hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Kanz al-Ummal

51. قصاص کا بیان

كنز العمال

39818

39805- "العمد قود1 والخطأ دية". "طب - عن ابن حزم"
٣٩٨٠٥۔۔۔ جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا (قاتل کو) قتل کرنا ہے اور غلطی سے قتل کرنے سے دیت واجب ہوتی ہے۔ طبرانی عن ابن جزم

39819

39806- "من قتل عمدا دفع إلى أولياء المقتول، فإن شاؤا قتلوا، وإن شاؤا أخذوا الدية، وهي ثلاثون حقة3 وثلاثون جذعة " وأربعون خلفة2وما صولحوا عليه فهو لهم". "حم، ت، هـ - عن ابن عمرو
٣٩٨٠٦۔۔۔ جس شخص نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا تو قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالہ کیا جائے گا، چاہیں تو بدلہ میں اسے قتل کریں اور اگر چاہیں تودیت وصول کرلیں، جس کی مقدارتیس چار سالے اونٹ اور تیس پانچ سالے اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں اور جس مال پر وہ صلح کرلیں تو وہ ان کے لیے ہے۔ مسنداحمد، ترمذی ابن ماجۃ عن ابن عمرو

39820

39807- "لا قود إلا بالسيف". "هـ - عن أبي بكرة وعن النعمان بن بشير"
٣٩٨٠٧۔۔۔ صرف تلوار کی وجہ سے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ ابن ماجۃ عن ابی بکرۃ وعن النعمان بن بشیر

39821

39808- "من أصيب بدم أو خبل فهو بالخيار بين إحدى ثلاث: إما أن يقتص أو يأخذ العقل أو يعفو، فإن أراد الرابعة فخذوا على يديه، فإن فعل شيئا من ذلك ثم عدا بعد فقتل فله النار خالدا مخلدا فيها أبدا". "حم، هـ "عن أبي شريح".
٣٩٨٠٨۔۔۔ جسے خون یا کوئی نقصان پہنچا ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیا رہے یا توبدلہ لے، یا دیت وصول کرے یا معاف کردے سوا گروہ چوتھی چیز کا ارادہ کرے تو اس کے ہاتھ روک لو، اگر اس نے ان میں سے کوئی کام کیا اور حد سے تجاوز کیا اور بدلہ میں اسے قتل کردیا گیا تو اس کے لیے جہنم ہے اس میں ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ مسند احمدا، ابن ماجۃ عن ابی شریح کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٥٤٣٣

39822

39809- "من قتل عبده قتلناه، ومن جدع عبده جدعناه". "حم، 4 "عن سمرة".
٣٩٨٠٩۔۔۔ جو کوئی اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم بدلہ میں اسے قتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کی ناک کاٹی ہم اس کی ناک اٹیں گے۔ مسنداحمد، ابوداؤد، ترمدی، ابن ماجہ نسائی عن سمرۃ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دورحیات میں حاکم تھے لہٰذا بعد میں یہ کام حکام ہی کریں گے کسی علاقہ کی پنچائت اور جرگہ نہیں کرسکتا۔ ع ش

39823

39810- "من خصى عبده خصيناه". "د، ك - عن سمرة"
٣٩٨١٠۔۔۔ جس نے اپنے غلام کو آختہ بنایاہم اسے آختہ بنائیں گے۔ ابوداؤد حاکم، عن سمرۃ کلام :۔۔۔ ضعیف ابوداؤد ٩٧٥، ضعیف الجامع ٥٥٧٢

39824

39811- "المرأة إذا قتلت عمدا لا تقتل حتى تضع ما في بطنها إن كانت حاملا وهي تكفل ولدها، وإن زنت لم ترجم حتى تضع ما في بطنها وحتى تكفل ولدها". "هـ - عن معاذ بن جبل وأبي عبيدة بن الجراح وعبادة بن الصامت وشداد بن أوس"
٣٩٨١١۔۔۔ حاملہ عورت جب کسی کو قتل کردے تو وضع حمل اور اپنے بچہ کو کسی کے حوالہ کرنے سے پہلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ابن ماجۃ عن معاذ بن جبل وابی عبیدۃ بن الجراح وعبادۃ بن الصامت وشداد بن اوس کلام :۔۔۔ ضعیف ابن ماجہ ٥٨٧، ضعیف الجامع ٥٩٢٤۔

39825

39812- "لا يقاد الوالد بالولد". "حم، ت - عن عمر".
٣٩٨١٢ ۔۔۔ بیٹے کے بدلہ میں باب قتل نہیں کیا جائے گا۔ مسند احمد، ترمدی عن عمر، کلام اسنی المطالب ١٧٥٢ اتمیز ١٩٧، یعنی باپ جب بیٹے کو پینے اور بیٹا مرجائے، کیونکہ کوئی والد اتنا بےرحم نہیں ہوتا کہ جان بوجھ کر اپنی اولاد کو ماڈالے، دوسری بات یہ ہے کہ باپ بیٹے کی حیات کا سبب تھا۔ ھدایہ ع ش

39826

39813- "لا يقتل الوالد بالولد". "هـ - عن ابن عمر وعن ابن عباس".
٣٩٨١٣۔۔۔ والد کو بیٹے کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ ابن ماجۃ عن ابی عمرو عن ابن عباس

39827

39814- "أما ابنك هذا فلا يجني عليك ولا تجني عليه". "حم، د، ن، ك - عن أبي رمثة"
٣٩٨١٤۔۔۔ جہاں تک تمہارے اس بیٹے کا تعلق ہے تو تم پر اس کے جرم کی سزا نہیں اور نہ تمہارے جرم کی سزا اس پر ہے۔ مسنداحمد، ابوداؤد۔ نسائی۔ حاکم عن ابی رمثہ یعنی ہر شخص اپنے جرم کی سزاخود بھگتے گا۔

39828

39815- "لا تجني أم على ولد"."ن هـ - عن طارق المحاربي".
٣٩٨١٥۔۔۔ کوئی ماں اپنے بیٹے پر گناہ نہ ڈالے۔ نسائی، ابن ماجۃ عن طارق امحاربی

39829

39816- "لا تجني نفس على أخرى". "ت هـ - عن أسامة ابن شربك"
٣٩٨١٦۔۔۔ کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔ ترمذی، ابن ماجۃ عن اسامۃ بن شریک

39830

39817- "لا يقتل مؤمن بكافر ولا ذو عهد في عهده"."هـ - عن ابن عباس".
٣٩٨١٧۔۔۔ کسی مومن کو کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے، اور نہ کسی معاہدہ روالے کو اس کے عہد کی میعاد میں قتل کیا جائے۔ ابن ماجۃ عن ابن عباس

39831

39818- "لا يقتل مسلم بكافر"."حم، ت، هـ - عن ابن عمرو".
٣٩٨١٨۔۔۔ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجۃ عن ابن عمرو

39832

39819- "لا يقتل حر بعبد"."هق - عن ابن عباس".
٣٩٨١٩۔۔۔ کسی آزاد کو غلام کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ بیھقی عن ابن عباس، اسنی المطالب ١٧٥٣، حسن الائر ٤٢٥

39833

39820- "لولا القصاص لأوجعتك بهذا السواك"."ابن سعد - عن أم سلمة".
٣٩٨٢٠۔۔۔ اگر قصاص نہ ہوتا تو میں تمہیں اس مسواک سے مارتا۔ ابن سعد عن ام سلمۃ کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٤٨٤٨

39834

39821- "لولا مخافة القود يوم القيامة لأوجعتك بهذا السواك"."طب، حل - عن أم سلمة".
٣٩٨٢١۔۔۔ اگر قیامت کے روزبدلہ لینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہیں اس مسواک سے اذیت دیتا۔ طبرانی، حلیۃ الاولیاء عن ام سلمۃ کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٤٨٥٨

39835

39822- "ما تأمرني؟ تأمرني أن آمره أن يدع يده في فيك تقضمها كما يقضم الفحل! ادفع يدك حتى يعضها ثم انتزعها". "م -2 "عن عمران بن حصين".
٣٩٨٢٢۔۔۔ تم مجھے کیا کہنا چاہتے ہو ؟ تم مجھے یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں اسے حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں ڈال دے اور پھر تم اسے ایسے چبا ڈالو جیسے اونٹ چباتا ہے، اپنے ہاتھ کو ادھر کروتا کہ وہ اسے کاٹ لے پھر ہٹالو۔ مسلم عن عمران حصین آپ کے زمانہ میں ایک شخص کا ہاتھ دوسرے نے چبالیا تھا تو وہ آپ کی خدمت میں فیصلہ کرانے حاضر ہوا تو آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔

39836

39823- "كتاب الله القصاص". "حم، ق، د، ن، هـ - عن أنس".
٣٩٨٢٣۔۔۔ قصاص اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور فرض ہے۔ مسند احمد، بیھقی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجۃ عن انس

39837

39824- "إناء كإناء وطعام كطعام". "ن - عن عائشة".
٣٩٨٢٤۔۔۔ برتن جیسا برتن اور کھانے جیسا کھانا۔ نسائی عن عائشۃ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے گھر تھے کسی دوسری بیوی غالبا حضرت صیفہ نے پیالہ میں کھانا بھیجا حضرت عائشہ (رض) بھی کھانا پکارہی تھیں آپ کو یہ دیکھ کر بےحدغصہ آیا اور فرط غیرت سے پیالہ زمین پر پٹخ دیا اس پر آپ نے فرمایا۔

39838

39825- " طعام بطعام وإناء بإناء". "ت - عن أنس".
٣٩٨٢٥۔۔۔ کھانے کے بدلہ کھانا، اور برتن کے بدلہ برتن۔ ترمذی عن عائشہ

39839

39826- " طعام كطعامها وإناء كإنائها". "حم - عن عائشة".
٣٩٨٢٦۔۔۔ اس کے کھانے جیسا کھانا اور اس کے برتن جیسا برتن بھیجو۔ مسند احمد عن عائشہ

39840

39827- "دونك فانتصري". "هـ - عن عائشة"
٣٩٨٢٧۔۔۔ تم بدلہ لے لو۔ ابن ماجہ عن عائشہ

39841

39828- "يا أنس! كتاب الله القصاص". "حم، خ، م،2 "د، ن، هـ - عن أنس".
٣٩٨٢٨۔۔۔ انس اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قصاص ہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی۔ ابن ماجہ عن انس یہ حضرت انس کے چچا ہیں ان کا نام بھی انس ہے ان کی بہن سے کسی عورت کا دانت ٹوٹ گیا تھا تو ان لوگوں نے مطالبہ کیا کہ بدلہ میں ہم بھی دانٹ توڑیں گے، اس پر حضرت انس کے چچانے قسم کھالی، تو بعد میں ان لوگوں نے معاف کردیا۔

39842

39829- "لولا القصاص لأوجعتك بهذا السواك". "ابن سعد عن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم أرسل وصيفة له فأبطأت عليه فقال - فذكره".
٣٩٨٢٩۔۔۔ اگر قصاص نہ ہوتا تو میں تمہیں اس مسواک سے تکلیف دیتا۔ ابن سعد عن ام سلمۃ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کنیز بھیجی جو دیر سے واپس آئی تو اس پر آپ نے یہ ارشاد فرمایا۔

39843

39830- "تعال فاستقد". "حم - عن أبي سعيد"
٣٩٨٣٠۔۔۔ آؤ اور دیت وصول کرو۔ مسند احمد عن ابی سعید

39844

39831- "يا أيها الناس! إنما أنا بشر مثلكم، ولعله أن يكون قد قرب مني خفوف 2 من بين أظهركم، فمن كنت أصبت من عرضه أو من شعره أو من بشره أو من ماله شيئا، هذا عرض محمد وشعره وبشره وماله فليقم فليقتص! ولا يقولن أحد منكم: إني أتخوف من محمد العداوة والشحناء؛ ألا! وإنهما ليستا من طبيعتي وليستا من خلقي"."ع وابن عساكر - عن الفضل ابن عباس".
٣٩٨٣١۔۔۔ لوگو ! میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں، ہوسکتا ہے تم سے میرے جدا ہوجانے کا وقت نزدیک ہوجائے (یعنی میری وفات قریب ہے) اور میں نے تم میں سے کسی کی ہتک کی، یا اس کی کھال بال کو کوئی اذیت پہنچائی ہو یا اس کا مالیا ہو۔ تو اب یہ محمد کی عزت کھال بال اور اس کا مال ہے تو جس کا کوئی حق ہو تو وہ اٹھے اور آکر اپنا بدلہ لے لے۔ اور تم میں سے ہرگز کوئی یہ نہ کہے ! میں محمد سے دشمنی اور سختی کی وجہ سے ڈرتاہوں، سن رکھو ! یہ دونوں چیزیں نہ میری طبیعت ہیں اور نہ میرے اخلاق ہیں۔ ابویعلی، ابن عساکرعن الفضل ابن عباس

39845

39832- "إنا قد دنا مني خفوف من بين أظهركم، وإنا أنا بشر، فأيما رجل كنت أصبت من عرضه شيئا فهذا عرضي فليقتص، وأيما رجل كنت أصبت من بشره شيئا فهذا بشري فليقتص، وأيما رجل كنت أصبت من ماله شيئا فهذا مالي فليأخذ وأعلموا أن أولادكم بي رجل كان له من ذلك شيء فأخذه أو حللني فلقيت ربي وأنا محلل لي، ولا يقولن رجل: إني أخاف العداوة والشحناء من رسول الله صلى الله عليه وسلم فإنهما ليستا من طبيعتي ولا من خلقي، ومن غلبته نفس على شيء فليستعن بي حتى أدعو له". "ابن سعد، طب - عن الفضل بن عباس".
٣٩٨٣٢۔۔۔ تم میں سے میرا سفر آخرت قریب آگیا ہے اور میں تم جیسا ایک انسان ہوں سو میں نے جس کی بےعزتی کی ہو تو یہ میری عزت ہے وہ اپنا بدلہ لے لے، اور جس کی کھال کو میں نے کوئی تکلیف دی ہو تو یہ مری کھال ہے وہ اپنا بدلہ لے لے۔ اور میں نے جس کا مال لیا ہو تو یہ مرامال ہے وہ اپنا مال وصول کرے۔ آگاہ ہو تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جس کا کوئی حق ہو اور وصول کرلے یا مجھے وہ حق بخشش دے۔ اور میں اپنے رب سے ایسی حالت میں ملاقات کروں کہ وہ حق اپنے لیے جائز کراچکا ہوں، ہرگز کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور سختی سے ڈرتا ہوں یہ دونوں نہ مری طبیعت ہیں اور نہ میرے اخلاق جس کا نفس کسی چیز کے بارے میں اس پر غالب آجائے تو وہ مجھ سے مدد چاہے تاکہ میں اس کے لیے دعا کردوں۔ ابن سعد۔ طبرانی عن الفضل بن عباس

39846

39833- "من اعتبط مؤمنا قتلا فإنه قود إلا أن يرضى ولي المقتول". "عب - عن الزهري"
٣٩٨٣٣۔۔۔ جس نے کسی مسلمان کو دھو کے سے قتل کیا تو اس کا بدلہ لیا جائے گا الایہ کہ مقتول کے رشتہ دار (قصاص پر) راضی ہوجائیں۔ عبدالرزاق عن الزھری

39847

39834- لا يصلح القتل إلا في ثلاث: رجل يقتل فيقتل به ورجل يكفر بعد إسلامه، ورجل أصاب حدا بعد إحصانه فيرجم"."كر - من عائشة".
٣٩٨٣٤۔۔۔ قتل صرف تین صورتوں میں ہوسکتا ہے۔ وہ شخص جس نے کسی کو قتل کیا ہو تو بدلہ میں اسے قتل کیا جائے گا، دوسراوہ شخص جو اسلام لانے کے بعد کافر ہوجائے، تیسراوہ شخص جو محصن ہونے کے بعد کسی حد میں مبتلا ہوجائے اور پھرا سے سنگسار کیا جائے۔ (یعنی شادی شدہ زنا کا ارتکاب کرے) ۔ ابن عساکرعن عائشۃ

39848

39835- "من اعتبط مؤمنا قتلا فإنه قود إلا أن يرضي ولي المقتول والمؤمنون عليه كافة، لا يحل لمؤمن يؤمن بالله واليوم الآخر يؤويه وينصره، فمن آواه ونصره غضب الله عليه، وما اختلفتم فيه من شيء فحكمه إلى الله"."عب - عن عبد الرحمن بن أبي ليلى مرسلا".
٣٩٨٣٥۔۔۔ جس نے کسی مسلمان کو دھو کے سے قتل کیا تو اس کا بدلہ لیا جائے گا، ہاں اگر مقتول کے رشتہ دار اور سارے مسلمان (قصاص پر) راضی ہوجائیں، جو مومن اللہ تعالیٰ پر اور پچھلے روز پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے ٹھکانا دے یا اس کی مدد کرے۔ جو جس نے اسے ٹھکانا دیا اور اس کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا اور جس چیز میں تمہیں اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ عبدالرزاق عن عبدالرحمن بن ابی لیلی مرسلا

39849

39836- "من طلب دما أو خبلا - والخبل: الجرح - فهو بالخيار من ثلاث خلال، فإذا أراد الرابعة أخذ على يديه، بين أن يقتص أو يعفو أو يأخذ العين، فإن أخذ منهن واحدة ثم اعتدى بعد ذلك فله النار خالدا فيها مخلدا"."عب - عن أبي شريح الخزاعي".
٣٩٨٣٦۔۔۔ جو شخص خون یا کسی زخم کا مطالبہ کرے توا سے تین باتوں کا اختیا رہے اگر وہ چوتھی کا ارادہ کرے تواسکاہاتھ روک لیا جائے ، یا تو بدلہ یا معاف کرے اور یا وہ چیز لے لے، اگر اس نے ان میں سے کوئی ایک کام کرلیا اور پھر اس کے بعد حد سے تجاوز کیا تو اس کے لیے جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہے گا۔ عبدالرزاق عن ابی شریح الخزاعی

39850

39837- "من قتل في عميا ورميا بحجر أو ضربا بسوط أو بعصا فقتله قتل الخطأ، ومن قتل اعتباطا - فهو قود، لا يحال بينه وبين قاتله، فمن حال بينه وبين قاتله فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا". "عب - عن ابن عباس"
٣٩٨٣٧۔۔۔ جو شخص خفیہ طور پر پتھر سے یا کوڑوں کی مار سے یا لاٹھی سے قتل کردیا گیا ہو (اور قاتل کا اتاپتا نہیں) تو اس کا قتل، قتل خطا ہے (اس میں دیت واجب ہوگی) اور جسے دھو کے سے قتل کیا گیا تو اس کا بدلہ ہوگا اس کے اور اس کے قاتل کے درمیان کوئی حائل نہ ہو جو اس کے اور اس کے قال کے درمیان حائل ہوا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی کوئی فرض عبادت قبول کریں گے اور نہ نفل۔ بعدالرزاق عن ابن عباس

39851

39838- "إذا أمسك الرجل وقتله الآخر يقتل الذي قتل ويحبس الذي أمسك". "عد، ق - عن ابن عمر".
٣٩٨٣٨۔۔۔ جب کوئی شخص کسی کو پکڑے اور دوسرا اسے قتل کرے تو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا۔ ابن عدی، بیھقی، عن ابن عمر

39852

39839- "اقتلوا القاتل واصبروا الصابر". "أبو عبيد في الغريب ق - عن إسماعيل بن أمية مرسلا".
٣٩٨٣٩۔۔۔ قاتل کو قتل کرو اور باندھنے والے کو باندھو۔ ابوعبید فی الغریب بیھقی عن اسماعیل بن امیۃ مرسلا

39853

39840- "لو اجتمع أهل منى على مسلم عمدا لقتلتهم به". "الديلمي - عن أبي هريرة وابن عباس معا".
٣٩٨٤٠۔۔۔ اگر ، منی والے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے پر اتفاق کرلیں تو میں انھیں اس کے بدلہ میں قتل کروں گا۔ الدیلمی عن ابوہریرہ وابن عباس معا

39854

39841- "يقتل القاتل ويحبس الممسك"."قط، ق - عن إسماعيل بن أمية مرسلا".
٣٩٨٤١۔۔۔ قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا۔ دارقطنی، بیھقی عن اسماعیل بن امیۃ مرسلا

39855

39842- "لا عمد إلا بالسيف"."حم - عن النعمان".
٣٩٨٤٢۔۔۔ تلوار کے ذریعہ ہی قتل عمد ہوتا ہے۔ مسند احمد عن النعمان

39856

39843- "كل شيء خطأ إلا الحديد والسيف"."طب، ق عن النعمان بن بشير".
٣٩٨٤٣۔۔۔ ہرچیز قتل خطاء میں شامل ہے صرف (دھاری دار) لوہا اور تلوار (وہ قتل عمد میں شمارہوں گی) ۔ طبرانی فی الکبیر، بیھقی ، عن النعمان بن بشیر

39857

39844- "كل شيء سوى الحديدة خطأ، ولكل خطأ أرش" ."عب وابن جرير، طب، ق - عن النعمان بن بشير".
٣٩٨٤٤۔۔۔ لوہے کے سواہر چیز خطا ہے اور خطا کا ایک جرمانہ ہے۔ عبدالرزاق وابن جریر، طبرانی فی الکبیر، بیھقی عن النعمان بن بشیرکلامـ:۔۔۔ ضعیف الجامع ٤٢٣٤، الکشف الالٰہی ٦٦١۔

39858

39845- "لكل شيء خطأ إلا السيف، ولكل خطأ أرش"."حم - عن النعمان بن بشير".
٣٩٨٤٥۔۔۔ ہرچیز کی سزاخطا ہے صرف تلوار، اور ہر خطاکاہرجانہ ہے۔ مسند احمد عن النعمان بن بشیر

39859

39846- "لا قود إلا بحديدة"."عب - عن الحسن مرسلا".
٣٩٨٤٦۔۔۔ صرف دھاری دھارلو ہے کی وجہ سے قصاص لیا جائے۔ عبدالرزاق عن الحسن، مرسلا

39860

39847- "لا يستقاد من الجرح حتى يبرأ"."الطحاوي - عن جابر".
٣٩٨٤٧۔۔۔ زخم کے ٹھیک ہونے تک قصاص نہیں لیا جائے گا۔ الطحاوی عن جابر

39861

39848- "أعف الناس قتلة أهل الإيمان"."د، هـ - عن ابن مسعود"
٣٩٨٤٨۔۔۔ قتل کے بارے میں سب زیادہ معاف کرنے والے، ایمان والے ہیں۔ ابوداؤد، ابن ماجۃ عن ابن مسعود کلام :۔۔۔ ضعیف، ابوداؤد ٥٧٠ ضعیف الجامع ٩٦٣۔

39862

39849- "إن أعف الناس قتلة أهل الإيمان"."حم - عن ابن مسعود".
٣٩٨٤٩۔۔۔ اہل ایمان قتل کو سب سے زیادہ معاف کرنے والے ہیں۔ مسند احمد عن ابن مسعود کلام ۔۔۔ ضعیف، ابن ماجہ ١٥٨٤، ضعیف الجامع ١٣٩٤۔

39863

39850- "ما من رجل مسلم يصاب بشيء في جسده فيتصدق به إلا رفعه الله به درجة وحط عنه به خطيئة"."حم، ت، هـ - عن أبي الدرداء؟ " "
٣٩٨٥٠۔۔۔ جس مسلمان شخص کے بدن میں کسی سے کوئی تکلیف پہنچی ہو اور وہ اس کا صدقہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کا ایک درجہ بلند کریں گے اور ایک برائی کم کریں گے۔ مسند احمد، ترمذی، ابن ماجۃ عن ابی الدرداء کلام۔۔۔ ضعیف ، الجامع ٥١٧٥۔

39864

39851- "ما من رجل يجرح في جسده جراحة فيتصدق بها إلا كفر الله تعالى عنه مثل ما تصدق". "حم والضياء - عن عبادة".
٣٩٨٥١۔۔۔ جس مسلمان شخص کو اس کے بدن میں زخم لگا اور وہ اس کے صدقہ میں کوئی چیز دے تو اللہ تعالیٰ اس کے صدقہ جتنے گناہ کم کردے گا۔ مسند احمد، والضیاء عن عبادۃ

39865

39852- "من تصدق بشيء من جسده أعطى بقدر ما تصدق". "طب - عن عبادة".
٣٩٨٥٢۔۔۔ جس نے اپنے بدن کی کسی چیز کا صدقہ دیا اس کو اس کے صدقہ کے بقدردیا جائے گا۔ طبرانی فی الکبیر عن عبادۃ

39866

39853- "من أصيب في جسده بشيء فتركه لله تعالى كان كفارة له". "حم - عن رجل".
٣٩٨٥٣۔۔۔ جسے، اس کے بدن میں کوئی تکلیف پہنچی اور اس نے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اسے چھوڑدیاتو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ مسنداحمد، عن رجل کلام۔۔۔ ضعیف، دیکھیں، الجامع ٥٤٣٦۔

39867

39854- "من عفا عن دم لم يكن له ثواب إلا الجنة". "خط - عن ابن عباس".
٣٩٨٥٤۔۔۔ جس نے کوئی خون معاف کردیاتو اس کا بدلہ جنت ہی ہے۔ خطیب عن ابن عباس، کلام۔۔۔ ضعیف، دیکھیں الجامع ٥٧٠٠۔

39868

39855- "من عفا عن قاتله دخل الجنة". "ابن منده - عن جابر الراسبي".
٣٩٨٥٥۔۔۔ جس کے رشتہ داروں نے اپنے قاتل کو معاف کردیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ ابن مندۃ عن جابر الرابسی ، کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں الجامع ٥٧٠١۔

39869

39856- "نصبر ولا نعاقب". "حم - عن أبي".
٣٩٨٥٦۔۔۔ ہم صبرکریں گے بدلہ نہیں لیں گے۔ مسنداحمد عن ابی

39870

39857- "على المقتتلين أن يحجز الأول فالأول وإن كانت امرأة". "د، هـ - عن عائشة".
٣٩٨٥٧۔۔۔ وہ جھگڑا کرنے والوں کے بارے میں یہ ہے کہ پہلے ایک کو اور پھر دوسرے کو روکا جائے چاہے عورت ہو۔ ابوداؤد، ابن ماجۃ عن عائشۃ
کلام۔۔۔ ضعیف، ابوداؤدا ٩٨۔ یعنی قاتل و مقتول کے ورثاء جب آپس میں لڑپڑیں، اگر ایک عورت بھی رک گئی تو قصاص دیت میں بدل جائے گا۔

39871

39858- "لا أعفى من قتل بعد ما أخذ الدية". "حم د - عن جابر" "
٣٩٨٥٨۔۔۔ میں اسے معاف نہیں کرتا جو دیت لینے کے بعد قتل کردے۔ مسنداحمد، ابوداؤد عن جابر کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں، ابوداؤد
٩٧١، ضعیف، الجامع ٦١٦۔

39872

39859- "لا أعافي أحدا قتل بعد أخذه الدية". "الطيالسي - عن جابر".
٣٩٨٥٩۔۔۔ میں اس شخص کو معاف کرنے کا نہیں جو دیت لینے کے بعد قتل کرے۔ الطیالسی عن جابر) کلام۔۔۔ الحفاظ ٧٦٧۔ کلام۔۔۔ ضعیف، دیکھیں الجامع ٦١٧٣۔

39873

39860- "من جرح من جسده جراحة فتصدق بها كفر عنه من ذنبه بمثل ما تصدق به". "ابن جرير - عن عبادة بن الصامت".
٣٩٨٦٠۔۔۔ جس کے جسم پر کوئی زخم لگایا گیا پھر اس نے اسے معاف کردیا تو اس کے اتنے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا جتنا اس نے معاف کیا۔ ابن جریرعن عبادۃ بن الصامت

39874

39861- "من أصيب بجسده بقدر نصف ديته فعفا كفر الله عنه نصف سيئاته، وإن كان ثلثا أو ربعا فعلى قدر ذلك". "ط - عن عبادة بن الصامت".
٣٩٨٦١۔۔۔ جس کے جسم کو نصف دیت کے بقدر کوئی تکلیف پہنچائی گی اور اس نے معاف کردی۔ تو اللہ تعالیٰ کے آدھے گناہ معاف کردے گا، اگر تہائی ہو تو تہائی یاچوتھائی تو اسی کے بقدر معافی ہوگی۔ طبرانی عن عبادۃ بن الصامت

39875

39862- "ما من مسلم يصاب بشيء من جسده فيهبه إلا رفعه الله تعالى به درجة وحط عنه خطيئة". "ابن جرير - عن أبي الدرداء".
٣٩٨٦٢۔۔۔ جس مسلمان کو اس کے جسم پر کوئی تکلیف پہنچائی گئی پھر اس نے اسے معاف کردیاتو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور ایک گناہ معاف کرے گا۔ ابن جریر عن ابی الدرداء

39876

39863- "الدار حرم، فمن دخل عليك حرمك فاقتله". "حم، طب - عن عبادة بن الصامت".
٣٩٨٦٣۔۔۔ گھر محفوظ جگہ ہے جو تمہارے حرم میں داخل ہوا سے مارڈالو۔ مسند احمد، طبرانی عن عبادۃ الصامت کلام۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ٢٨٩٧۔ کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں الجامع ٢٩٩٥۔

39877

39864- "من شهر سيفه ثم وضعه فدمه هدر". "ن، ك - عن ابن الزبير".
٣٩٨٦٤۔۔۔ جس نے تلوار سونتی پھر چلادی تو اس کا خون معاف ہے۔ نسائی حاکم عن ابن الزبیر یعنی پھر قتل کردیا۔ کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں نسائی ٢٧٧، المعلۃ ١٥٢۔

39878

39865- "العجماء:1 جرحها جبار والبئر جبار والمعدن جبار وفي الركاز الخمس". "مالك، حم، " ق، عن أبي هريرة؛ طب عن عمرو ابن عوف".
٣٩٨٦٥۔۔۔ مویشیوں کا لگایا ہوازخم بےکار ہے اسی طرح کنویں اور کان سے ہونے والی ہلاکت معاف ہے دفن شدہ خزانے کسی کو ملیں تو اس میں خمس واجب ہے۔ مالک ، مسند احمد ، بخاری، عن ابوہریرہ ، طبرانی عن عمروبن عوف

39879

39866- "النار جبار". "د، هـ - عن أبي هريرة" "
٣٩٨٦٦۔۔۔ آگ سے ہونے والی ہو ہلاکت رائیگاں ہے۔ ابوداؤد، ابن ماجہ عن ابوہریرہ دخیرۃ الحفاظ ٥٩٠١، الوضع فی الحدیث ج ٣ ص ٢٠٨

39880

39867- "الرجل جبار". "د هـ - عن أبي هريرة" "
٣٩٨٦٧۔۔۔ پاؤں سے لگنے والی ٹھوکر کی پاداش میں ہونے والی ہلاکت رائیگاں ہے۔ ابوداؤد ابن ماجۃ ابوہریرہ کلام ۔۔۔ ضعیف ابوداؤد ٩٩٧، ضعیف، دیکھیں الجامع ٣١٥٣۔

39881

39868- "من اطلع من قترة1 إلى قوم ففقئت عينه فهو هدر."طب - عن أبي أمامة".
٣٩٨٦٨۔۔۔ جس نے شگاف سے کسی قوم کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھ پھوڑدی گئی تو وہ بےکا رہے۔ طبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ

39882

39869- "الدابة جرحها جبار، والرجل جبار، والبئر جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس". "ق - عن أبي هريرة".
٣٩٨٦٩۔۔۔ جانور کے لگائے ہوئے زخم بےکار ہیں پاؤں، کنوئیں اور کان سے ہونے والا نقصان رائیگاں ہے دفینوں میں خمس واجب ہے۔ بخاری عن ابوہریرہ

39883

39870- "السائمة جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس"."حم وأبو عوانة والطحاوي - عن جابر".
٣٩٨٧٠۔۔۔ چرنے والے ہر جانوروں کا کیا نقصان معاف ہے کان سے ہونے والی ہلاکت رائیگاں اور دفینوں میں خمس ہے۔ مسنداحمد، ابوعوانۃ والطحاوی عن جابر

39884

39871- "العجماء جرحها جبار، والنار جبار؛ وفي الركاز الخمس"."ق - عن أبي هريرة". "
٣٩٨٧١۔۔۔ جانوروں کا لگایازخم اور آگ سے ہونے والا نقصان معاف ہے اور دفینوں میں خمس واجب ہے۔ بخاری عن ابوہریرہ

39885

39872- "العجماء جبار، والبئر جبار والمعدن جبار؛ وفي الركاز الخمس."أبو عوانة، - عن ابن عباس".
٣٩٨٧٢۔۔۔ چوپاؤں کنوئیں اور کان سے ہونے والا نقصان معاف ہے اور دفینوں میں ثمس واجب ہے۔ (ابوعوانۃ عن ابن عباس)

39886

39873- "العجماء جرحها جبار، والبئر جبار، والمعدن جرحه جبار؛ وفي الركاز الخمس."مالك، حم، عب، خ، م، د "ت، ن، هـ - عن أبي هريرة؛ طب - عن كثير بن عبد الله عن جده طب وأبو عوانة - عن عامر بن ربيعة؛ وقال: حسن غريب عجيب طب - عن عبادة بن الصامت". مر عزوه رقم 9815".
٣٩٨٧٣۔۔۔ چوپاؤں ، کنوئیں اور کان سے ہونے والانقصان معاف ہے اور دفینوں میں خمس واجب ہے۔ مالک۔ مسند احمد ، عبدالرزاق، بخاری، مسلم، ابوداؤد۔ ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ عن ابوہریرہ طبرانی فی الکبیرعن کثیر بن عبداللہ عن جدہ، طبرانی وابو عوانہ عن عامربن ربیعہ ، وقال حسن غریب عجیب، طبرانی عن عبادۃ بن الصامت، کلام۔۔۔ مرعزوہ رقم ٣٩٨١٥

39887

39874- "العجماء جبار، والمعدن جبار؛ وفي الركاز الخمس."طب - عن ابن مسعود".
٣٩٨٧٤۔۔۔ چوپاؤں (کا نقصان) معاف، کان کا نقصان معاف اور دفینوں میں خمس واجب ہے۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود

39888

39875- "العجماء جبار والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس."قط في الأفراد - عن ابن مسعود؛ وضعف".
٣٩٨٧٥۔۔۔ چوپاؤں اور کان کا نقصان معاف ہے اور دفینوں میں خمس واجب ہے۔ دارقطنی فی الافراد عنابن مسعود وضعف

39889

39876- المعدن جبار، والبئر جبار، والسائمة جبار، والرجل جبار وفي الركاز الخمس."عب، قط، ق - عن هزيل ابن شرحبيل".
٣٩٨٧٦۔۔۔ کان، کنوئیں ، چرنے والے جانوروں اور پاؤں سے ہونے والانقصان رائیگاں ہے اور دفینوں میں خمس واجب ہے۔ عبدالرزاق ، بخاری عن عزیل بن شرجیل

39890

39877- يعمد أحدكم إلى أخيه فيعضه كعضاض الفحل ثم يأتي بعد ذلك يلتمس العقل انطلق فلا عقل لك."هـ, 1" ك، طب - عن يعلى وسلمة ابني أمية".
٣٩٨٧٧۔۔۔ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا قصد کرتا اور پھر اسے ایسے کا ٹتا ہے جیسے کوئی جانور کاٹتا ہے پھر اس کے بعد بدلہ طلب کرنے کے لیے آتا ہے جاؤتمہارے لیے کوئی بدلہ نہیں۔ ابن ماجۃ، حاکم، طبرانی عن یعلی وسلمۃ بنی امیہ

39891

39878- قتال المسلم أخاه كفر، وسبابه فسوق."ت 1 حسن صحيح عن ابن مسعود، ن - عن سعد".
٣٩٨٧٨۔۔۔ مسلمان کا اپنے بھائی کو قتل کرنا کافر کے برابر ہے اور اسے گالی دینا کھلاگناہ ہے۔ ترمذی، حسن صحیح عن ابن مسعود، نسائی عن سعد

39892

39879- قتال المسلم كفر، وسبابه فسوق، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام."حم، ع، طب والضياء - عن سعد".
٣٩٨٧٩۔۔۔ مسلمان کو قتل کرنا کفر اور اسے گالی دینا فسق ہے کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے۔ مسند احمد ابویعلی، طبرانی والضیاء عن سعد

39893

39880- قتل المؤمن أعظم عند الله من زوال الدنيا."ن والضياء عن بريدة".
٣٩٨٨٠۔۔۔ مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کے ٹل جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ نسائی والضیاء عن برید ۃ ، کلام :۔۔۔ الاتقان ١٢٣١

39894

39881- لزوال الدنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم."ت "ن - عن ابن عمر".
٣٩٨٨١۔۔۔ دنیا کا ٹل جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی مسلمان کے قتل کرنے سے زیادہ کم حثییت بات ہے۔ ترمذی نسائی عن ابن عمر ۔

39895

39882- أبى الله أن يجعل لقاتل المؤمن توبة."طب والضياء في المختارة - عن أنس".
٣٩٨٨٢۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کے قاتل کے لیے کسی قسم کی توبہ کا ذریعہ بنانے کا انکار کیا ہے۔ طبرانی والضیاء فی المختارہ عن انس

39896

39883- إذا أشار الرجل إلى أخيه بالسلاح فهما على حرف جهنم، فإذا قتله وقعا فيه جميعا."الطيالسي، ن - عن أبي بكرة".
٣٩٨٨٣۔۔۔ آدمی جب اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں پس جب وہ اگلا اسے قتل کردے تو دونوں جہنم میں چلے گئے۔ الطیالسی، نسائی عن ابی بکرۃ

39897

39884- من أشار إلى أخيه بحديدة فإن الملائكة تلعنه وإن كان أخاه لأبيه وأمه."م، ن - عن أبي هريرة" "
٣٩٨٨٤۔۔۔ جو اپنے بھائی کی طرف (دھاری دھار) لوہے سے اشارہ کرتا ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اگرچہ اس کا حقیقی بھائی ہو۔ مسلم، عن ابوہریرہ

39898

39885- لا يشير أحدكم على أخيه بالسلاح، فإنه لا يدري لعل الشيطان ينزع في يده فيقع في حفرة من النار."حم، ق - عن أبي هريرة" "
٣٩٨٨٥۔۔۔ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ اسے علم نہیں کہ ہوسکتا ہے کہ شیطان اس کے ہاتھ سے اچک لے یوں وہ جہنم کے گڑھے میں جاپڑے۔ مسنداحمد، بخاری عن ابوہریرہ

39899

39886- إذا شهر المسلم على أخيه سلاحا فلا تزال ملائكة الله نلعنه حتى يشيمه عنه."البزار - عن أبي بكرة".
٣٩٨٨٦۔۔۔ جب مسلمان اپنے بھائی پر کوئی ہتھیاراٹھاتا ہے تو جب تک وہ نہ ہٹائے فرشتے برابر اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ البزارعن ابی بکرۃ

39900

39887- أول ما يقضي بين الناس يوم القيامة في الدماء."حم ق، ن، هـ عن ابن مسعود".
٣٩٨٨٧۔۔۔ قیامت کے روز لوگوں کے درمیان سب سے پہلے (ذمہ میں واجب) خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مسنداحمد، بخاری، نسائی، ابن ماجۃ عن ابن مسعود

39901

39888- قسمت النار سبعين جزءا فللآمر تسع وستون وللقاتل جزء حسبه."حم - عن رجل".
٣٩٨٨٨۔۔۔ جہنم کو ستر حصوں میں بانٹا گیا ہے ان میں ننا نوے حصے قتل کا حکم دینے والے کے لیے اور ایک حصہ قتل کرنے والے کیلئے ہے۔ مسند احمد عن رجل

39902

39889- كل ذنب عسى الله أن يغفره إلا من مات مشركا أو قتل مؤمنا متعمدا."د "4 عن أبي الدرداء؛ حم، ن، ك - عن معاوية".
٣٩٨٨٩۔۔۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کردے، ہاں جو شرک کرتے مرایاجس نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کیا۔ و ابوداؤد عن ابی الدردائ، مسند احمد، نسائی، حاکم عن معاویۃ

39903

39890- لجهنم سبعة أبواب، باب منها لمن سل سيفه على أمتي."حم، ت عن ابن عمر".
٣٩٨٩٠۔۔۔ جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ اس شخص کے لیے ہے جو مری امت پر تلوارسونتے۔ امسند احمد، ترمذی عن ابن عمر ، کلام۔۔۔ ضعیف، دیکھیں ترمذی ٦٠٦، دیکھیں الجامع ٤٦٦١۔

39904

39891- من حمل علينا السلاح فليس منا."مالك، حم ق " ن، هـ - عن ابن عمر".
٣٩٨٩١۔۔۔ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ مالک، مسنداحمد، بخاری، نسائی، ابن ماجہ عن ابن عمر

39905

39892- من سل علينا السيف فليس منا."حم، م " عن سلمة بن الأكوع".
٣٩٨٩٢۔۔۔ جس نے ہم پر تلوار سونتی وہ ہم میں سے نہیں۔ مسنداحمد، مسلم عن سلمۃ بن الاکوع

39906

39893- لو أن أهل السماء وأهل الأرض اشتركوا في دم مؤمن لكبهم الله عز وجل في النار."ت "عن أبي سعيد وأبي هريرة معا".
٣٩٨٩٣۔۔۔ اگر آسمان و زمین والے کسی مسلمان کے خون کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ انھیں اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔ ترمذی، عن ابی سعید، و ابوہریرہ معا

39907

39894- من أشار بحديدة إلى أحد من المسلمين يريد قتله فقد وجب دمه."ك - عن عائشة".
٣٩٨٩٤۔۔۔ جو قتل کے ارادے سے کسی مسلمان کی طرف لوہے سے اشارہ کرے تو اس کا خون بہاناواجب ہے۔ حاکم عن عائشۃ ، کلام۔۔۔ ضعیف، دیکھیں الجامع ٥٤١٨۔

39908

39895- من أعان على قتل مؤمن بشطر كلمة لقي الله يوم القيامة مكتوب بين عينيه "آيس من رحمة الله"."هـ - عن أبي هريرة".
٣٩٨٩٥۔۔۔ جس نے ایک بات کے ٹکڑے کے ذریعہ بھی کسی مسلمان کے قتل کرنے میں مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا۔ ، آیس من رحمۃ اللہ، اللہ کی رحمت سے مایوس۔ ابن ماجہ، عن ابوہریرہ ، کلام۔۔۔ دیکھیں الوضع فی الحدیث، ج ٢، ص ٤١٥۔

39909

39896- من قتل مؤمنا فاعتبط بقتله لم يقبل الله منه صرفا ولا عدلا."د " والضياء - عن عبادة".
٣٩٨٩٦۔۔۔ جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اس کے قتل پر خوش ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کا فرض قبول کریں گے نہ نفل۔ ابوداؤد والضیاء عن عبادۃ

39910

39897- إن الله أبى علي فيمن قتل مؤمنا ثلاثا."حم، ن، ك عن عقبة بن مالك".
٣٩٨٩٧۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے تین بار مرے سامنے ان لوگوں کو بخشنے سے انکار کیا جنہوں نے کسی مومن کو قتل کیا ہو۔ مسند احمد، نسائی، حاکم عن قبۃ بن مالک

39911

39898- إن استطعت أن تكون أنت المقتول ولا تقتل أحدا من أهل الصلاة فافعل."ابن عساكر - عن سعد".
٣٩٨٩٨۔۔۔ اگر تجھ سے ہوسکے کہ تو مقبول ہو اور کسی نمازی یعنی مسلمان کو قتل نہ کرے تو ایسا ہی کرنا۔ ابن عساکر، عن سعد ، کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں الجامع ١٢٨٦۔

39912

39899- إذا التقى المسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم، فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا."حم، م هـ - عن أبي بكرة".
٣٩٨٩٩۔۔۔ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاراٹھاتا ہے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں۔ تو جب ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے تو وہ دونوں جہنم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مسند احمد، مسلم، ابن ماجۃ عن ابی بکرۃ

39913

39900- إذا سل المسلم على أخيه المسلم سلاحا فلا تزال الملائكة تلعنه حتى يشيمه عنه."طب - عن أبي بكرة".
٣٩٩٠٠۔۔۔ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے خلاف تلوار سونتا ہے تو اس کے نیام تک رکھنے میں فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ طبرانی فی الکبیر عن ابی بکرۃ ، کلام ۔۔۔ ضعیف ہے ، دیکھیں الجامع ص ٥٤٧۔

39914

39901- إن الله لا يحل في الفتنة شيئا حرمه قبل ذلك، ما بال أحدكم يأتي أخاه فيسلم عليه ثم يجيء بعد ذلك فيقتله."طب - عن أبي أمامة".
٣٩٩٠١۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو پہلے سے حرام کررکھا ہے فتنہ میں ان میں سے کسی کو حلال قرار نہیں دیتاتم میں سے کسی کی کیا حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس آتا ہے اسے سلام کرتا ہے اور پھر آکر اسے قتل کردیتا ہے۔ طبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ

39915

39902- إن أول ما يحكم بين العباد في الدماء."ت - عن ابن مسعود" "
٣٩٩٠٢۔۔۔ سب سے پہلے بندوں میں خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ترمذی عن ابن مسعود

39916

39903- لزوال الدنيا أهون عند الله من قتل المؤمن بغير حق."هـ - عن البراء".
٣٩٩٠٣۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہوجاناکسی مسلمان کے ناحق قتل کرنے سے زیادہ کم درجہ ہے۔ ابن ماجۃ عن البرائ، کلام۔۔۔ اسنی المطالب ١١٦٤، التمیز ١٣٢۔

39917

39904- ما من مسلمين التقيا بأسيافهما إلا كان القاتل والمقتول في النار."هـ - عن أنس".
٣٩٩٠٤۔۔۔ جودو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں توقاتل مقتول دونوں جہنمی ہوں گے۔ ابن ماجۃ انس

39918

39905- من مشى إلى رجل من أمتي ليقتله فليقل أهكذا! فالقاتل في النار والمقتول في الجنة."د "" عن ابن عمر".
٣٩٩٠٥۔۔۔ جو شخص مری امت میں سے کسی شخص کے پاس چل کرا سے قتل کرنے جائے تو وہ کہے، کیا اسی طرح ! یعنی ایک مسلمان کے ساتھ یہ سلوک کرے تو اس صورت میں قاتل جہنم میں اور مقتول جنت میں جائے گا۔ ابوداؤد عن ابن عمر، کلام۔۔۔ ضعیف دیکھیں الجامع ص ٥٨٥٧۔

39919

39906- لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الأول كفل من دمها، لأنه أول من سن القتل."حم، ق، ت، ن، هـ - عن ابن مسعود".
٣٩٩٠٦۔۔۔ جو جان بھی ظلما قتل کی جاتی ہے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کی وجہ سے بوجھ ہوگا کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ مسند احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ عن ابن مسعود

39920

39907- لا يزال العبد في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما."حم، خ - عن ابن عمر".
٣٩٩٠٧۔۔۔ آدمی جب تک حرام خون میں مبتلا نہ ہو اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے۔ مسنداحمد، بخاری عن ابن عمر

39921

39908- لا يزال المؤمن معنقا صالحا ما لم يصب دما حراما فإذا أصاب دما حراما بلح "4"د - عن أبي الدرداء وعبادة ابن الصامت"5
٣٩٩٠٨۔۔۔ مومن اس وقت تک بلند گردن اور نیک رہتا ہے جب تک حرام خون میں مبتلا نہ ہو اور جب حرام خون میں مبتلا ہوجاتا ہے تو بےحس و حرکت ہوجاتا ہے۔ ابوداؤد عن ابی الدرداء عبادۃ بن الصامت

39922

39909- يجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: يا رب! هذا قتلني، فيقول الله له: لم قتلته؟ فيقول قتلته لتكون العزة لك، فيقول: فإنها لي، ويجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: أي رب! إن هذا قتلني، فيقول الله: لم قتلته؟ فيقول: لتكون العزة لفلان، فيقول: فإنها ليست لفلان، فيبوء بإثمه."ن - عن ابن مسعود".
٣٩٩٠٩۔۔۔ ایک مردوسرے مردکاہاتھ تھا مے آئے گا۔ وہ کہے گا : اے مرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے اسے کیوں قتل کیا ؟ وہ عرض کرے گا : کہ میں نے اس لیے اسے قتل کیا کہ آپ کے دین کا غلبہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرمائیں عزت و غلبہ تو مرے لیے ہے، اسی طرح ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ تھامے آئے گا۔ وہ عرض کرے گا : اے مرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا (رح) : تو نے اسے کیوں قتل کیا ؟ وہ عرض کرے گا : تاکہ فلاں کے لیے غلبہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو وہ فلاں کے لیے نہیں یوں وہ اپنے گناہ کی وجہ سے (سزا کا) مستحق ہوگا۔ نسائی عن ابن مسعود

39923

39910- يجيء المقتول يوم القيامة متعلقا بقاتله فيقول: يا رب! سل هذا فيم قتلني، فيقول الله: فيم قتلت هذا؟ فيقول: في ملك فلان."ن - عن جندب".
٣٩٩١٠۔۔۔ قیامت کے روز مقتول اپنے قاتل کے ساتھ چمٹ کر آئے گا۔ وہ عرض کرے گا : اے مرے رب ! اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے اسے کس لیے قتل کیا ؟ وہ عرض کرے گا : فلاں کی بادشاہت میں ۔ نسائی عن جندب

39924

39911- يجيء المقتول بالقاتل يوم القيامة ناصيته ورأسه بيده وأوداجه تشخب دما يقول: يا رب! سل هذا فيم قتلني، حتى يدنيه من العرش."ت، ن هـ - عن ابن عباس".
٣٩٩١١۔۔۔ قیامت کے روز مقتول اپنے قاتل کو لے کر آئے گا۔ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ ہوگا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا۔ وہ عرض کرے گا اے مرے رب ! اس سے پوچھیے کہ اس نے مجھے کس لیے قتل کیا ؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے عرش کے قریب کرے گا۔ ترمذی نسائی، ابن ماجۃ عن ابن عباس

39925

39912- الوائدة والموؤدة في النار."د عن أبي سعيد".
٣٩٩١٢۔۔۔ زندہ درگور کرنے والا اور زندہ درگور ہونے والی دونوں جہنم میں ہوں گے۔ ابوداؤد عن ابی سعید ذخیرۃ الحفاظ ٥٩٧٨ کیونکہ دونوں شرک پر تھے۔

39926

39913- الوائدة والموؤدة في النار إلا أن يدرك الوائدة الإسلام فتسلم."حم، ن والبغوي، طب - عن سلمة بن يزيد الجعفي".
٣٩٩١٣۔۔۔ زندہ درگور کرنے والا اور زندہ درگور ہونے والی جہنمی ہیں الایہ کہ زندہ درگور کرنے والااسلام کا زمانہ پاکراسلام قبول کرلے۔ مسند احمد نسائی، البغوی طبرانی فی الکبیرعن سلمۃ بن یزید الجعفی

39927

39914- إذا أشار المسلم إلى أخيه المسلم بالسلاح فهما على حرف جهنم، فإن قتله خرا جميعا فيها."ط، ن، طب، عد - عن أبي بكرة".
٣٩٩١٤۔۔۔ جب مسلمان اپنے مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں پس اگر وہ اسے قتل کردے تو دنوں جہنم میں جاپڑیں گے۔ ابوداؤد طیالسی، نسائی، طبرانی فی الکبیر، ابن عدی فی الکامل عن ابی بکرۃ

39928

39915- ما من مسلم يشهر على أخيه السلاح إلا كانا على حرف جهنم، فإن أغمدا عادا إلى الذي كانا عليه، وإن قتل أحدهما صاحبه دخلا جميعا."ابن عساكر - عن أنس".
٣٩٩١٥۔۔۔ جو مسلمان اپنے بھائی پر ہتھیاراٹھاتا ہے تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں پھر اگر وہ دونوں اپنے ہتھیار نیام میں ڈال لیں تو وہ اسی حالت اسلام پر واپس لوٹ آتے آتے ہیں جس پر وہ تھے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کردے تو دونوں جہنم میں داخل ہوں گے۔ ابن عساکرعن انس

39929

39916- إذا تواجه المسلمان بسيفهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار، قيل: يا رسول الله! هذا القاتل فما بال المقتول؟ قال: إنه أراد قتل صاحبه."ش، حم، ن، طس - عن أبي موسى؛ ن؛ عب - عن أبي بكرة".
٣٩٩١٦۔۔۔ جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایکدوسرے کا رخ کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا توقاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ کسی نے کہا : یہ تو قاتل ہے مقتول ہے مقتول کی کیا غلطی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے اپنے قاتل کردیاتو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ کسی نے کہا : یہ تو قاتل ہے مقتول کی کیا غلطی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے اپنے قاتل کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔ ابن شیبہ، مسند احمد، نسائی، طبرانی فی الاوسط، عن ابی موسیٰ نسائی، عبدالرزاق عن ابی بکرۃ

39930

39917- أما إن الأرض تقبل من هو شر منه ولكن الله أراد أن يريكم عظم الدم عنده."طب - عن عمران بن الحصين؛ طب - عن أبي الزناد بلاغا".
٣٩٩١٧۔۔۔ جہاں تک زمین کا تعلق ہے تو وہ اس سے زیادہ برے شخص کو قبول کرلیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تمہیں اپنے ہاں خون کی بڑائی دکھائے۔ طبرانی فی الکبیر عن عمران بن الحصین، طبرانی فی الکبیر عن ابی الزنادبلاغا یعنی مسلمان کا خون کتنا قیمتی ہے۔

39931

39918- أما بعد فما بال المسلم يقتل المسلم وهو يقول: إني مسلم! أبى الله علي فيمن يقتل مسلما."هـ - عن عتبة بن مالك".
٣٩٩١٨۔۔۔ حمدوثناء کے بعد : مسلمان کو کیا ہے کہ وہ مسلمان کو قتل کرے جب کہ وہ کہتا ہے میں مسلمان ہوں، اللہ تعالیٰ نے مرے سامنے مسلمان کو قتل کرنے والے کی سفارش کرنے کا انکار کیا ہے۔ ابن ماجۃ عن عبۃ بن مالک

39932

39919- نازلت ربي منازلة في أن يجعل لقاتل المؤمن توبة فأبى علي."الديلمي - عن أنس".
٣٩٩١٩۔۔۔ میں نے اپنے رب سے مومن کے قاتل کے بارے بحث کی کہ اس کی توبہ کی کوئی سبیل بنائے تو اللہ تعالیٰ نے انکار کردیا۔ الدیلمی عن انس

39933

39920- سألت ربي عز وجل: هل لقاتل مؤمن من توبة؟ فأبى علي."الديلمي - عن أنس".
٣٩٩٢٠۔۔۔ میں نے اپنے رب عزوجل سے پوچھا کیا، مومن کے قاتل کے لیے کوئی توبہ ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے مرے سامنے انکار کیا۔ الدیلمی عن انس

39934

39921- إن الرجل ليدفع عن باب الجنة أن ينظر إليها بمحجمة من دم يريقه من مسلم بغير حق."ابن منده، طب كر - عن بريدة".
٣٩٩٢١۔۔۔ آدمی خون کے اس پچھنے (سینگی لگانے کی) وجہ سے جو وہ کسی مسلمان کا ناحق بہاتا ہے جنت کو دیکھنے سے اس کے دروازے سے ہٹادیا جاتا ہے۔ ابن مندہ، طبرانی فی الکبیر، ابن عسا کر عن بریدۃ ، کلام۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ٨٨٤۔

39935

39922- لا يحولن بين أحدكم وبين الجنة كف من دم أصابه."طب - عن ابن عمر".
٣٩٩٢٢۔۔۔ ہرگز تم میں سے کسی ایک کے اور جنت کے درمیان ہتھیلی بھرخون حائل نہ ہوج سے وہ بہاتا ہے۔ طبرانی عن ابن عمر

39936

39923- لا يحولن بين أحدكم وبين الجنة وهو ينظر إلى أبوابها ملء كف من دم مسلم يهراقه ظلما."سمويه - عن جندب".
٣٩٩٢٣۔۔۔ ہرگز تم میں سے کسی ایک کے اور جنت کے درمیان، جب کہ وہ جنت کے دروازوں کی طرف دیکھ رہاہو ہتھیلی بھر کسی مسلمان کا خون حائل نہ ہوج سے وہ ظلما بہاتا ہے۔ سمویہ عن جندب

39937

39924- إن إبليس يبعث جنوده كل صباح ومساء فيقول: من أضل رجلا أكرمته، ومن فعل كذا وكذا! فيأتي أحدهم فيقول: لم أزل به حتى طلق امرأته، قال: يتزوج أخرى! فيقول: لم أزل به حتى زنى، فيجيزه ويكرمه ويقول: لمثل هذا فاعملوا، فيأتي آخر فيقول: لم أزل بفلان حتى قتل، فيصيح صيحة يجتمع إليه الجن فيقولون: يا سيدنا! ما الذي فرحك؟ فيقول: حدثني فلان أنه لم يزل برجل من بني آدم يفتنه ويصده حتى قتل رجلا فدخل النار، فيجيزه ويكرمه كرامة لم يكرم بها أحدا من جنوده، ثم يدعو بالتاج فيضعه على رأسه ويستعمله عليهم."حل - عن أبي موسى".
٣٩٩٢٤۔۔۔ ابلیس ہر صبح وشام اپنے لشکر بھیجتا ہے اور کہتا ہے : جو کسی شخص کو گمراہ کرے گا میں اس کی عزت کروں گا، اور جس نے فلاں فلاں کام کیا، تو ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں ایک شخص کے ساتھ چمٹارہایہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، تو ابلیس کہتا ہے : وہ دوسری شادی کرلے گا۔ تو وہ کہتا ہے : میں اس کے ساتھ رہایہاں تک کہ اس نے زنا کیا، تو شیطان اسے انعام دیتا اور اس کا مرتبہ بڑھاتا ہے اور کہتا ہے : کہ اس جیسے کام کیا کرو۔ پھر دوسرا آکرکہتا ہے : میں فلاں کے ساتھ رہایہاں تک کہ اس نے قتل کردیا، تو شیطان زور سے چیختا ہے، جن اس کے پاس جمع ہو کرکہتے ہیں ہمارے آقا ! آپ کس وجہ سے اتنے خوش ہوئے ؟ وہ کہتا ہے : کہ مجھے فلاں نے بتایا کہ وہ ایک انسان کے ساتھ رہا اسے فتنہ میں مبتلا رکھا اور راستہ سے روکتارہا یہاں تک کہ اس نے ایک شخص کو قتل کردیا، جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جائے گا۔ پھر شیطان اسے ایسے انعام و اکرام سے نوازتا ہے کہ پورے لشکر میں سے کسی کو اس جیسا انعام نہیں دیتا، پھر تاج منگواتا ہے اور اسے اس کے سر پر رکھتا ہے اور اسے ان کا نگران بنادیا ہے۔ حیلۃ الاولیاء عن ابی موسنی

39938

39925- إن أعدى الناس على الله من قتل في الحرم أو قتل غير قاتله أو قتل بذحول الجاهلية."حم - عن ابن عمرو".
٣٩٩٢٥۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے زیادہ جراءت کرنے والا وہ ہے جو حرم میں قتل کرے یا اپنے مقتول کے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل کرے، یا جاہلیت کے بدلہ میں کسی کو قتل کرے۔ مسند احمد عن ابن۔ عمرو

39939

39926- " لعن الله من قتل بذحل الجاهلية."ابن جرير – عن مجاهد مرسلا".
٣٩٩٢٦۔۔۔ جو جاہلیت کے بدلہ میں کسی کو قتل کرے اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے۔ ابن جریرعن مجاھد مرسلا

39940

39927- إن من أعتى الناس على الله ثلاثة: رجل قتل غير قاتله، أو قتل بذحل الجاهلية، أو قتل في حرم الله."ابن جرير - عن قتادة مرسلا".
٣٩٩٢٧۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے زیادہ سرکش تین شخص ہیں۔ جو اپنے رشتہ دار کے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل کرے، یا جاہلیت کا بدلہ لینے کے لیے قتل کرے یا اللہ تعالیٰ کے حرم میں قتل کرے۔ ابن جریرعن قتادۃ مرسلا

39941

39928- إن أقرب الخلائق من عرش الرحمن يوم القيامة المؤمن الذي قتل مظلوما، رأسه عن يمينه وقاتله عن شماله وأوداجه تشخب دما يقول: رب! سل هذا فيم قتلني، فيم حال بيني وبين الصلاة."طب - عن ابن عباس".
٣٩٩٢٨۔۔۔ قیامت کے روز رحمن تعالیٰ کے عرش کے نزدیک تروہ مومن ہوگا جسے ظلما قتل کیا گیا، اس کا سرداہنی جانب ہوگا اس کا قاتل بائیں طرف اور اس کی رگوں سے خون پھوٹ رہا ہوگا۔ وہ کہے گا : مرے رب ! اس سے پوچھیے ! کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا، یہ مرے اور نماز کے درمیان کیوں حائل ہوا۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس
قیامت کے روز سب سے پہلے خون کا حساب ہوگا

39942

39929- أول ما يقضى بين الناس يوم القيامة في الدماء يجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: يا رب! هذا قتلني، فيقول: فيم قتلته؟ فيقول: لتكون العزة لك، فيقول: إنها لي؛ ويجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: يا رب! هذا قتلني، فيقول الله: لم قتلت هذا؟ فيقول قتلته لتكون العزة لفلان، فيقول: إنها ليست له يوما ثمه."نعيم بن حماد في الفتن، هب - عن ابن مسعود".
٣٩٩٢٩۔۔۔ قیامت کے روز لوگوں میں سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ ہوگا، ایک شخص ایک آدمی کا ہاتھ تھا مے آئے گا۔ وہ کہے گا (رح) : اے مرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے اسے کیوں قتل کیا ؟ وہ کہے گا تاکہ آپ کے لیے عزت ہو، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے وہ تومرے لیے ہے ہی۔ اور ایک آدمی ایک شخص کا ہاتھ تھامے آئے گا ، وہ عرض کرے گا : اے مرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے اسے کیوں قتل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے اسے اس لیے قتل کیا تاکہ فلاں کے لیے عزت ہو، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : یہاں اس کے لیے آج وہ عزت نہیں۔ نعیم بن حماد فی الفتن۔ بیھقی فی شعب الایمان عن ابن مسعود

39943

39930- ثكلته أمه! رجل قتل رجلا متعمدا يجيء يوم القيامة آخذا قاتله بيمينه أو يساره وآخذا رأسه بيمينه أو بشماله تشخب أوداجه دما في قبل العرش يقول: يا رب! سل عبدك فيم قتلني."حم عن ابن عباس".
٣٩٩٣٠۔۔۔ اس شخص کو اس کی ماں روئے جس نے جان بوجھ کر کسی کو قتل کیا، قیامت کے روز وہ اپنے قاتل کا ہاتھ اپنے دائیں یاہائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے آئے گا اور اپنے سرکو اپنے دائیں یا بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوگا، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ عرش کی جانب ہوگا، وہ کہے گا : اے مرے رب ! اپنے بندے سے پوچھئے کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ مسند احمد عن عباس

39944

39931- يأتي القاتل متعلقا رأسه بأحدى يديه متلببا قاتله بيده الأخرى تشخب أوداجه دما حتى يأتي به تحت العرش فيقول المقتول لله: رب هذا قتلني! فيقول الله للقاتل: تعست! ويذهب به إلى النار."طب - عن ابن عباس".
٣٩٩٣١۔۔۔ مقتول ایک ہاتھ میں اپنا سر اٹھائے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ اسے عرش کے نیچے لے آئے گا۔ پھر مقتول اللہ تعالیٰ سے کہے گا : اے مرے رب اس نے مجھے قتل کیا، اللہ تعالیٰ قاتل سے فرمائیں گے : تو ہلاک ہو۔ پھر اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس

39945

39932- يجيء المقتول آخذا قاتله وأوداجه تشخب دما عند رب العزة فيقول: يا رب! سل هذا فيم قتلني، فيقول: فيم قتلت فلانا؟ قال: قتلت لتكون العزة لفلان، قال: هي لله تعالى."طب عن ابن مسعود".
٣٩٩٣٢۔۔۔ مقتول اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے رب العزت کے پاس آئے گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا۔ وہ عرض کرے گا : اے مرے رب ! اس سے پوچھئے کہ اس نے مجھے کس لیے قتل کیا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تو نے فلاں کو کیوں قتل کیا ؟ وہ کہے گا : میں نے اس لیے قتل کیا تاکہ فلاں کی عزت ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود

39946

39933- يؤتى بالقاتل والمقتول يوم القيامة فيقول: أي رب! سل هذا فيم قتلني، فيقول: أي رب! أمرني هذا، فيأخذ بأيديهما جميعا فيقذفان في النار."طب - عن أبي الدرداء".
٣٩٩٣٣۔۔۔ قیامت کے روزقاتل اور مقتول کو لایا جائے گا۔ وہ کہے گا : اے مرے رب ! اس سے پوچھیے کہ اس نے مجھے کس لیے قتل کیا ؟ وہ عرض کرے گا : اے رب ! اس نے مجھے حکم دیا تھا، تو ان دونوں کے ہاتھوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن الدرداء

39947

39934- يقعد المقتول بالجادة فإذا مر عليه القاتل أخذه فيقول: يا رب! هذا قطع علي صومي وصلاتي، فيعذب القاتل والآمر به."طب - عن أبي الدرداء".
٣٩٩٣٤۔۔۔ مقتول راستہ میں بیٹھا ہوگا جب وہاں سے قاتل گزرے گا تو وہ کہے گا اے میرے رب ! اس نے مرے روزے اور میری نماز روک دی تھیں۔ تو اس وقت قاتل اور اسے قتل کا حکم دینے والے کو عذاب ہوگا۔ طبرانی فی الکبیر، عن ابی الدرداء

39948

39935- من شرك في دم حرام بشطر كلمة جاء يوم القيامة مكتوب بين عينيه آئس من رحمة الله. "طب - عن ابن عباس".
٣٩٩٣٥۔۔۔ جو ایک بات کی وجہ سے بھی کسی حرام خون میں شریک ہوا، وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کی آنکھوں کید رمیان لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس

39949

39936- من أعان على قتل مسلم بشطر كلمة لقي الله يوم القيامة مكتوب في جبهته: آئس من رحمة الله."ابن أبي عاصم في الديات عن أبي هريرة؛ وقال: فيه يزيد بن أبي زياد الشامي منكر الحديث".
٣٩٩٣٦۔۔۔ جس نے ایک بات کے ذریعہ مسلمان کے قتل میں کسی کی مدد کی وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس۔ ابن ابی عاصم فی الدیات عن ابوہریرہ ، وقال فیہ یزید بن ابی زیادالشامی منکرالحدیث ترتیب الموضاعات ٩٠٣، ذخیرۃ الحفاظ ٥١٣٦۔

39950

39937- من أعان على قتل مؤمن بشطر كلمة لقي الله يوم القيامة مكتوب بين عينيه: آئس من رحمة الله"."هـ, ق - عن أبي هريرة؛ طب - عن ابن عباس؛ ابن عساكر - عن ابن عمر؛ ق - عن الزهري مرسلا".
٣٩٩٣٧۔۔۔ جس نے ایک بات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا : اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید۔ ابن ماجہ، بیھقی عن ابوہریرہ ، طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس، ابن عساکرعن ابن عمر، بیھقی عن الزھری مرسلا، کلام :۔۔۔ لآلی ج ٢، ص ١٨٧، الموضوعات ج ٢ ص ١٠٣، ١٠٤

39951

39938- من أعان على دم امرئ مسلم ولو بشطر كلمة كتب بين عينيه يوم القيامة: آئس من رحمة الله."هب - عن ابن عمر".
٣٩٩٣٨۔۔۔ جس نے ایک آدھی بات کے ذریعہ کسی مسلمان آدمی کے قتل میں کسی کی مدد کی تو قیامت کے روز اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا : اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید۔ بیھقی فی شعب الایمان عن ابن عمر، کلام۔۔۔ الوضع فی الحدیث ج ٢ ص ٤١٦۔

39952

39939- يجيء القاتل يوم القيامة مكتوب بين عينيه: آئس من رحمة الله عز وجل."الخطيب - عن أبي سعيد".
٣٩٩٣٩۔۔۔ قیامت کے روز قاتل آئے گا اور اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید۔ الخطیب عن ابی سعید ، کلام۔۔۔ التنزیہ ج ٢ ص ٢٢٥، الوضع فی الحدیث ج ٢ ص ٤١٦۔

39953

39940- إياكم وقاتل الثلاثة! رجل سلم أخاه إلى سلطانه فقتل نفسه وقتل أخاه وقتل سلطانه."الديلمي - عن أنس".
٣٩٩٤٠۔۔۔ خبردار ! تین آدمیوں کے قاتل سے بچو ! وہ شخص جس نے اپنے بھائی کو بادشاہ کے حوالہ کیا، تو اس نے اپنے آپ کو، اپنے بھائی کو اور اپنے بادشاہ کو قتل کیا۔ الدیلمی عن انس

39954

39941- أيما مؤمن آمن مؤمنا على دمه فقتله فأنا من القاتل بريء."د - عن عمرو بن الحمق".
٣٩٩٤١۔۔۔ جس مومن نے کسی مومن کو پناہ دی اور پھر اسے قتل کردیاتو میں قاتل سے بری ہوں۔ ابوداؤد عن عمروبن الحمق

39955

39942- من حمل علينا السلاح فليس منا ولا راصد بطريق."ابن النجار - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
٣٩٩٤٢۔۔۔ جس نے ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں کا نہیں اور نہ وہ کسی راستہ کا انتظار کرنے والا ہے۔ ابن النجار عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

39956

39943- من شهر علينا السلاح فليس منا."ابن النجار - عن كثير بن عبد الله عن أبيه عن جده".
٣٩٩٤٣۔۔۔ جس نے ہم پر ہتھیاربلند کیا وہ ہم میں نہیں۔ ابن النجارعن کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ، کلام :۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ٥٣٧٩

39957

39944- والذي نفس محمد بيده! لقتل مؤمن أعظم عند الله من زوال الدنيا."هب - عن ابن عمرو".
٣٩٩٤٤۔۔۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! کسی مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ٹل جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ بیھقی عن ابن عمر

39958

39945- والذي نفس محمد بيده! لقتل المؤمن أعظم عند الله يوم القيامة من زوال الدنيا."طب - عن عمر".
٣٩٩٤٥۔۔۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! کسی مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے روزد نیا کے ٹل جانے سے زیادہ بھاری ہوگا۔ طبرانی فی الکبیر عن عمر

39959

39946- لزوال الدنيا وما فيها أهون على الله من قتل مسلم بغير حق."ابن عساكر - عن أبي هريرة".
٣٩٩٤٦۔۔۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کا ختم ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناحق کسی مومن کو قتل کرنے سے زیادہ ہلکا ہے۔ ابن عساکرعن ابوہریرہ

39960

39947- لزوال الدنيا جميعا أهون على الله من دم يسفك بغير حق."ابن أبي عاصم في الديات، هب - عن البراء".
٣٩٩٤٧۔۔۔ پوری دنیا ختم ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی کا ناحق خون بہانے سے زیادہ ہلکا ہے۔ ابن ابی عاصم فی الدیات، بیھقی فی شعب الایمان عن البراء

39961

39948- ما من نفس تقتل ظلما إلا كان ابن آدم كفلان من الوزر لأنه أول من سن القتل."ك - عن البراء".
٣٩٩٤٨۔۔۔ جو جان بھی ظلما قتل کی جاتی ہے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے بیٹے قابیل کے لیے گناہ کے دوبوجھ ہوتے ہیں کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ نکالا تھا۔حاکم عن البراء اپنے قتل کا گناہ اور اس کے طریقہ پر عمل کرنے والے کا گناہ۔

39962

39949- لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الأول والشيطان كفلان منها."ابن أبي عاصم - عن ابن مسعود".
٣٩٩٤٩۔۔۔ جو جان ظلما قتل کی جاتی ہے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے اور شیطان پر اس کے دوبوجھ ہوتے ہیں۔ ابن ابی عاصم، عن ابن مسعود

39963

39950- لا حرج إلا في قتل مسلم."الديلمي - عن أبي هريرة".
٣٩٩٥٠۔۔۔ سوائے مسلمان کے کسی کے قتل میں کوئی حرج نہیں۔ (الدیلمی عن ابوہریرہ ) ذمی اس سے مستثنیٰ ہیں۔

39964

39951- لا يزال قلب العبد يقبل الرغبة والرهبة حتى يسفك الدم الحرام، فإذا سفكه نكس قلبه صار كأنه كير محم أسود من الذنب لا يعرف معروفا ولا ينكر منكرا."الديلمي - عن معاذ".
٣٩٩٥١۔۔۔ بندہ کا دل رغبت وخوف کو قبول کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ کوئی حرام خون بہائے پس جب وہ اسے سے بہا دیتا ہے تو اس کا دل الٹا ہوجاتا ہے گویا وہ کوئلے کی بھٹی ہے گناہ کی وجہ سے سیاہ ہوتا ہے نہ کسی نیکی کو پہچانتا ہے اور نہ کسی برائی سے متغیرہوتا ہے۔ الدیلمی عن معاذ

39965

39952- يا أيها الناس! أيقتل قتيل وأنا بين أظهركم لا يعلم من قتله! لو أن أهل السماء والأرض اجتمعوا على قتل رجل مسلم لعذبهم الله بلا عدد ولا حساب."طب، عد، ق - عن ابن عباس".
٣٩٩٥٢۔۔۔ لوگو ! کیا تمہارے بیچ میں مرے ہوتے ہوئے کوئی شخص قتل ہوجاتا ہے اور قاتل کا پتہ نہیں چلتا، اگر آسمان و زمین والے کسی مسلمان شخص کو قتل کرنے پر جمع ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ انھیں بلاحساب وکتاب عذاب دے گا۔ طبرانی فی الکبیر، ابن عدی فی الکامل، بیھقی عن ابن عباس

39966

39953- لو أن أهل السماوات وأهل الأرض اجتمعوا على قتل مسلم لكبهم الله جميعا على وجوههم في النار."طب والخطيب - عن أبي بكرة".
٣٩٩٥٣۔۔۔ اگر آسمان و زمین والے کسی مسلمان کو قتل کرنے پر اتفاق کرلیں تو اللہ تعالیٰ سب کو جہنم میں اوندھے منہ گرائے گا۔ طبرانی قی الکبیر والخطیب عن ابی بکرۃ

39967

39954- لو اجتمع أهل السماوات وأهل الأرض على قتل رجل مؤمن لكبهم الله في النار."هب - عن أبي هريرة".
٣٩٩٥٤۔۔۔ اگر آسمان و زمین والے کسی مسلمان شخص کو قتل کرنے کے لیے یکجا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ انھیں جہنم میں گرائے گا۔ بیھقی فی شعیب الایمان عن ابوہریرہ

39968

39955- والذي نفسي بيده! لو اجتمع على قتل مؤمن أهل السماء وأهل الأرض ورضوا به لأدخلهم الله جميعا جهنم، والذي نفسي بيده! لا يبغضنا أهل البيت أحد إلا كبه الله في النار."حب، ك - وتعقب، ض - عن أبي سعيد".
٣٩٩٥٥۔۔۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مری جان ہے اگر آسمان و زمین والے کسی مسلمان کو قتل کرنے کے لیے اکٹھے اور ضامند ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سب کے سب کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں مری جان ہے، ہم اہل بیت سے جو بھی بغض رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔ ابن جان، حاکم وتعقب سعید بن منصور عن ابی سعید

39969

39956- من قتل عبده قتلناه، ومن جدع عبده جدعناه، ومن خصى عبده خصيناه."ط، ش، حم والدارمي، د، ت: " حسن غريب، ن، ع، هـ, طب، ك، ق، ض - عن سمرة؛ ك عن أبي هريرة".
٣٩٩٥٦۔۔۔ جو اپنے غلام کو قتل کرے گا تو قصاصا ہم اسے قتل کریں گے اور جو اپنے غلام کی ناک کاٹے گا ہم اس کی ناک کاٹیں گے اور جو اپنے غلام کو آختہ کرے گا ہم اسے خصی کریں گے۔ ابوداؤد طیالسی ابن ابی شیبہ، مسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی، حسن غریب، نسائی، ابویعلی، ابن ماجہ، طبرانی فی الکبیر، بیھقی، ضیاء عن سمرہ، حاکم عن بی ہریرہ ، کلام۔۔۔ ضعیف النسائی ٣٧١۔

39970

39957- لا يحل لرجل مسلم أن يجدع عبده ولا يخصيه، ومن بغلامه فعل من ذلك شيئا نفعل به مثله."طب - عن سمرة".
٣٩٩٥٧۔۔۔ کسی مسلمان شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ اپنے غلام کی ناک کاٹے یا اسے خصی کرے، جس نے اپنے غلام سے ان میں سے کوئی بھی برتاؤ کیا تو ہم بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے۔ طبرانی فی الکبیر عن سمرۃ

39971

39958- ما من عبد يلقى الله لا يشرك به شيئا لم يتند بدم حرام إلا دخل الجنة من أي أبواب الجنة شاء."هب - عن عقبة بن عامر".
٣٩٩٥٨۔۔۔ جو بندہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملا کہ کسی حرام خون سے اس کا دامن ترنہ ہو تو وہ جس دروازے سے چاہے گا جنت میں داخل ہوگا۔ بیھقی عن عقبۃ بن عامر

39972

39959- من قتل صغيرا أو كبيرا أو أحرق نخلا أو قطع شجرة مثمرة أو ذبح شاة لإهابها لم يرجع كفافا."حم - عن ثوبان".
٣٩٩٥٩۔۔۔ جس نے کسی چھوٹے یا بڑے کو قتل کیا یا کھجور کا درخت جلایایا کوئی پھلداردرخت کا ٹایا کسی بکری کو اس کی کھال کی خاطر ذبح کیا تو تو وہ بدلہ نہ دے سکے گا۔ مسنداحمد عن ثوبان

39973

39960- إن رجلا ممن كان قبلكم خرجت به قرحة فلما آذاته انتزع سهما من كنانته فنكأها " فلم يرقأ الدم حتى مات، قال الله: عبدي بادرني بنفسه، حرمت عليه الجنة."حم، ق " عن جندب البجلي".
٣٩٩٦٠۔۔۔ تم سے پہلے زمانہ کا کوئی شخص تھا اسے ایک پھوڑانکلا، جب اس کی اسے زیادہ تکلیف ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیرنکالا اور پھوڑاچھیل ڈالا جس سے خون بہتارہا اور وہ مرگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مرے بندہ نے اپنی جان کے بارے میں مجھ سے جلدی کی میں نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (مسند احمد، بیھقی عن جندب البجلی، تقدیر کی دوقسمیں ہوتی ہیں تقدیر مبرم اس کا نام اٹل تقدیر بھی ہے اور تقدیر معلق، جو انسان کے اختیار پر ہوتی ہے۔ مثلا تقدیر مبرم یہ ہے کہ فلاں شخص نے مرنا ہے لیکن وہ آگ میں جھلس کر مرتا ہے تو یہ تقدیر معلق ہوئی۔

39974

39961- الذي يخنق نفسه يخنقها في النار، والذي يطعنها في النار."خ عن أبي هريرة".
٣٩٩٦١۔۔۔ جو شخص پھانسی لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو جہنم میں بھانسی دے گا اور جو اپنے آپ کو نیزہ مارتا ہے، جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ مارے گا۔ بخاری عن ابوہریرہ

39975

39962- من قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا."حم، ق ت، ن هـ - عن أبي هريرة".
٣٩٩٦٢۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو کسی لوہے سے قتل کیا تو وہ لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا۔ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں کھونپے گا۔ اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گا اور جس نے زہر پیا اور خود کشی کرلی تو وہ جہنم میں اسے پئے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔ مسند احمد، بخاری مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ

39976

39963- اذهب فصل عليها فإن امك قتلت نفسا."تمام، كر عن أنس: إن رجلا قال: يا رسول الله! إن أمي أصابها جهد فلم تفطر حتى ماتت قال - فذكره".
٣٩٩٦٣۔۔۔ جاؤ اپنی ماں کا جنازہ پڑھوکیونکہ اس نے خود کشی کی ہے۔ تمام، ابن عساکر حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! مری ماں بےحدمشقت میں تھی پھر انھوں نے روزہ افطار نہیں کیا ، یہاں تک کہ فوت ہوگئیں تو آپ نے فرمایا : جاؤ ! اور یہ حدیث ذکر کی۔
آپ نے بطور وعید ایسا کہا کہ کوئی آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔

39977

39964- أما أنا فلا أصلي عليه."ت - عن جابر بن سمرة: إن رجلا قتل نفسه فقال النبي صلى الله عليه وسلم - فذكره".
٣٩٩٦٤۔۔۔ حضرت جابربن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے خود کسی کرلی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تک مرامعاملہ ہے تو میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔ ترمذی عن جابربن سمرۃ

39978

39965- من قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة."طب - عن ثابت بن الضحاك".
٣٩٩٦٥۔۔۔ جس نے دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو قیامت کے روزا سے اسی سے عذاب دیا جائے گا۔ طبرانی فی الکبیر عن ثابت بن الضحاک

39979

39966- من قتل نفسه بشيء عذب به يوم القيامة في نار جهنم، ومن حلف بملة غير الإسلام كاذبا متعمدا فهو كما قال، ومن قال لمؤمن: يا كافر! فهو كقتله."طب - عن ثابت ابن الضحاك".
٣٩٩٦٦۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو اسے قیامت کے روزاسی سے جہنم کی آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ اور جس نے اسلام کے علاوہ کسی ملت کی جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی تو وہ ایساہی ہوگا جیسا اس نے کہا اور جس نے کسی مومن کو کہا : ارے کافر ! تو یہ کہنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔ طبرانی عن ثابت ابن الضحاک

39980

39967- الذي يخنق نفسه يخنق نفسه في النار، والذي يقتحم يقتحم في النار، والذي يطعن نفسه يطعن نفسه في النار."هب - عن أبي هريرة".
٣٩٩٦٧۔۔۔ جو اپنا گلاگھونٹتا ہے وہ جہنم میں اپنا گلاگھونٹے گا اور جو پانی میں ڈوبتا ہے وہ جہنم میں ڈوبے گا اور جو اپنے آپ کو نیز ہ مارتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیز ہ مارے گا۔ بیھقی فی شعب الایمان

39981

39968- ما من دابة طائر ولا غيره يقتل بغير الحق إلا ستخاصمه يوم القيامة."طب - عن ابن عمرو".
٣٩٩٦٨۔۔۔ جو رینگنے والاجانور اور پرندہ یا کوئی اور ناحق کسی جاندارکوقتل کرے گا، قیامت کے دن مقتول اس سے جھگڑے گا۔ طبرانی عن ابن عمرو، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٥١٦٨۔

39982

39969- من قتل عصفورا بغير حق سأله الله عنه يوم القيامة."حم - عن ابن عمرو".
٣٩٩٦٩۔۔۔ جس نے کسی چڑیاکونا حق ، قتل، کیا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے اس کے بارے میں پوچھیں گے۔ مسند احمد، عن ابن عمرو، کلام۔۔۔ ضعیف النسائی ٥٧٥٠۔

39983

39970- ما من إنسان يقتل عصفورا فما فوقها بغير حقها إلا سأله الله عنها يوم القيامة، قيل: وما حقها؟ قال: أن تذبحها فتأكلها ولا تقطع رأسها فترمي بها."قط - عن ابن عمرو".
٣٩٩٧٠۔۔۔ جو انسان کسی چڑیایا اس سے چھوٹے پرندے کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے بارے میں اس سے پوچھے گا، کسی نے عرض کیا : ان کا حق کیا ہے ؟ فرمایا : تم انھیں ذبح کرو پھر کھالو اور ان کا سرکاٹ کر نہ پھینکو۔ دارقطنی عن ابن عمرو، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ١٥٥٧۔ ضعیف ١٢٩١ لنسائی

39984

39971- من قتل عصفورا عبثا عج إلى الله يوم القيامة منه يقول: يا رب! إن فلانا قتلني عبثا ولم يقتلني لمنفعة."حم، ن، حب عن الشريد بن سويد".
٣٩٩٧١۔۔۔ جس نے فضول کسی چڑیا کسی چڑیا کو قتل کیا، وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے چیخ کرک ہے گی : اے میرے رب ! فلاں نے مجھے بےفائدہ قتل کیا اور کسی فائدے کے لیے قتل نہیں کیا۔ مسند احمد نسائی، ابن جان عن الرشید ابن سوید، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٥٧٥١

39985

39972- لا تمثلوا بالبهائم."ن - عن عبد الله بن جعفر".
٣٩٩٧٢۔۔۔ چوپائیوں کو نشانہ بناؤ۔ نسائی، عن عبداللہ بن جعفر

39986

39973- لا تقتلوا الجراد، فإنه من جند الله الأعظم."طب، هب - عن أبي زهير".
٣٩٩٧٣۔۔۔ ٹدیوں کونہ مارو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشک رہے۔ طبرانی، بیھقی عن ابی زھیر ، کلام۔۔۔ الواضح ٢٦٠٣۔

39987

39974- لا تقتلوا الضفادع فإن نقيقهن تسبيح."ن - عن ابن عمر".
٣٩٩٧٤۔۔۔ مینڈکوں کو مت مارو اس واسطے کہ ان کا ٹرانا تسبیح ہے۔ نسائی ، عن ابن عمر، کلام۔۔۔ تبییض الصحیفہ ٤٧، ذخیرۃ الحفاظ ٦١٢٤۔

39988

39975- من مثل بحيوان فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين."طب - عن ابن عمر".
٣٩٩٧٥۔۔۔ جس نے کسی حیوان کو نشانہ بنایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ طبرانی، عن ابن عمر، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٥٨٥٥

39989

39976- دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش 1 الأرض حتى ماتت."حم، ق، هـ - عن أبي هريرة؛ خ - عن ابن عمر"
٣٩٩٧٦۔۔۔ ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی اس نے اسے باندھے رکھانہ اسے کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے حشرات کھالیتی یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ مسند احمد، بیھقی، ابن ماجۃ عن ابوہریرہ ، بخاری عن ابن عمر

39990

39977- نهى عن قتل أربع من الدواب: النملة والنحلة والهدهد والصرد."حم، د، هـ - عن ابن عباس"
٣٩٩٧٧۔۔۔ چار جانداروں کو قتل کرنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا : چیونٹی، شہد کی مکھی، ھدھد اور لٹورا۔ مسنداحمد، ابوداؤد، ابن ماجۃ، عن ابن عباس، کلام۔۔۔ المعلۃ ١٩٥۔

39991

39978- نهى عن قتل الضفدع للدواء."حم، د، ن، ك - عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي".
٣٩٩٧٨۔۔۔ دوا کے لیے مینڈک کو مارنے سے منع کیا ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، حاکم عن عبدالرحمن بن عثمان الثیمی

39992

39979- نهى عن قتل الصرد والضفدع والنملة والهدهد."هـ - عن أبي هريرة".
٣٩٩٧٩۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لٹورے، مینڈک، چیونٹی اور ھدھد کو مارنے سے منع کیا ہے۔ ابن ماجہ عن ابوہریرہ

39993

39980- نهى عن قتل الخطاطيف."هق - عن عبد الرحمن بن معاوية المرادي مرسلا".
٣٩٩٨٠۔۔۔ چمکادڑوں کو مارنے سے منع کیا ہے۔ بیھقی عن عبدالرحمن معاویۃ المدادی مرسلا، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٦٠٧٤۔

39994

39981- نهى عن قتل كل ذي روح إلا أن يؤذي."طب - عن ابن عباس".
٣٩٩٨١۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ذی روح کو قتل کرنے سے منع کیا ہے الایہ کہ وہ موذی ہو۔ طبرانی عن ابن عباس ، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٦٠٧٥۔

39995

39982- نهى أن تصبر البهائم."ق، د، ن، هـ - عن أنس".
٣٩٩٨٢۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانوروں کو باندھ کر قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ بیھقی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجۃ عن انس

39996

39983- نهى أن يقتل شيء من الدواب صبرا."حم، م، هـ عن جابر".
٣٩٩٨٣۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی بھی جانور کو باندھ کر قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ مسند احمد، مسلم، ابن ماجۃ عن جابر

39997

39984- جزى الله العنكبوت عنا خيرا! فإنها نسجت علي في الغار."أبو سعيد السمان في مسلسلاته، فر - عن أبي بكر".
٣٩٩٨٤۔۔۔ اللہ تعالیٰ مکڑی کو ہماری طرف سے اچھا بدلہ دے اس لیے کہ اس نے مجھ پر غار میں جالاتنا تھا۔ ابوسعید المسان فی مسلسلالتہ، فردوس، عن ابی بکر، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٢٦٢٩، المنیر، ٥٢

39998

39985- مامن أحد يقتل عصفورا إلا عج يوم القيامة يقول: يا رب! هذا قتلني عبثا فلا هو انتفع بقتلي ولا هو تركني فأعيش في أرضك."طب - عن عمرو بن زيد عن أبيه".
٣٩٩٨٥۔۔۔ جو شخص کسی چڑیاکو (ناحق) قتل کرے گا وہ چڑیا قیامت کے روزچیخ کرک ہے گی : اے میرے رب ! اس نے مجھے فضول میں قتل کیا، نہ تو میرے مارنے سے فائدہ اٹھایا اور نہ مجھے چھوڑا کہ میں آپ کی زمین میں رہتی۔ طبرانی، عن عمروبن زیدعن ابیہ

39999

39986- من قتل عصفورا بغير حقه سأله الله تعالى عنه يوم القيامة. قالوا: وما حقه؟ قال: يذبحه ذبحا ولا يأخذ بعنقه فيقطعه."حم، طب والشيرازي في الألقاب، طب، ق - عن ابن عمرو".
٣٩٩٨٦۔۔۔ جس نے کسی چڑیا کو ناحق قتل کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے بارے میں پوچھیں گے، لوگوں نے عرض کیا : اس کا حق کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے اچھی طرح ذبح کرے اور اس کی گردن سے پکڑکرنہ کاٹے۔ مسنداحمد، طبرانی والشیرازی فی الالقاب، طبرانی، بیھقی عن ابن عمرو

40000

39987- أما إنه كان خيرا مما هو صانع بك يوم القيامة، يقول: يا رب! هذا سل فيم؟ قتلني."ن - عن بريدة".
٣٩٩٨٧۔۔۔ بہرکیف وہ ایک بھلائی ہے جو وہ تجھ سے قیامت کے روز کرے گا وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! اس سے پوچھئے، اس نے مجھے کیوں قتل کیا۔ نسائی، عن بریدہ

40001

39988- جزى الله العنكبوت عنا خيرا! فإنها نسجت علي وعليك يا أبا بكر في الغار حتى لم يرنا المشركون ولم يصلوا إلينا."الديلمي - عن أبي بكر".
٣٩٩٨٨۔۔۔ اللہ تعالیٰ مکڑی کو ہماری طرف سے اچھا بدلہ دے، اس لیے کہ اس نے مجھ پر اور ابوبکرتم پر غار میں جالاتنا تھا، جس کی وجہ سے مشرکین نے نہ ہمیں دیکھا اور نہ ہم تک پہنچ سکے۔ الدیلمی، عن ابی بکر، کلام :۔۔۔ الضعیف ١٨٩۔

40002

39989- إذا ظهرت الحية في المسكن فقولوا لها: إنا نسألك بعهد نوح وبعهدي سليمان بن داود أن لا تؤذينا! فإن عادت فاقتلوها."ت - " عن ابن أبي ليلى".
٣٩٩٨٩۔۔۔ جب گھر میں سانپ نکل آئے تو اس سے کہو : ہم تجھ سے نوح (علیہ السلام) اور سلیمان بن داؤد علیہماالسلام کے ساتھ عہد کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہ تو ہمیں اذیت نہیں دے گا، پس اگر وہ پھر لوٹ آئے تو اسے مارڈالو۔ ترمذی، عن ابن ابی لیلی، کلام :۔۔۔ ضعیف الترمذی ٢٥٢، ضعیف الجامع ٥٩٠۔

40003

39990- إن الهوام من الجن، فمن رأى في بيته شيئا فليحرج عليه ثلاث مرات، فإن عاد فليقتله فإنه شيطان."د - عن أبي سعيد".
٣٩٩٩٠۔۔۔ سانپ جنوں میں سے ہیں، جو اپنے گھر میں سے کچھ دیکھے، تو وہ اسے تین مرتبہ بل کی طرف مجبورکرے پس اگر وہ لوٹ آئے توا سے مارڈالے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ ابوداؤد۔ عن ابی سعید ، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ١٨١١۔

40004

39991- إن نفرا من الجن أسلموا بالمدينة فإذا رأيتم أحدا منهم فحذروه ثلاث مرات، ثم إن بدا لكم بعد أن تقتلوه فاقتلوه بعد الثلاث."حم، د - عن أبي سعيد".
٣٩٩٩١۔۔۔ جنوں کا ایک گروہ مدینے میں مسلمان ہوا ہے پس جب ان میں سے تمہیں کوئی نظر آئے تو اسے تین مرتبہ ڈراؤ پھر اگر وہ ظاہرہوتو اسے مارڈالو۔ مسند احمد، ابوداؤد عن ابی سعید

40005

39992- الحية فاسقة، والعقرب فاسقة، والفأرة فاسقة، والغراب فاسق."هـ, ق - عن عائشة".
٣٩٩٩٢۔۔۔ سانپ بچو، چوہا اور کو اکھلے عام اذیت پہنچانے والے ہیں۔ ابن ماجۃ، بیھقی عن عائشۃ (رض)

40006

39993- الحيات مسخ الجن صورة كما مسخت القردة والخنازير من بني إسرائيل."طب وأبو الشيخ في العظمة - عن ابن عباس".
٣٩٩٩٣۔۔۔ سانپ جنات کی مسخ شدہ صورت ہیں، جیسے بنی اسرائیل میں سے خنزیر اور بندر کی صورت مسخ کئے گئے۔ طبرانی وابوالشیخ فی العظمۃ، عن ابن عباس

40007

39994- من قتل حية فكأنما قتل رجلا مشركا قد حل دمه."خط - عن ابن مسعود".
٣٩٩٩٤۔۔۔ جس نے کسی سانپ کو مارا اس نے گویا ایک مشرک مرد کو ماراجس کا خون حلال تھا۔ خطیب۔ عن ابن مسعود

40008

39995- من قتل حية أو عقربا فكأنما قتل كافرا."خط - عن ابن مسعود".
٣٩٩٩٥۔۔۔ جس نے کسی سانپ اور بچھو کو مارا گویا اس نے کافر کو مارا۔ (خطیب عن ابن مسعود)

40009

39996- من قتل حية فله سبع حسنات، ومن قتل وزغة فله حسنة."حم، حب - عن ابن مسعود".
٣٩٩٩٦۔۔۔ جس نے کسی سانپ کو مار اس کے لیے سات نیکیاں ہیں اور جس نے کسی چھپکلی کو مار اس کے لیے ایک نیکی ہے۔ مسنداحمد، ابن حبان عن ابن مسعود

40010

39997- خلق الإنسان والحية سواء، إن رآها أفزعته، وإن لدغته أوجعته، فاقتلوها حيث وجدتموها."الطيالسي - عن ابن عباس".
٣٩٩٩٧۔۔۔ انسان اور سانپ برابر پیداکئے گئے ہیں، اگر اسے دیکھتا ہے تو ڈرجاتا ہے، اگر اسے ڈسے توا سے تکلیف پہنچاتا ہے لہٰذاجہاں بھی اسے پاؤمارڈالو۔ الطیالسی، عن ابن عباس، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٢٨٣٧۔

40011

39998- أربعة من الدواب لا يقتلن: النملة والنحلة والهدهد والصرد."هق - عن ابن عباس".
٣٩٩٩٨۔۔۔ چار جانداروں کو نہیں ماراجاتا، چیونٹی، شہد کی مکھی، ھدھد اور لٹورا۔ بیھقی عن ابن عباس

40012

39999- العنكبوت شيطان فاقتلوه."د في مراسيله - عن يزيد بن مرثد مرسلا".
٣٩٩٩٩۔۔۔ مکڑی شیطان ہے لہٰذا اسے مارڈالو۔ ابوداؤد فی مراسیلہ عن یزید بن مرشدمرسلا، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٣٨٩٧ اللآلی اص ١٦١۔

40013

40000- العنكبوت شيطان مسخه الله تعالى فاقتلوه."عد - عن ابن عمر".
٤٠٠٠٠۔۔۔ مکڑی شیطان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسخ کیا لہٰذا اسے مارڈالو۔ ابن عدی۔ عن ابن عمر کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٣٨٩٨۔

40014

40001- كفاك الحية ضربة بالسوط أصبتها أم أخطأتها."قط في الأفراد - عن أبي هريرة".
٤٠٠٠١۔۔۔ تمہارے لیے سانپ کو کوڑے کی ایک ضرب کافی ہے نشانہ پر ماریاخطاکرو۔ دارقطنی فی الافراد ابوہریرہ

40015

40002- من رأى حية فلم يقتلها مخافة طلبها فليس منا."طب - عن أبي ليلى".
٤٠٠٠٢۔۔۔ جس نے سانپ کو دیکھ کر اس ڈر سے قتل نہیں کیا کہ وہ اس کے پیچھے پڑجائے گا وہ ہم میں سے نہیں ۔ طبرانی فی الکبیر عن ابی لیلی

40016

40003- اقتلوا الحية والعقرب وإن كنتم في الصلاة."طب - عن ابن عباس".
٤٠٠٠٣۔۔۔ اگرچہ تم نماز میں ہو پھر بھی سانپ اور بچھو کو مارڈالو۔ طبرانی عن ابن عباس

40017

40004- اقتلوا الحيات كلهن، فمن خاف ثأرهن فليس مني."د، ن - عن ابن مسعود؛ طب وابن جرير - عن عثمان بن أبي العاص".
٤٠٠٠٤۔۔۔ تمام قسم کے سانپوں کو ماردیاکرو۔ جوان کے بدلہ سے ڈرے وہ میرا نہیں۔ ابوداؤد، نسائی عن ابن مسعود، طبرانی وابن جریرعن عثمان بن ابی العاص

40018

40005- اقتلوا الحية، اقتلوا ذا الطفيتين والأبتر، فإنهما يطمسان البصر ويستسقطان الحبل."حم، ق، د، هـ, ت - عن ابن عمر".
٤٠٠٠٥۔۔۔ سانپ کو قتل کیا کرو اور دو نقطوں والے اور دم کٹے سانپ کو ماراکرو کیونکہ یہ دونوں آنکھ کی تلاش میں رہتے ہیں اور حمل گرادیتے ہیں۔ مسنداحمد، بیھقی، ابوداؤد، ترمذی عن ابن عمر

40019

40006- وقيت شركم ووقيتم شرها."ق، ن - عن ابن مسعود".
٤٠٠٠٦۔۔۔ وہ تمہارے شرے سے بچایا گیا اور تم اس کے شر سے بچائے گئے ۔ بیھقی، نسائی عن ابن مسعود

40020

40007- اقتلوا ذا الطفيتين، فإنه يلتمس البصر ويصيب الحبل."خ - عن عائشة".
٤٠٠٠٧۔۔۔ دو نقطوں والے سانپ کو ماراکرو کیونکہ وہ آنکھ کی تلاش میں رہتا ہے اور حمل گراتا ہے۔ بخاری۔ عن عائشۃ

40021

40008- اقتلوا الحيات والكلاب، اقتلوا ذا الطفيتين والأبتر، فإنهما يلتمسان البصر ويستسقطان الحبل."م - عن ابن عمر".
٤٠٠٠٨۔۔۔ کتوں اور سانپوں کو مارا کرو دو نقطوں والے اور دم کٹے سانپ کو مارا کرو کیونکہ یہ دونوں آنکھ کی تلاش میں رہتے ہیں اور حمل گرادیتے ہیں۔ مسلم، عن ابن عمر

40022

40009- اقتلوا الحيات، فإنا لم نسالمهن منذ حاربناهن."طب عن ابن عمر".
٤٠٠٠٩۔۔۔ سانپوں کو ماراکرو کیونکہ جب سے انھوں نے ہم سے جنگ کی ہے ہم نے ان سے صلح نہیں کی۔ طبرانی عن ابن عمر

40023

40010- اقتلوا الحيات، صغيرها وكبيرها، أسودها وأبيضها فإن من قتلها من أمتي كانت له فداء من النار، ومن قتلته كان شهيدا."طب - عن سراء بنت نبهان".
٤٠٠١٠۔۔۔ چھوٹے بڑے سانپ ماردیا کروچا ہے وہ سیاہ ہوں یاسفید، اس لیے کہ مری امت میں سے جس نے انھیں ماراتویہ اس کے لیے آگ سے چھٹکاراہوں گے اور جسے یہ مار ڈالیں وہ شہید ہوگا۔ طبرانی عن سراء ببنت لبھان، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ١٠٦١۔

40024

40011- الكلب الأسود البهيم شيطان."حم - عن عائشة".
٤٠٠١١۔۔۔ سیاہ کالا کتاشیطان ہے۔ مسنداحمد عن عائشۃ

40025

40012- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها كلها، اقتلوا منها الأسود البهيم."د، ت - عن عبد الله بن مغفل".
٤٠٠١٢۔۔۔ اگر کتے ایک مستقل گرو ونہ ہوتے (بلکہ صرف جنوں سے کتوں کی شکل میں متشکل ہوتے) تو میں ان سب کے قتل کرنے کا حکم دے دیتا (البتہ ان میں سے کالے سیاہ کتے کو مارڈالو۔ ابوداؤد، ترمذی عن عبداللہ بن مغفل ، کلام :۔۔۔ الالحاظ ٢١١۔

40026

40013- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها، كلها، فاقتلوا منها كل أسود بهيم، وما من أهل بيت يربطون كلبا إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط، إلا كلب صيد أو كلب حرث أو كلب غنم."حم، ت ن، هـ - عن عبد الله بن مغفل".
٤٠٠١٣۔۔۔ اگر کتے ایک گروہ نہ ہوتے تو میں ان سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیتا البتہ ان میں کالے سیاہ کو مار ڈالو شکار، کھتی اور بکریوں کے کتے کے علاوہ جو گھروالے بھی کسی کتے کو باندھ کر رکھیں گے ان کے عمل سے ہر روز ایک قیراط کم ہوجائے گا۔ مسنداحمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ عن عبداللہ بن مغفل

40027

40014- لعن الله العقرب! ما تدع المصلي وغير المصلي، اقتلوها في الحل والحرم."هـ - عن عائشة".
٤٠٠١٤۔۔۔ اللہ تعالیٰ بچھوپرلعنت کرے وہ نمازی، غیر نمازی کو نہیں چھوڑتا اسے حل وحرم میں ماردیاکرو۔ ابن ماجۃ عن عائشۃ

40028

40015- لعن الله العقرب! ما تدع نبيا ولا غيره إلا لدغتهم."هب - عن علي".
٤٠٠١٥۔۔۔ اللہ تعالیٰ بچھوپرلعنت کرے وہ نبی اور غیر نبی کو نہیں چھوڑتاہر ایک کو ڈس لیتا ہے۔ بیھقی عن علی

40029

40016- من قتل وزغا كفر الله عنه سبع خطيئات."طس عن ابن عباس".
٤٠٠١٦۔۔۔ جس نے چھپکلی کو قتل کیا اللہ تعالیٰ اس کی سات خطائیں دورکردے گا۔ طبرانی فی الاوسط عن ابن عباس ، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٥٧٥٣۔

40030

40017- الوزغ فويسق."ن، حب - عن أبي هريرة".
٤٠٠١٧۔۔۔ چھپکلی براجانور ہے۔ نسائی۔ ابن حبان عن ابوہریرہ

40031

40018- اقتلوا الوزغ ولو في جوف الكعبة."طب - عن ابن عباس".
٤٠٠١٨۔۔۔ چھپکلی کو مارڈالو اگرچہ وہ کعبہ میں ہو۔ طرانی عن ابن عباس، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ١٠٦٢۔

40032

40019- من قتل وزغا في أول ضربة كتبت له مائة حسنة ومن قتلها في الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة، ومن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة."د، ت، هـ, حم - عن أبي هريرة".
٤٠٠١٩۔۔۔ جس نے پہلی بار میں چھپکلی کو مارڈالا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دوسری ضرب میں رڈالا اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے تیسری ضرب میں سے مارڈالا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دوسری ضرب میں مارڈالا اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے تیسری ضرب میں اسے مارڈالا کی انتی انتی نیکیاں ہیں۔ ابودؤد، نسائی۔ ابن ماجۃ، مسند اجسد عن ابوہریرہ

40033

40020- إن إبراهيم لما ألقي في النار لم تكن في الأرض دابة إلا أطفأت النار عنه غير الوزغ فإنها كانت تنفخ عليه."حم، هـ, حب - عن عائشة".
٤٠٠٢٠۔۔۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب آگ میں ڈالے گئے توہرجاندارنے جو زمین پر تھا آگ بجھانے کی کوشش کی سوائے چھپکلی کے کچھ اس نے آگ کو مزید پھونکا ۔ مسند احمد، ابن ماجۃ ابن حباں عن عائشۃ

40034

40021- السنور من أهل بيت وإنه من الطوافين والطوافات عليكم."حم - عن قتادة".
٤٠٠٢١۔۔۔ بلی گھریلوجانور ہے اور وہ تمہارے پاس آنے والے اور آنے والیوں جیسی ہے۔ مسند احمد عن قتادۃ

40035

40022- إن الله تعالى لم يجعل لمسخ نسلا ولا عقبا، وقد كانت القردة والخنازير قبل ذلك."حم، م - عن ابن مسعود".
٤٠٠٢٢۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے کسی مسخ شدہ قوم کی نسل اور اولاد نہیں چھوڑی خنز یر اور بندرپہلے سے تھے۔ مسند احمد، مسلم عن ابن مسعود

40036

40023- فقدت أمة من بني إسرائيل لا يدرى ما فعلت! وإني لا أراها إلا الفأر، ألا ترونها إذا وضع لها ألبان الإبل لم تشرب، وإذا وضع لها ألبان الشاة شربت."حم، ق - عن أبي هريرة".
٤٠٠٢٣۔۔۔ بنی اسرائیل کا ایک گروہ گم ہوگیا اس کے بارے میں علم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ ؟ مجھے لگتا ہے وہ چوہے ہی ہیں۔ کیا تم انھیں دیکھتے نہیں کہ جب ان کے سامنے اونٹوں کا دودھ رکھاجائے تو نہیں پیتے، اور جب بکریوں کا دودھ رکھاجائے توپی لیتے ہیں۔ مسنداحمد، بخاری مسلم عن ابوہریرہ

40037

40024- ما مسخ الله من شيء فكان له عقب ونسل."طب عن أم سلمة".
٤٠٠٢٤۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی مسخ کی تو اس کی نسل اواولاد نہیں ہوئی۔ طبرانی فی الکبیرعن ام سلمۃ

40038

40025- اقتلوا الحيات كلها، من تركها خشية ثأرها فليس منا."طب - عن إبراهيم بن جرير عن أبيه؛ طب – عن عثمان بن أبي العاص".
٤٠٠٢٥۔۔۔ تمام قسم کے سانپوں کو قتل کیا کرو، جس نے ان کے انتقام کے ڈر سے انھیں چھوڑدیاوہ ہم میں کا نہیں۔ طبرانی فی الکبیرعن ابراہیم بن جریرعن ابیہ، طبرانی عن عثمان بن ابی العاصی

40039

40026- اقتلوا الحيات، فمن وجد ذات الطفيتين والأبتر فلم يقتلها فليس منا، فإنهما اللذان يخطفان البصر ويسقطان ما في بطون النساء."طب - عن " ابن عمر".
٤٠٠٢٦۔۔۔ سانپوں کو ماراکروجس نے دو نقطوں والا اور دم کٹاسانپ دیکھا اور پھر انھیں مارا نہیں تو وہ ہم میں کا نہیں کیونکہ یہ دونوں آنکھ پر حملہ کرتے اور عورتوں کے پیٹ میں جو حمل ہوتا ہے اسے گرادیتے ہیں طبرانی فی الکبیر عن ابن عمر

40040

40027- وقيت شركم كما وقيتم شرها."خ، م، ن - عن ابن مسعود قال: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت علينا حية فقال: اقتلوها! فابتدرنا فذهبت قال - فذكره".
٤٠٠٢٧۔۔۔ تم اس کے شرے اور وہ تمہارے شرے بچا لیا گیا ۔ بخاری، مسلم، نسائی عن ابن مسعود فرمایا ہیں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک سانپ ہم پر اگر آپ نے فرمایا، سانپ کو مارو ! ہم لوگ اس کی طرف بڑھے مگر وہ بل میں چلا گیا تو اس پر نے یہ ارشاد فرمایا۔

40041

40028- اقتلوا العقرب والحية على كل حال."عب - عن الحسن مرسلا".
٤٠٠٢٨۔۔۔ ہر حال میں سانپ اور بچوکومارڈالو۔ عبدالرزاق عن الحسن مرسلا۔

40042

40029- إن لبيوتكم عمارا فحرجوا عليهن ثلاثا، وإن بدا لكم بعد ذلك منهن شيء فاقتلوه."ت - عن أبي سعيد".
٤٠٠٢٩۔۔۔ تمہارے گھروں میں کچھ رہنے والے ہوتے ہیں۔ انھیں تین بارتنگی میں مبتلا کرو اگر اس کے بعد بھی وہ تمہارے سامنے آجائیں تو مارڈالو۔ ترمذی عن ابی سعید
٤٠٠٣٠۔۔۔ جس نے سانپ کو دیکھ کر، اس سے ڈرتے ہوتے نہیں ماراوہ مرا امتی نہیں۔ طبرانی عن ابراھیم بن جریر عن ابیہ

40043

40030- من رأى حية فلم يقتلها خوفا منها فليس مني."طب عن إبراهيم بن جرير عن أبيه".
40030 ۔۔۔ جس نے سانپ کو دیکھ کر اس سے ڈرتے ہوئے نہیں مارا وہ میرا امتی نہیں ۔ طبرانی عن ابراہیم بن جریر عن ابیہ۔

40044

40031- من قتل حية فله سبع حسنات، ومن قتل وزغة فله حسنة، ومن ترك حية خشية الطلب فليس منا."حم، طب، حب - عن ابن مسعود، ك، ق - ابن عمرو".
٤٠٠٣١۔۔۔ جس نے سانپ مارا اس کے لیے سات نیکیاں ہیں اور جس نے ایک چھپکلی ماری اس کے لیے ایک نیکی ہے اور جس نے سانپ کو اس لیے چھوڑ دیا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائے گا وہ ہمارا نہیں۔ مسند احمد، طبرانی، ابن حبان عن ابن مسعود، حاکم، بخاری مسلم ابن عمرو

40045

40032- من قتل حية فكأنما قتل كافرا من أهل الحرب، ومن قتل زنبورا كتبت له ثلاث حسنات ومحي عنه مثلها سيئات، ومن قتل عقربا كتبت له سبع حسنات ومحي عنه مثلها سيئات."الديلمي - عن ابن مسعود".
٤٠٠٣٢۔۔۔ جس نے کسی سانپ کو ماراتوگویا اس نے کسی حربی کافر کو مارا اور جس نے کسی بھڑکوماراتو اس کے لیے تین نیکیاں لکھی جائیں گی اتنی ہی خطائیں مٹائی جائیں گی اور جس نے کسی بچھو کو ماراتو اس کے لیے سات نیکیاں لکھی جائیں گی اور اتنی ہی خطائی مٹائی جائیں گی۔ الدیلسی عن ابن مسعود

40046

40033- الحيات ما سالمناهن منذ حاربناهن، فمن ترك شيئا من خيفتهن فليس منا."حم - عن أبي هريرة" "
٤٠٠٣٣۔۔۔ سانپوں سے جب سے ہم نے جنگ چھیڑ رکھی ہے صلح نہیں کی، تو جس نے ان میں کسی کو ان کے خوف کی وجہ سے چھوڑ اور ہمر میں کا نہیں۔ مسنداحمد، عن ابوہریرہ

40047

40034- يا أبا رافع! اقتل كل كلب بالمدينة."حم - عن الفضل بن عبد الله بن أبي رافع عن أبي رافع".
٤٠٠٣٤۔۔۔ ابورافع ! مدینہ میں جتنے کتے ہیں ان سب کو مراڈالو۔ مسنداحمد، عن الفضل بن عبداللہ بن ابی رافع عن ابی رافع

40048

40035- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها."حب - عن جابر".
٤٠٠٣٥۔۔۔ اگر کتے ایک گروہ نہ ہوتے تو میں ان کو قتل کرنے کا حکم دے دیتا۔ ان حبان عن جابر

40049

40036- لولا أن الكلاب أمة من الأمم أكره أفنيها بقتلها لأمرت، فاقتلوا منها كل أسود بهيم فإنه شيطان، ولا تصلوا في معاطن الإبل فإنها خلقت من الجن، ألا ترون إلى هيئتها وإلى عيونها إذا نظرت، وصلوا في مرابض الغنم فإنها أقرب إلى الرحمة."طب - عن عبد الله بن مغفل المزني".
٤٠٠٣٦۔۔۔ اگر کتے ایک گروہ نہ ہوتے مجھے ناپسند ہے کہ میں انھیں قتل کے ذریعے فنا کردیتاتو میں حکم دے دیتالہٰذا ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مارڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھاکرو کیونکہ یہ جنون سے پیداکئے گئے ہیں کیا تم ان کی ہیئت اور آنکھوں کو نہیں دیکھتے جب یہ دیکھتے ہیں۔ اور بکری کے باڑوں میں نماز پڑھ لیاکرو کیونکہ وہ رحمت کے زیادہ قریب ہیں۔ طبرانی فی الکبیر عن عبداللہ بن مغفل المزنی

40050

40037- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها، فاقتلوا منها كل أسود بهيم، وما من أهل بيت يرتبطون كلبا إلا نقص من عملهم كل يوم قيراط إلا كلب صيد أو كلب حرث أو كلب غنم."حم، ت " حسن؛ ن، هـ - عن عبد الله بن مغفل".
٤٠٠٣٧۔۔۔ اگر کتے ایک گروہ نہ ہوتے تو میں انھیں قتل کرنے کا حکم دے دیتا، لہٰذا ان میں سے سیاہ کالے کتے کو مارڈالو، جو گھروالے کوئی کتاباندھ کر رکھتے ہیں تو ان کے عمل سے ہر روز ایک قیراط کم ہوجاتا ہے ہاں جوکتاشکار، کھیتی اور بکریوں والا ہو۔ مسنداحمد، ترمذی حسن، نسائی۔ ابن ماجہ عن عبداللہ بن مغفل

40051

40038- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها، فاقتلوا منها كل أسود بهيم، ومن اقتنى كلبا بغير صيد ولا زرع ولا غنم آوى إليه كل يوم قيراط مثل أحد، وإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات إحداهن بالبطحاء."طس - عن علي".
٤٠٠٣٨۔۔۔ اگر کتے ایک گروہ نہ ہوتے تو میں انھیں مار ڈالنے کا حکم دے دیتا، البتہ ان میں سے سیاہ کالے کتے کو مارڈالا کرو، جس نے شکار، کھیتی اور بکری کے کتے کے علاوہ کوئی کتاپالا توروزانہ اس سے ایک قیراط احد کی مقدار نکل جائے گا۔ جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتامنہ ڈال دے توا سے سات مرتبہ دھولیاکرو ایک مرتبہ منی سے۔ طبرانی فی الاوسط علی

40052

40039- عليكم بالأسود البهيم ذي النقطتين فإنه شيطان."م " حب - عن جابر قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن قتل الكلاب وقال - فذكره".
٤٠٠٣٩۔۔۔ سیاہ کالے دو نقطوں والے کتے کونہ چھوڑومارڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے۔ مسلم ابن حبان عن جابر ، فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو مارنے سے روکا اور ارشاد فرمایا، پھر یہ حدیث ذکر کی۔

40053

40040- لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتل كل أسود بهيم، فاقتلوا المعينة من الكلاب فإنها الملعونة من الجن."طب - عن ابن عباس".
٤٠٠٤٠۔۔۔ اگر کتے ایک مخلوق نہ ہوتے تو میں ہر کالے کتے کو مار ڈالنے کا حکم دے دیتالہٰذا ان میں خاص کتوں کو مارڈالو کیونکہ وہ ملعون، جنوں میں سے ہیں۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس

40054

40041- كان ينفخ على إبراهيم."خ - عن أم شريك قالت أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الوزغ وقال - فذكره".
٤٠٠٤١۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا، فرمایا : یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔ بحاری عن ام شریک

40055

40042- من قتل وزغا في أول ضربة كتبت له مائة حسنة ومن قتلها في الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة لدون الأولى، ومن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة لدون الثانية."حم، م "" د، ت، هـ - عن أبي هريرة".
٤٠٠٤٢۔۔۔ جس نے پہلی بار میں چھپکلی کو مارڈالا اس کے لیے سونکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دوسری بار میں مارا اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں پہلے کے علاوہ اور جس نے تیسری ضرب میں اسے مارڈالا اس کے لیے دوسرے کے علاوہ اتنی اتنی نیکیاں ہیں۔ مسنداحمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجۃ عن ابوہریرہ

40056

40043- إن شر هذه السباع الأثعل."دو؟ ابن سعيد - عن سالم بن وابصة".
٤٠٠٤٣۔۔۔ ان درندوں میں سب سے برا جانور لومڑی ہے۔ ابوداؤد وابن سعد عن سالم بن وابصۃ

40057

40044- ألا إن شر هذه السباع الأثعل - يعني الثعالب. "ابن راهويه والحسن بن سفيان وابن منده والبغوي - عن سالم بن وابصة وضعفه البغوي وقال: ماله غيره؛ ابن منده وابن عساكر - عن سالم بن وابصة؛ ابن معبد عن أبيه، قالوا: وهو الصواب".
٤٠٠٤٤۔۔۔ سنو ! ان درندوں میں سب سے برا جانور لومڑی ہے۔ ابن راھویہ والحسن بن سفیان وابن مندہ والبغوی عن سالم بن وابصہ وضعفہ بغوی وقال مالہ غیرہ : ابن مندہ وابن عساکرعن سالم بن وابصہ، ابن معبد عن ابیہ ، قالوا، ھوالصواب

40058

40045- بلغني أن أمة فقدت ولا أراها إلا الفأر، وإذا أردتم أن تعرفوا ذلك فضعوا لها لبن غنم ولبن بخت فإنها تأكل لبن الغنم وتدع لبن البخت."الديلمي - عن أبي سعيد".
٤٠٠٤٥۔۔۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک قوم گم ہوگئی میں تو انھیں چوہے ہی سمجھتا ہوں، جب تم یہ جاننا چاہوتو ان کے لیے بکریوں کا دودھ رکھو اور ساتھ اونٹینیوں کا دودھ بھی رکھو چنانچہ وہ بکریوں کا دودھ پی لیں گے اور اونٹنیوں کا دودھ چھوڑدیں گے۔ الدیلمی عن ابی سعید

40059

40046- كل شيء سوى الحديدة خطأ، ولكل خطأ أرش."طب - عن النعمان بن بشير".
٤٠٠٤٦۔۔۔ لوہے کے سواہرچیز سے قتل قتل خطا ہے اور ہر خطاکاہرجانہ ہے۔ طبرانی فی الکبیر عن النعمان بن بشیر، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٤٢٣٤، الکشف الالہی ٦٦١۔

40060

40047- ألا! إن قتيل الخطأ شبه العمد بالسوط والعصا، فيه مائة من الإبل مغلظة، منها أربعون خلفة في بطونها أولادها."ن، هق - عن ابن عمر".
٤٠٠٤٧۔۔۔ آگاہ رہو ! غلطی سے مقتول شخص (کا قتل) کودے اور لاٹھی کے ذریعہ قصد اقتل کے مشابہ ہے جس میں سو اونٹ ہیں جن کی تاکید کی جاتی ہے۔ ان میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں۔ نسائی، بیھقی۔ عن ابن عمر

40061

40048- من قتل في عميا في رمي يكون بينهم بحجارة أو بالسياط أو ضرب بعصا فهو خطأ، وعقله عقل الخطأ، ومن قتل عمدا فهو قود، ومن حال دونه فعليه لعنة الله وغضبه، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا."د، ن " عن ابن عباس".
٤٠٠٤٨۔۔۔ جو اندھی لڑائی میں مارا گیا جوان کے درمیان پتھراؤ، کوڑے مارنے یالاٹھی چلنے سے ہو تو یہ (قتل) خطا ہے۔ جس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی اور، جس نے جان بوجھ کر کسی کو قتل کیا تو اس میں قصاص ہے، جو قصاص دالوئی میں رکاوٹ بنا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب ہو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کریں گے اور نہ اس کا فدیہ۔ ابوداؤد، نسائی، عن ابن عباس

40062

40049- من قتل في عميا أو رميا يكون بينهم بحجر أو سوط فعقله عقل خطأ، ومن قتل عمدا فهو قود يديه، فمن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين."د، ن، هـ عن ابن عباس"
٤٠٠٤٩۔۔۔ جو شخص اندھا دھند لڑائی میں مارا گیا جو ان کے درمیان تیراندازی پتھراؤ یا کوڑوں کے ذریعہ ہوئی ہو تو اس کی دیت (قتل) خطا کی دیت ہے اور جس نے جان بوجھ کر کسی کو قتل کردیا تو (اس کی سزا) قصاص ہے جو اس کی ادائیگی میں حائل ہوا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔ ابوداؤد، نسائی، ابن ماجۃ عن ابن عباس

40063

40050- من قتل له قتيل فهو بخير النظرين: إما أن يقاد، وإما أن يفدى."ن، هـ - عن أبي هريرة".
٤٠٠٥٠۔۔۔ جس کا کوئی (رشتہ دار) شخص مارا جائے توا سے دو باتوں کا اختیار ہے یا توقصاص لے یافدیہ۔ نسائی، ابن ماجۃ عن ابوہریرہ

40064

40051- من قتل خطأ فديته مائة من الإبل: ثلاثون بنت مخاض، وثلاثون حقة، وعشرة بني لبون ذكور."حم، ن - عن ابن عمر"
٤٠٠٥١۔۔۔ جو شخص غلطی سے قتل کیا گیا اس کی دیت سو اونٹ ہیں تیس یکسالے تیس تین سالے اور دس دو سالے۔ مسند احمد، نسائی عن ابن عمر کلام :۔۔۔ ضعاف الدارقطنی ٦٨٧۔

40065

40052- في دية الخطأ عشرون حقة، وعشرون جذعة، وعشرون بنت مخاض، وعشرون بنت لبون، وعشرون بني مخاض ذكورا."د - عن "" عن ابن مسعود".
٤٠٠٥٢۔۔۔ قتل خطا کی دیت (١) بیس تین سالے، (٢) بیس چار سالے، (٣) بیس یک سالے، (٤) بیس دو سالے اور (٥) بیس نریکسالے۔ ابوداؤد عن ابن مسعود

40066

40053- عقل شبه العمد مغلظ مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه."د "" عن ابن عمرو".
٤٠٠٥٣۔۔۔ جان بوجھ کر قتل کرنے کے مشابہ قتل کی دیت جان بوجھ کر قتل کرنے کی طرح سخت ہے اور اس دیت والا شخص قتل کیا جائے گا۔ ابوداؤدعن ابن عمرو

40067

40054- على كل بطن عقولة."حم، م - عن جابر".
٤٠٠٥٤۔۔۔ ہر بطن پر دیت ہے۔ مسنداحمد، مسلم عن جابر فائدہ۔ انساب عرب کے چھ مراتب ہیں۔ شعب، قبیلہ، عمارۃ، بطن، فخد فصیلہ شعب پہلانسب جیسے عدنان، قبیلہ جس میں شعب کے انساب منقسم ہوں عمارہ جس میں قبیلہ کے انساب منقسم ہوں۔ بطن جس میں عمارہ کے انساب منقسم ہوں، فخذجس میں بطن کے انساب منقسم ہوں، فیصلہ جس میں فخذ کے انساب سماجائیں اس لحاظ سے خزیمہ شعب، کنانہ قبیلہ قریش عمارہ، قصی بطن اور ہاشم فخذ اور عباس فصیلہ ہیں۔ القانون فی اللغہ مطبوعہ نور محمد کتب خانہ آرام کراچی

40068

40055- عقل المرأة مثل عقل الرجل حتى يبلغ الثلث من ديتها."ن - عن ابن عمرو".
٤٠٠٥٥۔۔۔ عورت کی دیت مرد کی دیت جیسی ہے یہاں تک کہ اس کی ثلث دیت کے برابر ہوجائے۔ نسائی عن ابن عمرو، کلام :۔۔۔ ضعیف النسائی ٣٣٥، ضعیف الجامع ٣٧١٩۔

40069

40056- عقل أهل الذمة نصف عقل المسلمين."ن - عن ابن عمرو".
٤٠٠٥٦۔۔۔ ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف حصہ ہے۔ نسائی عن ابن عمرو

40070

40057- العقل على العصبة، وفي السقط غرة عبد أو أمة."طب - عن حمل بن النابغة".
٤٠٠٥٧۔۔۔ دیت عصبہ پر ہے اور ناتمام بچہ کی وجہ سے ایک غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا ہے۔ طبرانی فی الکبیر عن حمل بن النابغۃ

40071

40058- لا تجعلوا على العاقلة من قول معترف شيئا."طب عن عبادة بن الصامت".
٤٠٠٥٨۔۔۔ دیت ادا کرنے والوں پر کسی اعتراف کردہ بات کا الزام نہ لگاؤ۔ طبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت ، کلام :۔۔۔ ضعیف الجامع ٦١٩٦، الکشف الا لٰہی ١١٣٥۔

40072

40059- دية المعاهد نصف دية الحر."د - عن ابن عمرو" "
٤٠٠٥٩۔۔۔ معاہد کی دیت آزاد کی دیت کا نصف حصہ ہے۔ ابوداؤد عن ابن عمرو

40073

40060- دية عقل الكافر نصف عقل المؤمن."ت - عن ابن عمرو".
٤٠٠٦٠۔۔۔ کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے۔ ترمذی عن ابن عمرو

40074

40061- دية المكاتب بقدر ما عتق منه دية الحر، وبقدر ما رق منه دية العبد."طب - عن ابن عباس".
٤٠٠٦١۔۔۔ مکاتب غلام کی دیت آزاد کی دیت کا اتنی مقدار ہے جس سے وہ آزاد ہوجائے اور غلام کی دیت کا اتناحصہ ہے جس سے وہ غلام بن جائے۔ یعنی جتنی سے آزاد اور غلام جتنی سے خریدا جاسکتا ہو۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس

40075

40062- دية الذمي دية المسلم."طس - عن ابن عمر".
٤٠٠٦٢۔۔۔ ذمی کی دیت مسلمان کی دیت (کی طرح) ہے۔ طبرانی فی الا وسط ابن عمر

40076

40063- درهم أعطيه في عقل أحب إلي من مائة في غيره."طس - عن أنس".
٤٠٠٦٣۔۔۔ وہ ایک درہم جو میں کسی دیت میں اداکروں یہ مجھے دیت کے علاوہ میں سودارہم دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ طبرانی فی الاوسط عن انس ، کلام (رح) :۔۔۔ ضعیف الجامع ٢٩٦٧۔

40077

40064- من قتل متعمدا فإنه يدفع إلى أهل القتيل، فإن شاؤا قتلوا، وإن شاؤا أخذوا العقل دية المسلم، وهي مائة من الإبل: ثلاثون حقة، وثلاثون جذعة، وأربعون خلفة؛ فذلك للعمد إذا لم يقتل صاحبه."عب - عن ابن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده مرسلا؛ عب - عن الشعبي عن أبي موسى الأشعري والمغيرة ابن شعبة".
٤٠٠٦٤۔۔۔ جو جان بوجھ کر (کسی کو) قتل کرے تو اسے مقتول کے رشتہ داروں کے حوالہ کیا جائے گا۔ چاہیں تو اسے قتل کریں، چاہیں تو مسلمان کی دیت اس سے وصول کریں۔ جو سو اونٹ بنتی ہے۔ تیس ٣٠ تین سالے، تیس ٣٠ چار سالے اور چالیس گابھن اونٹنیاں، یہ اس صورت میں ہے قتل قتل عمد ہو اور قاتل کو قتل نہ کیا جائے۔ عبدالرزاق عن ابن عمروبن شیبہ عن ابیہ عن جدہ مرسلا، عبدالرزاق، عن الشعبی عن ابی موسیٰ الاشعری والمغیر ۃ ابن شعبۃ

40078

40065- ألا! إن قتيل الخطأ شبه العمد بالسوط والعصا، فيه مائة من الإبل مغلظة، منها أربعون خلفة في بطونها أولادها."الشافعي، ن، ق - عن ابن عمر".
٤٠٠٦٥۔۔۔ آگاہ رہو ! غلطی سے قتل (کئے جانے والے کی دیت) قصدا کوڑے اور لاٹھی سے (قتل کرنے کے) مشابہ ہے، جس میں صرف سو اونٹ ہیں چالیس ان میں سے ایسی گابھن اونٹنیاں ہیں جن کے بچے ان کے پیٹوں میں ہوں۔ رواہ الشافعی

40079

40066- ألا! إن دية الخطأ شبه العمد بالسوط والعصا مغلظة مائة من الإبل، منها أربعون خلفة في بطونها أولادها، ألا إن كل دم ومال ومأثرة كانت في الجاهلية تحت قومي، إلا ما كان من سقاية الحاج وسدانة البيت فإني قد أمضيتها لأهلها."حم، ق - عن ابن عمر".
٤٠٠٦٦۔۔۔ خبردار ! (قتل) خطا کی دیت اس قتل عمد کی طرح ہے جو کوڑوں اور لاٹھیوں کے ذریعہ ہو، جس میں سو اونٹ (واجب الادائ) ہیں ان میں سے چالیس حاملہ اونٹیاں ہوں، آگاہ رہوہروہ خون، مال اور نقل جو جاہلیت میں تھی، وہ مرے قدموں تلے ہے۔ اور یہ بھی سن رکھو ! کہ حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی جو خدمت تھی میں نے اسے انہی لوگوں کے لیے باقی رکھا ہے۔ مسنداحمد، بخاری مسلم عن ابن عمر

40080

40067- شبه العمد مغلظة ولا يقتل به صاحبه، وذلك أن ينزو الشيطان بين القبيلة فيكون بينهم رمي الحجارة في عمياء غير ضغينة ولا حمل سلاح."ق - عن ابن عباس؛ ق - عن ابن عمرو؛ عب - عن عمرو بن شعيب مرسلا".
٤٠٠٦٧۔۔۔ شبہ العمد (قتل کی دیت) پکی ہے جس کی وجہ سے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ ہوتایوں ہے کہ دوقبیلوں کے درمیان شیطان کو دپڑتا ہے اور پھر ان کے مابین اندھا دھند پتھراؤبغیر کینہ اور بغیر ہتھیار اٹھائے ہوتا ہے۔ بخاری مسلم عن ابن عباس، بخاری مسلم عن ابن عمرو، عبدالرزاق عن عمروبن شعیب مرسلا

40081

40068- قضى أن من قتل خطأ فديته مائة من الإبل: ثلاثون بنت مخاض، وثلاثون بنت لبون، وثلاثون حقة، وعشرة بني لبون ذكر."د، هـ - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
٤٠٠٦٨۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ جو شخص غلطی سے قتل کیا گیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہیں۔ تیس یکسالے، تیس دو سالے تیس چار سالے اور دس مذکر دو سالے ہوں۔ ابوداؤد، ابن ماجۃ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40082

40069- قضى في دية الخطأ عشرين بنت مخاض، وعشرين بني مخاض ذكورا، وعشرين بنت لبون، وعشرين جذعة، وعشرين حقة."حم، ت، ن، هـ - عن ابن مسعود".
٤٠٠٦٩۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتل خطاء کی دیت کا فیصلہ بیس یکسالے مونث بیس یکسالے مذکر اور بیس دو سالے بیس چار سالے اور بیس تین سالے کے ذریعہ کیا۔ مسند احمد، ترمذی نسائی، ابن ماجۃ عن ابن مسعود

40083

40070- دية المسلم مائة من الإبل: أرباع خمس وعشرون حقه، وخمس وعشرون جذعة، وخمس وعشرون بنت مخاض، وخمس وعشرون بنت لبون، فإن لم يوجد بنت المخاض جعل مكانها بنو اللبون ذكورا."عب - عن عمر بن عبد العزيز مرسلا".
٤٠٠٧٠۔۔۔ مسلمان کی دیت سو اونٹ ہیں ٢٥ تین سالوں کے چوتھائی ٢٥ چار سالے ٢٥ دو سالے، پس اگر یکسالہ نہ پایا جائے تو اس کی جگہ دو سالے مذکر کردیئے جائیں۔ عبدالرزاق عن عمربن عبدالعزیز مرسلا

40084

40071- دية المرأة على النصف من دية الرجل."ق - عن معاذ".
٤٠٠٧١۔۔۔ عورت کی دیت مرد کی دیت کا آدھا ہے۔ بخاری و مسلم عن معاذ، کلام۔۔۔ حسن الاثر ٤٣٢۔

40085

40072- عقل الكافر نصف عقل المؤمن."ن، ق - عن عكرمة مرسلا".
٤٠٠٧٢۔۔۔ کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے۔ نسائی۔ بخاری و مسلم عن عکرمۃ مرسلا

40086

40073- قضى أن عقل الكتابيين نصف عقل المسلمين."حم، هـ - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
٤٠٠٧٣۔۔۔ حضور علیہ السلا نے فیصلہ فرمایا : کہ کتابی کافروں کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف حصہ ہے۔ مسند احمد، ابن ماجۃ عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40087

40074- دية ذمي دية مسلم."ق وضعفه - عن ابن عمر".
٤٠٠٧٤۔۔۔ ذمی کی دیت مسلمان کی دیت (جیسی) ہے۔ بخاری و مسلم وضعفہ عن ابن عمر، کلام۔۔۔ تحذ یر المسلمین ١٣٦، ترتیب الموضوعات ٩٣٨۔

40088

40075- دية المجوسي ثمانمائة درهم."عد، ق - عن عقبة بن عامر".
٤٠٠٧٥۔۔۔ مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہے۔ ابن عدی۔ بخاری مسلم، عن عقبۃ بن عامر، کلام۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ٢٨٩٦۔

40089

40076- قضى في الجنين بغرة عبد أو أمة."خ، م ت، ن، هـ - عن أبي هريرة؛ طب - عن المغيرة بن شعبة ومحمد ابن مسلمة معا".
٤٠٠٧٦۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پیٹ کے بچہ کی دیت ایک غلام یا لونڈی کی ہے۔ بخاری مسلم ، ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ عن ابوہریرہ ، طبرانی فی الکبیر عن المغیرۃ بن شعبہ ومحمد بن مسلمہ معا

40090

40077- قضى في الجنين بغرة عبد أو أمة أو فرس أو بغل."د - عن أبي هريرة".
٤٠٠٧٧۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں ایک غلام لونڈی، گھوڑایاخچر کا فیصلہ کیا۔ ابوداؤد عن ابوہریرہ

40091

40078- قضى في الجنين بغرة عبد."هـ - عن حمل بن مالك ابن النابغة".
٤٠٠٧٨۔۔۔ آپ نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں ایک غلام کا فیصلہ کیا۔ ابن ماجہ عن حمل بن مالک ابن النابغۃ

40092

40079- الدية على العصبة، وفي الجنين غرة عبد أو أمة."ق - عن والد أبي المليح".
٤٠٠٧٩۔۔۔ دیت عصبہ پر ہے اور پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی ہے۔ بخاری مسلم عن والدابی الملیح

40093

40080- دعني من رجز الأعراب! فيه غرة عبد أو أمة أو خمسمائة أو فرس أو عشرون ومائة شاة."ت وحسنه، طب - عن أبي المليح عن أبيه".
٤٠٠٨٠۔۔۔ چھوڑو ! مجھے عرب دیہاتیوں کے اشعارنہ سناؤ، پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی یاپانچ سو درہم یاگھوڑایا ایک سوبیس بکریاں ہیں۔ ترمذی وحسنہ، طبرانی فی الکبیر عن ابی المیح عن ابیہ

40094

40081- في الأنف الدية إذا استوعب جدعه مائة من الإبل، وفي اليد خمسون، وفي الرجل خمسون، وفي العين خمسون، وفي الآمة "" ثلث النفس، وفي الجائفة " ثلث النفس، وفي المنقلة "" خمس عشرة، وفي الموضحة "" خمس، وفي السن خمس، وفي كل إصبع مما هنالك عشر عشر."هق - عن عمر".
٤٠٠٨١۔۔۔ ناک میں دیت ہے جب پوری طرح ناک کاٹ دی جائے تو اس میں سو اونٹ ہیں۔ اور ہاتھ میں پچاس، پاؤں میں پچاس، آنکھ میں پچاس اور وہ زخم جو دماغ تک پہنچ جائے اس میں جان کا تہائی اور وہ زخم جو پیٹ تک پہنچ جائے اس میں جان کا تہائی اور وہ زخم جس سے چھوٹی ہڈیاں ظاہر ہو کر اپنی سے ہٹ جائیں اس میں پندرہ اونٹ اور وہ زخم جو ہڈی کی سفیدی ظاہر کردے اس میں پانچ اونٹ، دانت میں پانچ اور ہر انگلی میں دس دس اونٹ ہیں۔ بیھقی عن عمر

40095

40082- في السمع مائة من الإبل وفي العقل مائة من الإبل."هق - عن معاذ".
٤٠٠٨٢۔۔۔ کان میں سو اونٹ اور دیت میں بھی سو اونٹ ہیں۔ بیھقی عن معاذ، کلام۔۔۔ ضعیف الجامع ٤٠٠١۔

40096

40083- في اللسان الدية إذا منع الكلام، وفي الذكر الدية إذا قطعت الحشفة، وفي الشفتين الدية."عد، هق - عن ابن عمرو".
٤٠٠٨٣۔۔۔ زبان کو جب (کاٹ کر) گفتگو سے روک دیا جائے تو اس میں دیت ہے اور آلہ تناسل کی جب سپاری کاٹ دی جائے تو اس میں دیت ہے اور دونوں ہونٹوں میں دیت ہے۔ ابن عدی۔ بیھقی عن ابن عمرو، کلام :۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ٣٦٨٦۔ ضعیف الجامع ٤٠٠٥۔
اطراف (جسم)

40097

40084- في الأسنان خمس خمس من الإبل."د، ن - عن ابن عمر".
٤٠٠٨٤۔۔۔ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ ابوداؤد، نسائی عن ابن عمر

40098

40085- الأسنان سواء خمسا خمسا."ن - عن ابن عمر".
٤٠٠٨٥۔۔۔ سارے دانت برابر ہیں پانچ پانچ (اونٹ واجب ) ہیں۔ نسائی عن ابن عمر

40099

40086- الأسنان سواء، الثنية والضرس سواء."هـ - عن ابن عباس".
٤٠٠٨٦۔۔۔ دانت برابر ہیں۔ سامنے والے دو دانت، اور داڑھ برابر ہیں۔ ابن ماجۃ عن ابن عباس

40100

40087- في الأصابع عشر عشر."حم، د، ن - عن ابن عمر" "
٤٠٠٨٧۔۔۔ انگلیوں میں دس اونٹ ہیں۔ مسند احمد، ابوداؤد، نسائی عن ابن عمر

40101

40088- دية أصابع اليدين والرجلين سواء: عشر من ابل لكل إصبع."ت - عن ابن عباس".
٤٠٠٨٨۔۔۔ ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی دیت ایک جیسی ہے۔ ہر انگلی کے بدلہ دس اونٹ ہیں۔ ترمذی عن ابن عباس

40102

40089- الأصابع سواء: عشر عشر من الإبل."د، ن؛ هـ عن أبي موسى".
٤٠٠٨٩۔۔۔ انگلیاں ساری برابر ہیں۔ دس دس اونٹ ہیں۔ ابوداؤد، نسائی، ابن ماجۃ عن ابی موسیٰ

40103

40090- الأصابع سواء كلهن عشر عشر من الإبل."ن، هـ - عن ابن عمر".
٤٠٠٩٠۔۔۔ انگلیاں ساری برابر ہیں۔ ہر ایک کے بدلہ دس دس اونٹ ہیں۔ نسائی، ابن ماجۃ عن ابن عمر

40104

40091- الأصابع سواء، والأسنان سواء، والثنية والضرس سواء، هذه وهذه سواء - يعني الإبهام والخنصر."د، " هب - عن ابن عباس".
٤٠٠٩١۔۔۔ انگلیاں ساری برابر ہیں، سامنے کے دانت، اور داڑھ برابر ہیں۔ یہ اور یہ برابر ہیں۔ ینعی انگوٹھا اور چھنگلی۔ ابوداؤد، بیھقی عن ابن عباس

40105

40092- هذه وهذه سواء - يعني الخنصر والإبهام."حم، خ ت، ن، هـ - عن ابن عباس".
٤٠٠٩٢۔۔۔ یہ یعنی انگوٹھا اور یہ یعنی چھنگلی برابر ہیں۔ مسند احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ عن ابن عباس

40106

40093- في المواضح خمس خمس من الإبل."حم، - عن ابن عمرو".
٤٠٠٩٣۔۔۔ جن زخموں سے ہڈی نظر آنے لگے ان میں پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ مسند احمد، عن ابن عمرو

40107

40094- ليس في المأمومة قود."هق - عن طلحة".
٤٠٠٩٤۔۔۔ دماغ کے زخم میں قصاص نہیں ۔ بیھقی عن طلحۃ

40108

40095- لا قود في المأمومة ولا الجائفة ولا المنقلة."هـ - عن ابن عباس".
٤٠٠٩٥۔۔۔ دماغ کے ، پیٹ کے اور اس زخم میں قصاص نہیں جو ہڈی کا جوڑ منتقل کردے۔ ابن ماجۃ عن ابن عباس

40109

40096- قضى في الأنف إذا جدع الدية كاملة، وإن جدعت ثندوته " فنصف العقل: خمسون من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو مائة بقرة أو ألف شاة، وفي اليد إذا قطعت نصف العقل، وفي الرجل نصف العقل، وفي المأمومة ثلث العقل: ثلاث وثلاثون من الإبل، أو قيمتها من الذهب أو الورق أو البقر أو الشاء، والجائفة مثل ذلك، وفي الأصابع في كل إصبع عشر من الإبل، وفي الأسنان خمس من الإبل في كل سن، وقضى أن عقل المرأة بين عصبتها من كانوا لا يرثون منها شيئا إلا ما فضل عن ورثتها، وإن قتلت فعقلها بين ورثتها وهم يقتلون قاتلهم."حم، د - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده" "
٤٠٠٩٦۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناک کے بارے میں پوری دیت کا فیصلہ کیا جب وہ کاٹ دی جائے۔ اور اگر اس کی ایک جانب کاٹ دی جائے تو آدھی دیت ہے۔ پچاس اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونا، یا چاندی یاسوگائے یا ہزار بکریاں، اور ہاتھ میں، جب کاٹ دیا جائے تو آدھی دیت ہے۔ اور پاؤں میں آدھی دیت، اور دماغ کے زخم میں تہائی دیت ٣٣ تینتیس اونٹ یا ان کی قیمت کا سونا، چاندی یا بکریاں اور پیٹ کے زخم میں اسی طرح، ان انگلیوں میں ہر انگلی کے بدلہ دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت کے بدلہ پانچ اونٹ ہیں اور عورت کی دیت کا یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کے ان عصبہ کے درمیان ہوگی جو اس کی کسی چیز کے وارث نہیں بنتے ہاں جو اس کے وارثوں سے بچ جائے۔ پس اگر وہ عورت قتل کردی جائے تو اس کی دیت اس کے ورثاء کے درمیان ہوگی اور ان کے قاتل کو قتل کریں گے۔ مسنداحمد، ابوداؤد عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40110

40097- قضى في العين القائمة السادة لمكانها بثلث الدية."د، ن - عنه" "
٤٠٠٩٧۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آنکھ کے بارے میں جو اپنی جگہ ہو اور اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہوتہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ ابوداؤد، نسائی عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40111

40098- قضى في السن خمسا من الإبل."هـ - عن ابن عباس".
٤٠٠٩٨۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دانت کے بارے میں پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ ابن ماجۃ عن ابن عباس

40112

40099- قضى في الأصابع عشرا عشرا من الإبل."حم - عن أبي موسى".
٤٠٠٩٩۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں میں دس دس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ مسند احمد عن ابی موسنی، کلام۔۔۔ ضعاف الدارقطنی ٦٩١۔

40113

40100- دية الصلب مائة من الإبل."ق - عن الزهري بلاغا".
٤٠١٠٠۔۔۔ پیٹھ کی دیت سو اونٹ ہیں۔ بخاری مسلم عن الزھری بلاغا

40114

40101- قضى بالدية على أهل الإبل مائة من الإبل، وعلى أهل البقر مائتي بقرة، وعلى أهل الشاء ألفي شاة، وعلى أهل الحلل مائة حلة."د - عن عطاء بن أبي رباح مرسلا؛ عن عطاء عن جابر".
٤٠١٠١۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ والے کے بارے میں سو اونٹوں کا فیصلہ کیا۔ اور گائیوں والے کے بارے میں دو سو گائیوں کا اور بکری والوں کے بارے میں دو ہزار بکریوں کا اور کپڑے کے تاجروں کے بارے میں سوجوڑوں کا فیصلہ فرمایا۔ ابوداؤد عن عطاء بن ابی رباح مرسلاعن عطاء عن جابر

40115

40102- قضى أن من عقله في البقر على أهل البقر مائتي بقرة، ومن كان عقله في الشاء على أهل الشاء ألفي شاة."حم، هـ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
٤٠١٠٢۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ جس کی دیت گائیوں میں ہو تو گائیوں والوں پر دوسوگائیں، اور جس کی دیت بکریوں میں ہو تو بکریوں والوں پر دو ہزار بکریاں ہیں۔ مسند احمد عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40116

40103- قضى بالدية على العاقلة."هـ - عن المغيرة بن شعبة".
٤٠١٠٣۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاقلہ پر دیت کا فیصلہ فرمایا۔ ابن ماجۃ عن المغیرۃ بن شعبہ

40117

40104- قضى أن العقل ميراث بين ورثة القتيل على قرابتهم فما فضل فللعصبة."د، ن - عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده".
٤٠١٠٤۔۔۔ آپ نے اس بات کا فیصلہ فرمایا کہ دیت مقتول کے وارثوں کے درمیان ان کے قرابت کے درجات کے لحاظ سے میراث ہے پس جو بچ جائے وہ عصبہ کے لیے ہے۔ ابوداؤد، نسائی عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ

40118

40105- العقل على العصبة، والدية على الميراث."عب - عن إبراهيم مرسلا".
٤٠١٠٥۔۔۔ دیت عصبہ پر اور دیت میراث پر ہے۔ عبدالرزاق عن ابراھیم مرسلا

40119

40106- لا يجني جان إلا على نفسه، ولا يجني والد على ولده ولا مولود على والده."حم - عن عمرو بن الأحوص".
٤٠١٠٦۔۔۔ جنایت کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے والد کی غلطی کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور نہ والد بیٹے کی غلطی کا ذمہ دار ہے۔ مسنداحمد عن عمروبن الاحوص

40120

40107- أما؟ إن ابنك هذا لا يجنى عليك ولا تجني عليه وتلا {وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام 164] ."حم، د، ن والبغوي والباوردي وابن القانع، طب، ك، ق - عن أبي رمثة؛ هـ, غ والبغوي وابن قانع وابن منده، طب، ص - عن الخشخاش العنبري".
٤٠١٠٧۔۔۔ سنو ! تم اپنے بیٹے کی غلطی کے اور وہ تمہاری غلطی کا ذمہ دار نہیں ۔ اور یہ آیت پڑھی کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، نسائی، والبغوی والباردی وابن القانع، طبرانی فی الکبیر، حاکم، بیھقی عن ابی رمثہ، ابن ماجۃ، ابویعلسی والبغوی وابن نافع وابن مندۃ، طبرانی فی الکبیر، سعید بن منصور عن الخشخاش العنبری

40121

40108- يؤدي المكاتب بقدر ما أدى."حم، ق - عن علي".
٤٠١٠٨۔۔۔ مکاتب اتنی مقداراداکرے جتنی ادا کی جاتی ہے۔ (مسنداحمد، بخاری مسلم عن علی)

40122

40109- تقاس الجراحات ثم يستأنى بها سنة ثم يقضى فيها بقدر ما انتهت إليه."عد، ق - عن جابر".
٤٠١٠٩۔۔۔ زخموں کا انداز ہ لگایا جائے پھر ایک سال تک انتظار کیا جائے پھر وہ جس مقدارکو پہنچیں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ ابن عدی، بیھقی عن جابر

40123

40110- يستأنى بالجراحات سنة."قط وضعفه والخطيب - عن جابر".
٤٠١١٠۔۔۔ زخموں کا ایک سال تک انتظار کیا جائے۔ دارقطنی وضعفہ والخطیب عن جابر، کلام۔۔۔ ضعاف الدار قطنی ٦٧٤۔

40124

40111- من أوقف دابة في سبيل من سبيل المسلمين في أسواقهم فوطئت بيد أو رجل فهو ضامن."ق وضعفه - عن النعمان بن بشير".
٤٠١١١۔۔۔ جس نے مسلمانوں کے کسی راستہ میں اپنی سواری کھڑی کی اور اس نے اپنے ہاتھ یاپاؤں سے کسی کو رہ نددیا تو وہ (سواری والا) ضامن ہے۔ بیقھی وضعفہ عن النعمان بن بشیر

40125

40112- من ربط دابة على طريق المسلمين فأصاب فهو ضامن."ق - عن النعمان بن بشير".
٤٠١١٢۔۔۔ جس نے مسلمانوں کے راستہ پر کوئی جانورب اندھا اور اس سے کسی کو تکلیف پہنچی تو وہ مالک ضامن ہے۔ بیھقی عن النعمان بن بشیر

40126

40113- يضمن المقدم على الدابة ثلثي ما أصابت وهو راكب، ويضمن الرديف الثلث."ابن عساكر - عن واثلة".
٤٠١١٣۔۔۔ سواری پر آگے بیٹھا شخص دوتہائی نقصان کا اور پچھا بیٹھا شخص تہائی کا ضامن ہوگا۔ ابن عساکرعن واثلۃ

40127

40114- من قتل قتيلا من أهل الذمة لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة مائة عام."طب، ك ق - عن ابن عمر".
٤٠١١٤۔۔۔ جس نے کسی ذمی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا اگرچہ اس کی خوشبوسوسال کے فاصلے سے سونگ لی جاتی ہے۔ طبرانی فی الکبیر حاکم، بیھقی عن ابن عمر

40128

40115- من قتل نفسا معاهدة بغير حقها لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها لتوجد من مسيرة خمسمائة عام."طب، ك - عن أبي بكرة".
٤٠١١٥۔۔۔ جس نے کسی معاہد کو ناحق قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ اگرچہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلہ سے آجاتی ہے۔ طبرانی۔ حاکم عن ابی بکرۃ

40129

40116- من قتل نفسا معاهدة بغير حلها حرم الله عليه الجنة أن يشم ريحها وإن ريحها لتوجد من مسيرة مائة عام."ع، حم، ن، ق - عن أبي بكرة".
٤٠١١٦۔۔۔ جس نے کسی معاہد کو ناحق قتل کیا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا کہ وہ جنت کی خوشبوسنگھے، اگرچہ اس کی خوشبو ایک سال کے فاصلے سے آجاتی ہے۔ ابویعلی، مسند احمد، نسائی ، بیھقی عن ابی بکرۃ

40130

40117- إذا سل أحدكم سيفا ينظر إليه فأراد أن يناوله أخاه فليغمده ثم يناوله إياه."حم، طب، ك - عن أبي بكرة".
٤٠١١٧۔۔۔ جب تم میں سے کوئی اپنی تلوار کو دیکھ کر سونتے اور اپنے بھائی کو دینا چاہے توا سے نیام میں ڈال کر اس کے حوالہ کردے۔ مسند احمد طبرانی، حاکم عن ابی بکرۃ

40131

40118- نهى أن يتعاطى السيف مسلولا."حم، د، ت - عن جابر".
٤٠١١٨۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونتی تلوار دینے سے منع فرمایا ہے۔ مسند احمد ابوداؤد، ترمذی عن جابر

40132

40119- إن الملائكة تلعن أحدكم إذا أشار إلى أخيه بحديدة وإن كان أخاه لأبيه وأمه."حل - عن أبي هريرة".
٤٠١١٩۔۔۔ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف لوہے سے اشارہ کرتا ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اگرچہ وہ ماں ، باپ شریک بھائی ہو۔ حلیۃ الاولیاء عن ابوہریرہ

40133

40120- من رمانا بالليل فليس منا."حم - عن أبي هريرة".
٤٠١٢٠۔۔۔ جس نے ہمیں نیزہ مار اوہ ہمارا نہیں۔ مسنداحمد عن ابوہریرہ

40134

40121- من رمى بالليل فليس منا، ومن رقد على سطح لا جدار له فسقط فمات فدمه هدر."طب - عن عبد الله بن جعفر".
٤٠١٢١۔۔۔ جس نے ہمیں نیزہ ماراوہ ہمارا نہیں ۔ اور جو بغیر منڈیر کے چھت پر سویا اور گرکرمرگیا تو اس کا خون رائیگاں ہے۔ طبرانی عن عبداللہ بن جعفر

40135

40122- من غشنا فليس منا، ومن رمانا بالنبل فليس منا."طب - عن ابن عباس".
٤٠١٢٢۔۔۔ جس نے ہمیں دھوکادیاوہ ہمارا نہیں اور جس نے ہمیں نیزہ ماراوہ ہم میں کا نہیں۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن عباس

40136

40123- إذا مر أحدكم بنبل في المسجد فليمسك يده على نصالها."أبو عوانة - عن جابر".
٤٠١٢٣۔۔۔ جب تم میں سے کوئی نیزہ لے کر مسجد سے گزرے تو اس کے پھل پر ہاتھ رکھ لے۔ ابوعوانۃ عن جابر

40137

40124- أمسك بنصالها."حم والدارمي، خ، م، "ن، هـ - وابن خزيمة، "حب - عن جابر قال: مر رجل في المسجد معه سهام فقال له النبي صلى الله عليه وسلم - فذكره".
٤٠١٢٤۔۔۔ اس کے پھل پر ہاتھ دھرلو۔ مسنداحمد، الدارمی، بخاری و مسلم نسائی، ابن ماجۃ وابن خزیمۃ، ابن حبان عن جابر فرماتے ہیں ایک شخص مسجد سے گزرا اس کے پاس تیر تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے یہ فرمایا۔

40138

40125- من مر في شيء من مساجدنا أو أسواقنا بنبل فليأخذ على نصالها لا يعقر بكفه مسلما."خ - عن أبي بردة بن أبي موسى عن أبيه" "
٤٠١٢٥۔۔۔ جو ہمارے بازاروں اور مسجدوں سے نیزہ لے کرگزرے تو وہ اس کے پھل پر ہاتھ دھرلیا کرے تاکہ اس کے ہاتھ سے کوئی مسلمان زخمی نہ ہو۔ بخاری عن ابی یردۃ بن ابی موسیٰ عن ابیہ

40139

40126- إذا مررتم بالسهام في أسواق المسلمين أو في مساجدهم فأمسكوا على النصال لا تجرحوا بها أحدا."عب - عن أبي موسى".
٤٠١٢٦۔۔۔ جب تم نیزے لے کر مسلمانوں کے بازاروں یا ان کی مساجد سے گزراکروتوان کے پھلوں پر کوئی چیز باندھ لیاکروتا کہ کسی کو زخمی نہ کرو۔ عبدالرزاق عن ابی موسیٰ

40140

40127- الملائكة تلعن أحدكم إذا أشار إلى أخيه بحديدة وإن كان أخاه لأبيه وأمه."ش، خط في المتفق والمفترق - عن أبي هريرة".
٤٠١٢٧۔۔۔ فرشتے تم میں سے اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جو کسی لوہے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے اگرچہ وہ اس کا سگابھائی ہو۔ ابن ابی شیبۃ خطیب فی المتفق والمفترق، عن ابوہریرہ

40141

40128- لا يشيرن أحدكم إلى أخيه بسلاح! فإنه لا يدري لعل الشيطان ينزغ في يده فيضعه في حفرة من النار."عب - عن أبي هريرة".
٤٠١٢٨۔۔۔ تم میں سے ہرگز کوئی اپنے بھائی کی طرف کسی ہتھیارکا اشارہ نہ کرے اس لیے کہ اسے پتہ نہیں ہوسکتا ہے شیطان اس کے ہاتھ سے اچک لے اور وہ اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں پہنچادے۔ عبدالرزاق عن ابوہریرہ

40142

40129- لا يشهرن أحدكم على أخيه السيف."ك - عن سهل بن سعد".
٤٠١٢٩۔۔۔ تم میں سے ہرگز کوئی اپنے بھائی پر تلوار نہ سونتے۔ حاکم عن سھل بن سعد

40143

40130- لا يتعاطى السيف مسلولا."ابن سعد - عن جابر ابن عبد الله عن بنة الجهني".
٤٠١٣٠۔۔۔ بےنیام تلوار نہ دی جائے۔ ابن سعد عن جابر بن عبداللہ عن ابنۃ الجھنی

40144

40131- لعن الله من فعل هذا! ألم أنه عن هذا! إذا سل أحدكم السيف وأراد أن يدفعه إلى صاحبه فليغمده ثم ليعطه إياه."البغوي والباوردي وابن السكن وابن قانع، طب وأبو نعيم - عن بنة الجهني أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بقوم في مسجد سلوا فيه أسيافهم يتعاطونه بينهم قال - فذكره؛ قال البغوي: لا أعلم له غيره".
٤٠١٣١۔۔۔ ابنۃ الجھنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مسجد میں کچھ لوگوں پر گزرہوا جنہوں نے اپنی تلواریں سونت رکھی تھیں اور ایک دوسرے کودے رہے تھے اس پر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں پر لعنت کرے، کیا میں نے ایسے کرنے سے منع نہیں کیا، جب تم میں سے کسی نے تلوار سونتی ہو اور اپنے دوست کو دینا چاہیے توا سے چاہیے کہ تلوارنیام میں ڈال کرا سے دے۔ البغوی والباوردی وابن اسکن وابن طبرانی و ابونعیم عن ابنۃ الجھنی، قال البغوی لااعلم لہ غیرہ

40145

40132- لعن الله من فعل هذا! أو ليس قد نهيت عن هذا! إذا سل أحدكم سيفا ينظر إليه فأراد أن يناوله أخاه فليغمده ثم ليناوله إياه."ك، طب - عن أبي بكرة".
٤٠١٣٢۔۔۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں پر لعنت کرے کیا میں نے اس سے منع نہیں کیا تھا ! جب تم میں سے کوئی تلوار دینا چاہے جسے کوئی دیکھ رہاہو توا سے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو دیتے وقت نیام میں ڈالے پھر اسے دے۔ حاکم، طبرانی عن ابی بکرۃ

40146

40133- لا يعجز الرجل من أمتي إذا أرادوا قتله يقول: ها - بوء بإثمي وإثمك، فيكون كابني آدم، فيكون القاتل في النار والمقتول في الجنة."حل - عن ابن عمر".
٤٠١٣٣۔۔۔ لوگ مری امت کے جس شخص کو قتل کرنا چاہیں گے تو وہ اس بات سے عاجز نہ ہو وہ کہے : ہاں ٹھیک ہے ! تومرا اور اپنا گناہ اپنے سرے تو وہ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی طرح ہوں گے، قاتل جہنم میں اور مقتول جنت میں۔ حلیۃ الاولیاء عن ابن عمر

40147

40134- من نظر إلى أخيه المسلم نظر مخيفة من غير حق أخافه الله يوم النار."الخطيب - عن أبي هريرة".
٤٠١٣٤۔۔۔ جس نے اپنے مسلمان بھائی کی طرف خوفناک نظر سے دیکھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روزا سے خوفزدہ کریں گے۔ الخطیب عن ابوہریرہ ، کلام :۔۔۔ المتناھیۃ ١٢٧٩۔

40148

40135- "الصديق رضي الله عنه" عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن أبا بكر وعمر كانا لا يقتلان الحر بالعبد."ش، قط، ق".
٤٠١٣٥۔۔۔ (الصدیق (رض)) عمروبن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ شیخین (ابوبکروعمر (رض) غلام کے بدلہ آزادکوقتل نہ کرتے تھے۔ ابن ابی شیبۃ، دارقطنی، بیھقی

40149

40136- عن طارق بن شهاب قال: لطم أبو بكر يوما رجلا لطمة ثم قال له: اقتص، فعفا الرجل."ش".
٤٠١٣٦۔۔۔ طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک دن کسی شخص کو زوردارطمانچہ مارا، پھر اس سے کہا بدلہ لے لوتو اس شخص نے معاف کردیا۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40150

40137- عن الحسن أن أبا بكر وعمر والجماعة الأولى لم يكونوا يقتلون بالقسامة."ش"
٤٠١٣٧۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکروعمر (رض) اور پہلی جماعت قسامت میں قتل نہیں کرتے تھے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ قسامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی محلہ یاگاؤں یا آبادی کے قریب کوئی لاش ملے اور قاتل کا پتہ نہ چلے تو اس صورت میں وہاں کے لوگوں سے قسم لی جائے گی۔

40151

40138- عن أبي سعيد الخدري أن أبا بكر وعمر قالا: من قتله حد فلا عقل له."ش".
٤٠١٣٨۔۔۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ حضرات ابوبکروعمر (رض) نے فرمایا : جسے حد میں قتل کیا گیا تو اس کی دیت نہیں ۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40152

40139- عن عمرو بن شعيب أن أبا بكر وعمر كانا يقولان: لا يقتل المولى بعبده ولكن يضرب ويطال حبسه ويحرم سهمه."ش، ق".
٤٠١٣٩۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکروعمر (رض) فرمایا کرتے تھے : آقاکو اپنے غلام کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے البتہ اسے مارا جائے اور اسے لمبی سزادی جاوے اور بیت المال یا مال غنیمت سے اسے محروم رکھاجائے۔ ابن ابی شیبہ، بیھقی

40153

40140- عن علي بن ماجدة قال: قاتلت غلاما فجدعت أنفه فأتى بي إلى أبي بكر فقاسني فلم يجد في قصاصا فجعل على عاقلتي الدية."ش".
٤٠١٤٠۔۔۔ علی بن ماجدہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : مری ایک غلام سے لڑائی ہوگئی دوران لڑائی میں نے اس کی ناک کاٹ دی، پولیس نے مجھے حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے مرے بارے غوروحوض سے کام لیاتو قصاص مری سزانہ ملی تومرے عاقلہ پر دیت لازم کی۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40154

40141- عن عكرمة أن أبا بكر جعل في حلمة ثدي المرأة مائة دينار، وجعل في حلمة الرجل خمسين دينارا."عب، ش".
٤٠١٤۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عورت کے پستان کی چوسنی کا بدلہ سو دینار مقررکئے اور مرد کی چوسنی میں پچاس دینار۔ عبدالرزاق ابن ابی شیبۃ ، کیونکہ کی چھاتی قابل منفعت ہے اور مرد کی چھائی محض زینت ہے۔

40155

40142- عن عمرو بن شعيب قال: قد كان مما وضع أبو بكر وعمر من القضية أن الرجل إذا بسطها صاحبها فلم يقبضها أو قبضها فلم يبسطها أو قلصت عن الأرض فلم تبلغها فقد تم عقلها فما نقص فبحساب، وكان فيما وضع أبو بكر وعمر من القضية في جراحة اليد إذا لم يأكل بها صاحبها ولم يأتزر بها ولم يستطب بها فقد تم عقلها فما نقص فبحساب."ش، عب".
٤٠١٤ 2 ۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر وعمر (رض) نے جو فیصلہ کیا وہ یہ ہے کہ پاؤں والا اگر اپنے پاؤں کو پھیلائے تو اسے سمیٹ نہ سکے یاسمیٹ توسکے لیکن پھیلانہ سکے یا زمین سے اٹھ جائے اس تک پہنچ نہ پائے تو اس کی دیت پوری ہے پس جتنی کم ہو اس کا حساب ہوگا۔ اور حضرت ابوبکروعمر (رض) نے ہاتھ کے زخم کے بارے جو فیصلہ فرمایا یہ ہے کہ جب آدمی اس سے کھانہ سکے، ازارنہ پہن سکے، استنجانہ کرسکے تو اس کی دیت پوری ہوگی جو کم ہو اس کا حساب لگایا جائے۔ ابن ابی شیبۃ، عبدالرزاق کیونکہ ہاتھ پاؤں بنیاد منافع اور فوائد ہی ہیں جب یہ مفقود تو سمجھو ہاتھ پاؤں ہے ہی نہیں اس سے پوری دیت لازم ٹھہری۔

40156

40143- عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن أبا بكر وعمر قالا: الموضحة في الرأس والوجه سواء."ش، ق".
٤٠١٤ 3 ۔۔۔ عمروبن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں : کہ حضرت ابوبکروعمر (رض) نے فرمایا : جس زخم سے ہڈی صاف نظر آنے لگے وہ چاہے سر میں ہو یا چہرے میں براب رہے۔ ابن ابی شیبۃ، بیھقی

40157

40144- عن ابن شهاب أن أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب وعثمان بن عفان أعطوا القود من أنفسهم فلم يستقد منهم وهم سلاطين."ق".
٤٠١٤٣۔۔۔ ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکروعمر اور عثمان (رض) نے اپنی طرف سے دیت ادا کی اگرچہ ان سے مطالبہ بھی نہیں تھا حالانکہ وہ بادشاہ تھے۔ رواہ البیھقی عوام پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے ایسا کیا۔

40158

40145- عن ماجدة قال: عارضت غلاما بمكة فعض أذني فقطع منها أو عضضت أذنه فقطعت منها، فلما قدم علينا أبو بكر حاجا رفعنا إليه فقال: انطلقوا بهما إلى عمر فإن كان الجارح بلغ أن يقتص منه فليقتص، فلما انتهى بنا إلى عمر نظر إلينا فقال: نعم، قد بلغ هذا أن يقتص منه، ادعوا لي حجاما."حم".
٤٠١٤٤۔۔۔ علی بن ماجدہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : مکہ میں مری ایک غلام سے مڈبھیڑ ہوگئی اسنے مراکا ن کاٹ ڈالا یا میں نے اس کا کان کاٹ لیا تھا۔ جب حضرت ابوبکر ہمارے ہاں حج کے لیے تشریف لائے تو ہمارا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا، آپ نے فرمایا : انھیں عمر کے پاس لے جاؤ۔ اگر زخمی کرنے والا اس حد کو پہنچا ہے کہ اس سے بدلہ لیا جائے تو وہ بدلہ لے لے، جب ہمیں حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچایا گیا آپ نے ہمیں دیکھا اور فرمایا : ہاں ! یہ قصاص کی حدتک پہنچ گیا ہے مرے پاس حجام کو بلاؤ۔ مسنداحمد

40159

40146- عن قيس بن أبي حازم قال: دخلت على أبي بكر الصديق مع أبي فقال: من هذا؟ فقال: ابني؛ فقال أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه."كر".
٤٠١٤٥۔۔۔ قیس بن ابی حازم سے روایت ہے فرمایا : میں اپنے والد کے ساتھ حضرت صدیق اکبر کے پاس گیا آپ نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ مرے والد نے کہا : مرابیٹا ہے۔ تو آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے بدلہ اور اسے تمہارے بدلہ سزا نہیں مل سکتی ۔ رواہ ابن عساکریہ بطورعام حکم کے آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔

40160

40147- عن عمر قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقص من نفسه."عب، طب، ط ومسدد وابن سعد. حم، ش وابن راهويه، د، ن وابن خزيمة وابن الجارود، قط في الأفراد وعبد الغني بن سعيد في إيضاح الإشكال وأبو ذر الهروي في الجامع، ك، ق، ض".
٤٠١٤٦۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنے آپ سے بدلہ لینے دیتے ۔ عبدالرزاق، طبرانی، ابوداؤد طیالسی ومسددوابن سعد، مسنداحمد، ابن ابی شیبۃ، ابن راھویہ، ابوداؤد ابن خزیمۃ وابن الجارود، دارقطنی فی الافراد وعبدالغنی بن سعید فی ایضاح الاشکال وابوذرالھروی حاکم، بیھقی، ضیاء کلام :۔۔۔ ضعیف النسائی ٣٣٠۔
کسی مسلمان کے قتل میں جتنے لوگ شریک ہوں گے سب سے قصاص لیا جائے گا

40161

40148- عن ابن عمر أن غلاما قتل غيلة فقال عمر: لو اشترك فيه أهل صنعاء لقتلتهم به."خ، ش، ق" "
٤٠١٤٧۔۔۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ : ایک لڑکا دھوکے سے قتل کردیا گیا، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر اس کے قتل میں صنعاء والے بھی شریک ہوتے تو میں ان سب کو اس کے بدل ہمیں قتل کرتا۔ بخاری ، ابن ابی شیبۃ بیھقی

40162

40149- عن سعيد بن المسيب أن عمر كان يقول في الذي يقتص منه ثم يموت: قتله حق لا دية."مسدد، ك".
٤٠١٤٨۔۔۔ سعید بن المسیب (رح) سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) اس شخص کے بارے میں فرماتے جس سے بدلہ لیا جاتا اور اس دوران مرجاتا : اس کا قتل ہونا برحق تھا اس کی دیت نہی۔ مسدد، حاکم

40163

40150- عن أبي قلابة أن رجلا أقعد أمة له على مقلى فاحترق عجزها، فأعتقها عمر بن الخطاب وأوجعه ضربا."عب".
٤٠١ 50 ۔۔۔ ابوقلابہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی باندی کو (گرم) کڑاہی پر بٹھایاجس اس کا سرین جل گیا، تو حضرت عمر (رض) نے اس باندی کو آزاد کردیا اور اس شخص کو دردتاک ماردی۔ رواہ عبدالرزاق

40164

40151- عن عمر قال: لا يقاد العبد من الحر، وتقاده المرأة من الرجل في كل عمد يبلغ نفسا فما دونها من الجراح، فإن اصطلحوا على القتل أدى في عقل المرأة في ديتها فما زاد في الصلح في ديتها فليس على العاقلة شيء إلا أن يشاؤا، ويقاد المملوك من المملوك في كل عمد يبلغ نفسه فما دون ذلك، فإن اصطلحوا على القتل فقيمة المقتول على أهل القاتل أو الجارح."عب".
٤٠١٥١۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : غلام کا بدلہ آزاد سے نہ لیا جائے، البتہ عورت مرد سے ہراس قصدکابدلہ لے سکتی ہے جو جان کے ضیاع یازخم تک پہنچ جائے، پھر اگر وہ لوگ قتل پر صلح کرلیں تو عورت کی دیت میں، دیت ادا کی جائے جو بچ جائے تو عاقلہ پر کچھ واجب نہیں ہاں جو وہ چاہیں۔ اور غلام کی دیت غلام سے ہراس قصد میں لی جائے گی جو نفس انسانی کے ضیا ع یا اس سے کم تک پہنچ جائے، پھر اگر وہ قتل پر صلح کرلیں تو مقتول کی قیمت قاتل یازخمی کرنے والے کے مالکوں پر لازم ہوگی۔ رواہ عبدالرزاق

40165

40152- عن عمر قال: من مات في قصاص فلا يؤدى."هق، عب ومسدد".
٤٠١٥٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : جو شخص قصاص میں مرجائے تو اس کی دیت نہیں ہے۔ بیھقی عبدالرزاق، ومسدد

40166

40153- عن أبي المليح بن أسامة أن عمر بن الخطاب ضمن رجلا كان يختن الصبيان قطع من ذكر الصبي فضمنه."عب".
٤٠١٥٣۔۔۔ ابوالملیح بن اسامہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن الخطاب (رض) نے اس شخص کو ضامن قرار دیا جو بچوں کے ختنے کرتا تھا کہ اگر اس نے کسی بچہ کا ذکر کاٹ دیا تو وہ اس کا ضامن ہوگا۔ رواہ عبدالرزاق

40167

40154- عن عمر قال: لا قود ولا قصاص في جراح ولا قتل ولا حد ولا نكال على من لم يبلغ الحلم حتى يعلم ما له في الإسلام وما عليه."عب".
٤٠١٥٤۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : جو بچہ بالغ نہیں ہوا اور اسے اسلام میں اپنے نفع و نقصان کا علم نہیں، تو اس پر دیت ہے نہ قصاص نہ تو کسی زخم میں اور نہ کسی قتل میں حد اور سزا ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40168

40155- عن عمر قال: عقل العبد في ثمنه مثل عقل الحر في ديته."عب".
٤٠١٥٥۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : غلام کی دیت اس کی قیمت میں ہے جیسے آزاد کی دیت اس کے خون بہا میں ہے۔ رواہ عبدالرزاق
ایک وارث کا قصاص معاف کرنا

40169

40156- عن ابن وهب أن عمر بن الخطاب رفع إليه رجل قتل رجلا فأراد أولياء المقتول قتله فقالت أخت المقتول وهي امرأة القاتل: قد عفوت عن حصتي من زوجي، فقال عمر: عتق الرجل من القتل، وأمر لسائرهم بالدية."عب".
٤٠١٥٦۔۔۔ ابن وھب سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) کے سامنے ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہواجس نے کسی شخص کو قتل کیا تھا تو مقتول کے وارثوں نے قاتل کرنے کا ارادہ کرلیا، مقتول کی بہن کہنے لگی جو قاتل کی بیوی تھی میں نے اپنا حصہ اپنے خاوندکومعاف کردیاتو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یہ شخص قتل سے چھوٹ گیا اور سب کے لیے دیت (لینے) کا فیصلہ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40170

40157- عن عمر قال: لا يمنع سلطان ولى الدم أن يعفو إن شاء أو يأخذ العقل إذا اصطلحوا، ولا يمنعه أن يقتل إن أبى إلا القتل بعد أن يحق القتل في العمد."عب".
٤٠١٥٧۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : بادشاہ مقتول کے ذمہ دار کو معاف کرنے سے اگر وہ چاہے یادیت لینے سے جب وہ صلح کرلیں نہ روکے اور قتل کرنے سے روکے اگر وہ انکار کرے اور تحقیق سے قتل عمد کا ثبوت مل جانے کے بعد ہوتب۔ رواہ عبدالرزاق

40171

40158- عن الشعبي أن قتيلا وجد بين وادعة وشاكر فأمرهم عمر بن الخطاب أن يقيسوا ما بينهما فوجدوه إلى وادعة أقرب، فأحلفهم عمر خمسين يمينا كل رجل "ما قتلت ولا علمت قاتلا" ثم أغرمهم الدية، فقالوا: يا أمير المؤمنين! لا أيماننا دفعت عن أموالنا ولا أموالنا دفعت عن أيماننا، فقال عمر: كذلك الحق."عب، ش، ق".
٤٠١٥٨۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ وادعۃ اور شاکرکے درمیان ایک مقتول پایا گیا تو حضرت عمربن خطاب (رض) نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ دونوں جگہوں کو ناپیں، توا سے وادعۃ کے زیادہ قریب پایا، تو حضرت عمر (رض) نے ہر آدمی سے پچاس قسمیں لیں، نہ میں نے قتل کیا اور نہ مجھے قاتل کا علم ہے، پھر ان پر دیت کا تاوان مقرر کیا، انھوں نے کہا : امیرالمومنین ! نہ تو ہماری قسموں نے ہمارے مال کا دفاع کیا اور نہ ہمارے مال نے ہماری قسموں کا دفاع کیا آپ نے فرمایا : حق اسی طرح ہے۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیھقی

40172

40159- عن عمر قال: إن القسامة إنما توجب العقل ولا تشيط الدم."عب، ش، ق".
٤٠١٥٩۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : قسامۃ سے صرف دیت واجب ہوتی ہے اور خون رائیگاں نہیں کرتا۔
عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیھقی

40173

40160- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب استحلف امرأة خمسين يمينا على مولى لها أصيب، ثم جعلها دية."عب".
٤٠١٦٠۔۔۔ سعیدبن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے ایک عورت سے اس کے آقا کے بارے میں پچاس قسمیں لیں جسے تکلیف پہنچی، پھر اس کے لیے دیت مقرر کی۔

40174

40161- عن الحسن أن امرأة مرت بقوم فاستسقتهم فلم يسقوها فماتت عطشا، فجعل عمر ديتها عليهم."عب".
٤٠١٦١۔۔۔ حسن سے روایت ہے کہ ایک عورت کسی بستی گزری ان سے پانی مانگا لیکن انھوں نے پانی نہ دیاوہ پیاسی مرگئی تو حضرت عمر (رض) نے ان پر اس کی دیت واجب قراردی۔ رواہ عبدالرزاق

40175

40162- عن عمر قال في عين الدابة ربع ثمنها."عب، ش، ق".
٤٠١٦٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے آپ نے فرمایا : چوپائے کی آنکھ ضائع کرنے میں اس کی قیمت کا چوتھائی حصہ واجب ہے۔ عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبۃ، بیھقی

40176

40163- عن سليمان بن يسار أن سائبة أعتقه بعض الحجاج كان يلعب هو ورجل من بني عائذ فقتل السائبة العائذي، فجاء أبوه إلى عمر بن الخطاب يطلب بدم ابنه فأبى عمر أن يديه قال: ليس له مال، فقال العائذى: أرأيت لو أني قتلته؟ قال عمر: إذا تخرجون ديته، قال: فهو إذا كالأرقم إن يترك يلقم، وإن يقتل ينقم! فقال عمر: فهو الأرقم. "مالك، عب"
٤٠١٦٣۔۔۔ سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ کسی غلام کو کسی حاجی نے بےلگام چھوڑدیا، تو بنی عائد کا ایک شخص اور وہ کھیلتے تھے تو اس غلام نے اس عائذی کو مارڈالا، بعد میں اس مقتول کا باب حضرت عمر (رض) کے پاس اپنے بیٹے کے خون کا مطالبہ کرنے آیا، حضرت عمرنے اس کی دیت دینے سے انکار کردیا اور فرمایا : اس کا مال نہیں، تو عائذی بولا : آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اسے مار دیتا ؟ آپ نے فرمایا : تب تم اس کی دیت ادا کرتے وہ کہنے لگا : پھر تو وہ چتکبر اسانپ ہوا اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو کاٹتا پھرے اور اگر اسے قتل کیا جائے تو اس کا انتقام لیا جائے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بس وہ سانپ ہی ہے۔ مالک، عبدالرزاق، سائبہ وہ آزاد کردہ غلام ہوتا ہے جس کانہ کوئی وارث ہو اور نہ آزاد کنندہ کا ولاء تو وہ جہاں چاہے اپنا مال صرکرے، اس طرح غلام آزاد کرنے سے حدیث میں ممانعت آئی ہے۔

40177

40164- عن حبيب بن صهبان قال سمعت عمر يقول: ظهور المسلمين حمى الله، لا تحل لأحد إلا أن يجرحها بحد، وقد رأيت بياض إبطيه قائما يقيد من نفسه."عب".
٤٠١٦٤۔۔۔ حبیب بن صہبان سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے حضرت عمر (رض) کو فرماتے سنا : کہ مسلمانوں کو پیٹھیں اللہ تعالیٰ کی رکھ ہیں محفوظ جگہ کسی کے لیے انھیں بغیر حد کے زخمی کرنا حلال نہیں، میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی کہ آپ کھڑے ہو کراپنابدلہ دلوار ہے تھے۔ رواہ عبدالرزاق

40178

40165- عن الزهري أن عثمان ومعاوية كانا لا يقيدان المشرك من المسلم."قط، ق".
٤٠١٦٥۔۔۔ زہری سے روایت ہے کہ حضرت عثمان و معاویہ (رض) مشرک کی دیت مسلمان سے نہ لیتے تھے۔ دارقطنی، بیھقی

40179

40166- عن إبراهيم النخعي أن عمر بن الخطاب أتى برجل قد قتل عمدا فعفا بعض الأولياء فأمر بقتله، فقال ابن مسعود: كانت النفس لهم جميعا فلما عفا هذا أحيى النفس فلا تستطيع أن تأخذ حقها حتى يأخذ غيره، قال: فما ترى؟ قال: أرى أن تجعل الدية عليه من ماله وترفع حصة الذي عفا، قال عمر: وأنا أرى ذلك."الشافعي، ق".
٤٠١٦٦۔۔۔ ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے قصداقتل کیا تھا تو مقتول کے بعض ورثاء نے معاف کردیا آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : یہ جان ان سب کے لیے تھی پس جب انھوں نے معاف کردیاتو جان زندہ کردی گئی لہٰذا آپ اس کا حق نہیں لے سکتے یہاں تک کہ کوئی دوسرا اسے لے، تو حضرت عمرنے فرمایا : آپ کی کیا رائے ہے ؟ انھوں نے فرمایا : مری رائے یہ ہے کہ آپ اس کے مال میں دیت مقررکریں اور معاف کرنے والوں کا حصہ ختم کردیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مری بھی یہی رائے ہے۔ الشافعی، بیھقی

40180

40167- عن الحكم بن عيينة عن عرفجة عن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ليس على الوالد قود من ولد"."ق، ش".
٤٠١٦٧۔۔۔ حکم بن عیینہ، عرفجہ سے وہ حضرت عمربن خطاب (رض) سے روایت کرتے ہیں : فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : والد پر بیٹے کی دیت نہیں۔ بیھقی ، ابن ابی شیبۃ

40181

40168- عن يزيد بن أبي منصور قال: بلغ عمر بن الخطاب أن عامله على البحرين ابن الجارود أو ابن أبي الجارود أتى برجل يقال له ادرياس قامت عليه بينة بمكاتبة عدو المسلمين وأنه قد هم أن يلحق بهم فضرب عنقه وهو يقول: يا عمراه! يا عمراه! فكتب عمر إلى عامله ذلك فأمره بالقدوم عليه، فقدم فجلس له عمر وبيده حربة فدخل على عمر فعلا عمر لحيته بالحربة وهو يقول: ادرياس لبيك! ادرياس لبيك! وجعل الجارود يقول: يا أمير المؤمنين! إنه كاتبهم بعورة المسلمين وهم أن يلحق بهم، فقال عمر: قتلته على همه وأينا لم يهمه! لولا أن تكون سنة لقتلتك به."ابن جرير".
٤٠١٦٨۔۔۔ یزید بن ابی منصور سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) کو اس بات کی اطلاع پہنچی کہ بحرین پر ان کے گورنر ابن الجارودیا ابن ابی الجارود کے پاس ایک شخص لایا گیا جسے اور پاس کہا جاتا تھا اس کے خلاف گواہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے دشمن سے خط و کتابت کرتا اور ان سے مل جانے کا عزم رکھتا ہے تو مذکورہ گورنرنے اسے قتل کردیاجب کہ وہ کہہ رہا تھا۔ہائے عمر ! ہائے عمر ! مری مدد کرو، تو حضرت عمرنے اپنے گورنر کو لکھا کہ وہ ان کے پاس آئے جب وہ آیا تو حضرت عمر علیحدہ اس کے لیے بیٹھے آپ کے ہاتھ میں ایک بھالہ تھا، جب وہ آپ کے پاس کمرہ میں آیا تو آپ نے بھالہ سے اس کی داڑھی اوپر چڑھائی اور فرمانے لگے : اور پاس ! میں حاضر ہوں اور پاس ! میں حاضر ہوں اور جارود کہنے لگے : امیرالمومنین اس نے ان سے مسلمانوں کی پوشیدہ باتیں کی ہیں اور ان سے الحاق کا عزم کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا تم نے صرف اس کے ارادہ پر اسے مار ڈالا، ہم میں سے کس نے اس کا ارادہ نہ کیا، اگر یہ طریقہ نہ پڑجاتا تو میں تمہیں اس کے بدلہ قتل کردیتا۔ رواہ ابن جریر۔

40182

40169- عن النزال بن سبرة قال: كتب عمر إلى أمراء الأجناد أن لا تقتل نفس دوني."ش، ق".
٤٠١٦٩۔۔۔ نزال بن سیرۃ سے روایت ہے فرماتے ہیں : کہ حضرت عمر (رض) نے اجناد کے گورنروں کو لکھا کہ مری وجہ سے کوئی جان قتل نہ کی جائے مصنف ابن ابی شیبۃ، بیھقی

40183

40170- عن مجاهد قال: مسحت امرأة ببطن امرأة فأسقطت جنينا فرفع ذلك إلى عمر، فأمرها أن تكفر بعتق رقبة - يعني التي مسحت."عب".
٤٠١٧٠۔۔۔ مجاہد سے روایت ہے فرماتے ہیں : کہ ایک عورت نے کسی عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیراجس کی وجہ سے اس کا حمل ساقط ہوگیا، یہ مقدمہ حضرت عمر (رض) کے سامنے پیش ہوا، تو آپ نے ہاتھ پھیرنے والی کو حکم دیا کہ وہ کفارہ میں ایک غلام آزادکرے۔ رواہ عبدالرزاق

40184

40171- عن الأسود بن قيس عن أشياخ لهم أن غلاما دخل دار زيد بن مرجان فضربته ناقة لزيد فقتلته، فعمد أولياء الغلام فعقروها، فاختصموا إلى عمر بن الخطاب، فأبطل دم الغلام وأغرم الأب ثمن الناقة."عب".
٤٠١٧١۔۔۔ اسودبن قیس اپنے شیوخ سے نقل کرتے ہیں : کہ ایک لڑکا زید بن مرجان کے گھر میں داخل ہواج سے زید کی کسی اونٹنی نے مارکرہلاک کردیا ادھر لڑکے کے ورثاء نے اونٹنی کی کونچیں (ٹانگیں) کاٹ دیں پھر یہ لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس فیصلہ کرانے آئے ، آپ نے لڑکے کا خون رائیگاں قراردیا اور باپ پر اونٹنی کی قیمت (بطور ضمان) واجب کی۔ رواہ عبدالرزاق

40185

40172- عن قتادة أن عمر بن الخطاب رفع إليه رجل قتل رجلا فجاء أولياء المقتول فقد عفا أحدهم، فقال عمر لابن مسعود وهو إلى جنبه: ما تقول؟ فقال ابن مسعود: أقول إنه قد أحرز من القتل، فضرب على كتفه وقال: كنيف ملئ علما."عب".
٤٠١٧٢۔۔۔ قتادہ سے روایت ہے : کہ حضرت عمربن خطاب (رض) کے پاس ایک شخص کا مقدمہ لایا گیا جس نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا، مقتول کے ورثاء آئے ان میں سے ایک نے معاف کردیاتو حضرت عمرنے حضرت عبداللہ بن مسعود سے فرمایا جو آپ کے پاس بیٹھتے تھے : آپ کی کیا رائے ہے ؟ تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : میں کہتا ہوں کہ وہ قتل سے بچ گیا، تو آپ نے ان کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا : علم سے بھرابرتن ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40186

40173- عن قتادة أن عمر بن الخطاب قتل رجلا بامرأة."عب".
٤٠١٧٣۔۔۔ قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک عورت کے بدلہ میں ایک مرد کو قتل کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40187

40174- عن القاسم بن أبي برة أن رجلا مسلما قتل رجلا من أهل الذمة بالشام فرفع إلى أبي عبيدة بن الجراح، فكتب فيه إلى عمر بن الخطاب، فكتب عمر: إن كان ذاك فيه خلقا فقدمه فاضرب عنقه، وإن كان هي طيرة طارها فأغرمه دية أربعة آلاف."عب، ق".
٤٠١٧٤۔۔۔ قاسم بن ابی برہ سے روایت ہے کہ شام میں ایک مسلمان نے کسی ذمی کو مارڈالا، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے سامنے فیصلہ پیش ہوا، آپ نے اس بارے میں حضرت عمربن خطاب (رض) کو لکھا تو حضرت عمر (رض) نے جو ابالکھا : کہ اگر یہ اس شخص کی عدالت ہے تو اسے بھیج دو میں اسے قتل کروں اور اگر یہ اس کی عضبنا کی تھی جو اس نے کی تو اس پرچارہزار کی دیت واجب کرو۔ عبدالرزاق، بیھقی

40188

40175- عن ابن عباس قال: جاءت جارية إلى عمر بن الخطاب فقالت: إن سيدي اتهمني فأقعدني على النار حتى احترق فرجي، فقال لها عمر: هل رأى ذلك عليك؟ قالت: لا، قال: فهل اعترفت له بشيء؟ قالت: لا، فقال عمر: علي به! فلما رأى عمر الرجل قال: أتعذب بعذاب الله؟ قال: يا أمير المؤمنين! اتهمتها في نفسها، قال: أرأيت ذلك عليها؟ قال: لا، قال: فاعترفت لك به؟ قال: لا، قال: والذي نفسي بيده لو لم أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "لا يقاد مملوك من مالكه ولا ولد من والده" لأقدتها منك! وضربه مائة سوط، وقال للجارية: اذهبي فأنت حرة لوجه الله وأنت مولاة الله ورسوله، أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من حرق بالنار أو مثل به فهو حر وهو مولى الله ورسوله"."طس، ك، ق".
٤٠١٧٥۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : ایک لونڈی حضرت عمربن خطاب (رض) کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی : کہ مرے آقانے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے آگ پر بٹھایاجس کی وجہ سے مری شرمگاہ جھلس گئی تو حضرت عمرنے اس سے فرمایا (رح) : اس نے کوئی چیز دیکھی ؟ وہ بولی : نہیں، آپ نے فرمایا : تم نے اس کے سامنے کوئی اعتراف کیا ؟ اس نے کہا : نہیں حضرت عمرنے فرمایا : اس شخص کو مرے پاس لاؤ، حضرت عمرنے جب اس شخص کو دیکھاتو فرمایا : کیا تم اللہ تعالیٰ کا عذاب دینا چاہتے ہو ؟ وہ کہنے لگا، امیرالمومنین ! میں نے اس پر تہمت رکھی ہے، آپ نے فرمایا : تم نے کوئی چیز دیکھی ؟ اس نے کہا : نہیں آپ نے فرمایا : اس نے تمہارے سامنے کوئی اعتراف کیا ؟ اس نے کہا : نہیں آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ غلام کا بدلہ آقا سے اور بیٹے کا بدلہ باپ سے نہ لیا جائے تو میں تم سے اس کا بدلہ لیتا، اور اسے سوکوڑے مارے اور لونڈی سے فرمایا : تم جاؤ، تم اللہ تعالیٰ کی خاطر آزاد ہو آج سے تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باندی ہو، میں گواہ ہوں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : جو آگ سے جلایا گیا اس کا مثلہ کیا گیا تو وہ آزاد ہے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا غلام ہے۔ طبرانی فی الاوسط، حاکم، بیھقی ، کلام ۔۔۔ ذخیرہ الحفاظ ٢٦١٢۔

40189

40176- عن الأحنف بن قيس عن علي وعمر في الحر يقتل العبد قالا: فيه ثمنه ما بلغ."حم في العلل، قط، ق وصححه".
٤٠١٧٦۔۔۔ احنف بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت علی وعمر (رض) سے اس آزاد کے بارے میں پوچھا گیا جو غلام کو قتل کردے آپ دونوں حضرات نے فرمایا : اس میں جتنی اس کی قیمت بنتی ہے وہ واجب الاداء ہے۔ مسند احمد، فی العلل، دارقطنی، بیھقی وصححہ

40190

40177- عن عمر قال: حضرت النبي صلى الله عليه وسلم يقيد الأب من ابنه ولا يقيد الابن من أبيه."عب، ق".
٤٠١٧٧۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا آپ بیٹے سے باپ کا بدلہ لے رہے تھے اور باپ سے بیٹے کا بدلہ نہیں لے رہے تھے۔ عبدالرزاق، بیھقی

40191

40178- عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب قتل نفرا خمسة أو سبعة برجل قتلوه قتل غيلة وقال: لو تمالأ عليه أهل صنعاء لقتلتهم به جميعا."مالك والشافعي، عب، ق".
٤٠١٧٨۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے ایک شخص کے بدلہ پانچ یاسات آدمی قتل کئے جنہوں نے اسے دھو کے سے قتل کیا تھا اور فرمایا : اگر اس کے قتل میں صنعاء والے شامل ہوتے تو میں ان سب کو اس کے بدلہ میں قتل کرتا۔ مالک والشافعی، عبدالرزاق، بیھقی

40192

40179- عن عمر قال: يضرب أحدكم أخاه بمثل أكلة اللحم ثم يرى أني لا أقيده! والله لا يفعل ذلك أحد إلا أقدته."ابن سعد وأبو عبيدة في الغريب، ق".
٤٠١٧٩۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو گوشت کے لقمہ کی طرح مارتا ہے پھر وہ سمجھتا ہے کہ میں اس سے بدلہ نہیں لوں گا، اللہ کی قسم ! جو بھی ایسا کرے گا میں اس سے بدلہ لوں گا۔ ابن سعد وابو عبیدۃ فی الغریب بیھقی

40193

40180- عن جرير أن رجلا كان مع أبي موسى فغنموا مغنما فأعطاه أبو موسى نصيبه ولم يوفه فأبى أن يأخذه إلا جميعه، فضربه أبو موسى عشرين سوطا وحلق رأسه فجمع شعره وذهب به إلى عمر، فأخرج شعرا من جيبه فضرب به صدر عمر، قال: ما لك؟ فذكر قصته، فكتب عمر إلى أبي موسى: سلام عليك، أما بعد فإن فلان ابن فلان أخبرني بكذا وكذا وإني أقسم عليك إن كنت فعلت ما فعلت في ملأ من الناس جلست له في ملأ من الناس فاقتص منك، وإن كنت فعلت ما فعلت في خلاء فاقعد له في خلاء فليقتص منك؛ فلما دفع إليه الكتاب قعد للقصاص فقال الرجل: قد عفوت عنه لله."ق".
٤٠١٨٠۔۔۔ جریر سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ (رض) کے ساتھ ایک شخص تھا پھر ان لوگوں نے مال غنیمت حاصل کیا حضرت ابو موسیٰ نے اسے اس کا حصہ دیامگرپورا نہیں دیاتو اس نے پورے حصہ سے کم لینے سے انکار کردیا تو ابو موسیٰ نے اسے بیس کوڑے مارے اور اس کا سرمنڈوادیا، اس نے اپنے بال جمع کئے اور حضرت عمر (رض) کے پاس چلا گیا، جیب سے بال نکال کر حضرت عمر کے سینے کی طرف پھینک دیئے آپ نے فرمایا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ اس نے اپنا قصہ بیان کیا حضرت عمر (رض) نے ابوموسیٰ کو لکھا : السلام علیکم اما بعد، فلاں بن فلاں نے مجھے اس طرح کے واقعہ کی خبردی ہے میں تمہیں قسم دیتا ہوں تم نے جو کچھ کیا اگر بھری مجلس میں کیا تو اس کے لیے بھری مجلس میں بیٹھو اور وہ تم سے بدلہ کے لیے بیٹھے تو وہ شخص کہنے لگا : میں نے اللہ کے لیے معاف کردیا ہے۔ رواہ البیھقی

40194

40181- عن زيد بن وهب أن رجلا قتل امرأة فاستعدى ثلاثة إخوة لها عليه عمر بن الخطاب فعفا أحدهم، قال عمر للباقين:خذا ثلثي الدية، فإنه لا سبيل إلى قتله."ق".
٤٠١٨١۔۔۔ زید بن وھب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی عورت کو قتل کردیا اس کے تین بھائیوں نے اس قاتل کے خلاف حضرت عمر سے مدد طلب کی پھر ان میں سے ایک نے معاف کردیاتو حضرت عمرنے باقیوں سے کہا : تم دونوں دوتہائی دیت لے لو کیونکہ اس کے قتل کی کوئی راہ نہیں رہی۔ رواہ البیھقی

40195

40182- عن الحكم قال: كتب عمر: لا يؤمن أحد جالسا بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وعمد الصبي وخطؤه سواء، فيه الكفارة، وأيما امرأة تزوجت عبدها فاجلدوها الحد."سعد بن نصر في الأول من حديثه، ق وقال: هذا منقطع وفيه جابر الجعفي ضعيف".
٤٠١٨٢۔۔۔ حکم سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے لکھا : کوئی شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہرگز بیٹھ کر امامت نہ کرے، اور بچہ کا جان بوجھ کر یاغلطی سے قتل کرنا برابر ہے اور جو عورت اپنے غلام سے شادی کرے تو بطور حدا سے کوڑے مارو۔ سعد بن نصر فی الاول من حدیثہ، بیھقی وقال ھذا منقطع وفیہ جابر الجعفی ضعیف

40196

40183- عن عمر قال: لا أقيد من العظام."ص، ق".
٤٠١٨٣۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : میں ہڈی کا بدلہ نہیں لیتا۔ سعید بن منصور، بیھقی

40197

40184- عن عطاء بن أبي رباح؟ أن رجلا كسر فخذ رجل فخاصمه إلى عمر بن الخطاب فقال: يا أمير المؤمنين! أقدني، قال: ليس لك القود، إنما لك العقل، قال الرجل: فاسمعني كالأرقم، إن يقتل ينقم، وإن يترك يلقم؛ قال: فأنت كالأرقم."ص، ق".
٤٠١٨٤۔۔۔ عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی شخص کی ران توڑدی وہ حضرت عمربن خطاب (رض) کی خدمت میں فیصلہ کے لیے حاضر ہوا، اور کہنے لگا : امیرالمومنین ! مجھے بدلہ دلوایئے ! آپ نے فرمایا : تیرے لیے بدلہ نہیں، تیرے لیے دیت ہے تو وہ شخص بولا : تو مجھے چتکبرے سانپ کی طرح سمجھیں ! اسے قتل کیا جائے تو انتقام لیا جائے اور اسے چھوڑا جائے تو کاٹے، آپ نے فرمایا : توچتکبرے سانپ جیساہی ہے۔ سعید بن منصور، بیھقی

40198

40185- عن عمر قال: الدية المغلظة ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون خلفة، وهي شبه العمد."ص، ق".
٤٠١٨٥۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے : کہ دیت ثابۃ تیس تین سالے اور تیس چار سالے اور چالیس حاملہ اونٹنیاں اور یہ عمداقتل کے مشابہ ہے۔ سعید بن منصور، بیھقی

40199

40186- عن عم أبي قلابة قال: رمي رجل بحجر في رأسه فذهب سمعه ولسانه وعقله وذكره فلم يقرب النساء، فقضى عمر فيه بأربع ديات وهو حي."عب، ق".
٤٠١٨٦۔۔۔ ابوقلابہ کے چچا سے روایت ہے کہ ایک شخص کو پتھر مارا گیا جس کی وجہ سے اس کی سماعت، گویائی، عقل اور مردانہ قوت جاتی رہی وہ عورتوں کے نزدیک جانے کانہ رہا تو حضرت عمرنے اس کے بارے میں چاردیتوں کا فیصلہ کیا جب کہ وہ زندہ تھا۔ عبدالرزاق، بیھقی

40200

40187- عن عمر قال: في الذراع إذا كسر مائتا درهم."ق".
٤٠١٨٧۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ بازو کے توڑنے میں دوسودرہم ہیں۔ رواہ البیھقی

40201

40188- عن عمر أنه قضى على ساق رجل كسرت بثمان من الإبل."خ، في تاريخه، ق".
٤٠١٨٨۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت کہ انھوں نے ایک آدمی کی پنڈلی جو توڑی گئی اس کے بارے آٹھ اونٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ (بخاری فی تاریخہ، بیھقی)

40202

40189- عن زيد بن وهب قال: خرج عمر ويداه في أذنيه وهو يقول: يا لبيكاه! يا لبيكاه! قال الناس: ما له؟ قال: جاءه بريد من بعض أمرائه أن نهرا حال بينهم وبين العبور ولم يجدوا سفنا، فقال أميرهم: اطلبوا لنا رجلا يعلم غور النهر، فأتى بشيخ فقال: إني أخاف البرد، وذلك في البرد، فأكرهه فأدخله فلم يلبثه البرد فجعل ينادي: يا عمراه! فغرق، فكتب إليه فأقبل فمكث أياما معرضا عنه - وكان إذا وجد على أحد منهم فعل به ذلك - ثم قال: ما فعل الرجل الذي قتلته؟ قال: يا أمير المؤمنين! ما تعمدت قتله، لم نجد شيئا نعبر فيه وأردنا أن نعلم غور الماء ففتحنا كذا وكذا، فقال عمر: لرجل مسلم أحب إلي من كل شيء جئت به، لولا أن تكون سنة لضربت عنقك فأعط أهله ديته واخرج فلا أراك."ق".
٤٠١٨٩۔۔۔ زید بن وھب سے روایت ہے فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت عمر (رض) باہر نکلے اور ان کے دونوں ہاتھ ان کے کانوں میں تھے اور وہ یہ کہتے جارہے تھے : میں حاضرہوں ! میں حاضرہوں ! لوگوں نے کہا : انھیں کیا ہوگیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ان کے پاس ان کے کسی امیر کی طرف سے خبر آئی کہ ان کے سامنے ایک نہر آگئی اور ان کے پاس کشتیاں نہ تھیں تو ان کا امیر کہنے لگا : ہمارے لیے کوئی شخص تلاش کروجونہر کی گہرائی جان سکے، اتنے میں ایک بوڑھاشخص لایا گیا وہ کہنے لگا : مجھے ٹھنڈک کا خدشہ ہے اور وہ سردیوں کا موسم تھا، چنانچہ امیرنے اسے مجبور کیا اور نہر میں اتاردیا، ٹھنڈک نے اسے زیادہ دیر نہیں رکھا کہ وہ پکار کر کہنے لگا : ہائے عمر ! پھر وہ ڈوب گیا، آپ نے اس امیر کی طرف خط لکھا، وہ آپ کے پاس آیا، آپ کچھ دن اس سے اعراض کرتے رہے، آپ کو جب بھی کسی پہ غصہ آتا اسے اس کی سزا دیتے، پھر آپ نے فرمایا : اس شخص کا کیا ہوا جسے تم نے قتل کردیا تھا ؟ وہ کہنے لگا : امیرالمومنین ! میں نے اسے قتل کرنے کا ارادہ تو نہ کیا تھا ہمارے پاس نہرعبور کرنے کی کوئی چیز نہ تھی ہم نے چاہا کہ پانی کی گہرائی کا پتہ لگاسکیں، پھر ہم نے اس طرح کیا، تو حضرت عمرنے فرمایا : ایک مسلمان شخص مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ عزیز ہے جو تم لے کر آئے ہو، اگر طریقہ پڑجانے کا خوف نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑادیتاجاؤ ! اس کے گھروالوں کو دیت دو اور یہاں سے چلے جاؤ، پھر مجھے نظر نہ آؤ۔ دواہ البیھقی

40203

40190- عن عمر أنه قال في الذي يقتل عمدا ثم لا يقع عليه القصاص: يجلد مائة."عب".
٤٠١٩٠۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے : آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا : جو قصد ا قتل کرے پھر اس پر قصاص واجب نہ ہوسکے، اسے سوکوڑے مارے جائیں۔ رواہ عبدالرزاق

40204

40191- عن القاسم بن عبد الرحمن قال: انطلق رجلان من أهل الكوفة إلى عمر بن الخطاب فقالا: يا أمير المؤمنين! إن ابن عم لنا قتل، نحن إليه شرع سواء في الدم؛ وهو ساكت عنهما لا يرجع إليهما شيئا حتى ناشداه الله، فحمل عليهما، ثم ذكراه الله فكف عنهما، ثم قال عمر: ويل لنا إن لم نذكر الله! وويل لنا إن لم نذكر الله! فيكم شاهدان ذوا عدل تجيئان بهما على من قتله فنقيدكما منه، وإلا حلف من بدوكم: بالله ما قتلنا ولا علمنا قاتلا، فإن نكلوا حلف منكم خمسون ثم كانت لكم الدية."ش".
٤٠١٩١۔۔۔ قاسم بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ کوفہ کے دو شخص حضرت عمر (رض) کے پاس گئے، ان دونوں نے کہا : امیرالمومنین ! ہمارا چچازاد بھائی قتل ہوگیا ہے، ہم اس کے خون میں برابر سرابر ہیں۔ آپ برابر خوموش رہے اور ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے یہاں تک کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی قسم لی، اور ان پر حملہ کرنے لگے تو انھوں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیاتو آپ رک گئے، پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہمارے لیے ہلاکت ہواگرہم اللہ تعالیٰ کو یادنہ کریں ہمارے لیے ہلاکت ہواگرہم اللہ تعالیٰ کو یادنہ کریں، تم میں دوانصاف والے گواہ ہوں انھیں مرے پاس لاؤدہ مجھے بتائیں کہ اسے کس نے قتل کیا پھر میں تمہیں اس کا بدلہ دلواؤں گا، ورنہ تمہارے گاؤں کے لوگ قسمیں کھائیں اللہ کی قسم نہ ہم نے اسے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا علم ہے پھر اگر وہ قسم کھانے سے رک جائیں، تو تم میں سے پچاس آدمی قسمیں کھائیں پھر تمہارے لیے دیت ہوگی۔ مصنف ابن ابی شیبہ

40205

40192- مسند علي عن علي قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل أمسك رجلا وقتله الآخر فقال: "يقتل القاتل ويحبس الممسك". "قط".
٤٠١٩٢۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے بارے میں فیصلہ فرمایا جس نے ایک آدمی کو پکڑا اور دوسرے نے اسے قتل کیا، قاتل کو قتل کیا جائے اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے۔ رواہ دارقطنی

40206

40193- أيضا عن عاصم بن ضمرة قال قال علي: إن الدية في الخطأ أرباعا: خمس وعشرون حقة، وخمس وعشرون جذعة، وخمس وعشرون بنات لبون، وخمس وعشرون بنات مخاض."د، قط، هـ, عب".
٤٠١٩٣۔۔۔ اسی طرح عاصم بن ضمرۃ سے روایت ہے فرمایا حضرت علی نے فرمایا : قتل خطا کی دیت چارچوتھائی ہے پچیس تین سالے پچیس چار سالے پچیس دو سالے پچیس یکسالے۔ ابوداؤد، دارقطنی، ابن ماجۃ، عبدالرزاق

40207

40194- عن ابن جريج قال قلت لعطاء: رجل أمسك رجلا حتى قتله آخر! قال قال علي: يقتل القاتل ويحبس الممسك في السجن حتى يموت."حب".
٤٠١٩٤۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے عطا سے کہا : ایک شخص نے ایک شخص کو پکڑ کر رکھا اور دوسرے نے اسے قتل کردیا، انھوں نے فرمایا : حضرت علی (رض) نے فرمایا : قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے اور پکڑنے والے کو تاموت جیل میں رکھاجائے۔ ابن حبان

40208

40195- عن قتادة قال: قضى على أن يقتل القاتل ويحبس الحابس للموت."عب".
٤٠١٩٥۔۔۔ قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے فیصلہ فرمایا : کہ قاتل کو قتل کیا جائے اور پکڑنے والے کو موت تک قید کیا جائے۔ رواہ عبدالرزاق

40209

40196- عن ابن جريج قال قلت لعطاء: رجل نادى صبيا على جدار أن استأخر فخر فمات؟ قال: يروون عن علي أنه قال: يغرمه - يقول أفزعه."عب".
٤٠١٩٦۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں نے عطاء سے کہا : کسی نے دیوار پربچہ کو آوازدی : پیچھے ہٹ، تو وہ گرکرمرگیا ؟ انھوں نے فرمایا : لوگ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں : کہ اسے تاوان دینا پڑے گا، فرماتے ہیں : اس نے اسے ڈرادیا اس لئے۔ رواہ عبدالرزاق

40210

40197- عن حيى بن يعلى يخبر أن رجلا أتى يعلى فقال: قاتل أخي! فدفعه إليه فجدعه بالسيف حتى رأى أنه قتله وبه رمق فأخذه أهله فداووه حتى برئ، فجاء يعلي فقال: قاتل أخي! فقال: أو ليس قد دفعته إليك؟ فأخبره خبره، فدعاه يعلى فإذا هو قد شلل، فحسب جروحه فوجد فيه الدية فقال له يعلى: إن شئت فادفع إليه واقتله، وإلا فدعه، فلحق بعمر فاستعدى على يعلى، فكتب عمر إلى يعلى أن: أقدم على، فقدم عليه فأخبره الخبر، فاستشار عمر علي بن أبي طالب، فأشار عليه بما قضى به يعلى، فاتفق علي وعمر على قضاء يعلى أن يدفع إليه الدية ويقتله أو يدعه فلا يقتله، وقال عمر ليعلى: إنك لقاض! ورده على عمله."عب".
٤٠١٩٧۔۔۔ حیی بن یعلیٰ سے روایت ہے کہ ایک شخص یعلیٰ کے پاس آیا اور کہا : یہ مرے بھائی کا قاتل ہے ! انھوں نے اسے اس کے حوالہ کردیا، اس نے تلوار سے کی ناک کاٹ دی اور وہ یہ سمجھا کہ اس نے اسے قتل کردیا ہے جب کہ اس کی کچھ سانس باقی تھی، اس کے گھروالے اسے لے گئے اور اس کا علاج معالجہ کیا اور وہ تندرست ہوگیا، پھر وہ یعلیٰ کے پاس آیا اور کہنے لگا : مرے بھائی کا قاتل ! تو انھوں نے کہا : کیا میں نے اسے تمہارے تمہارے حوالہ نہ کردیا تھا ؟ تو اس نے اس کا قصہ سنایا، یعلیٰ نے اسے بلا بھیجا، اس کے اعضاء شل ہوچکے تھے آپ نے اس کے زخموں کا اندازہ لگایا تو اس میں دیت پائی، پھر یعلیٰ نے اس سے کہا : چاہوتوا سے دیت دے دو اور اسے قتل کردو ورنہ اسے چھوڑدو، وہ حضرت عمر (رض) کے پاس چلا گیا اور یعلیٰ کے خلاف مددطلب کرنے لگا، حضرت عمرنے یعلیٰ کو لکھا : کہ مرے پاس آجاؤ ! وہ آپ کے پاس آئے اور ساراواقعہ بتایا، حضرت عمرنے حضرت علی سے مشورہ کیا تو انھوں نے یعلی کے فیصلہ کے مطابق مشورہ دیا، پھر دونوں حضرات یعلی کے فیصلہ پر متفق ہوگئے کہ وہ اسے دیت دے کرا سے قتل کردے یا اسے چھوڑدے قتل نہ کرے، حضرت عمرنے یعلیٰ سے کہا : تم قاضی ہو اور انھیں ان کے عہدہ پر واپس بھیج دیا۔ رواہ عبدالرزاق

40211

40198- عن ابن المسيب أن رجلا من أهل الشام يدعى جبيرا وجد مع امرأته رجلا فقتله، وأن معاوية أشكل عليه القضاء فيه فكتب إلى أبي موسى الأشعري أن يسأل له عليا عن ذلك،فسأل عليا، فقال: ما هذا ببلادنا لتخبرني! فقال: إنه كتب إلى معاوية أن أسألك عنه، فقال: أنا أبو الحسن القرم! يدفع برمته إلا أن يأتي بأربعة شهداء."الشافعي، عب ص، ق".
٤٠١٩٨۔۔۔ ابن المیسب سے روایت ہے کہ شام کا ایک شخص تھا جی سے جبیرکہاجاتا تھا، اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو دیکھا اور اسے قتل کردیا، اور حضرت معاویہ (رض) اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکل میں پڑگئے، انھوں نے ابوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ وہ اس بارے میں حضرت علی سے پوچھیں انھوں نے حضرت علی سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : جس کی تم نے اطلاع دی ہمارے شہروں میں ایسا نہیں ہوتا، تو انھوں نے کہا : مجھے حضرت معاویہ نے کہا کہ میں آپ سے اس بارے میں پوچھوں، تو حضرت علی نے فرمایا : میں ابو الحسن عظیم سردارہوں، وہ اپنا سب کچھ دے دے البتہ اگر وہ چارگواہ پیش کرے تو دوسری بات ہے۔ الشافعی، عبدالرزاق ، سعید بن منصور، بیھقی

40212

40199- عن علي قال: ما كان بين الرجل والمرأة ففيه القصاص من جراحات أو من قتل النفس أو غيرها إن كان عمدا."عب".
٤٠١٩٩۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : اگر مرد عورت کے درمیان، زخموں خون کرنے یا اس کے علاوہ کوئی قصدامعاملہ ہو تو اس میں قصاص ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40213

40200- عن ابن جريج أخبرني محمد أظنه بن عبيد الله العرزمي أن عمر وعليا اجتمعا على أنه من مات في القصاص فلا حد له، كتاب الله قتله."عب".
٤٠٢٠٠۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے محمد نے بتایاجس کے بارے مراگمان ہے کہ وہ عبیدا اللہ العرزمی کے بیٹے ہیں کہ حضرت عمروعلی (رض) کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص قصاص میں مرجائے تو اس کے لیے کوئی حد نہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب (کے فیصلہ) نے اسے قتل کیا ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40214

40201- عن الحسن قال: أرسل عمر بن الخطاب إلى امرأة مغيبة كان يدخل عليها فأنكر ذلك فأرسل إليها، فقيل لها: أجيبي عمر! فقالت: يا ويلها ما لها ولعمر! فبينما هي في الطريق فزعت فضربها الطلق فدخلت دارا فألقت ولدها فصاح الصبي صيحتين ثم مات، فاستشار عمر أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فأشار عليه بعضهم أن ليس عليك شيء إنما أنت وال ومؤدب، وصمت علي فأقبل على علي فقال: ما تقول؟ قال: إن كانوا قالوا برأيهم فقد أخطأ رأيهم، وإن كانوا قالوا في هواك فلم ينصحوا لك، أرى أن ديته عليك، فإنك أنت أفزعتها وألقت ولدها في سبيلك، فأمر عليا أن يقسم عقله على قريش - يعني يأخذ عقله من قريش لأنه أخطأ."عب، ق".
٤٠٢٠١۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے : کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک عورت کی طرف پیغام بھیجا جس کا خاوندگھرپر نہیں تھا کہ اس کے گھر کوئی آتا ہے، اس نے اس کا انکار کیا آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا لوگوں نے اس سے کہا : کہ امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہو وہ کہنے لگی ہائے افسوس ! امرا اور عمرکا کیا واسطہ ! اچانک جب وہ راستہ میں تھی گھبراگئی اسے دردزہ شروع ہواپھر وہ کسی گھر میں داخل ہوئی جہاں اس نے اپنا بچہ جنا، بچہ نے دوچیخیں ماریں اور مرگیا، بعد میں حضرت عمر (رض) نے صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشورہ طلب کیا تو کچھ نے یہ مشورہ دیا کہ آپ یہ کوئی چیز واجب نہیں کیونکہ آپ تو صرف والی اورادب سکھانے والے ہیں، اور حضرت علی (رض) خاموش بیٹھے تھے، آپ حضرت علی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : آپ کیا کہتے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا، اگر انھوں نے اپنی طرف سے یہ بات کہی ہے تو ان کی رائے غلط ہے اور اگر انھوں نے آپ کی خواہش میں یا بات کہی ہے تو انھوں نے آپ سے خیرخواہی نہیں کی میں سمجھتا ہوں کہ اس کی دیت آپ کے ذمہ ہے کیونکہ آپ ہی نے اسے خوفزدہ کیا اور آپ کی خاطر اس نے اپنے بچہ کو جنم دیا چنانچہ آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ اس بچہ کی دیت قریش پر تقسیم کریں یعنی قریش سے اس کی دیت وصول کریں کیونکہ ان سے غلطی ہوئی۔ عبدالرزاق ، بیھقی

40215

40202- عن مجاهد أن عليا قال في الطبيب: إن لم يشهد على ما يعالج فلا يلومن إلا نفسه - يقول يضمن."عب".
٤٠٢٠٢۔۔۔ مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے طبیب کے بارے میں فرمایا : اگر وہ علاج پر کسی کو گواہ نہ بنائے تو اپنے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرے، یعنی وہ ضامن ہوگا۔ رواہ عبدالرزاق

40216

40203- عن الضحاك بن مزاحم قال: خطب علي الناس فقال: يا معشر الأطباء والبياطرة والمتطببين! من عالج منكم إنسانا أو دابة فليأخذ لنفسه البراءة، فإنه إن عالج شيئا ولم يأخذ لنفسه البراءة فعطب فهو ضامن."عب".
٤٠٢٠٣۔۔۔ ضحاک بن مزاحم سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا اے طبیبو، جانوروں کا علاج کرنے والو اور حکیمو ! تم میں سے جو کوئی کسی انسان یا کسی جانورکاعلاج کرے تو وہ اپنے لیے برأت حاصل کرلیاکرے، اس لیے کہ جس نے کسی بیماری کا علاج کیا اور اپنے لیے برأت حاصل نہ کی اور بعد وہ انسان یاجانورہلاک ہوگیا تو وہ طبیب ضامن ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40217

40204- عن علي وابن مسعود قالا: دية المملوك ثمنه وإن حلف دية الحر."عب".
٤٠٢٠٤۔۔۔ حضرت علی وابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا : غلام کی دیت اس کی قیمت ہے اگرچہ وہ آزاد کی دیت کی قسم کھائے۔ رواہ عبدالرزاق،

40218

40205- "من مسند جابر بن عبد الله" عن جابر قال: رفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم رجل طعن رجلا في فخذه بقرن فقال الذي طعنت فخذه: أقدني يا رسول الله! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "داوها واستأن بها حتى تنظر إلى ما تصير"، فقال الرجل: يا رسول الله! أقدني منه، فقال له مثل ذلك، فقال الرجل: أقدني يا رسول الله! فأقاده رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيبست رجل الذي استقاده وبرأ الذي استقيدمنه. فأبطل رسول الله صلى الله عليه وسلم دمها."كر".
٤٠٢٠٥۔۔۔ (مسندجابر (رض)) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک شخص کا مقدمہ پیش ہواجس نے دوسرے شخص کی ران پر سینگ مارا تھا تو جس کی ران میں سینگ مارا گیا تو وہ کہنے لگا : یارسول اللہ ! مجھے بدلہ دلوایئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا علاج کراؤ اور کچھ عرصہ دیکھو کیا بنتا ہے وہ شخص کہنے لگا یارسول اللہ ! مجھے بدلہ دلوایئے تو آپ نے پھر یہی فرمایا پھر وہ کہنے لگا یارسول اللہ ! مجھے بدلہ دلوایئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بدلہ دلوایاتو جس نے بدلہ طلب کیا اس کی ٹانگ خشک ہوگئی اور جس سے بدلہ گیا وہ تندرست ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا خون بےکارقراردیا۔ رواہ ابن عساکر، اگر یہ شخص خاموش رہتا اور معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی پرچھوڑدیتاتو اسے بدلہ مل جاتالیکن اس نے صبری کی جس کا نتیجہ ظاہر ہوگیا۔

40219

40206- عن سراقة بن مالك قال: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيد الأب من ابنه، ولا يقيد الابن من أبيه."عب".
٤٠٢٠٦۔۔۔ سراقہ بن مالک (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا آپ بیٹے باپ کا بدلہ ولوار ہے تھے اور باپ سے بیٹے کا بدلہ نہیں دلوار ہے تھے۔ رواہ عبدالرزاق، کلام :۔۔۔ ضعیف الترمذی ٢٣٤۔ مسندابی لیلیٰ ۔

40220

40207- "مسند أبي ليلى" كان أسيد بن حضير رجلا ضاحكا مليحا فبينا هو عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث القوم ويضحكهم فطعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأصبعه في خاصرته، فقال: أوجعتني! قال: "اقتص"، قال: يا رسول الله! إن عليك قميصا ولم يكن على قميص، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصه، فاحتضنه ثم جعل يقبل كشحه يقول بأبي أنت وأمي يا رسول الله أردت هذا."كر".
٤٠٢٠٧۔۔۔ اسید بن حضیر (رض) بیس مکھ اور خوشطبع آدمی تھے ایک دفعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لوگوں سے گفتگوکرکے انھیں ہنسا رہے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی کوکھ میں اپنی انگلی سے کچوکالگایاتو وہ کہنے لگے، آپ نے مجھے تکلیف دی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بدلہ لے لو، وہ عرض کرنے لگے : یارسول اللہ ! آپ کے جسم پر قمیض ہے اور مرے قمیض نہ تھی، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قمیض اٹھائی تو وہ آپ سے چمٹ گئے اور آپ کے پہلو کو بوسہ دے کر کہنے لگے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یارسول اللہ ! امیراصرف یہ ارادہ تھا۔ رواہ ابن عساکر

40221

40208- عن ابن الزبير قال: من أشار بسلاح ثم وضعه - يقول ضرب به - فدمه هدر."عب".
٤٠٢٠٨۔۔۔ ابن زبیر سے روایت ہے جس نے ہتھیار سے اشارہ کیا پھر اس سے ماراتو اس کا خون رائیگاں ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40222

40209- عن ابن عباس قال: لو أن مائة قتلوا رجلا قتلوا به."عب".
٤٠٢٠٩۔۔۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : اگر سو آدمی ایک شخص کو قتل کردیں تو سو اس کے بدلہ میں قتل کئے جائیں گے۔ رواہ عبدالرزاق

40223

40210- عن عكرمة قال: طعن رجل رجلا بقرن فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: أقدني! فقال: "دعه حتى تبرأ"، فأعادها عليه مرتين أو ثلاثا والنبي صلى الله عليه وسلم يقول: "دعه حتى تبرأ"، فأقاده به؛ ثم عرج المستقيد فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: برئ صاحبي وعرجت! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "ألم آمرك أن لا تستقيد حتى تبرأ! فعصيتني فأبعدك الله وبطل عرجك"! ثم أمر النبي صلى الله عليه وسلم بمن كان به جرح أن لا يستقيد حتى تبرأ جرحه، فالجرح على ما بلغ، وما كان من شلل أو عرج فلا قود فيه فهو عقل، ومن استقاد جرحا فأصيب المستقاد منه فعقل ما نقص من جرح صاحبه له. وقضى أن الولاء لمن أعتق."عب".
٤٠٢١٠۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے فرمایا : ایک شخص نے ایک شخص کو سینگ سے زخمی کیا، تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : مجھے بدلہ دلوایئے آپ نے فرمایا : رہنے دویہاں تک کہ تم تندرست ہوجاؤ (لیکن) اس نے دویاتین مرتبہ یہی تکرار کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے تندرست ہونے تک رہنے دو ، پھر آپ نے اسے بدلہ دلوایا، بعد میں بدلہ لینے والا لنگڑا ہوگیا، دوبارہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا : میرا شریک ٹھیک ہوگیا اور میں لنگڑا ہوگیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ ٹھیک ہونے تک بدلہ نہ طلب کرو (لیکن) تم نے میری نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دور کیا اور تمہاری لنگڑاہٹ برباد کردی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ جس کے زخم ہوں وہ اپنے زخم ٹھیک ہونے تک بدلہ طلب نہ کرے۔ زخم جس مقدار کو پہنچے اس کے مطابق معاملہ ہوگا، اور عضو کی بےکارگی یالنگڑاہٹ تو اس میں بدلہ نہیں بلکہ اس میں تاوان ہے، اور جس نے کسی زخم کا بدلہ طلب کیا پھر جس سے بدلہ طلب کیا گیا اسے نقصان پہنچاتو اس کے شریک کے زخم سے جتنا نقصان ہوا اس کا تاوان دیناپڑے گا اور آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ حق ولاء آزاد کرنے والے کو ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40224

40211- عن علي قال: إذا أمر الرجل عبده أن يقتل رجلا فإنما هو كسيفه أو كسوطه، يقتل المولى ويحبس العبد في السجن."الشافعي، ق".
٤٠٢١١۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : جب کوئی شخص اپنے غلام سے کسی آدمی کو قتل کرنے کا حکم دے تو یہ اس کی تلوار یا کوڑے کی طرح ہے، آقا کو قتل کیا جائے اور غلام کو جیل میں بند کیا جائے گا۔ الشافعی، بیھقی

40225

40212- "أيضا" عن ميسرة قال: جاء رجل وأمه إلى علي فقالت: إن ابني هذا قتل زوجي، فقال الابن: إن عبدي وقع على أمي، فقال علي: خبتما وخسرتما! إن تكوني صادقة يقتل ابنك، وإن يكن ابنك صادقا نرجمك؛ ثم قام علي للصلاة فقال الغلام لأمه: ما تنظرين؟ أن يقتلني ويرجمك! فانصرفا، فلما صلى سأل عنهما فقيل: انطلقا."ق، قط".
٤٠٢١٢۔۔۔ اسی طرح میسرہ سے روایت ہے فرمایا ایک شخص اور اس کی ماں حضرت علی (رض) کے پاس آئے وہ کہنے لگی، میرے اس بیٹے نے میرے خاوند کو قتل کردیا ہے تو بیٹا بولا : میرے غلام نے میری ماں سے صحبت کی ہے تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : تم دونوں بڑے نقصان اور خسارہ میں پڑگئے ہو اگر تم سچی ہو تو تمہارا بیٹا قتل کیا جائے گا اور اگر تمہارا بیٹا سچا ہے تو ہم تمہیں سنگسارکریں گے، پھر حضرت علی نماز کے لیے چلے گئے تو لڑکاماں سے کہنے لگا : کیا سوچتی ہو ؟ وہ مجھے قتل کریں اور تمہیں سنگسار کریں، پھر وہ دونوں چلے گئے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو ان دونوں کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایاوہ چلے گئے ہیں۔ بیھقی دارقطنی

40226

40213- "أيضا" عن الحكم أن رجلين صدم أحدهما صاحبه، فضمن علي كل واحد منهما صاحبه.
٤٠٢١٣۔۔۔ اسی طرح حکم سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے ایک دوسرے کو ماراتو حضرت علی (رض) ہر ایک دوسرے کا ضامن قراردیا۔

40227

40214- عن الشعبي قال: أشهد علي على أنه قضى في قوم اقتتلوا فقتل بعضهم بعضا فقضى بعقل الذين قتلوا على الذين جرحوا، وطرح عنهم بالعقل بقدر جراحهم."عب".
٤٠٢١٤۔۔۔ شعبی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے ایسی قوم کے بارے میں فیصلہ فرمایا جو آپس میں لڑے ان میں سے بعض نے بعض کو قتل کردیا، تو آپ نے ان لوگوں کے لیے جو قتل کئے گئے ان پر جنہوں نے قتل کیا دیت کا فیصلہ کیا اور جتنے ان کے زخم تھے ان کے بقدران کی دیت معاف کی۔ رواہ عبدالرزاق

40228

40215- عن علي قال: عمد الصبي والمجنون خطأ."عب، ق".
٤٠٢١٥۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : بچہ اور مجنون کا قصد (قتل کرنا) (قتل) خطا ہے۔ عبدالرزاق۔ بیھقی

40229

40216- عن أنس أن رجلا من اليهود قتل جارية من الأنصار على حلي لها ثم ألقاها في قليب لها ورضخ رأسها بالحجارة، فأتى به النبي صلى الله عليه وسلم، فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم أن يرجم حتى يموت، فرجم حتى مات."عب".
٤٠٢١٦۔۔۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو قتل کردیا اور قتل بھی زیور کی وجہ سے کیا پھر اس کا سرپتھر سے کچل کرا سے انصار کے کنویں میں ڈال دیاتو اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا آپ نے اسے ر جم کرنے کا حکم دیا کہ اسی حالت میں مرجائے چنانچہ اسے رجم گیا اور وہ مرگیا۔ رواہ عبدالرزاق

40230

40217- عن حبيب بن مسلمة الفهري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا إلى القصاص من نفسه في خدش خدشه أعرابيا لم يتعمده، فأتاه جبريل فقال: "يا محمد! إن الله لم يبعثك جبارا ولا متكبرا"، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم الأعرابي فقال: "اقتص مني"! فقال الأعرابي: قد أحللتك بأبي أنت وأمي! وما كنت لأفعل ذلك أبدا ولو أتيت على نفسي؛ فدعا له بخير."ز".
٤٠٢١٧۔۔۔ حبیب بن مسلمہ فہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بدلہ لینے کے لیے ایک اعرابی کو بلایاج سے ان جانے میں آپ کے ہاتھ سے خراش لگ گئی تھی۔ تو جبرائی (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ آپ کو زبردست اور متکبربناکر نہیں بھیجا تو آپ نے اعرابی کو بلایا اور فرمایا مجھ سے بدلہ لے لو تو اعرابی نے کہا : مرے ماں باپ آپ پر قربان میں نے آپ کے لیے جائز کردیا اکر آپ مجھے مار بھی دیتے تب بھی میں آپ سے کبھی بدلہ نہ لیتا، چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعائے خیر کی۔(ز)

40231

40218- حدثنا أبو خالد الأحمر عن بن إسحاق عن يزيد ابن عبد الله بن أبي قسيط عن القعقاع بن عبد الله بن أبي حدرد الأسلمي عن أبيه قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية إلى أضم فلقينا عامر بن الأضبط فحيا بتحية الإسلام فنزعنا عنه وحمل عليه محلم بن جثامة فقتله فلما قتله سلبه بعيرا له وأهبا ومتيعا كان له، فلما قدمنا جئنا بشأنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرناه بأمره فنزلت هذه الآية {يا أيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا} الآية 94 سورة النساء. قال بن إسحاق: فأخبرني محمد بن جعفر عن زيد بن ضمرة قال حدثني أبي وعمي وكانا شهدا حنينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قالا: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر ثم جلس تحت شجرة فقام إليه الأقرع بن حابس وهو سيد خندف يرد عن ابن محلم وقام عيينة بن حصن يطلب بدم عامر بن الأضبط القيسي وكان أشجعيا، قال: فسمعت عيينة بن حصن يقول: لأذيقن نساءه من الحزن مثل ما ذاق نسائي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "تقبلون الدية؟ " فأبوا، فقام رجل من بني ليث يقال له مكتيل فقال: يا رسول الله؟ والله ما شبهت هذا القتيل في غرة الإسلام إلا بغنم وردت فرميت فنفر آخرها، اسنن اليوم وغير غدا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "نديه لكم خمسون في سفرنا هذا وخمسون إذا رجعنا"، فقبلوا ال دية فقالوا: ائتوا بصاحبكم يستغفر له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئ به فوصف حليته وعليه حلة قد تهيأ فيها للقتل حتى أجلس بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "ما اسمك"؟ فقال: محلم بن جثامة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيديه - ووصف أنه رفعهما: "اللهم! لا تغفر لمحلم بن جثامة"، قال: فتحدثنا بيننا أنه إنما أظهر هذا وقد استغفر له في السر. قال ابن إسحاق: فأخبرني عمرو ابن عبيد عن الحسن قال قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "آمنته بالله ثم قتلته"! فوالله ما مكث إلا سبع ليال حتى مات محلم؛ قال: فسمعت الحسن يحلف بالله لدفن ثلاث مرات كل ذلك تلفظه الأرض، فجعلوه بين صدى جبل ورضموا عليه بالحجارة فأكلته السباع، فذكروا أمره لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "أما والله إن الأرض لتطبق على من هو شر منه ولكن الله أراد أن يخبركم بحرمتكم". "ش".
٤٠٢١٨۔۔۔ ہم سے ابوخالد الاحمرنے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کیا وہ یزید بن عبداللہ بن ابی قسیط سے وہ قعقاع بن عبداللہ ابی حدرداسلمی وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اضم کی طرف ایک سریہ میں بھیجا راستہ میں لوگ عامر بن اضبط سے ملے اس نے اسلام والاسلام کیا تو ہم اس کے قتل سے رک گئے لیکن محلم بن چثامہ نے اس پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا، اور جب اسے قتل کردیا تو اس کا اونٹ اس کے چمڑے اور جو اس کا سامان تھا لے لیا، پھر جب ہم لوگ واپس آئے تو ہم نے اس کی چیزیں ساتھ لائیں اور آپ کو اس کے واقعہ کی اطلاع دی اتنے میں آیت نازل ہوئی : اے ایمان والو ! جب تم زمین میں سفر کرنے لگوتوخوب تحقیق کرلیاکرو۔ آیت سورة نساء ، ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے محمد بن جعفر نے زید بن ضمرہ کے حوالہ سے بتایا فرماتے ہیں مجھے مرے والد اور چچا نے بتایا وہ دونوں حسین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھی پھر درخت کے نیچے بیٹھ گئے تو اقرع بن حابس جو خندف کے سردار تھے محلم کا دفاع کرنے کھڑے ہوئے۔ اور عیینہ بن حصن عامر بن اضبط قیسی جو اشجعی تھے کے خون کا مطالبہ کرنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہوئے۔ فرماتے ہیں : میں نے عیینہ بن حصن (رض) کو فرماتے سنا : میں اس کی عورتوں کو ایساہی غم چکھاؤں گا جیسا اس نے میری عورتوں کو چکھایا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ دیت قبول کروگے، تو انھوں نے انکار کردیا تو بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہواجی سے مکیتل کہا جاتا تھا اس نے کہا یارسول اللہ ! اللہ کی قسم ! میں اس مقتول کو اسلام کی ابتداء میں صرف ان بکریوں سے تشبیہ دے سکتا ہوں جو آئی ہوں اور ان پر پتھراؤ کیا جائے اور آخری کو بدکا دیا جائے، آج کوئی قانون بنایا جائے اور کل تبدیل کردیا جائے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم تمہیں اپنے اس سفر میں پچاس اونٹ دیت دیتے ہیں اور پچاس جب ہم واپس ہوں گے تو انھوں نے دیت قبول کرلی اور کہنے لگے : اپنے آدمی کو بلاؤ رسول اللہ اس کے لیے استغفارکریں اسے لایا گیا اور اس کا حلیہ بیان کیا گیا اس کے اوپر ایک لباس تھا جس میں وہ قتل ہونے کے لیے تیار تھا،یہاں تک کہ اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بٹھایا گیا تو آپ نے فرمایا : تمہارا نام ؟ اس نے کہا محلم بن جثامہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا : اے اللہ ! محلم بن جثامہ کی بخشش نہ فرمانا فرماتے ہیں ہم لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ آپ نے ظاہری طور پر ایسا کیا ہوگا پوشیدہ طور پر اس کے لیے استغفار کیا ہوگا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے عمروبن عبید نے حسن کے واسطہ سے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا : تو نے اللہ کے لیے اسے امان دی اور پھر قتل کردیا، اللہ کی قسم ! وہ شخص یعنی محلم ایک ہفتہ میں مرگیا، فرماتے ہیں میں نے حسن سے سنا : اللہ کی قسم وہ تین بار دفن کیا گیا اور ہر بار زمین اسے باہر پھینک دیتی تو انھوں نے اسے پہاڑ کے شگاف میں ڈال دیا اور اس پر پتھر پھینک دیئے پھر اسے درندے کھاگئے لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا واقعہ ذکر کیا تو اس پر فرمایا : اللہ کی قسم ! زمین اس سے زیادہ برے کو پھینک دیتی لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تمہیں تمہاری عزت و حرمت سے آگاہ کریں۔ مصنف ابن ابی شیبۃ

40232

40219- عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: رجل أمر عبده أن يقتل رجلا؟ قال: على الآمر، سمعت أبا هريرة يقول: يقتل الحر الآمر ولا يقتل العبد. "عب - عن أبي هريرة".
٤٠٢١٩۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرمایا : میں نے عطاء سے کہا : ایک شخص اپنے غلام کو کسی کے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ابن جریج سے روایت ہے فرمایا : میں نے عطاء سے کہا : ایک شخص اپنے غلام کو کسی کے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے آپ نے فرمایا حکم دینے والے پر میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا فرماتے ہیں : حکم دینے والا آزاد شخص قتل کیا جائے اور غلام قتل نہ کیا جائے۔ عبدالرزاق عن ابوہریرہ

40233

40220- عن ابن عباس قال: ما أصاب السكران في سكره أقيم عليه. "عب".
٤٠٢٢٠۔ یہاں تک مکمل ہوگیا۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : نشائی نشہ کی حالت میں جو کچھ کرے اس پر حدقائم کی جائے گی۔ رواہ عبدالرزاق

40234

40221- عن عائشة قالت: كان عندي رسول الله صلى الله عليه وسلم وسودة فصنعت خزيرا فجئت به فقلت لسودة: كلي، فقالت:لا أحبه، فقلت: والله لتأكلين أو لألطخن وجهك! فقالت: ما أنا بذائقة، فأخذت من الصحفة شيئا فلظخت به وجهها ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس بيني وبينها، فخفض لها ركبته لتستقيد مني، فتناولت من الصحفة شيئا فمسحت به وجهي ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك."ابن النجار".
٤٠٢٢١۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے فرماتی ہیں : مرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سودہ (رض) تھیں میں نے مالیدہ بنایا اور لے کر آئی میں نے سودہ (رض) سے کہا : کھاؤ ! وہ کہنے لگیں : مجھے پسند نہیں، میں نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہیں کھانا پڑے گا ورنہ میں اس سے تمہارا چہرہ تھوپ دوں گی، تو وہ کہنے لگیں : میں تو نہیں چکھوں گی، میں نے پیالہ سے تھوڑا سا مالیدہ لیا اور ان کے چہرہ پر مل دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان شریف فرما تھے،آپ نے ان کے لیے اپنا گھٹنہ جھکایا تاکہ وہ مجھے سے بدلہ لیں انھوں نے پیالہ سے تھوڑا سا مالیدہ لیا اور مرے چہرہ پر مل دیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا رہے تھے۔ رواہ ابن لنجار

40235

40222- عن الحسن أن النبي صلى الله عليه وسلم لقي رجلا مختضبا بصفرة وفي يد النبي صلى الله عليه وسلم جريدة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: خط ورس، فطعن بالجريدة بطن الرجل وقال: "ألم أنهك عن هذا"! فأثر في بطنه وما أدماه فقال الرجل: القود يا رسول الله! فقال الناس: أمن رسول الله صلى الله عليه وسلم تقتص؟ فقال: ما لبشرة أحد فضل على بشرتي، فكشف النبي صلى الله عليه وسلم عن بطنه ثم قال: "اقتص"! فقبل الرجل بطن النبي صلى الله عليه وسلم وقال: أدعها لك أن تشفع لي يوم القيامة."عب"
٤٠٢٢٢۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص سے ملے جس پر زردرنگ لگا ہوا تھا اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی (جو کھجور کی شاخ کی تھی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رنگذاربوٹی کا نشان لگالیتے، پھر آپ نے شاخ سے اس شخص کے پیٹ میں کچوکالگایا اور فرمایا (رح) : کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا ! اس شخص کے پیٹ پر بغیر خون نکلے اس کا نشان پڑگیا تو وہ شخص کہنے لگا : یارسول اللہ ! مجھے بدلہ چاہیے ! لوگوں نے کہا : کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلہ لوگے، وہ صاحب کہنے لگے : کسی کی جلد کو مری جلدپر کوئی فضیلت نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ سے کپڑاہٹایا اور فرمایا : بدلہ لے لو ! تو اس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ کو بوسہ دیا اور کہا : میں اس لیے آپ سے بدلہ نہیں لیتا کہ آپ قیامت کے روز مرے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ رواہ عبدالرزاق

40236

40223- عن الحسن قال: كان رجل من الأنصار يقال له سوادة بن عمرو يتخلق كأنه عرجون وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا رآه نغض له فجاء يوما وهو متخلق فأهوى له النبي صلى الله عليه وسلم بعود كان في يده فجرحه فقال له: القصاص يا رسول الله! فأعطاه العود، وكان على النبي صلى الله عليه وسلم قميصان فجعل يرفعهما، فنهره الناس وكف عنه حتى إذا انتهى إلى المكان الذي جرحه رمى بالقضيب وعلقه يقبله وقال: يا نبي الله؟ بل أدعها لك تشفع لي بها يوم القيامة."عب".
٤٠٢٢٣۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی تھے جنہیں سوادۃ بن عمرو کہا جاتا تھا وہ ایسے خوشبولگا تے گویا کہ وہ شاخ ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی ان کو دیکھتے تو جھومنے لگتے ایک دن وہ آئے اور اسی طرح خوشبو میں بستہ تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھک کر ایک لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی سے انھیں کچوکالگایاجس سے وہ زخمی ہوگئے اور کہنے لگے : یارسول اللہ ! مجھے بدلہ چاہیے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں وہ لکڑی دی آپ دو قمیضیں پہنے ہوئے تھے آپ انھیں اٹھانے لگے تو لوگوں نے انھیں ڈانٹا تو وہ رک گئے پھر جب اس جگہ پہنچے جہاں انھیں خراش لگی تھی تو چھڑی پھینک کر آپ سے چمٹ گئے اور آپ کو چومنے لگے اور کہنے لگے : اے اللہ کے نبی ! میں اس لیے اپنا بدلہ چھوڑتاہوں کہ آپ اس کی وجہ سے قیامت کے روزمرے لیے شفاعت کریں۔ رواہ عبدالرزاق

40237

40224- عن سعيد بن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقاد من نفسه، وأن أبا بكر أقاد رجلا من نفسه، وأن عمر أقاد سعدا من نفسه."عب".
٤٠٢٢٤۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ، حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے سے ایک شخص کو بدلہ لینے دیا اور حضرت عمر (رض) نے حضرت سعد (رض) کو اپنے سے بدلہ لینے دیا۔ رواہ عبدالرزاق

40238

40225- "مسند علي" عن ضرار بن عبد الله قال: كنت أمشى بجنبات علي بن أبي طالب فجاء غلام فلطم وجهي فرفعت يدي ألطم وجه الغلام فرآني علي فقال: اقتص."خط".
٤٠٢٢٥۔۔۔ (مسندعلی (رض)) ضراربن عبداللہ سے روایت ہے فرمایا : میں حضرت علی (رض) کے ساتھ ساتھ چل رہاتھا کہ ایک لڑکا آیا اور اس نے مجھے طمانچہ ماراتو میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور لڑکے کے منہ پر طمانچہ مارنے لگا تو حضرت علی (رض) نے مجھے دیکھ کر فرمایا : بدلہ لو۔ خطیب

40239

40226- "مسند أبان بن سعيد" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد وضع كل دم كان في الجاهلية."خ في تاريخه والبزار وابن أبي داود، عب والبغوي وابن قانع والباوردي وأبو نعيم والخطيب في المتفق والمفترق؛ قال البغوي: لا نعلم لأبان بن سعيد مسندا غيره".
٤٠٢٢٦۔۔۔ (مسندابان بن سعید (رض)) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کے ہر خون کو ختم کردیا۔ بخاری فی تاریخہ والنزاروابن ابی داؤد، عبدالرزاق والبغوی وابن قانع والباردی و ابونعیم والخطیب فی المتفق والمفترق، قال البغوی : لاتعلم لابان بن سعید مسنداغیرہ

40240

40227- عن عروة أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث أبا جهم على غنائم حنين، فبلغ أبا جهم أن مالك بن البرصاء أو الحارث بن البرصاء غل من الغنائم، فضربه أبو جهم فشجه منقولة فأتى المضروب النبي صلى الله عليه وسلم يسأله القود، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "ضربك على ذنب أذنبته لا قودلك، لك مائة شاة"، فلم يرض، قال: "فلك مائتا شاة"، فلم يرض، قال: "فلك ثلاثمائة لا أزيدك"، فرضى الرجل."عب".
٤٠٢٢٧۔۔۔ حضرت عروہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہم کو حنین کی غنیمتوں کا نگراں بناکر بھیجا، ادھرابوجہم کو یہ اطلاع ملی کہ مالک بن برصاء یاحارث بن برصاء نے غنیمت میں خیانت کی ہے تو ابوجہم نے انھیں مار کر زخمی کردیاجس سے ان کی ہڈی ٹل گئی وہ شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، اور آپ سے بدلہ کا سوال کرنے لگے، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے تمہیں کسی گناہ پر مارا ہے جو تم نے کیا ہے تمہارے لیے کوئی بدلہ نہیں، البتہ تمہارے لیے سو بکریاں ہیں، لیکن وہ راضی نہ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے لیے دو سو بکریاں ہیں، پھر بھی وہ راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا : تمہارے لیے تین سو بکریاں ہیں لیکن میں اس میں اضافہ نہیں کروں گا چنانچہ وہ شخص راضی ہوگیا۔ رواہ عبدالرزاق

40241

40228- عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: كان أبو بكر وعمر لا يقتلان الرجل بعبده، كانا يضربانه مائة، ويسجنانه سنة، ويحرمانه سهمه مع المسلمين سنة - إذا قتله متعمدا."عب".
٤٠٢٢٨۔۔۔ عمروبن شعیب اپنے والد سے اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں : کہ حضرت ابوبکروعمر (رض) آدمی کو اپنے غلام کی وجہ سے قتل نہیں کرتے تھے، البتہ اسے سوکوڑے مارتے تھے، اور ایک سال قیدخانہ میں رکھتے اور سال بھر مسلمانوں کے ساتھ جو حصہ اس کا بنتا تھا اس سے محروم رکھتے تھے۔ یہ تب ہے جب آقا اسے جان بوجھ کر قتل کرے۔ رواہ عبدالرزاق

40242

40229- عن علي أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل قتل عبده متعمدا، فجلده رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة، ونفاه سنة، ومحا سهمه من المسلمين، ولم يقده به."ش، هـ, ع، والحارث ك، ق".
٤٠٢٢٩۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا جس نے اپنے غلام کو جان بوجھ کر قتل کیا تھا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سوکوڑے لگوائے اور سال کے لیے اسے جلاوطن کیا اور مسلمانوں میں سے اس کا حصہ ختم کیا اور اس سے بدلہ نہیں لیا۔ مصنف بن ابی شیبہ، ابن ماجہ، ابویعلی، والحارث، حاکم، بیھقی

40243

40230- "من مسند سمرة بن جندب" عن عبد الله بن سندر عن أبيه إنه كان عبدا لزنباع بن سلامة الجذامي فعنت عليه فحصاه وجدعه، فأتي النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره، فأغلظ على زنباع القول فأعتقه منه، فقال: أوص بي يا رسول الله! قال: "أوصي بك كل مسلم"."كر".
٤٠٢٣٠۔۔۔ (مسند سمرۃ بن جندب (رض)) عبداللہ بن سندر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہ زنباع بن سلامہ جذامی کا ایک غلام تھا تو انھوں نے اس پر مشقت ڈالی اور اسے کنکری ماری جس سے اس کی ناک کٹ گئی، تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ساراواقعہ کہہ سنایاتو آپ نے زنباع کو سخت ڈاننا اور اس غلام کو ان سے آزاد کر الیاتو انھوں نے عرض کی یارسوں اللہ ! مجھے وصیت کریں، آپ نے فرمایا، میں تمہیں ہر مسلمان کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ رواہ ابن عساکر

40244

40231- "مسند عبد الله بن عمرو" إن زنباعا أبا روح بن زنباع وجد غلاما له مع جاريته فقطع ذكره وجدع أنفه، فأتى العبد النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: "ما حملك على ما فعلت"؟ قال: كذا وكذا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم "اذهب فأنت حر". "عب".
٤٠٢٣١۔۔۔ (مسند عبداللہ بن عمرو، زنباع) ابوروح بن زنباع (رض) نے اپنے غلام کو اپنی لونڈی کے ساتھ مشغول پایاتو اس کا ذکر اور ناک کاٹ دی، وہ غلام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس بات کا ذکر کیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : ایسا کرنے پر تمہیں کس نے مجبور کیا ؟ اس نے کہا : بس ایسے ویسے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا : جاؤ تم آزاد ہو۔ رواہ عبدالرزاق

40245

40232- عن مكحول أن عبادة بن الصامت دعا نبطيا يمسك دابته عند بيت المقدس فأبى، فضربه فشجه، فاستعدى عليه عمر ابن الخطاب، فقال له: ما دعاك إلى ما صنعت بهذا؟ فقال: يا أمير المؤمنين! أمرته أن يمسك دابتي فأبى وأنا رجل في حدة فضربته، فقال: اجلس للقصاص، فقال زيد بن ثابت: أتقيد عبدك من أخيك! فترك عمر القود وقضى عليه بالدية."ق".
٤٠٢٣٢۔۔۔ مکحول سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت (رض) نے ایک نبطی کو بلایا کہ وہ بیت المقدس کے پاس ان کی سواری پکڑے اس نے انکار کردیا، حضرت عبادہ نے اسے مارکرزخمی کردیا، اس نے ان کے خلاف حضرت عمربن خطاب سے مددطلب کی ، حضرت عمر نے ان سے فرمایا : آپ نے ایسے کیوں کیا ؟ انھوں نے کہا : امیرالمومنین ! میں نے اسے کہا : کہ مری سواری پکڑ، اس نے انکار کیا، اور میں ایسا شخص ہوں جس میں تیزی ہے اس لیے میں نے اسے ماردیا، حضرت عمرنے فرمایا قصاص کے لیے بیٹھو، توزیدبن ثابت (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ اپنے غلام کے لیے اپنے بھائی سے بدلہ لیں گے تو حضرت عمر نے قصاص چھوڑ دیا اور دیت کا فیصلہ کیا۔ رواہ البیھقی

40246

40233- عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب أتى برجل من أصحابه قد جرح رجلا من أهل الذمة، فأراد أن يقيده، قالوا: ليس ذلك لك، قال عمر: إذن نضعف عليه العقل، فأضعفه."ق".
٤٠٢٣٣۔۔۔ یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ان کے ساتھیوں میں ایک شخص لایا گیا جس نے کسی ذمی کو زخمی کیا تھا آپ نے اس سے بدلہ لینا چاہاتو لوگوں نے کہا آپ کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا تب ہم اس پر دیت دوگنی کریں گے چنانچہ آپ نے اس پر دیت دوگنی کی۔ رواہ ال بیہقی

40247

40234- عن عمر بن عبد العزيز أن رجلا من أهل الذمة قتل بالشام عمدا وعمر بن الخطاب إذ ذاك بالشام، فلما بلغه ذلك قال عمر: قد وقعتم بأهل الذمة! لأقتلنه به، قال أبو عبيدة بن الجراح: ليس ذلك لك! فصلى ثم دعا أبا عبيدة فقال: لم زعمت لا أقتله به؟ فقال أبو عبيدة: أرأيت لو قتل عبدا له أكنت قاتله به؟ فصمت عمر ثم قضى عليه بالدية بألف دينار تغليظا عليه."ق".
٤٠٢٣٤۔۔۔ عمربن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ شام میں ایک ذمی شخص عمدا قتل کردیا گیا حضرت عمر (رض) اس وقت شام میں تھے، آپ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا : تم لوگوں نے ذمیوں میں دخل اندازی شروع کردی ہے میں اس کے بدلہ اسے (قاتل کو) قتل کردوں گا۔ ابوعیبدہ بن جراح (رض) نے کہا : آپ کے لیے ایسا کرنا صحیح نہیں ہے، آپ نے نماز پڑھی اور ابوعبیدہ (رض) کو بلایا، آپ نے فرمایا (رح) : تم نے کیسے گمان کیا کہ میں اسے اس کے بدلہ قتل نہیں کروں گا ؟ تو ابوعیبدہ (رض) نے فرمایا : دیکھیں اگر وہ اپنے غلام کو قتل کردیتا تو بھی آپ اسے قتل کرتے ؟ تو آپ خاموش ہوگئے پھر اس شخص پر سختی کے لیے ایک ہزار دینار دیت دینے کا فیصلہ کیا۔ رواہ البیھقی

40248

40235- عن إبراهيم أن رجلا من بكر بن وائل قتل رجلا من أهل الحيرة، فكتب فيه عمر بن الخطاب أن يدفع إلى أولياء المقتول، فإن شاؤا قتلوه وإن شاؤا عفوا عنه، فدفع الرجل إلى ولي المقتول فقتله، فكتب عمر بعد ذلك: إن كان الرجل لم يقتل فلا تقتلوه. "الشافعي" ق؛ وقال قال الشافعي: الذي رجع إليه أولى، ولعله أراد أن يخيفه بالقتل ولا يقتله، وجميع ما روى في ذلك عن عمر منقطع أو ضعيف أو يجمع الانقطاع والضعف جميعا".
٤٠٢٣٥۔۔۔ ابراہیم سے روایت ہے کہ بکربن وائل کے ایک شخص نے اہل حیرہ کے ایک شخص کو مارڈالا تو اس بارے میں حضرت عمربن خطاب نے لکھا کہ اسے مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے، چاہیں، اسے قتل کریں اور چاہیں تو معاف کریں، تو اس شخص کو ان کے حوالہ کردیا گیا اور انھوں نے اسے قتل کردیا، اس کے بعد حضرت عمرنے لکھا : اگر اس شخص کو قتل نہیں کیا گیا تو اسے قتل نہ کرنا۔ (الشافعی، بیہقی، امام شافعی فرماتے ہیں جس بات کی طرف انھوں نے رجوع کیا وہ زیادہ بہت رہے، ہوسکتا ہے کہ قتل کے ذریعہ اسے ڈرانا مقصود ہو نہ کہ اسے قتل کرنا بہرکیف اس بارے حضرت عمر سے جو کچھ مروی ہے وہ منقطع ضعیف، یا انقطاع وضعف دونوں کو شامل ہے۔ )

40249

40236- عن القاسم بن أبي بزة أن رجلا مسلما قتل رجلا من أهل الذمة بالشام؛ فرفع إلى أبي عبيدة بن الجراح، فكتب فيه إلى عمر بن الخطاب، فكتب عمر بن الخطاب: إن كان ذاك فيه خلقا فقدمه واضرب عنقه، وإن كانت هي طيرة طارها فأغرمه ديته أربعة آلاف."عب، ق".
٤٠٢٣٦۔۔۔ قاسم بن ابی بزہ سے روایت ہے کہ شام میں ایک مسلمان نے سکی ذمی کو قتل کردیا، تو یہ مقدمہ ابوعبیدہ بن جراح (رض) کے سامنے پیش ہوا، انھوں نے اس بارے میں حضرت عمر (رض) کو لکھا تو حضرت عمر (رض) نے لکھا : اگر ایسا کرنا اس کی عادت ہے تو اسے سامنے لاکر اس کی گردن اڑادو اور اگر اس نے غصہ کی وجہ سے ایسا کیا تو اس پر اس کی دیت کا تاوان چار ہزار دینار مقرر کرو۔ (عبدالرزاق بیہقی)

40250

40237- عن النزال بن سبرة أن رجلا من المسلمين قتل رجلا من أهل الحيرة نصرانيا عمدا، فكتب في ذلك إلى عمر فكتب أن: أقيدوه فيه! فدفع إليه فكان يقال له: اقتله! فيقول: حتى يجئ الغيظ، حتى يجئ الغضب، فبينما هم كذلك إذ جاء كتاب من عند عمر أن: لا تقتلوه، فأنه لا يقتل مؤمن بكافر، وليعط الدية."ابن جرير".
٤٠٢٣٧۔۔۔ نزال سبرہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان نے اہل حیرہ کے کسی نصرانی کو عمدا قتل کردیاتو اس کے متعلق حضرت عمرکولکھا گیا، آپ نے جو ابالکھا : کہ اسے قصاص میں دے دو ، تو وہ شخص ان کے حوالہ کردیا گیا، تو وارث سے کہا گیا : اسے قتل کرو، تو کہنے لگا : جب غصہ آئے، یہاں تک کہ جب غضب بھڑکے گا، وہ لوگ اسی شش وپنج میں تھے کہ حضرت عمرکا خط آیا کہ اسے قتل نہ کرنا کیونکہ کافر کے بدلہ میں کسی ایماندار کو قتل نہیں کیا جائے گا البتہ دیت ادا کی جائے۔ رواہ ابن جریر

40251

40238- عن يحيى بن سعيد بلغنا أن عمر فتح بيت المقدس وأن رجلا من الجند أصاب رجلا من أهل الخراج فأراد أن يقيد، فقال الناس: ما لك أن تقيد كافرا من مسلم! قال: إذا غلظت عليه في العقل."ابن جرير".
٤٠٢٣٧۔۔۔ یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ حضرت عمر (رض) نے بیت المقدس فتح کیا اور لشکر میں ایک شخص نے اہل خراج کے ایک شخص کو ماردیا، حضرت نے قصالینا چاہا تو لوگوں نے کہا : آپ کو کیا ہوا ؟ آپ مسلمان سے کافر کا قصاص لیں گے، تو آپ نے فرمایا، پھر میں اس کی دیت دوگنی کر دونوں گا۔ رواہ ابن جریر

40252

40239- عن عمرو بن دينار عن رجل أن أبا موسى كتب إلى عمر بن الخطاب في رجل مسلم قتل رجلا من أهل الكتاب فكتب إليه عمر: إن كان لصا أو خاربا فاضرب عنقه، وإن كان طيرة منه في غضب فأغرمه أربعة آلاف درهم."عب، ق".
٤٠٢٣٩۔۔۔ عمروبن دینار ایک شخص سے نقل کرتے ہیں : کہ ابوموسیٰ (رض) نے حضرت عمر (رض) کو ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھا جس نے کسی کتابی کو قتل کردیا تو حضرت عمرنے جوابا لکھا اگر وہ چوریا فتنہ پر ورہے تو اس کی گردن اڑادو، اور اگر ایسا سے غصہ کی وجہ سے ہوا تو اس پر چارہزاردرہم بطور تاوان مقرر کرو۔ عبدالرزاق، بیہقی

40253

40240- عن عمرو بن شعيب أن أبا موسى الأشعري كتب إلى عمر بن الخطاب أن المسلمين يقعون على المجوس فيقتلونهم فماذا ترى؟ فكتب إليه عمر إنما هم عبيد فأقمهم قيمة العبيد فيكم؛ فكتب أبو موسى: ستمائة درهم، فوضعها عمر للمجوسي."عب".
٤٠٢٤٠۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے حضرت عمر (رض) کو لکھا کہ مسلمان (ذمیوں) سے لڑتے اور انھیں قتل کردیتے ہیں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت عمرنے لکھا : یہ غلام ہیں پس غلام کی قیمت لگالو، تو ابوموسیٰ (رض) نے لکھا چھ سو درہم ، تو حضرت عمرنے اسے مجوسی کے لیے مقرر کردیا۔ رواہ عبدالرزاق

40254

40241- عن أنس أن يهوديا قتل غيلة فقضى فيه عمر بن الخطاب اثني عشر ألف درهم."عب".
٤٠٢٤١۔۔۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی دھوکے سے قتل کردیا گیا تو حضرت عمر (رض) نے اس کے بارے میں بارہ ہزار درہم کا فیصلہ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40255

40242- عن مجاهد قال: قدم عمر بن الخطاب الشام فوجد رجلا من المسلمين قتل رجلا من أهل الذمة فهم أن يقيده، فقال له زيد ابن ثابت: أتقيد عبدك من أخيك؟ فجعله عمر دية."عب وابن جرير".
٤٠٢٤٢۔۔۔ مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) شام تشریف لائے، آپ نے دیکھا کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپ نے اس سے قصاص لینے کا ارادہ کرلیا، تو زیدبن ثابت (رض) نے آپ سے کہا : کیا آپ اپنے غلام کا بدلہ اپنے بھائی سے لیں گئے ؟ تو حضرت عمرنے اسے دیت میں تبدیل کردیا۔ عبدالرزاق، ابن جریر

40256

40243- عن ابن أبي حسين أن رجلا شج رجلا من أهل الذمة فهم عمر بن الخطاب أن يقيده منه، فقال معاذ بن جبل: قد علمت أن ليس ذلك لك! وأثر ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم، فأعطاه عمر ابن الخطاب في شجته دينارا، فرضى به."عب".
٤٠٢٤٣۔۔۔ ابن ابی حسین سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے کسی ذمی کو زخمی کردیاتو حضرت عمر (رض) نے اس سے بدلہ لینا چاہا، تو حضرت معاذبن جبل (رض) نے کہا : آپ کو علم ہے کہ آپ کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول نقل کیا، تو حضرت عمر (رض) نے اس شخص کے زخم پر ایک دیناردیاتو وہ شخص راضی ہوگیا۔ رواہ عبدالرزاق

40257

40244- عن إبراهيم أن رجلا مسلما قتل رجلا من أهل الكتاب من أهل الحيرة فأقاد منه عمر."عب وابن جرير".
٤٠٢٤٤۔۔۔ ابراہیم سے روایت ہے کہ ایک مسلمان نے کسی کتابی کو قتل کردیا، جو حیرہ والوں میں سے تھا تو حضرت عمر (رض) نے اس سے اس کا قصاص دلوایا۔ عبدالرزاق، ابن جریر

40258

40245- عن الشعبي قال: كتب عمر بن الخطاب في رجل من أهل الحيرة نصراني قتله مسلم أن يقاد صاحبه، فجعلوا يقولون للنصراني: اقتله، قال: لا حتى يأتيني الغضب، فبينما هو على ذلك جاء كتاب عمر بن الخطاب: لا تقده منه.
٤٠٢٤٥۔۔۔ شعبی سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمربن خطاب (رض) نے ایک نصرانی شخص کے بارے میں لکھا جو اہل حیرہ سے تھاج سے کسی مسلمان نے قتل کردیا تھا کہ اس کے قاتل سے قصاص لیا جائے تو لوگ نصرانی سے کہنے لگے، اسے قتل کرو، تو اس نے کہا ابھی نہیں جب مجھے غصہ آئے گا چنانچہ وہ اسی حالت میں تھے کہ حضرت عمرکاخط آگیا، کہ اس سے اس کا قصاص نہ لینا۔

40259

40246- عن الشعبي قال: من السنة لا يقيد مسلم بكافر."ابن جرير".
٤٠٢٤٦۔۔۔ شعبی سے روایت ہے : کہ یہ سنت عمل ہے کہ مسلمان سے کافر کا قصاص نہ لیا جائے۔ رواہ ابن جریر

40260

40247-"مسند علي" عن الحكم قال: كان علي وعبد الله يقولان: من قتل عبدا أو يهوديا أو نصرانيا أو امرأة عمدا قتل به."ابن جرير".
٤٠٢٤٧۔۔۔ مسند علی (رض)، حکم سے روایت ہے فرمایا : حضرت علی اور عبداللہ (رض) فرمایا کرتے تھے : کہ جس نے غلام، یہودی، نصرانی یا کسی عورت کو قصداقتل کیا اسے اس کہ بدلہ میں قتل کیا جائے۔ رواہ ابن جریر

40261

40248- "مسند الصديق" عن بن أبي مليكة أن رجلا عض يد رجل فأندر ثنيته، فأهدرها أبو بكر."عب، ش، خ، د، ق".
٤٠٢٤٨۔۔۔ مسندالصدیق، ابن ابی ملیکۃ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے آدمی کا ہاتھ کا ٹاجس سے اس کے سامنے کے دانت گرگے تو ابوبکر (رض) نے اسے رائیگاں قراردیا۔ عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ، بخاری، ابوداؤد، بیھقی

40262

40249- عن ابن جرير أن أبا بكر وعمر أبطلاها."ش".
٤٠٢٤٩۔۔۔ ابن جریر سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکروعمر (رض) نے اسے باطل قراردیا۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40263

40250- عن سليمان بن يسار عن جندب أنه أخذ في بيته رجلا فرض أنثييه، فأهدره عمر."عب".
٤٠٢٥٠۔۔۔ سلیمان بن یسار سے وہ جندب سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے اپنے گھر میں ایک شخص کو پکڑا اور اس کے دانت توڑدیئے، تو حضرت عمرنے اسے ہدرقراردیا۔ رواہ عبدالرزاق

40264

40251- عن القاسم بن محمد أن رجلا وجد في بيته رجلا فدق كل فقار في ظهره، فأهدره عمر."عب".
٤٠٢٥١۔۔۔ قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے گھر کسی آدمی کو دیکھا تو اس کی کمر کے تمام مہرے توڑڈالے تو حضرت عمرنے اسے ہدر قراردیا۔ رواہ عبدالرزاق

40265

40252- عن أبي جعفر قال: قضى عثمان: أيما رجل جالس أعمى فأصابه بشيء فهو هدر."عب".
٤٠٢٥٢۔۔۔ ابوجعفر سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) نے فیصلہ فرمایا : کہ جو شخص بھی اندھے کے پاس بیٹھا اور اسے کوئی نقصان پہنچاتو وہ ہد رہے۔ رواہ عبدالرزاق

40266

40253- عن الشعبي قال: كان رجل من المسلمين أعمى، فكان يأوي إلى امرأة يهودية، وكانت تطعمه وتسقيه، وتحنو إليه وكانت لا تزال تؤذيه في رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سمع ذلك منها ليلة من الليالي قام فخنقها حتى قتلها، فرفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فنشد الناس في أمرها، فقام الرجل فأخبره أنها كانت تؤذيه في النبي صلى الله عليه وسلم وتسبه وتقع فيه فقتلها لذلك، فأبل النبي صلى الله عليه وسلم دمها."ش".
٤٠٢٥٣۔۔۔ شعبی سے روایت ہے فرمایا : ایک نابینا مسلمان تھا تو وہ ایک یہودی عورت کے پاس آیا کرتا تھا وہ اسے کھانا کھلاتی اور پانی پلاتی اور اس کے قریب بیٹھتی اور اسے ہمیشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اذیت پہنچاتی، ایک رات جب اس نے اس سے یہ بات سنی تواٹھ کرا س کا کلاگھونٹ دیا اور اسے قتل کرڈالا۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تو آپ نے اس بارے میں لوگوں کو جمع کیا تو ایک شخص کھڑے ہو کر کہنے لگا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اسے اذیت پہنچاتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی عیب جوئی کرتی تھی اس لیے اس نے اسے قتل کردیاتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا خون رائیگاں قراردیا۔ رواہ ابن ابی شیبۃ، معلوم ہوا نبی کی توہین کرنے والے کا خون ہدرمعاف ہے۔

40267

40254- "مسند علي" عن خلاس بن عمرو أن غلمانا كانوا يلعبون الترفلة فقال غلام منهم: حدارى،؟ فضرب فأصاب سن غلام فكسرها، فلم يضمنه علي."ابن جرير".
٤٠٢٥٤۔۔۔ مسندعلی، خلاص بن عمرو سے روایت ہے کہ کچھ لڑکے سردار سردار بننا کھیل رہے تھے ان میں سے ایک لڑکا کا کہنے لگا : بھنگے ! تو اس نے اسے مارا اور لڑکے کے دانت پر لگی جس سے وہ ٹوٹ گیا، تو حضرت علی (رض) نے اسے ضامن قراردیا۔ رواہ ابن جریر

40268

40255- عن مجاهد قال: كان أجير ليعلى بن أمية عض يد رجل فاجتذب الآخر يده فقلع سنه، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "أيعض أحدكم أخاه عضيض الفحل ثم يريد العقل"! فأبطلها."عب".
٤٠٢٥٥۔۔۔ مجاہد سے روایت ہے کہ یعلی بن امیہ کا ایک مزدور تھا اس نے کسی آدمی کا ہاتھ کا ٹاتو اس دوسرے شخص نے اپنا ہاتھ کھینچا، جس سے اس کے دانت اکھڑگئے۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اپنے بائی کو ایسے کاٹتا ہے جیسے نرجانورکاتما ہے پھر بدلہ کا مطالبہ کرتا ہے پھر آپ نے اسے ناکارہ قراردیا۔ رواہ عبدالرزاق

40269

40256- "من مسند خباب بن الأرت" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم أقتل الكلاب فخرجت أقتل كل ما لقيت حتى جئت العصبة فإذا الكلب حول بيت فأرعته لأقتله، فنادتني امرأة من البيت فقالت: ما تريد؟ قلت: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم أقتل الكلاب، فقالت: ارجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره أني امرأة قد ذهب بصري وأنه يؤذنني بالآتي ويطرد عني السبع، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته، فقال: "ارجع فاقتله"، فرجعت فقتلته."طب".
٤٠٢٥٦۔۔۔ مسندخباب بن الارت، مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو قتل کے لیے بھیجا تو عصبہ تک جو کتا مجھے نظرآیا میں نے اسے مارڈالا پھر وہاں مجھے ایک کتادکھائی دیا، میں نے اسے قتل کرنے کے لیے ڈرایاتو گھر سے مجھے ایک عورت نے آوازدی : کہ کیا کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو مارنے کے لیے بھیجا ہے تو وہ کہنے لگی : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ میں ایک نابینا عورت ہوں، اور مجھے آنے والوں سے تکلیف ہوتی ہے اور یہ درندوں کو ہٹاتا ہے، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آیا اور آپ کے اطلاع دی آپ نے فرمایا : واپس جاؤ اور اسے مارڈالو، چنانچہ میں واپس لوٹا اور اسے قتل کردیا۔ رواہ الطبرانی

40270

40257- عن ابن عباس قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل ستة في الحرم: الحدأة، والغراب؛ والحية، والعقرب، والفأرة، والكلب العقور."عد، كر".
٤٠٢٥٧۔۔۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں چھ جانوروں کو مارنے کا حکم دیاچیل کو سانپ بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔ ابن عدی، ابن عساکر

40271

40258- عن عبد الله بن مغفل قال: إني لممن رفع أغصان الشجرة عن وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال: "لولا أن الكلاب أمة من الأمم لأمرت بقتلها، ولكن اقتلوا منها كل أسود بهيم، وما من أهل بيت يرتبطون كلبا إلا نقص من أجورهم كل يوم قيراط، إلا كلب صيد أو كلب حرث أو كلب غنم"."حم، ت وقال: حسن؛ ن، وابن النجار".
٤٠٢٥٨۔۔۔ عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور سے خطاب کے وقت درخت کی شاخیں ہٹاتے تھے، آپ نے فرمایا : گرکتے ایک مستقل مخلوق نہ ہوتے تو میں انھیں قتل کرنے کا حکم دے دیتا، البتہ ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مارڈالو، جو گھروالے بھی تین کتوں کے علاوہ کوئی کتاباندہ کر رکھتے ہیں تو ان کے اجر وثواب سے روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتا ہے ہاں، شکار، کھیت اور بکریوں کا کتامستثنیٰ ہے۔ مسند احمد، ترمذی وقال نسائی، وابن النجار

40272

40259- "مسند علي" عن علي: أمرني النبي صلى الله عليه وسلم بقتل الجان من الطفيتين والأبتر، وبقتل الأسود البهيم ذي الغرتين ""عق".
٤٠٢٥٩۔۔۔ مسند علی (رض) حضرت علی سے روایت ہے فرمایا : کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیث اور دم کٹے سانپوں اور سیاہ کالے کتوں جن کی آنکھوں کے اوپر دونشان سفیدرنگ کے ہوتے ہیں، کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ عقیلی فی الضعفاء

40273

40260- عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: أمر أبو بكر بقتل الكلاب ولعبد الله بن جعفر كلب تحت سرير أبي بكر فقال: يا أبت! كلبي، فقال: لا تقتلوا كلب ابني، ثم أمر به فأخذ؛ وكان أبو بكر قد خلف على أمه أسماء بنت عميس بعد جعفر."ابن سعد، ش".
٤٠٢٦٠۔۔۔ جعفر بن محمد سے روایت ہے وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں : فرمایا : حضرت ابوبکر (رض) نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا اور عبداللہ بن جعفر کا کتا حضرت ابوبکر (رض) کی چارپائی کے نیچے تھا، توجھٹ سے بولے، اباجان ! مراکتا ! تو حضرت ابوب کرنے فرمایا : مرے بیٹے کے کتے کو قتل نہ کرنا، پھر حکم دیا اور اسے پکڑلیا گیا، حضرت ابوب کرنے ان کی والدہ اسماء بنت عمیس سے حضرت جعفر کے بعدشادی کرلی تھی۔ ابن سعد، ابن ابی شیبۃ

40274

40261- عن ابن شهاب أن عمر بن الخطاب كان يأمر بقتل الحيات في الحرم."مالك".
٤٠٢٦١۔۔۔ ابن شہاب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمرحرم میں سانپوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے تھے۔ رواہ مالک

40275

40262- عن عمر قال: اقتلوا الحيات كلها على كل حال."ق، ش".
٤٠٢٦٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے : فرمایا : ہر حالت میں تمام سانپوں کو مارڈالو۔ بیھقی، ابن ابی شیبۃ

40276

40263- عن الحسن البصري قال: شهدت عثمان يأمر في خطبته بقتل الكلاب وذبح الحمام."عم وابن أبي الدنيا في ذم الملاهي، ق، كر".
٤٠٢٦٣۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے فرمایا : میں حضرت عثمان کے پاس موجود تھا آپ اپنے خطبہ میں کتوں کے مارنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ ابن احمد، ابن ابی الدنیا فی ذم المالاھی، بیھقی، ابن عساکر

40277

40264- عن أسلم قال: كان عمر يقول على المنبر: يا أيها الناس! عليكم مثاويكم ، وأخيفوا الحيات قبل أن تخيفكم، فإنه لن يبدو لكم مسلموها، وإنا والله ما سالمناهم منذ عاديناهن."ن، خ في الأدب".
٤٠٢٦٤۔۔۔ اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) منبر پر کہا کرتے تھے : لوگو ! اپنے گھروں میں رہاکرو اور سانپوں کو ڈراؤ اس سے پہلے کے وہ تمہیں ڈرائیں، ان کے مسلمان ہرگز تمہارے سامنے ظاہر نہیں ہوں گے ، اللہ کی قسم ! جب سے ہم نے ان سے دشمنی کی اس وقت سے ان سے صلح نہیں کی۔ نسائی، بخاری فی الادب

40278

40265- "مسند أبي رافع" قتل رسول الله صلى الله عليه وسلم عقربا وهو يصلي."طب".
٤٠٢٦٥۔۔۔ مسندابی رافع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھتے ایک بچھو کو مارا۔ طبرانی فی الکبیر

40279

40266- وعنه دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو نائم أو يوحي إليه وإذا حية في جانب البيت، فكرهت أن أقتلها فأوقظه، فاضطجعت بينه وبين الحية فإذا كان شيء كان بي دونه، فاستيقظ وهو يتلو هذه الآية {إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة} فقال: الحمد لله! فرآني إلى جنبه فقال: "ما أضجعك هنا"؟ قلت: لمكان هذه الحية، قال: "قم إليها فاقتلها"، فقتلتها! ثم أخذ بيدي فقال: "يا أبا رافع! سيكون بعدي قوم يقاتلون عليا، حقا على الله جهادهم، فمن لم يستطع جهادهم بيده فبلسانه، فمن لم يستطع بلسانه فبقلبه، ليس وراء ذلك شيء". "طب وابن مردويه وأبو نعيم؛ وفيه علي بن هاشم بن البريد، روى له إلا أنه غال في التشيع وله مناكير".
٤٠٢٦٦۔۔۔ انہی سے روایت ہے کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ اس وقت سو رہے تھے یا آپ پر وحی نازل ہورہی تھی، کہ گھر کے کونے میں ایک سانپ نظر پڑا مجھے اچھا نہ لگا کہ اسے ماروں اور آپ کو بیدار کروں، چنانچہ میں آپ کے اور سانپ کے درمیان سوگیا، پس ایک چیز تھی جو مرے ساتھ تھی اور آپ سے ورے تھی، پھر آپ بیدار ہوگئے اور آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے، تمہارا دوست تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، آیت، پھر آپ نے فرمایا : الحمدللہ، مجھے اپنے پاس دیکھ کر فرمایا : یہاں کس وجہ سے لیٹے ہو ؟ میں نے عرض کیا : اس سانپ کی وجہ سے، آپ نے فرمایا : اٹھو اور اسے مارڈالو، چنانچہ میں فورا اٹھا اور اسے مارڈالا، پھر آپ نے مراہاتھ پکڑا اور فرمایا : ابورافع ! مرے بعد ایک قوم ہوگی جو علی (رض) سے جنگ کرے گی، اللہ تعالیٰ پر ان کا جہاد ضروری ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ کی خاطران سے لڑنا ضروری ہے) پس جو کوئی اپنے ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد نہ کرسکے وہ اپنی زبان سے کرے اور جو اپنی زبان سے نہ کرسکے وہ اپنے دل سے براجانے، اس کے بعد کوئی درجہ نہیں۔ طبرانی وابن مردویہ، ابونعیم اس روایت میں علی بن ہاشم بن ابرید ایک شخص ہے جس کی روایتیں منقول تو ہیں لیکن وہ غالی شیعہ تھا اور اس کی منکر روایات ہیں۔

40280

40267- عن عبد الله بن جعفر قال: نهى عن قتلهن - يعني العوامر."خ في تاريخه، كر".
٤٠٢٦٧۔۔۔ حضرت عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ ان کے مارنے یعنی گھر میں رہنے والے سانپوں سے روکا گیا ہے۔ بخاری فی تاریخہ، ابن عساکر

40281

40268- عن ابن عمر عن أبي لبابة قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن قتل الجنان التي في البيوت."أبو نعيم".
٤٠٢٦٨۔۔۔ ابن عمر، ابولبابہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کے مارنے سے روکا ہے۔ رواہ ابونعیم

40282

40269- "مسند الصديق" عن أبي بكر قال: من كان عقله في البقر فكل بعير ببقرتين، ومن كان عقله في الشاء فكل بعير بعشرين شاة."عب، ش".
٤٠٢٦٩۔۔۔ مسندالصدیق، حضرت ابوبکر (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس کی دیت گائیوں میں ہو تو ہر اونٹ دو گائیوں کے بدلہ اور جس کی دیت بکریوں میں ہو تو ہر اونٹ بیس بکریوں کے عوض شمار ہوگا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ

40283

40270- عن عكرمة قال: قضى أبو بكر مكان كل بعير ببقرتين."عب".
٤٠٢٧٠۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے ہراونٹ کے بدلہ دو گائیوں کا فیصلہ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40284

40271- عن عمرو بن شعيب قال: قضى أبو بكر في الحاجب إذا أصيب حتى يذهب شعره فقضى فيه بموضحتين عشر من الإبل."عب، ش، ق".
٤٠٢٧١۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : حضرت ابوب کرنے ابروکے بارے میں جب اذیت پہنچا کر اس کے بال ختم کردیئے جائیں دو زخموں کا ہرجانہ دس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40285

40272- عن عكرمة وطاوس أن أبا بكر قضى في الأذن بخمس عشرة من الإبل وقال: إنما هو شين، لا يضر سمعا ولا ينقص قوة، ويغشاها الشعر والعمامة."عب، ش، ق".
٤٠٢٧٢۔۔۔ عکرمہ اور طاؤوس سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کان کے بارے میں پندرہ اونٹ کا فیصلہ کیا اور فرمایا : یہ تو ایک عیب ہے جو نہ سماعت کو نقصان دیتا ہے اور نہ قوت کو کم کرتا ہے بال اور عمامہ اسے کان کو چھپالیتے ہیں۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40286

40273- عن عمرو بن شعيب قال: قضى أبو بكر في الشفتين بالدية مائة من الإبل، وقضى في اللسان إذا قطع بالدية إذا نزع من أصله، وإن قطعت أسلته فتكلم صاحبه ففيه نصف الدية، وقضى في ثدي الرجل إذا ذهبت حلمته بخمس من الإبل، وقضى في ثدي المرأة بعشر من الإبل إذا لم يصب إل حلمة ثديها، فإذا قطع من أصله فخمس عشرة، وقضى في صلب الرجل إذا كسر ثم جبر بالدية كاملة إذا كان لا يحمل له، وبنصف الدية إذا كان يحمل له، وقضى في ذكر الرجل بديته مائة من الإبل."عب، ش، ق".
٤٠٢٧٣۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت ابوبکر (رض) نے دونوں ہونٹوں کی دیت میں سو اونٹوں کا فیصلہ فرمایا اور زبان کی دیت جب وہ کاٹ دی جائے اور جڑ سے کھینچ لی جائے کامل دیت کا فیصلہ فرمایا، اور زبان کی نوک کئی اور زبان والابات کرسکے، تو نصف دیت کا فیصلہ فرمایا، اور مرد کے پستانوں کی چوسنی کاٹ دی جائے تو پانچ اونٹوں کا اور عورت کے پستان کی چوسنی کاٹ دی جائے تو دس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا، یہ تب ہے جب صرف چوسنی کو نقصان پہنچاہو، اور وہ جڑ سے ختم کردیا جائے تو پندرہ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا، اور مرد کی پیٹھ کے بارے میں جب وہ توڑدی جائے اور پھر جو ڑدی جائے، کامل دیت کا فیصلہ فرمایا، یہ تب ہے جب وہ کوئی چیز اٹھانہ سکے اور جب کوئی چیز اٹھاسکے تو نصف دیت کا فیصلہ کیا، اور مرد کے ذکر میں سو اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ بیھقی

40287

40274- عن أبي بكر قال: إذا نفذت الجائفة فهي جائفتان."عب".
٤٠٢٧٤۔۔۔ حضرت ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ جب پیٹ کا زخم آرپار ہوجائے تو وہ دوزخموں کے براب رہے۔ رواہ عبدالرزاق

40288

40275- عن ابن المسيب أن أبا بكر قضى في الجائفة التي نفذت بثلثي الدية إذا نفذت الحضنين كليهما وبرأ صاحبهما."عب، ش، ض، ق".
٤٠٢٧٥۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے پیٹ کے اس زخم کے بارے میں دوتہائی دیت کا فیصلہ فرمایا جب دونوں کناروں کے آرپار ہوجائے اور زخم والاٹھیک ہوجائے۔ عبدالرزاق ابن ابی شیبۃ، ضیاء بن بیطار، بیہقی

40289

40276- عن ابن جريج قال: أخبرني إسماعيل بن مسلم أن أبا بكر الصديق قال في الخيانة: لا قطع فيها."عب".
٤٠٢٧٦۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرمایا : مجھے اسماعیل بن مسلم نے بتایا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے خیانت کے بارے میں فرمایا : کہ اس میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40290

40277- عن الزهري عن أبي بكر وعمر وعثمان أنهم قالوا: دية اليهودي والنصراني مثل دية الحر المسلم."ابن خسرو في مسند أبي حنيفة".
٤٠٢٧٧۔۔۔ زہری حضرت ابوبکروعمر اور عثمان (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : یہودی اور عیسائی کی دیت آزادمسلمان کی طرح ہے۔ ابن خسروفی مسند ابی حنیفۃ

40291

40278- عن علي بن ماجد قال: قاتلت غلاما فجدعت أنفه، فرفعت إلى أبي بكر الصديق، فنظر فلم أبلغ القصاص، فقضى على عاقلتي بالدية."ابن جرير".
٤٠٢٧٨۔۔۔ علی بن ماجد سے روایت ہے کہ مری ایک لڑکے سے لڑائی ہوئی اور میں نے اس کی ناک کاٹ دی، حضرت ابوبکرکے ہاں فیصلہ پیش ہوا، آپ نے دیکھا تو میں قصاص کی مقدارتک نہیں پہنچا تھا تو میرے عاقلہ پر دیت کا فیصلہ کیا۔ رواہ ابن جریر

40292

40279- عن أسلم أن عمر بن الخطاب قضى في الضرس بجمل، وفي الترقوة بجمل، وفي الضلع بجمل."مالك، عب والشافعي وابن راهويه، ش، ق".
٤٠٢٧٩۔۔۔ اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے ڈاڑھ کے بارے میں ایک اونٹ کا اور ہنسلی کے بارے میں ایک اونٹ کا اور پسلی کے بارے میں ایک اونٹ کا فیصلہ فرمایا۔ مالک، عبدالرزاق، والشافعی وابن راھویہ، ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40293

40280- عن الشعبي قال قال عمر، العمد والعبد والصلح والاعتراف لا يعقله العاقلة."عب، قط، ق وقال: منقطع".
٤٠٢٨٠۔۔۔ شعبی سے روایت ہے فرمایا، کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عمد، غلام ، صلح اور اعتراف کی دیت عاقلہ نہیں دے سکتی۔ عبدالرزاق، دارقطنی، بیہقی، وقال منقطع

40294

40281- عن عمر قال: شهدت قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك - يعني الجنين."حم".
٤٠٢٨١۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پیٹ کے بچہ کے فیصلہ میں حاضر تھا۔مسنداحمد

40295

40282- عن سعيد بن المسيب قال: قال عمر بن الخطاب: دية أهل الكتاب اليهودي والنصراني أربعة آلاف درهم، ودية المجوسي ثمانمائة درهم."الشافعي، عب، ش وابن جرير، ق".
٤٠٢٨٢۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمربن خطاب (رض) نے فرمایا : اہل کتاب یہودی اور نصرانی کی دیت چار ہزاردرہم اور مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہیں۔ الشافعی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ وابن جریر، بیہقی

40296

40283- عن عمر، في شبه العمد ثلاثون حقة، وثلاثون جذعة وأربعون ما بين ثنية إلى بازل عامها كلها خلفة."عب، ش، ق".
٤٠٢٨٣۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے شبہ عمد میں تیس تین سالے ، تیس چار سالے اور چالیس ایسی اونٹنیاں جو دو سال اور نو کی عمر میں ہوں اور حاملہ ہوں۔ کی روایت ہے۔ عبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ، بیہقی

40297

40284- عن عمر قال: على أهل البقر مائتا بقر ومائة جذعة ومائة مسنة، وعلى أهل الشاء ألفا شاة."عب، ق".
٤٠٢٨٤۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت فرمایا گاؤں والوں پر دو سوگائیں چار سالے ہیں اور بکریوں والوں پر دو ہزار بکریاں ہیں، عبدزاق بیہقی

40298

40285- عن عمر بن الخطاب أن فرض الدية من الذهب ألف دينار، ومن الورق اثنا عشر ألف درهم."مالك والشافعي، عب، ق".
٤٠٢٨٥۔۔۔ حضرت عمربن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ سونے سے دیت کا فرض ایک ہزار دینا اور چاندی سے بارہ ہزار درہم ہیں۔ مالک والشافعی، عبدالرزاق، بیہقی

40299

40286- عن مجاهد أن عمر بن الخطاب قضى فيمن قتل في الشهر الحرام أو في الحرم أو وهو محرم بالدية وثلث الدية."عب، ق".
٤٠٢٨٦۔۔۔ مجاہد سے روایت ہے کہ عمربن خطاب (رض) نے اس شخص کے بارے میں جو حرمت کے مہینوں میں، یاحرم یا حالت احرام میں قتل کیا گیا دیت کامل اور تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، بیہقی

40300

40287- عن سليمان بن موسى قال: كتب عمر إلى الأجناد ولا نعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى فيما دون الموضحة بشيء، قال: وقضى عمر بن الخطاب في الموضحة بخمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق، وفي موضحة المرأة بخمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق."عب".
٤٠٢٨٧۔۔۔ سلیمان بن موسیٰ سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کی طرف لکھا اور ہمیں معلوم نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گہرے زخم سے کم میں کسی چیز کا فیصلہ فرمایا ہو، فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے گہرے زخم میں پانچ اونٹوں یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی ہو اس کا فیصلہ فرمایا، اور عورت کے گہرے زخم میں پانچ اونٹوں یا ان کی قیمت کے برابر سونے یا چاندی کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40301

40288- عن عكرمة قال: قضى عمر بن الخطاب في الجراح التي لم يقض النبي صلى الله عليه وسلم فيها ولا أبو بكر، فقضى في الموضحة التي تكون في جسد الإنسان وليست في الرأس أن كل عظم له نذر مسمى ففي موضحته نصف عشر نذره ما كان، فإذا كانت موضحة في اليد فنصف عشر نذرها ما لم يكن في الأصابع، فإن كانت موضحة في الإصبع فهي نصف عشر نذر الإصبع، فما كان فوق الأصابع في الكف فنذرها مثل موضحة الذراع والعضد، وفي الرجل مثل ما في اليد، وما كانت من منقولة تنقل عظامها في الذراع أو العضد أو الساق أو الفخذ فهي نصف منقولة الرأس، وقضى في الأنامل كل أنملة بثلاث قلائص وثلث قلوص، وقضى في الظفر إذا عور وفسد بقلوص، وقضى بالدية على أهل القرى اثني عشر ألف درهم؛ وقال: إني أرى الزمان يختلف وأخشى عليكم الحكام بعدي أن يصاب الرجل المسلم وتذهب ديته باطلا أو تدفع ديته بغير حق فيحمل على أقوام مسلمين فيجتاحهم، فليس على أهل العين زيادة في تغليظ عقل في الشهر الحرام ولا في الحرم، وعقل أهل القرى تغليظ كله لا زيادة على اثني عشر ألفا، وقضى في المرأة إذا غلبت على نفسها فافتضت وذهبت عذرتها بثلث ديتها ولا حد عليها، وقضى في المجوسي بثمانمائة درهم وقال: إنما هو عبد من أهل الكتاب فتكون ديته مثل ديتهم."عب" "
٤٠٢٨٨۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے فرمایا : جن زخموں کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) نے کوئی فیصلہ نہیں فرمایا، ان کے بارے میں حضرت عمربن خطاب (رض) نے فیصلہ فرمایا ہے۔ چنانچہ جسم انسانی میں وہ زخم جس سے ہڈی ظاہر ہوجائے اور وہ زخم سر میں نہ لگاہو، ہر ہڈی کے زخم کا علیحدہ تاوان مقررہوتو اس کے زخم میں، اس کے تاوان کا بیسواں حصہ ہے۔ جب ایسازخم جس سے ہڈی ظاہر ہوجاتی ہو ہاتھ میں ہو، تو اگر وہ زخم انگلیوں تک نہیں پہنچاتو اس کے تاوان کا بیسواں حصہ ہوگا اور اگر وہ زخم انگلی میں ہو تو انگلی کے زخم کے تاوان کا بیسواں حصہ ہے۔ اور جو زخم انگلیوں سے اوپر ہتھیلی میں ہو تو اس کا تاوان باز واورکندھے کے گہرے زخم کی طرح ہے اور پاؤں میں ہاتھ کی طرح ہے اور جس زخم سے ہڈی ٹل جائے بازو کی کندھے، پنڈلی یاران کی تو سر کی ہڈی ٹل جانے کے تاوان کا نصف ہے اور انگلی کے پوروں کا فیصلہ بھی فرمایا، ہر پورے میں تین اونٹنیاں اور ایک اونٹنی کی قیمت کا تہائی حصہ، اور ناخن کے بارے میں جب وہ سراخدار اور خراب ہوجائے ایک اونٹنی کا فیصلہ فرمایا اور گاؤں والوں پر بارہ ہزاردرہم دیت کا فیصلہ فرمایا، اور فرمایا : میں دیکھتاہوں کہ زمانہ بدل رہا ہے اور مجھے اپنے بعد تمہارے حکمرانوں کا در ہے کہ مسلمان آدمی کو تکلیف پہنچائی جائے اور اس کی دیت فضول میں چلی جائے یاناحق اس کی دیت ختم کردی جائے اور ایسے مسلمان اقوام پر واجب کی جائے جو انھیں ہلاکت میں مبتلاکردے، لہٰذا سونے چاندی والوں پر حرمت کے اور بغیر حرمت کے مہینوں میں دیت کی شدت میں کوئی زیادتی نہیں، اور گاؤں والوں کی دیت جتنی بھی سخت ہو بارہ ہزار درہم سے بڑھ کر نہیں اور عورت کے بارے میں فیصلہ فرمایا جب وہ اپنے آپ پر غالب آجائے اور وہ اپنا پردہ بکارت پھاڑ کر کنوارپن کھودے، اس کی دیت کا تہائی حصہ ہے اور اس پر حد نہیں، اور مجوسی کے بارے میں آٹھ سو درہم کا فیصلہ فرمایا اور ارشاد فرمایا : وہ تو اہل کتاب میں کا غلام ہے تو اس کی دیت ان کی دیت جیسی ہوگی۔ رواہ عبدالرزاق

40302

40289- عن ابن المسيب أن عمر وعثمان: قضيا في الملطأة وهي السمحاق بنصف دية الموضحة."الشافعي، عب، ش، ق".
٤٠٢٨٩۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر اور عثمان (رض) نے سر کی ہڈی پر باریک جھلی کے بارے میں گہرے زخم کی دیت کے نصف کا فیصلہ فرمایا۔ الشافعی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40303

40290- عن عمرو بن شعيب قال: قضى عمر بن الخطاب في المأمومة ثلث العقل ثلاث وثلاثون من الإبل أو عدلها من الورق أو الشاء، وقضى في الجسد إن أصيب الساق أو الفخذ أو العضد أو الذراع حتى يخرج مخها وبين عظمها فلا يجتمع ففيها نصف مأمومة الرأس ستة عشر قلوصا ونصف، وقضى عمر في المنقلة خمس عشرة من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق أو الشاء، فقضى إن كانت من منقولة تنقل عظامها في العضد أو الذراع أو الساق أو الفخذ فهي نصف منقولة الرأس سبع قلائص ونصف."عب".
٤٠٢٩٠۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے دماغ کے پردہ تک کے زخم میں دیت کا تہائی حصہ تینتیس اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر چاندی یابکریوں کے دینے کا فیصلہ فرمایا، اور جسم میں اگر پنڈلی، ران، کندھے یا بازو کو نقصان پہنچا یہاں تک کہ اس کی ہڈی کا گودا نکل آیا اور ہڈی ظاہر ہوگئی اور جڑ بھی نہیں سکتی تو اس کا تاوان سرکے زخم کا نصف، ساڑھے سولہ اونٹنیا ہیں۔ اور حضرت عمرنے اس زخم یاچوٹ کے بارے میں جس سے ہڈی ٹل جائے پندرہ اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی یابکریاں دینے کا فیصلہ فرمایا، اگر ایسی چوٹ ہو جس سے کندھے بازو، پنڈلی یاران کی ہڈی ٹل جائے تو سر کی ہڈی ٹل جانے کا تاوان یعنی ساڑھے سات اونٹنیاں دینے کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40304

40291- عن عكرمة وطاوس أن عمر بن الخطاب قضى في الأذن إذا استؤصلت نصف الدية."عب، ش، ق".
ھ ٤٠٢٩١۔۔۔ عکرمہ اور طاؤس سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے کان کے بارے میں جب وہ جڑ سے کاٹ دیا جائے نصف دیت کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شبیۃ، بیہقی

40305

40292- عن عمر قال: في العين نصف الدية أو عدل ذلك من الذهب أو الورق، وفي عين المرأة نصف ديتها أو عدل ذلك من الذهب أو الورق."عب".
٤٠٢٩٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : آنکھ میں نصف دیت یا اس کے برابر سونایا چاندی ہے اور عورت کی آنکھ میں نصف دیت یا اس کے برارب سونایا چاندی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40306

40293- عن ابن المسيب أن عمر وعثمان قضيا في عين الأعور الصحيحة إذا فقئت بالدية تامة."عب".
٤٠٢٩٣۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر اور عثمان (رض) نے بھینگے کی صحیح آنکھ جب پھوڑدی جائے تو پوری دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40307

40294- عن ابن عباس وابن المسيب أن عمر قضى في اليد الشلاء والرجل الشلاء والعين القائمة العوراء والسن السوداء في كل واحدة منهن ثلث ديتها."عب، ص، ش، ق".
٤٠٢٩٤۔۔۔ ابن عباس اور ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ناکارہ ہاتھ اور پاؤں موجودبھینگی آنکھ اور سیاہ دانت میں سے ہر ایک کے بارے میں تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40308

40295- عن شريح أن عمر كتب إليه أن الأسنان سواء، والأصابع سواء."عب، ش، ق".
٤٠٢٩٥۔۔۔ شریح سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ان کی طرف لکھا : کہ انگلیاں اور دانت برابر ہیں۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیہقی، یعنی پانچوں انگلیاں اور بتیس دانت برابر ہیں۔

40309

40296- عن ابن شبرمة أن عمر بن الخطاب جعل في كل ضرس خمسا من الإبل."عب".
٤٠٢٩٦۔۔۔ ابن شبرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن الخطاب (رض) نے ہر داڑھ میں پانچ اونٹ مقررکئے ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40310

40297- عن عمر بن الخطاب قال: في السن خمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق، فإن اسودت فقد تم عقلها، وإن كسر منها إذا لم تسود فبحساب ذلك؛ وفي سن المرأة مثل ذلك."عب".
٤٠٢٩٧۔۔۔ حضرت عمربن الخطاب (رض) سے روایت ہے فرمایا : دانت میں پانچ اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونایا چاندی ہے پس اگر وہ سیاہ ہوجائے تو اس کی دیت کامل ہے اور اگر دانت سیاہ کئے بغیر کسی دانت کو توڑاتو اس کے حسا ب سے اور عورت کے دانت میں اس کی طرح ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40311

40298- عن عمر بن الخطاب أنه جعل في أسنان الصبي الذي لم يثغر بعيرا بعيرا."عب، ش".
٤٠٢٩٨۔۔۔ حضرت عمربن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے اس بچہ کے دانتوں میں جس کے دودھ کے دانت ابھی نہیں گرے ایک ایک اونٹ مقرر کیا۔ عبدالرزاق ابن ابی شیبۃ

40312

40299- عن عمر قال: في الأنف إذا أوعب جدعه الدية كاملة، وما أصيب من الأنف دون ذلك فبحسابه أو عدل ذلك من الذهب أو الورق."عب، ق".
٤٠٢٩٨۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا : ناک جب مکمل کاٹ دی جائے تو اس میں پوری دیت ہے اور جو اس سے کم ناک کو نقصان پہنچے تو وہ اس کے حساب سے یا اس کے برابر (قیمت) سونایا چاندی ہے۔ عبدالرزاق، بیہقی

40313

40300- عن مكحول قال: قضى عمر بن الخطاب في اليد الشلاء ولسان الأخرس يستأصل وذكر الخصي يستأصل بثلث الدية."عب".
٤٠٢٣٠٠۔۔۔ مکحول سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمر (رض) نے ناکارہ ہاتھ اور گونگے کی زبان جو جڑ سے کاٹ لی جائے، یا آختہ کا ذکر جو جڑ سے کاٹ دیا جائے تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40314

40301- عن عمر قال: في الجائفة إذا كانت في الجوف ثلث العقل: ثلاثة وثلاثون من الإبل، أو عدلها من الذهب أو الورق أو الشاء، وفي جائفة المرأة ثلث ديتها."عب".
٤٠٣٠١۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : زخم جب پیٹ میں ہو تو دیت کا تہائی واجب ہوتا ہے یعنی تینتیس اونٹ، یا ان کی قیمت کے برابر سونایا چاندی یابکریاں اور عورت کے پیٹ کے زخم میں دیت کا تہائی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40315

40302- عن ابن عمرو أن عمر حكم في البيضة يصاب صفقها الأعلى بسدس من الدية."عب".
٤٠٣٠٢۔۔۔ ابن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فوطہ کے بارے میں جب اس کے اوپر والی جلد کو نقصان پہنچے دیت کے چھٹے حصہ کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40316

40303- عن عكرمة قال: قضى عمر بن الخطاب في المرأة إذا غلبت على نفسها فافتضت أو ذهبت عذرتها بثلث ديتها."عب".
٤٠٣٠٣۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ عورت جب شہوت سے مغلوب ہو کر پردہ بکارت پھاڑدے یا اس کا کنوارپن جاتا رہے تو حضرت عمر (رض) نے تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40317

40304- عن عمر قال: في اليد وفي الرجل نصف الدية أو عدل ذلك من الذهب أو الورق، وفي يد المرأة ورجلها في كل واحدة منهما نصف ديتها أو عدل ذلك من الذهب أو الورق، وفي كل إصبع مما هنالك عشر من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق، وفي كل قصبة قطعت من قصب الأصابع أو شلت ثلث عقل الإصبع، وفي كل إصبع قطعت من أصابع يد المرأة ورجلها خمس من الإبل أو عدلها من الذهب أو الورق، وفي كل قصبة من قصب أصابع المرأة ثلث عقل دية الإصبع أو عدل ذلك من الذهب أو الورق."عب".
٤٠٣٠٤۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : ہاتھ اور پاؤں میں نصف دیت یا اس کی قیمت کے برابر سونا یا چاندی ہے اور عورت کے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہر ایک میں نصف دیت یا اس کے برابر سونایا چاندی ہے اور ہاتھ پاؤں کی ہر انگلی کے عوض دس اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونا چاندی ہے اور انگلیوں کے ہر جوڑ میں جب وہ کاٹ دیا جائے یا بےکار کردیا جائے انگلی کی دیت کا تہائی ہے اور عورت کے ہاتھ پاپاؤں کی جو انگلی کاٹی جائے اس میں پانچ اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر سونایا چاندی ہے اور عورت کی انگلی کے ہر جوڑ میں کاٹا جائے انگلی کی دیت کا تہائی یا اس کی قیمت کا سونایا چاندی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40318

40305- عن عمر قال: في كل أنملة ثلث دية الإصبع."عب".
٤٠٣٠٥۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : ہر پورے میں انگلی کی دیت کا تہائی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40319

40306- عن عكرمة أن عمر بن الخطاب قضى في الظفر إذا أعور وفسد بقلوص."عب، ش".
٤٠٣٠٦۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے ناخن کے بارے میں جب وہ سراخدار اور خراب کردیا جائے ایک اونٹنی کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ

40320

40307- عن عمر أنه قال: في الساق أو الذراع أو العضد أو الفخذ إذا انكسرت ثم جبرت في غير عثم عشرون دينارا أو حقتان."عب، ق".
٤٠٣٠٧۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے انھوں نے فرمایا : کہ پنڈلی، بازو، کندھایاران کو توڑ کر دوبارہ بغیر کجی (ٹیڑھے پن کے بغیر) کے جو ڑدیا جائے تو بیس دیناریادوتین سالے ہیں۔ عبدالرزاق، بیہقی

40321

40308- عن سليمان بن يسار أن رجلا من بني مدلج قتل ابنه فلم يقده منه عمر بن الخطاب وأغرمه ديته ولم يورثه منه وورثه أمه وأخاه لأبيه."الشافعي، عب، ق".
٤٠٣٠٨۔۔۔ سلیمان بن یسار سے روایت ہے بنی مدلج کے ایک شخص نے اپنے بیٹے کو قتل کردیاتو حضرت عمر (رض) نے اس سے اس کا قصاص نہیں لیا، البتہ اس کی دیت کا تاوان اس پر عائد کیا اور اسے اس کا وارث نہیں بنایا اور اس کی ماں اور باپ شریک بھائی کوا س کا وارث قراردیا۔ الشافعی۔ عبدالرزاق، بیہقی

40322

40309- عن عمر بن الخطاب أنه جعل الدية الكاملة في ثلاث سنين، وجعل نصف الدية والثلثين في سنتين، وما دون النصف في سنة، وما دون الثلث في عامه."عب، ش، ق".
٤٠٣٠٩۔۔۔ عمربن الخطاب (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے کامل دیت تین سالوں میں اور نصف دیت اور دوتہائی دو سال میں اور جو نصف سے کم ہو یا تہائی سے تھوڑی ہو ایسے اسی سال ادا کرنا مقرر کیا ہے۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ بیہقی

40323

40310- عن أبي عياض عن عثمان بن عفان وزيد بن ثابت في المغلظة أربعون جذعة خلفة وثلاثون حقة وثلاثون بنات لبون، وفي الخطأ ثلاثون حقة وثلاثون بنات لبون وعشرون بنو لبون ذكور وعشرون بنات مخاض."د".
٤٠٣١٠۔۔۔ ابوعیاض حضرت عثمان بن عفان اور زید بن ثابت (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ سخت دیت میں چالیس چار سال والی حاملہ اونٹنیاں اور تیس تین سالے اور تیس دو سالے ہیں اور قتل خطا میں تیس تین سالے اور تیس دو سالے اور بیس دو سالے مذکر اور بیس ایک سال والے مونث۔ رواہ ابوداؤد

40324

40311- عن سعيد بن المسيب قال: كان عمر بن الخطاب يجعل في الإبهام والتي تليها نصف دية الكف، ويجعل في الإبهام خمس عشرة، وفي التي تليها تسعا، وفي الأخرى ستا، حتى كان عثمان ابن عفان فوجد كتابا كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم فيه "وفي الأصابع عشر عشر" فصيرها عثمان عشرا عشرا."ابن راهويه".
٤٠٣١١۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی میں ہتھیلی کی نصف دیت مقرر کرتے اور صرف انگوٹھے میں پندرہ اونٹ اور اس کے ساتھ والی انگلی میں (علیحدہ) نواونٹ مقرر کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) کا دورآیاتو آپ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ خط ملاجو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمروبن جزم کو لکھوایا تھا جس میں تھا انگلیوں میں دس دس اونٹ تو حضرت عثمان نے اسے دس دس بنادیا۔ ابن راھویہ

40325

40312- عن ابن المسيب أن عثمان وزيدا قالا: في شبه العمد أربعون جذعة خلفة إلى بازل عامها وثلاثون حقة وثلاثون بنت لبون."عب".
٤٠٣١٢۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عثمان اور زید (رض) نے فرمایا : شبہ عمد میں چالیس چارسالہ سے نوسال کی حاملہ اونٹنیاں اور تیس تین سالے اور قیس دوسالہ رواہ عبدالرزاق

40326

40313- عن عمر بن عبد العزيز وعمرو بن شعيب قالا: قضى عثمان في تغليظ الدية بأربعة آلاف درهم."عب".
٤٠٣١٣۔۔۔ عمربن عبدالعزیز اور عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) نے دیت کی زیادتی میں چار ہزاردراہم کا فیصلہ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40327

40314- عن أبي نجيح قال: أوطأ رجل امرأة فرسا في الموسم فكسر ضلعا من أضلاعها فماتت، فقضى فيها عثمان بثمانية آلاف درهم دية وثلث لأنها كانت في الحرم، جعلها الدية وثلث الدية."الشافعي، عب، ص، ق".
٤٠٣١٤۔۔۔ ابوکجیح سے روایت ہے فرمایا : کہ حج کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت کی گھوڑے سے پسلی توڑی دی اور وہ مرگئی تو حضرت عثمان نے اس کے بارے میں آٹھ ہزاردراہم اور تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا کیونکہ وہ حرم میں تھی اس لیے اس کی کامل اور تہائی دیت مقرر کی۔الشافعی، عبدالرزاق، سعید بن منصور، بیہقی

40328

40315- عن ابن المسيب أن عثمان قضى في الذي يضرب حتى يحدث بثلث الدية."عب".
٤٠٣١٥۔۔۔ حضرت ابن المسیب حضرت عثمان (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص کو اتنا مارا جائے کہ اس کی ہوانکل جائے تو آپ نے اس کے بارے تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40329

40316- عن ابن المسيب قال: قضى عثمان في رجل ضرب رجلا ووطئه حتى سلح " بأربعين قلوصا."عب وابن أبي الدنيا في كتاب الأشراف".
٤٠٣١٦۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے اس شخص کے بارے میں جس نے دوسرے شخص کو مارا اور اسے روندایہاں تک کہ اس کے جسم پر نشان پڑگئے چالیس اونٹنیوں کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی الدیافی کتاب الاشراف

40330

40317- عن ابن المسيب قال قال عثمان: إذا اقتتل المقتتلان فما كان بينهما من جراح فهو قصاص."عب".
٤٠٣١٧۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا : جب دو شخص آپس میں لڑیں تو انھیں لگنے والے زخم آپس میں بدلہ ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40331

40318- عن أبي عياض أن عثمان بن عفان رفع إليه أعور فقأ عين صحيح، فلم يقتص منه، وقضى فيه بالدية كاملة."ق".
٤٠٣١٨۔۔۔ ابوعیاض سے روایت ہے کہ حضرت عثمان کے سامنے ایسے بھینگے کا مقدمہ پیش ہواجس نے صحیح شخص کی آنکھ پھوڑدی تو آپ نے اس سے بدلہ نہیں لیابل کہ اس کے بارے میں پوری دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ البیہقی

40332

40319- عن أبي عياض عن عثمان بن عفان وزيد بن ثابت قالا: في المغلظة أربعون جذعة خلفة وثلاثون حقة وثلاثون بنات لبون، وقالا دية الخطأ ثلاثون حقة وثلاثون بنات لبون وعشرون بنت مخاض وعشرون بنو لبون ذكور."قط، ق، مالك".
٤٠٣١٩۔۔۔ ابوعیاض سے روایت ہے کہ حضرت عثمان وزید بن ثابت (رض) نے فرمایا : سخت دیت میں چالیس چار سالہ حاملہ اونٹنیوں تیس تین سالوں، تیس دو سالوں لیوں کو دادا کیا جائے اور فرمایا (قتل) خطا کی دیت تیس تین سالے، تیس دو سالے اور بیس یکسالے اور بیس دو سالے مذکر ہیں۔ دارقطنی، بیہقی، مالک

40333

40320- عن ابن شهاب أن عمر بن الخطاب نشد الناس بمنى فقال، من كان عنده علم من الدية أن يخبرني! فقام الضحاك بن سفيان قال: كتب إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أورث امرأة أشيم الضبابي من ديته، فقال عمر: ادخل الخباء حتى آتيك، فلما نزل عمر أخبره الضحاك بن سفيان فقضى بذلك عمر؛ قال ابن شهاب: وكان أشيم قتل خطأ."د، ت - وقال: حسن صحيح، ن، هـ".
٤٠٣٢٠۔۔۔ ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے منیٰ میں لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا : جس کے پاس دیت کا علم ہے وہ مجھے بتائے توضحاک بن سفیان (رض) اٹھے اور کہا : مری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھا : کہ میں اثیم ضبابی کی بیوی کو اس کی دیت کا وارث بناؤں تو حضرت عمرنے فرمایا : آپ خیمہ میں جائیں میں آپ کے پاس آتاہوں، جب حضرت عمر آئے تو ضحاک بن سفیان (رض) نے انھیں بتایا تو حضرت عمر (رض) نے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا، ابن شہاب فرماتے ہیں، کہ اثیم غلطی سے قتل کئے گئے تھے۔ ابوداؤد، ترمذی، وقال حسن صحیح، نسائی ، ابن ماجۃ

40334

40321- عن يحيى بن عبد الله بن سالم قال: ذكر لنا أنه كان مع سيف عمر بن الخطاب كتاب فيه أمر العقول: وفي السن إذا اسودت عقلها كاملا، وإذا طرحت بعد ذلك بقي عقلها مرة أخرى."ق وقال منقطع".
٤٠٣٢١۔۔۔ یحییٰ بن عبداللہ بن سالم سے روایت ہے فرمایا : کہ ہمارے سامنے یہ ذکر کیا گیا کہ حضرت عمر (رض) کی تلوار کے ساتھ ایک خطا تھا جس میں دیتوں کی تفصیل تھی، دانت جب سیاہ ہوجائیں تو اس کی دیت کامل ہے اور اگر اس کے بعد گرادیئے جائیں تو دوسری مرتبہ اس کی دیت باقی رہے گی۔ بیہقی وقال منقطع

40335

40322- عن ابن جريج قال قلت لعطاء: الدية الماشية أو الذهب؟ قال: كانت في الإبل حين كان عمر بن الخطاب تقوم الإبل عشرين ومائة كل بعير، فإن شاء القروى أعطى مائة ناقة ولم يعط ذهبا، كذلك الأمر الأول."الشافعي، كر".
٤٠٣٢٢۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے عطاء سے کہا : دیت چوپائے ہیں یاسونا، تو انھوں نے فرمایا : جب حضرت عمر (رض) تھے تو اونٹوں میں اونٹوں کی فی اونٹ ایک سوبیس دینارقیمت لگائی جاتی ، پھر دیہائی اگر چاہتا تو سو اونٹنیاں دیتا اور سونانہ دیتا، اسی طرح پہلا معاملہ تھا۔ الشافعی ابن عساکر

40336

40323- عن عمرو بن شعيب أن عمر بن الخطاب قال: إني لخائف أن يأتى من بعدي من يهلك دية المرء المسلم فلأقولن فيها قولا: على أهل الإبل مائة بعير، وعلى أهل الذهب ألف دينار، وعلى أهل الورق اثنا عشر ألف درهم."ق".
٤٠٣٢٣۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے فرمایا : مجھے اپنے بعد ایسے حکمران کا خوف ہے جو مسلمان آدمی کی دیت ختم کردے تو اس بارے میں ایک قانون بناتا ہوں، اونٹ والوں پر سو اونٹ اور سونے والوں پر ایک ہزاردینار اور چاندی والوں پر بارہ ہزاردراہم ہیں۔ رواہ البیہقی

40337

40324- عن ابن شهاب ومكحول وعطاء قالوا، أدركنا الناس على أن دية المسلم الحر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم مائة من الإبل، فقوم عمر بن الخطاب تلك الدية على أهل القرى ألف دينار أو اثني عشر ألف درهم، ودية الحرة المسلمة إذا كانت من أهل القرى خمسمائة دينار أو ستة آلاف درهم، فإذا كان الذي قتلها من الأعراب فديتها خمسون من الإبل، ودية الأعرابية إذا أصابها الأعرابي خمسون من الإبل، لا يكلف الأعرابي الذهب ولا الورق. "الشافعي، ق".
٤٠٣٢٤۔۔۔ ابن شہاب مکحول اور عطاء سے روایت ہے انھوں نے فرمایا : کہ ہم لوگوں نے دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں آزادمسلمان کی دیت سو اونٹ تھی پھر حضرت عمر (رض) نے گاؤں والوں کے لیے اس دیت کی قیمت ایک ہزار دینار یا بارہ ہزار درھم لگائی، اور آزاد مسلمان عورت کی دیت جب وہ یہاتی ہو پانچ سو دینار یاچھ ہزار دراہم ہیں۔ اگر کسی بدوی نے اسے قتل کیا تو اس کی دیت، پچاس اونٹ ہیں۔ اور بدوی عورت کی دیت جب کسی بدوی نے اسے نقصان پہنچایا ہوپچاس اونٹ ہیں اعرابی کو سونے چاندی کا مکلف نہ بنایا جائے۔ الشافی، بیہقی

40338

40325- عن موسى بن علي بن رباح قال: أبي يقول إن أعمى كان ينشد في الموسم في خلافة عمر بن الخطاب وهو يقول: يا أيها الناس لقيت منكرا ... هل يعقل الأعمى الصحيح المبصرا خرا معا كلاهما تكسرا ...وذلك أن أعمى كان يقوده بصير فوقعا في بئر فوقع الأعمى على البصير فمات البصير فقضى عمر بعقل البصير على الأعمى."ق".
٤٠٣٢٥۔۔۔ موسیٰ بن علی بن رباح سے روایت ہے فرماتے ہیں : میرے والد فرمایا کرتے تھے کہ ایک نابینا حضرت عمر (رض) کی خلافت میں حج کے زمانہ میں یہ اشعارپڑھ رہا تھا۔لوگو ! میں نے ایک عجیب معاملہ دیکھا، کیا اندھاصحیح بینا شخص کی دیت بن سکتا ہے۔ دونوں اکٹھے کرے اور ٹوٹ گئے۔ اور اس کا قصہ یہ ہوا کہ ایک اندھا شخص جس کا ایک بینا آدمی ہاتھ پکڑ کرلے جارہا تھا اچانک دونوں کنوئیں میں جاگرے اندھا بینا پر جاکرا جس سے وہ بینامرگیا تو حضرت عمر (رض) نے نابینے سے بینا کی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ البیہقی

40339

40326- عن الحسن أن رجلا أتى أهل ماء فاستسقاهم فلم يسقوه حتى مات عطشا، فأغرمهم عمر بن الخطاب ديته."ق".
٤٠٣٢٦۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک شخص پانی والوں کے پاس آیا ان سے پانی مانگا تو انھوں نے اسے پانی نہ دیا اور وہ پیاسام گیا تو حضرت عمر (رض) نے ان پر اس کی دیت کا تاوان مقرر کیا۔ رواہ البیہقی

40340

40327- عن عروة البارقي أنه كتب إلى عمر بن الخطاب في عين الدابة، فكتب إليه عمر: إنا كنا نقضي فيها كما يقضي في عين الإنسان، ثم اجتمع رأينا أن نجعلها الربع."كر".
٤٠٣٢٧۔۔۔ عروہ بارقی سے روایت ہے کہ انھوں نے جانور کی آنکھ کے بارے میں حضرت عمر (رض) کو لکھا تو حضرت عمرنے جو اباا نہیں لکھا : ہم اس کے بارے میں ایسے فیصلہ کیا کرتے تھے جیسے انسان کی آنکھ کا کرتے تھے پھر ہمارا اتفاق چوتھائی دیت پر ہوا۔ رواہ ابن عساکر

40341

40328- عن عمرو بن شعيب قال: كتب إلي عمر في امرأة أخذت بأنثيي رجل فخرقت الجلدة ولم تخرق الصفاق، فقال عمر لأصحابه: ما ترون في هذا؟ قالوا: اجعلها بمنزلة الجائفة، قال عمر: لكني أرى غير ذلك، إن فيها نصف ما في الجائفة."ش".
٤٠٣٢٨۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے لکھا کہ ایک عورت نے مرد کے فوطوں کو پکڑا اور جلد پھاڑدی لیکن باریک پردہ نہیں پھاڑاتو حضرت عمر (رض) نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کہ اس بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟ انھوں نے کہا : اسے پیٹ کے زخم کے مقام سمجھ لیں آپ نے فرمایا : لیکن میری رائے اس کے علاوہ ہے کہ اس میں پیٹ کے زخم کی دیت کا نصف ہو۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40342

40329- عن عمر قال: أيما عظم كسر ثم جبر كما كان ففيه حقتان."ش".
٤٠٣٢٩۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا جو ہڈی میں توڑی گئی اور اسی طرح جو ڑدی گئی پھر بھی اس میں دو تین سال والے ہیں۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40343

40330- عن إبراهيم عن عمر وعبد الله أنهما قالا: دية الخطأ أخماسا."ش".
٤٠٣٣٠۔۔۔ ابراہیم عمروعبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : قتل خطا کی دیت پانچواں حصہ ہیں۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40344

40331- عن عمر قال: في الذكر الدية."ش".
٤٠٣٣١۔۔۔ حضرت عمر سے روایت ہے فرمایا : ذکر میں پوری دیت ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40345

40332- عن عمر قال: كل رمية نافذة في عضو ففيها ثلث ذلك العضو."ش".
٤٠٣٣٢۔۔۔ حضرت عمر سے روایت ہے فرمایا : جو وارایساہو کہ عضو سے پار ہوجائے تو اس میں اس عضو کے دیت کا تہائی ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40346

40333- عن عمر قال: في الجائفة ثلث الدية."ش".
٤٠٣٣٣۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : پیٹ کے زخم میں تہائی دیت ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40347

40334- عن عمر أنه قوم: الغرة خمسون دينارا."ش".
٤٠٣٣٤۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے غلام کی قیمت پچاس دینارلگائی۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40348

40335- عن عمر قال: ما أصاب المنقلة فلا ضمان على صاحبه، ومن أصاب المنقلة ضمن."ش".
٤٠٣٣٥۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : ہڈی ٹل جانے سے جو نقصان پہنچے تو اس شخص پر کوئی ضمان نہیں، اور جو ہڈی ٹل جانے کے نقصان کو پہنچے وہ ضامن ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ یعنی ایسی تکلیف پہنچائے جس سے ہڈی اپنی جگہ سے ہل اتر جائے۔

40349

40336- عن نافع بن عبد الحارث قال: كتبت إلى عمر أسأله عن رجل كسر إحدى زنديه فكتب إلي عمر: إن فيه حقتين بكرتين."ش".
٤٠٣٣٦۔۔۔ نافع بن عبدالحارث سے روایت ہے فرمایا : میں نے حضرت عمر کو لکھا اور ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس کے ہاتھ کا ایک گٹا (پونچھا) کاٹ دیا گیا تو آپ نے جوابا لکھا : اس میں دو تین سالے ہیں جو جوان ہوں۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40350

40337- عن السائب بن يزيد أن رجلا أراد امرأة على نفسها فرفعت حجرا فقتلته. فرفع ذلك إلى عمر، فقال: ذلك قتيل الله! لا يودى أبدا."عب، ش والخرائطي في اعتلال القلوب، ق".
٤٠٣٣٧۔۔۔ سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کو ورغلانا چاہا اس نے پتھر اٹھایا اور اسے مار کر ہلاک کردیا حضرت عمر (رض) کے سامنے مقدمہ پیش ہوا آپ نے فرمایا : یہ شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے قتل کیا گیا جس کی دیت کبھی ادا نہیں کی جائے گی۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، الخرائطی فی اعتلال القلوب، بیہقی

40351

40338- عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: كان رجل يسوق حمارا فضربه بعصا معه فطارت منها شظية فأصابت عينه ففقأتها، فرفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: هي يد من أيدي المسلمين لم يصبها اعتداء على أحد، فجعل دية عينه على عاقلته."ش".
٤٠٣٣٨۔۔۔ عمروبن شعیب اپنے والد سے اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں فرمایا : ایک شخص گدھا ہکائے جارہا تھا (راستہ میں) اس نے اس لاٹھی سے جو اس کے پاس تھی گدھے کو مارا، جس کا ایک ٹکڑا اڑا اور اس کی آنکھ پر لگا اور آنکھ پھوٹ گئی حضرت عمر (رض) کے ہاں مقدمہ پیش ہوا آپ نے فرمایا، یہ مسلمانوں کے ہاتھ کی مصیب ہے کسی نے کسی پر کوئی ظلم زیادتی نہیں کی، اور اس کی آنکھ کی دیت اس کے عاقلہ پر مقرر کی۔رواہ ابن ابی شبیبۃ

40352

40339- عن عبيد بن عمير أن عمر وعليا قالا: من قتله قصاص فلا دية له."ش، ق".
٤٠٣٣٩۔۔۔ عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت عمروعلی (رض) نے فرمایا : جو شخص قصاص میں مارا جائے اس کی دیت نہیں۔ ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40353

40340- عن أبي قلابة أن امرأة كانت تخفض الجواري فأعنتت، فضمنها عمر وقال: ألا أبقيت كذا."عب، ش".
٤٠٣٤٠۔۔۔ ابوقلابہ سے روایت ہے کہ ایک عورت بچیوں کا ختنہ کرتی تھی اس نے غلط ختنہ کیا تو حضرت عمر (رض) نے اسے ضامن قرار دیا اور فرمایا : کیا تو اس طرح باقی نہیں رکھ سکتی۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ

40354

40341- عن عمر أنه قضى في الأعور تفقأ عينه الصحيحة بالدية كاملة."عب، ش ومسدد، ق".
٤٠٣٤١۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے اس پھینگے کے بارے میں جس کی صحیح آنکھ پھوڑی جائے کامل دیت کا فیصلہ فرمایا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، ومسدد، بیہقی

40355

40342- عن عمر قال: في اللسان إذا استؤصل الدية كاملة، وما أصيب من اللسان فبلغ أن يمنع الكلام ففيه الدية تامة، وفي لسان المرأة الدية كاملة، وما أصيب من لسانها فبلغ أن يمنع الكلام ففيه الدية كاملة، وما كان دون ذلك فبحسابه."عب، ش، ق".
٤٠٣٤٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : زبان جب جڑ سے کاٹ دی جائے تو اس میں پوری دیت ہے اور اگر زبان کو اتنا نقصان پہنچا کہ جس سے صرف بولانہ جاسکتا ہو تو اس میں بھی پوری دیت ہے اور عورت کی زبان میں پوری دیت ہے اور اگر اس کی زبان کو اتنا نقصان پہنچایا گیا جس سے بولانہ جاسکتا ہو تو اس میں کامل دیت ہے اور جو اس سے کم ہو تو اس کے حساب سے۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ، بیہقی

40356

40343- عن سعيد بن المسيب قال: قضى عمر بن الخطاب في الإبهام والتي تليها نصف دية الكف - وفي لفظ: قضى في الإبهام خمس عشرة، وفي السبابة عشرا - وفي الوسطى عشرا، وفي البنصر تسعا، وفي الخنصر ستا؛ حتى وجد كتابا عند آل عمرو بن حزم يزعمون أنه من رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه "وفي كل إصبع عشر" فأخذ به وصارت إلى عشر عشر."الشافعي، عب وابن راهويه، ق؛ قال الحافظ ابن حجر: إسناده صحيح متصل إلى ابن المسيب فإن كان سمعه من عمر فذاك".
٤٠٣٤٣۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمر (رض) نے انگوٹھے اور اس کی ساتھ والی انگلی کا ہتھیلی کی دیت کے نصف کا فیصلہ کیا اور ایک روایت کے الفاظ ہیں : انگوٹھے میں پندرہ شہادت کی انگلی میں دس درمیانی میں دس ، درمیانی انگلی کی ساتھ والی میں نو اور چھنگلی میں چھ (اونٹوں کا) فیصلہ کیا یہاں تک کہ آپ کو عمروبن جزم کی اولاد کے پاس ایک خط ملاجس کے بارے میں ان لوگوں کا گمان ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے جس میں ہے ہر انگلی میں دس اونٹ تو اسی پر عمل کیا یوں دس دس اونٹ ہر انگلی میں مقرر ہوگئے۔ الشافعی، عبدالرزاق، ابن راھویہ، بیہقی وقال الحافظ بن حجر : اسنادہ صحیح متصل ابی ابن المسیب کان سمعہ من عمرفذاک

40357

40344- عن رجل من ثقيف قال: بينما أنا عند عمر بن الخطاب إذ جاء أعرابي يطلب شجة، فقال عمر: إنا معاشر أهل القرى لا نتعاقل المضغ بيننا."مسدد وأبو عبيد في الغريب".
٤٠٣٤٤۔۔۔ ثقیف کے ایک شخص سے روایت ہے کہتے ہیں : ایک دفعہ میں حضرت عمربن خطاب (رض) کے پاس تھا، کہ ایک دیہاتی آیا جو سرکے زخم کا بدلہ طلب کررہا تھا حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم دیہاتی لوگ آپس میں چبانے کا بدلہ نہیں لیتے۔ مسددوابوعبید فی الغریب

40358

40345- عن الشعبي أن عمر قضى في عين جمل أصيبت بنصف ثمنه، ثم نظر إليه بعد فقال: ما أراه نقص من قوته ولا من هدايته شيء، فقضى فيه بربع ثمنه."عب".
٤٠٣٤٥۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اونٹ کے بارے میں جس کی آنکھ کو نقصان پہنچا اس کی قیمت کے نصف کا فیصلہ فرمایا پھر کچھ عرصہ بعد اس میں غورکیاتو فرمایا : میں نہیں سمجھتاہوں کہ اس کی طاقت اور رہنمائی کم ہوئی ہو، چنانچہ آپ نے اس میں اس کی قیمت کا چوتھائی حصہ کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40359

40346- عن عمر قال: السلطان ولي من حارب الدين وإن قتل أباه وأخاه فليس إلى طالب الدم من أمر من حارب الدين وسعى في الأرض فسادا شيء."عب".
٤٠٣٤٦۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ بادشاہ دین سے لڑنے والے کا نگران ہے اگرچہ اس کے باپ اور بھائی کو قتل کرے، دین سے لڑنے والے اور زمین میں فساد پیدا کرنے والے کے معاملہ کا، خون کا مطالبہ کرنے والے کو کچھ اختیار نہیں۔ رواہ عبدالرزاق، یعنی ملحد کے خون کا مطابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

40360

40347- عن الحسن أن رجلا كوى غلاما له بالنار، فأعتقه عمر."عب".
٤٠٣٤٧۔۔۔ حسن بصیری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو آگ سے داغاتو حضرت عمر (رض) نے اسے آزاد کردیا۔ رواہ عبدالرزاق

40361

40348- عن عمرو بن شعيب قال: ضرب عمر بن الخطاب حرا قتل عبدا مائة ونفاه عاما."عب".
٤٠٣٤٨۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمر (رض) نے اس آزاد کو سوکوڑے مارے اور سال کے لیے جلا وطن کیا جس نے غلام کو قتل کیا تھا۔ رواہ عبدالرزاق

40362

40349- عن عمر قال: الدية على الأولياء في كل جريرة جرها."عب".
٤٠٣٤٩۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت فرمایا : جو جرم بھی غلام کرے اس کی دیت اس کے وارثوں پر ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40363

40350- عن الزهري وقتادة في الرجل يصيب نفسه قالا عن عمر: يد من أيدي المسلمين."عب".
٤٠٣٥٠۔۔۔ زھری اور قتادہ سے اس شخص کے بارے میں روایت ہے جو اپنے آپ کو قتل کردے فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40364

40351- عن عمر قال: جراحات الرجال والنساء سواء إلى الثلث من دية الرجال."عب، ق".
٤٠٣٥١۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : مرد اور عورتوں کے زخم مردوں کی دیت کے تہائی برابر ہیں، عبدالرزاق، بیہقی

40365

40352- عن عمر قال: تؤخذ الثني والجذع في دية الخطأ كما تؤخذ في الصدقة."عب".
٤٠٣٥٢۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس طرح صدقہ میں وہ جانور جس کے سامنے کے (دودھ کے) دانت گرگئے ہوں اور چار سالہ لیاجاتا ہے اسی طرح قتل خطا میں یہ دونوں جانور لیے جائیں گے۔ رواہ عبدالرزاق

40366

40353- عن عمر قال: ليس على أهل القرى تغليظ، لا في الشهر الحرام ولا في الحرم، لأن الذهب عليهم والذهب تغليظ."عب".
٤٠٣٥٣۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : گاؤں والوں کو کوئی زیادتی نہیں نہ حرمت کے مہینوں میں اور نہ حرم میں کیونکہ ان کے ذمہ سونا ہے اور سونا زیادتی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40367

40354- عن عمر قال: تقدر الموضحة بالإبهام، فما زاد على ذلك أخذ بحسابه ما زاد."عب".
٤٠٣٥٤۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس زخم سے ہڈی ظاہر ہوجائے اس کا اندازہ انگوٹھے سے لگایا جائے گا جو اس سے بڑھ جائے وہ اس کے حساب سے ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40368

40355- عن ابن الزبير وغيره أن عمر بن الخطاب كان يقول في الموضحة: لا يعقلها أهل القرية ويعقلها أهل البادية."عب".
٤٠٣٥٥۔۔۔ حضرت ابن زبیر اور دوسرے شخص سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) گہرے زخم کے بارے میں فرماتے تھے، شہروالے اس کی دیت نہ دیں دیہات والے اس کی دیت دیں۔ رواہ عبدالرزاق

40369

40356- عن قتادة أن رجلا فقأ عين نفسه خطأ فقضى له عمر ابن الخطاب بديتها على عاقلته."عب".
٤٠٣٥٦۔۔۔ قتادہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی آنکھ پھوڑلی تو حضرت عمرنے اس کی دیت اس کی عاقلہ (باپ کی طرف سے رشتہ داروں پر عائد کی۔رواہ عبدالرزاق

40370

40357- عن سعيد بن المسيب قال: قال قضى عمر بن الخطاب فيما بين أعلى الفم وأسفله بخمس قلائص، وفي الأضراس ببعير بعير، حتى إذا كان معاوية وأصيبت أضراسه قال: أنا أعلم بالأضراس من عمر، فقضى فيها بخمس خمس."عب، ق".
٤٠٣٥٧۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے فرمایا : حضرت عمر (رض) نے منہ کے اوپر اور نیچے والے حصہ کا پانچ اونٹنیوں کا فیصلہ کیا اور داڑھوں میں اونٹ، اونٹ کا، یہاں تک کہ جب حضرت معاویہ (رض) خلیفہ ہوئے اور ان کی داڑھیں حادثہ میں گریں تو آپ نے فرمایا مجھے داڑھوں کا حضرت عمر (رض) سے زیادہ پتہ ہے (کیونکہ مجھے خود واسطہ پڑا) اور آپ نے پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ کیا۔ عبدالرزاق، بیہقی

40371

40358- عن عمر قال: إن أصيبت إصبعان من أصابع المرأة فيها عشر من الإبل، فإن أصيبت ثلاث ففيها خمس عشرة، فإن أصيبت أربع جميعا ففيهن عشرون عشرون من الإبل، فإن أصيبت أصابعها كلها ففيها نصف ديتها؛ وعقل الرجل والمرأة سواء حتى تبلغ الثلث، ثم يفرق عقل الرجل في ديته وعقل المرأة في ديتها."عب".
٤٠٣٥٨۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے فرمایا (رح) : اگر عورت کی دوانگلیوں کو نقصان پہنچے تو اس میں دس اونٹ ہیں اور اگر تین کو نقصان پہنچے تو اس میں ١٥ پندرہ اونٹ ہیں اور اگر چارکواکٹھے نقصان پہنچے تو اس میں بیس بیس اونٹ ہیں۔ اور اگر اس کی تمام انگلیوں کو نقصان پہنچے تو آدھی دیت ہے اور مرد عورت کید یت ثلث تہائی تک برابر ہے پھر مرد کی دیت کا عورت کی دیت سے فرق ہوجاتا ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40372

40359- عن عمرو بن شعيب قال: قضى عمر بن الخطاب أنه ما أصاب أحد من المسلمين من عقل كان عليه في شيء إن أصابه فهو عقل على عاقلته إن شاؤا، وإن أبو فليس لهم أن يخذلوه عند شيء أصابه."عب".
٤٠٣٥٩۔۔۔ عمروبن شعیب سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عمربن خطاب (رض) نے فرمایا : جس مسلمان کے ذمہ کوئی دیت کسی چیز کے بارے میں ہو تو وہ دیت اس کے عاقلہ پر ہے اگر وہ چاہیں، اور اگر وہ انکار کریں تو ان کے لیے اس کا جواز نہیں کہ وہ اسے اس چیز میں چھوڑدیں۔ رواہ عبدالرزاق، یعنی اس کی مددنہ کریں۔

40373

40360- عن هانئ بن حزام قال: كنت جالسا عند عمر بن الخطاب فأتاه رجل فذكر أنه وجد مع امرأته رجلا فقتلهما، فكتب عمر إلى عامله بكتاب في العلانية أن يقاد منه، وكتب إليه في السر أن يأخذوا الدية."عب وابن سعد".
٤٠٣٦٠۔۔۔ ہانی بن حزام سے روایت ہے فرمایا : میں حضرت عمربن خطاب (رض) کے پاس بیٹھا تھا تو اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو دیکھا (طیش میں آکر) اس نے دونوں کو قتل کردیا، تو حضرت عمر (رض) نے سب کے سامنے ایک خط اپنے گورنرکو بھیجا کہ اس سے قصاص لو، اور گورنرنے پوشید ہ طورپرلکھا کہ وہ دیت لیں گے۔ عبدالرزاق، وابن سعد

40374

40361- عن شهر بن حوشب أن عمر صاح بامرأة فأسقطت، فأعتق عمر غرة."ق وقال: منقطع".
٤٠٣٦١۔۔۔ شہر بن حوشب سے روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک عورت کو آوازدی تو اس کا حمل ساقط ہوگیا، جس کے عوض میں حضرت عمر (رض) نے ایک غلام آزاد کیا۔ بیہقی وقال منقطع

40375

40362- عن شريح قال: أتاني عروة البارقي من عند عمر أن جراحات الرجال والنساء تستوي في السن والموضحة، فما فوق ذلك فدية المرأة على النصف من دية الرجل."ش".
٤٠٣٦٢۔۔۔ شریح سے روایت ہے فرمایا : میرے پاس عروہ البارقی حضرت عمر (رض) کے پاس سے آئے کہ مردوں عورتوں کے زخم دانتوں اور گہرے زخم میں برابر ہیں۔ اور جو اس سے اوپر ہوں اس میں عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40376

40363- عن علي قال: من حفر بئرا أو أعرض عودا فأصاب إنسانا ضمن."عب".
٤٠٣٦٣۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس نے کنواں یا کوئی لکڑی گاڑھی جس سے کسی انسان کا نقصان ہوا تو وہ ضامن ہوگا۔ رواہ عبدالرزاق

40377

40364- عن علي أن يهودية كانت تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فخنقها رجل حتى ماتت، فأبطل رسول الله صلى الله عليه وسلم ديتها."د، ق، ص".
٤٠٣٦٤۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتی اور آپ کی عیب جوئی کرتی تھی ایک شخص نے اس کا گلاگھونٹ دیاجس سے وہ مرگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی دیت باطل قراردی۔ ابوداؤد، بیہقی۔ سعید بن منصور

40378

40365- عن علي في الذي يقتص منه ثم لا يموت قال: كتاب الله أن لا دية له."مسدد".
٤٠٣٦٥۔۔۔ حضرت علی (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس سے قصاص لیا گیا اور مرا نہیں تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ اس پر دیت نہیں۔ مسدد

40379

40366- عن علي قال: الإخوة من الأم لا يرثون دية أخيهم لأمهم إذا قتل."ص، ع".
٤٠٣٦٦۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : ماں شریک بھائی اپنے ماں شریک مقتول بھائی کی دیت کے وارث نہیں ہوں گے۔ سعید بن منصور۔ ابویعلی

40380

40367- عن يزيد بن مذكور الهمداني أن رجلا قتل يوم الجمعة في المسجد في الزحام فوداه علي من بيت المال."عب ومسدد".
٤٠٣٦٧۔۔۔ یزید بن مذکورہمدانی سے روایت ہے کہ ایک شخص جمعہ کے روزہجوم کی وجہ سے مسجد میں مرگیا تو حضرت علی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے اس کی دیت دی ۔ عبدالرزاق، مسدد

40381

40368- عن علي قال في شبه العمد الحربة بالعصا والحجر الثقيل ثلاثا: ثلاث جذاع وثلاث حقاق وثلاث ثنية إلى بازل عامها قال يزيد: لا أعلمه إلا قال: خلفة."الحارث - وصحح".
٤٠٣٦٨۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : شبہ عمد میں لاٹھی کے ساتھ لڑائی اور بھاری پتھر سے تین بار (قتل کیا جاتا ہے) جس کی سزاتین چار سالے اور تین ایسی اونٹنیاں جن کے (دودھ کے) دانت گرگئے ہوں اس عمر سے نوسال کی عمرتک کی۔ یزید فرماتے ہیں : مجھے یہ پتہ نہیں لیکن انھوں نے فرمایا تھا، حاملہ اونٹنیاں۔ الحارثہ و صحیح

40382

40369- عن ابن جريج حدثنا عبد الكريم عن علي وابن مسعود قالا: إن العمد السلاح، وشبه العمد الحجر والعصا، ويغلظ شبه العمد الدية ولا يقتل منه."عب".
٤٠٣٦٩۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے کہ ہم سے عبدالکریم نے حضرت علی اور ابن مسعود (رض) کے حوالہ سے نقل کیا انھوں نے فرمایا : ہتھیار، سے قتل عمد اقتل کرنا ہے اور پتھر اور لاٹھی سے شبہ عمد ہے شبہ عمد میں دیت زیادہ ہوگی اس کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔ رواہ عبدالرزاق

40383

40370- عن علي قال: شبه العمد الضرب بالخشبة الضخمة والحجر العظيم."عب".
٤٠٣٧٠۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے موٹی لکڑی اور بڑے پتھر سے مارنا شبہ عمد ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40384

40371- عن علي قال: في شبه العمد ثلاث وثلاثون حقة وثلاث وثلاثون جذعة وأربع وثلاثون ما بين ثنية إلى بازل عامها كلها خلفة، وفي الخطأ خمس وعشرون حقة وخمس وعشرون جذعة وخمس وعشرون بنت مخاض وخمس وعشرون بنت لبون."عب، د، ق".
٤٠٣٧١۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ شبہ عمد میں تینتیس تین سالے تینتیس چار سالے، چونتیس جن کے دودھ کے دانت گرگئے تو نوسال کی عمرتک کے، سب کے سب حاملہ جانور ہوں اور قتل خطا میں پچیس تین سالے پچیس چار سالے، پچیس یکسالے اور پچیس دو سالے۔ عبدالرزاق، ابوداؤد، بیہقی

40385

40372- عن الثوري ومعمر عن أبي إسحاق عن عاصم بن ضمرة عن علي قال: في الموضحة خمس من الإبل، وفي الجائفة ثلث الدية، وفي المأمومة ثلث الدية، وفي الأذن النصف، وفي العين النصف خمسون من الإبل، وفي الأنف الدية إذا استؤصل، وفي الشفتين الدية، وفي السن خمس من الإبل، وفي اللسان الدية، وفي الذكر الدية، وفي الحشفة الدية كاملة، وفي البيضة النصف، وفي اليد نصف الدية، وفي الرجل نصف الدية، وفي الأصابع عشر عشر."ص، ق".
٤٠٣٧٢۔۔۔ ثوری اور معمر ابواسحاق سے وہ عاصم بن ضمرہ سے وہ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : گہرے زخم پانچ اونٹ، پیٹ کے زخم میں دیت کا تہائی، اور دماغ کے زخم میں تہائی دیت اور کان میں آدھی دیت اور آنکھ میں آدھی پچاس اونٹ اور ناک میں پوری دیت جب اسے جڑے کاٹ دیا جائے، ہونٹوں میں پوری دیت دانت میں پانچ اونٹ زبان میں پوری دیت، آلہ تناسل میں پوری دیت حشفہ (سپاری سیو ن ٹوپی) میں پوری دیت، اور فوطہ میں آھی دیت ، ہاتھ میں آدھی دیت، اور پاؤں میں آدھی دیت اور انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں۔ سعید بن منصور، بیہقی

40386

40373- عن علي أنه قضى في السمحاق وهي الملطأة بأربع من الإبل."عب".
٤٠٣٧٣۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے فوطوں کی کھال کے باریک پردے کی دیت کا چار اونٹوں سے فیصلہ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40387

40374- عن معمر عن الزهري وقتادة قالا: في العينين الدية كاملة، وفي العين نصف الدية، فما ذهب فبحساب ذلك؛ قيل لمعمر: كيف يعلم ذلك؟ قال: بلغني عن علي أنه قال: يغمض عينه التي أصيبت ثم ينظر بالأخرى فينظر إلى منتهى بصره، ثم ينظر بالتي أصيبت، فما نقص فبحسابه."عب".
٤٠٣٧٤۔۔۔ معمرزہری اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : دونوں آنکھوں میں پوری دیت اور ایک آنکھ میں آدھی دیت ہے اور جنتی نظر آئے تو اس کے حساب سے کسی نے معمر سے کہا : اس کا پتہ کیسے چلے گا فرمایا : مجھے حضرت علی کا ارشاد پہنچا ہے انھوں نے فرمایا : اس کی وہ آنکھ بند کی جائے جس کا نقصان ہواپھردوسری سے دیکھا جائے تو جہاں تک دیکھ سکتا ہے دیکھے پھر اس سے دیکھے جسے چوٹ لگی ہے توجتنی نظرکم ہو اس کا حساب کیا جائے۔ رواہ عبدالرزاق

40388

40375- عن الحكم بن عيينة قال: لطم رجل رجلا فذهب بصره وعينه قائمة، فأرادوا أن يقيدوه، فلم يدروا كيف يصنعون، فأتاهم علي فأمر به فجعل على وجهه كرسف " ثم استقبل به الشمس وأدنى من عينه مرآة، فالتمع بصره وعينه قائمة."عب".
٤٠٣٧٥۔۔۔ حکم بن عیینہ سے روایت ہے فرمایا : ایک شخص نے دوسرے آدمی کو طمانچہ ماراجس سے اس کی آنکھ تو سلامت رہی لیکن اس کی نظر چلی گئی تو لوگوں نے اس سے بدلہ لینا چاہامگرا نہیں یہ سوجھی کہ کیسے بدلہ لیں اتنے میں حضرت علی (رض) نے ان کے پاس آئے تو آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ اس کے چہرہ پر روئی رکھی جائے پھر وہ سورج کی طرف اپنا رخ کرے اور اس کی آنکھ کے قریب آئینہ کیا گیا تو اس کی آنکھ برقراررہی اور اس کی نظرجاتی رہی ۔ رواہ عبدالرازق

40389

40376- عن الحسن عن علي في رجل أعور فقئت عينه الصحيحة عمدا قال: إن شاء أخذ الدية كاملة، وإن شاء فقأ عينا وأخذ نصف الدية."عب، ص، ق".
٤٠٣٧٦۔۔۔ حسن حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں : ایک بھینگے شخص کی صحیح آنکھ قصدا پھوڑدی گئی تو آپ نے فرمایا : چاہے تو پوری دیت لے اور چاہے تو اس کی آنکھ پھوڑے اور آدھی دیت لے۔ عبدالرزاق، سعیدبن منصوربیہقی

40390

40377- عن علي قال: في السن تصاب ويخشون أن تسود ينتظر بها سنة فإذا اسودت ففيها نذرها وافيا، وإن لم تسود فليس فيها شيء."عب".
٤٠٣٧٧۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس دانت کو چوٹ لگی اور لوگوں کو اس کے سیاہ ہونے کا ڈرہوتو ایک سال تک انتظارکریں، اگر وہ سیاہ ہوجائے تو اس کی چوٹ کا تاوان پورا ہے اور اگر سیا نہ ہو تو کوئی چیز نہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40391

40378- عن قتادة أن عليا قال في رجل عض يد رجل فندرت سنه: إن شئت أمكنته يدك يعضها ثم انتزعها! وأبطل ديته."عب".
٤٠٣٧٨۔۔۔ قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے اس شخص کے بارے میں جس نے دوسرے آدمی کا ہاتھ چبایاتو اس کے دانت گرگئے فرمایا اگر چاہوتوا سے اپنا ہاتھ دو اور وہ چبائے پھر تم اسے کھینچ لینا اور اس کی دیت باطل قراردی۔ رواہ عبدالرزاق

40392

40379- عن إبراهيم قال قال علي: جراحات المرأة على النصف من جراحات الرجل، وقال ابن مسعود: يستويان في السن والموضحة، وهما فيما سوى ذلك على النصف، وكان زيد بن ثابت يقول: إلى الثلث."عب".
٤٠٣٧٩۔۔۔ ابراہیم سے روایت ہے فرماتے ہیں : حضرت علی (رض) نے فرمایا : عورت کے زخم مرد کے زخموں سے نصف ہیں اور ابن مسعود (رض) نے فرمایا : دانتوں اور گہرے زخم میں دونوں برابر ہیں اور اس کے علاوہ میں نصف ہے اور زید بن ثابت (رض) فرماتے تھے : تہاتک (برابر ہیں) رواہ عبدالرزاق

40393

40380- عن علي قال: قد ظلم الإخوة من الأم من لم يجعل لهم من الدية ميراثا."عب، ص".
٤٠٣٨٠۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : ان ماں شریک بھائیوں نے ظلم کیا جنہوں نے ان کے لیے دیت میراث نہیں بنائی۔ عبدالرزاق، سعید بن منصور

40394

40381- عن الحسن أن رجلا رمى أمه بحجر فقتلها فرفع ذلك إلى علي بن أبي طالب، فقضى عليه بالدية ولم يورثه منها شيئا."عب".
٤٠٣٨١۔۔۔ حسن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی ماں کو پتھر مار کر ہلاک کردیاتوحضرت علی ابن بای طالب کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا آپ نے اس کے بارے میں دیت کا فیصلہ فرمایا اور اسے اس کی کسی چیز کا وارث نہیں بنایا۔ رواہ عبدالرزاق

40395

40382- "من مسند جارية بن ظفر" عن نمر أن ابن جارية عن أبيه جارية أنه كان بينه وبين قوم قتال في مسرح غنم فقطعوا يده فاختصموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وإن النبي صلى الله عليه وسلم سأل المقطوع أن يهب له يده، فقال المقطوع: يا رسول الله! إنها يميني، قال "خذ ديتها بورك لك فيها"! فقال: يا رسول الله! ما ترى في غلام من بني العنبر خماسي أو سداسي فأرعيته لا تكثر به على القوم ألم ألتبس به؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "أرى أن تعتقه وأن تنحله فتحسن نحله، فإن مات ورثته، وإن مت لم يرثك"."أبو نعيم".
٤٠٣٨٢۔۔۔ نمر سے وہ ابن جاریہ سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اور ایک قوم کے درمیان لڑائی ہوئی، اور لڑائی کی وجہ بکریوں کا باڑہ تھا، تو انھوں نے ان کا ہاتھ کاٹ دیا حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فیصلہ کرانے آئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے کہا جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا کہ وہ اپنا ہاتھ اسے دے دے تو جس کا ہاتھ کٹا تھا کہنے لگا : یارسول اللہ ! وہ میرا داہناہاتھ تھا آپ نے فرمایا اس کی دیت لے لواس میں تم برکت پاؤگے، وہ کہنے لگا : یارسول اللہ ! نبی عنبر کے اس غلام کے بارے میں آپ کی کیا رائے جس کی پانچ یاچھ سال عمر ہے جسے میں نے بکریاں چرانے کو رکھا اس کی وجہ سے قوم کونہ بڑھائی کیا میں اسے ملانالوں ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری رائے ہے کہ تم اسے آزاد کردو اور اس پر مہربانی کرو اور اچھا سلوک کروا گروہ مرگیا تو تم اس کے وارث ہوگے اور اگر تم مرگئے تو وہ تمہاراوارث نہیں ہوگا۔ ابونعیم

40396

40383- عن عمران بن حصين قال: عض رجل رجلا فانتزع ثنيته، فأبطلها النبي صلى الله عليه وسلم وقالا: "أردت أن تقضم يد أخيك كما يقضم الفحل". "عب".
٤٠٣٨٣۔۔۔ عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے فرمایا : ایک شخص نے دوسرے آدمی کو کاٹا جس سے اس کے سامنے والے دانت گرگئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے باطل قراردیا اور فرمایا : کیا تم اپنے بھائی کا ہاتھ ایسے چابا چاہتے تھے جیسے مرچباتا ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40397

40384- عن المغيرة بن شعبة قال: ضربت ضرة ضرة لها بعمود فسطاط فقتلتها، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بديتها على عصبة القاتلة ولما في بطنها غرة، فقال الأعرابي: يا رسول الله! أتغرمني من لا طعم ولا شرب ولا صاح فاستهل، فمثل ذلك يطل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم "أسجعا كسجع الأعراب"."عب".
٤٠٣٨٤۔۔۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : ایک سوکن نے اپنی سوکن کو خیمہ کا کھونٹا مارکر ہلاک کردیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی دیت کا فیصلہ قتل کرنے والی کے عصبہ راشتہ داروں کے ذمہ کیا اور جو اس کے پیٹ میں بچہ تھا، اس کے بارے میں ایک غلام کا فیصلہ کیا تو اعرابی نے کہا : یارسول اللہ ! آپ مجھے ایسے کے تاوان کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس نے نہ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، صرف آواز نکالی (کہ وہ زندہ ہے) تو اس جیسا بےکار چھوڑ دیاجاتا ہے۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم دیہاتیوں کی طرح اشعار کہتے ہو۔ رواہ عبدالرزاق

40398

40385- عن عمر أنه استشارهم في إملاص المرأة فقال المغيرة: قضى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بغرة، فقال له عمر: إن كنت صادقا فأت بأحد يعلم ذلك، فشهد محمد بن مسلمة أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى فيه بغرة؛ فأجاز شهادتهما."عب".
٤٠٣٨٥۔۔۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے عورت کے بچہ گرانے کے بارے میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو حضرت مغیرہ (رض) نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں ایک غلام کا فیصلہ فرمایا ہے تو حضرت عمرنے فرمایا : اگر آپ کی یہ بات سچی ہے تو اس بات کو جاننے والا کوئی شخص لائیں، تو محمد بن مسلمہ نے گواہی دی کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے بارے میں غلام کا فیصلہ فرماتے سنا تھا، تو حضرت عمر (رض) نے ان دونوں کی گواہی کو نافذ کیا۔ رواہ عبدالرزاق

40399

40386- عن زيد بن ثابت قال: في شبه العمد ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون بين ثنية إلى بازل عامها كلها خلفة."عب".
٤٠٣٨٦۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : شبہ عمد میں تیس تین سال والے اور تیس چار سالے اور چالیس ایسے جن کے دودھ کے دانت گرگئے اس عمر سے نوسال کی عمرتک کے حاملہ جانور ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40400

40387- عن زيد بن ثابت قال: كان في الدامية بعير، وفي الباضعة بعيران، وفي المتلاحمة ثلاث من الإبل، وفي السمحاق أربع، وفي الموضحة خمس، وفي الهاشمة عشر، وفي المنقولة خمس عشرة، وفي المأمومة ثلث الدية، وفي الرجل يضرب حتى يذهب عقله الدية كاملة، أو يضرب حتى يفنى ولا يقيم الدية كاملة، أو حتى يبح فلا يفهم الدية كاملة، وفي جفن العين ربع الدية، وفي حلمة الثدي ربع الدية."عب".
٤٠٣٨٧۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس زخم سے خون بہہ پڑے اس میں ایک اونٹ اور جس زخم سے کھال چر جائے اس میں دو اونٹ اور جس سے گوشت کٹ جائے اور باریک کھال بچ جائے اس میں تین اونٹ اور جس سے باریک کھال زخمی ہو اس میں چار اونٹ اور گہرے زخم میں پانچ اونٹ سرکاوہ زخم جس سے ہڈی ٹوٹ جائے اس میں دس اونٹ اور جس سے ہڈی ٹل جائے اس میں پندرہ اونٹ، اور دماغ کے زخم میں تہائی دیت ہے۔ اور جس شخص کو اتنا مارا گیا کہ اس کی عقل ختم ہوگئی تو کامل دیت ہے یا اتنا مارا گیا کہ وہ فنا ہوگیا اور کھڑا نہیں ہوسکتا تو کامل دیت ہے یا اس کی آواز بیٹھ گئی کہ اس کی بات سمجھ نہیں آتی تو کامل دیت ہے اور آنکھوں پیوٹوں میں چوتھائی دیت ہے اور پستان کی چوسنی میں چوتھائی دیت ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40401

40388- عن زيد بن ثابت قال في الموضحة تكون في الرأس والحاجب والأنف سواء."عب".
٤٠٣٨٨۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : گہرازکم میں ابرو اور ناک میں برابر ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40402

40389- عن زيد بن ثابت أنه قال: في الحرصة تكون بين اللحم والجلد في الرأس خمسون درهما."عب".
٤٠٣٨٩۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : وہ زخم جو سر میں گوشت اور کھال کو ظاہر کردے (اس کی دیت) پچاس درہم ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40403

40390- عن زيد بن ثابت قال: في شحمة الأذن ثلث الدية."عب".
٤٠٣٩٠۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے فرمایا : کان کی لو میں تہائی دیت ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40404

40391- عن زيد بن ثابت قال في السن: يستأنى بها سنة، فإن اسودت ففيها العقل كاملا، وإلا فما اسود منها فبحساب ذلك، وفي السن الزائدة ثلث السن، وفي الإصبع الزائدة ثلث الإصبع."عب".
٤٠٣٩١۔۔۔ زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : دانت کی چوٹ میں سال پھر انتظار کیا جائے پس اکر وہ سیاہ ہوجائے تو اس میں پوری دیت ہے ورنہ جتنا سیاہ ہو اس کے حساب سے اور زائد دانت میں دانت کی تہائی دیت ہے اور زائد نکلی میں انکلی کی، دیت کی تہائی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40405

40392- عن أبي حنيفة قال: في سن الصبي الذي لم يثغر حكم، قال زيد بن ثابت: فيه عشرة دنانير."عب".
٤٠٣٩٢۔۔۔ حضرت ابوحنیفہ سے روایت ہے فرمایا : جس بچہ کے دودھ کے دانت نہیں گرے اس کے دانت میں فیصلہ پیا جائے، حضرت زیدبن ثابت (رض) نے فرمایا : اس میں دس دینار ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40406

40393- عن زيد بن ثابت: في الصغير إذا لم يثبت الدية كاملة."عب".
٤٠٣٩٣۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : چھوٹا بچہ جب کھڑانہ ہوسکتا ہو توکامل دیت ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40407

40394- عن زيد بن ثابت أنه قضى في فقار الظهر بالديه كاملة، وهي ألف دينار، وهي إثنتان وثلاثون فقارة، في كل فقارة أحد وثلاثون دينارا وربع دينار إذا كسرت ثم برأت على غير غثم ". فإن برأت على عثم ففي كسرها أحد وثلاثون دينارا وربع دينار، وفي عثمها ما فيه من الحكم المستقل سوى ذلك."عب".
٤٠٣٩٤۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے کمر کے مہروں میں کامل دیت کا فیصلہ کیا، جو ایک ہزار دینار ہیں اور کمر کی ہڈی کے بتیس مہرے ہیں۔ ہر مہرہ میں اکتیس ٣١ دینار کا چوتھائی حصہ ہے جب اسے توڑا جائے اور پھر سیدھا جوڑ دیا جائے، پھر اگر اسے ٹیڑھا جوڑا گیا تو اس کے توڑنے میں اکتیس ٣١ دینار اور دینار کا چوتھائی حصہ ہے اور ٹیڑھے پن میں اس کے علاوہ مستقل حکم ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40408

40395- عن زيد بن ثابت قال في المرأة يفضيها زوجها: إن حبست الحاجتين والولد ففيها ثلث الدية، وإن لم تحبس الحاجتين والولد ففيها الدية كاملة."عب".
٤٠٣٩٥۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے آپ نے اس عورت کے بارے میں فرمایا : جب اس کا خاوند مباشرت کرے اور آگے پیچھے کے دونوں مقاموں کو ایک بنالے، اگر وہ پیشاب پاخانہ کی ضرورت اور بچہ کو روک لے تو اس میں تہائی دیت ہے اور اگر دونوں کو نہ روکے تو اس میں کامل دیت ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40409

40396- عن زيد بن ثابت قال في الظفر يقلع: إن خرج أسود أو لم يخرج ففيه عشرة دنانير، وإن خرج أبيض ففيه خمسة دنانير."عب".
٤٠٣٩٦۔۔۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے فرمایا : ناخن جب اکھیڑا جائے، اگر وہ سیاہ نکلے یا نہ نکلے (دونوں صورتوں میں) دس دینار ہیں اور اگر سفید نکلے تو اس میں پانچ دینار ہیں۔

40410

40397- عن ابن عباس قال: كانت الدية عشرا من الإبل، وعبد المطلب أول من سن دية النفس مائة من الإبل، فجرت في قريش والعرب مائة من الإبل؛ وأقرها رسول الله صلى الله عليه وسلم على ما كانت عليه."ابن سعد والكلبي عن أبي صالح".
٤٠٣٩٧۔۔۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : دیت حقیقت میں دس اونٹ تھے، عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنہوں نے انسانی جان کی دیت سو اونٹ رائج کی ہے یوں قریش اور عرب میں سو اونٹوں کا رواج پڑگیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی کو برقرار رکھا۔ ابن سعدواکلبی عن ابی صالح

40411

40398- عن أبي بكر بن سليمان بن أبي حثمة عن الشفاء أم سليمان أن النبي صلى الله عليه وسلم استعمل أبا جهم بن حذيفة بن غانم على المغانم يوم حنين، فأصاب رجلا بقوسه فشجه منقلة، فقضى فيها النبي صلى الله عليه وسلم بخمس عشرة فريضة."كر".
٤٠٣٩٨۔۔۔ ابوبکربن سلیمان بن ابی حثمہ شفاء ام سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے روزابوجہم بن حدیفہ بن غانم کو غنیمتوں کا نگران بنایاتو انھوں نے ایک شخص کو اپنی کمان ماری جس سے اس کے سر کی ہڈی ٹل گئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں پندرہ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ ابن عساکر

40412

40399- عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث أبا جهم بن حذيفة مصدقا، فلاحه رجل في صدقته. فضرب أبو جهم فشجه، فأتوا النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: القود يا رسول الله! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لكم كذا وكذا"، فلم يرضوا، قال: "فلكم كذا وكذا"، فلم يرضوا، قال: "فلكم كذا وكذا"، فرضوا؛ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"! قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "إن هؤلاء الليثين أتوني يريدون القود فعرضت لهم كذا وكذا فرضوا، أرضيتم"؟ قالوا: لا، فهم المهاجرون، فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم أن يكفوا، فكفوا؛ ثم دعاهم فزادهم فقال: "أرضيتم"؟ قالوا نعم، قال: "فإني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"! قالوا: نعم، فخطب وقال: "أرضيتم"؟ قالوا: نعم"عب".
٤٠٣٩٩۔۔۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہم بن حدیفہ کو زکوۃ وصول کرنے بھیجا تو ایک شخص اپنی زکوۃ پر ان سے جھگڑپڑا، توابوجہم (رض) نے اسے ماراجس سے اس کا سرزخمی ہوگیا، وہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بدلہ طلب کرنے آپہنچے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے سے اتنااتنامال (بصورت بکریاں) ہوگا وہ راضی نہ ہوئے پھر آپ نے فرمایا : تمہارے لیے اتنااتنا مال ہوگا، وہ راضی نہ ہوئے آپ نے فرمایا : تمہارے لیے اتنا اتنامال ہوگا تو وہ راضی ہوگئے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں لوگوں سے خطاب کر کے تمہاری رضامندی بتانے والا ہوں، وہ کہنے لگے : ٹھیک ہے ، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطاب میں فرمایا : یہ بنی لیث کے لوگ میرے پاس بدلہ طلب کرنے آئے تو میں نے ان کے سامنے اتنا اتنا مال رکھا، اور یہ لوگ راضی ہوگئے (اے بنی لیث) کیا تم راضی ہو ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو مہاجرین نے حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں رکنے کا حکم دیا، تو وہ باز آگئے، پھر آپ نے انھیں بلایا اور مال میں اضافہ انھوں کہا : ٹھیک ہے، پھرنے خطاب میں فرمایا : کیا تم راضی ہو ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں۔ رواہ عبدالرزاق، یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی رضامندی کو ان کے اپنے الفاظ میں لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا چاہتے تھے۔

40413

40400- "مسند عبد الله بن عمرو بن العاص" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الأسنان والأصابع سواء."عب".
٤٠٤٠٠۔۔۔ مسند عبداللہ بن عمروبن العاص، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں اور دانتوں میں برابری کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40414

40401- عن إبراهيم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الدية على الميراث، والعقل على العصبة"."ص".
٤٠٤٠١۔۔۔ ابراہیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دیت (بصورت مال) میراث پر اور دیت (بصورت جانور) عصبہ پر ہے۔ رواہ سعید بن منصور

40415

40402- عن الحسن أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يقض فيما دون الموضحة بشيء."عب".
٤٠٤٠٢۔۔۔ حسن سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گہرے زخم کے علاوہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا ؟ رواہ عبدالرزاق

40416

40403- عن ربيعة قال: سألت ابن المسيب: كم في إصبع من أصابع المرأة؟ قال: عشر من الإبل، قلت: في إصبعين؟ قال عشرون، قلت: فثلاث؟ قال: ثلاثون، قلت: فأربع؟ قال: عشرون، قلت: حين عظم جرحها واشتدت بليتها نقص عقلها؟ قال: أعرابي أنت؟ قلت: بل عالم متبين أو جاهل متعلم، قال: السنة."عب".
٤٠٤٠٣۔۔۔ ربیعۃ سے روایت ہے فرمایا : میں نے ابن المسیب سے پوچھا، عورت کی ایک انگلی میں کیا دیت ہے ؟ فرمایا : دس اونٹ میں نے کہا : دوانگلیوں کی ؟ فرمایا : بیس اونٹ ، میں نے کہا : تین کی ؟ فرمایا : تیس اونٹ، میں نے کہا : چار کی ؟ فرمایا : بیس، میں نے کہا : جب اس کا زخم بڑھا اور مصیبت زیادہ ہوئی تو اس کی دیت کم ہوگئی کیوں ؟ فرمایا : کیا تم دیہاتی ہو ؟ میں نے کہا : نہیں میں وضاحب طلب کرنے والا عالم یاسیکھنے والا ناواقف ہوں، فرمایا : سنت کی وجہ سے۔ پس میں خاموش ہوگیا کہ رسول اکرم کے فرمان کے سامنے عقل نارسا ہے) ۔ رواہ عبدالرزاق

40417

40404- عن ابن جريج عن ابن طاوس عن أبيه قال: عندنا كتاب فيه ذكر من العقول جاء به الوحي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، إنه ما قضى النبي صلى الله عليه وسلم من عقل أو صدفة فإنه جاء به الوحي، قال: ففي ذلك الكتاب عن النبي صلى الله عليه وسلم: إذا اصطلحوا في العمد فهو على ما اصطلحوا عليه، وفي ذلك الكتاب عن النبي صلى الله عليه وسلم: دية الخطأ من الإبل ثلاثون حقة وثلاثون بنت لبون وعشرون بنت مخاض وعشرون ابن لبون ذكورا؛ عن النبي صلى الله عليه وسلم في الجار والشهر الحرام تغليظ؛ وعن النبي صلى الله عليه وسلم في الموضحة خمس، وفي المنقلة خمس عشرة، وفي المأمومة ثلاث وثلاثون، وفي الجائفة ثلاث وثلاثون، وفي العين خمسون، وفي الأنف إذا قطع المارن مائة، وفي السن خمس من الإبل، وإن قطع الذكر ففيه مائة ناقة إن انقطعت شهوته وذهب نسلة، وفي اليد خمسون من الإبل، وفي الرجل خمسون، وفي الأصابع عشر."عب".
٤٠٤٠٤۔۔۔ ابن جریج سے وہ ابن طاؤس سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں : کہ ہمارے پاس ایک خط تھا جس میں ان دیتوں کی تفصیل تھی جن کی وحی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوئی تھی، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت یا زکوۃ کا جو فیصلہ بھی فرمایا وہ وحی سے فرمایا، فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس خط میں تھا۔ جب قتل عمد میں صلح کرلیں تو جتنے پر صلح کرلیں (وہی ادا کیا جائے) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس خط میں تھا (رح) : قتل خطا کی دیت اونٹوں کی صورت میں تیس تین سالے، تیس دو سالے بیس یکسانے بیس دو سالے مذکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے پڑوسی اور اشہر حرم میں دیت میں زیادتی ہے، اور گہرے زخم کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پانچ اونٹ اور ہڈی ٹکڑے ٹکڑے اور گل جانے والے زخم میں پندرہ اونٹ اور دماغ کے زخم میں تینتیس اونٹ، اور پیٹ کے زخم میں تینتیس اونٹ، آنکھ میں پچاس اور ناک جب اس کا بانسہ کاٹ دیا جائے سو اونٹ اور دانت میں پانچ اونٹ اور اگر ذکر (آلہ تناسل) کاٹ دیا تو اس میں سو اونٹنیاں اور اگر اس کی شہوت ختم ہوگئی اور اس کا سلسلہ نسل ختم ہوگیا۔ اور ہاتھ میں پچاس اونٹ اور پاؤں میں پچاس اونٹ اور انگلیوں میں دس اونٹ ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40418

40405- عن عكرمة أن النبي صلى الله عليه وسلم قضى في الأنف إن جدع كله بالدية، وإذا جدعت روثته بالنصف."عب".
٤٠٤٠٥۔۔۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے، ناک جب پوری کاٹ دی جائے تو پوری دیت کا اور اگر اس کا کنارہ کاٹا گیا تو آدھی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40419

40406- عن ابن جريج قال: قال عمرو بن شعيب: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "من قتل متعمدا فإنه يدفع إلى أهل القتيل، فإن شاؤا قتلوه وإن شاؤا أخذوا العقل دية مسلمة، وهي مائة من الإبل: ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون خلفة، فذلك للعمد إذا لم يقتل صاحبه، ودية الخطأ وشبه العمد مغلظ ولا يقتل صاحبه، وذلك أن ينزل الشيطان بين الناس فيكون رميا 1 في عميا 2 عن غير ضغينة ولا حمل سلاح، فمن حمل علينا السلاح فليس منا، ولا رامية بطريق، فمن قتل على غير هذا فهو شبه العمد وعقله مغلظ ولا يقتل صاحبه، ودية الخطأ من الإبل ثلاثون حقة وثلاثون بنت لبون وعشرون بنت مخاض وعشرون بنو لبون ذكور، ومن كان عقله في البقر فمائتا بقرة، وفي الخطأ الجذع والثني، وفي المغلظة خيار المال، ومن كان عقله من الشاء فألفا شاة"، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيم الإبل على أهل القرى أربعمائة دينار أو عدلها من الورق ثمنها على أثمان الإبل، فإذا غلت وقع في ثمنها وإذا هانت من قيمتها من أهل القرى على نحو الثمن ما كان. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "عقل المرأة مثل عقل الرجل حتى يبلغ ثلث ديتها"، وذلك في المنقولة، فما زاد على المنقولة فهو نصف عقل الرجل ما كان، وإن قتلت امرأة فعقلها بين ورثتها وهم يثأرون بها ويقتلون قاتلها، والمرأة ترث زوجها من ماله وعقله ويرثها من مالها وعقلها ما لم يقتل أحدهما الآخر، والعقل ميراث بين ورثة القتيل على قسمة فرائضهم، فما فضل فللعصبة، ويعقل عن المرأة عصبتها من كانوا، ولا يرثون منها إلا ما فضل من ورثتها."عب".
٤٠٤٠٦۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرمایا، عمروبن شعیب نے فرمایا : کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو جان بوجھ کر قتل کرے ، اسے مقتول کے وارثوں کے حوالہ کردیا جائے چاہے اسے قتل کریں چاہے پوری دیت جو سو اونٹ ہیں لے لیں۔ جن میں تیس ٣٠ تین سالے، تیس ٣٠ چار سالے چالیس ٤٠ حاملہ اونٹیاں ہیں یہ تو قتل عمد کے لیے ہیں جب قاتل کو قتل نہ کیا جائے۔ اور قتل خطا اور شبہ عمد کی دیت سخت ہے وہ یوں کہ لوگوں میں شیطان اتر آئے اور ان کے درمیان اندھادھند تیراندازی ہو جس کا سبب نہ کینہ وحسد اور نہ ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھانا، سو جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہمارا نہیں، اور نہ راستہ میں تیراندازی کرتے ہوئے، سوجوشخص اس کے علاوہ کسی صورت میں مرجائے تو وہ شبہ عمد ہے اس کی دیت سخت ہے اور قتل کو قلت نہیں کیا جائے گا، قتل خطاء کی دیت تیس ٣٠ تین سالے، تیس ٣٠ دو سالے بیس ٢٠ یکسالہ اور بیس ٢٠ دو سالے مذکر، اور جس کی دیت گائیوں میں ہو تو دوسوگا اور قتل خطا میں چارسالہ اور جس کے سامنے کے دودھ والے دانت گرگئے ہوں دیا جائے اور دیت مغلظہ میں بہترین مال دیا جائے۔ اور جس کی دیت بکریوں میں ہو تودوہزار بکریاں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گاؤں والوں پر اونٹوں کی قیمت چارسود ینا ریا ان کے برابر چاندی جس کی قیمت اونٹوں کی قیمت کے برابرہو، جب چاندی مہنگی ہوتی تو اس کی قیمت پر لگائی جاتی اور جب اس کی قیمت کم ہوتی تو جتنی بھی اونٹوں کی قیمت ہوتی اس پر، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت کی دیت مرد کی دیت جیسی ہے یہاں تک کہ اس کی دیت کا تہائی ہوجائے، جو اس زخم میں سے جس سے ہڈی ٹوٹ کر ٹل جائے تو جو اس سے زیادہ ہو تو وہ مرد کی دیت کا آدھا ہے۔ اگر عورت قتل کردی جائے تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں میراث ہے وہ اس کا بدلہ لیں اور اس کے قاتل کو قتل کریں اور عورت اپنے خاوند کے مال اور اس کی دیت کی وارث ہوگی اور مرد اپنی بیوی کے مال اور دیت کا وارث ہوگا، جب ایک دوسرے کو انھوں نے قتل نہ کیا ہو۔ اور دیت مقتول کے وارثوں کے درمیان ان کے حصوں کے بقدر میراث ہے جو بچ جائے وہ عصبہ کے لیے اور عورت کے جو بھی عصبہ ہیں وہ اس کی دیت اداکریں، اور اس کے وارث نہیں ہوں گے ہاں جو وارثوں سے بچ جائے۔ اس کے وہ وارث ہیں۔ رواہ عبدالرزاق

40420

40407- عن عبد الله بن بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في الموضحة بخمس من الإبل، وفي الجائفة ثلث الدية، وفي العين خمسون من الإبل، وفي الأنف إذا أوعى جدعه الدية كاملة مائة من الإبل، وفي السن خمس من الإبل، وفي أصابع اليدين والرجلين في كل إصبع فما هنالك عشرين من الإبل. "عب".
٤٠٤٠٧۔۔۔ عبداللہ بن بکربن محمد بن عمروبن جزم اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گہرے زخم میں پانچ اونٹوں اور پیٹ کے زخم میں تہائی دیت اور آنکھ میں پچاس اونٹوں اور ناک ساری کاٹ دی جائے پوری دیت کا جو سو اونٹ ہیں اور دانت میں پانچ اونٹوں کا اور دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں میں ہر انگلی میں ایک کے حساب سے بیس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40421

40408- عن الزهري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في الأنف بالدية، وفي الذكر بالدية، وفي اليدين بالدية، وفي الرجلين بالدية."عب".
٤٠٤٠٨۔۔۔ زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناک میں پوری دیت کا ذکر میں پوری دیت کا اور دونوں ہاتھوں میں پوری دیت کا اور دونوں پاؤں میں مکمل دیت کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدعبدالرزاق

40422

40409- عن الزهري قال: مضت السنة أن عمد الصبي والمجنون خطأ، ومن قتل صبيا لم يبلغ الحلم أقدناه به."عب".
٤٠٤٠٩۔۔۔ زہری سے روایت ہے فرمایا : یہ سنت جاری ہے کہ بچہ اور مجنون کا قصد (قتل) خطا ہے اور جس نے نابالغ بچہ کو قتل کیا ہم اس سے اس کا بدلہ میں گے۔ رواہ عبدالرزاق

40423

40410- عن ابن شهاب قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المرأة التي ضربت صاحبتها فقتلتها وما في بطنها بديتها على العاقلة وفي جنينها غرة."عب".
٤٠٤١٠۔۔۔ ابن شہاب سے روایت ہے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے بارے میں جس نے اپنی سوکن کو مارکرہلاک کردیا اور جو اس کے پیٹ میں تھا اسے بھی تو اس کی دیت کا قاتلہ اور اس کے خاندان والوں کے ذمہ اور بچہ کے عوض غلام آزاد کرانے کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40424

40411- عن أبي قلابة ويحيى بن سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم بدأ بالأنصار فقال: "استحلفوا"، فأبوا أن يحلفوا فقال للأنصار: "إذن يحلف لكم يهود"، فقال الأنصار: وما تبالي اليهود أن يحلفوا، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده مائة من الإبل."عب".
٤٠٤١١۔۔۔ ابوقلا بہ اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے قسم لینے کا آغاز کیا اور فرمایا قسم کھاؤتو انھوں نے قسم کھانے سے انکار کیا، تو آپ نے انصار سے فرمایا : تب یہودتمہارے لیے قسم کھائیں گے تو انصار بولے : یہود کو قسم کھانے کی کیا پر واتورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کے مقتول شخص کی اپنی طرف سے سو اونٹ دیت ادا کی۔رواہ عبدالرزاق

40425

40412- "مسند علي" عن الحسن أن عليا قضى بالدية اثني عشر ألفا."الشافعي، ق".
٤٠٤١٢۔۔۔ مسند علی (رض)، حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے بارہ ہزاردرہم دیت کا فیصلہ فرمایا۔ الشافعی بیہقی

40426

40413- عن علي قال: في المنقلة خمس عشرة."ص، ق".
٤٠٤١٣۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس زخم سے ہڈی ٹوٹ کر ٹل جائے اس میں پندرہ اونٹ ہیں۔ سعید بن منصور، بیہقی

40427

40414- عن علي في السن: إذا كسر بعضها أعطي صاحبها بحساب ما نقص منها ويتربص بها حولا، فإن اسودت ثم عقلها،وإلا لم يزد على ذلك."ق".
٤٠٤١٤۔۔۔ حضرت علی (رض) سے دانت کے بارے میں روایت ہے فرمایا : جب کچھ دانت ٹوٹے تو جس کا دانت ٹوٹا اسے جتنا اس کا نقصان ہوا اس کے حساب سے دیا جائے اور سال بھر انتظار کیا جائے، پس اگر وہ سیاہ ہوجائے تو اس کی دیت ہے ورنہ اس سے زایدہ نہ دیا جائے۔ رواہ البیہقی

40428

40415- عن علي أنه قضى في القارصة والقامصة والواقصة بالدية أثلاثا."أبو عبيدة في الغريب، ق".
٤٠٤١٥۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے چٹکی لگانے والی، اچھلنے والی اور گردن توڑنے والی عورتوں میں تین تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ ابوعبیدہ فی الغریب، بیہقی یہ تین لڑکیاں تھیں جو ایک کھیل میں ایک دوسری پر سوار ہوئیں تو سب سے نچلی نے درمیان والی کو چٹکی لگائی اور وہ اچھلی تو سب سے اوپروالی گری تو اس کی گردن ٹوٹ گئی تو آپ نے دوتہائی دیت دونوں عورتوں پر عائد کی اور سب سے اوپروالی کی دیت ساقط کردی کیونکہ اس نے اپنے خلاف مددی تھی۔

40429

40416-"مسند أسامة بن عمير" كان فينا رجل يقال له حمل بن مالك له امرأتان: إحداهما هذلية، والأخرى عامرية، فضربت الهذلية بطن العامرية بعمود خباء أوفسطاط فألقت جنينا ميتا، فانطلق بالضاربة إلى النبي صلى الله عليه وسلم معها أخ لها يقال له عمران بن عويمر، فلما قصوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم القصة قال: "دوه"، قال عمران: يا نبي الله! أندي ما لا أكل، ولا شرب ولا صاح فاستهل، مثل هذا يطل! فقال النبي صلى الله عليه وسلم، "دعني من رجز الأعراب، فيه غرة عبد أو أمة أو خمس مائة أو فرس أو عشرون ومائة شاة"، فقال: يا نبي الله! إن لها ابنين هما سادة الحي وهم أحق أن يعقلوا على أمهم، قال: "أنت أحق أن تعقل عن أختك من ولديها"، قال: ما لي شيء أعقل فيه، قال: "يا حمل بن مالك" وهو يومئذ على صدقات هذيل وهو زوج المرأتين وأبو الجنين المقتول: "اقبض من تحت يدك من صدقات هذيل عشرين ومائة شاة"، ففعل."طب".
٤٠٤١٦۔۔۔ مسنداسامہ عمیرہم میں ایک شخص تھا جس کا نام حمل بن مالک تھا جس کی دوبیویاں تھیں، ایک کا تعلق قبیلہ ھذیل سے تھا اور دوسری قبیلہ عامری سے تھی توہذیلیہ نے عامریہ کے پیٹ پر خیمہ یاکیمپ کا کھونٹا ماراجس سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ حالت میں پڑاتومارنے والی کے ساتھ اس کا بھائی اسے لے کر جس کا نام عمران بن عویمر تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ساراقصہ بیان کیا آپ نے فرمایا : اس بچہ کی دیت دو ، تو عمران نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ کھایانہ پیانہ چیخاپس پیدا ہوا اس جیسارائیگاں جاتا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رہنے دو مجھے دیہاتیوں کے اشعاروالی گفتگونہ سناؤ اس میں ایک غلام یا لونڈی یاپانچ سویا ایک کھوڑایا ایک سوبیس بکریاں (قابل ادا) ہیں۔ تو وہ کہنے لگا : یا نبی اللہ ! اس کے دوبیٹے ہیں جو قبیلہ کے سردار ہیں وہ اپنی ماں کی دیت دینے کے زیادہ حق دار ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنی بہن کی دیت دینے کے اس کے دونوں بیٹوں سے زیادہ حقدار ہو تو وہ بولا : مجھے اس میں دیت دینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تو آپ نے فرمایا : حمل بن مالک ! وہ اس وقت ھذیل کی زکوۃ لینے پر مامور تھے وہی دونوں عورتوں کے خاوند اور مقتول بچہ کے باپ تھے، ھذیل کی زکوۃ سے اپنے ہاتھ میں ایک سوبیس ١٢٠ بکریاں کرلینا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ رواہ الطبرانی

40430

40417- عن أسامة بن عمير أيضا: كانت فينا امرأتان ضربت إحداهما الأخرى بعمود فقتلتها وقتلت ما في بطنها. فقضى النبي صلى الله عليه وسلم في المرأة بالعقل وفي الجنين بغرة عبد أو أمة أو بفرس أو بعيرين من الإبل أو كذا وكذا من الغنم، فقال رجل: كيف نعقل يا رسول الله من لا أكل، ولا شرب ولا صاح ولا استهل، فمثل ذلك يطل! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم "أسجاعة أنت"! وقضى أن ميراث المرأة لزوجها وولدها، وأن العقل على عصبة القاتلة."طب".
٤٠٤١٧۔۔۔ اسی طرح اسامہ بن عمیر سے روایت ہے کہ ہمارے ہاں دو عورتیں رہتی تھیں ایک نے دوسری کو کھونٹا مار کر ہلاک کردیا جس سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورت کے بارے میں دیت کا اور بچہ کے بارے میں غلام لونڈی گھوڑے یادواونٹوں یا اتنی اتنی ایک سوبیس بکریوں کا فیصلہ کیا۔ تو ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ! ہم اس کی دیت کیسے دیں جس نے نہ کھایانہ پیانہ چیخانہ چلایا اور اس جیسے کا خون رائیگاں ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم موذون گفتگو کرتے ہو ؟ اور عورت کی میراث کا اس کے خاوند اور اس کے بیٹے کے لیے اور دیت قتل کرنے والی کے عصبہ پر عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔ رواہ الطبرانی

40431

40418- عن أسامة بن عمير أيضا: كانت عندي امرأة فتزوجت عليها أخرى، فتغايرتا فضربت الهذلية العامرية بعمود فسطاط لي فطرحت ولدا ميتا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دوه"، فجاء وليها فقال: أندي من لا أكل، ولا شرب ولا استهل، فمثل ذلك يطل؛ فقال: "رجز الأعراب، نعم دوه، فيه غرة عبد أو أمة"."طب - عن الهذلي".
٤٠٤١٨۔۔۔ اسامہ بن عمیر سے یہ بھی روایت ہے کہ میرے پاس ایک عورت تھی اور پھر ایک اور عورت سے شادی کرلی گئی وہ آپس میں لڑپریں تو بذلیہ نے عامریہ کو میرے خیمہ کا کھونٹاماراجس سے مردہ بچہ کر پڑاتورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی دیت دوتو اس کا وارث آکرکہنے لگا : کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے کھایانہ پیانہ چیخا چلایا، اس جیسا رائیگاں ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا : تویہاتیوں کے اشعارسناتے ہو ہاں اس کی دیت دو ، اس میں غلام یا لونڈی آزادکرو۔ طبرانی عن الھذلی

40432

40419- "من مسند حسين بن عوف الخثعمي" إن حمل بن مالك بن النابغة كانت تحته ضرتان مليكة وأم عفيف، فرمت إحداهما صاحبتها بحجر فأصابت قبلها فألقت جنينها ميتا وماتت، فرفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم فجعل ديتها على قوم القاتلة وجعل في جنينها غرة عبدا أو أمة أو عشرين من الإبل أو مائة شاة، فقال وليها: والله يا نبي الله! ما أكل، ولا شرب ولا صاح فاستهل، فمثل ذلك يطل؛ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "لسنا من أساجيع الجاهلية في شيء"."طب، عن أبي المليح بن أسامة".
٤٠٤١٩۔۔۔ مسند حسین بن عوف الختعمی کہ، حمل بن مالک بن نابغہ کے زیرنکاح دوسوکنیں ملیلۃ اور ام عفیف تھیں تو ان میں سے ایک نے اپنی سوکن کو پتھر ماراجو اس کی شرم گاہ پر لگاجس سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ ہو کر گرپڑا اور وہ خود بھی مرگئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مقدمہ پیش کیا گیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کی دیت قتل کرنے والی عورت کی قوم پر عائد کی اور اس کے پیٹ کے بچہ میں غلام یا لونڈی یابیس اونٹ یاسوبکریاں مقرر کیں تو اس کا ولی کہنے لگا : یا نبی اللہ ! جس نے نہ کھایانہ پیانہ چیخا چلایا اس جیسے کا خون رائیگاں ہے۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمیں جاہلیت کے اشعار کی کوئی ضرورت نہیں۔ طبرانی عن ابی الملیح بن اسامۃ

40433

40420- "مسند حمل بن مالك بن النابغة" عن ابن عباس قال: قام عمر على المنبر فقال: أذكر الله امرأ سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في الجنين! فقام حمل بن مالك بن النابغة الهذلي فقال: يا أمير المؤمنين! كنت بين ضرتين فضربت إحداهما الأخرى بعود فقتلتها وقتلت ما في بطنها، فقضى النبي صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد أو أمة، فقال عمر: الله أكبر! لو لم أسمع بهذا قضينا بغيره."عب، طب وأبو نعيم".
٤٠٤٢٠۔۔۔ مسندحمل بن مالک بن نابغہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ حضرت عمر (رض) منبرپرکھڑے ہوئے اور فرمایا : میں اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی یاددلاتاہوں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ پیٹ کے بچہ کے بارے میں سنا تھا تو حمل بن مالک بن نابغہ الھذلی اٹھے اور کیا امیرالمومنین امیری دوبیویاں آپس میں سوکنیں تھیں، تو ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی ماری جس نے تنیجہ میں وہ اور اس کے پیٹ کا بچہ دونوں مرگئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچہ کے بارے میں غلام یا لونڈی (کی قیمت) کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اللہ اکبر ! اگر میں یہ بات نہ سنتا توا س کے خلاف فیصلہ کردیتا۔ عبدالرزاق، طبرانی، و ابونعیم

40434

40421- عن أبي هريرة قال: اقتتلت امرأتان من هذيل فرمت إحداهما الأخرى بحجر فأصابت بطنها فقتلتها فأسقطت جنينا، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعقلها على عاقلة القاتلة، وفي جنينها غرة عبد أو أمة، فقال قائل: كيف نعقل من لا أكل، ولا شرب ولا نطق ولا استهل، فمثل ذلك يطل؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هذا من إخوان الكهان"."عب".
٤٠٤٢١۔۔۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : مذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑپریں تو ایک نے دوسری کو پتھر ماراجو اس نے پیٹ پر لگاجس سے وہ قتل ہوگئی اور اس کے پیٹ کا بچہ گرگیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقتول عورت کی دیت قتل کرنے والی کی عاقلہ (باپ کے رشتہ داروں) پر عائد کی اور اس کے بچہ کے بارے میں ایک غلام یا لونڈی (کی قیمت) کا فیصلہ فرمایا، تو ایک شخص بولا : ہم اس کے دیت کیسے دیں، جس نے کھایانہ پیانہ چیخانہ چلایا اس جیساتو رائیگاں ہوتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے رواہ عبدالرزاق

40435

40422- عن ابن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى في الجنين غرة عبد أو وليدة، فقال الهذلي الذي قضى عليه: كيف أغرم يا رسول الله من لا أكل، ولا شرب ولا نطق ولا استهل، فمثل ذلك يطل: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما هذا من إخوان الكهان"."عب".
٤٠٤٢٢۔۔۔ ابن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹ کے بچہ کے بارے میں غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو وہ ھذلی جس کے خلاف فیصلہ ہواکہنے لگا : یارسول اللہ میں اس کا تاوان کیسے دوں جس نے کھایانہ پیانہ چیخا چلایا اور اس جیسا بےکارہوتا ہے۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کاہنوں کا بھائی ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40436

40423- عن عكرمة مولى ابن عباس أن اسم الهذلي الذي قتلت إحدى امرأتيه الأخرى فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بغرة في الجنين وبدية المرأة اسمه حمل بن مالك بن النابغة من بني كثير بن حباشة، واسم المرأة القاتلة أم عفيف ابنة مسروح من بني سعد بن هذيل، وأخوها العلاء بن مسروح؛ والمقتولة مليكة بنت عويمر من بني لحيان ابن هذيل، وأخوها عمرو بن عويمر؛ فقال العلاء بن مسروح: لا أكل، ولا شرب ولا استهل، ولا نطق فمثل هذا بطل؛ فقال عمرو بن عويمر: إن ابننا ذكر، فقضى النبي صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة ذكر أو أنثى أو فرس أو مائة شاة أو عشر من الإبل."عب" "
٤٠٤٢٣۔۔۔ عکرمہ، حضرت ابن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ وہ حذلی جس کی دوبیویوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کردیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچہ کے بارے میں غلام کا اور عورت کے بارے میں دیت کا فیصلہ فرمایا تھا اس کا نام حمل بن مالک بن نابغہ تھا جو بنی کثیر بن حباثہ سے تعلق رکھتا تھا قاتل عورت کا نام ام عفیف بنت مسروح تھا جس کا تعلق بنی سعد بن ھذیل سے تھا اور اس کا بھائی علاء بن مسروح تھا، اور مقتول عورت کا نام ملیکۃ بنت عویمر تھا جس کا تعلق بنی الحیان بن ھذیل سے تھا اور اس کا بھائی عمروبن عویمر تھا۔ علاء بن مسروح کہنے لگا : جس نے کھایانہ پیانہ چیخا نہ چلایا اس جیسا رائیگاں ہوتا ہے تو عمروبن عویمر نے کہا : ہمارا بیٹا تھا، تو بنی (علیہ السلام) نے پیٹ کے بچہ ک ے بارے میں غلام یا لونڈی یا گھوڑے یاسوبکریوں یادس اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40437

40424- عن ابن جريج قال: أخبرني عمرو بن شعيب أن امرأتين من هذيل كانتا عند رجل وكانت إحداهما حبلى فضربتها ضرتها بمخيط فأسقطت، فجاء زوجها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره الخبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "غرة عبد أو أمة في سقطها"، وقال ابن عم الضاربة يقال له حمل بن مالك ابن النابغة: لا شرب ولا أكل، ولا استهل، فمثل هذا يطل؛ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "أسجعا - أو قال: سجعا - سائر اليوم"."عب"
٤٠٤٢٤۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عمروبن شعیب نے بتایا کہ ھذیل کی دو عورتیں ایک شخص کے نکاح میں تھیں ان میں سے ایک کے پاؤں بھاری تھے تو اس کی سوکن نے اسے چرغہ کی لکڑی سے ماراجس سے اس کا بچہ گرگیا اس کا خاوند نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو سارے واقعہ سے خبردارکیاتو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے گرے ہوئے بچہ کے بارے میں غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرمایا تو مارنے والی کا چچازادکہنے لگا : جیسے حمل بن مالک کہا جاتا تھا اس نے نہ کھایانہ پیانہ چیخا چلایا اس جیسا تورائیگاں جاتا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم شعر کہتے ہو یا باقی دن شعر کہتے رہوگے۔ رواہ عبدالرزاق

40438

40425- عن معمر عن الزهري وقتادة قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد أو أمة."طب - عن الهذلي". دية الذمى
٤٠٤٢٥۔۔۔ معمرزہری اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹ کے بچہ کے بارے میں غلام یا لونڈی کا فیصلہ فرمایا۔ طبرانی عن الھذلی

40439

40426- عن ابن عمر أن رجلا مسلما قتل رجلا عمدا، فرفع إلى عثمان فلم يقتله وغلظ عليه الدية مثل دية المسلم."عب، قط، ق".
٤٠٤٢٦۔۔۔ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک مسلمان نے ایک شخص کو قصداقتل کردیا حضرت عثمان (رض) کے ہاں مقدمہ پیش ہوا آپ نے اسے قتل نہیں کیا اس پر مسلمان کی دیت کی طرح دیت میں سختی کی۔ عبدالرزاق، دارقطنی، بیہقی

40440

40427- عب: عن أبي حنيفة عن الحكم بن عتيبة أن عليا قال: دية اليهودي والنصراني وكل ذمي مثل دية المسلم - قال أبو حنيفة: وهو قولي.
٤٠٤٢٧۔۔۔ عبدالرزاق : ابوحنیفہ (رح) سے وہ حکم بن عتبہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : کہ یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت جیسی ہے ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : یہی میرا قول ہے۔

40441

40428- عن ابن جريج قال: أخبرني عمرو بن شعيب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض على كل مسلم قتل رجلا من أهل الكتاب أربعة آلاف درهم وأنه ينفى من أرضه إلى غيرها."عب".
٤٠٤٢٨۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عمروبن شعیب نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہراس مسلمان پر جس نے کسی کتابی کو قتل کیا، چار ہزار درہم عائد کئے اور یہ کہ اسے اس کی زمین سے دوسری زمین کی طرف جلاوطن کیا جائے۔ رواہ عبدالرزاق

40442

40429- عن معمر عن الزهري قال: دية اليهودي والنصراني والمجوسي وكل ذمي دية المسلم، قال: وكذلك كانت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان، حتى كان معاوية فجعل في بيت المال نصفها وأعطى أهل المقتول نصفها."عب".
٤٠٤٢٩۔۔۔ معمر، زہری سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی عیسائی، مجوسی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت جیسے ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ اور ابوبکر و عمرو عثمان (رض) کے دورتک یہی رہی، پھر جب امیرمعاویہ (رض) خلیفہ ہوئے تو انھوں نے آدھی دیت بیت المال میں اور ادھی مقتول کے وارثوں کو دی۔ رواہ عبدالرزاق

40443

40430- "مسند أسامة" أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جعل دية المعاهدي كدية المسلم."قط وضعفه".
٤٠٤٣٠۔۔۔ مسنداسامہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہد (جس سے عہد و پیمان ہو) کی دیت مسلمان کی دیت جیسی مقرر کی۔ دارلطنی۔ وضعفہ

40444

40431- عن مكحول قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في دية المجوسي بثمانمائة درهم."عب".
٤٠٤٣١۔۔۔ مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوسی کی دیت میں آٹھ سو درہم کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40445

40432- "مسند علي" عن ابن شهاب أن عليا وابن مسعود كانا يقولان في دية المجوسي: ثمانمائة درهم."ق".
٤٠٤٣٢۔۔۔ (مسند علی (رض)) ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت علی وابن مسعود (رض) مجوسی کی دیت کے بارے میں فرمایا کرتے تھے : آٹھ سو درہم۔ رواہ البیہقی

40446

40433- "مسند الصديق" عن المهاجر بن أبي أمية قال: كتب إلي أبو بكر الصديق أن: ابعث إلي قيس بن مكشوج في وثاق، فأحلفه خمسين يمينا عند منبر النبي صلى الله عليه وسلم ما قتل ذاذويه."الشافعي، ق".
٤٠٤٣٣۔۔۔ مسند الصدیق، مہاجربن ابی امیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں حضرت ابوبکر (رض) نے میری طرف لکھا : قیس بن مکشوج کو بیڑیاں پہنا کر میرے پاس بھیج دو میں اس سے منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پچاس قسمیں لوں گا کہ اس نے ان دونوں کو قتل نہیں کیا۔ الشافعی، بیہقی
قسامہ قسم ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء جب اسے کسی قوم میں مردہ پائیں اور قاتل کا بھی پتہ نہ ہو تو پچاس ورثاء اپنے آدمی کے خون کے مطالبہ کی قسم کھائیں اور اگر وہ پچاس آدمی نہ ہوں تو موجودہ افراد پچاس قسمیں کھائیں جن میں بچہ عورت، پاگل، غلام نہ ہو یا جن پر قتل کی تہمت لگی وہ قتل کی نغی کی قسم کھائیں، جب دعویدارقسم کھالیں تو دیت کے مستحق ہوجائیں گے اور اگر وہ لوگ قسم کھائیں جن پر قتل کی تہمت تھی تو ورثاء دیت کے حق دار نہیں ہوسکتے۔ النایہ فی غریب الحدیث

40447

40434- عن الشعبي أن قتيلا وجد في خربة من خرب وادعة همدان، فرفع إلى عمر بن الخطاب، فأحلفهم خمسين يمينا: ما قتلنا ولا علمنا قاتلا، ثم غرمهم الدية، ثم قال يا معشر همدان! حقنتم دماءكم بأيمانكم فما يبطل دم هذا الرجل المسلم."ص، ق".
٤٠٤٣٤۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ وادعۃ ھمدان کے کسی ویرانہ میں ایک مقتول پایا گیا حضرت عمر (رض) کے ہاں مقدمہ پیش ہوا آپ نے ان سے پچاس قسمیں لیں (رح) : کہ نہ ہم نے اسے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ ہے پھر آپ نے ان پر دیت مقرر کی ، پھر فرمایا اے ہمدان کے لوگو ! تم نے اپنی قسموں کے ذریعہ اپنے خون بچالئے تو اس مسلمان آدمی کا خون رائیگاں کیوں جائے۔ سعید بن منصور، بیہقی

40448

40435- عن الشعبي قال: قتل رجل فأدخل عمر بن الخطاب الحجر المدعى عليهم خمسين رجلا فأقسموا، ما قتلنا ولا علمنا قاتلا."ق".
٤٠٤٣٥۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ ایک شخص قتل کیا گیا تو حضرت عمر (رض) نے حطیم میں پچاس آدمی داخل کئے جن پر دعوی تھا تو انھوں نے قسم کھائی۔ ہم نے نہ اسے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا علم ہے۔ رواہ البیہقی

40449

40436- عن سعيد بن المسيب قال: لما حج عمر حجته الأخيرة وجد رجلا من المسلمين قتيلا بفناء وادعة فقال لهم: علمتم لهذا القتيل قاتلا منكم؟ قالوا: لا، فاستخرج منهم خمسين شيخا فأدخلهم الحطيم فاستحلفهم بالله رب هذا البيت الحرام ورب هذا البلد الحرام ورب هذا الشهر الحرام أنكم لم تقتلوه ولا علمتم له قاتلا، فحلفوا بذلك، فلما حلفوا قال: أدوا ديته مغلظة: فقال رجل منهم: يا أمير المؤمنين! أما تجزيني يميني من مالي؟ قال: لا، إنما قضيت عليكم بقضاء نبيكم صلى الله عليه وسلم."قط، ق وقال: رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم منكر وفيه عمر ابن صبح أجمعوا على تركه".
٤٠٤٣٦۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے فرمایا : جب حضرت عمر (رض) نے اپنا آخری حج کیا تو وادعہ کے اطراف میں ایک مسلمان شخص کو مردہ پایا تو آپ نے ان سے فرمایا : کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم میں اس کا قاتل کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا : نہیں تو حضرت عمر (رض) نے ان سے پچاس بوڑھے آدمی نکالے اور انھیں حطیم میں داخل کیا اور ان سے اللہ کی قسم لی جو بیت الحرام کا حرمت والے شہر کا اور حرمت والے مہینہ کا رب ہے کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ تمہیں قاتل کا پتہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کی قسم کھائی، جب انھوں نے قسمیں کھالیں تو آپ نے فرمایا : اس کی زیادہ دیت اداکرو۔ تو ایک شخص بولا : امیرالمومنین ؟ کیا میری قسم میرے مال کی جگہ نہیں لے سکتی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے تمہارے سامنے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کیا۔ (دارقطنی بیہقی وقال : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اس روایت کی نسبت کچھ زیادتی کے ساتھ ہے اس سند میں عمر بن صبح ہے جس کی روایت ترک کرنے پر اجماع ہے) ۔ کلام :۔۔۔ ضعاف الدارقطنی ١٨٤۔

40450

40437- عن سليمان بن يسار وعراك بن مالك أن رجلا من بني سعد بن ليث أجرى فرسا فوطئ على إصبع رجل من جهينة فنزي منها فمات، فقال عمر بن الخطاب للذين ادعى عليهم: أتحلفون بالله خمسين يمينا ما مات منها؟ فأبوا وتحرجوا من الأيمان، فقال للآخرين: احلفوا أنتم، فأبوا، فقضى عمر بشطر الدية على السعديين."مالك والشافعي، عب، ق".
٤٠٤٣٧۔۔۔ سلیمان بن یسار اور عراک بن مالک سے روایت ہے کہ بنی سعد بن لیث کے ایک شخص نے گھوڑادوڑایا اور جہینہ کے شخص کی انگلی رونددی جس سے اس کا ساراخون بہہ گیا اور اس کی ہلاکت ہوگئی۔ تو حضرت عمر (رض) نے مدعا علیہم سے فرمایا : کیا تم اللہ تعالیٰ کی پچاس قسمیں کھاتے ہو کہ وہ اس سے نہیں مرا ؟ تو انھوں نے انکار کیا اور قسمیں کھانے سے ہچکچائے، تو آپ نے دوسروں سے فرمایا : تم قسمیں کھاؤ ! تو انھوں نے انکار کیا، تو حضرت عمر (رض) نے بنی سعد والوں پر آدھی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ مالک والشافعی، عبدالرزاق، بیہقی

40451

40438- "مسند علي" عن سعيد بن وهب قال: خرج قوم فصحبهم رجل فقدموا وليس معهم، فاتهمهم أهله، فقال شريح: شهودكم أنه قتل صاحبكم! وإلا حلفوا بالله ما قتلوه، فأتوا عليا - قال سعيد: وأنا عنده - ففرق بينهم فاعترفوا، فسمعت عليا يقول: أنا أبو الحسن القرم! فأمر بهم على فقتلوا."قط".
٤٠٤٣٨۔۔۔ مسند علی (رض) سعید بن وھب سے روایت ہے کہ کچھ لوگ (سفرپر) نکلے تو ایک شخص ان کے ساتھ ہولیا، جب واپس آئے تو وہ ان میں نہیں تھا، تو اس کے رشتہ داروں نے ان پر (قتل کا) الزام لگایا، توقاضی شریح نے فرمایا : تمہارے گواہوں کا بیان ہے تمہارے آدمی نے اسے قتل کیا ہے، ورنہ اللہ کی قسم کھائیں کہ انھوں نے اسے قتل نہیں کیا تو وہ حضرت علی (رض) کے پاس آئے سعید فرماتے ہیں ! میں ان کے پاس تھا تو آپ نے ان سے جدا جدا پوچھا تو انھوں نے اعتراف کیا، میں نے حضرت علی (رض) کو فرماتے سنا : میں ابوالحسن سردارہوں، پھر آپ نے انھیں قتل کئے جانے کا حکم کیا تو وہ قتل کردیئے گئے۔ دارقطنی

40452

40439- عن ابن سيرين عن علي في الرجل سافر مع أصحاب له فلم يرجع حين رجعوا، فاتهم أهله أصحابه فرفعوهم إلى شريح، فسألهم البينة على قتله، فارتفعوا إلى علي وأخبروه بقول شريح فقال علي:أوردها سعد وسعد مشتمل ... ما هكذا تورد يا سعد الإبل ثم قال: إن أهون السقي التشريح، قال: ثم فرق بينهم وسألهم، فاختلفوا ثم أقروا بقتله، فقتلهم به."أبو عبيد في الغريب، ق".
٤٠٤٣٩۔۔۔ ابن سیرین سے روایت ہے وہ حضرت علی (رض) سے اس شخص کے بارے میں روایت کرتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنے دوستوں کے ساتھ سفر کیا، لیکن جب وہ لوٹے تو وہ اپس نہیں آیا، تو اس کے رشتہ داروں نے اس کے دوستوں پر الزام قتل لگایا، انھوں نے قاضی شریح کے مقدمہ دائر کروایا تو آپ نے اس قتل کے گواہوں کا پوچھا تو وہ حضرت علی (رض) کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے اور قاضی شریح کی بات انھیں بتائی تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : ان اونٹوں کو سعد پانی پر لایا اور سعد چادراوڑھے تھا اے سعد ! اس طرح اونٹوں کو پانی پر نہیں لایاجاتا، پھر فرمایا : سب سے گھٹیا پلانا پتلا پلانا ہے۔ فرماتے ہیں : پھر انھیں جدا جدا کیا اور ان سے پوچھا تو پہلے ان کا آپس میں اختلاف ہوگیا پھر اس کے قتل کا اقرار کیا تو آپ نے اس کی وجہ سے انھیں قتل کیا۔ ابوعبیدفی الغریب، بیہقی
جس مقتول کا قاتل معلوم نہ ہو

40453

40440- عن علي قال: أيما قتيل بفلاة من الأرض فديته من بيت المال لكيلا يبطل دم في الإسلام، وأيما قتيل وجد بين قريتين فهو على أسبقهما يعني أقربهما."عب".
٤٠٤٤٠۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : کسی جنگل میں کوئی مقتول پایا گیا تو اس کی دیت، بیت المال سے ہوگی تاکہ اسلام میں اس کا خون باطل نہ ہو، اور جو مقتول دو بستیوں میں پایا گیا تو وہ اس کے ذمہ ہے جس کے زیادہ قریب ہے۔ رواہ عبدالرزاق

40454

40441- عن الأسود أن رجلا قتل في الكعبة، فسأل عمر عليا فقال: من بيت المال."عب".
٤٠٤٤١۔۔۔ اسود سے روایت ہے کہ ایک شخص کعبہ میں قتل کیا گیا، تو حضرت عمر (رض) نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا : بیت المال سے اس کی دیت ادا کی جائے۔ رواہ عبدالرزاق

40455

40442- عن سهل بن أبي حثمة أن نفرا من قومه انطلقوا إلى خيبر فتفرقوا فيها فوجدوا أحدهم قتيلا فقالوا للذين وجدوه عندهم: قتلتم صاحبنا! قالوا: ما قتلنا ولا علمنا قاتلا، فانطلقوا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا، يا نبي الله! انطلقنا إلى خيبر فوجدنا أحدنا قتيلا، قال النبي صلى الله عليه وسلم "الكبر! الكبر"! فقال لهم: "تأتون بالبينة على من قتل"؟ قالوا: ما لنا بينة، قال: "فيحلفون لكم"؟ قالوا: لا ترضى بأيمان اليهود، فكره النبي صلى الله عليه وسلم أن يبطل دمه فوداه بمائة من إبل الصدقة."ش".
٤٠٤٤٢۔۔۔ سہل بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے کچھ لوگ خیبر گئے وہاں جاکر منتشر ہوئے تو انھیں ایک مقتول پڑاملاتو انھوں نے ان لوگوں سے کہا جن کے پاس تھا تم نے ہمارا آدمی قتل کیا ہے ! تو انھوں نے کہا نہ ہم نے قتل کیا اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ ہے تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور کہنے لگے یا نبی اللہ ! ہم خیبر اور وہاں ہمارے کسی آدمی نے ایک مقتول دیکھاتو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بڑا معاملہ ہے، بڑا معاملہ ہے، پھر ان سے فرمایا : کیا تم قاتل کے گواہ لاسکتے ہو ؟ تو وہ کہنے لگے : ہمارا کوئی گواہ نہیں ہے آپ نے فرمایا : پھر وہ تمہارے لیے قسمیں کھائیں ؟ انھوں نے کہا : یہودیوں کی قسموں پر ہم راضی نہیں تو آپ نے یہ ناپسند سمجھا کہ اس کا خون رائیگاں جائے تو آپ نے اپنی طرف سے صدقہ کے سو اونٹوں سے اس کی دیت دی۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40456

40443- "مسند عبد الله بن عمرو بن العاص" إن حويصة ومحيصة ابني مسعود وعبد الله وعبد الرحمن ابني فلان خرجوا يمتارون بخيبر، فعدي على عبد الله فقتل، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تقسمون بخمسين وتستحقون"، فقالوا: يا رسول الله! كيف نقسم ولم نشهد؟ قال: "فتبرئكم يهود"، قالوا: يا رسول الله! إذن تقتلنا يهود؛ فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده."ش".
٤٠٤٤٣۔۔۔ مسند (عبداللہ بن عمروبن العاص) حویصہ اور محیصہ مسعود کے بیٹے اور عبداللہ، عبدالرحمن فلاں کے بیٹے، خیبر سے غلہ لینے گئے تو عبداللہ پر کسی نے حملہ کرکے قتل کردیا انھوں نے اس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکرکیاتو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم پچاس قسمٰن کھاؤیوں تم دیت کے مستحق ہوجاؤگے، انھوں نے کہا : یارسول اللہ ! ہم نے جب دیکھاہی نہیں توہم کیسے قسمیں کھائیں ؟ آپ نے فرمایا : پھر یہودتم سے بری ہیں۔ انھوں نے عرض کی پھر تو یہودی ہمیں ایک ایک کرکے قتل کردیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے اس کی دیت دی۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40457

40444- عن سعيد بن المسيب أن القسامة كانت في الجاهلية فأقرها النبي صلى الله عليه وسلم في قتيل من الأنصار وجد في جب اليهود، قال: فبدأ النبي صلى الله عليه وسلم باليهود: فكلفهم قسامة، فقالت اليهود: لن نحلف! فقال النبي صلى الله عليه وسلم للأنصار: "أفتحلفون؟ " قالت الأنصار: لن نحلف، فأغرم النبي صلى الله عليه وسلم اليهود ديته، لأنه قتل بين أظهرهم."عب، ش، حب" "
٤٠٤٤٤۔۔۔ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ قسامت جاہلیت میں تھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے برقرار رکھا (جس کی صورت یہ ہوئی کہ) انصار کا ایک شخص یہود کے کنوئیں میں مقتول پایا گیا فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے ابتدا کی اور ان سے قسم کھانے کو کہا : تو یہود نے کہا : ہم تو ہرگز قسمیں نہیں کھائیں گے، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا : کیا تم قسمیں کھاؤگے ؟ انصارنے کہا : ہم تو قسمیں نہیں کھائیں گے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودپردیت کا تاوان مقرر کیا کیونکہ وہ ان کے درمیان قتل کیا گیا۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ ابن حبان

40458

40445- عن ابن جريج قال: أخبرني يونس بن يوسف قال: قلت لابن المسيب: عجبا من القسامة! يأتي الرجل لا يعرف القاتل من المقتول ثم يقسم! فقال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقسامة في قتيل خيبر، ولو علم أن يجترئ الناس عليها ما قضى بها. "عب" "
٤٠٤٤٥۔۔۔ ابن جریج سے روایت ہے فرمایا : مجھے یونس بن یوسف نے بتایا، فرماتے ہیں ! میں نے ابن المسیب سے کہا : قسامۃ پر تعجب ہوتا ہے ! ایک شخص جو قاتل کو اور مقتول کو نہیں جانتا اور آکر قسمیں کھاتا ہے تو انھوں نے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے مقتول کے بارے میں قسامت کا فیصلہ فرمایا، اگر آپ کو یہ علم ہوتا کہ لوگ اتنی جرأت کریں گے تو اس کا فیصلہ نہ فرماتے ۔ رواہ عبدالرزاق

40459

40446- عن الحسن أن النبي صلى الله عليه وسلم بدأ بيهود فأبوا أن يحلفوا، فرد القسامة على الأنصار فأبوا أن يحلفوا، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم العقل على اليهود. "عب".
٤٠٤٤٦۔۔۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے (قسامت) کا آغاز کیا تو انھوں نے انکار کیا تو آپ انصار قسمیں لیں، تو انصار نے بھی انکار کردیاتو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودپردیت عائد کی۔ رواہ عبدالرزاق

40460

40447- عن الزهري قال: سألني عمر بن عبد العزيز عن القسامة فقلت: قضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم والخلفاء بعده."عب، ش".
٤٠٤٤٧۔۔۔ زہری سے روایت ہے فرماتے حضرت عمربن عبدالعزیز نے مجھ سے قسامت کے بارے میں پوچھا، تو میں نے کہا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے بعد خلفاء نے اس سے فیصلہ کیا ہے۔ عبدالرزاق، ابن ابی شیبۃ

40461

40448- عن عبد العزيز بن عبد الله أن عمر بن الخطاب كان يأمر بالحائط أن يحصن وتشد الحظر من الضاري المذل، ثم يرد إلى أهله ثلاث مرات، ثم يعقر ""عب".
٤٠٤٤٨۔۔۔ عبدالعزیز بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) باغ کو قلعہ بندی اور سدھائے ہوئے درندوں (کے شر سے) باڑکومضبوط کرنے کا حکم دیتے پھر تین مرتبہ ان جانوروں کو ان کے مالکوں کے پاس واپس کرتے اس کے بعدان کے پاؤں کاٹ دیتے تھے۔ رواہ عبدالرزاق

40462

40449- عن عبد الكريم أن عمر بن الخطاب كان يقول: يرد البعير أو البقرة أو الحمار أو الضواري إلى أهلهن ثلاثا إذا حضر على الحائط، ثم يعقرن."عب".
٤٠٤٤٩۔۔۔ عبدالکریم سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب (رض) فرمایا کرتے تھے : اونٹ گائے، گدھائے ہوئے درندوں کو تین باران کے مالکوں کے پاس بھیجا جائے جب وہ باغ میں آئیں پھر ان کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں۔ رواہ عبدالرزاق

40463

40450- عن الشعبي أن عليا قضى في الفرس تصاب عيناه بنصف ثمنه."عب".
٤٠٤٥٠۔۔۔ شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) نے اس کے گھوڑے کے بارے میں جس کی آنکھوں کو نقصان پہنچایا گیا، اس کی قیمت کے نصف (تاوان ادا کرنے) کا فیصلہ فرمایا۔ رواہ عبدالرزاق

40464

40451-"مسند بكر بن حارثة الجهني" عن بكر بن حارثة قال، كنت في سرية بعثها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقتتلنا نحن والمشركون وحملت على رجل من المشركين فتعوذ مني بالإسلام فقتلته، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فغضب وأقصاني، فأوحى الله إليه {وما كان لمؤمن أن يقتل مؤمنا إلا خطأ} الآية، فرضي عني وأدناني."الدولابي وابن منده وأبو نعيم".
٤٠٤٥١۔۔۔ (مسندبکربن حارثہ الجہنی) بکربن حارثہ (رض) سے روایت ہے کہ میں اس لشکر میں تھا جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روانہ کیا تھا ہماری اور مشرکین کی مڈبھیڑ ہوئی، (دوران جنگ) میں نے ایک مشرک شخص پر حملہ کردیاتو اسلام لانے کے ذریعہ مجھ سے بچنے لگا پھر بھی میں نے اسے قتل کردیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ بات پہنچی تو آپ مجھ پر ناراض ہوئے اور مجھے اپنے سے دورکردیاتو اللہ تعالیٰ نے یہ وحی بھیجی، کہ کسی ایماندار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے، البتہ اگر غلطی سے قتل کرے، الایۃ تو آپ مجھے سے راضی ہوگئے اور مجھے اپنے قریب کرلیا۔ الدولابی وابن مندہ و ابونعیم

40465

40452- عن جندب بن عبد الله: لا يلقين أحد منكم الله يوم القيامة على كف من دم رجل يقول "لا إله إلا الله" فإنه من صلى الصبح فهو في ذمة الله، فلا يخفرن الله أحد منكم في خافره فيكبه الله إذا جمع الأولين والآخرين في جهنم."نعيم بن حماد في الفتن".
٤٠٤٥٢۔۔۔ جندب بن عبداللہ سے روایت ہے تم میں سے ہرگز کوئی اللہ تعالیٰ کے حضور قیامت کے روزایسی حالت میں حاضرنہ ہو کہ اس کے ہاتھ پر کسی ایسے شخص کا خون لگاہو جو لاالہ الا اللہ کہتا تھا، کیونکہ جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے تو تم میں ہرگز کوئی اللہ تعالیٰ سے اپنا عہد نہ توڑے ورنہ اللہ تعالیٰ جب اولین آخرین کو جمع کرے گا تو اسے جہنم میں اوندھے منہ گرادے گا۔ ابونعیم بن حمادفی القتن

40466

40453- عن جندب البجلي قال: إن هؤلاء القوم قد ولغوا في دمائهم وتخانقوا على الدنيا وتطاولوا في البنيان، وإني أقسم بالله لا يأتي عليكم إلا يسير حتى يكون الجمل الضابط والحبلان والقتب أحب من الدسكرة العظيمة، تعلمون أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "لا يحولن بين أحدكم وبين الجنة وهو يرى بابها كف من دم امرئ مسلم أهراقه بغير حله، ألا! من صلى صلاة الصبح فهو في ذمة الله، فلا يطلبنكم الله من ذمته بشيء"."عب".
٤٠٤٥٣۔۔۔ جندب بجلی (رض) سے روایت ہے فرمایا : یہ کچھ لوگ ان کے خون میں پڑگئے دنیا کی وجہ سے ایک دوسرے کا گلاگھونٹنے لگے اور لمبی لمبی اونچی عمارتیں بنانے لگے (رح) : اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ تم پر تھوڑاہی عرصہ گڑرے گا کہ بندھا اونٹ دورسیاں اور پالان ایک بڑے گاؤں سے زیادہ پسندیدہ ہوں گے جانتے ہو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : ہرگز تم میں سے کسی کے اور جنت کے درمیان جب کہ وہ اس کے دروازہ کو دیکھ رہاہو کسی مسلمان آدمی کے خون سے رنگاہاتھ حائل نہ ہو جس کو اس نے ناجائز بنایاہو، خبردار ! جس نے نماز فجر پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے لہٰذا ایسا ہرگز نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے ذمہ کی کسی چیز کا مطالبہ کرے۔ رواہ عبدالرزاق

40467

40454- عن قبيصة بن ذؤيب قال: أغار رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم على سرية انهزمت فغشي رجلا من المشركين وهو منهزم، فلما أن أراد أن يعلوه بالسيف قال الرجل: لا إله إلا الله، فلم يتناه عنه حتى قتله، فوجد الرجل في نفسه من قتله فذكر حديثه للنبي صلى الله عليه وسلم وقال: إنما قالها متعوذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم "فهلا شققت عن قلبه! فإنما يعبر عن القلب باللسان"، فلم يلبثوا إلا قليلا حتى توفي ذلك الرجل القاتل فدفن فأصبح على وجه الأرض، فجاء أهله فحدثوا النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "ادفنوه"، فدفن أيضا فأصبح على وجه الأرض، فأخبر أهله النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن الأرض أبت أن تقبله فاطرحوه في غار من الغيران"."عب، كر".
٤٠٤٥٤۔۔۔ قبیصہ بن ذؤیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) میں سے ایک شخص نے شکست خوردہ جماعت پر حملہ کیا اور ایک مشرک شخص کو گھیرلیا، وہ شکست کھاچکا تھا جب اس مسلمان نے تلوار کے ذریعہ اس پر چڑھنا چاہا تو وہ شخص (فورا) کہنے لگا : لاالہ الا اللہ، تو یہ شخص اس سے نہ رکا یہاں تک کہ اسے قتل کردیا پھر اس مسلمان کو اس کے قتل کرنے سے دل میں کھٹک ہوئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا اور آپ سے کہا : کہ اس نے یہ کلمہ بچنے کے لیے کہا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کا سینہ پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا ! زبان ہی دل کی ترجمان ہے کچھ ہی عرصہ بعد اس قاتل شخص کا انتقال ہوگیا، کفن دفن کیا گیا تو وہ قبر سے اچھال کر زمین پر پڑا ہوا تھا اس کے رشتہ داروں نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا حال بیان کیا، آپ نے فرمایا : اسے دوبارہ دفن کردو چنانچہ اسی طرح دفن کردیا گیا تو پھر زمین پر پڑا پایا اس کے رشتہ داروں نے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا : تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (رح) : کہ زمین نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اس لیے اسے کسی غار میں پھینک دو ۔ عبدالرزاق، ابن عساکر

40468

40455- "مسند أبي رفاعة" قتل المؤمن أخاه كفر، وسبابه فسوق، وحرمة ماله كحرمة دمه."الخطيب في المتفق والمفترق، كر".
٤٠٤٥٥۔۔۔ (مسندابی رفاعہ) مسلمان کا اپنے (مسلمان) بھائی کو قتل کرنا کفر اور اسے گالی دیناکھلی برائی ہے اور اس کے مال کی عزت اس کے خون کی طرح ہے۔ الخطیب فی المتفق والمفترق، ابن عساکر

40469

40456- عن أبي هريرة قال: إن الرجل ليقتل يوم القيامة ألف قتلة بضروب ما قتل."ش وسنده صحيح".
٤٠٤٥٦۔۔۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : آدمی اس قتل کی وجہ سے جو اس نے ناحق کیا ہوگا قیامت کے روزہزار بارقتل کیا جائے گا۔ ابن ابی شیبۃ، سندہ صحیح

40470

40457- "مسند أبي هريرة" يا أبا هريرة إن أحببت أن لا تقف على الصراط طرفة عين حتى تدخل الجنة، فكن خفيف الظهر من دماء المسلمين وأعراضهم وأموالهم."الديلمي عن أبي هريرة".
٤٠٤٥٧۔۔۔ (مسند ابوہریرہ ) ابوہریرہ اگر تم چاہتے ہو کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی پل صراط پر نہ ٹھہرو اور جنت میں داخل ہوجاؤ تو مسلمانوں کے خون ان کی عزتوں اور ان کے اموال سے اپنی پیٹھ ہلکی کرلو۔ الدیلمی عن ابوہریرہ

40471

40458- عن ابن مسعود قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقامي فيكم فقال: "والذي لا إله غيره! ما يحل دم رجل يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله إلا إحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والتارك للإسلام المفارق للجماعة"."عب"
٤٠٤٥٨۔۔۔ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں ایسے کھڑے ہوئے جیسے تمہارے درمیان میں کھڑاہوں اور فرمایا : ابن مسعود (رض) سے روایت ہے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں ایسے کھڑے ہوئے جیسے تمہارے درمیان میں کھڑاہوں اور فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں جو شخص لاالہ الا اللہ کی اور میرے رسول اللہ ہونے کی گواہی دے اس کا خون تین وجوہات میں سے کسی ایک وجہ کے بغیر جائز نہیں جان کے بدلہ جان شادی شدہ زناکار اور اسلام کو ترک کرنے والاجماعت کو چھوڑنے والا۔ رواہ عبدالرزاق

40472

40459- عن ابن مسعود قال: لا يزال الرجل في فسحة من دينه ما لم يهرق دما حراما، فإذا أهراق دما حراما نزع منه الحياء."نعيم، عب"
٤٠٤٥٩۔۔۔ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ آدمی اپنے دین کی طرف سے اس وقت تک وسعت و کشادگی میں رہتا ہے جب تک حرمت والے خون کونہ بہائے جونہی وہ حرمت والے خون کو بہادے گا تو اس سے حیا کھینچ لی جائے گی۔ ابونعیم عبدالرزاق

40473

40460- من مسند جابر بن عبد الله عن جابر بن عبد الله قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتعاطى السيف مسلولا. "كر"
٤٠٤٦٠۔۔۔ (مسند جابربن عبداللہ) جابربن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرمایا : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر نیام کے تلوار لینے دینے سے منع فرمایا ہے۔ رواہ ابن عساکر

40474

40461- "إن ثلاثة نفر في بني إسرائيل أبرص وأقرع وأعمى بدأ الله أن يبتليهم فبعث إليهم ملكا، فأتى الأبرص فقال: أي شيء أحب إليك؟ قال لون حسن وجلد حسن، قد قذرني الناس، فمسحه فذهب وأعطى لونا حسنا وجلدا حسنا، فقال وأي المال أحب إليك؟ قال: الإبل، فأعطى ناقة عشراء فقال: يبارك لك فيها! وأتى الأقرع فقال: أي شيء أحب إليك؟ فقال: شعر حسن فيذهب هذا عني، قد قذرني الناس، فمسحه فذهب وأعطى شعرا حسنا، قال: فأي المال أحب إليك؟ قال: البقر، فأعطاه بقرة حاملا وقال: يبارك لك فيها! وأتى الأعمى فقال: أي شيء أحب إليك؟ قال: يرد الله إلي بصري فأبصر به الناس، فمسحه فرد الله إليه بصره، قال: فأي المال أحب إليك؟ قال: الغنم فأعطاه شاة والدا فأنتج هذان وولّد هذا فكان لها واد من الإبل ولهذا واد من بقر ولهذا واد من غنم ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهيئته2 فقال: رجل مسكين تقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك بالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا أتبلغ عليه في سفري! فقال له: إن الحقوق كثيرة، فقال له: كأني أعرفك، ألم تكن أبرص يقذرك الناس فقيرا فأعطاك الله؟ فقال: لقد ورثت لكابر عن كابر، فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت! وأتى الأقرع في صورته وهيئته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد عليه هذا فقال: إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت! وأتى الأعمى في صورته وهيئته فقال: رجل مسكين وابن السبيل وتقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك، أسألك بالذي رد عليك بصرك شاة أتبلغ بها في سفري! فقال: قد كنت أعمى فرد الله بصري، وفقيرا فأغناني الله فخذ ما شئت فوالله لا أجهدك اليوم بشيء أخذته لله! فقال: أمسك مالك فإنما ابتليتم، فقد رضى الله عنك وسخط عن صاحبيك". "ق عن أبي هريرة" "
٤٠٤٦١۔۔۔ بنی اسرائیل میں تین آدمی سفید کوڑھ والا گنجا اور اندھا تھے جن کا اللہ تعالیٰ نے امتحان لینا چاہا تو ان کی طرف ایک فرشتہ (بصورت انسان) بھیجا، وہ فرشتہ (سب سے پہلے) کوڑھی کے پاس آکر کہنے لگا : تمہیں سب سے زیادہ کیا اچھا لگتا ہے ؟ اس نے کہا : اچھا رنگ اور اچھی جلد کیونکہ لوگ مجھے گھٹیا سمجھتے ہیں تو فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا اور اسے اچھا رنگ اور اچھی جلد عطا کردی، پھر اس کہا تمہیں کون سامال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا : اونٹ تو اسے حاملہ اونٹنی دے دی گئی پھر فرشتہ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہیں (تمہارے مال میں) برکت دے۔ اس کے بعد گنجے کے پاس آیا، اس سے کہا : تمہیں سب سے زیادہ کیا پسند ہے ؟ اس کہا، اچھے بال تال کہ یہ گنجاپن مجھ سے دور ہوجائے۔ کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ فرشتہ نے اس (کے سر) پر ہاتھ پھیرا اور (اس کا گنجاپن) چلا گیا اور اسے اچھے بال عطا ہوگئے کہا تمہیں کون سامال زیادہ محبوب ہے ؟ اس نے کہا : گائے تو اسے ایک حاملہ گائے دی اور کہا اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت عطاکرے۔ اس کے بعد وہ اندھے کے پاس آیا اور کہا : تمہیں کیا چیز سب سے بھلی لگتی ہے ؟ اس نے کہا : کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری نظرعطا کردے تاکہ میں لوگوں کو اس سے دیکھ سکوں فرشتہ نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیراتو اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر واپس کردی کہا : کون سامال زیادہ اچھا لگتا ہے ؟ اس نے کہا : بکریاں توا سے ایک ماں بننے والی بکری دے دی پھر کچھ عرصہ بعد ان دونوں کوڑھی اور گنجے کے جانوروں نے بچوں کو جنم دیا، اور اس کی بکری بھی بچہ والی ہوگئی۔ کوڑھی کو اونٹوں سے بھری وادی ہوگئی اور گنجے کی گائیوں سے اور نا بینے کی بکریوں کی وادی ہوگئی۔ پھر وہ فرشتہ اسی شکل و صورت میں کوڑھی کے پاس آیا، اور کہا : میں غریب مسکین آدمی ہوں سفر میں میرے اسباب سفرختم ہوگئے آج میں اللہ تعالیٰ اور تمہارے سہارے پر ہوں، میں اس ذات کے واسطہ سے تم سے سوال کرتا ہوں جس نے تمہیں اچھا رنگ، اچھی جلد اور (اونٹوں کی صورت میں) مال عطا کیا، مجھے ایک اونٹ اپنے سفر میں کام میں لانے کے لیے دے دو ! اس نے کہا : مجھ پر کئی حقوق ہیں، فرشتہ نے اس سے کہا، لگتا ہے میں تمہیں جانتا ہوں، کیا تم وہ کوڑھی نہ تھے جسے لوگ فقیر سمجھ کر نفرت کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ؟ اس نے کہا : نہیں مجھے بڑے کے بعد بڑے سے یہ مال وراثت میں ملا ہے تو اس نے کہا : اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پھرویساہی کردے جیسا تم تھے ! پھر وہ اسی شکل و صورت میں گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو کوڑھی سے کہا تھا، اس نے بھی وہی جواب دیاجو اس نے دیا تھا، کہا : اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں پھرویسا کردے جیسا تم تھے اس کے بعد وہ اندھے کے پاس اسی صورت میں آیا اور اس سے کہا : مسکین آدمی ہوں، مسافرہوں، سفر میں میرے اسباب سفر ختم ہوگئے آج میرا اللہ تعالیٰ کے سوا اور تمہارے علاوہ کوئی آسرا نہیں میں تم سے اس ذات کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جس نے تمہیں بصارت عطا کی مجھے ایک بکری دوجس کے ذریعہ میں اپنے سفرکاخرچ چلاسکوں۔ اس نے کہا میں نابینا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے نظردی اور میں فقیر تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار کیا جتنی بکریاں چاہولے لو، اللہ کی قسم ! میں کسی اسی چیز میں تم پر مشقت نہیں ڈالوں گا جو تم اللہ تعالیٰ کے لیے لو گے فرشتہ نے کہا : اپنے مال کو محفوظ رکھو تمہارا تو صرف امتحان مقصود تھا اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوا اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا۔ بیہقی عن ابوہریرہ

40475

40462- "إن رجلا من بني إسرائيل سأل بعض بني إسرائيل أن يسلفه دينار فقال: ائتني بالشهداء أشهدهم، فقال: كفى بالله شهيدا، قال: فائتني بالكفيل، فقال: كفى بالله كفيلا، قال: صدقت، فدفعها إليه إلى أجل مسمى، فخرج في البحر فقضى حاجته، ثم التمس مركبا يركبها يقدم عليه للأجل الذي أجله، فلم يجد مركبا فأخذ خشبة فنقرها فأدخل فيها ألف دينار وصحيفة منه إلى صاحبه ثم زجج موضعها، ثم أتى بها إلى البحر فقال: اللهم! إنك تعلم أني تسلفت من فلان ألف دينار فسألني كفيلا فقلت: كفى بالله كفيلا، فرضى بك، وسألني شهيدا فقلت: كفى بالله شهيدا، فرضى بك، وإني قد جهدت أن أجد مركبا أبعث إليه الذي له فلم أجد، وإني أستودعكها! فرمى بها في البحر حتى ولجت فيه ثم انصرف وهو في ذلك يلتمس مركبا يخرج إلى بلده، فخرج الرجل الذي كان أسلفه ينظر لعل مركبا قد جاء بماله، فإذا بالخشبة التي فيها المال، فأخذها لأهله حطبا، فلما نشرها وجد المال والصحيفة، ثم قدم الذي كان أسلفه فأتى بألف دينار وقال: والله ما زلت جاهدا في طلب مركب لآتيك بمالك فما وجدت مركبا قبل الذي أتيت فيه! قال: هل كنت بعثت إلي شيئا؟ قال: أخبرتك أني لم أجد مركبا قبل الذي جئت فيه، قال: فإن الله قد أدى عنك الذي بعثت في الخشبة، فانصرف بألف دينار راشدا". "حم، خ " عن أبي هريرة".
٤٠٤٦٢۔۔۔ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا اس نے کسی اسرائیلی سے ہزار دینارقرض مانگا، تو اس نے کہا : میرے پاس گواہ لاؤتا کہ میں انھیں گواہ کرلوں تو اس نے کہا : اللہ گواہ کافی ہے تو اس نے کہا : میرے پاس کوئی ضامن لاؤ اس نے کہا : اللہ ضامن کافی ہے اس نے کہا : تم نے سچ کہا پھر اسے ایک مقررمدت تک کے لیے وہ پیسے دے دیئے چنانچہ وہ سمند کے سفر پر نکل گیا اور اپنی ضرورت پوری کرلی، پھر وہ سوار ہونے کے لیے کوئی کشتی تلاش کرنے لگا تاکہ جو مدت اس سے طے کی تھی اس پر اس کے پاس جاسکے لیکن اسے کشتی نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اس میں کھدائی کرکے ہزاردینار اور اپنی طرف سے ایک خط اپنے دوست کی طرف ڈالا پھر اس کی جگہ کو ہموار کردیا اس کے بعد سمندر کے پاس آکر کہنے لگا : اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینا رقرض لیا تھا اس نے مجھ سے ضامن کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا : اللہ تعالیٰ ضامن کافی ہے تو وہ آپ پر راضی ہوگیا تھا پھر وہ مجھ سے کہنے لگا گواہ لاؤ تو میں نے کہا : اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے تو وہ آپ پر راضی ہوگیا، اور میں نے بھر پورکوشش کی کہ مجھے کوئی کشتی مل جائے تو جس کے پاس دس کی طرف بھیجوں لیکن مجھے کشتی نہ ملی۔ میں اس رقم کو آپ کے سپرد کرتا ہوں پھر اسے سمندر میں پھینک دیایہاں تک کہ وہ لکڑی سمندر میں داخل ہوگئی اس کے بعد وہ شخص واپس لوٹ گیا اور اسی حال میں کشتی تلاش کرنے لگاتا کہ اپنے شہر جائے (ادھر) وہ شخص جس نے اسے قرض دیا تھا دیکھ رہا تھا کہ شاید کوئی کشتی اس کا مال لے کر آجائے اچانک وہ لکڑی نظر پڑی جس میں مال تھا اسے پکڑا اور اپنے گھروالوں کے لیے بطورائندھن لے آیا جب اسے چیز اتو اس میں مال اور خط پایا بعد میں وہ شخص بھی ہزار دینالے کر آگیا جسے اس نے قرض دیا تھا کہا میں بخد اکشتی کی تلاش میں رہاتا کہ تمہارے پاس تمہارا مال لاؤں لیکن مجھے اس طرف سے کوئی کشتی نہ ملی جس سمت سے میں آیا اس نے کہا : کیا تو نے کوئی چیز میری طرف بھیجی ہے ؟ کہا : میں نے تمہیں بتایانا کہ مجھے اس طرف سے کوئی کشتی نہیں ملی جس طرف سے میں آیاہوں تو وہ شخص کہنے لگا : تو اللہ تعالیٰ نے وہ تمہاری طرف سے ادا کردیئے ہیں جو تم نے لکڑی میں بھیجے تھے ، چنانچہ وہ شخص خوشی خوشی واپس لوٹ گیا۔ مسد احمد، بخاری عن ابوہریرہ

40476

40463- "انطلق ثلاثة رهط ممن كان قبلكم حتى أووا المبيت إلى غار فدخلوه، فانحدرت عليهم صخرة من الجبل فسدت عليهم الغار، فقالوا: إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم، فقال رجل منهم: اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران وكنت لا أغبق " قبلهما أهلا ولا مالا، فنأى بي في طلب شيء يوما فلم أرح عليهما حتى ناما، فحلبت لهما غبوقهما فوجدتهما نائمين، فكرهت أن أغبق قبلهما أهلا ومالا، فلبثت والقدح في يدي أنتظر استيقاظهما حتى برق الفجر، فاستيقظا فشربا غبوقهما، اللهم! إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة؛ فانفرجت شيئا لا يستطيعون الخروج، وقال الآخر: اللهم! كانت لي ابنة عم كانت أحب الناس إلي فأردتها على نفسها فامتنعت مني حتى ألمت بها سنة من السنين فجاءتني، فأعطيتها عشرين ومائة دينار على أن تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت حتى إذا قدرت عليها قالت: لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه، فتحرجت من الوقوع عليها فانصرفت عنها وهي أحب الناس إلي وتركت الذهب الذي أعطيتها، اللهم! إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه؛ فانفرجت الصخرة غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها، وقال الثالث: اللهم! استأجرت أجراء فأعطيتهم أجرهم غير رجل واحد ترك الذي له وذهب فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين فقال: يا عبد الله! أد إلي أجري، فقلت له: كل ما ترى من أجرك: من الإبل والغنم والرقيق، فقال: يا عبد الله! لا تستهزئ بي، فقلت: إني لا أستهزئ بك، فأخذه كله فاستاقه فلم يترك منه شيئا، اللهم! فإن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه؛ فانفرجت الصخرة، فخرجوا يمشون". "ق " عن ابن عمر".
٤٠٤٦٣۔۔۔ تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص سفر پر نکلے سفرپرنکلے اور رات انھیں ایک غار میں آگئی وہ غار میں داخل ہوئے تو پہاڑ سے چٹان ڈھل کی اور غارکا دروازہ بند کردیا تو وہ (آپس میں) کہنے لگے : تم اس غار سے اسی صورت میں نجات پاسکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ دعا کرو، تو ان میں کا ایک کہنے لگا : اے اللہ ! میرے انتہائی بوڑھے والدین تھے اور میں ان سے پہلے نہ اہل و عیال کو دودھ پلاتانہ مال کو ایک دن مجھے کسی چیز کی تلاش میں دیر ہوگئی تو میں اس وقت ان کے پاس آیاجب وہ سوگئے تو میں ان کے دودھ کا حصہ لے کر آیا اور انھیں سویا ہوا پایا مجھے اچھا نہ لگا کہ میں ان کے حصہ سے پہلے اہل و عیال اور مال کو پلاؤں میں اسی انتظار میں تھا کہ وہ بیدار ہوں اور دودھ کا برتن میرے ہاتھ میں تھا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ وہ بیدار ہوئے اور انھوں نے اپنا حصہ پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام تیری رضاجوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے اس چٹان کی مصیبت کو دورکردے تو اتنی چٹان ہٹی جس سے وہ نکل نہیں سکتے تھے۔ دوسرے نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد تھی جو مجھے سب زیادہ محبوب تھی تو ایک دن میں نے اس سے مباشرت کرنا چاہی لیکن وہ رک گئی پھر اس پر تنگدستی کا سال آیا تو وہ میرے پاس آکر سوال کرنے لگی تو میں نے اسے اس شرط پر ایک سوبیس دینار دیئے کہ وہ مجھے صحبت کرنے سے نہیں روکے گی۔ تو اس نے ایسے ہی کیا میں نے جب اس پر قابو پالیا تو وہ بولی : تمہارے لیے ناحق مہر توڑناجائز نہیں تو میں نے اس سے صحبت کرنے سے احتراز کیا، اور اس سے اعراض کیا جب کہ وہ میری سب سے زیادہ محبوب تھی اور جو سونا میں نے اسے دیاوہ (واپس لینا) چھوڑدیا۔ اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام آپ کی رضاجوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ مصیبت دور کردے تو چٹان اتنی سر کی جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ تیسرے نے کہا : اے اللہ ! میں نے اجرت پر کچھ مزدور لیے اور انھیں ان کی مزدوری دے دی صرف ایک آدمی نے اپنی اجرت جو اس کی بنتی تھی چھوڑدی اور چلا گیا اس کی مزدوری سے میں نے مویشی خرید لیے جس سے اس کی بارآور ہوئی اور اس کی وجہ سے اس کا مال بڑھ گیا پھر وہ کچھ مدت بعد میرے پاس آکر کہنے لگا : اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دو میں نے اس سے کہا : جو اونٹ گائے بکریاں اور غلام تمہیں نظرآ رہے ہیں سب تمہاری مزدوری ہیں تو وہ کہنے لگا : اللہ کے بندے ! مجھ سے مزاح مت کرو ! میں نے کہا : میں تم سے مزاح نہیں کررہا چنانچہ اس نے سارامال لیا اور آگے لگالیا اس میں سے کوں چیز نہیں چھوڑی۔ اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام آپ کی رضا ہوئی کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ مصیبت دور فرما توچٹان ہٹ گئی وہ چلتے ہوئے باہرنکل آئے۔ بیہقی عن ابن عمرو

40477

40464- "بينما ثلاثة نفر يمشون أخذهم المطر فأووا إلى غار في جبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فانطبقت عليهم، فقال بعضهم لبعض: انظروا أعمالا عملتموها صالحة لله فادعوا الله بها لعله يفرجها عنكم! فقال أحدهم: اللهم! إنه كان والدان شيخان كبيران وامرأتي ولي صبية صغار أرعى عليهم فإذا أرحت عليهم حلبت فبدأت بوالدي فسقيتهما قبل بني، وإني نأى بي ذات يوم الشجر فلم آت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما، فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالحلاب فقمت عند رؤسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أسقى الصبية قبلهما والصبية يتصاغون عند قدمى، فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم أني قد فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة حتى نرى السماء؛ ففرج الله منها فرجة فرأوا منها السماء، وقال الآخر: اللهم! إنه كانت لي ابنة عم أحببتها كأشد ما يحب الرجال النساء وطلبت منها نفسها، فأبت حتى آتيها بمائة دينار، فتعبت حتى جمعت مائة دينار فجئتهما بها، فلما وقعت بين رجليهما قالت: يا عبد الله! اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه، فقمت عنها، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة؛ ففرج لهم، وقال الآخر: اللهم! إني كنت استأجرت أجيرا بفرق أرز فلما قضى عمله قال: أعطني حقي، فعرضت عليه فرقه فرغب عنه، فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا ورعاءها فجاءني فقال: اتق الله ولا تظلمني حقي، قلت: اذهب إلى تلك البقر ورعائها فخذها، فقال: اتق الله ولا تستهزئ بي، فقلت: إني لا أستهزئ بك، خذ ذلك البقر ورعاءها، فأخذه فذهب به، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي؛ ففرج الله ما بقي". "ق عن ابن عمر".
٤٠٤٦٤۔۔۔ ایک دفعہ تین آدمی جارہے تھے کہ بارش نے انھیں آگھیراتو وہ پہاڑ کی ایک کھوہ میں پنا گزیں ہوئے ادھر غار کے دبانے پر پہاڑ کی ایک چٹان گرپڑی جس سے غارکادہانہ بند ہوگیا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے : اپنے ان نیک اعمال کو یاد کرو جو تم نے اللہ تعالیٰ کے لیے کئے ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرویقینی بات ہے اللہ تعالیٰ تمہاری مصیبت دور فرمادے گا۔ ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ میرے بوڑھے والدین تھے میری بیوی اور چھوٹے بچے تھے میں ان کی خاطر بکریاں چرایا کرتا تھا جب شام کے وقت آتا دودھ دوہتا توا پنے والدین سے شروع کرتا انھیں اپنے بچوں سے پہلے دودھ پلاتا ایک درخت سے شاخیں اتارنے کی مشغولی نے مجھے دیر کرادی تو میں شام ڈھلے آسکا میں نے دیکھا کہ وہ دونوں سوچکے ہیں حسب عادت میں نے دودھ دوہا پھر میں دودھ کا برتن لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا رہا میں نے انھیں جگانامناسب نہ سمجھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو پلانا اچھا نہ لگاجب کہ وہ میرے پاؤں بھوک پیاس کی وجہ سے میں ہلک رہے تھے میری اور ان کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ صبح ہوگئی اگر آپ کی خاطر میں نے یہ کام کیا ہے تو اتنا شگاف کردیں کہ ہم آسمان دیکھ سکیں تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنا شگاف کردیا جس سے انھوں نے آسمان دیکھا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچازاد تھی جس سے مجھے اسی طرح شدید محبت تھی جیسی مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے قربت کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا کہ پہلے سو دینار لاؤ تو میں نے محنت کوشش کرکے سو دینار اکٹھے کئے اور اس کے پاس لے آیا جب میں صحبت کے لیے اس کے پاؤں میں آیا تو وہ کہنے لگی : اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور ناحق مہرکونہ توڑ، تو میں اس سے اٹھ کھڑا ہوا، آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ کی رضا جوئی کے لیے ہے ہم سے یہ تنگی دور فرمادیں تو ان کے لیے کچھ اور گنجائش ہوگئی۔ تیسرے نے کہا : اللہ میں نے چاول کے پیمانہ کے عوض ایک مزدور رکھا جب اس نے اپنا کام پوراکر لیا تو مجھے کہنے لگا : مجھے میرا حق دو تو میں نے اسے اس کا پیمانہ دیناچاہامگر اس نے اعراض کیا تو میں اس کو برابرکاشت کرتا رہایہاں تک کہ اس سے گائیں اور چرواہے جمع کرلئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ میرے پاس آکر کہنے لگا : اللہ سے ڈر اور میرا حق دبا کر مجھ پر ظلم نہ کر، میں نے کہا : ان گائیوں اور ان کے چرواہوں کی طرف جاؤ اور انھیں لے لو وہ کہنے لگا : اللہ سے ڈر مجھ سے مزاح نہ کر میں نے کہا : میں تجھ سے مزاح نہیں کررہا ان گائیوں اور ان کے چرواہوں کو لے لو چنانچہ اس نے انھیں لیا اور روانہ ہوگیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے یہ کام آپ کی خوشنودی کے لیے کیا اس لیے اس مصیبت کو ہم سے دور فرما ! تو اللہ تعالیٰ نے باقی ماندہ چٹان کو ہٹادیا۔ بیہقی عن ابن عمرو

40478

40465- "قام موسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل: أي الناس أعلم؟ فقال: أنا، فعتب الله عليه إذا لم يرد العلم إليه، وأوحى الله إليه أن لي عبدا بمجمع البحرين وهو أعلم منك، قال: يا رب! فكيف لي به؟ فقيل: احمل حوتا في مكتل فإذا فقدته فهو ثم، فانطلق وانطلق معه بفتاه يوشع بن نون وحملا حوتا في مكتل حتى كانا عند الصخرة فوضعا رؤسهما فناما، فانسل الحوت من المكتل {فاتخذ سبيله في البحر سربا} وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية يومهما وليلتهما، فلما أصبح قال موسى {لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَباً} ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمره الله تعالى به فقال له فتاه {أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ} قال موسى {ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصاً} فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب فسلم موسى، فقال الخضر: وأنى بأرضك السلام؟ قال: أنا موسى، قال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال {هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْداً قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْراً} يا موسى! إني على علم من علم الله تعالى علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم من علم الله تعالى علمكه الله لا أعلمه أنا، {قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِراً وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْراً} ، فانطلقا يمشيان على الساحل فمرت سفينة فكلموهم أن يحملوهما، فعرفوا الخضر فحملوهما بغير نول 1، وجاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر نقرة أو نقرتين في البحر فقال الخضر: يا موسى! ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في هذا البحر، فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها {لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا} {قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْراً} {قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ} فكانت الأولى من موسى نسيانا، فانطلقا فإذا بغلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال له موسى {أَقَتَلْتَ نَفْساً زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ} {قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرا} {فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ} قال الخضر بيده فأقامه؛ فقال موسى: {لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ} ، يرحم الله موسى! لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما". "ق ت، ن عن أبي".
٤٠٤٦٥۔۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں خطبہ دینے (تقریر کرنے) کھڑے ہوئے تو کسی نے آپ سے پوچھا :(روئے زمین میں) کون سا آدمی سب سے زیادہ عالم ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا :(چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی شریعت کا علم دیا اس لئے) میں تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب کیا، کیونکہ آپ نے علم کا معاملہ باری تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹایا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ دودریاؤں یاسمندروں کے ملنے کی جگہ میں ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : میرے رب ! میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ تو ان سے کہا گیا : زنبیل میں ایک مچھلی اٹھالے جاؤ جہاں مچھلی گم پاؤ گے وہیں وہ ہوگا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے ساتھ آپ کا خدمت گاریوشع بن نون اپنے ساتھ زنبیل میں مچھلی لیے چل نکلے پھر جب وہ چٹان کے پاس پہنچے اور سستانے کے لیے لیٹے اور دونوں سوگئے مچھلی زنبیل سے کھسک گئی اور سمندروں میں اپنا خشک راستہ بنالیا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خدمت گار کے لیے یہ تعجب کی بات تھی۔ پھر اپنا سفر کا باقی حصہ رات دن چل کر پوراکرکیاصبح ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خدمت گار سے کہا : دوپہرکا کھانالاؤ، ہم اپنے اس سے تھک گئے ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکاوٹ اسی وقت محسوس ہوئی جب انھوں نے اس مقررہ جگہ سے جس کا اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا تھا آگے نکل گئے تھے۔ تو ان کے خدمت گارنے کہا : آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی بھول گیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یہی ہمارا مطلوبہ مقام ہے چنانچہ وہ اپنے نشان قدم دیکھتے دیکھتے واپس پلٹے، جب وہ چٹان کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے لیٹا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں سلام کیا، تو خضربولے : تمہاری زمین میں سلام کہاں ہے ؟ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : میں موسیٰ انھوں نے کہا : بنی اسرائیل والا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ہاں پھر کہا : کیا میں علم کی ان باتوں میں جن کا آپ کو علم ہے۔ پیروی کرسکتا ہوں، انھوں نے فرمایا : آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے، اے موسیٰ ! مجھے اللہ تعالیٰ نے جو علم عطا کیا ہے اسے آپ نہیں جانتے اور جو علم آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسے میں نہیں جانتا تو موسیٰ (علیہ السلام) بولے : انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی کام میں میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ (اس عہد و پیمان کے بعد) وہ ساحل کے کنارے چلتے چلتے جارہے تھے کہ ان کے پاس سے ایک کشتی گزری ان سے گفتگو ہوئی کہ انھیں سوار کرلیں تو وہ خضر (علیہ السلام) کو پہچان گئے اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک یا دو ٹھونکیں ماریں تو خضر (علیہ السلام) نے فرمایا (رح) : میرے اور آپ کے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا اس چڑیانے اس سمندر سے پانی کم کیا ہے، اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختے اکھیڑلئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ان لوگوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی توڑدی تاکہ اس کے سوار ڈوب جائیں تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : کیا میں نے آپ سے نہ کہا تھا : کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میری بھول پر مواخذہ نہ فرمائیں تو یہ پہلی بات موسیٰ (علیہ السلام) سے بھولے سے ہوگئی تھی۔ پھر وہ چلتے چلتے ایک لڑکے کے پاس پہنچے جو لڑکوں کے ساتھ کھیل رہاتھاحضرت خضر (علیہ السلام) نے اوپر سے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اس کا سرتن سے جدا کردیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : آپ نے ایک معصوم جان کا ناحق خون کردیا ؟ خضر (علیہ السلام) نے کہا : میں نے نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے، پھر چل پڑے اور ایک بستی میں پہنچے بستی والوں سے کھانا مانگاتو انھوں نے انھیں کھانادینے سے انکار کردیا (چلتے چلتے) انھیں دیوار نظر آئی جو گرنے والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کرکے سیدھا کردیا فرماتے ہیں : کہ خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اسے سیدھاکردیاتو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری لے لیتے انھوں نے کہا : پس اب یری اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ہماری چاہت تھی کہ اگر وہ صبر کرتے تو ہمیں ان کے قصہ کا پتہ چلتا۔ بیہقی ترمذی، نسائی

40479

40466- "كان ملك فيمن كان قبلكم وكان له ساحر فلما كبر قال للملك: إني قد كبرت فابعث إلي غلاما أعلمه السحر، فبعث إليه غلاما يعلمه، فكان في طريقه إذا سلك راهب فقعد إليه وسمع كلامه فأعجبه، فكان إذا أتى الساحر مر بالراهب وقعد إليه، فإذا أتى الساحر ضربه، فشكى ذلك إلى الراهب، فقال: إذا خشيت الساحر فقل؛ حبسني أهلي، وإذا خشيت أهلك فقل: حبسني الساحر، فبينما هو كذلك إذ أتى على دابة عظيمة قد حبست الناس فقال: اليوم أعلم الساحر أفضل أم الراهب أفضل! فأخذ حجرا فقال: اللهم! إن كان أمر الراهب أحب إليك من أمر الساحر فاقتل هذه الدابة حتى يمضى الناس، فرماها فقتلها، ومضى الناس، فأتى الراهب فأخبره، فقال له الراهب: أي بني! أنت اليوم أفضل مني، قد بلغ من أمرك ما أرى وإنك ستبتلى، فإن ابتليت فلا تدل علي، وكان الغلام يبرئ الأكمه والأبرص ويداوي الناس سائر الأدواء، فسمع جليس للملك كان قد عمى فأتاه بهدايا كثيرة فقال: ما ههنا لك أجمع إن أنت شفيتني! قال: إني لا أشفي أحدا إنما يشفي الله عز وجل، فإن آمنت بالله دعوت الله فشفاك، فآمن بالله فشفاه الله، فأتى الملك فجلس إليه كما كان يجلس، فقال له الملك: من رد عليك بصرك؟ قال: ربي، قال: ولك رب غيرى؟ قال: ربي وربك الله. فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الغلام، فجيء بالغلام فقال له الملك: أي بني! قد بلغ من سحرك ما يبرئ الأكمه والأبرص وتفعل وتفعل! فقال: إني لا أشفي أحدا إنما يشفي الله عز وجل، فأخذه فلم يزل يعذبه حتى دل على الراهب، فجيء بالراهب فقيل له: ارجع عن دينك! فأبى، فدعى بالمنشار فوضع في مفرق رأسه فشقه به حتى وقع شقاه، ثم جيء بجليس الملك فقيل له: ارجع عن دينك! فأبى فوضع المنشار في مفرق رأسه فشقه به حتى وقع شقاه، ثم جيء بالغلام فقيل له: ارجع عن دينك! فأبى فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به إلى جبل كذا وكذا فاصعدوا به الجبل فإذا بلغتم به ذروته فإن رجع عن دينه وإلا فاطرحوه، فذهبوا به فصعدوا به الجبل فقال: اللهم اكفنيهم بما شئت! فرجف بهم الجبل فسقطوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل أصحابك؟ فقال: كفانيهم الله عز وجل، فدفعه إلى نفر من أصحابه فقال: اذهبوا به فاحملوه في قرقور فتوسطوا به البحر فإن رجع عن دينه وإلا فاقذفوه، فذهبوا به فقال: اكفنيهم بما شئت! فانكفأت بهم السفينة فغرقوا، وجاء يمشي إلى الملك فقال له الملك: ما فعل أصحابك؟ فقال: كفانيهم الله. فقال للملك: إنك لست بقاتلي حتى تفعل ما آمرك به! قال: وما هو؟ قال تجمع الناس في صعيد واحد وتصلبني على جذع، ثم خذ سهما من كنانتي ثم ضع السهم في كبد القوس ثم قل: بسم الله رب الغلام! ثم ارمني، فإنك إن فعلت ذلك قتلتني؛ فجمع الناس في صعيد واحد فصلبه على جذع، ثم أخذ سهما من كنانته ثم وضع السهم في كبد القوس ثم قال: بسم الله رب الغلام! ثم رماه، فوقع السهم في صدغه فوضع يده على صدغه موضع السهم فمات؛ فقال الناس: آمنا برب الغلام! آمنا برب الغلام! آمنا برب الغلام! فأتي الملك فقيل له: أرأيت ما كنت تحذر! قد والله نزل بك حذرك، قد آمن الناس، فأمر بالأخدود " بأفواه السكك "، فخدت وأضرم النيران وقال: من لم يرجع عن دينه فأقحموه " فيها، ففعلوا حتى جاءت امرأة ومعها صبي لها فتقاعست "أن تقع فيها، فقال لها الغلام: يا أمه! اصبري فإنك على الحق". "حم، م عن صهيب" "
٤٠٤٦٦۔۔۔ تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کا ایک جادو گر تھا جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا : میں بوڑھا ہوچکاہوں میرے پاس ایک ڑکابھیجیں جسے میں جادوسکھاؤں، تو بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا جسے وہ جادوسکھاتا تھا، جس راستہ سے وہ چل کر آتا تھا اس میں ایک اھب تھا وہ لڑکا اس راھب کے پاس بیٹھا اس کی گفتگوسنی جو اسے بھلی لگی پھر وہ جب بھی ساحر کے پاس آتاراھب کے پاس سے گزرتے ہوئے ضروربیٹھتا جب وہ جادو گر کے پاس آیا تو اس نے اسے ماراجس کی شکایت اس نے راھب سے کی تو اس نے کہا : جب تمہیں جادو گر کا ڈر ہو تو کہنا مجھے گھر سے دیر ہوگئی تھی اور جب گھروالوں کا خوف ہو تو کہنا : مجھے جادو گر کے ہاں دیر ہوگئی تھی۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا کہ اس نے ایک بہت بڑا جانوردیکھا جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا تو وہ دل میں کہنے لگا آج مجھے پتہ چل جائے گا کہ جادو گر افضل ہے یاراھب افضل ہے تو اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا : اے اللہ ! اگر آپ کو راہب کا کام جادو گر کے کام سے یادہ پسند ہے تو اس جانورکوہلاک کردیں تاکہ لوگ گزرجائیں اور پتھر دے ماراجس سے وہ جانور مرگیا اور لوگ گزرگئے۔ راہب کے پاس آکر سے بتادیا تو راہب نے اسے کہا : بیٹا ! آج تو مجھے سے افضل ہے میں نے تیرا مرتبہ دیکھ لیا ہے عنقریب تمہارا امتحان ہو کا اور جب تمہارا امتحان ہو تو میرے بارے میں نہ بتانا تو وہ لڑکا مادرزاد اندھوں اور کوڑھی کو چنگا کرتا اور باقی بیماریوں کا علاج کرتا ادھر بادشاہ کے ہمنشین نے سنا جو اندھا ہوچکا تھا تو وہ اس کے پاس بہت سے بدیئے تحفے لے کر آیا اور کہا : اگر تم نے مجھے شفادے دی تو میں یہاں جو کچھ تمہارے لیے جمع کردوں گا تو رکے نے کہا : میں کسی کو شفا نہیں دیتا شفا تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے اکر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاکروں گا وہ تمہیں شفادے گا چنانچہ وہ ایمان لے آیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے شفادے دی پھر وہ بادشاہ کے پاس آیا اور جس طرح پہلے بیٹھتا تھا بیٹھ گیا بادشاہ نے کہا تمہاری نظر کس نے لوٹائی ؟ اس نے کہا : میرے رب نے بادشاہ بولا : میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے ؟ اس نے کہا : میرا اور تمہارا رب اللہ ہے تو بادشاہ اسے سزادینے لگا تو اس نے لڑکے کا بتادیا لڑکے کو لایا گیا تو بادشاہ نے اسے کہا : بیٹا ! تمہارا جادو اس حدتک پہنچ گیا کہ تم مادرزاد اندھوں اور کو ڑھوں کو درست کرنے لگے اور یہ یہ کام کرنے لگے ہو۔ تو اس نے کہا : میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا اللہ تعالیٰ ہی شفا دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے بھی سزا دینا شروع کردی تو اس نے راہب کا پتہ بتادیا، راہب کالا یا گیا اور اس سے کہا گیا اپنے دین سے پھر جاتو اس نے انکار کردیا تو آرے سے جو اس کے سرکے درمیان رکھا گیا اس کے دوٹکڑے کردیئے گئے اور وہ دونوں ٹکڑے زمین پر آگرے ، پھر بادشاہ کے ہمنشین کو لایا گیا، کہا گیا : دین سے پھرجاؤ اس نے انکار کردیاتو اس کی مانگ میں آرہ رکھا گیا اور اس کے ٹکڑے کردیئے گئے اور اس کے دونوں ٹکڑے زمین پر آرہے۔ پھر لڑکے کو لا گیا : کہا گیا : اپنے دین سے پھر جاؤ اس نے انکار کیا تو اسے اپنے سپاہیوں کے حوالہ کردیا اور کہا : اسے فلاں پہاڑپرلے جاؤجب پہاڑ کی چوئی پر پہنچوتو اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو بہترورنہ اسے نیچے گرادینا، چنانچہ وہ اسے لے کر چل دیئے اور پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے تو اس لڑکے نے کہا : اے اللہ ! ان کے مقابلے میں میری کفایت فرماجیسی توچا ہے ! توپہاڑ میں جنبش ہوئی اور وہ گرگئے اور وہ لڑکاچلتا ہوا بادشاہ کے سامنے آگیا بادشاہ نے اس سے کہا : تمہارے ساتھ والے لوگوں کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا :(میرا) اللہ ان کے مقابلہ میں مجھے کافی ہوگیا تو اس نے اسے اپنے آدمیوں کے حوالہ کیا اور کہا : اسے لے جاکر لمبی کشتی میں سوار کرنا اور جب درمیان میں پہنچ جاؤ تو اسے اگر یہ اپنے دین سے نہ پھرے پانی میں پھینک دینا چنانچہ وہ اسے لے گئے تو اس نے کہا : اے اللہ ! ان کے مقابلہ میں میری جیسی توچا ہے کفایت کر تو کشتی انھیں لے کر الٹ گئی اور وہ ڈوب گئے اور وہ بادشاہ کے پاس چلتا ہوا آیا بادشاہ نے پوچھا تمہارے ساتھ والے لوگ کہاں گئے ؟ اس نے کہا ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے میری کفایت کی۔ پھر اس نے بادشاہ سے کہا : آپ مجھے اس وقت تک قتل نہیں کرسکتے جب تک وہ نہ کروجو میں آپ سے کہوں بادشاہ نے کہا : وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : تم لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کرو اور مجھے تنے پر سولی دو پھر میرے ترکش سے ایک تیرلے کر اس کو کمان کی درمیان میں رکھنا پھر کہنا اس لڑکے کے رب اللہ کے نام سے پھر میری طرف تیرچلا دینا پس جب تم یہ کرو گے تو مجھے قتل کرسکوگے۔ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اسے تنے پر سولی دی پھر اس کے ترکش سے ایک تیرلیا اور کمان کی درمیان میں رکھا پھر کہا : اس لڑکے کے رب اللہ کے نام سے پھر اسے تیرماراتیر اس کی کنپٹی پر لگا اس نے اپنی کنپٹی پر تیر کی جگہ ہاتھ رکھا اور مرگیا لوگوں نے کہا : آمنابرب الغلام ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں تین مرتبہ کہا : بادشاہ کے پاس کوئی آکر کہنے لگا : جس سے آپ ذر رہے تھے ، اللہ کی قسم ! آپ کو خوف زدہ کرنے والی چیز پیش آچکی لوگ ایمان لے آئے تو بادشاہ نے گلیوں کے دہانوں جیسی کھائیاں کھودنے کا حکم دیا کھائیاں کھودی گئیں اور ان میں آگ بھڑکائی گئی اور کہا : جو اپنے دین سے نہ پھرے اسے ان میں ڈال دینا چنانچہ انھوں نے ایسے ہی کیا آخر میں ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا (دودھ پیتا بچہ بھی تھا عورت آگ کو دیکھ کر پیچھے ہٹی کہ مبادا اس میں گرجائے تو اس کے بچہ نے کہا : اے ماں ! صبر کر بیشک تو حق پر ہے۔ مسند احمد، مسلم عن صھیب

40480

40467- "لم يتكلم في المهد إلا ثلاثة: عيسى، وكان في بني إسرائيل رجل يقال له جريج يصلي جاءته أمه فدعته فقال: أجيبها أو أصلي! فقالت: اللهم لا تمته حتى تريه وجوه المومسات! وكان جريج في صومعته فتعرضت له امرأة، فكلمته فأبى، فأتت راعيا فأمسكته من نفسها، فولدت غلاما فقالت: من جريج، فأتوه وكسروا صومعته فأنزلوه وسبوه، فتوضأ وصلى ثم أتي الغلام فقال: من أبوك يا غلام؟ قال: الراعي، قالوا: نبني لك صومعتك من ذهب! قال: لا إلا من طين: وكانت امرأة ترضع ابنا لها في بني إسرائيل فمر بها رجل راكب ذو شارة فقالت: اللهم اجعل ابني مثله! فترك ثديها وأقبل على الراكب وقال: اللهم! لا تجعلني مثله، ثم أقبل على ثديها يمصه، ثم مر بأمة فقالت أمه: اللهم! لا تجعل ابني مثل هذه، فترك ثديها وقال: اللهم اجعلني مثلها! فقالت: لم ذاك؟ فقال: الراكب جبار من الجبابرة، وهذه الأمة يقولون: سرقت زنت، ولم تفعل". "حم، ق عن أبي هريرة" "
٤٠٤٦٧۔۔۔ پنگوڑے میں صرف تین بچے بولے ہیں : عیسیٰ (علیہ السلام) ، بنی اسرائیل میں ایک جریج نامی تھا وہ نماز پڑھ رہا تھا تو اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے دل میں کہا : میں نماز پڑھوں یا ماں کو جواب دوں ! تو اس کی ماں نے کہا : اے اللہ ! رنڈیوں کا منہ دکھائے بغیر اسے موت نہ دینا، ایک دفعہ جریج اپنے عبادت خانہ میں تھا کہ اس کے پاس ایک عورت آکر خواہش کرنے لگی تو اس نے انکار کردیا پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اسے اپنے آپ پر قدرت دی جس کے نتیجہ میں اس نے ایک لڑکا جنا، تو کہنے لگی : یہ جریج سے ہے تو لوگوں نے آکر اس کا عبادت خانہ توڑدیا اور اسے نیچے اتار کر گالیاں دینے لگے، اس نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر بچہ کے پاس آیا اور کہا : لڑکے تیرا باپ کون ہے ؟ اس نے کہا : چرواہا، لوگوں نے کہا : ہم تمہارا عبادت خانہ سونے سے بنائیں گے اس نے کہا : نہیں صرف مٹی سے بنادو (تیسرابچہ) ایک دفعہ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچہ کو دودھ بلارہی تھی تو اس کے پاس ایک عمدہ سواری والا گزراتو وہ عورت کہنے لگی : اے اللہ ! میرے بیٹے کو اس جیسا بنادے تو اس نے پستان ترک کرکے سوار کو دیکھ کر کہا : اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ بنا، پھر پستان چوسنے لگا پھر اس کی ماں کے پاس ایک ہاندی گذری تو وہ کہنے لگی : اے اللہ ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بناتو اس نے پستان ترک کرکے کہا : اے اللہ ! مجھے اس جیسا بناتو وہ کہنے لگی : ایسا کیوں ؟ تو وہ بولا : سوار ایک ظالم تھا اور یہ باندی ایسی ہے جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں : کہ اس نے چوری کی زنا کیا جب کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ مسنداحمد، بیہقی عن ابوہریرہ

40481

40468- "لما كانت الليلة التي أسرى بي فيها وجدت رائحة طيبة فقلت: ما هذه الرائحة الطيبة يا جبريل؟ قال: هذه رائحة ماشطة بنت فرعون وأولادها، قلت ما شأنها؟ قال: بينما هي تمشط بنت فرعون إذ سقط المشط من يدها فقالت: بسم الله: فقالت بنت فرعون: أبي؟ فقالت: لا ولكن ربي وربك ورب أبيك الله، قالت: وإن لك ربا غير أبي؟ قالت: نعم، قالت: فأعلمه بذلك؟ قالت: نعم، فأعلمته، فدعا بها فقال: يا فلانة! ألك رب غيري؟ قالت: نعم، ربي وربك الله الذي هو في السماء، فأمر ببقرة من نحاس فأحميت ثم أخذ أولادها يلقون فيها واحدا بعد واحد، فقالت: إن لي إليك حاجة! قال: وما هي؟ قالت: أحب أن تجمع عظامي وعظام ولدي في ثوب واحد فتدفننا جميعا! قال: ذلك لك لما لك علينا من الحق، فلم يزل أولادها يلقون في البقرة حتى انتهى إلى ابن لها رضيع فكأنما تقاعست من أجله فقال لها: يا أمه! اقتحمي فإن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة، ثم ألقيت مع ولدها، وتكلم أربعة وهم صغار: هذا وشاهد يوسف وصاحب جريج وعيسى ابن مريم". "حم، ن ك، هب - عن ابن عباس".
٤٠٤٦٨۔۔۔ جس رات مجھے معراج کرائی گئی اس رات میں نے ایک سوندھی خوشبومحسوس کی، میں نے کہا : جبرائیل یہ اتنی اچھی خوشبو کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : یہ فرعون کی بیٹی کی ماما اور اس کے بچوں کی خوشبو ہے میں نے کہا : ان کا کیا قصہ ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ایک دفعہ وہ عورت فرعون کی بیٹی کو کنگھی کررہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کنکھی نیچے گرگئی تو اس عورت نے کہا : بسم اللہ، تو فرعون کی بیٹی نے کہا : میرا باپ مراد ہے ؟ وہ عورت بولی نہیں بلکہ میرا تمہارا اور باپ کا رب اللہ مراد ہے وہ کہنے لگی : کیا میرے باپ کے علاوہ بھی تیرا کوئی رب ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، وہ بولی تب میں اسے اس کے بارے میں بتادوں ؟ اس عورت نے کہا : ہاں بتادو اس نے فرعون کو بتادیا فرعون نے کہا : اری فلانی ! کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے ؟ اس نے کہا : ہاں میرا اور تمہارا رب وہ ہے جو آسمان میں ہے تو فرعون نے تانبے کی ایک گائے کا حکم دیا جسے تپایا گیا پھر اس کے بچوں کو پکڑا اور ایک ایک کرکے اس میں ڈالنے لگے تو وہ عورت بولی : مجھے تم سے ایک کام ہے فرعون نے کہا : کیا ہے ، اس نے کہا : میں چاہتی ہوں کہ آپ میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں یکجاکریں اور پھرا نہیں ایک کپڑے میں ڈال کردفن کردیں فرعون نے کہا : ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں کیونکہ تمہارا ہم پر حق ہے تو اس کے بیٹے گائے میں ڈالتے رہے آخر اس کا وہ بچہ رہ گیا جو دودھ پیتا تو عورت اس کی وجہ سے پیچھے ہٹی تو اس بچے نے کہا : اے ماں ! کو دپڑو کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے پھر وہ اپنے بچہ سمیت ڈال دی گئی۔ (یوں) چار چھوٹے بچوں نے گفتگو کی،(ایک) یہ بچہ یوسف (علیہ السلام) کی گواہی دینے والا جریج والا اور عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام۔ مسنداحمد، نسائی، حاکم، بیہقی فی شعب الایمان، عن ابن عباس

40482

40469- "اشترى رجل من رجل عقارا له، فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب، فقال له الذي اشترى العقار: خذ ذهبك مني، إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع الذهب، وقال الذي له الأرض: إنما بعتك الأرض وما فيها، فتحاكما إلى رجل، فقال الذي تحاكما إليه: ألكما ولد؟ قال أحدهما: لي غلام، وقال الآخر لي جارية، فقال: أنكحوا الغلام الجارية وأنفقوا على أنفسهما منه وتصدقوا". "حم، ق ، هـ - عن أبي هريرة".
٤٠٤٦٩۔۔۔ ایک آدمی نے دوسرے سے اس کی زمین خریدی تو خرید نے والے نے اس میں ایک گھڑادیکھا جس میں سونا تھا جس نے زمین خریدی وہ کہنے لگا مجھے سے اپناسونا لے لے میں نے زمین خریدی تھی سونا نہیں تو جس کی زمین تھی اس نے کہا : میں نے تمہارے ہاتھ زمین اور جو کچھ اس میں تھا سب کچھ بیچ دیا تھا تو وہ دونوں ایک شخص کے پاس فیصلہ کرانے گئے تو حکم نے ان سے کہا : کیا تمہاری اولاد ہے ؟ تو ایک نے کہا : میرا بیٹا ہے اور دوسرے نے کہا : میری بیٹی ہے تو حکم نے کہا : لڑکے کا لڑکی سے نکاح کردو اور اس سونے ان پر خرچ کرو اور صدقہ کردو۔ مسنداحمد، بیہقی، ابن ماجہ عن ابوہریرہ

40483

40470- "إن بني إسرائيل استخلفوا عليهم خليفة، فقام يصلي في القمر فوق بيت المقدس فذكر أمورا صنعها فتدلى بسبب فأصبح السبب متعلقا بالمسجد وقد ذهب، فانطلق حتى أتى قوما على شط البحر فوجدهم يصنعون لبنا فسألهم: كيف تأخذون على هذا اللبن؟ فأخبروه فلبث معهم، فكان يأكل من عمل يده حتى إذا حضرت الصلاة تطهر وصلى، فرفع ذلك العامل إلى دهقانهم فقال: فينا رجل يصنع كذا وكذا، فأرسل إليه فأبى أن يأتيه، ثم إنه جاء يسير على دابة، فلما رآه فر، فتبعه فسبقه فقال: أنظرني أكلمك كلمة! فقام حتى كلمه فأخبره أنه كان ملكا وأنه فر من رهبة دينه، فقال: إني لاحق بذلك معك! فعبدا الله جميعا، فسألا الله عز وجل أن يميتهما جميعا، فماتا جميعا". "طب عن ابن مسعود" "
٤٠٤٧٠۔۔۔ بنی اسرائیل نے اپنا ایک خلیفہ بنایا وہ بیت المقدس کی چھت پر چاندی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اسے اپنے وہ کام یاد آگئے جو اس نے کئے تھے تو وہ ایک رسی سے لٹک کر نیچے اتر آیا صبح کے وقت وہ رسی مسجد کے ساتھ لٹک رہی تھی اور جاچکا تھا چلتے چلتے وہ نہر کے کنارے ایک قوم کے پاس پہنچا جنہیں دیکھا کہ وہ کچی اینیٹیں بنا رہے ہیں اس نے ان سے پوچھا : کہ تم ان اینٹوں کی کتنی اجرت لیتے ہو تو انھوں اسے بتایا تو یہ ان کے پاس ٹھہر گیا وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانے لگا جب نماز کا وقت ہوا وضو کیا اور نماز پڑھی اس مزدور کی خبر ان کے سردارتک پہنچی تو اس نے کہا : ہم میں ایک شخص ہے جو اس طرح کام کرتا ہے سردارنے اس کی طرف آنے کا پیام بھیجا اس نے انکار کردیا پھر وہ سردار سواری پرچلتے ہوئے اس کے پاس آیا یہ اسے دیکھ بھاگ کھڑا ہوا، اس نے اس کا پیچھا کیا اور اس تک پہنچ گیا اور کہا : ٹھہرو میں نے تم سے ایک بات کرنی ہے تو وہ ٹھہر گیا تو اسے بتایا کہ وہ بادشاہ تھا اپنے دین کے خوف کی وجہ سے وہ بھاگا ہے تو اس شخص نے کہا : میں اسی وجہ سے تمہارا ساتھ اختیار کرنا چاہتا ہوں، تو دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے، انھوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان دونوں کو اکٹھے موت دے چنانچہ وہ اکٹھے فوت ہوئے۔ طبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود، کلام۔۔۔ ذخیرۃ الحفاظ ١٠٨٣۔

40484

40471- "إن نبيا من الأنبياء أعجبته كثرة أمته فقال: من يقوم لهؤلاء! فأوحى الله إليه أن خير أمتك بين إحدى ثلاث: إما أن أسلط عليهم الموت، أو العدو، أو الجوع؛ فعرض لهم ذلك فقالوا: أنت نبي الله نكل ذلك إليك فخر لنا، فقام إلى صلاته وكانوا يفزعون إذا فزعوا إلى الصلاة فصلى فقال: أما الجوع فلا طاقة لنا به، ولا طاقة لنا بالعدو، ولكن الموت! فسلط عليهم الموت، فمات منهم في ثلاثة أيام سبعون ألفا؛ فأنا اليوم أقول: اللهم! بك أحاول، وبك أصاول، وبك أقاتل، ولا حول ولا قوة إلا بالله". "حم، ع طب، حل، ق، ص عن صهيب".
٤٠٤٧١۔۔۔ ایک نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر خوش ہوا اور کہا : ان کے سامنے کون ٹھہرے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وخی بھیجی کہ اپنی امت کے لیے تین باتوں میں سے ایک پسند کر میں، یا میں ان پر موت مسلط کروں یا دشمن یا بھوک تو نبی نے انھیں بات بتائی انھوں نے کہا : آپ اللہ کے نبی ہیں ہم آپ کے سپرد کرتے ہیں آپ خود ہمارے لیے منتخب کرلیں، وہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور وہ جب بھی کسی مشکل میں پڑتے تو نماز کاسہارالیتے تو نبی نے نماز پڑھی اور دل میں کہا جہاں تک بھوک کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی طاقت نہیں نہ ہمیں دشمن سے مقابلہ کی قوت ہے لیکن موت تو ان پر موت مسلط کی گئی چنانچہ تین دن میں ان کے ستر ہزار آدمی مرگئے اس لیے میں آج کہتا ہوں : اے اللہ ! تیرے ذریعہ میں قصد کرتا، تیرے بھروسے پر حملہ کرتا اور تیرے سہارے میں جنگ کرتا ہوں، برائی سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مسند احمد، ابویعلی طبرانی فی الکبیر حلیۃ الاولیائ، بیہقی، سعید بن منصورعن صھیب

40485

40472- "مسند أبي" "ليلة أسرى بي وجدت ريحا طيبة فقلت: يا جبريل! ما هذه الريح الطيبة؟ فقال: هذه ريح الماشطة وابنيها وزوجها، وكان بدء ذلك أن الخضر كان من أشراف بني إسرائيل وكان ممره براهب في صومعته فيطلع عليه الراهب فيعلمه الإسلام، فلما بلغ الخضر فزوجه أبوه امرأة فعلمها الخضر الإسلام وأخذ عليها أن لا تعلمه أحدا وكان لا يقرب النساء فطلقها، ثم زوجه أبوه امرأة أخرى فعلمها وأخذ عليها أن لا تعلمه أحدا فطلقها، فكتمت إحداهما وأفشت عليه الأخرى، فانطلق هاربا حتى أتى جزيرة في البحر فأقبل رجلان يختصمان فرأياه فكتم أحدهما وأفشى الآخر وقال: لقد رأيت الخضر، فقيل له: من رآه معك؟ قال: فلان: فسئل فكتم، وكان في دينهم أن من كذب قتل؛ فتزوج المرأة الكاتمة فبينا هي تمشط بنت فرعون سقط المشط من يدها فقال: تعس فرعون! فأخبرت أباها، وكان للمرأة ابنان وزوج فأرسل إليهم فراود المرأة وزوجها أن يرجعا عن دينهما فأبيا، فقال: إني قاتلكما، فقالا: إحسان منك إلينا إن قتلتنا أن تجعلنا في بيت ففعل". "وابن مردويه - عن أبي ذر، وسنده حسن".
٤٠٤٧٢۔۔۔ (مسندابی) معراج کی رات میں نے ایک اچھی خوشبومحسوس کی، میں نے جبرائیل سے کہا : یہ اچھی خوشبو کیسی ہے ؟ انھوں نے کہا : کنگھی کرانے والی اس کے دونوں بیٹوں اور اس کے خاوند کی خوشبو ہے جس کا آغاز اس طرح ہوا کہ خضربنی اسرائیل کے مالدار لوگوں سے تعلق رکھتے تھے ان کا کزر ایک راہب پر اس کے عبادت خانہ کے پاس سے ہوتا تھا راہب انھیں دیکھتا اور اسلام کی تعلیم دیتا جب خضر بانغ ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کی شادی کرادی خضرنے اسے اسلام کی تعلیم دی اور اس سے یہ عہدلیا کہ وہ کسی کو اس کی اطلاع نہ دے، وہ عورتوں کے قریب زیادہ نہ ہوتے تھے اس لیے اسے طلاق دے دی۔ پھر ان کے والد نے دوسری عورت سے ان کی شادی کرادی اسے بھی اسلام کی تعلیم دی اور اس سے عہد لیا کہ وہ کسی کو اس کی اطلاع نہ دے پھرا سے بھی طلاق دے دی تو ان میں سے ایک نے ان کا اسلام چھپایا اور دوسری نے ظاہر کردیاتو وہ بھاگ نکلے اور سمندر کے ایک جزیرہ میں پہنچ گئے وہاں دو آدمی لڑنے لگے ان دونوں نے خضرکودیکھا تو ایک نے چھپایا اور دوسرے نے ظاہر کردیا کہنے لگا : میں نے خضر کو دیکھا ہے کسی نے کہا : تمہارے ساتھ کسی اور نے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا : فلاں نے اس سے پوچھا گیا تو اس نے چھپایا، اور ان کے دین میں تھا کہ جو جھوٹ بولے اسے قتل کردیا جائے پھر ان کا اسلام چھیا نے والی عورت کی شادی ہوگئی ایک دفعہ وہ فرعون کی بیٹی کنگھی کررہی تھی کہ اس کے ہاتھ کنگھی کرگئی تو اس نے کہا : فرعون کا ناس ہو تو بیٹی نے اپنے باپ کو بتادیا اس عورت کے دو بیٹے اور خاوند تھا فرعون نے انھیں بلا بھیجا عورت اور اس کے خاوند کو ورغلایا کہ وہ اپنے دین سے پھرجائیں مگر انھوں نے انکار کیا فرعونے کہا میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں انھوں نے کہا : تمہاری طرف سے ہم پر احسان ہوگا کہ ہمیں قتل کرنے کے بعد ایک کمرہ میں ڈال دینا اس نے ایسا ہی کیا۔ ابن مردویہ عن ابی ذروسندہ حسن

40486

40473- "أيضا" عن قتادة عن مجاهد عن ابن عباس قال: حدثني أبي بن كعب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "شممت ليلة أسري بي رائحة طيبة فقلت: يا جبريل! ما هذه الرائحة الطيبة؟ قال ريح قبر الماشطة وابنيها وزوجها، وكان بدء ذلك أن الخضر كان من أشراف بني إسرائيل وكان ممره براهب في صومعة فيطلع عليه الراهب فيعلمه الإسلام وأخذ عليه أن لا تعلمه أحدا، ثم إن أباه زوجه امرأة فعلمها الإسلام وأخذ عليها أن لا تعلمه أحدا وكان لا يقرب النساء، ثم زوجه أخرى فعلمها الإسلام، وأخذ عليها أن لا تعلمه أحدا ثم طلقها، فأفشت عليه إحداهما وكتمت الأخرى، فخرج هاربا حتى أتى جزيرة في البحر فرآه رجلان فأفشى عليه أحدهما وكتم الآخر، فقيل له: ومن رآه معك؟ قال: فلان، وكان في دينهم أن من كذب قتل، فسئل فكتم، فقتل الذمي أفشى عليه ثم تزوج الكاتم عليه المرأة الكاتمة، فبينا هي تمشط بنت فرعون إذ سقط المشط من يدها فقالت: تعس فرعون! فأخبرت الجارية أباها، فأرسل إلى المرأة وابنيها وزوجها، فأرادهم أن يرجعوا عن دينهم فأبوا، فقال: إني قاتلكما قالوا: أحببنا إن أنت قتلتنا أن تجعلنا في قبر واحد، فقتلهم فجعلهم في قبر واحد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شممت رائحة أطيب منها وقد دخلت الجنة". "هـ, كر"
٤٠٤٧٣۔۔۔ اسی طرح قتادہ سے وہ مجاہد سے وہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں : فرمایا : مجھ سے ابی بن کعب (رض) نے بیان کیا فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا : کہ جس رات مجھے معراج ہوا، میں نے ایک اچھی خوشبو محسوس کی میں نے کہا : جبرائیل ! یہ کیسی خوشبو ہے ؟ تو انھوں نے کہا : کنگھی کرانے والی عورت اس کے بیٹوں اور اس کے خاوند کی قبر کی خوشبو ہے جس کا آغاز اس طرح ہوا کہ خضر بنی اسرائیل کے شرفاء سے تعلق رکھتے تھے ان کا گزر ایک راہب پر اس کے عبادت خانہ سے ہوتا تھا وہ باہر جھانکتا اور انھیں اسلام کی تعلیم دیتا اس نے ان سے یہ عہد لیا کہ وہ اس کا کسی کو نہ بتائیں پھر ان کے والد نے ایک عورت سے ان کی شادی کردی انھوں نے اس وعدہ پر اسے اسلام کی تعلیم دی کہ کسی کو ان کا نہیں بتائے گی وہ عورتوں کے زیادہ قریب نہ ہوتے تھے اس لیے اسے طلاق دے دی پھر ان کے والد نے دوسری عورت سے ان کی شادی کردی اسے بھی اس شرط پر کہ وہ ان کا کسی کو نہیں بتائے گی اسلام کی تعلیم دی بعد میں اسے بھی طلاق دے دی تو ایک نے ان کا راز فاش کیا اور دوسری نے پوشیدہ رکھا راز فاش ہونے کے بعد وہ گھبرا کربھاگ نکلے اور ایک جزیرہ جو سمندر میں تھا اس میں فروکش ہوئے، وہاں انھیں دو آدمیوں نے دیکھا تو ان میں سے ایک نے ان کا بھید چھپایا اور دوسرے نے ظاہر کردیا دیکھنے والے سے کہا گیا : تمہارے ساتھ اور کس نے دیکھا ہے ؟ اور ان کے دین میں یہ قانون تھا کہ جو جھوٹ بولتا اسے قتل کردیاجاتا تو جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے پوشیدہ رکھا یوں بتانے والا جھوٹا پڑگیا جس کی پاداش میں بتانے والے کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں راز چھپانے والے کی راز چھپانے والی سے شادی ہوگئی ایک دفعہ وہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کررہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کنگھی گری تو اس نے کہا : فرعون موا، تو بچی نے اپنے والد کو بتادیا تو فرعون نے اسے اس کے دونوں بیٹوں اور اس کے خاوند کو بلا بھیجا اور انھیں ان کے دین سے ہٹانے کا ارادہ کیا انھوں نے انکار کیا فرعون نے کہا : میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں، انھوں نے کہا : ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں قتل کرنے کے بعد ایک قبر میں دفن کردیں تو انھیں قتل کرنے کے بعد ایک قبر میں دفن کردیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگرچہ میں جنت میں داخل ہوچکا تھا مگر میں نے اس سے اچھی خوشبو نہیں سونگھی۔ ابن ماجۃ ابن عساکر

40487

40474- عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "خرج ثلاثة نفر فأصابتهم السماء فدخلوا غارا فانطبق عليهم الجبل، فقال بعضهم لبعض: هذا بأعمالكم فليقم كل رجل فليدع الله بخير عمله قط، فقام أحدهم فقال: اللهم! إنك تعلم أنه كان لي أبوان كبيران وكنت لا أغتبق حتى أغبقهما، وأني أتيتهما ليلة بغبوقهما فقمت على رؤسهما فوجدتهما نائمين، فكرهت أن أنبههما من نومهما وكرهت أن أنصرف حتى يغتبقا، فلم أزل قائما على رؤسهما حتى نظرت إلى الفجر، اللهم! إن كنت تعلم أن ذلك كذلك فافرج عنا، فانصدع الصخرة حتى نظروا إلى الضوء؛ ثم قام الآخر فقال: اللهم! إن كنت تعلم أنه كانت لي ابنة عم وكنت أحبها حبا شديدا وأني سمتها نفسها فقالت: لا إلا بمائة دينار، فجمعتها لها، فلما أمكنتني من نفسها قالت: لا يحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه، فقمت فتركتها، اللهم! إن كنت تعلم أن ذلك كذلك فافرج عنا، فانفرج الجبل حتى كادوا يخرجون، ثم قام الآخر فقال: اللهم! إن كنت تعلم أنه كان لي أجراء كثير وكان لا يبيت لأحد منهم عندي أجر، وإن أجيرا منهم ترك أجره عندي وإني زرعته فأخصب، فاتخذت منه عبدا ومالا كثيرا، فأتى بعد حين فقال لي: يا عبد الله! أعطني أجري، قلت: هذا كله أجرك، قال: يا عبد الله لا تتلاعب بي، قلت: ما أتلاعب بك، فأخذه كله ولم يترك لي منه قليلا ولا كثيرا، اللهم! إن كنت تعلم أن ذلك كذلك فافرج عنا؛ فانفرج الجبل عنهم فخرجوا""الحسن بن سفيان".
٤٠٤٧٤۔۔۔ حضرت عائشۃ (رض) کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے فرمایا : تین شخص (سفرپر) نکلے، ان پر (سخت) بارش ہوئی تو وہ ایک غار میں داخل ہوگئے تو ان پرچٹان نے دروازہ بند کردیا تو وہاں ایک دوسرے سے کہنے لگے : یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ہر شخص صرف اپنے اچھے عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو ان میں سے ایک شخص اٹھا اور کہا : اے اللہ ! میرے بوڑھے والدین تھے میں انھیں دودھ کا حصہ دینے سے پہلے دودھ نہ پیتا ایک رات میں ان کا حصہ لے کر ان کے سرہانے آیا تو وہ سوگئے تھے میں نے نہ چاہا کہ انھیں ان کی نیند سے بیدار کروں اور یہ بھی نہ چاہا کہ انھیں دودھ پلائے بغیر واپس پلٹ جاؤں میں ان کے سرہانے کھڑاہی رہایہاں تک کہ صبح ہوگئی ، اے اللہ ! آپ جانتے ہیں میں نے اگر یہ کام آپ کے لیے کیا تو یہ چٹان ہٹادیں تو چٹان تھوڑی سی سر کی کہ انھیں روشنی نظر آنے لگی، پھر دوسرا اٹھا اور کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میری ایک چچازاد تھی جس سے میں بےحدمحب کرتا تھا میں نے اس کی خواہش کی تو اس نے کہا : سو دینار دوتب تو میں نے اس کے لیے سو دینار جمع کئے جب اس نے مجھے اپنے آپ پر قدرت دے دی تو کہنے لگی : تمہارے لیے ناحق مہرتوزنا جائز نہیں تو میں اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چھوڑ دیا اے اللہ ! آپ کو علم ہے اگر میں نے یہ کام آپ کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ مصیبت دور کردیں توچٹان تھوڑی ہئی جس سے لگتا تھا وہ نکل جائیں۔ پھر تیسراکھڑا ہوا اور کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میرے کئی مزدور تھے جن میں کسی کی مزدوری میرے پاس ایک رات بھی نہ رہتی تھی، اور ایک مزدور اپنی مزدوری میرے پاس چھوڑ گیا میں نے اس سے کاشت کی جس سے پیداوار ہوئی ، میں نے اس کے ذریعہ غلام اور بہت سا مال خریدا پھر کچھ عرصہ بعد وہ میرے پاس آکرکہنے لگا : اللہ کے بندے ! مجھے میرے مزدوری دو ، میں نے کہا : یہ ساری تمہاری مزدوری ہے وہ کہنے لگا : اللہ کے بندہ ! مجھ سے مزاح نہ کر میں نے کہا : میں تم سے مزاح کر رہاتو اس نے سب کچھ لیا اور میرے لیے تھوڑایازیادہ کچھ بھی نہیں چھوڑا، اے اللہ ! آپ جانتے ہیں میں نے اگر یہ کام اگر یہ کام آپ کے لیے کیا تو ہم سے یہ مصیبت دور کردیں توچٹان ہٹ گئی اور وہ باہرنکل آئے۔ الحسن بن سفیان

40488

40475- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خرج ثلاثة فيمن كان قبلكم يرتادون لأهليهم فأصابتهم السماء فلجؤا إلى جبل، فوقعت عليهم صخرة فقال بعضهم لبعض: عفا الأثر، ووقع الحجر، ولا يعلم مكانكم إلا الله، ادعوا الله بأوثق أعمالكم؛ فقال أحدهم: اللهم! إن كنت تعلم أنه كانت امرأة تعجبني فطلبتها، فأبت علي فجعلت لها جعلا، فلما قربت نفسها تركتها، فإن كنت تعلم أني إنما فعلت ذلك رجاء رحمتك وخشية عذابك فافرج عنا! فزال ثلث الجبل؛ فقال الآخر: اللهم! إن كنت تعلم أنه كان لي والدان وكنت أحلب لهما في إنائهما، فإذا أتيتهما وهما نائمان قمت قائما حتى يستيقظا، فإذا استيقظا شربا، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك رجاء رحمتك وخشية عذابك فافرج عنا! فزال ثلث الحجر؛ فقال الثالث: اللهم! إن كنت تعلم أني استأجرت أجيرا يوما فعمل نصف النهار فأعطيته أجره، فتسخطه ولم يأخذه، فوفرتها عليه حتى صار من كل المال، ثم جاء يطلب أجره فقلت: هذا كله، ولو شئت لم أعطه إلا أجره، فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك رجاء رحمتك وخشية عذابك فافرج عنا! فزال الحجر وخرجوا يتماشون". "حب، طس".
٤٠٤٧٥۔۔۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص اپنے گھروالوں کے لیے کھانے کی تلاش میں نکلے، توبارش نے انھیں آلیا تو وہ ایک پہاڑ کی کھوہ میں پناہ میں ہو کئے اوپر سے ایک چٹان آئی غارکامنہ بند ہوگیا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے : بارش سے ہمارے قدموں کے نشان مٹ گئے اور غار کے دہانے پر پتھر آگیا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو تمہاری جگہ کا علم نہیں اپنے ان اعمال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروجن پر تمہیں بھروسہ ہو تو ان میں سے ایک کہنے لگا : اے اللہ !
آپ جانتے ہیں کہ ایک عورت مجھے اچھی لگتی تھی میں نے اس سے خواہش ظاہر کی تو اس نے اجرت کے بغیر انکار کیا (اجرت کا بند و بست کرنے کے بعد) جب میں اس کے قریب ہوا تو میں نے اسے چھوڑ دیا آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ کی رحمت کی امید اور آپ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا ہے تو ہمیں باہرنکالیں توچٹان کا تہائی حصہ ہٹ گیا۔
بوڑھے والدین کی خدمت کا صلہ
دوسرے نے کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں میرے بوڑھے والدین تھے میں ان کے برتن میں ان کے لیے دودھ دوہتا، ایک دفعہ (حسب عادت) جب میں ان کے پاس آیا تو وہ سوئے ہوئے تھے تو میں ان کے بیدار ہونے تک کھڑارہا پھر جب بیدار ہوئے تو دودھ پیا، آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ کی رحمت کی امید اور آپ کے عذاب کے خوف سے کیا ہے تو ہمیں یہاں سے نکال دیں توتہائی پتھرہٹ کیا۔ تیسرے نے کہا اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایک دن مزدورکوکام پر لگایا تو اس نے آدھا دن کام کیا میں نے اسے مزدوری دی تو وہ ناراض ہو کر چھوڑ گیا تو میں نے اسے بڑھایا تو وہ کل مال کے برابر ہوگئی پھر وہ اپنی مزدوری طلب کرنے آیا میں نے کہا : یہ سب کچھ تمہارا ہے اگر میں چاہتاتو اسے صرف اس کی مزدوری دیتا آپ جانتے ہیں : اگر میں نے یہ کام آپ کی رحمت کی امید اور آپ کے عذاب کے خوف سے کیا ہے تو ہمیں یہاں سے نکال دیں تو پتھرہٹ گیا اور وہ چلتے ہوئے باہرآگئے۔ ابن حبان، طبرانی فی الاوسط

40489

40476- عن حنش بن الحارث عن أبيه عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "بينما نفر ثلاثة يمشون إذ أخذهم المطر فأووا إلى غار في جبل، فانحطت عليهم في غارهم صخرة من الجبل فأطبقت عليهم بعض الغار، فقال بعضهم: انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوه بها، فدعوا الله فقال بعضهم: اللهم! إنه كان لي أبوان شيخان كبيران وامرأة وصبيان فكنت أرعى عليهم، فإذا رحت إليهم حلبت لهم فبدأت بوالدي أسقيهما قبل بني، وإنه نأى بي الشجر فلم آت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما، فحلبت كما كنت أحلب فجئت فقمت عند رؤسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أبدأ بالصبية قبلهما، فجعلوا يتضاغون عند قدمي، فلم أزل كذلك وكان دأبهم حتى طلع الفجر؛ فإن كنت تعلم أني جعلت ذلك ابتغاء لوجهك فافرج عنا فرجة نرى منها السماء! ففرج الله لهم فرجة؛ وقال الآخر: اللهم! إنه كانت لي ابنة عم فأحببتها كأشد ما يحب الرجال النساء، فطلبت إليها نفسها فأبت علي حتى آتيها بمائة دينار، فسعيت حتى جمعت مائة دينار فجئتها بها، فلما قعدت بين رجليها قالت: يا عبد الله! اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه، فقمت عنها؛ فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء! ففرج الله لهم فرجة؛ وقال الآخر: اللهم! إني استأجرت أجيرا، فلما قضى عمله قال: أعطني حقي، فأعرضت عنه فتركه ورغب عنه، حتى اشتريت بقرا رعيتها له، فجاء بعد حين فقال: اتق الله ولا تظلمني وأعطني حقي، فقلت: اذهب إلى تلك البقر وراعيها فخذه فهو لك، فقال: اتق الله ولا تستهزئ بي، فقلت: إني لا أستهزئ بك فخذ تلك البقر وراعيها، فأخذها وذهب؛ فإن كنت تعلم إني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا ما بقي! ففرجها الله عنهم". "الخرائطي في اعتلال القلوب".
٤٠٤٧٦۔۔۔ حنش بن الحارث سے وہ اپنے والد سے وہ حضرت علی (رض) سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں : آپ نے فرمایا تین آدھی چل رہے تھے انھیں بارش نے آلیا انھوں نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لی ان کی کھوہ پر پہاڑ سے ایک چٹان گری جس نے کھوہ کا راستہ بند کردیا تو ان میں سے کسی نے کہا : اپنے ان اعمال صالحہ کو یاد کرو جو تم نے اللہ تعالیٰ کے لیے کئے ہیں ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعاکرو تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ ! میرے بوڑھے ماں باپ ایک بیوی اور بچے تھے میں ان کے بیٹے بکریاں چرایا کرتا تھا جب میں شام کو واپس آتا تو ان کے لیے دودھ دوہتاتو میں اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا ایک دن کسی درخت کی وجہ سے مجھے دیر ہوگئی تو میں شام کے وقت ان کے پاس آیا تو وہ سوچکے تھے حسب عادت جیسے میں دودھ دوہتا تھا دودھ دو بار اور آکر ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے اچھا نہ لگا کہ میں انھیں ان کی نیند سے بیدار کروں اور نہ یہ اچھا لگا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں وہ میرے لیے اتنی گنجائش کردیں کہ ہم آسمان کو دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تھوڑی سی گنچائش پیدا فرمادی۔ دوسرے نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچاز اد تھی جس سے میں ایسی ہی محبت کرتا تھا جیسے مردعورتوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں میں نے اس سے خواہش کا اظہار کیا تو اس نے انکار کیا یہاں تک کہ میں سو دینار لاؤں تو میں کوشش محنت کر کرتے اس کے پاس سو دینار جمع کرکے لے آیا جب میں صحبت کے لیے اس کے پاؤں میں آیا تو اس نے کہا : اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور ناحق مہر کو نہ توڑ تو میں اسے چھوڑ کر اٹھکھڑا ہوا آپ جانتے ہیں میں نے اگر یہ کام آپ کی رضاجوئی کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اتنی وسعت پیدا کردیں کہ ہم آسمان دیکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اتنی وسعت پیدا فرمادی۔ تیسرے نے کہا : میں نے اجرت پر ایک مزدور رکھا، جب اس نے اپنا کام ختم کیا تو میں نے اسے اس کا حق دیاتو اس نے اعراض کیا اور چھوڑ کر بےغبت ہوگیا تو میں نے ان سے ایک گائے خریدی جسے میں اس کے لیے چرانے لگا پھر وہ کچھ عرصہ بعد آیا اور کہنے لگا : اللہ تعالیٰ سے ڈر مجھ پر ظلم نہ کرے مجھے میرا حق دے میں نے کہا : اس گائے اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ اور اسے پکڑلو وہ تمہاری ہے تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ سے ڈر مجھ سے مزاح نہ کر میں نے کہا : میں تجھ سے مزاح نہیں کررہا اس گائے اور اس کے چرواہے کو لے لے آپ جانتے ہیں میں نے اگر یہ کام آپ کو خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا ہے تو باقی چٹان ہٹادیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا راستہ کھول دیا۔ الخرائطی فی اعتدال القلوب

40490

40477- "مسند أنس" "إن ثلاثة نفر فيما سلف من الناس انطلقوا يرتادون لأهلهم فأخذتهم السماء فدخلوا غارا، فسقط عليهم حجر متجاف حتى ما يرون منه خصاصة فقال بعضهم لبعض: قد وقع الحجر، وعفا الأثر، ولا يعلم مكانكم إلا الله عز وجل، فادعوا الله بأوثق أعمالكم، فقال رجل منهم: اللهم! إن كنت تعلم أنه كان لي والدان فكنت أحلب لهما في إنائهما فآتيهما، فإذا وجدتهما راقدين قمت على رؤسهما كراهية أن أرد سنتهما في رؤسهما حتى يستيقظا متى استيقظا، اللهم! إن كنت تعلم أني إنما فعلت ذلك رجاء رحمتك ومخافة عذابك ففرج عنا! فزال ثلث الحجر؛ وقال الثاني: اللهم! إن كنت تعلم أني استأجرت أجيرا على عمل يعمله، فأتاني يطلب أجره وأنا غضبان فزبرته، فانطلق وترك أجره، فجمعته وثمرته حتى كان منه كل المال، فأتاني يطلب أجره فدفعت إليه ذلك كله، ولو شئت لم أعطه إلا أجره الأول؛ اللهم! إن كنت تعلم أني إنما فعلت ذلك رجاء رحمتك ومخافة عذابك ففرج عنا! فزال ثلث الحجر؛ وقال الثالث: اللهم! إن كنت تعلم أنه أعجبته امرأة فجعل لها جعلا، فلما قدر عليها وفر " لها نفسها وسلم لها جعلها، اللهم! إن كنت تعلم أني فعلت ذلك رجاء رحمتك ومخافة عذابك ففرج عنا! فزال الحجر وخرجوا معانيق " يتماشون". "ط، حم، وأبو عوانة عن أنس".
٤٠٤٧٧۔۔۔ (مسند انس (رض)) سابقہ لوگوں میں سے تین آدمی اپنے گھروالوں کے لیے معاش کی طلب میں نکلے توبارش نے انھیں گھیرلیا وہ ایک غار میں داخل ہوگئے ایک ترچھا پتھر ان کے غار پر گرا جس سے انھیں صرف تھوڑا سا نظر آتا تھا تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے : پتھر آپڑا نشان قدم مٹ گئے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی تمہاری جگہ کو نہیں جانتا لہٰذا اللہ تعالیٰ سے اپنے ان اعمال کے ذریعہ دعامانگو ! جن (کی قبولیت) پر بھروسا ہے۔ تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں میرے بوڑھے والدین تھے میں ان کے برتن میں دودھ دوہ کر ان کے پاس لاتا اور جب وہ سوئے ہوتے تو میں ان کی نیند میں خلل ڈالے ان کے سرہانے کھڑارہتاپرجب وہ جاگتے سوجاگتے ، اے اللہ ! اگر آپ کو میرا یہ عمل پسند ہے کہ میں نے آپ کی رضاجوئی اور آپ کے عذاب سے ڈرنے کے لیے ایساکیاتو ہمیں باہر نکالیں تو تہائی پتھرہٹ گیا۔ دوسرے نے کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایک کام کے لیے مزدوراجرت پر لیاجب وہ میرے پاس مزدوری مانگنے آیا تو میں غصہ میں تھا میں نے اسے ڈانٹاتو وہ اپنی مزدوری چھوڑکرچلا گیا میں نے اسے جمع رکھا اور وہ بار آور ہوئی یہاں تک کہ اس سے سارامال بن گیا پھر وہ میرے پاس اپنی مزدوری مانگنے آیا تو میں نے سب کچھ اسے دے دیا اگر میں چاہتا تو اسے اس کی پہلی مزدوری دیتا اے اللہ ! آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ کی رضاجوئی اور آپ کے عذاب کے خوف سے کیا ہے تو ہمیں باہر نکال دیں تو تہائی پتھر پھر ہٹ گیا۔ تیسرے نے کہا : اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ ایک عورت اچھی لگی پھر اسے کے لیے اجرت مقرر کی جب وہ اس پر قادر ہوا اور پوری طرح قابوپالیا اور اس کی اجرت اسے دے دی ، اے اللہ ! آپ جانتے ہیں اگر میں نے یہ کام آپ کی رحمت کی امید اور آپ کے عذاب کے خوف سے کیا ہے تو ہمیں باہرنکال دیں تو (سارا) پتھرہٹ گیا تو وہ دوڑتے ہوئے باہرنکل آئے۔ طبرانی مسنداحمد، وابوعوانہ عن انس

40491

40478- عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب عن أبيه عن جده أنه عمل في مال لعثمان بن عفان على أن الربح بينهما."مالك، ق".
٤٠٤٧٨۔۔۔ علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کے مال میں اس شرط پر کام کیا کہ نفع ان کے درمیان آدھ آدھ ہوگا۔ مالک ، بیہقی

40492

40479- عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب عن أبيه أنه قال: جئت عثمان بن عفان فقلت له: قد قدمت سلعة فهل لك أن تعطيني مالا فأشتري بذلك؟ فقال: أتراك فاعلا؟ فقلت: نعم ولكني رجل مكاتب فأشتريها على أن الربح بيني وبينك. قال: نعم، فأعطاني مالا على ذلك."ق".
٤٠٤٩۔۔۔ علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں حضرت عثمان (رض) کے پاس آیا اور ان سے کہا : کچھ سامان آیا ہے کیا آپ کو کوئی رغبت ہے کہ مجھے کچھ مال دیں اور میں اس سے سامان خریدوں انھوں نے فرمایا : کیا تم ایسا کرو کے ؟ میں نے کہا : ماں ، سیکن چونکہ میں ایسا شخص ہوں جو غلام ہے اور عہد و پیمان کئے ہوئے ہے میں وہ سامان اس شرط پر خریدوں گا کہ نفع ہمارے درمیان نصف اور نصف ہوگا تو انھوں نے فرمایا ٹھیک ہے پھر انھوں نے مجھے اس شرط پر مال دیا۔ رواہ البیہقی

40493

40480- عن عبد الله بن حميد عن أبيه عن جده أن عمر بن الخطاب دفع إليه مال يتيم مضاربة، فطلب فيه فأصاب، فقاسمه الفضل."ش".
٤٠٤٨٠۔۔۔ عبداللہ بن حمید اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عمربن خطاب (رض) کو یتیم کا مال بطور مضاربت دیا گیا تو آپ نے اس میں طلب کی تو فائدہ ہوا اور فالتومال آپس میں تقسیم کرلیا۔ رواہ ابن ابی شیبۃ

40494

40481- عن أسلم قال: خرج عبد الله وعبيد الله ابنا عمر بن الخطاب في جيش إلى العراق، فلما قفلا مرا على أبي موسى الأشعري فرحب بهما وسهل وهو أمير البصرة فقال: لو أقدر لكما على أمر أنفعكما به لفعلت! ثم قال: بلى ههنا مال من مال الله أريد أن أبعث به إلى أمير المؤمنين فأسلفكماه فتبتاعان به متاعا من متاع العراق ثم تبيعانه بالمدينة فتؤديان رأس المال إلى أمير المؤمنين ويكون لكما الربح! فقالا: وددنا، ففعلا فكتب إلى عمر أن يأخذ منهما المال، فلما قدما باعا وربحا، فلما دفعا ذلك إلى عمر قال أكل الجيش أسلفه كما أسلفكما؟ قالا: لا: قال عمر: ابنا أمير المؤمنين فأسلفكما! أديا المال وربحه، فأما عبد الله فسلمه، وأما عبيد الله فقال: ما ينبغي لك يا أمير المؤمنين هذا! لو هلك المال أونقص لضمناه، قال: أدياه! فسكت عبد الله، وراجعه عبيد الله، فقال رجل من جلساء عمر بن الخطاب: يا أمير المؤمنين؟ لو جعلته قراضا! فقال: قد جعلته قراضا، فأخذ عمر المال ونصف ربحه وأخذ عبد الله وعبيد الله نصف ربح المال."مالك والشافعي"
٤٠٤٨١۔۔۔ اسلم سے روایت ہے کہ عبداللہ اور عبید اللہ بن عمر بن خطاب (رض) ایک لشکر میں عراق گئے واپسی پر وہ موسیٰ اشعری (رض) کے پاس آئے تو انھوں نے انھیں خوش آمدید کہا اس وقت وہ بصرہ کے گورنر تھے انھوں نے فرمایا : میں اگر کسی ایسے اور کام کی قدرت رکھتا جس سے آپ دونوں کو فائدہ ہوتا تو میں ایسا کرلیتا پھر فرمایا : ہاں یاد آیایہاں اللہ تعالیٰ کا کچھ مال ہے میں اسے امیرالمؤمین کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں میں وہ تمہیں قرض دے دیتاہوں آپ اس سے عراق کا کوئی سامان خریدلیں پھر مدینہ منورہ میں اسے بیچ ڈالیں اصل مال امیرالمومنین کودے دیں اور نفع آپ دونوں کے لیے ہوجائے گا انھوں نے کہا : ہمیں پسند ہے انھوں نے ایسا ہی کیا ادھر انھوں نے (ابوموسیٰ (رض)) نے حضرت عمر (رض) کو لکھا کہ ان دونوں سے مال لے لیں۔ جب وہ دونوں آئے تو سامان بیچا اور نفع کمایا، جب حضرت (رض) کو انھوں نے مال دیاتو آپ نے فرمایا : کیا انھوں نے پورے لشکر کو ایسے قرض دیاجی سے تمہیں دیا تھا ؟ انھوں نے کہا : نہیں حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم امیرالمومنین کے بیٹے ہو اس لیے دیا ہے ! مال اور نفع مجھے دے دو تو عبداللہ بن عمرنے تو حوالہ کردیا رہے عبید اللہ تو انھوں نے کہا : امیرالمومنین ! آپ کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں ، اگر مال ہلاک ہوجاتایاکم ہوتا تو ہم ضامن ہوتے حضرت عمرنے فرمایا : دونوں اداکردو۔ توعبدالہ چپ رہے اور عبید اللہ یہی کہتے رہے تو آپ کے ہمنشینوں میں سے ایک آدمی نے کہا : امیرالمومنین ! ؟ اگر آپ اسے مضاربت کردیں، تو آپ نے فرمایا : میں نے اسے مضاربت کردیاتو حضرت عمر (رض) نے مال اور آدھا نفع وصول کرلیا اور عبداللہ اور عبیداللہ نے مال کا آدھا نفع لے لیا۔ مالک والشافعی

40495

40482- عن علي في المضاربة والشريكين: الوضيعة على المال والربح على ما اصطلحوا عليه. "عب".
٤٠٤٨٢۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے مضاربت اور شریکوں کے بارے میں فرماتے ہیں نقصان مال پر اور نفع جو وہ طے کرلیں۔ رواہ عبدالرزاق

40496

40483- عن علي قال: من قاسم الربح فلا ضمان عليه. "عب".
٤٠٤٨٣۔۔۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے فرمایا : جس نے نفع آپس میں تقسیم کیا اس پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ رواہ عبدالرزاق

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔