hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

56. صبح وشام اور سوتے وقت پڑھی جانے والی دعاؤں کا بیان

مشكاة المصابيح

2411

صحیح
صبح سے مراد ہے آفتاب طلوع ہونے تک دن کا بالکل ابتدائی حصہ شام سے مراد ہے آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے شفق غروب ہونے کے وقت تک دن کا بالکل آخری حصہ لہٰذا جو دعائیں صبح کے وقت پڑھنے کے لئے منقول ہیں ان کو چاہے نماز فجر سے پہلے پڑھا جائے چاہے نماز فجر کے بعد دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اسی طرح شام کے وقت جن دعاؤں کا پڑھنا منقول ہے ان کو بھی چاہے تو مغرب کی نماز سے پہلے پڑھا جائے چاہے مغرب کی نماز کے بعد۔

2412

صحیح
عن عبد الله قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أمسى قال : أمسينا وأمسى الملك لله والحمد لله ولا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم إني أسألك من خير هذه الليلة وخير ما فيها وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم وسوء الكبر وفتنة الدنيا وعذاب القبر وإذا أصبح قال أيضا : أصبحنا وأصبح الملك لله . وفي رواية : رب إني أعوذ بك من عذاب في النار وعذاب في القبر . رواه مسلم
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب شام ہوتی تو رسول کریم ﷺ کی لسان مقدس پر یہ الفاظ جاری ہوتے۔ دعا (امسینا وامسی الملک للہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر اللہم انی اسالک من خیر ہذہ اللیلۃ وخیر ما فیہا واعوذ بک من شرہا وشر ما فیہا اللہم انی اعوذبک من الکسل والہرم وسوء الکبر وفتنۃ الدنیا و عذاب القبر) ۔ اور جب صبح ہوتی تو آپ ﷺ اسی طرح پڑھتے لیکن شروع میں امسینا وامسی الملک للہ کی بجائے اصبحنا واصبح الملک للہ یعنی ہم نے صبح کی اور ہر چیز نے صبح کی جو اللہ کی ملک میں ہے) پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں وسوء الکبر کے بعد یہ الفاظ ہیں رب انی اعوذ بک من عذاب فی النار و عذاب فی القبر۔ (یعنی اے میرے رب میں اس عذاب سے جو دوزخ میں ہے اور عذاب سے جو قبر میں ہے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (مسلم)

تشریح
جب یہ دعا صبح کے وقت پڑھی جائے گی تو اس میں اللیلۃ کی بجائے لیوم پڑھا جائے یعنی یوں پڑھیں گے اللہم انی اسألک من خیر ہذا الیوم نیز جہاں جہاں رات کی رعایت سے مونث کی ضمیریں استعمال ہوتی ہیں وہاں دن کی رعایت سے مذکر ضمیریں استعمال ہوں گی یعنی ہا کی جگہ ہ، پڑھا جائے گا بقیہ عبارت جوں کی توں رہے گی۔

2413

صحیح
وعن حذيفة قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا أخذ مضجعه من الليل وضع يده تحت خده ثم يقول : اللهم باسمك أموت وأحيا . وإذا استيقظ قال : الحمد الله الذي أحيانا بعدما ما أماتنا وإليه النشور . رواه البخاري
حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب رات میں اپنے بستر پر تشریف لاتے اور سونے کے لئے لیٹتے تو اپنا ہاتھ یعنی اپنی داہنی ہتھیلی اپنے دائیں گال کے نیچے رکھتے اور یہ فرماتے دعا (اللہم باسمک اموت واحیا) اے اللہ تیرے ہی نام پر مرتا (یعنی سوتا) ہوں اور تیرے ہی نام پر زندہ ہوتا یعنی جاگتا ہوں اور جب آپ ﷺ نیند سے بیدار ہوتے تو یہ فرماتے دعا (الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور) ۔ اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے لیکن مسلم نے حضرت حذیفہ (رض) کی بجائے حضرت براء (رض) سے روایت کیا ہے۔

تشریح
اسی کی طرف رجوع ہے کا مطلب بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ آخر کار موت کے بعد حساب اور جزا و سزا کے لئے اسی ذات باری تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ کہا جائے گا کہ یہاں نشور (رجوع) سے مراد ہے سونے کے بعد اٹھ کر طلب معاش اور اپنے کام کاج میں مصروف ہونے کے لئے زندگی کی ہماہمی میں شریک ہوجانا۔ رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ کر سونے سے چونکہ غفلت بہت زیادہ طاری نہیں ہوتی اس لئے آپ ﷺ اپنے دائیں رخسار مبارک کے نیچے اپنی دائیں ہتھیلی رکھ کر سوتے تھے۔ اسی طرح سوتے وقت اور جاگنے کے بعد ذکر و دعا کرنے کی حکمت و وجہ یہ ہے کہ اعمال کا خاتمہ بھی عبادت وطاعت پر ہو، افعال کی ابتداء بھی عبادت ہی سے ہے۔

2414

صحیح
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا أوى أحدكم إلى فراشه فلينفض فراشه بداخلة إزاره فإنه لا يدري ما خلفه عليه ثم يقول : باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه إن أمسكت نفسي فارحمهما وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين . وفي رواية : ثم ليضطجع على شقه الأيمن ثم ليقل : باسمك وفي رواية : فلينفضه بصنفة ثوبه ثلاث مرات وإن أمسكت نفسي فاغفر لها
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں کوئی سونے کے لئے اپنے بستر پر آئے تو اسے چاہئے کہ اپنے بستر کو اپنی لنگی کے اندر کے کونے سے جھاڑ لے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کے بستر پر کیا چیز (مثلاً کیڑا مکوڑا، یا گرد و غبار) گری پڑی ہو اور اس کے بعد وہ بستر پر لیٹے اور پھر کہے دعا (باسمک ربی وضعت جنبی وبک ارفعہ ان امسکت نفسی فارحمہا وان ارسلتہا فاحفظہا بما تحفظ بہ عبادک الصالحین) ۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر آئے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے اپنا بستر جھاڑے پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے اور پھر باسمک (یعنی مذکورہ بالا دعا) آخرت تک پڑھے) (مسلم اور بخاری) ایک روایت میں یہ ہے کہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے بستر کو اپنے کپڑے کے کونے سے تین مرتبہ جھاڑے نیز اس روایت میں دعا (وان امسکت نفسی فاغفر لہا) یعنی مذکورہ بالا دعا میں فارحمہا کی بجائے فاغفر لہا ہے۔

تشریح
لنگی کے کونے سے مراد کپڑے کا وہ حصہ یا کونہ ہے جو اندرونی طرف اور بدن سے لگا ہوا ہوتا ہے خواہ وہ لنگی ہو یا کوئی اور لباس ! نیز لنگی کے کونے سے جھاڑنے کے لئے اس لئے فرمایا کہ باہر کے کونے جھاڑنے سے بستر کا کوئی حصہ کھلنے بھی نہیں پائے گا ! حاصل یہ کہ جب کوئی شخص بستر پر آئے تو پہلئے وہ بستر کو کسی کپڑا وغیرہ سے جھاڑے تاکہ بستر اگر اذیت و نقصان پہنچانے والی کوئی چیز گری پڑی ہو تو اس سے بستر صاف ہوجائے گا اگر بستر کو جھاڑنے کے لئے الگ سے کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو تو پھر اپنی لنگی یا کرتے وغیرہ کے کونے سے ہی اسے جھاڑ لیا جائے۔ جب انسان سوتا ہے تو وہ گویا مردے ہی کے حکم میں ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ اس کی روح عارضی طور پر قبض کرلیتا ہے پھر اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں بھیج دیتا ہے یعنی اسے نیند سے بیدار کردیتا ہے یا اس کی روح کو چھوڑتا ہے یعنی مستقل طور پر قبض کرلیتا ہے اور اس شخص پر موت طاری کردیتا ہے چناچہ اسی چیز کے بارے میں مذکورہ بالا دعا میں درخواست ہے کہ پروردگار اگر تو سونے کی حالت میں میری روح کو رکھ چھوڑے اور مجھ پر موت طاری فرما دے تو اس صورت میں مجھے بخش دیجئے اور اگر میری روح کو واپس بھیج دے اور مجھے زندہ رکھے تو پھر اسی طرح میری نگہبانی فرمائیے جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی نگہبانی فرماتا ہے یعنی نیکی و بھلائی کی توفیق دیجئے اور میرے ہر کام و فعل میں میرا معین و مددگار بنئے۔ نیک بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت وطاعت کے ذریعہ اللہ کا حق بھی ادا کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی جو ان کے ذمہ ہوتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ دائیں کروٹ سونے میں حکمت یہ ہے کہ دل چونکہ بائیں پہلو میں ہوتا ہے اس لئے دائیں کروٹ سونے کی سورت میں دل لٹکتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نیند میں استراحت اور غفلت زیادہ نہیں ہوتی۔ اور نماز تہجد وغیرہ کے لئے جاگنا آسان ہوتا ہے جبکہ بائیں کروٹ سونے کی صورت میں دل اپنی جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیند میں غفلت اور استراحت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

2415

صحیح
وعن البراء بن عازب قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أوى إلى فراشه نام على شقه الأيمن ثم قال : اللهم أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت . وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قالهن ثم مات تحت ليلته مات على الفطرة وفي رواية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لرجل : يا فلان إذا أويت إلى فراشك فتوضأ وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الأيمن ثم قل : اللهم أسلمت نفسي إليك إلى قوله : أرسلت وقال : فإن مت من ليلتك مت على الفطرة وإن أصبحت أصبت خيرا
حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر سوتے وقت دائیں کروٹ پر سوتے اور سونے سے پہلے یہ فرماتے دعا (اللہم اسلمت نفسی الیک وجہت وجہی الیک و فوضت امری الیک والجأت ظہری الیک رغبۃ ورہبۃ الیک لا ملجا ولا منجا منک الا الیک امنت بکتابک الذی انزلت وبنبیک الذی ارسلت) ۔ نیز آپ ﷺ فرماتے جس شخص نے ان کلمات کو سونے سے پہلے کہا اور پھر اسی رات میں مرگیا تو وہ دین اسلام پر مرا۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ حضرت براء (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا۔ اے فلاں شخص جب تم اپنے بستر پر آؤ تو پہلے تم نماز کے وضو جیسا وضو پورا کرو اور پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ کر (اللہم اسلمت نفسی سے ارسلت تک (یعنی مذکورہ بالا دعا) پڑھو پھر آپ ﷺ نے فرمایا اگر اس رات میں تمہاری موت واقع ہوگئی تو تم دین اسلام پر مرو گے اور اگر تم نے صبح کرلی تو بھلائیوں کو بہت (یعنی بہت زیادہ بھلائیوں کو یا یہ کہ دارین کی بھلائیوں) کو پاؤ گے۔ (بخاری ومسلم)

2416

صحیح
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أوى إلى فراشه قال : الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا فكم ممن لا كافي له ولا مؤوي . رواه مسلم
حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو یہ کہتے دعا (الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا وکفانا واوانا ممن لاکافی لہ ولا مؤوی۔ (مسلم)

تشریح
دعا کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس وسیع و عریض دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو روز مرہ کی تکلیف وپریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو تکالیف وپریشانیوں سے محفوظ نہیں رکھتا بلکہ وہ ان پر غالب رہتی ہیں چناچہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات زندگی ہی میں رحمت الٰہی کے التفات سے محروم رہتے ہیں بلکہ قضا و قدر الٰہی کے تحت ان کو سر چھپانے کے لئے کوئی ٹھکانہ بھی میسر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ کوچوں، بازاروں میں فٹ پاتھ اور سڑکوں پر اور جنگلات و ویرانوں میں اپنی سخت کوش زندگی کی گھڑیاں گزارتے ہیں نہ انہیں گرمی سے بچنے کی راحت نصیب ہوتی ہے اور نہ سردی کی ایذاء تکلیف سے نجات کی کوئی پناہ گاہ۔

2417

صحیح
وعن علي : أن فاطمة أنت النبي صلى الله عليه و سلم تشكو إليه ما تلقى في يدها من الرحى وبلغها أنه جاءه رقيق فلم تصادفه فذكرت ذلك لعائشة فلما جاء أخبرته عائشة قال : فجاءنا وقد أخذنا مضاجعنا فذهبنا نقوم فقال : على مكانكما فجاء فقعد بيني وبينها حتى وجدت برد قدمه على بطني فقال : ألا أدلكما على خير مما سألتما ؟ إذا أخذتما مضجعكما فسبحا ثلاثا وثلاثين واحمدا ثلاثا وثلاثين وكبرا ثلاثا وثلاثين فهو خير لكما من خادم
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ (میری زوجہ محترمہ اور نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی) حضرت فاطمہ (رض) نبی کریم ﷺ کے ہاں اس غرض سے حاضر ہوئی کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ جس زحمت و مشقت میں مبتلا تھے اس کی شکایت آنحضرت ﷺ سے کریں (اور کوئی خدمت گار مانگیں) کیونکہ حضرت فاطمہ (رض) کو معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے ہیں مگر اس وقت آپ ﷺ سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی، چناچہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کے سامنے اس کا تذکرہ کیا یعنی ان سے کہا کہ جب آنحضرت ﷺ تشریف لائیں تو کہہ دیجئے گا کہ فاطمہ (رض) اپنی مشقت و تکلیف کے پیش نظر ایک غلام مانگنے حاضر ہوئی تھیں۔ پھر جب آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ (رض) نے حضرت فاطمہ (رض) کا پیغام آپ ﷺ تک پہنچا دیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ ہمارے ہاں اس وقت تشریف لائے جب کہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے (آپ ﷺ کو دیکھ کر ہم نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی جگہ پر لیٹے رہو، پھر آپ ﷺ ہمارے نزدیک تشریف لائے اور میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے اپنے پیٹ پر آپ ﷺ کے مبارک قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی پھر آپ ﷺ نے فرمایا (مجھے فاطمہ کا پیغام مل گیا ہے) کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو اس چیز (یعنی غلام) سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کہو تمہارے لئے خادم سے یہ چیز بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
چونکہ آنحضرت ﷺ حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ دونوں ہی سے بےانتہا محبت فرماتے تھے اور آپ ﷺ کی بےحد شفقت کسی تکلف کو گوارہ نہیں کرتی تھی اس لئے جب آپ ﷺ ان کے ہاں آئے تو کامل محبت و شفقت کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تشریف فرما ہوگئے کیونکہ پیار و محبت اور شفقت و الفت کسی تکلف کی پابند نہیں ہوتی، اس لئے کہا گیا ہے کہ (اذا جاءت الالفۃ رفعت الکلفۃ (ترجمہ) جب الفت آئی تو تکلف اٹھا دی گئی۔ مذکورہ بالا کلمات کی ترتیب کے سلسلہ میں جزری نے شرح مصابیح میں کہا ہے کہ تکبیر پہلے ہے چناچہ ابن کثیر (رح) فرمایا کرتے تھے کہ نمازوں کے بعد تو پہلے سبحان اللہ پڑھنا چاہئے اس کے بعد الحمد للہ اور پھر اللہ اکبر لیکن سوتے وقت پہلے اللہ اکبر ہی پڑھ لینا چاہئے اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ اکبر کو کبھی تو پہلے پڑھا جائے اور کبھی بعد میں تاکہ اس بارے میں منقول دونوں روایتوں ہی پر عمل ہو اور یہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔ ارشاد گرامی، تمہارے لئے یہ چیز خادم سے زیادہ بہتر ہے۔ کے ذریعہ حضرت فاطمہ (رض) کو دنیا کی مشقتوں اور تکالیف اور دنیاوی طور پر ناپائیدار چیزوں مثلاً مرض و فقر پر صبر کی ترغیب دلائی گئی ہے نیز اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والے مالدار کی بہ نسبت صبر کرنے والا مفلس زیادہ افضل ہے۔

2418

صحیح
وعن أبي هريرة قال : جاءت فاطمة إلى النبي صلى الله عليه و سلم تسأله خادما فقال : ألا أدلك على ما هو خير من خادم ؟ تسبحين الله ثلاثا وثلاثين وتحمدين الله ثلاثا وثلاثين وتكبرين الله أربعا وثلاثين عند كل صلاة وعند منامك . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرہ (رض) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس مقصد سے حاضر ہوئیں کہ آپ ﷺ سے کوئی خادم مانگیں لیکن آپ ﷺ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔ جب آنحضرت ﷺ کو یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ حضرت فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو خادم سے بہتر ہے۔ (اور وہ یہ ہے) ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت سبحان اللہ تینتیس بار اور الحمدللہ تینتیس بار اور اللہ اکبر چونتیس بار پڑھ لیا کرو۔ (مسلم)

تشریح
سونے کے وقت ان تسبیحات کا پڑھنا دن بھر کی مشقت و محنت و کوفت اور ہر قسم کے رنج و غم کو دور کرتا ہے۔

2419

صحیح
عن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أصبح قال : اللهم بك أصبحنا وبك أمسينا وبك نحيا وبك نموت وإليك المصير . وإذا أمسى قال : اللهم بك أمسينا وبك أصبحنا وبك نحيا وبك نموت وإليك النشور . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب صبح ہوتی تو رسول کریم ﷺ کی زبان پر یہ دعائیہ کلمات جاری ہوتے دعا (اللہم بک اصبحنا وبک امسینا وبک نحیی وبک نموت والیک المصیر) ۔ اور جب شام ہوتی تو آپ ﷺ یہ دعا فرماتے دعا (اللہم بک امسینا وبک اصبحنا وبک نحیی وبک نموت والیک النشور۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

2420

صحیح
وعنه قال : قال أبو بكر : قلت يا رسول الله مرني بشيء أقوله إذا أصبحت وإذا أمسيت قال : قل اللهم عالم الغيب والشهادة فاطر السماوات والأرض رب كل شيء ومليكه أشهد أن لا إله إلا أنت أعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه قله إذا أصبحت وإذا أمسيت وإذا أخذت مضجعك . رواه الترمذي وأبو داود والدارمي
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ! یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا پڑھنے کا حکم دیجئے جسے میں صبح اور شام کے وقت (بطریق ورد) پڑھ لیا کروں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پڑھ لیا کرو دعا (اللہم عالم الغیب والشہادۃ فاطر السموات والارض رب کل شیء وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذبک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشرکہ۔ (نیز آپ ﷺ نے فرمایا) تم اس دعا کو صبح کے وقت پڑھ لیا کرو، شام کے وقت پڑھ لیا کرو اور سونے کے وقت بھی۔ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

2421

صحیح
وعن أبان بن عثمان قال : سمعت أبي يقول : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من عبد يقول في صباح كل يوم ومساء كل ليلة بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شيء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم ثلاث مرات فيضره شيء . فكان أبان قد أصابه طرف فالج فجعل الرجل ينظر إليه فقال له أبان : ما تنظر إلي ؟ أما إن الحديث كما حدثتك ولكني لم أقله يومئذ ليمضي الله علي قدره . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وفي روايته : لم تصبه فجاءة بلاء حتى يصبح ومن قالها حين يصبح لم تصبه فجاءة بلاء حتى يمسي
حضرت ابان بن عثمان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو بندہ روازانہ صبح و شام کے وقت یہ کہے دعا (بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء وہو السمیع العلیم) اور یہ تین مرتبہ کہے تو اسے کوئی چیز ضرر نہیں پہنچائے گی۔ (یعنی اگر کوئی شخص اس دعا کو صبح و شام تین تین بار پڑھ لے تو نہ اسے کوئی چیز ضرر و نقصان پہنچائے گی اور نہ وہ کسی آفت و مصیبت میں مبتلا ہوگا (اور اتفاق کی بات کہ اس وقت) حضرت ابان فالج کی ایک قسم میں مبتلا تھے چناچہ اس شخص نے جو اس روایت کو سن رہا تھا حضرت ابان (رض) کی طرف (بڑی تعجب کی نظروں سے) دیکھنا شروع کیا (کہ یہ کہہ تو یہ رہے ہیں کہ جو شخص اس دعا کو پڑھے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا حالانکہ یہ خود فالج میں گرفتار ہیں) حضرت ابان (رض) نے اس سے کہا تم میری طرف بنظر تعجب کیا دیکھ رہے ہو ؟ اچھی طرح جان لو، یہ حدیث اسی طرح جس طرح میں نے بیان کی ہے یعنی بالکل صحیح ہے البتہ جس دن میں اس مرض میں مبتلا ہوا اس دن میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی تاکہ اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا تھا وہ پورا ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد) اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص اس دعا کو شام کے وقت پڑھے وہ صبح تک کسی ناگہانی بلاء میں گرفتار نہیں ہوگا اور جو شخص اس کو صبح کے وقت پڑھے وہ شام تک کسی بلائے ناگہانی میں مبتلا نہیں ہوتا۔

2422

صحیح
وعن عبد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يقول إذا أمسى : أمسينا وأمسى الملك لله والحمد لله لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير رب أسألك خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها وأعوذ بك من شر ما في هذه الليلة وشر ما بعدها رب أعوذ بك من الكسل ومن سوء الكبر أو الكفر . وفي رواية : من سوء الكبر والكبر رب أعوذ بك من عذاب في النار وعذاب في القبر . وإذا أصبح قال ذلك أيضا : أصبحنا وأصبح الملك لله . رواه أبو داود والترمذي وفي روايته لم يذكر : من سوء الكفر
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب شام ہوتی تو نبی کریم ﷺ یہ دعائیہ کلمات فرماتے دعا (امسینا وامسی الملک للہ والحمدللہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر رب اسألک خیر ما فی ہذہ اللیلۃ وخیر ما بعدہا واعوذ بک من شر مافی ہذہ الیلۃ وشر ما بعدہا واعوذ بک من الکسل ومن سوء الکبرء اوالکفر۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ من سورت الکبر والکبر رب اعوذ بک من عذاب فی النار و عذاب فی القبر) ۔ اور جب صبح ہوتی تو آپ ﷺ یہی (مذکورہ بالا دعا) پڑھتے البتہ صبح کے وقت امسینا وامسی الملک للہ کی بجائے اصبحنا واصبح الملک للہ پڑھتے اس روایت کو ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی کی روایت میں من سوء الکفر کے الفاظ نہیں ہیں۔

2423

ضعیف
وعن بعض بنات النبي صلى الله عليه و سلم أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يعلمها فيقول : قولي حين تصبحين : سبحان الله وبحمده ولا قوة إلا بالله ما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن أعلم أن الله على كل شيء قدير وأن الله قد أحاط بكل شيء علما فإنه من قالها حين يصبح حفظ حتى يمسي ومن قالها حين يمسي حفظ حتى يصبح . رواه أبو داود
اور نبی کریم ﷺ کی کسی صاحبزادی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں تعلیم دی کہ جب صبح ہو تو یہ دعا پڑھو دعا (سبحان اللہ وبحمدہ ولاقوۃ الا باللہ و ما شاء اللہ کان وما لم یشأ لم یکن اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر وان اللہ قد احاط بکل شیء علما) ۔ لہٰذا جس شخص نے صبح کے وقت یہ کلمات کہے یعنی صبح کے وقت یہ دعا پڑھی وہ شام تک بلاؤں اور خطاؤں سے محفوظ رہتا ہے اور جس شخص نے شام کے وقت یہ کلمات کہے وہ صبح تک محفوظ رہتا ہے۔ (ابو داؤد)

2424

ضعیف
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قال حين يصبح : ( فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون وله الحمد في السموات والأرض وعشيا وحين تظهرون ) إلى قوله : ( وكذلك تخرجون ) أدرك ما فاته في يومه ذلك ومن قالهن حين يمسي أدرك ما فاته في ليلته . رواه أبو داود
حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ آیت پڑھے (فَسُ بْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17 وَلَهُ الْحَمْ دُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِ يًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18) 30 ۔ الروم 17) اور یہ آیت ( وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ) 30 ۔ الروم 19) تک پڑھے تو اسے وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس سے وہ اس دن محروم رہ گیا تھا ور جس نے یہ آیت شام کے وقت پڑھی تو اسے وہ چیز حاصل ہوجائے گی جس سے وہ اس رات میں محروم رہ گیا تھا۔ (ابوداؤد)

تشریح
وحین تظہرون کے بعد یہ آیت یوں ہے۔ آیت (يُخْرِجُ الْ حَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْ حَيِّ وَيُ حْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ 19) 30 ۔ الروم 19) اور اس پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ پاکی کے ساتھ اللہ کو یاد کرو یعنی نماز پڑھو اس وقت جب کہ تم شام کرتے ہو یعنی مغرب و عشاء کے وقت اور اس وقت جب کہ تم صبح کرتے ہو یعنی فجر کے وقت اور زمین و آسمانوں میں تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور پاکی کے ساتھ اللہ کو یاد کرو یعنی نماز پڑھو عصر کے وقت اور ظہر کے وقت۔ اللہ تعالیٰ زندے کو مردے سے نکالتا ہے (یعنی بچے منی سے پیدا کرتا ہے اور انڈے سے پیدا کرتا ہے) اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے یعنی منی اور انڈے کو جاندار سے نکالتا ہے) اور زمین کو مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے یعنی زمین کو خشک ہوجانے کے بعد سرسبز کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی قبر سے نکالے جاؤ گے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی اس آیت کو صبح کے وقت پڑھتا ہے تو جو بھی نیک کام یا کوئی ورد وظیفہ وغیرہ اس دن فوت ہوجاتا ہے اسے اس کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح اس آیت کو شام کے وقت پڑھنے سے اس رات میں فوت ہوجانے والے کسی بھی نیک کام اور ورد وظیفہ وغیرہ کا ثواب مل جاتا ہے۔ معالم التنزیل میں منقل ہے کہ حضرت نافع سے ابن ارزق نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ قرآن کریم میں پانچوں نمازوں کا حکم وقت کے تعین کے ساتھ پاتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور پھر انہوں نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھ کر فرمایا کہ ان آیتوں نے پانچوں نمازوں کو اور ان کے اوقات کو جمع کردیا ہے۔

2425

صحیح
وعن أبي عياش أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من قال إذا أصبح : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير كان له عدل رقبة من ولد إسماعيل وكتب له عشر حسنات وحط عنه عشر سيئات ورفع عشر درجات وكان في حرز من الشيطان حتى يمسي وإن قالها إذا أمسى كان له مثل ذلك حتى يصبح . قال حماد بن سلمة : فرأى رجل رسول الله صلى الله عليه و سلم فيما يرى النائم فقال : يا رسول الله إن أبا عياش يحدث عنك بكذا وكذا قال : صدق أبو عياش . رواه أبو داود وابن ماجه
حضرت ابوعیاش (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات کہے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر تو اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کے بقدر ثواب ملتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی دس برائیاں دور کی جاتی ہیں اس کے دس درجے بلند کئے جاتے ہیں اور وہ شام کے وقت تک شیطان بہکانے کے شر سے پناہ میں رہتا ہے اور جس شخص نے ان کلمات کو شام کے وقت پڑھا تو اس کو صبح تک یہی سعادت حاصل رہتی ہے اس حدیث کے ایک راوی حماد بن سلمہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابوعیاش آپ کی اس طرح کی حدیث (یعنی مذکورہ بالا حدیث) بیان کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ابوعیاش نے سچ کہا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

2426

صحیح
وعن الحارث بن مسلم التميمي عن أبيه عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه أسر إليه فقال : إذا انصرفت من صلاة المغرب فقل قبل أن تكلم أحدا اللهم أجرني من النار سبع مرات فإنك إذا قلت ذلك ثم مت في ليلتك كتب لك جواز منها . رواه أبو داود
حضرت حارث بن مسلم (رض) تمیمی اپنے والد مکرم سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان (مسلم تمیمی (رض) سے چپکے سے فرمایا کہ جب تم مغرب کی نماز سے فارغ ہوجاؤ تو تم کسی سے کوئی کلام و گفتگو کرنے سے پہلے سات مرتبہ یہ کہو دعا (اللہم اجرنی من النار) اے اللہ مجھے آگ سے پناہ میں رکھ۔ اور اگر تم اس کلمہ کو کہو اور پھر اس رات میں تمہارا انتقال ہوجائے تو تمہارے لئے آگ سے نجات لکھی جائے گی اور جب تم فجر کی نماز سے فارغ ہوجاؤ اور اسی طرح کہو (یعنی کسی سے کلام کرنے سے پہلے سات مرتبہ اس دعا کو پڑھو اور پھر اس دن تمہارا انتقال ہوجائے تو تمہارے لئے آگ سے نجات لکھی جائے گی۔ (ابوداؤد)

2427

صحیح
وعن ابن عمر قال : لم يكن رسول الله صلى الله عليه و سلم يدع هؤلاء الكلمات حين يمسي وحين يصبح : اللهم إني أسألك العافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي . قال وكيع يعني الخسف رواه أبو داود
حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ صبح اور شام کے وقت یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑتے دعا (اللہم انی اسألک العافیۃ فی دینی ودنیای واہلی ومالی اللہم استر عوراتی واٰمن روعاتی اللہم احفظنی من بین یدی ومن خلفی وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقی اعوذ بعظمتک ان اغتال من تحتی) ۔ اے اللہ میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت مانگتا ہوں یا الٰہی میں تجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور اپنے دین اور اپنی دنیا کے امور میں عیوب اور برائیوں سے اور اپنے اہل و عیال اور اپنے مال میں سلامتی مانگتا ہوں اے پروردگار میرے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور مجھے خوف کی چیزوں سے امن میں رکھ (یعنی میری مصیبت اور بلائیں دور فرما) اور اے اللہ تو مجھے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے محفوظ رکھ اور اے اللہ تیری عظمت وکبریائی کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہلاک کیا جاؤں اچانک نیچے کی جانب سے یعنی زمین میں دھنس جانے سے۔ (ابوداؤد)

2428

صحیح
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قال حين يصبح : اللهم أصبحنا نشهدك ونشهد حملة عرشك وملائكتك وجميع خلقك أنك أنت الله لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك وأن محمدا عبدك ورسولك إلا غفر الله له ما أصابه في يومه ذلك من ذنب . رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي : هذا حديث غريب
حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ علاوہ گناہ کبیر اور حقوق العباد کے بخش دیتا ہے جو اس سے اس دن صادر ہوتے ہیں اور وہ دعا یہ ہے دعا (اللہم اصبحنا نشہدک ونشہد حملۃ عرشک وملائکتک و جمیع خلقک انک انت اللہ لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک وان محمدا عبدک ورسولک) ۔ اے اللہ ہم نے صبح کی اس حال میں کہ ہم تجھے، تیرے عرش کو اٹھانے والوں کو تیرے فرشتوں کو اور تیری مخلوقات کو گواہ بناتے ہیں اس بات پر کہ تو اللہ ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو یکتا ہے افعال وصفات میں تیرا کوئی شریک نہیں اور بلا شبہ محمد ﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں اور جو شخص ان کلمات کو شام کے وقت کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام وہ گناہ بخش دیتا ہے جو اس سے اس رات میں صادر ہوتے ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد) ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
جملہ من قال حین یصبح میں لفظ من معنی کے اعتبار سے نافیہ کی جگہ استعمال ہوا ہے نیز یہ ممکن ہے کہ الا غفر اللہ لہ میں لفظ الا زائد ہو چناچہ جملہ وان قالہا الخ سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ لفظ الا زائد ہے۔

2429

صحیح
وعن ثوبان قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من عبد مسلم يقول إذا أمسى وإذا أصبح ثلاثا رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا إلا كان حقا على الله أن يرضيه يوم القيامة . رواه أحمد والترمذي
حضرت ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو مسلمان بندہ شام اور صبح کے وقت تین بار یہ کہے کہ رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد نبیا (ترجمہ) میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے راضی ہوا) تو اللہ تعالیٰ پر از راہ کرم و فضل یہ لازم ہوگا کہ وہ قیامت کے دن اس بندہ کو راضی کرے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو اتنا ثواب دے گا کہ وہ راضی اور خوش ہوجائے گا۔ (احمد، ترمذی)

تشریح
بعض روایتوں میں لفظ نبیا ہے اور بعض میں رسول۔ لہٰذا مستحب یہ ہے کہ دونوں ہی لفظ پڑھے جائیں یعنی یوں کہا جائے وبمحمد نبیا و رسولا۔

2430

صحیح
وعن حذيفة أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا أراد أن ينام وضع يده تحت رأسه ثم قال : اللهم قني عذابك يوم تجمع عبادك أو تبعث عبادك . رواه الترمذي
حضرت حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے (یعنی سونے کے لئے لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے۔ (اللہم قنی عذابک یوم تجمع عبادک) اور تبعث عبادک۔ اے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچائیے جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا یا جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا (یعنی قیامت کے دن) یعنی راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے تجمع عبادک کہا یا اس کی بجائے تبعث عبادک کہا۔ (ترمذی، امام احمد نے اس روایت کو براء سے نقل کیا ہے۔

تشریح
اس روایت میں تو یہ ہے کہ آپ ﷺ دست مبارک سر کے نیچے رکھتے تھے جب کہ ایک اور روایت میں منقول ہے کہ ر خسارہ مبارک کے نیچے رکھتے تھے لہٰذا ان دونوں روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ کبھی تو سر کے نیچے رکھتے ہوں گے اور کبھی رخسار مبارک کے نیچے جس راوی نے جو دیکھا اس کو روایت کردیا یا یہ کہ ہاتھ کا کچھ حصہ تو سر کے نیچے ہوتا ہوگا اور کچھ حصہ ر خسارہ کے نیچے لہٰذ جس راوی نے ہاتھ کا کچھ حصہ سر کے نیچے دیکھا اس نے یہ بیان کیا کہ آپ ﷺ اپنے ہاتھ سر کے نیچے رکھتے تھے اور جس راوی نے ہاتھ کا کچھ حصہ ر خسارہ کے نیچے دیکا اس نے ر خسارہ کے نیچے رکھنے کو ذکر کیا۔

2431

صحیح
وعن حفصة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أراد أن يرقد وضع يده اليمنى تحت خده ثم يقول : اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك . ثلاث مرات رواه أبو داود
حضرت حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور تین مرتبہ کہتے اے اللہ مجھے اس دن کے عذاب سے بچائیے جب تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔ (ابوداؤد)

2432

ضعیف
وعن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول عند مضجعه : اللهم إني أعوذ بوجهك الكريم وكلماتك التامات من شر ما أنت آخذ بناصيته اللهم أنت تكشف المغرم والمأثم اللهم لا يهزم جندك ولا يخلف وعدك ولا ينفع ذا الجد منك الجد سبحانك وبحمدك . رواه أبو داود
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے (اللہم انی اعوذ بوجہک الکریم وکلماتک التامات من شر ما انت اٰخذ بناصیتہ اللہم انت تکشف المغرم والمأثم اللہم لا یہزم جندک ولا یخلف وعدک ولا ینفع ذالجد منک الجد سبحانک وبحمدک۔ (ابو داؤد)

2433

ضعیف
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قال حين يأوي إلى فراشه : أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاث مرات غفر الله له ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر أو عدد رمل عالج أو عدد ورق الشجر أو عدد أيام الدنيا . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
حضرت ابوسعید (رض) روای ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بستر پر آ کر (یعنی سونے کے وقت) تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے چاہے وہ دریا کے جھاگ کے برابر یا عالج کے ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر یا درخت کے پتوں کے برابر اور یا دنیا کے دنوں کی تعداد کے برابر ہی کیوں نہ ہوں اور وہ کلمات یہ ہیں استغفر اللہ الذی لا الہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ (یعنی میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں ایسا اللہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جو زندہ مخلوق کی خبر گیری کرنے والا ہے اور میں اس کے سامنے توبہ کرتا ہوں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
عالج جو لام کے زیر کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے اور زبر کے ساتھ بھی، مغربی علاقہ میں ایک جنگل کا نام تھا۔ جہاں ریب تہ زیادہ ہوتی تھی اس حدیث میں ان تمام چیزوں کو بطور مثال بیان کرنے کی غرض یہ بتانا ہے کہ اگر گناہ بہت زیادہ ہوں گے تب بھی بخشے جائیں گے۔

2434

ضعیف
وعن شداد بن أوس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من مسلم يأخذ مضجعه بقراءة سورة من كتاب الله إلا وكل الله به ملكا فلا يقربه شيء يؤذيه حتى يهب متى هب . رواه الترمذي
حضرت شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو بھی مسلمان اپنی خوابگاہ میں آ کر یعنی سوتے وقت قرآن کریم کی کوئی سورت پڑھتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ متعین کردیتا ہے اور اس فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ ضرر پہنچانے والی کوئی بھی چیز اس کے پاس بھٹکتی بھی نہیں چاہئے وہ جب بھی (یعنی جلدی سے یا دیر) جاگے۔ (ترمذی)

تشریح
حضرت انس (رض) سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) جب تم اپنے بستر پر اپنا پہلو رکھو یعنی سونے لگو اور اس وقت سورت فاتحہ اور سورت قل ہو اللہ پڑھ لو تو (جب تک سوتے رہو گے، موت کے علاوہ ہر چیز سے حفاظت میں رہو گے۔

2435

صحیح
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خلتان لا يحصيهما رجل مسلم إلا دخل الجنة ألا وهما يسير ومن يعمل بهما قليل يسبح الله في دبر كل صلاة عشرا ويحمده عشرا ويكبره عشرا قال : فأنا رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يعقدها بيده قال : فتلك خمسون ومائة في اللسان وألف وخمسمائة في الميزان وإذا أخذ مضجعه يسبحه ويكبره ويحمده مائة فتلك مائة باللسان وألف في الميزان فأيكم يعمل في اليوم والليلة ألفين وخمسمائة سيئة ؟ قالوا : وكيف لا نحصيها ؟ قال : يأتي أحدكم الشيطان وهو في صلاته فيقول : اذكر كذا اذكر كذا حتى ينفتل فلعله أن لا يفعل ويأتيه في مضجعه فلا يزال ينومه حتى ينام . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وفي رواية أبي داود قال : خصلتان أو خلتان لا يحافظ عليهما عبد مسلم . وكذا في روايته بعد قوله : وألف وخمسمائة في الميزان قال : ويكبر أربعا وثلاثين إذا أخذ مضجعه ويحمد ثلاثا وثلاثين ويسبح ثلاثا وثلاثين . وفي أكثر نسخ المصابيح عن : عبد الله بن عمر
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں جو بھی مرد مسلمان مداومت کے ساتھ اختیار کرتا ہے وہ جنت میں داخل ہوتا ہے (یعنی وہ شخص جنت میں نجات پانے والوں کے ساتھ ہوگا) اور جان لو وہ دونوں چیزیں آسان تو بہت ہیں (بایں طور کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں پر عمل کرنا جن لوگوں کے لئے آسان کر دے ان کے لئے وہ کوئی مشکل نہیں ہیں) مگر ان پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ہونے کے سبب ان پر مداومت کے ساتھ عمل کرنے میں شاذ و نادر ہی ہیں) ان میں سے ایک چیز تو یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ کو پاکی کے ساتھ یاد کیا جائے یعنی سبحان اللہ پڑھا جائے دس مرتبہ اللہ کی حمد کی یعنی الحمد للہ کہا جائے اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہا جائے۔ ابن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ ﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کیا اور فرمایا پس (پانچوں نمازوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے) یہ زبان سے کہنے میں تو ڈیڑھ سو ہیں لیکن اعمال کے ترازو میں ان کی تعداد ڈیڑھ ہزار ہوگی (بایں طور کہ ہر نیکی پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے بستر پر آ کر (یعنی سونے کے وقت) سبحان اللہ، اللہ الکبر اور الحمد للہ سو مرتبہ کہے (یعنی سبحان للہ تینتیس بار اور الحمدللہ تینتیس بار اور اللہ اکبر چونتیس بار کہا جائے ان کی مجموع تعداد سو ہوتی ہے اور یہ زبان میں کہنے سے تو سو بار ہیں لیکن میزان اعمال میں ایک ہزار ہوں گی۔ پس تم میں سے وہ کون ہے جو دن رات میں اڑھائی ہزار برائیاں کرتا ہوگا ؟ صحابہ نے عرض کیا (جب یہ ہے تو پھر) ہم ان چیزوں کی بھلا کیونکر محافظت نہ کریں گے آپ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھتا ہوا آتا ہے تو اس کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو فلاں بات یاد کرو (یعنی اسے نماز کی حالت میں دنیا کی باتیں یا آخرت کی باتیں ایسی کہ جن کا تعلق نماز سے ہوتا نہیں ہے یاد دلاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوتا ہے پس ہوسکتا ہے کہ وہ ان کلمات پر محافظت نہ کرے اور اسی طرح شیطان اس کی خوابگاہ میں آتا ہے اس کو سلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سو جاتا ہے (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) اور ابوداؤد کی روایت میں بعض الفاظ میں اختلاف ہے چناچہ ان کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا دو خصلتیں ایسی ہیں یا دو چیزیں ایسی ہیں راوی کو شک ہوا کہ آپ ﷺ نے لفظ خصلتین فرمایا تھا یا خلتین ویسے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ جنہیں جو بھی بندہ مسلمان اختیار کرتا ہے یعنی اس روایت میں لایحصیہما رجل مسلم کے بجائے لا یحافظ علیہما عبد مسلم ہے اسی طرح ابوداؤد کی روایت میں والف خمسائۃ فی المیزان کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ تکبیر کہے چونتیس بار جب کہ اپنے بستر پر آئے اور حمد کرے تینتیس بار اور تسبیح کرے تینتیس بار نیز مصابیح کے اکثر نسخوں میں یہ روایت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے یعنی مؤلف مشکوۃ نے تو اس روایت کو عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے نقل کیا ہے جب کہ مصابیح کے اکثر نسخوں میں اس حدیث کا راوی عبداللہ بن عمر (رض) ہیں۔

تشریح
پس تم میں سے کون ہے ؟ یہ جواب ہے شرط محذوف کا اور اس استفہام میں ایک طرح کا انکار ہے یعنی اس استفہامیہ جملہ کا حاصل یہ ہے کہ جب ان دونوں چیزوں پر محافظ کی اور اس کے بدلہ میں دن رات میں اڑھائی ہزار نیکیاں حاصل ہوئی تو ان میں سے ہر نیکی کے بدلہ برائیاں دور کی جاتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (ان الحسنات یذھبن السیأت) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں۔ لہٰذا تم میں سے ایسا کون ہے جو دن رات میں ان نیکیوں سے زیادہ برائیاں کرتا ہے اور جتنی بھی برائیاں کرتا ہو وہ ان نیکیوں کی وجہ سے معاف نہ ہوجاتی ہوں۔ اس لئے ایسی صورت میں تمہارے لئے یہ بات کیسے بہتر ہوسکتی ہے کہ تم ان دونوں چیزوں پر محافظت نہ کرو حاصل یہ کہ ان دونوں چیزوں پر عمل کرنے سے نیکیاں برائیوں سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہیں اور پھر نہ صرف یہ کہ وہ برائیاں ان نیکیوں کی وجہ سے دور ہوجاتی ہیں بلکہ نیکیوں کی زیادتی کی وجہ سے درجات بھی بلند ہوجاتے ہیں لہٰذا تمہیں چاہیے کہ تم پابندی کے ساتھ دونوں چیزوں پر عمل کرتے رہو پھر جب صحابہ (رض) نے ان دونوں چیزوں کا اتنا زیادہ ثواب اور ان کی اتنی فضیلت سنی تو کہنے لگے کہ جب یہ بات ہے تو پھر ہمارے لئے ایسی کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی کہ ہم ان دونوں چیزوں پر محافظت نہ کریں گویا انہوں نے ان چیزوں کے ترک کرنے کو بعید جانا مگر آپ ﷺ نے ان کے اس استبعاد (یعنی بعید جاننے کی تردید فرمائی کہ شیطان جو انسان کی نیکی کا ازلی دشمن ہے۔ اپنی گھات میں رہتا ہے وہ کب برداشت کرتا ہے کہ کوئی شخص اتنی عظیم سعادت کو حاصل کرلے اس لئے وہ نماز میں وسوسے پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ نماز کے بعد کے اوراد و افکار سے غافل کردیتا ہے اسی طرح وہ سوتے وقت ذکر سے غافل کر کے سلا دیتا ہے۔

2436

ضعیف
وعن عبد الله بن غنام قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قال حين يصبح : اللهم ما أصبح بي من نعمة أو بأحد من خلقك فمنك وحدك لا شريك لك فلك الحمد ولك الشكر فقد أدى شكر يومه ومن قال مثل ذلك حين يمسي فقد أدى شكر ليلته . رواه أبو داود
حضرت عبداللہ بن غنام (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص صبح کے وقت یوں کہے دعا (اللہم ما اصبح بی من نعمۃ او باحد من خلقک فمنک وحدک لا شریک لک فلک الحمد ولک الشکر تو اس نے اس دن کا شکر ادا کیا اور جس نے ایسے کلمات شام کے وقت کہے اس نے رات کا شکر ادا کیا شام کے وقت جب یہ دعا پڑھی جائے تو صبح کی بجائے امسیٰ کہا جائے۔ ( ابوداؤد )

تشریح
منقول ہے کہ ایک دن حضرت داؤد (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار تیری بہت زیادہ نعمتیں مجھے حاصل ہیں میں ان کا شکر کیسے ادا کروں ! پروردگار نے فرمایا داؤد ! اگر تم نے یہ جانا کہ تمہیں نعمتیں جو حاصل ہیں وہ سب میری ہی طرف سے ہیں تو سمجھ لو کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا۔

2437

صحیح
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه كان يقول إذا أوى إلى فراشه : اللهم رب السماوات ورب الأرض ورب كل شيء فالق الحب والنوى منزل التوراة والإنجيل والقرآن أعوذ بك من شر كل ذي شر أنت آخذ بناصيته أنت الأول فليس قبلك شيء وأنت الآخر فليس بعدك شيء وأنت الظاهر فليس فوقك شيء وأنت الباطن فليس دونك شيء اقض عني الدين وأغنني من الفقر . رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه ورواه مسلم مع اختلاف يسير
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے (اللہم رب السموات والارض و رب کل شیء فالق الحب والنوی منزل توراۃ والانجیل والقرآن اعوذبک من شر کل ذی شر انت اخذ بناصیتہ انت الاول فلیس قبلک شیء وانت الاخر فلیس بعد ک شیء وانت الظاہر فلیس فوقک شیء وانت الباطن فلیس دونک شیء اقض عنی الدین واغننی من الفقر (حصن حصین میں ہے کہ یہ دعا سوتے وقت لیٹ کر پڑھی جائے) (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) امام مسلم نے اس روایت کو تھوڑے سے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔

2438

صحیح
وعن أبي الأزهر الأيماري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أخذ مضجعه من الليل قال : بسم الله وضعت جنبي لله اللهم اغفر لي ذنبي واخسأ شيطاني وفك رهاني واجعلني في الندي الأعلى . رواه أبو داود
حضرت ابوازہر انماری (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب رات میں اپنے بستر پر آتے تو یہ فرماتے بسم اللہ وضعت جنبی للہ اللہم اغفرلی ذنبی واخسأ شیطانی وفک رہانی واجعلنی فی الندی الاعلیٰ (ابوداؤد)

تشریح
رہن (گروی) سے مراد نفس ہے مطلب یہ ہے کہ میرے نفس کو بندوں کے حق سے آزاد بری الذمہ کر اور میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے عذاب سے مجھے نجات بخش۔

2439

صحیح
وعن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان إذا أخذ مضجعه من الليل قال : الحمد لله الذي كفاني وآواني وأطعمني وسقاني والذي من علي فأفضل والذي أعطاني فأجزل الحمد لله على كل حال اللهم رب كل شيء ومليكه وإله كل شيء أعوذ بك من النار . رواه أبو داود
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب رات میں اپنے اپنے بستر پر آتے یہ پڑھتے دعا (الحمد للہ الذی کفانی واوانی واطعمنی وسقانی والذی من علی فافضل والذی اعطانی فاجزل الحمد للہ علی کل حال اللہم رب کل شیء وملیکہ والہ کل شیء اعوذبک من النار۔ (ابو داؤد)

2440

ضعیف
وعن بريدة قال : شكا خالد بن الوليد إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله ما أنام من الليل من الأرق فقال نبي الله صلى الله عليه و سلم : إذا أويت إلى فراشك فقل : اللهم رب السماوات السبع وما أظلت ورب الأرضين وما أقلت ورب الشياطين وما أضلت كن لي جارا من شر خلقك كلهم جميعا أن يفرط علي أحد منهم أو أن يبغي عز جارك وجل ثناؤك ولا إله غيرك لا إله إلا أنت . رواه الترمذي وقال هذا حديث ليس إسناده بالقوي والحكم بن ظهير الراوي قد ترك حديثه بعض أهل الحديث
حضرت بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید (رض) نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! میں بےخوابی کے سبب رات میں سو نہیں پاتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم بستر پر آؤ تو یہ دعا پڑھو (اللہم رب السموات السبع وما اطلت ورب الارضین وما اقلت و رب الشیاطین وما اضلت کن لی جارا من شر خلقک کلہم جمیعا ان یفرط علی احد منہم ان یبتغی عز جارک وجل ثناؤک ولا الہ غیرک لا الہ الا انت۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد قوی نہیں ہے۔ اس حدیث کے ایک راوی حکیم بن ظہیر کی روایت کو بعض محدثین نے ترک کردیا ہے۔

تشریح
حصن حصین میں ہے کہ اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے لیکن ان کی روایتوں میں لفظ جمیعا کی بجائے اجمعین ہے اور لفظ یبغی کی بجائے یطغی اور اسی طرح وجل ثناؤک سے آخر تک کے الفاظ ان کی روایت میں نہیں ہیں بلکہ عز جارک کے بعد و تبارک اسمک ہے اور اسی جملہ پر روایت ختم ہوگئی ہے۔

2441

ضعیف
وعن أبي مالك أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إذا أصبح أحدكم فليقل : أصبحنا وأصبح الملك لله رب العالمين اللهم إني أسألك خير هذا اليوم فتحه ونصره ونوره وبركته وهداه وأعوذ بك من شر ما فيه ومن شر ما بعده ثم إذا أمسى فليقل مثل ذلك . رواه أبو داود
حضرت ابومالک (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب صبح ہو تو تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ یہ دعا پڑھے دعا (اصبحنا واصبح الملک للہ رب العالمین اللہم انی اسألک خیر ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شر مافیہ ومن شرمابعدہ) اور پھر جب شام ہو تو اسی طرح یہ دعا پڑھے۔ (ابوداؤد)

2442

ضعیف
وعن عبد الرحمن بن أبي بكرة قال : قلت لأبي : يا أبت أسمعك تقول كل غداة : اللهم عافني في بدني اللهم عافني في سمعي اللهم عافني في بصري لا إله إلا أنت تكررها ثلاثا حين تصبح وثلاثا حين تمسي فقال : يا بني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يدعو بهن فأنا أحب أن أستن بسننه . رواه أبو داود
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ ابا جان میں سنتا ہوں آپ روزانہ یہ دعا پڑھتے ہیں دعا (اللہم عافنی فی بدنی اللہم عافنی فی سمعی اللہم عافنی فی بصری لا الہ الا انت) اور آپ ﷺ یہ دعا تین مرتبہ صبح کے وقت اور تین مرتبہ شام کے وقت پڑھتے ہیں انہوں نے کہا میرے بیٹے میں نے رسول کریم ﷺ کو انہیں کلمات کے ذریعے دعا مانگتے سنا ہے لہٰذا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی سنت کی پیروی کرو۔ (ابوداؤد)

تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ دعا اور اعمال خیر کا اصل مقصد آنحضرت ﷺ کے حکم کی بجا آوری اور آپ کی سنت کی پیروی ہونا چاہئے نہ کہ جزاء عمل اور قبولیت دعا۔

2443

ضعیف
وعن عبد الله بن أبي أوفى قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أصبح قال : أصبحنا وأصبح الملك لله والحمد لله والكبرياء والعظمة لله والخلق والأمر والليل والنهار وما سكن فيهما لله اللهم اجعل أول هذا النهار صلاحا وأوسطه نجاحا وآخره فلاحا يا أرحم الراحمين . ذكره النووي في كتاب الأذكار برواية ابن السني
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) کہتے ہیں کہ جب صبح ہوتی رسول کریم ﷺ یہ دعا پڑھتے۔ دعا (اصبحنا واصبح الملک للہ والحمدللہ والکبریاء والظمۃ للہ والخلق الامر واللیل والنہار وماسکن فیہم اللہ اللہم اجعل اول ہذا النہار صلاح واوسطہ نجاحا واخرہ فلاح یا ارحم الراحمین) ۔ صبح کی میں نے اور صبح کی ملک نے جو اللہ کے لئے ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور بزرگی ذات وصفات کی اللہ ہی کے لئے ہے اور حکم دن اور رات اور چیزیں دن رات میں آرام پاتی ہیں سب اللہ ہی کے لئے ہیں اے اللہ اس دن کے ابتدائی حصہ کو نیکی کا بنا یعنی یہ کہ ہم اسے طاعات میں صرف کریں اور اس کا درمیانی حصہ حاجات کے پورا ہونے کا اور اس کے آخری حصہ کو نجات کا سبب بنا اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ اس حدیث کو نووی نے ابن سنی کی روایت کے ساتھ کتاب الاذکار میں نقل کیا ہے۔

تشریح
جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے جس دعا کو یا ارحم الراحمین پر ختم کیا جائے وہ جلد قبول ہوتی ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس دعا کو انہیں الفاظ پر ختم کیا۔ حاکم نے مستدرک میں ابوامامہ سے بطریق مرفوع بیان کیا ہے کہ یا ارحم الراحمین کہنے والوں پر اللہ تعالیٰ فرشتہ متعین فرما دیتا ہے چناچہ جو شخص اس جملہ کو تین بار کہتا ہے تو وہ فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ ارحم الراحمین تیری طرف متوجہ ہے جو مانگنا ہے مانگ لو۔

2444

صحیح
وعن عبد الرحمن بن أبزى قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول إذا أصبح : أصبحنا على فطرة الإسلام وكلمة الإخلاص وعلى دين نبينا محمد صلى الله عليه و سلم وعلى ملة أبينا إبراهيم حنيفا وما كان من المشركين . رواه أحمد والدارمي
حضرت عبدالرحمن ابن ابزی (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ صبح کے وقت یہ فرماتے دعا (اصبحنا علی فطرۃ الاسلام وکلمۃ الاخلاص وعلی دین نبینا محمد ﷺ وعلی ملۃ ابینا ابراہیم حنیفا وماکان من المشرکین) صبح کی ہم نے دین اسلام پر اور کلمہ توحید پر کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور اپنے نبی محمد ﷺ کے دین پر اور اپنے باپ ابراہیم کے دین پر جو باطل سے بیزار ہو کر دین حق کی طرف متوجہ تھے اور ابراہیم شرک کرنے والوں سے نہیں تھے۔ (احمد، دارمی)

تشریح
اپنے نبی محمد ﷺ کے دین پر ان الفاظ سے ظاہری طور یہی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ جس طرح دوسروں کی طرف مبعوث فرمائے گئے اسی طرح آپ ﷺ خود بھی اپنی ذات کی طرف مبعوث تھے یا پھر ان الفاظ کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے امت کو سکھانے کے لئے فرمایا کہ دعا میں اس طرح کہا جائے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔