hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Al Bayhaqi

62. جزیہ کا بیان

سنن البيهقي

18629

(١٨٦٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ بْنُ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ عَصَمَ مِنِّی مَالَہُ وَنَفْسَہُ إِلاَّ بِحَقِّہِ حِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ وَغَیْرِہِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ أَوْجُہٍ أُخَرَ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٢٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھوں حتٰی کہ وہ کہہ دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس شخص نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس نے اپنا مال اور جان مجھ سے بچا لیا۔ البتہ اسلام کے حقوق قائم رہیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔

18630

(١٨٦٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْبَخْتَرِیِّ الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ وَعَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالاَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَإِذَا قَالُوہَا مَنَعُوا مِنِّی دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ عَنِ الأَعْمَشِ بِالإِسْنَادَیْنٍ جَمِیعًا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٢٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھوں حتی کہ وہ کہہ دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ جب انھوں نے یہ کہہ دیا تو انھوں نے اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں، البتہ اسلام کے حقوق قائم رہیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔

18631

(١٨٦٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَنْبَأَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ یُقَالُ لَہُ ابْنُ عِصَامٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً قَالَ : إِذَا سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا أَوْ رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا فَلاَ تَقْتُلُوا أَحَدًا ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٢٥) ابن عصام اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی چھوٹا لشکر بھیجتے تو فرماتے : جب تم کسی مؤذن کی آواز سنو یا تم کسی مسجد کو دیکھو تو کسی کو قتل نہ کرنا۔

18632

(١٨٦٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا لَیْثٌ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَخْبَرَنِی عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعْدَہُ وَکَفَرَ مَنْ کَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لأَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ عَصَمَ مِنِّی مَالَہُ وَنَفْسَہُ إِلاَّ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَاللَّہِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّہِ لَوْ مَنَعُونِی عِقَالاً کَانُوا یُؤَدُّونَہُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہِ ۔ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَوَاللَّہِ مَا ہُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَیْتُ اللَّہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٢٦) عبیدہ اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود حضرت ابوہریرہ (رض) سینقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جب ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ بنے تو بعض عرب نے کفر کردیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : آپ لوگوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ وہ کہہ دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ جس نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس نے اپنا مال اور جان مجھے سے بچا لیے۔ البتہ اسلام کے حقوق قائم رہیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فریایا : اللہ کی قسم ! جس نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا میں اس سے لڑائی کروں گا۔ کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادا کی جانے والی رسی بھی مجھ سے روکیں گے تو میں اس کے اسی روکنے کی وجہ سے ان سے لڑائی کروں گا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں پہچان کیا کہ اللہ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو لڑائی کے لییکھول دیا ہے اور میں جان گیا کہ یہ حق ہے۔

18633

(١٨٦٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَہَذَا مِثْلُ الْحَدِیثَیْنِ قَبْلَہُ فِی الْمُشْرِکِینَ مُطْلَقًا وَإِنَّمَا یُرَادُ بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ مُشْرِکُو أَہْلِ الأَوْثَانِ وَلَمْ یَکُنْ بِحَضْرَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلاَ قُرْبِہِ أَحَدٌ مِنْ مُشْرِکِی أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ یَہُودُ بِالْمَدِینَۃِ وَکَانُوا حُلَفَائَ الأَنْصَارِ وَلَمْ تَکُنِ الأَنْصَارُ اسْتَجْمَعَتْ أَوَّلَ مَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِسْلاَمًا فَوَادَعَتْ یَہُودُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلَمْ تَخْرُجْ إِلَی شَیْئٍ مِنْ عَدَاوَتِہِ بِقَوْلٍ یَظْہَرُ وَلاَ فِعْلٍ حَتَّی کَانَتْ وَقْعَۃُ بَدْرٍ فَتَکَلَّمَ بَعْضُہَا بِعَدَاوَتِہِ وَالتَّحْرِیضِ عَلَیْہِ فَقَتَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِمْ وَلَمْ یَکُنْ بِالْحِجَازِ عَلِمْتُہُ إِلاَّ یَہُودِیٌّ أَوْ نَصَارَی قَلِیلٌ بِنَجْرَانَ وَکَانَتِ الْمَجُوسُ بِہَجَرَ وَبِلاَدِ الْبَرْبَرِ وَفَارِسَ نَائِینَ عَنِ الْحِجَازِ دُونَہُمْ مُشْرِکُونَ أَہْلُ الأَوْثَانِ کَثِیرٌ۔ [صحیح ]
(١٨٦٢٧) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ ان جیسی دو احادیث مطلق مشرکین کے بارے میں ہیں۔ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں اور آپ کے قریبی زمانہ میں اہل کتاب کے اندر ان دو مشرکوں میں سے کوئی بھی نہ تھا سوائے مدینہ کے یہودیوں کے جو انصار کے حلیف تھے اور انصار ابتدائی طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے اور واقعہ بدر تک یہود کی دشمنی قول اور فعل کے ذریعے ظاہر نہ ہوئی۔ لیکن اس موقع پر انھوں نے ایک دوسرے سے دشمنی اور آپ کے خلاف ابھارنے کی باتیں کیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے لڑائی کی۔ حجاز میں میرے علم کے مطابق یہودی یا نجران کے تھوڑے سے عیسائی تھے اور ھجر، بربر کے شہر اور فارس جو حجاز سے دور تھے وہاں بتوں کے پجاری مشرکین بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔

18634

(١٨٦٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی أَنْبَأَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْکَرِیمِ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَظُنُّہُ عَنْ أَبِیہِ وَکَانَ ابْنُ أَحَدِ الثَّلاَثَۃِ الَّذِینَ تِیبَ عَلَیْہِمْ أَنَّ کَعْبَ بْنَ الأَشْرَفِ الْیَہُودِیَّ کَانَ شَاعِرًا وَکَانَ یَہْجُو رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیُحَرِّضُ عَلَیْہِ کُفَّارَ قُرَیْشٍ فِی شِعْرِہِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدِمَ الْمَدِینَۃَ وَأَہْلُہَا أَخْلاَطٌ مِنْہُمُ الْمُسْلِمُونَ الَّذِینَ تَجْمَعُہُمْ دَعْوَۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمِنْہُمُ الْمُشْرِکُونَ الَّذِینَ یُعْبُدُونَ الأَوْثَانَ وَمِنْہُمُ الْیَہُودُ وَہُمْ أَہْلُ الْحَلْقَۃِ وَالْحُصُونِ وَہُمْ حُلَفَائُ لِلْحَیَّیْنِ الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ اسْتِصْلاَحَہُمْ کُلَّہُمْ وَکَانَ الرَّجُلُ یَکُونُ مُسْلِمًا وَأَبُوہُ مُشْرِکٌ وَالرَّجُلُ یَکُونُ مُسْلِمًا وَأَخُوہُ مُشْرِکٌ وَکَانَ الْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ حِینَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابَہُ أَشَدَّ الأَذَی فَأَمَرَ اللَّہُ رَسُولَہُ وَالْمُسْلِمِینَ بِالصَّبْرِ عَلَی ذَلِکَ وَالْعَفْوِ عَنْہُمْ فَفِیہِمْ أَنْزَلَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ { وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قِبَلِکُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیرًا } [آل عمران ١٨٦] إِلَی آخِرِ الآیَۃِ وَفِیہِمْ أَنْزَلَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ { وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا } [البقرۃ ١٠٩] فَلَمَّا أَبِی کَعْبُ بْنُ الأَشْرَفِ أَنْ یَنْتَزِعَ عَنْ أَذَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَذَی الْمُسْلِمِینَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ یَبْعَثَ رَہْطًا لِیَقْتُلُوہُ فَبَعَثَ إِلَیْہِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ الأَنْصَارِیَّ وَأَبَا عَبْسٍ الأَنْصَارِیَّ وَالْحَارِثَ ابْنَ أَخِی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِی خَمْسَۃٍ رَہْطٍ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قَتْلِہِ قَالَ : فَلَمَّا قَتَلُوہُ فَزِعَتِ الْیَہُودُ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَغَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ أَصْبَحُوا فَقَالُوا : إِنَّہُ طُرِقَ صَاحِبُنَا اللَّیْلَۃَ وَہُوَ سَیِّدٌ مِنْ سَادَتِنَا فَقُتِلَ فَذَکَرَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الَّذِی کَانَ یَقُولُ فِی أَشْعَارِہِ وَیَنْہَاہُمْ بِہِ وَدَعَاہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی أَنْ یَکْتُبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمُسْلِمِینَ کِتَابًا یَنْتَہُوا إِلَی مَا فِیہِ فَکَتَبَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمُسْلِمِینَ عَامًا صَحِیفَۃً کَتَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَحْتَ الْعَذْقِ الَّذِی فِی دَارِ بِنْتِ الْحَارِثِ فَکَانَتْ تِلْکَ الصَّحِیفَۃُ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٢٨) عبد الرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک میرا گمان ہے کہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں۔ یہ ان تینوں میں سے ایک کے بیٹے ہیں جن کی اللہ رب العزت نے توبہ قبول کی۔ کعب بن اشرف یہودی شاعر تھا ۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذمت اور کفار قریش کو آپ کے خلاف ابھارا کرتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ آئے تو وہاں کے رہنے والے ملے جلے ادیان والے تھے۔ بعض مسلمان جنہوں نے نبی کی دعوت کو قبول کیا اور بعض بتوں کے پجاری مشرک، اور بعض یہود اور بعض قلعوں والے تھے، اور بعض اوس و خزرج کے حلیف تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو ان کا استقبال کرنا چاہا لیکن اگر کوئی مسلم ہے تو باپ مشرک ہے کوئی مسلم ہے تو بھائی مشرک ہے اور مدینہ کے مشرک و یہودی کو اس وقت بڑی تکلیف ہوئی جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت دیتے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی تکالیف پر صبر اور معاف کرنے کی تلقین فرمائی۔ اللہ کا فرمان ہے : { وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا } [آل عمران ١٨٦] اور اب اہل کتاب سے اور مشرکین سے بہت زیادہ تکلیف دہ باتیں سنتے ہیں اور اللہ کا فرمان ہے : { وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا } [البقرہ ١٠٩]
بہت سارے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمہارے تمہیں ایمان لانے کے بعدکفر کی حالت میں واپس لوٹا دیں۔ حق کے واضح ہوجانے کے بعد آپ ان کو معاف کریں اور درگزر کریں جب کعب بن اشرف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تکلیف دینے سے باز نہ آنے کا اظہار کیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن معاذ (رض) کو اس کے قتل کے لیے ایک گروہ ترتیب دینے کا حکم فرمایا تو حضرت سعد بن معاذ (رض) نے محمد بن مسلمہ انصاری (رض) ، ابو عبس انصاری (رض) اور اپنے بھائی کے بیٹے حارث کو پانچ لوگوں کے گروہ میں روانہ کیا اور اس نے اس کے قتل کے بارے میں حدیث بیان کی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے قتل کے بعد یہود اور مشرکین گھبرا گئے اور صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : رات کے وقت ہمارے ایک سردار کو قتل کردیا گیا تو آپ نے ان کو بتایا، جو وہ اپنے اشعار میں کہا کرتا تھا اور ان کو بتایا کہ اسے روکا بھی گیا تھا کہ یہ کام نہ کرو۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ یہود، مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ تحریر کرلیا جائے۔ ایک مدت تک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود، مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک کھجور کے نیچے جو بنت حارث کے گھر میں تھی بیٹھ کر معاہدہ تحریر کروایا۔ بعد میں یہ تحریر حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے پاس رہی۔

18635

(١٨٦٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی مُحَمَّدٍ مَوْلَی زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَوْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ قَالَ : لَمَّا أَصَابَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قُرَیْشًا یَوْمَ بَدْرٍ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ جَمَعَ الْیَہُودَ فِی سُوقِ قَیْنُقَاعَ فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ یَہُودَ أَسْلِمُوا قَبْلَ أَنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلَ مَا أَصَابَ قُرَیْشًا ۔ فَقَالُوا : یَا مُحَمَّدُ لاَ یَغُرَّنَّکَ مِنْ نَفْسِکَ أَنَّکَ قَتَلْتَ نَفَرًا مِنْ قُرَیْشٍ کَانُوا أَغْمَارًا لاَ یَعْرِفُونَ الْقِتَالَ إِنَّکَ لَوْ قَاتَلْتَنَا لَعَرَفْتَ أَنَا نَحْنُ النَّاسُ وَإِنَّکَ لَمْ تَلْقَ مِثْلَنَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی ذَلِکَ مِنْ قَوْلِہِمْ { قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَی جَہَنَّمَ وَبِئْسَ الْمِہَادُ ۔ قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَۃٌ فِی فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ } [آل عمران ١٢-١٣] أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِبَدْرٍ { وَأُخْرَی کَافِرَۃٌ یَرَوْنَہُمْ مِثْلَیْہِمْ رَأْیَ الْعَیْنِ } إِلَی قَوْلِہِ { لَعِبْرَۃً لأُولِی الأَبْصَارِ } [آل عمران : ١٣] ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٢٩) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریشیوں کو قتل کیا۔ جب مدینہ واپس آئے تو یہود قینقاع بازار میں جمع ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : اے یہود کا گروہ ! اسلام قبول کرلو۔ اس سے پہلے کہ تمہیں وہ مصیبت پہنچے جو قریش کو پہنچی ہے۔ انھوں نے کہا : اے محمد ! آپ اپنے بارے میں دھوکے میں نہ رہیے کہ آپ نے قریش کے ایک گروہ کو قتل کیا ہے جو جنگ سے ناواقف تھے۔ اگر آپ نے ہم سے لڑائی کی تو آپ پہچان لیں گے کہ ہم بھی جنگجو ہیں۔ آپ کی ملاقات یعنی لڑائی ہمارے جیسے لوگوں سے نہیں ہوئی۔ اللہ کا فرمان ہے : { قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰی جَھَنَّمَ وَ بِئْسَ الْمِھَادُ ۔ قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } [آل عمران ١٢-١٣] { وَ اُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْھِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ وَ اللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُ ولِی الْاَبْصَارِ } [آل عمران : ١٣] ان لوگو وں سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا عنقریب تم مغلوب کیے جاؤ گے اور تمہیں جہنم میں جمع کیا جائے گا جو بدترین ٹھکانا ہے۔ تمہارے لیے تو دو جماعتوں کے ملنے میں نشانی ہے۔ ایک جماعت اللہ کے راستے میں لڑتی ہے تو دوسری کافر تھی۔ وہ کافر مسلمانوں کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔

18636

(١٨٦٣٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَزْمٍ وَصَالِحُ بْنُ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ قَالاَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ فَرَغَ مِنْ بَدْرٍ بَشِیرَیْنِ إِلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ رَوَاحَۃَ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ کَعْبَ بْنَ الأَشْرَفِ فَقَالَ : وَیْلَکُمْ أَحَقٌّ ہَذَا ہَؤُلاَئِ مُلُوکُ الْعَرَبِ وَسَادَۃُ النَّاسِ یَعْنِی قَتْلَی قُرَیْشٍ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی مَکَّۃَ فَجَعَلَ یَبْکِی عَلَی قَتْلَی قُرَیْشٍ وَیُحَرِّضُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨٦٣٠) عبداللہ بن ابی بکر بن حزم اور صالح بن ابی امامہ بن سھل بن حنیف فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بدر سے فارغ ہوئے تو مدینہ والوں کو خوش خبری دینے کے لیے زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کو بھیجا۔ جب کعب بن اشرف کو یہ خبر ملی تو اس نے کہا : تمہارے اوپر افسوس ! کیا یہ خبر سچ ہے ؟ یہ عرب کے بادشاہ اور لوگوں کے سردار یعنی قریش مارے گئے ؟ پھر وہ مکہ کی جانب قریش کے مقتولوں پر روتا ہوا گیا اور انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ابھار رہا تھا۔

18637

(١٨٦٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا أَبُو بَکْرِ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَنْبَارِیُّ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ بِتَقْوَی اللَّہِ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا وَقَالَ : إِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إِلَی إِحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ أَوْ خِلاَلٍ فَأَیَّتَہُنَّ أَجَابُوکَ إِلَیْہَا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمُ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ وَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَہُمْ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ مِثْلَ أَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللَّہِ الَّذِی کَانَ یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَلاَ یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَادْعُہُمْ إِلَی إِعْطَائِ الْجِزْیَۃِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّہِ وَقَاتِلْہُمْ وإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوکَ أَنْ تُنْزِلَہُمْ عَلَی حُکْمِ اللَّہِ فَلاَ تُنْزِلْہُمْ فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْرُونَ مَا یَحْکُمُ اللَّہُ فِیہِمْ وَلَکِنْ أَنْزِلُوہُمْ عَلَی حُکْمِکُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِیہِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ ۔ قَالَ سُفْیَانُ قَالَ عَلْقَمَۃُ فَذَکَرْتُ ہَذَا الْحَدِیثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ فَقَالَ حَدَّثَنِی مُسْلِمٌ ہُوَ ابْنُ ہَیْصَمٍ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِثْلَ حَدِیثِ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم۔ ١٧٣٧]
(١٨٦٣١) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں : جب کبھی سرور دوعالم کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اس کو اپنے معاملات میں اللہ سے ڈرنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت فرماتے۔ نیز فرماتے کہ اللہ کے راستہ میں اللہ کے نام کے ساتھ جہاد کرو۔ جب تمہارا مشرک دشمنوں سے آمنا سامنا ہو تو انھیں تین باتوں کی دعوت دو ۔ ان میں سے وہ جس بات کو تسلیم کرلیں مان لو۔ پھر اسلام کی دعوت دو اگر قبول کرلیں تو ان پر حملہ نہ کرو۔ پھر انھیں دار الحرب چھوڑ کر دار الہجرت آنے کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ اگر وہ چلے آئیں گے تو انھیں مہاجرین کے حقوق میسر ہوں گے اور ان پر مہاجرین کی سی ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔ اگر وہ دار الہجرت کی طرف منتقل ہونے سے انکار کریں اور اپنے گھروں کا انتخاب کریں تو انھیں بتلائیں کہ ان کا معاملہ مسلمانوں کی طرح ہوگا کہ ان پر دیگر ایمان داروں کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ ہوں گے۔ لیکن انھیں غنیمت اور مال فے سے مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کیے بغیر کچھ نہیں ملے گا۔ اگر وہ اس بات کو تسلیم نہ کریں تو ان سے جزیہ کا مطالبہ کرو۔ اگر وہ مان لیں تو ان سے جزیہ لے لو اور ان سے کچھ نہ کہو اور اگر وہ جزیہ سے انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ان کے خلاف پر سر پیکار ہو جاؤ۔ جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ تم پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر اتارنے کا مطالبہ کریں تو انھیں اپنے فیصلہ پر اتارنا کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ اللہ کے فیصلے کے بارے میں درستی کو پاسکو گے یا نہیں۔

18638

(١٨٦٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَنْبَأَنَا سُفْیَانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ أَوْصَاہُ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ زَادَ فِیہِ : وإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوکَ عَلَی أَنْ تَجْعَلَ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللَّہِ وَذِمَّۃَ نَبِیِّکَ فَلاَ تَجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّۃَ اللَّہِ وَذِمَّۃَ نَبِیِّکَ وَلَکِنِ اجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّتَکَ وَذِمَّۃَ آبَائِکَ وَذِمَمَ أَصْحَابِکَ فَإِنَّکُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَکُمْ وَذِمَمَ آبَائِکُمْ أَہْوَنُ عَلَیْکُمْ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّۃَ اللَّہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ ۔ وَلَمْ یَذْکُرْ إِسْنَادَ حَدِیثِ مُقَاتِلٍ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ وَکِیعٍ دُونَ إِسْنَادِ مُقَاتِلٍ وَرَوَاہُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ وَذَکَرَ فِیہِ إِسْنَادَ مُقَاتِلٍ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٣٢) حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی لشکر کا امیر بنا کر روانہ فرماتے تو چند وصتیں فرماتے۔ اس میں زیادتی ہے کہ جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو۔ اور وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کا تقاضا کریں تو انھیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کے علاوہ اپنا اور اپنے رفقاء کا ذمہ دو ۔ کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے آباء اور رفقاء کا ذمہ توڑ ڈالو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں معمولی ہے۔

18639

(١٨٦٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنِی عَلْقَمَۃُ بْنُ مَرْثَدٍ أَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیَّ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ أَوْ سَرِیَّۃٍ دَعَاہُ فَأَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِزِیَادَتِہِ فِی مَتْنِہِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ الشَّاعِرِ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٣٣) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب کبھی سروردو عالم کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اس کو اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت فرماتے۔

18640

(١٨٦٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَنْبَأَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ شُعْبَۃَ بْنِ الْحَجَّاجِ فَذَکَرَہُ ۔
(١٨٦٣٤) خالی۔

18641

(١٨٦٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُزَنِیُّ ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَنْبَأَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْہَرَوِیُّ قَالاَ أَنْبَأَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِیمَنْ یُؤَذِّنَ یَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًی أَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَأَنْ لاَ یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَیَوْمُ الْحَجِّ الأَکْبَرِ یَوْمُ النَّحْرِ وَإِنَّمَا قِیلَ الْحَجُّ الأَکْبَرُ مِنْ أَجْلِ قَوْلِ النَّاسِ الْحَجُّ الأَصْغَرُ فَنَبَذَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی النَّاسِ فِی ذَلِکَ الْعَامِ فَلَمْ یَحُجَّ فِی الْعَامِ الْقَابِلِ الَّذِی حَجَّ فِیہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مُشْرِکٌ وَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْعَامِ الَّذِی نَبَذَ فِیہِ أَبُو بَکْرٍ إِلَی الْمُشْرِکِینَ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ } إِلَی قَوْلِہِ { عَلِیمٌ حَکِیمٌ} [النسائ : ٢٦] فَکَانَ الْمُشْرِکُونَ یُوَافُونَ بِالتِّجَارَۃِ فَیَنْتَفِعُ بِہَا الْمُسْلِمُونَ فَلَمَّا حَرَّمَ اللَّہُ عَلَی الْمُشْرِکِینَ أَنْ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَجَدَ الْمُسْلِمُونَ فِی أَنْفُسِہِمْ مِمَّا قُطِعَ عَنْہُمْ مِنَ التِّجَارَۃِ الَّتِی کَانَ الْمُشْرِکُونَ یُوَافُونَ بِہَا فَقَالَ اللَّہُ تَعَالَی { وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ إِنْ شَائَ } [التوبۃ ٢٨] ثُمَّ أَحَلَّ فِی الآیَۃِ الَّتِی تَتْبَعُہَا الْجِزْیَۃَ وَلَمْ تَکُنْ تُؤْخَذُ قَبْلَ ذَلِکَ فَجَعَلَہَا عِوَضًا مِمَّا مَنَعَہُمْ مِنْ مُوَافَاۃِ الْمُشْرِکِینَ بِتِجَارَاتِہِمْ فَقَالَ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ } [التوبۃ ٢٩] فَلَمَّا أَحَلَّ اللَّہُ ذَلِکَ لِلْمُسْلِمِینَ عَرَفُوا أَنَّہُ قَدْ عَاضَہُمْ أَفْضَلَ مِمَّا کَانُوا وَجَدُوا عَلَیْہِ مِمَّا کَانَ الْمُشْرِکُونَ یُوَافُونَ بِہِ مِنَ التِّجَارَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ إِلَی قَوْلِہِ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ مُشْرِکٌ دُونَ مَا بَعْدَہُ وَأَظُنُّہُ مِنْ قَوْلِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ الی قولہ عرہان ]
(١٨٦٣٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مجھے منی میں قربانی کے دن اعلان کرنے کے لیے روانہ کیا کہ آئندہ سال مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ بیت اللہ کا کپڑے اتار کر طواف نہ کیا جائے اور حج اکبر قربانی کا دن ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں کا حج اصغر کہنے کی وجہ سے حج اکبر کہا گیا۔ ابوبکر (رض) نے اس سال اعلان کروا دیا اور آئندہ سال کسی مشرک نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج نہیں کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سال جب ابوبکر (رض) نے اعلان کروایا یہ آیات نازل فرمائیں :{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ } [التوبۃ ٢٨] اے ایمان والو ! مشرک پلید ہیں وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں تا { عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ [النساء ٢٦]
مشرکین تجارت کی غرض سے آتے، جن سے مسلمان فائدہ حاصل کرتے تھے۔ جب اللہ نے مشرکین کا محرم الحرام میں داخلہ بند کردیا تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ تجارت کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ { وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ } [التوبۃ ٢٨]
اگر تمہیں فقیری کا ڈر ہے تو اللہ تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا تو پھر ان سے جزیہ لینا حلال کردیا گیا جو اس سے پہلے نہ لیا جاتا تھا۔ یہ اس کا بدل تھا جو وہ مشرکین کی تجارت سے فائدہ اٹھانے تھے۔ فرمایا : { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَ } [التوبۃ ٢٨] ان لوگوں سے جہاد کرو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اللہ اور رسول کی حرام کردہ اشیاء کو حرام نہیں جانتے اور دین حق کو اہل کتاب سیقبول نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر جزیہ ادا کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے یہ حلال کردیا تو وہ پہچان گئے کہ اللہ نے ان کو بہتر بدلہ عطا کردیا ہے جو وہ مشرکین کی تجارت سے حاصل کرتے تھے۔

18642

(١٨٦٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ } [التوبۃ ١٢٩] إِلَی قَوْلِہِ { حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ } [التوبۃ ١٢٩] قَالَ : نَزَلَ ہَذَا حِینَ أُمِرَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابُہُ بِغَزْوَۃِ تَبُوکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٣٦) ابن ابی نجیح حضرت مجاہد سے اللہ کے ارشاد { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } [التوبۃ ١٢٩] ان لوگوں سے جہاد کرو جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتے۔ { حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَ } [التوبۃ ١٢٩] یہاں تک کہ کہ وہ ذلیل ہو کر جزیہ ادا کریں کی متعلق فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نے صحابہ کو غزوہ تبوک کا حکم دیا۔

18643

(١٨٦٣٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : فَلَمَّا انْتَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی تَبُوکَ أَتَاہُ یُحَنَّۃُ بْنُ رُوبَۃَ صَاحِبُ أَیْلَۃَ فَصَالَحَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَعْطَاہُ الْجِزْیَۃَ وَأَتَاہُ أَہْلُ جَرْبَائَ وَأَذْرُحَ فَأَعْطَوْہُ الْجِزْیَۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٣٧) ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک پہنچے تو یحنہ بن روبہ نے صلح کر کے جزیہ ادا کردیا۔ اس طرح اہل جربائ، اذرح نے بھی جزیہ دے دیا۔

18644

(١٨٦٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ لَیْثٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : یُقَاتَلُ أَہْلُ الأَوْثَانِ عَلَی الإِسْلاَمِ وَیُقَاتَلُ أَہْلُ الْکِتَابِ عَلَی الْجِزْیَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٣٨) لیث مجاہد سے نقل فرماتے ہیں کہ بتوں کے پجاری اسلام والوں کے خلاف جنگ کرتے اور اہل کتاب جزیہ پر صلح کرلیتے تھے۔

18645

(١٨٦٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہِ تَعَالَی { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] قَالَ : کَانَتِ الْمَرْأَۃُ مِنَ الأَنْصَارِ لاَ تَکَادُ یَعِیشُ لَہَا وَلَدٌ فَتَحْلِفُ لَئِنْ عَاشَ لَہَا وَلَدٌ لَتُہَوِّدَنَّہُ فَلَمَّا أُجْلِیَتْ بَنُو النَّضِیرِ إِذَا فِیہِمْ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَبْنَاؤُنَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] قَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ : مَنْ شَائَ لَحِقَ بِہِمْ وَمَنْ شَائَ دَخَلَ فِی الإِسْلاَمِ ۔ أَخْرَجَہُ أَبُو دَاوُدَ فِی السُّنَنِ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ شُعْبَۃَ ۔
(١٨٦٣٩) سعید بن جبیر (رض) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اللہ کے اس فرمان : { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تھے۔ اس نے قسم کھائی اگر اولاد زندہ رہی تو وہ یہودی بن جائے گی۔ جب بنو نضیر کو جلا وطن کیا گیا تو ان میں انصار کی ” اولاد بھی تھی تو انصار نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے بیٹے تو اللہ نے { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] دین میں زبردستی نہیں نازل کی سعید بن جبیر (رض) نے کہا : جو چاہے ان کے ساتھ مل جائے جو چاہے اسلام میں داخل ہوجائے۔

18646

(١٨٦٤٠) وَرَوَاہُ أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ فَأَرْسَلَہُ ۔ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَنْبَأَنَا أَبُو مَنْصُورٍ النَّضْرَوِیُّ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] قَالَ : نَزَلَتْ فِی الأَنْصَارِ قُلْتُ : خَاصَّۃً ۔ قَالَ : خَاصَّۃً کَانَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْہُمْ إِذَا کَانَتْ نَزْرَۃً أَوْ مِقْلاَۃً تَنْذِرُ لَئِنْ وَلَدَتْ وَلَدًا لَتَجْعَلَنَّہُ فِی الْیَہُودِ تَلْتَمِسُ بِذَلِکَ طُولَ بَقَائِہِ فَجَائَ الإِسْلاَمُ وَفِیہِمْ مِنْہُمْ فَلَمَّا أُجْلِیَتِ النَّضِیرُ قَالَتِ الأَنْصَارُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَبْنَاؤُنَا وَإِخْوَانُنَا فِیہِمْ فَسَکَتَ عَنْہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَزَلَتْ { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ خُیِّرَ أَصْحَابُکُمْ فَإِنِ اخْتَارُوکُمْ فَہُمْ مِنْکُمْ وَإِنِ اخْتَارُوہُمْ فَأَجْلُوہُمْ مَعَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٠) ابو بشر اللہ کے اس فرمان کے بارے میں سعید بن جبیر (رض) سے نقل فرماتے ہیں : { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] کہ اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔ فرماتے ہیں : یہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ میں نے پوچھا : خاص انصار کے متعلق ؟ فرمایا : خاص انصار کے بارے میں۔ ان کی ایک عورت جب نذر مانتی کہ اگر اس نے بچہ جنم دیا تو اس کو یہود کے ساتھ ملا دیگی وہ اس کی لمبی زندگی کی متلاشی تھی۔ جب اسلام آیا تو بعض لوگ اس طرح کے تھے۔ جب بنو نضیر جلا وطن کیے گئے تو انصار نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے بیٹے اور بھائی ان میں موجود ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ { لاَ إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ } [البقرۃ ٢٥٦] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے ان لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے اگر ان کے ساتھ رہنا چاہیں تو جلا وطن کر دو ۔ اگر تمہارے پاس رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔

18647

(١٨٦٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَی أُکَیْدِرِ دُومَۃَ فَأَخَذُوہُ فَأَتَوْہُ بِہِ فَحَقَنَ لَہُ دَمَہُ وَصَالَحَہُ عَلَی الْجِزْیَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤١) عثمان بن ابی سلیمان فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو اکیدر دومہ کی جانب روانہ کیا تو خالد بن ولید اسے لے کر آئے اور اس کے خون کو نہ بہایا بلکہ اس نے جزیہ پر صلح کی۔

18648

(١٨٦٤٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَی أُکَیْدِرِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ رَجُلٌ مِنْ کِنْدَۃَ کَانَ مَلِکًا عَلَی دُومَۃَ وَکَانَ نَصْرَانِیًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِخَالِدٍ : إِنَّکَ سَتَجِدُہُ یَصِیدُ الْبَقَرَ ۔ فَخَرَجَ خَالِدٌ حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ حِصْنِہِ مَنْظَرَ الْعَیْنِ وَفِی لَیْلَۃٍ مُقْمِرَۃٍ صَافِیَۃٍ وَہُوَ عَلَی سَطْحٍ وَمَعَہُ امْرَأَتُہُ فَأَتَتِ الْبَقَرُ تَحُکُّ بِقُرُونِہَا بَابَ الْقَصْرِ فَقَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ : ہَلْ رَأَیْتَ مِثْلَ ہَذَا قَطُّ ؟ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ قَالَتْ : فَمَنْ یَتْرُکُ مِثْلَ ہَذَا قَالَ : لاَ أَحَدٌ فَنَزَلَ فَأَمَرَ بِفَرَسِہِ فَأُسْرِجَ وَرَکِبَ مَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ فِیہِمْ أَخٌ لَہُ یُقَالُ لَہُ حَسَّانُ فَخَرَجُوا مَعَہُ بِمَطَارِدِہِمْ فَتَلَقَّتْہُمْ خَیْلُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخَذَتْہُ وَقَتَلُوا أَخَاہُ حَسَّانَ وَکَانَ عَلَیْہِ قُبَائُ دِیبَاجٍ مُخَوَّصٌ بِالذَّہَبِ فَاسْتَلَبَہُ إِیَّاہُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَبَعَثَ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَبْلَ قُدُومِہِ عَلَیْہِ ثُمَّ إِنَّ خَالِدًا قَدِمَ بِالأُکَیْدِرِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَحَقَنَ لَہُ دَمَہُ وَصَالَحَہُ عَلَی الْجِزْیَۃِ وَخَلَّی سَبِیلَہُ فَرَجَعَ إِلَی قَرْیَتِہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْجِزْیَۃَ مِنْ أَہْلِ ذِمَّۃِ الْیَمَنِ وَعَامَّتُہُمْ عَرَبٌ وَمِنْ أَہْلِ نَجْرَانَ وَفِیہِمْ عَرَبٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٢) حضرت عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو اکیدر بن عبد الملک جو رومہ کا عیسائی بادشاہ اور کندہ کا ایک فرد تھا کی جانب روانہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید سے فرمایا کہ تو اس کو گائے کا شکار کرتے ہوئے پائے گا۔ جب خالد اس کے قلعہ پر پہنچے تو چاندنی رات میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ چھت پر موجود تھا گائے نے آ کر محل کے دروازے کے ساتھ خارش کرنا شروع کردی تو اس کی بیوی نے کہا : کیا آپ نے اس جیسا کبھی دیکھا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ اس کی بیوی نے کہا : اس جیسے کو کون چھوڑے گا ؟ اس نے کہا : کوئی بھی نہیں تو وہ نیچے اترا اور گھوڑے لانے کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے گھر والوں کے درمیان جس میں اس کا بھائی حسان بھی تھا نکلا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک گروہ نے انھیں پکڑ لیا اور اس کے بھائی حسان کو قتل کردیا۔ اس پر ریشمی قباء تھی جس پر سونے کا کام ہوا تھا تو خالد بن ولید نے آپ کے پاس آنے سے پہلے اسے روانہ کردیا۔ پھر خالد بن ولید اکیدر کو لیکر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے خون معاف کردیا اور جزیہ پر صلح کرلی اور اسے واپس جانے کی اجازت دے دی۔
شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کے ذمیوں اور عام عرب سے جزیہ وصول کیا اور اہل نجران میں بھی عرب تھے۔

18649

(١٨٦٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الْیَمَنِ وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا أَوْ عِدْلَہُ مَعَافِرَ ۔ قَالَ یَحْیَی بْنُ آدَمَ : وَإِنَّمَا ہَذِہِ الْجِزْیَۃُ عَلَی أَہْلِ الْیَمَنِ وَہُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ لأَنَّہُمْ أَہْلُ کِتَابٍ أَلاَ تَرَی أَنَّہُ قَالَ : لاَ یُفْتَنُ یَہُودِیٌّ عَنْ یَہُودِیَّتِہِ ۔ یَعْنِی فِی رِوَایَتِہِ عَنْ جَرِیرٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنِ الْحَکَمِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ کَتَبَ إِلَی مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ بِذَلِکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٤٣) معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا وصول کروں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ یمن والے عرب لوگ تھے ۔ ان سے جزیہ وصول کیا گیا۔ اس لیے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور کہا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ ؟ فرماتے ہیں کہ یہودی کی یہودی کے ذریعہ آزمائش نہ کی جائے گی۔

18650

(١٨٦٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُوعَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْیَامِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ أَنْبَأَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْہَمْدَانِیُّ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِیِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : صَالَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ نَجْرَانَ عَلَی أَلْفَیْ حُلَّۃٍ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہلنجران سے دو سو سوٹ پر صلح کی۔

18651

(١٨٦٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : قَدْ أَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْجِزْیَۃَ مِنْ أُکَیْدِرِ الْغَسَّانِیِّ وَیَرْوُونَ أَنَّہُ صَالَحَ رِجَالاً مِنَ الْعَرَبِ عَلَی الْجِزْیَۃِ فَأَمَّا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَمَنْ بَعْدَہُ مِنَ الْخُلَفَائِ إِلَی الْیَوْمِ فَقَدْ أَخَذُوا الْجِزْیَۃَ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ وَتَنُوخَ وَبَہْرَائَ وَخِلْطٍ مِنْ خِلْطِ الْعَرَبِ وَہُمْ إِلَی السَّاعَۃِ مُقِیمُونَ عَلَی النَّصْرَانِیَّۃِ یُضَاعَفُ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃُ وَذَلِکَ جِزْیَۃٌ وَإِنَّمَا الْجِزْیَۃُ عَلَی الأَدْیَانِ لاَ عَلَی الأَنْسَابِ وَلَوْلاَ أَنْ نَأْثَمَ بِتَمَنِّی بَاطِلٍ وَدِدْنَا أَنَّ الَّذِی قَالَ أَبُو یُوسُفَ کَمَا قَالَ وَأَنْ لاَ یُجْرَی صَغَارٌ عَلَی عَرَبِیٍّ وَلَکِنَّ اللَّہَ أَجَلُّ فِی أَعْیُنِنَا مِنْ أَنْ نُحِبَّ غَیْرَ مَا قَضَی بِہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٤٥) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکیدر غسانی سے جزیہ وصول کیا اور صحابہ فرماتے ہیں کہ آپ نے عرب لوگوں سے جزیہ پر صلح کی۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) اور ان کے بعد آج تک جتنے خلفاء ہوئے ہیں سب نے بنو تغلب، تنوخ، بہرأاور عرب کے لوگوں سے جزیہ وصول کیا اور قیامت تک وہ عسائیت پر رہیں گے اور ان سے جزیہ دو گناوصول کیا جائے گا اور جزیہ ادیان پر ہوتا ہے نہ کہ نسلوں پر۔ اگر ہم باطل کی تمنا کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوتے تو ہمیں وہ بات پسند ہے جو ابو یوسف نے کہی کہ ذلت کسی عربی پر مسلط نہ کی جائے گی، لیکن ہماری آنکھوں کے سامنے واضح ہے کہ ہم اس کو پسند کرتے ہیں جس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا گیا۔

18652

(١٨٦٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ الْقُرَشِیُّ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ یَوْمَ الْمَرْجِ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ لَوْلاَ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ سَیَمْنَعُ الدِّینَ بِنَصَارَی مِنْ رَبِیعَۃَ عَلَی شَاطِئِ الْفُرَاتِ ۔ مَا تَرَکْتُ عَرَبِیًّا إِلاَّ قَتَلْتُہُ أَوْ یُسْلِمَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٦) سعید بن عمرو بن سعید نے اپنے والد سے مرج کے دن سنا کہ وہ کہہ رہے تھے : میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ اللہ رب العزت ربعیہ کے انصاری سے دین کو فرأت کے کنارے پر روک دیں گے تو میں کسی عربی کو قتل کرنے سے نہ چھوڑتا یا وہ اسلام قبول کرلیتا۔

18653

(١٨٦٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی قِصَّۃِ وُرُودِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ مِنْ جِہَۃِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ الْحِیرَۃَ وَمُحَاوَرَۃِ ہَانِئِ بْنِ قَبِیصَۃَ إِیَّاہُ فَقَالَ خَالِدٌ : أَدْعُوکُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ وَإِلَی أَنْ تَشْہَدُوا أَنَّہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَتُقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَتُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَتُقِرُّوا بِأَحْکَامِ الْمُسْلِمِینَ عَلَی أَنَّ لَکُمْ مِثْلَ مَا لَہُمْ وَعَلَیْکُمْ مِثْلَ مَا عَلَیْہِمْ فَقَالَ ہَانِئٌ : فَإِنْ لَمْ أَشَأْ ذَلِکَ فَمَہْ قَالَ : فَإِنْ أَبَیْتُمْ ذَلِکَ أَدَّیْتُمُ الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ قَالَ فَإِنْ أَبَیْنَا ذَلِکَ قَالَ : فَإِنْ أَبَیْتُمْ ذَلِکَ وَطِئْتُکُمْ بِقَوْمٍ الْمَوْتُ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنَ الْحَیَاۃِ إِلَیْکُمْ فَقَالَ ہَانِئٌ : أَجِّلْنَا لَیْلَتَنَا ہَذِہِ فَنَنْظُرَ فِی أَمْرِنَا قَالَ : قَدْ فَعَلْتُ فَلَمَّا أَصْبَحَ الْقَوْمُ غَدَا ہَانِئٌ فَقَالَ : إِنَّہُ قَدِ اجْتَمَعَ أَمْرُنَا عَلَی أَنْ نُؤَدِّیَ الْجِزْیَۃَ فَہَلُمَّ فَلأُصَالِحَکَ فَقَالَ لَہُ خَالِدٌ : کَیْفَ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ تَکُونُ الْجِزْیَۃُ وَالذُّلُّ أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ الْقِتَالِ وَالْعِزِّ فَقَالَ : نَظَرْنَا فِیمَا یُقْتَلُ مِنَّا فَإِذَا ہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ وَنَظَرْنَا إِلَی مَا یُؤْخَذُ مِنَّا مِنَ الْمَالِ فَقَلَّمَا نَلْبَثُ حَتَّی یُخْلِفَہُ اللَّہُ لَنَا قَالَ : فَصَالَحَہُمْ خَالِدٌ عَلَی تِسْعِینَ أَلْفًا۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٧) ابن اسحاق خالد بن ولید کے ابوبکر صدیق (رض) کی جانب سے حیرہشہر میں ورود کے قصہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور محاورہ ہانی بن قبیصہ بیان کرتے ہیں کہ خالد بن ولید نے فرمایا : میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد بندے اور رسول ہیں اور تم قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور تم پر مسلمانوں والے احکام جاری ہوں گے اور تم پر وہ ذمے داریاں عائد ہوں گی جو ان پر ہیں۔ ہانی نے کہا : اگر ہم اس کو بھی نہ مانیں۔ فرمایا : اگر تم اس بات کو بھی نہیں مانتے تو تم جزیہ ادا کرو۔ اس نے کہا : اگر میں یہ نہ چاہوں۔ فرمایا اگر تم اس بات کو نہیں مانتے تو پھر تمہارا واسطہ ایسی قوم سے پڑے گا جنہیں موت زندگی سے زیادہ محبوب ہے جیسے تمہیں زندگی محبوب ہے۔ ہانی نے کہا : آپ ہمیں ایک رات مہلت دیں۔ ہم اپنے معاملے میں سوچ وبچار کرلیں۔ کہنے لگے : میں آپ کو مہلت دیتا ہوں ۔ جب لوگوں نے صبح کی تو ہانی نے آ کر کہا کہ ہم اس پر متفق ہوئے ہیں کہ ہم جزیہ ادا کیا کریں گے۔ آؤ میں آپ سے صلح کرنا چاہتا ہوں۔ خالد نے کہا : تم عرب لوگ ہو جزیہ اور ذلت کو لڑائی اور عزت پر ترجیح دے رہے ہو۔ اس نے کہا : ہم نے غور وفکر کیا۔ جو ہمارے قتل کیے جائیں گے وہ کبھی واپس نہ لوٹیں گے اور جو ہم سے مال لیا جائے گا تھوڑی مدت کے بعد اللہ رب العزت اور دے دیں گے تو حضرت خالد نے نوے ہزار پر صلح کی۔

18654

(١٨٦٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی سُوَیْدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مَسْعُودٍ النَّہْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ یَحْیَی بْنِ عُمَارَۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : عَادَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَبَا طَالِبٍ وَعِنْدَہُ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَعِنْدَ رَأْسِہِ مَقْعَدُ رَجُلٍ فَلَمَّا رَآہُ أَبُو جَہْلٍ قَامَ فَجَلَسَ فَقَالَ : ابْنُ أَخِیکَ یَذْکَرُ آلِہَتَنَا فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ : مَا شَأْنُ قَوْمِکَ یَشْکُونَکَ قَالَ : یَا عَمِّ أُرِیدُہُمْ عَلَی کَلِمَۃٍ تَدِینُ لَہُمُ الْعَرَبُ وَتُؤَدِّی إِلَیْہِمُ الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ ۔ قَالَ : مَا ہِیَ ؟ قَالَ : شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ۔ فَقَامُوا وَقَالُوا : أَجَعَلَ الآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا قَالَ وَنَزَلَ { ص وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ } حَتَّی إِذَا بَلَغَ {إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} [صٓ ١-٥] لَفْظُ حَدِیثِ الْمُقْرِئِی۔[ضعیف ]
(١٨٦٤٨) سعید بن جبیر (رض) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب کی تیمارداری فرمائی۔ اس وقت ان کے پاس قریشی لوگ تھے۔ جب آپ کھڑے ہوئے تو ابو جہل آپ کی جگہ بیٹھ کر کہنے لگا : آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کا تذکرہ کرتا تھا تو ابو طالب نے کہا : آپ کی قوم شکایت کر رہی ہے۔ آپ نے فرمایا : اے چچا ! میرا ارادہ ہے کہ اس بات کو اہل عرب قبول کرلیں تو عجم والے ان کو جزیہ دیں گے۔ پوچھا : کون سی بات ؟ آپ نے فرمایا : اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو انھوں نے کہا : کیا آپ نے صرف ایک ہی معبود بنادیا ؟ پھر سورة ص کی آیات نازل ہوئیں : { صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ } { اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ } [صٓ: ١-٥] تک۔

18655

(١٨٦٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَائٍ أَنْبَأَنَا عِمْرَانُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : نَزَلَتْ صُحُفُ إِبْرَاہِیمَ أَوَّلَ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ وَأُنْزِلَتِ التَّوْرَاۃُ لِسِتٍّ مَضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ وَأُنْزِلَ الإِنْجِیلُ لِثَلاَثِ عَشْرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ وَأُنْزِلَ الزَّبُورُ لِثَمَانِ عَشْرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ وَالْقُرْآنُ لأَرْبَعٍ وَعِشْرِینَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ ۔ وَفِیمَا رَوَی الرَّبِیعُ بْنُ صَبِیحٍ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ قَالَ : أَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی مِائَۃً وَأَرْبَعَۃَ کُتُبٍ مِنَ السَّمَائِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٤٩) واثلہ بن اسقع نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ یکم رمضان کو ابراہیم کے صحیفے نازل ہوئے اور چھ رمضان کو توراۃ نازل کی گئی اور ١٣ رمضان کو انجیل نازل کی گئی اور ١٨ رمضان کو زبور کا نزول ہوا اور ٢٦ رمضان کو قرآن نازل ہوا۔
(ب) حسن بصری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ١٠٤ کتب آسمان سے نازل فرمائیں۔

18656

(١٨٦٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ أَبِی سَعْدٍ : سَعِیدِ بْنِ الْمَرْزُبَانِ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ قَالَ فَرْوَۃُ بْنُ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیُّ : عَلاَمَ تُؤْخَذُ الْجِزْیَۃُ مِنَ الْمَجُوسِ وَلَیْسُوا بِأَہْلِ کِتَابٍ فَقَامَ إِلَیْہِ الْمُسْتَوْرِدُ فَأَخَذَ یُلَبِّبُہِ فَقَالَ : یَا عَدُوَّ اللَّہِ تَطْعَنُ عَلَی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَعَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ یَعْنِی عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَقَدْ أَخَذُوا مِنْہُمُ الْجِزْیَۃَ فَذَہَبَ بِہِ إِلَی الْقَصْرِ فَخَرَجَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَیْہِمَا فَقَالَ : الْبِدَائَ فَجَلَسَا فِی ظِلِّ الْقَصْرِ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِالْمَجُوسِ کَانَ لَہُمْ عِلْمٌ یُعَلِّمُونَہُ وَکِتَابٌ یَدْرُسُونَہُ وَإِنَّ مَلِکَہُمْ سَکِرَ فَوَقَعَ عَلَی ابْنَتِہِ أَوْ أُخْتِہِ فَاطَّلَعَ عَلَیْہِ بَعْضُ أَہْلِ مَمْلَکَتِہِ فَلَمَّا صَحَا جَائُ وا یُقِیمُونَ عَلَیْہِ الْحَدَّ فَامْتَنَعَ مِنْہُمْ فَدَعَا أَہْلَ مَمْلَکَتِہِ فَلَمَّا أَتَوْہُ قَالَ : تَعْلَمُونَ دِینًا خَیْرًا مِنْ دِینِ آدَمَ وَقَدْ کَانَ یُنْکِحُ بَنِیہِ مِنْ بَنَاتِہِ وَأَنَا عَلَی دِینِ آدَمَ مَا یَرْغَبُ بِکُمْ عَنْ دِینِہِ قَالَ : فَبَایَعُوہُ وَقَاتَلُوا الَّذِینَ خَالَفُوہُمْ حَتَّی قَتَلُوہُمْ فَأَصْبَحُوا وَقَدْ أُسْرِیَ عَلَی کِتَابِہِمْ فَرُفِعَ مِنْ بَیْنِ أَظْہُرِہِمْ وَذَہَبَ الْعِلْمُ الَّذِی فِی صُدُورِہِمْ فَہُمْ أَہْلُ کِتَابٍ وَقَدْ أَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا مِنْہُمُ الْجِزْیَۃَ ۔ وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو : مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ الْعَاصِمِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا بَکْرٍ : مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ یَقُولُ : وَہِمَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ فِی ہَذَا الإِسْنَادِ رَوَاہُ عَنْ أَبِی سَعْدٍ الْبَقَّالِ فَقَالَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ وَنَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ ہُوَ اللَّیْثِیُّ وَإِنَّمَا ہُوَ عِیسَی بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِیُّ کُوفِیٌّ قَالَ ابْنُ خُزَیْمَۃَ وَالْغَلَطُ فِیہِ مِنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ لاَ مِنَ الشَّافِعِیِّ فَقَدْ رَوَاہُ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ غَیْرُ الشَّافِعِیِّ فَقَالَ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٥٠) فروہ بن نوفل اشجعی نے کہا : آپ مجوس سے جزیہ کیوں لیں گے حالانکہ وہ اہل کتاب نہیں ؟ تو مستورد نے کہا : اے اللہ کے دشمن ! آپ ابوبکر (رض) ، عمر (رض) اور حضرت علی (رض) پر تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے ان سے جزیہ وصول کیا۔ جب وہ شاہی محل میں گئے تو حضرت علی (رض) ان کے پاس آئے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں محل کے سائے میں بیٹھ گئے تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں مجوس کے متعلق جانتا ہوں کہ وہ علم سکھاتے تھے اور کتاب پڑھاتے تھے۔ ان کے بادشاہ نے حالتنشہ میں اپنی بیٹی یا بہن سے زنا کرلیا۔ جس کا علم بعض لوگوں کو ہوگیا تو وہ حد کے نفاذ کے لیے آئے۔ انھوں نے ان کو روک دیا۔ پھر اس نے اپنے لوگوں کو بلا کر کہا کہ کیا آدم کے دین سے بہتر بھی کوئی دین ہے، جس میں وہ اپنے بیٹوں کا نکاح اپنی بیٹیوں سے کردیتے تھے، میں آدم کے دین پر ہوں۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے اس کی بیعت کی اور اپنے نفسوں کو قتل کردیا اور انھیں کتابوں سمیت قیدی بنایا گیا تو انھیں کے درمیان سے ان کو اٹھا لیا گیا۔ ان کا علم ختم کردیا گیا وہ اہل کتاب تھے۔ ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے جزیہ وصول کیا۔

18657

(١٨٦٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً أَنْبَأَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ سَمِعَ بَجَالَۃَ بْنَ عَبَدَۃَ یَقُولُ : کُنْتُ کَاتِبًا لِجَزْئِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَمِّ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ فَأَتَاہُ کِتَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَفَرِّقُوا بَیْنَ کُلِّ ذِی مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوسِ وَلَمْ یَکُنْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّی شَہِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخَذَہَا مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ ۔
(١٨٦٥١) بجالہ بن عبدہ کہتے ہیں کہ میں جزء بن معاویہ کا کاتب تھا جو احنف بن قیس کے چچا ہیں۔ ان کے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا کہ تمام جادو گروں کو قتل کر دو اور مجوس کے محرم رشتہ داروں کے درمیان تفریق کر دو اور حضرت عمر (رض) نے عبد الرحمن بن عوف (رض) کی شہادت تک مجوس سے جزیہ نہ لیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کے مجوس سے جزیہ لیا تھا۔ [صحیح۔ لابن خزیمہ)

18658

(١٨٦٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ فَذَکَرَہُ بِإِسْنَادِہِ مُخْتَصَرًا فِی الْجِزْیَۃِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : حَدِیثُ بَجَالَۃَ مُتَّصِلٌ ثَابِتٌ لأَنَّہُ أَدْرَکَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ رَجُلاً فِی زَمَانِہِ کَاتِبًا لِعُمَّالِہِ وَحَدِیثُ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُتَّصِلٌ وَبِہِ نَأْخُذُ وَقَدْ رُوِیَ مِنْ حَدِیثِ الْحِجَازِ حَدِیثَانِ مُنْقَطِعَانِ بِأَخْذِ الْجِزْیَۃِ مِنَ الْمَجُوسِ ۔ [صحیح۔ بخاری ١٣٥٧]
(١٨٦٥٢) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ حدیث بجالہ متصل ثابت ہے کیونکہ یہ حضرت عمر (رض) کے دور میں ان عاملوں کے کاتب تھے اور نصر بن عاصم جو حضرت علی (رض) سے اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم ان سے جزیہ لیتے تھے اور دو احادیث اہل حجاز سے منقطع ہیں کہ وہ مجوس سے جزیہ لیتے تھے۔

18659

(١٨٦٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٥٣) جعفر بن محمد اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجوس کا تذکرہ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ ان کے بارے کیا فیصلہ کروں تو حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے گواہی دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ اہل کتاب کا معاملہ کرتے تھے۔

18660

(ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا مَالِکٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ذَکَرَ الْمَجُوسَ فَقَالَ : مَا أَدْرِی کَیْفَ أَصْنَعُ فِی أَمْرِہِمْ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَشْہَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : سُنُّوا بِہِمْ سُنَّۃَ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٥٤) جعفر بن محمد اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو میں نے گواہی پیش کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اہل کتاب والا معاملہ کیا تھا۔

18661

(١٨٦٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ : أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَیْنِ وَأَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخَذَہَا مِنَ الْبَرْبَرِ ۔ زَادَ ابْنُ وَہْبٍ فِی رِوَایَتِہِ : وَأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخَذَہَا مِنْ مَجُوسِ فَارِسَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَابْنُ شِہَابٍ إِنَّمَا أَخَذَ حَدِیثَہُ ہَذَا عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ وَابْنُ الْمُسَیَّبِ حَسَنُ الْمُرْسَلِ کَیْفَ وَقَدِ انْضَمَّ إِلَیْہِ مَا تَقَدَّمَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٥٥) ابن شہاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحرین کے مجوس سے جزیہ وصول فرمایا اور حضرت عثمان (رض) نے بربر کے مجوس سے جزیہ حاصل کیا۔ ابن وھب نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فارس کے مجوس سے جزیہ لیا۔

18662

(١٨٦٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ بْنُ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ وَأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخَذَہَا مِنْ مَجُوسِ السَّوَادِ وَأَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخَذَہَا مِنْ مَجُوسِ بَرْبَرَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٥٦) سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجر کے مجوس سے جزیہ حاصل کیا اور حضرت عمر (رض) نے سواد کے مجوس سے جزیہ لیا اور حضرت عثمان (رض) نے بربر کے مجوس سے جزیہ وصول فرمایا۔

18663

(١٨٦٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْکِینٍ الْیَمَامِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ قُشَیْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ بَجَالَۃَ بْنِ عَبَدَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : جَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْبَذِیِّینَ مِنْ أَہْلِ الْبَحْرَیْنِ وَہُمْ مَجُوسُ أَہْلِ ہَجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَکَثَ عِنْدَہُ ثُمَّ خَرَجَ فَسَأَلْتُہُ مَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ فِیکُمْ ؟ قَالَ : شَرًّا قُلْتُ : مَہْ قَالَ الإِسْلاَمُ أَوِ الْقَتْلُ ۔ قَالَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَبِلَ مِنْہُمُ الْجِزْیَۃَ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : وَأَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَتَرَکُوا مَا سَمِعْتُ أَنَا مِنَ الأَسْبَذِیِّ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : نِعْمَ مَا صَنَعُوا تَرَکُوا رِوَایَۃَ الأَسْبَذِیِّ الْمَجُوسِیِّ وَأَخَذُوا بِرِوَایَۃِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی أَنَّہُ قَدْ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ بِمَا قَالَ الأَسْبَذِیُّ ثُمَّ یَأْتِیہِ الْوَحْیُ بِقَبُولِ الْجِزْیَۃِ مِنْہُمْ فَیَقْبَلُہَا کَمَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٥٧) بجالہ بن عبدہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سینقل فرماتے ہیں کہ ایک بحرین کا شخص جو ہجر کے مجوس میں سے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ کے پاس ٹھہرا رہا ۔ پھر اس کے نکلنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے بارے اللہ ورسول نے کیا فیصلہ فرمایا ہے ؟ اس نے کہا : برا۔ میں نے کہا : کیا۔ اس نے کہا : اسلام قبول کرو یا قتل۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ قبول کرلیا تھا۔
(ب) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے عبد الرحمن بن عوف (رض) کی بات قبول کی لیکن جو میں نے ایک اسبذی سے سنا تھا اس کو ترک کردیا۔
شیخ فرماتے ہیں : انھوں نے اسبزی مجوسی کی بات کو چھوڑ کر حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) کی بات کو قبول کیا ہے، کیونکہ اس سے بات چیت کے بعد وحی آئی جس کی بنا پر آپ نے جزیہ قبول فرمایا۔

18664

(١٨٦٥٨) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَنْبَأَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَتَّابٍ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَہُ : أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ حَلِیفُ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی الْبَحْرَیْنِ یَأْتِی بِجِزْیَتِہَا وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہُوَ صَالَحَ أَہْلَ الْبَحْرَیْنِ وَأَمَّرَ عَلَیْہِمُ الْعَلاَئَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ فَقَدِمَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَیْنِ فَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِہِ فَوَافَتْ صَلاَۃَ الصُّبْحِ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَہُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ رَآہُمْ وَقَالَ : أَظُنُّکُمْ سَمِعْتُمْ بِقُدُومِ أَبِی عُبَیْدَۃَ وَإِنَّہُ جَائَ بِشَیْئٍ ۔ فَقَالُوا : أَجَلْ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ : أَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا یَسُرُّکُمْ فَوَاللَّہِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَی عَلَیْکُمْ وَلَکِنْ أَخْشَی عَلَیْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْیَا عَلَیْکُمْ کَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَتَنَافَسُوہَا وَتُلْہِیَکُمْ کَمَا أَلْہَتْہُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی أُوَیْسٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٥٨) عمرو بن عوف جو بنو عامر بن لوی کے حلیف اور بدری صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو عبیدہ بن جراح کو بحرین کے مجوس سے جزیہ لینے کے لیے روانہ کیا اور بحرین کے امیرعلاء بن حضرمی تھے جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کے بعد مقرر فرمایا تھا۔ جب ابو عبیدہ بحرین سے مال لیکر آئے اور انصار کو ان کے آنے کی خبر ملیتو انھوں نے صبح کی نماز آپ کے ساتھ مکمل کی اور آپ کے درپے ہوگئے تو آپ ان کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا : تمہیں ابو عبیدہ کے مال لانے کی خبر ملی ہوگی ؟ انھوں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے صحیح فرمایا۔ فرمایا : خوشخبری حاصل کرو جو تمہیں خوش کر دے گی مجھے تمہاری فقیری کا ڈر نہیں۔ لیکن تمہاری دنیا کی خوشحالی سے ڈرتا ہوں۔ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی پھر انھوں نے اس میں رغبت کی تو اس دنیا نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ کہیں تمہیں بھی ہلاک نہ کر دے۔

18665

(١٨٦٥٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ صَالَحٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْحَسَنِ الْحُلْوَانِیِّ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔
(١٨٦٥٩) ایضا۔

18666

(١٨٦٦٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ الْعَلاَئِ الرَّقِّیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیُّ وَزِیَادُ بْنُ جُبَیْرٍ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ حَیَّۃَ قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ النَّاسَ مِنْ أَفْنَائِ الأَمْصَارِ یُقَاتِلُونَ الْمُشْرِکِینَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی إِسْلاَمِ الْہُرْمُزَانِ قَالَ فَقَالَ : إِنِّی مُسْتَشِیرُکَ فِی مَغَازِیَّ ہَذِہِ فَأَشِرْ عَلَیَّ فِی مَغَازِی الْمُسْلِمِینَ قَالَ : نَعَمْ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ الأَرْضُ مَثَلُہَا وَمَثَلُ مَنْ فِیہَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِینَ مَثَلُ طَائِرٍ لَہُ رَأْسٌ وَلَہُ جَنَاحَانِ وَلَہُ رِجْلاَنِ فَإِنْ کُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَیْنِ نَہَضَتِ الرِّجْلاَنِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ وَإِنْ کُسِرَ الْجَنَاحُ الآخَرُ نَہَضَتِ الرِّجْلاَنِ وَالرَّأْسُ وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَہَبَتِ الرِّجْلاَنِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسِ فَالرَّأْسُ کِسْرَی وَالْجَنَاحُ قَیْصَرُ وَالْجَنَاحُ الآخَرُ فَارِسُ فَمُرِ الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَنْفِرُوا إِلَی کِسْرَی فَقَالَ بَکْرٌ وَزِیَادٌ جَمِیعًا عَنْ جُبَیْرِ بْنِ حَیَّۃَ قَالَ : فَنَدَبَنَا عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْنَا رَجُلاً مِنْ مُزَیْنَۃَ یُقَالُ لَہُ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَحَشَرَ الْمُسْلِمِینَ مَعَہُ قَالَ : وَخَرَجْنَا فِیمَنْ خَرَجَ مِنَ النَّاسِ حَتَّی إِذَا دَنَوْنَا مِنَ الْقَوْمِ وَأَدَاۃُ النَّاسِ وَسِلاَحُہُمُ الْجَحَفُ وَالرِّمَاحُ الْمُکَسَّرَۃُ وَالنَّبْلُ قَالَ : فَانْطَلَقْنَا نَسِیرُ وَمَا لَنَا کَثِیرُ خُیُولٍ أَوْ مَا لَنَا خُیُولٌ حَتَّی إِذَا کُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ وَبَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ نَہَرٌ خَرَجَ عَلَیْنَا عَامِلٌ لِکِسْرَی فِی أَرْبَعِینَ أَلْفًا حَتَّی وَقَفُوا عَلَی النَّہَرِ وَوَقَفْنَا مِنْ حِیَالِہِ الآخَرِ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَخْرِجُوا إِلَیْنَا رَجُلاً یُکَلِّمُنَا فَأُخْرِجَ إِلَیْہِ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ وَکَانَ رَجُلاً قَدِ اتَّجَرَ وَعَلِمَ الأَلْسِنَۃَ قَالَ فَقَامَ تُرْجُمَانُ الْقَوْمِ فَتَکَلَّمَ دُونَ مَلِکِہِمْ قَالَ فَقَالَ لِلنَّاسِ : لِیُکَلِّمْنِی رَجُلٌ مِنْکُمْ فَقَالَ الْمُغِیرَۃُ : سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَقَالَ : مَا أَنْتُمْ فَقَالَ : نَحْنُ نَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ کُنَّا فِی شَقَائٍ شَدِیدٍ وَبَلاَئٍ طَوِیلٍ نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَی مِنَ الْجُوعِ وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ فَبَیْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ بَعَثَ رُبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرْضِ إِلَیْنَا نَبِیًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاہُ وَأُمَّہُ فَأَمَرَنَا نَبِیُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ نَقَاتِلَکُمْ حَتَّی تَعْبُدُوا اللَّہَ وَحْدَہُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْیَۃَ وَأَخْبَرَنَا نَبِیُّنَا عَنْ رِسَالَۃِ رَبِّنَا أَنَّہُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَی جَنَّۃٍ وَنَعِیمٍ لَمْ یَرَ مِثْلَہُ قَطُّ وَمَنْ بَقِیَ مِنَّا مَلَکَ رِقَابَکُمْ قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ بَعْدَ غَدٍ حَتَّی نَأْمُرَ بِالْجِسْرِ یُجْسَرُ قَالَ : فَافْتَرَقُوا وَجَسَرُوا الْجِسْرَ ثُمَّ إِنَّ أَعْدَائَ اللَّہِ قَطَعُوا إِلَیْنَا فِی مِائَۃِ أَلْفٍ سِتُّونَ أَلْفًا یَجُرُّونَ الْحَدِیدَ وَأَرْبَعُونَ أَلْفًا رُمَاۃُ الْحَدَقِ فَأَطَافُوا بِنَا عَشَرَ مَرَّاتٍ قَالَ : وَکُنَّا اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا فَقَالُوا ہَاتُوا لَنَا رَجُلاً یُکَلِّمُنَا فَأَخْرَجْنَا الْمُغِیرَۃَ فَأَعَادَ عَلَیْہِمْ کَلاَمَہُ الأَوَّلَ فَقَالَ الْمَلِکُ : أَتَدْرُونَ مَا مَثَلُنَا وَمَثَلُکُمْ قَالَ الْمُغِیرَۃُ : مَا مَثَلُنَا وَمَثَلُکُمْ قَالَ : مَثَلُ رَجُلٍ لَہُ بُسْتَانٌ ذُو رَیَاحِینَ وَکَانَ لَہُ ثَعْلَبٌ قَدْ آذَاہُ فَقَالَ لَہُ رَبُّ الْبُسْتَانِ یَا أَیُّہَا الثَّعْلَبُ لَوْلاَ أَنْ یُنْتِنَ حَائِطِی مِنْ جِیفَتِکَ لَہَیَّأْتُ مَا قَدْ قَتَلَکَ وَإِنَّا لَوْلاَ أَنْ تُنْتِنَ بَلاَدُنَا مِنْ جِیَفِکُمْ لَکِنَّا قَدْ قَتَلْنَاکُمْ بِالأَمْسِ قَالَ لَہُ الْمُغِیرَۃُ : ہَلْ تَدْرِی مَا قَالَ الثَّعْلَبُ لِرَبِّ الْبُسْتَانِ قَالَ : مَا قَالَ لَہُ قَالَ قَالَ لَہُ : یَا رَبَّ الْبُسْتَانِ أَنْ أَمُوتَ فِی حَائِطِکَ ذَا بَیْنَ الرَّیَاحِینِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَخْرُجَ إِلَی أَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِہَا شَیْئٌ وَإِنَّہُ وَاللَّہِ لَوْ لَمْ یَکُنْ دِینٌ وَقَدْ کُنَّا مِنْ شَقَائِ الْعَیْشِ فِیمَا ذَکَرْتُ لَکَ مَا عُدْنَا فِی ذَلِکَ الشَّقَائِ أَبَدًا حَتَّی نُشَارِکَکُمْ فِیمَا أَنْتُمْ فِیہِ أَوْ نَمُوتَ فَکَیْفَ بِنَا وَمَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَی رَحْمَۃِ اللَّہِ وَجَنَّتِہِ وَمَنْ بَقِیَ مِنَّا مَلَکَ رِقَابَکُمْ قَالَ جُبَیْرٌ : فَأَقَمْنَا عَلَیْہِمْ یَوْمًا لاَ نُقَاتِلُہُمْ وَلاَ یُقَاتِلُنَا الْقَوْمُ قَالَ فَقَامَ الْمُغِیرَۃُ إِلَی النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا أَیُّہَا الأَمِیرُ إِنَّ النَّہَارَ قَدْ صَنَعَ مَا تَرَی وَاللَّہِ لَوْ وُلِّیتُ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مِثْلَ الَّذِی وُلِّیتَ مِنْہُمْ لأَلْحَقْتُ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ حَتَّی یَحْکُمَ اللَّہُ بَیْنَ عِبَادَہِ بِمَا أَحَبَّ فَقَالَ النُّعْمَانُ : رُبَّمَا أَشْہَدَکَ اللَّہُ مِثْلَہَا ثُمَّ لَمْ یُنَدِّمْکَ وَلَمْ یُخْزِکَ وَلَکِنِّی شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَثِیرًا کَانَ إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ فِی أَوَّلِ النَّہَارِ انْتَظَرَ حَتَّی تَہُبَّ الأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ أَلاَ أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی لَسْتُ لِکُلِّکُمْ أُسْمِعُ فَانْظُرُوا إِلَی رَایَتِی ہَذِہِ فَإِذَا حَرَّکْتُہَا فَاسْتَعِدُّوا مَنْ أَرَادَ أَنْ یَطْعَنَ بِرُمْحِہِ فَلْیُیَسِّرْ وَمَنْ أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ بِعَصَاہُ فَلْیُیَسِّرْ عَصَاہُ وَمَنْ أَرَادْ أَنْ یَطْعَنَ بِخِنْجَرِہِ فَلْیُیَسِّرْہُ وَمَنْ أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ بِسَیْفِہِ فَلْیُیَسِّرْ سَیْفَہُ أَلاَ أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی مُحَرِّکُہَا الثَّانِیَۃَ فَاسْتَعِدُّوا ثُمَّ إِنِّی مُحَرِّکُہَا الثَّالِثَۃَ فَشُدُّوا عَلَی بَرَکَۃِ اللَّہِ فَإِنْ قُتِلْتُ فَالأَمِیرُ أَخِی فَإِنْ قُتِلَ أَخِی فَالأَمِیرُ حُذَیْفَۃُ فَإِنْ قُتِلَ حُذَیْفَۃُ فَالأَمِیرُ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَالَ وَحَدَّثَنِی زِیَادٌ أَنَّ أَبَاہُ قَالَ : قَتَلَہُمُ اللَّہُ فَنَظَرْنَا إِلَی بَغْلٍ مُوقِرٍ عَسَلاً وَسَمْنًا قَدْ کُدِسَتِ الْقَتْلَی عَلَیْہِ فَمَا أُشَبِّہُہُ إِلاَّ کَوْمًا مِنْ کَوْمِ السَّمَکِ یُلْقَی بَعْضُہُ عَلَی بَعْضٍ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ إِنَّمَا یَکُونُ الْقَتْلُ فِی الأَرْضِ وَلَکِنْ ہَذَا شَیْئٌ صَنَعَہُ اللَّہُ وَظَہَرَ الْمُسْلِمُونَ وَقُتِلَ النُّعْمَانُ وَأَخُوہُ وَصَارَ الأَمْرُ إِلَی حُذَیْفَۃَ فَہَذَا حَدِیثُ زِیَادٍ وَبَکْرٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣١٦٠]
(١٨٦٦٠) جبیر بن حیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مشرکوں سے قتال کے لیے مختلف شہروں میں لوگوں کو روانہ کیا۔ اس نے حدیث ذکر کی جس میں ہرمزان کے اسلام لانے کا تذکرہ بھی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہہرمزان نے اپنے سپائیوں سے مشورہ طلب کیا کہ مجھے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے بارے میں مشورہ دو تو ان ہونے کہا : اے امیر المؤمنین ! اس زمین کی مثال اور جس زمین میں یہ لوگ رہتے ہیں ایک پرندے کی ہے کہ ایک اس کا سر، دو پر، دو پاؤں ہیں، اگر ایک پر کاٹ دیا جائے تو ایک پر، دو پاؤں اور ایک سر سے پرواز کرے گا۔ اگر دوسرا پر بھی کاٹ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ذریعہ اڑے گا۔ اگر سر بھی کچل دیا جائے تو پھر پاؤں، پر اور سر سب ختم ہوجائیں گے۔ سر سے مراد کسریٰ ، پر سے مراد قیصر، دوسرا پر فارس۔ آپ مسلمانوں کو حکم دیں کہ وہ کسریٰ کی جانب جائیں۔ بکر و زیاد دونوں جبیر بن حیہ سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ہمیں بلوا کر ہمارا امیر مزینہ قبیلی کے نعمان بن مقرن کو بنادیا۔ راوی کہتے ہیں : ہم بھی لوگوں کے ساتھ نکل پڑے اور جب ہم ایسی قوم کے قریب ہوئے جن کے سامان حرب نیزے وغیرہ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ہم چلتے رہے۔ جب دشمن کے قریب آئے تو ہمارے پاس زیادہ گھوڑے نہ تھے۔ ہمارے اور دشمن کے درمیان ایک نہر تھی۔ کسریٰ کے عامل نے ٤٠ ہزار کا لشکر لا کر نہر کی دوسری جانب کھڑا کردیا۔ اس نے کہا : بات چیت کے لیے کوئی آدمی نکالو۔ مغیرہ بن شعبہ کو نکالا گیا کیونکہ یہ تاجر آدمی تھے زبان سمجھتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ ترجمان نے بات چیت شروع کی۔ کہنے لگا : تمہارا کوئی اور آدمی بات کرے تو حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا : جو چاہو پوچھو۔ اس ترجمان نے پوچھا : تم کون ہو ؟ تو مغیرہ کہنے لگے : ہم عرب لوگ ہیں مصیبت کے مارے ہوئے، پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہم تو بھوک کے مارے چمڑے کو چوستے ہیں اور گھٹلیاں کھاتے ہیں۔ ہم اونی اور بالوں والا لباس پہنتے ہیں، ہم شجر وحجر کی عبادت کرتے تھے کہ آسمانوں و زمین کے رب نے ہماری جانب ہمارے اندر سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما دیا۔ جس کے والدین کو ہم جانتے ہیں تو ہمارے رب کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ تمہارے ساتھ قتال کریں یہاں تک کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو یا جزیہ ادا کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ بھی خبر دی کہ شہادت کے بعد نعمتوں والی جنت ملے گی۔ جن کو تم نے کبھی دیکھا بھی نہ ہوگا اور تمہارے باقی ماندہ لوگ تمہاری گردنوں کے مالک بن جائیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس شخص نے کہا : کل ہم اپنے اور تمہارے درمیان پل بنانے کا حکم دے دیں گے۔ راوی کہتے ہیں : جب پل بن گیا تو اللہ کے دشمنوں نے ہماری طرف ایک لاکھ کا لشکر مرتب کیا۔ ٦٠ ہزار کا لشکر وہ لوہے میں غرق اور ٤٠ ہزار تیر انداز۔ وہ ہمارے اردگرد دس مرتبہ گھومے۔ راوی کہتے ہیں : ہم صرف ٤ ہزار تھے۔ انھوں نے پھر کہا : کوئی آدمی نکالو جو ہم سے بات چیت کرے۔ ہم نے پھر مغیرہ بن شعبہ کو نکالا تو انھوں نے پہلے والی کلام دھرائی۔ بادشاہ نے کہا : تم اپنی اور ہماری مثال کو جانتے ہو ؟ تو مغیرہ بن شعبہ نے کہا : ہماری اور تمہاری کیا مثال ہے ؟ اس بادشاہ نے کہا : اس شخص کی مثال جس کے پاس دو بہترین باغ ہوں اور ایک لومڑی نے اس کو تکلیف دی ہو تو باغ کا مالک کہتا ہے : اے لومڑی ! اگر تو میرے باغ کو اپنے مردار جسم سے خالی نہ کرے تو میں کسی کو تیار کیے دیتا ہوں جو تجھے قتل کر دے گا۔ اگر تم ہمارے شہروں کو خالی کر دو تو درست وگرنہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے تو مغیرہ کہنے لگے : جانتے ہو لومڑی نے بستان کے مالک کو کیا جواب دیا تھا ؟ تو بادشاہ کہنے لگا : کیا اس نے جواب دیا اس نے۔ مغیرہ فرماتے ہیں کہ اس نے کہا : اے باغ کے مالک ! مجھے تیرے باغ میں مرنا زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں اپنی زمین پر جاؤں جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ! ہمارا کوئی دین نہ تھا اور ہم بدحال تھے۔ جو میں نے تیرے سامنے بیان کیا ہم اس صورت حال میں واپس نہیں جانا چاہتے یا تو تمہارے ساتھ شریک ہوں گے یا مارے جائیں گے۔ جو مارا گیا وہ اللہ کی رحمت اور جنت کا وارث جو باقی بچا وہ تمہاری گردنوں کا وارث یعنی بادشاہ ہوگا۔ جبیر کہتے ہیں : ایک دن تک نہ انھوں نے اور نہ ہی ہم نے لڑائی کی۔ مغیرہ نے نعمان بن مقرن سے کہا : اے امیر ! دن گزر گیا، جس طرح اللہ نے آپ کو امیر بنایا ہے اگر میں ہوتا تو جنگ شروع کروا چکا ہوتا۔ پھر جو اللہ کو منظور ہوتا فیصلہ فرما دیتے۔ نعمان بن مقرن نے کہا : اللہ گواہ ہے آپ کو ندامت اور پریشانی نہ ہو۔ میں جتنی بار بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر تھا ۔ آپ دن کے ابتدائی حصہ میں لڑائی نہ کرتے بلکہ ہواؤں کے چلنے اور نماز کا انتظار فرماتے۔ خبردار ! اے لوگو ! میں تم کو آواز نہ دوں گا بلکہ میرے جھنڈے کو دیکھتے رہنا ، جب میں اس کو حرکت دوں تو تیاری کرلینا۔ جو نیزہ مارنا چاہے یا لاٹھی تو اپنے ہتھیار تیار کرلینا۔ جو خنجر یا تلوار مارنا چاہے وہ بھی تیاری کرلے۔ جب دوسری مرتبہ جھنڈے کو حرکت دوں تب ہی تیار ہو جاؤ جب تیسری بار حرکت دی جائے تو حملہ کردینا۔ اگر میں قتل ہو جاؤں تو میرا بھائی امیر ہوگا۔ اگر وہ شھید ہوجائے تو حضرت حذیفہ امیر ہوں گے۔ اگر وہ بھی مارے جائیں تو مغیرہ بن شعبہ امیر ہوں گے۔
(ب) زیاد کے وامر بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کو قتل کر ڈالا تو ہم نے ایک خچر شھد وگھی سے لدی ہوئی دیکھی کہ مقتولوں کا ڈھیر تھا۔ اس کے مثل کوئی چیز نہ تھی جیسے کستوری کا ڈھیر ہوتا ہے جسے ایک دوسرے کے اوپر ڈالا گیا ہے۔ میں پہچان گیا کہ زمین میں قتل ہے لیکن یہ چیز اللہ نے مقدر کی تھی۔ مسلمان غالب آگئے۔ نعمان بن مقرن اور ان کے بھائی شہید ہوگئے اور حضرت حذیفہ امیر تھے۔

18667

(١٨٦٦١) قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ الْحَنَفِیُّ قَالَ : کَتَبَ حُذَیْفَۃُ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ أُصِیبَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفِیمَنْ لاَ یُعْرَفُ أَکْثَرُ فَلَمَّا قَرَأَ الْکِتَابَ رَفَعَ صَوْتَہُ ثُمَّ بَکَی وَبَکَی فَقَالَ : بَلِ اللَّہُ یَعْرِفُہُمْ ثَلاَثًا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مُخْتَصَرًا عَنِ الْفَضْلِ بْنُ یَعْقُوبَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ الرَّقِّیِّ ۔ وَفِیہِ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَخْذِ الْجِزْیَۃِ مِنَ الْمَجُوسِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ فَقَدْ کَانَ کِسْرَی وَأَصْحَابُہُ مَجُوسًا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٦١) ابو رجاء حنفی کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا کہ فلاں، فلاں مھاجر شہید ہوگئے اور ان کے بارے لکھا جن کی پہچان نہ ہوسکی۔ جب حضرت عمر (رض) نے خط کو پڑھا تو روئے اور فرمایا : اللہ ان کو جانتے ہیں تین مرتبہ فرمایا۔ (ب) اس میں جزیہ لینے پر دلالت ہے کیونکہ کسریٰ اور ساتھی مجوسی تھے۔

18668

(١٨٦٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : إِنَّ أَہْلَ فَارِسَ لَمَّا مَاتَ نَبِیُّہُمْ کَتَبَ لَہُمْ إِبْلِیسُ الْمَجُوسِیَّۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٦٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب اہل فارس کا نبی فوت ہوگیا تو ابلیس نے ان کو مجوس لکھا۔

18669

(١٨٦٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ الأَصْبَہَانِیُّ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی مَجُوسِ ہَجَرَ یَعْرِضُ عَلَیْہِمُ الإِسْلاَمَ فَمَنْ أَسْلَمَ قَبِلَ مِنْہُ وَمَنْ أَبَی ضُرِبَتْ عَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ عَلَی أَنْ لاَ تُؤْکَلَ لَہُمْ ذَبِیحَۃٌ وَلاَ تُنْکَحَ لَہُمُ امْرَأَۃٌ۔ ہَذَا مُرْسَلٌ وَإِجْمَاعُ أَکْثَرِ الْمُسْلِمِینَ عَلَیْہِ یُؤَکِّدُہُ وَلاَ یَصِحُّ مَا رُوِیَ عَنْ حُذَیْفَۃَ فِی نِکَاحِ مَجُوسِیَّۃٍ وَالرِّوَایَۃُ فِی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا تَرِدُ فِی مَوْضِعِہَا إِنْ شَائَ اللَّہُ تَعَالَی۔ [ضعیف ]
(١٨٦٦٣) حسن بن محمد بن علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجر کے مجوس کو اسلام کی دعوت دی۔ جس نے اسلام قبول کرلیا تو درست وگرنہ دوسروں پر جزیہ لاگوکر دیا اور فرمایا : ان کا ذبح شدہ جانور نہ کھایا جائے اور ان کی عورتوں سے نکاح نہ کیا جائے۔

18670

(١٨٦٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَہُ إِلَی الْیَمَنِ وَأَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ بَقَرَۃٍ تَبِیعًا وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً مُسِنَّۃً وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا أَوْ عِدْلَہُ ثَوْبَ مَعَافِرَ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٦٤) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یمن روانہ کیا اور فرمایا : گائے والوں سے ہر تیس گایوں پر ایک سال کا بچہ وصول کیا جائے اور ٤٠ گایوں پر ٢ سال کا بچہ وصول کیا جائے اور ہر بالغ کے ذمہ ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا۔

18671

(١٨٦٦٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَیْلِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا وَجَّہَہُ إِلَی الْیَمَنِ أَمَرَہُ أَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعًا أَوْ تَبِیعَۃً وَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ مُسِنَّۃً وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ یَعْنِی مُحْتَلِمٍ دِینَارًا أَوْ عِدْلَہُ مِنَ الْمَعَافِرِیِّ ثِیَابٌ تَکُونُ بِالْیَمَنِ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٦٥) ابو واقل حضرت معاذ سے نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں یمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا کہ گائے والوں سے ہر تیس پر ایک سالہ نر یا مادہ وصول کرنا اور ہر ٤٠ گائے پر دو دانت والا اور ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑے یمن کے بنے ہوئے وصول کرنا۔

18672

(١٨٦٦٦) قَالَ وَحَدَّثَنَا النُّفَیْلِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِثْلَہُ ۔ قَالَ أَبُودَاوُدَ فِی بَعْضِ النُّسَخِ : ہَذَا حَدِیثٌ مُنْکَرٌ بَلَغَنِی عَنْ أَحْمَدَ أَنَّہُ کَانَ یُنْکِرُ ہَذَا الْحَدِیثَ إِنْکَارًا شَدِیدًا قَالَ الشَّیْخُ : إِنَّمَا الْمُنْکَرُ رِوَایَۃُ أَبِی مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذٍ فَأَمَّا رِوَایَۃُ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ فَإِنَّہَا مَحْفُوظَۃٌ قَدْ رَوَاہَا عَنِ الأَعْمَشِ جَمَاعَۃٌ مِنْہُمْ سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ وَشُعْبَۃُ وَمَعْمَرٌ وَجَرِیرٌ وَأَبُو عَوَانَۃَ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ وَحَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ قَالَ بَعْضُہُمْ عَنْ مُعَاذٍ وَقَالَ بَعْضُہُمْ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ أَوْ مَا فِی مَعْنَاہُ ۔
(١٨٦٦٦) خالی۔

18673

(١٨٦٦٧) وَأَمَّا حَدِیثُ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ فَالصَّوَابُ کَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ : عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَنْبَأَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ شَقِیقٍ عَنْ مَسْرُوقٍ وَالأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالاَ قَالَ مُعَاذٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الْیَمَنِ فَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃً ثَنِیَّۃً وَمِنْ کُلِّ ثَلاَثِینَ تَبِیعًا أَوْ تَبِیعَۃً وَمِنْ کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا أَوْ عِدْلَہُ مَعَافِرَ ۔ ہَذَا ہُوَ الْمَحْفُوظُ حَدِیثُ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ شَقِیقِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ مَسْرُوقٍ وَحَدِیثُہُ عَنْ إِبْرَاہِیمَ مُنْقَطِعٌ لَیْسَ فِیہِ ذِکْرُ مَسْرُوقٍ ۔ وَقَدْ رُوِّینَاہُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِی النَّجُودِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٦٧) حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یمن بھیجا اور حکم فرمایا کہ چالیس گائے پر ایک ثنیہ اور ہر تیس گائے پر ایک تبیعہ نر یا ماد ہ اور ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا وصول کرنا۔

18674

(١٨٦٦٨) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی حَکِیمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَتَبَ إِلَی أَہْلِ الْیَمَنِ إِنَّ عَلَی کُلِّ إِنْسَانٍ مِنْکُمْ دِینَارًا کُلَّ سَنَۃٍ أَوْ قِیمَتَہُ مِنَ الْمَعَافِرِ یَعْنِی أَہْلَ الذِّمَّۃِ مِنْہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٦٨) عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن والوں کو خط لکھا کہ تمہارے ہر بالغ پر سال میں ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا ہے یعنی ذمی لوگوں پر۔

18675

(١٨٦٦٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا وَأَبُو بَکْرٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنِی مُطَرِّفُ بْنُ مَازِنٍ وَہِشَامُ بْنُ یُوسُفَ بِإِسْنَادٍ لاَ أَحْفَظُہُ غَیْرَ أَنَّہُ حَسَنٌ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَضَ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ دِینَارًا کُلَّ سَنَۃٍ فَقُلْتُ لِمُطَرِّفِ بْنِ مَازِنٍ فَإِنَّہُ یُقَالُ وَعَلَی النِّسَائِ أَیْضًا فَقَالَ لَیْسَ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخَذَ مِنَ النِّسَائِ ثَابِتًا عِنْدَنَا۔ [ضعیف ]
(١٨٦٦٩) ہشام بن یوسف اپنی سند سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کے ذمی لوگوں پر سال میں ایک دینار مقرر کیا۔ کہتے ہیں : میں نے مطرف بن مازن سے کہا : کیا عورتوں پر بھی ؟ کہتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے وصول کیا ہو ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں ہے۔

18676

(١٨٦٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الضَّبِّیُّ عَنْ مَنْصُورٍ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِالْیَمَنِ عَلَی کُلِّ حَالِمٍ أَوْ حَالِمَۃٍ دِینَارًا أَوْ قِیمَتَہُ وَلاَ یُفْتَنُ یَہُودِیٌّ عَنْ یَہُودِیَّتِہِ ۔ قَالَ یَحْیَی وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ عَلَی النِّسَائِ جِزَیَۃً إِلاَّ فِی ہَذَا الْحَدِیثِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَہَذَا مُنْقَطِعٌ وَلَیْسَ فِی رِوَایَۃِ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذٍ حَالِمَۃٍ وَلاَ فِی رِوَایَۃِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ مُعَاذٍ إِلاَّ شَیْئًا رَوَی عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ مُعَاذٍ ۔ وَمَعْمَرٌ إِذَا رَوَی عَنْ غَیْرِ الزُّہْرِیِّ یَغْلَطُ کَثِیرًا وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَقَدْ حَمَلَہُ ابْنُ خُزَیْمَۃَ إِنْ کَانَ مَحْفُوظًا عَلَی أَخْذِہَا مِنْہَا إِذَا طَابَتْ بِہَا نَفْسًا۔ وَرَوَاہُ أَبُو شَیْبَۃَ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنِ الْحَکَمِ مَوْصُولاً ۔ وَأَبُو شَیْبَۃَ ضَعِیفٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٠) حکم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن میں خط لکھا کہ ہر مرد وعورت پر سال میں ایک دینار یا اس کی قیمت ہے اور کسی یہودی کو یہودیت کی وجہ سے آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔

18677

(١٨٦٧١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِیٍّ الْحَافِظُ إِمْلاَئً أَنْبَأَنَا حَامِدُ بْنُ شُعَیْبٍ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِی مُزَاحِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو شَیْبَۃَ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَتَبَ إِلَی مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَلَہُ مَا لِلْمُسْلِمِینَ وَعَلَیْہِ مَا عَلَیْہِمْ وَمَنْ أَقَامَ عَلَی یَہُودِیَّتِہِ أَوْ نَصْرَانِیَّتِہِ فَعَلَی کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا أَوْ عِدْلَہُ مِنَ الْمَعَافِرِ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی حُرٍّ أَوْ مَمْلُوکٍ وَفِی کُلِّ ثَلاَثِینَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِیعٌ أَوْ تَبِیعَۃٌ وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ بَقَرَۃٌ مُسِنَّۃٌ وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ مِنَ الإِبِلِ ابْنَۃُ لَبُونٍ وَفِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ أَوْ سُقِیَ فَیْحًا الْعُشْرُ وَفِیمَا سُقِیَ بِالْغَرْبِ نِصْفُ الْعُشْرِ ۔ ہَذَا لاَ یَثْبُتُ بِہَذَا الإِسْنَادِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کی طرف خط تحریر کیا جس نے اسلام قبول کرلیا تو اس کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور اس پر وہی ذمرداری عائد ہوگی جو دوسرے مسلمانوں پر ہے اور جو یہودی یا عیسائی ہو، ان کے بالغ پر ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا ہے مذکر ہو یا مونث، آزاد ہو یا غلام اور ہر تیس گائے میں ایک تبیعہ نر یا مادہ اور ہر چالیس گائے پر ایک مثنہ اور ہر چالیس اونٹوں پر ایک بنت لبون دو سال مکمل والی تیسرے سال میں داخل ہو اور وہ کھیتی جو بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور جس کھیتی کو ٹیوب ویل کے ذریعے سیراب کیا جائے اس کا ٢٠ واں حصہ ہے۔

18678

(١٨٦٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ فَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ خَالِدٍ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ وَعَدَدًا مِنْ عُلَمَائِ أَہْلِ الْیَمَنِ فَکُلُّہُمْ حَکَی لِی عَنْ عَدَدٍ مَضَوْا قَبْلَہُمْ یَحْکُونَ عَنْ عَدَدٍ مَضَوْا قَبْلَہُمْ کُلُّہُمْ ثِقَۃٌ : أَنَّ صُلْحَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَہُمْ کَانَ لأَہْلِ ذِمَّۃِ الْیَمَنِ عَلَی دِینَارٍ کُلَّ سَنَۃٍ وَلاَ یُثْبِتُونَ أَنَّ النِّسَائَ کُنَّ فِیمَنْ یُؤْخَذُ مِنْہُ الْجِزْیَۃُ وَقَالَ عَامَّتُہُمْ : وَلَمْ تُؤْخَذْ مِنْ زُرُوعِہِمْ وَقَدْ کَانَتْ لَہُمْ زُرُوعٌ وَلاَ مِنْ مَوَاشِیہِمْ شَیْئًا عَلِمْنَاہُ ۔ وَقَالَ لِی بَعْضُہُمْ : قَدْ جَائَ نَا بَعْضُ الْوُلاَۃِ فَخَمَسَ زُرُوعَہُمْ أَوْ أَرَادَہَا فَأَنْکَرَ ذَلِکَ عَلَیْہِ فَکُلُّ مَنْ وَصَفْتُ أَخْبَرَنِی : أَنَّ عَامَّۃَ ذِمَّۃِ أَہْلِ الْیَمَنِ مِنْ حِمْیَرَ قَالَ : وَسَأَلْتُ عَدَدًا کَثِیرًا مِنْ ذِمَّۃِ أَہْلِ الْیَمَنِ مُتَفَرِّقِینَ فِی بُلْدَانِ الْیَمَنِ فَکُلُّہُمْ أَثْبَتَ لِی لاَ یَخْتَلِفُ قَوْلُہُمْ أَنَّ مُعَاذًا أَخَذَ مِنْہُمْ دِینَارًا عَنْ کُلِّ بَالِغٍ مِنْہُمْ وَسَمَّوُا الْبَالِغَ حَالِمًا قَالُوا وَکَانَ فِی کِتَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَعَ مُعَاذٍ أَنَّ عَلَی کُلِّ حَالِمٍ دِینَارًا۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٢) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن خالد، عبداللہ بن عمرو بن مسلم اور کئی اہلِ یمن سے پوچھا وہ تمام پانے سے قبل ثقہ آدمیوں سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح یمن کے ذمی لوگوں کے ساتھ سال میں ایک دینار پر تھی اور عورتیں ان میں شامل نہ تھیں ۔ ان کے عام لوگ بیان کرتے ہیں کہ کھیتی اور مویشیوں سے جزیہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس پر انکار کیا گیا جو بھی میں نے بیان کیا، مجھے خبر ملی کہ اہل یمن کے ذمی حمیر قبیلہ سی تھے۔ کہتے ہیں : جس نے تمام اہل یمن کے ذمی افراد سے پوچھا جو مختلف شہروں کے تھے سب کا ایک ہی جواب تھا کہ حضرت معاذ نے ہر بالغ سے سال میں ایک دینار وصول کیا اور وہ بالغ کو حاکم کہتے تھے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط جو معاذ کے نام تھا کہ ہر بالغ پر ایک دینار ہے۔

18679

(١٨٦٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مُسْلِمُ بْنُ عَلِیٍّ عَنِ الْمُثَنَّی بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَضَ الْجِزْیَۃَ عَلَی کُلِّ مُحْتَلِمٍ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ دِینَارًا دِینَارًا۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٣) حضرت عمرو بن شیبہ اپنیوالد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن والوں کے ہر بالغ پر ایک ایک دینار جزیہ مقرر فرمایا تھا۔

18680

(١٨٦٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ : ہَذَا کِتَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَنَا الَّذِی کَتَبَہُ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حِینَ بَعَثَہُ إِلَی الْیَمَنِ فَذَکَرَہُ وَفِی آخِرِہِ : وَإِنَّہُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَہُودِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ إِسْلاَمًا خَالِصًا مِنْ نَفْسِہِ فَدَانَ دِینَ الإِسْلاَمِ فَإِنَّہُ مِنَ الْمُؤْمِنِینِ لَہُ مَا لَہُمْ وَعَلَیْہِ مَا عَلَیْہِمْ وَمَنْ کَانَ عَلَی نَصْرَانِیَّتِہِ أَوْ یَہُودِیَّتِہِ فَإِنَّہُ لاَ یُفْتَنُ عَنْہَا وَعَلَی کُلِّ حَالِمٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ دِینَارٌ وَافٍ أَوْ عِوَضُہُ مِنَ الثِّیَابِ فَمَنْ أَدَّی ذَلِکَ فَإِنَّ لَہُ ذِمَّۃَ اللَّہِ وَذِمَّۃَ رَسُولِہِ وَمَنْ مَنَعَ ذَلِکَ فَإِنَّہُ عَدُوُّ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْمُؤْمِنِینَ ہَذَا مُنْقَطِعٌ وَلَیْسَ فِی الرِّوَایَۃِ الْمَوْصُولَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٤) عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خط عمرو بن حزم کو لکھا جس وقت اسے یمن روانہ کیا۔ اس کے آخر میں ہے کہ جو یہودی یا عیسائی دین اسلام کو خالص نیت سے قبول کرے تو اس کے لیے مومنوں والے حقوق ہوں گے اور اس پر وہ مہ داریاں عائد ہونگی جو مسلمانوں پر ہیں اور جو عسائیت یا یہودیت پر رہے اس کو آزمائش میں مبتلا نہ کیا جائے گا اور ہر بالغ مذکر ومؤنث یا آزاد و غلام پر ایک دینار یا اس کے عوض کپڑا ہے۔ جس نے یہ ادا کردیا اس کے لیے اللہ ورسول کا ذمہ ہے اور جس نے ادا نہ کیا وہ اللہ ورسول اور مومنوں کا دشمن ہے۔

18681

(١٨٦٧٥) وَرُوِیَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ مُنْقَطِعًا أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی أَہْلِ الْیَمَنِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ حَزْمٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٥) ابو اسود حضرت عروہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ خط اللہ کی جانب سے اھل یمن کے نام ہے پھر ابن حزم والی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔

18682

(١٨٦٧٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرُوَیْہِ بْنِ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْمَعَافِرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو یَزَنَ الْحِمْیَرِیُّ إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُفَیْرِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُفَیْرِ بْنِ زُرْعَۃَ بْنِ سَیْفِ بْنِ ذِی یَزَنَ حَدَّثَنِی عَمِّی أَحْمَدُ بْنُ حُبَیْشِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنِی أَبِی عُفَیْرٍ حَدَّثَنِی أَبِی عَبْدُ الْعَزِیزِ حَدَّثَنِی أَبِی عُفَیْرٍ حَدَّثَنِی أَبِی زُرْعَۃَ بْنُ سَیْفِ بْنِ ذِی یَزَنَ قَالَ : کَتَبَ إِلَیَّ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کِتَابًا ہَذَا نُسْخَتُہُ فَذَکَرَہَا وَفِیہَا : وَمَنْ یَکُنْ عَلَی یَہُودِیَّتِہِ أَوْ عَلَی نَصْرَانِیَّتِہِ فَإِنَّہُ لاَ یُغَیَّرُ عَنْہَا وَعَلَیْہِ الْجِزْیَۃُ عَلَی کُلِّ حَالِمٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ دِینَارٌ أَوْ قِیمَتُہُ مِنَ الْمَعَافِرِ ۔ وَہَذِہِ الرِّوَایَۃُ فِی رُوَاتِہَا مَنْ یُجْہَلُ وَلَمْ یَثْبُتْ بِمِثْلِہَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ حَدِیثٌ فَالَّذِی یُوَافِقُ مِنْ أَلْفَاظِہَا وَأَلْفَاظِ مَا قَبْلَہَا رِوَایَۃُ مَسْرُوقٍ مَقُولٌ بِہِ وَالَّذِی یَزِیدُ عَلَیْہَا وَجَبَ التَّوَقُّفُ فِیہِ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٧٦) ابو زرعہ بن سیف بن ذی یزن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خط لکھا، جس میں یہ تھا کہ جو یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہے، اس کو تبدیل نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان پر جزیہ ہے۔ ہر بالغ مذکر ومؤنث، آزاد یا غلام پر ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا ہے۔

18683

(١٨٦٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی یَحْیَی عَنْ أَبِی الْحُوَیْرِثِ قَالَ : ضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی نَصَارَی بِمَکَّۃَ دِینَارًا لِکُلِّ سَنَۃٍ ۔ [ضعیف جدا ]
(١٨٦٧٧) ابوحویرث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں عیسائیوں پر سال میں ایک دینار مقرر فرمایا۔

18684

(١٨٦٧٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِی الْحُوَیْرِثِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ضَرَبَ عَلَی نَصْرَانِیٍّ بِمَکَّۃَ یُقَالُ لَہُ مَوْہَبٌ دِینَارًا کُلَّ سَنَۃٍ وَأَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ضَرَبَ عَلَی نَصَارَی أَیْلَۃَ ثَلاَثَمِائَۃِ دِینَارٍ کُلَّ سَنَۃٍ وَأَنْ یُضِیفُوا مَنْ مَرَّ بِہِمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثَلاَثًا وَأَنْ لاَ یَغُشُّوا مُسْلِمًا۔ [ضعیف جدا ]
(١٨٦٧٨) ابوحویرث فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے نصرانیپر جس کو موہبکہا جاتا تھا سال میں ایک دینار مقرر فرمایا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایلہ کے عیسائیوں پر ٣٠٠ دینار سال میں مقرر کیے۔ ان کے پاس سے گزرنے والے مسلمانوں کی تین دن تک مہمانی کرنا مقرر فرمایا اور وہ کسی پر حملہ بھی نہ کریں گے۔

18685

(١٨٦٧٩) قَالَ وَأَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ أَنْبَأَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ : أَنَّہُمْ کَانُوا ثَلاَثَمِائَۃٍ فَضَرَبَ عَلَیْہِمُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَئِذٍ ثَلاَثَمِائَۃِ دِینَارٍ کُلَّ سَنَۃٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : ثُمَّ صَالَحَ أَہْلَ نَجْرَانَ عَلَی حُلَلٍ یُؤَدُّونَہَا إِلَیْہِ فَدَلَّ صُلْحُہُ إِیَّاہُمْ عَلَی غَیْرِ الدَّنَانِیرِ عَلَی أَنَّہُ یَجُوزُ مَا صُولِحُوا عَلَیْہِ ۔ [ضعیف جدا ]
(١٨٦٧٩) اسحاق بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو افراد تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر سال میں تین سو دینار مقرر فرمائے۔ شافعی (رض) فرماتے ہیں : اہلِ نجران نے زیورات پر صلح کی جو وہ ادا کرتے تھے تو جس چیز پر وہ صلح کرلیں جائز ہے، اگرچہ دینار نہ بھی ہوں۔

18686

(١٨٦٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا یُونُسُ یَعْنِی ابْنَ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْہَمْدَانِیُّ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِیِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : صَالَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ نَجْرَانَ عَلَی أَلْفَیْ حُلَّۃٍ النِّصْفُ فِی صَفَرَ وَالنِّصْفُ فِی رَجَبٍ یُؤَدُّونَہَا إِلَی الْمُسْلِمِینَ وَعَارِیَّۃِ ثَلاَثِینَ دِرْعًا وَثَلاَثِینَ فَرَسًا وَثَلاَثِینَ بَعِیرًا وَثَلاَثِینَ مِنْ کُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلاَحِ یَغْزُونَ بِہَا وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَہَا حَتَّی یَرُدُّوہَا عَلَیْہِمْ إِنْ کَانَ بِالْیَمَنِ کَیْدٌ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٦٤٤]
(١٨٦٨٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران سے دو ہزار سوٹوں کے عوض صلح کی۔ آدھے صفر اور آدھے رجب میں وہ مسلمانوں کو ادا کریں گے اور اہل عاریہ سے تیس زرعیں، تیس گھوڑے، تیس اونٹ، ہر قسم کا اسلحہجو تیس جنگ میں استعمال ہوتا ہے اور مسلمان ان کے ضامن ہیں یہاں تک وہ ان کو واپس کردیں۔ اگرچہ وہ یمن میں ہی کیوں نہ ہو۔

18687

(١٨٦٨١) قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَمِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ أَہْلِ نَجْرَانَ یَذْکُرُ أَنَّ قِیمَۃَ مَا أُخِذَ مِنْ کُلِّ وَاحِدٍ أَکْثَرُ مِنْ دِینَارٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٨١) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کے اہل علم اور اھل نجران کے ذمی لوگوں سے سنا کہ ان کے ہر ایک شخص سے ایک دینار کی قیمت سے زیادہ وصول کیا گیا۔

18688

(١٨٦٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَنْبَأَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلَی أُمَرَائِ أَہْلِ الْجِزْیَۃِ أَنْ لاَ یَضَعُوا الْجِزْیَۃَ إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتْ أَوْ مَرَّتْ عَلَیْہِ الْمَوَاسِی وَجِزْیَتُہُمْ أَرْبَعُونَ دِرْہَمًا عَلَی أَہْلِ الْوَرِقِ مِنْہُمْ وَأَرْبَعَۃُ دَنَانِیرَ عَلَی أَہْلِ الذَّہَبِ وَعَلَیْہِمْ أَرْزَاقُ الْمُسْلِمِینَ مِنَ الْحِنْطَۃِ مُدْیٌ وَثَلاَثَۃُ أَقْسَاطِ زَیْتٍ لِکُلِّ إِنْسَانٍ کُلَّ شَہْرٍ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ وَأَہْلِ الْجَزِیرَۃِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ مِصْرَ إِرْدَبٌّ لِکُلِّ إِنْسَانٍ کُلَّ شَہْرٍ وَمِنَ الْوَدَکِ وَالْعَسَلِ شَیْئٌ لَمْ نَحْفَظْہُ وَعَلَیْہِمْ مِنَ الْبَزِّ الَّتِی کَانَ یَکْسُوہَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ النَّاسَ شَیْئٌ لَمْ نَحْفَظْہُ وَیُضِیفُونَ مَنْ نَزَلَ بِہِمْ مِنْ أَہْلِ الإِسْلاَمِ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ وَعَلَی أَہْلِ الْعِرَاقِ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا لِکُلِّ إِنْسَانٍ وَکَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لاَ یَضْرِبُ الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ وَکَانَ یَخْتِمُ فِی أَعْنَاقِ رِجَالِ أَہْلِ الْجِزْیَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٨٢) حضرت عمر (رض) کے غلام اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جزیہ وصول کرنے والے امراء کو خط لکھا کہ وہ صرف ان کا جزیہ کم کریں، جن پر سال گزر چکا ہو اور چاندی والوں پر ٤٠ درہم جزیہ ہے اور سونے والوں کے ذمہ ٤ دینار جزیہ ہے اور ان کے ذمہ ایک مد مسلمانوں کا رزق بھی ہے جو جزیرہ اور شامی لوگ ہیں ان پر ہر انسان کے لیے تیس لقاط تیل کے ہیں اور جو شہری ہیں ان کے ذمہ ہر انسان کے لیے مہینہ میں اردب ہے (٢٤ صاع کے برابر مصری پیمانہ ہے) چکناہٹ، شھد، مجھے یاد نہیں کتنا ہے، ان پر وہ کپڑا ہے جو امیر المومنین لوگوں کو پہننے کے لیے دیا کرتے تھے اور وہ تین دن تک مسلمانوں کی مہمان نوازی کریں گے اور عراقیوں کے ہر انسان کے ذمہ ١٥ صاع ہیں اور حضرت عمر (رض) عورتوں پر جزیہ مقرر نہ کرتے تھے اور جزیہ دینے والے افراد کی گردن پر مہر ہوتی تھی۔

18689

(١٨٦٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الأَصْبَہَانِیُّ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلَی عُمِّالِہِ أَنْ لاَ یَضْرِبُوا الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ وَلاَ یَضْرِبُوہَا إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمَوَاسِی وَیُخْتَمُ فِی أَعْنَاقِہِمْ وَیُجْعَلُ جِزْیَتُہُمْ عَلَی رُئُ وسِہِمْ عَلَی أَہْلِ الْوَرِقِ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا وَمَعَ ذَلِکَ أَرْزَاقُ الْمُسْلِمِینَ وَعَلَی أَہْلِ الذَّہَبِ أَرْبَعَۃُ دَنَانِیرَ وَعَلَی أَہْلِ الشَّامِ مِنْہُمْ مُدْیُ حِنْطَۃٍ وَثَلاَثَۃُ أَقْسَاطِ زَیْتٍ وَعَلَی أَہْلِ مِصْرَ إِرْدَبُّ حِنْطَۃٍ وَکِسْوَۃٌ وَعَسَلٌ لاَ یَحْفَظُہُ نَافِعٌ کَمْ ذَلِکَ وَعَلَی أَہْلِ الْعِرَاقِ خَمْسَۃَ عَشَرَ صَاعًا حِنْطَۃً ۔ قَالَ عُبَیْدُ اللَّہِ : وَذَکَرَ کِسْوَۃً لاَ أَحْفَظُہَا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٨٣) حضرت عمر (رض) کے غلام اسلم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے عاملوں کو خط لکھا تھا کہ جزیہ عورتوں، بچوں اور جس پر ایک سال نہ بیت جائے مقرر نہ کریں اور ان کی گردنوں پر مہر لگائیں اور جزیہ ان کے مالوں کی اصل سے وصول کریں ۔ چاندی والوں پر ٤٠ درھم اور ساتھ مسلمانوں کے کھانے کا انتظام۔ سونے والوں کے ذمہ ٤ دینار اور شامی لوگوں پر ایک مد گندم اور تیل کے تیس اقساط اور مصر والوں پر ایک اردب (چوبیس صاع کے برابر مصری پیمانہ) کپڑے، شھد ہے۔ نافع کو یہ یاد نہیں ہے کہ وہ کتنا تھا اور عراق والوں پر ١٥ صاع گندم کے ہیں۔ عبید اللہ کہتے ہیں کہ مجھے کپڑوں کا یاد نہیں دیا۔

18690

(١٨٦٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ (ح) وَأَخْبَرَنَا الشَّرِیفُ أَبُو الْفَتْحِ نَاصِرُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعُمَرِیُّ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی شُرَیْحٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی الْحَکَمُ قَالَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَیْمُونَ یُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَہُ قَالَ : ثُمَّ أَتَاہُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ فَجَعَلَ یُکَلِّمُہُ مِنْ وَرَائِ الْفُسْطَاطِ یَقُولُ : وَاللَّہِ لَئِنْ وَضَعْتَ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ مِنْ أَرْضٍ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا مِنْ طَعَامٍ وَزِدْتَ عَلَی کُلِّ رَأْسٍ دِرْہَمَیْنِ لاَ یَشُقُّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ وَلاَ یَجْہَدُہُمْ قَالَ نَعَمْ فَکَانَ ثَمَانِیَۃً وَأَرْبَعِینَ فَجَعَلَہَا خَمْسِینَ ۔ وَرَوَی الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی الْقَدِیمِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ إِذَا اسْتَغْنَی أَہْلُ السَّوَادِ زَادَ عَلَیْہِمْ وَإِذَا افْتَقَرُوا وَضَعَ عَنْہُمْ وَہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ [صحیح۔ اخرجہ ابن الجعد ]
(١٨٦٨٤) عمرو بن میمون حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ان کے پاس عثمان بن حنیف آئے جو خیمہ کے باہر سے ہی بات چیت کر رہے تھے کہ اللہ کی قسم ! آپ نے کھیتی والوں پر ایک درہم اور ایک قفیز مقرر کر رکھا ہے۔ اگر آپ دو درہم بھی مقرر فرما دیں، یہ بھی ادا کرنا ان کے لیے مشکل نہ ہوگا۔ پہلے ٤٨ درھم بنتے تھے اب ٥٠ مقرر کردیے۔
(ب) ابن شہاب حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب اہلسواد مالدار ہوگئے تو ان کا جزیہ زیادہ کردیا اور جب وہ فقیر ہوجاتے تو جزیہ کم کردیتے۔

18691

(١٨٦٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِی عَوْنٍ : مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ الثَّقَفِیِّ قَالَ : وَضَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَعْنِی فِی الْجِزْیَۃِ عَلَی رُئُ وسِ الرِّجَالِ عَلَی الْغَنِیِّ ثَمَانِیَۃً وَأَرْبَعِینَ دِرْہَمًا وَعَلَی الْوَسَطِ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ وَعَلَی الْفَقِیرِ اثْنَی عَشَرَ دِرْہَمًا۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ قَتَادَۃُ عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ عَنْ عُمَرَ ۔ وَکِلاَہُمَا مُرْسَلٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٨٥) ابو عون محمد بن عبید اللہ ثقفی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں پر جزیہ مقرر فرمایا، مالدار پر ٤٨ درہم، درمیانے انسان پر ٢٤ درہم اور فقیر پر ١٢ درہم۔

18692

(١٨٦٨٦) وَالاِعْتِمَادُ فِی ذَلِکَ عَلَی مَا أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا مَالِکٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمِہْرَجَانِیُّ أَنْبَأَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبُوشَنْجِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ضَرَبَ الْجِزْیَۃَ عَلَی أَہْلِ الذَّہَبِ أَرْبَعَۃَ دَنَانِیرَ وَعَلَی أَہْلِ الْوَرِقِ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا وَمَعَ ذَلِکَ أَرْزَاقُ الْمُسْلِمِینَ وَضِیَافَۃُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ۔[صحیح۔ اخرجہ مالک ]
(١٨٦٨٦) نافع حضرت عمر (رض) کے غلام اسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سونے والوں پر ٤ دینار جزیہ مقرر فرمایا اور چاندی والوں پر ٤٠ درھم جزیہ مقرر فرمایا اور ساتھ مسلمانوں کے رزق اور تین دن کی مہمانی بھی مقرر فرمائی۔

18693

(١٨٦٨٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَنْبَأَنَا الشَّافِعِیُّ أَنْبَأَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَرَضَ عَلَی أَہْلِ السَّوَادِ ضِیَافَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فَمَنْ حَبَسَہُ مَرَضٌ أَوْ مَطَرٌ أَنْفَقَ مِنْ مَالِہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَحَدِیثُ أَسْلَمَ بِضِیَافَۃِ ثَلاَثٍ أَشْبَہُ لأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَعَلَ الضِّیَافَۃَ ثَلاَثًا وَقَدْ یَجُوزُ أَنْ یَکُونَ جَعَلَہَا عَلَی قَوْمٍ ثَلاَثًا وَعَلَی قَوْمٍ یَوْمًا وَلَیْلَۃً وَلَمْ یَجْعَلْ عَلَی آخَرِینَ ضِیَافَۃً کَمَا یَخْتَلِفُ صُلْحُہُ لَہُمْ فَلاَ یَرُدُّ بَعْضُ الْحَدِیثِ بَعْضًا۔ [صحیح ]
(١٨٦٨٧) حارثہ بن مغرب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اہل سواد پر ایک دن و رات کی ضیافت مقرر فرمائی اور جس کو ہماری یا بارش کی وجہ سے رکنا پڑجائے وہ اپنا مال خرچ کرے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اسلم کی حدیث تین دن کی ضیافت بتاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دن کی ضیافت مقرر فرمائی۔ یہ بھی ممکن ہے کسی پر تین دن، کسی پر ایک دن و رات مقرر فرمائیہو اور بعض پر ضیافت مقرر ہی نہ کی ہو۔ اس لیے بعض احادیث بعض کا رد نہیں کرتیں۔

18694

(١٨٦٨٨) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی الْمَعْرُوفِ الإِسْفَرَائِینِیُّ بِہَا أَنْبَأَنَا أَبُو سَعِیدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَہَّابِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَنْبَأَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ یَشْتَرِطُ عَلَی أَہْلِ الذِّمَّۃِ ضِیَافَۃَ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ وَأَنْ یُصْلِحُوا قَنَاطِرَ وَإِنْ قُتِلَ بَیْنَہُمْ قَتِیلٌ فَعَلَیْہِمْ دِیَتُہُ وَقَالَ غَیْرُہُ عَنْ ہِشَامٍ : وَإِنْ قُتِلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِأَرْضِہِمْ فَعَلَیْہِمْ دِیَتُہُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٦٨٨) احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ذمی لوگوں پر تین دن و رات کی ضیافت کی شرط لگاتے اور یہ کہ وہ مال پر صلح کرلیں۔ اگر ان کے درمیان کوئی آدمی قتل ہوگیا تو وہ اس کی دیت بھی ادا کریں گے۔
ہشام فرماتے ہیں : اگر ان کی سرزمین پر کوئی مسلمان مارا گیا تو وہ اس کی دیت ادا کریں گے۔

18695

(١٨٦٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الطَّیَالِسِیُّ قَالَ لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْعَدَوِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَأَبْصَرَتْ عَیْنَایَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یَقُولُ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ جَائِزَتَہُ ۔ قِیلَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا جَائِزَتُہُ ؟ قَالَ : یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ وَالضِّیَافَۃُ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ فَمَا کَانَ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ وَلاَ یَثْوِی عِنْدَہُ حَتَّی یُحْرِجَہُ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنِ اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٨٩) ابو شریح عدوی فرماتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس کا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہو وہ اپنے مہمان کی ضیافت کے ذریعے تعظیم کرے۔ کہا گیا : اس کی ضیافت کیا ہے ؟ فرمایا : ایک دن و رات اور ضیافت تین دن تک ہے۔ اس سے زیادہ صدقہ ہے، اس سے زیادہ مہمان بھی نہ ٹھہرے کہ اسے تکلیف ہو اور جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھے کلمات کہے یا خاموش ہوجائے۔

18696

(١٨٦٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ قُرِئَ عَلَی الْحَارِثِ بْنِ مِسْکِینٍ وَأَنَا شَاہِدٌ حَدَّثَکُمْ أَشْہَبُ قَالَ وَسُئِلَ مَالِکٌ عَنْ قَوْلِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : جَائِزَتُہُ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ ۔ قَالَ : یُکْرِمُہُ وَیُتْحِفُہُ وَیَحْفَظُہُ یَوْمًا وَلَیْلَۃً وَثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ ضِیَافَۃً ۔ [صحیح ]
(١٨٦٩٠) امام مالک سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کے بارے میں پوچھا گیا کہ ایک دن و رات ضیافت ہے تو فرمایا : ایک دن و رات عزت، تحفہ اور حفاظت کرے اور ضیافت تین دن تک ہے۔

18697

(١٨٦٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : حَقُّ الضِّیَافَۃِ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ فَمَا زَادَ عَلَی ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٩١) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ضیافت کا حق تین دن تک ہے اور جو اس سے زائد ہو وہ صدقہ ہے۔

18698

(١٨٦٩٢) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الضِّیَافَۃُ ثَلاَثَۃُ أَیَّامٍ فَمَا زَادَ عَلَی ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَۃٌ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٩٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ضیافت تین دن تک ہے اور جو اس سے زائد ہو وہ صدقہ ہے۔

18699

(١٨٦٩٣) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا لَیْثٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلاَ یَقْرُونَنَا فَمَا تَرَی ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِی لِلضَّیْفِ فَاقْبَلُوا فَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْہُمْ حَقَّ الضَّیْفِ الَّذِی یَنْبَغِی لَہُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٩٣) عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہمیں کسی قوم کے پاس بھیجتے ہیں وہ ہماری ضیافت نہ کریں تو ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم کسی قوم کے پاس مہمان ٹھہرو۔ اگر وہ تمہارے لیے مناسب ضیافت کا اہتمام کریں تو قبول کرلو۔ اگر وہ ضیافت کا اہتمام نہ کریں تو پھر ضیافت کا مناسب حق ان سے لے سکتے ہو۔

18700

(١٨٦٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی کَرِیمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَمِعَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لَیْلَۃُ الضَّیْفِ حَقٌّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ مَنْ أَصْبَحَ الضَّیْفُ بِفِنَائِہِ فَہُوَ عَلَیْہِ حَقٌّ أَوْ قَالَ دَیْنٌ إِنْ شَائَ اقْتَضَاہُ وَإِنْ شَائَ تَرَکَہُ ۔ [صحیح۔ اخرجہ الطیالسی ١٢٤٧]
(١٨٦٩٤) ابو کریمہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : رات کی ضیافت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور مہمان جس کے گھر صبح کرے اس کا فرض ہے کہ ضیافت کرے یا فرمایا : اس پر قرض ہے چاہے تو ادا کر دے یا چھوڑ دے۔

18701

(١٨٦٩٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْجُودِیِّ الشَّامِیُّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُہَاجِرِ یُحَدِّثُ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَا مِنْ رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا وَأَصْبَحَ الضَّیْفُ مَحْرُومًا إِلاَّ کَانَ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ نَصْرُہُ حَتَّی یَأْخُذَ بِقِرَی لَیْلَتِہِ مِنْ زَرْعِہِ وَمَالِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٩٥) مقدام بن معدیکرب فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ مہمان کی ضیافت نہیں کرتے اور مہان صبح محرومی کی حالت میں کرتا ہے تو ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس کی رات کی ضیافت کا حصہ اس کی کھیتی اور مال سے لیکر دیں۔

18702

(١٨٦٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ التَّرْقُفِیُّ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ یَعْلَی (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو سَعِیدٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَعْلَی بْنِ الْحَارِثِ الْمُحَارِبِیُّ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا غَیْلاَنُ بْنُ جَامِعٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ : خَرَجَ قَوْمٌ مِنَ الأَنْصَارِ مِنَ الْکُوفَۃِ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَأَتَوْا عَلَی حَیٍّ مِنْ بَنِی أَسَدٍ وَقَدْ أَرْمَلُوا فَسَأَلُوہُمُ الْبَیْعَ وَقَدْ رَاحْ عَلَیْہِمْ مَالٌ لَہُمْ حَسَنٌ قَالُوا : مَا عِنْدَنَا بَیْعٌ فَسَأَلُوہُمُ الْقِرَی قَالُوا : مَا نَطِیقُ قِرَاکُمْ فَلَمْ یَزَلْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الأَعْرَابِ حَتَّی اقْتَتَلُوا فَتَرَکَتْ لَہُمُ الأَعْرَابُ الْبُیُوتَ وَمَا فِیہَا فَأَخَذُوا لِکُلِّ عَشْرَۃٍ مِنْہُمْ شَاۃً قَالَ : فَأَتَوْا عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ وَقَالَ : لَوْ کُنْتُ تَقَدَّمْتُ فِی ہَذَا لَفَعَلْتُ وَفَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا ثُمَّ کَتَبَ إِلَی أَہْلِ الأَمْصَارِ وَأَہْلِ الذِّمَّۃِ بِنُزْلِ لَیْلَۃٍ لِلضَّیْفِ ۔ قَالَ قَیْسٌ فَأَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی لَیْلَی أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَسَمَ غَنَمًا بَیْنَ أَصْحَابِہِ فَأَعْطَی کُلَّ عَشْرَۃٍ شَاۃً وَإِنَّہَا کَانَتْ سُنَّۃٌ۔ قَالَ : وَقَدْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَئِذٍ بِالْقُدُورِ فَأُکْفِئَتْ وَہُوَ یَوْمَئِذٍ بِخَیْبَرَ قَالَ قَیْسٌ وَأَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی لَیْلَی : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ بِنُزْلِ لَیْلَۃٍ فِی الْمُسْلِمِینَ وَالْمُعَاہِدِینَ قَالَ ابْنُ أَبِی لَیْلَی : قَدْ أَذْکُرُ أَنَّ أَہْلَ الأَرْضِ کَانُوا یَسْتَقْبِلُونَنَا بِنُزْلِ لَیْلَۃٍ یَقُولُ بِالْفَارِسِیَّۃِ بَشَامْ قَالَ التَّرْقُفِیُّ فِی رِوَایَتِہِ یَقُولُونَ شَامْ أَیْ عَشَائً ۔
(١٨٦٩٦) قیس بن مسلم حضرت طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ انصار کے لوگ کوفہ سے مدینہ کو چلے۔ وہ بنو اسد کے ایک قبیلہ کے پاس آئے۔ وہ بےتوشہ تھے، ان سے کچھ فروخت کرنے کا کہا اور ان کے پاس بہترین مال بھی تھا۔ انھوں نے مال فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے ضیافت کا تقاضا کیا تو انھوں نے کہا : ہم تمہاری ضیافت بھی نہیں کرسکتے۔ پھر ان کے درمیان لڑائی ہوئی تو دیہاتیوں نے اپنے گھر مال سمیت خالی کر گئے تو پھر ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں دس دس بکریاں آئیں۔ راوی کہتے ہیں : انھوں نے آ کر حضرت عمر (رض) کو بتایا تو انھوں نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا اگر میں جاتا تو میں یوں یوں کرتا۔ پھر انھوں نے شہروں اور ذمی لوگوں کو خط لکھے کہ وہ رات کے مہمان کی ضیافت کیا کریں۔
(ب) عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ میں بکریاں تقسیم فرمائیں، ہر ایک کے حصہ میں دس دس بکریاں آئیں۔ یہ سنت ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ خیبر کے موقع پر آپ نے ہنڈیاں انڈیل دینے کا حکم فرمایا۔
(ج) ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مسلمانوں اور مجاہدین کے درمیان ایک دن کی ضیافت مقرر فرمائی۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ لوگ رات کی ضیافت کے ساتھ استقبال کرتے۔ فارسی میں جس کو شام کہتی ہیں، یعنی رات کا کھانا۔ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ

18703

(١٨٦٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ حَدَّثَنِی الأَحْوَصُ بْنُ حَکِیمٍ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ عَنْ حَکِیمِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ فَذَکَرَہُ قَالَ : وَأَیُّمَا رُفْقَۃٍ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ آوَاہُمُ اللَّیْلُ إِلَی قَرْیَۃٍ مِنْ قُرَی الْمُعَاہِدِینَ مِنْ مُسَافِرِینَ فَلَمْ یَأْتُوہُمْ بِالْقِرَی فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُمُ الذِّمَّۃُ ۔ [حسن لغیرہ ]
(١٨٦٩٧) حکیم بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے لشکروں کے امراء کو خط لکھا کہ مجاہدین کے کس گروہ کو معاھدین کے کسی علاقہ میں رات ہوجائے حالت سفر میں وہ ان کی ضیافت نہ کریں۔ تو ان سے معاہدہ ختم، ذمہ ختم۔

18704

(١٨٦٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِئُ أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ : کُنَّا نُصِیبُ مِنْ ثِمَارِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ وَأَعْلاَفِہِمْ وَلاَ نُشَارِکُہُمْ فِی نِسَائِہِمْ وَلاَ أَمْوَالِہِمْ وَکُنَّا نُسَخِّرُ الْعِلْجَ یَہْدِینَا الطَّرِیقَ ۔ [حسن ]
(١٨٦٩٨) جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم ذمی لوگوں کے پھل، گھاس وغیرہ حاصل کرلیتے، لیکن ان عورتوں کی اور مالوں میں شراکت نہ کرتے تھے اور ہم کسی مدبر شخص کو لے لیتے جو راستے کے بارے ہماری رہنمائی کرتا۔

18705

(١٨٦٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ زَیْدِ بْنِ صَعْصَعَۃَ قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّا نَأْتِی الْقَرْیَۃَ بِالسَّوَادِ فَنَسْتَفْتِحُ الْبَابَ فَإِنْ لَمْ یُفْتَحْ لَنَا کَسَرْنَا الْبَابَ فَأَخَذْنَا الشَّاۃَ فَذَبَحْنَاہَا قَالَ : وَلِمَ تَفْعَلُونَ ذَاکَ ؟ قُلْتُ : إِنَّا نُرَاہُ لَنَا حَلاَلاً قَالَ فَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ { ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ } [آل عمران ٧٥] وَہَذَا إِنْ کَانَ فِی الْمُعَاہِدِینَ فَلأَنَّہُمْ لَمْ یُصَالِحُوہُمْ عَلَی الضِّیَافَۃِ فَلَمْ یَحِلَّ لَہُمْ تَنَاوُلُہَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح ]
(٩٩ ١٨٦) زید بن صعصعہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا : ہم سواد کی ایک بستی میں آئے۔ ہم نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، لیکن دروازہ نہ کھولا گیا تو ہم نے دروازہ توڑ کر بکری نکال کر ذبح کرلی۔ راوی کہتے ہیں : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا : ہم اس کو حلال تصور کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : اس نے یہ آیت تلاوت کی { ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ } [آل عمران ٧٥] یہ اس وجہ سے کہ انھوں نے کہا : ہم پر امیوں کا کوئی حق نہیں، وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر وہ معاہدین ہوں تو پھر ضیافت پر ان کے ساتھ صلح نہ ہوگی اور ان سے کچھ لینا بھی درست نہیں ہے۔

18706

(١٨٧٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ کَتَبَ إِلَی أُمَرَائِ أَہْلِ الْجِزْیَۃِ أَنْ لاَ یَضْرِبُوا الْجِزْیَۃَ إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوسَی۔ قَالَ : وَکَانَ لاَ یَضْرِبُ الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ۔ قَالَ یَحْیَی وَہَذَا الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَصْحَابِنَا۔ [صحیح ]
(١٨٧٠٠) نافع حضرت اسلم سے اور وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے جزیہ لینے والے عاملوں کو خط لکھا کہ بالغ سے جزیہ لیا جائے، لیکن بچوں اور عورتوں سے جزیہ وصول نہ کرو۔

18707

(١٨٧٠١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی أُمَرَائِ الْجِزْیَۃِ أَنْ لاَ تَضَعُوا الْجِزْیَۃَ إِلاَّ عَلَی مَنْ جَرَتِ عَلَیْہِ الْمَوَاسِی وَلاَ تَضَعُوا الْجِزْیَۃَ عَلَی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ۔ وَکَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَخْتِمُ أَہْلَ الْجِزْیَۃِ فِی أَعْنَاقِہِمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٠١) نافع حضرت عمر (رض) کے غلام اسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جزیہ لینے والے امراء کو خط لکھا کہ صرف بالغ لوگوں سے جزیہ لیں۔ بچوں، عورتوں سے جزیہ وصول نہ کریں اور حضرت عمر (رض) تو جزیہ دینے والے افراد کی گردنوں پر مہر لگا دیتے تھے۔

18708

(١٨٧٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مُحْبُورٍ الدَّہَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا أَبُو کُدَیْنَۃَ عَنْ قَابُوسِ بْنِ أَبِی ظَبْیَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لَیْسَ عَلَی مُؤْمِنٍ جِزْیَۃٌ وَلاَ یَجْتَمِعُ قِبْلَتَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ جَرِیرٌ عَنْ قَابُوسَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٠٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ مومن پر جزیہ نہیں اور جزیرہ عرب میں دو قبیلے جمع نہیں ہوسکتے۔

18709

(١٨٧٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ : ہِلاَلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحَفَّارُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَیَّاشٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ السَّرِیِّ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ ہِلاَلٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ جَدِّہِ أَبِی أُمِّہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی وَلَیْسَتْ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی الأَحْوَصِ وَفِی رِوَایَۃِ جَرِیرٍ قَالَ عَنْ حَرْبِ بْنِ ہِلاَلٍ عَنْ أَبِی أُمِّہِ رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینِ عُشُورٌ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٠٣) حرب بن عبداللہ اپنے نانا سے اور وہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عشر یہود و نصاریٰ پر ہے اور مسلمانوں پر عشر نہیں ہے۔ (ب) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ عشر یعنی دسواں حصہ مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہے بلکہ یہ یہود و نصاریٰ پر ہے۔

18710

(١٨٧٠٤) وَرَوَاہُ عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَیْرٍ الثَّقَفِیِّ عَنْ جَدِّہِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَغْلِبَ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِی الإِسْلاَمَ وَعَلَّمَنِی کَیْفَ آخُذُ الصَّدَقَۃَ مِنْ قَوْمِی مِمَّنْ أَسْلَمَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ مَا عَلَّمْتَنِی قَدْ حَفِظْتُ إِلاَّ الصَّدَقَۃَ أَفَأَعْشُرُہُمْ قَالَ : لاَ إِنَّمَا الْعُشْرُ عَلَی النَّصَارَی وَالْیَہُودِ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ فَذَکَرَہُ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٠٤) حرب بن عبید اللہ بن عمیرثقفی اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں بنو تغلب سے تھے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ آپ نے مجھے اسلام کی تعلیم دی اور مسلمانوں سے صدقہ لینے کا طریقہ بتایا۔ پھر میں آپ کے پاس واپس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو آپ نے تعلیم دی مجھے یاد ہے، سوائے صدقہ کے کہ کیا میں ان سے دسواں حصہ وصول کروں ؟ فرمایا : نہیں دسواں حصہ صرف یہود و نصاریٰ پر ہے۔

18711

(١٨٧٠٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ الْمُحَارِبِیُّ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَعْنَی حَدِیثِ أَبِی الأَحْوَصِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : خَرَاجٌ مَکَانَ الْعُشُورُ ۔ وَرَوَاہُ أَبُو نُعَیْمٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ حَرْبٍ عَنْ خَالٍ لَہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٠٥) حرب بن عبید اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابو احوص کی حدیث کے ہم معنی نقل فرماتے ہیں۔ انھوں نے عشر کی بجائے لفظ خراج بولا ہے۔

18712

(١٨٧٠٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَطَائٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ خَالِہِ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَعْشُرُ قَوْمِی قَالَ : إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَخْوَالِہِ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٠٦) عطاء بکر بن وائل کے ایک شخص جو اپنے خالو سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اپنی قوم سے دسواں حصہ وصول کروں ؟ فرمایا : میں دسواں حصہ صرف یہود و نصاریٰ سے وصول کیا جاتا ہے۔

18713

(١٨٧٠٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ نُصَیْرٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی۔ قَالَ الْعَبَّاسُ ہَکَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ عَنْ أَبِی جَدِّہِ ۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی التَّارِیخِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ عَنْ أَبِی بَکْرٍ عَنْ نُصَیْرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِی جَدِّہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ وَقَالَ أَبُو حَمْزَۃَ عَنْ عَطَائٍ حَدَّثَنَا الْحَارِثِ الثَّقَفِیِّ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ وَکَانَ مِمَّنْ وَفَدَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ (ق) وَہَذَا إِنْ صَحَّ فَإِنَّمَا أَرَادَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ تَعْشِیرَ أَمْوَالِہِمْ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَۃِ فَإِذَا أَسْلَمُوا رُفِعَ ذَلِکَ عَنْہُمْ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٠٧) حرب بن عبید اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمانوں پر عشر نہیں عشر صرف یہود و نصاریٰ پر ہے۔
(ب) حارث ثقفی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ اسے اس وفد نے خبر دی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تھا کہ دسواں حصہ تب ہے جب مال تجارت کی وجہ سے مختلف ہو۔ لیکن جب وہ اسلام قبول کرلیں تو دسواں حصہ ختم کردیا جاتا ہے۔

18714

(١٨٧٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ مَہْدِیٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ رَوَاحَۃَ حَدَّثَنِی مَسْرُوقٌ : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الشُّعُوبِ أَسْلَمَ فَکَانَتْ تُؤْخَذُ مِنْہُ الْجِزْیَۃُ فَأَتَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخْبَرَہُ فَکَتَبَ أَنْ لاَ تُؤْخَذَ مِنْہُ الْجِزْیَۃُ ۔ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ الشُّعُوبُ الْعَجَمُ ہَا ہُنَا۔ [ضعیف ]
(١٨٧٠٨) مسروق فرماتے ہیں کہ ایک عجمی ایمان لایا جس سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے لکھ دیا کہ اس سے جزیہ نہ لیا جائے۔

18715

(١٨٧٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنْ جَرِیرٍ عَنْ مُغِیرَۃَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ یَہُودِیَّۃَ کَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَتَقَعُ فِیہِ فَخَنَقَہَا رَجُلٌ حَتَّی مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَمَہَا۔ [صحیح ]
(١٨٧٠٩) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دیتی تھی، بد زبانی کرتی تھی۔ ایک شخص نے گلا گھونٹ کر مار دی تو آپ نے اس کا خون باطل فرما دیا۔

18716

(١٨٧١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَصْفَہَانِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ قَالَ قَالَ نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا حَرْمَلَۃُ بْنُ عِمْرَانَ حَدَّثَنِی کَعْبُ بْنُ عَلْقَمَۃَ أَنَّ غَرَفَۃَ بْنَ الْحَارِثِ الْکِنْدِیَّ مَرَّ بِہِ نَصْرَانِیٌّ فَدَعَاہُ إِلَی الإِسْلاَمِ فَتَنَاوَلَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَذَکَرَہُ فَرَفَعَ غَرَفَۃُ یَدَہُ فَدَقَّ أَنْفَہُ فَرُفِعَ إِلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ عَمْرٌو أَعْطَیْنَاہُمُ الْعَہْدَ فَقَالَ غَرَفَۃُ : مَعَاذَ اللَّہِ أَنْ نَکُونَ أَعْطَیْنَاہُمْ عَلَی أَنْ یُظْہِرُوا شَتْمَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنَّمَا أَعْطَیْنَاہُمْ عَلَی أَنْ نُخَلِّیَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ کَنَائِسِہِمْ یَقُولُونَ فِیہَا مَا بَدَا لَہُمْ وَأَنْ لاَ نُحَمِّلَہُمْ مَا لاَ یُطِیقُونَ وَإِنْ أَرَادَہُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاہُمْ مِنْ وَرَائِہِمْ وَنُخَلِّیَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ أَحْکَامِہِمْ إِلاَّ أَنْ یَأْتُونَا رَاضِینَ بِأَحْکَامِنَا فَنَحْکُمَ بَیْنَہُمْ بِحُکْمِ اللَّہِ وَحُکْمِ رَسُولِہِ وَإِنْ غَیَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَہُمْ فِیہَا۔ قَالَ عَمْرٌو : صَدَقْتَ ۔ وَکَانَ غَرَفَۃُ لَہُ صُحْبَۃٌ۔ [حسن ]
(١٨٧١٠) کعب بن علقمہ فرماتے ہیں کہ غرفہ بن حارث کندی کا ایک عیسائی کے پاس سے گذر ہوا اس نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کچھ باتیں کیں تو غرفہ نے اس کی ناک پر تھپڑ رسید کردیا۔ معاملہ حضرت عمرو بن عاص (رض) کے پاس آیا تو حضرت عمرو (رض) نے کہہ دیا : ہم نے ان کو عہد دے رکھا ہے تو غرفہ کہنے لگے : اللہ کی پناہ اگرچہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھلم کھلا گالیاں دیں ۔ صرف ہمارا ان سے عہد ہے کہ وہ اپنے معبد خانے میں رہیں ، جیسے بھی عبادت کریں۔ ہم ان پر وہ بوجھ نہیں ڈالتے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اگر ان کا دشمن ہم سے ان کے ورے لڑائی کرنا چاہے تو ہم ان کو ان کے احکام کی وجہ سے چھوڑ دیں مگر جب تک وہ ہمارے حکموں پر راضی نہ ہوں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام جاری کریں گے۔ اگر وہ ہم سے غائب رہیں تو ہم ان کے درپے نہ ہوں گے تو عمرو (رض) نے کہا : تو نے سچ کہا ہے اور غرفہ صحابی ہیں۔

18717

(١٨٧١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِیُّ حَدَّثَنَا جَدِّی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَیْحٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : ہَذَا حَدِیثُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ خَرَجَ إِلَی بَنِی النَّضِیرِ یَسْتَعِینُہُمْ فِی عَقْلِ الْکِلاَبِیَّیْنِ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِہِ إِلَی بَنِی النَّضِیرِ یَسْتَعِینُہُمْ فِی عَقْلِ الْکِلاَبِیَّیْنِ وَکَانُوا زَعَمُوا قَدْ دَسُّوا إِلَی قُرَیْشٍ حِینَ نَزَلُوا بِأُحُدٍ فِی قِتَالِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَحَضُّوہُمْ عَلَی الْقِتَالِ وَدَلُّوہُمْ عَلَی الْعَوْرَۃِ فَلَمَّا کَلَّمَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی عَقْلِ الْکِلاَبِیَّیْنِ قَالُوا اجْلِسْ أَبَا الْقَاسِمِ حَتَّی تَطْعَمَ وَتَرْجِعَ بِحَاجَتِکَ وَنَقُومَ فَنَتَشَاوَرَ وَنُصْلِحَ أَمْرَنَا فِیمَا جِئْتَنَا لَہُ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَنْ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ فِی ظِلِّ جِدَارٍ یَنْتَظِرُ أَنْ یُصْلِحُوا أَمْرَہُمْ فَلَمَّا خَلَوْا وَالشَّیْطَانُ مَعَہُمْ لاَ یُفَارِقُہُمُ ائْتَمَرُوا بِقَتْلِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا : لَنْ تَجِدُوہُ أَقْرَبَ مِنْہُ الآنَ فَاسْتَرِیحُوا مِنْہُ تَأْمَنُوا فِی دِیَارِکُمْ وَیُرْفَعُ عَنْکُمُ الْبَلاَئُ فَقَالَ رَجُلٌ : إِنْ شِئْتُمْ ظَہَرْتُ فَوْقَ الْبَیْتِ وَدَلَّیْتُ عَلَیْہِ حَجَرًا فَقَتَلْتُہُ فَأَوْحَی اللَّہُ إِلَیْہِ فَأَخْبَرَہُ بِمَا ائْتَمَرُوا مِنْ شَأْنِہِ فَعَصَمَہُ اللَّہُ فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَأَنَّہُ یُرِیدُ یَقْضِی حَاجَۃً وَتَرَکَ أَصْحَابَہُ فِی مَجْلِسِہِمْ وَانْتَظَرَہُ أَعْدَائُ اللَّہِ فَرَاثَ عَلَیْہِمْ وَأَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ فَسَأَلُوہُ عَنْہُ فَقَالَ : لَقِیتُہُ قَدْ دَخَلَ أَزِقَّۃَ الْمَدِینَۃِ فَقَالُوا لأَصْحَابِہِ : عَجِلَ أَبُو الْقَاسِمِ أَنْ نُقِیمَ أَمْرَنَا فِی حَاجَتِہِ الَّتِی جَائَ بِہَا ثُمَّ قَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَجَعُوا وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ بِالَّذِی جَائَ أَعْدَائُ اللَّہِ فَقَالَ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمَّ قَوْمٌ أَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ أَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ } [المائدۃ ١١] فَلَمَّا أَظْہَرَ اللَّہُ رَسُولَہُ عَلَی مَا أَرَادُوا بِہِ وَعَلَی خِیَانَتِہِمْ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ أَمَرَ بِإِجْلاَئِہِمْ وَإِخْرَاجِہِمْ مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمَرَہُمْ أَنْ یَسِیرُوا حَیْثُ شَائُ وا إِلَی آخَرِ الْحَدِیثِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧١١) ابن شہاب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، جب آپ بنو نضیر کے پاس گئے اور ان سے کلابین کی دیت میں مددمانگ رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ بنو نضیر کے پاس گئے۔ کلابین کی دیت میں ان سے مدد چاہی اور مسلمانوں کا گمان تھا کہ انھوں نے قریشیوں سے مل کر غزوہ احد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کی۔ ان کو قتال پہ ابھارا اور راز بتاتے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کلابین کی دیت کے بارے میں بات چیت کی تو انھوں نے کہا : اے ابو القاسم ! آپ تشریف رکھیں، کھانا کھائیں۔ ہم اس معاملہ میں مشورہ کرلیں جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں۔ آپ صحابہ کے ساتھ دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے کہ وہ اپنے معاملہ میں صلاح مشورہ کرلیں۔ انھوں نے الگ ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا مشورہ کرلیا اور کہنے لگے : اس سے راحت حاصل کرو اپنے گھروں میں امن سے رہو۔ تمہاری مصیبت ختم ہوجائے گی۔ ایک شخص نے کہا : اگر تم چاہو تو میں چھت سے اس کے اوپر پتھر گرا کر قتل کر ڈالوں۔ ادھر اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی اطلاع دے کر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محفوظ کرلیا۔ آپ اپنے صحابہ کو وہاں چھوڑ کر یوں نکلے جیسے قضائے حاجت کے لیے جایا جاتا ہے اور اللہ کے دشمنوں نے آپ کا انتظار کیا، لیکن آپ نے واپس آنے میں دیر کی تو انھوں نے مدینہ سے آنے والے ایک شخص سے آپ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ آپ تو مدینہ کی گلی میں داخل ہو رہے تھے تو انھوں نے صحابہ سے کہا کہ آپ نے تو دیر فرما دی۔ ہم اس معاملہ میں مشورہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب صحابہ واپس آگئے تو قرآن کا نزول ہوا، اللہ خوب جانتا ہے جو اللہ کے دشمنوں نے تدبیر کی، فرمایا : { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ } [المائدۃ ١١] اے ایمان والو ! جو اللہ نے تمہارے اوپر احسان کیا اس کو یاد کرو جب اللہ نے ایک قوم کے ہاتھ تم سے روکے۔ اللہ سے ڈرو اور مومن توکل کریں۔ جب اللہ نے ان کے ارادہ کو ظاہر کردیا اور ان کی خیانت کو تو انھیں جلا وطن کردیا گیا اور کہا گیا : جہاں چاہو چلے جاؤ۔

18718

(١٨٧١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ الأَزْدِیُّ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : کُنَّا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ بِالشَّامِ فَأَتَاہُ نَبَطِیٌّ مَضْرُوبٌ مُشَجَّجٌ مُسْتَعْدِی فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا فَقَالَ لِصُہَیْبٍ : انْظُرْ مَنْ صَاحِبُ ہَذَا فَانْطَلَقَ صُہَیْبٌ فَإِذَا ہُوَ عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ الأَشْجَعِیُّ فَقَالَ لَہُ : إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَدْ غَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا فَلَوْ أَتَیْتَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فَمَشَی مَعَکَ إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنِّی أَخَافُ عَلَیْکَ بَادِرَتَہُ فَجَائَ مَعَہُ مُعَاذٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَلَمَّا انْصَرَفَ عُمَرُ مِنَ الصَّلاَۃِ قَالَ : أَیْنَ صُہَیْبٌ؟ فَقَالَ : أَنَا ہَذَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَالَ : أَجِئْتَ بِالرَّجُلِ الَّذِی ضَرَبَہُ قَالَ : نَعَمْ فَقَامَ إِلَیْہِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فَقَالَ لَہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّہُ عَوْفُ بْنُ مَالِکٍ فَاسْمَعْ مِنْہُ وَلاَ تَعْجَلْ عَلَیْہِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : مَا لَکَ وَلِہَذَا۔ قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ رَأَیْتُہُ یَسُوقُ بِامْرَأَۃٍ مُسْلِمَۃٍ فَنَخَسَ الْحِمَارَ لِیَصْرَعَہَا فَلَمْ تُصْرَعْ ثُمَّ دَفَعَہَا فَخَرَّتْ عَنِ الْحِمَارِ فَغَشِیَہَا فَفَعَلْتُ مَا تَرَی قَالَ : ائْتِنِی بِالْمَرْأَۃِ لِتُصَدِّقَکَ فَأَتَی عَوْفٌ الْمَرْأَۃَ فَذَکَرَ الَّذِی قَالَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ أَبُوہَا وَزَوْجُہَا : مَا أَرَدْتَ بِصَاحِبَتِنَا فَضَحْتَہَا فَقَالَتِ الْمَرْأَۃُ : وَاللَّہِ لأَذْہَبَنَّ مَعَہُ إِلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَلَمَّا أَجْمَعَتْ عَلَی ذَلِکَ قَالَ أَبُوہَا وَزَوْجُہَا : نَحْنُ نُبَلِّغُ عَنْکِ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَأَتَیَا فَصَدَّقَا عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ بِمَا قَالَ ، قَالَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِلْیَہُودِیِّ : وَاللَّہِ مَا عَلَی ہَذَا عَاہَدْنَاکُمْ فَأَمَرَ بِہِ فَصُلِبَ ثُمَّ قَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ فُوَا بِذِمَّۃِ مُحَمَّدٍ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَنْ فَعَلَ مِنْہُمْ ہَذَا فَلاَ ذِمَّۃَ لَہُ ۔ قَالَ سُوَیْدُ بْنُ غَفَلَۃَ فَإِنَّہُ لأَوَّلُ مَصْلُوبٍ رَأَیْتُہُ ۔ (ت) تَابَعَہُ ابْنُ أَشْوَعَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧١٢) سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے ساتھ شام میں تھے کہ ایک نبطی شخص آیا جس کو سخت مار کے ذریعے زخمی کیا گیا تھا۔ حضرت عمر (رض) کو سخت غصہ آیا اور صہیب سے کہا : دیکھو کس نے اسے مارا ہے ؟ صہیب گئے تو عوف بن مالک کو پایا کہ اس نے مارا تھا تو صہیب نے عوف بن مالک سے کہا کہ معاذ بن جبل (رض) کو ساتھ لیکر امیر المومنین کے پاس جانا۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ سزا دینے میں جلدی کریں تو عوف بن مالک حضرت معاذ کو لیکر کے پاس گئے۔ جب حضرت عمر (رض) نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا : صہیب کدھر ہے ؟ صہیب کہتے ہیں : اے امیر المومنین ! میں حاضر ہوں۔ پوچھا : مارنے والے شخص کو لیکر آئے ہو ؟ تو صہیب نے کہا : اے امیر المومنین ! لیکر آیا ہوں تو معاذ بن جبل (رض) نے کہا : اے امیر المومنین ! عوف بن مالک کی بات سن لینا جلدی نہ کرنا۔ تو حضرت عمر (رض) نے پوچھا معاملہ کیا ہے ؟ تو عوف بن مالک نے کہا اے امیر المومنین اس نے ایک مسلم عورت کے گدھے کو بھگا دیا تاکہ وہ گرجائے لیکن وہ گری تو نہ۔ اس نے دوبارہ گدھے کو بھاگا کر اس کو گرا دیا اور زنا کیا۔ تب میں نے یہ کیا، جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے : عورت کو لاؤ تاکہ وہ تیری صدیق کرسکے تو عوف بن مالک نے عورت کے سامنے حضرت عمر (رض) کی بات کا تذکرہ کیا۔ اس کے والد اور خاوند نے کہا : تو ہماری عورت کی تذلیل چاہتا ہے۔ عورت نے بھی امیر المومنین کے پاس جانے سے انکار کردیا۔ جب اس نے ان کے ساتھ اتفاق کرلیا تو اس عورت کے والد اور خاوند نے پھر کہا : چلو ہم تیری تصدیق حضرت عمر (رض) کے پاس کردیتے ہیں۔ جب انھوں نے تصدیق کردی تو حضرت عمر (رض) نے یہودی سے کہا : ہمارا تمہارے ساتھ اس پر تو معاہدہ نہیں تھا۔ اس یہودی کو سولی دے دی۔ پھر کہا : اے لوگو ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ کو پورا کرو۔ جس نے اس طرح کی حرکت کی اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں ہے۔ سوید بن غفلہ کہتے ہیں : یہ پہلا شخص میں نے دیکھا جس کو سولی دی گئی۔

18719

(١٨٧١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ بَرْہَانَ وَأَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ قَالُوا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ رُفَیْعٍ عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : کَتَبَ إِلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنْ أَدِّبُوا الْخَیْلَ وَلاَ یُرْفَعَنَّ بَیْنَ ظَہْرَانَیْکُمُ الصَّلِیبُ وَلاَ تُجَاوِرَنَّکُمُ الْخَنَازِیرُ ۔ [حسن ]
(١٨٧١٣) حرام بن معاویہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے خط لکھا کہ گھوڑوں کی تربیت کرو، لیکن تمہارے درمیان صلیب کو بلند نہ کیا جائے اور نہ ہی تمہارے قریب خنزیر رہیں۔

18720

(١٨٧١٤) أَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ أَبُو مُسْلِمٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ : عَبْدُ الْقَاہِرِ بْنُ طَاہِرٍ الْبَغْدَادِیُّ الإِمَامُ وَأَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَلِیِّ بْنِ حَمْدَانَ الْفَارِسِیُّ وَأَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : إِسْمَاعِیلُ بْنُ نُجَیْدٍ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَنْصَارِیُّ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُلُّ مِصْرٍ مَصَّرَہُ الْمُسْلِمُونَ لاَ یُبْنَی فِیہِ بِیعَۃٌ وَلاَ کَنِیسَۃٌ وَلاَ یُضْرَبُ فِیہِ بِنَاقُوسٍ وَلاَ یُبَاعُ فِیہِ لَحْمُ خِنْزِیرٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧١٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ہر وہ شہر جس کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو۔ اس میں یہود و عیسائی اپنے معبد خانے نہ بنائیں گے اور نہ ہی ناقوس بجایا جائے گا اور نہ ہی خنزیر کا گوشت کھایا جائے گا۔

18721

(١٨٧١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْیَامِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ أَخْبَرَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْہَمْدَانِیُّ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِیِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : صَالَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ نَجْرَانَ عَلَی أَلْفَیْ حُلَّۃٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ کَمَا مَضَی قَالَ فِیہِ : عَلَی أَنْ لاَ تُہْدَمَ لَہُمْ بِیعَۃٌ وَلاَ یُخْرَجَ لَہُمْ قَسٌّ وَلاَ یُفْتَنُونَ عَنْ دِینِہِمْ مَا لَمْ یُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ یَأْکُلُوا الرِّبَا۔ [ضعیف ]
(١٨٧١٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران سے دو ہزار سوٹوں پر صلح کی۔ مذکورہ حدیث میں ہے کہ ان کے معبد خانے نہ گرائے جائیں گے۔ پادری کو نہ نکالا جائے گا اور ان کے دین سے نہ ہٹایا جائے گا۔ جب تک کوئی نیا کام نہ کریں یا سود نہ کھائیں۔

18722

(١٨٧١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو قِلاَبَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَیُّمَا مِصْرٍ اتَّخَذَہُ الْعَرَبُ فَلَیْسَ لِلْعَجَمِ أَنْ یَبْتَنُوا فِیہِ بِیعَۃً أَوْ قَالَ کَنِیسَۃً وَلاَ یَضْرِبُوا فِیہِ بِنَاقُوسٍ وَلاَ یُدْخِلُوا فِیہِ خَمْرًا وَلاَ خِنْزِیرًا وَأَیُّمَا مِصْرٍ اتَّخَذَہُ الْعَجَمُ فَعَلَی الْعَرَبِ أَنْ یَفُوا لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ فِیہِ وَلاَ یُکَلِّفُوہُمْ مَا لاَ طَاقَۃَ لَہُمْ بِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧١٦) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جو شہر عرب والوں نے بسایا تو عجمی لوگ اس میں معبد خانے نہیں بنا سکتے اور ان کو ناقوس بجانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور اس میں شراب اور خنزیر کا گوشت بھی نہیں لاسکتے۔ اور جس شہر کو عجم آباد کریں تو عرب والے ان کا عہد پورا کریں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر ان کو تکلیف نہ دیں۔

18723

(١٨٧١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَخْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ یَعْقُوبَ بْنِ یُوسُفَ الْمُطَّوِّعِیُّ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ ثَعْلَبٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی الْعَیْزَارِ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ وَالْوَلِیدِ بْنِ نُوحٍ وَالسَّرِیِّ بْنِ مُصَرِّفٍ یَذْکُرُونَ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ : کَتَبْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حِینَ صَالِحَ أَہْلَ الشَّامِ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ہَذَا کِتَابٌ لِعَبْدِ اللَّہِ عُمَرَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ نَصَارَی مَدِینَۃِ کَذَا وَکَذَا إِنَّکُمْ لَمَّا قَدِمْتُمْ عَلَیْنَا سَأَلْنَاکُمُ الأَمَانَ لأَنْفُسِنَا وَذَرَارَیِّنَا وَأَمْوَالِنَا وَأَہْلِ مِلَّتِنَا وَشَرَطْنَا لَکُمْ عَلَی أَنْفُسِنَا أَنْ لاَ نُحْدِثَ فِی مَدِینَتِنَا وَلاَ فِیمَا حَوْلَہَا دَیْرًا وَلاَ کَنِیسَۃً وَلاَ قَلاَّیَۃً وَلاَ صَوْمَعَۃَ رَاہِبٍ وَلاَ نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْہَا وَلاَ نُحْیِیَ مَا کَانَ مِنْہَا فِی خِطَطِ الْمُسْلِمِینَ وَأَنْ لاَ نَمْنَعَ کَنَائِسَنَا أَنْ یَنْزِلَہَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی لَیْلٍ وَلاَ نَہَارٍ وَنُوَسِّعَ أَبْوَابَہَا لِلْمَارَّۃِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَأَنْ نُنْزِلَ مَنْ مَرَّ بِنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ نُطْعِمَہُمْ وَأَنْ لاَ نُؤْمِنَ فِی کَنَائِسِنَا وَلاَ مَنَازِلِنَا جَاسُوسًا وَلاَ نَکْتُمُ غِشًّا لِلْمُسْلِمِینَ وَلاَ نُعَلِّمَ أَوْلاَدَنَا الْقُرْآنَ وَلاَ نُظْہِرَ شِرْکًا وَلاَ نَدْعُو إِلَیْہِ أَحَدًا وَلاَ نَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ قَرَابَتِنَا الدُّخُولَ فِی الإِسْلاَمِ إِنْ أَرَادَہُ وَأَنْ نُوَقِّرَ الْمُسْلِمِینَ وَأَنْ نَقُومَ لَہُمْ مِنْ مَجَالِسِنَا إِنْ أَرَادُوا جُلُوسًا وَلاَ نَتَشَبَّہُ بِہِمْ فِی شَیْئٍ مِنْ لِبَاسِہِمْ مِنْ قَلَنْسُوَۃٍ وَلاَ عِمَامَۃٍ وَلاَ نَعْلَیْنِ وَلاَ فَرْقِ شَعَرٍ وَلاَ نَتَکَلَّمَ بِکَلاَمِہِمْ وَلاَ نَتَکَنَّی بِکُنَاہُمْ وَلاَ نَرْکَبَ السُّرُوجَ وَلاَ نَتَقَلَّدَ السُّیُوفَ وَلاَ نَتَّخِذَ شَیْئًا مِنَ السِّلاَحِ وَلاَ نَحْمِلَہُ مَعَنَا وَلاَ نَنْقُشَ خَوَاتِیمَنَا بِالْعَرَبِیَّۃِ وَلاَ نَبِیعَ الْخُمُورَ وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِیمَ رُئُ وسِنَا وَأَنْ نَلْزَمَ زِیَّنَا حَیْثُمَا کُنَّا وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِیرَ عَلَی أَوْسَاطِنَا وَأَنْ لاَ نُظْہِرَ صُلُبَنَا وَکُتُبَنَا فِی شَیْئٍ مِنْ طَرِیقِ الْمُسْلِمِینَ وَلاَ أَسْوَاقِہِمْ وَأَنْ لاَ نُظْہِرَ الصُّلُبَ عَلَی کَنَائِسِنَا وَأَنْ لاَ نَضْرِبَ بِنَاقُوسٍ فِی کَنَائِسِنَا بَیْنَ حَضْرَۃِ الْمُسْلِمِینَ وَأَنْ لاَ نُخْرِجَ سَعَانِینًا وَلاَ بَاعُوثًا وَلاَ نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ أَمْوَاتِنَا وَلاَ نُظْہِرَ النِّیرَانَ مَعَہُمْ فِی شَیْئٍ مِنْ طَرِیقِ الْمُسْلِمِینَ وَلاَ تُجَاوِرَہُمْ مَوْتَانَا وَلاَ نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِیقِ مَا جَرَی عَلَیْہِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِینَ وَلاَ نَطَّلِعَ عَلَیْہِمْ فِی مَنَازِلِہِمْ فَلَمَّا أَتَیْتُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِالْکِتَابِ زَادَ فِیہِ : وَأَنْ لاَ نَضْرِبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ شَرَطْنَا لَہُمْ ذَلِکَ عَلَی أَنْفُسِنَا وَأَہْلِ مِلَّتِنَا وَقَبِلْنَا عَنْہُمُ الأَمَانَ فَإِنْ نَحْنُ خَالَفْنَا شَیْئًا مِمَّا شَرَطْنَاہُ لَکُمْ فَضَمِنَّاہُ عَلَی أَنْفُسِنَا فَلاَ ذِمَّۃَ لَنَا وَقَدْ حَلَّ لَکُمْ مَا یَحِلُّ لَکُمْ مِنْ أَہْلِ الْمُعَانَدَۃِ وَالشِّقَاقِ ۔
(١٨٧١٧) عبد الرحمن بن غنم فرماتے ہیں : جس وقت شام والوں صلح کی تو میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو مہربان بےحدنہایت رحم والا ہے۔ یہ خط امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے نام فلاں فلاں شہر کے عیسائیوں کی جانب سے۔ جس وقت تم ہمارے پاس آئے تھے تو ہم سے پناہ طلب کی۔ اپنی جانوں، اولاد، مال اور اپنے دین کے بارے میں۔ اور ہم نے شرط رکھی تھی کہ شہر کے اردگرد کو معبد خانہ اور ہوٹل اور رہب کا گھر نہ بنائیں گے اور نہ ویران شدہ کو تعمیر کریں گے اور نہ مسلمانوں کے راستہ میں ان کو آباد کریں گے اور نہ ہم اپنے کنسیے سے کسی مسلمان کو دن رات میں کسی وقت بھی روکیں گے اور ہم اپے دروازوں کو راہگیروں اور مسافروں کے لیے چھوڑیں گے اور ہم اپنے مسلمان مہمانوں کی تین دن تک ضیافت کریں گے اور ہم اپنے گھروں اور عبادت خانوں میں کسی جاسوس کو پناہ نہیں دیں گے اور نہ ہم اور نہ ہی اپنے بچوں کو قرآن پڑھائیں گے۔ نہ شرک کا اظہار کریں گے اور نہ اس کی کسی کو اس کی طرف کسی کو دعوت دیں گے اور نہ ہم اپنے رشتہداروں کو اسلام قبول کرنے سے منع کریں گے۔ ہم مسلمانوں کی تعظیم کریں گے۔ جب وہ ہماری مجلسوں میں بیٹھنا چاہیں گے تو ہم کھڑے ہوجایا کریں گے۔ ہم مسلمانوں کے لباس ، ٹوپی ، پگڑی جوتے اور بال وغیرہ میں ان کی مشابہت اختیار نہیں کریں گے۔ ہم ان کے کلام کو گفتگو میں نہیں لائیں گے۔ نہ ہم ان جیسی کنیتں رکھیں گے۔ ہم زینوں پر سوار نہیں ہوں گے اور نہ ہی تلوار لٹکائیں گے۔ نہ ہم کوئی اسلحہ لیں گے اور نہ اسے اپنے ساتھ اٹھائیں گے۔ ہم اپنے انگوٹھیاں عزبی میں نہیں گھڑوائیں گے اور نہ ہم شراب بیچیں گے۔ اور ہم اپنے سروں کے اگلے با ل کاٹ ڈالیں گے ہم اپنا لباس ہی پہنیں گے جہاں بھی ہو۔ ہم اپنے درمیانوں پر زناّر باندھیں گے۔ ہم اپنیصلیوں اور اپنی مسلمانوں کے بازاروں اور راستوں میں نہیں نکالیں گے۔ ور نہ ہی اپنے عبادت گاہوں پر صلیب لگائیں گے۔ مسلمانوں کی موجودگی میں ہم اپنی عبادت گاہوں میں نافوس نہیں بجائیں گے۔ ہم اپنیتہوار نہیں منائیں گے اور نہ ہی ” باعوث “ ادا کریں گے اور نہ ہم اپے مردوں پر آوا زوں کو بلند کریں گے۔ ہم مسلمانوں کے راستے میں اپنے ساتھ آگے وغیرہ نہیں لائیں گے۔ ہم اپنے مردوں کو ان کے پڑوس میں دفن نہیں کریں گے۔ نہ ہم وہ غلام لیں گے جس میں مسلمانوں کا حصہ ہو۔ ہم مسلمانوں کی راہنمائی کریں گے اور ان کے گھروں پر نہیں جھنکیں گے ۔ جب میں عمر (رض) کے پاس خط لایا ۔ اس میں یہ ہے زیادتی تھی کہ ہم کسی مسلمان کو نہیں ماریں گے۔ ہم یہ سب ان کے لیے اپنے اوپر اپنے مذہب والوں پر لازم کرلیا ہے اور ہم نے امان طلب کی ہے۔ پھر اگر ہم اپنیطے کردہ شرائط کی خلاف ورزی کریں تو ہمارا کوئی ذمہ نہ رہے گا۔ پھر آپ کے اہل معاندہ اور نافرمانوں کے لیے جو کرنا چاہیں حلال ہے۔

18724

(١٨٧١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی أُمَرَائِ الأَجْنَادِ أَنِ اخْتِمُوا رِقَابَ أَہْلِ الْجِزْیَۃِ فِی أَعْنَاقِہِم۔ [صحیح ]
(١٨٧١٨) نافع اسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لشکروں کے امراء کو لکھا کہ جزیہ ادا کرنے والوں کی گردنوں پر مہریں لگا دو ۔

18725

(١٨٧١٩) وَاحْتَجَّ أَصْحَابُنَا فِی ذَلِکَ أَیْضًا بِمَا حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یُسَلِّمُ الصَّغِیرُ عَلَی الْکَبِیرِ وَالْمَارُّ عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِیلُ عَلَی الْکَثِیرِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ فَقَالَ وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧١٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چھوٹا بڑے کو، گزرنے ولا بیٹھنے والے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں۔

18726

(١٨٧٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِی أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی زِیَادٌ أَنَّ ثَابِتًا مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدٍ أَخْبَرَہُ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِی وَالْمَاشِی عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِیلُ عَلَی الْکَثِیرِ ۔ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ وَأَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُولُ : الْمَاشِیَانِ إِذَا اجْتَمَعَا فَأَیُّہُمَا بَدَأَ بِالسَّلاَمِ فَہُوَ أَفْضَلُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ رَوْحٍ دُونَ قَوْلِ جَابِرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ رَوْحٍ بِہِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٢٠) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کہیں۔
(ب) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں : جب دو پیدل چلنے والے ایک جگہ جمع ہوجائیں تو جو سلام کی ابتداء کرے وہ افضل ہے۔

18727

(١٨٧٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرْیَابِیُّ قَالَ ذَکَرَ سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّکُمْ لاَقُونَ الْیَہُودَ غَدًا فَلاَ تَبْدَئُ وہُمْ بِالسَّلاَمِ فَإِنْ سَلَّمُوا عَلَیْکُمْ فَقُولُوا وَعَلَیْکَ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٢١) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم یہودیوں سے ملو تو انھیں پہلے سلام نہ کہو۔ اگر وہ تمہیں سلام کہیں تو تم جواب میں کہو، وعلیک یعنی تجھ پر۔

18728

(١٨٧٢٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ الْیَہُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ أَحَدُہُمْ إِنَّمَا یَقُولُ السَّامُ عَلَیْکَ فَقُلْ عَلَیْکَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ مَالِکٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٢٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہود جب تمہیں سلام کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ پر موت پڑے تو آپ جواب میں کہیں تجھ پر بھی۔

18729

(١٨٧٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : دَخَلَ رَہْطٌ مِنَ الْیَہُودِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا السَّامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ فَفَہِمْتُہَا فَقُلْتُ : عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ قَالَتْ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَہْلاً یَا عَائِشَۃُ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الأَمْرِ کُلِّہِ ۔ قَالَتْ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَقَدْ قُلْتُ عَلَیْکُمْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ بْنِ حُمَیْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مَعْمَرٍ ۔ قَالَ أَصْحَابُنَا وَہَذِہِ السُّنَنُ لاَ یُمْکِنُ اسْتِعْمَالُہَا إِلاَّ بَعْدَ الْمَعْرِفَۃِ بِہِمْ وَلَیْسَ کُلُّ أَحَدٍ یَعْرِفُہُمْ فَلاَ بُدَّ مِنْ غِیَارٍ یَتَمَیَّزُونَ بِہِ عَنِ الْمُسْلِمِینَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٢٣) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہودیوں کا ایک گروہ آیا۔ انھوں نے کہا : تم پر موت پڑے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : میں نے ان کی بات کو سمجھ کر کہا : تم پر موت پڑے اور لعنت ہو۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! ٹھہر جاؤ۔ کیونکہ اللہ رب العزت تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ کہتی ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے ان کی بات نہیں سنی ؟ آپ نے فرمایا : میں نے جواب میں کہہ دیا تمہارے اوپر موت پڑے۔
نوٹ : کسی ایسی علامت کا ہونا ضروری ہے جس کی وجہ سے ان کی مسلمانوں سے تمیز ہو سکے۔

18730

(١٨٧٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ حَکِیمٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ مَرَّ بِرَجُلٍ ہَیْئَتُہُ ہَیْئَۃُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْہِ عُقْبَۃُ وَعَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ فَقَالَ لَہُ الْغُلاَمُ : أَتَدْرِی عَلَی مَنْ رَدَدْتَ فَقَالَ : أَلَیْسَ بِرَجُلٍ مُسْلِمٍ فَقَالُوا : لاَ وَلَکِنَّہُ نَصْرَانِیٌّ فَقَامَ عُقْبَۃُ فَتَبِعَہُ حَتَّی أَدْرَکَہُ فَقَالَ : إِنَّ رَحْمَۃَ اللَّہِ وَبَرَکَاتِہِ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ لَکِنْ أَطَالَ اللَّہُ حَیَاتَکَ وَأَکْثَرَ مَالَکَ ۔ وَرُوِّینَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَعْنَاہُ فِی الاِبْتِدَائِ بِالسَّلاَمِ ۔
(١٨٧٢٤) عقبہ بن عامرجھنی کے پاس سے ایک شخص مسلمانوں کی سی حالت والا گز را اور اس نے عقبہ کو سلام کہا تو حضرت عقبہ نے عامر نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کچھ اضافہ کیا کہ اللہ کی رحمت و برکت ہو۔ تو غلام نے پوچھا : آپ نے کس کو سلام کا جواب دیا ہے پتہ ہے ؟ تو کہنے لگے : کیا وہ مسلم انسان نہیں ہے ؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ وہ عیسائی ہے تو عقبہ نے پیچھے جا کر اس کو ملے، فرمانے لگے : اللہ کی رحمت و برکت ہو مومنین پر لیکن اللہ آپ کی لمبی زندگی اور زیادہ مال عطاکرے۔

18731

(١٨٧٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُوطَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ قَالَ ذَکَرَ سُفْیَانُ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِذَا لَقِیتُمُ الْمُشْرِکِینَ فِی الطَّرِیقِ فَلاَ تَبْدَئُ وہُمْ بِالسَّلاَمِ وَاضْطَرُّوہُمْ إِلَی أَضْیَقِہِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٢٦٧]
(١٨٧٢٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم مشرکین سے راستہ میں ملو تو انھیں پہلے سلام نہ کہو اور انھیں تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو ۔

18732

(١٨٧٢٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الزِّیَادِیُّ أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ مُنِیبٍ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ أَخْبَرَنَا سُہَیْلُ بْنُ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَلاَ تَبْدَئُ وہُمْ بِالسَّلاَمِ وَاضْطَرُّوہُمْ إِلَی أَضْیَقِ الطُّرُقِ ۔ قَالَ : ہَذَا لِلنَّصَارَی فِی النَّعْتِ وَنَحْنُ نُرَاہُ لِلْمُشْرِکِینَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَرِیرٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٢٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم ان سے ملاقات کرو تو سلام کی ابتداء نہ کرو اور انھیں تنگ راستے کی جانب مجبور کر دو ۔ راوی کہتے ہیں : یہ نصاریٰ کی صفت تھی اور ہم اس کو مشرکین کے بارے میں خیال کرتے ہیں۔

18733

(١٨٧٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : زَیْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْعَلَوِیُّ وَأَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّجَّارِ الْمُقْرِئُ بِالْکُوفَۃِ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَسْبَاطٍ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِیَاضٍ الأَشْعَرِیِّ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَمَرَہُ أَنْ یَرْفَعَ إِلَیْہِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَی فِی أَدِیمٍ وَاحِدٍ وَکَانَ لأَبِی مُوسَی کَاتِبٌ نَصْرَانِیٌّ یَرْفَعَ إِلَیْہِ ذَلِکَ فَعَجَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَقَالَ : إِنَّ ہَذَا لَحَافِظٌ وَقَالَ : إِنَّ لَنَا کِتَابًا فِی الْمَسْجِدِ وَکَانَ جَائَ مِنَ الشَّامِ فَادْعُہُ فَلْیَقْرَأْ قَالَ أَبُو مُوسَی : إِنَّہُ لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَدْخُلَ الْمَسْجِدَ ۔ فَقَالَ عُمَرُ : أَجُنُبٌ ہُوَ ؟ قَالَ : لاَ بَلْ نَصْرَانِیٌّ قَالَ : فَانْتَہَرَنِی وَضَرَبَ فَخِذِی وَقَالَ : أَخْرَجَہُ وَقَرَأَ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَائَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللَّہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ } [المائدہ ٥١] وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٢٧) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے انھیں حکم دیا کہ وہ چمڑے میں لکھی ہوئی تحریر لیکر آئے اور حضرت موسیٰ کا کاتب عیسائی تھا جو ان کے پاس لیکر آیا۔ حضرت عمر (رض) نے تعجب کیا تو ابو موسیٰ نے کہا : یہ اس کا حافظ ہے حضرت عمر (رض) نے کہا : مسجد میں ایک خط موجود ہے جو شام سے آیا ہے، اس کو بلاؤ یہ پڑھے۔ ابو موسیٰ کہنے لگے : یہ مسجد میں داخل نہیں ہوسکتا تو حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا وہ جنبی ہے تو موسیٰ اشعری کہنے لگے : نہیں بلکہ وہ عیسائی ہے۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے ڈانٹا اور میری ران پر مارا۔ اور کہا : اس کو نکال دو اور اس آیت کی تلاوت کی { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ } [المائدہ ٥١] اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی۔ وہ انہی میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتے۔

18734

(١٨٧٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَۃَ أَخْبَرَنَا أَرْطَاۃُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ سَمِعْتُ حَکِیمَ بْنَ عُمَیْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ یُحَدِّثُ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہَ عَنْہُ قَالَ : نَزَلْنَا مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ وَمَعَہُ مَنْ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ وَکَانَ صَاحِبُ خَیْبَرَ رَجُلاً مَارِدًا مُنْکَرًا فَأَقْبَلَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ أَلَکُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْکُلُوا ثِمَارَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَائَ نَا فَغَضِبَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَالَ : یَا ابْنَ عَوْفٍ ارْکَبْ فَرَسَکَ ثُمَّ نَادِ إِنَّ الْجَنَّۃَ لاَ تَحِلُّ إِلاَّ لِمُؤْمِنٍ وَأَنِ اجْتَمَعُوا لِلصَّلاَۃِ ۔ قَالَ : فَاجْتَمَعُوا ثُمَّ صَلَّی بِہِمُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ قَامَ فَقَالَ : أَیَحْسَبُ أَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیکَتِہِ قَدْ یَظُنُّ أَنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یُحَرِّمْ شَیئًا إِلاَّ مَا فِی ہَذَا الْقُرْآنِ أَلاَ وَإِنِّی وَاللَّہِ قَدْ أَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَہَیْتُ عَنْ أَشْیَائَ إِنَّہَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَکْثَرُ وَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یُحِلَّ لَکُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُیُوتَ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ بِإِذْنٍ وَلاَ ضَرْبَ نِسَائِہِمْ وَلاَ أَکْلَ ثِمَارِہِمْ إِذَا أَعْطَوْکُمُ الَّذِی عَلَیْہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٢٨) عرباض بن ساریہ اسلمی فرماتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خبیر میں آئے اور خیبر کا ایک شخص جو سرکش تھا اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا تم ہمارے گدھوں کو ذبح کرو، ہمارے پھل کھاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو، کیا یہ تمہارے لیے جائز ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے ہوئے اور فرمایا : اے ابن عوف ! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت صرف مومن کیلئے حلال ہے اور نماز کے لیے جمع ہو جاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ صحابہ جمع ہوئے۔ آپ نے نماز پڑھانے کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے صرف ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے جو قرآن میں موجود ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میں نے حکم دیا اور وعظ و نصیحت کی اور کچھ اشیاء سے منع کیا اور ان کی حرمت بھی ویسے ہی ہے جیسے قرآن میں کسی چیز کی حرمت بیان کی گئی ہے یا اس سے بھی بڑھ کر اور اللہ رب العزت نے تمہارے لیے جائز نہیں رکھا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہو جاؤ اور ان کی عورتوں کو مارو اور ان کے باغات کے پھل کھاؤ ۔ یہ جائز نہیں ہے جب وہ اپنا جزیہ ادا کرتے ہوں۔

18735

(١٨٧٢٩) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَۃُ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ ہِلاَلِ بْنِ یَسَافٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّکُمْ لَعلَّکُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا وَتَظْہَرُونَ عَلَیْہِمْ فَیُفَادُونَکُمْ بِأَمْوَالِہِمْ دُونَ أَنْفُسہِمْ وَأَبْنَائِہِمْ وَتُصَالِحُونَہُمْ عَلَی صُلْحٍ فَلاَ تُصِیبُوا مِنْہُمْ فَوْقَ ذَلِکَ فَإِنَّہُ لاَ یَحِلُّ لَکُمْ ۔ قَالَ الثَّقَفِیُّ صَحِبْتُ الْجُہَنِیَّ فِی غَزَاۃٍ أَوْ سَفَرٍ فَکَانَ مِنْ أَعَفِّ النَّاسِ عَنِ الأَعْدَائِ ۔ أَخْرَجَہُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ حَدِیثِ أَبِی عَوَانَۃَ عَنْ مَنْصُورٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٢٩) جہینہ قبیلے کا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایک قوم سے قتال کرتے ہوئے غلبہ حاصل کرو گے۔ وہ تمہیں مال دے کر صلح کریں گے ، لیکن اپنی جانیں اور اولاد کو الگ تھلگ رکھیں گے۔ تم بھی اس سے زائد کچھ حاصل نہ کرنا، کیونکہ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔
شافعی (رض) فرماتے ہیں : میں جہنی کے ساتھ غزوہ یا سفر میں رہا، وہ لوگوں کو دشمن سے محفوظ رکھتے تھے۔

18736

(١٨٧٣٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلاَلٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِیفٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَعلَّکُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا فَتَظْہَرُوا عَلَیْہِمْ فَیَتَّقُونَکُمْ بِأَمْوَالِہِمْ دُونَ أَنْفُسہِمْ وَأَبْنَائِہِمْ ۔ قَالَ سَعِیدٌ فِی حَدِیثِہِ : فَیُصَالِحُونَکُمْ عَلَی صُلْحٍ ۔ ثُمَّ اتَّفَقَا : فَلاَ تُصِیبُوا مِنْہُمْ فَوْقَ ذَلِکَ فَإِنَّہُ لاَ یَصْلُحُ لَکُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٣٠) جہینہ قبیلے کے ایک شخص نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید تم کسی قوم سے قتال کرتے ہوئے غلبہ حاصل کرو تو وہ اپنا بچاؤ اپنے مالوں اور اولاد کے ذریعے کریں گے۔
قال سعید فی حدیثہ : وہ تم سے صلح کریں گے، پھر دونوں کا اتفاق ہے کہ تم اس سے زائد کچھ حاصل نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے لیے نہیں ہے۔

18737

(١٨٧٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی أَبُو صَخْرٍ الْمَدَنِیُّ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَیْمٍ أَخْبَرَہُ عَنْ ثَلاَثِینَ مِنْ أَبْنَائِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ آبَائِہِمْ دِنْیَۃً عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاہَدًا وَانْتَقَصَہُ وَکَلَّفَہُ فَوْقَ طَاقَتِہِ أَوْ أَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ طِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ فَأَنَا حَجِیجُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِإِصْبَعِہِ إِلَی صَدْرِہِ : أَلاَ وَمَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لَہُ ذِمَّۃُ اللَّہِ وَذِمَّۃُ رَسُولِہِ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ رِیحَ الْجَنَّۃِ وَإِنْ رِیحَہَا لَتُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ سَبْعِینَ خَرِیفًا ۔ [حسن ]
(١٨٧٣١) تیس صحابہ کے بیٹے اپنے والدین سے روایت کرتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سینقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے ذمی انسان پر ظلم کیا اور عیب نکالے اور طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی اور اس کی رضا مندی کے بغیر اس کی کوئی چیز حاصل کی تو کل قیامت کے دن میں اس کی جانب سے جھگڑا کروں گا۔ آپ نے سینے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : خبردار ! جس نے کسی ذمی معاہد کو قتل کیا اللہ نے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کردی ہے۔ حالانکہ اس کی خوشبو ٧٠ سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔

18738

(١٨٧٣٢) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ قَالَ أَخْبَرَنِی الْمَنِیعِیُّ وَالْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا بِغَیْرِ حَقٍّ لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَإِنَّہُ لَیُوجَدُ رِیحُہَا مِنْ مَسِیرَۃِ أَرْبَعِینَ عَامًا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قَیْسِ بْنِ حَفْصٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِیَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ الْغَفَّارِ عَنِ الْحَسَنِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٣٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے معاہد انسان کو ناحق قتل کیا وہ جنت کی خوشبو حاصل نہ کرسکے گا حالانکہ اس کی خوشبو ٤٠ سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے۔

18739

(١٨٧٣٣) وَخَالَفَہُ مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ الْفَزَارِیُّ فَرَوَاہُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قَتَلَ قَتِیلاً مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ رِیحَہَا لَتُوجَدُ مِنْ کَذَا وَکَذَا ۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو أَحْمَدَ بْنُ زِیَادٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٣٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے ذمی انسان کو قتل کیا۔ وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو اتنی مسافت سے آتی ہے۔

18740

(١٨٧٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ الْفِرْیَابِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ حَدَّثَنِی الْحَکَمُ بْنُ الأَعْرَجِ عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ ثَرْمُلَۃَ الْعِجْلِیِّ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاہَدَۃً بِغَیْرِ حِلِّہَا فَقَدْ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ أَنْ یَشُمَّ رِیحَہَا ۔ [صحیح ]
(١٨٧٣٤) ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی معاہد انسان کو ناحق قتل کردیا تو اللہ اس پر جنت کی خوشبو سونگھنا بھی حرام کر دے گے ۔

18741

(١٨٧٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ بْنُ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ : أَنَّ ہِشَامَ بْنَ حَکِیمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَجَدَ رَجُلاً وَہُوَ عَلَی حِمْصَ یُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ الْقِبْطِ فِی أَدَائِ الْجِزْیَۃِ فَقَالَ مَا ہَذَا إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ یُعَذِّبُ الَّذِینَ یُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِی الدُّنْیَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٦١٣]
(١٨٧٣٥) ہشام بن حکیم فرماتے ہیں کہ جزیہ کی وصولی میں قبطی شخص کو دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا۔ پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتا ہے، اللہ اس کو عذاب دے گا۔

18742

(١٨٧٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَم حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الأَحْمَرُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَیْرٍ أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ ثَقِیفَ قَالَ : اسْتَعْمَلَنِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی بُزُرْجِ سَابُورَ فَقَالَ : لاَ تَضْرِبَنَّ رَجُلاً سَوْطًا فِی جِبَایَۃِ دِرْہَمٍ وَلاَ تَبِیعَنَّ لَہُمْ رِزْقًا وَلاَ کِسْوَۃَ شِتَائٍ وَلاَ صَْیفٍ وَلاَ دَابَّۃً یَعْتَمِلُونَ عَلَیْہَا وَلاَ تُقِمْ رَجُلاً قَائِمًا فِی طَلَبِ دِرْہَمٍ قَالَ قُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِذًا أَرْجِعَ إِلَیْکَ کَمَا ذَہَبْتُ مِنْ عِنْدِکَ قَالَ : وَإِنْ رَجَعْتَ کَمَا ذَہَبْتَ وَیْحَکَ إِنَّمَا أُمِرْنَا أَنْ نَأْخُذَ مِنْہُمُ الْعَفْوَ یَعْنِی الْفَضْلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٣٦) ثقیف کا ایک شخص فرماتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے مجھے بزرج سابور پر عامل مقرر کیا اور فرمایا : درہم کی وصولی میں کسی شخص کو کوڑے سے مت مارنا۔ ان کو رزق اور گرمی وسردی کا لباس فروخت نہ کرنا اور نہ ہی جانور جس پر وہ کام کاج کرتے ہوں اور کسی شخص کو درہم کی وصولی کے لیے مقرر نہ کرنا۔ راوی کہتے ہیں : اے امیر المومنین ! تب میں ایسے ہی واپس آؤں گاجیسی آپ کے پاس سے جا رہا ہوں۔ امیر المومنین نے فرمایا : اگر تو اسی حالت میں واپس آئے تو تیرے اوپر افسوس ہے ہمیں تو ان سے زائد مال لینے کا حکم دیا گیا ہے۔

18743

(١٨٧٣٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ إِبْرَاہِیمَ سَأَلَہُ مَا فِی أَمْوَالِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : الْعَفْوُ یَعْنِی الْفَضْلَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٣٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے ذمی لوگوں کے مالوں کے بارے میں پوچھا تو عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : زائد مال۔

18744

(١٨٧٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ یُقَلِّبُ یَدَہُ ہَکَذَا فَقُلْتُ لَہُ : مَا لَکَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ قَالَ : عُوَیْمِلٌ لَنَا بِالْعِرَاقِ خَلَطَ فِی فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ أَثْمَانَ الْخَمْرِ وَأَثْمَانَ الْخَنَازِیرِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لَعَنَ اللَّہُ الْیَہُودَ حُرِّمَتْ عَلَیْہِمُ الشُّحُومُ أَنْ یَأْکُلُوہَا فَجَمَلُوہَا فَبَاعُوہَا وَأَکَلُوا أَثْمَانَہَا ۔ قَالَ سُفْیَانُ یَقُولُ : لاَ تَأْخُذُوا فِی جِزْیَتِہِمُ الْخَمْرَ وَالْخَنَازِیرَ وَلَکِنْ خَلُّوا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ بَیْعِہَا فَإِذَا بَاعُوہَا فَخُذُوا أَثْمَانَہَا فِی جِزْیَتِہِمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٣٨) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا، وہ اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر رہتے تھے۔ میں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! یہ کیا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ عراق کے عامل نے شراب، خنزیر کی قیمتیں مال فئے میں شامل کردی ہیں۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ یہود پر لعنت فرمائے، اللہ نے ان پر چربی کو کھانا حرام قرار دیا۔ پھر انھوں نے پگھلا کر فروخت کر کے اس کی قیمت کو کھایا۔ سفیان کہتے ہیں کہ ان سے جزیہ میں شراب وخنزیر وصول نہ کرو، بلکہ ان کو فروخت کرنے دو ۔ ان کی قیمت جزیہ میں وصول کرلو۔

18745

(١٨٧٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حَرْمَلَۃُ بْنُ عِمْرَانَ التُّجِیبِیُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُمَاسَۃَ الْمَہْرِیِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّکُمْ سَتَفْتَحُونَ أَرْضًا یُذْکَرُ فِیہَا الْقِیرَاطُ فَاسْتَوْصُوا بِأَہْلِہَا خَیْرًا فَإِنَّ لَہُمْ ذِمَّۃً وَرَحِمًا فَإِذَا رَأَیْتُمْ رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلاَنِ عَلَی مَوْضِعِ لَبِنَۃٍ فَاخْرُجْ مِنْہَا ۔ قَالَ : فَمَرَّ بِرَبِیعَۃَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُرَحْبِیلَ ابْنِ حَسَنَۃَ یَتَنَازَعَانِ فِی مَوْضِعِ لَبِنَۃٍ فَخَرَجَ مِنْہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ ہَارُونَ الأَیْلِیِّ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٥٤٣]
(١٨٧٣٩) حضرت ابو ذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیراط والی زمین کی فتح حاصل ہوگی۔ ان کے بارے میں بھلائی کی وصیت حاصل کرو۔ کیونکہ ان کے لیے ذمہ ہے اور شفقت سے پیش آنا ہے اور جب تم دیکھو کہ دو شخص کسی ایک اینٹ کی جگہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں تو وہاں سے چلے جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ ربیعہ اور عبد الرحمن بن شرحبیل بن حسنہ ایک اینٹ کے موافق جگہ پر جھگڑ رہے تھے تو وہ وہاں سے چلے گئے۔

18746

(١٨٧٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُوَیْہِ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَلاَنِسِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ جُوَیْرِیَۃَ بْنَ قُدَامَۃَ التَّمِیمِیَّ یَقُولُ : حَجَجْتُ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَسَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَخْطُبُ فَقَالَ : إِنِّی رَأَیْتُ دِیکًا نَقَرَنِی نَقْرَۃً أَوْ نَقْرَتَیْنِ قَالَ فَمَا کَانَتْ إِلاَّ جُمُعَۃً أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ حَتَّی أُصِیبَ ثُمَّ أَذِنَ لأَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ أَذِنَ لأَہْلِ الْمَدِینَۃِ ثُمَّ أَذِنَ لأَہْلِ الشَّامِ ثُمَّ أَذِنَ لأَہْلِ الْعِرَاقِ فَکُنَّا فِی آخِرِ مَنْ دَخَلَ فَإِذَا عِمَامَۃٌ سَوْدَائُ أَوْ بُرْدٌ أَسْوَدُ قَدْ عُصِبَ عَلَیَ طَعْنَتِہِ وَإِذَا الدَّمُ یَسِیلُ فَقُلْنَا : أَوْصِنَا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَ : أُوصِیکُمْ بِکِتَابِ اللَّہِ فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوہُ وَأُوصِیکُمْ بِالْمُہَاجِرِینَ فَإِنَّ النَّاسَ یَکْثُرُونَ وَیَقِلُّونَ وَأُوصِیکُمْ بِالأَنْصَارِ فَإِنَّہُمْ شِعْبُ الإِسْلاَمِ الَّذِی لَجَأَ إِلَیْہِ وَأُوصِیکُمْ بِالأَعْرَابِ فَإِنَّہُمْ أَصْلُکُمْ وَمَادَّتُکُمْ وَقَالَ مَرَّۃً أُخْرَی فَإِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَعَدُوُّ عَدُوِّکُمْ وَأُوصِیکُمْ بِذِمَّۃِ اللَّہِ فَإِنَّہُمْ ذِمَّۃُ نَبِیِّکُمْ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرِزْقُ عِیَالِکُمْ ثُمَّ قَالَ : قُومُوا عَنِّی۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ آدَمَ بْنِ أَبِی إِیَاسٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٤٠) جویریہ بن قرامہ کہتے ہیں کہ میں حج کر کے مدینہ آیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ میں نے مرغ کو دیکھا، اس نے مجھے ایک یا دو مرتبہ چونچ ماری۔ راوی کہتے ہیں : جمعہ کا دن تھا کہ انھیں زخمی کردیا گیا۔ سب سے پہلے صحابہ امیر مدینہ والوں، پھر شامی پھر عراقی لوگوں کو اجازت دی گئی۔ میں سب سے آخر میں داخل ہوا۔ حضرت عمر (رض) کے زخم پر سیاہ چادر باندھی گئی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے وصیت کرنے کے بارے میں کہا تو فرمایا : جب تک تم کتاب اللہ کی پیروی کرتے رہو گے گمراہ نہ ہو گے اور میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ لوگوں کی قلت و کثرت ہوتی رہتی ہے اور میں تمہیں انصار کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں ، یہ اسلام کی ایسی گھاٹی کی مانند ہیں جس میں پناہ حاصل کی جاتی ہے اور دیہاتیوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تمہاری اصل ہیں اور دوسری مرتبہ فرمایا، کیونکہ یہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ میں اللہ کے وعدے کی وصیت کرتا ہوں، وہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عہد میں ہیں اور تمہارے عیال کے رزق کی نصیحت کرتا ہوں۔ پھر فرمانے لگے : میرے قریب سے اٹھ جاؤ۔

18747

(١٨٧٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ حُصَیْنَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : أُوصِی الْخَلِیفَۃَ مِنْ بَعْدِی بِأَہْلِ الذِّمَّۃِ خَیْرًا أَنْ یُوفَی لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ وَأَنْ یُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِہِمْ وَأَنْ لاَ یُکَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِہِمْ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَیَّاشٍ ۔ [صحیح۔ اخرجہ البخاری فی مواطن کثیرہ ]
(١٨٧٤١) حضرت عمرو بن میمون (رض) عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ میں اپنے بعد والے خلیفہ کو ذمی لوگوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے عہد کو پورا کرنا۔ اس کے بعد ان سے قتال کرنا اور طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دینا۔

18748

(١٨٧٤٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُزَنِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِیمَنْ یُؤَذِّنُ یَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًی أَنْ لاَ یَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَأَنْ لاَ یَطُوفَ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَیَوْمُ الْحَجِّ الأَکْبَرِ یَوْمَ النَّحْرِ وَإِنَّمَا قِیلَ الْحَجُّ الأَکْبَرُ مِنْ أَجْلِ قَوْلِ النَّاسِ الْحَجُّ الأَصْغَرُ فَنَبَذَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی النَّاسِ فِی ذَلِکَ الْعَامِ فَلَمْ یَحُجَّ فِی الْعَامِ الْقَابِلِ الَّذِی حَجَّ فِیہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مُشْرِکٌ وَأَنْزَلَ اللَّہُ فِی الْعَامِ الَّذِی نَبَذَ فِیہِ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی الْمُشْرِکِینَ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا } [التوبۃ ٢٨] الآیَۃَ وَذَکَرَ بَاقِیَ الْحَدِیثِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٤٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے ابوبکر (رض) نے منی میں قربانی کے دن اعلان کے لیے بھیجا کہ اس سال کے بعد مشرک حج کے لیے نہ آئے اور بیت اللہ کا طواف بغیر کپڑوں کے نہ کیا جائے اور حج اکبر قربانی کا دن ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ لوگوں کے عمرہ کو حج اصغر کہنے کی وجہ سے حج اکبر کہا گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اعلان کروا دیا کہ اس سال حج کرنے والا مشرک آئندہ سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج نہ کرے اور حضرت ابوبکر (رض) کے اعلان والے سال اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا } اے ایمان والو ! مشرک پلید ہیں وہ مسجد حرام کے قریب اس سال کے بعد نہ آئیں۔

18749

(١٨٧٤٣) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِی أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو خَیْثَمَۃَ زُہَیْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أُرْسِلْتُ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ بِأَرْبَعٍ لاَ یَطُوفَنَّ بِالْکَعْبَۃِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَقْرَبَنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ مُشْرِکٌ بَعْدَ عَامِہِ وَلاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ نَفْسٌ مُؤْمِنَۃٌ وَمَنْ کَانَ لَہُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَہْدٌ فَعَہْدُہُ إِلَی مُدَّتِہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٤٣) زید بن یثیع حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ مجھے چار چیزیں دے کر مکہ والوں کی طرف بھیجا گیا۔ 1 بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کیا جائے۔ 2 اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے قریب نہ آئے۔ 3 جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔ 4 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا ہوا عھد اس کی مدت تک پورا کیا جائے گیا۔

18750

(١٨٧٤٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ النَّضْرُوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ قَالَ : سَأَلْنَا عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِأَیِّ شَیْئٍ بُعِثْتَ قَالَ : بِأَرْبَعٍ فَذَکَرَہُنَّ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : وَلاَ یَجْتَمِعُ مُسْلِمٌ وَمُشْرِکٌ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا فِی الْحَجِّ وَزَادَ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ عَہْدٌ فَأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٧٤٤) زید بن یثیع فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ آپ کو کوئی چیز دے کر بھیجا گیا ؟ فرمایا : چار چیزیں اور انھیں بیان کیا۔ پھر فرمایا : مشرک ومومن آئندہ حج میں جمع نہ ہوں گے اور جس کا معاہدہ ہے وہ صرف چار ماہ تک ہے۔

18751

(١٨٧٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الإِسْفَرَائِینِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا الْمُرَّارُ بْنُ حَمُّوَیْہِ الْہَمَذَانِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الْکِنَانِیُّ قَالَ مُوسَی وَہُوَ أَبُو غَسَّانَ الْکِنَانِیُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا فُدِعْتُ بِخَیْبَرَ قَامَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ خَطِیبًا فِی النَّاسِ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَلَ یَہُودَ خَیْبَرَ عَلَی أَمْوَالِہَا وَقَالَ : نُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ ۔ وَإِنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَی مَالِہِ ہُنَاکَ فَعُدِیَ عَلَیْہِ فِی اللَّیْلِ فَفُدِعَتْ یَدَاہُ وَلَیْسَ لَنَا عَدُوٌّ ہُنَاکَ غَیْرُہُمْ وَہُمْ تُہْمَتُنَا وَقَدْ رَأَیْتُ إِجْلاَئَ ہُمْ فَلَمَّا أَجْمَعَ عَلَی ذَلِکَ أَتَاہُ أَحَدُ بَنِی أَبِی الْحُقَیْقِ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ تُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ وَعَامَلَنَا عَلَی الأَمْوَالِ وَشَرَطَ ذَلِکَ لَنَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَظَنَنْتَ أَنِّی نَسِیتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : کَیْفَ بِکَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَیْبَرَ تَعْدُو بِکَ قَلُوصُکَ لَیْلَۃً بَعْدَ لَیْلَۃٍ ۔ فَأَجْلاَہُمْ وَأَعْطَاہُمْ قِیمَۃَ مَا لَہُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالاً وَإِبِلاً وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَیْرِ ذَلِکَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی أَحْمَدَ وَہُو مُرَّارُ بْنُ حَمُّوَیْہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٤٥) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب خیبر میں میرا جوڑ ٹوٹ گیا تو حضرت عمر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو ان کے مالوں پر عامل بنایا تھا اور فرمایا : میں نے تمہیں برقرار رکھا جب تک اللہ نے تمہیں برقرار رکھا۔ جب عبداللہ بن عمر (رض) اپنے مال لیکر نکلے تو ان پر رات کے وقت زیادتی کی گئی۔ جس کی بنا کی پر ان کا جوڑ ٹوٹ گیا ان کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن بھی نہ تھا، وہ ہمارے ملزم تھے۔ میں نے ان کو جلا وطن ہوتے ہوئے دیکھا جب وہ اس بات پر جمع ہوگئے تو بنو ابو الحقیق کا ایک فرد آیا۔ اس نے کہا : اے امیر المومنین ! آپ نے ہمیں جلا وطن کردیا ہے۔ حالانکہ محمد نے ہمیں اپنے مالوں پر عامل بنایا تھا اور ہمیں یہاں برقرار رکھا ؟ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا تیرا خیال ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بھول گیا ہوں۔ تمہاری حالت کیا ہوگی، جب تمہیں خیبر سے نکالا جائے گا اور تیری جوان اونٹنی تجھے یکے بعد دیگرے کئی راتیں چلے گی۔ پھر حضرت عمر (رض) نے ان کو جلا وطن کیا اور ان کے پھلوں کی قیمت کے بدلے مال، اونٹ، سامان پالان، رسیاں وغیرہ دے دیں۔

18752

(١٨٧٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبِسْطَامِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا ابْنُ بَزِیعٍ وَأَبُو الأَشْعَثِ قَالاَ حَدَّثَنَا الْفُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ أَخْبَرَنِی نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَجْلَی الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا وَکَانَتْ الأَرْضُ إِذَا ظَہَرَ عَلَیْہَا لِلَّہُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُسْلِمِینَ فَسَأَلَ الْیَہُودُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُقِرَّہُمْ بِہَا عَلَی أَنْ یَکْفُوا الْعَمَلَ وَلَہُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أُقِرُّکُمْ عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا ۔ فَأُقِرُّوا بِہَا وَأَجْلاَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی إِمَارَتِہِ إِلَی تَیْمَائَ وَأَرِیحَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ أَحْمَدَ بْنِ الْمِقْدَامِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٤٦) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہود و نصاریٰ کو حجاز کی زمین سے جلا وطن کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح خیبر کے بعد یہود کو جلا وطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور فتح کے بعد زمین اللہ ورسول اور مومنوں کی ہونی تھی تو یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آدھے پھلوں کے عوض انھیں زمین پر کام کرنے کے لیے مقرر کردیا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک ہم چاہیں گے برقرار رکھیں گے۔ آپ نے برقرار رکھا ، پھر حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں انھیں تیماء اور اریحا کی جانب جلا وطن کردیا۔

18753

(١٨٧٤٧) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : یَوْمُ الْخَمِیسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ ثُمَّ بَکَی ثُمَّ قَالَ اشْتَدَّ وَجَعُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : ائْتُونِی أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا ۔ فَتَنَازَعُوا وَلاَ یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالَ : ذَرُونِی فَالَّذِی أَنَا فِیہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُونِی إِلَیْہِ ۔ وَأَمَرَہُمْ بِثَلاَثٍ فَقَالَ : أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مِمَّا کُنْتُ أُجِیزُہُمْ ۔ وَالثَّالِثَۃُ نُسِّیتُہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ سُفْیَانَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَقُتَیْبَۃَ وَغَیْرِہِمَا عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٤٧) سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : جمعرات کا دن۔ جمعرات کا دن کیا ہے ؟ پھر روئے اور فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری بڑھ گئی تو فرمایا : میرے پاس کوئی کاغذ لاؤ میں تمہیں تحریر کر دوں۔ پھر تم میرے بعد گمراہ نہیں ہو گے۔ انھوں نے اس میں جھگڑا کیا حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جھگڑا درست نہیں ہوتا۔ فرمایا : مجھے چھوڑ دو ۔ میں جس حالت میں ہوں، بہتر ہوں اس چیز سے جس کی جانب تم مجھے بلاتے ہو ۔ آپ نے ان چیزوں کا حکم دیا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو اور ان سے اتنا جزیہ لو جتنا میں لیتا تھا تیسری چیز میں بھلا دیا گیا۔

18754

(١٨٧٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یَحْیَی الزُّہْرِیُّ الْقَاضِی بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الصَّائِغُ قَالاَ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَئِنْ عِشْتُ لأُخْرِجَنَّ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ حَتَّی لاَ أَتْرُکَ فِیہَا إِلاَّ مُسْلِمًا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ رَوْحٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٦٧]
(١٨٧٤٨) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں زندہ رہا یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دون گا۔ میں صرف مسلمانوں رہنے دوں گا۔

18755

(١٨٧٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مَیْمُونَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : آخِرُ مَا تَکَلَّمَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَخْرِجُوا یَہُودَ الْحِجَازِ وَأَہْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شَرَّ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَہُمْ مَسَاجِدَ ۔ [حسن ]
(١٨٧٤٩) حضرت ابو عبیدہ بن جراح فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے آخری جو کلام فرمائییہ تھی کہ یہودیوں کو حجاز سے اور اھل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دو اور جان لو ! بدترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔

18756

(١٨٧٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمِہْرَجَانِیُّ الْعَدْلُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَکِیمٍ أَنَّہُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَقُولُ : بَلَغَنِی أَنَّہُ کَانَ مِنْ آخَرِ مَا تَکَلَّمَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ قَالَ : قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ لاَ یَبْقَیَنَّ دِینَانِ بِأَرْضِ الْعَرَبِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٥٠) حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری کلام یہ تھی کہ اللہ یہودیوں اور عیسائیوں کو برباد کرے جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے اور عرب میں دو دین باقی نہ رہیں گے۔

18757

(١٨٧٥١) قَالَ وَحَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ یَجْتَمِعُ دِینَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ۔ قَالَ مَالِکٌ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فَفَحَصَ عَنْ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَتَّی أَتَاہُ الثَّلْجُ وَالْیَقِینُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : لاَ یَجْتَمَعُ دِینَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ۔ فَأَجْلَی یَہُودَ خَیْبَرَ ۔ قَالَ مَالِکٌ : وَقَدْ أَجْلَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَہُودَ نَجْرَانَ وَفَدَکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٥١) ابن شہاب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہ ہوں گے۔ (ب) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جزیرہ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں گے۔ آپ نے خیبر کے یہود کو جلا وطن کیا۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نجران وفدک کے یہود کو جلا وطن کیا۔

18758

(١٨٧٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِیُّ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِی ظَبْیَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یَکُونُ قِبْلَتَانِ فِی بَلَدٍ وَاحِدٍ ۔ وَرُوِّینَاہُ عَنْ أَبِی کُدَیْنَۃَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِی ظَبْیَانَ بِإِسْنَادِہِ : لاَ یَجْتَمِعُ قِبْلَتَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ أَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَہُودَ بَنِی النَّضِیرِ ثُمَّ یَہُودَ الْمَدِینَۃِ وَرُوِّینَاہُ فِی حَدِیثِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٥٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو دینوں والے ایک شہر میں نہیں رہ سکتے۔
(ب) قابوس بن ابی ظبیان اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جزیرہ عرب میں دو قبلہ والے جمع نہیں ہوسکتے۔
شیخ فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر اور مدینہ کے یہود کو جلا وطن کردیا۔

18759

(١٨٧٥٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو السَّرِیِّ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَامِدٍ بِالطَّابَرَانِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ دَاوُدَ الْحَنْظَلِیُّ حَدَّثَنَا سُوَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ یَہُودَ بَنِی النَّضِیرِ وَقُرَیْظَۃَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ وَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَہُودَ الْمَدِینَۃِ کُلَّہُمْ بَنِی قَیْنُقَاعَ وَہُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلاَمٍ وَبَنِی حَارِثَۃَ وَکُلَّ یَہُودِیٍّ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ وَکَانَ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی وَمَنْ سِوَاہُمْ مِنَ الْکُفَّارِ لاَ یُقَرُّونَ فِیہَا فَوْقَ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ عَلَی عَہْدِ عُمَرَ وَلاَ أَدْرِی أَکَانَ یَفْعَلُ ذَلِکَ بِہِمْ أَمْ لاَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٦٦]
(١٨٧٥٣) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو نضیر و قریظہ کے یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا جبکہ بنو قریظہ کو برقرار رکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے یہود کو جلا وطن کردیا یعنی بنو قینقاع جو عبداللہ بن سلام کی قوم تھی اور بنو حارثہ کو بھی جلا وطن کیا۔ حضرت عمر (رض) کے دور میں یہود و نصاریٰ اور کوئی بھی کافر تین دن سے زیادہ مدینہ میں نہ رہا۔ مجھے معلوم نہیں انھوں نے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا یا نہیں۔

18760

(١٨٧٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ الْخَوْلاَنِیُّ قَالَ قُرِئَ عَلَی شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ أَخْبَرَکَ أَبُوکَ قَالَ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِی الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : انْطَلِقُوا إِلَی یَہُودَ ۔ فَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتَّی جِئْنَا إِلَی بَیْتِ الْمِدْرَاسِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَادَاہُمْ فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ یَہُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا ۔ قَالُوا : قَدْ بَلَّغْتَ یَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ذَلِکَ أُرِیدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا ۔ قَالُوا : قَدْ بَلَّغْتَ یَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ذَلِکَ أُرِیدُ ۔ ثُمَّ قَالَہَا الثَّالِثَۃَ وَقَالَ : اعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُجْلِیَکُمْ مِنْ ہَذِہِ الأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ شَیْئًا مِنْ مَالِہِ فَلْیَبِعْہُ وَإِلاَّ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ کِلاَہُمَا عَنِ اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں ہمارے پاس آئے اور فرمایا : یہود کی جانب چلو۔ ہم آپ کے ساتھ بیت المدارس تک آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلایا اور فرمایا : اے یہود ! مسلمان ہو جاؤ ، تم سلامتی والے بن جاؤ گے۔ انھوں نے کہا : اے ابو القاسم ! آپ نے دعوت پہنچا دی۔ آپ نے فرمایا : میں بھی چاہتا ہوں کہ تم مسلمان بن جاؤ، سلامتی والے بن جاؤ گے۔ انھوں نے دوبارہ کہا : آپ نے دعوت پہنچا دی ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ فرمایا : یہی میرا ارادہ ہے۔ انھوں نے تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیا۔ فرمایا : زمین اللہ ورسول کی ہے میں تمہیں یہاں سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تم اپنا مال فروخت کر دو ، اور جان لو زمین اللہ ورسول کی ہے۔

18761

(١٨٧٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ قَالَ قَالَ سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ : جَزِیرَۃُ الْعَرَبِ مَا بَیْنَ الْوَادِی إِلَی أَقْصَی الْیَمَنِ إِلَی تُخُومِ الْعِرَاقِ إِلَی الْبَحْرِ ۔ [صحیح۔ اخرجہ السجستانی ]
(١٨٧٥٥) سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ جزیرہ عرب وادی قریٰ کے درمیان سے لے کر یمن کے کنارے تک اور عراق کی سرحد سے سمندر تک ہے۔

18762

(١٨٧٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ : جَزِیرَۃُ الْعَرَبِ مَا بَیْنَ حَفَرِ أَبِی مُوسَی إِلَی أَقْصَی الْیَمَنِ فِی الطُّولِ وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمَا بَیْنَ رَمْلِ یَبْرِینَ إِلَی مُنْقَطَعِ السَّمَاوَۃِ ۔ قَالَ وَقَالَ الأَصْمَعِیُّ : جَزِیرَۃُ الْعَرَبِ مِنْ أَقْصَی عَدَنِ أَبْیَنَ إِلَی رِیفِ الْعِرَاقِ فِی الطُّولِ وَأَمَّا الْعَرْضُ فَمِنْ جُدَّۃَ وَمَا وَالاَہَا مِنْ سَاحِلِ الْبَحْرِ إِلَی أَطْرَافِ الشَّامِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٥٦) ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ جزیرہ عرب ابو موسیٰ کے کنویں سے لے کر لمبائی میں یمن تک اور چوڑائی بحرین کے ریگستان سے لے کر سماوہ کے اختتام تک ہے۔ اصمعی کہتے ہیں کہ جزیرہ عرب عدن ابین کی سرحد سے عراق تک لمبائی میں اور چوڑائی جدہ سے لے کر ساحل سمندر اور شام تک۔

18763

(١٨٧٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ یَعْنِی الْمُقْرِئَ : جَزِیرَۃُ الْعَرَبِ مِنْ لَدُنِ الْقَادِسِیَّۃِ إِلَی لَدُنِ قَعْرِ عَدَنَ إِلَی الْبَحْرَیْنِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٥٧) ابو عبد الرحمن مقری فرماتے ہیں کہ جزیرہ عرب قادسیہ سے قعرعون اور بحرین تک ہے۔

18764

(١٨٧٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ قُرِئَ عَلَی الْحَارِثِ بْنِ مِسْکِینٍ وَأَنَا شَاہِدٌ أَخْبَرَکَ أَشْہَبُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ قَالَ مَالِکٌ : عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَجْلَی أَہْلَ نَجْرَانَ وَلَمْ یُجْلَوْا مِنْ تَیْمَائَ لأَنَّہَا لَیْسَتْ مِنْ بِلاَدِ الْعَرَبِ فَأَمَّا الْوَادِی فَإِنِّی أَرَی إِنَّمَا لاَ یُجْلَی مَنْ فِیہَا مِنَ الْیَہُودِ أَنَّہُمْ لَمْ یَرَوْہَا مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٥٨) امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے اہل نجران کو جلا وطن کیا۔ لیکن بستی تیماء سے جلا وطن نہ کیے گئے۔ کیونکہ یہ عرب کا شہر نہیں ہے اور اس بستی سے یہود کو بھی جلا وطن نہ کیا گیا کیونکہ وہ عرب کی سرزمین نہیں ہے۔

18765

(١٨٧٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَإِنْ سَأَلَ مَنْ یُؤْخَذُ مِنْہُ الْجِزْیَۃُ أَنْ یُعْطِیَہَا وَیُجْرَی عَلَیْہِ الْحُکْمُ عَلَی أَنْ یَسْکُنَ الْحِجَازَ لَمْ یَکُنْ ذَلِکَ لَہُ وَالْحَجَازُ مَکَّۃُ والْمَدِینَۃُ وَالْیَمَامَۃُ وَمَخَالِیفُہَا کُلُّہَا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَلَمْ أَعْلَمْ أَحَدًا أَجْلَی أَحَدًا مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنَ الْیَمَنِ وَقَدْ کَانَتْ بِہَا ذِمَّۃٌ وَلَیْسَتِ الْیَمَنُ بِحِجَازٍ فَلاَ یُجْلِیہِمْ أَحَدٌ مِنَ الْیَمَنِ وَلاَ بَأْسَ أَنْ یُصَالِحَہُمْ عَلَی مُقَامِہِمْ بِالْیَمَنِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : قَدْ جَعَلُوا الْیَمَنَ مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ وَالْجَلاَئُ وَقَعَ عَلَی أَہْلِ نَجْرَانَ وَذِمَّۃُ أَہْلِ الْحِجَازِ دُونَ ذِمَّۃِ أَہْلِ الْیَمَنِ لأَنَّہَا لَیْسَتْ بِحِجَازٍ لاَ لأَنَّہُمْ لَمْ یَرَوْہَا مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ وَفِی الْحَدِیثِ تَخْصِیصٌ وَفِی حَدِیثِ سَمُرَۃَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ دَلِیلٌ أَوْ شِبْہُ دَلِیلٍ عَلَی مَوْضِعِ الْخُصُوصِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٥٩) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : اگر ان سے سوال ہو کہ جزیہ کن سے لیا جائے گا اور حجاز، مکہ، مدینہ، یمامہ اور ان کی مخالف اطراف مکمل ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : مجھے معلوم نہیں کہ کوئی ذمی شخص یمن سے جلا وطن کیا گیا ہو۔ کیونکہ ان کے ساتھعہد تھا اور یمن کا علاقہ حجاز میں شامل نہ تھا اس لیے کسی کو یمن سے جلا وطن نہ کیا گیا اور یمن میں رہتے ہوئے ان سے صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : یمن عرب کی سرزمین ہے اہل نجران کو اس سے جلا وطن کیا گیا اور اہل حجاز کا عہد تھا نہ کہ اہل یمن کا۔ کیونکہ یہ حجاز نہ تھا اور نہ ہی ان کے خیال میں یہ عرب کی سرزمین تھی۔ حدیث میں تخصیص ہے۔ ابو عبیدہ بن جراح کہتے ہیں کہ مخصوص جگہ کے لیے دلیل یا شبہ دلیل کا ہونا ضروری ہے۔

18766

(١٨٧٦٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہَمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا الْوَاقِدِیُّ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ خَیْبَرَ إِلَی وَادِی الْقُرَی فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی فَتْحِ وَادِی الْقُرَی قَالَ : فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِوَادِی الْقُرَی أَرْبَعَۃَ أَیَّامٍ وَقَسَمَ مَا أَصَابَ عَلَی أَصْحَابِہِ بِوَادِی الْقُرَی وَتَرَک الأَرْضَ وَالنَّخْلَ بِأَیْدِی یَہُودَ وَعَامَلَہُمْ عَلَیْہَا فَلَمَّا کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْرَجَ یَہُودَ خَیْبَرَ وَفَدَکَ وَلَمْ یُخْرِجْ أَہْلَ تَیْمَائَ وَوَادِی الْقُرَی لأَنَّہُمَا دَاخِلَتَانِ فِی أَرْضِ الشَّامِ وَنَرَی أَنَّ مَا دُونَ وَادِی الْقُرَی إِلَی الْمَدِینَۃِ حِجَازٌ وَأَنَّ مَا وَرَائَ ذَلِکَ مِنَ الشَّامِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ ہَذَا الْکَلاَمُ الأَخِیرُ أَظُنُّہُ مِنْ قَوْلِ الْوَاقِدِیِّ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٧٦٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وادی قریٰ کی جانب گئے۔ اس نے وادی قریٰ کی فتح کے بارے میں حدیث ذکر کی۔ آپ نے وادی قریٰ میں چار قیام کیا۔ وادی القریٰ سے جو مال غنیمت حاصل ہوا تھا صحابہ میں تقسیم فرمایا اور زمین اور کھجوروں کے باغات پر یہود کو عامل بنادیا تو حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں خیبر وفدک کے یہود کو جلا وطن کردیا، لیکن تیماء اور وادی القریٰ کے لوگوں کو جلا وطن نہ کیا؛ کیونکہ یہ دونوں شام کی سرزمین میں شامل تھے اور ہمارے خیال میں وادی القریٰ کی اس طرف والی سرزمین حجاز میں شامل ہے جبکہ دوسری جانب والی شام میں داخل ہے۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہ آخری کلام اور واقدی کا قول ہے۔

18767

(١٨٧٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا زَکَرِیَّا : یَحْیَی بْنَ مُحَمَّدٍ الْعَنْبَرِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ یَعْنِی النَّیْسَابُورِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ الرَّازِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ الْعَزِیزِ بْنِ یَحْیَی الْمَدَنِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ أَنَسٍ یَقُولُ : جَزِیرَۃُ الْعَرَبِ الْمَدِینَۃُ وَمَکَّۃُ وَالْیَمَنُ فَأَمَّا مِصْرُ فَمَنْ بِلاَدِ الْمَغْرِبِ وَالشَّامُ مِنْ بِلاَدِ الرُّومِ وَالْعِرَاقُ مِنْ بِلاَدِ فَارِسَ ۔ [موضوع ]
(١٨٧٦١) مالک بن انس (رض) فرماتے ہیں کہ کہ جزیرہ عرب، مدینہ، مکہ اور یمن ہے اور مصر یورپ کے ممالک سے ہے اور شام ملک روم سے ہے اور عراق فارس کے ملک سے ہے۔

18768

(١٨٧٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : إِسْمَاعِیلُ بْنُ نُجَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبُوشَنْجِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَسْلَمَ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ضَرَبَ لِلْیَہُودِ وَالنَّصَارَی وَالْمَجُوسِ بِالْمَدِینَۃِ إِقَامَۃَ ثَلاَثِ لَیَالٍ یَتَسَوَّقُونَ بِہَا وَیَقْضُونَ حَوَائِجَہُمْ وَلاَ یُقِیمُ أَحَدٌ مِنْہُمْ فَوْقَ ثَلاَثِ لَیَالٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٢) اسلم حضرت عمر بن خطاب (رض) کے غلام حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے یہود و نصاریٰ اور مجوس کے لیے مدینہ میں تین دن کا قیام مقرر فرمایا۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرتے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی تین دن سے زیادہ قیام نہ کرتا تھا۔

18769

(١٨٧٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الرَّبِیعِ الْمَکِّیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : بَعَثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْعُشُورِ فَقُلْتُ : تَبْعَثُنِی عَلَی الْعُشُورِ مِنْ بَیْنِ عَمَلِکَ فَقَالَ : أَلاَ تَرْضَی أَنْ أُؤَہِّلَکَ عَلَی مَا جَعَلَنِی عَلَیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ رُبْعَ الْعُشْرِ وَمِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ نِصْفَ الْعُشْرِ وَمِمَّنْ لاَ ذِمَّۃَ لَہُ الْعُشْرَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٣) انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے مجھے مال تجارت سے دسواں حصہ لینے کے لیے بھیجا۔ انس بن سیرین کہتے ہیں کہ مال تجارت سے دسواں حصہ وصول کرنا یہ آپ کا کام ہے۔ آپ نے مجھے بھیج دیا ہے۔ فرماتے ہیں : کیا آپ راضی نہیں جس کام پر مجھے حضرت عمر (رض) نے مقرر کیا ، میں آپ کو بھیج رہا ہوں ؟ انس بن مالک (رض) نے مجھے حکم دیا کہ مسلمانوں سے چوتھائی عشر اور ذمی لوگوں سے بیسواں حصہ اور جو ذمی نہ ہو اس سے دسواں حصہ تو۔

18770

(١٨٧٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : أَرْسَلَ إِلَیَّ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَبْطَأْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَیَّ فَأَتَیْتُہُ فَقَالَ : إِنْ کُنْتُ لأَرَی أَنِّی لَوْ أَمَرْتُکَ أَنْ تَعُضَّ عَلَی حَجَرِ کَذَا وَکَذَا ابْتِغَائَ مَرْضَاتِی لَفَعَلْتَ اخْتَرْتُ لَکَ خَیْرَ عَمَلٍ فَکَرِہْتَہُ إِنِّی أَکْتُبُ لَکَ سُنَّۃَ عُمَرَ قُلْتُ : فَاکْتُبْ لِی سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : فَکَتَبَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمٌ وَمِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ مِنْ کُلِّ عِشْرِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمٌ وَمِمَّنْ لاَ ذِمَّۃَ لَہُ مِنْ کُلِّ عَشْرَۃِ دَرَاہِمَ دِرْہَمٌ۔ قَالَ قُلْتُ : مَنْ لاَ ذِمَّۃَ لَہُ قَالَ : الرُّومُ کَانُوا یَقْدَمُونَ الشَّامَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٤) انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) نے مجھے پیغام بھیجا، میں نے دیر کردی، دوسرے پیغام پر میں آیا۔ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے : اگر میں تجھے اپنی رضا مندی کے لیے یہ کہتا کہ اس پتھر کو منتقل کر دو تو آپ ایسا کردیتے۔ لیکن میں نے آپ کے لیے بہتر کام کا انتخاب کیا جس کو آپ نے ناپسند کیا۔ کہتے ہیں : میں تجھے حضرت عمر (رض) کا طریقہ تحریر کردیتا ہوں، میں نے کہا : تحریر کردیں تو انھوں نے لکھا کہ مسلمانوں سے چالیس درہموں سے ایک درہم وصول کرنا ہے۔ میں نے پوچھا : غیر ذمی کون سے لوگ ہیں ؟ فرمایا : جو رومی شام سے تجارت کی غرض سے آتے ہیں۔

18771

(١٨٧٦٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : أَحْمَدُ بْنُ ہَارُونَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا أَبُو حَنِیفَۃَ عَنِ الْہَیْثَمِ وَکَانَ صَیْرَفِیًّا بِالْکُوفَۃِ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیرِینَ أَخِی مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : جَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ عَلَی صَدَقَۃِ الْبَصْرَۃِ فَقَالَ لِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ : أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقُلْتُ : لاَ أَعْمَلُ لَکَ حَتَّی تَکْتُبَ لِی عَہْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الَّذِی عَہِدَ إِلَیْکَ فَکَتَبَ لِی أَنْ خُذْ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ رُبْعَ الْعُشْرِ وَمِنْ أَمْوَالِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِہَا لِلتِّجَارَۃِ نِصْفَ الْعُشْرِ وَمِنْ أَمْوَالِ أَہْلِ الْحَرْبِ الْعُشْرَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٥) انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے انس بن مالک (رض) کو بصرہ سے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو انس بن مالک (رض) نے مجھے کہا کہ اس کام پر میں آپ کو بھیجتا ہوں جس پر حضرت عمر (رض) نے مجھے مقرر کیا ہے۔ میں نے کہا : اتنی دیر میں آپ کا کام نہ کروں گا جتنی دیر حضرت عمر (رض) کا عہد مجھے تحریر کر کے نہ دیں گے تو انھوں نے مجھے تحریر کر کے دیا کہ مسلمانوں سے چالیسواں حصہ، اور ذمی لوگوں کا مال جب تجارت کی غرض مختلف شہروں میں جائیں تو ٢٠ بیسواں حصہ اور حربی کافر کے مال سے دسواں حصہ وصول کرنا ہے۔

18772

(١٨٧٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ یَأْخُذُ مِنَ النَّبَطِ مِنَ الْحِنْطَۃِ وَالزَّیْتِ نِصْفَ الْعُشْرِ یُرِیدُ بِذَلِکَ أَنْ یَکْثُرَ الْحَمْلُ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَیَأْخُذُ مِنَ الْقِطْنِیَّۃِ الْعُشْرَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٦) سالم اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نبط کے رہنے والوں سے گندم، تیل سے بیسواں حصہ وصول کرتے تاکہ وہ زیادہ مال مدینہ لائیں اور قطنیہ سے دسواں حصہ وصول کرتے۔

18773

(١٨٧٦٧) قَالَ وَأَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ أَنَّہُ قَالَ : کُنْتُ عَامِلاً مَعَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَلَی سُوقِ الْمَدِینَۃِ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ یَأْخُذُ مِنَ النَّبَطِ الْعُشْرَ ۔ [صحیح۔ اخرجہ مالک ]
(١٨٧٦٧) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عقبہ کے ساتھ مدینہ کے بازار پر عامل تھا۔ حضرت عمر (رض) کے دور میں۔ وہ نبط کے علاقہ کے لوگوں سے دسواں حصہ وصول کرتے تھے۔

18774

(١٨٧٦٨) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ : أَنَّہُ سَأَلَ ابْنَ شِہَابٍ عَلَی أَیِّ وَجْہٍ أَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنَ النَّبَطِ الْعُشْرَ ؟ فَقَالَ : کَانَ ذَلِکَ یُؤْخَذُ مِنْہُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَأَلْزَمَہُمْ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔[صحیح ]
(١٨٧٦٨) امام مالک (رح) نے ابن شہاب سے پوچھا کہ حضرت عمر (رض) نبط کے علاقے سے دسواں حصہ کیسے وصول کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ان سے وصول کیا جاتا تھا تو حضرت عمر (رض) نے اسی کو مقرر فرما دیا۔

18775

(١٨٧٦٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ : کُنْتُ أُعَاشِرُ مَعَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ زَمَانَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَانَ یَأْخُذُ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ أَنْصَافَ عُشُورِ أَمْوَالِہِمْ فِیمَا تَجَرُوا فِیہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٦٩) سائب بن یزید فرماتی ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عقبہ کے ساتھ حضرت عمر (رض) کے دور میں عشر وصول کیا کرتا تھا۔ وہ ذمی لوگوں کے تجارت کے مال سے بیسواں حصہ وصول کرتے تھے۔

18776

(١٨٧٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسُ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : کَتَبَ أَبُو مُوسَی إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : إِنَّ تُجَّارَ الْمُسْلِمِینَ إِذَا دَخَلُوا دَارَ الْحَرْبِ أَخَذُوا مِنْہُمُ الْعُشْرَ قَالَ فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : خُذْ مِنْہُمْ إِذَا دَخَلُوا إِلَیْنَا مِثْلَ ذَلِکَ الْعُشْرَ وَخُذُوا مِنَ تُجَّارِ أَہْلِ الذِّمَّۃِ نِصْفَ الْعُشْرِ وَمِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ مِائَتَیْنِ خَمْسَۃً وَمَا زَادَ فَمِنْ کُلِّ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا دِرْہَمًا۔ [صحیح ]
(١٨٧٧٠) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ابو موسیٰ نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا کہ مسلمان تاجر جب دار الحرب میں جاتے ہیں تو ان سے عشر وصول کیا جاتا ہے تو حضرت عمر (رض) نے جواب دیا : جب ان کے لوگ آئیں تم ان سے عشر وصول کرو اور ذمی تاجروں سے بیسواں حصہ وصول کرو اور مسلمانوں سے بیسواں ۔ درہم پر پانچ درہم وصول کیے جائیں اور جتنا زیادہ ہو ہر چالیس درہمپر ایک درہم وصول کریں۔

18777

(١٨٧٧١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ مُغَلِّسٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی عُمَرَ فِی أُنَاسٍ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ یَدْخُلُونَ أَرْضَنَا أَرْضَ الإِسْلاَمِ فَیُقِیمُونَ قَالَ فَکَتَبَ إِلَیَّ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنْ أَقَامُوا سِتَّۃَ أَشْہُرٍ فَخُذْ مِنْہُمُ الْعُشْرَ وَإِنْ أَقَامُوا سَنَۃً فَخُذْ مِنْہُمْ نِصْفَ الْعُشْرَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٧١) زیاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا کہ حربی کافر مسلمانوں کے علاقے میں آ کر قیام کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا : اگر وہ چھ ماہ قیام کریں تو ان سے دسواں حصہ وصول کرو، اگر وہ سال بھر قیام کریں تو بیسواں حصہ وصول کرو۔

18778

(١٨٧٧٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْعَبْسِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : مَا کُنَّا نَعْشُرُ مُسْلِمًا وَلاَ مُعَاہَدًا قَالَ قُلْتُ : فَمَنْ کُنْتُمْ تَعْشُرُونَ ؟ قَالَ : تُجَّارَ أَہْلِ الْحَرْبِ کَمَا یَعْشُرُونَا إِذَا أَتَیْنَاہُمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٧٢) زیاد بن حدیر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان اور معاہد سے دسواں حصہ وصول نہ کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا : تم کن سے عشر وصول کرتے تھے ؟ کہتے ہیں کہ حربی تاجروں سے دسواں حصہ وصول کرتے تھے ؛کیونکہ جب ہم ان کے پاس جاتے تھے تو وہ بھی ہم سے دسواں حصہ وصول کرتے تھے۔

18779

(١٨٧٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ نُصَیْرٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔ قَالَ الْعَبَّاسُ ہَکَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ عَنْ أَبِی جَدِّہِ کَذَا فِی ہَذِہِ الرِّوَایَۃِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی جَدِّہِ وَذَکَرَہَا الْبُخَارِیُّ فِی التَّارِیخِ دُونَ ذِکْرِ أَبِیہِ وَقَدْ مَضَی سَائِرُ طُرُقِہِ وَذَکَرْنَا حَدِیثَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فِی ذَلِکَ فِی کِتَابِ الزَّکَاۃِ ۔ [ضعیف۔ تعدھم برقم ١٨٧٠٣]
(١٨٧٧٣) حرب بن عبید اللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے والد کے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عشر یعنی دسواں حصہ مسلمانوں پر نہیں ہے بلکہ یہود و نصاریٰ پر ہے۔

18780

(١٨٧٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ أَبِی حَصِینٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : کُنْتُ أَعْشُرُ بَنِی تَغْلِبَ کُلَّمَا أَقْبَلُوا وَأَدْبَرُوا فَانْطَلَقَ شَیْخٌ مِنْہُمْ إِلَی عُمَرَ فَقَالَ : إِنَّ زِیَادًا یُعْشِرُنَا کُلَّمَا أَقْبَلْنَا وَأَدْبَرْنَا فَقَالَ : تُکْفَی ذَلِکَ ثُمَّ أَتَاہُ الشَّیْخُ بَعْدَ ذَلِکَ وَعُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی جَمَاعَۃٍ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَنَا الشَّیْخُ النَّصْرَانِیُّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَأَنَا الشَّیْخُ الْحَنِیفُ قَدْ کُفِیتَ قَالَ وَکَتَبَ إِلَیَّ أَنْ لاَ تَعْشُرْہُمْ فِی السَّنَۃِ إِلاَّ مَرَّۃً ۔ [صحیح۔ اخرجہ ابن آدم ]
(١٨٧٧٤) زیاد بن حدیر فرماتے ہیں : میں بنوتغلب سے عشر وصول کرتا جب وہ آتے اور جانے لگتے۔ ان کا ایک بوڑھا حضرت عمر (رض) کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ زیاد ہم سے دو مرتبہ عشر وصول کرتا ہے۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : یہ کفایت کر جائے گا۔ دوبارہ پھر بوڑھا حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ جب حضرت عمر (رض) ایک جماعت میں تھے۔ اس نے کہا : اے امیر المومنین میں ایک عیسائی شیخ ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اور میں شیخ حنیف یعنی صرف ایک اللہ کی طرف یکسو ہوجانے والا ہوں۔ تجھے کفایت کرجائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر مجھے خط لکھا کہ ان سے صرف ایک مرتبہ دسواں حصہ وصول کیا کرو۔

18781

(١٨٧٧٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ رُزَیْقِ بْنِ حَیَّانَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَتَبَ إِلَیْہِ : وَمَنْ مَرَّ بِکَ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ فَخُذْ مِمَّا یُدِیرُونَ مِنَ التِّجَارَاتِ مِنْ أَمْوَالِہِمْ مِنْ کُلِّ عِشْرِینَ دِینَارًا دِینَارًا فَمَا نَقَصَ فَبِحِسَابِ ذَلِکَ حَتَّی یَبْلُغَ عَشْرَۃَ دَنَانِیرَ فَإِنْ نَقَصَتْ ثُلُثَ دِینَارٍ فَدَعْہَا وَلاَ تَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا وَاکْتُبْ لَہُمْ بِمَا تَأْخُذُ مِنْہُمْ کِتَابًا إِلَی مِثْلِہِ مِنَ الْحَوْلِ ۔[حسن ]
(١٨٧٧٥) رزیق بن حیان فرماتی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مجھے خط لکھا کہ ذمی تاجروں سے ان مالوں کا بیسواں حصہ وصول کیا کرو۔ جو کم ہو تو وہ بھی اسی حساب سے۔ یہاں تک کہ وہ دس دینار تک جا پہنچے۔ اگر تین تہائی دینار کم ہوجائے تو کچھ بھی وصول نہ کریں اور جو وصول کرو اس کو سال کے لیے تحریر کرلیا کرو۔

18782

(١٨٧٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعُطَارِدِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ فَحَدَّثَنِی سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ نُعَیْمِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ جَائَ ہُ رَسُولاَ مُسَیْلِمَۃَ الْکَذَّابِ بِکِتَابِہِ وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ لَہُمَا : وَأَنْتُمَا تَقُولاَنِ مِثْلَمَا یَقُولُ ۔ فَقَالاَ : نَعَمْ فَقَالَ : أَمَا وَاللَّہِ لَوْلاَ أَنَّ الرُّسُلَ لاَ تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا ۔ [حسن ]
(١٨٧٧٦) سلمہ بن نعیم بن مسعود اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، جب مسیلمہ کذاب کے قاصد آئے تو آپ نے فرمایا : تم دونوں بھی اس کی مثل کہتے ہو۔ انھوں نے کہا : ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جو وہ کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر قاصدوں کو قتل کیے جانے کا طریقہ ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا لیکن قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا۔

18783

(١٨٧٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ أَنَّہُ أَتَی عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : مَا بَیْنِی وَبَیْنَ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ حِنَۃٌ وَإِنِّی مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِی حَنِیفَۃَ فَإِذَا ہُمْ یُؤْمِنُونَ بِمُسَیْلِمَۃَ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ عَبْدُ اللَّہِ فَجِیئَ بِہِمْ فَاسْتَتَابَہُمْ غَیْرَ ابْنِ النَّوَّاحَۃِ قَالَ لَہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لَوْلاَ أَنَّکَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَکَ ۔ فَأَنْتَ الْیَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ فَأَمَرَ قَرَظَۃَ بْنَ کَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَہُ فِی السُّوقِ ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی ابْنِ النَّوَّاحَۃِ قَتِیلاً بِالسُّوقِ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ١٦٨٨٦]
(١٨٧٧٧) حارثہ بن مضرب حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئے تو فرماتے ہیں کہ میرے اور عرب کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی۔ جب میرا گذر بنو حنیفہ کی مسجد کے قریب سے ہو، ا وہ مسیلمہ پر ایمان لا چکے تھے تو حضرت عبداللہ نے ان کو بلایا اور توبہ طلب کی۔ صرف ابن نواحہ نے توبہ نہ کی۔ حضرت عبداللہ اس سے کہنے لگے : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ قاصد کو قتل نہ کیا جائے، وگرنہ تیری گردن اتار دیتا۔ لیکن آج آپ قاصد بن کر نہیں آئے تو قرظہ بن کعب کو حکم دیا۔ انھوں نے بازار میں گردن اتار دی۔ پھر فرمایا : جو ابن نواحہ کو بازار میں مقتول دیکھنا چاہے دیکھ سکتا ہے۔

18784

(١٨٧٧٨) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ لاِبْنِ النَّوَّاحَۃِ : لَوْلاَ أَنَّکَ رَسُولٌ لَقَتَلْتُکَ ۔ [حسن ]
(١٨٧٧٨) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن نواحہ کو کہا اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تجھے قتل کردیتا۔

18785

(١٨٧٧٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِیُّ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنْ لاَ تُقْتَلَ الرُّسُلُ ۔
(١٨٧٧٩) ابو وائل حضرت عبداللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ قاصد کو قتل نہ کیا جائے۔

18786

(١٨٧٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ قُلْتُ لِمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ حَدَّثَکُ ابْنُ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَخَلَ مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَی رَأْسِہِ مِغْفَرٌ فَلَمَّا نَزَعَہُ جَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ : ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ فَقَالَ : اقْتُلُوہُ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ مَالِکٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٨٠) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا جب آپ نے خود کو اتارا تو ایک شخص نے آ کر کہا : ابن خطل ! کعبہ کے غلاف کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ فرمایا : تم اس کو قتل کر دو ۔

18787

(١٨٧٨١) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْعَدْلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ طَلْحَۃَ الْقَنَّادُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ عَنِ السُّدِّیِّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ فَتْحِ مَکَّۃَ آمَنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النَّاسَ إِلاَّ أَرْبَعَۃَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَیْنِ وَقَالَ : اقْتُلُوہُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمْ مُتَعَلِّقِینَ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَۃِ ۔ عِکْرِمَۃَ بْنَ أَبِی جَہْلٍ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ خَطَلٍ وَمِقْیَسَ بْنَ صُبَابَۃَ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ ۔ [حسن ]
(١٨٧٨١) مصعب بن سعد اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب فتح مکہ کا دن تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب لوگوں کو امن دے دیا۔ سوائے چار مرد اور عورتوں کے ۔ ان کو امن نہ دیا اور فرمایا : اگر تم ان کو کعبہ کے پردہ کے ساتھ لٹکے پاؤ تب بھی قتل کر دو ۔ یہ چار مرد تھے۔ 1 عکرمہ بن ابی جھل، 2 عبداللہ بن خطل، 3 مقیس بن صبابہ، 4 عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔

18788

(١٨٧٨٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَرْبِ بْنِ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِیدٍ الْمَخْزُومِیُّ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : أَرْبَعَۃٌ لاَ أُؤَمِّنُہُمْ فِی حِلٍّ وَلاَ حَرَمٍ الْحُوَیْرِثُ بْنُ نُقَیْدٍ وَمِقْیَسٌ وَہِلاَلُ بْنُ خَطَلٍ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی سَرْحٍ ۔ فَأَمَّا الْحُوَیْرِثُ فَقَتَلَہُ عَلِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَمَّا مِقْیَسٌ فَقَتَلَہُ ابْنُ عَمٍّ لَہُ لَحٍّا وَأَمَّا ہِلاَلُ بْنُ خَطَلٍ فَقَتَلَہُ الزُّبَیْرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَمَّا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی سَرْحٍ فَاسْتَأْمَنَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ أَخَاہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَقَیْنَتَیْنِ کَانَتَا لِمِقْیَسٍ تُغَنِّیَانِ بِہِجَائِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قُتِلَتْ إِحْدَاہُمَا وَأَفْلَتَتِ الأُخْرَی فَأَسْلَمَتْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٨٢) عمر بن عثمان بن عبد الرحمن بن سعید مخزومی اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا : چار افراد کو حرم اور حلت میں بھی پناہ نہیں ہے۔ 1 حویرث بن نقید، 2 مقیس، 3 ھلال بن خطل، 4 عبداللہ بن ابی سرح۔ حویرث کو حضرت علی (رض) نے قتل کردیا، مقیس کو اس کے چچا کے بیٹے لخا نے قتل کردیا، ھلال بن خطل کو حضرت زبیر (رض) نے قتل کردیا۔ عبداللہ بن ابی سرح کو حضرت عثمان بن عفان (رض) نے رضاعی بھائی ہونے کی وجہ سے پناہ دے دی۔ مقیس کی دو گانے والی لونڈیاں تھیں۔ ایک کو قتل کردیا گیا ، دوسری کو چھوڑ دیا گیا، وہ مسلمان ہوگئی۔

18789

(١٨٧٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْعَدَوِیِّ أَنَّہُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ وَہُوَ یَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَی مَکَّۃَ : ائْذَنْ لِی أَیُّہَا الأَمِیرُ أُحَدِّثْکَ قَوْلاً قَامَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ أُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِی وَأَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِینَ تَکَلَّمَ بِہِ حَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللَّہُ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ فَلاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ فِیہَا دَمًا وَلاَ یَعْضِدَ بِہَا شَجَرَۃً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُولُوا إِنَّ اللَّہَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِہِ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُہَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِہَا بِالأَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ ۔ فَقِیلَ لأَبِی شُرَیْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو فَقَالَ قَالَ عَمْرٌو : أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِکَ مِنْکَ یَا أَبَا شُرَیْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لاَ یُعِیذُ عَاصِیًا وَلاَ فَارًّا بِدَمٍ وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَۃٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٨٣) ابو شریح عدوی نے عمرو بن سعید سے کہا جو مکہ کی جانب وفد بھیجتے تھے کہ اے امیر المؤمنین ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فتح مکہ کے دوسرے دن بات فرمائی تھی، وہ مجھے کہنے کی اجازت دیں۔ میرے دونوں کانوں نے سنا، دل نے یاد رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بات کرتے ہوتے دیکھا۔ آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا : مکہ کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے لوگوں نے نہیں۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حرم میں خون بہانا جائز نہیں ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتال کی اجازت ملی تھی تو تم کہہ دینا اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، تمہیں نہیں اور آپ کو صرف دن کی ایک گھڑی اجازت دی گئی۔ اب اس کی حرمت ویسے ہوگئی جیسے پہلے تھی اور چاہیے کہ حاضر غائب تک بات کو پہنچا دے۔ ابو شریح سے کہا گیا کہ عمرو نے آپ سے کیا کہا۔ راوی کہتے ہیں : عمرو نے ابو شریح سے کہا : میں تجھ سے اس بات کو زیادہ جانتا ہوں ، حرم کسی گناہ گار قاتل اور فساد کرنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

18790

(١٨٧٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّمَا مَعْنَی ذَلِکَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ أَنَّہَا لَمْ تَحْلِلْ أَنْ یُنْصَبَ عَلَیْہَا الْحَرْبُ حَتَّی تَکُونَ کَغَیْرِہَا فَقَدْ أَمَرَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَمَا قُتِلَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ وَخُبَیْبٌ بِقَتْلِ أَبِی سُفْیَانَ فِی دَارٍ بِمَکَّۃَ غِیلَۃً إِنْ قُدِرَ عَلَیْہِ وَہَذَا فِی الْوَقْتِ الَّذِی کَانَت فِیہِ مُحَرَّمَۃً فَدَلَّ عَلَی أَنَّہَا لاَ تَمْنَعُ أَحَدًا مِنْ شَیْئٍ وَجَبَ عَلَیْہِ وَإِنَّہَا إِنَّمَا تُمْنَعُ مِنْ أَنْ یُنْصَبَ عَلَیْہَا الْحَرْبُ کَمَا یُنْصَبُ عَلَی غَیْرِہَا۔
سابقہ حدیث کی طرح ہے

18791

(١٨٧٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بُطَّۃَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہَمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا الْوَاقِدِیُّ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ الْوَاقِدِیُّ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیِّ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِی عَوْنٍ وَزَادَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ فَذَکَرَ قِصَّۃً فِی بَعَثِ أَبِی سُفْیَانَ مَنْ یَقْتُلُ مُحَمَّدًا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غِیلَۃً وَإِنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَطْلَعَ عَلَیْہِ نَبِیَّہُ وَأَسْلَمَ الرَّجُلُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیِّ وَسَلَمَۃَ بْنِ أَسْلَمَ بْنِ حَرِیشٍ : اخْرُجَا حَتَّی تَأْتِیَا أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ فَإِنْ أَصَبْتُمَا مِنْہُ غِرَّۃً فَاقْتُلاَہُ ۔ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً فِی رُؤْیَۃِ مُعَاوِیَۃَ عَمْرًا وَإِخْبَارِہِ أَبَاہُ بِذَلِکَ وَأَنَّ عَمْرَو بْنَ أُمَیَّۃَ وَسَلَمَۃَ بْنَ أَسْلَمَ أَسْنَدَا فِی الْجَبَلِ وَتَغَیَّبا فِی غَارٍ ثُمَّ إِنَّ عَمْرَو بْنَ أُمَیَّۃَ خَرَجَ فَقَتَلَ عُبَیْدَ اللَّہِ بْنَ مَالِکٍ ابْنَ أَخِی طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ وَجَائَ إِلَی خُبَیْبِ بْنِ عَدِیٍّ وَہُوَ مَصْلُوبٌ فَأَنْزَلَہُ وَأَہَالَ عَلَیْہِ التُّرَابَ ثُمَّ ذَکَرَ رُجُوعَہُمَا مُنْفَرِدَیْنِ إِلَی الْمَدِینَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٨٥) عبد الوحد بن ابی عون فرماتے ہیں کہ بعض نے کچھ الفاظ زائد بیان کیے ہیں اور ابو سفیان کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا سے قتل کرنے کا قصہ ذکر کیا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دے دی تو قتل کے ارادے سے آنے والا شخص مسلمان ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن امیہ فری اور سلمہ بن اسلم بن حریش کو فرمایا : تم ابو سفیان بن حرب کے پاس جا ؤ، اگر تم اسے غافل پاؤ تو قتل کردینا۔
(ب) پھر انھوں نے معاویہ کے عمرو کو دیکھ لینے اور اپنے باپ کو اس کی خبر دینے کا قصہ ذکر کیا ہے کہ عمرو بن امیہ اور سلمہ بن اسلم پہاڑ پر چڑھ کر غار میں چھپ گئے تو عمرو بن امیہ نے غار سے نکل کر عبید اللہ بن مالک کو جو طلحہ بن عبید اللہ کے بھتیجے تھے قتل کردیا۔ پھر خبیب بن عدی کے پاس آئے، انھیں سولی سے اتار کر ان پر مٹی ڈال دی، پھر وہ دونوں اکیلے اکیلے مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔

18792

(١٨٧٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مَالِکِ ابْنِ بَرْصَائَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : لاَ تُغْزَی بَعْدَہَا إِلَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٨٦) حارث بن مالک بن برصاہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا : یہاں قیامت تک غزوہ نہ کیا جائے گا۔

18793

(١٨٧٨٧) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَنْ قَتَلَ أَوْ سَرَقَ فِی الْحِلِّ ثُمَّ دَخَلَ الْحَرَمَ فَإِنَّہُ لاَ یُجَالَسُ وَلاَ یُکَلَّمُ وَلاَ یُؤْوَی وَیُنَاشَدُ حَتَّی یَخْرُجَ فَإِذَا خَرَجَ أُقِیمَ عَلَیْہِ مَا أَصَابَ فَإِنْ قَتَلَ أَوْ سَرَقَ فِی الْحِلِّ ثُمَّ أُدْخِلَ الْحَرَمَ فَأَرَادُوا أَنْ یُقِیمُوا عَلَیْہِ مَا أَصَابَ أَخْرَجُوہُ مِنَ الْحَرَمِ إِلَی الْحِلِّ وَإِنْ قَتَلَ أَوْ سَرَقَ فِی الْحَرَمِ أُقِیمَ عَلَیْہِ فِی الْحَرَمِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَہَذَا رَأْیٌ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَقَدْ تَرَکْنَاہُ بِالظَّوَاہِرِ الَّتِی وَرَدَتْ فِی إِقَامَۃِ الْحُدُودِ دُونَ تَخْصِیصِ الْحَرَمِ بِتَرْکِہَا فِیہِ مِنْ صَاحِبِ الشَّرِیعَۃِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٨٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جس نے حل میں قتل یا چوری کی۔ پھر حرم میں داخل ہوگیا تو ایسے انسان کو پاس بٹھایا نہ جائے کلام نہ کی جائے، اور نہ ہی اسے پناہ دی جائے اور حرم سے نکلنے کا مطالبہ کیا جائے جب وہ حرم سے نکل آئے تو اس پر حد جاری کی جائے۔ اگر کسی نے حل میں قتل یا چوری کی پھر اسے حرم میں اس نیت سے لایا گیا کہ اس پر حد قائم کی جائے تو تم حرم سے نکال کر حل میں لے آؤ اور اگر کسی نے حرم میں قتل یا چوری کی تو پھر حرم کے اندر ہی اس پر حد جاری کی جائے گی۔
شیخ فرماتے ہیں : یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ہے تو ہم نے ظاہر دلائل کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے جو حد کو قائم کرنے کے بارے میں ہے جس میں حرم کی تخصیص نہیں ہے۔

18794

(١٨٧٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ أُکَیْدِرَ دُومَۃَ أَہْدَی إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جُبَّۃً فَلَبِسَہَا۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ فَقَالَ وَقَالَ سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٨٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اکیدر دومہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبہ ہدیہ میں دیا جس کو آپ زیب تن فرماتے تھے۔

18795

(١٨٧٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ أَبِی عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثَلاَثِینَ وَمِائَۃً فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْکُمْ طَعَامٌ ۔ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُہُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ مُشْرِکٌ مُشْعَانٌ طَوِیلٌ بِغَنَمٍ یَسُوقُہَا قَالَ : أَبَیْعٌ أَوْ عَطِیَّۃٌ أَوْ قَالَ أَمْ ہِبَۃٌ۔ فَقَالَ : بَلْ بَیْعٌ قَالَ : فَاشْتَرَی مِنْہَا شَاۃً فَصُنِعَتْ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ یُشْوَی وَایْمُ اللَّہِ مَا مِنَ الثَّلاَثِینَ وَالْمِائَۃِ إِلاَّ قَدْ حَزَّ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حُزَّۃً مِنْ سَوَادِ بَطْنِہَا إِنْ کَانَ شَاہِدًا أَعْطَاہُ وَإِنْ کَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَہُ قَالَ وَجَعَلَ مِنْہَا قَصْعَتَیْنِ قَالَ فَأَکَلْنَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا وَفَضَلَ فِی الْقَصْعَتَیْنِ فَحَمَلْنَاہُ عَلَی الْبَعِیرِ أَوْ کَمَا قَالَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَارِمٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ مُعَاذٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٨٩) عبد الرحمن بن ابی بکر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ١٣٠ ساتھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا کسی کے پاس کھانا موجود ہے ؟ جب کسی شخص کے پاس ایک صاعگندم ہوتی تو اسے گوند لیا جاتا ۔ پھر ایک مشرک آدمی لمبے پراگندہ بالوں والا بکریاں لیکر آیا۔ فرمایا : کیا یہ فروخت کرو گے یا ہبہ ہے ؟ اس نے کہا : فروخت کرنا ہے، آپ نے اس سے ایک بکری خرید لی، اسے ذبح کیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیٹ کے گوشت کے بارے میں حکم دیا کہ اسے بھوتا جائے، اللہ کی قسم ! ہم ایک سو تیس شخص تھے آپ نے ہمیں اس گوشت سے کاٹ کردیا ۔ اگر کوئی موجود نہ ہوتا تو اس کے لیے الگ کر کے رکھ لیتے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اس گوشت کو دو پلیٹوں میں ڈال دیا، ہم تمام نے سیر ہو کر کھایا۔ پھر جو باقی بچا اونٹ پر لاد لیا یا جیسے آپ نے فرمایا۔

18796

(١٨٧٩٠) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ بَکَّارٍ حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی الأَنْصَارِیِّ عَنِ الْعَبَّاسِ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی تَبُوکَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِیہِ وَأَہْدَی مَلِکُ الأَیْلَۃِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَغْلَۃً بَیْضَائَ فَکَسَاہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بُرْدَۃً وَکَتَبَ لَہُ بِبَحْرِہِمْ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَہْلِ بْنِ بَکَّارٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ وُہَیْبٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٧٩٠) ابو حمیدساعدی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تبوک کا سفر کیا۔ اس نے حدیث کو ذکر کیا جس میں یہ تھا کہ ایلہ کے بادشاہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفید خچر تحفہ میں دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چادر پہنائی اور اس کے عوض گھوڑا عطا کیا۔

18797

(١٨٧٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ : الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلاَّمٍ عَنْ زَیْدٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ قَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ الْہَوْزَنِیُّ قَالَ : لَقِیتُ بِلاَلاً مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْتُ : یَا بِلاَلُ حَدِّثْنِی کَیْفَ کَانَتْ نَفَقَۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِیہِ : فَإِذَا إِنْسَانٌ یَسْعَی یَدْعُو یَا بِلاَلُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَتَیْتُہُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَکَائِبَ مُنَاخَاتٍ عَلَیْہِنَّ أَحْمَالُہُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَبْشِرْ فَقَدْ جَائَ کَ اللَّہُ بِقَضَائِکَ ۔ ثُمَّ قَالَ : أَلَمْ تَرَ إِلَی الرَّکَائِبِ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعِ ۔ فَقُلْتُ : بَلَی فَقَالَ : إِنَّ لَکَ رِقَابَہُنَّ وَمَا عَلَیْہِنَّ فَإِنَّ عَلَیْہِنَّ کِسْوَۃً وَطَعَامًا أَہْدَاہُنَّ إِلَیَّ عَظِیمُ فَدَکَ فَاقْبِضْہُنَّ وَاقْضِ دَیْنَکَ ۔ فَفَعَلْتُ ۔ [صحیح۔ اخرجہ السجستانی ٣٠٥٥]
(١٨٧٩١) عبداللہ ھوزنی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن بلال (رض) کو ملا، پوچھا : اے بلال (رض) ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خرچے کے بارے میں بتائیے۔ اس نے حدیث ذکر کی۔ جس میں تھا کہ ایک انسان دوڑتا ہوا آیا اور کہا : اے بلال (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلاؤ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، چار اونٹنیاں سامان سے لادی ہوئی تھیں۔ میں نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خوش ہو جاؤ ۔ اللہ نے آپ کے قرض کی ادائیگی کا بند و بست کردیا ہے۔ پھر فرمایا : کیا آپ ان چار سامان سے لدی ہوئی اونٹنیوں کی طرف نہیں دیکھتے۔ اس نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : یہ سب تیرے لیے ہیں اور ان پر کپڑے اور کھانا ہے جو فدک کے امیر نے مجھے تحفہ میں دیا ہے۔ یہ لے جا کر اپنا قرض ادا کرو، کہتے ہیں : میں نے ایسا ہی کیا۔

18798

(١٨٧٩٢) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ ثُوَیْرِ بْنِ أَبِی فَاخِتَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَہْدَی کِسْرَی إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَبِلَ مِنْہُ وَأَہْدَی قَیْصَرُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَبِلَ مِنْہُ وَأَہْدَتْ لَہُ الْمُلُوکُ فَقَبِلَ مِنْہُمْ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی الْقَدِیمِ : قَدْ أَہْدَی أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَدَمًا فَقَبِلَ مِنْہُ وَأَہْدَی إِلَیْہِ صَاحِبُ الإِسْکَنْدَرِیَّۃِ مَارِیَۃَ أُمَّ إِبْرَاہِیمَ فَقَبِلَہَا وَغَیْرُہُمَا قَدْ أَہْدَی إِلَیْہِ وَلَمْ یَجْعَلْ ذَلِکَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٩٢) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کسریٰ وقیصر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تحفہ دیا، جو آپ نے قبول کیا اور کئی بادشاہوں نے آپ کو تحفے دیے، جو آپ نے قبول کیے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ ابو سفیان بن حرب نے مشکیزہ، اسکندریہ کے بادشاہ نے ابراہیم کی والدہ ماریہ تحفہ میں دی، جو آپ نے قبول فرمایا، کئی اور لوگوں نے بھی آپ کو تحفے دیے جو مسلمانوں کے درمیان تقسیم نہیں فرمائے۔

18799

(١٨٧٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَہْدَیْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَاقَۃً أَوْ ہَدِیَّۃً فَقَالَ : أَسْلَمْتَ ؟ ۔ قُلْتُ : لاَ قَالَ : إِنِّی نُہِیتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِکِینَ ۔ وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ حَدَّثَنَا یُونُسُ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو التَّیَّاحِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَہْدَیْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَدِیَّۃً أَوْ قَالَ نَاقَۃً فَقَالَ لِی : أَسْلَمْتَ ؟ ۔ قُلْتُ : لاَ فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَہَا وَقَالَ : إِنَّا لاَ نَقْبَلُ زَبْدَ الْمُشْرِکِینَ ۔ قُلْتُ لِلْحَسَنِ : مَا زَبْدُ الْمُشْرِکِینَ ؟ قَالَ : رِفْدُہُمْ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : یَحْتَمِلُ رَدُّہُ ہَدِیَّتَہُ التَّحْرِیمَ وَیَحْتَمِلُ التَّنْزِیہَ وَقَدْ یُغِیظُہُ بِرَدِّ ہَدِیَّتِہِ فَیَحْمِلُہُ ذَلِکَ عَلَی الإِسْلاَمِ وَالأَخْبَارُ فِی قَبُولِہِ ہَدَایَاہُمْ أَصَحُّ وَأَکْثَرُ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٩٣) عیاض بن حمارفرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونٹنی تحفہ میں دی یا کوئی تحفہ دیا۔ آپ نے پوچھا : مسلمان ہوگئے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا : میں مشرکین کے تحفے قبول نہیں کرتا۔ (ب) عیاض بن حمار کہتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ہدیہ یا اونٹنی دی۔ آپ نے پوچھا کہ مسلمان ہو ؟ میں نے کہا : نہیں تو آپ نے تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا : ہم مشرکین کے تحفے قبول نہیں کرتے۔ میں نے حسن سے پوچھا : مشرکین کے تحفے کیا ہیں ؟ فرمایا : ان کے عطیے۔
شیخ فرماتے ہیں : اس کا تحفہ حرمت یا تنزیہ کی وجہ سے رد کردیا، اس غصے کی وجہ سے کہ انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ حالانکہ مشرکین کے تحفے قبول کرنے کے بارے میں صحیح اور کثرت سے روایات موجود ہیں۔

18800

(١٨٧٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ أَبِی عَمْرٍو الصَّیْرَفِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ عَنِ السَّفَّاحِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ کُرْدُوسٍ قَالَ : صَالَحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَنِی تَغْلِبَ عَلَی أَنْ یُضَاعِفَ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ وَلاَ یَمْنَعُوا أَحَدًا مِنْہُمْ أَنْ یُسْلِمَ وَأَنْ لاَ یَغْمِسُوا أَوْلاَدَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٩٤) داؤد بن کردوس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بنو تغلب سے صلح کی، اس شرط پر کہ ان پر دوگناصدقہ کیا جائے گا اور وہ کسی کو اسلام قبول کرنے سے نہیں روکیں گے اور اپنی اولاد کو پانی میں غوطہ دے کر نہیں رنگیں گے۔

18801

(١٨٧٩٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ عَنِ السَّفَّاحِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ کُرْدُوسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ صَالَحَ بَنِی تَغْلِبَ عَلَی أَنْ لاَ یَصْبَغُوا فِی دِینِہِمْ صَبِیًّا وَعَلَی أَنَّ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ مُضَاعَفَۃً وَعَلَی أَنْ لاَ یُکْرَہُوا عَلَی دِینٍ غَیْرِ دِینِہِمْ فَکَانَ دَاوُدُ یَقُولُ : مَا لِبَنِی تَغْلِبَ ذِمَّۃٌ قَدْ صَبَغُوا۔ [ضعیف ]
(١٨٧٩٥) داؤد بن کردوس حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے بنو تغلب سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ اپنے دین میں کسی بچے کو نہیں رنگے گے اور ان پر دوگنا صدقہ ہے۔ انھیں اپنے دین کے علاوہ کسی دوسرے دین پر مجبور نہ کیا جائے گا، داؤد کہتے ہیں کہ بنو تغلب کے لیے کوئی عہد نہ تھا کیونکہ انھوں نے اپنی اولادوں کو عیسائیت میں رنگ دیا تھا۔

18802

(١٨٧٩٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ السَّفَّاحِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ کُرْدُوسٍ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ النُّعْمَانِ التَّغْلِبِیِّ أَنَّہُ قَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّ بَنِی تَغْلِبَ مَنْ قَدْ عَلِمْتَ شَوْکَتَہُمْ وَإِنَّہُمْ بِإِزَائِ الْعَدُوِّ فَإِنْ ظَاہَرُوا عَلَیْکَ الْعَدُوَّ اشْتَدَّتْ مُؤْنَتُہُمْ فَإِنْ رَأَیْتَ أَنْ تُعْطِیَہُمْ شَیْئًا قَالَ فَأَفْعَلُ قَالَ : فَصَالَحَہُمْ عَلَی أَنْ لاَ یَغْمِسُوا أَحَدًا مِنْ أَوْلاَدِہِمْ فِی النَّصْرَانِیَّۃِ وَتُضَاعَفُ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃُ قَالَ : وَکَانَ عُبَادَۃُ یَقُولُ : قَدْ فَعَلُوا فَلاَ عَہْدَ لَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٩٦) عبادہ بن نعمان تغلبیب فرماتے ہیں کہ اس نے حضرت عمر (رض) سے کہا : اے امیر المؤمنین ! آپ بنو تغلب کی شان و شوکت کو جانتے ہیں۔ وہ دشمن کے مقابلہ میں آپ کی مدد کریں گے۔ اگر آپ ان کو کچھ عطا کریں، حضرت عمر (رض) نے کہا : میں کچھ دے دوں گا۔ راوی کہتے ہیں : حضرت عمر (رض) نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ اپنی اولاد کو عیسائیت میں نہ رنگے گے اور ان پر دوگنا صدقہ ہوگا۔ عبادہ کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے یہ کام کرلیا تو ان کے لیے کوئی عہد نہیں ہے۔

18803

(١٨٧٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ عُقَیْبَ ہَذَا الْحَدِیثِ وَہَکَذَا حَفِظَ أَہْلُ الْمَغَازِی وَسَاقُوہُ أَحْسَنَ مِنْ ہَذَا السِّیَاقِ فَقَالُوا : رَامَہُمْ عَلَی الْجِزْیَۃِ فَقَالُوا نَحْنُ عَرَبٌ لاَ نُؤَدِّی مَا یُؤَدِّی الْعَجَمُ وَلَکِنْ خُذُ مِنَّا کَمَا یَأْخُذُ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ یَعْنُونَ الصَّدَقَۃَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لاَ ہَذَا فَرْضٌ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَقَالُوا : فَزِدْ مَا شِئْتَ بِہَذَا الاِسْمِ لاَ بِاسْمِ الْجِزْیَۃِ فَفَعَلَ فَتَرَاضَی ہُوَ وَہُمْ عَلَی أَنْ ضَعَّفَ عَلَیْہِمُ الصَّدَقَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٨٧٩٧) ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی (رض) نے اس حدیث کے آخر میں کہا کہ ہلِ مغازی کو بھی اسی طرح یاد ہے اور انھوں نے بہترین سیاق کے ذریعے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ان پر جزیہ مقرر کیا تو وہ کہنے لگے : ہم عرب لوگ ہیں عجمیوں کی طرح ہم جزیہ نہ دیں گے، لیکن آپ ہم سے صدقہ (یعنی زکوۃ ) وصول کرلیا کریں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے : یہ صرف مسلمانوں پر فرض ہے تو انھوں نے کہا : جزیہ کے علاوہ کوئی دوسرا نام رکھ لیں تو حضرت عمر (رض) نے رضا مندی کا اظہار کردیا کہ ان پر دوگنا صدقہ ہوگا۔

18804

(١٨٧٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنْ سَعْدٍ الْجَارِیِّ أَوْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَا نَصَارَی الْعَرَبِ بِأَہْلِ کِتَابِ وَمَا یَحِلُّ لَنَا ذَبَائِحُہُمْ وَمَا أَنَا بِتَارِکِہِمْ حَتَّی یُسْلِمُوا أَوْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَہُمْ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَإِنَّمَا تَرَکْنَا أَنْ نُجْبِرَہُمْ عَلَی الإِسْلاَمِ أَوْ نَضْرِبَ أَعْنَاقَہُمْ لأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخَذَ الْجِزْیَۃَ مِنْ نَصَارَی الْعَرَبِ وَأَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ قَدْ أَقَرُّوہُمْ وَإِنْ کَانَ عُمَرَ قَدْ قَالَ ہَذَا کَذَلِکَ لاَ یَحِلُّ لَنَا نِکَاحُ نِسَائِہِمْ لأَنَّ اللَّہَ جَلَّ ثَنَاؤُہُ إِنَّمَا أَحَلَّ لَنَا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی عَلَیْہِمْ نَزَلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٧٩٨) سعد جاری یا عبداللہ بن سعد حضرت عمر (رض) کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : عرب کے عیسائی اہل کتاب نہیں اور ان کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال نہیں یا تو وہ مسلمان ہوجائیں یا ہم انھیں قتل کریں گے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : کر ہم اسلام کے لیے ان پر جبرکریں گے یا انھیں قتل کریں گے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے عیسائیوں سے جذیہ وصول کیا۔ حضرت عمر (رض) عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) نے ان کو بر قرار رکھا۔ اگرچہ حضرت عمر (رض) نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی عورتوں سے ہمارے لیے نکاح کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے ہمارے لیے اہل کتاب سے نکاح کو جائز رکھا ہے، جن پر کتاب نازل ہوئی ۔

18805

(١٨٧٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُکْرَمٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ الضَّبِیُّ أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدٍ ہُوَ ابْنُ سِیرِینَ عَنْ عَبِیدَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ ذَبَائِحِ نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ فَقَالَ : لاَ تَأْکُلُوہُ فَإِنَّہُمْ لَمْ یَتَعَلَّقُوا مِنْ دِینِہِمْ بِشَیْئٍ إِلاَّ بِشُرْبِ الْخَمْرِ ۔ [صحیح ]
(٩٩ ١٨٧) عبیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے بنو ثغلب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : تم ان کا ذبیحہ نہ کھاؤ۔ کیونکہ ان کے دین میں کوئی چیز اس کے متعلقہ نہیں سوائے شراب کے۔

18806

(١٨٨٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا شَرِیکٌ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُہاجِرِ الْبَجَلِیِّ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لَئِنْ بَقِیتُ لِنَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ لأَقْتُلَنَّ الْمُقَاتِلَۃَ وَلأَسْبِیَنَّ الذُّرِّیَّۃَ فَإِنِّی کَتَبْتُ الْکِتَابَ بَیْنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَیْنَہُمْ عَلَی أَنْ لاَ یُنَصِّرُوا أَبْنَائَ ہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٠٠) زیاد بن حدیر اسد فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : اگر میں نے بنو ثعلب بناؤں گا۔ کیونکہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے درمیان معاہدہ تحریر کیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو عیسائی نہیں بنائیں گے۔

18807

(١٨٨٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُوسَی الْحَاسِبُ حَدَّثَنَا جُبَارَۃُ حَدَّثَنِی عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ بَہْرَامَ حَدَّثَنِی شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ حَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ ذَبِیحَۃِ نَصَارَی الْعَرَبِ ۔ ہَذَا إِسْنَادٌ ضَعِیفٌ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا بِخِلاَفِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٠١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کھانے سے منع فرمایا ہے۔

18808

(١٨٨٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ الدِّیلِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ ذَبَائِحِ نَصَارَی الْعَرَبِ فَقَالَ : لاَ بَأْسَ بِہَا وَتَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ { وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ } [المائدۃ ٥١] ۔ [صحیح ]
(١٨٨٠٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ آیت تلاوت کی : { وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ }[المائدۃ ٥١] اور جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی رکھے وہ انہی میں سے ہے۔

18809

(١٨٨٠٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَزَّازُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَذَکَرَہُ بِمِثْلِہِ ۔
سابقہ حدیث کی طرح ہے

18810

(١٨٨٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ وَالَّذِی یُرْوَی مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی إِحْلاَلِ ذَبَائِحِہِمْ إِنَّمَا ہُوَ مِنْ حَدِیثِ عِکْرِمَۃَ أَخْبَرَنِیہِ ابْنُ الدَّرَاوَرْدِیِّ وَابْنُ أَبِی یَحْیَی عَنْ ثَوْرٍ الدِّیلِیِّ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ ذَبَائِحِ نَصَارَی الْعَرَبِ فَقَالَ قَوْلاً حَکَیَاہُ ہُوَ إِحْلاَلُہَا وَتَلاَ { وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ } وَلَکِنَّ صَاحِبَنَا سَکَتَ عَنِ اسْمِ عِکْرِمَۃَ وَثَوْرٌ لَمْ یَلْقَ ابْنَ عَبَّاسٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ یَعْنِی بِصَاحِبِنَا مَالِکَ بْنَ أَنَسٍ لَمْ یَذْکُرْ عِکْرِمَۃَ فِی أَکْثَرِ الرِّوَایَاتِ عَنْہُ وَکَأَنَّہُ کَانَ لاَ یَرَی أَنْ یُحْتَجَّ بِہِ وَثَوْرٌ الدِّیلِیُّ إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَلاَ یَنْبَغِی أَنْ یُحْتَجَّ بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ کَذَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیمَا رَوَی عَنْہُ عِکْرِمَۃُ وَنَحْنُ إِنَّمَا رَغِبْنَا عَنْہُ لِقَوْلِ عُمَرَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا۔[صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٨٠٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے عرب کے عیسائیوں کے ذبیحہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے قول کی حکایت کی کہ وہ حلال ہے اور یہ آیت تلاوت کی : { وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ } [المائد ٥١] اور جس نے تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کی وہ انہی میں سے ہے۔ لیکن مالک بن انس (رض) نے عکرمہ کا نام ذکر نہیں کیا اور ثور کی ملاقات ابن عباس (رض) سے نہیں ہے۔

18811

(١٨٨٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُوسَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا شَرِیکٌ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : بَعَثَنِی عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ وَأَمَرَنِی أَنْ آخُذَ مِنْہُمْ نِصْفَ عُشْرِ أَمْوَالِہِمْ وَنَہَانِی أَنْ أُعَشِّرَ مُسْلِمًا أَوْ ذَا ذِمَّۃٍ یُؤَدِّی الْخَرَاجَ ۔ قَالَ یَعْنِی فِیمَا أَظُنُّ بِقَوْلِہِ مُسْلِمًا یَقُولُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ لأَنَّہُ إِنَّمَا أُرْسِلَ إِلَی نَصَارَی بَنِی تَغْلِبَ وَقَوْلُہُ أَوْ ذَا ذِمَّۃٍ یُؤَدِّی الْخَرَاجَ یَقُولُ : إِنَّ أَہْلَ الذِّمَّۃِ لاَ یُعْرَضُ لَہُمْ فِی مَوَاشِیہِمْ وَلاَ فِی عُشْرِ زُرُوعِہِمْ وَثِمَارِہِمْ إِلاَّ بَنِی تَغْلِبَ لأَنَّہُمْ صُولِحُوا عَلَی ذَلِکَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَیُحْتَمَلُ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ فِی صُلْحِ أُولَئِکَ الَّذِینَ کَانُوا فِی وِلاَیَتِہِ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ تَعْشِیرُ أَمْوَالِہِمُ الَّتِی یَتْجِرُونَ بِہَا۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٨٠٠]
(١٨٨٠٥) ایاد بن حدیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے بنوتغلب کے عیسائیوں کی جانب بھیجا اور حکم دیا کہ ان کے مالوں سے بسیواں حصہ وصول کرو اور مجھے منع فرمایا کہ کسی مسلمان یا ذمی شخص سے جو خراج ادا کرتے ہیں، ان سے عشروصول نہ کرو۔ فرماتے ہیں : مسلمان سے مرادوہ ہے جو ان میں سے مسلمان ہوجائے کیونکہ آپ نے تو بنوتغلب کے عیسایوں کی جانب بھیجا تھا کہ ذمی شخص سے موشیوں کھیتی اور پھلوں کا عشروصول نہیں کیا جاتا۔ سوائے بنو ثغلب کے کیونکہ ان سے صلح ہی اس پر ہوئی تھی۔ شیخ فرماتے ہیں : یہ بھی احتمال ہے کہ جو ذمی لوگوں کی ولایت میں رہتے تھے۔ جن سے صلح نہ تھی ان کے تجارتی مال سے عشروصول کیا جاتا تھا۔

18812

(١٨٨٠٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرٍ قَالَ : کَتَبَ إِلَیَّ عُمَرَ أَنْ لاَ تَعْشُرَ بَنِی تَغْلِبَ فِی السَّنَۃِ إِلاَّ مَرَّۃً ۔ [حسن ]
(١٨٨٠٦) زید بن حدیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے خط لکھا کہ بنو ثغلب سے سال میں ایک مرتبہ عشر وصول کیا جائے۔

18813

(١٨٨٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّہْرِیُّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ یُصَدِّقُ حَدِیثُ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا صَاحِبَہُ قَالاَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی بِضْعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ قَلَّدَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْہَدْیَ وَأَشْعَرَہُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَۃِ وَبَعَثَ بَیْنَ یَدَیْہِ عَیْنًا لَہُ مِنْ خُزَاعَۃَ یُخْبِرُہُ عَنْ قُرَیْشٍ وَسَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا کَانَ بِوَادِی الأَشْطَاطِ قَرِیبٍ مِنْ عُسْفَانَ أَتَاہُ عَیْنُہُ الْخُزَاعِیُّ فَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَدْ جَمَعُوا لَکَ الأَحَابِشَ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَقَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ : قَدْ جَمَعُوا لَکَ الأَحَابِیشَ وَجَمَعُوا لَکَ جُمُوعًا وَإِنَّہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَشِیرُوا عَلَیَّ أَتَرَوْنَ أَنْ نَمِیلَ إِلَی ذَرَارِیِّ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ أَعَانُوہُمْ فَنُصِیبَہُمْ فَإِنْ قَعَدُوا قَعَدُوا مَوْتُورِینَ مَحْزُونِینَ وَإِنْ نَجَوْا تَکُنْ عُنُقًا قَطَعَہَا اللَّہُ أَوْ تَرَوْنَ أَنْ نَؤُمَّ الْبَیْتَ فَمَنْ صَدَّنَا عَنْہُ قَاتَلْنَاہُ ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ إِنَّمَا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَلَمْ نَجِئْ نُقَاتِلُ أَحَدًا وَلَکِنْ مَنْ حَال بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ قَاتَلْنَاہُ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَرُوحُوا إِذًا ۔ قَالَ الزُّہْرِیُّ وَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ : مَا رَأَیْتُ أَحَدًا قَطُّ کَانَ أَکْثَرَ مَشُورَۃً لأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ : فَرَاحُوا حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بِالْغَمِیمِ فِی خَیْلٍ لِقُرَیْشٍ طَلِیعَۃً فَخُذُوا ذَاتَ الْیَمِینِ ۔ فَوَاللَّہِ مَا شَعَرَ بِہِمْ خَالِدُ حَتَّی إِذَا ہُوَ بِغَبْرَۃِ الْجَیْشِ فَانْطَلَقَ یَرْکُضُ نَذِیرًا لِقُرَیْشٍ وَسَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا کَانَ بِالثَّنِیَّۃِ الَّتِی یُہْبَطُ عَلَیْہِمْ مِنْہَا بَرَکَتْ بِہِ رَاحِلَتُہُ فَقَالَ النَّاسُ حَلْ حَلْ فَأَلَحَّتْ فَقَالُوا خَلأَتِ الْقَصْوَائُ خَلأَتِ الْقَصْوَائُ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا خَلأَتِ الْقَصْوَائُ وَمَا ذَاکَ لَہَا بِخُلُقٍ وَلَکِنْ حَبَسَہَا حَابِسُ الْفِیلِ ۔ ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّۃً یُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللَّہِ إِلاَّ أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا ۔ ثُمَّ زَجَرَہَا فَوَثَبَتْ بِہِ قَالَ فَعَدَلَ عَنْہَا حَتَّی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَیْبِیَۃِ عَلَی ثَمَدٍ قَلِیلِ الْمَائِ إِنَّمَا یَتَبَرَّضُہُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ یُلَبِّثْہُ النَّاسُ أَنْ نَزَحُوہُ فَشُکِیَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْعَطَشُ فَانْتَزَعَ سَہْمًا مِنْ کِنَانَتِہِ ثُمَّ أَمَرَہُمْ أَنْ یَجْعَلُوہُ فِیہِ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا زَالَ یَجِیشُ لَہُمْ بِالرِّیِّ حَتَّی صَدَرُوا عَنْہُ قَالَ : فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیُّ فِی نَفَرٍ مِنْ قَوْمِہِ وَکَانُوا عَیْبَۃَ نُصْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ أَہْلِ تِہَامَۃَ فَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ قَالَ أَحْمَدُ حَدَّثَنَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَقَالَ : إِنِّی تَرَکْتُ کَعْبَ بْنَ لُؤَیٍّ وَعَامِرَ بْنَ لُؤَیٍّ نَزَلُوا أَعْدَادَ مِیَاہِ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَہُمُ الْعُوذُ الْمَطَافِیلُ وَہُمْ مُقَاتِلُوکَ وَصَادُّوکَ عَنِ الْبَیْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَکِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِینَ وَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ نَہِکَتْہُمُ الْحَرْبُ وَأَضَرَّتْ بِہِمْ فَإِنْ شَائُ وا مَادَدْتُہُمْ مُدَّۃً وَیُخَلُّوا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّاسِ فَإِنْ أَظْہَرْ فَإِنْ شَائُ وا أَنْ یَدْخُلُوا فِیمَا دَخَلَ فِیہِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلاَّ فَقَدْ جَمُّوا وَإِنْ أَبَوْا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لأُقَاتِلَنَّہُمْ عَلَی أَمْرِی ہَذَا حَتَّی تَنْفَرِدَ سَالِفَتِی أَوْ لَیُنَفِّذَنَّ اللَّہُ أَمْرَہُ ۔ قَالَ بُدَیْلٌ : سَأُبَلِّغُہُمْ مَا تَقُولُ فَانْطَلَقَ حَتَّی أَتَی قُرَیْشًا فَقَالَ : إِنَّا قَدْ جِئْنَاکُمْ مِنْ عِنْدِ ہَذَا الرَّجُلِ وَسَمِعْنَاہُ یَقُولُ قَوْلاً فَإِنْ شِئْتُمْ نَعْرِضُہُ عَلَیْکُمْ فَقَالَ سُفَہَاؤُہُمْ : لاَ حَاجَۃَ لَنَا فِی أَنْ تُحَدِّثَنَا عَنْہُ بِشَیْئٍ ۔ وَقَالَ ذَوُو الرَّأْیِ مِنْہُمْ : ہَاتِ مَا سَمِعْتَہُ یَقُولُ قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ کَذَا وَکَذَا فَحَدَّثَہُمْ بِمَا قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَامَ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ فَقَالَ : أَیْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا : بَلَی قَالَ : أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا : بَلَی قَالَ : فَہَلْ تَتَّہِمُونِی ؟ قَالُوا : لاَ قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی اسْتَنْفَرْتُ أَہْلَ عُکَاظٍ فَلَمَّا جَمَحُوا عَلَیَّ جِئْتُکُمْ بِأَہْلِی وَوَلَدِی وَمَنْ أَطَاعَنِی۔ قَالُوا : بَلَی قَالَ : فَإِنَّ ہَذَا قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا وَدَعُونِی آتِہِ فَقَالُوا : ائْتِہِ فَأَتَاہُ فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُ نَحْوًا مِنْ قَوْلِہِ لِبُدَیْلٍ فَقَالَ عُرْوَۃُ عِنْدَ ذَلِکَ : أَیْ مُحَمَّدُ أَرَأَیْتَ إِنِ اسْتَأْصَلْتَ قَوْمَکَ ہَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَصْلَہُ قَبْلَکَ وَإِنْ تَکُنِ الأُخْرَی فَوَاللَّہِ إِنِّی لأَرَی وُجُوہًا وَأَرَی أَوْشَابَا مِنَ النَّاسِ خُلَقَائَ أَنْ یَفِرُّوا وَیَدَعُوکَ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : امْصَصْ بَظْرَ اللاَّتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْہُ وَنَدَعُہُ فَقَالَ : مَنْ ذَا ؟ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ : أَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ یَدٌ کَانَتْ لَکَ عِنْدِی لَمْ أَجْزِکَ بِہَا لأَجَبْتُکَ وَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا کَلَّمَہُ أَخَذَ بِلِحْیَتِہِ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَائِمٌ عَلَی رَأْسِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ السَّیْفُ وَعَلَیْہِ الْمِغْفَرُ فَکُلَّمَا أَہْوَی عُرْوَۃُ بِیَدِہِ إِلَی لِحْیَۃِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ضَرَبَ یَدَہُ بِنَعْلِ السَّیْفُ وَقَالَ : أَخِّرْ یَدَکَ عَنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَفَعَ عُرْوَۃُ یَدَہُ فَقَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ قَالَ : أَیْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَی فِی غَدْرَتِکَ وَکَانَ الْمُغِیرَۃُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ ثُمَّ جَائَ وَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا الإِسْلاَمُ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِی شَیْئٍ ۔ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِعَیْنِہِ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نُخَامَۃً إِلاَّ وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا جِلْدَہُ وَوَجْہَہُ وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَہُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَی وَضُوئِہِ وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ وَمَا یُحِدُّونَ النَّظَرَ إِلَیْہِ تَعْظِیمًا لَہُ فَرَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ فَقَالَ : أَیْ قَوْمِ وَاللَّہِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوکِ وَوَفَدْتُ عَلَی قَیْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِیِّ وَاللَّہِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُہُ أَصْحَابُہُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا وَاللَّہِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَۃً إِلاَّ وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہُ وَجِلْدَہُ وَإِذَا أَمَرَہُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَہُ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَی وَضُوئِہِ وَإِذَا تَکَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَہُ وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْہِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَہُ وَإِنَّہُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْکُمْ خُطَّۃَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوہَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ : دَعُونِی آتِہِ قَالُوا : ائْتِہِ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابِہِ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا فُلاَنٌ وَہُوَ مِنْ قَوْمٍ یُعَظِّمُونَ الْبُدْنَ فَابْعَثُوہَا لَہُ ۔ فَبُعِثَتْ لَہُ وَاسْتَقْبَلَہُ الْقَوْمُ یُلَبُّونَ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ قَالَ : سُبْحَانَ اللَّہِ مَا یَنْبَغِی لِہَؤُلاَئِ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ قَالَ : رَأَیْتُ الْبُدْنَ قَدْ قُلِّدَتْ وَأُشْعِرَتْ فَلَمْ أَرَ أَنْ یُصَدُّوا عَنِ الْبَیْتِ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ مِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ فَقَالَ : دَعُونِی آتِہِ فَقَالُوا : ائْتِہِ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَیْہِمْ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا مِکْرَزٌ وَہْوَ رَجُلٌ فَاجِرٌ ۔ فَجَعَلَ یُکَلِّمُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَیْنَا ہُوَ یُکَلِّمُہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ جَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِی أَیُّوبُ عَنْ عِکْرِمَۃَ أَنَّہُ لَمَّا جَائَ سُہَیْلٌ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ سُہِّلَ لَکُمْ مِنْ أَمْرِکُمْ ۔ قَالَ الزُّہْرِیُّ فِی حَدِیثِہِ فَجَائَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ : ہَاتِ أَکْتُبْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کِتَابًا فَدَعَا الْکَاتِبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اکْتُبْ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : أَمَّا الرَّحْمَنُ فَوَاللَّہِ مَا أَدْرِی مَا ہُوَ وَلَکِنِ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ کَمَا کُنْتَ تَکْتُبُ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : لاَ نَکْتُبُہَا إِلاَّ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ۔ ثُمَّ قَالَ : ہَذَا مَا قَاضَی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : وَاللَّہِ لَوْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُہُ َا صَدَدْنَاکَ عَنِ الْبَیْتِ وَلاَ قَاتَلْنَاکَ وَلَکِنِ اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَاللَّہِ إِنِّی لَرَسُولُ اللَّہِ وَإِنْ کَذَّبْتُمُونِی اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ ۔ قَالَ الزُّہْرِیُّ وَذَلِکَ لِقَوْلِہِ : لاَ یَسْأَلُونِی خُطَّۃً یُعَظِّمُونَ فِیہَا حُرُمَاتِ اللَّہِ إِلاَّ أَعْطَیْتُہُمْ إِیَّاہَا ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَلَی أَنْ تُخَلُّوا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْبَیْتِ فَنَطُوفُ بِہِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلٌ : وَاللَّہِ لاَ تَتَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّا أُخِذْنَا ضَغْطَۃً وَلَکِنْ لَکَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَکَتَبَ فَقَالَ سُہَیْلٌ : عَلَی أَنْ لاَ یَأْتِیَکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِینِکَ إِلاَّ رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ : سُبْحَانَ اللَّہِ کَیْفَ یُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جَائَ مُسْلِمًا ؟ فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ جَائَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو یَرْسُفُ وَقَالَ یَحْیَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ یَرْصُفُ فِی قُیُودِہِ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ حَتَّی رَمَی بِنَفْسِہِ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُسْلِمِینَ فَقَالَ سُہَیْلٌ : ہَذَا یَا مُحَمَّدُ أَوَّلُ مَا أُقَاضِیکَ عَلَیْہِ أَنْ تَرُدَّہُ إِلَیَّ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا لَمْ نَقْضِ الْکِتَابَ بَعْدُ ۔ قَالَ : فَوَاللَّہِ إِذًا لاَ نُصَالِحَکَ عَلَی شَیْئٍ أَبَدًا فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَأَجِرْہُ لِی ۔ قَالَ : مَا أَنَا بِمُجِیرِہِ قَالَ : بَلَی فَافْعَلْ ۔ قَالَ : مَا أَنَّا بِفَاعِلٍ ۔ قَالَ مِکْرَزٌ : بَلَی قَدْ أَجَرْنَاہُ لَکَ ۔ فَقَالَ أَبُو جَنْدَلٍ : أَیْ مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِینَ أُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَقَدْ جِئْتُ مُسْلِمًا أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ أُتِیتُ وَکَانَ قَدْ عُذِّبَ عَذَابًا شَدِیدًا فِی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْتُ أَلَسْتَ نَبِیَّ اللَّہِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قُلْتُ : أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قُلْتُ : فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا ؟ قَالَ : إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ وَلَسْتُ أَعْصِیہِ وَہُوَ نَاصِرِی ۔ قُلْتُ : أَوَلَیْسَ کُنْتَ تُحَدِّثُنَا أَنَّا سَنَأْتِی الْبَیْتَ فَنَطُوفُ بِہِ قَالَ : بَلَی فَأَخْبَرْتُکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ ۔ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَإِنَّکَ آتِیہِ وَمُطَوِّفٌ بِہِ ۔ قَالَ : فَأَتَیْتُ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقُلْتُ : یَا أَبَا بَکْرٍ أَلَیْسَ ہَذَا نَبِیُّ اللَّہِ حَقًّا ؟ قَالَ : بَلَی قُلْتُ : أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَعَدُوُّنَا عَلَی الْبَاطِلِ ؟ قَالَ : بَلَی قُلْتُ : فَلِمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا إِذًا ؟ قَالَ : أَیُّہَا الرَّجُلُ إِنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یَعْصِیَ رَبَّہُ وَہُوَ نَاصِرُہُ فَاسْتَمْسِکْ بِغَرْزِہِ حَتَّی تَمُوتَ فَوَاللَّہِ إِنَّہُ لَعَلَی الْحَقِّ قُلْتُ : أَوَلَیْسَ کَانَ یُحَدِّثُنَا أَنَّہُ سَیَأْتِی الْبَیْتَ وَیَطُوفُ بِہِ ؟ قَالَ : بَلَی أَفَأَخْبَرَکَ أَنَّکَ تَأْتِیہِ الْعَامَ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَإِنَّکَ آتِیہِ فَتَطُوفُ بِہِ قَالَ الزُّہْرِیُّ قَالَ عُمَرُ : فَعَمِلْتُ لِذَلِکَ أَعْمَالاً قَالَ : فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِیَّۃِ الْکِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَصْحَابِہِ : قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا ۔ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا قَامَ مِنْہُمْ رَجُلٌ حَتَّی قَالَ ذَلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ مِنْہُمْ أَحَدٌ قَامَ فَدَخَلَ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ فَذَکَرَ لَہَا مَا لَقِیَ مِنَ النَّاسِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ : یَا رَسُول اللَّہِ أَتُحِبُّ ذَلِکَ اخْرُجْ ثُمَّ لاَ تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ کَلِمَۃً حَتَّی تَنْحَرَ بُدْنَکَ وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ فَیَحْلِقَکَ فَقَامَ فَخَرَجَ فَلَمْ یُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْہُمْ حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ وَنَحَرَ ہَدْیَہُ وَدَعَا حَالِقَہُ یَعْنِی فَحَلَقَہُ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِکَ قَامُوا فَنَحَرُوا وَجَعَلَ بَعْضُہُمْ یَحْلِقُ بَعْضًا حَتَّی کَادَ بَعْضُہُمْ یَقْتُلُ بَعْضًا غَمًّا ثُمَّ جَائَ ہُ نِسْوَۃٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ } [الممتحنۃ : ١٠] حَتَّی بَلَغَ { بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } [الممتحنۃ : ١٠] قَالَ : فَطَلَّقَ عُمَرُ یَوْمَئِذٍ امْرَأَتَیْنِ کَانَتَا لَہُ فِی الشِّرْکِ فَتَزَوَّجَ إِحْدَاہُمَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَالأُخْرَی صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَجَائَ ہُ أَبُو بَصِیرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ مُسْلِمٌ وَقَالَ یَحْیَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ فَقَدِمَ عَلَیْہِ أَبُو بَصِیرِ بْنُ أَسِیدٍ الثَّقَفِیُّ مُسْلِمًا مُہَاجِرًا فَاسْتَأْجَرَ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ رَجُلاً کَافِرًا مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ وَمَوْلًی مَعَہُ وَکَتَبَ مَعَہُمَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَسْأَلُہُ الْوَفَائَ قَالَ : فَأَرْسَلُوا فِی طَلَبِہِ رَجُلَیْنِ فَقَالُوا : الْعَہْدَ الَّذِی جَعَلْتَ لَنَا فِیہِ فَدَفَعَہُ إِلَی الرَّجُلَیْنِ فَخَرَجَا بِہِ حَتَّی بَلَغَا بِہِ ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَنَزَلُوا یَأْکُلُوا مِنْ تَمْرٍ لَہُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ : وَاللَّہِ إِنِّی لأَرَی سَیْفَکَ یَا فُلاَنُ ہَذَا جَیِّدًا فَاسْتَلَّہُ الآخَرُ فَقَالَ : أَجَلْ وَاللَّہِ إِنَّہُ لَجَیِّدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِہِ ثُمَّ جَرَّبْتُ قَالَ أَبُو بَصِیرٍ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْہِ فَأَمْکَنَہُ مِنْہُ فَضَرَبَہُ بِہِ حَتَّی بَرَدَ وَفَرَّ الآخَرُ حَتَّی أَتَی الْمَدِینَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ یَعْدُو فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَقَدْ رَأَی ہَذَا ذُعْرًا ۔ فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : قُتِلَ وَاللَّہِ صَاحِبِی وَإِنِّی لَمَقْتُولٌ فَجَائَ أَبُو بَصِیرٍ فَقَالَ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ قَدْ وَاللَّہِ أَوْفَی اللَّہُ ذِمَّتَکَ قَدْ رَدَدْتَنِی إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَنْجَانِی اللَّہُ مِنْہُمْ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ أَحَدٌ ۔ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عَرَفَ أَنَّہُ سَیَرُدُّہُ إِلَیْہِمْ فَخَرَجَ حَتَّی أَتَی سِیفَ الْبَحْرِ قَالَ : وَیَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ فَجَعَلَ لاَ یَخْرُجُ مِنْ قُرَیْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلاَّ لَحِقَ بِأَبِی بَصِیرٍ حَتَّی اجْتَمَعَتْ مِنْہُمْ عِصَابَۃٌ قَالَ : فَوَاللَّہِ مَا یَسْمَعُونَ بِعِیرٍ خَرَجَتْ لِقُرَیْشٍ إِلَی الشَّامِ إِلاَّ اعْتَرَضُوا لَہَا فَقَتَلُوہُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَہُمْ فَأَرْسَلَتْ قُرَیْشٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَنَاشَدُہُ اللَّہَ وَالرَّحِمَ لَمَّا أَرْسَلَ إِلَیْہِمْ فَمَنْ أَتَاہُ فَہُوَ آمِنٌ فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَیْہِمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ } حَتَّی بَلَغَ { حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ } [الفتح ٢٦] وَکَانَتْ حَمِیَّتُہُمْ أَنَّہُمْ لَمْ یُقِرُّوا أَنَّہُ نَبِیُّ اللَّہِ وَلَمْ یُقِرُّوا بِبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ وَحَالُوا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْبَیْتِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٧٣٤]
(١٨٨٠٧) مسوربن مخرمہ اور مروان بن حکم فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار سے کچھ زیادہ صحابہ کرام کے ساتھ نکلے۔ جب آپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں پٹے ڈالے اور اونٹوں کا شعار کیا۔ عمرہ کا احرام باندھا اور اپنے آگے خزاعہ قبیلے کا شخص قریش کی جاسوسی روانہ کردیا۔ جب آپ وادی انشاط جو عسفان کے قریب ہے پہنچے تو خزاعی جاسوس آگیا۔ اس نے کہا کہ کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی نے آپ لشکر جمع کیے ہیں۔
(ب) یحییٰ بن سعید حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے تمہارے لیئے لشکر جمع کیے ہیں۔ آپ سے لڑکربیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ان کے بارے میں مشورہ دو ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم مدد کرنے والوں کی اولاد کو پکڑ لیں۔ اگر وہ بیٹھے رہے تو پریشان ہوں گے اور اگر نجات پاجائیں تو گردن کٹی ہوگی۔ جس کو اللہ نے کاٹ ڈالا ہے یا تمہارا خیال ہے کہ ہم صرف بیت اللہ سے روکنے والوں کے خلاف لڑائی کریں۔ تو حضرت ابوبکر نے فرمایا : اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو صرف عمرہ کرنے کی غرض سے آئے تھے۔ لڑائی کا کوئی ارادہ نہ تھا، لیکن پھر بھی جو بیت اللہ اور ہمارے درمیان رکاوٹ بنا ہم اس سے لڑائی کریں گے آپ نے فرمایا : تب چلو۔
زہری فرماتے ہیں : کہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی اپنے صحابہ سے مشورہ نہیں لیتا تھا۔ زہری مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم کی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ کسی راستے پر چلے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : خالد بن ولید غمیم نامی جگہ پر قریش کے ہراول دستہ پر ہیں۔ تم دائیں جانب چلو۔ اللہ کی قسم ! خالد کو پتہ بھی نہیں چلا۔ اچانک وہ لشکر کے پیچھے تھا۔ وہ قریشیوں کو ڈرا رہا تھا۔ جب اس گھاٹی میں پہنچے جس کے آگے کفار کا سامنا تھا تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ لوگوں نے آواز لگائی اٹھو۔ اٹھو قصواء ٹھہرگئی۔ قصواء ٹھہر گئی۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قصواء اٹھہری نہیں۔ اور نہ ہی اس کی عادت ہے۔ اسے تو اس ذات نے روکا ہے۔ جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ وہ (قریش ) مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کریں ، جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ہر ایسی بات تسلیم کرلوں گا۔ تب آپ نے قصواء کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ آپ مکہ کے راستے سے ہٹ گئے اور حدیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر حدیبہ کے آخری کنارے پر اترے۔ جہاں معمولی پانی کا کنواں تھا۔ لوگ وہاں تھوڑا تھوڑا پانی حاصل کر رہے تھے اور تھوڑی دیر میں لوگوں نے اس کا پانی ختم کردیا۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیاسی کی شکایت کی گئی تو آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس تیر کو کنویں میں پھینکو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ اللہ کی قسم ! تیر ڈالنے سے پانی جوش سے نکلنے لگا۔ یہاں تک کہ لوگ واپسی تک خوب سیر ہو کر پیتے رہے۔ وہ اس حالت میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کی ایک جماعت کے ساتھ آیا۔ وہ اہل تہامہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز دار تھا۔ اس نے کہا : میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو چھوڑ کر آیا ہوں۔
احمد (رض) فرماتے ہیں : یحییٰ بن سعید حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو حدیبیہ کے پانیوں پر اتنی تعداد میں چھوڑا ہے۔ وہ آپ سے سے لڑ کر بھیبیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ہم لڑائی کے لیے نہیں، صرف عمرہ کے لیے آئے ہیں، قریش کو لڑائیوں نے کمزور کردیا اور نقصان دیا ہے۔ اگر وہ چاہیں گے تو میں ان کے ساتھ کوئی مدت مقرر کرلوں گا اور وہ ہمارا راستہ چھوڑ دیں۔ اگر چاہیں تو جس طرح لوگ شامل ہیں وہ بھی ہوجائیں وگرنہ وہ تمام جمع ہوجائیں۔ اگر وہ انکار کریں تو اللہ کی قسم میں اپنے اس دین پر ان سے قتال کروں گا یہاں تک کہ میں اکیلا بھی رہ جاؤں یا اللہ رب العزب اپنا حکم نافذ فرما دیں۔ بدیل نے کہا : میں آپ کی بات پہنچا دیتا ہوں۔ وہ قریش کے پاس آئے اور کہا : میں اس شخص (یعنی محمد) کے پاس سے آیا ہوں۔ میں نے کچھ باتیں ان سے سنیں ہیں۔ اگر تم چاہو تو بتا دیتا ہوں، ان کے بیوقوف لوگوں نے کہا : اس کی کوئی بات بھی ہمارے سامنے بیان نہ کرو، ہمیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن عقلمند انسانوں نے کہا : بتاؤ کیا سن کے آؤ ہو ؟ اس نے کہا : اے لوگو ! نہ تم بچے ہو اور نہ ہی میں بچہ ہوں۔ عروہ نے کہا : کیا تم مجھ پر کوئی تہمت رکھتے ہو ؟ انھوں نے کہا کوئی الزام نہیں ۔ کہنے لگا : کیا تم جانتے ہو جس وقت میں اہل متنفر ہوا۔ جب انھوں نے میری بات نہ مانی تو میں تمہارے پاس اپنے اہل و عیال بچے اور اپنے پیروکار لیکر آیا تھا تو قریشیوں نے کہا : بات تو آپ کی درست ہے تو عروہ نے کہا : اس نے درست مطالبہ پیش کیا ہے اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دوتو قریشیوں نے جانے کی اجازت دے دی، عروہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدیل کی طرح بات کی اور عروہ نے اس وقت یہ بات بھی کی کہ اے محمد ! آپ کا کیا خیال ہے، اگر آپ اپنی قوم کو ختم کر ڈالیں تو کیا آپ نے سن رکھا ہے کہ آپ سے پہلے کسی نے اپنی قوم کو ختم کیا ہو اور دوسری جانب اللہ کی قسم میں اپنے آوارہ قسم کے لوگ دیکھ رہا ہوں، جو آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ! تو عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ فرمایا : ابوبکر (رض) تو عروہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر تیرا میرے اوپر احسان نہ ہوتا تو میں تجھے جواب دیتا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت شروع کردی۔ جب بھی بات کرتا تو اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی کو لگاتا، مغیرہ بن شعبہ تلوار لیے اور خود پہنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ جب بھی عروہ اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی کی طرف لاتا تو مغیرہ اپنا ہاتھ تلوار کے دستہ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک سے دور کر، عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ نے کہا : اے دھوکے باز ! کیا میں نے تیرے دھوکے کی رقم ادا نہ کی تھی ؟ اور مغیرہ اپنی قوم سے تھے زمانہ جاہلیت میں جس نے قتل کیا اور مال لوٹا۔ پھر وہ آ کر مسلمان ہوگئے، آپ نے فرمایا تھا اسلام تو تیرا میں قبول کرلیتا ہوں لیکن مال سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر عروہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعاب دہن بھی صحابی کے ہاتھ پر گرتا تھا۔ جسے وہ اپنے چہروں اور جسم پر مل لیتے تھے اور جب آپ حکم دیتے تو وہ اس کی تعمیل جلد ہی کردیتے اور جب آپ وضوء فرماتے تو آپ کے وضو کے پانی پر قریب تھا کہ وہ جھگڑ پڑتے اور جب آپ ان سے کلام کرتے تو ان کی آوازیں پست ہوجاتیں ، اور کوئی نظر بھر کر آپ کی طرف تعظیما نہیں دیکھتا تھا، عروہ قریش کے پاس واپس آیا اور کہا : اے میری قوم ! میں قیصری وکسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اتنی تعظیم کرتے ہیں ض، جتنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ محمد کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر تھوکیں تو وہ بھی کسی شخص کی ہتھیلی پر گرے جس کو وہ اپنے چہرے اور جسم پر مل لے اور حکم کی جلد تعمیل کریں اور آپ کے وضو کے پانی پر قریب تھا کہ جھگڑ پڑیں اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو آپ کے پاس پست آواز میں اور نظر بھر کر آپ کو تعظیما نہیں دیکھتے۔ انھوں نے اچھی بات پیش کی ہے قبول کرلو، بنو کنانہ کے ایک شخص نے کہا : میں ان کے پاس جاتا ہوں، قریش نے اسے بھی جانے کی اجازت دی، جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے پاس گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ فلاں ہے وہ اپنی قوم سے ہے۔ قربانیوں کی تعظیم کرتے ہیں، ان کے سامنے قربانیاں پیش کرو، لوگوں نے تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا، جب اس نے دیکھا تو کہنے لگا : اللہ پاک ہے ایسے لوگوں کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے، پھر مکرز بن حفص نے کہا : مجھے ان کے پاس جانے کی اجازت دو ، جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا : مکرز بن حفص فاجر آدمی ہے، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت شروع کی۔ درمیان میں سہیل بن عمرو آگیا، عکرمہ فرماتے ہیں : جبسہیل بن عمرو آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے معاملہ میں آسانی کی گئی ہے۔
زہری فرماتے ہیں : سہیل بن عمرو نے کہا : لاؤ میں اپنے اور تمہارے درمیان معاہدہ تحریر کروں۔ اس نے کاتب کو منگوایا تو آپ نے فرمایا : لکھو میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے تو سھیل نے کہا : رحمن کو ہم نہیں جانتے، بلکہ لکھو تیرے نام کے ساتھ اے اللہ ! تو آپ نے فرمایا : لکھو، باسمک اللھم، پھر فرمایا : لکھو یہ معاہدہ ہے جو محمد اللہ کے رسول نے کیا، سہیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! اگر ہم اس بات پر یقین رکھتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہیں بیت اللہ میں داخل ہونے سے نہ روکتے۔ تم محمد بن عبداللہ تحریر کرو، یہ سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تمہارے جھٹلانے کے باوجود میں اللہ کا رسول ہوں۔ محمد بن عبداللہ ہی تحریر کیا جائے۔ زھری نے اس قول کے بارے میں کہا کہ قریش مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کریں، جس میں وہ اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرتے ہوں تو میں ان کی ہر ایسی بات تسلیم کرلوں گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں تو سہیل نے کہا : اللہ کی قسم عرب بات نہ کریں گے کہ ہم اچانک پکڑ لیے گئے، لیکن آپ آئندہ سال آجانا۔ آپ نے تحریر کروادیا تو سھیل نے کہا : ہماری طرف سے جو شخص آپ کے پاس چلا آئے چاہے وہ آپ کے دین پر ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ مسلمانوں نے کہا : اللہ پاک ہے کیسے مشرکین کی طرف اسے واپس کیا جائے گا، جب وہ مسلمان ہو کر آجائے۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ ابو جندل سہیل اپنی بیڑیوں میں باندھے آگئے، وہ مکہ کی نچلی جانب سے نکل کر مسلمانوں کے درمیان آیا تھا، سھیل نے کہا : اے محمد ! یہ پہلا مطالبہ ہے کہ آپ ابو جندل کو واپس کردیں۔ آپ نے فرمایا : ہم معاہدہ کے بعدوعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے ، لیکن ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہوا تو سھیل نے کہا : پھر ہم معاہدہ کرتے ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا : اس کو میری وجہ سے پناہ دے ۔ سھیل نے کہا : میں پناہ نہ دوں گا، آپ نے فرمایا : چلو اسے کرلو۔ راوی کہتے ہیں : ہم ایسا کرنے والے نہیں ہیں تو مکرز نے کہا : ہم نے آپ کے لیے اس کو پناہ دی تو ابو جندل نے کہا : اے مسلمان گروہ ! میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا ، حالانکہ میں مسلمان ہوں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو میں کس حالت میں آیا ہوں اور مجھے اللہ کے بارہ میں سزا دی گئی ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ؟ فرمایا : اللہ کا نبی ہوں، میں نے پوچھا : کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟ فرمایا : ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر ہیں، میں نے کہا : تب دین میں اتنی کمزوری کیوں ؟ آپ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں، میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا، وہ میرا مدد گار ہے۔ میں نے پوچھا : آپ نے فرمایا تھا کہ ہم عنقریب بیت اللہ کا طواف کریں گے ؟ فرمایا : کہا تھا، کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال۔ میں نے کہا : یہ تو نہ فرمایا تھا : فرمایا تم آ کر اس کا طواف کرو گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : میں ابوبکر (رض) کے پاس آیا۔ میں نے پوچھا : اے ابوبکر (رض) ! کیا اللہ کے نبی حق پر نہیں ؟ انھوں نے کہا : حق پر ہیں، میں نے کہا : کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ؟ انھوں نے کہا : ایسے ہی ہے، میں نے کہا : پھر ہم اپنے دین میں کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، ابوبکر (رض) کہنے لگے : اے عمر (رض) ! وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ وہ اپنے رب کی ہرگز نافرمانی نہ کریں گے اور وہ اس کی مدد فرمائے گا۔ فوت ہونے تک حوصلہ کرو، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کہ آپ نے بیت اللہ کے طواف کے بارے میں کہا تھا ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : کیا آپ نے اس سال ہی طواف کے بارے میں کہا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں تو انھوں نے کہا کہ آپ آ کر اس کا طواف کرلیں گے۔ زھری کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے کہا : میں نے اس کے بارے میں کچھ کام کیے، جب معاہدہ مکمل ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پنے صحابہ کو قربانیاں کرنے کا حکم دیا، پھر فرمایا : سر کے بال منڈواؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ کے تین مرتبہ کہنے کے باوجود کوئی بھی شخص کھڑا نہ ہوا۔ جب کوئی کھڑا نہ ہوا تو آپ ام سلمہ کے پاس چلے گئے ، جو لوگوں کی جانب سے پریشانی آئی بتایا تو ام سلمہ نے پوچھا : کیا آپ اس کو پسند کرتے ہیں تو جا کر اپنی قربانی کرو اور کسی سے کلام نہ کرنا اور اپنا سر منڈواؤ تو آپ نے ایسا ہی کیا۔ کسی سے کلام کیے بغیر اپنی قربانی کی اور سر مونڈنے والے کو بلا کر سر منڈوایا۔ جب انھوں نے یہ دیکھا تو قربانیاں نحر کیں اور ایک دوسرے کے سر مونڈ دیے۔ قریب تھا کہ حالت غم میں وہ اپنے ساتھی کو قتل کردیں، پھر چند مومنہ عورتیں آئیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ } (الممتحنہ : ١٠) حتی بلغ { بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } اے ایمان والو ! جب تمارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں۔ وہ کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ راوی کہتے ہیں : اسی دن حضرت عمر (رض) نے دو عورتوں کو طلاق دی۔ ایک سے معاویہ بن ابی سفیان (رض) اور دوسری سے صفوان بن امیہ (رض) نے نکاح کرلیا۔ پھر آپ مدینہ واپس آگئے تو ابو بصیر آگئے یہ قریش کا مسلمان آدمی تھا، یحییٰ عبداللہ بن مبارک سے نقل فرماتے ہیں کہ ابو بصیر بن اسید ثقفی نے مسلمان ہو کر ہجرت کی تو اخنس بن شریق جو کافر آدمی تھا بنو عامر بن لوئی سے، اس نے اپنے غلام اور ایک دوسرے شخص کو خط لکھ کردیا کہ آپ سے کہنا کہ وعدہ پورہ کرو تو کفار مکہ نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، جو آپ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے، آپ نے ابو بصیرکو ان کے حوالے کردیا۔ وہ اسے لیکر مکہ چل پڑے۔ جب وہ ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تو وہ دونوں آدمی وہاں رک کر کھجوریں کھانے لگے تو ابو بصیر نے دونوں میں سے ایک آدمی سے کہا : اے فلاں ! اللہ کی قسم ! مجھے تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے نے تلوار سونتی، اس نے کہا : اللہ کی قسم ! یہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہوا ہے، ذرا مجھے دیکھاؤ میں یہ دکھا ؤ چاہتا ہوں۔ اس نے یہ تلوار ابو بصیر کو پکڑا دی تو ابو بصری نے تلوار ماری۔ جب وہ ٹھنڈا ہوگیا اور دوسرا آدمی بھاگ کر مدینہ منورہ پہنچا اور ہانپتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کا کسی خوفناک واقعہ سے واسطہ پڑا ہے۔ اس نے جلدی سے کہا : میرا ساتھی قتل ہوچکا، بلاشبہ میں بھی قتل ہو جاؤں گا۔ اتنے میں ابو بصیر بھی آپہنچا، ابو بصیر نے کہا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ نے آپ کا ذمہ پورا کردیا، آپ نے مجھے واپس کردیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری ماں مرجائے تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے۔ اگرچہ تیرا ایک ہی ساتھی کیوں نہ ہو، ابو بصیر نے یہ سن کر یقین کرلیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو واپس بھیج دیں گے تو وہ وہاں سے نکل کر ساحل سمندر جا پہنچا، اسی دوران ابو جندل بن سھیل بیڑیاں توڑ کر نکلا اور ابو بصیر سے آ ملا، پھر جو شخص بھی قریش مکہ سے مسلمان ہو کر نکلتا، وہ ابو بصیر کے ساتھ آ ملتا، یہاں تک کہ ان کی ایک جماعت قائم ہوگئی۔ راوی نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! جب وہ قریش کے کسی قافلہ کے بارے میں سنتے کہ وہ شام کی جانب جا رہا ہے تو وہ اس قافلہ پر حملہ کردیتے، قافلے والوں کو موت کی گھاٹ اتار دیتے اور ان کے مالوں پر قبضہ کرلیتے تو قریش نے گھبرا کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام بھیجا اور آپ کو صلہ رحمی اور اللہ کی قسم دے کر کہا کہ آپ (ابو بصیر گروپ) کو پیغام بھیجیں اور انھیں مدینہ منورہ بلا لیں، نیز جو شخص آپ کے پاس مسلمان ہو کر آجائے امن والا ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ مدینہ منورہ آجائیں، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ } حتی بلغ { حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ } [الفتح ٢٦] وہ ذات جس نے ان کے ہاتھوں سے تمہیں اور تمہارے ہاتھوں سے انھیں بچایا اور ان کی غیرت یہ تھی کہ انھوں نے آپ کو نبی نہ مانا اور بسم اللہ الرحمن الرحمن نہ لکھنے دی اور بیت اللہ سے روکا۔ [صحیح۔ بخاری ٢٧٣٤]

18814

(١٨٨٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فَذَکَرَ مَعْنَی ہَذِہِ الْقَصَّۃِ زَادَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِیُرْسِلَہُ إِلَی قُرَیْشٍ وَہُوَ بِبَلْدَحَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لاَ تُرْسِلْنِی إِلَیْہِمْ فَإِنِّی أَتَخَوَّفُہُمْ عَلَی نَفْسِی وَلَکِنْ أَرْسِلْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَأُرْسِلَ إِلَیْہِمْ فَلَقِیَ أَبَانَ بْنَ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ فَأَجَارَہُ وَحَمَلَہُ بَیْنَ یَدَیْہِ عَلَی الْفَرَسِ حَتَّی جَائَ قُرَیْشًا فَکَلَّمَہُمْ بِالَّذِی أَمَرَہُ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرْسَلُوا مَعَہُ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو لِیُصَالِحَہُ عَلَیْہِمْ وَبِمَکَّۃَ یَوْمَئِذٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَاسٌ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِہَا فَدَعَوْا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِیَطُوفَ بِالْبَیْتِ فَأَبَی أَنْ یَطُوفَ وَقَالَ : مَا کُنْتُ لأَطُوفَ بِہِ حَتَّی یَطُوفَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَجَعَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو قَدْ أَجَارَہُ لِیُصَالِحَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ قِصَّۃَ الصُّلْحِ وَکِتَابَتِہِ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالْکِتَابِ إِلَی قُرَیْشٍ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً فِیمَا کَانَ بَیْنَ الْفَرِیقَیْنِ مِنَ التَّرَامِی بِالْحِجَارَۃِ وَالنَّبْلِ وَارْتِہَانِ الْمُشْرِکِینَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَارْتِہَانِ الْمُسْلِمِینَ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو وَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمُسْلِمِینَ إِلَی الْبَیْعَۃِ فَلَمَّا رَأَتْ قُرَیْشٌ ذَلِکَ رَعَبَہُمُ اللَّہُ فَأَرْسَلُوا مَنْ کَانُوا ارْتَہَنُوہُ وَدَعَوْا إِلَی الْمُوَادَعَۃِ وَالصُّلْحِ فَصَالَحَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَاتَبَہُمْ ۔[ضعیف ]
(١٨٨٠٨) اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے اس قصہ کے ہم معنیٰ نقل فرماتے ہیں، اس میں کچھ زیادہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو قریش کی طرف بھیجنے کیلئے بلایا جب بلدح نامی جگہ پر تھے، تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ آپ حضرت عثمان بن عفان (رض) کو بھیج دیں۔ آپ نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کو بھیج دیا۔ جب ان کی ملاقات ابان بن سعید سے ہوئی تو اس نے پناہ دے کر اپنے گھوڑے کی اگلی جانب سوار کر کے قریش کے پاس لائے تو حضرت عثمان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق قریش سے بات کی، قریش نے سہیل بن عمرو کو صلح کیلئے روانہ کردیا، حضرت عثمان بن عفان (رض) کے مکہ میں بہت زیادہ رشتہ دار تھے، جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو بیت اللہ کے طواف کی دعوت دی تو حضرت عثمان (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغیر طواف کرنے سے انکار کردیا، وہ سہیل بن عمرو کو ساتھ لیکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تاکہ صلح کرسکیں، اس نے صلح کا قصہ اور معاہدہ کی تحریر کا تذکرہ کیا، پھر اس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو معاہدہ کی تحریر دے کر روانہ کیا، پھر اس نے دونوں فریقوں کے درمیان جو جنگ بندی ہوئی اس کا تذکرہ کیا۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بیعت کی جانب بلایا، جب قریش نے یہ دیکھا تو ان کے دل میں اللہ نے رعب ڈال دیا تو انھوں نے تمام گروی اشیاء روانہ کردیں اور آپ کو صلح کی دعوت دی۔ آپ نے ان سے صلح کی اور معاہدہ تحریر کروادیا۔

18815

(١٨٨٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی قِصَّۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ قَالَ : فَدَعَتْ قُرَیْشٌ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو فَقَالُوا اذْہَبْ إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ فَصَالِحْہُ وَلاَ یَکُونَنَّ فِی صُلْحِہِ إِلاَّ أَنْ یَرْجِعَ عَنَّا عَامَہُ ہَذَا لاَ تَحَدَّثُ الْعَرَبُ أَنَّہُ دَخَلَہَا عَلَیْنَا عَنْوَۃً فَخَرَجَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو مِنْ عِنْدِہِمْ فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُقْبِلاً قَالَ : قَدْ أَرَادَ الْقَوْمُ الصُّلْحَ حِینَ بَعَثُوا ہَذَا الرَّجُلَ ۔ فَلَمَّا انْتَہَی إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَرَی بَیْنَہُمَا الْقَوْلُ حَتَّی وَقَعَ الصُّلْحُ عَلَی أَنْ تُوضَعَ الْحَرْبُ بَیْنَہُمَا عَشْرَ سِنِینَ وَأَنْ یَأْمَنَ النَّاسُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ وَأَنْ یَرْجِعَ عَنْہُمْ عَامَہُمْ ذَلِکَ حَتَّی إِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَدِمَہَا خَلَّوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَکَّۃَ فَأَقَامَ بِہَا ثَلاَثًا وَأَنَّہُ لاَ یَدْخُلُہَا إِلاَّ بِسِلاَحِ الرَّاکِبِ وَالسُّیُوفِ فِی الْقُرُبِ وَأَنَّہُ مَنْ أَتَانَا مِنْ أَصْحَابِکَ بِغَیْرٍ إِذْنِ وَلِیِّہِ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکَ وَإِنَّہُ مَنْ أَتَاکَ مِنَّا بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَدْتَہُ عَلَیْنَا وَإِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ عَیْبَۃً مَکْفُوفَۃً وَإِنَّہُ لاَ إِسْلاَلَ وَلاَ إِغْلاَلَ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٨٨٠٩) مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ حدیبیہ کے قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ قریش نے سہیل بن عمر کو و بلایا اور کہا : جاؤ اس شخص یعنی محمد سے اس بات پر صلح کرلینا کہ وہ آئندہ سال مکہ میں تین دن کے لیے قیام کرلیں اور مکہ میں داخلہ کے وقت اسلحہ اور تلوار میانوں میں ہوں گی۔ اگر آپ کے صحابہ میں سے کوئی بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر ہمارے پاس آگیا تو ہم اسے واپس نہ کریں گے اور ہمارا کوئی فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر گیا تو آپ اسے واپس کریں گے۔ یہ ہمارے اور آپ کے درمیان بند راز ہے جس میں کسی قسم کی کوئی چوری نہیں ہے۔

18816

(١٨٨١٠) وَرَوَی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ الْعُمَرِیُّ وَہُوَ ضَعِیفٌ جِدًّا عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَتِ الْہُدْنَۃُ بَیْنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَہْلِ مَکَّۃَ عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَرْبَعَ سِنِینَ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ کَاسِبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ فَذَکَرَہُ الْمَحْفُوظُ ہُوَ الأَوَّلُ ۔ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ ہَذَا یَأْتِی بِمَا لاَ یُتَابَعُ عَلَیْہِ ضَعَّفَّہُ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ وَالْبُخَارِیُّ وَغَیْرُہُمَا مِنَ الأَئِمَّۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨١٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل مکہ کے درمیان حدیبیہ کے سال ٤ سال کی صلح تھی۔

18817

(١٨٨١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ الشَّامَاتِیُّ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ وَأَبُو الأَشْعَثِ قَالاَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُمْ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ۔ لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ } [الفتح ١-٢] مَرْجِعَہُمْ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَہُمْ یُخَالِطُہُمُ الْحُزْنُ وَالْکَآبَۃُ وَقَدْ نَحَرَ الْہَدْیَ فَقَالَ : لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَیَّ آیَاتٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا ۔ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدْ عَلِمْنَا مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِکَ فَمَا یَفْعَلُ بِنَا قَالَ فَنَزَلَتْ { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ } [الفتح ٥] حَتَّی بَلَغَ رَأْسَ الآیَۃِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلِیٍّ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٨٦]
(١٨٨١١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : جب یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ } [الفتح ١-٢] ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کی، تاکہ آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں، جب آپ حدیبیہ سے پلٹے تو غم و پریشانی تھی۔ آپ نے قربانی کو نحر کیا اور فرمایا یہ جو آیت میرے اوپر نازل ہوئی مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ ہمارے اور آپ کے ساتھ کیا کریں گے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } [الفتح ٥] کہ اللہ مومن مردوں اور عورتوں کو ایسے باغات میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، یہاں تک کہ مکمل آیت تلاوت کی۔

18818

(١٨٨١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو أَحْمَدَ یَعْنِی ابْنَ إِسْحَاقَ الْحَافِظَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَرُوبَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ الأَسْفَاطِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا } [الفتح ١] قَالَ فَتْحُ الْحُدَیْبِیَۃِ فَقَالَ رَجُلٌ : ہَنِیئًا مَرِیئًا یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَذَا لَکَ فَمَا لَنَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ } [الفتح ٥] قَالَ شُعْبَۃُ : فَقَدِمْتُ الْکُوفَۃَ فَحَدَّثْتُہُمْ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثُمَّ قَدِمْتُ الْبَصْرَۃَ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِقَتَادَۃَ فَقَالَ : أَمَّا الأَوَّلُ فَعَنْ أَنَسٍ وَأَمَّا الثَّانِی { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ }[الفتح ٥] فَعَنْ عِکْرِمَۃَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤١٧٢]
(١٨٨١٢) قتادہ حضرت انس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } [الفتح ١] سے مراد حدیبیہ کی فتح ہے، ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مبارک ہو ، یہ آپ کے لیے ہے اور ہمارے لیے کیا ہے ؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } [الفتح ٥] شعبہ کہتے ہیں : میں نے کوفہ میں قتادہ اور انس سے بیان کیا اور بصرہ میں صرف قتادہ سے بیان کیا تو فرمانے لگے : پہلے الفاظ حضرت انس (رض) کے ہیں اور دوسرے الفاظ یعنی آیت : { لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } یہ حضرت عکرمہ سے منقول ہے۔

18819

(١٨٨١٣) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی عِیسَی حَدَّثَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ ح قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ سِیَاہٍ حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : قَامَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَوْمَ صِفِّینَ فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّہِمُوا أَنْفُسَکُمْ لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَلَوْ نَرَی قِتَالاً لَقَاتَلْنَا وَذَلِکَ فِی الصُّلْحِ الَّذِی کَانَ بَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ فَأَتَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی ۔ قَالَ : فَفِیمَ نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی أَنْفُسِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ قَالَ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یُضَیِّعَنِی اللَّہُ ۔ قَالَ : فَانْطَلَقَ ابْنُ الْخَطَّابِ وَلَمْ یَصْبِرْ مُتَغَیِّظًا فَأَتَی أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا أَبَا بَکْرٍ أَلَسْنَا عَلَی حَقٍّ وَہُمْ عَلَی بَاطِلٍ ؟ قَالَ : بَلَی قَالَ : أَلَیْسَ قَتْلاَنَا فِی الْجَنَّۃِ وَقَتْلاَہُمْ فِی النَّارِ ؟ قَالَ : بَلَی قَالَ : فَعَلَی مَا نُعْطِی الدَّنِیَّۃَ فِی دِینِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا یَحْکُمِ اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ قَالَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ وَلَنْ یُضَیِّعَہُ اللَّہُ أَبَدًا۔ قَالَ : فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَی مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرْسَلَ إِلَی عُمَرَ فَأَقْرَأَہُ إِیَّاہُ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَوَفَتْحٌ ہُوَ ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَطَابَتْ نَفْسُہُ وَرَجَعَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ السُّلَمِیُّ عَنْ یَعْلَی بْنِ عُبَیْدٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ فَمَا کَانَ فِی الإِسْلاَمِ فَتْحٌ أَعْظَمُ مِنْہُ کَانَتِ الْحَرْبُ قَدْ أَحْجَزَتِ النَّاسَ فَلَمَّا أَمِنُوا لَمْ یُکَلَّمْ بِالإِسْلاَمِ أَحَدٌ یَعْقِلُ إِلاَّ قَبِلَہُ فَلَقَدْ أَسْلَمَ فِی سَنَتَیْنِ مِنْ تِلْکَ الْہُدْنَۃِ أَکْثَرَ مِمَّنْ أَسْلَمَ قَبْلَ ذَلِکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٨١٣) ابو وائل فرماتے ہیں کہ سہیل بن حنیف نے صفین کے دن کہا : اے لوگو ! اپنے اوپر الزام لگاؤ۔ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ میں موجود تھے۔ اگر لڑائی ہوتی ہم ضرور لڑتے لیکن یہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح تھی تو اس وقت حضرت عمر (رض) نے کہا تھا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم حق پر اور ایمان باطل پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہم حق پر اور دشمن باطل پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا ہمارے مقتول جنت اور ان کے مقتول جہنم میں نہ جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہمارے مقتول جنتی اور ان کے جہنمی ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : پھر ہم کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، جب کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دیں، آپ نے فرمایا : اے ابن خطاب ! میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ مجھے ضائع نہ کریں گے، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) غصہ کی حالت میں حضرت ابوبکر (رض) کے پاس چلے گئے اور کہا : اے ابوبکر (رض) ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ؟ ابوبکر (رض) کہنے لگے : ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے جہنم میں نہ جائیں گے ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : ہمارے مقتول جنتی اور ان کے جہنمی ہیں تو حضرت عمر (رض) نے کہا : پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ بھی نہیں فرمایا ؟ ابوبکر (رض) نے فرمایا : اے ابن خطاب ! وہ اللہ کے نبی ہیں، اللہ انھیں ضائع نہ کرے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن نازل کیا تو آپ نے عمر (رض) کو بلا کر سنایا، حضرت عمر (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ فتح ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ فتح ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر وہ خوشی خوشی واپس چلے گئے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : ابن شھاب نے فرمایا : اسلام میں اس سے بڑی فتح کوئی نہ تھی، جب لوگوں کی لڑائی ختم ہوگئی۔ پھر کوئی عقل مند انسان اسلام کی بات سن کر قبول کیے بغیر نہ رہا، دو سال صلح کی مدت میں جتنے مسلمان ہوئے اس سے پہلے نہ ہوئے تھے۔

18820

(١٨٨١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی قِصَّۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ وَفِیہَا مُدْرَجًا ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَاجِعًا فَلَمَّا أَنْ کَانَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ نَزَلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْفَتْحِ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا } فَکَانَتِ الْقَضِیَّۃُ فِی سُورَۃِ الْفَتْحِ وَمَا ذَکَرَ اللَّہُ مِنْ بَیْعَۃِ رَسُولِہِ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَلَمَّا أَمِنَ النَّاسُ وَتَفَاوَضُوا لَمْ یُکَلَّمْ أَحَدٌ بِالإِسْلاَمِ إِلاَّ دَخَلَ فِیہِ فَلَقَدْ دَخَلَ فِی تَیْنِکَ السَّنَتَیْنِ فِی الإِسْلاَمِ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَ فِیہِ قَبْلَ ذَلِکَ وَکَانَ صُلْحُ الْحُدَیْبِیَۃِ فَتْحًا عَظِیمًا۔ [صحیح ]
(١٨٨١٤) عروہ مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے نقل فرماتے ہیں کہ حدیبیہ اس میں اندراج ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس پلٹے، ابھی مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ سورة فتح مکمل نازل ہوگئی، { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } یہ فیصلہ سورة فتح میں ہے، جو صحابہ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخت کے نیچے بیعت کرنا ہے جب تمام لوگ امن میں ہوگئے کسی نے بھی اسلام کے متعلق بات نہ کی لیکن جو اسلام کے متعلق سنتا وہ ضرور اسلام قبول کرلیتا، ان دو سال کے اندر اسلام میں زیادہ لوگ داخل وئے اور صلح حدیبیہ عظیم فتح تھی۔

18821

(١٨٨١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَائٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ البَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الْفَتْحَ فَتْحَ مَکَّۃَ وَقَدْ کَانَ فَتْحُ مَکَّۃَ فِینَا فَتْحًا وَنَعُدُّ نَحْنُ الْفَتْحَ بَیْعَۃَ الرِّضْوَانِ نَزَلْنَا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَہِیَ بِئْرٌ فَوَجَدْنَا النَّاسَ قَدْ نَزَحُوہَا فَلَمْ یَدَعُوا فِیہَا قَطْرَۃً فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَدَعَا بِدَلْوٍ فَنَزَعَ مِنْہَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْہُ بِفِیہِ فَمَجَّہُ فِیہَا وَدَعَا اللَّہَ فَکَثُرَ مَاؤُہَا حَتَّی صَدَرْنَا وَرَکَائِبُنَا وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَالِکِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ وَغَیْرِہِ عَنْ إِسْرَائِیلَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤١٥٠]
(١٨٨١٥) براء فرماتے ہیں کہ تم فتح مکہ کو عظیم فتح شمار کرتے ہو ، جبکہ ہمارے نزدیک فتح مکہ عام فتح ہے۔ لیکن صلح حدیبیہ کی فتح عظیم تھی، حدیبیہ کے مقام پر ایک کنواں تھا جس کا لوگوں نے پانی نکال کر ختم کردیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا گیا تو آپ کنویں کے کنارے پر آئے، پانی کا ڈول نکالا ۔ پھر کچھ پانی لیکر کنویں میں کلی کردی اور اللہ سے دعا کی تو پانی اتنا زیادہ ہوگیا کہ ہم نے سیر ہو کر پیا اور سواریوں کو پلایا اور ہماری تعداد ١٤ سو تھی۔

18822

(١٨٨١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ بِہِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : امام ڈھال ہے جس کے ذریعیجہاد کیا جاتا ہے۔

18823

(١٨٨١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِیَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْعَلاَئِ بْنِ زَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ الْحَضْرَمِیَّ یُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِکٍ الأَشْجَعِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ فَقَالَ لِی : یَا عَوْفُ اعْدُدْ سِتًّا بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَوْتِی ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ مُوتَانٌ یَأْخُذُ فِیکُمْ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ ثُمَّ اسْتِفَاضَۃُ الْمَالِ فِیکُمْ حَتَّی یُعْطَی الرَّجُلُ مِائَۃَ دِینَارٍ فَیَظَلُّ سَاخِطًا ثُمَّ فِتْنَۃٌ لاَ یَبْقَی بَیْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلاَّ دَخَلَتْہُ ثُمَّ ہُدْنَۃٌ تَکُونُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ بَنِی الأَصْفَرِ فَیَغْدِرُونَ فَیَأْتُونَکُمْ تَحْتَ ثَمَانِینَ غَایَۃً تَحْتَ کُلِّ غَایَۃٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا۔ قَالَ الْوَلِیدُ فَذَاکَرْنَا ہَذَا الْحَدِیثَ شَیْخًا مِنْ شُیُوخِ الْمَدِینَۃِ فِی قَوْلِہِ ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَقَالَ الشَّیْخُ أَخْبَرَنِی سَعِیدٌ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ کَانَ یُحَدِّثُ بِہَذَا الْحَدِیثِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیَقُولُ مَکَانَ : فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ عُمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْحُمَیْدِیِّ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ دُونَ إِسْنَادِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨١٧) حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ میں جنگ تبوک میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا آپ چمڑے کے خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا : قیامت سے پہلے چھ نشانیوں کو شمار کرو، میری وفات، بیت المقدس کی فتح، بیشمار اموات جیسے بکریاں اچانک مرجاتی ہیں۔ مال کا زیادہ ہونا یہاں تک کہ ایک شخص کو سو دینار دیا جائے گا، لیکن وہ ناراض ہوجائے گا۔ ایک فتنہ رونما ہوگا جو عرب کے تمام گھروں میں داخل ہوجائے گا تمہارے اور رومیوں کے درمیان صلح ہوجائے گی، لیکن وہ عہد شکنی کریں گے، وہ تمہارے پاس ٨٠ جھنڈوں تلے آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے وہ بارہ ہزار ہوں گے۔
(ب) مدینہ کے ایک شیخ فرماتے ہیں کہ پھر بیت المقدس کی فتح ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کی فتح، اس کی آبادی ہے۔

18824

(١٨٨١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدٍ أَخْبَرَنَا أَبِی أَخْبَرَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی حَسَّانُ بْنُ عَطِیَّۃَ قَالَ : مَالَ مَکْحُولٌ وَابْنُ أَبِی زَکَرِیَّا إِلَی خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ فَمِلْتُ مَعَہُمْ قَالَ فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ أَنَّہُ قَالَ لَہُ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَی ذِی مِخْبَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فَأَتَیْنَاہُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : سَیُصَالِحُکُمُ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا ثُمَّ تَغْزُونَ أَنْتُمْ وَہُمْ عَدُوًّا فَتُنْصَرُونَ وَتَسْلَمُونَ وَتَغْنَمُونَ ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ فَتَنْزِلُونَ بِمَرْجٍ ذِی تُلُولٍ فَیَرْفَعُ رَجُلٌ مِنَ النَّصْرَانِیَّۃِ الصَّلِیبَ فَیَقُولُ : غُلِبَ الصَّلِیبُ فَیَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیَقُومُ إِلَیْہِ فَیَدُقُّہُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَغْضَبُ الرُّومُ وَیَجْمَعُونَ لِلْمَلْحَمَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٨١٨) خالد حضرت جبیر بن نفیر سے نقل فرماتے ہیں کہ چلوہ میں صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر چلو، کہتے ہیں : ہم ان کے پاس آئے تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے ساتھ رومی صلح کرلیں گے، پھر تم مل کر دشمنوں سے لڑائی کر کے مال غنیمت حاصل کرو گے واپس صحیح سلامت پلٹو گے اور ذی تلول نامی جگہ پر قیام کرو گے وہاں ایک عیسائی شخص صلیب کو بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی تو ایک مسلمان صلیب کو پکڑ کر توڑ ڈالے گا، جس کی بنا پر رومی غصہ میں آ کر لڑائی کے لیے جمع ہوجائیں گے۔

18825

(١٨٨١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَجْلَی الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودِ مِنْہَا فَکَانَتِ الأَرْضُ حِینَ ظَہَرَ عَلَیْہَا لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُسْلِمِینَ فَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَہُودَ مِنْہَا فَسَأَلَتِ الْیَہُودُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِیُقِرَّہُمْ عَلَی أَنْ یَکْفُوہُ عَمَلَہَا وَلَہُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نُقِرُّکُمْ بِہَا عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا ۔ فَقَرُّوا بِہَا حَتَّی أَجْلاَہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی تَیْمَائَ وَأَرِیحَائَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فَقَالَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ الْفُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانُ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ : نُقِرُّکُمْ عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ نَافِعٍ : أُقِرُّکُمْ فِیہَا عَلَی ذَلِکَ مَا شِئْنَا ۔ وَفِی رِوَایَۃِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ مَا بَدَا لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَفِی رِوَایَۃِ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ ۔ وَکَذَلِکَ فِی رِوَایَۃِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُرْسَلاً : أُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ ۔ وَرَوَاہُ صَالِحُ بْنُ أَبِی الأَخْضَرِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَوْصُولاً وَقَدْ مَضَتْ ہَذِہِ الرِّوَایَاتُ بِأَسَانِیدِہَا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَإِنْ قِیلَ فَلِمَ لاَ یَقُولُ أُقِرُّکُمْ مَا أَقَرَّکُمُ اللَّہُ یَعْنِی کُلَّ إِمَامٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قِیلَ الْفَرْقُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أَنَّ أَمْرَ اللَّہِ کَانَ یَأْتِی رَسُولَہُ بِالْوَحْیِ وَلاَ یَأْتِی أَحَدًا غَیْرَہُ بِوَحْیٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٨١٩) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے یہود و نصاریٰ کو ارض حجاز سے جلا وطن کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خیبر فتح کیا تھا تو یہود کو وہاں سے جلا وطن کرنا چاہا، کیونکہ یہ زمین اللہ، رسول اور مسلمانوں کی تھی، جب آپ نے یہودکو نکالنے کا ارادہ کرلیا تو یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : اگر آپ ہمیں زمینوں پر کام کرنے دیں اور تو آدھا پھل آپ کا ہوگا۔ آپ نے فرمایا : جتنی دیر ہم چاہیں گے تمہیں پر قرار رکھیں گے، آپ نے تو برقرار رکھا لیکن حضرت عمر (رض) نے انھیں تیماء اور اریحاء بستیوں کی جانب جلا وطن کردیا۔
(ب) موسیٰ بن عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک ہم چاہیں گے برقرار رکھیں گے۔
(ج) اسامہ بن زید (رض) حضرت نافع (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں تمہیں اس پر برقرار رکھوں گا، جتنی دیر چاہوں گا۔
(د) حضرت عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم تمہیں اتنی دیر برقرار رکھیں گے جتنی دیر اللہ رب العزت برقرار رکھیں گے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : اقررکم ما اقرکم اللہ۔ کا مطلب ہے کہ میرے بعد خلیفہ جتنی دیر تمہیں برقرار رکھیں۔ خلیفہ اور رسول میں یہ فرق ہوگا کہ رسول کے پاس اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے جبکہ کسی دوسرے کے پاس وحی نہیں آتی۔

18826

(١٨٨٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سَعْدُوَیْہِ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ حُسَیْنٍ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْمَوْسِمِ وَأَمَرَہُ أَنْ یُنَادِیَ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ قَالَ فَبَیْنَا أَبُو بَکْرٍ نَازِلٌ فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ إِذْ سَمِعَ رُغَائَ نَاقَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْقَصْوَائَ فَخَرَجَ فَزِعًا وَظَنَّ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِذَا عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَدَفَعَ إِلَیْہِ کِتَابَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَتَی عَلِیٌّ الْمَوْسِمَ وَأَمَرَ عَلِیًّا أَنْ یُنَادِیَ بِہَؤُلاَئِ الْکَلِمَاتِ فَانْطَلَقَا فَحَجَّا فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَنَادَی فِی وَسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ بَرِیئٌ مِنْ کُلِّ مُشْرِکٍ { فَسِیحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللَّہِ } [التوبۃ ٢] لاَ یَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفَنَّ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ کَانَ یُنَادِی بِہَذَا فَإِذَا بَحَّ قَام أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَنَادَی بِہَا۔ [حسن ]
(١٨٨٢٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ کیا اور ان باتوں کا اعلان کرنے کا حکم دیا، حضرت ابوبکر (رض) نے راستہ میں کسی جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی قصواء کی آواز سنی، گھبرا کر نکلے ہیں، جبکہ وہ حضرت علی (رض) تھے، انھوں آپ کا خط ابوبکر (رض) کو دیا، جس میں تھا کہ ان باتوں کا اعلان حضرت علی (رض) کو کرنے دیا جائے۔ جب ابوبکر (رض) وعلی (رض) نے حج کیا تو حضرت علی (رض) نے ایام تشریق کے درمیان ان باتوں کا اعلان کردیا کہ اللہ ورسول ہر مشرک سے بری ہیں۔ { فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِ } [التوبۃ ٢] تم زمین پر چار ماہ چلو پھرو، جان لو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ 1 اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے، 2 کپڑے اتار کر بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے۔ 3 جنت میں صرف مومن داخل ہوگا، ابوہریرہ ان کی آواز آگے پہنچاتے تھے۔

18827

(١٨٨٢١) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْمُغِیرَۃِ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حِینَ بَعَثَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِبَرَائَ ۃَ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ قَالَ فَکُنْتُ أَنَادِی حَتَّی صَحِلَ صَوْتِی فَقِیل لَہُ بِأَیِّ شَیْئٍ کُنْتَ تُنَادِی ؟ فَقَالَ : أُمِرْنَا أَنْ نُنَادِیَ أَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَمَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَہْدٌ فَأَجَلُہُ إِلَی أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِذَا مَضَتِ الأَشْہُرُ فَإِنَّ اللَّہَ بَرِیئٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولَہُ وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ۔ وَقَدْ مَضَی فِی حَدِیثِ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذَا الْحَدِیثِ : وَمَنْ کَانَ لَہُ عَہْدٌ فَعَہْدُہُ إِلَی مُدَّتِہِ وَمَنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ عَہْدٌ فَأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ بَعْدَ فَتْحِ مَکَّۃَ تَسْیِیرَ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ قَالَ الشَّیْخُ قَدْ مَضَی ہَذَا فِی حَدِیثِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ فِی کِتَابِ النِّکَاحِ ۔ [صحیح تقدم برقم ١٧٩٤٨]
(١٨٨٢١) محرر بن ابوہریرہ (رض) اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا۔ جب آپ نے اہل مکہ سے برأت کا اعلان کروایا، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں اعلان کرتا لیکن میری آواز ہلکی ہے تو کہا گیا : کس بات کا آپ اعلان کرنا چاہتے ہیں ؟ تو حضرت علی (رض) نے کہا : مجھے ان باتوں کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے : 1 جنت میں صرف مومن داخل ہوگا۔ 2 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس سے عھد تھا، اس کی مدت چار ماہ ہے۔ 3 جب چار ماہ گذر جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بری ہیں۔ 4 ننگے بدن بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے۔ 5 ۔ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے۔
(ب) زید بن یثیع حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جس کا معاہدہ تھا اسے پورا کیا جائے گا اور جس کا معاہدہ نہیں اس کی مدت چار ماہ ہے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان بن امیہ کو فتح مکہ کے بعد چار ماہ مہلت دی تھی۔

18828

(١٨٨٢٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ خَالَہُ وَکَانَ اسْمَہُ حَرَامٌ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلاً فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ وَکَانَ أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أُخَیِّرُکَ بَیْنَ ثَلاَثِ خِصَالٍ أَنْ یَکُونَ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَلِی أَہْلُ الْمَدَرِ وَأَکُونُ خَلِیفَتَکَ مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ بِأَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائَ ۔ قَالَ : فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ فَقَالَ : غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبِکْرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی فَرَکِبَہُ فَمَاتَ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلاَنِ مَعَہُ رَجُلٌ أَعْرَجُ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ : کُونَا یَعْنِی قَرِیبًا مِنِّی حَتَّی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی کُنْتُمْ کَذَا وَإِنْ قَتَلُونِی أَتَیْتُمْ أَصْحَابَکُمْ فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ فَقَالَ : أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغُکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا نَعَمْ فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلَی رَجُلٍ فَأَتَاہُ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ ۔ قَالَ ہَمَّامٌ أَحْسِبُہُ قَالَ فَأَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ فَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ فَلُحِقَ الرَّجُلُ فَقُتِلَ کُلُّہُمْ إِلاَّ الأَعْرَجَ کَانَ فِی رَأْسِ الْجَبَلِ قَالَ إِسْحَاقُ فَحَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ أُنْزِلَ عَلَیْنَا ثُمَّ کَانَ مِنَ الْمَنْسُوخِ إِنَّا قَدْ لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَبْعِینَ صَبَاحًا عَلَی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ وَعُصَیَّۃَ عَصَتِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٠٩١]
(١٨٨٢٢) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ماموں حرام جو ام سلیم کے بھائی تھے، ان ستر آدمیوں میں روانہ کیا جو بئر ممونہپر قتل کردیے گئے۔ مشرکین کا رئیس عامر بن طفیل نبی کے پاس آیا، اس نے کہا : میں تجھے تین چیزوں میں اختیار دیتا ہوں، 1 آپ کے لیے بدر اور میرے ساتھی گھروں میں رہنے والے لوگ، 2 آپ کے بعد میں خلیفہ ہوں گا، 3 میں تیرے ساتھ ایک ہزار سرخ وسفید رنگت والے نوجوانوں کے ساتھ جنگ کروں گا۔ راوی کہتے ہیں : بنو فلاں کے گھر اس کو نیزہ مارا گیا یا بنوفلاں قبیلے کی عورت کے گھر میں وہ طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوگیا، اس نے اپنا گھوڑا منگوایا تو عامر بن طفیل اپنے گھوڑے پر سوار ہی فوت ہوگیا، تو ام سلیم کے بھائی حرام اور اس کے ساتھ دو شخص اور بھی چلے، ایک لنگڑا اور ایک بنو فلاں قبیلے کا شخص۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں میرے قریب آگئے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا : اگر تم نے مجھے پناہ دے دی تو تمہیں ملے گا اور اگر انھوں نے مجھے قتل کردیا تو تم اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ حرام ان کے پاس آگئے، کہنے لگے : میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام دیتا ہوں۔ کیا تم ایمان لاؤ گے، انھوں نے حامی بھری تو حرام نے ان کو وعظ شروع کردیا جبکہ انھوں نے کسی شخص کو پیچھے سے اتارا اس نے نیزہ مار کر حرام کو ہلاک کردیا۔ ھمام کہتے ہیں : میرا گمان ہے کہ جب اسے نیزہ لگا، اس نے کہا : اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا، اس شخص نے باقی افراد کو بھی قتل کر ڈالا، سوائے اعرج کے، کیونکہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھے۔
(ب) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس لایا گیا، پھر یہ بات منسوخ ہوگئی کہ ہماری ملاقات اللہ رب العزت سے ہوئی، وہ ہم سے راضی اور ہم اس سے راضی تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٧٠ دن رعل وذکوان بنو لحیان قبیلوں پر بدعا کی کیونکہ انھوں نے اللہ ورسول کی نافرمانی کی تھی۔

18829

(١٨٨٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ حَدَّثَنِی ثُمَامَۃُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَنَسٍ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : لَمَّا طُعِنَ حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ وَکَانَ خَالَہُ یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ فَقَالَ بِالدَّمِ ہَکَذَا فَنَضَحَہُ عَلَی وَجْہِہِ وَرَأْسِہِ ثُمَّ قَالَ : فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حِبَّانَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٠٩٢]
(١٨٨٢٣) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ جب حرام بن ملحان کو نیزہ مارا گیا اور ان کا ماموں بئرمونہ کے دن تھا، اس نے خون کے نکلتے وقت اپنے چہرے اور سر پر پانی چھڑکتے ہوئے کہا کہ رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا۔

18830

(١٨٨٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصُّوفِیُّ حَدَّثَنَا خَلَفٌ ہُوَ ابْنُ سَالِمٍ الْمُخَرِّمِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : اسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْخُرُوجِ مِنْ مَکَّۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی الْہِجْرَۃِ وَمَعَہُمَا عَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ قَالَ فَقُتِلَ عَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ فَقَالَ لَہُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ : مَنْ ہَذَا وَأَشَارَ إِلَی قَتِیلٍ فَقَالَ لَہُ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ : ہَذَا عَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ فَقَالَ : لَقَدْ رَأَیْتُہُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَی السَّمَائِ حَتَّی إِنِّی لأَنْظُرُ إِلَی السَّمَائِ بَیْنَہُ وَبَیْنَ الأَرْضِ قَالَ فَأَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَبَرُہُمْ فَنَعَاہُمْ وَقَالَ : إِنَّ أَصْحَابَکُمْ أُصِیبُوا وَإِنَّہُمْ قَدْ سَأَلُوا رَبَّہُمْ فَقَالُوا رَبَّنَا أَخْبِرْ عَنَّا إِخْوَانَنَا بِمَا رَضِینَا عَنْکَ وَرَضِیتَ عَنَّا قَالَ فَأَخْبَرَہُمْ عَنْہُمْ قَالَ : وَأُصِیبَ مِنْہُمْ یَوْمَئِذٍ عُرْوَۃُ بْنُ أَسْمَائَ بْنِ الصَّلْتِ سُمِّیَ بِہِ عُرْوَۃُ وَمُنْذِرُ بْنُ عُمَرَ وَسُمِّیَ بِہِ مُنْذِرٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ وَجَعَلَ آخِرَ الْحَدِیثِ مِنْ قَوْلِ عُرْوَۃَ ۔ [صحیح ٤٠٩٣]
(١٨٨٢٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت کی اجازت طلب کی، انھوں نے ہجرت کے متعلقہ حدیث ذکر کی، ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ تھے، کہتے ہیں : عامر بن فہیرہ بئرمعونہ کے دن قتل کر دییگئے، عمرو بن امیہ ضمری قیدی بنا لیے گئے، عامر بن طفیل نے مقتول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : یہ کون ہے ؟ تو عمرو بن امیہ نے کہا : یہ عامر بن فہیرہ ہے۔ اس نے کہا : میں نے اس کے قتل کے بعد دیکھا کہ اسے آسمانوں زمین کے درمیان اٹھایا گیا، راوی کہتے ہیں کہ ان کے قتل کی خبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی تو آپ نے فرمایا : تمہارے ساتھی شہید کردیے گئے تو انھوں نے اپنے سے سوال کیا کہ ہمارے رب ہمارے بھائیوں کو خبر دے دینا کہ تو ہم سے راضی اور ہم تجھ سے راضی ہیں۔ راوی کہتے ہیں : ان کی جانب سے خبر دی گئی۔ اس دن عروہ بن اسمائبن صلت جس کو عروہ اور منذر بن عمر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

18831

(١٨٨٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی أَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاہِرِینَ عَلَی الْحَقِّ لاَ یَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ حَتَّی یَأْتِیَ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ کَذَلِکَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَغَیْرِہِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٢٥) حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ہی رہے گا۔ ان کو کوئی گمراہی نقصان نہ دے گی، قیامت تک وہ اسی حالت پر رہے گی۔

18832

(١٨٨٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَدَی رَجُلاً بِرَجُلَیْنِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ کَمَا مَضَی۔ وَمَضَی حَدِیثُ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ فِی الْمَرْأَۃِ الَّتِی اسْتَوْہَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْہُ وَبَعَثَ بِہَا إِلَی مَکَّۃَ وَفِی أَیْدِیہِمْ أَسْرَی فَفَدَاہُمْ بِتِلْکَ الْمَرْأَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٨٢٦) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص دو افراد کے عوض فدیہ میں دیا۔
(ب) سلمہ بن اکوع نے جو عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کی تھی ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے عوض کئی قیدی منگوائے۔

18833

(١٨٨٢٧) حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّئِیسُ الْجُرْجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَبْدِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِیفَۃَ : الْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ الْجُمَحِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُورٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَفُکُّوا الْعَانِیَ وَعُودُوا الْمَرِیضَ ۔ قَالَ سُفْیَانُ وَالْعَانِی الأَسِیرُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ وَعَنْ قُتَیْبَۃَ عَنْ جَرِیرٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٥٣٧٣]
(١٨٨٢٧) حضرت ابو موسیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، قیدی آزاد کرو اور بیمار کی تیمار داری کرو۔ سفیان کہتے ہیں کہ عانی سے مراد قیدی ہیں۔

18834

(١٨٨٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّقَّائِ وَأَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ قَالاَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنَ الْوَحْیِ شَیْئٌ قَالَ : لاَ وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ مَا أَعْلَمُہُ إِلاَّ فَہْمًا یُعْطِیہِ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلاً وَمَا فِی الصَّحِیفَۃِ قُلْتُ : وَمَا فِی الصَّحِیفَۃِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفَکَاکُ الأَسِیرِ وَلاَ یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِقَتْلِ مُشْرِکٍ ۔ قَالَ زُہَیْرٌ فَقُلْتُ لِمُطَرِّفٍ : وَمَا فَکَاکُ الأَسِیرِ ؟ قَالَ : أَنْ یُفَکَّ مِنَ الْعَدُوِّ ۔ وَجَرَتْ بِذَلِکَ السُّنَّۃُ ۔ قَالَ مُطَرِّفٌ : الْعَقْلُ الْمَعْقُلَۃُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٢٨) ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) سے کہا : اے امیر المومنین ! کیا آپ کے پاس وحی سے کوئی خاص چیز ہے ؟ انھوں نے کہا : کچھ بھی نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا، صرف اس میں سوجھ بوجھ تو اللہ کسی انسان کو عطا کرتا ہے اور جو اس صحیفہ میں ہے ؟ میں نے پوچھا : صحیفہ میں کیا ہے ؟ تو فرمانے لگے : دیت اور قیدیوں کی آزادی کے بارے میں اور یہ کہ کسی مومن کو مشرک کے بدلے قتل نہ کیا جائے ۔ پھر کہتے ہیں : میں نے مطرف سے پوچھا : قیدی کو آزاد کرانا کیا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ دشمن سے آزاد کروائیں، اس طرح سنت جاری ہے اور صلت کہتے ہیں کہ دیت ادا کرنا۔

18835

(١٨٨٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ بْنِ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو حُذَیْفَۃَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : صَالَحَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمُشْرِکِینَ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ عَلَی ثَلاَثَۃِ أَشْیَائَ عَلَی أَنَّ مَنْ أَتَاہُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ رَدَّہُ إِلَیْہِمْ وَمَنْ أَتَاہُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لَمْ یَرُدُّوہُ وَعَلَی أَنْ یَدْخُلَہَا مِنْ قَابِلٍ فَیُقِیمُ بِہَا ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ وَلاَ یَدْخُلَہَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ السَّیْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِہِ فَجَائَ أَبُو جَنْدَلٍ یَحْجُلُ فِی قُیُودِہِ فَرَدَّہُ إِلَیْہِمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی حُذَیْفَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٢٩) حضرت براء فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین سے تین باتوں پر صلح حدیبیہ کی :1 جو مشرکین میں سے آپ کے پاس آئے گا آپ واپس کریں گے، 2 جو مسلمان کفار مکہ کے پاس آجائے اسے واپس نہ کیا جائے گا، 3 نیز آپ آئندہ سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے اور وہاں تین دن قیام کریں گے اور ہتھیار تلوار وغیرہ کمان میں ڈال کر آئیں گے۔ جب ابو جندل بیڑیوں میں چلتا ہوا آیا تو آپ نے اسے کفار کی جانب واپس کردیا۔

18836

(١٨٨٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ الْمُقْرِء أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا صَالَحَ قُرَیْشًا یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ قَالَ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اکْتُبْ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو : لاَ نَعْرِفُ الرَّحْمَنَ الرَّحِیمَ اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اکْتُبْ ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ ۔ فَقَالَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو : لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّہِ لَصَدَّقْنَاکَ وَلَمْ نُکَذِّبْکَ اکْتُبِ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اکْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ ۔ وَکَتَبَ مَنْ أَتَانَا مِنْکُمْ رَدَدْنَاہُ عَلَیْکُمْ وَمَنْ أَتَاکُمْ مِنَّا تَرَکْنَاہُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ نُعْطِیہِمْ ہَذَا قَالَ : مَنْ أَتَاہُمْ مِنَّا فَأَبْعَدَہُ اللَّہُ وَمَنْ أَتَانَا مِنْہُمْ فَرَدَدْنَاہُ عَلَیْہِمْ جَعَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَفَّانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٣٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے دن جب قریش سے صلح کی تو حضرت علی (رض) سے فرمایا : لکھ، میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے تو سھیل بن عمرو نے کہا : ہم رحمنورحیم کو نہیں جانتے، آپ لکھیں، اے اللہ ! تیرے نام سے ابتدا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا لکھ کہ میں اے اللہ تیرے نام سے شروع کرتا ہوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : لکھو کہ اس معاہدہ میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی ہے تو سھیل بن عمرو نے فورا اعتراض کردیا کہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو آپ کی تصدیق کرتے، تکذیب کبھی نہ کرتے، آپ اپنا اور والد کا نام تحریر کریں تو آپ نے فرمایا : اے علی ! لکھو، محمد بن عبداللہ اور یہ شرط تحریر کی۔ تمہاری آدمی ہم واپس کردیں گے لیکن ہمارا آدمی واپس نہ کیا جائے گا، صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم انھیں دے دیں گے ؟ فرمایا : جو ہم سے گیا اللہ نے اسے ہم سے دور کردیا اور جس کو ہم واپس کریں گے، اس کے لیے اللہ راستہ نکال دے گا۔

18837

(١٨٨٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی قِصَّۃَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَخُرُوجِ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَنَّہُ لَمَّا انْتَہَی إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَرَی بَیْنَہُمَا الْقَوْلُ حَتَّی وَقَعَ الصُّلْحُ عَلَی أَنْ تُوضَعَ الْحَرْبُ بَیْنَہُمَا عَشْرَ سِنِینَ وَأَنْ یَأْمَنَ النَّاسُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ وَأَنْ یَرْجِعَ عَنْہُمْ عَامَہَمْ ذَلِکَ حَتَّی إِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَدِمَہَا خَلَّوْا بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَکَّۃَ فَأَقَامَ بِہَا ثَلاَثًا وَأَنَّہُ لاَ یَدْخُلَہَا إِلاَّ بِسِلاَحِ الرَّاکِبِ وَالسُّیُوفِ فِی الْقُرُبِ وَأَنَّہُ مَنْ أَتَانَا مِنْ أَصْحَابِکَ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکَ وَأَنَّہُ مَنْ أَتَاکَ مِنَّا بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَدْتَہُ عَلَیْنَا۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی کَتَبَۃِ الصَّحِیفَۃَ قَالَ : فَإِنَّ الصَّحِیفَۃَ لَتُکْتَبُ إِذْ طَلَعَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو یَرْسُفُ فِی الْحَدِیدِ وَقَدْ کَانَ أَبُوہُ حَبَسَہُ فَأَفْلَتَ فَلَمَّا رَآہُ سُہَیْلٌ قَامَ إِلَیْہِ فَضَرَبَ وَجْہَہُ وَأَخَذَ یُلَبِّبُہُ یَتُلُّہُ وَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ قَدْ وَلَجَتِ الْقَضِیَّۃُ بِیْنِی وَبَیْنَکَ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکَ ہَذَا قَالَ : صَدَقْتَ ۔ وَصَاحَ أَبُو جَنْدَلٍ بِأَعْلَی صَوْتِہِ : یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ أَأُرَدُّ إِلَی الْمُشْرِکِینَ یَفْتِنُونِی فِی دِینِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَبِی جَنْدَلِ : أَبَا جَنْدَلٍ اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّ اللَّہَ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا إِنَّا قَدْ صَالَحْنَا ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ وَجَرَی بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمُ الْعَہْدُ وَإِنَّا لاَ نَغْدِرُ ۔ فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَمْشِی إِلَی جَنْبِ أَبِی جَنْدَلٍ وَأَبُوہُ یَتُلُّہُ وَہُوَ یَقُولُ : أَبَا جَنْدَلٍ اصْبَرْ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّمَا ہُمُ الْمُشْرِکُونَ وَإِنَّمَا دَمُ أَحَدِہِمْ دَمُ کَلْبٍ وَجَعَلَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُدْنِی مِنْہُ قَائِمَ السَّیْفِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَجَوْتُ أَنْ یَأْخُذَہُ فَیَضْرِبَ بِہِ أَبَاہُ فَضَنَّ بِأَبِیہِ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی التَّحَلُّلِ مِنَ الْعُمْرَۃِ وَالرُّجُوعِ قَالاَ : وَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمَدِینَۃَ وَاطْمَأَنَّ بِہَا أَفْلَتَ إِلَیْہِ أَبُو بَصِیرٍ عُتْبَۃُ بْنُ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَۃَ الثَّقَفِیُّ حَلِیفُ بَنِی زُہْرَۃَ فَکَتَبَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِ الأَخْنَسُ بْنُ شَرِیقٍ وَالأَزْہَرُ بْنُ عَبْدِ عَوْفٍ وَبَعَثَا بِکِتَابِہِمَا مَعَ مَوْلًی لَہُمَا وَرَجُلٍ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ اسْتَأْجَرَاہُ لَیَرُدَّ عَلَیْہِمَا صَاحِبَہُمَا أَبَا بَصِیرٍ فَقَدِمَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَدَفَعَا إِلَیْہِ کِتَابَہُمَا فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَبَا بَصِیرٍ فَقَالَ لَہُ : یَا أَبَا بَصِیرٍ إِنَّ ہَؤُلاَئِ الْقَوْمَ قَدْ صَالَحُونَا عَلَی مَا قَدْ عَلِمْتَ وَإِنَّا لاَ نَغْدِرُ فَالْحَقْ بِقَوْمِکَ ۔ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ تَرُدُّنِی إِلَی الْمُشْرِکِینَ یَفْتِنُونِی فِی دِینِی وَیَعْبَثُونَ بِی۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اصْبَرْ یَا أَبَا بَصِیرٍ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّ اللَّہَ جَاعِلٌ لَکَ وَلِمَنْ مَعَکَ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا ۔ قَالَ فَخَرَجَ أَبُو بَصِیرٍ وَخَرَجَا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِذِی الْحُلَیْفَۃِ جَلَسُوا إِلَی سُورِ جِدَارٍ فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لِلْعَامِرِیِّ : أَصَارِمٌ سَیْفُکَ ہَذَا یَا أَخَا بَنِی عَامِرٍ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : أَنْظُرُ إِلَیْہِ قَالَ : إِنْ شِئْتَ فَاسْتَلَّہُ فَضَرَبَ بِہِ عُنُقَہُ وَخَرَجَ الْمَوْلَی یَشْتَدُّ فَطَلَعَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : ہَذَا رَجُلٌ قَدْ رَأَی فَزَعًا ۔ فَلَمَّا انْتَہَی إِلَیْہِ قَالَ : وَیْحَکَ مَا لَکَ ؟ ۔ قَالَ : قَتَلَ صَاحِبُکُمْ صَاحِبِی فَمَا بَرِحَ حَتَّی طَلَعَ أَبُو بَصِیرٍ مُتَوَشِّحًا السَّیْفَ فَوَقَفَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَفَتْ ذِمَّتُکَ وَأَدَّی اللَّہُ عَنْکَ وَقَدِ امْتَنَعْتُ بِنَفْسِی عَنِ الْمُشْرِکِینَ أَنْ یَفْتِنُونِی فِی دِینِی أَوْ أَنْ یَعْبَثُوا بِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَیْلُ أُمِّہِ مِحَشَّ حَرْبٍ لَوْ کَانَ مَعَہُ رِجَالٌ ۔ فَخَرَجَ أَبُو بَصِیرٍ حَتَّی نَزَلَ بِالْعِیصِ وَکَانَ طَرِیقَ أَہْلِ مَکَّۃَ إِلَی الشَّامِ فَسَمِعَ بِہِ مَنْ کَانَ بِمَکَّۃَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَبِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِ فَلَحِقُوا بِہِ حَتَّی کَانَ فِی عُصْبَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ قَرِیبٍ مِنَ السِّتِّینَ أَوِ السَّبْعِینَ فَکَانُوا لاَ یَظْفَرُونَ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَیْشٍ إِلاَّ قَتَلُوہُ وَلاَ تَمُرُّ عَلَیْہِمْ عِیرٌ إِلاَّ اقْتَطَعُوہَا حَتَّی کَتَبَتْ فِیہَا قُرَیْشٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَسْأَلُونَہُ بِأَرْحَامِہِمْ لَمَا آوَاہُمْ فَلاَ حَاجَۃَ لَنَا بِہِمْ فَفَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَدِمُوا عَلَیْہِ الْمَدِینَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٣١) عروہ حضرت مسور بن مخرمہ سے حدیبیہ کا قصہ روایت کرتے ہیں کہ جب سہیل اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات چیت ہوئی اور دس سال کے لیے جنگ بندی طے پائیتو لوگ ایک دوسرے سے بےخوف ہوگئے۔ اس سال آپ واپس جائیں اور آئندہ سال آ کر مکہ میں تین دن تک قیام کرسکتے ہیں اور مکہ میں داخلے کے وقت اسلحہ اور تلواریں میان میں رکھیں گے اور تمہارا کوئی شخص بغیر ولی کی اجازت سے ہمارے پاس آگیا تو واپس نہ کیا جائے گا۔ لیکن ہمارا کوئی شخص آپ کے پاس آیا تو آپ کو واپس کرنا پڑے گا۔ اس نے معاہدہ کی تحریر کا تذکرہ کیا۔ ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا کہ ابو جندل بن سھیل بن عمرو لوہے کی بیڑیوں میں چلتا ہوا آگیا۔ اس کے باپ نے قید کر رکھا تھا جب سھیل نے دیکھا تو کھڑے ہو کر منہ پر تھپڑ رسید کردیا اور گردن سے پکڑ کر گرا دیا۔ سھیل نے کہا : اے محمد ! اس کے آنے سے پہلے ہمارے درمیان معاہدہ طے پا چکا۔ آپ نے فرمایا : تو نے سچ کہا تو ابو جندل نے کہا : اے مسلمانو ! کیا میں واپس کیا جاؤں گا۔ یہ مجھے دین کے بارے میں آزمائش میں ڈالتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو جندل سے کہا : صبر کرو۔ اللہ آپ کے لیے اور دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے نکلنے کے اسباب پیدا فرما دے گا کیونکہ ہمارے درمیانعہد ہوچکا جس کو ہم توڑنا نہیں چاہتے۔ حضرت عمر (رض) ابو جندل کے پاس گئے۔ جب اس کا والد اس کو گرائے ہوئے تھا، حضرت عمر (رض) نے کہا : اے ابو جندل صبر کرو، کیونکہ مشرکین کا خون کتے کے خون کی طرح ہے اور حضرت عمر (رض) تلوار کا دستہ اس کے قریب کردیا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : میں واپس ہوا تاکہ پکڑ لے اور اپنے باپ کو قتل کر دے، پھر اس نے عمرہ سے حلال ہونے اور واپسی کا تذکرہ کیا، دونوں یعنی مسور بن مخرمہ اور مروان فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ واپس آگئے تو پیچھے ابو بصیر بھی بھاگ کر آگئے، یعنی عتبہ بن اسید بن ماریہ ثقفی جو بنو زہر ہ کے حلیف تھے، اخنس بن شریک، ازھر بن عبد مناف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا ۔ ان کا ایک غلام اور دوسرا بنو عامر بن لوئی کا شخص اس خط کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ اس میں مطالبہ تھا کہ ابو بصیر کو واپس کیا جائے۔ انھوں نے خط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا تو آپ نے ابو بصیر کو بلایا اور فرمایا : اے ابو بصیر ! آپ جانتے ہیں کہ ہماری اس قوم سے صلح ہے اور ہم وعدہ توڑنا نہیں چاہتے ۔ آپ اپنی قوم کے پاس چلے جائیں تو ابو بصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے مشرکین کی جانب واپس کریں گے، جو مجھے دین کے بارے میں فتنہ میں ڈال دیں اور میرے ساتھ کھیل کود کریں ؟ آپ نے فرمایا : اے ابو بصیر ! صبر کرو، ثواب کی نیت کرو۔
اللہ آپ اور کمزور مسلمانوں کے لیے نکلنے کی کشادہ راہ مہیا کردیں گے، وہ دونوں ابو بصیر کو لے کر ذوالحلیفہ تک پہنچے تو ایک دیوار کے سائے میں آرام کی غرض سے بیٹھ گئے، ابو بصیر نے عامری شخص سے کہا : اے بنو عامر والے ! آپ کی تلوار کافی مضبوط لگتی ہے ؟ اس نے کہا : تلوار تو مضبوط ہی ہے۔ ابو بصیر نے کہا : میں دیکھ سکتا ہوں، عامری نے کہا : چاہو تو میان سے نکال کر دیکھ سکتے ہو، ابو بصیر نے اس عامری کی گردن اتار دی تو غلام بھاگتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا پہنچا ۔ جب آپ مسجد میں تشریف فرما تھے، جب آپ نے اس شخص کو دیکھا تو فرمایا : اس کا واسطہ کسی خوفناک چیز سے پڑگیا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آیا۔ آپ نے پوچھا : تجھے کیا ہے ؟ اس نے کہا : تمہارے ساتھی نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے۔ اتنی دیر میں ابو بصیر بھی تلوار سونتے آپہنچے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہوگئے اور کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا وعدہ پورا ہوگیا۔ اللہ نے آپ کا ذمہ ادا کردیا، میں نے مشرکین سے اپنے آپ کو محفوظ کیا ہے تاکہ وہ دین کے بارے میں مجھے فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ آپ نے فرمایا : تیری ماں مرجائے تو لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگرچہ تیرے چند ساتھی ہوں تو ابو بصیر اہل مکہ کا جو راستہ شام جاتا تھا اس پر آگئی جب مکی مسلمانوں نے سنا جو آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا : تو وہ ابو بصیر کے ساتھ ملتے رہے ، یہاں تک کہ وہ ٦٠ تا ٩٠ افراد کا ایک گروہ بن گیا وہ کسی قریشی شخص کو چھوڑتے نہ تھے، قتل کردیتے اور ہر قافلے کو لوٹ لیتے۔ پھر قریش نے مجبور ہو کر خط لکھا کہ ان کو اپنے پاس بلالو ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے تو پھر آپ نے ابو بصیر گروپ کو واپس بلا لیا۔

18838

(١٨٨٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَتَّابٍ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فَذَکَرَ ہَذِہِ الْقَصَّۃَ قَالَ فِیہَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ مَعَہُ أَحَدٌ ۔ وَجَائَ أَبُو بَصِیرٍ بِسَلَبِہِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : خَمِّسْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : إِنِّی إِذَا خَمَسْتُہُ لَمْ أُوفِ لَہُمْ بِالَّذِی عَاہَدْتُہُمْ عَلَیْہِ وَلَکِنْ شَأْنَکَ بِسَلَبِ صَاحِبِکَ وَاذْہَبْ حَیْثُ شِئْتَ ۔ فَخَرَجَ أَبُو بَصِیرٍ مَعَہُ خَمْسَۃُ نَفَرٍ کَانُوا قَدِمُوا مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ مَکَّۃَ حَتَّی کَانُوا بَیْنَ الْعِیصِ وَذِی الْمَرْوَۃِ مِنْ أَرْضِ جُہَیْنَۃَ عَلَی طَرِیقِ عِیرَاتِ قُرَیْشٍ مِمَّا یَلِی سِیفَ الْبَحْرِ لاَ یَمُرُّ بِہِمْ عِیرٌ لِقُرَیْشٍ إِلاَّ أَخَذُوہَا وَقَتَلُوا أَصْحَابَہَا وَانْفَلَتَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فِی سَبْعِینَ رَاکِبًا أَسْلَمُوا وَہَاجَرُوا فَلَحِقُوا بِأَبِی بَصِیرٍ وَکَرِہُوا أَنْ یَقْدَمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی ہُدْنَۃِ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ ذَکَرَ مَا بَعْدَہُ بِمَعْنَی مَا تَقَدَّمَ وَأَتَمَّ مِنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٣٢) اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے اس قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیری ماں مرجائے تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے، اگرچہ تیرا ایک ہی ساتھی کیوں نہ ہو اور ابو بصیر مقتول کا سامان لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پانچواں حصہ وصول کرلیں، آپ نے فرمایا : اگر میں نے پانچواں حصہ وصول کرلیا تو گویا میں نے ان کا وعدہ پورا نہ کیا، لیکن یہ سامان لے کر جہاں چاہو چلے جاؤ تو ابو بصیر پانچ ساتھیوں سمیت جو مکہ سے آئے تھے عیص اور ذی المروہ جھینہ کی سرزمین جہاں سے قریشیوں کا جو قافلہ بھی گزرتا لوٹ لیتے اور مردوں کو قتل کردیتے۔ ابو جندل بن سھیل بن عمرو ستر آدمیوں کے قافلہ میں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے ابو بصیر کے ساتھ جا ملے اور انھوں نے مشرکین کے ساتھ صلح کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانا پسند نہ کیا ۔

18839

(١٨٨٣٣) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہُ قَالَ : بَلَغَنَا أَنَّہُ قَاضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُشْرِکِی قُرَیْشٍ عَلَی الْمُدَّۃِ الَّتِی جَعَلَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ أَنْزَلَ اللَّہُ فِیمَا قَضَی بِہِ بَیْنَہُمْ فَأَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ یُخْبِرَانِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا کَاتَبَ سُہَیْلَ بْنَ عَمْرٍو یَوْمَئِذٍ کَانَ فِیمَا اشْتَرَطَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ لاَ یَأْتِیکَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِینِکَ إِلاَّ رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا فَخَلَّیْتَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ فَکَرِہَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِکَ وَأَلْغَطُوا بِہِ أَوْ قَالَ کَلِمَۃً أُخْرَی۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ لَمْ یُقِمْ شَیْخُنَا ہَذِہِ الْکَلِمَۃَ وَرَأَیْتُہُ فِی نُسْخَۃٍ وَامْتَعَظُوا۔ وَأَبَی سُہَیْلٌ إِلاَّ ذَلِکَ فَکَاتَبَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرَدَّ یَوْمَئِذٍ أَبَا جَنْدَلٍ إِلَی أَبِیہِ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو وَلَمْ یَأْتِہِ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلاَّ رَدَّہُ فِی تِلْکَ الْمُدَّۃِ وَإِنْ کَانَ مُسْلِمًا وَجَائَ الْمُؤْمِنَاتُ وَکَانَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَئِذٍ وَہِیَ عَاتِقٌ فَجَائَ أَہْلُہَا یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَرْجِعَہَا إِلِیْہِمْ فَلَمْ یَرْجِعْہَا إِلِیْہِمْ لِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ فِیہِنَّ {إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ اللَّہُ أَعْلَمُ بِإِیمَانِہِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لاَ ہُنَّ حِلٌّ لَہُمْ وَلاَ ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ } [الممتحنۃ ١٠] قَالَ عُرْوَۃُ فَأَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ یَمْتَحِنُہُنَّ بِہَذِہِ الآیَۃِ { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَی أَنْ لاَ یُشْرِکْنَ بِاللَّہِ شَیْئًا وَلاَ یَسْرِقْنَ وَلاَ یَزْنِینَ وَلاَ یُقْتَلْنَ أَوْلاَدَہُنَّ } [الممتحنۃ ١٢] الآیَۃَ قَالَ عُرْوَۃُ قَالَتْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : فَمَنْ أَقَرَّ بِہَذَا الشَّرْطِ مِنْہُنَّ قَالَ لَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ بَایَعْتُکِ ۔ کَلاَمًا یُکَلِّمُہَا بِہِ وَاللَّہِ مَا مَسَّتْ یَدُہُ یَدَ امْرَأَۃٍ قَطُّ فِی الْمُبَایَعَۃِ مَا بَایَعَہُنَّ إِلاَّ بِقَوْلِہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٨٣٣) ابن شہاب فرماتے ہیں کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے ساتھ حدیبیہ کے دن ایک مدت تک صلح کی، تو اللہ رب العزت نے اس کے بارے میں قرآن نازل کیا جو ان کے درمیان صلح تھی۔
(ب) عروہ بن زبیر نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ (رض) سے سنا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ نے سہیل بن عمرو کو معاہدہ تحریر کروایا جس میں سہیل بن عمرو نے یہ شرط رکھی تھی کہ ہمارا کوئی آدمی اگرچہ آپ کے دین پر ہوا تو آپ اسے واپس کریں گے تو مومنوں نے اس کو ناپسند کیا اور شور کیا یا کوئی دوسری بات کہی اور سہیل بن عمروکو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تحریر کروایا تو اسی دن ابو جندل کو ان کے والد سھیل بن عمرو کے سپرد کیا گیا اور جو مسلمان بھی اس مدت کے اندر مکہ سے آیا۔ آپ نے واپس کردیا اور مومنہ عورتیں جن میں کلثوم بنت عقب ابن ابی معیط بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئیں تو اس کے گھر والوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس کو واپس نہیں کیا، کیونکہ قرآن نازل ہوا : { اِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لاَ ہُنَّ حِلٌّ لَہُمْ وَلاَ ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ } [الممتحنۃ ١٠]
جب مومنہ عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کا امتحان کرلیا کرو۔ اللہ ان کے ایمانوں کو جانتا ہے اگر تم ان کو مومنہ پاؤ تو کفار کی جانب واپس نہ کرو، وہ عورتیں ان کے لیے اور وہ مرد ان کے لیے حلال نہیں ہیں۔
(ب) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے ذریعے امتحان لیتے تھے : { یاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لاَ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلاَ یَسْرِقْنَ وَلاَ یَزْنِیْنَ وَلاَ یَقْتُلْنَ اَوْلاَدَہُنَّ } [الممتحنۃ ١٢]
اے نبی ! جب آپ کے پاس مومنہ عورتیں آئیں تو اس بات پر بیعت لیں کہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرنا، چوری، زنا اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کرنا۔ عروہ کہتے ہیں : جو اس شرط کا اقرار کرتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیتے : میں نے تجھ سے بیعت لے لی ہے صرف کلام کرتے، اللہ کی قسم ! آپ نے کسی عورت کا بیعت کرتے وقت ہاتھ نہیں چھوا۔

18840

(١٨٨٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَہُمْ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمَعْنَی مَا مَضَی زَادَ ثُمَّ جَائَ نِسْوَۃٌ مُؤْمِنَاتٌ مُہَاجِرَاتٌ الآیَۃَ فَنَہَاہُمُ اللَّہُ أَنْ یَرُدُّوہُنَّ وَأَمَرَہُمْ أَنْ یَرُدُّوا الصَّدَاقَ ۔ [صحیح ]
(١٨٨٣٤) مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح حدیبیہ کے وقت نکلے۔ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ مومنہ عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو اللہ نے ان کو واپس کرنے سے منع کردیا۔ صرف حق مہر واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

18841

(١٨٨٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ وَقَدْ کَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ أَبِی ہُنَیْدَۃَ یَسْأَلَہُ عَنْ قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ {إِذَا جَائَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ } [المتتحنۃ ١٠] فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُرْوَۃُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ صَالَحَ أَہْلَ الْحُدَیْبِیَۃِ وَشَرَطَ لَہُمْ أَنَّہُ مَنْ أَتَاہُ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہِ رَدَّہُ عَلَیْہِمْ فَلَمَّا ہَاجَرَ الْمُسْلِمَاتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَمَرَ ہُ اللَّہُ بِامْتِحَانِہِنَّ فَإِنْ کُنَّ جِئْنَ رَغْبَۃً فِی الإِسْلاَمِ لَمْ یَرُدَّہُنَّ عَلَیْہِمْ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ } [المتتحنۃ ١٠] فَحَبَسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النِّسَائَ وَرَدَّ الرِّجَالَ ۔ [حسن ]
(١٨٨٣٥) زہری کہتے ہیں : میں عروہ بن زبیر کے پاس آیا تو ابن ابی ہنیدہ نے ان سے اللہ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا : { اِذَا جَائَکُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ } [المتتحنۃ ١٠] ” جب آپ کے پاس مومنہ عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان کرلیا کرو “ عروہ بن زبیر نے انھیں جواب لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب صلح حدیبیہ کی تو اس میں شرط تھی کہ جو بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا آپ اس کو واپس کریں گے لیکن جب مسلمان عورتیں ہجرت کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو اللہ نے حکم دیا اگر وہ اسلام میں رغبت کرتے ہوئے آجائیں تو ان کا امتحان کرلیا کرو { فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ } [المتتحنۃ ١٠] اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومنہ ہیں تو کفار کی جانب واپس نہ کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو روک لیا اور مردوں کو واپس کردیا۔

18842

(١٨٨٣٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ قَالاَ : ہَاجَرَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ فَجَائَ أَخَوَاہَا الْوَلِیدُ وَفُلاَنٌ ابْنَا عُقْبَۃَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَطْلُبَانِہَا فَأَبَی أَنْ یَرُدَّہَا عَلَیْہِمَا۔ وَقَدْ مَضَی فِی رِوَایَۃِ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی صُلْحِ حُدَیْبِیَۃَ فَقَالَ سُہَیْلٌ : عَلَی أَنْ لاَ یَأْتِیَکَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ عَلَی دِینِکَ إِلاَّ رَدَدْتَہُ إِلَیْنَا۔ وَفِی ذَلِکَ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّ النِّسَائَ لَمْ یَدْخُلْنَ فِی ہَذَا الشَّرْطِ ۔ [صحیح ]
(١٨٨٣٦) زہری اور عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب حدیبیہ کے سال ہجرت کی تو عقبہ کے دونوں بیٹے بہن کو لینے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، آپ نے اس کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔ (ب) زہری نے صلح حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا کہ سھیل نے معاہدہ میں مرد کی شرط رکھی تھی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورتیں اس میں شامل ہی نہ تھیں۔

18843

(١٨٨٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّسَوِیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ شَاکِرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ قَالَ عَطَائٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : وَإِنْ ہَاجَرَ عَبْدٌ أَوْ أَمَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ أَہْلِ الْعَہْدِ لَمْ یُرَدُّوا وَرُدَّتْ أَثْمَانُہُمْ ۔ أَخْرَجَہُ مُحَمَّدٌ فِی الصَّحِیحِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٥٢٨٧]
(١٨٨٣٧) عطاء حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سینقل فرماتے ہیں کہ اگر کوئی لونڈی یا غلام مشرگینکا جن سے صلح ہے ہجرت کر کے آجائے تو انھیں واپس نہ کیا جائے گا، صرف قیمت ادا کی جائے گی۔

18844

(١٨٨٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ بْنُ قَانِعٍ قَاضَی الْحَرَمَیْنِ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو شُعَیْبٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرَّانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ یَحْیَی الْحَرَّانِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ الْحَرَّانِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ عَبْدَانَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ قَبْلَ الصُّلْحِ فَکَتَبَ إِلَیْہِ مَوَالِیہِمْ قَالُوا : یَا مُحَمَّدُ وَاللَّہِ مَا خَرَجُوا إِلَیْکَ رَغْبَۃً فِی دِینِکَ وَإِنَّمَا خَرَجُوا ہَرَبًا مِنَ الرِّقِّ فَقَالَ نَاسٌ صَدَقُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ رُدَّہُمْ إِلَیْہِمْ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَالَ : مَا أُرَاکُمْ تَنْتَہُونَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ حَتَّی یَبْعَثَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ مَنْ یَضْرِبُ رِقَابَکُمْ عَلَی ہَذَا ۔ وَأَبَی أَنْ یَرُدَّہُمْ وَقَالَ : ہُمْ عُتَقَائُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٣٨) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن صلح سے پہلے دو غلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے تو ان کے ورثاء نے لکھا کہ اے محمد ! یہ آپ کے دین میں رغبت کرتے ہوئے نہیں آئے۔ یہ تو صرف غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ سچے ہیں، غلاموں کو ان کی جانب واپس کردیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصے ہوگئے اور فرمایا : اے قریشی لوگو ! میرا خیال نہیں کہ تم باز آ جاؤ، جب تک اللہ رب العزت تمہارے اوپر ایسے شخص کو مسلط نہ کر دے، جو تمہاری گردنیں مارے تو آپ نے ان غلاموں کو واپس نہ کیا اور فرمایا : یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں۔

18845

(١٨٨٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُکَدَّمِ الثَّقَفِیُّ قَالَ : لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ الطَّائِفِ خَرَجَ إِلَیْہِ رَقِیقٌ مِنْ رَقِیقِہِمْ أَبُو بَکْرَۃَ وَکَانَ عَبْدًا لِلْحَارِثِ بْنِ کَلَدَۃَ وَالْمُنْبَعِثُ وَیُحَنِّسُ وَوَرْدَانُ فِی رَہْطٍ مِنْ رَقِیقِہِمْ فَأَسْلَمُوا فَلَمَّا قَدِمَ وَفْدُ أَہْلِ الطَّائِفِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَسْلَمُوا قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ رُدَّ عَلَیْنَا رَقِیقَنَا الَّذِینَ أَتَوْکَ فَقَالَ : لاَ أُولَئِکَ عُتَقَائُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ وَرَدَّ عَلَی کُلِّ رَجُلٍ وَلاَئَ عَبْدِہِ فَجَعَلَہُ إِلَیْہِ ۔ ہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٣٩) عبداللہ بن مکدم ثقفی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کا محاصرہ کیا تو ان کا ایک غلام آپ کے پاس آگیا ۔ ابو بکرہ حارث بن کلدہ کا غلام تھا۔
جب طائف والوں کے وفد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اسلام قبول کیا تو انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے وہ غلام واپس کردیں جو آپ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے فرمایا : انھیں واپس نہ کیا جائے گا، کیونکہ یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں۔ صرف ان کو غلاموں کی ولاء کی نسبت عطا کردی۔

18846

(١٨٨٤٠) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَعْتَقَ مَنْ خَرَجَ إِلَیْہِ یَوْمَ الطَّائِفِ مِنْ عُبَیْدِ الْمُشْرِکِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٤٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کے دن مشرکین کے جتنے غلام بھی آپ کے پاس آئے آپ نے سب کو آزاد کردیا۔

18847

(١٨٨٤١) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ الْقَاضِی حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ وَسُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ أَرْبَعَۃَ أَعْبُدٍ وَثَبُوا إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَمَنَ الطَّائِفِ فَأَعْتَقَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٤١) مقسم حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ طائف کے موقع پر چار غلام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھاگ آئے تو آپ نے ان کو آزاد کردیا۔

18848

(١٨٨٤٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ عَبْدَیْنِ خَرَجَا مِنَ الطَّائِفِ فَأَسْلَمَا فَأَعْتَقَہُمَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَحَدُہُمَا أَبُو بَکْرَۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٤٢) مقسم حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ طائف کے دو غلاموں نے اسلام قبول کرلیا۔ آپ نے ان دونوں کو آزاد کردیا، ان میں ایک ابو بکرہ تھے۔

18849

(١٨٨٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّسَوِیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ شَاکِرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ قَالَ عَطَائٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : وَإِنْ ہَاجَرَ عَبْدٌ مِنْہُمْ یَعْنِی أَہْلَ الْحَرْبِ أَوْ أَمَۃٌ فَہُمَا حُرَّانِ وَلَہُمَا مَا لِلْمُہَاجِرِینَ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٥٢٨٧]
(١٨٨٤٣) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اہل حرب والوں کا غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آجائیں تو وہ دونوں آزاد ہیں اور انھیں مہاجرین والے حقوق ملیں گے۔

18850

(١٨٨٤٤) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ عَبْدٌ فَبَایَعَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی الْہِجْرَۃِ وَلَمْ یَشْعُرْ أَنَّہُ عَبْدٌ فَجَائَ سَیِّدُہُ یُرِیدُہُ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : بِعْنِیہِ ۔ فَاشْتَرَاہُ بِعَبْدَیْنِ أَسْوَدَیْنِ ثُمَّ لَمْ یُبَایِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّی یَسْأَلَہُ أَعَبْدٌ ہُوَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَلَوْ کَانَ الإِسْلاَمُ یُعْتِقُہُ لَمْ یَشْتَرِ مِنْہُ حُرًّا وَلَکِنَّہُ أَسْلَمَ غَیْرَ خَارِجٍ مِنْ بِلاَدٍ مَنْصُوبٍ عَلَیْہَا الْحَرْبُ ۔ [صحیح۔ بخاری ١٦٠٢]
(١٨٨٤٤) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت پر بیعت کرلی۔ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ غلام ہیں تو اس کا مالک لینے آیا۔ آپ نے فرمایا : مجھے فروخت کر دو تو آپ نے اس کو دو سیاہ غلاموں کے عوض خریدا ۔ اس کے بعد بیعت کے وقت پوچھ لیتے، کیا وہ غلام تو نہیں۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں : اگر اسلام قبول کرنا اس کو آزاد کر دے تو اس سے کسی آزاد کو خریدا نہ جائے گا، لیکن اس شخص کو جو لڑائی کے علاقہ سے نکلے بغیر اسلام قبول کرلیتا ہے۔

18851

(١٨٨٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَہَا إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذا خَاصَمَ فَجَرَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ الثَّوْرِیِّ عَنِ الأَعْمَشِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٤٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ایک علامت ہوئی اس میں نفاق کی علامت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جو معاہدہ کرے اسے توڑ ڈالے، جب لڑائی کرے تو جھگڑا کرے۔

18852

(١٨٨٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ (ح) وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُوالنَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو کَشْمَرْدُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ الْغَادِرَ یُنْصَبُ لَہُ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ ہَذِہِ غَدْرَۃُ فُلاَنٍ ۔ ہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ إِسْمَاعِیلَ وَفِی رِوَایَۃِ مَالِکٍ : إِنَّ الْغَادِرَ یُنْصَبُ لَہُ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ ہَذِہِ غَدْرَۃُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٤٦) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دھوکا باز انسان کی پشت پر جھنڈا نصب کیا جائے گا اور کہا جائے گا۔ یہ فلاں کی خیانت ہے، مالک کی روایات میں ہے کہ قیامت کے دن اس کی پشت پر جھنڈا نصب کیا جائے گا کہ یہ فلاں کی خیانت ہے۔

18853

(١٨٨٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی الْفَیْضِ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ رَجُلٌ مِنْ حِمْیَرَ قَالَ : کَانَ بَیْنَ مُعَاوِیَۃَ وَبَیْنَ الرُّومِ عَہْدٌ وَکَانَ یَسِیرُ نَحْوَ بِلاَدِہِمْ حَتَّی إِذَا انْقَضَی الْعَہْدُ غَزَاہُمْ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَی فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ وَہُوَ یَقُولُ : اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَفَائٌ لاَ غَدْرَ فَنَظَرُوا فَإِذَا عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ مُعَاوِیَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَسَأَلَہُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ فَلاَ یَشُدَّ عُقْدَۃً وَلاَ یَحُلَّہَا حَتَّی یَنْقَضِیَ أَمَدُہَا أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلَی سَوَائٍ ۔ فَرَجَعَ مُعَاوِیَۃُ ۔ [حسن ]
(١٨٨٤٧) سلیم بن عامر حمیر کا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) اور رومیوں کے درمیان عہد تھا۔ امیر معاویہ (رض) ان کے شہروں کی طرف چلتے تاکہ جب عہد کی مدت ختم ہو تو ان پر حملہ کردیں۔ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔ وہ کہہ رہا تھا : اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے ، عہد کو پورا کرو دھوکا نہ دو ، انھوں نے دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ تھے تو معاویہ (رض) نے آدمی بھیج کر پوچھا تو اس نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ، جب آپ اور کسی قوم کے درمیان عہد ہو تو اسے مزید پختہ یا ختم نہ کریں، جب تک مدت ختم نہ ہوجائے یا برابری پر عہد کو ختم کردیں۔

18854

(١٨٨٤٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی الْفَیْضِ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : کَانَ بَیْنَ مُعَاوِیَۃَ وَبَیْنَ الرُّومِ عَہْدٌ فَذَکَرَہُ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الْقَطَّانُ وَیَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ وَأَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ وَسُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَجَمَاعَۃٌ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [حسن ]
(١٨٨٤٨) سلیم بن عامر فرماتے ہیں کہ معاویہ (رض) اور رومیوں کے درمیان عہد تھا۔

18855

(١٨٨٤٩) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُیَیْنَۃَ یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَوْشَنٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ قَتَلَ مُعَاہِدًا فِی غَیْرِ کُنْہِہِ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ ۔ [صحیح۔ اخرجہ السجستانی ٢٧٦٠]
(١٨٨٤٩) ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی معاہدہ کو بغیر تحقیق کے قتل کردیا، اللہ اس پر جنت کو حرام کردیں گے۔

18856

(١٨٨٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِسْحَاقَ ابْنُ الْخُرَاسَانِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَلاَّمٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الشَّیْبَانِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ الْغِفَارِیُّ قَالاَ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا بَشِیرُ بْنُ مُہَاجِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَہْدَ قَطُّ إِلاَّ کَانَ الْقَتْلُ بَیْنَہُمْ وَلاَ ظَہَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ إِلاَّ سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِمُ الْمَوْتَ وَلاَ مَنَعَ قَوْمٌ الزَّکَاۃَ إِلاَّ حَبَسَ اللَّہُ عَنْہُمُ الْقَطْرَ ۔ خَالَفَہُ الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ فَرَوَاہُ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا مِنْ قَوْلِہِ أَتَمَّ مِنْہُ وَرُوِیَ فِی ذَلِکَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨٨٥٠) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا : جو قوم عہد کو توڑتی ہے، ان میں قتل عام ہوجاتا ہے اور جس قوم میں برائی عام ہوجائے ان میں برکتیں عام ہوتی ہیں اور جو قوم زکوۃ ادا نہیں کرتی، ان پر بارشیں نہیں ہوتی۔

18857

(١٨٨٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْخَیْرِ : جَامِعُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَہْدِیٍّ الْوَکِیلُ أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْمُحَمَّدَابَاذِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَبُو ہِلاَلٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لاَ إِیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ وَلاَ دِینَ لِمَنْ لاَ عَہْدَ لَہُ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٢٦٩٠٢]
(١٨٨٥١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص امانت دار نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو وعدہ کی پاسداری نہیں کرتا اس کا دین نہیں۔

18858

(١٨٨٥٢) اسْتِدْلاَلاً بِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ الأَیْلِیِّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیعَ اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللَّہَ فَلاَ یَعْصِہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَغَیْرِہِ عَنْ مَالِکٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَأَسَرَ الْمُشْرِکُونَ امْرَأَۃً مِنَ الأَنْصَارِ وَأَخَذُوا نَاقَۃً لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَانْفَلَتَتْ الأَنْصَارِیَّۃُ عَلَی نَاقَۃِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَذَرَتْ إِنْ نَجَّاہَا اللَّہُ عَلَیْہَا أَنْ تَنْحَرَہَا فَذُکِرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لاَ نَذْرَ فِی مَعْصِیَۃٍ وَلاَ فِیمَا لاَ یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٦٦٩٦۔ ٦٧٠٠]
(١٨٨٥٢) حضرت عائشہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتی ہیں کہ جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی وہ اطاعت کرے اور جس نے نافرمانی کی نذر مانی وہ نہ کرے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : مشرکین نے انصاری عورت کو قید کرلیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پکڑ لی تو انصاری عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پر بھاگ گئی، تو اس عورت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس اونٹنی کو ذبح کرنے کی نذر مانی تھی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چلا تو فرمایا : معصیت میں نذر نہیں اور نہ ہی اس میں نذر ہے جس کا ابن آدم مالک نہیں ہے۔

18859

(١٨٨٥٣) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیدِ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ فَذَکَرَ مَعْنَاہُ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ کَمَا مَضَی۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَرَأَی غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا فَلْیَأْتِ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ وَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَمِینِہِ ۔ [صحیح۔ مسلم ٦١٤١]
(١٨٨٥٣) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی کام پر قسم کھا لیتا ہے، پھر دوسرا کام اس سے بہتر جانتا ہے تو بہتر کام کرے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے۔

18860

(١٨٨٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الأَسْفَاطِیُّ یَعْنِی الْعَبَّاسَ بْنَ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَرَأَی غَیْرَہَا خَیْرًا مِنْہَا فَلْیَأْتِ الَّذِی ہُوَ خَیْرٌ وَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَمِینِہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی أُوَیْسٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : فَأَعْلَمْ أَنَّ طَاعَۃَ اللَّہِ أَنْ لاَ یَفِیَ بِالْیَمِینِ إِذَا کَانَ غَیْرُہَا خَیْرًا وَأَنْ یُکَفِّرَ بِمَا فَرَضَ اللَّہُ مِنَ الْکَفَّارَۃِ وَکُلُّ ہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُ إِنَّمَا یُوفَی بِکُلِّ عَقْدٍ نَذْرٍ وَعَہْدٍ لِمُسْلِمٍ أَوْ مُشْرِکٍ کَانَ مُبَاحًا لاَ مَعْصِیَۃَ لِلَّہِ فِیہِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٦٥٠]
(١٨٨٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی کام پر قسم اٹھائے، پھر دوسرا کام اس سے بہتر جانے تو اچھا کام سر انجام دے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اللہ کی اطاعت اس میں ہے کہ جب دوسرا کام بہتر ہو تو اس کو سر انجام دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر نذر، مسلم کا عہد، یا مشرک کا جائز ہو تو پورا کیا جائے اللہ کی نافرمانی کا عہد پورا نہ کیا جائے۔

18861

(١٨٨٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی قِصَّۃِ بَنِی النَّضِیرِ وَمَا أَجْمَعُوا عَلَیْہِ مِنَ الْمَکْرِ بِالنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالْکَتَائِبِ فَحَصَرَہُمْ فَقَالَ لَہُمْ : إِنَّکُمْ وَاللَّہِ لاَ تَأْمَنُونَ عِنْدِی إِلاَّ بِعَہْدٍ تُعَاہِدُونِی عَلَیْہِ ۔ فَأَبَوْا أَنْ یُعْطُوہُ عَہْدًا فَقَاتَلَہُمْ یَوْمَہُمْ ذَلِکَ ثُمَّ غَدَا عَلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ بِالْکَتَائِبِ وَتَرَکَ بَنِی النَّضِیرِ وَدَعَاہُمْ إِلَی أَنْ یُعَاہِدُوہُ فَعَاہَدُوہُ فَانْصَرَفَ عَنْہُمْ وَغَدَا إِلَی بَنِی النَّضِیرِ بِالْکَتَائِبِ فَقَاتَلَہُمْ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی الْجَلاَئِ فَہَذَا عَہْدُ بَنِی قُرَیْظَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٨٨٥٥) عبدالرحمن بن کعب بن مالک ایک صحابی سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو نضیر کے قصہ میں ہے کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تدبیریں کیں۔ راوی کہتے ہیں کہ صبح کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کے ساتھ ان کا محاصرہ کرلیا اور ان سے کہا : تم میرے نزدیک حالت امن میں نہیں ہو مگر یہ کہ تم اپنے اس عہد پر رہو، جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ انھوں نے عہد دینے سے انکار کردیا تو آپ نے ان سیقتال کیا۔ پھر بنو قریظہ کی طرف لش کرلے کرگئے اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا۔ جب بنو قریظہ سے عہد طلب کیا تو انھوں نے عہد دے دیا پھر آپ بنو قریظہ کو چھوڑ کر بنو نضیر کی طرف چلے گئے۔ پھر وہ جلا وطنی پر تیار ہوگئے، یہ بنو قریظہ کا عہد تھا۔

18862

(١٨٨٥٦) وَأَمَّا نَقْضُہُمُ الْعَہْدَ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ وَحَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ وَحَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ زِیَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ وَعُثْمَانَ بْنِ یَہُوذَا أَحَدُ بَنِی عَمْرِو بْنِ قُرَیْظَۃَ عَنْ رِجَالٍ مِنْ قَوْمِہِ قَالُوا : کَانَ الَّذِینَ حَزَّبُوا الأَحْزَابَ نَفَرٌ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ وَنَفَرٌ مِنْ بَنِی وَائِلٍ وَکَانَ مِنْ بَنِی النَّضِیرِ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ وَکِنَانَۃُ بْنُ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ وَأَبُو عَمَّارٍ وَمِنْ بَنِی وَائِلٍ حَیٌّ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْ أَوْسِ اللَّہِ وَحْوَحُ بْنُ عَمْرٍو وَرِجَالٌ مِنْہُمْ خَرَجُوا حَتَّی قَدِمُوا عَلَی قُرَیْشٍ فَدَعَوْہُمْ إِلَی حَرْبِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَشِطُوا لِذَلِکَ ثُمَّ ذَکَرَ الْقِصَّۃَ فِی خُرُوجِ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَالأَحْزَابِ قَالَ : وَخَرَجَ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ حَتَّی أَتَی کَعْبَ بْنَ أَسَدٍ صَاحِبَ عَقْدِ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَعَہْدِہِمْ فَلَمَّا سَمِعَ بِہِ کَعْبٌ أَغْلَقَ حِصْنَہُ دُونَہُ فَقَالَ : وَیْحَکَ یَا کَعْبُ افْتَحْ لِی حَتَّی أَدْخُلَ عَلَیْکَ فَقَالَ : وَیْحَکَ یَا حُیَیُّ إِنَّکَ امْرُؤٌ مَشْئُومٌ وَإِنَّہُ لاَ حَاجَۃَ لِی بِکَ وَلاَ بِمَا جِئْتَنِی بِہِ إِنِّی لَمْ أَرَ مِنْ مُحَمَّدٍ إِلاَّ صِدْقًا وَوَفَائً وَقَدْ وَادَعَنِی وَوَادَعْتُہُ فَدَعْنِی وَارْجِعْ عَنِّی فَقَالَ : وَاللَّہِ إِنْ غَلَّقْتَ دُونِی إِلاَّ عَنْ جَشِیشَتِکَ أَنْ آکُلَ مَعَکَ مِنْہَا فَأَحْفَظَہُ فَفَتَحَ لَہُ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہِ قَالَ لَہُ : وَیْحَکَ یَا کَعْبُ جِئْتُکَ بِعِزِّ الدَّہْرِ بِقُرَیْشٍ مَعَہَا قَادَتُہَا حَتَّی أَنْزَلْتُہَا بِرُومَۃَ وَجِئْتُکَ بِغَطَفَانَ عَلَی قَادَتِہَا وَسَادَتِہَا حَتَّی أَنْزَلْتُہَا إِلَی جَانِبِ أُحُدٍ جِئْتُکَ بِبَحْرٍ طَامٍّ لاَ یَرُدُّہُ شَیْئٌ فَقَالَ : جِئْتَنِی وَاللَّہِ بِالذُّلِّ وَیْلَکَ فَدَعْنِی وَمَا أَنَا عَلَیْہِ فَإِنَّہُ لاَ حَاجَۃَ لِی بِکَ وَلاَ بِمَا تَدْعُونِی إِلَیْہِ فَلَمْ یَزَلْ حُیَیُّ بْنُ أَخْطَبَ یَفْتِلُہُ فِی الذِّرْوَۃِ وَالْغَارِبِ حَتَّی أَطَاعَ لَہُ وَأَعْطَاہُ حُیَیُّ الْعَہْدَ وَالْمِیثَاقَ لَئِنْ رَجَعَتْ قُرَیْشٌ وَغَطَفَانُ قَبْلَ أَنْ یُصِیبُوا مُحَمَّدًا لأَدْخُلَنَّ مَعَکَ فِی حِصْنِکَ حَتَّی یُصِیبَنِی مَا أَصَابَکَ فَنَقَضَ کَعْبٌ الْعَہْدَ وَأَظْہَرَ الْبَرَائَ ۃَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَا کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ ۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ قَالَ : لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَبَرُ کَعْبٍ وَنَقْضُ بَنِی قُرَیْظَۃَ بَعَثَ إِلَیْہِمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ وَسَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ وَخَوَّاتَ بْنَ جُبَیْرٍ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ رَوَاحَۃَ لِیَعْلَمُوا خَبَرَہُمْ فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَیْہِمْ وَجَدُوہُمْ عَلَی أَخْبَثِ مَا بَلغَہُمْ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ فَذَکَرَ قِصَّۃَ سَبَبِ إِسْلاَمِ ثَعْلَبَۃَ وَأَسِیدٍ ابْنَیْ سَعْیَۃَ وَأَسَدِ بْنِ عُبَیْدٍ وَنُزُولِہِمْ عَنْ حِصْنِ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَإِسْلاَمِہِمْ وَخَرَجَ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ فِیمَا زَعَمَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَمْرُو بْنُ سَعْدِیِّ الْقُرَظِیُّ فَمَرَّ بِحَرَسِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَعَلیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ فَلَمَّا رَآہُ قَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالَ : أَنَا عَمْرُو بْنُ سَعْدِیِّ وَکَانَ عَمْرٌو قَدْ أَبَی أَنْ یَدْخُلَ مَعَ بَنِی قُرَیْظَۃَ فِی غَدْرِہِمْ وَقَالَ : لاَ أَغْدِرُ بِمُحَمَّدٍ أَبَدًا فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ حِینَ عَرَفَہُ : اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنِی عَثَرَاتِ الْکِرَامِ ثُمَّ خَلَّی سَبِیلَہُ فَخَرَجَ حَتَّی بَاتَ فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تِلْکَ اللَّیْلَۃَ ثُمَّ ذَہَبَ فَلَمْ یُدْرَ أَیْنَ ذَہَبَ مِنَ الأَرْضِ فَذُکِرَ شَأْنُہُ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : ذَلِکَ رَجُلٌ نَجَّاہُ اللَّہُ بِوَفَائِہِ ۔ وَذَکَرَ مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ فِی ہَذِہِ الْقِصَّۃِ : أَنَّ حُیِیًّا لَمْ یَزَلْ بِہِمْ حَتَّی شَأَمَہُمْ فَاجْتَمَعَ مَلَؤُہُمْ عَلَی الْغَدْرِ عَلَی أَمْرِ رَجُلٍ وَاحِدٍ غَیْرَ أَسَدٍ وَأَسِیدٍ وَثَعْلَبَۃَ خَرَجُوا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨٨٥٦) محمد بن کعب لقرظی اور بنو عمر وبن قریظہ کے ایک شخص عثمان بن یہوذا، اپنی قوم کے افراد سے نقل کرتے ہیں کہ لوگوں نے لشکر ترتیب دیے۔ بنو نضیر کا گروپ، بنو واصل کا گروپ، بنو نضیر سے حیی بن اخطب، کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق، ابو عمار اور بنو واقل سے اوس اللہ، حوح بن عمرو اور کچھ ان کے قبیلہ کے، یہ تمام مل کر قریش کے پاس آئے۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کے لیے ابھار رہے تھے ۔ پھر اس نے ابو سفیان بن حرب اور لشکروں کے آنے کا تذکرہ کیا اور حیی بن اخطب کی آواز سنی تو قلعہ کا دروازہ بند کرلیا تو حیی نے کہا : اے کعب ! تجھ پر افسوس دروازہ کھولو، میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں تو کعب نے کہا : اے حیی بن اخطب ! تو منحوس آدمی ہے ، مجھے نہ تو تیری ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی جو تو لے کر آیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ محمد وعدہ پورا کرتے ہیں، میرا ان سے معاہدہ ہے تو واپس پلٹ جا، مجھے چھوڑ دے تو حیی بن اخطب نے کہا : تو نے دروازہ بند کرلیا ہے۔ میں آپ کے ساتھ مل کر دلیا کھانے والا ہوں۔ اس کو حفاظت کا یقین دلایا تو اس نے دروازہ کھول دیا۔ جب کعب کے پاس گیا تو کہنے لگا : اے کعب ! میں تیرے پاس زمانہ کی عزت قریش کو لے کر آیا ہوں ۔ ان کے ساتھ رومی بھی ہیں اور میں تیرے پاس غطفان کی سیادت و قیادت کو لے کر احد کی ایک جانب اتارا ہے۔ میں تیرے پاس موجیں مارتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں، جس کو کوئی چیز روک نہیں سکتی تو کعب نے کہا : تو میرے پاس ذلت لے کر آیا ہے ، مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ، مجھے تیری اور جس کی دعوت دیتے ہو کوئی ضرورت نہیں، حیی بن اخطب اس کو پھسلاتا رہا، یہاں تک کہ کعب نے حیی کی بات مان لی اور حیی نے اس کو عہد وپیما دیا، اگر قریش وغطفان محمد کو قتل کرنے سیپہلیچلے گئے تو میں آپ کے ساتھ قلعے میں رہوں گا ، جو مصیبت و پریشانی آپ کو آئے گی، مجھے بھی آئے گی تو کعب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہوا عہد توڑ ڈالا اور برأت کا اظہار کردیا۔
ابن اسحاق فرماتے ہیں : عاصم بن عمر بن قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کعب کے عہد توڑنے کی خبر ملی تو سعد بن عبادہ، سعد بن معاذ، خوات بن جبیر، عبداللہ بن رواحہ کو خبر کی تصدیق کے لیے روانہ کیا تو بات ویسے ہی تھی جیسے خبر ملی تھی۔
ابن اسحاق فرماتے ہیں : عاصم بن عمر بن قتادہ بنو قریظہ کے ایک شیخ سے نقل فرماتے ہیں کہ ثعلبہ، اسید جو سعیہ کے بیٹے ہیں، اسید بن عبید کے اسلام لانے کا سبب نقل فرماتے ہیں اور بنو قریظہ کے قلعے سے اترنے کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اس رات جب وہ قلعہ سے نکلے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہرہ دار محمد بن مسلمہ کے پاس سے گذرے تو انھوں نے پوچھا : کون ؟ کہا : میں عمرو بن سعدی ہوں تو عمرو نے بنو قریظہ کے ساتھ ان کے غدر میں شمولیت سے معذرت کرلی اور کہا : میں محمد سے کبھی وعدہ خلافی نہ کروں گا۔ جب محمد بن مسلمہ نے پہحان لیا تو کہنے لگے : اے اللہ ! مجھے معزز لوگوں کی تکریم سے محروم نہ کرنا، پھر اس کا راستہ چھوڑ دیا تو اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں رات گزاری۔ پھر ان کے جانے کے علم نہ ہوسکا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چلا تو فرمایا : اللہ نے اس کی وفا کی وجہ سے نجات دی ہے۔
موسیٰ بن عقبہ اس قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حیی بن اخطب اپنی نحوست کے ساتھ ان کے ساتھ شامل رہا، لیکن اسد، اسید اور ثعلب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے۔

18863

(١٨٨٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ یَہُودَ النَّضِیرِ وَقُرَیْظَۃَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ حَتَّی حَارَبَتْ قُرَیْظَۃَ بَعْدَ ذَلِکَ فَقَتَلَ رِجَالَہُمْ وَقَسَمَ نِسَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ وَأَوْلاَدَہُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلاَّ بَعْضَہُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَّنَہُمْ وَأَسْلَمُوا۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٨٥٧) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو نضیر و قریظہ کے یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور بنو قریظہ کو برقرار رکھا، اس پر احسان کیا۔ جب بنو قریظہ نے جنگ کی تو ان کے مرد قتل کردیے گئے، عورتیں، مال اور اولاد مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ لیکن بعض لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل گئے۔

18864

(١٨٨٥٨) قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَذَلِکَ إِنْ نَقَضَ رَجُلٌ مِنْہُمْ فَقَاتَلَ کَانَ لِلإِمَامِ قِتَالُ جَمَاعَتِہِمْ قَدْ أَعَانَ عَلَی خُزَاعَۃَ وَہُمْ فِی عَقْدِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثَلاَثَۃُ نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ فَشَہِدُوا قِتَالَہُمْ فَغَزَا النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قُرَیْشًا عَامَ الْفَتْحِ بِغَدْرِ النَّفَرِ الثَّلاَثَۃِ وَتَرْکِ الْبَاقِینَ مَعُونَۃَ خُزَاعَۃَ وَإِیوَائِہِمْ مَنْ قَاتَلَ خُزَاعَۃَ ۔
سابقہ حدیث کی طرح ہے

18865

(١٨٨٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ جَمِیعًا قَالاَ : کَانَ فِی صُلْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قُرَیْشٍ أَنَّہُ مَنْ شَائَ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَہْدِہِ دَخَلَ وَمَنْ شَائَ أَنْ یَدْخُلَ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ دَخَلَ فَتَوَاثَبَتْ خُزَاعَۃُ فَقَالُوا نَحْنُ نَدْخُلُ فِی عَقْدِ مُحَمَّدٍ وَعَہْدِہِ وَتَوَاثَبَتْ بَنُو بَکْرٍ فَقَالُوا نَحْنُ نَدْخُلُ فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ فَمَکَثُوا فِی تِلْکِ الْہُدْنَۃِ نَحْوَ السَّبْعَۃِ أَوِ الثَّمَانِیَۃِ عَشَرَ شَہْرًا ثُمَّ إِنَّ بَنِی بَکْرٍ الَّذِینَ کَانُوا دَخَلُوا فِی عَقْدِ قُرَیْشٍ وَعَہْدِہِمْ وَثَبُوا عَلَی خُزَاعَۃَ الَّذِینَ دَخَلُوا فِی عَقْدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَعَہْدِہِ لَیْلاً بِمَائٍ لَہُمْ یُقَالُ لَہُ الْوَتِیرُ قَرِیبٍ مِنْ مَکَّۃَ فَقَالَتْ قُرَیْشٌ مَا یَعْلَمُ بِنَا مُحَمَّدٌ وَہَذَا اللَّیْلُ وَمَا یَرَانَا أَحَدٌ فَأَعَانُوہُمْ عَلَیْہِمْ بِالْکُرَاعِ وَالسِّلاَحِ فَقَاتَلُوہُمْ مَعَہُمْ لِلضِّغْنِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَإِنَّ عَمْرَو بْنَ سَالِمٍ رَکِبَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَمَا کَانَ مِنْ أَمْرِ خُزَاعَۃَ وَبَنِی بَکْرٍ بِالْوَتِیرِ حَتَّی قَدِمَ الْمَدِینَۃَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُخْبِرُہُ الْخَبَرَ وَقَدْ قَالَ أَبْیَاتَ شِعْرٍ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْشَدَہُ إِیَّاہَا اللَّہُمَّ إِنِّی نَاشِدٌ مُحَمَّدَا کُنَّا وَالِدًا وَکُنْتَ وَلَدَا فَانْصُرْ رَسُولَ اللَّہِ نَصْرًا عَتَدَا فِیہِمْ رَسُولُ اللَّہِ قَدْ تَجَرَّدَا فِی فَیْلَقٍ کَالْبَحْرِ یَجْرِی مُزْبِدَا وَنَقَضُوا مِیثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا فَہُمْ أَذَلُّ وَأَقَلُّ عَدَدَا ہُمْ بَیَّتُونَا بِالْوَتِیرِ ہُجَّدَا حِلْفَ أَبِینَا وَأَبِیہِ الأَتْلَدَا ثُمَّتَ أَسْلَمْنَا وَلَمْ نَنْزِعْ یَدَا وَادْعُوا عِبَادَ اللَّہِ یَأْتُوا مَدَدَا إِنْ سِیمَ خَسْفًا وَجْہُہُ تَرَبَّدَا إِنَّ قُرَیْشًا أَخْلَفُوکَ الْمَوْعِدَا وَزَعَمُوا أَنْ لَسْتُ أَدْعُو أَحَدَا قَدْ جَعَلُوا لِی بِکَدَائٍ مَرْصَدَا فَقَتَلُونَا رُکَّعًا وَسُجَّدَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نُصِرْتَ یَا عَمْرَو بْنَ سَالِمٍ ۔ فَمَا بَرِحَ حَتَّی مَرَّتْ عَنَانَۃٌ فِی السَّمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ ہَذِہِ السَّحَابَۃَ لَتَسْتَہِلُّ بِنَصْرِ بَنِی کَعْبٍ ۔ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النَّاسَ بِالْجِہَازِ وَکَتَمَہُمْ مَخْرَجَہُ وَسَأَلَ اللَّہَ أَنْ یُعَمِّیَ عَلَی قُرَیْشٍ خَبَرَہُ حَتَّی یَبْغَتَہُمْ فِی بِلاَدِہِمْ ۔ [حسن ]
(١٨٨٥٩) عروہ بن زبیر مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے دن صلح ہوئی کہ جو چاہے محمد کے عہد میں شامل ہوجائے اور جو چاہے قریش کے عہد اور معاہدے میں شامل ہوجائے تو بنو خزاعہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد اور معاہدہ میں شمولیت اختیار کرلی اور بنو بکر جو قریش کے عہد میں شامل تھے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا، وتسیر نامی جگہ پر جو مکہ کے قریب تھی، قریش نے کہا کہ اس رات محمد یا کوئی اور ہمیں دیکھ نہیں رہا تو انھوں نے بنو بکر کی بنو خزاعہ کے خلاف اسلحے سے مدد کی اور خود بھی لڑے تو عمرو بن سالم سوار ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور بنو خزاعہ کی خبر دی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر یہ اشعار پڑھے۔
” اے اللہ ! میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قسم دیتا ہوں، اپنے باپ کی اور ان کے باپ کی جو مال والے ہیں۔ ہم والد تھے اور آپ بچے تھے پھر ہم اسلام لے آئے اور ہم نے ہاتھ نہیں کھینچا۔ (اے اللہ ! ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح مدد کر۔ اللہ کے بندوں کو پکارو وہ مدد کے لیے آئیں گے۔ ان میں اللہ کے رسول ہیں جو تنہا رہ گئے ہیں۔ اگر گہری نظر سے دیکھو تو ان کا چہرہ چمک رہا ہے ایسے لشکر میں جو سمندر کی طرح ہے اور غبار اڑا رہا ہے۔ قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ کے پختہ عہد کو توڑا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ ہم کسی کو نہیں پکاریں گے حالانکہ وہ رسوا اور کم تعداد والے ہیں۔ انھوں نے میرے لیے کداء مقام میں مورچہ بنادیا ہے، ہم نے آرام پانے کے لیے سو کر رات گزاری تو انھوں نے ہم سے اس حال میں جنگ لڑی جب ہم رکوع و سجود کی حالت میں تھے۔ “
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمرو بن سالم ! تو مدد کیا گیا ہے، وہ ٹھہرا رہا کہ آسمان سے بادل گزرے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بادل بنو کعب کی مدد کی نشانی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو تیاری کا حکم دے دیا اور نکلنے کے راز کو پوشیدہ رکھا اور اللہ رب العزت سے دعا کی کہ قریش کو خبر نہ ہو یہاں تک کہ ان کے شہر پر حملہ کردیا جائے۔

18866

(١٨٨٦٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَتَّابٍ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : ثُمَّ إِنَّ بَنِی نُفَاثَۃَ مِنْ بَنِی الدِّیلِ أَغَارُوا عَلَی بَنِی کَعْبٍ وَہُمْ فِی الْمُدَّۃِ الَّتِی بَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَیْنَ قُرَیْشٍ وَکَانَتْ بَنُو کَعْبٍ فِی صُلْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَانَتْ بَنُو نُفَاثَۃَ فِی صُلْحِ قُرَیْشٍ فَأَعَانَتْ بَنُو بَکْرٍ بَنِی نُفَاثَۃَ وَأَعَانَتْہُمْ قُرَیْشٌ بِالسِّلاَحِ وَالرَّقِیقِ وَاعْتَزَلَہُمْ بَنُو مُدْلِجٍ وَوَفُّوا بِالْعَہْدِ قَالَ وَیَذْکُرُونَ أَنَّ مِمَّنْ أَعَانَہُمْ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ وَشَیْبَۃُ بْنُ عُثْمَانَ وَسُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فَأَغَارَتْ بَنُو الدِّیلِ عَلَی بَنِی عَمْرٍو وَعَامَّتُہُمْ زَعَمُوا النِّسَائُ وَالصِّبْیَانُ وَضُعَفَائُ الرِّجَالِ فَأَثْخَنُوہُمْ وَقَتَلُوا مِنْہُمْ حَتَّی أَدْخَلُوہُمْ دَارَ بُدَیْلِ بْنِ وَرْقَائَ بِمَکَّۃَ قَالَ فَخَرَجَ رَکْبٌ مِنْ بَنِی کَعْبٍ حَتَّی أَتَوْا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَذَکَرُوا لَہُ الَّذِی أَصَابَہُمْ وَمَا کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَیْہِمْ فِی ذَلِکَ وَالَّذِی أَعَانُوا بِہِ عَلَیْہِمْ ثُمَّ ذَکَرَ جِہَازَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَدُخُولَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَیْہِ قَالَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَتُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ مَخْرَجًا قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ لَعَلَّکَ تُرِیدُ ابْنَ الأَصْفَرِ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : أَفَتُرِیدُ أَہْلَ نَجْدٍ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَلَعَلَّکَ تُرِیدُ قُرَیْشًا قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : أَلَیْسَ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُمْ مُدَّۃً قَالَ : أَلَمْ یَبْلُغْکَ مَا صَنَعُوا بِبَنِی کَعْبٍ ۔ وَأَذَّنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی النَّاسِ بِالْغَزِوِ ۔ وَأَمَّا الْحَکَمُ بَیْنَ الْمُعَاہِدِینَ فَقَدْ مَضَی ذِکْرُہُ فِی کِتَابِ الْحُدُودِ وَالْغَصْبِ وَغَیْرِہِمَا۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦٠) اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو نفاثہ جو بنو دیل سے ہیں۔ انھوں نے بنو کعب پر حملہ کردیا اور وہ اس معاہدہ کی مدت میں تھے۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریشیوں کے درمیان تھا تو بنو کعب صلح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، جبکہ بنو نفاثہ قریشیوں کے ساتھ شامل تھے بنو بکر نے بنو نفاثہ کی مدد کی اور قریشیوں نے اسلحے اور غلاموں سے ان کا تعاون کیا، لیکن بنو مدلج جدا رہے اور انھوں نے عہد کو پورا کیا۔ راوی فرماتے ہیں کہ ان کی مدد صفوان بن امیہ، شیبہ بن عثمان، سھیل بن عمرو نے کی تو بنودیل نے بنو عمرو پر اور ان کے عام لوگوں پر حملہ کردیا، عورتوں بچوں اور کمزور مردوں کا خون بہایا اور ان میں سے بعض بدیل بن ورقاء کے گھر داخل ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں : بنو کعب کے ایک سوار نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا حال سنایا اور جو قریشوں نے ان کے خلاف مدد کی بتایا۔ پھر اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تیاری اور ابوبکر (رض) کا آپ کے پاس آنے کا تذکرہ کیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں لڑائی کا ارادہ ہے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : شاہد آپ رومیوں کا ارادہ کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، ابوبکر (رض) نے پوچھا : کیا اہل نجد سے لڑائی کا ارادہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان سے لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں۔ پوچھا : کیا آپ قریش سے لڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ابوبکر (رض) کہنے لگے : کیا آپ اور ان کے درمیان معاہدہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : کیا تجھے خبر نہیں ملی جو انھوں نے بنو کعب کے ساتھ کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں جہاد کا اعلان کردیا۔

18867

(١٨٨٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیدَ عَنْ عَطَائِ بْنِ دِینَارٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لاَ تَعَلَّمُوا رَطَانَۃَ الأَعَاجِمِ وَلاَ تَدْخُلُوا عَلَی الْمُشْرِکِینَ فِی کَنَائِسِہِمْ یَوْمَ عِیدِہِمْ فَإِنَّ السُّخْطَۃَ تَنْزِلُ عَلَیْہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦١) عطاء بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم عجمیوں کی زبان نہ سیکھو اور نہ مشرکین کے معبد خانوں میں ان کی عید کے دن داخل نہ ہو، کیونکہ اللہ کی ناراضگی ان پر اترتی ہے۔

18868

(١٨٨٦٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْفَارِسِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الأَصْفَہَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ فَارِسٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ قَالَ قَالَ لِی ابْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ یَزِیدَ سَمِعَ سُلَیْمَانَ بْنَ أَبِی زَیْنَبَ وَعَمْرَو بْنَ الْحَارِثِ سَمِعَ سَعِیدَ بْنَ سَلَمَۃَ سَمِعَ أَبَاہُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : اجْتَنِبُوا أَعْدَائَ اللَّہِ فِی عِیدِہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦٢) سعید بن سلمہ کے والدنے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سنا، فرماتے ہیں کہ تم اللہ کے دشمنوں کی عید سے اجتناب کرو۔

18869

(١٨٨٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ قَالَ ذَکَرَ سُفْیَانُ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْوَلِیدِ أَوْ أَبِی الْوَلِیدِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَنْ بَنَی بِبِلاَدِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَیْرُوزَہُمْ وَمِہْرَجَانَہُمْ وَتَشَبَّہَ بِہِمْ حَتَّی یَمُوتَ وَہُوَ کَذَلِکَ حُشِرَ مَعَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ الإِمَامُ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ الشَّیْخُ أَبُو سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ تَنَی ہُوَ الصَّوَابُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦٣) عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس نے عجمیوں کے شہر تعمیر کیے اور ان کے تہواروں کی جگہ تعمیر کی اور ان سے مشابہت اختیار کرتا ہے تو کل قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا۔

18870

(١٨٨٦٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَنْ بَنَی فِی بِلاَدِ الأَعَاجِمِ فَصَنَعَ نَوْرُوزَہُمْ وَمِہْرَجَانَہُمْ وَتَشَبَّہَ بِہِمْ حَتَّی یَمُوتَ وَہُوَ کَذَلِکَ حُشِرَ مَعَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ وَہَکَذَا رَوَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ وَابْنُ أَبِی عَدِیٍّ وَغُنْدَرٌ وَعَبْدُ الْوَہَّابُ عَنْ عَوْفٍ عَنْ أَبِی الْمُغِیرَۃِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو مِنْ قَوْلِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦٤) ابو مغیرہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جس نے عجمیوں کے شہر تعمیر کیے اور ان کے تہواروں کی جگہ تعمیر کی اور ان سے موت تک مشابہت اختیار کی تو کل قیامت کے دن اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا۔

18871

(١٨٨٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ قَالَ : أُتِیَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِہَدِیَّۃِ النَّیْرُوزِ فَقَالَ : مَا ہَذِہِ ؟ قَالُوا : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ہَذَا یَوْمُ النَّیْرَوزِ ۔ قَالَ : فَاصْنَعُوا کُلَّ یَوْمٍ فَیْرُوزَ ۔ قَالَ أَبُو أُسَامَۃَ : کَرِہَ أَنْ یَقُولَ نَیْرُوزَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَفِی ہَذَا کَالْکَرَاہَۃِ لِتَخْصِیصِ یَوْمٍ بِذَلِکَ لَمْ یَجْعَلْہُ الشَّرْعُ مَخْصُوصًا بِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٨٦٥) محمد بن سیرین فرماتی ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس تہوار والے دن تحفے لائے گئے تو انھوں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : اے امیر المؤمنین ! یہ تہوار کا دن ہے۔ فرمایا : تم ہر دن کو فیروز بنا لو تو ابو اسامہ نے کہا : انھوں نے نیروز کہنا بھی پسند نہ کیا۔ شیخ فرماتے ہیں کہ صرف ان کا کسی ایک دن کو مخصوص کرنے کی وجہ سے تھا کیونکہ شریعت نے اس کو مخصوص نہ کیا تھا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔