hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

65. عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان

مشكاة المصابيح

2646

صحیح
عن هشام بن عروة عن أبيه قال : سئل أسامة بن زيد : كيف كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسير في حجة الوداع حين دفع ؟ قال : كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص
حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی میں آنحضرت ﷺ کی رفتار کیا تھی ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی رفتار تیز تھی اور جہاں کہیں کشادہ راستہ ملتا (اپنی سواری) دوڑاتے۔ (بخاری ومسلم)

2647

صحیح
وعن ابن عباس أنه دفع مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه و سلم وراءه زجرا شديدا وضربا للإبل فأشار بسوطه إليهم وقال : يا أيها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع . رواه البخاري
حضرت ابن عباس (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منیٰ کی طرف) واپسی میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت ﷺ نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا) شور و شغب سنا تو آپ ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہوجائیں اور آپ ﷺ کی بات سنیں) اور فرمایا لوگوں ! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری)

تشریح
دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہوگا۔

2648

صحیح
وعنه أن أسامة بن زيد كان ردف النبي صلى الله عليه و سلم من عرفة إلى المزدلفة ثم أردف الفضل من المزدلفة إلى منى فكلاهما قال : لم يزل النبي صلى الله عليه و سلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عرفات سے مزدلفہ تک تو اسامہ ابن زید (رض) نبی کریم ﷺ کے پیچھے بیٹھے رہے پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا اور ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرہ عقبہ پر کنکری ماری (یعنی قربانی کے دن جب جمرہ عقبہ پر پہلی ہی کنکری ماری تو تلبیہ موقوف کردیا) (بخاری و مسلم)

2649

صحیح
وعن ابن عمر قال : جمع النبي صلى الله عليه و سلم المغرب والعشاء بجمع كل واحدة منهما بإقامة ولم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما . رواه البخاري
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا (یعنی عشاء کے وقت دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا) اور ان میں سے ہر ایک کے لئے تکبیر کہی گئی (یعنی مغرب کے لئے علیحدہ تکبیر ہوئی اور عشاء کے لئے علیحدہ) اور آپ ﷺ نے نہ تو ان دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھی اور نہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعد۔ (بخاری)

تشریح
ان نمازوں کے بعد نفل پڑھنے کی جو نفی کی گئی ہے تو اس سے ان دونوں کے بعد سنتیں اور وتر پڑھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔ باب قصۃ حجۃ الوداع میں حضرت جابر (رض) کی جو طویل حدیث گزری ہے اس کے ان الفاظ لم یسبح بینہما شیأ کی وضاحت میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ جب مزدلفہ میں آپ ﷺ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ چکے تو مغرب و عشاء کی سنتیں اور نماز وتر بھی پڑھی۔ چناچہ ایک روایت میں بھی یہ منقول ہے کہ نیز شیخ عابد سندھی نے در مختار کے حاشیہ میں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال نقل کرنے کے بعد یہی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز کے بعد سنتیں اور وتر پڑھی۔

2650

صحیح
وعن عبد الله بن مسعود قال : ما رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى صلاة إلا لميقاتها إلا صلاتين : صلاة المغرب والعشاء بجمع وصلى الفجر يومئذ قبل ميقاتها
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں پڑھی ہو سوائے دو نمازوں کے کہ وہ مغرب و عشاء کی ہیں جو مزدلفہ میں پڑھی گئی تھیں (یعنی مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی) اور اس دن (یعنی مزدلفہ میں م قربانی کے دن) فجر کی نماز آپ ﷺ نے وقت سے پہلے پڑھی تھی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
یہاں صرف مغرب و عشاء کی نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی، حالانکہ آپ ﷺ نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھی تھی کہ عصر کی نماز مقدم کر کے ظہر کے وقت ہی پڑھ لی گئی تھی، لہٰذا یہاں ان دونوں نمازوں کو اس سبب سے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دن کا وقت تھا، سب ہی جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے عصر کی نماز کو مقدم کر کے ظہر کے وقت پڑھا ہے اس لئے اس کو بطور خاص ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن فجر کی نماز وقت معمول یعنی اجالا پھیلنے سے پہلے تاریکی ہی میں پڑھ لی تھی، یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے فجر کے وقت سے پہلے پڑھی تھی کیونکہ تمام ہی علماء کے نزدیک فجر کی نماز، فجر سے پہلے پڑھنی جائز نہیں ہے۔

2651

صحیح
وعن ابن عباس قال : أنا ممن قدم النبي صلى الله عليه و سلم ليلة المزدلفة في ضعفة أهله
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اہل و عیال کے کمزور ضعیف لوگوں کے جس زمرے کو مزدلفہ کی رات میں پہلے ہی بھیج دیا تھا اسی میں میں بھی شامل تھا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کمزور و ضعیف لوگوں سے مراد عورتیں اور بچے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو پہلے ہی سے منیٰ روانہ کردیا تھا ان میں حضرت ابن عباس (رض) بھی شامل تھے اور خود آنحضرت ﷺ آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور صبح روشن ہو جاتنے کے بعد منیٰ کے لئے سوار ہوئے جیسا کہ سنت ہے، آپ ﷺ نے اپنے ہی عیال کو پہلے اس لئے بھیج دیا تھا تاکہ ہجوم کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو اور ایسا کرنا جائز ہے۔

2652

صحیح
ایک اور روایت میں جو آگے آرہی ہے یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو پہلے سے روانہ کردیا اور ان سے فرمایا کہ رمی جمرہ عقبہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد ہی کرنا، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ رمی جمرہ عقبہ کا وقت دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن بعض روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں سے بس اتنا ہی فرمایا تھا کہ جاؤ اور رمی جمرہ عقبہ کرو، اس روایت میں طلوع آفتاب کی قید نہیں ہے، چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے اسی روایت پر عمل کیا کہ ان کے ہاں رمی جمرہ عقبہ کا وقت نصف شب کے بعد ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔

2653

صحیح
وعن الفضل بن عباس وكان رديف النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال في عشية عرفة وغداة جمع للناس حين دفعوا : عليكم بالسكينة وهو كاف ناقته حتى دخل محسرا وهو من منى قال : عليكم بحصى الخذف الذي يرمى به الجمرة . وقال : لم يزل رسول الله صلى الله عليه و سلم يلبي حتى رمى الجمرة . رواه مسلم
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ حضرت فضل بن عباس (رض) نے جو (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے) نبی کریم ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، بیان کیا کہ جب عرفہ کی شام کو (عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے) اور مزدلفہ کی صبح کو (مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے) لوگوں نے سواریوں کو تیزی سے ہانکنا اور مارنا شروع کیا تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اطمینان وآہستگی کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے اور اس وقت خود آنحضرت ﷺ اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے بڑھا رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ وادی محسر میں جو منیٰ (کے قریب مزدلفہ کے آخری حصہ) میں ہے پہنچے تو فرمایا کہ تمہیں (اس میدان سے) خذف کی کنکریاں اٹھا لینی چاہئیں جو جمرہ (یعنی مناروں) پر ماری جائیں گی۔ اور فضل بن عباس (رض) کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ رمی جمرہ تک برابر لبیک کہتے رہے تھے (یعنی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری ماری تو لبیک کہنا موقوف کردیا) ۔ (مسلم)

تشریح
عرفہ کے دن شام کو آنحضرت ﷺ جب میدان عرفات سے مزدلفہ کو چلے تو اس وقت حضرت فضل بن عباس (رض) آپ ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ خذف اصل میں تو چھوٹی کنکری یا کھجور کی گٹھلی دونوں شہادت کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں خذف کی مانند کنکریوں سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جو چنے کے برابر ہوتی ہیں یہاں سے اٹھا لو جو رمی جمار کے کام آئیں گی۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ سے روانگی کے وقت وہیں سے یا راستہ میں سے اور یا جہاں سے جی چاہے لے لی جائیں ہاں جمرہ کے پاس سے وہ کنکریاں نہ لی جائیں جو جمرہ پر ماری جا چکی ہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے ویسے اگر کوئی شخص جمرہ کے پاس ہی سے پہلے پھینکی گئی کنکریاں اٹھا کر مارے تو یہ جائز تو ہوجائے گا مگر خلاف اولیٰ ہوگا۔ چناچہ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں سے رمی کافی ہوجائے گی مگر ایسا کرنا برا ہے۔ اس بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ کنکریاں کتنی اٹھائی جائیں ؟ آیا صرف اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے لئے سات کنکریاں اٹھائی جائیں یا ستر کنکریاں اٹھائی جائیں جن میں سات تو اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے کام آئیں اور تریسٹھ بعد کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات پر پھینکی جائیں گی۔

2654

صحیح
وعن جابر قال : أفاض النبي صلى الله عليه و سلم من جمع وعليه السكينة وأمرهم بالسكينة وأوضع في وادي محسر وأمرهم أن يرموا بمثل حصى الخذف وقال : لعلي لا أراكم بعد عامي هذا . لم أجد هذا الحديث في الصحيحين إلا في جامع الترمذي مع تقديم وتأخير
حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ ﷺ کی رفتار میں سکون و وقار تھا اور آپ ﷺ نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ ﷺ نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ ﷺ نے (صحابہ (رض) سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چناچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ ﷺ نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ ﷺ کا وصال ہوا۔ صاحب مشکوۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔

2655

ضعیف
وعن محمد بن قيس بن مخرمة قال : خطب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إن أهل الجاهلية كانوا يدفعون من عرفة حين تكون الشمس كأنها عمائم الرجال في وجوههم قبل أن تغرب ومن المزدلفة بعد أن تطلع الشمس حين تكون كأنها عمائم الرجال في وجوههم . وإنا لا ندفع من عرفة حتى تغرب الشمس وندفع من المزدلفة قبل أن تطلع الشمس هدينا مخالف لهدي عبدة الأوثان والشرك . رواه البيهقي في شعب الإيمان وقال فيه : خطبنا وساقه بنحوه
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایام جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) لوگ عرفات سے اس وقت واپس ہوتے جب آفتاب غروب ہونے سے پہلے مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا (یعنی عرفات سے غروب آفتاب سے پہلے چلتے) اور مزدلفہ سے طلوع آفتاب کے بعد اس وقت روانہ ہوتے جب آفتاب مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا، مگر ہم عرفات سے اس وقت تک نہیں چلیں گے جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہوجائے اور مزدلفہ سے ہم سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہوں گے کیونکہ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور مشرکین سے مختلف ہے۔۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ عرفات سے ایسے وقت چلتے تھے جب آفتاب آدھا تو غروب ہوچکا ہوتا اور اس کا آدھا حصہ باہر ہوتا آفتاب کی اسی صورت کو پگڑی سے مشابہت دی گئی ہے کہ آفتاب کا آدھا گروہ پگڑی کی شکل کا ہوتا ہے، اسی طرح مزدلفہ سے ایسے وقت روانہ ہوتے جب آفتاب کا آدھا حصہ طلوع ہوچکا ہوتا اور آدھا حصہ اندر رہتا۔ صاحب مشکوۃ کو اس کی تحقیق نہیں ہوسکی تھی کہ یہ روایت کس نے نقل کی ہے، چناچہ مشکوۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ چھوٹی ہوئی ہے البتہ ایک دوسرے صحیح نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ رواہ البیہقی فی شعب الایمان وقال خطبنا وساقہ نحوہ۔

2656

ضعیف
وعن ابن عباس قال : قدمنا رسول الله صلى الله عليه و سلم ليلة المزدلفة أغيلمة بني عبد المطلب على حمرات فجعل يلطح أفخاذنا ويقول : أبيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس . رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں مزدلفہ کی رات (یعنی شب عیدالاضحی) میں (منیٰ کے لئے) روانہ کیا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ہم کئی بچے تھے (جنہیں آپ ﷺ نے رات میں روانہ کیا تھا اور گدھے ہماری سواری تھے۔ رسول کریم ﷺ (ہماری روانگی کے وقت از راہ محبت والفت) ہماری رانوں پر ہاتھ مارتے اور فرماتے تھے۔ میرے چھوٹے بچو ! جب تک سورج نہ نکلے تم منارے (یعنی جمرہ عقبہ) پر کنکریاں نہ پھینکنا۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رات میں رمی جائز نہیں ہے چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں آدھی رات کے بعد سے رمی جائز ہے، نیز طلوع فجر کے بعد اور آفتاب نکلنے سے پہلے رمی اگرچہ تمام علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کراہت کے ساتھ جواز کے قائل ہیں، حنفی مسلک کے مطابق طلوع آفتاب کے بعد رمی مستحب ہے۔

2657

صحیح
وعن عائشة قالت : أرسل النبي صلى الله عليه و سلم بأم سلمة ليلة النحر فرمت الجمرة قبل الفجر ثم مضت فأفاضت وكان ذلك اليوم اليوم الذي يكون رسول الله صلى الله عليه و سلم عندها . رواه أبو داود
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ ) بھیج دیا تھا۔ چناچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ ( جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت ﷺ ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ (رض) کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہوگئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا ؟ حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ (رض) کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس (رض) کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔

2658

ضعیف
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مقیم اور عمرہ کرنے والا حجر اسود کو بوسہ دینے تک لبیک کہتا رہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو (بطریق مرفوع) نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے۔

تشریح
مقیم سے مراد مکہ کا رہنے والا ہے جو عمرہ کرے اور عمرہ کرنے والا سے غیر مکی مراد ہے جو عمرہ کے لئے مکہ آیا ہو، لہٰذا جملہ۔ یلبی المقیم اوالمعتمر۔ میں حرف، او، تنویع کے لئے ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح حج میں رمی جمرہ عقبہ پر تلبیہ کو موقوف کرتے ہیں اسی طرح عمرہ میں حجر اسود کو چومتے ہی تلبیہ موقوف کردیا جائے۔

2659

صحیح
عن يعقوب بن عاصم بن عروة أنه سمع الشريد يقول : أفضت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فما مست قدماه الأرض حتى أتى جمعا . رواه أبو داود
حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت شرید (رض) (صحابی) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں (عرفات) واپسی میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھا چناچہ رسول کریم ﷺ کے قدم مبارک زمین پر نہیں گئے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے۔ (ابوداؤد)

تشریح
اس روایت کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عرفات سے مزدلفہ تک کا پورا راستہ سواری پر طے کیا پیدل نہیں چلے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے پورے راستہ میں زمین پر قدم ہی نہیں رکھے کیونکہ صحیح بخاری میں منقول ہے کہ عرفات سے واپسی کے موقع پر راستہ میں آپ ﷺ (سواری سے اتر کر) پہاڑ کے ایک درہ کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں پیشاب کیا اور پھر وضو کیا یہ دیکھ کر حضرت اسامہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا نماز کا وقت آگیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تو آگے آرہی ہے (یعنی مزدلفہ پہنچ کر پڑھیں گے) ۔

2660

صحیح
وعن ابن شهاب قال : أخبرني سالم أن الحجاج بن يوسف عام نزل بابن الزبير سأل عبد الله : كيف نصنع في الموقف يوم عرفة ؟ فقال سالم إن كنت تريد السنة فهجر بالصلاة يوم عرفة فقال عبد الله بن عمر : صدق إنهم كانوا يجمعون بين الظهر والعصر في السنة فقلت لسالم : أفعل ذلك رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال سالم : وهل يتبعون في ذلك إلا سنته ؟ رواه البخاري
حضرت ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے حضرت سالم (رح) نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد ؟ ) اس کا جواب سالم نے دیا کہ اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت ﷺ نے اسی طرح کیا تھا ؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت ﷺ ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری)

تشریح
جو شخص اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ حجاج بن یوسف کے نام سے بخوبی واقف ہوگا۔ یہ نام ظلم و بربریت کی داستانوں میں اپنی ایک بڑی ہی وحشت ناک داشتان کا حامل ہے۔ حجاج بن یوسف جس کے نام کا جز ہی ظالم بن چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں کو باندھ کر قتل کرایا تھا۔ عبدالملک بن مروان کی طرف سے اسی ظالم نے مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) پر چڑھائی کی تھی اور ان جلیل القدر صحابی کو اس نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اسی سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چناچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔