hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

57. مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان

مشكاة المصابيح

2445

صحیح
جو اذکار یعنی دعائیں وغیرہ شارع سے کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت سے متعلق منقول ہیں ان کو اختیار کرنا اور ان اذکار کو ان کے منقول اوقات میں پورا کرنا ہر شخص کے لئے مسنون ہے اگر ان اذکار کو پابندی کے ساتھ اختیار کیا جائے تو کیا ہی کہنے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم سے کم ایک مرتبہ تو ضرور ہی ان کو پورا کیا جائے تاکہ آنحضرت ﷺ کی اتباع کی سعادت حاصل ہوجائے۔

2446

صحیح
عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال : بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی یا لونڈی کے پاس صحبت کے لئے آئے تو دعا پڑھے اگر اس وقت (ان دونوں) مرد و عورت کے جماع کے نتیجہ میں فرزند دیا جانا مقدر ہوا یعنی بچہ پیدا ہوا تو اس بچہ کو شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے گا اور وہ دعا یہ ہے کہ (بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا) ہم مدد چاہتے ہیں اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ تو ہمیں جو اولاد نصیب کرے اس شیطان سے اور شیطان کو اس سے دور رکھ۔

تشریح
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ اکثر لوگ یہ دعا پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی اولاد شیطان کے تصرف اور اس کے ضرر سے محفوظ نہیں رہتی ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچائے گا سے مراد یہ ہے کہ شیطان انہیں کفر کی کھائیوں میں نہیں پھینک سکتا، لہٰذا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ صحبت کے وقت ذکر اللہ کی برکت سے اولاد خاتمہ بخیر کی سعادت ابدی سے نوازی جاتی ہے یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان اس کی اولاد کو آسیب اور صرع یعنی ہاتھ پاؤں ٹیڑھے کردینے یا اسی قسم کی دوسری بلاؤں میں مبتلا کر کے ضرر پہنچانے پر قادر نہیں رہتا۔ حضرت امام جوزی کے قول کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اس شخص کی اولاد کے دین و اعتقاد پر اثر انداز نہیں ہوتا اور جس طرح کہ شیطان دوسروں کے صحیح اعتقادات اور دینی رحجانات میں نقصان پہنچاتا ہے ان کی بہ نسبت اس شخص کی اولاد کے حق میں اس کا ضرر و نقصان بےاثر رہتا ہے۔ بعض دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ ضرر پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ شیطان جو پیدائش کے وقت ہر بچہ کی کوکھ میں انگلی ماتا ہے جس کی وجہ سے بچہ روتا چلاتا پیدا ہوتا ہے اس دعا کی وجہ سے وہ زور سے انگلی نہیں مار پاتا۔

2447

صحیح
وعنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول عند الكرب : لا إله إلا الله العظيم الحليم لا إله إلا الله رب العرش العظيم لا إله إلا الله رب السماوات ورب الأرض رب العرش الكريم
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ شدت فکر و غم کے وقت یہ دعا پڑھتے (لا الہ الا اللہ العظیم الحلیم لا الہ اللہ رب العرش العظیم لا الہ الا اللہ رب السموات ورب الارض رب العرش الکریم) نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو بزرگ اور بردبار ہے نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو پروردگار ہے عرش عظیم کا نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے جو پروردگار ہے آسمانوں کا پروردگار ہے زمین کا اور پروردگار ہے عرش کریم کا۔

2448

صحیح
وعن سليمان بن صرد قال : استب رجلان عند النبي صلى الله عليه و سلم ونحن عنده جلوس وأحدهما يسب صاحبه مغضبا قد احمر وجهه فقال النبي صلى الله عليه و سلم : إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد أعوذ بالله من الشيطان الرجيم . فقالوا للرجل : لا تسمع ما يقول النبي صلى الله عليه و سلم ؟ قال : إني لست بمجنون
حضرت سلیمان بن صرد (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کی مجلس میں دو آدمی آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ان میں سے ایک آدمی تو دوسرے کو بہت ہی برا بھلا کہہ رہا تھا وہ غصہ میں بھرا ہوا تھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا نبی کریم ﷺ نے اس کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر یہ شخص اس کلمہ کو پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے جو اس پر سوار ہے اور وہ کلمہ یہ ہے۔ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔ صحابہ نے جب یہ دیکھا کہ اس شخص نے کلمہ نہیں پڑھا تو اس سے کہا کیا تم سن نہیں رہے، آنحضرت ﷺ کیا فرما رہے ہیں ؟ اس شخص نے کہا کہ میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غصہ فرو کرنے کا بڑا آسان طریقہ یہ ہے کہ اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے اس سے غصہ فرو ہوجائے گا اس حدیث کی بنیاد یہ آیت ہے (وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّه سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٠٠) 7 ۔ الاعراف 200) اور اگر تمہیں شیطان بہکا کر اپنے جال میں پھانسے تو اللہ سے پناہ مانگو بلاشبہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ جس شخص کو آنحضرت ﷺ نے یہ کلمہ تعلیم فرمایا وہ علم شریعت کے زیور سے آراستہ نہیں تھا ور دین کی سمجھ سے بالکل کورا تھا۔ چناچہ اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ کلمہ پڑھنے کے لئے اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دیوانگی میں مبتلا ہو میں دیوانگی میں مبتلا نہیں ہوں اس لئے یہ کلمہ کیوں پڑھوں اسی لئے جب صحابہ نے اس کو آنحضرت ﷺ کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا تو اس نے اس بد فہمی کی بنا پر کہ اس کلمہ کو تو دیوانے پڑھتے ہیں یہی جواب دیا کہ میں دیوانہ نہیں ہوں جو اس کلمہ کو پڑھوں حالانکہ اس نے نہیں سمجھا کہ غصہ بھی شیطان کے بہکانے کا ہی اثر ہوتا ہے جو بسا اوقات دیوانگی کا ہی روپ دھار لیتا ہے اس لئے غصہ کے وقت بھی اس کلمہ کو پڑھنا نافع ہے۔ آنحضرت ﷺ کی اس تعلیم کی طرف اس شخص کے بےاعتنائی کے سلسلہ میں علامہ طیبی تو یہ فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ وہ شخص منافق رہا ہو یا پھر پرلے درجے کا بدخو، اجڈ اور گنوار۔

2449

صحیح
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا سمعتم صياح الديكة فسلوا الله من فضله فإنها رأت ملكا وإذا سمعتم نهيق الحمار فتعوذوا بالله من الشيطان الرجيم فإنه رأى شيطانا
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم مرغ کو بانگ دیتے سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتے ہیں اور جب گدھے کا رینگنا سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مرغ فرشتے کو دیکھ کر بانگ دیتا ہے اس سے اس وقت تم اللہ سے دعا مانگو تاکہ وہ آمین کہے۔ اور تمہارے لئے بخشش چاہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر رینگتا ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نیک ہستیوں کے آنے کے وقت اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہوتی ہے اور لہٰذا اس وقت دعا مانگنی مستحب ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ کافروں پر چونکہ اللہ کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے اس لئے کفار کے سامنے گزرنے کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا مستحب ہے اس خوف سے کہ کہیں ان بدبختوں کی نحوست اور ان کی برائی کے جراثیم اپنے تک نہ پہنچ جائیں۔

2450

صحیح
وعن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا استوى على بعيره خارجا إلى السفر كبر ثلاثا ثم قال : ( سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون ) اللهم إنا نسألك في سفرنا هذا البر والتقوى ومن العمل ما ترضى اللهم هون علينا سفرنا هذا واطو لنا بعده اللهم أنت الصاحب في السفر والخليفة في الأهل والمال اللهم إني أعوذ بك من وعثاء السفر وكآبة المنظر وسوء المنقلب في المال والأهل . وإذا رجع قالهن وزاد فيهن : آيبون تائبون عابدون لربنا حامدون . رواه مسلم
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سفر کے لئے نکلتے اور اونٹ پر سوار ہوجاتے تو پہلے تین بار اللہ اکبر اور پھر یہ پڑھتے دعا (سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البر والتقوی ومن العمل ماترضی اللہم ہون علینا سفرنا ہذا اطولنا بعدہ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاہل والمال اللہم انی اعوذبک من وعثاء السفر وکابۃ المنظر وسورء المنقلب فی المال والاہل) ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابعدار بنایا جب کہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اے اللہ ! ہم مانگتے ہیں تجھے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقویٰ ایسا عمل ہے جس سے تو راضی ہوتا ہے یعنی اسے قبول کرتا ہے اے پروردگار ! آسان کر دے ہمارے لئے ہمارے اس سفر کو اور لپیٹ دے ہمارے لئے اس کی درازی کو یعنی سفر کی طوالت کو جلد ختم کر دے) اے اللہ ! سفر میں تو ہی ہمارا نگہبان ہے اور ہمارے گھر والوں کا تو ہی خبر گیراں ہے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی مشقت سے اور بری حالت دیکھنے سے یعنی اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اہل و عیال اور اپنے اسباب و مال میں نقصان دیکھ کر غمگین ہوں اور اس سے بری حالت ہو اور واپسی کی برائی سے اپنے گھر والوں اور اپنے مال میں یعنی اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ سفر سے واپس آنے کے بعد اپنے گھر والوں میں اور اپنے مال میں کوئی نقصان دیکھوں اور اس کی وجہ سے میں رنج اٹھاؤں۔ جب آپ ﷺ سفر سے واپس ہوتے تو یہی دعا پڑھتے اور اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے۔ دعا (اٰئبون تائبون عابدون لربنا حامدون) ۔ ہم سفر سے پھرنے والے ہیں سلامتی کے ساتھ اپنے وطن کو توبہ کرنے والے ہیں اپنے رب کی عبادت کرنے والے ہیں اور تعریف کرنے والے ہیں۔ (مسلم)

2451

صحیح
وعن عبد الله بن سرجس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا سافر يتعوذ من وعثاء السفر وكآبة المنقلب والحور بعد الكور ودعوة المظلوم وسوء المنظر في الأهل والمال . رواه مسلم
حضرت عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سفر کرتے تو پناہ مانگتے، سفر کی مشقت اور محنت سے واپسی سے بری حالت سے (اعمال صالح اور اہل و مال میں) زیادتی کے بعد نقصان سے، مظلوم کی بد دعا سے اور واپس آ کر اہل و مال کو بری حالت میں دیکھنے سے (مسلم)

تشریح
مظلوم کی بد دعا سے پناہ مانگنے سے مراد یہ ہے کہ درحقیقت آپ ﷺ ظلم سے پناہ مانگتے تھے کہ خدایا مجھے اس بات سے محفوظ و مامون رکھ کہ دانستہ یا نادانستہ کسی پر ظلم نہ کراؤں تاکہ کوئی مظلوم میرے لئے بد دعا نہ کرسکے۔

2452

صحیح
وعن خولة بنت حكيم قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من نزل منزلا فقال : أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم يضره شيء حتى يرحل من منزله ذلك . رواه مسلم
حضرت خولہ بنت حکیم (رض) کہتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے جو شخص کسی نئی جگہ (خواہ سفر کی حالت میں یا حضر میں) آئے اور پھر یہ کلمات کہے تو اس کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس جگہ سے کوچ کر جائے اور وہ کلمات یہ ہیں دعا (اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ماخلق) پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات (یعنی اس کے اسماء وصفات یا اس کی کتابوں) کے ذریعہ اس چیز کی برائی سے جو پیدا کی ہے۔ (مسلم )

2453

صحیح
وعن أبي هريرة قال : جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله ما لقيت من عقرب لدغتني البارحة قال : أما لو قلت حين أمسيت : أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق لم تضرك . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں ایک بچھو کی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ جس نے گزشتہ رات میں مجھے ڈس لیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا جان لو اگر تم شام کے وقت یہ کلمات کہہ لیتے تو بچھو تمہیں ضرر نہ پہنچاتا اور وہ کلمات یہ ہیں دعا (اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ماخلق) ۔ (مسلم)

تشریح
ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ان مذکورہ بالا کلمات کو شام کے وقت تین مرتبہ پڑھ لے تو اسے اس رات میں کسی بھی زہریلے جانور کا زہر ضرر نہیں پہنچائے گا۔ نیز ایک روایت میں ان کلمات کو صبح کے وقت بھی پڑھنا منقول ہے یعنی اگر ان کلمات کو صبح کے وقت پڑھا جائے تو اس دن زہریلے جانوروں سے حفاظت حاصل رہتی ہے۔ حضرت معقل بن یسار (رض) جو صحابی ہیں سے منقول ہے کہ جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے متعین کئے جاتے ہیں جو اس شخص کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں نیز وہ شخص اگر اسی حالت میں مرجاتا ہے تو شہید مرتا ہے۔

2454

صحیح
وعنه أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا كان في سفر وأسحر يقول : سمع سامع يحمد الله وحسن بلائه علينا وربنا صاحبنا وأفضل علينا عائذا بالله من النار . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب سفر میں ہوتے تو بوقت سحر یہ کہتے۔ سنی سننے والے نے اللہ کی تعریف کو جو میں نے کی اور اس کی نعمتوں کی خوبی کے اقرار کو جو میں نے کیا، اے ہمارے پروردگار ہماری نگہبانی کر اور ہم دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ (مسلم)

2455

صحیح
وعن ابن عمر قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على كل شرف من الأرض ثلاث تكبيرات ثم يقول : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب جہاد یا حج یا عمرہ سے واپس میں سفر میں ہوتے ہر بلند جگہ (ٹیلا وغیرہ) پر چڑھتے ہوئے پہلے تین مرتبہ تکبیر اللہ اکبر کہتے اور پھر یہ کلمات فرماتے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدقہ اللہ وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ہم اپنے وطن کی طرف واپس ہونے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں اللہ ہی کے آگے سر جھکانے والے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں اللہ نے دین کو پھیلانے کا وعدہ پورا کیا اپنے بندہ محمد کی مدد کی اور کفار کے گروہوں کو تنہا شکست دی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ سے غزوہ خندق کے موقع پر تائید و نصرت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ علاوہ یہود قریظہ و نضیر کے تقریبا دس یا بارہ ہزار کفار مدینہ پر چڑھ آئے تھے اور نبی کریم ﷺ سے جنگ کا ارادہ رکھتے تھے مگر اللہ نے ہوا اور ملائکہ کی جماعت کو کفار کے لشکر پر مسلط کردیا۔ جس کی وجہ سے جنگ کے بغیر ہی وہ ہلاک و خراب ہوگئے۔

2456

صحیح
وعن عبد الله بن أبي أوفى قال : دعا رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم الأحزاب على المشركين فقال : اللهم منزل الكتاب سريع الحساب اللهم اهزم الأحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ احزاب کے دن مشرکین کے لئے بد دعا فرمائی چناچہ آپ ﷺ بارگاہ حق میں یوں عرض رسا ہوئے اے اللہ نازل کرنے والے کتاب اور جلد لینے والے حساب کے، اے اللہ کفار کے گروہ کو شکست دے اے اللہ ان کو شکست دے اور ان کو ہلا کے رکھدے (یعنی ان کو مقابل میں جمنے نہ دے) (بخاری و مسلم)

2457

صحیح
وعن عبد الله بن يسر قال : نزل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي فقربنا إليه طعاما ووطبة فأكل منها ثم أتي بتمر فكان يأكله ويلقي النوى بين أصبعيه ويجمع السبابة والوسطى وفي رواية : فجعل يلقي النوى على ظهر أصبعيه السبابة والوسطى ثم أتي بشراب فشربه فقال أبي وأخذ بلجام دابته : ادع الله لنا فقال : اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم . رواه مسلم
حضرت عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ میرے والد کے پاس بطور مہمان تشریف لائے چناچہ ہم نے کھانا اور مالیدہ کی مانند ایک چیز آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی آپ ﷺ نے اسے تناول فرمایا پھر خشک کھجور پیش کی گئی آپ ﷺ کھجور کھاتے اور اس کی گٹھلی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان ڈالتے جاتے اور اس کے لئے آپ اپنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی یکجا کئے ہوئے تھے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہے کہ آپ ﷺ (بائیں ہاتھ کی) اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی پشت پر گٹھلیاں ڈالتے جاتے تھے بہرکیف اس کے بعد پانی پیش کیا گیا جسے آپ ﷺ نے پیا پھر میرے والد نے جو آپ ﷺ کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرمائیے چناچہ آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی دعا (اللہم بارک لہم فیما رزقتہم واغفر لہم وارحمہم) ۔ اے اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ روزی رزق دیا ہے اس میں برکت فرما ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔ (مسلم)

تشریح
کھجوریں کھاتے ہوئے آپ ﷺ ان کی گٹھلیوں کو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر جمع کرتے جاتے تھے۔ اب ایک روایت تو یہ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے تھے اور ایک روایت یہ بتارہی ہے کہ دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے تھے بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ آپ ﷺ گٹھلیوں کو دوں انگلیوں کے درمیان کبھی رکھے جاتے ہوں گے اور کبھی دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے جاتے ہوں گے تو ان دونون روایتوں میں کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا۔ اور پھر پشت پر انگلیوں کی، گٹھلیوں کو ڈالنے کی وجہ یہ تھی تاکہ ہاتھ کے اندر کا رخ گٹھلیوں میں لگے ہوئے لعاب وغیرہ سے ملوث نہ ہو کیونکہ اندر کی صفائی اور ستھرائی باہر کی صفائی اور ستھرائی سے اولیٰ ہے۔ یہ حدیث ایسی کئی باتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو مہمان اور میزبان کے لئے مسنون کا درجہ رکھتی ہے۔ مثلا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکابر اور مہمان کی سواری کی رکاب اور لگام کو از راہ تواضع اور خطر داری پکڑنا مسنون ہے۔ اسی طرح مہمان کو رخصت کرنے کے لئے مکان کے دروازے یا باہر کچھ دور تک اس کے ساتھ جانا سنت ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میز بان کے لئے تو یہ مسنون ہے کہ وہ مہمان سے طلب دعا کرے اور مہمان کے لئے یہ مسنون ہے کہ میزبان کے لئے دعا کرے۔

2458

ضعیف
عن طلحة بن عبيد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا رأى الهلال قال : اللهم أهله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث حسن غريب
حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہلال دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ دعا (اللہم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ) اے اللہ طلوع فرما اور دکھا ہم کو یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ (اے چاند) میرا پروردگار اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
ہلال کہتے ہیں قمری مہینے کی پہلی، دوسری اور تیسری رات کے چاند کو، اس کے بعد کی راتوں کا چاند قمر کہلاتا ہے لہٰذا حدیث بالا سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ جب ہلال دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ اے اللہ اس مہینے میں ہم امن و ایمان کے ساتھ ہر آفت و مصیبت سے محفوظ و سلامت اور اسلام کے احکام پر ثابت قدم اور مستقیم رہیں اس کے بعد چاند کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے کہ میرا اور تیرا دونوں کا رب اللہ ہی ہے۔ جس طرح میں اس کی ایک مخلوق ہوں اسی طرح تو بھی اس کی ایک مخلوق ہے اس سے گویا ان لوگوں کے اعتقادات کی تردید مقصود ہوتی تھی جو چاند اور سورج کو پوجتے ہیں اور انہیں اپنا معبود اور رب مانتے ہیں۔ نعوذ باللہ۔

2459

صحیح
وعن عمر بن الخطاب وأبي هريرة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من رجل رأى مبتلى فقال : الحمد لله الذي عافاني مما ابتلاك به وفضلني على كثير ممن خلق تفضيلا إلا لم يصبه ذلك البلاء كائنا ما كان . رواه الترمذيورواه ابن ماجه عن ابن عمر . وقال الترمذي هذا حديث غريب وعمرو بن دينار الراوي ليس بالقوي
حضرت عمر بن خطاب (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مبتلاء مصیبت کو دیکھے اور دیکھ کر یہ دعا پڑھے (الحمدللہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا) (یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو اس چیز سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور فضیلت بخشی اپنی بہت سی مخلوقات پر تو وہ اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہوگا وہ جو مصیبت ہو۔ (ترمذی) اس روایت کو ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے نقل کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عمرو بن دینار قوی نہیں ہیں۔

تشریح
اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مبتلاء بلاء اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھتا ہے دعا (الحمد للہ الذی عافانی مماابتلاک بہ وفضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا) تو وہ اس بلا و مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا چاہے وہ بلاء و مصیبت بدنی ہو، جیسے برص، جذام، بینائی سے محرومی وغیرہ چاہے وہ بلاء دنیوی ہو، جیسے مال و جاہ کی محبت اور دنیا کی ہوس وغیرہ اور خواہ وہ بلاء دینی ہو، جیسے فسق ظلم اور شرک و کفر وغیرہ غرض کہ ہر طرح کے مبتلا کو دیکھ کر یہ دعا پڑھنی چاہئے لیکن علماء نے یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ اگر کوئی بیماری کی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے دیکھ کر یہ دعا آہستہ سے پڑھنی چاہئے تاکہ وہ بیمار آزردہ خاطر نہ ہو اور اگر کسی ایسے شخص کو دیکھے جو گناہ یا دنیا کی محبت میں مبتلا ہو تو اسے اس صورت میں یہ دعا بلند آواز سے پڑھنی چاہئے تاکہ اسے اپنے احوال پر ندامت ہو اور وہ اس سے باز آجائے اور اگر یہ دعا بآواز بلند پڑھنے سے کسی فتنہ و فساد کا خوف ہو تو پھر اس صورت میں بھی یہ دعا آہستہ آواز میں پڑھی جائے۔

2460

ضعیف
وعن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من دخل السوق فقال : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو على كل شيء قدير كتب الله له ألف ألف حسنة ومحا عنه ألف ألف سيئة ورفع له ألف ألف درجة وبنى له بيتا في الجنة . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي : هذا حديث غريب وفي شرح السنة : من قال في سوق جامع يباع فيه بدل من دخل السوق
حضرت عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص بازار میں پہنچ کر یہ کلمات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اس سے دس لاکھ برائیاں دور کرتا ہے اس کے لئے دس لاکھ درجے بلند کرتا ہے اور اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے اور وہ کلمات یہ ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وہو حی لا یموت بیدہ الخیر وہو علی کل چیز قدیر (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اس کے لئے تعریف ہے وہ زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اس کے لئے موت نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (ترمذی، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے نیز شرح السنۃ میں من دخل السوق (جو شخص بازار میں پہنچ کر) کی بجائے یہ ہے من قال فی سوق جامع یباع فیہ۔ (جو بازار میں جہاں خریدو فروخت ہوتی ہو جہاں اکثر چیزیں بکتی ہوں یہ کلمات کہے۔

تشریح
اتنا زیادہ ثواب ملنے کی وجہ یہ ہے کہ بازار غفلت کی جگہ ہے نیز بازار ایک ایسی جگہ ہے جہاں عام طور پر جھوٹ، دغا، مکر و فریب اور چالبازیوں کی کثرت ہوتی ہے پھر یہ کہ بازاروں کو شیاطین کی سلطنت کہا جاتا ہے اس لئے اسی جگہ میں اللہ کو یاد کرنے سے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔

2461

صحیح
وعن معاذ بن جبل قال : سمع النبي صلى الله عليه و سلم رجلا يدعو يقول : اللهم إني أسألك تمام النعمة فقال : أي شيء تمام النعمة ؟ قال : دعوة أرجو بها خيرا فقال : إن من تمام النعمة دخول الجنة والفوز من النار . وسمع رجلا يقول : يا ذا الجلال والإكرام فقال : قد استجيب لك فسل . وسمع النبي صلى الله عليه و سلم رجلا وهو يقول : اللهم إني أسألك الصبر فقال : سألت الله البلاء فاسأله العافية . رواه الترمذي
حضرت معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو اس طرح کہہ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے پوری نعمت مانگتا ہوں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا پوری نعمت کیا چیز ہے ؟ اس شخص نے کہا یہ دعا ہے جس کے ذریعہ میں زیادہ مال کے حصول کی امید رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نادان ! جان لے جنت میں داخل ہونا اور دو خ سے نجات پانا پوری نعمت ہے۔ نیز آپ ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو بارگاہ حق میں ان الفاظ کے ذریعہ عرض رساں تھا یا ذالجلال والاکرام یعنی اے بزرگی و بخشش کے مالک آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی لہٰذا جو مانگنا ہو مانگ لو۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے سنا ایک شخص یہ دعا مانگ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تم تو اللہ تعالیٰ سے بلا مانگ رہے ہو۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ تم اس سے عافیت مانگو۔ (ترمذی)

تشریح
حدیث کے پہلے جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص دنیا کی نعمت کو پوری نعمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے حصول کی دعا مانگ رہا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسے متنبہ فرمایا کہ دنیا کی نعمت ایسی نعمت نہیں ہے جس کو اس طرح طلب کیا جائے کیونکہ یہ فنا ہوجانے والی ہے پوری نعمت اور حقیقی نعمت تو جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے نجات پانا ہے اس لئے اس نعمت کے حصول کی دعا مانگنی چاہئے۔ حدیث کے آخری جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص صبر مانگ رہا تھا ظاہر ہے صبر کی ضرورت مصیبت و بلاء کے بعد ہی ہوتی ہے اس لئے صبر مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ بالواسطہ بلا مانگ رہا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا صبر نہ مانگو کیونکہ اس طرح بلاء کا مانگنا مفہوم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو کہ وہ تمہیں تمام مصائب اور تمام بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ ہاں اگر کسی مصیبت و بلاء میں مبتلا ہو تو پھر صبر کی طاقت مانگنا اور بلاء و مصیبت پر صبر کرنا چاہئے۔

2462

صحیح
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من جلس مجلسا فكثر فيه لغطه فقال قبل أن يقوم : سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك إلا غفر له ما كان في مجلسه ذلك . رواه الترمذي والبيهقي في الدعوات الكبير
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایسی مجلس میں شریک ہو جہاں بےفائدہ باتیں ہو رہی ہوں اور وہاں سے اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا وہ اس کے لئے بخش دیا جاتا ہے (دعا یہ ہے) سبحانک اللہم وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک) یعنی تو پاک ہے اے الٰہی اور تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور میں تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ ترمذی، بیہقی)

تشریح
لفظ لغط سے یہاں مراد ایسا کلام ہے اور ایسی بات چیت ہے جس کی وجہ سے گناہ ہوتا ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغط کے معنی ہیں بےفائدہ کلام، بہرکیف حدیث بالا میں جو دعا ذکر کی گئی ہے اسے کفارۃ المجلس کہتے ہیں یعنی جس مجلس میں گناہ یا بےفائدہ باتیں ہوتی ہوں یا ہنسی ٹھٹھا ہوا ہو تو اس دعا کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو معاف کردیتا ہے گویا یہ مجلس کی غیر شرع اور غیر پسندیدہ باتوں کا کفارہ ہوجاتی ہے۔

2463

صحیح
وعن علي : أنه أتي بدابة ليركبها فلما وضع رجله في الركاب قال : بسم الله فلما استوى على ظهرها قال : الحمد لله ثم قال : ( سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون ) ثم قال : الحمد لله ثلاثا والله أكبر ثلاثا سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت ثم ضحك فقيل : من أي شيء ضحكت يا أمير المؤمنين ؟ قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم صنع كما صنعت ثم ضحك فقلت : من أي شيء ضحكت يا رسول الله ؟ قال : إن ربك ليعجب من عبده إذا قال : رب اغفر لي ذنوبي يقول : يعلم أنه لا يغفر الذنوب غيري رواه أحمد والترمذي وأبو داود
حضرت علی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ ان کی خدمت میں سواری کا جانور لایا گیا تاکہ وہ اس پر سوار ہوں چناچہ انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں ڈالا یعنی (سوار ہونے کے لئے رکاب میں پاؤں ڈالنے کا ارادہ کیا) تو کہا بسم اللہ پھر جب اس کی پیٹھ پر چڑھے تو کہا الحمدللہ یعنی سواری کی نعمتوں اور اس کے علاوہ دوسری نعمتوں پر اللہ کا شکر ہے۔ اور پھر یہ کلمات پڑھے آیت (سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) (یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابعدار کیا جب کہ ہمیں اس کی طاقت حاصل نہیں تھی اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں) اس کے بعد انہوں نے تین مرتبہ الحمدللہ اور تین بار اللہ اکبر کہہ کر یہ پڑھا سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت (یعنی اے پروردگار تو پاک ہے بیشک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے پس تو مجھے بخش دے بلاشک گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ہے) پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہنسے ان سے پوچھا گیا کہ امیر المؤمنین آپ کیوں ہنسے ہیں ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا آپ ﷺ نے اسی طرح کیا جس طرح میں نے کیا اور پھر آپ ﷺ ہنسے میں نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ! آپ کس چیز کی وجہ سے ہنسے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا پروردگار ! اپنے بندہ سے راضی ہوتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار میرے لئے گناہوں کو بخش دے۔ چناچہ جب بندہ پروردگار سے بخشش چاہتا ہے تو پروردگار فرماتا ہے کہ یہ بندہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے سوا کوئی نہیں بخشتا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
نبی کریم ﷺ تو اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی وجہ سے ہنسے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہنسنا آنحضرت ﷺ کی اتباع اور پیروی کی بناء پر تھا۔

2464

صحیح
وعن ابن عمر قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا ودع رجلا أخذ بيده فلا يدعها حتى يكون الرجل هو يدع يد النبي صلى الله عليه و سلم ويقول : أستودع الله دينك وأمانتك وآخر عملك وفي رواية خواتيم عملك . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه وفي روايتهما لم يذكر : وآخر عملك
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی شخص (مسافر) کو رخصت کرتے تو آپ ﷺ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لیتے اور اس کے ہاتھ کو اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ آنحضرت ﷺ کے دست مبارک کو نہ چھوڑ دیتا (یعنی آپ ﷺ بسبب حسن اخلاق و تواضع ایسا کرتے) اور پھر فرماتے استودع اللہ دینک وامانتک واخر عملک (میں نے تیرا دین، تیری امانت اور تیرا آخری عمل اللہ کے سپرد کیا (یعنی میں تیرے دین اور تیری امانت کی حفاظت کا طلبگار ہوں اور اللہ کرے تیرا خاتمہ بخیر ہو) اور ایک روایت میں واخر عملک کی بجائے وخواتیم عملک ہے یعنی تیرے آخری اعمال میں بھی اللہ کے سپرد کرتا ہوں (دونوں کا مطلب ایک ہی ہے) اس روایت کو ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایتوں میں واخر عملک کے الفاظ نہیں ہیں)

تشریح
امانت سے مراد وہ اموال ہیں جن سے لوگوں کے ساتھ لین دین کیا جاتا ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ امانت سے مراد وہ اہل و اولاد ہیں جنہیں مسافر گھر میں چھوڑ کر راہ سفر اختیار کرتا ہے۔

2465

صحیح
وعن عبد الله الخطمي قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أراد أن يستودع الجيش قال : أستودع الله دينكم وأمانتكم وخواتيم أعمالكم . رواه أبو داود
حضرت عبداللہ خطمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب لشکر کو رخصت کرنے کا ارادہ فرماتے تو دعا فرماتے میں نے تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارا آخری عمل اللہ کو سونپا۔

2466

صحیح
وعن أنس قال : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم قال : يا رسول الله إني أريد سفرا فزودني فقال : زودك الله التقوى . قال : زدني قال : وغفر ذنبك قال : زدني بأبي أنت وأمي قال : ويسر لك الخير حيثما كنت . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن غريب
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں سفر میں روانہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے توشہ عنایت فرمائیے (یعنی میرے لئے دعا فرمائیے) تاکہ اس کی برکت سفر میں توشہ کی مانند میرے ساتھ ہو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تقویٰ کو تمہارا توشہ بنائے (یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں پرہیزگاری نصیب کرے کہ یہ راہ آخرت کا توشہ ہے اس نے عرض کیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان، میرے لئے مزید کوئی دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور تم جہاں کہیں بھی رہو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی بھلائی کو تمہارے لئے آسان کرے اور اس کی توفیق بخشے، امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

2467

صحیح
وعن أبي هريرة قال : إن رجلا قال : يا رسول الله إني أريد أن أسافر فأوصني قال : عليك بتقوى الله والتكبير على كل شرف . قال : فلما ولى الرجل قال : اللهم اطو له البعد وهون عليه السفر . رواه الترمذي
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں سفر میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کوئی نصیحت فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈرنے کو اور راہ سفر میں ہر بلند جگہ اللہ اکبر کہنے کو اپنے اوپر لازم کرو پھر جب وہ شخص آپ ﷺ کے پاس سے واپس ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس کے لئے سفر کی درازی کو لپیٹ دے (یعنی اس کی دراز مسافت کو مختصر فرما کر سفر کی مشقتوں کو دور کر دے اور اس کے سفر کے تمام امور کو اس پر آسان کر دے۔ (ترمذی)

تشریح
علیک بتقویٰ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ خوف و خشیت الٰہی اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو، شرک و گناہ اور شبہ کی چیزوں کو ترک کرو اور ایسی چیزوں کو بھی اختیار نہ کرو جو ضرورت و حاجت سے زاید ہوں۔ عبادت و ذکر اللہ میں غفلت اور ماسوی اللہ کے دھیان سے بچو، نیز اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ جانو اور نہ غیر اللہ پر اعتماد کرو۔

2468

صحیح
وعن ابن عمر قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا سافر فأقبل الليل قال : يا أرض ربي وربك الله أعوذ بالله من شرك وشر ما فيك وشر ما خلق فيك وشر ما يدب عليك وأعوذ بالله من أسد وأسود ومن الحية والعقرب ومن شر ساكن البلد ومن والد وما ولد . رواه أبو داود
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سفر کرتے اور رات آتی تو آپ ﷺ یہ فرماتے اے زمین میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کی برائی سے مثلاً خسف وغیرہ سے اور اس چیز کی برائی سے جو تیرے اندر ہے جیسے پانی یا تجھ سے پیدا ہونے والی ایسی بوٹی وغیرہ جو کسی کو ہلاک کر دے اور اس چیز کی برائی سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے جیسے زہریلے جانور اور ہلاک کردینے والی چیزیں اور ان چیزوں کی برائی سے جو تجھ پر چلتی پھرتی ہیں جیسے حشرات الارض اور حیوانات جو ضرر پہنچاتے ہیں اور اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیر سے، کالے سانپ سے دوسرے قسم کے سانپوں سے اور بچھو سے اور آبادی میں رہنے والوں کی برائی سے (بعض حضرات کہتے ہیں ان سے مراد جنات ہیں جو ہر آبادی اور ہر زمین میں رہتے ہیں) اور جننے والے کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے کہ جنا گیا یعنی ابلیس لعین اور اس کی اولاد کی شر سے یا ہر جننے والے اور اس کی اولاد کی شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ( ابوداؤد )

2469

ضعیف
وعن أنس رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا غزا قال : اللهم أنت عضدي ونصيري بك أحول وبك أصول وبك أقاتل . رواه الترمذي وأبو داود
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ جب جہاد کرتے تو یہ فرماتے دعا (اللہم انت عضدی ونصیری بک احول وبک اقاتل ) ۔ اے اللہ تو ہی میرا معتمد علیہ ہے۔ یعنی مجھے ہر معاملہ میں تجھی پر بھروسہ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے کفار کے مکر و فریب کو دور کرنے کے لئے میں تیری قوت کے ساتھ حیلہ کرتا ہوں (یعنی ان کی طرف جنگ کے لئے متوجہ ہوں) اور تیری ہی قوت کے ساتھ دشمنان دین پر حملہ کرتا ہوں) اور تیری ہی مدد کے ساتھ دین کے ان دشمنوں سے لڑتا ہوں۔ (ترمذی، ابوداؤد )

2470

ضعیف
وعن أبي موسى : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا خاف قوما قال : اللهم إنا نجعلك في نحورهم ونعوذ بك من شرورهم . رواه أحمد وأبو داود
حضرت ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب کسی قوم (دشمن) سے اندیشہ ہوتا تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھتے (اللہم انا نجعلک فی نحورہم ونعوذبک من شرورہم) اے اللہ ہم تجھ کو دشمن کے مقابل کرتے ہیں یعنی تجھ سے اس بات کی درخواست کرتے ہیں کہ تو ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہو اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ (احمد، ابوداؤد)

تشریح
حصن حصین میں لکھا ہے کہ جو شخص دشمن یا کسی اور کے خوف میں مبتلاء ہو تو سورت لایلاف قریش پڑھنا ہر شر و خوف سے امان کا باعث ہوگا اور یہ عمل مجرب ہے۔

2471

ضعیف
وعن أم سلمة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا خرج من بيته قال : بسم الله توكلت على الله اللهم إنا نعوذ بك من أن نزل أو نضل أو نظلم أو نظلم أو نجهل أو يجهل علينا . رواه أحمد والترمذي والنسائي وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح وفي رواية أبي داود وابن ماجه قالت أم سلمة : ما خرج رسول الله صلى الله عليه و سلم من بيتي قط إلا رفع طرفه إلى السماء فقال : اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أضل أو أظلم أو أظلم أو أجهل أو يجهل علي
ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے (بسم اللہ توکلت علی اللہ اللہم انا نعوذبک من ان نزل او نضل او نظلم او نظلم او نجہل او یجہل علینا) ۔ گھر سے نکلتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ، بھروسہ کیا میں نے اللہ پر اے اللہ ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس سے کہ پھسلیں یعنی بلا قصد گناہ میں مبتلا ہوجائیں یا ہم گمراہ ہوں یعنی قصدا گناہ کریں یا ہم ظلم کریں یا ہم پر طلم کیا جائے یا ہم پھر جہالت میں مبتلا ہوں یا ہمیں جہالت میں مبتلا کیا جائے۔ (احمد، ترمذی، نسائی) نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ جب بھی میرے گھر سے نکلتے آسمان کی طرف اپنی نگاہ اٹھا کر یوں فرماتے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک ان اضل او اضل او اظلم او اظلم او اجہل او یجعل علی) ۔ اے اللہ میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں گمراہ ہوں یا گمراہ کیا جاؤں (یعنی مجھے کوئی گمراہ کردے) یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے یا میں جہالت میں مبتلا ہوں یا مجھے جہالت میں مبتلا کیا جائے۔

2472

ضعیف
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا خرج الرجل من بيته فقال : بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله يقال له حينئذ هديت وكفيت ووقيت فيتنحى له الشيطان ويقول شيطان آخر : كيف لك برجل قد هدي وكفي ووقي . رواه أبو داود وروى الترمذي إلى قوله : الشيطان
حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے اور پھر یہ پڑھتا ہے۔ دعا (بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ) ۔ (یعنی نکلتا ہوں میں اللہ کے نام کے ساتھ بھروسہ کیا میں نے اللہ پر، گناہوں سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اس وقت اس سے کہا جاتا ہے (یعنی فرشتہ اسے بتاتا ہے) کہ اے اللہ کے بندے ! تجھے راہ راست دکھائی گئی تجھے (جمع مہمات اور تمام امور میں) غیر سے مستغنی کردیا گیا ہے اور تو تمام برائیوں سے محفوظ رہا، چناچہ یہ سن کر شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے اور دوسرا شیطان اس شیطان کی تسلی کے لئے اس سے کہتا ہے کہ تو اس شخص پر کیونکر قابو پاسکتا ہے جسے راہ راست دکھائی گئی جسے غیر سے مستثنی کردیا گیا جو تمام برائیوں سے محفوظ رہا۔ (ابوداؤد) امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ لہ الشیطان تک نقل کیا ہے۔

تشریح
تجھے راہ راست دکھائی گئی۔ یعنی چونکہ تو نے اللہ کا نام لیا، اسی کی ذات پر توکل و اعتماد کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ کو عاجز جانا اس لئے تو نے راہ راست پائی کیونکہ راہ راست یہی ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے اور اسی پر اعتماد و توکل کر کے اپنے تمام امور اس کی طرف سونپ دے۔ کار خود راہ واللہ باگزار کت نمی بینم ازیں بہتر کار امام نووی کی کتاب الاذکار کے مطابق کتاب ابن سنی میں حضرت عمر (رض) کی یہ روایت منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص معاشی تنگی میں مبتلا ہو تو اس کو کون سی چیز اس بات سے روکتی ہے کہ وہ جب گھر سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ دعا (بسم اللہ علی نفسی ومالی ودینی اللہم رضنی بقضائک وبارک لی فیما قدرت لی حتی لا احب تعجیل ما اخرت ولا تاخیر ما عجلت) ۔ میں گھر سے نکلا اللہ کے نام سے جو مالک ہے میری جان، میرے مال اور میرے دین کا اے اللہ ! تو مجھے مطمئن کر دے اپنے فیصلہ پر اور تو مجھے برکت دے اس چیز میں جو تو نے میرا مقدر کردیا ہے یہاں تک کہ میں نہ پسند کروں اس چیز میں عجلت کو جس کو تو نے مؤخر کیا اور نہ چاہوں تاخیر اس چیز میں جس میں تو نے عجلت کو پسند کیا۔ نیز ابن ماجہ میں یہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص نماز کے لئے اپنے گھر سے نکلے اور پھر یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف بذات خود متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں دعا یہ ہے۔ (اللہم انی اسألک بحق ممشای ہذا فانی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا ریاء ولا سمعۃ وخرجت اتقاء سکطک وابتغاء مرضتک فاسئلک ان تعیذنی من النار وان تغفر لی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت) ۔ اے اللہ ! میں درخواست کرتا ہوں تجھ سے اپنے چلنے کے وسیلہ سے اس لئے میں نہیں نکلا تکبر کے ساتھ اور نہ اترا کر اور نہ ریا کاری کے لئے اور نہ نمود کے لئے بلکہ میں تیرے غضب سے ڈر کر اور تیری خوشنودی کی طلب میں اس لئے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو مجھے دوزخ کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھ اور میرے تمام گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔

2473

ضعیف
وعن أبي مالك الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا ولج الرجل بيته فليقل : اللهم إني أسألك خير المولج وخير المخرج بسم الله ولجنا وعلى الله ربنا توكلنا ثم ليسلم على أهله . رواه أبو داود
حضرت ابومالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیر المولج وخیر المخرج بسم اللہ ولجنا وعلی اللہ ربنا توکلنا) ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر میں داخل ہونے اور گھر سے باہر نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں (یعنی گھر میں آنا اور گھر سے نکلنا خیر و برکت کے ساتھ ہو) ۔ اللہ کے نام سے ہم گھر میں داخل ہوئے اور ہم نے اللہ پر کہ وہ ہمارا رب ہے بھروسہ کیا) اس کے بعد اسے چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔ (ابوداؤد)

تشریح
حصن حصین میں یہ دعا ابوداؤد ہی سے نقل کی گئی ہے اس میں بسم اللہ ولجنا کے بعد بسم اللہ خرجنا۔ اللہ کے نام سے ہم گھر سے نکلے۔ بھی ہے چناچہ اصل ابوداؤد کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں بھی یہ جملہ موجود ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ یا تو خود مؤلف مشکوۃ علیہ الرحمہ اس جملہ کو لکھنا بھول گئے ہوں یا پھر کاتب کی غلطی سے یہ جملہ نقل ہونے سے رہ گیا ہو، بہرکیف اس دعا کو پڑھتے وقت اس جملہ کو بھی پڑھنا چاہئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اپنے گھر میں داخل ہونے اور یہ دعا پڑھنے کے بعد اپنے گھر والوں کو تو سلام کرنا ہی چاہئے جیسا کہ حدیث نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے لیکن اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تب بھی بہ نیت ملائکہ سلام کرلینا چاہئے کیونکہ وہاں ملائکہ تو بہر صورت ہوتے ہی ہیں اور اس صورت میں اس طرح سلام کرنا چاہئے۔ السلام علی عباد اللہ الصالحین۔

2474

صحیح
وعن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا رفأ الإنسان إذا تزوج قال : بارك الله لك وبارك عليكما وجمع بينكما في خير رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نکاح کرتا اور نبی کریم ﷺ اسے دعا دیتے تو یہ فرماتے (بارک اللہ لک وبارک علیکما وجمع بینکما فی خیر) ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مبارک فرمائے اور تم دونوں میاں بیوی کو برکت دے یعنی تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور اولاد رزق کی وسعت اور فراوانی سے نوازے اور تم دونوں میں بھلائی جمع کرے (یعنی تمہیں طاعت و عبادت کی توفیق بخشے صحت و عافیت کے ساتھ تمہاری زندگی گزارے تم دونوں میں پیار و محبت اور حسن سلوک ہمیشہ قائم رکھے تمہاری اولاد کو نیک و صالح بنائے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

2475

صحیح
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إذا تزوج أحدكم امرأة أو اشترى خادما فليقل اللهم إني أسألك خيرها وخير ما جبلتها عليه وأعوذ بك من شرها وشر ما جبلتها عليه وإذا اشترى بعيرا فليأخذ بذروة سنامه وليقل مثل ذلك . وفي رواية في المرأة والخادم : ثم ليأخذ بناصيتها وليدع بالبركة . رواه أبو داود وابن ماجه
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور وہ اپنے دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے اور عبداللہ بن عمرو نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے یا کوئی غلام خریدے تو وہ یہ دعا پڑھے (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر ما جبلتہا علیہ واعوذبک من شرہا وشر ماجبلتہا) ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے اس کی ذات کی بھلائی مانگتا ہوں اور بھلائی اس چیز کی جس پر تو نے ان کو پیدا کیا یعنی اچھے اخلاق اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جس پر تو نے اسے پیدا کیا (یعنی برے اخلاق و افعال) اور جب اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کی بلندی کو پکڑ کر اسی طرح کہے یعنی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔ ایک اور روایت میں عورت اور غلام کے بارے میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ پھر عورت یا غلام کی پیشانی کے بال پکڑ کر خیر و برکت کی دعا کرے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح
خیر و برکت کی دعا سے یہی مذکورہ بالا دعا ہے جیسا کہ حصن حصین سے مفہوم معلوم ہوتا ہے یعنی عورت یا غلام کی پیشانی کے بال پکڑ کر تب یہ دعا پڑھی جائے۔ علامہ جزری فرماتے ہیں کہ صرف اونٹ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ جو بھی جانور خریدا جائے۔ یہ دعا پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اس جانور میں برکت و ترقی عطا فرمائے گا۔

2476

ضعیف
وعن أبي بكرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : دعوات المكروب اللهم رحمتك أرجو فلا تكلني إلى نفسي طرفة عين وأصلح لي شأني كله لا إله إلا أنت . رواه أبو داود
حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ غمزدہ کی دعا جس کو پڑھنے سے غم جاتا رہتا ہے۔ یہ ہے دعا (اللہم رحمتک ارجو فلا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین واصلح لی شانی کلہ لا الہ الا انت) ۔ اے اللہ ! میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر (کیونکہ وہ میرا بڑا دشمن ہے اور عاجز ہے وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ حاجت روائی کرسکے) اور میرے سارے کاموں کو درست کر دے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (ابوداؤد)

2477

ضعیف
وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رجل : هموم لزمتني وديون يا رسول الله قال : أفلا أعلمك كلاما إذا قلته أذهب الله همك وقضى عنك دينك ؟ قال : قلت : بلي قال : قل إذا أصبحت وإذا أمسيت : اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن وأعوذ بك من غلبة الدين وقهر الرجال . قال : ففعلت ذلك فأذهب الله همي وقضى عن ديني . رواه أبو داود
حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے فکر و غم نے گھیر رکھا ہے اور قرض نے جکڑ رکھا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتادوں جسے اگر تم پڑھ لیا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارا فکر دور کر دے قرض کے بارے میں تمہیں نجات دے۔ حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ ہاں ضرور بتائیے ! آپ ﷺ نے فرمایا صبح شام دونوں وقت یہ دعا پڑھا کرو۔ (اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن واعوذ بک من العجز والکسل واعوذ بک من البخل والجبن واعوذ بک من غلبۃ الدین وقہر الرجال) ۔ اس شخص کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا ٠ یعنی یہ دعا پڑھنے لگا) چناچہ اللہ تعالیٰ نے میری فکر دور فرما دی اور میرے اوپر سے قرض کا بوجھ اتار دیا۔ (ابوداؤد)

تشریح
عاجزی سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ ادائے طاعت و عبادت اور مصیبت و مشقت کے تحمل پر قادر نہ ہو سکوں اور ان سے عاجز رہو۔ بخل سے مراد یہ ہے زکوۃ، کفارات اور دوسرے واجبات مالیہ کی ادائیگی کا ترک کرنا، سائل و محتاج کو اپنے در سے نامراد واپس کردینا مہمان کی ضیافت نہ کرنا، سلام نہ کرنا اور سلام کا جواب نہ دینا، اگر کوئی علمی سوال کیا جائے یا کوئی دینی مسئلہ پوچھا جائے تو اس کو جانتے ہوئے اور اس کا علم رکھتے ہوئے بھی اس علمی سوال کا جواب نہ دینا اور وہ مسئلہ نہ بتانا۔ اور نبی کریم ﷺ کا اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنا۔ نامردی سے مراد یہ ہے کہ جہاد کے وقت دشمنوں سے ڈر کر مقابلہ کی ہمت ہار بیٹھنا، اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے موقع پر جرات اور حق گوئی کا مظاہرہ نہ کرنا اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں دل سے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد نہ کرنا۔

2478

صحیح
وعن علي : أنه جاءه مكاتب فقال : إني عجزت عن كتابي فأعني قال : ألا أعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه و سلم لو كان عليك مثل جبل كبير دينا أداه الله عنك . قل : اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك . رواه الترمذي والبيهقي في الدعوات الكبير وسنذكر حديث جابر : إذا سمعتم نباح الكلاب في باب تغطية الأواني إن شاء الله تعالى
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے پاس ایک مکاتب آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنا بدل کتابت ادا کرنے پر قادر نہیں ہوں (یعنی مال کتابت ادا کرنے کا وقت آگیا ہے مگر میرے پاس مال نہیں ہے اس لئے آپ مال و دعا سے میری مدد کیجئے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ کیا تمہیں وہ دعا نہ بتادوں جو نبی کریم ﷺ نے مجھے سکھائی تھی کہ جس کی برکت سے اگر تمہارے اوپر پہاڑ کی مانند بھی قرض ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے ذمہ سے ادا کر دے گا۔ تو سنو وہ دعا یہ ہے تم اس کو پڑھ لیا کرو۔ دعا (اللہم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عمن سواک) ۔ اے اللہ ! مجھے حلال مال کے ذریعہ حرام سے بےنیاز کر دے (یعنی مجھے حلال رزق عطا فرما تاکہ اس کی وجہ سے حرام مال سے بےنیاز ہوجاؤں۔ اور اپنے فضل و کرم کے ذریعہ اپنے ماسوا سے مجھے مستغنی کر دے۔ (ترمذی، بیہقی)

تشریح
مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے لکھوالے کہ جب وہ اتنا مال یا اتنے روپے ادا کر دے گا تو اس وقت وہ آزاد ہوجائے گا اسی طرح بدل کتابت اس مال کو کہتے ہیں جس کو ادا کرنے کی ذمہ داری اس مکاتب غلام نے قبول کرلی ہو لہٰذا جب وہ مقررہ مال ادا کر دے گا تو اسی وقت آزاد ہوجائے گا۔ اور حضرت جابر (رض) کی روایت اذا سمعتم نباح الکلاب ہم انشاء اللہ باب تغطیۃ الاوانی میں ذکر کریں گے۔

2479

صحیح
وعن عائشة قالت : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا جلس مجلسا أو صلى تكلم بكلمات فسألته عن الكلمات فقال : إن تكلم بخير كان طابعا عليهن إلى يوم القيامة وإن تكلم بشر كان كفارة له : سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك . رواه النسائي
ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھتے یا نماز پڑھتے تو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے یا نماز سے فراغت کے بعد چند کلمات پڑھا کرتے تھے ایک مرتبہ میں نے آپ ﷺ سے پوچھا (کہ ان کلمات کو پڑھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر ان کلمات سے پہلے مجلس میں نیک باتیں ہوئی ہوں گی تو یہ کلمات ان نیک باتوں پر قیامت تک کے لئے مہر ہوجائیں گے (یعنی ان کلمات کو پڑھنے سے وہ نیک باتیں قیامت تک محفوظ رہیں گی کہ ان کا ثواب ضائع نہیں ہوگا) اگر ان کلمات سے پہلے مجلس میں بری باتیں ہوں گی) تو یہ کلمات ان بری باتوں کی معافی اور بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ دعا (سبحانک اللہم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک) ۔ پاک ہے تو اے اللہ ! اور تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کی جاتی ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ (نسائی)

2480

ضعیف
وعن قتادة : بلغه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا رأى الهلال قال : هلال خير ورشد هلال خير ورشد هلال خير ورشد آمنت بالذي خلقك ثلاث مرات ثم يقول : الحمد لله الذي ذهب بشهر كذا وجاء بشهر كذا . رواه أبو داود
حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ ان تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم ﷺ جب ماہ نو دیکھتے تو یہ کہتے ہلال خیر و رشد ہلال خیر و رشد ہلال خیر و رشد۔ یعنی چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا، چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا، چاند ہے بھلائی اور ہدایت کا (اسی کے ساتھ یہ کہتے) اٰمنت بالذی خلقک۔ یعنی اے چاند میں اس ذات پاک پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا کیا یہ بھی تین بار فرماتے اور پھر اس کے بعد کہتے۔ دعا (الحمدللہ الذی ذہب بشہر کذا وجاء بشہر کذا) ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس مہینہ کو ختم کیا اور اس مہینہ کی ابتدا کی۔ کذا کی جگہ گزشتہ اور آئندہ مہینہ کا نام لیتے۔ (ابوداؤد)

تشریح
جیسا کہ دارمی میں حضرت ابن عمر (رض) کی روایت سے واضح ہے آپ ﷺ ماہ نو کو دیکھ کر پہلے اللہ اکبر کہتے پھر اس کے بعد ہلال خیر و رشد الخ کہتے۔ چاند ہے بھلائی و ہدایت کا اس جملہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دعائیہ جملہ ہے یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ خدایا یہ چاند بھلائی اور ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ بطور فال نیک جملہ خبریہ ہی ہے۔

2481

ضعیف
وعن ابن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من كثر همه فليقل : اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك وفي قبضتك ناصيتي بيدك ماض في حكمك عدل في قضاؤك أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك أو أنزلته في كتابك أو علمته أحدا من خلقك أو ألهمت عبادك أو استأثرت به في مكنون الغيب عندك أن تجعل القرآن ربيع قلبي وجلاء همي وغمي ما قالها عبد قط إلا أذهب الله غمه وأبدله فرجا . رواه رزين
حضرت ابن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو بہت زیادہ فکروں نے گھیر رکھا ہو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی عبدک وابن عبدک وابن امتک وفی قبضتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قضائک اسئلک بکل اسم ہو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک او الہمت عبادک او استأثرت بہ فی مکنون الغیب عند ان تجعل القرآن ربیع قلبی وجلاء ھمی وغمی) ۔ اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری لونڈی کا بیٹا ہوں تیرے قبضہ میں ہوں، یعنی تیری ملک اور تیرے تصرف میں ہوں، میری پیشانی کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں تیری مدد کے بغیر مجھے حرکت و سکون کی قوت بھی حاصل نہیں میرے حق میں تیرا حکم جاری ہے۔ یعنی تیرے حکم کو توقف اور کوئی روکنے والا نہیں جو تو کہتا ہے اور چاہتا ہے وہی ہوتا ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل و انصاف ہے۔ یعنی میرے مقدر میں جو کچھ تو نے لکھ دیا ہے وہی عین انصاف ہے میں تجھ سے ہر نام کے وسیلہ سے مانگتا ہوں جسے تو نے اپنی ذات کے لئے اختیار کیا ہے یا اس کو اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اس کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھایا ہے یعنی کتاب میں ذکر کئے بغیر انبیاء کو الہام کیا ہے یا تو نے اسے اپنے ہاں پردہ غیب میں اختیار کیا ہے یعنی وہ تیرے علاوہ کسی کو معلوم نہیں یہ کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میری آنکھوں کا نور اور میرے فکر و غم کو دور کرنے والا بنا دے۔ اس دعا کو جو بھی بندہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر غم دور کردیتا ہے اور اس کے بدلہ خوشی عطا فرماتا ہے۔ (رزین)

2482

صحیح
وعن جابر قال : كنا إذا صعدنا كبرنا وإذا نزلنا سبحنا . رواه البخاري
حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب اترتے تو سبحان اللہ کہتے۔ (بخاری)

2483

صحیح
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا كربه أمر يقول : يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وليس بمحفوظ
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب معاملہ غمگین کرتا تو آپ ﷺ یہ فرماتے۔ دعا (یا حی یا قیوم برحمتک استغیث) ۔ یعنی اے زندہ ! اے قائم رکھنے والے میں تیری رحمت کے ذریعہ فریاد رسی چاہتا ہوں۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے محفوظ نہیں ہے۔

تشریح
اس روایت کو حاکم اور ابن سنی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے۔ نیز حاکم اور نسائی نے اسے حضرت علی (رض) سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ویکرر وہو ساجد یا حی یا قیوم یعنی آپ ﷺ سجدہ میں یا حی یا قیوم بار بار کہتے۔

2484

صحیح
وعن أبي سعيد الخدري قال : قلنا يوم الخندق : يا رسول الله هل من شيء نقوله ؟ فقد بلغت القلوب الحناجر قال : نعم اللهم استر عوراتنا وآمن روعاتنا قال : فضرب الله وجوه أعدائه بالريح وهزم الله بالريح . رواه أحمد
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ خندق کے دن ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا کوئی ذکر و دعا ہے جسے ہم پڑھیں اور کامیاب ہوں کیونکہ ہمارے دل گردن کو پہنچ گئے ہیں (یعنی انتہائی دشواریوں اور مشقتوں نے ہمیں گھیر لیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اور وہ یہ ہے۔ دعا (اللہم استر عوراتنا واٰمن روعاتنا) ۔ یعنی اے اللہ ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے امن میں رکھ ! حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ چناچہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے منہ پر ہوا کے تھپیڑے مارے اور ہوا ہی کے ذریعہ انہیں شکست دی۔ (احمد)

تشریح
خندق کے دن سے مراد غزوہ خندق ہے جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بایں طور اپنی مدد و نصرت سے نوازا کہ ہوا کے تیز و تند تھپیڑے دشمنان دین پر مسلط کردیئے جنہوں نے ان کی ہانڈیاں الٹ دیں، ان کے خیمے اکھاڑ ڈالے اور انہیں طرح طرح کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر کے تباہ و برباد کردیا۔

2485

ضعیف
وعن بريدة قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا دخل السوق قال : بسم الله اللهم إني أسألك خير هذه السوق وخير ما فيها وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها اللهم إني أعوذ بك أن أصيب فيها صفقة خاسرة . رواه البيهقي في الدعوات الكبير
حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بازار میں آتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (بسم اللہ اللہم انی اسألک خیر ہذہ السوق وخیر ما فیہا واعوذ بک من شرہا وشر ما فیہا اللہم انی اعوذبک من ان اصیب فیہا صفقۃ خاسرۃ) ۔ آیا میں اللہ کے نام کے ساتھ ! اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں بھلائی اس بازار کی (یعنی حلال رزق میسر ہو اور اس میں نفع و برکت ہو) اور اس چیز کی بھلائی جو اس میں ہے (یعنی لوگ) اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس کی برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی فاسد خریدو فروخت اور نقصان اور فاسد لوگ) اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ اس بازار میں کسی نقصان دہ معاملہ سے دو چار ہوں۔ (بیہقی)

2486

صحیح
اس باب میں ان دعاؤں پر مشتمل احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں اکثر غیر پسندیدہ، غیر شرعی اور نقصان دہ چیزوں اور شیطان کے مکر و فریب سے اللہ رب العزت کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کلام اللہ پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا افضل ہے یا استعیذ باللہ اکثر حضرات کہتے ہیں کہ استعیذ باللہ پڑھنا افضل ہے کیونکہ قرآن کریم سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت (واذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ) ۔ تاہم احادیث وآثار سے چونکہ اعوذ باللہ پڑھنا بھی ثابت ہے اس لئے اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔