hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Al Bayhaqi

32. اجارہ کا بیان

سنن البيهقي

11640

(۱۱۶۳۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ الأَوْدِیِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذِہ الْقِصَّۃِ قَالَ فَقَالَ لَہَا أَبُوہَا : مَا عِلْمُکِ بِقُوَّتِہِ وَأَمَانَتِہِ فَقَالَتْ : أَمَّا قُوَّتُہُ فَإِنَّہُ رَفَعَ الْحَجَرَ وَحْدَہُ وَلاَ یُطِیقُ رَفْعَہُ إِلاَّ عَشْرَۃٌ وَأَمَّا أَمَانَتُہُ فَقَوْلُہُ امْشِی خَلْفِی وَصِفِی لِیَ الطَّرِیقَ لاَ تَصِفُ الرِّیحُ لِی جَسَدَکِ۔ [ضعیف]
(١١٦٣٥) حضرت عمر بن خطاب (رض) سے اس قصہ میں منقول ہے کہ ان (عورتوں ) کے باپ (شعیب (رح) ) نے پوچھا : تمہیں کیسے علم ہے اس کی قوت اور امانت داری کا ؟ تو اس نے کہا : اس کی قوت یہ ہے کہ اس نے اکیلے ہی وہ ڈول کھینچ لیا جسے دس آدمی اٹھاتے تھے اور اس کی امانت اس کا یہ کہنا کہ تو میرے پیچھے چل اور راستہ بتا دینا، یہ اس لیے کہ ہوا تیرا جسم میرے لیے عیاں نہ کردے۔

11641

(۱۱۶۳۶) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ فَذَکَرَہُ وَزَادَ قَالَ : فَزَادَہُ ذَلِکَ فِیہِ رَغْبَۃً فَقَالَ { إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلَی أَنْ تَأْجُرَنِی ثَمَانِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللَّہُ مِنَ الصَّالِحِینَ } أَیْ فِی حُسْنِ الصُّحْبَۃِ وَالْوَفَائِ بِمَا قُلْتُ قَالَ مُوسَی {ذَلِکَ بَیْنِی وَبَیْنَکَ أَیُّمَا الأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَ عُدْوَانَ عَلَیَّ} قَالَ : نَعَمْ قَالَ {اللَّہُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} فَزَوَّجَہُ وَأَقَامَ مَعَہُ یَکْفِیہِ وَیَعْمَلُ لَہُ فِی رِعَایَۃِ غَنَمِہِ۔ [ضعیف]
(١١٦٣٦) ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ شعیب نے کہا : میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میں تیرا نکاح ان دو بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کے ساتھ کر دوں گا، اس شرط پر کہ تو میرے ہاں آٹھ سال نو کری کرے۔ پس اگر تو دس سال پورے کرے گا تو تیری طرف سے ہے اور میں ارادہ نہیں رکھتا کہ تجھ پر سختی کروں۔ اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے صالح لوگوں میں پائے گا۔[القصص : ٢٧] یعنی رہنے کے اعتبار سے اچھا اور جو میں نے کہا ہے اس کو پورا کرنے میں۔ موسیٰ نے کہا : یہ میرے اور تیرے درمیان ہے کہ میں دونوں مدتوں میں سے کسی کو پورا کروں۔ پس میرے اوپر زیادتی نہ ہو۔ [القصص : ٢٨] اس نے کہا : ہاں اللہ تعالیٰ جو ہم نے کہا اس پر وکیل ہے۔ (یوسف ) پس اس (شعیب ) نے اس کے ساتھ بیٹی کی شادی کی اور وہ اس کے ساتھ رہے اور ان کی بکریوں کا کام کرتے رہے۔

11642

(۱۱۶۳۷) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبِی وَیَحْیَی بْنُ مَعِینٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ عَنْ سَالِمٍ الأَفْطَسِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : لَقِیَنِی رَجُلٌ مِنْ یَہُودِ أَہْلِ الْحِیرَۃِ فَسَأَلَنِی : أَیَّ الأَجَلَیْنِ قَضَی مُوسَی؟ فَقُلْتُ : لاَ أَدْرِی سَأَقْدَمُ غَدًا عَلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقَدِمْتُ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ : قَضَی أَکْثَرَہُمَا وَأَطْیَبَہُمَا۔ فَلَقِیتُ الْیَہُودِیَّ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ : صَاحِبُکُمْ عَالِمٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیمِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ سُلَیْمَانَ عَنْ مَرْوَانُ وَزَادَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- إِذَا قَالَ فَعَلَ وَلَم یَقُلْ فَلَقِیتُ الْیَہُودِیَّ إِلَی آخِرِہِ۔ [صحیح]
(١١٦٣٧) حضرت سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ مجھے اہل ہیرہ کے یہودیوں میں سے ایک آدمی ملا، اس نے مجھ سے سوال کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کس کو پورا کیا ؟ میں نے کہا : میں نہیں جانتا۔ میں کل ابن عباس کے پاس جاؤں گا، چنانچہ میں ان کے پاس گیا، میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ مدت پوری کی جو زیادہ اور پاکیزہ تھی۔ میں نے یہودی کو خبر دی تو اس نے کہا : تمہارا وہ صاحب عالم ہے۔

11643

(۱۱۶۳۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی أَبُو أَحْمَدَ : بَکْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْدَانَ الصَّیْرَفِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ الْفَضْلِ الْبَلْخِیُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْعَدَنِیُّ حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- أَیَّ الأَجَلَیْنِ قَضَی مُوسَی قَالَ : أَبْعَدَہُمَا وَأَطْیَبَہُمَا ۔ [ضعیف]
(١١٦٣٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کونسی پوری کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دونوں میں سے بعد والی اور پاکیزہ۔

11644

(۱۱۶۳۹) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحُمَیْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ یَحْیَی بْنِ أَبِی یَعْقُوبَ قَالَ سُفْیَانُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَکَانَ مِنْ أَسْنَانِی وَکَانَ رَجُلاً صَالِحًا عَنِ الْحَکَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : سَأَلْتُ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَیَّ الأَجَلَیْنِ قَضَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلاَمُ؟ ۔ قَالَ : أَتَمَّہُمَا وَأَکْمَلَہُمَا۔ [ضعیف۔ الحمیدی ۵۴۵]
(١١٦٣٩) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے جبرائیل سے سوال کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کونسی پوری کی ؟ تو جبرائیل نے کہا : ان میں سے جو پوری (١٠) تھی اور مکمل تھی۔

11645

(۱۱۶۴۰) أَخْبَرَنَا السَّیِّدُ أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَافِظُ سَنَۃَ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ وَثَلاَثِمِائَۃٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الذُّہْلِیُّ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ حَدَّثَنَا نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : بَیْنَمَا ثَلاَثَۃُ رَہْطٍ یَتَمَشَّوْنَ أَخَذَہُمُ الْمَطَرُ فَأَوَوْا إِلَی غَارٍ فِی جَبَلٍ فَبَیْنَا ہُمْ فِیہِ حَطَّتْ صَخْرَۃٌ مِنَ الْجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَیْہِمْ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَفْضَلَ أَعْمَالٍ عَمِلْتُمُوہَا لِلَّہِ تَعَالَی فَسَلُوہُ بِہَا لَعَلَّہُ یُفَرِّجُ بِہَا عَنْکُمْ فَقَالَ أَحَدُہُمُ اللَّہُمَّ إِنَّہُ کَانَ لِی وَالِدَانِ کَبِیرَانِ وَکَانَتْ لِی امْرَأَۃٌ وَوَلَدٌ صِغَارٌ وَکُنْتُ أَرْعَی عَلَیْہِمْ فَإِذَا رُحْتُ عَلَیْہِمْ بَدَأْتُ بِأَبَوَیَّ فَسَقَیْتُہُمَا فَنَأَی بِی یَوْمًا الشَّجَرُ فَلَمْ آتِ حَتَّی نَامَ أَبَوَایَ فَطَیَّبْتُ الإِنَائَ ثُمَّ حَلَبْتُ فِیہِ ثُمَّ قُمْتُ بِحِلاَبِی عِنْدَ رَأْسِ أَبَوَیَّ وَالصِّبْیَۃُ یَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَیَّ أَکْرَہُ أَنْ أَبْدَأَ بِہِمْ قَبْلَ أَبَوَیَّ وَأَکْرَہُ أَنْ أَوْقِظَہُمَا مِنْ نَوْمِہِمَا فَلَمْ أَزَلْ کَذَلِکَ قَائِمًا حَتَّی أَضَائَ الْفَجْرُ اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّی فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْہِکَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَۃً نَرَی مِنْہَا السَّمَائَ فَفَرَجَ لَہُمْ فُرْجَۃً رَأَوْا مِنْہَا السَّمَائَ وَقَالَ الآخَرُ اللَّہُمَّ إِنَّہَا کَانَتْ لِی ابْنَۃُ عَمٍّ فَأَحْبَبْتُہَا حَتَّی کَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَیَّ فَسَأَلْتُہَا نَفْسَہَا فَقَالَتْ لاَ حَتَّی تَأْتِینِی بِمِائَۃِ دِینَارٍ فَسَعَیْتُ حَتَّی جَمَعْتُ مِائَۃَ دِینَارٍ فَأَتَیْتُہَا بِہَا فَلَمَّا کُنْتُ بَیْنَ رِجْلَیْہَا قَالَتِ : اتَّقِ اللَّہَ لاَ تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلاَّ بِحَقِّہِ فَقُمْتُ عَنْہَا اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّی فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْہِکَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْہَا فُرْجَۃً فَفَرَجَ لَہُمْ مِنْہَا فُرْجَۃً وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّہُمَّ إِنِّی کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِیرًا بِفَرَقِ ذُرَۃٍ فَلَمَّا قَضَی عَمَلَہُ عَرَضْتُہُ عَلَیْہِ فَأَبَی أَنْ یَأْخُذَہُ فَرَغِبَ عَنْہُ فَلَمْ أَزَلْ أَعْتَمِلُ بِہِ حَتَّی جَمَعْتُ مِنْہُ بَقَرًا وَرِعَائَ ہَا فَجَائَ نِی فَقَالَ : اتَّقِ اللَّہَ وَأَعْطِنِی حَقِّی وَلاَ تَظْلِمْنِی فَقُلْتُ لَہُ : اذْہَبْ إِلَی تِلْکَ الْبَقَرِ وَرِعَائِہَا فَخُذْہَا فَقَالَ : اتَّقِ اللَّہَ وَلاَ تَہْزَأْ بِی فَقُلْتُ : إِنِّی لاَ أَہْزَأُ بِکَ اذْہَبْ إِلَی تِلْکَ الْبَقَرِ وَرِعَائِہَا فَخُذْہَا فَذَہَبَ فَاسْتَاقَہَا اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّی فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْہِکَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا بَقِیَ مِنْہَا فَفَرَجَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْہُمْ فَخَرَجُوا یَتَمَاشَوْنَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ وَغَیْرِہِ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ نَافِعٍ۔ [بخاری ۲۲۷۲، مسلم ۲۷۴۳]
(١١٦٤٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمی چل رہے تھے، ان کو بارش نے روک دیا۔ انھوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ اسی دوران ایک پتھر پہاڑ سے گرا اور غار کے منہ پر آگیا۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے : اپنے اپنے بہتریں اعمال یاد کرو اور ان کے ساتھ اللہ کو پکارو تاکہ وہ اس کی وجہ سے تمہارے اوپر سے پتھر ہٹادے۔ ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میری بیوی اور بچے بھی تھے۔ میں ان کی پرورش کے لیے بکریاں چراتا تھا۔ جب میں شام کو واپس آتا تو سب سے پہلے میں اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن درخت کی تلاش میں دور نکل گیا، جب واپس آیا تو وہ دونوں سو چکے تھے۔ میں نے برتن پکڑا اور دودھ دوہا۔ پھر میں دودھ لے کر اپنے والدین کے سر کے پاس کھڑا ہوگیا اور میرے بچے میرے پاؤں کے پاس بلک رہے تھے۔ میں نے ناپسند کیا کہ ان کو نیند سے بیدار کروں۔ میں کھڑا رہا یہاں تک کہ فجر پھوٹ پڑی۔ اے اللہ ! بیشک تو جانتا ہے میں نے یہ صرف تیری رضا کے لیے کیا تو ہم سے اس پتھر کو ہٹا دے تاکہ ہم آسمان دیکھ لیں۔ وہ پتھر ہٹا اور انھوں نے آسمان دیکھ لیا اور دوسرے نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد تھی، میں اسے پسند کرتا تھا وہ مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے اس سے زنا کرنے کا کہا، اس نے کہا : پہلے تو مجھے سو دینار دے۔ میں نے کوشش کی، سو دینار جمع کیے، پھر اس کے پاس آیا۔ جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا تو اس نے کہا : اللہ سے ڈر اور مہر کو نہ توڑ مگر جائز طریقے سے (نکاح سے) ۔ میں کھڑا ہوگیا۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے میں نے یہ کام تیری رضا کے لیے کیا تو ہم سے اس پتھر کو ہٹا دے۔ وہ تھوڑا سا اور ہٹ گیا اور تیسرے نے کہا : اے اللہ ! میں نے ایک مزدور لگایا تھا جب اس نے اپنا کام کیا تو میں نے مزدوری دی۔ اس نے لینے سے انکار کردیا۔ اس نے بےرغبتی کی۔ میں ہمیشہ اس سے کام کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس سے بہت زیادہ گائیں اور بکریاں جمع کرلیں۔ وہ آدمی آیا اور اس نے کہا : اللہ سے ڈر اور مجھے میرا حق دے اور میرے اوپر ظلم نہ کر۔ میں نے کہا : جا اور یہ گائیں اور بکریاں لے جا۔ اس نے کہا : اللہ سے ڈر اور مذاق نہ کر۔ میں نے کہا : میں مذاق نہیں کررہا جا اور گائیں اور بکریاں لے جا۔ وہ لے گیا۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے میں نے یہ تیری رضا کے لیے کیا تھا تو باقی ماندہ پتھر بھی ہٹا دے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ پتھر بھی ہٹا دیا پھر وہ نکلے اور چلنے لگے۔

11646

(۱۱۶۴۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْمَنِیعِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ بْنِ خَالِدٍ السَّمْتِیُّ سَنَۃَ ثَمَانٍ وَعِشْرِینَ حَدَّثَنَا السَّعِیدِیُّ : عَمْرُو بْنُ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ جَدِّہِ سَعِیدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : مَا بَعَثَ اللَّہُ نَبِیًّا إِلاَّ رَاعِیَ غَنَمٍ ۔ قَالُوا : وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : وَأَنَا کُنْتُ أَرْعَاہَا لأَہْلِ مَکَّۃَ بِالْقَرَارِیطِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَکِّیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی۔ [بخاری ۲۲۶۲]
(١١٦٤١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے بھی چرائی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں میں بھی قراریط میں اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا۔

11647

(۱۱۶۴۲) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ سَہْلٍ التُّسْتُرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ بَدْرٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ: مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ الْعَمِّیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَالرَّبِیعُ بْنُ بَدْرٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اسْتَأْجَرَتْ خَدِیجَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- سَفْرَتَیْنِ إِلَی جُرَشَ کُلُّ سَفْرَۃٍ بِقَلُوصٍ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِاللَّہِ وَفِی رِوَایَۃِ أَبِی مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : آجَرْتُ نَفْسِی مِنْ خَدِیجَۃَ سَفْرَتَیْنِ بِقَلُوصٍ۔ [صحیح]
(١١٦٤٢) حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو سفروں کی مزدوری دی۔ جرش کی طرف سفر ہوا۔ ایک سفر کے بدلے ایک اونٹنی دی۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے خدیجہ سے دو سفروں میں اونٹنی اجرت لی۔

11648

(۱۱۶۴۳) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ زِیَادٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ قَالَ الزُّہْرِیُّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- وَأَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَجُلاً مِنْ بَنِی الدِّیلِ ثُمَّ مِنْ بَنِی عَبَّادٍ ہَادِیًا خِرِّیتًا وَالْخِرِّیتُ الْمَاہِرُ بِالْہِدَایَۃِ قَدْ غَمَسَ یَدَہُ فِی حِلْفِ آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَہُوَ عَلَی دِینِ کُفَّارِ قُرَیْشٍ فَآمِنَاہُ وَدَفَعَا إِلَیْہِ رَاحِلَتَیْہِمَا وَوَاعَدَاہُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَیَالٍ فَأَتَاہُمَا بِرَاحِلَتَیْہِمَا صَبِیحَۃَ اللَّیَالِی الثَّلاَثِ فَارْتَحَلاَ وَانْطَلَقَ عَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ وَالدَّلِیلُ فَأَخَذَ بِہِمْ طَرِیقَ أَذَاخِرَ وَہِیَ فِی طَرِیقِ السَّاحِلِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُوسَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ۔ [بخاری ۲۲۶۳]
(١١٦٤٣) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) نے بنی دیل کے آدمی کو مزدوری پر رکھا۔ پھر بنی عباد سے ماہر رہبرلیا۔ الخریت کا معنی ماہر رہب رہے۔ اس نے اپنا ہاتھ خاندان عاص بن وائل کے ساتھ وعدہ کر کے ڈبو یا تھا کہ وہ کفار قریش کے دین پر رہے گا۔ لیکن ان دونوں کو اس پر اطمینان تھا۔ انھوں نے اسے اپنی سواریاں دی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ تین راتوں بعد غار ثور آئے گا۔ چنانچہ وہ دونوں کے پاس تیسری رات کی صبح کو آیا، وہ دونوں سوار ہوئے اور عامر بن فہیرہ اور دیلی آدمی بھی ساتھ۔ یہ رہبر ساحل کے کنارے سے آپ اور ابوبکر کو لے کر چلا تھا۔

11649

(۱۱۶۴۴) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : إِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ قَبْلَکُمْ مَثَلُ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا فَقَالَ مَنْ یَعْمَلُ مَا بَیْنَ غُدْوَۃٍ إِلَی نِصْفِ النَّہَارِ عَلَی قِیرَاطٍ؟ فَعَمِلَتِ النَّصَارَی ثُمَّ قَالَ مَنْ یَعْمَلُ لِی مَا بَیْنَ نِصْفِ النَّہَارِ إِلَی الْعَصْرِ عَلَی قِیرَاطٍ؟ فَعَمِلَتِ الْیَہُودُ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَعْمَلُ لِی مَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَی الْمَغْرِبِ عَلَی قِیرَاطَیْنِ؟ فَعَمِلْتُمْ أَنْتُمْ فَغَضِبَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی وَقَالُوا : مَا لَنَا أَکْثَرُ عَمَلاً وَأَقَلُّ عَطَائً ؟ قَالَ : ہَلْ نَقَصْتُکُمْ مِنْ حَقِّکُمْ شَیْئًا قَالُوا : لاَ فَقَالَ : إِنَّمَا ہُوَ فَضْلِی أُوتِیہِ مَنْ أَشَائُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَبِمَعْنَاہُ رَوَاہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ۔وَرَوَاہُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ کَمَا۔ [بخاری ۲۲۶۸]
(١١٦٤٤) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری مثال اور تم سے پہلے یہودیوں اور نصرانیوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کئی مزدور کام پر لگائے اور اس نے کہا : کون ہے جو ایک قیراط کے بدلے صبح سے دوپہر تک کام کرے ؟ پس نصاریٰ نے کام کیا، پھر اس نے کہا : کون ہے جو دوپہر سے عصر تک ایک قیراط کے بدلے یہ کام کرے گا۔ یہودیوں نے یہ کام کیا۔ پھر اس نے کہا : کون ہے جو دو قیراط کے بدلے عصر سے مغرب تک کام کرے گا ؟ تو تم نے کام کیا۔ یہودو نصاریٰ غضب میں آگئے اور کہنے لگے : کیا ہے ہم کام زیادہ کریں اور مزدوری کم ملے۔ وہ آدمی کہنے لگا : کیا میں نے تم کو کم اجرت دی ہے وہ کہیں گے : نہیں پھر وہ کہے گا : وہ میرا فضل تھا جسے چاہا دے دیا۔

11650

(۱۱۶۴۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبُ بْنُ أَبِی حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَخْبَرَنِی سَالِمُ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- وَہُوَ قَائِمٌ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ : إِنَّمَا بَقَاؤُکُمْ فِیمَا سَلَفَ قَبْلَکُمْ مِنَ الأُمَمِ کَمَا بَیْنَ صَلاَۃِ الْعَصْرِ إِلَی غُرُوبِ الشَّمْسِ أُعْطِیَ أَہْلُ التَّوْرَاۃِ التَّوْرَاۃَ فَعَمِلُوا بِہَا حَتَّی انْتَصَفَ النَّہَارُ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِیرَاطًا قِیرَاطًا وَأُعْطِیَ أَہْلُ الإِنْجِیلِ الإِنْجِیلَ فَعَمِلُوا بِہِ حَتَّی صَلاَۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِیرَاطًا قِیرَاطًا ثُمَّ أُعْطِیتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِہِ حَتَّی غُرُوبِ الشَّمْسِ فَأُعْطِیتُمْ قِیرَاطَیْنِ قِیرَاطَیْنِ فَقَالَ أَہْلُ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ : رَبَّنَا ہَؤُلاَئِ أَقَلُّ عَمَلاً وَأَکْثَرُ أَجْرًا فَقَالَ : ہَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِنْ أَجْرِکُمْ مِنْ شَیْئٍ قَالُوا : لاَ فَقَالَ : فَضْلِی أُوتِیہِ مَنْ أَشَائُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ وَرَوَاہُ أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- بِنَحْوٍ مِنْ رِوَایَۃِ سَالِمٍ عَنْ أَبِیہِ وَأَبْیَنَ مِنْہُ۔ [بخاری ۷۴۶۷]
(١١٦٤٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا : تمہارا زمانہ گزرے ہوئے زمانوں کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے نماز عصر سے نماز مغرب کا وقت ہوتا ہے۔ اہلِ توراۃ کو توراۃ دی گئی، انھوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دوپہر ہوگئی۔ پھر وہ عاجزآگئے، پس انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا اور اہل انجیل کو انجیل دی گئی۔ انھوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز ہوگئی۔ پھر وہ عاجزآگئے، پس انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا، پھر تم کو قرآن دیا گیا پس تم نے سیکھا یہاں تک کہ مغرب ہوگئی پس تم کو دودو قیراط دیے گئے۔ پس اہل توراۃ اور اہل انجیل نے کہا : اے ہمارے رب ! ان کو عمل کم اور بدلہ زیادہ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا : کیا میں نے تمہارے اجر میں کوئی کمی ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں، پھر کہا : یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں۔

11651

(۱۱۶۴۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ حَدَّثَنَا یُوسُفُ وَإِبْرَاہِیمُ الْجَوْہَرِیُّ وَالْمَسْرُوقِیُّ قَالُوا جَمِیعًا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ بُرَیْدٍ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ: مَثَلُ الْمُسْلِمِینَ وَالْیَہُودِ وَالنَّصَارَی کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ قَوْمًا یَعْمَلُونَ عَمَلاً یَوْمًا إِلَی اللَّیْلِ عَلَی أَجْرٍ مَعْلُومٍ فَعَمِلُوا إِلَی نِصْفِ النَّہَارِ ثُمَّ قَالُوا لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی أُجْرَتِکَ الَّتِی شَرَطْتَ لَنَا وَمَا عَمِلْنَا بَاطِلٌ فَقَالَ لَہُمْ لاَ تَفْعَلُوا اعْمَلُوا بَقِیَّۃَ یَوْمِکُمْ ثُمَّ خُذُوا أَجْرَکُمْ کَامِلاً فَأَبَوْا وَتَرَکُوا ذَلِکَ عَلَیْہِ فَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا آخَرِینَ مِنْ بَعْدِہِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا بَقِیَّۃَ یَوْمِکُمْ ہَذَا وَلَکُمُ الَّذِی شَرَطْتُ لِہَؤُلاَئِ مِنَ الأَجْرِ فَعَمِلُوا حَتَّی إِذَا کَانَ حِینَ صَلاَۃِ الْعَصْرِ قَالُوا : مَا عَمِلْنَا بَاطِلٌ وَلَکَ الأَجْرُ الَّذِی جَعَلْتَ لَنَا لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِیہِ فَقَالَ لَہُمْ کَمِّلُوا بَقِیَّۃَ عَمَلِکُمْ فَإِنَّمَا بَقِیَ مِنَ النَّہَارِ شَیْئٌ یَسِیرٌ وَخُذُوا أَجْرَکُمْ فَأَبَوْا عَلَیْہِ فَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا آخَرِینَ فَعَمِلُوا لَہُ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِمْ حَتَّی إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ وَاسْتَکْمَلُوا أَجْرَ الْفَرِیقَیْنِ وَالأَجْرُ کُلُّہُ فَذَلِکَ مَثَلُ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی الَّذِینَ تَرَکُوا مَا أَمَرَہُمُ اللَّہُ وَمَثَلُ الْمُسْلِمِینَ الَّذِین قَبِلُوا ہُدَی اللَّہِ وَمَا جَائَ بِہِ رَسُولُہُ -ﷺ- ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَلاَئِ ۔ [بخاری ۲۲۷۱]
(١١٦٤٦) حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ مسلمانوں اور یہودیوں و عیسائیوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے کچھ مزدور لگائے کہ وہ صبح سے رات تک ایک معلوم معاوضے پر کام کریں گے۔ پس انھوں نے دوپہر تک کام کیا۔ پھر انھوں نے کہا : ہمیں تیری مزدوری کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو تو نے شرط لگائی ہے اور جو ہم نے کام کیا وہ بھی باطل ہے۔ پس اس نے ان کو کہا : تم ایسے نہ کرو باقی دن بھی کام کرو۔ پھر اپنی مکمل اجرت لو، پس انھوں نے انکار کردیا اور وہ چھوڑ کر چلے گئے اس نے اور لوگوں کو مزدوری پر لگایا اور کہا : تم باقی دن کام کرو اور تمہارے لیے وہی ہے جو میں نے شرط لگائی ہے، پس انھوں نے کام کیا یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا، انھوں نے کہا : جو ہم نے کام کیا وہ باطل ہے اور جو اجرت تو نے ہمارے لیے مقرر کی تھی وہ بھی تیری ہی ہے۔ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں پس اس نے ان سے کہا : باقی دن بھی کام کرو ، دن کا تھوڑا سا حصہ رہ گیا ہے اور اپنی اجرت لے لو۔ انھوں نے انکار کردیا۔ اس آدمی نے ایک اور قوم کو مزدوری پر لگایا۔ انھوں نے باقی دن کام کیا یہاں تک کہ جب مغرب ہوئی تو انھوں نے پہلی دو جماعتوں کی اجرت پوری لے لی۔ پس یہ مثال ہے یہود و نصاریٰ کی کہ انھوں نے اس چیز کو چھوڑ دیا جو اللہ نے ان کو حکم دیا تھا اور مسلمانوں کی مثال یہ کہ انھوں نے اللہ کی ہدایت کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو چیز لے کر آئے اسے قبول کرلیا۔

11652

(۱۱۶۴۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عِیسَی بْنُ حَامِدٍ الرُّخَجِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ الْوَشَّائُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ الأَمَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَۃِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَی السُّوقِ یَتَحَامَلُ فَیُصِیبُ الْمُدَّ وَإِنَّ لِبَعْضِہِمُ مِائَۃَ أَلْفٍ وَمَا أُرَاہُ یَعْنِی إِلاَّ نَفْسَہُ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَحْیَی۔وَاحْتَجَّ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ بِحَدِیثِ حَنْظَلَۃَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ فِی کِرَائِ الأَرْضِ بِالذَّہَبِ وَالْوَرِقِ وَبِأَنَّ غَیْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- عَمِلَ بِالإِجَارَۃِ وَذَکَرَ مَا أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ : [بخاری ۲۲۷۳]
(١١٦٤٧) حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہمیں صدقہ کا حکم دیتے تو ہم میں سے بعض لوگ بازار کی طرف جاتے بوجھ اٹھاتے اور ایک مد (غلہ ) کا حاصل کرتے۔ لیکن آج بعض ایسے ہیں جن کے پاس ایک لاکھ موجود ہیں اور میں اپنے آپ کو ایسا خیال کرتا ہوں۔
حضرت رافع بن خدیج (رض) سے زمین سونے اور چاندی کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ اجرت پر کام کیا کرتے تھے۔

11653

(۱۱۶۴۸) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ : أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ تَکَارَی أَرْضًا فَلَمْ تَزَلْ بِیَدِہِ حَتَّی ہَلَکَ قَالَ ابْنُہُ : فَمَا کُنْتُ أُرَاہَا إِلاَّ أَنَّہَا لَہُ مِنْ طُولِ مَا مَکَثَتْ بِیَدِہِ حَتَّی ذَکَرَہَا عِنْد مَوْتِہِ وَأَمَرَنَا بِقَضَائِ شَیْئٍ بَقِیَ عَلَیْہِ مِنْ کِرَائِہَا مِنْ ذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ۔ [ضعیف]
(١١٦٤٨) حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے زمین کرائے پر لی، وہ ان کے قبضہ میں رہی۔ یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے۔ ان کے بیٹے نے کہا : میں نے اپنے باپ کے قبضہ میں زیادہ عرصہ رہنے کی وجہ سے گمان کیا کہ وہ ان کی ملکیت ہے۔ یہاں تک کہ وفات کے وقت انھوں نے بتایا اور ہمیں حکم دیا کہ سونا اور چاندی دے کر کچھ کرایہ ادا کریں۔

11654

(۱۱۶۴۹) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَسْفَاطِیُّ یَعْنِی الْعَبَّاسَ بْنَ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِیہِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَصَابَ نَبِیَّ اللَّہِ -ﷺ- خَصَاصَۃٌ فَبَلَغَ ذَلِکَ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَخَرَجَ یَلْتَمِسُ عَمَلاً لِیُصِیبَ فِیہِ شَیْئًا یَبْعَثُ بِہِ إِلَی نَبِیِّ اللَّہِ -ﷺ- فَأَتَی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْیَہُودِ فَاسْتَقَی لَہُ سَبْعَۃَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَۃٍ فَخَیَّرَہُ الْیَہُودِیُّ مِنْ تَمْرِہِ سَبْعَۃَ عَشْرَ تَمْرَۃً عَجْوَۃً فَجَائَ بِہَا إِلَی نَبِیِّ اللَّہِ -ﷺ- فَقَالَ : مِنْ أَیْنَ ہَذَا یَا أَبَا الْحَسَنِ ۔ قَالَ : بَلَغَنِی مَا بِکَ مِنَ الْخَصَاصَۃِ یَا نَبِیَّ اللَّہِ فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ عَمَلاً لأُصِیبَ لَکَ طَعَامًا قَالَ : فَحَمَلَکَ عَلَی ہَذَا حَبُّ اللَّہِ وَرَسُولِہِ ۔ قَالَ عَلِیٌّ : نَعَمْ یَا نَبِیَّ اللَّہِ فَقَالَ نَبِیُّ اللَّہِ -ﷺ- : َا مِنْ عَبْدٍ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِلاَّ الْفَقْرُ أَسْرَعُ إِلَیْہِ مِنْ جِرْیَۃِ السَّیْلِ عَلَی وَجْہِہِ مَنْ أَحَبَّ اللَّہَ وَرَسُولَہِ فَلْیُعِدَّ تِجْفَافًا ۔ وَإِنَّمَا یَعْنِی الصَّبْرَ وَرُوِیَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ زِیَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَذَکَرَ بَعْضَ مَعْنَی ہَذِہِ الْقِصَّۃِ۔ [ضعیف]
(١١٦٤٩) حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ مشکل پیش آئی۔ حضرت علی (رض) کو اس کا پتہ چلا۔ وہ کام کی تلاش میں نکلے تاکہ کچھ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں۔ وہ یہودی کے باغ میں آئے اور سترہ ڈول پانی دیا۔ ہر ڈول کے بدلے کھجوریں۔ یہودی نے سترہ عجوہ کھجوریں دے دیں۔ وہ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو الحسن ! یہ کہاں سے لائے ہو ؟ فرمانے لگے : مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ تنگی میں ہیں، اے اللہ کے نبی ! میں نکلا میں کام تلاش کرنے لگا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کھانا لاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت نے اس چیز پر ابھارا ؟ حضرت علی نے فرمایا : ہاں اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بندہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے تو فقروفاقہ اس کی طرف بہنے والے سیلاب سے بھی زیادہ جلدی آتا ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے وہ جفاکشی یعنی صبر کے لیے تیار ہوجائے۔

11655

(۱۱۶۵۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : خَرَجَ عَلَیْنَا عَلِیٌّ مُعْتَجِرًا بِبُرْدٍ مُشْتَمِلاً فِی خَمِیصَۃٍ فَقَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ {فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ} لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ مِنَّا إِلاَّ أَیْقَنَ بِالْہَلَکَۃِ إِذْ أُمِرَ النَّبِیُّ -ﷺ- أَنْ یَتَوَلَّی عَنَّا حِینَ نَزَلَتْ وَذَکَرَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ مَرَّ بِامْرَأَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَبَیْنَ یَدَیْ بَابِہَا طِینٌ قُلْتُ تُرِیدِینَ أَنْ تَبُلِّی ہَذَا الطِّینَ قَالَتْ : نَعَمْ فَشَارَطْتُہَا عَلَی کُلِّ ذَنُوبٍ بِتَمْرَۃٍ فَبَلَلْتُہُ لَہَا وَأَعْطَتْنِی سِتَّۃَ عَشْرَ تَمْرَۃً فَجِئْتُ بِہَا إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ-۔ وَرُوِیَ عَنْ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فِی نَزْعِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِیَہُودِیٍّ کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَۃٍ وَرُوِیَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِی اسْتِقَائِ رَجُلٍ غَیْرِ مُسَمًّی۔ [ضعیف]
(١١٦٥٠) مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت علی ہمارے پاس آئے۔ آپ نے دھاری دار چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے : جب یہ آیت نازل ہوئی { فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَا أَنْتَ بِمَلُومٍ } (پس آپ ان سیمنہ پھیر لیں۔ آپ قابل ملامت نہیں ہیں ) تو ہم میں سے ہر ایک کو فوت ہونے کا یقین ہوگیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ہم سے منہ پھیر لیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی (رض) نے بیان کیا کہ وہ ایک انصاری عورت کے پاس سے گزرے اور اس کے دروازے کے سامنے مٹی تھی۔ میں نے کہا : تو اسے گوندھنے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ میں نے شرط لگائی کہ ہر ڈول کے بدلے کھجور دے۔ میں نے اس مٹی کو گوندھا اور اس نے مجھے سولہ کھجوریں دیں۔ میں وہ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، حضرت فاطمہ (رض) سے بھی مروی ہے کہ حضرت علی نے یہودی کے باغ کو پانی لگایا اور ہر ڈول کے بدلے کھجورلی۔

11656

(۱۱۶۵۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا بَکْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہِلاَلٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- : لاَ یُسَاوِمُ الرَّجُلُ عَلَی سَوْمِ أَخِیہِ وَلاَ یَخْطُبُ عَلَی خُطْبَۃِ أَخِیہِ وَلاَ تَنَاجَشُوا وَلاَ تَبَایَعُوا بِإِلْقَائِ الْحَجَرِ وَمَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا فَلْیُعْلِمْہُ أَجْرَہُ ۔ کَذَا رَوَاہُ أَبُو حَنِیفَۃَ وَکَذَا فِی کِتَابِی عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَقِیلَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ ضَعِیفٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔[ضعیف]
(١١٦٥١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرے اور نہ بولی لگاؤاور نہ پتھر پھینکنے سے بیع کرو اور جو اجرت پر کسی کو رکھے ، اسے مزدوری طے کر لینی چاہیے۔

11657

(۱۱۶۵۲) وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- نَہَی عَنِ اسْتِئْجَارِ الأَجِیرِ یَعْنِی حَتَّی یُبَیِّنَ لَہُ أَجْرَہُ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ فَذَکَرَہُ وَہُوَ مُرْسَلٌ بَیْنَ إِبْرَاہِیمَ وَأَبِی سَعِیدٍ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ مَعْمَرٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ مُرْسَلاً۔ [ضعیف]
(١١٦٥٢) حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدور کی اجرت سے منع کیا یعنی وہ اسے واضح کرلے۔

11658

(۱۱۶۵۳) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ الْمُبَارَکِ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی أَیُّوبَ (ح) َالَ وَحَدَّثَنَا یَعْقُوبُ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ الرَّبِیعِ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ جَمِیعًا عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ لَقِیطٍ أَخْبَرَہُ عَنْ مَالِکِ بْنِ ہُدْمٍ یَعْنِی عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : غَزَوْنَا وَعَلَیْنَا عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَفِینَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فَأَصَابَتْنَا مَخْمَصَۃٌ شَدِیدَۃٌ فَانْطَلَقْتُ أَلْتَمِسُ الْمَعِیشَۃَ فَأَلْفَیْتُ قَوْمًا یُرِیدُونَ یَنْحِرُونَ جَزُورًا لَہُمْ فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتُمْ کَفَیْتُکُمْ نَحْرَہَا وَعَمَلَہَا وَأَعْطُونِی مِنْہَا فَفَعَلْتُ فَأَعْطُونِی مِنْہَا شَیْئًا فَصَنَعْتُہُ ثُمَّ أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَسَأَلَنِی : مِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ : أَسْمَعُکَ قَدْ تَعَجَّلْتَ أَجْرَکَ وَأَبَی أَنْ یَأْکُلَہُ ثُمَّ أَتَیْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ لِی مِثْلَہَا وَأَبَی أَنْ یَأْکُلَہُ فَلَمَّا رَأَیْتُ ذَلِکَ تَرَکْتُہَا قَالَ : ثُمَّ أَبْرَدُونِی فِی فَتْحٍ لَنَا فَقَدِمَتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَقَالَ : صَاحِبُ الْجَزُورِ ۔ وَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ شَیْئًا۔ وَفِی حَدِیثِ سَعِیدٍ لَمْ یَزِدْنِی عَلَی ذَلِکَ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَفِی ہَذَا أَنَّ الأَجُرَۃَ کَانَتْ مَجْہُولَۃً وَفِی الذِّمَّۃِ مُتَعَلِّقَۃً بِعَیْنٍ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [ضعیف]
(١١٦٥٣) حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ ہم نے جنگ کی اور ہمارے امیر عمرو بن عاص تھے اور ہم میں عمر بن خطاب اور ابو عبیدہ بھی تھے۔ ہمیں شدت کی بھوک لگی۔ میں چلا کہ کوئی کام تلاش کروں۔ میں نے ایک قوم کو پایا وہ اونٹ ذبح کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا : اگر تم چاہو تو میں تمہارا یہ کام کردیتا ہوں اور مجھے اس سے کچھ دے دینا۔ میں نے گوشت بنایا۔ پھر میں عمر کے پاس آیا۔ انھوں نے سوال کیا : یہ کہاں سے آیا ہے ؟ میں نے بتایا تو انھوں نے کہا : تو نے اجرت میں جلدی کی ہے اور کھانے سے انکار کردیا۔ پھر میں نے ابو عبیدہ کو بتایاتو اس نے بھی حضرت عمر والی بات کہی اور کھانے سے انکار کردیا۔ میں نے یہ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا، کہتے ہیں : پھر ہمیں فتح ملی تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اونٹ والے تم ہو اور مجھے کچھ نہ کہا۔
شیخ فرماتے ہیں : اس میں یہ بات ہے کہ کہ اجرت مجہول تھی اور ذمہ میں چیز نقد تھی۔

11659

(۱۱۶۵۴) وَرُوِیَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ رِفَاعَۃَ الْقَاضِی عَنْ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ مَرْفُوعًا : أعْطُوا الأَجِیرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہُ وَأَعْلِمْہُ أَجْرَہُ وَہُوَ فِی عَمَلِہِ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عُثْمَانَ : سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَمْرٍو أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عِمْرَانَ الْعَطَّارُ الإِسْفَرَائِینِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ عِمْرَانَ بْنِ أَبِی الْوَرْدِ الْمَقْدِسِیُّ بِإِسْفِرَائِینَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی زَیْدٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ بْنِ رِفَاعَۃَ فَذَکَرَہُ۔ وَہَذَا ضَعِیفٌ بِمَرَّۃٍ۔ [ضعیف]
(١١٦٥٤) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ مزدور کو اس کا حق پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو اور اس کی مزدوری کام کے حساب سے اسے بتادو۔

11660

(۱۱۶۵۵) وَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا سَلِیمُ بْنُ حَیَّانَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : نَشَأْتُ یَتِیمًا وَہَاجَرْتُ مِسْکِینًا وَکُنْتُ أَجِیرًا لاِبْنِ عَفَّانَ وَابْنَۃِ غَزْوَانَ عَلَی طَعَامِ بَطْنِی وَعُقْبَۃِ رِجْلِی أَحْطِبُ لَہُمْ إِذَا نَزَلُوا وأَحْدُو بِہِمْ إِذَا سَارُوا فَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی جَعَلَ الدِّینَ قِوَامًا وَأَبَا ہُرَیْرَۃَ إِمَامًا۔ فَلَیْسَ فِی ہَذَا أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- عَلِمَ بِہِ فَأَقَرَّہُمْ عَلَی ذَلِکَ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ ہَذَا مُوَاضَعَۃٌ بَیْنَہُمْ عَلَی سَبِیلِ التَّرَاضِی لاَ عَلَی سَبِیلِ التَّعَاقُدِ۔[ضعیف۔ ابن ماجہ ۲۴۷]
(١١٦٥٥) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی اور میں نے مسکینی کی حالت میں ہجرت کی اور میں ابو عفان کے ہاں مزدور تھا اور اس کے بیٹے غزو ان کے ہاں بھی اپنے پیٹ کے بقدر کھانے پر اور اپنے گھر والوں کے کھانے کے بقدر۔ جب وہ گھر پر ہوتے تو لکڑیاں اکٹھی کرتا اور جب وہ سفر پر ہوتے تو اس کا سامان تیار کرتا۔
اب ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کو مضبوطی بخشی اور ابو ہریرہ (رض) کو امام بنایا۔
اس میں یہ نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جان لینے کے بعد بھی برقرار رہنے دیا اور احتمال ہے کہ یہاں دونوں کے درمیان رضامندی تھی نہ کہ عقد تھا۔

11661

(۱۱۶۵۶) وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لاَ یَرَی بَأْسًا أَنْ یَدْفَعَ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ الثَّوْبَ فَیَقُولُ بِعْہُ بِکَذَا وَکَذَا فَمَا زِدْتُ فَہُوَ لَکَ وَہُوَ فِیمَا أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِذَلِکَ۔ وَہَذَا أَیْضًا یَکُونُ عَلَی سَبِیلِ الْمُرَاضَاۃِ لاَ عَلَی سَبِیلِ الْمُعَاقَدَۃِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [ضعیف]
(١١٦٥٦) ابن عباس (رض) سے بھی منقول ہے کہ یہ دونوں کی رضامندی سے ہوگا نہ کہ ( عقد ) لازم کرنے سے۔

11662

(۱۱۶۵۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُرَیْشٍ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ جَنَادٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاَثَۃٌ أَنَا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ کُنْتُ خَصْمَہُ خَصَمْتُہُ رَجُلٌ أَعْطَی بِی ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَکَلَ ثَمَنَہُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا اسْتَوْفَی مِنْہُ وَلَمْ یُوفِہِ۔[بخاری ۲۲۲۷]
(١١٦٥٧) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تین لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن جن سے میں جھگڑا کروں گا : وہ آدمی جو میرے نام سے لیتا ہے، پھر دھوکا دیتا ہے اور وہ آدمی جو کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھاتا ہے اور وہ آدمی جو مزدور رکھتا ہے اس سے کام پورا لیتا ہے لیکن اجرت نہیں دیتا۔

11663

(۱۱۶۵۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو قُتَیْبَۃَ سَلْمُ بْنُ الْفَضْلِ الأَدَمِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ شَبِیبٍ الْمَعْمَرِیُّ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَابِقٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمٍ فَذَکَرَہُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یُوسُفَ بْنِ مُحَمَّدٍ۔ [صحیح]
(١١٦٥٨) پچھلی رویت کی طرح ہے۔

11664

(۱۱۶۵۹) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِیُّ یَعْنِی الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِی سُہَیْلُ بْنُ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ -ﷺ- : أعْطِ الأَجِیرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہُ ۔وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا سُوَیْدٌ الأَنْبَارِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ الْمُؤَذِّنُ عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : أَعْطِ الأَجِیرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہُ ۔ [ضعیف]
(١١٦٥٩) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو ۔

11665

(۱۱۶۶۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَزِیَادُ بْنُ الْخَلِیلِ قَالاَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ الْمُسَیَّبِ حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَۃَ التَّیْمِیُّ قَالَ : کُنْتُ رَجُلاً أُکْرَی فِی ہَذَا الْوَجْہِ وَکَانَ نَاسٌ یَقُولُونَ لِی إِنَّ لَیْسَ لَکَ حَجٌّ فَلَقِیتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّی لَرَجُلٌ أُکْرَی فِی ہَذَا الْوَجْہِ وَإِنَّ نَاسًا یَقُولُونَ لِی إِنَّہُ لَیْسَ لَکَ حَجٌّ قَالَ : أَلَیْسَ تُحْرِمُ وَتُلَبِّی وَتَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَتُفِیضُ مِنْ عَرَفَاتٍ وَتَرْمِی الْجِمَارَ قَالَ قُلْتُ : بَلَی۔ قَالَ : فَإِنَّ لَکَ حَجًّا جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- فَسَأَلَہُ عَنْ مِثْلِ مَا سَأَلْتَنِی عَنْہُ فَسَکَتَ عَنْہُ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَلَمْ یُجِبْہُ حَتَّی نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّکُمْ} فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَقَرَأَ عَلَیْہِ ہَذِہِ الآیَۃُ ثُمَّ قَالَ : لَکَ حَجٌّ ۔ [صحیح۔ ۲/۱۵۵/۶۴۳۴، ابوداؤد۱۷۳۳]
(١١٦٦٠) ابو امامۃ النجی فرماتے ہیں : میں حج میں کرایہ پر جانور دیتا تھا اور لوگ کہتے تھے : تیرا حج نہیں ہے۔ میں حضرت ابن عمر (رض) سے ملا اور کہا : اے ابو عبدالرحمن ! میں کرایہ پر جانور دیتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں : میرا حج نہیں ہے تو ابن عمر (رض) نے کہا : کیا تو نے احرام نہیں باندھا ؟ اور تلبیہ نہیں پکارا اور بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور عرفات سے نہیں لوٹا اور تو نے رمئی حجار نہیں کی ؟ ابو امامۃ فرماتے ہیں : میں نے جواب دیا : کیوں نہیں، میں نے سارے کام کیے ہیں تو ابن عمر (رض) نے کہا : تیرا حج درست ہے۔ (پھر فرمایا) ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اسی طرح سوال کیا جس طرح تو نے کیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : { لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّکُمْ } تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آدمی کو بلایا اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھی، پھر فرمایا : تیرا حج درست ہے۔

11666

(۱۱۶۶۱) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَسْلَمَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُنَادِی : أَخِّرُوا الأَحْمَالَ فَإِنَّ الأَیْدِی مُعَلَّقَۃٌ وَالأَرْجُلُ مُوثَقَۃٌ۔ [ضعیف]
(١١٦٦١) مسلمہ بن نوفل بنو ثقیف کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، اس نے اپنے والد سے نقل کیا کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے سنا : آپ اعلان کر رہے تھے کہ سواریوں پر سامان آخر میں لادا کرو۔ بیشک ہاتھ لٹکے ہوتے ہیں اور پاؤں مضبوط ہوتے ہیں۔

11667

(۱۱۶۶۲) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا مَسْلَمَۃُ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ حَدَّثَنِی أَبُو الْمُغِیرَۃِ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا أَبِی أَنَّہُ کَانَ مَعَ أَبِیہِ بِمِنًی فَسَمِعَ مُنَادِیًا یُنَادِی : یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَخِّرُوا الأَحْمَالَ فَإِنَّ الرِّجْلَ مُوثَقَۃٌ وَإِنَّ الْیَدَ مُعَلَّقَۃٌ فَقُلْتُ لأَبِی : مَنْ ہَذَا؟ قَالَ : عُمَرُ۔ قَالَ یَعْقُوبُ : مَسْلَمَۃُ کُوفِیٌّ ثِقَۃٌ۔وَرُوِیَ فِیہِ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ بِإِسْنَادٍ غَیْرِ قَوِیٍّ۔ [ضعیف]
(١١٦٦٢) ابومغیرہ ثقفی فرماتے ہیں کہ میرے والدنے بتلایا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ منیٰ میں تھے۔ انھوں نے ایک اعلان کرنے والے کو سنا : اے لوگو ! سواریوں پر بوجھ آخر میں لادا کرو، بیشک پاؤں مضبوط ہوتے ہیں اور ہاتھ لٹکے ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے کہا : یہ کون ہے ؟ انھوں نے فرمایا : یہ عمر (رض) ہیں۔

11668

(۱۱۶۶۳) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَحْمِشٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : إِذَا حَمَلْتُمْ فَأَخِّرُوا فَإِنَّ الْیَدَ مُعَلَّقَۃٌ وَالرِّجْلُ مُوثَقَۃٌ ۔ وَصَلَہُ قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ۔ وَرَوَاہُ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ وَائِلٍ أَوْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ ہَکَذَا بِالشَّکِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ : أَخِّرُوا الأَحْمَالَ فَإِنَّ الأَیْدِی مُعَلَّقَۃٌ وَالأَرْجُلُ مُوثَقَۃٌ ۔ [ضعیف]
(١١٦٦٣) حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم سامان لادو تو یہ کام آخر میں کرو۔ بیشک ہاتھ لٹکے ہوتے ہیں اور پاؤں مضبوط ہوتے ہیں۔
زہری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ سواریوں پر سامان آخر میں لادا کرو، بیشک ہاتھ لٹکے ہوتے ہیں اور پاؤں مضبوط ہوتے ہیں۔

11669

(۱۱۶۶۴) فِیمَا أَجَازَ لِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ رِوَایَتَہُ عَنْہُ عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ الأَصَمِّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنِ الشَّافِعِیِّ قَالَ: قَدْ ذَہَبَ إِلَی تَضْمِینِ الْقَصَّارِ شُرَیْحٌ فَضَمَّنَ قَصَّارًا احْتَرَقَ بَیْتُہُ فَقَالَ تُضَمِّنُنِی وَقَدِ احْتَرَقَ بَیْتِی فَقَالَ شُرَیْحٌ : أَرَأَیْتَ لَوِ احْتَرَقَ بَیْتُہُ کُنْتَ تَتْرُکُ لَہُ أَجْرَکَ۔ أَخْبَرَنَا بِہَذَا عَنْہُ ابْنُ عُیَیْنَۃَ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَقَدْ رُوِیَ مِنْ وَجْہٍ لاَ یُثْبِتُ أَہْلُ الْحَدِیثِ مِثْلَہُ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ ضَمَّنَ الْغَسَّالَ وَالصَّبَّاغَ وَقَالَ : لاَ یُصْلِحُ النَّاسُ إِلاَّ ذَلِکَ۔ [صحیح۔ الام ۴/۴۱]
(١١٦٦٤) امام شافعی (رح) سے روایت ہے کہ قاضی شریح مکانوں کو سفیدی کرنے والے کے پاس گئے۔ اس نے گھر کو سفیدی کی تو اس کا گھر جل گیا ( جس کی سفیدی کی تھی ) اس نے کہا ( جس کا گھر جلاتھا) : تم مجھے ضامن بناتے ہو جبکہ میرا گھر جل گیا ہے تو قاضی شریح نے کہا : تیری کیا رائے ہے اگر اس کا گھر جلا ہوتا تو کیا تو اس پر اپنی اجرت چھوڑ تا۔ یہ خبر ابن عینہ نے بیان کی ہے۔

11670

(۱۱۶۶۵) أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی یَحْیَی عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عَلِیًّا قَالَ ذَلِکَ۔ قَالَ وَیُرْوَی عَنْ عُمَرَ تَضْمِینُ بَعْضِ الصُّنَّاعِ مِنْ وَجْہٍ أَضْعَفَ مِنْ ہَذَا وَلَمْ نَعْلَمْ وَاحِدًا مِنْہُمَا یَثْبُتُ۔ قَالَ وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیٍّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ أَنَّہُ کَانَ لاَ یُضَمِّنُ أَحَدًا مِنَ الأُجَرَائِ مِنْ وَجْہٍ لاَ یَثْبُتُ مِثْلُہُ۔ وَثَابِتٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ أَنَّہُ قَالَ : لاَ ضَمَانَ عَلَی صَانِعٍ وَلاَ عَلَی أَجِیرٍ۔ [ضعیف۔ الام ۴/۴۱]
(١١٦٦٥) حضرت علی (رض) سے ایک روایت منقول ہے کہ آپ کسی کی اجرت پر ضامن نہیں بنتے تھے۔ عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے کہ کاریگر اور مزدور پر کوئی ضمانت نہیں ہے۔

11671

(۱۱۶۶۶) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ شَبَّانَ الْعَطَّارُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْبَاقِی بْنُ قَانِعٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُمَاہِرِ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیٍّ : أَنَّہُ کَانَ یُضَمِّنُ الصُّنَّاعَ وَالصَّائِغَ وَقَالَ : لاَ یَصْلُحُ لِلنَّاسِ إِلاَّ ذَاکَ۔ [ضعیف]
(١١٦٦٦) حضرت علی (رض) کاریگر اور رنگنے والے کی ضمانت دیتے تھے اور فرمایا : اس میں ضمانت درست ہے۔

11672

(۱۱۶۶۷) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ شُبَّانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْبَاقِی بْنُ قَانِعٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ خِلاَسٍ : أَنَّ عَلِیًّا کَانَ یُضَمِّنُ الأَجِیرَ۔ حَدِیثُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیٍّ مُرْسَلٌ وَأَہْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ یُضَعِّفُونَ أَحَادِیثَ خِلاَسٍ عَنْ عَلِیٍّ۔ وَقَدْ رَوَی جَابِرٌ الْجُعْفِیُّ وَہُوَ ضَعِیفٌ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَانَ عَلِیٌّ یُضَمِّنُ الأَجِیرَ فَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [ضعیف]
(١١٦٦٧) قتادہ خلاس سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) مزدورکو ضمانت دیا کرتے تھے۔
شعبی سے منقول ہے کہ حضرت علی (رض) مزدور کو ضمانت دیا کرتے تھے۔

11673

(۱۱۶۶۸) أَخْبَرَنَا أَبُوالْفَتْحِ الْعُمَرِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی شُرَیْحٍ حَدَّثَنَا أَبُوالْقَاسِمِ الْبَغَوِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ حَدَّثَنَا شَرِیکٌ عَنِ الأَشْعَثِ یَعْنِی ابْنَ أَبِی الشَّعْثَائِ قَالَ : شَہِدْتُ شُرَیْحًا ضَمَّنَ قَصَّارًا أَوْ صَبَّاغًا۔[ضعیف]
(١١٦٦٨) ابن ابی شعشاء فرماتے ہیں میں شریح کے پاس گیا وہ مستری اور رنگنے والے کی ضمانت دیتے تھے۔

11674

(۱۱۶۶۹) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُکْرَمٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ : أَنَّہُ قَدِمَ دُہْنٌ لَہُ مِنَ الْبَصْرِۃ وَإِنَّہُ اسْتَأْجَرَ حَمَّالاً یَحْمِلُہُ وَالْقَارُورَۃُ ثَمَنُ ثَلاَثِمِائَۃٍ أَوْ أَرْبَعِمِائَۃٍ فَوَقَعَتِ الْقَارُورَۃُ فَانْکَسَرَتْ فَأَرَدْتُ أَنْ یُصَالِحَنِی فَأَبَی فَخَاصَمْتُہُ إِلَی شُرَیْحٍ فَقَالَ لَہُ شُرَیْحٌ : إِنَّمَا أَعْطَی الأَجْرَ لِتَضْمَنَ فَضَمَّنَہُ شُرَیْحٌ ثُمَّ لَمْ یَزَلِ النَّاسُ حَتَّی صَالَحْتُہُ۔ [ضعیف]
(١١٦٦٩) شعبہ ابو ہیشم سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ بصرہ سے تیل لے کر آئے ، انھوں نے تیل لانے کی اجرت بھی لی اور تیل والا برتن تین یا چار سو کا تھا۔ وہ گر کر ٹوٹ گیا، میں نے ارادہ کیا کہ ان سے صلح ہوجائے۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔ میں شریح کے پاس یہ معاملہ لے کر گیا، شریح نے ان سے کہا کہ اس نے اجرت اس لیے دی تھی کہ آپ ذمہ دار ہیں۔ قاضی شریح نے اسے ضامن ٹھہرایا، پھر لوگ ہمیشہ کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ میری ان سے صلح ہوگئی۔

11675

(۱۱۶۷۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ الْخَلِیلِ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ سَأَلْتُ إِبْرَاہِیمَ عَنِ الْقَصَّارِ فَقَالَ : یَضْمَنُ فَبَلَغَنِی عَنْ حَمَّادٍ أَنَّہُ یَرْوِی عَنْ إِبْرَاہِیمَ أَنَّہُ قَالَ : لاَ یَضْمَنُ قَالَ : فَلَقِیتُہُ فَقُلْتُ : وَاللَّہِ مَا أَدْرِی رَأَیْتُکَ عِنْدَ إِبْرَاہِیمَ قَطُّ أَمْ لاَقَالَ فَقَالَ : لاَ تَفْعَلْ یَا أَبَا مُحَمَّدٍ فَإِنَّ ہَذَا یَشُقُّ عَلَیَّ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [صحیح]
(١١٦٧٠) اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے مستری کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : وہ ضامن ہے۔
ایک روایت کے مطابق ابراہیم نے کہا : وہ ضامن نہیں ہے۔

11676

(۱۱۶۷۱) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحَارِثِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ حَدَّثَنِی نَافِعٌ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : أَیُّمَا رَجُلٍ أَکْرَی کِرَائً فَجَاوَزَ صَاحِبُہُ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَقَدْ وَجَبَ کِرَاؤُہُ وَلاَ ضَمَانَ عَلَیْہِ۔ یُرِیدُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ قَبَضَ الْمُکْتَرِی مَا اکْتَرَی وَجَاوَزَ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَقَدْ وَجَبَ عَلَیْہِ جَمِیعُ الْکِرَائِ إِذَا لَمْ یَکُنْ شَرَطَ فِی الأُجْرَۃِ أَجَلاً وَلاَ ضَمَانَ عَلَیْہِ إِذَا لَمْ یَتَعَدَّ۔ [صحیح]
(١١٦٧١) حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ جو آدمی کرایہ پر کوئی چیز لے۔ پھر اس کا ساتھی ذوالحلیفہ کی طرف بھی تجاوز کرے تو اس پر کرایہ واجب ہے اور ضمان نہیں ہے۔ کرایہ پر دینے والے نے جو کرایہ قبض کرلیا اور وہ ذوالحلیفہ کی طرف تجاوز کر گیا تو اس پر مکمل کرایہ واجب ہے۔ جب اجرت میں شرط نہ ہو اور جب تک وہ زیادتی نہ کرے اور اس پر ضمان نہیں ہے۔

11677

(۱۱۶۷۲) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ : التَّعْزِیرُ أَدَبٌ لاَ حَدٌّ مِنْ حُدُودِ اللَّہِ وَقَدْ کَانَ یَجُوزُ تَرْکُہُ أَلاَ تَرَی أَنَّ أُمُورًا قَدْ فُعِلَتْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- کَانَتْ غَیْرَ حُدُودٍ فَلَمْ یَضْرِبْ فِیہَا مِنْہَا الْغُلُولُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَغَیْرِ ذَلِکَ وَلَمْ یُؤْتَ بِحَدٍّ قَطُّ فَعَفَا قَالَ وَقِیلَ : بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی امْرَأَۃٍ فِی شَیْئٍ بَلَغَہُ عَنْہَا فَأَسْقَطَتْ فَاسْتَشَارَ فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ : أَنْتَ مُؤَدِّبٌ فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ : إِنْ کَانَ اجْتَہَدَ فَقَدْ أَخْطَأَ وَإِنْ لَمْ یَجْتَہِدْ فَقَدْ غَشَّ عَلَیْکَ الدِّیَۃُ قَالَ : عَزَمْتُ عَلَیْکَ أَنْ لاَ تَجْلِسْ حَتَّی تَضْرِبَہَا عَلَی قَوْمِکَ قَالَ وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : مَا أَحَدٌ یَمُوتُ فِی حَدٍّ فَأَجِدُ فِی نَفْسِی مِنْہُ شَیْئًا الْحَقُّ قَتْلُہُ إِلاَّ مَنْ مَاتَ فِی حَدِّ خَمْرٍ فَإِنَّہُ شَیْئٌ رَأَیْنَاہُ بَعْدَ النَّبِیِّ -ﷺ- فَمَنْ مَاتَ فِیہِ فَدَیْتُہُ إِمَّا قَالَ عَلَی بَیْتِ الْمَالِ وَإِمَّا قَالَ عَلَی عَاقِلَۃِ الإِمَامِ۔ [صحیح]
(١١٦٧٢) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : سزا ادب ہے۔ اللہ کی حدود میں سے حد نہیں ہے اور اس کا ترک کرنا بھی جائز ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کچھ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوئے جو حدود میں سے نہ تھے مثلاًاللہ کے راستے میں خیانت کرنا اور اس کے علاوہ دیگر کام اور انھیں کبھی حد نہ لگی، بلکہ آپ نے معاف کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے کسی عورت کی طرف کوئی چیز بھیجی، پھر آپ کو پتہ چلا کہ اس عورت نے وہ گم کردی ہے تو حضرت عمر (رض) نے اس بارے میں مشورہ کیا، ایک آدمی نے کہا : آپ مؤدب ہیں۔ حضرت علی (رض) نے اس سے کہا : اگر اس نے اجتہاد سے یہ بات کہی تو اس نے غلطی کی۔ اگر اجتھاد نہیں کیا تو اس نے آپ کے ساتھ دیت پر خیانت کی اور فرمایا : میرا خیال ہے کہ آپ جب تک اس کی قوم کو بتا نہ دیں اس وقت تک نہ بیٹھیں اور حضرت علی (رض) نے کہا : جو کوئی حد میں قتل ہوجائے میرے خیال میں اس کا قتل حق ہے مگر شراب کی حد میں مرنے والا۔ بیشک وہ ایسی چیز ہے کہ ہم نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد دیکھا ہے۔ جو شراب کی حد میں فوت ہوتا ہے اس کی دیت یا تو بیت المال سے ادا ہوگی یا امام (خلیفہ ) کے ذمہ ہوگی۔

11678

(۱۱۶۷۳) وَفِیمَا أَجَازَ لِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ رِوَایَتَہُ عَنْہُ أَنَّ أَبَا الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَہُمْ قَالَ حَدَّثَنَا الْمَاسَرْجِسِیُّ أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ حَدَّثَنَا سَلاَّمٌ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ یَقُولُ : إِنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَلَغَہُ أَنَّ امْرَأَۃً بَغِیَّۃً یَدْخُلُ عَلَیْہَا الرِّجَالُ فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولاً فَأَتَاہَا الرَّسُولُ فَقَالَ : أَجِیبِی أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَفَزِعَتْ فَزْعَۃً فَوَقَعَتِ الْفَزْعَۃُ فِی رَحِمِہَا فَتَحَرَّکَ وَلَدُہَا فَخَرَجَتْ فَأَخَذَہَا الْمَخَاضُ فَأَلْقَتْ غُلاَمًا جَنِینًا فَأُتِی عُمَرُ بِذَلِکَ فَأَرْسَلَ إِلَی الْمُہَاجِرِینَ فَقَصَّ عَلَیْہِمْ أَمْرَہَا فَقَالَ : مَا تَرَوْنَ؟ فَقَالُوا : مَا نَرَی عَلَیْکَ شَیْئًا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّمَا أَنْتَ مُعَلِّمٌ وَمُؤَدِّبٌ وَفِی الْقَوْمِ عَلِیٌّ وَعَلِیٌّ سَاکِتٌ قَالَ : فَما تَقُولُ أَنْتَ یَا أَبَا الْحَسَنِ قَالَ : أَقُولُ إِنْ کَانُوا قَارَبُوکَ فِی الْہَوَی فَقَدْ أَثِمُوا وَإِنْ کَانَ ہَذَا جُہْدُ رَأْیِہِمْ فَقَدْ أَخْطَئُوا وَأَرَی عَلَیْکَ الدِّیَۃَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ۔ قَالَ : صَدَقْتَ اذْہَبْ فَاقْسِمْہَا عَلَی قَوْمِکَ۔ [ضعیف]
(١١٦٧٣) حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کو پتہ چلا کہ ایک سرکش عورت کے پاس لوگ آتے ہیں۔ حضرت عمر نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، اس آدمی نے کہا : حضرت عمر (رض) نے آپ کو پیغام بھیجا ہے، اس کا جواب دو ۔ وہ جزع فزع کرنے لگی۔ اس کی حرکت سے اس کے رحم کا بچہ حرکت کر گیا ، اس نے اسے نکال دیا، پھر اسے دردزہ شروع ہوگیا تو اس نے جنین بھی پھینک دیا۔ اسے حضرت عمر کے پاس لایا گیا، آپ نے مہاجرین کی طرف پیغام بھیجا اور ان سے اس بارے میں رائے مانگی تو انھوں نے کہا : اے امیرالمومنین ! آپ پر کچھ نہیں ہے۔ آپ تو معلم اور مؤدب ہیں اور قوم میں حضرت علی (رض) بھی تھے، آپ خاموش تھے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : اے ابو الحسن ! آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آپ کہنے لگے : اگر وہ آپ کے قریبی تھے ذاتی انتقام کی وجہ سے تو وہ گناہ گار ہیں۔ اگر ان کا اجتہاد تھا تو انھوں نے غلطی کی اور اے امیرالمومنین ! میں آپ کو دیت کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا : تو نے سچ کہا ہے اور فرمایا : جاؤ اس کی قوم پر اس (دیت ) کو تقسیم کردو۔

11679

(۱۱۶۷۴) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِیُّ بِہَا حَدَّثَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَیُّوبَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ الْقَصَّارُ وَقَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَبِی حَصِینٍ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَا مِنْ صَاحِبِ حَدٍّ أُقِیمَ عَلَیْہِ أَجِدُ فِی نَفْسِی عَلَیْہِ شَیئًا إِلاَّ صَاحِبَ الْخَمْرِ لَوْ مَاتَ لَوَدَیْتُہُ لأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- لَمْ یَسُنَّہُ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ۔ وَإِنَّمَا أَرَادَ لَمْ یَسُنَّ مَا وَرَائَ الأَرْبَعِینَ إِلَی الثَّمَانِینِ وَہُو مَا زَادُوا عَلَی حَدِّہِ عَلَی وَجْہِ التَّعْزِیرِ فَأَمَّا الأَرْبَعُونَ بِالْجَرِیدِ وَالنِّعَالِ وَأَطْرَافِ الثِّیَابِ فَہُوَ حَدٌّ ثَابِتٌ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ-۔[بخاری ۶۷۷۸، مسلم ۱۷۰۷]
(١١٦٧٤) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : جس آدمی پر حد لگے، میں اپنے ذہن میں اس کے بارے میں کوئی چیز پاتا ہوں مگر صاحبِ خمر اگر فوت ہوجائے تو اس کی دیت دی جائے گی۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے جاری نہیں کیا۔
لم یسنہ سے مراد یہ ہے کہ چالیس سے اسی کے علاوہ نہیں جاری کیا اور حد میں جو انھوں نے زیادہ کیا وہ ڈرانے کی وجہ سے ہے۔ چالیس کھجور کی ٹہنی سے اور جوتوں سے اور کپڑے کے کنارے سے یہ حد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔

11680

(۱۱۶۷۵) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی الْمَعْرُوفِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَ بِشْرُ بْنُ أَحْمَدَ الإِسْفَرَائِینِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ فِی الْمُعَلِّمِ یَضْرِبُ الْغُلاَمَ عَلَی التَّأْدِیبِ فَیَعْطَبُ قَالَ : یَغْرَمُہُ۔ [حسن]
(١١٦٧٥) عطاء سے ایسے معلم کے بارے میں پوچھا گیا جو ادب کے لیے بچے کو مارلے اور اسے نقصان پہنچائے تو فرمایا : وہ ذمہ دار ہے۔

11681

(۱۱۶۷۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو یَحْیَی : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ السَّمَرْقَنْدِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِیرِیُّ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَزِیدَ یَعْنِی أَبَا مَعْشَرٍ الْبَرَّائَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ الأَخْنَسِ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- مَرُّوا بِمَائٍ وَفِیہِمْ لَدِیغٌ أَوْ سَلِیمٌ فَعَرَضَ لَہُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَائِ فَقَالَ ہَلْ فِیکُمْ مِنْ رَاقٍ إِنَّ فِی الْمَائِ رَجُلاً لَدِیغًا أَوْ سَلِیمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْہُمْ فَقَرَأَ أُمَّ الْکِتَابِ عَلَی شَائٍ فَبَرَأَ فَجَائَ بِالشَّائِ إِلَی أَصْحَابِہِ فَکَرِہُوا ذَلِکَ وَقَالُوا : أَخَذْتَ عَلَی کِتَابِ اللَّہِ أَجْرًا فَأَتَی رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَأَخْبَرَہُ بِمَا کَانَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَابُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سِیدَانَ بْنِ مُضَارِبٍ عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ۔ [بخاری ۵۷۳۷]
(١١٦٧٦) حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند صحابہ پانی کے پاس سے گزرے، وہاں ایک آدمی تھا جسے بچھو نے کاٹا ہوا تھا۔ اس قبیلے کا ایک آدمی صحابہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے ؟ ہمارے ایک آدمی کو بچھونے ڈس لیا ہے۔ ایک آدمی ان صحابہ میں سے گیا، اس نے چند بکریوں کے عوض سو رہ فاتحہ کے ساتھ دم کیا۔ اس آدمی کو شفاء مل گئی۔ یہ صحابی بکریاں لے کر صحابہ کے پاس آئے۔ انھوں نے اس فعل کو ناپسند کیا اور کہا : تو نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جس چیز پر اجرت لیتے ہو ان میں اللہ کی کتاب زیادہ حق دار ہے۔

11682

(۱۱۶۷۷) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِیُّ وَمُسَدَّدٌ وَالْحَجَبِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیِّ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ رَہْطًا مِنَ الأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- انْطَلَقُوا فِی سَفْرَۃٍ سَافَرُوہَا حَتَّی نَزَلُوا بِحَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوہُمْ فَأَبَوْا أَنْ یُضَیِّفُوہُمْ فَلُدِغَ سَیِّدُ الْحَیِّ فَسَعَوْا لَہُ بِکُلِّ شَیْئٍ لاَ یَنْفَعُہُ شَیْئٌ حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ : لَوْ أَتَیْتُمْ ہَؤُلاَئِ الرَّہْطَ الَّذِینَ نَزَلُوا بِکُمْ لَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ عِنْدَ بَعْضِہِمْ شَیْئٌ یَنْفَعُ صَاحِبَکُمْ فَأَتَوْہُمْ فَقَالُوا : أَیُّہَا الرَّہْطُ إِنَّ سَیِّدَنَا لُدِغَ فَسَعَیْنَا لَہُ بِکُلِّ شَیْئٍ لاَ یَنْفَعُہُ شَیْئٌ فَہَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْکُمْ شَیْئٌ یَنْفَعُ صَاحِبَنَا؟ قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ : نَعَمْ وَاللَّہِ إِنِّی لأَرْقِی وَلَکِنْ وَاللَّہِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاکُمْ فَأَبَیْتُمْ أَنْ تُضِیِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّی تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلاً فَصَالَحُوہُمْ عَلَی قَطِیعٍ مِنَ الْغَنَمِ قَالَ فَانْطَلَقَ فَجَعَلَ یَتْفُلُ عَلَیْہِ وَیَقُولُ (الْحَمْدُ للَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) حَتَّی بَرَأَ فَکَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ حَتَّی انْطَلَقَ یَمْشِی مَا بِہِ قَلَبَۃٌ فَأَوْفَوْہُمْ جُعْلَہُمُ الَّذِی صَالَحُوہُمْ عَلَیْہِ فَقَالَ : اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِی رَقَی : لاَ تَفْعَلُوا حَتَّی نَأْتِیَ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَنَذْکُرَ لَہُ الَّذِی کَانَ فَنَنْظُرَ مَا یَأْمُرُنَا َالَ فَغَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ فَضَحِکَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- وَقَالَ : مَا یُدْرِیکَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ ۔ قَالَ وَقَالَ : أَصَبْتُمُ اقْتَسِمُوا وَاضْرِبُوا لِی مَعَکُمْ بِسَہْمٍ ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا بِہَذَا الْحَدِیثِ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ عَلَی الاِنْفِرَادِ وَزَادَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الْحَدِیثِ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ وَغَیْرِہِ عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ وَحَدِیثُ الْمُزَوَّجَۃِ عَلَی تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ دَلِیلٌ فِیہِ وَمَوْضِعُہُ کِتَابُ الصَّدَاقِ۔
(١١٦٧٧) حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ انصار صحابہ کرام کی جماعت کسی سفر میں گئی۔ انھوں نے راستے میں کسی عرب قبیلے کے قریب پڑاؤ ڈالا اور ان سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے مہمان نوازی سے انکار کردیا۔ قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا، انھوں نے ہر طرح کوشش کی لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ایک شخص کہنے لگا : اس جماعت کے پاس جاؤ جو تمہارے ہاں ٹھہری ہوئی ہے شاید ان کے پاس اس کا کوئی علاج ہو۔ چنانچہ انھوں نے کہا : اے جماعت ! ہمارے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور ہم ہر طرح کوشش کرچکے ہیں لیکن افاقہ ہیں لیکن افاقہ نہیں ہو رہا۔ تمہارے پاس اس کا کوئی علاج اور حل ہے ؟ تو ایک صحابی کہنے لگے : ہاں میں دم کرنا جانتاہوں۔ لیکن ہم نے تم سے کھانا مانگا تو تم نے مہان نوازی سے انکار کردیا اب میں ایک دم کروں گا جب تم مجھے اس کا کچھ عوض دو ۔ چنانچہ انھوں نے صحابہ سے بکریوں کے ایک ریوڑ پر صلح کرلی۔ وہ صحابی گئے اور اسے دم کرنے لگے اور وہ سورة فاتحہ پڑھتے رہے۔ تھوڑی دیر بعدم وہ بالکل تندرست ہوگیا گویا اسے رسیوں سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اسے چلنے لگا گویا اسے کوئی تکلف نہ ہو۔ چنانچہ انھوں نے وعدے کے مطابق وہ عوض ادا کردیا۔ لوگوں نے کہا : اسے تقسیم کرلو وہ دم والے صحابی کہنے لگے : ٹھہرو ! ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر مسئلہ معلوم کریں پھر وہ جو حکم فرمائیں۔ چنانچہ وہ صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ قصہ بیان کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور فرمایا : ہمیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ دم ہے پھر فرمایا : اسے تقسیم کرلو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھنا۔

11683

(۱۱۶۷۸) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَیَّانَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْجَمَّالُ حَدَّثَنَا إِدْرِیسُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا صَدَقَۃُ بْنُ مُوسَی الدِّمَشْقِیُّ عَنِ الْوَضِینِ بْنِ عَطَائٍ قَالَ : ثَلاَثَۃٌ مُعَلِّمُونَ کَانُوا بِالْمَدِینَۃِ یُعَلِّمُونَ الصِّبْیَانَ وَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَرْزُقُ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ عَشَرَ دِرْہَمًا کُلَّ شَہْرٍ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ وَکِیعٍ۔
(١١٢٧٨) وضین بن عطاء فرماتے ہیں : مدینہ میں تین معلم بچوں کو پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) ان میں سے ہر ایک کو ماہانہ دس درہم معاوضہ عطا فرماتے تھے۔

11684

(۱۱۶۷۹) أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الشُّرَیْحِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ قَالَ سَأَلْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ قُرَّۃَ عَنْ أَجْرِ الْمُعَلِّمِ قَالَ : أَرَی لَہُ أَجْرًا۔قَالَ شُعْبَۃُ وَسَأَلْتُ الْحَکَمَ فَقَالَ : لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا یَکْرَہُہُ۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ فِی التَّرْجَمَۃِ وَقَالَ الْحَکَمُ : لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا کَرِہَ أَجْرَ الْمُعَلِّمِ قَالَ : وَلَمْ یَرَ ابْنُ سِیرِینَ بِأَجْرِ الْمُعَلِّمِ بَأْسًا۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَرُوِّینَا عَنْ عَطَائٍ وَأَبِی قِلاَبَۃَ : أَنَّہُمَا کَانَا لاَ یَرَیَانِ بِتَعْلِیمِ الْغِلْمَانِ بِالأَجْرِ بَأْسًا وَعَنِ الْحَسَنِ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ : إِذَا قَاطَعَ الْمُعَلِّمُ وَلَمْ یَعْدِلْ کُتِبَ مِنَ الظَّلَمَۃِ۔ [صحیح۔أخرجہ ابن الجعد ۱۱۰۳]
(١١٦٧٩) (الف) شعبہ فرماتی ہیں کہ میں نے معاویہ بن قرہ سے معلم کی اجرت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا : میں اس کے لیے اجرت کی رائے رکھتا ہوں۔
(ب) حکم کہتے ہیں : میں نے کسی سے اس کی کراہت نہیں سنی۔ امام بخاری (رح) ترجمہ میں ذکر کرتے ہیں کہ حکم نے فرمایا : میں نے معلم کی اجرت کے بارے میں کسی کی کراہت نہیں سنی اور فرمایا : ابن سیرین بھی معلم کی اجرت کے بارے میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔
(ج) عطار اور ابو قلابہ بچوں کو تعلیم دینے پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
(د) حضرت حسن (رح) سے منقول ہے : جب معلم قطع تعلقی کرے اور عدل نہ کرے تو یہ اس کا ظلم لکھا جائے گا۔

11685

(۱۱۶۸۰) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ رَجَائٍ الأَدِیبُ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : یَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْحُلْوَانِیُّ أَبُو جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ خَاقَانَ وَفَضْلُ بْنُ عِمْرَانَ الأَعْرَجُ قَالاَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِی دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمْ یَکُنْ لأُنَاسٍ مِنْ أُسَارَی بَدْرٍ فِدَائٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فِدَائَ ہُمْ أَنْ یُعَلِّمُوا أَوْلاَدَ الأَنْصَارِ الْکِتَابَۃَ قَالَ فَجَائَ غُلاَمٌ مِنَ الأَنْصَارِ یَبْکِی یَوْمًا إِلَی أَبِیہِ فَقَالَ لَہُ أَبُوہُ : مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ : ضَرَبَنِی مُعَلِّمِی۔ قَالَ : الْخَبِیثُ یَطْلُبُ بِذَحْلِ بَدْرٍ وَاللَّہِ لاَ تَأْتِیہِ أَبَدًا۔ [ضعیف]
(١١٦٨٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے قیدیوں پر کوئی فدیہ نہ تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو فدیہ پر مقرر کیا تھا کہ وہ انصار کے بچوں کو لکھنا سکھا دیں۔ ایک دن انصار کا ایک بچہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس آیا۔ باپ نے پوچھا : کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا : مجھے میرے استاد نے مارا ہے : اس نے کہا : خبیث آدمی بدر کا کینہ طلب کرتا ہے۔ اللہ کی قسم ! آئندہ تو اس کے پاس نہ جانا۔

11686

(۱۱۶۸۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِیُّ عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ زِیَادٍ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ الْکِتَابَ وَالْقُرْآنَ فَأَہْدَی إِلَیَّ رَجُلٌ مِنْہُمْ قَوْسًا فَقُلْتُ : لَیْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِی عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ لآتِیَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَلأَسْأَلَنَّہُ فَأَتَیْتُہُ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَہْدَی رَجُلٌ إِلَیَّ قَوْسًا مِمَّنْ کُنْتُ أُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْقُرْآنَ وَلَیْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِی عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ۔ قَالَ : إِنْ کُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ بِطَوْقٍ مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْہَا۔ [صحیح]
(١١٦٨١) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ کو لکھنا اور قرآن مجید پڑھنا سکھایا۔ ان میں سے ایک آدمی نے کمان ہدیے کے طور پر دی۔ میں نے کہا : کوئی مال نہیں۔ میں اسے اللہ کے راستے میں پھینک دوں گا۔ میں ضرور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کروں گا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایک آدمی نے لکھنے اور قرآن مجید کے بدلے کمان دی ہے، وہ مال تو نہیں، میں اسے اللہ کے راستے میں پھینکوں گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو پسند کرتا ہے کہ آگ کا طوق ڈالے تو اسے قبول کر۔

11687

(۱۱۶۸۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الإِسْفَرَائِینِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْبَرَائِ قَالَ قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیُّ فِی حَدِیثِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- : إِنْ سَرَّکَ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ ۔ فِی الَّذِی عَلَّمَ الْکِتَابَۃَ۔ رَوَاہُ مُغِیرَۃُ بْنُ زِیَادٍ الْمَوْصِلِیُّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَإِسْنَادُہُ کُلُّہُ مَعْرُوفٌ إِلاَّ الأَسْوَدَ بْنَ ثَعْلَبَۃَ فَإِنَّا لاَ نَحْفَظُ عَنْہُ إِلاَّ ہَذَا الْحَدِیثَ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَقَدْ قِیلَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ عَنْ عُبَادَۃَ۔ [صحیح]
(١١٦٨٢) حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تجھے اچھا لگے کہ تو آگ کا طوق پہنے تو کتابت سکھانے پر اجرت لے لے۔

11688

(۱۱۶۸۳) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ َخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَکَثِیرُ بْنُ عُبَیْدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃٌ حَدَّثَنِی بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ عَمْرٌو قَالَ حَدَّثَنِی عُبَادَۃُ بْنُ نُسَیٍّ عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ ہَذَا الْخَبَرِ وَالأَوَّلُ أَتَمُّ فَقُلْتُ : مَا تَرَی فِیہَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ : جَمْرَۃٌ بَیْنَ کَتِفَیْکَ تَقَلَّدْتَہَا أَوْ تَعَلَّقْتَہَا ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أَبُو الْمُغِیرَۃِ عَنْ بِشْرٍ۔ ہَذَا حَدِیثٌ مُخْتَلَفٌ فِیہِ عَلَی عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ کَمَا تَرَی وَحَدِیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِی سَعِیدٍ أَصَحُّ إِسْنَادًا مِنْہُ۔وَرُوِیَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ مُنْقَطِعٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ۔ [صحیح]
(١١٦٨٣) ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگ کا انگارہ ہے جسے تو نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکایا ہے۔

11689

(۱۱۶۸۴) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیدَ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی مُسْلِمٍ عَنْ عَطِیَّۃَ بْنِ قَیْسٍ الْکِلاَبِیِّ قَالَ : عَلَّمَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَجُلاً الْقُرْآنَ فَأَتَی الْیَمَنَ فَأَہْدَی لَہُ قَوْسًا فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ -ﷺ- فَقَالَ : إِنْ أَخَذْتَہَا فَخُذْ بِہَا قَوْسًا مِنَ النَّارِ ۔وَرُوِیَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ ضَعِیفٍ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ۔ [ضعیف]
(١١٦٨٤) عطیہ بن قیس کلابی فرماتے ہیں : حضرت ابی بن کعب (رض) نے ایک آدمی کو قرآن پاک سکھایا، وہ یمن سے ان کے لیے کمان لے کر آیا۔ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو نے پکڑا تو گویا تو نے جہنم کی کمان پکڑی ہے۔

11690

(۱۱۶۸۵) حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّرَّاجُ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ الطَّرَائِفِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَحْیَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : مَنْ أَخَذَ قَوْسًا عَلَی تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ قَلَّدَہُ اللَّہُ قَوْسًا مِنْ نَارٍ۔ [ضعیف]
(١١٦٨٥) حضرت ابو درداء (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے قرآن کی تعلیم پر کمان لی، اللہ اسے آگ کی کمان پہنائے گا۔

11691

(۱۱۶۸۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ قَالَ وَفِیمَا أَجَازَ لنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ عَنْ دُحَیْمٍ قَالَ حَدِیثُ أَبِی الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- : مَنْ تَقَلَّدَ قَوْسًا عَلَی تَعْلِیمِ الْقُرْآنِ ۔ لَیْسَ لَہُ أَصْل ٌ۔ [صحیح]
(١١٦٨٦) حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ جس نے قرآن کی تعلیم پر کمان لی۔

11692

(۱۱۶۸۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ وَأَبُو عُمَرَ قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَۃَ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- نَہَی عَنْ کَسْبِ الإِمَائِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ۔ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ الْمُرَادُ بِالنَّہْیِ عَنْ کَسْبِ الإِمَائِ النَّہْیَّ عَنْ کَسْبِ الْبَغِیِّ مِنْہُنَّ۔ کَمَا رَوَی أَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- نَہَی عَنْ مَہْرِ الْبَغِیِّ وَرَوَی رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ : مَہْرُ الْبَغِیِّ خَبِیثٌ ۔ وَقَدْ ذَکَرْنَاہُمَا فِی کِتَابِ الْبُیُوعِ۔ [بخاری ۲۲۸۳]
(١١٦٨٧) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔
اس سے مرادوہ لونڈی ہے جو فاحشہ ہو۔ جس طرح ابو مسعود انصاری (رض) سے منقول ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فاحشہ کی کمائی خبیث ہے۔

11693

(۱۱۶۸۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنْ ثَمَنِ الْکَلْبِ وَمَہْرِ الزَّمَّارَۃِ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ النَّہْیُّ عَنْ کَسْبِہِنَّ إِذَا لَمْ یَعْلَمْ مِنْ أَیْنَ کَسَبْنَہُ عَلَی طَرِیقِ التَّنْزِیہِ خَوْفًا مِنْ مُوَاقَعَۃِ الْحَرَامِ۔وَعَلَی ہَذَا یَدُلُّ مَا۔ [صحیح]
(١١٦٨٨) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی کمائی اور گانا گانے والی کی کمائی سے منع فرمایا۔
شیخ فرماتے ہیں : احتمال ہے کہ اس کمائی سے منع فرمایا ہو جس کا معلوم نہ ہو کہ کہاں سے انھوں نے کمایا ہے حرام میں واقع ہونے کے ڈر سے۔

11694

(۱۱۶۸۹) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ : ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِیُّ قَالَ : جَائَ رِفَاعَۃُ بْنُ رَافِعٍ إِلَی مَجْلِسِ الأَنْصَارِ فَقَالَ : لَقَدْ نَہَانَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- الْیَوْمَ فَذَکَرَ أَشْیَائَ وَقَالَ : نَہَانَا عَنْ کَسْبِ الأَمَۃِ إِلاَّ مَا عَمِلَتْ بِیَدِہَا وَقَالَ : ہَکَذَا بِإِصْبَعِہِ نَحْوَ الْغَزْلِ وَالْخَبْزِ وَالنَّقْشِ۔ [صحیح۔ ابوداؤد ۳۴۲۶]
(١١٦٨٩) عبدالرحمن قرشی فرماتی ہیں کہ رفاعہ بن رافع انصار کی مجلس کی طرف آئے اور فرمایا : آج ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض چیزوں سے منع کیا ہے ، ہمیں لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا مگر جو اس نے اپنے ہاتھ سے کمایا اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا جیسے سوت کاتنا، نقش و نگار اور پھول پتی وغیرہ۔

11695

(۱۱۶۹۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الصَّقْرِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی فُدَیْکٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ ہُرَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنْ کَسْبِ الأَمَۃِ حَتَّی یُعْلَمَ مِنْ أَیْنَ ہُوَ۔ وَبَقِیَّۃُ ہَذَا الْبَابِ مَذْکُورٌ فِی کِتَابِ النَّفَقَاتِ حَیْثُ ذَکَرَ الشَّافِعِیُّ ہَذِہِ الْمَسْأَلَۃَ فِی بَابِ نَفَقَۃِ الْمَمَالِیکِ۔ [صحیح]
(١١٦٩٠) حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا یہاں تک کہ علم ہوجائے کہ اس نے کہاں سے کمایا۔

11696

(۱۱۶۹۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو یَحْیَی الرُّویَانِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ ہُوَ ابْنُ مُوسَی الْفَرَّائُ أَخْبَرَنَا عِیَسی ہُوَ ابْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا ثَوْرُ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ مِقْدَامَ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : مَا أَکَلَ أَحَدٌ مِنْ بَنِی آدَمَ طَعَامًا خَیْرًا لَہُ مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ إِنَّ نَبِیَّ اللَّہِ دَاوُدَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ کَسْبِ یَدَیْہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُوسَی۔ [بخاری ۲۰۷۲]
(١١٦٩١) حضرت مقدامبن معد یکرب (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان جو کھانا کھاتا ہے اس کا بہتر وہ کھانا ہے جو ہاتھ کی کمائی سے کھائے۔ اللہ کے نبی داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔

11697

(۱۱۶۹۲) أَخْبَرَنَا أَبُوطَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : خُفِّفَ عَلَی دَاوُدَ الْقُرْآنُ فَکَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّہِ تُسْرَجُ فَکَانَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُسْرَجَ دَابَّتُہُ وَکَانَ لاَ یَأْکُلُ إِلاَّ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ مُوسَی عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ آخِرَ الْخَبَرِ۔ وَرُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ نَصْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَوَّلَ الْخَبَرِ وَقَدْ رُوِّینَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- قَوْمًا عُمَّالَ أَنْفُسِہِمْ وَفِی رِوَایَۃٍ :فَکَانُوا یُعَالِجُونَ أَرَضِیہِمْ بِأَیْدِیہِمْ۔ وَرُوِّینَا عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ قَیْنًا۔ وَرُوِّینَا عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فِی قِصَّۃِ إِبْرَاہِیمَ ابْنِ النَّبِیِّ -ﷺ- أَنَّہُ دَفَعَہُ إِلَی أُمِّ سَیْفٍ امْرَأَۃِ قَیْنٍ بِالْمَدِینَۃِ۔ وَعَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قِصَّۃِ الْمِنْبَرِ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- إِلَی امْرَأَۃٍ : أَنْ مُرِی غُلاَمَکِ النَّجَّارَ یَعْمَلُ لِی أَعْوَادًا أَجْلِسُ عَلَیْہِنَّ ۔ وَعَنْ سَہْلٍ فِی الْمَرْأَۃِ الَّتِی جَائَ تْ بِبُرْدَۃٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی نَسَجْتُ ہَذِہِ بِیَدَیَّ أَکْسُوکَہَا۔ وَعَنْ أَبِی مَسْعُودٍ : کَانَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ أَبُو شُعَیْبٍ وَکَانَ لَہُ غُلاَمٌ لَحَّامٌ وَفِی رِوَایَۃٍ قَصَّابٌ فَقَالَ : اصْنَعْ لِی طَعَامًا أَدْعُو رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ-۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قِصَّۃِ تَحْرِیمِ مَکَّۃَ قَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِلاَّ الإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَلِسُقُفِ بُیُوتِنَا قَالَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ ۔ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- وَأَعْطَی الْحَجَّامَ أَجْرَہُ وَلَوْ عَلِمَہُ خَبِیثًا لَمْ یُعْطِہِ۔ وَفِی کُلِّ ہَذَا دَلاَلَۃٌ عَلَی جَوَازِ الاِکْتِسَابِ بِہَذِہِ الْحِرَفِ وَمَا فِی مَعْنَاہَا وَقَدْ مَرَّ فِی الْکِتَابِ إِسْنَادُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہَا أَوْ سَیَمُرُّ إِنْ شَائَ اللَّہُ۔وَفِی الأَحَادِیثِ الثَّلاَثَۃِ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّ الَّذِی۔ [بخاری ۲۰۷۳]
(١١٦٩٢) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : داؤد (علیہ السلام) پر زبور کی تلاوت آسان کردی گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے تھے اور زین کسی جانے سے پہلے ہی پوری زبور پڑھ لیتے تھے اور آپ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی ہی کھاتے تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کام کرنے والے لوگ تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے مریضوں کا علاج خود کرتے تھے۔ خباب بن ارت (رض) فرماتے ہیں : میں لو ہارکا کام کرتا تھا۔ انس بن مالک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کے قصہ میں فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابراہیم کو مدینہ کی ایک لو ہارہ عورت ام سیف کی طرف بھیجا، سھل بن سعد منبر والے قصہ میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے غلام کو حکم دے کہ وہ میرے بیٹے کے لیے منبر بنائے۔ حضرت سہل سی منقول ہے کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے چادر لے کر آئی اور فرمانے لگی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے اپنے ہاتھسیتیار کی ہے تاکہ آپ کو پہناؤ ں۔ حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں : انصاریوں کا ایک آدمی تھا جس کا نام ابو شعیب تھا، اس کا غلام گوشت کرنے والا تھا۔ ایک روایت میں قصاب کے لفظ ہیں : اس نے کہا : کھانا تیار کرو تاکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاؤں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے حرمت مکہ کے قصہ میں منقول ہے کہ عباس (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذخر (بوٹی) کو چھوڑ دیں، داغنے کے لیے اور اپنی چھتوں کے لیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذخر کو چھوڑ دیا جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) سی منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی اجرت دی۔ اگر یہ آپ کے نزدیک خبیث چیز ہوتی تو نہ دیتے اور یہ سارے اثر کمائی کے جواز پر دلالت کرتے ہیں۔

11698

(۱۱۶۹۳) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ عَائِشَۃَ عَنْ َمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی مَاجِدَۃَ قَالَ : قَاتَلْتُ غُلاَمًا فَجَدَعْتُ أُذُنَہُ أَوْ جَدَعَ أُذُنِی قَالَ فَقَدِمَ عَلَیْنَا أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَرُفِعْنَا إِلَیْہِ وَہُوَ خَارِجٌ فَاخْتَصَمْنَا إِلَیْہِ فَرَفَعَنَا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : قَدْ بَلَغَ الْقِصَاصُ ادْعُوا لِی حَجَّامًا یَقْتَصُّ مِنْہُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : إِنِّی وَہَبْتُ لِخَالَتِی غُلاَمًا أَرْجُو أَنْ یُبَارِکَ لَہَا فِیہِ وَقُلْتُ لَہَا لاَ تُسَلِّمِیہِ حَجَّامًا وَلاَ قَصَّابًا وَلاَ صَائِغًا۔ [ضعیف]
(١١٦٩٣) ابو ماجدہ سے منقول ہے کہ میں غلام سے لڑ ا۔ میں نے اس کا کان کاٹ ڈالا یا اس نے میرا کان کاٹ ڈالا۔ ہماری طرف ابوبکر آئے تو ہمیں ان کی طرف پیش کیا گیا : ہم نے ان پر اپنا جھگڑا پیش کیا تو انھوں نے ہمیں حضرت عمر (رض) کی طرف بھیج دیا۔ آپ نے فرمایا : یہ معاملہ قصاص تک پہنچ گیا ہے۔ حجام کو بلاؤوہ اس سے کاٹ دے۔ دو یا تین دفعہ فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو غلام ہبہ کیا، اس امید سے کہ اس میں خالہ کے لیے برکت ہو اور میں نے کہا : اس کو حجام ، قصائی اور داغنے والے کے سپرد نہ کرنا۔

11699

(۱۱۶۹۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ أَوْجَزَ مِنْہُ۔ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الْعَلاَئُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُرَقِیُّ عَنِ ابْنِ مَاجِدَۃَ رَجُلٍ مِنْ بَنِی سَہْمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ -ﷺ- یَقُولُ بِمَعْنَاہُ۔ مَحْمُولٌ عَلَی التَّنْزِیہِ لاَ عَلَی التَّحْرِیمِ وَأَمَّا کَسْبُ الْحَجَّامِ فَالْکَلاَمُ فِیہِ مَذْکُورٌ فِی الْمُخْتَصَرِ فِی الرُّبُعِ الأَخِیرِ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ۔ [ضعیف]
(١١٦٩٤) یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے نہ کہ تحریمی پر اور حجام کی کمائی میں کلام ہے۔

11700

(۱۱۶۹۵) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْحَاقَ السَّرَّاجُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ کَثِیرٍ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : طَلَبُ کَسْبِ الْحَلاَلِ فَرِیضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیضَۃِ ۔ تَفَرَّدَ بِہِ عَبَّادُ بْنُ کَثِیرٍ الرَّمْلِیُّ وَہُوَ ضَعِیفٌ۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالَ قَرَأْتُ بِخَطِ أَبِی عَمْرٍو الْمُسْتَمْلِی سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ الْفَرَّائَ یَقُولُ سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ یَحْیَی یُسْأَلُ عَنْ حَدِیثِ عَبَّادِ بْنِ کَثِیرٍ فِی الْکَسْبِ الْحَلاَلِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ إِنْ کَانَ قَالَہُ۔ [ضعیف]
(١١٦٩٥) حضرت عبداللہ (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حلال کمائی کی طلب فرض کے بعد فرض ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔