hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Al Bayhaqi

61. سیر کا بیان

سنن البيهقي

17707

(١٧٧٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ : إِنِّی لَجَالِسٌ عِنْدَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ جَائَ ہُ قَوْمٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ فَقَالَ : اقْبَلُوا الْبُشْرَی یَابَنِی تَمِیمٍ ۔ قَالُوا قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ قَالَ : فَدَخَلَ عَلَیْہِ أُنَاسٌ مِنْ أَہْلِ الْیَمَنِ فَقَالَ : اقْبَلُوا الْبُشْرَی یَا أَہْلَ الْیَمَنِ إِذْ لَمْ یَقْبَلْہَا بَنُو تَمِیمٍ ۔ قَالُوا : قَدْ قَبِلْنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ جِئْنَا لِنَتَفَقَّہَ فِی الدِّینِ وَنَسْأَلَکَ عَنْ أَوَّلِ ہَذَا الأَمْرِ مَا کَانَ قَالَ : کَانَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ یَکُنْ شَیْئٌ قَبْلَہُ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَکَتَبَ فِی الذِّکْرِ کُلَّ شَیْء ۔ قَالَ : وَأَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ رَاحِلَتُکَ أَدْرِکْ نَاقَتَکَ فَقَدْ ذَہَبَتْ ۔ فَانْطَلَقْتُ فِی طَلَبِہَا فَإِذَا السَّرَابُ یَنْقَطِعُ دُونَہَا وَایْمُ اللَّہِ لَوَدِدْتُ أَنَّہَا ذَہَبَتْ وَأَنِّی لَمْ أَقُمْ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣١٩٠، ٣١٩٢، ٤٣٦٠، ٤٣٨٦]
(١٧٧٠١) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کے پاس بنی تمیم کے لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا : اے بنو تمیم ! خوش ہو جاؤ، انھوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں بشارت تو سنا دی۔ کچھ عطاء بھی کریں۔ حضرت عمران بن حصین نے کہا کہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اہل یمن میں سے کچھ لوگ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اہل یمن ! تم بشارت قبول کرو، جبکہ بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کی بشارتِ (اسلام) کو قبول کیا اور ہم آپ کے پاس دین سیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہاں پر پہلے کیا تھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلے اللہ عزوجل ہی کی ذات تھی اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر کہا کہ اے عمران بن حصین ! اپنی سواری کا خیال کرو۔ وہ بھاگ گئی ہے۔ حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں اونٹنی کی تلاش میں نکلا اور وہ ریتلا علاقہ پار کرچکی تھی۔ پھر کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں نے یہ خواہش کی کہ کاش میں اونٹنی کے پیچھے نہ جاتا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سنتا رہتا۔

17708

(١٧٧٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنٍ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِیہِ قَالُوا : جِئْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ ہَذَا الأَمْرِ قَالَ : کَانَ اللَّہُ وَلَمْ یَکُنْ شَیْئٌ غَیْرُہُ وَعَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ وَکَتَبَ فِی الذِّکْرِ کُلَّ شَیْئٍ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ غِیَاثٍ ۔ وَالْمُرَادُ بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ثُمَّ خَلَقَ الْمَائَ وَخَلَقَ الْعَرْشَ عَلَی الْمَائِ وَخَلَقَ الْقَلَمَ وَأَمَرَہُ فَکَتَبَ فِی الذِّکْرِ کُلَّ شَیْئٍ ۔ [صحیح۔ کما تقدم ]
(١٧٧٠٢) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا۔ پھر انھوں نے حدیث بیان کی اور اس میں یہ الفاظ اس طرح تھے کہ انھوں نے کہا : ہم آپ سے عالم کی پیدائش کے بارے میں سوال کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اللہ ہی تھا اور اس کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا اور آسمان و زمین کو پیدا کیا۔
اس حدیث کو امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں عمر بن حفص بن غیاث سے روایت کیا ہے اور اس سے مراد اللہ بہتر جانتا ہے یہ ہے پھر پانی کو پیدا کیا اور پانی پر عرش کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھ دیا۔

17709

(١٧٧٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِم : زَیْدُ بْنُ أَبِی ہَاشِمٍ الْعَلَوِیُّ بِالْکُوفَۃِ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْعَبْسِیُّ أَخْبَرَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی ظَبْیَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ شَیْئٍ الْقَلَمُ فَقَالَ اکْتُبْ ۔ قَالَ : یَا رَبِّ وَمَا أَکْتُبُ ؟ قَالَ : اکْتُبِ الْقَدَرَ ۔ قَالَ : فَجَرَی بِمَا ہُوَ کَائِنٌ مِنْ ذَلِکَ الْیَوْمِ إِلَی قِیَامِ السَّاعَۃِ قَالَ ثُمَّ خَلَقَ النُّونَ فَدَحَا الأَرْضَ عَلَیْہَا فَارْتَفَعَ بُخَارُ الْمَائِ فَفَتَقَ مِنْہُ السَّمَوَاتِ وَاضْطَرَبَ النُّونُ فَمَادَتِ الأَرْضُ فَأُثْبِتَتْ بِالْجِبَالِ وَإِنَّ الْجِبَالَ لَتَفْخَرُ عَلَی الأَرْضِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٠٣) حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ چیزوں میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اسے کہا : لکھ۔ اس نے کہا : اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے کہا : تقدیر کو لکھو۔ پس اس نے جو کچھ اس دن سے لے کر قیامت تک ہونا تھا لکھ دیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا : پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو پیدا کیا اور اس پر زمین کو پھیلا دیا۔ اس طرح پانی سے بخارات بلند ہوئے تو اس سے آسمان الگ ہوگئے اور مچھلی نے حرکت کی تو زمین کے اندر پھیلاؤ اور جنبش آئی تو اس کو پہاڑوں سے ثابت اور مضبوط کردیا گیا اور اسی وجہ سے پہاڑ زمین پر قیامت تک فخر کرتے ہیں۔

17710

(١٧٧٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ الرَّازِیُّ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَمِیلٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ رَبَاحِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَبِیبٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِی بَزَّۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ کَانَ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ شَیْئٍ خَلَقَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ الْقَلَمُ وَأَمَرَہُ فَکَتَبَ کُلَّ شَیْئٍ یَکُونُ ۔ وَرُوِیَ ذَلِکَ أَیْضًا فِی حَدِیثِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ مَرْفُوعًا۔ [صحیح ]
(١٧٧٠٤) حضرت ابن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے پہلے اللہ عزوجل نے قلم کو پیدا کیا اور اسے ہر وہ چیز جو ہونے والی تھی لکھنے کا حکم دیا۔ اور یہی چیز عبادہ بن صامت کی مرفوع حدیث میں بیان ہوئی ہے۔

17711

(١٧٧٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ بْنِ الْحَسَنِ الْفَقِیہُ قَالَ قُرِئَ عَلَی یَحْیَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزِّبْرِقَانِ وَأَنَا أَسْمَعُ أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الأَعْوَرُ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ أُمَیَّۃَ عَنْ أَیُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ : أَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِیَدِی : فَقَالَ خَلَقَ اللَّہُ التُّرْبَۃَ یَوْمَ السَّبْتِ وَخَلَقَ فِیہَا الْجِبَالَ یَوْمَ الأَحَدِ وَخَلَقَ الشَّجَرَ یَوْمَ الاِثْنَینِ وَخَلَقَ الْمَکْرُوہَ یَوْمَ الثَّلاَثَائِ وَخَلَقَ النُّورَ یَوْمَ الأَرْبَعَائِ وَبَثَّ فِیہَا الدَّوَابَّ یَوْمَ الْخَمِیسِ وَخَلَقَ آدَمَ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ آخِرَ الْخَلْقِ فِی آخِرِ سَاعَۃٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَۃِ فِیمَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَی اللَّیْلِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُرَیْجِ بْنِ یُونُسَ وَہَارُونَ بْنِ عَبْدِاللَّہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ ۔[صحیح۔ مسلم ]
(١٧٧٠٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور مکروہ چیزوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانداروں کو زمین پر جمعرات کے دن پھیلایا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا جو آخری مخلوق ہیں اور جمعہ کی گھڑیوں میں آخری گھڑی عصر اور مغرب کے درمیان ہے۔

17712

(١٧٧٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الدَّامَغَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الأَزْہَرِ الطُّوسِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ بَقِیَّۃَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَظُنُّہُ عَنْ أَخِیہِ عُبَیْدِ اللَّہِ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ فِی الْجُمُعَۃِ لَسَاعَۃً لاَ یَسْأَلُ اللَّہَ فِیہَا عَبْدٌ شَیْئًا إِلاَّ أَعْطَاہُ إِیَّاہُ ۔ قَالَ وَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلاَمٍ : إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی بَدَأَ الْخَلْقَ فَخَلَقَ الأَرْضَ یَوْمَ الأَحَدِ وَیَوْمَ الاِثْنَیْنِ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الثُّلاَثَائِ وَیَوْمَ الأَرْبِعَائِ وَخَلَقَ الأَقْوَاتَ وَمَا فِی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ یَوْمَ الْخَمِیسِ وَیَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَرَغَ مِنْ ذَلِکَ عِنْد صَلاَۃِ الْعَصْرِ فَتِلْکَ السَّاعَۃُ مَا بَیْنَ الْعَصْرِ إِلَی غُرُوبِ الشَّمْسِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٠٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے جس میں کوئی بندہ اپنے رب سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ وہ اسے عطا کردیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عبداللہ بن سلام (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خلق کی ابتدا کی۔ اتوار کو اور پھر زمین کو پیدا کیا اور منگل اور بدھ کو آسمانوں کو پیدا کیا اور جمعرات اور جمعہ کو خوراک اور جو کچھ زمین میں ہے ان کو پیدا کیا اور ان چیزوں کی پیدائش سے عصر کی نماز کے قریب فارغ ہوئے پس یہ ہے گھڑی جو عصر اور غروب شمس کے درمیان ہے۔

17713

(١٧٧٠٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الصَّنْعَانِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ أَخْبَرَنِی عَوْفٌ عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ مِنْ أَدِیمِ الأَرْضِ کُلِّہَا فَخَرَجَتْ ذُرِّیَّتُہُ عَلَی حَسَبِ ذَلِکَ مِنْہُمُ الأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَالأَسْمَرُ وَالأَحْمَرُ وَمِنْہُمْ بَیْنَ ذَلِکَ وَمِنْہُمُ السَّہْلُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٠٧) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو روئے زمین کی تمام مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر اس کی اولاد اسی مناسبت سے پیدا ہوئی۔ ان میں سے بعض سفید ہیں اور بعض سیاہ، اور کچھ سانولے (گندمی) رنگ کے ہیں تو کچھ سرخ ہیں اور اسی طرح ان میں سے کچھ نرم مزاج ہیں اور کچھ خبیث النفس ہیں اور کچھ اچھے ہیں۔

17714

(١٧٧٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ قَالاَ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ عَنْ عَوْفٍ الأَعْرَابِیِّ عَنْ قَسَامَۃَ بْنِ زُہَیْرٍ عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : خُلِقَ آدَمُ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الأَرْضِ فَجَائَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَسْوَدُ وَالسَّہْلُ وَالْحَزَنُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٠٨) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جو اس نے تمام زمین سے لی تھی تو آدم کی اولاد بھی اسی زمین کی مناسبت سے پیدا ہوئی۔ ان میں کچھ سرخ ہیں اور کچھ سیاہ اور کچھ نرم ہیں اور کچھ سخت اور اسی طرح کچھ اچھے ہیں اور کچھ برے۔

17715

(١٧٧٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ ابْنُ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی وَأَبُو الأَزْہَرِ وَحَمْدَانُ السُّلَمِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُول اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : خُلِقَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ مسلم ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونَ } [الذاریات ٥٦] قَالَ الشَّافِعِیُّ : خَلَقَ اللَّہُ الْخَلْقَ لِعِبَادَتِہِ یَعْنِی مَنْ شَائَ مِنْ عِبَادِہِ أَوْ لِیَأْمُرَ مَنْ شَائَ مِنْہُمْ بِعِبَادَتِہِ وَیَہْدِی مِنْ یَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ۔
(١٧٧٠٩) حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جن آگ کے شعلے سے اور آدم کی پیدائش کا وصف بیان کردیا گیا ہے (وہ تم جانتے ہی ہو) ۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن } [الذاریات ٥٦] کہ ” میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ “
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، یعنی اپنے بندوں میں سے جسے چاہا یا اپنی عبادت کا حکم دیا اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلا کر منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔

17716

(١٧٧١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدٍ أَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ سَمِعْتُ الأَوْزَاعِیَّ حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ یَزِیدَ وَیَحْیَی بْنُ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ فَیْرُوزَ الدَّیْلَمِیُّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ خَلَقَ خَلْقَہُ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ أَلْقَی عَلَیْہِمْ مِنْ نُورِہِ فَمَنْ أَصَابَہُ مِنْ ذَلِکَ النُّورِ یَوْمَئِذٍ شَیْئٌ اہْتَدَی وَمَنْ أَخْطَأَہُ ضَلَّ فَلِذَلِکَ أَقُولُ جَفَّ الْقَلَمُ عَلَی عِلْمِ اللَّہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : ثُمَّ أَبَانَ جَلَّ ثَنَاؤُہُ أَنَّ خِیرَتَہُ مِنْ خَلْقِہِ أَنْبِیَاؤُہُ فَقَالَ { کَانَ النَّاسُ أَمَۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ } [البقرۃ ٢١٣] فَجَعَلَ نَبِیَّنَا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ أَصْفِیَائِہِ دُونَ عِبَادِہِ بِالأَمَانَۃِ عَلَی وَحْیِہِ وَالْقِیَامِ بِحُجَّتِہِ فِیہِمْ ۔ [صحیح۔ الدیلمی ]
(١٧٧١٠) عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنا نور ڈالا۔ جس کو اس دن اس نور میں سے کچھ مل گیا تو اس نے تو ہدایت پا لی اور جس کو یہ نور نہ ملا تو وہ گمراہ ہوگیا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ قلمیں لکھ کر خشک ہوگئی ہیں اللہ کے علم کے مطابق۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : پھر اللہ عزوجل نے واضح کردیا کہ اس کی مخلوق میں سے بہترین مخلوق انبیاء ہیں جیسا کہ اس کا فرمان ہے : { کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ } [البقرۃ ٢١٣] کہ ” پہلے سب لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا “ پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بندوں میں سے اپنی وحی پر امانت کے لیے اور ان میں اپنی حجت قائم کرنے کے لیے چن لیا۔

17717

(١٧٧١١) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ إِدْرِیسَ السَّامَرِّیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ السَّعِیدِیُّ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ جُرَیْجٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ کَمِ النَّبِیُّونَ ؟ قَالَ : مِائَۃُ أَلْفِ نَبِیٍّ وَأَرْبَعَۃٌ وَعِشْرُونَ أَلْفِ نَبِیٍّ ۔ قُلْتُ : کَمِ الْمُرْسَلُونَ مِنْہُمْ ؟ قَالَ : ثَلاَثُمِائَۃٍ وَثَلاَثَۃَ عَشَرَ ۔ تَفَرَّدَ بِہِ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ السَّعِیدِیُّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧١١) ابو ذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسجد میں داخل ہوا۔ پھر انھوں نے حدیث بیان کی حتیٰ کہ کہا کہ میں نے کہا یا رسول اللہ ! کتنے نبی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ میں نے کہا ان میں رسول کتنے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین سو تیرہ۔

17718

(١٧٧١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَا مِنَ الأَنْبِیَائِ مِنْ نَبِیٍّ إِلاَّ وَقَدْ أُعْطِیَ مِنَ الآیَاتِ مَا مِثْلُہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاہُ اللَّہُ إِلَیَّ فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ وَغَیْرِہِ عَنِ اللَّیْثِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ ثُمَّ ذَکَرَ مِنْ خَاصَّۃِ صَفْوَتِہِ فَقَالَ {إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ } [آل عمران ٣٣] وَسَاقَ الشَّافِعِیُّ الْکَلاَمَ عَلَیْہِ إِلَی أَنْ قَالَ ثُمَّ اصْطَفَی مُحَمَّدًا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ خَیْرِ آلِ إِبْرَاہِیمَ وَأَنْزَلَ کُتُبَہُ قَبْلَ إِنْزَالِہِ الْفُرْقَانَ عَلَی مُحَمَّدٍ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِصِفَۃِ فَضِیلَتِہِ وَفَضِیلَۃِ مَنْ تَبِعَہُ فَقَالَ { مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنْ اللَّہِ وَرُضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ } الآیَۃَ ۔ [الفتح ٢٩]
(١٧٧١٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انبیاء میں سے کوئی ایسا نبی نہیں مگر یہ کہ جتنے لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اسی قدر اللہ تعالیٰ اسے اپنی نشانیاں اور معجزات عطاء فرماتے ہیں اور جو مجھے نشانی اور معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف کی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن ان سب سے زیادہ میرے پیرو کار ہوں گے۔
امام شافعی (رح) نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ خاص بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : { اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرَھِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔ } [آل عمران ٣٣] ” بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہانوں پر چن لیا “ اور اس آیت پر امام شافعی اپنا کلام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : پھر اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کے منتخب لوگوں میں سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرقان حمید نازل کرنے سے پہلے اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے پیرو کاروں کی فضیلت کا وصف اس طرح بیان کیا : { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ۔۔۔ الخ } [الفتح ٢٩] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے ساتھی کافروں پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحیم و کریم۔ آپ ان کو کبھی رکوع میں اور کبھی سجدے میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ ان کی علامات ان کے چہروں میں کثرت سجود کی وجہ سے نمایاں ہوں گی۔ یہ ان کی مثال توراۃ میں ہے اور انجیل میں۔ وہ ایک کھیتی کی طرح ہیں جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر وہ اس پر کھڑی ہوئی اور مضبوط ہو کر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ “

17719

(١٧٧١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ وَسَعِیدُ بْنُ عُثْمَانَ قَالاَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَکْرٍ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ حَدَّثَنِی أَبُو عَمَّارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ فَرُّوخَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَا سَیِّدُ بَنِی آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الأَرْضُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ الأَوْزَاعِیِّ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٢٧٨]
(١٧٧١٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں قیامت کے دن بنی آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی (اور میں نکلوں گا) اور سب سے پہلے میں ہی شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی۔

17720

(١٧٧١٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ بْنُ بَرْہَانَ وَأَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ وَغَیْرُہُمْ قَالُوا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِکٍ الْمُزَنِیُّ عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَا أَوَّلُ شَفِیعٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَنَا أَکْثَرُ الأَنْبِیَائِ تَبَعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّ مِنَ الأَنْبِیَائِ لَمَنْ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا مَعَہُ مُصَدِّقٌ غَیْرُ وَاحِدٍ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ أَوْجُہٍ عَنِ الْمُخْتَارِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٦]
(١٧٧١٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور قیامت کے دن تمام انبیاء سے زیادہ میرے ہی پیروکار ہوں گے اور انبیاء میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے کہ قیامت کے دن ان کا صرف ایک ہی آدمی تصدیق کرنے والا ہوگا۔

17721

(١٧٧١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الشَّیْبَانِیُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُوالْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا سَیَّارٌ حَدَّثَنَا یَزِیدُ الْفَقِیرُ أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی وَجُعِلَتْ لِیَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُورًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِی أَدْرَکَتْہُ الصَّلاَۃُ فَلْیُصَلِّ وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ وَکُلُّ نَبِیٍّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی الرَّبِیعِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ ہُشَیْمٍ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧١٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں عطاء کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں عطا کی گئیں : میری رعب کے ساتھ ایک مہینے کی مسافت پر (دشمن پر) مدد کی گئی اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال کیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور میرے لیے زمین کو مسجد اور پاک بنادیا گیا تو میری امت کے جس آدمی کو بھی جہاں پر بھی نماز کا وقت ہوجائے تو وہ وہیں نماز پڑھ لے اور مجھے شفاعتِ (کبریٰ ) عطا کی گئی اور ہر نبی کو ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔

17722

(١٧٧١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا الْعَنْبَرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلاَمِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ خَیْثَمَۃَ قَالَ : قَرَأَ رَجُلٌ عَلَی عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سُورَۃَ الْفَتْحِ فَلَمَّا بَلَغَ { کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ } [الفتح ٣٩] قَالَ : لِیَغِیظَ اللَّہُ بِالنَّبِیِّ وَبِأَصْحَابِہِ الْکُفَّارَ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ : أَنْتُمُ الزَّرْعُ وَقَدْ دَنَا حَصَادُہُ ۔ [صحیح ] (ش) قَالَ الشَّافِعِیُّ وَقَالَ لأُمَّتِہِ { کُنْتُمْ خَیْرَ أَمَۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ } الآیَۃَ [آل عمران ١١٠] فَفَضَّلَہُمْ بِکَیْنُونَتِہِمْ مِنْ أُمَّتِہِ دُونَ أُمَمِ الأَنْبِیَائِ قَبْلَہُ ۔
(١٧٧١٦) حضرت خیثمہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے سامنے پر سورة الفتح کی تلاوت کی۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا : { کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ۔۔۔} [الفتح ٣٩] تو انھوں نے کہا : لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ سے مراد ہے کہ اللہ نبی اور اس کے اصحاب سے کفار کو غصہ دلائے۔ پھر حضرت عبداللہ (رض) نے کہا : ( (انتم الزرع قددنا حصادہ) ) کہ تم کھیتی ہو جس کے کاٹنے کا وقت قریب آگیا ہے۔
امام شافعی (رح) نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق فرمایا : { کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ } [آل عمران ١١٠] اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اس لیے فضیلت دی ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے نہ کہ سابقہ انبیاء کی امتوں کی وجہ سے۔

17723

(١٧٧١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا بَہْزُ بْنُ حَکِیمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیُّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّکُمْ تُوَفُّونَ سَبْعِینَ أُمَّۃً أَنْتُمْ خَیْرُہَا وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ [حسن ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : ثُمَّ أَخْبَرَ جَلَّ ثَنَاؤُہُ أَنَّہُ جَعَلَہُ فَاتِحَ رَحْمَتِہِ عِنْدَ فَتْرَۃِ رُسُلِہِ فَقَالَ { یَا أَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَائَ کُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلَی فَتْرَۃٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَائَ نَا مِنْ بَشِیرٍ وَلاَ نَذِیرٍ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ} [المائدۃ ١٩] وَقَالَ { ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الأُمِّیِّینَ رَسُولاً مِنْہُمْ } [الجمعۃ ٢] وَکَانَ فِی ذَلِکَ مَا دَلَّ عَلَی أَنَّہُ بَعَثَہُ إِلَی خَلْقِہِ لأَنَّہُمْ کَانُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَأُمِّیِّینَ وَإِنَّہُ فَتَحَ بِہِ رَحْمَتَہُ وَخَتَمَ بِہِ نُبُوَّتَہُ فَقَالَ { مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ } [الاحزاب ٤٠]
(١٧٧١٧) حضرت بہز بن حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : ” تم ستر سے زیادہ امتوں میں تقسیم ہو جاؤ گے اور تم ان سب سے بہتر اور اللہ کے ہاں مکرم ہو گے۔ “
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ پہلے والے رسل کی رسالت کے منقطع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی (رسالت) اور آپ کی ذات کو فاتح رحمت قرار دیا ہے۔ لہٰذا فرمایا : { یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ} [المائدۃ ١٩] ” اے اہل کتاب ! یقیناً ہمارا رسول تمہارے پاس رسول کی آمد کے ایک وقفے کے بعد پہنچا ہے۔ جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کررہا ہے تاکہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی، برائی سنانے والا آیا ہی نہیں۔ پس اب تو یقیناً خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا آپہنچا۔ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : { ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ } [الجمعۃ ٢] ” وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔۔۔“ ان آیات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی تمام مخلوق کے لیے بھیجا ہے، کیونکہ ان میں اہل کتاب بھی تھے اور ناخواندہ بھی اور آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو کھولا اور سلسلہ نبوت کو ختم کیا اور اس بارے میں فرمان بھی جاری کردیا : { مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ } [الاحزاب ٤٠] ”(لوگو ! ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ “

17724

(١٧٧١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : فُضِّلْتُ عَلَی الأَنْبِیَائِ بِسِتٍّ أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکَلاَمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الأَرْضُ طُہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّونَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوبَ وَغَیْرِہِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ ۔ [صحیح۔ مسلم ٥٢٣]
(١٧٧١٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے انبیاء پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی : مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے اور میری رعب، دبدبہ کے ساتھ مدد کی گئی۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا اور میرے لیے زمین کو پاک اور مسجد بنادیا گیا اور مجھے تمام مخلوق کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا اور میرے ساتھ سلسلہ نبوت کو ختم کیا گیا۔ “

17725

(١٧٧١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الذُّہْلِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ حَیَّانَ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ مِینَائَ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا سَلِیمُ بْنُ حَیَّانَ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ مِینَائَ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَثَلِی وَمَثَلُ الأَنْبِیَائِ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ ابْتَنَی دَارًا ۔ وَقَالَ یَزِیدُ : بَنَی دَارًا فَأَحْسَنَہَا وَأَکْمَلَہَا إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُونَہَا وَیَتَعَجَّبُونَ مِنْہَا وَیَقُولُونَ لَوْلاَ مَوْضِعُ ہَذِہِ اللَّبِنَۃِ ۔ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَأَنَا مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الأَنْبِیَائَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ سَلِیمٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَأَبِی کُرَیْبٍ عَنْ عَفَّانَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَضَی أَنْ أَظْہَرْ دِینَہُ عَلَی الأَدْیَانِ فَقَالَ { ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ } [التوبۃ ٣٣] الآیَۃَ قَالَ وَقَدْ وَصَفْنَا بَیَانَ کَیْفَ یُظْہِرُہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ فِی غَیْرِ ہَذَا الْمَوْضِعِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧١٩) جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی ماند ہے جس نے گھر بنایا اور اسے بڑا خوبصورت بنایا اور اسے ایک اینٹ کی جگہ کے سوا مکمل بنایا۔ لوگ اس میں داخل ہونے لگے اور اس سے تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے : کیوں نہیں اس اینٹ کی جگہ کو پر کیا گیا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پس وہ اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ میں آیا اور میرے ساتھ انبیاء کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ “
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : { ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [التوبۃ ٣٣] ” وہی اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے “ اور امام صاحب نے اس کے غالب ہونے کی کیفیت کو دوسری جگہ بیان کردیا ہے۔

17726

(١٧٧٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ خَبَّابٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : شَکَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہُ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَقُلْنَا : أَلاَ تَدْعُو اللَّہَ لَنَا أَلاَ تَسْتَنْصِرُ اللَّہَ لَنَا ؟ قَالَ فَجَلَسَ مُحْمَارًّا وَجْہُہُ ثُمَّ قَالَ : وَاللَّہِ إِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ لَیُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَیُحْفَرُ لَہُ الْحُفْرَۃُ فَیُوضَعُ الْمِیشَارُ عَلَی رَأْسِہِ فَیُشَقُّ بِاثْنَیْنِ مَا یَصْرِفُہُ عَنْ دِینِہِ أَوْ یُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مَا بَیْنَ عَصَبِہِ وَلَحْمِہِ مَا یَصْرِفُہُ عَنْ دِینِہِ وَلَیُتَمِّمَنَّ اللَّہُ ہَذَا الأَمْرَ حَتَّی یَسِیرَ الرَّاکِبُ مِنْکُمْ مِنْ صَنْعَائَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ لاَ یَخْشَی إِلاَّ اللَّہَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَی غَنَمِہِ وَلَکِنَّکُمْ تَعْجَلُونَ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ إِسْمَاعِیلَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢٠) حضرت خباب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (تنگ دستی) کی شکایت کی اور آپ اپنی چادر سے کعبہ کے سایہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا : آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے، ہمارے لیے اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تم میں سے جو پہلے (ایمان دار) لوگ تھے ان میں سے کسی ایک کو پکڑا جاتا اور اس کے لیے گڑھا کھودا جاتا۔ پھر اس کے سر پر آرا رکھا جاتا اور اس کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔ یہ چیز بھی ان کو ان کے دین سے نہ پھیر سکی، لوہے کی کنگھیوں سے اس کے پٹھوں اور گوشت کے درمیان سے نوچا جاتا اور یہ تکلیف بھی اسے اس کے دین سے نہ روک سکتی اور اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور ضرور غالب اور پورا کرے گا حتیٰ کہ تم میں سے ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہ ہوگا، نہ بھیڑیے کا اپنی بکریوں پر لیکن تم جلدی کرتے ہو۔

17727

(١٧٧٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاہِرِ : أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخْبَرَتْہُ قَالَتْ : کَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃَ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لاَ یَرَی رُؤْیَا إِلاَّ جَائَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلاَئُ فَکَانَ یَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ فَیَتَحَنَّثُ فِیہِ وَہُوَ التَّعَبُّدُ اللَّیَالِیَ أُولاَتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ یَرْجِعَ إِلَی أَہْلِہِ وَیَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ یَرْجِعُ إِلَی خَدِیجَۃَ فَتُزَوِّدُہُ بِمِثْلِہَا حَتَّی فَجَئَہُ الْحَقُّ وَہُوَ فِی غَارِ حِرَائٍ فَجَائَ ہُ الْمَلَکُ فَقَالَ : اقْرَأْ ۔ فَقَالَ : مَا أَنَا بِقَارِئٍ ۔ قَالَ : فَأَخَذَنِی فَغَطَّنِی حَتَّی بَلَغَ مِنِّی الْجَہْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِی فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِی فَغَطَّنِی الثَّانِیَۃَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّی الْجَہْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِی فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِی فَغَطَّنِی الثَّالِثَۃَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّی الْجَہْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِی فَقَالَ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ } [العلق ١-٤] ۔ فَرَجَعَ بِہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَرْجُفُ بَوَادِرُہُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِیجَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فَقَالَ : زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی ۔ فَزَمَّلُوہُ حَتَّی ذَہَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِیجَۃَ : أَیْ خَدِیجَۃُ مَا لِی ؟ ۔ وَأَخْبَرَہَا الْخَبَرَ قَالَ : لَقَدْ خَشِیتُ عَلَی نَفْسِی ۔ قَالَتْ لَہُ خَدِیجَۃُ : کَلاَّ أَبْشِرْ فَوَاللَّہِ لاَ یُخْزِیکَ اللَّہُ أَبَدًا وَاللَّہِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِہِ خَدِیجَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا حَتَّی أَتَتْ بِہِ وَرَقَۃَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قُصَیٍّ وَہُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِیجَۃَ ابْنِ أَخِی أَبِیہَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِیَّ وَیَکْتُبُ مِنَ الإِنْجِیلِ بِالْعَرَبِیَّۃِ مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یَکْتُبَ وَکَانَ شَیْخًا کَبِیرًا قَدْ عَمِیَ فَقَالَتْ لَہُ خَدِیجَۃُ : أَیْ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِیکَ ۔ قَالَ وَرَقَۃُ بْنُ نَوْفَلٍ : ابْنَ أَخِی مَاذَا تَرَی ؟ فَأَخْبَرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَبَرَ مَا رَأَی فَقَالَ لَہُ وَرَقَۃُ : ہَذَا النَّامُوسُ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَی مُوسَی یَا لَیْتَنِی فِیہَا جَذَعًا یَا لَیْتَنِی أَکُونُ حَیًّا حِینَ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ ۔ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَوَمُخْرِجِیَّ ہُمْ ؟ ۔ قَالَ وَرَقَۃُ : نَعَمْ لَمْ یَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِہِ إِلاَّ عُودِیَ وَإِنْ یُدْرِکْنِی یَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا۔ رَوَاہُ مُسْلِم فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ یُونُسَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢١) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں اچھے خوابوں سے ہوئی اور جو بھی آپ خواب دیکھتے وہ حالت بیداری میں صبح کی روشنی کی طرح پورا ہوجاتا۔ پھر آپ کو تنہائی اچھی لگنے لگی اور غار حرا میں اکیلے رہنے لگے اور کئی راتوں تک وہاں عبادت کرتے۔ اس سے پہلے پہلے جب تک کہ آپ کے دل میں گھر آنے کا شوق پیدا ہوتا اور اس کام کے لیے اپنے ساتھ زاد راہ لے جاتے۔ پھر جب (زاد راہ ختم ہوجاتا) تو اتنا ہی زاد راہ پھر حضرت خدیجہ (رض) سے لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی غار حرا میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اچانک وحی آگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا : پڑھیے ! آپ نے فرمایا : میں تو پڑھا (لکھا) نہیں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ کو پکڑ کر ایسا دبایا کہ میں بےطاقت ہوگیا۔ پھر انھوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے میں نے کہا کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔ پھر انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور دوسری بار زور سے دبایا کہ میں بےسکت ہوگیا۔ پھر انھوں نے مجھے چھوڑا اور کہا : پڑھ، میں نے کہا : (کیسے پڑھوں) میں تو پڑھا (لکھا) نہیں ہوں۔ پھر انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور تیسری بار پھر زور سے بھینچا حتیٰ کہ میری طاقت نے جواب دے دیا۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے { اِقْرأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ } [العلق ١-٤]” اس پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے (تمام چیزیں) بنائیں۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آیات سن کر لوٹے اور آپ کا دل (ڈر کے مارے) کانپ رہا تھا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور کہا : ” مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ۔ “ انھوں نے کمبل اوڑھا دیا حتیٰ کہ آپ سے خوف جاتا رہا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدیجہ (رض) سے کہا : اے خدیجہ ! مجھے کیا ہوگیا ہے اور پورا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کے بارے میں ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : ہرگز نہیں آپ خوش ہو جاؤ۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچ بات بیان کرتے ہیں اور ناتواؤں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور جن کا کوئی کمانے والا نہیں ہوتا ان کے لیے کماتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور حادثوں (اور جھگڑوں) میں حق کی مدد کرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ (رض) آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی جو حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے اور وہ بت پرستی چھوڑ کر جاہلیت کے زمانے میں عیسائی بن گئے تھے اور وہ کتاب کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور انجیل جو اللہ نے ان سے لکھوانا چاہی عربی میں لکھتے تھے اور وہ بوڑھے ضعیف ہو کر اندھے ہوگئے تھے تو انھیں حضرت خدیجہ (رض) نے کہا : اے میرے چچا (زاد بھائی) ! اپنے بھتیجے سے کی بات تو سنو ! حضرت ورقہ بن نوفل نے کہا : اے میرے بھتیجے ! (کہو) تم نے کیا دیکھا ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دیکھا تھا وہ ان سے بیان کیا تو ورقہ بن نوفل نے آپ سے کہا : یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا گیا۔ کاش ! میں اس وقت نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کو آپ کی قوم جلا وطن کرتی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا وہ مجھ کو نکال دیں گے۔ ورقہ نے کہا : ہاں ! (بےشک وہ آپ کو نکال دیں گے) جب کبھی کسی شخص نے ایسی بات کہی جیسی آپ کہتے ہو تو لوگ اس کے دشمن بن گئے اور اگر میں آپ کے اس دن کو پالوں تو میں تمہاری پوری قوت سے مدد کروں گا۔ “

17728

(١٧٧٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مُکْرَمٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَۃَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ یَقُولُ أَخْبَرَنِی جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : فَتَرَ الْوَحْیُ عَنِّی فَبَیْنَمَا أَنَا أَمْشِی سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَائِ فَرَفَعْتُ بَصَرِی قِبَلَ السَّمَائِ فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِی جَائَ نِی بِحِرَائٍ قَاعِدٌ عَلَی کُرْسِیٍّ بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْہُ فَرَقًا حَتَّی ہَوَیْتُ إِلَی الأَرْضِ فَجِئْتُ أَہْلِی فَقُلْتُ لَہُمْ زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی فَزَمَّلُونِی فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبُّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ } [المدثر ١-٥] ۔ قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ : وَالرُّجْزُ الأَوْثَانُ ۔ قَالَ : ثُمَّ حَمِیَ الْوَحْیُ بَعْدُ وَتَتَابَعَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢٢) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : پھر کچھ دیر مجھ سے وحی کا توقف ہوگیا اور اسی دوران میں ایک بار (راستے میں) جا رہا تھا۔ اتنے میں میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، آنکھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان میں ایک کرسی پر (معلق) بیٹھا ہے۔ میں یہ دیکھ کر ڈر گیا حتیٰ کہ میں زمین کی طرف جھکا اور میں گھر کو لوٹا اور ان سے کہا : مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو کمبل اوڑھا دو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : { یاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنذِرْ ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ۔ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ۔ وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ۔ } [المدثر ١-٦]” اے کپڑا اوڑھنے والے ! کھڑا ہوجا اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ اور ناپاکی کو چھوڑ دے اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر۔ “

17729

(١٧٧٢٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو سَہْلٍ : بِشْرُ بْنُ أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ عَقِیلٍ ہُوَ الْخُسْرَوْجَرْدِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِکِ بْنُ شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّی أَخْبَرَنِی عُقَیْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَۃَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ یَقُولُ أَخْبَرَنِی جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : ثُمَّ فَتَرَ الْوَحْیُ عَنِّی فَتْرَۃً ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمَعْنَاہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ شُعَیْبٍ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢٣) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر ایک مدت کے لیے مجھ پر وحی کا نزول بند ہوگیا۔ اس کے بعد اوپر والی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔

17730

(١٧٧٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدِ ابْنُ الشَّرْقِیِّ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : إِنَّ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ } [العلق ١] [صحیح ]
(١٧٧٢٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ قرآن مجید میں جس چیز کا پہلے نزول ہوا، وہ { اِقْرأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ }[العلق ١] ہے۔

17731

(١٧٧٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ { وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ } [الشعراء ٢١٤] وَرَہْطَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِینَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی صَعِدَ عَلَی الصَّفَا فَہَتَفَ : وَاصَبَاحَاہُ ۔ فَقَالُوا : مَنْ ہَذَا الَّذِی یَہْتِفُ ؟ قَالُوا : مُحَمَّدٌ۔ قَالَ : فَاجْتَمَعُوا إِلَیْہِ فَقَالَ : یَا بَنِی فُلاَنٍ یَا بَنِی فُلاَنٍ یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَرَأَیْتُکُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ خَیْلاً تَخْرُجُ بِسَفْحِ ہَذا الْجَبَلِ أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ ؟ ۔ قَالُوا : مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ کَذِبًا۔ قَالَ : فَإِنِّی نَذِیرٌ لَکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ۔ قَالَ فَقَالَ أَبُو لَہَبٍ : تَبًّا لَکَ مَا جَمَعْتَنَا إِلاَّ لِہَذَا۔ ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ { تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ } [اللہب ١] وَقَدْ تَبَّ کَذَا قَرَأَ الأَعْمَشُ إِلَی آخِرِ السُّورَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یُوسُفَ بْنِ مُوسَی عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢٥) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : { وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ } کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے اور ان میں سے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخلص جماعت ہے ان کو بھی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور صفا (پہاڑی) پر چڑھ کر آپ نے ( (وَا صَبَاحَاہْ ) ) کی زور دار آواز سے بلایا تو لوگوں نے کہا : یہ کون بلانے والا ہے (بعض) نے کہا ” محمد “ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تمام لوگ جمع ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بنی فلاں ! اے بنی فلاں ! اے بنی عبد مناف ! اے بنی عبدالمطلب ! تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے۔ انھوں نے کہا : ہم نے کبھی بھی آپ کو جھوٹا نہیں پایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک میں تمہیں آنے والے سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں “ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابو لہب نے کہا تو ہلاک ہوجائے، کیا اسی کام کے لیے تو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا۔ پھر وہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورة کو نازل کیا { تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ } [اللہب ١] ” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا۔ “ اسی طرح اعمش نے آخر سورة تک تلاوت کی۔

17732

(١٧٧٢٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ فَحَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - { وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ } [الشعراء ٢١٤- ٢١٥] قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَرَفْتُ أَنِّی إِنْ بَادَأْتُ بِہَا قَوْمِی رَأَیْتُ مِنْہُمْ مَا أَکْرَہُ فَصَمَتُّ عَلَیْہَا فَجَائَ نِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَکَ بِہِ رَبُّکَ عَذَّبَکَ رَبُّکَ ۔ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً فِی جَمْعِہِمْ وَإِنْذَارِہِ إِیَّاہُمْ ۔[ضعیف ]
(١٧٧٢٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی : { وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ } [الشعراء ٢١٤- ٢١٥] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے جان لیا کہ اگر اس کے ساتھ میں نے اپنی قوم سے ابتدا کی تو میں وہ چیز دیکھوں گا جسے میں ناپسند کرتا ہوں اور اس لیے میں اس کے بیان کرنے سے خاموش رہا۔ میرے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انھوں نے کہا کہ اے محمد ! اگر آپ نے اپنے رب کے اس حکم کو پورا نہ کیا تو وہ آپ کو عذاب دے گا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جمع ہونے کا اور ڈرانے کا قصہ بیان کیا۔

17733

(١٧٧٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ ابْنُ الْحَمَّامِیِّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ النِّجَادُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَنْصَارِیُّ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ عَبَّادٍ الدُّؤَلِیِّ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِذِی الْمَجَازِ یَتْبَعُ النَّاسَ فِی مَنَازِلِہِمْ یَدْعُوہُمْ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَوَرَائَ ہُ رَجُلٌ وَہُوَ یَقُولُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ لاَ یَغُرَّنَّکُمْ عَنْ دِینِکُمْ وَدِینِ آبَائِکُمْ ۔ قُلْتُ : مَنْ ہَذَا ؟ قَالُوا : عَمُّہُ أَبُو لَہَبٍ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٧٢٧) حضرت ربیعہ بن عباد دولی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ ذی الحجاز میں لوگوں کے پیچھے ان کے گھروں میں جاتے اور ان کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے اور آپ کے پیچھے پیچھے ایک آدمی تھا جو لوگوں کو پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگو ! یہ تمہیں تمہارے آباء و اجداد کے دین کے متعلق دھوکے میں نہ ڈال دے۔ میں نے کہا : یہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو لہب ہیں۔

17734

(١٧٧٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَإِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ أَخْبِرْنِی أَبِی قَالَ سَمِعْتُ الأَوْزَاعِیَّ قَالَ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّیْمِیُّ حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ : حَدِّثْنِی بِأَشَدِّ شَیْئٍ صَنَعَہُ الْمُشْرِکُونَ بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَقْبَلَ عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُصَلِّی عِنْدَ الْکَعْبَۃِ فَلَوَی ثَوْبَہُ فِی عُنُقِہِ فَخَنَقَہُ خَنْقًا شَدِیدًا فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخَذَ بِمَنْکِبَیْہِ فَدَفَعَہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ (أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّہُ وَقَدْ جَائَ کُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّکُمْ ) أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ الأَوْزَاعِیِّ ۔[صحیح۔ اخرجہ البخاری ]
(١٧٧٢٨) عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے سوال کیا اور کہا کہ مجھے مشرکین کی سب سے زیادہ سخت تکلیف بیان کریں جو انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچائی۔ انھوں نے کہا کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے آپ کی گردن میں کپڑا لپیٹ کر زور سے دبایا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) آئے اور انھوں نے اس کے دونوں کندھوں سے پکڑ کر اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور کیا اور کہا : ( (اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدْ جَائَ کُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ) ) ” کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ اس پر تمہارے رب کی طرف سے دلائل بھی لایا ہے ؟ “

17735

(١٧٧٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : جَنَاحُ بْنُ نَذِیرِ بْنِ جَنَاحٍ الْقَاضِی بِالْکُوفَۃِ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِی غَرَزَۃَ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَیْنَمَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَائِمٌ یُصَلِّی عِنْدَ الْکَعْبَۃِ وَجَمْعُ قُرَیْشٍ فِی مَجَالِسِہِمْ یَنْظُرُونَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ مِنْہُمْ أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَی ہَذَا الْمُرَائِی أَیُّکُمْ یَقُومُ إِلَی جَزُورِ آلِ فُلاَنٍ فَیَعْمِدُ إِلَی فَرْثِہَا وَدَمِہَا وَسَلاَہَا فَیَجِیئُ بِہِ ثُمَّ یُمْہِلُہُ حَتَّی إِذَا سَجَدَ وَضَعَہُ بَیْنَ کَتِفَیْہِ فَانْبَعَثَ أَشْقَاہَا فَجَائَ بِہِ فَلَمَّا سَجَدَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَضَعَہُ بَیْنَ کَتِفَیْہِ وَثَبَتَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَاجِدًا وَضَحِکُوا حَتَّی مَالَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ مِنَ الضَّحِکِ فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا وَہِیَ جُوَیْرِیَۃُ فَأَقْبَلَتْ تَسْعَی حَتَّی أَلْقَتْہُ عَنْہُ وَأَقْبَلَتْ عَلَیْہِمْ تَسُبُّہُمْ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الصَّلاَۃَ قَالَ : اللَّہُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ۔ ثَلاَثًا ثُمَّ سَمَّی : اللَّہُمَّ عَلَیْکَ بِعَمْرِو بْنِ ہِشَامٍ وَبِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ وَعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ وَعُمَارَۃَ بْنِ الْوَلِیدِ ۔ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ : وَاللَّہِ لَقَدْ رَأَیْتُہُمْ صَرْعَی یَوْمَ بَدْرٍ یُسْحَبُونَ إِلَی قَلِیبِ بَدْرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ الْقَلِیبِ لَعْنَۃً ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ مُوسَی وَأَخْرَجَہُ ہُوَ وَمُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٢٩) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین اپنی مجالس میں جمع ہو کر دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا : کیا تم اس ریا کار کی طرف نہیں دیکھتے ہو تم میں سے کون آل فلاں کے اونٹ کی طرف جائے گا اور اس کی گوبر، خون اور اوجھڑی لائے اور پھر ان کے سجدے میں جانے کا انتظار کرے اور جب وہ سجدے میں چلا جائے تو اس کے کندھوں کے درمیان میں رکھ دے تو قوم کا سب سے زیادہ بدبخت انسان اٹھا اور وہ اوجھڑی وغیرہ لے آیا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں گئے تو اس بدبخت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کندھوں کے درمیان میں رکھ دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں ہی ٹھہرے رہے تو وہ یہ منظر دیکھ کر ہنسنے لگے حتیٰ کہ شدید ہنسی کی وجہ سے ان کا بعض بعض پر گرنے لگ گیا تو ایک جانے والا حضرت فاطمہ (رض) کی طرف گیا اور وہ اس وقت بچی تھیں تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ اوجڑی دور کی اور پھر ان کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز ختم کرلی تو تین دفعہ کہا : اے اللہ ! قریش کو پکڑ لے، پھر ان لوگوں کے نام لے کر دعا کی : اے اللہ ! عمرو بن حشام، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید ان سب کو پکڑ لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے بدر کے دن ان سب کو (میدان میں) گرے ہوئے دیکھا، پھر ان کو بدر کے کنویں میں گھسیٹ کر پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اصحاب قلیب (کنویں والوں) پر لعنت بھی مسلط کردی گئی۔

17736

(١٧٧٣٠) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الْجُرَیْرِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَقِیقٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : کَانَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُحْرَسُ حَتَّی نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ { یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ } [المائدۃ ٦٧] فَأَخْرَجَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَأْسَہُ مِنَ الْقُبَّۃِ فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ انْصَرَفُوا فَقَدْ عَصَمَنِی اللَّہُ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ الْہِلاَلِیِّ فَقَالَ لَہُمْ : أَیُّہَا النَّاسُ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : یَعْصِمُکَ مِنْ قَتْلِہِمْ أَنْ یَقْتُلُوکَ حَتَّی تُبَلِّغَ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَبَلَّغَ مَا أُمِرَ بِہِ فَاسْتَہْزَأَ بِہِ قَوْمٌ فَنَزَلَ عَلَیْہِ { فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ } [الحجر ٩٤-٩٥]
(١٧٧٣٠) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگرانی کی جاتی تھی حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی : { یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ } [المائدۃ ٦٧] ” اے رسول ! جو آپ کی طرف آپ کے رب نے نازل کیا ہے اس کی تبلیغ کیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اپنے رب کے پیغام کو نہ پہنچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچانے والا ہے تو آپ نے اپنا سر اپنے خیمے سے نکال کر کہا : اے لوگو ! اب تم چلے جاؤ، اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ “
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے قتل سے بچائے گا کہ وہ آپ کو قتل کریں جب تک کہ آپ اس چیز کی تبلیغ کرتے رہیں گے جو چیز آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تو آپ نے اس چیز کی تبلیغ کی جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا تو قوم نے اس پر آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ { فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ ۔ } [الحجر ٩٤-٩٥]” پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جا رہا ہے کھول کر بیان کریں اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجیے آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں۔ “

17737

(١٧٧٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَزِینٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِیَاسٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ } [الحجر ٩٥] قَالَ : الْمُسْتَہْزِئُونَ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ وَالأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ یَغُوثَ الزُّہْرِیُّ وَالأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ أَبُو زَمْعَۃَ مِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی وَالْحَارِثُ بْنُ عَیْطَلٍ السَّہْمِیُّ وَالْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ ۔ فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ شَکَاہُمْ إِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرَاہُ الْوَلِیدَ أَبَا عَمْرِو بْنِ الْمُغِیرَۃِ فَأَوْمَأَ جِبْرِیلُ إِلَی أَبْجَلِہِ فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ ۔ قَالَ : کُفِیتَہُ ۔ ثُمَّ أَرَاہُ الأَسْوَدَ بْنَ الْمُطَّلِبِ فَأَوْمَأَ جِبْرِیلُ إِلَی عَیْنَیْہِ فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ ۔ قَالَ : کُفِیتَہُ ثُمَّ أَرَاہُ الأَسْوَدَ بْنَ عَبْدِ یَغُوثَ الزُّہْرِیَّ فَأَوْمَأَ إِلَی رَأْسِہِ فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ ۔ قَالَ : کُفِیتَہُ ۔ ثُمَّ أَرَاہُ الْحَارِثَ بْنَ عَیْطَلٍ السَّہْمِیَّ فَأَوَمَأَإِلَی رَأْسِہِ فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ قَالَ کُفِیتَہُ وَمَرَّ بِہِ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ فَأَوْمَأَ إِلَی أَخْمَصِہِ فَقَالَ : مَا صَنَعْتَ ؟ ۔ قَالَ : کُفِیتَہُ ۔ فَأَمَّا الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ فَمَرَّ بِرَجُلٍ مِنْ خُزَاعَۃَ وَہُوَ یَرِیشُ نَبْلاً لَہُ فَأَصَابَ أَبْجَلَہُ فَقَطَعَہَا وَأَمَّا الأَسْوَدُ بْنُ الْمُطَّلِبِ فَعَمِیَ فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ عَمِیَ ہَکَذَا وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ نَزَلَ تَحْتَ سَمُرَۃٍ فَجَعَلَ یَقُولُ : یَا بَنِیَّ أَلاَ تَدْفَعُونَ عَنِّی قَدْ قُتِلْتُ ۔ فَجَعَلُوا یَقُولُونَ : مَا نَرَی شَیْئًا۔ وَجَعَلَ یَقُولُ یَا بَنِیَّ أَلاَ تَمْنَعُونَ عَنِّی قَدْ ہَلَکْتُ ہَا ہُوَ ذَا أُطْعَنُ بِالشَّوْکِ فِی عَیْنِی فَجَعَلُوا یَقُولُونَ مَا نَرَی شَیْئًا۔ فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی عَمِیَتْ عَیْنَاہُ وَأَمَّا الأَسْوَدُ بْنُ عَبْدِ یَغُوثَ الزُّہْرِیُّ فَخَرَجَ فِی رَأْسِہِ قُرُوحٌ فَمَاتَ مِنْہَا وَأَمَّا الْحَارِثُ بْنُ عَیْطَلٍ فَأَخَذَہُ الْمَائُ الأَصْفَرُ فِی بَطْنِہِ حَتَّی خَرَجَ خُرْؤُہُ مِنْ فِیہِ فَمَاتَ مِنْہَا وَأَمَّا الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذَلِکَ یَوْمًا إِذَ دَخَلَ فِی رَأْسِہِ شِبْرِقَۃٌ حَتَّی امْتَلأَتْ مِنْہَا فَمَاتَ مِنْہَا وَقَالَ غَیْرُہُ فَرَکِبَ إِلَی الطَّائِفِ عَلَی حِمَارٍ فَرَبَضَ بِہِ عَلَی شِبْرِقَۃٍ فَدَخَلَتْ فِی أَخْمَصِ قَدَمِہِ شَوْکَۃٌ فَقَتَلَتْہُ ۔
(١٧٧٣١) حضرت ابن عباس (رض) اللہ تعالیٰ کے اس قول : { اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ ۔ } کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ سے مذاق کرنے والے یہ لوگ تھے : ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث زہری، اسود بن مطلب، ابو زمعہ بنی اسد بن عبدالعزی، حارث بن عیطل اسہمی اسی اور عاص بن وائل۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) سے ان لوگوں کی شکایت بیان کی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ولید، ابو عمرو بن مغیرہ کو دکھایا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے ہاتھ کی موٹی رگ کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے کہا : ” تو نے کیا کیا ؟ “ اس نے کہا کہ آپ کی اس سے کفایت کی گئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسود بن مطلب دکھایا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا اور آپ نے کہا : تو نے کیا کیا ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ (ان کے شر سے اور ایذاء سے) بچا لیے گئے ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسود بن عبد یغوث الزہری دکھایا تو انھوں نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تو نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ اس سے بچا لیے گئے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حارث بن عیطل سہمی کو دکھایا تو انھوں نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ کیا کیا ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ کردیے گئے ہیں۔ پھر عاص بن وائل گزرا تو انھوں نے اس کے قدم کی خالی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا کیا ؟ انھوں نے کہا : آپ بےفکر ہوجائیں (اور ان کا انجام دیکھیں) اس کے بعد ولید بن مغیرہ بنی خزاعہ کے ایک آدمی کے قریب سے گزرا جو اپنے تیر کے پھالے کو درست کررہا تھا اور یہ تیر ولید ابن مغیرہ کی رگ میں لگا اور اسے کاٹ دیا اور رہا اسود ابن مطلب وہ اندھا ہوگیا تو بعض لوگ اس کے بارے میں کہتے کہ وہ ایسے اندھا ہوا ہے اور بعض کہتے ہیں : وہ ببول کے درخت کے نیچے اترا اور اپنے بیٹوں سے کہنے لگا : مجھے بچاؤ ! میں مرگیا، وہ کہنے لگے : ہمیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے آپ کو بچائیں۔ وہ یہی الفاظ کہتا رہا : وہ دیکھو ! وہ مجھے مار رہا ہے۔ اسے مجھ سے دور کرو۔ وہ میری آنکھوں میں کانٹے چبھو رہا ہے۔ وہ کہتے : ہمیں تو کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ اس کی یہی حالت رہی حتی کہ آنکھوں سے اندھا ہوگیا اور رہا : اسود بن عبد یغوث زہری تو اس کے سر میں دانے نکلے اور وہ انہی دانوں کے ساتھ مرگیا۔ اور اسی طرح حارث بن عیطل کے پیٹ میں زرد رنگ کا پانی (پیپ وغیرہ) پڑگئی کہ اس کا پائخانہ اس کے منہ سے نکل آیا اور وہ بھی اسی سے مرگیا اور رہا عاص بن وائل تو اس کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا کہ اس (گستاخ) کے سر میں کانٹا لگا جو پورے سر میں پھیل گیا اور وہ اسی سے مرگیا اور بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے گدھے پر سوار ہو کر طائف کی طرف جانے لگا۔ راستے میں گدھا اسے لے کر کانٹے دار بوٹی میں بیٹھ گیا تو اسے اس کے پاؤں کے تلوے میں کانٹا لگا اور وہ کانٹا ہی اس کی موت کا سبب بن گیا۔ (اور یہ ملعون بھی مرگیا) ۔

17738

(١٧٧٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ عِمْرَانَ أَبِی الْحَکَمِ السُّلَمِیِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَتْ قُرَیْشٌ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ادْعُ رَبَّکَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَہَبًا وَنُؤْمِنَ بِکَ ۔ قَالَ : أَتَفْعَلُونَ ؟ ۔ قَالُوا : نَعَمْ فَدَعَا فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ وَیَقُولُ : إِنْ شِئْتَ أَصْبَحَ الصَّفَا ذَہَبًا فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ عَذَّبْتُہُ عَذَابًا لاَ أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ وَإِنْ شِئْتَ فَتَحْتُ لَہُمْ بَابَ التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ قَالَ : بَلْ بَابَ التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ ۔ [حسن ]
(١٧٧٣٢) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ صفا پہاڑی کو ہمارے لیے سونا بنا دے تو تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا دیکھ لو تم ایسا ہی کرو گے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ! (ہم ایمان لے آئیں گے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی تو آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور آ کر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں اور ساتھ فرماتے ہیں کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے ہیں تو صفا کو سونا بنادیں گے اور پھر اس کے بعد بھی میں جس نے کفر کیا تو میں اس کو ایسا سخت عذاب دوں گا کہ مخلوق میں سے کسی ایک کو بھی ایسا عذاب نہ دوں گا اور اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اے اللہ) تو توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دے (صفا کو سونا نہ بنا) ۔

17739

(١٧٧٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ عِیسَی بْنِ عَبْدِ اللَّہِ التَّمِیمِیِّ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ } [الأحقاف ٣٥] نُوحٌ وَہُودٌ وَإِبْرَاہِیمُ أُمِرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَصْبِرَ کَمَا صَبَرَ ہَؤُلاَئِ فَکَانُوا ثَلاَثَۃً وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَابِعُہُمْ قَالَ نُوحٌ {إِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَقَامِی وَتَذْکِیرِی بِآیَاتِ اللَّہِ } [یونس ٧١] إِلَی آخِرِہَا فَأَظْہَرَ لَہُمُ الْمُفَارَقَۃَ وَقَالَ ہُودٌ حِینَ قَالُوا {إِنْ نَقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِہَتِنَا بِسُوئٍ } [ہود ٥٤] الآیَۃَ فَأَظْہَرَ لَہُمُ الْمُفَارَقَۃَ وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ { لَقَدْ کَانَ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِی إِبْرَاہِیمَ } [الممتحنۃ ٤] إِلَی آخِرِ الآیَۃِ فَأَظْہَرَ لَہُمُ الْمُفَارَقَۃَ وَقَالَ مُحَمَّدٌ {إِنِّی نُہِیتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِینَ تَدَعُونَ مِنْ دُونَ اللَّہِ } [الأنعام ٥٦] فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَ الْکَعْبَۃِ یَقْرَؤُہَا عَلَی الْمُشْرِکِینَ فَأَظْہَرَ لَہُمُ الْمُفَارَقَۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٣٣) حضرت ابو عالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ } [الأحقاف ٣٥] ” آپ بھی ایسے ہی صبر کیجیے جیسے رسولوں میں سے اولواعزم رسولوں نے صبر کیا “ اولو العزم رسول یہ ہیں : نوح، ہود، ابراہیم ۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ بھی صبر کریں جس طرح انھوں نے صبر کیا اور وہ تین تھے اور چوتھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا : { اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَا یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ ۔ } [یونس ٧١] ” اے میری قوم ! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی سے نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔۔۔ تم نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو “ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کو بھرپور جواب دیتے ہوئے ان پر جدائی کا مقام واضح کردیا اور اسی طرح ہود (علیہ السلام) نے بھی ان کو جواب دیا : جب انھوں نے آپ سے یہ کہا تھا : { اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰیکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بِسُوْئٍ } [ہود ٥٤] ” بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تو ہمارے کسی معبود کے برے جھپٹے میں آگیا ہے “ تو انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ بن جاؤ کہ میں ہوں اور تم سب مل کر میرے حق میں بدی کرلو اور میں نے نقطہ انفصال واضح کرتے ہوئے انھیں منہ توڑ جواب دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : { قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرٰہِیْمَ۔۔۔} [الممتحنۃ ٤] ”(مسلمانو ! تمہارے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بیزار ہیں “ اور ان پر اپنی بات کو واضح کردیا اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : { اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدَعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔} [الأنعام ٥٦] ” آپ کہہ دیجیے کہ مجھ کو اس سے ممانعت کی گئی ہے کہ ان کی عبادت کروں جن کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ “ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے قریب کھڑے ہوئے اور مشرکین پر اس آیت کریمہ کو پڑھنے لگے اور اپنا نقطہ انفصال ان پر واضح کردیا۔

17740

(١٧٧٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہَا قَالَتْ : لَمَّا ضَاقَتْ عَلَیْنَا مَکَّۃُ وَأُوذِیَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَفُتِنُوا وَرَأَوْا مَا یُصِیبُہُمْ مِنَ الْبَلاَئِ وَالْفِتْنَۃِ فِی دِینِہِمْ وَأَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لاَ یَسْتَطِیعُ دَفْعَ ذَلِکَ عَنْہُمْ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی مَنْعَۃٍ مِنْ قَوْمِہِ وَعَمِّہِ لاَ یَصِلُ إِلَیْہِ شَیْئٌ مِمَّا یَکْرَہُ مَمَّا یَنَالُ أَصْحَابَہُ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ مَلِکًا لاَ یُظْلَمُ أَحَدٌ عِنْدَہُ فَالْحَقُوا بِبِلاَدِہِ حَتَّی یَجْعَلَ اللَّہُ لَکُمْ فَرَجًا وَمَخْرَجًا مِمَّا أَنْتُمْ فِیہِ ۔ فَخَرَجْنَا إِلَیْہَا أَرْسَالاً حَتَّی اجْتَمَعْنَا بِہَا فَنَزَلْنَا ِخَیْرِ دَارٍ إِلَی خَیْرِ جَارٍ أَمِنَّا عَلَی دِینِنَا وَلَمْ نَخْشَ مِنْہُ ظُلْمًا۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٣٤) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب ہم پر مکہ تنگ ہوگیا اور اصحابِ رسول کو طرح طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے اپنے دین پر عمل کرنے سے آزمائشوں اور فتنوں کو دیکھا اور یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے دفاع سے قاصر ہیں کیونکہ درمیان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم اور آپ کے چچا رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور آپ اپنے ساتھیوں کی تکلیفوں میں بےبس ہوگئے تو آپ نے ان سے کہا کہ حبشہ کی سر زمین میں ان کا بادشاہ اپنے پاس کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا لہٰذا تم ان کے شہر میں چلے جاؤ۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے متبادل تمہارے لیے اور راستہ نہ نکال دے۔ پھر ہم آہستہ آہستہ یہاں سے نکلے حتیٰ کہ ہم حبشہ میں جمع ہوگئے اور ہم اچھے گھر اور اچھے پڑوس میں تھے۔ وہاں ظلم و زیادتی کا ڈر بھی نہ تھا۔ پھر لمبی حدیث بیان کی۔

17741

(١٧٧٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ : مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَبِثَ عَشْرَ سِنِینَ یَتْبَعُ الْحَاجَّ فِی مَنَازِلِہِمْ فِی الْمَوَاسِمِ بِمَجِنَّۃَ وَعُکَاظٍ وَمَنَازِلِہِمْ بِمِنًی : مَنْ یُئْوِینِی وَیَنْصُرُنِی حَتَّی أَبَلِّغَ رِسَالاَتِ رَبِّی وَلَہُ الْجَنَّۃُ ؟ ۔ فَلَمْ یَجِدْ أَحَدًا یُئْوِیہِ وَیَنْصُرُہُ حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَیَدْخُلُ ضَاحِیَۃً مِنْ مُضَرَ وَالْیَمَنِ فَیَأْتِیہِ قَوْمُہُ أَوْ ذُو رَحِمِہِ فَیَقُولُونَ : احْذَرْ فَتَی قُرَیْشٍ لاَ یُصِیبُکَ یَمْشِی بَیْنَ رِحَالِہِمْ یَدْعُوہُمْ إِلَی اللَّہِ یُشِیرُونَ إِلَیْہِ بِأَصَابِعِہِمْ حَتَّی یَبْعَثَنَا اللَّہُ مِنْ یَثْرِبَ فَیَأْتِیہِ الرَّجُلُ مِنَّا فَیُؤْمِنُ بِہِ وَیُقْرِئُہُ الْقُرْآنَ فَیَنْقَلِبُ إِلَی أَہْلِہِ فَیُسْلِمُونَ بِإِسْلاَمِہِ حَتَّی لَمْ یَبْقَ دَارٌ مِنْ دُورِ یَثْرِبَ إِلاَّ فِیہَا رَہْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یُظْہِرُونَ الإِسْلاَمَ ثُمَّ یَبْعَثُنَا اللَّہُ فَائْتَمَرْنَا وَاجْتَمَعْنَا سَبْعِینَ رَجُلاً مِنَّا فَقُلْنَا حَتَّی مَتَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُطْرَدُ فِی جِبَالِ مَکَّۃَ وَیُخَالُ أَوْ قَالَ وَیُخَافُ ۔ فَرَحَلْنَا حَتَّی قَدِمْنَا عَلَیْہِ الْمَوْسِمَ فَوَعَدَنَا شِعْبَ الْعَقَبَۃِ فَاجْتَمَعْنَا فِیہِ مِنْ رَجُلٍ وَرَجُلَیْنِ حَتَّی تَوَافَیْنَا فِیہِ عِنْدَہُ فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ عَلَی مَا نُبَایِعُکَ ؟ قَالَ : تُبَایِعُونِی عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی النَّشَاطِ وَالْکَسَلِ وَعَلَی النَّفَقَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَعَلَی الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَنْ تَقُولُوا فِی اللَّہِ لاَ یَأْخُذُکُمْ فِی اللَّہِ لَوْمَۃُ لاَئِمٍ وَعَلَی أَنْ تَنْصُرُونِی إِنْ قَدِمْتُ عَلَیْکُمْ یَثْرِبَ وَتَمْنَعُونِی مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ وَأَزْوَاجَکُمْ وَأَبْنَائَ کُمْ وَلَکُمُ الْجَنَّۃُ ۔ فَقُلْنَا : نُبَایِعُکَ فَأَخَذَ بِیَدِہِ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ وَہُوَ أَصْغَرُ السَّبْعِینَ رَجُلاً إِلاَّ أَنَا فَقَالَ : رُوَیْدًا یَا أَہْلَ یَثْرِبَ إِنَّا لَمْ نَضْرِبْ إِلَیْہِ أَکْبَادَ الْمَطِیِّ إِلاَّ وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ وَأَنَّ إِخْرَاجَہُ الْیَوْمَ مُفَارَقَۃُ الْعَرَبِ کَافَّۃً وَقَتْلُ خِیَارِکُمْ وَأَنْ تَعُضَّکُمُ السُّیُوفُ فَإِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَصْبِرُونَ عَلَی عَضِّ السُّیُوفِ وَقَتْلِ خِیَارِکُمْ وَمُفَارَقَۃِ الْعَرَبِ کَافَّۃً فَخُذُوہُ وَأَجْرُکُمْ عَلَی اللَّہِ وَإِمَّا أَنْتُمْ تَخَافُونَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ خِیفَۃً فَذَرُوہُ فَہُوَ أَعْذَرُ لَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ ۔ فَقَالُوا : أَخِّرْ عَنَّا یَدَکَ یَا أَسْعَدُ بْنَ زُرَارَۃَ فَوَاللَّہِ لاَ نَذَرُ ہَذِہِ الْبَیْعَۃَ وَلاَ نَسْتَقِیلُہَا فَقُمْنَا إِلَیْہِ رَجُلاً رَجُلاً یَأْخُذُ عَلَیْنَا شَرْطَہُ وَیُعْطِینَا عَلَی ذَلِکَ الْجَنَّۃَ ۔ [حسن۔ حدیث حاکم ]
(١٧٧٣٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (مکہ) میں دس سال ٹھہرے اور موسم حج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاجیوں کے پیچھے ان کے گھروں میں جاتے جو مجنہ اور عکاظ میں تھے اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں بھی ان کے گھروں میں جاتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : جو مجھے ٹھکانا دے گا اور میری مدد کرے گا حتیٰ کہ میں اللہ کے پیغامات کی تبلیغ کروں اور ان کو لوگوں تک پہنچا دوں تو اس کے لیے جنت ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھکانا اور مدد کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوا حتی کہ مضر اور یمن سے کوئی آدمی آتا تو اس کی قوم اور اس کے عزیز و اقارب کے لوگ اسے کہتے کہ قریش کے ایک جوان سے بچنا اور اس سے ملاقات نہ کرنا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کو اللہ کے دین کی دعوت دیتا ہے اور لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف انگلیوں سے اشارے کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ میں منتخب فرمایا اور ہم میں سے کوئی آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور وہ آپ پر ایمان لے آیا اور آپ اسے قرآن کی تعلیم دیتے۔ پھر وہ آدمی اپنے گھر لوٹا تو اس کے اسلام کی وجہ سے اس کے اہل و عیال بھی اسلام قبول کرلیتے حتیٰ کہ یثرب (مدینہ) میں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس میں مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور یہ لوگ اسلام کی تبلیغ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے ہمیں چنا اور ہم ستر آدمیوں نے اکٹھے ہو کر مشاورت کی اور کہا کہ آپ کو کب تک مکہ کے پہاڑوں میں دھکیلا جائے گا اور کب تک آپ خوف کی زندگی ان پہاڑوں میں گزاریں گے۔ اس کے بعد ہم نے وہاں سے کوچ کیا اور موسم حج میں آپ سے ملاقات کی تو آپ نے شعب عقبہ میں ہمارے ساتھ ملاقات کا وعدہ کیا حتیٰ کہ ہم اس میں ایک ایک اور دو دو ہو کر داخل ہوئے حتیٰ کہ ہم سب اکٹھے ہوگئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کی کس بات پر بیعت کریں تو آپ نے فرمایا : تم میری بیعت اطاعت و فرمان برداری پر کرو۔ خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی اور خوش حالی اور تنگ دستی میں خرچ کرنے پر اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے پر اور اللہ کے دین کی دعوت دینے یا عمل کرنے پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرنے پر اور اس بات پر کہ اگر میں تمہارے پاس یثرب آؤں تو تم نے میری مدد کرنی ہے اور تم نے مجھے بھی اس چیز سے بچانا جس چیز سے تم اپنے آپ کو اپنی بیویوں کو اور اپنی اولادوں کو بچاتے ہو تو ایسی صورت میں تمہارے لیے جنت ہے۔ “
ہم نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں اور ہم بیعت کے لیے اٹھے تو حضرت سعد بن زرارہ نے جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے سوائے میرے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : ” اہل یثرب ذرا ٹھہر جاؤ ! ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اونٹوں کے کلیجے مار کر (یعنی لمبا چوڑا سفر کر کے) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں آج آپ کو یہاں سے لے جانے کا معنی ہے سارے عرب سے دشمنی، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہو تب تو انھیں لے چلو اور تمہارا اجر اللہ پر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انھیں ابھی سے چھوڑ دو ۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابل قبول عذر ہوگا۔ “ تو لوگوں نے بیک آواز کہا ” سعد بن زرارہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ ! اللہ کی قسم ! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک ایک کر کے اٹھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔

17742

(١٧٧٣٦) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ قَابُوسِ بْنِ أَبِی ظَبْیَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَکَّۃَ فَأُمِرَ بِالْہِجْرَۃِ وَأُنْزِلَ عَلَیْہِ { وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صَدَقٍ وَأَخْرِجْنِی مَخْرَجَ صَدْقٍ وَاجَعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا } [الاسراء ٨٠] ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٣٦) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور آپ پر یہ آیت نازل ہوئی : { وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۔ } [الاسراء ٨٠]” اور اس طرح دعا کریں کہ اے میرے پروردگار ! مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ اور مددگار مقرر فرما۔ “

17743

(١٧٧٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِی مَنِیعٍ حَدَّثَنَا جَدِّی عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یَوْمَئِذٍ بِمَکَّۃَ لِلْمُسْلِمِینَ : قَدْ رَأَیْتُ دَارَ ہِجْرَتِکُمْ أُرِیتُ سَبَخَۃً ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لاَبَتَیْنِ وَہُمَا الْحَرَّتَانِ ۔ فَہَاجَرَ مَنْ ہَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِینَۃِ حِینَ ذَکَرَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ بَعْضُ مِنْ کَانَ ہَاجَرَ إِلَی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَتَجَہَّزَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُہَاجِرًا فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَلَی رِسْلِکِ فَإِنِّی أَرْجُو أَنْ یُؤْذَنَ لِی ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَتَرْجُو ذَلِکَ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ فَحَبَسَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ نَفْسَہُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِصَحَابَتِہِ وَعَلَفَ رَاحِلَتَیْنِ عِنْدَہُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ بِطُولِہِ مِنْ حَدِیثِ عُقَیْلٍ وَیُونُسَ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٢٩٨]
(١٧٧٣٧) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے فرمایا : ” مجھے تمہارا مقام ہجرت دکھایا گیا ہے، یہ لاوے کی دو پہاڑیوں کے درمیان واقع ایک نخلستانی علاقہ ہے۔ “ اس کے بعد لوگوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ عام مہاجرین حبشہ بھی مدینہ ہی آگئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے بھی سفر مدینہ کے لیے ساز و سامان تیار کرلیا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ذرا رکے رہو، کیونکہ توقع ہے مجھے بھی اجازت دے دی جائے گی۔ ابوبکر (رض) نے کہا : میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فدا ! کیا آپ کو اس پر امید ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! اس کے بعد ابوبکر (رض) رکے رہے تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کریں۔ ان کے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ انھیں بھی چار ماہ تک ببول کے پتوں کا خوب چارہ کھلایا۔

17744

(١٧٧٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُوالْوَلِیدِ : ہِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِکِ الْبَاہِلِیُّ وَأَبُوعُمَرَ : حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : کَانَ أَوَّلُ مِنْ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُصْعَبَ بْنَ عُمَیْرٍ وَابْنَ أُمِّ مَکْتُومٍ وَکَانَا یَقْرَآنِ الْقُرْآنَ ثُمَّ جَائَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَبِلاَلٌ وَسَعْدٌ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی عِشْرِینَ یَعْنِی مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ جَائَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَا رَأَیْتُ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ فَرِحُوا بِشَیْئٍ قَطُّ فَرَحَہُمْ بِہِ حَتَّی رَأَیْتُ الْوَلاَئِدَ وَالصِّبْیَانَ یَسْعَوْنَ فِی الطَّرِیقِ یَقُولُونَ جَائَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَائَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فَمَا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ حَتَّی قَرَأْتُ { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی } [الأعلی ١] فِی سُوَرٍ مِثْلِہَا مِنَ الْمُفَصَّلِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٧٣٨) حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس آنے والے (یعنی مدینہ میں) حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم (رض) تھے۔ وہ دونوں قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے، پھر عمار بن یاسر، بلال اور سعد (رض) آئے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے بیسویں نمبر پر حضرت عمر بن خطاب (رض) آئے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو اہل مدینہ نے اتنی خوشی منائی کہ میں نے اس سے پہلے اتنا خوش ہوتے ہوئے انھیں نہیں دیکھا۔ حتی کہ میں لڑکوں اور بچوں کو دیکھا کہ وہ مدینے کی گلیوں میں دوڑتے ہوئے یہ آواز بلند کر رہے تھے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ میں تشریف لائے تو میں نے { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی } [الأعلی ١] اور اس جیسی مفصل سورتیں پڑھ لی تھیں۔

17745

(١٧٧٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ : الْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَیْبُ بْنُ أَبِی حَمْزَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ حَدَّثَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَی إِکَافٍ عَلَی قَطِیفَۃٍ فَدَکِیَّۃٍ وَأَرْدَفَ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ وَرَائَ ہُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ فَسَارَ حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ فَإِذَا فِی الْمَجِلِسِ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِکِینَ عَبَدَۃِ الأَوْثَانِ وَالْیَہُودِ وَفِی الْمُسْلِمِینَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَلَمَّا غَشِیَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ خَمَّرَ ابْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ : لاَ تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا۔ فَسَلَّمَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَرَأَ عَلَیْہِمُ الْقُرْآنَ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ أَیُّہَا الْمَرْئُ إِنَّہُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِینَا بِہِ فِی مَجْلِسِنَا ارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَ کَ فَاقْصُصْ عَلَیْہِ ۔ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ : بَلَی یَا رَسُولَ اللَّہِ فَاغْشَنَا بِہِ فِی مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ حَتَّی کَادُوا یَتَثَاوَرُونَ فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُخَفِّضُہُمْ حَتَّی سَکَتُوا ثُمَّ رَکِبَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَابَّتَہُ فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَیَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ ؟ ۔ یُرِیدُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُبَیٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ اعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ فَوَالَّذِی أَنْزَلَ الْکِتَابَ لَقَدْ جَائَ اللَّہُ بِالْحَقِّ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہَذِہِ الْبُحَیْرَۃِ عَلَی أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُوہُ فَلَمَّا رَدَّ اللَّہُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ فَعَفَا عَنْہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَانَ وَأَصْحَابُہُ یَعْفُونَ عَنِ الْمُشْرِکِینَ وَأَہْلِ الْکِتَابَ کَمَا أَمَرَہُمُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَصْبِرُونَ عَلَی الأَذَی قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنْ ذَلِکَ مِنْ عَزَمِ الأُمُورِ } [آل عمران ١٨٦] وَقَالَ اللَّہُ { وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ} [البقرۃ ١٠٩] وَکَانَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَتَأَوَّلُ فِی الْعَفْوِ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ حَتَّی أَذِنَ لَہُ فِیہِمْ فَلَمَّا غَزَا النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّہُ بِہِ مَنْ قَتَلَ مِنْ صَنَادِیدَ کُفَّارِ قُرَیْشٍ قَالَ ابْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ عَبَدَۃِ الأَوْثَانِ : ہَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّہَ فَبَایَعُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی الإِسْلاَمِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ مَعْمَرٍ وَعُقَیْلٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٣٩) حضرت عروہ بن زبیر (رض) نے فرمایا کہ مجھے اسامہ بن زید نے خبر دی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید (رض) کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر کیا حتیٰ کہ ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا اور یہ اس کے اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ ہے اور اسی طرح اس مجلس کے اندر مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہودی سب شریک تھے اور مسلمانوں میں سے عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپالی اور پھر کہا : ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انھیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کو قرآن مجید کی تلاوت بھی سنائی۔ عبداللہ بن ابی بن سلول بولا : میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اور اگر وہ چیز جو تو کہتا ہے حق ہے تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو، اپنے گھر جاؤ اور ہم سے جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو، اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں، کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کردیتے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں برابر خاموش کرتے رہے اور جب وہ خاموش ہوگئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ (رض) کے یہاں گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ اے سعد ! تم نے نہیں سنا کہ ابو حباب نے آج کیا بات کہی ؟ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یوں یوں باتیں کہی ہیں۔ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! اسے معاف کردیجیے اور درگزر فرمائیے، اس ذات کی قسم جس نے کتاب کو نازل فرمایا : اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطاء فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کردیا جو اس نے آپ کو عطاء فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہوگیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا تو اسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاف کردیا اور آپ کے اصحاب (رض) بھی مشرکین اور اہل کتاب کو معاف کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا اور وہ ان کی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ } [آل عمران ١٨٦] ” اور تمہیں ضرور ضرور ان لوگوں کی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرک لوگوں کی تکلیف دہ باتیں سننا پڑیں گی اور اگر تم نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے “ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیِ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ۔} ” اہل کتاب کے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد کفر میں لوٹا دیں اپنی طرف سے حسد کرتے ہوئے اور حق واضح ہوجانے کے بعد۔ پس ان کو معاف کرو اور ان سے درگزر کرتے رہو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آجائے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عفو درگزر سے کام لیتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے بارے میں اجازت دے دی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کی لڑائی لڑی تو اس میں اللہ تعالیٰ نے کفارِ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کروا دیا تو عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اب یہ غالب آجائیں گے۔ لہٰذا انھوں نے آپ کی اسلام پر بیعت کرلی۔

17746

(١٧٧٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوسُفَ الأَزْرَقُ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِینِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَخْرَجَ أَہْلُ مَکَّۃَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ أَخْرَجُوا نَبِیَّہُمْ لَیَہْلِکُنَّ قَالَ فَنَزَلَتْ { أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَأَنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ} [الحج ٣٩] وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقْرَأُہَا { أُذُنٌ} [التوبۃ ٦١] قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیق رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَعَلِمْتُ أَنَّہَا قِتَالٌ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَہِیَ أَوَّلُ آیَۃٍ نَزَلَتْ فِی الْقِتَالِ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٤٠) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب اہل مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ( (إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُون) ) پڑھا اور کہا کہ انھوں نے اپنے نبی کو نکال دیا ہے تو یہ ضرور ضرور ہلاک ہوجائیں گے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی : { اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ ۔} [الحج ٣٩] ” اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی گئی (جنگ کرنے کی) کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً ان کی مدد کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) اسے ( (اُذُنُ ) ) کی قرآت سے پڑھتے تھے اور ابوبکر صدیق (رض) نے کہا کہ میں نے جان لیا کہ اس سے مراد قتال ہے اور ابن عباس (رض) نے کہا کہ سب سے پہلے قتال کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

17747

(١٧٧٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : قَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السِّیَّارِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ حَاتِمٍ الْبَاشَانِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَأَصْحَابًا لَہُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ أَتَوُا النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا : یَا نَبِیَّ اللَّہِ کُنَّا فِی عِزٍّ وَنَحْنُ مُشْرِکُونَ فَلَمَّا آمَنَّا صِرْنَا أَذِلَّۃً فَقَالَ : إِنِّی أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلاَ تُقَاتِلُوا الْقَوْمَ ۔ فَلَمَّا حَوَّلَہُ اللَّہُ إِلَی الْمَدِینَۃِ أَمَرَہُ بِالْقِتَالِ فَکُفُّوا فَأَنْزَلَ اللَّہُ { أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینِ قِیلَ لَہُمْ کَفُّوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ } [النساء ٧٧] ۔ [حسن ]
(١٧٧٤١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف اور ان کے ساتھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے نبی ! جب ہم مشرک تھے تو ہم بڑے عزت والے تھے اور جب ہم نے اسلام قبول کیا تو ہم ذلیل ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے درگزر کا حکم دیا گیا اور قتال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قتال کرنے کا حکم دے دیا۔ جب قتال کا حکم ملا تو یہ لوگ قتال سے رک گئے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ } [النساء ٧٧]” کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جن کو کہا گیا کہ (ابھی) اپنے ہاتھ لڑائی سے روکو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو پس جب ان پر قتال فرض ہوا تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ڈرنے لگ گیا۔ “

17748

(ہ ١٧٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہِ { فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ } [التوبۃ ٥] وَقَوْلِہِ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ } [التوبۃ ٢٩] قَالَ فَنَسَخَ ہَذَا الْعَفْوَ عَنِ الْمُشْرِکِینَ وَقَوْلِہِ { یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ } [التوبۃ ٧٣] فَأَمَرَہُ اللَّہُ بِجِہَادِ الْکُفَّارِ بِالسَّیْفِ وَالْمُنَافِقِینَ بِاللَّسَانِ وَأَذْہَبَ الرِّفْقَ عَنْہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٤٢) حضرت ابن عباس (رض) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرماتے ہیں : { فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ } [التوبۃ ٥] ” مشرکین کو جہاں پاؤ ان کو قتل کر دو ۔ “ اور اسی طرح اس آیت کے بارے میں { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } [التوبۃ ٢٩] ” تم ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ “ ان آیات سے مشرکین سے درگزر کو منسوخ کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرماتے ہیں : { یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ } [التوبۃ ٧٣] ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کفار اور منافقین سے قتال کیجیے اور ان پر سختی کیجیے۔ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس آیت میں کفار سے جہاد بالسیف کرنے کا حکم دیا اور منافقین سے جہاد باللسان کا حکم دیا اور ان پر نرمی کرنے کو ختم کردیا۔

17749

(١٧٧٤٣) وَبِہَذَا الإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَوْلُہُ { وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ } [الأنعام ١٠٦] وَ { لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ } [الغاشیۃ ٢٢] یَقُولُ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍ { فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ } [المائدۃ ١٣] { وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا } [التغابن ١٤] { فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ } [البقرۃ ١٠٩] { قُلْ لِلَّذِینَ آمَنُوا یَغْفِرُوا لِلَّذِینَ لاَ یَرْجُونَ أَیَّامَ اللَّہِ } [الجاثیۃ ١٤] وَنَحْوَ ہَذَا فِی الْقُرْآنِ أَمَرَ اللَّہُ بِالْعَفْوِ عَنِ الْمُشْرِکِینَ وَإِنَّہُ نَسَخَ ذَلِکَ کُلَّہُ قَوْلُہُ { اقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ } [التوبۃ ٥] وَقَوْلُہُ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ } [التوبۃ ٥] إِلَی قَوْلِہِ { وَہُمْ صَاغِرُونَ } [التوبۃ ٢٩] فَنَسَخَ ہَذَا الْعَفْوَ عَنِ الْمُشْرِکِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٤٣) اسی سند سے حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق فرمایا : { وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ } [الأنعام ١٠٦] اور { لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ ۔ } [الغاشیۃ ٢٢] انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں اور اسی طرح یہ قول { فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اصْفَحْ } [المائدۃ ١٣] ” ان کو معاف کیجیے اور ان سے درگزر کیجیے۔ “ اور ایسے ہی { وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا } [التغابن ١٤] اور { فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیِ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ } [البقرۃ ١٠٩] ” ان کو معاف کرو اور ان سے درگزر کرو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنا کوئی اور حکم صادر فرمائیں۔ “ اور یہ آیت کریمہ { قُلْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ } [الجاثیۃ ١٤] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان والوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے “ اور ان جیسی جتنی بھی قرآن مجید میں آیات ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے درگزر کرنے کا حکم دیا وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان { فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ } [التوبۃ ٥] اور اس فرمان { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } [التوبۃ ٢٩] ” تم ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ “ سے مشرکین سے درگزر کو منسوخ کردیا گیا ہے۔

17750

(١٧٧٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ ہُوَ الْفَزَارِیُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوہُمْ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوا مِنْہُمْ وَلِیًّا وَلاَ نَصِیرًا إِلاَّ الَّذِینَ یَصِلُونَ إِلَی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِیثَاقٌ} الآیَۃَ [النساء ٨٩-٩٠] قَالَ وَقَالَ { لاَ یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ } الآیَۃَ [الممتحنۃ ٨] ثُمَّ نَسَخَ ہَؤُلاَئِ الآیَاتِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ { بَرَائَ ۃٌ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِینَ عَاہَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ } [التوبۃ ١] إِلَی قَوْلِہِ { فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ } [التوبۃ ٥] وَأَنْزَلَ { قَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّۃً } [التوبۃ ٣٦] قَالَ { وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا } [الأنفال ٦١] ثُمَّ نَسَخَ ذَلِکَ ہَذِہِ الآیَۃُ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ }[التوبۃ ٢٩] ۔[ضعیف ]
(١٧٧٤٤) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَ اقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْامِنْھُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ۔۔۔} [النساء ٨٩-٩٠] ” پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انھیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں۔ خبردار ! ان میں سے کسی کو بھی اپنا رفیق اور مدد گار نہ بنا بیٹھنا سوائے ان لوگوں کے جو اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : { لاَیَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ } [الممتحنۃ ٨] ” جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور نہ تم کو جلا وطن کیا اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنے سے نہیں روکتا۔۔۔“ پھر یہ آیات منسوخ ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : { بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ } [التوبۃ ١] اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک { فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ } [التوبۃ ٥] ” اللہ اور اس کا رسول ان مشرکین سے اعلانِ برائت کرتے ہیں جن سے تم نے عہد کیا ہے۔ “ یہاں تک ” جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں بھی تم پاؤ قتل کر دو ۔ “ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا : { وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً } [التوبۃ ٣٦]” مشرکین سے تم سب مل کرو قتال کرو جس طرح وہ سب مل کر تم سے قتال کرتے ہیں۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ } [الأنفال ٦١] ” اور اگر یہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہوجائیں۔ “ یہ والی آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے منسوخ ہوگئی : { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ } [التوبۃ ٢٩]” ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور نہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ “

17751

(١٧٧٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو : عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقَاشِیُّ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنِ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ أَبِی السَّوَّارِ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَہْطًا وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ عُبَیْدَۃَ بْنَ الْحَارِثِ قَالَ فَلَمَّا انْطَلَقَ لِیَتَوَجَّہَ بَکَی صَبَابَۃً إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَکَانَہُ رَجُلاً یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَحْشٍ وَکَتَبَ لَہُ کِتَابًا وَأَمَرَہُ أَنْ لاَ یَقْرَأَہُ إِلاَّ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا وَقَالَ : لاَ تُکْرِہَنَّ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِکَ عَلَی الْمَسِیرِ مَعَکَ ۔ فَلَمَّا صَارَ ذَلِکَ الْمَوْضِعَ قَرَأَ الْکِتَابَ وَاسْتَرْجَعَ قَالَ : سَمْعًا وَطَاعَۃً لِلَّہِ وَرَسُولِہِ قَالَ فَرَجَعَ رَجُلاَنِ مِنْ أَصْحَابِہِ وَمَضَی بَقِیَّتُہُمْ مَعَہُ فَلَقَوُا ابْنَ الْحَضْرَمِیِّ فَقَتَلُوہُ فَلَمْ یُدْرَ ذَلِکَ مِنْ رَجَبٍ أَوْ مِنْ جُمَادَی الآخِرَۃِ فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ قَتَلْتُمْ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ فَنَزَلَتْ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ} [البقرۃ ٢١٧] إِلَی قَوْلِہِ { وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ } [البقرۃ ٢١٧] قَالَ فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِینَ لَئِنْ کَانُوا أَصَابُوا خَیْرًا مَا لَہُمْ أَجْرٌ فَنَزَلَتْ {إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أُولَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَۃَ اللَّہِ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ} [البقرۃ ٢٨١] ۔ [حسن ]
(١٧٧٤٥) حضرت جندب بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گروہ کو روانہ کیا اور اس پر عبیدہ بن حارث کو امیر بنایا اور جب وہ جانے کے لیے نکلا تو اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت نے رلا دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی جگہ پر عبداللہ بن جحش کو امیر بنادیا اور ایک خط لکھ کردیا اور ان سے کہا کہ اس کو فلاں جگہ پر کھول کر پڑھنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنے ساتھ سفر پر لے جانے کے لیے اپنے کسی بھی ساتھی پر جبر نہ کرنا۔ “ جب وہ اس جگہ پر پہنچے جہاں پر آپ نے خط کھولنے کا حکم دیا تھا تو انھوں نے خط کھول کر پڑھا اور ساتھ ہی انا للہ و انا الیہ راجعون بھی پڑھ دیا اور کہا کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی بات سنی اور اس کی اطاعت کی۔ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں میں سے آدمی واپس آگئے اور باقی ان کے ساتھ چلتے رہے اور ابن حضرمی ملے اور انھوں نے اس کو قتل کردیا اور ان کو پتا نہ چلا کہ یہ رجب کا مہینہ ہے یا جمادی اخریٰ کا تو مشرکین نے کہا کہ تم نے حرمت والے مہینے میں قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ والی آیات نازل فرمائیں : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ۔۔۔} [البقرۃ ٢١٧] ” اس قول تک { وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ } [البقرۃ ٢١٧] ” یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حرمت والے مہینے میں قتال کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ ان میں قتال کرنا تو کبیرہ گناہ ہے ۔۔۔ لیکن فتنہ پھیلانا تو قتل کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ “ راوی کہتے ہیں کہ بعض مسلمانوں نے کہا کہ اگر انھوں نے اچھا کام بھی کیا ہے تو اس پر ان کو اجر نہیں ملے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔} [البقرۃ ٢٨١] ” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا تو یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ “

17752

(١٧٧٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُزَنِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ سَرِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ جَحْشٍ الأَسَدِیَّ فَانْطَلَقُوا حَتَّی ہَبَطُوا نَخْلَۃَ فَوَجَدُوا بِہَا عَمْرَو بْنَ الْحَضْرَمِیِّ فِی عِیرِ تِجَارَۃٍ لِقُرَیْشٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قَتْلِ ابْنِ الْحَضْرَمِیِّ وَنُزُولِ قَوْلِہِ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ } [البقرۃ ٢١٧] قَالَ : فَبَلَغَنَا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَقَلَ ابْنَ الْحَضْرَمِیِّ وَحَرَّمَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ کَمَا کَانَ یُحَرِّمُہُ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ { بَرَائَ ۃٌ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ } [التوبۃ ١] قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَأَنَّہُ أَرَادَ قَوْلَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ { وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّۃً } [التوبۃ ٣٦] وَالآیَۃَ الَّتِی ذَکَرَہَا الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَعَمُّ فِی النَّسْخِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٤٦) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں سے ایک لشکر روانہ کیا اور اس پر عبداللہ بن جحش (رض) کو امیر بنایا۔ وہ سفر کرتے کرتے ایک نخلستان میں اترے، وہاں پر انھوں نے قریش کے تجارتی قافلے میں عمرو بن حضرمی کو پایا اور انھیں قتل کردیا اور اسی طرح انھوں نے پوری حدیث بیان کی جس میں اس آیت کے نزول کا بھی ذکر ہے { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ }[البقرۃ ٢١٧] اور اس میں انھوں نے یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرمی کی دیت دی اور حرمت والے مہینے کی حرمت کو برقرار رکھا جیسا کہ اس کی حرمت کو وہ لوگ باقی رکھتے تھے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { بَرَآئَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ} [التوبۃ ١] ” اللہ اور اس کا رسول بری ہیں۔ “
شیخ (رح) فرماتے ہیں کہ امام شافعی (رح) نے اس آیت : { وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً } کہ مشرکین سے سب مل کر قتال کرو اس کو نسخ میں عام قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم

17753

(١٧٧٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَخْرَمَۃُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : وَاسْتَفْتَی ہَلْ یَصْلُحُ لِلْمُسْلِمِینَ أَنْ یُقَاتِلُوا الْکُفَّارَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ فَقَالَ سَعِیدٌ : نَعَمْ ۔ وَقَالَ ذَلِکَ سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٤٧) مخرمہ بن بکیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے سعید بن مسیب سے سوال کیا کہ کفار سے حرمت والے مہینوں میں مسلمانوں کا قتال کرنا درست ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ہاں ! اور کہا کہ یہ سلیمان بن یسار کا قول ہے۔

17754

(١٧٧٤٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ سَأَلْتُ سُفْیَانَ عَنْ قَوْلِ اللَّہِ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ} [البقرۃ ٢١٧] قَالَ : ہَذَا شَیْئٌ مَنْسُوخٌ وَقَدْ مَضَی وَلاَ بَأْسَ بِالْقِتَالِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَغَیْرِہِ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٤٨) ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سفیان سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ۔۔۔} [البقرۃ ٢١٧] کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور اب حرمت والے مہینوں اور اس کے علاوہ میں ان سے قتال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

17755

(١٧٧٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ وَرَجُلٌ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الأَسَدِیُّ قَالَ : قُطِعَ عَلَی أَہْلِ الْمَدِینَۃِ بَعْثٌ کُتِبْتُ فِیہِ فَلَقِیتُ عِکْرِمَۃَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَنَہَانِی أَشَدَّ النَّہْیِ ثُمَّ قَالَ أَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ کَانُوا مَعَ الْمُشْرِکِینَ یُکَثِّرُونَ سَوَادَ الْمُشْرِکِینَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَیَأْتِی السَّہْمُ یُرْمِی بِہِ فَیُصِیبُ أَحَدَہُمْ فَیَقْتُلُہُ أَوْ یُضْرَبُ فَیُقْتَلُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ذِکْرُہُ فِیہِمْ {إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ قَالُوا فِیمَ کُنْتُمْ قَالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوا فِیہَا فَأُولَئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَائَ تْ مَصِیرًا } [النساء ٩٧] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٧٤٩) محمد بن عبدالرحمن بن نوفل اسدی نے کہا : مدینہ والوں کو ایک فوج نکالنے کا حکم دیا گیا اور اس میں میرا بھی نام لکھا گیا۔ (اسی دوران) میری ملاقات عکرمہ مولیٰ ابن عباس سے ہوئی تو انھوں نے مجھے بڑی سختی سے منع کیا اور کہا کہ مجھے ابن عباس (رض) نے بتایا کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تھے جو مشرکین کی فوج کے ساتھ مل گئے اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ ملے تو جب کبھی مسلمانوں کی طرف سے تیر آتا تو ان کو لگ جاتا اور یہ مرجاتے یا ویسے قتل ہوجاتے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولًٰئِکَ مَاْوٰیھُمْ جَھَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا ۔ } [النساء ٩٧] ” جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں : تم کس حال میں تھے (ہجرت کیوں نہ کی) ؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے ؟ یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔ “

17756

(١٧٧٥٠) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَاہُ حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْبَجَلِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ أَقَامَ مَعَ الْمُشْرِکِینَ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٥٠) حضرت جریر بن عبداللہ بجلی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی نے مشرکین کے ساتھ قیام کیا تو وہ اللہ کے ذمہ سے بری ہوگیا۔

17757

(١٧٧٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی نُخَیْلَۃَ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یُبَایِعُ النَّاسَ فَقُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ ابْسُطْ یَدَکَ حَتَّی أُبَایِعَکَ وَاشْتَرِطْ عَلَیَّ فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالشَّرْطِ مِنِّی۔ قَالَ : أُبَایِعُکَ عَلَی أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ وَتُقِیمَ الصَّلاَۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ وَتُنَاصِحَ الْمُؤْمِنَ وَتُفَارِقَ الْمُشْرِکَ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٥١) حضرت جریربن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں اور مجھ پر شرط بھی لگائیے جو آپ میرے بارے میں مناسب جانیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں آپ کی اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور مؤمن کی خیر خواہی کریں اور مشرک سے الگ رہیں۔

17758

(١٧٧٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ قُرَّۃَ بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ قَالَ : بَیْنَا نَحْنُ بِہَذَا الْمِرْبَدِ إِذْ أَتَی عَلَیْنَا أَعْرَابِیٌّ شَعِثُ الرَّأْسِ مَعَہُ قِطْعَۃُ أَدِیمٍ أَوْ قِطْعَۃُ جِرَابٍ فَقُلْنَا کَأَنَّ ہَذَا لَیْسَ مِنْ أَہْلِ الْبَلَدِ فَقَالَ أَجَلْ لاَ ہَذَا کِتَابٌ کَتَبَہُ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ الْقَوْمُ ہَاتِ فَأَخَذْتُہُ فَقَرَأْتُہُ فَإِذَا فِیہِ : بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللَّہِ لِبَنِی زُہَیْرِ بْنِ أُقَیْشٍ ۔ قَالَ أَبُو الْعَلاَئِ : وَہُمْ حَیٌّ مِنْ عُکْلٍ : إِنَّکُمْ إِنْ شَہِدْتُمْ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَقَمْتُمُ الصَّلاَۃَ وَآتَیْتُمُ الزَّکَاۃَ وَفَارَقْتُمُ الْمُشْرِکِینَ وَأَعْطَیْتُمْ مِنَ الْغَنَائِمِ الْخُمُسَ وَسَہْمَ النَّبِیِّ وَالصَّفِیَّ ۔ وَرُبَّمَا قَالَ : وَصَفِیَّہُ فَأَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّہِ وَأَمَانِ رَسُولِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٥٢) حضرت یزید بن عبداللہ بن شخیر فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ اس اونٹوں کے باڑے میں تھے کہ ہمارے پاس ایک دیہاتی آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے پاس ایک کھال کا ٹکڑا تھا یا چمڑے کا تو ہم نے کہا : لگتا ہے کہ یہ ہمارے شہر کا نہیں۔ اس نے کہا ہاں میں تمہارے شہر کا نہیں ہوں۔ میرے پاس ایک خط ہے جو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھوا کردیا تھا تو قوم نے کہا : دکھاؤ ! تو میں نے اس سے وہ لے لیا اور اس کو پڑھا تو اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ خط محمد رسول اللہ ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی طرف سے ہے بنی زہیر بن اقیش کے لیے۔ ابو العلاء نے کہا کہ یہ عکل قبیلے میں سے ایک قبیلہ ہے اگر تم لا الہ الا اللہ کی گواہی دے دو اور نماز قائم کرنے لگ جاؤ اور زکوۃ ادا کرنے لگ جاؤ اور مشرکین سے الگ ہو جاؤ اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا اور میرا حصہ اور میرے اہل و عیال کا حصہ ادا کرنا۔ جب تم یہ کرنے لگ جاؤ گے تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امان میں آ جاؤ گے۔

17759

(١٧٧٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُلُّ عَسَی فِی الْقُرْآنِ فَہِیَ وَاجِبَۃٌ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٥٣) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جتنے بھی عسیٰ استعمال ہوئے ہیں یہ واجب کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔

17760

(١٧٧٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ : أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ {إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ } [النساء ٩٨] قَالَ : کُنْتُ وَأُمِّی مِمَّنْ عَذَرَ اللَّہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ١٣٥٧]
(١٧٧٥٤) ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی : { اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَھْتَدُوْنَ سَبِیْلًا ۔ } [النساء ٩٨] اور کہا کہ میں اور میری والدہ ان لوگوں میں شامل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے۔

17761

(١٧٧٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : أَنَا وَأُمِّی مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ کَانَتْ أُمِّی مِنَ النِّسَائِ وَأَنَا مِنَ الْوِلْدَانِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٧٥٥) عبیداللہ بن یزید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سنا : وہ فرما رہے تھے کہ میں اور میری والدہ مستضعفین میں سے تھے۔ میری والدہ عورتوں میں اور میں بچوں میں شامل تھا۔

17762

(١٧٧٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی نَافِعٌ عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِیہِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا اجْتَمَعْنَا لِلْہِجْرَۃِ اتَّعَدْتُ أَنَا وَعَیَّاشُ بْنُ أَبِی رَبِیعَۃَ وَہِشَامُ بْنُ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَقُلْنَا الْمِیعَادُ بَیْنَنَا التَّنَاضُبُ مِنْ أَضَاۃِ بَنِی غِفَارٍ فَمَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ لَمْ یَأْتِہَا فَقَدْ حُبِسَ فَلْیَمْضِ صَاحِبَاہُ فَأَصْبَحَتُ عِنْدَہُ أَنَا وَعَیَّاشُ بْنُ أَبِی رَبِیعَۃَ وَحُبِسَ عَنَّا ہِشَامٌ وَفُتِنَ فَافْتَتَنَ وَقَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ فَکُنَّا نَقُولُ مَا اللَّہُ بِقَابِلٍ مِنْ ہَؤُلاَئِ تَوْبَۃً قَوْمٌ عَرَفُوا اللَّہُ وَآمَنُوا بِہِ وَصَدَّقُوا رَسُولَہُ ثُمَّ رَجَعُوا عَنْ ذَلِکَ لِبَلاَئٍ أَصَابَہُمْ مِنَ الدُّنْیَا وَکَانُوا یَقُولُونَہُ لأَنْفُسِہِمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِمْ { قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ } إِلَی قَوْلِہِ { مَثْوًی لِلْمُتَکَبِّرِینَ } [الزمر ٦٠] قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَتَبْتُہَا بِیَدِی کِتَابًا ثُمَّ بَعَثْتُ بِہَا إِلَی ہِشَامٍ فَقَالَ ہِشَامُ بْنُ الْعَاصِ فَلَمَّا قَدِمَتْ عَلَیَّ خَرَجْتُ بِہَا إِلَی ذِی طُوًی فَجَعَلْتُ أُصَعِّدُ بِہَا وَأُصَوِّبُ لأَفْہَمَہَا فَقُلْتُ اللَّہُمَّ فَہِّمْنِیہَا فَعَرَفْتُ أَنَّمَا أُنْزِلَتْ فِینَا لِمَا کُنَّا نَقُولُ فِی أَنْفُسِنَا وَیُقَالُ فِینَا فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ عَلَی بَعِیرِی فَلَحِقْتُ بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُتِلَ ہِشَامٌ شَہِیدًا بِأَجْنَادِینَ فِی وِلاَیَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [حسن ]
(١٧٧٥٦) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ہجرت کے لیے اکٹھے ہوئے تو میں نے اور عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص نے آپس میں طے کیا کہ ہم فلاں جگہ صبح صبح اکٹھے ہو کر وہیں سے مدینہ کو ہجرت کرنی ہے تو جو صبح کے وقت وہاں نہ پہنچا اور اس کو روک لیا گیا تو اس کے دونوں ساتھی سفر شروع کردیں گے تو کہتے ہیں کہ میں اور عیاش بن ابی ربیعہ اس جگہ پر پہنچ گئے اور ہشام بن عاص کو قید کرلیا گیا اور اس کو سخت تکلیفوں میں ڈالا گیا اور وہ ان تکلیفوں اور فتنوں میں گھر گیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم کہا کرتے تھے کہ اللہ ان لوگوں کی توبہ قبول کرنے والے نہیں کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ انھوں نے اللہ کو پہچانا اور اس پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی۔ پھر دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں کی وجہ سے اس سے پھرگئے اور وہ اپنے بارے میں کہا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیات نازل کیں : { قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ } اس قول تک { جَہَنَّمَ مَثْوًی لِلْمُتَکَبِّرِیْنَ ۔ } [الزمر ٦٠] ” اے نبی ! میرے بندوں سے کہہ دو ، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کرلی ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے نہ امید نہ ہوں۔ بیشک اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کرنے والا ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ان کو میں نے اپنے ہاتھ سے ایک خط میں لکھ کر ہشام کی طرف بھیج دیا۔ پھر ہشام بن عاص کہتے ہیں کہ جب یہ خط میرے پاس آیا تو میں اسے لے کر ذی طوی کی طرف نکل گیا اور میں اس کو اوپر سے نیچے تک (پڑھتا) اور اللہ سے دعا کرتا : یا اللہ ! مجھے اس کی سمجھ عطاء فرما تو پھر میں نے پہچان لیا کہ یہ ہمارے بارے میں نازل ہوئیں ہیں کیونکہ ہم اپنے بارے میں کہا کرتے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ میں اس کے بعد لوٹا اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملا۔ آخر کار حضرت ہشام (رض) حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں اور ان کے لشکر میں شہید ہوئے۔

17763

(١٧٧٥٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی حَکِیمُ بْنُ جُبَیْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِیمَنْ کَانَ یُفْتَنُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَکَّۃَ { ثُمَّ إِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِینَ ہَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاہَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّک مِنْ بَعْدِہَا لَغَفُورٌ رَحِیمٌ} [النحل ١١٠] ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٥٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت : { ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔} ” جن لوگوں نے فتنے میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی اور جہاد کیا اور صبر کا ثبوت دیا، بیشک تیرا پروردگار ان باتوں کے بعد انھیں بخشنے والا اور مہربان ہے۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہیں مکہ میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

17764

(١٧٧٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : أَسْلَمَ عَیَّاشُ بْنُ أَبِی رَبِیعَۃَ وَہَاجَرَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَائَ ہُ أَبُو جَہْلِ بْنُ ہِشَامٍ وَہُوَ أَخُوہُ لأُمِّہِ وَرَجُلٌ آخَرُ مَعَہُ فَقَالَ لَہُ : إِنَّ أُمَّکَ تُنَاشِدُکَ رَحِمَہَا وَحَقَّہَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْہَا فَأَقْبَلَ مَعَہُمَا فَرَبَطَاہُ حَتَّی قَدِمَا بِہِ مَکَّۃَ فَکَانَا یُعَذِّبَانِہِ ۔ [حسن ]
(١٧٧٥٨) حضرت مجاہد (رض) فرماتے ہیں کہ عیاش بن ابی ربیعہ نے اسلام قبول کیا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تو ان کے پاس ان کے اخیافی بھائی ابو جہل بن ہشام اور ان کے ساتھ ایک اور آدمی آیا اور انھوں نے ان سے کہا کہ تیری ماں تجھے اپنی قربت اور اپنے حق کی قسم دیتی ہے کہ تو اس کی طرف لوٹ آ تو حضرت عیاش بن ابی ربیعہ ان کے ساتھ لوٹ آئے تو انھوں نے ان کو باندھ دیا اور مدینہ میں لا کر طرح طرح کی سزائیں دیں۔

17765

(١٧٧٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُاللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : کَانَ نَاسٌ بِمَکَّۃَ قَدْ أَقَرُّوا بِالإِسْلاَمِ فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ إِلَی بَدْرٍ لَمْ یَبْقَ أَحَدٌ۔ إِلاَّ أَخْرَجُوہُ فَقُتِلَ أُولَئِکَ الَّذِینَ أَقَرُّوا بِالإِسْلاَمِ فَنَزَلَتْ فِیہِمْ {إِنَّ الَّذِین تَوَفَّاہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ ظَالِمِی أَنْفُسِہِمْ } إِلَی قَوْلِہِ { وَسَائَ تْ مَصِیرًا } [النساء ٩٧-٩٨] { حِیلَۃ } نُہُوضًا إِلَیْہَا وَ { سَبِیلاً } [آل عمران ٩٧] طَرِیقًا إِلَی الْمَدِینَۃِ فَکَتَبَ الْمُسْلِمُونَ الَّذِینَ کَانُوا بِالْمَدِینَۃِ إِلَی مَنْ کَانَ بِمَکَّۃَ فَلَمَّا کُتِبَ إِلَیْہِمْ خَرَجَ نَاسٌ مِمَّنْ أَقَرُّوا بِالإِسْلاَمِ فَاتَّبَعَہُمُ الْمُشْرِکُونَ فَأَکْرَہُوہُمْ حَتَّی أَعْطُوہُمُ الْفِتْنَۃَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِمْ {إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیمَانِ } [النحل ١٠٦] ۔ [صحیح ]
(١٧٧٥٩) حضرت عکرمہ (رض) کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے مکہ میں اسلام کا اقرار کرلیا۔ جب لوگوں نے بدر کی طرف کوچ کیا تو انھوں نے ان کو بھی نکلوا لیا اور ساتھ لے لیا تو یہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا قتل کردیے گئے تو ان کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں : { اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ۔۔۔} اس قول تک { وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا ۔ } [النساء ٩٧] ” جب ظالم لوگوں کی فرشتے روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں : تم کن میں تھے ؟ “ ( (حِیْلَۃً ) ) کا معنی ہے اس کی طرف اٹھنا، جانا اور ( (سَبِیْلًا) ) کا معنیٰ ہے مدینہ کی طرف راستہ، پس مدینہ کے مسلمانوں نے مکہ کے مسلمانوں کی طرف خط لکھے جب ان کی طرف خط لکھے گئے تو مکہ کے ان نو مسلمانوں میں سے کچھ نکلے تو مشرکین نے ان کو پکڑ لیا اور ان کو طرح طرح کی مصیبتوں سے دو چار کیا تو ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : { اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ۔۔۔} [النحل ١٠٦]” جس پر جبر کیا گیا اور اس کا دل ایمان سے لبریز ہو تو اس پر کلمہ کفر کہنے پر کوئی گناہ نہیں۔ “

17766

(١٧٧٦٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا قَالَ : سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ۔ قَبْلَ أَنْ یَسْجُدَ قَالَ : اللَّہُمَّ أَنْجِ عَیَّاشَ بْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ اللَّہُمَّ أَنْجِ سَلَمَۃَ بْنَ ہِشَامٍ اللَّہُمَّ أَنْجِ الْوَلِیدَ بْنَ الْوَلِیدِ اللَّہُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اللَّہُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَکَ عَلَی مُضَرَ اللَّہُمَّ اجْعَلْہَا سِنِینَ کَسِنِی یُوسُفَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شَیْبَانَ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٧٦٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ( (سمع اللہ لمن حمدہ) ) کہتے تو سجدہ کرنے سے پہلے آپ ان لوگوں کے لیے دعا کرتے ” اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے اے اللہ ! مؤمنین میں سے جو کمزور لوگ ہیں ان کو نجات دے، اے اللہ ! اپنی پکڑ کو مضر قبیلے پر سخت کر دے اے اللہ ! ان پر ایسی قحط سالی ڈال جس طرح تو نے یوسف کے لوگوں پر قحط سالی ڈالی تھی۔

17767

(١٧٧٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنصُورٍ : الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنصُورٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ خُزَاعَۃَ کَانَ بِمَکَّۃَ فَمَرِضَ وَہُوَ ضَمْرَۃُ بْنُ الْعِیصِ أَوِ الْعِیصُ بْنُ ضَمْرَۃَ بْنِ زِنْبَاعٍ فَأَمَرَ أَہْلَہُ فَفَرَشُوا لَہُ عَلَی سَرِیرٍ فَحَمَلُوہُ وَانْطَلَقُوا بِہِ مُتَوَجِّہًا إِلَی الْمَدِینَۃِ فَلَمَّا کَانَ بِالتَّنْعِیمِ مَاتَ فَنَزَلَتْ { وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکُہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ } [النساء ١٠٠] وَکَذَلِکَ قَالَہُ الْحَسَنُ وَغَیْرُہُ مِنَ الْمُفَسِّرِینَ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٦١) حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ خزاعہ قبیلہ سے ایک (مسلمان) آدمی مکہ میں تھا اور وہ بیمار ہوگیا اس کا نام ضمرہ بن عیص تھا یا کہ عیص ابن ضمرہ بن زنباع تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ وہ اسے مدینہ پہنچائیں۔ انھوں نے اسے چار پائی پر اٹھا لیا اور مدینہ کی جانب سفر کردیا۔ جب وہ تنعیم مقام پر پہنچے تو یہ آدمی سفر میں ہی فوت ہوگیا تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : { وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَا جِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ } [النساء ١٠٠] ” جو شخص اپنے گھر سے اللہ کے لیے ہجرت کرلے اور پھر اسے راستے میں موت آجائے تو اس کا اجر اللہ پر واقع ہوگیا۔ “ یہی تفسیر حسن بصری (رض) اور دوسرے مفسرین نے کی ہے۔

17768

(١٧٧٦٢) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : کَانَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَدْ أَسْلَمَ وَأَقَامَ عَلَی سِقَایَتِہِ وَلَمْ یُہَاجِرْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٦٢) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نے اسلام قبول کیا آپ مکہ میں حاجیوں کو پانی پلانے والے عہدہ پر کام کرتے رہے اور ہجرت نہ کی۔

17769

(١٧٧٦٣) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : ثُمَّ إِنَّ أَبَا الْعَاصِ رَجَعَ إِلَی مَکَّۃَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ فَلَمْ یَشْہَدْ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَشْہَدًا ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بَعْدَ ذَلِکَ فَتُوُفِّیَ فِی ذِی الْحِجَّۃِ مِنْ سَنَۃِ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَوْصَی إِلَی الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَانَ یَأْمُرُ جُیُوشَہُ أَنْ یَقُولُوا لِمَنْ أَسْلَمَ إِنْ ہَاجَرْتُمْ فَلَکُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَإِنْ أَقَمْتُمْ فَأَنْتُمْ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ وَلَیْسَ یُخَیِّرُہُمْ إِلاَّ فِیمَا یَحِلُّ لَہُمْ ۔
(١٧٧٦٣) محمد بن اسحاق (رض) فرماتے ہیں کہ ابو العاص (رض) اسلام قبول کرنے کے بعد پھر مکہ میں لوٹ آئے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی غزوے میں شرکت نہ کی۔ اس کے بعد پھر مدینہ میں آئے اور ذی الحجہ سن ١٢ ھ ابوبکر (رض) کی خلافت میں وفات پائی اور زبیر بن عوام کو وصیت کی۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ وہ اپنے لشکروں کو حکم دیتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرنے والوں سے کہیں کہ اگر تم نے ہجرت کی تو تم کو بھی وہی ملے گا جو مہاجرین کو ملتا ہے اور اگر تم نے ہجرت نہ کی تو تم دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہو گے اور ان کو وہی کچھ دیا جاتا ہے جو ان کے لیے جائز اور مناسب ہو۔

17770

(١٧٧٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللَّہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا وَقَالَ : إِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إِلَی إِحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ أَوْ خِلاَلٍ فَأَیَّتُہُنَّ أَجَابُوکَ إِلَیْہَا فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ وَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ أَنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَأَنَّ عَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ فَإِنْ أَبَوْا وَاخْتَارُوا دَارَہُمْ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ مِثْلَ أَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللَّہِ الَّذِی کَانَ یَجْرِی عَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَلاَ یَکُونُ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنِیمَۃِ نَصِیبٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ وَکِیعٍ قَالَ الشَّیْخُ وَقَدْ وَرَدَتْ أَخْبَارٌ فِی مِثْلِ ہَذَا الْمَعْنَی۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٧٦٤) حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کسی کو لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجتے تو اسے خاص طور پر تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیتے اور اسے یہ بھی حکم دیتے کہ جب تیری ملاقات اپنے مشرک دشمنوں سے ہو تو پہلے ان کو تین چیزوں کی دعوت دینا۔ اگر وہ تین میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرلیں تو تم ان کی اس بات کو مان لینا اور ان سے قتال نہ کرنا۔ سب سے پہلے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا۔ اگر وہ قبول کرلیں تو تم بھی ان سے ان کے اسلام کو قبول کرنا اور ان سے قتال نہ کرنا۔ پھر ان کو اس جگہ کو بدلنے کا حکم دینا اور ان کو دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دینا اور ساتھ یہ بھی بتا دینا کہ اگر وہ یہ کام کرتے ہیں تو ان کے حقوق و فرائض ویسے ہی ہوں گے جیسے باقی مہاجرین کے ہیں اور اگر وہ ہجرت سے انکار کریں اور انپے وطن اور شہر کو پسند کریں تو ان سے کہنا کہ اس صورت میں تمہارے حقوق و فرائض دیہات کے مسلمان جیسے ہوں گے اور ان کا مال فیٔ اور مال غنیمت میں کوئی حصہ نہ ہوگا سوائے اس صورت کے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔

17771

(١٧٧٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ الْبَیْرُوتِیُّ أَخْبَرَنَا أَبِی أَخْبَرَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ حَدَّثَنِی عَطَائُ بْنُ یَزِیدَ اللَّیْثِیُّ حَدَّثَنِی أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَسَأَلَہُ عَنِ الْہِجْرَۃِ فَقَالَ : إِنَّ الْہِجْرَۃَ شَأْنُہَا شَدِیدٌ فَہَلْ لَکَ إِبِلٌ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَہَلْ تَمْنَحُ مِنْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَہَلْ تَحْلِبُہَا یَوْمَ وِرْدِہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَاعْمَلْ مِنْ وَرَائِ الْبِحَارِ فَإِنَّ اللَّہَ لَنْ یَتِرَکَ مِنْ عَمَلِکَ شَیْئًا ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ الأَوْزَاعِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٦٥) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی آیا۔ اس نے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ہجرت کا معاملہ بڑا مشکل ہے۔ کیا تیرے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ! آپ نے فرمایا : ان میں سے کسی اونٹ کو عاریتاً دیتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : کیا اس کے ورود کے دن اس کا دودھ دوہتے ہو اور تقسیم کرتے ہو ؟ اس نے کہا : جی ! آپ نے فرمایا : تو پھر ان کو لے کر دریاؤں اور جنگلوں کی طرف نکل جاؤ اور وہاں جا کر اچھے اعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ تیرے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔

17772

(١٧٧٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْمُؤَمَّلِ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ : عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا سُرَیْجُ بْنُ النُّعْمَانِ أَبُو الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا فُلَیْحٌ یَعْنِی ابْنَ سُلَیْمَانَ عَنْ ہِلاَلِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ عَلَی اللَّہِ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ہَاجَرَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوْ جَلَسَ فِی أَرْضِہِ الَّتِی وُلِدَ فِیہَا ۔ قَالُوا : یَا رَسُول اللَّہِ أَفَلاَ نُنْبِئُ النَّاسَ بِذَلِکَ ؟ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّہَا لِلْمُجَاہِدِینَ فِی سَبِیلِہِ مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّہَ فَسَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہُ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہُ عَرْشُ اللَّہِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ صَالِحٍ عَنْ فُلَیْحٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٦٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آدمی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا۔ چاہے وہ ہجرت کرے یا اپنی ہی پیدائش والی جگہ پر بیٹھا رہے۔ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اس چیز کی لوگوں کو خبر نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا : ” بیشک جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں جو اس کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور ہر دو درجوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان اور زمین کا ہے اور جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنتِ فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ درمیانی اور سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسی سے ہی جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔

17773

(١٧٧٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : الْعَلاَئُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الإِسْفَرَائِینِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : بِشْرُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ الذُّہْلِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْفَتْحِ فَتْحِ مَکَّۃَ : لاَ ہِجْرَۃَ وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمَدِینِیِّ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ جَرِیرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] وَقَوْلُہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ ہِجْرَۃَ ۔ یَعْنِی وَاللَّہُ أَعْلَمُ لاَ ہِجْرَۃَ وُجُوبًا عَلَی مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ بَعْدَ فَتْحِہَا فَإِنَّہَا قَدْ صَارَتْ دَارَ إِسْلاَمٍ وَأَمْنٍ فَلاَ یَخَافُ أَحَدٌ فِیہَا أَنْ یُفْتَنَ عَنْ دِینِہِ وَکَذَلِکَ غَیْرُ مَکَّۃَ إِذَا صَارَ فِی مَعْنَاہَا بَعْدَ الْفَتْحِ فِی الأَمْنِ ۔
(١٧٧٦٧) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فتح مکہ کے دن (آج کے بعد) کوئی ہجرت نہیں، لیکن جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمہیں (جہاد) کی طرف بلایا جائے تو پھر تم نکلو۔ “
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان ( (لا ہجرۃ) ) کا مطلب یہ ہے (اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے) کہ اہل مکہ میں سے جس نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا ہے اس پر کوئی ہجرت واجب نہیں کیونکہ یہ دار الاسلام اور دار الامن بن گیا ہے اور کسی کو اس کے دین کے متعلق اس شہر میں فتنہ کا ڈر نہیں اور اسی طرح مکہ کے علاوہ دوسری جگہیں جب کہ وہ فتح ہونے کے بعد امن وامان کا گہوارہ بن جائیں (وہاں سے بھی ہجرت کرنا واجب نہیں) ۔

17774

(١٧٧٦٨) وَفِی مِثْلِ ذَلِکَ وَرَدَ مَا أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَسْفَاطِیُّ : الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا سُوَیْدٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ الْجَارُودِیُّ أَخْبَرَنَا سُوَیْدُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی عُثْمَانَ قَالَ أَخْبَرَنِی مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ السُّلَمِیُّ قَالَ : جِئْتُ بِأَخِی أَبِی مَعْبَدٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعْدَ الْفَتْحِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ بَایِعْہُ عَلَی الْہِجْرَۃِ قَالَ : قَدْ مَضَتِ الْہِجْرَۃُ لأَہْلِہَا ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَعَلَی أَیِّ شَیْئٍ تُبَایِعُہُ ؟ قَالَ : عَلَی الإِسْلاَمِ وَالْجِہَادِ وَالْخَیْرِ ۔ فَبَایَعَہُ قَالَ أَبُو عُثْمَانَ فَلَقِیتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَأَخْبَرْتُہُ بِقَوْلِ مُجَاشِعٍ فَقَالَ : صَدَقَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ سَعِیدٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٦٨) حضرت مجاشع بن مسعود سلمی کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابو معبد کو فتح مکہ کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آیا اور میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ان سے ہجرت پر بیعت لیں تو آپ نے فرمایا : ” ہجرت جنہوں نے کرنی تھی انھوں نے کرلی اور (اب ہجرت نہیں) تو میں نے کہا : یا رسول ! تو پھر آپ ان سے کسی چیز پر بیعت لیں گے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام، جہاد اور خیر پر، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بیعت لی۔ ابو عثمان کہتے ہیں کہ میری ملاقات ابو معبد سے ہوئی تو میں نے ان کو مجاشع کے قول کی خبر دی تو انھوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔

17775

(١٧٧٦٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ : سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا فُلَیْحُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَیَّۃَ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُنَیَّۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جِئْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأَبِی یَوْمَ الْفَتْحِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ بَایِعْ أَبِی عَلَی الْہِجْرَۃِ قَالَ : بَلْ أُبَایِعُہُ عَلَی الْجِہَادِ وَقَدِ انْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ یَوْمَ الْفَتْحِ ۔ کَذَا وَجَدْتُہُ وَإِنَّمَا ہُوَ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٦٩) حضرت یعلیٰ بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے دن اپنے والد کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : یا رسول اللہ ! میرے والد سے ہجرت پر بیعت لیجیے تو آپ نے فرمایا : نہیں ” بلکہ میں ان سے جہاد پر بیعت لیتا ہوں کیونکہ ہجرت فتح مکہ کے دن سے منقطع ہوگئی ہے۔ “

17776

(١٧٧٧٠) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ حَدَّثَنِی عُقَیْلُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَخْبَرَہُ قَالَ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ یَعْلَی أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ یَعْلَی قَالَ : کَلَّمْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أَبِی أُمَیَّۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ بَایِعْ أَبِی عَلَی الْہِجْرَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : بَلْ أُبَایِعُہُ عَلَی الْجِہَادِ فَقَدِ انْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ ۔ وَرَوَاہُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَیَّۃَ ابْنِ أَخِی یَعْلَی۔ [ضعیف ]
(١٧٧٧٠) حضرت یعلیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتح مکہ کے دن آپ نے امیہ کے بارے میں بات کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ ! میرے باپ سے ہجرت پر بیعت لیجیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہجرت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن میں ان سے جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ “

17777

(١٧٧٧١) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْخُسْرَوْجِرْدِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِی ابْنُ کَاسِبٍ حَدَّثَنِی سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ وَإِبْرَاہِیمُ بْنُ مَیْسَرَۃَ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قِیلَ لِصَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ وَہُوَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ : إِنَّہُ لاَ دِینَ لِمَنْ لَمْ یُہَاجِرْ فَقَالَ : لاَ أَصِلُ إِلَی بَیْتِی حَتَّی أَقْدَمَ الْمَدِینَۃَ فَقَدِمَ الْمَدِینَۃَ فَنَزَلَ عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ثُمَّ أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا جَائَ بِکَ یَا أَبَا وَہْبٍ ؟ ۔ قَالَ قِیلَ : إِنَّہُ لاَ دِینَ لِمَنْ لَمْ یُہَاجِرْ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: ارْجِعْ أَبَا وَہْبٍ إِلَی أَبَاطِحِ مَکَّۃَ فَقِرُّوا عَلَی سَکِنَتِکُمْ فَقَدِ انْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ وَإِنِ اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا ۔ [صحیح ]
(١٧٧٧١) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ صفوان بن امیہ سے کہا گیا اور وہ مکہ کے بالائی حصہ میں تھے کہ جس نے ہجرت نہ کی اس کا کوئی دین نہیں تو انھوں نے کہا کہ جب تک میں مدینہ میں نہیں جاتا اس سے پہلے میں گھر میں داخل نہیں ہوں گا۔ کہتے ہیں کہ وہ مدینہ میں آئے اور حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں اترے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ آپ نے کہا : اے ابو وہب ! تجھے کیا چیز لے آئی تو انھوں نے کہا کہ میں نے یہ سنا ہے کہ جس نے ہجرت نہیں کی اس کا کوئی دین نہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابو وہب ! بطحاء مکہ کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنے گھروں میں سکون کرو کیونکہ ہجرت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تم کو (جہاد وغیرہ) کے لیے بلایا جائے تو پھر دیر نہ کرنا۔ (قصہ کے علاوہ)

17778

(١٧٧٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ یَحْیَی الأَدَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَاہَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ رَجُلٍ سَمِعَ جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ نَاسًا یَقُولُونَ لَیْسَ لَنَا أُجُورٌ بِمَکَّۃَ قَالَ : لَتَأْتِیَنَّکُمْ أُجُورُکُمْ وَلَوْ کُنْتُمْ فِی جُحْرِ ثَعْلَبٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٧٢) حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے مکہ میں رہتے ہوئے کوئی اجر نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں تمہارا ضرور اجر ملے گا اگرچہ تم لومڑی کی بل میں بھی ہوئے۔

17779

(١٧٧٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا فُدَیْکُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ بَشِیرٍ بْنِ فُدَیْکٍ قَالَ : جَائَ فُدَیْکٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّہُمْ یَزْعُمُونْ أَنَّ مَنْ لَمْ یُہَاجِرْ ہَلَکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا فُدَیْکُ أَقِمِ الصَّلاَۃَ وَآتِ الزَّکَاۃَ وَاہْجُرِ السُّوئَ وَاسْکُنْ مِنْ أَرْضِ قَوْمِکَ حَیْثُ شِئْتَ ۔ قَالَ وَأَظُنُّ أَنَّہُ قَالَ : تَکُنْ مُہَاجِرًا ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٧٣) حضرت فدیک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس نے ہجرت نہ کی وہ ہلاک ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے فدیک ! نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور برائی کو چھوڑ دو ۔ پھر تمہارا جہاں دل چاہے تو اپنی قوم کی زمین میں رہو۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا یہ خیال ہے کہ آپ نے فرمایا : جب تم یہ کام کرنے والے بن جاؤ گے تو تم مہاجر ہو جاؤ گے۔

17780

(١٧٧٧٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِیسَی حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِیدِ الزُّبَیْدِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ بَشِیرِ بْنِ فُدَیْکٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَحْوَہُ لَیْسَ فِی حَدِیثِ الزُّبَیْدِیِّ : تَکُنْ مُہَاجِرًا ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٧٤) یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ زبیدی کی روایت میں ہے کہ تم مہاجر بن جاؤ گے۔

17781

(١٧٧٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عُمَیْرٍ حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِیُّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُنَاسٌ مِنْ أَہْلِ الْبَدْوِ فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدِمَ عَلَیْنَا أُنَاسٌ مِنْ قَرَابَاتِنَا فَزَعَمُوا أَنَّہُ لاَ یَنْفَعُ عَمَلٌ دُونَ الْہِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ- (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: حَیْثُمَا کُنْتُمْ فَأَحْسِنُوا عِبَادَۃَ اللَّہِ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٧٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ دیہات میں سے کچھ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ہمارے کچھ قریبی لوگ آئے اور انھوں نے آکر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہجرت اور جہاد کے بغیر کوئی عمل فائدہ مند نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں کہیں بھی رہو، تم اللہ کی عبادت اچھے طریقے سے کرو اور اس پر جنت کی بشارت بھی حاصل کرلو۔

17782

(١٧٧٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی عَطَائٌ : أَنَّہُ جَائَ عَائِشَۃَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا مَعَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ وَکَانَتْ مُجَاوِرَۃً قَالَ فَقَالَ عُبَیْدٌ : أَیْ ہَنْتَاہُ أَسْأَلُکِ عَنِ الْہِجْرَۃِ ۔ قَالَتْ : لاَ ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ إِنَّمَا کَانَتِ الْہِجْرَۃُ قَبْلَ الْفَتْحِ حِینَ یُہَاجِرُ الرَّجُلُ بِدِینِہِ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَّا حِینَ کَانَ الْفَتْحُ حَیْثُ شَائَ الرَّجُلُ عَبَدَ اللَّہَ لاَ یُمْنَعُ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٧٦) عطاء کہتے ہیں کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کے پاس آیا اور وہ اعتکاف بیٹھی تھیں یا مجاورہ کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ ان کے پڑوس میں رہتی تھیں تو ان سے عبید نے کہا : اے ہنتاہ ! (یہ حضرت عائشہ کی کنیت وغیرہ ہے) میں آپ سے ہجرت کے متعلق سوال کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے کہا : فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں، ہجرت تو فتح مکہ سے پہلے تھی جب آدمی اپنے دین کی خاطر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتا تو جب فتح ہوگئی ہے تو اب آدمی جہاں چاہے اللہ کی عبادت کرسکتا ہے اسے عبادت سے منع نہیں کیا جائے گا۔

17783

(١٧٧٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ عَنْ عَطَائٍ قَالَ : زُرْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا مَعَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ فَسَأَلَہَا عَنِ الْہِجْرَۃِ قَالَتْ : لاَ ہِجْرَۃَ الْیَوْمَ إِنَّمَا کَانَتِ الْہِجْرَۃُ إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ کَانَ الْمُؤْمِنُونَ یَفِرُّونَ بِدِینِہِمْ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ أَنْ یُفْتَنُوا فَقَدْ أَفْشَی اللَّہُ الإِسْلاَمَ فَحَیْثُمَا شَائَ رَجُلٌ عَبَدَ رَبَّہُ وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ الأَوْزَاعِیِّ وَابْنِ جُرَیْجٍ وَرُوِّینَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَعْنَی ہَذَا۔ وَکُلُّ ذَلِکَ یَرْجِعُ إِلَی انْقِطَاعِ الْہِجْرَۃِ وُجُوبًا عَنْ أَہْلِ مَکَّۃَ وَغَیْرِہَا مِنَ الْبِلاَدِ بَعْدَ مَا صَارَتْ دَارَ أَمَنٍ وَإِسْلاَمٍ فَأَمَّا دَارُ حَرْبٍ أَسْلَمَ فِیہَا مَنْ یَخَافُ الْفِتْنَۃَ عَلَی دِینِہِ وَلَہُ مَا یُبَلِّغُہُ إِلَی دَارِ الإِسْلاَمِ فَعَلَیْہِ أَنْ یُہَاجِرَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠٩٠]
(١٧٧٧٧) حضرت عطاء کہتے ہیں کہ میں نے عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) سے ملاقات کی تو انھوں نے ان سے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا : آج کوئی ہجرت نہیں، ہجرت تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف کی جاتی تھی۔ جب مؤمنین کو ان کے دین کے حوالے سے فتنے میں ڈالا جاتا تھا تو وہ اپنے دین کو بچانے کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تھے۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اتنا پھیلا دیا ہے کہ آدمی جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کرسکتا ہے۔ اب تو جہاد اور نیت باقی ہے۔
یہ تمام احادیث اہل مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے وجوب کی طرف لوٹتی ہیں یا ان کے علاوہ ایسے شہر کی طرف لوٹتی ہیں جو دار الاسلام یا دار الامن بن گئے ہیں اور اگر کوئی آدمی دار الحرب میں ہے اور اس کو وہاں پر اسلام پر چلنا مشکل ہے تو اس کے لیے ہجرت باقی ہے کہ وہ وہاں سے ہجرت کر کے دار الاسلام میں آجائے اور اپنے دین کو بچا لے۔

17784

(١٧٧٧٨) وَفِی مِثْلِ ذَلِکَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی الرَّازِیُّ أَخْبَرَنَا عِیسَی عَنْ حَرِیزِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عَوْفٍ عَنْ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ حَتَّی تَنْقَطِعَ التَّوْبَۃُ وَلاَ تَنْقَطِعُ التَّوْبَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٧٨) ابو ہند امیر معاویہ سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جب تک توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوگا اس وقت تک ہجرت کا دروازہ بھی بند نہیں ہوگا اور توبہ کا دروازہ اس وقت بند ہوگا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔

17785

(١٧٧٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ قَاضَی دِمَشْقَ عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِیِّ عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ السَّعْدِیِّ مِنْ بَنِی مَالِکِ بْنِ حِسْلٍ : أَنَّہُ قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَلَمَّا نَزَلُوا قَالُوا احْفَظْ لَنَا رِکَابَنَا حَتَّی نَقْضِیَ حَاجَتَنَا ثُمَّ تَدْخُلُ وَکَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَقُضِی لَہُمْ حَاجَتَہُمْ ثُمَّ قَالُوا لَہُ ادْخُلْ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : حَاجَتُکَ ؟ قَالَ : حَاجَتِی أَنْ تُخْبِرَنِی أَنْقَطَعَتِ الْہِجْرَۃُ ؟ قَالَ : حَاجَتُکَ مِنْ خَیْرِ حَوَائِجِہِمْ لاَ تَنْقَطِعُ الْہِجْرَۃُ مَا قُوتِلَ الْعَدُوُّ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٧٧٩) حضرت عبداللہ بن سعدی مالک بن حسل قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ جب وہ اپنی سواریوں سے اترے تو انھوں نے کہا کہ آپ سواریوں کی حفاظت کریں۔ جب ہم اپنی حاجت پوری کریں گے تو تم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جانا اور اپنی ضرورت پوری کرلینا اور میں سب سے چھوٹا تھا جب وہ اپنی حاجت پوری کر کے آگئے تو انھوں نے مجھے کہا کہ اب تم چلے جاؤ۔ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا : تمہاری کیا حاجت ہے ؟ میں نے کہا : میری حاجت اور سوال یہ ہے کہ آپ مجھے ہجرت کے متعلق بتائیے کیا ہجرت منقطع ہوگئی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک دشمن سے قتال کیا جائے گا ہجرت منقطع نہیں ہوگی۔

17786

(١٧٧٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِی غَرَزَۃَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ وَأَبُو نُعَیْمٍ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ نِی النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعُودُنِی وَکَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی ہَاجَرَ مِنْہَا فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُوصِی بِمَالِی کُلِّہِ ؟ قَالَ : لاَ ۔ قُلْتُ : فَالشَّطْرُ ؟ قَالَ : لاَ ۔ قُلْتُ فَالثُّلُثُ ؟ قَالَ : الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ لَہُمْ مِنْ أَنْ تَدَعَہُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ بِأَیْدِیہِمْ وَإِنَّکَ مَہْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَإِنَّہَا صَدَقَۃٌ حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُہَا إِلَی فِی امْرَأَتِکَ وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یَرْفَعَکَ فَیَنْتَفِعَ بِکَ أُنَاسٌ وَیُضَرَّ بِکَ آخَرُونَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٨٠) حضرت سعد بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے میرے پاس آئے اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ مجھے اسی زمین میں موت آئے جہاں سے میں نے ہجرت کی ہے تو میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں سارے مال کی وصیت کر دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں “ میں نے کہا : آدھے مال کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ میں نے کہا : ایک تہائی مال کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اپنے وارثوں مال داری کی حالت میں چھوڑ جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم ان کو فقیری کی حالت میں چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور آپ جب کبھی بھی اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کریں گے تو وہ آپ کے حق میں صدقہ بن جائے گا حتیٰ کہ وہ نوالہ جو تم اپنی بیوی کے منہ کی طرف اٹھاتے ہو (اس پر بھی اجر ملتا ہے) اور شاید کہ رفعت عطاء فرمائے اور تیری وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے اور دوسروں (یعنی کافروں، مشرکوں) کو نقصان۔

17787

(١٧٧٨١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو : عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ السَّمَّاکُ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ فَذَکَرَہُ بِإِسْنَادِہِ وَمَعْنَاہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : یَعُودُنِی وَأَنَا مَرِیضٌ بِمَکَّۃَ وَہْوَ یَکْرَہُ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی ہَاجَرَ مِنْہَا فَقَالَ : یَرْحَمُکَ اللَّہُ ابْنَ عَفْرَائَ ۔ ثُمَّ ذَکَرَہُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ بخاری و مسلم ]
(١٧٧٨١) مذکورہ حدیث کو اسی سند اور اسی معنیٰ کے ساتھ بیان کیا سوائے ان الفاظ کی زیادتی کے ساتھ کہ میں مکہ میں مریض تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور وہ ناپسند کرتے تھے کہ ان کی وفات اسی زمین پر ہو جس سے انھوں نے ہجرت کی ہے۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابن عفرائ ! اللہ تجھ پر رحم کرے۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔

17788

(١٧٧٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو یَحْیَی : زَکَرِیَّا بْنُ یَحْیَی بْنِ أَسَدٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّہُ مَرِضَ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَی مِنْہُ عَلَی الْمَوْتِ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعُودُہُ وَہُوَ بِمَکَّۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُخَلَّفُ عَنْ ہِجْرَتِی ؟ قَالَ : إِنَّکَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِی فَتَعْمَلَ عَمَلاً تُرِیدُ بِہِ وَجْہَ اللَّہِ إِلاَّ ازْدَدْتَ بِہِ رِفْعَۃً وَدَرَجَۃً وَلَعَلَّکَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّی یَنْتَفِعَ بِکَ أَقْوَامٌ وَیُضَرَّ بِکَ آخَرُونَ اللَّہُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِی ہِجْرَتَہُمْ وَلاَ تَرُدَّہُمْ عَلَی أَعْقَابِہِمْ لَکِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَۃَ ۔ یَرْثِی لَہُ أَنْ مَاتَ بِمَکَّۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٨٢) عامر بن سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ان کو ان کے والد نے خبر دی کہ وہ فتح مکہ کے سال مکہ میں بیمار ہوئے اور اس بیماری میں ان کو اپنی موت کا اندیشہ ہوا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیادت کرنے کے لیے آئے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو میرے بعد ہرگز پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ پس تم نیک اعمال کرتے رہو اور جو بھی تم اللہ کی رضا کے لیے کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تمہارے مقام و مرتبے کو بڑھاتے جائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تجھے پیچھے چھوڑ دیا جائے اور تیری وجہ سے اللہ بعض لوگوں کو نفع پہنچائیں اور بعضوں کو نقصان۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی : اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو پورا فرما اور ان کو ایڑیوں کے بل نہ لوٹا دینا لیکن فقیر سعد بن خولہ، ان کے لیے مرثیہ پڑھتے کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہوئے۔

17789

(١٧٧٨٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَخْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ فَذَکَرَہُ بِإِسْنَادِہِ وَمَعْنَاہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : یَرْثِی لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ مَاتَ بِمَکَّۃَ ۔ قَالَ سُفْیَانُ : وَسَعْدُ ابْنُ خَوْلَۃَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْحُمَیْدِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ بخاری، تقدم قبلہ ]
(١٧٧٨٣) اسی سند اور انہی معنیٰ کے ساتھ مذکورہ بالا روایت منقول ہے سوائے ان الفاظ کے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے مرثیہ پڑھتے کہ وہ مکہ میں فوت ہوئے اور سفیان نے کہا کہ سعد بن خولہ بنی عامر بن لؤی قبیلہ کے ایک آدمی ہیں۔

17790

(١٧٧٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ مَنصُورٍ حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ عَنْ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِیدٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ عَنْ ثَلاَثَۃٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ کُلُّہُمْ یُحَدِّثُہُ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَخَلَ عَلَی سَعْدٍ یَعُودُہُ بِمَکَّۃَ فَبَکَی فَقَالَ : مَا یُبْکِیکَ ؟ ۔ قَالَ : قَدْ خَشِیتُ أَنْ أَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی ہَاجَرْتُ مِنْہَا کَمَا مَاتَ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُمَّ اشْفِ سَعْدًا اللَّہُمَّ اشْفِ سَعْدًا ۔ ثَلاَثَ مِرَارٍ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ ابْنِ أَبِی عُمَرَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٨٤) حضرت سعد (رض) کے تین بیٹے سب کے سب اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں ان کی عیادت کرنے کے لیے ان کے پاس تشریف لائے تو وہ رونے لگ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے کون سی چیز رلا رہی ہے ؟ انھوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میری موت اس زمین میں واقع ہو جس سے میں نے ہجرت کی ہے۔ جیسا کہ سعد بن خولہ کی وفات اسی شہر میں ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! سعد کو شفا دے۔ اے اللہ ! سعد کو شفا دے۔ تین دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی۔

17791

(١٧٧٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَیْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍ الْقَارِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَمْرٍو الْقَارِیِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدِمَ فَخَلَّفَ سَعْدًا مَرِیضًا حَیْثُ خَرَجَ إِلَی حُنَیْنٍ فَلَمَّا قَدِمَ عَنِ الْجِعْرَانَۃِ مُعْتَمِرًا دَخَلَ عَلَیْہِ وَہُوَ وَجِعٌ مَغْلُوبٌ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنَّ لِی مَالاً وَإِنِّی أُورَثُ کَلاَلَۃً فَأُوصِی بِمَالِی کُلِّہِ أَوْ أَتَصَدَّقُ بِہِ ۔ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَیْہِ ؟ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَأَوْصَی بِشَطْرِہِ ؟ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ وَذَاکَ کَثِیرٌ ۔ قَالَ : أَیْ رَسُولَ اللَّہِ أُصِیبُ بِالدَّارِ الَّتِی خَرَجْتُ مِنْہَا مُہَاجِرًا۔ قَالَ : إِنِّی لأَرْجُو أَنْ یَرْفَعَکَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْ یُکَادَ بِکَ أَقْوَامٌ وَیَنْتَفِعُ بِکَ آخَرُونَ یَا عَمْرُو بْنَ الْقَارِیِّ إِنْ مَاتْ سَعْدٌ بَعْدِی فَہَا ہُنَا ادْفِنْہُ نَحْوَ طَرِیقِ الْمَدِینَۃِ ۔ وَأَشَارَ بِیَدِہِ ہَکَذَا۔ ہَذِہِ الرِّوَایَۃُ تُوَافِقُ رِوَایَۃَ سُفْیَانَ فِی أَنَّ ذَلِکَ کَانَ عَامَ الْفَتْحِ وَسَائِرُ الرُّوَاۃِ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالُوا فِیہِ عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ وَاخْتُلِفَ فِی ہَذِہِ الرِّوَایَۃِ عَلَی ابْنِ خُثَیْمٍ فِی اسْمِ حَفَدَۃِ عَمْرِو بْنِ الْقَارِیِّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٨٥) حضرت عمرو قاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور جب آپ حنین جانے لگے تو آپ نے حضرت سعد (رض) کو پیچھے چھوڑ دیا اور جب آپ جعرانہ سے عمرہ کرنے آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد کے پاس تشریف لائے اور وہ تکلیف سے نڈھال غشی کی حالت میں تھے۔ (افاقہ کے بعد) حضرت سعد (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مال دار آدمی اور میرا وارث بھی کوئی نہیں ہے (یعنی کلالہ) کیا میں سارے مال کی وصیت کر جاؤں یا صدقہ کر دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ انھوں نے کہا : کیا دو تہائی مال کا صدقہ کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں۔ پھر حضرت سعد (رض) نے کہا : کیا آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔ انھوں نے پھر کہا : کیا ایک تہائی مال کو صدقہ کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! اور یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر حضرت سعد (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں ایسی جگہ پر بیماری میں مبتلا ہوں، جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے درجات کو بلند کرے اور تیرے ذریعے سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچائے اور بعض کو فائدہ۔ پھر آپ نے کہا : اے عمرو بن قاری ! اگر میرے بعد سعد فوت ہوجائے تو اسے یہاں دفن کرنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے راستے کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا۔ یہ روایت بھی سفیان کی روایت کے موافق ہے جس میں ہے کہ یہ واقعہ عام الفتح میں پیش آیا جبکہ باقی رواۃ زہری کے طریق سے کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے سال میں پیش آیا اور اسی طرح اس روایت میں ابن خیثم نام کے آدمی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے جو عمرو بن قاری کے پوتے ہیں۔

17792

(١٧٧٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو یَحْیَی : زَکَرِیَّا بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ قَالَ : خَلَّفَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی سَعْدٍ رَجُلاً فَقَالَ : إِنْ مَاتَ فَلاَ تَدْفِنُوہُ بِہَا ۔ [ضعیف۔ مرسل ]
(١٧٧٨٦) حضرت عبدالرحمن اعرج (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد پر ایک آدمی مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر وہ یہاں فوت ہوجائیں تو انھیں اس جگہ دفن نہ کرنا۔

17793

(١٧٧٨٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَأَبُو بَکْرٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَبُو یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ قَالَ قَالَ سَعْدٌ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَیُکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی ہَاجَرَ مِنْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ ہَذَا مُرْسَلٌ وَکَذَلِکَ مَا قَبْلَہُ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٧٨٧) حضرت ابو بردہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : کیا یہ بات آدمی کے لیے ناپسندیدہ ہے کہ جس زمین سے اس نے ہجرت کی ہو اسی میں اس کو موت آئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! یہ روایت بھی مرسل ہے اور اس سے ماقبل بھی۔

17794

(١٧٧٨٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَفْصٍ بِنَیْسَابُورَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ الأَسَدِیِّ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوسَی عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَکْرَہُ لِلرَّجُلِ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی یُہَاجِرُ مِنْہَا۔ [صحیح ]
(١٧٧٨٨) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ آدمی کے لیے یہ چیز ناپسندیدہ ہے کہ جس زمین سے وہ ہجرت کرے اور پھر اسی ہی زمین پر اسے موت آئے۔

17795

(١٧٧٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَیْسَرِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا دَخَلَ مَکَّۃَ قَالَ : اللَّہُمَّ لاَ تَجْعَلْ مَنَایَانَا فِیہَا حَتَّی تُخْرِجَنَا مِنْہَا ۔ تَابَعَہُ وَکِیعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَعِیدٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٨٩) ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوتے تو فرماتے : اے اللہ ! ہمیں اس زمین پر موت نہ دینا جس سے ہم نے ہجرت کی ہے۔ وکیع نے عبداللہ بن سعید کی متابعت کی ہے۔

17796

(١٧٧٩٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : الْقَاسِمُ بْنُ أَبِی صَالِحٍ الْہَمَذَانِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنِی أَخِی عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عَتِیقٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّمَا النَّاسُ کَإِبِلِ مِائَۃٍ لاَ تَکَادُ تَجِدُ فِیہَا رَاحِلَۃً ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : وَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ لاَ تَتَّخِذُوا الأَمْوَالَ بِمَکَّۃَ وَأَعِدُّوہَا بِدَارِ ہِجْرَتِکُمْ فَإِنَّ قَلْبَ الرَّجُلِ عِنْدَ مَالِہِ ۔
(١٧٧٩٠) ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ لوگ سو اونٹ کی طرح ہیں جن میں ایک بھی سواری کے قابل نہ ہو۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں : حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے : اے مہاجرین کی جماعت ! اپنے مالوں کو مکہ میں جمع نہ کرو اور ان کو اپنے ہجرت کے گھر میں مہیا نہ کرو، کیونکہ آدمی کا دل اس کے مال کے پاس ہوتا ہے۔

17797

(١٧٧٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عِیسَی الرَّمْلِیُّ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : آکِلُ الرِّبَا وَمُؤْکِلُہُ وَشَاہِدَاہُ إِذَا عَلِمَاہُ وَالْوَاشِمَۃُ وَالْمُؤْتَشِمَۃُ وَلاَوِی الصَّدَقَۃِ وَالْمُرْتَدُّ أَعْرَابِیًّا بَعْدَ الْہِجْرَۃِ مَلْعُونُونَ عَلَی لِسَانِ مُحَمَّدٍ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ تَفَرَّدَ بِہِ یَحْیَی بْنُ عِیسَی ہَکَذَا۔ وَرَوَاہُ الثَّوْرِیُّ وَغَیْرُہُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَرَوَاہُ ابْنُ نُمَیْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٩١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ سود کھانے والا اور کھلانے والا اور اس کے گواہ بننے والے جاننے کے باوجود اور کودنے والی اور کدوانے والی اور صدقہ کو لپیٹنے والا اور ہجرت کے بعد مرتد اعرابی بننے والا یہ سارے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر ملعون ہیں۔

17798

(١٧٧٩٢) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ الثَّقَفِیُّ وَدَاوُدُ بْنُ مِخْرَاقٍ الْفَارْیَابِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ : أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی الْحَجَّاجِ فَقَالَ : یَا ابْنَ الأَکْوَعِ ارْتَدَدْتَ عَلَی عَقِبَیْکَ تَعَرَّبْتَ قَالَ أَحَدُہُمَا بَعْدَ الْہِجْرَۃِ ۔ قَالَ : لاَ وَلَکِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَذِنَ لِی فِی الْبَدْوِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٩٢) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) حجاج بن یوسف کے پاس گئے تو انھوں نے کہا : اے ابن اکوع ! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھرگئے ہو دیہاتی بن کر ہجرت کے بعد۔ انھوں نے کہا : نہیں، لیکن مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیہات میں رہنے کی اجازت دی تھی۔

17799

(١٧٧٩٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ : لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ خَرَجَ سَلَمَۃُ إِلَی الرَّبَذَۃِ وَتَزَوَّجَ ہُنَاکَ امْرَأَۃً وَوُلِدَ لَہُ أَوْلاَدٌ فَلَمْ یَزَلْ ہُنَاکَ حَتَّی قَبْلَ أَنْ یَمُوتَ بِلَیَالٍ فَنَزَلَ یَعْنِی الْمَدِینَۃَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ قُتَیْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٧٩٣) یزید بن ابی عبید (رض) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفان (رض) کو شہید کیا گیا تو حضرت سلمہ (بن الاکوع ) ربذہ کی طرف چلے گئے اور وہاں پر ہی ایک عورت سے شادی کرلی اور ان کے ہاں بہت زیادہ اولاد ہوئی۔ وہ ربذہ میں ہی رہے حتیٰ کہ موت سے چند راتیں پہلے مدینہ میں آئے۔

17800

(١٧٧٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ أَنَّ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ ذَاتَ یَوْمٍ فِی خُطْبَتِہِ : أَلاَ إِنَّ رَبِّی أَوْ إِنَّ رَبِّی أَمَرَنِی أَنْ أُعَلِّمَکُمْ مَا جَہِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِی یَوْمِی ہَذَا ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ إِنَّمَا بَعَثْتُکَ لأَبْتَلِیَکَ وَأَبْتَلِیَ بِکَ وَأَنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَابًا لاَ یَغْسِلُہُ الْمَائُ تَقْرَأُہُ نَائِمًا وَیَقْظَانًا وَإِنَّ اللَّہَ أَمَرَنِی أَنْ أُحْرِقَ قُرَیْشًا فَقُلْتُ رَبِّ إِذًا یَثْلَغُوا رَأْسِی فَیَدَعُوہُ خُبْزَۃً فَقَالَ اسْتَخْرِجْہُمْ کَمَا أَخْرَجُوکَ وَاغْزُہُمْ نَغْزُ بِکَ وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقَ عَلَیْکَ وَابْعَثْ جَیْشًا نَبْعَثْ خَمْسَۃَ أَمْثَالِہِ وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَکَ مَنْ عَصَاکَ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ ہِشَامٍ الدَّسْتَوَائِیِّ وَغَیْرِہِ عَنْ قَتَادَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٨٦٥]
(١٧٧٩٤) حضرت عیاض بن حمار مجاشعی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں کہا : ” سنو ! میرے رب نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں وہ کچھ سکھاؤں جس سے تم ناواقف ہو، اس علم میں سے جو آج کے دن اس نے مجھے سکھایا ہے۔ پھر حدیث بیان کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اے محمد ! میں نے تجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں تیری آزمائش کروں اور تیرے ذریعے سے (دوسروں) کی آزمائش کروں اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی بھی نہیں دھو سکتا یا مٹا سکتا تم اسے سوتے اور جاگتے ہوئے پڑھو گے اور بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا دوں۔ میں نے کہا : اے میرے رب ! تب تو وہ میرا سر کچل دیں گے اور اسے روٹی کی مانند کردیں گے اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان کو نکالو جیسے انھوں نے آپ کو نکالا ہے۔ آپ ان سے جہاد کیجیے ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ خرچ کریں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خرچ کریں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکر بھیجیں گے اور جو آپ کے مطیع و فرمان بردار ہیں ان کے ساتھ مل کر اپنے نافرمانوں سے قتال کریں۔ “

17801

(١٧٧٩٥) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنَا أَبُو زِیَادٍ یَحْیَی بْنِ عُبَیْدٍ الْغَسَّانِیِّ عَنْ یَزِیدَ بْنِ قُطَیْبٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ : لَعَلَّکَ أَنْ تَمُرَّ بِقَبْرِی وَمَسْجِدِی قَدْ بَعَثْتُکَ إِلَی قَوْمٍ رَقِیقَۃٌ قُلُوبُہُمْ یُقَاتِلُونَکَ عَلَی الْحَقِّ مَرَّتَیْنِ فَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَکَ مِنْہُمْ مَنْ عَصَاکَ ثُمَّ یَغْدُونَ إِلَی الإِسْلاَمِ حَتَّی تُبَادِرَ الْمَرْأَۃُ زَوْجَہَا وَالْوَلَدُ وَالِدَہُ وَالأَخُ أَخَاہُ فَانْزِلْ بَیْنَ الْحَیَّیْنِ السَّکُونِ وَالسَّکَاسِکِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٩٥) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ شاید کہ تم میری قبر اور میری مسجد سے گزرو اور یقیناً میں نے تجھے ایسی قوم کی طرف بھیجا ہے جن کے دل بہت نرم ہیں اور وہ حق پر آپ کے ساتھ مل کر دو دفعہ قتال کریں گے۔ آپ اپنے فرمان بردار لوگوں سے مل کر نافرمانوں سے قتال کرنا۔ پھر وہ اسلام کی طرف چلیں گے حتیٰ کہ عورت اپنے شوہر سے جلدی کرے گی اور بیٹا اپنے باپ سے اور بھائی اپنے بھائی سے اور تم دو قبیلوں کے درمیان سکون و محبت پیدا کرنا۔

17802

(١٧٧٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ إِمْلاَئً بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ الْعَلاَئِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّیُّ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی أُنَیْسَۃَ عَنْ جَبَلَۃَ بْنِ سُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُثَنَّی الْعَبْدِیُّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ الْخَصَاصِیَۃِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأُبَایِعَہُ عَلَی الإِسْلاَمِ فَاشْتَرَطَ عَلَیَّ : تَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَتُصَلِّی الْخَمْسَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتُؤَدِّی الزَّکَاۃَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ وَتُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمَّا اثْنَتَانِ فَلاَ أُطِیقُہُمَا أَمَّا الزَّکَاۃُ فَمَا لِی إِلاَّ عَشْرُ ذَوْدٍ ہُنَّ رِسْلُ أَہْلِی وَحَمُولَتُہُمْ وَأَمَّا الْجِہَادُ فَیَزْعُمُونَ أَنَّہُ مَنْ وَلَّی فَقَدْ بَائَ بِغَضَبٍ مِنْ اللَّہِ فَأَخَافُ إِذَا حَضَرَنِی قِتَالٌ کَرِہْتُ الْمَوْتَ وَجَشِعَتْ نَفْسِی قَالَ فَقَبَضَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَدَہُ ثُمَّ حَرَّکَہَا ثُمَّ قَالَ : لاَ صَدَقَۃَ وَلاَ جِہَادَ فَبِمَ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ ؟ ۔ قَالَ ثُمَّ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُبَایِعُکَ فَبَایَعَنِی عَلَیْہِنَّ کُلِّہِنَّ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٩٦) حضرت ابن خصاصیہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اسلام پر بیعت کرنے کے لیے آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ پر مندرجہ ذیل باتوں کی شرط لگائی : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں اور پانچ وقت کی نماز ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ “ ابن خصاصیہ کہتے ہیں : میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ان میں سے دو چیزوں کے کرنے کی میں طاقت نہیں رکھتا، یعنی (زکوۃ اور جہاد کی) ۔ رہی زکوۃ تو میرے پاس صرف دس اونٹ ہیں جو میرے گھر والوں کا سرکل چلاتے ہیں، یعنی ہم ان کا دودھ استعمال کرتے ہیں اور سواری کرتے ہیں اور رہا جہاد کا معاملہ تو اس کے بارے میں لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو میدان جنگ سے بھاگے گا۔ وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے گا تو میں ڈرتا ہوں کہ میں میدان قتال میں حاضر ہوں تو اس وقت میں موت کو ناپسند کروں اور اپنی جان کو پسند کرلوں اور اس پر حریص بن جاؤں۔ کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کو بند کرلیا اور پھر اسے ہلا کر کہا کہ نہ صدقہ اور نہ جہاد تو تم جنت میں کیسے جاسکتے ہو۔ ابن خصاصیہ کہتے ہیں : پھر میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، پھر آپ نے مجھ سے ان تمام چیزوں پر بیعت لی۔

17803

(١٧٧٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِی طَاہِرٍ الدَّقَّاقُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْہَیْثَمِ الْبَلَدِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ حَدَّثَنَا مَنصُورٌ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَلاَ تُحَدِّثُنِی بِعَمَلٍ أَدْخُلُ بِہِ الْجَنَّۃَ ؟ قَالَ : إِنْ شِئْتَ أَنْبَأْتُکَ بِرَأْسِ الأَمْرِ وَعَمُودِہِ وَذُرْوَۃِ سَنَامِہِ أَمَّا رَأْسُ الأَمْرِ فَالإِسْلاَمُ مَنْ أَسْلَمَ سَلِمَ وَأَمَّا عَمُودُہُ فَالصَّلاَۃُ وَأَمَّا ذُرْوَۃُ سَنَامِہِ فَالْجِہَادُ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٩٧) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے سر کون ہے اور ستون کون ہے اور کوہان کی بلندی کون سی چیز ہے۔ پھر فرمایا کہ ان چیزوں کا سر اسلام ہے۔ جس نے اسلام قبول کیا وہ سلامت رہا اور ان چیزوں کا ستون نماز ہے اور کوہان کی چوٹی جہاد ہے۔ “ پھر حدیث بیان کی۔

17804

(١٧٧٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا : یَحْیَی بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : جَاہِدُوا۔ یَعْنِی الْمُشْرِکِینَ : بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ ۔ [صحیح ]
(١٧٧٩٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاد کرو یعنی مشرکین سے اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ۔

17805

(١٧٧٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَیَّاشٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَلَیْکُمْ بِالْجِہَادِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَإِنَّہُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یُذْہِبُ اللَّہُ بِہِ الْغَمَّ وَالْہَمَّ ۔ وَزَادَ فِیہِ غَیْرُہُ أَنَّہُ قَالَ : وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ الْقَرِیبَ وَالْبَعِیدَ وَأَقِیمُوا حُدُودَ اللَّہِ فِی الْقَرِیبِ وَالْبَعِیدِ وَلاَ یَأْخُذُکُمْ فِی اللَّہِ لَوْمَۃُ لاَئِمٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَرُوِیَ ذَلِکَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْکِنْدِیِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٧٩٩) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اپنے اوپر لازم کرلو اس لیے کہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے رنج و غم دور کردیتا ہے اور ان کے علاوہ دوسروں نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں اور اللہ کے راستے میں قریب و بعید سے جہاد کرو اور اللہ کی حدود کو قریب و بعید قائم کرو اور اللہ کے دین میں تمہیں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔

17806

(١٧٨٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَلِیمٍ الْمَرْوَزِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُوَجِّہِ أَخْبَرَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : جَلَسْنَا إِلَی الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِدِمَشْقَ وَہُوَ عَلَی تَابُوتٍ مَا بِہِ عَنْہُ فَضْلٌ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ : لَوْ قَعَدْتَ الْعَامَ عَنِ الْغَزْوِ ۔ قَالَ : أَبَتْ عَلَیْنَا الْبَحُوثُ یَعْنِی سُورَۃَ التَّوْبَۃِ قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً } [التوبۃ ٤١] فَلاَ أَجِدُنِی إِلاَّ خَفِیفًا۔ [حسن ]
(١٧٨٠٠) عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم دمشق میں حضرت مقداد بن اسود (رض) کے پاس بیٹھے میں اور وہ ایک صندوق پر تھے اور ان کے پاس اس سے زائد چیز یا فضل نہ تھا تو ان سے ایک آدمی نے کہا : اگر آپ اس سال غزوے پر نہ جاتے تو یہ بہتر ہوتا تو انھوں نے کہا کہ ہمیں اس ( (بحوث) ) یعنی سورة التوبہ نے روک لیا ہے، یعنی سورة التوبہ ہمیں نہیں بیٹھنے دیتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا } [التوبۃ ٤١] کہ ” اللہ کے راستے میں ہلکے اور بوجھل جس حال میں بھی ہو نکلو۔ “ تو میں اپنے آپ کو ہلکا پاتا ہوں۔

17807

(١٧٨٠١) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنِی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ وَثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ أَبَا طَلْحَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً } [التوبۃ ٤١] قَالَ : أُرَی رَبَّنَا یَسْتَنْفِرُنَا شُیُوخًا وَشُبَّانًا جَہِّزُونِی أَیْ بَنِیَّ جَہِّزُونِی فَقَالَ بَنُوہُ : قَدْ شَہِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَنَحْنُ نَغْزُو فَقَالَ جَہِّزُونِی فَرَکِبَ الْبَحْرَ فَمَاتَ فَلَمْ یَجِدُوا لَہُ جَزِیرَۃً إِلاَّ بَعْدَ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ فَدَفَنُوہُ فِیہَا وَلَمْ یَتَغَیَّرْ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٠١) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی : { اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا } [التوبۃ ٤١] تو انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے رب نے اس میں بوڑھے اور جوانوں کو نکلنے کا کہا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا : اے بیٹو ! میرے لیے تیاری کرو، میرے لیے تیاری کرو تو بیٹوں نے کہا کہ یقیناً اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر اور عمر (رض) کے ساتھ مل کر غزوے کے لیے ہیں۔ (اب آپ بیٹھیں) اور ہم لڑتے ہیں۔ انھوں نے کہا : میری تیاری کرو حتیٰ کہ سمندر کا سفر کیا اور فوت ہوگئے۔ (حضرت انس (رض) کہتے ہیں) کہ انھیں سات دنوں کے بعد ایک جزیرہ ملا تو اس میں انھیں دفن کیا اور ان کی نعش بالکل صحیح رہی۔

17808

(١٧٨٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : اسْتَأْذَنْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْجِہَادِ فَقَالَ : جِہَادُکُنَّ أَوْ حَسْبُکُنَّ الْحَجُّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٨٧٥]
(١٧٨٠٢) ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد کرنے کی اجازت مانگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا جہاد تمہاری حج ہے یا حج کرنا ہی تمہیں کافی ہے۔

17809

(١٧٨٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : زَیْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْعَلَوِیُّ وَأَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ النَّجَّارُ الْمُقْرِئُ بِالْکُوفَۃِ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ الشَّیْبَانِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَتْ : اسْتَأْذَنْتُہُ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ : حَسْبُکُنَّ الْحَجُّ أَوْ جِہَادُکُنَّ الْحَجُّ ۔
(١٧٨٠٣) یہ روایت بھی پہلی روایت کی طرح ہے۔ یہاں پر ( (حَسْبُکُنَّ الْحَجُّ أَوْ جِہَادُکُنَّ الْحَجُّ ) ) کے الفاظ ہیں۔ (سابقہ حوالہ)

17810

(١٧٨٠٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِی ہَاشِمٍ الْعَلَوِیُّ وَأَبُو الْقَاسِمِ بْنُ النَّجَّارِ الْمُقْرِئُ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرِ بْنُ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ حَبِیبٍ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا بِنَحْوٍ مِنْ ہَذَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قَبِیصَۃَ بِالإِسْنَادَیْنِ جَمِیعًا۔
(١٧٨٠٤) یہ روایت بھی سابقہ روایات کی طرح ہے اور اس کی دونوں سندیں قبیصہ سے منقول ہیں۔ (سابقہ حوالہ)

17811

(١٧٨٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی مَحْمُودٌ الْوَاسِطِیُّ لَفْظُہُ وَالْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ قَالاَ حَدَّثَنَا وَہْبٌ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی عَمْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ طَلْحَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللَّہِ نَرَی الْجِہَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ أَفَلاَ نُجَاہِدُ مَعَکَ ؟ قَالَ : لاَ وَلَکُنَّ أَفْضَلُ الْجِہَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ ۔ وَکَانَتْ عَائِشَۃُ خَالَتَہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٠٥) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم جہاد کو افضل عمل جانتی ہیں، کیا ہم بھی آپ کے ساتھ جہاد نہ کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں لیکن (عورتوں کے لیے) افضل عمل حج مبرور ہے۔
امام بخاری نے بہت سی جگہوں پر بیان کی ہے۔

17812

(١٧٨٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا قَبِیصَۃُ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیَغْزُو الرِّجَالُ وَلاَ نَغْزُو وَلاَنُقَاتِلُ فَنُسْتَشْہَدَ وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الْمِیرَاثِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی { وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ } [النساء ٣٢] ۔ [صحیح ]
(١٧٨٠٦) حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مرد غزوات میں شریک ہوتے ہیں اور ہم شرکت نہیں کرتیں اور نہ ہم قتال کرتی ہیں کہ ہمیں شہادت مل جائے اور اسی طرح مردوں کے مقابلے میں ہمیں وراثت میں آدھا حصہ ملتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ } [النساء ٣٢] ” جس چیز کے ساتھ اللہ نے تمہارے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ “

17813

(١٧٨٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُرَیْشٍ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : عَرَضَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ أُحُدٍ فِی الْقِتَالِ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ فَلَمْ یُجِزْنِی وَعَرَضَنِی یَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَأَجَازَنِی۔ قَالَ نَافِعٌ فَقَدِمْتُ عَلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَہُوَ یَوْمَئِذٍ خَلِیفَۃٌ فَحَدَّثْتُہُ بِہَذَا الْحَدِیثَ فَقَالَ إِنَّ ہَذَا لَحَدٌّ بَیْنَ الصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ وَکَتَبَ إِلَی عُمَّالِہِ أَنْ یَفْرِضُوا لِمَنْ کَانَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَمَا کَانَ دُونَ ذَلِکَ فَاجْعَلُوہُ فِی الْعِیَالِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٠٧) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے احد کی لڑائی میں احد کے دن اپنے آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت نہ دی اور اس وقت میری عمر ١٤ سال تھی۔ پھر خندق کے دن میں نے پیش کیا تو میری عمر ١٥ سال تھی تو آپ نے مجھے (اس میں حصہ لینے کی) اجازت دے دی۔ نافع کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں ان کے پاس گیا اور انھیں یہ حدیث بیان کی تو انھوں نے کہا کہ یہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان میں حد ہے۔ پھر انھوں نے اپنے عاملوں کی طرف لکھا کہ جس کی عمر ١٥ سال ہو تو وہ اس کو قتال میں شریک کریں اور جو اس سے کم عمر کا ہو تو اس کو اہل و عیال میں بھیج دو ۔

17814

(١٧٨٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ اسْتُصْغِرْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ یَوْمَ بَدْرٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : عُرِضْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَنَا وَرَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَا وَہُوَ ابْنَا خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَقَبِلَنَا۔ [صحیح ]
(١٧٨٠٨) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور رافع بن خدیج خندق کے دن (جنگ کے لیے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پیش کیے گئے اور اس وقت ہم دونوں پندرہ پندرہ سال کے تھے تو آپ نے ہم دونوں کو قبول کرلیا۔

17815

(١٧٨٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْقَبَّانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی عَتَّابٍ الأَعْیَنُ حَدَّثَنَا مَنصُورُ بْنُ سَلَمَۃَ أَبُو سَلَمَۃَ الْخُزَاعِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَیْدِ بْنِ جَارِیَۃَ الأَنْصَارِیُّ حَدَّثَنَا عَمِّی عَمْرُو بْنُ زَیْدِ بْنِ جَارِیَۃَ حَدَّثَنِی أَبِی زَیْدُ بْنُ جَارِیَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اسْتَصْغَرَ نَاسًا یَوْمَ أُحُدٍ مِنْہُمْ زَیْدُ بْنُ جَارِیَۃَ یَعْنِی نَفْسَہُ وَالْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ وَزَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَسَعْدٌ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَذَکَرَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ کَذَا فِی کِتَابِی عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ وَرَأَیْتُہُ فِی مَوْضِعٍ آخَرَ ابْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٠٩) حضرت زید بن جاریہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن چند بچوں کو چھوٹا جانتے ہوئے (جہاد کے لیے) قبول نہ کیا۔ ان میں سے ایک تو میں تھا اور براء بن عازب، زید بن ارقم، سعد، ابو سعید خدری اور ابن عمر (رض) تھے اور اسی طرح جابر بن عبداللہ اور ایک کتاب میں عثمان بن عبداللہ اور ایک دوسری جگہ ابن عبید اللہ (رض) کے نام تھے۔

17816

(١٧٨١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْہَرَوِیُّ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ الأَنْصَارِیُّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَتْ بِی أُمِّی فَقَدِمَتِ الْمَدِینَۃَ فَخَطَبَہَا النَّاسُ فَقَالَتْ : لاَ أَتَزَوَّجُ إِلاَّ بِرَجُلٍ یَکْفُلُ لِی ہَذَا الْیَتِیمَ فَتَزَوَّجَہَا رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعْرِضُ غِلْمَانَ الأَنْصَارِ فِی کُلِّ عَامٍ فَیُلْحِقُ مَنْ أَدْرَکَ مِنْہُمْ قَالَ وَعُرِضْتُ عَامًا فَأَلْحَقَ غُلاَمًا وَرَدَّنِی فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ لَقَدْ أَلْحَقْتَہُ وَرَدَدْتَنِی وَلَوْ صَارَعْتُہُ لَصَرَعْتُہُ قَالَ : فَصَارِعْہُ ۔ فَصَارَعْتُہُ فَصَرَعْتُہُ فَأَلْحَقَنِی۔ [صحیح ]
(١٧٨١٠) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ میری ماں مجھے مدینہ میں لے کر آئی تو لوگوں نے ان کی طرف نکاح کے پیغام بھیجے تو انھوں نے کہا کہ میں نکاح اس آدمی سے کروں گی جو اس یتیم کی پرورش کرے گا تو انھوں نے انصار میں سے ایک آدمی سے نکاح کرلیا تو آپ ہر سال انصار کے بچوں کو جب ان کو پیش کیا جاتا ان میں سے جس کے اندر صلاحیت معلوم کرتے اس کو لشکر میں بھیج دیتے۔ حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک سال مجھے اور میرے ساتھ ایک اور لڑکے کو پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول کرلیا اور مجھے رد کردیا۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کو قبول کرلیا ہے اور مجھے واپس کردیا ہے۔ اگر میں اسے گرا لوں تو کیا پھر میں بھی جاسکتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چلو تم دونوں کشتی کرلو تو کہتے ہیں : میں نے اسے پچھاڑ دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بھی اجازت دے دی۔

17817

(١٧٨١١) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا حَاتِمٌ یَعْنِی ابْنَ إِسْمَاعِیلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ : أَنَّ نَجْدَۃَ کَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ خِلاَلٍ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّ نَاسًا یَقُولُونَ إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ یُکَاتِبُ الْحَرُورِیَّۃَ وَلَوْلاَ أَنِّی أَخَافُ أَنْ أَکْتُمَ عِلْمًا لَمْ أَکْتُبْ إِلَیْہِ فَکَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَیْہِ أَمَّا بَعْدُ فَأَخْبِرْنِی ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَغْزُو بِالنِّسَائِ ؟ وَہَلْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ ؟ وَہَلْ کَانَ یَقْتُلُ الصِّبْیَانَ وَمَتَی یَنْقَضِی یُتْمُ الْیَتِیمِ وَعَنِ الْخُمُسِ لِمَنْ ہُوَ ؟ فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّکَ کَتَبْتَ تَسْأَلُنِی ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَغْزُو بِالنِّسَائِ وَقَدْ کَانَ یَغْزُو بِہِنَّ یُدَاوِینَ الْمَرْضَی وَیُحْذَیْنَ مِنَ الْغَنِیمَۃِ وَأَمَّا السَّہْمُ فَلَمْ یَضْرِبْ لَہُنَّ بِسَہْمٍ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمْ یَقْتُلِ الْوِلْدَانَ فَلاَ تَقْتُلْہُمْ إِلاَّ أَنْ تَکُونَ تَعْلَمُ مِنْہُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِیِّ الَّذِی قَتَلَ فَتُمَیِّزَ بَیْنَ الْمُؤْمِنِ وَالْکَافِرِ فَتَقْتُلَ الْکَافِرَ وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ وَکَتَبْتَ مَتَی یَنْقَضِی یُتْمُ الْیَتِیمِ وَلَعَمْرِی إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْیَتُہُ وَإِنَّہُ لَضَعِیفُ الأَخْذِ ضَعِیفُ الإِعْطَائِ فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِہِ مِنْ صَالِحِ مَا یَأْخُذُ النَّاسُ فَقَدْ ذَہَبَ عَنْہُ الْیُتْمُ وَکَتَبْتَ تَسْأَلُنِی عَنِ الْخُمُسِ وَإِنَّا کُنَّا نَقُولُ ہُوَ لَنَا فَأَبَی ذَلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا فَصَبَرْنَا عَلَیْہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَإِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ ۔ (ت) وَرُوِّینَا فِی حَدِیثِ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی ہَذَا الْحَدِیثِ : وَأَمَّا النِّسَائُ وَالْعَبِیدُ فَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شَیْئٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ وَلَکِنْ یُحْذَوْنَ مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨١١) یزید بن ہرمز فرماتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس (رض) کی طرف لکھا اور وہ آپ سے خلال کے متعلق پوچھ رہے تھے تو حضرت ابن عباس (رض) نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) حروریوں سے خط و کتابت کرتے ہیں اور اگر مجھے علم چھپانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس کو کبھی نہ لکھتا۔ نجدہ نے ان کو لکھا : اما بعد ! مجھے یہ بتائیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے ساتھ غزوہ کرتے تھے اور کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے حصہ مقرر کرتے تھے ؟ اور کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں کو قتل کرتے تھے اور یتیم کی یتیمیت کب پوری ہوتی ہے اور خمس کے متعلق بتائیے کہ وہ کس کے لیے ہے ؟ پھر ابن عباس (رض) نے ان کی طرف لکھا کہ تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتوں کے ساتھ مل کر غزوہ کرتے تھے ؟ انھوں نے کہا : ہاں عورتیں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ میں شریک ہوتی تھیں لیکن وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور بیماروں کی تیمار داری کرتی تھیں اور انھیں غنیمت میں سے دیا جاتا تھا لیکن ان کا حصہ مقرر نہ تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے۔ پس تم بھی ان کو قتل نہ کرنا ما سوائے اس کے کہ تم ان بچوں میں وہ کچھ جان لو جو کچھ خضر (علیہ السلام) نے جانا تھا اور اسی طرح مومن اور کافر کے درمیان تمیز کرنا پس کافر کو قتل کردینا اور مومن کو چھوڑ دینا اور اسی طرح تو نے لکھا ہے کہ یتیم کی یتیمیت کب پوری اور مکمل ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا : میری عمر کی قسم ! بعض دفعہ آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے اور اس کو لین دین کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ وہ اس معاملے میں بالکل کمزور ہوتا ہے اور جس کو وہ سمجھ بوجھ حاصل ہوجائے جو باقی لوگوں کو ہوتی ہے تو اس کی یتیمیت ختم ہوجاتی ہے اور تم نے مجھ سے خمس کے متعلق سوال کیا ہے تو ہم کہا کرتے تھے : یہ ہمارے لیے ہے لیکن قوم نے ہم پر انکار کردیا (کہ یہ تمہارا نہیں) تو ہم نے صبر کیا۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رہے غلام اور عورتیں تو ان کے لیے جب یہ جنگ میں حاضر ہوتے تو کوئی خاص حصہ مقرر نہیں تھا، لیکن وہ قوم کے غنائم میں سے کچھ لے لیتے تھے۔

17818

(١٧٨١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَی الأَنْطَاکِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ فِی بَعْضِ مَغَازِیہِ فَمَرَّ بِأُنَاسٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ فَاتَّبَعَہُ عَبْدٌ لاِمْرَأَۃٍ مِنْہُمْ فَلَمَّا کَانَ فِی بَعْضِ الطَّرِیقِ سَلَّمَ عَلَیْہِ قَالَ : فُلاَنٌ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ ۔ قَالَ : أُجَاہِدُ مَعَکَ ۔ قَالَ : أَذِنَتْ لَکَ سَیِّدَتُکَ ؟ ۔ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : ارْجِعْ إِلَیْہَا فَإِنَّ مِثْلَکَ مِثْلُ عَبْدٍ لاَ یُصَلِّی إِنْ مُتَّ قَبْلَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْہَا وَاقْرَأْ عَلَیْہَا السَّلاَمَ ۔ فَرَجَعَ إِلَیْہَا فَأَخْبَرَہَا الْخَبَرَ فَقَالَتْ : آللَّہِ ہُوَ أَمَرَ أَنْ تَقْرَأَ عَلَیَّ السَّلاَمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَتْ : ارْجِعْ فَجَاہِدْ مَعَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨١٢) حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مغازی میں تھے اور آپ مزینہ کے لوگوں کے قریب سے گزرے تو اس قبیلہ کی عورت کے ایک غلام نے آپ کا پیچھا کیا۔ جب آپ سے راستے میں اس کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ کو سلام بلایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو فلاں ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بتاؤ کیا مسئلہ ہے ؟ اس نے کہا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہاری سیدہ نے تمہیں اجازت دی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی طرف لوٹ جاؤ اور تمہاری مثال اس غلام یا بندے کی طرح ہے جو نماز نہیں پڑھتا۔ اگر تو اس کے پاس پہنچنے سے پہلے مرگیا اور اسے میرا سلام کہنا، غلام اپنی سیدہ کے پاس آیا اور اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سلام عرض کیا اور پورا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو سلام کہنے کا حکم دیا تھا ؟ غلام نے کہا : ہاں ! تو اس سیدہ نے کہا : پھر تم جاؤ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد کرو۔

17819

(١٧٨١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْہَیْثَمِ بْنِ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُکَیْرٍ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ یَزِیدَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِلاَلٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : جِہَادُ الْکَبِیرِ وَالضَّعِیفِ وَالْمَرْأَۃِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ ۔ [صحیح ]
(١٧٨١٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بوڑھے، کمزور اور عورتوں کا جہاد حج مبرور ہے۔ “

17820

(١٧٨١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِیرُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ } [النساء ٩٥] الآیَۃَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَیْدًا فَکَتَبَہَا فَجَائَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ فَشَکَا ضَرَارَتَہُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ } [النساء ٩٥] ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ : ١٧٨١٥]
(١٧٨١٤) حضرت برائ (رض) فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی : { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } [النساء ٩٥] ” اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں ہوسکتے “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کو حکم دیا تو انھوں نے اس کو لکھا۔ پھر ابن ام مکتوم آئے اور انھوں نے اپنی بیماری وغیرہ کا عذر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے { غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ } والا حصہ نازل کیا۔ صرف سند ذکر کی ہے۔

17821

(١٧٨١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی الْحُلْوَانِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمْزَۃَ ۔ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ
(١٧٨١٥) ایضاً ۔

17822

(١٧٨١٦) حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْحَکَمِ الْقِطْرِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمْزَۃَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا مَرْوَانُ بْنُ الْحَکَمِ جَالِسٌ فَجَلَسْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَزَلَتْ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ } [النساء ٩٥] قَالَ : فَجَائَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَأَنَا أَکْتُبَہَا فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدْ تَرَی مَا بِعَیْنَیَّ مِنَ الضَّرَرِ وَلَوْ أَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ لَجَاہَدْتُ ۔ قَالَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَثَقُلَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی فَخِذِی حَتَّی ہَمَّتْ أَنْ تَرُضَّہَا ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ لِی : اکْتُبْ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُونَ } [النساء ٩٥] ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الْقِطْرِیِّ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی أُوَیْسٍ وَغَیْرِہِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ١٧٨١٧]
(١٧٨١٦) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا تو یہ آیت نازل ہوئی { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } [النساء ٩٥] تو کہتے ہیں کہ ابن ام مکتوم آئے اور میں لکھ رہا تھا۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ جانتے ہیں کہ میں آنکھوں سے نابینا ہوں اور اگر میں جہاد کرنے کی طاقت رکھتا تو میں ضرور جہاد کرتا تو زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ آپ کے ران میری ران پر بڑے بھاری اور گراں ہوگئے۔ حتیٰ کے قریب تھا کہ وہ ٹوٹ جاتا پھر آپ کی حالت اچھی ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : لکھو ! { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ } [النساء ٩٥]

17823

(١٧٨١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْحَکَمِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی الزِّنَادِ حَدَّثَنِی أَبُو الزِّنَادِ أَنَّ خَارِجَۃَ بْنَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ السَّکِینَۃَ غَشِیَتْ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ زَیْدٌ وَأَنَا إِلَی جَنْبِہِ فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی فَخِذِی فَمَا وَجَدْتُ شَیْئًا أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ فَقَالَ : اکْتُبْ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ } [النساء ٩٥] ۔ الآیَۃَ کُلَّہَا قَالَ زَیْدٌ فَکَتَبْتُ ذَلِکَ فِی کَتِفٍ فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَکَانَ رَجُلاً أَعْمَی حِینَ سَمِعَ فَضِیلَۃَ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ کَیْفَ بِمَنْ لاَ یَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ ؟ قَالَ فَمَا قَضَی ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ کَلاَمَہُ أَوْ مَا ہُوَ إِلاَّ أَنْ فَصَلَ کَلاَمَہُ فَغَشِیَتْ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - السَّکِینَۃُ فَوَقَعَتْ فَخِذُہُ عَلَی فَخِذِی فَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِہَا الْمَرَّۃَ مِثْلَمَا وَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِہَا فِی الْمَرَّۃِ الأُولَی ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : اقْرَأْ ۔ فَقَرَأْتُ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ } [النساء ٩٥] فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - { غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ } [النساء ٩٥] قَالَ زَیْدٌ : فَأَلْحَقْتُہَا وَکَانَ مَلْحَقَتُہَا عِنْدَ صَدْعٍ فِی الْکَتِفِ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٨١٧) حضرت خارجہ بن زید بن ثابت اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکینت نے ڈھانپ لیا اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران میری ران پر گری تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں پائی۔ پھر آپ کی یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لکھو ! { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ۔۔۔} [النساء ٩٥] پوری آیت۔ حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت میں نے کندھے (کی ہڈی) پر لکھی تو ابن ام مکتوم جو نابینا آدمی تھے، کھڑے ہوئے۔ جب انھوں نے مجاہدین کی فضیلت بیٹھنے والوں پر سنی تو انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کا کیا حال ہے جو مومنین کے ساتھ جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ ابھی ابن ام مکتوم کی کلام ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکونت نے ڈھانپ لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران میری ران پر آگئی تو میں نے اس دفعہ بھی ویسے ہی بوجھ محسوس کیا جیسا کہ پہلی دفعہ محسوس کیا تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ والی حالت جاتی رہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پڑھیے تو میں نے پڑھی : { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : { غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ } حضرت زید (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اس ٹکڑے کو اس آیت میں ملا دیا اور یہ ٹکڑا کندھے کی مضبوط ہڈی پر لکھا ہوا تھا۔

17824

(١٧٨١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِیُّ عَنْ أَبِی عَقِیلٍ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنْ قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرِ أُولِی الضَّرَرِ } [النسائ : ٩٥] قَالَ : ہُمْ أُولُو الضَّرَرِ قَوْمٌ کَانُوا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لاَ یَغْزُونَ مَعَہُ کَانَتْ تَحْبِسُہُمْ أَوْجَاعٌ وَأَمَرَاضٌ وَآخَرُونَ أَصْحَائُ فَکَانَ الْمَرْضَی أَعْذَرَ مِنَ الأَصْحَائِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨١٨) ابو نضرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق سوال کیا { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ } انھوں نے کہا : اس سے مراد اہل ضرر ہیں، یعنی لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر جہاد نہیں کرسکتے تھے۔ تکالیف اور بیماری نے ان کو جانے سے روک لیا تھا اور دوسرے لوگ صحیح ہونے کے باوجود نہیں جاتے تھے۔ لہٰذا بیمار لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں معذور قرار دیا۔

17825

(١٧٨١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ : إِنَّ بِالْمَدِینَۃِ لَرِجَالاً مَا سِرْنَا مَسِیرًا وَلاَ قَطْعَنَا وَادِیًا إِلاَّ کَانُوا مَعَنَا فِیہِ حَبَسَہُمُ الْمَرَضُ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَحْمَدَ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨١٩) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کسی سفر کے دوران فرمایا کہ مدینہ میں کچھ مرد ہیں، ہم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی وادی طے کی ہے مگر وہ ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ اب ان کو بیماری نے روک لیا ہے۔

17826

(١٧٨٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لَقَدْ تَرَکْتُمْ بِالْمَدِینَۃِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلاَ أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃٍ وَلاَقَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ إِلاَّ وَہُمْ مَعَکُمْ فِیہِ ۔ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ یَکُونُونَ مَعَنَا وَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ ؟ قَالَ : حَبَسَہُمُ الْعُذْرُ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ زُہَیْرٍ وَحَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ ثُمَّ قَالَ وَقَالَ مُوسَی عَنْ حَمَّادٍ یَعْنِی ابْنَ سَلَمَۃَ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَحْوَہُ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٨٢٠) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مدینہ میں کچھ لوگ چھوڑ آئے ہو تم نے کوئی سفر طے نہیں کیا اور نہ تم نے کوئی خرچ کیا اور نہ تم نے کوئی وادی طے کی مگر وہ اس میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔
صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ ہمارے ساتھ کیسے ہیں جبکہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو عذر نے روک رکھا ہے۔

17827

(١٧٨٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی وَالِدِی إِسْحَاقُ بْنُ یَسَارٍ عَنْ أَشْیَاخٍ مِنْ بَنِی سَلَمَۃَ قَالُوا : کَانَ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ أَعْرَجَ شَدِیدَ الْعَرَجِ وَکَانَ لَہُ أَرْبَعَۃُ بَنُونَ شَبَابٌ یَغْزُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا غَزَا فَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَتَوَجَّہُ إِلَی أُحُدٍ قَالَ لَہُ بَنُوہُ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ جَعَلَ لَکَ رُخْصَۃً فَلَو قَعَدْتَ فَنَحْنُ نَکْفِیکَ فَقَدْ وَضَعَ اللَّہُ عَنْکَ الْجِہَادَ فَأَتَی عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ بَنِیَّ ہَؤُلاَئِ یَمْنَعُونِی أَنْ أَخْرُجَ مَعَکَ وَاللَّہِ إِنِّی لأَرْجُو أَنْ أُسَتَشْہَدَ فَأَطَأَ بِعُرْجَتِی ہَذِہِ فِی الْجَنَّۃِ ۔ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا أَنْتَ فَقَدْ وَضَعَ اللَّہُ عَنْکَ الْجِہَادَ ۔ وَقَالَ لِبَنِیہِ : وَمَا عَلَیْکُمْ أَنْ تَدْعُوہُ لَعَلَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَرْزُقُہُ الشَّہَادَۃَ ؟ ۔ فَخَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ شَہِیدًا۔ [ضعیف ]
(١٧٨٢١) بنی سلمہ کے چند شیوخ فرماتے ہیں کہ عمرو بن جموح بہت زیادہ لنگڑے تھے۔ ان کے چار جوان بیٹے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس غزوے میں بھی جاتے وہ آپ کے ساتھ ہوتے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو عمرو بن جموح نے بھی جانا چاہا، لیکن ان کے بیٹوں نے ان کو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رخصت دی ہے اور آپ کا یہاں بیٹھنا زیادہ بہتر ہے اور آپ کی جگہ ہم آپ کی کفایت کر جائیں گے۔ اللہ نے آپ پر جہاد فرض نہیں کیا تو عمرو بن جموح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے بیٹے مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جانے سے روکتے ہیں اور میں شہادت چاہتا ہوں اور میرے لنگڑے پن نے مجھے جنت میں جانے سے پیچھے چھوڑ دیا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے آپ سے جہاد کو معاف کردیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بیٹوں سے کہا کہ تم اسے کیوں نہیں جانے دیتے ! ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شہادت نصیب فرمائے۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا اور احد کے دن شہید ہوگیا۔

17828

(١٧٨٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَکِنْ لاَ أَجِدُ سَعَۃً فَأَحْمِلَہُمْ وَلاَ یَجِدُونَ سَعَۃً فَیَتَّبِعُونِی وَلاَ تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ أَنْ یَقْعُدُوا بَعْدِی ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٢٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مومنوں پر گراں نہ ہو کہ میں کسی بھی لڑائی سے پیچھے نہ رہوں جو اس کے راستہ میں لڑی جائے لیکن میں اتنی وسعت نہیں پاتا کہ ان سب کو سوار کرسکوں۔ ان کے پاس بھی اتنی فراخی نہیں ہے کہ وہ میری پیروی کرسکیں اور ان کے دل اس کو پسند نہیں کرتے کہ وہ میرے لڑائی میں جانے کے بعد بیٹھ رہیں۔

17829

(١٧٨٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوسُفَ الأَزْرَقُ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ وَہْبِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوتُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٢٣) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کے لیے بطور گناہ یہی کافی ہے کہ وہ اپنی گزر اوقات کی اشیاء کو ضائع کر دے۔ وہب بن جابر راوی مجہول ہے۔

17830

(١٧٨٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا رِیَاحُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا شَابٌّ مِنَ الثَّنِیَّۃِ فَلَمَّا رَأَیْنَاہُ بِأَبْصَارِنَا قُلْنَا : لَوْ أَنَّ ہَذَا الشَّابَ جَعَلَ شَبَابَہُ وَنَشَاطَہُ وَقُوَّتَہُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ قَالَ فَسَمِعَ مَقَالَتَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : وَمَا سَبِیلُ اللَّہِ إِلاَّ مَنْ قُتِلَ ؟ مَنْ سَعَی عَلَی وَالِدَیْہِ فَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَنْ سَعَی عَلَی عِیَالِہِ فَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَنْ سَعَی عَلَی نَفْسِہِ لِیُعِفَّہَا فَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَنْ سَعَی عَلَی التَّکَاثُرِ فَہُوَ فِی سَبِیلِ الشَّیْطَانِ ۔ [حسن ]
(١٧٨٢٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے تھے، اچانک ایک نوجوان ثنیہ کی پہاڑیوں سے نمودار ہوا۔ جب ہم نے اس کو دیکھا تو ہم نے کہا : کاش اس جوان کی جوانی، چستی اور قوت اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہو۔ راوی کہتا ہے : ہماری بات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن لیا اور فرمایا : صرف اللہ کے راستہ میں قتل ہونا ہی سبیل اللہ ہے ؟ جس نے اپنے والدین کی خدمت کی وہ اس کے راستہ میں ہے اور جس نے اپنے خاندان کی کفالت کی وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہے اور جس نے اپنے نفس کی حفاظت کی تاکہ اس کو بچا کر رکھے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہے اور جس نے زیادہ مال جمع کرنے کی کوشش کی وہ شیطان کے راستہ پر ہے۔

17831

(١٧٨٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ بْنِ الْحَسَنِ الْفَقِیہُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُکَرْمٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَفَّرَ اللَّہُ عَنِّی خَطَایَایَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنْ قُتِلْتُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا مُقْبِلاً غَیْرَ مُدْبِرٍ کَفَّرَ اللَّہُ عَنْکَ خَطَایَاکَ ۔ فَلَمَّا جَلَسَ دَعَاہُ فَقَالَ : کَیْفَ قُلْتَ ؟ فَأَعَادَ عَلَیْہِ فَقَالَ : إِلاَّ الدَّیْنَ کَذَلِکَ أَخْبَرَنِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہَارُونَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٢٥) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! اگر میں اللہ کے راستہ میں قتل کردیا جاؤں کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو اللہ کے راستہ میں اس حال میں قتل ہوا کہ صبر کرنے والا ہو اور ثواب کی امید رکھے اور پیش قدمی کرنے والا ہو پیٹھ دکھانے والا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو مٹا دے گا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو اس کو بلایا اور کہا : تو کیا کہتا ہے اور بات دہرائی اور کہا : مگر قرض اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اسی طرح بتایا ہے۔

17832

(١٧٨٢٦) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی أَیُّوبَ عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ الْحُبُلِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ یُکَفِّرُ کُلَّ شَیْئٍ إِلاَّ الدَّیْنَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ الْمُقْرِئِ ۔ (ت) وَقَدْ مَضَی حَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْنِہِ حَتَّی یُقْضَی عَنْہُ ۔
(١٧٨٢٦) (الف) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں شہید ہونا تمام خطاؤں کو مٹا دیتا ہے مگر قرض باقی رہتا ہے۔ (ب) ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ مومن کی جان قرض کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ اس کی طرف سے ادا کردیا جائے۔

17833

(١٧٨٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُوَیْہِ الْعَسْکَرِیُّ بِالْبَصْرَۃِ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَلاَنِسِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا حَبِیبُ بْنُ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ وَکَانَ لاَ یُتَّہَمُ فِی حَدِیثِہِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَاسْتَأْذَنَہُ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَحَیٌّ وَالِدَاکَ ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَفِیہِمَا فَجَاہِدْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ آدَمَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٢٧) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور جہاد کی اجازت مانگنے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بس انھیں میں جہاد کر۔

17834

(١٧٨٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : إِنِّی أُرِیدُ الْجِہَادَ ۔ قَالَ : أَحَیٌّ أَبَوَاکَ ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : ارْجِعْ إِلَیْہِمَا فَإِنْ فِیہِمَا لَمُجَاہَدًا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَمْرٍو۔ [صحیح ]
(١٧٨٢٨) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں تو آپ نے فرمایا : ان کی طرف جا، ان دونوں میں جہاد کا مقام ہے۔

17835

(١٧٨٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ أَنَّ نَاعِمَ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَۃَ حَدَّثَہُ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَی نَبِیِّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أُبَایِعُکَ عَلَی الْہِجْرَۃِ أَوِ الْجِہَادِ أَبْتَغِی الأَجْرَ مِنَ اللَّہِ ۔ قَالَ : فَہَلْ مِنْ وَالِدَیْکَ أَحَدٌ حَیٌّ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ بَلْ کِلاَہُمَا۔ قَالَ : فَتَبْتَغِی الأَجْرَ مِنَ اللَّہِ ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَارْجِعْ إِلَی وَالِدَیْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَہُمَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٢٩) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں : ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آیا اور کہنے لگا : میں ہجرت یا جہاد پر آپ کی بیعت کرتا ہوں اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کی امید کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! دونوں زندہ ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کرتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! تو آپ نے فرمایا : ان کی طرف لوٹ جا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کر۔

17836

(١٧٨٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ الضَّبِّیُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ التَّمَّارُ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ جِئْتُ أُبَایِعُکَ عَلَی الْہِجْرَۃِ وَتَرَکْتُ أَبَوَیَّ یَبْکِیَانِ فَقَالَ : ارْجِعْ فَأَضْحِکْہُمَا کَمَا أَبْکَیْتَہُمَا ۔ [حسن ]
(١٧٨٣٠) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : میں ہجرت پر آپ کی بیعت کرنے آیا ہوں اور اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : واپس جا اور ان کو خوش کر جس طرح ان کو رلایا ہے۔

17837

(١٧٨٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ أَبِی السَّمْحِ عَنْ أَبِی الْہَیْثَمِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً ہَاجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الْیَمَنِ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی قَدْ ہَاجَرْتُ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ ہَجَرْتَ الشِّرْکَ وَلَکِنَّہُ الْجِہَادُ ہَلْ لَکَ أَحَدٌ بِالْیَمَنِ ؟ ۔ قَالَ : أَبَوَیَّ ۔ قَالَ : أَذِنَا لَکَ ؟ ۔ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَارْجِعْ فَاسْتَأْذِنْہُمَا فَإِنْ أَذِنَا لَکَ فَجَاہِدْ وَإِلاَّ فَبَرَّہُمَا ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣١) حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں : یمن سے ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے اپنا وطن چھوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے شرک کو چھوڑ دیا اور جہاد کیا۔ یمن میں کوئی تیرا رشتہ دار ہے ؟ اس نے کہا : میرے والدین۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ان سے اجازت لی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : واپس جا اور ان سے اجازت طلب کر۔ اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کر وگرنہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کر۔

17838

(١٧٨٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْوَلِیدِ الْفَحَّامُ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنِی ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ طَلْحَۃَ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمَۃَ السُّلَمِیِّ : أَنَّ جَاہِمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ جَائَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُکَ أَسْتَشِیرُکَ ۔ فَقَالَ : ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَالْزَمْہَا فَإِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْد رِجْلَیْہَا ۔ ثُمَّ الثَّانِیَۃَ ثُمَّ الثَّالِثَۃَ فِی مَقَاعِدَ شَتَّی فَکَمِثْلِ ہَذَا الْقَوْلِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الصَّغَانِیِّ ۔ [حسن ]
(١٧٨٣٢) معاویہ بن جاہمہ سلمی فرماتے ہیں کہ جاہمہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے محاذ جنگ پر جانے کا ارادہ کیا ہے اور آپ کے پاس مشورہ کرنے آیا ہوں۔ آپ نے پوچھا : کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! فرمایا اسی سے وابستہ رہ، جنت اس کے قدموں میں ہے۔ آپ نے یہ دو تین دفعہ کہا۔

17839

(١٧٨٣٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : نَزَلَتْ فِیَّ أَرْبَعُ آیَاتٍ ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ وَفِیہِ قَالَ فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ : أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّہُ بِبِرِّ الْوَالِدَۃِ فَوَاللَّہِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی تَکْفُرَ أَوْ أَمُوتَ فَکَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ یُطْعِمُوہَا أَوْ یَسْقُوہَا شَجَرُوا فَاہَا بِعَصًا ثُمَّ أَوْجَرُوہَا الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ فَنَزَلَتْ { وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلَی أَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْہُمَا } [العنکبوت ٨] أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٣٣) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ پھر حدیث کو ذکر کیا۔ اس میں ہے کہ ام سعد نے کہا : کیا اللہ نے والدہ کے ساتھ احسان کا حکم نہیں دیا ؟ اللہ کی قسم ! میں نہ کھاؤں گی نہ پؤں گی حتی کہ تو کفر کرے یا میں مر جاؤں۔ جب وہ اس کو کھلانا یا پلانا چاہے تو لاٹھی سے اس کا منہ اٹھاتے اور کھانا اور پانی اس کے منہ میں ڈال دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی : { وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَ اِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا } [العنکبوت ٨] ” اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر وہ تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی نہ مان۔ “

17840

(١٧٨٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَۃَ حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ سَعِیدٍ الأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ حُصَیْنِ بْنِ وَحْوَحٍ : أَنَّ طَلْحَۃَ بْنَ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَمَّا لَقِیَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مُرْنِی بِمَا أَحْبَبْتَ وَلاَ أَعْصِی لَکَ أَمْرًا قَالَ فَعَجِبَ لِذَلِکَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ غُلاَمٌ فَقَالَ لَہُ عِنْدَ ذَلِکَ : فَاقْتَلْ أَبَاکَ ۔ قَالَ : فَخَرَجَ مُوَلِّیًا لِیَفْعَلَ فَدَعَاہُ قَالَ : إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لِقَطِیعَۃِ رَحِمٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٤) حضرت طلحہ بن برائ (رض) جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : جو آپ پسند کریں مجھے حکم دیں۔ میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر تعجب کیا اور وہ ابھی چھوٹے تھے۔ آپ نے ان کو کہا : ” اپنے باپ کو قتل کر ! “ جب وہ واپس ہوا تاکہ اس پر عمل کرے تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا : ” مجھے رشتے توڑنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ “

17841

(١٧٨٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا ضَمْرَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَوْذَبٍ قَالَ : جَعَلَ أَبُو أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ یَنْصِبُ الأَلِہَۃَ لأَبِی عُبَیْدَۃَ یَوْمَ بَدْرٍ وَجَعَلَ أَبُو عُبَیْدَۃَ یَحِیدُ عَنْہُ فَلَمَّا کَثَّرَ الْجَرَّاحُ قَصَدَہُ أَبُو عُبَیْدَۃَ فَقَتَلَہُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ ہَذِہِ الآیَۃَ حِینَ قَتَلَ أَبَاہُ { لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَائَ ہُمْ أَوْ أَبْنَائَ ہُمْ } [المجادلۃ ٢٢] إِلَی آخِرِہَا۔ ہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٥) حضرت عبداللہ بن شوذب فرماتے ہیں کہ بدر کے دن ابو عبیدہ بن جراح کا والد اس کے لیے معبود کھڑے کرتا تھا اور ابو عبیدہ ان سے کنارہ کشی کرتے تھے۔ جب جراح نے اس عمل میں زیادتی کی تو ابو عبیدہ نے انھیں قتل کرنا چاہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ آیت اتاری۔ جب ابو عبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا : { لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ } [المجادلۃ ٢٢] ” تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ نہیں پائیں گے کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے۔ “

17842

(١٧٨٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ سُمَیْعٍ الْحَنَفِیِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ عُمَیْرٍ وَکَانَ قَدْ أَدْرَکَ الْجَاہِلِیَّۃَ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ إِنِّی لَقِیتُ الْعَدُوَّ وَلَقِیتُ أَبِی فِیہِمْ فَسَمِعَتُ لَکَ مِنْہُ مَقَالَۃً قَبِیحَۃً فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی طَعَنْتُہُ بِالرُّمْحِ أَوْ حَتَّی قَتَلْتُہُ فَسَکَتَ عَنْہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ جَائَ ہُ آخَرُ فَقَالَ : إِنِّی لَقِیتُ أَبِی فَتَرَکْتُہُ وَأَحْبَبْتُ أَنْ یَلِیَہُ غَیْرِی فَسَکَتَ عَنْہُ ۔ وَہَذَا مُرْسَلٌ جَیِّدٌ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٦) حضرت مالک بن عمیر فرماتے ہیں (اور انھوں نے جاہلیت کا دور پایا ہے) کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا : میں دشمن سے ملا۔ ان میں میرا باپ بھی تھا۔ میں نے اس کے منہ سے آپ کے بارے میں ناپسندیدہ بات سنی۔ میں صبر نہیں کرسکا۔ میں نے نیزہ سے اس پر وار کیا۔ نتیجتاً وہ قتل ہوگیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر خاموش رہے۔ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا : میں اپنے باپ کو ملا اور اس کو چھوڑ دیا اور میں نے چاہا کہ اس کو اور میرے علاوہ کوئی پہنچ جائے گا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر بھی خاموش رہے۔

17843

(١٧٨٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی الرَّازِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْمَعْنَی وَأَنَا لِحَدِیثِہِ أَتْقَنُ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ : سُلَیْمَانَ بْنِ سُلَیْمٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِیِّ عَنِ ابْنِ أَخِی أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : سَیُفْتَحُ عَلَیْکُمُ الأَمْصَارُ وَسَتَکُونُ جُنُودٌ مُجَنَّدَۃٌ یُقْطَعُ عَلَیْکُمْ فِیہَا بُعُوثٌ یَتَکَرَّہُ الرَّجُلُ مِنْکُمُ الْبَعْثَ فِیہَا فَیَتَخَلَّصُ مِنْ قَوْمِہِ ثُمَّ یَتَصَفَّحُ الْقَبَائِلَ یَعْرِضُ نَفْسَہُ عَلَیْہِمْ یَقُولُ مَنْ أَکْفِہِ بَعْثَ کَذَا مَنْ أَکْفِہِ بَعْثَ کَذَا أَلاَ وَذَلِکَ الأَجِیرُ إِلَی آخِرِ قَطْرَۃٍ مِنْ دَمِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٧) (الف) ابو ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سنا : تم پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جب تم جمع کیے ہوئے لشکروں میں ہو گے اور تم پر لشکروں کو روک دیا جائے اس زمانہ میں کہ انسان ان میں جانا ناپسند کرے گا اور اپنی قوم سے بچے گا۔ پھر قبائل کو دیکھے گا اور خود کو ان پر پیش کرے گا اور کہے گا : کون ہے جس سے میں کافی ہو جاؤں فلاں لشکر کے سلسلہ میں۔ کون ہے جس سے میں کافی ہو جاؤں فلاں لشکر کے بارے میں۔ خبردار یہ مزدور ہے اپنے خون آخری قطرہ تک۔

17844

(١٧٨٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الأَرْدَسْتَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْعِرَاقِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنِی الزُّبَیْرُ بْنُ عَدِیٍّ عَنْ شَقِیقِ بْنِ الْعَیْزَارِ الأَسَدِیِّ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْجَعَائِلِ فَقَالَ : لَمْ أَکُنْ لأَرْتَشِی إِلاَّ مَا رَشَانِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ الزُّبَیْرِ فَقَالَ تَرْکُہَا أَفْضَلُ فَإِنْ أَخَذْتَہَا فَأَنْفِقْہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٨) حضرت شقیق بن عیزار فرماتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) سے اجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : میں اجرت نہیں لیتا مگر جو اجرت مجھے میرا رب دے۔ حضرت شقیق فرماتے ہیں : میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا : اس چھوڑنا افضل ہے اگر تو لیتا ہے تو فی سبیل اللہ خرچ کر دے۔

17845

(١٧٨٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الأَعْجَمِ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ الْجُعْلِ قَالَ : إِذَا جَعَلْتَہُ فِی سِلاَحٍ أَوْ کُرَاعٍ فَلاَ بَأْسَ بِہِ وَإِذَا جَعَلْتَہُ فِی الرَّقِیقِ فَلاَ ۔ وَرُوِّینَا عَنْ إِبْرَاہِیمَ النَّخَعِیِّ أَنَّہُ قَالَ : کَانُوا أَنْ یُعْطُوا أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مَنْ أَنْ یَأْخُذُوا یَعْنِی فِی الْجَعَائِلِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٣٩) عبید بن اعجم فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے اجرت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : جب ہتھیار اور گھوڑوں کے سلسلہ میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب غلاموں پر اجرت ہو تو نہ لے۔
ابراہیم نخعی فرماتے ہیں : ان کو یہ پسند تھا کہ ان کو دیا جائے اس کے بدلہ میں کہ وہ خود لیں، یعنی اجرت۔

17846

(١٧٨٤٠) وَرَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَیَّاشٍ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ حُدَیْرٍ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَثَلُ الَّذِینَ یَغْزُونَ مِنْ أُمَّتِی وَیَأْخُذُونَ الْجُعْلَ یَتَقَوَّوْنَ عَلَی عَدُوِّہِمْ مَثَلُ أُمِّ مُوسَی تُرْضِعُ وَلَدَہَا وَتَأْخُذُ أَجْرَہَا۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ ۔ فَذَکَرَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٤٠) حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے جو لوگ لڑائی پر اجرت لیتے ہیں اور اس سے دشمن کے خلاف قوت حاصل کرتے ہیں۔ ان کی مثال موسیٰ (علیہ السلام) کی والد کی طرح ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو دودھ پلاتی تھیں اور اجرت لیتی تھیں۔

17847

(١٧٨٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا : یَحْیَی بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ کَامِلٍ الْقَاضِی بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِی الْحَجَّاجِ أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَۃَ حَدَّثَنِی بُسْرُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنِی زَیْدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُہَنِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَہُ فِی أَہْلِہِ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا ۔ لَفْظُ حَدِیثِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَدِیثِ رَوْحٍ مِثْلَہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ عَنْ عَنْ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ أَبِی الرَّبِیعِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ زُرَیْعٍ عَنْ حُسَیْنٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٤١) حضرت زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے غازی کو تیار کیا، اس نے جہاد کیا اور جس نے اس کے اہل خانہ کی بہتر کفالت کی، اس نے بھی جہاد کیا۔

17848

(١٧٨٤٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَسْلَمَ أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : إِنِّی أُرِیدُ الْجِہَادَ وَلَیْسَ مَعِی مَا أَتَجَہَّزُ بِہِ فَقَالَ : إِنَّ فُلاَنًا قَدْ تَجَہَّزَ ثُمَّ مَرِضَ فَاذْہَبْ إِلَیْہِ فَقُلْ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُقْرِئُکَ السَّلاَمَ وَیَأْمُرُکَ أَنْ تُعْطِیَنِی مَا أَتَجَہَّزُ بِہِ ۔ فَأَتَاہُ فَقَالَ لَہُ فَقَالَ لاِمْرَأَتِہِ : انْظُرِی أَنْ تُعْطِیہِ مَا جَہَّزْتِینِی بِہِ وَلاَ تَحْبِسِی مِنْہُ شَیْئًا فَیُبَارِکَ اللَّہُ لَکِ فِیہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ عَفَّانَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٤٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ بنو اسلم سے ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کیا : میں جہاد پر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر میرے پاس زاد راہ نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” فلاں آدمی نے جہاد کی تیاری کی۔ پھر وہ بیمار ہوگیا تو اس کے پاس جا اور اس کو کہہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھے سلام کہتے ہیں اور تجھے حکم دیتے ہیں کہ زاد راہ مجھے دے دے۔ جس سے میں جہاد کی تیاری کرسکوں۔ “ وہ آدمی اس کے پاس گیا اور اس کو کہا : اس نے اپنی بیوی کو کہا جو کچھ میرے لیے تیار کیا تھا وہ دیکھ کر اس کو دے دو اور کوئی چیز روک کر نہ رکھنا اللہ تجھے برکت دے گا۔

17849

(١٧٨٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّہُ أُبْدِعَ بِی فَاحْمِلْنِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَیْسَ عِنْدِی ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : أَلاَ أَدُلُّکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ عَلَی مَنْ یَحْمِلُہُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ فَلَہُ أَجْرُ مِثْلِ فَاعِلِہِ ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ : أُبْدِعَ بِی یَقُولُ قُطِعَ بِی۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٤٣) (الف) حضرت ابو مسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں تھک گیا ہوں، مجھے سواری دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے پاس نہیں ہے۔ “ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں ایسا آدمی بتاؤں جو اس کو سواری دے ؟ آپ نے فرمایا : ” بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا اجر میں برابر ہیں۔ “
(ب) ایک اور روایت میں ابو معاویہ کہتے ہیں میں تھک گیا ہوں کی بجائے میرا راستہ روک دیا گیا۔

17850

(١٧٨٤٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ فَذَکَرَہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ فَقَالَ : مَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکَ وَلَکِنِ ائْتِ فُلاَنًا فَأَتَاہُ فَحَمَلَہُ فَأَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ : مَنْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٤٤) اعمش فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میرے پاس کچھ نہیں جو میں تم کو سواروں کے لیے دوں۔ ہاں تم فلاں آدمی کے پاس جاؤ۔ وہ گیا۔ اس آدمی نے اس کو سواری دی۔ یہ آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور خبر دی تو آپ نے فرمایا : ” بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والا اور اس پر عمل کرنے والا اجر میں برابر ہیں۔

17851

(١٧٨٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ قَالاَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ حَیْوَۃَ بْنِ شُرَیْحٍ الْکِنْدِیِّ التُّجِیبِیِّ عَنِ ابْنِ شُفَیٍّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لِلْغَازِی أَجْرُہُ وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُہُ وَأَجْرُ الْغَازِی ۔ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : قَفْلَۃٌ کَغَزْوَۃٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٤٥) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غازی کا اجر اس کا ہے اور اس کو تیار کرنے والے کا اجر اس کا ہے۔ غازی کا اجر اور تیار کرنے والے کا اجر برابر ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غازی پر خرچ کرنا لڑائی کی طرح ہے۔

17852

(١٧٨٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُوعَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الدِّمَشْقِیُّ أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَیْبٍ أَخْبَرَنِی أَبُو زُرْعَۃَ : یَحْیَی بْنُ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الأَسْقَعِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : نَادَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَخَرَجْتُ إِلَی أَہْلِی وَأَقْبَلْتُ وَقَدْ خَرَجَ أَوْلُ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَطَفِقْتُ فِی الْمَدِینَۃِ أُنَادِی أَلاَ مَنْ یَحْمِلُ رَجُلاً لَہُ سَہْمُہُ فَنَادَی شَیْخٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ لَنَا سَہْمُہُ عَلَی أَنْ نَحْمِلَہُ عُقْبَۃً وَطَعَامُہُ مَعَنَا قُلْتُ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَسِرْ عَلَی بَرَکَۃِ اللَّہِ فَخَرَجْتُ مَعَ خَیْرِ صَاحِبٍ حَتَّی أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْنَا فَأَصَابَنِی قَلاَئِصُ فَسُقْتُہُنَّ حَتَّی أَتَیْتُہُ فَخَرَجَ فَقَعَدَ عَلَی حَقِیبَۃٍ مِنْ حَقَائِبِ إِبِلِہِ ثُمَّ قَالَ سُقْہُنَّ مُدْبِرَاتٍ ثُمَّ قَالَ سُقْہُنَّ مُقْبِلاَتٍ فَقَالَ مَا أَرَی قَلاَئِصَکَ إِلاَّ کِرَامًا۔ قَالَ : إِنَّمَا ہِیَ غَنِیمَتُکَ الَّتِی شَرَطْتُ لَکَ ۔ قَالَ : خُذْ قَلاَئِصَکَ ابْنَ أَخِی فَغَیْرَ سَہْمِکَ أَرَدْنَا۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَغَیْرَ سَہْمِکَ أَرَدْنَا یُشْبِہُ أَنْ یَکُونَ أَرَادَ أَنَّا لَمْ نَقْصِدْ بِمَا فَعَلْنَا الإِجَارَۃَ وَإِنَّمَا قَصَدْنَا الاِشْتِرَاکَ فِی الأَجْرِ وَالثَّوَابِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔
(١٧٨٤٦) حضرت واثلہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے لیے منادی کی۔ میں اپنے گھر گیا جب واپس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتدائی ساتھی جا چکے تھے۔ میں نے مدینہ کا چکر لگایا اور اعلان کیا جو شخص ایک آدمی کو سواری دے، اس کا حصہ سواری دینے والے کا ہوگا۔ انصار کے ایک معزز آدمی نے کہا کہ اس کا حصہ ہمارا ہوگا۔ اس کے بدلہ میں ہم اس کو سواری دیں گے اور اس کا کھانا ہمارے ساتھ ہوگا۔ میں نے قبول کرلیا، اس نے کہا : چلو اللہ کی برکت کے ساتھ، میں نکلا اپنے بہترین ساتھی کے ساتھ۔ ہمیں لڑائی بنا ہی مال ملا۔ مجھے کچھ اونٹنیاں ملیں۔ میں نے ان کو پانی پلایا۔ پھر میں اس کے پاس آیا۔ وہ نکلا اور اونٹ کے کجاوے پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے کہا : ان کو پانی پلاؤ آتے اور جاتے ہوئے اور کہا کہ تیری اونٹنیاں بہترین ہیں تو اس نے کہا : یہ نفع ہے جو میں نے آپ کے ساتھ شرط لگائی اس کا۔ یہ غنیمت آپ کی ہے تو اس نے کہا : میرے بھائی اپنی اونٹنیاں لے جاؤ، ہم نے اس کے علاوہ حصہ کا ارادہ کیا تھا۔ شیخ (رض) کہتے ہیں ( (فَغَیْرَ سَہْمِکَ أَرَدْنَا) ) کا مطلب ہے کہ ہم اجرت میں حصہ نہیں چاہتے تھے بلکہ ہمارا مقصد تو اجر وثواب میں شریک ہونا تھا۔

17853

(١٧٨٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ : الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا بَشِیرُ بْنُ طَلْحَۃَ عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَیْکٍ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُنَیَّۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَبْعَثُنِی فِی سَرَایَاہُ فَبَعَثَنِی ذَاتَ یَوْمٍ وَکَانَ رَجْلٌ یَرْکَبُ بَغْلِی فَقُلْتُ لَہُ ارْحَلْ فَقَالَ مَا أَنَا بِخَارِجٍ مَعَکَ قُلْتُ لِمَ ؟ قَالَ : حَتَّی تَجْعَلَ لِی ثَلاَثَۃُ دَنَانِیرَ ۔ قُلْتُ الآنَ حِینَ وَدَّعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا أَنَا بِرَاجِعِ إِلَیْہِ ارْحَلْ وَلَکَ ثَلاَثَۃُ دَنَانِیرَ فَلَمَّا رَجَعْتُ مِنْ غَزَاتِی ذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: أَعْطِہَا إِیَّاہُ فَإِنَّہَا حَظُّہُ مِنْ غَزَاتِہِ ۔ (ت) وَقَدْ مَضَی فِی کِتَابِ الْقَسْمِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الدَّیْلَمِیِّ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُنَیَّۃَ فِی مَعْنَاہُ ۔ [حسن ]
(١٧٨٤٧) حضرت یعلیٰ بن منیہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے غزوات میں بھیجتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے روانہ کیا۔ ایک آدمی میری خچر پر سوار ہوتا تھا۔ میں نے اس کو کہا : سواری تیار کرو اور چلو۔ اس نے کہا : میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میں نے کہا : کیوں ؟ اس نے کہا : پہلے میرے لیے تین دینار مقرر کرو۔ میں نے کہا : اب تو میں نکل گیا ہوں اور آپ کی طرف نہیں جاؤں گا۔ سواری تیار کرو اور تجھے تین دینار ملیں گے۔ جب میں لڑائی سے واپس آیا تو میں نے آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ اس کو دے دو ۔ یہی لڑائی سے اس کا حصہ ہے۔

17854

(١٧٨٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ یَعْنِی مَحْبُوبَ بْنَ مُوسَی حَدَّثَنَا الْفَزَارِیُّ عَنْ سَعِیدٍ الْجُرَیْرِیِّ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ أَبِی فِرَاسٍ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ فِی خِطْبَتِہِ : أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی لَمْ أَبْعَثْ إِلَیْکُمْ عُمَّالِی لِیَضْرِبُوا أَبْشَارَکُمْ وَلاَ لِیَأْخُذُوا أَمْوَالَکُمْ وَلَکِنْ بَعَثْتُہُمْ لِیُعَلِّمُوکُمْ دِینَکُمْ وَسُنَّتَکُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِہِ غَیْرَ ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ فَأُقِصَّہُ مِنْہُ أَلاَ لاَ تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِینَ فَتُذِلُّوہُمْ وَلاَ تَمْنَعُوہُمْ فَتُکَفِّرُوہُمْ وَلاَ تُجَمِّرُوہُمْ فَتَفْتِنُوہُمْ وَلاَ تُنْزِلُوہُمُ الْغِیَاضَ فَتُضَیِّعُوہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٤٨) حضرت ابو فراس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ میں ہمیں کہا : اے لوگو ! میں عمال کو تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمہارے چشموں کو بند کردیں اور تمہارے مال کو لے لیں۔ ان کو اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تم کو دین سکھائیں اور سنت سکھائیں۔ اگر ان میں سے کوئی اس کے علاوہ کام کرے تو اس کا معاملہ مجھ تک پہنچاؤ۔ میں اس سے بدلہ لوں گا۔ خبردار ! مسلمانوں کو مار کر ان کو ذلیل نہ کرو۔ مسلمانوں کو بار بار ٹوک کر اور منع کر کے کفر پر مجبور نہ کریں اور گھروں کو واپسی سے مجاہدین کو نہ روکیں۔ اگر روکو گے تو وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں گے اور مجاہدین کو مشکل راستوں پر ڈال کر ضائع نہ کرو۔

17855

(١٧٨٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ الأَنْصَارِیِّ : أَنَّ جَیْشًا مِنَ الأَنْصَارِ کَانُوا بِأَرْضِ فَارِسَ مَعَ أَمِیرِہِمْ وَکَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُعَقِّبُ الْجُیُوشَ فِی کُلِّ عَامٍ فَشُغِلَ عَنْہُمْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَلَمَّا مَرَّ الأَجَلُ قَفَلَ أَہْلُ ذَلِکَ الثَّغْرِ فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ وَأَوْعَدَہُمْ وَہُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا : یَا عُمَرُ إِنَّکَ غَفِلْتَ عَنَّا وَتَرَکْتَ فِینَا الَّذِی أَمَرَ بِہِ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ إِعْقَابِ بَعْضِ الَغَزِیَّۃِ بَعْضًا۔ [صحیح۔ اخرجہ السجستانی ]
(١٧٨٤٩) عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری فرماتے ہیں کہ انصار کا لشکر اپنے امیر کے ساتھ فارس میں تھا اور حضرت عمر (رض) کا معمول تھا کہ ایک سال بعد لشکر کو واپس بلاتے تھے۔ حضرت عمر (رض) ان سے غافل ہوگئے۔ جب مقررہ وقت گزر گیا تو سرحد والے لوگ لوٹ آئے۔ امیر نے ان پر سختی کی اور ڈرایا اور یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابی تھے۔ انھوں نے عمر (رض) سے کہا : آپ ہم سے غافل ہوگئے اور آپ نے ہمارے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو ترک کردیا کہ لشکر کو تھوڑا تھوڑا کر کے واپس لایا جائے۔

17856

(١٧٨٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ الْعَدْلُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنِی مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنَ اللَّیْلِ فَسَمِعَ امْرَأَۃً تَقُولُ : تَطَاوَلَ ہَذَا اللَّیْلُ وَاسْوَدَّ جَانِبُہُ وَأَرَّقَنِی أَنْ لاَ حَبِیبٌ أُلاَعِبُہُ فَوَاللَّہِ لَوْلاَ اللَّہُ إِنِّی أُرَاقِبُہُ تَحَرَّکَ مِنْ ہَذَا السَّرِیرِ جَوَانِبُہُ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِحَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : کَمْ أَکْثَرُ مَا تَصْبِرُ الْمَرْأَۃُ عَنْ زَوْجِہَا ؟ فَقَالَتْ : سِتَّۃَ أَوْ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ ۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لاَ أَحْبِسُ الْجَیْشَ أَکْثَرَ مِنْ ہَذَا۔ [ضعیف ]
(١٧٨٥٠) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) رات کو نکلے، انھوں نے ایک عورت کی آواز سنی۔ وہ شعر پڑھ رہی تھی :” رات لمبی ہوگئی اور اس کے اطراف سیاہ ہوگئے ہیں۔ میری راتوں کی نیند اڑا دی ہے اس بات نے کہ میرا حبیب (محبوب) نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا تو میں اس کی دیکھ بھال کرتی۔ اور اس چارپائی کے پہلو حرکت کرتے۔ “
حضرت عمر (رض) نے اپنی بیٹی حفصہ (رض) سے پوچھا : عورت زیادہ سے زیادہ اپنے خاوند کے بغیر کتنا صبر کرسکتی ہے ؟ انھوں نے کہا : چھ ماہ یا چار ماہ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : میں کسی لشکر کو اس سے زیادہ نہیں روکوں گا۔

17857

(١٧٨٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ : أَنَّ نَجْدَۃَ کَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَغْزُو بِالنِّسَائِ وَہَلْ کَانَ یَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ ؟ فَقَالَ : قَدْ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَغْزُو بِالنِّسَائِ فَیُدَاوِینَ الْجَرْحَی وَلَمْ یَکُنْ یَضْرِبْ لَہُنَّ بِسَہْمٍ وَلَکِنْ یُحْذَیْنَ مِنَ الْغَنِیمَۃِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ کَمَا مَضَی۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَمَحْفُوظٌ أَنَّہُ شَہِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْقِتَالَ الْعَبِیدُ وَالصِّبْیَانُ وَأَحْذَاہُمْ مِنَ الْغَنِیمَۃِ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٥١) حضرت نجدہ نے ابن عباس (رض) کو لکھا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے ساتھ مل کر لڑائی کی ہے ؟ اور کیا ان کو حصہ دیا ہے ؟ ابن عباس (رض) نے جواب دیا : عورتیں آپ کے لشکر کے ساتھ ہوتی تھیں اور وہ زخمیوں کا علاج معالجہ کرتی تھیں، لیکن ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ نہیں ہوتا تھا جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو عطیۃً کچھ دے دیتے تھے۔
امام شافعی فرماتے ہیں : درست بات یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی میں بچے بھی ہوتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو غنیمت سے عطیۃً دیتے تھے۔

17858

(١٧٨٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ : کَتَبَ نَجْدَۃُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَسْأَلُہُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَۃِ یَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ ہَلْ لَہُمَا مِنَ الْمَغْنَمِ شَیْئٌ؟ قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیْہِ لَیْسَ لَہُمَا شَیْئٌ إِلاَّ أَنْ یُحْذَیَا۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ] وَذَکَرَ أَبُو یُوسُفَ فِی ہَذَا الْحَدِیثِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ أَنَّہُ کَتَبَ إِلَیْہُ یَسْأَلُہُ عَنِ الصَّبِیِّ مَتَی یَخْرُجُ مِنَ الْیُتْمِ ؟ وَمَتَی یُضْرَبُ لَہُ بِسَہْمٍ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ یَخْرُجُ مِنَ الْیُتْمِ إِذَا احْتَلَمَ وَیُضْرَبُ لَہُ بِسَہْمٍ ۔
(١٧٨٥٢) حضرت نجدہ نے ابن عباس (رض) کو لکھا کہ کیا غلام اور عورت کا مال غنیمت میں حصہ ہے ؟ تو انھوں نے ان کو لکھا کہ ان دونوں کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ ان کو عطیۃً دیا جائے۔
ابو یوسف نے اس حدیث کے بارے میں اسماعیل بن امیہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے لکھا ان کو اور بچے کے بارے میں سوال کیا کہ کب وہ یتیمی سے نکلتا ہے اور اس کے لیے مال غنیمت سے حصہ دیا جاتا ہے ؟ انھوں نے کہا : جب بچہ بالغ ہوجائے تو وہ یتیم نہیں ہوتا اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے لیے مال غنیمت میں حصہ بھی ہوگا۔

17859

(١٧٨٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یَزِیدُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ الْقُرَشِیِّ فَذَکَرَ ہَذَا الْحَدِیثَ وَقَالَ فِیہِ : وَسَأَلَ عَنِ الْیَتِیمِ مَتَی یَخْرُجُ مِنَ الْیُتْمِ وَیَقَعُ حَقُّہُ فِی الْفَیْئِ فَکَتَبَ إِلَیْہِ إِذَا احْتَلَمَ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْیُتْمِ وَوَقَعَ حَقُّہُ فِی الْفَیْئِ ۔ یَزِیدُ بْنُ عِیَاضٍ لاَ یُحَتَجُّ بِہِ وَسَقَطَ مِنْ إِسْنَادِہِ سَعِیدُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٥٣) اسماعیل بن امیہ سے مذکورہ روایت کے بعد یہ منقول ہے کہ یتیم کب یتیمی سے نکلتا ہے اور مال فیٔ سے کب اس کا حق رکھا جائے گا تو انھوں نے جواب دیا : جب بالغ ہوجائے تو بچہ یتیم نہیں رہتا اور اس کا حق مال فیٔ میں ثابت ہوجاتا ہے۔

17860

(١٧٨٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ انْہَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَبُو طَلْحَۃَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُجَوِّبُ عَلَیْہِ بِحَجَفَۃٍ الْحَدِیثَ قَالَ : وَلَقَدْ رَأَیْتُ عَائِشَۃَ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ وَأُمَّ سُلَیْمٍ وَإِنَّہُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَی خَدَمَ سُوقِہِمَا تَنْقُلاَنِ الْقِرَبَ عَلَی مُتُونِہِمَا ثُمَّ تُفْرِغَانِ فِی أَفْوَاہِ الْقَوْمِ ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلآنِہَا ثُمَّ تَجِیئَانِ فَتُفْرِغَانِہِ فِی أَفْوَاہِ الْقَوْمِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ الدَّارِمِیِّ عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٥٤) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن جب کچھ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہوگئے اور ابو طلحہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ڈھال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا رہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) کو دیکھا اور ام سلیم کو وہ اپنی پیٹھوں پر مشکیزے اٹھاتی تھیں اور لوگوں کے منہ میں ڈالتی تھیں۔ پھر واپس آتی تھیں اور مشکیزے بھر کر پھر جاتیں اور لوگوں کے منہ میں پانی ڈالتی تھیں۔

17861

(١٧٨٥٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَغْزُو بِأُمِّ سُلَیْمٍ وَنِسْوَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ مَعَہُ إِذَا غَزَا فَیَسْقِینَ الْمَائَ وَیُدَاوِینَ الْجَرْحَی۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرُوِیَ فِی ذَلِکَ عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ وَأُمِّ عَطِیَّۃَ وَغَیْرِہِمَا۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٥٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ جنگوں میں ام سلیم اور انصار کی کچھ دوسری عورتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوتی تھیں جب لڑائی ہوتی یہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔

17862

(١٧٨٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ بَالُوَیْہِ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ الْفَرَّائُ وَجَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّہُ سَمِعَ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ : جُرِحَ وَجْہُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتِ الْبَیْضَۃُ عَلَی رَأْسِہِ فَکَانَتْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَغْسِلُ الدَّمَ وَکَانَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَسْکُبُ الْمَائَ عَلَیْہِ بِالْمِجَنِّ فَلَمَّا رَأَتِ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّ الْمَائَ لاَ یَزِیدُ الدَّمَ إِلاَّ کَثْرَۃً أَخَذَتْ قِطْعَۃَ حَصِیرٍ فَأَحْرَقَتْہُ حَتَّی إِذَا صَارَ رَمَادًا أَلْصَقَتْہُ بِالْجُرْحِ فَاسْتَمْسَکَ الدَّمُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی کِلاَہُمَا عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٥٦) (الف) حضرت ابو حازم فرماتے ہیں کہ سہل بن سعد سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخم کے بارے میں سوال ہوا جو احد میں لگا تھا۔ انھوں نے کہا : آپ کے چہرے کو زخمی کیا گیا تھا اور آپ کے رباعی دانت ٹوٹ گئے تھے اور خود آپ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا۔ فاطمہ (رض) آپ کا خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی (رض) ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب خون نہ رکا تو فاطمہ (رض) نے چٹائی کا ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ زخم پر لگائی تو خون بند ہوگیا۔

17863

(١٧٨٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا فُضَیْلُ بْنُ سُلَیْمَانَ وَبِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ حَدَّثَنَا عُمَیْرٍ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ وَأَنَا عَبْدٌ مَمْلُوکٌ فَلَمْ یَضْرِبْ لِی بِسَہْمٍ وَأَعْطَانِی سَیْفًا فَقُلِّدْتُہُ أَجُرُّ بِنَعْلِہِ فِی الأَرْضِ وَأَمَرَ لِی مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٥٧) حضرت عمیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جنگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر لڑی اور میں اس وقت غلام تھا میرے لیے حصہ تو مقرر نہ ہوا مگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تلوار دی جو میرے گلے میں ڈال دی گئی۔ میں اس کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتا تھا اور آپ نے میرے لیے ردی مال کا بھی حکم دیا۔

17864

(١٧٨٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ أَمِیحُ أَصْحَابِی الْمَائَ یَوْمَ بَدْرٍ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ أَحْمَدَ : کُنْتُ أَسْقِی۔ [صحیح۔ سعید بن منصور ]
(١٧٨٥٨) (الف) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں بدر کے دن اپنے ساتھیوں کے لیے پانی بھرتا تھا۔
احمد کی روایت میں ہے : کنت اسقی، یعنی میں پانی پلاتا تھا۔

17865

(١٧٨٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : غَزَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَغَزَا مَعَہُ بَعْضُ مَنْ یُعْرَفُ نِفَاقُہُ فَانْخَزَلَ عَنْہُ یَوْمَ أُحُدٍ بِثَلاَثِمِائَۃٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : ہُوَ بَیِّنٌ فِی الْمَغَازِی۔ [صحیح۔ للشافعی ]
(١٧٨٥٩) اما شافعی (رح) فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگیں لڑیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بعض ایسے لوگوں نے بھی جنگ لڑی جن کا نفاق ظاہر تھا اور احد کے دن تین سو آدمی آپ سے الگ ہوگئے تھے۔ شیخ فرماتے ہیں : اس کی وضاحت مغازی میں ہے۔

17866

(١٧٨٦٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ فَحَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ الزُّہْرِیُّ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ وَمُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ وَغَیْرُہُمْ مِنْ عُلَمَائِنَا عَنْ یَوْمِ أُحُدٍ فَذَکَرَ الْقِصَّۃَ قَالَ فِیہَا : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أَلْفِ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہِ حَتَّی إِذَا کَانَ بِالشَّوْطِ بَیْنَ الْمَدِینَۃِ وَأُحُدٍ انْخَزَلَ عَنْہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ الْمُنَافِقُ بِثُلُثِ النَّاسِ فَرَجَعَ بِمَنِ اتَّبَعَہُ مِنْ قَوْمِہِ مِنْ أَہْلِ الرِّیَبِ وَالنِّفَاقِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٦٠) ابن شہاب (رض) اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ احد کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ نکلے تھے۔ جب مدینہ اور احد کے درمیان شوط کے مقام پر پہنچے تو عبداللہ بن ابیٔ منافق لوگوں کی ایک تہائی لے کر الگ ہوگیا اور اہل ریب اور منافق جو اس کے تابع تھے واپس لوٹ آئے۔

17867

(١٧٨٦١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فِی قِصَّۃِ أُحُدٍ قَالَ : وَرَجَعَ عَنْہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ فِی ثَلاَثِمِائَۃٍ وَبَقِیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَبْعِمِائَۃٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٦١) حضرت موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی منافق احد کے دن اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ لوٹ آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سات سو آدمی تھے جو باقی بچے۔

17868

(١٧٨٦٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : فَمَضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی نَزَلَ أُحُدًا وَرَجَعَ عَنْہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ فِی ثَلاَثِمِائَۃٍ وَبَقِیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَبْعِمِائَۃٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٦٢) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی طرف چلے۔ جب احد میں پہنچے تو عبداللہ بن ابیٔـ اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے لوٹ آیا۔ آپ کے ساتھ سات سو باقی رہ گئے تھے۔

17869

(١٧٨٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِیُّ بِہَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی أُحُدٍ رَجَعَ قَوْمٌ مِنَ الطَّرِیقِ فَکَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِمْ فِرْقَتَیْنِ فِرْقَۃٌ تَقُولُ نَقْتُلُہُمْ وَفِرْقَۃٌ تَقُولُ لاَ نَقْتُلُہُمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللَّہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوا } [النساء ٨٨] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : ثُمَّ شَہِدُوا مَعَہُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فَتَکَلَّمُوا بِمَا حَکَی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ قَوْلِہِمْ { مَا وَعَدَنَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ إِلاَّ غُرُورًا } [الأحزاب ١٢] قَالَ الشَّیْخُ : ہُوَ بَیِّنٌ فِی الْمَغَازِی عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ وَمُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَار وَغَیْرِہِمَا قَالَ مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ بِالإِسْنَادِ الَّذِی تَقَدَّمَ فِی قِصَّۃِ الْخَنْدَقِ : فَلَمَّا اشْتَدَّ الْبَلاَئُ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابِہِ نَافَقَ نَاسٌ کَثِیرٌ وَتَکَلَّمُوا بِکَلاَمٍ قَبِیحٍ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا فِیہِ النَّاسُ مِنَ الْبَلاَئِ وَالْکَرْبِ جَعَلَ یُبَشِّرُہُمْ وَیَقُولُ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُفَرَّجَنَّ عَنْکُمْ مَا تَرَوْنَ مِنَ الشِّدَۃِ وَالْبَلاَئِ فَإِنِّی لأَرْجُو أَنْ أَطُوفَ بِالْبَیْتِ الْعَتِیقِ آمِنًا وَأَنْ یَدْفَعَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیَّ مَفَاتِیحَ الْکَعْبَۃِ وَلَیُہْلِکَنَّ اللَّہُ کِسْرَی وَقَیْصَرَ وَلَتُنْفَقَنَّ کُنُوزُہُمَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ مَعَہُ لأَصْحَابِہِ أَلاَ تَعْجَبُونَ مِنْ مُحَمَّدٍ یَعِدُنَا أَنْ نَطُوفَ بِالْبَیْتِ الْعَتِیقِ وَأَنْ نَقْسِمَ کُنُوزَ فَارِسَ وَالرُّومِ وَنَحْنُ ہَا ہُنَا لاَ یَأْمَنُ أَحَدُنَا أَنْ یَذْہَبَ إِلَی الْغَائِطِ وَاللَّہِ لَمَا یَعِدُنَا إِلاَّ غُرُورًا وَقَالَ آخَرُونَ مِمَّنْ مَعَہُ ائْذَنْ لَنَا فَإِنَّ بُیُوتَنَا عَوْرَۃٌ وَقَالَ آخَرُونَ یَا أَہْلَ یَثْرِبَ لاَ مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوا وَسَمَّی ابْنُ إِسْحَاقَ الْقَائِلَ الأَوَّلَ مُعَتِّبَ بْنَ قُشَیْرٍ وَالْقَائِلَ الثَّانِیَ أَوْسَ بْنَ قَیْظِیٍّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٦٣) حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کی طرف گئے تو کچھ لوگ راستے سے ہی واپس آگئے جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ان میں دو گروہ تھے، ایک کہتا تھا : ہم ان سے قتال کریں گے۔ ایک کہتا تھا : ہم ان سے قتال نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کردی : { فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰہُ اَرْکَسَھُمْ بِمَا کَسَبُوْا } [النساء ٨٨] ” پھر تمہیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے۔ حالانکہ اللہ نے انھیں اس وجہ سے الٹا کردیا جو انھوں نے کیا۔ “
امام شافعی (رح) کہتے ہیں : پھر یہ لوگ خندق میں شریک ہوئے تو انھوں نے کلام کیا۔ اس میں جو اس نے بیان کیا تھا { مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا } [الاحزاب ١٢] ” اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ دھوکا کا وعدہ کیا ہے۔ “
شیخ (رض) فرماتے ہیں : یہ مغازی میں بالتفصیل موسیٰ بن عقبہ سے اور محمد بن اسحاق اور دیگر سے بیان ہوا ہے اور خندق کے قصہ میں گزر گیا ہے کہ جب آزمائش سخت ہوگئی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں پر اکثر لوگ منافق ہوگئے اور کلام قبیح (ناپسندیدہ) کرنے لگے۔ جب آپ نے آزمائش اور تکلیف کی وجہ سے لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو آپ خوشخبری دینے لگے، آپ نے فرمایا : ” مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو سخت آزمائش تم دیکھ رہے وہ ضرور دور ہوجائے گی۔ مجھے امید ہے ہم بیت اللہ کا طواف پر امن ہو کر کریں گے اور اللہ تعالیٰ مجھے کعبہ کی چابیاں دے گا اور وہ ضرور کسریٰ و قیصر کو ہلاک کرے گا اور تم ان کا خزانہ اس کی راہ میں خرچ کرو گے۔ “ منافقوں میں سے ایک آدمی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : کیا تم کو محمد پر حیرانی نہیں ہوئی۔ وہ ہمیں بیت اللہ کے طواف اور فارس و روم کے خزانوں کی تقسیم کے وعدے دیتا ہے جبکہ ہم اپنی حاجت کے لیے جائیں تو بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ کی قسم ! یہ ہمارے ساتھ دھوکا کرتا ہے۔ دوسروں نے کہا : ہمیں اجازت دیں ہمارے گھر اور کچھ نے کہا : اے یثرب والو ! یہاں تمہارے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ہے، لوٹ جاؤ۔ ابن اسحاق نے پہلے قائل کا نام معتب بن قشیر اور دوسرے نام اوس بن قیظی نقل کیا ہے۔

17870

(١٧٨٦٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : فَلَمَّا اشْتَدَّ الْبَلاَئُ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابِہِ فَذَکَرَ ہَذِہِ الْقِصَّۃَ مِثْلَ قَوْلِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ فِی آخِرِہَا وَقَالَ رِجَالٌ مِنْہُمْ یُخَذِّلُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَا أَہْلَ یَثْرِبَ لاَ مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : ثُمَّ غَزَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَشَہِدَہَا مَعَہُ مِنْہُمْ عَدَدٌ فَتَکَلَّمُوا بِمَا حَکَی اللَّہُ مِنْ قَوْلِہِمْ { لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْہَا الأَذَلَّ } [المنافقون ٨] وَغَیْرِ ذَلِکَ مِمَّا حَکَی اللَّہُ مِنْ نِفَاقِہِمْ ۔[ضعیف ]
(١٧٨٦٤) حضرت عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ساتھیوں پر آزمائش سخت ہوئی (پھر موسیٰ بن عقبہ کی پوری حدیث مذکورہ نمبر ١٧٨٦١ بیان ہوئی ہے) مگر آخر میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا (جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد کا ہاتھ کھینچ چکے تھے) کہ اے یثرب والو ! یہاں سے لوٹ چلو تمہارے لیے یہاں کوئی قیام گاہ نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں : منافقین میں سے کچھ لوگ غزوہ بنی مصطلق میں بھی آپ کے ساتھ انھوں نے بھی نازیبا باتیں کی جن کو اللہ نے حکایتاً بیان فرمایا ہے { یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ } [المنافقون ٨] ” اگر ہم مدینہ واپس گئے تو زیادہ عزت والا اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا۔ “ اس کے علاوہ دوسری آیات جن میں اللہ نے ان کے نفاق کو بیان فرمایا ہے۔

17871

(١٧٨٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُوَیْہِ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَلاَنِسِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ الْقَرَظِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : لَمَّا قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ لاَ تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ حَتَّی یَنْفَضُّوا وَقَالَ أَیْضًا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْہَا الأَذَلَّ أَخْبَرْتُ بِذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلاَمَتْنِی الأَنْصَارُ وَحَلَفَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ مَا قَالَ ذَلِکَ فَرَجَعْتُ إِلَی الْمَنْزِلِ فَنِمْتُ فَأَتَانِی رَسُولُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَتَیْتُہُ فَقَالَ : إِنَّ اللَّہَ صَدَّقَکَ وَعَذَرَکَ ۔ وَنَزَلَ { ہُمُ الَّذِینَ یَقُولُونَ لاَ تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ حَتَّی یَنْفَضُّوا } [المنافقون ٧] الآیَۃَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ آدَمَ بْنِ أَبِی إِیَاسٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٦٥) حضرت زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابیٔ نے کہا کہ اللہ کے رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو حتیٰ کہ وہ لوٹ جائیں اور اسی طرح کہا : اگر ہم مدینہ واپس گئے تو زیادہ عزت والا ذلیل کو ضرور نکال دے گا۔ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ انصاریوں نے مجھے ملامت کی اور عبداللہ بن ابیٔ نے قسم اٹھائی کہ اس نے یہ نہیں کہا۔ میں اپنے گھر آ کر سو گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلوایا، میں گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے تیری تصدیق کی ہے اور عذر بیان کیا ہے۔ قرآن نازل ہوا { ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا } [المنافقون ٧] ” یہ وہی ہیں جو کہتے ہیں : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہوجائیں۔ “

17872

(١٧٨٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْکَعْبِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : کُنَّا فِی غَزَاۃٍ وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً أُخْرَی کُنَّا فِی جَیْشٍ فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ : دَعُوہَا فَإِنَّہَا مُنْتِنَۃٌ ۔ فَسَمِعَ ذَلِکَ عِنْدَ عَبْدُ اللَّہِ فَقَالَ قَدْ فَعَلُوہَا أَمَّا وَاللَّہِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْہَا الأَذَلَّ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : دَعْہُ لاَ یَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ ۔ قَالَ : وَکَانَتِ الأَنْصَارُ أَکْثَرَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ ثُمَّ إِنَّ الْمُہَاجِرِینَ کَثُرُوا بَعْدُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَجَمَاعَۃٍ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ وَرُوِّینَا عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ بِالإِسْنَادِ الَّذِی تَقَدَّمَ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ فِی غَزْوَۃِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَکَذَلِکَ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : ثُمَّ غَزَا غَزْوَۃَ تَبُوکَ فَشَہِدَہَا مَعَہُ مِنْہُمْ قَوْمٌ نَفَرُوا بِہِ لَیْلَۃَ الْعَقَبَۃِ لِیَقْتُلُوہُ فَوَقَاہُ اللَّہُ شَرَّہُمْ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : رَحِمَہُ اللَّہُ ہُوَ بَیِّنٌ فِی الْمَغَازِی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٦٦) جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم کسی غزوہ میں تھے۔ مہاجرین نے کسی انصاری کو تکلیف دہ بات کہہ دی تو جابر نے کہا : اس کو چھوڑ دو ، یہ ناپسندیدہ بات ہے۔ عبداللہ بن ابی نے سن لی اور کہا : ان کے اس کام کی وجہ سے اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ واپس گئے تو معزز ذلیل کو ضرور نکال دے گا۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو فرمایا : ” اس کو چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھوں کو قتل کرتا ہے۔ “ جب مہاجرین مدینے آئے تو انصار زیادہ تھے۔ پھر مہاجرین زیادہ ہوگئے۔
امام شافعی فرماتے ہیں : غزوہ تبوک میں بھی منافقین میں سے کچھ لوگ شریک تھے۔ عقبہ کی رات کچھ لوگ آپ کو قتل کرنے کے لیے نکلے تھے مگر اللہ نے آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
شیخ فرماتے ہیں : اس کی تفصیل مغازی میں ہے۔

17873

(١٧٨٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی قِصَّۃِ تَبُوکَ قَالَ : فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الثَّنِیَّۃَ نَادَی مُنَادِی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ خُذُوا بَطْنَ الْوَادِی فَہُوَ أَوْسَعُ عَلَیْکُمْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ أَخَذَ الثَّنِیَّۃَ وَکَانَ مَعَہُ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَکَرِہَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُزَاحِمَہُ فِی الثَّنِیَّۃِ أَحَدٌ فَسَمِعَہُ نَاسٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ فَتَخَلَّفُوا ثُمَّ اتَّبَعَہُ رَہْطٌ مِنَ الْمُنَافِقِینَ فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِسَّ الْقَوْمِ خَلْفَہُ فَقَالَ لأَحَدِ صَاحِبَیْہِ : اضْرِبْ وُجُوہَہُمْ ۔ فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِکَ وَرَأَوُا الرَّجُلَ مُقْبِلاً نَحْوَہُمْ وَہُوَ حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ انْحَدَرُوا جَمِیعًا وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَضْرِبُ رَوَاحِلَہُمْ وَقَالُوا : إِنَّمَا نَحْنُ أَصْحَابُ أَحْمَدَ وَہُمْ مُتَلَثِّمُونَ لاَ یُرَی شَیْئٌ إِلاَّ أَعْیُنُہُمْ فَجَائَ صَاحِبُہُ بَعْدَ مَا انْحَدَرَ الْقَوْمُ فَقَالَ : ہَلْ عَرَفْتَ الرَّہْطَ ؟ فَقَالَ : لاَ وَاللَّہِ یَا نَبِیَّ اللَّہِ وَلَکِنِّی قَدْ عَرَفْتَ رَوَاحِلَہُمْ فَانْحَدَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الثَّنِیَّۃِ وَقَالَ لِصَاحِبَیْہِ : ہَلْ تَدْرُونَ مَا أَرَادَ الْقَوْمُ ؟ أَرَادُوا أَنْ یَزْحَمُونِی مِنَ الثَّنِیَّۃِ فَیَطْرَحُونِی مِنْہَا فَقَالاَ أَفَلاَ تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَہُمْ إِذَا اجْتَمَعَ إِلَیْکَ النَّاسُ فَقَالَ : أَکْرَہُ أَنْ یَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ وَضَعَ یَدَہُ فِی أَصْحَابِہِ یَقْتُلُہُمْ ۔ وَذَکَرَ الْقِصَّۃَ ۔ [ضعیف۔ ابن اسحاق عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرسل ]
(١٧٨٦٧) ابن اسحاق غزوہ تبوک کے بارے میں فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثنیہ (گھاٹی) پر پہنچے تو آپ کے ایلچی نے اعلان کیا کہ وادی کے درمیانی حصہ پر قبضہ کرلیں۔ وہ تمہارے لیے وسیع جگہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثنیہ پر چلے گئے آپ کے ساتھ حذیفہ بن یمان، عمار بن یاسر (رض) تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناپسند کرتے تھے کہ کوئی ثنیہ کے بارے میں ان سے مقابلہ کرے۔ جب منافقین کے گروہ نے یہ نداء سنی تو یہ پیچھے ہٹ گئے اور منافقین نے ان کی پیروی کی۔ ان کے جانے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے خیالات سنے تو اپنے ایک ساتھ سے کہا : (ان کے منہ پر مارو) جب منافقین نے یہ سنا اور دیکھا کہ ایک آدمی ان کی طرف آ رہا ہے جو حذیفہ بن یمان تھے تو سب نیچے اتر آئے۔ ایک سواریوں کو مارنے لگا اور انھوں نے کہا : ہم احمد کے ساتھی ہیں وہ نقاب پوش تھے ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ جب آپ کا ساتھی آیا قوم کے اترنے کے بعد تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تو نے گروہ کو پہچانا تھا تو اس نے کہا : میں نے ان کو نہیں پہچانا مگر ان کی سواریوں کو پہچانا ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثنیہ سے اترے اور ساتھیوں سے کہا : ” کیا تم جانتے ہو یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ ثنیہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ مجھے اس سے ہٹا دیں۔ “ تو ساتھیوں نے کہا : کیا آپ ہم کو حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کی گردن مار دیں۔ جب وہ آپ کے پاس آئیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” میں پسند نہیں کرتا کہ لوگ باتیں کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ “

17874

(١٧٨٦٨) وَأَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : وَرَجَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَافِلاً مِنْ تَبُوکَ إِلَی الْمَدِینَۃِ حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ مَکَرَ بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَتَآمَرُوا أَنْ یَطْرَحُوہُ مِنْ عَقَبَۃٍ فِی الطَّرِیقِ ثُمَّ ذَکَرَ الْقِصَّۃَ بِمَعْنَی ابْنِ إِسْحَاقَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٦٨) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں کچھ لوگوں نے آپ کے خلاف چال چلی اور مشورہ کیا کہ آپ کو راستہ میں عقبہ سے نیچے گرا دیں گے۔ پھر ابن اسحاق کے ہم معنیٰ قصہ نقل کیا ہے۔

17875

(١٧٨٦٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ وَأَبُو نُعَیْمٍ قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ جُمَیْعٍ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ قَالَ : کَانَ بَیْنَ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْعَقَبَۃِ وَبَیْنَ حُذَیْفَۃَ بَعْضِ مَا یَکُونُ بَیْنَ النَّاسِ فَقَالَ أَنْشُدُکَ بِاللَّہِ کَمْ کَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَۃِ ؟ قَالَ فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ أَخْبِرْہُ أَنْ سَأَلَکَ ۔ قَالَ : کُنَّا نُخْبَرُ أَنَّہُمْ أَرْبَعَۃَ عَشَرَ فَإِنْ کُنْتَ فِیہِمْ فَقَدْ کَانَ الْقَوْمُ خَمْسَۃَ عَشَرَ وَأَشْہَدُ بِاللَّہِ أَنَّ اثْنَیْ عَشَرَ مِنْہُمْ حَرْبٌ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الأَشْہَادُ وَعَذَرَ ثَلاَثَۃً قَالُوا مَا سَمِعْنَا مُنَادِیَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلاَ عَلِمْنَا مَا أَرَادَ الْقَوْمُ وَقَدْ کَانَ فِی حَرَّۃٍ فَمَشَی فَقَالَ إِنَّ الْمَائَ قَلِیلٌ فَلاَ یَسْبِقْنِی إِلَیْہِ أَحَدٌ فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوہُ فَلَعَنَہُمْ یَوْمَئِذٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ أَبِی أَحْمَدَ : مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الزُّبَیْرِیِّ ۔ [صحیح۔ مسلم ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَتَخَلَّفَ آخَرُونَ مِنْہُمْ فِیمَنْ بِحَضْرَتِہِ ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ غَزَاۃَ تَبُوکَ أَوْ مُنْصَرَفَہُ مِنْہَا مِنْ أَخْبَارِہِمْ فَقَالَ { وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لأَعَدُّوا لَہُ عُدَّۃً وَلَکِنْ کَرِہَ اللَّہُ انْبِعَاثَہُمْ } [التوبۃ ٤٦] قَرَأَ إِلَی قَوْلِہِ { وَیَتَوَلَّوْا وَہُمْ فَرِحُونَ } [التوبۃ ٥٠] قَالَ الشَّیْخُ ہُوَ بَیِّنٌ فِی مَغَازِی مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ وَابْنِ إِسْحَاقَ ۔
(١٧٨٦٩) حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ عقبہ کے لوگوں میں سے ایک آدمی کی حضرت حذیفہ کے ساتھ چپکلش تھی جیسا کہ لوگوں میں ہوتی ہے۔ حضرت حذیفہ (رض) نے کہا کہ اس کو گواہ بنا کر بتاؤ، عقبہ کے کتنے لوگ تھے تو قوم نے کہا : جب اس نے سوال کیا تو بتادو تو اس نے کہا : ہم چودہ تھے۔ اگر میں بھی ہوں تو پندرہ ہوں گے میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں بارہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ رہے تھے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اور تین کا عذر بیان کیا۔ انھوں نے کہا : ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان نہیں سنا تھا اور نہ قوم کا ارادہ معلوم تھا اور یہ غزوہ گرمی میں تھا وہ چلے اور کہتے ہیں کہ پانی قلیل تھا۔ میں سب سے پہلے پہنچا تو دیکھا کہ ایک گروہ اس سے بھی آگے ہے۔ اس نے اس دن ان پر لعنت کی۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : حاضرین میں سے کچھ لوگ پیچھے رہ گئے۔ پھر اللہ نے غزوہ تبوک کے دوران یا واپسی پر ان کی خبریں نازل کردیں اور یہ آیات تلاوت کیں : { وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃًوَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ } [التوبۃ ٤٦] یہاں تک پڑھا { وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ فَرِحُوْنَ ۔ } [التوبۃ ٥٠] ” اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور تیار کرتے لیکن انھوں نے اس کا اٹھانا پسند کیا۔۔۔ اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ خوش ہیں۔ “
شیخ فرماتے ہیں کہ مغازی میں وضاحت موجود ہے۔

17876

(١٧٨٧٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَجَہَّزَ غَازِیًا یُرِیدُ الشَّامَ فَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالْخُرُوجِ وَأَمَرَہُمْ بِہِ فِی قَیْظٍ شَدِیدٍ فِی لَیَالِی الْخَرِیفِ فَأَبْطَأَ عَنْہُ نَاسٌ کَثِیرٌ وَہَابُوا الرُّومَ فَخَرَجَ أَہْلُ الْحِسْبَۃِ وَتَخَلَّفَ الْمُنَافِقُونَ وَحَدَّثُوا أَنْفُسَہُمْ أَنَّہُ لاَ یَرْجِعُ أَبَدًا وَثَبَّطُوا عَنْہُ مَنْ أَطَاعَہُمْ وَتَخَلَّفَ عَنْہُ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ لأَمْرٍ کَانَ لَہُمْ فِیہِ عُذْرٌ فَذَکَرَ الْقِصَّۃَ قَالَ وَأَتَاہُ جَدُّ بْنُ قَیْسٍ وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ مَعَہُ نَفَرٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ائْذَنْ لِی فِی الْقُعُودِ فَإِنِّی ذُو ضَیْعَۃٍ وَعِلَّۃٍ لِی بِہَا عُذْرٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : تَجَہَّزْ فَإِنَّکَ مُوْسِرٌ لَعَلَّکَ تُحْقِبُ بَعْضَ بَنَاتِ الأَصْفَرِ ۔ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ائْذَنْ لِی وَلاَ تَفْتِنِّی بِبَنَاتِ الأَصْفَرِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ { وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلاَ تَفْتِنِّی أَلاَ فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکَافِرِینَ } [التوبۃ ٤٩] عَشْرَ آیَاتٍ یَتْبَعُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَہُ وَکَانَ فِیمَنْ تَخَلَّفَ ابْنُ عَنَمَۃَ أَوْ عَنَمَۃُ مِنْ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَقِیلَ لَہُ : مَا خَلَّفَکَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -؟ قَالَ : الْخَوْضُ وَاللَّعِبُ ۔ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ وَفِیمَنْ تَخَلَّفَ مِنَ الْمُنَافِقِینَ { وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ لَیَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ } [التوبۃ ٦٥] ثَلاَثَ آیَاتٍ مُتَتَابِعَاتٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٧٠) حضرت عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شام کے لیے ایک لشکر تیار کیا۔ جب لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا تو موسم بہت گرم تھا اور موسم خزاں کی راتیں بھی۔ لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا اور رومیوں سے ڈر گئے جن کو ثواب کی امید تھی وہ نکل گئے۔ منافقین پیچھے رہے اور اپنے جی میں باتیں کرتے تھے کہ جانے والے واپس نہیں آئیں گے اور یہ رکے رہے۔ اطاعت کرنے والوں سے کچھ مسلمان بھی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں : جد بن قیس آپ کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھے بیٹھنے کی اجازت دیں میں زمیندار ہوں اور بھی کچھ وجوہات ہیں جو میرے لیے عذر ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تیاری کر تو مال دار آدمی ہے شاید تو رومیوں کی لڑکیوں کو اپنے پیچھے سوار کرے۔ “ تو اس نے کہا : آپ مجھے اجازت دیں، رومیوں کی لڑکیاں مجھے فتنے میں مبتلا نہیں کریں گی تو اللہ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی : { وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَا تِفْتِنِّیْ اَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا وَ اِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکٰفِرِیْنَ ۔ } [التوبۃ ٤٩] ” ان میں وہ ہے جو کہتا ہے مجھے اجازت دے دیں اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالیں، سن لو وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو ضرور گھیرنے والی ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین نکلے اور پیچھے رہنے والوں میں ابن عنمہ یا عنمہ جو بنی عمرو بن عوف سے ہے وہ بھی تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ پیچھے کیوں رہا تو اس نے کہا : شغل اور دل لگی کے لیے تو اللہ نے اس کے اور منافقین کے بارے میں آیت نازل فرما دی : { وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ } [التوبۃ ٦٥] ” اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے، دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے : کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ “

17877

(١٧٨٧١) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَبْدَاللَّہِ بْنَ کَعْبِ قَائِدَ کَعْبٍ حِینَ عَمِیَ مِنْ بَنِیہِ قَالَ سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ یُحَدِّثُ حَدِیثَہُ حِینَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ قَالَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ : لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا قَطُّ إِلاَّ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ غَیْرَ أَنِّی تَخَلَّفْتُ عَنْ غَزْوَۃِ بَدْرٍ وَلَمْ یُعَاتِبِ اللَّہُ أَحَدًا حِینَ تَخَلَّفَ عَنْہَا إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُرِیدُ عِیرَ قُرَیْشٍ حَتَّی جَمَعَ اللَّہُ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ عَدُوِّہِمْ عَلَی غَیْرِ مِیعَادٍ وَلَقَدْ شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَیْلَۃَ الْعَقَبَۃِ وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِہَا مَشْہَدَ بَدْرٍ وَإِنْ کَانَتْ بَدْرٌ أَذْکَرَ فِی النَّاسِ مِنْہَا کَانَ مِنْ خَبَرِی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَنِّی لَمْ أَکُنْ قَطُّ أَقْوَی وَلاَ أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْہُ فِی تِلْکَ الْغَزْوَۃِ وَاللَّہِ مَا اجْتَمَعَتْ عِنْدِی قَبْلَہَا رَاحِلَتَانِ قَطُّ حَتَّی جَمَعْتُہُمَا تِلْکَ الْغَزْوَۃَ وَلَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُرِیدُ غَزْوَۃَ یَغْزُوہَا إِلاَّ وَرَّی بِغَیْرِہَا حَتَّی کَانَتْ تِلْک الْغَزْوَۃُ غَزَاہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی حَرٍّ شَدِیدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا وَعَدُوًّا کَثِیرًا فَجَلَّی لِلْمُسْلِمِینَ أَمْرَہَمْ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ وَأَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِی یُرِیدُہُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَثِیرٌ لاَ یَجْمَعُہُمْ کِتَابٌ حَافِظٌ یُرِیدُ الدِّیوَانَ ۔ قَالَ کَعْبٌ : فَمَا رَجُلٌ یُرِیدُ أَنْ یَتَغَیَّبَ إِلاَّ ظَنَّ أَنْ سَیَخْفَی لَہُ مَا لَمْ یَنْزِلْ فِیہِ وَحْیٌّ مِنَ اللَّہِ وَغَزَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تِلْکَ الْغَزْوَۃَ حِینَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلاَلُ فَتَجَہَّزَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَالْمُسْلِمُونَ مَعَہُ وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِکَیْ أَتَجَہَّزَ مَعَہُمْ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا وَأَقُولُ فِی نَفْسِی إِنِّی قَادِرٌ عَلَی ذَلِکَ إِذَا أَرَدْتُہُ فَلَمْ یَزَلْ یَتَمَادَی بِی حَتَّی اسْتَحَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَالْمُسْلِمُونَ مَعَہُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَہَازِی شَیْئًا فَقُلْتُ أَتَجَہَّزُ بَعْدَہُ یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ فَغَدَوْتُ بَعْدَ أَنْ فَصَلُوا لأَتَجَہَّزَ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَیْئًا فَلَمْ یَزَلْ ذَلِکَ یَتَمَادَی بِی حَتَّی أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ وَہَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِکَہُمْ وَلَیْتَنِی فَعَلْتُ فَلَمْ یُقَدَّرْ لِی ذَلِکَ فَکُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِی النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَطُفْتُ فِیہِمْ أَحْزَنَنِی أَنِّی لاَ أَرَی إِلاَّ رَجُلاً مَغْمُوصًا مِنَ النِّفَاقِ أَوْ رَجُلاً مِمَّنْ عَذَرَ اللَّہُ مِنَ الضُّعَفَائِ فَلَمْ یَذْکُرْنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی بَلَغَ تَبُوکَ قَالَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْقَوْمِ بِتَبُوکَ : مَا فَعَلَ کَعْبٌ؟ ۔ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ یَا رَسُولَ اللَّہِ حَبَسَہُ بُرْدَاہُ یَنْظُرُ فِی عِطْفَیْہِ ۔ فَقَالَ لَہُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : بِئْسَمَا قُلْتَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا عَلِمْنَا إِلاَّ خَیْرًا فَسَکَتَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ کَعْبٌ : فَلَمَّا بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ تَوَجَّہَ قَافِلاً مِنْ تَبُوکَ حَضَرَنِی ہَمِّی وَطَفِقْتُ أَتَذَکَّرُ الْکَذِبَ وَأَقُولُ بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِہِ غَدًا وَأَسْتَعِینُ عَلَی ذَلِکَ بِکُلِّ ذِی رَأْیٍ مِنْ أَہْلِی فَلَمَّا قِیلَ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّی الْبَاطِلُ وَعَرَفْتُ أَنِّی لاَ أَخْرُجُ مِنْہُ أَبَدًا بِشَیْئٍ فِیہ کَذِبٌ فَأَجْمَعْتُ صِدْقَہُ ۔ وَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَادِمًا وَکَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلَّی فِیہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِکَ جَائَ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا یَعْتَذِرُونَ إِلَیْہِ وَیَحْلِفُونَ لَہُ وَکَانُوا بِضْعَۃً وَثَمَانِینَ رَجُلاً فَقَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلاَنِیَتَہُمْ وَبَایَعَہُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ وَیَکِلُ سَرَائِرَہُمْ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ فَجِئْتُہُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَیْہِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ : تَعَالَ ۔ فَجِئْتُ أَمْشِی حَتَّی جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ : مَا خَلَّفَکَ أَلَمْ تَکُنِ ابْتَعْتَ ظَہْرَکَ ؟ فَقُلْتُ : بَلَی یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی وَاللَّہِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَیْرِکَ مِنْ أَہْلِ الدُّنْیَا لَرَأَیْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِہِ بِعُذْرٍ وَلَقَدْ أُعْطِیتُ جَدَلاً وَلَکِنْ وَاللَّہِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُکَ الْیَوْمَ حَدِیثًا کَاذِبًا تَرْضَی بِہِ عَنِّی لَیُوشِکَنَّ اللَّہُ أَنْ یُسْخِطَکَ عَلَیَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُکَ حَدِیثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَیَّ فِیہِ إِنِّی لأَرْجُو عَفْوَ اللَّہِ لاَ وَاللَّہِ مَا کَانَ لِی مِنْ عُذْرٌ وَاللَّہِ مَا کُنْتُ قَطُّ أَقْوَی وَلاَ أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْکَ ۔ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا ہَذَا فَقَدْ صَدَقَ قُمْ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ فِیکَ ۔ فَقُمْتُ وَسَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِی سَلِمَۃَ فَقَالُوا : لاَ وَاللَّہِ مَا عَلِمْنَاکَ کُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ ہَذَا عَجَزْتَ أَنْ لاَ تَکُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَا اعْتَذَرَ إِلَیْہِ الْمُخَلَّفُونَ قَدْ کَانَ کَافَِیکَ ذَنْبَکَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَکَ فَوَاللَّہِ مَا زَالُوا یُؤَنِّبُونِی حَتَّی أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُکَذِّبَ نَفْسِی ثُمَّ قُلْتُ : ہَلْ لَقِیَ ہَذَا مَعِی أَحَدٌ؟ قَالُوا : نَعَمْ رَجُلاَنِ قَالاَ مِثْلَمَا قُلْتَ وَقِیلَ لَہُمَا مِثْلَمَا قِیلَ لَکَ ۔ فَقُلْتُ : مَنْ ہُمَا ؟ قَالُوا : مُرَارَۃُ بْنُ الرَّبِیعِ الْعَمْرِیُّ وَہِلاَلُ بْنُ أُمَیَّۃَ الْوَاقِفِیُّ فَذَکَرُوا لِی رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ قَدْ شَہِدَا بَدْرًا فِیہِمَا أُسْوَۃٌ فَمَضَیْتُ حِینَ ذَکَرُوہُمَا لِی۔ وَنَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ کَلاَمِنَا أَیُّہَا الثَّلاَثَۃُ مِنْ بَیْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْہُ فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ وَتَغَیَّرُوا لَنَا حَتَّی تَنَکَّرَتْ فِی نَفْسِی الأَرْضُ فَمَا ہِیَ الَّتِی أَعْرِفُ فَلَبِثْنَا عَلَی ذَلِکَ خَمْسِینَ لَیْلَۃً فَأَمَّا صَاحِبَایَ فَاسْتَکَانَا وَقَعَدَا فِی بُیُوتِہِمَا وَأَمَّا أَنَا فَکُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَہُمْ وَکُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْہَدُ الصَّلاَۃَ مَعَ الْمُسْلِمِینَ وَأَطُوفُ فِی الأَسْوَاقِ وَلاَیُکَلِّمُنِی أَحَدٌ وَآتِی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ فِی مَجْلِسِہِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ فَأُسَلِّمُ عَلَیْہِ فَأَقُولُ فِی نَفْسِی ہَلْ حَرَّکَ شَفَتَیْہِ بِرَدِّ السَّلاَمِ عَلَیَّ أَمْ لاَ ثُمَّ أُصَلِّی فَأُسَارِقُہُ النَّظَرَ فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَی صَلاَتِی نَظَرَ إِلَیَّ فَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَہُ أَعْرَضَ عَنِّی حَتَّی إِذَا طَالَ عَلَیَّ ذَلِکَ مِنْ جَفْوَۃِ الْمُسْلِمِینَ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِی قَتَادَۃَ وَہُوَ ابْنُ عَمِّی وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَوَاللَّہِ مَا رَدَّ عَلَیَّ السَّلاَمَ فَقُلْتُ لَہُ : یَا أَبَا قَتَادَۃَ أَنْشُدُکَ اللَّہَ ہَلْ تَعْلَمُنِی أُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ قَالَ فَسَکَتَ فَعُدْتُ لَہُ فَنَشَدْتُہُ فَسَکَتَ قَالَ فَعُدْتُ لَہُ فَنَاشَدْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ : اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ فَفَاضَتْ عَیْنَایَ وَتَوَلَّیْتُ حَتَّی تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ قَالَ فَبَیْنَا أَنَا أَمْشِی بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ إِذَا نَبَطِیٌّ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ یَبِیعُہُ بِالْمَدِینَۃِ یَقُولُ مَنْ یَدُلُّ عَلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ فَطَفِقَ النَّاسُ یُشِیرُونَ لَہُ حَتَّی إِذَا جَائَ نِی دَفَعَ إِلَیَّ کِتَابًا مِنْ مَلِکِ غَسَّانَ وَکُنْتُ کَاتِبًا فَإِذَا فِیہِ : أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ صَاحِبَکَ قَدْ جَفَاکَ وَلَمْ یَجْعَلْکَ اللَّہُ بِدَارِ ہَوَانٍ وَلاَ مَضْیَعَۃٍ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِیکَ ۔ فَقُلْتُ حِینَ قَرَأْتُہَا : وَہَذَا أَیْضًا مِنَ الْبَلاَئِ فَتَیَمَّمْتُ بِہِ التَّنُّورَ فَسَجَرْتُہُ بِہَا حَتَّی إِذَا مَضَتْ لَنَا أَرْبَعُونَ لَیْلَۃً مِنَ الْخَمْسِینَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَأْمُرُکَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَکَ ۔ فَقُلْتُ : أُطَلِّقْہَا ؟ أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ بِہَا ؟ فَقَالَ : لاَ بَلِ اعْتَزِلْہَا فَلاَ تَقْرَبَنَّہَا وَأَرْسَلَ إِلَی صَاحِبَیَّ بِمِثْلِ ذَلِکَ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِی : الْحَقِی بِأَہْلِکِ فَکُونِی عِنْدَہُمْ حَتَّی یَقْضِیَ اللَّہُ ہَذَا الأَمْرَ ۔ قَالَ کَعْبٌ : فَجَائَ تِ امْرَأَۃُ ہِلاَلِ بْنِ أُمَیَّۃَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ ہِلاَلَ بْنَ أُمَیَّۃَ شَیْخٌ ضَائِعٌ لَیْسَتْ لَہُ خَادِمٌ فَہَلْ تَکْرَہُ أَنْ أَخْدُمَہُ ۔ قَالَ : لاَ وَلَکِنْ لاَ یَقْرَبَنَّکِ ۔ قَالَتْ : إِنَّہُ وَاللَّہِ مَا بِہِ حَرَکَۃٌ إِلَی شَیْئٍ وَإِنَّہُ مَا زَالَ یَبْکِی مُذْ کَانَ مِنْ أَمْرِہِ مَا کَانَ إِلَی یَوْمِی ہَذَا فَقَالَ لِی بَعْضُ أَہْلِی : لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی امْرَأَتِکَ کَمَا أَذِنَ لِہِلاَلِ بْنِ أُمَیَّۃَ تَخْدُمُہُ فَقُلْتُ : وَاللَّہِ لاَ أَسْتَأْذِنُ فِیہَا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَا یُدْرِینِی مَا یَقُولُ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنِ اسْتَأْذَنْتُہُ فِیہَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ۔ فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِکَ عَشْرَ لَیَالٍ حَتَّی کَمُلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَیْلَۃً مِنْ حِینِ نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ کَلاَمِنَا فَلَمَّا صَلَّیْتُ صَلاَۃَ الْفَجْرَ صُبْحَ خَمْسِینَ لَیْلَۃً وَأَنَا عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِنَا فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَی الْحَالِ الَّتِی ذَکَرَ اللَّہُ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَیَّ نَفْسِی وَضَاقَتْ عَلَیَّ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَی عَلَی جَبَلِ سَلْعٍ یَا کَعْبُ بْنَ مَالِکٍ أَبْشِرْ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَعَرَفْتُ أَنَّہُ قَدْ جَائَ الْفَرَجُ وَأَذِنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِتَوْبَۃِ اللَّہِ عَلَیْنَا حِینَ صَلَّی صَلاَۃَ الْفَجْرِ فَذَہَبَ النَّاسُ یُبَشِّرُونِی وَذَہَبَ قِبَلَ صَاحِبَیَّ مُبَشِّرُونَ وَرَکَضَ رَجُلٌ إِلَیَّ فَرَسًا وَسَعَی سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ فَأَوْفَی عَلَی الْجَبَلِ وَکَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ إِلَیَّ مِنَ الْفَرَسِ فَلَمَّا جَائَ نِی الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَہُ یُبَشِّرُنِی نَزَعَتُ ثَوْبَیَّ فَکَسَوْتُہُمَا إِیَّاہُ بِبُشْرَاہُ وَوَاللَّہِ مَا أَمْلِکُ غَیْرَہُمَا یَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُہُمَا وَانْطَلَقْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَتَلَقَّانِی النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا یُہَنِّئُونِی بِالتَّوْبَۃِ یَقُولُونَ لِتَہْنِکَ تَوْبَۃُ اللَّہِ عَلَیْکَ حَتَّی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَقَامَ إِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ یُہَرْوِلُ حَتَّی صَافَحَنِی وَہَنَّأَنِی مَا قَامَ إِلَیَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ غَیْرُہُ وَلاَ أَنْسَاہَا لِطَلْحَۃَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یَبْرُقُ وَجْہُہُ مِنَ السُّرُورِ : أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْکَ مُذْ وَلَدَتْکَ أُمُّکَ ۔ قُلْتُ : أَمِنْ عِنْدِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ ؟ قَالَ : لاَ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی۔ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بُشِّرَ بِبِشَارَۃً یَبْرُقُ وَجْہُہُ حَتَّی کَأَنَّہُ قِطْعَۃُ قَمَرٍ وَکَذَلِکَ یُعْرَفُ ذَلِکَ مِنْہُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِی صَدَقَۃً إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمْسِکْ عَلَیْکَ بَعْضَ مَالِکَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ ۔ فَقُلْتُ : فَإِنِّی أُمْسِکُ سَہْمِی الَّذِی بِخَیْبَرَ ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّمَا نَجَّانِی بِالصِّدْقِ وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ لاَ أُحَدِّثَ إِلاَّ صِدْقًا مَا بَقِیتُ فَوَاللَّہِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ ابْتَلاَہُ اللَّہُ فِی صِدْقِ الْحَدِیثِ مُذْ حَدَّثْتُ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَحْسَنَ مِمَّا ابْتَلاَنِی مَا تَعَمَّدْتُ مُذْ ذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی یَوْمِی ہَذَا کَذِبًا وَإِنِّی لأَرْجُو أَنْ یَحْفَظَنِی اللَّہُ فِیمَا بَقِیَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ { لَقَدْ تَابَ اللَّہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وفٌ رَحِیمٌ وَعَلَی الثَّلاَثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوا أَنْ لاَ مَلْجَأَ مِنَ اللَّہِ إِلاَّ إِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوبُوا إِنَّ اللَّہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ } [التوبۃ ١١٧-١١٩] فَوَاللَّہِ مَا أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیَّ مِنْ نِعْمَۃٍ بَعْدَ أَنْ ہَدَانِی لِلإِسْلاَمِ أَعْظَمَ فِی نَفْسِی مِنْ صِدْقِی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَئِذٍ أَنْ لاَ أَکُونَ کَذَبْتُہُ فَأَہْلِکَ کَمَا ہَلَکَ الَّذِینَ کَذَبُوہُ فَإِنَّ اللَّہَ قَالَ لِلَّذِینَ کَذَبُوہُ حِینَ نَزَلَ الْوَحْیُ شَرَّ مَا قَالَ لأَحَدٍ قَالَ اللَّہُ تَبَارَک وَتَعَالَی { سَیَحْلِفُونَ بِاللَّہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْہُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ یَحْلِفُونَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ لاَ یَرْضَی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ } [التوبۃ ٩٥-٩٦] قَالَ کَعْبٌ وَکُنَّا تَخَلَّفْنَا أَیُّہَا الثَّلاَثَۃُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِکَ الَّذِینَ قَبِلَ مِنْہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ حَلَفُوا لَہُ فَبَایَعَہُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَمْرَنَا حَتَّی قَضَی اللَّہُ فِیہِ فَبِذَلِکَ قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی { وَعَلَی الثَّلاَثَۃِ الَّذِینَ خُلِّفُوا } [التوبۃ ١١٨] وَلَیْسَ الَّذِی ذَکَرَ اللَّہُ تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ وَإِنَّمَا ہُوَ تَخْلِیفُہُ إِیَّانَا وَإِرْجَاؤُہُ أَمْرَنَا مِمَّنْ حَلَفَ وَاعْتَذَرَ فَقَبِلَ مِنْہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٧١) حضرت کعب بن مالک کے قائد (جو آپ کی راہنمائی کرتے تھے نابینا ہونے کی بنا پر) فرماتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک کو سنا، وہ غزوہ تبوک سے اپنے پیچھے رہنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کعب کہتے ہیں : میں کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا تھا کبھی بھی مگر غزوہ تبوک میں اور غزوہ بدر میں مگر اس میں اللہ نے پیچھے رہنے والے پر سزا نہیں رکھی تھی، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے قافلہ کے ارادہ سے نکلے تھے نہ کہ لڑائی کے لیے جبکہ مقرر کرنے کے بغیر ہی دشمن سے سامنا ہوگیا تھا اور میں بیعت عقبہ میں موجود تھا۔ اس میں موجود ہونا مجھے بدر سے زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ بدر لوگوں میں بیعت عقبہ سے زیادہ مشہور ہے۔ میرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گیا، حالانکہ اس سے پہلے نہ اتنا قوی تھا اور نہ اتنا سہولت میں تھا۔ جب میں اس غزوے سے پیچھے رہ گیا۔ اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو سواریاں نہیں تھیں۔ اس غزوہ میں دو سواریاں تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے غزوات کے لیے واضح بات نہیں کرتے تھے جبکہ اس دفعہ واضح بتادیا تھا اور سخت موسم میں آپ طویل سفر کی طرف نکلے اور کامیابی کی طرف اور دشمن کی زیادہ تعداد کی طرف آپ نے معاملہ کو مسلمانوں کے لیے واضح کیا تاکہ دشمن کی تیاری کے مطابق تیار ہوں اور آپ نے اس طرف کی خبر دی جہاں جانا تھا۔ مسلمان بھی کثرت میں تھے جبکہ حاضری کا انتظام بھی نہیں تھا۔
کعب کہتے ہیں : کوئی غائب ہونے کا گمان ہی کرسکتا ہے مگر وہ یہ جانتا ہے جب تک وحی نہیں آئے گی ہوسکتا مخفی رہے بعد میں نہیں۔
یہ غزوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت برپا کیا جب پھل پک گئے تھے اور سائے اچھے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان تیار ہوئے۔ میں بھی صبح کے وقت تیاری کرنے لگا تاکہ آپ کے ساتھ تیار ہو سکوں لیکن کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اپنے دل میں کہا : جب چاہوں گا تو تیاری کرلوں گا میں لیٹ ہوتا رہا یہاں تک کہ لوگوں کی سنجیدگی سخت ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے صبح کی اور میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا تو میں نے دل میں کہا : ایک دو دن میں چلا جاؤں گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل جاؤں گا۔ پھر میں نے صبح کی جب کہ لوگ جا چکے تھے تاکہ تیاری کروں۔ پھر لوٹ آیا اور کوئی فیصلہ نہ کر پایا۔ صبح و شام ہوتی رہی مگر میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا میں مسلسل لیٹ ہوتا رہا حتیٰ کہ لشکر جلد نکل گیا اور لڑائی شروع ہوگئی میں نے ارادہ کیا کہ کوچ کروں اور ان کو پالوں۔ کاش میں ایسا کرتا لیکن یہ میرے مقدر میں نہیں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانے کے بعد جب میں لوگوں میں نکلتا تو یہ بات مجھے غم زدہ کردیتی کہ میں نفاق میں ڈوبے لوگوں کو دیکھتا یا کمزور لوگوں کو دیکھتا جن کا عذر تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرا خیال نہ آیا حتی کہ آپ تبوک پہنچ گئے تو آپ نے تبوک میں لوگوں سے پوچھا ” کعب کو کیا ہوا۔ “ تو بنو سلمہ کے آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس کو دو چادروں نے روک لیا ہے وہ اس کے کناروں کو دیکھ رہا ہے۔
معاذ بن جبل نے فرمایا : تو نے اچھی بات نہیں کی۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم ان کے بارے میں برا خیال نہیں رکھتے، آپ خاموش ہوگئے۔
کعب کہتے ہیں : جب مجھے خبر ملی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قافلہ واپس آ رہا ہے تو میری سوچ نے فیصلہ کیا کہ میں جھوٹ کا سہارا لوں گا۔ اب میں جھوٹ یاد کرنے لگا اور دل میں کہا کہ کس طرح آپ کے غصہ سے نجات حاصل کی جائے اور اپنے گھر والوں سے مشاورت میں مدد لی۔ جب کہا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو آ رہے ہیں تو جھوٹ مجھ سے زائل ہوگیا اور میں جان گیا کہ جھوٹی بات سے میں نجات نہیں پاؤں گا میں نے سچ کا دامن پکڑ لیا۔
آپ صبح کے وقت آئے اور آپ کی عادت تھی۔ جب آتے تو مسجد میں پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ جب آپ یہ کام کرچکے تو پیچھے رہنے والے اور انھوں نے اپنے عذر پیش کیے اور قسمیں اٹھائیں۔ یہ اسی سے اوپر تھے۔ آپ نے ان کے ظاہری حالات کو قبول کیا ان کی بیعت کو قبول کیا اور ان کے لیے استغفار کیا اور ان کے غیب کو اللہ کی طرف لوٹا دیا۔ میں آیا میں نے سلام کہا آپ ہنسے غصے کے ساتھ تھے اور کہا : ” آؤ “ میں آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” کس چیز نے تم کو پیچھے رکھا کیا تو نے بیعت نہیں کی تھی ؟ “ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! اگر کسی دنیا دار کے پاس ہوتا تو عذر کے ساتھ اس کے غصہ سے نکل سکتا تھا کیونکہ مجھے بات کرنے کا فن عطا کیا گیا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا اگر آج جھوٹی بات سے آپ کو راضی کرلوں تو ہوسکتا ہے اللہ آپ کو مجھے پر ناراض کر دے اور اگر میں سچی بات کروں تو جو آپ اس معاملہ میں مجھ پر پائیں تو میں اللہ سے معافی کی امید کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم ! کوئی عذر نہیں ہے میں کبھی اتنا قوی اور سہولت میں نہیں تھا جتنا اب ہوں جبکہ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپ نے فرمایا : ” اس نے سچ بولا ہے اٹھو یہاں تک کہ اللہ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ “
میں اٹھا، بنی سلمہ کے کچھ کہنے لگے : اللہ کی قسم ! ہم اس سے پہلے تیرے کسی گناہ کو نہیں جانتے تھے۔ پھر بھی تو عذر پیش کرنے سے عاجز کیوں ہوا جیسا کہ دوسروں نے عذر پیش کیے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار تیرے گناہ کے لیے کافی تھا وہ مجھے ملامت کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ جاؤں اور جھوٹ بول کر اپنی خلاصی کرا لوں۔ پھر میں نے پوچھا : میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے تو انھوں نے کہا : ہاں دو آدمی ہیں۔ میں نے کہا : وہ کون ہیں ؟ جواب ملا مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ہیں۔ انھوں نے دو نیک آدمیوں کے نام لیے جو بدر میں موجود تھے۔ میں نے ان کو نمونہ بنایا، میں پکا ہوگیا، جب ان کا ذکر کیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیچھے رہنے والوں میں سے ہم تینوں کے ساتھ بات کرنے سے روک دیا تو لوگوں نے اجتناب کیا اور ہم سے بدل گئے۔ یہاں تک کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ زمین بھی ہمارا انکار کرتی تھی۔ اسی حالت میں ہم پچاس راتوں تک رہے۔ میرے دونوں ساتھی اپنے گھروں میں بیٹھ گئے اور میں جوان تھا اور طاقت ور تھا۔ میں نماز میں جاتا مسلمانوں کے ساتھ اور بازار کا چکر لگاتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتا، وہ نماز کے بعد مجلس میں ہوتے میں۔ سلام کہتا کہ دیکھوں آپ کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں یا نہیں سلام کے جواب دیتے وقت اور نماز پڑھتا اور آنکھ چرا کر دیکھتا۔ جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ میری طرف دیکھتے جب میں آپ کی طرف دیکھتا تو آپ اعراض کرتے۔ جب مسلمانوں کی بےرخی طویل ہوگئی تو میں ابو قتادہ کے باغ کی دیوار پھلانگ کر اندر گیا۔ وہ میرا چچا زاد تھا اور لوگوں میں محبوب بھی تھا۔ میں نے سلام کہا تو اللہ کی قسم ! اس نے جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا : اے ابو قتادہ ! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کیا تو نہیں جانتا ہے میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ وہ خاموش رہے۔ میں نے دہرایا وہ پھر بھی خاموش رہے۔ میں نے تیسری بار دہرایا تو اس نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ میری آنکھیں بہہ پڑیں۔ میں واپس لوٹا اور دیوار پھلانگ کر باہر آیا۔ کعب کہتے ہیں : میں ایک بازار میں تھا کہ ایک شامی ملا جو شام سے غلہ مدینہ میں لا کر فروخت کرتا تھا وہ کہتا تھا : کون ہے جو مجھے کعب سے ملا دے۔ لوگ اشارہ کرنے لگے : وہ میرے پاس آیا اور مجھے ایک خط دیا جو غسان کے بادشاہ کی طرف سے تھا۔ میں چونکہ کاتب تھا تو پڑھ سکتا تھا اس میں لکھا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تیرے ساتھی نے تجھ سے بےوفائی کی ہے اور اللہ نے تجھے ذلت کے لیے نہیں بنایا اور نہ ضائع ہونے کے لیے ہمارے ساتھ مل جاؤ، ہم اچھا برتاؤ کریں گے۔ میں نے اس کو پڑھ کر کہا : یہ بھی ایک آزمائش ہے، میں تنور تلاش کیا اور اس کو تنور میں پھینک دیا۔
پچاس میں سے جب چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایلچی آیا اور اس نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ۔ کعب نے پوچھا : کیا طلاق دے دوں یا کچھ اور کروں اس نے کہا : نہیں بلکہ اس سے علیحدہ ہو جاؤ قریب نہ جاؤ، اسی طرح میرے دونوں ساتھیوں کو بھی پیغام دیا گیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا : جب تک اللہ میرے معاملہ کا فیصلہ نہیں کرتا تو اپنے گھر (میکے) چلی جا۔ کعب کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگی : اللہ کے رسول ! ہلال بن امیہ بوڑھا آدمی ہے اس کی خدمت کو بھی آپ پسند نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں مگر وہ تیرے قریب نہ آئے۔ “ اس نے کہا : اللہ کی قسم اس میں تو کوئی سکت نہیں ہے وہ تو اس دن سے آج تک مسلسل رو رہا ہے مجھے میرے گھر والوں نے کہا کہ تو بھی اپنی بیوی کے بارے میں اجازت لے لے جس طرح ہلال بن امیہ کے لیے اجازت دی تو وہ اس کی خدمت کرتی ہے۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اس سلسلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب نہیں کروں گا۔ مجھے نہیں خبر کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہیں گے، اگر میں اجازت طلب کروں اور میں جوان آدمی ہوں۔
ہم اسی حالت میں رہے کہ پچاس دن گزر گئے۔ پچاسویں رات میں اپنے گھر کی چھت پر صبح کی نماز پڑھی، میں بیٹھا ہوا تھا میں اپنے آپ سے تنگ تھا اور زمین ہم پر تنگ ہوگئی تھی کشادہ ہونے کے باوجود۔ میں نے سلع پہاڑ کے اوپر سے ایک آواز سنی ابے خوش ہو جاؤ ! میں سجدہ میں گرگیا اور میں جان گیا کہ نجات مل گئی ہے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز کے بعد ہماری توبہ کی قبولیت کی خبر دی۔ لوگ مجھے خوشخبری دینے لگے، میرے دو ساتھی مجھے خوشخبری دینے کے لیے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور وہ پہاڑ پر چڑھ گیا، اس کی آواز گھوڑے والے سے پہلے مجھ تک پہنچ گئی۔ جب یہ میرے پاس آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے خوشخبری دینے کی وجہ سے اپنا قمیض اتار کر اس کو پہنایا اور اللہ کی قسم ! میرے پاس اس کے علاوہ کوئی تھا بھی نہیں۔ میں نے دو کپڑے ادھار لیے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلا، لوگ جوق در جوق مجھے مبارک دیتے اور کہتے : اللہ نے تیری توبہ کو قبول کرلیا تجھے مبارک ہو۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو طلحہ بن عبیداللہ میری طرف بھاگ کر آئے اور مصافحہ کیا اور مبارک دی۔ مہاجرین میں سے ان کے علاوہ اور کوئی میری طرف نہیں آیا اور میں نے طلحہ کے اس عمل کو بھلایا نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا : ” اے کعب ! مبارک ہو جب تیری ماں نے تجھ کو جنا اس وقت سے لے کو اس بہترین دن کی “ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا یہ آپ کی طرف سے یا اللہ کی طرف سے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” نہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ “ اور جب آپ کو خوشخبری دیتے تو آپ کا چہرہ چمک اٹھتا تھا گویا چاند کا ٹکڑا ہو اور یہ بات آپ کے چہرے پر دیکھی گئی۔ کعب کہتے ہیں : جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے کہا کہ میں اپنی توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا : ” اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ، یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ “ تو میں نے کہا کہ میں خیبر کا حصہ رکھتا ہوں تو میں نے کہا : اللہ نے مجھے سچ کی وجہ سے نجات دی ہے۔ اب توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ کبھی جھوٹی بات نہ کروں گا۔ جب تک زندہ رہوں اللہ کی قسم ! میں کسی مسلمان کو نہیں جانتا کہ جس کی آزمائش سچ کی وجہ سے ہوئی ہو جتنی آزمائش میری ہوئی اور اس دن کے بعد میں نے کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ بقیہ زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا۔ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل فرما دیا : { لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ اِنَّہٗ بِھِمْ رَئُ فٌ رَّحِیْمٌ ۔ وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَ ظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ } [التوبۃ ١١٧ تا ١١٩] ” بلاشبہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توبہ قبول فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہوجائیں پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقیناً وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے تھے یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کرلیا کہ بیشک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب سے خالی نہیں۔ پھر اس نے ان پر مہربانی سے توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں یقیناً اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو ! اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ “ اسلام قبول کرنے کے بعد اس سچائی سے بڑھ کر کوئی نعمت مجھے عزیز نہیں ہے جو سچ میں نے اللہ کے رسول کے سامنے بولا اور اس دن میں نے جھوٹ نہیں بولا اگر بولا ہوتا تو ہلاک ہوتا جس طرح جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوئے اللہ نے وحی کے ذریعہ جھوٹ بولنے کو کہا ہے بہت جو کسی کو کہا جائے۔ اللہ فرماتے ہیں { سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْھُمْ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمْ اِنَّھُمْ رِجْسٌ وَّ مَاْوٰیھُمْ جَھَنَّمُ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن ۔ یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ } [التوبۃ ٩٥-٩٦] ” عنقریب وہ تمہارے لیے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے تاکہ تم ان سے توجہ ہٹالو سو ان سے بےتوجہی کرو۔ بیشک وہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اس کے بدلہ میں جو کماتے ہیں۔ تمہارے لیے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ پس اگر تم ان سے راضی ہو جاؤ بیشک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ “ کعب کہتے ہیں : تینوں مؤخر ہوگئے اس معاملہ میں جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کی جانب سے قبول کرلیا جب انھوں نے حلف اٹھا دیا اور ان کی بیعت لے لی اور ان کے لیے استغفار کیا اور ہمارے معاملہ کو لیٹ کردیا حتیٰ کہ اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا، اس کے بارے میں اللہ نے کہا : { وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا } [التوبۃ ١١٨] ” اور ان تینوں پر بھی جن کے معاملہ کو مؤخر کردیا گیا تھا۔ “ اللہ نے یہاں غزوہ سے لیٹ ہونا ذکر نہیں کیا بلکہ فیصلہ کا لیٹ ہونا کہا ہے ان سے جنہوں نے قسم اٹھا کر اور عذر کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول کرلیا ان سے معاملہ کو لیٹ کیا گیا تھا۔

17878

(١٧٨٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَیُّوبَ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُوحَاتِمٍ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رِجَالاً مِنَ الْمُنَافِقِینَ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا خَرَجَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الْغَزْوِ تَخَلَّفُوا عَنْہُ وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اعْتَذَرُوا إِلَیْہِ وَحَلَفُوا وَأَحَبُّوا أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَنَزَلَتْ فِیہِم { لاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِنَ الْعَذَابِ } [آل عمران ١٨٨] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْحُلْوَانِیِّ وَابْنِ عَسْکَرٍ عَنِ ابْنِ أَبِی مَرْیَمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَأَظْہَرَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِرَسُولِہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَسْرَارَہُمْ وَخَبَرَ السَّمَّاعِینَ لَہُمْ وَابْتَغَائَ ہُمْ أَنْ یَفْتِنُوا مَنْ مَعَہُ بِالْکَذِبِ وَالإِرْجَافِ وَالتَّخْذِیلِ لَہُمْ فَأَخْبَرَ أَنَّہُ کَرِہَ انْبِعَاثَہُمْ إِذْ کَانُوا عَلَی ہَذِہِ النِّیَّۃِ فَکَانَ فِیہَا مَا دَلَّ عَلَی أَنَّ اللَّہَ جَلَّ ثَنَاؤُہُ أَمَرَ أَنْ یُمْنَعَ مَنْ عُرِفَ بِمَا عُرِفُوا بِہِ مِنْ أَنْ یَغْزُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ لأَنَّہُ ضَرَرٌ عَلَیْہِمْ ثُمَّ زَادَ فِی تَأْکِیدِ بَیَانِ ذَلِکَ بِقَوْلِہِ { فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللَّہِ } [التوبۃ ٨١] قَرَأَ إِلَی قَوْلِہِ { فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ } [التوبۃ ٨٣]
(١٧٨٧٢) ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں : کچھ منافقین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اس طرح کرتے کہ جب آپ غزوہ کے لیے نکلتے تو پیچھے رہ جاتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں بیٹھ کر خوش ہوتے تھے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آتے تو یہ لوگ عذر کرتے اور قسم اٹھاتے اور چاہتے کہ اللہ کے رسول ان کی تعریف کریں ایسے کام پر جو انھوں نے نہیں کیا۔ تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : { لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ } [آل عمران ١٨٨] ” ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہرگز خیال نہ کر اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے راز کھول دیے اور ان کا جاسوسوں کو خبریں دینا بھی ظاہر کردیا اور ان کا یہ چاہنا کہ آپ کے ساتھیوں کو جھوٹ کا سہارا لے کر فتنہ میں ڈال دیں اور بری خبریں پھیلا کر اور آپ کے ساتھیوں کو آپ کی مدد سے ہاتھ کھینچنے کی ترغیب دلا کر اور اللہ نے خبر دی کہ وہ ان کا اس نیت کے ساتھ جانا ناپسند کرتا ہے یہ اس کی دلیل ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جس کے بارے میں پتہ چل جائے تو ان کو مسلمانوں کے غزوہ میں شریک نہ کیا جائے کیونکہ وہ خود مسلمانوں کے لیے نقصان کا باعث ہیں۔ پھر اس کی مزید تاکید اس قول سے ہوتی ہے { فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ } [التوبۃ ٨١]” پیچھے رہنے والے اللہ کے رسول کی مخالفت میں بیٹھ کر خوش ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہاں تک پڑھا : { فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ ۔ } [التوبۃ ٨٣]” پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ “

17879

(١٧٨٧٣) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَلَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ دَلُّوَیْہِ الدَّقَّاقُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْہَرِ بْنِ مَنِیعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ الدِّینَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٧٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دین کو فاجر آدمی کے ذریعے بھی تقویت دے دیتے ہیں۔

17880

(١٧٨٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَیْرٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : نَسْتَعِینُ بِقُوَّۃِ الْمُنَافِقِینَ وَإِثْمُہُ عَلَیْہِمْ ۔ وَہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ فَإِنْ صَحَّ فَإِنَّمَا وَرَدَ فِی مُنَافِقِینَ لَمْ یُعْرَفُوا بِالتَّخْذِیلِ وَالإِرْجَافِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف۔ عبدالملک بن عبید من صغار التابعین مجہول الحال ]
(١٧٨٧٤) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم منافقین سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ان کا گناہ ان پر ہے۔ یہ منقطع ہے اور اگر یہ صحیح ہو تو یہ ان منافقین کے بارے میں ہے جن کے بارے میں علم نہیں کہ یہ مدد سے ہاتھ کھینچنے پر اکساتے ہیں یا یہ بری باتیں پھیلاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

17881

(١٧٨٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ حَبَّۃَ بْنِ جُوَیْنٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ سَلْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی غَزَاۃٍ وَنَحْنُ مُصَافُّو الْعَدُوِّ فَقَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالُوا : الْمُشْرِکُونَ ۔ قَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالُوا : الْمُؤْمِنُونَ ۔ قَالَ فَقَالَ : ہَؤُلاَئِ الْمُشْرِکُونَ وَہَؤُلاَئِ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُنَافِقُونَ فَیُؤَیِّدُ اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ بِقُوَّۃِ الْمُنَافِقِینَ وَیَنْصُرُ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ بِدَعْوَۃِ الْمُؤْمِنِینَ ۔ [ضعیف۔ حبۃ بن جو ین ضعیف الحدیث ]
(١٧٨٧٥) حبہ بن جوین فرماتے ہیں کہ ہم سلمان (رض) کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھے اور ہم دشمن کے سامنے تھے تو سلمان نے کہا : یہ کون ہیں ؟ انھوں نے کہا : یہ مشرکین ہیں۔ پھر انھوں نے کہا : یہ کون ہیں تو انھوں نے کہا : مؤمنین ہیں تو حبہ بن جو ین کہتے ہیں : سلمان (رض) نے کہا : یہ مشرکین ہیں اور یہ مؤمنین ہیں اور منافقین۔ اللہ مومنوں کو مضبوط کرے گا منافقین کی قوت سے اور منافقوں کو کامیاب کرے گا مومنوں کی دعوت کی وجہ سے۔

17882

(١٧٨٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الأُشْنَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ یَعْنِی غُنْدَرًا حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلِمَۃَ عَنْ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : إِنَّکُمْ سَتُعَانُونَ فِی غَزْوِکُمْ بِالْمُنَافِقِینَ ۔
(١٧٨٧٦) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ غزوات میں منافقین کے ذریعہ تمہاری مدد کی جائے گی۔

17883

(١٧٨٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ الْفُضَیْلِ بْنِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نِیَارٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قِبَلَ بَدْرٍ فَلَمَّا کَانَ بِحَرَّۃِ الْوَبَرَۃِ أَدْرَکَہُ رَجُلٌ قَدْ کَانَ یُذْکَرُ مِنْہُ جُرْأَۃٌ وَنَجْدَۃٌ فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ رَأَوْہُ فَلَمَّا أَدْرَکَہُ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ جِئْتُ لأَتَّبِعَکَ وَأُصِیبَ مَعَکَ ۔ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ؟ قَالَ : لاَ ۔ قَالَ : فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ ۔ قَالَ : ثُمَّ مَضَی حَتَّی إِذَا کَانَتِ الشَّجَرَۃُ أَدْرَکَہُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَہُ کَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّۃٍ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّۃٍ قَالَ لاَ قَالَ فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ قَالَتْ فَرَجَعَ ثُمَّ أَدْرَکَہُ بِالْبَیْدَائِ فَقَالَ لَہُ کَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّۃٍ : تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَانْطَلِقْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : لَعَلَّہُ رَدَّہُ رَجَائَ إِسْلاَمِہِ وَذَلِکَ وَاسِعٌ لِلإِمَامِ وَقَدْ غَزَا بِیَہُودَ بَنِی قَیْنُقَاعٍ بَعْدَ بَدْرٍ وَشَہِدَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ مَعَہُ حُنَیْنًا بَعْدَ الْفَتْحِ وَصَفْوَانُ مُشْرِکٌ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : أَمَّا شُہُودُ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ مَعَہُ حُنَیْنًا وَصَفْوَانُ مُشْرِکٌ فَإِنَّہُ مَعْرُوفٌ فِیمَا بَیْنَ أَہْلِ الْمَغَازِی وَقَدْ مَضَی بِإِسْنَادِہِ ۔ وَأَمَّا غَزْوُہُ بِیَہُودِ بَنِی قَیْنُقَاعَ فَإِنِّی لَمْ أَجِدْہُ إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَۃَ وَہُوَ ضَعِیفٌ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : اسْتَعَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِیَہُودِ قَیْنُقَاعَ فَرَضَخَ لَہُمْ وَلَمْ یُسْہِمْ لَہُمْ ۔
(١٧٨٧٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف نکلے تو حرہ الوبرہ کے مقام پر آدمی ملا۔ وہ جرأت اور بہادری و دلیری میں مشہور تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اس کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ اس نے آپ کے پاس آ کر کہا : میں آپ کے ساتھ ہونا چاہتا ہوں۔ آپ نے اس سے پوچھا : ” کیا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے ؟ “ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ” واپس جا میں مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔ “ پھر آگے چلے۔ ایک آدمی اور ملا۔ اس نے بھی پہلے آدمی کی طرح کہا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے وہی سوال کیا جو پہلے سے کیا تھا۔ اس نے کہا : نہیں تو آپ نے اس کو بھی واپس جانے کو کہا اور فرمایا : ” میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : وہ چلا گیا پھر بیداء کے مقام پر ایک آدمی ملا اس نے بھی پہلے آدمیوں کی طرح کہا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” کیا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہے ؟ “ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : ” چلو۔ “
امام شافعی فرماتے ہیں : جن کو واپس بھیجا گیا شائد ان کے اسلام لانے کی امید سے تھا اور اس میں قائد کے لیے وسعت ہے۔
بنو قینقاع کے یہودیوں سے بدر کے بعد جنگ ہوئی ہے اور صفوان بن امیہ آپ کے ساتھ حنین کی جنگ میں شریک تھا اور یہ فتح مکہ کے بعد ہوئی ہے اور اس وقت صفوان بن امیہ مشرک تھا۔
شیخ فرماتے ہیں : مغازی والوں کے ہاں صفوان بن امیہ کا شرک کی حالت میں جنگ میں شریک ہونا تو مشہور ہے۔ یہ پہلے گزر گیا ہے اور اس کا غزوہ بنو قینقاع میں شریک ہونا یہ میں نے حسن بن عمارہ کی حدیث کے سوا کہیں اور نہیں پایا اور یہ حدیث ضعیف ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قینقاع کے یہودیوں سے مدد لی اور ان کو کچھ مال دیا، لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں کیا۔

17884

(١٧٨٧٨) وَقَدْ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ عَمْرٍو الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی السِّینَانِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا خَلَّفَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ إِذَا کَتِیبَۃٌ قَالَ : مَنْ ہَؤُلاَئِ ؟ قَالُوا : بَنِی قَیْنُقَاعَ وَہُوَ رَہْطُ عَبْدِاللَّہِ بْنِ سَلاَمٍ ۔ قَالَ : وَأَسْلَمُوا ؟ قَالُوا : لاَ بَلْ ہُمْ عَلَی دِینِہِمْ ۔ قَالَ : قُلْ لَہُمْ فَلْیَرْجِعُوا فَإِنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ ۔ ہَذَا الإِسْنَادُ أَصَحُّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٧٨) ابو حمید ساعدی (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ کے لیے نکلے۔ جب ثنیۃ الوداع سے آگے گئے تو ایک لشکر دیکھا تو آپ نے پوچھا : ” یہ کون ہیں ؟ “ لوگوں نے کہا : یہ بنو قینقاع کے لوگ ہیں اور وہ عبداللہ بن سلام کا قبیلہ ہے تو آپ نے پوچھا : ” کیا وہ اسلام لے آئے ہیں ؟ “ لوگوں نے کہا : نہیں بلکہ وہ اپنے دین پر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان سے کہو واپس جائیں ہم مشرکوں سے مدد نہیں لیتے۔ سعید بن منذر مجہول الحال ہے۔

17885

(١٧٨٧٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُکْرَمُ بْنُ أَحْمَدَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوْحٍ الْمَدَائِنِیُّ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِیدٍ الثَّقَفِیُّ عَنْ خُبَیْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی بَعْضِ غَزَوَاتِہِ فَأَتَیْتُہُ أَنَا وَرَجُلٌ قَبْلَ أَنْ نُسْلِمَ فَقُلْنَا : إِنَّا نَسْتَحِی أَنْ یَشْہَدَ قَوْمُنَا مَشْہَدًا فَلاَ نَشْہَدُہُ قَالَ : أَسْلَمْتُمَا ؟ ۔ قُلْنَا : لاَ ۔ قَالَ : فَإِنَّا لاَ نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ ۔ فَأَسْلَمْنَا وَشَہِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَتَلْتُ رَجُلاً وَضَرَبَنِی الرَّجُلُ ضَرْبَۃً فَتَزَوَّجْتُ ابْنَتَہُ فَکَانَتْ تَقُولُ لاَ عَدِمْتَ رَجُلاً وَشَّحَکَ ہَذَا الْوِشَاحَ فَقُلْتُ لاَ عَدِمْتِ رَجُلاً عَجَّلَ أَبَاکِ إِلَی النَّارِ ۔ [ضعیف ] جَدُّہُ خُبَیْبُ بْنُ یَسَافٍ وَیُقَالُ إِسَافٍ لَہُ صُحْبَۃٌ۔
(١٧٨٧٩) خبیب بن عبدالرحمن اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ میں آپ کے پاس آیا۔ ابھی میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا کہ ہم نے کہا : ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری قوم لڑائی میں جائے اور ہم نہ جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” کیا تم اسلام قبول کرچکے ہو ؟ “ ہم نے کہا : نہیں تو آپ نے فرمایا : ” ہم مشرکوں کے خلاف مشرکوں سے مدد نہیں لیں گے۔ “ پھر ہم نے اسلام قبول کیا اور آپ کے ساتھ لڑائی میں گئے۔ میں نے ایک آدمی کو مارا اور ایک آدمی نے مجھے ضرب لگائی اور میں نے اس کی بیٹی سے شادی کی۔ وہ کہتی تھی : تہی دست نہ کر اس آدمی کو جس نے تجھے یہ جواہر اور موتیوں کا ہار دیا میں اس کو کہتا تو ایسے آدمی کو تہی دست نہ کر جس نے تیرے باپ کو آگ کی طرف جلدی بھیج دیا۔ خبیب بن عبدالرحمن کے دادا کا نام خبیب بن یساف یا اساف تھا کہا جاتا ہے کہ اس کو صحبت رسول حاصل ہے۔
عبدالرحمن بن خبیب بن یساف مجہول ہے۔

17886

(١٧٨٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ زُہَیْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ہَاشِمٍ عَنْ وَکِیعٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ : أَنَّ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ غَزَا بِقَوْمٍ مِنَ الْیَہُودِ فَرَضَخَ لَہُمْ ۔ [ضعیف۔ رجالہ کلہم ثقات الا ان الشیبانی عن سعد بن مالک مرسل ]
(١٧٨٨٠) شیبانی فرماتے ہیں کہ سعد بن مالک (رض) نے یہود کے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر لڑائی کی اور ان کو مال بھی دیا۔

17887

(١٧٨٨١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَہَیَّأَ لِلْحَرْبِ فَقَامَ فِیمَا أَمَرَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ مِنْ جِہَادِ عَدُوِّہِ وَقِتَالِ مَنْ أَمَرَہُ بِہِ مِمَّنْ یَلِیہِ مِنْ مُشْرِکِی الْعَرَبِ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : فَإِنِ اخْتَلَفَ حَالُ الْعَدُوِّ فَکَانَ بَعْضُہُمْ أَنْکَی مِنْ بَعْضٍ أَوْ أَخْوَفَ مِنْ بَعْضٍ فَلْیَبْدَإِ الإِمَامُ بِالْعَدُوِّ الأَخْوَفِ أَوِ الأَنْکَی وَإِنْ کَانَتْ دَارُہُ أَبَعْدَ إِنْ شَائَ اللَّہُ وَتَکُونُ ہَذِہِ بِمَنْزِلَۃِ ضَرُورَۃٍ قَالَ وَقَدْ بَلَغَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ أَنَّہُ یَجْمَعُ لَہُ فَأَغَارَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْہِ وَقُرْبَہُ عَدُوٌّ أَقْرَبُ مِنْہُ ۔
(١٧٨٨١) ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑائی کا ارادہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد ان دشمنوں سے شروع کیا جن سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پہلے قریبی مشرکین سے لڑنے کا حکم دیا تھا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اگر دشمن کی حالت مختلف ہو یعنی بعض بعض سے زیادہ ضرر کا باعث ہوں اور زیادہ خوف کا باعث ہوں تو سپہ سالار لڑائی اس دشمن سے پہلے کرے گا جس سے خدشہ زیادہ ہو، اگرچہ وہ گھر کے لحاظ سے دور ہو اور یہ ضرورت کے وقت ہوگا۔
فرمایا : جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی کہ حارث بن ابی ضرار لشکر جمع کررہا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر رات کو حملہ کردیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد دشمن تھے جو حارث بن ابی ضرار سے قریب تھے۔

17888

(١٧٨٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَلَغَہُ أَنَّ بَنِی الْمُصْطَلِقِ یَجْمَعُونَ لَہُ وَقَائِدُہُمْ الْحَارِثُ بْنُ أَبِی ضِرَارٍ أَبُو جُوَیْرِیَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَسَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی نَزَلَ بِالْمُرَیْسِیعِ مَائٍ مِنْ مِیَاہِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَأَعَدُّوا لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَتَزَاحَفَ النَّاسُ فَاقْتَتَلُوا فَہَزَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَقَتَلَ مَنْ قَتَلَ مِنْہُمْ وَنَفَّلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَبْنَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ وَنِسَائَ ہُمْ وَأَقَامَ عَلَیْہِ مِنْ نَاحِیَۃِ قُدَیْدٍ إِلَی السَّاحِلِ ۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ غَزَاہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی شَعْبَانَ سَنَۃَ سِتٍّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٨٢) عبداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی کہ بنو مصطلق والے لشکر تیار کر رہے ہیں اور ان کی قیادت ام المؤمنین حضرت جویریہ (رض) کا باپ حارث بن ابی ضرار کررہا ہے تو آپ نکلے۔ جب مریسیع نامی کنویں پر گئے یہ بنو مصطلق کے کنوؤں میں سے ایک تھا۔ انھوں نے آپ کے ساتھ لڑائی کی تیاری کی اور لوگوں نے ایک دوسرے کے قریب ہونا شروع کیا۔ پھر لڑائی کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق کو شکست دی۔ کچھ ان میں سے قتل ہوئے اور ان کے بچے مال اور عورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زائد حاصل کیا اور قرید کے ساحل کی طرف سے ان پر حملہ کیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : یہ چھ ہجری کو ہوا تھا۔

17889

(١٧٨٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ قَالَ فَکَتَبَ إِنَّمَا کَانَ ذَاکَ فِی أَوَّلِ الإِسْلاَمِ قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ وَسَبَی سَبْیَہُمْ وَأَصَابَ یَوْمَئِذٍ أَحْسِبُہُ قَالَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ حَدَّثَنِی بِہَذَا الْحَدِیثِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَکَانَ فِی ذَلِکَ الْجَیْشِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَبَلَغَہُ أَنَّ خَالِدَ بْنَ سُفْیَانَ بْنِ نُبَیْحٍ یَجْمَعُ لَہُ فَأَرْسَلَ ابْنَ أُنَیْسٍ فَقَتَلَہُ وَقُرْبَہُ عَدُوٌّ أَقْرَبُ مِنْہُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٨٣) ابن عون کہتے ہیں : میں نافع کو سوال لکھ کر بھیجا کہ قتال (لڑائی) سے دعا کیا ہے ؟ انھوں نے لکھا : یہ ابتداء اسلام تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق پر شب خون مارا (رات کو حملہ کیا) اور وہ بھی شب خون مارنے والے تھے جبکہ ان کے جانوروں کو پانی پلایا جا رہا تھا تو لڑائی کے اہل لوگوں کو قتل کردیا گیا اور بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ اس دن جویریہ (رض) کو زخم بھی آیا تھا۔
امام شافعی فرماتے ہیں : جب یہ خبر آئی کہ خالد بن سفیان بن نبی ح لشکر تیار کررہا ہے تو اس طرف ابن انیس (رض) کو بھیجا گیا۔ انھوں نے اس کو قتل کردیا جبکہ اس سے قریب بھی دشمن موجود تھے۔

17890

(١٧٨٨٤) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أُنَیْسٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : بَعَثَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی خَالِدِ بْنِ سُفْیَانَ الْہُذَلِیِّ وَکَانَ نَحْوَ عُرَنَۃَ وَعَرَفَاتٍ فَقَالَ : اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ ۔ قَالَ فَرَأَیْتُہُ وَحَضَرَتْ صَلاَۃُ الْعَصْرِ فَقُلْتُ إِنِّی لأَخَافُ أَنْ یَکُونَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ مَا أَنْ أُؤَخِّرَ الصَّلاَۃَ فَانْطَلَقْتُ أَمْشِی وَأَنَا أُصَلِّی أُومِئُ إِیمَائً نَحْوَہُ فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْہُ قَالَ لِی : مَنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ بَلَغَنِی أَنَّکَ تَجْمَعُ لِہَذَا الرَّجُلِ فَجِئْتُکَ فِی ذَاکَ قَالَ إِنِّی لَفِی ذَاکَ فَمَشَیْتُ مَعَہُ سَاعَۃً حَتَّی إِذَا أَمْکَنَنِی عَلَوْتُہُ بِسَیْفِی حَتَّی بَرَدَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٨٤) حضرت عبداللہ بن انیس (رض) اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خالد بن سفیان کی طرف بھیجا۔ وہ عرنہ اور عرفات کی طرف تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جاؤ اسے قتل کرو۔ “ یہ کہتے ہیں : میں نے اس کو دیکھا اس وقت عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ میں نے سوچا میرے اور اس کے درمیان معاملہ میں نماز کے مؤخر ہونے کا خدشہ ہے تو میں نماز کے لیے نکلا۔ میں اس طرف اشارہ کیا جب میں اس کے قریب ہوگیا تو اس نے مجھے کہا : تو کون ہے ؟ میں نے کہا : عرب ہوں۔ مجھے خبر ملی ہے کہ تو اس شخص کے خلاف لشکر جمع کررہا ہے تو میں بھی اسی سلسلہ میں تیرے پاس آیا ہوں۔ اس نے کہا : میں یہ کام کررہا ہوں تو میں کچھ دیر اس کے ساتھ چلا جب میں نے اس پر موقع پایا تو اپنی تلوار سے اس پر حملہ کردیا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔

17891

(١٧٨٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ : ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی الْقُرَشِیِّ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ شُرَحْبِیلَ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ رَابَطَ یَوْمًا وَلَیْلَۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَانَ لَہُ أَجْرُ صِیَامِ شَہْرٍ وَقِیَامِہِ وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا جَرَی لَہُ مِثْلُ الأَجْرِ وَأُجْرِیَ عَلَیْہِ الرِّزْقُ وَأُومِنَ الْفَتَّانَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٨٥) حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو بندہ ایک دن اور رات کو اللہ کے راستہ میں پہرہ دیتا ہے اس کو ایک ماہ کے روزوں اور قیام کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی پہرہ دیتے ہوئے مرجائے تو اس کا یہ اجر جاری رہتا ہے اور اس کا رزق جاری رکھا جاتا ہے اور اس کو فتنوں سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ “

17892

(١٧٨٨٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ السَّمْطِ عَنْ سَلْمَانَ الْخَیْرِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَحْوَہُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔[صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٨٦) حضرت سلمان خیر (رض) سے بھی اسی طرح روایت ہے۔

17893

(١٧٨٨٧) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْہَا وَالرَّوْحَۃُ یَرُوحُہَا الْعَبْدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوِ الْغَدْوَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْہَا وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِکُمْ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْہَا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُنِیرٍ عَنْ أَبِی النَّضْرِ ہَاشِمٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٨٧) حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دن اللہ کے لیے پہرہ دینا ساری دنیا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستہ میں ایک بار سفر کرنا صبح یا شام کو یہ بھی دنیا اور جو اس پر ہے اس سے بہتر ہے اور ایک کوڑے کے برابر جگہ جنت میں اگر کسی کے لیے ہو تو وہ بھی ساری دنیا سے بہتر ہے۔

17894

(١٧٨٨٨) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ : زُہْرَۃُ بْنُ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِی صَالِحٍ مَوْلَی عُثْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ : إِنِّی کُنْتُ کَتَمْتُکُمْ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَرَاہِیَۃَ تَفَرُّقِکُمْ عَنِّی ثُمَّ بَدَا لِی أَنْ أُحَدِّثُکُمُوہُ لِیَخْتَارَ امْرُؤٌ مِنْکُمْ لِنَفْسِہِ مَا بَدَا لَہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ یَوْمٍ فِیمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَنَازِلِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٨٨) عثمان بن عفان (رض) کے غلام ابو صالح فرماتے ہیں کہ میں نے منبر پر عثمان بن عفان (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک حدیث تم سے چھپائی ہے جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے اس خوف سے چھپائی ہے کہ تم سب مجھے چھوڑ کر نہ چلے جاؤ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں بیان کرتا ہوں تاکہ ہر بندہ اختیار کرے اس کو جو اس کو اچھا لگے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا ” اللہ کے راستہ میں ایک دن کا پہرہ دوسرے مقام پر ہزار دن کے پہرے سے بہتر ہے۔ “ ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔

17895

(١٧٨٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ إِمْلاَئً وَأَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمُزَکِّی قِرَائَ ۃً قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ أَخْبَرَنَا الْقَعْنَبِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ نَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَی أَکْتَافِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشَ الآخِرَہْ فَاغْفِرْ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ ۔
(١٧٨٨٩) سہل بن سعد ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آئے، ہم خندق کھود رہے تھے اور مٹی کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر نکال رہے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” اے اللہ ! نہیں ہے کوئی اچھی زندگی مگر آخرت کی بہتر زندگی اے اللہ ! بخش دے مہاجرین اور انصار کو۔ “

17896

(١٧٨٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مِہْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ صُہَیْبٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ الْمُہَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ یَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ حَوْلَ الْمَدِینَۃِ وَیَنْقُلُونَ التُّرَابَ عَلَی مُتُونِہِمْ وَیَقُولُونَ : نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحَمَّدَا عَلَی الإِسْلاَمِ مَا بَقِینَا أَبَدَا قَالَ وَیَقُولُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یُجِیبُہُمْ : اللَّہُمَّ لاَ خَیْرَ إِلاَّ خَیْرَ الآخِرَہْ فَبَارِکْ فِی الأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ قَالَ : وَیُؤْتَوْنَ بِمِلْئِ جَفْنَتَیْنِ شَعِیرًا فَیُصْنَعُ لَہُمْ إِہَالَۃٌ سَنِخَۃٍ وَہِیَ بَشِعَۃٌ فِی الْحَلْقِ وَلَہَا رِیحٌ مُنْکَرَۃٌ فَیُوضَعُ بَیْنَ یَدَیِ الْقَوْمِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ ۔[صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٩٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ مہاجرین و انصار مدینہ کے ارد گرد خندق کھود رہے تھے اور اپنی کمر پر مٹی اٹھا کر نکال رہے تھے اور کہتے تھے : ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام پر بیعت کی جب تک باقی رہیں گے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دیتے تھے :
اے اللہ ! کوئی بھلائی نہیں ہے مگر آخرت کی بھلائی۔ اے اللہ ! انصار و مہاجرین میں برکت ڈال۔
انس (رض) فرماتے ہیں : ان کو دو ٹب جو دیے جاتے اور سالن بنایا جاتا جو بدبودار ہوتا تھا اور وہ حلق میں اٹک جاتا تھا اور اس کی بو اچھی نہ تھی وہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔

17897

(١٧٨٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ مُنِیبٍ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنْ سُہَیْلٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : تَضَمَّنَ اللَّہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہِ لاَ یُخْرِجُہُ إِلاَّ إِیمَانًا بِہِ وَتَصْدِیقًا بِرَسُولِہِ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَوْ یُرْجِعَہُ إِذَا رَجَعَ إِلَی مَنْزِلِہِ نَائِلاً مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی مَا تَخَلَّفْتُ خِلاَفَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَرِیرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٩١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص کو ضمانت دیتا ہے جو اللہ کے راستہ میں نکلا اللہ پر ایمان کی حالت میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرتا ہو اس بات کی کہ اس کو جنت میں داخل کرے گا یا اس کو واپس لائے گا جب وہ واپس اپنے گھر کی طرف آئے گا تو وہ اجر اور غنیمت پانے والا ہوگا مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں کسی لڑائی میں پیچھے نہ رہتا۔

17898

(١٧٨٩٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِینَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ ہَارُونَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ وَغَیْرِہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٩٢) ابو زبیر نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : ” میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے لڑتا رہے گا اور قیامت تک موجود ہوگا۔ “

17899

(١٧٨٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَلَّفَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَتُخَلِّفُنِی فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ؟ فَقَالَ : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی غَیْرَ أَنَّہُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٩٣) حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی (رض) کو پیچھے چھوڑا تو حضرت علی (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا آپ اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپ کا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو مقام ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

17900

(١٧٨٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ أَخْبَرَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ حَدَّثَنِی خُثَیْمُ بْنُ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی خَیْبَرَ فَاسْتَخْلَفَ سِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَۃَ عَلَی الْمَدِینَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٧٨٩٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر میں تھے تو سباع بن عرفطہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔

17901

(١٧٨٩٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِسَفَرِہِ إِلَی مَکَّۃَ عَامَ الْفَتْحِ وَاسْتَعْمَلَ عَلَی الْمَدِینَۃِ أَبَا رُہْمٍ کُلْثُومَ بْنَ الْحُصَیْنِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ خَلَفٍ الْغِفَارِیَّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٨٩٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں اپنی غیر موجودگی میں ابو رہم کلثوم بن حصین بن عبید بن خلف الغفاری کو عامل مقرر کیا تھا۔

17902

(١٧٨٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ إِلَی بَنِی لِحْیَانَ وَقَالَ : لِیَخْرُجْ مِنْ کُلِّ رَجُلَیْنِ رَجُلٌ ۔ ثُمَّ قَالَ لِلْقَاعِدِ : أَیُّکُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِی أَہْلِہِ وَمَالِہِ بِخَیْرٍ کَانَ لَہُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٩٦) حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو لحیان کی طرف وفد بھیجا اور فرمایا : ” ہر دو آدمیوں میں سے ایک جہاد کے لیے نکلے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹھنے والوں کو کہا : ” جو جہاد پر جانے والے کا اس کے گھر اور مال میں عمدہ طریقہ سے نائب بنا اس کو جہاد پر جانے والے کے اجر کے نصف کے برابر اجر ملے گا۔

17903

(١٧٨٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا حُسَیْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ حَدَّثَنِی أَبُو سَعِیدٍ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ بَعْثًا إِلَی بَنِی لِحْیَانَ مِنْ ہُذَیْلٍ قَالَ : لِیَنْبَعِثْ مِنْ کُلِّ رَجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا وَالأَجْرُ بَیْنَہُمَا۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ یَحْیَی وَمِنْ حَدِیثِ عَبْدِالْوَارِثِ عَنْ حُسَیْنٍ الْمُعَلِّمِ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٨٩٧) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو لحیان کی طرف وفد روانہ کیا اور فرمایا : ” ہر دو آدمیوں میں سے ایک لازمی جہاد پر جائے اور اجر دونوں میں برابر ہوگا۔

17904

(١٧٨٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَکِّیُّ ۔ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَبْعَ غَزَوَاتٍ وَخَرَجْتُ فِیمَا یَبْعَثُ مِنَ الْبُعُوثِ سَبْعَ غَزَوَاتٍ مَرَّۃً عَلَیْنَا َبُو بَکْرٍ وَمَرَّۃً عَلَیْنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ قُتَیْبَۃَ وَقَالَ مُحَمَّدٌ فِی الثَّانِیَۃِ تِسْعَ غَزَوَاتٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَکِّیِّ ۔
(١٧٨٩٨) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوا اور جو آپ نے لشکر روانہ کیے ان میں سے بھی ساتھ میں میں شریک تھا کبھی ہم پر سپہ سالار ابوبکر ہوتے اور کبھی اسامہ بن زید (رض) ۔ ایک حدیث میں نو لشکروں کا ذکر ہے۔

17905

(١٧٨٩٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی الْمَعْرُوفِ الإِسْفَرَائِینِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : إِسْمَاعِیلُ بْنُ نُجَیْدٍ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ الْکَجِّیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ یَزِیدَ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَبْعَ غَزَوَاتٍ وَمَعَ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ تِسْعَ غَزَوَاتٍ کَانَ یُؤَمِّرُہُ عَلَیْنَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی عَاصِمٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٨٩٩) حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سات اور زید بن حارثہ کے ساتھ نو غزوات میں شریک ہوا۔ حضرت زید بن حارثہ (رض) کو آپ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا۔

17906

(١٧٩٠٠) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ إِمْلاَئً وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قِرَائَ ۃً قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ فِی سَرِیَّۃٍ فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَی مَکَانِ الْحَرْبِ أَمَرَہُمْ عَمْرٌو أَنْ لاَ یُنَوِّرُوا نَارًا فَغَضِبَ عُمَرُ وَہَمَّ أَنْ یَأْتِیَہُ فَنَہَاہُ أَبُو بَکْرٍ وَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ لَمْ یَسْتَعْمِلْہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْکَ إِلاَّ لِعِلْمِہِ بِالْحَرْبِ فَہَدَأَ عَنْہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [حسن لغیرہ ]
(١٧٩٠٠) حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن عاص (رض) کو لشکر کا امیر بنا کر بھیجا۔ جبکہ لشکر میں ابوبکر و عمر (رض) بھی تھے۔ جب جنگ کے مقام پر پہنچے تو حضرت عمرو (رض) نے لشکر کو حکم دیا کہ آگ نہ جلائیں حضرت عمر (رض) غصہ ہوئے اور ان کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے روک دیا اور ان کو کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو امیر اسی لیے بنایا ہے کیونکہ وہ امور جنگ جانتے ہیں تو حضرت عمر (رض) رک گئے۔

17907

(١٧٩٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْمَلِیحِ : أَنَّ عُبَیْدَ اللَّہِ بْنَ زِیَادٍ عَادَ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی مَرَضِہِ فَقَالَ لَہُ مَعْقِلٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنِّی مُحَدِّثُکَ بِحَدِیثٍ لَوْلاَ أَنِّی فِی الْمَوْتِ لَمْ أُحَدِّثْکَ بِہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَا مِنْ أَمِیرٍ یَلِی أَمْرَ الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ لاَ یَجْہَدُ لَہُمْ وَلاَ یَنْصَحُ إِلاَّ لَمْ یَدْخُلْ مَعَہُمُ الْجَنَّۃَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی غَسَّانَ وَغَیْرِہِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ ہِشَامٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٠١) حضرت ابو ملیح سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن زیاد معقل بن یسار کی تیمار داری کے لیے گئے تو حضرت معقل (رض) نے ان سے کہا : میں تجھ کو ایسی حدیث سنا رہا ہوں، اگر میری موت قریب نہ ہوتی تو میں نہ بتاتا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمانوں کا والی ہو اور وہ ان کے لیے جدوجہد نہ کرے اور ان کی خیر خواہی نہ کرے وہ اپنی قوم کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔

17908

(١٧٩٠٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الإِمَامُ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ بْنُ فَرُّوخٍ حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْہَبِ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ : عَادَ عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ زِیَادٍ مَعْقِلَ بْنَ یَسَارٍ الْمُزَنِیَّ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ فَقَالَ مَعْقِلٌ : إِنِّی مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ بِی حَیَاۃً مَا حَدَّثْتُکَ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیہِ اللَّہُ رَعِیَّۃً یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَہُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِہِ إِلاَّ حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ شَیْبَانَ بْنِ فَرُّوخٍ وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ عَنْ أَبِی الأَشْہَبِ ۔ وَرُوِّینَا فِی الْحَدِیثِ الثَّابِتِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی سَرِیَّۃٍ أَوْ جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللَّہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا۔
(١٧٩٠٢) حضرت عبیداللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار مزنی کی عیادت کے لیے گئے۔ اس مرض میں ہی آپ فوت ہوگئے تھے۔ حضرت معقل بن یسار (رض) نے کہا : میں ایک حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے اور انھوں نے کہا : اگر مجھے علم ہوتا کہ میری زندگی ابھی باقی ہے تو میں یہ حدیث نہ بیان کرتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس بندے کو اللہ کسی قوم کا نگران بنا دے اور وہ اپنی قوم کو دھوکا دے تو وہ جب بھی مرے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔
سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لشکر کو روانہ کرتے اور ان کا امیر مقرر کرتے تو اس کو خاص تقویٰ کی نصیحت کرتے اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتے۔

17909

(١٧٩٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ فِی غَزْوَۃٍ فَأَصَابَتْنَا مَخْمَصَۃٌ فَکَتَبَ جَرِیرٌ إِلَی مُعَاوِیَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ لاَ یَرْحَمِ النَّاسَ لاَ یَرْحَمْہُ اللَّہُ ۔ قَالَ : وَکَتَبَ مُعَاوِیَۃُ أَنْ یَقْفُلُوا قَالَ وَمَتَّعَہُمْ ۔ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : فَأَنَا أَدْرَکْتُ قَطِیفَۃً مِمَّا مَتَّعَہُمْ ۔[صحیح۔ بدون القصہ ]
(١٧٩٠٣) ابو اسحاق کے والد کہتے ہیں کہ ہم جریر بن عبداللہ کے ساتھ تھے۔ ہمیں بھوک لاحق ہوئی تو جریر بن عبداللہ (رض) نے حضرت معاویہ (رض) کو خط لکھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان لکھا کہ ” جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔ “ تو معاویہ نے لکھا کہ وہ لوٹ آئیں اور معاویہ نے ان کو مال دیا۔ ابو اسحاق کہتے ہیں : میں نے اس میں سے ایک چادر پائی تھی۔

17910

(١٧٩٠٤) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ قَالَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٠٤) حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : ” اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

17911

(١٧٩٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَکَمِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ مِہْرَانَ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ أَبِی قَابُوسٍ مَوْلًی لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِی الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٩٠٥) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر مہربانی کرو تو آسمان والا تم پر مہربان ہوگا۔

17912

(١٧٩٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ قَالَ : اسْتَعْمَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَجُلاً مِنْ بَنِی أَسَدٍ عَلَی عَمَلٍ فَجَائَ یَأْخُذُ عَہْدَہُ قَالَ فَأُتِیَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِبَعْضِ وَلَدِہِ فَقَبَّلَہُ قَالَ : أَتُقَبِّلُ ہَذَا ؟ مَا قَبَّلْتُ وَلَدًا قَطُّ ۔ فَقَالَ عُمَرُ : فَأَنْتَ بِالنَّاسِ أَقَلُّ رَحْمَۃً ہَاتِ عَہْدَنَا لاَ تَعْمَلْ لِی عَمَلاً أَبَدًا۔[حسن ]
(١٧٩٠٦) حضرت ابو عثمان نہری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے بنو اسد کے آدمی کے ذمہ ایک کام لگایا۔ جب وہ کام کر کے واپس آیا تو اس وقت حضرت عمر کے پاس ان کا کوئی بچہ لایا گیا تو انھوں نے اس کو بوسہ دیا تو اس نے کہا کہ کیا آپ اس کو بوسہ دیتے ہیں ! میں نے کبھی کسی بچے کو بوسہ نہیں دیا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم لوگوں کے معاملہ میں مہربانی کم ہے ہمارا کام واپس کر دے اور آئندہ کبھی ہمارے لیے کام نہ کرنا۔

17913

(١٧٩٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ حَدَّثَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الْجُرَیْرِیُّ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ أَبِی فِرَاسٍ قَالَ : شَہِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّہُ قَدْ أَتَی عَلَیَّ زَمَانٌ وَأَنَا أَرَی أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یُرِیدُ بِہِ اللَّہَ وَمَا عِنْدَہُ فَیُخَیَّلُ إِلَیَّ بِأَخَرَۃٍ أَنَّ قَوْمًا قَرَأُوہُ یُرِیدُونَ بِہِ النَّاسَ وَیُرِیدُونَ بِہِ الدُّنْیَا أَلاَ فَأَرِیدُوا اللَّہَ بِقِرَائَ تِکُمْ أَلاَ فَأَرِیدُوا اللَّہَ بِأَعْمَالِکُمْ أَلاَ إِنَّمَا کُنَّا نَعْرِفُکُمْ إِذْ یَتَنَزَّلُ الْوَحْیُ وَإِذِ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَیْنَ أَظْہُرِنَا وَإِذْ نَبَّأَنَا اللَّہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ فَقَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ وَذَہَبَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِنَّمَا نَعْرِفُکُمْ بِمَا أَقُولُ لَکُمْ أَلاَ مَنْ رَأَیْنَا مِنْہُ خَیْرًا ظَنَنَّا بِہِ خَیْرًا وَأَحْبَبْنَاہُ عَلَیْہِ وَمَنْ رَأَیْنَا مِنْہُ شَرًّا ظَنَنَّا بِہِ شَرًّا وَأَبْغَضْنَاہُ عَلَیْہِ سَرَائِرُکُمْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رَبِّکُمْ أَلاَ إِنَّمَا أَبْعَثُ عُمَّالِی لِیُعَلِّمُوکُمْ دِینَکُمْ وَلِیُعَلِّمُوکُمْ سُنَّتَکُمْ وَلاَ أَبْعَثُہُمْ لِیَضْرِبُوا ظُہُورَکُمْ وَلاَ لِیَأْخُذُوا أَمْوَالَکُمْ أَلاَ فَمَنْ رَابَہُ شَیْئٌ مِنْ ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ فَوَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لأُقِصَّنَّ مِنْہُ ۔ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنْ بَعَثْتَ عَامِلاً مِنْ عُمَّالِکَ فَأَدَّبَ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ رَعِیَّتِہِ فَضَرَبَہُ إِنَّکَ لَمُقِصُّہُ مِنْہُ ۔ قَالَ : نَعَمْ وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ لأُقِصَّنَّ مِنْہُ وَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُقِصُّ مِنْ نَفْسِہِ أَلاَ لاَ تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِینَ فَتُذِلُّوہُمْ وَلاَ تَمْنَعُوہُمْ حُقُوقَہُمْ فَتُکْفِرُوہُمْ وَلاَ تُجَمِّرُوہُمْ فَتَفْتِنُوہُمْ وَلاَ تُنْزِلُوہُمُ الْغِیَاضَ فَتُضَیِّعُوہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٠٧) حضرت ابو فراس فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس گیا، وہ لوگوں کو وعظ کر رہے تھے کہ اے لوگو ! مجھ پر ایسا زمانہ گزرا ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا وہ قرآن پڑھتے تھے بدلہ اللہ کی رضا اور اجر چاہتے تھے۔ پھر میں تصور کرتا ہوں کہ بعد والوں میں ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی مگر لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اور بدلہ میں دنیا کا مال حاصل کرنے کے لیے۔ خبردار تلاوت قرآن سے اللہ کی رضا طلب کرو۔ خبردار ! اپنے اعمال سے اللہ کو راضی کرو۔ خبردار ! ہم تم کو جانتے ہیں۔ جب وحی نازل ہو رہی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے۔ اللہ نے ہمیں تمہارے بارے میں خبریں دے دی تھیں۔ اب وحی ختم ہوگئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے اور ہم جانتے ہیں جو تم کو کہتے ہیں۔ خبردار ! جس میں ہم بھلائی دیکھتے ہیں اور بھلا خیال کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور جس میں برائی دیکھتے اس کو برا سمجھتے ہیں اور اس پر ناراض ہوتے ہیں اور تمہارے راز اللہ اور تمہارے درمیان ہے۔ خبردار ! ہم عمال کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم کو دین اور سنت سکھائیں اس لیے نہیں بھیجتے کہ وہ تمہاری پیٹھ پر ماریں او نہ اس لیے کہ وہ تمہارا مال لے لیں۔ خبردار اگر کسی کو ان باتوں میں شک ہو تو وہ ہم تک پہنچائے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے میں اس سے بدلہ لوں گا تو حضرت عمرو بن عاص کھڑے ہو کر کہنے لگے : اے امیر المؤمنین ! اگر آپ کسی عامل کو بھیجیں اور وہ ادب سکھانے کے لیے کسی کو مارے تو کیا اس سے بھی بدلہ لیں گے تو عمر (رض) نے فرمایا : ہاں اللہ کی قسم میں اس سے بھی بدلہ لوں گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود کو قصاص کے لیے پیش کرتے تھے۔ خبردار ! مسلمانوں کو مار کر ذلیل نہ کرو۔ ان کے حقوق غصب نہ کرو، ان کو گھر جانے سے روک کر فتنہ میں مبتلا نہ کرو اور دشوار گزار جگہ اتار کر مسلمانوں کو ہلاک نہ کرو۔

17914

(١٧٩٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنِی الثَّقَفِیُّ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَأَلَہُ إِذَا حَاصَرْتُمُ الْمَدِینَۃَ کَیْفَ تَصْنَعُونَ ؟ قَالَ : نَبْعَثُ الرَّجُلَ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَنَصْنَعُ لَہُ ہَنَۃً مِنْ جُلُودٍ ۔ قَالَ : أَرَأَیْتَ إِنْ رُمِیَ بِحَجَرٍ ۔ قَالَ : إِذًا یُقْتَلَ ۔ قَالَ : فَلاَ تَفْعَلُوا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا یَسُرُّنِی أَنْ تَفْتَتِحُوا مَدِینَۃً فِیہَا أَرْبَعَۃُ آلاَفِ مُقَاتِلٍ بِتَضْیِیعِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٠٨) حضرت عمر (رض) نے حضرت انس بن مالک (رض) سے پوچھا : جب تم کسی شہر کا محاصرہ کرتے ہو تو کیا طریقہ اختیار کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا : ہم شہر کی طرف ایک آدمی کو شہر کی طرف بھیجتے ہیں اور اسے چمڑے کی ڈھال دیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا : اگر اسے پتھر پھینک کر مالا جائے تو ؟ عرض کیا : پھر وہ مرجائے گا تو آپ (رض) نے فرمایا : تو حضرت عمر (رض) نے کہا : مجھے اللہ کی قسم ! ایک مسلمان کا ضیاع چار ہزار لڑائی کے قابل آدمیوں کے شہر کی فتح کے بدلہ میں بھی پسند نہیں ہے۔

17915

(١٧٩٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُکْرَمٍ وَیَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ سَنَۃٌ غَلاَ فِیہَا السَّمْنُ فَکَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَأْکُلُ الزَّیْتَ فَیُقَرْقِرُ بَطْنَہُ ۔ رِوَایَۃِ یَحْیَی قَالَ : وَکَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَأْکُلُہُ فَلَمَّا قَلَّ قَالَ لاَ آکُلُہُ حَتَّی یَأْکُلَہُ النَّاسُ ۔ قَالَ : فَکَانَ یَأْکُلُ الزَّیْتَ فَیُقَرْقِرُ بَطْنَہُ ۔ قَالَ ابْنُ مُکْرَمٍ فِی رِوَایَتِہِ فَقَالَ : قَرْقِرْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّہِ لاَ تَأْکُلُ السَّمْنَ حَتَّی یَأْکُلَہُ النَّاسُ ثُمَّ قَالَ لِی : اکْسِرْ حَرَّہُ عَنِّی بِالنَّارِ فَکُنْتُ أَطْبُخُہُ لَہُ فَیَأْکُلُہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٠٩) حضرت زید بن اسلم کے والد فرماتے ہیں : مسلمانوں پر ایک ایسا سال آیا جس میں گھی کی قیمت بڑھ گئی اور حضرت عمر (رض) پیٹ کی خرابی کی وجہ سے زیتون کھاتے تھے اور یحییٰ کی روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) تیل کھاتے تھے۔ جب وہ کم ہوگیا تو انھوں نے کہا : اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک لوگ نہ کھائیں۔ جبکہ آپ پیٹ کے بولنے کی وجہ سے تیل کھایا کرتے تھے۔ ابن مکرم کی روایت میں ہے کہ عمر (رض) نے پیٹ کو مخاطب کر کے کہا : جتنا چاہے بول اللہ کی قسم تو اس وقت تک گھی نہیں کھائے گا جب تک لوگ نہ کھائیں گے۔ پھر انھوں نے مجھے کہا : اس کی گرمی کو آگ سے ختم کرو میں آپ کے لیے اس کو پکاتا تھا اور آپ کھاتے تھے۔

17916

(١٧٩١٠) حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ طَاوُسٍ وَعِکْرِمَۃَ بْنِ خَالِدٍ : أَنَّ حَفْصَۃَ وَابْنَ مُطِیعٍ وَعَبْدَاللَّہِ بْنَ عُمَرَ کَلَّمُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالُوا لَوْ أَکَلْتَ طَعَامًا طَیِّبًا کَانَ أَقْوَی لَکَ عَلَی الْحَقِّ قَالَ : أَکُلُّکُمْ عَلَی ہَذَا الرَّأْیِ ؟ قَالُوا : نَعَمْ ۔ قَالَ : قَدْ عَلِمْتُ أَنَّہُ لَیْسَ مِنْکُمْ إِلاَّ نَاصِحٌ وَلَکِنْ تَرَکْتُ صَاحِبَیَّ عَلَی جَادَّۃٍ فَإِنْ تَرَکْتُ جَادَّتَہُمَا لَمْ أُدْرِکْہُمَا فِی الْمَنْزِلِ ۔ قَالَ : وَأَصَابَ النَّاسَ سَنَۃٌ فَمَا أَکَلَ عَامَئِذٍ سَمْنًا وَلاَ سَمِینًا حَتَّی أَحْیَا النَّاسُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩١٠) حضرت حفصہ اور ابن مطیع اور عبداللہ بن عمر (رض) حضرت عمر (رض) کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ اگر آپ اچھا کھانا کھائیں تو یہ آپ کو حق کا کام کرنے کے لیے مضبوط کرے گا تو حضرت عمر (رض) نے کہا : کیا تم سب کی یہی رائے ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں تو آپ نے فرمایا : میں جانتا ہوں تم میرے خیر خواہ ہو لیکن میں اپنے دونوں ساتھیوں کے راستہ کو چھوڑ دوں اور اگر میں نے ان کا طریقہ چھوڑ دیا تو میں قیامت کے دن ان کو نہیں پا سکوں گا۔ لوگوں پر تنگی کا سال آیا تو حضرت عمر (رض) نے پورا سال گھی نہیں کھایا اور نہ بھنا ہوا موٹا گوشت حتیٰ کہ لوگ جان میں آگئے اور ترو تازہ ہوگئے۔

17917

(١٧٩١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ یَزِیدَ الْہُذَلِیُّ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ یَزِیدَ یَقُولُ : لَمَّا کَانَتِ الرَمَادَۃُ أَصَابَ النَّاسُ جُوعًا شَدِیدًا فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ رَکِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ دَابَّۃً لَہُ فَرَأَی فِی رَوْثِہَا شَعِیرًا فَقَالَ : وَاللَّہِ لاَ أَرْکَبُہَا حَتَّی یَحْسُنَ حَالُ النَّاسِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩١١) حضرت سائب بن یزید (رض) فرماتے ہیں : قحط کے سال مسلمانوں کو سخت فاقے لاحق ہوئے۔ ایک دن حضرت عمر (رض) اپنی سواری پر سوار تھے تو انھوں نے اس کی لید میں جو کا ایک دانہ دیکھا تو کہا : اللہ کی قسم ! میں اس پر سوار نہیں ہوں گا حتیٰ کہ لوگوں کی حالت بہتر ہوجائے۔

17918

(١٧٩١٢) وَرُوِّینَا عَنْ أَبِی عُثْمَانَ النَّہْدِیِّ : أَنَّ عُتْبَۃَ بْنَ فَرْقَدٍ بَعَثَ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْ أَذَرْبَیْجَانَ بِخَبِیصٍ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَیَشْبَعُ الْمُسْلِمُونَ فِی رِحَالِہِمْ مِنْ ہَذَا فَقَالَ الرَّسُولُ اللَّہُمَّ لاَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لاَ أُرِیدُہُ وَکَتَبَ إِلَی عُتْبَۃَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ کَدِّکَ وَلاَ مِنْ کَدِّ أَبِیکَ وَلاَ مِنْ کَدِّ أُمِّکَ فَأَشْبِعْ مَنْ قِبَلَکَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی رِحَالِہِمْ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْہُ فِی رَحْلِکَ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَحْمَدَ الْجُرْجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو یَعْلَی الْمَوْصِلِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَیْثَمَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ أَبِی عُثْمَانَ فَذَکَرَہُ ۔ [حسن ]
(١٧٩١٢) ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں : عتبہ بن قرفہ نے کچھ حلوہ حضرت عمر (رض) کو آذر بائی جان سے بھیجا تو آپ نے قاصد سے پوچھا : کیا مسلمان اس سے سیر ہوگئے ہیں ؟ تو اس نے کہا : نہیں تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے یہ نہیں چاہیے اور عتبہ کو لکھا کہ یہ تیری کوشش و محنت سے نہیں ہے نہ تیرے ماں باپ کی کوشش سے ہے۔ پہلے ان مسلمانوں کو سیر کر جو تیرے پاس ہیں اپنے گھر اتنا دے جتنا تو نے اپنے گھر کے لیے رکھا ہے۔

17919

(١٧٩١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا أَبِی قَالَ سَمِعْتُ حَرْمَلَۃَ الْمِصْرِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُمَاسَۃَ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فَقَالَتْ مِمَّنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ : مِنْ أَہْلِ مِصْرَ ۔ قَالَتْ : کَیْفَ وَجَدْتُمُ ابْنَ حُدَیْجٍ فِی غَزَاتِکُمْ ہَذِہِ ؟ قُلْتُ : خَیْرَ أَمِیرٍ مَا یَنْفَقُ لِرَجُلٍ مِنَّا فَرَسٌ وَلاَ بَعِیرٌ إِلاَّ أَبْدَلَ لَہُ مَکَانَہُ بَعِیرًا وَلاَ غُلاَمٌ إِلاَّ أَبْدَلَ لَہُ مَکَانَہُ غُلاَمًا۔ فَقَالَتْ : إِنَّہُ لاَ یَمْنَعُنِی قَتْلُہُ أَخِی أَنْ أُحَدِّثَکُمْ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : اللَّہُمَّ مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِی شَیْئًا فَرَفَقَ بِہِمْ فَارْفُقْ بِہِ وَمَنْ شَقَّ عَلَیْہِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ ۔ وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو أَحْمَدَ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَسَّانَ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ حَرْمَلَۃَ الْحَضْرَمِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُمَاسَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَحْوَہُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِیٍّ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩١٣) عبدالرحمن بن شماسہ فرماتے ہیں : میں عائشہ (رض) کے پاس گیا۔ انھوں نے پوچھا : کن لوگوں میں سے ہے ؟ میں نے کہا : مصری ہوں تو آپ نے پوچھا : تم نے اپنی لڑائیوں میں ابن جریج کو کیسا پایا ؟ میں نے کہا : وہ اچھا امیر ہے۔ جنگ میں جس کا گھوڑا یا اونٹ کام آیا۔ وہ اس کا بدلہ اونٹ سے دیتا ہے اور اگر کسی کا غلام کام آیا (مارا گیا) تو وہ بدلہ میں اس کو غلام دیتا ہے تو عائشہ (رض) نے کہا : اس کا میرے بھائی کو قتل کرنا مجھے حدیث بیان کرنے سے نہیں روکتا جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ آپ نے فرمایا : اے وہ شخص جو مسلمانوں کے معاملات کا وارث ہو کسی طرح بھی ممکن ہو ان پر نرمی کرے تو اے اللہ ! اس پر نرمی کر اور جو ان پر مشقت کا ذریعہ بن جائے اے اللہ ! تو اس پر مشقت ڈال دے۔

17920

(١٧٩١٤) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ أَبِی الْعَبَّاسِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعْنِی حِینَ حَاصَرَ أَہْلَ الطَّائِفَ فَلَمْ یَنَلْ مِنْہُمْ شَیْئًا إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ کَیْفَ نَذْہَبُ وَلَمْ نَفْتَحْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَاغْدُوا لِلْقِتَالِ ۔ فَغَدَوْا عَلَیْہِمْ فَأَصَابَتْہُمْ جِرَاحَۃٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا ۔ فَأَعْجَبَہُمْ ذَلِکَ قَالَ فَضَحِکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمَدِینِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩١٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں : جس وقت طائف والوں کا محاصرہ کیا گیا اور نتیجتاً کچھ حاصل نہ ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہم انشاء اللہ کل واپس جائیں گے “ تو مسلمانوں نے کہا : کیسے واپس جائیں ہم کامیاب تو ہوئے نہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” صبح لڑائی کے لیے تیار رہو “ صبح انھوں نے ان پر حملہ کیا تو ان کو زخم لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہم کل واپس جائیں گے “ تو لوگوں نے اس کو پسند کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا دیے۔

17921

(١٧٩١٥) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ یَعْنِی ابْنَ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَ شَیْئًا مِنْ قِصَّۃِ بَدْرٍ قَالَ : فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُومُوا إِلَی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ ۔ قَالَ یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الأَنْصَارِیُّ : یَا رَسُولَ اللَّہِ عَرْضُہَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ ؟ فَقَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : بَخٍ بَخٍ ۔ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا یَحْمِلُکَ عَلَی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ ؟ ۔ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِلاَّ رَجَاہَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِہَا قَالَ : فَإِنَّکَ مِنْ أَہْلِہَا ۔ قَالَ : فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِہِ فَجَعَلَ یَأْکُلُ مِنْہُنَّ ثُمَّ قَالَ : لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتَّی آکُلَ تَمَرَاتِی ہَذِہِ إِنَّہَا لَحَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ۔ قَالَ : فَرَمَی بِمَا کَانَ مَعَہُ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَہُمْ حَتَّی قُتِلَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی النَّضْرِ وَغَیْرِہِ عَنْ أَبِی النَّضْرِ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩١٥) حضرت انس بن مالک (رض) بدر کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ مشرکین قریب ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جنت کی طرف بڑھو وہ جنت جس کی چوڑائی (عرض) زمین اور آسمان کے درمیان فاصلے کے برابر ہے۔ عمر بن حمام انصاری (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس کا عرض (چوڑائی) آسمان و زمین کے درمیانی خلا کے برابر ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں ! “ تو عمیر نے کہا : واہ واہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” تو نے واہ واہ کیوں کہا “ تو عمیر نے کہا کہ صرف اس امید کی وجہ سے کہ میں ان میں سے ہو جاؤں : تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو ان میں سے ہے۔ “ اس نے اپنی پوٹلی سے کھجوریں نکال کر کھانا شروع کیں۔ پھر کہا : اگر ان کھجوروں کو کھانے تک میں مزید رکا تو یہ لمبی زندگی ہوگی، اسی وقت کھجوروں کو پھینکا اور دشمن سے لڑا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔

17922

(١٧٩١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ أُحُدٍ : أَرأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیْنَ أَنَا ؟ قَالَ : فِی الْجَنَّۃِ ۔ فَأَلْقَی تُمَیْرَاتٍ کُنَّ فِی یَدِہِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩١٦) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر آج میں قتل کردیا جاؤں تو کہاں ہوگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جنت میں “ اس نے اپنے سے کھجوریں پھینکیں اور دشمن سے لڑا اور شہید ہوگیا۔

17923

(١٧٩١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ الأَعْرَابِیِّ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّضْرَ بْنَ أَنَسٍ عَمَّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ : غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ قَاتَلَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمُشْرِکِینَ لَئِنِ أَشْہَدَنِی اللَّہُ قِتَالاً لَیَرَیَنَّ اللَّہُ مَا أَصْنَعُ ۔ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ انْکَشَفَ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا جَائَ بِہِ ہَؤُلاَئِ یَعْنِی الْمُشْرِکِینَ وَأَعْتَذَرُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَئِ یَعْنِی الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ مَشَی بِسَیْفِہِ فَلَقِیَہُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ : أَیْ سَعْدُ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنِّی لأَجِدُ رِیحَ الْجَنَّۃِ دُونَ أُحُدٍ وَاہًا لِرِیحِ الْجَنَّۃِ ۔ قَالَ سَعْدٌ : فَمَا اسْتَطَعْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا صَنَعَ فَوَجَدْنَاہُ بَیْنَ الْقَتْلَی وَبِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ جِرَاحَۃً مِنْ ضَرْبَۃٍ بِسَیْفٍ وَطَعْنَۃٍ بِرُمْحٍ وَرَمْیَۃٍ بِسَہْمٍ وَقَدْ مَثَّلُوا بِہِ حَتَّی عَرَفَتْہُ أُخْتُہُ بِبَنَانِہِ ۔ قَالَ أَنَسٌ : کُنَّا نَقُولُ أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ { مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ } [الأحزاب ٢٣] فِیہِ وَفِی أَصْحَابِہِ ۔ کَذَا فِی کِتَابِی وَالصَّوَابُ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ حُمَیْدٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩١٧) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : انس بن مالک کے چچا نضر بن انس بدر کی لڑائی سے غائب رہے۔ جب وہ آئے تو کہا کہ میں پہلی لڑائی سے غائب ہوا ہوں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین سے لڑی ہے۔ اگر میں حاضر ہوتا تو اللہ دیکھتا کہ میں کیا کرتا۔
جب احد کا موقعہ آیا تو مسلمانوں نے اس کو ظاہر کردیا اور اس کے کام کو دیکھ لیا۔ اس نے کہا : اے اللہ ! میں مشرکوں کے ارادہ سے بری ہوں اور مسلمان جو کریں میں ان کو معذور سمجھتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر نکلے اور سعد بن معاذ (رض) سے ملے۔ ان کو رسول اللہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے احد سے آگے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ جنت کی خوشبو کتنی پیاری ہے۔ سعد (رض) کہتے ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس کی طاقت نہیں رکھتا جو اس نے کیا۔ ہم نے اس کو مقتولین میں پایا۔ ان کو اسی سے اوپر زخم آئے تھے جس میں تلوار نیزہ اور تیر سب کے زخم تھے۔ ان کا مثلہ کردیا گیا تھا ان کی بہن نے ان کی انگلی کے پورے سے پہچانا تھا۔ انس (رض) کہتے ہیں : ہم کہا کرتے تھے کہ آیت { مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ } [الأحزاب ٢٣] ” مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنہوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انھوں نے عہد کیا تھا۔ “ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں : میری کتاب میں اسی طرح ہے مگر صحیح نضر بن انس کی بجائے انس بن نضر ہے۔

17924

(١٧٩١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَطَّابِ بْنِ عُمَرَ الأَنْصَارِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ شَبِیبٍ الْمَعْمَرِیُّ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا ہُدْبَۃُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ وَثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُفْرِدَ یَوْمَ أُحُدٍ فِی سَبْعَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ فَلَمَّا رَہَقُوہُ قَالَ : مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا وَلَہُ الْجَنَّۃُ أَوْ ہُوَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ ؟ ۔ فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ثُمَّ رَہَقُوہُ أَیْضًا فَقَالَ : مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا وَلَہُ الْجَنَّۃُ أَوْ ہُوَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ ؟ فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی قُتِلَ السَّبْعَۃُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِصَاحِبَیْہِ : مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ ہَدَّابِ بْنِ خَالِدٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩١٨) انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ احد کے میدان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سات انصار اور دو قریشی اکیلے رہ گئے۔ جب کافروں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” کون ہے جوان کو روکے اس کے لیے جنت ہے یا وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ “ انصار میں سے ایک آگے آیا دشمن سے لڑا اور شہید ہوگیا۔ انھوں نے پھر گھیرا تنگ کیا تو آپ نے فرمایا : ” جو ان کو روکے گا اس کے لیے جنت ہے یا وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔ “ دوسرا انصاری آگے بڑھا اور لڑ کر شہید ہوگیا۔ اس طرح ساتوں انصاری شہید ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ “

17925

(١٧٩١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُثْمَانَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ الْوَازِعِ قَالَ سَمِعْتُ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ بَعْضِ بَنِی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ عُبَیْدُ اللَّہِ أُرَاہُ ثُمَامَۃَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَرَرْتُ یَوْمَ الْیَمَامَۃَ بِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَہُوَ یَتَحَنَّطُ فَقُلْتُ : یَا عَمِّ أَمَّا تَرَی مَا یَلْقَی الْمُسْلِمُونَ أَیْ وَأَنْتَ ہَا ہَنُا ؟ قَالَ : فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ : الآنَ یَا ابْنَ أَخِی۔ فَلَبِسَ سِلاَحَہُ وَرَکِبَ فَرَسَہُ حَتَّی أَتَی الصَّفَّ فَقَالَ أُفٍّ لِہَؤُلاَئِ وَلِمَا یَصْنَعُونَ وَقَالَ لِلْعَدِوِّ أُفٍّ لِہَؤُلاَئِ وَلِمَا یَعْبُدُونَ خَلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ أَوْ قَالَ سَنَنِہِ یَعْنِی فَرَسَہُ حَتَّی أَصْلَی بِحَرِّہَا فَحَمَلَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٧٩١٩) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : وہ یمامہ کی لڑائی کے دن ثابت بن قیس بن شماس کے پاس سے گزرے وہ مہندی لگا رہے تھے۔ میں نے کہا : آپ کو خبر نہیں کہ مسلمانوں پر کیا لاحق ہوگیا اور آپ یہاں ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہا بھتیجے ابھی چلتے ہیں انھوں نے ہتھیار پہنے اور گھوڑے پر سوار ہوئے صفوں تک پہنچ گئے اور کہا افسوس ہے ان پر اور ان کے خون پر اور دشمن سے کہا : افسوس ہے ان پر اور جس کی یہ عبادت کرتے ہیں۔ انھوں نے ان کا راستہ چھوڑ دیا یا کہا کہ ان کے گھوڑے کا راستہ چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ گھمسان کی جنگ میں پہنچ گئے اور حملہ کیا لڑائی کی اور شہید ہوگئے۔

17926

(١٧٩٢٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُثْمَانَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ : أَنَّ عِکْرِمَۃَ بْنَ أَبِی جَہْلٍ تَرَجَّلَ یَوْمَ کَذَا فَقَالَ لَہُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ لاَ تَفْعَلْ فَإِنَّ قَتْلَکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ شَدِیدٌ۔ فَقَالَ : خَلِّ عَنِّی یَا خَالِدُ فَإِنَّہُ قَدْ کَانَتْ لَکَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَابِقَۃٌ وَإِنِّی وَأَبِی کُنَّا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَشَی حَتَّی قُتِلَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٢٠) ثابت بنانی سے روایت ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل ایک لڑائی میں ایک دن پیدل چلنے لگے تو خالد بن ولید نے کہا : ایسا نہ کر تیرا قتل مسلمانوں پر گراں ہوگا۔ انھوں نے کہا : میرا راستہ چھوڑ دیں۔ اے خالد (رض) ! آپ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دینے میں مجھ سے آگے ہیں جبکہ میں اور میرا باپ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے دشمن تھے وہ چلے اور شہید ہوگئے۔

17927

(١٧٩٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْجَہَمِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الأَعْوَرُ أَخْبَرَنِی السَّرِیُّ بْنُ یَحْیَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ : أَنَّ الْمُسْلِمِینَ انْتَہَوْا إِلَی حَائِطٍ قَدْ أُغْلِقَ بَابُہُ فِیہِ رِجَالٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَجَلَسَ الْبَرَائُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی تُرْسٍ فَقَالَ : ارْفَعُونِی بِرِمَاحِکُمْ فَأَلْقُونِی إِلَیْہِمْ فَرَفَعُوہُ بِرِمَاحِہِمْ فَأَلْقُوہُ مِنْ وَرَائِ الْحَائِطِ فَأَدْرَکُوہُ قَدْ قَتَلَ مِنْہُمْ عَشَرَۃً ۔ [حسن ]
(١٧٩٢١) محمد بن سیرین (رض) فرماتے ہیں : مسلمان ایک باغ کے پاس پہنچے جس کا دروازہ بند تھا اور اس باغ میں مشرکین تھے تو براء بن مالک (رض) ایک ڈھال پر بیٹھ گئے اور کہا کہ مجھے اپنے نیزوں سے اوپر اٹھاؤ اور مجھے ان کی طرف ڈال دو تو انھوں نے اپنے نیزوں سے اٹھایا اور باغ کی دوسری طرف ڈال دیا۔ جب تک انھوں نے اس کو پایا تو وہ ان کے دس آدمی قتل کرچکے تھے۔

17928

(١٧٩٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الإِمَامُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوسَی عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ کَانَ بِحَضْرَۃِ الْعَدُوِّ قَالَ فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : الْجَنَّۃُ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ ۔ قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْہَیْئَۃِ فَقَالَ : یَا أَبَا مُوسَی أَنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ ہَذَا ؟ قَالَ : اللَّہُمَّ نَعَمْ قَالَ فَرَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ثُمَّ کَسَرَ جَفْنَ سَیْفِہِ وَشَدَّ عَلَی الْعَدُوِّ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔
(١٧٩٢٢) ابوبکر بن ابی موسیٰ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب دشمن حاضر ہوا تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا : ” جنت تلواروں کے سائے میں ہے “ ایک آدمی اٹھا وہ پراگندہ حالت میں تھا۔ اس نے کہا : اے ابو موسیٰ ! تو نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہتے ہوئے سنا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا۔ ان کو سلام کیا اور اپنی تلوار کی میان کو توڑا اور دشمن پر زور دار حملہ کیا اور شہید ہوگیا۔ [صحیح۔ مسلم)

17929

(١٧٩٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ قَالَ حُذَیْفَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ { وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] فِی النَّفَقَۃِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ النَّضْرِ بْنِ شُمَیْلٍ عَنْ شُعْبَۃَ وَقَالَ غَیْرُہُ عَنِ الأَعْمَشِ فِی ہَذَا قَالَ : ہُوَ تَرْکُ النَّفَقَۃِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٩٢٣) حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں : آیت { وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] ” اور ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ “ نفقہ (خرچ) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت اعمش (رض) فرماتے ہیں : یہ آیت فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کے بارے میں ہے۔

17930

(١٧٩٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ الصَّائِغُ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ أَبِی صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہِ { وَأَنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ } [البقرۃ ١٩٥] الآیَۃَ قَالَ یَقُولُ : لاَ یَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ لاَ أَجِدُ شَیْئًا إِنْ لَمْ یَجِدْ إِلاَّ مِشْقَصًا فَلْیَجْہَزْ بِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ { وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٢٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اللہ کے قول : { وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } [البقرۃ ١٩٥]” اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ “ کے بارے میں کہتے ہیں : ہرگز کوئی یہ نہ کہے کہ میرے پاس اللہ کے راستہ میں دینے کو کچھ نہیں۔ اگر اس پاس ایک نیزہ ہو تو اس کے ساتھ تیاری کرے { وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥]” اور ہاتھوں کو ہلاکت میں طرف مت ڈالو۔ “

17931

(١٧٩٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ عَنْ حَیْوَۃَ بْنِ شُرَیْحٍ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ حَدَّثَنِی أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ قَالَ : کُنَّا بِالْقُسْطُنْطِینَۃِ وَعَلَی أَہْلِ مِصْرَ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ وَعَلَی أَہْلِ الشَّأْمِ رَجُلٌ یُرِیدُ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ فَخَرَجَ مِنَ الْمَدِینَۃِ صَفٌّ عَظِیمٌ مِنَ الرُّومِ فَصَفَفْنَا لَہُمْ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ عَلَی الرُّومِ حَتَّی دَخَلَ فِیہِمْ ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَا فَصَاحَ النَّاسُ إِلَیْہِ فَقَالُوا : سُبْحَانَ اللَّہِ أَلْقَی بِیَدِہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ فَقَامَ أَبُو أَیُّوبَ الأَنْصَارِیُّ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَتُأَوِّلُونَ ہَذِہِ الآیَۃَ عَلَی ہَذَا التَّأْوِیلِ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِینَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ إِنَّا لَمَّا أَعَزَّ اللَّہُ دِینَہُ وَکَثُرَ نَاصِرُوہُ فَقُلْنَا فِیمَا بَیْنَنَا بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ فَلَوْ أَقْمَنَا فِیہَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْہَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یَرُدُّ عَلَیْنَا مَا ہَمَمْنَا بِہِ فَقَالَ { وَأَنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] فَکَانَتِ التَّہْلُکَۃُ فِی الإِقَامَۃِ الَّتِی أَرَدْنَا أَنْ نُقِیمَ فِی أَمْوَالِنَا نُصْلِحُہَا فَأُمِرْنَا بِالْغَزِو فَمَا زَالَ أَبُو أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ حَتَّی قَبَضَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٢٥) حضرت اسلم ابو عمران کہتے ہیں : ہم قسطنطنیہ میں تھے۔ اس وقت امیر عقبہ بن عامر تھے اور شام میں ایک اور آدمی امیر تھا جس کا نام فضالہ بن عبید تھا۔ روم سے ایک بڑا لشکر نکلا۔ ہم نے ان کے لیے صف بندی کی۔ ایک مسلمان نے رومیوں پر حملہ کیا۔ وہ ان کے پاس داخل ہوا پھر باہر آیا تو لوگ اس کو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے : اس نے خود کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ ابوایوب الانصاری (رض) کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یہ کچھ انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب دین کی عزت اور مدد گار زیادہ ہوگئے تو ہم بعض ساتھیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوشیدہ رکھ کر بات کی کہ ہمارے مال ضائع ہوگئے ہیں، اگر ہم وہاں ہوں ان کی اصلاح ہو سکے تو اللہ نے ہماری سوچ کی تریدید اس قول سے کی ہے : { وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] ” اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں مت ڈالو ! “ ہلاکت اس میں تھی جو ہم ارادہ کیا کہ اپنے اموال کی اصلاح کے لیے وہیں رہیں۔ ہمیں جہاد کا حکم دیا گیا۔ پھر ابوایوب وفات تک جہاد میں مشغول رہے۔

17932

(١٧٩٢٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَحْمِلُ عَلَی الْکَتِیبَۃِ بِالسَّیْفِ فِی أَلْفٍ مِنَ التَّہْلُکَۃِ ذَاکَ ۔ قَالَ : لاَ إِنَّمَا التَّہْلُکَۃُ أَنْ یُذْنِبَ الرَّجُلُ الذَّنْبَ ثُمَّ یُلْقِی بِیَدَیْہِ ثُمَّ یَقُولُ لاَ یُغْفِرُ لِی۔ [صحیح ]
(١٧٩٢٦) حضرت براء بن عازب (رض) سے ایک آدمی نے کہا : میں نے ایک ہزار کے لشکر پر حملہ کیا، کیا یہ ہلاکت سے ہے ؟ برائ (رض) نے کہا : نہیں ہلاکت یہ ہے کہ بندہ گناہ کرے پھر اس میں ڈوب جائے اور کہے : مجھے معاف نہیں کیا جائے گا۔

17933

(١٧٩٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ الْعَسْقَلاَنِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ { وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] قَالَ : یَقُولُ إِذَا أَذْنَبَ أَحَدُکُمْ فَلاَ یُلْقِیَنَّ بِیَدِہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ وَلاَ یَقُولَنَّ لاَ تَوْبَۃَ لِی وَلَکِنْ لِیَسْتَغْفِرِ اللَّہَ وَلْیَتُبْ إِلَیْہِ فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٢٧) حضرت نعمان بن بشیر (رض) آیت : { وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] کے بارے میں فرماتے ہیں : جب بندہ گناہ کرے تو وہ خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے اور ہرگز نہ کہے کہ مجھے معافی نہیں ہے بلکہ اس کو چاہیے وہ معافی مانگے اور اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔

17934

(١٧٩٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ : عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسٍ ہُوَ ابْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ مُدْرِکِ بْنِ عَوْفٍ الأَحْمَسِیِّ : أَنَّہُ کَانَ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرُوا رَجُلاً شَرَی نَفْسَہُ یَوْمَ نَہَاوَنْدَ فَقَالَ ذَاکَ وَاللَّہِ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ خَالِی زَعَمَ النَّاسُ أَنَّہُ أَلْقَی بِیَدَیْہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَذَبَ أُولَئِکَ بَلْ ہُوَ مِنَ الَّذِینَ اشْتَرُوْا الآخِرَۃَ بِالدُّنْیَا۔ کَذَا فِی رِوَایَۃِ یَعْلَی۔ [صحیح ]
(١٧٩٢٨) حضرت مدرک بن عوف احمسی حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ لوگوں نے ایک آدمی کا ذکر کیا جس نے نہاوند کی لڑائی کے دن اپنی جان کا سودا کیا تو مدرک نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ میرے ماموں تھے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : لوگ غلط کہتے ہیں بلکہ اس نے اپنے نفس کے بدلہ میں آخرت کا سودا کیا ہے۔

17935

(١٧٩٢٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُثْمَانَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ : لَمَّا أُخْبِرَ عُمَرُ بِقَتْلِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَقِیلَ أُصِیبَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَآخَرُونَ لاَ نَعْرِفُہُمْ قَالَ : وَلَکِنَّ اللَّہَ یَعْرِفُہُمْ قَالَ وَرَجُلٌ شَرَی نَفْسَہُ ۔ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَحْمَسَ یُقَالُ لَہُ مَالِکُ بْنُ عَوْفٍ : ذَاکَ خَالِی یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ زَعَمَ نَاسٌ أَنَّہُ أَلْقَی بِیَدِہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ فَقَالَ عُمَرُ : کَذَبَ أُولَئِکَ بَلْ ہُوَ مِنَ الَّذِینَ اشْتَرُوا الآخِرَۃَ بِالدُّنْیَا۔ قَالَ قَیْسٌ وَالْمَقْتُولُ عَوْفُ بْنُ أَبِی حَیَّۃَ وَہُوَ أَبُو شِبْلٍ قَالَ یَعْقُوبُ مَالِکٌ أَشْبَہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٢٩) حضرت حصین بن عوف کہتے ہیں : جب حضرت عمر (رض) کو نعمان بن مقرن کے قتل کی خبر دی گئی اور کہا گیا کہ کچھ دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جن کو ہم نہیں جانتے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : اللہ ان کو جانتا ہے تو حصین بن نے کہا کہ ایک آدمی نے اپنے نفس کا سودا کیا ہے۔ احمس کے ایک آدمی نے کہا جس کو مالک بن عوف کہا جاتا ہے کہ یہ میرا ماموں ہے۔ اے امیرالمومنین ! لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : لوگ غلط کہتے ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کے بدلہ آخرت کا سودا کیا ہے۔ قیس کہتے ہیں : مقتول عوف بن ابی حیضہ تھا جبکہ یعقوب کہتے ہیں : مالک زیادہ انسب ہے۔

17936

(١٧٩٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالاَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃ أَخْبَرَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ مُرَّۃَ الْہَمْدَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلٍ غَزَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَانْہَزَمَ أَصْحَابُہُ فَعَلِمَ مَا عَلَیْہِ فَرَجَعَ حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ فَیَقُولُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلاَئِکَتِہِ انْظُرُوا إِلَی عَبْدِی رَجَعَ رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ ۔ [منکر ]
(١٧٩٣٠) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کے معاملہ میں تعجب کیا۔ وہ جہاد پر گیا اس کے ساتھیوں کو شکست ہوئی وہ جان گیا اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ وہ لوٹا حتیٰ کہ اس کا خون بہا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتے ہیں : میرے بندے کو دیکھو میرے پاس جو ہے اس کی امید کی وجہ سے وہ لوٹا اور میری شفقت کی وجہ سے حتی کہ قتل کردیا گیا۔

17937

(١٧٩٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الحَافِظُ حَدَّثَنِی أَبُو أَحْمَدَ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی إِسْحَاقُ بْنُ شَاہِینَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ خَالِدٍ یَعْنِی الْحَذَّائَ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍ لَہُ یَوْمَ بَدْرٍ : أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ ہَذَا الْیَوْمِ أَبَدًا ۔ فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِیَدِہِ فَقَالَ : حَسْبُکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَی رَبِّکَ وَہُوَ فِی الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَہُوَ یَقُولُ { سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ أَدْہَی وَأَمَرُّ } [القمر ٤٥-٤٦] ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ شَاہِینَ ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٩٣١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے دن اپنے خیمے میں تھے اور کہہ رہے تھے : ” اے اللہ ! میں تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ “ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : اے اللہ کے رسول ! کافی ہوگیا۔ آپ نے اللہ کے سامنے بہت اصرار کرلیا ہے۔ وہ اس وقت ذرہ پہنے ہوئے تھے اور خیمے سے باہر آئے اور یہ آیات پڑھ رہے تھے : { سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ۔ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْہٰی وَاَمَرُّ ۔ } [القمر ٤٥-٤٦] ” عن قریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔ بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت زیادہ بڑی مصیبت اور زیادہ کڑوی ہے۔ “

17938

(١٧٩٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ إِمْلاَئً وَقِرَائَ ۃً حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ فَحَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَنِ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ ذَہَبَ لِیَنْہَضَ إِلَی الصَّخْرَۃِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ ظَاہَرَ بَیْنَ دِرْعَیْنِ فَلَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَنْہَضَ إِلَیْہَا فَجَلَسَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ تَحْتَہُ فَنَہَضَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی اسْتَوَی عَلَیْہَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَوْجَبَ طَلْحَۃُ ۔ [حسن ]
(١٧٩٣٢) حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا جب آپ چٹان پر چڑھنے کے لیے گئے اس وقت آپ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ آپ چٹان پر چڑھ نہ سکے تو حضرت طلحہ بن عبیداللہ نیچے بیٹھے۔ پھر آپ چٹان کے اوپر چڑھ گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” طلحہ نے واجب کرلیا “ یعنی جنت کو۔

17939

(١٧٩٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الرَّبِیعِ الْمَکِّیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ظَاہَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بَیْنَ دِرْعَیْنِ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٣٣) حضرت سائب بن یزید (رض) نے فرمایا ہے کہ احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمودار ہوئے۔

17940

(١٧٩٣٤) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ بَشَّارٍ الرَّمَادِیُّ أَبُو إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ وَہُوَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ قَالَ إِبْرَاہِیمُ وَجَدْتُ فِی کِتَابِی عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی تَیْمٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ظَاہَرَ بَیْنَ دِرْعَیْنِ یَوْمَ أُحُدٍ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٣٤) حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) فرماتے ہیں : احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو زرہیں پہن کر نمودار ہوئے تھے۔

17941

(١٧٩٣٥) وَرَوَاہُ بِشْرُ بْنُ السَّرِیِّ عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِیِّ فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٣٥) اس مذکورہ حدیث کو بشر بن سری نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔

17942

(١٧٩٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ زِیَادٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ الْکَرِیمِ أَنَّہُ سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْحَارِثِ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } [النساء ٩٥] عَنْ بَدْرٍ وَالْخَارِجُونَ إِلَی بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَۃُ بَدْرٍ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَحْشٍ الأَسَدِیُّ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ شُرَیْحٍ أَوْ شُرَیْحُ بْنُ مَالِکِ بْنِ رَبِیعَۃَ بْنِ ضِبَابٍ ہُوَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ إِنَّا أَعْمَیَانِ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَہَلْ لَنَا رُخْصَۃٌ فَنَزَلَتْ { لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ } { فَضَّلَ اللَّہُ الْمُجَاہِدِینَ ۔۔۔۔ عَلَی الْقَاعِدِینَ دَرَجَۃً } فَہَؤُلاَئِ الْقَاعِدُونَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ { وَفَضَّلَ اللَّہُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَجْرًا عَظِیمًا دَرَجَاتٍ مِنْہُ } [النساء ٩٥-٩٦] عَلَی الْقَاعِدِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ ۔ أَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ أَوَّلَ الْحَدِیثِ دُونَ سِیَاقَتِہِ مِنْ وَجْہَیْنِ آخَرَیْنَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَبَیِّنٌ إِذْ وَعَدَ اللَّہُ الْقَاعِدِینَ غَیْرَ أُولِی الضَّرَرِ الْحُسْنَی أَنَّہُمْ لاَ یَأْثَمُونَ بِالتَّخَلُّفِ وَأَبَانَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ فِی قَوْلِہِ فِی النَّفِیرِ حِینَ أَمَرَ بِالنَّفِیرِ { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً } [التوبۃ ٤١] وَقَالَ {إِلاَّ تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا } [التوبۃ ٣٩] وَقَالَ { وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا کَافَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِنْہُمْ طَائِفَۃٌ} [التوبۃ ١٢٢] فَأَعْلَمَہُمْ أَنَّ فَرْضَہُ الْجِہَادَ عَلَی الْکِفَایَۃِ مِنَ الْمُجَاہِدِینَ وَأَبَانَ أَنْ لَوْ تَخَلَّفُوا مَعًا أَثِمُوا مَعًا بِالتَّخَلُّفِ لِقَوْلِہِ تَعَالَی {إِلاَّ تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا } [التوبۃ ٣٩]
(١٧٩٣٦) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : آیت { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ } [النساء ٩٥] ایمان والوں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہیں بدر میں جانے والے اور نہ جانے والے افراد کے بارے میں ہے جب غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا تو عبداللہ بن جحش اسعدی، عبداللہ بن شریح یا شریح بن مالک بن ربیعہ بن خباب وہ ابن ام مکتوم (رض) ہیں۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نابینا ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے تو یہ آیت نازل ہوئی : { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ }{ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً } مومنوں میں بیٹھ رہنے والے بغیر عذر کے جانے والوں کے برابر نہیں ہے اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ میں فضیلت دی ہے۔ یہ وہ بیٹھ رہنے والے ہیں جن کا کوئی عذر نہیں ہے : { فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰھِدِیْنَ عَلَی لْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ۔ } { دَرَجٰتٍ مِّنْہُ } [النساء ٩٥-٩٦] ” اللہ نے مجاہدین کو اجر عظیم دے کر بیٹھنے والوں پر فضیلت دی ہے “ ان بیٹھنے والوں پر جو بغیر عذر کے بیٹھ رہتے ہیں۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہ واضح ہے کہ جب اللہ نے بغیر تکلیف کے بیٹھنے والوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہیں، پیچھے رہنے کی وجہ سے۔ اللہ نے نکلنے کے بارے میں اپنے اس قول میں واضح کیا جب نکلنے کا حکم دیا { اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا } [التوبۃ ٤١] ” نکلو ہلکے اور بوجھل “ اور فرمایا : { اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [التوبۃ ٣٩] ” اگر تم نہ نکلو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ “ اور فرمایا : { وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ } [التوبۃ ١٢٢] ” اور ممکن نہیں ہے کہ مومن سب کے سب نکل جائیں۔ سو ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ کیوں نہ نکلے۔ “ اللہ نے یہاں بتایا ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے اور واضح کردیا کہ اگر سب کے سب یک بارگی پیچھے رہیں تو سب گناہ گار ہوں گے پیچھے رہنے کی وجہ سے۔ اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں { اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [التوبۃ ٣٩] ” اگر تم نہ نکلو تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ “

17943

(١٧٩٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ یَزِیدَ النَّحْوِیِّ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ {إِلاَّ تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا } [التوبۃ ٣٩] { وَمَا کَانَ لأَہْلِ الْمَدِینَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُمْ مِنَ الأَعْرَابِ أَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّہِ } إِلَی قَوْلِہِ { یَعْمَلُونَ } [التوبۃ ١٢٠۔ ١٢١] نَسَخَتْہَا الآیَۃُ الَّتِی تَلِیہَا { وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا کَافَّۃً } [التوبۃ : ١٢٢] ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٣٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آیت : { اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [التوبۃ ٣٩]” اگر تم نہ نکلو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ “ اور یہ فرمایا : { مَا کَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَ مَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِاَنْ یَّتَخَلَّوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہ } { یَعْمَلُوْنَ ۔ } تک [التوبۃ ١٢٠۔ ١٢١] ” مدینہ والوں کا اور ان کے اردگرد جو دیہاتی ہیں ان کا حق نہ تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہتے۔ “ ان دونوں آیات کو آئندہ آنے والی آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ وہ یہ ہے : { وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ } [التوبۃ ١٢٢]” اور ممکن نہیں ہے کہ مومن سب کے سب نکل جائیں سو ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ کیوں نہ نکلے “

17944

(١٧٩٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی { خُذُوا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ } [النساء ٧١] عُصَبًا { أَوِ انْفِرُوا جَمِیعًا } [النساء ٧١] وَقَالَ { انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً } [التوبۃ ٤١] وَقَالَ {إِلاَّ تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا } [التوبۃ ١٢٢] ثُمَّ نَسَخَ ہَذِہِ الآیَاتِ فَقَالَ { وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا کَافَّۃً } [التوبۃ ١٢٢] قَالَ فَتَغْزُو طَائِفَۃٌ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَتُقِیمُ طَائِفَۃٌ قَالَ فَالْمَاکِثُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہُمُ الَّذِینَ یَتَفَقَّہُونَ فِی الدِّینِ وَیُنْذِرُونَ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہِمْ مِنَ الْغَزْوِ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنْ کِتَابِہِ وَفَرَائِضِہِ وَحُدُودِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٣٨) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ } [النساء ٧١] ” اے ایمان والو ! اپنے بچاؤ کا سامان پکڑو۔ پھر دستوں کی صورت میں نکلو۔ “ ابن عباس کہتے ہیں : ثبات کا معنی جماعت ہے اے ایمان والو ! { اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا ۔ } [النساء ٧١]” یا اکٹھے ہو کر نکلو۔ “ اور فرمایا { اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا } [التوبۃ ٤١] ” نکلو ہلکے اور بوجھل “ اور فرمایا : { اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [التوبۃ ٣٩] ” اگر تم نہ نکلو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ “ پھر ان آیات کو منسوخ کردیا اور فرمایا : { وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا } [التوبۃ ١٢٢] ” اور ممکن نہیں ہے کہ مومن سب کے سب نکل جائیں “ اور فرمایا : ایک گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ محاذ پر اور ایک پیچھے رہتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے والے دین کی سمجھ رکھنے والے ہیں اور وہ قوم کو ڈراتے ہیں جب ان کے پاس آتے ہیں تاکہ وہ ڈرتے رہیں اس بارے میں جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ یہ فرائض اور حدود کے معاملہ میں ہے۔

17945

(١٧٩٣٩) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی رَجُلٌ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَہُ فِی أَہْلِہِ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَأَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٧٩٣٩) حضرت زید بن خالد جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے ایک غازی کو تیار کیا اللہ کے راستہ کے لیے گویا اس نے خود جہاد کیا اور جو غازی کے گھر کا قائم مقام بنا بھلائی کے ساتھ گویا اس نے بھی جہاد کیا۔

17946

(١٧٩٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ مَوْلَی الْمَہْرِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ إِلَی بَنِی لِحْیَانَ وَقَالَ : لِیَخْرُجْ مِنْ کُلِّ رَجُلَیْنِ رَجُلٌ ۔ ثُمَّ قَالَ لِلْقَاعِدِ : أَیُّکُمْ خَلَفَ الْخَارِجَ فِی أَہْلِہِ وَمَالِہِ بِخَیْرٍ کَانَ لَہُ مِثْلُ نِصْفِ أَجْرِ الْخَارِجِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩٤٠) ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو لحیان کی طرف وفد بھیجا اور فرمایا : ” ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی نکلے۔ “ پھر قاعدین (بیٹھنے والوں) سے کہا : جو بھی جہاد پر جانے والے کا قائم مقام بنے اس کے گھر بار میں بھلائی سے تو اس کو جہاد پر جانے والے کے اجر کے آدھے کے برابر اجر دیا جاتا ہے۔

17947

(١٧٩٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَلِیمٍ بِمَرْوٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُوَجِّہِ أَخْبَرَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا وُہَیْبُ بْنُ الْوَرْدِ أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ سُمَیٍّ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ نَفْسَہُ بِغَزْوٍ مَاتَ عَلَی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَہْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُبَارَکِ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩٤١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو جہاد کیے بغیر مرگیا اور اس کے دل میں جہاد کی خواہش بھی پیدا نہیں ہوئی وہ نفاق کی ایک نشانی پر مرے گا۔

17948

(١٧٩٤٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَقَرَأْتُہُ عَلَی یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ رَبِّہِ الْجُرْجُسِیِّ قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْقَاسِمِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ لَمْ یَغْزُ أَوْ لَمْ یُجَہِّزْ غَازِیًا أَوْ یَخْلُفْ غَازِیًا فِی أَہْلِہِ بِخَیْرٍ أَصَابَہُ اللَّہُ بِقَارِعَۃٍ ۔ قَالَ یَزِیدُ فِی حَدِیثِہِ : قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ [حسن ]
(١٧٩٤٢) حضرت ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے جہاد نہ کیا اور نہ غازی کو تیار کیا اور مجاہد کے گھر کا قائم مقام نہ بنا بھلائی کے ساتھ اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کرے گا۔ یزید کہتے ہیں : یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔

17949

(١٧٩٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِیُّ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَالِدٍ الْحَنَفِیُّ حَدَّثَنَا نَجْدَۃُ بْنُ نُفَیْعٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اسْتَنْفَرَ حَیًّا مِنَ الْعَرَبِ فَتَثَاقَلُوا فَنَزَلَتْ {إِلاَّ تَنْفِرُوا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا أَلِیمًا } [التوبۃ ٣٩] قَالَ : کَانَ عَذَابَہُمْ حَبْسُ الْمَطَرِ عَنْہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٤٣) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قبیلہ کے لوگوں کو جہاد پر جانے کا کہا تو وہ بوجھل ہوئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا } [التوبۃ ٣٩] ” اگر تم نہ نکلو تو تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ “ اور فرمایا : عذاب کی شکل یہ کہ ان سے بارش کو روک دیا جاتا ہے۔

17950

(١٧٩٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْجِہَادَ فَلَمْ یُفَضِّلْ عَلَیْہِ شَیْئًا إِلاَّ الْمَکْتُوبَۃَ ۔ (ق) ہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُ فَرْضٌ عَلَی الْکِفَایَۃِ حَیْثُ فَضَّلَ عَلَیْہِ الْمَکْتُوبَۃَ بِعَیْنِہَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح۔ الطیالسی ]
(١٧٩٤٤) حضرت ابو قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور اس میں جہاد کا ذکر کیا اور فرض کے علاوہ کسی چیز کو اس پر افضل قرار نہیں دیا۔ یہ اس کی دلیل ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے کیونکہ اس کو فرض میں سے درجہ میں کم رکھا گیا ہے۔

17951

(١٧٩٤٥) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الْفَرَّائُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْغَزْوِ ؟ قَالَ : فَکَتَبَ إِلَیَّ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُغْزِی وَلَدَہُ وَیَحْمِلُ عَلَی الظَّہْرِ وَمَا أَقْعَدَہُ عَنِ الْغَزْوِ إِلاَّ وَصَایَا عُمَرَ وَصِبْیَانٌ صِغَارٌ وَإِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَرَی الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَفْضَلَ الأَعْمَالِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ ۔ [حسن ]
(١٧٩٤٥) حضرت عبداللہ بن عون نے نافع کو لکھا کہ ابن عمر (رض) غزوات میں کیوں نہ گئے تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ ان کے بیٹے جہاد پر جاتے اور وہ ان کے بعد ذمہ داری ادا کرتے تھے اور وہ حضرت عمر (رض) کی وصیت کی وجہ سے پیچھے رہتے تھے کیونکہ ان کے بچے چھوٹے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) جہاد فی سبیل اللہ کو نماز فرض کے علاوہ باقی تمام اعمال سے افضل قرار دیتے تھے۔

17952

(١٧٩٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الْجُدِّیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ خَالِدٍ الْخُزَاعِیُّ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی رَافِعٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَفَعَہُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ قَالَ : یُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَۃِ إِذَا مَرُّوا أَنْ یُسَلِّمَ أَحَدُہُمْ وَیُجْزِئُ عَنِ الْجُلُوسِ أَنْ یَرُدَّ أَحَدُہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٤٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں، جبکہ امام ابو داؤد کہتے ہیں : حسن بن علی نے اس کو بیان کیا ہے کہ جماعت کی طرف سے ایک آدمی کا سلام کہنا کافی ہے اور بیٹھنے والوں میں سے بھی ایک کا جواب کافی ہے۔

17953

(١٧٩٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی أَخْبَرَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی نَفْسَہُ وَمَالَہُ إِلاَّ بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِیُّ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٤٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے جہاد کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ پڑھ لیں اور جس نے کلمہ پڑھ لیا۔ اس نے اپنا مال جان ہم سے بچا لیا ہے مگر اسلام کے حقوق کی ادائیگی میں اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ “

17954

(١٧٩٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُغِیرَۃَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ مُحَرِّرِ بْنِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنْتُ مَعَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَیْثُ بَعَثَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِبَرَائَ ۃَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ وَکُنْتُ أَنَادِی حَتَّی صَحَلَ صَوْتِی قُلْتُ : یَا أَبِی بِأَیِّ شَیْئٍ کُنْتَ تُنَادِی ؟ قَالَ : أُمِرْنَا أَنْ نُنَادِیَ أَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَمَنْ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَہْدٌ فَأَجَلُہُ إِلَی أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِذَا مَضَتِ الأَرْبَعَۃُ أَشْہُرٍ فَإِنَّ اللَّہَ بَرِیئٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَطُوفُ بِالْکَعْبَۃِ عُرْیَانٌ وَلاَ یَطُوفَنَّ بِالْکَعْبَۃِ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ أَوْ بَعْدَ الْیَوْمِ مُشْرِکٌ۔ [صحیح ]
(١٧٩٤٨) محرز بن ابی ہریرہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو مشرکین سے برأت کے اعلان کے لیے بھیجا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور میں اعلان کرتا تھا حتی کہ میری آواز بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے والد سے کہا : ابو کسی چیز کا اعلان کر رہے ہو ؟ تو انھوں نے کہا : ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اعلان کریں کہ جنت میں صرف مومن جائیں گے اور جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معاہدہ ہے اس کی مدت چار ماہ ہے۔ جب چار ماہ گزر جائیں گے تو اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں اور اب کوئی بیت اللہ کا طواف ننگی حالت میں نہ کرے گا اور نہ کوئی مشرک اس سال کے بعد طواف کرے گا یا کہا : آج کے دن کے بعد کوئی مشرک طواف نہیں کرے گا۔

17955

(١٧٩٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ بْنِ خَالِدٍ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ أَوْصَاہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللَّہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا ثُمَّ قَالَ : اغْزُوا بِاسْمِ اللَّہِ وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ قَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ اغْزُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تُمَثِّلُوا وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِیدًا وإِذَا لَقِیتَ عَدُوَّکَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَادْعُہُمْ إِلَی إِحْدَی ثَلاَثِ خِصَالٍ أَوْ خِلاَلٍ فَأَیَّتُہُمْ مَا أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمْ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ فِإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَکُفَّ عَنْہُمَ ثُمَّ ادْعُہُمْ مِنَ التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ وَأَخْبِرْہُمْ إِنْ ہُمْ فَعَلُوا ذَلِکَ فَلَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا أَنْ یتَحَوَّلُوا مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّہُمْ یَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللَّہِ الَّذِی یَجْرِی عَلَی الْعَرَبِ وَلاَ یَکُونُ لَہُمْ مِنَ الْفَیْئِ وَلاَ مِنَ الْغَنِیمَۃِ شَیْئٌ إِلاَّ أَنْ یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ فَإِنْ أَبَوْا فَسَلْہُمْ إِعْطَائَ الْجِزْیَۃِ فَإِنْ فَعَلُوا فَکُفَّ عَنْہُمْ فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّہِ وَقَاتِلْہُمْ ۔ وَذَکَرَ بَاقِیَ الْحَدِیثَ وَتَمَامُ الْحَدِیثِ یَرِدُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩٤٩) حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لشکر پر امیر بناتے تھے تو اس کو تقویٰ کی نصیحت کرتے اور مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتے اور پھر کہا : ” اس کا نام لے کر جہاد کرو اور اس کے راستہ میں لڑائی کرو۔ جو اللہ کے انکاری ہوں ان سے لڑائی کرو، ان کو قتل کرو، دھوکا نہ دو ، غداری نہ کرو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو۔ جب دشمن سے ملو تو ان کو تین شرائط میں سے کسی ایک کے قبول کرنے کی دعوت دیں۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو قبول کرلیں تو قبول کرو اور اپنا ہاتھ ان سے روک لو۔ ان کو اسلام کی دعوت دو اگر قبول کریں تو تم قبول کرو اور ان سے رک جاؤ۔ پھر ان کو اپنے گھروں سے مہاجرین کے گھروں کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دیں اور ان کو بتائیں کہ اگر وہ اس طرح کریں گے تو ان کو وہ ملے گا جو مہاجرین کو ملے گا اور ان کی ذمہ داری وہی ہوگی جو مہاجرین کی ہے۔ اگر وہ اپنے گھروں سے مہاجرین کی طرف منتقل نہ ہونا چاہیں تو ان کو بتاؤ کہ ان کی حیثیت دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوگی۔ اللہ کے احکامات ان پر جاری کیے جائیں گے جو دیہاتیوں پر جاری ہوتے ہیں۔ ان کو مال فیٔ اور مال غنیمت سے کچھ ان کو نہیں ملے گا۔ ہاں اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد پر جائیں۔ اگر اس کا انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کریں۔ اگر وہ جزیہ دیں تو اپنا ہاتھ ان سے روک لیں۔ اگر اس کو بھی نہ مانیں تو اللہ سے ان کے مقابلہ میں مدد طلب کریں اور ان سے قتال کریں۔

17956

(١٧٩٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِیرٍ عَنْ أَبِی مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِی قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ حُنَیْنٍ : مَنْ أَقَامَ بَیِّنَۃً عَلَی قَتِیلٍ فَلَہُ سَلَبُہُ ۔ فَقُمْتُ لأَلْتَمِسَ بَیِّنَۃً عَلَی قَتِیلِی فَلَمْ أَرَ أَحَدًا یَشْہَدُ لِی فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِی فَذَکَرْتُ أَمْرَہُ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِہِ : سِلاَحُ ہَذَا الْقَتِیلِ الَّذِی یَذْکُرُ عِنْدِی قَالَ فَأَرْضِہِ مِنْہُ ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : کَلاَّ لاَ یُعْطِہِ أُصَیْبَغَ مِنْ قُرَیْشٍ وَیَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّہِ یُقَاتِلُ عَنِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ ۔ قَالَ : فَعَلِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَدَّاہُ إِلَیَّ فَاشْتَرَیْتُ مِنْہُ خِرَافًا فَکَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُہُ ۔ وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو فِی رِوَایَتِہِ : فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَدَّاہُ إِلَیَّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ عَلَی اللَّفْظِ الأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ الْبُخَارِیُّ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ عَنِ اللَّیْثِ : فَقَامَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَدَّاہُ إِلَیَّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٥٠) ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حنین کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو مقتول کے بارے میں دلیل دے دے کہ اس نے قتل کیا ہے تو اس سے لیا گیا مال قاتل کا ہوگا۔ “ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے جن کو قتل کیا تھا ان پر گواہی تلاش کررہا تھا۔ مجھے کوئی نہ ملا جو میرے حق میں گواہی دے۔ میں بیٹھ گیا پھر معاملہ مجھ پر کھل گیا۔ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذکر کیا تو ایک آدمی نے مجلس میں سے کہا کہ اس مقتول کا اسلحہ میرے پاس ہے تو آپ نے فرمایا : اس کو اس معاملہ میں راضی کرو۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا : اس کو بکری کا چھوٹا بچہ بھی قریش کی طرف سے نہیں دیا جائے گا اور اس نے اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑا جو اللہ اور اس کے لیے لڑتا تھا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب علم ہو تو اس کو میری طرف ادا کردیا تو میں اس سے خرید لیا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے اپنے لیے جمع کیا ہے۔ ابو عمرو اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھے اور مال مجھے دے دیا۔

17957

(١٧٩٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ : مَعْلُومٌ عِنْدَ غَیْرِ وَاحِدٍ مِمَّنْ لَقِیتُ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالرِّدَۃِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ إِنَّمَا الْغَنِیمَۃُ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ۔ [صحیح۔ شافعی ]
(١٧٩٥١) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : جن اہل علم سے میں ملا ہوں ان میں سے اکثر سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ابوبکر (رض) نے فرمایا : غنیمت اس کے لیے جو واقعہ میں حاضر ہوا۔

17958

(١٧٩٥٢) وَبِہَذَا الإِسْنَادِ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ حِکَایَۃً عَنْ أَبِی یُوسُفَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ عِکْرِمَۃَ بْنَ أَبِی جَہْلٍ فِی خَمْسَمِائَۃٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مَدَدًا لِزِیَادِ بْنِ لَبِیدٍ وَلِلْمُہَاجِرِ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ فَوَافَقَہُمُ الْجُنْدُ قَدِ افْتَتَحُوا النُّجَیْرَ بِالْیَمَنِ فَأَشْرَکَہُمْ زِیَادُ بْنُ لَبِیدٍ وَہُوَ مِمَّنْ شَہِدَ بَدْرًا فِی الْغَنِیمَۃِ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَإِنَّ زِیَادًا کَتَبَ فِیہِ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَتَبَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّمَا الْغَنِیمَۃُ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ وَلَمْ یَرَ لِعِکْرَمَۃَ شَیْئًا لأَنَّہُ لَمْ یَشْہَدِ الْوَقْعَۃَ فَکَلَّمَ زِیَادٌ أَصْحَابَہُ فَطَابُوا أَنْفَسًا بِأَنْ أَشْرَکُوا عِکْرِمَۃَ وَأَصْحَابَہُ مُتَطَوِّعِینَ عَلَیْہِمْ وَہَذَا قَوْلُنَا۔
(١٧٩٥٢) حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) کو زیاد بن لبید اور مہاجر بن ابی امیہ کی مدد کے لیے پانچ سو مسلمانوں کے ساتھ روانہ کیا۔ ان کو لشکر ملا وہ یمن میں نجیر کے علاقہ کو فتح کرچکے تھے تو زیاد بن لبید نے ان کو مال غنیمت میں شامل کیا وہ بدر کی غنیمت میں شامل ہونے والوں میں سے تھے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : زیاد نے یہ معاملہ ابوبکر (رض) کو لکھا تو حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیا کہ غنیمت اس کے لیے ہے جو واقعہ میں موجود تھا۔ وہ عکرمہ کے لیے غنیمت سے کچھ حصہ خیال نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ واقعہ میں موجود نہیں تھے تو زیاد نے اپنے ساتھیوں سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے دل کی خوشی سے ان کو شریک کرنے کا کہا رضاکارانہ طور پر۔

17959

(١٧٩٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ طَارِقَ بْنَ شِہَابٍ یَقُولُ : إِنَّ أَہْلَ الْبَصْرَۃِ غَزَوْا أَہْلَ نَہَاوَنْدَ فَأَمَدُّوہُمْ بِأَہْلِ الْکُوفَۃِ وَعَلَیْہِمْ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَقَدِمُوا عَلَیْہِمْ بَعْدَ مَا ظَہَرُوا عَلَی الْعَدُوِّ فَطَلَبَ أَہْلُ الْکُوفَۃِ الْغَنِیمَۃَ وَأَرَادَ أَہْلُ الْبَصْرَۃِ أَنْ لاَ یَقْسِمُوا لأَہْلِ الْکُوفَۃِ مِنَ الْغَنِیمَۃِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ لِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ : أَیُّہَا الأَجْدَعُ تُرِیدُ أَنْ تُشَارِکَنَا فِی غَنَائِمِنَا۔ قَالَ : وَکَانَتْ أُذُنُ عَمَّارٍ جُدِعَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَکَتَبُوا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَتَبَ إِلَیْہِمْ عُمَرُ إِنَّ الْغَنِیمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٥٣) طارق بن شہاب کہتے ہیں : اہل بصر نے اہل نہاوند سے جنگ لڑی۔ ان کو اہل کوفہ کے ذریعہ مدد ملی اور ان پر امیر عمار بن یاسر (رض) تھے۔ دشمن پر غلبہ پانے کے بعد وہ عمار کے پاس آئے اور اہل کوفہ نے غنیمت کا مال طلب کیا جبکہ بصرہ والے اہل کوفہ کو مال غنیمت سے حصہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ بنو تمیم کے ایک آدمی نے عمار بن یاسر (رض) سے کہا : کیا آپ ہمیں بھی غنیمت کے مال میں شریک کریں گے ؟ عمار (رض) کے کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں کاٹ دیے گئے تھے تو انھوں نے حضرت عمر (رض) کی طرف لکھا تو حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ غنیمت اس کی ہے جو واقعہ میں موجود ہو۔

17960

(١٧٩٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ الأَحْمَسِیُّ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّ الْغَنِیمَۃَ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ۔ ہَذَا ہُوَ الصَّحِیحُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٥٤) طارق بن شہاب احمسی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے لکھا کہ غنیمت میں اس کا حصہ ہے جو واقعہ میں شریک ہو۔

17961

(١٧٩٥٥) وَأَمَّا الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ حِکَایَۃً عَنْ أَبِی یُوسُفَ عَنِ الْمُجَالِدِ عَنْ عَامِرٍ وَزِیَادِ بْنِ عِلاَقَۃَ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلَی سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ قَدْ أَمْدَدْتُکَ بِقَوْمٍ فَمَنْ أَتَاکَ مِنْہُمْ قَبْلَ أَنْ تَتَفَقَّأَ الْقَتْلَی فَأَشْرِکْہُ فِی الْغَنِیمَۃِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَہَذَا غَیْرُ ثَابِتٍ عَنْ عُمَرَ وَلَوْ ثَبَتَ عَنْہُ کُنَّا أَسْرَعَ إِلَی قَبُولِہِ مِنْہُ ثُمَّ ذَکَرَ مُخَالَفَۃَ أَبِی یُوسُفَ حَدِیثَ عُمَرَ ہَذَا۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَہُوَ مُنْقَطِعٌ وَرَاوِیہِ مُجَالِدٌ وَہُوَ ضَعِیفٌ وَحَدِیثُ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ إِسْنَادُہُ صَحِیحٌ لاَ شَکَّ فِیہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - شَیْئٌ یَثْبُتُ فِی مَعْنَی مَا رُوِیَ عَنْ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا لاَ یَحْضُرْنِی حَفِظُہُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : إِنَّمَا أَرَادَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ حَدِیثَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِی قِصَّۃِ أَبَانَ بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ حِینَ قَدِمَ مَعَ أَصْحَابِہِ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِخَیْبَرَ بَعْدَ أَنْ فَتَحَہَا فَلَمْ یَقْسِمْ لَہُمْ وَقَدْ مَضَی ذَلِکَ بِأَسَانِیدِہِ مَعَ سَائِرِ مَا رُوِیَ فِی ہَذَا الْبَابِ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٥٥) حضرت عمر (رض) نے سعد بن ابی وقاص کو لکھا : آپ کی مدد کے لیے کچھ لوگ بھیج رہا ہوں۔ ان میں سے جو مقتولین کے اکھڑنے سے پہلے پہنچ جائیں ان کو غنیمت میں شریک کرو۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہ حضرت عمر (رض) سے ثابت نہیں ہے۔ اگر ثابت ہوجائے تو ہم جلدی قبول کریں گے۔ پھر ابو یوسف کی مخالفت ذکر کی ہے جو عمر (رض) کی اس حدیث کے ساتھ ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : یہ منقطع ہے، اس کا راوی مجالد ضعیف ہے۔ طارق بن شہاب والی حدیث کی سند صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس میں کچھ ثابت ہے جو ابوبکر و عمر (رض) سے منقول روایت کے موافق ہے مگر مجھے اچھی طرح یاد نہیں تھا۔
شیخ فرماتے ہیں : شاید ان کی مراد ابوہریرہ کی حدیث ہے جس میں ابان بن سعید بن عاص کا واقعہ ہے۔ جب ان کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ خیبر کو فتح کرچکے ۔ تھے آپ نے ان کو حصہ نہیں دیا۔ یہ پہلے کتاب القسم میں گزر گیا ہے اور جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے۔

17962

(١٧٩٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قِرَائَ ۃً حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا حُصَیْنُ بْنُ مُخَارِقٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ بَخْتَرِیٍّ الْعَبْدِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : الْغَنِیمَۃُ لِمَنْ شَہِدَ الْوَقْعَۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٥٦) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں۔ غنیمت کا مال اس کا ہے جو واقعہ میں موجود ہو۔

17963

(١٧٩٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ بُرَیْدِ بْنِ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ حُنَیْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَی جَیْشٍ إِلَی أَوْطَاسٍ فَلَقِیَ دُرَیْدَ بْنِ الصِّمَّۃِ فَقُتِلَ دُرَیْدٌ وَہَزَمَ اللَّہُ أَصْحَابَہُ ۔ وَذَکَرَ بَاقِیَ الْحَدِیثِ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : أَبُو عَامِرٍ کَانَ فِی جَیْشِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ بِحُنَیْنٍ فَبَعَثَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی اتِّبَاعِہِمْ وَہَذَا جَیْشٌ وَاحِدٌ کُلُّ فِرْقَۃٍ مِنْہُ رِدْئٌ لِلأُخْرَی وَإِذَا کَانَ الْجَیْشُ ہَکَذَا فَلَوْ أَصَابَ الْجَیْشُ شَیْئًا دُونَ السَّرِیَّۃِ أَوِ السَّرِیَّۃُ شَیْئًا دُونَ الْجَیْشِ کَانُوا فِیہِ شُرَکَائَ ۔
(١٧٩٥٧) حضرت ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو آپ نے ابو عامر کو ایک دستے کا امیر بنا کر اوطاس کی جانب روانہ کیا درید بن صبہ کی طرف۔ انھوں نے اس کو پایا اور وہ قتل ہوا۔ اللہ نے اس کے ساتھیوں کو شکست دی۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : ابو عامر حنین کی جنگ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر میں تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے کچھ پیروکاروں کے ساتھ بھیجا۔ یہ ایک لشکر تھا۔ ہر گروہ دوسرے کا مددگار تھا۔ جب لشکر کی یہ حیثیت ہو تو جس کو بھی غنیمت ملے تو لشکر اور علیحدہ گروہ دونوں اس میں شریک ہوں گے۔

17964

(١٧٩٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ الْفَتْحِ فَقَالَ فِیہِ : وَالْمُسْلِمُونَ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ یَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ یَرُدُّ عَلَیْہِمْ أَقْصَاہُمْ تَرُدُّ سَرَایَاہُمْ عَلَی قَعَدَتِہِمْ ۔ وَرَوَاہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ عَمْرٍو فَقَالَ : یَرُدُّ مُشِدُّہُمْ عَلَی مُضْعِفِہِمْ وَمُتَسَرِّعِہِمْ عَلَی قَاعِدِہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٥٨) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح کے موقع پر خطبہ میں کہا تھا : ” مسلمانوں کو دوسروں پر فوقیت ہے اور مسلمانوں میں سے کمزور ترین آدمی کی ضمان کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ دور والوں کو ان پر لوٹایا جائے گا اور فوجی دفاعی دستوں کو ان کے بیٹھنے کی جگہ پر لوٹایا جائے گا۔ عمرو کی روایت میں ہے کہ عقل مندوں کو کمزوروں پر لوٹایا جائے گا اور سبقت لے جانے والوں کو بیٹھنے والوں پر لوٹایا جائے گا۔

17965

(١٧٩٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَسْہَمَ لِلرَّجُلِ وَلِفَرَسِہِ ثَلاَثَۃَ أَسْہُمٍ سَہْمًا لَہُ وَسَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عُبَیْدِ اللَّہِ کَمَا مَضَی فِی کِتَابِ الْقَسْمِ وَقَدْ مَضَتِ سَائِرُ الأَخْبَارِ فِی ہَذَا الْبَابِ فِیہِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٥٩) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی اور گھوڑے کے لیے تین حصہ مقرر کیے : ایک آدمی کے لیے اور دو گھوڑے کے لیے۔

17966

(١٧٩٦٠) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ شَرِیکٍ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ الْعَبْدِیِّ عَنْ کُلْثُومِ بْنِ الأَقْمَرِ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ عَرَّبَ الْعِرَابَ رَجُلٌ مِنَّا یُقَالُ لَہُ مُنَیْذِرٌ الْوَادِعِیُّ کَانَ عَامِلاً لِعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی بَعْضِ الشَّامِ فَطَلَبَ الْعَدُوَّ فَلَحِقَتِ الْخَیْلُ وَتَقَطَّعَتِ الْبَرَاذِینُ فَأَسْہَمَ لِلْخَیْلِ وَتَرَکَ الْبَرَاذَیْنَ وَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ نِعِمَّا رَأَیْتَ فَصَارَتْ سُنَّۃً ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ ۔ ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِی نَذْہَبُ إِلَیْہِ مِنْ ہَذَا تَسْوِیَۃٌ بَیْنَ الْخَیْلِ وَالْعِرَابِ وَالْبَرَاذِینِ وَالْمَقَارِیفِ وَلَوْ کُنَّا نُثْبِتُ مِثْلَ ہَذَا مَا خَالَفْنَاہُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٦٠) کلثوم بن اقمر فرماتے ہیں : ہمارے اندر گھوڑوں کی تعریب کرنے والا پہلا شخص منیذر وداعی تھا۔ یہ حضرت عمر (رض) کی طرف سے شام کے بعض علاقوں کا امیر تھا۔ اس نے دشمن کو تلاش کیا۔ گھوڑے مل گئے اور غیر عربی گھوڑے بےبس ہوگئے۔ اس نے گھوڑوں کے لیے حصہ مقرر کیا اور غیر عربی گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور حضرت عمر (رض) کو لکھا تو حضرت نے جواب دیا کہ تیرا خیال اچھا ہے تو یہ طریقہ بن گیا۔ امام شافعی کہتے ہیں : اس بارے میں ہمارا خیال ہے کہ عربی غیر عربی گھوڑوں کو اور جس گھوڑے کی ماں عربی اور باپ غیر عربی یا اس کے الٹ ہو سب کو برابر رکھا جائے گا اور اگر ہم اس طرح برقرار رکھتے تو ہم مخالفت نہ کرتے۔

17967

(١٧٩٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا ہَنْبَلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْحِمْصِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِی أَحْمَدَ الْجُرْجَانِیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ جَارِیَۃَ عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَرَّبَ الْعَرَبِیَّ وَہَجَّنَ الْہَجِینَ ۔ کَذَا رَوَاہُ أَحْمَدُ بْنُ أَبِی أَحْمَدَ الْجُرْجَانِیُّ سَاکِنُ حِمْصَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ خَالِدٍ مَوْصُولاً ۔ وَرَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَجَمَاعَۃٌ عَنْ حَمَّادٍ مُنْقَطِعًا وَکَذَلِکَ رَوَاہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ وَزَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِی بِشْرٍ وَہُوَ الْعَلاَئُ عَنْ مَکْحُولٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَجَّنَ الْہَجَیْنَ یَوْمَ خَیْبَرَ وَعَرَّبَ الْعَرَبِیَّ لِلْعَرَبِیِّ سَہْمَانِ وَلِلْہَجَیْنِ سَہْمٌ۔ وَہَذَا مُنْقَطِعٌ وَلاَ تَقُومُ بِہِ الْحُجَّۃُ ۔ [منکر ]
(١٧٩٦١) حبیب بن مسلمہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربی کو عربی النسل قرار دیا اور حقیر کو حقیر سمجھا اور مکحول سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن دوغلی نسل کے گھوڑے کو حقیر قرار دیا اور عربی گھوڑے کو عربی کے لیے اور عربی گھوڑے کو دو حصے اور دوغلے کو ایک حصہ دیا۔

17968

(١٧٩٦٢) وَقَدْ رُوِیَ فِیہِ حَدِیثٌ آخَرُ مُسْنَدٌ بِإِسْنَادٍ ضَعِیفٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ یَعْقُوبَ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو بِلاَلٍ الأَشْعَرِیُّ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ صَدَقَۃَ عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ عَنِ الْبَہِیِّ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمْ یُعْطِ الْکَوْدَنَ شَیْئًا وَأَعْطَی دُونَ سَہْمِ الْعِرَابَ ۔ وَالْکَودَنُ الْبِرْذَوْنُ الْبَطِیئُ ۔ أَبُو بِلاَلٍ الأَشْعَرِیُّ لاَ یُحْتَجُّ بِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٦٢) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوغلی نسل کے گھوڑوں کو کچھ نہیں دیا اور اس کو خالص عربی النسل گھوڑے سے کم دیا دوغلی نسل کا گھوڑا البرذون البطیٔ ہے۔

17969

(١٧٩٦٣) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی السَّفَرِ وَحُصَیْنٌ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : الْخَیْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِی الْخَیْلِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ ۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ وَقَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ فَذَکَرَہُ ۔ وَفِیہِ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّہُ عَلَّقَ الْمَغْنَمَ بِجِنْسِ الْخَیْلِ وَالْبَرَاذِینُ مِنْ جُمْلَۃِ الْخَیْلِ ۔ وَرُوِّینَا عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ الْبَرَاذِینِ ہَلْ فِیہَا صَدَقَۃٌ فَقَالَ وَہَلْ فِی الْخَیْلِ مِنْ صَدَقَۃٌ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٦٣) حضرت عروہ بن ابی جعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دی گئی ہے اور غنیمت بھی ان کی پیشانیوں میں رکھ دی گئی ہے تو اس میں دلالت ہے کہ غنیمتوں کو گھوڑوں کی جنس سے متعلق کیا گیا ہے تو دوغلی نسل کے گھوڑے بھی اصل میں گھوڑوں کی نسل سے ہیں۔

17970

(١٧٩٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ : أَنَّ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ یَضْرِبُ فِی الْمَغْنَمِ بِأَرْبَعَۃِ أَسْہِمٍ سَہْمٌ لَہُ وَسَہْمَیْنِ لِفَرَسِہِ وَسَہْمٌ فِی ذِی الْقُرْبَی سَہْمُ أُمِّہِ صَفِیَّۃَ یَعْنِی یَوْمَ خَیْبَرَ ۔ قَالَ : وَکَانَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ یَہَابُ أَنْ یَذْکُرَ یَحْیَی بْنَ عَبَّادٍ وَالْحُفَّاظُ یَرْوُونَہُ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ قَدْ رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِنَحْوِہِ وَہُوَ مَعَ ذِکْرِ یَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ فِیہِ مُرْسَلٌ وَقَدْ وَصَلَہُ سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُحَاضِرُ بْنُ الْمُوَرِّعِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ بِالإِسْنَادِ الَّذِی مَضَی وَرَوَی مَکْحُولٌ : أَنَّ الزُّبَیْرَ حَضَرَ خَیْبَرَ فَأَسْہَمَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَمْسَۃَ أَسْہُمٍ سَہْمٌ لَہُ وَأَرْبَعَۃُ أَسْہُمٍ لِفَرَسَیْہِ ۔ فَذَہَبَ الأَوْزَاعِیُّ إِلَی قَبُولِ ہَذَا عَنْ مَکْحُولٍ مُنْقَطِعًا وَہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ أَحْرَصُ لَوْ زِیدَ الزُّبَیْرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِفَرَسَیْنِ أَنْ یَقُولَ بِہِ وَأَشْبَہُ إِذْ خَالَفَہُ مَکْحُولٌ أَنْ یَکُونَ أَثْبَتَ فِی حَدِیثِ أَبِیہِ مِنْہُ لِحِرْصِہِ عَلَی زِیَادَتِہِ وَإِنْ کَانَ حَدِیثُہُ مَقْطُوعًا لاَ تَقُومُ بِہِ حُجَّۃٌ فَہُوَ کَحَدِیثِ مَکْحُولٍ وَلَکِنَّا ذَہَبْنَا إِلَی أَہْلِ الْمَغَازِی فَقُلْنَا إِنَّہُمْ لَمْ یَرْوُوا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَسْہَمَ لِفَرَسَیْنِ وَلَمْ یَخْتَلِفُوا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَضَرَ خَیْبَرَ بِثَلاَثَۃِ أَفْرَاسٍ لِنَفْسِہِ السَّکْبِ وَالظَّرِبِ وَالْمُرْتَجِزِ وَلَمْ یَأْخُذْ مِنْہَا إِلاَّ لِفَرَسٍ وَاحِدٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ قَدْ رُوِّینَا حَدِیثَ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ مِنْ حَدِیثِ مُحَاضِرٍ مَوْصُولاً ۔
(١٧٩٦٤) حضرت زبیر بن عوام (رض) غنیمت کے مال کے چار حصہ بناتے تھے : ایک حصہ اپنے لیے، دو گھوڑے کے لیے، ایک اپنے قریبیوں کے لیے اور اپنی ماں صفیہ کا حصہ خیبر کے دن کا۔ ابن عیینہ یحییٰ بن عباد کے ذکر کرنے سے ڈرتے تھے جبکہ حفاظ اس کو یحییٰ بن عباد سے نقل فرماتے ہیں۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اس سند سے کہ زبیر خیبر میں آئے۔ آپ نے ان کے لیے پانچ حصے مقرر کیے۔ ایک ان کا اور چار ان کے گھوڑے کے۔ اوزاعی نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ یہ مکحول سے منقطع ہے اور ہشام بن عروہ حریص تھے کہ زبیر کے دو گھوڑوں کے لیے زیادہ کیا جائے۔ یہ زیادہ اشبہ ہے جب کہ مکحول مخالف ہیں۔ اگرچہ اس کی حدیث مقطوع ہے۔ اس سے دلیل نہیں لی جائے گی۔ وہ حدیث مکحول کی حدیث کی طرح ہی ہے لیکن ہم اہل مغازی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی یہ روایت نہیں کی کہ آپ نے دو گھوڑوں کا حصہ مقرر کیا ہو جبکہ اس میں اختلاف نہیں ہے کہ آپ خیبر میں تین گھوڑوں کے ساتھ گئے تھے۔ 1 سکب 2 ظرب 3 مرتجز آپ نے ان میں سے صرف ایک کا حصہ لیا تھا۔

17971

(١٧٩٦٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَارِثِ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ النَّیْسَابُورِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ : ضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ خَیْبَرَ لِلزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ بِأَرْبَعَۃِ أَسْہُمٍ سَہْمًا لَہُ وَسَہْمًا لِذِی الْقُرْبَی لِصَفِیَّۃَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُمِّ الزُّبَیْرِ وَسَہْمَیْنِ لِلْفَرَسِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٦٥) یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر بن عوام کے لیے خیبر کے دن چار حصے مقرر کیے تھے : ایک حصہ ان کا اور ایک ان کے قریبی کا صفیہ بنت عبدالمطلب زبیر کی ماں کا اور دو حصے گھوڑے کے۔

17972

(١٧٩٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الأُمَوِیُّ وَأَبُو الْفَضْلِ : الْحَسَنُ بْنُ یَعْقُوبَ الْعَدْلُ قَالاَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ وَاللَّفْظُ لَہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ سَمِعْتُ قَیْسًا وَہُوَ ابْنُ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ : أَنَّ نَجْدَۃَ بْنَ عَامِرٍ کَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنِ اکْتُبْ إِلَیَّ مَنْ ذَوُو الْقُرْبَی الَّذِینَ ذَکَرَہُمُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَفَرَضَ لَہُمْ فِیمَّا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ وَمَتَی یَنْقَضِی یُتْمُ الْیَتِیمِ وَہَلْ یُقْتَلُ صِبْیَانُ الْمُشْرِکِینَ وَہَلْ لِلنِّسَائِ وَالْعَبِیدِ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ مِنْ سَہْمٍ مَعْلُومٍ ۔ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : لَوْلاَ أَنِّی أَخَافُ أَنْ یَقَعَ فِی شَیْئٍ مَا کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَکَتَبَ إِلَیْہِ وَأَنَا شَاہِدٌ أَمَّا ذَوُو الْقُرْبَی فَإِنَّا کُنَّا نَرَی أَنَّہُمْ قَرَابَۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَبَی ذَلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا وَأَمَّا صِبْیَانُ الْمُشْرِکِینَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمْ یَقْتُلْ مِنْہُمْ أَحَدًا فَلاَ تَقْتُلْ إِلاَّ أَنْ تَعْلَمَ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلاَمِ الَّذِی قَتَلَہُ وَأَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنِ انْقِضَائِ یُتْمِ الْیَتِیمِ فَإِذَا بَلَغَ الْحُلُمَ وَأُونِسَ مِنْہُ رُشْدُہُ فَقَدِ انْقَضَی یُتْمُہُ فَادْفَعْ إِلَیْہِ مَالَہُ وَأَمَّا النِّسَائُ وَالْعَبِیدُ فَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ وَلَکِنْ یُحْذَوْنَ مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٧٩٦٦) نجدہ بن عامر نے حضرت عبداللہ بن عباس کو خط لکھا کہ مجھے بتاؤ وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے ان کو مال فیٔ میں سے دیا جائے گا جو اللہ نے رسول کو بغیر جنگ کے عطا کیا ہے اور یتیم کی یتیمی کب ختم ہوگی، کیا مشرکین کے بچوں کو قتل کیا جائے گا ؟ اگر عورتوں اور غلام جنگ میں جائیں تو کیا ان کے لیے حصہ مقرر ہے ؟ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ یہ اس میں مبتلا ہوجائے تو میں نہ لکھتا تو انھوں نے لکھا، میں وہاں موجود تھا کہ رشتے داروں سے مراد ہمارے نزدیک صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار ہیں جبکہ ہماری قوم نے اس کا انکار بھی کیا ہے۔ رہے مشرکین کے بچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی بچے کو قتل نہیں کیا تو تم بھی قتل نہ کرو۔ ہاں اگر تم جان لو جو خضر نے جانا تھا جس بچے کو اس نے قتل کیا تھا اور یتیمی کی آخری مدت احتلام کا آنا یا سمجھداری کا پتہ چلنا ہے تو اس کی یتیمی ختم ہوگئی۔ اب ان کا مال ان کو دے دو اور اگر عورتیں اور بچے جنگ میں جائیں تو ان کے لیے مقرر حصہ تو نہیں ہے ہاں ان کو غنیمت میں سے کچھ تحفۃً دے دو ۔

17973

(١٧٩٦٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الطَّیِّبِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحَسَنِ الزَّاہِدُ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ عَمَّارٍ الْعَتَکِیُّ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ أَبِی جَعْفَرٍ وَالزُّہْرِیِّ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ : فِیمَا کَتَبَ إِلَیْہِ نَجْدَۃُ فِی کِتَابِہِ ذَلِکَ یَسْأَلُہُ عَنِ الْیَتِیمِ مَتَی یَخْرُجُ مِنَ الْیُتْمِ وَیَقَعُ حَقُّہُ فِی الْفَیْئِ فَکَتَبَ إِلَیْہِ : إِنَّہُ إِذَا احْتَلَمَ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْیُتْمِ وَوَقَعَ حَقُّہُ فِی الْفَیْئِ ۔
(١٧٩٦٧) یزید بن ہرمز فرماتے ہیں کہ نجدہ نے اس کی طرف خط لکھا تھا۔ میں یہ بھی تھا کہ یتیم کب یتیمی کی عمر سے نکل جاتا ہے اور اس کا حق مال فیٔ میں ثابت ہوجاتا ہے تو عبداللہ بن عباس نے ان کو لکھا کہ بالغ ہونے پر یتیم کی یتیمی ختم ہوجاتی ہے اور مال فیٔ میں اس کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔

17974

(١٧٩٦٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ حَدَّثَنِی عُمَیْرٌ مَوْلَی آبِی اللَّحْمِ قَالَ : شَہِدْتُ خَیْبَرَ مَعَ سَادَتِی فَکَلَّمُوا فِیَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِی فَقُلِّدْتُ سَیْفًا فَإِذَا أَنَا أَجُرُّہُ فَأُخْبِرَ أَنِّی مَمْلُوکٌ فَأَمَرَ لِی بِشَیْئٍ مِنْ خُرْثِیِّ الْمَتَاعِ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٦٨) ابو لحمہ کے غلام عمیر فرماتے ہیں کہ میں اپنے سرداروں کے ساتھ خیبر میں موجود تھا۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے بارے میں بات کی تو انھوں نے مجھے حکم دیا، مجھے تلوار پہنائی گئی، میں اس کو کھینچ رہا تھا، میرے بارے میں خبر دی گئی کہ میں غلام ہوں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے مال میں کچھ ردی مال دینے کا حکم دیا۔

17975

(١٧٩٦٩) وَأَمَّا الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الدِّمَشْقِیِّ عَنْ مَکْحُولٍ وَخَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ قَالاَ : أَسْہَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِلْفَارِسِ لِفَرَسِہِ سَہْمَیْنِ وَلِصَاحِبِہِ سَہْمًا فَصَارَ لَہُ ثَلاَثَۃُ أَسْہُمٍ وَلِلرَّاجِلِ سَہْمًا وَأَسْہَمَ لِلنِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ۔ فَہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ وَحَدِیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْصُولٌ صَحِیحٌ فَہُوَ أَوْلَی وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٦٩) خالد بن معدان اور مکحول فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑ سوار کے گھوڑے کے دو حصے اور سوار کا ایک حصہ مقرر کیا۔ اس طرح اس کے تین حصے ہوگئے اور پیدل کو ایک حصہ ملا اور آپ نے عورتوں اور بچوں کے لیے بھی حصہ مقرر کیا۔

17976

(١٧٩٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ قَالَ أَبُو یُوسُفَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَۃَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ قَالَ : اسْتَعَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِیَہُودِ قَیْنُقَاعَ فَرَضَخَ لَہُمْ وَلَمْ یُسْہِمْ لَہُمْ ۔ (ج) تَفَرَّدَ بِہَذَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَۃَ وَہُوَ مَتْرُوکٌ وَلَمْ یَبْلُغْنَا فِی ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ۔ وَقَدْ رُوِّینَا قَبْلَ ہَذَا فِی کَرَاہِیَۃِ الاِسْتِعَانَۃِ بِالْمُشْرِکِینَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٧٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو قینقاع کے یہود سے مدد لی اور ان کو اس کا بدلہ کچھ مال عطیۃً دیا لیکن ان کو حصہ مقرر کر کے نہیں دیا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے۔

17977

(١٧٩٧١) فَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُوالْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَزَا بِنَاسٍ مِنَ الْیَہُودِ فَأَسْہَمَ لَہُمْ فَہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ یَزِیدُ بْنُ یَزِیدَ بْنِ جَابِرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ مُنْقَطَعًا۔ [ضعیف۔ منقطع ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَالْحَدِیثُ الْمُنْقَطِعُ عِنْدَنَا لاَ یَکُونُ حُجَّۃً ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَرَوَی الْوَاقِدِیُّ عَنِ ابْنِ أَبِی سَبْرَۃَ عَنْ فُطَیْرٍ الْحَارِثِیِّ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِعَشَرَۃٍ مِنَ الْیَہُودِ مِنْ یَہُودِ الْمَدِینَۃِ إِلَی خَیْبَرَ فَأَسْہَمَ لَہُمْ کَسُہْمَانِ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَہَذَا مُنْقَطِعٌ وَإِسْنَادُہُ ضَعِیفٌ۔
(١٧٩٧١) زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ یہودی لوگوں کو ساتھ ملا کر جہاد کیا ہے اور ان کا حصہ بھی مقرر کیا ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع ہے اس لیے حجت نہیں ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : فطیہ حارثی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے دس یہودیوں کو ساتھ لے کر خیبر کی طرف گئے اور ان کے لیے مسلمانوں کی طرح حصہ بھی مقرر کیا۔ یہ بھی منقطع ہے۔

17978

(١٧٩٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ قَالَ فَکَتَبَ إِنَّمَا کَانَ ذَلِکَ فِی أَوَّلِ الإِسْلاَمِ قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ وَسَبَی سَبْیَہُمْ وَأَصَابَ یَوْمَئِذٍ قَالَ یَحْیَی أَحْسَبُہُ قَالَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَحَدَّثَنِی ہَذَا الْحَدِیثَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَکَانَ فِی ذَلِکَ الْجَیْشِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ۔
(١٧٩٧٢) ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے لڑائی سے پہلے دعا کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے لکھا : یہ ابتداء اسلام میں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق پر شب خون مارا (رات کو حملہ کیا) وہ بھی حملہ کرنے کے لیے تیار تھے ان کے جانوروں کو پانی پلایا جا رہا تھا۔ ان کے لڑائی کے قابل لوگوں کو قتل کردیا گیا اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور اس دن جویریہ کو تکلیف لاحق ہوئی تھی۔

17979

(١٧٩٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصُّوفِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ وَہَذَا حَدِیثُہُ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ قَالاَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ رَبِیعَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزَ أَنَّہُ قَالَ : دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو صِرْمَۃَ عَلَی أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَسَأَلَہُ أَبُو صِرْمَۃَ فَقَالَ : یَا أَبَا سَعِیدٍ ہَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَذْکُرُ الْعَزْلَ ؟ قَالَ : نَعَمْ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَزْوَۃَ الْمُصْطَلِقِ فَسَبَیْنَا کَرَائِمَ الْعَرَبِ وَطَالَتْ عَلَیْنَا الْعُزْبَۃُ وَرَغِبْنَا فِی الْفِدَائِ فَأَرَدْنَا أَنْ نَسْتَمْتِعَ وَنَعْزِلَ فَقُلْنَا نَفْعَلُ وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَیْنَ أَظْہُرِنَا فَلاَ نَسْأَلُہُ فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لاَ عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا مَا کَتَبَ اللَّہُ خَلْقَ نَسَمَۃً ہِیَ کَائِنَۃٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ سَتَکُونُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوبَ وَقُتَیْبَۃَ ۔ وَفِی ہَذَا دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّہُ قَسَمَ بَیْنَہُم غَنَائِمَہُمْ قَبْلَ الرُّجُوعِ إِلَی الْمَدِینَۃِ کَمَا قَالَ الأَوْزَاعِیُّ والشَّافِعِیُّ ۔ قَالَ أَبُو یُوسُفَ : افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِلاَدَ بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَظَہَرَ عَلَیْہِمْ فَصَارَتْ بِلاَدُہُمْ دَارَ الإِسْلاَمِ وَبَعَثَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ یَأْخُذُ صَدَقَاتِہِمْ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] قَالَ الشَّافِعِیُّ مُجِیبًا لَہُ عَنْ ذَلِکَ أَغَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْہِمْ وَہُمْ غَارُّونَ فِی نَعَمِہِمْ فَقَتَلَہُمْ وَسَبَاہُمْ وَقَسَمَ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ فِی دَارِہِمْ سَنَۃَ خَمْسٍ وَإِنَّمَا أَسْلَمُوا بَعْدَہَا بِزَمَانٍ وَإِنَّمَا بَعَثَ إِلَیْہِمُ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ مُصَدِّقًا سَنَۃَ عَشْرٍ وَقَدْ رَجَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْہُمْ وَدَارُہُمْ دَارُ حَرْبٍ قَالَ الشَّیْخُ أَمَّا قَوْلُہُ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ سَنَۃَ خَمْسٍ فَکَذَلِکَ قَالَہُ عُرْوَۃُ وَابْنُ شِہَابٍ ۔
(١٧٩٧٣) ابو صرمہ نے ابو سعید خدری سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزل کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں ہم غزوہ بنی مصطلق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ہم نے معززین عرب کو قیدی بنایا اور اپنے گھر سے دوری طویل ہو رہی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ کچھ مال دے کر فائدہ حاصل کریں اور عزل کریں تو ہم نے کہا : ہم عزل کریں جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان میں موجود ہیں اور ہم ان سے سوال نہ کریں۔ ہم نے سوال کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم پر کوئی حرج نہیں اگر نہ کرو جس جان کے پیدا ہونے کا اللہ نے لکھ دیا کہ وہ پیدا ہونے والی ہے قیامت تک وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
اس میں دلیل ہے کہ آپ نے مدینہ آنے سے پہلے مال غنیمت کو تقسیم کیا ہے جیسا کہ امام اوزاعی اور امام شافعی ; کا موقف ہے۔ ابو یوسف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بنو مصطلق کو فتح کیا اور ان پر غالب ہوئے تو ان کا علاقہ دار السلام میں شامل ہوگیا اور آپ نے ولید بن عقبہ کو ان سے زکوۃ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا تھا۔
امام شافعی (رح) نے ابو یوسف کا رد کرتے ہوئے جواب دیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر حملہ کیا جبکہ وہ اپنے جانوروں میں مشغول تھے۔ ان کے قیدیوں کو قتل کیا گیا اور مالوں کو اور قیدیوں کو تقسیم کیا گیا۔ یہ ان کے علاقہ میں پانچ ہجری میں ہوا جبکہ وہ اس کے کافی عرصہ بعد مسلمان ہوئے۔ پھر آپ نے ولید بن عقبہ کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا اور یہ دس ہجری کا وقت ہے اور جب آپ ان سے فارغ ہو کر لوٹے تو وہ ابھی دشمن کا علاقہ تھا۔
شیخ (رض) فرماتے ہیں : یہ پانچ ہجری کو ہوا اسی طرح عروہ اور ابن شہاب کہتے ہیں۔

17980

(١٧٩٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَعْقُوبُ وَحَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَیْحٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ فِی ذِکْرِ مَغَازِی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : ثُمَّ قَاتَلَ بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَبَنِی لِحْیَانَ فِی شَعْبَانَ مِنْ سَنَۃِ خَمْسٍ ۔ وَہَذَا أَصَحُّ مِمَّا رُوِیَ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ سَنَۃَ سِتٍّ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٧٤) ابن شہاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بنو مصطلق اور بنو لحیان کے غزوات شعبان پانچ ہجری کو ہوئے ہیں۔ یہ ابن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں چھ ہجری بتایا گیا ہے۔

17981

(١٧٩٧٥) وَأَمَّا بَعْثُہُ الْوَلِیدَ مُصَدِّقًا فَفِیمَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ کَامِلٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِیُّ حَدَّثَنِی أَبِی سَعْدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَطِیَّۃَ حَدَّثَنِی عَمِّی الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَطِیَّۃَ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّی عَطِیَّۃَ بْنِ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ إِلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ لِیَأْخُذَ مِنْہُمُ الصَّدَقَاتِ وَإِنَّہُ لَمَّا أَتَاہُمُ الْخَبَرُ فَرِحُوا وَخَرَجُوا لِیَتَلَقَّوْا رَسُولَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَإِنَّہُ لَمَّا حُدِّثَ الْوَلِیدُ أَنَّہُمْ خَرَجُوا یَتَلَقَّوْنَہُ رَجَعَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ بَنِی الْمُصْطَلِقِ قَدْ مَنَعُوا الصَّدَقَۃَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ ذَلِکَ غَضَبًا شَدِیدًا فَبَیْنَمَا ہُوَ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ أَنْ یَغْزُوہُمْ إِذْ أَتَاہُ الْوَفْدُ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّا حُدِّثْنَا أَنَّ رَسُولَکَ رَجَعَ مِنْ نِصْفِ الطَّرِیقِ وَإِنَّا خَشِینَا أَنْ یَکُونَ إِنَّمَا رَدَّہُ کِتَابٌ جَائَ ہُ مِنْکَ لِغَضَبٍ غَضِبْتَہُ عَلَیْنَا وَإِنَّا نَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ غَضِبِ اللَّہِ وَغَضِبِ رَسُولِہِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اسْتَغْشَہُمْ وَہَمَّ بِہِمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عُذْرَہُمْ فِی الْکِتَابِ فَقَالَ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ } [الحجرات ٦] ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٧٩٧٥) ولید بن عقبہ کے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو مصطلق کی طرف صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ جب ان کے پاس ان کے آنے کی خبر آتی تو وہ خوش ہوتے اور اس کا استقبال کرنے کے لیے نکلتے۔ تاکہ اللہ کے رسول کے قاصد کا استقبال کریں جب ولید (رض) کو بتایا کہ وہ استقبال کے لیے آتے ہیں تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! انھوں نے زکوۃ کو روک لیا ہے۔ آپ ناراض ہوئے۔ ابھی آپ ان سے لڑائی کا سوچ رہے تھے کہ بنو مصطلق کا وفد آگیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کا قاصد آدھا سفر کر کے واپس چلا گیا ہے۔ ہم ڈرے کہ اس کا لوٹنا آپ کے کسی خط کی وجہ سے کسی غصہ کی وجہ سے جو آپ کو ہم پر آیا ہو اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے چھپا رہے تھے اور ان پر حملہ کا ارادہ رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا عذر نازل فرما دیا۔ فرمایا : { یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔۔} [الحجرات ٦] ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو ۔ پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہو جاؤ۔ “

17982

(١٧٩٧٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ إِلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ لَیُصَدِّقَہُمْ فَتَلَقَّوْہُ بِالْہَدِیَّۃِ فَرَجَعَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُ إِنَّ بَنِی الْمُصْطَلِقِ قَدْ أَجْمَعُوا لَکَ لِیُقَاتِلُوکَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی {إِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا } [الحجرات ٦] الآیَۃَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَالَّذِی یُسْتَدَلُّ بِہِ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ کَانَ بَعْدَ غَزْوَۃِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ بِمُدَّۃٍ کَثِیرَۃٍ وَیُشْبِہُ أَنْ یَکُونْ سَنَۃَ عَشْرٍ کَمَا حَفِظَہُ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَنَّ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ کَانَ زَمَنَ الْفَتْحِ صَبِیًّا وَذَلِکَ سَنَۃَ ثَمَانٍ وَلاَ یَبْعَثُہُ مُصَدِّقًا إِلاَّ بَعْدَ أَنْ یَصِیرَ رَجُلاً ۔ [حسن ]
(١٧٩٧٦) مجاہد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو مصطلق کی طرف صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ انھوں نے تحائف لے کر ان کا استقبال کیا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ گئے اور کہا کہ بنو مصطلق نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا } [الحجرات ٦] ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو “
شیخ نے فرمایا : جس سے دلیل لی گئی کہ یہ غزوہ بنی مصطلق کے کافی عرصہ بعد ہوا ہے اور یہ مدت تقریباً دس سال ہے جیسا کہ امام شافعی (رح) نے ذہن میں رکھا وہ یہ ہے کہ ولید بن عقبہ فتح مکہ کے وقت بچے تھے جبکہ فتح مکہ آٹھ ہجری میں ہوا ہے اور آپ نے اس کو اس وقت بھیجا تھا جب وہ جوان ہوگئے تھے۔

17983

(١٧٩٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِی مُوسَی الْہَمْدَانِیِّ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَکَّۃَ جَعَلَ أَہْلُ مَکَّۃَ یَأْتُونَہُ بِصِبْیَانِہِمْ فَیَمْسَحُ رُئُ وسَہُمْ وَیَدْعُو لَہُمْ فَجِیئَ بِی إِلَیْہِ وَقَدْ خُلِّقْتُ بِالْخَلُوقِ فَلَمَّا رَآنِی لَمْ یَمَسَّنِی وَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ ذَلِکَ إِلاَّ الْخَلُوقُ الَّذِی خَلَّقَتْنِی أُمِّی۔ [ضعیف ]
(١٧٩٧٧) ولید بن عقبہ (رض) فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو مکہ والے اپنے بچوں کو آپ کے پاس لاتے آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ مجھے بھی لایا گیا میرے سر پر زعفران کی خوشبو لگائی گئی تھی۔ جب آپ نے مجھے دیکھا تو مجھے نہ چھوا۔ آپ نے زعفرانی خوشبو کی وجہ سے مجھے ہاتھ نہ لگایا جو میری ماں نے لگایا تھا۔

17984

(١٧٩٧٨) وَحَدَّثَنَا بِذَلِکَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا فَیَّاضُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّیُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْکِلاَبِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ الْہَمْدَانِیِّ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَکَّۃَ فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ ۔ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَقَدْ رُوِیَ أَنَّہُ سَلَحَ یَوْمَئِذٍ فَتَقَذَّرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلَمْ یَمَسَّہُ وَلَمْ یَدْعُ لَہُ وَمُنِعَ بَرَکَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِسَابِقِ عِلْمِ اللَّہِ فِیہِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٧٨) ولید بن عقبہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا باقی حدیث پہلی سند والی ہے۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں : یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس نے ایک دن پاخانہ کیا۔ اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناپسند کیا۔ پھر اس کو نہ چھوا اور نہ اس کے لیے دعا کی۔ اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکت سے منع کیا گیا کیونکہ آپ کو اس کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔

17985

(١٧٩٧٩) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْکَعْبِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ الْحَجَبِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ وَثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - صَلَّی الصُّبْحَ بِغَلَسٍ ثُمَّ رَکِبَ فَقَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ۔ فَخَرَجُوا یَسْعَوْنَ فِی السِّکَکِ وَہُمْ یَقُولُونَ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ ۔ قَالَ مُسَدَّدٌ قَالَ حَمَّادٌ : وَالْخَمِیسُ الْجَیْشُ فَظَہَرَ عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَۃَ وَسَبَی الذَّرَارِیَّ فَصَارَتْ صَفِیَّۃُ لِدِحْیَۃَ الْکَلْبِیِّ ثُمَّ صَارَتْ صَفِیَّۃُ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ تَزَوَّجَہَا وَجَعَلَ صَدَاقَہَا عِتْقَہَا۔ قَالَ عَبْدُ الْعَزِیزِ لِثَابِتٍ : یَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْہَرَہَا ؟ فَقَالَ : أَمْہَرَہَا نَفْسَہَا۔ فَتَبَسَّمَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسَدَّدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٧٩) انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی۔ پھر آپ سوار ہوئے اور فرمایا : ” اللہ اکبر خیبر برباد ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے لوگوں کی یہ صبح بہت بری ہے۔ “ وہ نکلے گلیوں میں چل رہے تھے اور کہہ رہے تھے : محمد اور اس کا لشکر۔ حماد کہتے ہیں : خمیس لشکر کو کہتے ہیں۔ آپ نے ان پر غلبہ حاصل کیا اور جوانوں کو قتل کیا اور بچوں کو قیدی بنایا۔ صفیہ دحیہ کلبی کے حصہ میں آئی۔ پھر اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ میں دے دیا گیا۔ آپ نے اس سے نکاح کیا اور آزادی کو حق مہر قرار دیا۔ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا : کیا تو نے انس سے پوچھا تھا کہ آپ نے مہر کیا رکھا تو انھوں نے کہا : آپ نے اس کا مہر اس کے نفس کی آزادی رکھا تھا تو وہ مسکرا دیے۔

17986

(١٧٩٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ قَالاَ حَدَّثَنَا السَّرِیُّ بْنُ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ہَاشِمٍ حَدَّثَنَا بَہْزٌ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : صَارَتْ صَفِیَّۃُ لِدِحْیَۃَ فِی مَقْسَمِہِ وَجَعَلُوا یَمْدَحُونَہَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیَقُولُونَ مَا رَأَیْنَا فِی السَّبْیِ مِثْلَہَا قَالَ فَبَعَثَ إِلَی دِحْیَۃَ فَأَعْطَاہُ بِہَا مَا أَرَادَ ثُمَّ دَفَعَہَا إِلَی أُمِّی فَقَالَ : أَصْلِحِیہَا ۔ قَالَ ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ خَیْبَرَ حَتَّی جَعَلَہَا فِی ظَہْرِہِ نَزَلَ ثُمَّ ضَرَبَ عَلَیْہَا الْقُبَّۃَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ : مَنْ کَانَ عِنْدَہُ فَضْلُ زَادٍ فَلْیَأْتِنَا بِہِ ۔ قَالَ : فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِفَضْلِ التَّمْرِ وَفَضْلِ السَّوِیقِ وَفَضْلِ السَّمْنِ حَتَّی جَعَلُوا مِنْ ذَلِکَ سَوَادًا حَیْسًا فَجَعَلُوا یَأْکُلُونَ مِنْ ذَلِکَ الْحَیْسِ وَیَشْرَبُونَ مِنْ حِیَاضٍ إِلَی جَنْبِہِمْ مِنْ مَائِ السَّمَائِ قَالَ فَقَالَ أَنَسٌ وَکَانَتْ تِلْکَ وَلِیمَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْہَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی إِذَا رَأَیْنَا جُدُرَ الْمَدِینَۃِ مَشَیْنَا إِلَیْہَا فَرَفَعْنَا مَطِیَّتَنَا وَرَفَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَطِیَّتَہُ قَالَ وَصَفِیَّۃُ خَلْفَہُ قَدْ أَرْدَفَہَا فَعَثَرَتْ مَطِیَّۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَصُرِعَ وَصُرِعَتْ قَالَ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَنْظُرُ إِلَیْہِ وَلاَ إِلَیْہَا حَتَّی قَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَسْتُرُہَا قَالَ فَأَتَیْنَاہُ فَقَالَ : لَمْ نُضَرَّ ۔ قَالَ فَدَخَلْنَا الْمَدِینَۃَ فَخَرَجَ جَوَارِی نِسَائِہِ یَتَرَائَیْنَہَا وَیَشْمَتْنَ بِصَرْعَتِہَا۔ لَفْظُ حَدِیثِ بَہْزِ بْنِ أَسَدٍ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ ہَاشِمٍ ۔ وَفِی ہَذَا دَلاَلَۃٌ عَلَی وُقُوعِ قِسْمَۃِ غَنِیمَۃِ خَیْبَرَ بِخَیْبَرَ قَالَ أَبُو یُوسُفَ إِنَّہَا حِینَ افْتَتَحَہَا صَارَتْ دَارَ إِسْلاَمٍ وَعَامَلَہُمْ عَلَی النَّخْلِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : أَمَّا خَیْبَرُ فَمَا عَلِمْتُہُ کَانَ فِیہَا مُسْلِمٌ وَاحِدٌ مَا صَالِحَ إِلاَّ الْیَہُودَ وَہُمْ عَلَی دِینِہِمْ وَمَا حَوْلَ خَیْبَرَ کُلُّہُ دَارُ حَرْبٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٨٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : تقسیم میں صفیہ دحیہ کلبی (رض) کے حصہ میں آئی۔ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کی تعریف کرنے لگے اور وہ کہتے تھے : ہم نے قیدیوں میں اس جیسا نہیں دیکھا۔ آپ نے دحیہ کی طرف قاصد بھیجا اور ان کو صفیہ کے بدلہ میں کچھ دیا اور اس کو میرے مال کی طرف بھیجا اور کہا کہ اس کا معاملہ درست کرو۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر سے نکلے۔ جب وہ پیچھے رہ گیا تو آپ نے پڑواؤ کیا۔ آپ کا خیمہ لگایا گیا۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا : جس کے پاس زائد مال ہو وہ لائے تو لوگ چیزیں لانا شروع ہوئے۔ کھجوریں ، ستو، گھی لایا گیا۔ جب یہ ایک کھانے کا بڑا ڈھیر بن گیا تو اس میں سے کھانے لگے اور وہ اپنے پہلوں میں جمع پانی سے پینے لگے جو آسمانی بارش سے جمع ہوا تھا۔ یہ اللہ کے رسول کی طرف سے ولیمہ تھا جو صفیہ سے نکاح پر کیا گیا تھا۔ پھر ہم نکلے حتیٰ کہ ہم نے مدینہ کی دیواروں کو دیکھنا شروع کیا۔ ہم ان کی طرف چلے ہم نے اپنی سواریوں کو اٹھایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی سواری کو اٹھایا اور صفیہ آپ کے پیچھے تھیں۔ آپ اس کو پیچھے بٹھایا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری پھسل گئی۔ آپ اور صفیہ گرگئے۔ ہم میں سے کسی نے آپ کی طرف نہیں دیکھا نہ صفیہ کی طرف دیکھا حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر پردہ کردیا۔ پھر ہم آپ کے پاس آئے تو آپ نے کہا : ہمیں چوٹ نہیں آئی۔ جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ کی بیویوں کی ہمسائیاں نکلیں۔ وہ اس کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور اس کی جلدی پر خوش ہو رہی تھیں۔
اس میں دلیل ہے کہ آپ نے خیبر کی غنیمت کو خیبر ہی میں تقسیم کیا تھا۔ ابو یوسف کہتے ہیں : جب خیبر کو فتح کرلیا گیا تو وہ دارالسلام بن گیا اور آپ نے کجھوروں پر ان کو عامل مقرر کیا تھا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : مجھے علم نہیں کہ وہاں کوئی ایک بھی مسلمان تھا۔ آپ نے صرف یہود سے مصالحت کی تھی۔ وہ اپنے دین پر قائم ہیں اور خیبر کے ارد گرد علاقہ بھی دشمن کا علاقہ ہے۔

17987

(١٧٩٨١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَبِی عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی نَافِعٌ مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ عَامَلَ یَہُودَ خَیْبَرَ عَلَی أَنَّا نُخْرِجُہُمْ إِذَا شِئْنَا فَمَنْ کَانَ لَہُ مَالٌ فَلْیَلْحَقْ بِہِ فَإِنِّی مُخْرِجٌ یَہُودَ فَأَخْرَجَہُمْ ۔ [صحیح۔ احمد ]
(١٧٩٨١) حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں : اے لوگو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں سے اس بات پر معاملہ طے کیا کہ ہم جب چاہیں گے ان کو نکال دیں گے۔ جس کا کوئی مال ہو وہ اس کو تابع کرلے۔ میں یہود کو نکال رہا ہوں پھر آپ نے ان کو نکال دیا۔

17988

(١٧٩٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہَاشِمٍ الْبَغَوِیُّ وَأَبُو یَعْلَی الْمَوْصِلِیُّ وَالْحَسَنُ النَّسَوِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا ہُدْبَۃُ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ کُلُّہُنَّ فِی ذِی الْقَعْدَۃِ إِلاَّ الَّتِی فِی حَجَّتِہِ عُمْرَۃٌ فِی الْحُدَیْبِیَۃِ أَوْ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ فِی ذِی الْقَعْدَۃِ وَعُمْرَۃٌ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ وَعُمْرَۃٌ مِنَ الْجِعْرَانَۃِ حَیْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَیْنٍ فِی ذِی الْقَعْدَۃِ وَعُمْرَۃٌ مَعَ حَجَّتِہِ ۔ ہَذَا حَدِیثُ إِبْرَاہِیمَ وَقَالَ الْحَسَنُ : عُمْرَۃٌ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ ۔ وَقَالَ أَبُو یَعْلَی : عُمْرَتُہُ مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ ہُدْبَۃَ ۔ وَفِی ہَذَا دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَیْنٍ بِہَا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فَأَمَّا مَا احْتَجَّ بِہِ أَبُو یُوسُفَ مِنْ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمْ یَقْسِمْ غَنَائِمَ بَدْرٍ حَتَّی وَرَدَ الْمَدِینَۃَ وَمَا ثَبَتَ مِنَ الْحَدِیثِ بِأَنْ قَالَ وَالدَّلِیلُ عَلَی ذَلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَسْہَمَ لِعُثْمَانَ وَطَلْحَۃَ وَلَمْ یَشْہَدَا بَدْرًا فَإِنْ کَانَ کَمَا قَالَ فَہُوَ یُخَالِفُ سُنَّۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَنَّہُ یَزْعُمُ أَنَّہُ لَیْسَ لِلإِمَامِ أَنْ یُعْطِیَ أَحَدًا لَمْ یَشْہَدِ الْوَقْعَۃَ وَلَمْ یَکُنْ مَدَدًا وَلَیْسَ کَمَا قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَنَائِمَ بَدْرٍ بِسَبْرٍ شِعْبٍ مِنْ شِعَابِ الصَّفْرَائِ قَرِیبٌ مِنْ بَدْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٨٢) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے عمرہ کے علاوہ چار عمرے کیے باقی سب ذی القعدہ میں تھے ایک عمرہ حدیبیہ میں یا حدیبیہ کی صلح کے موقع پر ذی القعدہ میں ہوا اور ایک عمرہ آئندہ سال اور ایک جعرانہ سے لوٹنے پر جب آپ حنین کی غنیمتیں تقسیم کرنے آئے تھے اور ایک عمرہ آپ نے اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔ یہ ابراہیم کی حدیث ہے جبکہ حسن نے بالضبط عمرۃ من الحدیبیۃ کہا ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ آپ نے حنین کے مقام پر ہی غنیمت کا مال بھی تقسیم کیا تھا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابو یوسف نے جو دلیل لی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کا مال غنیمت مدینہ میں پہنچ کر تقسیم کیا اور جو حدیث میں ثابت ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان اور طلحہ (رض) کے لیے بدر کا حصہ رکھا جبکہ وہ بدر میں نہیں آئے۔ اگر اسی طرح ہے تو یہ سنت کے مخالف ہے کیونکہ امام یا امیر کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو غنیمت سے کچھ دے جبکہ وہ اس میں شامل نہ رہا ہو اور وہ مددگار نہ رہا ہو جبکہ یہ اس طرح نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی غنیمتیں سبر نامی جگہ پر تقسیم کیں جو صفراء کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی ہے اور بدر کے قریب ہے۔

17989

(١٧٩٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : وَمَضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ مَضِیقٍ یُقَالَ لَہُ الصَّفْرَائُ خَرَجَ مِنْہُ إِلَی کَثِیبٍ یُقَالُ لَہُ سَبْرٌ عَلَی مَسِیرَۃِ لَیْلَۃٍ مِنْ بَدْرٍ أَوْ أَکْثَرَ فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النَّفْلَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ عَلَی ذَلِکَ الْکَثِیبِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٨٣) ابن اسحاق کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے۔ جب آپ درے سے نکلے جس کو صفراء کہا جاتا ہے تو آپ اس سے ٹیلے کی طرف نکلے جس کو سبر کہا جاتا ہے۔ یہ بدر سے ایک رات کی مسافت کے برابر دوری پر ہے یا اس بھی زیادہ۔ پھر آپ نے اس ٹیلے کے پاس مال غنیمت کو تقسیم کیا۔

17990

(١٧٩٨٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سُلَیْمَانَ الْجُعْفِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی حُیَیٌّ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَرَجَ یَوْمَ بَدْرٍ بِثَلاَثِمِائَۃٍ وَخَمْسَۃَ عَشَرَ مِنَ الْمُقَاتِلَۃِ کَمَا خَرَجَ طَالُوتُ فَدَعَا لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ خَرَجَ فَقَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّہُمْ حُفَاۃٌ فَاحْمِلْہُمْ اللَّہُمَّ إِنَّہُمْ عُرَاۃٌ فَاکْسُہُمُ اللَّہُمَّ إِنَّہُمْ جِیَاعٌ فَأَشْبِعْہُمْ ۔ فَفَتَحَ اللَّہُ لَہُمْ یَوْمَ بَدْرٍ فَانْقَلَبُوا وَمَا مِنْہُمْ رَجُلٌ إِلاَّ وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَیْنِ وَاکْتَسَوْا وَشَبِعُوا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَانَتْ غَنَائِمُ بَدْرٍ کَمَا رَوَی عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ غَنِمَہَا الْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الآیَۃُ فِی سُورَۃِ الأَنْفَالِ فَلَمَّا تَشَاحُّوا عَلَیْہَا انْتَزَعَہَا اللَّہُ مِنْ أَیْدِیہِمْ بِقَوْلِہِ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ } [الأنفال ١] الآیَۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٨٤) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین سو پندرہ نفوس کے ساتھ بدر کی طرف نکلے جیسے طالوت نکلا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے دعا کی جب نکلے تو آپ نے کہا : ” اے اللہ ! یہ بغیر سواری کے ننگے پاؤں ہیں۔ اے اللہ ! تو ان کو سوار کر دے۔ اے اللہ ! یہ ننگے بدن ہیں ان کو پہنا۔ اے اللہ ! یہ بھوکے ہیں تو ان کو سیر کر دے۔ اللہ نے ان کو بدر کے دن فتح دی۔ وہ واپس آئے تو ہر آدمی ایک یا دو اونٹ لے کر آیا۔ انھوں نے پہنا اور سیر ہوئے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : عبادہ بن صامت کی روایت کے مطابق بدر کی غنیمتیں جو مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ یہ سورة انفال کی آیت کے نزول سے پہلے کا واقع ہے۔ جب انھوں اختلاف کیا تو اللہ نے یہ ان سے چھین لیا { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ } [الأنفال ١] ” وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔

17991

(١٧٩٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ : الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی الأَشْدَقِ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی بَدْرٍ فَلَقِیَ بِہَا الْعَدُوَّ فَلَمَّا ہَزَمَہُمُ اللَّہُ اتَّبَعَتْہُمْ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَقْتُلُونَہُمْ وَأَحْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَاسْتَوْلَتْ طَائِفَۃٌ عَلَی النَّہْبِ وَالْعَسْکَرِ فَلَمَّا رَجَعَ الَّذِینَ طَلَبُوا الْعَدُوَّ قَالُوا لَنَا النَّفْلُ نَحْنُ طَلَبْنَا الْعَدُوَّ وَبِنَا نَفَاہُمُ اللَّہُ وَہَزَمَہُمْ وَقَالَ الَّذِینَ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ بِہِ مِنَّا بَلْ ہُوَ لَنَا نَحْنُ أَحْدَقْنَا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَنَالَہُ مِنَ الْعَدُوِّ غِرَّۃٌ وَقَالَ الَّذِینَ اسْتَوْلَوْا عَلَی الْعَسْکَرِ وَالنَّہْبِ مَا أَنْتُمْ بِأَحَقَّ بِہِ مِنَّا بَلْ ہُوَ لَنَا نَحْنُ اسْتَوْلَیْنَا عَلَیْہِ وَأَحْرَزْنَاہُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی رَسُولِہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ } [الأنفال ١] الآیَۃَ فَقَسَمَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَیْنَہُمْ عَنْ فَوَاقٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٨٥) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف نکلے۔ دشمن سے آمنا سامنا ہوا۔ جب اللہ نے دشمن کو شکست دے دی تو مسلمان کے ایک لشکر نے دشمن کا پیچھا کیا۔ وہ ان کو قتل کرتا تھا اور ایک دستہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ ایک دستہ مال غنیمت اور لشکر پر قبضہ کررہا تھا۔ جب دشمن کا تعاقب کرنے والے لوٹے تو انھوں نے کہا : غنیمت ہمارے لیے ہیں کیونکہ ہم نے دشمن کا تعاقب کیا ہے اور ہمارے ذریعہ اللہ نے ان کو بھگا دیا اور ان کو شکست دی۔ جنہوں نے آپ کو گھیرے میں لے رکھا تھا انھوں نے کہا : تم ہم سے زیادہ حق دار نہیں ہو ؟ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیرے رکھا کہ کہیں ان کو دشمن کو نقصان نہ پہنچائے اور جنہوں نے مال غنیمت اور لشکر پر قبضہ کیا انھوں نے کہا : تم ہم سے زیادہ حق دار نہیں۔ ہم نے اس پر قبضہ کیا اور اس کی حفاظت کی ہے تو اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل کی : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ } [الأنفال ١] ” وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ کچھ دیر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت کو ان میں برابر تقسیم کردیا۔

17992

(١٧٩٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی الأَشْدَقِ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ قَالَ : سَأَلَتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ الأَنْفَالِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمَعْنَاہُ قَالَ فِی آخِرِہِ فَلَمَّا اخْتَلَفْنَا وَسَائَ تْ أَخْلاَقُنَا انْتَزَعَہُ اللَّہُ مِنْ أَیْدِینَا فَجَعَلَہُ إِلَی رَسُولِہِ فَقَسَمَہُ عَلَی النَّاسِ عَنْ بَوَائٍ فَکَانَ فِی ذَلِکَ تَقْوَی اللَّہِ وَطَاعَتُہُ وَطَاعَۃُ رَسُولِہِ وَصَلاَحُ ذَاتِ الْبَیْنِ یَقُولُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ } [الأنفال ١] وَعَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الزُّہْرِیَّ یَقُولُ : أُنْزِلَتْ سُورَۃُ الأَنْفَالِ بِأَسْرِہَا فِی أَہْلِ بَدْرٍ ۔ [ضعیف ] قَالَ الشَّافِعِیُّ : فَکَانَتْ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کُلَّہَا خَالِصًا وَقَسَمَہَا بَیْنَہُمْ وَأَدْخَلَ مَعَہُمْ ثَمَانِیَۃَ نَفَرٍ لَمْ یَشْہَدُوا الْوَقْعَۃَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ وَقَالَ فِی مَوْضِعٍ آخَرَ سَبْعَۃً أَوْ ثَمَانِیَۃً ۔
(١٧٩٨٦) حضرت ابو امامہ باہلی (رض) نے عبادہ بن صامت سے انفال کے بارے میں سوال کیا، اس کے آخر میں ہے کہ جب ہم نے اختلاف کیا اور ہمارا رویہ برا ہوگیا تو اللہ نے ہمارے ہاتھوں سے چھین لیا اور اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دیا۔ آپ نے اس کو لوگوں میں برابر تقسیم کردیا۔ یہ اللہ سے ڈر میں تھا اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں لوگوں کے درمیان صلح کا طریقہ تھا۔ اللہ فرماتے ہیں : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ } [الأنفال ١]” وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دے کہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔
ابن اسحاق کہتے ہیں : میں نے زہری (رض) سے سنا ہے، سورة انفال مکمل بدر والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : غنیمت کا سارا مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تھا۔ آپ نے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا اور اس میں آٹھ ایسے گروہ شامل کیے جو غزوہ میں موجود نہ تھے۔ جن کا تعلق مہاجرین و انصار سے تھا ایک مقام پر سات یا آٹھ کا ذکر ہے۔

17993

(١٧٩٨٧) أَخْبَرَنَاہُ أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ وَحَسَّانُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ فِی تَسْمِیَۃِ مَنْ شَہِدَ بَدْرًا وَلَمْ یَشْہَدْہَا ثُمَّ ضَرَبَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَہْمِہِ فَمِمَّنْ لَمْ یَشْہَدْہَا وَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمِہِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ تَخَلَّفَ بِالْمَدِینَۃِ عَلَی امْرَأَتِہِ رُقَیَّۃَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَانَتْ وَجِعَۃً فَضَرَبَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَہْمِہِ قَالَ وَأَجْرِی یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : وَأَجْرُکَ ۔ وَطَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ کَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَیْمِ بْنِ مُرَّۃَ قَالَ کَانَ بِالشَّامِ فَقَدِمَ فَکَلَّمَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمِہِ قَالَ وَأَجْرِی یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : وَأَجْرُکَ ۔ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ قَدِمَ مِنَ الشَّامِ بَعْدَ مَا رَجَعَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الْمَدِینَۃِ فَضَرَبَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَہْمِہِ فَقَالَ وَأَجْرِی یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : وَأَجْرُکَ ۔ فَہَؤُلاَئِ الثَّلاَثَۃِ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَأَمَّا مِنَ الأَنْصَارِ فَأَبُو لُبَابَۃَ خَرَجَ زَعَمُوا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی بَدْرٍ فَأَمَّرَہُ عَلَی الْمَدِینَۃِ وَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمِہِ مَعَ أَصْحَابِ بَدْرٍ وَالْحَارِثُ بْنُ حَاطِبٍ رَجَعَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - زَعَمُوا إِلَی الْمَدِینَۃِ وَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمِہِ وَخَرَجَ عَاصِمُ بْنُ عَدِیٍّ فَرَدَّہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَضَرَبَ لَہُ بِسَہْمٍ مَعَ أَہْلِ بَدْرٍ وَخَوَّاتُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ النُّعْمَانِ ضَرَبَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَہْمِہِ فِی أَصْحَابِ بَدْرٍ وَالْحَارِثُ بْنُ الصِّمَّۃِ کُسِرَ بِالرَّوْحَائِ فَضَرَبَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَہْمٍ ۔ وَذَکَرَہُمْ أَیْضًا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ وَذَکَرَہُمْ أَیْضًا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَذْکُرِ الْحَارِثَ بْنَ حَاطِبٍ فِی الرَّدِ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَإِنَّمَا أَعْطَاہُمْ مِنْ مَالِہِ وَإِنَّمَا نَزَلَتْ { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلَّہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ } [الأنفال ٤١] بَعْدَ غَنِیمَۃِ بَدْرٍ ۔
(١٧٩٨٧) عروہ بن زبیر (رض) جنگ بدر میں جانے اور نہ جانے والوں کا ذکر کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ میں حاضر ہونے والوں کے لیے حصہ مقرر کیا اور جو غیر حاضر تھے ان میں سے عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس کو حصہ دیا۔ وہ اپنی بیوی رقیہ (رض) کی بیماری کی وجہ سے مدینہ میں رہے تھے۔ آپ نے ان کو ان کا حصہ دیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور میرا ثواب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرا ثواب بھی اور طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب یہ شام میں تھے۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر بات کی تو آپ ان کو بھی حصہ دیا تو انھوں نے ثواب کا مطالبہ کیا تو آپ نے کہا : تیرا ثواب بھی تجھے ملے گا۔
اور سعید بن زید عن عمرو بن نفیل یہ بھی شام سے آئے جب آپ مدینہ لوٹ چکے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حصہ دیا اور اجر وثواب کے بارے میں بھی کہا کہ ملے گا۔ یہ تینوں مہاجرین میں سے تھے اور انصار میں سے ابو لبابہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدر کی طرف گئے۔ آپ نے ان کو مدینہ کا امیر بنایا تھا۔ آپ نے ان کو بدر والوں کے ساتھ حصہ دیا اور حارث بن حاطب کو بھی آپ نے مدینہ بھیج دیا تھا۔ اس کو بھی حصہ دیا تھا۔ عاصم بن عدی بھی نکلے تھے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو واپس کردیا تھا اور ان کو حصہ بھی دیا اور خوات بن جبیر بن نعمان کو بھی بدر والوں کے ساتھ حصہ دیا اور حارث بن صمہ جو کہ روحاء کے مقام پر زخمی ہوگئے تھے۔ آپ نے ان کو بھی حصہ دیا۔ ان سب کا تذکرہ محمد بن اسحاق بن یسار اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی کیا ہے مگر حارث بن حاطب کو مدینہ کی طرف واپس بھیجنے کا تذکرہ نہیں کیا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : آپ نے ان کو اپنے مال سے دیا اور اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : { وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ } [الأنفال ٤١] ” اور جان لو کہ بیشک تم جو کچھ بھی غنیمت حاصل کرو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کے لیے ہے۔ “ یہ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔

17994

(١٧٩٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ : الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ النَّضْرَوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : سُورَۃُ الأَنْفَالِ ۔ قَالَ : نَزَلَتْ فِی أَہْلِ بَدْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ سُلَیْمَانَ عَنْ ہُشَیْمٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَأَمَّا مَا احْتُجَّ بِہِ مِنْ وَقْعَۃِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَحْشٍ وَابْنِ الْحَضْرَمِیِّ فَذَلِکَ قَبْلَ بَدْرٍ وَقَبْلَ نُزُولِ الآیَۃِ وَکَانَتْ وَقْعَتُہُمْ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنَ الشَّہْرِ الْحَرَامِ فَتَوَقَّفُوا فِیمَا صَنَعُوا حَتَّی نَزَلَتْ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ} [البقرۃ ٢١٧] وَلَیْسَ مِمَّا خَالَفَ فِیہِ الأَوْزَاعِیُّ بِسَبِیلٍ ۔ قَالَ الشَّیْخ قَدْ ذَکَرْنَا قِصَّۃَ ابْنِ جَحْشٍ مِنْ رِوَایَۃِ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ ۔
(١٧٩٨٨) حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سورة انفال کے بارے میں بات کی تو انھوں نے فرمایا : یہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن جحش اور ابن حضرمی کے واقعہ جو دلیل لی جاتی ہے یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے اور ان آیات کے نزول سے پہلے کا ہے جبکہ ان کا واقعہ حرمت والے مہینوں کے آخر میں ہوا تو انھوں نے اس میں توقف کیا یہاں تک یہ آیت نازل ہوئی : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ} [البقرۃ ٢١٧] ” یہ تجھ سے حرمت والے مہینے میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے کہ اس میں لڑنا بہت بڑا ہے۔ “ اور امام اوزاعی کو اختلاف کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں۔ شیخ فرماتے ہیں کہ ابن جحش کا قصہ جندب بن عبداللہ کی روایت میں ذکر ہوگیا ہے۔

17995

(١٧٩٨٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَبْدَ اللَّہِ بْنَ جَحْشٍ إِلَی نَخْلَۃَ فَقَالَ لَہُ : کُنْ بِہَا حَتَّی تَأْتِیَنَا بِخَبَرٍ مِنْ أَخْبَارِ قُرَیْشٍ ۔ وَلَمْ یَأْمُرْہُ بِقِتَالٍ وَذَلِکَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَکَتَبَ لَہُ کِتَابًا قَبْلَ أَنْ یُعْلِمَہُ أَیْنَ یَسِیرُ فَقَالَ : اخْرُجْ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ حَتَّی إِذَا سِرْتَ یَوْمَیْنِ فَافْتَحْ کِتَابَکَ وَانْظُرْ فِیہِ فَمَا أَمَرْتُکَ بِہِ فَامْضِ لَہُ وَلاَ تَسْتَکْرِہَنَّ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِکَ عَلَی الذَّہَابِ مَعَکَ ۔ فَلَمَّا سَارَ یَوْمَیْنِ فَتَحَ الْکِتَابَ فَإِذَا فِیہِ : أَنِ امْضِ حَتَّی تَنْزِلَ نَخْلَۃَ فَتَأْتِیَنَا مِنْ أَخْبَارِ قُرَیْشٍ بِمَا یَصِلُ إِلَیْکَ مِنْہُمْ ۔ فَقَالَ لأَصْحَابِہِ حِینَ قَرَأَ الْکِتَابَ : سَمْعٌ وَطَاعَۃٌ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ لَہُ رَغْبَۃٌ فِی الشَّہَادَۃِ فَلْیَنْطَلِقْ مَعِی فَإِنِّی مَاضٍ لأَمْرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَنْ کَرِہَ ذَلِکَ مِنْکُمْ فَلْیَرْجِعْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ نَہَانِی أَنْ أَسْتَکْرِہَ مِنْکُمْ أَحَدًا فَمَضَی مَعَہُ الْقَوْمُ حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَحْرَانِ أَضَلَّ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ وَعُتْبَۃُ بْنُ غَزْوَانَ بَعِیرًا لَہُمَا کَانَا یَعْتَقِبَانِہِ فَتَخَلَّفَا عَلَیْہِ یَطْلُبَانِہِ وَمَضَی الْقَوْمُ حَتَّی نَزَلُوا نَخْلَۃَ فَمَرَّ بِہِمْ عَمْرُو بْنُ الْحَضْرَمِیِّ وَالْحَکَمُ بْنُ کَیْسَانَ وَعُثْمَانُ وَالْمُغِیرَۃُ ابْنَا عَبْدِ اللَّہِ مَعَہُمْ تِجَارَۃٌ قَدِمُوا بِہَا مِنَ الطَّائِفِ أَدَمٌ وَزَبِیبٌ فَلَمَّا رَآہُمُ الْقَوْمُ أَشْرَفَ لَہُمْ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ وَکَانَ قَدْ حَلَقَ رَأْسَہُ فَلَمَّا رَأَوْہُ حَلِیقًا قَالُوا عَمَّارٌ لَیْسَ عَلَیْکُمْ مِنْہُمْ بَأْسٌ وَائْتَمَرَ الْقَوْمُ بِہِمْ یَعْنِی أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ رَجَبٍ فَقَالُوا : لَئِنْ قَتَلْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَتَقْتُلُونَہُمْ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَلَئِنْ تَرَکْتُمُوہُمْ لَیَدْخُلُنَّ فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ الْحَرَمَ فَلْیَمْتَنِعُنَّ مِنْکُمْ فَأَجْمَعَ الْقَوْمُ عَلَی قَتْلِہِمْ فَرَمَی وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ التَّمِیمِیُّ عَمْرَو بْنَ الْحَضْرَمِیِّ بِسَہْمٍ فَقَتَلَہُ وَاسْتَأْسَرَ عُثْمَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ وَالْحَکَمَ بْنَ کَیْسَانَ وَہَرَبَ الْمُغِیرَۃُ فَأَعْجَزَہُمْ وَاسْتَاقُوا الْعِیرَ فَقَدِمُوا بِہَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُمْ : وَاللَّہِ مَا أَمَرْتُکُمْ بِالْقِتَالِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ ۔ فَأَوْقَفَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الأَسِیرَیْنِ وَالْعِیرَ فَلَمْ یَأْخُذْ مِنْہَا شَیْئًا فَلَمَّا قَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا قَالَ أُسْقِطَ فِی أَیْدِیہِمْ وَظَنُّوا أَنْ قَدْ ہَلَکُوا وَعَنَّفَہُمْ إِخْوَانُہُمْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَقَالَتْ قُرَیْشٌ حِینَ بَلَغَہُمْ أَمْرُ ہَؤُلاَئِ قَدْ سَفَکَ مُحَمَّدٌ الدَّمَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ وَأَخَذَ فِیہِ الْمَالَ وَأَسَرَ فِیہِ الرِّجَالَ وَاسْتَحَلَّ الشَّہْرَ الْحَرَامَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی فِی ذَلِکَ { یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیہِ قُلْ قِتَالٌ فِیہِ کَبِیرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ وَکُفْرٌ بِہِ والْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَہْلِہِ مِنْہُ أَکْبَرُ عِنْدَ اللَّہِ وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ } [البقرۃ ٢١٧] یَقُولُ الْکُفْرُ بِاللَّہِ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ فَلَمَّا نَزَلَ ذَلِکَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْعِیرَ وَفَدَی الأَسِیرَیْنِ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ أَتَطْمَعُ لَنَا أَنْ تَکُونَ غَزْوَۃً فَأَنْزَلَ اللَّہُ فِیہِمْ {إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا } [البقرۃ ٢١٨] إِلَی قَوْلِہِ { أُولَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَۃَ اللَّہِ } [البقرۃ ٢١٨] إِلَی آخِرِ الآیَۃِ وَکَانُوا ثَمَانِیَۃً وَأَمِیرُہُمُ التَّاسِعُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَحْشٍ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٨٩) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن جحش (رض) کو کھجوروں کے باغ کی طرف بھیجا اور کہا : ” تم وہاں رہو اور قریش کے بارے میں خبر دو ۔ “ آپ نے ان کو قتال کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ حرمت والے مہینے کا واقعہ ہے اور ان کو ایک خط دیا اس سے پہلے کہ ان کو بتاتے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کہا : ” اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جاؤ اور دو دن سفر کے بعد اس کو کھولنا اور دیکھنا میں نے تم کو کیا حکم دیا ہے اور اس پر عمل کرنا اور اپنے ساتھیوں کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور نہ کرنا۔ “ جب انھوں نے دو دن سفر کرلیا تو خط کو کھولا اس میں تھا ” سفر جاری رکھو حتیٰ کہ کھجور کے باغ میں جاؤ اور جو قریش کے بارے میں تم کو پتہ چلے اس کی ہمیں خبر دو ۔ “
انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا سننا اور سن کر اطاعت کرنا ضروری ہے جو شہادت کا متلاشی ہے میرے ساتھ چلے۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے چلوں گا جو اس کو ناپسند کرے وہ واپس جاسکتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو تمہیں مجبور کرنے سے منع کیا ہے۔ لوگ ان کے ساتھ چلے جب دو دریاؤں کے پاس پہنچے تو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ گم ہوگیا وہ اس کے تعاقب میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے۔ لوگ نکل گئے حتیٰ کہ کھجور کے باغ میں پہنچ گئے تو ان کے پاس سے عمرو بن حضرمی اور حکم بن کیسان عثمان اور مغیرہ گزرے۔ آخری دونوں عبداللہ کے بیٹے تھے۔ ان کے پاس مال تجارت بھی تھا۔ وہ طائف سے چمڑہ اور منقیٰ لائے تھے۔ جب لوگوں نے ان کو دیکھا تو واقد بن عبداللہ نے ان کی نگرانی کی۔ انھوں نے اپنا سر منڈوایا ہوا تھا۔ جب انھوں نے دیکھا تو کہا : ان سے کوئی خوف نہیں ہے، یہ عمرہ کرنے والے ہیں تو ان لوگوں نے رجب کے آخری دن مشورہ کیا کہ اگر تم ان کو قتل کرتے ہو تو یہ حرمت کا مہینہ ہے اور اگر ان کو چھوڑو گے تو یہ لوگ آج رات حرم میں داخل ہوجائیں اور تمہارے لیے ان کا قتل ممنوع ہوگا لہٰذا لوگوں نے ان کو قتل کرنے پر اتفاق کیا۔ عمرو بن حضرمی کو واقد بن عبداللہ تیمی نے تیر مار کر قتل کردیا اور عثمان بن عبداللہ نے حکم بن کیسان کو قیدی بنا لیا جبکہ مغیرہ بھاگ گیا اور یہ لوگ اس کو نہ پکڑ سکے۔ انھوں نے قافلہ کو لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے تو آپ نے ان سے کہا : ” اللہ کی قسم ! میں نے تم کو حرمت والے مہینے میں قتال کا حکم نہیں دیا تھا۔ “ آپ نے قافلے اور اسیروں کو روکے رکھا۔ ان سے کچھ نہ لیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی باز پرس کی تو وہ نادم ہوئے اور انھوں نے خیال کیا کہ وہ ہلاک ہوگئے اور مسلمانوں نے ان کی سرزنش کی۔ جب قریش کو یہ خبر ملی تو انھوں نے کہا کہ محمد نے حرمت والے مہینے میں خون بہایا اور بندوں کو اس میں قید کیا اور مہینے کی حرمت کو پامال کیا ہے تو اللہ نے یہ آیات نازل کردیں : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ } [البقرۃ ٢١٧] ” تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دے : اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستہ سے روکنا اور کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا (جرم) ہے اور فتنہ قتل سے بھی بڑا ہے۔ “ اللہ نے کہہ دیا کہ اللہ کا انکار کرنا قتال سے بڑا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قافلہ کو پکڑ لیا اور اسیروں پر فدیہ لگایا تو مسلمانوں نے کہا : کیا آپ اس کو ہمارے لیے غزوہ خیال کرتے ہیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ } [البقرۃ ٢١٨] ” بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہی اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ “ یہ لوگ آٹھ تھے اور نویں ان کے امیر عبداللہ بن جحش تھے۔

17996

(١٧٩٩٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فَذَکَرَ قِصَّۃَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَحْشٍ بِمَعْنَی ہَذَا قَالَ وَذَلِکَ فِی رَجَبٍ قَبْلَ بَدْرٍ بِشَہْرَیْنِ وَفِی ذَلِکَ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ کَانَ قَبْلَ نُزُولِ الآیَۃِ فِی الْغَنَائِمِ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٩٠) موسیٰ بن عقبہ عبداللہ بن جحش کے اسی واقعہ کو نقل فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بدر کے معرکہ سے دو ماہ پہلے رجب میں پیش آیا اور اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ یہ واقعہ عنیمتوں کی تقسیم کے بارے میں نازل ہونے والی آیت سے پہلے کا ہے۔

17997

(١٧٩٩١) أَخْبَرَنَا أَبُوالْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا أَبُو الأَحْرَزِ : مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ جَمِیلٍ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمَرْوَزِیُّ الْحَرْبِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ عَنْ شُعْبَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مُحَاصِرِی خَیْبَرَ فَرَمَی إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فَأَخَذْتُہُ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَاسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٧٩٩١) عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں : ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں ایک آدمی نے ایک تھیلی پھینکی۔ میں نے وہ پکڑ لی جب پلٹا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سامنے تھے تو مجھے حیا آیا۔

17998

(١٧٩٩٢) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ وَسُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ الْقَیْسِیُّ کِلاَہُمَا عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ الْعَدَوِیِّ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ الْمُغَفَّلِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : دُلِّیَ جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ یَوْمَ خَیْبَرَ فَأَخَذْتُہُ فَالْتَزَمْتُہُ فَقُلْتُ ہَذَا لِی لاَ أُعْطِی أَحَدًا مِنْہُ شَیْئًا فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَاسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ قَالَ سُلَیْمَانُ فِی حَدِیثِہِ وَلَیْسَ فِی حَدِیثِ شُعْبَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : ہُوَ لَکَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّی عَنْ أَبِی دَاوُدَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٩٢) عبداللہ بن مغفل (رض) فرماتے ہیں کہ چربی کی ایک تھیلی لٹکائی گئی۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور اپنے قبضہ میں لے لیا اور کہا : یہ میری ہے کسی کو اس میں سے نہیں دوں گا۔ جب میں پلٹا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سامنے پایا تو مجھے شرم آئی۔
سلیمان کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ تیری ہے۔ “ جبکہ شعبہ کی روایت میں نہیں ہے۔

17999

(١٧٩٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہَاشِمٍ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ وَہُوَ ابْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمَوْصِلِیُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنَّا نُصِیبُ فِی الْمَغَازِی الْعَسَلَ وَالْفَاکِہَۃَ فَنَأْکُلُہُ وَلاَ نَرْفَعُہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسَدَّدٍ عَنْ حَمَّادٍ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : الْعَسَلَ وَالْعِنَبَ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٩٣) ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوات میں ہمیں شہد اور پھل ملتے تھے ہم ان کو کھالیتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں لاتے تھے۔ بخاری کی روایت میں شہد اور انگور کا ذکر ہے۔

18000

(١٧٩٩٤) وَرَوَاہُ ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ فَقَالَ فِی الْحَدِیثِ : کُنَّا نَأْتِی الْمَغَازِیَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنُصِیبُ الْعَسَلَ وَالسَّمْنَ فَنَأْکُلُہُ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْبَاقِی بْنُ قَانِعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٩٤) حماد بن زید کہتے ہیں : غزوات میں ہمیں جو شہد یا گھی ملتا ہم اس کو کھالیتے تھے۔

18001

(١٧٩٩٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا الزُّبَیْرِیُّ إِبْرَاہِیمَ بْنِ حَمْزَۃَ حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ جَیْشًا غَنِمُوا فِی زَمَانِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - طَعَامًا وَعَسَلاً فَلَمْ یُؤْخَذْ مِنْہُمُ الْخُمُسُ ۔ [حسن ]
(١٧٩٩٥) حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک لشکر غنیمت میں شہد اور کھانا لایا تو اس میں سے خمس نہیں لیا گیا۔

18002

(١٧٩٩٦) وَرَوَاہُ عُثْمَانُ بْنُ الْحَکَمِ الْجُذَامِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ جَیْشًا غَنِمُوا دُونَ ذِکْرِ ابْنِ عُمَرَ فِیہِ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عُثْمَانُ بْنُ الْحَکَمِ الْجُذَامِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ فَذَکَرَہُ مُرْسَلاً ۔ [منکر ]
(١٧٩٩٦) عثمان بن حکم جزامی نے یہ روایت نافع سے نقل کی ہے اور ابن عمر (رض) کا ذکر نہیں کیا کہ نافع کہتے ہیں : ایک لشکر نے غنیمت کا مال حاصل کیا۔

18003

(١٧٩٩٧) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا الشَّیْبَانِیُّ وَأَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الْمُجَالِدِ قَالَ : بَعَثَنِی أَہْلُ الْمَسْجِدِ إِلَی ابْنِ أَبِی أَوْفَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَسْأَلُہُ مَا صَنَعَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی طَعَامِ خَیْبَرَ فَأَتَیْتُہُ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذَلِکَ فَقُلْتُ : ہَلْ خَمَّسَہُ ؟ قَالَ : لاَ کَانَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِکَ وَکَانَ أَحَدُنَا إِذَا أَرَادَ مِنْہُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْہُ حَاجَتَہُ ۔ [صحیح ]
(١٧٩٩٧) محمد بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ مجھے مسجد والوں نے ابن ابی اوفی کی طرف بھیجا کہ میں ان سے دریافت کروں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے کھانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا تو میں ان کے پاس آیا اور سوال کیا تو میں نے کہا : کیا خمس نکالا تھا ؟ تو انھوں نے فرمایا : نہیں کیونکہ وہ اس سے کم تھا اور ہم ضرورت کے مطابق اس سے لے لیتے تھے۔

18004

(١٧٩٩٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ یَعْقُوبَ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُؤَمَّلُ بْنُ ہِشَامٍ قَالاَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ عَنْ یُونُسَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِی بَرْزَۃَ الأَسْلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَتِ الْعَرَبُ تَقُولُ مَنْ أَکَلَ الْخُبْزَ سَمِنَ فَلَمَّا فَتَحْنَا خَیْبَرَ أَجْہَضْنَاہُمْ عَنْ خُبْزَۃٍ لَہُمْ فَقَعَدْتُ عَلَیْہَا فَأَکَلْتُ مِنْہَا حَتَّی شَبِعْتُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِی عِطْفَیَّ ہَلْ سَمِنْتُ ۔ کَذَا قَالَ عَنْ یُونُسَ وَقَالَ غَیْرُہُ عَنْ أَیُّوبَ ۔ [ضعیف ]
(١٧٩٩٨) ابو برزہ اسلمی کہتے ہیں : عرب کہا کرتے تھے کہ جو روٹی کھائے کا وہ موٹا ہوجائے گا۔ جب ہم نے خیبر فتح کیا اور ہم نے ان کو قتل کردیا اور ان کا کھانا لے لیا۔ میں اس پر بیٹھ گیا اور اس سے سیر ہو کر کھایا۔ پھر میں اپنے جسم کو دیکھا کرتا تھا کہ کیا موٹا ہوا ہوں۔

18005

(١٧٩٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ سُوَیْدٍ خَادِمِ سَلْمَانَ : أَنَّہُ أَصَابَ سَلَّۃً یَعْنِی فِی غَزْوِہِمْ فَقَرَّبَہَا إِلَی سَلْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَفَتَحَہَا فَإِذَا فِیہَا حُوَّارَی وَجُبْنٌ فَأَکَلَ سَلْمَانُ مِنْہَا۔ [ضعیف ]
(١٧٩٩٩) سلمان کے خادم سوید کہتے کہ ان کو لڑائی میں ٹوکری ملی۔ وہ انھوں نے سلمان (رض) کو دی تو انھوں نے اس کو کھولا تو اس میں سفید کھانا اور پنیر تھا تو سلمان نے اس سے کھایا۔

18006

(١٨٠٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ حَدَّثَنِی أَسِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ خَالِدِ بْنِ الدُّرَیْکِ قَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ مُحَیْرِیزٍ عَنْ بَیْعِ الطَّعَامِ وَالْعَلَفِ بِأَرْضِ الرُّومِ فَقَالَ سَمِعْتُ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : إِنَّ رِجَالاً یُرِیدُونَ أَنْ یُزِیلُونِی عَنْ دِینِی وَاللَّہِ لاَ یَکُونُ ذَلِکَ حَتَّی أَلْقَی مُحَمَّدًا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابَہُ مَنْ بَاعَ طَعَامًا أَوْ عَلَفًا بِأَرْضِ الرُّومِ مِمَّا أَصَابَ مِنْہَا بِذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ فَفِیہِ خُمُسُ اللَّہِ وَفَیْئُ الْمُسْلِمِینَ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٠٠) خالد بن دریک کہتے ہیں : میں نے محیریز سے پوچھا : کیا روم کے علاقہ میں طعام اور جانوروں کے چارہ وغیر فروخت ہوسکتے ہیں تو انھوں نے کہا : میں فضالہ بن عبید سے سنا وہ کہتے تھے : کچھ لوگ مجھے میرے دین سے پھسلانا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوگا حتیٰ کہ مجھے موت آجائے۔ میں محمد اور اس کے ساتھیوں سے ملوں۔ مال غنیمت میں سے جو کوئی روم کے علاقہ میں خریدو فروخت کرے گا غلے اور طعام کی اس میں اللہ کا خمس بھی ہے اور مسلمانوں کا مال فیٔ بھی ہے۔

18007

(١٨٠٠١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ حَدَّثَنِی خَالِدُ بْنُ دُرَیْکٍ عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ إِنَّ نَاسًا یُرِیدُونَ أَنْ یَسْتَزِلُّونِی عَنْ دِینِی وَإِنِّی وَاللَّہِ لأَرْجُو أَنْ لاَ أَزَالَ عَلَیْہِ حَتَّی أَمُوتَ مَا کَانَ مِنْ شَیْئٍ بِیعَ بِذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ فَفِیہِ خُمُسُ اللَّہِ وَسِہَامُ الْمُسْلِمِینَ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٠١) فضالہ بن عبید (رض) فرماتے ہیں : کچھ لوگ مجھے میرے دین سے پھیرنا چاہتے ہیں اور اللہ کی قسم ! میں مرنے تک اسی پر رہنے کی امید کرتا ہوں۔ کوئی بھی چیز جس کو سونے یا چاندی کے بدلہ میں فروخت کیا جائے اس میں اللہ کا خمس اور مسلمانوں کا حصہ ہے۔

18008

(١٨٠٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَیَّاشٍ حَدَّثَنَا أَسِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُقْبِلِ بْنِ عَبْدِاللَّہِ عَنْ ہَانِئِ بْنِ کُلْثُومٍ : أَنَّ صَاحِبَ جَیْشِ الشَّامِ حِینَ فُتِحَتِ الشَّامُ کَتَبَ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّا فَتَحْنَا أَرْضًا کَثِیرَۃَ الطَّعَامِ وَالْعَلَفِ فَکَرِہْتُ أَنْ أَتَقَدَّمَ فِی شَیْئٍ مِنْ ذَلِکَ إِلاَّ بِأَمْرِکَ فَاکْتُبْ إِلَیَّ بِأَمْرِکَ فِی ذَلِکَ فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ دَعِ النَّاسَ یَأْکُلُونَ وَیَعْلِفُونَ فَمَنْ بَاعَ شَیْئًا بِذَہَبٍ أَوْ فِضَّۃٍ فَفِیہِ خُمُسُ اللَّہِ وَسِہَامُ الْمُسْلِمِینَ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٠٢) ہانی بن کلثوم فرماتے ہیں : شام کو فتح کرنے کے بعد لشکر کے امیر نے عمر (رض) کو لکھا : ہم نے طعام کی کثرت اور مویشیوں کے چارہ کی کثرت والے علاقہ کو فتح کیا ہے۔ میں آپ کے حکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتا، لہٰذا آپ ہمارے لیے احکامات لکھ دیں تو حضرت عمر (رض) نے لکھا : لوگوں کو کھانے سے اور چارہ حاصل کرنے سے نہ روکو اور جو چیز سونے چاندی کے عوض فروخت کی جائے اس میں خمس بھی ہوگا مسلمانوں کا حصہ بھی ہوگا۔

18009

(١٨٠٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ یَحْیَی بْنِ حَمْزَۃَ حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ الْعَزِیزِ شَیْخٌ مِنْ أَہْلِ الأُرْدُنِّ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ : رَابَطْنَا مَدِینَۃَ قِنَّسْرِینَ مَعَ شُرَحْبِیلَ بْنِ السِّمْطِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَلَمَّا فَتَحَہَا أَصَابَ فِیہَا غَنَمًا وَبَقَرًا فَقَسَمَ فِینَا طَائِفَۃً مِنْہَا وَجَعَلَ بَقِیَّتَہَا فِی الْمَغْنَمِ فَلَقِیتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَحَدَّثْتُہُ فَقَالَ مُعَاذٌ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِخَیْبَرَ فَأَصَبْنَا فِیہَا غَنَمًا فَقَسَمَ فِینَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - طَائِفَۃً وَجَعَلَ بَقِیَّتَہَا فِی الْمَغْنَمِ ۔ [حسن ]
(١٨٠٠٣) عبدالرحمن بن غنم کہتے ہیں : ہم نے قنسرین شہر کا شرحبیل بن سمط کے ساتھ مل کر محاصرہ کیا۔ جب اس کو فتح کرلیا تو ہمیں غنیمت کا مال ملا اور جانور (بکریاں اور گائے) بھی ملے تو انھوں نے اس کا کچھ حصہ ہمیں تقسیم کر کے دے دیا۔ باقی ماندہ کو مال غنیمت میں داخل کردیا۔ میں نے معاذ بن جبل (رض) کے پاس اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیبر کی جنگ میں تھے۔ آپ مال غنیمت کا ایک حصہ ہمارے درمیان تقسیم کیا اور باقی کو مال غنیمت میں داخل کردیا۔

18010

(١٨٠٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْخَلِیلِ حَدَّثَنَا الْوَاقِدِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْفُضَیْلِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَشْجَعِیِّ عَنْ أَبِی سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ خَیْبَرَ : کُلُوا وَاعْلِفُوا وَلاَ تَحْتَمِلُوا۔ [ضعیف ]
(١٨٠٠٤) عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن فرمایا : ” کھاؤ اور جانوروں کے لیے حاصل کرو اور اٹھا کر نہ لے جاؤ۔ “

18011

(١٨٠٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ ، عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ فَذَکَرَہٗ مُرْسَلاً ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٠٥) عبیداللہ بن عمر نے مذکورہ روایت کو ہی نقل کیا ہے مگر مرسل ہے۔

18012

(١٨٠٠٦) أَخْبَرَنَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْحَافِظُ ، أَنْبَأَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ الحافظ، انبأ أبو عبد اللہ محمد بن یعقوب الحافظ، ثنا یحییٰ بن محمد بن یحییٰ، ثنا مسدد، ثنا ہشیم، أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ حَرْشَفٍ الأَزْدِیَّ حَدَّثَہُ عَنِ الْقَاسِمِ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : کُنَّا نَأْکُلُ الْجَزْرَ فِی الْغَزْوِ وَلاَ نَقْسِمُہُ حَتَّی إِنْ کُنَّا لَنَرْجِعُ إِلَی رِحَالِنَا وَأَخْرِجَتُنَا مِنْہُ مُمْلأَۃٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٠٦) عبدالرحمن کے مولی قاسم اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم غزوات میں گوشت کھاتے تھے اور تقسیم نہیں کرتے تھے۔ جب ہم گھروں کو آتے تو ہماری تھیلیاں اس سے بھری ہوتی تھیں۔

18013

(١٨٠٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ یُرْوَی مِنْ حَدِیثِ بَعْضِ النَّاسِ مِثْلَمَا قُلْتُ مِنْ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَذِنَ لَہُمْ أَنْ یَأْکُلُوا فِی بِلاَدِ الْعَدُوِّ وَلاَ یَخْرُجُوا بِشَیْئٍ مِنَ الطَّعَامِ فَإِنْ کَانَ مِثْلَ ہَذَا یَثْبُتُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلاَ حُجَّۃَ لأَحَدٍ مَعَہُ وَإِنْ کَانَ لاَ یَثْبُتُ لأَنَّ فِی رِجَالِہِ مَنْ یُجْہَلُ فَکَذَلِکَ فِی رِجَالِ مَنْ رُوِی عَنْہُ إِحْلاَلُہُ مَنْ یُجْہَلُ ۔ [صحیح ] قَالَ الشَّیْخُ وَکَأَنَّہُ أَرَادَ بِالأَوَّلِ حَدِیثَ الْوَاقِدِیِّ وَأَرَادَ بِالثَّانِی مَا ذَکَرْنَا بَعْدَہُ ۔
(١٨٠٠٧) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : بعض لوگوں سے روایت بیان کی گئی ہے جس طرح میں کہتا ہوں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی ہے کہ دشمن کے علاقہ میں مال غنیمت کھالیں، لیکن اس میں سے کچھ نہ نکالو۔ اگر یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوجائے تو اس کی موجودگی میں دوسری کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر یہ ثابت نہ ہو کیونکہ اس میں ایک مجہول ہے اور اسی طرح جن راویوں نے اس کا اعلال بیان کیا ہے اس میں بھی مجہول ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : امام شافعی کی اول سے مراد حدیث واقدی ہے اور دوسری وہ جو ہم نے بعد میں ذکر کی ہے۔

18014

(١٨٠٠٨) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالُوَیْہِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَزَّازُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَۃَ الْعَطَّارُ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ : یَا أَبَا سَعِیدٍ إِنِّی امْرُؤٌ مَتْجَرِی بِالأُبُلَّۃِ وَإِنِّی أَمْلأُ بَطْنِی مِنَ الطَّعَامِ فَأَصْعَدُ إِلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ فَآکُلُ مِنْ تَمْرِہِ وَبُسْرِہِ فَما تَرَی ؟ قَالَ الْحَسَنُ : غَزَوْتُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَۃَ وَرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانُوا إِذَا صَعِدُوا إِلَی الثِّمَارِ أَکَلُوا مِنْ غَیْرِ أَنْ یُفْسِدُوا أَوْ یَحْمِلُوا۔ [ضعیف ]
(١٨٠٠٨) ابو حمزہ عطار نے حسن سے سوال کیا : اے ابو سعید ! میں ایسا آدمی ہوں جس کی تجارت کا مقام (ابلہ) کی جگہ ہے۔ میں اپنا کھانے بھر لیتا ہوں۔ پھر دشمن کے علاقہ میں جاتا ہوں اور وہاں خشک اور تر کھجور کھاتا ہوں۔ اس کو آپ کیسا دیکھتے ہو ؟ تو حسن نے کہا : ہم عبدالرحمن بن سمرہ کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی بھی موجود تھے۔ جب وہ پھلوں کی طرف چڑھتے تو اس سے کھالیتے تھے مگر خراب نہیں کرتے تھے اور نہ ساتھ اٹھاتے تھے۔

18015

(١٨٠٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِیفَۃَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَأَصَابَ النَّاسَ جُوعٌ فَأَصَبْنَا إِبِلاً وَغَنَمًا وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی أُخْرَیَاتِ النَّاسِ فَعَجِلُوا فَذَبَحُوا وَنَصَبُوا الْقُدُورَ فَدُفِعَ إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِالْقُدُورِ فَأُکْفِئَتْ ثُمَّ قَسَمَ فَعَدَلَ عَشْرًا مِنَ الْغَنَمِ بِبَعِیرٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٠٩) رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں : ہم ذی الحلیفہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو شدید بھوک لگی۔ ہمیں کچھ اونٹ اور بکریاں ملیں۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر کے آخر میں تھے تو لوگوں نے جلدی کی اور انھوں نے جانور ذبح کیا اور ہنڈیاں چڑھا دیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو ہنڈیاں الٹا دیں گئیں۔ پھر آپ ان کو تقسیم کیا، ایک اونٹ کے برابر دس بکریاں رکھی گئیں۔

18016

(١٨٠١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِیِّ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ النَّاسَ حَاجَۃٌ شَدِیدَۃٌ وَجَہْدٌ فَأَصَابُوا غَنَمًا فَانْتَہَبُوہَا وَإِنَّ قُدُورَنَا لَتَغْلِی إِذْ جَائَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَمْشِی عَلَی فَرَسِہِ فَأَکْفَأَ قُدُورَنَا بِقَوْسِہِ ثُمَّ جَعَلَ یُرَمِّلُ اللَّحْمَ بِالتُّرَابِ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ النُّہْبَۃَ لَیْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَیْتَۃِ ۔ أَوْ : إِنَّ الْمَیْتَۃَ لَیْسَتَ بِأَحَلَّ مِنَ النُّہْبَۃِ ۔ الشَّکُّ مِنْ ہَنَّادٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٠١٠) انصار کا ایک آدمی کہتا ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر پر نکلے۔ لوگوں کو مسلسل کام کی وجہ سے کھانے کی سخت حاجت ہوئی۔ ان کو کچھ بکریاں مال غنیمت میں ملیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ لیا اور اس وقت ہنڈیاں پک رہی تھیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ اپنے گھوڑے پر چل رہے تھے اور اپنی کمان سے ہنڈیوں کو الٹا رہے تھے اور گوشت میں مٹی ملا رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا : ” لوٹی ہوئی مردار سے زیادہ حلال نہیں ہے “ یا فرمایا : ” مردار لوٹی ہوئی چیز سے زیادہ حلال نہیں ہے۔ “ یعنی یہ دونوں حرام ہیں۔

18017

(١٨٠١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ الْمِصْرِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ سُلَیْمٍ التُّجِیبِیِّ عَنْ حَنَشِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ السَّبَئِیِّ عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ عَامَ حُنَیْنٍ : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَسْقِیَنَّ مَائَ ہُ وَلَدَ غَیْرِہِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَأْخُذَنَّ دَابَّۃً مِنَ الْمَغَانِمِ فَیَرْکَبَہَا حَتَّی إِذَا نَقَضَہَا رَدَّہَا فِی الْمَغَانِمِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلاَ یَلْبَسَنَّ شَیْئًا مِنَ الْمَغَانِمِ حَتَّی إِذَا أَخْلَقَہُ رَدَّہُ فِی الْمَغَانِمِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠١١) رویفع بن ثابت انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن فرمایا : ” جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنا پانی غیر کے بچے کو نہ پلائے اور وہ جو اللہ پر آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ غنیمت کے مال سے کوئی جانور نہ لے۔ اگر لے اور اس کو بوڑھا کر دے پھر بھی وہ اس کو غنیمت کے مال میں واپس کرے گا اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ غنیمت سے کچھ لباس نہ پہنے۔ اگر لے کر اس کو بوسیدہ بھی کر دے تو وہ اس کو غنیمت کے مال میں واپس کرے گا۔

18018

(١٨٠١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ بُدَیْلِ بْنِ مَیْسَرَۃَ وَخَالِدٍ وَالزُّبَیْرِ بْنِ الْخِرِّیتِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَقِیقٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَلْقَیْنِ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ بِوَادِی الْقُرَی فَقُلْتُ : مَا تَقُولُ فِی الْغَنِیمَۃِ ؟ قَالَ : لِلَّہِ خُمُسُہَا وَأَرْبَعَۃُ أَخْمَاسٍ لِلْجَیْشِ ۔ قُلْتُ : فَمَا أَحَدٌ أَوْلَی بِہِ مِنْ أَحَدٍ ؟ قَالَ : لاَ وَلاَ السَّہْمُ تَسْتَخْرِجُہُ مِنْ جَنْبِکَ لَیْسَ أَنْتَ أَحَقَّ بِہِ مِنْ أَخِیکَ الْمُسْلِمِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠١٢) عبداللہ بن شقیق بلقین کے ایک آدمی سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اس وقت آپ قریٰ کی وادی میں تھے۔ اس نے غنیمت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔ باقی چار حصے لشکر کے لیے ہیں۔ اس نے کہا : کیا کسی کو کسی پر فوقیت ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں حتیٰ کہ وہ تیر جس کو تم اپنے پہلو سے نکالو، اس میں بھی تم اپنے بھائی سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔

18019

(١٨٠١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمَعْمَرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ وَہُوَ صَرِیعٌ وَعَلَیْہِ بَیْضَۃٌ وَمَعَہُ سَیْفٌ جَیِّدٌ وَمَعِی سَیْفٌ رَدِیٌّ فَجَعَلْتُ أَنْقُفُ رَأْسَہُ بِسَیْفِی وَأَذْکُرُ نَقْفًا کَانَ یَنْقُفُ رَأْسِی بِمَکَّۃَ حَتَّی ضَعُفَتْ یَدُہُ فَأَخَذْتُ سَیْفَہُ فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ : عَلَی مَنْ کَانَتِ الدَّبْرَۃُ ؟ أَکَانَتْ لَنَا أَوْ عَلَیْنَا أَلَسْتَ رُوَیْعِیَنَا بِمَکَّۃَ ؟ قَالَ فَقَتَلْتُہُ ثُمَّ أَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْتُ : قَتَلْتُ أَبَا جَہْلٍ ۔ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: آللَّہِ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ قَتَلْتَہُ ؟ فَاسْتَحْلَفَنِی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَامَ مَعِی إِلَیْہِمْ فَدَعَا عَلَیْہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠١٣) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں : میں ابو جہل کے پاس پہنچا، وہ نیم مردہ حالت میں تھا۔ اس کے سر پر خود تھا اور اس کے پاس عمدہ تلوار تھی اور میری تلوار ہلکی تھی۔ میں اپنی تلوار سے اس کے سر پر مارا اس وقت مجھے مکہ میں اس کا مجھے مارنا یاد آیا۔ میں نے اتنا مارا کہ اس کا ہاتھ کمزور ہوگیا۔ میں نے اس کی تلوار پکڑ لی۔ اس نے سر اٹھایا اور کہا : شکست کس کو ہوئی ؟ کیا ہمیں یا ان کو اور مجھے کہا : کیا تو مکہ میں ہمارا چرواہا نہیں تھا۔ عبداللہ (رض) فرماتے ہیں : میں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اس کو قتل کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کیا تو نے اس کو قتل کیا ہے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ مجھ سے قسم لی۔ پھر میرے ساتھ گئے۔ پھر ان کے لیے بددعا کی۔

18020

(١٨٠١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : جَنَاحُ بْنُ نَذِیرِ بْنِ جَنَاحٍ الْقَاضِی بِالْکُوفَۃِ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ أَخْبَرَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ أَخْبَرَنَا شَرِیکٌ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ وَہُوَ فِی الْقَتْلَی صَرِیعٌ وَمَعِی سَیْفٌ رَثٌّ فَجَعَلْتُ أَضْرِبُہُ بِسَیْفِی فَلَمْ یَعْمَلْ شَیْئًا قَالَ وَنَظَرَ إِلَیَّ فَقَالَ : أَرُوَیْعِینَا بِمَکَّۃَ ؟ فَوَقَعَ سَیْفُہُ فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتَّی قَتَلْتُہُ ثُمَّ جِئْتُ أَشْتَدُّ حَتَّی أَخْبَرْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أَنْتَ قَتَلْتَہُ ؟ ۔ قُلْتُ : نَعَمْ حَتَّی اسْتَحْلَفَنِی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَحَلَفْتُ لَہُ ثُمَّ قَالَ : انْطَلِقْ فَأَرِنِیہِ ۔ فَانْطَلَقَ فَأَرَیْتُہُ إِیَّاہُ فَقَالَ : کَانَ ہَذَا فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ ۔ (ت) وَرَوَاہُ الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ بِمَعْنَاہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٠١٤) عبداللہ (رض) کہتے ہیں : میں ابو جہل کے پاس آیا، وہ مقتولین میں نیم مردہ پڑا تھا۔ میرے پاس پرانی تلوار تھی۔ میں نے اس کو اپنی تلوار سے مارنا شروع کردیا وہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہا : کیا تو مکہ میں ہمارا چرواہا نہیں تھا اسی اثناء میں اس کی تلوار گرگئی۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس کو اس کی تلوار سے قتل کردیا۔ پھر میں جلدی جلدی آیا اور آپ کو خبر دی تو آپ نے فرمایا : کیا تو نے اس کو قتل کیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں تو آپ نے مجھ سے تین قسمیں لیں۔ میں نے قسمیں دیں۔ آپ نے کہا : چلو مجھے اس کو دکھاؤ۔ آپ نکلے تو میں نے ان کو دکھایا تو آپ نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون ہے۔

18021

(١٨٠١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ سِیرِینَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ بَرَائِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَقِیتُ یَوْمَ مُسَیْلِمَۃَ رَجُلاً یُقَالُ لَہُ حِمَارُ الْیَمَامَۃِ رَجُلاً جَسِیمًا بِیَدِہِ سَیْفٌ أَبْیَضُ فَضَرَبْتُ رِجْلَیْہِ فَکَأَنَّمَا أَخْطَأْتُہُ فَانْقَعَرَ فَوَقَعَ عَلَی قَفَاہُ فَأَخَذْتُ سَیْفَہُ وَأَغْمَدْتُ سَیْفِی فَمَا ضَرَبْتُ بِہِ إِلاَّ ضَرْبَۃً حَتَّی انْقَطَعَ فَأَلْقَیْتُہُ وَأَخَذْتُ سَیْفِی۔
(١٨٠١٥) حضرت براء بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ مسیلمہ سے لڑائی کے دن میں ایک طاقتور آدمی سے ملا جس کو یمامہ کا گدھا کہا جاتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں عمدہ تلوار تھی۔ میں نے اس کی ٹانگوں پر مارا گویا کہ مجھ سے خطا ہوگئی۔ اس کی ٹانگیں اکھڑ گئیں اور وہ گدی کے بل گرگیا۔ میں نے اس کی تلوار کو پکڑا اور اپنی تلوار کو میان میں رکھا میں اس کو ایک ہی وار سے قتل کردیا پھر میں نے اس کی تلوار کو پھنک دیا اور میں نے اپنی تلوار پکڑ لی۔

18022

(١٨٠١٦) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً وَقِرَائَ ۃً أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِی طَلْحَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا غَلَبَ عَلَی قَوْمٍ أَحَبَّ أَنْ یُقِیمَ بِعَرْصَتِہِمْ ثَلاَثًا۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ رَوْحٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ قَالَ الْبُخَارِیُّ وَتَابَعَہُ مُعَاذٌ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠١٦) ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں : جب آپ کسی قوم پر غلبہ حاصل کرتے تو پسند کرتے کہ وہاں تین دن قیام کیا جائے۔

18023

(١٨٠١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ الْمُقْرِئُ بْنُ الْحَمَّامِیِّ رَحِمَہُ اللَّہُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ بْنَ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ بَنِی قُرَیْظَۃَ لَمَّا نَزَلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَرْسَلَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَائَ عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا کَانَ قَرِیبًا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ أَوْ إِلَی خَیْرِکُمْ ۔ فَقَالَ : إِنَّ ہَؤُلاَئِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ ۔ قَالَ : فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ یُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ ۔ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : حَکَمْتَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ وَرُبَّمَا قَالَ حَکَمْتَ بِحُکْمِ اللَّہِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠١٧) ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں : جب بنوقریظہ نے سعد بن معاذ کو اپنا ثالث بنایا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پیغام بھیجا، وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جب وہ مسجد کے قریب آئے تو آپ نے فرمایا : ” اپنے سردار یا اپنے اچھے کی طرف اٹھو۔ “ آپ نے فرمایا : ان لوگوں نے آپ کو ثالث بنایا ہے تو انھوں نے کہا : میں ان کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے قابل لوگوں کو قتل کردیا جائے اور بچوں کو قیدی بنایا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے مالک (اللہ) کے فیصلہ کے ساتھ فیصلہ کیا ہے۔

18024

(١٨٠١٨) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الأَسَدِیُّ الْحَافِظُ بِہَمَذَانَ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَیْزِیلَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِیُّ وَإِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ التَّمَّارُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَکَمَ عَلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ أَنْ یُقْتَلَ مِنْہُمْ کُلُّ مِنْ جَرَتْ عَلَیْہِ الْمُوسَی وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُہُمْ وَذَرَارِیُّہُمْ فَذُکِرَ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لَقَدْ حَکَمَ الْیَوْمَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللَّہِ الَّذِی حَکَمَ بِہِ مِنْ فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٨٠١٨) سعد بن معاذ نے بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان میں سے بالغوں کو قتل کیا جائے اور مال اور بچوں کو مال غنیمت کے طور پر تقسیم کیا جائے۔ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ذکر کی گئی تو آپ نے فرمایا : سعد نے وہ فیصلہ کیا جو اللہ نے سات آسمانوں پر کیا ہے۔

18025

(١٨٠١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ : عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیُّ قَالَ : کُنْتُ فِیہِمْ فَکَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ یُنْبِتْ تُرِکَ فَکُنْتُ فِیمَنْ لَمْ یُنْبِتْ ۔ [صحیح ]
(١٨٠١٩) عطیہ قرظی فرماتے ہیں : میں بھی بنی قریظہ میں سے تھا جس کے زیر ناف بال تھے، اس کو قتل کیا گیا اور جس کے بال نہ تھے اس کو چھوڑ دیا گیا۔ میں اس وقت بغیر بال کے تھا۔

18026

(١٨٠٢٠) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ الضَّبِّیُّ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَطِیَّۃَ الْقُرَظِیُّ قَالَ : کُنْتُ فِیمَنْ حَکَمَ فِیہِمْ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ وَتُسْبَی ذَرَارِیُّہُمْ قَالَ فَجَائُ وا بِی وَلاَ أُرَانِی إِلاَّ سَیَقْتُلُونَنِی فَکَشَفُوا عَانَتِی فَوَجَدُوہَا لَمْ تُنْبِتْ فَجَعَلُونِی فِی السَّبْیِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٢٠) عظیہ قرظی فرماتے ہیں : سعد بن معاذ نے جن کے متعلق فیصلہ کیا تھا ان میں میں بھی تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگجوؤں کے بارے میں قتل کا حکم دیا اور بچوں کو قیدی بنایا گیا۔ لوگ مجھے لائے، وہ مجھے بھی قتل کرنے والے تھے۔ انھوں نے میرا ستر کھولا تو میرے زیر ناف بال نہیں تھے (میں بالغ نہیں تھا) تو انھوں نے مجھے قیدیوں میں رکھا۔

18027

(١٨٠٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعَلَوِیُّ وَأَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُرَحْبِیلَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ یَہُودَ بَنِی النَّضِیرِ وَقُرَیْظَۃِ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ حَتَّی حَارَبَتْ قُرَیْظَۃُ بَعْدَ ذَلِکَ فَقَتَلَ رِجَالَہُمْ وَقَسَمَ نِسَائَ ہُمْ وَأَوْلاَدَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلاَّ بَعْضَہُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَآمَنَہُمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَہُودَ الْمَدِینَۃِ بَنِی قَیْنُقَاعَ وَہُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللَّہِ یَعْنِی ابْنَ سَلاَمٍ وَیَہُودَ بَنِی حَارِثَۃَ وَکُلَّ یَہُودِیٍّ بِالْمَدِینَۃِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٢١) ابن عمر (رض) فرماتے ہیں : بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی کی۔ آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور قریظہ والوں کو برقرار رکھا اور ان پر احسان کیا۔ اس کے بعد بنو قریظہ نے بھی لڑائی کی۔ آپ نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور ان کو چھوڑ دیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل گئے۔ آپ نے ان کو امن دیا انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ آپ نے مدینہ کے یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ ان بنی قینقاع جو کہ عبداللہ بن سلام کی قوم کے لوگ تھے اور بنی حارثہ کے یہود تھے اور ہر یہودی جو مدینہ میں تھا اس کو جلا وطن کردیا۔

18028

(١٨٠٢٢) وَأَمَّا مَا قَالَ فِی خَیْبَرَ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ : حَسَّانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَوْلاَ آخِرُ النَّاسِ مَا فُتِحَتْ عَلَیْہِمْ قَرْیَۃٌ إِلاَّ قَسَمْتُہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٢٢) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں : اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ بعد میں آنے والے لوگ تنگ دست ہوجائیں گے تو میں جو بھی علاقہ فتح ہوتا تو اس کو تقسیم کردیتا جس طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا تھا۔

18029

(١٨٠٢٣) وَأَمَّا مَا قَالَ فِی وِلْدَانِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی عَدِیٍّ وَمُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الدُّعَائِ قَبْلَ الْقِتَالِ قَالَ إِنَّمَا کَانَ ذَلِکَ الدُّعَائُ فِی أَصْلِ الإِسْلاَمِ قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ وَسَبَی سَبْیَہُمْ وَأَصَابَ یَوْمَئِذٍ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ حَدَّثَنِی بِہَذَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَکَانَ فِی ذَلِکَ الْجَیْشِ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ یَزِیدَ إِنَّمَا ذَلِکَ بَعْدَ الدُّعَائِ فِی أَوَّلِ الإِسْلاَمِ وَالْبَاقِی سَوَائٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّی عَنِ ابْنِ أَبِی عَدِیٍّ ۔ وَقَدْ مَضَی فِی حَدِیثِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ : غَزَوْنَا الْمُصْطَلِقَ فَسَبَیْنَا کَرَائِمَ الْعَرَبِ فَأَرَدْنَا أَنْ نَسْتَمْتِعَ وَنَعْزِلَ فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لاَ عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٢٣) ابن عون فرماتے ہیں : میں نے نافع کو لڑائی سے پہلے دعوت کے بارے میں سوال لکھ کر بھیجا انھوں نے کہا : دعوت دینا اسلام کی بنیاد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو مصطلق پر شب خون مارا کیونکہ وہ بھی اس کے لیے تیار تھے۔ اس وقت جانوروں کو پانی پلایا جا رہا تھا۔ آپ نے جنگجوؤں کو قتل کیا، بچوں کو قیدی بنایا اور اسی دن آپ کو حضرت جویریہ بنت حارث ملی تھیں۔

18030

(١٨٠٢٤) وَأَمَّا مَا قَالَ فِی ہَوَازِنَ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ وَہُوَ ابْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِی ابْنُ أَخِی ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَمِّہِ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَامَ حِینَ جَائَ ہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ فَسَأَلُوہُ أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ إِمَّا السَّبْیَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدِ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلاَّ إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْمُسْلِمِینَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَتَکُمْ قَدْ جَائُ وا تَائِبِینَ وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذَلِکَ فَلْیَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلَی حَظِّہِ حَتَّی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیئُ اللَّہُ عَلَیْنَا ۔ فَقَالَ النَّاسُ : قَدْ طَیَّبْنَا ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّا لاَ نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ ۔ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ فَرَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا ہَذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَأَسَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ بَدْرٍ فَمِنْہُمْ مَنْ مَنَّ عَلَیْہِ بِلاَ شَیْئٍ أَخَذَہُ مِنْہُ وَمِنْہُمْ مَنْ أَخَذَ مِنْہُ فِدْیَۃً وَمِنْہُمْ مَنْ قَتَلَہُ وَکَانَ الْمَقْتُولاَنِ بَعْدَ الإِسَارِ یَوْمَ بَدْرٍ عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ وَالنَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ ۔[صحیح۔ بخاری ٤٣١٩]
(١٨٠٢٤) عروہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ ہوازن کے وفد نے رسول اللہ سے اپنے مال و قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ نے فرمایا : مجھے اور میرے ساتھیوں کو سچی بات زیادہ محبوب ہے۔ تمہیں دونوں میں سے ایک چیز کا اختیار ہے (مال یا قیدی) اور میں تمہیں مہلت دیتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر دس راتوں کی مہلت دی۔ جب انھیں یقین ہوگیا کہ آپ صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انھوں نے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی تعریف فرمائی جس کا وہ اصل حق دار تھا پھر فرمایا : امابعد ! تمہارے بھائی توبہ کر کے آگئے ہیں میں ان کے قیدی واپس کرنا چاہتا ہوں۔ جو تم میں سے دل کی خوشی سے یہ کام کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور جو کوئی ان کا عوض لینا چاہے تو ہم پہلے مال فیٔ سے اس کا بدل واپس کردیں گے تو لوگوں نے کہا : ہم نے دل کی خوشی سے واپس کردیے، اے اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمیں معلوم نہ ہوسکا کون اجازت دیتا ہے اور کون نہیں۔ تم اپنے سرداروں کو بتاؤ، وہ ہمیں خبر دیں تو لوگوں نے اپنے چوہدریوں سے بات کی تو انھوں نے رسول اللہ کو بتایا کہ لوگوں نے خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ یہ حدیث مجھے ہوازن کے قیدیوں کے بارے میں پہنچی۔
(ب) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کر چھوڑا، بعض سے کچھ بھی نہ لیا اور بعض کو قتل بھی کروا دیا۔ رسول اللہ نے بدر کے دو قیدیوں کو قتل کروایا۔ عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث۔

18031

(١٨٠٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَدَدٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قُرَیْشٍ وَغَیْرِہِمْ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْمَغَازِی : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَسَرَ النَّضْرَ بْنَ الْحَارِثِ الْعَبْدَرِیَّ یَوْمَ بَدْرٍ وَقَتَلَہُ بِالْبَادِیَۃِ أَوِ الأَثِیلِ صَبْرًا وَأَسَرَ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ یَوْمَ بَدْرٍ فَقَتَلَہُ صَبْرًا۔ قَالَ الشَّیْخُ وَقَدْ رُوِّینَا فِی کِتَابِ الْقَسْمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ صَاحِبِ الْمَغَازِی۔ [صحیح ]
(١٨٠٢٥) امام شافعی (رح) اہل مغازی سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نضر بن حارث عبدری کو بدر کے دن دیہات یا اثیل کے مقام پر باندھ کر قتل کردیا یہی سلوک عقبہ بن ابی معیط کے ساتھ کیا گیا۔

18032

(١٨٠٢٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہَمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ سَہْلِ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا أَقْبَلَ بِالأُسَارَی حَتَّی إِذَا کَانَ بِعَرْقِ الظُّبْیَۃِ أَمَرَ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الأَقْلَحِ أَنْ یَضْرِبَ عُنُقَ عُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ فَجَعَلَ عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ یَقُولُ : یَا وَیْلاَہُ عَلاَمَ أُقْتَلُ مِنْ بَیْنَ ہَؤُلاَئِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: لِعَدَاوَتِکَ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ۔ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ مَنُّکَ أَفْضَلُ فَاجْعَلْنِی کَرَجُلٍ مِنْ قَوْمِی إِنْ قَتَلْتَہُمْ قَتَلْتَنِی وَإِنْ مَنَنْتَ عَلَیْہِمْ مَنَنْتَ عَلَیَّ وَإِنْ أَخَذْتَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ کُنْتُ کَأَحَدِہِمْ یَا مُحَمَّدُ مَنْ لِلصِّبْیَۃِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : النَّارُ یَا عَاصِمُ بْنَ ثَابِتٍ قَدِّمْہُ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ ۔ فَقَدَّمَہُ فَضَرَبَ عُنُقَہُ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٠٢٦) محمد بن یحییٰ بن سہل بن ابی حثمہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ عرق ظبیہ نامی جگہ پر جب رسول اللہ کے پاس قیدی لائے گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاصم بن ثابت بن ابی افلح کو حکم دیا وہ عقبہ بن ابی معیط کی گردن جدا کردیں۔ عقبہ بن ابی معیط نے کہا : ان کے درمیان سے مجھے کیوں قتل کیا جا رہا ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا : اللہ اور رسول کی دشمنی کی وجہ سے تو عقبہ نے کہا : اے محمد ! آپ مجھے میری قوم کے آدمیوں میں شمار کرتے ہوئے ان جیسا سلوک کریں۔ اگر ان کو قتل یا احسان کریں تو میرے ساتھ بھی یہ سلوک کرلینا۔ اے احمد ! بچوں کا کون ہے ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کے لیے آگ ہے۔ اے عاصم بن عون ! اس کی گردن تن سے جدا کر دو تو انھوں نے اس کا سر قلم کردیا۔

18033

(١٨٠٢٧) وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلاَّبُ بِہَمَذَانَ حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ الْعَلاَئِ الرَّقِّیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی أُنَیْسَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ : أَرَادَ الضَّحَّاکُ بْنُ قَیْسٍ أَنْ یَسْتَعْمِلَ مَسْرُوقًا فَقَالَ لَہُ عُمَارَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ أَتَسْتَعْمِلُ رَجُلاً مِنْ بَقَایَا قَتَلَۃِ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ مَسْرُوقٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ فِی أَنْفُسِنَا مَوْثُوقَ الْحَدِیثِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا أَرَادَ قَتْلَ أَبِیکَ قَالَ : مَنْ لِلصِّبْیَۃِ ؟ قَالَ : النَّارُ ۔ قَدْ رَضِیتُ لَکَ مَا رَضِیَ لَکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح ]
(١٨٠٢٧) ابراہیم فرماتے ہیں کہ جب ضحاک بن قیس نے مسروق کو عامل بنانا چاہا تو عمارہ بن عقبہ نے کہا کہ کیا آپ حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کسی کو عامل بنانا چاہتے ہیں تو مسروق نے عمارہ سے کہا کہ ہمیں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ جو بات ہمارے دلوں میں پختہ ہے یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے کہا تھا : بچوں کا کون ہے ؟ فرمایا : آگ۔ میں تیرے لیے وہ پسند کرتا ہوں جو تیرے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند فرمایا۔

18034

(١٨٠٢٨) قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَانَ مِنَ الْمَمْنُونِ عَلَیْہِمْ بِلاَ فِدْیَۃٍ أَبُو عَزَّۃَ الْجُمَحِیُّ تَرَکَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِبَنَاتِہِ وَأَخَذَ عَلَیْہِ عَہْدًا أَنْ لاَ یُقَاتِلَہُ فَأَخْفَرَہُ وَقَاتَلَہُ یَوْمَ أُحُدٍ فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ لاَ یَفْلِتَ فَمَا أُسِرَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ رَجُلٌ غَیْرُہُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ امْنُنْ عَلَیَّ وَدَعْنِی لِبَنَاتِی وَأُعْطِیکَ عَہْدًا أَنْ لاَ أَعُودَ لِقِتَالِکَ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَمْسَحُ عَلَی عَارِضَیْکَ بِمَکَّۃَ تَقُولُ قَدْ خَدَعْتُ مُحَمَّدًا مَرَّتَیْنَ ۔ فَأَمَرَ بِہِ فَضُرِبَتْ عُنُقُہُ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ فَذَکَرَہُ ۔ وَقَدْ رُوِّینَا فِی ذَلِکَ عَنْ غَیْرِ الشَّافِعِیِّ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٢٨) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابو عزہ جمحی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر فدیہ کے احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ اس کی بیٹیوں کی وجہ سے اور وعدہ لیا کہ آئندہ وہ لڑائی کے لیے نہ آئیں۔ لیکن اس نے وعدہ خلافی کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن اسے قتل کروا دیا۔ مشرکین کا کوئی اور شخص قیدی نہ تھا۔ ابو عزہ جمحی نے کہا : اے محمد ! آپ میری بیٹیوں کی وجہ سے احسان فرمائیں۔ میں آئندہ قتال کے لیے نہ آؤں گا۔ آپ نے فرمایا : مکہ جانے کے بہانے چاپلوسی مت کرو۔ پھر تم کہو گے : میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو مرتبہ دھوکا دیا ہے۔ پھر آپ نے حکم فرمایا تو اس کی گردن تن سے جدا کردی گئی۔

18035

(١٨٠٢٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہْمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : أَمَّنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الأُسَارَی یَوْمَ بَدْرٍ أَبَا عَزَّۃَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُمَیْرٍ الْجُمَحِیَّ وَکَانَ شَاعِرًا وَکَانَ قَالَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَا مُحَمَّدُ إِنَّ لِی خَمْسَ بَنَاتٍ لَیْسَ لَہُنَّ شَیْئٌ فَتَصَدَّقْ بِی عَلَیْہِنَّ فَفَعَلَ وَقَالَ أَبُو عَزَّۃَ : أُعْطِیکَ مَوْثِقًا أَنْ لاَ أُقَاتِلَکَ وَلاَ أُکَثِّرَ عَلَیْکَ أَبَدًا فَأَرْسَلَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا خَرَجَتْ قُرَیْشٌ إِلَی أُحُدٍ جَائَ ہُ صَفْوَانُ بْنُ أُمَیَّۃَ فَقَالَ : اخْرُجْ مَعَنَا۔ فَقَالَ : إِنِّی قَدْ أَعْطَیْتُ مُحَمَّدًا مَوْثِقًا أَنْ لاَ أُقَاتِلَہُ ۔ فَضَمِنَ صَفْوَانُ أَنْ یَجْعَلَ بَنَاتِہِ مَعَ بَنَاتِہِ إِنْ قُتِلَ وَإِنْ عَاشَ أَعْطَاہُ مَالاً کَثِیرًا فَلَمْ یَزَلْ بِہِ حَتَّی خَرَجَ مَعَ قُرَیْشٍ یَوْمَ أُحُدٍ فَأُسِرَ وَلَمْ یُؤْسَرْ غَیْرُہُ مِنْ قُرَیْشٍ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ إِنَّمَا أُخْرِجْتُ کَرْہًا وَلِی بَنَاتٌ فَامْنُنْ عَلَیَّ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَیْنَ مَا أَعْطَیْتَنِی مِنَ الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ لاَ وَاللَّہِ لاَ تَمْسَحُ عَارِضَیْکَ بِمَکَّۃَ تَقُولُ سَخِرْتُ بِمُحَمَّدٍ مَرَّتَیْنَ ۔ قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ الْمُؤْمِنَ لاَ یُلْدَغُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَیْنَ یَا عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ قَدِّمْہُ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ ۔ فَقَدَّمَہُ فَضَرَبَ عُنُقَہُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : ثُمَّ أَسَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ الْحَنَفِیَّ بَعْدُ فَمَنَّ عَلَیْہِ ثُمَّ عَادَ ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ بَعْدُ فَأَسْلَمَ وَحَسُنَ إِسْلاَمُہُ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٠٢٩) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدری قیدی ابو عزہ عبداللہ بن عمرو بن عمیر جمحی شاعر کو احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ میری پانچ بچیاں ہیں ان کی وجہ سے میرے اوپر احسان کریں تو آپ نے احسان کردیا۔ ابو عزہ نے کہا : نہ تو خود آپ کے خلاف آؤں گا اور نہ ہی تعداد کو زیادہ کروں گا تو رسول اللہ نے چھوڑ دیا۔ جب قریشی غزوہ احد کے لیے نکلے تو صفوان بن امیہ نے ابو عزہ سے نکلنے کا مطالبہ کردیا تو ابو عزہ نے کہا : میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ لڑنے کا پختہ عہد کیا ہوا ہے تو صفوان بن امیہ نے اس کی بیٹیوں کی پرورش کا ذمہ لیا۔ اگر وہ قتل کردیا گیا۔ اگر زندہ رہا تو بہت زیادہ مال دیا جائے گا تو جب غزوہ احد میں وہ قریشیوں کے ساتھ نکلا تو یہ اکیلا قیدی بنایا گیا تو اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے زبردستی لایا گیا آپ میرے اوپر بچیوں کی وجہ سے احسان کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرا وہ وعدہ کہاں گیا ؟ تو نے کہا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو مرتبہ مذاق کیا ہے۔
(ب) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن ایک بل سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا، اے عاصم بن ثابت ! اس کی گردن تن سے جدا کر دو تو انھوں نے اس کا سر قلم کردیا۔
(ج) امام شافعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثمامہ بن اثال کو قیدی بنایا تو احسان کر کے چھوڑ دیا تو ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر اس کا اسلام اچھا ہوگیا۔

18036

(١٨٠٣٠) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ وَأَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمُزَکِّی قَالاَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیُّ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْلاً نَحْوَ أَرْضِ نَجْدٍ فَجَائَ تْ بِرَجُلٍ یُقَالُ لَہُ ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ الْحَنَفِیُّ سَیِّدُ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ فَرَبَطُوہُ بِسَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَۃُ ؟ ۔ قَالَ : عِنْدِی یَا مُحَمَّدُ خَیْرٌ إِنْ تَقْتُلْنِی تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ وَإِنْ تُرِدِ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْہُ مَا شِئْتَ فَتَرَکَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی کَانَ مِنَ الْغَدِ ثُمَّ قَالَ : مَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَۃُ ؟ ۔ فَقَالَ : عِنْدِی مَا قُلْتُ لَکَ ۔ فَرَدَّہَا عَلَیْہِ ثُمَّ أَتَاہُ الْیَوْمَ الثَّالِثَ فَرَدَّہَا عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَطْلِقُوا ثُمَامَۃَ ۔ فَخَرَجَ ثُمَامَۃُ إِلَی نَخْلٍ قَرِیبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ مِنَ الْمَائِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ : أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنْ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ یَا مُحَمَّدُ وَاللَّہِ مَا کَانَ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ وَجْہٌ أَبْغَضُ إِلَیَّ مِنْ وَجْہِکَ وَقَدْ أَصْبَحَ وَجْہُکَ أَحَبُّ الْوُجُوہِ إِلَیَّ وَوَاللَّہِ مَا کَانَ دِینٌ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ دِینِکَ وَقَدْ أَصْبَحَ دِینُکَ أَحَبَّ الأَدْیَانِ إِلَیَّ وَوَاللَّہِ مَا کَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ بَلَدِکَ وَقَدْ أَصْبَحَ بَلَدُکَ أَحَبَّ الْبُلْدَانِ کُلَّہَا إِلَیَّ وَإِنْ خَیْلَکَ أَخَذَتْنِی وَأَنَا أُرِیدُ الْعُمْرَۃَ فَمَاذَا تَرَی فَبَشَّرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَمَرَہُ أَنْ یَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَہُ رِجَالٌ بِمَکَّۃَ أَصَبَوْتَ یَا ثُمَامَۃُ فَقَالَ لاَ وَاللَّہِ مَا صَبَوْتُ وَلَکِنِّی أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَوَاللَّہِ لاَ تَأْتِیکُمْ حَبَّۃُ حِنْطَۃٍ مِنَ الْیَمَامَۃِ حَتَّی یَأْذَنَ فِیہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ وہ دستہ ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر کے لایا جو یمامہ کے علاقے کا رئیس تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا : اے ثمامہ ! تیرا کیا حال ہے ؟ اس نے جواب دیا : میرا حال اچھا ہے اگر مجھے قتل کردیں تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر آپ احسان کریں گے تو احسان کا شکریہ ادا ہوگا اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو طلب کریں جتنا چاہتے ہو مال مل جائے گا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے حال دریافت کیا : ثمامہ تمہارا کیا ذہن ہے ؟ اس نے جواب دیا : اگر آپ احسان کریں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احسان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔ اگر آپ قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا مال چاہتے ہیں اتنا ہی دیا جائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پھر چھوڑ کر چلے گئے۔ جب تیسرا دن ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا تو اس نے وہی جواب دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ثمامہ کو کھول دو ۔ چنانچہ وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا، غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور اس نے اقرار کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ ایسا نہ تھا مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ برا لگتا ہو مگر اب آپ کا چہرہ تمام چہروں سے زیادہ محبوب لگتا ہے۔ اللہ کی قسم ! آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے کوئی شہر نہیں لگتا تھا مگر اب مجھے آپ کا شہر تمام شہروں سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور آپ کے لشکر نے مجھے اس وقت گرفتار کیا جب میں عمرہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اب آپ کی کیا رائے ہے ؟ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے خوشخبری دی اور کہا : جاؤ عمرہ ادا کرو۔ جب وہ مکہ آیا تو کسی کہنے والے نے کہا : تو صابی ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں میں تو رسول اللہ کے اسلام میں داخل ہوگیا ہوں۔ اللہ کی قسم ! تمہارے پاس یمامہ کی گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک اس کے بارے میں رسول اللہ اجازت نہ دیں گے۔

18037

(١٨٠٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ الْمَقْبُرِیُّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ إِسْلاَمُ ثُمَامَۃَ بْنِ أُثَالٍ الْحَنَفِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَعَا اللَّہَ حِینَ عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَا عَرَضَ لَہُ أَنْ یُمَکِّنَہُ اللَّہُ مِنْہُ وَکَانَ عَرَضَ لَہُ وَہُوَ مُشْرِکٌ فَأَرَادَ قَتْلَہُ فَأَقْبَلَ ثُمَامَۃُ مُعْتَمِرًا وَہُوَ عَلَی شِرْکِہِ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِینَۃَ فَتَحَیَّرَ فِیہَا حَتَّی أُخِذَ وَأُتِیَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِہِ فَرُبِطَ إِلَی عَمُودٍ مِنْ عُمُدِ الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا لَکَ یَا ثُمَامَ ہَلْ أَمْکَنَ اللَّہُ مِنْکَ ؟ ۔ قَالَ : وَقَدْ کَانَ ذَلِکَ یَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتَلْ تَقْتَلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تَعْفُ تَعْفُ عَنْ شَاکِرٍ وَإِنْ تَسْأَلْ مَالاً تُعْطَہْ فَمَضَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَتَرَکَہُ حَتَّی إِذَا کَانَ الْغَدُ مَرَّ بِہِ فَقَالَ : مَا لَکَ یَا ثُمَامَ ؟ ۔ فَقَالَ : خَیْرًا یَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تَعْفُ تَعْفُ عَنْ شَاکِرٍ وَإِنْ تَسْأَلْ مَالاً تُعْطَہْ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَجَعَلْنَا الْمَسَاکِینَ نَقُولُ بَیْنَنَا مَا یُصْنَعُ بِدَمِ ثُمَامَۃَ وَاللَّہِ لأُکْلَۃٌ مِنْ جَزُورٍ سَمِینَۃٍ مِنْ فِدَائِہِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ دَمِ ثُمَامَۃَ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ مَرَّ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا لَکَ یَا ثُمَامَ ؟ ۔ فَقَالَ : خَیْرًا یَا مُحَمَّدُ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَإِنْ تَعْفُ تَعْفُ عَنْ شَاکِرٍ وَإِنْ تَسْأَلْ مَالاً تُعْطَہْ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَطْلِقُوہُ فَقَدْ عَفَوْتَ عَنْکَ یَا ثُمَامَ ۔ فَخَرَجَ ثُمَامَۃُ حَتَّی أَتَی حَائِطًا مِنْ حِیطَانِ الْمَدِینَۃِ فَاغْتَسَلَ فِیہِ وَتَطَہَّرَ وَطَہَّرَ ثِیَابَہُ ثُمَّ جَائَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ فِی أَصْحَابِہِ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ وَاللَّہِ لَقَدْ کُنْتَ وَمَا وَجْہٌ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ وَجْہِکَ وَلاَ دِینٌ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ دِینِکَ وَلاَ بَلَدٌ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنْ بَلَدِکَ ثُمَّ لَقَدْ أَصْبَحْتَ وَمَا وَجْہٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ وَجْہِکَ وَلاَ دِینٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ دِینِکَ وَلاَ بَلَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ بَلَدِکَ وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی کُنْتُ قَدْ خَرَجْتُ مُعْتَمِرًا وَأَنَا عَلَی دِینِ قَوْمِی فَیَسَّرَنِی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْکَ فِی عُمْرَتِی فَیَسَّرَہُ وَعَلَّمَہُ فَخَرَجَ مُعْتَمِرًا فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ وَسَمِعَتْہُ قُرَیْشٌ یَتَکَلَّمُ بِأَمْرِ مُحَمَّدٍ مِنَ الإِسْلاَمِ قَالُوا صَبَأَ ثُمَامَۃُ فَأَغْضَبُوہُ فَقَالَ إِنِّی وَاللَّہِ مَا صَبَوْتُ وَلَکِنِّی أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ مُحَمَّدًا وَآمَنْتُ بِہِ وَایْمُ الَّذِی نَفْسُ ثُمَامَۃَ بِیَدِہِ لاَ تَأْتِیکُمْ حَبَّۃٌ مِنَ الْیَمَامَۃِ وَکَانَتْ رِیفَ مَکَّۃَ مَا بَقِیتُ حَتَّی یَأْذَنَ فِیہَا مُحَمَّدٌ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَانْصَرَفَ إِلَی بَلَدِہِ وَمَنَعَ الْحَمْلَ إِلَی مَکَّۃَ حَتَّی جُہِدَتْ قُرَیْشٌ فَکَتَبُوا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَسْأَلُونَہُ بِأَرْحَامِہِمْ أَنْ یَکْتُبَ إِلَی ثُمَامَۃَ یُخَلِّی إِلَیْہِمْ حَمْلَ الطَّعَامِ فَفَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ثمامہ بن اثال حنفی کے اسلام کا واقعہ پیش آیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ سے دعا فرمائی جس وقت آپ کے لیے کوئی واقعہ پیش آیا کہ اللہ آپ کو غلبہ عطا فرما دے اور وہ ابھی مشرک ہی تھا۔ آپ نے اس کے قتل کا ارادہ فرمایا اور ثمامہ حالت شرک میں عمرہ کی غرض سے مدینہ میں سے گزر رہا تھا کہ صحابہ نے پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دربار میں پیش کردیا۔ آپ کے حکم سے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور پوچھا : اے ثمامہ ! کیا حال ہے ؟ کیا اللہ نے تیرے اوپر غلبہ دے دیا ہے ؟ اس نے کہا : اے محمد ! اگر تو مجھے قتل کر دے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاف کریں گے تو معافی کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال چاہتے ہیں تو مال بھی دیا جائے گا۔ اسے اس حالت میں چھوڑ کر رسول اللہ چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آئے اور پوچھا : تیرا کیا حال ہے ثمامہ ! اس نے کہا : میرا حال اچھا ہے اے محمد ! اگر مجھے قتل کردیں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ اگر آپ معاف کردیں تو معاف کرنے کا شکریہ ادا ہوگا۔ اگر مال طلب کرو تو دیا جائے گا۔ رسول اللہ پھر چلے گئے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مسکین بیٹھ کر ثمامہ کے خون کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ اللہ کی قسم ثمامہ کے خون کی بجائے اس کے مقابلہ میں موٹے تازے اونٹ فدیہ میں زیادہ بہتر رہیں گے۔ پھر صبح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور پوچھا : ثمامہ کیا حال ہے ؟ اس نے کہا : میرا حال اچھا ہے اے محمد ! اگر قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ اگر آپ معاف کردیں تو معاف کرنے کا شکریہ ادا ہوگا۔ اگر مال طلب کرو گے تو مال بھی دیا جائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ثمامہ کو رہا کر دو ۔ اے ثمامہ ! میں نے تجھے معاف کردیا۔ پھر ثمامہ نے مدینہ کے کسی باغ میں غسل کر کے اپنے کپڑوں اور جسم کو پاک کیا اور واپس آیا تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ میرے نزدیک برا نہ تھا، آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین میرے لیے برا نہ تھا اور آپ کے شہر سے زیادہ برا کوئی شہر مجھے نہیں لگتا تھا۔ پھر اس نے کہا : اب آپ کے چہرہ سے بڑھ کر کوئی چہرہ محبوب نہیں، آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین اچھا نہیں لگتا اور آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر اچھا نہیں لگتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسول ! میں اپنی قوم کے دین پر ہی عمرہ کے لیے نکلا تھا، آپ میرے عمرہ کے بارہ میں خوشخبری دیں۔ اللہ آپ پر رحمت فرمائے۔ آپ نے خوشخبری بھی دی اور طریقہ بھی سکھایا۔ وہ عمرہ کی غرض سے نکلے۔ جب وہ مکہ آئے تو قریشیوں نے ان سے آپ کے دین کے بارہ میں سنا تو کہنے لگے کہ ثمامہ بےدین ہوگیا ہے۔ انھوں نے ثمامہ کو غصہ دلایا۔ ثمامہ کہنے لگے : میں بےدین نہیں ہوا، میں نے اسلام قبول کیا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لایا۔ اللہ کی قسم ! تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا (اور یمامہ سرسبز جگہ تھی) ۔ جب تک میں ہوں لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دے دیں۔ وہ اپنے شہر واپس چلے گئے۔ جا کر مکہ کا غلہ روک دیا یہاں تک کہ قریش مشکل میں پڑگئے۔ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی رشتہ داریوں کا واسطہ دے کر سوال کیا کہ آپ ثمامہ کو خط لکھیں کہ وہ غلہ روانہ کر دے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثمامہ کو غلہ روانہ کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔

18038

(١٨٠٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : وَأَقْبَلَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : ہَبْ لِی الزَّبِیرَ الْیَہُودِیَّ أَجْزِیہِ بِیَدٍ کَانَتْ لَہُ عِنْدِی یَوْمَ بُعَاثٍ فَأَعْطَاہُ إِیَّاہُ فَأَقْبَلَ ثَابِتٌ حَتَّی أَتَاہُ فَقَالَ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہَلْ تَعْرِفُنِی ؟ فَقَالَ : نَعَمْ وَہَلْ یُنْکِرُ الرَّجُلُ أَخَاہُ ؟ قَالَ ثَابِتٌ : أَرَدْتُ أَنْ أَجْزِیَکَ الْیَوْمَ بِیَدٍ لَکَ عِنْدِی یَوْمَ بُعَاثٍ ۔ قَالَ : فَافْعَلْ فَإِنَّ الْکَرِیمَ یَجْزِی الْکَرِیمَ ۔ قَالَ : قَدْ فَعَلْتُ قَدْ سَأَلْتُکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَوَہَبَکَ لِی فَأَطْلَقَ عَنْہُ إِسْارَہُ ۔ فَقَالَ الزَّبِیرُ : لَیْسَ لِی قَائِدٌ وَقَدْ أَخَذْتُمُ امْرَأَتِی وَبَنِیَّ ۔ فَرَجَعَ ثَابِتٌ إِلَی الزَّبِیرِ فَقَالَ : رَدَّ إِلَیْکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - امْرَأَتَکَ وَبَنِیکَ ۔ فَقَالَ الزَّبِیرُ : حَائِطٌ لِی فِیہِ أَعْذُقٌ لَیْسَ لِی وَلاَ لأَہْلِی عَیْشٌ إِلاَّ بِہِ ۔ فَرَجَعَ ثَابِتٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَوَہَبَہُ لَہُ فَرَجَعَ ثَابِتٌ إِلَی الزَّبِیرِ فَقَالَ : قَدْ رَدَّ إِلَیْکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَکَ وَمَالَکَ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ ۔ قَالَ : مَا فَعَلَ الْجَلِیسَانِ ؟ وَذَکَرَ رِجَالَ قَوْمِہِ قَالَ ثَابِتٌ : قَدْ قُتِلُوا وَفُرِغَ مِنْہُمْ وَلَعَلَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنْ یَکُونَ أَبْقَاکَ لَخَیْرٍ ۔ قَالَ الزَّبِیرُ : أَسْأَلُکَ بِاللَّہِ یَا ثَابِتُ وَبِیَدِی الْخَضِیمِ عِنْدَکَ یَوْمَ بُعَاثٍ إِلاَّ أَلْحَقْتَنِی بِہِمْ فَلَیْسَ فِی الْعَیْشِ خَیْرٌ بَعْدَہُمْ ۔ فَذَکَرَ ذَلِکَ ثَابِتٌ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِالزَّبِیرِ فَقُتِلَ ۔ وَذَکَرَہُ أَیْضًا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ وَذَکَرَ أَنَّہُ الزَّبِیرُ بْنُ بَاطَا الْقُرَظِیُّ وَذَکَرَہُ أَیْضًا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ وَذَکَرَ أَنَّہُ کَانَ یَوْمَئِذٍ کَبِیرًا أَعْمَی۔ [ضعیف ]
(١٨٠٣٢) حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : آپ مجھے زبیر یہودی ہبہ کردیں تاکہ بعاث کے احسان کا بدلہ دیا جاسکے، جو اس نے میرے اوپر کیا تھا۔ آپ نے ہبہ کردیا۔ حضرت ثابت زبیر سے پوچھتے ہیں : کیا مجھے پہچانتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ! کیا کوئی شخص اپنے بھائی کو نہ پہچانے گا ؟ تو ثابت فرمانے لگے : میں تیرے بعاث کے دن کے احسان کا بدلہ دینا چاہتا ہوں۔ زبیر یہودی نے کہا : بدلہ دو ۔ معزز انسان کسی معزز کا بدلہ دیتا ہے۔ ثابت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے ہبہ فرما دیا تھا۔ میں نے اپنے قیدی کو آزاد کردیا تو زبیر نے کہا : میری بیوی، بچے تو زبیر نے واپس آ کر کہا کہ رسول اللہ نے تیری بیوی، بچے بھی واپس کردیے ہیں۔ زبیر کہنے لگا : میرا باغ جس پر میرے گھر والوں کی گزراں تھی تو حضرت ثابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے تو آپ نے وہ بھی ہبہ کردیا تو ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرا اہل و عیال، مال واپس کردیا مسلمان ہو جاؤ، محفوظ ہو جاؤ گے تو زبیر نے کہا : میرے دو ساتھیوں کا کیا بنا ؟ اس نے اپنی قوم کے اشخاص کا تذکرہ کیا۔ ثابت فرماتے ہیں : ان کے قتل سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے۔ شاید کہ اللہ نے آپ کو بھلائی کے لیے باقی رکھا ہے تو زبیر نے کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر اے ثابت سوال کرتا ہوں کہ آپ میرے احسان کا بدلہ تب ادا کرسکیں گے جب مجھے بھی میرے ساتھیوں کے ساتھ ملا دیں۔ کیونکہ ان کے بعد میری زندگی اچھی نہیں ہے تو ثابت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تو زبیر کے قتل کا حکم دے دیا گیا۔ (ب) موسیٰ بن عقبہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس دن بوڑھا اور نابینا تھا۔

18039

(١٨٠٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِالْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ لأُسَارَی بَدْرٍ : لَوْ کَانَ مُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ حَیًّا فَکَلَّمَنِی فِی ہَؤُلاَئِ النَّتْنَی لَخَلَّیْتُہُمْ لَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣١٣٩-٤٠٢٤]
(١٨٠٣٣) محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدری قیدیوں کے بارے میں فرمایا : اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا تو وہ مجھ سے ان بدبودار اشخاص کے بارے میں کلام کرتا تو اس کی وجہ سے میں ان کو رہا کردیتا۔

18040

(١٨٠٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرُوَیْہِ الْمَرْوَزِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَنْبٍ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحَسَنُ بْنُ سَلاَّمٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ ثَمَانِینَ رَجُلاً مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ہَبَطُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابِہِ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِیمِ عِنْدَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ فَأَخَذَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَعَفَا عَنْہُمْ قَالَ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ { وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ } [الفتح ٢٤] أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ یَزِیدَ بْنِ ہَارُونَ عَنْ حَمَّادٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٨٠٨]
(١٨٠٣٤) ثابت حضرت انس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ مکہ کے اسی افراد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) پر جبل تنعیم سے اتر کر نماز فجر کے وقت حملہ کا ارادہ کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں پکڑ کر معاف کردیا۔ قرآن نازل ہوا : { وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ } [الفتح ٢٤] ” کہ اللہ نے ان کے ہاتھوں سے تمہیں بچایا اور تمہارے ہاتھوں سے ان کو مکہ کی وادی میں محفوظ رکھا تمہارے غلبہ حاصل کرلینے کے بعد۔ “

18041

(١٨٠٣٥) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَزَلَ مَنْزِلاً وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِی الْعِضَاہِ یَسْتَظِلُّونَ تَحْتَہَا فَعَلَّقَ النَّاسُ سِلاَحَہُمْ فِی شَجَرَۃٍ فَجَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی سَیْفِہِ فَأَخَذَہُ فَسَلَّہُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی ؟ وَالنَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : اللَّہُ ۔ فَشَامَ الأَعْرَابِیُّ السَّیْفَ فَدَعَا النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَصْحَابَہُ وَأَخْبَرَہُمْ بِصَنِیعِ الأَعْرَابِیِّ وَہُوَ جَالِسٌ إِلَی جَنْبِہِ لَمْ یُعَاقِبْہُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَحْمُودٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَبْدِ بْنِ حُمَیْدٍ کِلاَہُمَا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔
(١٨٠٣٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ پڑاؤ فرمایا تو لوگ کانٹے دار درختوں کے سایہ کی تلاش میں نکلے۔ لوگوں نے اپنا اسلحہ درختوں پر لٹکا دیا۔ ایک دیہاتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار پکڑ کر سونت کر کہنے لگا : آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ۔ دیہاتی نے تلوار رکھ دی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کو بلایا اور دیہاتی کی حرکت کی خبر دی وہ آپ کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے اسے سزا نہ دی۔

18042

(١٨٠٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ أَخْبَرَنَا إسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمَعْنَاہُ ۔ قَالَ مَعْمَرٌ وَکَانَ قَتَادَۃُ یَذْکُرُ نَحْوَ ہَذَا وَیَذْکُرُ أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْعَرَبِ أَرَادُوا أَنْ یَفْتِکُوا بِالنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَرْسَلُوا ہَذَا الأَعْرَابِیَّ وَیَتْلُو { وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمَّ قَوْمٌ} [المائدۃ ١١] الآیَۃَ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٣٦) قتادہ اس کی مثل ذکر کرتے ہیں کہ عرب کی ایک قوم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا سے قتل کرنے کی سازش کی تو انھوں نے اس دیہاتی کو بھیجا۔ پھر یہ آیت تلاوت کی : { اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ھَمَّ قَوْمٌ} [المائدۃ ١١] ” تم اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم نے (ہلاک) کرنے کا قصد کیا تھا۔ “

18043

(١٨٠٣٧) وَأَمَّا الْمُفَادَاۃُ بِالنَّفْسِ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حُجْرٍ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ وَاللَّفْظُ لَہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَۃَ بْنِ وَاقِدٍ الْکِلاَبِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَتْ ثَقِیفُ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَیْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلاً وَأَصَابُوا مَعَہُ الْعَضْبَائَ فَأَتَی عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ ۔ فَقَالَ : بِمَ أَخَذْتَنِی وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَ الْحَاجِّ ؟ فَقَالَ إِعْظَامًا لِذَاکَ : أُخِذْتَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکَ ثَقِیفَ ۔ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَحِیمًا رَقِیقًا فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ فَقَالَ : إِنِّی مُسْلِمٌ۔ قَالَ : لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الفَلاَحِ ۔ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ ۔ فَأَتَاہُ فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ فَقَالَ : إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی وَظَمْآنُ فَاسْقِنِی قَالَ : ہَذِہِ حَاجَتُکَ ۔ قَالَ : فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُجْرٍ وَغَیْرِہِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٦٤]
(١٨٠٣٧) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ثقیف بنو عقیل کے حلیف تھے تو بنو ثقیف نے دو صحابہ کو قیدی بنا لیا اور صحابہ کرام (رض) نے بنو عقیل کے آدمی کو قید کرلیا اور جکڑ دیا۔ اسی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس سے گزرے تو اس نے آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! آپ اس کے پاس آئے اور پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے مجھے کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا ہے ؟ اور کیوں کر حج کرنے والوں کو گرفتار کرتے ہو ؟ آپ نے فرمایا : یہ بڑی بات ہے تو اپنے حلیف بنو ثقیف کے جرم کی وجہ سے پکڑا گیا ہے۔ پھر آپ چلے گئے۔ اس نے آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! آپ رحیم رقیق القلب تھے، واپس آئے۔ آپ نے پوچھا : تیری کیا حالت ہے ؟ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں۔ آپ نے فرمایا : یہ بات تو تب کہتا جب تو اپنے معاملے کا مالک تھا تو مکمل فلاح پا لیتا۔ آپ پھر چلے۔ اس نے آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! پھر آپ اس کے پاس آئے اور پوچھا : تیری کیا حالت ہے ؟ اس نے کہا : میں بھوکا ہوں، کھانا کھلاؤ، پیاسا ہوں پانی پلاؤ ! فرمایا : یہ تیری ضرورت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ دو صحابہ کے عوض اس کو چھوڑا گیا۔

18044

(١٨٠٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ عَمِّہِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَدَی رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَعْطَی رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ سُفْیَانُ یَعْنِی أَخَذَ رَجُلَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَعْطَی رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ ۔
(١٨٠٣٨) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے دو آدمیوں کے فدیے میں مشرکین کا ایک آدمی دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے دو آدمی لیے اور مشرکین کا ایک آدمی دیا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]

18045

(١٨٠٣٩) وَأَمَّا الْمُفَادَاۃُ بِالْمَالِ فَفِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْحُرْفِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا حَمْزَۃُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ أَبِی زُمَیْلٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ وَکَانَ أَکْثَرُ حَدِیثِہِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَالَ : مَا تَرَوْنَ فِی ہَؤُلاَئِ الأُسَارَی ؟ ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃِ وَالإِخْوَانِ غَیْرَ أَنَّا نَأْخُذُ مِنْہُمُ الْفِدَائَ لِیَکُونَ لَنَا قُوَّۃً عَلَی الْمُشْرِکِینَ وَعَسَی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَہْدِیَہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ وَیَکُونُوا لَنَا عَضُدًا۔ قَالَ : فَمَاذَا تَرَی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ؟ ۔ قُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا أَرَی الَّذِی رَأَی أَبُو بَکْرٍ وَلَکِنْ ہَؤُلاَئِ أَئِمَّۃُ الْکُفْرِ وَصَنَادِیدُہُمْ فَقَرِّبْہُمْ فَاضْرِبْ أَعْنَاقَہُمْ قَالَ فَہَوِیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ أَنَا فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَإِذَا ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ قَاعِدَانِ یَبْکِیَانِ فَقُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ أَخْبِرْنِی مِنْ أَیْ شَیْئٍ تَبْکِی أَنْتَ وَصَاحِبُکَ ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِلاَّ تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا قَالَ : الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنَی مِنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ ۔ وَشَجَرَۃٌ قَرِیبَۃٌ حِینَئِذٍ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّہُ یُرِیدُ الآخِرَۃَ } [الانفال ٦٧] الآیَۃَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ زَادَ إِلَی قَوْلِہِ { فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّبًا } [الانفال ٦٩] فَأَحَلَّ اللَّہُ الْغَنِیمَۃَ لَہُمْ وَقَدْ مَضَی فِی کِتَابِ الْقَسْمِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٦٣]
(١٨٠٣٩) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں (ان کی اکثر احادیث حضرت عمر (رض) سے ہیں) : جب بدر کا دن تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تمہارا ان قیدیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ حضرت ابوبکر (رض) فرمانے لگے : اے اللہ کے نبی ! یہ ہمارے چچا کے بیٹے، خاندان کے لوگ اور ہمارے بھائی ہیں، اگر ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور مشرکین کے خلاف مالی قوت بھی حاصل ہوجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے ابن خطاب ! تیرا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی میری رائے ابوبکر والی نہیں ہے بلکہ یہ کفر کے سردار ہیں ان کے سر تن سے جدا کر دو لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی رائے کو قبول فرمایا، میری رائے قبول نہ کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فدیہ لے لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا، دیکھتا ہوں کہ ابوبکر (رض) اور آپ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! آپ مجھے بتائیں آپ اور ابوبکر کو کس چیز نے رونے پر مجبور کردیا ؟ اگر رونے کی وجہ ہو تو میں بھی رو لوں یا پھر تم دونوں کے رونے کی وجہ سے رو لوں۔۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات نے آپ کے ساتھیوں کو میرے سامنے پیش کیا اور اس درخت سے قریب تر اللہ کا عذاب پیش کیا گیا تو اللہ نے قرآن نازل فرمایا : { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ } [الانفال ٦٧] ” کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ خون بہالے۔ تم دنیا کا ارادہ کرتے ہو اور اللہ آخرت کا ارادہ رکھتا ہے۔ “ (ب) عکرمہ بن عمارہ نے کچھ اضافہ فرمایا ہے : { فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا } [الانفال ٦٧] ” اللہ نے غنیمتیں ان کے لیے حلال قرار دیں۔ “

18046

(١٨٠٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْبُرُلُّسِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَرْعَرَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ صَالِحٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَرْعَرَۃَ حَدَّثَنَا أَزْہَرُ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبِیدَۃَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الأُسَارَی یَوْمَ بَدْرٍ : إِنْ شِئْتُمْ قَتَلْتُمُوہُمْ وَإِنْ شِئْتُمْ فَادَیْتُمُوہُمْ وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِالْفِدَائِ وَاسْتُشْہِدَ مِنْکُمْ بِعِدَّتِہِمْ ۔ قَالَ فَکَانَ آخِرَ السَّبْعِینَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ قُتِلَ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ زَادَ الْبُرُلُّسِیُّ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ ابْنُ عَرْعَرَۃَ : رَدَدْتُ ہَذَا عَلَی أَزْہَرَ فَأَبَی إِلاَّ أَنْ یَقُولَ عَبِیدَۃُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٤٠) عبیدہ حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدری قیدیوں کے بارے میں فرمایا : اگر تم قتل کرنا یا فدیہ لینا چاہو اور فدیہ سے فائدہ اٹھاؤ اور اتنی تعداد میں تمہارے ساتھی شہید کیے جائیں گے۔ فرماتے ہیں کہ ثابت بن قیس ان ستر میں سے آخری تھے جو یمامہ کے دن شہید کیے گئے۔
(ب) برلسی نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ ابن عرعرہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ معاملہ ازہر پر پیش کیا تو اس نے انکار کردیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ عبیدہ حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں۔

18047

(١٨٠٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُاللَّہِ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِیٍّ وَأَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ الْبَکْرَاوِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَنْبَسِ عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : جَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی فِدَائِ الأُسَارَی أَہْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ أَرْبَعَمِائَۃٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٤١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں کے فدیہ میں جاہلیت کے چار سو لیے۔

18048

(١٨٠٤٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی قِصَّۃِ بَدْرٍ قَالَ : وَکَانَ فِی الأُسَارَی أَبُو وَدَاعَۃَ السَّہْمِیُّ فَقَدِمَ ابْنُہُ الْمُطَّلِبُ الْمَدِینَۃَ فَأَخَذَ أَبَاہُ بِأَرْبَعَۃِ آلاَفِ دِرْہَمٍ فَانْطَلَقَ بِہِ ثُمَّ بَعَثَتْ قُرَیْشٌ فِی فِدَائِ الأُسَارَی فَقَدِمَ مِکْرَزُ بْنُ حَفْصٍ فِی فِدَائِ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ اجْعَلُوا رِجْلِی مَکَانَ رِجْلِہِ وَخَلُّوا سَبِیلَہُ حَتَّی یَبْعَثَ إِلَیْکُمْ بِفِدَائِہِ فَخَلُّوا سَبِیلَ سُہَیْلٍ وَحَبَسُوا مِکْرَزًا قَالَ فَفَدَی کُلُّ قَوْمٍ أَسِیرَہُمْ بِمَا رَضُوا قَالَ وَکَانَ أَکْثَرُ الأُسَارَی یَوْمَ بَدْرٍ فِدَائً الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَذَلِکَ لأَنَّہُ کَانَ رَجُلاً مُوسِرًا فَافْتَدَی نَفْسَہُ بِمِائَۃِ أُوقِیَّۃِ ذَہَبٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٤٢) ابن اسحاق بدر کے قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ابو وداعہ سہمی بدری قیدی تھا۔ اس کے بیٹے نے اپنے باپ کو چار ہزار درہموں میں حاصل کیا۔ قریشیوں نے اس کے اور اپنے قیدیوں کے فدیے روانہ کیے۔ مکرز بن حفص سہیل بن عمرو کا فدیہ لے کر آیا۔ اس نے کہا : سہیل کی جگہ مجھے قید کرلو۔ جب اس کا فدیہ آئے گا مجھے چھوڑ دینا۔ صحابہ (رض) نے سہیل کو چھوڑ کر مکرز کو قید کر لیا۔۔۔ راوی کہتے ہیں : تمام قوم نے اپنے قیدیوں کا فدیہ دیا، جتنے پر وہ راضی ہوئے اور بدر قیدیوں میں سے سب سے زیادہ فدیہ عباس بن عبدالمطلب کا تھا۔ یہ مالدر آدمی تھا۔ اس نے ایک سو اوقیہ سونا ادا کیا تھا۔

18049

(١٨٠٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُوالْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَخْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا الْقَبَّانِیُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ زِیَادٍ وَصَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّازِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَیْحٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ وَقَالَ ابْنُ شِہَابٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رِجَالاً مِنَ الأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا : ائْذَنْ لَنَا فَلْنَتْرُکْ لاِبْنِ أُخْتِنَا الْعَبَّاسِ فِدَائَ ہُ فَقَالَ : وَاللَّہِ لاَ تَذَرُونَ دِرْہَمًا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُنْذِرِ وَسَائِرُ الأَحَادِیثِ فِی ہَذَا الْبَابِ قَدْ مَضَتْ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٥٣٧- ٣٠٤٩-٤٠١٨]
(١٨٠٤٣) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ انصاری لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی۔ انھوں نے کہا : آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا فدیہ معاف کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! تم ایک درہم بھی نہیں چھوڑو گے۔

18050

(١٨٠٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ ثِنْتَانِ حَفِظْتُہُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ اللَّہَ کَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ وَلْیُرِحْ ذَبِیحَتَہُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٥٥]
(١٨٠٤٤) حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو باتیں یاد رکھی ہیں : 1 اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کو فرض کیا ہے۔ جب تم قتل کرو تو احسن انداز سے اور جب تم ذبح کرو تب بھی احسن انداز سے ذبح کرو اور اپنی چھری کو تیز کر کے اپنے ذبیحہ کو راحت دو ۔

18051

(١٨٠٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ بْنِ شَوْذَبٍ الْمُقْرِئُ بِوَاسِطٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنِ الْمُثْلَۃِ وَالنُّہْبَی۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مِنْہَالٍ وَغَیْرِہِ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٥٥١٦١]
(١٨٠٤٥) عبداللہ بن یزید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ اور ڈاکے سے منع فرمایا ہے۔

18052

(١٨٠٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ حَدَّثَنِی جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ شُعْبَۃَ بْنِ الْحَجَّاج عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ الأَسْلَمِیِّ عَنْ أَبِیہِ بُرَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ أَوْ سَرِیَّۃٍ أَمَرَہُ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللَّہِ وَمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ خَیْرًا ثُمَّ قَالَ : اغْزُوا بِاسْمِ اللَّہِ فَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَقَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ اغْزُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تُمَثِّلُوا وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِیدًا ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٣١]
(١٨٠٤٦) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کو لشکر یا سریے کا امیر مقرر فرماتے تو اللہ سے ڈرنے اور مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت فرماتے۔ پھر فرماتے : اللہ کا نام لے کر غزوہ کرو اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اور خدا کے منکروں سے جہاد کرو۔ غزوہ کرو ! خیانت، دھوکا ، مثلہ اور غلام کو قتل نہ کرو۔

18053

(١٨٠٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ ہَیَّاجِ بْنِ عِمْرَانَ الْبُرْجُمِیِّ : أَنَّ غُلاَمًا لأَبِیہِ أَبَقَ فَجَعَلَ لِلَّہِ عَلَیْہِ إِنْ قَدَرَ عَلَیْہِ لَیَقْطَعَنَّ یَدَہُ فَلَمَّا قَدَرَ عَلَیْہِ بَعَثَنِی إِلَی عِمْرَانَ بْنِ حَصِینٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَحُثُّ فِی خُطْبَتِہِ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَنْہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ ۔ قَالَ وَبَعَثَنِی إِلَی سَمُرَۃَ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَحُثُّ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَنْہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ قَدْ قَطَعَ أَیْدِیَ الَّذِینَ اسْتَاقُوا لِقَاحَہُ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ فَإِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ وَرَجُلاً رَوَیَا ہَذَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ رَوَیَا فِیہِ أَوْ أَحَدُہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمْ یَخْطُبْ بَعْدَ ذَلِکَ خُطْبَۃً إِلاَّ أَمَرَ بِالصَّدَقَۃِ وَنَہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ رَوَاہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَأَنَسُ بْنُ مَالِکٍ وَہَذِہِ الزِّیَادَۃُ فِی حَدِیثِ أَنَسٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٤٧) ہباج بن عمران رجمعی کہتے ہیں کہ میرے والد کا غلام بھاگ گیا۔ انھوں نے کہا : اگر میں نے اسے پکڑ لیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ جب غلام قابو میں آگیا تو مجھے عمران بن حصین سے پوچھنے کے لیے روانہ کردیا تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ خطبہ میں صدقہ کی ترغیب فرماتے اور مثلہ سے منع کرتے تھے۔ کہتے ہیں میں نے سمرہ کی طرف بھیجا۔ انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے پاؤں کاٹ ڈالے، آنکھوں میں سیخ گرم کر کے پھیرے۔ حضرت انس اور ایک شخص دونوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں، پھر اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا تو اس میں صدقہ پر ابھارا اور مثلہ سے منع فرمایا۔

18054

(١٨٠٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیدِ حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ عَنْ أَنَسٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ السُّوسِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلاَمِ بْنِ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ صُہَیْبٍ وَحُمَیْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَیْنَۃَ قَدِمُوا َلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمَدِینَۃَ فَاجْتَوَوْہَا فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَی إِبِلِ الصَّدَقَۃِ فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَبْوَالِہَا ۔ فَفَعَلُوا فَصَحُّوا ثُمَّ مَالُوا عَلَی الرِّعَائِ فَقَتَلُوہُمْ وَارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَاسْتَاقُوا ذَوْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَعَثَ فِی إِثْرِہِمْ فَأُتِیَ بِہِمْ فَقَطَعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ وَتَرَکَہُمْ فِی الْحَرَّۃِ حَتَّی مَاتُوا۔ لَفْظُ حَدِیثِ ہُشَیْمٍ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ لاَ أَحْفَظُ : اشْرَبُوا أَبْوَالَہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٤٨) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ عرینہ قبیلہ کے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انھیں آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو صدقہ کے اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پیو۔ انھوں نے ایسا کیا تو تندرست ہوگئے۔ پھر انھوں نے چرواہوں کو قتل کیا اور مرتد ہوگئے اور رسول اللہ کے اونٹ بھی لے گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چلا تو ان کا پیچھا کیا، جب پکڑ کر ان کو لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھروا دیں اور ان کو پتھریلی زمین میں پھینک دیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔
(ب) عبدالوہاب حمید سے نقل فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ تم ان کے پیشاب پیو کا ذکر ہے یا نہیں۔

18055

(١٨٠٤٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا أَبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَعْنَی حَدِیثِ حُمَیْدٍ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : نَفَرٌ مِنْ عُکْلٍ قَالَ فَنَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنِ الْمُثْلَۃِ بَعْدَ ذَلِکَ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٤٩) حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں۔۔۔ حمید کی حدیث کے ہم معنیٰ ہے کہ عکل قبیلہ کا گروہ تھا اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ سے منع فرما دیا۔

18056

(١٨٠٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَدِیٍّ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِہَذَا الْحَدِیثِ زَادَ ثُمَّ نَہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ بَعْدَ ذَلِکَ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٥٠) حضرت انس بن مالک اس حدیث کو نقل فرماتے ہیں، اس میں اضافہ ہے کہ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ سے منع فرما دیا۔

18057

(١٨٠٥١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَہْطًا مِنْ عُکْلٍ وَعُرَیْنَۃَ فَذَکَرَ ہَذَا الْحَدِیثَ ۔ قَالَ قَتَادَۃُ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ یَحُثُّ فِی خِطْبَتِہِ بَعْدَ ذَلِکَ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَیَنْہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَکَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ یُنْکِرُ حَدِیثَ أَنَسٍ فِی أَصْحَابِ اللِّقَاحِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٥١) قتادہ حضرت انس بن مالک (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ عکل و عرینہ کا گروہ۔۔۔ اس نے حدیث کو ذکر کیا۔۔۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خبر ملی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : علی بن حسین حضرت انس بن مالک کی اونٹنیوں والوں کی حدیث کا انکار کرتے تھے۔

18058

(١٨٠٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا وَأَبُو بَکْرٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی یَحْیَی عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ مَا سَمَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَیْنًا وَلاَ زَادَ أَہْلَ اللِّقَاحِ عَلَی قَطْعِ أَیْدِیہُمْ وَأَرْجُلِہُمْ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ حَدِیثُ أَنَسٍ حَدِیثٌ ثَابِتٌ صَحِیحٌ وَمَعَہُ رِوَایَۃُ ابْنِ عُمَرَ وَفِیہِمَا جَمِیعًا أَنَّہُ سَمَلَ أَعْیُنَہُمْ فَلاَ مَعْنَی لإِنْکَارِ مَنْ أَنْکَرَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٥٢) حضرت جعفر اپنے والد علی بن حسین سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ نے آنکھوں میں سلائیاں نہیں پھیریں، صرف ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہیں۔
شیخ فرماتے ہیں : حضرت انس بن مالک اور ابن عمر کی روایات صحیح ثابت ہیں۔ ان میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیریں ہیں تو کسی کے انکار کردینے سے کیا حاصل۔

18059

(١٨٠٥٣) فَالأَحْسَنُ حَمْلُہُ عَلَی النَّسْخِ کَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَہْطًا مِنْ عُرَیْنَۃَ قَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ قَالَ قَتَادَۃُ وَحَدَّثَنِی ابْنُ سِیرِینَ أَنَّ ہَذَا قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ ہِشَامٍ عَنْ قَتَادَۃَ مَا دَلَّ عَلَی ہَذَا أَوْ حَمْلِہِ عَلَی أَنَّہُ فَعَلَ بِہِمْ مَا فَعَلُوا بِالرِّعَائِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٥٣) قتادہ حضرت انس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ عرینہ قبیلے کا گروہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ابن سیرین فرماتے ہیں کہ یہ حدود نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔
(ب) ہشام قتادہ سے نقل فرماتے ہیں کہ چرواہوں کے ساتھ انھوں نے یہ سلوک کیا تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرینہ کے گروہ کے ساتھ کیا تھا۔

18060

(١٨٠٥٤) وَالَّذِی یَدُلُّ عَلَیْہِ مَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ یَعْنِی ابْنَ إِبْرَاہِیمَ الْمَرْوَزِیَّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ غَیْلاَنَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مِہْرَانَ وَأَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ قَالاَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ الأَعْرَجُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ غَیْلاَنَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنَّمَا سَمَلَ أَعْیُنَ أُولَئِکَ لأَنَّہُمْ سَمَلُوا أَعْیُنَ الرُّعَاۃِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الأَعْرَجِ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ الْمَرْوَزِیِّ : إِنَّمَا سَمَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَعْیُنَہُمْ لأَنَّہُمْ سَمَلُوا أَعْیُنَ الرُّعَاۃِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ سَہْلٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٦٧١]
(١٨٠٥٤) سلیمان تیمی حضرت انس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیریں؛ کیونکہ انھوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔

18061

(١٨٠٥٥) وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ جَعْفَرٍ الرُّصَافِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعِیدٍ الْقُرَشِیُّ عَنْ جَدِّہِ الْحَسَنِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ حَصِینِ بْنِ مُخَارِقٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِنَّمَا مَثَّلَ بِہِمْ لأَنَّہُمْ مَثَّلُوا بِالرَّاعِی۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٥٥) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا مثلہ صرف اس لیے کیا؛ کیونکہ انھوں نے چرواہوں کا مثلہ کیا تھا۔

18062

(١٨٠٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِیُّ بِہَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ تَتَّخِذُوا شَیْئًا فِیہِ الرُّوحُ غَرَضًا ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ وَذَکَرَہُ الْبُخَارِیُّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٥٦) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی ذی روح چیز کو نشانہ بازی کے لیے نہ باندھو۔

18063

(١٨٠٥٧) وَرَوَاہُ الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ کَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا خَرَجَ فِی طَرِیقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِینَۃِ فَرَأَی غِلْمَانًا قَدْ نَصَبُوا دَجَاجَۃً یَرْمُونَہَا فَلَمَّا رَأَوْہُ فَرُّوا فَغَضِبَ وَقَالَ : مَنْ فَعَلَ ہَذَا إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ لَعَنَ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَیَوَانِ ۔ ذَکَرَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الشَّوَاہِدِ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٥٧) سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مدینہ کے کسی راستہ پر نکلے۔ انھوں نے دیکھا کہ بچے مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے ہیں۔ جب بچوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا تو فرار ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) غصے ہوئے اور پوچھا : یہ کس نے کیا ؟ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیوان کا مثلہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

18064

(١٨٠٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُوعَمْرٍو الْحِیرِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُویَعْلَی حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثنَا ہُشَیْمُ بْنُ بَشِیرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ : مَرَّ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا بِفِتْیَانٍ مِنْ قُرَیْشٍ وَقَدْ نَصَبُوا طَیْرًا وَہُمْ یَرْمُونَہُ وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّیْرِ کُلَّ خَاطِئَۃٍ مِنْ نَبْلِہِمْ فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : مَنْ فَعَلَ ہَذَا لَعَنَ اللَّہُ مَنْ فَعَلَ ہَذَا إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَیْئًا فِیہِ الرُّوحُ غَرَضًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ أَبِی عَوَانَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٥٨) سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا گزر قریشی بچوں کے پاس سے ہوا۔ وہ ایک پرندے کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے لیکن تمام کے نشانے خطا تھے۔ جب انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا تو بکھر گئے تو ابن عمر (رض) نے پوچھا : یہ کس نے کیا ؟ اللہ اس پر لعنت فرمائے جس نے کیا؛ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی روح چیز پر نشانے بازی کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

18065

(١٨٠٥٩) أَخْبَرَنَا أَبُوطَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الدَّارَابَجِرْدِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ تِعْلَی عَنْ أَبِی أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَہَی عَنْ صَبْرِ الدَّابَّۃِ قَالَ أَبُو أَیُّوبَ لَوْ کَانَتْ دَجَاجَۃً مَا صَبَرْتُہَا۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٨٠٥٩) ابو ایوب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوپائے کو باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ ایوب کہتے ہیں : اگر مرغی بھی ہو تو میں نہیں باندھوں گا۔

18066

(١٨٠٦٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَۃَ الدِّمَشْقِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَہْبِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ تِعْلَی عَنْ أَبِی أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَدْرَبْنَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَہُوَ أَمِیرُ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ عَلَی الدُّرُوبِ قَالَ فَنَزَلْنَا مَنْزِلَنَا مِنْ أَرْضِ الرُّومِ فَأَقَمْنَا بِہِ قَالَ وَکَانَ أَبُو أَیُّوبَ قَدِ اتَّخَذَ مَسْجِدًا فَکُنَّا نَرُوحُ وَنَجْلِسُ إِلَیْہِ وَیُصَلِّی لَنَا وَنَسْتَمْتِعُ مِنْ حَدِیثِہِ قَالَ فَوَاللَّہِ إِنَّا لَعَشِیَّۃً مَعَہُ إِذْ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ أُتِیَ الآنَ الأَمِیرُ بِأَرْبَعَۃِ أَعْلاَجٍ مِنَ الرُّومِ فَأَمَرَ بِہِمْ أَنْ یُصْبَرُوا فَرُمُوا بِالنَّبْلِ حَتَّی قُتِلُوا فَقَامَ أَبُو أَیُّوبَ فَزِعًا حَتَّی جَائَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ خَالِدٍ فَقَالَ أَصَبَرْتَہُمْ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَنْہَی عَنْ صَبْرِ الدَّابَّۃِ وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِی کَذَا وَکَذَا وَإِنِّی صَبَرْتُ دَجَاجَۃً قَالَ فَدَعَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ بِغِلْمَانٍ لَہُ أَرْبَعَۃٍ فَأَعْتَقَہُمْ مَکَانَہُمْ ۔ قَالَ أَبُو زُرْعَۃَ عُبَیْدُ بْنُ تِعْلَی مِنْ أَہْلِ فِلَسْطِینِ مَنْزِلُہُ عَسْقَلاَنُ ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرٍ ۔ [صحیح لغیرہ۔ بدون القصۃ ]
(١٨٠٦٠) حضرت ابو ایوب (رض) فرماتے ہیں : ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے ساتھ ایک جنگ لڑی۔ ہم نے رومی سرزمین پر پڑاؤ کیا۔ کہتے ہیں کہ ابو ایوب نے ایک مسجد بنائی۔ ہم شام کے وقت جا کر ان کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی باتوں سے فائدہ حاصل کرتے، کہتے ہیں : ایک شام میں ان کے ساتھ تھا کہ ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ امیر المؤمنین کے پاس چار گاؤخر لائے گئے تو انھوں نے انھیں باندھنے کا حکم دیا اور تیر اندازی کر کے انھیں ہلاک کردیا گیا تو ابو ایوب گھبرا کر کھڑے ہوئے اور عبدالرحمن بن خالد کے پاس آئے اور فرمانے لگے : آپ نے ان کو باندھا تھا ؟ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے چوپائے کو باندھنے سے منع فرمایا تھا۔ میں پسند نہیں کرتا کہ میرے لیے یہ یہ ہو اگرچہ میں ایک مرغی ہی کو کیوں نہ باندھو تو عبدالرحمن بن خالد نے ان کی جگہ اپنے چار غلام آزاد کروا دیے۔ ابو زرعہ عبید بن یعلیٰ فرماتے ہیں کہ وہ فلسطین کے تھے ان کا گھر عسقلان میں تھا۔

18067

(١٨٠٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی وَزِیَادُ بْنُ أَیُّوبَ قَالاَ أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا مُغِیرَۃُ عَنْ شِبَاکٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنْ ہُنَیِّ بْنِ نُوَیْرَۃَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَعَفُّ النَّاسِ قِتْلَۃً أَہْلُ الإِیمَانِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٦١) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں سے قتل سے زیادہ محفوظ اہل ایمان ہوں گے۔

18068

(١٨٠٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبِسْطَامِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہَاشِمٍ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ : رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ دِینَارٍ وَأَیُّوبَ وَعَمَّارَ الدُّہْنِیَّ اجْتَمَعُوا فَتَذَاکَرُوا الَّذِینَ حَرَّقَہُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَحَدَّثَ أَیُّوبُ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ بَلَغَہُ قَالَ : لَوْ کُنْتُ أَنَا مَا حَرَّقْتُہُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّہِ ۔ وَلَقَتَلْتُہُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ بَدَّلَ دِینَہُ فَاقْتُلُوہُ ۔ فَقَالَ عَمَّارٌ : لَمْ یُحَرِّقْہُمْ وَلَکِنْ حَفَرَ لَہُمْ حَفَائِرَ وَخَرَقَ بَعْضُہَا إِلَی بَعْضٍ ثُمَّ دَخَّنَ عَلَیْہِمْ حَتَّی مَاتُوا فَقَالَ عَمْرٌو قَالَ الشَّاعِرُ لِتَرْمِ بِیَ الْمَنَایَا حَیْثُ شَائَ تْ إِذَا لَمْ تَرْمِ بِی فِی الْحُفْرَتَیْنِ إِذَا مَا أَجَّجُوا حَطَبًا وَنَارًا ہُنَاکَ الْمَوْتُ نَقْدًا غَیْرَ دَیْنِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ دُونَ قَوْلِ عَمَّارٍ وَعَمْرٍو۔ [صحیح ]
(١٨٠٦٢) سفیان کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار، ایوب اور عمار وہنی کو دیکھا، وہ سب اکٹھے تھے۔ انھوں نے ان لوگوں کے بارے مذاکرہ کیا جن کو حضرت علی (رض) نے جلا دیا تھا۔
(ب) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں : اگر میں ہوتا تو انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی وجہ سے نہ جلاتا کہ تم اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی وجہ سے قتل کردیتا کہ جو مرتدہو جائے (اپنا دین بدل لے ) اسے قتل کر دو ۔ عمار کہتے ہیں : ان کو جلایا نہ گیا تھا بلکہ ان کے لیے گڑھے کھودے گئے جن کے اندر سوراخ کردیے گئے پھر ان پر دھواں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ عمرو نے کہا : شاعر نے کہا ہے، (ترجمہ) تو مجھے جیسے چاہے موت کے آگے ڈال دے، جب کہ تو نے مجھے دو گڑھوں میں نہ ڈالا ہو جب انھوں نے لکڑیوں اور آگ کو اکٹھا کردیا ہو تو پھر موت فوراً آتی ہے دیر نہیں کرتی۔

18069

(١٨٠٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الإِیَادِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ النَّصِیبِیُّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِی أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ حَدَّثَنِی بُکَیْرٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ بُکَیْرٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی بَعْثٍ وَقَالَ : إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا ۔ لِرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ : فَأَحْرِقُوہُمَا بِالنَّارِ ۔ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ : إِنِّی کُنْتُ أَمَرْتُکُمْ أَنْ تُحَرِّقُوا فُلاَنًا وَفُلاَنًا بِالنَّارِ وَإِنَّ النَّارَ لاَ یُعَذِّبُ بِہَا إِلاَّ اللَّہُ فَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمَا فَاقْتُلُوہُمَا ۔ لَفْظُہُمَا سَوَائٌ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠١٦]
(١٨٠٦٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کسی لشکر میں بھیجا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم دو فلاں قریشیوں کو پاؤ تو آگ سے جلا دینا۔ پھر جب جانے لگے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے تمہیں فلاں فلاں کو آگ سے جلانے کا حکم دیا تھا لیکن آگ کا عذاب صرف اللہ رب العزت ہی دے سکتے ہیں۔ اگر تم انھیں پالو تو قتل کردینا۔

18070

(١٨٠٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَنَّ زِیَادَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ أَبَا الزِّنَادِ أَخْبَرَہُ أَنَّ حَنْظَلَۃَ بْنَ عَلِیٍّ أَخْبَرَہُ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِیِّ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ رَجُلاً فَقَالَ : إِنْ أَصَبْتَ فُلاَنًا أَوْ فُلاَنًا فَأَحْرِقُوہُ بِالنَّارِ ۔ فَلَمَّا وَلَّی دَعَاہُ فَقَالَ : إِنَّہُ لاَ یُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّہَا ۔ [صحیح ]
(١٨٠٦٤) حمزہ بن عمرو اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بھیجا کہ اگر فلاں فلاں کو پاؤ تو آگ سے جلا دینا۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے بلایا اور فرمایا : آگ کا عذاب آگ کا رب ہی دے سکتا ہے۔

18071

(١٨٠٦٥) وَرَوَاہُ مُغِیرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ کَمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا مُغِیرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِیُّ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ قَالَ وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَمْزَۃَ الأَسْلَمِیُّ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَمَّرَہُ عَلَی سَرِیَّۃٍ قَالَ فَخَرَجْتُ فِیہَا وَقَالَ : إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا فَأَحْرِقُوہُ بِالنَّارِ فَوَلَّیْتُ فَنَادَانِی فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ : إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا فَاقْتُلُوہُ وَلاَ تُحَرِّقُوہُ فَإِنَّہُ لاَ یُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلاَّ رَبُّ النَّارِ ۔ وَأَمَّا حَدِیثُ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حَیْثُ أَمَرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُحَرِّقَ عَلَی أُبْنَی وَمَا رُوِیَ فِی نَصْبِ الْمَنْجَنِیقِ عَلَی الطَّائِفِ فَغَیْرُ مُخَالِفٍ لِمَا قُلْنَا إِنَّمَا ہُوَ فِی قِتَالِ الْمُشْرِکِینَ مَا کَانُوا مُمْتَنِعِینَ وَمَا رُوِیَ مِنَ النَّہْیِ فِی الْمُشْرِکِینَ إِذَا کَانُوا مَأْسُورِینَ وَشَبَّہَہُ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ بِرَمْیِ الصَّیْدِ مَا دَامَ عَلَی الاِمْتِنَاعِ ثُمَّ النَّہْیِ عَنْ رَمْیِ الدَّجَاجَۃِ الَّتِی لَیْسَتَ بِمُمْتَنِعَۃٍ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٦٥) محمد بن حمزہ اسلمی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ایک لشکر کا امیر بنایا۔ کہتے ہیں : میں اس لشکر میں گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم فلاں کو پالو تو آگ سے جلا دینا۔ میں جانے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی۔ میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم فلاں کو پالو تو قتل کردینا جلانا نہ، کیونکہ آگ کا عذاب اس کا رب ہی دے سکتا ہے۔
(ب) اسامہ بن زید کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے گھروں سمیت جلانے کا حکم دیا اور طائف پر منجنیق کا نصب کرنا ہمارے قول کے مخالف نہیں ہے۔ وہ صرف مشرکین سے قتال کے بارے میں ہے، جب وہ رکنے والے نہ ہوں اور مشرکین کو جلانے کی نفی اس وقت ہے جب وہ قیدی ہوں۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ شکار کو باندھ کر نہ مارا جائے۔ پھر مرغی کو تیر مارنے کی ممانعت ہے جو باندھی نہ بھی گئی ہو۔

18072

(١٨٠٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیدِ الثَّقَفِیِّ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلاً مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ فَأَوْثَقُوہُ فَطَرَحُوہُ فِی الْحَرَّۃِ فَمَرَّ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَنَحْنُ مَعَہُ أَوْ قَالَ أَتَی عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی حِمَارٍ وَتَحْتَہُ قَطِیفَۃٌ فَنَادَاہُ : یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ ۔ قَالَ : فِیمَ أُخِذْتُ وَفِیمَ أُخِذَتْ سَابِقَۃُ الْحَاجِّ ؟ قَالَ : أُخِذْتَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکُمْ ثَقِیفَ ۔ وَکَانَتْ ثَقِیفُ قَدْ أَسَرَتْ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَتَرَکَہُ وَمَضَی فَنَادَاہُ : یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَرَحِمَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَقَالَ : مَا شَأْنُکَ ؟ فَقَالَ : إِنَّہُ مُسْلِمٌ۔ قَالَ : لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الفَلاَحِ ۔ قَالَ : فَتَرَکَہُ وَمَضَی فَنَادَاہُ : یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَقَالَ : إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی قَالَ وَأَحْسِبُہُ قَالَ : وَإِنِّی عَطْشَانُ فَاسْقِنِی۔ قَالَ : ہَذِہِ حَاجَتُکَ ۔ قَالَ فَفَدَاہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالرَّجُلَیْنِ اللَّذَیْنِ أَسَرَتْہُمَا ثَقِیفُ وَأَخَذَ نَاقَتَہُ تِلْکَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٦٤١]
(١٨٠٦٦) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ صحابہ نے بنو عقیل کا ایک شخص قیدی بنا کر باندھ کر پتھریلی زمین میں پھینک دیا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس سے گزرے۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ ایک گدھے پر سوار تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نیچے ایک چادر تھی تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : مجھے کیونکر پکڑا گیا ہے ؟ اور حج کی طرف جانے والے کو کیوں پکڑا گیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو پکڑا گیا ہے تیرے حلیف بنو ثقیف کے جرم کی پاداش میں اور بنو ثقیف نے دو صحابہ کو قیدی بنا لیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چھوڑ کر چل دیے۔ اس نے پھر آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پر رحم آگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : میں تو مسلمان ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تو اس وقت یہ بات کہہ دیتا جب تو آزار تھا تو ہر طرح سے کامیاب ہوجاتا ۔ راوی کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چھوڑ کر چل دیے تو اس نے آواز دی : اے محمد ! اے محمد ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آگئے۔ اس نے کہا : میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ۔ راوی کہتے ہیں : میرا گمان ہے : اس نے کہا : میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلاؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تیری ضرورت ہے۔ راوی کہتے ہیں : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے عوض اپنے دو آدمیوں کو رہا کروایا جس کو بنو ثقیف نے قید کرلیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اونٹنی بھی لے لی۔

18073

(١٨٠٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ : قَدْ سَبَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہَوَازِنَ وَقَبَائِلَ مِنَ الْعَرَبِ وَأَجْرَی عَلَیْہِمُ الرِّقَّ حَتَّی مَنَّ عَلَیْہِمْ بَعْدُ فَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ بِالْمَغَازِی فَزَعَمَ بَعْضُہُمْ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا أَطْلَقَ سَبْیَ ہَوَازِنَ قَالَ : لَوْ کَانَ تَامَّ عَلَی أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ سَبْیٌ لَتَمَّ عَلَی ہَؤُلاَئِ وَلَکِنَّہُ إِسَارٌ وَفِدَائٌ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : فَمَنْ ثَبَّتَ ہَذَا الْحَدِیثَ زَعَمَ أَنَّ الرِّقَّ لاَ یَجْرِی عَلَی عَرَبِیٍّ بِحَالٍ وَہَذَا قَوْلُ الزُّہْرِیِّ وَسَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ وَالشَّعْبِیِّ وَیُرْوَی عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٦٧) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق، ہوازن جو عرب کے قبیلے تھے ان کو غلام بنانے کے بعد احسان کر کے آزاد فرمایا۔ اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کا گمان ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ہوازن کے قیدی چھوڑے تو فرمایا : اگر عرب کے کوئی مکمل قیدی ہوتے تو وہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تھے لیکن قید کے بعد فدیہ ہونا تھا۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : جس نے اس حدیث کو ثابت کیا ہے ان کے نزدیک عرب کے باشندے کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

18074

(١٨٠٦٨) قَالَ الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی الْغَسَّانِیِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لاَ یُسْتَرَقُّ عَرَبِیٌّ۔ قَالَ وَأَخْبَرَنَا عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّہُ قَالَ فِی الْمَوْلَی یَنْکِحُ الأَمَۃَ : یُسْتَرَقُّ وَلَدُہُ ۔ وَفِی الْعَرَبِیِّ یَنْکِحُ الأَمَۃَ : لاَ یُسْتَرَقُّ وَلَدُہُ عَلَیْہِ قِیمَتُہُمْ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَمَنْ لَمْ یُثْبِتِ الْحَدِیثَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ذَہَبَ إِلَی أَنَّ الْعَرَبَ وَالْعَجَمَ سَوَائٌ وَإِنَّہُ یَجْرِی عَلَیْہِمُ الرِّقُّ حَیْثُ جَرَی عَلَی الْعَجَمِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ قَالَ الرَّبِیعُ وَبِہِ یَأْخُذُ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ أَمَّا الرِّوَایَۃُ فِیہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِنَّمَا ذَکَرَہَا الشَّافِعِیُّ فِی الْقَدِیمِ عَنْ مُحَمَّدٍ ہُوَ ابْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِیُّ عَنْ مُوسَی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِیہِ عَنِ السَّلُولِیِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ یَوْمَ حُنَیْنٍ : لَوْ کَانَ ثَابِتًا عَلَی أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ سِبَائٌ بَعْدَ الْیَوْمِ لَثَبَتَ عَلَی ہَؤُلاَئِ وَلَکِنْ إِنَّمَا ہُوَ إِسَارٌ وَفِدَائٌ ۔ وَہَذَا إِسْنَادٌ ضَعِیفٌ لاَ یُحْتَجُّ بِمِثْلِہِ ۔ وَأَمَّا الرِّوَایَۃُ فِیہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٦٨) شعبی حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ عربی کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔
(ب) زہری سعید بن مسیب سے نقل فرماتے ہیں کہ غلام لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ اس کی اولاد غلام ہوگی۔ عربی بھی لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے لیکن اس کی اولاد کو غلام نہ بنایا جائے گا اس کے ذمہ ان کی قیمت ادا کرنا ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہے بلکہ عربی و عجمی دونوں برابر ہیں جہاں عجمی پر غلامی کا اطلاق کیا جائے گا وہاں عربی پر بھی ہوگا۔
شیخ فرماتے ہیں : امام شافعی (رح) نے قدیم قول کو نقل کیا ہے کہ معاذ بن جبل (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ نے فرمایا : اگر عرب میں سے کسی پر غلام کا اثبات آج کے بعد ہوسکتا تو یہ لوگ تھے لیکن یہ تو قید اور فدیہ دینا ہے۔

18075

(١٨٠٦٩) فَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِالرَّحْمَن السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُوالْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِالْعَزِیزِ حَدَّثَنَا أَبُوعُبَیْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ أَبِی حَصِینٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَیْسَ عَلَی عَرَبِیٍّ مِلْکٌ وَلَسْنَا بِنَازِعِی مِنْ یَدِ رَجُلٍ شَیْئًا أَسْلَمَ عَلَیْہِ وَلَکِنَّا نُقَوِّمُہُمُ الْمِلَّۃَ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ ۔ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ یَقُولُ ہَذَا الَّذِی فِی یَدِہِ السَّبْیُ لاَ نَنْزِعُہُ مِنْ یَدِہِ بِلاَ عِوَضٍ لأَنَّہُ أَسْلَمَ عَلَیْہِ وَلاَ نَتْرُکُہُ مَمْلُوکًا وَہُوَ مِنَ الْعَرَبِ وَلَکِنَّہُ قَوَّمَ قِیمَتُہُ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ لِلَّذِی سَبَاہُ وَیَرْجِعُ إِلَی نَسَبِہِ عَرَبِیًّا کَمَا کَانَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَہَذِہِ الرِّوَایَۃُ مُنْقَطِعَۃٌ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٦٩) شعبی فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمانے لگے : عربی انسان کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اور ہم کسی شخص کے احسان کے بارے میں جھگڑا کرنے والے نہیں ہیں لیکن ہم اس کی پانچ اونٹ قیمت مقرر کردیں گے۔
ابو عبید کہتے ہیں : جب کوئی کسی کے ہاتھ غلام ہو تو ہم بلا قیمت نہ لیں گے کیونکہ وہ اس کا محافظ ہے اور غلام بھی رہنے نہ دیں گے کیونکہ وہ عربی ہے۔ لیکن غلام بنانے والے کو پانچ اونٹ قیمت ادا کی جائے گی اور عربی اپنے نسب کی جانب واپس لوٹ جائے گا۔

18076

(١٨٠٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ ہُوَ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَرَضَ فِی کُلِّ سَبْیٍ فُدِیَ مِنَ الْعَرَبِ سِتَّۃَ فَرَائِضَ وَإِنَّہُ کَانَ یَقْضِی بِذَلِکَ فِیمَنْ تَزَوَّجَ الْوَلاَئِدَ مِنَ الْعَرَبِ ۔ وَہَذَا أَیْضًا مُرْسَلٌ إِلاَّ أَنَّہُ جَیِّدٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٧٠) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ہر غلام کے عوض کچھ فدیہ مقرر فرمایا۔ عربی غلام کے بدلے جانور۔ یہ فیصلہ ان کے بارے میں فرمایا جس نے عرب لونڈیوں سے شادی کر رکھی تھی۔

18077

(١٨٠٧١) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَارِثِ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا ابْنُ مَنِیعٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : أَبَقَتْ أَمَۃٌ لِبَعْضِ الْعَرَبِ فَوَقَعَتْ بِوَادِی الْقُرَی فَانْتَہَتْ إِلَی الْحَیِّ الَّذِینَ أَبَقَتْ مِنْہُمْ فَتَزَوَّجَہَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی عُذْرَۃَ فَنَثَرَتْ لَہُ بَطْنَہَا ثُمَّ عَثَرَ عَلَیْہَا سَیِّدُہَا فَاسْتَاقَہَا وَوَلَدَہَا فَقَضَی عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِلْعُذْرِیِّ یَعْنِی قَضَی لَہُ بِوَلَدِہِ وَقَضَی عَلَیْہِ بِالْغُرَّۃِ لِکُلِّ وَصِیفٍ وَصِیفٌ وَلِکُلِّ وَصِیفَۃٍ وَصِیفَۃٌ وَجَعَلَ ثَمَنَ الْغُرَّۃِ إِذَا لَمْ تُوجَدْ عَلَی أَہْلِ الْقُرَی سِتِّینَ دِینَارًا أَوْ سَبْعَمِائَۃِ دِرْہَمٍ وَعَلَی أَہْلِ الْبَادِیَۃِ سِتَّ فَرَائِضَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَہَذَا وَرَدَ فِی وَطْئِ الشُّبْہَۃِ فَیَکُونُ الْوَلَدُ حُرًّا وَعَلَیْہِ قِیمَتُہُ لِصَاحِبِ الْجَارِیَۃِ وَکَأَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَأَی الْقِیمَۃَ بِمَا نُقِلَ فِی ہَذَا الأَثَرِ إِنْ ثَبَتَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَجَرَیَانُ الرِّقِّ عَلَی سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہَوَازِنَ صَحِیحٌ ثَابِتٌ وَالْمَنُّ عَلَیْہِمْ بِإِطْلاَقِ السَّبَایَا تَفَضُلٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٧١) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ کسی عرب کی لونڈی بھاگ گئی جو وادی قریٰ سے جا کر اس قبیلہ کو مل گئی جس سے بھاگ کرگئی تھی تو بنو عذرہ کے ایک شخص نے اس سے شادی کرلی تو وہ حاملہ ہوگئی۔ پھر مالک کو اس کا پتہ چلا تو وہ لونڈی اور اس کے بچے کو لے گیا تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عذرہ کے شخص کے لیے بچے کا فیصلہ فرمایا اور اس پر ہر ایک کے عوض ایک غلام ڈالا اور شہر والوں پر ایک غلام کی قیمت چھ دینار یا دو سو دینار مقرر فرمائی اور دیہاتی پر چھ فرائض۔
شیخ فرماتے ہیں : یہ وطی کے شبہ کی بنا پر ہے کیونکہ بچہ آزاد ہوگا۔ اس کے ذمہ قیمت ہے لونڈی والے کے لیے اور حضرت عمر (رض) اس اثر کو زائل کرنے کے لیے قیمت مقرر فرماتے تھے۔ لیکن بنو مصطلق و ہوازن پر غلام کا اطلاق کیا گیا جو صحیح ثابت ہے لیکن بعد میں احسان کر کے شرافت کی بنا پر غلامی سے آزادی دی گئی۔

18078

(١٨٠٧٢) وَذَلِکَ بَیِّنٌ فِیمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ قَالَ : دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَیْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَجَلَسْتُ إِلَیْہِ فَسَأَلْتُہُ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَأَصَبْنَا سَبَایَا مِنْ سَبْیِ الْعَرَبِ فَاشْتَہَیْنَا النِّسَائَ وَاشْتَدَّتْ عَلَیْنَا الْعُزْبَۃُ وَأَحْبَبْنَا الْفِدَائَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ ثُمَّ قُلْنَا نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَیْنَ أَظْہُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَہُ عَنْ ذَلِکَ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : مَا عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَۃٍ کَائِنَۃٍ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ إِلاَّ وَہِیَ کَائِنَۃٌ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ مَالِکٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٧٢) ابن محیریز فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو ابو سعید خدری کو دیکھاـ۔ میں نے ان کے پاس بیٹھ کر عزل کے بارے میں سوال کیا تو ابو سعید فرمانے لگے : ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ بنو مصطلق کے لیے گئے تو ہم نے عربوں کی لونڈیاں حاصل کیں۔ ہمیں عورت کی خواہش بھی تھی اور عورت سے جدا رہنا مشکل ہوگیا تھا اور ہم فدیہ کو بھی محبوب چاہتے تھے تو ہم نے عزل کا ارادہ کیا۔ پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں بغیر پوچھے عزل نہیں کریں گے۔ پہلے پوچھیں گے ؟ ہم نے پوچھ لیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کرلو لیکن جس جان نے کائنات میں آنا ہے وہ آکر ہی رہے گی۔

18079

(١٨٠٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوْ لاِبْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبَتْہُ عَلَی نَفْسِہَا وَکَانَتِ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلاَحَۃً لاَ یَرَاہَا أَحَدٌ إِلاَّ أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا۔ قَالَتْ عَائِشَۃُ : فَوَاللَّہِ مَا ہُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَیْتُہَا فَکَرِہْتُہَا وَقُلْتُ سَیَرَی مِنْہَا مِثْلَمَا رَأَیْتُ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ سَیِّدُ قَوْمِہِ وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلاَئِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ وَقَدْ کَاتَبْتُ عَلَی نَفْسِی فَأَعِنِّی عَلَی کِتَابَتِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَوْ خَیْرٌ مِنْ ذَلِکَ أُؤَدِّی عَنْکِ کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ ۔ فَقَالَتْ : نَعَمْ ۔ فَفَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَبَلَغَ النَّاسَ أَنَّہُ قَدْ تَزَوَّجَہَا فَقَالُوا أَصْہَارُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہِ عَلَیْہ وَآلِہِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلُوا مَا کَانَ فِی أَیْدِیہِمْ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَلَقَدْ أُعْتِقَ بِہَا مِائَۃُ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً أَعْظَمَ بَرَکَۃً مِنْہَا عَلَی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ [حسن ]
(١٨٠٧٣) عروہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق کی لونڈیاں تقسیم فرمائیں تو جویریہ بنت حارث ثابت بن قیس بن شماس یا اس کے چچا کے بیٹے کے حصہ میں آئی۔ اس نے مکاتبت کرلی۔ وہ ایک شرمیلی باحیا عورت تھی جسے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا تو اس عورت نے اپنے آپ کو روک لیا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مکاتبت کے بارے میں مدد کا سوال کردیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے اس کو اچھا نہ جانا۔ میں نے کہا : آپ بھی اس طرح اس سے محسوس کریں جیسے میں نے کیا۔ جب وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : میں جویریہ بنت حارث ہوں اپنی قوم کے سردار کی بیٹی۔ میرے اوپر پریشانی آئی ہے جو آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں نے مکاتبت کی ہے جس میں آپ میری مدد فرمائیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یا اس سے بھی بہتر، میں تیری کتابت ادا کر کے تجھ سے شادی کرلوں۔ اس نے کہا : ہاں ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کرلیا۔ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے شادی کرلی ہے تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سسرال بنو مصطلق کے سو افراد کو آزاد کردیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : مجھے علم نہیں کہ اس عورت سے بڑھ کر کوئی عورت اپنی قوم کے لیے برکت کا باعث بنی ہو۔

18080

(١٨٠٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِحُنَیْنٍ فَلَمَّا أَصَابَ مِنْ ہَوَازِنَ مَا أَصَابَ مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَسَبَایَاہُمْ أَدْرَکَہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ بِالْجِعْرَانَۃِ وَقَدْ أَسْلَمُوا فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ لَنَا أَصْلٌ وَعَشِیرَۃٌ وَقَدْ أَصَابَنَا مِنَ الْبَلاَئِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ فَامْنُنْ عَلَیْنَا مَنَّ اللَّہُ عَلَیْکَ وَقَامَ خَطِیبُہُمْ زُہَیْرُ بْنُ صُرَدَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّمَا فِی الْحَظَائِرِ مِنَ السَّبَایَا خَالاَتُکَ وَعَمَّاتُکَ وَحَوَاضِنُکَ اللاَّتِی کُنَّ یَکْفُلْنَکَ وَذَکَرَ کَلاَمًا وَأَبْیَاتًا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نِسَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ أَحَبُّ إِلَیْکُمْ أَمْ أَمْوَالُکُمْ ؟ ۔ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ خَیَّرْتَنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَبَیْنَ أَمْوَالِنَا أَبْنَاؤُنَا وَنِسَاؤُنَا أَحَبُّ إِلَیْنَا۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ وَإِذَا أَنَا صَلَّیْتُ بِالنَّاسِ فَقُومُوا وَقُولُوا إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّہِ إِلَی الْمُسْلِمِینَ وَبِالْمُسْلِمِینَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ فِی أَبْنَائِنَا وَنِسَائِنَا سَأُعْطِیکُمْ عِنْدَ ذَلِکَ وَأَسْأَلُ لَکُمْ ۔ فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالنَّاسِ الظُّہْرَ قَامُوا فَقَالُوا مَا أَمَرَہُمْ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا مَا کَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَہُوَ لَکُمْ ۔ وَقَالَ الْمُہَاجِرُونَ : وَمَا کَانَ لَنَا فَہُوَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ وَقَالَتِ الأَنْصَارُ وَمَا کَانَ لَنَا فَہُوَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ فَقَالَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ : أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِیمٍ فَلاَ ۔ فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ السُّلَمِیُّ : أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَیْمٍ فَلاَ ۔ فَقَالَتْ بَنُو سُلَیْمٍ : بَلْ مَا کَانَ لَنَا فَہُوَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ وَقَالَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ : أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَۃَ فَلاَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ أَمْسَکَ مِنْکُمْ بِحَقِّہِ فَلَہُ بِکُلِّ إِنْسَانٍ سِتَّۃُ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ فَیْئٍ نُصِیبُہُ فَرُدُّوا إِلَی النَّاسِ نِسَائَ ہُمْ وَأَبْنَائَ ہُمْ ۔ وَحَدِیثُ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ فِی سَبْیِ ہَوَازِنَ قَدْ مَضَی۔ [حسن۔ بدون قول صرد ]
(١٨٠٧٤) عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حنین میں تھے کہ ہمیں قبیلہ ہوازن سے مال اور لونڈیاں میسر آئیں۔ لیکن ہوازن کے لوگ جعرانہ نامی جگہ پر مسلمان ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملے۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے مال اور افراد واپس کردیں، جو پریشانی ہمیں آئی ہے آپ پر پوشیدہ بھی نہیں ہے۔ آپ ہمارے اوپر احسان کریں جیسے اللہ نے آپ پر احسان فرمایا ہے۔ ان کے خطیب زہیر بن صرد کھڑے ہوئے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لونڈیوں میں آپ کی خالائیں، پھوپھیاں اور بچپن میں آپ کی پرورش کرنے والیاں بھی موجود ہیں۔ اس نے لمبی کلام کی اور اشعار پڑھے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں عورتیں اور اولاد پسند ہے یا مال ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ہمارے حسب و نسب اور مال میں اختیار دیا ہے۔ ہمیں عورتیں اور مال زیادہ محبوب ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں ہیں وہ سب تمہارا ہے۔ جس وقت میں لوگوں کو نماز پڑھاؤں تو وہاں کھڑے ہو کر کہہ دینا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلمانوں کی جانب سفارشی بناتے ہیں یا مسلمانوں کو رسول اللہ کے پاس سفارشی پیش کرتے ہیں اپنے بیٹوں اور عورتوں کے بارے میں۔ عنقریب میں تمہیں عطا کر دوں گا اور تمہارے لیے سفارش بھی کروں گا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز پڑھائی تو وہ کھڑے ہوئے اور جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا تھا کہہ دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ میں ہے وہ تمہارا ہے اور مہاجرین و انصار کہنے لگے : جو ہمارا ہے وہ بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور اقرع بن حابس نے کہہ دیا کہ میں اور بنو تمیم نہ دیں گے۔ اس طرح عباس بن مرداس سلمی نے بھی کہہ دیا لیکن بنو سلیم کہنے لگے : ہمارا حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی ہے اور عیینہ بن بدر نے بھی انکار کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اپنا حق روک لیا وہ بھی ان کی عورتیں اور بچے واپس کردیں ہم پہلے مال فیٔ سے اس کو ہر انسان کے عوض چھ اونٹ عطا کریں گے۔

18081

(١٨٠٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَکْرَاوِیُّ حَدَّثَنَا مَسْلَمَۃُ بْنُ عَلْقَمَۃَ الْمَازِنِیُّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : ثَلاَثٌ سَمِعْتُہُنَّ لِبَنِی تَمِیمٍ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لاَ أُبْغِضُ بَنِی تَمِیمٍ بَعْدَہُنَّ أَبَدًا کَانَ عَلَی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا نَذْرٌ مُحَرَّرٌ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ فَسُبِیَ سَبْیٌ مِنْ بَلْعَنْبَرٍ فَلَمَّا جِیئَ بِذَاکَ السَّبْیِ قَالَ لَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنْ سَرَّکِ أَنْ تَفِی بِنَذْرِکِ فَأَعْتِقِی مُحَرَّرًا مِنْ ہَؤُلاَئِ ۔ فَجَعَلَہُمْ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ وَجِیئَ بِنَعَمٍ مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَۃِ فَلَمَّا رَآہُ رَاعَہُ حُسْنُہُ قَالَ فَقَالَ : ہَذَا نَعَمُ قَوْمِی ۔ فَجَعَلَہُمْ قَوْمَہُ قَالَ وَقَالَ : ہُمْ أَشَدُّ النَّاسِ قِتَالاً فِی الْمَلاَحِمِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حَامِدِ بْنِ عُمَرَ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ أَبِی زُرْعَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٥٢٥]
(١٨٠٧٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنو تمیم کے بارے تین باتیں سنیں : 1 میں بنو تمیم سے اس کے بعد بغض نہ رکھوں گا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے ذمہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنا نذر تھی۔ جب بلعنبر سے قیدی بنائے گئے اور ان کو لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عائشہ اگر تجھے اچھا لگے کہ تو اپنی نذر پوری کرے تو ان لوگوں سے غلام کو آزاد کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اسماعیل کی اولاد سے شمار فرمایا اور جب صدقہ کے اونٹ لائے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی خوبصورتی کو دیکھا تو فرمایا : یہ جانور میری قوم کے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر لڑائیوں میں وہ سب سے زیادہ سخت ہوتے ہیں۔

18082

(١٨٠٧٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ مُغَفَّلٍ : أَنَّ سَبْیًا مِنْ خَوْلاَنَ قَدِمَ وَکَانَ عَلَی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا رَقَبَۃٌ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ فَقَدِمَ سَبْیٌ مِنَ الْیَمَنِ فَأَرَادَتْ أَنْ تُعْتِقَ فَنَہَاہَا النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقِدَمَ سَبْیٌ مِنْ مُضَرَ أَحْسِبُہُ قَالَ مِنْ بَنِی الْعَنْبَرِ فَأَمَرَہَا أَنْ تُعْتِقَ ۔ (ت) تَابَعَہُ شُعْبَۃُ عَنْ عُبَیْدٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٧٦) ابن مغفل فرماتے ہیں کہ خولان سے لونڈیاں آئیں اور حضرت عائشہ (رض) کے ذمہ اسماعیل کی اولاد سے ایک غلام آزاد کرنا تھا۔ یمن سے غلام آئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے آزاد کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا۔ میرا خیال ہے کہ پھر مضر قبیلہ کے غلام آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بنو عنبر سے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔

18083

(١٨٠٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْخَوَارِزْمِیُّ الْحَافِظُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ ہُوَ ابْنُ حَمْدَانَ النَّیْسَابُورِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ زِیَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِیزِ بْنُ عَبْدِاللَّہِ الأُوَیْسِیُّ حَدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ أَبِی الْغَیْثِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ ۔ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا ہُنَّ ؟ فَذَکَرَہُنَّ وَذَکَرَ فِیہِنَّ التَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الأُوَیْسِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٧٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات ہلاک کردینے والی اشیاء سے بچو۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تذکرہ فرمایا اور ان میں سے ایک چیز یہ ہے کہ لڑائی کے دن بھاگ جانا۔

18084

(١٨٠٧٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ وَکَانَ کَاتِبًا لَہُ قَالَ کَتَبَ إِلَیْہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَمْرٍو۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٧٨) حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔ لیکن جب دشمن سے ملاقات ہوجائے تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔

18085

(١٨٠٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَیْبَانَ الرَّمْلِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ {إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٥] فَکُتِبَ عَلَیْہِمْ أَنْ لاَ یَفِرَّ الْعِشْرُونَ مِنَ الْمِائَتَیْنِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { الآنَ خَفَّفَ اللَّہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٦] فَخَفَّفَ عَنْہُمْ وَکَتَبَ عَلَیْہِمْ أَنْ لاَ یَفِرَّ مِائَۃٌ مِنْ مِائَتَیْنِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٥٦٢]
(١٨٠٧٩) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی : { اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٥] ” اگر تمہارے بیس افراد صبر کرنے والے ہوں تو دو سو افراد پر غالب آئیں گے۔ “ یہ فرض کیا گیا کہ بیس افراد دو سو افراد کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٦] ” اب اللہ نے تم سے تخفیف فرما دی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر کمزوری ہے۔ اگر تمہارے سو افراد ہوں گے تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے۔ “ یعنی ایک سو افراد دو سو کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار نہ کریں۔

18086

(١٨٠٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ النَّضْرِ الْمَرْوَزِیُّ أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَبِی أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ ہُوَ ابْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا حِبَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا الزُّبَیْرُ بْنُ الْخِرِّیتِ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : نَزَلَتْ {إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٥] قَالَ : فُرِضَ عَلَیْہِمْ أَنْ لاَ یَفِرَّ رَجُلٌ مِنْ عَشَرَۃٍ وَلاَ قَوْمٌ مِنْ عَشْرِ أَمْثَالِہِمْ فَجَہَدَ ذَلِکَ النَّاسَ وَشَقَّ عَلَیْہِمْ فَنَزَلَتْ { الآنَ خَفَّفَ اللَّہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیکُمْ ضَعْفًا فَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٦] قَالَ : فَأُمِرُوا أَنْ لاَ یَفِرَّ رَجُلٌ مِنْ رَجُلَیْنٍ وَلاَ قَوْمٌ مِنْ مِثْلَیْہِمْ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَنَقَصَ مِنَ النَّصْرِ بِقَدْرِ مَا خَفَّفَ مِنَ الْعِدَّۃِ ۔ ہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ عَفَّانَ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُبَارَکِ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ حِینَ فُرِضَ أَنْ لاَ یَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَۃٍ فَجَائَ التَّخْفِیفُ فَقَالَ { الآنَ خَفَّفَ اللَّہُ عَنْکُمْ } [الأنفال ٦٦] الآیَۃَ فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّہُ عَنْہُمْ مِنَ الْعِدَّۃِ نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خَفَّفَ عَنْہُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللَّہِ السُّلَمِیِّ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٦٥٣]
(١٨٠٨٠) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : { اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٥] ” اگر تمہارے بیس افراد صبر کرنے والے ہوں تو دو سو افراد پر غالب آئیں گے۔ “ فرماتے ہیں کہ ان پر فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک شخص دس کے مقابلہ سے نہ بھاگے اور نہ کوئی قوم ان جیسے افراد سے بھاگے۔ یہ لوگوں پر شاق گزرا تو یہ آیت نازل ہوئی : { اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ } [الأنفال ٦٦] ” اب اللہ نے تم سے تخفیف فرما دی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر کمزوری ہے۔ اگر تمہارے سو افراد ہوں گے تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے۔ “ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص دو کے مقابلہ سے نہ بھاگے اور کوئی قوم اپنی سے دگنی تعداد کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار نہ کرے۔
عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : اتنی مدد میں کمی ہے جتنی تعداد میں چھوڑ دے دی گئی۔
(ب) عبداللہ بن مبارک کی روایت میں ہے کہ مسلمانوں پر شاق گزرا جب یہ مقرر کردیا گیا کہ ایک دس کے مقابلہ سے نہ بھاگے تو تخفیف کا حکم آگیا، فرمایا : { اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ } ” اب اللہ نے تمہارے لیے تخفیف فرما دی ہے صبر میں کمی کی مقدار کے مطابق۔ “

18087

(١٨٠٨١) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَیْبَانَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : إِنْ فَرَّ رَجُلٌ مِنِ اثْنَیْنِ فَقَدْ فَرَّ وَإِنْ فَرَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ لَمْ یَفِرَّ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٨١) عطاء حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دو سے بھاگ جائے تو اسے بھاگا ہوا کہتے ہیں۔ اگر کوئی تین کے مقابلہ سے بھاگ جائے تو اسے فرار لوگوں میں شمار نہیں کرتے۔

18088

(١٨٠٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَرِیَّۃٍ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَجَاضَ النَّاسُ جَیْضَۃً فَأَتَیْنَا الْمَدِینَۃَ فَفَتَحْنَا بَابَہَا وَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ فَقَالَ : بَلْ أَنْتُمُ الْعَکَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُکُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٨٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا۔ وہ دشمن سے ملے تو لوگ فرار ہوگئے۔ ہم نے مدینہ آ کر اس کا دروازہ کھولا اور کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم فرار ہونے والے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم واپس پلٹنے والے ہو، میں بھی تمہارے گروہ میں ہوں۔

18089

(١٨٠٨٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی زِیَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَرِیَّۃٍ فَلَقِینَا الْعَدُوَّ فَجَاضَ الْمُسْلِمُونَ جَیْضَۃً فَکُنْتُ فِیمَنْ جَاضَ قُلْتُ فِی نَفْسِی لاَ نَدْخُلُ الْمَدِینَۃَ وَقَدْ بُؤْنَا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّہِ ثُمَّ قُلْنَا نَدْخُلُہَا فَنَمْتَارُ مِنْہَا فَدَخَلْنَا فَلَقِینَا النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ خَارِجٌ إِلَی الصَّلاَۃِ فَقُلْنَا نَحْنُ الْفَرَّارُونَ فَقَالَ : بَلْ أَنْتُمُ الْعَکَّارُونَ ۔ فَقُلْنَا : یَا نَبِیَّ اللَّہِ أَرَدْنَا أَنْ لاَ نَدْخُلَ الْمَدِینَۃَ وَأَنْ نَرْکَبَ الْبَحْرَ ۔ قَالَ : فَلاَ تَفْعَلُوا فَإِنِّی فِئَۃُ کُلِّ مُسْلِمٍ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٨٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا۔ ہماری دشمن سے ملاقات ہوئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں بھی فرار ہونے والوں میں سے تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہم مدینہ میں داخل نہ ہوں گے۔ کیونکہ ہم تو اللہ کے غضب سے لوٹے ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ بکھر کر داخل ہوجائیں گے۔ ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے نکلے تھے۔ ہماری ملاقات ہوگئی۔ ہم نے کہا : ہم فرار ہونے والے ہیں ؟ فرمایا : نہیں، بلکہ تم پلٹ کر جانے والے ہو۔ ہم نے کہا : مدینہ داخل ہونے سے پہلے ہم سمندری سفر کریں ؟ فرمایا : ایسا نہ کرو۔ میں ہر مسلمان کے گروہ میں شامل ہوں۔

18090

(١٨٠٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَنَا فِئَۃُ کُلِّ مُسْلِمٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٨٤) مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا میں مسلمانوں کے طبقہ (درجہ) میں ہوں۔

18091

(١٨٠٨٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سِمَاکٍ سَمِعَ سُوَیْدًا سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ لَمَّا ہُزِمَ أَبُو عُبَیْدٍ : لَوْ أَتَوْنِی کُنْتُ فِئَتَہُمْ ۔ ذَکَرَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَغْدَادِیِّ عَنْہُ أَحَادِیثَ فِی الْبَیْعَۃِ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِیمَا اسْتَطَاعُوا وَقَدْ ذَکَرْنَاہَا فِی قِتَالِ أَہْلِ الْبَغْیِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٨٥) سوید نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سنا، وہ فرماتے تھے : جب ابو عبید کو شکست ہوئی۔ اگر وہ میرے پاس آجاتے تو میں ان کے لشکر یا گروہ میں ہوتا۔ (ب) بیعت کی احادیث کے بارے میں ہے کہ صرف اپنی استطاعت کے مطابق اطاعت کی جائے گی۔

18092

(١٨٠٨٦) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ عَمِّہِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ بَعَثَہُ إِلَی ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ نَہَاہُ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٨٦) زہری ابن کعب بن مالک سے اور وہ اپنے چچا سے نقل فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ابن ابی الحقیق کی طرف بھیجا تو عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔

18093

(١٨٠٨٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُونُسَ حَدَّثَنَا لَیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُ : أَنَّ امْرَأَۃً وُجِدَتْ فِی بَعْضِ مَغَازِی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَقْتُولَۃً فَأَنْکَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَتْلَ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَغَیْرِہِ عَنِ لَیْثٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٨٧) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے کسی غزوہ میں ایک مقتولہ عورت پائی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے انکار فرمایا۔

18094

(١٨٠٨٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ وَأَبُو أُسَامَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُاللَّہِ یَعْنِی ابْنَ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُولَۃً فِی بَعْضِ تِلْکَ الْمَغَازِی فَنَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ والصِّبْیَانِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ ۔ وَقَدْ مَضَی فِی حَدِیثِ بُرَیْدَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَقْتُلُوا وَلِیدًا ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٨٨) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نقل فرماتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ (ب) حضرت بریدہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم بچوں کو قتل نہ کرو۔

18095

(١٨٠٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ نَاصِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ یَعْنِی ابْنَ عَطَائٍ الْخَفَّافَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَغَزَوْتُ مَعَہُ فَأَصَبْنَا ظَفَرًا فَقَتَلَ النَّاسُ یَوْمَئِذٍ حَتَّی قَتَلُوا الذُّرِّیَّۃَ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ جَاوَزَ بِہِمُ الْقَتْلُ حَتَّی قَتَلُوا الذُّرِّیَّۃَ ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّمَا ہُمْ أَبْنَائُ الْمُشْرِکِینَ ۔ قَالَ : أَلاَ إِنَّ خِیَارَکُمْ أَبْنَائُ الْمُشْرِکِینَ ۔ ثُمَّ قَالَ : لاَ تَقْتُلُوا الذُّرِّیَّۃَ ۔ قَالَہَا ثَلاَثًا وَقَالَ : کُلُّ نَسَمَۃٍ تُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتَّی یُعْرِبَ عَنْہَا لِسَانُہَا فَأَبَوَاہَا یُہَوِّدَانِہَا وَیُنَصِّرَانِہَا۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ مَعْنَی قَوْلِہِ : کُلُّ نَسَمَۃٍ تُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ۔ یَعْنِی الْفِطْرَۃَ الَّتِی فَطَرَہُمْ عَلَیْہَا حِینَ أَخْرَجَہُمْ مِنْ صُلْبِ آدَمَ فَأَقَرُّوا بِتَوْحِیدِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٨٩) اسود بن سریع فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر غزوہ کیا۔ ہمیں کامیابی ملی تو لوگوں نے قتل و غارت کی۔ حتیٰ کہ بچوں کو بھی قتل کردیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چلا تو فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ قتل کے جواز میں وہ بچوں کو بھی قتل کرتے ہیں۔ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ مشرکین کی اولاد ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے بہتر مشرکین کے بیٹے ہیں۔ پھر فرمایا : بچوں کو قتل نہ کرو، تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہ وتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان فصیح ہوجاتی ہے تو اس کے والدین اس کو یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔
(ب) ابو جعفر کہتے ہیں کہ احمد بن عبید کے قول کا معنیٰ کہ ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے یعنی وہ فطرت جب انھیں صلب آدم سے نکالا تھا اور انھوں نے توحید کا اقرار کیا تھا۔

18096

(١٨٠٩٠) وَکَذَلِکَ رَوَاہُ ہُشَیْمٌ عَنْ یُونُسَ بْنِ عُبَیْدٍ وَذَکَرَ فِیہِ سَمَاعَ الْحَسَنِ مِنَ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا یُونُسُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ سَرِیعٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا فِی غَزْوَۃٍ لَنَا فَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٩٠) اسود بن سریع فرماتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔

18097

(١٨٠٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ أَخْبَرَنِی الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُسْأَلُ عَنْ أَہْلِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ یُبَیَّتُونَ فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِہِمْ وَذَرَارِیِّہِمْ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہُمْ مِنْہُمْ ۔ وَزَادَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ : ہُمْ مِنْ آبَائِہِمْ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ وَفِی رِوَایَتِہِمَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ فِی الْحَدِیثِ : ہُمْ مِنْ آبَائِہِمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَغَیْرِہِ کُلُّہُمْ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٠٩١) صعب بن جثامہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنا، آپ سے کسی علاقہ کے ان مشرکوں کے بارے میں پوچھا جن کی عورتیں اور بچے مارے جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ انھیں میں سے ہیں۔
(ب) عمرو بن دینار زہری سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ اپنے آباء سے ہیں۔
(ج) سفیان حدیث میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے آباء سے ہیں۔

18098

(١٨٠٩٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَأَبُو زَکَرِیَّا وَأَبُو بَکْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ عَمِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَمَّا بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ نَہَی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ ۔ زَادَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ الشَّافِعِیُّ فَکَانَ سُفْیَانُ یَذْہَبُ إِلَی أَنَّ قَوْلَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہُمْ مِنْہُمْ ۔ إِبَاحَۃٌ لِقَتْلِہِمْ وَأَنَّ حَدِیثَ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ نَاسِخٌ لَہُ قَالَ وَکَانَ الزُّہْرِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِحَدِیثِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ أَتْبَعَہُ حَدِیثَ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَحَدِیثُ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ کَانَ فِی عُمْرَۃِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِنْ کَانَ فِی عُمْرَتِہِ الأُولَی فَقَدْ قُتِلَ ابْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ قَبْلَہَا وَقِیلَ فِی سَنَتِہَا وَإِنْ کَانَ فِی عُمْرَتِہِ الآخِرَۃِ فَہُوَ بَعْدَ أَمْرِ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ غَیْرَ شَکٍّ وَاللَّہُ أَعْلَمُ قَالَ وَلَمْ نَعْلَمُہُ رَخَّصَ فِی قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ثُمَّ نَہَی عَنْہُ وَمَعْنَی نَہْیِہِ عِنْدَنَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ أَنْ یُقْصَدَ قَصْدُہُمْ بِقَتْلٍ وَہُمْ یُعْرَفُونَ مُمَیَّزِینَ مِمَّنْ أَمَرَ بِقَتْلِہِ مِنْہُمْ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ : ہُمْ مِنْہُمْ ۔ أَنَّہُمْ یَجْمَعُونَ خَصْلَتَیْنِ أَنْ لَیْسَ لَہُمْ حُکْمُ الإِیمَانِ الَّذِی یَمْنَعُ الدَّمَ وَلاَ حُکْمَ دَارِ الإِیمَانِ الَّذِی یَمْنَعُ الْغَارَۃَ عَلَی الدَّارِ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ أَمَّا قَوْلُہُ فِی حَدِیثِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ فِی عُمْرَتِہِ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٠٨٦]
(١٨٠٩٢) ابن کعب بن مالک اپنے چچا سے نقل فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ابن ابی الحقیق کی طرف روانہ فرمایا تو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔
(ب) سفیان کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان کہ وہ انھیں میں سے ہیں سے مراد یہ ہے کہ ان کا قتل جائز ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : صفب بن جثامہ کی حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمرہ کے بارہ میں ہے۔ اگر آپ کا پہلا عمرہ ہے تو ابن ابی الحقیق اس سے قبل قتل ہوچکا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سال میں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری عمرہ ہے تو یہ ابن ابی الحقیق کے بعد کی بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ راوی فرماتے ہیں : ہمیں علم نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخصت کے بعد قتل سے منع فرمایا۔ عورتوں اور بچوں کا قتل کرنا قصداً ممنوع ہے۔ ہم منہم : 1 وہ اہل ایمان نہیں۔ جس کی وجہ سے خون بہانا ممنوع ہو۔ 2 امن کے حکم پر نہیں جس کی وجہ سے غارت گری منع ہے۔ قال الشیخ : صفب بن جثامہ کی حدیث آپ کے عمرہ کے بارہ میں ہے۔

18099

(١٨٠٩٣) فَإِنَّمَا قَالَ ذَلِکَ اسْتِدْلاَلاً بِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الْبِسْطَامِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الْفَارِیَابِیُّ حَدَّثَنَا عَلَیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَرَّ بِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَنَا بِالأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ فَأَہْدَیْتُ إِلَیْہِ لَحْمَ حِمَارِ وَحْشٍ فَرَدَّہُ عَلَیَّ فَلَمَّا رَأَی الْکَرَاہَۃَ فِی وَجْہِی قَالَ : إِنَّہُ لَیْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَیْکَ وَلَکِنَّا حُرُمٌ ۔ قَالَ : وَسُئِلَ عَنْ ذَرَارِیِّ الْمُشْرِکِینَ فَیُبَیَّتُونَ فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِہِمْ وَذَرَارِیِّہِمْ فَقَالَ : ہُمْ مِنْہُمْ ۔ قَالَ وَسَمِعْتُہُ یَقُولُ : لاَ حِمَی إِلاَّ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ۔ قَالَ عَلِیٌّ فَرَدَّدَہُ سُفْیَانُ فِی ہَذَا الْمَجْلِسِ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ قَالَ حَفِظْتُہُ غَیْرَ مَرَّۃٍ سَمِعْتُہُ وَکَانَ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ قَالَ وَأَخْبَرَنِی ابْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ عَمِّہِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ نَہَی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٩٣) صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ میں ابواء یا ودان نامی جگہ پر تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے قریب سے گزرے تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیل گائے کا گوشت تحفہ میں دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپس کردیا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے چہرے پر کراہت کے آثار دیکھے تو فرمایا : ہم نے کسی وجہ سے واپس نہیں کیا لیکن یہ ہمارے اوپر حرام ہے۔
فرماتے ہیں : مشرکین کی اولاد کے بارے پوچھا گیا کہ جب شب خون کے وقت ان کی عورتیں اور بچے مارے جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بھی انہی میں سے ہیں۔
کہتے ہیں : میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا کہ چراگاہ صرف اللہ اور رسول کی ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ سفیان نے مجلس کے دوران دو مرتبہ یہ بات کہی۔
سفیان جب اس حدیث کو بیان فرماتے تو کہتے تھے کہ ابن کعب بن مالک اپنے چچا سے نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ نے انھیں ابن ابی الحقیق کی طرف بھیجا تو عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔

18100

(١٨٠٩٤) وَأَمَّا تَارِیخُ قَتْلِ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ وَتَارِیخُ عُمْرَتِہِ فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ہُوَ ابْنُ یَسَارٍ قَالَ : فَلَمَّا انْقَضَی أَمْرُ الْخَنْدَقِ وَأَمْرُ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَکَانَ أَبُو رَافِعٍ سَلاَمُ بْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ مِمَّنْ کَانَ حَزَّبَ الأَحْزَابَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - اسْتَأْذَنَتِ الْخَزْرَجُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی قَتْلِ سَلاَّمِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ وَکَانَ بِخَیْبَرَ فَأَذِنَ لَہُمْ فِیہِ قَالَ ثُمَّ غَزَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ فِی شَعْبَانَ سَنَۃَ سِتٍّ ثُمَّ خَرَجَ فِی ذِی الْقَعْدَۃِ مُعْتَمِرًا عَامَ الْحُدَیْبِیَۃِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : ثُمَّ کَانَتْ عُمْرَتُہُ الَّتِی تُسَمَّی عُمْرَۃَ الْقَضَائِ ثُمَّ عُمْرَۃُ الْجِعْرَانَۃِ ثُمَّ عُمْرَتُہُ فِی سَنَۃِ حَجَّتِہِ کُلُّہُنَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَقُتِلَ ابْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ کَانَ قَبْلَہُنَّ فَکَیْفَ یَکُونُ نَہْیُہُ فِی قِصَّۃِ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ نَاسِخًا لِحَدِیثِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَۃَ الَّذِی کَانَ بَعْدَہُ وَزَعَمُوا أَنَّہُ ہَاجَرَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَاتَ فِی خِلاَفَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَإِنْ کَانَ سَمَاعُہُ الْحَدِیثَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعْدَ مَا ہَاجَرَ فَیَکُونُ ذَلِکَ أَیْضًا بَعْدَ قِصَّۃِ ابْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ فَإِنَّ فِی حَدِیثِ الْہُدْنَۃِ مَا دَلَّ عَلَی أَنَّہُ أَوَّلُ مَا الْتَقَی بِالنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَیَکُونُ وَجْہُ الْحَدِیثَیْنِ مَا أَشَارَ إِلَیْہِ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ مِنَ اخْتِلاَفِ الْحَالَیْنِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٠٩٤) محمد بن اسحاق بن یسار فرماتے ہیں کہ جب خندق اور بنو قریظہ کا معاملہ ختم ہوا تو ابو رافع سلام بن ابی الحقیق جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف لشکر ترتیب دئیے تھے۔ خزرج والوں نے سلام بن ابی الحقیق کے قتل کی اجازت مانگی۔ یہ اس وقت خیبر میں تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی۔ پھر شعبان ٦ ہجری میں بنو مصطلق ہوا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے سال عمرہ ادا فرمایا۔
شیخ فرماتے ہیں : اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمرۃ القضاء تھا پھر جعرانہ والا پھر وہ عمرہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کے ساتھ کیا اور ابن ابی الحقیق اس سے پہلے قتل ہوچکا تھا۔
پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ کا ابن ابی الحقیق کے قصہ میں عورتوں و بچوں کے قتل سے منع فرمانا اور صعب بن جثامہ کی حدیث کو منسوخ کرنا جو اس کے بعد ہے اور ان کا گمان ہے کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی اور ابوبکر (رض) کی خلافت میں وفات پائی۔ اگر ہجرت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے تب بھی ابن ابی الحقیق کے قصہ کے بعد کی بات ہے اور جنگ بندی کے بعد سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملے۔

18101

(١٨٠٩٥) وَاحْتَجَّ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی جَوَازِ التَّبْیِیتِ أَیْضًا بِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَبِیبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَوْنٍ أَنَّ نَافِعًا کَتَبَ إِلَیْہِ یُخْبِرُہُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَغَارَ عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ فِی نَعَمِہِمْ بِالْمُرَیْسِیعِ فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَۃَ وَسَبَی الذُّرِّیَّۃَ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عَوْنٍ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٩٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق پر شب خون مارا اور مریسیع نامی جگہ پر ان کے چوپاؤں پر حملہ کیا تو جنگجو افراد کو قتل کردیا اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔

18102

(١٨٠٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَأَبُو عَامِرٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَمَّرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْنَا أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَغَزَوْنَا نَاسًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَبَیَّتْنَاہُمْ نَقْتُلُہُمْ وَکَانَ شِعَارُنَا تِلْکَ اللَّیْلَۃِ أَمِتْ أَمِتْ ۔ قَالَ سَلَمَۃُ : فَقَتَلْتُ بِیَدِی تِلْکَ اللَّیْلَۃَ سَبْعَۃً أَہْلَ أَبْیَاتٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٩٦) ایاس بن سلمہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے خلاف ایک غزوہ میں ابوبکر (رض) کو ہمارا امیر مقرر فرمایا۔ ہر رات کے وقت حملہ کر کے ان کو قتل کرتے تھے اور اس رات ہماری علامت آیت اَمِتْ اَمِتْ تھی۔ سلمہ کہتے ہیں : اس رات میں نے مشرکین کے سات شعراء اپنے ہاتھ سے قتل کیے۔

18103

(١٨٠٩٧) وَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ فِیمَا قَرَأَ عَلَی مَالِکٍ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَرَجَ إِلَی خَیْبَرَ فَجَائَ ہَا لَیْلاً وَکَانَ إِذَا جَائَ قَوْمًا بِلَیْلٍ لاَ یُغِیرُ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتْ یَہُودُ بِمَسَاحِیہِمْ وَمَکَاتِلِہِمْ فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّہِ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٩٧) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر آئے تو رات کے وقت پہنچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کسی قوم کے پاس رات کے وقت آتے تو صبح سے پہلے حملہ نہیں فرماتے تھے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے زرعی سازو سامان کے ساتھ نکلے۔ جب انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے : اللہ کی قسم ! محمد اور اس کا لشکر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ بہت بڑا ہے، خیبر ہلاک ہوگیا، یعنی وہاں کے رہنے والے۔ جب ہم کسی قوم کے پاس صبح کے وقت آتے ہیں تو ڈرائے گئے کی صبح بری ہوتی ہے۔

18104

(١٨٠٩٨) وَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : سَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی خَیْبَرَ فَانْتَہَی إِلَیْہَا لَیْلاً وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا طَرَقَ قَوْمًا لَمْ یُغِرْ عَلَیْہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ وَإِنْ لَمْ یَکُونُوا یُصَلُّونَ أَغَارَ عَلَیْہِمْ حِینَ یُصْبِحُ فَلَمَّا أَصْبَحَ رَکِبَ وَرَکِبَ الْمُسْلِمُونَ وَخَرَجَ أَہْلُ الْقَرْیَۃِ وَمَعَہُمْ مَکَاتِلُہُمْ وَمَسَاحِیہِمْ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا : مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ۔ قَالَ أَنَسٌ : وَإِنِّی لَرِدْفٌ لأَبِی طَلْحَۃَ وَإِنَّ قَدَمِی لَتَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٠٩٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر رات کے وقت پہنچے، لیکن جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قوم کے پاس رات کے وقت آتے تو صبح سے پہلے حملہ نہیں فرماتے تھے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذان کی آواز سنتے تو حملہ سے رک جاتے۔ اگر وہ نماز نہیں پڑھتے تو صبح کے وقت ان پر حملہ کردیتے۔ جب صبح ہوئی تو آپ اور مسلمان سوار ہوئے۔ بستی والے نکلے، ان کے پاس زرعی سازو سامان تھا۔ جب انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لشکر۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اکبر خیبر برباد ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح اچھی نہیں ہوتی۔ انس کہتے ہیں : میں ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا تو میرے پاؤں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کے ساتھ لگ رہے تھے۔

18105

(١٨٠٩٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ فِی رِوَایَۃِ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ لاَ یُغِیرُ حَتَّی یُصْبِحَ لَیْسَ بِتَحْرِیمٍ لِلإِغَارَۃِ لَیْلاً وَلاَ نَہَارًا وَلاَ غَارِّینَ فِی حَالٍ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَلَکِنَّہُ عَلَی أَنْ یَکُونَ یُبْصِرُ مَنْ مَعَہُ کَیْفَ یُغِیرُونَ احْتِیَاطًا مِنْ أَنْ یُؤْتَوْا مِنْ کَمِینٍ أَوْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُونَ وَقَدْ یَخْتَلِطُ الْحَرْبُ إِذَا أَغَارُوا لَیْلاً فَیَقْتُلُ بَعْضُ الْمُسْلِمِینَ بَعْضًا قَدْ أَصَابَہُمْ ذَلِکَ فِی قَتْلِ ابْنِ عَتِیکٍ فَقَطَعُوا رِجْلَ أَحَدِہِمْ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَدْ أَمَرَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالْغَارَۃِ عَلَی غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ یَہُودَ فَقَتَلُوہُ ۔ قَتْلُ أَبِی رَافِعٍ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ وَیُقَالُ سَلاَّمُ بْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ ۔ [صحیح ]
(١٨٠٩٩) امام شافعی (رح) حضرت انس کی روایت میں فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح سے پہلے حملہ نہ کرتے لیکن حملہ دن و رات کے کسی وقت بھی کرنا جائز ہے حرام نہیں ہے اور حالت غفلت میں بھی حملہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن احتیاط کی غرض سے کبھی حالت غفلت میں بھی حملہ کرتے اور رات کو حملہ اس لیے نہ کرتے کہ کہیں مسلمان ایک دوسرے کو قتل نہ کر بیٹھیں۔ جیسے ابن عقیل کے قتل میں ہوا کہ انھوں نے اپنے ساتھی کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو کئی یہودیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جیسے ابو رافع عبداللہ بن ابی الحقیق جس کو سلام بن ابی الحقیق بھی کہا جاتا تھا۔

18106

(١٨١٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُوسَی الشَّطَوِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی أَبِی رَافِعٍ الْیَہُودِیِّ وَکَانَ یَسْکُنُ أَرْضَ الْحِجَازِ فَنَدَبَ لَہُ سَرَایَا مِنَ الأَنْصَارِ وَأَمَّرَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَتِیکٍ وَکَانَ أَبُو رَافِعٍ یُؤْذِی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیُعِینُ عَلَیْہِ وَکَانَ فِی حِصْنٍ لَہُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ فَلَمَّا دَنَوْا مِنْہُ وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِہِمْ فَقَالَ لَہُمْ عَبْدُ اللَّہِ اجْلِسُوا مَکَانَکُمْ فَإِنِّی مُنْطَلِقٌ فَمُتَطَلِّعٌ الأَبْوَابَ لَعَلِّی أَدْخُلُ فَأَقْتُلُہُ حَتَّی إِذَا دَنَا مِنَ الْبَابِ تَقَنَّعَ بِثَوْبِہِ کَأَنَّہُ یَقْضِی حَاجَۃً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ فَہَتَفَ بِہِ الْبَوَّابُ فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللَّہِ إِنْ کُنْتَ تُرِیدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ قَالَ فَدَخَلْتُ فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الأَقَالِیدَ عَلَی وَتَدٍ قَالَ فَقُمْتُ إِلَی الأَقَالِیدِ فَأَخَذْتُہَا فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَکَانَ أَبُو رَافِعٍ یُسْمَرُ عِنْدَہُ فِی عَلاَلٍ لَہُ فَلَمَّا نَزَلَ عَنْہُ أَہْلُ سَمَرِہِ صَعِدْتُ إِلَیْہِ فَجَعَلْتُ کُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَیَّ مِنْ دَاخِلٍ فَقُلْتُ إِنَّ الْقَوْمَ نَذِرُوا بِی لَمْ یَخْلُصُوا إِلَیَّ حَتَّی أَقْتُلَہُ قَالَ فَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ فَإِذَا ہُوَ فِی بَیْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِیَالِہِ لاَ أَدْرِی أَیْنَ ہُوَ مِنَ الْبَیْتِ فَقُلْتُ : أَبَا رَافِعٍ ۔ قَالَ : مَنْ ہَذَا ؟ فَأَہْوِی نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً غَیْرَ طَائِلٍ وَأَنَا دَہِشٌ فَلَمْ أُغْنِ عَنْہُ شَیْئًا وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنَ الْبَیْتِ فَمَکَثْتُ غَیْرَ بَعِیدٍ ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ : مَا ہَذَا الصَّوْتُ یَا أَبَا رَافِعٍ ؟ فَقَالَ : لأُمِّکَ الْوَیْلُ رَجُلٌ فِی الْبَیْتِ ضَرَبَنِی قُبَیْلُ بِالسَّیْفِ قَالَ فَأَضْرِبُہُ ضَرْبَۃً ثَانِیَۃً وَلَمْ أَقْتُلْہُ ثُمَّ وَضَعْتُ ضُبَابَۃَ السَّیْفِ فِی بَطْنِہِ ثُمَّ اتَّکَیْتُ عَلَیْہِ حَتَّی سَمِعْتُہُ أَخَذَ فِی ظَہْرِہِ فَعَرَفْتُ أَنِّی قَدْ قَتَلْتُہُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّی انْتَہَیْتُ إِلَی دَرَجَۃٍ فَوَضَعْتُ رِجْلِی وَأَنَا أُرَی أَنِّی قَدِ انْتَہَیْتُ إِلَی الأَرْضِ فَوَقَعْتُ فِی لَیْلَۃٍ مُقْمِرَۃٍ فَانْکَسَرَتْ رِجْلِی فَعَصَبْتُہَا بِعِمَامَتِی ثُمَّ إِنِّی انْطَلَقْتُ حَتَّی جَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ قُلْتُ وَاللَّہِ لاَ أَخْرُجُ اللَّیْلَۃَ حَتَّی أَعْلَمَ أَنِّی قَدْ قَتَلْتُہُ أَوْ لاَ فَلَمَّا صَاحَ الدِّیکُ قَامَ النَّاعِی عَلَی السُّورِ فَقَالَ : أَنْعِی أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَہْلِ الْحِجَازِ ۔ فَانْطَلَقْتُ أَتَعَجَّلُ إِلَی أَصْحَابِی فَقُلْتُ النَّجَائَ قَدْ قَتَلَ اللَّہُ أَبَا رَافِعٍ حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَحَدَّثْتُہُ فَقَالَ : ابْسُطْ رِجْلَکَ ۔ فَبَسَطْتُہَا فَمَسَحَہَا فَکَأَنَّمَا لَمْ أَشْتَکِہَا قَطُّ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠٢٢-٣٠٢٣-٤٠٣٨-٤٠٤٠]
(١٨١٠٠) حضرت برائ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو رافع یہودی جو حجاز میں رہائش پذیر تھا۔ اس کے لیے ایک انصاری گروہ کی ذمہ داری لگائی تھی۔ جس کے امیر عبداللہ بن عتیک تھے۔ ابو رافع نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مدد کرتا۔ اس کا قلعہ حجاز میں تھا۔ جب صحابہ کا یہ گروہ اس کے قریب ہوا تو سورج غروب ہونے کو تھا۔ لوگ اپنے مویشی لے کر جا رہے تھے تو عبداللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم اپنی جگہ ٹھہرو، میں جا کر دروازے کے متعلق معلومات حاصل کرتا ہوں۔ شاید میں داخل ہو کر اسے قتل کرسکوں۔ جب وہ دروازے کے قریب ہوئے تو اپنا کپڑا اس طرح لپیٹ لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کرنے والا کرتا ہے۔ لوگ قلعہ میں داخل ہوگئے تو دربان نے آواز لگائی۔ اے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو آ جاؤ۔ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں بھی داخل ہوگیا۔ جب لوگ سارے داخل ہوگئے، اس نے دروازہ بند کردیا اور چابیاں ایک تند پر لٹکا دیں۔ عبداللہ کہتے ہیں : میں نے چابیاں لے کر دروازہ کھول دیا اور ابو رافع کے پاس رات کو قصہ گو موجود ہوتے۔ جب رات کو باتیں کرنے والے آگئے تو میں ابو رافع کی طرف چڑھا۔ میں جب دروازہ کھولتا تو اندر سے دروازہ بند کرلیتا۔ میں نے کہا : میرے قتل کرنے تک لوگ مجھے چھوڑے رکھیں۔ جب میں اس تک پہنچا۔ وہ اندھیرے گھر اور اپنے اہل و عیال کے درمیان میں تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ کس جگہ ہے۔ میں نے کہا : ابو رافع ! اس نے کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے آواز کی طرف مائل ہو کر وار کیا لیکن بےفائدہ۔ میں گھبرا گیا۔ مجھے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ وہ چیخا میں گھر سے نکل کر زیادہ دور نہ گیا۔ پھر میں آیا، میں نے پوچھا : اے ابو رافع ! یہ آواز کیسی تھی ؟ اس نے کہا : تیری ماں کی ہلاکت ہو، گھر میں کوئی شخص ہے، جو مجھے تلوار سے مار رہا ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں : میں نے دوسرا حملہ کیا لیکن میں اسے قتل نہ کرسکا۔ پھر میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ میں رکھ کر اوپر سے زور دیا تو تلوار کے دوسری طرف نکلنے کی آواز سن لی تو میں نے جان لیا کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے۔ پھر میں ایک ایک دروازہ کھولتے کھولتے سیڑھیوں تک آگیا۔ میں نے پاؤں رکھا اور خیال کیا کہ میں زمین تک پہنچ گیا ہوں۔ میں چاندنی رات میں گرپڑا۔ میری ٹانگ ٹوٹ گئی تو میں نے اپنی پگڑی سے باندھ لی۔ پھر میں نکل کر دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! اتنی دیر نہ جاؤں گا، جب تک معلوم نہ کرلوں کہ میں نے اس کو قتل کردیا ہے یا نہیں۔ جب مرغ نے اذان دی تو دیوار پر ایک موت کی خبر دینے والے نے کہا : میں ابو رافع کی موت کی خبر دیتا ہوں۔ میں جلدی سے اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ میں نے کہا : اللہ نے ابو رافع کو ہلاک کردیا ہے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پاؤں پھیلاؤ، میں نے پاؤں پھیلایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ مبارک پھیرا تو یوں محسوس ہوا کہ مجھے کبھی تکلیف ہوئی ہی نہیں۔

18107

(١٨١٠١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی الْمَنِیعِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی أَبِی رَافِعٍ الْیَہُودِیِّ رِجَالاً مِنَ الأَنْصَارِ وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ فُلاَنٍ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِنَحْوِہِ غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ : فَإِنِّی مُنْطَلِقٌ فَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ وَقَالَ فَدَخَلْتُ فَکَمَنْتُ فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الأَقَالِیدَ عَلَی وَتَدٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یُوسُفَ بْنِ مُوسَی عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ مُوسَی وَیُذْکَرُ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ أَنَّ ذَلِکَ کَانَ بِخَیْبَرَ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُنَیْسٍ ہُوَ الَّذِی قَتَلَہُ وَفِی حَدِیثٍ آخَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُنَیْسٍ ضَرَبَہُ وَابْنَ عَتِیکٍ ذَفَّفَ عَلَیْہِ ۔ وَفِی الرِّوَایَاتِ کُلِّہَا أَنَّ ابْنَ عَتِیکٍ سَقَطَ فَوُثِئَتْ رِجْلُہُ ۔
(١٨١٠١) براء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابو رافع کی جانب کچھ انصاری لوگ بھیجے اور عبداللہ کو ان کا امیر بنایا اس طرح اس نے حدیث کو ذکر کیا علاوہ اس کے کہ انھوں نے کہا : میں چلتا رہا اور دربان کو چمٹا رہا۔ پھر میں داخل ہوا اور چھپ گیا۔ جب لوگ داخل ہوئے تو اس نے دروازہ بند کردیا اور چابیاں ایک کیل پر لٹکا دیں۔

18108

(١٨١٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ َخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ وَسَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَہْلٍ وَإِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّہُ قَدْ آذَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ ؟ ۔ فَقَالَ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ : أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : أَنَا لَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَأْذَنْ لِی أَنْ أَقُولَ قَالَ : قُلْ ۔ فَأَتَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ فَقَالَ : إِنَّ ہَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَخَذَنَا بِالصَّدَقَۃِ وَقَدْ عَنَّانَا وَقَدْ مَلَلْنَا مِنْہُ فَقَالَ الْخَبِیثُ لَمَّا سَمِعَہَا وَأَیْضًا وَاللَّہِ لَتَمَلُّنَّہُ أَوْ لَتَمَلُّنَّ مِنْہُ وَلَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ أَمْرَکُمْ سَیَصِیرُ إِلَی ہَذَا قَالَ إِنَّا لاَ نَسْتَطِیعُ أَنْ نُسْلِمَہُ حَتَّی نَنْظُرَ مَا فَعَلَ وَإِنَّا نَکْرَہُ أَنْ نَدَعَہُ بَعْدَ أَنِ اتَّبَعْنَاہُ حَتَّی نَنْظُرَ إِلَی أَیِّ شَیْئٍ یَصِیرُ أَمْرُہُ وَقَدْ جِئْتُکَ لِتُسْلِفَنِی تَمْرًا۔ قَالَ : نَعَمْ عَلَی أَنْ تَرْہَنُونِی نِسَائَ کُمْ ۔ قَالَ مُحَمَّدٌ : نَرْہَنُکَ نِسَائَ نَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ ۔ قَالَ : فَأَوْلاَدَکُمْ ۔ قَالَ : فَیُعَیِّرُ النَّاسُ أَوْلاَدَنَا أَنَّا رَہَنَّاہُمْ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَیْنٍ وَرُبَّمَا قَالَ فَیُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَیُقَالُ رُہِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَیْنِ ۔ قَالَ : فَأَیَّ شَیْئٍ تَرْہَنُونِی ؟ قَالَ : نَرْہَنُکَ اللأْمَۃَ یَعْنِی السِّلاَحَ قَالَ : نَعَمْ فَوَاعَدَہُ أَنْ یَأْتِیَہُ فَرَجَعَ مُحَمَّدٌ إِلَی أَصْحَابِہِ فَأَقْبَلَ وَأَقْبَلَ مَعَہُ أَبُو نَائِلَۃَ وَہُوَ أَخُو کَعْبٍ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَجَائَ مَعَہُ رَجُلاَنِ آخَرَانِ فَقَالَ : إِنِّی مُسْتَمْکِنٌ مِنْ رَأْسِہِ فَإِذَا أَدْخَلْتُ یَدِی فِی رَأْسِہِ فَدُونَکُمُ الرَّجُلَ فَجَائُ وہُ لَیْلاً وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ فَقَامُوا فِی ظِلِّ النَّخْلِ وَأَتَاہُ مُحَمَّدٌ فَنَادَاہُ : یَا أَبَا الأَشْرَفِ ۔ فَقَالَتِ امْرَأَتُہُ : أَیْنَ تَخْرُجُ ہَذِہِ السَّاعَۃَ ؟ فَقَالَ : إِنَّمَا ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ وَأَخِی أَبُو نَائِلَۃَ فَنَزَلَ إِلَیْہِ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ تَنْفَحُ مِنْہُ رِیحُ الطِّیبِ فَقَالَ لَہُ مُحَمَّدٌ : مَا أَحْسَنَ جِسْمَکَ وَأَطْیَبَ رِیحَکَ ۔ قَالَ : إِنَّ عِنْدِی ابْنَۃَ فُلاَنٍ وَہِیَ أَعْطَرُ الْعَرَبِ ۔ قَالَ : فَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَشَمَّہُ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ فَأَدْخَلَ مُحَمَّدٌ یَدَہُ فِی رَأْسِہِ ثُمَّ قَالَ : أَتَأْذَنُ لِی أَنَ أُشِمَّہُ أَصْحَابِی ؟ قَالَ : نَعَمْ فَأَدْخَلَہَا فِی رَأْسِہِ فَأَشَمَّ أَصْحَابَہُ ثُمَّ أَدْخَلَہَا مَرَّۃً أُخْرَی فِی رَأْسِہِ حَتَّی أَمِنَہُ ثُمَّ إِنَّہُ شَبَّکَ یَدَہُ فِی رَأْسِہِ فَنَصَاہُ ثُمَّ قَالَ لأَصْحَابِہِ : دُونَکُمْ عَدُوَّ اللَّہِ فَخَرَجُوا عَلَیْہ فَقَتَلُوہُ ثُمَّ أَتَی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخْبَرَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ کِلاَہُمَا عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٠٢) جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا، اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دی ہے ؟ محمد بن مسلمہ کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسند کریں گے کہ میں اس کو قتل کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اس کو قتل کروں گا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کچھ باتیں کہنے کی اجازت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہہ لے۔ محمد بن مسلمہ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے : اس شخص (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے ہم سے صدقہ لیا۔ ہم پر سختی کی اور ہم اس سے اکتا گئے ہیں۔ خبیث انسان نے جب یہ باتیں سنیں اور یہ بھی کہا کہ اللہ کی قسم ! تم ضرور اس سے اکتا جاؤ گے اور مجھے معلوم تھا کہ تمہارا معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے، یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ وہ کیا کرتا ہے اور ہم اس کی اتباع کے بعد چھوڑنا ناپسند کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ اس کا معاملہ کہاں تک پہنچتا ہے۔ میں تیرے پاس آیا ہوں تاکہ مجھے کھجوریں ادھار دو ۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے لیکن تم اپنی عورتیں میرے پاس گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا : آپ عرب میں سب سے زیادہ حسین ہیں۔ ہم آپ کے پاس اپنی عورتیں گروی رکھ دیں۔ اس نے کہا : اپنی اولاد گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ کہتے ہیں کہ لوگ ہماری اولاد کو عار دلائیں گے کہ ہم نے انھیں ایک وسق یا دو وسق کے بدلے گروی رکھ دیا تھا اور بعض اوقات ہماری اولاد کو گالی دی جائے کہ یہ وہ شخص ہے جسے ایک یا دو وسق کے بدلے گروی رکھا گیا۔ اس نے کہا : کون سی چیز تم میرے پاس گروی رکھو گے ؟ محمد بن مسلمہ کہنے لگے : ہم آپ کے پاس ہتھیار گروی رکھیں گے۔ اس نے کہا : درست ہے۔ اس نے وعدہ لیا کہ وہ اس کے پاس آئے گا۔ محمد بن مسلمہ پلٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور ان کے ساتھ ابو نائلہ جو کعب کے رضاعی بھائی ہیں اور دو دوسرے آدمی بھی آئے۔ اس نے کہا : میں اس کے سر کو مضبوطی سے پکڑ لوں گا۔ جب میں اپنا ہاتھ اس کے سر میں داخل کروں تو تم حملہ کردینا۔ وہ ایک رات آئے اور محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کھجور کے سائے میں کھڑے ہوجائیں۔ محمد بن مسلمہ نے آ کر آواز دی۔ اے ابو الاشرف ! تو اس کی بیوی نے کہا : آپ اس وقت کہاں جائیں گے ؟ اس نے کہا : محمد بن مسلمہ اور ابو نائلہ میرا بھائی ہے۔ وہ ایک کپڑے میں لپٹا ہوا اترا، جس سے خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ نے کہا : تیرا جسم کتنا حسین اور تیری خوشبو عمدہ ہے۔ اس نے کہا : میرے نکاح میں فلاں کی بیٹی ہے اور یہ عرب میں سب سے زیادہ بہتر خوشبو والی ہے۔ محمد نے کہا : ہاں ! اور اپنا ہاتھ اس کے سر میں داخل کیا اور اس کی خوشبو اپنے ساتھیوں کو سونگھائی۔ پھر دوسری مرتبہ اپنے ہاتھ سے اس کے سر اور پیشانی کے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پھر اپنے ساتھیوں سے کہا : اللہ کے دشمن پر حملہ کر دو تو انھوں نے نکل کر اس کو قتل کردیا پھر انھوں نے آ کر رسول اللہ کو خبر دی۔

18109

(١٨١٠٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ فِی ہَذِہِ الْقَصَّۃِ قَالَ : فَعَانَقَہُ سِلْکَانُ بْنُ سَلاَمَۃَ وَقَالَ اقْتُلُونِی وَعَدُوَّ اللَّہِ فَلَمْ یَزَالُوا یَتَخَلَّصُونَ إِلَیْہِ بِأَسْیَافِہِمْ حَتَّی طَعَنَہُ أَحَدُہُمْ فِی بَطْنِہِ طَعْنَۃً بِالسَّیْفِ خَرَجَ مِنْہَا مُصْرَانُہُ وَخَلَصُوا إِلَیْہِ فَضَرَبُوہُ بِأَسْیَافِہِمْ وَکَانُوا فِی بَعْضِ مَا یَتَخَلَّصُونَ إِلَیْہِ وَسِلْکَانُ مُعَانِقُہُ أَصَابُوا عَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ فِی وَجْہِہِ أَوْ فِی رِجْلِہِ وَلاَ یَشْعُرُونَ ثُمَّ خَرَجُوا یَشْتَدُّونَ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِجُرْفِ بُعَاثٍ فَقَدُوا صَاحِبَہُمْ فَرَجَعُوا أَدْرَاجَہُمْ فَوَجَدُوہُ مِنْ وَرَائِ الْجُرْفِ فَاحْتَمَلُوہُ حَتَّی أَتَوْا بِہِ أَہْلَہُمْ مِنْ لَیْلَتِہِمْ ۔ وَذَکَرَ ابْنُ إِسْحَاقَ ہَذِہِ الْقِصَّۃِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ قَالَ وَأُصِیبَ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسِ بْنِ مُعَاذٍ فَجُرِحَ فِی رَأْسِہِ وَرِجْلِہِ أَصَابَہُ بَعْضُ أَسْیَافِنَا۔ وَبِمَعْنَاہُ ذَکَرَہُ ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ ۔
(١٨١٠٣) موسیٰ بن عقبہ اس قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سلکان بن سلامہ نے اس سے معانقہ کیا اور اس نے کہا : تم مجھے اور اللہ کے دشمن کو قتل کر ڈالو وہ اسے اپنی تلواروں سے چھڑواتے رہے حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے اس کے پیٹ میں تلوار گھونپ دی۔ اس کی رگیں باہر آگئیں۔ پھر انھوں نے اسے تلوار سے قتل کردیا جب وہ اسے چھڑوا رہے تھے اور سلکان نے اس کی گردن پکڑی ہوئی تھی تو عباد بن بشر کے چہرے یا ٹانگ میں زخم آگیا۔ انھیں اس کی خبر نہیں تھی۔ پھر وہ جلدی سے بھاگ نکلے۔ جب جرفِ بعاث پر پہنچے تو اپنے ساتھی کو گم پایا۔ وہ الٹے پاؤں پلٹے اور اسے جرف کے پیچھے پایا۔ پھر اسے اٹھایا اور رات کے وقت اپنے گھر پہنچے۔

18110

(١٨١٠٤) اسْتِدْلاَلاً بِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْمُرَقِّعِ بْنِ صَیْفِیٍّ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّہِ رَبَاحِ بْنِ رَبِیعٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃٍ فَرَأَی النَّاسَ مُجْتَمِعِینَ عَلَی شَیْئٍ فَبَعَثَ رَجُلاً فَقَالَ : انْظُرْ عَلَی مَا اجْتَمَعَ ہَؤُلاَئِ ؟ ۔ فَجَائَ فَقَالَ : عَلَی امْرَأَۃٍ قَتِیلٍ فَقَالَ : مَا کَانَتْ ہَذِہِ لِتُقَاتِلَ ۔ قَالَ وَعَلَی الْمُقَدِّمَۃِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَبَعَثَ رَجُلاً فَقَالَ : قُلْ لِخَالِدٍ لاَ تَقْتُلَنَّ امْرَأَۃً وَلاَ عَسِیفًا ۔ [حسن ]
(١٨١٠٤) رباح بن ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو کسی چیز پر اکٹھے ہوتے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بھیجا کہ دیکھو لوگ کس چیز پر جمع ہیں ؟ اس نے آ کر بتایا کہ ایک مقتولہ عورت پر جمع ہیں۔ اس نے کہا : یہ لڑائی کا ارادہ رکھتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ مقدمہ پر حضرت خالد بن ولید تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو بھیجا اور فرمایا : خالد سے کہو کہ کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کرو۔

18111

(١٨١٠٥) وَفِیمَا رَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ عَنْ وُہَیْبٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ عِکْرِمَۃَ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَأَی امْرَأَۃً مَقْتُولَۃً بِالطَّائِفِ فَقَالَ : أَلَمْ أَنْہَ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ ؟ مَنْ صَاحِبُ ہَذِہِ الْمَرْأَۃِ الْمَقْتُولَۃِ ؟ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرْدَفْتُہَا فَأَرَادَتْ أَنْ تَصْرَعَنِی فَتَقْتُلَنِی فَأَمَرَ بِہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ تُوَارَی۔ [ضعیف ]
(١٨١٠٥) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف میں ایک مقتولہ عورت دیکھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا میں نے عورتوں کے قتل سے منع نہیں کیا ؟ اس مقتولہ عورت کو کس نے قتل کیا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے قتل کیا ہے میں نے اس کو اپنے پیچھے سوار کیا تھا۔ اس نے مجھے گرا کر قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دفن کردینے کا حکم فرمایا۔

18112

(١٨١٠٦) وَعَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ عَنْ وُہَیْبٍ وَعَن سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ کِلاَہُمَا عَنْ أَیُّوبَ عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ : لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَہْلَ الطَّائِفِ أَشْرَفَتِ امْرَأَۃٌ فَکَشَفْتْ قُبُلَہَا فَقَالَتْ : ہَا دُونَکُمْ فَارْمُوا۔ فَرَمَاہَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَمَا أَخْطَأ ذَلِکَ مِنْہَا۔ وَفِی حَدِیثِ وُہَیْبٍ فَمَا أَخْطَأَہَا أَنْ قَتَلُوہَا فَأَمَرَ بِہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ تُوَارَی۔ أَخْبَرَنَا بِہِمَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ الدَّاوُدِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَیْنِ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ]
(١٨١٠٦) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں : جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کا محاصرہ کیا تو اوپر سے ایک عورت نے جھانک کر کہا : (اس کا پردہ کھل گیا) تم ان پر تیر اندازی کرو تو ایک مسلمان نے تیر مارا جس کا نشانہ خطا نہ گیا۔ وہیب کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے اس کو قتل کرنے میں غلطی نہ کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دفن کردینے کا حکم فرمایا۔

18113

(١٨١٠٧) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ : مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - امْرَأَۃً مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ إِلاَّ امْرَأَۃً وَاحِدَۃً وَاللَّہِ إِنَّہَا لَعِنْدِی تَضْحَکُ ظَہْرًا لِبَطْنٍ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَیَقْتُلُ رِجَالَہُمْ بِالسُّوقِ إِذْ ہَتَفَ ہَاتِفٌ بِاسْمِہَا أَیْنَ فُلاَنَۃُ ؟ فَقَالَتْ : أَنَا وَاللَّہِ ۔ فَقُلْتُ : وَیْلَکِ مَا لَکِ ؟ فَقَالَتْ : أُقْتَلُ وَاللَّہِ ؟ قُلْتُ : وَلِمَ ؟ قَالَتْ : لِحَدَثٍ أَحْدَثْتُہُ فَانْطُلِقَ بِہَا فَضُرِبَتْ عُنُقُہَا فَمَا أَنْسَی عَجَبًا مِنْہَا طِیبَۃَ نَفْسِہَا وَکَثْرَۃَ ضَحِکِہَا وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّہَا تُقْتَلُ ۔ ذَکَرَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَغْدَادِیِّ عَنْہُ عَنْ أَصْحَابِہِ أَنَّہَا کَانَتْ دَلَّتْ عَلَی مَحْمُودِ بْنِ مَسْلَمَۃَ دَلَّتْ عَلَیْہِ رَحًا فَقَتَلَتْہُ فَقُتِلَتْ بِذَلِکَ قَالَ وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ تَکُونَ أَسْلَمَتْ وَارْتَدَّتْ وَلَحِقَتْ بِقَوْمِہَا فَقَتَلَہَا لِذَلِکَ وَیُحْتَمَلُ غَیْرُ ذَلِکَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَلَمْ یَصِحَّ الْخَبَرُ لأَیِّ مَعْنًی قَتَلَہَا وَقَدْ قِیلَ إِنَّ مَحْمُودَ بْنَ مَسْلَمَۃَ قُتِلَ بِخَیْبَرَ وَلَمْ یُقْتَلْ یَوْمَ بَنِی قُرَیْظَۃَ ۔ [حسن ]
(١٨١٠٧) عروہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قریظہ کی صرف ایک عورت قتل کی۔ اللہ کی قسم ! وہ میرے پاس خوب ہنس رہی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مردوں کو قتل کر رہے تھے۔ اچانک آواز دینے والے نے اس کا نام لے کر آواز دی : فلاں عورت کہاں ہے ؟ اس نے کہا : میں ہوں۔ میں نے کہا : تجھے کیا ہے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں قتل کردی جاؤں گی۔ میں نے پوچھا : کیوں ؟ اس نے کہا : ایسے کام کی وجہ سے جس کا میں سبب بنی، اس کو لے جا کر گردن اتار دی گئی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : میں اس عجیب واقعہ کو نہیں بھولی کہ وہ اتنی خوش اور ہنس رہی تھی حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ قتل کردی جائے گی۔ (ب) ابو عبدالرحمن بغدادی اپنے صحابہ سے نقل فرماتے ہیں کہ یہ ایسی عورت تھی جس نے محمود بن مسلمہ پر چکی گرا کر قتل کردیا تھا جس کے عوض اس کو قتل کیا گیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہو کر اپنی قوم سے جا ملی، اس وجہ سے قتل کیا گیا اس کے علاوہ بھی احتمال ہیں۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : کوئی حدیث صحیح نہیں کہ کس وجہ سے اس عورت کو قتل کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ محمود بن مسلمہ خیبر میں قتل کیے گئے۔ وہ بنو قریظہ کے دن قتل نہ ہوئے۔

18114

(١٨١٠٨) وَاحْتَجَّ بِمَتْنِ الْحَدِیثِ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَہْلٍ أَحَدُ بَنِی حَارِثَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ مِنْ حِصْنِ خَیْبَرَ قَدْ جَمَعَ سِلاَحَہُ وَہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ مَنْ یُبَارِزُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ لِہَذَا ؟ ۔ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ : أَنَا لَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا وَاللَّہِ الْمَوْتُورُ الثَّائِرُ قَتَلُوا أَخِی بِالأَمْسِ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَالْمَنْقُولُ عِنْدَنَا فِی قِصَّۃِ ہَذِہِ الْمَرْأَۃِ مَا۔ [حسن ]
(١٨١٠٨) جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے قلعہ سے مرحب یہودی نکلا۔ اس نے اپنا اسلحہ پہن رکھا تھا اور رجزیہ اشعار پڑھ رہا تھا : اور کہہ رہا تھا کون میرا مقابلہ کرے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کون اس کے مدمقابل آئے گا ؟ تو محمد بن مسلمہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں۔ انھوں نے کل میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : ہمارے نزدیک یہ اس عورت کے قصہ کے بارے میں منقول ہے۔

18115

(١٨١٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : مَخْلَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الدَّقَّاقُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیرٍ فِیمَا حَدَّثَہُمْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ عَنْ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ وَالْحَارِثِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ الْوَاقِدِیِّ أَنَّہُمْ قَالُوا : إِنَّ خَلاَّدَ بْنَ سُوَیْدِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ الْخَزْرَجِیَّ دَلَّتْ عَلَیْہِ فُلاَنَۃُ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ رَحًا فَشَدَخَتْ رَأْسَہُ فَذُکِرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لَہُ أَجْرٌ شَہِیدَیْنِ ۔ فَقَتَلَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیمَا ذَکَرَ وَکَانَ خَلاَّدُ بْنُ سُوَیْدٍ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْخَنْدَقَ وَبَنِی قُرَیْظَۃَ ۔ وَہَذَا مِنْ قَوْلِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَالْوَاقِدِیِّ مُنْقَطِعٌ۔ [ضعیف ]
(١٨١٠٩) محمد بن سعد واقدی سے نقل فرماتے ہیں کہ خلاد بن سوید بن ثعلبہ خزرجی پر بنو قریظہ کی عورت نے چکی گرا کر اس کا سر کچل دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تذکرہ ہوا تو فرمایا : اس کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے۔ پھر اس کے عوض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو قتل کیا تھا اور خلاد بن سوید بدر، احد، خندق اور بنو قریظہ کے موقع پر حاضر ہوئے۔

18116

(١٨١١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقِ بْنُ أَبِی الْفَوَارِسِ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی وَأَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا تَمِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ قَالَ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا وَقَالُوا حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَعَ وَہِیَ الْبُوَیْرَۃُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ } [الحشر ٥] ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَقُتَیْبَۃَ وَابْنِ رُمْحٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١١٠) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بویرہ نامی جگہ پر بنو نضیر کی کھجوریں جلائیں اور کاٹی تھیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی : { مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی اُصُولِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ ۔ } [الحشر ٥] ” جو تم نے کاٹ دیا یا تم نے ان کے تنوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ اللہ کے حکم سے ہے تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل و رسوا کر دے۔ “

18117

(١٨١١١) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّی وَیُوسُفُ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَطَعَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَحَرَّقَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١١١) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کی کھجوریں کاٹ کر جلا دیں۔

18118

(١٨١١٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَطَعَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَحَرَّقَ وَلَہَا یَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ : وَہَانَ عَلَی سَرَاۃِ بَنِی لُؤَیٍّ حَرِیقٌ بِالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیرُ وَفِی ہَذَا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا } [الحشر ٥] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ ہَنَّادِ بْنِ السَّرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١١٢) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کی کھجوریں کاٹ کر جلا دیں۔ اس کے لیے حسان بن ثابت نے کہا تھا۔ کہ بنو لوی کے سرداروں پر بویرہ نامی جگہ پر پھیلی ہوئی کھجوروں کو جلانا آسان ہے۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : { مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً عَلٰی اُصُولِہَا } [الحشر ٥] ” جو تم نے کاٹ دیا یا تم نے ان کے تنوں پر کھڑا رہنے دیا۔ “

18119

(١٨١١٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَرَّقَ بَعْضَ نَخْلِ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَعَ بَعْضًا وَقِیلَ فِی ذَلِکَ شِعْرٌ وَہَانَ عَلَی سَرَاۃِ بَنِی لُؤَیٍّ حَرِیقٌ بِالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیرُ تَرَکْتُمْ قِدْرَکُمْ لاَ شَیْئَ فِیہَا وَقِدْرُ الْقَوْمِ حَامِیَۃٌ تَفُورُ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١١٣) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کی بعض کھجوروں کے درخت جلا دیے اور بعض کاٹ دیے اس بارے میں یہ شعر بھی کہا گیا :
بنو لوی کے سرداروں پر بویرہ نامی جگہ پر پھیلی ہوئی کھجور کے درختوں کو جلانا آسان ہوگیا۔ تم نے اپنی ہنڈیاں اس طرح چھوڑیں کہ ان میں کچھ بھی نہ تھا اور لوگوں کی ہنڈیاں جوش مار رہی تھیں۔

18120

(١٨١١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی أَبُو الْمُنْذِرِ : رَجَائُ بْنُ الْجَارُودِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا جُوَیْرِیَۃُ بْنُ أَسْمَائَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ قَالَ وَلَہَا یَقُولُ حَسَّانُ ہَانَ عَلَی سَرَاۃِ بَنِی لُؤَیٍّ حَرِیقٌ بِالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیرُ قَالَ فَأَجَابَہُ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّہُ ذَلِکَ مِنْ صَنِیعٍ وَحَرَّقَ فِی نَوَاحِیہَا السَّعِیرُ سَتَعْلَمُ أَیُّنَا مِنْہَا بِنُزْہٍ وَتَعْلَمُ أَیُّ أَرْضَیْنَا تَضِیرُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ نَصْرٍ عَنْ حَبَّانَ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١١٤) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کے کھجور کے درخت جلا دیے۔ جس کے بارے میں حسان نے کہا تھا : ” بنو لوی کے سرداروں پر بویرہ نامی جگہ پر پھیلی ہوئی کھجور کے درخت جلانے آسان ہوگئے۔ “
اس کا جواب ابو سفیان بن حارث نے دیا تھا۔
” اللہ کرے یہ کام جاری رہے اور آگ اس کے اطراف میں بھڑکی رہے۔ عنقریب تم لوگ جان لو گے کہ ہم میں سے کون بچا ہے اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کس کی زمین کا نقصان ہوا ہے۔ “

18121

(١٨١١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الأَخْضَرِ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أُسَامَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَنِی النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ أُغِیرَ عَلَی أُبْنَی صَبَاحًا وَأُحَرِّقَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١١٥) حضرت اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں ابنیٰ پر صبح کے وقت حملہ کروں اور ان کو جلا ڈالوں۔

18122

(١٨١١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو الْغَزِّیُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مُسْہِرٍ قِیلَ لَہُ أُبْنَی قَالَ : نَحْنُ أَعْلَمُ ہِیَ یُبْنَی فِلَسْطِینَ ۔ [صحیح ]
(١٨١١٦) عبداللہ بن عمرو غزی کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسہر سے سنا، اس سے کہا گیا : ابنیٰ ۔ اس نے کہا : ہم جانتے ہیں کہ یہ فلسطین میں ہے۔

18123

(١٨١١٧) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ : فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالأَکَمَۃِ عِنْدَ حِصْنِ الطَّائِفِ فَحَاصَرَہُمْ بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً وَقَاتَلَتْہُ ثَقِیفُ بِالنَّبْلِ وَالْحِجَارَۃِ وَہُمْ فِی حِصْنِ الطَّائِفِ وَکَثُرَتِ الْقَتْلَی فِی الْمُسْلِمِینَ وَفِی ثَقِیفَ وَقَطَعَ الْمُسْلِمُونَ شَیْئًا مِنْ کُرُومِ ثَقِیفَ لِیُغِیظُونَہُمْ بِذَلِکَ قَالَ عُرْوَۃُ وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمُسْلِمِینَ حِینَ حَاصَرُوا ثَقِیفَ أَنْ یَقْطَعَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَمْسَ نَخَلاَتٍ أَوْ حَبَلاَتٍ مِنْ کُرُومِہِمْ فَأَتَاہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّہَا عَفَائُ لَمْ تُؤْکَلْ ثِمَارُہَا فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَقْطَعُوا مَا أُکِلَتْ ثَمَرَتُہُ الأَوَّلَ فَالأَوَّلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١١٧) عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کے قلعے کے پاس اونچی جگہ پر پڑاؤ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا دس سے زیادہ راتیں محاصرہ فرمایا تو بنو ثقیف نے تیروں اور پتھروں سے لڑائی کی۔ وہ طائف کے قلعہ میں تھے۔ مسلمانوں اور بنو ثقیف کے زیادہ آدمی قتل ہوئے اور مسلمانوں نے بنو ثقیف کے انگوروں کے پودے غصہ دلانے کے لیے کاٹ ڈالے۔ عروہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ ہر شخص پانچ درخت کھجور یا پانچ پودے انگور کے کاٹ ڈالے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ زیادہ ہے اس کے پھل کھایا نہیں جاتا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ وہ درخت کاٹے جائیں جن کا پھل کھایا جاتا ہے، پہلے وہ کاٹو۔

18124

(١٨١١٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ حَدَّثَنِی مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ فِی غَزْوَۃِ الطَّائِفِ قَالَ : وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالأَکَمَۃِ عِنْدَ حِصْنِ الطَّائِفِ بِضْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً یُقَاتِلُہُمْ فَذَکَرَہُ قَالَ وَقَطَعُوا طَائِفَۃً مِنْ أَعْنَابِہِمْ لِیُغِیظُونَہُمْ بِہَا فَقَالَتْ ثَقِیفُ : لاَ تُفْسِدُوا الأَمْوَالَ فَإِنَّہَا لَنَا أَوْ لَکُمْ قَالَ وَاسْتَأْذَنَہُ الْمُسْلِمُونَ فِی مُنَاہَضَۃِ الْحِصْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: مَا أَرَی أَنْ نَفْتَحَہُ وَمَا أُذِنَ لَنَا فِیہِ الآنَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١١٨) موسیٰ بن عقبہ طائف کے غزوہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کے قلعہ کے پاس اونچی جگہ پر دس سے زیادہ راتیں پڑاؤ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے لڑائی کرتے رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک گروہ نے انگور کی بیلیں کاٹ ڈالیں ان کو غصہ دلانے کے لیے تو بنو ثقیف کہنے لگے : مالوں کو خراب نہ کرو، یہ ہمارے یا تمہارے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے قلعہ والوں کے مقابلہ کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے خیال میں ہم اس کو فتح نہ کر پائیں گے اور نہ ہی ابھی اجازت دی گئی ہے۔

18125

(١٨١١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : نَصَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی أَہْلِ الطَّائِفِ مَنْجَنِیقًا أَوْ عَرَّادَۃً ۔ [ضعیف ]
(١٨١١٩) ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی (رح) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف والوں کے لیے منجنیق نصب فرمائی۔

18126

(١٨١٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ قَالَ قُرِئَ عَلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَنَا أَسْمَعُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو بَصْرِیٌّ وَکَانَ حَافِظًا حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَاصَرَ أَہْلَ الطَّائِفِ وَنَصَبَ عَلَیْہِمُ الْمَنْجَنِیقَ سَبْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا۔ قَالَ أَبُو قِلاَبَۃَ : وَکَانَ یُنْکَرُ عَلَیْہِ ہَذَا الْحَدِیثُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَکَأَنَّہُ کَانَ یُنْکَرُ عَلَیْہِ وَصْلُ إِسْنَادِہِ وَیُحْتَمَلُ أَنَّہُ إِنَّمَا أُنْکِرَ رَمْیُہُمْ یَوْمَئِذٍ بِالْمَجَانِیقِ ۔ فَقَدْ رَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْفَزَارِیِّ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَحْیَی ہُوَ ابْنُ أَبِی کَثِیرٍ قَالَ : حَاصَرَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - شَہْرًا۔ قُلْتُ : فَبَلَغَکَ أَنَّہُ رَمَاہُمْ بِالْمَجَانِیقِ فَأَنْکَرَ ذَلِکَ وَقَالَ : مَا نَعْرِفُ ہَذَا۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ کَذَا قَالَ یَحْیَی أَنَّہُ لَمْ یَبْلُغْہُ وَزَعَمَ غَیْرُہُ أَنَّہُ بَلَغَہُ ۔ رَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ ثَوْرٍ عَنْ مَکْحُولٍ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَصَبَ الْمَجَانِیقَ عَلَی أَہْلِ الطَّائِفِ وَقَدْ ذَکَرَہُ الشَّافِعِیُّ فِی الْقَدِیمِ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٢٠) ابو عبیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے سترہ دن طائف والوں کا محاصرہ فرمایا اور ان کے لیے منجنیق نصب فرمائی۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ ان پر اس حدیث کا انکار کیا گیا ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : حدیث کی سند کے متصل ہونے کا انکار اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس دن منجنیق سے پتھر پھینکنے کا انکار کیا گیا ہو۔ ابن ابی کثیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ تک ان کا محاصرہ فرمایا۔ میں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی کہ ان پر منجنیق کے ذریعہ پتھر برسائے گئے۔ آپ نے انکار فرمایا اور فرمایا : میں اس کو نہیں پہچانتا۔
مکحول فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف پر منجنیق کو نصب فرمایا۔

18127

(١٨١٢١) أَخْبَرَنَا بِہَذَا وَبِحَدِیثِ یَحْیَی أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ فَذَکَرَہُمَا وَقَدْ ذَکَرَہُ الْوَاقِدِیُّ عَنْ شُیُوخِہِ کَمَا ذَکَرَہُ مَکْحُولٌ وَزَعَمَ أَنَّ الَّذِی أَشَارَ بِہِ سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ ۔ وَذَکَرَ الشَّافِعِیُّ فِی الْقَدِیمِ حَدِیثَ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیٍّ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ نَصَبَ الْمَنْجَنِیقَ عَلَی أَہْلِ الإِسْکَنْدَرِیَّۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٢١) موسیٰ بن علی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے اہل سکندریہ پر منجنیق نصب کی۔

18128

(١٨١٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ حَدَّثَنِی الْحَارِثُ بْنُ یَزِیدَ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ فِی فَتْحِ قَیْسَارِیَّۃَ قَالَ فَکَانُوا یَرْمُونَہَا کُلَّ یَوْمٍ بِسِتِّینَ مَنْجَنِیقًا وَذَلِکَ فِی زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَتَّی فَتَحَ اللَّہُ عَلَی یَدَیْ مُعَاوِیَۃَ وَعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو۔ [ضعیف ]
(١٨١٢٢) حارث بن یزید اور یزید بن ابی حبیب قباریہ کی فتح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ہر روز منجنیق سے ساٹھ پتھر مارتے تھے۔ یہ حضرت عمر (رض) کے دور کی بات تھی۔ یہاں تک کہ امیر معاویہ اور عبداللہ بن عمرو کے ہاتھ فتح ہوئی۔

18129

(١٨١٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ الْعَلاَئِ حَدَّثَنَا أَبُو رَبِیعَۃَ الْعَامِرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ ہَارُونَ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ أَبِی صَالِحٍ الْحَنَفِیِّ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ أُغَوِّرَ مَائَ آبَارِ بَدْرٍ ۔ (ت) وَکَذَلِکَ رَوَاہُ یُوسُفُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ ہَارُونَ ۔ (ج) وَیُوسُفُ وَأَبُو رَبِیعَۃَ فَہْدُ بْنُ عَوْفٍ ضَعِیفَانِ ۔ (ت) وَرَوَی أَبُودَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : اسْتَشَارَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ نَرَی أَنْ تُغَوِّرَ الْمِیَاہَ کُلَّہَا غَیْرَ مَائٍ وَاحِدٍ فَنَلْقَی الْقَوْمَ عَلَیْہِ ۔ [موضوع ]
(١٨١٢٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ میں بدر کے کنویں کے پانی کو گہرا کر دوں۔
(ب) یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن مشورہ لیا تو حباب بن منذر نے کہا کہ ہمارے خیال میں آپ تمام پانی گہرا کردیں۔ سوائے ایک پانی کے اس پر ہم قوم سے ملاقات کریں گے۔

18130

(١٨١٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی طَلْحَۃُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ قَالَ : کَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَأْمُرُ أُمَرائَ ہُ حِینَ کَانَ یَبْعَثُہُمْ فِی الرِّدَّۃِ إِذَا غَشِیتُمْ دَارًا فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ : فَشُنُّوہَا غَارَۃً وَاقْتُلُوا وَحَرِّقُوا وَأَنْہِکُوا فِی الْقَتْلِ وَالْجِرَاحِ لاَ یُرَی بِکُمْ وَہَنٌ لِمَوْتِ نَبِیِّکُمْ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨١٢٤) طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) جب ارتداد کے خلاف لشکر روانہ فرماتے تو امراء کو حکم دیتے کہ جب تم کسی علاقہ پر حملہ کرو تو ہر طرف سے حملہ کرو، قتل کرو، جلاؤ اور قتل و زخمی کرنے میں مبالغہ کرو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی وجہ سے تمہارے اندر کمزوری ظاہر نہ ہو۔

18131

(١٨١٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ الْکَرَابِیسِیُّ الْہَرَوِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ یُونُسَ بْنِ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَمَّا بَعَثَ الْجُنُودَ نَحْوَ الشَّامِ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَشُرَحْبِیلَ ابْنَ حَسَنَۃَ قَالَ لَمَّا رَکِبُوا مَشَی أَبُو بَکْرٍ مَعَ أُمَرَائِ جُنُودِہِ یُوَدِّعُہُمْ حَتَّی بَلَغَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ فَقَالُوا یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللَّہِ أَتَمْشِی وَنَحْنُ رُکْبَانٌ؟ فَقَالَ : إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ جَعَلَ یُوصِیہِمْ فَقَالَ : أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللَّہِ اغْزُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ فَإِنَّ اللَّہَ نَاصِرُ دِینِہِ وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تَجْبُنُوا وَلاَ تُفْسِدُوا فِی الأَرْضِ وَلاَ تَعْصُوا مَا تُؤْمَرُونَ فَإِذَا لَقِیتُمُ الْعَدُوَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنْ شَائَ اللَّہُ فَادْعُوہُمْ إِلَی ثَلاَثِ خِصَالٍ فَإِنْ ہُمْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمُ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ فَإِنْ ہُمْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمُ ثُمَّ ادْعُوہُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ فَإِنْ ہُمْ فَعَلُوا فَأَخْبِرُوہُمْ أَنَّ لَہُمْ مِثْلَ مَا لِلْمُہَاجِرِینَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِینَ وَإِنْ ہُمْ دَخَلُوا فِی الإِسْلاَمِ وَاخْتَارُوا دَارَہُمْ عَلَی دَارِ الْمُہَاجِرِینَ فَأَخْبِرُوہُمْ أَنَّہُمْ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِینَ یَجْرِی عَلَیْہِمْ حُکْمُ اللَّہِ الَّذِی فَرَضَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَلَیْسَ لَہُمْ فِی الْفَیْئِ وَالْغَنَائِمِ شَیْئٌ حَتَّی یُجَاہِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ فَإِنْ ہُمْ أَبَوْا أَنْ یَدْخُلُوا فِی الإِسْلاَمِ فَادْعُوہُمْ إِلَی الْجِزْیَۃِ فَإِنْ ہُمْ فَعَلُوا فَاقْبَلُوا مِنْہُمْ وَکُفُّوا عَنْہُمْ وَإِنْ ہُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِینُوا بِاللَّہِ عَلَیْہِمْ فَقَاتِلُوہُمْ إِنْ شَائَ اللَّہُ وَلاَ تُغْرِقُنَّ نَحْلاً وَلاَ تُحْرِقُنَّہَا وَلاَ تَعْقِرُوا بَہِیمَۃً وَلاَ شَجَرَۃً تُثْمِرُ وَلاَ تَہْدِمُوا بِیعَۃً وَلاَ تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلاَ الشُّیُوخَ وَلاَ النِّسَائَ وَسَتَجِدُونَ أَقْوَامًا حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ فِی الصَّوَامِعِ فَدَعُوہُمْ وَمَا حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ لَہُ وَسَتَجِدُونَ آخَرِینَ اتَّخَذَ الشَّیْطَانُ فِی أَوْسَاطِ رُئُ وسِہِمْ أَفْحَاصًا فَإِذَا وَجَدْتُمْ أُولَئِکَ فَاضْرِبُوا أَعْنَاقَہُمْ إِنْ شَائَ اللَّہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٢٥) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر صدیق (رض) نے شام کی جانب لشکر روانہ فرمائے۔ یزید بن ابی سفیان، عمرو بن عاص، شرحبیل بن حسنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) لشکر کو الوداع کہنے کے لیے ثنیۃ الوداع تک پیدل ان کے ساتھ جاتے۔ انھوں نے کہا : اے خلیفۃ المسلمین ! ہم سوار اور آپ پیدل ؟ فرمایا : میں اپنے ان قدموں کو اللہ کے راستہ میں ثواب کی نیت سے اٹھاتا ہوں۔ پھر امراء کو وصیت فرماتے : میں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ کے راستہ میں غزوہ کرو جو اللہ کے ساتھ کفر کرے ان سے جہاد کرو۔ اللہ اپنے دین کی مدد کرنے والا ہے۔ خیانت نہ کرو۔ دھوکا نہ دو ، بزدلی نہ دکھاؤ، زمین پر فساد نہ کرو، دیے گئے احکام کی نافرمانی نہ کرو۔ اگر اللہ چاہے تمہاری ملاقات دشمن سے ہوجائے تو ان کو تین چیزوں کی طرف دعوت دو ۔ اگر وہ قبول کرلیں تو تم ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ 1 انھیں اسلام کی دعوت دو اگر اسلام قبول کرلیں تو اپنے ہاتھ ان سے روک لو۔ پھر انھیں اپنے گھروں سے مہاجرین کے گھروں میں منتقل ہونے کا کہا جائے۔ اگر وہ یہ کام کرلیں تو انھیں بتادیں۔ ان کے لیے وہی ہے جو مہاجرین کے لیے یا ان کے ذمہ بھی وہی ہے۔ جو مہاجرین کے ذمہ ہے اگر وہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مہاجرین کے گھروں پر اپنے گھروں کو ترجیح دیں تو ان کو بتا دینا وہ عام دیہاتی مسلمانوں کی مانند ہیں۔ جو مومنوں پر احکام جاری ہوتے ہیں وہی تمہارے اوپر ہوں گے اور مال فیٔ اور غنیمت سے اس وقت تک حصہ نہ ملے گا جب تک مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد نہ کریں گے۔ 2 اگر اسلام میں داخل ہونے سے انکار کردیں تو جزیہ کی دعوت دو ۔ اگر یہ کام کریں تو جزیہ قبول کرلو اور اپنے ہاتھ روک لو۔ 3 اگر وہ اس سے انکار کریں تو ان کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرو اور اگر اللہ چاہے تو ان سے قتال کرو اور تم کھجور کے درخت مت کاٹو اور نہ ہی ان کو جلاؤ۔ چوپائے اور پھل دار درخت نہ کاٹو اور گرجا گھر مت گراؤ۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو مت قتل کرو۔ عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو چرچوں کے اندر روک رکھا ہوگا، ان کو چھوڑ دو اور بعض نے اپنے آپ کو ان کے اندر بند نہ رکھا ہوگا اور عنقریب تم ایسے لوگ پاؤ گے کہ شیطان نے ان کے سروں کے درمیان گھونسلا بنا رکھا ہوگا۔ جب تم ایسے افراد سے ملو تو ان کی گردنیں اتار دو اگر اللہ چاہے۔

18132

(١٨١٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ یَقُولُ سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ ہَذَا حَدِیثٌ مُنْکَرٌ مَا أَظُنُّ مِنْ ہَذَا شَیْئٌ ہَذَا کَلاَمُ أَہْلِ الشَّامِ أَنْکَرَہُ أَبِی عَلَی یُونُسَ مِنْ حَدِیثِ الزُّہْرِیِّ کَأَنَّہُ عِنْدَہُ مِنْ یُونُسَ عَنْ غَیْرِ الزُّہْرِیِّ ۔
(١٨١٢٦) خالی

18133

(١٨١٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَلَعَلَّ أَمْرَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِأَنْ یَکُفُّوا عَنْ أَنْ یَقْطَعُوا شَجَرًا مُثْمِرًا إِنَّمَا ہُوَ لأَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُخْبِرُ أَنَّ بِلاَدَ الشَّامِ تُفْتَحُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَلَمَّا کَانَ مُبَاحًا لَہُ أَنْ یَقْطَعَ وَیَتْرُکَ اخْتَارَ التَّرْکَ نَظَرًا لِلْمُسْلِمِینَ لاَ لأَنَّہُ رَآہُ مُحَرَّمًا لأَنَّہُ قَدْ حَضَرَ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَحْرِیقَہُ بِالنَّضِیرِ وَخَیْبَرَ وَالطَّائِفِ ۔ [صحیح ]
(١٨١٢٧) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پھل دار درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا، کیونکہ انھوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا کہ شام کے شہر مسلمان فتح کریں گے۔ پھل دار درخت کو کاٹنا اور چھوڑ دینا دونوں طرح جائز ہے تو انھوں نے مسلمانوں کی وجہ سے چھوڑ دینے کو اختیار کیا اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کو حرام خیال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس وقت موجود تھے جب بنو نضیر، خیبر اور طائف کے پھل دار درختوں کو جلایا گیا۔

18134

(١٨١٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ صُہَیْبٍ مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَہَا بِغَیْرِ حَقِّہَا سَأَلَہُ اللَّہُ عَنْ قَتْلِہِ ۔ قِیلَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا حَقُّہَا ؟ قَالَ : أَنْ تَذْبَحَہَا فَتَأْکُلَہَا وَلاَ تَقْطَعَ رَأْسَہَا فَتَرْمِی بِہَا ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَنَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنِ الْمَصْبُورَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٢٨) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے چڑیا یا اس سے بھی چھوٹے پرندے کو ناحق قتل کیا تو اللہ رب العزت اس کے قتل کے بارے میں سوال کریں گے۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ! اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا کہ آپ ذبح کر کے اس کو کھائیں، اس کا سر کاٹ کر پھینک نہ دیں۔
امام شافعی فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھی ہوئی چڑیا کے کھانے سے منع فرمایا۔

18135

(١٨١٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُوالنَّضْرِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا أَبُوالْوَلِیدِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْحَکَمِ بْنِ أَیُّوبَ فَرَأَی غِلْمَانًا أَوْ فِتْیَانًا قَدْ نَصَبُوا دَجَاجَۃً یَرْمُونَہَا فَقَالَ أَنَسٌ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ تُصْبَرَ الْبَہَائِمُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٢٩) ہشام بن زید کہتے ہیں : میں حضرت انس (رض) کے ساتھ حکم بن ایوب کے پاس آیا۔ انھوں نے بچوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ ایک مرغی کو نسب کر کے نشانہ بازی کر رہے ہیں۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوپایوں کو باندھنے سے منع فرمایا ہے۔

18136

(١٨١٣٠) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ہَاشِمٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُقْتَلَ شَیْئٌ مِنَ الْبَہَائِمِ صَبْرًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ یَحْیَی۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٥٩]
(١٨١٣٠) جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی چوپائے کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔

18137

(١٨١٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبُوشَنْجِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ جُیُوشًا إِلَی الشَّامِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی وَصِیَّتِہِ إِلَی أَنْ قَالَ : وَلاَ تَعْقِرُنَّ شَاۃً وَلاَ بَعِیرًا إِلاَّ لِمَأْکَلِۃٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٣١) یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) نے شام کی طرف لشکر بھیجے۔ ان کی وصیت کے بارے میں حدیث کو ذکر کیا، جس کے آخر میں ہے کہ بکری اور اونٹ کو صرف کھانے کے لیے ذبح کیا جائے۔

18138

(١٨١٣٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُونَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُوالْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ إِلَی الشَّامِ فَمَشَی مَعَہُ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ : وَلاَ تَذْبَحُوا بَعِیرًا وَلاَ بَقَرًا إِلاَّ لِمَأْکَلٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٣٢) ابو عمران جونی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے یزید بن ابی سفیان کو شام کی طرف بھیجا۔ اس نے حدیث ذکر کی جس کے آخر میں ہے کہ تم اونٹ اور گائے کو صرف کھانے کے لیے ذبح کرو۔

18139

(١٨١٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ قَالَ أَبُو یُوسُفَ حَدَّثَنَا بَعْضُ أَشْیَاخِنَا عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نُسَیٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ أَنَّہُ قِیلَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّ الرُّومَ یَأْخُذُونَ مَا حُسِرَ مِنْ خَیْلِنَا فَیَسْتَفْحِلُونَہَا وَیُقَاتِلُونَ عَلَیْہَا أَفَنَعْقِرُ مَا حُسِرَ مِنْ خَیْلِنَا ؟ فَقَالَ : لاَ لَیْسُوا بِأَہْلٍ أَنْ یَنْتَقِصُوا مِنْکُمْ إِنَّمَا ہُمْ غَدًا رَقِیقُکُمْ أَوْ أَہْلُ ذِمَّتِکُمْ ۔ زاد أَبُو سَعِیدٍ فِی رِوَایَتِہِ فِی مَوْضِعٍ آخَرَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ أَوْصَی ابْنَہُ أَنْ لاَ یَعْقِرَ حَسِرًا۔ وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَحِمَہُ اللَّہُ : أَنَّہُ نَہَی عَنْ عَقْرِ الدَّابَّۃِ إِذَا ہِیَ قَامَتْ ۔ وَعَنْ قَبِیصَۃَ : أَنَّ فَرَسَہُ قَامَ عَلَیْہِ بِأَرْضِ الرُّومِ فَتَرَکَہُ وَنَہَی عَنْ عَقْرِہِ ۔ أَخْبَرَنَا مَنْ سَمِعَ ہِشَامَ بْنَ الْغَازِ یَرْوِی عَنْ مَکْحُولٍ أَنَّہُ سَأَلَہُ عَنْہَا فَنَہَاہُ وَقَالَ : إِنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَہَی عَنِ الْمُثْلَۃِ ۔
(١٨١٣٣) حضرت معاذ بن جبل (رض) سے کہا گیا : رومیوں کو ہمارے جو گھوڑے وغیرہ ہاتھ لگتے ہیں تو وہ انھیں قتل کردیتے ہیں۔ کیا ہم اپنے گھوڑوں کو قتل کردیں۔ انھوں نے فرمایا : نہیں، وہ اس لائق نہیں کہ وہ تم سے انتقام لیں۔ کل وہ تمہارے غلام ہوں گے یا اہل ذمہ۔

18140

(١٨١٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : جَنَاحُ بْنُ نَذِیرِ بْنِ جَنَاحٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الأَسَدِیُّ الْہَمَذَانِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْکِسَائِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا الْمِنْہَالُ قَالَ کُنْتُ أَمْشِی مَعَ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَقَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لَعَنَ اللَّہُ مَنْ مَثَّلَ بِالْحَیَوَانِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٥٥١٥]
(١٨١٣٤) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص پر لعنت کرے جو حیوانوں کا مثلہ کرتا ہے۔

18141

(١٨١٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو عُتْبَۃَ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حُمَیْدٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِیدٍ اللَّخْمِیُّ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ أَبِی رُہْمٍ السَّمَاعِیِّ صَاحِبِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ عَقَرَ بَہِیمَۃً ذَہَبَ رُبُعُ أَجْرِہِ وَمَنْ حَرَّقَ نَحْلاً ذَہَبَ رُبُعُ أَجْرِہِ وَمَنْ غَاشَّ شَرِیکَہُ ذَہَبَ رُبُعُ أَجْرِہِ وَمَنْ عَصَی إِمَامَہُ ذَہَبَ أَجْرُہُ کُلُّہُ ۔ فِی ہَذَا الإِسْنَادِ ضَعْفٌ وَفِی الأَوَّلِ کِفَایَۃٌ۔ [ضعیف ]
(١٨١٣٥) ابو رہم سماعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے چوپائے کو ذبح کیا، اس کا چوتھائی حصہ اجر ختم ہوگیا۔ جس نے شہد کی مکھی کو جلایا، اس کا بھی چوتھائی حصہ اجر ختم ہوگیا اور جس شخص نے اپنے حصہ دار انسان سے دھوکا کیا اس کا بھی چوتھائی اجر ختم ہوگیا اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس کا مکمل اجر ختم ہوگیا۔

18142

(١٨١٣٦) فَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی الَّذِی أَرْضَعَنِی وَکَانَ أَحَدُ بَنِی مُرَّۃَ بْنِ عَوْفٍ قَالَ : وَاللَّہِ لَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَوْمَ مُؤْتَۃَ حِینَ اقْتَحَمَ عَنْ فَرَسٍ لَہُ شَقْرَائَ فَعَقَرَہَا ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ [حسن ]
(١٨١٣٦) یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن زبیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میرے والد جس نے مجھے دودھ پلوایا مرہ بن عوف کے ایک شخص تھے، فرماتے ہیں کہ قسم بخدا ! گویا کہ میں جعفر بن ابی طالب کی طرف جنگ موتہ کے دن دیکھ رہا ہوں جس وقت وہ اپنے شقراء گھوڑے سے کود پڑے، اس کو ذبح کردیا۔ پھر آگے بڑھ کر لڑے یہاں تک کہ شہید کردیے گئے۔

18143

(١٨١٣٧) فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَقَدْ رُوِیَ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَقَرَ عِنْدَ الْحَرْبِ فَلاَ أَحْفَظُ ذَلِکَ مِنْ وَجْہٍ یَثْبُتُ عِنْدَ الاِنْفِرَادِ وَلاَ أَعْلَمُہُ مَشْہُورًا عِنْدَ عَوَامِّ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْمَغَازِی۔ [صحیح ]
(١٨١٣٧) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اگر کوئی کہنے والا کہے کہ جعفر بن ابی طالب نے لڑائی کے موقعہ پر اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ فرماتے ہیں : نہ تو مجھے یاد ہے اور نہ ہی اہل علم کے ہاں یہ مشہور ہے۔

18144

(١٨١٣٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِیُّ : ہَذَا الْحَدِیثُ لَیْسَ بِذَلِکَ الْقَوِیِّ وَقَدْ جَائَ فِیہِ نَہْیٌ کَثِیرٌ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ الْحُفَّاظُ یَتَوَقَّوْنَ مَا یَنْفَرِدُ بِہِ ابْنُ إِسْحَاقَ وَإِنْ صَحَّ فَلَعَلَّ جَعْفَرًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَمْ یَبْلُغْہُ النَّہْیُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح ]
(١٨١٣٨) ابوداؤد سجستانی فرماتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے، اس کے بارے میں بہت سارے صحابہ سے بھی منقول ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : اگر یہ بات درست ہے تو ممکن ہے کہ حضرت جعفر (رض) کو نہی کے بارے میں علم نہ ہو۔

18145

(١٨١٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : قَدْ عَقَرَ حَنْظَلَۃُ بْنُ الرَّاہِبِ بِأَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ یَوْمَ أُحُدٍ فَاکْتَسَعَتْ فَرَسُہُ بِہِ فَسَقَطَ عَنْہَا فَجَلَسَ عَلَی صَدْرِہِ لِیَذْبَحَہُ فَرَآَہُ ابْنُ شَعُوبٍ فَرَجَعَ إِلَیْہِ یَعْدُو کَأَنَّہُ سَبُعٌ فَقَتَلَہُ وَاسْتَنْقَذَ أَبَا سُفْیَانَ مِنْ تَحْتِہِ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ : فَلَوْ شِئْتُ نَجَّتْنِی کُمَیْتٌ رَجِیلَۃٌ وَمَا زَالَ مُہْرِی مُزْجَرَ الْکَلْبِ أُقَاتِلُہُمْ طُرًّا وَأَدْعُو یَالَ غَالِبٍ وَلَمْ أَحْمِلِ النَّعْمَائَ لاِبْنِ شَعُوبِ مِنْہُمُ لَدَی غُدْوَۃٍ حَتَّی دَنَتْ لِغُرُوبِ وَأَدْفَعُہُمْ عَنِّی بِرُکْنٍ صَلِیبِ [ضعیف ]
(١٨١٣٩) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ حنظلہ بن راہب نے ابو سفیان بن حرب کے جانور کی کونچیں احد کے دن کاٹ ڈالیں۔ اس کا گھوڑا بیٹھ گیا تو ابو سفیان گرپڑا تو حنظلہ اس کے سینے پر ذبح کرنے لیے چڑھ بیٹھے۔ ابن شعوب نے دیکھ لیا، وہ اس کی طرف درندے کی طرح لپکا اور اس کو قتل کردیا۔ ابو سفیان کو اس کے نیچے سے بچا لیا تو اس کے بعد ابو سفیان نے یہ اشعار کہے۔
اگر میں چاہتا تو مجھے طاقت ور سرخ و سیاہ رنگت والا گھوڑا ہی بچا لیتا اور میں ابن شعوب کا احسان نہ اٹھاتا۔ میرا بچھیرا گھوڑا صبح کے وقت سے ان کے کتے کو دھتکارتا رہا حتیٰ کہ غروب کے قریب ہوگیا۔ میں ان سے مسلسل لڑتا رہوں گا اور میں پکاروں گا : غالب کی طرف آؤ اور میں ان کو صلیب کے غلبے کے ساتھ اپنے دور کرتا رہوں گا۔

18146

(١٨١٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّہْرِیِّ وَغَیْرِہِ فِی قِصَّۃِ أُحُدٍ فَذَکَرَ قِصَّۃَ حَنْظَلَۃَ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ وَمَا کَانَ مِنْ مَعُونَۃِ ابْنِ شَعُوبٍ أَبَا سُفْیَانَ وَقَتْلِہِ حَنْظَلَۃَ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَذْکُرِ الْعَقْرَ ثُمَّ ذَکَرَ أَبْیَاتَ أَبِی سُفْیَانَ بِنَحْوٍ مِمَّا ذَکَرَہُنَّ الشَّافِعِیُّ وَزَادَ عَلَیْہِنَّ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَاسْمُ ابْنِ شَعُوبٍ شَدَّادُ بْنُ الأَسْوَدِ کَذَا قَالَ ۔ وَقَدْ ذَکَرَ الْوَاقِدِیُّ فِی ہَذِہِ الْقِصَّۃِ عَقْرَہُ فَرَسَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٤٠) ابن اسحاق زہری اور دوسروں سے احد کے قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں اس نے حنظلہ کا قصہ ابو سفیان کے ساتھ ذکر کیا اور ابن شعوب کا ابو سفیان کی مدد کرنا اور حنظلہ کے قتل کا ذکر کیا۔ لیکن کونچیں کاٹنے کا تذکرہ نہیں کیا۔ پھر اس نے ابوسفیان کے اشعار کا تذکرہ کیا جیسے امام شافعی (رح) نے بیان کیا لیکن اس نے کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔
ابن اسحاق فرماتے ہیں : ابن شعوب کا نام شداد بن اسود تھا۔ واقدی نے اس قصہ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس نے اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔

18147

(١٨١٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہْمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِیُّ عَنْ شُیُوخِہِ فَذَکَرُوا قِصَّۃَ حَنْظَلَۃَ قَالُوا : وَأَخَذَ حَنْظَلَۃُ بْنُ أَبِی عَامِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سِلاَحَہُ فَلَحِقَ بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأُحُدٍ وَہُوَ یُسَوِّی الصُّفُوفَ فَلَمَّا انْکَشَفَ الْمُشْرِکُونَ اعْتَرَضَ حَنْظَلَۃُ لأَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبِ فَضَرَبَ عُرْقُوبَ فَرَسِہِ فَاکْتَسَعَتِ الْفَرَسُ وَیَقَعُ أَبُو سُفْیَانَ إِلَی الأَرْضِ فَجَعَلَ یَصِیحُ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَنَا أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ وَحَنْظَلُۃُ یُرِیدُ ذَبْحَہُ بِالسَّیْفِ فَأَسْمَعَ الصَّوْتُ رِجَالاً لاَ یَلْتَفِتُونَ إِلَیْہِ فِی الہَزِیمَۃِ حَتَّی عَایَنَہُ الأَسْوَدُ بْنُ شَعُوبٍ فَحَمَلَ عَلَی حَنْظَلَۃَ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَہُ وَہَرَبَ أَبُو سُفْیَانَ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨١٤١) محمد بن عمر واقدی اپنے شیوخ سے نقل فرماتے ہیں، جنہوں نے حنظلہ کا قصہ ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حنظلہ بن عامر نے اپنا اسلحہ لیا اور احد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا ملے۔ جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفیں درست فرما رہے تھے۔ جب مشرک سامنے ہوئے تو حنظلہ نے ابو سفیان کا پیچھا کر کے اس کے گھوڑے کی رگیں کاٹ ڈالیں تو گھوڑا رک گیا اور ابو سفیان زمین پر گرپڑا۔ ابو سفیان چیخ رہا تھا : اے قریشیو ! میں ابو سفیان بن حرب ہوں، حنظلہ تلوار سے اسے ذبح کرنا چاہتے تھے۔ کئی اشخاص نے اس کی آواز سنی، لیکن شکست کی بنا پر کوئی اس کی جانب التفات بھی نہ کررہا تھا یہاں تک کہ اسود بن شعوب نے اس کی مدد کی۔ اس نے حنظلہ کو تیر مار کر ہلاک کردیا۔ اس کو چھڑوایا تو ابو سفیان بھاگ گیا۔

18148

(١٨١٤٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْیَمَامِیُّ عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیہِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی الْحُدَیْبِیَۃِ وَرُجُوعِہِمْ إِلَی الْمَدِینَۃِ قَالَ : فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ظَہْرًا مَعَ رَبَاحٍ غُلاَمِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ وَخَرَجْتُ مَعَہُ بِفَرَسِ طَلْحَۃَ أُنَدِّیہِ مَعَ الظَّہْرِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ قَدْ أَغَارَ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَاسْتَاقَہُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِیَہُ فَقُلْتُ یَا رَبَاحُ خُذْ ہَذَا الْفَرَسَ فَأَبْلِغْہُ طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللَّہِ وَأَخْبِرَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَغَارُوا عَلَی سَرْحِہِ قَالَ ثُمَّ قُمْتُ عَلَی ثَنِیَّۃٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَادَیْتُ ثَلاَثَۃَ أَصْوَاتَ یَا صَباحَاہُ قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ فِی آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِیہِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ أَنَا ابْنُ الأَکْوَعْ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعْ قَالَ فَأَرْمِی رَجُلاً فَأَضَعُ السَّہْمَ حَتَّی یَقَعَ فِی کَتِفِہِ وَقُلْتُ : خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الأَکْوَعِ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعِ قَالَ فَوَاللَّہِ مَا زِلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَعْقِرُ بِہِمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَیَّ فَارِسٌ أَتَیْتُ شَجَرَۃً فَجَلَسْتُ فِی أَصْلِہَا فَرَمَیْتُہُ فَعَقَرْتُ بِہِ فَإِذَا تَضَایَقَ الْجَبَلُ فَدَخَلُوا فِی مُتَضَایَقٍ رَقِیتُ الْجَبَلَ ثُمَّ جَعَلْتُ أُرَدِّیہِمْ بِالْحِجَارَۃِ قَالَ فَمَا زِلْتُ کَذَلِکَ أَتَّبِعُہُمْ حَتَّی مَا خَلَقَ اللَّہُ بَعِیرًا مِنْ ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلاَّ جَعَلْتُہُ وَرَائَ ظَہْرِی وَخَلَّوْا بَیْنِی وَبَیْنَہُ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَکَانِی حَتَّی نَظَرْتُ إِلَی فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ وَإِذَا أَوَّلُہُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِیُّ وَعَلَی إِثْرِہِ أَبُو قَتَادَۃَ الأَنْصَارِیُّ وَعَلَی إِثْرِہِ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ الْکِنْدِیُّ فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ فَرَسِ الأَخْرَمِ قُلْتُ یَا أَخْرَمُ إِنَّ الْقَوْمَ قَلِیلٌ فَاحْذَرْہُمْ لاَ یَقْتَطِعُونَکَ حَتَّی یَلْحَقَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابُہُ فَقَالَ : یَا سَلَمَۃَ إِنْ کُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ فَلاَ تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّہَادَۃِ فَخَلَّیْتُہُ فَالْتَقَی ہُوَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ فَعَقَرَ الأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَہُ وَطَعَنَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَہُ وَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَی فَرَسِہِ فَلَحِقَ أَبُو قَتَادَۃَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَطَعَنَہُ فَقَتَلَہُ وَعَقَرَ بِہِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَۃَ عَلَی فَرَسِ الأَخْرَمِ وَخَرَجُوا ہَارِبِینَ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٤٢) ایاس بن سلمہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں، اس نے حدیبیہ کا قصہ ذکر کیا اور مدینہ کی طرف واپسی کا تذکرہ فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے غلام رباح کے ساتھ کچھ اونٹ بھیجے۔ راوی کہتے ہیں : میں بھی طلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے ساتھ نکلا۔ میں بھی اونٹوں کا خیال رکھ رہا تھا۔ اچانک صبح کے وقت عبدالرحمن بن عیینہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹ پر حملہ کردیا اور تمام اونٹ لے گیا اور چرواہے کو قتل کردیا۔ میں نے کہا : اے رباح ! یہ گھوڑا لو اور طلحہ بن عبیداللہ کو دے دینا اور جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دو کہ مشرکین نے مویشیوں پر حملہ کردیا ہے۔ پھر میں نے ثنیہ پہاڑی پر چڑھ کر مدینہ کی طرف منہ کر کے تین آوازیں لگائیں۔ یا صباحاہ، یا صباحاہ، یا صباحاہ ! اے لوگو ! ہم صبح کے وقت لوٹے گئے۔ پھر میں ان لوگوں کے پیچھے ہو لیا، تیر مار رہا تھا اور اشعار پڑھ رہا تھا۔ میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ کہتے ہیں : میں کسی کو تیر مارتا اور اپنے تیر محفوظ بھی رکھتا یہاں تک کہ جب وہ اس کے کندھے کو زخمی کرتا تو پھر میں کہتا۔ یہ لو میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ کہتے ہیں : میں انھیں تیر مارتا اور زخمی کرتا رہا۔ جب کوئی شہسوار واپس آتا تو میں درخت کی اوٹ میں ہو کر بیٹھ جاتا اور تیر مار کر زخمی کردیتا اور جب پہاڑوں کا تنگ راستہ آجاتا تو میں پہاڑ کے اوپر چڑھ جاتا اور ان پر پتھر برساتا۔ کہتے ہیں : میں اس طرح کرتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ کے جتنے اونٹ تھے۔ میں نے ان کو اپنے پیچھے محفوظ کرلیا۔ میں رسول اللہ کے اونٹوں کو پیچھے چھوڑتا گیا اور وہ اپنا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔ اس نے حدیث کو ذکر کیا کہ میں اپنی جگہ پر رہا یہاں تک میں نے رسول اللہ کے شہسواروں کو دیکھا کہ وہ درختوں کے درمیان سے ظاہر ہوئے۔ سب سے پہلے آنے والے اصرم اسدی تھے، ان کے پیچھے ابو قتادہ انصاری تھے۔ ان کے بعد مقداد بن اسود کندی۔ میں نے اصرم کے گھوڑے کی لگام تھام لی۔ میں نے کہا : اے اصرم ! یہ تھوڑے لوگ ہیں، ان کو ڈراؤ، وہ تجھے ہلاک نہ کردیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ ہمیں مل جائیں۔ اس نے کہا : اے سلمہ ! اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور جنت و جہنم کو حق خیال کرتا ہے تو میرے اور شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ بن تو میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ عبدالرحمن بن عیینہ سے جا ملے تو اصرم نے عبدالرحمن بن عیینہ کے گھوڑے کو زخمی کردیا تو عبدالرحمن نے اصرم کو نیزہ مار کر شہید کردیا۔ پھر عبدالرحمن اپنے گھوڑے کے پاس آیا۔ اتنی دیر میں ابو قتادہ نے عبدالرحمن کو تیر مار کر قتل کردیا اور عبدالرحمن نے انھیں زخمی کیا۔ پھر ابو قتادہ نے اصرم کے گھوڑے کو اپنی تحویل میں لیا اور وہ بھاگ گئے۔

18149

(١٨١٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : بَعَثَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْلاً قِبَلَ نَجْدٍ فَجَائَ تْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِی حَنِیفَۃَ یُقَالُ لَہُ ثُمَامَۃُ بْنُ أُثَالٍ سَیِّدُ أَہْلِ الْیَمَامَۃِ فَرَبَطُوہُ بِسَارِیَۃٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ قَدْ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ بِطُولِہِ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٤٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر نجد کی جانب روانہ کیا۔ وہ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر لائے جس کو ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا۔ جو یمامہ کا سردار تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔

18150

(١٨١٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَۃَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ جُنْدُبِ بْنِ مَکِیثٍ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَبْدَ اللَّہِ بْنَ غَالِبٍ اللَّیْثِیَّ فِی سَرِیَّۃٍ فَکُنْتُ فِیہِمْ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَشُنُّوا الْغَارَۃَ عَلَی بَنِی الْمُلَوَّحِ فِی الْکَدِیدِ فَخَرَجْنَا حَتَّی إِذَا کُنَّا بِالْکَدِیدِ لَقِینَا الْحَارِثَ ابْنَ الْبَرْصَائِ اللَّیْثِیَّ فَأَخَذْنَاہُ فَقَالَ إِنَّمَا جِئْتُ أُرِیدُ الإِسْلاَمَ وَإِنَّمَا خَرَجْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْنَا إِنْ تَکُ مُسْلِمًا لَمْ یَضُرَّکَ رِبَاطُنَا یَوْمًا وَلَیْلَۃً وَإِنْ یَکُنْ غَیْرُ ذَلِکَ نَسْتَوْثِقْ مِنْکَ فَشَدَدْنَاہُ وَثَاقًا۔ [ضعیف ]
(١٨١٤٤) جندب بن ابی مکیث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن غالب لیثی کو ایک لشکر میں روانہ کیا۔ میں بھی ان میں شامل تھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ بنو ملوح پر کدید نامی جگہ پر چاروں اطراف سے حملہ کردیں۔ ہم نکلے تو ہماری ملاقات کدید میں حارث بن برصاء سے ہوگئی۔ ہم نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا : میں اسلام کے ارادہ سے آیا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ ہم نے کہا : اگر تو مسلمان ہے تو ایک دن، رات کا باندھنا تجھے نقصان نہ دے گا۔ اگر تم مسلم نہیں تو پھر ہم تجھے مضبوطی سے باندھیں گے۔ ہم نے اس کو باندھ دیا۔

18151

(١٨١٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ بَعْضِ أَہْلِہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا أَمْسَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ بَدْرٍ وَالأَسَارَی مَحْبُوسُونَ بِالْوَثَاقِ بَاتَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَاہِرًا أَوَّلَ اللَّیْلِ فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا لَکَ لاَ تَنَامُ وَقَدْ أَسَرَ الْعَبَّاسَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : سَمِعْتُ أَنِینَ عَمِّی الْعَبَّاسِ فِی وَثَاقِہِ ۔ فَأَطْلَقُوہُ فَسَکَتَ فَنَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨١٤٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : بدر کے دن شام کے وقت جب قیدیوں کو زنجیروں سے باندھا جا رہا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کا پہلا حصہ بیدار رہ کر گزارا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ! آپ سو کیوں نہیں رہے اور عباس کو ایک انصاری نے قیدی بنا رکھا تھا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اپنے چچا عباس کے رونے کی آواز سنی ہے، انھوں نے اس کو کھول دیا۔ وہ خاموش ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے۔

18152

(١٨١٤٦) وَبِإِسْنَادِہِ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدِ بْنِ زُرَارَۃَ قَالَ : قُدِمَ بِالأُسَارَی حِینَ قُدِمَ بِہِمُ الْمَدِینَۃَ وَسَوْدَۃُ بِنْتُ زَمْعَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَ آلِ عَفْرَائَ فِی مَنَاحِہِمْ عَلَی عَوْفٍ وَمُعَوِّذٍ ابْنَیْ عَفْرَائَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُضْرَبَ عَلَیْہِنَّ الْحِجَابُ قَالَتْ سَوْدَۃُ فَوَاللَّہِ إِنِّی لَعِنْدَہُمْ إِذْ أُتِینَا فَقِیلَ ہَؤُلاَئِ الأُسَارَی قَدْ أُتِیَ بِہِمْ فَرَجَعْتُ إِلَی بَیْتِی وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِ وَإِذَا أَبُو یَزِیدَ : سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فِی نَاحِیَۃِ الْحُجْرَۃِ یَدَاہُ مَجْمُوعَتَانِ إِلَی عُنُقِہِ بِحَبْلٍ فَوَاللَّہِ مَا مَلَکْتُ حِینَ رَأَیْتُ أَبَا یَزِیدَ کَذَلِکَ أَنْ قُلْتُ أَیْ أَبَا یَزِیدَ أَعْطَیْتُمْ بِأَیْدِیکُمْ أَلاَ مُتُّمْ کِرَامًا فَمَا انْتَبَہْتُ إِلاَّ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الْبَیْتِ : یَا سَوْدَۃُ أَعَلَی اللَّہِ وَعَلَی رَسُولِہِ ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا مَلَکَتُ حِینَ رَأَیْتُ أَبَا یَزِیدَ مَجْمُوعَۃٌ یَدَاہُ إِلَی عُنُقِہِ بِالْحَبْلِ أَنْ قُلْتُ مَا قُلْتُ ۔ [حسن ]
(١٨١٤٦) یحییٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن اسعد بن زرارہ فرماتے ہیں : جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو قیدی لائے گئے اور سودہ بنت زمعہ نبی کی بیوی آل عفراء کے پاس تھی، عطیان کے اندر۔ یہ پردہ سے پہلے کی بات ہے۔ سودہ فرماتی ہیں : میں ان کے پاس تھی جب ہمیں لایا گیا۔ کہا گیا : یہ قیدی ہیں۔ ہم آپ کے سامنے لائے گئے۔ میں اپنے گھر واپس آئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں موجود تھے۔ اچانک ابو یزید سہیل بن عمرو حجرہ کے ایک کونے میں پڑے تھے کہ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ ایک رسی سے باندھے گئے تھے۔ اللہ کی قسم ! میں نے قابو نہ پایا جس وقت میں نے ابو یزید کو اس حالت میں دیکھا۔ میں نے کہہ دیا : اے ابو یزید ! تم نے اپنے ہاتھ پکڑوا دیے۔ خبردار ! عزت کے موت مرجاتے۔ میں سمجھ نہ سکی مگر گھر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز آئی : اے سودہ ! کیا اللہ اور رسول پر ؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جب میں نے ابو یزید کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے دیکھے تو میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔

18153

(١٨١٤٧) حَدَّثَنَا الشَّیْخُ الإِمَامُ أَبُو الطَّیِّبِ : سَہْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : إِسْمَاعِیلُ بْنُ نُجَیْدٍ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِیلُ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ عَنْ ذَکْوَانَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَخَلَ عَلَیْہَا بِأَسِیرٍ وَعِنْدَہَا نِسْوَۃٌ فَلَہَّیْنَہَا عَنْہُ فَذَہَبَ الأَسِیرُ فَجَائَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : یَا عَائِشَۃُ أَیْنَ الأَسِیرُ ؟ ۔ فَقَالَتْ : نِسْوَۃٌ کُنَّ عِنْدِی فَلَہَّیْنَنِی عَنْہُ فَذَہَبَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَطَعَ اللَّہُ یَدَکِ ۔ وَخَرَجَ فَأَرْسَلَ فِی إِثْرِہِ فَجِیئَ بِہِ فَدَخَلَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَإِذَا عَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَدْ أَخْرَجَتْ یَدَیْہَا فَقَالَ : مَا لَکَ ؟ ۔ قَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ دَعَوْتَ عَلَیَّ بِقَطْعِ یَدِی وَإِنِّی مُعَلِّقَۃٌ یَدِی أَنْتَظِرُ مَنْ یَقْطَعُہَا۔ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَجُنِنْتِ ؟ ۔ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ وَقَالَ : اللَّہُمَّ مَنْ کُنْتُ دَعَوْتُ عَلَیْہِ فَاجْعَلْہُ لَہُ کَفَّارَۃً وَطَہُورًا ۔ [صحیح ]
(١٨١٤٧) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس ایک قیدی کو بھیجا اور حضرت عائشہ (رض) کے پاس عورتیں تھی تو ان عورتوں نے قیدی سے غافل کردیا۔ قیدی چلا گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے عائشہ ! قیدی کہاں ہے ؟ فرماتی ہیں : میرے پاس عورتیں تھیں جنہوں نے مجھے اس سے غافل کردیا، وہ چلا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تیرے ہاتھ کاٹ دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے گئے۔ اس قیدی کے پیچھے کسی کو روانہ کیا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو حضرت عائشہ اپنے ہاتھوں کو نکال کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تجھے کیا ہے ؟ کہنے لگی : اے اللہ کے رسول ! آپ نے میرے خلاف ہاتھ کاٹنے کی بددعا فرمائی۔ میں ہاتھ لٹکا کر بیٹھی ہوں اس انتظار میں کہ کون میرے ہاتھ کاٹتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو پاگل ہوگئی ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا : اے اللہ ! جو میں نے اس کے خلاف بددعا کی تھی اس کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دے۔

18154

(١٨١٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ جُیُوشًا إِلَی الشَّامِ فَخَرَجَ یَمْشِی مَعَ یَزِیدَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ وَکَانَ أَمِیرَ رُبْعٍ مِنْ تِلْکَ الأَرْبَاعِ فَزَعَمُوا أَنْ یَزِیدَ قَالَ لأَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِمَّا أَنْ تَرْکَبَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِلَ ۔ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : مَا أَنْتَ بِنَازِلٍ وَلاَ أَنَا بِرَاکِبٍ إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ قَالَ إِنَّکَ سَتَجِدُ قَوْمًا زَعَمُوا أَنَّہُمْ حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ لِلَّہِ فَذَرْہُمْ وَمَا زَعَمُوا أَنَّہُمْ حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ لَہُ وَسَتَجِدُ قَوْمًا فَحَصُوا عَنْ أَوْسَاطِ رُئُ وسِہِمْ مِنَ الشَّعَرِ فَاضْرِبْ مَا فَحَصُوا عَنْہُ بِالسَّیْفِ وَإِنِّی مُوصِیکَ بِعَشْرٍ لاَ تَقْتَلَنَّ امْرَأَۃً وَلاَ صَبِیًّا وَلاَ کَبِیرًا ہَرِمًا وَلاَ تَقْطَعَنَّ شَجَرًا مُثْمِرًا وَلاَ تُخَرِّبَنَّ عَامِرًا وَلاَ تَعْقِرَنَّ شَاۃً وَلاَ بَعِیرًا إِلاَّ لِمَأْکَلَۃٍ وَلاَ تُحْرِقَنَّ نَحْلاً وَلاَ تُغْرِقَنَّہُ وَلاَ تَغْلُلُ وَلاَ تَجْبُنْ ۔ وَرُوِّینَاہُ فِی حَدِیثِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَمَا مَضَی فِی مَسْأَلَۃِ التَحْرِیقِ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٤٨) یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) نے شام کی جانب لشکر روانہ کیے تو ابوبکر (رض) یزید بن ابی سفیان کے ساتھ پیدل نکلے۔ وہ چوتھائی حصے پر امیر مقرر تھے۔ انھوں نے گمان کیا کہ آپ اضافہ کریں۔ اس نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ سوار ہوجائیں یا میں بھی پیدل چلتا ہوں تو ابوبکر (رض) نے فرمایا : نہ تو پیدل چلے گا اور نہ ہی میں سوار ہوں گا۔ میں تو پیدل چلنے میں ثواب کی نیت کرتا ہوں کیونکہ یہ اللہ کے راستہ میں ہے۔ پھر فرمایا : عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جن کا گمان ہوگا کہ انھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے روک رکھا ہے۔ ان کو چھوڑ دینا اور جس کا گمان ہو کہ انھوں نے اپنے آپ کو الگ کیا ہوا ہے اور ایسی قوم کو چھوڑ دینا اور جس کا گمان ہو کہ انھوں نے اپنے آپ کو الگ کیا ہوا ہے اور ایسی قوم کو آ ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں پر بالوں کے گھونسلے بنا رکھے ہوں گے تو ان بالوں کو تلوار سے کاٹ ڈالو اور میں تجھے دس نصیحتیں کرتا ہوں : تم کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، آباد زمین کو برباد و ویران نہ کرنا، کسی بکری، اونٹ کو صرف کھانے کے لیے ذبح کرنا، کسی شہد کی مکھی کو جلانا اور ڈبونا نہیں، نہ خیانت کرنا اور نہ بزدلی دکھانا۔

18155

(١٨١٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی مَالِکٍ الشَّامِیِّ قَالَ : جَہَّزَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ بَعَثَہُ إِلَی الشَّامِ أَمِیرًا فَمَشَی مَعَہُ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمَعْنَاہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٤٩) یزید بن ابی مالک شامی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یزید بن ابی سفیان کے لشکر کا امیر بنا کر شام کی جانب روانہ فرمایا اور خود اس کے ساتھ پیدل چلے۔

18156

(١٨١٥٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی صَالِحُ بْنُ کَیْسَانَ قَالَ : لَمَّا بَعَثَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ إِلَی الشَّامِ عَلَی رُبْعٍ مِنَ الأَرْبَاعِ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَعَہُ یُوصِیہِ وَیَزِیدُ رَاکِبٌ وَأَبُو بَکْرٍ یَمْشِی فَقَالَ یَزِیدُ : یَا خَلِیفَۃُ رَسُولِ اللَّہِ إِمَّا أَنْ تَرْکَبَ وَإِمَّا أَنْ أَنْزِلَ ۔ فَقَالَ : مَا أَنْتَ بِنَازِلٍ وَمَا أَنَا بِرَاکِبٍ إِنِّی أَحْتَسِبُ خُطَایَ ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ یَا یَزِیدُ إِنَّکُمْ سَتَقْدَمُونَ بِلاَدًا تُؤْتَوْنَ فِیہَا بِأَصْنَافٍ مِنَ الطَّعَامِ فَسَمُّوا اللَّہَ عَلَی أَوَّلِہَا وَاحْمَدُوہُ عَلَی آخِرِہَا وَإِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا قَدْ حَبَسُوا أَنْفُسَہُمْ فِی ہَذِہِ الصَّوَامِعِ فَاتْرُکُوہُمْ وَمَا حَبَسُوا لَہُ أَنْفُسَہَمْ وَسَتَجِدُونَ أَقْوَامًا قَدِ اتَّخَذَ الشَّیْطَانُ عَلَی رُئُ وسِہِمْ مَقَاعِدَ یَعْنِی الشَّمَامِسَۃَ فَاضْرِبُوا تِلْکَ الأَعْنَاقَ وَلاَ تَقْتُلُوا کَبِیرًا ہَرِمًا وَلاَ امْرَأَۃً وَلاَ وَلِیدًا وَلاَ تُخَرِّبُوا عُمْرَانًا وَلاَ تَقَطَّعُوا شَجَرَۃً إِلاَّ لِنَفْعٍ وَلاَ تَعْقِرَنَّ بَہِیمَۃً إِلاَّ لِنَفْعٍ وَلاَ تُحْرِقَنَّ نَحْلاً وَلاَ تُغْرِقَنَّہَ وَلاَ تَغْدِرْ وَلاَ تُمَثِّلْ وَلاَ تَجْبُنْ وَلاَ تْغَّلُلُ وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ أَسْتَوْدِعُکَ اللَّہَ وَأُقْرِئُکَ السَّلاَمَ ثُمَّ انْصَرَفَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥٠) صالح بن کیسان فرماتے ہیں کہ جب ابوبکر (رض) نے یزید بن ابی سفیان کو چار گروہ میں سے ایک کا امیر بنا کر شام کی جانب بھیجا اور حضرت ابوبکر (رض) وصیت کی غرض سے اس کے ساتھ پیدل چلے۔ جبکہ یزید بن ابی سفیان سوار تھے۔ یزید نے کہا : اے خلیفۃ الرسول ! یا تو آپ سوار ہوجائیں یا میں بھی نیچے اتر آتا ہوں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : تم اترو نہ میں سوار ہوتا ہوں۔ میں تو اللہ کے راستہ میں پیدل چلنے میں نیت کیے ہوئے ہوں۔ اے یزید ! تم ایسے شہروں میں آؤ گے جس میں مختلف قسم کے کھانے ہوں گے۔ ابتدا میں اللہ کا نام لو اور آخر میں اللہ کی تعریف کرو۔ حمد بیان کرو اور عنقریب تم ایسے لوگ بھی پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو معبد خانوں میں روک رکھا ہوگا، ان کو چھوڑ دو اور جنہوں نے اپنے آپ کو بھی روک رکھا ہو اور عنقریب تم ایسی قوم کو پاؤ گے کہ شیطان نے ان کے سروں پر سخت نفرت والی اشیاء بنادی ہوں گی۔ ان کی گردنیں اڑا دو ۔ کسی بوڑھے، عورت اور بچے کو قتل نہ کرنا، کسی آباد جگہ کو ویران نہ کرنا، درخت اور چوپائے کو فائدہ کے لیے کاٹنا، شہد کے چھتے کو نہ جلانا، دھوکا ، مثلہ، بزدلی اور خیانت نہ کرنا۔ اللہ اس کی ضرور مدد فرمائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بن دیکھے مدد کرے گا کیونکہ اللہ قوی غالب ہے میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور میری طرف سے سلام۔ پھر وہ چلے گئے۔

18157

(١٨١٥١) وَبِإِسْنَادِہِ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ وَقَالَ لِی ہَلْ تَدْرِی لِمَ فَرَّقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : فَأَمَرَ بِقَتْلِ الشَّمَامِسَۃِ وَنَہَی عَنْ قَتْلِ الرُّہْبَانِ فَقُلْتُ لاَ أُرَاہُ إِلاَّ لِحَبْسِ ہَؤُلاَئِ أَنْفُسَہُمْ فَقَالَ أَجَلْ وَلَکِنَّ الشَّمَامِسَۃَ یَلْقَوْنَ الْقِتَالَ فَیُقَاتِلُونَ وَإِنَّ الرُّہْبَانَ رَأْیُہُمْ أَنْ لاَ یُقَاتِلُوا وَقَدْ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ } [البقرۃ ١٩٠] ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥١) ابن اسحاق محمد بن جعفر بن زبیر سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے مجھے کہا : آپ کو معلوم ہے کہ ابوبکر (رض) نے کیوں تفریق کروائی کہ خادم کنیسہ جو کنیسہ پرور ہو کو قتل کرنے کا حکم دیا جبکہ راہب کے قتل سے منع فرمایا ؟ کہتے ہیں : میرے خیال کے مطابق صرف انھوں نے اپنے آپ کو روک رکھا ہے۔ اس نے کہا : ہاں ! لیکن شمامہ یہ لڑائی کی ابتدا کرواتے ہیں اور خود لڑائی کرتے ہیں اور راہب لوگوں کی رائے یہ ہوتی ہے کہ لڑائی نہ کی جائے اور اللہ کا فرمان ہے : { وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ } [البقرۃ ١٩٠] ” اور تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرو ان لوگوں سے جو تم سے لڑائی کرتے ہیں۔ “

18158

(١٨١٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ یَزِیدَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ إِلَی الشَّامِ فَمَشَی مَعَہُ یُشَیِّعُہُ قَالَ یَزِیدُ : إِنِّی أَکْرَہُ أَنْ تَکُونَ مَاشِیًا وَأَنَا رَاکِبٌ۔ قَالَ فَقَالَ : إِنَّکَ خَرَجْتَ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَإِنِّی أَحْتَسِبُ فِی مَشْیِی ہَذَا مَعَکَ ثُمَّ أَوْصَاہُ فَقَالَ لاَ تَقْتُلُوا صَبِیًّا وَلاَ امْرَأَۃً وَلاَ شَیْخًا کَبِیرًا وَلاَ مَرِیضًا وَلاَ رَاہِبًا وَلاَ تَقْطَعُوا مُثْمِرًا وَلاَ تُخَرِّبُوا عَامِرًا وَلاَ تَذْبَحُوا بَعِیرًا وَلاَ بَقَرَۃً إِلاَّ لِمَأْکَلٍ وَلاَ تُغْرِقُوا نَحْلاً وَلاَ تُحْرِقُوہُ ۔ وَقَدْ رُوِیَ فِی ذَلِکَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔[ضعیف ]
(١٨١٥٢) ابو عمران جونی فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے یزید بن ابی سفیان کو شام کی جانب روانہ کیا تو اس کے ساتھ پیدل چلے۔ یزید نے کہا : مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ پیادہ ہوں اور میں سوار ہوں۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا : آپ اللہ کے راستہ میں غزوہ کے لیے جا رہے ہیں جبکہ میں پیادہ چلنے میں ثواب کی نیت کیے ہوئے ہوں۔ پھر اس کو وصیت فرمائی کہ بچے، عورت، بہت زیادہ بوڑھے، بیمار اور راہب کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، آباد زمین کو ویران نہ کرنا، گائے اور اونٹ صرف کھانے کے لیے ذبح کرنا اور شہد کی مکھی کے چھتے کو ڈبونا اور جلانا نہیں ہے۔

18159

(١٨١٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ وَعُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْفِزْرِ حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّہِ وَبِاللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ لاَ تَقْتُلُوا شَیْخًا فَانِیًا وَلاَ طِفْلاً وَلاَ صَغِیرًا وَلاَ امْرَأَۃً وَلاَ تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَکُمْ وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥٣) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نام و نصرت کے ساتھ چلو اور رسول اللہ کے دین پر کسی بزرگ بوڑھے، بچے، چھوٹے اور عورت کو قتل نہ کرو۔ خیانت نہ کرو اور مال غنیمت اکٹھا کرو۔ اصلاح کرو اور احسان کرو۔ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

18160

(١٨١٥٤) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ الْقَاضِی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ نَظِیفٍ الْفَرَّائُ الْمِصْرِیُّ بِمَکَّۃَ رَحِمَہُ اللَّہُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی الْمَوْتِ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادٍ زُغْبَۃُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَبِیبَۃَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الْحُصَیْنِ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا بَعَثَ جَیْشًا وَفِی رِوَایَۃِ ابْنِ أَبِی أُوَیْسٍ قَالَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ کَانَ إِذَا بَعَثَ جُیُوشَہُ قَالَ : اخْرُجُوا بِاسْمِ اللَّہِ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ لاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تُمَثِّلُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلاَ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ ۔ وَلَیْسَ فِی رِوَایَۃِ الْمِصْرِیِّ قَوْلَہُ : وَلاَ تَغُلُّوا ۔ وَالْبَاقِی مِثْلُہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥٤) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی لشکر روانہ فرماتے۔ ابن ابی اویس کی روایت میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے لشکر روانہ کرتے تو فرماتے : تم اللہ کے نام کے ساتھ نکلو، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے ساتھ تم قتال کرتے ہو۔ دھوکا ، مثلہ، خیانت نہ کرو اور نہ بچوں اور پادریوں کو قتل کرو۔
لیکن مصری کی روایت میں یہ قول نہیں ہے : وَلَا تَغُلُّوْا

18161

(١٨١٥٥) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ عُمَرَ مَوْلَی عَنْبَسَۃَ الْقُرَشِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ نَبِیُّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ جَیْشًا مِنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ قَالَ : انْطَلِقُوا بِاسْمِ اللَّہِ ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ وَفِیہِ : وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِیدًا طِفْلاً وَلاَ امْرَأَۃً وَلاَ شَیْخًا کَبِیرًا وَلاَ تُعَوِّرُنَّ عَیْنًا وَلاَ تَعْقِرُنَّ شَجَرًا إِلاَّ شَجَرًا یَمْنَعُکُمْ قِتَالاً أَوْ یَحْجُزُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الْمُشْرِکِینَ وَلاَ تُمَثِّلُوا بِآدَمِیٍّ وَلاَ بَہِیمَۃٍ وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تَغُلُّوا ۔ فِی ہَذَا الإِسْنَادِ إِرْسَالٌ وَضَعْفٌ وَہُوَ بِشَوَاہِدِہِ مَعَ مَا فِیہِ مِنَ الآثَارِ یَقْوَی وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥٥) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کا لشکر مشرکین کی جانب روانہ کرتے تو فرماتے : اللہ کے نام کے ساتھ چلو۔ اس نے حدیث ذکر کی، جس میں ہے کہ تم بچوں، عورتوں اور زیادہ بوڑھے کو قتل نہ کرو۔ آنکھ خراب نہ کرو۔ صرف وہ درخت کاٹو جو تمہارے اور مشرکین کے درمیان لڑائی میں رکاوٹ بنتا ہو۔ کسی انسان و چوپائے کا مثلہ نہ کرو۔ دھوکا اور خیانت بھی نہ کرو۔

18162

(١٨١٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہْمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنِی ابْنُ صَفْوَانَ وَعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُشَیِّعًا لأَہْلِ مُؤْتَۃَ حَتَّی بَلَغَ ثَنِیَّۃَ الْوَدَاعِ فَوَقَفَ وَوَقَفُوا حَوْلَہُ فَقَالَ : اغْزُوا بِاسْمِ اللَّہِ فَقَاتِلُوا عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّکُمْ بِالشَّامِ وَسَتَجِدُونَ فِیہِمْ رِجَالاً فِی الصَّوَامِعِ مُعْتَزِلِینَ مِنَ النَّاسِ فَلاَ تَعْرِضُوا لَہُمْ وَسَتَجِدُونَ آخَرِینَ لِلشَّیْطَانِ فِی رُئُ وسِہِمْ مَفَاحِصُ فَافْلُقُوہَا بِالسُّیُوفِ وَلاَ تَقْتُلُوا امْرَأَۃً وَلاَ صَغِیرًا ضَرَعًا وَلاَ کَبِیرًا فَانِیًا وَلاَ تَقْطَعُنَّ شَجَرَۃً وَلاَ تَعْقِرُنَّ نَخْلاً وَلاَ تَہْدِمُوا بَیْتًا ۔ وَہَذَا أَیْضًا مُنْقَطِعٌ وَضَعِیفٌ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨١٥٦) حضرت خالد بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل موتہ کو الوداع کرتے ہوئے ثنیۃ الوداع تک جا پہنچے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے تو لوگ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر غزوہ کرو۔ تم اپنے اور خدا کے دشمنوں سے ملک شام میں قتال کرو۔ عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو کنیسہ میں دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ ہوں گے تو ان کے درپے نہ ہونا اور دوسری قسم کے لوگ جن کے سروں پر شیطانوں نے گھونسلے بنا رکھے ہوں گے۔ ان کو تلوار سے کاٹ ڈالو اور کسی عورت، چھوٹے بچے، زیادہ بوڑھے شخص کو قتل نہ کرو اور درخت، کھجور نہ کاٹو اور گھروں کو نہ گراؤ۔

18163

(١٨١٥٧) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سَعْدٍ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُکَیْرٍ أَبُو زَکَرِیَّا حَدَّثَنِی الْمُغِیَرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِیُّ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ حَدَّثَنِی الْمُرَقِّعُ بْنُ صَیْفِیٍّ عَنْ جَدِّہِ رِیَاحِ بْنِ الرَّبِیعِ أَخِی حَنْظَلَۃَ الْکَاتِبِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّہُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃٍ غَزَاہَا وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ عَلَی مُقَدِّمَتِہِ فَمَرَّ رِیَاحٌ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی امْرَأَۃٍ مَقْتُولَۃٍ مِمَّا أَصَابَتْہُ الْمُقَدِّمَۃُ فَوَقَفُوا یَنْظُرُونَ إِلَیْہَا وَیَعْجَبُونَ مِنْ خَلْقِہَا حَتَّی لَحِقَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی نَاقَۃٍ لَہُ قَالَ فَفَرَجُوا عَنِ الْمَرْأَۃِ فَوَقَفَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْہَا ثُمَّ قَالَ : ہَاہْ مَا کَانَتْ ہَذِہِ تُقَاتِلُ ۔ قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ فِی وُجُوہِ الْقَوْمِ فَقَالَ لأَحَدِہِمْ : الْحَقْ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فَلاَ یَقْتُلَنَّ ذُرِّیَّۃً وَلاَ عَسِیفًا۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ : رَبَاحُ بْنُ الرَّبِیعِ أَصَحُّ وَمَنْ قَالَ رِیَاحٌ فَہُوَ وَہَمٌ وَکَذَا قَالَ أَبُو عِیسَی۔ [حسن۔ تقدم برقم ١٨١٠٤]
(١٨١٥٧) مرقع بن صیفی اپنے دادا ریاح بن ربیع سے جو حنظلہ کاتب کے بھائی ہیں نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی غزوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا اور خالد بن ولید لشکر کے مقدمہ پر مقرر تھے۔ رباح اور صحابہ ایک مقتولہ عورت کے پاس سے گزرے جس کو مقدمہ کے لشکر نے قتل کردیا تھا۔ وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے اور اس کی شکل و صورت پر تعجب کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی اونٹنی پر آگئے۔ راوی کہتے ہیں کہ صحابہ عورت کے قریب سے ہٹ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا یہ لڑائی کرتی تھی ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے چہرے دیکھے اور کسی کو حکم دیا کہ جاؤ خالد بن ولید سے کہہ کر آؤ کہ وہ کسی بچے اور غلام کو قتل نہ کریں۔

18164

(١٨١٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَوُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ قَتْلِ الْوُصَفَائِ وَالْعُسَفَائِ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٥٨) ایوب سختیانی کسی شخص سے اور وہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوکر کے قتل سے منع فرمایا ہے۔

18165

(١٨١٥٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی زِیَادٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : اتَّقُوا اللَّہَ فِی الْفَلاَّحِینَ فَلاَ تَقْتُلُوہُمْ إِلاَّ أَنْ یَنْصِبُوا لَکُمُ الْحَرْبَ ۔
(١٨١٥٩) زید بن وہب حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : کسانوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو صرف ان کو قتل کرو جو تمہارے خلاف لڑائی میں مدمقابل آجائیں۔ [ضعیف ]

18166

(١٨١٦٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ الرَّازِیُّ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کَانُوا لاَ یَقْتُلُونَ تُجَّارَ الْمُشْرِکِینَ ۔
(١٨١٦٠) ابو زبیر حضرت جابر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ مشرکین تاجر لوگوں کو قتل نہ کرتے تھے۔ [ضعیف ]

18167

(١٨١٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحَارِثِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرٍو ہُوَ ابْنُ حَمْدَانَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بَرَّادٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ بُرَیْدٍ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوسَی عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ حُنَیْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَی جَیْشِ أَوْطَاسٍ فَلَقِیَ دُرَیْدَ بْنَ الصِّمَّۃِ فَقُتِلَ دُرَیْدٌ وَہَزَمَ اللَّہُ أَصْحَابَہُ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ عَنْ أَبِی مُوسَی فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَخَلْتُ عَلَیْہِ وَہُوَ فِی بَیْتٍ عَلَی سَرِیرٍ مُرَمَّلٍ وَعِنْدَہُ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِیرِ بِظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَجَنْبَیْہِ فَأَخْبَرْتُہُ بِخَبَرِی وَخَبَرِ أَبِی عَامِرٍ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بَرَّادٍ وَأَخْرَجَاہُ جَمِیعًا عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٦١) ابو بردہ بن ابی موسیٰ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو ابو عامر کو لشکر اوطاس پر روانہ کردیا۔ وہ درید بن صمہ سے جا ملے جو قتل ہوچکا تھا۔ اللہ نے اس کے ساتھیوں کو شکست دے دی تھی۔ اس نے حدیث ذکر کی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں : جب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں باریک بنائی ہوئی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمر مبارک اور پہلوؤں پر تھے تو میں نے اپنی اور ابو عامر کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی۔

18168

(١٨١٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ فِی قِصَّۃِ أَوْطَاسٍ قَالَ : فَأَدْرَکَ رَبِیعَۃُ بْنُ رُفَیْعٍ دُرَیْدَ بْنَ الصِّمَّۃِ فَأَخَذَ بِخِطَامِ جَمَلِہِ وَہُوَ یَظُنُّ أَنَّہُ امْرَأَۃٌ وَذَلِکَ أَنَّہُ کَانَ فِی شِجَارٍ لَہُ فَإِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ فَأَنَاخَ بِہِ فَإِذَا ہُوَ شَیْخٌ کَبِیرٌ وَإِذَا ہُوَ دُرَیْدٌ وَلاَ یَعْرِفُہُ الْغُلاَمُ فَقَالَ دُرَیْدٌ : مَاذَا تُرِیدُ ؟ قَالَ : قَتْلَکَ ۔ قَالَ : وَمَنْ أَنْتْ ؟ قَالَ : أَنَا رَبِیعَۃُ بْنُ رُفَیْعٍ السُّلَمِیُّ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَہُ بِسَیْفِہِ فَلَمْ یُغْنِ شَیْئًا۔ فَقَالَ دُرَیْدٌ : بِئْسَمَا سَلَّحَتْکَ أُمُّکَ خُذْ سَیْفِی ہَذَا مِنْ مُؤَخَّرِ الشِّجَارِ ثُمَّ اضْرِبْ بِہِ وَارْفَعْ عَنِ الْعِظَامِ وَاخْفِضْ عَنِ الدِّمَاغِ فَإِنِّی کَذَلِکَ کُنْتُ أَقْتُلُ الرِّجَالَ فَقَتَلَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٦٢) محمد بن اسحاق بن یسار اوطاس کے قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ربیعہ بن رفیع نے درید بن صمہ کو پا لیا اور اس کے اونٹ کی مہار پکڑ لی۔ اس نے سمجھا : یہ عورت ہے اور یہ درختوں میں تھا۔ جب اونٹ کو بٹھایا تو وہ بوڑھا درید تھا۔ غلام اس کو جانتا نہ تھا درید نے کہا : تیرا کیا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا : تیرے قتل کا۔ درید نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں ربیعہ بن رفیع سلمی ہوں۔ راوی کہتے ہیں : پھر اس نے تلوار ماری۔ لیکن درید کو قتل نہ کرسکا تو درید نے کہا : تیرے والد نے تجھے اچھے اسلحہ سے لیس نہیں کیا۔ جاؤ درختوں کے پیچھے سے میری تلوار لاؤ، ہڈی سے بچا کر دماغ پر مارو۔ میں بھی اس طرح افراد کو قتل کرتا تھا تو اس طرح اس نے قتل کردیا۔

18169

(١٨١٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : قُتِلَ یَوْمَ حُنَیْنٍ دُرَیْدُ بْنُ الصِّمَّۃِ ابْنَ خَمْسِینَ وَمِائَۃِ سَنَۃٍ فِی شِجَارٍ لاَ یَسْتَطِیعُ الْجُلُوسَ فَذُکِرَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمْ یُنْکِرْ قَتْلَہُ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَقُتِلَ أَعْمَی مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ بَعْدَ الإِسَارِ ۔ وَہَذَا یَدُلُّ عَلَی قَتْلِ مَنْ لاَ یُقَاتِلُ مِنَ الرِّجَالِ الْبَالِغِینَ إِذَا أَبَی الإِسْلاَمَ وَالْجِزْیَۃَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : ہُوَ الزَّبِیرُ بْنُ بَاطَا الْقُرَظِیُّ قَدْ ذَکَرْنَا قِصَّتَہُ فِیمَا مَضَی۔ [صحیح ]
(١٨١٦٣) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ درید بن صمہ ١٥٠ سال کی عمر میں اپنے باغ میں قتل کیا گیا۔ وہ بیٹھنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کے قتل کا تذکرہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انکار نہ کیا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : بنو قریظہ کا نابینا شخص قید کے بعد قتل کردیا گیا۔ یہ دلالت ہے کہ بالغ آدمی جب اسلام و جزیہ سے بھاگ جائے تو قتل کرنا جائز ہے۔

18170

(١٨١٦٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اقْتُلُوا شُیُوخَ الْمُشْرِکِینَ وَاسْتَبْقُوا شَرْخَہُمْ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَلَوْ جَازَ أَنْ یُعَابَ قَتْلُ مَنْ عَدَا الرُّہْبَانِ لِمَعْنَی أَنَّہُمْ لاَ یُقَاتِلُونَ لَمْ یُقْتَلِ الأَسِیرُ وَلاَ الْجَرِیحُ الْمُثْبَتُ وَقَدْ ذُفِّفَ عَلَی الْجَرْحَی بِحَضْرَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْہُمْ أَبُو جَہْلِ بْنُ ہِشَامٍ ذَفَّفَ عَلَیْہِ ابْنُ مَسْعُودٍ وَغَیْرُہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٦٤) حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مشرکین کے بوڑھے اشخاص کو قتل کرو اور ان کے بچوں کو باقی رکھو۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اگر راہب کے علاوہ کسی کو قتل کرنے پر عیب لگایا جاتا تو قیدی اور زخمی کو کبھی قتل نہ کیا جاتا۔ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے ابو جہل بن ہشام زخمی کو قتل کیا تھا۔

18171

(١٨١٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ یَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَہْلٍ ؟ ۔ قَالَ : فَانْطَلَقَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَائَ فَنَزَلَ فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ قَالَ : أَنْتَ أَبُو جَہْلٍ ؟ قَالَ : وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ أَوْ قَتَلَہُ قَوْمُہُ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٦٥) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دیکھو ابو جہل کا کیا بنا ؟ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود گئے تو دیکھا کہ ابن عفراء نے اس کو قتل کردیا ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے نیچے اتر کر اس کی داڑھی پکڑ لی۔ پوچھا : تو ابو جہل ہے ؟ اس نے کہا : کیا تم نے مجھ سے کسی بڑے آدمی کو قتل کیا ہے یا اس کو اس کی قوم نے قتل کیا ہو۔

18172

(١٨١٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو وَکِیعٍ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ وَہُوَ مَصْرُوعٌ فَضَرَبْتُہُ بِسَیْفِی فَمَا صَنَعَ شَیْئًا وَنَدَرَ سَیْفُہُ فَضَرَبْتُہُ ثُمَّ أَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی یَوْمٍ حَارٍّ کَأَنَّمَا أُقَلَّ مِنَ الأَرْضِ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَذَا عَدُوُّ اللَّہِ أَبُو جَہْلٍ قَدْ قُتِلَ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : آللَّہِ لَقَدْ قُتِلَ ۔ قُلْتُ : آللَّہِ لَقَدْ قُتِلَ ۔ قَالَ : فَانْطَلِقْ بِنَا فَأَرِنَاہُ ۔ فَجَائَ فَنَظَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ : ہَذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ ۔ کَذَا قَالَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ۔ وَالْمَحْفُوظُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ وَقَدْ مَضَی ذَلِکَ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٠١٣-١٨٠١٤]
(١٨١٦٦) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن میں ابو جہل تک پہنچا۔ وہ گرا ہوا تھا، میں نے اسے اپنی تلوار ماری۔ اس نے کچھ بھی نہ کیا۔ اس کی تلوار گرگئی۔ میں نے اسے مارا۔ پھر میں ایک گرم دن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آیا۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ اللہ کا دشمن ابو جہل قتل کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! قتل کردیا گیا ؟ میں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم وہ قتل کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چلو ہمیں دکھاؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آ کر دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ اس امت کا فرعون تھا۔

18173

(١٨١٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ : أَنَّہُ کَانَ مَعَ أَبِیہِ یَوْمَ الْیَرْمُوکِ فَلَمَّا انْہَزَمَ الْمُشْرِکُونَ وَحُمِلَ فَجَعَلَ یُجِیزُ عَلَی جَرْحَاہُمْ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَلاَ أَعْلَمُ یَثْبُتُ عَنْ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ خِلاَفُ ہَذَا وَلَوْ کَانَ یَثْبُتُ لَکَانَ یُشْبِہُ أَنْ یَکُونَ أَمَرَہُمْ بِالْجَدِّ عَلَی قِتَالِ مَنْ یُقَاتِلُہُمْ وَلاَ یَتَشَاغَلُوا بِالْمَقَامِ عَلَی مَوَاضِعِ ہَؤُلاَئِ قَالَ الشَّیْخُ وَإِنَّمَا قَالَ ہَذَا لأَنَّ الرِّوَایَاتِ الَّتِی ذَکَرْنَاہَا عَنْ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کُلَّہَا مَرَاسِیلُ إِلاَّ أَنَّہَا رُوِیَتْ مِنْ أَوْجُہٍ وَرَوَاہَا ابْنُ الْمُسَیَّبِ وَہُوَ حَسَنُ الْمُرْسَلِ وَذَکَرَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَغْدَادِیِّ عَنْہُ حَدِیثَ الْمُرَقِّعِ ثُمَّ ضَعَّفَہُ بِأَنَّ مُرَقِّعًا لَیْسَ بِالْمَعْرُوفِ وَذَکَرَ حَدِیثَ أَیُّوبَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِیہِ ثُمَّ قَالَ وَہَذَا کَالَّذِی ذَکَرْنَا مِنْ قَبْلِہِ مِنَ الْمَجْہُولِ وَأَمَّا حَدِیثُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی حَبِیبَۃَ فَلَمْ یَذْکُرْہُ الشَّافِعِیُّ وَہُوَ أَضْعَفُ مِمَّا رَدَّہُ بِالْجَہَالَۃِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٦٧) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں غزوہ یرموک میں اپنے باپ کے ساتھ تھا۔ جب مشرکین کو شکست ہوئی اور قیدی بنائے گئے تو وہ اپنے زخمیوں کا فدیہ دیتے تھے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : ابوبکر (رض) سے ان کے خلاف ثابت نہیں ہے۔ اگر ان سے ثابت ہو تو یہ اس کے مناسب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دادا کو حکم دیا کہ وہ لڑنے والوں سے لڑائی کرے اور ان جگہوں پر وہ مصروف نہ ہوجائے۔

18174

(١٨١٦٨) حَدَّثَنَا الإِمَامُ أَبُو الطَّیِّبِ : سَہْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو : إِسْمَاعِیلُ بْنُ نُجَیْدٍ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ بْنِ یَحْیَی الرَّازِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ذِمَّۃُ الْمُسْلِمِینَ وَاحِدَۃٌ یَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لاَ یُقْبَلُ مِنْہُ عَدْلٌ وَلاَ صَرْفٌ وَمَنْ وَالَی مُؤْمِنًا بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لاَ یُقْبَلُ مِنْہُ عَدْلٌ وَلاَ صَرْفٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ الثَّوْرِیِّ ۔ وَقَدْ مَضَی حَدِیثُ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : الْمُؤْمِنُونَ تَکَافَأُ دِمَاؤُہُمْ وَہُمْ یَدٌ عَلَی مَنْ سِوَاہُمْ وَیَسْعَی بِذِمَّتِہِمْ أَدْنَاہُمْ ۔ وَمَضَی ذَلِکَ أَیْضًا فِی حَدِیثِ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٦٨) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمام مسلمانوں کا پناہ دینا ایک جیسا ہے ان کا ادنیٰ بھی پناہ دے سکتا ہے۔ جس نے مسلمان کی پناہ کو ختم کیا اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کے فرض و نفل قبول نہ کیے جائیں گے۔ (ب) حضرت علی (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ تمام مومنوں کے خون برابر ہیں، وہ اپنے مخالفوں پر ایک ہاتھ کی مانند متحد ہیں اور ان کا ادنیٰ ترین شخص بھی پناہ دے سکتا ہے۔

18175

(١٨١٦٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا جَدِّی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمْزَۃَ الزُّبَیْرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ کَثِیرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : یُجِیرُ عَلَی أُمَّتِی أَدْنَاہُمْ ۔ [صحیح لغیرہ ]
(١٨١٦٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کا ادنیٰ آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے۔

18176

(١٨١٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأُمَوِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ فُضَیْلِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ : کُنَّا مُصَافِّی الْعَدُوِّ قَالَ فَکَتَبَ عَبْدٌ فِی سَہْمٍ أَمَانًا لِلْمُشْرِکِینَ فَرَمَاہُمْ بِہِ فَجَائُ وا فَقَالُوا قَدْ آمَنْتُمُونَا قَالُوا لَمْ نُؤْمِنْکُمْ إِنَّمَا آمَنَکُمْ عَبْدٌ فَکَتَبُوا فِیہِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّ الْعَبْدَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَذِمَّتَہُ ذِمَّتُہُمْ وَآمَنَہُمْ ۔ [حسن ]
(١٨١٧٠) فضیل بن زید فرماتے ہیں کہ ہم دشمن کا مقابلہ کرتے۔ فرماتے ہیں کہ ایک غلام نے مشرکین کو اپنے حصہ کی پناہ دی۔ مسلمانوں نے ان کی پناہ قبول نہ کی۔ مشرکین نے آ کر کہا : تم نے ہمیں پناہ دی۔ صحابہ نے کہا : ہم تمہیں پناہ نہ دیں گے۔ تمہیں غلام نے پناہ دی ہے تو مشرکین حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا تو حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ غلام مسلمانوں سے ہیں، ان کی پناہ مسلمانوں کی پناہ شمار کی جائے گی تو حضرت عمر (رض) نے مشرکین کو پناہ دی۔

18177

(١٨١٧١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عِیسَی عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ زِیَادِ بْنِ مُسْلِمٍ : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْہِنْدِ قَدِمَ بِأَمَانِ عَبْدٍ ثُمَّ قَتَلَہُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ قَالَ فَبَعَثَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِدِیَتِہِ إِلَی وَرَثَتِہِ ۔ [حسن ]
(١٨١٧١) زیاد بن مسلم فرماتے ہیں کہ ہند کا ایک شخص غلام کی پناہ میں آیا تو مسلمانوں کے کسی شخص نے قتل کردیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی طرف سے اس کے ورثاء کو دیت ادا کی۔

18178

(١٨١٧٢) وَقَدْ رُوِیَ فِی حَدِیثِ أَہْلِ الْبَیْتِ مَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُلَیْمَانَ الصُّوفِیُّ قَالَ قُرِئَ عَلَی أَبِی عَلِیٍّ : مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الأَشْعَثِ الْکُوفِیِّ بِمِصْرَ وَأَنَا أَسْمَعُ قَالَ حَدَّثَنِی أَبُو الْحَسَنِ : مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا أَبِی إِسْمَاعِیلَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ أَبِیہِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَیْسَ لِلْعَبْدِ مِنَ الْغَنِیمَۃِ شَیْئٌ إِلاَّ خُرْثِیَّ الْمَتَاعِ وَأَمَانُہُ جَائِزٌ وَأَمَانُ الْمَرْأَۃِ جَائِزٌ إِذَا ہِیَ أَعْطَتِ الْقَوْمَ الأَمَانَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٧٢) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مال غنیمت سے غلام کو گھٹیا سامان دیا جائے گا۔ اس کی پناہ جائز ہے۔ عورت کی پناہ بھی جائز ہے جب وہ لوگوں کو پناہ دے دے۔

18179

(١٨١٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا السَّرِیُّ بْنُ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : کَامِلُ بْنُ أَحْمَدَ الْمُسْتَمْلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : بِشْرُ بْنُ أَحْمَدَ الإِسْفَرَائِینِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو سُلَیْمَانَ : دَاوُدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْہَقِیُّ بِخَسْرَوجِرْدَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ أَبِی النَّضْرِ أَنَّ أَبَا مُرَّۃَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أُمَّ ہَانِئٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا تَقُولُ : ذَہَبْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُہُ یَغْتَسِلُ وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ عَلَیْہَا السَّلاَمُ تَسْتُرُہُ بِثَوْبٍ قَالَتْ فَسَلَّمْتُ فَقَالَ مَنْ ہَذِہِ فَقُلْتُ أُمُّ ہَانِئٍ بِنْتُ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ مَرْحَبًا بِأُمِّ ہَانِئٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ قَامَ فَصَلَّی ثَمَانَ رَکَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَنَّہُ قَاتِلٌ رَجُلاً أَجَرْتُہُ فُلاَنُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِئٍ ۔ قَالَتْ أُمُّ ہَانِئٍ وَذَلِکَ ضُحًی۔ لَفْظُ حَدِیثِ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَفِی حَدِیثِ الْقَعْنَبِیِّ ثُمَّ انْصَرَفَ فَقُلْتُ وَالْبَاقِی سَوَائٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٧٣) حضرت ام ہانی بنت ابی طالب فرماتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ جب میں وہاں پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرما رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رض) نے ایک کپڑے کے ساتھ آپ کے لیے پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے سلام کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا : کون ہے ؟ میں نے جواب دیا : میں ام ہانی ابو طالب کی بیٹی ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ام ہانی کے لیے خوش آمدید ! جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر ایک کپڑے میں لپٹ کر آٹھ رکعت نفل ادا کیے۔ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میرا بھائی علی (رض) کہتا ہے کہ وہ ایک شخص فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کو میں نے پناہ دی ہے۔ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ام ہانی جس شخص کو تو نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں ام ہانی نے بیان کیا یہ چاشت کا وقت تھا۔

18180

(١٨١٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَحْمَدَ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَبْدِالْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی مُرَّۃَ مَوْلَی عَقِیلِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : أَجَرْتُ حَمَوَیْنِ لِی مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَدَخَلَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَتَفَلَّتَ عَلَیْہِمَا لِیَقْتُلَہُمَا وَقَالَ لِمَ تُجِیرِی الْمُشْرِکِینَ ؟ فَقَالَتْ : وَاللَّہِ لاَ تَقْتُلُہُمَا حَتَّی تَبْدَأَ بِی قَبْلَہُمَا فَخَرَجَتْ وَقَالَتْ : أَغْلِقُوا دُونَہُ الْبَابَ وَذَہَبَتْ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخْبَرَتْہُ فَقَالَ : مَا کَانَ ذَلِکِ لَہُ وَقَدْ آمَنَّا مَنْ آمَنْتِ وَأَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ ۔ [صحیح ]
(١٨١٧٤) ابو مرہ عقیل بن ابی طالب کے غلام فرماتے ہیں کہ ام ہانی نے اپنے دو مشرک دیوروں کو پناہ دی تو حضرت علی (رض) نے دونوں کے قتل کا ارادہ کیا اور کہا : تو نے مشرکین کو کیوں پناہ دی ہے۔ ام ہانی نے کہا : ان کے قتل سے پہلے مجھے قتل کرو۔ جانے لگی تو فرمایا : ان کا دروازہ بند کر دو ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر خبر دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے کیا ہے اے ام ہانی ! جس کو تو نے امن دیا ہم بھی امن دیتے ہیں۔ جس کو تو نے پناہ دی ہم بھی پناہ دیتے ہیں۔

18181

(١٨١٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ وَأَبُوبَکْرٍ وَأَبُو مُحَمَّدٍ وَأَبُوصَادِقٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عِیَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ سُلَیْمَانَ عَنْ کُرَیْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ أُمَّ ہَانِئٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَتْہُ أَنَّہَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: زَعَمَ ابْنُ أُمِّی عَلِیٌّ أَنَّہُ قَاتِلٌ مَنْ أَجَرْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ ۔ [صحیح ]
(١٨١٧٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ام ہانی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرے بھائی علی (رض) کا ارادہ ہے کہ جس کو میں نے پناہ دی ہے اس کو قتل کر دے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو تو نے پناہ دی ہے ہم نے بھی پناہ دے دی۔

18182

(١٨١٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُوبَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : إِنْ کَانَتِ الْمَرْأَۃُ لَتَأْخُذُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَیُجَوِّزُونَ ذَلِکَ لَہَا۔ [صحیح ]
(١٨١٧٦) اسود حضرت عائشہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ اگر عورت مسلمانوں کے خلاف پناہ دے دے تو اس کے پناہ دینے کو جائز خیال کرتے تھے۔

18183

(١٨١٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَبْدِالْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی ابْنُ لَہِیعَۃَ عَنْ مُوسَی بْنِ جُبَیْرٍ الأَنْصَارِیِّ عَنْ عِرَاکِ بْنِ مَالِکٍ الْغِفَارِیِّ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَّ زَیْنَبَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَرْسَلَ إِلَیْہَا زَوْجُہَا أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ أَنْ خُذِی لِی أَمَانًا مِنْ أَبِیکِ فَخَرَجَتْ فَأَطْلَعَتْ رَأْسَہَا مِنْ بَابِ حُجْرَتِہَا وَالنَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی صَلاَۃِ الصُّبْحِ یُصَلِّی بِالنَّاسِ فَقَالَتْ : أَیُّہَا النَّاسُ أَنَا زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَإِنِّی قَدْ أَجَرْتُ أَبَا الْعَاصِ فَلَمَّا فَرَغَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الصَّلاَۃِ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی لَمْ أَعْلَمْ بِہَذَا حَتَّی سَمِعْتُمُوہُ أَلاَ وَإِنَّہُ یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَدْنَاہُمْ ۔ [صحیح۔ بدون القصۃ ]
(١٨١٧٧) حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ زینب بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے خاوند ابو العاص بن ربیع نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پناہ لینے کے لیے بھیجا۔ وہ چلی تو ان کا سر حجرہ سے باہر نظر آ رہا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ فرمانے لگیں میں زینب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ہوں میں نے ابو العاص کو پناہ دی ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : میں بھی اس کے بارہ میں جانتا نہ تھا جو تم نے سنا خبردار مسلمانوں کا ادنیٰ آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے۔

18184

(١٨١٧٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ قَالَ : لَمَّا دَخَلَ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ عَلَی زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَاسْتَجَارَ بِہَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الصُّبْحِ فَلَمَّا کَبَّرَ فِی الصَّلاَۃِ صَرَخَتْ زَیْنَبُ أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی قَدْ أَجَرْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیعِ فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ صَلاَتِۃِ قَالَ : أَیُّہَا النَّاسُ ہَلْ سَمِعْتُمْ مَا سَمِعْتُ ؟ ۔ قَالُوا : نَعَمْ ۔ قَالَ : أَمَا وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا عَلِمْتُ بِشَیْئٍ مِمَّا کَانَ حَتَّی سَمِعْتُ مِنْہُ مَا سَمِعْتُمْ إِنَّہُ یُجِیرُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَدْنَاہُمْ ۔ ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی زَیْنَبَ فَقَالَ : أَیْ بُنَیَّۃُ أَکْرِمِی مَثْوَاہُ وَلاَ یَقْرَبَنَّکِ فَإِنَّکِ لاَ تَحِلِّینَ لَہُ وَلاَ یَحِلُّ لَکِ ۔ ہَکَذَا أَخْبَرَنَا بِہِ فِی کِتَابِ الْمَغَازِی مُنْقَطِعًا وَحَدَّثَنَا بِہِ فِی کِتَابِ الْمُسْتَدْرَکِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ صَرَخَتْ زَیْنَبُ فَذَکَرَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٧٨) یزید بن رومان بیان کرتے ہیں کہ جب ابو العاص بن ربیع حضرت زینب کے پاس آیا اور ان سے پناہ کا مطالبہ کیا تو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز کے لیے چلے گئے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کی تکبیر کہی تو زینب نے بلند آواز سے کہا : اے لوگو ! میں نے ابو العاص بن ربیع کو پناہ دے دی ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا : اے لوگو ! کیا تم نے سنا جو میں نے سنا ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ! پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا یہاں تک کہ میں نے ان سے سنا جو تم نے بھی سنا ہے اور فرمایا کہ مسلمانوں کا ادنیٰ شخص بھی پناہ دے سکتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زینب کے پاس آئے اور فرمایا : اے بیٹی ! اچھا ٹھکانا دو ، لیکن وہ آپ کے قریب نہ آئے۔ کیونکہ تو اس کے لیے اور وہ تیرے لیے حلال نہیں ہے۔
(ب) عروہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ زینب نے بلند آواز سے کہا۔

18185

(١٨١٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ الْبَہِیِّ عَنْ زَیْنَبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ قُلْتُ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیعِ إِنْ قَرُبَ فَابْنُ عَمٍّ وَإِنْ بَعُدَ فَأَبُو وَلَدٍ وَإِنِّی قَدْ أَجَرْتُہُ فَأَجَارَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقِیلَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّ زَیْنَبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ مُرْسَلٌ۔
(١٨١٧٩) حضرت زینب فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ابو العاص بن ربیع قریبی رشتہ دار چچا کا بیٹا ہے۔ اگر دور کی رشتہ داری ہو تو بچوں کا باپ ہے۔ میں نے اس کو پناہ دے دی ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو پناہ دے دی۔
(ب) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ زینب (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا۔۔۔

18186

(١٨١٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : جَائَ نَا کِتَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَإِذَا حَاصَرْتُمْ قَصْرًا فَأَرَادُوکُمْ أَنْ یَنْزِلُوا عَلَی حُکْمِ اللَّہِ فَلاَ تُنْزِلُوہُمْ فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْرُونَ مَا حُکْمُ اللَّہِ فِیہِمْ وَلَکِنْ أَنْزِلُوہُمْ عَلَی حُکْمِکُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِیہِمْ مَا أَحْبَبْتُمْ وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ لاَ تَخَفْ فَقَدْ آمَنَہُ وَإِذَا قَالَ مَتَرْسْ فَقَدْ أَمَّنَہُ وَإِذَا قَالَ لَہُ أَظُنُّہُ لاَ تَدْحَلْ فَقَدْ أمَّنَہُ فَإِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ الأَلْسِنَۃَ ۔ وَرَوَاہُ الثَّوْرِیُّ عَنِ الأَعْمَشِ فَقَالَ فِی آخِرِہِ : وَإِذَا قَالَ لاَ تَدْہَلْ فَقَدْ أَمَّنَہُ فَإِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ الأَلْسِنَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٨١٨٠) ابو وائل فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر بن خطاب کا خط آیا کہ جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور ان کا ارادہ ہو کہ تم انھیں اللہ کے حکم پر اتارو تو ایسا نہ کرنا۔ کیونکہ تم نہیں جانتے ان کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے بلکہ اپنے حکم پر اتارو۔ پھر اپنی مرضی کا ان کے بارے میں فیصلہ کرو اور جب کوئی شخص کسی آدمی سے کہے تو ڈر نہیں۔ اس نے تجھے امن دے دیا ہے اور جب اس نے لفظ متوسی کہا تو اس نے امن دے دیا اور جب اس نے لَا تَدْخُلْ کے الفاظ کہہ دیے تب بھی پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ زبانوں کو جانتے ہیں۔
ثوری اعمش سے فرماتے ہیں، جس کے آخر میں ہے کہ لَا تَدْخُلْ کے الفاظ کے ساتھ بھی پناہ دی جاتی ہے کیونکہ اللہ رب العزت زبانوں کو جانتے ہیں۔

18187

(١٨١٨١) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَلِیفَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : جَائَ کِتَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَنَحْنُ مُحَاصِرُونَ قَصْرًا فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨١٨١) ابو وائل فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت عمر (رض) کا خط آیا جس وقت ہم ایک قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔

18188

(١٨١٨٢) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ لَفْظًا وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قِرَائَ ۃً عَلَیْہِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا ہِلاَلُ بْنُ الْعَلاَئِ الرَّقِّیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیُّ وَزِیَادُ بْنُ جُبَیْرٍ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ حَیَّۃَ قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ النَّاسَ مِنْ أَفْنَائِ الأَمْصَارِ یُقَاتِلُونَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ فَبَیْنَمَا عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَذَلِکَ إِذْ أُتِیَ بِرَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ أَہْلِ الأَہْوَازِ قَدْ أُسِرَ فَلَمَّا أُتِیَ بِہِ قَالَ بَعْضُ النَّاسِ لِلْہُرْمُزَانِ : أَیَسُرُّکَ أَنْ لاَ تُقْتَلَ ؟ قَالَ : نَعَمْ وَمَا ہُوَ ۔ قَالَ : إِذَا قَرَّبُوکَ مِنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَکَلَّمَکَ فَقُلْ إِنِّی أَفْرَقُ أَنْ أُکَلِّمَکَ فَإِنْ أَرَادَ قَتْلَکَ فَقُلْ إِنِّی فِی أَمَانٍ إِنَّکَ قُلْتَ لاَ تَفْرَقْ قَالَ فَحَفِظَہَا الرَّجُلُ فَلَمَّا أُتِیَ بِہِ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ لَہُ فِی بَعْضِ مَا یُسَائِلُہُ عَنْہُ إِنِّی أَفْرَقُ یَعْنِی فَقَالَ لاَ تَفْرَقْ قَالَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ کَلاَمِہِ سَائَ لَہُ عَمَّا شَائَ اللَّہُ ثُمَّ قَالَ لَہُ إِنِّی قَاتِلُکَ قَالَ فَقَالَ قَدْ أَمَّنْتَنِی فَقَالَ : وَیْحَکَ مَا أَمَّنْتُکَ ؟ قَالَ قُلْتَ : لاَ تَفْرَقْ ۔ قَالَ : صَدَقَ إِمَّا لِی فَأَسْلِمْ قَالَ نَعَمْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ ۔
(١٨١٨٢) جبیر بن حیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے لوگوں کو مختلف شہروں میں مشرکین سے جہاد کے لیے بھیجا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس اہل اہواز میں سے کسی مشرک آدمی کو قیدی بنا کر بلایا جاتا تو بعض لوگوں نے ہرمزان سے کہا : کیا آپ کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ آپ قتل نہ کریں۔ اس نے کہا : وہ کیسے ؟ کہا : جب وہ تجھے امیرالمومنین کے قریب کریں اور وہ تم سے بات کرنا چاہیں تو تم کہنا : میں تنہائی میں آپ سے بات کروں گا۔ پھر اگر وہ تجھے قتل کرنا چاہیں تو کہہ دینا : میں امان میں ہوں۔ وہ لاتفرق کہہ دیں گے۔ اس شخص نے یہ بات یاد کرلی۔ پھر جب اسے حضرت عمر (رض) کے پاس لایا گیا تو اس نے سوالات کا جواب دینے کے لیے تنہائی کا مطالبہ کردیا۔ آپ نے فرمایا : ” لاتفرق “ پھر جب اس سے گفتگو کر کے فارغ ہوئے تو انھیں گرانی محسوس ہوئی اور فرمایا : میں تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا : آپ نے مجھے امان دی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تیرا ناس ہو میں نے تجھے کب امان دی ؟ اس نے کہا : آپ نے ” لاتفرق “ کہا ہے۔ فرمایا : اس نے سچ کہا اور فرمایا : اب تو میرے لیے اسلام قبول کرے۔ اس نے قبول کیا۔۔۔ آگے طویل حدیث ہے۔

18189

(١٨١٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا الثَّقَفِیُّ عَنْ حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : حَاصَرْنَا تُسْتَرَ فَنَزَلَ الْہُرْمُزَانُ عَلَی حُکْمِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَدِمْتُ بِہِ عَلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَیْہِ قَالَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ تَکَلَّمْ قَالَ کَلاَمُ حَیٍّ أَوْ کَلاَمُ مَیِّتٍ قَالَ تَکَلَّمْ لاَ بَأْسَ ۔ قَالَ : إِنَّا وَإِیَّاکُمْ مَعَاشِرَ الْعَرَبِ مَا خَلَّی اللَّہُ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ کُنَّا نَتَعَبَّدُکُمْ وَنَقْتُلُکُمْ وَنَغْصِبُکُمْ فَلَمَّا کَانَ اللَّہُ مَعَکُمْ لَمْ یَکُنْ لَنَا یَدَانِ ۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : مَا تَقُولُ ؟ فَقُلْتُ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ تَرَکْتُ بَعْدِی عَدُوًّا کَثِیرًا وَشَوْکَۃً شَدِیدَۃً فَإِنْ قَتَلْتَہُ یَأْیَسُ الْقَوْمُ مِنَ الْحَیَاۃِ وَیَکُونُ أَشَدَّ لِشَوْکَتِہِمْ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ وَمَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ فَلَمَّا خَشِیتُ أَنْ یَقْتُلَہُ قُلْتُ لَیْسَ إِلَی قَتْلِہِ سَبِیلٌ قَدْ قُلْتَ لَہُ تَکَلَّمْ لاَ بَأْسَ ۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : ارْتَشَیْتَ وَأَصَبْتَ مِنْہُ ۔ فَقَالَ : وَاللَّہِ مَا ارْتَشَیْتُ وَلاَ أَصَبْتُ مِنْہُ قَالَ لَتَأْتِیَنِّی عَلَی مَا شَہِدْتَ بِہِ بِغَیْرِکَ أَوْ لأَبْدَأَنَّ بِعُقُوبَتِکَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَلَقِیتُ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَشَہِدَ مَعِی وَأَمْسَکَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَسْلَمَ یَعْنِی الْہُرْمُزَانَ وَفُرِضَ لَہُ ۔
(١٨١٨٣) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : ہم نے تستر کا محاصرہ کیا۔ ہرمزان حضرت عمر (رض) کے پر نیچے اترا میں اسے حضرت عمر (رض) کے پاس لے کر چلا۔ جب ہم آپ کے پاس پہنچے تو عمر (رض) نے فرمایا : بات کرو۔ اس نے پوچھا : زندہ والی بات کروں یا مردہ والی ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : بات کرو کوئی حرج نہیں۔ اس نے کہا : ہم اور آپ عرب کے قبائلی ہیں۔ ہمارے اور تمہارے درمیاناللہ نے کوئی علیحدگی نہیں رکھی۔ ہم تمہاری عبادت کرتے تھے اور انھیں قتل کرتے تھے اور تمہارا مال غصب کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تمہارے ساتھ ہو لیا تو ہمارے دونوں ہاتھ نہ رہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے کہا : اے امیر المومنین میں نے اپنے بعد بہت زیادہ دشمن اور سخت شورش چھوڑی ہے۔ اگر آپ اسے قتل کردیں گے تو لوگ زندگی سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کی شورش میں اضافہ ہوجائے گا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مجھے براد بن مالک اور مجزہ بن ثور کے قتل سے حیاء آتی ہے۔ جب میں نے خوف محسوس کیا کہ وہ اسے قتل ہی کریں گے تو میں نے کہا : آپ کے لیے اسے قتل کرے گا کوئی جواز نہیں ہے آپ اسے کہہ چکے ہیں : بات کرو کوئی حرج نہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تو نے رشوت لی ہے اور تو درستگی کو پہنچا۔ میں نے کہا : قسم بخدا ! نہ تو میں نے رشوت لی ہے اور نہ ہی کسی بھلائی پہنچا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : یا تو میرے پاس اس بات پر کوئی گواہ لاؤ ورنہ میں تجھے ضرور سزا دے کر رہوں گا۔ کہتے ہیں میں نکلا اور زبیر بن عوام (رض) سے ملا۔ انھوں نے میرے ساتھ گواہی دی۔ حضرت عمر (رض) رک گئے اور ہرمزان مسلمان ہوگیا اور ان کے لیے مقرر کیا گیا۔

18190

(١٨١٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَنْبَأَنِی سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ بْنَ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ أَہْلَ قُرَیْظَۃَ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدٍ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَائَ فَقَالَ : قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ ۔ فَقَعَدَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : إِنَّ ہَؤُلاَئِ قَدْ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ ۔ قَالَ : فَإِنِّی أَحْکُمُ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٨٤) ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو قریظہ والوں نے سعد (رض) کو فیصل مانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی جانب پیغام بھیجا وہ آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے سردار یا اپنے بہتر انسان کی جانب اٹھو تو حضرت سعد رسول اللہ کے پاس بیٹھ گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد یہ تیرے فیصلے پر راضی ہوئے ہیں تو اس نے کہا کہ میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا جائے۔

18191

(١٨١٨٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَالْحُسَیْنُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ : أُصِیبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاہُ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَہُ حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَۃِ رَمَاہُ فِی الأَکْحَلِ فَضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْمَۃً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُودَہُ مِنْ قَرِیبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الْخَنْدَقِ وَوَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ أَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَہْوَ یَنْفُضُ رَأْسَہُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللَّہِ مَا وَضَعْنَاہَا اخْرُجْ إِلَیْہِمْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَأَیْنَ ؟ ۔ قَالَ : ہَا ہُنَا وَأَشَارَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَیْہِمْ فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَرَدَّ الْحُکْمَ فِیہِمْ إِلَی سَعْدٍ قَالَ فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَۃُ وَتُسْبَی الذُّرِّیَّۃُ وَتُقْسَمَ أَمْوَالُہُمْ قَالَ أَبِی فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ کُلُّہُمْ عَنِ ابْنِ نُمَیْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٨٥) ہشام بن عروہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ خندق کے دن حضرت سعد کو زخم لگا، جو حبان بن عرقہ قریشی نے لگایا تھا۔ اس نے رگ حیات پر تیر مارا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کے لیے مسجد میں خیمہ لگوایا تاکہ قریب سے اس کی تیمار داری کرسکیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق سے واپس آئے اور اپنے ہتھیار اتار دیے اور غسل کرلیا۔ اس وقت جبرائیل امین (علیہ السلام) اپنے سر سے غبار کو جھاڑتے ہوئے آئے۔ کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلحہ اتار دیا، ہم نے اللہ کی قسم اسلحہ نہیں اتارا۔ آپ ان کی جانب نکلیے۔ آپ نے پوچھا : کہاں ؟ جبرائیل کہتے ہیں : وہاں اور بنو قریظہ کی جانب اشارہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی جانب گئے تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر اتر پڑے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ حضرت سعد (رض) کی جانب منتقل کردیا۔ حضرت سعد (رض) نے کہا : ان کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ لڑائی کرنے والوں کو قتل کیا جائے، بچوں کو قیدی بنایا جائے اور ان کے مالوں کو تقسیم کیا جائے۔ میرے باپ کہتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے ان کے بارے میں اللہ کے حکم کے موافق فیصلہ دیا۔

18192

(١٨١٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ أَمِیرًا عَلَی جَیْشٍ أَوْصَاہُ بِتَقْوَی اللَّہِ فِی خَاصَّۃِ نَفْسِہِ وَبِمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ خَیْرًا۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ : وإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوکَ أَنْ تُنْزِلَہُمْ عَلَی حُکْمِ اللَّہِ فَلاَ تُنْزِلْہُمْ فَإِنَّکَ لاَ تَدْرِی أَتُصِیبُ حُکْمَ اللَّہِ أَمْ لاَ ۔ زَادَ فِیہِ وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ : وَلَکِنْ أَنْزِلُوہُمْ عَلَی حُکْمِکُمْ ثُمَّ اقْضُوا فِیہِمْ بَعْدُ مَا شِئْتُمْ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٣١]
(١٨١٨٦) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کو لشکر کا امیر بناتے تو اسے خاص طور پر اللہ کے تقویٰ کی اور مومنوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت فرماتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب آپ کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کریں اگر وہ چاہیں کہ آپ ان کو اللہ کے حکم پر اتاریں تو آپ ایسا نہ کریں۔ آپ نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے حکم کو پاسکیں گے یا نہیں۔ (ب) وکیع سفیان سے نقل فرماتے ہیں : لیکن انھیں اپنے حکم پر اتارو، پھر ان کے بارے میں جو چاہو فیصلہ کرو۔

18193

(١٨١٨٧) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَنْبَارِیُّ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ فَذَکَرَہُ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ وَأَخْرَجَہُ مِنْ حَدِیثِ وَکِیعٍ وَرُوِّینَا فِی ذَلِکَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی الْبَابِ قَبْلَہُ ۔
(١٨١٨٧) خالی

18194

(١٨١٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا حُجَیْنُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو الضَّمْرِیِّ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ إِلَی الشَّامِ فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ قَالَ لِی عُبَیْدُ اللَّہِ : ہَلْ لَکَ فِی وَحْشِیٍّ نَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ ؟ وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ فِی رِوَایَتِہِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْفَضْلِ الْہَاشِمِیُّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ کَذَا فِی کِتَابِی قَالَ أَقْبَلْنَا مِنَ الرُّومِ فَلَمَّا قَرُبْنَا مِنْ حِمْصَ قُلْنَا لَوْ مَرَرْنَا بِوَحْشِیٍّ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ فَلَقِینَا رَجُلاً فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ ہُوَ رَجُلٌ قَدْ غَلَبَ عَلَیْہِ الْخَمْرُ فَإِنْ أَدْرَکْتُمَاہُ وَہُوَ صَاحٍ لَمْ تَسْأَلاَہُ عَنْ شَیْئٍ إِلاَّ أَخْبَرَکُمَا وَإِنْ أَدْرَکْتُمَاہُ شَارِبًا فَلاَ تَسْأَلاَہُ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلَیْہِ قَدْ أُلْقِیَ لَہُ شَیْئٌ عَلَی بَابِہِ وَہُوَ جَالِسٌ صَاحٍ فَقَالَ : ابْنُ الْخِیَارِ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ۔ قَالَ : مَا رَأَیْتُکَ مُنْذُ حَمَلْتُکَ إِلَی أُمِّکَ بِذِی طُوًی إِذْ وَضَعَتْکَ فَرَأَیْتُ قَدَمَیْکَ فَعَرَفْتُہُمَا قَالَ قُلْتُ جِئْنَاکَ نَسْأَلُکَ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ قَالَ سَأُحَدِّثُکُمَا کَمَا حَدَّثْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ سَأَلَنِی کُنْتُ عَبْدًا لآلِ مُطْعِمٍ فَقَالَ لِی ابْنُ أَخِی مُطْعِمٍ : إِنْ أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ بِعَمِّی فَأَنْتَ حُرٌّ فَانْطَلَقْتُ یَوْمَ أُحُدٍ مَعِی حَرْبَتِی وَأَنَا رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَۃِ أَلْعَبُ بِہَا لَعِبَہُمْ فَخَرَجْتُ یَوْمَئِذٍ مَا أُرِیدُ أَنْ أَقْتُلَ أَحَدًا وَلاَ أُقَاتِلَہُ إِلاَّ حَمْزَۃَ فَخَرَجْتُ فَإِذَا أَنَا بِحَمْزَۃَ کَأَنَّہُ بَعِیرٌ أَوْرَقُ مَا یُرْفَعُ لَہُ أَحَدٌ إِلاَّ قَمَعَہُ بِالسَّیْفِ فَہِبْتُہُ وَبَادَرَنِی إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنْ بَنِی وَلَدِ سِبَاعٍ فَسَمِعْتُ حَمْزَۃَ یَقُولُ : إِلَیَّ یَا ابْنَ مُقَطِّعَۃِ الْبُظُورِ فَشَدَّ عَلَیْہِ فَقَتَلَہُ وَجَعَلْتُ أَلُوذُ مِنْہُ فَلُذْتُ مِنْہُ بِشَجَرَۃٍ وَمَعِی حَرْبَتِی حَتَّی إِذَا اسْتَمْکَنْتُ مِنْہُ ہَزَزْتُ الْحَرْبَۃَ حَتَّی رَضِیتُ مِنْہَا ثُمَّ أَرْسَلْتُہَا فَوَقَعَتْ بَیْنَ ثَنْدُوَتَیْہِ وَنَہَزَ لِیَقُومَ فَلَمْ یَسْتَطِعْ فَقَتَلْتُہُ ثُمَّ أَخَذْتُ حَرْبَتِی مَا قَتَلْتُ أَحَدًا وَلاَ قَاتَلْتُہُ فَلَمَّا جِئْتُ عَتَقْتُ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَرَدْتُ الْہَرَبَ مِنْہُ أُرِیدُ الشَّامَ فَأَتَانِی رَجُلٌ فَقَالَ وَیْحَکَ یَا وَحْشِیُّ وَاللَّہِ مَا یَأْتِی مُحَمَّدًا أَحَدٌ یَشْہَدُ بِشَہَادَتِہِ إِلاَّ خَلَّی عَنْہُ فَانْطَلَقْتُ فَمَا شَعَرَ بِی إِلاَّ وَأَنَا وَاقِفٌ عَلَی رَأْسِہِ أَشْہَدُ بِشَہَادَۃِ الْحَقِّ فَقَالَ : أَوَحْشِیٌّ؟ ۔ قُلْتُ : وَحْشِیٌّ۔ قَالَ : وَیْحَکَ حَدِّثْنِی عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ ۔ فَأَنْشَأْتُ أُحَدِّثُہُ کَمَا حَدَّثْتُکُمَا فَقَالَ : وَیْحَکَ یَا وَحْشِیُّ غَیِّبْ عَنِّی وَجْہَکَ فَلاَ أَرَاکَ ۔ فَکُنْتُ أَتَّقِی أَنْ یَرَانِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَبَضَ اللَّہُ نَبِیَّہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا کَانَ مِنْ أَمْرِ مُسَیْلِمَۃَ مَا کَانَ وَابْتُعِثَ إِلَیْہِ الْبَعْثُ ابْتُعِثْتُ مَعَہُ وَأَخَذْتُ حَرْبَتِی فَالْتَقَیْنَا فَبَادَرْتُہُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَرَبُّکَ أَعْلَمُ أَیُّنَا قَتَلَہُ فَإِنْ کُنْتُ قَتَلْتُہُ فَقَدْ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ وَشَرَّ النَّاسِ ۔ قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ : کُنْتُ فِی الْجَیْشِ یَوْمَئِذٍ فَسَمِعْتُ قَائِلاً یَقُولُ فِی مُسَیْلِمَۃَ قَتَلَہُ الْعَبْدُ الأَسْوَدُ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی دَاوُدَ وَحَدِیثُ حُجَیْنٍ بِمَعْنَاہُ یَزِیدُ وَیَنْقُصُ لَمْ یَذْکُرْ حَدِیثَ الشُّرْبِ وَلاَ قَوْلِہِ إِنْ کُنْتُ قَتَلْتُہُ ۔ وَقَدْ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ : مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ حُجَیْنِ بْنِ الْمُثَنَّی۔ [صحیح۔ بخاری ٤٠٧٢]
(١٨١٨٨) جعفر بن عمرو ضمری فرماتے ہیں : میں عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ ہشام کی جانب گیا۔ جب ہم حمص پہنچے تو مجھے عبیداللہ نے کہا : کیا ہم وحشی سے حضرت حمزہ کے قتل کے بارے میں پوچھیں۔
(ب) سلیمان بن یسار عبیداللہ بن عدی خیار سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم روم سے آئے۔ جب ہم حمص کے قریب پہنچے تو ہم نے کہا : اگر ہم وحشی کے پاس سے گزرے تو حضرت حمزہ کے قتل کے بارے میں اس سے سوال کریں گے۔ ہماری ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔ ہم نے اس کے سامنے تذکرہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ ایسا شخص ہے کہ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو دروازے کے سامنے اس کے لیے کوئی چیز بچھائی گئی تھی جس پر وہ بیٹھا چیخ رہا تھا۔ اس نے کہا : ابن خیار ؟ میں نے کہا : ہاں۔ اس نے کہا : میں نے تجھے اس وقت دیکھا تھا جب تیری والدہ نے تجھے جنم دیا اور میں تجھے اٹھا کر تیری والدہ کے پاس ذی طویٰ نامی جگہ پر لے گیا تھا میں نے تیرے دونوں قدموں کو دیکھ کر پہچان لیا ہے۔ کہتے ہیں : میں نے کہا : ہم آپ کے پاس حضرت حمزہ کے قتل کے بارے میں پوچھنے کے لیے آئے ہیں۔ اس نے کہا : تمہیں ویسے ہی بیان کرتا ہوں جیسے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا تھا جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا۔ میں آل مطعم کا غلام تھا، میرے بھتیجے مطعم نے مجھے کہا : اگر تو نے میرے چچا حمزہ کو قتل کردیا تو تو آزاد ہے۔ احد کے دن میں اپنا نیزہ لے کر چلا۔ میں حبشی آدمی تھا ہم تیروں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ میں اس دن کسی کو قتل اور کسی سے لڑائی کی غرض سے نہ گیا تھا صرف حمزہ کو قتل کرنا مقصود تھا۔ میں نکلا کہ اچانک حمزہ گویا کہ وہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہے جو بھی ان کے سامنے آتا تلوار سے اس کا خاتمہ کردیتے۔ میں ڈر گیا بنی ولد سباع کے ایک شخص نے ان کی جانب جلد بازی کی۔ میں نے حمزہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے : اے ختنے کرنے والی عورت کے بیٹے ! اور اس کے پیچھے ہو کر اس کو قتل کردیا اور میں بھی ان سے بچاؤ حاصل کررہا تھا۔ میں ایک درخت کی اوٹ میں ہو کر بچا اور میرے پاس نیزہ بھی تھا یہاں تک کہ جب میں نے اس پر قابو پا لیا تو میں نے اپنے نیزے کو حرکت دی یہاں تک کہ میں اس سے مطمئن ہوگیا۔ پھر میں نے نیزے کو چھوڑا تو وہ چھاتی کے درمیان لگا۔ انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ اٹھ نہ سکے۔ میں نے انھیں قتل کردیا۔ میں نے اپنا نیزہ پکڑا نہ تو میں نے کسی اور کو قتل کیا اور نہ ہی کسی سے لڑائی کی۔ جب میں واپس آیا تو میں آزاد تھا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو میں نے شام کی جانب بھاگ جانے کا ارادہ کیا تو ایک شخص نے مجھے کہا : اے وحشی ! تجھ پر افسوس اللہ کی قسم جو بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اسلام قبول کرلیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں چلا مجھے معلوم نہیں میں صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہو کر حق کی گواہی دیتا رہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا وحشی ہے ؟ میں نے کہا : جی وحشی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے اوپر افسوس مجھے حمزہ کے قتل کے بارے میں بیان کرو۔ میں نے ایسے ہی بیان کیا جیسے تم دونوں کو بیان کیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے وحشی ! اپنا چہرہ مجھ سے چھپالو، میں تجھے نہ دیکھوں۔ وحشی کہتے ہیں کہ میں بچا کرتا تھا کہ رسول اللہ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں کہ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فوت کرلیا۔ جب مسیلمہ کا معاملہ پیش آیا تو جو لشکر بھی اس کی جانب بھیجا جاتا میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوتا اور میں نے اپنے نیزے کو پکڑ لیا۔ ہماری ملاقات ہوگئی تو میں اور ایک انصاری شخص نے اس کی طرف جلدی کی۔ تیرا رب بہتر جانتا ہے کہ ہم سے کس نے اس کو قتل کیا۔ اگر میں نے اس کو قتل کیا ہے تو میں نے لوگوں میں سے بہترین اور بدترین شخص کو قتل کیا۔
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا، وہ کہہ رہے تھے : میں بھی اس دن لشکر میں شامل تھا کہ میں نے کسی کہنے والے سے سنا کہ وہ مسیلمہ کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ اس کو سیاہ غلام نے قتل کردیا۔

18195

(١٨١٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَإِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَزَکَرِیَّا بْنُ دَاوُدَ الْخَفَّافُ قَالُوا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی یَعْلَی بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ أَنَّہُ سَمِعَہُ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الشِّرْکِ قَتَلُوا فَأَکْثَرُوا وَزَنُوا فَأَکْثَرُوا ثُمَّ أَتَوْا مُحَمَّدًا - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا إِنَّ الَّذِی تَقُولُ وَتَدْعُو إِلَیْہِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا کَفَّارَۃً فَنَزَلَتْ { وَ الَّذِینَ لاَ یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُونَ } [الفرقان ٦٨] وَنَزَلَتْ { یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ } [الزمر ٥٣] الآیَۃَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ وَغَیْرِہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٨٩) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مشرک لوگوں نے قتل و زنا زیادہ کیا۔ پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آ کر کہنے لگے کہ آپ میرے کیے ہوئے اعمال کا کفارہ بتائیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی : { وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ } [الفرقان ٦٨] ” وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں۔ “
اور یہ آیت نازل ہوئی : { قُلْ یٰعِبٰدِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ } [الزمر ٥٣] ” اے لوگو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ “

18196

(١٨١٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحِ بْنُ أَبِی طَاہِرٍ الْعَنْبَرِیُّ أَخْبَرَنَا جَدِّی یَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَغَیْرُہُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ أَخْبَرَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ عَنِ ابْنِ شُمَاسَۃَ الْمَہْرِیِّ قَالَ : حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ فِی سِیَاقَۃِ الْمَوْتِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأُبَایِعَہُ عَلَی الإِسْلاَمِ فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ أُبَایِعُکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَبَسَطَ یَدَہُ فَقَبَضْتُ یَدِی فَقَالَ : مَا لَکَ یَا عَمْرُو ؟ ۔ قُلْتُ : أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ ۔ قَالَ : تَشْتَرِطُ مَاذَا ؟ ۔ قُلْتُ : أَشْتَرِطَ أَنْ یُغْفَرَ لِی۔ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرُو أَنَّ الإِسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٢١]
(١٨١٩٠) ابن شماسہ مصری فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر ہوئے۔ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اسلام پر بیعت کے لیے حاضر ہوا۔ میں نے کہا : ہاتھ نکالیے اے اللہ کے رسول ! میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ پھیلایا تو میں نے ہاتھ پیچھے کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے عمرو ! کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : میں شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شرط کرو کیا ہے ؟ میں نے کہا : میری شرط یہ ہے کہ مجھے معاف کردیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمرو ! کیا تو جانتا نہیں ہے کہ اسلام پہلے تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

18197

(١٨١٩١) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الدَّغُولِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ عَدِیٍّ حَدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رُمِیَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا بِسَہْمٍ یَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَقَضَتْ بِہِ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فَمَاتَ فَذَکَرَ قِصَّۃً قَالَ فَقَدِمَ عَلَیْہِ وَفْدُ ثَقِیفَ وَلَمْ یَزَلْ ذَلِکَ السَّہْمُ عِنْدَہُ فَأُخْرِجَ إِلَیْہِمْ فَقَالَ : ہَلْ یَعْرِفُ ہَذَا السَّہْمَ مِنْکُمْ أَحَدٌ؟ فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدٍ أَخُو بَنِی الْعَجْلاَنِ : ہَذَا سَہْمٌ أَنَا بَرَیْتُہُ وَرِشْتُہُ وَعَقَّبْتُہُ وَأَنَا رَمَیْتُ بِہِ ۔ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : فَإِنَّ ہَذَا السَّہْمَ الَّذِی قَتَلَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أَبِی بَکْرٍ فَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَکْرَمَہُ بِیَدِکَ وَلَمْ یُہِنْکَ بِیَدِہِ فَإِنَّہُ وَاسِعٌ لَکُمَا۔ [ضعیف ]
(١٨١٩١) قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابوبکر کو طائف کے دن تیر لگ گیا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے چالیس دن بعد فوت ہوگئے۔ اس نے قصہ ذکر کیا کہ ان کے پاس ثقیف کا وفد آیا۔ یہ تیر ان کے پاس ہی تھا۔ وفد کے سامنے تیر کو پیش کیا اور کہنے لگے : تم میں سے کوئی اس تیر کو پہچانتا ہے ؟ تو بنو عجلان کے سعید بن عبید نے کہا : یہ تیر میں نے تراشا تھا اور میں نے ہی پھینکا تھا تو ابوبکر (رض) فرمانے لگے : اس تیر نے عبداللہ بن ابوبکر کو قتل کیا تھا۔ تمام تعریفیں اس ذات کی جس نے تیرے ہاتھ کے ذریعے اسے عزت دی اور اس کے ہاتھ کے ذریعے تجھے رسوا نہیں کیا۔ کیونکہ وہ تم دونوں کو گھیرنے والا ہے۔

18198

(١٨١٩٢) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَلِیٍّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُصَابُ بِالْمُصِیبَۃِ فَیَقُولُ أُصِبْتُ بِزَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَصَبَرْتُ وَأَبْصَرَ قَاتِلَ أَخِیہِ زَیْدٍ فَقَالَ لَہُ : وَیْحَکَ لَقَدْ قَتَلْتَ لِی أَخًا مَا ہَبَّتِ الصَّبَا إِلاَّ ذَکَرْتُہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٩٢) عمر بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کو کوئی پریشانی، مصیبت آتی تو فرماتے کہ زید بن خطاب کی وجہ سے پریشانی آئی ہے۔ میں نے صبر کیا۔ اس نے اپنے بھائی زید کے قاتل کو دیکھ لیا تو اس سے کہتے : افسوس تیرے اوپر تو نے میرے بھائی کو قتل کردیا۔ جب بھی صبح کی ہوا چلتی ہے تو میں بھائی کو یاد کرتا ہوں۔

18199

(١٨١٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ حَدَّثَنَا حُمَیْدٌ حَدَّثَنَا أَنَسٌ : أَنَّ الْہُرْمُزَانَ نَزَلَ عَلَی حُکْمِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا أَنَسُ أَسْتَحْیِی قَاتِلَ الْبَرَائِ بْنِ مَالِکٍ وَمَجْزَأَۃَ بْنِ ثَوْرٍ فَأَسْلَمَ وَفُرِضَ لَہُ ۔ [صحیح ]
(١٨١٩٣) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہرمزان حضرت عمر (رض) کے حکم پر اتر پڑا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اے انس ! میں براء بن مالک اور مجزاۃ بن ثور کے قاتل سے حیا کرتا ہوں۔ وہ مسلمان ہوا اور اس کے لیے فرض کیا گیا۔

18200

(١٨١٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : یَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَلِیُّ بْنُ سَقْرِ بْنِ نَصْرٍ السُّکَّرِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قِصَّۃِ الْقُرَّائِ وَقَتْلِ حَرَامِ بْنِ مِلْحَانَ قَالَ فِی آخِرِہِ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ إِذَا أَبُو طَلْحَۃَ یَقُولُ لِی ہَلْ لَکَ فِی قَاتِلٍ لِحَرَامٍ قُلْتُ : مَا بَالُہُ فَعَلَ اللَّہُ بِہِ وَفَعَلَ ۔ قَالَ : لاَ تَفْعَلْ فَقَدْ أَسْلَمَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٩٤) حضرت ثابت انس (رض) سے قراء کے قصہ اور حرام بن ملحان کے قتل کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے آخر میں فرماتے ہیں : اس کے بعد ابو طلحہ مجھے فرمایا کرتے تھے : آپ کا حرام کے قاتل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا : اس کی کیا حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ جو کیا سو کیا۔ فرمانے لگے : وہ مسلمان ہوگیا ہے۔ آپ کچھ بھی نہ کریں۔

18201

(١٨١٩٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ أَسْلَمَ أَبِی عِمْرَانَ قَالَ : غَزَوْنَا الْمَدِینَۃَ یُرِیدُ الْقُسْطُنْطِینِیَّۃَ وَعَلَی الْجَمَاعَۃِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُہُورِہِمْ بِحَائِطِ الْمَدِینَۃِ فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَی الْعَدُوِّ فَقَالَ النَّاسُ مَہْ مَہْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ یُلْقِی بِیَدِہِ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِینَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ لَمَّا نَصَرَ اللَّہُ نَبِیَّہُ وَأَظْہَرَ الإِسْلاَمَ قُلْنَا ہَلُمَّ نُقِیمُ فِی أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُہَا فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی { وَأَنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] فَالإِلْقَائُ بِأَیْدِینَا إِلَی التَّہْلُکَۃِ أَنْ نُقِیمَ فِی أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحَہَا وَنَدَعَ الْجِہَادَ ۔ قَالَ أَبُو عِمْرَانَ : فَلَمْ یَزَلْ أَبُو أَیُّوبَ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ حَتَّی دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِینِیَّۃِ ۔ وَقَدْ مَضَی فِی ہَذَا الْمَعْنَی أَحَادِیثُ ۔ [صحیح۔ تقدم برقم ١٧٩٢٥]
(١٨١٩٥) یزید بن ابی حبیب حضرت اسلم ابی عمران سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم نے قسطنطنیہ میں غزوہ کیا اور امیر عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے۔ رومی ان کے پیچھے شہر کے باغ میں تھے۔ ایک شخص نے دشمن پر حملہ کردیا۔ لوگوں نے کہا : رک رک اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ وہ اپنا ہاتھ ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ ابو ایوب فرماتے ہیں : یہ آیت انصاری لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ عطا کیا۔ ہم نے کہا : آؤ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں۔ ان کی اصلاح کریں۔ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } [البقرۃ ١٩٥] ” اور تم اللہ کے راستہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مالوں کی اصلاح کریں اور جہاد چھوڑ دیں۔
ابو عمران کہتے ہیں کہ ابو ایوب انصاری اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ قسطنطنیہ میں دفن ہوگئے۔

18202

(١٨١٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَیْبَانَ الرَّمْلِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ أُحُدٍ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا ؟ قَالَ : فِی الْجَنَّۃِ ۔ فَأَلْقَی تَمَرَاتٍ کُنَّ فِی یَدِہِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ وَہَذَا لَفْظُ أَحْمَدَ بْنِ شَیْبَانَ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَمْرٍو کِلاَہُمَا عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨١٩٦) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے احد کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر میں شہید کردیا گیا تو میں کہاں ہوں گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں۔ اس شخص نے اپنے ہاتھ کی کھجوریں پھینک دیں۔ پھر لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔

18203

(١٨١٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ : ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بُسَیْسَۃَ عَیْنًا یَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لاَ أَدْرِی مَا اسْتَثْنَی بَعْضَ نِسَائِہِ فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ قَالَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَتَکَلَّمَ فَقَالَ : إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا ۔ فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَ فِی ظُہْرَانِہِمْ فِی عُلْوِ الْمَدِینَۃِ قَالَ : لاَ إِلاَّ مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا ۔ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابُہُ حَتَّی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلَی بَدْرٍ وَجَائَ الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِلَی شَیْئٍ حَتَّی أَکُونَ أَنَا أُؤْذِنُہُ ۔ فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُومُوا إِلَی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ ۔ قَالَ یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الأَنْصَارِیُّ : یَا رَسُولَ اللَّہِ جَنَّۃٌ عَرْضُہَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : بَخٍ بَخٍ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا یَحْمِلُکَ عَلَی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ ۔ قَالَ : لاَ وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِلاَّ رَجَاۃَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِہَا۔ قَالَ : فَإِنَّکَ مِنْ أَہْلِہَا ۔ فَاخْتَرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرْنِہِ فَجَعَلَ یَأْکُلُ مِنْہُنَّ ثُمَّ قَالَ : لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتَّی آکُلَ تَمَرَاتِی ہَذِہِ إِنَّہَا لَحَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ قَالَ فَرَمَی بِمَا کَانَ مَعَہُ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَہُمْ حَتَّی قُتِلَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی النَّضْرِ وَمُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَغَیْرِہِمَا عَنْ أَبِی النَّضْرِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٠١]
(١٨١٩٧) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لبیسہ کو جاسوس بنا کر روانہ کیا کہ دیکھ ابی سفیان کا لشکر کیا کررہا ہے ؟ جب وہ واپس آیا تو میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کوئی گھر میں نہ تھا۔ اس نے کہا : مجھے معلوم نہیں کہ اس نے بعض عورتوں کا استثناء کیا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور فرمایا : جس کے پاس سواری ہو وہ ہمارے ساتھ نکلے۔
بعض لوگوں نے اجازت طلب کی کہ وہ مدینہ کے بالائی علاقہ سے سواری لے آتے ہیں، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے پاس سواری موجود ہو۔ رسول اللہ اور صحابہ چلے اور بدر کے مقام پر مشرکین سے پہلے پہنچ گئے۔ مشرکین بھی آگئے۔ آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی آگے کی جانب پیش قدمی نہ کرے یہاں تک کہ میں اجازت دے دوں۔ مشرکین قریب آگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس جنت کی طرف چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عمیر بن حمام انصاری نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جنت کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے ؟ فرمایا : ہاں ! اس نے خوشی سے بخ، بخ کے الفاظ کہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تجھے کسی چیز نے ابھارا کہ تو بخ بخ کے کلمات کہے ؟ اس نے کہا : صرف اس امید پر کہ میں بھی اہل جنت سے ہو جاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو بھی اس کے باسیوں میں سے ہے۔ اس نے اپنے کمان سے کچھ کھجوریں نکالیں۔ ان کو کھانا شروع کیا۔ پھر کہنے لگے : اگر میں یہ کھجوریں کھانے تک زندہ رہا تو میری زندگی بہت لمبی ہے۔ راوی کہتے ہیں : اس نے کھجوریں پھنک دیں اور لڑنے لگا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔

18204

(١٨١٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ قَالَ : لَمَّا الْتَقَی النَّاسُ یَوْمَ بَدْرٍ قَالَ عَوْفُ ابْنُ عَفْرَائَ بْنُ الْحَارِثِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا یُضْحِکُ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی مِنْ عَبْدِہِ ؟ قَالَ : أَنْ یَرَاہُ قَدْ غَمَسَ یَدَہُ فِی الْقِتَالِ یُقَاتِلُ حَاسِرًا ۔ فَنَزَعَ عَوْفٌ دِرْعَہُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨١٩٨) عاصم بن عمر بن قتادہ فرماتے ہیں : لوگوں کی بدر کے دن دشمن سے جنگ ہوئی تو عوف بن عفراء بن حارث نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس ادا پر مسکراتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب بندے کو دیکھتے ہیں کہ وہ ننگے بدن لڑائی میں کود پڑتا ہے تو عوف نے اپنی زرہ اتار دی۔ پھر آگے بڑھ کر لڑائی کی، یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔

18205

(١٨١٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : قَدْ بَعَثَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ وَخَبَّابًا سَرِیَّۃً وَبَعَثَ دِحْیَۃَ سَرِیَّۃً وَحْدَہُ ۔ [صحیح ]
(١٨١٩٩) مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود اور خباب کو ایک لشکر، جب کہ دحیہ کو اکیلے لشکر بنا کر روانہ کیا۔

18206

(١٨٢٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ تَخَلَّفَ عَنْ أَصْحَابِ بِئْرِ مَعُونَۃَ فَرَأَی الطَّیْرَ عُکُوفًا عَلَی مَقْتَلَۃِ أَصْحَابِہِ فَقَالَ لِعَمْرِو بْنِ أُمَیَّۃَ سَأَتَقَدَّمُ عَلَی ہَؤُلاَئِ الْعَدُوِّ فَیَقْتُلُونِی وَلاَ أَتَخَلَّفُ عَنْ مَشْہَدٍ قُتِلَ فِیہِ أَصْحَابُنَا فَفَعَلَ فَقُتِلَ فَرَجَعَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ فِیہِ قَوْلاً حَسَنًا وَیُقَالُ قَالَ لِعَمْرٍو : فَہَلاَّ تَقَدَّمْتَ فَقَاتَلْتَ حَتَّی تُقْتَلَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَمْرَو بْنَ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیَّ وَرَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ سَرِیَّۃً وَحْدَہُمَا وَبَعَثَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُنَیْسٍ سَرِیَّۃً وَحْدَہُ ۔ وَقَدْ ذَکَرْنَا إِسْنَادَہُمَا فِی ہَذَا الْکِتَابِ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٠٠) امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص بئر مؤنہ کے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ پرندے اس کے ساتھیوں کی لاشوں پر ٹھہرے ہوئے ہیں تو اس نے عمرہ بن امیہ سے کہا : میں بھی اپنے دشمنوں سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کردیں اور اپنے ساتھیوں کی قتل گاہ سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔ اس نے ایسا ہی کیا، وہ شہید کردیا گیا تو عمرو بن امیہ نے واپس آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں اچھی بات کہی۔ آپ نے عمرو سے کہا کیا تو آگے بڑھ کر قتال کیوں نہیں کرتا یہاں تک کہ تجھے قتل کردیا جائے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن امیہ ضمری اور ایک انصاری کو لشکر بنا کر روانہ فرمایا اور عبداللہ بن انیس کو اکیلے ہی سریہ بنا کر روانہ فرمایا۔

18207

(١٨٢٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا جُبَارَۃُ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ تَمِیمٍ حَدَّثَنِی مَیْمُونُ بْنُ مِہْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ عَبْدًا مِنْ رَقِیقِ الْخُمُسِ سَرَقَ مِنَ الْخُمُسِ فَرُفِعَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمْ یَقْطَعْہُ فَقَالَ : مَالُ اللَّہِ سَرَقَ بَعْضُہُ بَعْضًا ۔ ہَذَا إِسْنَادٌ فِیہِ ضَعْفٌ وَقَدْ رُوِیَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُرْسَلاً ۔ وَرُوِّینَا عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً سَرَقَ مِغْفَرًا مِنَ الْمَغْنَمِ فَلَمْ یَقْطَعْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٠١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : خمس کے غلاموں میں سے کسی غلام نے خمس کا مال چرا لیا۔ معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ نہ کاٹا اور فرمایا : اللہ کا مال ہے اس کے بعض حصے نے بعض کو چرایا ہے۔ (ب) حضرت علی بن ابی طالب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مال غنیمت سے ٹوپ چرا لیا۔ آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔

18208

(١٨٢٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ الْمِصْرِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ الدِّیلِیِّ عَنْ سَالِمٍ أَبِی الْغَیْثِ مَوْلَی ابْنِ مُطِیعٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی خَیْبَرَ فَلَمْ نَغْنَمْ ذَہَبًا وَلاَ فِضَّۃً إِنَّمَا غَنِمْنَا الْمَتَاعَ وَالأَمْوَالَ ثُمَّ انْصَرَفْنَا نَحْوَ وَادِی الْقُرَی وَمَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَبْدٌ أَعْطَاہُ إِیَّاہُ رِفَاعَۃُ بْنُ بَدْرٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِی ضُبَیْبٍ فَبَیْنَمَا ہُوَ یَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ أَتَاہُ سَہْمٌ عَائِرٌ فَأَصَابَہُ فَمَاتَ فَقَالَ لَہُ النَّاسُ ہَنِیئًا لَہُ الْجَنَّۃُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : کَلاَّ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ الشَّمْلَۃَ الَّتِی غَلَّہَا یَوْمَ خَیْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْہَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَیْہِ نَارًا ۔ فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِشِرَاکٍ أَوْ شِرَاکَیْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : شِرَاکٌ مِنْ نَارٍ أَوْ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مَالِکٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٠٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیبر گئے تو سونا، چاندی مال غنیمت میں نہ ملا بلکہ عام مال حاصل ہوا۔ پھر ہم وادی قریٰ میں آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غلام تھا، جو رفاعہ بن بدر بنو خبیب کے آدمی نے دیا تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری سے کجاوہ اتار رہا تھا کہ اجنبی تیر اس کو لگ گیا جس کی وجہ سے وہ فوت ہوگیا۔ لوگوں نے اسے جنت کی بشارت دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس نے خیبر کے مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ایک چادر چرائی تھی۔ وہ آگ بن کر اس پر لپٹی ہوئی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ایک یا دو تسمے آگ سے ہیں۔

18209

(١٨٢٠٣) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ عَلَی ثَقَلِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ کِرْکِرَۃُ فَمَاتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہُوَ فِی النَّارِ ۔ فَذَہَبُوا یَنْظُرُونَ إِلَیْہِ فَوَجَدُوا عَلَیْہِ عَبَائَ ۃً قَدْ غَلَّہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیٍّ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠٧٤]
(١٨٢٠٣) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامان پر مقرر تھا جس کا نام کرکرہ تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ جہنمی ہے۔ صحابہ (رض) نے جا کر دیکھا تو اس کے اوپر ایک حلہ تھا جو اس نے مال غنیمت سے چرایا تھا اور خیانت کی تھی۔

18210

(١٨٢٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ الْمُقْرِئُ ابْنُ الْحَمَّامِیِّ رَحِمَہُ اللَّہُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ النَّجَّادُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَائٍ أَبُو عَمْرٍو الْغُدَانِیُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ سِمَاکٍ أَبِی زُمَیْلٍ حَدَّثَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعْنِی نَاسًا فَقَالُوا فُلاَنٌ شَہِیدٌ وَفُلاَنٌ شَہِیدٌ حَتَّی مَرُّوا عَلَی رَجُلٍ فَقَالُوا فُلاَنٌ شَہِیدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : کَلاَّ إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی عَبَائَ ۃٍ غَلَّہَا أَوْ بُرْدَۃٍ غَلَّہَا ۔ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ ۔ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ فِی النَّاسِ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١١٤]
(١٨٢٠٤) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن بعض صحابہ شہید ہوئے تو لوگوں نے کہا : فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے۔ انھوں نے کہا : یہ شہید ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں بلکہ میں نے اس کو جہنم میں دیکھا ہے، ایک عباء یا چادر کی خیانت کی وجہ سے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابن خطاب ! جاؤلوگوں میں اعلان کر دو کہ صرف مومن جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ صرف مومن جنت میں داخل ہوں گے۔

18211

(١٨٢٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو صَادِقٍ الْعَطَّارُ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَاللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ أَبِی عَمْرَۃَ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : تُوُفِّیَ رَجُلٌ یَوْمَ خَیْبَرَ وَإِنَّہُمْ ذَکَرُوا لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُمْ : صَلُّوا عَلَی صَاحِبِکُمْ ۔ فَتَغَیَّرَتْ وُجُوہُ النَّاسِ لِذَلِکَ فَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ صَاحِبَکُمْ قَدْ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ فَفَتَحْنَا مَتَاعَہُ فَوَجَدْنَا خَرَزَاتٍ مِنْ خَرَزِ یَہُودَ مَا تُسَاوِی دِرْہَمَیْنِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٠٥) زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ ایک شخص خیبر کے دن فوت ہوگیا۔ صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تذکرہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے رنگ تبدیل ہوگئے۔ راوی کا گمان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تمہارے ساتھی نے اللہ کے راستہ میں خیانت کی ہے۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو یہود کے ہاروں میں سے ایک ہار پایا جو دو درہم کے برابر تھا۔

18212

(١٨٢٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَاللَّفْظُ لَہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَحْیَی عَنْ أَبِی حَیَّانَ التَّیْمِیِّ حَدَّثَنِی أَبُو زُرْعَۃَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ حَدَّثَنِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : قَامَ فِینَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمًا فَذَکَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَہُ وَعَظَّمَ أَمْرَہُ فَقَالَ : لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ بَعِیرٌ لَہُ رُغَائٌ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی أَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لاَ أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ شَاۃٌ لَہَا ثُغَائٌ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی أَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ فَرَسٌ لَہَا حَمْحَمَۃٌ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی فَأَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لاَ أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ نَفْسٌ لَہَا صِیَاحٌ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی أَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لاَ أُلْفِیَنَّ یَجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ صَامِتٌ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی فَأَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ لاَ أُلْفِیَنَّ َجِیئُ أَحَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی رَقَبَتِہِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ یَقُولُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَغِثْنِی أَقُولُ لاَ أَمْلِکُ لَکَ شَیْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسَدَّدٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٠٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمت کے مال میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا گناہ گردانا اور اس خیانت کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ پھر فرمایا : میں تم سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن میدان حشر میں آئے تو اس کی گردن پر ایسا اونٹ ہو جو آواز نکال رہا اور وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیں۔ میں کہوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ تک (فریضہ زکوۃ کی) بات پہنچا دی تھی۔ پھر فرمایا : میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری ممیا رہی ہو وہ کہے کہ اللہ کے رسول ! میری مدد کیجیے میں کہوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تمہیں بتادیا تھا۔ پھر فرمایا : تم میں کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن میدان حشر میں آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو، وہ شخص کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد فرمائیے۔ میں جواب دوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی۔ پھر فرمایا : تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر سوار انسان چلا رہا ہو۔ وہ شخص کہے کہ اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے۔ میں کہوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی۔ پھر فرمایا : میں تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن میدان حشر میں آئے اور اس کی گردن پر سونا چاندی لدا ہوا ہو اور وہ التجا کررہا ہو۔ اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے۔ میں جواب دوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی۔ پھر فرمایا : میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر کپڑے پھڑ پھڑا رہے ہوں اور وہ التجا کررہا ہو کہ اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے اور میں جواب دوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی۔

18213

(١٨٢٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدِ بْنِ حَیَّانَ عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : ذَکَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْغُلُولَ فَعَظَّمَہُ ثُمَّ قَالَ : لِیَحْذَرْ أَحَدُکُمْ أَنْ یَجِیئَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِبَعِیرٍ عَلَی عُنُقِہِ فَیَقُولُ یَا مُحَمَّدُ أَغِثْنِی فَأَقُولُ إِنِّی لاَ أُغْنِی عَنْکَ شَیْئًا إِنِّی قَدْ بَلَّغْتُ وَیَجِیئُ رَجُلٌ عَلَی عُنُقِہِ فَرَسٌ لَہُ حَمْحَمَۃٌ فَیَقُولُ یَا مُحَمَّدُ أَغِثْنِی فَأَقُولُ إِنِّی لاَ أُغْنِی عَنْکَ شَیْئًا إِنِّی قَدْ بَلَّغْتُ وَیَجِیئُ الرَّجُلُ عَلَی عُنُقِہِ رِقَاعٌ فَیَقُولُ یَا مُحَمَّدُ أَغِثْنِی فَأَقُولُ لاَ أُغْنِی عَنْکَ شَیْئًا قَدْ بَلَّغْتُ ۔ قَالَ حَمَّادٌ وَقَدْ سَمِعْتُہُ مِنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ فَجَائَ بِہِ نَحْوًا مِنْ ہَذَا۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ سَعِیدٍ الدَّارِمِیِّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٠٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا اور اسے بہت بڑا گناہ گردانا۔ پھر فرمایا کہ تمہیں ڈرنا چاہیے کہ کوئی کل قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو اور وہ کہے : اے محمد ! میں میری مدد کیجئے۔ میں جواب دوں گا کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں نے بات تجھے پہنچا دی تھی اور کوئی شخص قیامت کے دن میدان حشر میں آئے کہ اس کی گردن پر کپڑے ہوں۔ وہ کہے : اے محمد ! میری مدد کیجیے، میں کہوں کہ میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھے بات پہنچا دی تھی۔

18214

(١٨٢٠٨) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الأَسْفَاطِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ مَاتَ وَہُوَ بَرِیئٌ مِنْ ثَلاَثٍ مِنَ الْکِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ۔ (ت) قَالَ أَبُو عِیسَی وَرَوَاہُ سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ وَقَالَ : الْکَنْزُ ۔ بَدَلَ : الْکِبْرِ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٠٨) حضرت ثوبان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کو اس حالت میں موت آئی کہ وہ تین چیزوں سے محفوظ تھا : 1 تکبر سے 2 مال غنیمت میں خیانت سے 3 قرض سے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ابو عیسیٰ کہتے ہیں کہ سعید قتادہ سے نقل فرماتے ہیں۔ اس نے الکبر کی جگہ کنز کے الفاظ بولے ہیں۔

18215

(١٨٢٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ سَمِعَ عَمْرَو بْنَ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ ۔ وَابْنُ عَجْلاَنَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ حُنَیْنٍ رَہِقَہُ النَّاسُ یَسْأَلُونَہُ فَحَاصَتْ بِہِ النَّاقَۃُ فَخَطَفَتْ رِدَائَ ہُ شَجَرَۃٌ فَقَالَ : رُدُّوا عَلَیَّ رِدَائِی أَتَخْشَوْنَ عَلَیَّ الْبُخْلَ وَاللَّہِ لَوْ أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ نَعَمًا مِثْلَ سَمُرِ تِہَامَۃَ لَقَسَمْتُہَا بَیْنَکُمْ ثُمَّ لاَ تَجِدُونِی بَخِیلاً وَلاَ جَبَانًا وَلاَ کَذَّابًا ۔ ثُمَّ أَخَذَ وَبَرَۃً مِنْ وَبَرِ سَنَامِ بَعِیرٍ فَرَفَعَہَا وَقَالَ : مَا لِی مِمَّا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ وَلاَ مِثْلُ ہَذِہِ إِلاَّ الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ ۔ فَلَمَّا کَانَ عِنْدَ قَسْمِ الْخُمُسِ أَتَاہُ رَجُلٌ یَسْتَحِلُّہُ خِیَاطًا أَوْ مَخِیطًا فَقَالَ : رُدُّوا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ عَارٌ وَنَارٌ وَشَنَارٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ (حسن۔ تقدم برقم ٧/١٣١٧٧]
(١٨٢٠٩) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ حنین سے واپس آئے تو لوگوں نے آپ کو گھیر لیا اور مال مانگ رہے تھے۔ جس کی وجہ سے اونٹنی بدکی اور آپ کی چادر مبارک درخت پر اٹک گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری چادر واپس کرو، کیا تمہیں مجھ سے بخل کا خطرہ ہے ؟ اگر اللہ مجھے تہامہ کے درختوں جتنے جانور عطا کر دے تو میں سارے کے سارے تمہارے درمیان تقسیم کر دوں پھر تم مجھے بخیل، بزدل اور جھوٹا نہ پاؤ گے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ کی کوہان کے بال پکڑ کر بلند فرمائے اور فرمایا : اللہ کے عطا کردہ مال سے میرا حصہ اتنا بھی نہیں سوائے پانچویں حصہ کے اور خمس بھی تمہیں واپس کردیا جاتا ہے۔ خمس کی تقسیم کے وقت ایک شخص آیا، جو اپنے لیے اس مال سے سوئی یا دھاگہ بھی حلال خیال کرتا ہے۔ فرمایا : دھاگا اور سوئی واپس کر دو ، کیونکہ مال غنیمت میں خیانت قیامت کے دن عیب و رسوائی ہوگی۔

18216

(١٨٢١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَوْذَبٍ حَدَّثَنِی عَامِرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا أَصَابَ غَنِیمَۃً أَمَرَ بِلاَلاً فَنَادَی فِی النَّاسِ فَیَجِیئُونَ بِغَنَائِمِہِمْ فَیُخَمِّسُہَا وَیَقْسِمُہَا فَجَائَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِکَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَذَا فِیمَا کُنَّا أَصَبْنَاہُ مِنَ الْغَنِیمَۃِ ۔ قَالَ : أَسَمِعْتَ بِلاَلاً نَادَی ثَلاَثًا ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تَجِیئَ بِہِ ؟ ۔ قَالَ : فَاعْتَذَرَ ۔ قَالَ : کُنْ أَنْتَ تَجِیئُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَلَنْ أَقْبَلَہُ مِنْکَ ۔ وَقَدْ مَضَی فِی الْبَابِ قَبْلَہُ حَدِیثُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو فِی کِرْکِرَۃَ وَلَمْ یَذْکُرْ فِی شَیْئٍ مِنْ ہَذِہِ الرِّوَایَاتِ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَمَرَ بِتَحْرِیقِ مَتَاعِ الْغَالِّ ۔ [حسن۔ تقدم برقم ٦/١٢٧١٩]
(١٨٢١٠) حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ مال غنیمت حاصل ہوتا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت بلال کو حکم فرماتے کہ لوگوں میں اعلان کرو کہ غنیمت کا مال لے آؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچواں حصہ نکال کر باقی تقسیم فرما دیتے۔ اس کے بعد ایک شخص بالوں کی لٹ لے کر آیا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ مال غنیمت میں سے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو نے حضرت بلال کا تین مرتبہ اعلان سنا تھا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : پھر تو لے کر کیوں نہ آیا ؟ اس نے عذر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لے جاؤ کل قیامت کے دن لے کر آنا، میں تجھ سے ہرگز قبول نہ کروں گا۔
(ب) عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث کرکرہ کے بارے میں گزر گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی جگہ بھی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کا سامان نہیں جلایا۔

18217

(١٨٢١١) وَفِی ذَلِکَ دَلِیلٌ عَلَی ضَعْفِ مَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَصْبَہَانِیُّ الزَّاہِدُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ بَحْرٍ الْبَرِّیُّ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَحْرَقُوا مَتَاعَ الْغَالِّ وَمَنَعُوہُ سَہْمَہُ وَضَرَبُوہُ ۔ ہَکَذَا رَوَاہُ غَیْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ مُسْلِمٍ ۔ وَقَدْ قِیلَ عَنْہُ مُرْسَلاً ۔ [ضعیف ]
(١٨٢١١) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابو بکر، اور عمر (رض) نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے مال کو جلایا اور مال غنیمت سے اس کا حصہ بھی روک دیا اور پٹائی بھی کی۔

18218

(١٨٢١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ نَجْدَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ قَوْلَہُ لَمْ یَذْکُرْ عَبْدُ الْوَہَّابِ مَنْعَ سَہْمِہِ ۔ وَیُقَالُ إِنَّ زُہَیْرًا ہَذَا مَجْہُولٌ وَلَیْسَ بِالْمَکِّیِّ ۔
(١٨٢١٢) خالی

18219

(١٨٢١٣) وَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عِیسَی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ الْقُرَشِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِی صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَۃَ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ مَسْلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ أَرْضَ الرُّومِ فَأُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ غَلَّ فَسَأَلَ سَالِمًا عَنْہُ فَقَالَ سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِذَا وَجَدْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ غَلَّ فَأَحْرِقُوا مَتَاعَہُ وَاضْرِبُوہُ ۔ قَالَ : فَوَجَدْنَا فِی مَتَاعِہِ مُصْحَفًا فَسُئِلَ سَالِمٌ عَنْہُ فَقَالَ بِعْہُ وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِہِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ سَعِیدٍ فَہَذَا ضَعِیفٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٢١٣) صالح بن محمد بن زائدہ فرماتے ہیں : میں روم کی سرزمین پر مسلم بن عبدالمالک کے ساتھ تھا۔ ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی۔ اس نے سالم سے اس کے بارے میں سوال کیا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو اور اس کو مارو۔ راوی کہتے ہیں : ہم نے اس کے سامان میں قرآن مجید پایا تو سالم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرماتے ہیں : قرآن مجید بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کر دو ۔

18220

(١٨٢١٤) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاکِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ الْوَلِیدِ بْنِ ہِشَامٍ وَمَعَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَغَلَّ رَجُلٌ مَتَاعًا فَأَمَرَ الْوَلِیدُ بِمَتَاعِہِ فَأُحْرِقَ وَطِیفَ بِہِ وَلَمْ یُعْطِہِ سَہْمَہُ ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَہَذَا أَصَحُّ الْحَدِیثَیْنِ رَوَاہُ غَیْرُ وَاحِدٍ أَنَّ الْوَلِیدَ بْنَ ہِشَامٍ حَرَقَ رَحْلَ زِیَادِ بْنِ سَعْدٍ وَکَانَ قَدْ غَلَّ وَضَرَبَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢١٤) صالح بن محمد فرماتے ہیں : ہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ مل کر غزوہ کیا اور ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر (رض) اور عمر بن عبدالعزیز تھے۔ ایک شخص نے مال غنیمت میں خیانت کرلی تو ولید نے اس کے سامان کو جلانے کا حکم دیا اور اسے سزا دی گئی اور مال غنیمت میں سے حصہ بھی نہ دیا گیا۔ (ب) ابو داؤد کہتے ہیں : یہ دونوں حدیثوں سے زیادہ صحیح ہے کہ ولید بن ہشام نے زیاد بن سعد کا سامان جلایا۔ اس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی۔

18221

(١٨٢١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الْبُخَارِیُّ قَالَ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَۃَ أَبُو وَاقِدٍ اللَّیْثِیُّ الْمَدَنِیُّ تَرَکَہُ سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ مُنْکَرُ الْحَدِیثِ یَرْوِی عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَفَعَہُ : مَنْ غَلَّ فَأَحْرِقُوا مَتَاعَہُ ۔ وَقَدْ رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْغُلُولِ وَلَمْ یُحْرِقْ قَالَ الْبُخَارِیُّ وَعِلْیَۃُ أَصْحَابِنَا یَحْتَجُّونَ بِہَذَا فِی الْغُلُولِ وَہَذَا بَاطِلٌ لَیْسَ بِشَیْئٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٢١٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عمرو (رض) سے مرفوع حدیث نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص مال غنیمت میں خیانت کرے اس کا سامان جلا دو ۔
(ب) حضرت عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں مال غنیمت میں خیانت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سامان نہیں جلایا۔

18222

(١٨٢١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ مَعِینٍ یَقُولُ : صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَۃَ لَیْسَ حَدِیثُہُ بِذَاکَ ۔
(١٨٢١٦) خالی

18223

(١٨٢١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرٍ الْقِرْمِیسِینِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْکُہَیْلِیُّ أَخْبَرَنَا الْحَضْرَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْہَرَ الزُّہْرِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ حُنَیْنٍ یَتَخَلَّلُ النَّاسَ یَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَأُتِیَ بِسَکْرَانٍ فَأَمَرَ مَنْ کَانَ عِنْدَہُ فَضَرَبُوہُ بِمَا کَانَ فِی أَیْدِیہِمْ وَحَثَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْہِ مِنَ التُّرَابَ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ٨/١٧٥٣٧]
(١٨٢١٧) عبدالرحمن بن ازہر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حنین کے دن دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالد بن ولید کی منزل کے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ ایک شرابی لایا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کہا : جو ان کے ہاتھوں میں ہے اسے ماریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر مٹی ڈالی۔

18224

(١٨٢١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَہْمِ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْفَرَجِ أَظُنُّہُ عَنِ الْوَاقِدِیِّ حَدَّثَنِی عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ فِی قِصَّۃِ خَیْبَرَ وَمَا أُخْرِجَ مِنْ حِصْنِ الصَّعْبِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ : وَزِقَاقُ خَمْرٍ فَأُہَرِیقَتْ وَعَمَدَ یَوْمَئِذٍ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَشَرِبَ مِنْ ذَلِکَ الْخَمْرِ فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَکَرِہَ حِینَ رُفِعَ إِلَیْہِ فَخَفَقَہُ بِنَعْلِہِ وَأَمَرَ مَنْ حَضَرَہُ فَخَفَقُوہُ بِنِعَالِہِمْ وَکَانَ یُقَالُ لَہُ عَبْدُ اللَّہِ الْحِمَارُ وَکَانَ رَجُلاً لاَ یَصْبِرُ عَنِ الشَّرَابِ فَضَرَبَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِرَارًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : اللَّہُمَّ الْعَنْہُ مَا أَکْثَرَ مَا یُضْرَبُ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَفْعَلْ یَا عُمَرُ فَإِنَّہُ یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢١٨) عبدالحمید بن جعفر اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے خیبر کے قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ صعب بن معاذ کے قلعہ سے شراب نکالی گئی اور گلیوں میں بہا دی گئی تو اس شراب سے کسی مسلمان شخص نے جان بوجھ کر پی لی۔ جب معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناپسند فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے جوتے سے مارا اور لوگوں کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے جوتے سے ماریں۔ اسے عبداللہ العمار کہا جاتا تھا۔ یہ ایسا شخص تھا جو شراب سے باز نہ آتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کئی مرتبہ سزا دی۔ حضرت عمر (رض) نے کہا : اے اللہ ! اس پر لعنت کہ یہ کتنی بار سزا دیا گیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! ایسا نہ کہو یہ اللہ اور رسول سے محبت کرتا ہے۔

18225

(١٨٢١٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحِیمِ حَدَّثَنِی مَنْصُورٌ عَنْ أَبِی یَزِیدَ غَیْلاَنَ مَوْلَی کِنَانَۃَ عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ الْحَبَشِیِّ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ وَعِنْدَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - صَلَّی إِلَی بَعِیرٍ مِنَ الْمَقْسَمِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلاَتِہِ أَخَذَ مِنْہُ قَرَدَۃً بَیْنَ إِصْبَعَیْہِ وَہِیَ فِی وَبَرَۃٍ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ ہَذَا مِنْ غَنَائِمِکُمْ وَلَیْسَ لِی مِنْہُ إِلاَّ الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَیْکُمْ فَأَدُّوا الْخَیْطَ وَالْمَخِیطَ وَأَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَأَکْبَرَ فَإِنَّ الْغُلُولَ عَارٌ عَلَی أَہْلِہِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَجَاہِدُوا النَّاسَ فِی اللَّہِ الْقَرِیبَ مِنْہُمْ وَالْبَعِیدَ وَلاَ یَأْخُذْکُمْ فِی اللَّہِ لَوْمَۃُ لاَئِمٍ وَأَقِیمُوا حُدُودَ اللَّہِ فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ وَعَلَیْکُمْ بِالْجِہَادِ فَإِنَّہُ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ عَظِیمٌ یُنَجِّی اللَّہُ بِہِ مِنَ الْہَمِّ وَالْغَمِّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢١٩) عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ ان کے پاس ابو دردائ (رض) تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقسم کے اونٹوں میں سے کسی ایک پر نماز ادا کی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو اونٹ کی کوہان کے بالوں میں سے اپنی انگلیوں کے درمیان ایک چچڑی کو پکڑا اور فرمایا : خبردار ! یہ تمہارا مال غنیمت ہے، اس میں سے میرا صرف پانچواں حصہ ہے اور پانچواں حصہ بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔ تم سوئی اور دھاگہ یا اس سے چھوٹی یا بڑی چیز بھی واپس کر دو ۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت دنیا اور آخرت میں رسوائی کا سبب ہے اور اللہ کے لیے قریب اور دور کے لوگوں سے جہاد کرو اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں اللہ کے راستہ میں جہاد سے نہ روکے اور سفر و حضر میں حدود کو نافذ کرو اور جہاد کو لازم کر لو؛ کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک بہت بڑا دروازہ ہے۔ اللہ رب العزت اس کے ذریعے ہر پریشانی اور غم سے نجات دے دیتے ہیں۔

18226

(١٨٢٢٠) رَوَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ عَنْ أَبِی سَلاَّمٍ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ : أَنَّہُ جَلَسَ مَعَ عُبَادَۃَ وَأَبِی الدَّرْدَائِ وَالْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْکِنْدِیِّ فَتَذَاکَرُوا الْحَدِیثَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الأَخْمَاسِ فَقَالَ عُبَادَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - صَلَّی بِہِمْ فِی غَزْوَۃٍ إِلَی بَعِیرٍ فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ وَقَالَ فِیہِ : وَأَقِیمُوا حُدُودَ اللَّہِ فِی السَّفَرِ وَالْحَضَرِ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الْمُسْتَفَاضِ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَائِذٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُوبَکْرِ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ فَذَکَرَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٢٠) مقدام بن معدیکرب فرماتے ہیں کہ وہ عبادہ، ابو درداء اور حارث بن معاویہ کندی کے ساتھ بیٹھے تھے اور حدیث کا مذاکرہ کر رہے تھے۔ حضرت عبادہ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اونٹ کی جانب منہ کر کے نماز پڑھائی، پھر اس کی مثل ذکر کیا۔ اس حدیث میں ہے کہ تم سفر و حضر میں حدود کو نافذ کرو۔

18227

(١٨٢٢١) وَرَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ خَالِدٍ الدِّمَشْقِیِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ یَحْیَی الْخُشَنِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَقِیمُوا الْحُدُودَ فِی الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ عَلَی الْقَرِیبِ وَالْبَعِیدِ وَلاَ تُبَالُوا فِی اللَّہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ فَذَکَرَہُ ۔ وَرُوِیَ ذَلِکَ أَیْضًا عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِی رَبَاحٍ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٢١) حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سفر و حضر میں قریب و بعید میں حدوں کو نافذ کرو اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرو۔

18228

(١٨٢٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْل الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ کَہْمَسٍ عَنْ ہَارُونَ بْنِ الأَصَمِّ قَالَ : بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِی جَیْشٍ فَبَعَثَ خَالِدٌ ضِرَارَ بْنَ الأَزْوَرِ فِی سَرِیَّۃٍ فِی خَیْلٍ فَأَغَارُوا عَلَی حَیٍّ مِنْ بَنِی أَسَدٍ فَأَصَابُوا امْرَأَۃً عَرُوسًا جَمِیلَۃً فَأَعْجَبَتْ ضِرَارًا فَسَأَلَہَا أَصْحَابَہُ فَأَعْطُوہَا إِیَّاہُ فَوَقَعَ عَلَیْہَا فَلَمَّا قَفَلَ نَدِمَ وَسُقِطَ فِی یَدِہِ فَلَمَّا دُفِعَ إِلَی خَالِدٍ أَخْبَرَہُ بِالَّذِی فَعَلَ قَالَ خَالِدٌ فَإِنِّی قَدْ أَجَزْتُہَا لَکَ وَطَیَّبْتُہَا لَکَ قَالَ لاَ حَتَّی تَکْتُبَ بِذَلِکَ إِلَی عُمَرَ فَکَتَب عُمَرُ أَنِ ارْضَخْہُ بِالْحِجَارَۃِ فَجَائَ کِتَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَقَدْ تُوُفِّیَ فَقَالَ مَا کَانَ اللَّہُ لِیُخْزِی ضِرَارَ بْنَ الأَزْوَرِ ۔[ضعیف ]
(١٨٢٢٢) ہارون بن اصم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے خالد بن ولید کو ایک لشکر میں روانہ فرمایا اور حضرت خالد بن ولید نے ضرار بن ازور کو گھوڑ سواروں کے ساتھ بھیجا۔ انھوں نے بنو اسد پر شب خون مارا۔ انھیں ایک خوبصورت دلہن ملی۔ وہ ضرار کو اچھی لگی تو ساتھیوں کی رضامندی کے بعد ضرار اس پر واقع ہوگئے۔ جب واپس پلٹے تو شرمندہ ہوئے اور ہاتھ کو فالج ہوگیا۔ جب انھیں خالد بن ولید کے پاس لایا گیا اور جو انھوں نے کیا تھا اس کی خبر دی تو حضرت خالد کہنے لگے کہ میں اس عورت کو آپ کے لیے جائز قرار دیتا ہوں۔ فرماتے ہیں : نہیں بلکہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھو تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ ان کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔ جب حضرت عمر (رض) کا خط آیا تو اس وقت وہ فوت ہوچکے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ نے ضرار بن ازور کو رسوائی سے بچا لیا۔

18229

(١٨٢٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حَیْوَۃُ عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِیِّ عَنْ شُیَیْمِ بْنِ بَیْتَانَ وَیَزِیدَ بْنِ صُبْحٍ الأَصْبَحِیِّ عَنْ جُنَادَۃَ بْنِ أَبِی أُمَیَّۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مَعَ بُسْرِ بْنِ أَبِی أَرْطَاۃَ فِی الْبَحْرِ فَأُتِیَ بِسَارِقٍ یُقَالُ لَہُ مِصْدَرٌ قَدْ سَرَقَ بُخْتِیَّۃً فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ تُقْطَعُ الأَیْدِی فِی السَّفَرِ ۔ وَلَوْلاَ ذَلِکَ لَقَطَعْتُہُ ۔ ہَذَا إِسْنَادٌ شَامِیٌّ۔ وَکَانَ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ یَقُولُ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ یُنْکِرُونَ أَنْ یَکُونَ بُسْرُ بْنُ أَبِی أَرْطَاۃَ سَمِعَ مِنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَالَ یَحْیَی بُسْرُ بْنُ أَبِی أَرْطَاۃَ رَجُلُ سَوْئٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٢٣) جنادہ بن امیہ فرماتے ہیں کہ ہم بسر بن ابی ارطاۃ کے ساتھ سمندری سفر میں تھے۔ ان کے پاس ایک چور لایا گیا جس کا نام مقتدر تھا۔ اس نے بختی اونٹ چوری کیا تھا۔ اس نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ سفر میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (ب) یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ اہل مدینہ انکار کرتے ہیں کہ بسر بن ابی ارطاۃ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنا ہے اور یحییٰ تو فرماتے ہیں کہ بسر بن ارطاۃ برا آدمی ہے۔

18230

(١٨٢٢٤) أَخْبَرَنَا بِذَلِکَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِیُّ عَنْ یَحْیَی بْنِ مَعِینٍ قَالَ الشَّیْخُ وَإِنَّمَا قَالَ ذَلِکَ یَحْیَی لِمَا ظَہَرَ مِنْ سُوئِ فِعْلِہِ فِی قِتَالِ أَہْلِ الْحَرَّۃِ وَغَیْرِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٢٤) شیخ فرماتے ہیں کہ یحییٰ نے جو اس کے بارے میں کہا اس وجہ سے کہ اس کا برا فعل حرہ کی لڑائی میں ظاہر ہوا۔

18231

(١٨٢٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ قَالَ قَالَ أَبُو یُوسُفَ حَدَّثَنَا بَعْضُ أَشْیَاخِنَا عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : لاَ تُقَامُ الْحُدُودُ فِی دَارِ الْحَرْبِ مَخَافَۃَ أَنْ یَلْحَقَ أَہْلُہَا بِالْعَدُوِّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٢٥) زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ دار الحرب میں حدود نافذ نہ کی جائیں اس ڈر سے کہ کہیں دشمن سے نہ جا ملے۔

18232

(١٨٢٢٦) قَالَ وَحَدَّثَنَا بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ ثَوْرِ بْنِ یَزِیدَ عَنْ حَکِیمِ بْنِ عُمَیْرٍ : أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلَی عُمَیْرِ بْنِ سَعْدٍ الأَنْصَارِیِّ وَإِلَی عُمَّالِہِ أَنْ لاَ یُقِیمُوا حَدًّا عَلَی أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِی أَرْضِ الْحَرْبِ حَتَّی یَخْرُجُوا إِلَی أَرْضِ الْمُصَالَحَۃِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ مَا رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُسْتَنْکَرٌ وَہُوَ یَعِیبُ أَنْ یَحْتَجَّ بِحَدِیثٍ غَیْرِ ثَابِتٍ وَیَقُولُ حَدَّثَنَا شَیْخٌ وَمَنْ ہَذَا الشَّیْخُ وَیَقُولُ مَکْحُولٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَمَکْحُولٌ لَمْ یَرَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَقَوْلُہُ یَلْحَقُ بِالْمُشْرِکِینَ فَإِنْ لَحِقَ بِہِمْ فَہُوَ أَشْقَی لَہُ وَمَنْ تَرَکَ الْحَدَّ خَوْفَ أَنْ یَلْحَقَ الْمَحْدُودُ بِبِلاَدِ الْمُشْرِکِینَ تَرَکَہُ فِی سَوَاحِلِ الْمُسْلِمِینَ وَمَسَالِحِہِمُ الَّتِی تَأْتَصِلْ بِبِلاَدِ الْحَرْبِ ۔[ضعیف ]
(١٨٢٢٦) حکیم بن عمیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عمیر بن سعد انصاری اور اپنے عمال کو خط لکھا کہ وہ مسلمانوں پر دار الحرب میں حد نافد نہ کریں۔ یہاں تک کہ وہ صلح والی زمین پر آجائیں۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : حضرت عمر (رض) سے بیان کردہ حدیث منکر ہے۔ لہٰذا غیر ثابت شدہ حدیث سے دلیل لینا درست نہیں ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اگر وہ مشرکین سے جا ملے تو بہت برا ہے اور جس نے حد کو صرف اس لیے چھوڑا کہ وہ مشرکین سے نہ جا ملے تو مسلمانوں کی سمندری حدوں اور ان حدود میں نافذ کرے جہاں بلاد حرب ساتھ ملے ہوئے ہیں۔

18233

(١٨٢٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الرَّازِیُّ خَتَنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْفَضْلِ الأَنْصَارِیِّ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ وَعَن یَحْیَی بْنِ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : شَرِبَ عَبْدُ بْنُ الأَزْوَرِ وَضِرَارُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو بِالشَّامِ فَأُتِیَ بِہِمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو جَنْدَلٍ وَاللَّہِ مَا شَرِبْتُہَا إِلاَّ عَلَی تَأْوِیلٍ إِنِّی سَمِعْتُ اللَّہَ یَقُولُ { لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ } [المائدۃ ٩٣] فَکَتَبَ أَبُو عُبَیْدَۃَ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِأَمْرِہِمْ فَقَالَ عَبْدُ بْنُ الأَزْوَرِ : إِنَّہُ قَدْ حَضَرَ لَنَا عَدُوُّنَا فَإِنْ رَأَیْتَ أَنْ تُؤَخِّرَنَا إِلَی أَنْ نَلْقَی عَدُوَّنَا غَدًا فَإِنِ اللَّہُ أَکْرَمَنَا بِالشَّہَادَۃِ کَفَاکَ ذَاکَ وَلَمْ تُقِمْنَا عَلَی خِزَایَۃٍ وَإِنْ نَرْجِعْ نَظَرْتَ إِلَی مَا أَمَرَکَ بِہِ صَاحِبُکَ فَأَمْضَیْتَہُ ۔ قَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَنَعَمْ فَلَمَّا الْتَقَی النَّاسُ قُتِلَ عَبْدُ بْنُ الأَزْوَرِ شَہِیدًا فَرَجَعَ الْکِتَابُ کِتَابُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّ الَّذِی أَوْقَعَ أَبَا جَنْدَلٍ فِی الْخَطِیئَۃِ قَدْ تَہَیَّأَ لَہُ فِیہَا بِالْحُجَّۃِ وَإِذَا أَتَاکَ کِتَابِی ہَذَا فَأَقِمْ عَلَیْہِمْ حَدَّہُمْ وَالسَّلاَمُ فَدَعَا بِہِمَا أَبُو عُبَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَحَدَّہُمَا وَأَبُو جَنْدَلٍ لَہُ شَرَفٌ وَلأَبِیہِ فَکَانَ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ حَتَّی قِیلَ إِنَّہُ قَدْ وَسْوَسَ فَکَتَبَ أَبُو عُبَیْدَۃَ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی قَدْ ضَرَبْتُ أَبَا جَنْدَلٍ حَدَّہُ وَإِنَّہُ قَدْ حَدَّثَ نَفْسَہُ حَتَّی قَدْ خَشِینَا عَلَیْہِ أَنَّہُ قَدْ ہَلَکَ فَکَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی أَبِی جَنْدَلٍ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الَّذِی أَوْقَعَکَ فِی الْخَطِیئَۃِ قَدْ خَزَنَ عَلَیْکَ التَّوْبَۃَ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ { حم تَنْزِیلُ الْکِتَابِ مِنَ اللَّہِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ إِلَیْہِ الْمَصِیرُ } [غافر ١-٣] فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ذَہَبَ عَنْہُ مَا کَانَ بِہِ کَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٢٧) یحییٰ بن عروہ بن زبیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ عبد بن ازور، ضرار بن خطاب، ابو جندل اور سہیل بن عمرو نے شام میں شراب پی۔ انھیں ابو عبیدہ بن جراح کے پاس لایا گیا۔ ابو جندل نے کہا : میں نے تو اس قرآنی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے پی : { لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } [المائدۃ ٩٣] ” ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو ایمان لائے، نیک عمل کیے اس میں جو انھوں نے کھایا، جب وہ اللہ سے ڈرے ہیں اور ایمان لائے نیک اعمل کیے۔ “ تو ابو عبیدہ (رض) نے ان کا معاملہ حضرت عمر (رض) کو لکھ بھیجا تو عبد بن ازور نے کہا کہ دشمن ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر آپ ہمیں کل تک دشمن سے لڑنے کے لیے مہلت دیں۔ اگر اللہ نے شہادت کا مرتبہ عطا کردیا تو آپ کو یہی کافی ہے آپ ہمیں حد نہ لگائیں گے۔ اگر واپس آئے تو جو حضرت عمر (رض) کا حکم ہو کر گزرنا۔ ابو عبیدہ (رض) مان گئے تو عبد بن ازور لڑائی میں شہید کردیے گئے۔ حضرت عمر (رض) کا خط آیا کہ ابو جندل نے دلیل لینے میں غلطی کی ہے۔ جب میرا خط آپ کو مل جائے تو ان پر حد نافذ کردینا۔ والسلام ! ابو عبیدہ (رض) نے دونوں کو بلا کر حد نافذ کردی۔ ابو جندل اور اس کے والد کا ایک مقام تھا۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے۔ یہاں تک کہ کہا گیا کہ ان کے حواس گم ہوگئے ہیں تو ابو عبیدہ نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھ دیا کہ میں نے ابو جندل کو حد لگائی تو وہ بد حواس ہوگیا۔ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہوجائے تو حضرت عمر (رض) نے ابو جندل کو خط لکھا۔ حمد و ثنا کے بعد : جس چیز نے آپ کو غلطی میں مبتلا کیا ہے اس کی وجہ سے آپ کے ذمہ توبہ لازم ہے { بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔ حٰمٓ ۔ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ۔ غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِیْ الطَّوْلِ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ۔ مَا یُجَادِلُ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلاَ یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلاَدِ ۔ } [غافر ١-٣] ” اس کتاب کا نازل کرنا غالب جاننے والے خدا کی جانب سے ہے ، گناہ معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا والا، قوت والا، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے، اللہ کی آیات کے بارے میں صرف کافر لوگ جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کا شہروں میں پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ “ جب اس نے حضرت عمر (رض) کا خط پڑھا تو ان کی وہ کیفیت ختم ہوگئی گویا کہ وہ رسی سے کھول دیے گئے ہیں۔

18234

(١٨٢٢٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ کَانَ اللَّیْثُ یَرَی أَنْ یُقِیمَ الْحَدَّ فِی أَرْضِ الرُّومِ لأَنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ { وَمَنْ یُرِدِ اللَّہُ فِتْنَتَہُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا } [المائدۃ ٤١] ۔ [صحیح ]
(١٨٢٢٨) عبداللہ بن صالح فرماتے ہیں کہ لیث کا خیال تھا کہ روم کی سر زمین پر حد جاری کی جائے؛ کیونکہ اللہ فرماتے ہیں : { مَنْ یُّرِدِ اللّٰہَ فِتْنَۃً فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا } [المائدۃ ٤١]” جس شخص کی آزمائش کا اللہ ارادہ فرمائیں تو اللہ سے اس کا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ “

18235

(١٨٢٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبِرْنِی أَبُو عَمْرٍو الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قِصَّۃِ حَجَّۃِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فِی خُطْبَتِہِ : أَلاَ وَإِنَّ کُلَّ شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَیَّ وَرِبَا الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُہُ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ کُلُّہُ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٢٩) جابر بن عبداللہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کے قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : خبردار ! جاہلیت کے تمام معاملات میرے قدموں تلے رکھ دیے گئے ہیں اور جاہلیت کا سود ختم اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کے سود کو ختم کرتا ہوں۔

18236

(١٨٢٣٠) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی حَازِمٍ حَدَّثَنِی أَبُو حَازِمٍ أَنَّہُ سَمِعَ سَہْلَ بْنَ سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ یَوْمَ خَیْبَرَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ رَجُلاً یَفْتَحُ اللَّہُ عَلَی یَدَیْہِ ۔ فَبَاتَ النَّاسُ یَذْکُرُونَ أَیُّہُمْ یُعْطَاہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کُلُّہُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاہَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ؟ ۔ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ ہُوَ یَشْتَکِی عَیْنَہُ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَبَصَقَ فِی عَیْنِہِ وَدَعَا لَہُ فَبَرَأَ مَکَانَہُ حَتَّی لَکَأَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بِہِ شَیْئٌ فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنُقَاتِلُہُمْ حَتَّی یَکُونُوا مِثْلَنَا قَالَ : عَلَی رِسْلِکَ انْفُذْ حَتَّی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ ثُمَّ ادْعُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ وَأَخْبِرْہُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْہِمْ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ فَوَاللَّہِ لأَنْ یَہْدِیَ اللَّہُ بِکَ الرَّجُلَ الْوَاحِدَ خَیْرٌ لَکَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٣٠) سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیبر کے دن سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائیں گے۔ لوگ رات کو باتیں کرتے رہے کہ جھنڈا کس کو دیا جائے گا۔ صبح کے وقت لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس امید سے گئے کہ جھنڈا انھیں دیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہے ؟ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس کی آنکھیں خراب ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلوایا اور آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور اس کے لیے دعا کی۔ وہ اسی وقت تندرست ہوگئے گویا کہ انھیں بیماری تھی ہی نہیں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جھنڈا دیا تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم ان سے لڑائی کریں یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں۔ پھر ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو خبر دو کہ کیا چیز ان پر حقوق سے واجب ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ تیری وجہ سے کسی ایک شخص کو ہدایت دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

18237

(١٨٢٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ بِلاَلٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی یَعْنِی الذُّہْلِیَّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِیٍّ الْجَہْضَمِیُّ أَخْبَرَنِی أَبِی حَدَّثَنِی خَالِدُ بْنُ قَیْسٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَتَبَ إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ وَإِلَی کُلِّ جَبَّارٍ یَدْعُوہُمْ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ نَصْرِ بْنِ عَلِیٍّ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٧٤]
(١٨٢٣١) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسریٰ قیصر اور ہر سردار کی طرف خط لکھا اور انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔

18238

(١٨٢٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِیُّ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّی وَیُوسُفُ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَا قَاتَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَوْمًا قَطُّ حَتَّی یَدْعُوہُمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٣٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی کسی قوم سے لڑائی نہیں کی یہاں تک کہ ان کو دعوت دے دی۔

18239

(١٨٢٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُوَیْہِ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُوسَی بْنُ عِیسَی بْنِ الْمُنْذِرِ الْحِمْصِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّی حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ مُسَافِرٍ حَدَّثَنِی مُقَاتِلُ بْنُ حَیَّانَ عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأُسَارَی مِنَ اللاَّتِ وَالْعُزَّی قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَلْ دَعَوْتُمُوہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ ؟ ۔ فَقَالُوا : لاَ ۔ فَقَالُوا لَہُمْ : ہَلْ دَعَوْکُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ ۔ فَقَالُوا : لاَ ۔ قَالَ : خَلُّوا سَبِیلَہُمْ حَتَّی یَبْلُغُوا مَأْمَنَہُمْ ۔ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَاتَیْنِ الآیَتَیْنِ {إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا } [الأحزاب ٤٥-٤٦] { وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ } [الأنعام ١٩] إِلَی آخِرِ الآیَۃِ ۔ رَوْحُ بْنُ مُسَافِرٍ ضَعِیفٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٣٣) حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لات و عزیٰ کے قیدی لائے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں فرمایا : کیا تمہیں انھوں نے اسلام کی جانب بلایا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ امن کی جگہ پہنچ جائیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دو آیات تلاوت کیں۔

18240

(١٨٢٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّیَّارِیُّ بِمَرْوٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ حَاتِمٍ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ : کَتَبْتُ إِلَی نَافِعٍ أَسْأَلُہُ عَنِ الدُّعَائِ یَعْنِی فِی الْقِتَالِ فَکَتَبَ إِنَّمَا کَانَ ذَلِکَ فِی أَوَّلِ الإِسْلاَمِ قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَہُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُہُمْ تُسْقَی عَلَی الْمَائِ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَہُمْ وَسَبَی سَبْیَہُمْ وَأَصَابَ یَوْمَئِذٍ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ حَدَّثَنِی بِذَلِکَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ وَکَانَ فِی ذَلِکَ الْجَیْشِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَسَنِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٣٤) ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے نافع کو خط لکھا کہ قتال میں دعوت دینے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ شروع اسلام میں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مصطلق پر شب خون مارا اس حال میں کہ وہ غافل تھے اور ان کے مویشی پانی پی رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا اور بچوں کو قیدی بنایا اور اسی دن جویریہ بنت حارث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی۔ یہ عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں اور وہ اس لشکر میں تھے۔

18241

(١٨٢٣٥) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا ابْنُ رَجَائٍ أَخْبَرَنَا عِکْرِمَۃُ عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَمَّرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَیْنَا فِی غَزْوَۃٍ فَلَمَّا دَنَوْنَا أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَعَرَّسْنَا فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَشَنَنَّا الْغَارَۃَ فَوَرَدْنَا الْمَائَ فَقَتَلْنَا مَنْ قَتَلْنَا وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ وَالأَحَادِیثُ الَّتِی مَضَتْ فِی جَوَازِ التَّبْیِیتِ دَلِیلٌ فِی ہَذِہِ الْمَسْأَلَۃِ ۔ [صحیح۔ بخاری ١٧٥٥]
(١٨٢٣٥) ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم ابوبکر (رض) کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ہمارے اوپر ایک غزوہ میں امیر بنایا تھا۔ جب ہم دشمن کے قریب ہوئے تو ابوبکر (رض) نے ہمیں پڑاؤ کا حکم دیا۔ جب ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو ابوبکر (رض) نے چاروں طرف سے حملے کا حکم دے دیا۔ ہم پانی کے گھاٹ پر وارد ہوئے تو ہم نے قتل کیا جس کو بھی قتل کیا۔

18242

(١٨٢٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُغِیرُ عِنْدَ الصَّبَّاحِ فَیَسْتَمِعُ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ وَإِلاَّ أَغَارَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٣٦) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت حملہ کرتے اگر اذان کی آواز کو سن لیتے تو رک جاتے وگرنہ حملہ کردیتے۔

18243

(١٨٢٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا غَزَا قَوْمًا لَمْ یُغِرْ حَتَّی یُصْبِحَ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَکَ وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْفَزَارِیِّ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٣٧) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم سے جنگ کرتے تو صبح سے پہلے حملہ نہ کرتے۔ اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ سے باز آجاتے۔ اگر اذان کی آواز نہ سنتے تو صبح کے بعد حملہ کردیتے۔

18244

(١٨٢٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَیْنَۃَ یُقَالُ لَہُ ابْنُ عِصَامٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً قَالَ : إِذَا سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا أَوْ رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا فَلاَ تَقْتُلُوا أَحَدًا ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٣٨) ابن عصام اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی چھوٹا لشکر بھیجتے تو فرماتے : جب تم اذان کی آواز سنو یا تم مسجد دیکھو تو تم کسی کو قتل نہ کرو۔

18245

(١٨٢٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ فِیمَا قَرَأَ عَلَی مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ ۔ قَالَ مَالِکٌ أُرَاہُ مَخَافَۃَ أَنْ یَنَالَہُ الْعَدُوُّ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٣٩) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن کی زمین کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
امام مالک (رح) فرماتے ہیں : میرا خیال ہے اس ڈر سے کہ کہیں دشمن اس کو حاصل نہ کرلیں۔

18246

(١٨٢٤٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عِیسَی بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ وَإِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ قَالُوا حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ فَذَکَرَہُ بِمِثْلِہِ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَ مَالِکٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔
(١٨٢٤٠) خالی

18247

(١٨٢٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ ابْنُ عُلَیَّۃَ عَنْ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیِّ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَی أَرْضِ الْعَدُوِّ مَخَافَۃَ أَنْ یَنَالَہُ الْعَدُوُّ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ ابْنِ عُلَیَّۃَ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٤١) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن لے کر دشمن کے علاقہ کی طرف سفر کرنے سے منع فرمایا اس خوف سے کہ کہیں دشمن اس کو لے نہ لے۔

18248

(١٨٢٤٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ ذِی الْجَوْشَنِ رَجُلٌ مِنَ الضِّبَابِ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِی یُقَالُ لَہَا الْقَرْحَائُ فَقُلْتُ یَا مُحَمَّدُ إِنِّی جِئْتُکَ بِابْنِ الْقَرْحَائُ لِتَتَّخِذَہُ قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أُقِیضَکَ بِہِ الْمُخْتَارَۃَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ ۔ قُلْتُ : مَا کُنْتُ أُقِیضُہُ الْیَوْمَ بِغُرَّۃٍ ۔ قَالَ : فَلاَ حَاجَۃَ لِی فِیہِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ قَوْلُہُ أُقِیضُکَ مِنَ الْمُقَایَضَۃِ وَہِیَ الْمُبَادَلَۃُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٤٢) ذی الجوشن ضباب قبیلے کا ایک آدمی ہے۔ اس نے کہا : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس اپنے گھوڑے کا بچہ لایا جس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر والوں سے فارغ ہوچکے تھے۔ اس کو فرحاء کہا جاتا تھا۔ میں نے کہا : اے محمد ! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرحاء کے بچے کو لایا ہوں تاکہ آپ اس کو لے لیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں اس کا بدر کے زرعوں سے تبادلہ کرلیتا ہوں۔ میں نے ایسا کرلیا۔ میں نے کہا : میں آج کسی غلام کے بدلے تبادلہ نہ کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

18249

(١٨٢٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِیدِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلاً مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ : وَأُخِذَتْ نَاقَۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تِلْکَ وَسُبِیَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَکَانَتِ النَّاقَۃُ أُصِیبَتْ قَبْلَہَا فَکَانَتْ تَکُونُ فِیہِمْ وَکَانُوا یَجِیئُونَ بِالنَّعَمِ إِلَیْہِمْ قَالَ فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ مِنَ الْوَثَاقِ فَأَتَتِ الإِبِلَ فَجَعَلَتْ کُلَّمَا أَتَتْ بَعِیرًا رَغَا حَتَّی أَتَتْ تِلْکَ النَّاقَۃَ فَشَنَقَتْہَا فَلَمْ تَرْغُ وَہِیَ نَاقَۃٌ ہَدِرَۃٌ فَقَعْدَتْ فِی عَجُزِہَا ثُمَّ صَاحَتْ بِہَا فَانْطَلَقَتْ فَطُلِبَتْ مِنْ لَیْلَتِہَا فَلَمْ یُقْدَرْ عَلَیْہَا فَجَعَلَتْ لِلَّہِ عَلَیْہَا إِنِ اللَّہُ أَنْجَاہَا عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا فَلَمَّا قَدِمَتْ عَرَفُوا النَّاقَۃَ فَقَالُوا نَاقَۃُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَتْ إِنَّہَا قَدْ جَعَلَتْ لِلَّہِ عَلَیْہَا إِنْ أَنْجَاہَا اللَّہُ عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا قَالُوا لاَ وَاللَّہِ لاَ تَنْحَرِیہَا حَتَّی نُؤْذِنَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَتَوْہُ فَأَخْبَرُوہُ أَنَّ فُلاَنَۃَ قَدْ جَائَ تْ عَلَی نَاقَتِکَ وَإِنَّہَا جَعَلَتْ لِلَّہِ عَلَیْہَا إِنْ أَنْجَاہَا اللَّہُ عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: سُبْحَانَ اللَّہِ بِئْسَمَا جَزَتْہَا إِنِ اللَّہُ أَنْجَاہَا عَلَیْہَا لَتَنْحَرَنَّہَا لاَ وَفَائَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ وَلاَ وَفَائَ لِنَذْرٍ فِیمَا لاَ یَمْلِکُ الْعَبْدُ ۔ أَوْ قَالَ : ابْنُ آدَمَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٦٤١]
(١٨٢٤٣) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ صحابہ نے بنو عقیل کا ایک شخص قیدی بنا لیا۔ پھر انھوں نے حدیث کو ذکر کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پکڑ لی گئی اور ایک انصاری عورت قیدی بنا لی گئی۔ اونٹنی اس سے پہلے پکڑ لی گئی تھی۔ وہ ان میں موجود تھی اور وہ اپنے جانور لے کر ان کے پاس آئے تھے۔ راوی کہتے ہیں : ایک دن وہ زنجیروں سے کھل گئی۔ وہ اونٹوں کے باڑے میں آئی۔ وہ جس اونٹ کے پاس بھی آئی اس نے آواز نکالی۔ جب وہ عورت اس اونٹنی کے پاس آئی اس اونٹنی کو لگام دی تو اس نے آواز نہ نکالی۔ بلبلانے والی اونٹنی تھی۔ وہ عورت اس پر سوار ہوگئی اور اسے چلایا۔ اس عورت کو تلاش کیا گیا لیکن وہ اس پر قادر نہ ہو سکے۔ اس عورت نے نذر مان لی۔ اگر اللہ نے مجھے نجات دی تو وہ اس اونٹنی کو ذبح کر دے گی۔ جب وہ عورت آئی تو صحابہ نے اونٹنی پہچان لی کہ یہ اونٹنی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے۔ اس عورت نے کہا کہ میں نے تو نذر مانی ہے۔ اگر اللہ نے اسے نجات دے دی تو وہ اس اونٹنی کو ذبح کر دے گی۔ صحابہ نے کہا : اس اونٹنی کو ذبح نہ کرنا یہاں تک کہ ہم رسول اللہ سے اجازت لے لیں۔ صحابہ نے آ کر رسول اللہ کو خبر دی کہ فلاں عورت آپ کی اونٹنی پر آئی ہے اور اس نے نذر مانی ہے اگر اللہ نے اسے نجات دے دی تو وہ اس کو ذبح کر دے گی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ پاک ہے برا بدلہ ہے اگر اللہ نے اسے نجات دی تو وہ اس کو ذبح کرے گی۔ اللہ کی نافرمانی میں مانی گئی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ہے اور نہ اس نذر کو پورا کیا جائے جس کا بندہ مالک نہیں رہا یا فرمایا ابن آدم مالک نہیں رہا۔

18250

(١٨٢٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرٍو الْحِیرِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو یَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَتِ الْعَضْبَائُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ وَکَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ فَأُسِرَ الرَّجُلُ وَأُخِذَتِ الْعَضْبَائُ قَالَ فَمَرَّ بِہِ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ فِی وَثَاقٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَی أَنْ قَالَ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ فُدِی بِالرَّجُلَیْنِ وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْعَضْبَائَ لِرَحْلِہِ ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِکِینَ أَغَارُوا عَلَی سَرْحِ الْمَدِینَۃِ فَذَہَبُوا بِہِ وَکَانَتِ الْعَضْبَائُ فِی ذَلِکَ السَّرْحِ وَأَسَرُوا امْرَأَۃً مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قِصَّۃِ انْفِلاَتِہَا بِنَحْوٍ مِنْ حَدِیثِ الثَّقَفِیِّ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الرَّبِیعِ الزَّہْرَانِیِّ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٤٤) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ عصباء اونٹنی بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی اور یہ اونٹنی حاجیوں سے سبقت لے جانے والی تھی۔ آدمی کو قیدی بنا لیا گیا اور اونٹنی پکڑ لی گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس سے گزرے۔ وہ جکڑا ہوا تھا۔ پھر اس شخص کو دو آدمیوں کے عوض چھوڑ دیا گیا اور عصباء اونٹنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سواری کے لیے رکھ لی۔ پھر مشرکین نے مدینہ کے مویشیوں پر حملہ کیا تو اسے بھی لے گئے اور عصباء اونٹنی بھی ان جانوروں میں تھی۔ انھوں نے مسلمانوں کی ایک عورت کو بھی قید کرلیا۔ پھر اس نے اس عورت کے آنے کا بھی تذکرہ کیا۔

18251

(١٨٢٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ قَوْمًا أَغَارُوا فَأَصَابُوا امْرَأَۃً مِنَ الأَنْصَارِ وَنَاقَۃً لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَکَانَتِ الْمَرْأَۃُ وَالنَّاقَۃُ عِنْدَہُمْ ثُمَّ انْفَلَتَتِ الْمَرْأَۃُ فَرَکِبَتِ النَّاقَۃَ فَأَتَتِ الْمَدِینَۃَ فَعُرِفَتْ نَاقَۃُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَتْ : إِنِّی نَذَرَتْ لَئِنْ نَجَّانِی اللَّہُ عَلَیْہَا لأَنْحَرَنَّہَا فَمَنَعُوہَا أَنْ تَنْحَرَہَا حَتَّی یَذْکُرُوا ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : بِئْسَمَا جَزَیْتِہَا إِنْ نَجَّاکِ اللَّہُ عَلَیْہَا أَنْ تَنْحَرِیہَا لاَ نَذْرَ فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ وَلاَ فِیمَا لاَ یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ ۔ وَقَالاَ مَعًا أَوْ أَحَدُہُمَا فِی الْحَدِیثِ وَأَخَذَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَاقَتَہُ ۔ زَادَ أَبُو سَعِیدٍ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ الشَّافِعِیُّ فَقَدْ أَخَذَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَاقَتَہُ بَعْدَ مَا أَحْرَزَہَا الْمُشْرِکُونَ وَأَحْرَزَتْہَا الأَنْصَارِیَّۃُ عَلَی الْمُشْرِکِینَ ۔
(١٨٢٤٥) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ کسی قوم نے شب خون مارا اور ایک انصاری عورت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کو پکڑ لیا۔ یہ عورت اور اونٹنی ان کے پاس تھیں۔ پھر عورت اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ آگئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پہچان لی گئی۔ اس عورت نے کہا : میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مجھے نجات دے دی تو میں اس کو ذبح کر دوں گی۔ صحابہ نے ذبح کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے برا بدلہ دیا ہے۔ اگر اللہ تجھے اس پر نجات دے تو اسے ذبح کرے گی۔ اللہ کی نافرمانی میں کوئی نذر نہیں اور ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں اس کی بھی نذر نہیں۔ دونوں یا ایک حدیث میں اکٹھے ذکر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اونٹنی لے لی۔

18252

(١٨٢٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : طَلْحَۃُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الصَّقْرِ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْخَالِقِ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِی رُوبَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ لُوَیْنٌ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ غَلاَمًا لَہُمْ أَبَقَ إِلَی الْعَدُوِّ ثُمَّ ظَہَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَیْہِ فَرَدَّہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلَمْ یَکُنْ قَسَمَ ۔ أَخْرَجَہُ أَبُو دَاوُدَ فِی السُّنَنِ عَنْ صَالِحِ بْنِ سُہَیْلٍ عَنْ یَحْیَی۔ [حسن ]
(١٨٢٤٦) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ان کا غلام دشمن کی جانب بھاگ گیا۔ پھر مسلمانوں نے اس پر غلبہ پا لیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے واپس کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم نہ فرمایا تھا۔

18253

(١٨٢٤٧) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ غُلاَمًا لَہُ لَحِقَ بِالْعَدُوِّ عَلَی فَرَسٍ لَہُ فَظَہَرَ عَلَیْہِمَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَرَدَّہُمَا عَلَیْہِ کَذَا قَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ وَقَدْ بَیَّنَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ مَا کَانَ مِنْہُ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَا کَانَ بَعْدَہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٤٧) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ان کا غلام دشمنوں سے ان کے گھوڑے سمیت جا ملا تو خالد بن ولید نے دونوں کو قبضہ میں لے لیا اور ان پر واپس کردیے۔
اسی طرح ابو معاویہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن نمیر نے عبید اللہ سے واضح بیان کیا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد میں ہوا۔

18254

(١٨٢٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ الأَنْبَارِیُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْمَعْنَی قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبِسْطَامِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ ہُوَ ابْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ یَعْنِی مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا أَبِی حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : ذَہَبَتْ فَرَسٌ لَہُ فَأَخَذَہَا الْعَدُوُّ فَظَہَرَ عَلَیْہِمُ الْمُسْلِمُونَ فَرُدَّتْ عَلَیْہِ فِی زَمَنِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ قَالَ : وَأَبَقَ عَبْدٌ لَہُ فَلَحِقَ بِالرُّومِ فَظَہَرَ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ فَرَدَّہُ عَلَیْہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بَعْدَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ فَقَالَ وَقَالَ ابْنُ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠٦٨-٩٠٦٩]
(١٨٢٤٨) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ان کا گھوڑا بھاگ گیا، جسے دشمنوں نے پکڑ لیا تو مسلمانوں نے ان پر غلبہ پا لیا۔ پھر رسول اللہ کے دور میں ان کو واپس کردیا گیا۔ فرماتے ہیں : ان کا غلام بھاگ کر رومیوں کے ساتھ جا ملا۔ مسلمان ان پر غالب آگئے تو خالد بن ولید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد واپس کردیا تھا۔

18255

(١٨٢٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الْبِسْطَامِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ کَانَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ یَوْمَ لَقِیَ الْمُسْلِمُونَ طَیِّئًا وَأَسَدًا وَأَمِیرُ الْمُسْلِمِینَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بَعَثَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَاقْتَحَمَ الْفَرَسُ بِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ جُرْفًا فَصَرَعَہُ وَسَقَطَ عَبْدُ اللَّہِ فَعَارَ الْفَرَسُ فَأَخَذَہُ الْعَدُوُّ فَلَمَّا ہَزَمَ اللَّہُ الْعَدُوَّ رَدَّ خَالِدٌ عَلَی عَبْدِ اللَّہِ فَرَسَہُ ۔ [صحیح ] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ ۔ فَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ الْعَبْدُ ہُوَ الَّذِی رُدَّ عَلَیْہِ فِی عَہْدِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَالْفَرَسُ بَعْدَہُ لِیَکُونَ مُوَافِقًا لِرِوَایَۃِ یَحْیَی بْنِ زَکَرِیَّا بْنِ أَبِی زَائِدَۃَ ثُمَّ رِوَایَۃِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ ہَذِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَلَیْسَ فِی شَیْئٍ مِنَ الرِّوَایَاتِ أَمْرُ الْقِسْمَۃِ وَلَعَلَّہُ فِی رِوَایَۃِ یَحْیَی مِنْ قَوْلِ بَعْضِ الرُّوَاۃِ دُونَ ابْنِ عُمَرَ ۔
(١٨٢٤٩) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار تھے۔ جب مسلمانوں نے قبیلہ طینا اور اسد سے لڑائی کی۔ مسلمانوں کے امیر خالد بن ولید تھے۔ جنہیں حضرت ابوبکر نے مقرر فرمایا تھا۔ جرف نامی جگہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا گھوڑا بدکا۔ اس نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو گرا دیا۔ گھوڑا بھاگ گیا تو دشمن نے اسے پکڑ لیا۔ جب دشمن کو اللہ نے شکست دی تو خالد بن ولید نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کو گھوڑا واپس کردیا۔
نوٹ : غلام کی واپسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ہوئی اور گھوڑا بعد میں واپس کیا گیا تاکہ یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی روایت کے موافق ہوجائے۔ ان روایات میں تقسیم کا تذکرہ نہیں ہے۔

18256

(١٨٢٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا الثِّقَۃُ عَنْ مَخْرَمَۃَ بْنِ بُکَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ لاَ أَحْفَظُ عَمَّنْ رَوَاہُ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ فِیمَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ مِمَّا غَلَبُوا عَلَیْہِ أَوْ أَبَقَ إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَحْرَزَہُ الْمُسْلِمُونَ مَالِکُوہُ أَحَقُّ بِہِ قَبْلَ الْقَسْمِ وَبَعْدَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٠) حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ جب دشمن مسلمانوں کا مال ان پر غلبے کی صورت میں حاصل کرلے یا کوئی چیز ان کی طرف بھاگ گئی پھر مسلمانوں نے اس مال کو حاصل کرلیا تو مال کے مالک تقسیم سے پہلے اور بعد میں اس مال کے زیادہ حق دار ہیں۔

18257

(١٨٢٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ زَائِدَۃَ عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ الْفَزَارِیِّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَصَابَ الْمُشْرِکُونَ فَرَسًا لَہُمْ زَمَنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ کَانُوا أَحْرَزُوہُ فَأَصَابَہُ مُسْلِمُونَ زَمَنَ سَعْدٍ فَکَلَّمْنَاہُ فَرَدَّہُ عَلَیْنَا بَعْدَ مَا قَسَمَ وَصَارَ فِی خُمُسِ الإِمَارَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٥١) رکین بن ربیع فراری اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے ان کا گھوڑا قبضہ میں لے لیا، خالد بن ولید کے دور میں۔ پھر مسلمانوں نے حضرت سعد کے دور میں واپس حاصل کرلیا۔ ہم نے حضرت سعد سے بات کی تو انھوں نے ہمیں مال کی تقسیم کے بعد واپس کردیا اور یہ خلیفہ کے خمس مال میں تھا۔

18258

(١٨٢٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَۃَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ الزَّرَّادِ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : إِنِّی وَجَدْتُ بَعِیرِی فِی الْمَغْنَمِ کَانَ أَخَذَہُ الْمُشْرِکُونَ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: انْطَلِقْ فَإِنْ وَجَدْتَ بَعِیرَکَ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ فَخُذْہُ وَإِنْ وَجَدْتَہُ قَدْ قُسِمَ فَأَنْتْ أَحَقُّ بِہِ بِالثَّمَنِ إِنْ أَرَدْتَہُ ۔ ہَذَا الْحَدِیثُ یُعْرَفُ بِالْحَسَنِ بْنِ عُمَارَۃَ عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ مَیْسَرَۃَ ۔ وَالْحَسَنُ بْنُ عُمَارَۃَ مَتْرُوکٌ لاَ یُحْتَجُّ بِہِ ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا مَسْلَمَۃُ بْنُ عَلِیٍّ الْخُشَنِیُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ وَہُوَ أَیْضًا ضَعِیفٌ وَرُوِیَ بِإِسْنَادٍ آخَرَ مَجْہُولٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ وَلاَ یَصِحُّ شَیْئٌ مِنْ ذَلِکَ وَرُوِیَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی فَرْوَۃَ وَیَاسِینَ بْنِ مُعَاذٍ الزَّیَّاتِ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ مَرْفُوعًا عَلَی اخْتِلاَفٍ بَیْنَہُمَا فِی لَفْظِہِ ۔ (ج) وَإِسْحَاقُ وَیَاسِینُ مَتْرُوکَانِ لاَ یُحْتَجُّ بِہِمَا۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٢) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرا اونٹ مال غنیمت میں ہے جس کو مشرکین نے پکڑ لیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تقسیم سے پہلے آپ اپنے اونٹ کو پالیں تو لے لو، اگر تقسیم ہوجائے تو پھر اونٹ کی قیمت مل سکتی ہے اگر آپ چاہیں۔

18259

(١٨٢٥٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ وَأَبُو بَکْرٍ الْفَارِسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ قَالَ : عَرَفَ رَجُلٌ نَاقَۃً لَہُ فِی یَدَیْ رَجُلٍ فَأَتَی بِہِ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَسُئِلَ عَنْ أَمْرِ النَّاقَۃِ فَوُجِدَ أَصْلُہَا اشْتُرِیَ مِنْ أَیْدِی الْعَدُوِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِلَّذِی عَرَفَہَا : إِنْ شِئْتَ أَنْ تَأْخُذَ بِالثَّمَنِ الَّذِی اشْتَرَاہَا بِہِ فَأَنْتَ أَحَقُّ بِہَا وَإِلاَّ فَخَلِّ عَنْ نَاقَتِہِ ۔ قَالَ : وَسُئِلَ شَاہِدَیْنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٣) تمیم بن طرفہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی اونٹنی کسی شخص کے ہاتھ میں پہچان لی۔ وہ اسے لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا جب اس سے اونٹنی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا : میں نے دشمن سے خریدی ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہچاننے والے شخص سے کہا : اگر آپ لینا چاہیں تو جس قیمت میں اس نے خریدی ہے، وہ قیمت ادا کرو تو آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں ورنہ اونٹنی چھوڑ دو ۔ راوی کہتے ہیں کہ دو گواہوں کے متعلق پوچھا گیا۔

18260

(١٨٢٥٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ تَمِیمِ بْنِ طَرَفَۃَ : أَنَّ الْعَدُوَّ أَصَابُوا نَاقَۃَ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَاشْتَرَاہَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَعَرَفَہَا صَاحِبُہَا فَخَاصَمَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : رُدَّ إِلَیْہِ الثَّمَنَ الَّذِی اشْتَرَاہَا بِہِ أَوْ خَلِّ بَیْنَہُ وَبَیْنَہَا ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَغْدَادِیِّ عَنْہُ : تَمِیمُ بْنُ طَرَفَۃَ لَمْ یُدْرِکِ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ وَالْمُرْسَلُ لاَ تَثْبُتُ بِہِ حَجَّۃٌ لأَنَّہُ لاَ یُدْرَی عَمَّنْ أَخَذَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٤) سماک بن حرب حضرت تمیم بن طرفہ سے نقل فرماتے ہیں کہ دشمن نے مسلمانوں کے کسی فرد کی اونٹنی پر قبضہ کرلیا اور کسی مسلمان نے اس اونٹنی کو خرید لیا تو اونٹنی کے مالک نے اسے پہچان لیا۔ جھگڑا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی قیمت واپس کر دو جس قیمت میں اس نے خریدی ہے یا اپنی اونٹنی چھوڑ دو ۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : تمیم بن طرفہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ نہیں سنا اور مرسل حدیث حجت نہیں ہوتی۔ معلوم ہی نہیں کہ اس نے کس سے حاصل کی۔

18261

(١٨٢٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ عَنْ قَبِیصَۃَ بْنِ ذُؤَیْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ فِیمَا أَحْرَزَہُ الْمُشْرِکُونَ مَا أَصَابَہُ الْمُسْلِمُونَ فَعَرَفَہُ صَاحِبُہُ قَالَ : إِنْ أَدْرَکَہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ فَہُوَ لَہُ وَإِذَا جَرَتْ فِیہِ السِّہَامُ فَلاَ شَیْئَ لَہُ ۔ قَالَ وَقَالَ قَتَادَۃُ وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : ہُوَ لِلْمُسْلِمِینَ اقْتُسِمَ أَوْ لَمْ یُقْتَسَمْ ۔ ہَذَا مُنْقَطِعٌ۔ قَبِیصَۃُ لَمْ یُدْرِکْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَقَتَادَۃُ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُنْقَطِعٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٥) قبیصہ بن زویب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ مشرکین نے کسی مال پر قبضہ کرلیا، پھر ان سے مسلمانوں نے حاصل کرلیا اور مال کے مالک نے اپنا مال پہچان لیا تو اگر تقسیم سے پہلے اپنا مال لے لے تو اس کا ہے اور جب حصے تقسیم ہوجائیں تو اسے کچھ نہ ملے گا۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ تقسیم ہو نہ ہو وہ مال مسلمانوں کا ہے۔

18262

(١٨٢٥٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ حَدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی عَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ فِیمَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ أَصَابَہُ الْمُسْلِمُونَ بَعْدُ أَنْ یَرُدَّ إِلَی أَہْلِہِ مَا لَمْ یُقْسَمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٦) رجاء بن حیوہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ جو مال دشمن اپنے قبضہ میں کرلے۔ پھر مسلمانوں نے حاصل کرلیا تو تقسیم سے پہلے اصل مالک کو واپس کیا جاسکتا ہے۔

18263

(١٨٢٥٧) وَبِإِسْنَادِہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنْ سَعِیدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی السَّائِبِ بْنِ الأَقْرَعِ أَیُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَجَدَ رَقِیقَہُ وَمَتَاعَہُ بِعَیْنِہِ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ وَإِنْ وَجَدَہُ فِی أَیْدِی التُّجَّارِ بَعْدَ مَا قُسِمَ فَلاَ سَبِیلَ إِلَیْہِ وَأَیُّمَا حُرٍّ اشْتَرَاہُ التُّجَّارُ فَرُدَّ عَلَیْہِمْ رُئُ وسَ أَمْوَالِہِمْ فَإِنَّ الْحُرَّ لاَ یُبَاعُ وَلاَ یُشْتَرَی۔ رَوَاہُ غَیْرُہُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ أَبِی حَرِیزٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْہُ ہَذَا عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُرْسَلٌ إِنَّمَا رُوِیَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَعَنْ رَجَائِ بْنِ حَیْوَۃَ عَنْ عُمَرَ وَکِلاَہُمَا لَمْ یُدْرِکْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَلاَ قَارَبَ ذَلِکَ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَحَدِیثُ سَعْدٍ أَثْبَتُ مِنَ الْحَدِیثِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لأَنَّہُ عَنِ الرُّکَیْنِ بْنِ الرَّبِیعِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ سَعْدًا فَعَلَہُ بِہِ وَالْحَدِیثُ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُرْسَلٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٧) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سائب بن اقرع کو خط لکھا : جو مسلمان اپنا غلام یا مال پالے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر اس نے تاجروں کے پاس پایا تو پھر اس کا کوئی حق نہیں ہے اور جس آزاد فرد کو تاجروں نے خرید لیا ہو تو ان کا اصل مال واپس کردیا جائے گا؛ کیونکہ آزاد آدمی کی خریدو فروخت نہیں کی جاسکتی۔

18264

(١٨٢٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی جَعْفَرٍ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالاَ : مَا أَحْرَزَ الْعَدُوُّ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِینَ فَاسْتُنْقِذَ فَعَرَفَہُ أَہْلُہُ قَبْلَ أَنْ یُقْسَمَ رُدَّ إِلَیْہِمْ فَإِنْ لَمْ یَعْرِفُوہُ حَتَّی یُقْسَمَ لَمْ یُرَدَّ عَلَیْہِمْ ۔ کَذَا وَجَدْتُہُ فِی کِتَابِی وَہُوَ ہَکَذَا مُنْقَطِعٌ۔ وَابْنُ لَہِیعَۃَ غَیْرُ مُحْتَجٍّ بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ وَقَدْ قِیلَ فِیہِ عَنْ سُلَیْمَانَ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٨) سلیمان بن یسار اور زید بن ثابت (رض) دونوں فرماتے ہیں کہ دشمن مسلمانوں کے مال پر قبضہ کرلے، پھر مال حاصل کرلیا جائے اور مالک تقسیم سے پہلے پہچان لے تو اسے واپس کردیا جائے گا۔ اگر تقسیم کے بعد پہچان کرلے تو واپس نہ کیا جائے گا۔

18265

(١٨٢٥٩) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ الدِّمَشْقِیُّ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خُرَیْمٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا یَاسِینُ بْنُ مُعَاذٍ الزَّیَّاتُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ أَسْلَمَ عَلَی شَیْئٍ فَہُوَ لَہُ ۔ یَاسِینُ بْنُ مُعَاذٍ الزَّیَّاتُ کُوفِیٌّ ضَعِیفٌ جَرَّحَہُ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ وَالْبُخَارِیُّ وَغَیْرُہُمَا مِنَ الْحُفَّاظِ ۔ وَہَذَا الْحَدِیثُ إِنَّمَا یُرْوَی عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُرْسَلاً وَعَنْ عُرْوَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُرْسَلاً ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَأَنَّ مَعْنَی ذَلِکَ مَنْ أَسْلَمَ عَلَی شَیْئٍ یَجُوزُ لَہُ مَلْکُہُ فَہُوَ لَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٥٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے کسی چیز پر اسلام قبول کرلیا وہ اس کی ہے۔
قال الشافعی : اگر اس کی ملکیت اس کے لیے درست ہو تو وہ اس کی ہے۔

18266

(١٨٢٦٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ قَالَ مَعْمَرٌ قَالَ الزُّہْرِیُّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فِی قِصَّۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ وَمَا قَالَ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِیُّ لِلْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ حِینَ قَالَ لَہُ الْمُغِیرَۃُ : أَخِّرْ یَدَکَ عَنْ لِحْیَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ قَالَ : أَیْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَی فِی غَدْرَتِکَ قَالَ وَکَانَ الْمُغِیرَۃُ صَحِبَ قَوْمًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَقَتَلَہُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَہُمْ ثُمَّ جَائَ فَأَسْلَمَ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَمَّا الإِسْلاَمُ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالُ فَلَسْتُ مِنْہُ فِی شَیْئٍ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَإِنَّمَا امْتَنَعَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ تَخْمِیسِہِ فِیمَا رَوَی یُونُسُ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّہُ مَالُ غَدْرٍ وَفِیمَا رَوَی عُقَیْلٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ نُخَمِّسُ مَالاً أُخِذَ غَصْبًا ۔ فَتَرَکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمَالَ فِی یَدَیِ الْمُغِیرَۃِ وَفِی ذَلِکَ دَلاَلَۃٌ عَلَی أَنَّہُ مَلَکَہُ بِالأَخْذِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٧٤٥]
(١٨٢٦٠) مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم غدیبیہ کے قصہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ عروہ بن مسعود ثقفی نے مغیرہ بن شعبہ سے کہا، جب مغیرہ نے عروہ سے کہا تھا کہ اپنا ہاتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھی مبارک سے دور رکھو۔ اس نے کہا : اے دھوکا باز ! کیا میں نے تیرے عذر کی رقم نہ بھری تھی اور مغیرہ زمانہ جاہلیت میں اس کا قوم کا ساتھی تھا، جس نے قتل کیا اور اس نے ان کے مال بھی لیے۔ پھر آ کر مسلمان ہوگئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام تو میں نے اس کا قبول کرلیا لیکن میں اس کے کسی اور فعل کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
شیخ فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس سے حصہ روکا ہے۔ یونس زہری سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ غدر کا مال ہے۔ زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غصب شدہ مال سے ہم خمس نہیں لیتے (یعنی پانچواں حصہ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال مغیرہ کو دے دیا۔ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ وہ اس مال کو لینے کی وجہ سے اس کے مالک بن گئے۔

18267

(١٨٢٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو شَیْخٍ الْحَرَّانِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ أَعْیَنَ عَنْ لَیْثِ بْنِ أَبِی سُلَیْمٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ فِی أَہْلِ الذِّمَّۃِ : لَہُمْ مَا أَسْلَمُوا عَلَیْہِ مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَعَبِیدِہِمْ وَدِیَارِہِمْ وَأَرْضِہِمْ وَمَاشِیَتِہِمْ لَیْسَ عَلَیْہِمْ فِیہِ إِلاَّ الصَّدَقَۃُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦١) سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ذمہ سے فرمایا : ان کے لیے ہے جس پر انھوں نے اسلام قبول کیا۔ مال، غلام، گھر، زمین اور مویشی وغیرہ۔ ان کے ذمہ صرف زکوۃ ہے۔

18268

(١٨٢٦٢) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ یَہُودَ بَنِی النَّضِیرِ وَقُرَیْظَۃَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَنِی النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَۃَ وَمَنَّ عَلَیْہِمْ حَتَّی حَارَبَتِ قُرَیْظَۃُ بَعْدَ ذَلِکَ فَقَتَلَ رِجَالَہُمْ وَقَسَمَ نِسَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ وَأَوْلاَدَہُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلاَّ بَعْضَہُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَآمَنَہُمْ وَأَسْلَمُوا۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٦٢) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو نضیر، بنو قریظہ کے یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا جبکہ بنو قریظہ کو برقرار رکھا اور ان پر احسان کیا لیکن بعد میں بنو قریظہ نے آپ سے لڑائی کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتیں، مال اور اولاد کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ لیکن جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پناہ بھی دی تو انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔

18269

(١٨٢٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ أَنَّہُ قَالَ : ہَلْ تَدْرِی عَمَّ کَانَ إِسْلاَمُ ثَعْلَبَۃَ وَأَسِیدِ ابْنَیْ سَعْیَۃَ وَأَسَدِ بْنِ عُبَیْدٍ نَفَرٍ مِنْ ہَدَلٍ لَمْ یَکُونُوا مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَلاَ نَضِیرٍ کَانُوا فَوْقَ ذَلِکَ فَقُلْتُ لاَ قَالَ فَإِنَّہُ قَدِمَ عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنَ الشَّامِ مِنْ یَہُودَ یُقَالُ لَہُ ابْنُ الْہَیَّبَانِ فَأَقَامَ عِنْدَنَا وَاللَّہِ مَا رَأَیْنَا رَجُلاً قَطُّ لاَ یُصَلِّی الْخَمْسَ خَیْرًا مِنْہُ فَقَدِمَ عَلَیْنَا قَبْلَ مَبْعَثِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسِنِینَ فَکُنَّا إِذَا أُقْحِطْنَا وَقَلَّ عَلَیْنَا الْمَطَرُ نَقُولُ لَہُ یَا ابْنَ الْہَیَّبَانِ اخْرُجْ فَاسْتَسْقِ لَنَا فَیَقُولُ لاَ وَاللَّہِ حَتَّی تُقَدِّمُوا أَمَامَ مَخْرَجِکُمْ صَدَقَۃً فَنَقُولُ کَمْ نُقَدِّمُ فَیَقُولُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ مُدَّیْنِ مِنْ شَعِیرٍ ثُمَّ یَخْرُجُ إِلَی ظَاہِرَۃِ حَرَّتِنَا وَنَحْنُ مَعَہُ فَیَسْتَسْقِی فَوَاللَّہِ مَا یَقُومُ مِنْ مَجْلِسِہِ حَتَّی تَمُرَّ الشِّعَابُ قَدْ فَعَلَ ذَلِکَ غَیْرَ مَرَّۃٍ وَلاَ مَرَّتَیْنِ وَلاَ ثَلاَثَۃِ فَحَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ فَاجْتَمَعْنَا إِلَیْہِ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَہُودَ مَا تَرَوْنَہُ أَخْرَجَنِی مِنْ أَرْضِ الْخَمْرِ وَالْخَمِیرِ إِلَی أَرْضِ الْبُؤْسِ وَالْجُوعِ فَقُلْنَا أَنْتَ أَعْلَمُ فَقَالَ إِنَّہُ إِنَّمَا أَخْرَجَنِی أَتَوَقَّعُ خُرُوجَ نَبِیٍّ قَدْ أَظَلَّ زَمَانُہُ ہَذِہِ الْبِلاَدُ مُہَاجَرُہُ فَأَتَّبِعُہُ فَلاَ تُسْبَقُنَّ إِلَیْہِ إِذَا خَرَجَ یَا مَعْشَرَ یَہُودَ فَإِنَّہُ یَسْفِکُ الدِّمَائَ وَیَسْبِی الذَّرَارِیَّ وَالنِّسَائَ مِمَّنْ خَالَفَہُ فَلاَ یَمْنَعُکُمْ ذَلِکَ مِنْہُ ثُمَّ مَاتَ فَلَمَّا کَانَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ الَّتِی افْتُتِحَتْ فِیہَا قُرَیْظَۃُ قَالَ أُولَئِکَ الْفِتْیَۃُ الثَّلاَثَۃُ وَکَانُوا شَبَابًا أَحْدَاثًا یَا مَعْشَرَ یَہُودَ لَلَّذِی کَانَ ذَکَرَ لَکُمُ ابْنُ الْہَیَّبَانِ قَالُوا مَا ہُوَ قَالُوا بَلَی وَاللَّہِ إِنَّہُ لَہُوَ یَا مَعْشَرَ یَہُودَ إِنَّہُ وَاللَّہِ لَہُوَ لِصِفَتِہِ ثُمَّ نَزَلُوا فَأَسْلَمُوا وَخَلَّوْا أَمْوَالَہُمْ وَأَوْلاَدَہُمْ وَأَہَالِیہِمْ قَالَ وَکَانَتْ أَمْوَالُہُمْ فِی الْحِصْنِ مَعَ الْمُشْرِکِینَ فَلَمَّا فُتِحَ رُدَّ ذَلِکَ عَلَیْہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦٣) عاصم بن عمر بن قتادہ بنو قریظہ کے ایک شیخ سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ ثعلبہ، اسید جو سعید کے بیٹے تھے اور اسد بن عبید جو بنو ہزل سے تھا بنو نضیر اور بنو قریظہ سے نہ تھا بلکہ ان کے اعلیٰ لوگوں میں سے تھا۔ انھوں نے اسلام قبول کرلیا ؟ میں نے کہا : نہیں انھوں نے فرمایا بلکہ ہمارے پاس شام سے یہود کا ایک شخص آیا، اسے ابن ہیبان کہا جاتا تھا۔ اس نے ہمارے پاس قیام کیا۔ اللہ کی قسم ! ہم نے اس جیسا شخص کوئی نہیں دیکھا۔ اس سے بہتر پانچ نمازیں کوئی نہ پڑھتا تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے دو سال پہلے آیا، جب قحط سالی یا بارش کم ہوئی۔ ہم کہتے : اے ابن ہیبان ! چلو ہمارے لیے بارش کی دعا کرو۔ وہ کہتا کہ نہیں پہلے صدقہ کرو پھر دعا کے لیے چلتے ہیں۔ ہم پوچھتے کتنا صدقہ کریں ؟ وہ کہتا کہ ایک صاع کھجور یا دو مد جو۔ پھر وہ پتھریلی زمین کی طرف نکلتا ہے۔ ہم بھی ساتھ ہوتے اور وہ بارش کی دعا کرتا۔ اللہ کی قسم ! ہم اپنی جگہ سے نہ ہٹتے کہ بادل آجاتے۔ یہ کام اس نے کئی مرتبہ کیا۔ اس کی موت کا وقت آگیا تو ہم اس کے پاس جمع ہوگئے۔ اس نے کہا : اے یہود کا گروہ ! تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال ہے کہ ایک نبی آئے گا جس کی حکومت ان شہروں تک اور یہ اس کی ہجرت گاہ بھی ہے۔ میں اس کی پیروی کروں گا جب اس کا ظہور ہو اور تم اس کے مد مقابل نہ آنا۔ کیونکہ وہ اپنے مخالفوں کا خون بہائے گا۔ بچوں اور عورتوں کو قیدی بنائے گا تو اس کے ماننے سے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے۔ پھر وہ فوت ہوگیا۔ جس رات بنو قریظہ مغلوب کردیے گئے۔ اس وقت یہ تینوں جوان تھے۔ انھوں نے کہا : اے یہود کا گروہ ! ابن ہیبان نے تمہیں کچھ کہا تھا ؟ انھوں نے کہا : وہ کیا ؟ انھوں نے کہا : یہ وہی ہے یہی صفات اس نے بیان کی تھیں۔ آپ نے ان کے مال، اولاد اور گھر والے دے دیے۔ ان کے مال قلعہ میں مشرکین کے پاس تھے جب فتح ہوئی تو ان کو واپس کردیے۔

18270

(١٨٢٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبُو حَفْصٍ حَدَّثَنَا الْفِرْیَابِیُّ حَدَّثَنَا أَبَانُ قَالَ عُمَرُ وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ صَخْرٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَزَا ثَقِیفًا فَلَمَّا أَنْ سَمِعَ ذَلِکَ صَخْرٌ رَکِبَ فِی خَیْلٍ یُمِدُّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَوَجَدَ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدِ انْصَرَفَ وَلَمْ یَفْتَحْ فَجَعَلَ صَخْرٌ حِینَئِذٍ عَہْدَ اللَّہِ وَذِمَّتَہُ أَنْ لاَ یُفَارِقَ ہَذَا الْقَصْرَ حَتَّی یَنْزِلُوا عَلَی حُکْمِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمْ یُفَارِقْہُمْ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی حُکْمِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَکَتَبَ إِلَیْہِ صَخْرٌ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ ثَقِیفًا قَدْ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَأَنَا مُقْبِلٌ إِلَیْہِمْ وَہُمْ فِی خَیْلٍ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالصَّلاَۃِ جَامِعَۃً فَدَعَا لأَحْمَسَ عَشْرَ دَعَوَاتٍ اللَّہُمَّ بَارِکْ لأَحْمَسَ فِی خَیْلِہَا وَرِجَالِہَا وَأَتَاہُ الْقَوْمُ فَتَکَلَّمَ الْمُغِیرَۃُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ صَخْرًا أَخَذَ عَمَّتِی وَدَخَلَتْ فِیمَا دَخَلَ فِیہِ الْمُسْلِمُونَ فَدَعَاہُ فَقَالَ : یَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا دِمَائَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ فَادْفَعْ إِلَی الْمُغِیرَۃِ عَمَّتَہُ ۔ فَدَفَعَہَا إِلَیْہِ وَسَأَلَ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَائً لِبَنِی سُلَیْمٍ قَدْ ہَرَبُوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَتَرَکُوا ذَاکَ الْمَائَ فَقَالَ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ أَنْزِلْنِیہِ أَنَا وَقَوْمِی قَالَ : نَعَمْ ۔ فَأَنْزَلَہُ وَأَسْلَمَ یَعْنِی السُّلَمِیِّینَ فَأَتَوْا صَخْرًا فَسَأَلُوہُ أَنْ یَدْفَعَ إِلَیْہِمُ الْمَائَ فَأَبَی فَأَتَوْا نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالُوا : یَا نَبِیَّ اللَّہِ أَسْلَمْنَا وَأَتَیْنَا صَخْرًا لِیَدْفَعَ إِلَیْنَا مَائَ نَا فَأَبَی عَلَیْنَا فَدَعَاہُ فَقَالَ : یَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَہُمْ وَدِمَائَ ہُمْ فَادْفَعْ إِلَی الْقَوْمِ مَائَ ہُمْ ۔ قَالَ : نَعَمْ یَا نَبِیَّ اللَّہِ فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَتَغَیَّرُ عِنْدَ ذَلِکَ حُمْرَۃً حَیَائً مِنْ أَخْذِہِ الْجَارِیَۃَ وَأَخْذِہِ الْمَائَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : الاِسْتِدْلاَلُ وَقَعَ بِقَوْلِہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَہُمْ وَدِمَائَ ہُمْ ۔ فَأَمَّا اسْتِرْدَادُ الْمَائِ عَنْ صَخْرٍ بَعْدَ مَا مَلَکَہُ بِتَمْلِیکِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِیَّاہُ فَإِنَّہُ یُشْبِہُ أَنْ یَکُونَ بِاسْتِطَابَۃِ نَفْسِہِ وَلِذَلِکَ کَانَ یَظْہَرُ فِی وَجْہِہِ أَثَرَ الْحَیَائِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ وَعَمَّۃُ الْمُغِیرَۃِ فَإِنْ کَانَتْ أَسْلَمَتْ بَعْدَ الأَخْذِ فَکَأَنَّہُ رَأَی إِسْلاَمَہَا قَبْلَ الْقِسْمَۃِ یُحْرِزُ مَالَہَا وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ إِسْلاَمُہَا قَبْلَ الأَخْذِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ وَصَخْرٌ ہَذَا ہُوَ ابْنُ الْعَیِّلَۃِ قَالَہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ عَنْ أَبَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ صَخْرِ بْنِ الْعَیِّلَۃِ لَمْ یَقُلْ عَنْ أَبِیہِ وَرُوِیَ فِی قِصَّۃِ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ مَا دَلَّ عَلَیْہِ ظَاہِرُ قِصَّۃِ عَمَّۃِ الْمُغِیرَۃِ فَإِنَّہُ أَسْلَمَ ثُمَّ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَہْلِی وَمَالِی۔ قَالَ : أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِمَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَمَّا أَہْلُکَ فَانْظُرْ مْنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ ۔ قَالَ : فَرُدَّ عَلَیْہِ ابْنُہُ وَیُحْتَمَلُ أَنَّہُ اسْتَطَابَ أَنْفُسَ أَہْلِ الْغَنِیمَۃِ کَمَا فَعَلَ فِی سَبْیِ ہَوَازِنَ وَعَوَّضَ أَہْلَ الْخُمُسِ مِنْ نَصِیبِہِمْ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَإِسْنَادُ الْحَدِیثَیْنِ غَیْرُ قَوِیٍّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦٤) عثمان بن ابی حازم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا صخر سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو ثقیف سے غزوہ کیا صخر کو پتہ چلا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کے لیے اپنے گھوڑے پر آیا۔ اس نے دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر فتح کے واپس ہوئے ہیں تو صخر نے کہا : وہ اتنی دیر نہ جائے گا جب تک یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر نہ اتر آئیں۔ بالآخر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر اتر پڑے تو صخر نے لکھا : حمد و ثنا کے بعد ! اے اللہ کے رسول ! وہ آپ کے حکم پر اتر پڑے ہیں اور آپ کے پاس ایک قافلہ کی صورت میں آ رہے ہیں۔ آپ نے حکم فرمایا : صلوۃ جامعۃ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل احمس کے لیے دس دعائیں فرمائیں۔ اے اللہ ! اہل احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے۔ لوگ آئے تو مغیرہ نے بات کی کہ اے اللہ کے رسول ! صخر نے میری پھوپھی کو پکڑ لیا ہے وہ بھی لوگوں کے ساتھ مسلمان ہوگئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صخر کو بلایا اور فرمایا : اے صخر جب لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو اپنے مال، خون محفوظ کرلیتے ہیں تو مغیرہ کو ان کی پھوپھی واپس کر دو ۔ صخر نے واپس کردی اور کہا : بنو سلیم کے پانیوں کے متعلق سوال کیا جو اسلام سے بھاگ گئے اور پانی چھوڑ گئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اور میری قوم کو وہ عطا کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : درست ہے۔ وہ وہاں چلے گئے تو پھر بنو سلیم والے مسلمان ہو کر آگئے۔ تو صخر سے اپنے پانی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے کہ اے اللہ کے رسول ! ہم نے اسلام قبول کرلیا اور ہم نے صغر سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمارے پانی واپس کردیں۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صخر کو بلایا اور فرمایا : اے صخر ! جب لوگ مسلمان ہوجاتے ہیں تو اپنے مال، خون محفوظ کرلیتے ہیں۔ آپ ان کے پانی واپس کردیں۔ اس نے کہا : اے اللہ کے نبی ! درست ہے۔ میں نے رسول اللہ کے چہرے کو دیکھا کہ وہ حیا کی وجہ سرخ ہو رہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے لونڈی اور پانی واپس لیے تھے۔
شیخ فرماتے ہیں : اس قول سے استدلال کیا ہے کہ لوگ جب مسلمان ہوجاتے ہیں تو اپنے مال، خون محفوظ کرلیتے ہیں صخر سے پانی واپس لینا یہ بھی اس کے مشابہ ہے کہ وہ اپنے دل کی خوشی سے واپس کریں۔ یہی وجہ تھی کہ حیاء کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا اور مغیرہ کی پھوپھی نے پکڑے جانے کے بعد اسلام قبول کیا لیکن تقسیم سے پہلے وہ اپنے مال کا مالک بن گیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ پکڑے جانے سے پہلے ہی اس نے اسلام قبول کرلیا۔ رعیہ حیمی کا قصہ ہے کہ جب وہ مسلمان ہوا تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے اہل و عیال اور مال ؟ آپ نے فرمایا : تیرا مال تو مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوچکا اور اپنے اہل کو دیکھو جس پر آپ کو قدرت ہو تو اس کا بیٹا واپس کردیا گیا۔ ممکن ہے غنیمت وصول کرنے والوں نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہو۔

18271

(١٨٢٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا فَیَّاضٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : بَعَثَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ أَحْسِبُہُ قَالَ إِلَی بَنِی جَذِیمَۃَ فَدَعَاہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ فَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَقَالُوا صَبَأْنَا صَبَأْنَا وَجَعَلَ خَالِدٌ بِہِمْ قَتْلاً وَأَسْرًا قَالَ ثُمَّ دَفَعَ إِلَی کُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرًا حَتَّی إِذَا أَصْبَحَ یَوْمًا أَمَرَنَا فَقَالَ : لِیَقْتُلْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ أَسِیرَہُ ۔ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَاللَّہِ لاَ أَقْتُلُ أَسِیرِی وَلاَ یَقْتُلُ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِی أَسِیرَہُ قَالَ فَقَدِمْنَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذُکِرَ لَہُ مَا صَنَعَ خَالِدٌ قَالَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَحْمُودٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٣٣٩-٧١٨٩]
(١٨٢٦٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو بنو خزیمہ کی طرف بھیجا تو خالد نے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے اچھی کلام نہ کی کہ وہ کہتے کہ ہم مسلمان ہوگئے بلکہ انھوں نے کہا : ہم بےدین ہوگئے تو خالد نے انھیں قتل کیا اور قیدی بنائے۔ کہتے ہیں : پھر ہر شخص کو اس کا قیدی دے دیا گیا تو ایک صبح حضرت خالد نے حکم دیا کہ اپنے قیدی قتل کر دو تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : نہ تو میں اپنے قیدی کو قتل کروں گا اور نہ ہی میرا کوئی ساتھی تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بلند کر کے فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے بری ہوں جو خالد نے کیا۔

18272

(١٨٢٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَقِیَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ رَجُلاً فِی غُنَیْمَۃٍ لَہُ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَأَخَذُوہُ فَقَتَلُوہُ وَأَخَذُوا تِلْکَ الْغُنَیْمَۃَ فَنَزَلَتْ { وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا } [النساء ٩٤] وَقَرَأَہَا ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلاَمَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِاللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔[صحیح ]
(١٨٢٦٦) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسلمان کسی شخص کو اس کے مال میں ملا۔ اس نے کہا : تم پر سلامتی ہو تو انھوں نے پکڑ کر اس کو قتل کردیا۔ اس کی بکریاں بھی لے لیں تو یہ آیت نازل ہوئی : { وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا } [النساء ٩٤] ” اور تم ایسے شخص کو نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے جو تمہاری طرف صلح چاہتا ہے۔

18273

(١٨٢٦٧) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِہْرَانَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَمَعَہُ غَنَمٌ لَہُ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَقَالُوا مَا سَلَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ لِیَتَعَوَّذَ مِنْکُمْ فَعَمَدُوا إِلَیْہِ فَقَتَلُوہُ وَأَخَذُوا غَنَمَہُ فَأَتَوْا بِہَا النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَتَثَبَّتُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا } [النساء ٩٤]إِلَی قَوْلِہِ { کَذَلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْکُمْ فَتَثَبَّتُوا } [النساء ٩٤] ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦٧) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ بنو سلیم کا ایک شخص صحابہ کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا۔ اس کے پاس بکریاں بھی تھیں۔ اس نے سلام کیا۔ صحابہ کہنے لگے : اس نے صرف بچاؤ کے لیے سلام کہا ہے۔ انھوں نے پکڑ کر اس کو قتل کردیا اور اس کی بکری بھی لے لی۔ وہ اس کو لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی : { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ للّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا } [النساء ٩٤] ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو جب تم اللہ کے راستہ میں چلو تو تحقیق کرلیا کرو تم ایسے شخص کو یہ نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے حالانکہ وہ تم پر سلام کہہ رہا ہو تم پہلے اس طرح تھے اللہ نے تمہارے اوپر احسان فرمایا، لہٰذا تحقیق کرلیا کرو۔ “

18274

(١٨٢٦٨) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعُطَارِدِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ عَنْ أَبِی الْقَعْقَاعِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ عَنْ أَبِیہِ أَبِی حَدْرَدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی إِضَمٍ فَخَرَجْتُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِیہِمْ أَبُو قَتَادَۃَ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِیٍّ وَمُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ فَخَرَجْنَا حَتَّی إِذَا کُنَّا بِبَطْنِ إِضَمٍ مَرَّ بِنَا عَامِرُ بْنُ الأَضْبَطِ عَلَی بَعِیرٍ لَہُ فَلَمَّا مَرَّ عَلَیْنَا سَلَّمَ عَلَیْنَا بِتَحِیَّۃِ الإِسْلاَمِ فَأَمْسَکْنَا عَنْہُ وَحَمَلَ عَلَیْہِ مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ فَقَتَلَہُ وَأَخَذَ بَعِیرَہُ وَمَا مَعَہُ فَقَدِمْنَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ فَنَزَلَ فِینَا الْقُرْآنُ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَتَثَبَّتُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا } [النساء ٩٤] إِلَی آخِرِ الآیَۃِ کَذَا رَوَاہُ یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ۔ وَرَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیدَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ عَنْ أَبِیہِ وَرَوَاہُ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیدَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ عَنْ أَبِیہِ وَکَذَلِکَ قَالَہُ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الأُمَوِیُّ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ فِی رِوَایَۃِ حَجَّاجٍ عَنْہُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ یَزِیدَ عَنْ أَبِی حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیِّ عَنْ أَبِیہِ وَقِیلَ غَیْرُ ذَلِکَ ۔ وَرَوَاہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِدْرِیسَ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ فِی سَرِیَّۃٍ بَعَثَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی إِضَمٍ وَادٍ مِنْ أَوْدِیَۃِ أَشْجَعَ ۔ وَرَوَاہُ سُلَیْمَانُ التَّیْمِیُّ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ أَوْ قَالَ ابْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦٨) ابو حدرد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اضم کی طرف روانہ کیا۔ میں مسلمانوں کے گروہ میں نکلا جس میں ابو قتادہ ، حارث بن ربعی، محلم بن جثامہ تھے۔ جب ہم اضم وادی کے نشیب میں آئے تو ہمارے پاس سے عامر بن اضبط اپنے اونٹ پر سوار ہوئے گزرا۔ جب وہ ہمارے پاس سے گرا تو اس نے ہمیں سلام کہا۔ ہم نے اسے روک لیا اور محلم بن جثامہ نے اسے قتل کردیا اور اونٹ قبضے میں لے لیا۔ جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا تو ہمارے بارے میں قرآن نازل ہوا : { یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ للّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا } [النساء ٩٤] ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو جب تم اللہ کے راستہ میں چلو تو تحقیق کرلیا کرو تم ایسے شخص کو یہ نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے حالانکہ وہ تم پر سلام کہہ رہا ہو۔ تم پہلے اس طرح تھے اللہ نے تمہارے اوپر احسان فرمایا، لہٰذا تحقیق کرلیا کرو۔ “

18275

(١٨٢٦٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحَارِثِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَسْلَمَ حَدَّثَہُ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ أَبِی حَدْرَدٍ الأَسْلَمِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ : أَنَّہُ کَانَ فِی سَرِیَّۃٍ فَرَآہُمْ رَجُلٌ وَہُوَ فِی جَبَلٍ فَنَزَلَ إِلَیْہِمْ فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ فَأَخَذُوہُ فَقَتَلُوہُ فَفِیہِ نَزَلَتْ { وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا } [النساء ٩٤] وَالرَّجُلُ الَّذِی قَتَلُوہُ عَامِرُ بْنُ الأَضْبَطِ الأَشْجَعِیُّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٦٩) ابن ابی حدرد اسلمی فرماتے ہیں : میں ایک لشکر میں تھا کہ انھیں پہاڑ سے ایک شخص نے دیکھا تو ان کے پاس آ کر سلام کہا۔ انھوں نے پکڑ کر اس کو قتل کردیا تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : { وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } [النساء ٩٤] ” اور تم نہ کہو ایسے شخص کو جو تمہیں سلام کہتا ہے کہ تم مومن نہیں تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو۔ “ کہ وہ شخص جسے انھوں نے قتل کیا وہ عامر بن اضبط تھا۔

18276

(١٨٢٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ سَمِعْتُ زِیَادَ بْنَ ضُمَیْرَۃَ بْنِ سَعْدٍ السُّلَمِیَّ یُحَدِّثُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ : أَنَّ أَبَاہُ وَجَدَّہُ شَہِدَا حُنَیْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالاَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الظُّہْرَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَی ظِلِّ شَجَرَۃٍ فَقَامَ إِلَیْہِ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ یَخْتَصِمَانِ فِی دَمِ عَامِرِ بْنِ الأَضْبَطِ الأَشْجَعِیِّ وَکَانَ قَتَلَہُ مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ بْنِ قَیْسٍ فَعُیَیْنَۃُ یَطْلُبُ بِدَمِ الأَشْجَعِیِّ عَامِرِ بْنِ الأَضْبَطِ لأَنَّہُ مِنْ قَیْسٍ وَالأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ یَدْفَعُ عَنْ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَۃَ لأَنَّہُ مِنْ خِنْدِفَ وَہُوَ یَوْمَئِذٍ سَیِّدُ خِنْدِفَ فَسَمِعْنَا عُیَیْنَۃُ یَقُولُ : وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ لاَ أَدَعُہُ حَتَّی أُذِیقَ نِسَائَ ہُ مِنَ الْحَرِّ مَا أَذَاقَ نِسَائِی وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : تَأْخُذُونَ الدِّیَۃَ خَمْسِینَ فِی سَفَرِنَا ہَذَا وَخَمْسِینَ إِذَا رَجَعْنَا ۔ وَہُوَ یَأْبَی فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی لَیْثٍ یُقَالُ لَہُ مِکْتَلٌ مَجْمُوعٌ قَصِیرٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا وَجَدْتُ لِہَذَا الْقَتِیلِ فِی غُرَّۃِ الإِسْلاَمِ إِلاَّ کَعِیرٍ وَرَدَتْ فَرُمِیَتْ أُولاَہَا فَنَفَرَتْ أُخْرَاہَا اسْنُنِ الْیَوْمَ وَغَیِّرْ غَدًا۔ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَدَہُ ثُمَّ قَالَ : تَأْخُذُونَ الدِّیَۃَ خَمْسِینَ فِی سَفَرِنَا ہَذَا وَخَمْسِینَ إِذَا رَجَعْنَا ۔ فَقَبِلَہَا الْقَوْمُ ثُمَّ قَالَ : ائْتُوا بِصَاحِبِکُمْ یَسْتَغْفِرُ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَائُ وا بِہِ فَقَامَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِیلٌ ضَرْبٌ عَلَیْہِ حُلَّۃٌ لَہُ قَدْ تَہَیَّأَ فِیہَا لِلْقَتْلِ فَجَلَسَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُ : مَا اسْمُکَ ؟ ۔ فَقَالَ : مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَۃَ اللَّہُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَۃَ اللَّہُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَۃَ ۔ ثُمَّ قَالَ لَہُ : قُمْ ۔ فَقَامَ وَہُوَ یَتَلَقَّی دَمْعَہُ بِفَضْلِ رِدَائِہِ فَأَمَّا نَحْنُ فِیمَا بَیْنَنَا فَنَقُولُ إِنَّا لَنَرْجُو أَنْ یَکُونَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدِ اسْتَغْفَرَ لَہُ وَلَکِنْ أَظْہَرَ ہَذَا لِیَنْزِعَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضِ فَأَمَّا مَا ظَہَرَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَذَا۔ وَبِمَعْنَاہُ رَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٧٠) عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ ان کے والد اور دادا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ حنین میں موجود تھے۔ دونوں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے تو اقرع بن حابس اور عیینہ بن بدر، عامر بن اضبط کے خون کا جھگڑا لے کر آگئے، جسے محلم بن جثامہ نے قتل کیا تھا۔ عیینہ بن بدر، عامر بن اضبط کے خون کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ وہ قیس سے تھے اور اقراع بن حابس محلم بن جثامہ کا دفاع کر رہے تھے کیونکہ وہ ان دنوں قبیلہ خندف کے سردار تھے۔ ہم نے عیینہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول ! میں اس کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ میں اس کی عورتوں کو غم پہنچاؤں جو میری عورتوں نے غم پایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے : تم پچاس اونٹ دیت کے سفر میں حاصل کرلو اور پچاس جب ہم واپس پلٹیں گے تب لے لینا، لیکن وہ انکار کررہا تھا تو بنو لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جس کو مکتل کہا جاتا تھا، وہ چھوٹے قد کا تھا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس مقتول کے لیے میں کچھ نہیں پاتا مگر اونٹوں کے اس قافلے کی مثل جس کے پہلے کو پھینک دیا جائے اور آخری کو بھگا دیا جائے۔ آج چھری تیز کی جائے اور کل ذبح کردیا جائے۔
رسول اللہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور فرمایا : تم پچاس اونٹ دیت کے سفر میں لے لو اور پچاس اونٹ تب لے لینا جب ہم واپس جائیں گے۔ لوگوں نے دیت کو قبول کیا، پھر کہا : تم اپنے ساتھی کو لاؤ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ وہ لے کر آئے تو ایک شخص گندمی رنگ لمبے قد کا کھڑا ہوا جس نے حلہ پہن رکھا تھا۔ وہ قتل کے لیے تیار تھا۔ وہ رسول اللہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! تو محلم بن جثامہ کو معاف نہ کر۔ تین مرتبہ فرمایا۔ پھر اسے کہا : کھڑا ہوجا۔ وہ کھڑا ہوا تو اس نے اپنے خون کو پایا کہ چادر کے زائد حصے کو لگا ہوا ہے اور ہمارے درمیان یہ باتیں ہو رہی تھیں۔ ہم کہہ رہے تھے کہ ہمیں امید ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے بخشش کی دعا کردیں گے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ چیز لوگوں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنے گی۔

18277

(١٨٢٧١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ بَیَانٍ وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِیدٍ الْہَمْدَانِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَنَّہُ سَمِعَ زِیَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَیْرَۃَ السُّلَمِیَّ یُحَدِّثُ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَۃَ اللَّیْثِیَّ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ أَشْجَعَ فِی الإِسْلاَمِ وَذَلِکَ أَوَّلُ غِیَرٍ قَضَی بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ مَعْنَاہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا عُیَیْنَۃُ أَلاَ تَقْبَلُ الْغِیَرَ ؟ ۔ یُرِیدُ الدِّیَۃَ وَقَالَ فِی آخِرِہِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَقَتَلْتَہُ بِسِلاَحِکَ فِی غُرَّۃِ الإِسْلاَمِ اللَّہُمَّ لاَ تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ ۔ بِصَوْتٍ عَالٍ وَلَمْ یَذْکُرْ مَا بَعْدَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٧١) عروہ بن زبیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اشجع کے ایک فرد کو اسلام میں قتل کیا۔ یہ دیت تھی، جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عیینہ ! آپ دیت قبول نہیں کریں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے آخر میں تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو نے اس کو اپنے اسلحہ سے قتل کیا، اسلام کی علامت کے باوجود۔ اے اللہ ! تو محلم کو معاف نہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے کہا۔

18278

(١٨٢٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ قَالاَ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ قَالَ أَتَیْنَا نَصْرَ بْنَ عَاصِمٍ اللَّیْثِیَّ فَقَالَ نَصْرٌ حَدَّثَنَا عُقْبَۃُ بْنُ مَالِکٍ وَکَانَ مِنْ رَہْطِہِ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَرِیَّۃً فَأَغَارُوا عَلَی قَوْمٍ فَشَذَّ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَ السَّرِیَّۃِ مَعَہُ السَّیْفُ شَاہِرًا فَقَالَ الشَّاذُّ مِنَ الْقَوْمِ إِنِّی مُسْلِمٌ فَلَمْ یَنْظُرْ فِیہِ فَضَرَبَہُ فَقَتَلَہُ فَنُمِیَ الْحَدِیثُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ قَوْلاً شَدِیدًا فَقَالَ الْقَاتِلُ : وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا قَالَ الَّذِی قَالَ إِلاَّ تَعَوُّذًا مِنَ الْقَتْلِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثَلاَثًا فَأَعَادَہُ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تُعْرَفُ الْمَسَائَ ۃُ فِی وَجْہِہِ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ أَبَی عَلَی مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا۔ قَالَہَا ثَلاَثًا ۔ تَابَعَہُ یُونُسُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٧٢) عقبہ بن مالک فرماتے ہیں کہ (میں بھی اس گروہ میں تھا) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چھوٹا لشکر بھیجا۔ انھوں نے ایک قوم پر حملہ کردیا تو قوم سے ایک فرد الگ ہوگیا تو لشکر کے ایک فرد نے اس کا پیچھا کیا جس کے پاس سونتی ہوئی تلوار تھی۔ قوم سے الگ ہونے والے فرد نے کہا : میں مسلمان ہوں۔ اس نے اس کا خیال نہ کیا اور قتل کردیا۔ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں سخت بات کہی تو قاتل نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اس نے قتل سے بچنے کی غرض سے یہ بات کہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اعراض کیا اور یہی بات دہرائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف متوجہ ہوئے، ناراضگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے پہچانی جاسکتی تھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ رب العزت اس شخص پر انکار کرتے ہیں جو کسی مومن کو قتل کرتا ہے تین مرتبہ فرمایا۔

18279

(١٨٢٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَاللَّفْظُ لَہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَی قَالاَ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ بْنُ فَرُّوخٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَی مُعَاوِیَۃَ وَذَلِکَ فِی رَمَضَانَ فَکَانَ یَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَکَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ مِمَّا یُکْثِرُ أَنْ یَدْعُوَنَا إِلَی رَحْلِہِ فَقُلْتُ أَلاَ أَصْنَعُ طَعَامًا وَأَدْعُوہُمْ إِلَی رَحْلِی فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ فَصُنِعَ ثُمَّ لَقِیتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ مِنَ الْعَشِیِّ فَقُلْتُ الدَّعْوَۃُ عِنْدِی اللَّیْلَۃَ قَالَ سَبَقْتَنِی قُلْتُ نَعَمْ فَدَعَوْتُہُمْ فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ أَلاَ أُعَلِّمُکُمْ حَدِیثًا مِنْ حَدِیثِکُمْ یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ثُمَّ ذَکَرَ فَتْحَ مَکَّۃَ فَقَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی قَدِمَ مَکَّۃَ فَبَعَثَ الزُّبَیْرَ عَلَی إِحْدَی الْمُجَنِّبَتَیْنِ وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ عَلَی الْمُجَنِّبَۃِ الأُخْرَی وَبَعَثَ أَبَا عُبَیْدَۃَ عَلَی الْحُسَّرِ فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِی وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی کَتِیبَتِہِ فَنَظَرَ فَرَآنِی فَقَالَ : أَبُو ہُرَیْرَۃَ ۔ قُلْتُ : لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ قَالَ فَنَدَبَ الأَنْصَارَ فَقَالَ : لاَ یَأْتِینَا إِلاَّ أَنْصَارِیٌّ ۔ فَأَطَافُوا بِہِ ۔ زَادَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ فَقَالَ : اہْتِفْ بِالأَنْصَارِ وَلاَ تَأْتِنِی إِلاَّ بِأَنْصَارِیٍّ ۔ قَالَ فَفَعَلْتُہُ قَالَ شَیْبَانُ فِی رِوَایَتِہِ وَأَوْبَشَتْ قُرَیْشٌ أَوْبَاشًا لَہَا وَأَتْبَاعًا فَقَالُوا نُقَدِّمُ ہَؤُلاَئِ فَإِنْ کَانَ لَہُمْ شَیْئٌ کُنَّا مَعَہُمْ وَإِنْ أُصِیبُوا أَعْطَیْنَا الَّذِی سُئِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : تَرَوْنَ إِلَی أَوْبَاشِ قُرَیْشٍ وَأَتْبَاعِہِمْ ۔ ثُمَّ قَالَ بِیَدَیْہِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْرَی ثُمَّ قَالَ : حَتَّی تُوَافُونِی بِالصَّفَا ۔ زَادَ أَبُو دَاوُدَ فِی رِوَایَتِہِ : احْصُدُوہُمْ حَصْدًا ۔ قَالَ شَیْبَانُ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ : وَانْطَلَقْنَا فَمَا شَائَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ یَقْتُلَ أَحَدًا إِلاَّ قَتَلَہُ وَمَا أَحَدٌ یُوَجِّہُ إِلَیْنَا شَیْئًا قَالَ : فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُبِیحَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ لاَ قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ قَالَ : مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ ۔ زَادَ أَبُو دَاوُدَ فِی رِوَایَتِہِ : مَنْ أَلْقَی السِّلاَحَ فَہُوَ آمِنٌ ۔ قَالَ شَیْبَانُ فِی رِوَایَتِہِ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ وَرَأْفَۃٌ بِعَشِیرَتِہِ فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ وَجَائَ الْوَحْیُ وَکَانَ إِذَا جَائَ لاَ یَخْفَی عَلَیْنَا فَإِذَا جَائَ فَلَیْسَ أَحَدٌ یَرْفَعُ طَرْفَہُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی یَنْقَضِیَ الْوَحْیُ فَلَمَّا قُضِیَ الْوَحْیُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ۔ قَالُوا : لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَکَتْہُ رَغْبَۃٌ فِی قَرْیَتِہِ ۔ قَالُوا : قَدْ کَانَ ذَاکَ ۔ قَالَ : کَلاَّ إِنِّی عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ ہَاجَرْتُ إِلَی اللَّہِ وَإِلَیْکُمْ الْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ ۔ فَأَقْبَلُوا إِلَیْہِ یَبْکُونَ وَیَقُولُونَ : وَاللَّہِ مَا قُلْنَا الَّذِی قُلْنَا إِلاَّ الضِّنَّ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یُصَدِّقَانِکُمْ وَیَعْذِرَانِکُمْ ۔ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَی دَارِ أَبِی سُفْیَانَ وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَہُمْ وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی أَقْبَلَ إِلَی الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَہُ فَطَافَ بِالْبَیْتِ فَأَتَی إِلَی صَنَمٍ إِلَی جَنْبِ الْبَیْتِ کَانُوا یَعْبُدُونَہُ قَالَ وَفِی یَدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَوْسٌ وَہُوَ آخِذٌ بِسِیَۃِ الْقَوْسِ فَلَمَّا أَتَی عَلَی الصَّنَمِ جَعَلَ یَطْعُنُ فِی عَیْنِہِ وَیَقُولُ : جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا ۔ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِہِ أَتَی الصَّفَّا فَعَلاَ عَلَیْہِ حَتَّی نَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ وَجَعَلَ یَحْمَدُ اللَّہَ وَیَدْعُو بِمَا شَائَ أَنْ یَدْعُوَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ شَیْبَانَ بْنِ فَرُّوخٍ وَأَخْرَجَہُ مِنْ حَدِیثِ بَہْزِ بْنِ أَسَدٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ وَذَکَرَ اللَّفْظَۃَ الَّتِی زَادَہَا أَبُو دَاوُدَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٧٠]
(١٨٢٧٣) عبداللہ بن ربا، حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان میں معاویہ کے پاس وفد آتے تو ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا بنایا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) اکثر ہمیں اپنے گھر دعوت دیا کرتے تھے۔ میں نے کہا : کیا میں کھانا پکوا کر انھیں اپنے گھر میں دعوت نہ دوں۔ میں نے کھانا بنوایا۔ شام کے وقت ابوہریرہ سے ملا تو کہا : رات کے کھانے کی دعوت میرے پاس ہوگی۔ انھوں نے کہا : آپ مجھ سے سبقت لے گئے۔ اس نے کہا : ہاں۔ میں نے ان کو دعوت دی۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : اے انصاریو ! کیا میں تمہاری باتوں میں سے کوئی بات تمہیں نہ سکھاؤں۔ پھر انھوں نے فتح مکہ کا تذکرہ کیا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آئے تو زبیر کو لشکر کی ایک جانب اور خالد بن ولید کو دوسری جانب بھیجا اور ابو عبیدہ کو حسر پر۔ انھوں نے وادی کے نشیب میں پکڑ لیا اور رسول اللہ اپنے قافلہ میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر دوڑائی تو مجھے دیکھا اور فرمایا : ابوہریرہ ! میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! حاضر ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کو دعوت دی اور فرمایا کہ میرے پاس صرف انصاری آئیں تو انھوں نے آپ کو گھیر لیا۔ ابو داؤد نے یہ لفظ زائد بیان کیے ہیں کہ انصار کو بلاؤ، صرف انصاری میرے پاس آئیں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کام کیا۔
شیبان کی روایت میں ہے کہ قریش کے لوگ تیزی سے ان کے پیچھے چلے اور انھوں نے کہا کہ ہم ان سے آگے بڑھ جائیں گے۔ اگر ان کو کوئی چیز حاصل ہوئی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں۔ اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا کیے گئے تو ہم وہ چیز عطا کردیں گے جس کا ہم سے سوال کیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم قریش کے اوباش لوگوں اور ان کے پیچھے چلنے والوں کی طرف دیکھو۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھیوں سے فرمایا کہ تم مجھے صفا پہاڑی پر ملنا۔
ابو داؤد نے اپنی روایت میں زیادہ کیا ہے کہ تم ان کو کاٹ ڈالو۔
شیبان اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ جب ہم چلے تو جس کو چاہتے قتل کردیتے، کوئی چیز ہمارے سامنے رکاوٹ نہ تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو سفیان آئے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! قریش کی اصل ختم ہوجائے گی۔ آج کے بعد قریش نہ ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوگیا وہ امن میں ہے۔
ابو داؤد نے اپنی روایت میں زیادہ کیا ہے۔ جو اسلحہ ڈال دے وہ بھی حالت امن میں ہے۔
شیبان اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ انصار نے ایک دوسرے سے کہا کہ کسی شخص کو اپنی بستی میں رغبت اور اپنے خاندان کے ساتھ الفت ہوجاتی ہے۔
ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ وحی آگئی۔ جب وحی آتی تو ہم سے پوشیدہ نہ رہتی۔ جب وحی آتی تو کوئی بھی رسول کی طرف اپنی نظر نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہوجائے۔ جب وحی مکمل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے انصاریو ! انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! حاضر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے کہا کہ کوئی شخص اپنی بستی میں آئے تو اس کو رغبت ہو ہی جاتی ہے انھوں نے کہا : ہاں ! یہ بات ہوئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے۔ میری زندگی اور موت تمہارے ساتھ ہے۔ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روتے ہوئے متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : اللہ کی قسم ! جو ہم نے کہا، صرف گمان تھا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارے عذر کو قبول کرتے ہیں۔ لوگ ابو سفیان کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرِ اسود کے پاس آئے۔ اس کا استلام کیا۔ بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر بیت اللہ کی ایک طرف بت کے پاس آئے، جس کی وہ عبادت کرتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں کمان تھی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بت کے پاس آتے تو وہ کمان اس کی آنکھ پر مارتے اور فرماتے : حق آگیا اور باطل مٹ گیا کیونکہ باطل کو مٹنا ہی ہوتا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑی کے اوپر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر بیت اللہ پر پڑی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد کی اور جو چاہا دعا کی۔

18280

(١٨٢٧٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِیہِ : فَجَائَ تِ الأَنْصَارُ فَأَحَاطُوا بِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عِنْدَ الصَّفَا فَجَائَ أَبُو سُفْیَانَ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُبِیدَتْ خَضْرَائُ قُرَیْشٍ لاَ قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ ۔ فَقَالَ : مَنْ دَخَلَ دَارَہُ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَی سِلاَحَہُ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ یَحْیَی بْنِ حَسَّانَ عَنْ حَمَّادٍ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ قَوْلَہُ : مَنْ دَخَلَ دَارَہُ فَہُوَ آمِنٌ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٧٤) عبداللہ بن رباح حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں۔ اس نے حدیث ذکر کی۔ اس میں ہے کہ انصاری لوگوں نے صفا پہاڑی کے قریب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھیر لیا۔ ابو سفیان آئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! قریش کی نسل ختم ہوجائے گی۔ آپ کے بعد قریش نہ رہیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے۔ اس کو امن ہے۔ جو ہتھیار پھینک دے اسے بھی امن ہے اور جو اپنے گھر میں داخل ہوجائے اور دروازہ بند کرلے اس کو بھی امن ہے۔
(ب) یحییٰ بن حسان حضرت حماد سے یہی نقل فرماتے ہیں، لیکن ( (مَنْ دَخَلَ دَارَہٗ فَہُوَ آمِنٌ) ) کا قول ذکر نہیں کیا۔

18281

(١٨٢٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ مِسْکِینٍ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ سَرَّحَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَأَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ وَخَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ عَلَی الْخَیْلِ وَقَالَ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ اہْتِفْ بِالأَنْصَارِ ۔ قَالَ : اسْلُکُوا ہَذَا الطَّرِیقَ فَلاَ یُشْرِفَنَّ لَکُمْ أَحَدٌ إِلاَّ أَنَمْتُمُوہُ ۔ فَنَادَی مُنَادِی : لاَ قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ دَخَلَ دَارًا فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَی السِّلاَحَ فَہُوَ آمِنٌ ۔ وَعَمَدَ صَنَادِیدُ قُرَیْشٍ فَدَخَلُوا الْکَعْبَۃَ فَغَصَّ بِہِمْ وَطَافَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَصَلَّی خَلْفَ الْمَقَامِ ثُمَّ أَخَذَ بِجَنَبَتَیِ الْبَابِ فَخَرَجُوا فَبَایَعُوا النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی الإِسْلاَمِ ۔ زَادَ فِیہِ الْقَاسِمُ بْنُ سَلاَّمِ بْنُ مِسْکِینٍ عَنْ أَبِیہِ بِہَذَا الإِسْنَادِ قَالَ : ثُمَّ أَتَی الْکَعْبَۃَ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَیِ الْبَابِ فَقَالَ : مَا تَقُولُونَ وَمَا تَظُنُّونَ ۔ قَالُوا : نَقُولُ ابْنُ أَخٍ وَابْنُ عَمٍّ حَلِیمٍ رَحِیمٍ قَالَ وَقَالُوا ذَلِکَ ثَلاَثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَقُولُ کَمَا قَالَ یُوسُفُ { لاَ تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللَّہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ } [یوسف ٩٢] ۔ قَالَ فَخَرَجُوا کَأَنَّمَا نُشِرُوا مِنَ الْقُبُورِ فَدَخَلُوا فِی الإِسْلاَمِ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٧٥) عبداللہ بن رباح انصاری حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ میں داخل ہوئے تو زبیر بن عوام، ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید (رض) کو لشکر پر روانہ فرمایا اور فرمایا : اے ابوہریرہ ! انصار کو آواز دو کہ تم اس راستہ پر چلو۔
تو اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ آج کے بعد قریش نہ ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اپنے گھر میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے۔ جس نے ہتھیار پھینک دیے اس کو بھی امن ہے تو قریشی سردار کعبہ میں داخل ہوگئے اور کعبہ ان سے بھر گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑا تو انھوں نے نکل کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسلام پر بیعت کی۔ (ب) قاسم بن سلام بن مسکین اپنے والد سے اسی سند سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ میں آئے اور دروازے کی چوکھٹ کے دو بازؤں کو پکڑا اور فرمایا : تم کیا کہتے ہو، تمہارا کیا گمان ہے ؟ انھوں نے کہا : ہم کہتے ہیں : بھتیجا اور چچے کا بیٹا بردبار رحم کرنے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ بات تین مرتبہ کہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں وہی بات کہتا ہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے کہی تھی : { قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ۔ } [یوسف ٩٢] ” فرمایا : تمہارے اوپر کوئی سرزنش نہیں، اللہ تمہیں معاف فرمائے، وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ “ راوی کہتے ہیں کہ وہ نکلے جیسے قبروں سے اٹھائے گئے ہوں اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔

18282

(١٨٢٧٦) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ سَلاَّمٍ فَذَکَرَہُ ۔ وَفِیمَا حَکَی الشَّافِعِیُّ عَنْ أَبِی یُوسُفَ فِی ہَذِہِ الْقِصَّۃِ أَنَّہُ قَالَ لَہُمْ حِینَ اجْتَمَعُوا فِی الْمَسْجِدِ : مَا تَرَوْنَ أَنِّی صَانِعٌ بِکُمْ ؟ ۔ قَالُوا : خَیْرًا أَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ أَخٍ کَرِیمٍ ۔ قَالَ : اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَائُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَإِنَّمَا أَطْلَقَہُمْ بِالأَمَانِ الأَوَّلِ الَّذِی عَقَدَہُ عَلَی شَرْطِ قَبُولِہِمْ فَلَمَّا قَبِلُوہُ قَالَ : أَنْتُمُ الطُّلَقَائُ ۔ یَعْنِی بِالأَمَانِ الأَوَّلِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٧٦) امام شافعی (رح) ، ابو یوسف سے اس قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا، جب وہ مسجد میں جمع ہوگئے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں ؟ انھوں نے کہا : بھلائی، معزز بھائی اور معزز بھائی کا بیٹا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ تم سب آزاد ہو۔
شیخ فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پہلی امان کے ساتھ آزاد کردیا۔ جو قبولیت کے لیے شرط لگائی تھی جب انھوں نے اسلام قبول کرلیا تب فرمایا : تم آزاد ہو۔

18283

(١٨٢٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِیسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ الْفَتْحِ جَائَ ہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بِأَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ فَأَسْلَمَ بِمَرِّ الظَّہْرَانِ فَقَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ ہَذَا الْفَخْرَ فَلَوْ جَعَلْتَ لَہُ شَیْئًا۔ قَالَ : نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہُ فَہُوَ آمِنٌ ۔ [حسن ]
(١٨٢٧٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال عباس بن عبدالمطلب ابو سفیان بن حرب کو لے کر آئے۔ اس نے مرالظہران نامی جگہ پر اسلام قبول کیا تو عباس کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! ابو سفیان ایسا آدمی ہے جو فخر کو پسند کرتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو کسی اعزاز سے نوازیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگیا وہ امن میں ہے۔ جس نے اپنا دروازہ بند کرلیا وہ بھی امن میں ہے۔

18284

(١٨٢٧٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ بَعْضِ أَہْلِہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَرَّ الظَّہْرَانِ قَالَ الْعَبَّاسُ قُلْتُ وَاللَّہِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَکَّۃَ عَنْوَۃً قَبْلَ أَنْ یَأْتُوہُ فَیَسْتَأْمِنُوہُ إِنَّہُ لَہَلاَکُ قُرَیْشٍ فَجَلَسْتُ عَلَی بَغْلَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقُلْتُ لَعَلِّی أَجِدُ ذَا حَاجَۃٍ یَأْتِی أَہْلَ مَکَّۃَ فَیُخْبِرُہُمْ بِمَکَانِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِیَخْرُجُوا إِلَیْہِ فَیَسْتَأْمِنُوہُ وَإِنِّی لأَسِیرُ سَمِعْتُ کَلاَمَ أَبِی سُفْیَانَ وَبُدَیْلِ بْنِ وَرْقَائَ فَقُلْتُ : یَا أَبَا حَنْظَلَۃَ فَعَرِفَ صَوْتِی قَالَ أَبُو الْفَضْلِ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ۔ قَالَ : مَا لَکَ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی ؟ قُلْتُ ہَذَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَالنَّاسُ ۔ قَالَ : فَمَا الْحِیلَۃُ ؟ قَالَ : فَرَکِبَ خَلْفِی وَرَجَعَ صَاحِبُہُ ۔ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِہِ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَسْلَمَ ۔ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ أَبَا سُفْیَانَ رَجُلٌ یُحِبُّ ہَذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَہُ شَیْئًا۔ قَالَ : نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَیْہِ دَارَہُ فَہُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَہُوَ آمِنٌ ۔ قَالَ : فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَی دُورِہِمْ وَإِلَی الْمَسْجِدِ ۔ [حسن ]
(١٨٢٧٨) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرالظہران پر پڑاؤ کیا تو عباس کہتے ہیں میں نے کہا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں ان کے آنے سے پہلے داخل ہوگئے کہ وہ اس کی درخواست کرلیں تو یہ قریشیوں کی ہلاکت ہے۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خچر پر بیٹھ گیا۔ میں نے حضرت علی (رض) سے کہا : مجھے کوئی کام ہے وہ مکہ والوں کے پاس آئے تاکہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ کی خبر دیں کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن کی درخواست کرسکیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے چلتے ہوئے ابو سفیان بدیل بن ورقا کی بات چیت کو سنا۔ میں نے کہا : اے ابو حنظلہ ! اس نے میری آواز کو پہچان لیا۔ اس نے کہا : ابو الفضل ؟ میں نے کہا : ہاں ! اس نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : یہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) ہیں۔ اس نے کہا : کیا بہانہ ہے ؟ کہتے ہیں : وہ میرے پیچھے سوار ہوئے اور اس کا ساتھی چلا گیا اور میں صبح انھیں لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا تو انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ابو سفیان ایسا شخص ہے جو فخر کو پسند کرتا ہے۔ آپ اس کے لیے جو مقرر فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو ابو سفیان کے گھر داخل ہوگیا اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا یا مسجد میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے۔ راوی کہتے ہیں : لوگ اپنے گھروں اور مسجد میں بکھر گئے۔

18285

(١٨٢٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّسَوِیُّ وَاللَّفْظُ لَہُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ شَاکِرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَمَّا سَارَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَامَ الْفَتْحِ فَبَلَغَ ذَلِکَ قُرَیْشًا خَرَجَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ وَحَکِیمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ یَلْتَمِسُونَ الخَبَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَقْبَلُوا یَسِیرُونَ حَتَّی أَتَوْا مَرَّ الظَّہْرَانِ فَإِذَا ہُمْ بِنِیرَانٍ کَأَنَّہَا نِیرَانُ عَرَفَۃَ فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : مَا ہَذِہِ ؟ لَکَأَنَّہَا نِیرَانُ ۔ فَقَالَ بُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ : نِیرَانُ بَنِی عَمْرٍو۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : عَمْرٌو أَقَلُّ مِنْ ذَلِکَ فَرَآہُمْ نَاسٌ مِنْ حَرَسِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَدْرَکُوہُمْ فَأَخَذُوہُمْ فَأَتَوْا بِہِمْ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَسْلَمَ أَبُو سُفْیَانَ فَلَمَّا سَارَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ : احْبِسْ أَبَا سُفْیَانَ عِنْدَ خَطْمِ الجَبَلِ حَتَّی یَنْظُرَ إِلَی الْمُسْلِمِینَ ۔ فَحَبَسَہُ الْعَبَّاسُ فَجَعَلَتِ الْقَبَائِلُ تَمُرُّ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَمُرُّ کَتِیبَۃٌ کَتِیبَۃٌ عَلَی أَبِی سُفْیَانَ فَمَرَّتْ کَتِیبَۃٌ قَالَ : یَا عَبَّاسُ مَنْ ہَذِہِ ؟ قَالَ : ہَذِہِ غِفَارُ ۔ قَالَ : مَا لِی وَلِغَفَارَ ۔ ثُمَّ مَرَّتْ جُہَیْنَۃُ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ مَرَّتْ سَعْدُ بْنُ ہُذَیْمٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ وَمَرَّتْ سُلَیْمٌ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی أَقْبَلَتْ کَتِیبَۃٌ لَمْ یَرَ مِثْلَہُا قَالَ : مَنْ ہَذِہِ ؟ قَالَ : ہَؤُلاَئِ الأَنْصَارُ عَلَیْہِمْ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ مَعَہُ الرَّایَۃُ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ : یَا أَبَا سُفْیَانَ الْیَوْمُ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمُ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃُ ۔ فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : یَا عَبَّاسُ حَبَّذَا یَوْمُ الذِّمَارِ ثُمَّ جَائَ تْ کَتِیبَۃٌ وَہِیَ أَقَلُّ الْکَتَائِبِ فِیہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَصْحَابُہُ وَرَایَۃُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَعَ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأَبِی سُفْیَانَ قَالَ : أَلَمْ تَعْلَمْ مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ ؟ قَالَ : مَا قَالَ ؟ ۔ قَالَ : کَذَا وَکَذَا۔ قَالَ : کَذَبَ سَعْدٌ وَلَکِنْ ہَذَا یَوْمٌ یُعَظِّمُ اللَّہُ فِیہِ الْکَعْبَۃَ وَیَوْمٌ تُکْسَی فِیہِ الْکَعْبَۃُ ۔ قَالَ : وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ تُرْکَزَ رَایَتُہُ بِالْحَجُونِ قَالَ عُرْوَۃُ فَأَخْبَرَنِی نَافِعُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ یَقُولُ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ یَقُولُ لِلزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ : یَا أَبَا عَبْدِ اللَّہِ ہَا ہُنَا أَمَرَکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ تَرْکِزَ الرَّایَۃَ ۔ قَالَ : فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَئِذٍ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ أَنْ یَدْخُلَ مَکَّۃَ مِنْ کَدَائٍ وَدَخَلَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ کُدًی فَقُتِلَ مِنْ خَیْلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ یَوْمَئِذٍ رَجُلاَنِ حُبَیْشُ بْنُ الأَشْعَرِ وَکُرْزُ بْنُ جَابِرٍ الْفِہْرِیُّ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ ہَکَذَا۔ [صحیح۔ بخاری ٤٢٨٠]
(١٨٢٧٩) ہشام بن عروہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ فتح کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب چلے تو قریش کو خبر ہوگئی۔ ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں خبر کی تلاش میں نکلے۔ وہ چلتے ہوئے مرالظہران نامی جگہ پر پہنچے تو اچانک وہاں آگ دیکھی گویا کہ وہ عرفہ کی آگ ہے۔ ابو سفیان کہنے لگے یہ کیا ہے ؟ گویا کہ یہ آگ ہے تو بدیل کہنے لگا : یہ بنو عمرو کی آگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ بنو عمرو کی تعداد تو بہت کم ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نگران لوگوں نے ان کو دیکھ لیا تو پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے۔ ابو سفیان مسلمان ہوگئے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلے تو عباس (رض) نے فرمایا : ابو سفیان کو پہاڑ کی اونچائی پر روکو تاکہ وہ مسلمانوں کو دیکھ سکیں تو عباس (رض) نے ابو سفیان کو روک لیا تو مختلف قبیلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرنے لگے تو وہ ٹولیوں کی شکل میں ابو سفیان کے پاس سے گزرتے تو ابو سفیان پوچھتا : یہ کون ہیں ؟ عباس کہتے : یہ غفار قبیلہ ہے۔ ابو سفیان نے کہا : مجھے غفار سے کیا واسطہ ؟ پھر جہینہ کے لوگ گزرے تو اس نے پھر اسی طرح کہا۔ پھر سعد بن ہذیم گزرے تو اس نے ویسی ہی بات کہی۔ پھر بنو سلیم گزرے تو وہی بات کہی۔ پھر ایک بہت بڑا قبیلہ آیا تو ابو سفیان نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں۔ عباس (رض) کہتے ہیں : یہ انصاری ہیں جن کا جھنڈا سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں ہے تو سعد بن عبادہ نے کہا : اے ابوسفیان آج لڑائی کا دن ہے آج حرم میں لڑائی بھی جائز ہے تو ابو سفیان نے کہا : اے عباس ! آج بہادری اور غصہ اتارنے کا دن ہے۔ پھر ایک چھوٹی جماعت آئی جس میں رسول اللہ اور صحابہ تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا زبیر بن عوام کے پاس تھا۔ جب رسول اللہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابو سفیان نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے جو سعد بن عبادہ نے کہا ؟ پوچھا : اس نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان نے کہا : فلاں فلاں بات۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سعد نے غلطی کی ہے۔ لیکن آج کے دن اللہ نے کعبہ کی عزت کو بڑھایا ہے اور اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کو اکٹھا کیا جائے ٹھہرایا جائے میں اس کو حجون نامی جگہ پر دیکھ رہا ہوں۔
(ب) جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے عباس سے سنا، وہ زبیر بن عوام سے کہہ رہے تھے کہ ابو عبداللہ ! رسول اللہ نے آپ کو کیا حکم دیا ہے کہ جھنڈا یہاں گاڑ دیں۔
راوی کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو کداء کی جانب سے مکہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کدیٰ کی جانب سے داخل ہوئے تو خالد بن ولید کے ساتھیوں نے دو آدمیوں کو قتل کیا۔ حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری کو۔

18286

(١٨٢٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ زَکَرِیَّا الأَدِیبُ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْقَبَّانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِیدٍ الْمَخْزُومِیُّ حَدَّثَنِی جَدِّی عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : أَمِنَ النَّاسُ إِلاَّ ہَؤُلاَئِ الأَرْبَعَۃَ لاَ یُؤْمَنُونَ فِی حِلٍّ وَلاَ حَرَمٍ ابْنُ خَطَلٍ وَمِقْیَسُ بْنُ صُبَابَۃَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی سَرْحٍ وَابْنُ نُقَیْدٍ ۔ فَأَمَّا ابْنُ خَطَلٍ فَقَتَلَہُ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَأَمَّا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ فَاسْتَأْمَنَ لَہُ عُثْمَانُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأُومِنَ وَکَانَ أَخَاہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ فَلَمْ یُقْتَلْ وَمِقْیَسُ بْنُ صُبَابَۃَ قَتَلَہُ ابْنُ عَمٍّ لَہُ لَحا قَدْ سَمَّاہُ وَقَتَلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ابْنَ نُقَیْدٍ وَقَیْنَتَیْنِ کَانَتَا لِمِقْیَسٍ فَقُتِلَتْ إِحْدَاہُمَا وَأَفْلَتَتِ الأُخْرَی فَأَسْلَمَتْ ۔ أَبُو جَدِّہِ سَعِیدُ بْنُ یَرْبُوعٍ الْمَخْزُومِیُّ قَالَہُ الْقَبَّانِیُّ وَفِی حَدِیثِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فِیمَنْ أَمَرَ بِقَتْلِہِ أُمُّ سَارَۃَ مَوْلاَۃٌ لِقُرَیْشٍ ۔ وَفِی رِوَایَۃِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی الْمَغَازِی سَارَۃُ مَوْلاَۃٌ لِبَعْضِ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَکَانَتْ مِمَّنْ یُؤْذِیہِ بِمَکَّۃَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٨٠) عثمان بن عبدالرحمن بن سعید مخزومی فرماتے ہیں کہ میرے دادا اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو پناہ دی سوائے چار افراد کے۔ ان کو کسی صورت بھی امن نہ دیا جائے بلکہ قتل کیا جائے گا : 1 ابن خطل 2 مقیس بن ضبابہ 3 عبداللہ بن ابی سرح 4 ابن نقید۔ ابن خطل کو زبیر بن عوام نے قتل کیا۔ عبداللہ بن ابی سرح کے لیے حضرت عثمان نے امان حاصل کرلی۔ کیونکہ وہ ان کا رضاعی بھائی تھا اور مقیس بن ضبابہ کو ان کے چچا کے بیٹے لحا نے قتل کیا۔ ابن نقید کو حضرت علی (رض) نے قتل کیا اور مقیس کی دو گانے والیاں بھی تھیں۔ ایک قتل کردی گئی اور ایک کو چھوڑ دیا گیا وہ مسلمان ہوگئی۔
انس بن مالک کی حدیث میں ہے کہ جس کے قتل کا حکم دیا وہ ام سارہ قریش کی آزاد کردہ لونڈی تھی۔
ابن اسحاق کی روایت مغازی میں ہے کہ یہ بنو عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی، جو مکہ والوں کو تکلیف دیتی تھی۔

18287

(١٨٢٨١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُلاَثَۃَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبِی عَمْرِو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِیعَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ ۔ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ وَہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ مُوسَی وَحَدِیثُ عُرْوَۃَ بِمَعْنَاہُ قَالَ : ثُمَّ إِنَّ بَنِی نُفَاثَۃَ مِنْ بَنِی الدِّیلِ أَغَارُوا عَلَی بَنِی کَعْبٍ وَہُمْ فِی الْمُدَّۃِ الَّتِی بَیْنَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَیْنَ قُرَیْشٍ وَکَانَتْ بَنُو کَعْبٍ فِی صُلْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَانَتْ بَنُو نُفَاثَۃَ فِی صُلْحِ قُرَیْشٍ فَأَعَانَتْ بَنُو بَکْرٍ بَنِی نُفَاثَۃَ وَأَعَانَتْہُمْ قُرَیْشٌ بِالسِّلاَحِ وَالرَّقِیقِ ۔ فَذَکَرَ الْقِصَّۃَ قَالَ فَخَرَجَ رَکْبٌ مِنْ بَنِی کَعْبٍ حَتَّی أَتَوْا رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرُوا لَہُ الَّذِی أَصَابَہُمْ وَمَا کَانَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَیْہِمْ فِی ذَلِکَ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی مَکَّۃَ وَقِصَّۃَ الْعَبَّاسِ وَأَبِی سُفْیَانَ حِینَ أُتِیَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَرِّ الظَّہْرَانِ وَمَعَہُ حَکِیمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَیْلُ بْنُ وَرْقَائَ قَالَ فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ وَحَکِیمٌ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ادْعُ النَّاسَ إِلَی الأَمَانِ أَرَأَیْتَ إِنِ اعْتَزَلَتْ قُرَیْشٌ فَکَفَّتْ أَیْدِیَہَا آمِنُونَ ہُمْ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نَعَمْ مَنْ کَفَّ یَدَہُ وَأَغْلَقَ دَارَہُ فَہُوَ آمِنٌ ۔ قَالُوا : فَابْعَثْنَا نُؤَذِّنْ بِذَلِکَ فِیہِمْ ۔ قَالَ : انْطَلِقُوا فَمَنْ دَخَلَ دَارَکَ یَا أَبَا سُفْیَانَ وَدَارَکَ یَا حَکِیمُ وَکَفَّ یَدَہُ فَہُوَ آمِنٌ ۔ وَدَارُ أَبِی سُفْیَانَ بِأَعْلَی مَکَّۃَ وَدَارُ حَکِیمٍ بِأَسْفَلَ مَکَّۃَ فَلَمَّا تَوَجَّہَا ذَاہِبَیْنِ قَالَ الْعَبَّاسُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی لاَ آمَنُ أَبَا سُفْیَانَ أَنْ یَرْجِعَ عَنْ إِسْلاَمِہِ ۔ فَارْدُدْہُ حَتَّی نَقِفَہُ وَیَرَی جُنُودَ اللَّہِ مَعَکَ ۔ فَأَدْرَکَہُ عَبَّاسٌ فَحَبَسَہُ فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ : أَغَدْرًا یَا بَنِی ہَاشِمٍ ؟ فَقَالَ الْعَبَّاسُ : سَتَعْلَمُ أَنَا لَسْنَا نَغْدِرُ وَلَکِنْ لِی إِلَیْکَ حَاجَۃً فَأَصْبِحْ حَتَّی تَنْظُرَ جُنُودَ اللَّہِ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃَ إِیقَافِ أَبِی سُفْیَانَ حَتَّی مَرَّتْ بِہِ الْجُنُودُ قَالَ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْمُہَاجِرِینَ وَخَیْلِہِمْ وَأَمَرَہُ أَنْ یَدْخُلَ مِنْ کَدَائٍ مِنْ أَعْلَی مَکَّۃَ وَأَعْطَاہُ رَایَتَہُ وَأَمَرَہُ أَنْ یَغْرِزَہَا بِالْحَجُونِ وَلاَ یَبْرَحَ حَیْثُ أَمَرَہُ أَنْ یَغْرِزَہَا حَتَّی یَأْتِیَہُ وَبَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فِیمَنْ کَانَ أَسْلَمَ مِنْ قُضَاعَۃَ وَبَنِی سُلَیْمٍ وَنَاسًا أَسْلَمُوا قَبْلَ ذَلِکَ وَأَمَرَہُ أَنْ یَدْخُلَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ وَأَمَرَہُ أَنْ یَغْرِزَ رَایَتَہُ عِنْدَ أَدْنَی الْبُیُوتِ بِأَسْفَلِ مَکَّۃَ وَبِأَسْفَلِ مَکَّۃَ بَنُو بَکْرٍ وَبَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ مَنَاۃٍ وَہُذَیْلٌ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمْ مِنَ الأَحَابِیشِ قَدِ اسْتَنْصَرَتْ بِہِمْ قُرَیْشٌ فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَکُونُوا بِأَسْفَلِ مَکَّۃَ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی کَتِیبَۃِ الأَنْصَارِ فِی مُقَدِّمَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَمَرَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَکُفُّوا أَیْدِیَہُمْ فَلاَ یُقَاتِلُوا أَحَدًا إِلاَّ مَنْ قَاتَلَہُمْ وَأَمَرَہُمْ بِقَتْلِ أَرْبَعَۃِ نَفَرٍ مِنْہُمْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ وَالْحَارِثُ بْنُ نُقَیْدٍ وَابْنُ خَطَلٍ وَمِقْیَسُ بْنُ صُبَابَۃَ وَأَمَرَ بِقَتْلِ قَیْنَتَیْنِ لاِبْنِ خَطَلٍ کَانَتَا تُغَنِّیَانِ بِہِجَائِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَرَّتِ الْکَتَائِبُ یَتْلُو بَعْضُہَا بَعْضًا عَلَی أَبِی سُفْیَانَ وَحَکِیمٍ وَبُدَیْلٍ لاَ تَمُرُّ عَلَیْہِمْ کَتِیبَۃٌ إِلاَّ سَأَلُوا عَنْہَا حَتَّی مَرَّتْ عَلَیْہِمْ کَتِیبَۃُ الأَنْصَارِ فِیہَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ فَنَادَی سَعْدٌ أَبَا سُفْیَانَ : الْیَوْمُ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْحُرْمَۃُ فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِأَبِی سُفْیَانَ فِی الْمُہَاجِرِینَ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمَرْتَ بِقَوْمِکَ أَنْ یُقْتَلُوا فَإِنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ وَمَنْ مَعَہُ حِینَ مَرُّوُا بِی نَادَانِی سَعْدٌ فَقَالَ : الْیَوْمُ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْحُرْمَۃُ وَإِنِّی أُنَاشِدُکَ اللَّہَ فِی قَوْمِکَ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ فَعَزَلَہُ وَجَعَلَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ مَکَانَہُ عَلَی الأَنْصَارِ مَعَ الْمُہَاجِرِینَ فَسَارَ الزُّبَیْرُ بِالنَّاسِ حَتَّی وَقَفَ بِالْحَجُونِ وَغَرَزَ بِہَا رَایَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَانْدَفَعَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ حَتَّی دَخَلَ مِنْ أَسْفَلِ مَکَّۃَ فَلَقِیَتْہُ بَنُو بَکْرٍ فَقَاتَلُوہُ فَہُزِمُوا وَقُتِلَ مِنْ بَنِی بَکْرٍ قَرِیبٌ مِنْ عِشْرِینَ رَجُلاً وَمِنْ ہُذَیْلٍ ثَلاَثَۃٌ أَوْ أَرْبَعَۃٌ وَانْہَزَمُوا وَقُتِلُوا بِالْحَزْوَرَۃِ حَتَّی بَلَغَ قَتْلُہُمْ بَابَ الْمَسْجِدِ وَفَرَّ فَضَضُہُمْ حَتَّی دَخَلُوا الدُّورَ وَارْتَفَعَتْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ عَلَی الْجِبَالِ وَاتَّبَعَہُمُ الْمُسْلِمُونَ بِالسُّیُوفِ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْمُہَاجِرِینَ الأَوَّلِینَ فِی أُخْرَیَاتِ النَّاسِ وَصَاحَ أَبُو سُفْیَانَ حِینَ دَخَلَ مَکَّۃَ : مَنْ أَغْلَقَ دَارَہُ وَکَفَّ یَدَہُ فَہُوَ آمِنٌ۔ فَقَالَتْ لَہُ ہِنْدُ بِنْتُ عُتْبَۃَ وَہِیَ امْرَأَتُہُ : قَبَّحَکَ اللَّہُ مِنْ طَلِیعَۃِ قَوْمٍ وَقَبَّحَ عَشِیرَتَکَ مَعَکَ وَأَخَذَتْ بِلِحْیَۃِ أَبِی سُفْیَانَ وَنَادَتْ : یَا آلَ غَالِبٍ اقْتُلُوا الشَّیْخَ الأَحْمَقَ ہَلاَّ قَاتَلْتُمْ وَدَفَعْتُمْ عَنْ أَنْفُسِکُمْ وَبِلاَدِکُمْ ۔ فَقَالَ لَہَا أَبُو سُفْیَانَ : وَیْحَکِ اسْکُتِی وَادْخُلِی بَیْتَکِ فَإِنَّہُ جَائَ نَا بِالْخَلْقِ وَلَمَّا عَلاَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثَنِیَّۃَ کَدَائٍ نَظَرَ إِلَی الْبَارِقَۃِ عَلَی الْجَبَلِ مَعَ فَضَضِ الْمُشْرِکِینَ فَقَالَ : مَا ہَذَا وَقَدْ نَہَیْتُ عَنِ الْقِتَالِ ۔ فَقَالَ الْمُہَاجِرُونَ نَظُنُّ أَنَّ خَالِدًا قُوتِلَ وَبُدِئَ بِالْقِتَالِ فَلَمْ یَکُنْ لَہُ بُدٌّ مِنْ أَنْ یُقَاتِلَ مَنْ قَاتَلَہُ وَمَا کَانَ یَا رَسُولَ اللَّہِ لِیَعْصِیَکَ وَلاَ لِیُخَالِفَ أَمْرَکَ فَہَبَطَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنَ الثَّنِیَّۃِ فَأَجَازَ عَلَی الْحَجُونِ وَانْدَفَعَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّی وَقَفَ بِبَابِ الْکَعْبَۃِ وَذَکَرَ الْقِصَّۃَ قَالَ فِیہَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِخَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ : لِمَ قَاتَلْتَ وَقَدْ نَہَیْتُکَ عَنِ الْقِتَالِ ؟ ۔ فَقَالَ : ہُمْ بَدَأُونَا بِالْقِتَالِ وَوَضَعُوا فِینَا السِّلاَحَ وَأَشْعَرُونَا بِالنَّبْلِ وَقَدْ کَفَفْتُ یَدِی مَا اسْتَطَعْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَضَائُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ خَیْرٌ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٨١) اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے نقل فرماتے ہیں۔ یہ لفظ موسیٰ کی حدیث کے ہیں اور عروہ کی حدیث اس کے ہم معنیٰ ہے۔ فرماتے ہیں کہ بنو نفاثہ بنو دیل سے ہے۔ انھوں نے بنو کعب پر حملہ کردیا۔ یہ وہ مدت ہے جب رسول اللہ اور قریش کے درمیان جنگ بندی تھی اور بنو کعب صلح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شامل تھے اور بنو نفاثہ قریش کے حامی تھے۔ تو بنو بکر والوں نے بنو نفاثہ کی اصلاح اور غلاموں سے تعاون کیا۔ اس نے قصہ ذکر کیا ہے۔
کہتے ہیں : بنو کعب کا ایک سوار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اپنا قصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنایا اور قریش کا ان کے خلاف مدد کرنا ذکر کیا۔ پھر اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ کی طرف آنے، عباس کا ابو سفیان کو مرالظہران میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لانے اور ان کے ساتھ حکیم بن حزام، بدیل بن ورقاء کو لانے کا تذکرہ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو سفیان اور حکیم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! لوگوں کو امان کی طرف دعوت دو ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ قریش الگ ہوجائیں، لڑائی سے باز رہیں، کیا وہ امان میں ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لڑائی سے باز رہا، اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا، اس کو امن ہے۔ انھوں نے کہا : ہمیں بھیج دیں تاکہ ہم ان میں اعلان کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جاؤ جو ابو سفیان اور حکیم کے گھر میں بھی داخل ہوگیا اور لڑائی سے باز رہا اس کو بھی امن ہے۔ ابو سفیان کا گھر مکہ کی بالائی جانب تھا جبکہ حکیم کا گھر نچلی سطح پر تھا جب وہ دونوں جانے لگے تو عباس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں ابو سفیان پر مطمئن نہیں کہ وہ اسلام سے نہ پلٹ جائے۔ آپ اس کو واپس کریں، وہ ہمارے پاس ٹھہرے اور آپ کے ساتھ لشکروں کو دیکھ لے تو عباس نے انھیں روک لیا۔ ابو سفیان نے کہا : اے بنو ہاشم ! کیا عذر ہے ؟ عباس کہنے لگے : آپ جان لیں گے ہم دھوکا باز نہیں، لیکن مجھے آپ سے کام ہے۔ آپ صبح کریں اور اللہ کے لشکروں کا مشاہدہ کریں۔ پھر اس نے ابو سفیان کو روکنے کا قصہ ذکر کیا۔ یہاں تک کہ لشکر گزرے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زبیر بن عوام کو مہاجرین اور اپنے لشکر پر مقرر فرمایا۔ اس کو حکم فرمایا کہ وہ کداء کی جانب سے مکہ کی اوپر کی جانب سے داخل ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا جھنڈا دیا اور فرمایا : جحون نامی جگہ پر گاڑ دینا۔ زبیر بن عوام اس جگہ رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئے اور خالد بن ولید کے ساتھ بنو قصاعہ، بنو سلیم اور جو ان سے پہلے مسلمان ہوئے تھے کو روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ مکہ کی نچلی جانب سے داخل ہونا اور جھنڈے کو نچلی سطح کے قریبی گھروں کے پاس لگانے کا حکم دیا اور یہاں بنو بکر، بنو حارث بن عبد مناۃ، ہذیل اور کچھ دوسرے قبائل تھے۔ قریش نے ان سے مدد طلب کی اور مکہ کی نچلی جانب آنے کا کہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن عبادہ کو انصاری لشکر اور اپنے ابتدائی حصہ پر مقرر فرمایا تھا اور حکم دیا کہ صرف اس سے لڑائی کرنا جو لڑنے کے لیے آئے اور چار افراد کے قتل کا حکم دیا : 1 عبداللہ بن سعد بن سرح 2 حارث بن نقید 3 ابن خطل 4 مقیس بن صبابہ اور ابن خطل کی دو گانے والی لونڈیوں کے قتل کا حکم دیا۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذمت کرتی تھی۔ مختلف لشکر ابو سفیان، بدیل، حکیم، کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کے بارے میں سوال کرتے یہاں تک کہ انصاری لشکر جس کے امیر سعد بن عبادہ تھے تو سعد بن عبادہ نے ابو سفیان کو آواز دی۔ آج لڑائی کا دن ہے۔ آج تو حرم میں بھی لڑائی جائز ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مہاجرین کے ساتھ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے کہ وہ قتل کریں۔ کیونکہ سعد بن عبادہ اپنے لوگوں کے ساتھ میرے پاس سے گزرے تو آواز دے کر کہنے لگے کہ آج قتل کا دن ہے آج حرم میں بھی لڑائی جائز ہے اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کے بارے میں خدا کا واسطہ دیتا ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن عبادہ کو معزول کر کے انصار و مہاجرین کا امیر زبیر بن عوام کو مقرر کردیا اور حضرت زبیر نے جحون نامی جگہ پر جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جھنڈا لگایا اور خالد بن ولید مکہ کی نچلی جانب سے داخل ہوئے تو بنو بکر نے ان سے لڑائی کی، وہ شکست کھا گئے۔ بنو بکر کے بیس افراد، ہذیل کے تین یا چار افراد مارے گئے۔ انھیں شکست ہوئی اور ان کی لڑائی مسجد کے دروازے تک جاری رہی اور ان کے بکھرے ہوئے افراد بھاگ گئے اور گھروں میں داخل ہوگئے اور ایک گروہ پہاڑ پر چڑھ گیا، جن کا مسلمانوں نے تلواروں کے ذریعے پیچھا کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے مہاجرین اور دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہوئے اور ابو سفیان نے بلند آواز سے مکہ میں داخل ہوتے وقت کہا : جس نے اپنا دروازہ بند کرلیا، لڑائی سے باز رہا وہ امن میں ہے تو اس کی بیوی ہند بنت عقبہ نے کہا : اللہ قوم کے سردار کا برا کرے اور ساتھ ہی اس کے کنبے کا اور ابو سفیان کی داڑھی پکڑ کر اونچی آواز دی۔ اے آل غالب ! اس احمق بوڑھے کو قتل کر دو ، کیا تم نے لڑائی اور دفاع کیا، اپنے جانوں اور شہروں سے۔ ابو سفیان نے کہا : افسوس ہے تجھ پر خاموش ہوجا اور گھر میں داخل ہوجا۔ وہ تو مخلوق لے کر آئے ہیں اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کداء کے راستہ پر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلحہ کی چمک پہاڑ پر دیکھی، مشرکین کے بکھرے ہوئے افراد سے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا میں نے لڑائی سے منع نہ کیا تھا ؟ تو مہاجرین نے کہا : ہمارا گمان ہے کہ خالد بن ولید قتال میں مصروف ہیں، کیونکہ لگتا ہے ان کو قتال پر مجبور کیا گیا، وگرنہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی نافرمانی اور مخالفت نہ کرتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شنبہ سے اترے تو جحون مقام پر ٹھہرے۔ یہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ اس نے قصہ ذکر کیا ہے۔ اس میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید سے پوچھا : تو نے لڑائی کیوں کی جبکہ میں نے تجھے منع کیا تھا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ لڑائی کی ابتدا انھوں نے کی۔ اسلحہ کا استعمال شروع کیا اور ہمیں تیر مارے۔ میں نے حتی الوسع لڑائی سے گریز کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کا فیصلہ بہتر ہے۔

18288

(١٨٢٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ الْکَرِیمِ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَقِیلِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ وَہْبٍ قَالَ : سَأَلْتُ جَابِرًا ہَلْ غَنِمُوا یَوْمَ الْفَتْحِ شَیْئًا ؟ قَالَ : لاَ ۔ [حسن ]
(١٨٢٨٢) ابراہیم بن عقیل بن معقل اپنے والد سے اور وہب سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے جابر سے پوچھا : کیا فتح کے مکہ دن غنیمت بھی حاصل ہوئی ؟ اس نے کہا : نہیں۔

18289

(١٨٢٨٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ عَبَّادٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فِی قِصَّۃِ أَبِی قُحَافَۃَ وَابْنَۃٍ لَہُ مِنْ أَصْغَرِ وَلَدِہِ کَانَتْ تَقُودُہُ یَوْمَ الْفَتْحِ حَتَّی إِذَا ہَبَطَتْ بِہِ إِلَی الأَبْطَحِ لَقِیَتْہَا الْخَیْلُ وَفِی عُنُقِہَا طَوْقٌ لَہَا مِنْ وَرِقٍ فَاقْتَطَعَہُ إِنْسَانٌ مِنْ عُنُقِہَا فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْمَسْجِدَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَتَّی جَائَ بِأَبِیہِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی إِسْلاَمِہِ ثُمَّ قَامَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخَذَ بِیَدِ أُخْتِہِ فَقَالَ : أَنْشُدُہُمْ بِاللَّہِ وَالإِسْلاَمِ طَوْقَ أُخْتِی فَوَاللَّہِ مَا أَجَابَہُ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَ الثَّانِیَۃَ فَمَا أَجَابَہُ أَحَدٌ فَقَالَ یَا أُخَیَّۃَ احْتَسِبِی طَوْقَکِ فَوَاللَّہِ إِنَّ الأَمَانَۃَ الْیَوْمَ فِی النَّاسِ لَقَلِیلٌ۔ وَہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُمْ لَمْ یَغْنَمُوا شَیْئًا وَأَنَّہَا فُتِحَتْ صُلْحًا إِذْ لَوْ فُتِحَتْ عَنْوَۃً لَکَانَتْ وَمَا مَعَہَا غَنِیمَۃً وَلَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لاَ یَطْلُبُ طَوْقَہَا۔ [حسن ]
(١٨٢٨٣) اسماء بنت ابی بکر ابو قحافہ اور ان کے چھوٹے بچے کی بیٹی کے بارے میں فرماتی ہے کہ وہ فتح کے دن اونٹ چلا رہی تھی۔ جب وہ ابطح سے نیچے اتری تو اسے ایک شہسوار ملا، اس کے گلے چاندی کا ہار تھا۔ کسی انسان نے اس کی گردن سے کاٹ لیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو ابوبکر (رض) اپنے والد کو لے کر آئے۔ ان کے اسلام کے بارے میں حدیث ذکر کی۔ پھر ابوبکر (رض) نے کھڑے ہو کر اس کی بہن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ فرمانے لگے : میں انھیں اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، یہ ہار میری بہن کا ہے۔ اللہ کی قسم ! کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر انھوں نے دوسری مرتبہ کہا، تب بھی کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر فرمایا : اے بہن صبر کرو۔ اللہ کی قسم ! آج لوگوں میں امانت داری کم ہے۔ یہ دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے غنیمت حاصل نہ کی، بلکہ صلح کی فتح تھی۔ اگر زبردستی فتح ہوئی تو غنیمت بھی ہوتی ان کے پاس غنیمت کا مال نہ تھا اور ابوبکر (رض) نے ہار کا مطالبہ نہ کیا۔

18290

(١٨٢٨٤) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ إِمْلاَئً وَقِرَائَ ۃً قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ الْخَوْلاَنِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ بْنُ یَزِیدَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَخْبَرَنِی عَلِیُّ بْنُ حُسَیْنٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَہُ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَتَنْزِلُ فِی دَارِکَ بِمَکَّۃَ ؟ قَالَ : وَہَلْ تَرَکَ لَنَا عَقِیلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ ۔ وَکَانَ عَقِیلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ ہُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ یَرِثْہُ عَلِیٌّ وَلاَ جَعْفَرٌ شَیْئًا لأَنَّہُمَا کَانَا مُسْلِمَیْنِ وَکَانَ عَقِیلٌ وَطَالِبٌ کَافِرَیْنِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ وَہْبٍ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٨٤) حضرت اسامہ بن زید نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اپنے مکہ کے گھر میں رہیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑے ہیں ؟ کیونکہ عقیل ابو طالب کا وارث تھا۔ علی اور جعفر ان کے وارث نے تھے کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔

18291

(١٨٢٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ سَأَلْتُ الشَّافِعِیَّ عَنْ أَہْلِ الدَّارِ مِنْ أَہْلِ الْحَرْبِ یَقْسِمُونَ الدَّارَ وَیَمْلِکُ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ عَلَی ذَلِکَ الْقَسْمِ وَیُسْلِمُونَ ثُمَّ یُرِیدُ بَعْضُہُمْ أَنْ یَنْقُضَ ذَلِکَ الْقَسْمَ وَیَقْسِمَہُ عَلَی قَسْمِ الأَمْوَالِ فَقَالَ لَیْسَ ذَلِکَ لَہُ فَقُلْتُ وَمَا الْحُجَّۃُ فِی ذَلِکَ قَالَ الاِسْتِدْلاَلُ بِمَعْنَی الإِجْمَاعِ وَالسُّنَّۃِ فَذَکَرَ مَا لاَ یُؤَاخَذُونَ بِہِ مِنْ قَتْلِ بَعْضِہِمْ بَعْضًا وَسَبْیِ بَعْضِہِمْ بَعْضًا وَغَصْبِ بَعْضِہِمْ بَعْضًا ثُمَّ قَالَ مَعَ أَنَّہُ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ الدِّیلِیِّ قَالَ بَلَغَنِی أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَیُّمَا دَارٍ أَوْ أَرْضٍ قُسِمَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہِیَ عَلَی قَسْمِ الْجَاہِلِیَّۃِ وَأَیُّمَا دَارٍ أَوْ أَرْضٍ أَدْرَکَہَا الإِسْلاَمُ لَمْ تُقْسَمْ فَہِیَ عَلَی قَسْمِ الإِسْلاَمِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَنَحْنُ نَرْوِی فِیہِ حَدِیثًا أَثْبَتَ مِنْ ہَذَا بِمِثْلِ مَعْنَاہُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَلَعَلَّہُ أَرَادَ مَا۔ [صحیح ]
(١٨٢٨٥) ربیع بن سلیمان کہتے ہیں : میں نے امام شافعی (رح) سے پوچھا کہ علاقہ کے لوگ بعض اہل حرب سے ہوتے ہیں وہ اپنے گھر تقسیم کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے مالک ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہوجاتے ہیں اور اس تقسیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مال تقسیم کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں : یہ ان کے لیے درست نہیں ہے۔ میں نے دلیل پوچھی تو فرمایا : جس طرح ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے گا کسی کے قتل، قیدی اور غصب شدہ چیز کا۔ ثور بن زید دیلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو گھر یا زمین جاہلیت میں تقسیم کردی گئی، وہ اسی تقسیم پر باقی رہے گی اور جو گھر، زمین تقسیم نہ کی گئی تو اسے اسلام کے اصولوں کے مطابق تقسیم کرلیا جائے گا۔

18292

(١٨٢٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ النَّحْوِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حُمَیْدِ بْنِ نُعَیْمٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ دَاوُدَ (ح) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا تَمْتَامٌ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ أَبِی الشَّعْثَائِ : جَابِرِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : کُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَہُوَ عَلَی مَا قُسِمَ عَلَیْہِ وَکُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِی الإِسْلاَمِ فَہُوَ عَلَی مَا قُسِمَ فِی الإِسْلاَمِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ تَمْتَامٍ ۔ [حسن ]
(١٨٢٨٦) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہر وہ تقسیم جو جاہلیت میں کی گئی، وہ اسی طرح باقی ہے اور ہر وہ تقسیم جو اسلامی اصولوں کے موافق کی گئی وہ اسی طرح بحال رہے گی۔

18293

(١٨٢٨٧) وَقَدْ رُوِیَ حَدِیثُ مَالِکٍ مَوْصُولاً أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَہُ مِثْلَ رِوَایَۃِ الشَّافِعِیِّ رَحِمَہُ اللَّہُ ۔ [حسن۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٨٧) عکرمہ، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے امام شافعی (رح) کی روایت کے موافق ذکر کیا۔

18294

(١٨٢٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبِرْنِی أَبُو عَمْرٍو الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قِصَّۃِ حَجِّ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ فِی خُطْبَتِہِ : أَلاَ وَإِنَّ کُلَّ شَیْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَیَّ وَدِمَائُ الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعَۃٌ وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُہُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ۔ یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَکَانَ مُسْتَرْضَعًا فِی بَنِی سَعْدٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٢١٨]
(١٨٢٨٨) حضرت جابر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجۃ الوداع کا قصہ نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں ارشاد فرمایا : خبردار ! جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں تلے رکھ دی گئی ہے اور جاہلیت کے تمام خون معاف اور سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں اپنے خونوں سے وہ ربیعہ بن حارث کا خون ہے، یعنی ابن عبدالمطلب کا۔ یہ بنو سعد میں دودھ پیتے تھے کہ ہذیل والوں نے اسے قتل کردیا۔

18295

(١٨٢٨٩) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی ہُوَ ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ یُونُسَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَخْبَرَنِی مُسْلِمُ بْنُ یَزِیدَ أَحَدُ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَکْرِ بْنِ قَیْسٍ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَبُو شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الْفَتْحِ لَقُوا رَجُلاً مِنْ ہُذَیْلٍ کَانُوا یَطْلُبُونَہُ بِذَحْلٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فِی الْحَرَمِ یَؤُمُّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِیُبَایِعَہُ عَلَی الإِسْلاَمِ فَقَتَلُوہُ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَضِبَ فَسَعَتْ بَنُو بَکْرٍ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَسْتَشْفِعُونَ بِہِمْ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیُّ قَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی النَّاسِ فَأَثْنَی عَلَی اللَّہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَلَمْ یُحِلَّہَا لِلنَّاسِ ۔ أَوْ قَالَ : وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ وَإِنَّمَا أَحَلَّہَا لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ ثُمَّ ہِیَ حَرَامٌ کَمَا حَرَّمَہَا اللَّہُ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِنَّ أَعْدَی النَّاسِ عَلَی اللَّہِ ثَلاَثَۃٌ رَجُلٌ قَتَلَ فِیہَا وَرَجُلٌ قَتَلَ غَیْرَ قَاتِلِہِ وَرَجُلٌ طَلَبَ بِذَحْلِ الْجَاہِلِیَّۃِ وَإِنِّی وَاللَّہِ لأَدِیَنَّ ہَذَا الرَّجُلَ الَّذِی أَصَبْتُمْ ۔ قَالَ أَبُو شُرَیْحٍ فَوَدَاہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ بدون القصۃ ]
(١٨٢٨٩) ابو شریح خزاعی فرماتے ہیں کہ صحابہ فتح مکہ کے دن ہذیل کے افراد سے ملے، وہ حرم میں جاہلیت کے انتقام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس شخص کا ارادہ تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسلام پر بیعت کرے، لیکن صحابہ نے اسے قتل کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی تو غصے ہوئے۔ بنو بکر نے ابوبکر (رض) ، عمر (رض) کے پاس شکایت کی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفارش کریں۔ جب شام کا وقت ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا : اللہ کی حمد وثنا بیان کی۔ پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ لوگوں کے لیے حلال نہیں کیا یا فرمایا کہ لوگوں نے اسے حرام قرار نہ دیا۔ یہ صرف میرے لیے ایک گھڑی حلال قرار دیا گیا۔ پھر اللہ نے اس کو پہلے کی طرح حرام ہی قرار دے دیا اور لوگوں کا تین کام کرنا ظلم ہے : 1 کسی شخص کو حرم میں قتل کرنا 2 کسی غیر قاتل انسان کو قتل کرنا 3 جاہلیت کے بدلے کا مطالبہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! جس شخص کو تم نے قتل کیا ہے میں اس کی دیت ادا کروں گا۔ ابو شریح کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی دیت ادا کی۔

18296

(١٨٢٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ رَاشِدٍ مَوْلَی حَبِیبٍ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی أَوْسٍ قَالَ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قِصَّۃِ إِسْلاَمِہِ قَالَ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُبَایِعُکَ عَلَی أَنْ یُغْفَرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَمْ أَذَکُرْ مَا تَأَخَّرَ فَقَالَ لِی : یَا عَمْرُو بَایِعْ فَإِنَّ الإِسْلاَمَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا ۔ فَبَایَعْتُہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٢٩٠) حضرت عمرو بن عاص (رض) اپنے اسلام کا قصہ بیان فرماتے ہیں کہ میں آگے بڑھا اور کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس شرط پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیعت کروں گا کہ میرے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں اور بعد والوں کا ذکر نہیں کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے کہا : اے عمرو ! بیعت کرو، اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہ ختم کردیتا ہے اور ہجرت کی وجہ سے بھی پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں تو میں نے بیعت کرلی۔

18297

(١٨٢٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ النَّحْوِیُّ غُلاَمُ ثَعْلَبٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی الأَسَدِیُّ حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ؟ قَالَ : مَنْ أَحْسَنَ فِی الإِسْلاَمِ لَمْ یُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَمَنْ أَسَائَ فِی الإِسْلاَمِ أُخِذَ بِالأَوَّلِ وَالآخِرِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ خَلاَّدِ بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٩١) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارا مؤاخذہ کیا جائے گا جو جاہلیت میں کام کیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اسلام میں اچھا ہوا اس کے جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ نہ کیا جائے گا اور جو اسلام میں اچھا نہ ہوا اس کے پہلے اور بعد والے کاموں کا مؤاخذہ کیا جائے گا۔

18298

(١٨٢٩٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ شَقِیقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَی رَجُلٌ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنُؤَاخَذُ بِمَا کُنَّا نَعْمَلُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ؟ فَقَالَ : مَنْ أَحْسَنَ فِی الإِسْلاَمِ لَمْ یُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ وَمَنْ أَسَائَ أُخِذَ بِالأَوَّلِ وَالآخِرِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ ۔ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِہِ فِی الآخِرَۃِ وَکَأَنَّہُ جَعَلَ الإِیمَانَ کَفَّارَۃً لِمَا مَضَی مِنْ کُفْرِہِ وَجَعَلَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ بَعْدَہُ کَفَّارَۃً لِمَا مَضَی مِنْ ذُنُوبِہِ سِوَی کُفْرِہِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٩٢) حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارے جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ کیا جائے گا ؟ فرمایا : جس نے اسلام میں اچھے کام کیے، اس کے جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ نہ ہوگا اور جس نے برائی کی اس کے پہلے اور آخری تمام کاموں کا مؤاخذہ کیا جائے گا۔
(ب) محمد بن عبداللہ بن نمیر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ آخرت کا تھا؛ کیونکہ ایمان کفر کا کفارہ بن جاتا تھا اور نیک اعمال کفر کے علاوہ باقی تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔

18299

(١٨٢٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ أُمُورًا کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مِنْ عَتَاقَۃٍ وَصِلَۃِ رَحِمٍ ہَلْ لِی فِیہَا مِنْ أَجْرٍ ؟ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَسْلَمْتَ عَلَی مَا سَلَفَ لَکَ مِنْ خَیْرٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاہَوَیْہِ وَعَبْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مَعْمَرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٢٩٣) حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسے کاموں کے متعلق کیا خیال ہے کہ جاہلیت میں غلام آزاد کرنا، صلہ رحمی کرنا، کیا اس کا مجھے ثواب ملے گا ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے اسلام قبول کیا جو بھلائی تھی وہ تیرے لیے باقی ہے۔

18300

(١٨٢٩٤) أَخْبَرَنَا الإِمَامُ أَبُو الْفَتْحِ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی شُرَیْحٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِیعَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زِیَادٍ الدِّمَشْقِیُّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ادْرَئُ وا الْحُدُودَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ وَجَدْتُمْ لِلْمُسْلِمِینَ مَخْرَجًا فَخَلُّوا سَبِیلَہُ فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ یُخْطِئَ فِی الْعَفْوِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یُخْطِئَ فِی الْعُقُوبَۃِ ۔ وَرُوِّینَا فِی ذَلِکَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَغَیْرِہِمَا۔ وَأَصَحُّ الرِّوَایَاتِ فِیہِ عَنِ الصَّحَابَۃِ رِوَایَۃُ عَاصِمٍ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْ قَوْلِہِ وَقَدْ مَضَی فِی کِتَابِ الْحُدُودِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٩٤) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی طاقت کے موافق حدود کو دور کرو۔ اگر مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ پاؤ تو ان کو چھوڑ دو ۔ کیونکہ امام معاف کرنے میں غلطی کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ غلطی سے سزا دے۔

18301

(١٨٢٩٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الأَرْدَسْتَانِیُّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ أَبِی السَّرِیَّۃِ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سُئِلَ عَنْ جَارِیَۃٍ بَیْنَ رَجُلَیْنِ وَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمَا قَالَ ہُوَ خَائِنٌ لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ یُقَوَّمُ عَلَیْہِ قِیمَۃً ۔ [ضعیف ]
(١٨٢٩٥) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک لونڈی جو دو افراد کی مشترک تھی۔ ایک نے اس سے صحبت کرلی۔ فرمایا کہ وہ خائن انسان ہے، حد نہ لگائیں بلکہ اس کے ذمہ اس کی قیمت لگا دی جائے۔

18302

(١٨٢٩٦) وَہَذَا یُحْتَمَلُ أَنْ یُرِیدَ بِہِ تَقْوِیمَ الْبُضْعِ عَلَیْہِ فَیَرْجِعُ إِلَی الْمَہْرِ غَیْرَ أَنَّ وَکِیعًا رَوَاہُ عَنْ إِسْمَاعِیلَ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ نُمَیْرٍ وَہُوَ اسْمُ أَبِی السَّرِیَّۃِ فَقَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ جَارِیَۃٍ کَانَتْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ فَوَقَعَ عَلَیْہَا أَحَدُہُمَا قَالَ : لَیْسَ عَلَیْہِ حَدٌّ یُقَوَّمُ عَلَیْہِ قِیمَتَہَا وَیَأْخُذُہَا۔ أَنْبَأَنِیہِ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ إِجَازَۃً أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ أَخْبَرَنَا ابْنُ زُہَیْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ہَاشِمٍ عَنْ وَکِیعٍ فَذَکَرَہُ ۔ وَہَذَا یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ فِیہِ إِذَا حَمَلَتْ مِنْہُ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٢٩٦) عمیر بن نمیر فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے دو آدمیوں کی مشترک لونڈی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ایک اس سے صحبت کرلیتا ہے۔ فرماتے ہیں : اس پر حد نہیں، صرف اس سے قیمت وصول کی جائے گی۔ (ب) یہ بھی صرف اس احتمال کی وجہ سے کہ وہ حاملہ ہوجائے گی۔

18303

(١٨٢٩٧) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو زَکَرِیَّا : یَحْیَی بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِیدٍ أَخْبَرَنَا شَرِیکٌ عَنْ قَیْسِ بْنِ وَہْبٍ وَالْمُجَالِدِ عَنْ أَبِی الْوَدَّاکِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَصَبْنَا سَبَایَا یَوْمَ أَوْطَاسٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّی تَضَعَ حَمْلَہَا وَلاَ غَیْرُ حَامِلٍ حَتَّی تَحِیضَ حَیْضَۃً ۔ [حسن لغیرہ ]
(١٨٢٩٧) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ اوطاس کے دن ہمیں لونڈیاں ملیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حاملہ کے ساتھ وضع حمل سے پہلے ہمبستری نہ کی جائے اور غیر حاملہ سے ایک حیض آنے تک۔

18304

(١٨٢٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ أَبِی مَرْزُوقٍ مَوْلَی تُجَیْبٍ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِیِّ قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ أَبِی رُوَیْفِعٍ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ الْمَغْرِبَ فَافْتَتَحَ قَرْیَۃً فَقَامَ خَطِیبًا فَقَالَ : إِنِّی لاَ أَقُولُ فِیکُمْ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ فِینَا یَوْمَ خَیْبَرَ قَامَ فِینَا عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ : لاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَائَ ہُ زَرْعَ غَیْرِہِ ۔ یَعْنِی إِتْیَانَ الْحُبَالَی مِنَ الْفَیْئِ : وَلاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یُصِیبَ امْرَأَۃً مِنَ السَّبْیِ ثَیِّبًا حَتَّی یَسْتَبْرِئَہَا وَلاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَبِیعَ مَغْنَمًا حَتَّی یُقْسَمَ وَلاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ یَرْکَبُ دَابَّۃً مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی إِذَا أَعْجَفَہَا رَدَّہَا فِیہِ وَلاَ یَحِلُّ لاِمْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَلْبَسْ ثَوْبًا مِنْ فَیْئِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّی إِذَا أَخْلَقَہُ رَدَّہُ ۔ کَذَا قَالَ یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ یَوْمَ خَیْبَرَ وَإِنَّمَا ہُوَ یَوْمَ حُنَیْنٍ کَذَلِکَ رَوَاہُ غَیْرُہُ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ غَیْرُ ابْنِ إِسْحَاقَ وَقَالَ غَیْرُہُ رُوَیْفِعُ بْنُ ثَابِتٍ وَہُوَ الصَّحِیحُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَدَلَّ ذَلِکَ عَلَی أَنَّ السِّبَائَ نَفْسَہُ انْقِطَاعُ الْعِصْمَۃِ بَیْنَ الزَّوْجَیْنِ وَذَلِکَ أَنَّہُ لاَ یَأْمُرُ بِوَطْئِ ذَاتِ زَوْجٍ بَعْدَ حَیْضَۃٍ إِلاَّ وَذَلِکَ قَطْعُ الْعِصْمَۃِ وَقَدْ ذَکَرَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّ قَوْلَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } [النساء ٢٤] ذَوَاتُ الأَزْوَاجِ اللاَّتِی مَلَکْتُمُوہُنَّ بِالسِّبَائِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَرُوِّینَا فِی کِتَابِ النِّکَاحِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَ قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [حسن ]
(١٨٢٩٨) حنش صنعانی فرماتے ہیں کہ ہم نے رویفع انصاری کے ساتھ مل کر غزوہ کیا۔ ایک بستی فتح ہوگئی تو انھوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا : میں تم سے صرف وہی بات کہوں گا جو میں نے خیبر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر کی کھیتی کو پانی دے، یعنی حاملہ عورت سے وطی نہ کرے اور کسی مومن کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ استبراء رحم کے بغیر کسی قیدی عورت سے ہم بستری کرے اور کسی مومن کے لیے جس کا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے یہ جائز نہیں کہ مال غنیمت کو تقسیم ہونے سے پہلے فروخت کرے اور کسی مومن کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یہ جائز نہیں مال فیٔ کی سواری لے کر دبلی پتلی یعنی کمزور کر کے واپس کرے اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ جس کا اللہ اور آخرت کے دن پر یقین ہے کہ وہ مال فیٔ سے کپڑے حاصل کر کے پہنے اور بوسیدہ کر کے واپس کر دے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے حکم دیا تاکہ دو خاوندوں کے درمیان عصمت ختم ہوجائے۔ اللہ کا فرمان ہے : { وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } [النساء ٢٤] ” وہ خاوند والی عورتیں جن کو لونڈی بنا کر تم ان کے مالک بنے ہو۔ “

18305

(١٨٢٩٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی حَدَّثَنَا سَعِیدٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الخَلِیلِ أَنَّ أَبَا عَلْقَمَۃَ الْہَاشِمِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ سَرِیَّۃً یَوْمَ حُنَیْنٍ فَأَصَابُوا جَیْشًا مِنَ الْعَرَبِ یَوْمَ أَوْطَاسٍ فَقَاتَلُوہُمْ وَہَزَمُوہُمْ فَأَصَابُوا نِسَائً لَہُنَّ أَزْوَاجٌ فَکَأَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - تَأَثَّمُوا مِنْ غِشْیَانِہِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِہِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ } [النساء ٢٤] فَہُنَّ لَکُمْ حَلاَلٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٤٥٦]
(١٨٢٩٩) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن ایک سریہ روانہ فرمایا، جن کی لڑائی اوطاس کے دن عرب کے ایک لشکر سے ہوئی جن کو شکست ہوئی۔ عورتیں قیدی بنیں جن کے خاوند بھی تھے تو صحابہ نے ان کے خاوندوں کی وجہ سے ان سے ہم بستری کرنے کو گناہ خیال کیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : { وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ } [النساء ٢٤] کہ یہ تمہارے لیے حلال ہیں۔

18306

(١٨٣٠٠) وَأَخْرَجَہُ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ الْقَوَارِیرِیِّ عَنْ یَزِیدَ بْنِ زُرَیْعٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ بِمَعْنَاہُ زَادَ فِیہِ أَیْ فَہُنَّ لَہُمْ حَلاَلٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہُنَّ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَیْسَرَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٣٠٠) سعید بن ابی عروبہ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کے لیے حلال ہیں جب عدت ختم ہوجائے۔

18307

(١٨٣٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مِیکَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدَانُ الأَہْوَازِیُّ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحَرِیشِ وَالْحَسَنُ بْنُ الْحَارِثِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو ہَمَّامٍ یَعْنِی مُحَمَّدَ بْنَ الزِّبْرِقَانِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ عَنِ ابْنِ مُحَیْرِیزٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَصَبْنَا سَبَایَا فِی سَبْیِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَأَرَدْنَا أَنْ نَسْتَمْتِعَ وَأَنْ لاَ یَلِدْنَ فَسَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لاَ عَلَیْکُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ کَتَبَ مَنْ ہُوَ خَالِقٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ مَوْلَی بَنِی ہَاشِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الزِّبْرِقَانِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَعَرَّسَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِصَفِیَّۃَ بِالصَّہْبَائِ وَہِیَ غَیْرُ بِلاَدِ الإِسْلاَمِ یَوْمَئِذٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٠١) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں بنو مصطلق کی لونڈیاں ملیں تو ہماری چاہت ہم بستری کی تھی اولاد کی نہیں۔ اس بارے میں ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایسا نہ کرو۔ کیونکہ اللہ نے لکھ چھوڑا ہے جس نے قیامت تک پیدا ہونا ہے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کے ساتھ صہبا نامی جگہ پر دخول کیا حالانکہ یہ دار الحرب تھا۔

18308

(١٨٣٠٢) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْقَاسِمِ : زَیْدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِیُّ بِالْکُوفَۃِ مِنْ أَصْلِ سَمَاعِہِ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ أَبِی الْحُنَیْنِ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ لأَبِی طَلْحَۃَ حِینَ أَرَادَ الْخُرُوجَ إِلَی خَیْبَرَ : الْتَمِسْ لِی غُلاَمًا مِنْ غِلْمَانِکُمْ یَخْدُمُنِی ۔ فَخَرَجَ بِی أَبُو طَلْحَۃَ مُرْدِفِی وَأَنَا غُلاَمٌ قَدْ رَاہَقْتُ فَکَانَ إِذَا نَزَلَ خَدَمْتُہُ فَسَمِعْتُہُ کَثِیرًا مِمَّا یَقُولُ : اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَظِلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ ۔ فَلَمَّا فُتِحَ الْحِصْنُ ذُکِرَ لَہُ جَمَالُ صَفِیَّۃَ وَکَانَتْ عَرُوسًا وَقُتِلَ زَوْجُہَا فَاصْطَفَاہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِنَفْسِہِ فَلَمَّا کُنَّا بِسُدِّ الصَّہْبَائِ حَلَّتْ فَبَنَی بِہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَاتَّخَذَ حَیْسًا فِی نِطَعٍ صَغِیرٍ وَکَانَتْ وَلِیمَۃً فَرَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُحَوِّی لَہَا بِعَبَائَ ۃٍ خَلْفَہُ وَیَجْلِسُ عِنْدَ نَاقَتِہِ فَیَضَعُ رُکْبَتَہُ فَتَجِیئُ صَفِیَّۃُ فَتَضَعُ رِجْلَہَا عَلَی رُکْبَتِہِ ثُمَّ تَرْکَبُ فَلَمَّا بَدَا لَنَا أُحُدٌ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ ۔ فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَی الْمَدِینَۃِ قَالَ : اللَّہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ اللَّہُمَّ وَإِنِّی أُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا اللَّہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِی صَاعِہِمْ وَمُدِّہِمْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَأَخْرَجَاہُ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنْ یَعْقُوبَ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ غَزَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ الْمُرَیْسِیعِ بِامْرَأَۃٍ أَوِ امْرَأَتَیْنِ مِنْ نِسَائِہِ وَالْغَزْوُ بِالنِّسَائِ أَوْلَی لَوْ کَانَ فِیہِ مَکْرُوہٌ أَنْ یُتَوَقَّی۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ قَدْ مَضَتِ الأَحَادِیثُ فِی ذَلِکَ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ وَمَضَتْ أَحَادِیثُ فِی غَزْوِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالنِّسَائِ فِی ہَذَا الْکِتَابِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٠٢) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طلحہ سے فرمایا، جب خیبر جانے کا ارادہ تھا کہ اپنے غلاموں سے کوئی غلام تلاش کرو جو میری خدمت کرے تو ابو طلحہ نے مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیا اور میں بچہ تھا اور بلوغت کے قریب۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑاؤ کرتے تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے تھے : اے اللہ ! میں فکر اور غم سے، عاجزی اور سستی سے، بزدلی اور بخل سے اور قرض چڑھ جانے سے اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ جب قلعہ فتح ہوگیا تو صفیہ کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا گیا۔ وہ شادی شدہ تھی، اس کا خاوند قتل ہوگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا انتخاب اپنے لیے کرلیا۔ جب ہم صہبا نامی جگہ پہنچے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے صحبت کی اور حلوے کے ساتھ ولیمہ کیا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر کے ذریعے اپنے پیچھے سواری پر جگہ بنائی اور اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اپنے گھٹنے کو رکھا تو صفیہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنے پر پاؤں رکھ کر سوار ہوئی۔ جب احد کا موقع آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں دو پہاڑوں کے درمیان کو حرم قرار دیتا ہوں۔ اے اللہ ! ان کے صاع اور مد میں برکت دے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ مریسیع میں ایک یا دو عورتوں کو ساتھ لیا اور عورت کو ساتھ لے کر غزوہ کرنا بہتر ہے اگرچہ چاہت کرنا مکروہ ہے۔

18309

(١٨٣٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا شَیْبَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ خَیْبَرَ أَکْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَہْلِیَّۃِ وَعَنِ النِّسَائِ الْحَبَالَی أَنْ یُوطَأْنَ حَتَّی یَضَعْنَ مَا فِی بُطُونِہِنَّ وَعَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ بَیْعِ الْخُمُسِ حَتَّی یُقْسَمَ وَقَالَ فِی مَوْضِعٍ آخَرَ وَعَنْ شِرَی الْمَغْنَمِ حَتَّی یُقْسَمَ ۔ [حسن ]
(١٨٣٠٣) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھریلو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے اور حاملہ عورتوں سے وطی سے منع کیا جب تک وہ وضع حمل نہ کردیں اور درندوں کے گوشت سے اور خمس کو تقسیم سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت سے منع فرمایا۔

18310

(١٨٣٠٤) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمْزَۃَ حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَہَی أَنْ یُوقَعَ عَلَی الْحَبَالَی حَتَّی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ وَقَالَ : زَرْعُ غَیْرِکَ ۔ وَعَنْ بَیْعِ الْمَغَانِمِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ وَعَنْ أَکْلِ الْحُمُرِ الإِنْسِیَّۃِ وَعَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ دَلِیلُہُ أَنَّہَا إِذَا قُسِمَتْ جَازَ بَیْعُہَا۔ وَقَدْ مَضَتِ الدِّلاَلَۃُ عَلَی جَوَازِ قَسْمِہَا فِی دَارِ الْحَرْبِ ۔ [حسن ]
(١٨٣٠٤) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاملہ عورتوں سے وضع حمل سے پہلے وطی سے منع فرمایا اور کہا کہ یہ غیر کی کھیتی کو پانی پلانے کے مترادف ہے۔ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرنے سے بھی روکا۔ گھریلو گدھے اور درندوں کے گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تقسیم ہوجائے تب جائز ہے۔
اور لڑائی والے علاقہ میں اس کی تقسیم جائز ہے۔

18311

(١٨٣٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلاَّبُ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَالِدٍ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِی خَالِدٍ الدَّالاَنِیِّ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ بَاعَ جَارِیَۃً وَوَلَدَہَا فَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا فَنَہَاہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَنْ ذَلِکَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٠٥) مبمون بن ابی شبیب حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان فروخت کرتے وقت تفریق کردی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا۔

18312

(١٨٣٠٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ فَذَکَرَہُ بِمِثْلِ إِسْنَادِہِ أَنَّہُ فَرَّقَ بَیْنَ جَارِیَۃٍ وَوَلَدِہَا فَنَہَاہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرَدَّ الْبَیْعَ ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ : مَیْمُونٌ لَمْ یُدْرِکْ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٣٠٦) عبدالسلام بن حرب اس کی مثل فرماتے ہیں کہ انھوں نے لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کردی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا اور بیع واپس کردی۔

18313

(١٨٣٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ أَخْبَرَنَا عَوْنُ بْنُ سَلاَّمٍ عَنْ أَبِی مَرْیَمَ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَصَبْتُ جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ مَعَہَا ابْنٌ لَہَا فَأَرَدْتُ أَنْ أَبِیعَہَا وَأُمْسِکُ ابْنَہَا فَقَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : بِعْہُمَا جَمِیعًا أَوْ أَمْسِکْہُمَا جَمِیعًا ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٠٧) میمون بن ابی شبیب فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : مجھے ایک لونڈی اور اس کا بیٹا ملا، میں نے لونڈی کو فروخت کرنے اور بچے کو رکھنے کا ارادہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ دونوں کو فروخت کر دو یا دونوں کو رکھ لو۔

18314

(١٨٣٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ بْنِ أَعْیَنَ الْمِصْرِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ وَأَنَسُ بْنُ عِیَاضٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ : أَنَّ أَبَا أُسَیْدٍ الأَنْصَارِیَّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَدِمَ بِسَبْیٍ مِنَ الْبَحْرَیْنِ فَصُفُّوا فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَنَظَرَ إِلَیْہِمْ فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَبْکِی فَقَالَ : مَا یُبْکِیکِ ؟ ۔ قَالَتْ : بِیعَ ابْنِی فِی عَبْسٍ ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَبِی أُسَیْدٍ : لَتَرْکَبَنَّ فَلَتَجِیئَنَّ بِہِ کَمَا بِعْتَ بِالثَّمَنِ ۔ فَرَکِبَ أَبُو أُسَیْدٍ فَجَائَ بِہِ ۔ ہَذَا وَإِنْ کَانَ فِیہِ إِرْسَالٌ فَہُوَ مُرْسَلٌ حَسَنٌ شَاہِدٌ لَمَّا تَقَدَّمَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٠٨) ابو اسید انصاری فرماتے ہیں کہ بحرین کے قیدیوں کی صفیں بنی ہوئی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی جانب دیکھا تو ایک عورت رو رہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تجھے کس چیز نے رلایا ہے ؟ اس نے کہا : قبیلہ عبس میں میرے بیٹے کو فروخت کردیا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو اسید سے کہا کہ جاؤ، اس کو لے کر آؤ، جتنی قیمت میں آپ نے فروخت کیا ہے تو ابو اسید اسے لے کر آئے۔

18315

(١٨٣٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حُیَیِّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْمَعَافِرِیُّ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ وَالِدَۃٍ وَوَلَدِہَا فَرَّقَ اللَّہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَحِبَّتِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ وَرُوِیَ ذَلِکَ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٠٩) ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے والدہ اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کردی تو قیامت والے دن اللہ اس کے پیاروں کے درمیان تفریق کر دے گا۔

18316

(١٨٣١٠) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی وَأَبُو صَادِقِ بْنُ أَبِی الْفَوَارِسِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ إِجَازَۃً حَدَّثَنَا أَبُو عُتْبَۃَ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ حُمَیْدٍ عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ کَثِیرٍ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَلَدِ وَأُمِّہِ فَرَّقَ اللَّہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَحِبَّتِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣١٠) حضرت ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے بچے اور اس کی ماں کے درمیان جدائی ڈال دی۔ اللہ رب العزت قیامت کے دن اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔

18317

(١٨٣١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی ابْنُ أَبِی ذِئْبٍ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ ضُمَیْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ ضُمَیْرَۃَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَرَّ بِأُمِّ ضُمَیْرَۃَ وَہِیَ تَبْکِی فَقَالَ : مَا یُبْکِیکِ أَجَائِعَۃٌ أَنْتِ أَمْ عَارِیَۃٌ أَنْتِ ؟ ۔ فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فُرِّقَ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنِی۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ وَالِدَۃٍ وَوَلَدِہَا ۔ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی الَّذِی عِنْدَہُ ضُمَیْرَۃَ فَدَعَاہُ فَابْتَاعَہُ مِنْہُ بِبَکْرَۃٍ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٣١١) حسین بن عبداللہ بن ضمیرہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضمیرہ کی والدہ کے پاس سے گزرے وہ رو رہی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تو بھوکی ہے یا تجھے کوئی پریشانی ہے ؟ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے اور بچے کے درمیان تفریق کردی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ والدہ اور بچے کے درمیان تفریق نہ کی جائے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی جانب بھیجا جس کے پاس ضمیرہ تھا تو اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خرید لیا۔

18318

(١٨٣١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اسْتَعْمَلَ شُرَحْبِیلَ بْنَ السِّمْطِ عَلَی الْمَدائِنِ وَأَبُوہُ بِالشَّامِ فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنَّکَ تَأْمُرُ أَنْ لاَ یُفَرَّقَ بَیْنَ السَّبَایَا وَبَیْنَ أَوْلاَدِہِنَّ فَإِنَّکَ قَدْ فَرَّقْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنِی فَکَتَبَ إِلَیْہِ فَأَلْحَقَہُ بِأَبِیہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣١٢) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے شرحبیل بن سبط کو مدائن اور ان کے والد کو شام کا عامل مقرر کیا تو اس نے حضرت عمر (رض) لکھا کہ آپ نے حکم دیا ہے کہ قیدیوں اور ان کے اولاد کے درمیان تفریق نہ کی جائے، حالانکہ آپ نے میرے اور میرے باپ کے درمیان تفریق کردی ہے تو حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ اپنے باپ کے ساتھ مل جاؤ۔

18319

(١٨٣١٣) وَبِإِسْنَادِہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَیُّوبَ قَالَ : أَمَرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ یُشْتَرَی لَہُ رَقِیقٌ وَقَالَ : لاَ تُفَرِّقَنَّ بَیْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِہِ ۔ وَرُوِیَ ہَذَا مَوْصُولاً ۔ [صحیح ]
(١٨٣١٣) حضرت ایوب فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے اپنے لیے غلام خریدنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ والد اور بچے کے درمیان تفریق نہ کی جائے۔

18320

(١٨٣١٤) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ أَخْبَرَنِی یَزِیدُ بْنُ الْہَیْثَمِ أَنَّ إِبْرَاہِیمَ بْنَ أَبِی اللَّیْثِ حَدَّثَہُمْ حَدَّثَنَا الأَشْجَعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَیُّوبَ السَّخْتِیَانِیِّ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ ہِلاَلٍ عَنْ حَکِیمِ بْنِ عِقَالِ قَالَ : نَہَانِی عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ أُفَرِّقَ بَیْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِہِ فِی الْبَیْعِ ۔ [صحیح ]
(١٨٣١٤) حکیم بن عقال فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے مجھے والد اور بچے کے درمیان بیع میں تفریق کرنے سے منع فرمایا۔

18321

(١٨٣١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ عَمَّنْ سَمِعَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : لاَ یُفَرَّقُ بَیْنَ الأَمَۃِ وَوَلَدِہَا فِی الْقِسْمَۃِ تَقَعُ فَقَالَ لَہُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ وَإِنْ لَمْ یَعْتَدِلِ الْقَسْمُ ۔ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : وَإِنْ لَمْ یَعْتَدِلِ الْقَسْمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣١٥) سالم بن عبداللہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ لونڈی اور اس کے بچے کے درمیان تقسیم میں تفریق نہ کی جائے تو سالم بن عبداللہ نے کہا : اگر تقسیم برابر نہ ہو تو عبداللہ نے کہا : اگرچہ تقسیم برابر نہ ہی ہو۔

18322

(١٨٣١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْجَہْمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ الْخَفَّافُ أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ أَبِیعَ غُلاَمَیْنِ أَخَوَیْنِ فَبِعْتُہُمَا وَفَرَّقْتُ بَیْنَہُمَا فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أَدْرِکْہُمَا فَارْتَجِعْہُمَا وَلاَ تَبِعْہُمَا إِلاَّ جَمِیعًا وَلاَ تُفَرِّقْ بَیْنَہُمَا ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَغَیْرِہِ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ ۔ [حسن ]
(١٨٣١٦) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دو غلام بھائیوں کو فروخت کرنے کا حکم دیا۔ میں نے فروخت کرتے وقت دونوں میں تفریق کردی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان دونوں کو تلاش کر کے واپس لو اور اکٹھے فروخت کرو، دونوں کے درمیان تفریق نہ کرو۔

18323

(١٨٣١٧) وَرَوَاہُ الزَّعْفَرَانِیُّ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ سَعِیدٍ عَنِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ الْخَفَّافُ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَنِی۔ کَذَا وَجَدْتُہُ فِی أَصْلِ کِتَابِہِ عَنْ سَعِیدٍ وَرَوَاہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ سَعِیدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الْحَکَمِ ۔
(١٨٣١٧) خالی

18324

(١٨٣١٨) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ ابْنُ الْخَرُاسَانِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ عَنْ سَعِیدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَحْوَہُ ۔ قَالَ ابْنُ الْخُرَاسَانِیِّ وَہُوَ الصَّوَابُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَہَذَا أَشْبَہُ وَسَائِرُ أَصْحَابِ شُعْبَۃَ لَمْ یَذْکُرُوہُ عَنْ شُعْبَۃَ وَسَائِرُ أَصْحَابِ سَعِیدٍ قَدْ ذَکَرُوہُ عَنْ سَعِیدٍ ہَکَذَا۔
(١٨٣١٨) خالی

18325

(١٨٣١٩) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَائٍ عَنِ ابْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَہُ بِمِثْلِہِ وَقَدْ رَوَاہُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔
(١٨٣١٩) خالی

18326

(١٨٣٢٠) حَدَّثَنَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنِ الْحَجَّاجِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ أَبِی شَبِیبٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : وَہَبَ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غُلاَمَیْنِ أَخَوَیْنِ فَبِعْتُ أَحَدَہُمَا فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا فَعَلَ الْغُلاَمَانِ ؟ قُلْتُ : بِعْتُ أَحَدَہُمَا۔ قَالَ : رُدَّہُ ۔ [حسن ] کَذَا رَوَاہُ الْحَجَّاجُ ۔ وَالْحَجَّاجُ لاَ یُحْتَجُّ بِہِ وَحَدِیثُ أَبِی خَالِدٍ الدَّالاَنِیِّ عَنِ الْحَکَمِ أَوْلَی أَنْ یَکُونَ مَحْفُوظًا لِکَثْرَۃِ شَوَاہِدِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔
(١٨٣٢٠) میمون بن ابی شبیب حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بھائی غلام مجھے ہدیہ دیے۔ میں نے ایک کو فروخت کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غلاموں کا کیا کیا ؟ میں نے کہا : میں نے ایک کو فروخت کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو واپس لو۔

18327

(١٨٣٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِیَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ یُونُسَ السَّرَّاجُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ سُلَیْمَانَ التَّیْمِیِّ عَنْ طُلَیْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حَصِینٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَلْعُونٌ مَنْ فَرَّقَ ۔ کَذَا قَالَہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ وَقِیلَ عَنْہُ فِیہِ عَنْ طَلْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢١) حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے تفریق کی وہ ملعون ہے۔

18328

(١٨٣٢٢) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ عَنْ طُلَیْقِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدِ وَبَیْنَ وَلَدِہِ وَبَیْنَ الأَخِ وَبَیْنَ أَخِیہِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُجَمِّعٍ ہَذَا لاَ یُحْتَجُّ بِہِ ۔ وَقَدْ قِیلَ عَنْہُ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنْ طُلَیْقِ بْنِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْوَالِدِ وَوَلَدِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢٢) ابو موسیٰ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے والد اور بچے کے درمیان اور دو بھائیوں کے درمیان تفریق کرنے والے پر لعنت کی ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے والد اور بچے کے بارے میں نقل فرماتے ہیں۔

18329

(١٨٣٢٣) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا أُتِیَ بِالسَّبْیِ أَعْطَی أَہْلَ الْبَیْتِ جَمِیعًا وَکَرِہَ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢٣) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب قیدی لائے جاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو ایک گھر والے اکٹھے عطا کرتے اور ان کے درمیان تفریق کو ناپسند فرماتے تھے۔

18330

(١٨٣٢٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ وَشَیْبَانُ وَقَیْسٌ کُلُّہُمْ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أُتِیَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَبْیٍ فَجَعَلَ یُعْطِی أَہْلَ الْبَیْتِ کَمَا ہُمْ جَمِیعًا وَکَرِہَ أَنْ یُفَرِّقَ بَیْنَہُمْ ۔ جَابِرٌ ہَذَا ہُوَ ابْنُ یَزِیدَ الْجُعْفِیُّ تَفَرَّدَ بِہِ بِہَذَیْنِ الإِسْنَادَیْنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢٤) حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قیدی لائے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گھر والے اکٹھے ہی کسی کو عطا کردیتے اور ان کے درمیان تفریق کو ناپسند کیا ہے۔

18331

(١٨٣٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ فَرُّوخٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ لاَ یُفَرَّقَ بَیْنَ أَخَوَیْنِ مَمْلُوکَیْنِ فِی الْبَیْعِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢٥) عبدالرحمن بن فروخ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خط لکھا کہ فروخت کرتے وقت دو غلام بھائیوں کے درمیان تفریق نہ کی جائے۔

18332

(١٨٣٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ الْخُرَاسَانِیُّ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْہَیْثَمِ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَسَّانَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ التَّنُوخِیُّ قَالَ سَمِعْتُ مَکْحُولاً یَقُولُ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : نَہَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَ الأُمِّ وَوَلَدِہَا فَقِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِلَی مَتَی ؟ قَالَ : حَتَّی یَبْلُغَ الْغُلاَمُ وَتَحِیضَ الْجَارِیَۃُ ۔ [موضوع ]
(١٨٣٢٦) حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق سے منع فرمایا : کہا گیا : اے اللہ کے رسول ! کب تک ؟ فرمایا : جب تک بچہ بالغ ہوجائے اور بچی حیض والی ہوجائے۔

18333

(١٨٣٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَارِثِ قَالاَ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الدَّارَقُطْنِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو ہَذَا ہُوَ الْوَاقِعِیُّ وَہُوَ ضَعِیفُ الْحَدِیثِ رَمَاہُ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ بِالْکَذِبِ وَلَمْ یَرْوِہِ عَنْ سَعِیدٍ غَیْرُہُ ۔
(١٨٣٢٧) خالی

18334

(١٨٣٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : سَبَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نِسَائَ بَنِی قُرَیْظَۃَ وَذَرَارِیَّہُمْ وَبَاعَہُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ فَاشْتَرَی أَبُو الشَّحْمِ الْیَہُودِیُّ أَہْلَ بَیْتٍ عَجُوزًا وَوَلَدِہَا مِنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَا بَقِیَ مِنَ السَّبْیِ أَثَلاَثًا ثُلُثَا إِلَی تِہَامَۃَ وَثُلُثًا إِلَی نَجْدٍ وَثُلُثًا إِلَی طَرِیقِ الشَّامِ فَبِیعُوا بِالْخَیْلِ وَالسِّلاَحِ وَالإِبِلِ وَالْمَالِ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٢٨) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو قریظہ کی عورتیں اور ان کی اولاد کو قیدی بنایا اور مشرکین کو فروخت کردیا۔ ابو شحم یہودی نے ایک بوڑھیا اور اس کے بچے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خریدے اور باقی قیدیوں کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ دو ثلث تہامہ، ایک ثلث نجد اور ایک ثلث شام کی جانب روانہ کردیا اور فرمایا کہ گھوڑوں، اسلحہ، اونٹ اور مال کے بدلے فروخت کر دو ۔

18335

(١٨٣٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی قِصَّۃِ قُرَیْظَۃَ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَعْدَ بْنَ زَیْدٍ أَخَا بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ بِسَبَایَا بَنِی قُرَیْظَۃَ إِلَی نَجْدٍ فَابْتَاعَ لَہُ بِہِمْ خَیْلاً وَسِلاَحًا۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَکَذَلِکَ النِّسَائُ الْبَوَالِغُ قَدِ اسْتَوْہَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَارِیَۃً بَالِغًا مِنْ أَصْحَابِہِ فَفَدَی بِہَا رَجُلَیْنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٢٩) ابن اسحاق قریظہ کے قصہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن زید جو بنو عبداشہل کے بھائی ہیں بنو قریظہ کے قیدی دے کر نجد کی جانب روانہ کیا کہ ان کے عوض گھوڑے اور اسلحہ خریدو۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو ایک بالغ لونڈی عطا کی جو انھوں نے دو آدمیوں کے عوض فدیہ میں دی۔

18336

(١٨٣٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الأَسْفَاطِیُّ یَعْنِی الْعَبَّاسَ بْنَ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَأَمَّرَہُ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَغَزَوْنَا فَزَارَۃَ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَائِ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَعَرَّسْنَا فَلَمَّا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ أَمَرَنَا أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَشَنَنَّا الْغَارَۃَ فَنَزَلْنَا عَلَی الْمَائِ قَالَ سَلَمَۃُ فَنَظَرْتُ إِلَی عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِیہِمُ الذُّرِّیَّۃُ وَالنِّسَائُ فَخَشِیتُ أَنْ یَسْبِقُونِی إِلَی الْجَبَلِ فَأَخَذْتُ آثَارَہُمْ فَرَمَیْتُ بِسَہْمٍ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْجَبَلِ فَقَامُوا فَجِئْتُ أَسُوقُہُمْ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَفِیہِمُ امْرَأَۃٌ مِنْ بَنِی فَزَارَۃَ عَلَیْہَا قِشْعٌ مِنْ أَدَمٍ وَمَعَہَا ابْنَۃٌ لَہَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ فَنَفَّلَنِی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ابْنَتَہَا فَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ وَلَمْ أَکْشِفْ لَہَا ثَوْبًا وَلَقِیَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی السُّوقِ فَقَالَ : یَا سَلَمَۃُ ہَبْ لِی الْمَرْأَۃَ ۔ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَمَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا فَسَکَتَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَتَرَکَنِی حَتَّی إِذَا کَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِیَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی السُّوقِ فَقَالَ لِی : یَا سَلَمَۃُ ہَبْ لِی الْمَرْأَۃَ لِلَّہِ أَبُوکَ ۔ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِی وَاللَّہِ مَا کَشَفْتُ لَہَا ثَوْبًا وَہِیَ لَکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ قَالَ : فَبَعَثَ بِہَا إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ فَفَدَی بِہَا رِجَالاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ بِأَیْدِیہِمْ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عُمَرَ بْنِ یُونُسَ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : أَرَأَیْتَ صِلَۃَ أَہْلِ الْحَرْبِ بِالْمَالِ وَإِطْعَامَہُمُ الطَّعَامَ أَلَیْسَ بِأَقْوَی لَہُمْ فِی کَثِیرٍ مِنَ الْحَالاَتِ مِنْ بَیْعِ عَبْدٍ أَوْ عَبْدَیْنِ مِنْہُمْ فَقَدْ أَذِنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَقَالَتْ : إِنَّ أُمِّی أَتَتْنِی وَہِیَ رَاغِبَۃٌ فِی عَہْدِ قُرَیْشٍ أَفَأَصِلُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٢٥٥]
(١٨٣٣٠) ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم اپنے امیر حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ نکلے۔ ہم نے فزارہ سے غزوہ کیا۔ جب ہم ان کے پانی کے قریب پہنچے تو ہم نے ابوبکر (رض) کے حکم سے پڑاؤ کیا۔ جب صبح کی نماز پڑھی تو ابوبکر (رض) نے حملے کا حکم دے دیا۔ ہم پانی پر آئے۔ سلمہ کہتے ہیں : میں نے ایک اونچی جگہ پر لوگوں کو دیکھا، جن میں بچے اور عورتیں تھیں۔ میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ چڑھ جائیں تو میں ان کے پیچھے چلا۔ ان کے اور پہاڑ کے درمیان تیر پھینکا تھا وہ کھڑے ہوگئے۔ میں ان کو حضرت ابوبکر (رض) کے پاس لے آیا۔ ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت تھی جس پر چمڑے کا لباس تھا اور اس کے ساتھ عرب کی حسین ترین بیٹی بھی تھی تو ابوبکر (رض) نے اس کی بیٹی مجھے زائد دے دی۔ میں نے اس کے کپڑے کو مدینہ آنے تک نہ کھولا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بازار میں ملے۔ فرمایا : اے سلمہ ! عورت مجھے حبہ کر دو ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ مجھے اچھی لگتی ہے اور میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں اٹھایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور دوسرے دن صبح پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بازار میں ملے اور کہا : اے سلمہ عورت ! مجھے ہبہ کر دو ۔ اللہ کے لیے تیرے باپ کی خوبی ہے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اچھی لگتی ہے۔ اور اللہ کی قسم میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں اٹھایا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے۔ راوی کہتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ والوں کی طرف اس کو روانہ کردیا اور اس کے عوض بہت سارے مسلمان ان کے ہاتھوں سے آزاد کروائے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے کہ لڑائی والے مال یا کھانے سے صلہ رحمی زیادہ قوی نہیں بعض حالات میں جبکہ ایک یا دو غلام ان سے فروخت کردیے جائیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسماء بنت ابی بکر کو اجازت دی تھی، جب اس نے کہا کہ میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور یہ مشرکہ ہے۔ کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔

18337

(١٨٣٣١) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أُمِّہِ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَتْ : أَتَتْنِی أُمِّی رَاغِبَۃٌ فِی عَہْدِ قُرَیْشٍ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَصْلُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ کَمَا مَضَی۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَأَذِنَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَسَا ذَا قَرَابَۃٍ لَہُ مُشْرِکًا بِمَکَّۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٣١) اسماء بنت ابی بکر (رض) فرماتی ہیں کہ میری والدہ قریش کے دین میں رغبت رکھتی ہے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سے صلہ رحمی کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں صلہ رحمی کرو۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اجازت دی کہ وہ اپنے مشرک قرابت داروں کو کپڑے پہنا دیں مکہ میں۔

18338

(١٨٣٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَأَی حُلَّۃَ سِیَرَائَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ لَوِ اشْتَرَیْتَ ہَذِہِ فَتَلْبَسَہَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَلِلْوُفُودِ إِذَا قَدِمُوا عَلَیْکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّمَا یَلْبَسُ ہَذِہِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہُ فِی الآخِرَۃِ ۔ ثُمَّ جَائَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْہَا حُلَلٌ فَأَعْطَی عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْہَا حُلَّۃً فَقَالَ عُمَرُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ کَسَوْتَنِیہَا وَقَدْ قُلْتَ فِی حُلَّۃِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنِّی لَمْ أَکْسُکَہَا لِتَلْبَسَہَا ۔ فَکَسَاہَا عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخًا لَہُ مُشْرِکًا بِمَکَّۃَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی عَنْ مَالِکٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی { وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا } [الانسان ٨] [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٣٢) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مسجد کے دروازے کے پاس دھاری دار حلہ دیکھا تو کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو خرید کر جمعہ اور وفود کے لیے پہن لیا کریں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حلے آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حلہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کو دے دیا۔ تو حضرت عمر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے حلہ پہنا دیا ہے حالانکہ عطارد کے حلہ کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے تجھے پہننے کے لیے نہیں دیا تو حضرت عمر (رض) نے اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : { وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ۔ } [الانسان ٨]” وہ اللہ کی محبت کی بنا پر مسکینوں، یتیموں، قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ “

18339

(١٨٣٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ النَّضْرَوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِیَادٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّی عَنِ الْحَسَنِ فِی قَوْلِہِ { وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا } [الانسان ٨] قَالَ : کَانُوا مِنْ أَہْلِ الشِّرْکِ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٣٣) حضرت حسن اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ { وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ۔ } [الانسان ٨] ” وہ اللہ کی محبت کی وجہ سے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلانے ہیں مراد مشرکوں کو۔ “

18340

(١٨٣٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ یَزِیدَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ سَرِیَّۃً یَوْمَ حُنَیْنٍ فَقَاتَلُوا الْمُشْرِکِینَ فَأَفْضَی بِہِمُ الْقَتْلُ إِلَی الذُّرِّیَّۃِ فَلَمَّا جَائُ وا قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا حَمَلَکُمْ عَلَی قَتْلِ الذُّرِّیَّۃِ ۔ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّمَا کَانُوا أَوْلاَدَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ : وَہَلْ خِیَارُکُمْ إِلاَّ أَوْلاَدُ الْمُشْرِکِینَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا مِنْ نَسَمَۃٍ تُولَدُ إِلاَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتَّی یُعْرِبَ عَنْہَا لِسَانُہَا ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْہُ : ہِیَ الْفِطْرَۃُ الَّتِی فَطَرَ اللَّہُ عَلَیْہَا الْخَلْقَ فَجَعَلَہُمْ مَا لَمْ یُفْصِحُوا بِالْقَوْلِ لاَ حُکْمَ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا الْحُکْمُ لَہُمْ بِآبَائِہِمْ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٨٠٨٩]
(١٨٣٣٤) اسود بن سریع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کے دن ایک چھوٹا لشکر بھیجا، جنہوں نے مشرکین سے لڑائی کرتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی قتل کردیا۔ جب وہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تمہیں بچوں کے قتل پر کس نے ابھارا ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ مشرکین کی اولاد تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مشرکین کی اولاد کیا تم سے بہتر نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے کہ ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی بات سمجھ میں آنے لگ جائے۔
امام شافعی (رح) ابو عبدالرحمن کی روایت میں فرماتے ہیں : یہ وہ فطرت ہے جس پر اللہ رب العزت نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ان کے لیے کوئی حکم لاگو نہیں کیا جاتا جب تک فصیح کلام نہ کریں اور ان کو والدین کے تابع ہی شمار کیا جاتا ہے۔

18341

(١٨٣٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ یُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ لاَ یُوَرِّثُ الْحَمِیلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٣٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کسی کو بھی قیدی کا وارث نہ بناتے تھے۔ (ایسا قیدی جس کو مختلف جگہوں پر رکھا جائے)

18342

(١٨٣٣٦) قَالَ وَأَخْبَرَنَا یَزِیدُ أَخْبَرَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَتَبَ إِلَی شُرَیْحٍ أَنْ لاَ یُوَرِّثَ الْحَمِیلَ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ وَإِنْ جَائَ تْ بِہِ فِی خِرْقَتِہَا۔ [حسن۔ بدون الزیادۃ الاخیرۃ ]
(١٨٣٣٦) امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے قاضی شریح کو خط لکھا کہ قیدی کا وارث کسی کو دلیل کے ذریعے بنایا جائے۔ اگرچہ دلیل ایک ٹکڑے پر ہی کیوں نہ ہو۔

18343

(١٨٣٣٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ : کَتَبَ إِلَیَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لاَ تُوَرِّثِ الْحَمِیلَ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ ۔ [حسن ]
(١٨٣٣٧) امام شعبی قاضی شریح سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے مجھے خط لکھا کہ آپ کسی کو قیدی کا وارث بغیر دلیل کے نہ بنائیں۔

18344

(١٨٣٣٨) قَالَ وَحَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبْجَرَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ شُرَیْحٍ مِثْلَہُ ۔
(١٨٣٣٨) خالی

18345

(١٨٣٣٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اسْتَشَارَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی الْحَمِیلِ فَقَالُوا فِیہِ فَقَالَ عُثْمَانُ : مَا نَرَی أَنْ نُوَرِّثَ مَالَ اللَّہِ إِلاَّ بِالْبَیِّنَاتِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٣٩) ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) نے صحابہ سے قیدی کے بارے میں مشورہ لیا انھوں نے اس کے بارے میں بات کی تو حضرت عثمان نے کہا : ہم اللہ کے مال کا وارث صرف دلیل کے ذریعے بناتے ہیں۔

18346

(١٨٣٤٠) قَالَ وَأَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ أَنَّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لاَ یُوَرَّثُ الْحَمِیلُ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ ۔ وَہَذِہِ الأَسَانِیدُ عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا کُلُّہَا ضَعِیفَۃٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٤٠) حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) فرماتے تھے کہ قیدی کو صرف دلیل کی بنا پر وارث بنایا جائے گا۔

18347

(١٨٣٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَۃَ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُقْسِمُ قَسَمًا أَنَّ ہَذِہِ الآیَۃَ { ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ } [الحج ١٩] نَزَلَتْ فِی الَّذِینَ بَرَزُوا یَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَۃَ وَعَلِیٍّ وَعُبَیْدَۃَ بْنِ الْحَارِثِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَعُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ زُرَارَۃَ وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ یَعْقُوبَ الدَّوْرَقِیِّ عَنْ ہُشَیْمٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٤١) قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ذر (رض) سے سنا، وہ قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ یہ آیت { ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ } [الحج ١٩] ” یہ دو شخص جن سے انھوں نے اللہ کے بارے میں جھگڑا کیا۔ “ یہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے بدر کے دن مقابلہ کیا۔ حمزہ، علی، عبیدہ بن حارث اور عتبہ و شیبہ یہ دونوں ربیعہ کے بیٹے ہیں اور ولید بن عتبہ۔

18348

(١٨٣٤٢) وَرَوَاہُ الثَّوْرِیُّ عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ زَادَ فِیہِ اخْتَصَمُوا فِی الْحَجِّ یَوْمَ بَدْرٍ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْکَرِیمِ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی ہَاشِمٍ فَذَکَرَہُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٣٤٢) ثوری ابو ہاشم سے نقل فرماتے ہیں : اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ بدر کے دن انھوں نے حج کے بارے میں جھگڑا کیا۔

18349

(١٨٣٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ ابْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی قِصَّۃِ بَدْرٍ قَالَ : فَبَرَزَ عُتْبَۃُ وَأَخُوہُ وَابْنُہُ الْوَلِیدُ حَمِیَّۃً فَقَالَ : مَنْ یُبَارِزُ ؟ فَخَرَجَ مِنَ الأَنْصَارِ شَبَبَۃٌ فَقَالَ عُتْبَۃُ : لاَ نُرِیدُ ہَؤُلاَئِ وَلَکِنْ یُبَارِزُنَا مِنْ بَنِی عَمِّنَا مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُمْ یَا عَلِیُّ قُمْ یَا حَمْزَۃُ قُمْ یَا عُبَیْدَۃُ بْنَ الْحَارِثِ ۔ فَقَتَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدَ بْنَ عُتْبَۃَ وَجُرِحَ عُبَیْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلْنَا مِنْہُمْ سَبْعِینَ وَأَسَرْنَا سَبْعِینَ ۔ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٤٣) حارثہ، حضرت علی (رض) سے بدر کے قصہ کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ عتبہ اور اس کے بھائی اور اس کے بیٹے ولید نے غیرت سے مقابلہ کی دعوت دی کہ کون مقابلہ کرے گا۔ انصاری جوان مقابلہ میں آئے۔ عتبہ نے کہا : ان کا ہم نے قصد نہیں کیا، بلکہ ہمارے مقابلہ میں ہمارے چچا کے بیٹے یعنی بنو عبدالمطلب آئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے علی، حمزہ، عبیدہ بن حارث (رض) ! کھڑے ہو جاؤ۔ اللہ رب العزت نے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو ہلاک کر ڈالا اور عبیدہ بن حارث زخمی ہوئے ستر کافر ہم نے قتل کیے اور ستر ہی قیدی بنائے۔

18350

(١٨٣٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ (ح) وَحَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَۃَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ وَغَیْرُہُمْ مِنْ عُلَمَائِنَا فَذَکَرُوا قِصَّۃَ بَدْرٍ وَفِیہَا : ثُمَّ خَرَجَ عُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَشَیْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ فَدَعَوْا إِلَی الْبِرَازِ فَخَرَجَ إِلَیْہِمْ فِتْیَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ ثَلاَثَۃٌ فَقَالُوا : مِمَّنْ أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : رَہْطٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالُوا مَا بِنَا إِلَیْکُمْ حَاجَۃٌ ثُمَّ نَادَی مُنَادِیہِمْ یَا مُحَمَّدُ أَخْرِجْ إِلَیْنَا أَکْفَائَ نَا مِنْ قَوْمِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُمْ یَا حَمْزَۃُ قُمْ یَا عَلِیُّ قُمْ یَا عُبَیْدَۃُ ۔ فَلَمَّا قَامُوا وَدَنَوْا مِنْہُمْ قَالُوا : مَنْ أَنْتُمْ ؟ قَالَ حَمْزَۃُ : أَنَا حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَقَالَ عَلِیٌّ : أَنَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ۔ وَقَالَ عُبَیْدَۃُ : أَنَا عُبَیْدَۃُ بْنُ الْحَارِثِ ۔ فَقَالُوا : نَعَمْ أَکْفَائٌ کِرَامٌ۔ فَبَارَزَ عُبَیْدَۃُ عُتْبَۃَ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ کِلاَہُمَا أَثْبَتَ صَاحِبَہُ وَبَارَزَ حَمْزَۃُ شَیْبَۃَ فَقَتَلَہُ مَکَانَہُ وَبَارَزَ عَلِیٌّ الْوَلِیدَ فَقَتَلَہُ مَکَانَہُ ثُمَّ کَرَّا عَلَی عُتْبَۃَ فَذَفَّفَا عَلَیْہِ وَاحْتَمَلاَ صَاحِبَہُمَا فَحَازُوہُ إِلَی الرَّحْلِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَبَارَزَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ مَرْحَبًا یَوْمَ خَیْبَرَ بِأَمْرِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَبَارَزَ یَوْمَئِذٍ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّام رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَاسِرًا۔ [ضعیف ]
(١٨٣٤٤) عبداللہ بن ابی بکر اور ان کے علاوہ دوسرے بدر کے قصے کا ذکر کرتے ہیں اور اس میں ہے کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ ربیعہ، ولید بن عتبہ نکلے اور مقابلہ کی دعوت دی تو تین انصاری جوان ان کے مقابلہ میں آئے۔ انھوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ انھوں نے کہا : انصاری لوگ۔ وہ کہنے لگے : ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر آواز دینے والے نے آواز دی : اے محمد ! ہماری طرف ہمارے برابر کے لوگ نکالو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے حمزہ، علی اور عبیدہ کھڑے ہو جاؤ۔ جب وہ ان کے قریب گئے تو انھوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ حمزہ (رض) نے کہا : میں حمزہ بن عبدالمطلب ہوں اور حضرت علی (رض) نے فرمایا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ عبیدہ کہنے لگے : میں عبیدہ بن حارث ہوں۔ انھوں نے کہا : برابر کے معزز لوگ ہیں۔ حضرت عبیدہ نے عتبہ کا مقابلہ کیا ان کے درمیان دو واروں کا تبادلہ ہوا۔ دونوں ثابت قدم رہے اور حضرت حمزہ (رض) نے شیبہ کا مقابلہ کیا۔ اسی جگہ ہی اسے قتل کر ڈالا اور حضرت علی (رض) نے ولید کا مقابلہ کیا۔ اسے بھی قتل کر ڈالا۔ پھر دونوں عتبہ پر پلٹے اور اس کا کام تمام کردیا اور اپنے ساتھی کو اٹھا کر خیمے میں لے گئے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ محمد بن مسلمہ (رض) نے خیبر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی وجہ سے مرحب کا مقابلہ کیا اور زبیر بن عوام (رض) نے یاسر کا۔

18351

(١٨٣٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَہْلٍ أَحَدُ بَنِی حَارِثَۃَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ مِنْ حِصْنِ خَیْبَرَ قَدْ جَمَعَ سِلاَحَہُ وَہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ : مَنْ یُبَارِزُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ لِہَذَا ؟ ۔ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ : أَنَا لَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا وَاللَّہِ الْمَوْتُورُ الثَّائِرُ قَتَلُوا أَخِی بِالأَمْسِ ۔ قَالَ : قُمْ إِلَیْہِ اللَّہُمَّ أَعِنْہُ عَلَیْہِ ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی کَیْفِیَّۃِ قِتَالِہِمَا قَالَ : وَضَرَبَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ حَتَّی قَتَلَہُ ۔ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ ثُمَّ خَرَجَ یَاسِرٌ فَبَرَزَ لَہُ الزُّبَیْرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَتْ صَفِیَّۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا لَمَّا خَرَجَ إِلَیْہِ الزُّبَیْرُ یَا رَسُولَ اللَّہِ یَقْتُلُ ابْنِی۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : بَلْ ابْنُکِ یَقْتُلُہُ إِنْ شَائَ اللَّہُ ۔ فَخَرَجَ الزُّبَیْرُ وَہُوَ یَرْتَجِزُ ثُمَّ الْتَقَیَا فَقَتَلَہُ الزُّبَیْرُ قَالَ وَکَانَ ذَکَرَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ہُوَ قَتَلَ یَاسِرًا کَذَا فِی ہَذِہِ الرِّوَایَۃِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ ہُوَ قَتَلَ مَرْحَبًا۔ [حسن۔ تقدم برقم ١٨١٠٨]
(١٨٣٤٥) جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ خیبر کے قلعہ سے مرحب یہودی اپنے اسلحہ سے لیس ہو کر اشعار پڑھتے ہوئے نکلا۔ وہ کہہ رہا تھا : کون میرا مقابلہ کرے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کون اس کے مقابلے میں آئے گا ؟ محمد بن مسلمہ (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم میں اس کو موت کے گھاٹ اتاروں گا۔ کیونکہ انھوں نے کل میرے بھائی کو قتل کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کھڑے ہو جاؤ اور دعا دی۔ اے اللہ ! اس کی مدد فرما۔ ان دونوں کے لڑائی کی کیفیت کو اس نے حدیث میں ذکر کیا، کہتے ہیں کہ محمد بن مسلمہ (رض) نے اس کو قتل کردیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : پھر یاسر نکلا تو حضرت زبیر نے اس کا مقابلہ کیا۔ جب زبیر نکلے تو صفیہ (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرا بیٹا قتل کرلے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اللہ نے چاہا تو تیرا بیٹا ہی اس کو قتل کرے گا۔ پھر زبیر رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے نکلے۔ پھر ان دونوں کی لڑائی ہوئی تو زبیر نے اس کو قتل کردیا۔ راوی کہتے ہیں : اس طرح اس نے ذکر کیا کہ حضرت علی (رض) نے یاسر کو قتل کیا اور محمد بن مسلمہ (رض) نے مرحب کو قتل کیا۔

18352

(١٨٣٤٦) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ قَالَ : فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَدْعُوہُ وَہُوَ أَرْمَدُ فَقَالَ : لأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ الْیَوْمَ رَجُلاً یُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیُحِبُّہُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ ۔ قَالَ : فَجِئْتُ بِہِ أَقُودُہُ قَالَ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی عَیْنَیْہِ فَبَرَأَ فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ قَالَ فَبَرَزَ مَرْحَبٌ وَہُوَ یَقُولُ قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرِّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ قَالَ : فَبَرَزَ لَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ أُوفِیہُمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ فَضَرَبَ مَرْحَبًا فَفَلَقَ رَأْسَہُ فَقَتَلَہُ وَکَانَ الْفَتْحُ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ عِکْرِمَۃَ بْنِ عَمَّارٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٤٦) ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آئے۔ ایک لمبی حدیث ذکر کی۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بلایا : ان کی آنکھیں خراب تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مجھے لایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا۔ میں تندرست ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا مجھے دے دیا۔ تو مرحب نے رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے مقابلہ کی دعوت دی۔ اس نے کہا : خیبر جانتا ہے میں مرحب ہوں۔ اسلحے سے لیس اور تجربہ کار بہادر ہوں۔ جب جنگیں بھڑک کر سامنے آجاتی ہیں۔
حضرت علی (رض) اس کے مقابلہ میں یہ کہتے ہوئے آئے : میں وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے۔ جو جنگل کے شیر کی طرح خوفناک ہے اور صرف دھاڑنے سے ہی بھرپور قتل کرنے والا ہے۔
تو حضرت علی نے پہلے ہی وار میں مرحب کا سر تلوار سے پھاڑ ڈالا اور قتل کردیا۔ یہ فتح تھی۔

18353

(١٨٣٤٧) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْغَضَائِرِیُّ بِبَغْدَادَ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ الْمُسَیَّبِ بْنِ مُسْلِمٍ الأَزْدِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ فَذَکَرَ الْقِصَّۃَ فِی خَیْبَرَ وَذَکَرَ خُرُوجَ مَرْحَبٍ وَرَجَزَہُ وَقَوْلَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِمَعْنَاہُ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : أَکِیلُہُمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السِّنْدَرَہْ قَالَ : فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ فَبَدَرَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَضَرَبَہُ فَقَدَّ الْحَجَرَ وَالْمِغْفَرَ وَرَأْسَہُ وَوَقَعَ فِی الأَضْرَاسِ وَأَخَذَ الْمَدِینَۃَ ۔ [حسن ]
(١٨٣٤٧) عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے خیبر اور مرحب کا رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے نکلنے کا تذکرہ کیا اور حضرت علی (رض) کی بات بھی اس کے ہم معنیٰ ہے مگر حضرت علی (رض) کا قول دوسرے الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں تمہیں بہت زیادہ قتل کرنے والا ہوں۔
راوی کہتے ہیں : ان میں دو واروں کا تبادلہ ہوا تو حضرت علی (رض) نے تلوار ماری، جس نے پتھر، ٹوپ اور سر کو پھاڑ ڈالا اور داڑھوں تک جا پہنچی۔

18354

(١٨٣٤٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : یَحْیَی بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُکْلِیُّ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ فَذَکَرَ بَعْضَ الْقِصَّۃِ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِاللِّوَائِ فَدَعَا عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ یَشْتَکِی عَیْنَیْہِ فَمَسَحَہُمَا ثُمَّ دَفَعَ إِلَیْہِ اللِّوَائَ فَفُتِحَ لَہُ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ بُرَیْدَۃَ یَقُولُ حَدَّثَنِی أَبِی أَنَّہُ کَانَ صَاحِبُ مَرْحَبٍ ۔ [حسن ]
(١٨٣٤٨) عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں : جب خیبر کا دن ہوا، اس نے قصے کا بعض حصہ ذکر کیا۔ راوی کہتے ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھنڈا منگوایا اور حضرت علی (رض) کو بلوایا۔ ان کی آنکھیں خراب تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر ہاتھ پھیرا۔ پھر حضرت علی (رض) کو جھنڈا دیا، جن کے ہاتھ پر فتح ہوئی۔ عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا کہ وہ مرحب کا ساتھی تھا۔

18355

(١٨٣٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا السَّاجِیُّ وَبَدْرُ بْنُ الْہَیْثَمِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حُسَیْنٍ الأَشْقَرُ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ أَبِی قَابُوسَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جِئْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِرَأْسِ مَرْحَبٍ ۔ وَرَوَاہُ صَالِحُ بْنُ أَحْمَدَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ حَسَنٍ الأَشْقَرِ بِمَعْنَاہُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَبَارَزَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ وُدٍّ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٣٤٩) ابو قابوس اپنے وال سے اور وہ اپنے دادا سے جو حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مرحب کا سر لے کر آیا۔ قال الشافعی : خندق کے دن حضرت علی (رض) نے عمرو بن عبد ود کا مقابلہ کیا۔

18356

(١٨٣٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : خَرَجَ یَعْنِی یَوْمَ الْخَنْدَقِ عَمْرُو بْنُ عَبْدِ وُدٍّ فَنَادَی : مَنْ یُبَارِزُ ؟ فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ مُقَنَّعٌ فِی الْحَدِیدِ فَقَالَ : أَنَا لَہَا یَا نَبِیَّ اللَّہِ ۔ فَقَالَ : إِنَّہُ عَمْرٌو اجْلِسْ ۔ وَنَادَی عَمْرٌو : أَلاَ رَجُلٌ وَہُوَ یُؤَنِّبُہُمْ وَیَقُولُ : أَیْنَ جَنَّتُکُمُ الَّتِی تَزْعُمُونَ أَنَّہُ مَنْ قُتِلَ مِنْکُمْ دَخَلَہَا أَفَلاَ یَبْرُزُ إِلَیَّ رَجُلٌ؟ فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ ۔ فَقَالَ : اجْلِسْ ۔ ثُمَّ نَادَی الثَّالِثَۃَ وَذَکَرَ شِعْرًا فَقَامَ عَلِیٌّ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا۔ فَقَالَ : إِنَّہُ عَمْرٌو ۔ قَالَ : وَإِنْ کَانَ عَمْرًا فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَمَشَی إِلَیْہِ حَتَّی أَتَاہُ وَذَکَرَ شِعْرًا فَقَالَ لَہُ عَمْرٌو : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : أَنَا عَلِیٌّ۔ قَالَ : ابْنُ عَبْدِ مَنَافٍ ؟ فَقَالَ : أَنَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ۔ فَقَالَ : غَیْرُکُ یَا ابْنَ أَخِی مِنْ أَعْمَامِکَ مَنْ ہُوَ أَسَنُّ مِنْکَ فَإِنِّی أَکْرَہُ أَنْ أُہْرِیقَ دَمَکَ ۔ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لَکِنِّی وَاللَّہِ مَا أَکْرَہُ أَنْ أُہْرِیقَ دَمَکَ فَغَضِبَ فَنَزَلَ وَسَلَّ سَیْفَہُ کَأَنَّہُ شُعْلَۃُ نَارٍ ثُمَّ أَقْبَلَ نَحْوَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مُغْضَبًا وَاسْتَقْبَلَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِدَرَقَتِہِ فَضَرَبَہُ عَمْرٌو فِی الدَّرَقَۃِ فَقَدَّہَا وَأَثْبَتَ فِیہَا السَّیْفَ وَأَصَابَ رَأْسَہُ بِشَجَّۃٍ وَضَرَبَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی حَبْلِ الْعَاتِقِ فَسَقَطَ وَثَارَ الْعَجَاجُ وَسَمِعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - التَّکْبِیرَ فَعَرَفَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَدْ قَتَلَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٠) ابن اسحاق کہتے ہیں : خندق کے دن عمرو بن عبد ود نکلا۔ اس نے مقابلہ کی دعوت دی تو حضرت علی (رض) لوہے میں چھٹے ہوئے تھے، کہنے لگے : اے اللہ کے نبی ! میں اس کا مقابلہ کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمرو ہے بیٹھ جاؤ۔ عمرو نے پھر آواز دی۔ کیا کوئی مرد نہیں ہے۔ وہ ان کو متنبہ کررہا تھا اور کہہ رہا تھا : تمہاری جنت کہاں ہے جس کا تم گمان کرتے ہو ؟ جو تم میں سے قتل کیا گیا وہ اس میں داخل ہوجائے گا۔ کیا کوئی شخص میرا مقابلہ نہیں کرے گا ؟ حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میں مقابلہ کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیٹھ جاؤ۔ پھر تیسری مرتبہ اس نے آواز دی اور اشعار پڑھے تو حضرت علی (رض) کھڑے ہوئے : اے اللہ کے رسول ! میں مقابلہ کرتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمرو ہے۔ کہنے لگے : اگرچہ عمرو ہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اجازت دے دی تو وہ چل کر اس کے پاس گئے اور اشعار پڑھے۔ عمرو نے پوچھا : تو کون ہے ؟ کہتے ہیں : میں علی ہوں۔ اس نے کہا : ابن عبد مناف ؟ کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ اس نے کہا : اے بھتیجے ! کیا تیرے چچاؤں میں سے تیرے علاوہ کوئی بڑی عمر کا نہیں ہے۔ کیونکہ میں تیرا خون بہانا ناپسند کرتا ہوں۔ حضرت علی (رض) کہنے لگے : لیکن اللہ کی قسم ! میں تجھے قتل کرنے میں کراہت محسوس نہیں کرتا۔ وہ غصے سے نیچے اتر پڑا اور اپنی تلوار کو سونتا گویا کہ وہ آگ کا شعلہ ہے۔ پھر حضرت علی (رض) کی جانب غصے کی حالت میں آیا اور حضرت علی (رض) نے اس کا سامنا اپنی ڈھال کے ذریعے کیا۔ عمرو نے ڈھال پر تلوار ماری تو تلوار نے ڈھال کو توڑ ڈالا اور حضرت علی (رض) کا سر بھی زخمی ہوا اور حضرت علی (رض) نے اس کے کندھے پر تلوار ماری، وہ گرپڑا اور اس کی چیخ بلند ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر کی آواز سنی تو پہچان گئے کہ حضرت علی (رض) نے اس کو قتل کردیا۔

18357

(١٨٣٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ یَزِیدَ أَبِی شُجَاعٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِیِّ : أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَشُرَحْبِیلَ ابْنَ حَسَنَۃَ بَعَثَا عُقْبَۃَ بَرِیدًا إِلَی أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِرَأْسِ یَنَّاقَ بِطْرِیقِ الشَّامِ فَلَمَّا قَدِمَ عَلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْکَرَ ذَلِکَ فَقَالَ لَہُ عُقْبَۃُ : یَا خَلِیفَۃَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِنَّہُمْ یَصْنَعُونَ ذَلِکَ بِنَا۔ قَالَ : أَفَاسْتِنَانٌ بِفَارِسَ وَالرُّومِ لاَ یُحْمَلُ إِلَیَّ رَأْسٌ فَإِنَّمَا یَکْفِی الْکِتَابُ وَالْخَبَرُ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٥١) عقبہ بن عامر جہنی فرماتے ہیں کہ عمرو بن عاص اور شرحبیل بن حسنہ نے حضرت عقبہ کو ابوبکر (رض) کی طرف یناق بطریق شام کا سر دے کر روانہ کیا۔ جب ابوبکر کے پاس سر لایا گیا تو انھوں نے انکار کردیا۔ عقبہ نے کہا : اے خلیفۃ الرسول ! وہ ہمارے ساتھ یہ کرتے ہیں۔ ابوبکر (رض) نے کہا : کیا تم فارس اور روم کی سنت کو اختیار کرنے والے ہو ؟ میری جانب کوئی سر نہ لایا جائے، صرف خط اور خبر ہی کافی ہے۔

18358

(١٨٣٥٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ حَدَّثَنِی الْحَارِثُ بْنُ یَزِیدَ عَنْ عُلَیِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ حُدَیْجٍ یَقُولُ : ہَاجَرْنَا عَلَی عَہْدِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَبَیْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ إِذْ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ إِنَّہُ قُدِمَ عَلَیْنَا بِرَأْسِ یَنَّاقَ الْبِطْرِیقِ وَلَمْ یَکُنْ لَنَا بِہِ حَاجَۃٌ إِنَّمَا ہَذِہِ سُنَّۃُ الْعَجَمِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٢) معاویہ بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم نے ابوبکر (رض) کے دور میں ہجرت کی۔ ہم ان کے پاس ہی تھے۔ جس وقت وہ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد کہا کہ ہمارے پاس یناق بطریق کا سر لایا گیا ہے، حالانکہ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔

18359

(١٨٣٥٣) قَالَ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْکَرِیمِ الْجَزَرِیِّ أَنَّہُ حَدَّثَہُ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أُتِیَ بِرَأْسٍ فَقَالَ : بَغَیْتُمْ ۔ قَالَ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنْ مَعْمَرٍ حَدَّثَنِی صَاحِبٌ لَنَا عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ : لَمْ یُحْمَلْ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَأْسٌ إِلَی الْمَدِینَۃِ قَطُّ وَلاَ یَوْمَ بَدْرٍ وَحُمِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رَأْسٌ فَکَرِہَ ذَلِکَ قَالَ وَأَوَّلُ مَنْ حُمِلَتْ إِلَیْہِ الرُّئُ وسُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الزُّبَیْرِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٣) عبدالکریم جذری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس ایک سر لایا گیا تو فرمانے لگے : تم نے سرکشی کی ہے۔
(ب) زہری فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ میں کبھی سر نہیں لایا گیا۔ جب حضرت ابوبکر (رض) کے پاس سر لایا گیا تو انھوں نے ناپسند کیا۔ کہتے ہیں : سب سے پہلے عبداللہ بن زبیر کے پاس سر لائے گئے۔

18360

(١٨٣٥٤) قَالَ الشَّیْخُ وَالَّذِی رَوَی أَبُو دَاوُدَ فِی الْمَرَاسِیلِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْجَرَّاحِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ أُسَامَۃَ عَنْ بَشِیرِ بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ قَالَ : لَقِیَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الْعَدُوَّ فَقَالَ : مَنْ جَائَ بِرَأْسٍ فَلَہُ عَلَی اللَّہِ مَا تَمَنِّی ۔ فَجَائَ ہُ رَجُلاَنِ بِرَأْسٍ فَاخْتَصَمَا فِیہِ فَقَضَی بِہِ لأَحَدِہِمَا۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ الْفَسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ اللُّؤْلُؤِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ فَذَکَرَہُ فَہَذَا حَدِیثٌ مُنْقَطِعٌ۔ وَفِیہِ إِنْ ثَبَتَ تَحْرِیضٌ عَلَی قَتْلِ الْعَدُوِّ وَلَیْسَ فِیہِ نَقْلُ الرَّأْسِ مِنْ بِلاَدِ الشِّرْکِ إِلَی بِلاَدِ الإِسْلاَمِ ۔
(١٨٣٥٤) بشیر بن عقبہ ابو نضرہ سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن سے ملے۔ فرمایا : جو سر لے کر آئے اس کے لیے وہی چیز ہے جو وہ اللہ سے خواہش کرے۔ دو آدمی ایک سر لے کر آئے اور اس کے بارے میں جھگڑا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کے لیے فیصلہ کردیا۔
(ب) اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو صرف دشمنوں کے قتل پر ابھارنا مقصود ہے نہ کہ سروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔

18361

(١٨٣٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ الْعَبْدِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ الْمُسْلِمِینَ أَصَابُوا رَجُلاً مِنْ عُظَمَائِ الْمُشْرِکِینَ فَقَتَلُوہُ فَسَأَلُوہُمْ أَنْ یَشْتَرُوہُ فَنَہَاہُمُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَبِیعُوا جِیفَۃَ مُشْرِکٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٥) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : مسلمانوں نے مشرکین کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو پکڑ کر قتل کردیا۔ مشرکین نے ان سے کہا کہ وہ اس کو فروخت کردیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرک مردار کو فروخت کرنے سے منع کردیا۔

18362

(١٨٣٥٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرْبِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِکِینَ قُتِلَ یَوْمَ الأَحْزَابِ فَبَعَثَ الْمُشْرِکُونَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنِ ابْعَثْ إِلَیْنَا بِجَسَدِہِ وَنُعْطِیکَ اثْنَیْ عَشَرَ أَلْفًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ خَیْرَ فِی جَسَدِہِ وَلاَ فِی ثَمَنِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٦) مقسم حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ مشرکین کا ایک آدمی غزوہ احزاب میں قتل کردیا گیا تو مشرکین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پیغام بھیجا کہ اس کا جسم ہمیں واپس کردیں ہم آپ کو بارہ ہزار دیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کے جسم اور قیمت میں بھلائی نہیں ہے۔

18363

(١٨٣٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَلاَ أَعْرِفُ مَا أَقُولُ فِی أَرْضِ السَّوَادِ إِلاَّ ظَنًّا مَقْرُونًا إِلَی عِلْمٍ وَذَلِکَ أَنِّی وَجَدْتُ أَصَحَّ حَدِیثٍ یَرْوِیہِ الْکُوفِیُّونَ عِنْدَہُمْ فِی السَّوَادِ لَیْسَ فِیہِ بَیَانٌ وَوَجَدْتُ أَحَادِیثَ مِنْ أَحَادِیثِہِمْ تُخَالِفُہُ مِنْہَا أَنَّہُمْ یَقُولُونَ السَّوَادُ صُلْحٌ وَیَقُولُونُ السَّوَادُ عَنْوَۃٌ وَیَقُولُونَ بَعْضُ السَّوَادِ صُلْحٌ وَبَعْضُہُ عَنْوَۃٌ۔ [صحیح ]
(١٨٣٥٧) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں صلح والی زمین کے بارے میں کیا کہوں کہ اس میں ظن اور علم دونوں ملے ہوئے ہیں میں نے صحیح حدیث دیکھی ہے جن کو کوفی روایت کرتے ہیں ان میں لفظ سواد کا بیان نہیں ہے لیکن ان کے مخالف حدیث ہیں جس میں لفظ سواد کا معنیٰ صلح کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک سواد کا معنیٰ زبردستی ہے۔

18364

(١٨٣٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو زُبَیْدٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ : السَّوَادُ مِنْہُ صُلْحٌ وَمِنْہُ عَنْوَۃٌ فَمَا کَانَ مِنْہُ عَنْوَۃٌ فَہُوَ لِلْمُسْلِمِینَ وَمَا کَانَ مِنْہُ صُلْحًا فَلَہُمْ أَمْوَالُہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٥٨) اشعث ابن سیرین سے نقل فرماتے ہیں کہ سواد کا معنیٰ بعض نے صلح اور بعض نے زبردستی کیا ہے۔ جو چیز زبردستی حاصل ہو وہ مسلمانوں کے لیے اور جہاں پر صلح ہوجائے تو مال انھیں لوگوں کا ہے۔

18365

(١٨٣٥٩) وَبِإِسْنَادِہِ قَالَ یَحْیَی عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ عُبَیْدٍ أَبِی الْحَسَنِ الْمُزَنِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : لاَ تُبَاعُ أَرْضٌ دُونَ الْجَبَلِ إِلاَّ أَرْضَ بَنِی صَلُوبَا وَأَرْضَ الْحِیرَۃِ فَإِنَّ لَہُمْ عَہْدًا۔ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ کُنَّا نَسْمَعُ أَنَّ مَا دُونَ الْجَبَلِ فَمَا وَرَائَ ہُ صُلْحٌ۔ [صحیح ]
(١٨٣٥٩) حضرت عبداللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ پہاڑ کے اوپر کوئی زمین نہ خریدی جائے مگر جو بنو صلوبا اور حیرہ کی زمین کیونکہ ان کے ساتھ معاہدہ ہے حسن بن صالح کہتے ہیں کہ جو صلح کے بعد ہو۔

18366

(١٨٣٦٠) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا شَرِیکٌ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الْحَکَمِ عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ قَالَ : لَیْسَ لأَہْلِ السَّوَادِ عَہْدٌ إِلاَّ أَرْضَ الْحِیرَۃِ وَاللُّیَّسِ وَبَانِقْیَا۔ قَالَ شَرِیکٌ : إِنَّ أَہْلَ بَانِقْیَا کَانُوا دَلُّوا جَرِیرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ عَلَی مَخَاضَۃٍ وَأَہْلُ اللُّیَّسِ کَانُوا أَنْزَلُوا أَبَا عُبَیْدَۃَ وَدَلُّوہُ عَلَی شَیْئٍ قَالَ یَحْیَی أَظُنُّہُ یَعْنِی غَدْرَہُ لِلْعَدُوِّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦٠) عبداللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ صلح صرف حیرہ، لیّس اور بانقیا سے ہے۔ شریک کہتے ہیں کہ اہل بانقیا جریر بن عبداللہ کے تابع ہوئے اور اہل لیّس ابو عبیدہ کے حکم پر اترے تھے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ انھوں نے دشمن سے دھوکا کیا۔

18367

(١٨٣٦١) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : صَالَحَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ أَہْلَ الْحِیرَۃِ وَأَہْلَ عَیْنِ التَّمْرِ قَالَ وَکَتَبَ بِذَلِکَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَجَازَہُ قَالَ یَحْیَی قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ فَأَہَلُ عَیْنِ التَّمْرِ مِثْلُ أَہْلِ الْحِیرَۃِ إِنَّمَا ہُوَ شَیْئٌ عَلَیْہِمْ وَلَیْسَ عَلَی أَرْضِہِمْ شَیْئٌ قَالَ نَعَمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦١) شعبی فرماتے ہیں کہ خالد بن ولید نے حیرہ اور اہل عین التمر سے صلح کی اور حضرت ابوبکر (رض) کو خط لکھا تو انھوں نے اجازت دے دی۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن صالح سے کہا کہ عین التمر والے حیرہ والوں کی مثل ہیں۔ ان کے ذمہ کچھ ہوتا ہے، لیکن ان کی زمین پر کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ فرمایا : ہاں۔

18368

(١٨٣٦٢) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : انْتَہَیْنَا إِلَی أَہْلِ الْحِیرَۃِ فَصَالَحْنَاہُمْ عَلَی أَلْفِ دِرْہَمٍ وَرَحْلٍ قَالَ قُلْتُ لأَبِی مَا صَنَعْتُمْ بِذَلِکَ الرَّحْلِ قَالَ صَاحِبٌ لَنَا لَمْ یَکُنْ لَہُ رَحْلٌ کَذَا فِی کِتَابِی أَلْفِ دِرْہَمٍ وَقَالَ غَیْرُہُ سَبْعِینَ أَلْفَ دِرْہَمٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٦٢) اسود بن قیس اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ جب ہم حیرہ والوں کے پاس پہنچے تو ایک ہزار درہم اور سواری کے عوض ان سے صلح کی۔ کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے کہا : تم نے اس سواری کا کیا کیا ؟ کہتے ہیں : ہمارا ایک ساتھی تھا جس کے پاس سواری نہ تھی۔ اس طرح میری کتاب میں ہزار درہم تو دوسروں نے کہا : ستر ہزار درہم۔

18369

(١٨٣٦٣) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الْحَکَمِ قَالَ کَانُوا یُرَخِّصُونَ أَنْ یَشْتَرُوا مِنْ أَرْضِ الْحِیرَۃِ مِنْ أَجْلِ أَنَّہُمْ صُلْحٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦٣) اشعث حضرت حکم سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ حیرہ کی زمین کو خریدنے کی رخصت دیتے ہیں، کیونکہ ان سے صلح ہے۔

18370

(١٨٣٦٤) حَدَّثَنَا یَحْیَی عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ قَالَ : أَہْلُ الْحِیرَۃِ إِنَّمَا صُولِحُوا عَلَی مَالٍ یَقْتَسِمُوہُ بَیْنَہُمْ وَلَیْسَ عَلَی رُئُ وسِ الرِّجَالِ شَیْئٌ۔ [صحیح ]
(١٨٣٦٤) مجالد بن سعید کہتے ہیں کہ حیرہ والوں سے مال پر صلح ہوئی تھی، جو وہ اپنے درمیان تقسیم کرلیتے تھے۔ لیکن مردوں کے ذمے کچھ نہیں تھا۔

18371

(١٨٣٦٥) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : لأَہْلِ الأَنْبَارِ عَہْدٌ أَوْ قَالَ عَقْدٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦٥) جابر شعبی سے نقل فرماتے ہیں کہ اہل انبار سے معاہدہ تھا۔

18372

(١٨٣٦٦) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَامِرٍ قَالَ : لَیْسَ لأَہْلِ السَّوَادِ عَہْدٌ إِنَّمَا نَزَلُوا عَلَی حُکْمٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٦٦) حضرت جابر عامر سے نقل فرماتے ہیں کہ اہل سواد سے معاہدہ نہ تھا وہ تو صرف حکم پر اترے تھے۔

18373

(١٨٣٦٧) قَالَ وَحَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّبَیْدِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ الأَسَدِیِّ عَنِ الشَّعْبِیِّ : أَنَّہُ سُئِلَ فِی زَمَنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَہْلِ السَّوَادِ أَلَہُمْ عَہْدٌ؟ قَالَ : لَمْ یَکُنْ لَہُمْ عَہْدٌ فَلَمَّا رُضِیَ مِنْہُمْ بِالْخَرَاجِ صَارَ لَہُمُ الْعَہْدُ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٦٧) محمد بن قیس اسدی شعبی سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اہل سواد کے بارے میں پوچھا گیا : کیا ان کے لیے کوئی عہد تھا ؟ کہتے ہیں کہ ان کے لیے نہیں تھا جب رضا مندی سے خراج لیا جانے لگا تو ان کے لیے معاہدہ بن گیا۔

18374

(١٨٣٦٨) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی قَالَ : قَدْ رَدَّ إِلَیْہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَرَضِیہِمْ وَصَالَحَہُمْ عَلَی الْخَرَاجِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦٨) حسن بن صالح ابن ابی لیلیٰ سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ان کی زمینیں واپس کردیں اور خراج پر ان سے صلح کرلی۔

18375

(١٨٣٦٩) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ لَہِیعَۃَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ قَالَ کَتَبَ عُمَرُ إِلَی سَعْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا حِینَ افْتَتَحَ الْعِرَاقَ : أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی کِتَابُکَ تَذْکُرُ أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوکَ أَنْ تَقْسِمَ بَیْنَہُمْ مَغَانِمَہُمْ وَمَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَإِذَا جَائَ کَ کِتَابِی ہَذَا فَانْظُرْ مَا أَجْلَبَ النَّاسُ عَلَیْکَ إِلَی الْعَسْکَرِ مِنْ کَرَاعٍ أَوْ مَالٍ فَاقْسِمْہُ بَیْنَ مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَاتْرُکِ الأَرَضِینَ وَالأَنْہَارَ لِعُمَّالِہَا فَیَکُونُ ذَلِکَ فِی أُعْطَیَاتِ الْمُسْلِمِینَ فَإِنَّکَ إِنْ قَسَمْتَہَا بَیْنَ مَنْ حَضَرَ لَمْ یَکُنْ لِمَنْ بَعْدَہُمْ شَیْئٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٦٩) یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سعد کو عراق کی فتح کے موقع پر خط لکھا : حمد و ثنا کے بعد ! مجھے آپ کا خط ملا جس میں آپ نے تذکرہ کیا ہے کہ لوگ آپ سے مال غنیمت کی تقسیم کا سوال کرتے ہیں اور جو اللہ نے آپ پر لوٹایا ہے جب میرا خط آپ کے پاس آئے تو دیکھنا، جو لوگوں نے آپ کے پاس مال جمع کروایا ہے اس کو موجود مسلمانوں کے اندر تقسیم کردیں۔ زمینیں اور نہریں مال کے لیے چھوڑ دیں، یہ مسلمانوں کے لیے عطیہ ہوں گے۔ اگر آپ نے موجود لوگوں کے اندر ہی تقسیم کردیا تو بعد والوں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔

18376

(١٨٣٧٠) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ أَرَادَ أَنْ یَقْسِمْ أَہْلَ السَّوَادِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَأَمَرَ بِہِمْ أَنْ یُحْصَوْا فَوَجَدُوا الرَّجُلَ الْمُسْلِمَ یُصِیبُہُ ثَلاَثَۃٌ مِنَ الْفَلاَّحِینَ یَعْنِی الْعُلُوجَ فَشَاوَرَ أَصْحَابَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی ذَلِکَ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ دَعْہُمْ یَکُونُونَ مَادَّۃً لِلْمُسْلِمِینَ فَبَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ فَوَضَعَ عَلَیْہِمْ ثَمَانِیَۃً وَأَرْبَعِینَ وَأَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ وَاثْنَیْ عَشَرَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٧٠) حضرت عمرو (رض) سے منقول ہے کہ انھوں نے اہل سواد کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کا ارادہ کیا اور ان کے بارے میں حکم دیا کہ ان کو شمار کیا جائے۔ انھوں نے ایک مسلم آدمی کو پایا جس کے حصہ میں تین گا وخر آئے تھے۔ صحابہ نے اس کے بارے مشورہ کیا۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا : آپ چھوڑ دیں۔ یہ مسلمانوں کے لیے عطیہ ہے۔ اس نے عثمان بن حنیف کو بھیجا جنہوں نے ان کی قیمت 1 ٤٨ 2 ٤٣ 3 ١٢ مقرر کی۔

18377

(١٨٣٧١) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَعْقِلٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِی حَرَّۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَصْفَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْ ہَذَا السَّوَادِ عَشْرَۃَ أَصْنَافٍ أَصْفَی أَرْضَ مَنْ قُتِلَ فِی الْحَرْبِ وَمَنْ ہَرَبَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَعْنِی إِلَیْہِمْ وَکُلَّ أَرْضٍ لِکِسْرَی وَکُلَّ أَرْضٍ کَانَتْ لأَحَدٍ مِنْ أَہْلِہِ وَکُلَّ مَغِیضِ مَائٍ وَکُلَّ دَیْرِ بَرِیدٍ قَالَ وَنَسِیتُ أَرْبَعًا قَالَ وَکَانَ خَرَاجُ مَنْ أَصْفَی سَبْعَۃَ آلاَفِ أَلْفٍ فَلَمَّا کَانَتِ الْجَمَاجِمُ أَحْرَقَ النَّاسُ الدِّیوَانَ وَأَخَذَ کُلُّ قَوْمٍ مَا یَلِیہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٧١) عبدالمطلب بن ابی حرہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے سواد کی دس اقسام اپنے لیے خاص کرلیں : 1 لڑائی میں قتل ہونے والے کی زمین 2 جو کفارہ کی جانب مسلمان بھاگ جائے 3 کسریٰ کی تمام زمین 4 تمام وہ زمین جو اس کے رہنے والوں کی تھی 5 ۔ کم پانی والی زمین 6 محکمہ ڈاک۔ کہتے ہیں : چار اشیاء میں بھول گیا۔ ان کا کل خراج سات لاکھ بنتا تھا۔ جب لڑائی ہوئی تو لوگوں نے رجسٹر جلا ڈالے اور جو کسی کے ہاتھ آئی قبضہ کرلیا۔

18378

(١٨٣٧٢) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِی أَسَدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَصْفَی حُذَیْفَۃُ أَرْضَ کِسْرَی وَأَرْضَ آلِ کِسْرَی وَمَنْ کَانَ کِسْرَی أَصْفَی أَرْضَہُ وَأَرْضَ مَنْ قُتِلَ وَمَنْ ہَرَبَ وَالآجَامَ وَمَغِیضَ الْمَائِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٧٢) بنو اسد کے ایک فرد اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے کسریٰ اور آل کسریٰ کی زمین اپنے لیے خاص کرلی اور جو کسریٰ تھا اس کی زمین اپنے لیے خاص کی اور لڑائی میں قتل ہونے والے کی زمین اور جو مسلمانوں میں سے کفار کی جانب بھاگ گیا اور جنگل والی زمین اور کم پانی والی زمین بھی اپنے لیے خاص کی۔

18379

(١٨٣٧٣) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ عَنْ ثَعْلَبَۃَ الْحِمَّانِیِّ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِالرَّحْبَۃِ فَقَالَ : لَوْلاَ أَنْ یَضْرِبَ بَعْضُکُمْ وُجُوہَ بَعْضٍ لَقَسَمْتُ السَّوَادَ بَیْنَکُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٧٣) ثفلبہ عمانی کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے پاس رحبہ نامی جگہ پر آئے تو فرمانے لگے : اگر تم آپس میں لڑائی نہ کرو تو میں تمہارے درمیان سواد کو تقسیم کر دوں۔

18380

(١٨٣٧٤) حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِی الْمِقْدَامِ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ یَزِیدَ الْحِمَّانِیِّ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ نَحْوَہُ ۔ حَدَّثَنَا یَحْیَی عَنْ قُرَّانَ الأَسَدِیِّ عَنْ أَبِی سِنَانٍ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ عَمِیرَۃَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ أَقْسِمَ السَّوَادَ یَنْزِلُ أَحَدُکُمُ الْقَرْیَۃَ فَیَقُولُ قَرْیَتِی لَتَکْفُونِّی أَوْ قَالَ لَتَدَعُونِّی أَوْ لأَقْسِمَنَّہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٧٤) عمیرہ حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے سواد کو تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ تم کسی بستی میں جاؤ اور کہو : یہ میری بستی ہے۔ تم مجھ سے دور رہو یا کہہ دے : تم مجھے چھوڑ دو یا کہے کہ میں ضرور اس کو تقسیم کروں گا۔

18381

(١٨٣٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَیَقُولُونَ إِنَّ جَرِیرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ الْبَجَلِیَّ وَہَذَا أَثْبَتُ حَدِیثٍ عِنْدَہُمْ فِیہِ
(١٨٣٧٥) خالی

18382

(١٨٣٧٦) أَخْبَرَنَاہُ الثِّقَۃُ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ : کَانَتْ بَجِیلَۃُ رُبُعَ النَّاسِ فَقَسَمَ لَہُمْ رُبُعَ السَّوَادِ فَاسْتَغَلُّوہُ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعَ سِنِینَ أَنَا شَکَکْتُ ثُمَّ قَدِمْتُ عَلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَمَعِی فُلاَنَۃُ بِنْتُ فُلاَنٍ امْرَأَۃٌ مِنْہُمْ قَدْ سَمَّاہَا لاَ یَحْضُرُنِی ذِکْرُ اسْمَہَا فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لَوْلاَ أَنِّی قَاسِمٌ مَسْئُولٌ لَتَرَکْتُکُمْ عَلَی مَا قُسِمَ لَکُمْ وَلَکِنْ أَرَی أَنْ تَرُدُّوا عَلَی النَّاسِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَکَانَ فِی حَدِیثِہِ وَعَاضَنِی مِنْ حَقِّی فِیہِ نَیِّفًا وَثَمَانِینَ دِینَارًا وَکَانَ فِی حَدِیثِہِ فَقَالَتْ فُلاَنَۃُ شَہِدَ أَبِی الْقَادِسِیَّۃَ وَثَبَتَ سَہْمُہُ وَلاَ أُسَلِّمُہُ حَتَّی تُعْطِیَنِی کَذَا وَتُعْطِیَنِی کَذَا فَأَعْطَاہَا إِیَّاہُ ۔ وَرَوَاہُ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ إِسْمَاعِیلَ فَذَکَرَ قِصَّۃَ جَرِیرٍ وَرَوَاہُ ہُشَیْمٌ عَنْ إِسْمَاعِیلَ فَذَکَرَہَا وَذَکَرَ قِصَّۃَ الْمَرْأَۃِ وَذَکَرَ أَنَّہَا أُمُّ کُرْزٍ وَذَکَرَ أَنَّہَا قَالَتْ : وَإِنِّی لَسْتُ أُسَلِّمُ حَتَّی تَحْمِلَنِی عَلَی نَاقَۃٍ ذَلُولٍ وَعَلَیْہَا قَطِیفَۃٌ حَمْرَائُ وَتَمْلأَ کَفَّیَّ ذَہَبًا فَفَعَلَ ذَلِکَ وَکَانَتِ الدَّنَانِیرُ نَحْوًا مِنْ ثَمَانِینَ دِینَارًا۔ [صحیح ]
(١٨٣٧٦) قیس بن ابی حازم حضرت جریر بن عبداللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ بجیلہ لوگوں کا چوتھائی حصہ تھا۔ ان کے لیے سواد کا چوتھائی حصہ تقسیم کردیا گیا۔ انھوں نے تین یا چار سال تک غلہ حاصل کیا۔ میں نے شکایت کی۔ پھر میں حضرت عمر (رض) کے پاس آیا اور میرے ساتھ انھیں میں سے ایک عورت تھی۔ اس کا نام ذکر کرنا یاد نہیں رہا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر مجھے پوچھے جانے کا خوف نہ ہو تو تمہاری تقسیم پر ہی چھوڑ دوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ تم لوگوں پر واپس کر دو گے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے : اس نے مجھے میرے حق کا بدلہ دیا ہے جو اسی دینار سے بھی زیادہ ہے اور دوسری حدیث میں ہے کہ اس عورت نے کہا کہ میرا باپ جنگِ قادسیہ میں موجود تھا۔ اس کا حصہ مقرر تھا۔ میں اس کو نہ چھوڑوں گی۔ مجھے اتنا اتنا دیا جائے۔ انھوں نے ادا کردیا۔
(ب) ہشیم اسماعیل سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے عورت کا قصہ ذکر کیا جو ام کرز تھی، کہنے لگی : اب مجھے اونٹنی پر سوار کریں جس پر سرخ رنگ کی چادر ہو اور میرے دونوں ہاتھوں کو سونے سے بھر دو ۔ پھر انھوں نے دیے اور دینار تقریبا اسی تھے۔

18383

(١٨٣٧٧) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ : لَمَّا وَفَدَ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ إِلَی عُمَرَ وَعَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَنَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِجَرِیرٍ : یَا جَرِیرُ وَاللَّہِ لَوْ مَا أَنِّی قَاسِمٌ مَسْئُولٌ لَکُنْتُمْ عَلَی مَا قُسِمَ لَکُمْ وَلَکِنِّی أَرَی أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَرَدَّہُ وَکَانَ جَعَلَ رُبُعَ السَّوَادِ لِبَجِیلَۃَ فَأَخَذُوا الْخَرَاجَ ثَلاَثَ سِنِینَ فَرَدَّہُ وَأَعْطَاہُ ثَمَانِینَ دِینَارًا۔ [صحیح ]
(١٨٣٧٧) قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ جب کریز بن عبداللہ، عمار بن یاسر اور کچھ مسلمان حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو حضرت عمر (رض) نے جریر سے کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں تقسیم نہ کروں تو پوچھا جاؤں گا۔ پھر تم پہلی تقسیم پر ہی باقی رہتے۔ لیکن میں مسلمانوں پر واپس کرنا چاہتا ہوں اور لوٹا بھی دیا اور سواد کا چوتھائی حصہ بجیلہ کے پاس تھا۔ انھوں نے تین سال جزیہ وصول کیا۔ ان سے واپس لے کر اسی دینار عطا کردیے۔

18384

(١٨٣٧٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی زَائِدَۃَ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ : کُنَّا رُبُعَ النَّاسِ یَوْمَ الْقَادِسِیَّۃِ فَأَعْطَانَا عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ رُبُعَ السَّوَادِ فَأَخَذْنَاہُ ثَلاَثَ سِنِینَ ثُمَّ وَفَدَ جَرِیرٌ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعْدَ ذَلِکَ فَقَالَ أَمَا وَاللَّہِ لَوْلاَ أَنِّی قَاسِمٌ مَسْئُولٌ لَکُنْتُمْ عَلَی مَا قُسِمَ لَکُمْ فَأَرَی أَنْ تَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَفَعَلَ وَأَجَازَہُ بِثَمَانِینَ دِینَارًا۔ [صحیح ]
(١٨٣٧٨) قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ قادسیہ کے دن ہمارے چوتھائی لوگوں کو حضرت عمر (رض) نے سواد کا چوتھائی حصہ عطا کردیا۔ ہم نے تین سال تک جزیہ وصول کیا۔ اس کے بعد جریر بن عبداللہ کا وفد حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا : اگر مجھے تقسیم کے بارے میں پوچھے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو تمہیں اسی تقسیم پر باقی رکھتا۔ لیکن میرے خیال میں تم یہ مسلمانوں کو واپس کر دو ۔ انھوں نے ایسا کرلیا تو اسی دینار کی ان لیے اجازت دے دی گئی۔

18385

(١٨٣٧٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ قَالَ : أَعْطَی عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ جَرِیرًا وَقَوْمَہُ رُبُعَ السَّوَادِ فَأَخَذَہُ سَنَتَیْنِ أَوْ ثَلاَثًا ثُمَّ إِنَّ جَرِیرًا وَفَدَ إِلَی عُمَرَ مَعَ عَمَّارٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا جَرِیرُ لَوْلاَ أَنِّی قَاسِمٌ مَسْئُولٌ لَکُنْتُمْ عَلَی مَا کُنْتُمْ عَلَیْہِ وَلَکِنْ أَرَی أَنْ تَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ فَرَدَّہُ عَلَیْہِمْ وَأَعْطَاہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثَمَانِینَ دِینَارًا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٣٧٩) قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جریر اور اس کی قوم کو سواد کا چوتھائی حصہ عطا کردیا۔ انھوں نے دو یا تین سال جزیہ وصول کیا، پھر جریر اور عمار بن یاسر حضرت عمر (رض) کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا : اے جریر ! اگر تقسیم کے بارے میں مجھ سے سوال کیا نہ جاتا تو میں تمہیں اسی حالت پر برقرار رکھتا۔ لیکن اب تم یہ مسلمانوں کو واپس کر دو تو جریر نے سواد کا چوتھائی حصہ واپس کردیا، اس کے عوض حضرت عمر (رض) نے انھیں اسی دینار عطا کیے۔

18386

(١٨٣٨٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِی ہِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِجَرِیرٍ : ہَلْ لَکْ أَنْ تَأْتِیَ الْعِرَاقَ وَلَکَ الرُّبُعُ أَوِ الثُّلُثُ بَعْدَ الْخُمُسِ مِنْ کُلِّ أَرْضٍ وَشَیْئٍ ۔ ہَذَا مُنْقَطِعٌ وَالَّذِی قَبْلَہُ مَوْصُولٌ وَلَیْسَ فِی الآثَارِ الَّتِی رَوَیْنَاہَا وَلَمْ نَرْوِہَا فِی سَوَادِ الْعِرَاقِ أَصَحَّ مِنْہُ کَمَا قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ ۔ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَفِی ہَذَا الْحَدِیثِ دَلاَلَۃٌ إِذْ أَعْطَی جَرِیرًا الْبَجَلِیَّ عِوَضًا مِنْ سَہْمِہِ وَالْمَرْأَۃَ عِوَضًا مِنْ سَہْمِ أَبِیہَا أَنَّہُ اسْتَطَابَ أَنْفُسَ الَّذِینَ أَوْجَفُوا عَلَیْہِ فَتَرَکُوا حُقُوقَہُمْ مِنْہُ فَجَعَلَہُ وَقْفًا لِلْمُسْلِمِینَ وَہَذَا حَلاَلٌ لِلإِمَامِ لَوِ افْتَتَحَ الْیَوْمَ أَرْضَ عَنْوَۃٍ فَأَحْصَی مَنِ افْتَتَحَہَا وَطَابُوا أَنْفُسًا عَنْ حُقُوقِہِمْ مِنْہَا أَنْ یَجْعَلَہَا الإِمَامُ وَقْفًا وَحُقُوقُہُمْ مِنْہَا الأَرْبَعَۃُ الأَخْمَاسِ وَیُوفِی أَہْلَ الْخُمُسِ حَقَّہُمْ إِلاَّ أَنْ یَدَعَ الْبَالِغُونَ مِنْہُمْ حُقُوقَہُمْ فَیَکُونُ ذَلِکَ لَہُ وَالْحُکْمُ فِی الأَرْضِ کَالْحُکْمِ فِی الْمَالِ وَقَدْ سَبَی النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَوَازِنَ وَقَسَمَ أَرْبَعَۃَ الأَخْمَاسِ بَیْنَ الْمُوجِفِینَ ثُمَّ جَائَ تْہُ وُفُودُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ فَسَأَلُوہُ أَنْ یَمُنَّ عَلَیْہِمْ بِأَنْ یَرُدَّ عَلَیْہِمْ مَا أَخَذَ مِنْہُمْ فَخَیَّرَہُمْ بَیْنَ الأَمْوَالِ وَالسَّبْیِ فَقَالُوا خَیَّرْتَنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا فَنَخْتَارُ أَحْسَابَنَا فَتَرَکَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَقَّہُ وَحَقَّ أَہْلِ بَیْتِہِ وَسَمِعَ بِذَلِکَ الْمُہَاجِرُونَ فَتَرَکُوا لَہُ حُقُوقَہُمْ وَسَمِعَ بِذَلِکَ الأَنْصَارُ فَتَرَکُوا لَہُ حُقُوقَہُمْ وَبَقِیَ قَوْمٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ الآخِرِینَ وَالْفَتْحِیِّینَ فَأَمَرَ فَعُرِّفَ عَلَی کُلِّ عَشْرَۃٍ وَاحِدٌ ثُمَّ قَالَ : ائْتُونِی بِطِیبِ أَنْفُسِ مَنْ بَقِیَ فَمَنْ کَرِہَ فَلَہُ عَلَیَّ کَذَا وَکَذَا مِنَ الإِبِلِ ۔ إِلَی وَقْتٍ ذَکَرَہُ فَجَائُ وہُ بِطِیبِ أَنْفُسِہِمْ إِلاَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃَ بْنَ بَدْرٍ فَإِنَّہُمَا أَبَیَا لِیُعَیِّرَا ہَوَازِنَ فَلَمْ یُکْرِہْہُمَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی ذَلِکَ حَتَّی کَانَا ہُمَا تَرَکَا بَعْدُ بِأَنْ خُدِعَ عُیَیْنَۃُ عَنْ حَقِّہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَقَّ مَنْ طَابَ نَفْسُہُ عَنْ حَقِّہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَہَذَا أَوْلَی الأُمُورِ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عِنْدَنَا فِی السَّوَادِ وَفُتُوحِہِ إِنْ کَانَتْ عَنْوَۃً وَہَذَا الَّذِی ذَکَرَہُ الشَّافِعِیُّ مِنْ أَمْرِ ہَوَازِنَ قَدْ مَضَی فِی حَدِیثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَفِی رِوَایَۃِ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٨٠) شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے جریر سے کہا : کیا آپ عراق میں میرے پاس آسکتے ہیں ؟ آپ کو چوتھائی یا تہائی حصہ خمس کے بعد تمام زمین سے دیا جائے گا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ جب جریر بجلی کو اس کے حصہ کا عوض دیا گیا جیسے عورت کو اس کے باپ کے حصہ کا عوض دیا گیا، یہ ان لوگوں کی خوشی سے تھا جنہوں نے اس پر گھوڑے دوڑائے تھے۔ انھوں نے اپنے حقوق چھوڑ کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیے۔ امام کے لیے جائز ہے کہ اگر آج کسی زمین کو فتح کرے تو فاتحین میں تقسیم کر دے اور وہ اپنی خوشی سے امام کے لیے وقف کردیں اور خمس بھی مکمل ادا کیا جائے۔ وگرنہ بالغ لوگ اپنے حصے چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ بھی امام لے سکتا ہے اور زمین کا حکم بھی مال کی مانند ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہوازن کے لوگ قیدی بنائے اور ان کا مال فاتحین میں تقسیم کردیا۔ پھر ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آیا تو انھوں نے احسان کرنے کی اپیل کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں قیدیوں اور مال میں سے کسی ایک چیز لینے کا اختیار دیا تو انھوں نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہمارے نسبوں اور مالوں میں اختیار دیا ہے۔ ہم اپنے نسبوں کو اختیار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا اور اہل بیت کا حق چھوڑ دیا۔ جب مہاجرین اور انصار نے سنا تو انھوں نے بھی اپنے حقوق چھوڑ دیے، باقی لوگوں پر دس میں سے ایک شخص کو مقرر کردیا کہ مجھے خبر دو ۔ وگرنہ اتنے اتنے ادا کیے جائیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وقت کا تعین فرما دیا، اقراع بن حابس اور عیینہ بن بدر کے علاوہ تمام نے اپنے حقوق چھوڑ دیے۔ ان دونوں نے ہوازن کو عار دلانے کے لیے انکار کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ بعد میں دونوں نے اپنا حق چھوڑ بھی دیا۔ عیینہ نے بھی اپنا حق دل کی خوشی سے چھوڑ دیا تھا۔

18387

(١٨٣٨١) أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الدَّامَغَانِیُّ بِبَیْہَقَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : ہَارُونُ بْنُ یُوسُفَ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسٍ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مُثِّلَتْ لِی الْحِیرَۃُ کَأَنْیَابِ الْکِلاَبِ وَإِنَّکُمْ سَتَفْتَحُونَہَا ۔ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَبْ لِی ابْنَۃَ بُقَیْلَۃَ ۔ قَالَ : ہِیَ لَکَ ۔ فَأَعْطَوْہُ إِیَّاہَا فَجَائَ أَبُوہَا فَقَالَ : أَتَبِیعُہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : بِکَمْ احْکُمْ مَا شِئْتَ ۔ قَالَ : أَلْفُ دِرْہَمٍ ۔ قَالَ : قَدْ أَخَذْتُہَا۔ قَالُوا لَہُ : لَوْ قُلْتَ ثَلاَثِینَ أَلْفًا لأَخَذَہَا۔ قَالَ : وَہَلْ عَدَدٌ أَکْثَرُ مِنْ أَلْفٍ ؟ تَفَرَّدَ بِہِ ابْنُ أَبِی عُمَرَ عَنْ سُفْیَانَ ہَکَذَا وَقَالَ غَیْرُہُ عَنْہُ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدِ بْنِ جُدْعَانَ وَالْمَشْہُورُ ہَذَا الْحَدِیثُ عَنْ خُرَیْمِ بْنِ أَوْسٍ وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ہَذِہِ الْمَرْأَۃَ وَقَدْ رُوِّینَاہُ فِی کِتَابِ دَلاَئِلِ النُّبُوَّۃِ فِی آخِرِ غَزْوَۃِ تَبُوکَ ۔ [موضوع ]
(١٨٣٨١) عدی بن حاتم فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حیرہ شہر میرے سامنے کتوں کی کچلیوں کی مانند ظاہر کیا گیا اور تم اس کو فتح کرو گے۔ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا : اے اللہ کے نبی ! بطیلہ کی بیٹی مجھے ہبہ کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تیری ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو دے دی۔ پھر اس کا باپ آیا۔ کہنے لگا : کیا فروخت کرو گے ؟ اس نے پوچھا : کتنے کی ؟ اس نے کہا : جو چاہو فیصلہ کرلو۔ اس نے کہا : ہزار درہم۔ اس نے کہا : میں نے خرید لی ہے۔ انھوں نے کہا : اگر وہ تیس ہزار بھی مانگتا تب بھی وہ خرید لیتے اس نے کہا : کیا ہزار سے بڑا عدد بھی کوئی ہے۔
(ب) یہ حدی مریسم بن اوس سے ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ عورت دی تھی۔

18388

(١٨٣٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ النَّرْسِیُّ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ لاَحِقِ بْنِ حُمَیْدٍ قَالَ : لَمَّا بَعَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ وَعُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ إِلَی الْکُوفَۃِ بَعَثَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ عَلَی الصَّلاَۃِ وَعَلَی الْجُیُوشِ وَبَعَثَ ابْنَ مَسْعُودٍ عَلَی الْقَضَائِ وَعَلَی بَیْتِ الْمَالِ وَبَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ عَلَی مَسَاحَۃِ الأَرْضِ وَجَعَلَ بَیْنَہُمْ کُلَّ یَوْمٍ شَاۃً شَطْرَہَا وَسَوَاقِطَہَا لِعَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ وَالنِّصْفَ بَیْنَ ہَذَیْنِ ثُمَّ قَالَ أَنْزَلْتُکُمْ وَإِیَّایَ مِنْ ہَذَا الْمَالِ کَمَنْزِلَۃِ وَالِی مَالِ الْیَتِیمِ { وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ } [النساء ٦] وَمَا أَرَی قَرْیَۃً یُؤْخَذُ مِنْہَا کُلَّ یَوْمٍ شَاۃً إِلاَّ کَانَ ذَلِکَ سَرِیعًا فِی خَرَابِہَا قَالَ فَوَضَعَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ عَلَی جَرِیبِ الْکَرْمِ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ أَظُنُّہُ قَالَ ثَمَانِیَۃً وَعَلَی جَرِیبِ الْقَضْبِ سِتَّۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ الْبُرِّ أَرْبَعَۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ الشَّعِیرِ دِرْہَمَیْنَ وَعَلَی رُئُ وسِہِمْ عَنْ کُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعَۃً وَعِشْرِینَ کُلَّ سَنَۃٍ وَعَطَّلَ مِنْ ذَلِکَ النِّسَائَ وَالصِّبْیَانَ وَفِیمَا یُخْتَلَفُ بِہِ مِنْ تِجَارَاتِہِمْ نِصْفَ الْعُشُرِ قَالَ ثُمَّ کَتَبَ بِذَلِکَ إِلَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَجَازَ ذَلِکَ وَرَضِیَ بِہِ وَقِیلَ لِعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَیْفَ نَأْخُذُ مِنْ تُجَّارِ الْحَرْبِ إِذَا قَدِمُوا عَلَیْنَا۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : کَیْفَ یَأْخُذُونَ مِنْکُمْ إِذَا أَتَیْتُمْ بِلاَدَہُمْ ؟ قَالُوا : الْعُشْرَ ۔ قَالَ : فَکَذَلِکَ خُذُوا مِنْہُمْ ۔ وَرَوَاہُ یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ وَقَالَ : وَعَلَی جَرِیبِ النَّخْلِ ثَمَانِیَۃً وَعَلَی جَرِیبِ الْقَصْبِ سِتَّۃً لَمْ یَشُکَّ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٨٢) لاحق بن حمید فرماتے ہیں : جب حضرت عمر (رض) نے عمار بن یاسر، عبداللہ بن مسعود اور عثمان بن حنیف کو کوفہ روانہ کیا تو عمار بن یاسر کی ڈیوٹی نماز اور لشکروں پر تھی۔ ابن مسعود کو قاضی اور بیت المال کا عہدہ سونپا گیا اور عثمان بن حنیف کو زمین کے متعلقہ ذمہ داری دی گئی۔ ان کے لیے ایک دن میں ایک بکری دی گئی۔ نصف عمار بن یاسر کو باقی نصف دونوں ساتھیوں کو دی گئی۔ پھر فرمایا : میں نے تمہیں اس مال پر مقرر کیا ہے جیسے یتیم کے مال کا انسان والی ہوتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : { وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ } [النساء ٦] ” اور یتیموں کی آزمائش کرو یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اگر تم ان میں بھلائی پاؤ تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور تم ان کے مال زیادتی اور جلدبازی سے نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہوجائیں اور جو کوئی غنی ہو تو وہ اس سے بچے اور جو کوئی فقیر ہو انصاف کے ساتھ کھائے۔ “
میرا خیال نہیں کہ جس بستی سے ہر روز ایک بکری وصول کی جائے تو یہ اس کی جلد بربادی کے لیے کافی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن حنیف نے انگور کی فصل والوں پر دس درہم اور کھجور کے باغ والوں کے ذمہ آٹھ درہم اور قضب (ایک درخت کا نام) کے کھیت والوں پر چھ درہم اور گندم کی فصل والے کسانوں پر چار درہم اور جو کی فصل پر دو درہم مقرر فرمائے۔ ہر انسان سے سال میں ٢٤ درہم وصول کرتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو چھوڑ رکھا تھا اور مختلف قسم کی تجارت کرنے والوں پر نصف عشر تھا۔ پھر انھوں نے حضرت عمر (رض) کو خط لکھا۔ انھوں نے اجازت دے دی۔ حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ ہم حربی تاجروں سے کتنا ٹیکس لیں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جب تم ان کے شہروں میں جاتے ہو وہ تم سے کتنا وصول کرتے ہیں ؟ انھوں نے کہا : دسواں حصہ۔ فرمایا : تم بھی ان سے اسی طرح لو۔
(ب) سعید بن ابی عروبہ فرماتے ہیں کہ کھجور کے باغ پر آٹھ درہم اور قضب کے کھیت پر چھ درہم مقرر فرمائے۔

18389

(١٨٣٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی عَنِ الْحَکَمِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَعَثَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَیْفٍ فَمَسَحَ السَّوَادَ فَوَضَعَ عَلَی کُلِّ جَرِیبٍ عَامِرٍ أَوْ غَامَرٍ حَیْثُ یَنَالُہُ الْمَائُ قَفِیزًا وَدِرْہَمًا قَالَ وَکِیعٌ یَعْنِی الْحِنْطَۃَ وَالشَّعِیرَ وَوَضَعَ عَلَی کُلِّ جَرِیبِ الْکَرْمِ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ وَعَلَی جَرِیبِ الرِّطَابِ خَمْسَۃَ دَرَاہِمَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٨٣) حکم فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے عثمان بن حنیف کو سواد نامی جگہ بھیجا تو انھوں نے ہر آباد اور ویران کھیت پر جہاں تک پانی پہنچتا ہو، ایک قفیز (پیمانہ) اور درہم مقرر کیا۔ وکیع کہتے ہیں : یعنی گندم اور جو کا اور ہر انگور والے کھیت پر دس درہم اور تر کھجوروں پر پانچ درہم مقرر فرمائے۔

18390

(١٨٣٨٤) قَالَ وَحَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ عَلِیِّ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ وَضَعَ عَلَی النَّخْلِ عَلَی الدَّقَلَتَیْنِ دِرْہَمًا وَعَلَی الْفَارِسِیَّۃِ دِرْہَمًا۔ [ضعیف ]
(١٨٣٨٤) ابان بن تغلب ایک شخص سے نقل فرماتے ہیں جو حضرت عمر بن خطاب (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے ردی کھجوروں اور فارسی کھجوروں پر ایک درہم مقرر کیا۔

18391

(١٨٣٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنَعَتِ الْعِرَاقُ دِرْہَمَہَا وَقَفِیزَہَا وَمَنَعَتِ الشَّامُ مُدْیَہَا وَدِینَارَہَا وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّہَا وَدِینَارَہَا وَعُدْتُمْ مِنْ حَیْثُ بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ مِنْ حَیْثُ بَدَأْتُمْ وَعُدْتُمْ مِنْ حَیْثُ بَدَأْتُمْ ۔ شَہِدَ عَلَی ذَلِکَ لَحْمُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ وَدَمُہُ قَالَ یَحْیَی یُرِیدُ مِنْ ہَذَا الْحَدِیثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ذَکَرَ الْقَفِیزَ وَالدِّرْہَمَ قَبْلَ أَنْ یَضَعَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الأَرْضِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ یَعِیشَ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاہَوَیْہِ عَنْ یَحْیَی بْنِ آدَمَ ۔ [صحیح۔ مسلم ٢٨٩٦]
(١٨٣٨٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عراقیوں نے درہم اور قفیز (پیمانہ) کو روک لیا اور شامیوں نے مد اور دینار کو روک لیا۔ مصر نے اردب (چوبیس صاع کا پیمانہ) اور دینار کو روک لیا اور تم اس کو شمار کرو جب سے تم نے ابتدا کی تھی، تین مرتبہ فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) کا خون اور گوشت اس بات پر گواہ ہے۔ یحییٰ کہتے ہیں : اس حدیث سے ان کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ نے قفیز اور درہم کا ذکر کیا۔ اس سے پہلے کہ حضرت عمر (رض) اسے زمین والوں پر مقرر کرتے۔

18392

(١٨٣٨٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ الْفَزَارِیِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ حَدَّثَنِی ثَوْرٌ قَالَ حَدَّثَنِی سَالِمٌ مَوْلَی ابْنِ مُطِیعٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : افْتَتَحْنَا خَیْبَرَ فَلَمْ نَغْنَمْ ذَہَبًا وَلاَ فِضَّۃَ إِنَّمَا غَنَمِنَا الإِبِلَ وَالْبَقَرَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی وَادِی الْقُرَی وَمَعَہُ عَبْدٌ لَہُ یُقَالُ لَہُ مِدْعَمٌ وَہَبَہُ لَہُ أَحَدُ بَنِی الضِّبَابِ فَبَیْنَمَا ہُوَ یَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذْ جَائَ ہُ سَہْمٌ عَائِرٌ حَتَّی أَصَابَ ذَلِکَ الْعَبْدَ فَقَالَ النَّاسُ ہَنِیئًا لَہُ الشَّہَادَۃُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : بَلْ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ الشَّمْلَۃَ الَّتِی أَصَابَہَا یَوْمَ خَیْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْہَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَیْہِ نَارًا ۔ فَجَائَ رَجْلٌ حِینَ سَمِعَ ذَلِکَ مِنَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِشِرَاکٍ أَوْ بِشِرَاکَیْنِ فَقَالَ ہَذَا شَیْئٌ کُنْتُ أَصَبْتُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : شِرَاکٌ أَوْ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَمْرٍو۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٨٦) سالم بن مطیع نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ جب ہم نے خیبر فتح کیا تو مال غنیمت میں سونا چاندی حاصل نہ ہوا بلکہ اونٹ، گائے، سامان اور باغ ملے۔ پھر ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سناتھ وادی قریٰ میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غلام تھا جس کو مدعم کہا جاتا تھا، یہ بنو ضباب کے ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ مدعم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری سے کجاوہ اتار رہا تھا کہ اچانک اس کو نامعلوم جانب سے آنے ولا تیر لگا جس سے وہ مرگیا۔ لوگوں نے کہا : مبارک ہو یہ شخص جنتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! بیشک وہ چادر جس کو اس نے جنگ خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اٹھایا تھا وہ اس پر آگ بن کر لپٹی ہوئی ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص ایک یا دو تسمے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا۔ اس نے کہا : یہ مجھے ملے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں۔

18393

(١٨٣٨٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِیَاثٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ فِیمَا یَحْسِبُ أَبُو سَلَمَۃَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَاتَلَ أَہْلَ خَیْبَرَ حَتَّی أَلْجَأَہُمْ إِلَی قَصْرِہِمْ فَغَلَبَ عَلَی الأَرْضِ وَالزَّرْعِ وَالنَّخْلِ فَصَالَحُوہُ عَلَی أَنْ یُجْلَوْا مِنْہَا وَلَہُمْ مَا حَمَلَتْ رِکَابُہُمْ وَلِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الصَّفْرَائُ وَالْبَیْضَائُ وَیَخْرُجُونَ مِنْہَا وَاشْتَرَطَ عَلَیْہِمْ أَنْ لاَ یَکْتُمُوا وَلاَ یُغَیِّبُوا شَیْئًا فَإِنْ فَعَلُوا فَلاَ ذِمَّۃَ لَہُمْ وَلاَ عَہْدَ فَغَیَّبُوا مَسْکًا فِیہِ مَالٌ وَحُلِیٌّ لِحُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ کَانَ احْتَمَلَہُ مَعَہُ إِلَی خَیْبَرَ حِینَ أُجْلِیَتِ النَّضِیرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعَمِّ حُیَیٍّ مَا فَعَلَ مَسْکُ حُیَیٍّ الَّذِی جَائَ بِہِ مِنَ النَّضِیرِ فَقَالَ أَذْہَبَتْہُ النَّفَقَاتُ وَالْحُرُوبُ فَقَالَ الْعَہْدُ قَرِیبٌ وَالْمَالُ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ فَدَفَعَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی الزُّبَیْرِ فَمَسَّہُ بِعَذَابٍ وَقَدْ کَانَ حُیَیٌّ قَبْلَ ذَلِکَ دَخَلَ خَرِبَۃً فَقَالَ قَدْ رَأَیْتُ حُیَیًّا یَطُوفُ فِی خَرِبَۃٍ ہَا ہُنَا فَذَہَبُوا فَطَافُوا فَوَجَدُوا الْمَسْکَ فِی الْخَرِبَۃِ فَقَتَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ابْنِی حُقَیْقٍ وَأَحَدُہُمَا زَوْجُ صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ وَسَبَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نِسَائَ ہُمْ وَذَرَارِیَّہُمْ وَقَسَمَ أَمْوَالَہُمْ بِالنَّکْثِ الَّذِی نَکَثُوا وَأَرَادَ أَنْ یُجْلِیَہُمْ مِنْہَا فَقَالُوا یَا مُحَمَّدُ دَعْنَا نَکُونُ فِی ہَذِہِ الأَرْضِ نُصْلِحُہَا وَنَقُومُ عَلَیْہَا وَلَمْ یَکُنْ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلاَ لأَصْحَابِہِ غِلْمَانٌ یَقُومُونَ عَلَیْہَا وَکَانُوا لاَ یَفْرُغُونَ أَنْ یَقُومُوا عَلَیْہَا فَأَعْطَاہُمْ خَیْبَرَ عَلَی أَنَّ لَہُمُ الشَّطْرَ مِنْ کُلِّ زَرْعٍ وَنَخْلٍ وَشَیْئٍ مَا بَدَا لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَکَانَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ یَأْتِیہِمْ کُلَّ عَامٍ فَیَخْرُصُہَا عَلَیْہِمْ ثُمَّ یُضَمِّنُہُمُ الشَّطْرَ فَشَکَوْا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - شِدَّۃَ خَرْصِہِ وَأَرَادُوا أَنْ یَرْشُوہُ فَقَالَ یَا أَعْدَائَ اللَّہِ تُطْعِمُونِی السُّحْتَ وَاللَّہِ لَقَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَیَّ وَلأَنْتُمْ أَبْغَضُ إِلَیَّ مِنْ عِدَّتِکُمْ مِنَ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیرِ وَلاَ یَحْمِلُنِی بُغْضِی إِیَّاکُمْ وَحُبِّی إِیَّاہُ عَلَی أَنْ لاَ أَعْدِلَ بَیْنَکُمْ فَقَالُوا بِہَذَا قَامَتِ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ قَالَ وَرَأَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِعَیْنِ صَفِیَّۃَ خُضْرَۃً فَقَالَ : یَا صَفِیَّۃُ مَا ہَذِہِ الْخُضْرَۃُ ؟ ۔ فَقَالَتْ : کَانَ رَأْسِی فِی حَجْرِ ابْنِ حُقَیْقٍ وَأَنَا نَائِمَۃٌ فَرَأَیْتُ کَأَنَّ قَمَرًا وَقَعَ فِی حَجْرِی فَأَخْبَرْتُہُ بِذَلِکَ فَلَطَمَنِی وَقَالَ تَمَنِّینَ مَلِکَ یَثْرِبَ قَالَتْ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ أَبْغَضِ النَّاسِ إِلَیَّ قَتَلَ زَوْجِی وَأَبِی فَمَا زَالَ یَعْتَذِرُ إِلَیَّ وَیَقُولُ إِنَّ أَبَاکِ أَلَّبَ عَلَیَّ الْعَرَبَ وَفَعَلَ وَفَعَلَ حَتَّی ذَہَبَ ذَلِکَ مِنْ نَفْسِی وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُعْطِی کُلَّ امْرَأَۃٍ مِنْ نِسَائِہِ ثَمَانِینَ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ کُلَّ عَامٍ وَعِشْرِینَ وَسْقًا مِنْ شَعِیرٍ فَلَمَّا کَانَ زَمَنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ غَشُوا الْمُسْلِمِینَ وَأَلْقَوُا ابْنَ عُمَرَ مِنْ فَوْقِ بَیْتِ فَفَدَعُوا یَدَیْہِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَنْ کَانَ لَہُ سَہْمٌ مِنْ خَیْبَرَ فَلْیَحْضُرْ حَتَّی نَقْسِمَہَا بَیْنَہُمْ فَقَسَمَہَا بَیْنَہُمْ فَقَالَ رَئِیسُہُمْ لاَ تُخْرِجْنَا دَعْنَا نَکُونُ فِیہَا کَمَا أَقَرَّنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَأَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لِرَئِیسِہِمْ أَتُرَاہُ سَقَطَ عَنِّی قَوْلُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَیْفَ بِکَ إِذَا رَقَصَتْ بِکَ رَاحِلَتُکَ نَحْوَ الشَّامِ یَوْمًا ثُمَّ یَوْمًا ثُمَّ یَوْمًا وَقَسَمَہَا عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَیْنَ مَنْ کَانَ شَہِدَ خَیْبَرَ مِنْ أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٨٧) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر والوں سے جنگ کرتے ہوئے انھیں قلعہ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی زمین، زراعت اور کھجوروں کے باغات پر قبضہ کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اس بات پر صلح کی کہ جو ان کی سواریاں لے جاسکیں وہ ان کا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سونا چاندی ہے۔ وہ وہاں سے چلے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط رکھی کہ وہ کسی چیز کو نہیں چھپائیں گے۔ اگر انھوں نے کسی چیز کو چھپایا تو ان کا ذمہ اور کوئی عہد نہیں ہے۔ پھر بھی انھوں نے مال سے بھری ہوئی ایک کھال چھپا دی اور حیی بن اخطب کے زیورات جو وہ خیبر لے کر آیا تھا بنو نضیر کی جلا وطنی کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیی کے چچا سے کہا کہ حیی کی مال سے بھری ہوئی وہ مشک کہاں ہے جو بنو نضیر سے لے کر آیا تھا ؟ اس نے کہا : جنگوں اور اخراجات نے اس کو ختم کردیا۔ فرمایا کہ احد قریب ہے اور مال اس سے بھی زیادہ ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو زبیر کے حوالے کردیا، جس نے اسے سزا دی اور حیی اس سے پہلے ایک ویرانے میں داخل ہوا : کہتے ہیں : میں نے حیی کو دیکھا کہ وہ اس ویرانے میں گھوم رہا تھا وہاں گئے تو انھوں نے ویرانے میں مال کو پایا۔ رسول اللہ نے حقیق کے دونوں بیٹوں کو قتل کردیا۔ ان میں سے ایک صفیہ بنت حیی بن اخطب کا خاوند تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا اور ان کے مالوں کو وعدہ کی خلاف ورزی کی بنا پر تقسیم کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جلا وطن کرنے کا ارادہ فرمایا۔ انھوں نے کہا : اے محمد ! ہمیں اس زمین پر برقرار رکھیے، ہم کھیتی باڑی کریں اور اس کا خیال رکھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے پاس غلام بھی نہ تھے جو اس کا خیال رکھتے اور نہ خود ہی فارغ تھے کہ وہاں ٹھہر سکتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ کھیتی باڑی اور کھجوروں کا اندازہ کرتے۔ پھر نصف ان سے وصول کرتے۔ انھوں نے اندازہ کی سختی کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکایت کی اور عبداللہ بن رواحہ کو رشوت دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو ! تم مجھے حرام کھلاتے ہو، اللہ کی قسم ! میں تمہارے پاس لوگوں میں سے اپنی جانب سب سے زیادہ محبوب شخص کے پاس سے آیا ہوں لیکن تمہاری عادت مجھے بندروں اور خنزیروں سے بھی زیادہ بری لگتی ہے۔ تمہارا بغض اور ان کی محبت مجھے اس بات پر نہ ابھارے کہ میں عدل نہ کرسکوں۔ انھوں نے کہا : اسی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کی آنکھ میں سبز نشان دیکھا تو پوچھا : اے صفیہ یہ کیا ہے ؟ کہتی ہیں کہ میں حقیق کے بیٹے کی گود میں سر رکھ کر سوئی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ چاند میری گود میں گرپڑا ہے۔ میں نے اس کو بتایا تو اس نے مجھے تھپڑ دے مارا اور کہا : تو یثرب کے بادشاہ کی تمنا کرتی ہے۔ کہتی ہیں کہ رسول اللہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوص تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے باپ اور خاوند کو قتل کیا تھا وہ مجھ سے معذرت کرتا رہا اور اس نے کہا کہ تیرا باپ میرے نزدیک عرب کا عقل مند آدمی ہے۔ اس نے یہ کیا۔ یہاں تک کہ میرے دل سے وہ بات ختم ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ہر عورت کو ہر سال اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو دیا کرتے تھے۔ جب حضرت عمر بن خطاب (رض) کا دور آیا اور پریشانیوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا تو انھوں نے ابن عمر (رض) کو چھت پر چڑھایا اور اس کے ہاتھوں کے جوڑ نکال دیے پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جس کا خیبر میں حصہ ہو وہ آئے کہ ہم ان کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردی۔ ان کے سردار نے کہا : آپ ہمیں جلا وطن نہ کریں۔ بلکہ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) نے ہمیں برقرار رکھا ویسے ہی رہنے دیں۔ حضرت عمر (رض) نے ان کے سردار سے یہ بات کہی : کیا تیرا خیال ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بھول گیا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تیری کیا حالت ہوگی جب تیری سواری تجھے تین دن تک شام کی جانب لے کر جائے گی پھر حضرت عمر (رض) نے حدیبیہ والوں میں جو غزوہ خیبر میں موجود تھے ان کے حصے تقسیم کردیے۔

18394

(١٨٣٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو شِہَابٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ ظَہَرَ عَلَی خَیْبَرَ فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی سِتَّۃٍ وَثَلاَثِینَ سَہْمًا جَمَعَ کُلُّ سَہْمٍ مِائَۃَ سَہْمٍ فَکَانَ النِّصْفُ سِہَامًا لِلْمُسْلِمِینَ وَسَہْمَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَعَزَلَ النِّصْفَ لِلْمُسْلِمِینَ لِمَا یَنُوبُہُ مِنَ الأُمُورِ وَالنَّوَائِبِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَہَذَا لأَنَّہُ افْتَتَحَ بَعْضَ خَیْبَرَ عَنْوَۃً وَبَعْضَہَا صُلْحًا فَمَا قَسَمَ بَیْنَہُمْ ہُوَ مَا افْتَتَحَہُ عَنْوَۃً وَمَا تَرَکَہُ لِنَوَائِبِہِ ہُوَ مَا أَفَائَ اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ لَمْ یُوجَفْ عَلَیْہِ بِخَیْلٍ وَلاَ رِکَابٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٨٨) بشیر بن یسار نے صحابہ کے ایک گروہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خیبر کو فتح کیا اور مال غنیمت کو ٣٦ حصوں میں تقسیم کردیا اور تمام حصے سو میں تقسیم کیے۔ نصف حصے مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تھے اور نصف حصے ان کے لیے الگ کرلیے جن کو مختلف امور سر انجام دینے پر مقرر کیا ہوا تھا۔
شیخ فرماتے ہیں : خیبر کا بعض حصہ لڑائی کی وجہ سے حاصل ہوا اور کچھ حصہ صلح کے ساتھ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم کیا وہ تھا جو لڑائی کے ذریعے حاصل کیا گیا اور جو مصیبت زدہ لوگوں کے لیے چھوڑا وہ تھا جو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا۔

18395

(١٨٣٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - افْتَتَحَ بَعْضَ خَیْبَرَ عَنْوَۃً ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٨٩) سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا بعض حصہ لڑائی کے ذریعے فتح کیا۔

18396

(١٨٣٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَوْلاَ آخِرُ الْمُسْلِمِینَ مَا افْتُتِحَتْ قَرْیَۃٌ إِلاَّ قَسَمْنَاہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ صَدَقَۃَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِیٍّ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٣٣٤-٣١٢٥]
(١٨٣٩٠) زید بن اسلم اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر دوسرے مسلمان نہ ہوئے تو ہر فتح ہونے والی بستی کو ہم تقسیم کردیتے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا۔

18397

(١٨٣٩١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : لَوْلاَ أَنِّی أَتْرُکَ النَّاسَ بَبَّانًا لاَ شَیْئَ لَہُمْ مَا فُتِحَتْ قَرْیَۃٌ إِلاَّ قَسَمْتُہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَہَذَا عِنْدَنَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ عَلَی أَنَّہُ کَانَ یَسْتَطِیبُ قُلُوبَہُمْ ثُمَّ یَقِفُہَا لِلْمُسْلِمِینَ نَظَرًا لَہُمْ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٣٩١) زید بن اسلم اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے سنا، وہ فرماتے تھے : اگر میں لوگوں کو اس حالت میں نہ چھوڑوں کہ ان کے لیے کوئی چیز نہ ہو جو بستی بھی فتح ہو تو میں اسے تقسیم کر دوں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا تھا۔
شیخ فرماتے ہیں : یہی ہمارا مؤقف ہے۔ ان کے دلوں کی چاہت تھی لیکن پھر بھی انھوں نے مسلمانوں کے فائدہ کے لیے وقف کردیا۔

18398

(١٨٣٩٢) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ یَقُولُ : أَصَابَ النَّاسُ فَتْحًا بِالشَّامِ فِیہِمْ بِلاَلٌ وَأَظُنُّہُ ذَکَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَکَتَبُوا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّ ہَذَا الْفَیْئَ الَّذِی أَصَبْنَا لَکَ خُمُسُہُ وَلَنَا مَا بَقِیَ لَیْسَ لأَحَدٍ مِنْہُ شَیْئٌ کَمَا صَنَعَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِخَیْبَرَ فَکَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّہُ لَیْسَ عَلَی مَا قُلْتُمْ وَلَکِنِّی أَقِفُہَا لِلْمُسْلِمِینَ فَرَاجَعُوہُ الْکِتَابَ وَرَاجَعَہُمْ یَأْبَوْنَ وَیَأْبَی فَلَمَّا أَبَوْا قَامَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَدَعَا عَلَیْہِمْ فَقَالَ اللَّہُمَّ اکْفِنِی بِلاَلاً وَأَصْحَابَ بِلاَلٍ قَالَ فَمَا حَالَ الْحَوْلُ عَلَیْہِمْ حَتَّی مَاتُوا جَمِیعًا۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ قَوْلُہُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنَّہُ لَیْسَ عَلَی مَا قُلْتُمْ لَیْسَ یُرِیدُ بِہِ إِنْکَارَ مَا احْتَجُّوا بِہِ مِنْ قِسْمَۃِ خَیْبَرَ فَقَدْ رُوِّینَاہُ عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَیُشْبِہُ أَنْ یُرِیدَ بِہِ لَیْسَتِ الْمَصْلَحَۃُ فِیمَا قُلْتُمْ وَإِنَّمَا الْمَصْلَحَۃُ فِی أَنْ أَقِفَہَا لِلْمُسْلِمِینَ وَجَعَلَ یَأْبَی قِسْمَتَہَا لِمَا کَانَ یَرْجُو مِنْ تَطْیِیبِہِمْ ذَلِکَ لَہُ وَجَعَلُوا یَأْبَوْنَ لِمَا کَانَ لَہُمْ مِنَ الْحَقِّ فَلَمَّا أَبَوْا لَمْ یُبْرِمْ عَلَیْہِمُ الْحُکْمَ بِإِخْرَاجِہَا مِنْ أَیْدِیہِمْ وَوَقْفِہَا وَلَکِنْ دَعَا عَلَیْہِمْ حَیْثُ خَالَفُوہُ فِیمَا رَأَی مِنَ الْمَصْلَحَۃِ وَہُمْ لَوْ وَافَقُوہُ وَافَقَہُ أَفْنَائُ النَّاسِ وَأَتْبَاعُہُمْ وَالْحَدِیثُ مُرْسَلٌ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَقَدْ رُوِّینَا فِی کِتَابِ الْقَسْمِ فِی فَتْحِ مِصْرَ أَنَّہُ رَأَی ذَلِکَ وَرَأَی الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قِسْمَتَہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٩٢) جریر بن حازم کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ لوگوں کو شام کی فتح نصیب ہوئی۔ جن میں بلال بھی تھے، میرا گمان ہے کہ انھوں نے معاذ بن جبل کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا کہ مال فیٔ میں سے پانچواں حصہ آپ کا اور باقی ہمارا ہے، کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔ جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے موقع پر کیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے جواب دیا : تمہاری بات درست نہیں بلکہ میں اس کو مسلمانوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔ حضرت عمر (رض) نے تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ اس کی امید کیے بیٹھے تھے اور انھوں نے بھی واپس کرنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ یہ ان کا حق تھا۔ جب انھوں نے انکار کردیا تو ان پر ان کے ہاتھوں خراج لینے کا حکم باقی رہے گا اور اس زمین کو وقف سمجھا جائے گا۔ لیکن حضرت عمر (رض) نے ان کے خلاف بددعا کی، جب انھوں نے حضرت عمر (رض) سے مصلحت کی مخالفت کی۔ اگر وہ ان کی موافقت کرتے تو غیر معروف لوگ اور ان کے پیروکار اس کی موافقت کرتے۔
(ب) فتح مصر کے بارے میں زبیر بن عوام (رض) کی یہ رائے تھی کہ اس کو تقسیم کردیا جائے، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا تھا۔

18399

(١٨٣٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ حَدَّثَنَا الْمُرَجَّا بْنُ رَجَائٍ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی رَافِعٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَیُّمَا قَرْیَۃٍ افْتَتَحَہَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ فَہِیَ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ وَأَیُّمَا قَرْیَۃٍ افْتَتَحَہَا الْمُسْلِمُونَ عَنْوَۃً فَخُمُسُہَا لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ وَبَقِیَّتُہَا لِمَنْ قَاتَلَ عَلَیْہَا ۔ قَالَ أَبُو الْفَضْلِ الدُّورِیُّ : أَبُو سَلَمَۃَ ہَذَا ہُوَ عِنْدِی صَاحِبُ الطَّعَامِ أَوْ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ قَدْ رُوِّینَاہُ فِی کِتَابِ الْقَسْمِ مِنْ حَدِیثِ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِمَعْنَاہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٩٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بستی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح کریں تو یہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے اور جس بستی کو جنگ کے ذریعے فتح کریں۔ اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا اور باقی حصہ لڑائی کرنے والوں کا ہے۔

18400

(١٨٣٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَکَّارِ بْنِ بِلاَلٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی بْنِ سُمَیْعٍ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ عَنْ مُعَاذٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ : مَنْ عَقَدَ الْجِزْیَۃَ فِی عُنُقِہِ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا عَلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [ضعیف ]
(١٨٣٩٤) ابو عبداللہ حضرت معاذ سے نقل فرماتے ہیں کہ جس کے ذمہ جزیہ ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری ہیں جو اس کے ذمہ ہے۔

18401

(١٨٣٩٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ الْحَضْرَمِیُّ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ حَدَّثَنِی عُمَارَۃُ بْنُ أَبِی الشَعْثَائِ حَدَّثَنِی سِنَانُ بْنُ قَیْسٍ حَدَّثَنِی شَبِیبُ بْنُ نُعَیْمٍ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ خُمَیْرٍ حَدَّثَنِی أَبُو الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ أَخَذَ أَرْضًا بِجِزْیَتِہَا فَقَدِ اسْتَقَالَ ہِجْرَتَہُ وَمَنْ نَزَعَ صَغَارَ کَافِرٍ مِنْ عُنُقِہِ فَجَعَلَہُ فِی عُنُقِہِ فَقَدْ وَلَّی الإِسْلاَمَ ظَہْرَہُ ۔ قَالَ سِنَانٌ فسَمِعَ مِنِّی خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ ہَذَا الْحَدِیثَ فَقَالَ لِی أَشَبِیبٌ حَدَّثَکَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَإِذَا قَدِمْتُ فَسَلْہُ فَلْیَکْتُبْ إِلَیَّ بِالْحَدِیثِ قَالَ فَکَتَبَ لَہُ فَلَمَّا قَدِمْتُ سَأَلَنِی ابْنُ مَعْدَانَ الْقِرْطَاسَ فَأَعْطَیْتُہُ فَلَمَّا قَرَأَہُ تَرَکَ مَا فِی یَدَیْہِ مِنَ الأَرْضِ حِینَ سَمِعَ ذَلِکَ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ہَذَا یَزِیدُ بْنُ خُمَیْرٍ الْیَزَنِیُّ لَیْسَ ہُوَ صَاحِبُ شُعْبَۃَ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ ہَذَانِ الْحَدِیثَانِ إِسْنَادُہُمَا إِسْنَادٌ شَامِیٌّ وَالْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ لَمْ یَحْتَجَّ بِمِثْلِہِمَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٩٥) ابو دردائ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے جزیہ والی زمین حاصل کی اس نے اپنی ہجرت ختم کرلی اور جس نے کافر کی گردن سے ذلت کو اتار کر اپنے گلے ڈال لیا، اس نے اسلام سے پیٹھ پھیرلی۔

18402

(١٨٣٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ وَحَجَّاجٌ قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ حَبِیبٍ ہُوَ ابْنُ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنِّی أَکُونُ بِالسَّوَادِ فَأَتَقَبَّلُ وَلاَ أُرِیدُ أَنْ أَزْدَادَ إِنَّمَا أُرِیدُ أَنْ أَدْفَعَ عَنْ نَفْسِی فَقَرأَ ہَذِہِ الآیَۃَ { قَاتِلُوا الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ } [التوبۃ ٢٩] إِلَی { حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ } [التوبۃ ٢٩] لاَ تَنْزِعِ الصَّغَارَ مِنْ أَعْنَاقِہِمْ فَتَجْعَلَہُ فِی عُنُقِکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٣٩٦) حبیب بن ابی ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے سنا، جب کسی شخص نے ان سے پوچھا۔ فرمایا : میں سواد کا رہنے والا ہوں میں قبول تو کرتا ہوں لیکن زیادتی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میں اپنے دفاع کا ارادہ کرتا ہوں۔ انھوں نے یہ آیت پڑھی : { قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } [التوبۃ ٢٩] ” تم ان لوگوں سے لڑائی کرو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں تو کوئی بھی ان کی ذلت کو اتار کر اپنی گردن پر مت ڈالے۔

18403

(١٨٣٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا کَانَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الإِسْلاَمِ یَأْخُذُ الأَرْضَ مِنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ بِمَا عَلَیْہَا مِنَ الْخَرَاجِ یَقُولُ : لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَوْ لاَ یَنْبَغِی لِمُسْلِمٍ أَنْ یَکْتُبَ عَلَی نَفْسِہِ الذُّلَّ وَالصَّغَارَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٣٩٧) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو ذمی آدمی سے زمین خرید لیتا ہے، کیا اس کے ذمہ جزیہ ہے ؟ فرماتے ہیں غ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے اوپر اس ذلت کو مسلط کرے۔

18404

(١٨٣٩٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانِ عَنْ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ : مَا یَسُرُّنِی أَنَّ الأَرْضَ کُلَّہَا لِی بِجْزِیَۃِ خَمْسَۃِ دَرَاہِمَ أُقِرَّ فِیہَا بِالصَّغَارِ عَلَی نَفْسِی۔ [حسن ]
(١٨٣٩٨) میمون بن مہران حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ جزیہ کی تمام زمین مجھے پانچ درہم کے بدلے ملے کہ میں اپنے آپ کو اس ذلت میں برقرار رکھوں۔

18405

(١٨٣٩٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ ہُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ : مَنْ أَقَرَّ بِالطَّسْقِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالصَّغَارِ ۔
(١٨٣٩٩) قاسم حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے ٹیکس کا اقرار کیا تو اس نے ذلت کا اقرار کیا۔

18406

(١٨٤٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ سُفْیَانَ الْعُقَیْلِیِّ عَنْ أَبِی عِیَاضٍ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لاَ تَشْتَرُوا رَقِیقَ أَہْلِ الذِّمَّۃِ فَإِنَّہُمْ أَہْلُ خَرَاجِ یُؤَدِّی بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضٍ وَأَرَضِیہِمْ فَلاَ تَبْتَاعُوہَا وَلاَ یُقِرَّنَّ أَحَدُکُمْ بِالصَّغَارِ بَعْدَ إِذْ نَجَّاہُ اللَّہُ مِنْہُ ۔ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ : أَرَادَ فِیمَا نُرَی أَنَّہُ إِذَا کَانَتْ لَہُ مَمَالِیکُ وَأَرْضٌ وَأَمْوَالٌ ظَاہِرَۃٌ کَانَتْ أَکْثَرَ لِجِزْیَتِہِ وَہَکَذَا کَانَتْ سُنَّۃُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِیہِمْ إِنَّمَا کَانَ یَضَعُ الْجِزْیَۃَ عَلَی قَدْرِ الْیَسَارِ وَالْعُسْرِ فَلِہَذَا کَرِہَ أَنْ یُشْتَرَیَ رَقِیقُہُمْ وَأَمَّا شِرَائُ الأَرْضِ فَإِنَّہُ ذَہَبَ فِیہِ إِلَی الْخَرَاجِ کَرِہَ أَنْ یَکُونَ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَلاَ تَرَاہُ یَقُولُ وَلاَ یُقِرَّنَّ أَحَدُکُمْ بِالصَّغَارِ بَعْدَ إِذْ نَجَّاہُ اللَّہُ مِنْہُ ۔ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ وَقَدْ رَخَّصَ فِی ذَلِکَ بَعْدَ عُمَرَ رِجَالٌ مِنْ أَکَابِرِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْہُمْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ کَانَتْ لَہُ أَرْضٌ بِرَاذَانَ وَخَبَّابُ بْنُ الأَرَتِ وَغَیْرُہُمَا۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٠) ابو عیاض حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ تم ذمی شخص سے غلام نہ خریدو، کیونکہ وہ جزیہ دینے والے لوگ ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ادا کرتے ہیں اور ان کی زمینیں بھی نہ خریدو اور تم میں سے کوئی اپنے آپ کو ذلت میں کیوں ڈالتا ہے جب اللہ رب العزت نے اس کو نجات دے دی ہے۔
ابو عبید فرماتے ہیں : جب غلام، زمین اور ظاہری مال ان کے جزیہ سے زیادہ ہوں تو یہ حضرت عمر (رض) کا طریقہ تھا کہ وہ آسانی اور تنگی کی وجہ سے جزیہ کو کم کرلیتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے غلاموں کو خریدنا ناپسند کیا گیا اور زمین کا خریدنا وہ جزیہ کی ادائیگی کی طرف لے جائے گا اور جزیہ کا ادا کرنا مسلمانوں پر ہو، یہ ناپسندیدہ بات ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے آپ کو ذلت میں روکے جب کہ اللہ رب العزت نے اس کو نجات دی ہے۔ حضرت عمر (رض) کے بعد کبار صحابہ جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) خباب بن ارت (رض) وغیرہ شامل ہیں انھوں نے اس بارے میں رخصت دی ہے۔

18407

(١٨٤٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی عَرُوبَۃَ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَشْتَرِیَ مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ شَیْئًا وَیَقُولُ عَلَیْہَا خَرَاجُ الْمُسْلِمِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠١) قتادہ (رض) ، حضرت علی (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ جزیہ کی زمین میں سے کچھ بھی خریدنے کو ناپسند کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مسلمانوں کا جزیہ ان کے ذمہ ہے۔

18408

(١٨٤٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا زُہَیْرُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ کُلَیْبِ بْنِ وَائِلٍ قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ : اشْتَرَیْتُ أَرْضًا۔ قَالَ : الشِّرَائُ حَسَنٌ۔ قَالَ قُلْتُ فَإِنِّی أُعْطِی مِنْ کُلِّ جَرِیبِ أَرْضٍ دِرْہَمًا وَقَفِیزًا مِنْ طَعَامٍ قَالَ فَلاَ تَجْعَلْ فِی عُنُقِکَ صَغَارًا۔ [حسن ]
(١٨٤٠٢) کلیب بن وائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا : میں نے زمین خریدی ہے تو انھوں نے فرمایا : زمین خریدنا اچھا ہے۔ کہتے ہیں : میں نے کہا کہ میں ہر زمین کی کھیتی کے عوض ایک درہم اور ایک کھانے کا قفیز (پیمانہ) ادا کرتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ ذلت کو اپنے گلے میں نہ ڈالو۔

18409

(١٨٤٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : اشْتَرَی عَبْدُ اللَّہِ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ قَالَ فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہَا یَعْنِی دِہْقَانَہَا أَنَا أَکْفِیکَ إِعْطَائَ خَرَاجِہَا وَالْقِیَامَ عَلَیْہَا۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٣) قاسم بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ عبداللہ نے جزیے والی زمین خریدی تو ان سے حنظلہ نے یہ بات کہی کہ میں آپ کی جانب سے جزیہ ادا کروں گا اور زمین کی دیکھ بھال بھی کروں گا۔

18410

(١٨٤٠٤) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ : اشْتَرَی عَبْدُ اللَّہِ أَرْضَ خَرَاجٍ مِنْ دِہْقَانٍ وَعَلَی أَنْ یَکْفِیَہُ خَرَاجَہَا۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٤) امام شعبی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے ایک تاجر سے جزیہ کی زمین خریدی اور شرط رکھی کہ وہ اس کا جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔

18411

(١٨٤٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنِی حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَی قَالَ : اشْتَرَی الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا مَلْحَۃً أَوْ مِلْحًا وَاشْتَرَی الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ شَرِیدَیْنِ مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ وَقَالَ قَدْ رَدَّ إِلَیْہِمْ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَرْضَہُمْ وَصَالَحَہُمْ عَلَی الْخَرَاجِ الَّذِی وَضَعَہُ عَلَیْہِمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٥) ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ حسن بن علی نے نمک خریدا اور حسین بن علی نے جزیہ کی باقی ماندہ زمین خریدی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے زمین واپس کردی اور جزیہ پر صلح کرلی جو کم کیا تھا۔

18412

(١٨٤٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ مَعِینٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَسَنٍ : أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا اشْتَرِیَا قِطْعَۃً مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٦) عبداللہ بن حسن فرماتے ہیں کہ حضرت حسن و حسین نے جزیہ کی زمین کا ٹکڑا خریدا۔

18413

(١٨٤٠٧) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ بَلَغَنَا : أَنَّ حُذَیْفَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اشْتَرَی قِطْعَۃً مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٧) حجاج کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے جزیہ والی زمین کا ایک قطعہ خریدا تھا۔

18414

(١٨٤٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحِیمِ عَنْ أَشْعَثَ عَنِ الْحَکَمِ عَنْ شُرَیْحٍ : أَنَّہُ اشْتَرَی أَرْضًا مِنْ أَرْضِ الْحِیرَۃِ یُقَالُ لَہَا زَبَّا۔ قَالَ وَقَالَ الْحَکَمُ وَکَانُوا یُرَخِّصُونَ فِی شِرَائِ أَرْضِ الْحِیرَۃِ مِنْ أَجْلِ أَنَّہُمْ صُلْحٌ۔ قَالَ یَحْیَی وَسَأَلْتُ حَسَنَ بْنَ صَالِحٍ فَکَرِہَ شِرَائَ أَرْضِ الْخَرَاجِ الَّتِی أُخِذَتْ عَنْوَۃً فَوُضِعَ عَلَیْہَا الْخَرَاجُ وَلَمْ یَرَ بَأْسًا بِشِرَائِ أَرْضِ أَہْلِ الصُّلْحِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٨) حکم قاضی شریح سے نقل فرماتے ہیں کہ اس نے حیرہ کی زمین خریدی جس کو زت کہا جاتا تھا اور حیرہ کی زمین خریدنے کی رخصت تھی کیونکہ یہ صلح کی زمین تھی۔ (ب) یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن صالح سے پوچھا تو انھوں نے خراج والی زمین کو خریدنے کو ناپسند فرمایا، جس کو لڑائی سے حاصل کیا گیا ہو اور اس پر جزیہ لاگو کیا گیا ہوں اور صلح کی زمین خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

18415

(١٨٤٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَۃَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ سُلَیْمَانَ قَالَ : کَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَحِمَہُ اللَّہُ إِلَی عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَذَکَرَہُ فَقَالَ فِیہِ وَلاَ خَرَاجَ عَلَی مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الأَرْضِ وَقَدْ رُوِّینَا فِیہِ حَدِیثًا مُسْنِدًا لَیْسَ عَلَیْہِمْ فِیہِ إِلاَّ صَدَقَۃٌ وَقَدْ مَضَی ذَلِکَ مَعَ غَیْرِہِ فِی کِتَابِ الزَّکَاۃِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٠٩) داؤد بن سلیمان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عبدالحمید بن عبدالرحمن کو خط لکھا، جس میں یہ تحریر تھا کہ جو اسلام قبول کرے اس کی زمین پر خراج نہیں ہے اور ایک مسند روایت ہے کہ صرف اس کے ذمہ زکوۃ ہے۔

18416

(١٨٤١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ ہُوَ ابْنُ حَرْبٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَامِرٍ قَالَ : اشْتَرَی عُتْبَۃُ بْنُ فَرْقَدٍ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ الْخَرَاجِ ثُمَّ أَتَی عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ : مِمَّنْ اشْتَرَیْتَہَا ؟ قَالَ : مَنْ أَہْلِہَا۔ قَالَ : فَہَؤُلاَئِ أَہْلُہَا لِلْمُسْلِمِینَ أَبِعْتُمُوہُ شَیْئًا قَالُوا : لاَ ۔ قَالَ : اذْہَبْ فَاطْلُبْ مَالَکَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤١٠) بکر بن عامر حضرت عامر سے نقل فرماتے ہیں کہ عتبہ بن فرقد نے خراج والی زمین خریدی پھر۔ آ کر حضرت عمر (رض) کو بتایا۔ انھوں نے پوچھا : آپ نے کس سے خریدی ہے ؟ کہنے لگے : زمین والوں سے۔ فرمایا : یہ زمین والے ہیں۔ کیا تم نے ان سے کچھ خریدا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ فرمایا : جا کر اپنا مال واپس لے لو۔

18417

(١٨٤١١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسٌ عَنْ أَبِی إِسْمَاعِیلَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ فَرْقَدٍ قَالَ : اشْتَرَیْتُ عَشْرَۃَ أَجْرِبَۃٍ مِنْ أَرْضِ السَّوَادِ عَلَی شَاطِئِ الْفُرَاتِ لِقَضْبِ دَوَابِّ فَذُکِرَ ذَلِکَ لِعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ اشْتَرَیْتَہَا مِنْ أَصْحَابِہَا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ رُحْ إِلَیَّ قَالَ فَرُحْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ یَا ہَؤُلاَئَ أَبِعْتُمُوہُ شَیْئًا قَالُوا لاَ قَالَ ابْتَغِ مَالَکَ حَیْثُ وَضَعْتَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤١١) شعبی حضرت عتبہ بن فرقد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے سواد کی زمین سے دس ایکڑ زمین فرات کے کنارے خریدی۔ جب حضرت عمر (رض) کے سامنے تذکرہ ہوا تو پوچھا : آپ نے زمین والوں سے خریدی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں۔ کہنے لگے : میرے پاس آؤ۔ میں ان کے پاس گیا تو فرمایا : کیا تم نے ان کو کچھ فروخت کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ فرمایا : اپنا مال لو جس کو دے رکھا ہے۔

18418

(١٨٤١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ : أَسْلَمَتِ امْرَأَۃٌ مِنْ أَہْلِ نَہَرِ الْمَلِکِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ أَوْ کَتَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِنِ اخْتَارَتْ أَرْضَہَا وَأَدَّتْ مَا عَلَی أَرْضِہَا فَخَلُّوا بَیْنَہَا وَبَیْنَ أَرْضِہَا وَإِلاَّ خَلُّوا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَبَیْنَ أَرَضِیہِمْ ۔ [حسن ]
(١٨٤١٢) طارق بن شہاب فرماتے ہیں کہ اہل نہر سے ایک عورت مسلمان ہوگئی تو حضرت عمر (رض) نے خط لکھا : اگر وہ اپنی زمین کو اختیار کرے اور جزیہ ادا کرے تو اس کو زمین دے دو ، وگرنہ زمین سے فارغ کر دو ۔

18419

(١٨٤١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ الأَسَدِیِّ عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِیِّ قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعَلِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ تَرَکَاہُ یَقُومُ بِخَرَاجِہِ فِی أَرْضِہِ ۔ [حسن ]
(١٨٤١٣) ابو عون ثقفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی (رض) اہلِ سواد کے افراد کو چھوڑ دیتے، جب وہ اسلام قبول کرلیتے تو فرماتے : وہ اپنی زمین پر ہی رہیں اور خراج ادا کرتے رہیں۔

18420

(١٨٤١٤) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا شَرِیکٌ وَقَیْسٌ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَامِرٍ قَالَ أَسْلَمَ الرُّفَیْلُ فَأَعْطَاہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَرْضَہُ بِخَرَاجِہَا وَفَرَضَ لَہُ أَلْفَیْنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤١٤) حضرت جابر عامر سے نقل فرماتے ہیں کہ رفیل نے اسلام قبول کرلیا تو حضرت عمر (رض) نے ان کو خراج والی زمین عطا کردی اور ان کے لیے دو ہزار جزیہ مقرر کردیا۔

18421

(١٨٤١٥) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا قَیْسُ بْنُ الرَّبِیعِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُہَاجِرٍ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِی زُہْرَۃَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ کَتَبَ إِلَی سَعْدٍ یُقْطِعُ سَعِیدَ بْنَ زَیْدٍ أَرْضًا فَأَقْطَعَہُ أَرْضًا لِبَنِی الرُّفَیْلِ فَأَتَی ابْنُ الرُّفَیْلِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی مَا صَالَحْتُمُونَا ؟ قَالَ : عَلَی أَنْ تُؤَدُّوا إِلَیْنَا الْجِزْیَۃَ وَلَکُمْ أَرْضُکُمْ وَأَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ ۔ قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ أَقْطَعْتَ أَرْضِی لِسَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ ۔ قَالَ : فَکَتَبَ إِلَی سَعْدٍ رُدَّ عَلَیْہِ أَرْضَہُ ثُمَّ دَعَاہُ إِلَی الإِسْلاَمِ فَأَسْلَمَ فَفَرَضَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَبْعَمِائَۃٍ وَجَعَلَ عَطَائَ ہُ فِی خَثْعَمَ وَقَالَ إِنْ أَقَمْتَ فِی أَرْضِکَ أَدَّیْتَ عَنْہَا مَا کُنْتَ تُؤَدِّی۔ وَہَذَا فِی إِسْنَادِہِ ضَعْفٌ۔ فَإِنْ ثَبَتَ کَانَ قَوْلُہُ وَلَکُمْ أَرْضُکُمْ مَحْمُولاً عَلَی أَنَّہُ أَرَادَ وَلَکُمْ أَرْضُکُمُ الَّتِی کَانَتْ لَکُمْ تَزْرَعُونَہَا وَتُعْطُونَ خَرَاجَہَا وَذَلِکَ فِیمَا أُخِذَ عَنْوَۃً أَلاَ تَرَاہُ لَمْ یُسْقِطْ عَنْہُ خَرَاجَہَا حِینَ أَسْلَمَ وَفِی الصُّلْحِ یَسْقُطُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤١٥) بنو زہرہ کے ایک شیخ حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت سعد کو لکھا کہ سعید بن زید کو کچھ زمین عطا کرو تو انھوں نے رفیل کی زمین دے دی۔ بنو رفیل حضرت عمر (رض) کے پاس آگئے اور کہا : اے امیر المؤمنین ! کس بات پر تم نے ہمارے ساتھ صلح کی ہے ؟ فرمانے لگے کہ تم جزیہ ادا کرو۔ زمین، مال، اولاد تمہارے پاس ہی رہیں گے۔ اس نے کہا : اے امیر المومنین ! کیا آپ نے میری زمین سعید بن زید کو دے دی ہے ؟ تو حضرت عمر (رض) نے سعد کو لکھا کہ اس کی زمین واپس کر دو ۔ پھر اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس پر سات سو جزیہ مقرر فرما دیا اور اس کی زمین خثعم قبیلہ کو عطا کردی اور فرمایا : اگر تم اپنی زمین پر رہے تو اتنا جزیہ ادا کرتے رہنا جتنا دیا کرتے تھے۔
(ب) یہ قول { وَلَکُمْ اَرَضْنَاکُمْ } وہ زمین جس میں تم کھیتی باڑی کرتے ہو اور جزیہ ادا کرتے ہو اور یہ زمین زبردستی ان سے لی گئی۔ دیکھیں مسلمان ہونے کے بعد بھی خراج ختم نہ ہوا حالانکہ صلح کی وجہ سے ساقط ہوجاتا ہے۔

18422

(١٨٤١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاہِیمَ النَّخَعِیَّ یَقُولُ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ إِنِّی قَدْ أَسْلَمْتُ فَضَعْ عَنْ أَرْضِی الْخَرَاجَ فَقَالَ لاَ إِنَّ أَرْضَکَ أُخِذَتْ عَنْوَۃً ۔ قَالَ : وَجَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ أَرْضَ کَذَا وَکَذَا یُطِیقُونَ مِنَ الْخَرَاجِ أَکْثَرَ مِمَّا عَلَیْہِمْ فَقَالَ : لاَ سَبِیلَ إِلَیْہِمْ إِنَّمَا صَالَحْنَاہُمْ صُلْحًا۔ [ضعیف ]
(١٨٤١٦) ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا اور کہا : میں نے اسلام قبول کرلیا ہے، جزیہ ختم کر دو ۔ فرمایا : نہیں آپ کی زمین بذریعہ لڑائی حاصل کی گئی ہے۔ راوی کہتے ہیں : دوسرا شخص آیا کہ فلاں زمین والے زیادہ خراج دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ فرمایا : ہم نے اسی پر ان سے صلح کی ہے۔

18423

(١٨٤١٧) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ سَیَّارٍ أَبِی الْحَکَمِ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِیٍّ قَالَ : أَسْلَمَ دِہْقَانٌ مِنْ أَہْلِ السَّوَادِ فِی عَہْدِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِنْ أَقَمْتَ فِی أَرْضِکَ رَفَعْنَا الْجِزْیَۃَ عَنْ رَأْسِکَ وَأَخَذْنَا مِنْ أَرْضِکَ وَإِنْ تَحَوَّلْتَ عَنْہَا فَنَحْنُ أَحَقُّ بِہَا۔ [صحیح ]
(١٨٤١٧) زبیر بن عدی فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے دور میں اہل سواد کے ایک تاجر نے اسلام قبول کرلیا تو حضرت علی (رض) نے اس سے کہا : اگر تو اپنی زمین پر رہے تو ہم تیرا جزیہ ختم کردیتے ہیں اور تیری زمین کا جزیہ وصول کریں گے۔ اگر تو اس سے منتقل ہوجائے تو اس زمین کے ہم زیادہ حق دار ہیں۔

18424

(١٨٤١٨) قَالَ وَحَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنِ الْمَسْعُودِیِّ عَنْ أَبِی عَوْنٍ قَالَ : أَسْلَمَ دِہْقَانٌ مِنْ أَہْلِ عَیْنِ التَّمْرِ فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَمَّا جِزْیَۃُ رَأْسِکَ فَنَرْفَعُہَا وَأَمَّا أَرْضُکَ فَلِلْمُسْلِمِینَ فَإِنْ شِئْتَ فَرَضْنَا لَکَ وَإِنْ شِئْتَ جَعَلْنَاکَ قَہْرَمَانًا لَنَا فَمَا أَخْرَجَ اللَّہُ مِنْہَا مِنْ شَیْئٍ أَتَیْتَنَا بِہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٤١٨) ابو عون فرماتے ہیں کہ اہل عین التمر کا ایک تاجر مسلمان ہوگیا تو حضرت علی (رض) نے فرمایا : ہم تیرا جزیہ ختم کردیتے ہیں، تیری زمین مسلمانوں کے لیے ہوگی۔ اگر آپ چاہو تو آپ کے لیے جزیہ مقرر کردیتے ہیں اور اگر آپ چاہو تو ہم آپ کو قہرمان عطا کردیتے ہیں۔ جو اللہ رب العزت اس سے پیدا فرمائے وہ آپ ہمارے پاس لے کر آئیں گے۔

18425

(١٨٤١٩) قَالَ الشَّیْخُ وَہَذَا لِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ الرَّزَّازُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ قَالاَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی خَالِدٍ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سَرِیَّۃً إِلَی خَثْعَمٍ فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْہُمْ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِیہِمُ الْقَتْلَ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ لَہُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ أَنَا بَرِیئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ مُقِیمٍ بَیْنَ أَظْہُرِ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَلِمَ ؟ قَالَ : لاَ تَرَایَا نَارَاہُمَا ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١٦٤٧٠]
(١٨٤١٩) جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خثعم کی جانب ایک لشکر روانہ کیا تو لوگوں نے سجدہ کے ذریعے بچاؤ اختیار کیا۔ لشکر والوں نے ان کے قتل میں جلدی کی۔ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصف دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیوں ؟ فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کی آگ کو نہ دیکھیں۔

18426

(١٨٤٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِدْرِیسَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ تُسَاکِنُوا الْمُشْرِکِینَ وَلاَ تُجَامِعُوہُمْ فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أَوْ جَامَعَہُمْ فَلَیْسَ مِنَّا ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٢٠) حضرت سمرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مشرکین میں رہائش نہ رکھو اور نہ تم ان کے ساتھ میل جول رکھو جس نے ان کے ساتھ میل جول یا رہائش رکھی وہ ہم میں سے نہیں۔

18427

(١٨٤٢١) وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُقَالُ ہَذِہِ غَدْرَۃُ فُلاَنٍ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٢١) حضرت عبداللہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں قیامت کے دن ہر دھوکا کرنے والے انسان کے لیے ایک جھنڈا ہوگا کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی عہد شکنی ہے۔

18428

(١٨٤٢٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ عَنِ السُّدِّیِّ عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ شَدَّادٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ الْخُزَاعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِذَا آمَنَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ عَلَی نَفْسِہِ ثُمَّ قَتَلَہُ فَأَنَا بَرِیئٌ مِنَ الْقَاتِلِ وَإِنْ کَانَ الْمَقْتُولُ کَافِرًا ۔ [صحیح ]
(١٨٤٢٢) عمرو بن حمق خزاعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی آدمی کسی شخص کو امان دے کر قتل کر دے تو میں قاتل سے بری ذمہ ہوں اگرچہ مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو۔

18429

(١٨٤٢٣) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُرَّۃُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ : کُنْتُ أَبْطَنَ شَیْئٍ بِالْمُخْتَارِ یَعْنِی الْکَذَّابَ قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ : دَخَلْتَ وَقَدْ قَامَ جِبْرِیلُ قَبْلُ مِنْ ہَذَا الْکُرْسِیِّ قَالَ فَأَہْوَیْتُ إِلَی قَائِمِ السَّیْفِ فَقُلْتُ مَا أَنْتَظِرُ أَنْ أَمْشِیَ بَیْنَ رَأْسِ ہَذَا وَجَسَدِہِ حَتَّی ذَکَرْتُ حَدِیثًا حَدَّثَنِیہِ عَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ الْخُزَاعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِذَا آمَنَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ عَلَی دَمِہِ ثُمَّ قَتَلَہُ رُفِعَ لَہُ لِوَائُ الْغَدْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ فَکَفَفْتُ عَنْہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٢٣) رفاعہ بن شداد کہتے ہیں : میں نے کپڑے کے نیچے مختار (کذاب) کے لیے کوئی چیز چھپائی۔ کہتے ہیں : میں ایک دن اس کے پاس گیا اس نے کہا : تو آیا ہے، جبرائیل (علیہ السلام) اس کرسی پر پہلے کھڑا تھا تو میں تلوار کے دستے کی جانب جھکا۔ میں نے کہا کہ میں اسے مہلت نہ دوں گا یہاں تک کہ میں اس کے سر اور جسم کے درمیان چلوں۔ لیکن پھر مجھے عمرو بن حمق خزاعی کی حدیث یاد آگئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جب کوئی شخص کسی فرد کو جان کی امان دے کر قتل کر دے تو قیامت کے دن اس کے لیے عہد شکنی کا جھنڈا لگایا جائے گا تو میں اس سے رک گیا۔

18430

(١٨٤٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ عَنِ ابْنِ الْہَادِ عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ خَیْبَرَ خَرَجَتْ سَرِیَّۃٌ فَأَخَذُوا إِنْسَانًا مَعَہُ غَنَمٌ یَرْعَاہَا فَجَائُ وا بِہِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَکَلَّمَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَا شَائَ اللَّہُ أَنْ یُکَلِّمَہُ بِہِ فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ : إِنِّی قَدْ آمَنْتُ بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہِ فَکَیْفَ بِالْغَنَمِ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَإِنَّہَا أَمَانَۃٌ وَہِیَ لِلنَّاسِ الشَّاۃُ وَالشَّاتَانِ وَأَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : احْصُبْ وُجُوہَہَا تَرْجِعْ إِلَی أَہْلِہَا ۔ فَأَخَذَ قَبْضَۃً مِنْ حَصْبَائٍ أَوْ تُرَابٍ فَرَمَی بِہِ وُجُوہَہَا فَخَرَجَتْ تَشْتَدُّ حَتَّی دَخَلَتْ کُلُّ شَاۃٍ إِلَی أَہْلِہَا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَی الصَّفِّ فَأَصَابَہُ سَہْمٌ فَقَتَلَہُ وَلَمْ یُصَلِّ لِلَّہِ سَجْدَۃً قَطُّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَدْخِلُوہُ الْخِبَائَ ۔ فَأُدْخِلَ خِبَائَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَتَّی إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَخَلَ عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ : لَقَدْ حَسُنَ إِسْلاَمُ صَاحِبِکُمْ لَقَدْ دَخَلْتُ عَلَیْہِ وَإِنَّ عِنْدَہُ لَزَوْجَتَیْنِ لَہُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ ۔ لَمْ أَکْتُبْہُ مَوْصُولاً إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ شُرَحْبِیلَ بْنِ سَعْدٍ وَقَدْ تَکَلَّمُوا فِیہِ ۔ (ت) وَرُوِیَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِیہِ مُرْسَلاً ۔ وَرُوِیَ عَنْ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ فِیہِ قِصَّۃٌ شَبِیہَۃٌ بِہَذِہِ إِلاَّ أَنَّہَا بِإِسْنَادٍ مُرْسَلٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٢٤) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ خیبر میں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ ایک چھوٹا لشکر نکلا، انھوں نے ایک انسان کو پکڑا جو بکریاں چرا رہا تھا۔ اسے لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بات چیت کی جو اللہ نے چاہا تو اس شخص نے کہا : میں آپ پر اور جو آپ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان رکھتا ہوں، اے اللہ کے رسول ! بکریوں کا کیا بنے گا ؟ کیونکہ یہ امانت ہے کسی کی ایک اور دو یا اس سے بھی زائد ہے۔ آپ نے فرمایا : تو ان کے چہروں پر کنکریاں پھینک یہ بکریاں اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلی جائیں گی۔ اس نے کنکریوں یا مٹی کی ایک مٹھی لی اور ان بکریوں کی طرف پھینکی تو وہ بھاگتی ہوئی ہر بکری اپنے مالکوں کے پاس پہنچ گئی۔ پھر یہ شخص مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تو ایک تیر لگنے کی وجہ سے یہ ہلاک ہوگیا اور اس نے اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کو خیمے میں داخل کر دو تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خیمے میں داخل کردیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فارغ ہوئے اس کے پاس آئے، پھر نکلے تو فرمایا تمہارے ساتھی کا اسلام اچھا تھا، میں اس کے پاس گیا تو اس کی دو بیویاں حور العین سے اس کے پاس موجود تھیں۔

18431

(١٨٤٢٥) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ : خَرَجَ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ تَاجِرًا إِلَی الشَّامِ وَکَانَ رَجُلاً مَأْمُونًا وَکَانَتْ مَعَہُ بَضَائِعُ لِقُرَیْشٍ فَأَقْبَلَ قَافِلاً فَلَقِیَہُ سَرِیَّۃٌ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَاسْتَاقُوا عِیرَہُ وَأَفْلَتَ وَقَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَا أَصَابُوا فَقَسَمَہُ بَیْنَہُمْ وَأَتَی أَبُو الْعَاصِ حَتَّی دَخَلَ عَلَی زَیْنَبَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فَاسْتَجَارَ بِہَا وَسَأَلَہَا أَنْ تَطْلُبَ لَہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَدَّ مَالِہِ عَلَیْہِ وَمَا کَانَ مَعَہُ مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - السَّرِیَّۃَ فَسَأَلَہُمْ فَرَدُّوا عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ حَتَّی قَدِمَ مَکَّۃَ فَأَدَّی عَلَی النَّاسِ مَا کَانَ مَعَہُ مِنْ بَضَائِعِہِمْ حَتَّی إِذَا فَرَغَ قَالَ : یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ہَلْ بَقِیَ لأَحَدٍ مِنْکُمْ مَعِی مَالٌ لَمْ أَرُدَّہُ عَلَیْہِ ؟ قَالُوا : لاَ فَجَزَاکَ اللَّہُ خَیْرًا قَدْ وَجَدْنَاکَ وَفِیًّا کَرِیمًا۔ فَقَالَ : أَمَّا وَاللَّہِ مَا مَنَعَنِی أَنْ أُسْلِمَ قَبْلَ أَنْ أَقْدَمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ تَخَوُّفًا أَنْ تَظُنُّوا أَنِّی إِنَّمَا أَسْلَمْتُ لأَذْہَبَ بِأَمْوَالِکُمْ فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ فِی الْمُسْلِمِ إِذَا أُسِرَ وَلَمْ یُؤَمِّنُوہُ وَلَمْ یَأْخُذُوا عَلَیْہِ أَنَّہُمْ آمِنُونَ مِنْہُ فَلَہُ أَخْذُ مَا قَدَرَ عَلَیْہِ مِنْ أَمْوَالِہِمْ وَإِفْسَادُہُ وَالْہَرَبُ مِنْہُمْ ۔ قَالَ الشَّیْخُ قَدْ رُوِّینَا حَدِیثَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی الْمَرْأَۃِ الْمُسْلِمَۃِ الَّتِی أَخَذَتِ النَّاقَۃَ وَہَرَبَتْ عَلَیْہَا۔ [ضعیف ]
(١٨٤٢٥) عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم فرماتے ہیں کہ ابو العاص بن ربیع شام کی جانب تجارت کی غرض سے نکلا اور یہ ایسا شخص تھا جس کو امان حاصل تھی۔ اس کے پاس قریش کا مال بھی تھا۔ جب قافلہ آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر نے اس قافلے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیا اور مال آپس میں تقسیم کرلیا۔ ابو العاص نے حضرت زینب کے پاس آ کر پناہ طلب کی اور ان سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے مال اور لوگوں کے مال کو واپس کرنے کا مطالبہ کریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سریے والوں کو بلا کر پوچھا تو انھوں نے مال واپس کردیا۔ ابو العاص نے مکہ آ کر لوگوں کے مال واپس کردیے۔ فارغ ہونے کے بعد کہنے لگے : اے قریش کے گروہ ! کیا کسی کا مال ہے کہ میں نے واپس نہ کیا ہو ؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ ہم نے تجھے معزز ادا کرنے والا پایا ہے۔ پھر کہا : میں نے اسلام صرف اس ڈر سے نہ قبول کیا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ ہمارے مال ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
امام شافعی (رح) مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں : جب قیدی بنایا جائے اور امان بھی نہ دی ہو اور وعدہ بھی نہ لیا ہو تو وہ ان کے مال کو حسب قدرت لے سکتا ہے خراب کرے یا لے کر بھاگ جائے۔
شیخ فرماتے ہیں کہ وہ مسلمہ عورت جو اونٹنی لے کر بھاگ گئی تھی۔

18432

(١٨٤٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہَا قَالَتْ : لَمَّا ضَاقَتْ عَلَیْنَا مَکَّۃُ فَذَکَرَتِ الْحَدِیثَ فِی ہِجْرَتِہِمْ إِلَی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ وَمَا کَانَ مِنْ بِعْثَۃِ قُرَیْشٍ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ اللَّہِ بْنَ أَبِی رَبِیعَۃَ إِلَی النَّجَاشِیِّ لِیُخْرِجَہُمْ مِنْ بِلاَدِہِ وَیَرُدَّہُمْ عَلَیْہِمْ وَمَا کَانَ مِنْ دُخُولِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَأَصْحَابِہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ عَلَی النَّجَاشِیِّ قَالَ فَقَالَ النَّجَاشِیُّ : ہَلْ مَعَکُمْ شَیْئٌ مِمَّا جَائَ بِہِ ؟ فَقَالَ لَہُ جَعْفَرٌ : نَعَمْ فَقَرَأَ عَلَیْہِ صَدْرًا مِنْ { کٓھٰیٰعٓصٓ} [مریم ١] فَبَکَی وَاللَّہِ النَّجَاشِیُّ حَتَّی أَخْضَلَ لِحْیَتَہُ وَبَکَتْ أَسَاقِفَتُہُ حَتَّی أَخْضَلُوا مَصَاحِفَہُمْ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ ہَذَا الْکَلاَمَ لَیَخْرُجُ مِنَ الْمِشْکَاۃِ الَّتِی جَائَ بِہَا مُوسَی انْطَلِقُوا رَاشِدِینَ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی تَصْوِیرِہِمَا لَہُ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ فِی عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَنَّہُ عَبْدٌ فَدَخَلُوا عَلَیْہِ وَعِنْدَہُ بَطَارِقَتُہُ فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِی عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَقَالَ لَہُ جَعْفَرٌ نَقُولُ ہُوَ عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ وَکَلِمَتُہُ وَرُوحُہُ أَلْقَاہَا إِلَی مَرْیَمَ الْعَذْرَائِ الْبَتُولِ فَدَلَّی النَّجَاشِیُّ یَدَہُ إِلَی الأَرْضِ فَأَخَذَ عُوَیْدًا بَیْنَ إِصْبَعَیْہِ فَقَالَ مَا عَدَا عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ مَا قُلْتَ ہَذَا الْعُوَیْدَ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَتْ : فَلَمْ یَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عَلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْحَبَشَۃِ یُنَازِعُہُ فِی مُلْکِہِ فَوَاللَّہِ مَا عَلِمْتُنَا حَزِنَّا حُزْنًا قَطُّ کَانَ أَشَدَّ مِنْہُ فَرَقًا مِنْ أَنْ یَظْہَرَ ذَلِکَ الْمَلِکُ عَلَیْہِ فَیَأْتِی مَلِکٌ لاَ یَعْرِفُ مِنْ حَقِّنَا مَا کَانَ یَعْرِفُ فَجَعَلْنَا نَدْعُو اللَّہَ وَنَسْتَنْصِرُہُ لِلنَّجَاشِیِّ فَخَرَجَ إِلَیْہِ سَائِرًا فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ مَنْ رَجُلٌ یَخْرُجُ فَیَحْضُرَ الْوَقْعَۃَ حَتَّی یَنْظُرَ عَلَی مَنْ تَکُونُ فَقَالَ الزُّبَیْرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ مِنْ أَحْدَثِہِمْ سِنًّا أَنَا فَنَفَخُوا لَہُ قِرْبَۃً فَجَعَلَہَا فِی صَدْرِہِ ثُمَّ خَرَجَ یَسْبَحُ عَلَیْہَا فِی النِّیلِ حَتَّی خَرَجَ مِنَ الشِّقَۃِ الأُخْرَی إِلَی حَیْثُ الْتَقَی النَّاسُ فَحَضَرَ الْوَقْعَۃَ فَہَزَمَ اللَّہُ ذَلِکَ الْمَلِکَ وَقَتَلَہُ وَظَہَرَ النَّجَاشِیُّ عَلَیْہِ فَجَائَ نَا الزُّبَیْرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَجَعَلَ یُلِیحُ إِلَیْنَا بِرِدَائِہِ وَیَقُولُ أَلاَ أَبْشِرُوا فَقَدْ أَظْہَرَ اللَّہُ النَّجَاشِیَّ فَوَاللَّہِ مَا فَرِحْنَا بِشَیْئٍ فَرَحَنَا بِظُہُورِ النَّجَاشِیِّ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٢٦) ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام حضرت ام سلمہ (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ جب مکہ کی زمین ہمارے اوپر تنگ ہو گئی۔۔۔ انھوں نے اپنی ہجرتِ حبشہ کا قصہ ذکر کیا اور قریش کا عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو نجاشی کے پاس روانہ کرنا تاکہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے پاس واپس کر دے اور جعفر بن ابی طالب (رض) اور دیگر ساتھی نجاشی کے پاس گئے تو نجاشی نے پوچھا : وہ نبی تمہارے پاس کیا لیکر آئے ہیں ؟ تو جعفر (رض) نے کہا : ہاں اور سورة مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر سنائی تو نجاشی کی روتے روتے داڑھی تر ہوگئی اور ان کے پادریوں کے روتے ہوئے مصاحف بھی تر ہوگئے۔ اس نے کہا کہ یہ کلام تو وہاں سے ہی آتی ہے جس طرح موسیٰ کے پاس آئی تھی۔ تم ہدایت یافتہ ہو کر چلو۔ پھر اس نے ان کے تصورات کے بارے میں حدیث ذکر کی کہ وہ عیسیٰ بن مریم کو بندہ خیال کرتے ہیں۔ وہ صحابہ کے پاس آئے جو رات کو ان کے پاس تھے کہ تم عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت جعفر (رض) نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں، جو اللہ نے حضرت مریم میں پھونک ڈالا تو نجاشی نے زمین سے ایک تنکا پکڑ کر کہا کہ عیسیٰ بن مریم اس تنکے سے زیادہ نہ تھے جو اس نے ان کے بارے میں کہا۔ پھر اس نے حدیث ذکر کی۔ فرماتی ہیں کہ پھر حبشی شخص اس کی بادشاہت کے بارے میں جھگڑا کرے گا۔ اللہ کی قسم ! ہمیں یہ جان کر بہت غم ہوا کہ کوئی دوسرا بادشاہ اس پر غلبہ حاصل کرلے کہ وہ ایسا بادشاہ ہو جو ہمارے حقوق کو نہ جانتا ہو جن کو یہ جانتا ہے۔ ہم نے اللہ سے دعا کی اور نجاشی کے لیے مدد طلب کر رہے تھے تو صحابہ ایک دوسرے سے کہنے لگے : کون اس واقعہ میں حاضر ہو کر دیکھے گا کہ کیا بنتا ہے ؟ تو حضرت زبیر (رض) نے حامی بھری۔ یہ ابھی نوجوان تھے۔ انھوں نے زبیر (رض) کو کہا : ایک تکیے کے اندر ہوا بھر کردی۔ جس کے اوپر تیر کر انھوں نے دریائے نیل کو عبور کرلیا اور دوسری جانب جا پہنچے جہاں لڑائی ہو رہی تھی۔ جنگ ہوئی تو اللہ نے اس بادشاہ کو شکست دی اور وہ مارا گیا۔ نجاشی کو فتح نصیب ہوئی تو زبیر (رض) نے چادر ہلا کر ہمیں اطلاع دی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اللہ نے نجاشی کو فتح نصیب فرمائی ہے تو ہمیں نجاشی کی فتح کی بڑی خوشی ہوئی۔

18433

(١٨٤٢٧) قَالَ الشَّیْخُ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ فَذَکَرَ حَدِیثَ صُلْحِ الْحُدَیْبِیَۃِ وَذَکَرَ فِیہِ قِصَّۃَ أَبِی جَنْدَلٍ وَأَبِی بَصِیرٍ بِنَحْوٍ مِنْ ہَذَا وَأَتَمَّ مِنْہُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَإِنَّمَا رَدَّ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَبَا جَنْدَلٍ إِلَیْہِمْ لأَنَّہُ کَانَ لاَ یُخَافُ عَلَیْہِ فِی الرَّدِّ لِمَکَانَ أَبِیہِ وَکَذَلِکَ أَشَارَ عَلَی أَبِی بَصِیرٍ بِالرُّجُوعِ إِلَیْہِمْ فِی الاِبْتِدَائِ لِذَلِکَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَسَیَرِدُ کَلاَمُ الشَّافِعِیِّ إِنْ شَائَ اللَّہُ عَلَیْہِ فِی کِتَابِ الْجِزْیَۃِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٨٣٤٢]
(١٨٤٢٧) مسور بن مخرمہ (رض) اور مسروق بن حکم (رض) نے حدیبیہ کی صلح حدیث ذکر کی۔ اس میں ابو جندل (رض) ، اور ابو بصیر (رض) کا واقع ذکر کیا اور وہ اس سے زیادہ مکمل بھی ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : ابو جندل (رض) کو صرف اس لیے واپس فرمایا کہ مرتد ہونے کا خطرہ نہ تھا اور اس طرح ابتداء میں ابو بصیر (رض) کو واپس کردیا تھا۔

18434

(١٨٤٢٨) وَفِی مِثْلِ ہَذَا مَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی وَأَبُو صَادِقٍ الْعَطَّارُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیِّ بْنِ أَبِی رَافِعٍ حَدَّثَہُ أَنَّ أَبَا رَافِعٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّہُ أَقْبَلَ بِکِتَابٍ مِنْ قُرَیْشٍ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فَلَمَّا رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُلْقِیَ فِی قَلْبِیَ الإِسْلاَمُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی وَاللَّہِ لاَ أَرْجِعُ إِلَیْہِمْ أَبَدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنِّی لاَ أَخِیسُ بِالْعَہْدٌ وَلاَ أَحْبِسُ الْبُرُدَ وَلَکِنِ ارْجِعْ فَإِنْ کَانَ فِی قَلْبِکَ الَّذِی فِی قَلْبِکَ الآنَ فَارْجِعْ ۔ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَسْلَمْتُ قَالَ بُکَیْرُ وَأَخْبَرَنِی أَنَّ أَبَا رَافِعٍ کَانَ قِبْطِیًّا۔ [صحیح ]
(١٨٤٢٨) ابو رافع (رض) فرماتے ہیں کہ قریش کا خط نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ راوی کہتے ہیں : جب میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام پختہ ہوگیا۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں واپس نہ جاؤں گا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں عہد کو نہیں توڑتا اور نہ ہی قاصد کو روکتا ہوں۔ جاؤ اگر آپ کے دل میں یہی بات ہے تو واپس پلٹ آنا۔ کہتے ہیں : میں واپس چلا گیا اور واپس آ کر مسلمان ہوگیا اور ابو رافع (رض) قبطی آدمی تھا۔

18435

(١٨٤٢٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ وَقَدْ سَمِعْتُہُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ جُمَیْعٍ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَیْلِ حَدَّثَنَا حُذَیْفَۃُ بْنُ الْیَمَانِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلاَّ أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی : حُسَیْلٌ قَالَ فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ فَقَالُوا إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا مَا نُرِیدُہُ مَا نُرِیدُ إِلاَّ الْمَدِینَۃَ فَأَخَذُوا عَلَیْنَا عَہْدَ اللَّہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَلاَ نُقَاتِلُ مَعَہُ فَأَتَیْنَا النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ فَقَالَ : انْصَرِفَا نَفِی لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ وَنَسْتَعِینُ بِاللَّہِ عَلَیْہِمْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرٍ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَہَذَا لأَنَّہُ لَمْ یُؤَدِّ انْصِرَافُہُمَا إِلَی تَرْکِ فَرْضٍ إِذْ لَمْ یَکُنْ خُرُوجُہُمَا وَاجِبًا عَلَیْہِمَا وَلاَ إِلَی ارْتِکَابِ مَحْظُورٍ وَالْعَوْدُ إِلَیْہِمْ وَالإِقَامَۃُ بَیْنَ أَظْہُرِہِمْ مِمَّا لاَ یَجُوزُ إِذَا کَانَ یَخَافُ الْفِتْنَۃَ عَلَی نَفْسِہِ فِی الْعَوْدِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٨٧]
(١٨٤٢٩) حذیفہ بن یمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں بدر میں حاضر نہ ہوا، اس وجہ سے کہ میں اور میرے والد حیل نامی جگہ گئے تو کفار قریش نے پکڑ لیا۔ انھوں نے کہا : تم مکہ کا ارادہ رکھتے ہو۔ ہم نے نفی میں جواب دیا کہ ہم مدینہ جانا چاہتے ہیں تو انھوں نے ہم سے وعدہ لیا کہ وہ مدینہ جائیں گے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملکر لڑائی نہ کریں گے۔ ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آ کر بتایا۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مدینہ جاؤ ہم وعدہ کی پاسداری کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے مدد طلب کریں گے۔
شیخ فرماتے ہیں : قرض کے ترک کی وجہ سے وہ واپس نہیں ہوئے۔ جب ان پر نکلنا بھی فرض نہ تھا اور نہ ہی انھوں نے حرام کا ارتکاب کیا۔ قیام وقعود میں ان کے لیے فتنہ کا ڈر تھا۔

18436

(١٨٤٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا بَعْضُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ الزُّہْرِیِّ : أَنَّ مُسْرِفًا قَدَّمَ یَزِیدَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَمْعَۃَ یَوْمَ الْحَرَّۃِ لِیَضْرِبَ عُنُقَہُ فَطَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَلَمْ یَدْخُلْ بِہَا فَسَأَلُوا أَہْلَ الْعِلْمِ فَقَالُوا لَہَا نِصْفُ الصَّدَاقِ وَلاَ مِیرَاثَ لَہَا۔ [ضعیف ]
(١٨٤٣٠) زہری (رض) فرماتے ہیں کہ مسرف نے یزید بن عبداللہ کو حرہ کے دن قتل کے لیے پیش کیا۔ اس نے اپنی غیر مدخول بھا عورت کو طلاق دے دی۔ انھوں نے اہل علم سے پوچھا تو فرماتے ہیں : اس کو آدھا حق مہر ملے گا اور وراثت نہ ملے گی۔

18437

(١٨٤٣١) وَبِإِسْنَادِہِ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ عَامَّۃَ صَدَقَاتِ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ تَصَدَّقَ بِہَا وَفَعَلَ أُمُورًا وَہُوَ وَاقِفٌ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ یَوْمَ الْجَمَلِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَرُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَحِمَہُ اللَّہُ وَابْنِ الْمُسَیَّبِ رَحِمَہُ اللَّہُ أَنَّہُمَا قَالاَ : إِذَا کَانَ الرَّجُلُ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ یُقَاتِلُ فَمَا صَنَعَ فَہُوَ جَائِزٌ۔ وَرُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ رَحِمَہُ اللَّہُ : عَطِیَّۃُ الْحُبْلَی جَائِزَۃٌ حَتَّی تَجْلِسَ بَیْنَ الْقَوَابِلِ ۔ وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَابْنُ الْمُسَیَّبِ : عَطِیَّۃُ الْحَامِلِ جَائِزَۃٌ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ وَبِہَذَا کُلُّہُ نَقُولُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ حَدِیثُ الزُّبَیْرِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَدْ رُوِّینَاہُ فِی کِتَابِ الْوَصَایَا بِطُولِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٣١) ہشام اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ زبیر (رض) کے عام صدقات جو وہ صدقہ کرتے اور بعض کام وہ گھوڑے پر سوار ہو کر سر انجام دیا کرتے تھے۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : عمر بن عبد العزیز اور سعیدبن مسیب (رض) دونوں گھوڑے پر سوار ہو کر قتال کرتے۔ جو بھی کیا جائے جائز ہے۔ عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ حاملہ کا عطیہ جائز ہے یہاں تک کہ وہ بچہ جنم دینے کے لیے بیٹھ جائے۔ قاسم بن محمد اور سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ حاملہ کا عطیہ دینا جائز ہے۔

18438

(١٨٤٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ الأَصْبَہَانِیُّ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَۃَ حَلِیفِ بَنِی زُہْرَۃَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَشَرَۃَ رَہْطٍ عَیْنًا وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الأَقْلَحِ وَہُوَ جَدُّ عَاصِمٍ یَعْنِی ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَانْطَلَقُوا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّۃَ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ یُقَالُ لَہُمْ بَنُو لِحْیَانَ فَنَفَرُوا لَہُمْ بِمَائَۃِ رَجُلٍ رَامٍ فَاتَّبَعُوا آثَارَہُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَہُمُ التَّمْرَ فَقَالُوا ہَذِہِ تَمْرُ یَثْرِبَ فَلَمَّا أَحَسَّ بِہِمُ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ لَجَئُوا إِلَی قَرْدَدٍ یَعْنِی فَأَحَاطَ بِہِمُ الْقَوْمُ فَقَالُوا : انْزِلُوا وَلَکُمُ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ لاَ یُقْتَلَ مِنْکُمْ أَحَدٌ فَقَالَ عَاصِمٌ : أَمَّا أَنَا فَوَاللَّہِ لاَ أَنْزِلُ فِی ذِمَّۃِ کَافِرٍ الْیَوْمَ اللَّہُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِیَّکَ السَّلاَمَ فَقَاتَلُوہُمْ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعَۃٌ وَنَزَلَ ثَلاَثَۃٌ عَلَی الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ فَلَمَّا اسْتَمْکَنُوا مِنْہُمْ حَلُّوا أَوْتَارَ قِسِیِّہِمْ وَکَتَّفُوہُمْ فَلَمَّا رَأَی ذَلِکَ مِنْہُمْ أَحَدُ الثَّلاَثَۃِ قَالَ ہُوَ وَاللَّہِ أَوَّلُ الْغَدْرِ فَعَالَجُوہُ فَقَتَلُوہُ وَانْطَلَقُوا بِخُبَیْبِ بْنِ عَدِیٍّ وَزَیْدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ فَانْطَلَقُوا بِہِمَا إِلَی مَکَّۃَ فَبَاعُوہُمَا وَذَلِکَ بَعْدَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ فَاشْتَرَی بَنُو الْحَارِثِ خُبَیْبًا وَکَانَ قَتَلَ الْحَارِثَ یَوْمَ بَدْرٍ قَالَتِ ابْنَۃُ الْحَارِثِ : فَکَانَ خُبَیْبٌ أَسِیرًا عِنْدَنَا فَوَاللَّہِ إِنْ رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ کَانَ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ وَاللَّہِ لَقَدْ رَأَیْتُہُ یَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ وَمَا بِمَکَّۃَ یَوْمَئِذٍ مِنْ ثَمَرَۃٍ وَإِنْ ہُوَ إِلاَّ رِزْقٌ رَزَقَہُ اللَّہُ خُبَیْبًا قَالَتْ فَاسْتَعَارَ مِنِّی مُوسَی یَسْتَحِدُّ بِہِ لِلْقَتْلِ قَالَتْ فَأَعَرْتُہُ إِیَّاہُ وَدَرَجَ بُنَیٌّ لِی وَأَنَا غَافِلَۃٌ فَرَأَیْتُہُ مُجْلِسَہُ عَلَی صَدْرِہِ قَالَتْ فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً عَرَفَہَا خُبَیْبٌ قَالَتْ فَفَطِنَ بِی فَقَالَ أَتَحْسَبِینِی أَنِّی قَاتِلُہُ مَا کُنْتُ لأَفْعَلَہُ قَالَتْ فَلَمَّا أَجْمَعُوا عَلَی قَتْلِہِ قَالَ لَہُمْ دَعُونِی أُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ قَالَتْ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ فَقَالَ : لَوْلاَ أَنْ تَحْسَبُوا أَنَّ بِی جَزَعًا لَزِدْتُ قَالَ فَکَانَ خُبَیْبٌ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الصَّلاَۃَ لِمَنْ قُتِلَ صَبْرًا ثُمَّ قَالَ اللَّہُمَّ أَحْصِہِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا وَلاَ تُبْقِ مِنْہُمْ أَحَدًا وَأَنْشَأَ یَقُولُ : فَلَسْتُ أُبَالِی حَیْثُ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَی أَیِّ حَالٍ کَانَ فِی اللَّہِ مَصْرَعِی وَذَلِکَ فِی جَنْبِ الإِلَہِ وَإِنْ یَشَأْ یُبَارِکْ عَلَی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ قَالَ : وَبَعَثَ الْمُشْرِکُونَ إِلَی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ لِیُؤْتَوْا مِنْ لَحْمِہِ بِشَیْئٍ وَکَانَ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ عُظَمَائِہِمْ فَبَعَثَ اللَّہُ مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدَّبْرِ فَحَمَتْہُ مِنْ رُسُلِہِمْ فَلَمْ یَسْتَطِیعُوا أَنْ یَأْخُذُوا مِنْ لَحْمِہِ شَیْئًا۔ [صحیح۔ بخاری ٣٠٤٥]
(١٨٤٣٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس افراد کا گروہ روانہ کیا۔ جن کے امیر عاصم بن ثابت بن ابی اقلع تھے۔ یہ عاصم کے دادا ہیں، یعنی حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب (رض) ۔ جب وہ چلتے ہوئے عسفان اور مکہ کے درمیان ایک بلند جگہ پر پہنچے تو ہذیل نامی قبیلے کا تذکرہ کیا گیا جن کو بنو لحیان کہا جاتا تھا۔ ان کے سو تیر اندازوں نے ان صحابہ کا پیچھا کیا اور انھیں کھجوریں کھاتے ہوئے پا لیا۔ انھوں نے کہا : یہ یثرب کی کھجوریں ہیں، جب عاصم اور ساتھیوں نے محسوس کرلیا کہ لوگوں نے انھیں گھیر لیا ہے تو انھوں نے کہا : تم اترو اور تم سے عہد وپیما ہے۔ تم میں سے کسی کو قتل نہ کیا جائے گا۔ عاصم نے کہا : میں کسی کافر کے عہد میں نہ اتروں گا۔ اے اللہ ! ہماری جانب سے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام بھیج دینا۔ انھوں نے ان سے قتال کیا۔ سات شہید ہوگئے۔ تین افراد نے ان کے عہد وپیما کو قبول کرلیا۔ جب انھوں نے ان پر غلبہ پا لیا اور ان کی کمان کی تندی کو اتار کر ان کے بازو پچھلی جانب باندھ لیے۔ جب ان تینوں میں سے ایک نے دیکھا تو کہنے لگا : یہ پہلا دھوکا ہے تو انھوں نے اس کو قتل کر ڈالا۔ خبیب بن عدی زید بن دثنہ کو مکہ لا کر فروخت کردیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کی بات ہے۔ بنو حارث نے خبیب کو خرید لیا۔ خبیب نے بدر کے دن حارث کو قتل کیا تھا۔ حارث کی بیٹی کہتی ہے کہ خبیب ہمارے پاس قیدی تھے۔ اللہ کی قسم ! میں نے خبیب سے بہتر قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے اس کو انگوروں کے گچھے کھاتے ہوئے دیکھا۔ حالانکہ وہ پھل مکہ میں موجود نہیں تھا۔ یہ اللہ رب العزت نے خبیب کو رزق عطا کیا تھا۔ کہتی ہے : خبیب نے مجھ سے استرا مانگا تاکہ قتل کی تیاری کیلئے وہ زیر ناف بال صاف کرے۔ کہتی ہے : میں نے اس کو دے دیا۔ میرا چھوٹا بیٹا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس سے غافل تھی۔ جب میں نے اس کو دیکھا تو وہ اس کے سینے پر بیٹھا ہوا تھا۔ کہتی ہیں : میں گھبرائی جسے خبیب پہچان گئے۔ کہتی ہیں : اس نے مجھے تسلی دی اور کہا : تو میرے بارے میں گمان رکھتی ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں گا۔ میں ایسا کرنے والا نہیں۔ کہتی ہے کہ جب تمام لوگ اس کو قتل کرنے پر جمع ہوگئے تو اس نے کہا : مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو ۔ کہتی ہے : خبیب نے دو رکعت نماز ادا کی اور فرمانے لگے : اگر تم میرے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ میں ڈر گیا ہوں تو میں مزید نماز ادا کرتا۔ راوی کہتے ہیں کہ خبیب پہلا انسان ہے جس نے باندھ کر قتل کیے جانے کے وقت نماز پڑھنے کی سنت جاری کی اور پھر فرمایا : اے اللہ ! ان کو شمار کرلے اور ان کو ایک ایک کر کے قتل کرنا۔ ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑ اور یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
مجھے کوئی پروا نہیں جب میں حالت اسلام میں قتل کیا جاؤں اور کسی حالت میں اللہ کی راہ میں گرایا جاؤں۔
اور یہ میرا مرنا اللہ کے حق میں ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو اپنی برکت سے بکھرے جوڑ ملا دے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ مشرکین نے عاصم بن ثابت کو بھیجا کہ وہ اس کا کچھ گوشت لیکر آئے اور ان کے قبیلے کے بڑے آدمی نے اس کو قتل کیا تھا۔ اللہ رب العزت نے شہید کی مکھیوں کا ایک جھنڈ چھتری کی مثل بھیج دیا۔ جس نے ان کے قاصد سے حفاظت کی تو وہ اس کا گوشت نہ لے جاسکا۔

18439

(١٨٤٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ یَعْنِی ابْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ شِہَابٍ أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ جَارِیَۃَ الثَّقَفِیُّ حَلِیفُ بَنِی زُہْرَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ مُخْتَصَرًا دُونَ الشِّعْرِ وَدُونَ قِصَّۃِ عَاصِمٍ فِی آخِرِہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُوسَی بْنِ إِسْمَاعِیلَ بِطُولِہِ قَالَ وَأَخْبَرَنِی ابْنُ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَۃَ وَہُوَ عَمْرُو بْنُ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَۃَ الثَّقَفِیُّ وَقِیلَ عُمَرُ بْنُ أَسِیدٍ قَالَ الْبُخَارِیُّ الأَوَّلُ أَصَحُّ یَعْنِی عَمْرَو بْنَ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ أَسِیدٍ أَصَحُّ وَکَذَلِکَ قَالَہُ شُعَیْبُ بْنُ أَبِی حَمْزَۃَ وَمَعْمَرٌ وَیُونُسُ وَغَیْرُہُمْ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس کے ہم معنی مختصر حدیث ذکر کی۔ جس میں اشعار اور عاصم کے قصے کا ذکر نہیں ہے۔

18440

(١٨٤٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ ہَاشِمِ بْنِ حَیَّانَ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُرَادِیُّ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَا وَالزُّبَیْرَ وَالْمِقْدَادَ فَقَالَ : انْطَلِقُوا حَتَّی تَأْتُوا رَوْضَۃَ خَاخٍ فَإِنَّ بِہَا ظَعِینَۃً مَعَہَا کِتَابٌ ۔ فَخَرَجْنَا تَعَادَی بِنَا خَیْلُنَا فَإِذَا نَحْنُ بِظَعِینَۃٍ فَقُلْنَا أَخْرِجِی الْکِتَابَ فَقَالَتْ مَا مَعِیَ کِتَابٌ فَقُلْنَا لَہَا لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَنُلْقِیَنَّ الثِّیَابَ فَأَخْرَجَتْہُ مِنْ عِقَاصِہَا فَأَتَیْنَا بِہِ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَإِذَا فِیہِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلَی أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِمَّنْ بِمَکَّۃَ یُخْبِرُ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : مَا ہَذَا یَا حَاطِبُ ؟ ۔ قَالَ : لاَ تَعْجَلْ عَلَیَّ إِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِی قُرَیْشٍ وَلَمْ أَکُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا وَکَانَ مَنْ مَعَکَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ یَحْمُونَ بِہَا قَرَابَاتِہِمْ وَلَمْ یَکُنْ لِی بِمَکَّۃَ قَرَابَۃٌ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِی ذَلِکَ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَہُمْ یَدًا وَاللَّہِ مَا فَعَلْتُہُ شَکًّا فِی دِینِی وَلاَ رِضًا بِالْکُفْرِ بَعْدَ الإِسْلاَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّہُ قَدْ صَدَقَ ۔ فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ دَعْنِی أَضْرِبُ عُنُقَ ہَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللَّہُ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔ وَنَزَلَتْ { یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَائَ تُلْقُونَ إِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ } [الممتحنۃ ١] أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ جَمَاعَۃٍ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٣٤) عبید اللہ بن ابی رافع کہتے ہیں : میں نے حضرت علی (رض) سے سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے، زبیر (رض) اور مقداد کو روانہ کیا اور فرمایا کہ تم روضہ خاخ نامی جگہ جاؤ وہاں ایک عورت ہوگی جس کے پاس ایک خط ہے۔ ہم نے اپنے گھوڑے بھگائے وہاں پہنچے تو ایک عورت تھی۔ ہم نے خط مانگا تو وہ کہنے لگی میرے پاس خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا : خط نکالو وگرنہ تجھے تنگی کردیں گے تو اس نے اپنی مینڈھیوں سے خط نکال کر دے دیا۔ ہم اسے لیکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ اس میں تھا کہ یہ حاطب بن ابی بلتعہ کی جانب سے مشرکین مکہ کی طرف ہے۔ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض خبریں دی گئی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : اے حاطب ! یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ جلدی نہ کریں، میں باہر سے آ کر مہاجرین میں ان کی وہاں رشتہ داریاں ہیں تو وہ لوگ اپنے رشتے داروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ میری مکہ میں میرا کوئی قریبی نہیں ہے تو میں نے چاہا۔ اس کی جگہ میں ان پر کوئی احسان کر دوں۔ اللہ کی قسم ! میں نے دین کے بارے میں شک کرتے ہوئے اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس نے سچ کہا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہنے لگے : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اتار دوں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ بدری ہے کیا آپ کو معلوم نہیں اللہ رب العزت نے بدر والوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو تم چاہو عمل کرو، میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اور یہ آیت نازل ہوئی : { یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃ } [الممتحنۃ ١]
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تم اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کی جانب محبت کے پیغام بھیجتے ہو۔

18441

(١٨٤٣٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ حُصَیْنٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ وَحَیَّانَ بْنِ عَطِیَّۃَ السُّلَمِیِّ : أَنَّہُمَا کَانَا یَتَنَازَعَانِ فِی عَلِیٍّ وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا وَکَانَ حَیَّانُ یُحِبُّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ یُحِبُّ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُہُ یُحَدِّثُ یَعْنِی عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ کَتَبَ حَاطِبُ بْنُ أَبِی بَلْتَعَۃَ إِلَی مَکَّۃَ أَنَّ مُحَمَّدًا یُرِیدُ أَنْ یَغْزُوَکُمْ بِأَصْحَابِہِ فَخُذُوا حِذْرَکُمْ وَدَفَعَ کِتَابَہُ إِلَی امْرَأَۃٍ یُقَالُ لَہَا سَارَۃُ فَجَعَلَتْہُ فِی إِزَارِہَا فِی ذُؤَابَۃٍ مِنْ ذَوَائِبِہَا فَانْطَلَقَتْ فَأَطْلَعَ اللَّہُ رَسُولَہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی ذَلِکَ قَالَ عَلِیٌّ فَبَعَثَنِی وَمَعِی الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَأَبُو مَرْثَدٍ الْغَنَوِیُّ وَکُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ : انْطَلِقُوا فَإِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَہَا بِرَوْضَۃِ کَذَا وَکَذَا فَفَتِّشُوہَا فَإِنَّ مَعَہَا کِتَابًا إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ مِنْ حَاطِبٍ ۔ فَانْطَلَقْنَا فَوَافَقْنَاہَا فَقُلْنَا ہَاتِی الْکِتَابَ الَّذِی مَعَکِ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ فَقَالَتْ مَا مَعِیَ کِتَابٌ قَالَ قُلْتُ مَا کَذَبْتُ وَلاَ کُذِّبْتُ لَتُخْرِجِنَّہُ أَوْ لأُجَرِّدَنَّکِ فَلَمَّا عَرَفَتْ أَنِّی فَاعِلٌ أَخْرَجَتِ الْکِتَابَ فَأَخَذْنَاہُ فَانْطَلَقْنَا بِہِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَفَتَحَہُ فَقَرَأَہُ فَإِذَا فِیہِ : مِنْ حَاطِبٍ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مُحَمَّدًا یُرِیدُکُمْ فَخُذُوا حِذْرَکُمْ وَتَأَہَّبُوا أَوْ کَمَا قَالَ فَلَمَّا قَرَأَ الْکِتَابَ أَرْسَلَ إِلَی حَاطِبٍ فَقَالَ لَہُ : أَکَتَبْتَ ہَذَا الْکِتَابَ ؟ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ قَالَ : فَمَا حَمَلَکَ عَلَی ذَلِکَ ؟ ۔ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمَّا وَاللَّہِ مَا کَفَرْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَإِنِّی لِمُؤْمِنٌ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَمَا حَمَلَنِی عَلَی مَا صَنَعْتُ مِنْ کِتَابِی إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِکَ إِلاَّ وَلَہُ ہُنَاکَ بِمَکَّۃَ مَنْ یَدْفَعُ عَنْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَلَمْ یَکُنْ لِی ہُنَاکَ أَحَدٌ یَدْفَعُ عَنْ أَہْلِی وَمَالِی فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَ الْقَوْمِ یَدًا وَإِنِّی لأَعْلَمُ أَنَّ اللَّہَ سَیُظْہِرُ رَسُولَہُ عَلَیْہِمْ قَالَ فَصَدَّقَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَبِلَ قَوْلَہُ قَالَ فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ دَعْنِی فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ فَإِنَّہُ قَدْ خَانَ اللَّہَ وَالْمُؤْمِنِینَ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا عُمَرُ إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ بَدْرٍ وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللَّہَ اطَّلَعَ عَلَیْہِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ ہُشَیْمٍ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ إِدْرِیسَ وَغَیْرِہِ عَنْ حُصَیْنٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : تَجَافَوْا لِذَوِی الْہَیْئَاتِ ۔ وَقِیلَ فِی الْحَدِیثِ : مَا لَمْ یَکُنْ حَدًّا ۔ فَإِذَا کَانَ ہَذَا مِنَ الرَّجُلِ ذِی الْہَیْئَۃِ وَقِیلَ بِجَہَالَۃٍ کَمَا کَانَ ہَذَا مِنْ حَاطِبٍ بِجَہَالَۃٍ وَکَانَ غَیْرُ مُتَّہَمٍ أَحْبَبْتُ أَنْ یَتَجَافَی لَہُ وَإِذَا کَانَ مِنْ غَیْرِ ذِی الْہَیْئَۃِ کَانَ لِلإِمَامِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ تَعْزِیرُہُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٣٥) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حاطب بن ابی بلتعہ نے مکہ والوں کو خط لکھا کہ محمد تم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنا دفاع کرو اور یہ خط دے کر سائرہ نامی عورت کو روانہ کردیا تو اس نے خط کو میڈھیوں کے اندر چھپالیا۔ وہ چل پڑی۔ ادھر اللہ رب العزت نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دے دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) ، زبیر بن عوام (رض) اور ابومرثدغنوی (رض) ۔ تمام شاہسواروں کو بھیج دیا اور فرمایا کہ تم فلاں جگہ ایک عورت کو ملو گے۔ اس کی تلاشی لینا۔ اس کے پاس حاطب کی جانب سے مکہ والوں کے نام ایک خط ہے۔ کہتے ہیں : ہم چلے اسی جگہ ہم نے عورت کو پایا۔ ہم نے کہا :۔ مکہ والوں کے نام خط ہے۔ وہ نکال دے۔ اس نے کہا : میرے پاس کوئی خط نہیں۔ کہتے ہیں : میں نے کہا : نہ تو میں جھوٹ بولتا ہوں اور نہ میں تکذیب کرتا ہوں تو خط نکال دے یا میں تیرے کپڑے اتار دوں گا۔ جب اس نے جان لیا کہ یہ ایسا ہی کریں گے۔ تو اس نے خط نکال دیا تو ہم لیکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھول کر پڑھا تو اس میں تھا کہ حاطب کی جانب سے مکہ والوں کی طرف کہ محمد تم پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تم اپنے دفاع کی تیاری کرو۔ جب آ نے خط پڑھا تو حاطب کو بلایا۔ آپ نے جو چھا : تو نے یہ خط لکھا ؟ اس نے کہا : ہاں۔ پوچھا : تجھے کس چیز نے اس پر ابھارا تو حاطب نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اسلام لانے کے بعد میں نے کفر نہیں کیا۔ میں اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں نے خط حرف اس لیے لکھا کہ مکہ میں میرے اہل و مال کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں، جس طرح دوسرے صحابہ کے مکہ میں موجود ہیں۔ میں صرف ان لوگوں پر احسان کرنا چاہتا تھا اور مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ اللہ آپ کے رسول کو غالبہ دیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تصدیق کی اور عذر قبول کرلیا۔ راوی کہتے کہ حضرت عمر (رض) نے ان کے قتل کی اجازت طلب کی۔ کیونکہ اس نے اللہ ورسول سے خیانت کی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عمر ! یہ بدری ہے۔ آپ کہ کیا معلوم کہ اللہ نے ان پر جھانک لیا اور فرمایا : جو تمہارا دل چاہے عمل کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔
(ب) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ تم معزز لوگوں سے حدوں کو دور کرو۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ یہ حد نہ تھی اور جب یہ شخص معزز لوگوں سے ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہالت کی وجہ سے حد نہ لگائی جائے جیسے حاطب بن ابی بلتعہ سے بھول ہوئی۔

18442

(١٨٤٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ یَعْقُوبَ الإِیَادِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرْبِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَیْسٍ عَنِ ابْنِ سَلَمَۃَ بْنِ الأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : أَتَی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَیْنٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ وَہُوَ فِی سَفَرٍ قَالَ فَجَلَسَ فَتَحَدَّثَ عِنْدَ أَصْحَابِہِ ثُمَّ انْسَلَّ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اطْلُبُوہُ فَاقْتُلُوہُ ۔ قَالَ : فَسَبَقْتُہُمْ إِلَیْہِ فَقَتَلْتُہُ وَأَخَذْتُ سَلَبَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٣٦) ابن سلمہ بن اکوع اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ سفر کے دوران نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مشرکین کا جاسوس آیا۔ وہ صحابہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا رہا۔ پھر کھسک گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسے پکڑ کر قتل کر دو ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اس کو قتل کر کے اس کا سامان لے لیا۔

18443

(١٨٤٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ حَدَّثَنَا السَّرِیُّ بْنُ خُزَیْمَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو ہَمَّامٍ الدَّلاَّلُ فِی مَسْجِدِ الْبَصْرَۃِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَۃَ بْنِ مُضَرِّبٍ عَنِ الْفُرَاتِ بْنِ حَیَّانَ : وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدْ أَمَرَ بِقَتْلِہِ وَکَانَ عَیْنًا لأَبِی سُفْیَانَ وَحَلِیفًا أَظُنُّہُ قَالَ لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَمَرَّ عَلَی حَلْقَۃٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ إِنِّی مُسْلِمٌ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْہُمْ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ یَقُولُ إِنِّی مُسْلِمٌ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ مِنْہُمْ رِجَالاً نَکِلُہُمْ إِلَی إِیمَانِہِمْ مِنْہُمُ الْفُرَاتُ بْنُ حَیَّانَ ۔ [ضعیف۔ تقدم برقم ١١٦٨٣١]
(١٨٤٣٧) حارث بن مضرب فرات بن حیان سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کا حکم دیا اور وہ ابوسفیان کا جاسوس اور حلیف تھا۔ میرا گمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری شخص سے کہا تو وہ انصاری لوگوں کی مجلس کے پاس سے گزرا۔ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کہتا ہے میں مسلم ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے بعض افراد ایسے ہیں کہ بزدلی ان کو ایمان کی طرف لے آتی ہے۔ ان میں سے فرات بن حیان بھی ہیں۔

18444

(١٨٤٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَدَبَ أَصْحَابَہُ فَانْطَلَقَ إِلَی بَدْرٍ فَإِذَا ہُمْ بِرَوَایَا قُرَیْشٍ فِیہَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِی الْحَجَّاجِ فَأَخَذَہُ أَصْحَابُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَعَلُوا یَسْأَلُونَہُ أَیْنَ أَبُو سُفْیَانَ فَیَقُولُ وَاللَّہِ مَا لِی بِشَیْئٍ مِنْ أَمْرِہِ عِلْمٌ وَلَکِنْ ہَذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ جَائَ تْ فِیہِمْ أَبُو جَہْلٍ وَعُتْبَۃُ وَشَیْبَۃُ ابْنَا رَبِیعَۃَ وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ فَإِذَا قَالَ لَہُمْ ذَلِکَ ضَرَبُوہُ فَیَقُولُ دَعُونِی دَعُونِی أُخْبِرْکُمْ فَإِذَا تَرَکُوہُ قَالَ وَاللَّہِ مَا لِی بِأَبِی سُفْیَانَ مِنْ عِلْمٍ وَلَکِنْ ہَذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ فِیہِمْ أَبُو جَہْلٍ وَعُتْبَۃُ وَشَیْبَۃُ ابْنَا رَبِیعَۃَ وَأُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ قَدْ أَقْبَلُوا وَالنَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُصَلِّی وَہُوَ یَسْمَعُ ذَلِکَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّکُمْ لَتَضْرِبُونَہُ إِذَا صَدَقَکُمْ وَتَدَعُونَہُ إِذَا کَذَبَکُمْ ہَذِہِ قُرَیْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْیَانَ ۔ قَالَ أَنَسٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ۔ وَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ وَہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ۔ وَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ وَہَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ غَدًا ۔ وَوَضَعَ یَدَہُ عَلَی الأَرْضِ فَقَالَ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْہُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأُخِذَ بِأَرْجُلِہِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِی قَلِیبِ بَدْرٍ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ حَمَّادٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٧٩]
(١٨٤٣٨) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کو لیکر بدر کی جانب چل۔ اچانک قریش کیلئے پانی بھرنے والا ایک سیاہ غلام بنو حجاج کا آیا۔ اس کو صحابہ نے پکڑ لیا اور اس سے پوچھنے لگے : ابو سفیان کہاں ہے ؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے کوئی علم نہیں۔ لیکن یہ قریشی ہیں، جن میں ابو جہل، عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف شامل ہیں۔ جب وہ یہ بات کہتاتو صحابہ اس کو مارتے۔ وہ کہتا : مجھے چھوڑو۔ مجھے چھوڑو، میں تمہیں بتاتا ہوں۔ جب وہ اس کو چھوڑ دیتے تو کہتا اللہ کی قسم ! مجھے ابو سفیان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ لیکن یہ قریشی آ رہے ہیں جن میں عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف موجود ہیں۔ وہ اسے لیکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت نماز میں یہ باتیں سن رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : قسم اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس کو مارتے تھے جب اس نے سچ بولا اور جب وہ جھوٹ بولتا تو تم چھوڑ دیتے۔ یہ قریش ہی آرہے ہیں تاکہ وہ ابو سفیان کو تم سے محفوظ کرسکیں۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمین پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔ یہ جگہ فلاں کی قتل گاہ ہے اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہے۔ اللہ کی قسم ان میں سے کوئی ایک بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ والی جگہ سے تجاوز نہ کرسکا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں حکم دیا اور انھیں پاؤں سے پکڑ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔

18445

(١٨٤٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ یَعْنِی ابْنَ الْمُغِیرَۃِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بُسَیْسَۃَ عَیْنًا یَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ قَالَ فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ أَبِی النَّضْرِ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٠١]
(١٨٤٣٩) انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسیسہ کو جاسوس بنا بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی حرکات کو نوٹ کرلے۔ راوی کہتے ہیں : جب وہ آیا تو میرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کوئی گھر میں موجود نہیں تھا۔۔۔ پھر اس نے حدیث بیان کی۔

18446

(١٨٤٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ اللَّخْمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا الْفِرْیَابِیُّ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ الأَحْزَابِ : مَنْ یَأْتِینِی بِخَبَرِ الْقَوْمِ ۔ فَقَالَ الزُّبَیْرُ : أَنَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ یَأْتِینِی بِخَبَرِ الْقَوْمِ ۔ فَقَالَ الزُّبَیْرُ : أَنَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ یَأْتِینِی بِخَبَرِ الْقَوْمِ ۔ فَقَالَ الزُّبَیْرُ : أَنَا فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ الثَّوْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٤٠) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں کی خبر میرے پاس کون لائے گا ؟ زبیر (رض) نے کہا : میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : میرے پاس قوم کی خبر کون لائے گا ؟ زبیر (رض) نے کہا : میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : میرے لیے لوگوں کی جاسوسی کون کرے گا۔ زبیر (رض) نے کہا : میں کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر (رض) ہے۔

18447

(١٨٤٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِیِّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْکَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : نَدَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النَّاسَ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فَانْتَدَبَ الزُّبَیْرُ ثُمَّ نَدَبَہُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَیْرُ ثُمَّ نَدَبَہُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَیْرُ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ ۔ قَالَ سُفْیَانُ وَزَادَ فِیہِ ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ : وَحَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ وَابْنُ عَمَّتِی ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ ابْنِ الْمَدِینِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَمْرٍو النَّاقِدِ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٤١) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کے دن لوگوں کو آواز دی تو حضرت زبیر (رض) نے لبیک کہا۔ پھر دوسری مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو پکارا تو زبیر (رض) نے لبیک کہا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی تو زبیر (رض) نے لبیک کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک مخلص ساتھی ہوتا ہے اور میرا مخلص ساتھی زبیر (رض) ہے۔ (ب) ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں میرا حواری زبیر (رض) اور میری پھوپھی کا بیٹا ہے۔

18448

(١٨٤٤٢) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ وَأَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیِّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ رَجُلٌ : لَوْ أَدْرَکْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَاتَلْتُ مَعَہُ وَأَبْلَیْتُ فَقَالَ لَہُ حُذَیْفَۃُ : أَنْتَ کُنْتَ تَفْعَلُ ذَاکَ لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَیْلَۃَ الأَحْزَابِ فِی لَیْلَۃٍ ذَاتَ رِیحٍ شَدِیدَۃٍ وَقُرٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَلاَ رَجُلٌ یَأْتِینِی بِخَبَرِ الْقَوْمِ یَکُونُ مَعِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ فَلَمْ یُجِبْہُ مِنَّا أَحَدٌ ثُمَّ الثَّانِیَۃَ مِثْلَہُ ثُمَّ قَالَ : یَا حُذَیْفَۃُ قُمْ فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ ۔ فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِی بِاسْمِی أَنْ أَقُومَ فَقَالَ : ائْتِنِی بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلاَ تَذْعَرْہُمْ عَلَیَّ ۔ قَالَ : فَمَضَیْتُ کَأَنَّمَا أَمْشِی فِی حَمَّامٍ حَتَّی أَتَیْتُہُمْ فَإِذَا أَبُو سُفْیَانَ یَصْلِی ظَہْرَہُ بِالنَّارِ فَوَضَعْتُ سَہْمِی فِی کَبِدِ قَوْسِی وَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِیَہُ ثُمَّ ذَکَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَذْعَرْہُمْ عَلَیَّ ۔ وَلَوْ رَمَیْتُہُ لأَصَبْتُہُ قَالَ : فَرَجَعْتُ کَأَنَّمَا أَمْشِی فِی حَمَّامٍ فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ أَصَابَنِی الْبَرْدُ حِینَ فَرَغْتُ وَقُرِرْتُ فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَلْبَسَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ فَضْلِ عَبَائَ ۃٍ کَانَتْ عَلَیْہِ یُصَلِّی فِیہَا فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّی الصُّبْحِ فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قُمْ یَا نَوْمَانُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٨٨]
(١٨٤٤٢) ابراہیم تیمی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم حذیفہ بن یمان کے پاس تھے۔ ایک شخص نے کہا کہ اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پا لیتا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنے آپ کو بوڑھا کرلیتا تو حذیفہ نے کہا : کیا تو یہ کام کرے گا۔ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ احزاب کی راتوں میں سے ایک رات کو سخت ہوا والی اور ٹھنڈی پایا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص مجھے قوم کی خبر لا کر دے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا تو ہم میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔ پھر دوسری مرتبہ اسی طرح فرمایا، پھر فرمایا : اے حذیفہ ! ہمارے پاس قوم کی خبر لیکر آؤ۔ اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا نام لیکر مجھے کھڑا ہونے کو کہا تو فرمایا : قوم کی خبر لاؤ تو ان کو میرے بارے میں خبر نہ دینا۔ کہتے ہیں : میں گیا گویا کہ میں سکون سے چل رہا تھا۔ جب میں ابو سفیان کے قریب آیا : تو وہ اپنی کمر کو آگ سے تاپ رہا تھا۔ میں نے اپنا تیر کمان میں رکھا اور اسے تیر مارنے کا ارادہ کیا۔ پھر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات یاد آگئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ ان کو میرے خلاف نہ بھڑکانا، اگر میں اس کو تیر مارتا تو ہلاک کرسکتا تھا۔ کہتے ہیں : میں واپس آیا کہ میں گرمی کے اندر ہی چل رہا تھا۔ جب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا پھر مجھے ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوچکا تھا۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چادر کا زائد حصہ میرے اوپر ڈال دیا، پھر میں صبح تک سویا رہا۔ جب میں نے صبح کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے سونے والے ! اٹھ جا۔

18449

(١٨٤٤٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلاَّمٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَاللَّفْظُ لَہُ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَۃَ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ : الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ الْحَلَبِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ سَلاَّمٍ أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ سَلاَّمٍ حَدَّثَنِی أَبُو کَبْشَۃَ السَّلُولِیُّ : أَنَّہُ سَمِعَ سَہْلَ ابْنَ الْحَنْظَلِیَّۃِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَذْکُرُ أَنَّہُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ حُنَیْنٍ فَأَطْنَبُوا السَّیْرَ حَتَّی کَانَ عَشِیَّۃً فَحَضَرَتِ الصَّلاَۃُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَائَ رَجُلٌ فَارِسٌ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنِّی انْطَلَقْتُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ حَتَّی طَلَعْتُ جَبَلَ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا أَنَا بِہَوَازِنَ عَلَی بَکْرَۃِ أَبِیہِمْ بِظُعُنِہِمْ وَنَعَمِہِمْ وَشَائِہِمْ فَاجْتَمَعُوا إِلَی حُنَیْنٍ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : تِلْکَ غَنِیمَۃٌ لِلْمُسْلِمِینَ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّہُ ۔ ثُمَّ قَالَ : مَنْ یَحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ ۔ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ : ارْکَبْ ۔ فَرَکِبَ فَرَسًا لَہُ فَجَائَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اسْتَقْبِلْ ہَذَا الشِّعْبَ حَتَّی تَکُونَ فِی أَعْلاَہُ وَلاَ نُغَرَّنَّ مِنْ قِبَلِکَ اللَّیْلَۃَ ۔ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی مُصَلاَّہُ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَالَ : ہَلْ حَسَسْتُمْ فَارِسَکُمْ ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : مَا حَسَسْنَا فَثُوِّبَ بِالصَّلاَۃِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَلْتَفِتُ إِلَی الشِّعْبِ حَتَّی قَضَی صَلاَتَہُ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَبْشِرُوا فَقَدْ جَائَ فَارِسُکُمْ ۔ قَالَ : فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَی خِلاَلِ الشَّجَرِ فِی الشِّعْبِ فَإِذَا ہُوَ قَدْ جَائَ حَتَّی وَقَفَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَسَلَّمَ فَقَالَ : إِنِّی انْطَلَقْتُ حَتَّی کُنْتُ فِی أَعْلَی ہَذَا الشِّعْبِ حَیْثُ أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اطَّلَعْتُ عَلَی الشِّعْبَیْنِ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : نَزَلْتَ اللَّیْلَۃَ ۔ قَالَ : لاَ إِلاَّ مُصَلِّیًا أَوْ قَاضِیَ حَاجَۃٍ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : قَدْ أَوْجَبْتَ فَلاَ عَلَیْکَ أَنْ لاَ تَعْمَلَ بَعْدَہَا ۔ [صحیح ]
(١٨٤٤٣) ابو کبشہ سلولی نے سھل بن حنظلہ کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ حنین کے دن وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شام تک چلے۔ نماز کا وقت ہوگیا تو ایک سوار شخص آیا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آپ کے آگے فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا کہ اچانک بنو ھوازن نے اپنے والدین، چوپائے اور بکریوں کو حنین میں جمع کر رکھا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور فرمایا : ان شاء اللہ یہ کل مسلمانوں کے لیے مال غنیمت ہوگا۔ پھر کہا : آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا تو ابوانس بن ابومرثد غنوی نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں پہرہ دوں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوار ہوجا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آپ اس سامنے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں تو آپ کی جانب سے ہم پر آج رات کوئی حملہ نہ کرلے۔ جب ہم نے صبح کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر پوچھا : کیا تم نے اپنے شاہسوار کو محسوس کیا ہے تو ایک شخص نے کہا : ہم نے محسوس نہیں کیا تو نماز کی اقامت کہہ دی گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مڑ مڑ کر اس گھاٹی کی طرف دیکھتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز مکمل کی اور فرمایا : خوش ہوجاؤ۔ تمہارا شاہسوار آگیا ہے تو ہم درختوں کے درمیان سے دیکھ رہے تھے کہ اچانک اس نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہو کر سلام کہا۔ اس نے کہا : میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق اس گھاٹی کی چوٹی پر پہنچا۔ جب میں نے صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں کے درمیان نظر دوڑائی۔ میں نے کسی کو نہ دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو رات کو نیچے اترا تھا۔ اس نے کہا : نماز اور قضائے حاجت کے علاوہ نہیں اترا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے جنت کو واجب کرلیا ہے تیرے اوپر کوئی حرج نہیں اگر اس کے بعد عمل نہ بھی کرے۔

18450

(١٨٤٤٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ یَزِیدَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِذٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : أَلاَ أُنَبِّئُکُمْ بِلَیْلَۃٍ أَفْضَلَ مِنْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ حَارِسٌ حَرَسَ فِی أَرْضِ خَوْفٍ لَعَلَّہُ أَنْ لاَ یَرْجِعَ إِلَی أَہْلِہِ ۔ رَفَعَہُ یَحْیَی الْقَطَّانُ وَوَقَفَہُ وَکِیعٌ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٤٤) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہیں لیلۃ القدر سے فضیلت والی رات نہ بتاؤں ؟ پھر فرمایا : خوف والی زمین پر پہرہ دینا کہ وہ اپنے اہل کے پاس واپس نہ آسکے۔

18451

(١٨٤٤٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُمَیْرٍ عَنْ أَبِی عَلِیٍّ الْجَنْبِیِّ عَنْ أَبِی رَیْحَانَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃٍ فَأَوْفَی بِنَا عَلَی شَرَفٍ فَأَصَابَنَا بَرْدٌ شَدِیدٌ حَتَّی إِذَا کَانَ أَحَدُنَا یَحْفِرُ الْحَفِیرَ ثُمَّ یَدْخُلُ فِیہِ وَیُغَطِّی عَلَیْہِ بِحَجَفَتِہِ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ذَلِکَ مِنَ النَّاسِ قَالَ : أَلاَ رَجُلٌ یَحْرُسُنَا اللَّیْلَۃَ أَدْعُو اللَّہَ لَہُ بِدُعَائٍ یُصِیبُ بِہِ فَضْلاً ۔ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ : أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَدَعَا لَہُ ۔ قَالَ أَبُو رَیْحَانَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقُلْتُ : أَنَا فَدَعَا لِی بِدُعَائٍ ہُوَ دُونَ مَا دَعَا بِہِ لِلأَنْصَارِیِّ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَی عَیْنٍ دَمَعَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَی عَیْنٍ سَہِرَتْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ قَالَ وَنَسِیتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ أَبُو شُرَیْحٍ وَہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ وَسَمِعْتُہُ بَعْدُ أَنَّہُ قَالَ : حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَی عَیْنٍ غُضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ أَوْ عَیْنٍ فُقِئَتْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔[ضعیف ]
(١٨٤٤٥) ابوریحانہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے۔ ایک چوٹی پر چڑھے تو ہمیں سخت سردی لگی۔ ہم گڑھے کھود کر ان کے اندر داخل ہوگئے اور سروں کو چمڑے کی ڈھال سے ڈھانپ لیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا : کوئی شخص ہے جو آج رات ہمارا پہرہ دے تو میں اللہ سے اس کے لیے دعا کروں گا۔ جس کی وجہ سے اس کو فضیلت نصیب ہوگی تو ایک انصاری آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پہرہ دیتا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے دعا کی۔ ابو ریحانہ کہتے ہیں : میں بھی پہرہ دیتا ہوں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاری کی دعا کے علاوہ میرے لیے کوئی دوسری دعا دی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آنکھ سے اللہ کے ڈر کی وجہ سے آنسو بہہ گئے، اس پر جہنم حرام اور ایسی آنکھ جو اللہ کے راستہ میں پہرہ دیتے ہوئے بیدار رہتی ہے اس پر بھی جہنم کی آگ حرام۔ راوی کہتے ہیں : میں تیسری چیز بھول گیا۔ ابوشریح کہتے ہیں کہ وہ عبدالرحمن بن شریح کے پاس تھے۔ میں نے اس کے بعد ان سے سنا کہ وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے محفوظ رہے اس پر بھی جہنم کی آگ حرام یا جو آنکھ اللہ کے راستہ میں پھوڑ دی جائے اس پر بھی جہنم کی آگ حرام ہے۔

18452

(١٨٤٤٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ حَمْدُوَیْہِ بْنِ سَہْلٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حَمَّادٍ الآمُلِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَمِیلٍ الْجُمَحِیُّ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ قَیْسِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : رَحِمَ اللَّہُ حَارِسَ الْحَرَسِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٤٦) قیس بن حارث فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہر ہ دینے والے شخص پر اللہ رحم فرمائے۔

18453

(١٨٤٤٧) وَرُوِیَ عَنِ الدَّرَاوَرْدِیِّ عَنْ صَالِحٍ عَنْ عُمَرَ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَخْبَرَنَاہُ عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عُثْمَانَ الأَہْوَازِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَحْرٍ حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِیُّ فَذَکَرَہُ ۔
(١٨٤٤٧) خالی

18454

(١٨٤٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِی صَدَقَۃُ بْنُ یَسَارٍ عَنِ ابْنِ جَابِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ نَخْلٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ : فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَنْزِلاً فَقَالَ : مَنْ رَجُلٌ یَکْلَؤُنَا لَیْلَتَنَا ہَذِہِ ۔ فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالاَ : نَحْنُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : فَکُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ ۔ فَلَمَّا أَنْ خَرَجَا إِلَی فَمِ الشِّعْبِ قَالَ الأَنْصَارِیُّ لِلْمُہَاجِرِیِّ أَیُّ اللَّیْلِ أَحَبُّ إِلَیْکَ أَنْ أَکْفِیکَہُ أَوَّلَہُ أَوْ آخِرَہُ ۔ قَالَ : بَلِ اکْفِنِی أَوَّلَہُ فَاضْطَجَعَ الْمُہَاجِرِیُّ فَنَامَ وَقَامَ الأَنْصَارِیُّ یُصَلِّی۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٤٨) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ ذات رقاع میں نکلے۔ انھوں نے حدیث کو ذکر کیا۔ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا تو مہاجرین اور انصار میں سے ایک ایک نے حامی بھری۔ ان دونوں نے کہا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم گھاٹی کے منہ پر پہرہ دیں گے۔ جب وہ دونوں گھاٹی پر پہنچے تو انصاری نے مہاجر سے کہا : رات کے پہلے پہر یا آخری پہر پہرہ دو گے۔ اس نے کہا : میں رات کے ابتدائی حصہ میں پہرہ دوں گا تو مہاجر لیٹ کر سو گیا۔ جبکہ انصاری نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔

18455

(١٨٤٤٩) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ حِینَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ : وَلَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُرِیدُ غَزْوَۃً یَغْزُوہَا إِلاَّ وَرَّی بِغَیْرِہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ اللَّیْثِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٤٩) حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں : جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہ گئے۔ انھوں نے حدیث کو ذکر کیا۔ فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو اشارہ کسی اور جانب کرتے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توریہ فرماتے تھے۔

18456

(١٨٤٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّیَّارِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہِلاَلٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا یُونُسُ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : : کَانَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَلَّ مَا یُرِیدُ غَزْوَۃً یَغْزُوہَا إِلاَّ وَرَّی بِغَیْرِہَا حَتَّی کَانَتْ غَزْوَۃُ تَبُوکَ فَغَزَاہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی حَرٍّ شَدِیدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا کَثِیرًا فَجَلَّی لِلْمُسْلِمِینَ أَمْرَہُمْ لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ وَأَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِی یُرِیدُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُبَارَکِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ یُونُسَ نَحْوَ إِسْنَادِ عُقَیْلٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٥٠) کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کم ہی ایسا کرتے کہ جب غزوے کا ارادہ فرماتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توریہ کرلیتے۔ جب غزوہ تبوک کا موقع آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت گرمی، لمبا سفر اور کثیر دشمن کا سامنا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے لیے یہ بات واضح کردی تاکہ وہ اپنے دشمن کے لیے تیاری کرلیں اور ان کو صحیح سمت کی خبر دی۔

18457

(١٨٤٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَۃً وَرَّی بِغَیْرِہَا وَکَانَ یَقُولُ : الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٥١) عبد الرحمن بن کعب بن مالک (رض) اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوے کا ارادہ فرماتے تو توریہ کرتے اور فرماتے : لڑائی دھوکا ہے۔

18458

(١٨٤٥٢) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ وَیَحْیَی بْنُ الرَّبِیعِ الْمَکِّیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الْحَرْبُ خَدْعَۃٌ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ صَدَقَۃَ بْنِ الْفَضْلِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُجْرٍ وَزُہَیْرٍ کُلُّہُمْ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٥٢) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لڑائی دھوکا ہے۔

18459

(١٨٤٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَّہُ سَمَّی الْحَرْبَ خَدْعَۃً ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٥٣) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑائی کا نام دھوکا رکھا ہے۔

18460

(١٨٤٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَیْلاَنَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ قَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلاَطٍ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ لِی بِمَکَّۃَ مَالاً وَإِنَّ لِی بِہَا أَہْلاً وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ آتِیَہُمْ فَأَنَا فِی حِلٍّ إِنْ أَنَا نِلْتُ مِنْکَ شَیْئًا فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَقُولَ مَا شَائَ قَالَ فَأَتَی امْرَأَتَہُ حِینَ قَدِمَ فَقَالَ : اجْمَعِی لِی مَا کَانَ عِنْدَکِ فَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَشْتَرِیَ مِنْ غَنَائِمِ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِہِ فَإِنَّہُمْ قَدِ اسْتُبِیحُوا وَأُصِیبَتْ أَمْوَالُہُمْ قَالَ وَفَشَا ذَلِکَ بِمَکَّۃَ فَانْقَمَعَ الْمُسْلِمُونَ وَأَظْہَرَ الْمُشْرِکُونَ فَرَحًا وَسُرُورًا وَبَلَغَ الْخَبَرُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَقِرَ وَجَعَلَ لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَقُومَ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِی عُثْمَانُ الْجَزَرِیُّ عَنْ مِقْسَمٍ قَالَ فَأَخَذَ الْعَبَّاسُ ابْنًا لَہُ یُقَالَ لَہُ قُثَمُ وَاسْتَلْقَی فَوَضَعَہُ عَلَی صَدْرِہِ وَہُوَ یَقُولُ حِبِّی قُثَمْ شَبِیہُ ذِی الأَنْفِ الأَشَمْ نَبِیِّ ذِی النَّعَمْ بِرَغْمِ مَنْ رَغَمْ قَالَ مَعْمَرٌ قَالَ ثَابِتٌ قَالَ أَنَسٌ فِی حَدِیثِہِ : ثُمَّ أَرْسَلَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ غُلاَمًا لَہُ إِلَی الْحَجَّاجِ بْنِ عِلاَطٍ وَیْلَکَ مَاذَا جِئْتَ بِہِ وَمَاذَا تَقُولُ فَمَا وَعَدَ اللَّہُ خَیْرٌ مِمَّا جِئْتَ بِہِ قَالَ فَقَالَ الْحَجَّاجُ بْنُ عِلاَطٍ لِغُلاَمِہِ : اقْرَأْ عَلَی أَبِی الْفَضْلِ السَّلاَمَ وَقُلْ لَہُ فَلْیَخْلُ لِی فِی بَعْضِ بُیُوتِہِ لآتِیَہُ فَإِنَّ الْخَبَرَ عَلَی مَا یَسُرُّہُ فَجَائَ غُلاَمُہُ فَلَمَّا بَلَغَ بَابَ الدَّارِ قَالَ : أَبْشِرْ یَا أَبَا الْفَضْلِ قَالَ : فَوَثَبَ الْعَبَّاسُ فَرَحًا حَتَّی قَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالَ الْحَجَّاجُ فَأَعْتَقَہُ ثُمَّ جَائَ ہُ الْحَجَّاجُ فَأَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَدِ افْتَتَحَ خَیْبَرَ وَغَنِمَ أَمْوَالَہُمْ وَجَرَتْ سِہَامُ اللَّہِ فِی أَمْوَالِہِمْ وَاصْطَفَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ وَاتَّخَذَہَا لِنَفْسِہِ وَخَیَّرَہَا أَنْ یُعْتِقَہَا وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ أَوْ تَلْحَقَ بِأَہْلِہَا فَاخْتَارَتْ أَنْ یُعْتِقَہَا وَتَکُونَ زَوْجَتَہُ وَلَکِنِّی جِئْتُ لِمَالٍ کَانَ لِی ہَا ہُنَا أَرَدْتُ أَنْ أَجْمَعَہُ فَأَذْہَبَ بِہِ فَاسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَذِنَ لِی أَنْ أَقُولَ مَا شِئْتُ فَأخْفِ عَنِّی ثَلاَثًا ثُمَّ اذْکُرْ مَا بَدَا لَکَ قَالَ فَجَمَعَتِ امْرَأَتُہُ مَا کَانَ عِنْدَہَا مِنْ حُلِیٍّ أَوْ مَتَاعٍ فَدَفَعَتْہُ إِلَیْہِ ثُمَّ انْشَمَرَ بِہِ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ بِثَلاَثٍ أَتَی الْعَبَّاسُ امْرَأَۃَ الْحَجَّاجِ فَقَالَ : مَا فَعَلَ زَوْجُکِ فَأَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ قَدْ ذَہَبَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا وَقَالَتْ لاَ یَحْزُنْکَ اللَّہُ یَا أَبَا الْفَضْلِ لَقَدْ شَقَّ عَلَیْنَا الَّذِی بَلَغَکَ قَالَ أَجَلْ فَلاَ یُحْزِنُنِی اللَّہُ لَمْ یَکُنْ بِحَمْدِ اللَّہِ إِلاَّ مَا أَحْبَبْنَا فَتَحَ اللَّہُ خَیْبَرَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللَّہِ وَاصْطَفَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - صَفِیَّۃَ لِنَفْسِہِ فَإِنْ کَانَ لَکِ فِی زَوْجِکِ حَاجَۃً فَالْحَقِی بِہِ قَالَتْ : أَظُنُّکَ وَاللَّہِ صَادِقًا قَالَ : فَإِنِّی صَادِقٌ وَالأَمْرُ عَلَی مَا أُخْبِرُکِ قَالَ ثُمَّ ذَہَبَ حَتَّی أَتَی مَجْلِسَ قُرَیْشٍ وَہُمْ یَقُولُونَ إِذَا مَرَّ بِہِمْ : لاَ یُصِیبُکَ إِلاَّ خَیْرٌ یَا أَبَا الْفَضْلِ قَالَ : لَمْ یُصِبْنِی إِلاَّ خَیْرٌ بِحَمْدِ اللَّہِ قَدْ أَخْبَرَنِی الْحَجَّاجُ بْنُ عِلاَطٍ أَنَّ خَیْبَرَ فَتَحَہَا اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَجَرَتْ فِیہَا سِہَامُ اللَّہِ وَاصْطَفَی صَفِیَّۃَ لِنَفْسِہِ وَقَدْ سَأَلَنِی أَنْ أُخْفِیَ عَلَیْہِ ثَلاَثًا وَإِنَّمَا جَائَ لِیَأْخُذَ مَالَہُ وَمَا کَانَ لَہُ مِنْ شَیْئٍ ہَا ہُنَا ثُمَّ یَذْہَبُ قَالَ فَرَدَّ اللَّہُ الْکَآبَۃَ الَّتِی کَانَتْ فِی الْمُسْلِمِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ قَالَ وَخَرَجَ الْمُسْلِمُونَ مَنْ کَانَ دَخَلَ بَیْتَہُ مُکْتَئِبًا حَتَّی أَتَوُا الْعَبَّاسَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخْبَرَہُمْ وَسُرَّ الْمُسْلِمُونَ وَرَدَّ اللَّہُ مَا کَانَ فِیہِمْ مِنْ غَیْظٍ وَحُزْنٍ ۔ [صحیح۔ اخرجہ عبد الرزاق ٩٧٧١۔ احمد ١٢٠٠١]
(١٨٤٥٤) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو فتح کیا تو حجاج بن علاط نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مکہ میں میرا مال اور اہل تھا اور میں ان کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اگر میں آپ سے کوئی چیز حاصل کرلوں تو آپ نے اس کو اجازت دے دی کہ کہہ لے جو چاہے۔ راوی کہتے ہیں : وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا : میرے لیے اپنا تمام مال جمع کر دو ، کیونکہ میں محمد اور ان کے ساتھیوں کے مال غنیمت کو خریدنا چاہتا ہوں۔ بیشک ان کے مالوں کو حاصل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔ اس نے یہ بات مکہ میں عام کردی۔ مسلمان چھپ گئے اور مشرکوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ خبر عباس بن عبد المطلب کو پہنچی جو زخمی ہونے کی وجہ سے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔
مقسم بیان کرتے ہیں کہ عباس (رض) نے اپنے بیٹے کو لیا جس کو قثم کہا جاتا تھا اور اس کو لٹا کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔
میرا محبوب قثم معزز اور بڑے آدمی کی طرح ہے۔ میرا نبی نعمتوں والا ہے جو اس کو رسوا کرنا چاہے خود ہوتا ہے۔
انس (رض) کہتے ہیں کہ عباس بن عبد المطلب نے اپنے غلام کو حجاج بن علاط کے پاس بھیجا کہ تو کیسی خبر لایا ہے اور تو کیا کہتا ہے ؟ کیا اللہ کا وعدہ بہتر نہیں ہے اس سے جو تو خبر لے کے آیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج بن علاط نے اس کے غلام سے کہا کہ ابو الفضل کو میرا سلام کہنا اور ان سے کہو : گھر کا کوئی حصہ خالی رکھو، میں ان کے پاس آتا ہوں۔ ایسی خبر لے کر جو ان کو خوش کر دے۔ غلام آیا جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو کہا : اے ابو الفضل ! خوش ہو جاؤ۔ راوی کہتے ہیں : عباس (رض) خوشی سے کودے یہاں تک کہ اس کی پیشانی کا بوسہ لیا تو اس نے عباس کو خبر دی جو حجاج نے کہا تھا۔ عباس نے غلام کو آزاد کردیا۔ پھر حجاج آگیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر فتح کرلیا ہے۔ ان کے مال بطور غنیمت حاصل کیے ہیں اور ان کے مالوں میں اللہ کے حصے جاری ہوگئے ہیں اور صفیہ بنت حیئی کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لیے انتخاب کیا ہے اور اسے اختیار دیا کہ آزادی کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی بن جائے یا اپنے گھر والوں کے پاس واپس چلی جائے تو اس نے آزادی کے بعد بیوی بننا پسند کیا ہے۔ میں تو اپنا مال لینے آیا ہوں۔ میرا تو ارادہ تھا کہ میں جمع کر کے اپنا مال لے جاؤں۔ میں نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ کہنے کی اجازت مانگی تھی۔ میری بات کو تین دن تک پوشیدہ رکھنا۔ پھر ذکر دینا تو اس کی بیوی نے زیور، سامان جمع کر کے اس کو دے دیا۔ تین دن کے بعد عباس (رض) حجاج کی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا : تیرے خاوند نے کیا کیا ہے ؟ اس نے خبر دی کہ وہ فلاں فلاں دن چلا گیا ہے اور کہنے لگی : اے ابو الفضل ! اللہ آپ کو غم گین نہ کرے۔ ہمارے اوپر بھی وہ خبر شاق گزری جو آپ کو ملی۔ کہنے لگے : اللہ نے مجھے غم نہیں دیا۔ وہی ہوا جو ہم چاہتے تھے۔ اللہ رب العزت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیبر میں فتح دی اور اللہ کے حصے اس میں جاری ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کا اپنے لیے انتخاب کیا۔ اگر تجھے اپنے خاوند کی ضرورت ہے تو ان سے جا ملو۔ کہتی ہے کہ میرا گمان آپ کے بارے میں یہی ہے کہ اللہ کی قسم ! آپ سچے ہیں۔ عباس (رض) کہتے ہیں : میں سچا ہوں اور معاملہ اسی طرح ہے جیسے میں نے تجھے خبر دی ہے۔ پھر وہ قریش کی مجلس کے پاس آئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اے ابو الفضل ! آپ کو بھلائی پہنچی ہے۔ عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی توفیق سے مجھے بھلائی ملی ہے کہ حجاج بن علاط نے مجھے بتایا تھا کہ اللہ نے خیبر کو فتح کردیا ہے اور اللہ کے حصے جاری ہوگئے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ کا انتخاب اپنے لیے کیا ہے۔ اس نے مجھ سے تین دن تک بات کو پوشیدہ رکھنے کا سوال کیا تھا۔ وہ تو صرف یہاں پر اپنا موجود مال لینے کیلئے آیا تھا جو لیکر چلا گیا۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے اندر پایا جانے والا غم دور کردیا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ مسلمان جو غم کے مارے اپنے گھروں میں داخل ہوگئے تھے، وہ عباس (رض) کے پاس آئے تو عباس (رض) نے ان کو بتایا اور مسلمان خوش ہوگئے۔ اللہ رب العزت نے ان کے اندر پایا جانے والا غصہ اور غم ختم کردیا۔

18461

(١٨٤٥٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّیَّارِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ ہِلاَلٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا یُونُسُ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ کَانَ یَقُولُ : قَلَّ مَا کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَخْرُجُ فِی سَفَرٍ إِذَا خَرَجَ إِلاَّ یَوْمَ الْخَمِیسِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٩٤٩]
(١٨٤٥٥) حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی سفر کے لیے نکلتے تو جمعرات کے دن سفر کا آغاز کرتے۔

18462

(١٨٤٥٥) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی بُکَیْرٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَارَۃَ بْنَ حَدِیدٍ یُحَدِّثُ عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : اللَّہُمَّ بَارِکْ لأُمَّتِی فِی بُکُورِہَا ۔ قَالَ : وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا بَعَثَ سَرِیَّۃً بَعَثَہَا مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ وَکَانَ صَخْرٌ رَجُلاً تَاجِرًا وَکَانَ یُرْسِلُ غِلْمَانَہُ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ فَکَثُرُ مَالُہُ حَتَّی کَانَ لاَ یَدْرِی أَیْنَ یَضَعُہُ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی دَاوُدَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٥٦) صخر غامدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت ڈال دے۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کوئی لشکر روانہ فرماتے تو دن کے ابتدائی حصے میں بھیجتے اور صخر تاجر آدمی تھا وہ اپنے غلاموں کو صبح کے وقت بھیجتا تھا۔ اس کا مال اتنا زیادہ تھا کہ رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔

18463

(١٨٤٥٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مِہْرَانَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِیُّ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْعَلاَئِ بْنِ زَبْرٍ أَنَّہُ سَمِعَ مُسْلِمَ بْنَ مِشْکَمٍ أَبَا عُبَیْدِ اللَّہِ أَوْ قَالَ أَبَا عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ حَدَّثَنَا أَبُو ثَعْلَبَۃَ الْخُشَنِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ النَّاسُ إِذَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَنْزِلاً تَفَرَّقُوا فِی الشِّعَابِ وَالأَوْدِیَۃِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ تَفَرُّقَکُمْ فِی ہَذِہِ الشِّعَابِ وَالأَوْدِیَۃِ إِنَّمَا ذَلِکُمْ مِنَ الشَّیْطَانِ ۔ فَلَمْ یَنْزِلُوا بَعْدَ ذَلِکَ مَنْزِلاً إِلاَّ انْضَمَّ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ حَتَّی یُقَالَ لَوْ بُسِطَ عَلَیْہِمْ ثَوْبٌ لَعَمَّہُمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٥٧) ابو ثعلبہ خثنی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو لوگ وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جاتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا ان گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جانا شیطان کی جانب سے ہے۔ اس کے بعد جب بھی انھوں نے پڑاؤ کہا تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ یوں مل کر رہتے اگر ان پر ایک چادر ڈال دی جائے تو ان کو کافی ہو۔

18464

(١٨٤٥٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ أَسِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخَثْعَمِیِّ عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ مُجَاہِدٍ اللَّخْمِیِّ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُہَنِیِّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ نَبِیِّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَزْوَۃَ کَذَا وَکَذَا فَضَیَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ وَقَطَعُوا الطَّرِیقَ فَبَعَثَ نَبِیُّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُنَادِیًا یُنَادِی فِی النَّاسِ : إِنَّ مَنْ ضَیَّقَ مَنْزِلاً أَوْ قَطَعَ طَرِیقًا فَلاَ جِہَادَ لَہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٥٨) سھل بن معاذ جہنی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر فلاں فلاں غزوہ کیا۔ لوگوں نے جگہ تنگ کردی اور راستہ بند کردیا تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں اعلان کروایا : جس نے جگہ کو تنگ کیا یا راستہ بند کیا اس کا کوئی جہاد نہیں ہے۔

18465

(١٨٤٥٩) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی أَسِیدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُہَیْنَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِنَحْوِہِ ۔
(١٨٤٥٩) خالی۔

18466

(١٨٤٦٠) وَرَوَاہُ بَقِیَّۃُ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ عَنْ أَسِیدٍ عَنِ ابْنِ مُجَاہِدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ نَبِیِّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمَعْنَاہُ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ فَذَکَرَہُ ۔
(١٨٤٦٠) خالی۔

18467

(١٨٤٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ جَبَلَۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحُلْوَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ فَقَالَ وَقَالَ أَبُو عَامِرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْحُلْوَانِیِّ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٦١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو۔ لیکن جب تم ان سے ملو، لڑائی کرو تو صبر کرو۔

18468

(١٨٤٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ وَکَانَ کَاتِبًا لَہُ قَالَ : کَتَبَ إِلَیْہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حِینَ خَرَجَ إِلَی الْحَرُورِیَّۃِ فَقَرَأْتُہُ فَإِذَا فِیہِ : إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی بَعْضِ أَیَّامِہِ الَّتِی لَقِیَ فِیہَا الْعَدُوَّ انْتَظَرَ حَتَّی مَالَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ فَقَالَ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوفِ ۔ ثُمَّ قَالَ : اللَّہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَمُجْرِیَ السَّحَابِ وَہَازِمَ الأَحْزَابِ اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ ۔ قَالَ وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ وَبَلَغَنَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - دَعَا فِی مِثْلِ ذَلِکَ فَقَالَ : أَنْتَ رَبُّنَا وَرَبُّہُمْ وَنَحْنُ عَبِیدُکَ وَہُمْ عَبِیدُکَ وَنَوَاصِینَا وَنَوَاصِیہِمْ بِیَدِکَ فَاہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَمْرٍو وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ دُونَ بَلاَغِ أَبِی النَّضْرِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٦٢) سالم ابو نضر جو عمر بن عبید اللہ کے غلام ہیں اور ان کے کاتب تھے، فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی (رض) نے حدوریہ کی جانب نکلتے وقت خط لکھا، جس میں یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض دنوں میں جب دشمن سے لڑتے تو سورج کے ڈھل جانے کا انتظار کرتے۔ پھر لوگوں میں یہ بات ارشاد فرماتے : اے لوگو ! دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو اور جب تم دشمن سے ملو تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر فرمایا : اے کتاب کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو شکست دینے والے ! ان کو شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو نضر نے کہا : ہمیں یہ خبر ملی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی مثل دعا کی کہ ہماری اور ان کی پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔ ان کو شکست دے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما۔

18469

(١٨٤٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ : الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ سَلَمَۃَ الْہَمَذَانِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مَاسِی الْمَتُّوثِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ إِذَا خَافَ قَوْمًا قَالَ : اللَّہُمَّ إِنِّی أَجْعَلُکَ فِی نُحُورِہِمْ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُورِہِمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٦٣) ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کسی قوم کا خوف ہوتا تو آپ فرماتے : ہم تجھی کو ان کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

18470

(١٨٤٦٤) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی قُمَاشٍ یَعْنِی مُحَمَّدَ بْنَ عِیسَی أَخْبَرَنَا سَعِیدُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَابْنُ عَائِشَۃَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ کِلاَہُمَا عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنْ صُہَیْبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُحَرِّکُ شَفَتَیْہِ بِشَیْئٍ لاَ نَفْہَمُہُ فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ تُحَرِّکُ شَفَتَیْکَ بِشَیْئٍ لاَ نَفْہَمُہُ فَقَالَ : إِنَّ نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَائِ أَعْجَبَہُ کَثْرَۃُ قَوْمِہِ فَقَالَ مَنْ یَفِی لِہَؤُلاَئِ أَوْ مَنْ یَقُومُ لِہَؤُلاَئِ قَالَ فَقِیلَ لَہُ خَیِّرْ أَصْحَابَکَ بَیْنَ أَنْ نُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا فَیَسْتَبِیحَ بَیْضَتَہُمْ أَوِ الْجُوعَ أَوِ الْمَوْتَ فَخَیَّرَہُمْ فَاخْتَارُوا الْمَوْتَ قَالَ فَمَاتَ مِنْہُمْ فِی ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ سَبْعُونَ أَلْفًا۔ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَأَنَا أَقُولُ اللَّہُمَّ بِکَ أُقَاتِلُ وَبِکَ أُحَاوِلُ وَبِکَ أُصَاوِلُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِکَ ۔ وَسَائِرُ مَا وَرَدَ مِنَ الدُّعَائِ فِی ہَذَا قَدْ مَضَی فِی کِتَابِ الْحَجِّ وَفِی کِتَابِ الدَّعَوَاتِ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٦٤) حضرت صہیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے لیکن ہم اس کو سمجھ نہ پاتے۔ ہم نے کہا : اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہونٹوں کو کسی چیز سے حرکت دیتے ہیں لیکن ہم سمجھ نہیں پاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کی کثرت اچھی لگی۔ اس نے کہا کہ وہ ان کے مقابلے میں کھڑا ہوگا۔ فرماتے ہیں کہ اس سے کہا گیا : اپنے ساتھیوں کا انتخاب کرلو۔ ہم ان پر دشمن کو مسلط کرتے ہیں۔ وہ اپنے لیے خود، بھوک یا موت کو پسند کرلیں۔ ان کو اختیار ملا تو انھوں نے موت کو پسند کیا تو تین ایام کے اندر ستر ہزار آدمی مارے گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تو یہ کہتا ہوں : اے اللہ ! تیری مدد سے میں قتال کرتا ہوں اور تیری توفیق سے معاملات کی تدبیر کرتا ہوں اور تیری توفیق سے مقابلہ کرتا ہوں اور برائی سے پھرنے اور نیکی کرنے کی قوت تیری توفیق سے ہے۔

18471

(١٨٤٦٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیِّ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ النُّعْمَانَ یَعْنِی ابْنَ مُقَرِّنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : شَہِدْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِذَا لَمْ یُقَاتِلْ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ أَخَّرَ الْقِتَالَ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ وَتَہُبَّ الرِّیَاحُ وَیَنْزِلَ النَّصْرُ ۔ [صحیح۔ اخرجہ السجستانی ٢٦٥٥]
(١٨٤٦٥) نعمان بن مقرن فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہوتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن کے ابتدائی حصہ میں لڑائی نہ کرتے بلکہ اسے سورج کے ڈھلنے، ہواؤں کے چلنے اور مدد کے اترنے تک مؤخر فرماتے۔

18472

(١٨٤٦٦) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ أَبِی عَبْدِاللَّہِ الدَّسْتَوَائِیِّ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَکْرَہُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ ثَلاَثٍ عِنْدَ الْقِتَالِ وَفِی الْجَنَائِزِ وَفِی الذِّکْرِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٦٦) قیس بن عباد بیان فرماتے کرتے ہیں کہ صحابہ تین موقعوں پر بلند آواز کو ناپسند کرتے تھے : 1 لڑائی کے وقت 2 جنازہ کے وقت 3 ذکر کے وقت۔

18473

(١٨٤٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَۃُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ : کَانَ أَصْحَابُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَکْرَہُونَ الصَّوْتَ عِنْدَ الْقِتَالِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٦٧) قیس بن عباد فرماتے ہیں کہ صحابہ قتال کے وقت بلند آواز کو ناپسند کرتے تھے۔

18474

(١٨٤٦٨) قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ ہَمَّامٍ قَالَ حَدَّثَنِی مَطَرٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِمِثْلِ ذَلِکَ ۔
(١٨٤٦٨) خالی۔

18475

(١٨٤٦٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوبَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِیَادِ بْنِ أَنْعُمَ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا الْعَافِیَۃَ فَإِنْ لَقِیتُمُوہُمْ فَاثْبُتُوا وَأَکْثِرُوا ذَکَرَ اللَّہِ فَإِنْ أَجْلَبُوا وَصَیَّحُوا فَعَلَیْکُمْ بِالصَّمْتِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٦٩) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔ اگر دشمن سے ملاقات ہو ہی جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔ اگر وہ شور شرابا کریں تو تم خاموشی کو لازم پکڑو۔

18476

(١٨٤٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو نَصْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَہْلٍ الْفَقِیہُ بِبُخَارَی أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَبُو مَعْمَرٍ الْہُذَلِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : صَبَّحَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَیْبَرَ بُکْرَۃً وَقَدْ خَرَجُوا بِالْمَسَاحِی فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَائُ وا یَسْعَوْنَ إِلَی الْحِصْنِ وَقَالُوا : مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ : اللَّہُ أَکْبَرُ ۔ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ : خَرِبَتْ خَیْبَرَ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَیْرِہِ عَنْ سُفْیَانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٧٠) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کے وقت نعرہ تکبیر لگایا۔ جب وہ اپنے کھیتی باڑی کرنے کے آلات لے کر نکلے۔ جب انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو قلعے کی جانب بھاگ گئے اور کہنے لگے : محمد اور لشکر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ بلند فرمائے، پھر فرمایا : اللہ اکبر، تین مرتبہ۔ خیبر برباد ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے گھر اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔

18477

(١٨٤٧١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ بْنُ عَمَّارٍ الْیَمَامِیُّ عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ وَفِیہِ حِینَ أَغَارُوا عَلَی سَرْحِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : ثُمَّ قُمْتُ عَلَی ثَنِیَّۃٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَادَیْتُ ثَلاَثَۃَ أَصْوَاتٍ : یَا صَبَاحَاہْ ثُمَّ خَرَجْتُ فِی آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِیہِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ أَنَا ابْنُ الأَکْوَعْ وَالْیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعْ وَفِیہِ قَالَ : خَرَجْنَا إِلَی خَیْبَرَ فَجَعَلَ عَمِّی عَامِرٌ یَقُولُ : تَاللَّہِ لَوْلاَ اللَّہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَمَا تَصَدَّقْنَا وَمَا صَلَّیْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ ہَذَا ؟ ۔ قَالُوا : عَامِرٌ قَالَ : غَفَرَ لَکَ رَبُّکَ ۔ وَفِیہِ فَلَمَّا قَدِمْنَا خَیْبَرَ خَرَجَ مَرْحَبٌ یَخْطِرُ بِسَیْفِہِ وَہُوَ یَقُولُ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرَ أَنِّی مَرْحَبُ شَاکِ السِّلاَحِ بَطَلَ مُجَرِّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ فَبَرَزَ لَہُ عَمِّی فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرُ شَاکِ السِّلاَحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی رُجُوعِ سَیْفِ عَامِرٍ عَلَی نَفْسِہِ وَخُرُوجِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَرَجَزِہِ وَقَتْلِہِ إِیَّاہُ وَقَدْ مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٧١) ایاس بن سلمہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ کیا۔ انھوں نے لمبی حدیث ذکر کی، جس میں ہے کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مویشیوں پر حملہ کیا۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں ثنیہ پہاڑی پر چڑھ گیا اور مدینہ کی جانب متوجہ ہو کر تین آوازیں لگائیں۔ پھر لوگوں کے پیچھے تیر پھینکتا اور رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا نکلا۔ میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔
اس میں ہے کہ ہم خیبر گئے تو میرے چچا عامر یہ کہہ رہے تھے :
اللہ کی قسم ! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، صدقہ نہ کرتے، نمازیں نہ پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے ہی غنی ہیں۔ اگر دشمن سے ملاقات ہوجائے تو ہمیں ثابت قدم رکھنا اور ہمارے اوپر سکون نازل فرمانا۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا : عامر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرا رب تجھے معاف فرمائے۔ اس میں ہے کہ جب خیبر گئے تو مرحب اپنی تلوار کو لہراتے ہوئے آیا اور اس نے کہا :
خیبر جانتا ہے میں مرحب ہوں۔ اسلحے کا ماہر، بہادر تجربہ کار۔ جس وقت لڑائیوں کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
تو میرے چچا نے اس کا جواب دیا۔
کہ خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ کا ماہر اور بہادر۔
پھر اس نے حدیث میں ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اپنی تلوار میان میں داخل کرلی اور حضرت علی (رض) نے تلوار کو میان سے نکالا اور اشعار پڑھے اور اس کو قتل کردیا۔

18478

(١٨٤٧٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ وَأَبُو حُذَیْفَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ وَجَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا أَبَا عُمَارَۃَ أَوَلَّیْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ : أَمَّا أَنَا فَأَشْہَدُ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ لَمْ یُوَلِّ وَلَکِنْ عَجِلَ سَرَعَانُ الْقَوْمِ فَرَشَقَتْہُمْ ہَوَازِنُ وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِرَأْسِ بَغْلَتِہِ الْبَیْضَائِ وَہُوَ یَقُولُ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ یَحْیَی الْقَطَّانِ عَنْ سُفْیَانَ ۔
(١٨٤٧٢) براء بن عا زب فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے ابو عمارہ ! کیا آپ حنین کے دن بھاگ گئے تھے ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بھاگے۔ لیکن قوم کے جلد باز لوگوں پر جب ہوازن نے تیر برسائے اور ابوسفیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے تھے : میں نبی ہوں کوئی جھوٹ نہیں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

18479

(١٨٤٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ فِی قِصَّۃِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَقِتَالِہِ فِی غَزْوَۃِ مُؤْتَۃَ قَالَ وَہُوَ یَقُولُ : یَا حَبَّذَا الْجَنَّۃُ وَاقْتِرَابُہَا طَیِّبَۃٌ بَارِدَۃٌ شَرَابُہَا وَالرُّومُ رُومٌ قَدْ دَنَا عَذَابُہَا عَلَیَّ إِنْ لاَقَیْتُہَا ضِرَابُہَا وَعَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی بَکْرِ بْنِ حَزْمٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ رَوَاحَۃَ قَالَ حِینَ أَخَذَ الرَّایَۃَ یَوْمَئِذٍ : أَقْسَمْتُ یَا نَفْسِ لَتَنْزِلِنَّہْ طَائِعَۃً أَوْ لَتُکْرَہِنَّہْ إِنْ أَجْلَبَ النَّاسُ وَشَدُّوا الرَّنَّہْ مَا لِی أَرَاکِ تَکْرَہِینَ الْجَنَّہْ قَدْ طَالَ مَا قَدْ کُنْتِ مُطْمَئِنَّہْ ہَلْ أَنْتِ إِلاَّ نُطْفَۃٌ فِی شَنَّہْ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَقَالَ أَیْضًا : یَا نَفْسِ إِلاَّ تُقْتَلِی تَمُوتِی ہَذَا حِمَامُ الْمَوْتِ قَدْ صَلِیتِ وَمَا تَمَنَّیْتِ فَقَدْ أُعْطِیتِ إِنْ تَفْعَلِی فِعْلَہُمَا ہُدِیتِ وَإِنْ تَأَخَّرْتِ فَقَدْ شَقِیتِ یُرِیدُ جَعْفَرًا وَزَیْدًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ ثُمَّ أَخَذَ سَیْفَہُ فَتَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٧٣) ابن اسحاق غزوہ موتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب کے قتل کا قصہ ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
اے جنت تو ان کے قریب ہے۔ تیرا پینا پاکیزہ اور ٹھنڈا ہے۔
اور رومی ایسے لوگ ہیں کہ عذاب ان کے قریب ہے۔ اگر میری ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا قتل میرے ذمہ ہے۔
عبداللہ بن ابی بکر بن حضرم کہتے ہیں : جب عبداللہ بن رواحہ (رض) نے اس دن جھنڈا پکڑا تو یہ اشعار پڑھے :
اے جان ! میں نے قسم کھائی ہے کہ تجھے خوشی یا کراہت سے لڑائی میں اترنا ہی پڑے گا۔
اگرچہ لوگ جمع ہو کر سخت شور ہی کیوں نہ کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ تو جنت سے کراہت کرتی ہے۔
تو نے حالت اطمینان میں زندگی گزاری تو تو صرف ایک نطفہ ہی ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں آپ نے یہ بھی کہا۔
اے جان ! اگر تو قتل کردی گئی تو فوت ہوجائے گی۔ یہ موت کا چشمہ ہے جس کو تو ملی ہے اور جو تو نے خواہش کی تجھے دیا گیا۔ اگر تو نے یہ دونوں کام کرلیے تو بہتر ہے۔ اگر تو پیچھے ہٹ گئی تو بدبخت ہے۔
ان کا ارادہ جعفر اور زید کا تھا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر لڑائی کی اور شہید کردیے گئے۔

18480

(١٨٤٧٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْکَرِیمِ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ ہُنَیْدَۃَ رَجُلاً مِنْ خُزَاعَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ یَأْخُذُ ہَذَا السَّیْفَ بِحَقِّہِ ۔ قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا قَالَ : فَأَخَذَہُ فَلَمَّا لَقِیَ الْعَدُوَّ جَعَلَ یَقُولُ : إِنِّی امْرُؤٌ بَایَعَنِی خَلِیلِی وَنَحْنُ عِنْدَ أَسْفَلِ النَّخِیلِ أَنْ لاَ أَقُومَ الدَّہْرَ فِی الْکَیُولِ أَضْرِبْ بِسَیْفِ اللَّہِ وَالرَّسُولِ زَادَ غَیْرُہُ فِیہِ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٧٤) ھنیدہ خزاعہ کے ایک فرد ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے۔ ایک شخص نے کہا : میں حق ادا کروں گا، اس نے تلوار کے کر دشمن سے لڑائی کرتے ہوئے کہا :
میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنے خلیل سے بیعت کی ہے۔ جب ہم کھجور کے نیچے تھے۔ میں بزدلی سے نہ رہوں گا۔ میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار چلاتا رہوں گا دوسروں نے کچھ اضافہ کیا ہے کہ آخر کار وہ شھید ہوگئے۔

18481

(١٨٤٧٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا أَبُو یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الرَّحِیمِ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَیْرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ الْغَسِیلِ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ وَالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ (ح) قَالَ إِبْرَاہِیمُ وَحَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِیلِ عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ بَدْرٍ حِینَ صَفَّنَا لِقُرَیْشٍ وَصَفُّوا لَنَا : إِذَا أَکْثَبُوکُمْ فَارْمُوہُمْ بِالنَّبْلِ ۔ ہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ الْفَضْلِ وَقَالَ أَبُو أَحْمَدَ فِی حَدِیثِہِ : إِذَا کَثَبُوکُمْ ۔ یَعْنِی أَکْثَرُوکُمْ : فَارْمُوہُمْ بِالنَّبْلِ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَکُمْ ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصَّحِیحُ : إِذَا أَکْثَبُوکُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ الْفَضْلِ بْنِ دُکَیْنٍ وَعَنْ أَبِی یَحْیَی مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیمِ عَنْ أَبِی أَحْمَدَ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٩٠٠۔ ٣٩٨٤]
(١٨٤٧٥) حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا، جب ہم نے قریش کے لیے اور انھوں نے ہمارے لیے صف بندی کی کہ جب وہ تمہارے قریب آجائیں تو ان کو تیر مارو۔ یہ فضل کی حدیث کے الفاظ ہیں اور ابواحمد اپنی حدیث میں بیان کرتے ہیں : (اذا کثبو کم) یعنی جب وہ زیادہ تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر برساؤ اور اپنے تیروں کو بچا کر رکھو۔ ابوبکر کہتے ہیں کہ صحیح لفظ أکثبو کم ہے۔

18482

(١٨٤٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَجِیحٍ وَلَیْسَ بِالْمَلَطِیِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمَ بَدْرٍ : إِذَا أَکْثَبُوکُمْ فَارْمُوہُمْ بِالنَّبْلِ وَلاَ تَسُلُّوا السُّیُوفَ حَتَّی یَغْشُوکُمْ ۔ [صحیح ]
(١٨٤٧٦) مالک بن حمزہ بن ابی اسید اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب وہ تمہارے قریب آجائیں تو ان پر تیر برساؤ اور جب تک وہ تمہیں ڈھانپ نہ لیں۔ تلواریں نہ سو نتو۔

18483

(١٨٤٧٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا أَبُو خَیْثَمَۃَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : یَا أَبَا عُمَارَۃَ أَکُنْتُمْ فَرَرْتُمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ فَقَالَ : لاَ وَاللَّہِ مَا وَلَّی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَلَکِنَّہُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِہِ وَأَخِفَّاؤُہُمْ حُسَّرًا لَیْسَ عَلَیْہِمْ سِلاَحٌ أَوْ کَثِیرُ سِلاَحٍ فَلَقُوا قَوْمًا رُمَاۃً لاَ یَکَادُ یَسْقُطُ لَہُمْ سَہْمٌ جَمْعُ ہَوَازِنَ وَبَنِی نَصْرٍ فَرَشَقُوہُمْ رَشْقًا لاَ یَکَادُونَ یُخْطِئُونَ فَأَقْبَلُوا ہُنَاکَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَائِ وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَقُودُ بِہِ فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ وَقَالَ : أَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صَفَّہُمْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ عَنْ زُہَیْرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی۔ [صحیح ]
(١٨٤٧٧) ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے براء سے کہا : اے ابو عمارہ ! کیا تم حنین کے دن بھاگ گئے تھے ؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بھاگے۔ لیکن نوجوان جن کے پاس اسلحہ کی کمی یا زیادتی تھی۔ ان کو تیر انداز لوگ ملے۔ انھوں نے ان پر تیر برسائے۔ جن کا نشانہ خطا نہیں تھا اور انھوں نے ان کے ھوازن اور بنو نضر کے جمع شدہ حصے ختم ہونے کے قریب نہ تھے۔ پھر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجے ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سفید خچر پر سوار تھے۔ ابو سفیان بن حاث بن عبد المطلب اس کو چلا رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیچے اتر پڑے اور فرمایا : میں جھوٹا نبی نہیں ہوں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

18484

(١٨٤٧٨) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنِ ابْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ مِنَ الْغَیْرَۃِ مَا یُحِبُّہَا اللَّہُ وَمِنْہَا مَا یُبْغِضُ اللَّہُ فَأَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِی یُحِبُّ اللَّہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی الرِّیبَۃِ وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِی یُبْغِضُ فَالْغَیْرَۃُ فِی غَیْرِ رِیبَۃٍ وَأَمَّا الْخُیَلاَئُ الَّتِی یُحِبُّہَا اللَّہُ فَاخْتِیَالُ الرَّجُلِ بِنَفْسِہِ عِنْدَالْقِتَالِ وَاخْتِیَالُہُ عِنْدَالصَّدَقَۃِ وَالْخُیَلاَئُ الَّتِی یُبْغِضُ اللَّہُ فَاخْتِیَالُ الرَّجُلِ بِنَفْسِہِ فِی الْفَخْرِ وَالْخُیَلاَئِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٧٨) جابر بن عتیک فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بعض اوقات غیرت کو اللہ پسند فرماتے ہیں اور بعض اوقات اللہ کو غیرت پسند نہیں ہوتی۔ وہ غیرت جسے اللہ رب العزت پسند کرتے ہیں شک کے بارے میں اور وہ غیرت جو اللہ کو ناپسند ہے جو بغیر شک کے کی جائے اور اللہ رب العزت اس تکبر کو پسند کرتے ہیں جو لڑائی کے موقع پر انسان زختیار کرتا ہے یا صدقہ کے وقت تکبر کرنا اور وہ فخر جس کو اللہ ناپسند کرتے ہیں کہ انسان اپنے بارے میں فخر اور تکبر اختیار کرے۔

18485

(١٨٤٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ یُوسُفَ الأَزْرَقُ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ تَمِیمِ بْنِ سَیَّارٍ الطَّبَرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی زَائِدَۃَ عَنْ عَامِرٍ عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی نُعَیْمٍ وَلَیْسَ فِی رِوَایَۃِ الأَزْرَقِ : الأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ زَکَرِیَّا۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٧٩) عروہ بارقی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی باندھی گئی ہے، یعنی ثواب اور غنیمت۔ یہ ابو نعیم کی حدیث کے لفظ ہیں، لیکن ازرق کی روایت میں الاجر والغنیمۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔

18486

(١٨٤٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالاَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی نُشْبَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ثَلاَثٌ مِنْ أَصْلِ الإِیمَانِ الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ لاَ یُکَفِّرُہُ بِذَنْبٍ وَلاَ یُخْرِجُہُ مِنَ الإِسْلاَمِ بِعَمَلٍ وَالْجِہَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی أَنْ یُقَاتِلَ آخَرُ أُمَّتِی الدَّجَّالَ لاَ یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلاَ عَدْلُ عَادِلٍ وَالإِیمَانُ بِالأَقْدَارِ ۔ وَحَدِیثُ مَکْحُولٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : الْجِہَادُ وَاجِبٌ عَلَیْکُمْ مَعَ کُلِّ أَمِیرٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا۔ قَدْ مَضَی فِی بَابِ الإِمَامَۃِ وَکِتَابِ الْجَنَائِزِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٤٨٠) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں : 1 اس سے رک جانا جو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر نہ کہے عمل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہ کہے۔ 2 جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ جب سے اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے اور میری امت کا آخری فرد دجال سے جہاد کرے گا۔ کسی عادل کا عدل اور کسی ظالم کا ظلم اسے باطل نہ کرے گا۔ 3 تقدیر پر ایمان لانا۔ (ب) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہر نیک وبد امیر کے ساتھ جہاد واجب ہے۔

18487

(١٨٤٨١) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَحْبُورٍ الدَّہَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ أَحْمَدُ بْنُ الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِیرٍ حَدَّثَنَا أَبِی قَالَ سَمِعْتُ یُونُسَ بْنَ یَزِیدَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : خَیْرُ الأَصْحَابِ أَرْبَعَۃٌ وَخَیْرُ السَّرَایَا أَرْبَعُمِائَۃٍ وَخَیْرُ الْجُیُوشِ أَرْبَعَۃُ آلاَفٍ وَلَنْ یُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّۃٍ ۔ تَفَرَّدَ بِہِ جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ مَوْصُولاً ۔ وَرَوَاہُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ یُونُسَ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مُنْقَطِعًا قَالَ أَبُو دَاوُدَ أَسْنَدَہُ جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ وَہُوَ خَطَأٌ۔ [منکر ]
(١٨٤٨١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین ساتھی چار ہیں اور بہتر سریہ چار سو افراد کا ہے اور بہترین لشکر ٤ ہزار کا ہے اور ١٢ ہزار کا لشکر قلت کی بنا پر مغلوب نہ ہوگا۔

18488

(١٨٤٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ عَنْ حُیَیِّ بْنِ مِخْمَرٍ الْوَصَّابِیِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّہِ مِنْ أَہْلِ دِمَشْقَ عَنْ أَکْثَمَ بْنِ الْجَوْنِ الْخُزَاعِیِّ ثُمَّ الْکَعْبِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَا أَکْثَمُ بْنَ الْجَوْنِ اغْزُ مَعَ غَیْرِ قَوْمِکَ یَحْسُنْ خُلُقُکَ وَتَکْرُمْ عَلَی رُفَقَائِکَ یَا أَکْثَمُ بْنَ الْجَوْنِ خَیْرُ الرُّفَقَائِ أَرْبَعَۃٌ وَخَیْرُ الطَّلاَئِعِ أَرْبَعُونَ وَخَیْرُ السَّرَایَا أَرْبَعُمِائَۃٍ وَخَیْرُ الْجُیُوشِ أَرْبَعَۃُ آلاَفٍ وَلَنْ یُؤْتَی اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّۃٍ یَا أَکْثَمُ بْنَ الْجَوْنِ لاَ تُرَافِقِ الْمِائَتَیْنِ ۔ [ضعیف جدًا ]
(١٨٤٨٢) اکثم بن جون خزاعی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اکثم بن جون ! اپنی قوم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ غزوہ کرو۔ آپ کا اخلاق اچھا ہوگا اور اپنے ساتھیوں کی عزت کرو۔ اے اکثم بن جون بہترین ساتھی چار ہیں اور بہتر ہر اول دستہ ٤٠ افراد کا ہے اور بہتر سریہ ٤ سو اشخاص کا ہے اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے اور ١٢ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے شکست نہ دیا جائے گا۔ اے اکثم بن جون ! تو دو سو افراد کا ساتھی نہ بن۔

18489

(١٨٤٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إِیمَانٌ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ۔ قِیلَ : ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : ثُمَّ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ قِیلَ : ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ یُونُسَ وَغَیْرِہِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِی مُزَاحِمٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کون سے اعمال افضل ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا : اس کے بعد ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ کہا گیا : اس کے بعد ؟ فرمایا : مقبول حج۔

18490

(١٨٤٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِیَادٍ حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِی زُرْعَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِیرٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : انْتَدَبَ اللَّہُ لِمَنْ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِہِ لاَ یُخْرِجُہُ إِلاَّ إِیمَانٌ بِی وَتَصْدِیقٌ بِرَسُولِی فَہُوَ عَلَیَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَوْ أَرْجِعَہُ إِلَی بَیْتِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ نَائِلاً مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِیمَۃٍ ۔ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَا مِنْ مَکْلُومٍ یُکْلَمُ فِی اللَّہِ إِلاَّ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَکَلْمُہُ یَدْمَی اللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ وَالرِّیحُ رِیحُ مِسْکٍ ۔ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی مَا تَخَلَّفْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَکِنْ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُہُمْ وَلاَ یَجِدُونَ سَعَۃً فَیَتَّبِعُونِی وَلاَ تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ أَنْ یَتَخَلَّفُوا بَعْدِی ۔ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی أَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ۔ حَدِیثُ الْکَلْمِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسَدَّدٍ وَرَوَی الْبَاقِیَ عَنْ حَرَمِیِّ بْنِ حَفْصٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِیدِ عَنْ عُمَارَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٤) اللہ فرماتے ہیں : وہ شخص جو اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے میرے ساتھ ایمان لانے اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تو میرے ذمہ ہے کہ میں اس کو جنت میں داخل کروں یا اس کو اس کے گھر واپس کروں، جہاں سے وہ آیا ہے اس حالت میں کہ جو اس نے ثواب اور غنیمت حاصل کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ کے لیے زخم کھاتا ہے وہ کل قیامت کے دن آئے گا۔ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا۔ جس کی رنگت خون جیسی اور حوشبو کستوری جیسی ہوگی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں کسی سریہ سے بھی پیچھے نہ رہتا۔ جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں نہ تو میں ان کے لیے سواریاں پاتا ہوں اور نہ ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ میرے پیچھے آسکیں اور نہ ہی ان کو یہ پسند ہے کہ وہ میرے بعد پیچھے رہ سکیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں۔ پھر میں قتل کیا جاؤں۔ پھر میں جہاد کروں۔ پھر میں قتل کیا جاؤں۔ پھر میں جہاد کروں۔ پھر میں قتل کیا جاؤں۔

18491

(١٨٤٨٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْخَوَارِزْمِیُّ الْحَافِظُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ النَّیْسَابُورِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ النَّضْرِ أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا الْمُغِیرَۃُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : تَکَفَّلَ اللَّہُ لِمَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِہِ لاَ یُخْرِجُہُ مِنْ بَیْتِہِ إِلاَّ جِہَادٌ فِی سَبِیلِہِ وَتَصْدِیقُ کَلِمَتِہِ بِأَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَوْ یَرْجِعَہُ إِلَی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٥) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (رض) نے فرمایا : اللہ رب العزت نے ضمانت دی ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، اسے گھر سے صرف اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا اور اس کے کلمہ کی تصدیق کرنا ہی نکلنا ہے۔ اللہ اس کو جنت میں داخل کرے یا پھر اس کو ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ اس کے گھر واپس لوٹائے۔

18492

(١٨٤٨٦) وَعَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِنْ قَعَدْتُ خِلاَفَ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَلَکِنْ لاَ أَجِدُ سَعَۃً فَأَحْمِلَہُمْ وَلاَ یَجِدُونَ سَعَۃً فَیَتَّبِعُونِی وَلاَ تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ أَنْ یَقْعُدُوا بَعْدِی ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٦) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر میں لوگوں پر مشقت خیال نہ کرتا تو میں کسی سریہ سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہے لیکن میں ان کے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اتنی وسعت پاتے ہیں کہ وہ میرے پیچھے آسکیں اور نہ ہی ان کو میرے بعد پیچھے رہنا اچھا لگتا ہے۔

18493

(١٨٤٨٧) وَعَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوَدِدْتُ أَنْ أُقَاتِلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا فَأُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا ۔ کَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ ثَلاَثًا أُشْہِدُ اللَّہَ الْحَدِیثُ الأَوَّلُ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَقَدْ أَخْرَجَا بَاقِیَہُ مِنْ أَوْجُہٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٧) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر میں لوگوں پر مشقت خیال نہ کرتا تو میں کسی سریہ سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا، لیکن میں ان کے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اتنی وسعت پاتے ہیں کہ وہ میرے پیچھے آسکیں اور نہ ہی ان کو میرے بعد پیچھے رہنا اچھا لگتا ہے۔

18494

(١٨٤٨٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاکِرٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَۃَ أَنَّ أَبَا حَصِینٍ حَدَّثَہُ أَنَّ ذَکْوَانَ حَدَّثَہُ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ عَلِّمْنِی عَمَلاً یَعْدِلُ الْجِہَادَ قَالَ : لاَ أَجِدُہُ ۔ ثُمَّ قَالَ فَقَالَ : ہَلْ تَسْتَطِیعُ إِذَا خَرَجَ الْمُجَاہِدُ أَنْ تَدْخُلَ الْمَسْجِدَ فَتَقُومَ لاَ تَفْتُرَ وَتَصُومَ لاَ تُفْطِرَ ۔ قَالَ : لاَ أَسْتَطِیعُ ذَلِکَ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : إِنَّ فَرَسَ الْمُجَاہِدِ یَسْتَنُّ فِی طِوَلِہِ فَیُکْتَبُ لَہُ حَسَنَاتٍ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ جَعْفَرٍ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ عَنْ عَفَّانَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٨) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کون سی چیز اللہ کے راستہ میں جہاد کے برابر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ ہم نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے : راوی کہتے ہیں : تجھے معلوم نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا شخص اس کی طرح ہے جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور ہمہ وقت حالت قیام میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ روزے اور نماز میں کرتا ہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا مجاہد گھر لوٹ آئے۔

18495

(١٨٤٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُفْیَانَ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ مُنِیبٍ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنْ سُہَیْلٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَخْبِرْنَا مَا یَعْدِلُ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ؟ قَالَ : إِنَّکُمْ لاَ تَسْتَطِیعُونَ ۔ قُلْنَا : بَلَی قَالَ : إِنَّکُمْ لاَ تَسْتَطِیعُونَہُ ۔ قَالَ فَلاَ أَدْرِی فِی الثَّالِثَۃِ أَمْ فِی الرَّابِعَۃِ : مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآیَاتِ اللَّہِ لاَ یَفْتُرُ مِنْ صَلاَۃٍ وَلاَ صِیَامٍ حَتَّی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ إِلَی أَہْلِہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَرِیرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٨٩) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کون سی چیز اللہ کے راستہ میں جہاد کے برابر ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ ہم نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ راوی کہتے ہیں : تجھے معلوم نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا شخص اس کی طرح ہے جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور ہمہ وقت حالت قیام میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ روزے اور نماز میں کرتا ہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا مجاہد گھر میں لوٹ آئے۔

18496

(١٨٤٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَیُّوبَ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ یَعْنِی ابْنَ سَلاَّمٍ عَنْ زَیْدٍ ہُوَ ابْنُ سَلاَّمٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ قَالَ حَدَّثَنِی النُّعْمَانُ بْنُ بَشِیرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ رَجُلٌ : لاَ أُبَالِی أَنْ لاَ أَعْمَلَ عَمَلاً بَعْدَ الإِسْلاَمِ إِلاَّ أَنْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامِ وَقَالَ الآخِرُ : الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَفْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ فَزَجَرَہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ثُمَّ قَالَ : لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہُوَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ وَلَکِنِّی إِذَا صَلَّیْتُ الْجُمُعَۃَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَیْتُہُ فِیمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَجَاہَدَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ لاَ یَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّہِ } [التوبۃ ١٩] الآیَۃَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْحُلْوَانِیِّ عَنْ أَبِی تَوْبَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٧٨٩]
(١٨٤٩٠) نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں منبر رسول کے پاس تھا کہ ایک شخص نے کہا : مجھے کوئی پر وہ نہیں کہ میں اسلام کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کو آباد کرنے سے۔ دوسرے نے کہہ دیا : جو تو نے کہا اللہ کے راستہ میں جہاد اس سے افضل ہے تو حضرت عمر (رض) نے ان کو ڈانٹا اور فرمایا : منبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آوازیں بلند نہ کرو۔ جمعہ کا دن تھا۔ میں نماز جمعہ کے بعد تمہارا اختلافی مسئلہ پوچھ لوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی : { اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْن } [التوبہ ١٩] کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کی تعمیر کرنا اس شخص کے ماند بنادیا جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرتا ہے وہ اللہ کے ہاں برابر نہیں۔

18497

(١٨٤٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا الْغَدْوَۃُ یَغْدُوہَا الْعَبْدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوْ الرَّوْحَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَفِی الْبَابِ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٩١) سہل بن سعد (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں ایک کو ڑے کے برابر جگہ دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔ صبح یا شام کے وقت اللہ کے راستہ میں بندے کا جانا دنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے سے بہتر ہے۔

18498

(١٨٤٩٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأُمَوِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ مَالِکٍ الشَّرْعَبِیُّ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی جَعْفَرٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ عَنْ سَلْمَانَ الأَغَرِّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِسَرِیَّۃٍ تَخْرُجُ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَخْرُجُ اللَّیْلَۃَ أَمْ نَمْکُثُ حَتَّی نُصْبِحَ فَقَالَ : أَوَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ تَبِیتُوا فِی خِرَافٍ مِنْ خِرَافِ الْجَنَّۃِ ۔ وَالْخَرِیفُ الْحَدِیقَۃُ ۔ [حسن ]
(١٨٤٩٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ کو جانے کا حکم دیا۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! رات کو چلے جائیں یا صبح کا انتظار کرلیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تم رات جنت کے باغوں میں گزارو۔

18499

(١٨٤٩٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی أَبُو ہَانِئٍ الْخَوْلاَنِیُّ عَنْ أَبِی عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِیِّ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : یَا أَبَا سَعِیدٍ مَنْ رَضِیَ بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ ۔ قَالَ : فَعَجِبَ لَہَا أَبُو سَعِیدٍ فَقَالَ : أَعِدْہَا عَلَیَّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَأُخْرَی یُرْفَعُ بِہَا الْعَبْدُ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ ۔ قَالَ : وَمَا ہِیَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ؟ قَالَ : الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٨٨٤]
(١٨٤٩٣) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ابوسعید (رض) ! جو اللہ کے رب اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوا، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو سعید (رض) نے تعجب کیا اور کہا : دوبارہ بیان فرمائیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے پھر فرمایا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندے کے جنت میں سو درجے بلند کردیے جاتے ہیں اور ہر دودرجوں کے درمیانی مسافت زمین و آسمان کے برابر ہے۔ اس نے کہا : یہ کیا ہے ’؟ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔

18500

(١٨٤٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا فُلَیْحٌ عَنْ ہِلاَلِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ أَوِ ابْنِ أَبِی عَمْرَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللَّہِ أَنْ یُدْخِلَہُ یَعْنِی الْجَنَّۃَ ہَاجَرَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوْ مَاتَ فِی أَرْضِہِ الَّتِی وُلِدَ فِیہَا ۔ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَفَلاَ نُنْبِئُ النَّاسَ بِذَلِکَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ مَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ أَعَدَّہَا اللَّہُ لِلْمُجَاہِدِینَ فِی سَبِیلِہِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّہَ فَسَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہُ وَسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی ۔ [صحیح۔ بخاری ]
(١٨٤٩٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور رسول پر ایمان رکھے، نماز ادا کرے، زکوۃ دے، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کردے۔ اس نے اللہ کے راستہ میں ہجرت کی یا اپنی جائے پیدائش پر ہی فوت ہوگیا۔ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم لوگوں کو خبر نہ دے دیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں سودرجے ہیں اور ہر درجہ کے درمیان زمین و آسمان کی مسافت کے برابر فاصلہ ہے۔ یہ اللہ نے مجاہدین کے لیے تیار کی ہے۔ جب بھی تم اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس طلب کیا کرو۔ یہ جنت کے درمیان یا اوپر ہے۔ اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے۔

18501

(١٨٤٩٥) قَالَ وَحَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ فَحَدَّثَنَا بِہَذَا الْحَدِیثِ فُلَیْحٌ الثَّانِیَۃَ فَذَکَرَہُ عَنْ ہِلاَلِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ بِنَحْوِہِ وَلَمْ یَشُکُّ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ صَالِحٍ عَنْ فُلَیْحٍ وَلَم یَشُکُّ ۔
(١٨٤٩٥) خالی۔

18502

(١٨٤٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْکَرِیمِ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ حَدَّثَنِی عَطَائُ بْنُ یَزِیدَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قِیلَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَیُّ النَّاسِ أَفْضَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مُؤْمِنٌ مُجَاہِدٌ فِی سَبِیلِ اللَّہِ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ ۔ فَقَالَ : ثُمَّ مَنْ قَالَ : مُؤْمِنٌ فِی شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ یَتَّقِی اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ أَوْجُہٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٤٩٦) حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون لوگ افضل ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ مومن جو اپنے جان ومال سے جہاد کرتا ہے۔ پوچھا : پھر کون ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ مومن جو کسی گھاٹی میں اللہ رب العزت سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو ان کے شر کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔

18503

(١٨٤٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ وَأَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الْعَطَّارُ الْحِیرِیُّ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ الذُّہْلِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ بَعْجَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : مِنْ خَیْرِ مَعَاشِ النَّاسِ رَجُلٌ مُمْسِکٌ بِعِنَانِ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ یَطِیرُ عَلَی مَتْنِہِ کُلَّمَا سَمِعَ ہَیْعَۃً أَوْ فَزْعَۃً طَارَ عَلَیْہِ یَبْتَغِی الْقَتْلَ وَالْمَوْتَ مَظَانَّہُ أَوْ رَجُلٌ فِی غُنَیْمَۃٍ فِی رَأْسِ شَعَفَۃٍ مِنْ ہَذِہِ الشَّعَفِ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ ہَذِہِ الأَوْدِیَۃِ یُقِیمُ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَیَعْبُدُ رَبَّہُ حَتَّی یَأْتِیَہُ الْیَقِینُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ فِی خَیْرٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ وَیَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ کِلَیْہِمَا عَنْ أَبِی حَازِمٍ بِہَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَہُ وَقَالَ عَنْ بَعْجَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بَدْرٍ وَقَالَ فِی شِعْبَۃٍ مِنْ ہَذِہِ الشِّعَابِ ۔
(١٨٤٩٧) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں میں سے اس شخص کی زندگی نہایت بہتر ہے، جس نے اللہ کے راستہ میں اپنی سواری کی لگام کو تھاما۔ جب وہ کسی طرف سے خطرے یا فریاد رسی کی اطلاع پاتا ہے تو برق رفتاری سے اس کی طرف جاتا ہے۔ وہ موت کے مواقع تلاش کرتا ہے یا وہ شخص جو چند بکریوں کے ساتھ اپنی پہاڑی پر مقیم ہے یا کسی وادی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ وہ مرتے دم تک نماز اور زکوۃ ادا کرتا ہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگارہتا ہے۔ ایسا شخص لوگوں سے خیر و بھلائی میں ہے۔ (ب) بعجہ بن عبداللہ بن بدر فرماتے ہیں : پہاڑیوں میں سے کسی پہاڑی پر۔

18504

(١٨٤٩٨) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حِمْدَانَ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ وَہُوَ أَبُو مُسْلِمٌ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ دِینَارٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : تَعِسَ عَبْدُ الدِّینَارِ وَعَبْدُ الدِّرْہَمِ وَعَبْدُ الْخَمِیصَۃِ إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ وَإِنْ مُنِعَ سَخِطَ تَعِسَ وَانْتَکَسَ وَإِذَا شِیکَ فَلاَ انْتَقَشَ طُوبَی لِعَبْدٍ آخِذٍ بِعِنَانِ فَرَسِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَشْعَثُ رَأْسُہُ مُغْبَرَّۃٌ قَدَمَاہُ إِنْ کَانَ فِی السِّیَاقَۃِ کَانَ فِی السِّیَاقَۃِ وَإِنْ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ کَانَ فِی الْحِرَاسَۃِ إِنِ اسْتَأْذَنَ لَمْ یُؤْذَنْ لَہُ وَإِنْ شَفِعَ لَمْ یُشَفَّعْ طُوبَی لَہُ ثُمَّ طُوبَی لَہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَرْزُوقٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٦٣٥۔ ٢٨٨٧]
(١٨٤٩٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : درھم و دینار اور چادر کا بندہ ہلاک ہوگیا۔ اگر دیا جائے تو راضی رہتا ہے اگر نہ ملے تو ناراض ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص بدنصیب اور ذلیل ہو، اسے کانٹا چبھ جائے تو نکالانہ جائے اور اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے، جس نے اللہ کی راہ میں گھوڑے کی لگام تھام رکھی ہے۔ اس کا سر پرا گندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں۔ اگر اسے لشکر کے پچھلے حصے میں متعین کیا جائے تو وہاں ڈیوٹی دیتا ہے۔ اگر اسے حفاظتی دستہ میں کھڑا کیا جائے تو کھڑا ہوجاتا ہے۔ اگر اجازت چاہے تو اجازت نہیں دی جاتی اور کسی کی سفارش کرے تو سفارش نہیں مانی جاتی، اس کو خوشخبری ہو، خوشخبری ہو !

18505

(١٨٤٩٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدٍ أَخْبَرَنِی أَبِی حَدَّثَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ حَدَّثَنِی أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلاَمٍ : أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالُوا لَوْ أَرْسَلْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَسُولاً یَسْأَلُہُ عَنْ أَحَبِّ الأَعْمَالِ إِلَی اللَّہِ قَالَ فَلَمْ یَذْہَبْ إِلَیْہِ أَحَدٌ مِنَّا وَہَبْنَا أَنْ نَسْأَلَہُ عَنْ ذَلِکَ قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُولَئِکَ النَّفَرَ رَجُلاً رَجُلاً حَتَّی جَمَعَہُمْ وَنَزَلَتْ فِیہِمْ ہَذِہِ السُّورَۃُ { سَبَّحَ لِلَّہِ } [الحدید ١] قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلاَمٍ فَقَرَأَہَا عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کُلَّہَا قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ قَرَأَہَا عَلَیْنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلاَمٍ کُلَّہَا قَالَ یَحْیَی بْنُ أَبِی کَثِیرٍ وَقَرَأَہَا عَلَیْنَا أَبُو سَلَمَۃَ کُلَّہَا قَالَ الأَوْزَاعِیُّ وَقَرَأَہَا عَلَیْنَا یَحْیَی کُلَّہَا قَالَ الْعَبَّاسُ قَالَ أَبِی وَقَرَأَہَا عَلَیْنَا الأَوْزَاعِیُّ کُلَّہَا۔ [صحیح ]
(٩٩ ١٨٤) عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ صحابہ کہنے لگے : کسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجو کہ وہ پوچھے کہ اللہ کو کون سے اعمال پسندیدہ ہیں ؟ راوی کہتے ہیں : کوئی بھی آپ کے پاس نہ گیا۔ ہم نے آپ سے پوچھنا مؤخر کردیا۔ آپ نے اس گروہ کے ایک ایک فرد کو بلایا حتی کہ وہ سب جمع ہوگئے تو ان کے بارے میں یہ سورة نازل ہوئی : { سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم } [الحدید ١]
عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکمل سورت ہمارے سامنے پڑھی۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے ہمارے سامنے مکمل سورت پڑھی۔ یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابو مسلمہ نے وہ سورت پوری ہمارے سامنے پڑھی اور اوزاعی کہتے ہیں : یحییٰ نے وہ سورة مکمل پڑھی۔ عباس (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ اوزاعی نے بھی مکمل سورت تلاوت کی۔

18506

(١٨٥٠٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ حَدَّثَنِی أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ : اجْتَمَعْنَا فتَذَاکَرْنَا فَقُلْنَا : أَیُّکُمْ یَأْتِی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَیَسْأَلُہُ أَیُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللَّہِ قَالَ ثُمَّ تَفَرَّقْنَا وَہِبْنَا أَنْ یَأْتِیَہُ مِنَّا أَحَدٌ فَأَرْسَلَ إِلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَجَمَعَنَا فَجَعَلَ یُومِئُ بَعْضُنَا إِلَی بَعْضٍ فَقَرأَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - { سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ } [الحشر ] إِلَی آخِرِ السُّورَۃِ قَالَ یَحْیَی فَقَرَأَہَا عَلَیْنَا أَبُو سَلَمَۃَ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ فَقَرَأَہَا عَلَیْنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَلاَّمٍ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ الأَوْزَاعِیُّ فَقَرَأَہَا عَلَیْنَا یَحْیَی مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَقَرَأَہَا عَلَیْنَا الأَوْزَاعِیُّ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ مُعَاوِیَۃُ وَقَرَأَہَا أَبُو إِسْحَاقَ عَلَیْنَا مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصَّغَانِیُّ وَقَرَأَہَا عَلَیْنَا مُعَاوِیَۃُ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا قَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ : وَلَم یَقْرَأْ عَلَیْنَا الصَّغَانِیُّ السُّورَۃَ بِتَمَامِہَا وَقَرَأَ أَبُو الْعَبَّاسِ مِنْ أَوَّلِہَا شَیْئًا وَقَرَأَ الْقَاضِی مِنْ أَوَّلِہَا شَیْئًا وَقَرَأَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ عَلَیْنَا السُّورَۃَ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا وَقَرَأَہَا الشَّیْخُ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٠٠) ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رض) حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم جمع ہو کر آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ کون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھے گا کہ اللہ کو کون سے اعمال زیادہ پسندیدہ ہیں۔ پھر ہم منتشر ہوگئے تاکہ کوئی بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام کو جمع فرمایا۔ ہم ایک دوسرے کی جانب اشارہ کر رہے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم یہ آیت تلاوت فرمائی : { سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم } [الحدید ۔ الحشر ] آسمان و زمین میں موجود تمام اشیاء اللہ کی تسبیحات بیان کرتی ہیں، وہ غالب حکمت والا ہے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ ابو سلمہ نے ابتدا سے لے کر آخر تک تلاوت کی اور ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام (رض) نے شروع سے آخر تک پڑھی اور اوزاعی کہتے ہیں کہ یحییٰ نے ابتدا سے انتہا تک تلاوت کی اور ابو اسحاق کہتے ہیں کہ اوزاعی نے ابتدا سے اخیر تک تلاوت کی اور معاویہ کہتے ہیں کہ ابو اسحاق نے شروع سے آخر تک پڑھی۔ ابوبکر صنعانی کہتے ہیں کہ معاویہ نے ہمارے سامنے مکمل سورة تلاوت کی۔ ابو العباس کہتے ہیں کہ صنعانی نے مکمل سورة تلاوت نہ کی۔ ابو العباس اور قاضی نے ابتدائی حصہ تلاوت کیا اور ابو عبداللہ حافظ نے مکمل سورة تلاوت کی اور شیخ نے بھی مکمل سورة پڑھی۔

18507

(١٨٥٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ رَحِمَہُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَیْبَانَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ قَالَ کَانَ الْحَدِیثُ یَبْلُغُنِی عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَکُنْتُ أَشْتَہِی لِقَائَ ہُ فَلَقِیتُہُ فَقُلْتُ : یَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّہُ کَانَ یَبْلُغُنِی عَنْکَ الْحَدِیثَ فَکُنْتُ أَشْتَہِی لِقَائَ کَ قَالَ : لِلَّہِ أَبُوکَ فَقَدْ لَقِیتَ فَہَاتِ فَقُلْتُ : حَدِیثٌ بَلَغَنِی أَنَّکَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حَدَّثَکُمْ : إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی یُحِبُّ ثَلاَثَۃً وَیُبْغِضُ ثَلاَثَۃً ۔ قَالَ : مَا إِخَالُنِی أَنْ أَکْذِبَ عَلَی خَلِیلِی - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قُلْتُ : فَمَنِ الثَّلاَثَۃُ الَّذِینَ یُحِبُّ اللَّہُ ؟ قَالَ : رَجُلٌ لَقِیَ الْعَدُوَّ فَقَاتَلَ وَإِنَّکُمْ لَتَجِدُّونَ ذَلِکَ فِی الْکِتَابِ عِنْدَکُمْ {إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا } [الصف ٤] قُلْتُ : وَمَنْ ؟ قَالَ : رَجُلٌ لَہُ جَارُ سَوْئٍ فَہُوَ یُؤْذِیہِ فَیَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُ فَیَکْفِیہِ اللَّہُ إِیَّاہُ بِحَیَاۃٍ أَوْ مَوْتٍ ۔ قَالَ : وَمَنْ ؟ قَالَ : رَجُلٌ کَانَ مَعَ قَوْمٍ فِی سَفَرٍ فَنَزَلُوا فَعَرَّسُوا وَقَدْ شَقَّ عَلَیْہِمُ الْکَرَی وَالنُّعَاسُ وَوَضَعُوا رُئُ وسَہُمْ فَنَامُوا وَقَامَ فَتَوَضَّأَ فَصَلَّی رَہْبَۃً لِلَّہِ وَرَغْبَۃً إِلَیْہِ ۔ قُلْتُ : فَمَنِ الثَّلاَثَۃُ الَّذِینَ یُبْغِضُ ؟ قَالَ : الْبَخِیلُ الْمَنَّانُ وَالْمُخْتَالُ الْفَخُورُ وَإِنَّکُمْ لَتَجِدُونَ ذَلِکَ فِی کِتَابِ اللَّہِ {إِنَّ اللَّہَ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ } [لقمان ١٨] قَالَ : فَمَنِ الثَّالِثُ ؟ قَالَ : التَّاجِرُ الْحَلاَّفُ أَوِ الْبَائِعُ الْحَلاَّفُ ۔ [صحیح۔ اخرجہ الطیالسی ٤٦٨]
(١٨٥٠١) مطرف بن عبداللہ بن سخیر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مجھے ابو ذر سے ملی اور میں ان سے ملاقات کا شوق رکھتا تھا۔ جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا : اے ابوذر ! آپ سے یہ حدیث ملی تھی اور ملاقات کا شوق بھی تھا تو انھوں نے کہا : تیرے باپ کے لیے خرابی ہو۔ اب ملے ہیں تو بتاؤ۔ میں نے کہا : آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تین چیزوں کو پسند اور تین سے بغض رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں میرا خیال نہیں کہ میں اپنے دوست پر جھوٹ بولوں۔ میں نے کہا : وہ کون تین اشیاء ہیں جن کو اللہ پسند کرتے ہیں ؟ فرمایا : 1 کسی شخص کا دشمن سے قتال کرنا جیسے اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ} [الصف ٤] کہ اللہ ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کے راستہ میں صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا : دوسرا کون شخص ؟ فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو اپنے برے ہمسائے کی تکالیف پر صبر کرتا ہے تو اللہ اس کو زندگی کے اندر یا موت کے بعد اس کا بدلہ دے گا۔ تیسرا بندہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ شخص جو لوگوں کے ساتھ سفر میں شامل ہوتا ہے لوگ پڑاؤ کرتے وقت سو جاتے ہیں لیکن یہ اللہ کے ڈر اور رغبت سے وضو کر کے نماز کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ تین آدمی کون سے ہیں جن سے اللہ بغض رکھتا ہے ؟ 1 بخیل احسان جتانے والا۔ 2 فخر کرنے والا متکبر۔ 3 یہ بھی اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ } کہ اللہ متکبر فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتے۔ [لقمان ١٨] اس نے کہا : تیسرا شخص کون ہے ؟ فرمایا : قسمیں اٹھانے والا تاجر یا قسمیں اٹھا کر سامان فروخت کرنے والا۔

18508

(١٨٥٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی حَبِیبٍ عَنْ أَبِی الْخَیْرِ عَنْ أَبِی الْخَطَّابِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ عَامَ تَبُوکٍ خَطَبَ النَّاسَ وَہُوَ مُضِیفٌ ظَہْرَہُ إِلَی نَخْلَۃٍ فَقَالَ : أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ وَشَرِّ النَّاسِ إِنَّ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ رَجُلاً عَمِلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ عَلَی ظَہْرِ فَرَسِہِ أَوْ عَلَی ظَہْرِ بَعِیرِہِ أَوْ عَلَی قَدَمَیْہِ حَتَّی یَأْتِیَہُ الْمَوْتُ وَإِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ رَجُلاً فَاجِرًا جَرِیئًا یَقْرَأُ کِتَابَ اللَّہِ لاَ یَرْعَوِی إِلَی شَیْئٍ مِنْہُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٠٢) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک میں لوگوں کو کھجور کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بہترین اور بدترین لوگ نہ بتاؤں ؟ بہتر انسان وہ ہے جو گھوڑے یا اونٹ یا پیادہ موت تک اللہ راستہ میں جہاد کرتا ہے اور بدترین شخص فاجر جری جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے لیکن کوئی چیز اس سے حاصل نہیں کرتا۔

18509

(١٨٥٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأُمَوِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی ہِلاَلٍ عَنِ ابْنِ أَبِی ذُبَابٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَرَّ بِشِعْبٍ فِیہِ عُیَیْنَۃٌ مِنْ مَائٍ عَذْبٍ فَأَعْجَبَہُ طِیبُہُ وَحُسْنُہُ فَقَالَ : لَوِ اعْتَزَلْتُ النَّاسَ وَأَقَمْتُ فِی ہَذَا الشِّعْبِ ثُمَّ قَالَ : لاَ أَفْعَلُ حَتَّی أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : لاَ تَفْعَلْ فَإِنَّ مُقَامَ أَحَدِکُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِہِ فِی أَہْلِہِ سِتِّینَ عَامًا أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَیُدْخِلَکُمُ الْجَنَّۃَ اغْزُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فُوَاقَ نَاقَۃٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ ۔ [حسن ]
(١٨٥٠٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک شخص ایک گھاٹی کے پاس سے گزرا جس میں میٹھے پانی کا چشمہ تھا تو اس کی خوشبو اور خوبصورتی اس کو اچھی لگی۔ اس نے کہا : اگر میں لوگوں سے الگ ہو کر یہاں بیٹھ جاؤں۔ لیکن پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشورہ کروں گا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کیا تو آپ نے ایسا کرنے سے منع کردیا اور فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا گھر میں ٦٠ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہ معاف کر کے جنت میں داخل کر دے ! اللہ کے راستہ میں جہاد کرو، جس نے اونٹنی کا دودھ دوہنے کے وقت کے برابر اللہ کے راستہ میں جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہے۔

18510

(١٨٥٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مُقَامُ الرَّجُلِ فِی الصَّفِّ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَۃِ رَجُلٍ سِتِّینَ سَنَۃً ۔ [حسن لغیرہ ]
(١٨٥٠٤) حضرت عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی شخص کا اللہ کے راستہ میں صف میں کھڑا ہونا اس کی ٦٠ برس کی عبادت سے افضل ہے۔

18511

(١٨٥٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ أَبِی مَعْنٍ عَنْ أَبِی صَالِحٍ مَوْلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کُنْتُ أَکْتُمُکُمُوہُ ضِنًّا بِکُمْ قَدْ بَدَا لِی أَنْ أُبْدِیَہُ نَصِیحَۃً لَکُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : یَوْمُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَأَلْفِ یَوْمٍ فِیمَا سِوَاہُ فَلْیَنْظُرْ کُلُّ امْرِئٍ مِنْکُمْ لِنَفْسِہِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٠٥) ابو صالح حضرت عثمان بن عفان (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) مسجد خیف میں تھے، فرمایا : اے لوگو ! میں نے ایک حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ جو میں نے تم سے پوشیدہ رکھی۔ لیکن اب میں نصیحت کے وقت ظاہر کر رہاہوں۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دن اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ایک ہزار دن کے برابر ہے تو ہر انسان اپنے بارے میں سوچے۔

18512

(١٨٥٠٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُمَاہِرِ : مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِیُّ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ أَخْبَرَنِی الْعَلاَئُ بْنُ الْحَارِثِ عَنِ الْقَاسِمِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلاً قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ائْذَنْ لِی فِی السِّیَاحَۃِ فَقَالَ : إِنَّ سِیَاحَۃَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٠٦) حضرت ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے سیروسیاحت کی اجازت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کی سیروساحت اللہ کی راستہ میں جہاد کرنے میں ہے۔

18513

(١٨٥٠٧) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُمَاہِرِ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ یَعْنِی ابْنَ حُمَیْدٍ حَدَّثَنَا الْعَلاَئُ بْنُ الْحَارِثِ عَنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً أَتَی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ ائْذَنْ لِی فِی الزِّنَا قَالَ فَہَمَّ مَنْ کَانَ قُرْبَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَتَنَاوَلُوہُ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : دَعُوہُ ۔ ثُمَّ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ادْنُہْ أَتُحِبُّ أَنْ یُفْعَلَ ذَلِکَ بِأُخْتِکَ ۔ قَالَ : لاَ قَالَ : فَبِابْنَتِکَ ۔ قَالَ : فَلَمْ یَزَلْ یَقُولُ بِکَذَا وَکَذَا کُلَّ ذَلِکَ یَقُولُ : لاَ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : فَاکْرَہْ مَا کَرِہَ اللَّہُ وَأَحِبَّ لأَخِیکَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ ۔ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَادْعُ اللَّہَ أَنْ یُبَغِّضَ إِلَیَّ النِّسَائَ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُمَّ بَغِّضْ إِلَیْہِ النِّسَائَ ۔ قَالَ : فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیْہِ بَعْدَ لَیَالٍ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا مِنْ شَیْئٍ أَبْغَضَ إِلَیَّ مِنَ النِّسَائِ فَائْذَنْ لِی بِالسِّیَاحَۃِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ سِیَاحَۃَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٠٧) ابوامامہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب بیٹھے ہوئے افراد نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اسے چھوڑ دو ۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قریب ہوجاؤ، کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ آپ کی بہن سے زنا کیا جائے۔ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے پوچھا : تیری بیٹی سے۔ راوی کہتے ہیں : آپ بار بار اسے یہ کہتے رہے تو وہ ہر مرتبہ نفی میں جو اب دیتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو بھی ناپسند کر اس بات کو جس کو اللہ ناپسند کرتے ہیں۔ اور اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کر جو تو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے عورتوں سے نفرت پیدا کر دے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے اللہ ! تو عورتوں کو اس کے لیے متنفر فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد وہ پھر واپس آیا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عورتوں سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہیں۔ آپ مجھے سیر و تفریح کی اجازت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت کی سیر و سیاحت جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔

18514

(١٨٥٠٨) حَدَّثَنَا الإِمَامُ أَبُو الطَّیِّبِ : سَہْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ بْنِ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا أَبِی وَشُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالاَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ الْہَادِ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أَبِی یَزِیدَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ أَبِی اللَّجْلاَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی جَوْفِ عَبْدٍ أَبَدًا وَلاَ یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالإِیمَانُ فِی قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا ۔ [صحیح ]
(١٨٥٠٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کے راستے کی غبار اور جہنم کا دھواں ایک پیٹ میں اکٹھے نہیں ہوسکتے اور بخل اور ایمان کسی آدمی کے دل میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

18515

(١٨٥٠٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْغَضَائِرِیُّ بِبَغْدَادَ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنْ أَبِی نَجِیحٍ السُّلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَصْرَ الطَّائِفِ فَسَمِعْتُ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فَبَلَغَ فَلَہُ دَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ إِنْ رَمَیْتُ فَبَلَغْتُ فَلِی دَرَجَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ ۔ قَالَ : نَعَمْ ۔ فَرَمَی فَبَلَغَ قَالَ وَبَلَّغْتُ یَوْمَئِذٍ سِتَّۃَ عَشَرَ سَہْمًا قَالَ وَسَمِعْتُ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ رَمَی بِسَہْمٍ کَانَ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَیُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ رَجُلاً مُسْلِمًا فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ جَاعِلٌ وِقَائَ کُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِہِ عَظْمًا مِنْ عِظَامِہِ مِنَ النَّارِ وَأَیُّمَا امْرَأَۃٍ مُسْلِمَۃٍ أَعْتَقَتِ امْرَأَۃً مُسْلِمَۃً فَإِنَّ اللَّہَ جَاعِلٌ وِقَائَ کُلِّ عَظْمٍ مِنْ عِظَامِہَا عَظْمًا مِنْ عِظَامِ مُحَرَّرِہَا مِنَ النَّارِ ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا أَسَدُ بْنُ وَدَاعَۃَ عَنْ أَبِی نَجِیحٍ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٠٩) ابونجیح سلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طائف کے محل میں موجود تھا۔ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جس نے صحیح نشانے پر تیر مارا اس کے لیے جنت میں ایک درجہ ہوگا۔ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں تیر نشانے پر ماروں تو بدلے لیے بھی جنت میں درجہ ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں تو اس نے تیر نشانے پر مارے تقریبا سولہ تیر۔ کہتے ہیں : میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کو اللہ کے راستہ میں بڑھاپا آگیا۔ اس کے لیے قیامت کے دن نور کا باعث ہوگا۔ جس نے اللہ کے راستہ میں تیر پھینکا۔ یہ بھی اس کے لیے قیامت کے دن روشنی کا باعث بنے گا اور جس انسان نے کسی مسلمان مرد کو آزاد کیا تو اللہ رب لعزت اس کی ہڈیوں کے عوض اس کے تمام جسم کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر دے گا اور جس مسلمان عورت نے کسی مسلمان عورت کو آزاد کیا تو اللہ رب العزت آزاد کرنے والی عورت کو اس کے بدلے جہنم سے آزاد کردیں گے۔

18516

(١٨٥١٠) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی رِجَالٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الْقَاسِمِ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ رَمَی الْعَدُوَّ بِسَہْمٍ فَبَلَّغَ سَہْمَہُ أَخْطَأَ أَوْ أَصَابَ فَعِدْلُ رَقَبَۃٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٥١٠) حضرت عمروبن عبسہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : جس نے دشمن کو تیرمارا اور وہ نشانے پر لگا۔ یہ نشانہ خطا ہوگیا۔ اسے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔

18517

(١٨٥١١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ عِیسَی الْحِیرِیُّ حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ قَطَنٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ عَنْ شُرَحْبِیلَ بْنِ السَّمْطِ قَالَ قُلْنَا لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ السُّلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدِّثْنَا وَاحْذَرْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ شَابَ شَیْبَۃً فِی الإِسْلاَمِ کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَانَ کَعِتْقِ رَقَبَۃٍ ۔[صحیح ]
(١٨٥١١) واحذر کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : جس کو اسلام میں بڑھاپا آگیا یہ اس کے لیے قیامت کے دن نور کا باعث بنے گا اور جس نے اللہ کے راستہ میں تیر پھینکا، اسے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔

18518

(١٨٥١٢) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ وَأَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ وَأَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْقَطَّانِ وَأَبُو عَبْدِ اللَّہِ : الْحُسَیْنُ بْنُ عُمَرَ بْنِ بُرْہَانَ وَأَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِیَۃَ عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہَاشِمٍ الزُّہْرِیِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ : نَثَلَ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَۃَ یَعْنِی نَفَضَ کِنَانَتَہُ یَوْمَ أُحُدٍ وَقَالَ : ارْمِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥١٢) سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ترکش عطا کیا۔ حسن بن عرفہ کہتے ہیں، یعنی اپنا ترکش احد کے دن پھینکا اور فرمایا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں تیر اندازی کرو۔

18519

(١٨٥١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِیُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ (ح) وَأَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَا سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جَمَعَ أَبَوَیْہِ إِلاَّ لِسَعْدٍ فَإِنَّہُ قَالَ : ارْمِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قَبِیصَۃَ وَمُسَدَّدٍ عَنْ یَحْیَی عَنِ الثَّوْرِیِّ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥١٣) حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف سعد (رض) کے لیے اپنے والدین کے بارے میں فرمایا کہ میرے والدین آپ پر فدا ہوں تیر اندازی کرو۔

18520

(١٨٥١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَلِیمٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُوَجِّہِ أَخْبَرَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِیُّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ أَبُو طَلْحَۃَ یَتَتَرَّسُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِتُرْسٍ وَاحِدٍ وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ حَسَنَ الرَّمْیِ وَکَانَ إِذَا رَمَی یُشْرِفُ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَیَنْظُرُ إِلَی مَوْضِعِ نَبْلِہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُبَارَکِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥١٤) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ابو طلحہ ایک ڈھال سے اپنا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرتے تھے اور ابوطلحہ بہترین تیرا انداز تھے۔ جب وہ تیر پھینکتے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتے۔

18521

(١٨٥١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِیُّ أَبُو الْجُمَاہِرِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی زِیَادٍ الْمَوْصِلِیُّ حَدَّثَنِی إِسْحَاقُ بْنُ زَیْدٍ الْخَطَّابِیُّ وَکَانَ یَسْکُنُ حَرَّانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَکِ الصُّورِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ حَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ أَبِی مَرْیَمَ أَخْبَرَنِی عَبَایَۃُ بْنُ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعٍ حَدَّثَنِی أَبُو عَبْسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَا اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَتَمَسَّہُمَا النَّارُ أَبَدًا ۔ لَفُظُہَمَا وَاحِدٌ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُبَارَکِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٥٤١]
(١٨٥١٥) ابو عبس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوجائیں ان کو جہنم کی آگ نہ چھوئے گی۔

18522

(١٨٥١٦) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ حَدَّثَنَا عُتْبَۃُ بْنُ حَکِیمٍ عَنْ حَرْمَلَۃَ عَنْ أَبِی الْمُصَبِّحِ الْحِمْصِیِّ قَالَ : کُنَّا نَسِیرُ فِی صَائِفَۃٍ وَعَلَی النَّاسِ مَالِکُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْخَثْعَمِیُّ فَأَتَی عَلَی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ یَمْشِی یَقُودُ بَغْلاً لَہُ فَقَالَ لَہُ : أَلاَ تَرْکَبُ وَقَدْ حَمَلَکَ اللَّہُ فَقَالَ جَابِرٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ حَرَّمَہُمَا اللَّہُ عَلَی النَّارِ ۔ أُصْلِحُ لِی دَابَّتِی وَأَسْتَغْنِی عَنْ قَوْمِی فَوَثَبَ النَّاسُ عَنْ دَوَابِّہِمْ فَمَا رَأَیْتُ نَازِلاً أَکْثَرَ مِنْ یَوْمِئِذٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥١٦) ابو مصبح حمصی فرماتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی شکل میں چل رہے تھے، جن کے امیر مالک بن عبداللہ تھے۔ ان کا گزر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس سے ہوا جو اپنی خچر کو ساتھ لیے پیدل چل رہے تھے تو مالک بن عبداللہ نے کہا : آپ سوار کیوں نہیں ہوتے حالانکہ اللہ نے آپ کو سواری عطا کی ہے تو جابر (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو قدم اللہ کے راستہ میں خاک آلود ہوگئے، ان پر اللہ جہنم کی آگ کو حرام کردیتا ہے۔ میری سواری تندرست ہے اور میں اپنی قوم سے بے پروا ہوں تو لوگ اپنی سواریوں سے اتر پڑے۔ میں نے اس دن سے زیادہ پیدل چلتے ہوئے لوگ نہیں دیکھے۔

18523

(١٨٥١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَا أَحَدٌ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ فَیَتَمَنَّی أَنْ یَخْرُجَ مِنْہَا وَإِنْ لَہُ مَا عَلَی الأَرْضِ مِنْ شَیْئٍ إِلاَّ الشَّہِیدَ فَإِنَّہُ یَتَمَنَّی أَنْ یَرْجِعَ فَیُقْتَلَ عَشْرَ مِرَارٍ لِمَا رَأَی مِنَ الْکَرَامَۃِ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الْعَقَدِیِّ وَفِی رِوَایَۃِ الطَّیَالِسِیِّ : مَا مِنْ عَبْدٍ لَہُ عِنْدَ اللَّہِ خَیْرٌ یُحِبُّ أَنْ یَرْجِعَ إِلَی الدُّنْیَا إِلاَّ الشَّہِیدَ فَإِنَّہُ یَوَدُّ لَوْ أَنَّہُ رَجَعَ فَقُتِلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرَی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ غُنْدَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥١٧) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ دنیا میں آنا پسند نہیں کرے گا، اگرچہ اسے دنیا کی تمام چیزیں بھی دی جائیں مگر شہید آرزو کرے گا کہ وہ دنیا میں جائے اور دس بار شہید کیا جائے کیونکہ وہ عزت وشرف دیکھ چکا ہوتا ہے۔
(ب) ۔ طیالسی کی روایت میں ہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ اللہ رب العزت سے جنت حاصل کرنے کے بعد دنیا میں آنا پسند کرے سوائے شہید کے؛ کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت کو دیکھ چکا ہوگا، اس لیے وہ دس مرتبہ شہید کیے جانے کی خواہش کرے گا۔

18524

(١٨٥١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ وَعِیسَی بْنُ یُونُسَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ أَرْوَاحِ الشُّہَدَائِ فَقَالَ قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : أَرْوَاحُہُمْ کَطَیْرٍ خُضْرٍ لَہَا قَنَادِیلُ مُعَلَّقَۃٌ فِی الْعَرْشِ تَسْرَحُ حَیْثُ شَائَ تْ ثُمَّ تَأْوِی إِلَی قَنَادِیلِہَا فَبَیْنَمَا ہُمْ عَلَی ذَلِکَ إِذِ اطَّلَعَ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ اطِّلاَعَۃً فَیَقُولُ مَا تَشْتَہُونَ فَیَقُولُونَ وَمَا نَشْتَہِی وَنَحْنُ فِی الْجَنَّۃِ نَسْرَحُ حَیْثُ شِئْنَا فَإِذَا رَأَوْا أَنْ لاَ بُدَّ مِنْ أَنْ یَسْأَلُوا قَالُوا تُرَدُّ أَرْوَاحُنَا فِی أَجْسَادِنَا فَنُقَاتِلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَنُقْتَلُ مَرَّۃً أُخْرَی فَإِذَا رَأَی أَنْ لاَ یَسْأَلُوہُ شَیْئًا تَرَکَہُمْ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ وَفِی رِوَایَۃِ الْمُقْرِئِ قَالَ : سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبُّہُمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِینَ } [آل عمران ١٦٩-١٧٠] قَالَ : أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ ثُمَّ ذَکَرَ مَعْنَاہُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ وَعَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥١٨) مسروق حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ان سے شہداء کی روحوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : ہم نے بھی ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ان شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں۔ ان کے لیے عرش کے نیچے فانوس معلق ہیں، وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں۔ پھر ان فانوسوں میں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہو کر پوچھتا ہے کہ تمہیں کچھ چاہیے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے جب کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں اڑتے پھرتے ہیں اور جب انھوں نے محسوس کیا کہ ان سے پوچھا جاتا رہے گا۔ تب انھوں نے عرض کیا : اے پروردگار ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری ارواح کو ہمارے جسموں میں داخل فرمائیں تاکہ ایک مرتبہ پھر تیرے راستے میں کٹ مریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انھیں ضرورت نہیں تو ان کو ویسے چھوڑ دیا جائے گا۔ (ب) ۔ مقری کی روایت میں ہے کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا : { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبُّہُمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِینَ۔۔۔} [آل عمران ١٦٩-١٧٠] جو لوگ اللہ کے راہ میں مارے گئے ہیں، انھیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور انھیں رزق مل رہا ہے۔ کہتے ہیں : ہم نے اس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی پوچھا تھا۔

18525

(١٨٥١٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ الْہَرَوِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ وَأَبُو مُعَاوِیَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُرَّۃَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : سَأَلْنَا عَبْدُ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ فَذَکَرَہَا وَقَالَ : أَرْوَاحُہُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ ۔[صحیح۔ مسلم ١٨٨٧]
(١٨٥١٩) مسروق فرماتے ہیں کہ ہم نے اس آیات کے بارے میں حضرت عبداللہ (رض) سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا : شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہوتی ہیں۔

18526

(١٨٥٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِدْرِیسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أُمَیَّۃَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللَّہُ أَرْوَاحَہُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّۃِ تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا وَتَأْوِی إِلَی قَنَادِیلَ مِنْ ذَہَبٍ مُعَلَّقَۃٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ فَلَمَّا وَجَدُوا طِیبَ مَأْکَلِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ وَمَقِیلِہِمْ قَالُوا مَنْ یُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَائٌ فِی الْجَنَّۃِ نُرْزَقُ لِئَلاَّ یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلاَ یَنْکُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ قَالَ وَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ { وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ} [آل عمران ١٦٩] إِلَی آخِرِ الآیَاتِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٢٠) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید ہوگئے تو اللہ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں میں داخل فرما دیا۔ جو جنت کی نہروں پر اڑتے پھرتے ہیں اور اس کے پھلوں سے کھاتے ہیں، عرش کے نیچے ان کے لیے سونے کے فانوس معلق ہیں جن میں وہ رہتے ہیں۔ جب انھوں نے کھانے پینے اور اچھی آرام گاہ کو پایاتو کہا کہ ہمارے بھائیوں کو ہماری بات کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں، رزق دیے جاتے ہیں تاکہ وہ جہاد سے بےرغبتی اور لڑائی کے وقت بزدلی نہ دکھائیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : میں تمہاری بات ان تک پہنچا دیتا ہوں اللہ کا فرمان ہے : { وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ } [آل عمران ١٦٩]

18527

(١٨٥٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ حَدَّثَنَا عَوْفٌ حَدَّثَتْنَا حَسْنَائُ بِنْتُ مُعَاوِیَۃَ قَالَتْ حَدَّثَنَا عَمِّی قَالَ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّہِ مَنْ فِی الْجَنَّۃِ ؟ قَالَ : النَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ وَالشَّہِیدُ وَالْمَوْلُودُ وَالْوَئِیدُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٢١) حناء بنت معاویہ فرماتے ہیں کہ میرے چچا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : جنت میں کون داخل ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نبی، شھید، پیدا ہونے والا بچہ اور زندہ درگور کی گئی بچی۔

18528

(١٨٥٢٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ أَوَّلَ مَا یُہَرَاقُ مِنْ دَمِ الشَّہِیدِ تُغْفَرُ لَہُ ذُنُوبُہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٢٢) سھل بن ابی امامہ بن سھل بن حنیف اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شہید کے خون کے پہلے قطرے پر اللہ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔

18529

(١٨٥٢٣) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو السَّکْسَکِیُّ عَنْ أَبِی الْمُثَنَّی الْمُلَیْکِیِّ عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَکَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : الْقَتْلَی ثَلاَثَۃٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَقِیَ الْعَدُوَّ فَقَاتَلَ حَتَّی یُقْتَلُ فَذَلِکَ الْمُمْتَحَنُ فِی خَیْمَۃِ اللَّہِ تَحْتَ عَرْشِہِ لاَ یَفْضُلُہُ النَّبِیُّونَ إِلاَّ بِدَرَجَۃِ النُّبُوَّۃِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ قَرَفَ عَلَی نَفْسِہِ مِنَ الذُّنُوبِ وَالْخَطَایَا لَقِیَ الْعَدُوَّ فَقَاتَلَ حَتَّی یُقْتَلُ فَتِلْکَ مُمَصْمِصَۃٌ مَحَتْ ذُنُوبَہُ وَخَطَایَاہُ إِنَّ السَّیْفَ مَحَّائٌ لِلْخَطَایَا وَقِیلَ لَہُ ادْخُلْ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ شِئْتَ فَإِنَّہَا ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابٍ وَلِجَہَنَّمَ سَبْعَۃُ أَبْوَابٍ بَعْضُہَا أَفْضَلُ مِنْ بَعْضٍ یَعْنِی أَبْوَابَ الْجَنَّۃِ وَرَجُلٌ مُنَافِقٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَقَاتَلَ حَتَّی یُقْتَلُ فَذَاکَ فِی النَّارِ إِنَّ السَّیْفَ لاَ یَمْحُو النِّفَاقَ ۔[ضعیف ]
(١٨٥٢٣) عتبہ بن عبد سلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مقتول تین قسم کے ہیں، ایسا شخص جو اپنی جان اور مال لیکر دشمن کے مقابلہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو اللہ اس شخص کو عرش کے نیچے جگہ عطا کرتے ہیں اور انبیاء نبوت کی وجہ سے ایک درجہ اس سے اوپر ہوتے ہیں اور ایسا شخص جو گناہ کرنے کے بعد میدانِ جہاد میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے تو یہ شہادت اس کے گناہوں اور غلطیوں کو ختم کردیتی ہے۔ کیونکہ تلوار غلطیوں کو ختم کرنے والی ہے اور ایسے شخص سے کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ جنت کے آٹھ اور جہنم کے سات دروازے ہیں اور جنت کے دروازے ایک دوسرے سے فضیلت رکھتے ہیں اور منافق آدمی اپنے مال وجان کے ساتھ میدان جہاد میں لڑائی کرتے ہوئے مارا جائے تو یہ جہنمی ہے کیونکہ تلوار نفاق کو ختم نہیں کرتی۔

18530

(١٨٥٢٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ غِیَاثٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ مُرَّۃَ الْہَمْدَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَیْنِ رَجُلٍ ثَارَ عَنْ وِطَائِہِ وَلِحَافِہِ مِنْ بَیْنَ حِبِّہِ وَأَہْلِہِ إِلَی صَلاَتِہِ رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی وَرَجُلٍ غَزَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَانْہَزَمَ فَعَلِمَ مَا عَلَیْہِ فِی الاِنْہِزَامِ وَمَا لَہُ فِی الرُّجُوعِ فَرَجَعَ حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ فَیَقُولُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلاَئِکَتِہِ انْظُرُوا إِلَی عَبْدِی رَجَعَ رَغْبَۃً فِیمَا عِنْدِی وَشَفَقَۃً مِمَّا عِنْدِی حَتَّی أُہَرِیقَ دَمُہُ ۔ وَرُوِیَ فِی مَعْنَاہُ عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ مَرْفُوعًا۔ [صدوق ]
(١٨٥٢٤) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ رب العزت دو آدمیوں سے تعجب کرتے ہیں : ایک وہ جو اپنے بستر اور لحاف سے اپنے محبوبوں اور گھر والوں کے درمیان سے نماز کے لیے اٹھتا ہے۔ میری نعمتوں میں رغبت کرتے ہوئے اور میرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور ایک وہ شخص جو اللہ کے راستے میں لڑائی کرتے ہوئے شکست کھا جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ شکست کی وجہ سے اس پر ایک گناہ ہے اور واپس پلٹنے میں کیا ثواب ہے تو دوبارہ لڑائی کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت اپنے فرشتوں سے کہتے ہیں : میرے بندے کی طرف دیکھو کہ میری نعمتوں میں رغبت کرتے اور میرے عذاب سے ڈرتے ہوئے واپس پلٹ کر جان کا نذرانہ پیش کردیا۔

18531

(١٨٥٢٥) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الدَّرَابْجِرْدِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِیدٌ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : الشَّہِیدُ لاَ یَجِدُ أَلَمَ الْقَتْلِ إِلاَّ کَمَا یَجِدُ أَحَدُکُمْ أَلَمَ الْقَرْصَۃِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٢٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شہید قتل کی اتنی تکلیف بھی محسوس نہیں کرتا۔ مگر جتنی تم چیونٹی کے ڈسنے کی وجہ سے محسوس کرتے ہو۔

18532

(١٨٥٢٦) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّزَّازُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی عُثْمَانُ بْنُ أَبِی سُلَیْمَانَ عَنْ عَلِیٍّ الأَزْدِیِّ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حُبْشِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - سُئِلَ أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إِیمَانٌ لاَ شَکَّ فِیہِ وَجِہَادٌ لاَ غُلُولَ فِیہِ وَحَجَّۃٌ مَبْرُورَۃٌ ۔ قِیلَ : أَیُّ الصَّلاَۃِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : طُولُ الْقِیَامِ ۔ قِیلَ : فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : جُہْدٌ مِنْ مُقِلٍّ ۔ قِیلَ : فَأَیُّ الْہِجْرَۃِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَنْ ہَجَرَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ عَلَیْہِ ۔ قِیلَ : فَأَیُّ الْجِہَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : مَنْ جَاہَدَ الْمُشْرِکِینَ بِمَالِہِ وَنَفْسِہِ ۔ قِیلَ : فَأَیُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ : مَنْ أُہْرِیقَ دَمُہُ وَعُقِرَ جَوَادُہُ ۔ [حسن ]
(١٨٥٢٦) عبداللہ بن حبشی فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل اعمال کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسا ایمان جس میں شک نہ ہو اور جہاد جس میں خیانت نہ ہو اور مقبول حج۔ کہا گیا : کونسی نماز افضل ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لمبے قیام والی۔ کہا گیا : صدقہ کونسا افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کم مال سے خرچ کرنا۔ کہا گیا : ہجرت کونسی افضل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو چھوڑ دیا۔ کہا گیا : جہاد افضل کونسا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے مشرکین سے اپنے مال جان کے ساتھ جہاد کیا۔ کہا گیا : افضل قتل کونسا ہے ؟ آقا نے فرمایا : مجاہد اور اس کا گھوڑا قتل کردیا جائے۔

18533

(١٨٥٢٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ رَبَاحٍ الذِّمَارِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی عَمِّی نِمْرَانُ بْنُ عُتْبَۃَ الذِّمَارِیُّ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أُمِّ الدَّرْدَائِ وَنَحْنُ أَیْتَامٌ فَقَالَتْ : أَبْشِرُوا فَإِنِّی سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَشْفَعُ الشَّہِیدُ فِی سَبْعِینَ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہِ ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ صَوَابُہُ رَبَاحُ بْنُ الْوَلِیدِ ۔ [صحیح لغیرہ۔ بدون قصہ الدخول علی ام الدردائ ]
(١٨٥٢٧) ولید بن رباح ذماری فرماتے ہیں کہ میرے چچا نمران بن عتبہ ذماری کہتے ہیں کہ ہم ام درداء کے پاس آئے۔ ہم یتیم تھے۔ کہنے لگیں : تم خوش ہوجاؤ؛ کیونکہ میں نے ابودرداء سے سنا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ شہید آدمی کی ستر گھر والوں کے بارے میں سفارش قبول کی جائے گی۔

18534

(١٨٥٢٨) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ وَابْنِ عَجْلاَنَ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُکْلَمُ فِی سَبِیلِہِ إِلاَّ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَجُرْحُہُ یَثْعَبُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّیحُ رِیحُ الْمِسْکِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ ابْنِ یُوسُفَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ النَّاقِدِ وَزُہَیْرٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ۔ [متفق علیہ ]
(١٨٥٢٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو انسان اللہ کے راستہ میں زخمی کیا جاتا ہے، اللہ جانتے ہیں کہ جو اس کے راستہ میں زخمی کیا گیا مگر جب وہ قیامت کے دن آئے گا اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا جس کی رنگت خون کی اور خوشبو کستوری کی ہوگی۔

18535

(١٨٥٢٩) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ بَالُوَیْہِ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : کُلُّ کَلْمٍ یُکْلَمُہُ الْمُسْلِمُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ یَکُونُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَہَیْئَتِہَا إِذَا طُعِنَتْ تَفَجَّرُ دَمًا فَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْکِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٢٩) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر وہ زخم جو مسلمان اللہ کے راستہ میں کھاتا ہے تو وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہوگا۔ جیسے اسے زخمی کیا گیا۔ زخم سے بہہ رہا ہوگا۔ رنگت خون جیسی اور خوشبو کستوری جیسی ہوگی۔

18536

(١٨٥٣٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرٍو الْحِیرِیُّ وَأَبُو بَکْرٍ الْوَرَّاقُ قَالاَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَوْنٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ عَنْ سُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یَجْتَمِعَانِ فِی النَّارِ اجْتِمَاعًا یَضُرُّ أَحَدُہُمَا ۔ قِیلَ : مَنْ ہُمْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : مُؤْمِنٌ قَتَلَ کَافِرًا ثُمَّ سَدَّدَ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَوْنٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٨٩١]
(١٨٥٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو انسان جہنم میں اکٹھے نہ ہوں گے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو تکلیف دیتا ہے۔ کہا گیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون ہے ؟ فرمایا : مومن جو کافر کو قتل کرتا ہے پھر صراط مستقیم پر رہتا ہے۔

18537

(١٨٥٣١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنِ الْعَلاَئِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ یَجْتَمِعُ کَافِرٌ وَقَاتِلُہُ فِی النَّارِ أَبَدًا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کافر اور اس کا قاتل جہنم میں کبھی بھی اکٹھے نہ ہوں گے۔

18538

(١٨٥٣٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ وَأَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ قَالاَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : یَضْحَکُ اللَّہُ مِنْ رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ کِلاَہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ ۔ قَالُوا : وَکَیْفَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ؟ قَالَ : یُقْتَلُ ہَذَا فَیَلِجُ الْجَنَّۃَ ثُمَّ یَتُوبُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی الآخَرِ فَیَہْدِیہِ إِلَی الإِسْلاَمِ ثُمَّ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَیُسْتَشْہَدُ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ مَعْمَرٍ ۔ [متفق علیہ ]
(١٨٥٣٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان دو لوگوں پر مسکراتا ہے جو ایک دوسرے کو قتل کردینے کے باوجود جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! یہ کیسے ممکن ہے ؟ مقتول جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر قاتل کو اللہ اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ پھر وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوجاتا ہے۔

18539

(١٨٥٣٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : یَضْحَکُ اللَّہُ إِلَی رَجُلَیْنِ یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الآخَرَ کِلاَہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُ ہَذَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَیُقْتَلُ ثُمَّ یَتُوبُ اللَّہُ عَلَی الْقَاتِلِ فَیُقَاتِلُ فَیُسْتَشْہَدُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ مَالِکٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٣٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دوانسانوں پر مسکراتے ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کرنے کے باوجود جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ایک اللہ کے راستہ میں لڑتا ہوا شہید ہوا، جبکہ دوسرے کی اللہ نے توبہ قبول کرلی، پھر وہ بھی راہ خدا میں شہادت حاصل کرلیتا ہے۔

18540

(١٨٥٣٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الإِمَامُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ الأَنْصَارِیُّ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْعَطَّارُ الْحِیرِیُّ وَأَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْفَارِسِیُّ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَلِیٍّ قَالاَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَانَ یَدْخُلُ عَلَی أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُہُ وَکَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ فَدَخَلَ عَلَیْہَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَوْمًا فَأَطْعَمَتْہُ ثُمَّ جَلَسَتْ تَفْلِی رَأْسَہُ فَنَامَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ قَالَتْ فَقُلْتُ : مَا یُضْحِکُکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ؟ فَقَالَ : نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی عُرِضُوا عَلَیَّ غُزَاۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ یَرْکَبُونَ ثَبَجَ ہَذَا الْبَحْرِ مُلُوکًا عَلَی الأَسِرَّۃِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوکِ عَلَی الأَسِرَّۃِ ۔ یَشُکُّ أَیَّہُمَا قَالَ قَالَتْ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ فَدَعَا لَہَا ثُمَّ وَضَعَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَأْسَہُ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ قَالَتْ فَقُلْتُ : مَا یُضْحِکُکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی عُرِضُوا عَلَیَّ غُزَاۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ کَمَا قَالَ فِی الأُولَی قَالَتْ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ قَالَ : أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِینَ ۔ فَرَکِبَتِ أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ الْبَحْرَ فِی زَمَنِ مُعَاوِیَۃَ فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِہَا حِینَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَہَلَکَتْ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ إِسْمَاعِیلَ وَغَیْرِہِ عَنْ مَالِکٍ ۔
(١٨٥٣٤) حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام حرام بنت ملحان کے پاس کھانے کے لیے تشریف لائے اور ام حرام عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں۔ ایک دن آپ اس کے پاس آئے تو وہ کھانا کھلانے کے بعد سر سے جوئیں نکالنے بیٹھ گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کے بعد بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ کہتی ہیں : میں نے کہا : آپ کو کس بات نے ہنسادیا ؟ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے فرمایا : میری امت کے لوگ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کیے گئے۔ وہ سمندر کے درمیان سواری کرتے ہیں، جیسے بادشاہ تختوں پر۔ راوی کہتے ہیں کہ ام حرام نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! دعا کردیں کہ میں بھی ان میں سے ہوجاؤں آپ نے دعا کردی۔ پھر آپ سونے کے بعد بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ فرماتی ہیں : میں نے کہا : آپ کو کسی چیز نے ہنسادیا ؟ فرمایا : میری امت کے لوگ غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کیے گئے جیسے پہلی مرتبہ تھے۔ انھوں نے دوبارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی درخواست کردی کہ اسے ان میں شمار کیا جائے۔ آپ نے فرمایا : تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔ معاویہ (رض) کے دور میں ام حرام نے سمندر کا سفر کیا جب سمندر سے نکلی تو چوپائے کی سواری سے گرنے کی وجہ سے وفات پا گئیں۔

18541

(١٨٥٣٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا (ح) قَالَ وَأَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْبَغَوِیُّ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ ہِشَامٍ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ حَدَّثَتْنِی أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فِی بَیْتِہَا یَوْمًا ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا أَضْحَکَکَ ؟ قَالَ : عُرِضَ عَلَیَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ظَہْرَ ہَذَا الْبَحْرِ کَالْمُلُوکِ عَلَی الأَسِرَّۃِ ۔ قُلْتُ : ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ فَدَعَا لَہَا ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ فَقُلْتُ : ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ قَالَ : أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِینَ ۔ فَتَزَوَّجَہَا عُبَادَۃُ بْنُ الصَّامِتِ فَغَزَا بِہَا فِی الْبَحْرِ فَلَمَّا رَجَعُوا قُرِّبَتْ لَہَا بَغْلَۃٌ لِتَرْکَبَہَا فَصَرَعَتْہَا فَدَقَّتْ عُنُقَہَا فَمَاتَتْ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ خَلَفِ بْنِ ہِشَامٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٣٥) ام حرام بنت ملحان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن انس (رض) کے گھر تشریف فرما تھے تو بیدار ہونے کے بعد مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا : آپ کو کسی چیز نے مسکرادیا ہے ؟ فرمایا : میری امت کے لوگ سمندر پر سواری کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کیے گئے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا : دعا کریں اللہ مجھے بھی ان میں شامل کرلے۔ آپ دعا کرکے دوبارہ لیٹ گئے۔ پھر بیدار ہونے کے بعد اس طرح ہی کہا، میں نے دوبارہ دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا : تو پہلے لوگوں میں سے ہے تو عبادہ بن صامت نے ان سے نکاح کیا اور سمندری سفر میں لے گئے۔ جب واپس آنے لگے تو خچر سے گرنے کی وجہ کی سے گردن ٹوٹ گئی، یہ ان کی ہلاکت کا سبب بنا۔

18542

(١٨٥٣٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأُمَوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَتِیکٍ أَخِی بَنِی سَلِمَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ قَالَ ثُمَّ ضَمَّ أَصَابِعَہُ الثَلاَثَ وَأَیْنَ الْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ؟ مَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَخَرَّ عَنْ دَابَّتِہِ فَمَاتَ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ وَإِنْ لَدَغَتْہُ دَابَّۃٌ فَمَاتَ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ وَمَنْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِہِ ۔ قَالَ : وَإِنَّہَا لَکَلِمَۃٌ مَا سَمِعْتُہَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ أَوَّلَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَعْنِی بِحَتْفِ أَنْفِہِ عَلَی فِرَاشِہِ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ وَمَنْ قُتِلَ قَعْصًا فَقَدِ اسْتَوْجَبَ الْجَنَّۃَ ۔
(١٨٥٣٦) بنو سلمہ کے محمد بن عبداللہ بن عتیک اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو جہاد فی سبیل اللہ کی نیت گھر سے نکلا۔ راوی کہتے ہیں : پھر آپ نے اپنی تین انگلیاں ملائیں اور فرمایا : اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کہاں ہیں ؟ جو شخص اللہ کے راستہ میں اپنی سواری سے گر کر فوت ہوجائے تو اس کا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے اور اگر کسی چیز کے ڈسنے کی وجہ سے فوت ہوجائے تو اس کو مکمل اجر ملے گا اور جو انسان اپنی طبعی موت فوت ہوگیا۔ راوی کہتے ہیں : یہ کلمہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کسی عرب سے نہ سنا تھا، یعنی جو اپنے بستر پر فوت ہوگیا اس کا اجر بھی اللہ کے ذمہ ہے اور جو انسان موقع پر ہی قتل کردیا گیا اس نے جنت کو واجب کرلیا۔

18543

(١٨٥٣٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِیہِ یَرُدُّہُ إِلَی مَکْحُولٍ إِلَی ابْنِ غَنْمٍ الأَشْعَرِیِّ أَنَّ أَبَا مَالِکٍ الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ مَنِ انْتَدَبَ خَارِجًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ ابْتِغَائَ وَجْہِہِ وَتَصْدِیقَ وَعْدِہِ وَإِیمَانًا بِرِسَالاَتِہِ عَلَی اللَّہِ ضَامِنٌ فَإِمَّا یَتَوَفَّاہُ اللَّہُ فِی الْجَیْشِ بِأَیِّ حَتْفٍ شَائَ فَیُدْخِلُہُ الْجَنَّۃَ وَإِمَّا یَسِیحُ فِی ضَمَانِ اللَّہِ وَإِنْ طَالَتْ غَیْبَتُہُ ثُمَّ یَرُدُّہُ إِلَی أَہْلِہِ سَالِمًا مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِیمَۃٍ ۔ قَالَ : وَمَنْ فَصَلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَمَاتَ أَوْ قُتِلَ یَعْنِی فَہُوَ شَہِیدٌ أَوْ وَقَصَہُ فَرَسُہُ أَوْ بَعِیرُہُ أَوْ لَدَغَتْہُ ہَامَّۃٌ أَوْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِہِ بِأَیِّ حَتْفٍ شَائَ اللَّہُ فَإِنَّہُ شَہِیدٌ وَلَہُ الْجَنَّۃُ ۔
(١٨٥٣٧) ابومالک اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے ہیں : جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اللہ کی رضا مندی کی تلاش، اس کے وعدے کی تصدیق اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کی وجہ سے تو اللہ رب العزت اس بندے کا ضامن ہے کہ اللہ اس کو لشکر میں جس طرح بھی موت دے۔ اس کو جنت میں داخل کرلے گا۔ وہ اللہ کی ضمانت میں ہی رہے گا۔ اگرچہ وہ زیادہ دیر غائب رہے۔ پھر اللہ رب العزت اس کو اس کے گھر صحیح سلامت اور اجر وثواب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس کرے گا۔ راوی کہتے ہیں : جو اللہ کے راستہ میں فوت ہوجائے یا شہید ہوجائے یا اس کا گھوڑا یا اونٹ گرادے یا کوئی زیریلی چیز ڈس لے یا اپنے بستر پر ہی فوت ہوجائے یہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔

18544

(١٨٥٣٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْبَزَّازُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْہِرٍ : عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ مُسْہِرٍ الْغَسَّانِیُّ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ حَبِیبٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : ثَلاَثَۃٌ کُلُّہُمْ ضَامِنٌ عَلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ رَجُلٌ خَرَجَ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّہِ حَتَّی یَتَوَفَّاہُ فَیُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَوْ یَرُدَّہُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَہُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّہِ حَتَّی یَتَوَفَّاہُ فَیُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ أَوْ یَرُدَّہُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ وَرَجُلٌ دَخَلَ بَیْتَہُ بِسَلاَمٍ فَہُوَ ضَامِنٌ عَلَی اللَّہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٣٨) ابوامامہ باہلی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ تین شخصوں کا اللہ ضامن ہے : ایسا شخص جو جہاد کے لیے نکلتا ہے تو اللہ اس کی ضمانت دیتے ہیں کہ اسے فوت کرکے جنت میں داخل کرلے یا ایسے شخص کو ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کریں اور ایسا شخص جو مسجد جاتا ہے تو اللہ کے ذمے ہے کہ موت کے بعد اس کو جنت میں داخل کرے یا ثواب یا مال غنیمت دے کر واپس کرے۔ اور وہ آدمی جو اپنے گھر میں سلام کہہ کر داخل ہوتا ہے۔ اس کا بھی اللہ ضامن ہے۔

18545

(١٨٥٣٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ یَعْقُوبَ عَنْ قَیْسِ بْنِ رَافِعٍ الْقَیْسِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّہُ مَرَّ بِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ قَاعِدٌ عَلَی بَابِہِ یُشِیرُ بِیَدِہِ کَأَنَّہُ یُحَدِّثُ نَفْسَہُ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللَّہِ : مَا شَأْنُکَ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ تُحَدِّثُ نَفْسَکَ قَالَ وَمَا لِی یُرِیدُ عَدُوُّ اللَّہِ أَنْ یُلْہِیَنِی عَنْ کَلاَمٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ تُکَابِدُ دَہْرَکَ الآنَ فِی بَیْتِکَ أَلاَ تَخْرُجَ إِلَی الْمَجْلِسِ فَتُحَدِّثَ وَأَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللَّہِ وَمَنْ جَلَسَ فِی بَیْتِہِ لاَ یَغْتَابُ أَحَدًا بِسُوئٍ کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللَّہِ وَمَنْ عَادَ مَرِیضًا کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللَّہِ وَمَنَ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللَّہِ وَمَنْ دَخَلَ عَلَی إِمَامٍ یُعَزِّرُہُ کَانَ ضَامِنًا عَلَی اللَّہِ ۔ فَیُرِیدُ عَدُوُّ اللَّہِ أَنْ یُخْرِجَنِی مِنْ بَیْتِی إِلَی الْمَجْلِسِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٣٩) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ وہ معاذ بن جبل (رض) کے پاس سے گزرے۔ وہ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھے ہاتھوں سے اشارے کر رہے تھے۔ گویا آپ سے باتیں کر رہے ہیں تو عبداللہ نے کہا : اے ابو عبدالرحمن ! اپنے نفس سے باتیں کررہے ہو۔ اس نے کہا کہ اللہ کے دشمن مجھے اس کلام سے غافل کردینا چاہتے ہیں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جو اللہ کے راستہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے، اللہ اس کا ضامن ہے اور جو انسان اپنے گھر میں کسی کی برائی بیان نہیں کرتا، یعنی چغلی نہیں کرتا اللہ اس کا بھی ضامن ہے اور جو بیمار کی تیمارداری کرلے صبح یا شام مسجد کی طرف جائے ان کا بھی اللہ ضامن ہے اور جو شخص امام کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کا بھی ضامن ہے۔ اللہ کے دشمن کا ارادہ تھا کہ مجھے میرے گھر سے مجلس کی طرف نکال دیں۔

18546

(١٨٥٤٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مَیْمُونٍ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ قَتَادَۃَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ أُمَّ الرُّبَیِّعِ بِنْتَ الْبَرَائِ وَہِیَ أُمُّ حَارِثَۃَ ابْنِ سُرَاقَۃَ أَتَتِ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَتْ : یَا نَبِیَّ اللَّہِ أَلاَ تُخْبِرُنِی عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمُ غَرْبٍ فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ صَبَرْتُ وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ اجْتَہَدْتُ عَلَیْہِ الْبُکَائَ قَالَ : یَا أُمَّ حَارِثَۃَ إِنَّہَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ وَإِنَّ ابْنَکِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الأَعْلَی ۔ قَالَ قَتَادَۃُ : الْفِرْدَوْسُ رَبْوَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَأَوْسَطُہَا وَأْفَضَلُہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٨٠٩۔ ٢٩٨٣]
(١٨٥٤٠) ام ربیع بنت براء یہ ام حارثہ بن سرقہ ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا : آپ مجھے حارثہ کے بارے میں خبردیں جو بدر کے دن نامعلوم تیر کی وجہ فوت ہوئے۔ اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اگر کسی اور جگہ ہے تو جی بھر کر رولوں۔ فرمایا : اے ام حارثہ ! وہ جنت کے باغوں میں ہے اور تیرا بیٹا تو جنت الفردوس میں ہے۔ قتادہ کہتے ہیں : فردوس جنت میں اونچی جگہ ہے جنت کے درمیان اور افضل جگہ ہے۔

18547

(١٨٥٤١) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْحَافِظُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ النَّیْسَابُورِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا عِیسَی بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّکَ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عَمِلَ ہَذَا یَسِیرًا وَأُجِرَ کَثِیرًا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ جَنَابٍ عَنْ عِیسَی بْنِ یُونُسَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٤١) براء فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اس نے کہا : میں گو اہی دیتاہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر میدان جہاد میں لڑتا ہوا شہید ہوگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمل تو اس نے تھوڑا کیا ہے لیکن اجر زیادہ پایا۔

18548

(١٨٥٤٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَجَائٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنِ الْبَرَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالْحَدِیدِ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ ؟ قَالَ : لاَ بَلْ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ ۔ فَأَسْلَمَ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَقَالَ : ہَذَا عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیمِ عَنْ شَبَابَۃَ عَنْ إِسْرَائِیلَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٤٢) حضرت براء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص لوہے میں چھپا ہوا آیا، اس نے کہا : جہاد کروں یا اسلام قبول کروں ؟ فرمایا : پہلے اسلام قبول کر، پھر جہاد کر تو وہ اسلام قبول کرنے کے بعد لڑائی کرتے ہوئے شہید ہوگیا۔ فرمایا : عمل تھوڑا ہے اور اجر زیادہ دیا گیا ہے۔

18549

(١٨٥٤٣) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ عَمْرَو بْنَ أُقَیْشٍ کَانَ لَہُ رِبًا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ فَکَرِہَ أَنْ یُسْلِمَ حَتَّی یَأْخُذَہُ فَجَائَ یَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ أَیْنَ بَنُو عَمِّی فَقَالُوا بِأُحُدٍ فَقَالَ أَیْنَ فُلاَنٌ قَالُوا بِأُحُدٍ قَالَ : أَیْنَ فُلاَنٌ قَالُوا : بِأُحُدٍ فَلَبِسَ لأْمَتَہُ وَرَکِبَ فَرَسَہُ ثُمَّ تَوَجَّہَ قِبَلَہُمْ فَلَمَّا رَآہُ الْمُسْلِمُونَ قَالُوا : إِلَیْکَ عَنَّا یَا عَمْرُو فَقَالَ : إِنِّی قَدْ آمَنْتُ فَقَاتَلَ حَتَّی جُرِحَ فَحُمِلَ إِلَی أَہْلِہِ جَرِیحًا فَجَائَ ہُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لأُخْتِہِ : سَلِیہِ حَمِیَّۃً لِقَومِکَ أَمْ غَضَبًا لَہُمْ أَمْ غَضَبًا لِلَّہِ وَرَسُولِہِ فَقَالَ : بَلْ غَضَبًا لِلَّہِ وَرَسُولِہِ فَمَاتَ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَا صَلَّی لِلَّہِ صَلاَۃً ۔
(١٨٥٤٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ عمر وبن اقیس کا جاہلیت کا سود تھا۔ صرف سود کی وجہ سے اسلام قبول نہ کرسکا۔ احد کے دن آیا اور کہنے لگا : میرے چچا کا بیٹا کدھر ہے ؟ انھوں نے کہا : احد میں۔ پھر اس نے پوچھا : فلاں کہا ہے ؟ انھوں نے کہا : وہ بھی احد میں۔ اس نے پھر پوچھا : فلاں کدھ رہے ؟ انھوں نے کہا : وہ بھی غزوہ احد میں ہے۔ اس نے زرع پہنی گھوڑے پر سوار ہو کر ان کی جانب متوجہ ہوا۔ جب مسلمانوں نے دیکھا تو کہنے لگے : اے عمرو (رض) ! ہم سے دور رہنا۔ اس نے کہا : میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ پھر لڑائی کرتے ہوئے زخمی ہوگیا تو خمی حالت میں اسے لایا گیا۔ سعد بن معاذ (رض) نے اپنی بہن سے کہا : پوچھو قومی غیرت ، ان کے لیے غصہ میں آکر یا اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لڑا۔ اس نے کہا : نہیں بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غضب کے لیے وہ فوت ہو کر جنت میں داخل ہوگیا اور اس نے ایک بھی نماز نہ پڑھی تھی۔

18550

(١٨٥٤٤) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو النَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ وَصَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّازِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ بْنُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُعْرَفَ فَمَنْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ؟ فَقَالَ : مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللَّہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأَخْرَجَہُ ہُوَ وَمُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ غُنْدَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٤٤) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ ایک شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے اور دوسرا شہرت اور تیسراری شہوری کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو اللہ کے کلمے کو سر بلند کے لیے نکلے وہ اللہ کے راستہ میں ہے۔

18551

(١٨٥٤٥) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ الْمُخَرِّمِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیرُ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ شَقِیقٍ عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : أَتَی النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ الرَّجُلُ یُقَاتِلُ شَجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ رِیَائً فَأَیُّ ذَلِکَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللَّہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٤٥) ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو ایک شخص بہادری کے لیے، دوسرا عصبیت کے لیے اور تیسرا ریا کاری کے لیے جہاد کرتا ہے تو ان ان میں سے کون اللہ کے راستہ میں ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو صرف اس لیے لڑائی کرلے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے یہ اللہ کے راستہ میں ہے۔

18552

(١٨٥٤٦) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ الضَّبِّیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَثِیرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٤٦) ابوموسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔۔۔ باقی اسی طرح حدیث ذکر کی۔

18553

(١٨٥٤٧) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ : بَکْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْرَفِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْہَیْثَمِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ الْحَضْرَمِیُّ حَدَّثَنَا بَقِیَّۃُ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنِی بَحِیرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِی بَحْرِیَّۃَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَی وَجْہَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطَاعَ الإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْکَرِیمَۃَ وَبَاشَرَ الشَّرِیکَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ فَإِنَّ نَوْمَہُ وَنُبْہَہُ أَجْرٌ کُلُّہُ وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِیَائً وَسُمْعَۃً وَعَصَی الإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِی الأَرْضِ فَإِنَّہُ لَنْ یَرْجِعَ بِکَفَافٍ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الْحَضْرَمِیِّ وَفِی رِوَایَۃِ مُحَمَّدِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ عَنْ أَبِی بَحْرِیَّۃَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قَیْسٍ وَقَالَ فِی آخِرَہُ : وَعَصَی الإِمَامَ وَلَمْ یُنْفِقِ الْکَرِیمَۃَ لَمْ یَرْجِعْ بِالْکَفَافِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٤٧) حضرت معاذ بن جبل (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ غزوہ دو قسم کا ہے وہ شخص جو اللہ کی رضا مندی کے لیے اور امیر کی اطاعت میں پسندیدہ چیز کو خرچ کرتا ہے اور اپنے ساتھی سے مل کر رہتا ہے اور فساد سے بچتا ہے اس کے سونے اور بیدار رہنے میں اجر ہے اور جس نے فخر، ریاکاری، شہرت، امام کی نافرمانی اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کی وہ برابری کے ساتھ بھی نہ لوٹے گا۔
(ب) ابوبحریہ عبداللہ بن قیس فرماتے ہیں :۔۔۔ جس کے آخر میں ہے کہ جس نے امام کی نافرمانی کی اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کی، وہ برابری کے ساتھ بھی نہ لوٹے گا۔

18554

(١٨٥٤٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی الْوَضَّاحِ عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ حَنَانِ بْنِ خَارِجَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَخْبِرْنِی عَنِ الْجِہَادِ وَالْغَزْوِ فَقَالَ : یَا عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرٍو إِنْ قَاتَلْتَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا بَعَثَکَ اللَّہُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا وَإِنْ قَاتَلْتَ مُرَائِیًا مُکَاثِرًا بَعَثَکَ اللَّہُ مُرَائِیًا مُکَاثِرًا یَا عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرٍو عَلَی أَیِّ حَالٍ قَاتَلْتَ أَوْ قُتِلْتَ بَعَثَکَ اللَّہُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٤٨) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتایئے۔ آپ نے فرمایا : اے عبداللہ بن عمر (رض) ! اگر تو نے صبر کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے جہاد کیا تو اللہ تجھے صبر ثواب دینے کی صورت میں ہی اٹھائے گا۔ اگر تو نے ریاکاری یا مال کی زیادتی کے لیے لڑائی کی تو اللہ تجھے ریاکار اور زیادہ مال طلب کرنے والوں میں اٹھائے گا۔

18555

(١٨٥٤٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الإِیَادِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ بْنِ خَلاَّدٍ النَّصِیبِیُّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی أُسَامَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَائٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی یُونُسُ بْنُ یُوسُفَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ قَالَ : تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ نَاتِلٌ أَخُو أَہْلِ الشَّامِ : یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ حَدِّثْنَا حَدِیثًا سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : أَوَّلُ النَّاسِ یُقْضَی فِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃَ ثَلاَثَۃٌ رَجُلٌ اسْتُشْہِدَ أُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا فَقَالَ مَا عَمِلْتَ فِیہَا قَالَ قَاتَلْتُ فِی سَبِیلِکَ حَتَّی اسْتُشْہِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُلاَنٌ جَرِیئٌ فَقَدْ قِیلَ فَأُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا فَقَالَ مَا عَمِلْتَ فِیہَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَقَرَأْتُ الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُہُ فِیکَ قَالَ کَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُلاَنٌ عَالِمٌ وَفُلاَنٌ قَارِئٌ فَقَدْ قِیلَ فَأُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ إِلَی النَّارِ وَرَجُل آتَاہُ اللَّہُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَالِ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا فَقَالَ مَا عَمِلْتَ فِیہَا فَقَالَ مَا تَرَکْتُ مِنْ شَیْئٍ تُحِبُّ أَنْ یُنْفَقَ فِیہِ إِلاَّ أَنْفَقْتُ فِیہِ لَکَ قَالَ کَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُلاَنٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِیلَ فَأُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْہِہِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ وَجْہَیْنِ آخَرَیْنِ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٠٥]
(١٨٥٤٩) سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ مختلف لوگ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ناتل شامی نے ابوہریرہ سے کہا : آپ مجھے ایسی حدیث سنائیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن رکھی ہو۔ انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں میں سے جس کے بارے میں سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ تین شخص ہیں : شہید، اس کو اللہ رب العزت کے پاس لایا جائے گا۔ اس کو اپنی نعمتوں کی پہچان کر وائیں گے۔ وہ ان کو پہچان لے گا۔ اللہ پوچھیں گے : تو نے ان میں کیا عمل کیا ؟ وہ بندہ کہے گا : اے اللہ ! میں نے تیرے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت حاصل کی۔ اللہ فرمائیں گے : تو نے جھوٹ بولا۔ تیرا تو ارادہ تھا کہ فلاں مجھے بہادر کہے۔ تجھے دنیا میں بہادر کہہ دیا گیا۔ پھر اللہ رب العزت فرشتوں کو حکم دیں گے اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ دوسرا شخص عالم دین اور قاریٔ قرآن ہوگا اس کو اللہ کے سامنے لایا جائے گا۔ اللہ اس کو نعمتوں کی پہچان کروائیں گے۔ وہ تمام نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ پوچھیں گے : تو نے ان میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا : میں نے علم سیکھا اور قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا۔ اللہ فرمائیں گے : تو جھوٹ بولتا ہے تیرا ارادہ یہ تھا کہ تجھے عالم دین اور قاریٔ قرآن کہا جائے، وہ تجھے دنیا کے اندر کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں بھی اللہ رب العزت حکم فرمائیں گے اور اسے بھی منہ کے بل گھیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور تیسرا وہ شخص جس کو اللہ رب العزت اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا۔ وہ نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ پوچھیں گے : تو نے ان میں کیا عمل کیا ؟ تو وہ کہے گا : میں نے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی کہ جس میں تو خرچ کرنے کو پسند کرتا ہو مگر میں نے تیری رضا کے لیے خرچ نہ کیا ہو تو اللہ رب العزت فرمائیں گے : تو نے جھوٹ بولا تیرا تو صرف یہ ارادہ تھا کہ تجھے سخی کہا جائے۔ دنیا میں تجھے سخی کہہ دیا گیا۔ اللہ رب العزت اس کے بارے میں بھی حکم دیں گے۔ پھر اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

18556

(١٨٥٥٠) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ یَعْنِی ابْنَ سِیرِینَ عَنْ أَبِی الْعَجْفَائِ قَالَ : خَطَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ النَّاسَ قَالَ وَأُخْرَی تَقُولُونَہَا لِمَنْ قُتِلَ فِی مَغَازِیکُمْ ہَذِہِ قُتِلَ فُلاَنٌ شَہِیدًا وَمَاتَ فُلاَنٌ شَہِیدًا وَلَعَلَّہُ یَکُونُ قَدْ أَوْقَرَ دَفَّتَیْ رَاحِلَتِہِ ذَہَبًا أَوْ وَرِقًا یَبْتَغِی الدُّنْیَا أَوْ قَالَ التِّجَارَۃَ فَلاَ تَقُولُوا ذَلِکُمْ وَلَکِنْ قُولُوا کَمَا قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوْ مَاتَ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٥٠) ابو عجفا فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ تم اس کے بارے میں کہتے ہو جو غزوہ میں قتل کیا جائے کہ فلاں شہید کیا گیا، فلاں شہادت کی موت مرا۔ شاید کہ اس نے اپنی سواری کو سونے یا چاندی سے لدا ہوا ہو۔ وہ دنیا یا تجارت کا قصد کیے ہوئے ہو۔ تم ان کے بارے میں یہ نہ کہو بلکہ اس طرح کہو۔ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو اللہ کے راستہ میں قتل کردیا گیا یا فوت ہوگیا تو وہ جنتی ہے۔

18557

(١٨٥٥١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : الْقَاسِمُ بْنُ الْقَاسِمِ السَّیَّارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَلِیٍّ الْغَزَّالُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْمُبَارَکِ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ : الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنِ ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ عَنِ الْقَاسِمِ ہُوَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الأَشَجِّ عَنِ ابْنِ مِکْرَزٍ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ وَفِی رِوَایَۃِ ابْنِ شَقِیقٍ عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مِکْرَزٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ رَجُلٌ یُرِیدُ الْجِہَادَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَہُوَ یَبْتَغِی عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْیَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: لاَ أَجْرَ لَہُ ۔ فَسَأَلَہُ الثَّانِیَۃَ وَالثَّالِثَۃَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ أَجْرَ لَہُ ۔ لَفْظُ حَدِیثِ ابْنِ شَقِیقٍ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَہَذِہِ الأَخْبَارُ وَمَا أَشْبَہَہَا تَحْتَمِلُ أَنْ تَکُونَ فِیمَنْ لاَ یَنْوِی بِغَزْوِہِ إِلاَّ الدُّنْیَا وَمَا یَرْجِعُ إِلَی أَسْبَابِہَا۔ [ضعیف ]
(١٨٥٥١) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہے اور دنیا کا مال حاصل کرتا ہے تو آپ نے فرمایا : اس کا کوئی اجر نہیں۔ پھر دوسری اور تیسری مرتبہ اس شخص نے دوبارہ سوال کیا تو آپ نے تب بھی فرمایا : اس کا کوئی اجر نہیں ہے۔
شیخ فرماتے ہیں : یہ حدیث اس بات کا احتمال رکھتی ہے کہ اس نے صرف دنیا کی نیت کی لیکن جو ثواب کی نیت کرے اور مال غنیمت کے ملنے کی امید رکھے (اس پر کوئی گناہ نہیں) ۔

18558

(١٨٥٥٢) فَأَمَّا مَنْ یَبْتَغِی الأَجْرَ وَیَرْجُو أَنْ یُصِیبَ غَنِیمَۃً فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِی مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ أَنَّ ضَمْرَۃَ بْنَ حَبِیبٍ حَدَّثَہُ عَنِ ابْنِ زُغْبٍ الإِیَادِیِّ قَالَ : نَزَلَ بِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حَوَالَۃَ صَاحِبُ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّہُ فُرِضَ لَہُ فِی الْمِائَتَیْنِ فَأَبَی إِلاَّ مِائَۃً قَالَ قُلْتُ لَہُ أَحَقٌّ مَا بَلَغَنَا أَنَّہُ فُرِضَ لَکَ فِی مِائَتَیْنِ فَأَبَیْتَ إِلاَّ مِائَۃً وَاللَّہِ مَا مَنَعَہُ وَہُوَ نَازِلٌ عَلَیَّ أَنْ یَقُولَ لاَ أُمَّ لَکَ أَوَلاَ یَکْفِی ابْنَ حَوَالَۃَ مِائَۃٌ کُلَّ عَامٍ ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُنَا عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَنَا عَلَی أَقْدَامِنَا حَوْلَ الْمَدِینَۃِ لِنَغْنَمَ فَقَدِمْنَا وَلَمْ نَغْنَمْ شَیْئًا فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الَّذِی بِنَا مِنَ الْجَہْدِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : اللَّہُمَّ لاَ تَکِلْہُمْ إِلَیَّ فَأَضْعُفَ عَنْہُمْ وَلاَ تَکِلْہُمْ إِلَی النَّاسِ فَیَہُونُوا عَلَیْہِمْ أَوْیَسْتَأْثِرُوا عَلَیْہِمْ وَلاَ تَکِلْہُمْ إِلَی أَنْفُسِہِمْ فَیَعْجَزُوا عَنْہَا وَلَکِنْ تَوَحَّدْ بِأَرْزَاقِہِمْ ۔ ثُمَّ قَالَ : لَتُفْتَحَنَّ لَکُمُ الشَّامُ ثُمَّ لَتَقْتَسِمُنَّ کُنُوزَ فَارِسَ وَالرُّومِ وَلَیَکُونَنَّ لأَحَدِکُمْ مِنَ الْمَالِ کَذَا وَکَذَا حَتَّی إِنَّ أَحَدَکُمْ لِیُعْطَی مِائَۃَ دِینَارٍ فَیَسْخَطُہَا ۔ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی رَأْسِی فَقَالَ : یَا ابْنَ حَوَالَۃَ إِذَا رَأَیْتَ الْخِلاَفَۃَ قَدْ نَزَلَتِ الأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ فَقَدْ أَتَتِ الزَّلاَزِلُ وَالْبَلاَبِلُ وَالأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَۃُ أَقْرَبُ إِلَی النَّاسِ مِنْ یَدِی ہَذِہِ مِنْ رَأْسِکَ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٥٢) ابن زعب ایادی فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن حوالہ ہمارے پاس آئے اور ہمیں خبر ملی کہ اس کے لیے دو سو میں زکوۃ کو فرض کیا گیا ہے۔ اس نے سو کا انکار کیا۔ میں نے اس اس سے کہا : ہمیں جو خبر ملی ہے اس کے مطابق حق یہی ہے کہ تیرے لیے دو سو میں زکوۃ فرض ہے اور تو نے سو کا انکار کیا۔ اللہ کی قسم ! نہیں روک سکتا وہ اس کو جو آنے والا ہے۔ مجھ پر اس کا یہ کہنا کہ تیری ماں مرے کافی نہیں تھا۔ اہل حوالہ کے لیے ہر مال میں ایک سو ہیں۔ ابن حوالہ نے ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث بیان کی کہ آپ نے ہمیں پیدل مدینہ کے اردگرد روانہ کیا۔ تاکہ ہم غنیمت حاصل کریں لیکن ہم نے غنیمت حاصل نہ کی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری مشقت کو دیکھا تو فرمایا : اے اللہ ! تو ان کو میرے سپرد نہ کر۔ میں ان سے کمزور ہوں اور نہ ہی تو ان کو لوگوں کو سونپ دینا کہ وہ ان کی تذلیل کریں یا وہ ان کے اوپر دوسرں کو ترجیح دیں اور نہ ہی تو ان کو ان کے نفسوں کے سپرد کر دے کہ وہ اس سے عاجز آجائیں۔ بلکہ تو اکیلا ہی ان کی روزی کا بند و بست فرما۔ پھر فرمایا : ملک شام فتح کیا جائے گا اور فارس وروم کے خزانے تمہارے درمیان تقسیم کیے جائیں گے اور تم میں سے کسی کو اتنا اتنا مال ملے گا کہ سو دینار دیے جانے کے باوجود شخص ناراض ہوگا۔ پھر آپ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : اے ابن حوالہ ! جب تو دیکھے کہ خلافت ارض مقدسہ میں قائم ہوگئی ہے تو زلزلے مصائب اور بڑے بڑے امور واقع ہوں گے اور قیامت لوگوں کے قریب ہوگی۔ میرے اس ہاتھ سے جو تیرے سر کے اوپر ہے۔

18559

(١٨٥٥٣) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ التَّرْقُفِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ عَنْ أَبِی ہَانِئٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ (ح) وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ وَابْنُ لَہِیعَۃَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو ہَانِئٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِیَّ یَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرٍو یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَا مِنْ غَازِیَۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَیُصِیبُونَ غَنِیمَۃً إِلاَّ تَعَجَّلُوا ثُلُثَیْ أَجْرِہِمْ مِنَ الآخِرَۃِ وَیَبْقَی لَہُمُ الثُّلُثُ وَإِنْ لَمْ یُصِیبُوا غَنِیمَۃً تَمَّ لَہُمْ أَجْرُہُمْ ۔ لَیْسَ فِی حَدِیثِ ابْنِ یُوسُفَ مِنَ الآخِرَۃِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ بْنِ حُمَیْدٍ عَنِ الْمُقْرِئِ عَنْ حَیْوَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٠٦]
(١٨٥٥٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : جو اللہ کے راستے میں غزوہ کرتے ہوئے مال غنیمت کو حاصل کرلیتے ہیں گویا کہ انھوں نے آخرت کے اجر سے دوتہائی اجر جلدی حاصل کرلیا اور ایک تہائی ان کے لیے باقی بچا۔ اگر وہ مال غنیمت حاصل نہ کر پائیں تو انھیں مکمل اجر دیا جائے گا۔

18560

(١٨٥٥٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو مُحَمَّدٍ : أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْمُزَنِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْلاَ أَنَّ رِجَالاً مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لاَ تَطِیبُ أَنْفُسُہُمْ أَنْ یَتَخَلَّفُوا عَنِّی وَلاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُہُمْ عَلَیْہِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِیَّۃٍ تَغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوَدِدْتُ أَنِّی أُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٥٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ کچھ مسلمان ایسے ہیں جو مجھ سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن میں ان کے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر پاتا تو میں اللہ کے راستہ میں نکلے ہوئے کسی بھی لشکر سے پیچھے نہ رہتا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔

18561

(١٨٥٥٥) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَیْحٍ أَنَّ سَہْلَ بْنَ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ سَأَلَ اللَّہَ الشَّہَادَۃَ بِصِدْقٍ بَلَّغَہُ اللَّہُ مَنَازِلَ الشُّہَدَائِ وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ وَحَرْمَلَۃَ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَہُ أَیْضًا مِنْ حَدِیثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٩٠٩]
(١٨٥٥٥) سھل بن ابی امامہ بن سھل بن حنیف اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے خلوص دل سے شہادت کی تمنا کی۔ اللہ تعالیٰ اسے مقام شہداء عطا فرمائیں گے۔ اگرچہ وہ بستر پر ہی فوت ہوجائے۔

18562

(١٨٥٥٦) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ قَالَ سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ یُخَامِرَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَدَّثَہُمْ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فُوَاقَ نَاقَۃٍ فَقَدْ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ وَمَنْ سَأَلَ اللَّہَ الْقَتْلَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہِ صَادِقًا ثُمَّ مَاتَ أَوْ قُتِلَ فَلَہُ أَجْرُ شَہِیدٍ وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَوْ نُکِبَ نَکْبَۃً فَإِنَّہَا تَجِیئُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَغْزَرِ مَا کَانَتْ لَوْنُہَا کَالزَّعْفَرَانِ وَرِیحُہَا کَالْمِسْکِ وَمَنْ جُرِجَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَعَلَیْہِ طَابَعُ الشُّہَدَائِ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٥٦) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس مسلم آدمی نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے دودھ دوہنے کے وقت کے برابر جہاد کیا جنت اس کے لیے واجب ہوگئی اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے شہادت کی تمنا کی۔ پھر وہ فوت ہوگیا یا اللہ کے راستے میں شہید کیا گیا تو اسے شہادت کا اجر ملے گا اور جو شخص اللہ کے راستہ میں زخمی کیا گیا یا اس کو کوئی مصیبت لاحق ہوئی تو وہ جب قیامت کے دن آئے گا تو (اجر) کے لیے وہ دنیا سے بہت زیادہ ہوگی اس کی رنگت زعفران کی مانند اور خوشبو کستوری جیسی ہوگئی اور جو اللہ کے راستہ میں زخمی کیا گیا اس پر شہداء کی مہر ہوگی۔

18563

(١٨٥٥٧) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ النَّرْسِیُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَالِکُ بْنُ یُخَامِرَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ فَذَکَرَہُ بِمِثْلِہِ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ أَبُو عَاصِمٍ وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ ۔
(١٨٥٥٧) خالی۔

18564

(١٨٥٥٨) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الْخَزَّازُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَہْمٍ الأَنْطَاکِیُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَزَارِیُّ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَالِکِ بْنِ یُخَامِرَ عَنْ أَبِیہِ مَالِکِ بْنِ یُخَامِرَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ سَأَلَ اللَّہَ الشَّہَادَۃَ صَادِقًا مِنْ قَلْبِہِ فَمَاتَ أَوْ قُتِلَ فَلَہُ أَجْرُ شَہِیدٍ وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْمَی اللَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ وَالرِّیحُ رِیحُ مِسْکٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٥٨) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے صدق دل سے شہادت کی تمنا کی وہ فوت ہوا یا قتل کردیا گیا۔ اسے شہادت کا اجر دیا جائے گا اور جو اللہ کے راستہ میں زخمی کیا گیا، اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا جس کی رنگت خون جیسی اور خوشبو کستوری جیسی ہوگی۔

18565

(١٨٥٥٩) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَعِیدٍ الْمَوْصِلِیُّ حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ یُخَامِرَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فُوَاقَ نَاقَۃٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ ۔ ثُمَّ ذَکَرَ مَا بَعْدَہُ نَحْوَ حَدِیثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٥٩) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے دودھ دوہنے کے وقفہ کے برابر جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگی۔

18566

(١٨٥٦٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ قُتَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ قَالَ وَحَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ وَأَبُو الرَّبِیعِ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ الْحَجَبِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَحْسَنَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ قَالَ وَفَزِعَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ لَیْلَۃً فَانْطَلَقُوا قِبَلَ الصَّوْتِ قَالَ فَتَلَقَّاہُمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی فَرَسٍ لأَبِی طَلْحَۃَ عُرْیٍ مَا عَلَیْہِ شَیْئٌ وَالسَّیْفُ فِی عُنُقِہِ قَالَ : لَنْ تُرَاعُوا ۔ فَإِذَا ہُوَ قَدِ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَسَبَقَہُمْ وَقَالَ : وَجَدْنَاہُ بَحْرًا ۔ أَوْ قَالَ : إِنَّہُ لَبَحْرٌ ۔ قَالَ : وَکَانَ فَرَسًا ثَبِطًا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَأَبِی الرَّبِیعِ ۔ وَرُوِّینَا عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَّہُ کَانَ یَتَعَوَّذُ مِنَ الْجُبْنِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٦٠) حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب لوگوں سے بڑھ کر حسین تھے۔ سب لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ گھبرا گئے۔ تمام لوگ آواز کی جانب لپکے۔ وہاں انھوں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موجود پایا۔ آپ تمام لوگوں سے پہلے آواز کی طرف پہنچ گئے تھے اور آپ فرما رہے تھے : ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ آپ ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ اس پر زین نہ تھی نیز آپ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ پھر آپ نے فرمایا : میں نے اس گھوڑے کو سمندر کی طرح تیز رفتار پایا۔

18567

(١٨٥٦١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرُوَیْہِ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی الأَسَدِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ الْبَزَّازُ بِبَغْدَادَ قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْفَاکِہِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا أَبُو یَحْیَی بْنُ أَبِی مَسَرَّۃَ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَیِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : شَرُّ مَا فِی الرَّجُلِ شُحٌّ ہَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ۔ [صحیح ]
(١٨٥٦١) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بدترین چیز جو انسان میں پائی جائی ہے وہ سخت کنجوسی اور بہت زیادہ بزدلی ہے۔

18568

(١٨٥٦٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الضَّبِّیُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ حَسَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : الشَّجَاعَۃُ وَالْجُبْنُ غَرَائِزُ فِی النَّاسِ تَلْقَی الرَّجُلَ یُقَاتِلُ عَمَّنْ لاَ یَعْرِفُ وَتَلْقَی الرَّجُلَ یَفِرُّ عَنْ أَبِیہِ وَالْحَسَبُ الْمَالُ وَالْکَرَمُ التَّقْوَی لَسْتَ بِأَخْیَرَ مِنْ فَارِسِیٍّ وَلاَ عَجَمِیٍّ إِلاَّ بِالتَّقْوَی۔ [حسن لغیرہ ]
(١٨٥٦٢) حسان بن فاء حضرت عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ بہادری اور بزدلی لوگوں کی فطرت میں ہے۔ وہ انسان کو مل جاتی ہے جب وہ ایک دوسرے سے لڑائی کرتے ہیں۔ جس کو وہ پہچانتا نہیں اور کسی ایسے شخص سے ملاقات کرتا ہے جو اپنے باپ سے بھاگا ہوا ہو اور حسب کا معنی مال اور کرم کا معنی تقوی تو کسی فارسی وعجمی سے بہتر صرف تقوی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔

18569

(١٨٥٦٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُزَنِیُّ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنِی شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی شَیْئٍ مِنَ الأَشْیَائِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ دُعِیَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَا عَبْدَ اللَّہِ ہَذَا خَیْرٌ وَلِلْجَنَّۃِ أَبْوَابٌ فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلاَۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّلاَۃِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الْجِہَادِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَۃِ وَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّیَامِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصِّیَامِ بَابِ الرَّیَّانِ ۔ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَا عَلَی مَنْ یُدْعَی مِنْ تِلْکَ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَۃٍ وَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَلْ یُدْعَی مِنْہَا کُلِّہَا أَحَدٌ؟ فَقَالَ : نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ یَا أَبَا بَکْرٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْیَمَانِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ أَوْجُہٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٦٣) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے مال میں سے دو حصے اللہ کے راستے میں خرچ کیے۔ اسے جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اے اللہ کے بندے ! یہ بہتر ہے جبکہ جنت کے (آٹھ) دروازے ہیں۔ جو شخص نماز پڑھنے والا ہے اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ جو شخص صدقہ خیرات کرتا رہا تو اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ جو شخص روزے رکھتا رہا اسے ریان کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : گو ہر دروازے سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں تاہم کسی شخص کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ آپ نے اس بات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ابوبکر (رض) ان میں سے ہوں گے۔

18570

(١٨٥٦٤) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ الْمُنَادِی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بَکْرٍ السَّہْمِیُّ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ یَعْنِی ابْنَ حَسَّانَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ صَعْصَعَۃَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ قَالَ : لَقِیتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُودُ جَمَلاً لَہُ أَوْ یَسُوقُہُ فِی عُنُقِہِ قِرْبَۃٌ فَقُلْتُ : یَا أَبَا ذَرٍّ مَا مَالُکَ ؟ قَالَ : لِی عَمَلِی۔ فَقُلْتُ : یَا أَبَا ذَرٍّ مَا مَالُکَ ؟ قَالَ : لِی عَمَلِی قَالَ قُلْتُ یَا أَبَا ذَرٍّ مَا مَالُکَ قَالَ لِی عَمَلِی ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ۔ قَالَ قُلْتُ : أَلاَ تُحَدِّثُنِی شَیْئًا سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یَمُوتُ لَہُمَا ثَلاَثَۃٌ ۔ یَعْنِی مِنَ الْوَلَدِ : لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلاَّ أَدْخَلَہُمَا الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ إِیَّاہُمْ وَمَا مِنْ مُسْلِمٍ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ مِنْ مَالِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ إِلاَّ ابْتَدَرَتْہُ حَجَبَۃُ الْجَنَّۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٦٤) صعصعہ بنت معایہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت ابو ذر سے ہوئی جس وقت وہ اپنے اونٹ کو ہانک رہے تھے اور ان کے پاس مشکیزہ تھا۔ میں نے کہا : ابو ذر آپ کا مال کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : میرا عمل۔ میں نے پوچھا : اے ابو ذر ! کہنے لگے میرا عمل، میرا عمل۔ کہتے ہیں : میں نے تیسری مرتبہ پوچھا کہ آپ کا مال کیا ہے ؟ کہنے لگے : میرا عمل۔ میں نے کہا : آپ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی حدیث سنائیں۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے فوت ہوجائیں تو اللہ والدین کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کریں گے اور جس مسلمان نے اپنے مال کے دو حصے اللہ کے راستے میں خرچ کیے تو جنت کے دربان اس کی جانب سبقت کریں گے۔

18571

(١٨٥٦٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ مَنْصُورٍ وَیُونُسُ عَنِ الْحَسَنِ فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ زَادَ : إِلاَّ اسْتَقْبَلَتْہُ حَجَبَۃُ الْجَنَّۃِ کُلُّہُمْ یَدَعُوہُ إِلَی مَا قِبَلِہِ ۔ قُلْتُ : کَیْفَ ذَاکَ ؟ قَالَ : إِنْ کَانَ رِحَالاً فَرَحْلَیْنِ وَإِنْ کَانَتْ إِبِلاً فَبِعِیرَیْنِ وَإِنْ کَانَتْ غَنَمًا فَشَاتَیْنِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٦٥) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جنت کے تمام دربان اس کو اپنی جانب بلانے میں سبقت کریں گے۔ میں نے کہا : وہ کیسے۔ راوی کہتے ہیں : اگر سواریاں ہوں تو دو سواریاں دے۔ اگر اونٹ ہوں تو دو اونٹ دے۔ اگر بکریاں ہوں تو دو بکریاں دے۔

18572

(١٨٥٦٦) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ بَشَّارِ بْنُ أَبِی سَیْفٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ غُضَیْفِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَاضِلَۃً فَسَبْعُمِائَۃٍ وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَی نَفْسِہِ أَوْ قَالَ عَلَی أَہْلِہِ أَوْ عَادَ مَرِیضًا أَوْ أَمَاطَ أَذًی فَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا وَالصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْہَا وَمَنِ ابْتَلاَہُ اللَّہُ بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ فَلَہُ حِطَّۃٌ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٦٦) ابو عبیدہ فرماتے ہیں : جس نے اللہ کے راستہ میں زائد مال خرچ کیا تو اسے سات سو گنا تک اجر دیا جائے گا اور جس نے اپنے اوپر یا اپنے اہل پر خرچ یا کسی مریض کی تیمارداری کی یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دیا تو اس کی نیکی کو دس گنا تک بڑھا دیا جائے گا اور روزہ ڈھال ہے جب تک اسے توڑا نہ جائے اور جس شخص کو اللہ جسمانی بیماری میں مبتلا کرے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

18573

(١٨٥٦٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا جَرِیرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا بَشَّارُ بْنُ أَبِی سَیْفٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ قَالَ یَزِیدُ وَأَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ وَعِنْدَہُ امْرَأَتُہُ تُحَیْفَۃُ وَوَجْہُہُ مِمَّا یَلِی الْحَائِطَ فَقُلْنَا کَیْفَ بَاتَ أَبُو عُبَیْدَۃَ ؟ فَقَالَتْ : بَاتَ بِأَجْرٍ فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا فَقَالَ : مَا بِتُّ بِأَجْرٍ فَسَائَ نَا ذَلِکَ وَسَکَتْنَا فَقَالَ أَلاَ تَسْأَلُونَ عَمَّا قُلْتُ فَقُلْنَا مَا سَرَّنَا ذَلِکَ فَنَسْأَلَکَ عَنْہُ فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَۃً فَاضِلَۃً فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبِسَبْعِمِائَۃِ ضِعْفٍ وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَی نَفْسِہِ وَأَہْلِہِ أَوْ مَازَ أَذًی عَنِ الطَّرِیقِ أَوْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَحَسَنَۃٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا وَالصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْہَا وَمَنِ ابْتَلاَہُ اللَّہُ بِبَلاَئٍ فِی جَسَدِہِ فَہُوَ لَہُ حِطَّۃٌ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٦٧) ولید بن عبد الرحمن، ریاض بن غطیف سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم ابو عبیدہ بن جراح کے پاس مرض الموت میں حاضر ہوئے اور ان کی بیوی ان کے پاس تھی، ان کا چہرہ دیوار کی جانب تھا۔ ہم نے پوچھا : ابو عبیدہ رات کیسے گزاری ؟ تو بیوی نے کہا : رات ثواب کے حصول میں گزاری تو ابو عبیدہ نے ہماری جانب مڑ کے دیکھا اور فرمایا : میں نے رات اجر میں نہیں گزاری۔ ہمیں برا لگا تو اس کی بیوی نے ہمیں خاموش کروا دیا تو وہ کہنے لگے : تم مجھ سے پوچھتے کیوں نہیں ہو جو میں نے کہا : ہم نے کہا : ہمیں اس سے خوشی نہیں ہوئی کہ ہم آپ سے اس کے بارے میں سوال کریں۔ اس نے کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے راستہ میں زائد مال خرچ کیا اسے سات سو گنا تک اجر دیا جائے گا اور جس نے اپنے اور گھر والوں پر خرچ کیا یا جس نے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا یا کوئی صدقہ کیا تو اس کی نیکی کا دس گنا اجر دیا جائے گا اور روزے کو مکمل کرنے کی صورت میں یہ ڈھال کا کام دے گا اور جسے اللہ رب لعزت نے کسی جسمانی بیماری میں مبتلا کردیا تو یہ بیماری اس کے لیے گناہوں کی معافی کا سبب بن جائے گی۔

18574

(١٨٥٦٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ أَخْبَرَنَا مَہْدِیُّ بْنُ مَیْمُونٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ عَنِ ابْنِ أَبِی سَیْفٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَجُلٌ مِنْ فُقَہَائِ أَہْلِ الشَّامِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا یُوسُفُ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَی أَبِی عُیَیْنَۃَ عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِی سَیْفٍ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ غُطَیْفٍ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بِہَذَا الْحَدِیثِ ۔ وَرَوَاہُ سُلَیْمُ بْنُ عَامِرٍ أَنَّ غُضَیْفَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَہُمْ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ : الْوَصَبُ یُکَفَّرُ بِہِ مِنَ الْخَطَایَا۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ الصَّحِیحُ غُضَیْفُ بْنُ الْحَارِثِ الشَّامِیُّ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٦٨) حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ بیماری گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔

18575

(١٨٥٦٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ زَائِدَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ : عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِنَاقَۃٍ مَخْطُومَۃٍ فَقَالَ ہِیَ لِی یَا رَسُولَ اللَّہِ ہَذِہِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعُمِائَۃٍ کُلُّہَا مَخْطُومَۃٌ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٨٩٢]
(١٨٥٦٩) ابو سعود عقبہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک شخص لگام والی اونٹنی لا کر کہنے لگا : یہ اللہ کے لیے ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن تجھے اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گی سب لگام والی ہوں گی۔

18576

(١٨٥٧٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ بُسْرِ بْنُ سَعِیدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَہُ فِی أَہْلِہِ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَغَیْرِہِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَاہُ کَمَا مَضَی۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٧٠) زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کو سازو سامان دیا گویا اس نے جہاد کیا اور جس نے کسی مجاہد کے اہل و عیال کی کفالت کی گویا وہ جہاد میں شریک ہوا۔

18577

(١٨٥٧١) حَدَّثَنَا الشَّیْخُ الإِمَامُ أَبُو الطَّیِّبِ : سَہْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا أَبِی وَشُعَیْبُ بْنُ اللَّیْثِ قَالاَ أَخْبَرَنَا اللَّیْثُ عَنِ ابْنِ الْہَادِ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ أَبِی الْوَلِیدِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سُرَاقَۃَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازِی أَظَلَّہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ جَہَّزَ غَازِیًا حَتَّی یَسْتَقِلَّ کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ حَتَّی یَمُوتَ أَوْ یَرْجِعَ وَمَنْ بَنَی مَسْجِدًا یُذْکَرُ فِیہِ اسْمُ اللَّہِ بَنَی اللَّہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٧١) حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جس نے غزوہ کرنے والے کو سایہ مہیا کیا تو کل قیامت کے دن اللہ اس کے لیے سائے کا بند و بست فرمائیں گے اور جس شخص نے غزوہ کرنے والے کو کم ساز و سامان بھی مہیا کیا تو اسے مجاہد کے برابر ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ وہ شہید ہوجائے یا واپس پلٹ آئے اور جس شخص نے اللہ کے ذکر کی غرض سے مسجد بنوائی اللہ جنت میں اس کا گھر بنادیں گے۔

18578

(١٨٥٧٢) وَأَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُوطَاہِرٍ الْفَقِیہُ وَأَبُوزَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُوالْعَبَّاسِ الشَّاذْیَاخِیُّ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ فَذَکَرُوا الْحَدِیثَ بِمِثْلِہِ وَزَادُوا قَالَ وَقَالَ الْوَلِیدُ فَذَکَرْتُ ہَذَا الْحَدِیثَ لِلقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ فَقَالَ قَدْ بَلَغَنِی ہَذَا الْحَدِیثَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ فَذَکَرْتُہُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ وَلِزَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَکِلاَہُمَا قَدْ قَالَ بَلَغَنِی ہَذَا عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔
(١٨٥٧٢) خالی۔

18579

(١٨٥٧٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْوَرَّاقُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا عَبِیدَۃُ بْنُ حُمَیْدٍ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ قَیْسٍ عَنْ نُبَیْحٍ الْعَنَزِیِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَنَّہُ أَرَادَ أَنْ یَغْزُوَ فَقَالَ : یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ إِنَّ مِنْ إِخْوَانِکُمْ قَوْمًا لَیْسَ لَہُمْ مَالٌ وَلاَ عَشِیرَۃٌ فَلْیَضُمَّ أَحَدُکُمْ إِلَیْہِ الرَّجُلَیْنِ أَوِ الثَّلاَثَۃَ فَمَا لأَحَدِنَا مِنْ ظَہْرِ جَمَلٍ إِلاَّ عُقْبَۃً کَعُقْبَۃِ أَحَدِہِمْ ۔ قَالَ : فَضَمَمْتُ إِلَیَّ اثْنَیْنِ أَوْ ثَلاَثَۃً مَا لِی إِلاَّ عُقْبَۃٌ کَعُقْبَۃِ أَحَدِہِمْ ۔ [حسن ]
(١٨٥٧٣) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے جہاد کا ارادہ کیا تو فرمایا : اے مہاجرین و انصار ! تمہارے کچھ بھائی ایسے ہیں جن کے پاس مال و سواریاں موجود نہیں تو تم میں سے ہر ایک دو یا تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے۔ ہم میں سے ہر ایک کے لیے ویسے ہی باری مقرر کی جیسے ان کے لیے تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو ملایا تو میری باری بھی ان کی طرح ہی تھی۔

18580

(١٨٥٧٤) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ وَسَعِیدُ بْنُ أَبِی أَیُّوبَ عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِیِّ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِنَّ الصَّلاَۃَ وَالصِّیَامَ وَالذِّکْرَ تُضَاعَفُ عَلَی النَّفَقَۃِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ بِسَبْعِمِائَۃِ ضِعْفٍ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٧٤) حضرت سہل بن معاذ بن انس جہنی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور ذکر کرنے کا ثواب اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات گنا تک اجر ملتا ہے۔

18581

(١٨٥٧٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُہَنِیِّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آیَۃٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ کَتَبَہُ اللَّہُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٧٥) حضرت سہل بن معاذ جہنی اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں ایک ہزار آیات تلاوت کی، اللہ رب العزت اسے انبیائ، صدیقین، شہداء اور نیک لوگوں کا ساتھ نصیب کرے گا۔

18582

(١٨٥٧٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرِو بْنُ أَبِی جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَسَلَمَۃُ بْنُ شَبِیبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ وَسُہَیْلِ بْنِ أَبِی صَالِحٍ أَنَّہُمَا سَمِعَا النُّعْمَانَ بْنَ أَبِی عَیَّاشٍ الزُّرَقِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ بَاعَدَ اللَّہُ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ سَبْعِینَ خَرِیفًا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ نَصْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٧٦) حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اللہ کے راستے میں روزہ رکھا اللہ اسے ستر سال کی مسافت تک جہنم سے دور فرما دیں گے۔

18583

(١٨٥٧٧) حَدَّثَنَا الشَّیْخُ الإِمَامُ أَبُو الطَّیِّبِ : سَہْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ رَحِمَہُ اللَّہُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَۃَ : عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِیُّ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ حُمَیْدٍ حَدَّثَنَا الْمُطْعِمُ بْنُ الْمِقْدَامِ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : خَرَجْتُ إِلَی الْغَزْوِ فَشَیَّعَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَلَمَّا أَرَادَ فِرَاقَنَا قَالَ : إِنَّہُ لَیْسَ مَعِی مَا أُعْطِیکُمَاہُ وَلَکِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : إِنَّ اللَّہَ إِذَا اسْتُوْدِعَ شَیْئًا حَفِظَہُ وَأَنَا أَسْتَوْدِعُ اللَّہَ دَینَکُمَا وَأَمَانَاتِکُمَا وَخَواتِیمَ أَعْمَالِکُمَا۔ [صحیح ]
(١٨٥٧٧) مجاہد فرماتے ہیں جب میں جہاد کے لیے نکلا تو عبداللہ بن عمر (رض) نے ہمیں الوداع کہا۔ جب واپس جانے لگے تو فرمایا : میرے پاس کچھ نہیں جو میں تمہیں دے سکوں، لیکن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ رب العزت اس چیز کی حفاظت فرماتے ہیں، جو اس کی حفاظت میں دے دی جائے میں تمہارے دین، تمہاری امانتیں اور تمہارے اعمال کے خاتموں کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

18584

(١٨٥٧٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لأَنْ أُشَیِّعَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَأَکْنُفَہُ عَلَی رَحْلِہِ غَدْوَۃً أَوْ رَوْحَۃً أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٧٨) سہل بن معاذ بن انس اپنے والد سے نقل کرتے ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں مجاہدین کے ساتھ رہ کر ان کے قافلے کا صبح یا شام کے وقت پہرہ دوں یہ مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔

18585

(١٨٥٧٩) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا أَبُو الْفَیْضِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جَابِرٍ الرُّعَیْنِیَّ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ شَیَّعَ جَیْشًا فَمَشَی مَعَہُمْ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی اغْبَرَّتْ أَقْدَامُنَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَقِیلَ لَہُ وَکَیْفَ اغْبَرَّتْ وَإِنَّمَا شَیَّعْنَاہُمْ فَقَالَ : إِنَّا جَہَّزْنَاہُمْ وَشَیَّعْنَاہُمْ وَدَعَوْنَا لَہُمْ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٧٩) سعید بن جابر اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) لشکر کو الوداع کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلتے اور فرماتے کہ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمارے پاؤں کو اپنے راستے میں خاک آلود کردیا۔ ان سے کہا گیا کہ کیسے پاؤں اللہ کے راستے میں خاک آلود ہوئے حالانکہ ہم نے انھیں الوداع کیا ہے۔ فرماتے : ہم نے انھیں سازوسامان مہیا کیا۔ الوداع کہا اور ان کے لیے دعا کی۔

18586

(١٨٥٨٠) أَخْبَرَنَا أَبُوْ عَلِیِّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ قَعْنَبٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((حُرْمَۃُ نِسَائِ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلٰی الْقَاعِدِیْنَ کَحُرْمَۃِ أُمَّہَاتِہِمْ ، وَمَا مِنْ رَّجُلٍ مِّنَ الْقَاعِدِیْنَ یَخْلُفُ رَجُلًا فِیْ أَہْلِہٖ إِلَّا نُصِبَ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقِیْلَ ہٰذَا خَلَفَکَ فِیْ أَہْلِکَ ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِہٖ مَا شِئْتَ )) ۔ فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَالَ : ((مَا ظَنُّکُمْ ؟ )) ۔ [صحیح۔ مسلم ١٨٩٧]
(١٨٥٨٠) ابو بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گھروں میں اقامت پر ہر لوگ مجاہدین کی بیویوں کا احترام اس طرح کریں جس طرح اپنی ماؤں کا احترام کرتے ہیں۔ جو لوگ گھروں میں موجود ہیں اور ران میں سے اگر کوئی کسی مجاہد کے اہل و عیال سے خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور کہا جائے گا : اس نے تیرے اہل خانہ میں خیانت کی تھی تو اس کی نیکیوں سے جتنا چاہولے لو تو رسول للہ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے۔

18587

(١٨٥٨١) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ حَدَّثَنَا قَعْنَبٌ التَّمِیمِیُّ وَکَانَ ثِقَۃٌ خِیَارًا فَذَکَرَہُ بِنَحْوِہِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : فَیُقَالُ لَہُ یَا فُلاَنُ ہَذَا فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ خَانَکَ فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِہِ مَا شِئْتَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَأَخْرَجَہُ مِنْ حَدِیثِ الثَّوْرِیِّ وَمِسْعَرٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ ۔ [صحیح۔ تقدم ]
(١٨٥٨١) قعنب تمیمی فرماتے ہیں : کہا جائے گا : اے فلاں ! یہ فلاں بن فلاں ہے جس نے تیرے اہل سے خیانت کی تھی تم جتنی نیکیاں اس کی چاہو لے تو۔

18588

(١٨٥٨٢) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِیُّ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ حُسَیْنٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ یَزِیدَ النَّحْوِیِّ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ { عَفَا اللَّہُ عَنْکَ لِمَ أَذِنْتَ لَہُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ ۔ لاَ یَسْتَأْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یُجَاہِدُوا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ وَاللَّہُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ إِنَّمَا یَسْتَأْذِنُکَ الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ } [التوبۃ ٤٣-٤٥] نَسَخَتْہَا الَّتِی فِی النُّورِ {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَإِذَا کَانُوا مَعَہُ عَلَی أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْہَبُوا حَتَّی یَسْتَأْذِنُوہَ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَأْذِنُونَکَ أُولَئِکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَأْنِہِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔} [النور ٦٢] وَکَذَلِکَ رَوَاہُ عَطِیَّۃُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبِمَعْنَاہُ قَالَ قَتَادَۃُ قَالَ رَخَّصَ لَہُ ہَا ہُنَا بَعْدَ مَا قَالَ لَہُ { عَفَا اللَّہُ عَنْکَ لِمَ أَذِنْتَ لَہُمْ } [التوبۃ ٤٣] ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٨٢) عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ ارشاد باری ہے : { عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ } اللہ نے آپ کو معاف کردیا آپ نے ان کو اجازت کیوں دی یہاں تک وہ آپ کے لیے واضح ہوجائیں جنہوں نے سچ کیا یا جھوٹ بولتے ہیں اور { لَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ } آپ سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اجازت طلب نہیں کرنے کہ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد نہیں کرتے اور اللہ متقین کو جاننے والا ہے اور { اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ } [التوبۃ ٤٣-٤٥] صرف آپ سے اجازت وہ لوگ طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ متردد ہیں۔ ان آیات کو سورة نور کی آیات نے منسوخ کردیا، یعنی { اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰی اَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ} [النور ٦٢] قتادہ کہتے ہیں : یہاں رخصت دیدی اس کے بعد جب یہ کہا : { عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ } [التوبۃ ٤٣] اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا ہے۔ آپ نے ان کو اجازت کیوں دی۔۔۔

18589

(١٨٥٨٣) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی وَأَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - حِینَ قَدِمَ مِنْ غَزْوِہِ قَالَ : لاَ تَطْرُقُوا النِّسَائَ ۔ وَأَرْسَلَ مَنْ یُؤْذِنُ النَّاسَ أَنَّہُ قَادِمٌ الْغَدَ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٨٣) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ سے واپس آتے تو فرماتے : تم رات کے وقت اپنے گھر عورتوں کے پاس واپس پلٹ کر نہ آؤ اور آپ نے لوگوں کو اطلاع دی کہ میں کل آنے والاہوں۔

18590

(١٨٥٨٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ یَحْیَی عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ أَبِی خَالِدٍ حَدَّثَنِی قَیْسُ بْنُ أَبِی حَازِمٍ قَالَ قَالَ لِی جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَلاَ تُرِیحُنِی مِنْ ذِی الْخَلَصَۃِ ۔ وَکَانُوا یُسَمُّونَہَا کَعْبَۃَ الْیَمَانِیَۃِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فِی خَمْسِینَ وَمِائَۃِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ وَکُنْتُ لاَ أَثْبُتُ عَلَی الْخَیْلِ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَضَرَبَ بِیَدِہِ فِی صَدْرِی حَتَّی إِنِّی لأَنْظُرُ إِلَی أَثَرِ أَصَابِعِہِ فِی صَدْرِی فَقَالَ : اللَّہُمَّ ثَبِّتْہُ وَاجْعَلْہُ ہَادِیًا مَہْدِیًّا ۔ قَالَ : فَانْطَلَقَ فَکَسَرَہَا وَحَرَّقَہَا بِالنَّارِ ثُمَّ بَعَثَ حُصَیْنَ بْنَ رَبِیعَۃَ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُبَشِّرُہُ فَقَالَ : وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُکَ حَتَّی تَرَکْتُہَا مِثْلَ الْجَمَلِ الأَجْرَبِ فَبَارَکَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی خَیْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِہَا خَمْسَ مَرَّاتٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُسَدَّدٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ أَوْجُہٍ عَنْ إِسْمَاعِیلَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٨٤) حضرت جویر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا : کیا آپ تجھے ذی الخلصہ سے آرام نہ دینگے ؟ وہ اس کا نام کعبۃ الیمانیہ رکھتے تھے۔ ؟ ہم قبیلہ احمس کے ١٥٠ شہوار لے کر گئے لیکن میں گھوڑ سواری نہ کرسکتا تھا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا تو آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا۔ آپ کی انگلیوں کے نشانات میرے سینے پر موجود تھے اور فرمایا : اے اللہ اس کو ثابت رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔ فرماتے ہیں کہ انھوں نے اسے توڑ کر آگ سے جلا ڈالا، پھر حضرت حصین بن اسید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خوشخبری دینے کے لیے روا نہ کیا تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا کہ ہم نے اسے خارشی اونٹ کی مائندچھوڑ دیا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ احمس کے شہسواروں اور پیادہ پر پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔

18591

(١٨٥٨٥) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّقَّائِ وَأَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِئُ قَالاَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَلَفَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَلَی رُقَیَّۃَ ابْنَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَرَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَیَّامَ بَدْرٍ فَجَائَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی الْعَضْبَائِ نَاقَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِالْبِشَارَۃِ قَالَ أُسَامَۃُ : فَسَمِعَتُ الْہَیْعَۃَ فَخَرَجْتُ فَإِذَا زَیْدٌ قَدْ جَائَ بِالْبِشَارَۃِ فَوَاللَّہِ مَا صَدَّقْتُ حَتَّی رَأَیْنَا الأُسَارَی فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بِسَہْمِہِ ۔ [صحیح ]
(١٨٥٨٥) اسامہ بن زید (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن عفان (رض) اور اسامہ بن زید (رض) کو اپنی بیٹی رقیہ کی تیمارداری کے لیے بدر سے پیچھے چھوڑا تو زید بن حارثہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی عضباء پر فتح کی خوشخبری لیکر آئے۔ اسامہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے گھبراہٹ والی آواز سنی تو میں باہر آیا، وہ زید بن حارثہ تھے جو فتح کی خوشخبری لیکر آئے تھے۔ اللہ کی قسم ! میں نے قیدی دیکھ کر اس کی تصدیق کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن عفان (رض) کے لیے بدر کا حصہ مقرر فرمایا۔

18592

(١٨٥٨٦) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عُبَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ کَعْبٍ قَائِدَ کَعْبٍ حِینَ عَمِیَ مِنْ بَنِیہِ قَالَ سَمِعْتُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ حَدِیثَہُ حِینَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِطُولِہِ فِی تَوْبَتِہِ وَإِیذَانِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بِتَوْبَۃِ اللَّہِ عَلَیْہِ وَعَلَی صَاحِبَیْہِ قَالَ : سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَی عَلَی جَبَلٍ سَلْعٍ یَا کَعْبُ بْنَ مَالِکٍ أَبْشِرْ قَالَ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا وَعَرَفْتُ أَنَّہُ قَدْ جَائَ الْفَرَجُ فَلَمَّا جَائَ نِی الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَہُ یُبَشِّرُنِی نَزَعْتُ ثَوْبَیَّ فَکَسَوْتُہُمَا إِیَّاہُ بِبُشْرَاہُ وَوَاللَّہِ مَا أَمْلِکُ غَیْرَہُمَا یَوْمَئِذٍ وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُہُمَا وَانْطَلَقْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٨٦) عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن کعب اپنے والد کو نابینا ہونے کے بعد لائے۔ کہتے ہیں : میں نے کعب بن مالک سے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے اور ان کی توبہ کا قصہ سنا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اور ان کے دوں تھیوں کو توبہ کی قبولیت کی خبر دی۔ کہتے ہیں : میں نے سلع پہاڑ پر بلند آواز سے پکارنے والے کو سنا جو کہہ دیا تھا : اے کعب بن مالک ! خوش ہوجا۔ کہتے ہیں : میں سجدہ میں گرا پڑا اور جان گیا کہ خوش حالی کے دن آگئے۔ جب آواز دینے والا میرے قریب آیا، وہ مجھے خوشخبری دے رہا تھا تو میں نے اپنے کپڑے اتار کر اسے دے دیے کیونکہ اس کے علاوہ میں اس دن کسی اور چیز کا ملک نہ تھا اور دو کپڑے ادھار لے کر زیب تن کیے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا پہنچا۔

18593

(١٨٥٨٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ زِیَادٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مِنْ تَبُوکَ خَرَجَ النَّاسُ یَتَلَقَّوْنَہُ إِلَی ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ وَأَنَا غُلاَمٌ فَتَلَقَّیْنَاہُ ۔ [صحیح۔ بخاری ٤٤٢٠٠]
(١٨٥٨٧) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آئے تو لوگوں نے ثنیۃ الوداع جا کر آپ کا استقبال کیا۔ میں بھی لوگوں کے ساتھ گیا جب کہ میں ابھی بچہ تھا۔

18594

(١٨٥٨٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِیعِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ الصِّبْیَانِ نَتَلَقَّی رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعِ مَقْدَمَہُ مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ ۔ وَقَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً : أَذْکُرُ مَقْدَمَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - لَمَّا قَدِمَ مِنْ تَبُوکَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٨٨) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ثنیۃ الوداع جاکر استقبال کیا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور سفیان بھی کہتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقبال کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس پلٹے۔

18595

(١٨٥٨٩) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی سَفَرٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ قَالَ لِی : ادْخُلِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ وَقَدْ مَضَی سَائِرُ الأَحَادِیثِ الَّتِی رُوِیَتْ فِی آدَابِ السَّفَرِ فِی آخِرِ کِتَابِ الْحَجِّ وَالأَحَادِیثُ الَّتِی رُوِیَتْ فِی الإِعْدَادِ لِلْجِہَادِ فِی کِتَابِ السَّبْقِ وَالرَّمْیِ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٨٩) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ جب آپ ایک سفر سے مدینہ واپس آئے تو آپ نے مجھے کہا : پہلے مسجد جا کر دو رکعت نماز ادا کرو۔

18596

(١٨٥٩٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ إِمْلاَئً وَقِرَائَ ۃً أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ زِیَادٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِیُّ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : تُقَاتِلُونَ الْیَہُودَ حَتَّی یَخْتَبِئَ أَحَدُہُمْ وَرَائَ الْحَجَرِ فَیَقُولُ یَا عَبْدَ اللَّہِ الْمُسْلِمَ ہَذَا یَہُودِیٌّ وَرَائِی فَاقْتُلْہُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِیِّ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ نَافِعٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٩٠) نافع حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم یہود کے ساتھ قتال کروگے۔ جب کوئی یہودی پتھر کے پیچھے چھپ جائے گا تو پتھر آواز لے کر کہے گا : اے مسلمان بندے ! یہ یہودی میرے پیچھے ہے اس کو قتل کر۔

18597

(١٨٥٩١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلاَّمٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَۃَ عَنْ عَبْدِ الْخَبِیرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ : جَائَ تِ امْرَأَۃٌ إِلَی النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یُقَالُ لَہَا أُمُّ خَلاَّدٍ وَہِیَ مُتَنَقِّبَۃٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنٍ لَہَا وَہُوَ مَقْتُولٌ فَقَالَ لَہَا بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - جِئْتِ تَسْأَلِینَ عَنِ ابْنِکِ وَأَنْتِ مُتَنَقِّبَۃٌ فَقَالَتْ : إِنْ أُرْزَإِ ابْنِی فَلَنْ أُرْزَأَ حَیَائِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : ابْنُکِ لَہُ أَجْرُ شَہِیدَیْنَ ۔ قَالَتْ : وَلِمَ ذَاکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ : لأَنَّہُ قَتَلَہُ أَہْلُ الْکِتَابِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٥٩١) عبد الخبیر بن ثابت بن قیس بن شماس اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک عورت جس کوا مِ خلادکہا جاتا تھا، وہ پردہ کی حالت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ بعض صحابہ نے کہا : باپردہ ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہے ؟ اس عورت نے کہا : میرا بیٹا قتل ہوا۔ میری حیا تو ختم نہ ہوئی ؟ آپ نے فرمایا : تیرے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ اس عورت نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کیوں کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔

18598

(١٨٥٩٢) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا أَقْوَامًا نِعَالُہُمُ الشَّعَرُ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٩٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم بالوں کے جوتے پہننے والوں سے لڑائی نہ کروگے۔

18599

(١٨٥٩٣) حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِیُّ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُہُمُ الشَّعَرُ وَلاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الأَعْیُنِ ذُلْفَ الأُنُوفِ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ ۔ رَوَاہُمَا الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ وَرَوَاہُمَا مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ عَنْ سُفْیَانَ ۔ وَرَوَاہُ شُعَیْبُ بْنُ أَبِی حَمْزَۃَ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ فَقَالَ : حَتَّی تُقَاتِلُوا التُّرْکَ صِغَارَ الأَعْیُنِ حُمْرَ الْوُجُوہِ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٩٣) حضرت ابوہریرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم بالوں کے جوتے پہننے والوں اور چھوٹی آنکھوں والوں اور چپٹی ناک والوں گویا کہ ان کے چہرے ڈھال کی مانند ہیں جو ایک دوسرے پر رکھی ہوں ان سے لڑائی نہ کروگے
(ب) شعیب بن ابی حمزہ حضرت ابو زناد سے نقل فرماتے ہیں حتیٰ کہ تم ترک سے جو چھوٹی آنکھوں والے اور سرخ چہروں والے ہیں سے جہاد کرو گے۔

18600

(١٨٥٩٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا الْمَنِیعِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ الأَوَّلَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ یَعْنِی مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادٍ : بَلَغَنِی أَنَّ أَصْحَابَ بَابَکَ کَانَتْ نِعَالُہُمُ الشَّعَرُ ۔ [صحیح۔ تقدم قبلہ ]
(١٨٥٩٤) محمد بن عباد فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی کہ اصحابِ بابک کے جوتے بالوں والے ہیں۔

18601

(١٨٥٩٥) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ بَالُوَیْہِ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنِی أَبُو ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تُقَاتِلُوا خُوزَ وَکَرْمَانَ قَوْمًا مِنَ الأَعَاجِمِ حُمْرَ الْوُجُوہِ فُطْسَ الأُنُوفِ صِغَارَ الأَعْیُنِ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٩٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم خوز اور کرمان عجمی قوتوں سے جہاد نہ کرو گے۔ سرخ چہرے چپٹے ناک چھوٹی آنکھیں گویا کہ ان کے چہرے ڈھال کی مانند ہوں جو ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہوتی ہیں۔

18602

(١٨٥٩٦) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ ہُوَ ابْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : تُقَاتِلُونَ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ قَوْمًا نِعَالُہُمُ الشَّعَرُ وَتُقَاتِلُونَ قَوْمًا عِرَاضَ الْوُجُوہِ کَأَنَّ وُجُوہَہُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَۃُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأَبِی النُّعْمَانِ عَنْ جَرِیرِ بْنِ حَازِمٍ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٥٩٦) عمروبن ثعلب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم قیامت سے پہلے ایسی قوم سے لڑائی کروگے جن کے جوتے بالوں والے ہوں گے اور تم چوڑے چہروں والوں سے جہاد کروگے گویا کہ ان کے چہرے ڈھال کی مانند ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر رکھی ہوئی ہوں۔

18603

(١٨٥٩٧) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عِیسَی بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّمْلِیُّ حَدَّثَنَا ضَمْرَۃُ عَنِ الشَّیْبَانِیِّ عَنْ أَبِی سُکَیْنَۃَ رَجُلٌ مِنَ الْمُحَرَّرِینَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنَّہُ قَالَ : دَعُوا الْحَبَشَۃَ مَا وَدَعُوکُمْ وَاتْرُکُوا التُّرْکَ مَا تَرَکُوکُمْ ۔ [حسن ]
(١٨٥٩٧) ابو سکینہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے نقل فرماتے ہیں کہ تم حبشیوں کو چھوڑے رکھو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں۔ اور ترک کو بھی چھوڑے رکھو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں۔

18604

(١٨٥٩٨) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَغْدَادِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : اتْرُکُوا الْحَبَشَۃَ مَا تَرَکُوکُمْ فَإِنَّہُ لاَ یَسْتَخْرِجُ کَنْزَ الْکَعْبَۃِ إِلاَّ ذُو السُّوَیْقَتَیْنِ مِنَ الْحَبَشَۃِ ۔ [حسن ]
(١٨٥٩٨) حضرت عبداللہ بن عمرو نبی سے نقل فرماتے ہیں کہ جب حبشہ والے تمہیں چھوڑے رکھیں تو تم بھی انھیں چھوڑے رکھو۔ کیونکہ کعبہ کے خزانوں کو حبشہ کا باریک پنڈلیوں والاشخص ہی نکالے گا۔

18605

(١٨٥٩٩) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا خَلَفٌ عَنْ ہُشَیْمٍ عَنْ سَیَّارِ بْنِ أَبِی سَیَّارٍ الْعَنَزِیِّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی عَلِیٍّ السَّقَّائُ وَأَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ قَالاَ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ عَنْ سَیَّارٍ أَبِی الْحَکَمِ عَنْ جَبْرِ بْنِ عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - غَزْوَۃَ الْہِنْدِ فَإِنْ أُدْرِکْہَا أُنْفِقْ فِیہَا مَالِی وَنَفْسِی فَإِنِ اسْتُشْہِدْتُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّہَدَائِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ الْمُحَرَّرُ ۔ زَادَ الْمُقْرِئُ فِی رِوَایَتِہِ ثُمَّ قَالَ مُسَدَّدٌ سَمِعْتُ ابْنَ دَاوُدَ یَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِیُّ : وَدِدْتُ أَنِّی شَہِدْتُ بَارْبِدَ بِکُلِّ غَزْوَۃٍ غَزَوْتُہَا فِی بِلاَدِ الرُّومِ ۔ [ضعیف ]
(٩٩ ١٨٥) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ لیا کہ اگر تو اس کو اپنی زندگی میں پالے تو اپنا مال وجان اس میں لگا دینا۔ اگر تو شہید ہوگیا تو افضل شہیدوں میں سے ہوگا اور اگر واپس آگیا تو ابوہریرہ آزاد کیا ہو اہوگا۔
(ب) مسدد کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد سے سنا کہ ابو اسحاق فزاری نے کہا : میں پسند کرتا ہوں کہ میں ہر غزوہ میں شریک ہوں جو بھی ملک روم میں کیا جائے۔

18606

(١٨٦٠٠) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَیْبَۃَ وَجَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَاصِمٍ قَالاَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِیحٍ الْبَہْرَانِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِیدِ الزُّبَیْدِیُّ عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی بْنِ عَدِیٍّ الْبَہْرَانِیِّ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَوْلَی رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِی أَحْرَزَہُمَا اللَّہُ مِنَ النَّارِ عِصَابَۃٌ تَغْزُو الْہِنْدَ وَعِصَابَۃٌ تَکُونُ مَعَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٠٠) حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کی اللہ تعالیٰ جہنم سے حفاظت فرمائیں گے۔ وہ جماعت جو ہند سے غزوہ کرے گی اور وہ جماعت جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ہوگی۔

18607

(١٨٦٠١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ قَالَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی { ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَو کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ } [التوبۃ ٣٣] ۔ [صحیح ]
(١٨٦٠١) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے : { ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ } [التوبۃ ٣٣] وہ ذات جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند ہی کریں۔

18608

(١٨٦٠٢) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُیَیْنَۃَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِذَا ہَلَکَ کِسْرَی فَلاَ کِسْرَی بَعْدَہُ وَإِذَا ہَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہُ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتُنْفِقُنَّ کُنُوزَہُمَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَمْرٍو النَّاقِدِ وَغَیْرِہِ عَنْ سُفْیَانَ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ یُونُسَ وَغَیْرِہِ عَنِ الزُّہْرِیِّ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٠٢) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور قیصر کی ہلاکت کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے، تم ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے خرچ کر ڈالوگے۔

18609

(١٨٦٠٣) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا جَرِیرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمِثْلِ حَدِیثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنْ جَرِیرٍ وَرُوِّینَا فِی ذَلِکَ فِی حَدِیثِ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی کِسْرَی بِمَعْنَاہُ وَمَنْ وَجْہٍ آخَرَ فِی کِسْرَی وَقَیْصَرَ بِمَعْنَاہُ ۔
(١٨٦٠٣) خالی۔

18610

(١٨٦٠٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ أَخْبَرَنَا سَعْدٌ الطَّائِیُّ أَخْبَرَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِیفَۃَ عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : بَیْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِیہِ قَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَلَئِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ لَتُفْتَحَنَّ کُنُوزُ کِسْرَی ۔ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ ؟ قَالَ : کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ ۔ قَالَ عَدِیٌّ : وَکُنْتُ مِمَّنِ افْتَتَحَ کُنُوزَ کِسْرَی بْنِ ہُرْمُزَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَکَمِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُمَیْلٍ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٠٤) عدی بن حاتم (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک حدیث ذکر کی، جس میں تھا کہ آپ نے فرمایا : اگر تیری زندگی لمبی ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانے فتح کروگے۔ میں نے پوچھا کہ کسریٰ بن ہرمز کے ؟ آپ نے فرمایا : جی کسریٰ بن ہرمز عدی کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں کے ساتھ تھا، جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔

18611

(١٨٦٠٥) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہِ : وَلَمَّا أُتِی کِسْرَی بِکِتَابِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - مَزَّقَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : تَمَزَّقَ مُلْکُہُ ۔ وَحَفِظْنَا أَنَّ قَیْصَرَ أَکْرَمَ کِتَابَ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَوَضَعَہُ فِی مِسْکٍ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ثَبَتَ مُلْکُہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٦٠٥) امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط جب کسریٰ کے پاس آیا تو اس نے پھاڑا ڈالا۔ آپ نے فرمایا : اس کی بادشاہت ختم ہوجائے گی اور ہمیں یاد ہے کہ قیصر نے آپ کے خط کی عزت کی اور کستوری میں رکھا۔ آپ نے فرمایا : اس کی حکومت باقی رہے گی۔

18612

(١٨٦٠٦) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا ابْنُ مِلْحَانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْعَبْدِیُّ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ عَنِ اللَّیْثِ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہُ قَالَ أَخْبَرَنِی عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - بَعَثَ رَجُلاً بِکِتَابِہِ إِلَی کِسْرَی فَأَمَرَہُ أَنْ یَدْفَعَہُ إِلَی عَظِیمِ الْبَحْرَیْنِ یَدْفَعُہُ عَظِیمُ الْبَحْرَیْنِ إِلَی کِسْرَی فَلَمَّا قَرَأَہُ کِسْرَی خَرَّقَہُ فَحَسِبْتُ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ قَالَ : فَدَعَا عَلَیْہِمْ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یُمَزَّقُوا کُلَّ مُمَزَّقٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ وَغَیْرِہِ ۔ [صحیح۔ بخاری ٢٩٣٩]
(١٨٦٠٦) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی شخص کو اپنا خط دے کر کسریٰ کی جانب روانہ کیا۔ آپ نے حکم دیا کہ بحرین کے امیر کو دے دینا تاکہ وہ کسریٰ تک پہنچا دے۔ جب اس نے نامہ مبارک پڑھا اور پھاڑ ڈالا۔ ابن مسیب کہتے ہیں : ان کے خلاف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بد دعا کی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔

18613

(١٨٦٠٧) أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلٍ : مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرُوَیْہِ بْنِ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِیُّ قَدِمَ عَلَیْنَا نَیْسَابُورَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَنْبٍ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ : إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ حَمْزَۃَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَیْسَانَ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَنَّہُ أَخْبَرَہُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کَتَبَ إِلَی قَیْصَرَ یَدَعُوہُ إِلَی الإِسْلاَمِ وَبَعَثَ بِکِتَابِہِ إِلَیْہِ مَعَ دِحْیَۃَ الْکَلْبِیِّ وَأَمَرَہُ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أَنْ یَدْفَعَہُ إِلَی عَظِیمِ بُصْرَی لِیَدْفَعَہُ إِلَی قَیْصَرَ فَدَفَعَہُ عَظِیمُ بُصْرَی إِلَی قَیْصَرَ وَکَانَ قَیْصَرُ لَمَّا کَشَفَ اللَّہُ عَنْہُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَی مِنْ حِمْصَ إِلَی إِیلِیَائَ شُکْرًا لِمَا أَبْلاَہُ اللَّہُ فَلَمَّا أَنْ جَائَ قَیْصَرَ کِتَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ حِینَ قَرَأَہُ الْتَمِسُوا لِی ہَا ہُنَا أَحَدًا مِنْ قَوْمِہِ أَسْأَلُہُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِی أَبُو سُفْیَانَ : أَنَّہُ کَانَ بِالشَّامِ فِی رِجَالِ قُرَیْشٍ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَیْصَرَ بِبَعْضِ الشَّامِ فَانْطَلَقَ بِی وَبِأَصْحَابِی حَتَّی قَدِمْنَا إِیلِیَائَ فَأُدْخِلْنَا عَلَیْہِ فَإِذَا ہُوَ فِی مَجْلِسِ مُلْکِہِ وَعَلَیْہِ التَّاجُ وَإِذَا حَوْلَہُ عُظَمَائُ الرُّومِ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِہِ : سَلْہُمْ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَی ہَذَا الرَّجُلِ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ فَقُلْتُ : أَنَا أَقْرَبُہُمْ إِلَیْہِ نَسَبًا قَالَ : مَا قَرَابَۃُ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ قَالَ فَقُلْتُ : ہُوَ ابْنُ عَمِّی قَالَ : وَلَیْسَ فِی الرَّکْبِ یَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ غَیْرِی فَقَالَ قَیْصَرُ : أَدْنُوہُ مِنِّی ثُمَّ أَمَرَ بِأَصْحَابِی فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَہْرِی عِنْدَ کَتِفِی ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِہِ : قُلِ لأَصْحَابِہِ إِنِّی سَائِلٌ ہَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ فَإِنْ کَذَبَ فَکَذِّبُوہُ ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : وَاللَّہِ لَوْلاَ الْحَیَائُ یَوْمَئِذٍ أَنْ یَأْثُرَ أَصْحَابِی عَنِّی الْکَذِبَ کَذَبْتُ عَنْہُ حِینَ سَأَلَنِی عَنْہُ وَلَکِنِّی اسْتَحْیَیْتُ أَنْ یَأْثِرُوا الْکَذِبَ عَنِّی فَصَدَقْتُہُ عَنْہُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِہِ : قُلْ لَہُ کَیْفَ نَسَبُ ہَذَا الرَّجُلِ فِیکُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ : ہُوَ فِینَا ذُو نَسَبٍ ۔ قَالَ : فَہَلْ قَالَ ہَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَبْلَہُ ؟ قَالَ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَہَلْ کُنْتُمْ تَتَّہِمُونَہُ عَلَی الْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ مَا قَالَ ؟ قَالَ قُلْت : لاَ قَالَ : فَہَلْ مِنْ آبَائِہِ مِنْ مَلِکٍ ؟ قَالَ قُلْتُ : لاَ ۔ قَالَ : فَأَشْرَافُ النَّاسِ یَتَّبِعُونَہُ أَمْ ضُعَفَاؤُہُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ : بَلْ ضُعَفَاؤُہُمْ قَالَ : فَیَزِیدُونَ أَمْ یَنْقُصُونَ ؟ قَالَ قُلْتُ : بَلْ یَزِیدُونَ ۔ قَالَ : فَہَلْ یَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْہُمْ سَخْطَۃً لِدِینِہِ بَعْدَ أَنْ یَدْخُلَ فِیہِ قَالَ قُلْتُ : لاَ قَالَ : فَہَلْ یَغْدِرُ ؟ قَالَ قُلْتُ : لاَ وَنَحْنُ الآنَ مِنْہُ فِی مُدَّۃٍ نَحْنُ نَخَافُ أَنْ یَغْدِرَ ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : وَلَمْ یُمْکِنِّی کَلِمَۃٌ أُدْخِلُ فِیہَا شَیْئًا أَنْتَقِصُہُ بِہِ لاَ أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّی غَیْرَہَا قَالَ : فَہَلْ قَاتَلْتُمُوہُ وَقَاتَلَکُمْ ؟ قَالَ قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : فَکَیْفَ کَانَتْ حَرْبُکُمْ وَحَرْبُہُ ؟ قَالَ قُلْتُ : کَانَتْ دُوَلاً وَسِجَالاً یُدَالُ عَلَیْنَا الْمَرَّۃَ وَنُدَالُ عَلَیْہِ الأُخْرَی قَالَ : فَمَاذَا یَأْمُرُکُمْ بِہِ قَالَ : یَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّہَ وَحْدَہُ لاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَیَنْہَانَا عَمَّا کَانَ یُعْبَدُ آبَاؤُنَا وَیَأْمُرُنَا بِالصَّلاَۃِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَائِ بِالْعَہْدِ وَأَدَائِ الأَمَانَۃِ ۔ قَالَ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِہِ حِینَ قُلْتُ ذَلِکَ لَہُ قُلْ لَہُ : إِنِّی سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِہِ فِیکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّہُ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِی نَسَبِ قَوْمِہَا وَسَأَلْتُکَ ہَلْ قَالَ ہَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَبْلَہُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَالَ ہَذَا الْقَوْلَ قَبْلَہُ قُلْتُ رَجُلٌ یَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِیلَ قَبْلَہُ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ کُنْتُمْ تَتَّہِمُونَہُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ لِیَدَعَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَیَکْذِبُ عَلَی اللَّہِ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ کَانَ مِنْ آبَائِہِ مِنْ مَلِکٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ کَانَ مِنْ آبَائِہِ مَلِکٌ قُلْتُ یَطْلُبُ مُلْکَ آبَائِہِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ یَتَّبِعُونَہُ أَمْ ضُعَفَاؤُہُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَائَ ہُمُ اتَّبَعُوہُ وَہُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ یَزِیدُونَ أَمْ یَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّہُمْ یَزِیدُونَ وَکَذَلِکَ الإِیمَانُ حَتَّی یَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ یَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَۃً لِدِینِہِ بَعْدَ أَنْ یَدْخُلَ فِیہِ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَکَذَلِکَ الإِیمَانُ حِینَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُہُ الْقُلُوبَ لاَ یَسْخَطُہُ أَحَدٌ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ یَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لاَ یَغْدِرُونَ وَسَأَلْتُکَ ہَلْ قَاتَلْتُمُوہُ وَقَاتَلَکُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ وَأَنَّ حَرْبَکُمْ وَحَرْبَہُ یَکُونُ دُوَلاً یُدَالُ عَلَیْکُمُ الْمَرَّۃَ وَتُدَالُونَ عَلَیْہِ الأُخْرَی وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی وَتَکُونُ لَہَا الْعَاقِبَۃُ وَسَأَلْتُکَ بِمَاذَا یَأْمُرُکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّہُ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّہَ وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَیَنْہَاکُمْ عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُکُمْ وَیَأْمُرُکُمْ بِالصَّلاَۃِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَائِ بِالْعَہْدِ وَأَدَائِ الأَمَانَۃِ وَہَذِہِ صِفَۃُ نَبِیٍّ قَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّہُ خَارِجٌ وَلَکِنْ لَمْ أَظُنُّ أَنَّہُ مِنْکُمْ وَإِنْ یَکُنْ مَا قُلْتَ حَقًّا فَیُوشِکُ أَنْ یَمْلِکَ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَیْہِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِیَّۃُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَہُ لَغَسَلْتُ قَدَمَیْہِ ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَأَمَرَ بِہِ فَقُرِئَ فَإِذَا فِیہِ : بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ إِلَی ہِرَقْلَ عَظِیمِ الرُّومِ سَلاَمٌ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی أَدْعُوکَ بِدَاعِیَۃِ الإِسْلاَمِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ وَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّینَ وَ { یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذُ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونَ اللَّہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ } [ال عمران ٦٤] ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : فَلَمَّا أَنْ قَضَی مَقَالَتَہُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِینَ حَوْلَہُ مِنْ عُظَمَائِ الرُّومِ وَکَثُرَ لَغَطُہُمْ فَلاَ أَدْرِی مَاذَا قَالُوا وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِی وَخَلَوْتُ بِہِمْ قُلْتُ لَہُمْ لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِی کَبْشَۃَ ہَذَا مَلِکُ بَنِی الأَصْفَرِ یَخَافُہُ ۔ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ : وَاللَّہِ مَا زِلْتُ ذَلِیلاً مُسْتَیْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَہُ سَیَظْہَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّہُ قَلْبِی الإِسْلاَمَ وَأَنَا کَارِہٌ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ حَمْزَۃَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ سَعْدٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : فَأَغْزَی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ الشَّامَ عَلَی ثِقَۃٍ مِنْ فَتْحِہَا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَفَتَحَ بَعْضَہَا وَتَمَّ فَتْحُہَا فِی زَمَنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَفَتَحَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ الْعِرَاقَ وَفَارِسَ ۔ قَالَ الشَّیْخُ وَہَذَا الَّذِی ذَکَرَہُ الشَّافِعِیُّ بَیِّنٌ فِی التَّوَارِیخِ وَسِیَاقُ تِلْکَ الْقَصَصِ مِمَّا یَطُولُ بِہِ الْکِتَابُ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : فَقَدْ أَظْہَرَ اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ دِینَہُ الَّذِی بَعَثَ بِہِ رَسُولَہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی الأَدْیَانِ بِأَنْ أَبَانَ لِکُلِّ مَنْ سَمِعَہُ أَنَّہُ الْحَقُّ وَمَا خَالَفَہُ مِنَ الأَدْیَانِ بَاطِلٌ وَأَظْہَرَہُ بِأَنَّ جِمَاعَ الشِّرْکِ دِینَانِ دِینُ أَہْلِ الْکِتَابِ وَدِینُ الأُمِّیِّینَ فَقَہَرَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - الأُمِّیِّینَ حَتَّی دَانُوا بِالإِسْلاَمِ طَوْعًا وَکُرْہًا وَقَتَلَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَسَبَی حَتَّی دَانَ بَعْضُہُمُ بِالإِسْلاَمِ وَأَعْطَی بَعْضٌ الْجِزْیَۃَ صَاغِرِینَ وَجَرَی عَلَیْہِمْ حُکْمُہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَہَذَا ظُہُورُ الدِّینِ کُلِّہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَقَدْ یُقَالُ لَیُظْہِرَنَّ اللَّہُ دِینَہُ عَلَی الأَدْیَانِ حَتَّی لاَ یُدَانَ اللَّہُ إِلاَّ بِہِ وَذَلِکَ مَتَی شَائَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦٠٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیصر رو م کی طرف حضرت دحیہ قلبی کو اسلام کی دعوت کے لیے خط دے کر بھیجا اور ان سے فرمایا کہ اسے بصرہ کے امیرکو پہنچاؤ تاکہ وہ اسے قیصر روم تک پہنچا دے اور قیصر سے جب اللہ رب العزت نے فارس کے لشکروں کو دور کردیا تو وہ حمص سے ایلیاء کی جانب شکرانے کے طور پر چلا، جو اللہ رب العزت نے اس کو کامیابی دی تھی۔ جب قیصر کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط آیا اس نے خط پڑھا تو اس نے کہا : ان کی قوم کا کوئی آدمی تلاش کر کے میرے پاس لاؤ۔ میں اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پوچھ لوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابو سفیان نے مجھے بتایا کہ وہ شام میں قریشی آدمیوں کے ساتھ تھے۔ ابو سفیان کہتے ہیں : قیصر کے قاصد نے ہمیں تلاش کرلیا۔ وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو لے کر ایلیاء شہر میں اپنے بادشاہ کے پاس لے آیا۔ جس پر بادشاہت کا تاج تھا اور روم کے بڑے بڑے شرفاء اس کے ارد گرد موجود تھے۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا۔ ان سے پو چھوکہ جو شخص اپنے آپ کو نبی گمان کرتا ہے تم میں سے اس کا قریبی کون ہے ؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں نسب کے اعتبار سے اس کا قریبی ہوں۔ ترجمان نے پوچھا : تمہاری آپس میں رشتہ داری کیا ہے۔ ابو سفیان کہتے ہیں : میں نے کہا : وہ میرے چچا کا بیٹا ہے۔ کیونکہ اس دن قافلہ میں میرے علاوہ بنو عبد مناف کا کوئی شخص نہ تھا۔ قیصر نے کہا : اس کو میرے قریب کرو۔ پھر میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے کندھے کے برابر کھڑا کردیا اور پھر ترجمان سے کہا کہ اس کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ میں اس سے اس شخص کے بارے میں جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے سوال کرنے لگا ہوں۔ اگر جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کردینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اگر حیا نہ ہوتا کہ میرے ساتھی میری تکذیب کردیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا۔ جب وہ مجھ سے سوال کرتا لیکن میں حیا کر گیا کہ وہ میری جانب جھوٹ کی نسبت کریں گے تو میں نے اس سے سچ ہی بولا۔ پھر قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص کا تمہارے اندر نسب کیسا ہے ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا کہ وہ ہمارے اندر اعلیٰ نسب والا ہے۔ اس نے کہا : کیا تم میں سے پہلے بھی کسی شخص نے ایسی بات کی ہے یعنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا تم اس سے پہلے اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا اس کے آباؤ اجاد میں کوئی بادشاہ تھا۔ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا اس کے پیروکار مال دار لوگ ہیں یا کمزور ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : بلکہ کمزور لوگ۔ اس نے کہا : وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا : کیا ان میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے یا دھوکا دیتا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ لیکن اب ہمارا اس سے ایک معاہدہ ہوا ہے ہمیں ڈر ہے کہ وہ دھوکا کرے گا : ابو سفیان نے کہا۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں کسی جگہ کوئی بات اپنی جانب سے داخل کر پاتا کہ مجھے خوف نہیں کہ اسے میری جانب منسوب کیا جائے۔ اس نے کہا : کیا تم نے ایک دوسرے سے لڑائی کی ہے ؟ میں نے کہا : لڑائی ہوئی ہے۔ اس نے کہا تمہاری اور اس کی لڑائی کیسی رہی ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : وہ ایک ڈول کی مانند ہے کہ کبھی وہ ہمارے اوپر غالب رہا، کبھی ہم نے اس پر غلبہ پایا۔ اس نے کہا : وہ تمہیں حکم کیا دیتا ہے ؟ میں نے کہا : وہ ہمیں اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ان کی عبادت سے منع کرتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے اور ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی، وعدہ پورا کرنا اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے کہہ کہ جب میں نے تجھ سے تمہارے اندر اس کے نسب کے بارے میں پوچھا ؟ تو تیرا گمان ہے کہ وہ اعلیٰ نسب والا ہے اور رسول اسی طرح اپنی قوم کے اعلیٰ نسب ہی سے مبعوث کیے جاتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ اس طرح کی بات تم میں سے پہلے بھی کسی نے کی ہے ؟ تو آپ کہتے ہیں : نہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے بھی یہ بات پہلے کی ہوتی تو میں کہہ دیتا کہ یہ پہلی بات کی پیروی کررہا ہے جو بات پہلے ہوچکی اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے ہو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کبھی اس نے جھوٹ بولا ہو تو آپ نے کہا : نہیں تو میں پہچان گیا کہ جو لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر جھوٹ کیسے بولے گا اور میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ تھا تو آپ نے کہا : نہیں تو میں نے سمجھا کہ اگر اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ شاید وہ اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کو طلب کررہا ہے اور میں نے تجھ سے سوال کیا کہ اس کی پیروی کرنے والے اشراف ہیں یا کمزور لوگ ؟ آپ نے کہہ دیا : اس کی پیروی کرنے والے کمزور لوگ ہیں اور انبیاء کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں اور میں نے آپ سے پوچھا کہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم تو آپ کا گمان ہے کہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں اور ایمان اسی طرح ہی ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل ہوجائے اور میں نے آپ سے پوچھا : کیا ان میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ کر مرتد ہوا ؟ تو آپ کا گمان ہے کہ نہیں کہ جب ایمان کی روشنی دلوں کے اندر داخل ہوجاتی ہے تو کوئی اس کو ناپسند نہیں کرتا اور میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس نے دھوکا دیا ہے تو آپ کہتے ہیں : وہ دھوکا باز نہیں اور رسول واقع ہی دھوکا باز نہیں ہوتے اور میں نے تمہاری اور اس کی لڑائی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے یہ کہہ دیا کہ تمہاری لڑائی ایک ڈول کی مانند ہے کہ کبھی تم نے اس پر غلبہ پایا اور کبھی اس نے تم کو شکست دی اور رسولوں کی اس طرح آزمائش کی جاتی ہے اور آخرت کا بہترین انجام انہی کے لیے ہوتا ہے اور میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو وہ کس چیز کا حکم دیتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اس کے ساتھ شرک سے منع کرتا ہے اور ہمیں اس کی عبادت سے منع کرتا ہے جس کی عبادت تمہارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے اور تمہیں نماز، سچائی، پاک دامنی، وعدہ کو پورا کرنے اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ہیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ آنے والا ہے لیکن میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم سے ہوگا۔ اگر وہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے کہا ہے تو قریب ہے کہ وہ میرے قدموں والی جگہ کا مالک بن جائے اور اگر میں اس تک پہنچ سکوں تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہوں اور اگر میں اس کے پاس موجود ہوتا تو میں اس کے قدموں کو دھوتا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط منگوایا اور اس نے حکم دیا تو اس کے سامنے پڑھا گیا۔ اس خط میں لکھا تھا شروع اللہ کے نام سے جو بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے روم کے حاکم ہرقل۔ کی طرف اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی اتباع کرے۔ بعد ازاں میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ آپ اسلام لائیں اس طرح محفوظ رہیں گے۔ آپ ایمان لائیں اللہ تعالیٰ آپکو دوگنا اجر عطا کریں گے۔ اگر آپ نے اسلام سے انحراف کیا اور آپ کی وجہ سے لوگ ایمان نہ لائے تو ان کا گناہ بھی آپ پر ہوگا۔{ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْن } [ال عمران ٦٤] ” اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اس کی طرف آؤ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھیں۔ اگر یہ لوگ نہ مانیں تو کہہ دو : گواہ رہنا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فرمان بردار ہیں۔ ابو سفیان کہتے ہیں : جب اس کی بات ختم ہوئی تو اس کے اردگرد روم کے بڑے لوگوں کی آوازیں اور شور بلند ہوا۔ میں سمجھ نہ پایا کہ انھوں نے کیا کہا اور ہمیں دربار سے نکال دیا گیا۔ جس وقت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تنہائی میں ملا۔ میں نے ان سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ بنو اصفرکا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ ابو سفیان کہتا ہے کہ اللہ کی قسم ! میں ہمیشہ ذلیل ہو کر یقین رکھنے والا تھا کہ اس کا دین عنقریب غالب آجائے گا یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل میں اسلام کو ڈال دیا اور پہلی میں اس کو ناپسند کرتا تھا۔ “
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر (رض) کے دور میں اس کا بعض حصہ فتح ہوا اور حضرت عمر (رض) کے دور میں مکمل فتح ہوگئی اور حضرت عمر (رض) نے عراق وفارس کو فتح کیا۔ امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنے دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب فرما دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر سختی کی۔ انھوں نے خوشی ناخوشی دین کو قبول کرلیا اور اہل کتاب سے قتال کیا۔ قیدی بنائے یہاں تک کہ بعض دین کے قریب ہوئے اور بعض نے ذلیل ہو کر جزیہ ادا کیا اور ان پر آپ کا حکم جاری ہوا اور یہ دین کا مکمل غلبہ تھا۔ امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ کبھی کہا جائے گا کہ صرف اللہ کا دین ہی باقی ہے یہ جب ہوگا جب اللہ چاہے گا۔

18614

(١٨٦٠٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ عُمَیْرِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ : کَتَبَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ فَأَمَّا قَیْصَرُ فَوَضَعَہُ وَأَمَّا کِسْرَی فَمَزَّقَہُ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَقَالَ : أَمَّا ہَؤُلاَئِ فَیُمَزَّقُونَ وَأَمَّا ہَؤُلاَئِ فَسَتَکُونُ لَہُمْ بَقِیَّۃٌ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَوَعَدَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - النَّاسَ فَتْحَ فَارِسَ وَالشَّامِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٠٨) حضرت عمیر بن اسحاق فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسریٰ و قیصر کو خط لکھا۔ قیصر نے خط کو باعزت طریقے رکھا جبکہ کسریٰ نے خط کو پھاڑ ڈالا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے اور ان کے لیے بقا ہے۔
قال الشافعی (رض) : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو فارس، شام کی فتح کی خوشخبری دی۔

18615

(١٨٦٠٩) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحُسَیْنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دَرَسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمْزَۃَ حَدَّثَنِی أَبُو عَلْقَمَۃَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَۃَ یَرُدُّ الْحَدِیثَ إِلَی جُبَیْرِ بْنُ نُفَیْرٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حَوَالَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فَشَکَوْنَا إِلَیْہِ الْعُرْیَ وَالْفَقْرَ وَقِلَّۃَ الشَّیْئِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : أَبْشِرُوا فَوَاللَّہِ لأَنَّا بِکَثْرَۃِ الشَّیْئِ أَخْوَفُنِی عَلَیْکُمْ مِنْ قِلَّتِہِ وَاللَّہِ لاَ یَزَالُ ہَذَا الأَمْرُ فِیکُمْ حَتَّی یَفْتَحُ اللَّہُ أَرْضَ فَارِسَ وَأَرْضَ الرُّومِ وَأَرْضَ حِمْیَرَ وَحَتَّی تَکُونُوا أَجْنَادًا ثَلاَثَۃً جُنْدًا بِالشَّامِ وَجُنْدًا بِالْعِرَاقِ وَجُنْدًا بِالْیَمَنِ وَحَتَّی یُعْطَی الرَّجُلُ الْمِائَۃَ فَیَسْخَطُہَا ۔ قَالَ ابْنُ حَوَالَۃَ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَنْ یَسْتَطِیعُ الشَّامَ وَبِہِ الرُّومُ ذَوَاتُ الْقُرُونِ قَالَ : وَاللَّہِ لَیَفْتَحَنَّہَا اللَّہُ عَلَیْکُمْ وَلَیَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِیہَا حَتَّی تَظَلَّ الْعِصَابَۃُ الْبِیضُ مِنْہُمْ قُمُصُہُمْ الْمُلْحِمَۃُ أَقْفَاؤُہُمْ قِیَامًا عَلَی الرُّوَیْجِلِ الأَسْوَدِ مِنْکُمُ الْمَحْلُوقِ مَا أَمَرَہُمْ مِنْ شَیْئٍ فَعَلُوہُ وَإِنَّ بِہَا الْیَوْمَ رِجَالاً لأَنْتُمْ أَحْقَرُ فِی أَعْیُنِہِمْ مِنَ الْقِرْدَانِ فِی أَعْجَازِ الإِبِلِ ۔ قَالَ ابْنُ حَوَالَۃَ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ اخْتَرْ لِی إِنْ أَدْرَکَنِی ذَلِکَ قَالَ : إِنِّی أَخْتَارُ لَکَ الشَّامَ فَإِنَّہُ صِفْوَۃُ اللَّہِ مِنْ بِلاَدِہِ وَإِلَیْہِ یَجْتَبِی صِفْوَتَہُ مِنْ عِبَادِہِ یَا أَہْلَ الْیَمَنِ عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ فَإِنَّ صِفْوَۃَ اللَّہِ مِنْ أَرْضِہِ الشَّامَ أَلاَ فَمَنْ أَبَی فَلْیَسْتَقِ فِی غُدَرِ الْیَمَنِ فَإِنَّ اللَّہَ قَدْ تَکَفَّلَ لِی بِالشَّامِ وَأَہْلِہِ ۔ قَالَ أَبُو عَلْقَمَۃَ فَسَمِعَتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ : فَعَرَفَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - نَعْتَ ہَذَا الْحَدِیثِ فِی جَزْئِ بْنِ سُہَیْلٍ السُّلَمِیِّ وَکَانَ عَلَی الأَعَاجِمِ فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ فَکَانَ إِذَا رَاحُوا إِلَی مَسْجِدٍ نَظَرُوا إِلَیْہِ وَإِلَیْہِمْ قِیَامًا حَوْلَہُ فَعَجِبُوا لِنَعْتِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِیہِ وَفِیہِمْ قَالَ أَبُو عَلْقَمَۃَ : أَقْسَمَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی ہَذَا الْحَدِیثِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ لاَ نَعْلَمُ أَنَّہُ أَقْسَمَ فِی حَدِیثٍ مِثْلِہِ ۔ وَقَدْ مَضَی فِی ہَذَا الْکِتَابِ عَنِ ابْنِ زُغْبٍ الإِیَادِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَوَالَۃَ عَنِ النَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لَیُفْتَحَنَّ لَکُمُ الشَّامُ ثُمَّ لَتَقْسِمُنَّ کُنُوزَ فَارِسَ وَالرُّومِ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٠٩) عبداللہ بن حوالہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ ہم نے ننگے پن ، فقر اور قلت اشیاء کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! مجھے تمہارے اوپر چیزوں کی کثرت کا قلت سے زیادہ خوف ہے۔ اللہ کی قسم ! تمہاری یہ حالت رہے گی یہاں تک کہ اللہ فارس وروم اور حمیر کو فتح فرما دیں گے اور تم تین لشکروں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں ، دوسرا عراق میں اور تیسرا لشکر یمن میں ہوگا۔ یہاں تک کہ کسی شخص کو سو روپے دیے جائیں گے تو وہ ناراض ہوگا۔ ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شام اور روم کو فتح کرنے کی طاقت کون رکھے گا۔ فرمایا : اللہ تمہیں ضرور فتح نصیب کرے گا اور تمہیں خلفیہ بنائیں گا۔ یہاں تک کہ وہ محفوظ ہوجائیں گے بعض کے پاس جنگی لباس ہوگا۔ ان کی گردنیں ایک جھوٹے آدمی کی مطیع ہوں گے اور بعض ان میں سے گنجے ہوں گے۔ جو حکم ہوگا وہی کر گزریں گے اور تمہارے آج کے مرد ان کی نظروں میں اونٹوں کی پشتوں میں چچڑی سے بھی زیادہ حقیر ہوں گے۔ ابن حوالہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر یہ وقت مجھے پالے تو مجھے اختیار دینا۔ آپ نے فرمایا : میں تیرے لیے ملک شام کا انتخاب کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ اللہ کے پسندیدہ شہروں میں سے ہے اور اللہ کے پسندیدہ بندے ہی اسی کی جانب پناہ لیں گے۔ اے اہل یمن ! شام کو لازم پکڑنا۔ کیونکہ اللہ کو شام کی سرزمین پسندیدہ ہے۔ خبردار ! جو اس بات کا انکار کرے وہ یمن کی جانب چلا جائے کیونکہ اللہ نے شام والوں کی ضمانت دی ہے۔
(ب) عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں : صحابہ نے اس حدیث کی صفات کو جزا بن سھیل سلمی میں پہچانی۔ وہ اس دور میں عجموہ پر امیر مقرر تھے۔ جب وہ مسجد کی طرف آئے تو اس کو دیکھنیکے لیے اس کے اردگرد کھڑے ہوجاتے۔ صحابہ نے اس میں اور اس کے ساتھیوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو دیکھ کر تعجب فرمایا : ابو علقمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار قسمیں اٹھائیں۔
(ج) عبداللہ بن حوالہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ شام کو فتح کروایں گے تم فارس وروم کے خزانے تقسیم کرو گے۔

18616

(١٨٦١٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارِ فِی قِصَّۃِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ حِینَ فَرَغَ مِنَ الْیَمَامَۃِ قَالَ : فَکَتَبَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِلَی خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَہُوَ بِالْیَمَامَۃِ مِنْ عَبْدِ اللَّہِ أَبِی بَکْرٍ خَلِیفَۃِ رَسُولِ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - إِلَی خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَالَّذِینَ مَعَہُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ وَالتَّابِعِینَ بِإِحْسَانٍ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ أَمَّا بَعْدُ فَالْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَأَعَزَّ وَلِیَّہُ وَأَذَلَّ عَدُوَّہُ وَغَلَبَ الأَحْزَابَ فَرَدًا فَإِنَّ اللَّہَ الَّذِی لاَ إِلَہَ ہُوَ قَالَ { وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَی لَہُمْ } [النور ٥٥] وَکَتَبَ الآیَۃَ کُلَّہَا وَقَرَأَ الآیَۃَ وَعْدًا مِنْہُ لاَ خُلْفَ لَہُ وَمَقَالاً لاَ رَیْبَ فِیہِ وَفَرَضَ الْجِہَادَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَ { کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَکُمْ } [البقرۃ ٢١٦] حَتَّی فَرَغَ مِنَ الآیَاتِ فَاسْتَتِمُّوا مَوْعِدَ اللَّہِ إِیَّاکُمْ وَأَطِیعُوہُ فِیمَا فَرَضَ عَلَیْکُمْ وَإِنْ عَظُمَتْ فِیہِ الْمَؤُونَۃُ وَاشْتَدَّتِ الرَّزِیَّۃُ وَبَعُدَتِ الشُّقَّۃُ وَفُجِعْتُمْ فِی ذَلِکَ بِالأَمْوَالِ وَالأَنْفُسِ فَإِنَّ ذَلِکَ یَسِیرٌ فِی عَظِیمِ ثَوَابِ اللَّہِ فَاغْزُوا رَحِمَکُمُ اللَّہُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ { خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاہَدُوا بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ } [التوبۃ ٤١] کَتَبَ الآیَۃَ أَلاَ وَقَدْ أَمَرْتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ بِالْمَسِیرِ إِلَی الْعِرَاقِ فَلاَ یَبْرَحْہَا حَتَّی یَأْتِیَہُ أَمْرِی فَسِیرُوا مَعَہُ وَلاَ تَتَثَاقَلُوا عَنْہُ فَإِنَّہُ سَبِیلٌ یُعَظِّمُ اللَّہُ فِیہِ الأَجْرَ لِمَنْ حَسُنَتْ فِیہِ نِیَّتُہُ وَعَظُمَتْ فِی الْخَیْرِ رَغْبَتُہُ فَإِذَا وَقَعْتُمُ الْعِرَاقَ فَکُونُوا بِہَا حَتَّی یَأْتِیَکُمْ أَمْرِی کَفَانَا اللَّہُ وَإِیَّاکُمْ مُہِمَّاتِ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ ۔ قَالَ الشَّیْخُ : ثُمَّ بَیِّنٌ فِی التَّوَارِیخِ وُرُودُ کِتَابِہِ عَلَیْہِ بِالْمَسِیرِ إِلَی الشَّامِ وَإِمْدَادِ مَنْ بِہَا مِنْ أُمَرَائِ الأَجْنَادِ وَمَا کَانَ مِنَ الظَّفَرِ لِلْمُسْلِمِینَ یَوْمَ أَجْنَادِینَ فِی أَیَّامِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَمَا کَانَ مِنْ خُرُوجِ ہِرَقْلَ مُتَوَجِّہًا نَحْوَ الرُّومِ وَمَا کَانَ مِنَ الْفُتُوحِ بِہَا وَبِالْعِرَاقِ وَبِأَرْضِ فَارِسَ وَہَلاَکِ کِسْرَی وَحَمْلِ کُنُوزِہِ إِلَی الْمَدِینَۃِ فِی أَیَّامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٦١٠) محمد بن اسحاق بن یسار جنگ یمامہ سے فراغت کے بعد خالد بن ولید کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خالد بن ولید کو خط لکھا ” جب وہ ابھی یمامہ میں ہی تھے :“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ ابوبکر (رض) کی جانب سے خالد بن ولید، مہاجرین و انصار اور ان کی ابتاع کرنے والوں کے نام۔ تم پر سلامتی ہو، میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ حمد وثنا کے بعد تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا، اپنے بندے کی مدد کی ، اپنے دوست کو غلبہ عطا کیا اور اپنے دشمن کو ذلیل کیا اور اکیلے نے لشکروں کو غالب کیا۔ یقیناً اللہ وہ ذات ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ { وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ } [النور ٥٥] اور اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا جو تم سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ زمین میں ضرور خلیفہ بنیں گے جیسا کہ ان سے پہلے لوگ خلیفہ بنے۔۔۔
یہ مکمل آیت تلاوت کی اور لکھی۔ آپ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرو گے اور اس مال میں جس میں شک نہیں اور جہاد کو مومنوں پر فرض قرار دیا ہے۔ فرمایا : { کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ } [البقرۃ ٢١٦] تمہارے اوپر قتال فرض کیا گیا حالانکہ وہ تمہیں ناپسند بھی ہے۔ یہاں تک کہ آیات سے فارغ ہوئیتو فرمایا : تم اللہ کے وعدوں کو پورا کرو فرض کردہ اشیاء میں اس کی اطاعت کرو۔ اگرچہ اس میں سخت مشقت اٹھانی پڑھے اور مسافت دور کی ہو۔ تم اپنی جانوں اور مالوں میں آزمائش کیے گئے۔ یہ اللہ سے ثواب کے حصول میں زیادہ آسان ہے۔ اللہ تمہارے اوپر رحم فرمائے۔ اللہ کے راستے میں غزوہ کرو : { خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ } [التوبۃ ٤١] ہلکے اور بوجھل تم اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو۔ خبردار ! میں نے خالد بن ولید کو عراق جانے کا حکم دیا ہے۔ میرا حکم آنے تک وہاں رہنا۔ تم نے اس کے ساتھ چلنا ہے پیچھے نہیں رہنا، یہ اللہ کا راستہ ہے جس میں اچھی جنت والے کا ثواب عظیم ہے اور رغبت کی بنا پر بڑی بھلائی ہے جب تم عراق چلے جاؤ تو میرے حکم تک وہاں رہنا۔ اللہ ہمیں اور تمہیں دنیا و آخرتکی بھلائیوں سے کفایت کرے۔ تم پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات ہوں۔
شیخ فرماتے ہیں : پھر تاریخ میں وضاحت ہے کہ شام جانے کے لیے خط لکھا اور باقی لشکروں کے امراء کو لکھا کہ وہ اس کی امداد کریں۔ پھر جو ان کو کامیابی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دور میں نصیب ہوئی اور ہرقل کا روم کی جانب نکلنا اور جو ان کے لییعراق، فارس فتح ہوئے، کسریٰ کی ہلاکت اور کسریٰ کے خزانے حضرت عمر (رض) کے دور میں مدینہ لائے گئے۔

18617

(١٨٦١١) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَنْصُورٍ النَّضْرَوِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی { لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ } [التوبۃ ٣٣] قَالَ : خُرُوجُ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ ۔ [صحیح ]
(١٨٦١١) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ { لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [التوبۃ ٣٣] تاکہ وہ تمام ادیان پر غالب کر دے۔ سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم کا خروج ہے۔

18618

(ہ ١٨٦١) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحُسَیْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا وَرْقَائُ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ { حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا } [محمد ٤] یَعْنِی حَتَّی یَنْزِلَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیُسْلِمُ کُلُّ یَہُودِیٍّ وَکُلُّ نَصْرَانِیٍّ وَکُلُّ صَاحِبِ مِلَّۃٍ وَتَأْمَنُ الشَّاۃُ الذِّئْبَ وَلاَ تَقْرِضُ فَأْرَۃٌ جِرَابًا وَتَذْہَبُ الْعَدَاوَۃُ مِنَ الأَشْیَائِ کُلِّہَا وَذَلِکَ ظُہُورُ الإِسْلاَمِ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ ۔ [حسن ]
(١٨٦١٢) ابن ابی نجیح حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد۔ { حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا } [محمد ٤] ” یہاں تک کہ لڑائی ختم ہوجائے “ کے متعلق فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم کا نزول ہوجائے گا اور ہر یہودی و عیسائی ایمان لے آئے گا اور بکری بھیڑیے سے امن میں ہوگی اور چوہیا تھیلی کو نہ کاٹے گی اور دشمنی تمام اشاء سے ختم ہوجائے گی اور تمام ادیان پر اسلام کا غلبہ ہوجائے گا۔

18619

(١٨٦١٣) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الإِسْفَرَائِینِیُّ ابْنُ السَّقَّائِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بُطَّۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ الأُمَوِیُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجِیحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی { لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ } [التوبۃ ٣٣] قَالَ : إِذَا نَزَلَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ لَمْ یَکُنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ الإِسْلاَمُ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ ۔[صحیح ]
(١٨٦١٣) ابن ابی نجیح حضرت مجاہد سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [التوبۃ ٣٣] ” تاکہ اللہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ اگرچہ مشرک ناپسند ہی کریں “ کے متعلق فرماتے ہیں : جب حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا تب صرف دین اسلام ہی باقی رہ جائے گا۔

18620

(١٨٦١٤) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی مُوسَی ہُوَ ابْنُ الْعَبَّاسِ الْجُوَیْنِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الذُّہْلِیُّ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فِیکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلاً فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتَّی لاَ یَقْبَلَہُ أَحَدٌ حَتَّی تَکُونَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ۔ ثُمَّ یَقُولُ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : اقْرَأُوا إِنْ شِئْتُمْ { وَإِنْ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا } [النساء ١٥٩] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْحُلْوَانِیِّ وَغَیْرِہِ عَنْ یَعْقُوبَ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦١٤) سعید بن مسیب (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب عیسیٰ بن مریم عادل حکمران بن کر نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے اور جزیہ ختم کردیں گے۔ مال کی بہتات ہوجائے گی۔ کوئی بھی مال لینے کو تیار نہ ہوگا حتیٰ کہ ایک ایک سجدہ دنیا وما فیھا سے بہتر معلوم ہوگا۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو : { وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } [النساء ١٥٩] کوئی اہل کتاب ایسا باقی نہ رہے گا جو موت سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آئے ۔

18621

(١٨٦١٥) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو صَادِقٍ الصَّیْدَلاَنِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِیُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی أَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی یُقَاتِلُونَ عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِینَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ قَالَ : وَیَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَقُولُ أَمِیرُہُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَیَقُولُ لاَ إِنَّ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ أُمَرَائُ لِتَکْرِمَۃِ اللَّہِ ہَذِہِ الأُمَّۃَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ شُجَاعٍ وَغَیْرِہِ عَنْ حَجَّاجٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ١٥٦]
(١٨٦١٥) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق کے لیے لڑتا رہے گا اور قرب قیامت تک غالب رہے گا۔ پھر آپ نے فرمایا : عیسیٰ بن مریم اتریں گے، مسلمانوں کے امیر کہیں گے : آپ آئیں ہمیں نماز پڑھائیں۔ عیسیٰ فرمائیں گے : نہیں۔ بیشک تم میں بعض لوگ بعض کے امیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عزت سے نوازا ہے۔

18622

(١٨٦١٦) حَدَّثَنَا السَّیِّدُ أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ بَالُوَیْہِ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ وَذَلِکَ حِینَ { لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا } [الانعام ١٥٨] ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ کِلاَہُمَا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ۔ [صحیح۔ متفق علیہ ]
(١٨٦١٦) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اتنی دیر قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے اور جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو تمام لوگ دیکھ کر ایمان لے آئیں گے اور یہ ایسا وقت ہے { لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْکَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِھَا خَیْرًا }[الانعام ١٥٨] کسی جان کو اس وقت کا ایمان لانا نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا یا اپنے ایمان میں بھلائی کو نہ کیا۔

18623

(١٨٦١٧) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِی عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ عَنْ أَبِی أَسْمَائَ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ نَبِیَّ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - قَالَ : إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ زَوَی لِیَ الأَرْضَ حَتَّی رَأَیْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَأَعْطَانِی الْکَنْزَیْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْیَضَ وَإِنَّ مُلْکَ أُمَّتِی سَیَبْلُغُ مَا زُوِیَ لِی مِنْہَا وَإِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لاَ یُہْلِکَہُمْ بِسَنَۃٍ عَامَّۃٍ وَأَنْ لاَ یُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ فَیُہْلِکَہُمْ وَأَنْ لاَ یَلْبِسَہُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضُہُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنِّی إِذَا أَعْطَیْتُ عَطَائً فَلاَ مَرَدَّ لَہُ إِنِّی أَعْطَیْتُکَ لأُمَّتِکَ أَنْ لاَ یَہْلَکُوا بِسَنَۃٍ عَامَّۃٍ وَأَنْ لاَ أُسَلِّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ فَیَسْتَبِیحَہُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَیْہِمْ مِنْ بَیْنِ أَقْطَارِہَا حَتَّی یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا وَبَعْضُہُمْ یَسْبِی بَعْضًا وَبَعْضُہُمْ یَفْتِنُ بَعْضًا وَإِنَّہُ سَیَرْجِعُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی إِلَی الشِّرْکِ وَعِبَادَۃِ الأَوْثَانِ وَإِنَّ مِنْ أَخْوَفِ مَا أَخَافُ الأَئِمَّۃَ الْمُضِلِّینَ وَإِنَّہُ إِذَا وُضِعَ السَّیْفُ فِیہِمْ لَمْ یُرْفَعْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَإِنَّہُ سَیَخْرُجُ فِی أُمَّتِی کَذَّابُونَ دَجَّالُونَ قَرِیبًا مِنْ ثَلاَثِینَ وَإِنِّی خَاتَمُ الأَنْبِیَائِ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی وَلاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ مَنْصُورَۃٌ حَتَّی یَأْتِیَ أَمْرُ اللَّہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ وَغَیْرِہِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ ہِشَامٍ ۔ [صحیح۔ مسلم ]
(١٨٦١٧) حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ رب العزت نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا اور اللہ رب العزت نے مجھے سرخ وسفید دو خزانے عطا کیے اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین کو لپیٹا گیا اور میں نے اللہ رب العزت سے التجاء کی کہ میری امت کو قحط سالی اور کسی دشمن کو ان پر مسلط کر کے ہلاک نہ کرے اور یہ کہ یہ آپس میں گروہ بن کر ایک دوسرے کو تکلیف نہ دیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : اے محمد ! جب میں کوئی چیز عطا کردیتا ہوں تو اسے کوئی واپس کرنے والا نہیں۔ آپ کی امت قحط سالی اور کسی دوسرے دشمن کے مسلط ہونے کی وجہ سے ہلاک نہ ہوگی، اگرچہ دشمن تمام اطراف سے ان پر جمع ہوجائیں یہاں تک کہ یہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی بنائیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کریں گے اور میری امت کے قبیلے شرک اور بتوں کی عبادت میں واپس چلے جائیں گے اور مجھے سب سے زیادہ گمراہ اماموں کا خوف ہے اور جب ان میں لڑائی شروع ہوگی تو قیامت تک ختم نہ ہوگی اور عنقریب میری امت سے تیس کے قریب دجال، کذاب کا ظہور ہوگا اور میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ر ہے گایہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے۔

18624

(١٨٦١٨) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِی حَامِدٍ الْمُقْرِئُ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی وَأَبُو صَادِقِ بْنُ أَبِی الْفَوَارِسِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدٍ أَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ جَابِرٍ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنِی الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ الْکِنْدِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ یَبْقَی عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبِرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ کَلِمَۃَ الإِسْلاَمِ إِمَّا بِعِزِّ عَزِیزٍ وَإِمَّا بِذُلِّ ذَلِیلٍ إِمَّا یُعِزُّہُمُ اللَّہُ فَیَجْعَلُہُمْ مِنْ أَہْلِہِ فَیَعِزُّوا بِہِ وَإِمَّا یُذِلُّہُمْ فَیَدِینُونَ لَہُ ۔ [صحیح ]
(١٨٦١٨) مقداد بن اسود کندی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ زمین کی سطح پر کوئی شہری یا دیہاتی بستی نہ رہے گی۔ مگر اللہ رب العزت اس میں اسلام کے کلمہ کو داخل فرما دیں گے۔ عزیز کی عزت کے ساتھ یا ذلیل کی ذلت کے ذریعے۔ جن کو اللہ رب العزت عزت عطا کریں گے ان کو اسلام کی سمجھ دے دیں گے۔ جس کے ذریعہ وہ عزت پائیں گے یا ان کو ذلیل کر کے ان سے انتقام لیں گے۔

18625

(١٨٦١٩) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو الأَزْہَرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ أَبُو الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِی سُلَیْمُ بْنُ عَامِرٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ عَامِرٍ الْکَلاَعِیُّ عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزٍّ عَزِیزٍ یُعِزُّ بِہِ الإِسْلاَمَ أَوْ ذُلٍّ ذَلِیلٍ یُذِلُّ بِہِ الْکُفْرَ ۔ [صحیح ]
(١٨٦١٩) تمیم داری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات پہنچتی ہے۔ اللہ کسی شہری یا دیہاتی بستی کو نہ چھوڑے گا مگر یہ دین وہاں عزیز کی عزت کے ذریعہ داخل کر دے گا کہ اللہ رب العزت انھیں اسلام کے ذریعے عزت دیں گے یا ذلیل کی ذلت کے ذریعے کہ اللہ رب العزت اسے کفر کی وجہ سے ذلیل کردیں گے۔

18626

(١٨٦٢٠) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ حُمْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِیدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ الْعَلاَئِ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - یَقُولُ : لاَ یَذْہَبُ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ حَتَّی تُعْبَدَ اللاَّتُ وَالْعُزَّی ۔ قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنْ کُنْتُ لأَظُنُّ أَنَّ اللَّہَ حِینَ أَنْزَلَ { ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ } [التوبۃ ٣٣] أَنَّ ذَلِکَ تَامٌّ قَالَ : إِنَّہُ سَیَکُونُ مِنْ ذَلِکَ مَا شَائَ اللَّہُ ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّہُ رِیحًا طَیِّبَۃً فَتَوَفَّی مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیمَانٍ فَیَبْقَی مَنْ لاَ خَیْرَ فِیہِ فَیَرْجِعُونَ إِلَی دِینِ آبَائِہِمْ ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ وَأَبِی بَکْرٍ الْحَنَفِیِّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ جَعْفَرٍ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَکَانَتْ قُرَیْشٌ تَنْتَابُ الشَّامَ انْتِیَابًا کَثِیرًا وَکَانَ کَثِیرٌ مِنْ مَعَاشِہَا مِنْہُ وَتَأْتِی الْعِرَاقَ فَیُقَالُ لَمَّا دَخَلَتْ فِی الإِسْلاَمِ ذَکَرَتْ لِلنَّبِیِّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - خَوْفَہَا مِنِ انْقِطَاعِ مَعَاشِہَا بِالتِّجَارَۃِ مِنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ إِذَا فَارَقَتِ الْکُفْرَ وَدَخَلَتْ فِی الإِسْلاَمِ مَعَ خِلاَفِ مَلِکِ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ لأَہْلِ الإِسْلاَمِ فَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - : إِذَا ہَلَکَ کِسْرَی فَلاَ کِسْرَی بَعْدَہُ ۔ فَلَمْ یَکُنْ بِأَرْضِ الْعِرَاقِ کِسْرَی یَثْبُتُ لَہُ أَمْرٌ بَعْدَہُ وَقَالَ : إِذَا ہَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہُ ۔ فَلَمْ یَکُنْ بِأَرْضِ الشَّامِ قَیْصَرٌ بَعْدَہُ وَأَجَابَہُمْ عَلَی مَا قَالُوا لَہُ وَکَانَ کَمَا قَالَ لَہُمْ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - وَقَطَعَ اللَّہُ الأَکَاسِرَۃَ عَنِ الْعِرَاقِ وَفَارِسَ وَقَیْصَرَ وَمَنْ قَامَ بِالأَمْرِ بَعْدَہُ عَنِ الشَّامِ وَقَالَ النَّبِیُّ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - فِی کِسْرَی : مُزِّقَ مُلْکُہُ ۔ فَلَمْ یَبْقَ لِلأَکَاسِرَۃِ مُلْکٌ وَقَالَ فِی قَیْصَرَ : ثَبَتَ مُلْکُہُ ۔ فَثَبَتَ لَہُ مُلْکٌ بِبِلاَدِ الرُّومِ إِلَی الْیَوْمِ وَتَنَحَّی مُلْکُہُ عَنِ الشَّامِ وَکُلُّ ہَذَا مُؤْتَفِقٌ یُصَدِّقُ بَعْضُہُ بَعْضًا۔[صحیح۔ مسلم ]
(١٨٦٢٠) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رات دن ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ لات وعزیٰ کی عبادت کی جانے لگے گی۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا گمان تو یہ تھا کہ جب اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی : { ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [التوبۃ ٣٣] وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث کیا۔ تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے گا بیشک یہ مکمل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عنقریب یہ ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ رب العزت ایک پاکیزہ ہوا بھیجیں گے تو جس شخص کے دل میں زرہ برابر بھی ایمان ہوا وہ اس کے ذریعے فوت ہوجائے گا۔ باقی ایسے لوگ رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہ ہوگی وہ اپنے آباؤ اجداد کے دین پر واپس چلے جائیں گے۔
امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ قریشیوں کی بہت ساری معیشت کا تعلق عراق سے تھا۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انھوں نے شام اور عراق سے اپنی تجارت کے ختم ہوجانے کا حوف ظاہر کیا۔ کیونکہ شام اور عراق کے لوگ ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا : جب کسریٰ ہلاک ہوگیا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں۔ کیونکہ عراق کی سرزمین پر اس کے بعد کسریٰ کا حکم نہیں چلے گا اور فرمایا : قیصر ہلاک ہوگیا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں۔ یعنی شام کی سرزمین پر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں۔ جب لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلمہ پڑھ لیا تو اللہ نے عراق وفارس سے کسریٰ کا سلسلہ ختم کردیا اور شام سے قیصر کا خاتمہ فرما دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسریٰ کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور کسریٰ کی بادشاہت باقی نہ رہے گی اور قیصر کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس کی بادشاہت باقی رہے گی۔

18627

(١٨٦٢١) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ فَذَکَرَ ہَذَا الْکَلاَمَ وَمَا قَبْلَہُ فِی ہَذَا الْبَابِ ۔ قَالَ الشَّیْخُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَقَدْ رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی الآیَۃِ تَفْسِیرٌ آخَرُ
(١٨٦٢١) خالی۔

18628

(١٨٦٢٢) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ صَالِحِ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہِ تَعَالَی { لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ } [التوبۃ : ٣٣] قَالَ : یُظْہِرُ اللَّہُ نَبِیَّہُ - (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - عَلَی أَمْرِ الدِّینِ کُلِّہِ فَیُعْطِیہِ إِیَّاہُ وَلاَ یُخْفِی عَلَیْہِ شَیْئًا مِنْہُ وَکَانَ الْیَہُودُ وَالْمُشْرِکُونَ یَکْرَہُونَ ذَلِکَ ۔ [ضعیف ]
(١٨٦٢٢) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اللہ کے اس فرمان : { لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } (النور : ٣٣) کہ اللہ رب العزت اپنے نبی کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا اور کوئی چیز آپ پر پوشیدہ نہ رہے گی اگرچہ یہود اور مشرکین اس کو ناپسند کریں گے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔