hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

33. صدقہ فطر کا بیان

مشكاة المصابيح

1810

صحیح
عن ابن عمر قال : فرض رسول الله صلى الله عليه و سلم زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر (صدق فطر) کے طور پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے نیز آپ ﷺ نے صدقہ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو عید الفطر کی نماز کے لئے جانے سے پہلے دے دیا جائے۔ (بخار ومسلم)

تشریح
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے، حضرت امام مالک (رح) کے ہاں سنت مؤ کدہ ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں واجب ہے حدیث میں مذکور لفظ فرض حضرت امام شافع اور حضرت امام احمد کے نزدیک اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے، حضرت امام مالک فرض کے معنی بیان کرتے ہیں مقرر کیا حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر چونکہ دلیل قطعی کے ذریعے ثابت نہیں ہے اس لئے صدقہ فطر عمل کے لحاظ سے تو فرض ہی کے برابر ہے لیکن اعتقادی طور پر اسے فرض نہیں کہا جاسکتا جس کا مطلب یہ ہے کہ واجب ہے فرض نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی کے مسلک میں ہر اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے جو اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی حضرت امام اعظم (رح) کے مسلک کے مطابق صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہوگا جو غنی ہو یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور قرض سے محفوظ ہو۔ صدقہ فطر کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے مرجائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور اسی طرح جو شخص طلوع فجر کے بعد اسلام لائے اور مال پائے یا جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب نہیں۔ ایک صاع ساڑھے تین سیر یعنی چودہ اوزان کے مطابق تین کلو ٢٦٦ گرام ہوتا ہے گزشتہ صفحات میں بھی کچھ اوزان کے بارے میں تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔ جو غلام خدمت کے لئے ہو اس کی طرف سے اس کے مالک پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں جو غلام تجارت کے لئے ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے اسی طرح جو غلام بھاگ جائے اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں جب وہ واپس آجائے تو اس وقت دینا واجب ہوگا۔ اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر چھوٹی اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے بلکہ اس کے مال میں دیا جائے گا۔ بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے، اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اور بیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے از راہ احسان و مروت ادا کر دے تو جائز ہوگا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث میں لفظ من المسلمین لفظ عبد اور اس کے بعد کے الفاظ کا حال واقع ہو رہا ہے لہٰذا کسی مسلمان پر اپنے کافر غلام کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔ مگر صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ غلام کافر کا صدقہ فطر بھی اس کے مسلمان مالک پر واجب ہوتا ہے، انہوں نے اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے جسے ہدایہ یا مرقات میں دیکھا جاسکتا ہے، حنفیہ کے یہاں صاحب ہدایہ ہی کے قول کے مطابق فتویٰ ہے۔ (علم الفقہ) حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ہی ادا کردینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینے یا ایک مہینے سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔ نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہر صورت دینا ضروری ہوتا ہے۔

1811

صحیح
وعن أبي سعيد الخدري قال : كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط أو صاعا من زبيب
حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جو میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع اور یا خشک انگوروں میں ایک صاع صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ طعام (کھانے) سے مراد گیہوں ہے لیکن حنفی علماء کہتے ہیں کہ طعام سے گیہوں کے علاوہ دوسرے غلے مراد ہیں لہٰذا اس صورت میں طعام پر اس کے مابعد کا عطف خاص علی العام کی قسم سے ہوگا۔ قروط ایک خاص قسم کے پنیر کو کہتے تھے یہ پنیر اس طرح بنایا جاتا تھا کہ دہی کو کپڑے میں باندھ کر لٹکا دیتے تھے دہی کا تمام پانی ٹپک ٹپک کر گر جاتا تھا اور اس کا باقی ماندہ حصہ پنیر کی طرح کپڑے میں رہ جاتا تھا وہی حصہ قروط کہلاتا تھا۔ خشک انگور چونکہ حضرت امام اعظم (رح) کے ہاں گیہوں کی مانند ہے اس لئے اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر نصف صاع یعنی ایک کلو ٢٣٣ کلو گرام دینا چاہئے البتہ صاحبین خشک کھجوروں کو چونکہ جو کی مانند سمجھتے ہیں اس لئے ان حضرات کے نزدیک اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر ایک صاع یعنی تین کلو ٣٦٦ گرام دینا چاہئے۔ امام حسن (رح) نے حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہی نقل کیا ہے۔

1812

ضعیف
عن ابن عباس قال : في آخر رمضان أخرجوا صدقة صومكم . فرض رسول الله صلى الله عليه و سلم هذه الصدقة صاعا من تمر أو شعير أو نصف صاع من قمح على كل حر أو مملوك ذكر أو أنثى صغير أو كبير . رواه أبو داود والنسائي
روایت ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے رمضان کے آخری دنوں میں (لوگوں سے) کہا کہ تم اپنے روزوں کی زکوٰۃ نکالوں یعنی صدقہ فطر ادا کرو رسول کریم ﷺ نے یہ صدقہ ہر مسلمان، آزاد، غلام، لونڈی، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر) کھجوروں اور جو میں سے ایک صاع اور گیہوں میں سے نصف صاع فرض (یعنی واجب) کیا ہے۔ ( ابوداؤد، نسائی)

تشریح
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اسی حدیث کے مطابق کہتے ہیں کہ صدقہ فطر کے طور پر اگر گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو 332 گرام ہونی چاہئے۔

1813

صحیح
وعن ابن عباس قال : فرض رسول الله صلى الله عليه و سلم زكاة الفطر طهر الصيام من اللغو والرفث وطعمة للمساكين . رواه أبو داود
حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے روزوں کی بےہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لئے نیز مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر کو اس لئے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہوجائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دن لوگوں کے سامنے دس سوال دراز کرنے سے بچ جائیں اور وہ صدقہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجائیں۔ دارقطنی نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں کہ جو شخص صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو شخص نماز عید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ بس صدقوں میں سے ایک صدقہ ہوگا۔

1814

ضعیف
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه و سلم بعث مناديا في فجاج مكة : ألا إن صدقة الفطر واجبة على كل مسلم ذكر أو أنثى حر أو عبد صغير أو كبير مدان من قمح أو سواه أو صاع من طعام . رواه الترمذي
حضرت عمرو بن شعیب (رض) اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ کے گلی کوچوں میں یہ منادی کرائی کہ سن لو ! صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد یا غلام اور چھوٹا ہو یا بڑا (اور اس کی مقدار) گیہوں یا اس کی مانند چیزوں ( مثلا خشک انگور وغیرہ) میں سے دو مد اور (گیہوں کے علاوہ) دوسرے غلوں میں سے ایک صاع۔ (ترمذی)

تشریح
دو مد سے مراد آدھا صاع ہے کیونکہ ایک مد غلہ کا وزن چودہ چھٹانک کے قریب ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر کے برابر ہوتا ہے لہٰذا صدقہ فطر کے طور پر گیہوں پونے دو سیر یعنی ایک کلو 336 گرام دینا چاہئے چونکہ گیہوں کا آٹا یا گیہوں کا ستو بھی گیہوں ہی کے مثل ہے اس لئے یہ دونوں چیزیں بھی اسی مقدار میں دینی چاہئیں۔

1815

ضعیف
وعن عبد الله بن ثعلبة أو ثعلبة بن عبد الله بن أبي صعير عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : صاع من بر أو قمح عن كل اثنين صغير أو كبير حر أو عبد ذكر أو أنثى . أما غنيكم فيزكيه الله . وأما فقيركم فيرد عليه أكثر ما أعطاه . رواه أبو داود
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا صدقہ فطر واجب ہے گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے (کہ ہر ایک کی طرف سے نصف نصف صاع ہوگا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، غنی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر دینے کی وجہ سے) اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ۔ (ابو داؤد)

تشریح
مشکوۃ کے نسخوں میں حدیث کے راوی کا نام اگرچہ اسی طرح لکھا ہوا ہے لیکن صحیح اس طرح عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر یا بن ابی صعیر عن ابیہ الخ۔ حضرت ثعلبہ (رض) صحابی ہیں جن سے ان کے صاحبزادے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ غنی بھی صدقہ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ فطر دے۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی کو تو اس کے صدقہ فطر دینے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کو اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے، یہ بشارت اگرچہ غنی کے لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بھی اس سے کہیں زیادہ برکت عطا فرماتا ہے جتنا کہ اس نے دیا ہے مگر اس بشارت کو فقیر کے ساتھ اس لئے مخصوص کیا تاکہ اس کی ہمت افزائی ہو اور وہ صدقہ فطر دینے میں پیچھے نہ رہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔