله فأصبحوا فغدوا واجتمع هو وأصحابه فجعل الرجل يخبر بما أتى إليه فقلت: حلبت لي سبع أعنز فأتيت عليها وصنيع برمة فأتيت عليها فصلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم المغرب فقال ليأخذ كل رجل بيد جليسه فلم يبق في المسجد غير رسول الله صلى الله عليه وسلم وغيري وكنت عظيما طويلا لا يقدم علي أحد فذهب بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فحلب لي عنزا فرويت وشبعت فقالت أم أيمن يا رسول الله أليس هذا ضيفنا فقال: بلى فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم إنه أكل في معى مؤمن الليلة وأكل قبل ذلك في معى كافر، الكافر يأكل في سبعة أمعاء والمؤمن يأكل في معى واحد". (طب وأبو نعيم) .
١٦١١۔۔ جہجاۃ الغفاری سے مروی ہے کہ میں اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ جو اسلام لانا چاہتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر مغرب کی نماز میں آپ کے ساتھ شریک ہوا پھر جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھنے والے کا ہاتھ تھامنے کا مقصد تھا کہ اپنے اپنے ساتھ ایک ایک مہمان یا مستحق شخص لے جائے اور اس کی خاطر مدارت کرے۔ تومسجد میں میرے اور سولا للہ کے سوا کوئی باقی نہ رہا، میں چونکہ بہت طویل قدوقامت والا تھا میرے سامنے کوئی نہ آیا۔ پھر رسول اللہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے میرے لیے بکری کا دودھ دوہاتو میں اس کو پی گیا حتی کہ آپ نے سات مرتبہ دوہا میں سب پی گیا، چونکہ اس میں حضور کا بھی حصہ تھا تو آپ کی باندی ام ایمن بولی : اللہ بھوکا ہی رکھے اسے جس نے آج رسول اللہ کو بھوکا رکھا۔ آپ نے اس کو فرمایا رکو رکو ام ایمن اس نے اپنا ہی رزق کھایا ہے اور ہمارا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ پھر صبح ہوئی تو آپ اور آپ کے اصحاب جمع ہوئے تو کوئی آدمی بیان کرنے لگا کہ اس کی کیا خاطر تواضع ہوئی میں نے بھی کہا کہ آپ نے میرے لیے سات مرتبہ دود دوہا اور میں سب پی گیا، اور ایک ہانڈی کھانا مزید میرے لیے تیار کیا گیا میں وہ بھی کھا گیا۔ پھر صحابہ نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی۔ اور آپ نے پھر فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھنے والے کا ہاتھ تھام لے تومسجد میں میرے اور رسول اللہ کے سوا کوئی باقی نہ رہا، میں چونکہ بہت طویل قد والا تھا میرے سامنے کوئی نہ آیا پھر رسول اللہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے ۔ میرے لیے بکری کا دودھ دوہا تو میں اس دفعہ اسی کو پی کر سیر ہوگیا ام ایمن بولی یارسول اللہ کیا یہ ہمارا وہی مہمان نہیں ہے فرمایا کیوں نہیں ؟ فرمایا کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا لیکن بات یہ ہے کہ آج اس رات اس نے مومن کی آنت میں کھایا ہے۔ اور اس سے پہلے کافر کی آنت میں کھاتارہا ہے کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے تو مومن ایک آنت میں۔ الکبیر للطبرانی ابونعیم۔

1612

1612 - عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المؤمن حلو يحب الحلاوة ومن حرمها على نفسه فقد عصى الله ورسوله، لا تحرموا نعمة الله والطيبات على أنفسكم وكلوا واشربوا واشكروا فإن لم تفعلوا لزمتكم عقوبة الله عز وجل". (الديلمي) .
١٦١٢۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا مومن میٹھاخوشگوار طبیعت کا ہوتا ہے اور میٹھے کو پسند کرتا ہے اور جس نے اس کو اپنے پر حرام کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اللہ کی کسی نعمت کو اور پاکیزہ اشیاء کو اپنے پر حرام نہ کرو، کھاؤ پیو اور شکراللہ کا ادا کرو، اگر ایسانہ کرو گے توعقوبت الٰہی تمہیں لازم ہوجائے گی۔ الدیلمی۔

1613

1613 - (من مسند حذيفة) عن حذيفة أنه قيل له ما النفاق قال: "الرجل يتكلم الإسلام ولا يعمل به". (ابن جرير) .
١٦١٣۔۔ از مسند حذیفہ (رض) ، حذیفہ (رض) سے دریافت کیا گیا کہ نفاق کیا چیز ہے ؟ فرمایا آدمی اسلام کا دعوی تو کرے مگر اس پر عمل پیرانہ ہو۔ ابن جریر۔

1614

1614 - عن أبي يحيى قال سئل حذيفة من المنافق قال "الذي يصف الإسلام ولا يعمل به". (ش) .
١٦١٤۔۔ ابویحییٰ سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ سے دریافت کیا گیا کہ منافق کون ہے ؟ فرمایا وہ جو اسلام کی باتیں تو کرے مگر اس پر عمل پیرانہ ہو۔ ابن ابی شیبہ۔

1615

1615 - عن حذيفة قال"المنافقون الذين فيكم اليوم شر من المنافقين الذين كانوا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أولئك كانوا يسرون نفاقهم وإن هؤلاء أعلنوه". (ش) .
١٦١٥۔۔ حذیفہ (رض) سے مروی ہے آج جو منافقین تمہارے ساتھ ہیں یہ ان سے بدترین منافق ہیں جو رسول اللہ کے عہد مبارک میں تھے کیونکہ وہ تواپن انفاق مخفی رکھتے تھے اور یہ اپنے نفاق کا اعلان کرتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ۔

1616

1616 - عن أبي البحتري قال: قال رجل "اللهم أهلك المنافقين قال حذيفة لو هلكوا ما انتصفتم من عدوكم". (ش) .
١٦١٦۔۔ ابوالبحتری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے یوں بددعا کی اے اللہ منافقین کو ہلاک فرما، حضرت حذیفہ نے فرمایا اگر وہ سب ہلاک ہوگئے تو کیا تم اپنے دشمنوں سے آدھے نہ ہوجاؤ گے۔ ابن ابی شیبہ۔

1617

1617 - (ومن مسند ابن عمر) عن مجاهد أن رجلا قدم على ابن عمر فقال له كيف أنتم وأبو أنيس، قال: "نحن وهو إذا لقيناه قلنا له ما يحب وإذا ولينا عنه قلنا غير ذلك قال ذاك ما كنا نعده نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من النفاق". (كر) .
١٦١٧۔۔ از مسند ابن عمر (رض)۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابن عمر (رض) کے پاس حاضر ہوا آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا اور ابوانیس کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا ہمارا اور اس کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس سے ملاقات کرتے ہیں تو اس کی دل پسند باتیں کرتے ہیں۔ اور جب اس کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو کچھ اور کہتے ہیں آپ نے فرمایا ہم رسول اللہ کے ساتھ ہوتے تھے تو اس کو نفاق شمار کرتے تھے ۔ ابن عساکر۔

1618

1618 - (ومن مسند عبد الله بن عمرو) عن عبد الله بن عمر قال: "ثلاث إذا كن في عبد فلا تتحرج أن تشهد أنه منافق، إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان، ومن كان إذا حدث صدق: وإذا وعد أنجز، وإذا اؤتمن أدى. فلا تتحرج أن تشهد عليه أنه مؤمن". (ابن النجار) .
١٦١٨۔۔ از مسند عبداللہ بن عمرو۔ (رض) عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے جس شخص میں یہ تین باتیں پائی جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اس کے نفاق کی شہادت دو جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب امانت اس کے سپرد کی جائے توا س میں خیانت کرے اور جو ایسا ہو کہ جب بات کرتے تو سچائی اختیار کرے اور وعدہ کرے تو وفا کرے اور جب امانت اس کے سپرد کی جائے توادا کرے توای سے شخص کے متعلق مومن ہونے کی شہادت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن النجار۔

1619

1619 - (ومن مسند عمار) عن عمار قال: "ثلاثة لا يستخف بحقهم إلا منافق بين نفاقه، الإمام المقسط، ومعلم الخير، وذو الشيبة في الإسلام" (كر) .
١٦١٩۔۔ از مسند عمار (رض) ۔ عمار رضی الہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا کہ تین اشخاص کے حق کی اہانت کوئی کھلامنافق ہی کرسکتا ہے امام عادل ، بھلائی کی تعلیم دینے والامعلم اور وہ جس پر اسلام میں بڑھاپے کی سفیدی طاری ہوگئی ہو۔ ابن عساکر۔

1620

1620 - عن سليم بن عامر عن معاوية الهذلي وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إن المنافق ليصلي فيكذبه الله ويتصدق فيكذبه الله ويقاتل فيقتل فيجعل في النار". (ابن النجار) .
١٦٢٠۔۔ سلیم بن عامر ، معاویہ (رض) الہذلی ، سے جو اصحاب رسول میں سے ہیں، روایت کرتے ہیں کہ منافق نماز پڑھتا ہے تب بھی اللہ کو جھٹلاتا ہے اور صدقہ کرتا ہے تب بھی اللہ کو جھٹلاتا ہے اور قتال کرتا ہے تو قتل ہوجانے پر جہنم جاتا ہے۔ ابن النجار۔

1621

1621 - عن صلة بن زفر قال: "قلنا لحذيفة كيف عرفت أمر المنافقين ولم يعرفه أحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أبو بكر ولا عمر؟ قال: إني كنت أسير خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فنام على راحلته فسمعت ناسا يقولون لو طرحناه على راحلته فاندقت عنقه فاسترحنا منه فسرت بينهم وبينه فجعلت أقرأ وأرفع صوتي حتى انتبه النبي صلى الله عليه وسلم قال: من هذا؟ قلت حذيفة قال: ص هؤلاء؟ قلت فلان وفلان حتى عددتهم قال: وسمعت ما قالوا قلت: نعم ولذلك سرت بينك وبينهم قال: أما إنهم منافقون فلان وفلان لا تخبرن أحدا". (طب) .
١٦٢١۔۔ صلہ بن زفر سے مروی ہے کہ ہم نے حضرت حذیفہ (رض) سے دریافت کیا کہ تم نے منافقین کو کی سے جان لیا ؟ جب کہ نبی کے اصحاب میں سے کوئی ان کونہ جان سکا، حتی کہ ابوبکر (رض) وعمر بھی اس سے لاعلم رہے ؟ فرمایا کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ کے پیچھے چلاجارہا تھا تو آپ اپنی سواری ہی پر سوگئے ۔ میں نے کچھ لوگوں کوسنا کہ اگر م اس اگر ہم اس محمد کو سواری سے گرادیں تو اس کی گردن ٹوٹ جائے گی اور اس طرح ہم اس سے آرام پاجائیں گے تو یہ سن کر میں ان کے اور آپ کے درمیان چلنے لگا اور باآواز بلند قرات کرنے لگا حتی کہ رسول اللہ بیدار ہوگئے اور آپ نے دریافت فرمایا یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا حذیفہ۔ آپ نے پھر دریافت کیا اور یہ کون ہے میں نے ان کو گنواتے ہوئے کہا فلاں فلاں۔۔ آپ نے دریافت فرمایا اور وہ جو کچھ کہہ رہے تھے تم نے سنا ؟ میں نے عرض کیا جی اور اسی وجہ سے میں آپ کے اور ان کے درمیان چلنے لگا آپ نے فرمایا یہ منافق فلاں فلاں اور تم کسی کو بتانامت۔ الکبیر للطبرانی (رح)۔
حضور نے حضرت حذیفہ کو منافقین کے نام بتادیے تھے اور یہ اس وجہ رسول اللہ کے رازداروں کہلاتے تھے۔

1622

1622 - عن حذيفة قال: "مر بي عمر بن الخطاب وأنا جالس في المسجد فقال لي: يا حذيفة إن فلانا قد مات فاشهده، ثم مضى حتى إذا كاد أن يخرج من المسجد التفت إلي فرآني وأنا جالس فعرف فرجع إلي فقال: يا حذيفة أنشدك الله أمن القوم أنا؟ قلت: اللهم لا ولن أبرئ أحدا بعدك". (فرأيت عيني عمر جآءتا – (2) (كر) .
١٦٢٢۔۔ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کا میرے پاس سے گزر ہوا میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے مجھے فرمایا اے حذیفہ فلاں کا انتقال ہوگیا اس کے جنازہ میں حاضری دو ۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے جب مسجد سے نکلنے کے قریب ہوئے تو پھر مجھ پر نظر پڑی تو دوبارہ میرے پاس لوٹ آئے دیکھا کہ میں ابھی تک بیٹھا ہواہوں تو آپ (رض) جان گئے کہ جنازہ کسی منافق کا ہے اور آپ میرے پاس آکر کہنے لگے اے حذیفہ تم کو خدا کا واسطہ دیتاہوں خدارابتادو کہ میں بھی اسی منافق قوم میں تو شامل نہیں ہوں ؟ میں نے کہا اللہ مددگار ہو، آپ ان میں شامل نہیں ہیں لیکن آئندہ آپ کے بعد ہرگز کسی کو برات نامہ پیش نہیں کروں گا، پھر میں نے امیرالمومنین حضرت عمر کو دیکھا کہ آپ کی آنکھیں بہہ پڑی ہیں۔ ابن عساکر۔

1623

1623 - (ومن مسند الصديق) رضي الله عنه عن عبيد الله بن أبي زيد قال: "كان ابن عباس إذا سئل عن الأمر فإن كان في القرآن أخبر به، وإن لم يكن في القرآن وكان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر به، فإن لم يكن في القرآن ولا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان عن أبي بكر أو عمر أخبر به، وإن لم يكن في شيء من ذلك اجتهد برأيه" (ابن سعد في السنة والعدني وابن جرير) .
١٦٢٣۔۔ ازمسند صدیق (رض)۔ عبیداللہ بن ابی زید سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس (رض) سے کسی مسئلہ کی بابت سوال کیا جاتاتوا گروہ قرآن میں صراحتہ موجود ہوتا آپ اس سے جواب مرحمت فرما دیتے اور اگر قرآن میں نہ ہوتا اور حدیث رسول میں ہوتا تو اس سے جواب مرحمت فرما دیتے اور اگر قرآن وحدیث دونوں میں نہ ہوتا تو حضرت ابوبکر یا حضرت عمر سے منقول ہوتا تو اس سے جواب مرحمت فرما دیتے اور اگر ان میں سے کسی میں نہ ہوتا تو اپنی رائے سے جواب دے دیتے۔ ابن سعد فی السنہ ، العدنی وابن جریر۔

1624

1624 - عن عمر بن عبد العزيز أنه قال في خطبته: "ألا إن ما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه فهو دين نأخذ به وننتهي إليه، وما سن سواهما فأنا نرجيه". (كر) .
١٦٢٤۔۔ عمر بن عبدالعزیز (رح) سے مروی ہے آپ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ، آگاہ رہو، جو طریقہ رسول اللہ اور ان کے دوساتھیوں نے جاری کردیا وہ عین دین ہے ہم اس سے ابتداء کرتے ہیں تو اسی پر انتہا بھی کرتے ہیں، اور ان کے ماسوا کے طریقہ کو ہم موخر کردیتے ہیں۔ ابن عساکر۔

1625

1625 - ومن مسند عمر رضي الله عنه عن خالد بن عرفطة قال: "كنت جالسا عند عمر إذ أتي برجل (2) من عبد القيس فقال له عمر: أنت فلان العبدي؟ قال: نعم، فضربه بقناة معه فقال الرجل: ما لي يا أمير المؤمنين؟ قال: اجلس فجلس فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم {الر تِلْكَ آيَاتُالْكِتَابِ الْمُبِينِ} إلى قوله: {لَمِنَ الْغَافِلِينَ} فقرأها عليه ثلاثا وضربه ثلاثا فقال له الرجل: ما لي يا أمير المؤمنين؟ قال: أنت الذي نسخت كتاب دانيال قال مرني بأمرك اتبعه قال: انطلق فامحه بالحميم والصوف، ثم لا تقرأه ولا تقرئه أحدا من الناس فلئن بلغني عنك أنك قرأته أو أقرأته أحدا من الناس لانهكنك عقوبة. ثم قال: انطلقت أنا فانتسخت كتابا من أهل الكتاب ثم جئت به في أديم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما هذا في يدك يا عمر؟ قلت: يا رسول الله كتابا نسخته لنزداد به علما إلى علمنا، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه، ثم نودي بالصلاة جامعة فقالت الأنصار: أغضب نبيكم؟ السلاح السلاح فجاؤا حتى أحدقوا بمنبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أيها الناس إني قد أوتيت جوامع الكلم وخواتيمه واختصر لي اختصارا، ولقد أتيتكم بها بيضاء نقية فلا تهوكوا (2) ولا يغرنكم المتهوكون، فقمت فقلت: رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبك رسولا، ثم نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم. (ع) وابن المنذر وابن أبي حاتم (عق) ونصر المقدسي (ص) في الحجة وله طريق ثان في المراسيل.
١٦٢٥۔۔ از مسند عمر (رض)۔ خالد بن عرفطہ، سے مروی ہے کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عبدالقیس کے ایک شخص کو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، حضرت عمر نے اس سے دریافت کیا تم فلاں عبدی ہو ؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے لکڑی کے ساتھ اس کو مارا، آدمی نے کہا اے امیرالمومنین میرا کیا قصور ہے فرمایا بیٹھ جاؤ، پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ان آیات کی تلاوت فرمائی۔ الر، تلک آیات الکتاب المبین۔۔ تا۔۔ الغافلین۔ الر یہ کھلی کتاب کی آیات ہیں۔۔
آپ نے ان آیات کی تین بار تلاوت فرمائی ۔ اور تین بار اس شخص کو بھی مارا، اس نے کہا اے امیرالمومنین میرا کیا قصور ہے ؟ فرمایا تم نے ہی کتاب دانیال کو نقل کرکے لکھا ہے ؟ اس نے عرض کیا تو آپ اور حکم دیدیجئے میں اس کی اتباع کرلوں گا، فرمایا جاؤ اس کو گرم پانی اور اون کے ساتھ مٹاڈالو، اور اس کو قطعا نہ پڑھو اور نہ کسی اور کو پڑھاؤ۔ اگر مجھے اطلاع مل گئی کہ تم نے اس کو پڑھایا کسی کو پڑھایا ہے تو سخت سزا دوں گا۔
نزول قران سے دوسری آسمانی کتابیں منسوخ ہوگئیں۔
پھر حضرت عمر نے اسی طرح کا ایک اپناواقعہ بیان کیا فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے اہل کتاب کا ایک نسخہ تیار کرکے چمڑے میں لپیٹ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ عرض کیا ایک کتاب کا نسخہ ہے۔ جو میں نے تیار کیا ہے تاکہ ہمارے علم میں مزید اضافہ ہوجائے یہ سن کر رسول اللہ اس قدرغضبناک ہوئے کہ آپ کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہوگئے پھر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے نماز کا اعلان کیا گیا، انصار نے کہا تمہارے نبی غضبناک ہوگئے ہیں اسلحہ لو، اسلحہ لو، لوگوں نے جلدی سے منبر رسول کو گھیر لیا۔
پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! مجھے جامع ترین اور آخری کلمات دیے گئے ہیں اور مجھے کلام کا خلاصہ اور نچوڑ دیا گیا اور میں تمہارے پاس صاف ستھری شریعت لے کر آیاہوں پس تم تذبذب اور تردد کا شکار مت ہوجاؤ اور یہ مضطرب لوگ یہودی و نصاری تمہیں حیران پریشان نہ کردیں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا، رضیت بااللہ ربا وبالاسلام دینا وبک رسولا۔ میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے رسول ہونے پر راضی ہواپھر آپ منبر سے نیچے اتر آئے۔ المسند لابی یعلی، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، الضعفائ، للعقیلی ، نصرا لمقدسی ، السنن لسعید فی الحجہ، اور اس کا ایک اور طریق بھی ہے۔

1626

1626 - عن عمر قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تعليم التوراة قال: "لا تعلمها وتعلموا ما أنزل عليكم وآمنوا به". (هب) وضعفه
١٦٢٦۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم سے توراۃ کی تعلیم کے متعلق سوال کیا، فرمایا تم اس کونہ سیکھو بلکہ جو تم پر نازل کیا گیا ہے اسی کو سیکھو اور اس پر ایمان لاؤ۔ شعب الایمان۔ حدیث ضعیف ہے۔

1627

1627 - عن عمر قال: "اتهموا الرأي على الدين فلقد رأيتني أراه على أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما آلو عن الحق وذاك يوم أبي جندل والكتاب بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهل مكة. فقال: أكتب بسم الله الرحمن الرحيم ترانا إذا صدقناك بما تقول ولكن اكتب بما كنت تكتب باسمك اللهم، فرضي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبيت عليهم حتى قال: يا عمر إني قد رضيت وتأبى أنت". (البزار (2) وابن جرير في الأفراد وأبو نعيم في المعرفة واللالكائي في السنة والديلمي) .
١٦٢٧۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا کہ دین میں اپنی رائے کو پیچ سمجھو، کیونکہ میں نے اپنے آپ کو بھی دیکھا کہ رسول اللہ کے امر میں ہیچ رائے ہوں۔ وہ لوگ یعنی صحابہ کرام حق سے سراموانحراف کرنے والے نہ تھے اور یہ ابی جندل کے واقعہ والادن ہے کہ مصالحت نامہ آپ اور اہل مکہ کے سامنے رکھا ہوا ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم، اہل مکہ کہنے لگے آپ ہمیں کیا خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ لکھا گیا تب تو ہم نے آپ کی بات کی تصدیق کرلی لہٰذا وہی لکھئے جو پہلے سے لکھتے آرہے ہیں، یعنی باسمک اللھم، آپ اس پر راضی ہوگئے لیکن میں ان کو انکار کردیا، حضور نے فرمایا جب میں راضی ہوگیاہوں تو بھی تم انکار کرتے ہو ؟ البزار ، ابن جریر فی الافراد ، ابونعیم فی المعرفہ، الالکائی ، فی السنہ، الدیلمی۔

1628

1628 - عن جبير بن نفير عن عمر قال: انطلقت في حياة النبي صلى الله عليه وسلم حتى أتيت خيبر فوجدت يهوديا يقول قولا فأعجبني فقلت هل أنت مكتبي بما تقول؟ قال: نعم، فأتيته بأديم فأخذ يملي علي، فلما رجعت قلت: يا رسول الله إني لقيت يهوديا يقول قولا لم أسمع مثله بعدك فقال: لعلك كتبت منه؟ قلت: نعم، قال: ائتني به، فانطلقت فلما أتيته قال: اجلس اقرأه فقرأت ساعة ونظرت إلى وجهه فإذا هو يتلون فصرت من الفرق لا أجيز حرفا منه، ثم رفعته إليه ثم جعل يتبعه رسما رسما يمحوه بريقه وهو يقول: لا تتبعوا هؤلاء فإنهم قد تهوكوا حتى محا آخر حرف". (حل) .
١٦٢٨۔۔ جبیر بن نفیر حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں آپ کے زمانہ حیات میں چلا اور خیبر پہنچا، وہاں ایک یہودی کو پایا جو ایک بات کہتا تھا جو مجھے بہت پسند آئی میں نے اس کو کہا، کیا تم یہ بات میرے لیے لکھ دو گے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، تو میں ایک چمڑا لے کر اس کے پاس پہنچا اور وہ مجھے لکھوانے لگا۔ جب میں لوٹا تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں نے ایک یہودی کو بہت اچھی بات کہتے ہوئے پایا تھا میرا خیال ہے آپ کے بعد کسی اور نے ایسی بات نہیں کہی۔ حضور نے فرمایا امید ہے تم نے وہ لکھ لی ہوگی ؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اچھا لاؤ۔ تو میں گیا اور وہ تحریر لے کر آپ کی خدمت میں پہنچا، آپ نے فرمایا بیٹھو اور اس کو پڑھ کرسناؤ۔ میں نے تھوڑی دیر اس کو پڑھا ، پھر آپ کے چہرہ اقدس کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ آپ کے چہرہ اقدس کا رنگ بدل چکا ہے۔ پھر تو مجھ پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ مزید اس کا ایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ پھر میں نے وہ تحریر آپ کو دیدی۔ آپ اس کے ایک ایک حرف کو اپنے لعاب مبارک سے محو فرمانے لگے۔ اور ساتھ ساتھ یہ فرما رہے تھے کہ ان لوگوں کے پیچھے نہ پڑو یہ تو راہ بھٹک چکے ہیں اس طرح آپ نے اس سارے کو مٹاڈالا۔ الحلیہ۔

1629

1629 - عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله أنزل كتابا وافترض فرائض فلا تنقصوها، وحد حدودا فلا تغيروها، وحرم محارم فلا تقربوها، وسكت عن أشياء لم يسكت نسيانا كانت رحمة من الله فاقبلوها. إن أصحاب الرأي أعداء السنن تفلتت منهم أن يعوها وأعيتهم أن يحفظوها، وسلبوا أن يقولوا لا نعلم فعارضوا السنن برأيهم، فإياكم وإياهم فإن الحلال بين والحرام بين كالمرتع حول الحمى أوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى وحمى الله في أرضه محارمه". (نصر) وفيه أيوب بن سويد ضعيف.
١٦٢٩۔۔ حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، اللہ نے کتاب نازل فرمائی اور کچھ فرائض مقرر کیے سو ان میں کمی نہ کرو، اور کچھ حدود متعین فرمائی ہیں ان کو تبدیل مت کرو، اور کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے سو ان کے قریب بھی نہ جاؤ، اور کچھ چیزوں سے سکوت فرمایا ہے بغیر کسی بھول کے۔ یہ اللہ کی رحمت ہے سوا سے قبول کرو۔ اور اپنی رائے کو فوقیت دینے والے سنتوں کے دشمن ہیں ان لوگوں کی یادادشت سے میری سنتیں سلب ہوجاتیں ہیں اور ان کے لیے ان کو محفوظ رکھناعاجز کردیتا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ان سے سلب کرلی جاتی ہے کہ وہ لاعلمی کا اظہار کرسکیں، پھر وہ سنن کا اپنی رائے سے مقابلہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ سو ان سے بچو ! بیشک حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے۔ اور ممنوع چراگاہ کے اردگرد چرانے والاقریب ہے کہ چراگاہ میں پھنس جائے پس آگاہ رہو ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ روئے زمین پر اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں نصر اس روایت میں ایک راوی ایوب بن سوید ضعیف ہے۔

1630

1630 - عن مجاهد قال: قال عمر: "أياي والمكايلة يعني المقايسة". (حم في السنة في باب اتباع الكتاب والسنة وذم الرأي. وأبو عبيد في الغريب) .
١٦٣٠۔۔ مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا رائے زنی و قیاس کرنے والوں سے اجتناب کرو۔ مسنداحمد، فی النسہ فی اتباع الکتاب والسنۃ وذم الرای، ابوعبید فی الغریب۔

1631

1631 - عن ميمون بن مهران قال: أتى عمر بن الخطاب رجل فقال: يا أمير المؤمنين إنا فتحنا المدائن أصبت كتابا فيه كلام معجب قال: أمن كتاب الله؟ قلت: لا، فدعا بالدرة فجعل يضربه بها، وقرأ {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ. إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآناً عَرَبِيّاً} إلى قوله {وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ} . ثم قال: إنما هلك من كان قبلكم بأنهم أقبلوا على كتب علمائهم وأساقفتهم وتركوا التوراة والإنجيل حتى درسا وذهب ما فيهما من العلم". (نصر) .
١٦٣١۔۔ میمون بن مہران سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا اے امیرالمومنین ہم نے مدائن شہر فتح کیا تو وہاں مجھے ایک کتاب دریافت ہوئی جس میں بہت عمدہ کلام ہے پوچھا کیا اللہ کا کلام ہے ؟ عرض کیا نہیں تو حضرت عمر نے درہ منگوایا اور اس کو زدوکوب کرنے لگے۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی :
الر تلک آیات الکتاب المبین، اناانزلناہ قرآناعربیا۔۔۔ تا۔۔۔ وان کنت من قبلہ لمن الغافلین۔” الر ، یہ روشن کتاب کی آیات ہیں ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے ۔۔ اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے۔ پھر آپ (رض) نے فرمایا تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے علماء اور پادریوں کی کتابوں پر اس قدر جھک گئے کہ توراۃ اور انجیل کو چھوڑ بیٹھے حتی کہ وہ دونوں کتابیں مٹ گئیں اور ان کے اندر کا علم بھی چلا گیا۔ نصر۔

1632

1632 - عن إبراهيم النخعي قال: "كان بالكوفة رجل يطلب كتب دانيال وذلك الضريبة فجاء فيه كتاب من عمر بن الخطاب أن يرفع إليه، فلما قدم على عمر علاه بالدرة ثم جعل يقرأ عليه {الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ} حتى بلغ الغافلين. قال: فعرفت ما يريد فقلت: يا أمير المؤمنين دعني فوالله لا أدع عندي من تلك الكتب إلا أحرقته فتركه. (عب وابن الضريس في فضائل القرآن، والعسكري في المواعظ، خط) .
١٦٣٢۔۔ ابراہیم النخعی سے مروی ہے کہ فرمایا کہ کوفہ میں ایک شخص دانیال (علیہ السلام) کی کتابیں تلاش کرتا تھا اور یہ اس کی عادت تھی تو اس کے بارے میں حضرت عمر کی طرف سے حکم آیا کہ اس کو ان کے پاس پیش کیا جائے تو یہ شخص حضرت عمر کی خدمت میں پہنچا آپ نے اس پر درہ اٹھالیا اور یہ آیات تلاوت فرمانے لگے۔ الر تلک آیات الکتاب المبین۔۔ تا۔۔ الغافلین۔ اس نے کہا میں حضرت عمر کا مقصود سمجھ گیا اور عرض کرنے لگا اے امیرالمومنین مجھے چھوڑ دیجئے اللہ کی قسم میں ان کتابوں میں سے کوئی کتاب نذرآتش کیے بغیر نہ چھوڑوں گا پھر آپ نے چھوڑ دیا۔ المصنف لعبدالرزاق ، ابن لضریس فی فضائل القرآن، العکسری فی المواعظ، الخطیب۔

1633

1633 - عن عبد الله بن عكيم قال: كان عمر يقول: "إن أصدق القيل قيل الله، ألا وإن أحسن الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة ضلالة، ألا وإن الناس بخير ما أخذوا العلم عن أكابرهم، ولم يقم الصغير على الكبير، فإذا قام الصغير على الكبير فقد . (اللالكائي في السنة) .
١٦٣٣۔۔ عبداللہ بن حکیم سے مروی ہے کہ حضرت عمر فرماتے تھے کہ سب سے سچی بات اللہ کی ہے اور آگاہ رہو سب سے اچھا طریقہ محمد کا طریقہ ہے اور بدترین امور نئی پیدکردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور غارہ رہو جب تک لوگ علم کو اپنے بڑؤں سے حاصل کرتے رہیں گے اور چھوٹابڑے پر کھڑانہ ہوگا، خیر میں رہیں گے اور جب چھوٹا بڑے پر کھڑا ہوجائے گا توخیرمفقود ہوجائے گی۔ الالکائی فی السنہ۔

1634

1634 - عن عمر أنه قال: سيأتي ناس يجادلونكم بشبهات القرآن فخذوهم بالسنن فإن أصحاب السنن أعلم بكتاب الله". (الدارمي ونصر المقدسي في الحجة، واللالكائي في السنة، وابن عبد البر في العلم، وابن أبي زمنين في أصول السنة (2) والأصبهاني في الحجة وابن النجار) .
١٦٣٤۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کے شبہات کو لے کر تم سے جھگڑیں گے تو تم ان کو سنتوں کے ساتھ پکڑنا یقیناسنتوں کا علم کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والا ہے۔ الدارمی، نصر المقدسی فی الحجہ، الالکائی، فی السنہ، ابن عبدالبر فی العلم، ابن ابی زمنین فی اصول السنہ، الاصبہانی، فی الحجہ، ابن النجار۔

1635

1635 - ومن مسند علي عن أبي جحيفة قال: "سألت عليا هل عندكم من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيء بعد القرآن؟ فقال: ولا والذي فلق الحبة، وبرأ النسمة إلا فهم (3) يؤتيه الله رجلا في القرآن أو ما في هذه الصحيفة. قلت: وما في الصحيفة؟ قال: العقل وفكاك الأسير، ولا يقتل مسلم بكافر". (ط عب) والحميدي (حم) والعدني والدارمي (خ ت ن هـ ع) (وابن قانع – (4)) وابن الجارود والطحاوي وابن جرير) .
١٦٣٥۔۔ از مسند علی (رض)۔ ابوحجیفہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی سے سوال کیا، کیا آپ کے پاس قرآن کے سوارسول اللہ کی طرف سے کچھ ہے ؟ فرمایا نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو چاک کیا اور جان کو پیدا کیا، قرآن کو سمجھ بوجھ اور اس صحیفہ کے سواکچھ نہیں میں نے عرض کیا اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت اور قیدی کی رہائی کے احکام اور ایک یہ بات کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے عوض قتل نہ کیا جائے۔ ابوداؤد، الطیالسی ، المصنف لعبدالرزاق ، الحمیدی، مسند احمد، العدنی، والدارمی، الصحیح بخاری، ترمذی، النسائی، ابن ماجہ، المسند لابی یعلی، ابن قانع ٤، ابلن جارود، الطحاوی، وابن جریر۔

1636

1636 - عن الحارث الأعور قال: "مررت في المسجد فإذا الناس يخوضون في الأحاديث، فدخلت على علي فقلت: يا أمي المؤمنين ألا ترى الناس قد خاضوا قال: أو قد فعلوها؟ قلت: نعم، قال: أما إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إنها ستكون فتنة قلت: ما المخرج منها يا رسول الله؟ قال: كتاب الله فيه نبأ من قبلكم، وخبر ما بعدكم، وحكم ما بينكم هو الفصل ليس بالهزل، من تركه من جبار قصمه الله، ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله، وهو حبل الله المتين، وهو الذكر الحكيم، وهو الصراط المستقيم، هو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تلتبس به الألسنة، ولا تشبع منه العلماء، ولا يخلق عن كثرة الرد، ولا تنقضي عجائبه، هو الذي لم تنته الجن إذ سمعته حتى قالوا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ} . من قال به صدق، ومن عمل به أجر، ومن حكم به عدل، ومن دعا إليه هدى إلى الصراط المستقيم. خذها إليك يا أعور". (ش والدارمي (ت) وقال غريب وإسناده مجهول، وفي حديث الحارث مقال، وحميد بن زنجويه في ترغيبه، والدورقي ومحمد بن نصر في الصلاة، وابن حاتم وابن الأنباري في المصاحف، وابن مردويه هب) .
١٦٣٦۔۔ حارث اعو (رح) سے یہ مروی ہے کہ میرا مسجد سے گزر ہواتودیکھا کہ لوگ بحث و مباحثہ مشغول ہیں میں حضرت علی عنہ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا اے امیرالمومنین کیا آپ لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں۔ آپ نے تاکید اور دریافت فرمایا کیا واقعی وہ ایساکر رہے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا میں نے نبی سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ عنقریب ایک فتنہ رونما ہوگا میں نے عرض کیا یارسولا للہ اس سے خلاصی کیا صورت ہے ؟ فرمایا اللہ کی کتاب۔ جس میں تم سے پہلے اور بعد والے لوگوں کی خبریں ہیں اور تمہارے درمیان کے اختلاف کا فیصلہ کن کتاب ہے نہ کہ ہزل گوئی۔ جس نے بڑائی کی وجہ سے اس کو ترک کردیا اللہ اس کو ہلاک فرمادے گا۔ اور جس نے اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کی اللہ اس کو گمراہ کردے گا۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور یہ ذکر اور دانائی کا کلام ہے اور یہ ذکر اور دانائی کا کلام ہے اور یہ سیدھاراستہ ہے خواہشات نفسانیہ اس میں کجی پیدا کرسکتیں، ہیں اور نہ ہی اس میں زبانوں کا التباس ہوسکتا ہے علماء اس سے سیر نہیں ہوتے، بار بار پڑھنے سے اس کی تروتازگی میں کچھ فرق نہیں آتا، اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے یہ وہی ہے کہ جنون نے اس کوسنا تو رہ نہیں سکے اور بےاختیار پکاراٹھے۔ اناسمعنا قرآن عجبا، یھدی الی الرشد فامنا بہ) ہم نے ایک عجیب قرآن سنا جو ہدایت کی راہ بتاتا ہے سو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ جس نے اس کے ساتھ بات کی سچ باتک ی۔ جس نے اس پر عمل پیرا کیا اجرپایاجس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا، عدل و انصاف کا تقاضہ پورا کیا اور جس نے اس کی طرف دعوت دی وہ ہدایت کی راہ پر گامزن ہوا۔ اے اعور ! اس کو مضبوطی سے تھام لو۔ ابی ابی شیھہ، الدارمی، حمید بن زنجویہ فی ترغیبہ، الدورقی ، ومحمد بن نصر فی الصلاۃ۔ ابن حاتم ابن الانبیاری فی المصاحف، ابن مردویہ، شعب الایمان، الصحیح للترمذی، (رح) ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد مجہول ہے۔ اور حارث کی حدیث میں کلام ہے۔

1637

1637 - عن شيخ من كندة قال: "كنا جلوسا عند علي فأتاه أسقف نجران فأوسع له. فقال له رجل: توسع لهذا النصراني يا أمير المؤمنين؟ فقال علي: إنهم كانوا إذا أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أوسع لهم، فسأله رجل على كم افترقت النصرانية يا أسقف؟ فقال: افترقت على فرق كثيرة لا أحصيها. قال علي: أنا أعلم على كم افترقت النصرانية من هذا وإن كان نصرانيا، افترقت على إحدى وسبعين فرقة،وافترقت اليهودية على ثنتين وسبعين فرقة، والذي نفسي بيده لتفترقن الحنيفية على ثلاث وسبعين فرقة، فتكون ثنتان وسبعون في النار، وفرقة في الجنة". (العدني) .
١٦٣٧۔۔ کندہ کے ایک شیخ سے مروی ہے کہ ہم حضرت علی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ نجران کا ایک پادری آپ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (رض) نے اس کے لیے جگہ کشادہ فرمادی ۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا اے امیرالمومنین آپ اس نصرانی کے لیے کشادگی فرماتے ہیں ؟ آپ (رض) نے فرمایا ، یہ لوگ جب رسول اللہ کے پاس آتے تھے تو آپ بھی ان کے لیے کشادگی فرماتے تھے۔ پھر حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے اس نصرانی سے پوچھا کہ اے اسقف، اب نصرانیت کتنے فرقوں میں بٹ چکی ہے ؟ اس نے کہا بیشمار فرقوں میں بٹ چکی ہے، جو میرے شمار کرنے سے باہر ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا اس سے زیادہ میں جانتاہوں کہ کتنے فرقوں میں نصرانیت بٹ چکی ہے، اگرچہ یہ نصرانی ہے وہ اکہتر فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ اور یہودیت بہتر فرقوں میں بٹ چکی ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہ ملت حنیفیہ تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر جہنم میں جائیں گے اور صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔ العدنی۔

1638

1638 - عن علي قال: "تفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة. شرها فرقة تنتحلنا وتفارق أمرنا". (حل) .
١٦٣٨۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا : یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور سب سے بدترین فرقہ وہ ہوگا جو ہمارے اندر تحریف کرے گا اور اس دین سے جدا ہوجائے گا۔ الحلیہ۔

1639

1639 - عن جري بن كليب قال: "رأيت عليا يأمر بشيء وعثمان ينهى عنه. فقلت لعلي: إن بينكما لشرا؟ قال: ما بيننا إلا خير، ولكن خيرنا اتبعنا لهذا الدين" (مسدد وأبو عوانة والطحاوي) .
١٦٣٩۔۔ جری بن کلیب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ کسی چیز کا حکم فرما رہے ہیں اور حضرت عثمان اس سے منع فرما رہے ہیں میں نے حضرت علی سے پوچھا کہ کیا آپ دونوں کے درمیان کچھ رنجش ہے ؟ فرمایا خیر کے سوا کچھ نہیں ، لیکن ہم میں سب سے زیادہ خیر والا ہے ہے جو اس دین کی زیادہ اتباع کرنے والا ہے۔ مسدد، ابوعوانہ، الطحاوی۔

1640

1640 - عن علي قال: "ثلاثة لا يقبل معهن عمل، الشرك، والكفر، والرأي، قالوا يا أمير المؤمنين: ما الرأي؟ قال: تدع كتاب الله وسنة رسوله، وتعمل بالرأي". (ابن بشران) .
١٦٤٠۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا تین چیزوں کے ساتھ کوئی عمل شرف قبولیت نہیں پاسکتا شرک ، کفر، اور کتاب وسنت کو چھوڑ کر رائے زنی کرنا۔ لوگوں نے کہا اے امیرالمومنین یہ رائے کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کو ترک کرکے اپنی رائے پر عمل کرنے لگو۔ ابن بشران۔

1641

1641 - عن علي قال: "تفرقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على ثنتين وسبعين فرقة، وأنتم على ثلاث وسبعين فرقة، وإن من أضلها وأخبثها من يتشيع، أو الشيعة". (ابن أبي عاصم) .
١٦٤١۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا یہود اکہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور نصاری بہترفرقوں میں بٹ چکے تھے اور تم تہتر فرقوں میں بٹ جاؤ گے اور ان میں سے سب خبیث ترین فرقہ وہ ہوگا جو جدا گروہ بنالے گا یا فرمایا جو شیعہ جدا گروہ ہوجائے گا۔ ابن ابی عاصم۔

1642

1642 - عن سويد بن غفلة قال: "إني لأمشي مع علي على شط الفرات، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بني إسرائيل اختلفوا، فلم يزل اختلافهم بينهم حتى بعثوا حكمين فضلا وأضلا من اتبعهما، وإن هذه الأمة ستختلف فلا يزال الاختلاف بينهم حتى يبعثوا حكمين ضلا وأضلا من اتبعتهما". (ق في الدلائل) .
١٦٤٢۔۔ سوید بن غفلہ، سے مروی ہے کہ فرمایا میں حضرت علی کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے چلاجارہا تھا، تو آپ (رض) نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل نے باہم اختلاف کیا۔۔ پھر وہ اسی اختلاف پر قائم رہے حتی کہ انھوں نے اپنے دو آدمیوں کو ثالث و فیصلہ بنایا، لیکن وہ دونوں خود بھی گمراہ ہوگئے اور انھوں نے اپنے متبعین کو بھی گمراہ کردیا۔ اور عنقریب یہ امت بھی اختلاف و انتشار کا شکارہوگی اور ان کا اختلاف جاری ہوگا، کہ یہ دو آدمیوں کو فیصلہ وثالث بن کر بھیجیں گے لیکن یہ دونوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور اپنے متبعین کو گمراہ کریں گے ۔ السنن للبیہقی ، فی الدلائل۔

1643

1643 - عن ابن عمر قال: "قال لي علي: يا أبا عمر كم افترقت اليهود؟ قلت لا أدري. قال علي: واحدة وسبعين فرقة، كلها في الهاوية إلا واحدة هي الناجية. تدري على كم تفترق هذه الأمة؟ قلت لا. قال: تفترق على ثلاث وسبعين فرقة، كلها في الهاوية إلا واحدة هي الناجية. قال: وتفترق (2) في اثنتي عشره فرقة كلها في الهاوية إلا واحدة هي الناجية، وإنك من تلك الواحدة". (كر) وفيه عطاء بن مسلم الخفار (3) ضعيف.
١٦٤٣۔۔ حضرت ابن عمرو سے مروی ہے کہ مجھے حضرت علی نے فرمایا ابوعمر ! یہود کنتے فرقوں میں بٹ گئے تھے میں نے عرض کیا میں اس سے لاعلم ہوں۔ حضرت علی نے فرمایا اکہترفرقوں میں ۔ اور وہ سوائے ایک فرقہ کے سب جہنم میں جائیں گے صرف وہ ایک فرقہ نجات یافتہ ہوگا، اور اس امت کے بارے میں جانتے ہو کہ یہ کتنے فرقوں میں بٹ جائے گی میں نے عرض کیا، نہیں فرمایا، تہتر فرقوں میں اور سوائے ایک فرقہ ناجی کے سب جہنم میں جائیں گے اور نیز یہ امت بارہ فرقوں میں بھی بٹے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات یافتہ ہوگا اور تو بھی اسی میں سے ہے۔ ابن عساکر۔ اس روایت میں ایک راوی عطاء بن مسلم الخفار ضعیف ہے۔

1644

1644 - عن سليم بن قيس العامري قال: "سأل ابن الكوا عليا عن السنة والبدعة، وعن الجماعة والفرقة، فقال: يا ابن الكوا حفظت المسئلة فافهم الجواب: السنة والله سنة محمد صلى الله عليه وسلم، والبدعة ما فارقها، والجماعة والله مجامعة أهل الحق، وإن قلوا، والفرقة مجامعة أهل الباطل، وإن كثروا". (العسكري) .
١٦٤٤۔۔ سلیم بن قیس العامری سے مروی ہے کہ فرمایا کہ ابن الکوانے حضرت علی سے سنت و بدعت اور جماعت وفرقہ بازی کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی نے جواب مرحمت فرمایا، اے ابن الوا تو نے اچھا سوال یاد کیا ہے سو اس کا جواب بھی ذہن نشین کرلے۔ سنت ! اللہ کی قسم سنت تو صرف محمد کا طریقہ ہے۔ اور بدعت وہ ہے جو اس سنت کنارہ کش طریقہ ہو۔ اور جماعت ! اللہ کی قسم اہل حق سے اجتماعیت قائم رکھنا ہے۔ خواہ ان کی تعداد تھوڑی کیوں نہ ہو ؟ اور فرقہ انگیزی اہل بطلان سے اجتماعیت رکھنا ہے خواہ ان کی تعداد کثیر ہو۔ رواہ العسکری۔

1645

1645 - عن علي قال: سيأتي قوم يجادلونكم، فخذوهم بالسنن فإن أصحاب السنن أعلم بكتاب الله. (اللالكائي في السنة،
١٦٤٥۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ عنقریب ایک قریب رونما ہوگی جو تم سے جھگڑے گی تو تم سنتوں کے ساتھ ان کا تعاقب کرنا کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ الالکائی ، فی السنہ، الاصبھانی فی الحجہ۔

1646

1646 - عن أبي الطفيل قال: كان علي يقول: "إن أولى الناس بالأنبياء أعلمهم بما جاؤا به، ثم يتلوا هذه الآية {إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ} يعني محمدا والذين اتبعوه، فلا تغيروا فإنما ولي محمد من أطاع الله، وعدو محمد من عصى الله، وإن قربت قرابته. (اللالكائي) .
١٦٤٦۔۔ ابوالطفیل سے مروی ہے کہ حضرت علی فرماتے تھے کہ انبیاء کے لائق ترین افراد وہ ہیں جو ان کی پیش کردہ ، شرائع سے بخوبی واقف ہیں پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔ (ان اولی الناس بابراھیم للذین التبعوہ وھذا النبی) ۔ ابراہیم سے قریب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ نبی آخزالزمان ۔ آل عمران ٦٨۔ یعنی محمد اور آپ کے متبعین سوا ان میں تغیر وتبدل کی کوشش مت کرو۔ اور محمد کا دوست وہ ہے جو اللہ کا مطیع ہے اور محمد کا دشمن وہ ہے جو اللہ کا عاصی ہے خواہ آپ سے اس کی قرابت و رشتہ داری ہو۔ الالکائی۔

1647

1647 - عن علي قال: "قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم إن أمتك ستفتن من بعدك، فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم وسئل ما المخرج منها؟ فقال: كتاب الله العزيز الذي لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حميد". (ابن مردويه) .
١٦٤٧۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کی امت آپ کے بعد فتنہ و فساد میں مبتلا ہوجائے گی تو حضرت علی سے کسی نے سوال کیا کہ اس سے خلاصی کی کیا صور ہوگی ؟ فرمایا کتاب خداوندی جو غالب و برتر ہے باطل اس پراثر انداز نہیں ہوسکتا، سامنے سے اور نہ ہی پیچھے سے۔ یہ صاحب حکمت ولائق حمد ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ابن مردویہ۔

1648

1648 - عن عبد الله بن الحسن قال: قال علي في الحكمين: "أحكمكما على أن تحكما بكتاب الله، وكتاب الله كله لي. فإن لم تحكما بكتاب الله فلا حكومة لكما". (كر) .
١٦٤٨۔۔ عبداللہ بن الحسن سے مروی ہے کہ حضرت علی نے دوحکم اور فیصلہ کنندگان کے بارے میں فرمایا، کہ میں تمہیں حکم بناتاہوں اس شرط پر کہ تم کتاب اللہ سے رجوع کرو گے اور تمام کتاب اللہ میرے حق میں ہے پس اگر تم نے حل فیصلہ میں کتاب اللہ سے رجوع نہ کیا تو تمہاری حکومت کالعدم ہوجائے گی۔ ابن عساکر۔

1649

1649 - عن علي قال: "الأئمة من قريش، ومن فارق الجماعة شبرا فقد نزع ربقة الإسلام من عنقه". (ق) .
١٦٤٩۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ فرمایا امام وحاکم قریش سے ہوں گے اور جس نے بالشت بھر بھی جماعت سے دوری اختیار کی، سو اس نے اسلام کی مالااپنی گردن سے نکال پھینکی ۔ بخاری و مسلم۔

1650

1650 - عن محمد بن عمر بن علي عن أبيه عن علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: "إني قد تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا، كتاب الله، سبب بيد الله، وسبب بأيديكم وأهل بيتي". (ابن جرير) وصححه.
١٦٥٠۔۔ محمد بن عمرو بن علی اپنے والد عمر سے اور وہ اپنے والد حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا جو چیز میں تمہارے درمیان چھوڑے جارہاہوں اگر تم اسے تھامے رہو گے تو ہرگز گمراہی نہ پڑؤ گے۔ کتاب اللہ یہ ایک رسی ہے جس کا ایک سرا خدا کے دست قدرت میں ہے تو دوسرا سرا تمہارے اور میرے اہل بیت کے ہاتھوں میں ہے۔ ابن جریر۔ حدیث صحیح ہے

1651

1651 - عن علي قال: "يا أيها الناس ما لكم ترغبون عما عليه أولكم وسنة نبيكم صلى الله عليه وسلم؟ إنما هلك من كان قبلكم أن ضربوا كتاب الله بعضه ببعض" (نصر) .
١٦٥١۔۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے آپ (رض) نے فرمایا اے انسانو ! کیا بات ہے کہ تم اس راہ سے اعراض کررہے ہو ؟ جس پر تمہارے پیش روگامزن تھے اور تمہارے نبی کی سنت بھی اسی کی راہ بتاتی ہے۔ یقیناً تم سے پہلے لوگ اسی بنا پر ہلاک کیے گئے کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کے بعض حصوں کو بعض حصوں کے ساتھ ٹکرانا شروع کردیا تھا۔ نصر۔

1652

1652 - عن علي قال:"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة". (ابن النجار) .
١٦٥٢۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ابن النجار۔

1653

1653 - عن علي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " أتاني جبريل فقال: يا محمد إن أمتك مختلفة بعدك، قلت: فأين المخرج يا جبريل؟ فقال: كتاب الله به يقصم كل جبار، ومن اعتصم به نجا، ومن تركه هلك، قول فصل ليس بالهزل". (ابن مردويه) .
١٦٥٣۔۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے پاس جبرائیل تشریف لائے۔ اور فرمایا اے محمد، تیری امت تیرے بعد اختلاف کا شکار ہوجائے گی میں نے دریافت کیا پھر اس سے گلوخلاصی کی کیا صورت ہے ؟ اے جبرائیل (علیہ السلام) کتاب خداوندی ، جو ہر سرکش کو تباہ کردے گی۔ اور جو اس کو مضبوطی سے تھام لے گا نجات پاجائے گا جو اس کو چھوڑ بیٹھے گا برباد ہوجائے گا یہ فیصلہ کن قول ہے ہزل گوئی نہیں ہے۔ ابن مردویہ۔

1654

1654 - عن ابن مسعود قال: "أتحب أن يسكنك الله وسط الجنة عليك بالجماعة". (ش) .
١٦٥٤۔۔ ابن مسعود سے مروی ہے کہ آپ (رض) نے فرمایا کیا تو چاہتا ہے کہ اللہ تجھے عین جنت کے درمیان میں سکونت بخشے ؟ توپھرتجھ پر جماعت کا دامن تھامنا لازم ہے۔ ابن ابی شیبہ۔

1655

1655 - عن عبد الله بن ربيعة "ذكر قول نصراني اجتمعوا به بالشام وأخبرهم بصفة الخلفاء بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وأنه بلغ عمر بن الخطاب خبره، فسألهم عما ذكر لهم النصراني، ثم قال: علي بعمار فجاء. فقال له عمر: حدثني حديث النصراني. فذكر حكاية عن نصراني قدم في وفد أهل نجران على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كره لهم سؤال أهل الكتاب". (كر) .
١٦٥٥۔۔ عبداللہ بن ربیعہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک نصرانی کی بات ذکر کی، کہ کچھ لوگ ملک شام میں ایک نصرانی کے گرد جمع ہوگئے تو اس نے ان کو آپ کے بعد آنے والے خلفاء کی صفات بیان کی۔ پھر یہ بات حضرت عمر (رض) بن الخطاب کو پہنچی۔ آپ (رض) نے ان لوگوں سے نصرانی کی باتیں دریافت کیں، پھر آپ نے حضرت عمار کو بلوایا اور ان سے دریافت کیا کہ مجھے فلاں نصرانی کی بات بتاؤ حضرت عمار (رض) نے ایک نصرانی کا واقعہ بتایا جو آپ کے مبارک عہد میں آپ کے پاس وفد نجران کے ہمراہ آیا تھا اور آپ نے لوگوں کے اس نصرانی سے سوال کرنے کو ناپسند فرمایا تھا۔ ابن عساکر۔

1656

1656 - عن أبي الدرداء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "إن الله افترض عليكم فرائض فلا تضيعوها، وحد حدودا فلا تقربوها وحرم محارم فلا تنهكوها، وسكت عن كثير من غير نسيان فلا تكلفوها، رحمة من الله فاقبلوها، ألا إن القدر خيره وشره، ضره ونفعه إلى الله، ليس إلى العبد تفويض ولا مشيئة ". (ابن النجار) .
١٦٥٦۔۔ حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں لہٰذا ان کو ضائع مت کرو اور کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں ان کے قریب بھی مت جاؤ، اور کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے سو ان کی حرمت کو مت توڑو۔ اور بہت سی چیزوں کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے بغیر کسی بھول کے سو ان کی تکلیف میں مت پڑو۔ یہ اللہ کی رحمت ہے اس کو قبول کرلو۔ آگاہ رہوتقدیر اچھی ہو یا بری ضروررساں ہو یا نفع رساں اللہ ہی کی طرف سے ہے، وہ کسی بندے کو تفویض کی گئی اور نہ ہی بندے کی مشیت کو کامل اختیار دیا گیا ۔ ابن النجار۔

1657

1657 - عن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس إني تارك فيكم أمرين، إن أخذتم بهما لم تضلوا بعدي أبدا، وأحدهما أفضل من الآخر، كتاب الله، هوحبل الله الممدود من السماء إلى الأرض، وأهل بيتي عترتي، ألا وإنهما لن يتفرقا حتى يردا على الحوض" (ابن جرير) .
١٦٥٧۔۔ ابوسعید (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اے انسانو، میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں، اگر تم ان کو مضبوطی سے تھام لو اور تو میرے بعد ہرگز کبھی گمراہی کا شکار نہ بنو گے ان میں سے ایک کا رتبہ دوسری سے بڑھا ہوا ہے وہ کتاب اللہ ہے جو اللہ کی رسی ہے آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری آل۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں کبھی جدانہ ہوں گی، حتی کہ میرے پاس حوض پر آئیں۔ ابن جریر۔

1658

1658 - عن أبي مسعود قال: "كنا نتحدث أن الآخر فالآخر شر، اتهموا الرأي، وعليكم بالجماعة، فإن الله لم يكن ليجمع أمة محمد على الضلالة". (ش) .
١٦٥٨۔۔ حضرت ابومسعود (رض) سے مروی ہے کہ ہم ـآپس میں گفتگو کرتے تھے کہ اور یہ کہ شیر ہے۔ یعنی یہ کہا کرتے کہ اپنی طرف سے رائے زنی کرنا شر ہے) اپنی آراء کو غلط سمجھو۔ اور جماعت کو مضبوطی سے تھامو۔ کیونکہ اللہ امت محمد کو کسی گمراہی پر جمع نہ فرمائے گا۔ ابن ابی شیبہ۔

1659

1659 - عن معمر عن قتادة قال: " سأل النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن سلام على كم تفرقت بنو إسرائيل؟ قال: على واحدة أو اثنتين وسبعين فرقة. قال: وامتي أيضا ستفترق مثلهم أو يزيدون واحدة: كلها في النار إلا واحدة". (عب) .
١٦٦٩۔۔ معمر ، قتادہ ، سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت عبداللہ بن سلام، سے دریافت فرمایا، کہ بنی اسرائیل کتنے فرقوں بٹ گئی تھی ؟ عرض کیا اکہتر یابہترفرقوں میں۔ تو آپ نے فرمایا میری امت بھی اسی قدر یا اس سے بھی مزید ایک فرقہ زیادہ فرقوں میں بٹ جائے گی سوائے ایک کے سب جہنم میں جائیں گے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1660

1660 - (ومن مسند أبي بن كعب) عن أبي بن كعب قال: "عليكم بالسبيل والسنة، فإنه ما على الأرض عبد على السبيل والسنة ذكر الرحمن ففاضت عيناه من خشية الله فيعذبه وما على الأرض عبد على السبيل والسنة ذكر الله في نفسه فأقشعر جلده من خشية الله إلا كان مثله كمثل شجرة يبس ورقها فهي كذلك إذ أصابها ريح شديد فتحات عنها ورقها إلا حط الله عنه خطاياه، كما تحات عن تلك الشجرة ورقها وإن اقتصادا في سبيل الله وسنة خير من اجتهاد في خلاف سبيل الله وسنة فانظروا أن يكون عملكم إن كان جهادا أواقتصادا أن يكون ذلك على منهاج الأنبياء وسنتهم". (اللالكائي في السنة) .
١٦٦٠۔۔ ازمسند ابی بن کعب (رض)۔ ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تم پر راہ الٰہی اور راہ سنت لازم ہے۔ پس روئے زمین پر کوئی بندہ ایسا نہیں جو راہ الٰہی اور راہ سنت گامزن ہو اور وہ رحمن کا ذکر کرے اور اس کی آنکھیں خشیت خداوندی سے بہہ پڑیں تو اللہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو عذاب کرے ، اور روئے زمین پر کوئی بندہ ایسا نہیں جو راہ الٰہی اور راہ سنت گامزن ہو، اور وہ اللہ کا ذکر کرے اور اس پر خوف خداوندی سے کپکپی طاری ہوجائے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی خشک پتوں والا درخت ہے اور باد صرصران کی خوب جھاڑ دیتی ہے تو اسی طرح اس بندہ کے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ ختم فرما دیتے ہیں جس طرح درخت سے یہ پتے گرتے ہیں۔ اور راہ الٰہی میں معاش کی فکر کرناراہ الٰہی کے سوا میں جہاد کرنے سے بھی افضل و بہتر ہے سو دیکھو کہ جہاد ہو یا فکر معاش انبیاء اور ان کی سنت کے مطابق اختیار کرو۔ الاالکائی فی السنہ۔

1661

1661 - ومن مسند أنس بن مالك عن يوسف بن عطية ثنا قتادة ومطر الوراق وعبد الله الداناج عن أنس " أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من باب البيت وهو يريد باب الحجرة، سمع قوما يتراجعون بينهم في القرآن، ألم يقل الله في آية كذا وكذا ألم يقل الله في آية كذا وكذا قال: ففتح رسول الله صلى الله عليه وسلم باب الحجرة وكأنما فقئ على وجهه حب الرمان فقال أبهذا أمرتم أبهذا عنيتم إنما هلك الذين من قبلكم بأشباه هذا ضربوا كتاب الله بعضه ببعض أمركم الله بأمر فاتبعوه، ونهاكم عن شيء فانتهوا"، قال: فلم يسمع الناس بعد ذلك أحدا يتكلم في القدر حتى كان ليالي الحجاج بن يوسف، فأول من تكلم فيه. معبد الجهني فأخذه الحجاج بن يوسف فقتله وفي لفظ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته، وسمع قوما يتذاكرون القدر على باب حجرة له، فخرج إليهم فكأنما فقئ على وجهه حب الرمان قال: ألهذا خلقتم أو لهذا عنيتم إنما هلك من كان قبلكم بهذا وأشباه هذا، انظروا ما أمرتم به فاتبعوه وما نهيتم عنه فانتهوا". (قط في الأفراد والشيرازي في الألقاب كر) .
١٦٦١۔۔ ازمسند انس بن مالک۔ یوسف بن عطیہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ہمیں قتادہ (رح) ، مطر الورق (رح) اور عبداللہ الدناج ، نے بیان کیا کہ حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور گھر کے دروازہ سے ہجرہ شریف میں جانے کے لیے نکلے تو ایک قوم کو دیکھا کہ قرآن کے بارے میں بحث و مباحثہ کررہے ہیں کیا اللہ نے اس اس آیت میں یوں نہیں فرمایا ؟ کیا اللہ نے اس اس آیت میں یوں نہیں فرمایا ؟ رسول اللہ نے حجرہ کا داروہ اس غصہ کے عالم میں کھولا کہ گویا آپ کے رخ زیبا پر کسی نے انار کے دانے نچوڑ دیے ہوں پھر فرمایا کیا اسی کو تم کو حکم ملا ہے ؟ کیا یہی تمہارا مقصود مراد ہے۔ اسی طرح تو تم سے پہلے لوگ قعر ہلاکت میں پڑے۔ کہ انھوں کتاب اللہ کے بعض حصوں کو بعض حصوں کے ساتھ ٹکرانا شروع کردیا تھا تم کو اللہ نے جس بات کا حکم فرمایا ، اس کی پیروی کرلو۔ اور جس بات سے منع فرمایا ہے اس سے باز آجاؤ۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے کسی کو بھی تقدیر کے متعلق بحث کرتے نہیں دیکھا، حتی کہ حجاج بن یوسف کا زمانہ آیاتوسب سے پہلے معبد الجھنی نے اس میں کلام شروع کیا توحجاج بن یوسف نے اس کو پکڑوا کرتہ تیغ کردیا۔ اسی روایت کے دوسرے الفاظ یہ ہیں حضور اپنے گھر سے نکلے تو ایک قوم کوسنا کہ تقدیر کے بارے مذاکرہ کررہے ہیں تو آپ ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے گویا آپ کے رخ زیبا پر کسی نے انار کے دانے نچوڑ دیے ہوں، پھر فرمایا کیا اسی لیے تم پیدا کیے گئے ہو کیا یہی تم سے مقصود و مطلوب ہے ؟ اسی طرح کی باتوں کی وجہ سے تو تم سے پہلے لوگ قعرہلاکت میں پڑے۔ دیکھو تم کو اللہ نے جس بات کا حکم فرمایا اس کی پیروی کرلو۔ اور جس بات سے منع فرمایا ہے اس سے باز آجاؤ بس۔ الدارقطنی ، فی الافراد، الشیرازی فی الالقاب، ابن عساکر۔

1662

1662 - ومن مسند بريدة بن الحصيب الأسمي عن بريدة بن الحصيب قال: "خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فنادى ثلاث مرات، يا أيها الناس إنما مثلي ومثلكم مثل قوم خافوا عدوا أن يأتيهم فبعثوا رجلا يتراءى لهم، فبينما هم كذلك إذ أبصر العدو، فأقبل لينذر قومه فخشي أن يدركه العدو قبل أن ينذر قومه فأهوى بثوبه أيها الناس أتيتم ثلاث مرات". (الرامهرمزي في الأمثال) .
١٦٦٢۔۔ ازمسند بریدہ بن الحصیب الاسمی۔ بریدہ بن الحصیب، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ایک دن باہر تشریف لائے تو تین مرتبہ نداء دی کہ اے لوگو میری اور تمہاری مثال اس قوم کی سی ہے جو کسی دشمن سے خوف زندہ ہے کہ کہیں وہ ان پر حملہ آور نہ ہوجائے تو انھوں نے اپنے ایک فرستادہ کو اس غرض سے بھیجا کہ وہ ان کے پاس دشمن کی خبر لائے۔ وہ اسی حال پر تھے کہ فرستادہ نے دشمن کو دیکھ لیا وہ اپنی قوم کو متنبہ کرنے کے لیے متوجہ ہوا توا سے یہ خطرہ دامن گیرہوا کہ کہیں دشمن اس کے ڈرانے پہلے ہی ان کونہ جالے۔ تو اس نے اپنے کپڑے اتارے اور چلاتا ہواپہنچا کہ لوگو تم گھیر لیے گئے تم گھیر لیے گئے تم گھیر لیے گئے۔ الرامھرمزی فی الامثال۔ عرب کے زمانہ جاہلیت میں انتہائی درجہ پر کسی خطرہ سے آگاہ کرنا مقصود ہوتا تو اعلان کنندہ لباس اتار کر ہاتھوں میں لیے خبردار کرتا ہوا آتا تھا۔

1663

1663 - ومن مسند بشير بن أبي مسعود الأنصاري عن أبي حلس قال: "قال بشير بن أبي مسعود وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: "عليكم بالجماعة فإن الله لم يكن ليجمع أمة محمد على ضلالة". (أبوالعباس الأصم في الثالث من فوائده) .
١٦٦٣۔۔ ازمسند بشیر (رض) بن ابی مسعود۔ ابن حلبس سے مروی ہے کہ بشیر (رض) ابن مسعود، نے جو اصحاب رسول میں سے تھے ، فرمایا جماعت کو مضبوطی سے تھام لو۔ کیونکہ اللہ امت محمد کو کسی گمراہی پر جمع نہ فرمائے گا۔ ابوالعباس ، الاصم، فی الثالث من فوائدہ۔

1664

1664 - ومن مسند جابر بن عبد الله عن عمرو بن دينار قال: "رأيت جابر بن عبد الله وبيده السيف والمصحف وهو يقول: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نضرب بهذا من خالف ما في هذا". (كر) .
١٦٦٤۔۔ از مسند جابر بن عبداللہ ، عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ میں نے حضرت جابر (رض) بن عبداللہ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے دست مبارک میں تلوار اور قرآن شریف تھا، اور وہ فرما رہے تھے کہ ہمیں حضور نے حکم فرمایا ہے کہ جو اس کی مخالفت کرے ہم اس کو اس سے اڑادیں۔ ابن عساکر۔

1665

1665 - ومن (مسند الحارث بن الحارث الأشعري) عن الحارث ابن الحارث الأشعري قال: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل أمرني أن آمركم بخمس كلمات، عليكم بالجهاد، والسمع، والطاعة، والهجرة، فمن فارق الجماعة قيد قوس لم يقبل منه صلاة ولا صياما، وأولئك هم وقود النار". (طب عن أبي مالك الأشعري) .
١٦٦٥۔۔ ازمسند الحارث بن الحارث الاشعری، الحارث بن الحارث الاشعری، سے مروی ہے کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھے حکم فرمایا ہے میں تم کو پانچ باتوں کو حکم دوں جہاد کرو۔ امیر کی بات سنو۔ اس کی اطاعت کرو، ہجرت اختیار کرو۔ اور جماعت کہ جس نے جماعت سے ایک کمان کے بقدر بھی دوری اختیار کرلی تو اس کی نماز قبول ہوگی اور نہ روزہ۔ اور یہ لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔ الکبیر للطبرانی ، بروایت ابی مالک الاشعری۔

1666

1666 - (ومن مسند حذيفة) عن حذيفة قال: "من فارق الجماعة شبرا خلع ربقة الإسلام من عنقه". (ش) .
١٦٦٦۔۔ ازمسند حذیفہ (رض) ، حذیفہ سے مروی ہے فرمایا کہ جس نے ایک بالشت جماعت سے بعد اپنایا اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن نکال پھینکا۔ ابن ابی شیبہ۔

1667

1667 - (ومن مسند زيد بن ثابت) عن زيد بن ثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "قد تركت فيكم خليفتين، كتاب الله وأهل بيتي يردان علي الحوض جميعا". (ابن جرير) .
١٦٦٧۔۔ ازمسند زید بن ثابت (رض)، زید بن ثابت حضور سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے اندر اپنے دونائب چھوڑے جارہاہوں، کتاب اللہ اور میرے اہل بیت۔ یہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوض پر آئیں گے۔ ابن جریر۔

1668

1668 - (ومن مسند ابن عباس) عن ابن عباس قال:"من فارق الجماعة شبرا مات ميتة جاهليه". (ش) .
١٦٦٨۔۔ ازمسند ابن عباس (رض)۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ فرمایا جس نے ایک بالشت جماعت سے بعد اپنایا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ابن ابی شیبہ۔

1669

1669 - (ومن مسند ابن مسعود) عن عبد الله بن مسعود قال: "الزموا هذه الطاعة والجماعة، فإنه حبل الله الذي أمر به، وإن ما تكرهون في الجماعة خير مما تحبون في الفرقة، إن الله لم يخلق شيئا قط إلا جعل منتهى، وإن هذا الدين قد تم وإنه صائر إلى نقصان، وإن أمارة ذلك أن تنقطع الأرحام، ويؤخذ المال بغير حقه، وتسفك الدماء، ويشتكي ذو القرابة قرابته لا يعود عليه بشيء، ويطوف السائل لا يوضع في يده شيء، فبينما هم كذلك إذ خارت الأرض خوار البقرة يحسب كل ناس أنها خارت من قبلهم: فبينما الناس كذلك إذ قذفت الأرض بأفلاذ كبدها من الذهب والفضة لا ينفع بعد شيء منه شيء ذهب ولا فضة". (ش) .
١٦٦٩۔۔ ازمسند ابن مسعود، عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ فرمایا اس جماعت اور طاعت کو مضبوطی سے تھام لو، کیونکہ یہ وہی اللہ کی رسی ہے جس کا اس نے حکم فرمایا ہے ، اور جو امور تمہیں جماعت میں ناپسند محسوس ہوں وہ فرقہ بازی کے محبوب اعمال سے بھی بہتر ہیں اللہ نے کسی چیز کو پیدا نہیں فرمایا، مگر اس کی انتہا بھی مقرر فرمادی۔ سو یہ دین بھی تام ہوچکا ہے لہٰذا اب یہ نقصان وزوال کی طرف لوٹے گا، اور اس کی علامت یہ ہے کہ قرابت و رشتہ داری منقطع ہوں گی۔ مال ناحق وصول کیا جائے گا، خون ریزی ہوگی، صاحب قرابت قرابت کا شکوہ گا اور اس کی علامت یہ ہے کہ قرابت و رشتہ داری منقطع ہوگی، ہر انسان یہ محسوس کرے گا کہ یہ آواز ان کے علاقہ کی طرف آرہی ہے پھر اسی اثناء زمین اپنے جگرگوشے یعنی سونے چاندی باہرنکال پھینکے گی لیکن اس کے بعد سونا سودمند ہوگا اور نہ ہی چاندی۔ ابن ابی شیبہ۔

1670

1670 - عن ابن مسعود قال: " استتبعني رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقنا حتى أتينا موضعا فخط لي خطة فقال لي: كن بين ظهري هذه ولا تخرج منها فإنك إن خرجت هلكت، فكنت فيها، ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال أبعد شيئا ثم قال: إنه ذكر هنينا كأنهم الرحى أو كما شاء اللهليس عليهم ثياب ولا أرى سوأتهم طوال قليل لحمهم، فأتوا فجعلوا يركبون رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ عليهم وجعلوا يأتون فيحيلون حولي، ويفرطون بي فأرعبت منهم رعبا شديدا فجلست أو كما قال فلما انشق عمود الصبح جعلوا يذهبون ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ثقيلا وجعا أو يكون وجعا مما ركبوه قال: إني أجدني ثقيلا فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه في حجري، ثم هنيينا أتوا عليهم ثياب بيض طوال وقد أغفى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأرعبت أشد مما أرعبت المرة الأولى فقال: بعضهم لقد أعطى هذا الرجل خيرا أو كما قالوا إن عينيه نائمتان أو قال عينه نائمة وقلبه يقظان، ثم قال بعضهم لبعض هلم فلنضرب له مثلا فقال بعضهم لبعض، اضربوا له مثلا ونؤول نحن أو نضرب نحن وتؤولون فقال بعضهم مثلهم كمثل رجل سيدا وقالوا هو سيد بنى بنيانا حصينا ثم أرسل إلى الناس الطعام فمن لم يأت طعامه أو قالوا لم يتبعه عذبه عذابا شديدا، أو قال الآخرون، أما السيد فهو رب العالمين وأما البنيان فهو الإسلام والطعام الجنة وهذا هو الداعي فمن اتبعه كان في الجنة ومن لم يتبعه عذب، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم استيقظ قال: ما رأيت يا ابن أم عبد، قلت: رأيت كذا وكذا فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم ما خفي علي مما قالوا شيء قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: هم نفر من الملائكة أو قال: هم الملائكة أوكما شاء الله". (كر) .
١٦٧٠۔۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا فرمایا، توہم دونوں چل پڑے حتی کہ ایک جگہ پہنچے تو رسول اکرم نے ایک خط کھینچا اور مجھے فرمایا اس کے درمیان ہی رہنا، اگر اس سے باہرنکلے تو ہلاک ہوجاؤ گے تو میں اس میں ٹھہر گیا اور آپ چلے گئے۔ یا فرمایا تھوڑی دور گئے۔ پھر آپ نے کچھ لوگوں کے ہیولے دیکھے چکی کی طرح گھومتے ہوئے۔ ان پر کپڑے بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کی شرمگاہیں بھی نظر نہیں آتی۔ اونچے اونچے قدرآور ہیں۔ جسموں پر معمولی معمولی ساگوشت ہے وہ آئے اور انھوں نے رسول اللہ کو رسوا کرایا اور رسول اللہ ان پر قرآن کی تلاوست فرمانے گلے اور کچھ میرے اردگرد چکرلگانے لگے حتی کہ وہ میری حد سے تجاوز کرنے لگے تو میں ان سے سخت گھبرا گیا اور بیٹھ گیا غالبا آپ نے یہی فرمایا جو کچھ بھی فرمایا پھر جب صبح کی پوپھٹی تو وہ جانے لگے رسول اللہ تشریف لائے آپ تکان سے بوجھل اور تکلیف میں مبتلا تھے شاید انھوں نے آپ کو سوار کرا رکھا تھا سی وجہ سے طبیعت گراں بار ہوگئی تھی ، آکر آپ نے فرمایا میری طبیعت بھاری ہوگئی ہے پھر آپ میری گودو میں سر اقدس رکھ کر استراحت پذیر ہوگئے پھر دوبارہ کچھ ہیولے نمودار ہوئے اب کے ان کے جسموں پر سفید لباس تھے قدرآوار جسموں کے مالک تھے رسول اللہ پر مدہوشی طاری ہوچکی تھی تو اس دفعہ میں پہلے سے زیادہ گھبراہٹ میں مبتلا ہوگیا پھر ان میں سے کسی نے کہا اس نے یعنی آپ نے بھلی چیز عطا کی ہے یہی کہا یاشاید کچھ اور کہا ہے پھر کہا، اس کی آنکھیں سو رہی ہیں یا کہا کہ اس کی آنکھ سو رہی ہے اور دل اس کا بیدار ہے پھر انھوں نے آپس میں کہا آؤ اب اس کی کوئی مثال بیان کریں، ہم مثال بیان کرتے ہیں اور تم اس کی تعبیر بیان کرو، یا تم مثال بیان کرو، اور ہم اس کی تعبیر بیان کرتے ہیں تو بعض نے کہا اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی سردار نے قلعہ نما عمارت تعمیر کروائی پھر لوگوں کی طرف کھانے کے لیے دعوت بھیجی سو جس نے اس کی دعوت کو قبول نہ کیا سردارا سے عذاب کرے گا، پھر دوسروں نے اس کی تعبیر کہی کہ سردارتو اللہ رب العالمین ہے اور قلعہ نما عمارت اسلام ہے کھانا جنت ہے اور یہ نبی داعی ہے سو جس نے اس کی اتباع کی وہ جنت میں جنت جائے گ اور جس نے اتباع نہ کی وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ پھر آپ بیدار ہوگئے اور مجھ سے دریافت کیا اے ام عبدتم نے کیا کچھ دیکھا، عرض کیا ایساماجرا دیکھا تو رسول اللہ نے فرمایا انھوں نے جو کچھ کہا مجھ سے کچھ بھی مخفی نہ رہا، اور آپ نے فرمایا یہ ملائکہ کا ایک گروہ تھا یافرمایاوہ ملائکہ تھے یا جو اللہ چاہے وہی تھے۔ ابن عساکر۔

1671

1671 - عن أبي سعيد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقول على المنبر: " ما بال رجال يقولون رحم رسول الله صلى الله عليه وسلم لا ينفع يوم القيامة على الحوض، وإن رجالا يقولون يا رسول الله أنا فلان ابن فلان فأقول: أما النسب فقد عرفته ولكنكم أحدثتم بعدي وارتددتم القهقرى". (ابن النجار) .
١٦٧١۔۔ ابوسعید (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا لوگوں کو کیا ہوگیا ؟ کہ رسول اللہ کی قرابت بھی حوض پر نفع مند نہیں ہوگی، اور لوگ کہیں گے یارسول اللہ میں فلاں ابن فلاں ہوں میں کہوں گا نسب تو میں جان گیا ہوں لیکن تم نے میرے بعد نیادین بنالیا تھا اور الٹے پاؤں پھرگئے تھے۔ ابن النجار۔

1672

1672 - ومن مسند عقبة بن عامر الجهني قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأنا على أمتي في اللبن أخوف مني عليهم من الخمر قالوا: كيف يا رسول الله. قال يحبون اللبن فيتباعدون من الجماعات ويضيعونها". (نعيم بن حماد في الفتن) .
١٦٧٢۔۔ از مسند عقبہ بن عامر (رض) الجہنی ، عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ، مجھے اپنی امت پر شراب سے زیادہ دودھ کا خوف ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یہ کیسے یارسول اللہ ! فرمایا وہ دودھ پسند کرتے ہیں اور عیش و عشرت میں نماز کی جماعتوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ اور ان کو ضائع کرتے ہیں۔ نعیم بن حماد فی الفتن۔

1673

1673 - عن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تسألوا عن النجوم، ولا تفسروا القرآن برأيكم، ولا تسبوا أحدا من أصحابي فإن ذلك الإيمان المحض". (خط في كتاب النجوم) .
١٦٧٣۔۔ عمر (رض) بن الخطاب سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم کو فرماتے ہوئے سنا ستارہ شناسوں سے کچھ مت پوچھو، اور نہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرو۔ اور میرے اصحاب میں سے کسی کو سب وشتم نہ کرو۔ یہ چیز محض ایمان ہے۔ الخطیب فی کتاب النجوم۔

1674

1674 - من مسند عمر رضي الله عنه عن ابن عباس قال: قال عمر إنه سيكون يكذبون بالدجال، ويكذبون بطلوع الشمس من مغربها، ويكذبون بعذاب القبر، ويكذبون بالشفاعة، ويكذبون بالحوض، ويكذبون بقوم يخرجون من النار بعد ما امتحشوا". (عب ش والحارث ق في البعث) .
١٦٧٤۔۔ از مسند عمر (رض)، ابن عباس (رض)، سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو دجال کی تکذیب کریں گے اور مغرب سے طلوع شمس کا انکار کریں گے عذاب قبر کا انکار کریں گے شفاعت کا انکار کریں گے حوض کا انکار کریں گے اور اس قوم کا انکار کریں گے جو جہنم سے جھلس جانے کے بعد نکلیں گے۔ المصنف لعبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ، الحارث، بخاری و مسلم، فی البعث۔

1675

1675 - (ومن مسند حكم بن عمير الثمالي) عن موسى بن أبي حبيب عن الحكم بن عمير قال: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الأمر المفظع والحمل المضلع والشر الذي لا ينقطع إظهار البدع". (الحسن ابن سفيان وأبو نعيم) .
١٦٧٥۔۔ از مسند حکم بن عمیرالثمالی، موسیٰ بن ابی حبیب حکم بن عمیر سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا گھبراہٹ میں مبتلا کردینے والا امر، کمرتوڑ دینے والابوجھ اور نہ ختم ہونے والاشر بدعتوں کا غلبہ ہے۔ الحسن بن سفیان ابونعیم۔

1676

1676 - ومن مسند أنس بن مالك عن إبراهيم بن هدبة عن أنس قال: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا رأيتم صاحب بدعة فاكفهروا في وجهه، فإن الله يبغض كل مبتدع، ولا يجوز أحد منهم على الصراط ولكن يتهافتون في النار مثل الجراد والذباب". (كر) .
١٦٧٦۔۔ ازمسند انس بن مالک (رض) ۔ ابراہیم بن ھدبہ، انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم کسی صاحب بدعت کو دیکھو توترش روئی کے ساتھ اس سے پیش آؤ۔ کیونکہ اللہ ہر صاحب بدعت سے بغض رکھتے ہیں ان میں سے کوئی پل صراط سے نہیں گزرے گا، مگر وہ جہنم میں پت جھڑ کے پتوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے جیسے ٹڈیوں اور مکھیوں کے بھٹ گرتے ہیں۔ رواہ ابن عساکر۔

1677

1677 - عن حذيفة قال: "إني لأعرف أهل دينين هما في النار، قوم يقولون الإيمان كلام، وقوم يقولون ما بال الصلوات الخمس وإنما هما صلاتان". (ابن جرير) .
١٦٧٧۔۔ حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ فرمایا کہ میں دوجماعتوں کو جانتاہوں جو جہنم میں جائیں گی۔ ایک وہ قوم جس کا کہنا ہے کہنا ہے ایمان سارا محض کلام ہے جس میں عمل کی ضرورت نہیں اور یہ مرجیہ کا عقیدہ ہے اور دوسری قوم جوک ہے گی کہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے۔ دو نمازیں ہی کافی ہیں۔ ابن جریر۔

1678

1678 - عن الزهري قال: "ثلاثة ليسوا من أمة محمد صلى الله عليه وسلم الجعدي والمناني والقدري". (كر) .
١٦٧٨۔۔ زہری سے مروی ہے کہ فرمایا تین جماعتیں جن کا امت محمدیہ سے کوئی واسطہ نہیں بخیل، المنافی، (احسان جتانے والا اور قدری (تقدیر کا منکر) ابن عساکر۔

1679

1679 - (ومن مسند علي) رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال الله تعالى: "ما تحبب إلي عبدي بأحب إلي من أداء ما افترضت عليه" وذكر الحديث. (كر) .
١٦٧٩۔۔ از مسند علی (رض) ، حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ارشاد حق سبحانہ تقدس ہے کہ کوئی بندہ اس چیز کی ادائیگی کے سوا مجھ سے کسی اور چیز کے ساتھ زیادہ قریب نہیں پاسکتا، جو میں نے خود اس پر فرض کردی ہے۔ الخ، ابن عساکر۔

1680

1680 - (ومن مسند أنس) عن أنس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عن جبريل عن ربه تبارك وتعالى قال: "من أخاف وفي لفظ من أهان لي وليا فقد بارزني بالمحاربة، وما تقرب إلي عبدي المؤمن بمثل أداء ما افترضت عليه، وما يزال عبدي المؤمن يتنفل إلي حتى أحبه، ومن أحببته كنت له سمعا وبصرا ويدا ومؤيدا، إن سألني أعطيته وإن دعاني أجبته، وفي لفظ دعاني فأجبته، وسألني فأعطيته ونصح لي فنصحت له، وما ترددت في شيء أنا فاعله، وما ترددت في قبض نفس مؤمن يكره الموت، وأكره مساءته، ولا بد له منه، وإن من عبادي المؤمنين لمن يشتهى الباب من العبادة فأكفه عنه لئلا يدخله عجب فيفسده، ذلك وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلح إيمانه إلا الغنى ولو أفقرته لافسده ذلك، وإن من عبادي لمن لا يصلح إيمانه إلا الفقر ولو بسطت له لأفسده ذلك، وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلح إيمانه إلا الصحة، ولو أسقمته لأفسده ذلك، وإن من عبادي المؤمنين لمن لا يصلح إيمانه إلا السقم، ولو أصححته لأفسده ذلك، إني أدبر عبادي بعلمي بقلوبهم إني عليم خبير". (ابن أبي الدنيا في كتاب الأولياء حل كر) وفيه صدقة ابن عبد الله السمين ضعفه حم (خ ن) قط وقال أبوحاتم محله الصدق وأنكر عليه القدر فقط.
١٦٨٠۔۔ از مسند انس ۔ حضرت انس حضور سے اور آپ حضرت جبرائیل سے اور حضرت جبرائیل اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے میرے دوست کو خوف زدہ کیا دوسرے الفاظ میں میرے دوست کی اہانت کی اس نے مجھے کھلے عام جنگ کی دعوت دیدی، اور کوئی بندہ اس چیز کی ادائیگی کے سوا مجھ سے کسی اور چیز کے ساتھ زیادہ قریب نہیں پاسکتا، جو میں نے خود اس پر فرض کردی ہے اور بندہ مسلسل نفی عبادات میں مشغول رہتا ہے تو وہ میرا محبوب بن جاتا ہے اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اس کے لیے میں کان آنکھ اور ہاتھ بن جاتاہوں اور اس کا حمایتی و مددگار بن جاتاہوں اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں اور وہ میرے لیے مخلص ہوجاتا ہے تو میں اس کے لیے مخلص خیرخواہ ہوجاتاہوں۔ اور میں کسی چیز میں تردد کا شکار نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ جب میرے بندے کا آخری وقت آپہنچتا ہے پھر وہ موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ میں اس کی برائی کو ناپسند کرتا ہوں اور اس کے سواچارہ کار نہیں اور بعض میرے بندے اپنے لیے کسی عبادت کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں مگر میں اس بات کے پیش نظر اس دروازے کو اس پر بند رکھتاہوں کہ کہیں وہ عجب وپندار نفس میں مبتلا نہ ہوجائے اور یہ اس کے لیے تباہی کا پیش خیمہ بن جائے اور بعض میرے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان ان کو غنی ومالداری کے سوا کوئی چیز راس نہیں دیتا۔ اگر میں ان کو فقر میں مبتلا کردوں تو وہ ان کو فتنہ و فساد کا شکار کردے۔ اور بعض میرے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان ان کو فقر ہی میں درست رکھتا ہے۔ اور اگر میں ان کو غنی ومالداری بخش دوں تو یہی ان کی تباہی کا ذریعہ بن جائے اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کا ایمان ان کے لیے صحت و تندرستی کو خیر کا باعث بناتا ہے اگر میں ان کو بیماری میں مبتلا کردوں تو یہ بیماری ان کو خراب کردے اور بعض میرے بندے ایسے ہیں کہ ان کا ایمان ان کو بیماری میں مناسب رکھتا ہے اگر میں ان کو صحت و تندرستی عنایت کردوں تو وہ فساد و خرابی کا شکار ہوجائیں میں اپنے بندوں کے دلوں کے بھید جانتے ہوئے ان کی تدبیر کرتا ہوں میں علیم وخبیر ذات ہوں۔ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاولیا، الحلیہ، ابن عساکر۔
اس میں صدقہ بن عبداللہ ہے جس کو امام احمد و امام بخاری اور نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابوحاتم الرازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ محدثین میں صدق کا مرتبہ رکھتے ہیں یعنی کسی قدر ضعیف ہے لیکن قدریہ ہونے کا شبہ ہونے کی وجہ سے اس موضوع تقدیر کی روایت ان سے درست نہیں ۔ اور علامہ ذھبی کہتے ہیں کہ ان کی روایت کو بیان کرنے کی گنجائش ہے لیکن ان سے استدلال درست نہیں ہے اس کے لیے اور نیز ان راوی کے متعلق مفصل جرح وقدح کے لیے دیکھیے سیر اعلام النبلاء ج ٧ ص ٣١٦۔

1681

1681 - ومن مسند جابر بن عبد الله عن الزبير قال: "سألت جابرا عن الورود قال جابر: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يتجلى لهم ضاحكا". (ت ط في الصفات) .
١٦٨١۔۔ از مسند جابر بن عبداللہ (رض) ، زبیر سے مروی ہے کہ میں نے جابر (رض) سے پل صراط پر گزرنے کے متعلق پوچھاتو آپ نے فرمایا میں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ شرط کہ ہر مومن اس سے ضرور گزرے گا، مومنین کے لیے ہنستے مسکراتے پوری ہوجائے گی۔ الصحیح للترمذی، ابوداؤد الطیالسی فی الصفات۔

1682

1682 - عن جابر قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر أن يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك فقال له بعض أهله: يا رسول الله أتخاف علينا وقد آمنا بك وبما جئت به فقال: إن القلب بين أصبعين من أصابع الرحمن يقول بهما وحرك أصبعيه". (قط في الصفات) .
١٦٨٢۔۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اکرم اکثر یہ دعا فرماتے تھے : یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اس پر آپ کے بعض اہل خانہ نے سوال کیا یارسول اللہ کیا آپ اب بھی ہم پر خوف کرتے ہیں جبکہ ہم آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لے آئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا دل ہمہ وقت رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان رہتا ہے اور رحمن یوں کرتا رہتا ہے انگلیوں کو حرکت دیتے ہوئے فرمایا۔ الدارقطنی فی الصفات۔

1683

1683 - ومن مسند أبي رزين العقيلي عن ابن عباس عنه عليه السلام في قوله {وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ} . قال: "الكرسي موضع القدمين ولا يقدر قدر العرش شيء". (قط في الصفات) .
١٦٨٣۔۔ از مسند ابی رزین العقیلی۔ (وسع کرسیہ السموات والارض) کی تفسیر کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ کرسی جائے قدمین ہے۔ اور عرض کی وسعت کا اندازہ کوئی شی نہیں کرسکتا۔ الدارقطنی فی الصفات۔

1684

1684 - ومن مسند النواس بن سمعان الكلابي عن النواس بن سمعان قال: "سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من قلب إلا وهو بين أصبعين من أصابع رب العالمين إن شاء أن يقيمه أقامه وإن شاء أن يزيغه أزاغه، قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يا مقلب القلوب ثبتنا على دينك، والميزان بيد الرحمن يخفضه ويرفعه، وفي لفظ بين أصابع إن شاء أقامه وإن شاء أزاعه فكان يقول يا مقلب القلوب ثبت قلوبنا على دينك، والميزان بيده يرفع أقواما ويخفض أقواما إلى يوم القيامة". (قط في الصفات) .
١٦٨٤۔۔ از مسند نواس (رض) بن سمعان، الکلابی۔ نواس (رض) ، بن سمعان سے مروی ہے کہ میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر دل رب العالمین کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان رہتا ہے چاہے تو وہ سیدھا مستقیم رکھے اور چاہے توکج رو کردے۔ تو رسول اللہ اسی وجہ سے فرماتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ اور میزان تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کو پست وبالا کرتا رہتا ہے اور دوسرے الفاظ یہ ہیں کہ دل اس کی انگلیوں کے درمیان ہے چاہے توا سے سیدھارکھے چاہے توا سے اس کو پست وبالا کرتا رہتا ہے اور دوسرے الفاظ یہ ہیں کہ دل اس کی انگلیوں کے درمیان ہے چاہے توا سے سیدھارکھے چاہے توا سے ٹیڑھا کردے اور میزان اس کے ہاتھ میں ہے سو وہ اقوام کو رفعت عطا کرتا ہے اور پست کرتا ہے اور قیامت تک یہی معاملہ جاری وساری ہے۔ الدارقطنی فی الصفات۔

1685

1685 - ومن مسند أبي رزين العقيلي عن أبي رزين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ضحك ربنا من قنوط عباده وقرب عفوه قلت: يا رسول الله ويضحك الرب قال: نعم قلت لن نعدم من رب يضحك خيرا". (قط في الصفات) .
١٦٨٥۔۔ از مسند ابی رزین العقیلی ۔ ابی رزین العقیلی سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہمارا رب بندے کی یاس وقنوط اور اپنی رحمت اس کے قریب ہونے پر مسکراتا ہے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ کیا پروردگار بھی مسکراتا ہے فرمایا ہاں میں نے کہا پروردگار مسکرائے توہم خیر سے ہرگز محروم نہ ہوں گے۔ الدارقطنی فی الصفات۔

1686

1686 - عن شهر بن حوشب قال: "قلت لأم سلمة يا أم المؤمنين ما كان أكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان عندك؟ قالت كان أكثر دعائه: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك، ثم قال يا أم سلمة إنه ليس من آدمي إلا وقلبه بين أصبع (2) من أصابع الله ما شاء منها أقام وما شاء أزاغ". (ش) .
١٦٨٦۔۔ شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ (رض) سے دریافت کیا کہ آپ جب آپ کے پاس ہوتے تو آپ کی دعا اکثر کیا ہوتی تھی ؟ فرمایا آپ کی دعا اکثریہ ہوتی تھی۔ یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ پھر آپ نے ایک مرتبہ فرمایا اے ام سلمہ ہر آدمی کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان رہتا ہے چاہے تو وہ اس کو سیدھا مستقیم رکھے اور چاہے توکج رو کردے۔ ابن ابی شیبہ۔

1687

1687 - عن عائشة رضي الله عنها قالت: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك قلت: يا رسول الله إنك تدعو بهذا الدعاء قال يا عائشة أو ما علمت أن قلب ابن آدم بين أصابع الله إن شاء أن يقلبه إلى هداية (2) وإن شاء أن يقلبه إلى ضلالة قلبه". (ش) .
١٦٨٧۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ آپ یہ دعامانگے تھے۔ یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنیو الے میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ اور یہ دعا مانگتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ کیا تو نہیں جانتی کہ ابن آدم کا دل اللہ ہی انگلیوں کے درمیان ہے چاہے تو وہ اسے ہدایت کی طرف پلٹ دے اور چاہے توا سے گمراہی کی طرف لوٹادے تو وہ یوں پلٹ دینے پر قادر ہے۔ ابن ابی شیبہ۔

1688

1688 - من مسند عمر رضي الله عنه عن رجل قال: "كنت في المدينة في مجلس فيه عمر بن الخطاب، فقال لبعض جلسائه: كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصف الإسلام؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الإسلام بدأ جذعا ثم ثنيا ثم رباعيا ثم سديسا ثم بازلا"، فقال عمر: ما بعد البزول إلا النقصان". (حم ع) .
١٦٨٨۔۔ از مسند عمر (رض) ، ایک شخص سے مروی ہے کہ میں مدینہ میں حضرت عمر بن خطاب کی مجلس میں موجود تھا کہ آپ (رض) نے اپنے کسی ہم نشین سے فرمایا تم نے حضور کو اسلام کی صفت کس طرح بیان کرتے ہوئے سنا ؟ اس نے کہا میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام اونٹ کے بچہ کی مانند نوخیزی وکسمپرسی کے عالم میں اٹھا، پھر اس کے سامنے کے ثنائی دانت نکلے ۔ پھر برابر کے رباعی دانت نکلے پھر رباعی کے بعد والے دانت نکلے۔ پھر اسلام اپنے عنفوان شباب کے آخری مرحلہ بزول پر آیا اور اس کے کچیلی والے دانت بھی نکل آئے اس پر حضرت عمر نے ارشاد فرمایا کہ بزول کے بعد سوائے نقصان وتنزلی کے کچھ نہیں رہ جاتا۔ مسنداحمد، المسند لابی یعلی بروایت رجل ۔
اس روایت میں مجہول روای غالبا حضرت العلاء بن الحضرمی (رض) ہیں۔ اور روایت میں اسلام کو ایک اونٹ کے بچے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اس کی ارتقائی منازل کو بیان کیا گیا ہے آخری مرحلہ بزول کا فرمایا حالت بزول میں اونٹ آٹھویں سال میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ اس کی قوت کا انتہائی اور بڑھاپے کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے اسی وجہ سے روایت کے آخر میں حضرت عمر کا ارشاد ہے کہ بزول کے بعد سوائے نقصان وتنزلی کے کچھ نہیں رہ جاتا، یعنی عنقریب اسلام اس حالت میں پہنچ کر حاملین اسلام کی زبوں حالی کی وجہ سے اپنا عروج واقبال کھوبیٹھے گا۔

1689

1689 - ومن مسند عبد الله بن عمرو عن ابن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الإسلام بدأ غريبا وسيعود كما بدأ فطوبى للغرباء، فقالوا يا رسول الله ومن الغرباء؟ قال الفرارون بدينهم يبعثهم الله عز وجل يوم القيامة مع عيسى ابن مريم". (كر) .
١٦٨٩۔۔ از مسند عبداللہ بن عمرو (رض) ۔ ابن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اسلام اجنبی پردیسی حالت میں اٹھا اور عنقریب اسی طرح لوٹ جائے گا جس طرح اٹھا تھا۔ سو غرباء کے لیے خوشی کا مقام ہے صحابہ کرام نے عرض کیا، یارسول اللہ یہ غرباء کون ہیں ؟ فرمایا اپنے دین کی حفاظت کے لیے اس کو لے کر گناہوں کے مقام سے راہ فرار اختیار کرنے والے۔ ان کو اللہ روز قیامت حضرت عیسیٰ مریم کے ساتھ اٹھائے گا۔ ابن عساکر۔

1690

1690 - ومن مسند ابن مسعود عن ابن مسعود الأثلم "في الإسلام ثلمة لا تجبر بعده أبدا". (كر) .
١٦٩٠۔۔ از مسند ابن مسعود (رض)۔ ابن مسعود سے مروی ہے فرمایا کہ اسلام کی تلوار میں کند پڑگیا تو پھر اس کو کبھی کوئی چیز درست نہ کرسکے گی۔ ابن عساکر۔ یعنی اسلام کا انحطاط شروع ہوگیا تو پھر اس کی ترقی روبہ زوال ہی رہے گی۔

1691

1691 - ومن مسند عبد الرحمن بن سمرة بن حبيب العبسي (2) عن عبد الرحمن بن سمرة سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "والذي نفسي بيده ليأرزن الإسلام إلى ما بين المسجدين كما تأرز الحية إلى جحرها، وليأرز الإيمان المدينة (3) كما يحوز السيل الدمن، فبينما هم على ذلك استغاث العرب بأعرابها فخرجوا في محلبة لهم، كمصابيح (4) من مضى، وخير من بقى، فاقتتلوا هم والروم فتنقلب بهم الحرب حتى تردوا عميق انطاكية فيقتتلون بها ثلاث ليال، فيرفع الله النصر عن كلا الفريقين حتى تخوض الخيل في الدم إلى ثنيتها (5) وتقول الملائكة: أي رب ألا تنصر عبادك؟ فيقول: حتى تكثر شهداؤهم فيستشهد ثلث، وينصر ثلث، ويرجع ثلث شاكا فيخسف بهم، فتقول الروم لن ندعوكم إلا أن تخرجوا إلينا، كل من كان أصله منا، فتقول العرب للعجم الحقوابالروم فتقول العجم الكفر بعد الإيمان، فيغضبون عند ذلك فيحملون على الروم فيقتتلون فيغضب الله عند ذلك، فيضرب بسيفه ويطعن برمحه. قيل يا عبد الله بن عمر وما سيف الله ورمحه؟ قال سيف المؤمن ورمحه، حتى يهلك الروم جميعا فما يفلت منهم إلا مخبر، ثم ينطلقون إلى أرض الروم فيفتحون حصونها ومدائنها بالتكبير يكبرون تكبيرة فيسقط جدرها، ثم يكبرون تكبيرة أخرى فيسقط جدار، ثم يكبرون تكبيرة أخرى فيسقط جدار آخر، ويبقى جدارها البحيري لا يسقط، ثم يستجيزون إلى رومية فيفتحونها بالتكبير ويتكايلون يومئذ غنائمهم كيلا بالغرائر". (نعيم) .
١٦٩١۔۔ از مسند عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب العبسی، عبدالرحمن بن سمرہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اسلام ان دومسجدوں کی طرف سے اس طرح سمت کر منحصر ہوجائے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لپک کر داخل ہوجاتا ہے۔ اور ایمان مدینہ کی طرف یوں تیری سے آئے گا جس طرح سیلاب نشیب میں آنافانا اترجاتا ہے۔ پھر اسی اثنا میں عرب اپنے اعراب گنوار لوگوں سے اعانت کے طلب گار ہوں گے تو ان کی آواز پیش رواں میں سے صلاح کار اور پیچھے رہ جانے والوں میں سے معزز واخیار لوگ اپنے مددگار کے ہمراہ نکلیں گے اور پھر ان کے اور روم کے مابین جنگ چھڑ جائے گی لیکن جنگ ان پر حالت شکست میں الٹ جائے گی۔ پھر یہ انطاکیہ کے نشیبی مقام پر جمع ہوں گے اور وہاں جنگ چھڑے گی۔ اور تین دنوں تک جنگ کے شعلے بھڑکیں گے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ دونوں فریقوں سے مدد اٹھالیں گے ۔۔ حتی کہ خون کا بازار اس قدر گرم ہوگا کہ گھوڑوں کے پاؤں مکمل خون میں ڈوب جائیں گے تب ملائکہ بارگاہ رب العزت میں عرض کریں گے اے الہ تو کیوں اپنے بندوں کی مدد نہیں فرمارہا، پروردگار فرمائیں گے ابھی ان کے شہداء کی تعداد بڑھنے دو ۔ پھر ان کے ایک تہائی لوگ شہادت پالیں گے اور ایک تہائی نصرت یاب ہوجائیں گے اور ایک تہائی سختی جنگ کی شکایت کرتے ہوئے منہ موڑ کر چلے جائیں گے اور یہ لوگ زمین میں دھنس جائیں گے۔
تب اہل روم کہیں گے کہ ہم تمہیں اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک کہ تم ہماری اصل کے (عجمی ) لوگوں کو ہمارے سپرد نہ کردو تو عرب عجم سے کہیں گے کہ جاؤ تم اہل روم کے ساتھ شامل ہوجاؤ، عجم کہیں گے کیا ایمان کے بعد کفر کے مرتکب ہوتے ہو ؟ کہ پہلے ہم کو اپنی حمایت میں جنگ کی چکی میں پیدا اور اب انہی اغیار دشمن کے حوالہ کرتے ہو ؟ تب عرب ان کی حمیت میں غضبناک ہوں گے اور روم پر حملہ آور ہوجائیں گے اور قتال کریں گے اور اس وقت اللہ بھی غصہ میں آئیں گے اور اپنی تلوار ونیزہ چلائیں گے دریافت کیا اے عبداللہ بن عمر (رض) اللہ کی تلوار ونیزہ کیا ہے ؟ فرمایا مومن کی تلوار ونیزہ۔ پھر تمام اہل روم نیست ونابود ہوجائیں گے سوائے کسی مخبر کے کوئی بچ کر نہ جاسکے گا پھر یہ مسلمان روم کے شہروں کا رخ کریں گے اور اس کے قلعوں اور شہروں کو فقط اللہ اکبر کی گونج ہی سے فتح کرلیں گے تکبیر کہیں گے تو اس کی دیواریں گرپڑیں گی اور ایک بار تکبیر کہیں گے تو اس کی ایک دیوار گرپڑئے گی ایک اور بار تکبیر کہیں گے تو دوسری دیوار بھی گرجائے گی صرف بحیری دیوار گرنے سے رہ جائے گی پھر یہ رومیہ کی طرف بڑھیں گے اور اس کو بھی تکبیر سے فتح کرلیں گے اور اس دن غنیمت کا مال کثرت کی وجہ سے اندازے کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔ ابونعیم۔
ابن عمرو فرماتے ہیں پانچ بڑی جنگیں چھڑیں گی دو ہوچکی ہیں اور بقیہ تین میں سے پہلی ترک کے ساتھ عظیم جنگ ہوگی دوسری اعماق میں یعنی اہل روم کے ساتھ جس کا ابھی ذکر ہوا ۔ تیری دجال کے ساتھ ان کے بعد جنگ نہ ہوگی اور روایت بالا کے شروع میں حضرت ابن عمرو کا کچھ فرمان جو یہاں مذکور نہیں ہے وہ یہ ہے کہ روم میں ایک لڑکاپیدا ہوگا جو قدرتا بہت جلد جوانی کی منازل طے کرلے گا وہ روم کی سلطنت کا مالک بنے گا اور کہے گا کہ یہ مسلمان آخر کب تک ہمارے علاقوں پر قابض رہیں گے سویاتو میں نہ رہوں یا اس مذہب کو صفحہ ہستی سے مٹاڈالوں اس کے مقابلے میں مصر وشام وغیرہ کے لوگ نکلیں گے جن کے ساتھ عجم بھی ہوں گے یہ دریا ر عرب میں جمع ہو کرروم کے خلاف جنگ ترتیب دیں گے اور عرب کے اعراب کو بھی مدد کے لیے پکاریں گے جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ یہ جنگوں میں سے سب سے عظیم ترین جنگ ہوگی جس میں جیت بالاآخر مسلمانوں کی ہوگی اس فتح سے فراغت ہوتے ہی مسلمانوں کو خوش کن خبر ملے گی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لاچکے ہیں یہ لوگ بیت المقدس میں مقام ایلیاء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جاکرملیں گے اور ان کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں گے۔ خلاصہ از الفتن لنعیم بن حماد۔

1692

1692 - من مسند عمر رضي الله عنه عن الزهري أن عمر بن الخطاب قال لأصحابه: "ما تقولون في الرجل لا يحضره أحيانا ذهنه ولا عقله ولا حفظه، وأحيانا يحضره ذهنه وعقله؟ قالوا: ما ندري يا أمير المؤمنين، قال عمر: إن للقلب طخاء كطخاء القمر (2) فإذا غشى ذلك القلب ذهب ذهنه وعقله وحفظه، فإذا انجلى عن قلبه أتاه عقله وذهنه وحفظه". (ابن أبي الدنيا في كتاب الإسراف) .
١٦٩٢۔۔ از مسند عمر (رض)۔ امام زہری حضرت عمر سے انقطاعا روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ جو بسا اوقات حاضر و دماغ رہتا ہے اور نہ حاضر عقل اور اس کی یادداشت بھی برقرار نہ رہتی ہو ؟ اور بسا اوقات ا سکادماغ اور عقل کام کرنے لگ جاتے ہوں۔ آپ کے ہم نشینوں نے کہا، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، اسے امیرالمومنین حضرت عمر نے فرمایا دل بھی چاند کی مانند گرہن ہوجاتا ہے پس جب یہ کیفیت دل پر طاری ہوجائے تو اس کا دماغ عقل اور یادداشت بھی ماؤف ہوجاتی ہے اور جب اس کیفیت کے بادل دل سے چھٹتے ہیں تودماغ عقل اور یادداشت سب دوبارہ لوٹ آتی ہیں۔ ابن ابی الدنیا فی کتاب الاسراف۔

1693

1693 - عن قتادة قال: "ذكر لنا أن عمر بن الخطاب قال: أما قلبي فلا أملك، ولكن أرجو أن أعدل فيما سوى ذلك". (ابن جرير) .
١٦٩٣۔۔ حضرت قتادہ سے مروی ہ کہ ہمیں خسی نے ذکر کیا کہ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ میں اپنے دل کا تو مالک نہیں ہوں لیکن اس کے سوا میں عدل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ ابن جریر۔

1694

1694 - ومن مسند أنس عن زيد الرقاشي عن أنس قال: "كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر أن يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلبي دينك. قالوا يا رسول الله: آمنا بك وبما جئت به فهل تخاف علينا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هكذا وأشار بأصبعه". (ش قط في الصفات) .
١٦٩٤۔۔ ا زمسند انس (رض)۔ زید الرقاشی سے مروی ہے کہ حضرت انس نے فرمایا رسول اکرم اکثر یہ دعا فرماتے تھے کہ یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔
اس پر صحابہ کرام نے سوال کیا یارسول اللہ کیا آپ بھی ہم پر خوف کرتے ہیں جبکہ ہم آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لے آئے ہیں آپ نے انگلیوں سے اشارہ فرمایا : یعنی دل ہمہ وقت رحمن کی انگلیوں کے درمیان متحرک رہتا ہے۔ ابن ابی شیہ، الدار قطنی فی الصفات۔

1695

1695 - عن أبي سفيان عن أنس قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك. فقالوا: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أتخشى علينا وقد آمنا بك وأيقنا بما جئتنا به؟ فقال: وما تدري أن قلوب الخلائق بين أصبعين من أصابع الله عز وجل". (قط في الصفات) .
١٦٩٥۔۔ حضرت سفیان سے مروی ہے کہ حضرت انس نے فرمایا رسول اکرم اکثر یہ دعا فرماتے تھے : یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ اس پر صحابہ کرام نے سوال کیا یارسول اللہ کیا آپ اب بھی ہم پر ڈرتے ہیں جبکہ ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور آپ کے لائے ہوئے دین پر یقین کرلیا ؟ آپ نے فرمایا تم کیا جانو، تمام مخلوق کے دل اللہ عزوجل کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں۔ الدار قطنی فی الصفات۔

1696

1696 - ومن مسند حنظلة بن الربيع الأسيدي عن حنظلة الكاتب الأسيدي، وكان من كتاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: "كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا الجنة والنار حتى كأنا رأي عين، فقمت إلى أهلي وولدي فضحكت ولعبت فذكرت الذي كنا فيه، فخرجت فلقيت أبا بكر فقلت: نافقت يا أبا بكر. قال: وما ذاك؟ قلت نكون عند النبي صلى الله عليه وسلم يذكرنا الجنة والنار كأنا رأي عين فإذا خرجنا من عنده عافسنا الأزواج والأولاد الضيعات فنسينا. فقال أبو بكر إنا لنفعل ذلك، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت له ذلك فقال: يا حنظلة لو كنتم عند أهليكم كما تكونون عندي لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي الطريق، يا حنظلة ساعة وساعة". (الحسن بن سفيان وأبو نعيم) .
١٦٩٦۔۔ از مسند حنظلہ بن الربیع الاسیدی ، حنظلہ الاسیدی جو رسول اللہ کے کاتبین میں شامل ہیں فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس حاضر تھے آپ نے جنت وجہنم کا ذکر کیا تو ہم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر میں کھڑا ہوا اور اپنے اہل خانہ کی طرف چلا گیا۔ اور وہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہنسی کھیل میں مشغول ہوگیا پھر مجھے حضور کی محفل میں طاری ہونے والی وہ کیفیت یاد آگئی میں نکلا اور حضرت ابوبکر سے ملاا ورعرض کیا اے ابوبکر، وہ میں تو منافق ہوگیاہوں آپ (رض) نے دریافت فرمایا کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا ہم جب نبی کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور آپ ہم سے جنت وجہنم کا تذکرہ فرماتے ہیں تو گویا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پھر جب ہم وہاں سے نکلتے ہیں تو اولاد اور بیویوں کے ساتھ لہو ولعب اور بےکار چیزوں میں مشغول ہوجاتی ہیں اور اس وقت کو بھول جاتے ہیں حضرت ابوبکر نے فرمایا ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے پھر میں آپ کے پاس حاضرہوا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اے حنظلہ اگر اہل و عیال کے پاس بھی تمہاری وہی کیفیت برقرار رہے جو میرے ہاں ہوتی ہے تو فرشتے تم سے بستروں پر مصافحہ کرنے لگیں دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ لیکن اے حنظلہ یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ الحسن بن سفیان۔ ابونعیم۔

1697

1697 - عن حنظلة الأسيدي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (2) "لو كنتم تكونون كما تكونون عندي لأظلتكم الملائكة بأجنحتها" (3) (ط وأبو نعيم – (4)
١٦٩٧۔۔ حنظلہ الاسیدی۔ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر اہل و عیال کے پاس بھی تمہاری وہی کیفیت برقرار رہے جو میرے ہاں ہوتی ہے تو فرشتے تم پر اپنے پروں کا سایہ کرنے لگیں۔ ابوداؤد الطیالسی ، ابونعیم۔

1698

1698 - عن أبي هريرة قال: قلت يا رسول الله إنا إذا كنا عندك رقت قلوبنا، وزهدنا في الدنيا، ورغبنا في الآخرة. فقال: لو تكونون إذا خرجتم من عندي كما تكونون عندي، لزارتكم الملائكة، ولصافحتكم في الطريق، ولو لم تذنبوا لجاء الله بقوم يذنبون حتى تبلغ خطاياهم عنان السماء، فيستغفرون الله فيغفر لهم على ما كان منهم ولا يبالي. (ابن النجار) .
١٦٩٨۔۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ جب ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہمارے قلوب پر رقت طاری ہوتی ہے ؟ اور دنیا سے ہم بےرغبت ہوتی ہیں ؟ اور آخرت کا شوق ہمارے دلوں پر طاری ہوتا ہے آپ نے فرمایا اگر میرے پاس سے جانے کے بعد بھی تمہاری وہی کیفیت برقرار رہے جو میرے ہاں ہوتی ہے تو فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور راہ چلتے تم سے مصافحہ کرنے لگیں، لیکن اگر تم سے گناہ ہونے معدوم ہوجائیں تو اللہ دوسری ایسی قوم کو لابسائے گا جو گناہ کی مرتکب ہوگی حتی کہ ان کے گناہ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے پھر وہ اللہ سے مغفرت کے طلب گار ہوں گے تو ان سے جو کچھ بھی سرزد ہوا ان سب کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں گے اور اسے کوئی پروا نہیں۔ ابن النجار۔

1699

1699 - عن أبي هريرة قال: قلت يا رسول الله إذا كنا عندك رقت قلوبنا، وزهدنا في الدنيا، ورغبنا في الآخرة فقال: لو تكونون على الحال التي عندي لزارتكم الملائكة، ولصافحتكم في الطريق، ولو لم تذنبوا لجاء الله بقوم يذنبون حتى تبلغ خطاياهم عنان السماء فيستغفرون فيغفر لهم على ما كان منهم ولا يبالي". (ابن النجار) .
١٦٩٩۔۔ حضرت ابوہرہرہ (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ جب ہم آپ کے حاضر ہوتے ہیں تو ہمارے قلوب پر رقت طاری ہوتی ہے ؟ اور دنیا سے ہم بےرغبت ہوتے ہیں اور آخرت کا شوق ہمارے دلوں پر طاری ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر تم اسی حال پر رہو۔۔۔ جو میرے ہاں ہوتا ہے تو فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں اور راہ چلتے تم سے مصافحہ کرنے لگیں، لیکن اگر تم سے گناہ ہونے پر معدوم ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ دوسری ایسی قوم کو لابسائے گا جو گناہ کی مرتکب ہوگی حتی کہ ان کے گناہ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے پھر وہ اللہ سے مغفرت کے طلب گارہوں گے تو ان سے جو کچھ بھی سرزد ہوا ان سب کے باوجود اللہ ان کی مغفرت فرمائیں گے اور اسے کوئی پروا نہیں ۔ ابن النجار۔

1700

1700 - ومن مسند عبد الله بن رواحة عن أبي الدرداء قال: "كان عبد الله بن رواحة يأخذ بيدي فيقول: تعال نؤمن ساعة، إن القلب أسرع تقلبا من القدر إذا استجمعت غليانها". (ط) .
١٧٠٠۔۔۔ از مسند عبداللہ بن رواحہ۔ حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ میرا ہاتھ تھام کر فرماتے تھے آؤ کچھ دیر ایمان تازہ کرلیں، کیونکہ دل اس ہانڈی سے زیادہ جو شدت جوش سے ابل رہی ہو، متغیر ہوتا ہے رہتا ہے۔ ابوداؤد الطیالسی۔

1701

1701 - عن أبي الدرداء قال: "كان عبد الله بن رواحة إذا لقيني قال لي يا عويمر اجلس نتذاكر ساعة، فنجلس فنتذاكر، ثم يقول: هذا مجلس الإيمان مثل الإيمان مثل قميصك بينا إنك قد نزعته إذ لبسته وبينا إنك قد لبسته إذ نزعته، القلب أسرع تقلبا من القدر إذا استجمعت غليانها". (كر) .
١٧٠١۔۔ حضرت ابوالدرداء (رض) سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ب مجھ سے ملاقات کرتے تو فرماتے عویمر ! آؤ بیٹھو ، چندگھڑی مذاکرہ کریں توہم کچھ دیر بیٹھ کر ایمان کا مذاکرہ کرتے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ ایمان کی مجلس ہے اور ایمان کی مثال قمیص کی سی ہے کہ کبھی تم پہنچی ہوئی قیمص کو اتارتے ہو، اور کبھی اتاری ہوئی قمیص کو پہن لیتے ہو، دل اس ہانڈی سے جو شدت جوش سے ابل رہی ہو، زیادہ الٹ پلٹ ہوتا ہے۔ ابن عساکر۔

1702

1702 - (ومن مسند ابن عمرو) عن عبد الله بن عمرو أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن قلوب بني آدم كلها بين أصبعين من أصابع الرحمن كقلب واحد يصرفه كيف يشاء. ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم مصرف القلوب اصرف قلوبنا إلى طاعتك". (كر) .
١٧٠٢۔۔ از مسند ابن عمرو (رض) ، عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کو فرماتیہ وئے سنا، تمام بنی آدم کے دل ایک دل کی مانند رحمن کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان رہتے ہیں وہ جیسے چاہتا ہے ان کو الٹتا پلٹتا ہے پھر آپ نے دعا فرمائی۔ اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دل اپنی طاعت وفرماں برادری کی طرف پھیردے۔ ابن عساکر۔

1703

1703 - ومن مسند ابن مسعود عن ابن مسعود قال: "لا تكره قلبك إن القلب إذا أكره عمي". (محمد بن عثمان الأذرعي في كتاب الوسوسة) .
١٧٠٣۔۔ از مسند ابن مسعود (رض)۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ فرمایا کہ دل کو کسی بات پر مجبور نہ کر کیونکہ دل کوئی جب مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے۔ محمد بن عثمان الاذرعی فی کتاب الووسوسہ۔

1704

1704 - من مسند طلحة عن أبي رجاء العطاردي قال: "صلى بنا طلحة فخفف، فقلنا ما هذا؟ قال: بادرت الوسواس". (عب) .
١٧٠٤۔۔ از مسند طلحہ (رض) ، ابورجاء العطاردی سے مروی ہے کہ حضرت طلحۃ نے ہمیں نماز پڑھائی اور ہلکی نماز پڑھائی ہم نے عرض کیا اس کی کیا وجہ ہے فرمایا مجھے وساوس نے گھیرلیا تھا۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1705

1705 - ومن مسند الزبير عن أبي رجاء قال: "صلى بنا الزبير صلاة فخفف فقيل له، فقال: إني أبادر الوسواس". (عب) .
١٧٠٥۔۔ از مسند زبیر (رض)۔ ابورجاء سے مروی ہے کہ حضرت زبیر نے ہمیں نماز پڑھائی توہل کی نماز پڑھائی عرض کیا گیا اس کی کیا وجہ ہے فرمایا مجھے وساوس جلد گھیر لیتے ہیں۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1706

1706 - عن الزبير أن رجلا قال له: "ما شأنكم يا أصحاب رسول الله اخف الناس صلاة؟ قال: نبادر الوسواس". (كر وابن النجار) .
١٧٠٦۔۔ حضرت زبیر سے مروی ہے کہ انھیں ایک شخص نے کہا اے اصحاب رسول یہ تم لوگوں کی کیا بات ہے تم سب لوگوں سے زیادہ ہلکی نماز پڑھاتے ہو ؟ فرمایا ہمیں وساوس جلد گھیر لیتے ہیں۔ ابن عساکر۔ ابن النجار۔

1707

1707 - من مسند أبي بن كعب قلت: "يا رسول الله والذي بعثك بالحق إنه ليعرض في صدري الشيء، وددت أن أكون حمما. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحمد لله الذي يئس الشيطان أن يعبد بأرضكم هذه مرة أخرى، ولكنه قد رضي بالمحقرات من أعمالكم". (ابن راهويه) .
١٧٠٧۔۔ از مسند ابی بن کعب ، ابی بن کعب سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ میں اپنے دل میں ایسے ایسے وساوس پاتاہوں کہ مجھے ان کو ظاہر کرنے سے جل کر کوئلہ بن جانازیادہ محبوب ہے۔ آپ نے فرمایا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں یقیناً شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ اس زمین میں اس کی دوبارہ پرستش کی جائے گی لیکن وہ تمہارے چھوٹے چھوٹے اعمال سے راضی ہوگیا ہے۔ ابن راھویہ۔

1708

1708 - ومن مسند ابن مسعود عن ابن مسعود قال: "سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوسوسة قال: ذاك محض الإيمان". (طب كر) .
١٧٠٨۔۔ از مسند ابن مسعود ، حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ آپ سے وسوسہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ عین ایمان ہے۔ الکبیر للطبرانی ، ابن عساکر۔

1709

1709 - عن ابن مسعود قال: " سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد الشيء لو خر من السماء فتخطفه الطير كان أحب إليه من أن يتكلم به. قال: ذاك محض الأيمان، أو صريح الأيمان". (كر) .
١٧٠٩۔۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ ہم نے آپ سے ایسے کسی شخص کے بارے میں سوال کیا جو اپنے دل میں ایسے وسوسے جنم پاتا ہے کہ اس کو وہ وساوس زبان پر لانے سے زیادہ محبوب ہے کہ وہ آسمان سے نیچے گرے اور پرندے اس کو اچک لیں ؟ فرمایا یہ عین ایمان ہے یافرمایایہ واضح ایمان ہے۔ ابن عساکر۔

1710

1710 - من مسند عبيد بن رفاعة: "أن امرأة في بني إسرائيل، فأخذها الشيطان فألقى في قلوب أهلها أن دواءها عند راهب كذا وكذا، وكان الراهب في صومعة، فلم يزالوا يكلمونه حتى قبلها، ثم أتاه الشيطان فوسوس إليه حتى وقع بها فأحبلها، ثم أتاه الشيطان فقال: الآن تفضح يأتي أهلها فاقتلها وادفنها، فإن أتوك فقل ماتت ودفنتها. فقتلها ودفنها، فأتى أهلها فألقى في قلوبهم أنه قتلها ودفنها، فأتوه فسألوه فقال: ماتت ودفنتها، فأتاه الشيطان فقال: أنا الذي أخذتها وألقيت في قلوب أهلها أن دواءها عندك، وأنا الذي وسوست إليك حتى قتلتها ودفنتها، وأنا الذي ألقيت في قلوب أهلها أنك قتلتها ودفنتها، فأطعني تنجو، اسجد لي سجدتين ففعل، فهو الذي قال الله تعالى: {كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ} ". (ابن أبي الدنيا في مكائد الشيطان، وابن مردويه هب) .
١٧١٠۔۔ از مسند عبید بن رفاعہ۔ مروی ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت پر شیطان کا اثر ہوگیا، شیطان نے اس کے اہل خانہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس کا علاج صرف فلاں راہب کے پاس ہے اور راہب صومعہ میں رہتا تھا، اس عورت کے اہل خانہ نے اس راہب سے مسلسل بات چیت کی حتی کہ اس راہب نے عورت کو قبول کرلیا، پھر شیطان اس راہب کے پاس آکروسوسہ اندازی کرنے لگا حتی کہ وہ راہب عورت کے ساتھ غلط کاری میں ملوث ہوگیا اور اس کو حاملہ کردیا، پھر شیطان آکرکہنے لگا کہ اس کے اہل خانہ آئیں گے توتورسوا فضیحت ہوجائے گا لہٰذا ایسا کر کہ اس عورت کو قتل کرکے دفن کردے جب وہ آئیں تو کہہ دینا کہ وہ مرگئی تھی میں نے اس کو دفن کردیا گیا ہے سواسنے ایساہی کیا اور اس کو قتل کرکے دفن کردیا۔ اس کے اہل خانہ آئے تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اس نے خود قتل کرکے اسے دفن کردیا ہے۔ انھوں نے آکر اس سے یہ سوال کیا اس نے کہا وہ مرگئی تھی میں نے اس کو دفن کردیا ہے۔ شیطان نے اس راہب کو مزید ورغلایا کہ دیکھ میں ہی اس عورت پراثر انداز ہوا تھا اور اس کے اہل خانہ کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ اس کا علاج صرف تیرے پاس ہے پھر میں نے تجھے وسوسہ میں مبتلا کردیا، کہ اس کا قتل کرکے دفن کردے۔ پھر میں نے ہی اس کے اہل خانہ کے دل میں ڈالا کہ تو نے اس کو خود قتل کرکے دفن کردیا ہے تواب تو میری قوت کا اندازہ کر ہی چکا ہے سو اب اگر تو میری بات مان لے تو میں تجھے نجات دلواسکتا ہوں پس مجھے دوسجدے کردے راہب نے شیطان کو دوسجدے کردیے یہی مطلب ہے اس فرمان باری کا : کمثل الشیطان اذ قال للانسان اکفر فلماکفر قال انی بری منک۔ شیطان کی مثال تو یہ ہے کہ وہ انسان کو کہتا ہے کہ کفر کر جب وہ کفر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری ہوں۔ ابن ابی الدنیا فی مکاندالشیطان ۔ ابن مردویہ، شعب الایمان۔

1711

1711 - عن عبيد بن رفافة الزرقي قال: " قلت يا رسول الله الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي. فقال: ذاك شيطان يقال له خنزب فإذا أحسست به فاتفل على يسارك ثلاثا، وتعوذ بالله من شره". (عب ش حم م) .
١٧١١۔۔ عبید بن رفاعہ الزرقی سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے نماز اور قرآن میں وسوسہ ڈالتا ہے آپ نے فرمایا اس شیطان کا نام خنزیر ہے۔ پس جب تجھے اس کا احساس ہو تو اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ لے۔ المصنف لعبدالرزاق ۔ ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، صحح مسلم۔

1712

1712 - قلنا: "يا رسول الله نا نجد شيئا في قلوبنا ما يحب أن نحدث وإن لنا الدنيا وما فيها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وإنكم لتجدونه؟ قالوا: نعم يا رسول الله. قال: ذاك محض الأيمان". (محمد بن عثمان الأذرعي في كتاب الوسوسة) .
١٧١٢۔۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ہم اپنے دلوں میں ایسے وساوس محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہمٰں دنیا اور اس کا سازوسامان مل جائے تب بھی تو ہم اس کے عوض ان خیالات کو زبان پر لا ناپسند نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا کیا واقعی تم ایسے خیالات پاتے ہو ؟ عرض جی ہاں یارسول اللہ۔ آپ نے فرمایا یہ توخالص ایمان ہے۔ محمد بن عثمان الاذر عن فی کتاب الوسوسہ۔

1713

1713 - عن شهر بن حوشب قال: "دخلت أنا وخالي على عائشة فقال لها خالي: يا أم المؤمنين الرجل منا يحدث نفسه بالأمر، إن ظهر عليه قتل ولو تكلم به ذهبت آخرته، فكبرت ثلاثا ثم قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك فكبر ثلاثا قال: لا يحس ذلك إلا مؤمن" (محمد بن عثمان الأذرعي في كتاب الوسوسة) .
١٧١٣۔۔ شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ میں اپنے ماموں کے ہمراہ حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ماموں نے آپ سے کہا، اے ام المومنین ہم میں سے کوئی شخص اپنے نفس میں ایسی بات پاتا ہے کہ اگر اس کو ظاہر کرے تو اس کو قتل کردیا جائے اور اگر مخفی رکھے تو اس کی آخرت خراب ہونے کا سوال ہے ؟ اس پر آپ نے تین بار اللہ کہا اور فرمایا اس کا احساس بھی مومن ہی کو ہوتا ہے۔ محمد بن عثمان ، فی کتاب الوسوسہ، ایمان کا جائزہ لیتارہنا چاہیے۔

1714

1714 - عن أبي الدرداء قال، "من فقه الرجل أن يعلم أيزداد هو أم ينقص، ومن فهمه أن يعلم نزعات الشيطان أنى تأتيه". (محمد بن عثمان الأذرعي في كتاب الوسوسة) .
١٧١٤۔۔ حضرت ابودردائ، سے مروی ہے کہ فرمایا کہ آدمی کی فقاہت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اس بات کا اندازہ رکھے کہ دین کی فقہ وسمجھ بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے یا نقصان ہورہا ہے ؟ اور آدمی کی فہم و دانائی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ شیطان کے حملے کس کس جانب سے ہورہے ہیں۔ ؟ محمد بن عثمان الاذرعی فی کتاب الوسوسہ۔

1715

1715 - ومن مسند من لم يسم عن الزهري: "أن يحيى رجلا من الأنصار من بني حارثة أخبره أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أتوا رسول الله فقالوا لرسول الله: أرأيت شيئا نجدها في صدورنا من وسوسة الشيطان، لأن يقع أحدنا من الثريا أحب إليه من أن يتكلم بها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أقد وجدتم ذلك؟ قالوا: نعم. قال: ذلك صريح الأيمان. إن الشيطان يريد العبد فيما دون ذلك فإذا عصم العبد منه وقع فيما هنالك". (محمد بن عثمان الأذرعي في كتاب الوسوسة) .
١٧١٥۔۔ از مسند نامعلوم۔ امام زھری سے مروی ہے کہ بنی حارثہ انصار کے یحییٰ نامی کسی شخص نے ان کو خبر دی کہ حضور کے کچھ صحابہ کرام حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے کہ ہم شیطان کے ایسے وسوسے اپنے سینوں میں پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ثریا ستارے کی بلندی سے نیچے گرے۔۔ اس کو یہ اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ اس وسوسہ کو زبان پر لائے آپ نے دریافت کیا : کیا واقعی تم یہ خیال پاتیہ ہو عرض کیا جی ہاں فرمایا یہ توکھلاایمان ہے شیطان تو اس سے بھی نیچے گرانا چاہتا ہے لیکن بندہ اگر اس سے محفوظ رہے تو اس میں مبتلا کردیتا ہے۔ محمد بن عثمان الاذرعی فی کتاب الوسوسہ۔

1716

1716 - عن ثابت قال: "حججت فدفعت إلى حلقة فيها رجلان أدركا النبي صلى الله عليه وسلم، أخوان أحسب أن اسم أحدهما محمد وهما يتذاكران أمر الوسواس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأن يقع أحد من السماء أحب إليه من أن يتكلم بما يوسوس إليه قال: " قد أصابكم ذلك قالوا نعم يا رسول الله قال فإن ذلك محض الإيمان" قال ثابت: فقلت أنا يا ليت الله أراحنا من ذلك المحض قال فانتهراني وزبراني فقالا نحدثك عن رسول الله وتقول: يا ليت أن الله أراحنا". (البغوي وقال غريب) .
١٧١٦۔۔ ثابت سے مروی ہے کہ میں دوران حج ایک حلقہ میں پہنچا میں ایسے دو حصوں کو پایا جنہوں نے نبی کو پایا تھا دونوں بھائی تھے میرا گمان ہے کہ ان میں سے ایک کا نام محمد تھا وہ دونوں وسوسہ کے متعلق آپ سے منقول حدیث کا مذاکرہ کررہے تھے کہ کسی نے آپ سے عرض کیا اگر کوئی آسمان سے نیچے گرجائے اس کو یہ اس سے زیادہ محبوب ہوگا کہ وہ ان وساوس کو نوک زبان پر لائے۔ اپ نے دریافت کیا یہ بات تم کو پیش آئی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ۔ فرمایا یہ توعین ایمان ہے ثابت کہتے ہیں کہ میں نے اس موقعہ پر کہا کاش اللہ مجھے اس عین سے بھی نجات دے دے۔ اس پر ان دونوں بھائیون نے مجھے سختی سے جھڑکا اور اس سے منع کیا کہ کہا کہ ہم تجھے رسول اللہ کی حدیث نقل کررہے ہیں اور تو ہے کہ اللہ مجھے اس سے بچا کر راحت میں رکھے۔ البغوی۔ حدیث غریب ہے۔

1717

1717 - عن عبد الله بن الزبير قال: "إن الشيطان يأخذ الإنسان بالوضوء والشعر والظفر". (ص) .
١٧١٧۔۔ عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ شیطان انسان کو وضو، بال اور ناخنوں جیسی معمولی معمولی باتوں میں مشغول رکھتا ہے۔ السنن لسعید۔

1718

1718 - حدثنا هشيم أنا العوام بن حوشب عن إبراهيم قال: "كان يقال إن أول ما يبدأ الوسوسة من قبل الوضوء" (ص) .
١٧١٨۔۔ ہشیم کہتے ہیں کہ ہمیں عوام بن حوشب نے خبر دی وہ ابراہیم سے نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہا جاتا ہے کہ وسوسہ اندازی سب سے پہلے وضو میں شروع ہوتی ہے۔ السنن لسعید۔

1719

1719 - من مسند عمر عن رجل من بني سليم يقال له قبيصة، قال: "كنا مع عتبة بن غزوان بالخريبة ، فإذا هو ينادي بأصحاب سورة البقرة، وإذا برجل ينادي يا آل شيبان فحملت عليه فثنى لي الرمح وقال: إليك عني فوضعت قوسي في رمحه، وأخذت بلحيته فجئت به إلى عتبة فحبسه، وكتب فيه إلى عمر فكتب إليه عمر، لو كنت ذا أسير ودعا بدعوى الجاهلية قدمته فضربت عنقه كان أهل ذاك فأما إذا حبسته فادعه فأحدث له بيعة وخل سبيله". (محمد بن شيبان القزاز في حزبه – (2)) .
١٧١٩۔۔ از مسند عمر (رض)۔ قبیلہ بنی سلیم کے ایک شخص جس کو قبیصہ کہا جاتا تھا، سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم بصرہ کے ایک مقام الخزیبیہ میں عتبہ بن غزوان کے ہمراہ تھے انھوں نے سورة البقرہ کے اصحاب کے حوالہ سے لوگوں کو پکارناشروع کیا، ادھردوسرا آدمی بھی آل شیبان کے حوالہ سے لوگوں کو پکارنے لگا اور یہ جاہلیت کا تفاخر و غرور تھا تو میں اس پر حملہ آور ہوا، اس نے بھی مجھ پر نیزہ تان لیا اور کہنے لگا مجھ سے دور رہو، میں نے اس کے نیزے کو اپنی کمان پر لیا، اور اس کی ڈاڑھی اپنی مٹھی میں تھام لی اور اسے پکڑ کر حضرت عتبہ کے پاس لے آیاعتبہ نے ان کو محبوب کرلیا، اور اس کی رواداد حضرت عمر کی بارگاہ خلافت میں لکھ بھیجی۔ حضرت عمر نے جواب ارسال فرمایا، کہ اگر وہ تمہارا قیدی ہے اور جاہلیت کے دعوی پر مصر ہے توا سکی گردن اڑا دیتے لیکن اگر وہ محض نظربند ہے تو اس کو دعوت دو ۔ اور اس سے بیعت لو اور اس کی راہ چھوڑ دو ۔ محمد بن شیبان القزار فی حذبہ۔

1720

1720 - عن فضلة الغفاري قال: "خرج عمر بن الخطاب فسمع رجلا يقول أنا ابن بطحاء مكة فوقف عليه عمر فقال: إن يكن لك دين فلك كرم وإن يكن لك عقل فلك مروءة وإن يكن لك مال فلك شرف وإلا فأنت والحمار سواء". (الدينوري والعسكري في الأمثال) .
١٧٢٠۔۔ فضلہ الغفاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر باہرنکلے تو ایک شخص کو اپنی بڑائی کا دعوی کرتے ہوئے سنا کہ میں بطحاء مکہ کافر زندہ ہوں، حضرت عمر اس کے پاس ٹھہر گئے اور فرمایا اگر تو صاحب دین ہے تو تو واقعی مکرم ہستی ہے اور اگر تو صاحب عقل و فراست ہے تب بھی تو صاحب مروت عزت ہے، اور اگر تو صاحب مال ہے تو بھی تو صاحب شرافت ہے اور گریہ کچھ بھی نہیں تو تیرے اور ایک گدھے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ الدینوری، العسکری فی الامثال۔

1721

1721 - ومن مسند أبي بن كعب قال: " انتسب رجلان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أحدهما أنا فلان بن فلان بن فلان فمن أنت لا أم لك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انتسب رجلان على عهد موسى" الحديث. (ش وعبد بن حميد) .
١٧٢١۔۔ از مسند ابی بن کعب ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ عہد نبوی میں دو شخص آپس میں حسب نسب بیان کرنے لگے ایک نے کہا میں فلاں بن فلاں بن فلاں ہوں۔ لیکن بتاتوکون ہے ؟ تیری ماں تجھے کھوبیٹھے تو رسول الل ہے فرمایا عہد موسیٰ میں دو آدمی آپس میں حسب نسب بیان کرنے لگے۔ الخ۔ ابن ابی شیبہ۔ عبد بن حمید۔ آگے حدیث مکمل ذکر نہیں کی چونکہ مکمل حدیث پچھلے ابواب میں گزرچکی ہے۔

1722

1722 - ومن مسند ابن عمر عن ابن عمر قال: "أمرنا إذا سمعنا الرجل يتعزى بعزاء الجاهلية، ان نعضه بهن عن أبيه ولا نكني". (كر والخطيب في المتفق والمفترق ن عم ص ع) .
١٧٢٢۔۔ از ابن عمر۔ ابن عمر سے منقول ہے کہ فرمایا ہم کو حکم ہے کہ جب ہم کسی کو جاہلیت کی طرف نسبت کرتے دیکھیں تو اس کو باپ کے سوا انہی کیس اتھ لازم ملزوم کردیں اور اس کو کنیت کے ساتھ نہ پکاریں۔ ابن عساکر۔ الخطب فی المتفق ، والمفترق، النسائی، عمم، السنن لسعید، المسند لابی یعلی۔

1723

1723 - عن عمرو بن شعيب عن أبيه قال: "وقع بين المغيرة بن شعبة وبين عمرو بن العاص كلام فسبه المغيرة فقال عمرو: يا لهصيص يسبني المغيرة فقال له عبد الله ابنه إنا لله وإنا إليه راجعون دعوت بدعوى القبائل فاعتق عمرو بن العاص ثلاثين رقبة". (كر) .
١٧٢٣۔۔ عمرو (رح) بن شعیب اپنے والد شعیب (رح) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت عمرو بن عاص کے درمیان بات بڑھ گئی حضرت مغیرہ نے ان کو برابھلاکہا، حضرت عمرو نے فرمایا افسوس ، اے حصیص ! عمرو کے کسی جدامجد کا نام مجھے مغیرہ برابھلاکہتا ہے۔ حضرت عمرو کے فرزند عبداللہ بن عمرو نے اپنے والد سے عرض کیا اناللہ واناالیہ راجعون، آپ نے جاہلی قبائل والادعوی کیا ہے ؟ حضرت عمرو نے نادم ہو کرتیس غلام آزاد کردیے۔ ابن عساکر۔

1724

1724 - ومن مسند معاوية بن حيدة، عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال: " افتخر رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم، أحدهما من مضر والآخر من اليمن، فقال اليماني: إني من حمير لا من ربيعة أنا ولا من مضر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم فاشقى لنجتك (2) واتعس لجدك وأبعد لك من نبيك". (كر) .
١٧٢٤۔۔ ازمسند معایہ، بن حیدۃ (رض) ۔ بہز بن حکیم اپنے والد حکیم سے اور حکیم بہز کے دا ا یعنی اپنے والد معاویہ بن حیدہ سے نقل کرتے ہیں فرمایا حضور کے پاس دو آدمی فخربازی کرنے لگے، ایک بنی مضر سے تھا، دوسرایمن سے تعلق رکھتا تھا، یمانی نے کہا میں حمیر سے ہوں نہ کہ مضروربیع سے ہوں۔ اس کو حضور نے فرمایا یہ تیرے نصیبہ و شرافت کی بدبختی ہے تیرے دادا کی ہلاکت ہے اور تیرے پیغمبر سے تیری دوری ہے۔ ابن عساکر۔

1725

1725 - ومن مسند أبي هريرة رضي الله عنه عن أبي هريرة قال: "إذا قالت نزار يا نزار وقالت أهل اليمن يا قحطان نزل الضر ورفع النصر وسلط عليهم الحديد". (نعيم) .
١٧٢٥۔۔ ازمسند ابوہریرہ ۔ حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ فرمایا جب اہل نزار عصبیت میں کہنے لگیں، اے نزار اور اہل یمن کہنے لگیں اے قحطان توضروروشر اتر آتا ہے اور مدد ونصرت اٹھ جاتی ہے۔ اور جنگ مسلط کردی جاتی ہے۔ ابونعیم۔

1726

1726 - عن عمر أنه استأذن عليه رجل فقال استأذنوا لابن الأخيار فقال عمر: "ائذنوا له فلما دخل قال من أنت؟ فقال أنا ابن فلان ابن فلان ابن فلان فعد رجالا من أشراف الجاهلية، فقال عمر: أنت يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم قال: لا قال: ذاك ابن الأخيار، فأنت ابن الأشرار إنما تعد على رجال أهل النار". (ك) .
١٧٢٦۔۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان کے پاس اندر آنے کی اجازت طلب کی اور یوں کہنے لگا معزز و شرفاء کے فرزند کو اجازت دی جائے۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کو اجازت دیدو۔ آنے پر اس سے دریافت فرمایا تو کون ہے ؟ کہا میں فلاں بن فلاں بن فلاں اور یوں زمانہ جاہلیت کے کئی اشراف ومعززین کے نام گنوائے حضرت عمر نے فرمایا نہیں تویوسف (علیہ السلام) بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) ہے ؟ کہا نہیں۔ فرمایا پھر معزز و شرفاء کے فرزند تو وہ ہیں تو بدترین لوگوں کا فرزند ہے جن کا شمار اہل جہنم میں ہوتا ہے۔ المستدرک للحاکم۔

1727

1727 - عن جابر قال: " كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكسع رجل من المهاجرين، رجلا من الأنصار، فقال الأنصاري: يا للأنصار، وقال المهاجر: يا للمهاجرين. فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ما بال دعوى الجاهلية فأخبروه بالذي كان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: دعوها فإنما منتنة وكان المهاجرون لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم أقل من الأنصار ثم إن المهاجرين كثروا بعد فسمع ذلك عبد الله بن أبي فقال: أقد فعلوها؟ لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الأعز منها الأذل. فقال عمر: دعني يا رسول الله أضرب عنق هذا المنافق. فقال: دعه لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه". (عب) .
١٧٢٧۔۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ کے ہمراہ تھے ایک مہاجر نے انصاری کو کسی بات پر دھتکاردیا، انصاری نے حمایت کے لیے پکارا ! اے انصار۔۔ مہاجری نے بھی پکارا اے مہاجرین۔۔۔ رسول اللہ نے سناتو فرمایا یہ کیا جاہلیت کے نعرے لگ رہے ہیں لوگوں نے حقیقت حال کی خبر دی آپ نے فرمایا یہ دعوے چھوڑ دو یہ انتہائی متعفن اور غلیط ہیں۔
توچونکہ حضور کے ہجرت فرمانے کے وقت مہاجرین قلیل تعداد میں تھے پھر مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور یہ بات بھی عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کو پہنچی جو پہلے ہی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خارکھائے بیٹھا تھا تو اس نے اپنے لوگوں سے پوچھا کیا واقعی ایسا ہوا ہے ؟ اچھا جب ہم مدینہ پہنچیں گے توہم معزز و شرفاء لوگ ان رذیلوں کو وہاں سے دربدر کردیں گے حضرت عمر نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یارسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں، آپ نے فرمایا چھوڑ اس کو لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوں گی کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1728

1728 - من مسند عمر رضي الله عنه عن سعيد بن يسار قال: "لما بلغ عمر بن الخطاب أن رجلا بالشام يزعم أنه مؤمن فكتب إلى أميره أن ابعثه إلي، فلما قدم قال: أنت الذي تزعم أنك مؤمن؟ قال: نعم يا أمير المؤمنين، قال: ويحك ومما ذاك؟ قال: أو لم تكونوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أصنافا مشرك ومنافق ومؤمن؟ فمن أيهم كنت؟ فمد عمر إليه معرفة لما قال حتى أخذ بيده". (هب) .
١٧٢٨۔۔ از مسند عمر (رض)۔ سعید بن یسار سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر کو یہ خبرموصول ہوئی کہ ملک شام میں ایک شخص نے اپنے مومن ہونے کا دعوی کیا ہے حضرت عمر نے وہاں کے امیر کو پیغام بھیجا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو ، جب وہ آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے اس سے پوچھا کیا تو اپنے مومن ہونے کا مدعی ہے ؟ عرض کی جی ہاں۔ فرمایا تفوہ ! وہ کیسے ؟ عرض کیا کیا آپ لوگ رسول اللہ کے ساتھ تین اصناف کے لوگ نہ تھے ؟ مشرک، منافق، مومن، تو آپ کن میں سے تھے ؟ حضرت عمر اس کی بات کو سمجھ گئے اور ازراہ خوشی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ شعب الایمان۔

1729

1729 - عن عمر قال: "اجتنبوا أعداء الله اليهود في عيدهم" (خ في تاريخه ق) .
١٧٢٩۔۔ حضرت عمر سے منقول ہے کہ فرمایا دشمن خدا لوگوں ، یعنی یہود کی عیدومحافل سرور میں جانے سے اجتناب کرو۔ التاریخ للبخاری، بخاری و مسلم۔

1730

1730 - عن قتادة قال: "قال عمر بن الخطاب: من قال إني عالم؟ فهو جاهل، ومن قال إني مؤمن فهو كافر". (رسته في الإيمان) .
١٧٣٠۔۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا جو دعوی کرے کہ میں عالم ہوں، درحقیقت وہ جاہل ہے اور جو مومن ہونے کا دعوی کرے وہ کافر ہے۔ رستہ فی الایمان حدیث غیرثابت و موضوع ہے۔ دیکھیے اللتی الاصل لھا فی الاحیاء ص ٢٩٢۔ نیز دیکھئے تحذیر المسلمین ، ١١٢۔ اور بہت سی کتب میں اس کو ضعیف و موضوع قرارد یا ہے جن کا ذکر موجب طوالت ہے ان کے حوالہ جات کی تفصیل کے لیے رجوع فرمائیے۔ موسوعۃ الاحادیث والاثار الضعیفہ، والموضوعہ۔ ج ١٠، ص ١٥٤۔۔

1731

1731 - عن سعيد بن يسار قال: "بلغ عمر أن رجلا بالشام يزعم أنه مؤمن فكتب عمر فقدم على عمر فقال: أنت الذي تزعم أنك مؤمن؟ قال: هل كان الناس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم إلا على ثلاثة منازل مؤمن، وكافر، ومنافق، والله ما أنا بكافر، ولا نافقت. فقال عمر: ابسط يدك رضا بما قال". (ش في الإيمان) .
١٧٣١۔۔ سعید بن یسار سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر کو یہ خبرموصول ہوئی کہ ملک شام میں ایک شخص اپنے مومن ہونے کا دعوی کرتا ہے حضرت عمر نے وہاں کے امیر کو پیغام بھیجا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو ۔ جب وہ آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے اس سے پوچھا کیا تو اپنے مومن ہونے کا مدعی ہے۔ عرض کیا آپ لوگ رسول اللہ کے ساتھ تین اصناف کے لوگ نہ تھے ؟ مومن، کافر، منافق، تو اللہ کی قسم میں کافر نہیں ہوں اور نہ میں نفاق والا۔ حضرت عمر نے اس کی بات پر ازراہ خوشی فرمایا ہاتھ دو ۔ ابن ابی شیبہ فی الایمان۔

1732

1732 - عن عمر قال: "اجتنبوا أعداء الله اليهود والنصارى في عيدهم يوم جمعهم، فإن السخط ينزل فأخشى أن يصيبكم ولا تعلموا بطانتهم فتخلقوا بأخلاقهم". (خ في تاريخه هب) .
١٧٣٢۔۔ حضرت عمر سے منقول ہے کہ فرمایا : دشمن خدا لوگوں یعنی یہود و نصاری کی عیدوں میں ان کے مجمع کو جانے سے اجتناب کرو کیونہ ان پر خدائے تعالیٰ کی ناراضگی اترتی ہے تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں وہ تم پر بھی نہ اترآ جائے۔ اور یہ کہ تم ان کے باطن سے تو واقف ہو نہیں پھر کہیں انہی کے رنگ میں نہ رنگ جاؤ۔ التاریخ للبخاری، شعب الایمان۔

1733

1733 - ومن مسند علي رضي الله عنه، عن علقمة بن قيس قال: "رأيت عليا على منبر الكوفة وهو يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزن الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينهب نهبة يرفع الناس إليها أبصارهم وهو مؤمن، ولا يشرب الرجل الخمر وهو مؤمن. فقال: يا أمير المؤمنين من زنى فقد كفر؟ فقال علي إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نبهم أحاديث الرخص، لا يزن الزاني وهو مؤمن أن ذلك الزنا له حلال فإن آمن بأنه له حلال فقد كفر، ولا يسرق السارق وهو مؤمن بتلك السرقة أنها له حلال، فإن سرقها وهو مؤمن انها حلال فقد كفر، ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن أنها حلال، فإن شربها وهو مؤمن أنها له حلال فقد كفر، ولا ينتهب نهبة ذات شرف ينتهبها وهو مؤمن أنها له حلال، فإن انتهبها وهو مؤمن أنها له حلال فقد كفر". (طب الصغير) وفيه إسماعيل بن يحيى التميمي متروك متهم.
١٧٣٣۔۔ ازمسند علی (رض)۔ علقمہ (رح) بن قیس سے مروی ہے کہ میں نے حضرت علی کو کوفہ کی جامع مسجد کے منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اکرم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ فرما رہے تھے کہ کوئی آدمی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، اور کوئی آدمی چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، اور نہ کسی کی ذی شرف شی پر ڈاکہ ڈالتے وقت حالانکہ لوگ اس کی طرف نگاہیں بھرے دیکھ رہے ہوتے ہیں مومن رہتا، اور کوئی آدمی شراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا۔ ایک شخص نے سوال کیا : اے امیرالمومنین تو کیا جس نے زناء کیا کفر کیا ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ کا حکم ہے کہ رخصت کی احادیث کو مبہم رکھیں کوئی مومن زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، جبکہ وہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ زناء اس کے لیے حلال ہے کیونکہ اس کی حلت پر ایمان لانا صریحا کفر ہے اسی طرح کوئی آدمی چوری کے وقت مومن ہیں رہتا، جبکہ وہ اعتقاد رکھتاہو کہ یہ چوری اس کے لیے حلال ہے کیونکہ اس کی حلت پر ایمان لاناصریحا کفر ہے اسی طرح کوئی آدمی شراب نوشی کے وقت مومن نہیں رہتا، جبکہ وہ اعتقاد رکھتاہو کہ یہ شراب نوشی اس کے لیے حلال ہے کیونکہ اس کی حلت پر ایمان لاناصریحا کفر ہے اسی طرح کسی کی ذی شرف شی پر ڈاکہ ڈالتے وقت مومن نہیں رہتا، حالانکہ لوگ اس کی طرف نگاہیں بھرے دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ اعتقاد رکھتاہو کہ یہ ڈاکہ زنی اس کے لیے حلال ہے کیونکہ اس کی حلت پر ایمان لاناصریحا کفر ہے۔ الکبیر للطبرانی ، الصغیر للطبرانی ۔ اس میں ایک روای اسماعیل بن یحییٰ التیمی متروک ومتہم ہے لہٰذا اس کا اعتبار نہیں۔

1734

1734 - عن علي قال: إن الإيمان يبدو لمظة بيضاء في القلب فكلما ازداد الإيمان عظما ازداد البياض فإذا استكمل الإيمان ابيض القلب كله، وإن النفاق يبدو لمظة سوداء فكلما ازداد النفاق عظما ازداد ذلك السواد، فإذا استكمل النفاق اسود القلب، وأيم الله لو شققتم عن قلب مؤمن لوجدتموه أبيض، ولو شققتم عن قلب منافق لوجدتموه أسود". (ابن المبارك في الزهد، وأبوعبيد في الغريب، ورستة وحسين في الاستقامة هب واللالكائي في السنة، والأصبهاني في الحجة) .
١٧٣٤۔۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ فرمایا کہ ایمان دل میں ایک سپید نکتہ کی مانند شروع ہوتا ہے پھر جی سے جیسے ایمان بڑھتا ہے تو وہ سپیدی بھی پھیلتی جاتی ہے پس جب ایمان کامل ہوجاتا ہے توسارادل سپید اور صاف شفاف ہوجاتا ہے اور نفاق دل میں ایک سیاہ نکتہ کی مانند شروع ہوتا ہے پھر جی سے جیسے نفاق بڑھتا جاتا ہے وہ دل کی سیاہی بھی بڑھتی جاتی ہے پس جب نفاق کامل ہوجائے توسارادل سیاہ پڑجاتا ہے اللہ کی قسم اگر تم کسی مومن دل کو چیر کردیکھوتو اس کو سپید پاؤ اور اگر تم کسی منافق دل کو چیر کر دیکھو تو اس کو سیاہ پاؤ گے۔ ابن المبارک فی الزھد، ابوعبید فی الغریب ، رستہ و حسین فی الاستقامۃ، شعب الایمان، الالکائی، الاصبہانی فی الحجہ۔

1735

1735 - عن علي أتاه يهودي فقال له: "متى كان ربنا؟ فتمعر وجه علي فقال علي: لم يكن فكان، هو كما كان، ولا كينونة كان بلا كيف كان، ليس قبل ولا غاية انقضت (2) الغايات دونه فهو غاية كل غاية، فأسلم اليهودي". (كر) .
١٧٣٥۔۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ آپ کے پاس ایک یہودی آیا اور آپ سے سوال کیا کہ ہمارا رب کب سے ہے آپ کے چہرہ کا رنگ غصہ کی وجہ سے بدل گیا اور فرمایا جب کچھ نہ تھا وہ تب بھی تھا، اور جس طرح ازل میں تھا، اسی طرح آج بھی ہے اور وجود عدم کی کیفیات کچھ نہ تھیں وہ تب سے ہے نہ ابتداء تھی اور نہ ہی کوئی انتہا تھی وہ تب سے ہے اس کی ذات کے آگے تمام غایات ختم ہوچکی ہیں بلکہ وہی ہر غایت کی غایت ہے۔ اس معجزانہ کلام نے یہودی پر وہ اثر کیا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ ابن عساکر۔

1736

1736 - عن الأصبغ بن نباتة قال: كنا جلوسا عند علي بن أبي طالب فأتاه يهودي فقال: يا أمير المؤمنين متى كان الله؟ فقمنا إليه فلهزناه حتى كدنا نأتي على نفسه، فقال علي: خلوا عنه، ثم قال اسمع يا أخا اليهود ما أقول لك بأذنك واحفظه بقلبك، فإنما أحدثك عن كتابك الذي جاء به موسى بن عمران، فإن كنت قد قرأت كتابك وحفظته فإنك ستجده كما أقول، إنما يقال متى كان لمن لم يكن ثم كان، فأما من يزل بلا كيف يكون كان بلا كينونة، كائن لم يزل قبل القبل وبعد البعد لا يزال بلا كيف ولا غاية ولا منتهى، إليه انقطعت دونه الغايات فهو غاية كل غاية. فبكى اليهودي وقال: والله يا أمير المؤمنين إنها لفي التوراة هكذا حرفا حرفا، وإني أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله". (الأصبهاني في الحجة) .
١٧٣٦۔۔ الاصبغ بن نبلہ سے مروی ہے کہ ہم حضرت علی بن ابی طالب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک یہودی حاضر ہوا اور کہنے لگایا امیرالمومنین اللہ کب سے موجود ہوا ؟ ہم اس کی طرف لپکے اور اس قدر اس کو زودوکوب کیا کہ قریب تھا کہ اس کی جان لے بیٹھتے ۔ حضرت علی نے فرمایا اس کو چھوڑ دو ۔ پھر خود اس سے مخاطب ہوئے کہ اے یہود کے بھائی جو میں تجھے کہوں اس کو اپنے کانوں سے سن لو، اور دل میں اس کو محفوظ رکھ میں تجھے تیری کتاب ہی سے جو موسیٰ بن عمران لے کر آئے ہیں جواب دوں گا اگر تو نے اپنی کتاب پڑھ کر یاد کررکھی ہوگی تو میری بات کو اس کی مانند پائے گا۔
سن، ، وہ کب وجود میں آیا، یہ اس ذات کے متعلق پوچھا جاسکتا ہے جو پہلے موجود نہ ہو، پھروجود میں آئی ہو، بہرحال جو ہستی لازوال ہو، وہ بغیر کسی کیفیت کے ہوتی ہے اور بغیر حدوث وجود میں آئے موجود ہوتی ہے وہ ہمیشہ سے لازوال ہے وہ ابتدا سے بھی پہلے سے ہے اور انتہاء سے بھی آخر میں ہے وہ بغیر کسی کیفیت وغایت انتہاء کے لازوال ہے اس پر تمام غایات منقطع ہوجاتی ہیں وہ ہر غایت کی غایت ہے۔ اس بات کو سن کر یہودی روپڑا اور اعرض کیا یا امیرالمومنین اللہ کی قسم ! یہ بات حرفا توراۃ میں موجود ہے سوا اب شہادت دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ الاصبہانی فی الحجہ۔

1737

1737 - عن محمد بن إسحاق عن النعمان بن سعد، "أن أربعين من اليهود دخلوا على علي فقالوا له: صف لنا ربك هذا الذي في السماء كيف هو - وكيف كان؟ ومتى كان؟ وعلى أي شيء هو؟ فقال علي: معشر اليهود اسمعوا مني، ولا تبالوا أن تسألوا أحدا غيري، إن ربي عز وجل هو الأول لم يبد مما ولا ممازج معما، لا حال وهما، ولا شبح يتقصا، ولا محجوب فيحوى، ولا كان بعد أن يكن، فيقال حادث بل جل أن يكيف بتكيف الأشياء (2) كيف كان بل لم يزل ولا يزول لاختلاف الأزمان ولا تقلب شان بعد شان، وكيف يوصف بالأشباح، وكيف ينعت بالألسن الفصاح، من لم يكن بالأشياء فقال كائن، ولم يبن منها فيقال بائن (3) بل هو بلا كيفية، وهو أقرب من حبل الوريد وأبعد في الشبه من كل بعيد، لا يخفى عليه من عباده شخوص لحظة، ولا كرور لفظة، ولا ازدلاف ربوة (4) ، ولا انبساط خطوة في غسق ليل داج ولا إدلاج، ولا يتغشى عليه القمر المنير ولا انبساط الشمس ذات النور بضوءهما في الكرور، ولا إقبال ليل مقبل ولا إدبار نهار مدبر، إلا وهو محيط بما يريد من تكوينه، فهو العالم بكل مكان وكل حين وأوان وكل نهاية ومدة والأمد إلى الخلق مضروب والحد إلى غيره منصوب ، لم يخلق الأشياء من أصول أولية ولا بأوائل كانت قبله بدية، بل خلق ما خلق فأقام خلقه فصور فأحسن صورته توحد في علوه فليس لشيء منه امتناع، ولا له بطاعة شيء من خلقه انتفاع، أجابته للداعين شريعة (2) والملائكة في السموات والأرضين له مطيعة، علمه بالأموات البائدين كعلمه بالأحياء المنقلبين، وعلمه بما في السموات العلى كعلمه بما في الأرضين السفلى وعلمه بكل شيء لا تحيره الأصوات ولا تشغله اللغات، سميع للأصوات المختلفة فلا جوارح فيه (3) مؤتلفة، مدبر بصير عالم بالأمور، حي قيوم سبحانه كلم موسى تكليما بلا جوارح ولا أدوات ولا شفة ولا لهوات سبحانه وتعالى عن تكيف (4) من زعم أن إلهنا ممدود (5) فقد جهل الخالق المعبود، ومن ذكر أن الأماكن به تحيط لزمته الحيرة والتخليط، بل هو المحيط بكل مكان فإن كنت صادقا أيها المتكلف لوصف الرحمن بخلاف التنزيل فصف لنا جبرئيل وميكائيل وإسرافيل هيهات أتعجز (2) عن صفة مخلوق مثلك وتصف الخالق المعبود، وإنما لا تدرك صفة رب الهيئة والأدوات، فكيف من لا تأخذه سنة ولا نوم وله ما في السموات وما في الأرض وما بينهما وهو رب العرش العظيم". (حل) وقال من حديث النعمان. (كذا رواه ابن إسحاق مرسلا) .
١٧٣٧۔۔ محمد بن اسحق ، نعمان بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ چالیس یہودی حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اپنے رب کے اوصاف بیان کروجو آسمان میں ہے کہ وہ کن کیفیات کے ساتھ ہے ؟ کیسے وجود پذیرہوا ؟ کب ہوا ؟ اور کس چیز پر وہ مستوی ہے۔ حضرت علی نے فرمایا اے گروہ یہود، سنو مجھ سے اور یہ پروا نہ کرو کہ کسی اور سے بھی سوال کرو گے۔
میرا رب وہ ایسی اول ترین ہستی ہے جس کی کسی چیز سے ابتداء نہیں ہوئی، جس کی کسی چیز سے ترکیب نہیں ہوئی، وہ کسی موہومی کیفیت کا نام نہیں اور نہ ہی کسی جسمانی ہیولے کا نام ہے جو نظروں میں قریب ودور ہوسکتا ہے وہ کسی پردے میں محجوب نہیں کہ جگہ کا محتاج ہو وہ کسی حادثے ووقوعہ سے وجود پذیر نہیں ہوا کہ یہ اس کو فانی کہا جاسکے بلکہ وہ اس بات سے عظیم اور بالاتر ہے کہ اشیاء کی کیفیات خواہ جو بھی ہوں کے ساتھ متصف ہو۔ وہ زوال پذیر ہوا اور نہ کبھی ہوگا، نہ اس کی ایک شان فناہوکر دوسری تبدیل ہوگی آخراس کو کس طرح اجسام واشباہ کے ساتھ متصف کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیسے فصیح ترین زبانوں کے ساتھ اس کی صفات بیان کی جاسکتی ہیں ؟ وہ اشیاء میں داخل ہی نہیں تھا کہ کہا جائے کہ اس نے وجود پالیا، اور نہ کسی چیز سے اس کی بنا ہوئی کہ کہا جائے وہ بن گیا۔ بلکہ وہ ہر کیفیت سے آزاد ہے وہ شہ رگ سے قریب تر ہے جسم وشباہت میں ہر شی سے بعید تر ہے۔ اس پر بندوں کا ایک لحظہ اور ایک لفظ کا نکلنا ایک قدم کا قریب ہونا اور ایک قدم کا دور ہونا خواہ انتہائی تاریک رات کے آخری پہر میں ہوتب بھی ان چیزوں کی نقل و حرکت اللہ سے مخفی نہیں رہتی ، چودھویں رات کے ماہتاب اور بھڑکتے دن کے آفتاب کے اپنے اپنے محوروں کی گردش کا کوئی لمحہ، روشنی وشعاعوں سمیت اس سے پوشیدہ نہیں ہوتا، اپنی ظلمتوں سمیت آنے والی رات اور اپنی ضیاء پاشیوں سمیت جانے والے دن کی کوئی کیفیت اس سے اوجھل نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی قدرت تکوینیہ میں جو چاہے اس پر پوری طرح حاوی محیط ہے وہ ہر کون ومکان ، ہر لمحہ وگھڑی ، ہر انتہاء ومدت کو خوب خوب جاننے والا ہے ، مدت وغایت صرف مخلوق پر مسلط ہے حدود کا دائرہ اس کے سوا ہر ایک کو محیط ہے۔ اس نے اشیاء کو پہلے سے کسی طے شدہ اصول کے مطابق تخلیق نہیں فرمایا اور نہ اپنے سے اول ترین اشیا کی مدد سے پیدا کیا، بلکہ جس کو جی سے چاہا پیدا کیا اور اس کی تخلیق کو مکمل قائم فرمایا، اور اس کی صورت گری کی۔ اور بہترین صورت بنائی وہ اپنی علو شان میں یکتا ہے۔ کسی شے کی اس کو رکاوٹ نہیں اس کو اپنی مخلوق کی طاعت سے ذرہ بھر نفع نہیں ، پکارنے والوں کی حاجت روائی کرنا اس کا وطیرہ ہے ملائکہ آسمان و زمین کی وسعتوں میں اس کی اطاعت پر سرافگندہ ہیں بوسیدہ ہوجانے والے مردوں کے ذرہ ذرہ کا علم اس کو یوں ہے جس طرح جیسے جی پھرنے والے کے متعلق اس کا علم ۔ بلند وبالا آسمانوں کے اندر جو کچھ ہے اس کو اسی طرح معلوم ہے جس طرح پست زمینوں کے ذرات تک کا علم ہے۔ اس کا علم ہرچیز کو محیط ہے اس کو آوازوں کے اختلاط سے چنداں حیرانی پریشانی کا سامنا نہیں ۔ طرح طرح کی بولیاں اس کو ایک دوسرے سے مشغول نہیں کرتیں، وہ ہر طرح کی مختلف آوازوں کو سنتا اور بھرپور سمجھتا ہے وہ بغیر اعضاء وجوارح کے ان کے ساتھ مانوس ہے۔ صاحب تدبیر ، بصیر اور تمام امور کا بخوبی جاننے والا ہے ، زندہ پائندہ ہے ہر عیب سے منزہ ہے اس نے موسیٰ سے اعضا والات کے بغیر اور ہونٹ اور دیگرمخارج اصوات کے بغیر کلام کیا۔ وہ پاکیزہ وعالی شان ہر طرح کی کیفیات سے مبراومنزہ ہے جس نے گمان کیا کہ ہمارا الہ ممدود و محدود ہے، وہ درحقیقت اپنے خالق ومبعود سے جاہل ہے اور جس نے کہا کہ کون ومکان اس کو گھیرے ہوئے ہیں وہ حیران پریشان اور ملتبس رہے گا، وہ توبل کہ اس کے برعکس ہر مکان کو گھیرے ہوئے ہے پس اگر ے اے مکلف انسان تورحمن کی صفات قرآن کے خلاف بیان کرسکتا ہے تواتناہی کردکھا کہ ہمیں جبرائیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور اسرافیل (علیہ السلام) کی صفات اور شکل و صورت بیان کردے ؟ صدافسو س تو اپنی مثل مخلوق کی ہیبت وصفت بیان نہیں کرسکتا، تو خالق و معبود کی ہیت وصفت بیان کرنے پر کی سے آمادہ ہمت ہوا ؟ تو ان ہیبت والات کے رب کی صفت کا ادراک ہی نہیں کرسکتا، ؟ چہ جائے کہ اس ذات کا ادراک کرے جسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اور ان کے درمیان ہے وہ سب اسی کا ہے۔ اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔ الحلیہ۔ صاحب حلیہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ نعمان کی حدیث ہے ابن اسحاق نے بھی اس کو اسی طرح مرسلا روایت کیا ہے۔

1738

1738 - ومن مسند ابن عمر عن ابن سيرين أن ابن عمر كره هذه الكلمة، أن يقول أسلمت في كذا وكذا، "إنما الإسلام لله رب العالمين". (عب) .
١٧٣٨۔۔ از مسند ابن عمر (رض)۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) یوں کہنے کا ناپسند فرماتے تھے کہ میں اس اس بات میں اسلام لایا۔ کیونکہ اسلام تو محض اللہ ہی کے لیے ۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1739

1739 - عن فضالة بن عبيد قال: "الإسلام ثلاثة أبيات، سفلى وعلى وغرفة، فالسفلى الإسلام، والعلى النوافل، والغرفة الجهاد". (كر) .
1739 ۔۔ فضالہ بن عبید سے مروی ہے کہ فرمایا، اسلام تین کمروں پر مشتمل ہے نیچے والا، اوپر والا، اور بالاخانہ، نیچے والا اسلام ہے یعنی اس کے فرائض وواجبات۔ اوپر والا کمرہ نوافل کا ہے ، اور بالاخانہ جہاد ہے۔ ابن عساکر۔

1740

1740 - مسند أبي الدرداء، عن أبي الدرداء قال: "والذي نفسي بيده ما الإيمان إلا كالقميص تقمصه مرة وتضعه أخرى". (عب) .
1740 ۔۔ از مسند ابی الدرداء (رض) ، حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے کہ فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، ایمان قمیص کی مانند ہے کہ آدمی کبھی اس کو زیب تن کرلیتا ہے اور کبھی اتار پھینکتا ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1741

1741 - مراسيل سعيد بن جبير قال: "إن العبد إذا قال لشيء لم يكن الله يعلم ذلك يقول الله عز وجل عجز عبدي أن يعلم عبدي". (كر)
١٧٤١۔۔ مراسیل سعید بن جبیر (رح) ، فرمایا : بندہ جب کسی کے متعلق کہتا ہے کہ اللہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا تو اللہ فرماتے ہیں میرا بندہ اس سے بات عاجز ہوگیا کہ جان لیتا کہ میرا رب جانتا ہے۔ ابن عساکر۔

1742

. 1742 - مراسيل قتادة عن قتادة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأسقف نجران: "يا أبا الحارث أسلم، قال: إني مسلم قال: يا أبا الحارث أسلم قال: قد أسلمت قبلك فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: كذبت منعك من الإسلام ثلاثة: ادعاؤك لله ولدا، وأكلك الخنزير، وشربك الخمر". (ش) .
١٧٤٢۔۔ مراسیل قتادہ (رح) ۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ رسول کریم نے بنی نجران کے پادری سے فرمایا ، اے ابوالحارث اسلام لے آ اس نے کہا میں نے دین حق کا مسلمان ہوں۔ آپ نے پھر فرمایا، اسلام لے آ اس نے کہا میں آپ سے پہلے ہی مسلمان ہوں، آپ نے فرمایا تو جھوٹ بولتا اسلام سے تجھے تین باتیں مانع و رکاوٹ ہیں اللہ کے لیے تیرا اولاد کو ماننا، تیرا خنزیر کھانا اور تیرا شراب پینا۔ ابن ابی شیبہ۔

1743

1743 - عن المصور بن مخرمة عن أبيه قال: "لقد أظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم الإسلام فأسلم أهل مكة كلهم، وذلك قبل أن تفرض الصلاة حتى إن كان ليقرأ بالسجدة فيسجد ويسجدون وما يستطيع بعضهم أن يسجد من الزحام وضيق المكان لكثرة الناس، حتى قدم رؤوس قريش الوليد بن المغيرة وأبو جهل وغيرهما، وكانوا بالطائف في أرضهم فقال: تدعون دين آبائكم فكفروا". (كر) .
١٧٤٣۔۔ مسور بن مخرمہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے اسلام کو ظاہر فرمایا اور پھر ایک وقت تمام اہل مکہ مسلمان ہوگئے جبکہ ابھی نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی حتی کہ اگر آپ سجدہ والی آیت تلاوت فرماکرسجدہ کرتے تو سب لوگ سجدہ ریز ہوجاتے تھے حتی کہ کثرت ازدھام کی وجہ بعض لوگ سجدہ نہیں کرسکتے ، تھے ، لیکن پھر سرداران قریش طائف سے آگئے ولید بن مغیرہ ابوجہل وغیرہ تو انھوں نے ان لوگوں کو کہا تم اپنے آبائی دین کو چھوڑ بیٹھے ہو ؟ پھر یہ لوگ کافر ہوگئے۔ ابن عساکر۔

1744

1744 - عن ابن عباس قال: "أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل بجارية سوداء فقال: يا رسول الله إن أمي ماتت وعليها رقبة مؤمنة فهل تجزي هذه عنها؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين الله؟ فأومأت برأسها إلى السماء، فقال: من أنا؟ قالت: رسول الله. قال: أعتقها فإنها مؤمنة". (ت) .
١٧٤٤۔۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ کے پاس ایک شخص حبشی باندی کے لیے حاضر ہوا۔ اور عرض کیا یارسول اللہ میری ماں مرگئی ہے اور اس کے ذمہ ایک مومن جان آزاد کرنا واجب ہے تو کیا یہ اس کی طرف سے کفایت کرے گی ؟ آپ نے اس باندی کے مومنہ ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے اس سے باندی پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ باندی نے سر کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ نے پوچھا میں کون ہوں ؟ باندی نے عرض کیا اللہ کے رسول۔ تو آپ نے اس شخص سے فرمایا اسی کو آزاد کردو کیونکہ یہ بھی مومنہ ہے۔ الصحیح للترمذی (رح) ۔

1745

1745 - عن عطاء "أن رجلا كانت له جارية في غنم ترعاها، وكانت له شاة صفى يعني عزيزة في غنمه تلك فأراد أن يعطيها نبي الله صلى الله عليه وسلم فجاء السبع فانتزع ضرعها، فغضب الرجل فصك وجه جاريته فجاء نبي الله صلى الله عليه وسلم فذكر أنها كانت عليه رقبة مؤمنة، وأنه قد هم أن يجعلها إياها حين صكها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ائتني بها فسألها النبي صلى الله عليه وسلم أتشهدين أن لا إله إلا الله قالت: نعم وأن محمدا عبده ورسوله قالت: نعم وأن الموت والبعث حق، قالت: نعم وأن الجنة والنار حق، قالت: نعم، فلما فرغت قال أعتقها أو أمسك". (عب) .
١٧٤٥۔۔ حضرت عطاء سے مروی ہے کہ ایک شخص کے پاس باندی تھی، جو اس کی بکریاں چراتی تھی، ریوڑ میں مالک کی ایک ایسی بکری بھی تھی جو اسے بہت مرغوب و پسندیدہ تھی، جس کے متعلق مالک کا ارادہ تھا کہ وہ بکری آپ کو ہدیہ کردے گا، لیکن سوء اتفاق سے بھیڑئیے نے آکراسی بکری پر حملہ کیا اور اس کے تھن کھینچ لیے مالک کو غصہ آیا تو اس نے چرواہی باندی کو منہ پر طمانچہ رسید کیا، لیکن پھرنادم ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اس کے ذمہ پہلے سے ایک مومن جان آزاد کرنا واجب تھا توطمانچہ مارتے وقت اسے خیال آیا کہ اب اسی کو آزاد کردیا جائے ؟ آپ نے اس باندی کو بلوایا اور اس سے سوال کیا : کیا تولاالہ الا اللہ کی شہادت دیتی ہے ؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اس بات کی بھی کہ محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اس بات کی بھی کہ مرنا اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا برحق ہے ؟ عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا اس بات کی بھی کہ جنت وجہنم برحق ہے ؟ عرض کیا جی ہاں تو اس کے بعد آپ نے مالک کو فرمایا : اس کو آزاد کرسکتے ہو اور روکنے کا بھی اختیار ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

1746

1746 - عن يحيى بن أبي كثير قال: " صك رجل جارية، فجاء بها النبي صلى الله عليه وآله وسلم يستشيره في عتقها فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم أين ربك؟ فأشارت إلى السماء قال: من أنا قالت: أنت رسول الله قال أحسبه أيضا ذكر البعث بعد الموت والجنة والنار، ثم قال: أعتقها فإنها مؤمنة". (عب) .
١٧٤٦۔۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی باندی کو تھپڑ رسید کیا تھا پھر وہ اسے لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کی آزادی کے متعلق مشورہ طلب کیا، آپ نے اس باندی کے مومنہ ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے اس باندی سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ باندی نے سر کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ پھر آپ نے پوچھا میں کون ہوں ؟ باندی نے عرض کیا اللہ کے رسول۔ راوی کہتے میرا خیال ہے کہ آپ نے بعث بعد الموت اور جنت وجہنم کا تذکرہ بھی فرمایا پھر اس شخص نے فرمایا اسی کو آزاد کرو کیونکہ یہ بھی مومنہ ہے۔ المصنف لعبدالرزاق۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔