hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

27. جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان

مشكاة المصابيح

1625

صحیح
جنازہ کے ساتھ پیادہ چلنا اور سوار چلنا دونوں جائز ہیں لیکن پیادہ چلنا افضل ہے۔ اگر کوئی شخص جنازہ کے ساتھ سواری پر چلے تو اسے چاہئے کہ وہ جنازہ کے پیچھے پیچھے چلے ہاں پیادہ چلنے والے کے لئے جنازہ کے آگے چلنا بھی جائز ہے اور پیچھے بھی لیکن اس کے لئے پیچھے ہی چلنا افضل ہے۔

1626

صحیح
جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں تو سب کے ذمہ سے فرضیت ساقط ہوجائے گی ورنہ تو بصورت دیگر سب ہی گناہگار ہوں گے۔

1627

صحیح
نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی تین شرطیں ہیں (١) میت کا مسلمان ہونا (٢) طہارت میت یعنی میت کا نہلایا ہوا ہونا (٣) جنازہ کا نمازیوں کے آگے رکھا ہوا ہونا لہٰذا تیسری شرط کا مطلب یہ ہوا کہ نہ تو جنازہ کی نماز غائبانہ پڑھنا جائز ہے اور نہ اس جنازہ کی نماز جائز ہے جو جانور کی پیٹھ پر یا لوگوں کے کاندھے پر ہو اسی طرح اس جنازہ کی نماز بھی جائز نہیں ہے جو نمازیوں کے پیچھے رکھا ہوا ہو۔ اگر کوئی میت بغیر نہلائے دفن کردی جائے اور اسے قبر کھودے بغیر باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں طہارت کی شرط ساقط ہوجاتی ہے لہٰذا اس کی نماز جنازہ نہلائے بغیر ہی اس کی قبر پر ادا کی جائے اور اگر میت کو باہر نکالنا ممکن ہو تو پہلے اسے باہر نکال کر نہلایا جائے پھر اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے۔ اگر نادانستہ طور پر بغیر غسل کے کسی میت کی نماز جنازہ ادا کردی گئی اور پھر قبر کھودے بغیر اسے باہر نکال کر غسل دیا گیا تو اس کی نماز جنازہ دوبارہ پڑھی جائے۔

1628

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابك
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنازہ لے کر جلدی چلو، کیونکہ اگر وہ جنازہ نیک (آدمی کا) ہے تو (اس کے لئے) بھلائی ہے لہٰذا اسے نیکی و بھلائی کی طرف (جلد) پہنچا دو اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو برا ہے لہٰذا اسے (جلد سے جلد) اپنی گردنوں سے اتار کر رکھ دو ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
جنازہ لے کر جلدی چلو کا مطلب یہ ہے کہ جب دفن کرنے کے لئے جنازہ کو لے کر چلو تو جلدی جلدی چلو، آہستہ آہستہ قدم نہ اٹھاؤ لیکن جلدی سے دوڑنا مراد نہیں ہے بلکہ متوسط چال مراد ہے کہ قدم جلد جلد اٹھیں اور پاس پاس رکھے جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ جنازہ لے کر چلنے کی چال معمولی چال سے تو بڑھی ہوئی ہو اور دوڑنے سے کم ہو۔ اگر وہ جنازہ نیک آدمی کا ہے الخ یہ جلدی چلنے کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے کہ تم جس شخص کا جنازہ لے کر چل رہے ہو اگر اس کی زندگی اچھے احوال اور اچھے اعمال کے ساتھ گزری ہے تو اسے جلد جلد لے کر چلو تاکہ وہ آخرت کے ثواب اور حق تعالیٰ کی رحمت تک جلد سے جلد پہنچ جائے اور اگر وہ جنازہ کسی ایسے شخص کا ہے جس کی زندگی برے احوال اور برے اعمال کے ساتھ گزری ہے تو بھی جلد جلد چلو تاکہ برے کو جلد اپنے کاندھوں سے اتار پھینکو۔

1629

صحیح
وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم فإن كانت صالحة قالت : قدموني وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها : يا ويلها أين يذهبون بها ؟ يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمع الإنسان لصعق . رواه البخاري
حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب جنازہ تیار کیا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ جنازہ نیک بخت (آدمی کا) ہوتا ہے تو اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ (مجھے میری منزل کی طرف) جلد لے چلو اور اگر بدبخت (آدمی کا) جنازہ ہوتا ہے تو اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ ہائے افسوس ! مجھے کہاں لئے جاتے ہو ! جنازہ کی اس آواز کو سوائے انسان کے ہر چیز سن سکتی ہے، اگر انسان اس آواز کو سن لے تو بےہوش ہو کر گرپڑے یا مرجائے۔

تشریح
نیک بخت یعنی مومن جب مرتا ہے اور اس کا جنازہ تیار ہوجاتا ہے تو چونکہ جنت کی نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رحمتیں دیکھتا ہے اس لئے اپنے آپ کو جلدی لے چلنے کے لئے کہتا ہے اس کے برخلاف جب بدبخت انسان موت کی گود میں پہنچ جاتا ہے اور اس کا جنازہ تیار کیا جاتا ہے تو چونکہ وہ عذاب کو سامنے دیکھتا ہے اس لئے واویلا کرتا ہے اور اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے عذاب کی طرف کیوں لے جا رہے ہو۔ علماء لکھتے ہیں کہ مردہ اس وقت حقیقتاً کلام کرتا ہے اگرچہ اس کی روح نکل چکی ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان اس کی آواز کی سماعت نہیں کرسکتا جب کہ دوسری مخلوقات اس کی آواز سنتی ہیں اور یہ چیز کوئی غیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ مردہ اپنی قبر میں سوال و جواب کے لئے زندہ کیا جاتا ہے۔

1630

صحیح
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا رأيتم الجنازة فقوموا فمن تبعها فلا يقعد حتى توضع
حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ رہے تو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ ( لوگوں کے کاندھے سے زمین پر یا قبر میں) رکھ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب جنازہ گھر میں سے نکلے تو میت کے احترام اور اس کے ایمان کی تعظیم کے پیش نظر کھڑا ہوجانا چاہئے گویا اس ارشاد گرامی میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے موقع پر بےپرواہ نہ ہوجانا چاہئے بلکہ جنازہ دیکھتے ہی بےقرار ہو کر اور ڈر کر اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے زمین پر بیٹھا نہ جائے بلکہ ک اندھا دینے کے لئے جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے۔ بعض حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جنازہ کے ساتھ جانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اکثر علماء کے نزدیک اس کے لئے جنازہ دیکھ کر اٹھ کر کھڑے رہنا مکروہ ہے۔ جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے کہ چاہے تو کھڑا رہے اور چاہے بیٹھا رہے۔ اسی طرح بعض علماء کا یہ بھی قول ہے کہ یہ دونوں ہی (یعنی کھڑے ہوجانا اور بیٹھے رہنا) مستحب ہیں جمہور علماء فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث دونوں ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت کی بنا پر جو آگے آرہی ہے منسوخ ہیں۔

1631

صحیح
وعن جابر قال : مرت جنازة فقام لها رسول الله صلى الله عليه و سلم وقمنا معه فقلنا : يا رسول الله إنها يهودية فقال : إن الموت فزع فإذا رأيتم الجنازة فقوموا
حضرت جابر (رض) سے راوی ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو رسول کریم ﷺ اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، پھر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا ! (کسی مسلمان کا جنازہ تو تھا نہیں کہ جس کی تعظیم و تکریم کے لئے اٹھا جاتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا موت خوف اور گھبراہٹ کی چیز ہے جب تم جنازہ دیکھو تو (اگرچہ وہ جنازہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو اٹھ کھڑے ہو ۔ (بخاری ومسلم)

1632

صحیح
وعن علي رضي الله عنه قال : رأينا رسول الله صلى الله عليه و سلم قام فقمنا وقعد فقعدنا يعني في الجنازة . رواه مسلم وفي رواية مالك وأبي داود : قام في الجنازة ثم قعد بعد
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوتے دیکھا چناچہ ہم بھی کھڑے ہوگئے جب آپ بیٹھے ہم بیٹھ گئے۔ (مسلم) اور حضرت مالک اور حضرت ابوداؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے اور اس کے بعد بیٹھے۔

تشریح
پہلی روایت کے جو امام مسلم (رح) نے نقل کی ہے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے جب جنازہ گزر گیا اور نظروں سے غائب ہوگیا تو آپ ﷺ بھی بیٹھ گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی بیٹھ گئے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کچھ عرصہ تک تو آپ کا معمول یہ رہا کہ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ صورت رہی کہ آپ جنازہ دیکھ کر اٹھتے نہیں تھے بلکہ بیٹھے ہی رہا کرتے تھے۔ اسی طرح دوسری روایت کے بھی کہ جسے حضرت امام مالک اور حضرت امام ابوداؤد نے نقل کیا ہے یہی دونوں مطلب ہیں اور دوسرا مطلب ہی زیادہ صحیح ہے۔

1633

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا وكان معه حتى يصلي عليها ويفرغ من دفنها فإنه يرجع من الأجر بقيراطين كل قيراط مثل أحد ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن فإنه يرجع بقيراط
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے (یعنی فرمان شریعت پر عمل کرنے کی غرض سے) اور طلب ثواب کی خاطر جائے اور جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کی تدفین سے فراغت پائے تو وہ شخص دو قیراط ثواب لے کر واپس ہوتا ہے جس میں سے ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو شخص صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر آجائے اور تدفین میں شریک نہ ہو تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر واپس ہوتا ہے ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
قیراط دینار کے بارھویں حصہ کو کہتے ہیں جس کا وزن تقریبا چار جو کے برابر ہوتا ہے یہاں قیراط سے مراد حصہ عظیم یعنی بہت بڑا انبار ہے جس کو احد پہاڑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

1634

صحیح
وعن أبي هريرة : أن النبي صلى الله عليه و سلم نعى للناس النجاشي اليوم الذي مات فيه وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم وكبر أربع تكبيرات
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نجاشی کے انتقال کی خبر لوگوں کو اسی روز پہنچائی جس دن کہ اس کا انتقال ہوا تھا پھر صحابہ (رض) کے ہمراہ عید گاہ پر تشریف لے گئے وہاں سب کے ہمراہ نماز جنازہ کے لئے صف بندی فرمائی اور چار تکبیریں کہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا اس نجاشی بادشاہ کا نام کہ جس کے جنازہ کی آنحضرت ﷺ نے نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی اصحمہ تھا۔ یہ پہلے تو دین نصاریٰ کے پیرو تھے مگر بعد میں آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لائے۔ جب کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ پر اور آپ کے صحابہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور مکہ میں ان کی زندگی اجیرن بنادی تو آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں چناچہ صحابہ (رض) کی ایک بہت بڑی تعداد اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کو ہجرت کرگئی مسلمانوں کی یہی سب سے پہلی ہجرت تھی حبشہ میں اس وقت یہی اصحمہ نامی نجاشی بادشاہ تخت سلطنت پر تھے۔ انہوں نے صحابہ (رض) کی بہت اعلیٰ پیمانہ پر پذیرائی کی اور ان کی خدمت کو اپنے لئے باعث سعادت جان کر حق میزبانی ادا کیا۔ چناچہ جب ان کا انتقال ہوا تو آنحضرت ﷺ کو بہت زیادہ صدمہ ہوا اور آپ ﷺ نے صحابہ کو ان کے انتقال کی خبر دی اور سب کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور وہاں ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

1635

صحیح
ہدایہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں جو جماعت پنجگانہ کے لئے بنائی گئی ہو جنازہ کی نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص مسجد میں میت پر نماز پڑھے گا تو اسے ثواب نہیں ملے گا۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ خلاصہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے خواہ جنازہ اور نمازی دونوں مسجد میں ہوں خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو اور سب نمازی یا تھوڑے نمازی مسجد کے باہر ہوں۔ ہاں البتہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں مکروہ نہیں ہے جب کہ جنازہ مسجد سے باہر رکھا ہوا ہو۔ پھر اس کے بعد کراہت کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ کراہت تحریمی ہے۔ جب کہ بعض حضرات کا قول ہے کہ کراہت تنزیہی ہے۔

1636

صحیح
حضرات شوافع اس حدیث کو اپنے مسلک کا مستدل قرار دیتے ہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ جائز ہے چونکہ حنفیہ کے نزدیک نماز جنازہ غائبانہ جائز نہیں ہے اس لئے ان کی طرف سے اس حدیث کی تاویل کی جاتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نجاشی کا جنازہ آنحضرت ﷺ کے سامنے کردیا گیا ہو، کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات اس پر قادر ہے کہ درمیان میں حائل پہاڑو جنگلات اور درودیوار ہٹا دیئے گئے ہوں اور آنحضرت ﷺ نجاشی کا جنازہ دیکھ رہے ہوں۔ لہٰذا یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہوئی دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جنازہ غائبانہ ادا کریں چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول بغیر اسناد کے منقول ہے کہ سریر یعنی نجاشی کا جنازہ کھولا گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اسے دیکھا اور اس پر نماز پڑھی۔

1637

صحیح
وعن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال : كان زيد بن أرقم يكبر على جنائزنا أربعا وإنه كبر على جنازة خمسا فسألناه فقال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يكبرها . رواه مسلم
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم (رض) ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔ (مسلم)

تشریح
حضرت زید بن ارقم کے ارشاد کہ آنحضرت ﷺ پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ ابتدائی زمانہ میں پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے یا یہ کہ کبھی کبھی پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہے کہ نماز جنازہ میں چار ہی تکبیریں ہیں اگرچہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام (رض) سے چار سے زائد تکبیریں بھی منقول ہیں لیکن علماء لکھتے ہیں کہ آخر میں آپ ﷺ سے چار ہی تکبیریں ثابت ہیں لہٰذا جن روایتوں میں چار سے زائد تکبیریں منقول ہیں وہ منسوخ ہیں اگر حضرت زید (رض) ان روایتوں کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں تو اس اتفاقی اور اجماعی فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

1638

صحیح
وعن طلحة بن عبد الله بن عوف قال : صليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ فاتحة الكتاب فقال : لتعلموا أنها سنة . رواه البخاري
حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف (طابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی چناچہ انہوں نے (تکبیر اولیٰ کے بعد) سورت فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے سورت فاتحہ اس لئے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے۔ (بخاری)

تشریح
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کے بجائے سورت فاتحہ پڑھی جائے تو یہ سورت فاتحہ سنت (یعنی سبحانک اللہم الخ پڑھنے) کے قائم مقام ہوجاتی ہے۔ محقق امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کی قرأت نہ کی جائے ہاں بہ نیت ثنا سورت فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے چناچہ نماز جنازہ میں آنحضرت ﷺ سے سورت فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نیز موطا میں منقول ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نماز جنازہ میں سورت فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ چونکہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے الفاظ انہا سنۃ (یہ سنت ہے) میں سنت سے مراد ہے کہ سورت فاتحہ پڑھنا دین کا ایک مشروع طریقہ ہے لہٰذا ان کی اس تاویل سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔

1639

صحیح
وعن عوف بن مالك قال : صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم على جنازة فحفظت من دعائه وهو يقول : اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وأدخله الجنة وأعذه من عذاب القبر ومن عذاب النار . وفي رواية : وقه فتنة القبر وعذاب النار قال حتى تمنيت أن أكون أنا ذلك الميت . رواه مسلم
حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی۔ میں نے آپ ﷺ کی وہ دعا یاد کرلی جو آپ (تیسری تکبیر کے بعد) فرماتے ہیں کہ (اور وہ یہ ہے) دعا (اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس وابدلہ دارا خیرا من دارہ واہلا خیرا من اہلہ وزوجا خیرا مجن زوجہ وادخلہ الجنۃ واعذہ من عذاب القبر ومن عذاب النار) ۔ (اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس پر رحم فرما (یعنی اس عبادات و طاعات قبول فرما) اسے عافیت میں رکھ، اس کی (لغزشوں) سے درگزر فرما (جنت میں) اس کی اچھی مہمانی کر، اس کی قبر کشادہ فرما، اس کو پانی سے برف سے اور اولے سے پاک کر دے (یعنی طرح طرح کی مغفرتوں سے اس کے گناہ صاف کرا دے اسے گناہوں سے پاکیزہ فرما دے) جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اسے (دنیا کے) اس گھر سے (آخرت کا) بہتر گھر عطا فرما اس کے خادموں سے بہتر خادم عطا فرما اور اس بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما، اسے (بغیر عذاب کے ابتداء ہی میں) جنت میں داخل کر اور اسے قبر کے عذاب سے یا فرمایا کہ دوزخ کے عذاب سے پناہ دے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ اس کے قبر کے فتنہ سے یعنی فرشتوں کے جواب میں متحیر ہونے سے اور آگے کے عذاب سے بچا۔ حضرت عوف (رح) فرماتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے اس میت کے لئے یہ دعا سنی تو مجھے بڑا رشک آیا اور بےاختیار میرے دل سے یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش یہ میری میت ہوتی تاکہ آنحضرت ﷺ یہ دعا میرے لئے فرماتے۔

تشریح
اس کی بیوی سے بہتر بیوی، سے جس طرح جنت کی حوریں مراد ہیں اسی طرح دنیا کی عورتیں بھی مراد ہیں، لہٰذا اس بارے میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جنت میں دنیا کی عورتیں اپنے نماز روزے کی وجہ سے جنت میں حوروں سے افضل ہوں گی جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ فقہ میں لکھا ہے کہ اس دعا کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے آنحضرت ﷺ نے یہ دعا بآواز بلند اس لئے پڑھی تھی تاکہ اسے دوسرے سن کر یاد کرلیں۔ یہ دعا نسائی اور ترمذی نے بھی نقل کی ہے اور امام بخاری نے فرمایا ہے کہ جنازہ کے سلسلہ میں میت کے لئے جو دعائیں منقول ہیں ان سب میں یہ دعا سب سے زیادہ صحیح ہے۔

1640

صحیح
وعن أبي سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة لما توفي سعد بن أبي وقاص قالت : أدخلوا به المسجد حتى أصلي عليه فأنكر ذلك عليها فقالت : والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه و سلم على ابني بيضاء في المسجد : سهيل وأخيه . رواه مسلم
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا انتقال ہوا (اور ان کا جنازہ ان کے مکان سے بقیع میں دفن کے لئے لایا گیا) تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز پڑھ سکوں لوگوں نے اس سے انکار کیا (کہ مسجد میں جناز کی نماز کیسے پڑھی جاسکتی ہے) حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! آنحضرت ﷺ نے بیضا کے دونوں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ہے۔ (مسلم)

تشریح
سہیل کے بھائی کا نام سہل تھا اور ان دونوں کی ماں کا نام بیضاء تھا۔ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کردیا کہ سعد ابی وقاص (رض) کا جنازہ مسجد میں لایا جائے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ ﷺ نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔ جہاں تک حضرت عائشہ (رض) کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے اس لئے آپ ﷺ نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چناچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ چونکہ اعتکاف میں تھے اس لئے آپ ﷺ نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔

1641

صحیح
وعن سمرة بن جندب قال : صليت وراء رسول الله صلى الله عليه و سلم على امرأة ماتت في نفاسها فقام وسطها
حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے پیچھے ایک عورت کے جنازہ کی نماز پڑھی جو حالت نفاس میں انتقال کرگئی تھی چناچہ آپ ﷺ نماز کے لئے جنازہ کے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت امام شافعی کا مسلک تو یہ ہے کہ عورت کے جنازہ کی نماز میں امام میت کے کو لہوں کے سامنے کھڑا ہو اور مرد کے جنازہ کی نماز میں میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو، چناچہ عورت کی نماز جنازہ کے بارے میں تو حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے جب کہ مرد کی نماز جنازہ کے بارے میں وہ اپنا مسلک ایک دوسری حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ امام میت کے سینہ کے سامنے کھڑا ہو کر خواہ مرد کا ہو یا عورت کا جنازہ ہو۔ اس حدیث کے بارے میں حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میت کے سینہ کے سامنے کھڑے ہونے کی منافی نہیں کیونکہ انسانی جسم اعضاء کے اعتبار سے دراصل سینہ ہی وسط ہے بایں طور کہ سینہ کے اوپر سر اور ہاتھ ہیں اور سینہ کے نیچے پیٹ اور پاؤں ہیں اور ان سب کے درمیان سینہ ہے، نیز یہ احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ اس موقع پر سینہ کے سامنے کو لہوں کی طرف تھوڑا مائل کھڑے ہوں گے اور چونکہ یہ دونوں حصے یعنی سینہ اور کو لھے آپس میں بالکل قریب قریب ہیں اس لئے راوی نے یہ گمان کرلیا ہو کہ آپ کو لہوں کے سامنے کھڑے تھے۔ شمنی (رح) نے کہا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور حضرت امام ابویوسف کی روایت بھی یہ ہے کہ عورت کی جنازہ کی نماز میں امام میت کے کو لہوں کے سامنے کھڑا ہو۔ واللہ اعلم۔

1642

صحیح
وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر بقبر دفن ليلا فقال : متى دفن هذا ؟ قالوا : البارحة . قال : أفلا آذنتموني ؟ قالوا : دفناه في ظلمة الليل فكرهنا أن نوقظك فقام فصففنا خلفه فصلى عليه
حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کا ایک ایسی قبر پر گزر ہوا جس میں بوقت شب مردہ دفن کیا گیا تھا آپ نے پوچھا کہ یہ کب دفن کیا گیا ہے ؟ صحابہ (رض) نے جواب دیا کہ آج ہی رات میں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اسے اندھیری رات میں دفن کیا تھا اس وقت آپ کو جگانا ہمیں اچھا نہیں معلوم ہوا ۔ پھر آنحضرت ﷺ کھڑے ہوئے ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی چناچہ آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری ومسلم)

1643

صحیح
وعن أبي هريرة أن امرأة سوداء كانت تقم المسجد أو شاب ففقدها رسول الله صلى الله عليه و سلم فسأل عنها أو عنه فقالوا : مات . قال : أفلا كنتم آذنتموني ؟ قال : فكأنهم صغروا أمرها أو أمره . فقال : دلوني على قبره فدلوه فصلى عليها . قال : إن هذه القبور مملوءة ظلمة على أهلها وإن الله ينورها لهم بصلاتي عليهم . ولفظه لمسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد (نبوی) میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا راوی کہتے ہیں کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا، رسول کریم ﷺ نے ایک دن اسے غائب پایا تو اس عورت، یا مرد کے بارے میں دریافت فرمایا کہ وہ کہاں ہے ؟ بتایا گیا کہ وہ مرگئی یا وہ مرگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے کیوں نہیں بتایا گیا ؟ تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا، حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس عورت یا اس مرد کی موت کوئی اہمیت نہیں دی (کہ جس کے لئے آنحضرت ﷺ کو تکلیف دی جاتی گویا آنحضرت ﷺ کی تعظیم مقصود تھی) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس کی قبر بتادو کہ کہاں ہے ؟ آپ کو جب اس کی قبر بتائی گئی تو (آپ وہاں تشریف لے گئے اور) اس کی قبر پر نماز پڑھی اور پھر فرمایا کہ یہ قبریں اپنے مردوں کے لئے تاریکیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ان قبروں پر میرے نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں روشن کردیتا ہے (اس روایت کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔

تشریح
ایک کالی عورت تھی یا ایک جوان مرد تھا یہ درحقیقت راوی کا شک ہے کہ صحیح طریقہ سے یہ بات یاد نہیں رہی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ فرمایا تھا کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا یہ فرمایا کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا۔ تاریکیوں سے بھری ہوئی قبروں سے مراد صرف وہ قبریں ہیں جن پر آنحضرت ﷺ کا نماز پڑھنا ممکن تھا۔ اس مسئلہ میں کہ قبروں پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ علماء کا اختلاف ہے چناچہ جمہور علماء کا فیصلہ تو یہ ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے خواہ پہلے اس کی نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہو یا نہ ادا کی گئی ہو۔ ابراہیم نخعی، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اگر پہلے نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہے تو اب قبر پر نماز درست نہیں اور اگر پہلے نماز جنازہ ادا نہ کی گئی ہو تو پھر جائز ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ کی شرط یہ بھی ہے کہ اگر مردہ اپنی قبر میں پھٹ نہ گیا ہو تو نماز درست ہوگی ورنہ تو قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کی صورت میں نماز درست نہیں ہوگی۔ قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کا اندازہ بعض حضرات نے تین دن متعین کیا ہے یعنی اگر تدفین کو تین دن نہ گزرے ہوں تو سمجھا جائے گا کہ مردہ اپنی قبر میں ابھی پھٹا نہیں ہے اور اگر تدفین کو تین دن یا تین دن سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردہ اپنی قبر میں پھٹ گیا ہے۔

1644

صحیح
وعن كريب مولى ابن عباس عن عبد الله بن عباس أنه مات له ابن بقديد أو بعسفان فقال : يا كريب انظر ما اجتمع له من الناس . قال : فخرجت فإذا ناس قد اجتمعوا له فأخبرته فقال : تقول : هم أربعون ؟ قال : نعم . قال : أخرجوه فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله فيه . رواه مسلم
حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ جب مقام قدید یا مقام عسفاء میں (کہ جو مکہ کے قریب جگہیں ہیں) ان کے صاحبزادے کا انتقال ہوا (اور جنازہ تیار ہوا) تو انہوں نے کہا کہ کریب ! جا کر دیکھو کہ نماز جنازہ کے لئے کتنے آدمی جمع ہوگئے ہیں ؟ حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں (یہ دیکھنے کے لئے) نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ بہت کافی لوگ جمع ہوچکے ہیں میں نے واپس آ کر حضرت ابن عباس کو بتایا (کہ بہت کافی لوگ جمع ہوگئے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تمہارے خیال میں ان لوگوں کی تعداد چالیس ہوگی ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ! حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تو پھر جنازہ (نماز کے لئے) باہر نکالو کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرے اور اس کے جنازہ کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے۔ (مسلم)

1645

صحیح
وعن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ما من ميت تصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة كلهم يشفعون له : إلا شفعوا فيه . رواه مسلم
حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس میت کی نماز جنازہ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت پڑھے جس کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور یہ جماعت میت کے لئے شفاعت کرے (یعنی دعاء مغفرت کرے) تو اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے (یعنی میت کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ (مسلم)

تشریح
پہلی حدیث میں چالیس آدمیوں کے نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب بیان کیا گیا ہے جب کہ دوسری حدیث میں سو آدمیوں کی جماعت کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ چناچہ علماء اس اختلاف کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ پہلے سو آدمیوں کی شرکت کی فضیلت نازل ہوئی ہوگی پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے حال پر رحم فرماتے ہوئے یہ تعداد کم کر کے چالیس آدمیوں کی شرکت کی فضیلت بیان فرمائی نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ان حدیثوں میں چالیس اور سو سے خاص طور پر یہی دونوں عدد نہ ہوں بلکہ ان سے کثرت جماعت مراد ہو۔

1646

صحیح
وعن أنس قال : مروا بجنازة فأثنوا عليها خيرا . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : وجبت ثم مروا بأخرى فأثنوا عليها شرا . فقال : وجبت فقال عمر : ما وجبت ؟ فقال : هذا أثنيتم عليه خيرا فوجبت له الجنة وهذا أثنيتم عليه شرا فوجبت له النار أنتم شهداء الله في الأرض . وفي رواية : المؤمنون شهداء الله في الأرض
حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ (رض) کا ایک جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی تعریف کرنے لگے، نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی زبان میت کی تعریف سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس طرح صحابہ کا ایک دوسرے جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی برائی بیان کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کی زبان سے میت کی برائی سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی تم نے تعریف بیان کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور اب جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو اس کے لئے دوزخ واجب ہوگئی اور (پھر فرمایا کہ) تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔ (بخاری و مسلم) ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مومن اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں۔

تشریح
جنت واجب ہوگئی، کا مطلب یہ ہے کہ تم جس شخص کی تعریف بیان کر رہے ہو اگر اس کی وہ تعریف صحیح اور سچ ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی خیر و بھلائی کی حالت میں ہوئی ہے جیسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لئے جنت کی سعادت ثابت ہوگئی۔ اسی طرح دوزخ واجب ہوگئی۔ کا مطلب بھی یہی ہے کہ جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو۔ اگر اس کی وہ برائی صحیح اور واقعی ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی برائی کی حالت میں ہوئی ہے جسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لئے دوزخ کی سزا ثابت ہوگئی۔ مظہر کا قول ہے کہ یہ حکم عام طور پر ہر شخص کے لئے نہیں ہے کہ جس کسی بھی شخص کے بارے میں لوگ خیر و بھلائی کا ذکر کریں تو اس کے لئے جنت لازم ہی ہوجائے بلکہ جس شخص کے بارے میں لوگ اچھے اور نیک خیالات کا اظہار کریں اور اس کی تعریف بیان کریں تو اس لے لئے جنت کی امید کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے بارے میں لوگ برے خیالات کا اظہار کریں اور زبان خلق اس کی برائی میں مصروف ہو تو اس کے بارے میں یہ خوف ہوسکتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائے اب رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے شخص کے لئے جنت اور دوسرے شخص کے لئے دوزخ کو واجب کیوں کہا ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے پہلے شخص کے جنتی ہونے اور دوسرے شخص کے دوزخی ہونے کے فیصلہ سے مطلع کردیا تھا۔ زین عرف فرماتے ہیں کہ کسی شخص کا خیر و بھلائی اور شر و برائی کے ساتھ ذکر کرنا اس کے لئے جنت و دوزخ کو واجب نہیں کرتا بلکہ درحقیقت کسی شخص کے بارے میں زبان خلق کا بھلا یا برا تاثر صرف اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کی علامت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ اس تعریف اور اس برائی کا اعتبار ہوگا جس کی نیک بخت لوگوں اور متقی و پرہیز گار بندوں کی زبانیں گواہی دیں کیونکہ اللہ کے نیک بخت و متقی بندوں کی زبان اس کے قلب سلیم کی ہمنوا ہوتی ہے لہٰذا وہ جس شخص کی تعریف کریں گے یا جس شخص کی برائی کریں گے اس میں کسی خارجی دباؤ یا نفس کے کسی غلط تقاضا کا قطعی دخل نہیں ہوگا بلکہ ان کے زبانی اثرات اور حقیقت کے صالح قلب کے صحیح فیصلہ کے غماز ہوں گے چناچہ کسی شخص کے بارے میں ان کے تعریف اس شخص کے جنتی ہونے کی علامت ہوگی اور کسی شخص کے بارے میں ان کی بیان کی ہوئی برائی اس شخص کے دوزخی ہونے کی علامت ہوگی۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اگر کوئی فاسق اور دنیا دار شخص نفس کے غلط تقاضا اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کسی برے اور بدکار شخص کی تعریف بیان کرے اور اس کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کرے یا اسی طرح کسی نیک بخت اور مرد مومن کی برائی بیان کرے تو نہ اس کی تعریف کا اعتبار ہوگا اور نہ اس کی بیان کی ہوئی برائی کی کوئی حیثیت ہوگی بلکہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنے نفس کا غلام اور ضمیر فروش ہے جو محض ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر اس شخص کو تو اچھا کہہ رہا ہے جس کی برائی اور بدکاری عیاں تھی اور اس نیک بخت کو برا کہہ رہا ہے جس کی نیک بختی مثالی حیثیت رکھتی تھی۔ انتم شہداء اللہ تم (اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو) آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد اکثر کے اعتبار سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص جیسا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبان سے اسے ویسا ہی کہلواتا ہے یعنی اگر کوئی شخص نیک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں کی زبان سے نیک ہی کہلواتا ہے۔ اور کوئی شخص بدکار ہوتا ہے تو اللہ اپنے بندوں کی زبان سے اس کی بدکاری ہی کی شہادت دلواتا ہے چناچہ بندہ کی یہ شہادت درحقیقت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ جس کے بارے میں جس تاثر کا اظہار کر رہے ہیں وہ واقعۃ ایسا ہی ہے۔

1647

صحیح
وعن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة قلنا : وثلاثة ؟ قال : وثلاثة . قلنا واثنان ؟ قال : واثنان ثم لم نسأله عن الواحد . رواه البخاري
حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو مسلمان کہ گواہی دیں واسطے اس کے چار شخص کے ساتھ بھلائی کے داخل کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ جنت میں۔ کہا ہم نے اگر تین شخص گواہی دیں ؟ فرمایا ! اگر تین بھی گواہی دیں تو بھی ! کہا ہم نے اگر دو گواہی دیں ؟ فرمایا ! ور دو بھی ! پھر نہ پوچھا ہم نے ان سے حال ایک کا۔ (بخاری)

1648

صحیح
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا رواه البخاري
حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے نہ برا کہو مردوں کو اس لئے کہ تحقیق وہ پہنچے ساتھ جزا اس چیز کے کہ آگے بھیجی۔ (بخاری)

1649

صحیح
وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يجمع بين الرجلين في قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول : أيهم أكثر أخذا للقرآن ؟ فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد وقال : أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة . وأمر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا . رواه البخاري
حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ تھے جمع کرتے دو شخصوں کو شہداء احد میں بیچ ایک کپڑے کے پھر فرماتے تھے کس کو ان میں سے زیادہ قرآن یاد ہے پس جب اشارہ کیا جاتا واسطے اس کے آپ ﷺ کی طرف ان میں سے آگے کرتے اس کو قبر میں اور فرماتے کہ میں گواہی دوں گا دن قیامت کے اور حکم فرمایا ساتھ دفن کرنے ان کے خون سمیت اور نماز پڑھی ان پر اور نہ غسل دئیے گئے۔ (بخاری)

1650

صحیح
وعن جابر بن سمرة قال : أتى النبي صلى الله عليه و سلم بفرس معرور فركبه حين انصرف من جنازة ابن الدحداح ونحن نمشي حوله . رواه مسلم
حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ لایا گیا نبی ﷺ کے پاس گھوڑا بغیر زین کے پس سوار ہوئے اس پر اس وقت کے پھر جنازہ ابن دحداح کے سے اور ہم چلتے تھے گرد حضرت ﷺ کے۔ (مسلم)

1651

صحیح
وعن المغيرة بن شعبة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة . رواه أبو داود وفي رواية أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه قال : الراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه وفي المصابيح عن المغيرة بن زياد
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سوار چلے پچھلے جنازہ کے اور پیادہ چلے پچھلے جنازہ کے اور آگے اس کے اور دائیں اور بائیں اس کے پاس اس کے اور کچھا بچا نماز پڑھی جائے اس پر اور دعا کی جائے واسطے ماں باپ اس کے ساتھ بخشش اور رحمت کے ( ابوداؤد) اور بیچ روایت احمد اور ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ کے یوں ہے کہ فرمایا سوار چلے پیچھے جنازے کے اور پیادہ جس طرف چاہے جنازے کے چلے اور لڑکا کہ مرجائے نماز جنازے کی پڑھی جائے اس پر اور مصابیح میں یہ روایت مغیرہ بن زیاد سے ہے۔

1652

صحیح
وعن الزهري عن سالم عن أبيه قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبا بكر وعمر يمشون أمام الجنازة . رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وقال الترمذي وأهل الحديث كأنهم يرونه مرسلا
زہری (رح) سے روایت ہے کہ روایت کی سالم سے اس نے اپنے باپ سے کہا کہ عبداللہ نے دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اور ابوبکر اور عمر کو چلتے تھے آگے جنازے کے (احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اور کہا ترمذی نے اور اہل حدیث گویا جانتے ہیں اس حدیث کو مرسل۔

1653

ضعیف
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الجنازة متبوعة ولا تتبع ليس معها من تقدمها . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه وقال الترمذي وأبو ماجد الراوي رجل مجهول
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جنازہ متبوع ہے اور نہیں وہ تابع نہیں ہوتا ساتھ اس کے وہ شخص کہ آگے بڑھ گیا اس سے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، کہا ترمذی نے ابوماجد راوی مجہول ہے۔

1654

ضعیف
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من تبع جنازة وحلمها ثلاث مرات : فقد قضى ما عليه من حقها . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص ساتھ ہو وے جنازے کے اور اٹھائے اس کو پس تحقیق ادا کیا حق اس کا اس پر تھا۔ (ترمذی) اور کہا یہ حدیث غریب ہے تحقیق روایت کی شرح السنۃ میں کہ نبی ﷺ نے اٹھایا جنازہ سعد بن معاذ کا درمیان دو لکڑیوں کے۔

1655

ضعیف
وعن ثوبان قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في جنازة فرأى ناسا ركبانا فقال : ألا تستحيون ؟ إن ملائكة الله على أقدامهم وأنتم على ظهور الدواب . رواه الترمذي وابن ماجه وروى أبو داود نحوه وقال الترمذي : وقد روي عن ثوبان موقوفا
ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نکلے ہم ساتھ نبی ﷺ کے بیچ جنازے کے پس لوگوں کو سوار دیکھا فرمایا کیا نہیں جیا کرتے تم کہ تحقیق فرشتے اللہ کے اپنے قدموں پر ہیں اور تم اوپر پیٹھ جانوروں کے ہو (ترمذی، ابن ماجہ) اور روایت کی ابوداؤد نے مانند اس کی کہا ترمذی نے اور تحقیق روایت کی گئی یہ ثوبان سے موقوف۔

1656

ضعیف
وعن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه و سلم قرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے پڑھی جنازہ پر سورت فاتحہ، (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

1657

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا صليتم على الميت فأخلصوا له الدعاء . رواه أبو داود وابن ماجه
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس وقت تم پڑھو نماز میت پر پس خالص کرو اس کے لئے دعا۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ)

1658

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا صلى على الجنازة قال : اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا . اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان . اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده . رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تھے رسول اللہ ﷺ جب پڑھتے نماز جنازہ فرماتے یا الٰہی بخشش کر واسطے ہمارے زندوں کے اور ہمارے مردوں کے اور حاضر ہمارے کے اور غائب ہمارے کے اور ہمارے چھوٹوں کے اور ہماری عورتوں کے یا الٰہی جس کو زندہ رکھے تو ہم میں سے پس زندہ رکھ اس کو اسلام پر اور جس کو مارے تو ہم میں سے پس مار اس کو ایمان پر۔ یا الٰہی نہ محروم رکھ ہم کو ثواب اس کے سے اور نہ فتنہ میں ڈال ہم کو پیچھے اس کے۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) اور روایت کی نسائی نے ابوابراہیم اشہلی سے کہ اس نے نقل کیا اپنے باپ سے اور تمام ہوئی روایت اس کی وانثانا تک اور بیچ روایت ابی داؤد کے پس زندہ رکھ اس کو ایمان پر اور وفات دے اس کو اسلام پر اور اس حدیث کے آخر میں یوں ہے کہ نہ گمراہ کر ہم کو اس کے پیچھے۔

1659

صحیح
وعن واثلة بن الأسقع قال : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على رجل من المسلمين فسمعته يقول : اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحق اللهم اغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم . رواه أبو داود وابن ماجه
حضرت واثلہ بن اسقع (رض) سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص پر مسلمانوں میں سے پس سنا میں نے آپ ﷺ کو فرماتے تھے یا الٰہی تحقیق فلاں بیٹا فلانے کا بیچ امان تیری کے ہے اور تیری پناہ کے ہے پس بچا اس کو فتنہ قبر سے اور آگ کے عذاب سے اور تو صاحب وفا کا ہے اور تو صاحب حق کا ہے یا الٰہی بخشش کر واسطے اس کے اور رحم کر اس پر تحقیق تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ( ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح
ملا علی قاری (رح) نے وحبل جو ارک میں لفظ حبل کے کئی معنی بیان کئے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ اس جملہ کے سب سے بہتر معنی یہ ہیں کہ وہ قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا اور اسے مضبوطی سے پکڑنے والا تھا۔ لہٰذا یہاں لفظ حبل سے قرآن مراد ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت (کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑو) میں حبل سے مراد قرآن کریم ہے اسی طرح لفظ جوار سے امان مراد ہے اور اس جملہ و حبل جو ارک میں اضافت بیانیہ ہے گویا اس جملہ کے وضاحتی معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑنے والا تھا، ایسا قرآن کریم کہ جسے مضبوطی سے اختیار کرنا (یعنی اس پر پوری طرح عمل کرنا) امن و سلامتی ایمان و اسلام اور معرفت کا باعث اور ذریعہ ہے۔

1660

ضعیف
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اذكروا محاسن موتاكم وكفوا عن مساويهم . رواه أبو داود والترمذي
حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے مرے ہوئے لوگوں کی نیکیاں ہی ذکر کرلیا کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے بچتے رہو ۔ ( ابوداؤد، ترمذی)

تشریح
مرے ہوئے لوگوں کے نیک اعمال اور ان کی بھلائیوں کو اس لئے یاد اور بیان کرنا چاہئے کہ نیک اور نیکی کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ مردوں کی نیکیوں کو ذکر کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے لیکن ان کی برائیوں کے ذکر سے بچنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے یعنی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کی برائیاں ذکر نہ کرے اور اس فعل سے بچتا رہے چناچہ حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں کی غیبت زندہ لوگوں کی غیبت سے کہیں زیادہ قابل نفریں ہے۔ کتاب ازہار میں علماء کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ میت کو نہلانے والا اگر میت میں کوئی اچھی علامت دیکھے مثلاً میت کا چہرہ روشن اور منور ہو یا میت میں سے خوشبو آتی ہو تو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا مستحب ہے اور اگر کوئی بری علامات دیکھے مثلاً (نعوذباللہ) میت کا چہرہ یا بدن سیاہ ہوگیا ہو یا اس کی صورت مسخ ہوگئی ہو تو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا حرام ہے۔

1661

صحیح
وعن نافع أبي غالب قال : صليت مع أنس بن مالك على جنازة رجل فقام حيال رأسه ثم جاؤوا بجنازة امرأة من قريش فقالوا : يا أبا حمزة صل عليها فقام حيال وسط السرير فقال له العلاء بن زياد : هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم قام على الجنازة مقامك منها ؟ ومن الرجل مقامك منه ؟ قال : نعم . رواه الترمذي وابن ماجه وفي رواية أبي داود نحوه مع زيادة وفيه : فقام عند عجيزة المرأة
حضرت نافعی (رح) جن کی کنیت ابوغالب ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کے ساتھ ایک جنازہ (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر کے جنازہ) کی نماز پڑھی، حضرت انس (جو امام تھے) جنازہ کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا اے ابوحمزہ ! (یہ انس کی کنیت ہے) اس جنازہ کی نماز پڑھا دیجئے چناچہ حضرت انس تخت ( کہ جس پر جنازہ تھا) کے درمیانی حصہ کے سامنے کھڑے ہوئے (اور نماز پڑھائی یہ دیکھ کر) علاء بن زیاد نے کہا کہ کیا آپ نے رسول کریم ﷺ کو (نماز جنازہ میں) اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے جیسا کہ آپ اس عورت کے جنازہ کے درمیان اور مرد کے جنازہ کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے تھے ؟ یعنی کیا آنحضرت ﷺ بھی نماز جنازہ پڑھاتے وقت عورت کے جنازہ پر اس کے درمیانی حصہ کے سامنے اور مرد کے جنازہ پر اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوتے تھے ؟ حضرت انس نے فرمایا ہاں ! ابوداؤد نے بھی اس روایت کو کچھ زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان کی روایت میں فقام حیال وسط السریر کے بجائے فقام عند عجیزۃ المرأۃ (عورت کے جنازہ پر اس کے کو لھے کے قریب کھڑے ہوئے) کے الفاظ منقول ہیں۔ (ترمذی وابن ماجہ)

تشریح
اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ میں امام جنازہ کے پاس کہاں کھڑا ہو ؟ جو اختلاف ہے اور ائمہ دین کے جو مسلک ہیں اس کو پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ گزشتہ صفحات میں پہلی فصل کی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں بیان کی جا چکا ہے۔

1662

صحیح
عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال : كان ابن حنيف وقيس ابن سعد قاعدين بالقادسية فمر عليهما بجنازة فقاما فقيل لهما : إنها من أهل الأرض أي من أهل الذمة فقالا : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم مرت به جنازة فقام فقيل له : إنها جنازة يهودي . فقال : أليست نفسا ؟
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت سہل ابن حنیف اور حضرت قیس بن سعد (رض) قادسیہ میں (ایک جگہ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا جسے دیکھ کر یہ دونوں صحابی کھڑے ہوگئے ان سے کہا گیا کہ یہ جنازہ اہل زمین یعنی ذمی کا ہے ؟ دونوں صحابہ نے فرمایا کہ (اسی طرح ایک دن) رسول کریم ﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، آپ (اسے دیکھ کر) کھڑے ہوگئے، آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ (تو کیا ہوا) کیا یہ جاندار نہیں ہے ؟ (بخاری ومسلم)

تشریح
قادسیہ ایک جگہ کا نام ہے جو کوفہ سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ روایت میں ذمیوں کو اہل زمین سے تعبیر کیا گیا ہے یا تو ان کے کم رتبہ ہونے کی وجہ سے یا یہ کہ مسلمانوں نے انہیں زمین کی کاشت پر مقرر کر رکھا تھا اور ان سے خراج لیتے تھے اس لئے انہیں اہل زمین کہا گیا۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کیا یہ جاندار نہیں ہے ؟ کا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ کسی انسان کا جنازہ نہیں ہے جسے دیکھ کر عبرت نہ حاصل کی جائے ؟ حاصل یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے اور عبرت حاصل ہوتی ہے خواہ مسلم کا ہو یا غیر مسلم کا اس لئے میں اس جنازہ کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوگیا۔ گزشتہ صفحات میں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونا حضرت علی (رض) کی روایت سے منسوخ ہوچکا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ان دونوں صحابہ کو اس منسوخی کا علم نہ ہوا ہو اس لئے یہ حضرات جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ہوں گے۔

1663

ضعیف
وعن عبادة بن الصامت قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا تبع جنازة لم يقعد حتى توضع في اللحد فعرض له حبر من اليهود فقال له : إنا هكذا نضع يا محمد قال : فجلس رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال : خالفوهم . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث غريب وبشر بن رافع الراوي ليس بالقوي
حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب جنازے کے ہمراہ چلتے تو اس وقت تک نہیں بیٹھتے تھے کہ جب تک میت کو قبر میں نہیں رکھ دیا جاتا تھا (ایک مرتبہ) ایک یہودی عالم آپ کے سامنے پیش ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے محمد ﷺ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (کہ جب تک مردہ قبر میں نہیں رکھ دیا جاتا کھڑے رہتے ہیں) حضرت عبادہ کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) آنحضرت ﷺ (دفن کرنے تک کھڑے نہیں رہتے تھے بلکہ) بیٹھ جایا کرتے تھے، نیز آپ نے یہ فرمایا کہ تم یہودیوں کی مخالفت کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور بشر بن رافع جو اس روایت کا ایک راوی ہے قوی نہیں ہے۔

1664

صحیح
وعن علي قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم أمرنا بالقيام في الجنازة ثم جلس بعد ذلك وأمرنا بالجلوس . رواه أحمد
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (پہلے تو) ہمیں جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کے لئے فرمایا کرتے تھے پھر (بعد میں) آپ بیٹھے رہتے تھے اور ہمیں بھی بیٹھے رہنے کے لئے فرماتے تھے۔ (احمد)

تشریح
اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پہلے تو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کا حکم تھا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا لہٰذا اب اس کے بعد مسئلہ یہی ہے کہ جو لوگ جنازہ کے ساتھ نہ ہوں بلکہ کہیں بیٹھے ہوئے ہوں انہیں جنازہ دیکھ کر کھڑا نہ ہونا چاہئے۔

1665

صحیح
وعن محمد بن سيرين قال : إن جنازة مرت بالحسن بن علي وابن عباس فقام الحسن ولم يقم ابن عباس فقال الحسن : أليس قد قام رسول الله صلى الله عليه و سلم لجنازة يهودي ؟ قال : نعم ثم جلس . رواه النسائي
حضرت محمد بن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت حسن بن علی اور حضرت ابن عباس کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو حضرت حسن (اسے دیکھ کر) کھڑے ہوگئے مگر حضرت ابن عباس کھڑے نہیں ہوئے حضرت حسن نے (حضرت ابن عباس کا یہ عمل دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ کیا رسول کریم ﷺ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوگئے تھے ؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا کہ ہاں ! (بےشک آپ کھڑے ہوئے تھے) مگر بعد میں آپ (جنازہ دیکھ کر) بیٹھے رہتے تھے۔ (نسائی)

تشریح
حضرت ابن عباس (رض) کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو بیشک آپ ﷺ کا یہی معمول تھا کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجایا کرتے تھے مگر بعد میں آپ کا یہ معمول ہوگیا تھا کہ جنازہ دیکھ کر آپ کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ بیٹھے رہتے تھے لہٰذا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کا حکم منسوخ ہوگیا۔ حضرت حسن کے عمل کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت حسن (رض) کو اس حکم کے منسوخ ہوجانے کا علم نہیں ہوگا اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کے کھڑے نہ ہونے پر اعتراض بھی کیا۔ آنحضرت ﷺ یہودی کا جنازہ دیکھ کر کیوں کھڑے ہوئے ؟

1666

صحیح
وعن جعفر بن محمد عن أبيه أن الحسن بن علي كان جالسا فمر عليه بجنازة فقام الناس حتى جاوزت الجنازة فقال الحسن : إنما مر بجنازة يهودي وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم على طريقها جالسا وكره أن تعلوا رأسه جنازة يهودي فقام . رواه النسائي
حضرت جعفر بن محمد (رح) (یعنی حضرت جعفر صادق) اپنے والد مکرم (حضرت محمد باقر (رح) ) سے یہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت علی (رض) (ایک جگہ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سے جنازہ لے جایا گیا، وہ لوگ (جنہیں اس مسئلہ کی منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہوئے تھے اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک کہ جنازہ گزر نہیں گیا، حضرت حسن نے ان سے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب ایک یہودی کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت رسول کریم ﷺ راستہ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ نے اسے پسند نہیں کیا کہ یہودی کا جنازہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے اونچا ہوا لہٰذا آپ کھڑے ہوگئے۔ (نسائی)

تشریح
حضرت حسن کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر جو کھڑے ہوئے تھے تو اس کی وجہ میت کا احترام نہیں تھا بلکہ اصل حقیقت تو یہ تھی کہ آپ ﷺ نے یہ بات پسند نہیں کی کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر مبارک سے اونچا ہو گویا حضرت حسن (رض) نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے تو معلوم ہوا کہ حضرت حسن نہ صرف یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے حضرت ابن عباس پر اس لئے اعتراض کیا کہ وہ جنازہ دیکھ کر کھڑے نہیں ہوئے تھے اور یہاں اس حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے حضرت حسن نے ان پر اعتراض کیا۔ لہٰذا اس اختلاف کے بارے میں محدثین رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ جو یہاں بیان کیا جا رہا ہے اس واقعہ کے بعد کا ہے جو اس سے پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے پہلے چونکہ حضرت حسن کو منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا اس لئے انہوں نے حضرت عباس پر اعتراض کیا۔ مگر جب بعد میں تحقیق و جستجو کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ مذکورہ بالا وجہ سے یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے تھے اور یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کا حکم اب منسوخ ہوگیا ہے تو انہوں نے اس موقع پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ بہر حال جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانے کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ ڈر اور عبرت کی وجہ سے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے کبھی ملائکہ کی تعظیم پیش نظر کھڑے ہوجاتے تھے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے تھے کبھی آپ اس لئے بھی کھڑے ہوجاتے تھے کہ آپ جنازہ کو اپنے سر مبارک سے بلند ہونا پسند نہیں فرماتے تھے۔ شیخ عبدا الحق محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ حضرت امام باقر حضرت حسن کے زمانے میں نہیں تھے۔

1667

ضعیف
وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إذا مرت بك جنازة يهودي أو نصراني أو مسلم فقوموا لها فلستم لها تقومون إنما تقومون لمن معها من الملائكة . رواه أحمد
حضرت ابوموسیٰ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تمہارے سامنے کسی یہودی یا نصرانی یا مسلمان کا جنازہ گزرے تو اسے دیکھ کر کھڑے ہوجاؤ اور تم جنازہ (کے ادب و احترام) کے لئے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ ان فرشتوں (کی تعظیم) کے لئے کھڑے ہوتے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے ہیں ۔

تشریح
جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے وجوہ مختلف ہیں انہیں میں سے ایک وجہ یہاں بیان کی جا رہی ہے نیز یہ کہ کھڑے ہوجانے کا یہ حکم پہلے تھا اب منسوخ ہوگیا ہے اسے بھی گزشتہ احادیث کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے۔

1668

ضعیف
وعن مالك بن هبيرة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما من مسلم يموت فيصلي عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب . فكان مالك إذا استقل أهل الجنازة جزأهم ثلاثة صفوف لهذا الحديث . رواه أبو داود وفي رواية الترمذي : قال كان مالك بن هبيرة إذا صلى الجنازة فتقال الناس عليها جزأهم ثلاثة أجزاء ثم قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من صلى عليه ثلاثة صفوف أوجب . وروى ابن ماجه نحوه
حضرت مالک بن ہبیرہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرتا ہے اور اس پر مسلمانوں کی تین صفوں پر مشتمل جماعت نماز پڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت اور مغفرت واجب کردیتا ہے، چناچہ حضرت مالک (نماز جنازہ میں) تھوڑے آدمی (بھی) دیکھتے تو اس حدیث کے بموجب انہیں تین صفوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ ( ابوداؤد) ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت مالک بن ہبیرہ جب نماز جنازہ پڑھتے (یعنی نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ کرتے) اور لوگوں کی تعداد کم دیکھتے تو ان کو تین حصوں (یعنی تین صفوں) میں تقسیم کردیتے تھے اور پھر فرماتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی نماز جنازہ تین صفیں پڑھتیں اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کو واجب کردیتا ہے۔ ابن ماجہ نے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے۔

تشریح
اسلامی عقائد کا یہ ایک واضح مسئلہ ہے کہ ہر شخص کو یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ جل شانہ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے یعنی اس کی بزرگی و برتر ذات کسی چیز کے کرنے پر مجبور نہیں ہے لیکن یہاں حدیث میں چونکہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کرتا ہے اس لئے علماء حدیث کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز جنازہ میں مسلمانوں کی تین صفیں شریک ہوں اس بشارت کی بموجب اللہ تعالیٰ اپنے اوپر یہ واجب کرلیتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گویا یہاں حدیث میں جس وجوب کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے وعدہ کی مناسبت سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جو وعدہ کرے وہ ایفاء نہ ہو یہ ناممکن ہے اس لئے ایفاء عہد اور اپنے فضل و کرم کے اظہار کے طور پر حق تعالیٰ کسی مجبور یا دباؤ کے تحت نہیں بلکہ از خود اپنے اوپر یہ واجب کرلیتا ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے چناچہ اسے اصطلاحاً وجوب لغیرہ کہا جاتا ہے جو اس عقیدہ کے منافی نہیں ہے ہاں وجوب لذاتہ حق تعالیٰ کی ذات کے لئے ممتنع ہے جس کے بارے میں مذکورہ بالا اسلامی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کرمانی (رح) نے لکھا ہے کہ نماز جنازہ میں سب صفوں سے زیادہ افضل سب سے پیچھے والی صف ہوتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کے کہ ان میں سب سے آگے والی صف سب سے زیادہ افضل ہوتی ہے۔ نیز علماء یہ مسئلہ لکھتے ہیں کہ نماز جنازہ کے بعد میت کے لئے دعا نہ کی جائے (جیسا کہ دوسری نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگی جاتی ہے) کیونکہ اس سے نماز جنازہ میں اضافہ کا اشتباہ ہوتا ہے۔

1669

صحیح
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم في الصلاة على الجنازة : اللهم أنت ربها وأنت خلقتها وأنت هديتها إلى الإسلام وأنت قبضت روحها وأنت أعلم بسرها وعلانيتها جئنا شفعاء فاغفر له . رواه أبو داود
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ کے بارے میں یہ روایت کرتے تھے کہ آپ جنازہ میں یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انت ربہا وانت خلقتہا وانت ہدیتہا الی الاسلام وانت قبضت روھہا وانت اعلم بسرہا وعلانیتہا جئنا شفعاء فاغفرلہ) ۔ اے الٰہی تو اس کا پروردگار ہے تو نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تو نے ہی اس کو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور (اب) تو نے ہی اس کی روح قبض کی ہے (اے رب العالمین) تو اس کے باطن کو بھی سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس کے ظاہر کو بھی (اے اللہ) ہم اس بندہ کی شفاعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں تو اسے بخش دے۔ ( ابوداؤد )

1670

صحیح
وعن سعيد بن المسيب قال : صليت وراء أبي هريرة على صبي لم يعمل خطيئة قط فسمعته يقول : اللهم أعذه من عذاب القبر . رواه مالك
حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے پیچھے ایک ایسے لڑکے کی نماز جنازہ پڑھی جس سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا، چناچہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو (نماز میں) یہ دعا مانگتے سنا کہ اے اللہ ! اس بچہ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔ (مالک)

تشریح
علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ روایت کے الفاظ لم یعمل خطیئۃ قط یعنی کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا) لفظ صبی (یعنی بچہ) کی صفت کاشفہ ہے کیونکہ غیر بالغ سے گناہ کا سرزد ہونا متصور نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی دعا اے اللہ اس بچہ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔ میں عذاب قبر سے عقوبت (یعنی سزا) اور قبر کا سوال و جواب مراد نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ ! اس بچہ کو قبر میں حسرت و غم، قبر کی وحشت اور ضغط قبر (یعنی قبر کے بھینچے) کے رنج و خوف سے محفوظ و مامون رکھ اور ظاہر ہے کہ ضغط قبر میں ہر شخص مبتلا ہوگا خواہ بالغ ہو یا نابالغ۔ قبر میں بچوں سے سوال و جواب ہوگا یا نہیں ؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس طرح قبر میں بالغ لوگوں سے سوال و جواب ہوگا اسی طرح نابالغ بچوں سے بھی سوال و جواب ہوگا یا نہیں ؟ چناچہ کچھ حضرات کا قول تو یہ ہے کہ بچوں سے بھی سوال و جواب ہوگا جب کہ دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ بچے اس سے مستثنیٰ ہوں گے ان سے کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ غیر مکلف کا عذاب میں مبتلا ہونا اصول شریعت کے خلاف ہے۔

1671

ضعیف
وعن البخاري تعليقا قال : يقرأ الحسن على الطفل فاتحة الكتاب ويقول : اللهم اجعله لنا سلفا وفرطا وذخرا وأجرا
حضرت امام بخاری (رح) نے بطریق تعلیق (یعنی صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں بغیر سند کے اس حدیث کو) نقل کیا ہے کہ حضرت حسن بصری (رح) بچہ کی نماز جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کی بجائے سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور (تیسری تکبیر کے بعد) یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہم اجعلہ لنا سلفا وفرطا وذخرا واجرا اے اللہ اس بچے کو (قیامت کے دن) ہمارا پیشوا، پیش رو اور ہمارے لئے ذخیرہ ثواب بنا۔

تشریح
سلف اس مال کو کہتے ہیں کہ جسے آگے (منزل پر) بھیج دیا جائے تاکہ اسے بھیجنے والا (منزل پر پہنچ کر) اس سے فائدہ حاصل کرے۔ اسی طرح فرط لشکر کا وہ شخص کہلاتا ہے جو لشکر سے آگے پہنچ کر لشکر کے لئے سامان خوردو نوش وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔ یہاں دعا میں ان دونوں سے مراد یہ ہے کہ یہ بچہ قیامت کے روز ہماری بہتری و بھلائی اور ہماری منفعت کا باعث بنے بایں طور کہ پروردگار سے ہماری شفاعت کرے ذخرہ اس مال کو کہتے ہیں جو ذخیرہ کے طور پر رکھا جائے تاکہ حاجت و ضرورت کے وقت کام آئے۔

1672

ضعیف
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الطفل لا يصلى عليه ولا يرث ولا يورث حتى يستهل . رواه الترمذي وابن ماجه إلا أنه لم يذكر : ولا يورث
حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (ناتمام) بچہ کی نہ تو نماز پڑھی جائے اور نہ اسے کسی کا وارث قرار دیا جائے اور نہ ہی اس کا کوئی وارث ہو بشرطیکہ پیٹ سے باہر آتے وقت اس کی آواز نہ نکلے (یعنی اس وقت اس میں زندگی کے آثار نہ پائے جائیں جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) اس روایت کو ترمذی (رح) اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے مگر ابن ماجہ نے اپنی روایت میں لایورث نقل نہیں کیا ہے۔

1673

ضعیف
وعن أبي مسعود الأنصاري قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يقوم الإمام فوق شيء والناس خلفه يعني أسفل منه . رواه الدراقطني وأبو داود
حضرت ابومسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ امام (تنہا) کسی چیز کے اوپر کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے (اس سے نیچے) کھڑے ہوں۔ (دارقطنی)

تشریح
نماز جنازہ میں امام کے لئے یہ ممنوع ہے کہ وہ تو کسی اونچی جگہ کھڑا ہو اور سب مقتدی اس سے نیچے ہوں لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات بطریق اولیٰ ممنوع ہوگی کہ صرف امام تو نیچے کھڑا ہو اور مقتدی اوپر کھڑے ہوں۔ یہ مسئلہ سب نمازوں کا ہے نماز جنازہ ہی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ چناچہ حدیث کے الفاظ بھی مخصوص نہیں ہیں لیکن مصنف مشکوۃ نے اس حدیث کو نماز جنازہ پر محمول کر کے اس باب میں نقل کیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حدیث اس باب میں بھی وارد ہوئی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ نماز جناز میں یہ طریقہ اختیار کئے ہوں گے لہٰذا اس سے منع کیا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔