hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

36. خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان

مشكاة المصابيح

1855

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لو كان لي مثل أحد ذهبا لسرني أن لا يمر علي ثلاث ليال وعندي منه شيء إلا شيء أرصده لدين . رواه البخاري
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ گوارا نہ ہوتا کہ تین راتیں گزر جاتیں اور وہ تمام سونا یا اس کا کچھ حصہ علاوہ بقدر ادائے قرض کے میرے پاس موجود رہتا۔ (بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو میرے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ بات یہ ہوتی کہ میں تمام سونا تین رات کے اندر اندر ہی لوگوں میں تقسیم کردیتا، اس میں سے اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتا ہاں اتنا سونا ضرور بچا لیتا جس سے میں اپنا قرض ادا کرسکتا کیونکہ قرض ادا کرنا صدقہ سے مقدم ہے۔ اس ارشاد گرامی سے جہاں آنحضرت ﷺ کی انتہائی سخاوت فیاضی کا وصف سامنے آتا ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے مال و زر کی خیرات نکالتے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اپنی آسائش و راحت کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً عالیشان بلڈنگیں بناتے ہیں کوٹھیاں تعمیر کرتے ہیں یا اسی قسم کی دوسرا آسائش زندگی کے لئے بےتحاشا مال خرچ کرتے ہیں مگر ان کے اوپر دوسرے لوگوں کے حقوق ہوتے ہیں وہ ان کے حقوق کی ادائیگی تو کیا کرتے ان کی طرف ان کا دھیان بھی کبھی نہیں جاتا تو یہ کوئی اچھی اور پسندیدہ بات نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر انتہائی غلط ہے۔ شریعت و اخلاق ہی نہیں بلکہ محض عقل و دانش اور انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے بھی کیا یہ بات گوارا کی جاسکتی ہے کہ ایک شخص تو دولت و حرص و ہوس کا پتلا بن کر اپنی تجوریاں بھرے بیٹھا ہوا بےمصرف مال و زر کے انبار لگائے ہوئے ہو اور سونے چاندی کے خزانے جمع کئے مگر ایک دوسرا شخص اس کے آنکھوں کے سامنے نان جویں کے لئے بھی محتاج ہوا ور اس کی تجوری کا منہ نہ کھلے، ایک غریب بھوک و افلاس کے مارے دم توڑ رہا ہو مگر اس کے اندر اتنی بھی ہمدردی نہ ہو کہ اس غریب کو کھانا کھلا کر اس کی زندگی کے چراغ کو بجھنے سے بچائے ؟ جی ہاں ! آج کے اس دور میں بھی جب کہ سوشلزم، مساوات اور انسانی بھائی چارگی و ہمدردی کے نعرے ہمہ وقت فضا میں گونجتے رہتے ہیں کون نہیں دیکھتا کہ مال و زر کے بندے اپنی ادنیٰ سی خواہش کے لئے تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں اپنی دنیاوی آسائش و راحت کی خاطر مال و زر کے تختے بچھا دیتے ہیں مگر جب بھوک و پیاس سے بلکتا کوئی انہیں جیسا ان کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ان کی جبین پر بل پڑجاتے ہیں اور ان کے منہ سے نفرت و حقارت کے الفاظ ابلنے لگتے ہیں وہ شقی القلب یہ نہیں سوچتے کہ اگر معاملہ برعکس ہوتا تو ان کے جذبات و احساسات کیا ہوتے ؟ لہٰذا جنگ زرگری کے موجودہ دور میں مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لئے یہ ارشاد گرامی ایک دعوت عمل اور مینارہ نور ہے۔

1856

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان فيقول أحدهما : اللهم أطع منفقا خلفا ويقول الآخر : اللهم أعط ممسكا تلفا
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا روزانہ صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک فرشتہ تو سخی کے لئے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما یعنی جو شخص جائز جگہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اس کو بہت زیادہ بدلہ عطا فرما بایں طور کہ یا تو دنیا میں اسے خرچ کرنے سے کہیں زیادہ مال دے دے یا آخرت میں اجر وثواب عطا فرما اور دوسرا فرشتہ بخیل کے لئے بد دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! بخیل کو تلف (نقصان) دے اور یعنی جو شخص مال و دولت جمع کرتا ہے اور جائز جگہ خرچ نہیں کرتا بلکہ بےمحل اور بےمصرف خرچ کرتا ہے تو اس کا مال تلف و ضائع کر دے۔ (بخاری ومسلم)

1857

صحیح
وعن أسماء قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أنفقي ولا تحصي فيحصي الله عليك ولا توعي فيوعي الله عليك ارضخي ما استطعت
حضرت اسماء (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس جگہ مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہو وہاں اپنا مال خرچ کرو اور یہ شمار نہ کرو کہ کتنا خرچ کروں اور کیا خرچ کروں نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں شمار کرے گا (یعنی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت ختم کر کے تمہارا رزق کم کر دے گا بایں طور کہ اسے ایک معدودع و محدود چیز کی مانند کر دے گا یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال و زر کے بارے میں تم سے محاسبہ کرے گا اور جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے حاجت مندوں سے روک کر نہ رکھو نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں اپنی زائد عطاء و بخشش روک لے گا، نیز یہ کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ لاتحصی (اور یہ شمار نہ کرو الخ) کے ایک معنی تو وہی ہیں جو اوپر ترجمے میں مذکور ہوئے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مال کو جمع کرنے کے لئے نہ شمار کرو اور اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ترک نہ کرو۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے تم اپنی حیثیت وقدرت کے مطابق جو کچھ بھی خرچ کرسکو اسے اللہ کی راہ میں جرور خرچ کرو خواہ وہ مقدار تعداد کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بلکہ اسے حقیق بھی نہ سمجھو کیونکہ خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا ایک ذرہ بھی اللہ کے نزدیک بہت وقیع اور میزان عمل میں بہت وزنی ہے۔

1858

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قال الله تعالى : أنفق يا ابن آدم أنفق عليك
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اولاد آدم میری راہ میں اپنا مال خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے اولاد آدم ! تو دنیا کے فانی مال کو میری راہ میں خرچ کر تاکہ آخرت میں تجھے اموال عالیہ حاصل ہوں۔ بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جو کچھ میں نے تجھے عطا کیا ہے اس میں سے تو لوگوں کو دے تاکہ میں تجھے دنیا و عقبی میں اس سے زیادہ عطا کروں گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ آیت ( وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُه) 24 ۔ سبأ 39) ۔ تم جو کچھ بھی اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہو اللہ تمہیں اس کا بدلہ عطا کرتا ہے۔

1859

صحیح
وعن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يا ابن آدم إن تبذل الفضل خير لك وإن تمسكه شر لك ولا تلام على كفاف وابدأ بمن تعول . رواه مسلم
حضرت ابوامامہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اے اولاد آدم ! جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا تمہارے لئے دنیا و آخرت میں بہتر ہے اور اسے روکے رکھنا یعنی خرچ نہ کرنا اللہ کے نزدیک بھی اور بندوں کے نزدیک بھی تمہارے لئے برا ہے ! بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے اور جو مال تمہاری حاجت سے زائد ہو اسے خرچ کرنے کے سلسلے میں اپنے اہل و عیال سے ابتداء کرو۔ (مسلم)

تشریح
ولا تلام علی کفاف (بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اتنا مال اپنے پاس بچائے رکھو جو تمہاری زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہو بایں طور کہ اس کی وجہ سے تمہاری غذائی ضرورت پوری ہو اور تم کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچے رہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ بقاء زندگی کے بقدر مال کا تعین اشخاص و احوال اور زمانہ کے مطابق ہوتا ہے یعنی بعض اشخاص کے بقاء زندگی کے بقدر مال کی مقدار کم ہوتی ہے اور بعضوں کے لئے زیادہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی واقعی ضروریات زندگی کے لئے کم مال درکار ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے زیادہ مقدار ضروری ہوتی ہے اسی طرح بعض دنوں میں بقاء زندگی کے لئے کم مال درکار ہوتا ہے اور بعض دنوں میں زیادہ مقدار میں ضروری ہوتا ہے نیز بعض حالات میں تھوڑا مال کفایت کرجاتا ہے اور بعض حالات میں زیادہ مال کی ضرورت ہوتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کسی واقعی ضرورت و حاجت کے بقدر مال و زر بچائے رکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ و ابدا بمن تعول کا مفہوم یہ ہے کہ سخاوت خرچ کے معاملے میں اپنے اہل و عیال اور ان لوگوں کو مقدم رکھنا چاہئے جن کا نفقہ اپنے اوپر واجب ہو یعنی ان لوگوں کو دو ، جب ان سے بچ رہے تو دوسرے لوگوں کو دینا چاہئے اور اس انداز سے خرچ کرنا کوئی مستحسن بات نہیں ہے کہ اپنے اہل و عیال تو ضرورت مند و محتاج رہیں اور دوسروں کو دیا جائے۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد بھی حدیث قدسی (اللہ تعالیٰ کا ارشاد) ہے اگرچہ حدیث میں صراحتا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ شاید آنحضرت ﷺ نے اپنے ہی ارشاد کے لئے یہ اسلوب اختیار فرمایا ہو۔ واللہ اعلم۔

1860

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين عليهما جنتان من حديد قد اضطرت أيديهما إلى ثديهما وتراقيهما فجعل المتصدق كلما تصدق بصدقة انبسطت عنه البخيل كلما هم بصدقة قلصت وأخذت كل حلقة بمكانها
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی ہے جن کے جسم پر لوہے کی زرہیں اور ان زرہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں اور گردن کی ہنسلی کی طرف چمٹے ہوئے ہوں چناچہ جب صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کے حلقے اور تنگ ہوجاتے ہیں اور اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں بایں طور کہ وہ مال خرچ کرنے کے لئے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔ اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لئے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے اور بخیل کے لئے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہوجاتا ہے۔

1861

صحیح
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز ظلم اندھیروں کی شکل میں ہوگا (جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا) اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے جو تم سے پہلے گزرے ہیں بخل ہی کے باعث انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔ (مسلم)

تشریح
ظلم کا اصل مفہوم ہے کسی چیز کو اس کی غیر جگہ استعمال کرنا مثلاً انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اللہ کی عبادت و اطاعت کرنا اور نیک راہ پر چلنا اب اگر انسان کا نفس امارہ اسے اس کی تخلیق کے اصل مقصد سے ہٹا کر اللہ سے بغاوت و سرکشی اور برائی کے راستے پر چلاتا ہے تو یہ ظلم کہلائے گا۔ لہٰذا ظلم کا مفہوم تمام گناہوں کو شامل ہے یعنی جو بھی گنہگار ہوگا۔ وہ ظالم کہلائے گا۔ ظلم اندھیروں کی شکل میں ہوگا، کے بارے میں علماہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے یعنی قیامت کے روز ظلم گناہ ظالم کے سامنے اندھیروں کی صورت میں ہوگا جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا اور ان کی وجہ سے نجات کا راستہ نہیں پائے گا جس طرح کہ مومن صالح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قیامت کے روز نجات کی راہ اس طرح پائیں گے کہ ان سب کی سعادت نیک بختی کا نور ان کے آگے آگے دوڑتا ہوگا جس کی روشنی میں جنت کی ابدی سعادتوں کا راستہ ان کے سامنے ہوگا اور وہ اس پر اطمینان و آسانی چل کر اپنے مولا کی خوشنودی اور رحمت کو پالیں گے۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اندھیروں سے قیامت کے دن ہولناکیاں اور شدائد مراد ہوں یعنی ایک ظلم قیامت کی بہت سی ہولنا کیوں اور شدائد کا باعث ہوگا۔ بخل سے بچنے کے لئے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ بخل بھی نہ صرف یہ کہ ظلم ہی کی ایک قسم ہے بلکہ ظلم کی ایک بہت بڑی قسم ہے یہی وجہ ہے کہ ظلم سے بچنے کا حکم عمومی طور پر فرمانے کے بعد پھر بھی بعد میں بطور خاص بخل سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ بخل کو خونریزی اور حرام کو حلال جاننے کا باعث بتایا گیا ہے کیونکہ اپنے مال و زر کو دوسروں کی راحت بھلائی کے لئے خرچ کرنا اور اس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کی خبر گیری درحقیقت آپس کی محبت و ملاپ کا ذریعہ اور سبب ہے اس کے برعکس بخل ترک ملاقات اور انقطاع تعلقات کا سبب ہے جس کا آخری نتیجہ آپس کی دشمنی اور مخاصمت ہے اور یہ بالکل ظاہری بات ہے کہ جب ایک دوسرے سے دشمنی اور مخاصمت ہوتی ہے تو پھر خونریزی بھی ہوتی ہے اسی دشمنی اور مخاصمت کا ایک دوسرا پہلو حرام باتوں کو مباح و حلال سمجھ لینا بھی ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی شخص ہو وہ دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے دشمن کی عورتوں کو، اس کے مال و زر کو اور اس کی آبرو ریزی وغیرہ کو حلال جانتا ہے اسی لئے جہاں ایک طرف بخل کو خونریزی کا سبب بتایا گیا ہے وہیں دوسری طرف اسے حرام کو حلال سمجھ لینے کا باعث بھی فرمایا گیا ہے۔

1862

صحیح
وعن حارثة بن وهب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تصدقوا فإنه يأتي عليكم زمان يمشي الرجل بصدقته فلا يجد من يقبلها يقول الرجل : لو جئت بها بالأمس لقبلتها فأما اليوم فلا حاجة لي بها
حضرت حارثہ بن وہب (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ خدا کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرو، کیونکہ انسانی زندگی میں ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ایک شخص صدقہ کا مال لے کر نکلے گا مگر وہ کسی ایسے شخص کو نہ پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کرلے بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ اگر تم صدقہ کے اس مال کو کل لے کر آتے تو میں قبول کرلیتا آج تو مجھے اس کی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تو اللہ کی راہ میں اپنا مال و زر خرچ کرنے کو غنیمت اور اپنے حق میں باعث سعادت جانو کیونکہ ابھی تو صدقہ کے مال کو قبول کرنے والے بہت سے مل جانتے ہیں لیکن ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ صدقہ کے مال کو قبول کرنے والا کوئی شخص ڈھونڈے سے نہیں ملے گا کیونکہ یا تو اس وقت سب ہی لوگ مالدار ہوں گے یا پھر یہ کہ دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف میلان اور رغبت کی وجہ سے ان کے دل غنی و بےپرواہ ہوں گے۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ جب کہ یہ فانی دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ چکی ہوگی اور حضرت امام مہدی (علیہ السلام) اس عالم میں تشریف فرما ہوں گے۔

1863

صحیح
وعن أبي هريرة قال : قال رجل : يا رسول الله أي الصدقة أعظم أجرا ؟ قال : أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل الغنى ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت : لفلان كذا ولفلان كذا وقد كان لفلان
حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ثواب کے اعتبار سے کونسا بڑا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا افضل صدقہ وہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اس وقت اپنا مال خرچ کرو جب کہ تم توانا و تندرست ہو اور مال جمع کرنے کی حرص رکھتے ہو، فقر و افلاس سے ڈرتے رہو اور حصول دولت کے امیدوار ہو یاد رکھو صدقہ خیرات کے معاملے میں ڈھیل نہ دو ، یہاں تک کہ جب تمہاری جان حلق میں آجائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں کے لئے ہے اور اتنا مال فلاں کے لئے ہے۔ درآنحالیکہ اس مال کا مالک فلاں وارث ہوجائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث وہ صدقہ ہوتا ہے جو زندگی کے اس دور میں ادا ہو جب کہ صحت تندرستی رفیق جان ہو، کیونکہ زندگی کے اس حصہ میں درازگی عمر کی امید مال جمع کرنے کی حرص کا باعث ہوتی ہے صحت مند و تندرست انسان نہ صرف یہ کہ جنگ زرگری کے میدان میں آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کی جبلت طبعی، بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اندر کا چھپا ہوا شیطان اسے فقر و محتاجگی سے ڈراتا رہتا ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ و خیال پیدا کرتا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی وجہ سے کہیں مفلس و قلاش نہ بن جاؤں نیز زیادہ سے زیادہ دوسلت حاصل کرنے آرزو بسا اوقات حرص و ہوس کا روپ اختیار کرلیتی ہے لہٰذا زندگی کے اس حصے میں اللہ کی خوشنودی کے لئے مال خرچ کرنا درحقیقت نیک بختی وسعادت کی معراج ہے۔ حدیث کے آخری جملے ولا تمہل الخ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے میں اتنی تاخیر، سستی اور غفلت نہ کرو کہ جب زندگی کا پیمانہ لبریز ہونے لگے جان نکل کر حلق میں آجائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں شخص کے لئے ہے اور اتنا مال فلاں نیک کام کے لئے حالانکہ اس وقت وہ مال وارثوں کا ہوجاتا ہے بایں طور کہ وارثوں کا حق متلعق ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کی بات ہے مگر جب مرنے کا وقت آئے تو اس وقت اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا یا اسے اس وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث نہیں ہے۔

1864

صحیح
وعن أبي ذر قال : انتهيت إلى النبي صلى الله عليه و سلم وهو جالس في ظل الكعبة فلما رآني قال : هم الأخسرون ورب الكعبة فقلت : فداك أبي وأمي من هم ؟ قال : هم الأكثرون أموالا إلا من قال : هكذا وهكذا وهكذا من بين يديه ومن خلفه وعني مينه وعن شماله وقليل ما هم
حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس وقت پہنچا جب کہ آپ ﷺ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرماتے۔ جب آپ ﷺ کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بہت ٹوٹے میں ہیں میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کون ہیں وہ لوگ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو زیادہ مال جمع کرتے ہیں ہاں ! وہ لوگ مستثنی ہیں جو اپنے ادھر ادھر اور اس طرف یعنی اپنے آگے اپنے پیچھے اپنے دائیں اپنے بائیں غرض یہ کہ ہر طرح اور ہر جگہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہیں (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابوذر غفاری (رض) نے چونکہ فقر افلاس کو اپنی زندگی کا امتیاز بنا لیا تھا اور اس طرح انہوں نے دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑ کر غنا و تونگر پر فقر افلاس کو ترجیح دے رکھی تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کی تسلی اور ان کے اطمینان قلب کی خاطر یہ بات ارشاد فرمائی۔ گویا اس ارشاد گرامی میں دنیا سے بےرغبتی اور فقر کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔

1865

ضعیف
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : السخي قريب من الله قريب من الجنة قريب من الناس بعيد من النار . والبخيل بعيد من الله بعيد من الجنة بعيد من الناس قريب من النار . ولجاهل سخي أحب إلى الله من عابد بخيل . رواه الترمذي
حضرت ابوہریررہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سخی اللہ کی رحمت کے نزدیک ہے، بہشت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے (یعنی سب ہی اسے عزیز رکھتے ہیں) اور آگ سے دور ہے۔ مگر بخیل جو کہ اپنے اوپر واجب حقوق کی بھی ادائیگی نہ کرے اللہ کی رحمت سے دور ہے، بہشت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے اور آگ سے نزدیک ہے بلاشبہ اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے جاہل سخی بہت پیارا ہے۔ (ترمذی)

تشریح
جاہل سخی سے عابد کی ضد یعنی وہ سخی مراد ہے جو فرائض تو ادا کرتا ہو مگر نوافل کا پابند نہ ہو اسی طرح عابد بخیل سے مراد وہ بخیل ہے جو نوافل بہت زیادہ ادا کرتا ہے خواہ عالم ہو یا عالم نہ ہو۔

1866

ضعیف
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لأن يتصدق المرء في حياته بدرهم خير له من أن يتصدق بمائة عند موته . رواه أبو داود
حضرت ابوسعید خدری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی شخص کا اپنی تندرستی کی حالت میں ایک درہم اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اپنے مرنے کے وقت اللہ کے راستہ میں ایک سو درہم خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ ( ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال کم تعداد میں اور کم مقدار میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا مرتے وقت بہت زیادہ مال خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔

1867

صحیح
وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل الذي يتصدق عند موته أو يعتق كالذي يهدي إذا شبع . رواه أحمد والنسائي والدارمي والترمذي وصحح
حضرت ابوالدرداء (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنی موت کے وقت خیرات کرتا ہے یا غلام آزاد کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو کسی کو ایسے وقت میں تحفہ (یعنی کھانا) بھیجتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہوتا ہے۔ (ترمذی، نسائی، دارمی اور امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مرتے وقت اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جس طرح کہ کسی ضرورت مند کو ایسے وقت کھانا دینا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہو لہٰذا جس طرح کسی شخص کو اس کی بھوک کی حالت میں کھانا کھلانا یا اس کے ساتھ سخاوت کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے اسی طرح صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہے۔

1868

ضعیف
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خصلتان لا تجتمعان في مؤمن : البخل وسوء الخلق . رواه الترمذي
حضرت ابوسعید راوی (رض) ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں ایک تو بخل دوسری بدخلقی۔ (ترمذی)

تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ مناسب اور لائق نہیں ہے کہ مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں جمع ہوں یا یہ مراد ہے کہ کسی مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں اس درجے کی نہیں ہوتیں کہ وہ کبھی اس سے جدا ہی نہ ہوں اور وہ ان کی موجودگی سے مطمئن اور راضی ہو ہاں اگر کبھی بمقتضائے طبیعت بشری کوئی مومن کامل بدخلقی کرے یا اس میں بخل پیدا ہوجائے پھر بعد میں اسے ندامت و شرمندگی ہو اور ان کی وجہ سے وہ پشیمان ہو نیز اپنے نفس کو ملامت کرے تو یہ کمال ایمان کے منافی نہیں ہوگا۔ خلق ان امور پر عمل کرنے کا نام ہے جن کی شریعت نے تعلیم دی ہے۔ خلق یا اخلاق دوسرے سے جھک کر خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے یا تمام معاملات میں نرمی برتنے ہی کا نام نہیں ہے جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے اس لئے کہ بعض امور میں شدت اور سختی اختیار کرنا ہی تقاضائے ایمان ہے لہٰذا یہاں حدیث میں مذکور بد خلقی سے مراد یہ ہے کہ ان امور کی خلاف ورزی کرنا جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔

1869

ضعیف
وعن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يدخل الجنة خب ولا بخيل ولا منان . رواه الترمذي
امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا جنت میں نہ تو مکار داخل ہوگا نہ بخیل نہ اللہ کی راہ میں کسی کو مال دے کر احسان جتانے والا۔ (ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں جنت میں ابتداء بغیر عذاب کے داخل نہیں ہوں گے بلکہ یہ اپنے اپنے جرم کی سزا پالیں گے تو عذاب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے۔ بخیل سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال میں سے حق واجب ادا نہ کرے۔ منان کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں مذکور ہیں اس کے دوسرے معنی کاٹنے والا ہیں یعنی وہ شخص جو اپنے اعزا اور رشتہ داروں سے ترک تعلقات کرے اور مسلمانوں سے محبت و مروت کا معاملہ نہ کرے۔

1870

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : شر ما في الرجل شح هالع وجبن خالع . رواه أبو داود وسنذكر حديث أبي هريرة : لا يجتمع الشح والإيمان في كتاب الجهاد إن شاء الله تعالى
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان میں جو خصلتیں ہوتی ہیں ان میں سے دو خصلتیں سب سے بدترین ہیں۔ ایک تو انتہائی درجہ کا بخل اور دوسری انتہائی درجہ کی نامردی۔ ( ابوداؤد) وسنذکر حدیث ابی ہریرۃ لایجتمع الشح والایمان فی کتاب الجہا انشاء اللہ تعالیٰ

1871

صحیح
عن عائشة رضي الله عنها أن بعض أزواج النبي صلى الله عليه و سلم قلن للنبي صلى الله عليه و سلم أينا أسرع بك لحوقا ؟ قال : أطولكن يدا فأخذوا قصبة يذرعونها فكانت سودة أطولهن يدا فعلمنا بعد أنما كانت طول يدها الصدقة وكانت أسرعنا لحوقا به زينب وكانت تحب الصدقة . رواه البخاري . وفي رواية مسلم قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أسرعكن لحوقا بين أطولكن يدا . قالت : فكانت أطولنا يدا زينب ؟ لأنها كانت تعمل بيدها وتتصدق
ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے بعض نے آپ ﷺ سے کہا کہ ہم میں کون سی بیوی آپ ﷺ سے جلد ملاقات کرے گی یعنی آپ کے وصال کے بعد ہم میں سب سے پہلے کس بیوی کا انتقال ہوگا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔ (حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر) آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے بانس یا سرکنڈے کا ایک ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کئے ان سب میں حضرت سودہ کے ہاتھ جو آپ ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں سب سے لمبے تھے مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ تھا اور ہم میں سے جس نے سب سے پہلے آپ ﷺ سے یعنی سب سے پہلے جس کا انتقال ہوا وہ حضرت زینب تھیں اور وہ صدقہ و خیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھیں۔ (بخاری) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت عائشہ (رض) سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم میں میں سے مجھ سے جلد ملنے والی وہ ہوگی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ سن کر آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات (رض) آپس میں ہاتھوں کی لمبائی ناپتی تھیں کہ ان میں سے کون سی لمبے ہاتھوں والی ہے، چناچہ ہم میں سب سے لمبے ہاتھ والی حجرت زینب تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے سب کام کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔

تشریح
فعلمنا بعد (مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہوا الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم نے پہلے تو ہاتھ کی لمبائی کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا کہ واقعۃ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے وہی آپ ﷺ سے جلد ملاقات کرے گی لیکن آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سب سے پہلے جب حضرت زینب (رض) کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی گویا آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی وہ ہے جو سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے۔ حضرت زینب (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی دباغت کا کام انجام دیتی تھیں پھر اس کو فروخت کرتی اور قیمت ملتی اسے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں خرچ کرتی تھیں۔

1872

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : قال رجل : لأتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق فأصبحوا يتحدثون تصدق على سارق فقال اللهم لك الحمد على سارق لأتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يدي زانية فأصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية فقال اللهم لك الحمد على زانية لأتصدقن بصدقة فخرج بصدقته فوضعها في يدي غني فأصبحوا يتحدثون تصدق على غني فقال اللهم لك الحمد على سارق وعلى زانية وعلى غني فأتي فقيل له أما صدقتك على سارق فلعله أن يستعف عن سرقته وأما الزانية فلعلها أن تستعف عن زناها وأما الغني فلعله يعتبر فينفق مما أعطاه الله . متفق عليه ولفظه للبخاري
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے دل میں یا کسی اپنے دوست سے کہا کہ میں آج رات میں اللہ کی راہ میں کچھ مال خرچ کروں گا چناچہ اس نے اپنے قصد و ارادہ کے مطابق خیرات کے لئے کچھ مال نکالا، تاکہ اسے کسی مستحق کو دے دے اور وہ مال اس نے ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ چور ہے کہ جس وجہ سے خیرات کے مال کا مستحق نہیں ہے جب صبح ہوئی اور لوگوں کو الہام الٰہی کے سبب یا خود اس چور کی زبانی معلوم ہوا تو بطریق تعجب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات ایک چور کو صدقہ کا مال دیا گیا ہے۔ جب صدقہ دینے والے کو بھی صورتحال معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ اے اللہ ! تیرے ہی لئے تعریف ہے باوجودیکہ صدقہ کا مال ایک چور کے ہاتھ لگا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا تاکہ وہ مستحق کو مل جائے چناچہ اس نے صدقہ کی نیت سے پھر کچھ مال نکالا اور اس مرتبہ بھی غلط فہمی میں وہ مال ایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج تو ایک زانیہ صدقہ کا مال لے اڑی وہ شخص کہنے لگا کہ اے اللہ ! تعریف تیرے ہی لئے ہے اگرچہ اس مرتبہ صدقہ کا مال ایک زانیہ کے ہاتھ لگ گیا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا چناچہ اس نے پھر کچھ مال صدقہ کی نیت سے نکالا اور اس مرتبہ پھر غلط فہمی میں وہ مال ایک غنی کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات تو ایک دولت مند کو مل گیا۔ جب وہ شخص سویا تو خواب میں اس سے کہا گیا کہ تو نے جتنے صدقے دئیے ہیں سب قبول ہوگئے۔ کیونکہ صدقہ کا جو مال تو نے چور کو دیا ہے۔ وہ بےفائدہ اور خالی از ثواب نہیں ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے چوری سے باز رہے اور صدقہ کا جو مال تو نے زانیہ کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے زنا سے باز رہے اور صدقے کا جو مال تو نے دولت مند کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے عبرت حاصل کرلے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ (بخاری ومسلم الفاظ بخاری کے ہیں)

تشریح
صدقہ دینے والے نے اللہ کی تعریف یا بطریق شکر کی کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے صدقہ تو دیا اگرچہ وہ غیر مستحق ہی کے ہاتھ لگا یا پھر بطریق تعجب یا اپنے دل کے اطمینان کے لئے اس نے اللہ کی تعریف کی۔ بہرکیف آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کے اس شخص کا یہ واقعہ اس لئے بیان فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر صدقہ و خیرات بہر نوع بہتر اور باعث ثواب ہے جس کسی کو بھی صدقہ دیا جائے گا ثواب ضرور پائے گا۔

1873

صحیح
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : بينا رجل بفلاة من الأرض فسمع صوتا في سحابة اسق حديقة فلان فتنحى ذلك السحاب فأفرغ ماءه في حرة فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله فتتبع الماء فإذا رجل قائم في حديقته يحول الماء بمسحاته فقال له يا عبد الله ما اسمك فقال له يا عبد الله لم تسألني عن اسمي فقال إني سمعت صوتا في السحاب الذي هذا ماؤه يقول اسق حديقة فلان لاسمك فما تصنع فيها قال أما إذ قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها فأتصدق بثلثه وآكل أنا وعيالي ثلثا وأرد فيها ثلثه . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایک شخص زمین کے ایک حصے جنگل میں کھڑا تھا کہ اس نے ابر میں سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر پھر وہ ابر ایک طرف چلا اور ایک جگہ پتھریلی زمین پر پانی برسانے لگا۔ اور وہ تمام پانی ان نالیوں میں سے کہ جو اس زمین میں تھیں ایک نالی میں جمع ہونے لگا پھر وہ پانی اس نالی کے ذریعے ایک طرف بہنے لگا تو وہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تاکہ یہ دیکھے کہ جس شخص کے باغ میں یہ پانی جا رہا ہے وہ کون ہے ؟ ناگہاں اس شخص نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے کھیت میں کھڑا بیلچہ کے ذریعے اس پانی کو باغ کے درختوں میں پھیلا رہا تھا اس شخص نے باغ والے سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے تمہارا کیا نام ہے ؟ ؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں نام ہے اور اس نے وہی نام بتایا جو اس ابر میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے پوچھا کہ بندہ اللہ تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں جس ابر کا یہ پانی ہے اس ابر میں میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا اس ابر سے یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر اور وہ نام تمہارا ہی تھا اور اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم اس باغ میں کیا بھلائی کرتے ہو جس کی وجہ سے تم اس فضیلت اور بزرگی سے نوازے گئے ہو باغ والے نے کہا کہ چونکہ اس وقت تم پوچھ رہے ہو اس لئے میں بھی تم سے بتائے دیتا ہوں کہ اس باغ کی جو کچھ پیدا وار ہوتی ہے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں پھر اس میں سے ایک تہائی تو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہوں۔ ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔ (مسلم)

تشریح
اگرچہ ابر کی آواز نے باغ والے کا نام صراحۃ لیا تھا جیسا کہ بعد میں ذکر بھی کیا گیا مگر آپ ﷺ نے یہ قصہ سناتے ہوئے ابتدا میں اس کا صراحۃ نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں سے اس کے نام کو کنایۃ ذکر کیا۔ اسی طرح ابر کی آواز سننے والے شخص نے بھی ابر میں باغ والے کا نام صراحۃ سنا تھا مگر پھر اس نے باغ والے سے اس کا نام اس لئے پوچھا تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ واقعی یہ وہی شخص ہے جس کا نام ابر کی آواز نے لیا تھا۔ نیز جب باغ والے نے اس سے اپنا نام دریافت کرنے کا سبب پوچھا تو اس ابر کی آواز کی نقل کرتے ہوئے بھی اس کا نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں کہا گویا اس نے ظاہر کیا کہ اگرچہ ابر کی آواز نے تمہارا نام صراحۃً لیا تھا مگر میں اس وقت تمہارے متعین نام کی بجائے لفظ فلاں ذکر کر رہا ہوں حاصل یہ کہ ہاتف غیبی نے باغ والے کا نام صراحۃً ذکر کیا تھا مگر سامع نے اس کے نام کو لفظ فلاں سے کنایۃً تعبیر کیا اور اسے بتادیا کہ تمہارا نام میں نے سنا تھا۔ مگر اس کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا ہے۔

1874

صحیح
وعن أبي هريرة أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول : إن ثلاثة في بني إسرائيل أبرص وأقرع وأعمى فأراد الله أن يبتليهم فبعث إليهم ملكا فأتى الأبرص فقال أي شيء أحب إليك قال لون حسن وجلد حسن ويذهب عني الذي قد قذرني الناس قال : فمسحه فذهب عنه قذره وأعطي لونا حسنا وجلدا حسنا قال فأي المال أحب إليك قال الإبل - أو قال البقر شك إسحق - إلا أن الأبرص أو الأقرع قال أحدهما الإبل وقال الآخر البقر قال فأعطي ناقة عشراء فقال بارك الله لك فيها قال : فأتى الأقرع فقال أي شيء أحب إليك قال شعر حسن ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس . قال : فمسحه فذهب عنه وأعطي شعرا حسنا قال فأي المال أحب إليك قال البقر فأعطي بقرة حاملا قال : بارك الله لك فيها قال : فأتى الأعمى فقال أي شيء أحب إليك قال أن يرد الله إلي بصري فأبصر به الناس . قال : فمسحه فرد الله إليه بصره قال فأي المال أحب إليك قال الغنم فأعطي شاة والدا فأنتج هذان وولد هذا قال فكان لهذا واد من الإبل ولهذا واد من البقر ولهذا واد من الغنم . قال : ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهيئته فقال رجل مسكين قد انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا أتبلغ عليه في سفري فقال الحقوق كثيرة فقال له كأني أعرفك ألم تكن أبرص يقذرك الناس فقيرا فأعطاك الله مالا فقال إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت . قال : وأتى الأقرع في صورته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد على هذا فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت . قال : وأتى الأعمى في صورته وهيئته فقال رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي رد عليك بصرك شاة أتبلغ بها في سفري فقال قد كنت أعمى فرد الله إلي بصري فخذ ما شئت ودع ما شئت فوالله لا أجهدك اليوم شيئا أخذته لله فقال أمسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك
حضرت ابوہریرہ (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ان میں ایک تو کوڑھی تھا دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانا چاہا کہ یہ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں ؟ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ مسکین و فقیر کی صورت میں بھیجا وہ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے ؟ کوڑھی نے کہا کہ اچھا رنگ اور جسم کی بہترین جلد نیز یہ کہ مجھے اس چیز یعنی وڑھ سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ یہ سن کر فرشتہ نے کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرا چناچہ اس کا کوڑھ جاتا رہا۔ اسے بہترین رنگ و روپ اور بہترین جلد عطا کردی گئی۔ پھر فرشتہ نے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا کہ اونٹ یا کہا گائیں۔ (حدیث کے ایک راوی اسحق کو شک ہے کہ) گائے کے لئے کوڑھی نے کہا تھا یا گنجے نے کہا تھا بہرحال یہ طے ہے کہ ان میں سے ایک نے تو اونٹ کے لئے کہا تھا اور دوسرے نے گائے کے لئے آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ اس شخص کو حاملہ اونٹنیاں عطا کردی گئیں پھر فرشتے نے یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے ؟ گنجے نے کہا کہ بہترین قسم کے بال اور یہ کہ یہ چیز یعنی گنجے پن سے نجات پا جاؤں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا گنج جاتا رہا نیز اسے بہترین قسم کے بال عطا کر دئیے گئے۔ پھر فرشتہ نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا کہ گائیں چناچہ اسے حاملہ گائیں عطا کردی گئیں اور فرشتہ نے اسے دعا بھی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ اس کے بعد پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اندھے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا فرشتہ نے اس اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی بینائی عطا فرما دی، پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا بکریاں چناچہ اسے بہت سی بچے دینے والی بکریاں عنایت فرما دی گئیں اس کے کچھ عرصے کے بعد کوڑھی اور گنجے نے اونٹنیوں اور گائیوں کے ذریعے اور اندھے نے بکریوں کے ذریعے بچے حاصل کئے گویا اللہ نے تینوں کے مال میں بےانتہا برکت دی یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے ایک جنگل بھر گیا گنجے کی گائیوں سے ایک جنگل بھر گیا اور اندھے کی بکریوں سے ایک جنگل بھر گیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس کے بعد فرشتہ پھر کوڑھی کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا۔ اور اس سے کہنے لگا کہ میں ایک مسکین شخص ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے اس لئے آج منزل مقصود تک میرا پہنچنا ممکن نہیں ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہوجائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ تو میری یہ مشکل آسان ہوجائے گی لہٰذا میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، بہترین جلد اور مال عطا کیا ہے ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میرا سفر پورا ہوجائے اور میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں اس کوڑھی نے کہا کہ میرے اوپر حق بہت زیادہ ہیں (یعنی اس کوڑھی نے فرشتے کو ٹالنے کے لئے جھوٹ کہا کہ میرے اس مال کے حقدار بہت ہیں اس لئے تمہیں کوئی اونٹ نہیں مل سکتا) فرشتے نے کہا کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم وہی کوڑھی نہیں ہو جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی اور تم محتاج و قلاش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین رنگ و روپ کے ساتھ صحت عطا فرمائی اور مال سے نوازا کوڑھی نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ مال تو مجھے اپنے باپ دادا کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف پھیر دے جس میں تم پہلے مبتلا تھے یعنی تمہیں پھر کوڑھی اور مفلس بنا دے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی پہلی سی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو اس نے کوڑھی سے کہا تھا چناچہ گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو جواب کوڑھی نے دیا تھا فرشتے نے گنجے سے بھی یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں ویسا ہی کر دے جیسا کہ تم پہلے گنجے اور محتاج تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی یہی کہا کہ میں ایک مسکین انسان اور مسافر ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے۔ اس لئے آج منزل مقصود تک پہنچنا اس شکل میں ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی میرے شامل حال ہوجائے اور اس کے بعد تم اس کا ذریعہ بن جاؤ لہٰذا میں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہاری بینائی واپس کردی تم سے ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میں اپنا سفر پورا کرسکوں اندھے نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کہا کہ بیشک پہلے میں ایک اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری بینائی واپس کردی ہے لہٰذا میری تمام بکریاں حاضر ہیں اس میں تم جو چاہو لے لو اور جو نہ چاہو اسے چھوڑ دو تم جو کچھ بھی لوگے میں اللہ کی قسم تمہیں اس کو واپس کرنے کی تکلیف نہیں دوں گا۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا کہ تمہیں تمہارا مال مبارک تم اپنا مال اپنے پاس رکھو مجھے تمہارے مال کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف تمہیں آزمائش میں مبتلا کیا گیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا امتحان لیا تھا کہ آیا تمہیں اپنا پرانا حال یاد بھی ہے یا نہیں ؟ اور تم اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہو یا نہیں ؟ سو تم آزمائش میں پورے اترے چناچہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہوا اور تمہارے وہ دونوں بدبخت ساتھی یعنی کوڑھی اور گنجا ناشکرے ثابت ہوئے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض قرار پائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہوجائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ علماء کہتے ہیں کہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کے موقع پر یہ اسلوب اختیار کرنا جائز ہے کیونکہ اس طرح اصل سوال تو اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ مگر بندہ کو اس کا ذریعہ اور سبب بنایا جاتا ہے ایسا اسلوب اختیار کرنا کہ جس میں اللہ کے ساتھ بندہ بھی حاجت روائی کا درجہ پا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں اللہ سے اور تم سے سوال کرتا ہوں، قطعا درست نہیں ہے۔

1875

صحیح
وعن أم بجيد قالت : قلت يا رسول الله إن المسكين ليقف على بابي حتى أستحيي فلا أجد في بيتي ما أدفع في يده . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ادفعي في يده ولو ظلفا محرقا . رواه أحمد وأبو داود والترمذي
حضرت ام مجید (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب کوئی سائل میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتی جو اس کے ساتھ میں دے دو ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دے دو خواہ وہ جلا ہوا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ نے صدقہ و خیرات کے بارے میں یہ حکم گویا بطور مبالغہ ارشاد فرمایا کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے خواہ وہ کتنی حقیر اور کم تر چیز کیوں نہ ہو۔

1876

ضعیف
وعن مولى لعثمان رضي الله عنه قال : أهدي لأم سلمة بضعة من لحم وكان النبي صلى الله عليه و سلم يعجبه اللحم فقالت للخادم : ضعيه في البيت لعل النبي صلى الله عليه و سلم يأكله فوضعته في كوة البيت . وجاء سائل فقام على الباب فقال : تصدقوا بارك الله فيكم . فقالوا : بارك الله فيك . فذهب السائل فدخل النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا أم سلمة هل عندكم شيء أطعمه ؟ . فقالت : نعم . قالت للخادم : اذهبي فأتي رسول الله صلى الله عليه و سلم بذلك اللحم . فذهبت فلم تجد في الكوة إلا قطعة مروة فقال النبي صلى الله عليه و سلم : فإن ذلك اللحم عاد مروة لما لم تعطوه السائل . رواه البيهقي في دلائل النبوة
حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) کی خدمت میں پکے ہوئے گوشت کا ٹکڑا تحفہ کے طور پر آیا، نبی کریم ﷺ کو گوشت بہت مرغوب تھا۔ اس لئے حضرت ام سلمہ (رض) نے اپنی لونڈی سے فرمایا۔ کہ اس گوشت کو گھر میں حفاظت سے رکھ دو شاید نبی کریم ﷺ اسے تناول فرمائیں چناچہ لونڈی نے وہ گوشت گھر کے ایک طاق میں رکھ دیا اتفاق اسی وقت ایک سائل نے دروازے پر کھڑے ہو کر صدا بلند کی کہ اے گھر والو اللہ کی راہ میں کچھ عنایت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گھر والوں نے کہا اللہ تمہیں برکت دے یعنی سائل کو جواب دیا جیسا کہ ہمارے یہاں جب کسی سائل کو کچھ دینا نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ بابا معاف کرو سائل واپس چلا گیا جب نبی کریم ﷺ گھر میں تشریف لے گائے تو فرمایا کہ ام سلمہ (رض) تمہارے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز بھی ہے ام سلمہ (رض) نے کہا کہ ہاں ! پھر انہوں نے لونڈی سے کہا جاؤ رسول اللہ ﷺ کے واسطے وہ گوشت لے آؤ لونڈی گوشت لانے چلی گئی مگر طاق کے پاس پہنچ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وہاں گوشت کا کہیں نام نہیں تھا۔ بلکہ گوشت کی جگہ سفید پتھر کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ تم نے سائل کو کچھ نہ دیا اور اسے خالی ہاتھ واپس کردیا اس لئے یہ گوشت سفید پتھر کی شکل اختیار کر گیا۔ بیہقی نے اس روایت کو دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

1877

صحیح
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قالت : قال النبي صلى الله عليه و سلم : ألا أخبركم بشر الناس منزلا ؟ قيل : نعم قال : الذي يسأل بالله ولا يعطي به . رواه أحمد
حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ بتلاؤں کہ اللہ کے نزدیک بااعتبار مرتبہ کے بدترین شخص کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ اس سوال کو پورا نہ کرے۔ (احمد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کوئی سائل کسی شخص سے اللہ کے واسطے سے بایں طور سوال کرے کہ اللہ کے نام پر مجھے کچھ عطا کرو اور اس کے باوجود وہ شخص سائل کو کچھ نہ دے تو وہ اللہ کے نزدیک تمام لوگوں میں بااعتبار مرتبہ کے برا ہے ہاں اگر سائل مستحق نہ ہو یا سائل نے جس شخص سے سوال کیا اس کے پاس اس کی اپنی حاجت و ضرورت اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت سے زائد مال نہ ہو تو پھر اس سائل کا سوال پورا نہ کرنے کی صورت میں نہ تو وہ گنہگار ہوگا اور نہ وہ اس حدیث کے مطابق قابل مذمت اور گنہگار ہوگا جب کہ سائل اس کے مال کا مستحق ہو نیز یہ کہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی ضروریات سے زائد ہو۔

1878

ضعیف
وعن أبي ذر أنه استأذن على عثمان فأذن له وبيده عصاه فقال عثمان : يا كعب إن عبد الرحمن توفي وترك مالا فما ترى فيه ؟ فقال : إن كان يصل فيه حق الله فلا بأس عليه . فرفع أبو ذر عصاه فضرب كعبا وقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما أحب لو أن لي هذا الجبل ذهبا أنفقه ويتقبل مني أذر خلفي منه ست أواقي . أنشدك بالله يا عثمان أسمعته ؟ ثلاث مرات . قال : نعم . رواه أحمد
حضرت ابوذر غفاری (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت عثمان غنی (رض) سے حاضری کی اجازت چاہی تو حضرت عثمان (رض) نے انہیں اجازت دی جب وہ حاضر ہوئے تو اس وقت ان کے ہاتھ میں عصا تھا اسی موقع پر حضرت عثمان (رض) نے حضرت کعب (رض) سے جو اس وقت وہاں موجود تھے فرمایا کہ کعب ! کیا حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت زیادہ مال چھوڑا ہے آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آیا ان کے مال کی بےانتہا کثرت و زیادتی ان کے کمال ایمان کے لئے مضرت تھی یا نہیں ؟ حضرت کعب (رض) نے کہا کہ اگر حضرت عبدالرحمن (رض) اس مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ صدقات وغیرہ ادا کرتے تھے تو ان کے بارے میں کسی خوف کی گنجائش نہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوذر (رض) نے اپنا عصا اٹھا کر حضرت کعب کو مارا اور کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس سونے کا یہ پہاڑ احد ہو اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں تو باوجودیکہ وہ مقبول بھی ہوجائے میں اسے پسند نہیں کروں گا کہ میں اس چھ اوقیہ یعنی دو سو چالیس درہم بھی اپنے پیچے چھوڑ جاؤں۔ پھر حضرت ابوذر (رض) نے حضرت عثمان (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عثمان (رض) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے یہ ارشاد گرامی نہیں سنا ہے ؟ حضرت ابوذر (رض) نے یہ تین مرتبہ فرمایا حضرت عثمان (رض) نے فرمایا کہ ہاں میں نے بھی یہ ارشاد گرامی سنا ہے۔ (احمد)

تشریح
حضرت ابوذر غفاری (رض) صحابہ کی ایک جماعت میں سے تھے جس کا فقر و زہد امیتازی شان رکھتا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ حضرت ابوذر غفاری (رض) کی ذات گرامی فقر و زہد اور استغنا کے بارے میں پوری امت میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ رجحان و نظریہ تھا کہ اپنے پاس مال و زر کا ادنیٰ ترین حصہ بھی جمع نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ بھی اپنے قبضے وقدرت میں آئے سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے چناچہ اس موقع پر بھی ان کا یہ جذبہ ان پر غالب آگیا اور جب انہوں نے حضرت کعب (رض) سے اپنے مزاج اور رجحان کے خلاف بات سنی تو انہیں مار بیٹھے۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے وہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مال کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے تو اس کو جمع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے خواہ وہ مال کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی میں جملہ و یتقبل منی بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا زیادہ مال و زر اللہ کی راہ میں خرچ کروں اس کے باوجود بھی کاش کہ قبول ہوجائے۔ لفظ اذر حذف ان کے ساتھ احب کا مفعول ہے گویا اس پورے جملے کے معنییہ ہوں گے کہ اگر اللہ اتنا زیادہ مال عطا فرما دے اور میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو اور پھر وہ بارگاہ الوہیت میں قبول بھی ہوجائے تو جب بھی میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ اس مال میں سے کم از کم چھ اوقیہ ہی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔

1879

صحیح
وعن عقبة بن الحارث قال : صليت وراء النبي صلى الله عليه و سلم بالمدينة العصر فسلم ثم قام مسرعا فتخطى رقاب الناس إلى بعض حجر نسائه ففزع الناس من سرعته فخرج عليهم فرأى أنهم قد عجبوا من سرعته قال : ذكرت شيئا من تبر عندنا فكرهت أن يحبسني فأمرت بقسمته . رواه البخاري . وفي رواية له قال : كنت خلفت في البيت تبرا من الصدقة فكرهت أن أبيته
حضرت عقبہ بن حارث (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی چناچہ جب آنحضرت ﷺ سلام پھیر چکے تو بڑی سرعت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتیں ہوئے اپنی ازواج مطہرات کے بعض حجروں کی طرف چلے گئے۔ صحابہ (رض) آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے پھر جب آپ ﷺ حجرے سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنی سرعت پر متعجب دیکھا تو فرمایا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک چیز موجود ہے اور میں نے اسے ناپسند کیا کہ وہ مجھے مقام قرب سے روکے لہٰذا فورا جا کر اہل بیت کو میں نے حکم دیا کہ سونے کی وہ چیز تقسیم کردی جائے۔ (بخاری) اور بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں زکوٰۃ میں آیا ہوا سونے کا ایک ڈلا گھر میں چھوڑ آیا تھا جو تقسیم کرنے کے بعد بچ گیا تھا لہٰذا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ میں اسے ایک رات کے لئے بھی اپنے پاس رکھوں۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ما سو اللہ کی طرف التفات کرنا ان بندگان اللہ کو بھی کہ جو مقربین بارگاہ الوہیت ہوتے ہیں مقام قرب سے باز رکھتا ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی امت کے لئے بطور تعلیم و تنبیہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی رغبت اور خواہش نہیں ہونی چاہئے۔

1880

صحیح
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان لرسول الله صلى الله عليه و سلم عندي في مرضه ستة دنانير أو سبعة فأمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أفرقها فشغلني وجع نبي الله صلى الله عليه و سلم ثم سألني عنها : ما فعلت الستة أو السبعة ؟ قلت : لا والله لقد كان شغلني وجعك فدعا بها ثم وضعها في كفه فقال : ما ظن نبي الله لو لقي الله عز و جل وهذه عنده ؟ . رواه أحمد
ام المومنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی بیماری کے دوران میرے پاس آپ ﷺ کی (عرب میں اس وقت رائج) چھ یا سات اشرفیاں تھیں لہٰذا آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں لیکن آپ ﷺ کی بیماری نے ان کو تقسیم کرنے سے باز رکھا۔ (یعنی آپ ﷺ کی بیماری کی وجہ سے مجھے ان کو تقسیم کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی) چناچہ مجھ سے آنحضرت ﷺ نے پھر دریافت فرمایا کہ ان چھ یا سات اشرفیوں کا کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ (رض) (کہتی ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ میں انہیں ابھی تقسیم نہیں کیا ہے۔ اللہ کی قسم آپ کی بیماری نے مجھے اسے تقسیم کرنے سے باز رکھا ہے یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے ان اشرفیوں کو منگوایا اور انہیں اپنے اپنے ہاتھوں پر رکھ کر فرمایا کہ کیا یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کا نبی اللہ عز وجل سے اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اشرفیاں اس کے پاس ہوں۔ (احمد)

تشریح
حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مقام نبوت کے منافی ہے کہ اللہ کا نبی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے ملے تو اس کے گھر میں موجود مال و زر موجود ہو آپ ﷺ نے اس انداز سے حضرت عائشہ (رض) کو تنبیہ فرمائی کہ ان اشرفیوں کا گھر میں پڑے رہنا مجھے قطعی پسند نہیں ہے انہیں فورا تقسیم کردو۔

1881

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل على بلال وعنده صبرة من تمر فقال : ما هذا يا بلال ؟ قال : شيء ادخرته لغد . فقال : أما تخشى أن ترى له غدا بخارا في نار جهنم يوم القيامة أنفق بلال ولا تخش من ذي العرش إقلالا
حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ حضرت بلال (رض) کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے نزدیک کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ بلال ! یہ کیا ہے ؟ حضرت بلال (رض) نے کہا کہ وہ چیز ہے جسے میں نے کل (یعنی آئندہ پیش آنے والی اپنی ضرورت) کے لئے جمع کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کل قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں تم اس کا بخار دیکھو (پھر فرمایا) بلال اس ذخیرہ کو (خدا کی راہ) میں خرچ کردو اور صاحب عرش سے فقر و افلاس کا خوف نہ کرو۔

تشریح
ارشاد گرامی اما تخشی ان تری لہ غدا الخ میں غد (کل) سے مراد قیامت کا دن ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ اس جملے میں یوم القیامۃ کے الفاظ عند کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں بخار سے مراد اثر ہے مطلب یہ ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن اس کے سبب دوزخ کی آگ کا اثر تمہیں پہنچے، گویا یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی دوزخ سے قریب ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر تم اللہ پر توکل نہیں کرو گے اور فقر و افلاس کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کرو گے تو اس کی وجہ سے دوزخ کے قریب ہوجاؤ گے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کرو۔ بلکہ جو جمع کیا ہے اسے اللہ کے نام پر خرچ کر ڈالو، فقر و افلاس کا خوف نہ کرو بلکہ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ رکھ کیونکہ جس قادر مطلق نے عرش عظیم کو پیدا کیا ہے اور تمہاری تخلیق کی ہے وہی تمہیں روزی بھی پہنچائے گا۔ گویا آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کو یہ حکم بطور تعلیم دیا کہ مقام کمال حاصل کرو جو توکل اور ذات حق پر کامل اعتماد ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر ذخیرہ کرنا جائز ہے۔

1882

ضعیف
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : السخاء شجرة في الجنة فمن كان سخيا أخذ بغصن منها فلم يتركه الغصن حتى يدخله الجنة . والشح شجرة في النار فمن كان شحيحا أخذ بغصن منها فلم يتركه الغصن حتى يدخله النار . رواهما البيهقي في شعب الإيمان
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا سخاوت بہشت میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص سخی ہوگا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چناچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے بہشت میں داخل نہ کرا دے (اگرچہ وہ آخر الامر ہو) اسی طرح بخل دوزخ میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص بخیل ہوگا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چناچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک اسے دوزخ میں داخل نہ کرا دے۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ سخاوت درخت کی مانند ہے گویا اس وصف کو درخت کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح درخت بڑا ہوتا ہے اور اس کی کتنی ہی شاخیں اور ٹہنیاں ہوتی ہیں اسی طرح سخاوت بھی ایک وصف عظیم ہے جس کی بہت زیادہ شاخیں اور قسمیں ہیں وہ اس کی ٹہنی کو پکڑ لے گا کا مطلب یہ ہے کہ سخاوت کی جو قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم کو پکڑ لے گا۔

1883

ضعیف
وعن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : بادروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطاها . رواه رزين
حضرت علی (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں جلدی کرو (یعنی موت یا بیماری سے پہلے صدقہ دو کیونکہ صدقہ دینے سے بلا نہیں بڑھتی یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ (رزین)

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔