hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Sunan Al Bayhaqi

37. گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان

سنن البيهقي

12055

(۱۲۰۵۰) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُوالنَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- یَسْأَلُہُ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَشَأْنَکَ بِہَا ۔ قَالَ : فَضَالَّۃُ الْغَنَمِ؟ قَالَ : لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ ۔ قَالَ : فَضَالَّۃُ الإِبِلِ؟ قَالَ : مَا لَکَ وَلَہَا مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ الشَّجَرَ حَتَّی یَلْقَاہَا رَبُّہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُوسُفَ وَغَیْرِہِ عَنْ مَالِکٍ۔[بخاری ۲۳۷۲۔ مسلم ۱۷۲۲]
(١٢٠٥٠) حضرت زید بن خالد جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دو ورنہ وہ تیری ہی ہے، اس نے پوچھا : گم شدہ بکری کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ تیرے لیے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھاتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے اس میں کیا ہے ؟ اس کے ساتھ اس کی سیراب کرنے کی چیز اور اس کا گھر ہے، وہ پانی پہ جاسکتا ہے اور درختوں کے پتے کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک پالے گا۔

12056

(۱۲۰۵۱) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ الْبَصْرِیُّ بِمَکَّۃَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا وَکِیعُ بْنُ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ: عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِقْہَا ۔ أَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ الثَّوْرِیِّ۔ [صحیح]
(١٢٠٥١) حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دو ورنہ اسے اپنے خرچ میں شامل کرلو۔

12057

(۱۲۰۵۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ أَخْبَرَنَا الْقَعْنَبِیُّ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ الأَنْصَارِیِّ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ أَنَّہُ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ اللُّقَطَۃِ الذَّہَبِ وَ الْوَرِقِ فَقَالَ : اعْرِفْ وِکَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاسْتَنْفِقْہَا وَلْتَکُنْ وَدِیعَۃً عِنْدَکَ فَإِنْ جَائَ طَالِبُہَا یَوْمًا مِنَ الدَّہْرِ فَأَدِّہَا إِلَیْہِ ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ سُلَیْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ۔ [صحیح]
(١٢٠٥٢) حضرت زید بن خالدجہنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سونے اور چاندی کی گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے اپنے خرچے میں شامل کرلو اور وہ تیرے پاس امانت ہوگی۔ اگر اس کا طالب کسی بھی وقت آجائے تو اسے دے دو ۔

12058

(۱۲۰۵۳) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو حَامِدٍ : أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ بِلاَلٍ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ عَنْ أَبِیہِ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ الشَّاۃِ الضَّالَّۃِ فَقَالَ : لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ ۔ وَسُئِلَ عَنِ الْبَعِیرِ فَغَضِبَ وَاحْمَرَّ وَجْہُہُ فَقَالَ : مَعَہُ سِقَاؤُہُ وَحِذَاؤُہُ یَرِدُ الْمَائَ وَیَرْعَی الشَّجَرَ ۔ وَسُئِلَ عَنِ النَّفَقَۃِ فَقَالَ : تُعَرِّفُہَا حَوْلاً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا دَفَعْتَہَا إِلَیْہِ وَإِلاَّ عَرَفْتَ وِکَائَ ہَا أَوْ عِفَاصَہَا ثُمَّ أَفَضْتَہَا فِی مَالِکٍ فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا دَفَعْتَہَا إِلَیْہِ ۔ [صحیح]
(١٢٠٥٣) حضرت زید بن خالد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گم شدہ بکری کے بارے پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے اور اونٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ سرخ ہوگیا اور غصے میں آگئے، آپ نے فرمایا : اس کے پاس اس کا سیراب کرنے کا سامان اور اس کا گھر ہے، وہ پانی پی سکتا ہے درختوں سے پتے کھا سکتا ہے اور خرچ کے بارے پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اس کا ایک سال تک اعلان کر۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو ۔ ورنہ اس کے بندھن اور تھیلی کو اچھی طرح پہچان لو اور پھر اپنے مال میں شامل کرلو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دینا۔

12059

(۱۲۰۵۴) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی وَغَیْرُہُمَا قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی الضَّحَّاکُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَبِی النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ لَمْ تُعْتَرَفْ فَاعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ کُلْہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَارْدُدَہَا إِلَیْہِ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ۔ [صحیح]
(١٢٠٥٤) زید بن خالد جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک نہ آئے تو اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر کھالو اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے لوٹا دینا۔

12060

(۱۲۰۵۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْمُوَیْہِ الْعَسْکَرِیُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَلاَنِسِیُّ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِیَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ قَالَ سَمِعْتُ سُوَیْدَ بْنَ غَفَلَۃَ یَقُولُ : کُنْتُ فِی غَزْوَۃٍ فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُہُ فَقَالَ لِی زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِیعَۃَ : اطْرَحْہُ فَأَبَیْتُ عَلَیْہِمَا فَقَضَیْنَا غَزَاتَنَا ثُمَّ حَجَجْتُ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِینَۃِ فَلَقِیتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ لِی : إِنِّی وَجَدْتُ صُرَّۃً عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فِیہَا مِائَۃُ دِینَارٍ فَأَتَیْتُ بِہَا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَقَالَ لِی : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا حَوْلاً فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا فَعُدْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً آخَرَ ۔ فَعَرَّفْتُہَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَیْہِ قَالَ فِی الرَّابِعَۃِ : احْفَظْ عِدَّتَہَا وَوِعَائَ ہَا وَوِکَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ قَالَ سَلَمَۃُ : لاَ أَدْرِی أَقَالَ ثَلاَثَۃَ أَحْوَالٍ عَرِّفْہَا أَوْ قَالَ حَوْلاً۔ لَفْظُ حَدِیثِ آدَمَ وَلَیْسَ فِی حَدِیثِ سُلَیْمَانَ قَوْلُ سَلَمَۃَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ آدَمَ بْنِ أَبَی إِیَاسٍ وَسُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ۔ [بخاری ۳۴۳۷۔ مسلم ۱۷۲۳]
(١٢٠٥٥) سلمۃ بن کہیل کہ فرماتے ہیں : میں نے سوید بن غفلہ سے سنا کہ میں غزوہ میں تھا، مجھے ایک کوڑا ملا۔ میں نے اسے پکڑ لیا، مجھے زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ نے کہا : اسے پھینک دو ۔ میں نے انکار کردیا، ہم نے غزوہ مکمل کیا۔ پھر میں نے حج کیا، اور میں مدینہ سے گزرا تو مجھے ابی بن کعب ملے۔ میں نے یہقصہ ذکر کیا تو انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں سود ینار کی تھیلی ملی۔ میں وہ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ نے مجھے کہا : ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ میں نے ایک سال تک اعلان کیا۔ لیکن میں نے ایسا کوئی نہ پایا جو اسے پہچان لیتا۔ میں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ نے کہا : ایک سال اس کا اعلان کرو، میں نے ایسا ہی کیا، پھر واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے کہا : ایک سال اور اعلان کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا ۔ پھر واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ چوتھی دفعہ آپ نے کہا : ان کو شمار کرو اور اس کے بندھن کو اچھی طرح یاد کرلو۔ اگر اس کا مالک آئے تو دے دینا ورنہ اس سے فائدہ اٹھالو۔ سلمہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ آپ نے تین دفعہ اعلان کا کہا یا ایک دفعہ۔

12061

(۱۲۰۵۶) وَرَوَاہُ وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ قَالَ فِی آخِرِہِ : فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَہِیَ کَسَبِیلِ مَالِکَ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَمْرٍو الْحِیرِیُّ وَأَبُو بَکْرٍ الْوَرَّاقُ قَالاَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سُفْیَانَ فَذَکَرَہُ بِمَعْنَاہُ دُونَ قَوْلِ سَلَمَۃَ۔ [صحیح] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَرَوَاہُ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ سُفْیَانَ وَقَالَ فِی الْحَدِیثِ: وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ وَرَوَاہُ الأَعْمَشُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ فَقَالَ : انْتَفِعْ بِہَا ۔ وَرَوَاہُ زَیْدُ بْنُ أَبِی أُنَیْسَۃَ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ فَقَالَ : ثُمَّ اقْضِ بِہَا حَاجَتَکَ ۔ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ فَقَالَ : وَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ وَکُلُّ ذَلِکَ یَرْجِعُ إِلَی مَعْنًی وَاحِدٍ۔
(١٢٠٥٦) سلمہ بن کہیل نے آخر میں کہا : اگر اس کا مالک آجائے تو دے دینا ورنہ وہ (تیرے پاس) مالک کی طرح ہی ہے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں : ورنہ اس سے فائدہ اٹھاؤ، یہ بھی الفاظ ہیں کہ اس سے نفع اٹھاؤ۔ یہ بھی الفاظ ہیں کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر اور یہ بھی کہ اس سے فائدہ اٹھا، سب کے ایک ہی معنیٰ ہیں۔

12062

(۱۲۰۵۷) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّیَالِسِیُّ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ سَمِعْتُ خَالِدًا الْحَذَّائَ یُحَدِّثُ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- أَنَّہُ قَالَ : مَنِ الْتَقَطَ لُقَطَۃً فَلْیُشْہِدْ ذَوَیْ عَدْلٍ أَوْ ذَا عَدْلٍ وَلاَ یَکْتُمْ وَلاَ یُغَیِّبْ فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا وَإِلاَّ فَہُوَ مَالُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَائُ ۔ [صحیح۔ الطیالسی ۱۱۱۷۷]
(١٢٠٥٧) حضرت عیاض بن جمارمجاشعی (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جسے کوئی گری پڑی چیز ملے وہ عدل والے دو شخص یا ایک گواہ بنا لے اور نہ اسے چھپائے اور نہ غائب کرے۔ اگر اس کا مالک آجائے تو وہ اس کا حق دار ہے ورنہ وہ اللہ کا مال ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔

12063

(۱۲۰۵۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- : أَنَّہُ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : مَا کَانَ مِنْہَا فِی طَرِیقِ الْمِیتَائِ وَالْقَرِیَۃِ الْجَامِعَۃِ فَعَرِّفُوہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ وَإِنْ لَمْ یَأْتِ فَہِیَ لَکَ وَمَا کَانَ فِی الْخَرَابِ فَفِیہَا وَفِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ۔ [حسن۔ اخرجہ السجستائی ۱۷۱۰]
(١٢٠٥٨) حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گری پڑی چیز کے بارے سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بنجرزمین یا پھیلی ہوئی بستی سے ملے، اس کا ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دو اگر نہ آئے تو وہ تیرے لیے ہے۔

12064

(۱۲۰۵۹) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحَارِثِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ عَمْرٍو وَعَاصِمٍ ابْنِی سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ رَبِیعَۃَ : أَنَّ سُفْیَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ وَجَدَ عَیْبَۃً فَأَتَی بِہَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ عُرِفَتْ فَذَاکَ وَإِلاَّ فَہِیَ لَکَ فَلَمْ تُعْرَفْ فَلَقِیَہُ بِہَا الْقَابِلَ فِی الْمَوْسِمِ فَذَکَرَہَا لَہُ فَقَالَ عُمَرُ : ہِیَ لَکَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- أَمَرَنَا بِذَلِکَ قَالَ : لاَ حَاجَۃَ لِی فِیہَا فَقَبَضَہَا عُمَرُ فَجَعَلَہَا فِی بَیْتِ الْمَالِ۔ وَرُوِّینَا عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ امْرَأَۃً سَأَلَتْہَا عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَتِ اسْتَمْتِعِی بِہَا۔ [حسن۔ الدارمی ۲۵۹۹۔ النسائی فی الکبریٰ ۵۷۸۷]
(١٢٠٥٩) حضرت سفیان بن عبداللہ کو ایک ٹوکری ملی، وہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے کر آئے۔ عمر (رض) نے کہا : وہ تیری ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ اس نے کہا : مجھے یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے گری پڑی چیز کے بارے میں ایک عورت نے سوال کیا تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : تو اس سے فائدہ اٹھا۔

12065

(۱۲۰۶۰) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنِی الدَّرَاوَرْدِیُّ عَنْ شَرِیکِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی نَمِرٍ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ وَجَدَ دِینَارًا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرَہُ لِلنَّبِیِّ -ﷺ- فَأَمَرَہُ أَنْ یُعَرِّفَہُ فَلَمْ یُعْتَرَفْ فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْکُلَہُ ثُمَّ جَائَ صَاحِبُہُ فَأَمَرَہُ أَنْ یَغْرَمَہُ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِمَّنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ الصَّدَقَۃُ لأَنَّہُ مِنْ صَلِیبَۃِ بَنِی ہَاشِمٍ۔ [حسن۔ الام شافعی ۴/ ۷۲]
(١٢٠٦٠) عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک دینار ملا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اس کا اعلان کرو، لیکن کسی نے نہ پہنچانا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) کو حکم دیا کہ اس کو کھالو، پھر اس کا مالک آگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی کو حکم دیا کہ اسے ادا کرو۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : علی بن ابی طالب ان میں سے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اس لیے کہ وہ بنی ہاشم سے ہیں۔

12066

(۱۲۰۶۱) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ قَالَ الشَّافِعِیَّ حِکَایَۃً عَنْ رَجُلٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ أَبِی قَیْسٍ قَالَ سَمِعْتُ ہُزَیْلاً یَقُولُ : رَأَیْتُ عَبْدَ اللَّہِ یَعْنِی ابْنَ مَسْعُودٍ أَتَاہُ رَجُلٌ بِصُرَّۃٍ مَخْتُومَۃٍ فَقَالَ : قَدْ عَرَّفْتُہَا وَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا قَالَ : اسْتَمْتِعْ بِہَا۔ [ضعیف] قَالَ الشَّافِعِیُّ : وَہَکَذَا السُّنَّۃُ الثَّابِتَۃُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- وَرَوَوْا حَدِیثًا عَنْ عَامِرٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّہُ اشْتَرَی جَارِیَۃً فَذَہَبَ صَاحِبُہَا فَتَصَدَّقَ بِثَمَنِہَا وَقَالَ : اللَّہُمَّ عَنْ صَاحِبِہَا فَإِنْ کَرِہَ فَلِی وَعَلَیَّ الْغُرْمُ ثُمَّ قَالَ : وَہَکَذَا یُفْعَلُ بِاللُّقَطَۃِ فَخَالَفُوا السُّنَّۃَ فِی اللُّقَطَۃِ الَّتِی لاَ حُجَّۃَ مَعَہَا وَخَالَفُوا حَدِیثَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ الَّذِی یُوَافِقُ السُّنَّۃَ وَہُوَ عِنْدَہُمْ ثَابِتٌ وَاحْتَجُّوا بِہَذَا الْحَدِیثِ وَہُمْ یُخَالِفُونَہُ فِیمَا ہُوَ فِیہِ بِعَیْنِہِ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْ قَوْلِہِ مَا یُوَافِقُ قَوْلَ الْعِرَاقِیِّینَ۔
(١٢٠٦١) ہذیل کہتے ہیں : میں نے عبداللہ بن مسعود (رض) کو دیکھا، ان کے پاس ایک آدمی ایک بندتھیلی لے کر آیا اور کہا : میں نے اس کا اعلان کیا ہے لیکن کسی نے اسے نہیں پہچانا ابن مسعود نے کہا : اس سے فائدہ اٹھا۔
امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : یہی سنت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے اور انھوں نے عامر سے انھوں نے اپنے والد عبداللہ سے حدیث بیان کی ہے کہ ابن مسعودنے لونڈی خریدی، اس کا مالک گیا اور اس کی قیمت صدقہ کردی اور کہا : اے اللہ ! یہ اس کے مالک کی طرف سے ہے۔ اگر اس نے لونڈی کو ناپسند کیا تو میری ہے اور مجھ پر اس کی قیمت ہے۔ پھر کہا : اسی طرح گری پڑی چیز کا حکم ہے۔ انھوں نے گری ہوئی چیز کے بارے میں سنت کی مخالفت کی ان کے پاس دلیل نہ تھی اور انھوں نے ابن مسعود (رض) کی حدیث کی مخالفت کی جو سنت کے موافق ہے اور وہ ان کے ہاں ثابت ہے اور انھوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے اور دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور حضرت علی (رض) سے عراقیوں کے قول کے موافق روایت کیا گیا ہے۔

12067

(۱۲۰۶۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ہَارُونَ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ : حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِی رُؤَاسٍ وَجَدَ صُرَّۃً فَأَتَی بِہَا عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : إِنِّی وَجَدْتُ صُرَّۃً فِیہَا دَرَاہِمُ وَقَدْ عَرَّفْتُہَا وَلَمْ نَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا وَجَعَلْتُ أَشْتَہِی أَنْ لاَ یَجِیئَ مَنْ یَعْرِفُہَا قَالَ : تَصَدَّقَ بِہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَرَضِیَ کَانَ لَہُ الأَجْرُ وَإِنْ لَمْ یَرْضَ غَرِمْتَہَا وَکَانَ لَکَ الأَجْرُ۔ عَاصِمُ بْنُ ضَمْرَۃَ غَیْرُ قَوِیٍّ۔ وَقَدْ رُوِّینَا عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مَرْفُوعًا جَوَازُ الأَکْلِ وَرُوِّینَاہُ بِأَسَانِیدَ صِحَاحٍ مَوْصُوَلَۃٍ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- وَسُنَّۃُ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- الثَّابِتَۃُ أَوْلَی بِالاِتْبَاعِ وَبِاللَّہِ التَّوْفِیقُ۔ [حسن]
(١٢٠٦٢) عاصم بن ضمرہ سے روایت ہے کہ بنی رو اس کے ایک آدمی کو تھیلی ملی۔ وہ حضرت علی (رض) کے پاس تھیلی لے کر آیا۔ اس نے کہا : میں نے اس میں دام پائے ہیں اور میں نے اس کو متعارف بھی کروایا ہے۔ لیکن کسی نے پہچانا نہیں ہے اور میرے خیال میں کوئی بھی اسے پہچاننے والا نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) نے کہا : صدقہ کر دو ، اگر اس کا مالک آجائے اور وہ صدقہ پر راضی ہو تو اس کے لیے اجر ہوگا ورنہ تو اسے دے دینا اور تجھے اجر مل جائے گا۔

12068

(۱۲۰۶۳) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ رَجُلاً وَجَدَ لُقَطَۃً فَجَائَ إِلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَ : إِنِّی وَجَدْتُ لُقَطَۃً فَمَاذَا تَرَی؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ : عَرِّفْہَا قَالَ : قَدْ فَعَلْتُ قَالَ : زِدْ قَالَ : قَدْ فَعَلْتُ قَالَ : لاَ أَمُرُکَ أَنْ تَأْکُلَہَا وَلَوْ شِئْتَ لَمْ تَأْخُذْہَا۔ زَادَ أَبُو سَعِیدٍ فِی رِوَایَتِہِ قَالَ الشَّافِعِیُّ : ابْنُ عُمَرَ لَعَلَّہُ أَنْ لاَ یَکُونَ سَمِعَ الْحَدِیثَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- فِی اللُّقَطَۃِ وَلَوْ لَمْ نَسْمَعْہُ انْبَغَی أَنْ نَقُولَ : لاَ یَأْکُلُہَا کَمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ۔ [صحیح]
(١٢٠٦٣) نافع سے روایت ہے کہ ایک آدمی کو کوئی گری پڑی چیز ملی، وہ لے کر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آیا، اس نے کہا : مجھے یہ چیز ملی ہے آپ کا کیا خیال ہے ؟ ابن عمر (رض) نے اسے کہا : اس کا اعلان کر دو ۔ اس نے کہا : میں نے ایسا کیا ہے، ابن عمر (رض) نے کہا : اور زیادہ کر۔ اس نے کہا : میں نے کیا ہے۔ ابن عمر (رض) نے کہا : میں تجھے یہ حکم نہیں دیتا کہ اسے کھالے۔ اگر تو چاہتا تو نہ پکڑتا۔

12069

(۱۲۰۶۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُوالْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَۃِ قَالَ : ادْفَعْہَا إِلَی الأَمِیرِ۔ [صحیح]
(١٢٠٦٤) حبیب بن ثابت کہتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، ان سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا : اسے امیر کو دے دو ۔

12070

(۱۲۰۶۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ بْنِ أَعْیَنَ الْمِصْرِیُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَسُفْیَانُ بْنُ سَعِیدٍ الثَّوْرِیُّ وَغَیْرُہُمْ أَنَّ رَبِیعَۃَ بْنَ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَہُمْ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدَ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ : أَتَی رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- وَأَنَا مَعَہُ فَسَأَلَہُ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَشَأْنَکَ بِہَا ۔ قَالَ : فَضَالَّۃُ الْغَنَمِ؟ قَالَ : لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ ۔ قَالَ : فَضَالَّۃُ الإِبِلِ؟ قَالَ : مَعَہَا حِذَاؤُہَا وَسِقَاؤُہَا تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ الشَّجَرَ حَتَّی یَلْقَاہَا رَبُّہَا ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ مَالِکٍ وَالثَّوْرِیِّ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ عَنْ ثَلاَثَتِہِمْ۔[صحیح]
(١٢٠٦٥) حدیث نمبر ١٢٠٥٠ والا ترجمہ ہے۔

12071

(۱۲۰۶۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الصُّوفِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ : أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : عَرِّفْہَا سَنَۃً ثُمَّ اعْرِفْ وِکَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ اسْتَنْفَقَ بِہَا فَإِنْ جَائَ رَبُّہَا فَأَدِّہَا إِلَیْہِ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَضَالَّۃُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : خُذْہَا فَإِنَّمَا ہِیَ لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ ۔ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَضَالَّۃُ الإِبِلِ؟ قَالَ : فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- حَتَّی احْمَرَّتْ وَجْنَتَاہُ أَوِ احْمَرَّ وَجْہُہُ قَالَ : مَا لَکَ وَلَہَا مَعَہَا حِذَاؤُہَا وَسِقَاؤُہَا حَتَّی یَلْقَاہَا رَبُّہَا ۔ وَقَالَ یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ : دَعْہَا حَتَّی یَلْقَاہَا رَبُّہَا ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَیُّوبَ وَقُتَیْبَۃَ وَعَلِیِّ بْنِ حُجْرٍ۔ [صحیح]
(١٢٠٦٦) حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک سال تک اعلان کرو ۔ پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر اسے اپنے خرچہ میں شامل کرلو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دینا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! گم شدہ بکریوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ تیرے لیے ہیں یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑے کے لیے ہیں۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! گمشدہ اونٹ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غصہ میں آگئے، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے اس میں کیا ہے ؟ اس کے ساتھ اس کا گھر اور سیراب کرنا ہے، یہاں تک کہ اسے اس کا مالک پالے۔

12072

(۱۲۰۶۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ الْحَافِظُ وَیَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ الْقَاضِی وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْہَاشِمِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الْحَرَشِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحِ بْنُ أَبِی طَاہِرٍ الْعَنْبَرِیُّ أَخْبَرَنَا جَدِّی یَحْیَی بْنُ مَنْصُورٍ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَشْمَرْدُ أَخْبَرَنَا الْقَعْنَبِیُّ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ أَنَّہُ سَمِعَ زَیْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِیَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ اللُّقَطَۃِ الذَّہَبِ أَوِ الْوَرِقِ فَقَالَ: اعْرِفْ وِکَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ لَمْ تُعْتَرَفْ فَاسْتَنْفِقْہَا وَلْتَکُنْ وَدِیعَۃً عِنْدَکَ فَإِنْ جَائَ طَالِبُہَا یَوْمًا مِنَ الدَّہْرِ فَأَدِّہَا إِلَیْہِ۔ وَسَأَلَہُ عَنْ ضَالَّۃِ الإِبِلِ فَقَالَ: مَا لَکَ وَلَہَا دَعْہَا فَإِنْ مَعَہَا حِذَائَ ہَا وَسِقَائَ ہَا تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ الشَّجَرَ حَتَّی یَجِدَہَا رَبُّہَا۔ وَسَأَلَہُ عَنِ الشَّاۃِ فَقَالَ: خُذْہَا فَإِنَّمَا ہِیَ لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ ابْنِ أَبِی أُوَیْسٍ عَنْ سُلَیْمَانَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنِ الْقَعْنَبِیِّ۔ [صحیح]
(١٢٠٦٧) زید بن خالد جہنی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گم شدہ سونے اور چاندی کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر نہ پہچانی جائے تو اسے اپنے خرچہ میں شامل کرلے اور وہ تیرے پاس امانت ہوگی۔ اگر اس کا مالک کسی بھی وقت آجائے تو اسے دے دینا، اس نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے اس میں کیا ہے ! پس اسے چھوڑ دو اس کے ساتھ اس کا گھر اور سیراب کرنا ہے، وہ پانی پر وارد ہوسکتا ہے اور درختوں کے پتے کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک پالے۔

12073

(۱۲۰۶۸) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ الْحَارِثِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنِ الْوَلِیدِ بْنِ کَثِیرٍ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ : سَمِعْتُ رَجُلاً مِنْ مُزَیْنَۃَ سَأَلَ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- وَأَنَا أَسْمَعُ عَنِ الضَّالَّۃِ مِنَ الإِبِلِ فَقَالَ : مَعَہَا سِقَاؤُہَا وَحِذَاؤُہَا لاَ یَأْکُلُہَا الذِّئْبُ تَرِدُ الْمَائَ وَتَأْکُلُ مِنْ الشَّجَرَ فَدَعْہَا مَکَانَہَا حَتَّی یَأْتِیَ بَاغِیہَا ۔ قَالَ : فَضَالَّۃُ الْغَنَمِ؟ قَالَ : لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ اجْمَعْہَا حَتَّی یَأْتِیَ بَاغِیہَا ۔ قَالَ : اللُّقَطَۃُ نَجِدُہَا قَالَ : مَا کَانَ فِی الْعَامِرَۃِ وَالسَّبِیلِ الْعَامِرَۃِ فَعَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ بَاغِیہَا فَأَدِّہَا إِلَیْہِ وَإِلا فَہِیَ لَکَ ۔ قَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَمَا یُوجَدُ فِی الْقَرْیَۃِ الْخَرَابِ الْعَادِیِّ قَالَ : فِیہِ وَفِی الرِّکَازِ الْخُمُسُ ۔ وَرَوَاہُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ۔ وَبِمَعْنَاہُ قَالَ فِیہِ : فَکَیْفَ تَرَی فِی ضَالَّۃِ الْغَنَمِ قَالَ : طَعَامٌ مَأْکُولٌ لَکَ أَوْ لأَخِیکِ أَوْ لِلذِّئْبِ احْبِسْ عَلَی أَخِیکِ ضَالَّتَہُ ۔ وَقَدْ مَضَی بِإِسْنَادِہِ فِی کِتَابِ الزَّکَاۃِ۔ [حسن۔ ابوداود ۱۷۰۸۔ ترمذی ۱۲۸۹]
(١٢٠٦٨) حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے مزینہ کے ایک آدمی سے سنا، اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا اور میں سن رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کے ساتھ اس کا گھر اور سیراب کرنے کی چیز ہے۔ اسے بھیڑیا نہیں کھا سکتا۔ وہ پانی پی لیتا ہے اور درختوں کے پتے کھا سکتا ہے۔ اسے اس کی جگہ پر چھوڑ دو یہاں تک اس کو تلاش کرنے والا آجائے۔ اس نے گم شدہ بکری کے بارے میں پوچھاتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کو پکڑ لو یہاں تک کہ اس کو تلاش کرنے والا آجائے۔ اس نے کہا : جو گری پڑی چیز ہم پالیتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آبادی میں ہو یا آباد راستے میں اسے ایک سال تک متعارف کراؤ۔ اگر اسے تلاش کرنے والا آجائے تو اسے دے دو ورنہ وہ تیرے لیے ہے، اس نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! جو کسی غیر آباد جگہ سے ملے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس میں اور رکاز میں خمس ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس نے کہا : گمشدہ بکری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ کھانا ہے جو تیرے یا تیرے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے ؟ اسے روک لو اپنے بھائی کے لیے جس نے اسے گم کیا ہے۔

12074

(۱۲۰۶۹) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ أَبِی حَیَّانَ التَّیْمِیِّ حَدَّثَنِی الضَّحَّاکُ خَالُ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیرٍ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیرٍ قَالَ : کُنْتُ مَعَ أَبِی بِالْبَوَازِیجِ بِالسَّوَادِ فَرَاحَتِ الْبَقَرُ فَرَأَی بَقَرَۃً أَنْکَرَہَا فَقَالَ : مَا ہَذِہِ الْبَقَرَۃُ؟ قَالُوا : بَقَرَۃٌ لَحِقَتْ بِالْبَقَرِ فَأَمَرَ بِہَا فَطُرِدَتْ حَتَّی تَوَارَتْ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : لاَ یَأْوِی الضَّالَّۃَ إِلاَّ ضَالٌّ ۔ [ضعیف]
(١٢٠٦٩) حضرت منذر بن جریر فرماتی ہیں : میں اپنے والد کے ساتھ بوازیج مقام پر ایک لشکر میں تھا، ایک گائے آئی۔ انھوں نے اس نئی گائے کو دیکھا اور کہا یہ گائے کس کی ہے ؟ انھوں نے (لشکر والوں) نے جواب دیا : یہ گائے ہماری گائے کے ساتھ مل گئی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسے نکال دو ۔ وہ نکال دی گئی یہاں تک کہ وہ چھپ گئی۔ پھر کہا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گمشدہ چیز کو گمراہ شخص ہی پناہ دیتا ہے۔

12075

(۱۲۰۷۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْمُقْرِئُ ابْنُ الْحَمَّامِیِّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَلِیٍّ الْخُطَبِیُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَکِ حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ عَنِ الْجَارُودِ قَالَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ تَأْتِی عَلَی ضَالَّۃِ الإِبِلِ فَأَتْرُکُہَا فَقَالَ: ضَالَّۃُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ۔وَکَذَلِکَ رَوَاہُ قَتَادَۃُ عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ۔ [ضعیف]
(١٢٠٧٠) جارود سے روایت ہے کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کوئی گمشدہ اونٹ پاؤں تو اسے چھوڑ دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا انگارہ ہے۔

12076

(۱۲۰۷۱) أَخْبَرَنَاہُ عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ عَنِ الْجَارُودِ أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ : ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ حَرَقُ النَّارِ ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ: یَزِیدَ بْنِ عَبْدِاللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ فِی إِحْدَی الرِّوَایَتَیْنِ عَنْہُ۔[ضعیف]
(١٢٠٧١) جارود سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کی گمشدہ چیز آگ کا انگارہ ہے۔

12077

(۱۲۰۷۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ عَنِ الْجَارُودِ قَالَ : أَتَیْنَا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- وَنَحْنُ عَلَی إِبِلٍ عِجَافٍ فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّا نَمُرُّ بِالْجَرْفِ فَنَجِدُ إِبِلاً فَنَرْکَبُہَا فَقَالَ : ضَالَّۃُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ ۔وَقِیلَ عَنْہُ عَنْ یَزِیدَ عَنْ أَخِیہِ مُطَرِّفٍ عَنِ الْجَارُودِ۔[ضعیف]
(١٢٠٧٢) جارود سے روایت ہے کہ ہم ایک دبلے اونٹ پر تھے، ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم جرف مقام سے گزرے۔ ہم نے وہاں اونٹ پایا، لہٰذا ہم اس پر سوار ہوگئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا انگار ہے۔

12078

(۱۲۰۷۳) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ الشَّرْقِیِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الذُّہْلِیُّ وَأَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنِ الْجَارُودِ الْعَبَدِیِّ یَرْفَعُہُ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ : ضَالَّۃُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ فَلاَ تَقْرَبَنَّہَا ۔ وَقَدْ قِیلَ عَنْہُ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِی مُسْلِمٍ عَنِ الْجَارُودِ۔وَقَدْ قِیلَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ عَنْ أَبِیہِ ۔ [منکر]
(١٢٠٧٣) جارود عبدی سے مرفوعاً منقول ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کی گمشدہ چیز آگ کا انگارہ ہے اسے اپنے قریب نہ کرو۔

12079

(۱۲۰۷۴) أَخْبَرَنَا الأَسْتَاذُ أَبُو إِسْحَاقَ : إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الإِسْفَرَائِینِیُّ أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ سَلاَّمٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ -ﷺ- فَقَالَ : إِنَّا نُصِیبُ ہَوَامِیَ الإِبِلِ فَقَالَ : ضَالَّۃُ الْمُسْلِمِ أَوِ الْمُؤْمِنِ حَرَقُ النَّارِ ۔ [صحیح لغیرہ]
(١٢٠٧٤) مطرف بن عبداللہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں : ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہم کوئی پیاسا اونٹ پالیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان یا مومن کی گمشدہ چیز آگ کا انگارہ ہے۔

12080

(۱۲۰۷۵) أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہُ إِلَی الْکَعْبَۃِ : مَنْ أَخَذَ ضَالَّۃً فَہُوَ ضَالٌّ۔ [ضعیف]
(١٢٠٧٥) سعید بن مسیب سے منقول ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا اور وہ کعبہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ جو گمشدہ چیز اٹھاتا ہے ، وہ گمراہ ہے۔

12081

(۱۲۰۷۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُکْرَمٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو خَیْثَمَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَیْرِیَۃِ قَالَ سَمِعْتُ أَعْرَابِیًّا مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ سَأَلَہُ یَعْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ الضَّوَالِّ فَقَالَ : مَا تَرَی فِی الضَّوَالِّ قَالَ : مَنْ أَکَلَ مِنَ الضَّوَالِّ فَہُو ضَالٌّ۔ قَالَ : مَا تَرَی فِی الضَّوَالِّ قَالَ : مَنْ أَکَلَ مِنَ الضَّوَالِّ فَہُو ضَالٌّ ثُمَّ سَکَتَ الرَّجُلُ وَأَخَذَ ابْنُ عَبَّاسٍ یُفْتِی النَّاسَ یَقُولُ أَبُو الْجُوَیْرِیَۃِ فَتْوًی کَثِیرَۃً لاَ أَحْفَظُہَا فَقَالَ الأَعْرَابِیُّ : أَرَاکَ قَدْ أَصْدَرْتَ النَّاسَ غَیْرِی أَفَتُرَی لِی تَوْبَۃً قَالَ : وَیْلَکَ لاَ تَسْأَلْ ہَذِہِ الْمَسْأَلَۃِ قَالَ : وَمَا أَشَدَّ مَسْأَلَتَکَ قَالَ : أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ وَأَجْلَ مَا صَنَعْتُ۔ قَالَ : أَتَدْرِی مَا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ) حَتَّی فَرَغَ مِنَ الآیَۃِ کُلِّہَا قَالَ : کَانَ قَوْمٌ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- اسْتِہْزَائً فَیَقُولُ الرَّجُلُ : مَنْ أَبِی وَیَقُولُ الرَّجُلُ تَضِلُّ نَاقَتَہُ أَیْنَ نَاقَتِی؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ ہَذِہِ الآیَۃَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ سَہْلٍ عَنْ أَبِی النَّضْرِ مُخْتَصَرًا۔ [بخاری ۴۶۲۲]
(١٢٠٧٦) ابوالجویرہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی سلیم کے ایک دیہاتی سے سنا اس نے ابن عباس (رض) سے گمشدہ چیز کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا : جس نے گمشدہ چیز سے کھایا وہ گمراہ ہے پھر وہ آدمی خاموش ہوگیا اور ابن عباس (رض) لوگوں میں فتویٰ دینے میں مصروف ہوگئے، ابوالجویریہ کہتے ہیں : وہ بہت زیادہ فتوے دیتے تھے، جنہیں میں یاد نہیں رکھ سکا۔ دیہاتی نے کہا : میں خیال کرتا ہوں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے علاوہ لوگوں کو روکا ہوا ہے، آپ کے خیال میں میرے لیے توبہ ہے ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : تیری ہلاکت ہو اس بارے سوال نہ کر اور کہا : تیرا مسئلہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں جب سے میں نے یہ کام کیا، ابن عباس (رض) نے کہا : کیا تو جانتا ہے یہ آیت کس بارے نازل ہوئی : اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں نقصان پہنچے۔ جب آیت پڑھ کر فارغ ہوئے تو کہا : لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاقاً سوال کرتے تھے، آدمی کہتا : میرا باپ کون ہے ؟ یا کہتا میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، میری اونٹنی کہاں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

12082

(۱۲۰۷۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ أَحْسِبُہُ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ : ضَالَّۃُ الإِبِلِ الْمَکْتُومَۃِ غَرَامَتُہَا وَمِثْلُہَا مَعَہَا ۔ [ضعیف]
(١٢٠٧٧) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گمشدہ اونٹ کو چھپانے پر اس جیسا اونٹ اور اس کی مثل اس کے ساتھ دینا ہوگا۔

12083

(۱۲۰۷۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بَکْرِ بْنِ سَوَادَۃَ عَنْ أَبِی سَالِمٍ الْجَیْشَانِیِّ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- أَنَّہُ قَالَ : مَنْ آوَی ضَالَّۃً فَہُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ یُعَرِّفْہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ۔ [صحیح]
(١٢٠٧٨) زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو گمشدہ چیز کو پناہ دے تو وہ گمراہ ہیجب تک اس کا اعلان نہ کرے۔

12084

(۱۲۰۷۹) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَہْلِ بْنُ زِیَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رِبْحٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ الأَنْصَارِیُّ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ : أَنَّہُ وَجَدَ بَعِیرًا فَأَتَی بِہِ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَمَرَہُ أَنْ یُعَرِّفَہُ ثُمَّ إِنَّہُ رَجَعَ إِلَی عُمَرَ فَقَالَ : إِنَّہُ قَدْ شَغَلَنِی عَنْ عَمَلِی فَقَالَ لَہُ : اذْہَبْ فَأَرْسَلَہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتَہُ۔ وَبِمَعْنَاہُ رَوَاہُ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَلَیْسَ فِیہِ مَا یَدُلُّ عَلَی سُقُوطِ الضَّمَانِ عَنْہُ إِذَا أَرْسَلَہَا فَہَلَکَتْ۔ [صحیح]
(١٢٠٧٩) حضرت ثابت بن ضحاک نے ایک اونٹ پایا، وہ اسے حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے کر آئے، آپ نے اسے حکم دیا کہ اس کا اعلان کرے۔ پھر وہ عمر (رض) کی طرف لوٹے اور کہا : مجھے میرے کام نے مصروف کردیا تھا، حضرت عمر (رض) نے اسے کہا : جا اور جہاں سے اسے پکڑا تھا وہاں چھوڑ دے۔

12085

(۱۲۰۸۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمِہْرَجَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ شِہَابٍ یَقُولُ : کَانَتْ ضَوَالُّ الإِبِلِ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِبِلاً مُؤَبَّلَۃً تَنَاتَجُ لاَ یَمَسُّہَا حَتَّی إِذَا کَانَ زَمَانُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَمَرَ بِمَعْرِفَتِہَا وَتَعْرِیفِہَا ثُمَّ تُبَاعُ فَإِذَا جَائَ صَاحِبُہَا أُعْطِیَ ثَمَنَہَا۔ [صحیح۔ مالک ۱۴۸۸]
(١٢٠٨٠) ابن شہاب کہتے ہیں : حضرت عمربن خطاب (رض) کے زمانہ میں گمشدہ اونٹ جفتی کے لیے تھے، ان کو کسی نے نہ پکڑا یہاں تک کہ جب حضرت عثمان (رض) کا زمانہ آیا تو آپ نے ان کے اعلان کا حکم دیا ۔ پھر ان کو بیچ دیا گیا ۔ جب ان کا مالک آیا تو اسے اس کی قیمت دی گئی۔

12086

(۱۲۰۸۱) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا بِالْعُذَیْبِ فَقَالاَ : دَعْہُ دَعْہُ قُلْتُ : وَاللَّہِ لاَ أَدَعُہُ تَأْکُلُہُ السِّبَاعُ لأَسْتَمْتِعَنَّ بِہِ فَقَدِمْتُ عَلَی أُبَیَّ بْنِ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ : أَحْسَنْتَ أَحْسَنْتَ إِنِّی وَجَدْتُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- صُرَّۃً فِیہَا مِائَۃُ دِینَارٍ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ -ﷺ- فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا حَوْلاً ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا حَوْلاً ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً۔ فَأَتَیْتُ بِہَا بَعْدُ أَحْوَالٍ ثَلاَثَۃٍ فَقَالَ : اعْرِفْ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا وَوِعَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُخْبِرُکَ بِعَدَدِہَا وَوِکَائِہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ۔ [بخاری۔ مسلم ۱۷۲۳]
(١٢٠٨١) حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں : میں زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا، میں نے عذیب نامی جگہ سے کوڑا اٹھایا۔ ان دونوں نے کہا : اسے چھوڑ دو ، میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں اسے نہیں چھوڑوں گا، درندے اسے کھا لیں گے، میں اس سے فائدہ اٹھالوں گا۔ میں ابی بن کعب کے پاس گیا اور میں نے ان کے سامنے یہ ذکر کیا تو انھوں نے کہا : تو نے اچھا کیا، تو نے اچھا کیا، مجھے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک تھیلی ملی، اس میں سو دینار تھا، میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک سال تک اعلان کر۔ میں نے ایک سال تک اعلان کیا، پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : ایک سال تک اور اعلان کر۔ تین دفعہ کے بعد جب میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی فرمایا : اس کی تعداد اور سر بندھن کو اچھی طرح پہچان لو ۔ اگر کوئی آئے اور وہ اس کی تعداد کی خبر دے اور اس کے بندھن کی بھی تو اسے دے دینا ورنہ اس سے فائدہ اٹھا۔

12087

(۱۲۰۸۲) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ: عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ أَخْبَرَنَا یَعْلَی بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِی ظَبْیَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لاَ تَرْفَعُہَا مِنَ الأَرْضِ لَسْتُ مِنْہَا فِی شَیْئٍ یَعْنِی اللُّقَطَۃَ وَقَوْلُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ فِی ذَلِکَ قَدْ مَضَی فِی الْمَسْأَلَۃِ الأُولَی۔ [ضعیف۔ ابن ابی شیبہ ۲۱۶۶۳]
(١٢٠٨٢) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ تم اسے زمین سے نہ اٹھاؤ۔ میں اس بارے میں کسی چیز کے حق میں نہیں یعنی گری پڑی چیز کے بارے میں۔

12088

(۱۲۰۸۳) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ أَنَّہُ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَسَأَلَہُ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ عَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَشَأْنَکَ بِہَا ۔ أَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ مَالِکٍ۔ وَبِمَعْنَاہُ رَوَاہُ سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ عَنْ رَبِیعَۃَ وَیَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ یَزِیدَ۔ [صحیح]
(١٢٠٨٣) زید بن خالد سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اس نے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دو ورنہ وہ تیرے لیے ہے۔

12089

(۱۲۰۸۴) وَرَوَاہُ إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ رَبِیعَۃَ فَقَالَ فِی الْحَدِیثِ : عَرِّفْہَا سَنَۃً ثُمَّ اعْرِفْ وِکَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِہَا فَإِنْ جَائَ رَبُّہَا فَأَدِّہَا إِلَیْہِ ۔ أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ فَذَکَرَہُ وَقَدْ مَضَی بِطُولِہِ۔وَرَوَاہُ الثَّوْرِیُّ عَنْ رَبِیعَۃَ کَمَا۔ [صحیح]
(١٢٠٨٤) ربیعہ سے روایت ہے کہ اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو۔ پھر اسے اپنے خرچے میں شامل کرلو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دینا۔

12090

(۱۲۰۸۵) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ اللَّخْمِیُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الدَّبَرِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ (ح) قَالَ وَحَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ عَنْ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- فَسَأَلَہُ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : عَرِّفْہَا سَنَۃً ثُمَّ اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا وَوِعَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِقْہَا أَوِ اسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ضَالَّۃُ الْغَنَمِ فَقَالَ : إِنَّمَا ہِیَ لَکَ أَوْ لأَخِیکَ أَوْ لِلذِّئْبِ ۔ فَسَأَلَہُ عَنْ ضَالَّۃِ الإِبِلِ فَتَغَیَّرَ وَجْہُہُ وَقَالَ : مَا لَکَ وَلَہَا مَعَہَا حِذَاؤُہَا وَسِقَاؤُہَا تَرِدُ الْمَائَ وَ تَأْکُلُ الشَّجَرَ دَعْہَا حَتَّی تَلْقَی رَبَّہَا ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ وَجْہَیْنِ آخَرَیْنِ عَنِ الثَّوْرِیِّ دُونَ قَوْلِہِ وِعَائَ ہَا وَقَالَ : فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُخْبِرُکَ بِہَا وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِقْہَا۔ [صحیح]
(١٢٠٨٥) زید بن خالد (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نی فرمایا : ایک سال تک اس کا اعلان کر، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لینا اور اس کو یاد رکھنا۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دینا ورنہ اپنے خرچ میں شامل کرلے اور اس سے فائدہ اٹھا۔ اس نے گمشدہ بکری کے بارے میں سوال کیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ تیرے لیے یا تیرے بھائی کے لیے یابھیڑیی کے لیے ہے، اس نے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ سرخ ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے لیے اس میں کیا ہے ؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ پانی پی سکتا ہے اور درختوں کے پتے کھا سکتا ہے، اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔

12091

(۱۲۰۸۶) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ الْحَنَفِیُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ : مَنِ الْتَقَطَ لُقَطَۃً فَلْیُعَرِّفْہَا سَنَۃً فَإِنْ جَائَ رَبُّہَا وَإِلاَّ فَلْیَعْرِفْ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا ثُمَّ لِیَأْکُلْہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَلْیَرُدَّہَا عَلَیْہِ ۔ [صحیح] رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِی بَکْرٍ الْحَنَفِیِّ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ فِی مَتْنِہِ : فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّہَا وَإِلاَّ فَاعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا وَعَدَدَہَا ۔
(١٢٠٨٦) زید بن خالد (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جسے کوئی گری پڑی چیز ملے، وہ اس کا ایک سال تک اعلان کرے۔ اگر اس کا مالک آجائے تو دے دے ورنہ اس کی تعداد گن لے اور اس کے بندھن کو پہچان لے، پھر اسے کھالے۔ اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دینا۔
روایت کے الفاظ ہیں اگر وہ پہچان لی جائے تو اسے دے دینا ورنہ اس کی تھیلی، بندھن اور تعداد کو پہچان لینا۔

12092

(۱۲۰۸۷) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ یَعْنِی الأَزْرَقَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ قَالَ سَمِعْتُ سُوَیْدَ بْنَ غَفَلَۃَ : أَنَّہُ کَانَ فِی غَزْوَۃٍ فَوَجَدَ سَوْطًا فَأَخَذَہُ فَقَالَ زَیْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِیعَۃَ : اطْرَحْہُ قَالَ فَأَبَیْتُ عَلَیْہِمَا فَقَضَیْنَا غَزَاتَنَا ثُمَّ حَجَجْتُ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِینَۃِ فَأَتَیْتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ : إِنِّی وَجَدْتُ صُرَّۃً عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فِیہَا مِائَۃُ دِینَارٍ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ -ﷺ- فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا حَوْلاً فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا یَعْرِفُہَا فَعُدْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ : احْفَظْ عِدَّتَہَا وَوِعَائَ ہَا وَوِکَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ قَالَ : فَاسْتَمْتَعْتُ بِہَا قَالَ سَلَمَۃُ : لاَ أَدْرِی عَرَّفَہَا حَوْلاً إِلَی ثَلاَثَۃِ أَحْوَالٍ أَوْ فِی الْحَوْلِ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ شُعْبَۃَ۔ [صحیح]
(١٢٠٨٧) حدیث نمبر ١٢٠٥٥ والا ترجمہ ہے۔

12093

(۱۲۰۸۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنِ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ قَالَ : کُنَّا حُجَاجًّا فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَذَکَرَ الْحَدِیثَ دُونَ تَسْمِیَۃِ زَیْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیعَۃَ وَقَالَ فِی آخِرِہِ فَقُلْتُ : قَدْ عَرَّفْتُہَا قَالَ : انْتَفِعْ بِہَا وَاحْفَظْ وِعَائَ ہَا وَخِرْقَتَہَا وَأَحْصِ عَدَدَہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ بْنِ سَعِیدٍ۔[صحیح]
(١٢٠٨٨) سوید بن غفلہ سے منقول ہے کہ ہم حج کر رہے تھے، میں نے کوڑا پایا۔۔۔ پھر حدیث ذکر کی۔ زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ناموں کے علاوہ آخر میں کہا : میں نے اس کا اعلان کیا، انھوں نے کہا : اس سے فائدہ اٹھاؤ اور یاد رکھنا اس کی تھیلی اور سربند کو اور اس کی تعداد شمار کرلینا۔

12094

(۱۲۰۸۹) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ عَنْ أَبِی الْعَلاَئِ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَنْ وَجَدَ لُقَطَۃً فَلْیُشْہِدْ ذَا عَدْلٍ أَوْ ذَوَیْ عَدْلٍ وَلاَ یَکْتُمْ وَلاَ یُغَیِّبْ فَإِذَا وَجَدَ صَاحِبُہَا فَلْیَرُدَّہَا عَلَیْہِ وَإِلاَّ فَہِیَ مَالُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَائُ۔ [صحیح۔ احمد ۷۶۲۰۔ ابوداود ۱۷۰۹]
(١٢٠٨٩) عیاض بن حمارمجاشعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو گری پڑی چیز پائے وہ ایک یا دو عدل والے آدمی گواہ بنا لے اور نہ چھپائے اور نہ کچھ غائب کرے۔ اگر اس کا مالک مل جائے تو دے دے، ورنہ وہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔

12095

(۱۲۰۹۰) أَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ أَیُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بَدْرٍ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہ : أَنَّہُ نَزَّلَ مَنْزِلاً بِطَرِیقِ الشَّامِ فَوَجَدَ صُرَّۃً فِیہَا ثَمَانُونَ دِینَارًا فَذَکَرَ ذَلِکَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : عَرِّفْہَا عَلَی أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ وَاذْکُرْہَا لِمَنْ یَقْدَمُ مِنَ الشَّامِ سَنَۃً فَإِذَا مَضَتِ السَّنَۃُ فَشَأْنَکَ بِہَا۔ [ضعیف۔ مالک ۱۴۸۳]
(١٢٠٩٠) معاویہ بن عبداللہ (رض) کو ان کے والد نے خبر دی کہ وہ شام کے ایک راستے میں اترے وہاں ایک تھیلی پانی جس میں ٨٠ دینار تھے انھوں نے حضرت عمر (رض) کے سامنے ذکر کیا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا : مسجد کے دروازوں پر اس کا اعلان کرو اور جو شام سے آئے ایک سال تک اسے بھی بتاؤ، پس جب ایک سال گزر جائے تو وہ تیرے لیے ہے۔

12096

(۱۲۰۹۱) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ أَخْبَرَنِی سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ قَالَ سَمِعْتُ سُوَیْدَ بْنَ غَفَلَۃَ یَقُولُ : غَزَوْتُ أَنَا وَزَیْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِیعَۃَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُہُ فَقَالاَ لِی : أَلْقِہِ فَقُلْتُ : لاَ وَلَکِنِّی أُعَرِّفُہُ فَإِنْ وَجَدْتُ مَنْ یَعْرِفُہُ وَإِلاَّ اسْتَمْتَعْتُ بِہِ فَأَبَیْتُ عَلَیْہِمَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مَنْ غَزَاتِنَا قُضِیَ لِی أَنِّی حَجَجْتُ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَلَقِیتُ أُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَأَخْبَرْتُہُ بِشَأْنِ السَّوْطِ وَبِقَوْلِہِمَا فَقَالَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ : وَجَدْتُ صُرَّۃً فِیہَا مِائَۃُ دِینَارٍ عَلَی عَہْدِ النَّبِیِّ -ﷺ- فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ : عَرِّفْہَا حَوْلاً ۔ فَعَرَّفْتُہَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ : احْفَظْ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا وَوِعَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ قَالَ شُعْبَۃُ فَلَقِیتُ سَلَمَۃَ بَعْدَ ذَلِکَ فَقَالَ : لاَ أَدْرِی ثَلاَثَۃَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلاً وَاحِدًا فَأَعْجَبَنِی ہَذَا الْحَدِیثُ فَقُلْتُ لأَبِی صَادِقٍ : تَعَالَ فَاسْمَعْہُ مِنْہُ۔ وَرَوَاہُ بَہْزُ بْنُ أَسَدٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سَلَمَۃَ قَالَ شُعْبَۃُ : فَسَمِعْتُہُ بَعْدَ عَشْرِ سِنِینَ یَقُولُ : عَرِّفْہَا عَامًا وَاحِدًا۔ [صحیح]
(١٢٠٩١) سلمۃ بن کہیل فرماتی ہیں : میں نے سوید بن غفلہ سے سنا کہ میں غزوہ میں تھا، مجھے ایک کوڑا ملا، میں نے اسے پکڑ لیا۔ مجھے زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ نے کہا : اسے پھینک دو ۔ میں نے انکار کر دیاہم نے غزوہ مکمل کیا، پھر میں نے حج کیا اور میں مدینہ سے گزرا تو مجھے ابی بن کعب ملے۔ میں نے یہ قصہ ذکر کیا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں سود ینار کی تھیلی ملی، میں وہ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ نے مجھے کہا : ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ میں نے ایک سال تک اعلان کیا، لیکن میں نے ایسا کوئی نہ پایا جو اسے پہچان لیتا۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، آپ نے کہا : ایک سال اس کا اعلان کرو، میں نے ایسا ہی کیا، پھر واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے کہا : ایک سال اور اعلان کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر واپس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیاچوتھی دفعہ تو آپ نے کہا : ان کو شمار کرو اور اس کے بندھن کو اچھی طرح یاد کرلو۔ اگر اس کا مالک آئے تو دے دینا ورنہ اس سے فائدہ اٹھا۔ سلمہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ آپ نے تین دفعہ اعلان کا کہا یا ایک دفعہ۔

12097

(۱۲۰۹۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا بَہْزٌ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ فَذَکَرَہُ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَکَأَنَّ سَلَمَۃَ بْنَ کُہَیْلٍ کَانَ یَشُکُّ فِیہِ ثُمَّ تَذَکَّرَہُ فَثَبَتَ عَلَی عَامٍ وَاحِدٍ۔ [صحیح]
(١٢٠٩٢) صحیح مسلم میں عبدالرحمن سے روایت ہے کہ سلمہ بن کہیل کو شک تھا، پھر ان کو یاد آگیا، پھر وہ ایک سال پر ثابت قدم رہے۔

12098

(۱۲۰۹۳) وَأَمَّا مَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِیسَی حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بُکَیْرَ بْنَ الأَشَجِّ حَدَّثَہُ أَنَّ عُبَیْدَ اللَّہِ بْنَ مِقْسَمٍ حَدَّثَہُ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ : أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَجَدَ دِینَارًا فَأَتَی بِہِ فَاطِمَۃَ عَلَیْہِا السَّلاَمُ فَقَالَتْ : ہَذَا رِزْقُ رَزَقَنَا اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِلَّہِ الْحَمْدُ فَاشْتَرِ بِہِ لَحْمًا وَطَعَامًا فَہَیَّأَ طَعَامًا فَقَالَ لِفَاطِمَۃَ عَلَیْہَا السَّلاَمُ : أَرْسِلِی إِلَی أَبِیکِ فَتُخْبِرِیہِ فَإِنْ رَآہُ حَلاَلاً أَکَلْنَا بِہِ فَلَمَّا صَنَعُوا طَعَامًا دَعَوْا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَلَمَّا أَتَی ذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : ہُوَ رِزْقُ اللَّہِ ۔ فَأَکَلَ مِنْہُ وَأَکَلُوا فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ أَتَتِ امْرَأَۃٌ تَنْشُدُ الدِّینَارَ أَنْشُدُ اللَّہَ الدِّینَارَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : یَا عَلِیُّ أَدِّ الدِّینَارَ ۔ [ضعیف]
(١٢٠٩٣) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) کو ایک دینار ملا، وہ حضرت فاطمہ (رض) کے پاس لے کر آئے۔ اس نے کہا : یہ رزق ہے جو ہمیں اللہ نے دیا ہے۔ اللہ کے لیے تعریف ہے، اس کے ساتھ گوشت اور کھانا خرید لاعلی (رض) کھانا خرید لائے۔ پھر فاطمہ سے کہا : اپنے باپ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو اس کی خبر دو ۔ اگر وہ حلال سمجھیں تو ہم کھا لیں گے، جب انھوں نے کھانا بنایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو انھوں نے آپ سے یہ ذکر کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ اللہ کا رزق ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کھایا اور انھوں نے بھی کھایا ۔ اس کے بعد ایک عورت آئی، وہ ایک دینار گم کر بیٹھی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ! دینار اسے دے دو ۔

12099

(۱۲۰۹۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی فُدَیْکٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ یَعْقُوبَ الزَّمَعِیُّ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخْبَرَہُ : أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ دَخَلَ عَلَی فَاطِمَۃَ وَحَسَنٌ وَحُسَیْنٌ عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ یَبْکِیَانِ فَقَالَ : مَا یُبْکِیہِمَا؟ قَالَتِ : الْجُوعُ فَخَرَجَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَوَجَدَ دِینَارًا بِالسُّوقِ فَجَائَ إِلَی فَاطِمَۃَ عَلَیْہَا السَّلاَمُ فَأَخْبَرَہَا فَقَالَتِ : اذْہَبْ إِلَی فُلاَنٍ الْیَہُودِیِّ فَخُذْ لَنَا دَقِیقًا فَجَائَ الْیَہُودِیَّ فَاشْتَرَی بِہِ دَقِیقًا فَقَالَ الْیَہُودِیُّ : أَنْتَ خَتَنُ ہَذَا الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللَّہِ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَخُذْ دِینَارَکَ وَلَکَ الدَّقِیقُ فَخَرَجَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ حَتَّی جَائَ بِہِ فَاطِمَۃَ عَلَیْہَا السَّلاَمُ فَأَخْبَرَہَا فَقَالَتِ : اذْہَبْ إِلَی فُلاَنٍ الْجَزَّارِ فَخُذْ لَنَا بِدِرْہَمٍ لَحْمًا فَذَہَبَ وَرَہَنَ الدِّینَارَ بِدِرْہَمٍ لَحْمًا فَجَائَ بِہِ فَعَجَنَتْ وَنَصَبَتْ وَخَبَزَتْ فَأَرْسَلَتْ إِلَی أَبِیہَا فَجَائَ ہُمْ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَذْکُرُ لَکَ فَإِنْ رَأَیْتَہُ لَنَا حَلاَلاً أَکَلْنَاہُ وَأَکَلْتَ مِنْ شَأْنِہِ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ : کُلُوا بِاسْمِ اللَّہِ ۔ فَأَکَلُوا فَبَیْنَا ہُمْ مَکَانَہُمْ إِذَا غُلاَمٌ یَنْشُدُ اللَّہَ وَالإِسْلاَمَ الدِّینَارَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَدُعِیَ لَہُ فَسَأَلَہُ فَقَالَ : سَقَطَ مِنِّی فِی السُّوقِ فَقَالَ النَّبِیُّ -ﷺ- : یَا عَلِیُّ اذْہَبْ إِلَی الْجَزَّارِ فَقُلْ لَہُ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ لَکَ أَرْسِلْ إِلَیَّ بِالدِّینَارِ وَدِرْہَمُکَ عَلِیَّ ۔ فَأَرْسَلَ بِہِ فَدَفَعَہُ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- إِلَیْہِ۔ [ضعیف] قَالَ الشَّیْخُ : ظَاہِرُ الْحَدِیثُ عَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذَا الْبَابِ یَدُلُّ عَلَی أَنَّہُ أَنْفَقَہُ قَبْلَ التَّعْرِیفِ فِی الْوَقْتِ وَقَدْ رُوِّینَا عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذِہِ الْقِصَّۃِ : أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- أَمَرَہُ أَنْ یُعَرِّفَہُ فَلَمْ یُعْتَرَفْ فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْکُلَہُ وَظَاہِرُ تِلْکَ الرِّوَایَۃِ أَنَّہُ شَرَطَ التَّعْرِیفَ فِی الْوَقْتِ وَأَبَاحَ أَکْلَہُ قَبْلَ مُضِیِّ السَّنَۃِ وَالأَحَادِیثُ الَّتِی وَرَدَتْ فِی اشْتِرَاطِ التَّعْرِیفِ سَنَۃً فِی جَوَازِ الأَکْلِ أَصَحُّ وَأَکْثَرُ فَہِیَ أَوْلَی وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ إِنَّمَا أَبَاحَ لَہُ إِنْفَاقَہُ قَبْلَ مُضِیِّ سَنَۃٍ لِوُقُوعِ الاِضْطِرَارِ إِلَیْہِ وَالْقِصَّۃُ تَدُلُّ عَلَیْہِ وَیُحْتَمَلُ أَنَّہُ لَمْ یَشْتَرِطْ مُضِیَّ سَنَۃٍ فِی قَلِیلِ اللُّقَطَۃِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔
(١٢٠٩٤) سہل بن سعید نے خبر دی کہ حضرت علی (رض) فاطمہ، حسن، حسین کے پاس گئے، وہ دونوں رو رہے تھے، پوچھا : یہ دونوں کیوں رو رہے ہیں ؟ فاطمہ (رض) نے بتایا : بھوک کی وجہ سے۔ حضرت علی (رض) گھر سے نکلے، بازار میں سے ایک دینار مل گیا، پھر فاطمہ کے پاس آئے، اسے خبر دی، فاطمہ (رض) نے کہا : فلاں یہودی کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے آٹا لے کر آؤ ۔ وہ یہودی کے پاس آئے اس سے آٹا خریدا۔ یہودی نے کہا : تو اس شخص کا داماد ہے جو گمان کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے ؟ حضرت علی (رض) نے کہا : ہاں اس نے کہا : دینار بھی لے جاؤ اور آٹا بھی۔ حضرت علی (رض) نکلے اور فاطمہ کے پاس آئے، اسے بتایا، فاطمہ نے کہا : فلاں قصاب کے پاس جاؤ اور درہم کا ہمارے لیے گوشت لے کر آؤ وہ گئے اور دینار ایک درہم گوشت کے بدلے گروی رکھا اور گوشت لے کر آئے، فاطمہ نے آٹا گوندھا اور روٹی پکائی۔ پھر اپنے اباجان (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو بلایا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے پاس آئے۔ حضرت علی (رض) نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آپ کو بتاتا ہوں اگر آپ ہمارے لیے حلال خیال کریں گے تو ہم کھا لیں گے اور آپ بھی کھا لینا معاملہ بیان کیا، آپ نے فرمایا : اللہ کے نام کے ساتھکھاؤ، میں نے کھایا، وہ ابھی اسی جگہ پر تھے کہ ایک غلام دینار گم ہونے کی صدا لگا رہا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اسے بلایا گیا، اس سے سوال کیا گیا : اس نے کہا : بازار میں میرا دینار گرگیا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : اے علی قصاب کے پاس جاؤ۔ اسے کہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے لیے کہا ہے کہ دینار واپس کر دو اور تیرا درہم مجھ پر ہے۔ میں نے دینار بھیج دیاتو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ دینار اسے دے دیا۔
شیخ فرماتے ہیں : علی (رض) والی حدیث کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ علی (رض) نے اسے اعلان سے پہلے ہی خرچ کرلیا تھا، اور ایک دوسری روایت میں حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا اعلان کرنے کا حکم دیا لیکن کوئی بھی پہچان نہ سکا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کھانے کا حکم دیا اور روایت کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت اس کا اعلان کرنا شرط ہے اور ایک سال گزرنے سے پہلے اس کا کھانا جائز ہے اور وہ احادیث جو ایک سال کی شرط کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ کھانا جائز ہے زیادہ صحیح ہیں اور یہی اولیٰ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کا کھانا مباح ہے۔ ایک سال گزرنے سے پہلے مجبوری کی وجہ سے اور یہ قصہ اسی پر دلالت کرتا ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ تھوڑی چیز پر سال گزرنے کی شرط نہ ہو۔

12100

(۱۲۰۹۵) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْہَیْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْجُہَنِیُّ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ بِلاَلِ بْنِ یَحْیَی الْعَبْسِیِّ عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ : أَنَّہُ الْتَقَطَ دِینَارًا فَاشْتَرَی بِہِ دَقِیقًا فَعَرَفَہُ صَاحِبُ الدَّقِیقِ فَرَدَّ عَلَیْہِ الدِّینَارَ فَأَخَذَہُ عَلِیٌّ فَقَطَعَ مِنْہُ قِیرَاطَیْنِ فَاشْتَرَی بِہِ لَحْمًا۔ فِی مَتْنِ ہَذَا الْحَدِیثِ اخْتِلاَفٌ وَفِی أَسَانِیدِہِ ضَعْفٌ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [حسن]
(١٢٠٩٥) حضرت علی (رض) کو دینار ملا، انھوں نے اس سے آٹا خریداتو آٹے والے نے اسے پہچان لیا اور اس نے دینار لوٹا دیا۔ حضرت علی (رض) نے وہ لے لیا اور دو قیراط کا گوشتخریدا۔

12101

(۱۲۰۹۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِیٍّ : الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ الْحَافِظُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْعِجْلِیُّ بِالْکُوفَۃِ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ زَائِدَۃَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- مَرَّ بِتَمْرَۃٍ بِالطَّرِیقِ فَقَالَ : لَوْلاَ أَنْ تَکُونَ مِنَ الصَّدَقَۃِ لأَکَلْتُہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ وَقَالَ الْبُخَارِیُّ وَقَالَ زَائِدَۃُ عَنْ مَنْصُورٍ فَذَکَرَہُ۔ [بخاری ۲۰۵۵۔ مسلم ۱۰۷۱]
(١٢٠٩٦) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجورع کے پاس سے گزرے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔

12102

(۱۲۰۹۷) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : جَنَاحُ بْنُ نَذِیرِ بْنِ جَنَاحٍ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرِ بْنُ دُحَیْمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ أَبِی الْحُنَیْنِ الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا قَبِیصَۃُ بْنُ عُقْبَۃَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَلَی تَمْرَۃٍ فِی الطَّرِیقِ مَطْرُوحَۃٍ فَقَالَ : لَوْلاَ أَنِّی أَخْشَی أَنْ تَکُونَ مِنَ الصَّدَقَۃِ لأَکَلْتُہَا ۔ قَالَ : وَمَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِتَمْرَۃٍ مَطْرُوحَۃٍ فِی الطَّرِیقِ فَأَکَلَہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قَبِیصَۃَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنِ الثَّوْرِیِّ دُونَ ابْنِ عُمَرَ۔ وَقَدْ رُوِّینَاہُ مِنْ حَدِیثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ : إِنِّی لأَدْخُلُ بَیْتِی أَجِدُ التَّمْرَۃَ مُلْقَاۃً عَلَی فِرَاشِی۔ وَفِی رِوَایَۃٍ : وَلاَ أَدْرِی أَمِنْ تَمْرِ الصَّدَقَۃِ أَمْ مِنْ تَمْرِ أَہْلِی فَأَدَعُہَا۔ (ق) وَذَلِکَ لاَ یَتَنَاوَلُ اللُّقَطَۃَ۔ [صحیح]
(١٢٠٩٧) حضرت انس سے (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے پاس سے گزرے جو راستے میں پڑی ہوئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہے تو میں اسے کھا لیتا، راوی کہتے ہیں : ابن عمر (رض) راستے میں پڑی ہوئی ایک کھجور کے پاس سے گزرے تو اسے کھالیا۔
ہم نے ابوہریرہ (رض) کی روایت بیان کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں گھر میں داخل ہوتا ہوں، اپنے بستر پر پڑی کھجور پاتا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ میں نہیں جانتا یہ کھجور صدقہ کی ہے یا گھر کی ۔ میں اسے چھوڑ دیتا ہوں اور یہ لقطہ کے حکم میں نہیں آتی۔

12103

(۱۲۰۹۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِیُّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ حَمَّادٍ الرَّمْلِیُّ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَیْبٍ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ الْمَکِّیِّ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ : رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فِی الْعَصَا وَالسَّوْطِ وَالْحَبْلِ وَأَشْبَاہِہِ یَلْتَقِطُ الرَّجُلُ یَنْتَفِعُ بِہِ۔ لَفْظُ حَدِیثِ أَبِی دَاوُدَ وَفِی رِوَایَۃِ الرَّمْلِیِّ قَالَ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ وَالْبَاقِی سَوَائٌ قَالَ أَبُو دَاوُدَ رَوَاہُ النُّعْمَانُ بْنُ عَبْدِ السَّلاَمِ عَنِ الْمُغِیرَۃِ أَبِی سَلَمَۃَ بِإِسْنَادِہِ۔ قَالَ الشَّیْخُ : وَکَأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ شُعَیْبٍ عَنْہُ أَخَذَہُ۔ [حسن۔ ابوداود ۱۷۱۷]
(١٢٠٩٨) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں چھڑی، کوڑا اور رسی اور اس جیسی چیزیں اٹھانے کی اجازت دی کہ آدمی ان کو اٹھالے اور ان سے فائدہ اٹھائے۔

12104

(۱۲۰۹۹) فَقَد أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ الْمَالِینِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِیٍّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَیْبٍ أَخْبَرَنِی رَجُلٌ حَدَّثَنِی أَبُو سَلَمَۃَ : الْمُغِیرَۃُ بْنُ زِیَادٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : رَخَّصَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرَہُ وَلَمْ یَذْکُرِ الْحَبْلَ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرَوَاہُ شَبَابَۃُ عَنْ مُغِیرَۃَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: کَانُوا لَمْ یَذْکُرِ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ الشَّیْخُ : فِی رَفْعِ ہَذَا الْحَدِیثِ شَکٌّ وَفِی إِسْنَادِہِ ضَعْفٌ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [حسن]
(١٢٠٩٩) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخصت دی۔۔۔ آپ نے رسی کا ذکر نہیں کیا۔

12105

(۱۲۱۰۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِیلُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَعْلَی عَنْ جَدَّتِہِ حُکَیْمَۃَ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَنِ الْتَقَطَ لُقَطَۃً یَسِیرَۃً حَبْلاً أَوْ دِرْہَمًا أَوْ شِبْہَ ذَلِکَ فَلْیُعَرِّفْہُ ثَلاَثَۃَ أَیَّامٍ فَإِنْ طَابَ فَوْقَ ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ سِتَّۃَ أَیَّامٍ ۔ تَفَرَّدَ بِہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَعْلَی وَقَدْ ضَعَّفَہُ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ وَرَمَاہُ جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ وَغَیْرُہُ بِشُرْبِ الْخَمْرِ۔ [ضعیف]
(١٢١٠٠) حضرت یعلیٰ بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جسے کوئی ہلکی سی چیز گری ہوئی ملے رسی یا درہم یا اس جیسی کوئی اور چیز تو وہ تین دن تک اس کا اعلان کرے۔ اگر وہ پسند کرے تو چھ دن تک کر دے۔

12106

(۱۲۱۰۱) وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ الْہَیْثَمِ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی اللَّیْثِ حَدَّثَنَا الأَشْجَعِیُّ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ یَحْیَی الْقُرَشِیِّ عَنْ فَرُّوخٍ مَوْلَی طَلْحَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ سُئِلَتْ عَنِ الْتَقَاطِ السَّوْطِ فَقَالَتْ : یَلْتَقِطُ سَوْطَ أَخِیہِ یَصِلُ بِہِ یَدَیْہِ مَا أَرَی بَأْسًا قَالَ : وَالْحَبْلُ؟ قَالَتْ: وَالْحَبْلُ۔ قَالَ: وَالْحِذَائُ؟ قَالَتْ: وَالْحِذَائُ۔ قَالَ: فَالْوِعَائُ؟ قَالَتْ: لاَ أُحِلُّ مَا حَرَّمَ اللَّہُ الْوِعَائُ یَکُونُ فِیہِ النَّفَقَۃُ وَیَکُونُ فِیہِ الْمَتَاعُ۔ وَعَنْ سُفْیَانَ عَنِ الرَّبِیعِ بْنِ صَبِیْحٍ عَنِ الْحَسَنِ: أَنَّہُ رَخَّصَ فِی السَّوْطِ وَالْعَصَا وَالسَّیْرِ یَجِدُہُ یَسْتَمْتِعُ بِہِ۔ [ضعیف]
(١٢١٠١) طلحہ کے غلام فروخ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے سنا، ان سے کوڑے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا : اپنے بھائی کا کوڑا کسی کو ملے تو وہ اٹھالے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس نے کہا : رسی ؟ ام سلمہ (رض) نے کہا : اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس نے پوچھا : کوئی برتن ؟ ام سلمہ (رض) نے کہا : برتن میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس میں خرچ ہے اور فائدہ ہے، حضرت حسن سے روایت ہے کہ انھوں نے کوڑے، چھڑی اور چمڑے میں رخصت دی۔ اگر کسی کو مل جائے۔

12107

(۱۲۱۰۲) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ لِی أَبُو الدَّرْدَائِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : لاَ تَسْأَلِی أَحَدًا شَیْئًا قُلْتُ : إِنِ احْتَجْتُ قَالَ : تَتَبَّعِی الْحَصَّادِینَ فَانْظُرِی مَا یَسْقُطُ مِنْہُمْ فَخِذَیْہِ فَاخْبِطِیہِ ثُمَّ اطْحَنِیہِ ثُمَّ اعْجِنِیہِ ثُمَّ کُلِیہِ وَلاَ تَسْأَلِی أَحَدًا شَیْئًا۔ [صحیح]
(١٢١٠٢) حضرت ام درداء (رض) فرماتی ہیں : مجھے ابودرداء (رض) نے کہا : کسی چیز کا کسی سے سوال نہ کرنا۔ میں نے کہا : اگر مجھے ضرورت ہو ؟ انھوں نے کہا : تو کھیتوں (درختوں) کو کاٹ جو ان میں سے گرے اسے لے لینا۔ پھر پیس لینا پھر اسے گوند لینا۔ پھر اسے کھا لینا اور کسی سے سوال نہ کرنا۔

12108

(۱۲۱۰۳) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلاَّبُ بِہَمَذَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیسَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِیُّ حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ الأَوْزَاعِیَّ یَقُولُ: مَا أَخْطَأَتْ یَدُ الْحَاصِدِ أَوْ جَنَتْ یَدُ الْقَاطِفِ فَلَیْسَ لِصَاحِبِ الزَّرْعِ عَلَیْہِ سَبِیلٌ إِنَّمَا ہُوَ لِلْمَارَّۃِ وَأَبْنَائِ السَّبِیلِ۔ [صحیح]
(١٢١٠٣) اوزاعی فرماتی ہیں : جو کھیتی کاٹنے والے کے ہاتھ سے گرے یا ہل توڑے والے سے گرجائے اس پر کھیتی والے کا کوئی حق نہیں ہے، وہ گزرنے والوں اور مسافروں کے لیے ہے۔

12109

(۱۲۱۰۴) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الأَسْوَدِ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ مَوْلَی شَدَّادٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی حَیْوَۃُ بْنُ شُرَیْحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہِ مَوْلَی شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : مَنْ سَمِعَ رَجُلاً یَنْشُدُ فِی الْمَسْجِدِ ضَالَّۃً فَلْیَقُلْ لاَ أَدَّاہَا اللَّہُ إِلَیْکَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِہَذَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی الطَّاہِرِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ وَعَنْ زُہَیْرِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ الْمُقْرِئِ۔ [مسلم ۵۶۸]
(١٢١٠٤) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ جو کسی آدمی کو سنے کہ وہ مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کررہا ہی تو وہ کہے : اللہ تیری طرف اس کو نہ لوٹائے۔ بیشک مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں۔

12110

(۱۲۱۰۵) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ: مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّیْدَلاَنِیُّ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا جَرِیرٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَیْبَۃَ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- سَمِعَ أَعْرَابِیًّا أَوْ رَجُلاً یَقُولُ : مَنْ دَعَا إِلَی الْجَمَلِ الأَحْمَرِ فَقَالَ النَّبِیُّ -ﷺ- : لاَ وَجَدْتَ إِنَّمَا بُنِیَتْ ہَذِہِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَتْ لَہُ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ۔ [مسلم ۵۶۹]
(١٢١٠٥) ابن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دیہاتییا کسی آدمی کو سناوہ کہہ رہا تھا : کون سرخ اونٹ لائے گا ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اسے نہ پائے، یہ مساجد صرف اسی کام کے لیے ہیں جس کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یعنیعبادت کے لیے۔

12111

(۱۲۱۰۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- فِی اللُّقَطَۃِ قَالَ فِی التَّعْرِیفِ : عَرِّفْہَا عَامَیْنِ أَوْ ثَلاَثَۃً ۔ وَقَالَ : اعْرِفْ عَدَدَہَا وَوِعَائَ ہَا وَوِکَائَ ہَا وَاسْتَنْفِعْ بِہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَعَرَفَ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ لَیْسَ یَقُولُ إِلاَّ حَمَّادٌ فَعَرَفَ عَدَدَہَا۔ قَالَ الشَّیْخُ : قَدْ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ بَہْزٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ۔وَہَذِہِ اللَّفْظَۃُ قَدْ أَتَی بِمَعْنَاہَا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ۔ [صحیح]
(١٢١٠٦) حضرت ابی بن کعب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گری پڑی چیز کے بارے میں نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو یا تین سال تک اس کا اعلان کر اور کہا پہچان اس کی تعداد کو اس کے بندھن اور تھیلی کو اور اس سے فائدہ اٹھا اگر اس کا مالک آجائے اس کی تعداد اور بندھن پہچان لے تو اسے دے دینا۔

12112

(۱۲۱۰۷) أَخْبَرَنَاہُ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفَلَۃَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- فِی اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : اعْرِفْ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا وَوِعَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُخْبِرُکَ بِعَدَدِہَا وَوِکَائِہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ وَإِلاَّ فَاسْتَمْتِعْ بِہَا ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ نُمَیْرٍ عَنِ الثَّوْرِیِّ۔ [صحیح]
(١٢١٠٧) حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گری پڑی چیز کے بارے میں فرمایا : اس کی تعداد کو پہچان لو اور اس کے بندھن اور تھیلی کو پہچان لو۔ اگر کوئی آئے اور تجھے اس کی تعداد، اس کے بندھن کی خبر دے تو اسے دے دینا ورنہ اس سے فائدہ اٹھا۔

12113

(۱۲۱۰۸) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا تَمْتَامٌ حَدَّثَنَا أَبُو حُذَیْفَۃَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ سَلَمَۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فِی آخِرِہِ وَقَالَ النَّبِیُّ -ﷺ- : أَحْصِ عَدَدَہَا وَوِکَائَ ہَا وَخَیْطَہَا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَعَرَفَ الصِّفَۃَ فَأَعْطِہِ إِیَّاہَا وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِعْ بِہَا ۔ وَبِمَعْنَاہُ رُوِیَ فِی إِحْدَی الرِّوَایَتَیْنِ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَبِی أُنَیْسَۃَ عَنْ سَلَمَۃَ۔ [صحیح]
(١٢١٠٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تعداد، بندھن اور دھاگے کو پہچان لو۔ اگر اس کا مالک آئے اور وہ صفت جانتا ہو تو اسے دے دینا ورنہ اس سے فائدہ اٹھالے۔

12114

(۱۲۱۰۹) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ وَرَبِیعَۃَ عَنْ یَزِیدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- فِی حَدِیثِ اللُّقَطَۃِ قَالَ : فَإِنْ جَائَ بَاغِیہَا فَعَرَفَ عِفَاصَہَا وَعَدَدَہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ ۔قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَمَّادٌ أَیْضًا عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- مِثْلَہُ ۔ [صحیح]
(١٢١٠٩) حضرت زید بن خالد (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لقطہ والی حدیث میں فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اسے تلاش کرنے والا آجائے تو اگر وہ اس کے بندھن اور تعداد کو پہچان لے تو دے دینا۔

12115

(۱۲۱۱۰) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا الْعَوْذِیُّ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- سُئِلَ عَنْ ضَالَّۃِ الإِبِلِ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ ثُمَّ سَأَلَہُ عَنِ اللُّقَطَۃِ فَقَالَ : اعْرِفْ عَدَدَہَا وَوِعَائَ ہَا وَعِفَاصَہَا وَعَرِّفْہَا عَامًا فَإِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَعَرَفَ عَدَدَہَا وَعِفَاصَہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ وَإِلاَّ فَہِیَ لَکَ ۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَہَذِہِ الزِّیَادَۃُ الَّتِی زَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ فِی حَدِیثِ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ وَیَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ وَرَبِیعَۃَ وَعُبَیْدِ اللَّہِ : إِنْ جَائَ صَاحِبُہَا فَعَرَفَ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا فَادْفَعْہَا إِلَیْہِ ۔ لَیْسَتْ بِمَحْفُوظَۃٍ۔ قَالَ الشَّیْخُ : قَدْ رُوِّینَاہُ عَنِ الثَّوْرِیِّ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ۔ [حسن]
(١٢١١٠) حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا گیا، پھر لقط کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی تعداد، بندھن اور تھیلی کو پہچان لو اور ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے اور اس کی تعداد اور بندھن پہچان لے تو اسے دے دینا ورنہ وہ تیرے لیے ہے۔

12116

(۱۲۱۱۱) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِی یَزِیدُ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ قَالَ : جَائَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- بِلُقَطَۃٍ فَقَالَ : عَرِّفْہَا سَنَۃً ثُمَّ اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُخْبِرُکَ بِہَا وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِقْہَا ۔ وَذَکَرَ بَاقِیَ الْحَدِیثِ۔ [صحیح] رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِیٍّ بِہَذَا اللَّفْظِ وَرَوَاہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ عَنْ سُفْیَانَ : فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ یُخْبِرُکَ بِعِفَاصِہَا وَوِکَائِہَا وَإِلاَّ فَاسْتَنْفِقْ بِہَا ۔ وَہَذِہِ اللَّفْظَۃُ لَیْسَتْ فِی رِوَایَۃِ أَکْثَرِہِمْ فَیُشْبِہُ أَنْ تَکُونَ غَیْرَ مَحْفُوظَۃٍ کَمَا قَالَ أَبُو دَاوُدَ۔
(١٢١١١) حضرت زید بن خالد سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی لقطہ لے کر آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک سال تک اس کا اعلان کر، پھر اس کے بندھن اور تھیلی کو پہچان لے۔ اگر کوئی آئے اور اس کی خبر دے تو اسے دے دینا ورنہ اسے اپنے خرچہ میں شامل کرلینا۔
(ب) سفیان سے ایک روایت ہے کہ اگر کوئی آئے اور اس کی تھیلی اور بندھن کی خبر دے تو اسے دے دینا ورنہ اسے خرچ کرلینا۔

12117

(۱۲۱۱۲) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ قَالَ قَالَ الشَّافِعِیُّ : أُفْتِی الْمُلْتَقِطَ إِذَا عَرِفَ الْعِفَاصُ وَالْوَکَائُ وَالْعَدَدُ وَالْوَزْنُ وَوَقَعَ فِی نَفْسِہِ أَنَّہُ لَمْ یَدَّعِ بَاطِلاً أَنْ یُعْطِیَہُ وَلاَ أُجْبِرَہُ فِی الْحَکَمِ إِلاَّ بِبَیِّنَۃٍ تَقُومُ عَلَیْہَا کَمَا تَقُومُ عَلَی الْحُقُوقِ ثُمَّ سَاقَ الْکَلاَمَ إِلَی أَنْ قَالَ وَإِنَّمَا قَوْلُہُ -ﷺ- : اعْرِفْ عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا ۔ وَاللَّہُ أَعْلَمُ أَنْ یُؤَدِّی عِفَاصَہَا وَوِکَائَ ہَا مَعَ مَا یُؤَدِّی مِنْہَا وَلِیَعْلَمَ إِذَا وَضَعَہَا فِی مَالِہِ أَنَّہَا اللُّقَطَۃُ دُونَ مَالِہِ وَقَدْ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ اسْتَدَلَّ عَلَی صِدْقِ الْمُعْتَرِفِ وَہَذَا الأَظْہَرُ إِنَّمَا قَوْلُ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- : الْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِی ۔ فَہَذَا مُدَّعِی أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ عَشْرَۃً أَوْ أَکْثَرَ وَصَفُوہَا کُلُّہُمْ فَأَصَابُوا صِفَتَہَا أَلَنَا أَنْ نُعْطِیَہُمْ إِیَّاہَا یَکُونُونَ شُرَکَائَ فِیہَا وَلَوْ کَانُوا أَلْفًا أَوْ أَلْفَیْنِ وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ کُلَّہُمْ کَاذِبٌ إِلاَّ وَاحِدًا بِغَیْرِ عَیْنِہِ وَلَعَلَّ الْوَاحِدَ أَنْ یَکُونَ کَاذِبًا لَیْسَ یَسْتَحِقُّ أَحَدٌ بِالصِّفَۃِ شَیْئًا۔ [صحیح]
(١٢١١٢) ربیع بن سلیمان نے فرمایا کہ امام شافعی (رح) نے فرمایا : کوئی چیز گم کرنے والے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا ہے جب وہ تھیلی، بندھن ، تعداد اور وزن کو پہچان لے اور اس کے دل میں یہ بات نہ ہو کہ وہ باطل کا دعویٰ کررہا ہے کہ اسے مل جائے اور نہ فیصلے میں اسے مجبور کیا جائے مگر صرف اس سے قسم لی جائے گی جس طرح حقوق میں قسم لی جاتی ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس کی تھیلی اور بندھن کو پہچان لو اور وہ اس کی تھیلی اور بندھن وغیرہ بھی ساتھ دے دو اور جب اپنے مال کے ساتھ اسے رکھے تو یاد رکھے کہ یہ لقطہ والا مال ہے اور احتمال ہے کہ یہ اعتراف کرنے والے کے صدق پر دلالت کرے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول سے ظاہر ہے کہ قسم دعویٰ کرنے والے پر ہے، یہ مدعی ہے، آپ کی رائے ہے کہ اگر دس یا اس سے زیادہ لوگ اس کے اوصاف بیان کردیں اور ان کی بات درست ہو تو کیا ہم ان کو لوٹا دیں گے جو اس میں شریک ہیں اور اگر ہزار یا دو ہزار ہوں اور ہمیں علم ہے کہ وہ سارے جھوٹے ہیں سوائے ایک کے شاید کہ ایک بھی جھوٹا ہو اور کسی بھی چیز کے اوصاف سے فواقف نہ ہو۔

12118

(۱۲۱۱۳) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ وَحَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا أَبَانُ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ عَنْ أَبَانَ أَنَّ عَامِرًا الشَّعْبِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : مَنْ وَجَدَ دَابَّۃً قَدْ عَجَزَ عَنْہَا أَہْلُہَا أَنْ یَعْلِفُوہَا فَسَیَّبُوہَا فَأَخَذَہَا فَأَحْیَاہَا فَہِیَ لَہُ ۔ قَالَ فِی حَدِیثِ أَبَانَ قَالَ عُبَیْدُ اللَّہِ فَقُلْتُ : عَمَّنْ؟ قَالَ : عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ-۔ قَالَ أَبُو دَاوُدَ ہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ حَمَّادٍ وَہُوَ أَبْیَنُ وَأَتَمُّ۔[حسن]
(١٢١١٣) عامرشعبی نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی ایسے جانور کو پائے کہ اس کے اہل اس سے بیماری کی وجہ سے عاجز آچکے تھے اور انھوں نے اسے چھوڑ دیا ، پھر کسی نے اسے پکڑ لیا اور اسے زندہ (تندرست) کیا تو وہ اسی (علاج کرنے والے) کا ہے۔ عبیداللہ نے کہا : یہ حدیث کس سی منقول ہے ؟ ابان نے کہا : کئی صحابہ کرام (رض) سی منقول ہے۔

12119

(۱۲۱۱۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنِ الشَّعْبِیِّ یَرْفَعُ الْحَدِیثَ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- أَنَّہُ قَالَ : مَنْ تَرَکَ دَابَّۃً بِمَہْلِکٍ فَأَحْیَاہَا رَجُلٌ فَہِیَ لِمَنْ أَحْیَاہَا ۔ [حسن]
(١٢١١٤) شعبی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً نقل فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو جانور کو ہلاکت میں چھوڑ دے، پھر کوئی آدمی اسے زندہ کرے تو وہ اسی کی ہے جو اسے زندہ کرے۔

12120

(۱۲۱۱۵) وَأَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ خَمِیرُوَیْہِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَجْدَۃَ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ حُمَیْدٍ الْحِمْیَرِیِّ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِیَّ یَقُولُ : مَنْ قَامَتْ عَلَیْہِ دَابَّتُہُ فَتَرَکَہَا فَہِیَ لِمَنْ أَحْیَاہَا۔ قُلْتُ : عَمَّنْ ہَذَا یَا أَبَا عَمْرٍو؟ فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ عَدَدْتُ لَکَ کَذَا وَکَذَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ-۔ ہَذَا حَدِیثٌ مُخْتَلَفٌ فِی رَفْعِہِ وَہُوَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- مُنْقَطِعٌ وَکُلُّ أَحَدٍ أَحَقُّ بِمَالِہِ حَتَّی یَجْعَلَہُ لِغَیْرِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [حسن]
(١٢١١٥) عبیداللہ بن حمید فرماتے ہیں : میں نے شعبی سے سنا وہ کہتے تھے : جس نے بیماری کی وجہ سے اپنے جانور کو چھوڑ دیا وہ اسی کا ہے جس نے اس کا علاج کر کے اسے تندرست کیا۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اے ابوعمرو ! یہ کس سے منقول ہے ؟ انھوں نے کہا : اگر تو کہے تو میں اصحاب رسول میں سے شمار کردیتا ہوں۔

12121

(۱۲۱۱۶) وَأَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی رَجُلٍ سَیَّبَ دَابَّتَہُ فَأَخَذَہَا رَجُلٌ فَأَصْلَحَہَا قَالَ قَالَ الشَّعْبِیُّ : ہَذَا قَدْ قُضِیَ فِیہِ إِنْ کَانَ سَیَّبَہَا فِی کَلأٍ وَمَائٍ وَأَمْنٍ فَصَاحِبُہَا أَحَقُّ بِہَا وَإِنْ کَانَ سَیَّبَہَا فِی مَفَازَۃٍ وَمَخَافَۃٍ فَالَّذِی أَخَذَہَا أَحَقُّ بِہَا۔[صحیح]
(١٢١١٦) شعبی سے اس آدمی کے بارے میں منقول ہے جو اپنے جانور کو بیماری کی وجہ سے چھوڑ دے، پھر اسے کوئی آدمی پکڑ لے اور اس کو درست کردے شعبی نے کہا : اس میں فیصلہ یہ ہے اگر وہ اس کا علاج، گھاس پانی سے کرے تو اس کا اصل مالک اس کا زیادہ حق دار ہے اور اگر وہ اس کا علاج کامیابی اور ڈر کی حالت میں کرے تو اسے پکڑنے والا اس کا حق دار ہے۔

12122

(۱۲۱۱۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الْمَحْبُوبِیُّ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- فِی قِصَّۃِ مَکَّۃَ : لاَ یُخْتَلَی شَوْکُہَا وَلاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا وَلاَ یَلْتَقِطُ سَاقِطَتَہَا إِلاَّ مُنْشِدٌ ۔ أَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ عَنْ شَیْبَانَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ مُوسَی۔[بخاری ۲۴۳۴۔ مسلم ۱۳۵۵]
(١٢١١٧) حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ والے قصہ کی خبر دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ اس کے کانٹوں کو اکھاڑا جائے اور نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کی گری ہوئی چیز کو پکڑا جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو اس کا اعلان کرے۔

12123

(۱۲۱۱۸) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ مُہَلْہِلٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْن عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ : إِنَّ ہَذَا الْبَلَدَ حَرَامٌ حَرَّمَہُ اللَّہُ لَمْ یَحِلَّ فِیہِ الْقَتْلُ لأَحَدٍ قَبْلِی وَإِنَّہَا َہِیَ حَرَامٌ حَرَّمَہُ اللَّہُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہُ وَلاَ یُعْضَدُ شَوْکُہُ وَلاَ یَلْتَقِطُ لُقَطَتَہُ إِلاَّ مَنْ عَرَّفَہَا وَلاَ یُخْتَلَی خَلاَہُ ۔ فَقَالَ الْعَبَّاسُ : إِلاَّ الإِذْخِرَ فَإِنَّہُ لِبَیُوتِہِمْ فَقَالَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ وَأَخْرَجَاہُ مِنْ حَدِیثِ جَرِیرٍ عَنْ مَنْصُورٍ۔ [صحیح]
(١٢١١٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فتح مکہ کے دن یہ شہر حرمت والا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حرمت والا بنایا ہے اس میں قتل کرنا حلال نہیں ہے۔ کسی کے لیے مجھ سے پہلے اور بیشک وہ حرمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک حرمت والا بنایا ہے، اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے اور نہ اس کے کانٹوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کی گری ہوئی چیز کو اٹھایا جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو اس کا اعلان کرے اور نہ اس کے درختوں کو اکھاڑا جائے۔ حضرت عباس (رض) نے فرمایا : مگر اذخر وہ گھروں کی چھتوں کے کام آتی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذخر کی اجازت ہے۔

12124

(۱۲۱۱۹) أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَکَرِیَّا حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِیمِ الْعَنْبَرِیُّ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- قَالَ : لاَ یُخْتَلَی خَلاَہَا وَلاَ یُعْضَدُ عِضَاہُہَا وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہَا وَلاَ تَحِلُّ لُقَطَتُہَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ ۔ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِلاَّ الإِذْخِرَ فَقَالَ : إِلاَّ الإِذْخِرَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ رَوْحٍ۔ [صحیح]
(١٢١١٩) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی گھاس کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے اور اس کا لقطہ اٹھانا حلال نہیں مگر اعلان کرنے والے کے لیے حضرت عباس (رض) نے فرمایا : اے اللہ کے رسول ! اذخر کے علاوہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذخر کی اجازت ہے۔

12125

(۱۲۱۲۰) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْکَارِزِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ : لَیْسَ لِلْحَدِیثِ عِنْدِی وَجْہٌ إِلاَّ مَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ أَنَّہُ لَیْسَ لِوَاجِدِہَا مِنْہَا شَیْئٌ إِلاَّ الإِنْشَادَ أَبَدًا وَإِلاَّ فَلاَ یَحِلُّ لَہُ أَنَّ یَمَسَّہَا۔ [صحیح]
(١٢١٢٠) ابوعبید نے کہا : حدیث کی موجودگی میں میرے پاس اور کچھ نہیں مگر جو عبدالرحمن بن مہدی نے کہا کہ اس (لقطہ) کو پانے والا آدمی اس پر ہمیشہ اعلان کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کے لیے چھونا حلال نہیں۔

12126

(۱۲۱۲۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الْحَکَمِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ بُکَیْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّیْمِیِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- نَہَی عَنْ لُقَطَۃِ الْحَاجِّ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ أَبِی الطَاہِرِ وَغَیْرِہِ عَنِ ابْنِ وَہْبٍ۔ [مسلم ۱۷۲۴]
(١٢١٢١) حضرت عبدالرحمن بن عثمان تیمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاجیوں لقطہ کا اٹھانے سے منع فرمایا۔

12127

(۱۲۱۲۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَۃَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ عَنْ أَبِی الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ : أَنَّ رَہْطًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ -ﷺ- انْطَلَقُوا فِی سَفْرَۃٍ سَافَرُوہَا فَنَزَلُوا بِحَیٍّ مِنْ أَحْیَائِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوہُمْ فَأَبَوْا أَنْ یُضَیِّفُوہُمْ قَالَ فَلُدِغَ سَیِّدُ ذَلِکَ الْحَیِّ فَسَعَوْا لَہُ بِکُلِّ شَیْئٍ لاَ یَنْفَعُہُ شَیْئٌ قَالَ بَعْضُہُمْ : لَوْ أَتَیْتُمْ ہَؤُلاَئِ الَّذِینَ نَزَلُوا بِکُمْ لَعَلَّ یَکُونَ عِنْدَ بَعْضِہِمْ مَنْ یَنْفَعُ صَاحِبَکُمْ فَقَالَ بَعْضُہُمْ : أَیُّہَا الرَّہْطَ إِنَّ سَیِّدَنَا لَدِیغٌ فَسَعَیْنَا لَہُ بِکُلِک شَیْئٍ فَہَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْکُمْ مَا یَنْفَعُ صَاحِبَنَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : نَعَمْ إِنِّی لأَرْقِی وَلَکِنِ اسْتَضَفْنَاکُمْ فَأَبَیْتُمْ أَنْ تُضِیِّفُونَا وَمَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّی تَجْعَلُوا لِی جُعْلاً فَجَعَلُوا لَہُ قَطِیعًا مِنَ الشَّائِ قَالَ فَأَتَاہُ فَقَرَأَ عَلَیْہِ أُمَّ الْکِتَابِ وَیَتْفِلُ عَلَیْہِ حَتَّی بَرَأَ کَأَنَّہُ نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ قَالَ فَأَوْفَاہُمْ فَجَعَلَ لَہُمْ الَّذِی صَالَحُوہُ عَلَیْہِ فَقَالَ اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِی رَقَی : لاَ تَفْعَلُوا حَتَّی نَأْتِیَ النَّبِیَّ -ﷺ- فَنَسْتَأْمِرُہُ فَغَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَذَکَرُوا لَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مِنْ أَیْنَ عَلِمْتَ أَنَّہَا رُقْیَۃٌ ۔ وَقَالَ : أَحْسَنْتُمْ فَاقْتَسِمُوا وَاضْرِبُوا لِی مَعَکُمْ بِسَہْمٍ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی النُّعْمَانِ عَنْ أَبِی عَوَانَۃَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ أَبِی بِشْرٍ۔ وَہُوَ فِی ہَذَا کَالدِّلاَلَۃِ عَلَی أَنَّ الْجُعْلَ إِنَّمَا یَکُونُ مُسْتَحَقًا بِالشَّرْطِ۔ [بخاری ۲۲۷۶۔ مسلم ۲۲۰۱]
(١٢١٢٢) حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا ایک گروہ سفر پر گیا، وہ ایک قبیلے کے پاس اترے عرب کے قبائل میں سے۔ ان سے مہمان نوازی طلب کی۔ لیکن انھوں نے مہمان نوازی کرنے کا انکار کردیا، ان کے سردار کو کسی کیڑے نے ڈس لیا ۔ انھوں نے اس کے لیے کوشش کی، لیکن اسے فائدہ نہ ہوا۔ ان کے بعض لوگوں نے کہا : اگر تم ان اترنے والوں (صحابہ) کے پاس جاؤ تو ہوسکتا ہے ان میں کوئی ایسا ہو جو سردار کو نفع دے سکے۔ اب کچھ لوگوں نے کہا : اے قافلے والو ! ہمارے سردار کو کسی موزی چیز نے ڈس لیا ہے ہم نے اس کے لیے کوشش کی ہے کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو ہمارے سردار کو آرام پہنچا سکے ؟ قوم میں سے ایک آدمی نے کہا : ہاں میں دم کرسکتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے مہمان نوازی چاہی تھی تم نے انکار کردیا تھا۔ اس لیے میں اس وقت تک دم نہیں کروں گا، جب تک تم میرے لیے کوئی اجرت مقرر نہیں کردیتے، انھوں نے بکری کا کچھ حصہ معاوضہ طے کرلیا۔ وہ صحابی اس کے پاس آئے اور اس پر سورة فاتحہ پڑھی اور اس پر تھوکا۔ یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوگیا جیسا کہ وہ رسی سے آزاد ہوگیا، انھوں نے اسے پورا بدلہ جو طے کیا تھا وہ دیا، ایک نے کہا : اس (اجرت) کو تقسیم کرلو۔ جس نے دم کیا تھا اس نے کہا نہ کرو، یہاں تک کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اس بارے میں دریافت کرلیں، صبح کے وقت وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور قصہ بیان کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو نے کیسے معلوم کیا کہ وہ دم ہے اور فرمایا : تم نے اچھا کیا۔ اسے تقسیم کرلو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔
یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجرت کا مستحق شرط کے ساتھ بن سکتا ہے۔

12128

(۱۲۱۲۳) فَأَمَّا الَّذِی أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مَحْمُودٍ الأَصْبَہَانِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ أَحْمَدَ الشَّاہِدُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ الْعَطَّارُ الدِّمَشْقِیُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَکْرٍ الْبَالِسِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ حَدَّثَنَا خُصَیْفٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَضَی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فِی الْعَبْدِ الآبِقِ یُوجَدُ فِی الْحَرَمِ بِعَشَرَۃِ دَرَاہِمَ۔ [ضعیف] فَہَذَا ضَعِیفٌ۔ وَالْمَحْفُوظُ حَدِیثُ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ وَعَمْرِو بْنِ دِینَارٍ قَالاَ : جَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- فِی الآبِقِ یُوجَدُ خَارِجًا مِنَ الْحَرَمِ عَشْرَۃَ دَرَاہِمَ وَذَلِکَ مُنْقَطِعٌ۔
(١٢١٢٣) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھاگے ہوئے غلام کے بارے میں دس درہموں کا فیصلہ کیا جو حرم سے پایا جائے۔
ابن ابی ملیکہ اور عمرو بن دینارفرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس درہم مقرر کیے ہیں اس غلام میں جو بھاگا ہوا اور حرم سیباہرپایا جائے۔

12129

(۱۲۱۲۴) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُعَمَّرٌ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِیٍّ فِی جُعْلِ الآبِقِ دِینَارٌ قَرِیبًا أُخِذَ أَوْ بَعِیدًا۔ وَعَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ کَانَ یَقُولُ ذَلِکَ وَعَنِ الْحَجَّاجِ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ کَانَ یَقُولُ : إِذَا خَرَجَ مِنَ الْمِصْرِ فَجُعْلُہُ أَرْبَعُونَ۔ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ لاَ یُحْتَجُّ بِہِ۔ [ضعیف]
(١٢١٢٤) حضرت علی (رض) نے بھاگے ہوئے غلام پر ایک دینار مقرر کیا ہے اگرچہ قریب سے ملے یا دور سے۔
ابن مسعود (رض) فرماتی تھے، جب وہ مصر سے نکلے تو اس کی چٹّیچالیس ہے۔

12130

(۱۲۱۲۵) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ الْعِرَاقِیُّ أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَوْہَرِیُّ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ الْہِلاَلِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْوَلِیدِ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ أَبِی رَبَاحٍ عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ قَالَ : أَصَبْتُ غِلْمَانًا أُبَّاقًا بِالْعَیْنِ فَأَتَیْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ : الأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ قُلْتُ : ہَذَا الأَجْرُ فَمَا الْغَنِیمَۃُ؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ دِرْہَمًا مِنْ کُلِّ رَأْسٍ۔ وَہَذَا أَمْثَلُ مَا رُوِیَ فِی ہَذَا الْبَابِ وَیُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ عَبْدُ اللَّہِ عَرَفَ شَرْطَ مَالِکِہِمْ لِمَنْ رَدَّہُمْ عَنْ کُلِّ رَأْسٍ أَرْبَعِینَ دِرْہَمًا فَأَخْبَرَہُ بِذَلِکَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [ضعیف]
(١٢١٢٥) ابوعمرو شیبانی فرماتے ہیں : مجھے بھاگے ہوئے غلام ملے، میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا اور بیان کیا، انھوں نے کہا : اجر اور غنیمت ہے، میں نے کہا : اجر تو ہے لیکن غنیمت کیسے ہے ؟ انھوں نے کہا : ہر ایک کی طرف سے چالیس درہم۔

12131

(۱۲۱۲۶) أَخْبَرَنَا الْفَقِیہُ أَبُو الْفَتْحِ الْعُمَرِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ الْعَبْقَسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یَزِیدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا جَدِّی حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَیْقٍ وَعُمَرَ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ خَثْعَمٍ یُقَالُ لَہُ حَزْنٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْہُمْ قَالَ : جِئْتُ بِعَبْدٍ آبِقٍ مِنَ السَّوَادِ فَانْفَلَتَ مِنِّی فَخَاصَمُونِی إِلَی شُرَیْحٍ فَضَمَّنَنِیہِ قَالَ فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : کَذَبَ شُرَیْحٌ وَأَخْطَأَ الْقَضَائُ یُحَلَّفُ الْعَبْدُ الأَسْوَدُ لِلْعَبْدِ الأَحْمَرِ لاَنْفَلَتْ مِنْہُ انْفِلاَتًا ثُمَّ لاَ شَیْئَ عَلَیْہِ۔ [ضعیف]
(١٢١٢٦) حضرت عمرو بن سعید خثعم کے ایک آدمی سے جسے حزن کہا جاتا تھا بیان کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں لشکر میں سے بھاگا ہوا ایک غلام لایا، لیکن وہ مجھ سے بھی بھاگ گیا، انھوں نے مجھے شریح پر پیش کیا، شریح نے مجھے ذمہ دار ٹھہرایا۔ حضرت علی (رض) کی طرف یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا : شریح نے جھوٹ بولا ہے اور فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے۔ سیاہ غلام سے سرخ غلام کے لیے قسم لی جائے گی۔ اگر واقعی اس سے بھاگ گیا ہے تو اس پر کوئی چیز نہیں ہے۔

12132

(۱۲۱۲۷) وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ أَحْمَدَ الْفَارِسِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الأَصْفَہَانِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ بْنُ فَارِسٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ قَالَ قَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوسُفَ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ حَزْمِ بْنِ بَشِیرٍ عَنْ رَجَائِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی الرَّجُلِ یَجِدُ الآبِقَ فَیَأْبِقُ مِنْہُ لاَ یَضْمَنُہُ وَضَمَّنَہُ شُرَیْحٌ۔ وَنَحْنُ نَقُولُ بِقَوْلِ عَلِیٍّ : إِنْ کَانَ الآبِقُ أَبَقَ مِنْہُ دُونِ تَعَدِّیہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [ضعیف]
(١٢١٢٧) حضرت علی (رض) سے اس آدمی کے بارے میں منقول ہے جو بھاگا ہوا غلام پائے، پھر وہ غلام اس سے بھی بھاگ جائے تو علی (رض) اسے ذمہ دار نہ ٹھہراتے تھے جبکہ شریح اسے ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔

12133

(۱۲۱۲۸) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ شَرِیکٍ حَدَّثَنَا یَحْیَی حَدَّثَنِی اللَّیْثُ عَنْ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہُ وَلاَ یُسْلِمُہُ مَنْ کَانَ فِی حَاجَۃِ أَخِیہِ کَانَ اللَّہُ فِی حَاجَتِہِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللَّہُ عَنْہُ بِہَا کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ سَتَرَ عَلَی مُسْلِمٍ سَتَرَہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ قُتَیْبَۃَ عَنِ اللَّیْثِ۔ [بخاری ۲۴۴۲۔ مسلم ۲۵۸۰]
(١٢١٢٨) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے اکیلا چھوڑتا ہے۔ جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ اللہ اس کی مدد کرتے ہیں۔ جو مسلمان سے مصیبت دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی مصیبتوں کو دور کریں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کریں گے۔

12134

(۱۲۱۲۹) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُوالنَّضْرِ الْفَقِیہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ حَدَّثَنَا أَبُوالْوَلِیدِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَدِیٍّ عَنْ أَبِی حَازِمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ: مَنْ تَرَکَ مَالاً فَلِوَرَثَتِہِ وَمَنْ تَرَکَ کَلاًّ فَإِلَیْنَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ شُعْبَۃَ۔[بخاری ۲۳۹۸]
(١٢١٢٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جو قرض چھوڑے وہ ہمارے ذمہ ہے۔

12135

(۱۲۱۳۰) حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ دَاوُدَ الْعَلَوِیُّ إِمْلاَئً أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ بَالُوَیْہِ الْمُزَکِّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِالْمُؤْمِنِینَ فِی کِتَابِ اللَّہِ فَأَیُّکُمْ مَا تَرَکَ دَیْنًا أَوْ ضَیْعَۃً فَادْعُونِی فَإِنِّی وَلِیُّہُ وَأَیُّکُمْ مَا تَرَکَ مَالاَ فَلْیُؤْثِرْ بِمَالِہِ عَصَبَتَہُ مَنْ کَانَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ۔ [صحیح]
(١٢١٣٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں لوگوں میں سے مومنوں کے زیادہ قریب ہوں، اللہ کی کتاب میں۔ پس تم میں جو کوئی قرض چھوڑے یا کوئی چیز ضائع کر بیٹھے تو مجھے بتاؤ میں اس کا ولی ہوں اور جو تم میں سے مال چھوڑے تو وہ اپنا مال اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کرے۔

12136

(۱۲۱۳۱) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ الأَعْرَابِیِّ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ قَالاَ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَیْدٍ عَنْ عُمَرَ فِی قِصَّۃٍ ذَکَرَہَا قَالَ ثُمَّ قَرَأَ عُمَرُ ہَذِہِ الآیَۃَ { إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ} الآیَۃَ فَجَعَلَ لَہُمُ الصَّفْقَتَیْنِ جَمِیعًا وَاللَّہِ لَوْلاَ أَنَّ اللَّہَ أَمَدَّکُمْ بِخَزَائِنَ مِنْ قِبَلِہِ لأَخَذْتُ فَضْلَ مَالِ الرَّجُلِ عَنْ نَفْسِہِ وَعِیَالِہِ فَقَسَمْتُہُ بَیْنَ فُقَرَائِ الْمُہَاجِرِینَ۔[صحیح]
(١٢١٣١) معرور بن سوید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے قصہ بیان کیا، پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی : بیشک اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں، مالوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے، پھر دونوں ہاتھوں کو جوڑا اور کہا : اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے اپنی طرف سے خزانوں کو نہ کھولاہوتا تو میں آدمی سے اس کے اور اس کے گھر والوں سے زائد مال لے لیتا اور مہاجرین فقراء کے درمیان تقسیم کردیتا۔

12137

(۱۲۱۳۲) أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ بَیَانٍ حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ عَنْ فِیلِ بْنِ عَرَادَۃَ عَنْ جَرَادِ بْنِ طَارِقٍ قَالَ : جِئْتُ أَوْ أَقْبَلْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنْ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ حَتَّی إِذَا کَانَ فِی السُّوقِ فَسَمِعَ صَوْتَ صَبِیٍّ مَوْلُودٍ یَبْکِی حَتَّی قَامَ عَلَیْہِ فَإِذَا عِنْدَہُ أُمُّہُ فَقَالَ لَہَا : مَا شَأْنُکِ؟ قَالَتْ : جِئْتُ إِلَی ہَذَا السُّوقِ لِبَعْضِ الْحَاجَۃِ فَعَرَضَ لِی الْمَخَاضُ فَوَلَدَتُ غُلاَمًا قَالَ وَہِیَ إِلَی جَنْبِ دَارِ قَوْمٍ فِی السُّوقِ فَقَالَ : ہَلْ شَعُرَ بِکِ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ ہَذِہِ الدَّارِ وَقَالَ : مَا ضَیَّعَ اللَّہُ أَہْلَ ہَذِہِ الدَّارِ أَمَا إِنِّی لَوْ عَلِمْتُ أَنَّہُمْ شَعَرُوا بِکِ ثُمَّ لَمْ یَنْفَعُوکِ فَعَلْتُ بِہِمْ وَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَا لَہَا بِشُرْبَۃِ سَوَیْقٍ فَقَالَ : اشْرَبِی ہَذِہِ تَقْطَعُ الْحَشَا وَتَعْصِمُ الأَمْعَائَ وَتُدِرُّ الْعُرُوقَ ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَصَلَّی بِالنَّاسِ۔ [حسن] قَالَ الصَّعْقُ حَدَّثَنِی أَزْہَرُ عَنْ فِیلٍ قَالَ: وَلَوْ عَلِمْتُ أَنَّہُمْ شَعَرُوا بِکِ ثُمَّ لَمْ یَنْفَعُوکِ بِشَیْئٍ لَحَرَّقْتُ عَلَیْہِمْ۔
(١٢١٣٢) جراد بن طارق فرماتی ہیں : میں صبح کی نماز کے وقت حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ آیا۔ ابھی بازار میں تھے کہ ایک مولود بچے کی آواز سنی وہ رو رہا تھا۔ اس کے پاس کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ اس کی ماں بھی اس کے پاس ہے۔ اس سے کہا۔ تیرا کیا معاملہ ہے ؟ اس عورت نے کہا : میں اس بازار میں کسی کام کی غرض سے آئی تھی تو مجھے حمل نے آلیا ، میں نے بچے کو جنم دیا۔ راوی کہتے ہیں : وہ عورت بازار میں لوگوں کے گھر کے پاس تھی۔ عمر (رض) نے کہا : کیا اس گھر والوں نے تیری خبر لی ہے اور کہا اللہ اس گھر والوں کو برباد نہ کرے۔ اگر مجھے علم ہوجائے کہ ان کو تیری خبر ملی پھر انھوں نے تجھے کوئی فائدہ نہ دیا ہو تو میں ان کے ساتھ کچھ معاملہ کرتا۔ پھر ستو والا پانی منگوایا اور کہا : اسے پی، یہسانس کی بیماری کو دور کر دے گا، آنتوں کو صاف اور وریدوں کو صحیح کر دے گا، پھر ہم نے مسجد میں داخل ہو کر لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اگر مجھے علم ہو کہ انھوں نے تیری خبر لی لیکن تجھے نفع نہ دیا تو ان کو آگ لگا دیتا۔

12138

(۱۲۱۳۳) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی السُّکَّرِیُّ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو زَکَرِیَّا بْنُ أَبِی إِسْحَاقَ وَأَبُو بَکْرٍ الْقَاضِی قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِیُّ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سُنَیْنٍ أَبِی جَمِیلَۃَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ أَنَّہُ وَجَدَ مَنْبُوذًا زَمَانَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَجَائَ بِہِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَی أَخْذِ ہَذِہ النَّسَمَۃِ۔ فَقَالَ : وَجَدْتُہَا ضَائِعَۃً فَأَخَذْتُہَا فَقَالَ لَہُ عَرِیفِی : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ إِنَّہُ رَجُلٌ صَالِحٌ قَالَ: أَکَذَلِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ۔ قَالَ عُمَرُ : اذْہَبْ فَہُوَ حُرٌّ وَلَکَ وَلاَؤُہُ وَعَلَیْنَا نَفَقَتُہُ۔ لَفْظُ حَدِیثِ الشَّافِعِیِّ وَحَدِیثُ عَبْدِ الرَّزَّاقِ مُخْتَصَرٌ أَنَّہُ الْتَقَطَ مَنْبُوذًا فَجَائَ بِہِ إِلَی عُمَرَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : ہُوَ حُرٌّ وَوَلاَؤُہُ لَکَ وَنَفَقَتُہُ عَلَیْنَا مِنْ بَیْتِ الْمَالِ۔ [صحیح۔ الموطا ۱۴۴۸]
(١٢١٣٣) بنو سلیم کے ایک آدمی ابوجمیلہ سے روایت ہے کہ اس نے حضرت عمر (رض) کے دور میں کوئی گری ہوئی چیز پائیتو وہ اسے سیدنا عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے گیا۔ آپ نے کہا : تجھے اس جان کو اٹھانے پر کسی نے ابھارا ؟ اس نے کہا : میں نے اسے ضائع ہوتے ہوئے پایا تو میں نے اسے پکڑ لیا۔ ان کو میرے قبیلے کے سردار نے کہا : اے امیرالمومنین ! وہ نیک آدمی ہے، عمر (رض) نے کہا : واقعی ایسے ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، حضرت عمر (رض) نے کہا : تو جا پس وہ آزاد ہے اور تیرے لیے اس کی ولاء ہے اور ہم پر اس کا خرچ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اس کو ایک بچہ ملا، وہ حضرت عمر (رض) کے پاس لے آئے، عمر (رض) نے اسے کہا : وہ آزاد ہے اور اس کی ولاء تیرے لیے ہے اور اس کا خرچ ہم پر ہے، بیت المال سے۔

12139

(۱۲۱۳۴) أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ : عَبْدُ الْخَالِقِ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الْخَالِقِ الْمُؤَذِّنُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ : مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَنْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِیلَ التِّرْمِذِیُّ حَدَّثَنَا أَیُّوبُ بْنُ سُلَیْمَانَ حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ قَالَ قَالَ یَحْیَی أَخْبَرَنِی ابْنُ شِہَابٍ أَنَّ سُنَیْنًا أَبَا جَمِیلَۃَ أَخْبَرَہُ قَالَ وَنَحْنُ مَعَ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ جُلُوسٌ قَالَ وَزَعَمَ أَبُو جَمِیلَۃَ أَنَّہُ أَدْرَکَ النَّبِیَّ -ﷺ- : أَنَّہُ کَانَ خَرَجَ مَعَہُ عَامَ الْفَتْحِ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہُ وَجَدَ مَنْبُوذًا فِی خِلاَفَۃِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَأَخَذَہُ قَالَ فَذَکَرَ ذَلِکَ عَرِیفِی فَلَمَّا رَآنِی عُمَرُ قَالَ : عَسَی الْغُوَیْرُ أَبْؤُسًا مَا حَمَلَکَ عَلَی أَخْذِکَ ہَذِہِ النَّسَمَۃِ قَالَ قُلْتُ : وَجَدْتُہَا ضَائِعَۃً فَأَخَذْتُہَا فَقَالَ عَرِیفِی: إِنَّہُ رَجُلٌ صَالِحٌ قَالَ: کَذَلِکَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ : فَاذْہَبَ بِہِ فَہُوَ حُرٌّ وَلَکَ وَلاَؤُہُ وَعَلَیْنَا نَفَقَتُہُ۔ [حسن]
(١٢١٣٤) ابو جمیلہسنیننے حضرت عمر (رض) کی خلافت میں ایک بچہ راستے سے پایا، اس نے اسے پکڑ لیا اور اس نے کہا : میرے قبیلے کے سردار نے بتایا کہ جب حضرت عمر (رض) نے مجھے دیکھا تو فرمایا : ایسا نہ ہو کہ یہ غار آفت کا غار ہو۔ عمر (رض) نے کہا : تجھے یہ جان اٹھانے پر کس نے ابھارا ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : میں نے اسے ضائع ہوتے ہوئے پایا تو میں نے اٹھا لیا، میرے قبیلے کے سردار نے کہا : وہ نیک آدمی ہے، عمر (رض) نے کہا : کیا واقعی ایسے ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ عمر (رض) نے کہا : تو جا، وہ آزاد ہے اور تیرے لیے اس کی ولاء ہے اور ہم پر اس کا خرچ ہے۔

12140

(۱۲۱۳۵) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ : عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ قَتَادَۃَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ إِسْمَاعِیلَ السَّرَّاجُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِیفَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِیدِ وَابْنُ کَثِیرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ یُونُسَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : أَنَّہُ قَضَی فِی اللَّقِیطِ أَنَّہُ حُرٌّ وَقَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ { وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُودَۃٍ وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَاہِدِینَ } ۔ [ضعیف]
(١٢١٣٥) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے لقیط کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وہ آزاد ہے اور یہ آیت تلاوت کی۔ پھر انھوں نے اسے تھوڑی قیمت چند گنتی کے درہموں کے بدلے میں بیچ ڈالا اور وہ اس (یوسف) میں بےرغبتی کرنے والے تھے۔

12141

(۱۲۱۳۶) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ أَبِی طَالِبٍ أَخْبَرَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا جُہَیْرُ بْنُ یَزِیدَ الْعَبَدِیُّ قَالَ سَمِعْتُ الْحَسَنَ وَسُئِلَ عَنِ اللَّقِیطِ أَیُبَاعُ فَقَالَ : أَبَی اللَّہُ ذَلِکَ أَمَا تَقْرَأُ سُورَۃَ یُوسُفَ۔ [حسن]
(١٢١٣٦) جہیر بن یزید عبدی فرماتی ہیں : میں نے حسن (رض) سے سنا، ان سے لقیط کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اسے بیچا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے کہا : اللہ نے اس سے انکار کیا ہے، کیا آپ نے سورة یوسف نہیں پڑھی۔

12142

(۱۲۱۳۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِیُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ کَمَا تَنَاتَجُ الإِبِلُ مِنْ بَہِیمَۃٍ جَمْعَائَ ہَلْ تُحِسُّ ِنْ جَدْعَائَ ۔قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ أَفَرَأَیْتَ مَنْ یَمُوتُ وَہُوَ صَغِیرٌ؟ قَالَ : اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا کَانُوا عَامِلِینَ۔ [بخاری ۱۳۵۸۔ مسلم ۲۶۵۸]
(١٢١٣٧) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے والدین اسے یہودی بنالیں یا نصرانی بنالیں۔ جس طرح اونٹ صحیح بچہ جنم دیتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی کان کٹا دیکھا ہے ؟ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا کیا خیال ہے جو بچپن میں ہی فوت ہوجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کو بہتر جانتا ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔

12143

(۱۲۱۳۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ بْنِ یُوسُفَ الأَخْرَمُ حَدَّثَنِی أَبِی حَدَّثَنَا کَثِیرُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنِ الزُّبَیْدِیِّ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ کَانَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : مَا مِنْ مَوْلُودٍ فِی بَنِی آدَمَ إِلاَّ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتَّی یَکُونَ أَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ کَمَا تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃُ بَہِیمَۃً جَمْعَائَ ہَلْ تُحِسُّونَ فِیہَا مِنْ جَدْعَائَ ۔ ثُمَّ یَقُولُ أَبُو ہُرَیْرَۃَ وَاقْرَئُ وا إِنْ شِئْتُمْ (فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لاَ تَبْدِیلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ) رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ حَاجِبِ بْنِ الْوَلِیدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ۔ وَرَوَاہُ یُونُسُ بْنُ یَزِیِدَ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ۔ [صحیح]
(١٢١٣٨) حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بنی آدم کا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیں۔ جس طرح جانور صحیح بچہ جنم دیتا ہے۔ کیا تم اس میں کان کٹا محسوس کرتے ہو ؟ پھر ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو پڑھو، اللہ کی فطرت (اختیار کرو) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا اللہ کی پیدائش کو تبدیل نہ کرو، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

12144

(۱۲۱۳۹) أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی نَصْرٍ الدَّارَبُرْدِیُّ بِمَرْوٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُوَجِّہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُثْمَانَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ عَنْ یُونُسَ عَنِ الزُّہْرِیِّ أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ أَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ ۔ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ بِمِثْلِ حَدِیثِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُثْمَانَ وَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ وَہْبٍ عَنْ یُونُسَ۔ [صحیح]
(١٢١٣٩) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی بنادیتے ہیں۔ پھر حدیث بیان کی۔

12145

(۱۲۱۴۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ ہَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ قَالَ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : مَنْ یُولَدُ یُولَدُ عَلَی ہَذِہِ الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ کَمَا تُنْتَجُونَ الْبَہِیمَۃَ فَہَلْ تَجِدُونَ فِیہَا مِنْ جَدْعَائَ حَتَّی تَکُونُوا أَنْتُمْ تَجْدَعُونَہَا ۔ قَالُوا : یَا رَسُولُ اللَّہِ أَفَرَأَیْتَ مَنْ یَمُوتُ وَہُوَ صَغِیرٌ؟ قَالَ : اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا کَانُوا عَامِلِینَ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ إِسْحَاقَ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَافِعٍ کِلاَہُمَا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ۔[صحیح]
(١٢١٤٠) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بھی بچہ پیدا ہو وہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی یا عیسائی بنالیں۔ جس طرح جانور بچے جنتے ہیں، کیا تم اس میں کبھی کان کٹا پاتے ہو ؟ یہاں تک کہ تم خود اسے کاٹتے ہو، انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے، جو بچپن میں فوت ہوجائے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ بہتر جانتا ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔

12146

(۱۲۱۴۱) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِیدِ بْنُ أَبِی عَمْرٍو قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : لَیْسَ مِنْ مَوْلُودٍ یُولَدُ إِلاَّ عَلَی ہَذِہِ الْمِلَّۃِ حَتَّی یُبِنْ عَنْہُ لِسَانُہُ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُشَرِّکَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ ۔ قَالَ فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ فَکَیْفَ بِمَنْ کَانَ قَبْلَ ذَلِکَ یَعْنِی مَاتَ قَالَ : اللَّہُ أَعْلَمُ بِمَا کَانُوا عَامِلِینَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ وَغَیْرِہِ عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ۔ وَاخْتُلِفَ فِیہِ عَلَی الأَعْمَشِ فَقَالَ عَنْہُ جَرِیرٌ إِلاَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَکَذَلِکَ قَالَہُ عَنْہُ جَمَاعَۃٌ وَقَالَ عَنْہُ حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ عَیَّاشٍ عَلَی الإِسْلاَمِ وَکَانَ الأَعْمَشُ یَرْوِی ہَذَا الْحَدِیثَ عَلَی الْمَعْنَی عِنْدَہُ لاَ عَلَی اللَّفْظِ الْمَرْوِیِّ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [صحیح]
(١٢١٤١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ہے کوئی بچہ مگر اس ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ واضح کر دے اس سے اس کی زبان۔ پس اس کے والدین اسے یہودی بنا لیتے ہیں یا عیسائی یا مشرک یا مجوسی، انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو اس سے پہلے ہی فوت ہوجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ جانتا ہے جو وہ اعمال کرنے والے تھے۔

12147

(۱۲۱۴۲) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : ابْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْعَلاَئِ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : کُلُّ إِنْسَانٍ تَلِدُہُ أُمُّہُ عَلَی الْفِطْرَۃِ أَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ فَإِنْ کَانَا مُسْلِمَیْنِ فَمُسْلِمٌ کُلُّ إِنْسَانٍ تَلِدُہُ أُمُّہُ یَلْکُزُہُ الشَّیْطَانُ فِی حِضْنَیْہِ إِلاَّ مَرْیَمَ وَابْنَہَا ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ قُتَیْبَۃَ۔ [صحیح]
(١٢١٤٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر انسان کو اس کی ماں فطرت پر پیدا کرتی ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنالیتے ہیں۔ اگر وہ دونوں مسلمان ہوں تو وہ بھی مسلمان ہوگا، ہر انسان کو جب اس کی ماں جنتی ہے تو شیطان اسے چوکے لگاتا ہے، اس کی پسلیوں میں مگر مریم اور اس کا بیٹا۔

12148

(۱۲۱۴۳) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ زُرَیْعٍ عَنْ یُونُسَ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ : کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ حَتَّی یُعْرِبَ عَنْ نَفْسِہِ ۔ زَادَ فِیہِ غَیْرُہُ : فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ ۔ قَالَ الشَّافِعِیُّ فِی الْقَدِیمِ فِی رِوَایَۃِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ البَغْدَادِیِّ عَنْہُ قَوْلُ النَّبِیِّ -ﷺ- : کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ الَّتِی فَطَرَ اللَّہُ عَلَیْہَا الْخَلْقَ ۔ فَجَعَلَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- مَا لَمْ یُفْصِحُوا بِالْقَوْلِ فَیَخْتَارُوا أَحَدَ الْقَوْلَیْنِ الإِیمَانَ أَوِ الْکُفْرَ لاَ حُکْمَ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا الْحُکْمُ لَہُمْ بِآبَائِہِمْ فَما کَانَ آبَاؤُہُمْ یَوْمَ یُولَدُونَ فَہُوَ بِحَالِہِ إِمَّا مُؤْمِنٌ فَعَلَی إِیمَانِہِ أَوْ کَافِرٌ فَعَلَی کُفْرِہِ۔ [صحیح۔ احمد ۱۵۷۸۔ الدارمی۲۴۶۳]
(١٢١٤٣) اسود بن سریع سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کو پھیرلیا جائے۔ اسے اس کے والدین یہودی بنالیتے ہیں یا عیسائی۔
امام شافعی (رح) کا قدیم قول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بنایا کہ جب تک وہ واضح نہ کردی جائے بات کے ساتھ۔ پس وہ اختیار کرلیں دونوں قولوں ایمان اور کفر میں سے کسی کو۔ ان پر کوئی حکم فی نفسہ نہیں ہے، لیکن ان کے لیے ان کے آباء والا حکم ہے۔ جس دن وہ پیدا کیے گئے تھے، پس وہ اسی حال میں ہوں گے۔ اگر وہ مومن تھے تو مومن ہوں گے، اگر وہ کافر تھے تو وہ کفر پر ہوں گے۔

12149

(۱۲۱۴۴) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ دَاسَۃَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْہَالِ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَۃَ یُفَسِّرُ حَدِیثَ : کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلی الْفِطْرَۃِ ۔قَالَ : ہَذَا عِنْدَنَا حَیْثُ أَخَذَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِمُ الْعَہْدَ فِی أَصْلاَبِ آبَائِہِمْ حَیْثُ قَالَ {أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی} [صحیح۔ ابوداود ۴۷۱۶]
(١٢١٤٤) حجاج بن منہال فرماتے ہیں : میں نے حماد بن سلمہ سے سنا وہ حدیث کی تفسیر فرما رہے تھیکہہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، فرمایا : یہ اس وقت سے ہمارے ہاں ہے۔ جب سے اللہ نے ان کے آباء کی پشتوں سے وعدہ لیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کہا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انھوں نے کہا : ہاں۔

12150

(۱۲۱۴۵) أَخْبَرَنَا أَبُوعَبْدِاللَّہِ: إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ السُّوسِیُّ حَدَّثَنَا أَبُوالْعَبَّاسِ: مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ أَخْبَرَنِی أَبِی حَدَّثَنِی الأَوْزَاعِیُّ حَدَّثَنِی الزُّہْرِیُّ حَدَّثَنِی حُمَیْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- قَالَ : کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ وَیُنَصِّرَانِہِ وَیُمَجِّسَانِہِ ۔ قَالَ الأَوْزَاعِیُّ : لاَ یُخْرِجَانِہِ مِنْ عِلْمِ اللَّہِ وَإِلَی عِلْمِ اللَّہِ یَصِیرُونَ۔ [صحیح]
(١٢١٤٥) حضرت ابوہریرہ (رض) نی فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔
امام اوزراعی (رح) فرماتے ہیں : وہ دونوں اللہ کے علم سے نہ نکال سکتے ہیں اور نہ داخل کرسکتے ہیں۔

12151

(۱۲۱۴۶) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ : عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مُکْرَمٍ الطَّسْتِیُّ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ شَرِیکٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ عُقَیْلٍ عَنِ ابْنٍ شِہَابٍ أَنَّ عُرْوَۃَ بْنَ الزُّبَیْرِ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَتْ : وَاللَّہِ مَا عَقَلْتُ أَبَوَیَّ قَطُّ إِلاَّ یَدِینَانِ الدِّینَ وَمَا مَرَّ عَلَیْنَا یَوْمٌ قَطُّ إِلاَّ یَأْتِینَا فِیہِ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بُکْرَۃً وَعَشِیًّا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ۔ [بخاری ۴۷۶] قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَعَائِشَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا وُلِدَتْ عَلَی الإِسْلاَمِ لأَنَّ أَبَاہَا أَسْلَمَ فِی ابْتِدَائِ الْمَبْعَثِ وَثَابِتٌ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- تَزَوَّجَہَا وَہِی ابْنَۃُ سِتٍّ وَبَنَی بِہَا وَہِیَ ابْنَۃُ تِسْعٍ وَمَاتَ عَنْہَا وَہِی ابْنَۃُ ثَمَانَ عَشْرَۃَ لَکِنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ وُلِدَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ثُمَّ أَسْلَمَتْ بِإِسْلاَمِ أَبِیہَا لأَنَّہَا ہَاجَرَتْ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- وَہِیَ حُبْلَی بِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ فَوَضَعَتْہُ بِقُبَائٍ فَلَمْ تُرْضِعْہُ حَتَّی أَتَتْ بِہِ النَّبِیَّ -ﷺ- فَحَنَّکَہُ وَدَعَا لَہُ وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الإِسْلاَمِ بَعْدَ مَقْدَمِہِ الْمَدِینَۃَ۔
(١٢١٤٦) عروہ بن زبیر (رض) نے خبر دی کہ سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا : جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے تو میں نے اپنے والدین کو اسلام پر ہی پایا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس دن صبح اور شام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر نہ آئے ہوں۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ (رض) اسلام پر پیدا ہوئیں اس لیے کہ ان کے والدین ابتدائً اسلام پر تھے اور سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان سے شادی کی تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی اس وقت ٩ سال تھی اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے اس وقت آپ (رض) کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ لیکن اسماء بنت ابی بکر جاہلیت میں پیدا ہوئیں۔ پھر اپنے باپ کی وجہ سے مسلمان ہوئی، اس لیے کہ اس نے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت وہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کے ساتھ حاملہ تھیں۔ اسماء نے اس (ابن زبیر) کو قباء میں جنم دیا۔ اسے دودھ نہ پلایا یہاں تک کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے تالو کو کوئی چیز لگائی (گھٹی دی) اور اس کے لیے دعا کی اور وہ اسلام کے پہلے بچے تھے جو مدینہ آنے کے بعد پیدا ہوئے۔

12152

(۱۲۱۴۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ أَسْمَائَ : أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ قَالَتْ فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَزَلْتُ بِقُبَائٍ فَوَلَدْتُہُ بِقُبَائٍ ثُمَّ أَتَیْتُ َسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَوَضَعَہُ فِی حَجْرِہِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَہَا ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیہِ فَکَانَ أَوَّلَ شَیْئٍ دَخَلَ جَوْفَہُ رِیقُ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- ثُمَّ حَنَّکَہُ ثُمَّ دَعَا لَہُ وَبَرَّکَ عَلَیْہِ وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الإِسْلاَمِ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی کُرَیْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ عَنْ زَکَرِیَّا بْنِ یَحْیَی وَغَیْرِہِ عَنْ أَبِی أُسَامَۃَ زَادَ فِیہِ عَلِیُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ ہِشَامٍ فَلَمْ تُرْضِعْہُ حَتَّی أَتَتْ بِہِ النَّبِیَّ -ﷺ-۔ وَفِیمَا ذَکَرَ أَبُو عَبْدِاللَّہِ بْنُ مَنْدَۃَ حِکَایَۃً عَنِ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ: أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ کَانَتْ أَکْبَرُ مِنْ عَائِشَۃَ بِعَشْرِ سِنِینَ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَإِسْلاَمُ أُمِّ أَسْمَائَ تَأَخَّرَ قَالَتْ أَسْمَائُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا : قَدِمَتْ عَلَیَّ أُمِّی وَہِیَ مُشْرِکَۃٌ فِی حَدِیثٍ ذَکَرَتْہُ وَہِیَ قُتَیْلَۃُ مِنْ بَنِی مَالِکِ بْنِ حِسْلٍ وَلَیْسَتْ بِأُمِّ عَائِشَۃَ فَکَانَ إِسْلاَمُ أَسْمَائَ بِإِسْلاَمِ أَبِیہَا دُونَ أُمِّہَا وَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِی بَکْرٍ فَکَأَنَّہُ کَانَ بَالِغًا حِینَ أَسْلَمَ أَبَوَاہُ فَلَمْ یَتْبَعْہُمَا فِی الإِسْلاَمِ حَتَّی أَسْلَمَ بَعْدَ مُدَّۃٍ طَوِیلَۃٍ وَکَانَ أَسَنَّ أَوْلاَدِ أَبِی بَکْرٍ۔[بخاری ۳۹۰۹۔ مسلم ۲۱۴۶]
(١٢١٤٧) حضرت اسماء (رض) فرماتی ہیں کہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) کے ساتھ مکہ میں حاملہ تھیں جب میں نکلی تو مکمل مدت والی تھی، میں مدینہ میں قباء پہنچی تو میں نے اسے جنم دیا۔ پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی گود میں رکھا۔ پھر کھجور منگوائی اسے چبایا اور عبداللہ کے منہ میں رکھا اور تھوک بھی ڈالا۔ پس پہلی چیز جو عبداللہ کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لعاب تھا، پھر اس کے لیے دعا کی اور برکت کی دعا کی اور یہ اسلام میں پہلے بچے تھے جو پیدا ہوئے۔

12153

(۱۲۱۴۸) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ یَحْیَی الْمَعْنَی قَالَ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ قَالَ: کُنْتُ أَقْرَأُ عَلَی أُمِّ سَعْدٍ بِنْتِ الرَّبِیعِ وَکَانَتْ یَتِیمَۃً فِی حَجْرِ أَبِی بَکْرٍ فَقَرَأْتُ {وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ} فَقَالَتْ : لاَ تَقْرَأْ {وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ} إِنَّمَا نَزَلَتْ فِی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حِینَ أَبَی الإِسْلاَمَ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنْ لاَ یُوَرِّثَہُ فَلَمَّا أَسْلَمَ أَمَرَہُ نَبِیُّ اللَّہُ -ﷺ- أَن یُؤْتِیَہُ نَصِیبَہُ زَادَ عَبْدُ الْعَزِیزِ وَمَا أَسْلَمَ حَتَّی حُمِلَ عَلَی الإِسْلاَمِ بِالسَّیْفِ۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَزَعَمَ الْوَاقِدِیُّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَسْلَمَ فِی ہُدْنَۃِ الْحُدَیْبِیَۃِ وَزَعَمَ عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ أَنَّہُ ہَاجَرَ فِی فَتِیَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- قَبْلَ الْفَتْحِ وَزَعَمَ أَبُو عُبَیْدَۃَ أَنَّ اسْمَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ عَبْدُ الْعُزَّی فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَبْدَ الرَّحْمَنِ وَزَعَمَ مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الزُّبَیْرِیُّ أَنَّ أُمَّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَائِشَۃَ أَمُّ رُومَانَ بِنْتُ عَامِرٍ أَسْلَمْتْ وَحَسُنَ إِسْلاَمُہَا۔ [ضعیف۔ ابوداود ۲۹۲۳]
(١٢١٤٨) حضرت داؤد بن حصین فرماتے ہیں : میں ام سعد بنت ربیع کے پاس پڑھتا تھا، اور وہ ابوبکر (رض) کے پاس یتیمی کی حالت میں رہ چکی تھیں، میں نے آیت پڑھی : { وَالَّذِینَ عَاقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ } انھوں نے کہا : اس طرح نہ پڑھ بلکہ { وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ } ہے، یہ آیت حضرت ابوبکر اور ان کے بیٹے عبدالرحمن (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب عبدالرحمن نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تو ابوبکر (رض) نے قسم اٹھائی کہ وہ اسے وراثت سے محروم کردیں گے، جب وہ مسلمان ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ اس کا حصہ اسے دے دیں۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ اسلام پر آمادہ تلوار کے ساتھ ہوا تھا۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں واقدی کا خیال ہے کہ عبدالرحمن حدیبیہ کی صلح کے وقت مسلمان ہوا اور علی بن زید کا خیال ہے کہ اس نے قریش کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر فتح مکہ سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تھی اور ابوعبید کا خیال ہے کہ جاہلیت میں عبدالرحمن کا نام عبدالعزیٰ تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام عبدالرحمن رکھا اور مصعب بن عبداللہ کا خیال ہے کہ ام عبدالرحمن، عائشہ، ام رومان بنت عامر اسلام لائیں اور ان کا اسلام بہترین ہے۔

12154

(۱۲۱۴۹) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ عِیسَی بْنِ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْہِ قَالُوا صَبَأَ عُمَرُ صَبَأَ عُمَرُ وَأَنَا عَلَی ظَہْرِ بَیْتٍ فَجَائَ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ وَعَلَیْہِ قَبَائُ دِیبَاجٍ مُکَفَّفَۃٌ بِحَرِیرٍ فَقَالَ صَبَأَ عُمَرُ فَمَہْ أَنَا لَہُ جَارٌ قَالَ فَتَفَرَّقَ النَّاسُ قَالَ : فَعَجِبْتُ مِنْ عِزِّہِ یَوْمَئِذٍ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ سُفْیَانَ۔ [بخاری ۳۸۶۸] فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَسْلَمَ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ صَبِیٌّ فَصَارَ مُسْلِمًا بِإِسْلاَمِہِ وَذَلِکَ لِمَا فِی الْحَدِیثِ الثَّابِتِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : عَرَضَنِی رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- یَوْمَ أُحُدٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَاسْتَصْغَرَنِی۔ وَقَدْ قِیلَ إِنَّ حَفْصَۃَ وَعَبْدَ اللَّہِ أَسْلَمَا قَبْلَ أَبِیہِمَا وَعَبْدُ اللَّہِ کَانَ صَغِیرًا حِینَئِذٍ فَإِنَّمَا تَمَّ إِسْلاَمُہُ بِإِسْلاَمِ أَبِیہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَإِنَّہُ خَرَجَ إِلَی بَدْرٍ مَعَ الْمُشْرِکِینَ وَأُسِرَ حَتَّی فَدَی نَفْسَہُ وَأَسْلَمَ۔ [صحیح۔ بخاری ۳۸۶۵]
(١٢١٤٩) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر (رض) اسلام لائے تو لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے : عمر بےدین ہوگیا اور میں گھر کی چھت پر تھا، عاص بن وائل میرے پاس آئے جو ریشم کی قبا پہنے ہوئے تھے، کہنے لگے : عمر بےدین ہوگئے لیکن میں نے اسے پناہ دی ہوئی ہے۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : لوگ بکھر گئے، میں نے بڑا تعجب کیا اس دن آپ کی عزت پر۔
عمر بن خطاب (رض) اسلام لائے اور عبداللہ بن عمر (رض) ابھی بچے تھے، وہ بھی عمر (رض) کی وجہ سے مسلمان ہوئے اور یہ اس حدیث کی بنا پر ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے، ابن عمر (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احد کے دن مجھے پیش کیا اور میں اس وقت (١٤) چودہ سال کا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے چھوٹا خیال کیا اور کہا گیا ہے کہ حفصہ اور عبداللہ دونوں اپنے باپ سے پہلے مسلمان ہوئے اور عبداللہ اس وقت چھوٹے تھے، ان کا اسلام باپ کے اسلام کی وجہ سے ہوا۔
اور عباس بن عبدالمطلب (رض) بدر کے دن مشرکوں کے ساتھ نکلے اور قیدی بنا لیے گئے، یہاں تک کہ فدیہ دیا اور اسلام قبول کرلیا۔

12155

(۱۲۱۵۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَتَّابٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ أَبِی أُوَیْسٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ عُقْبَۃَ قَالَ قَالَ مُوسَی بْنُ عُقْبَۃَ قَالَ ابْنُ شِہَابٍ حَدَّثَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ : أَنَّ رِجَالاً مِنَ الأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- فَقَالُوا: ائْذَنْ لَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَلْنَتْرُکْ لاِبْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَائَ ہُ فَقَالَ: لاَ وَاللَّہِ لاَ تَذَرُونَ دِرْہَمًا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنِ ابْنِ أَبِی أُوَیْسٍ۔ وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَبَّاسٍ إِذْ ذَاکَ کَانَ صَبِیًّا صَغِیرًا إِلاَّ أَنَّ أُمَّہُ کَانَتْ أَسْلَمَتْ فَصَارَ مُسْلِمًا بِإِسْلاَمِ أُمِّہِ۔ قَالَ الْبُخَارِیُّ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَعَ أُمِّہِ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ وَلَمْ یَکُنْ مَعَ أَبِیہِ عَلَی دِینِ قَوْمِہِ۔ [بخاری ۲۵۲۷]
(١٢١٥٠) حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے آدمیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی، انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمیں اجازت دے دیں۔ ہم عباس (رض) کا فدیہ چھوڑ دیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! ایک درہم بھی نہ چھوڑنا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس وقت بچے تھے، مگر ان کی والدہ مسلمان ہوگئیں، چنانچہ عبداللہ بھی ماں کے اسلام کی وجہ سے مسلمان ہوگئے۔
امام بخاری (رح) فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) اپنی والدہ کے ساتھ کمزوروں میں سے تھے، اپنے باپ کے ساتھ اپنی قوم کے دین پر نہ تھے۔

12156

(۱۲۱۵۱) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یُوسُفَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدِ بْنُ الأَعْرَابِیِّ حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی یَزِیدَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : أَنَا وَأُمِّی مِنَ الْمُسْتَضْعَفِینَ کَانَتْ أُمِّی مِنَ النِّسَائِ وَأَنَا مِنَ الْوِلْدَانِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سُفْیَانَ۔ [بخاری ۱۳۵۷]
(١٢١٥١) عبیداللہ بن یزید (رض) فرماتے ہیں : میں نے ابن عباس (رض) سے سنا کہ میں اور میری ماں کمزوروں میں سے تھے، میری ماں عورتوں میں تھی اور میں بچوں میں تھا۔

12157

(۱۲۱۵۲) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا أَبُوالنُّعْمَانِ عَارِمٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی ہَذِہ الآیَۃِ {إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیعُونَ حِیلَۃَ وَلاَ یَہْتَدُونَ سَبِیلاً} قَالَ: کُنْتُ أَنَا وَأُمِّی مِمَّنْ عَذَرَ اللَّہُ تَعَالَی ذِکْرُہُ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی النُّعْمَانِ وَسُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ۔ [صحیح]
(١٢١٥٢) حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کے بارے میں منقول ہے : {إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیعُونَ حِیلَۃَ وَلاَ یَہْتَدُونَ سَبِیلاً } آدمیوں، عورتوں اور بچوں میں سے کمزور لوگ جو حیلہ کی طاقت نہ رکھتے تھے اور نہ راستہ پاتے تھے، ابن عباس (رض) فرماتی ہیں : میں اور میری ماں ان میں سے تھے، جن کو اللہ نے معذور قرار دیا۔

12158

(۱۲۱۵۳) أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ فُورَکَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ حَبِیبٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی حَکِیمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَعْمَرَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ الدِّیلِیِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- یَقُولُ : الإِسْلاَمُ یَزِیدُ وَلاَ یَنْقُصُ۔ [ضعیف۔ ابوداود ۲۹۱۲]
(١٢١٥٣) حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا۔

12159

(۱۲۱۵۴) وَرَوَاہُ عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ یَحْیَی عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ أَنَّ رَجُلاً حَدَّثَہُ : أَنَّ مُعَاذًا قَالَ فَذَکَرَہُ کَذَلِکَ مَرْفُوعًا أَخْبَرَنَاہُ أَبُو عَلِیٍّ الرُّوذْبَارِیُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ۔ وَإِنَّمَا أَرَادَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ أَنَّ حُکْمَ الإِسْلاَمِ یُغَلَّبُ وَمِنْ تَغْلِیبِہِ أَنْ یُحْکَمَ لِلْوَلَدِ بِالإِسْلاَمِ بِإِسْلاَمِ أَحَدِ أَبَوَیْہِ۔ [ضعیف]
(١٢١٥٤) عبدالوارث نے بیان کیا کہ ان کا ارادہ یہ تھا کہ اسلام غلبہ پا جاتا ہے اور اس کا غلبہ پانا اس طرح ہے کہ بچے کو اسلام کا بھی وہی حکم ہے جو اس کے والدین میں سے کسی کو ہو۔

12160

(۱۲۱۵۵) أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِیدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شُبَانَۃَ الشَّاہِدُ بِہَمَذَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرُ مُحَمَّدِ بْنِ مَحْمُوَیْہِ النَّسَوِیُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ حَدَّثَنَا شَبَابُ بْنُ خَیَّاطٍ الْعُصْفُرِیُّ حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ حَشْرَجٍ حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ جَدِّی عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو : أَنَّہُ جَائَ یَوْمَ الْفَتْحِ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَرَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- حَوْلَہُ أَصْحَابُہُ فَقَالُوا ہَذَا أَبُو سُفْیَانَ وَعَائِذُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- : ہَذَا عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو سُفْیَانَ الإِسْلاَمُ أَعَزُّ مِنْ ذَلِکَ الإِسْلاَمُ یَعْلُو وَلاَ یُعْلَی ۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ وَقَالَ الْحَسَنُ وَشُرَیْحُ وَإِبْرَاہِیمُ وَقَتَادَۃُ : إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُہُمَا فَالْوَلَدَ مَعَ الْمُسْلِمِ۔ [ضعیف]
(١٢١٥٥) عائذ بن عمرو فتح مکہ کے دن ابوسفیان بن حرب کے ساتھ آئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ عائذ بن عمرو اور ابوسفیان ہیں، اسلام ان دونوں سے زیادہ عزت والا ہے، اسلام بلند ہوتا ہے اور اس پر کوئی فوقیت نہیں رکھتا۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں : حسن، شریح، ابراہیم اور قتادہ نے کہا : جب دونوں میں سے ایک مسلمان ہو تو بچہ مسلم کے تابع ہوگا۔

12161

(۱۲۱۵۶) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ وَأَبُو مُحَمَّدِ بْنُ مُوسَی قَالاَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَیُّوبَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِیدِ الطَّیَالِسِیُّ وَمُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ قَالاَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاہِیمَ عَنِ الأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ- قَالَ : رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ عَنِ الصَّبِیِّ حَتَّی یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَعْتُوہِ حَتَّی یُفِیقَ وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ ۔ وَرُوِّینَا عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ -ﷺ-۔ [صحیح لغیرہ]
(١٢١٥٦) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے : بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے اور بےعقل سے یہاں تک وہ ٹھیک ہوجائے اور سوئے ہوئے سے یہاں تک کہ وہ جاگ جائے۔

12162

(۱۲۱۵۷) اسْتِدْلاَلاً بِمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَلِیفَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الأَدِیبُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ الإِسْمَاعِیلِیُّ أَخْبَرَنِی أَبُو خَلِیفَۃَ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ غُلاَمًا مِنَ الْیَہُودِ کَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ -ﷺ- فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ -ﷺ- یَعُودُہُ فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عِنْدَ رَأْسِہِ فَنَظَرَ الْغُلاَمُ إِلَی أَبِیہِ فَقَالَ : أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- وَہُوَ یَقُولُ : الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَنْقَذَہُ بِی مِنَ النَّارِ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ حَرْبٍ۔ [بخاری ۱۳۵۶]
(١٢١٥٧) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا تھا، وہ بیمار ہوگیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی عیادت کے لیے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے، بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا : ابوالقاسم کی اطاعت کرو، وہ مسلمان ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نکلے تو فرما رہے تھے : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میری وجہ سے اس کو آگ سے بچا لیا۔

12163

(۱۲۱۵۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ الأَزْرَقُ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ أَخْبَرَنِی قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَمْزَۃَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ سَمِعْتُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ یَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِیِّ -ﷺ- عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ قَالَ : فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لإِبْرَاہِیمَ فَأَنْکَرَ ذَلِکَ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ۔ [صحیح۔ النسائی فی الکبری ۸۳۳۳]
(١٢١٥٨) ابوحمزہ انصار کے ایک آدمی نے زید بن ارقم سے سنا کہ سب سے پہلے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی، وہ علی بن ابی طالب (رض) ہیں۔ کہتے ہیں : میں نے ابراہیم کے سامنے ذکر کیا تو انھوں نے اس کا انکار کیا اور کہا : وہ ابوبکر ہے۔

12164

(۱۲۱۵۹) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُونُسَ (ح) وَأَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُونُسَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِیمُ بْنُ زَکَرِیَّا الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَائٍ الْمَقْدِسِیُّ حَدَّثَنِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الشَّامِیُّ عَنِ النَّجِیبِ بْنِ السَّرِیِّ قَالَ قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی حَدِیثٍ ذَکَرَہُ : سَبَقْتُہُمْ إِلَی الإِسْلاَمِ قِدْمًا غُلاَمًا مَا بَلَغْتُ أَوَانَ حُلْمِی۔ لَیْسَ فِی رِوَایَۃِ ابْنِ عَبْدَانَ قِدْمًا وَہَذَا شَائِعٌ فِیمَا بَیْنَ النَّاسِ مِنْ قَوْلِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ : إِلاَّ أَنَّہُ لَمْ یَقَعْ إِلَیْنَا بِإِسْنَادٍ یُحْتَجُّ بِمِثْلِہِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِی سِنِّہِ یَوْمَ أَسْلِمَ۔[ضعیف]
(١٢١٥٩) نجیب بن سری فرماتے ہیں : حضرت علی (رض) نے کہا : میں ان میں سے اسلام کی طرف سبقت لے جانے والا ہوں حالانکہ میں بچہ تھا، میں ابھی بلوغت کو نہ پہنچا تھا۔
اہل علم نے حضرت علی (رض) کے اسلام لانے کی عمر میں اختلاف کیا ہے۔

12165

(۱۲۱۶۰) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُکَیْرٍ حَدَّثَنِی اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِی أَبُو الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ ابْنُ ثَمَانِ سِنِینَ۔ [صحیح]
(١٢١٦٠) عروہ سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) جب اسلام لائے تو ان کی عمر آٹھ سال تھی۔

12166

(۱۲۱۶۱) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ إِمْلاَئً حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ: أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَسْلَمَ وَہُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِینَ۔[حسن]
(١٢١٦١) محمد بن اسحاق کہتے ہیں : حضرت علی (رض) جب اسلام لائے تو ان کی عمر دس سال تھی۔

12167

(۱۲۱۶۲) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ فِی الْمَغَازِی حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الأَصَمُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا یُونُسُ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی نَجِیحٍ قَالَ أُرَاہُ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَہُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِینَ۔ [ضعیف]
(١٢١٦٢) مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت علی (رض) جب اسلام لائے تو ان کی عمر دس برس تھی۔

12168

(۱۲۱۶۳) أَخْبَرَنَا أَبُو طَاہِرٍ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ قَالَ سَمِعْتُ الْحُسَیْنَ بْنَ الْوَلِیدِ یَقُولُ سَمِعْتُ شَرِیکًا یَقُولُ : أَسْلَمَ عَلِیٌّ وَہُوَ ابْنُ إِحْدَی عَشْرَۃَ سَنَۃً۔ [صحیح]
(١٢١٦٣) حسین بن ولید فرماتے ہیں : میں نے شریک سے سنا وہ کہتے تھے کہ علی (رض) گیارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔

12169

(۱۲۱۶۴) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنِی عِیسَی بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو بِشْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ الْحَسَنِ وَغَیْرِہِ : وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِہِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ وَہُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ أَوْ سِتَّ عَشْرَۃَ۔ لَفْظُ حَدِیثِہِمَا وَفِی حَدِیثِ أَحْمَدَ بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ عَنِ الْحَسَنِ وَغَیْرِ وَاحِدٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِیٌّ بَعْدَ خَدِیجَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا وَہُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً أَوْ سِتَّ عَشْرَۃَ سَنَۃً۔ [صحیح]
(١٢١٦٤) حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی بن ابی طالب (رض) ہیں اور وہ پندرہ یا سولہ برس کے تھے۔
دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت خدیجہ (رض) کے بعد سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی (رض) ہیں اور وہ اس وقت پندرہ یا سولہ برس کے تھے۔

12170

(۱۲۱۶۵) وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ حَمْشَاذَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَکَمِ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَیْبَۃَ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -ﷺ- دَفَعَ الرَّایَۃَ إِلَی عَلِیٍّ یَوْمَ بَدْرٍ وَہُوَ ابْنُ عِشْرِینَ سَنَۃً۔ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ رَحِمَہُ اللَّہُ : وَوَقْعَۃُ بَدْرٍ کَانَتْ بَعْدَ مَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- الْمَدِینَۃَ بِسَنَۃٍ وَنِصْفِ سَنَۃٍ وَاخْتَلَفُوا فِی قَدْرِ مُقَامِہِ بِمَکَّۃَ بَعْد مَا بُعِثَ فَقِیلَ عَشْرًا وَقِیلَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَقِیلَ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَإِنْ کَانَ عَشْرًا وَصَحَّ أَنَّ عَلِیًّا کَانَ ابْنَ عِشْرِینَ سَنَۃً یَوْمَ بَدْرٍ رَجَعَ سِنُّہُ یَوْمَ أَسْلَمَ إِلَی قَرِیبٍ مِمَّا قَالَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَإِنْ کَانَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ أَوْ خَمْسَ عَشْرَۃَ فَإِلَی أَقَلَّ مِنْ ذَلِکَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَاخْتَلَفُوا فِی سِنِّ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَوْمَ قُتِلَ فَقِیلَ خَمْسٌ وَسِتُّونَ وَقِیلَ ثَلاَثٌ وَسِتُّونَ وَقِیلَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِکَ وَأَشْہَرُہُ ثَلاَثٌ وَسِتُّونَ عَلَی رَأْسِ أَرْبَعِینَ مِنْ مُہَاجَرِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- فَیَرْجِعُ سِنُّہُ یَوْمَ أَسْلَمَ عَلَی قَوْلِ مَنْ قَالَ مَکَثَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بِمَکَّۃَ عَشْرًا إِلَی ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَعَلَی قَوْلِ مَنْ قَالَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ إِلَی عَشْرِ سِنِینَ فَفِی أَکْثَرِ الرِّوَایَاتِ کَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ بَلَغَ مِنَ السِّنِّ حِینَ صَلَّی مَعَ النَّبِیِّ -ﷺ- قَدْرًا یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ احْتَلَمَ فِیہِ وَمَا رُوِیَ مِنَ الشِّعْرِ مُحْتَمَلٌ لِلتَّأْوِیلِ مَعَ ضَعْفِ إِسْنَادِہِ عَلَی أَنَّ الْحُکْمَ بِصِحَّۃِ قَوْلِ الْبَالِغِ دُونَ الصَّبِیِّ الْمُمَیِّزِ وَقَعَ شَرْعُہُ بَعْدَ إِسْلاَمِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَإِسْلاَمُہُ کَانَ مَحْکُومًا بِصِحَّتِہِ إِمَّا لأَنَّہُ بَقِیَ حَتَّی وَصَفَ الإِسْلاَمَ بَعْدَ بُلُوغِہِ أَوْ لأَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- خَاطَبَہُ بِالدُّعَائِ إِلَی الإِسْلاَمِ وَغَیْرُہُ مِنَ الصِّبْیَانِ غَیْرُ مُخَاطَبٍ أَوْ لأَنْ قَوْلَ الصَّبِیِّ الْمُمَیِّزِ إِذْ ذَاکَ کَانَ مَحْکُومًا بِصِحَّتِہِ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ بِغَیْرِہِ أَوْ کَانَ قَدِ احْتَلَمَ فَصَارَ بَالِغًا بِہِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ ہَذَا وَقَدْ ذَہَبَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ وَغَیْرُ وَاحِدٍ فِی رِوَایَۃِ قَتَادَۃَ إِلَی أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَسْلَمَ وَہُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَۃَ سَنَۃً أَوْ سِتَّ عَشْرَۃَ سَنَۃً کَمَا مَضَی ذِکْرُہُ۔ [حسن۔ الحاکم ۴۵۶۲]
(١٢١٦٥) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن جھنڈا حضرت علی (رض) کو دیا اور وہ اس وقت بیس برس کے تھے۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے کے ایک سال یا نصف سال بعد غزوہ بدر واقع ہوا اور انھوں نے مکہ میں بعثت کے بعد کی مدت کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ کہا گیا ہے : دس برس اور یہ بھی کہا گیا ہے : تیرہ برس اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پندرہ برس۔ اگر مکہ میں دس برس مدت تھی تو صحیح ہے کہ حضرت علی (رض) غزوہ بدر کے وقت بیس برس کے تھے، تو ان کی اسلام لانے کی عمر اس کے قریب ہوگی جو عروہ نے بیان کیا۔ اگر مکہ کی مدت تیرہ یا پندرہ برس ہے تو یہ کم ہی صحیح ہے۔
انھوں نے حضرت علی (رض) کی شہادت کے وقت ان کی عمر میں اختلاف کیا ہے۔ کہا گیا ہے : پینسٹھ سال اور یہ بھی کہا گیا ہے : تریسٹھ سال اور اس سے کم بھی بیان کی گئی ہے اور مشہور یہ ہے کہ تریسٹھ سال۔ اگر ہجرت رسول کے چالیسویں سال کی بنیاد بنایا جائے تو ان کی یہ عمر اس قول کے لحاظ سے ہے، جس نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سے تیرہ سال رہے اور اگر اس قول کو بنیاد بنایا جائے جس نے کہا : تیرہ سال سے دس سال تک تو یہ اکثر روایات میں ہے، جس میں آپ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی۔ جس میں احتمال ہے کہ آپ (رض) بالغ تھے اور جو اشعار میں منقول ہے ان کی اسناد ضعیف ہیں ‘ بالغ ہونے کا صحیح حکم جو ممیز بچے سے الگ ہے، شرعاً حضرت علی (رض) کے اسلام کے بعد ہے، ان کا اسلام لانا ان کے صحیح ہونے کا حکم ہے۔ چونکہ باقیوں کے لیے اسلام سے متصف ہونا، بلوغت کے بعد ہے یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مخاطب کر کے اسلام کی دعوت دی ہے، جبکہ باقی بچے مخاطب نہیں ہیں، یا پھر ممیز بچے کا قول تب اس پر صحت کا حکم ہوگا اس کے علاوہ شرع کے وارد ہونے سے پہلے یا جب وہ محتلم ہوگیا تو وہ بالغ ہوجائے گا۔
قتادہ کی روایت میں ہے کہ سیدنا علی (رض) نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی عمر پندرہ سال یا سولہ تھی۔

12171

(۱۲۱۶۶) وَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ بْنُ إِبْرَاہِیمَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَۃَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِی عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بِمَکَّۃَ خَمْسَ عَشَرَۃَ سَنَۃً یَسْمَعُ الصَّوْتَ وَیَرَی الضَّوْئَ سَبْعَ سِنِینَ وَلاَ یَرَی شَیْئًا وَثَمَانَ سِنِینَ یُوحَی إِلَیْہِ وَأَقَامَ بِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا وَفِی رِوَایَۃِ حَجَّاجِ بْنِ مِنْہَالٍ سَبْعًا یَرَی الضَّوْئَ وَیَسْمَعُ الصَّوْتَ وَثَمَانِیًا یُوحَی إِلَیْہِ وَأَقَامَ بِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ۔ [مسلم ۲۳۵۳] قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ : وَإِلَی مِثْلِ ہَذَا ذَہَبَ الْحَسَنُ فِی قَدْرِ مَا کَانَ یُوحَی إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- بِمَکَّۃَ فَعَلَی ہَذَا التَّفْصِیلِ یَکُونُ إِسْلاَمُ عَلِیٍّ بَعْدَ السِّنِینَ السَّبْعِ وَہُوَ بَعْدَ مَا أُوحِی إِلَی النَّبِیِّ -ﷺ- فَیَکُونُ مُقَامُہُ بِمَکَّۃَ بَعْدَ الْوَحْیِ ثَمَانَ سِنِینَ فَیَکُونُ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَلَی قَوْلِ مَنْ قَالَ قُتِلَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ سَنَۃً عَلِی رَأْسِ أَرْبَعِینَ مِنْ مُہَاجَرِ رَسُولِ اللَّہِ -ﷺ- حِینَ أَسْلَمَ ابْنُ خَمْسَ عَشَرَۃَ سَنَۃً کَمَا رُوِّینَا عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ إِلاَّ أَنَّ الرِّوَایَاتِ الْمَشْہُورَۃَ فِی مُقَامِ النَّبِیِّ -ﷺ- بِمَکَّۃَ بَعْدَ الْوَحْیِ تَدُلُّ عَلَی أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔ [بخاری ۳۵۴۷۔ مسلم ۲۲۳۷]
(١٢١٦٦) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں پندرہ سال ٹھہرے وہ آواز سنتے تھے اور روشنی دیکھتے تھے، سات سال کی عمر میں اور آٹھویں برس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی گئی اور مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس سال ٹھہرے۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں : اسی کی طرف حسن گئے ہیں کہ جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ میں وحی نازل کی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی (رض) کا اسلام سات سال بعد کا ہے، پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکہ میں ٹھہرنا وحی کے بعد آٹھ سال کا عرصہ ہے اور مدینہ میں ١٠ سال ہے، حجاج بن منہال کی روایت میں سات سال ہے، وہ روشنی دیکھتے تھے اور آواز سنتے تھے، آپ (رض) آٹھ سال کے تھے، جب آپ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کی طرف وحی کی گئی اور مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال قیام کیا۔
امام احمد (رح) فرماتے ہیں، حضرت حسن بصری (رح) وغیرہ نے مکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی سے اندازہ لگایا ہے کہ حضرت علی (رض) سات سال کی عمر کے بعد مسلمان ہوئے (یعنی جب اسلام لائے تو عمر سات سال سے زیادہ تھی) اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے بعد ہے، مکہ میں وحی کے بعد آٹھ سال رہے تو اس لحاظ سے ان کے قول کے مطابق حضرت علی (رض) کی عمر شہادت کے وقت تریسٹھ برس تھی تو اس کا آغاز ہجرت نبوی کے چالیسویں سال سے ہے) ، جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی عمر پندرہ سال تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ قیام اور وحی کے بعد مشہور روایات کافی تعداد میں ہیں۔

12172

(۱۲۱۶۷) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّہِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِیہُ أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ : الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا : أَنَّ النَّبِیَّ -ﷺ- لَبِثَ بِمَکَّۃَ عَشْرَ سِنِینَ یُنْزَلُ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرَ سِنِینَ یُنْزَلُ عَلَیْہِ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ۔ وَکَذَا رَوَاہُ رَبِیعَۃُ بْنُ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ۔ [بخاری ۳۵۴۷]
(١٢١٦٧) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس سال ٹھہرے۔ آپ پر قرآن نازل کیا جاتا تھا اور مدینہ میں بھی دس سال آپ پر قرآن نازل کیا جاتا تھا۔

12173

(۱۲۱۶۸) وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ السَّمَّاکِ حَدَّثَنَا حَنْبَلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا سُرَیْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی جَمْرَۃَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ : أَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃً وَبِالْمَدِینَۃِ عَشْرًا وَمَاتَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثَ وَسِتِّینَ۔ أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْہٍ آخَرَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ۔ وَکَذَلِکَ رَوَاہُ عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ وَعِکْرِمَۃُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔ [بخاری ۳۵۳۶]
(١٢١٦٨) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے اور مدینہ میں دس سال اور جب فوت ہوئے تو تریسٹھ برس عمر تھی۔

12174

(۱۲۱۶۹) أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ: مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الْبَزَّازُ الطَّابِرَانِیُّ بِہَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَنْصُورٍ الطُّوسِیُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الصَّائِغُ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَۃَ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِینَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَکَثَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ سَنَۃَ وَتُوُفِّیَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَطَرِ بْنِ الْفَضْلِ وَرَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ کِلاَہُمَا عَنْ رَوْحٍ۔
(١٢١٦٩) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ سال ٹھہرے اور جب فوت ہوئے تو تریسٹھ برس عمر تھی۔

12175

(۱۲۱۷۰) وَأَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ الطَّابِرَانِیُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : بُعِثَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- وَہْوَ لأَرْبِعِینَ سَنَۃً فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ یُوحَی إِلَیْہِ ثُمَّ أُمِرَ بِالْہِجْرَۃِ فَہَاجَرَ عَشْرَ سِنِینَ وَمَاتَ وَہُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی الصَّحِیحِ عَنْ مَطَرِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ رَوْحٍ۔ وَأَمَّا الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَدِ اخْتَلَفَتِ الرِّوَایَۃُ فِی مَبْلَغِ سِنِّہِ یَوْمَ أَسْلَمَ عَنْ عُرْوَۃَ
(١٢١٧٠) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس برس کی عمر میں نبوت ملی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تیرہ برس ٹھہرے۔ آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔ پھر ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال ہجرت میں گزارے اور فوت ہوئے تو اس وقت تریسٹھ برس عمر تھی۔

12176

(۱۲۱۷۱) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ دُرُسْتُوَیْہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ سُفْیَانَ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِی أَبُو الأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : أَسْلَمَ الزُّبَیْرُ وَہُوَ ابْنُ ثَمَانِ سِنِینَ۔ وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَیْنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ حَدَّثَنَا یُوسُفُ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَۃَ عَنْ ہِشَامٍ أَخْبَرَنِی أَبِی : أَنَّ الزُّبَیْرَ أَسْلَمَ یَوْمَ أَسْلَمَ وَہُوَ ابْنُ سِتَّ عَشْرَۃَ سَنَۃً فَمَا تَخَلَّفَ عَنْ غَزْوَۃٍ غَزَاہَا رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- قَطُّ وَقُتِلَ وَہُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَسِتِّینَ سَنَۃً۔ [صحیح]
(١٢١٧١) عروہ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر (رض) جب اسلام لائے تو ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ ہشام کہتے ہیں : مجھے میرے باپ نے خبر دی کہ زبیر (رض) چھ سال کی عمر میں اسلام لائے، کسی غزوے میں پیچھے نہ رہے اور وفات کے وقت ساٹھ سے زائد برس عمر تھی۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔