hadith book logo

HADITH.One

HADITH.One

Urdu

Support

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔
hadith book logo

Mishkaat Shareef

37. صدقہ کی فضیلت کا بیان

مشكاة المصابيح

1884

صحیح
صدقہ مال کا وہ حصہ کہلاتا ہے جسے کوئی شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے نکالے خواہ واجب ہو یا نفل۔

1885

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب ولا يقبل الله إلا الطيب فإن الله يتقبلها بيمينه ثم يربيها لصاحبها كما يربي أحدكم فلوه حتى تكون مثل الجبل
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کھجور برابر (خواہ صورت میں خواہ قیمت میں) حلال کمائی میں خرچ کرے (اور یہ جان لو کہ) اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لئے اسی طرح پالتا ہے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کسب کے معنی ہیں جمع کرنا یہاں کسب طیب سے مراد وہ مال ہے جسے حلال ذریعوں سے جمع کیا جائے یعنی شرعی اصولوں کے تحت ہونے والی تجارت و صنعت زراعت و ملازمت اور وراثت یا حصہ میں حاصل ہونے والا مال۔ ولا یقبل اللہ الا الطیب (اللہ تعالیٰ صرف حلال مال قبول کرتا ہے) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بارگاہ الوہیت میں صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال کا ہو، غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا نیز اس سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوا کہ حلال مال اچھی اور نیک جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا حلال مال بارگاہ الوہیت میں کمال قبول کو پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال مال خرچ کرنے والے سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اسی مفہوم کو یہاں داہنے سے لینے سے اس لئے محاورۃ اور عرفا تعبیر کیا گیا ہے کہ پسندیدہ اور محبوب چیز داہنے ہاتھ ہی سے لی جاتی ہے۔ پالتا ہے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کے ثواب کو بڑھاتا جاتا ہے تاکہ وہ قیامت کے روز میزان عمل میں گراں ثابت ہو۔

1886

صحیح
ایک سبق اموز حکایت حدیث بالا کی روشنی میں جو یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ حلال مال اچھی جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سبق آموز حکایت سنیے شیخ علی متقی عارف باللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک متقی و صالح شخص کسب معاش کرتے تھے اور ان کا معمول تھا کہ جو کچھ کماتے پہلے تو اس میں ایک تہائی اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے پھر ایک تہائی اپنی ضروریات پر صرف کرتے اور ایک تہائی اپنی کسب معاش کے ذریعے میں لگا دیتے ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے انہوں نے کہا پہلے تو حلال مال حاصل کرو اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، وہ مستحق شخص ہی کے پاس پہنچے گا۔ دنیا دار شخص نے اسے مبالغہ پر محمول کیا، شیخ نے کہا اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے تمہارے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا، چناچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لئے اس کے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہوا اور یہ سمجھ کر کہ صدقہ کے مال کا اس بےچارے سے زیادہ کون مستحق ہوسکتا ہے ؟ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کردیا۔ جب دوسرے دن وہ ضعیف و نابینا شخص کے پاس سے گزرا تو اس نے سنا کہ وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک دوسرے شخص سے کل کا واقعہ بیان کر رہا تھا کہ کل میرے پاس سے ایک مالدار شخص گزرا اس نے مجھ پر ترس کھا کر اتنا مال مجھے دیا جسے میں نے فلاں بدکار شخص کے ساتھ شراب نوشی میں لٹا دیا۔ وہ دنیا دار یہ سنتے ہی شیخ کے پاس آیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کیا، شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس پر پڑے اسے یہ درہم بطور خیرات دے دینا چناچہ وہ شیخ کا دیا ہوا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا تو اس کی نظر سب سے پہلے ایک اچھے شخص پر پڑی جو بظاہر کھاتا پیتا معلوم ہو رہا تھا پہلے تو وہ دیتے ہوئے جھجکا مگر چونکہ شیخ کا حکم تھا اس لئے مجبورا وہ درہم اس شخص کو دے دیا۔ اس شخص نے وہ درہم لے لیا اور اپنے پیچھے مڑ کر چل دیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ مالدار بھی چلا اس نے دیکھا وہ شخص ایک کھنڈر میں داخل ہوا ور وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر راہ پکڑی، مالدار بھی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی البتہ اس نے ایک مرا ہوا کبوتر دیکھا وہ پھر اس شخص کے پیچھے پیچھے ہو لیا، پھر اسے قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو ؟ اور کس حال میں ہو ؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ بہت بھوکے تھے جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی اور انتہائی اضطراب و پریشانی کے عالم میں میں ان کے لئے کچھ انتظام کرنے کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا تو میں سرگرداں پھر رہا تھا کہ مجھے یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا مرتا کیا نہ کرتا ؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے ذریعے بھوک سے بلکتے بچوں کو کچھ تسکین دلاؤں مگر جب اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت فرما دیا تو یہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا وہیں پھینک دیا۔ اب اس مالدار کی آنکھ کھلی اور اسے معلوم ہوا کہ شیخ کا وہ قول مبالغہ پر محمول نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اچھی جگہ اور حرام مال بری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

1887

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما نقصت صدقة من مال شيئا وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ صدقہ دینا مال میں کمی نہیں کرتا اور جو شخص کسی کی خطا معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے نیز جو شخص اللہ کے لئے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ (مسلم)

تشریح
یہاں تین باتیں بتائی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اگرچہ ظاہری طور پر مال میں کمی و نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں صدقہ و خیرات مال میں زیادتی کا سبب ہوتا ہے بایں طور کہ صدقہ و خیرات کرنے والے کے مال میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے وہ اور اس کا مال آفت و بلاء سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ثواب کی زیادتی ہوتی ہے بلکہ دنیا میں بھی اسے اس طرح نعم البدل عطا فرمایا جاتا ہے کہ اس کا مال بڑھتا رہتا ہے۔ دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا قصور لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کردیتا ہے اور اس کی خطا سے درگزر کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عزت بڑھاتا ہے چناچہ ایک عارف کا قول منقول ہے کہ کوئی بھی انتقال عفو و درگزر کے برابر نہیں ہے۔ تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص کسی غرض و منفعت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے جذبے سے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔

1888

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل الله دعي من أبواب الجنة واللجنة أبواب فمن كان من أهل الصلاة دعي من باب الصلاة ومن كان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد ومن كان من أهل الصدقة دعي من باب الصدقة ومن كان من أهل الصيام دعي من باب الريان . فقال أبو بكر : ما علي من دعي من تلك الأبواب من ضرورة فهل يدعى أحد من تلك الأبواب كلها ؟ قال : نعم وأرجو أن تكون منهم
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی چیزوں میں دوہری چیز اللہ کی راہ میں (یعنی اس کی رضاء و خوشنودی کی خاطر) خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا اور جنت کے کئی یعنی آٹھ دروازے ہیں چناچہ جو شخص اہل نماز (یعنی بہت زیادہ نماز پڑھنے والا) ہوگا اسے جنت کے باب الصلوۃ سے بلایا جائے گا جو اہل نماز ہی کے لئے مخصوص ہوگا اور اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہوجاؤ اور جو شخص جہاد کرنے والا یعنی اللہ کی راہ میں بہت زیادہ لڑنے والا ہوگا اسے باب الجہاد سے بلایا جائے گا۔ جو شخص صدقہ دینے والا ہوگا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے۔ اور جو شخص بہت زیادہ روزے رکھنے والا ہوگا اسے باب الریان (یعنی باب الصیام سے کہ جنت میں روزہ کے دروازے کا یہی نام ہے) بلایا جائے یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا اگرچہ جو شخص ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بھی بلایا جائے گا اس کو تمام دروازوں سے بلائے جانے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ ایک دروازے سے بلایا جانا بھی کافی ہوگا بایں طور کہ مقصد تو جنت میں داخل ہونا ہوگا اور یہ ایک ہی دروازے سے بھی حاصل ہوجائے گا۔ پھر بھی میں صرف علم کی خاطر جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ایسا خوش نصیب و باسعادت شخص بھی ہوگا، جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہوگے۔ (جنہیں تمام دروازوں سے بلایا جائے گا) (بخاری ومسلم)

تشریح
دوہری چیز مثلا دو درہم، دو روپے، دو غلام، دو گھوڑے اور یا دو کپڑے وغیرہ۔ دعی من ابواب الجنہ (تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا) کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جس نے دیان میں دوہری چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کی تھیں جب جنت میں داخل ہونے جائے گا تو جنت کے تمام دروازوں کے داروغہ اسے بلائیں گے اور ہر ایک کی یہ خواہش ہوگی کہ یہ خوش نصیب شخص اس کے دروازے سے جنت میں داخل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عمل ان اعمال کے برابر ہے جن کے سبب جنت کے تمام دروازوں میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ ریان کے معنی ہیں سیراب۔ چناچہ منقول ہے کہ باب الریان کہ جس کے ذریعے زیادہ روزے رکھنے والے جنت میں داخل ہوں گے وہ دروازہ ہے جہاں روزہ دار کو جنت میں اپنے مستقر پر پہنچنے سے پہلے شراب طہور پلائی جاتی ہے گویا جو شخص یہاں دنیا میں اللہ کی خوشنودی کی خاطر روزے رکھ کر پیاسا رہا وہ اس عظیم فعل کے بدلے میں مذکورہ دروازے سے سیراب ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو گے۔ ایک روایت میں منقول ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جسے باب الضحی کہا جاتا ہے، چناچہ قیامت کے دن پکارنے والا فرشتہ پکارے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو نماز ضحی یعنی چاشت یا اشراق کی نماز پر مداومت کرتے تھے ؟ سن لو یہ دروازہ تمہارے ہی لئے ہے لہٰذا تم لوگ اللہ کی رحمت کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ جنت کے ایک دروازے کا نام باب التوبۃ ہے کہ توبہ کرنے والے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے ایک دروازہ ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو غصہ کو ضبط اور دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہوں گے ایسے لوگ اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے اسی طرح ایک دروازہ ایسا ہوگا جس کے ذریعے اللہ کی رضا پر راضی رہنے والوں کا داخلہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر (رض) کے ارشاد میں فہل یدعی سے ما قبل جملہ ما علی من دعی ان کے سوال فہل یدعی الخ کی تمہید کے طور پر ہے۔ آخر میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی امتیازی شان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ ان میں یہ تمام اوصاف اور خوبیان پائی جاتی تھیں اس لئے انہیں جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔

1889

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أصبح منكم اليوم صائما ؟ قال أبو بكر : أنا قال : فن تبع منكم اليوم جنازة ؟ قال أبو بكر : أنا . قال : فمن أطعم منكم اليوم مسكينا ؟ قال أبو بكر : أنا . قال : فمن عاد منكم اليوم مريضا ؟ . قال أبو بكر : أنا . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما اجتمعن في امرئ إلا دخل الجنة . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ ایک دن صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج تم میں کون شخص روزہ سے ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں روزے سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کون شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ کے لئے گیا ہے ؟ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں۔ آپ ﷺ نے فرمایا آج تم میں سے کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس شخص نے بیمار کی عیادت کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سن لو ! جس شخص میں یہ ساری باتیں جمع ہوتی ہیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی دن روزہ بھی رکھے نماز جنازہ میں بھی شریک ہوا اور جنازہ کے ساتھ قبرستان جا کے کسی مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کسی بیمار کی عیادت کرنے بھی جائے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہوگا اس طرح جنت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا۔ کیونکہ ویسے تو مطلقاً دخول جنت کے لئے صرف ایمان ہی کافی ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس دروازے سے چاہے گا جنت میں جائے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر انا (میں) کہنا اور حصول ثواب کی غرض نیز اپنے احوال کی خبر دینے کے طور پر اپنی فضیلت بیان کرنا منع نہیں ہے چناچہ بعض صوفیہ اور مشائخ نے جو سالکین کو منع کیا ہے کہ اپنی زبان پر انا جاری نہ کیا جائے تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بقصد تکبر اور دعویٰ ہستی و انانیت کے طور پر انا کہا جائے جیسا کہ ابلیس ملعون نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کے حکم کے وقت از راہ غرور وتکبر اور بطور انانیت کہا تھا کہ انا خیر منہ

1890

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يا نساء المسلمات لا تحقرن جارة لجارتها ولو فرسن شاة
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے مسلمان عورتو ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو (تحفہ بھیجنے یا صدقہ دینے کو) حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنی پڑوسن کے پاس وہ چیز جو تمہارے پاس موجود ہے بطور تحفہ و صدقہ بھیجنے کو حقیر نہ جانو، گویا تمہارے پاس جو بھی چیز موجود ہو اور جو کچھ بھی ہو سکے خواہ وہ کتنی کم تر کیوں نہ ہو اپنی پڑوسن کو بھیجتی رہا کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں ان عورتوں کو خطاب کیا گیا ہے جن کے پاس تحفہ بھیجا جائے لہٰذا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کے تحفے کو حقیر نہ جانے بلکہ اسے برضاء رغبت قبول کرے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو۔ بکری کا کھر ظاہر ہے کہ نہ تو تحفہ میں لینے دینے کے قابل ہوتا ہے اور نہ اس کو بطور صدقہ کسی کو دیا جاسکتا ہے لہٰذا کہا جائے گا یہ یہاں اسے مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ تحفے میں بھیجی جانے والی یا آنے والی چیز کتنی ہی حقیر اور کمتر کیوں نہ ہو۔ یہاں بطور خاص عورتوں کو اس لئے خطاب کیا گیا ہے کہ ان کے مزاج میں غصہ اور کم تر و حقیر چیزوں کو واپس کردینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

1891

صحیح
وعن جابر وحذيفة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كل معروف صدقة
حضرت جابر (رض) و حضرت حذیفہ (رض) نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نیکی کے جو بھی عمل ہیں خواہ ان کا تعلق زبان سے ہو یا فعل سے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوں تو ان کا ثواب ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ہوتا ہے۔

1892

صحیح
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تحقرن من المعروف شيئا ولو أن تلقى أخاك بوجه طليق . رواه مسلم
حضرت ابوذر غفاری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم کسی بھی نیک کام کو حقیر (کم تر) نہ جانو اگرچہ تم اپنے بھائی سے خوش روئی کے ساتھ ملو۔ (مسلم)

تشریح
اگر کوئی شخص کسی سے خوش خلقی اور خوش روئی کے ساتھ ملتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے لہٰذا کسی مسلمان کا دل خوش کرنا چونکہ اچھا اور پسندیدہ ہے اس لئے یہ بھی نیک کام ہے اور اگرچہ خوش روئی کے ساتھ کسی سے ملنا کوئی عظیم الشان کام نہیں ہے مگر اسے بھی کم تر درجے کی نیکی نہ سمجھنا چاہئے۔

1893

صحیح
وعن أبي موسى الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : على كل مسلم صدقة . قالوا : فإن لم يجد ؟ قال : فليعمل بيديه فينفع نفسه ويتصدق . قالوا : فإن لم يستطع ؟ أو لم يفعل ؟ قال : فيعين ذا الحاجة الملهوف . قالوا : فإن لم يفعله ؟ قال : فيأمر بالخير . قالوا : فإن لمي فعل ؟ قال : فيمسك عن الشر فإنه له صدقة
حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نعمت الٰہی کے پیش نظر ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ ہو ہی نہ ؟ تو وہ کیا کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے ذریعے مال و زر کمائے اور اس طرح اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ و خیرات بھی کرے۔ صحابہ (رض) نے کہا اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو کہ محنت مزدوری کر کے کما ہی سکے یا کہا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکتا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ جس طرح بھی ہو سکے غمگین و حاجت مند داد خواہ کی مدد کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ دوسروں کو نیکی و بھلائی کی ہدایت کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر اسے چاہئے کہ وہ خود اپنے تئیں یا دوسروں کو برائی تکلیف پہنچانے سے روکے اس کے لئے یہی صدقہ ہے یعنی اسے صدقہ کا ثواب ملے گا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
برائی پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ نہ تو خود کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے تکلیف اور ایذاء پہنچائے اور اگر اس کے امکان میں ہو تو ان لوگوں کو بھی روکے جو دوسروں کو ایذاء اور تکلیف پہنچاتے ہیں اسی مضمون کو کسی شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔ ع مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں

1894

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كل سلامي من الناس عليه صدقة : كل يوم تطلع فيه الشمس يعدل بين الاثنين صدقة ويعين الرجل على دابته فيحمل عليها أو يرفع عليها متاعه صدقة والكلمة الطيبة صدقة وكل خطوة تخطوها إلى الصلاة صدقة ويميط الأذى عن الطريق صدقة
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے بدن میں جو مفاصل (جوڑ) ہیں ان پر (یعنی ان کی طرف سے) ہر روز صدقہ دینا لازم ہے اور دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا بھی صدقہ ہے کسی انسان کی بایں طور مدد کرنی کہ اس کے جانور پر اسے سوار کرا دینا یا اس کا مال و اسباب رکھوا دینا بھی صدقہ ہے اچھی بات بھی صدقہ ہے ہر وہ قدم جو نماز کے لئے رکھا جائے وہ بھی صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں جو مفاصل (جوڑ) پیدا کئے ہیں اس میں بھی چونکہ اس کی حکمتیں اور اس کی بیشمار نعمتیں پنہاں ہیں لہٰذا ان کے شکرانے ہر روز انسان پر صدقہ لازم ہے۔ یعدل بین الثنین الخ سے یہ بات بیان فرمائی جا رہی ہے کہ صدقہ محض اسی کا نام نہیں ہے کہ کسی شخص کو اللہ کے راستہ میں مال و زر دے دیا جائے بلکہ یہ چیزیں یعنی دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا وغیرہ بھی صدقہ ہی ہے کہ جس طرح اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے اسی طرح ان چیزوں کا بہت زیادہ ثواب ملتا ہے لہٰذا جو انسان روزانہ ان میں سے کوئی بھی نیک کام کرلیتا ہے تو گویا اس نے وہ صدقہ ادا کیا جو اللہ نے اس پر اس کے جوڑوں کی طرف سے شکرانہ کے طور پر لازم کیا ہے۔ اچھی بات سے مراد وہ بات اور کلام ہے جس سے ثواب حاصل ہو یا سائل وغیرہ سے نرم لہجہ میں گفتگو بھی ہوسکتی ہے۔ وکل خطوۃ سے صرف وہی قدم مراد نہیں ہیں جو نماز میں جانے کے لئے رکھے جاتے ہوں بلکہ ہر وہ قدم مراد ہے جو نیک راہ میں نیک مقصد کے لئے اٹھتے ہیں۔ مثلاً طواف کے لئے بیمار کی عیادت کے لئے جنازے میں شریک ہونے کے لئے اور علم کی طلب کے لئے۔ تکلیف دہ چیز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو جیسے کانٹے، ہڈی، پتھر، اینٹ اور نجاست وغیرہ۔

1895

صحیح
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خلق كل إنسان من بني آدم على ستين وثلاثمائة مفصل فمن كبر الله وحمد الله وهلل الله وسبح الله واستغفر الله وعزل حجرا عن طريق الناس أو شوكة أو عظما أو أمر بمعروف أو نهى عن منكر عدد تلك الستين والثلاثمائة فإنه يمشي يومئذ وقد زحزح نفسه عن النار . رواه مسلم
حضرت عائشہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اولاد آدم میں سے ہر انسان تین سو ساٹھ مفاصل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جو کوئی اللہ اکبر، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کہے اور اللہ سے استغفار کرے نیز لوگوں کے راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (یعنی ہر تکلیف دہ چیز) ہٹا دے یا نیک کام کرنے کا حکم دے یا برے افعال و اقوال سے روکے اور یہ سب یا بعض اقوال و افعال جوڑوں کی تین سو ساٹھ تعداد کے مطابق کرے تو وہ اس دن اس حالت میں چلتا ہے گویا اس نے اپنے آپ کو آگ سے بچا رکھا ہے۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ افعال کرنا اور اپنے جسم کو جوڑوں کے بقدر مذکورہ کلمات کا ورد روزانہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔

1896

صحیح
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن بكل تسبيحة صدقة وكل تكبيرة صدقة وكل تحميدة صدقة وكل تهليلة صدقة وأمر بالمعروف صدقة ونهي عن المنكر صدقة وفي بضع أحدكم صدقة قالوا : يا رسول الله أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر ؟ قال : أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيه وزر ؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر . رواه مسلم
حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ہر تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے ہر تحمید یعنی الحمد للہ کہنا صدقہ ہے ہر تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے ہر برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے اور اپنی بیوی یا لونڈی سے صحبت کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اسے اس میں ثواب ملے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بتاؤ کہ اگر کوئی شخص حرام ذریعے یعنی زنا سے اپنی شہوت پوری کرے تو آیا اسے گناہ ملے گا یا نہیں ؟ نہیں (ظاہر ہے کہ یقینا اسے گناہ ملے گا) لہٰذا اسی طرح جب وہ حلال ذریعہ (یعنی بیوی اور لونڈی) سے شہوت پوری کرے گا۔ تو اسے ثواب ملے گا۔ (مسلم)

تشریح
جیسے ظاہر طور پر صدقہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرماتا ہے اسی طرح مذکورہ کلمات کا ورد اور مذکورہ اعمال کو معنوی طور پر صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے بایں طور کہ ان کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ وہی ثواب عطا فرماتا ہے جو صدقہ کے طور پر مال دینے والوں کو ملتا ہے۔ اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت اگرچہ بذات خود عبادت اور صدقہ نہیں ہے اسی صحابہ کو بھی اشکال ہوا لیکن چونکہ اس طرح بیوی کے حق کی ادائیگی ہوتی ہے اور نفس کے حرام کاری کی طرف بہت زیادہ مائل ہونے اور شیطان کی ترغیب و تحریص کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے پیش نظر اپنے آپ کو حرام ذریعے سے بچا کر حلال اور جائز ذریعے کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت کرنے والا صدقہ کا ثواب پاتا ہے۔

1897

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نعم الصدقة اللقحة الصفي منحة والشاة الصفي منحة تغدو بإناء وتروح بآخر
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت دودھ والی اونٹنی کسی کو دودھ پینے کے لئے عاریۃ دینا بہترین صڈقہ ہے بہت دودھ دینے والی بکری کسی کو دودھ پینے کے لے عاریۃ دینا بہترین صدقہ ہے۔ وہ صبح کو باسن بھر دودھ دیتی ہے اور شام کو باسن بھر دودھ دیتی ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
عرب میں یہ معمول تھا کہ جسے اللہ تعالٰ توفیق دیتا تھا وہ اپنی دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کسی ضرورت مند و محتاج کو عاریۃ دے دیتا تھا۔ جس کے ذریعے وہ ضرورت مند اپنی حاجت ضرورت پوری کرنے کے بعد اسے اس کے مالک کو واپس کردیتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی طرز عمل کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ عمل بہترین صدقہ ہے۔

1898

صحیح
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه إنسان أو طير أو بهيمة إلا كانت له صدقة
حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے اور پھر انسان یا پرند اور چرند مالک کی مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ کھاتے ہیں تو یہ نقصان مالک کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر (رض) سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور اس میں سے جو کچھ چوری ہوجاتا ہے وہ مالک کے لئے صدقہ ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے درخت کا پھل وغیرہ یا اس کی کھیتی میں سے اگر کوئی چرند پرند کسی بھی طرح یا کسی بھی سبب سے کچھ کھالیتے ہیں تو مالک کو وہی ثواب ملتا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خیرات کرنے کا ثواب ہوتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعے مالک کو نقصان مال پر تسلی دلائی جا رہی ہے کہ وہ ایسے موقع پر صبر کرے کیونکہ اس نقصان کے بدلے میں اسے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال کا ثواب تو نیت پر موقوف ہے اور ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں مالک کی طرف سے نیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر ثواب کیسے ملتا ہے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کھیتی کا مقصود اصلی مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی حیات وبقاء ہے یعنی کاشتکار کسان جب کھیت میں بیج ڈالتا ہے۔ یا درخت کا کوئی پودا لگاتا ہے تو اس کے پیش نظر کسی فرد کی تخصیص کے بغیر مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی نیت ہوتی ہے۔ اب اس کھیت یا درخت سے انسان و حیوان کا جو فرد بھی فائدہ اٹھائے گا خواہ وہ ناجائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جائز طریقے سے اس کی اجمالی نیت کا تعلق اس سے ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جو شخص ناجائز طریقے سے فائدہ اٹھائے گا وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ مگر مالک کے حق میں اس کی اجمالی نیت کافی ہوجائے گی کیونکہ حصول ثواب کے لئے اجمالی نیت کافی ہے اس کے مالک کو نقصان کے بدلے میں صدقہ کا ثواب مل جائے گا۔

1899

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : غفر لامرأة مومسة مرت بكلب على رأس ركي يلهث كاد يقتله العطش فنزعت خفها فأوثقته بخمارها فنزعت له من الماء فغفر لها بذلك . قيل : إن لنا في البهائم أجرا ؟ قال : في كل ذات كبد رطبة أجر
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ ایک بدکار عورت کی بخشش کردی گئی کیونکہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کتے پر ہوا جو کنویں کے قریب کھڑا پیاس کی وجہ سے اپنی زبان نکال رہا تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کر دے چناچہ اس عورت نے اپنا چری موزہ اتار کر اسے اپنی اوڑھنی سے باندھا اور اس کے ذریعے کتے کے لئے پانی نکالا اور اسے پلا دیا چناچہ اس کے اس فعل کی بنا پر اس کی بخشش کردی گئی۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ہمارے لئے ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ہر صاحب جگر تر یعنی ہر جاندار (یعنی ہر جاندار) کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ثواب ہے (خواہ انسان ہو یا جانور) ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت مظہر (رح) فرماتے ہیں کہ ہر جانور کے ساتھ حسن سلوک کرنے یعنی انہیں کھلانے پلانے کا ثواب ملتا ہے ہاں موذی جانور کہ جنہیں مار ڈالنے کا حکم ہے اس سے مستثنی ہیں جیسے سانپ اور بچھو وغیرہ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تو کسی شخص کے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے چناچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے۔

1900

صحیح
وعن ابن عمر وأبي هريرة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : عذبت امرأة في هرة أمسكتها حتى ماتت من الجوع فلم تكن تطعمها ولا ترسلها فتأكل من خشاش الأرض
حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک عورت کو محض اس لئے عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی وہ عورت نہ تو اس بلی کو کچھ کھلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے جانوروں میں سے کچھ (یعنی چوہا وغیرہ) کھاتی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی و بےرحمی کا معاملہ کرنا اللہ کے عذاب میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ صغیرہ گناہ پر بھی عذاب ہوسکتا ہے اس عورت کا یہ فعل ظاہر ہے کہ صغیرہ گناہ ہی تھا چناچہ عقائد کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر عذاب ہونا خلاف امکان نہیں ہے۔

1901

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مر رجل بغصن شجرة على ظهر طريق فقال : لأنحين هذا عن طريق المسلمين لا يؤذيهم فأدخل الجنة
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص درخت کی ایک ٹہنی کے پاس گزرا جو راستے کے اوپر تھی اور وہ راہ گیروں کو تکلیف پہنچاتی تھی اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ میں اس ٹہنی کو مسلمانوں کے راستے سے صاف کر دوں گا تاکہ انہیں تکلیف نہ پہنچے چناچہ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ٹہنی کو راستہ سے صاف کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اسے صاف کردیا چناچہ اسے جنت میں داخل کردیا گیا یا یہ کہ وہ شخص اپنی نیک و باخلوص نیت ہی کی بنا پر جنت کا مستحق قرار پایا۔

1902

صحیح
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لقد رأيت رجلا يتقلب في الجنة في شجرة قطعها من ظهر الطريق كانت تؤذي الناس . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے ایک شخص کو دیکھا جو جنت میں پھرتا تھا اور چین کرتا تھا کیونکہ اس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ ڈالا تھا جو راستے پر تھا اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا تھا۔ (مسلم)

1903

صحیح
وعن أبي برزة قال : قلت : يا نبي الله علمني شيئا أنتفع به قال : اعزل الأذى عن طريق المسلمين . رواه مسلم وسنذكر حديث عدي ابن حاتم : اتقوا النار في باب علامات النبوة
حضرت ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کی وجہ سے میں آخرت میں فائدہ حاصل کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹا دیا کرو۔ (بخاری ومسلم) اور عدی بن حاتم کی روایت اتقوا النار الخ انشاء اللہ تعالیٰ ہم باب علامات النبوۃ میں نقل کریں گے۔

1904

صحیح
عن عبد الله بن سلام قال : لما قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة جئت فلما تبينت وجهه عرفت أن وجهه ليس بوجه كذاب . فكان أول ما قال : أيها الناس أفشوا السلام وأطعموا الطعام وصلوا الأرحام وصلوا بالليل والناس نيام تدخلوا الجنة بسلام . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي
حضرت عبداللہ بن سلام (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا چناچہ میں نے آپ ﷺ کے روئے انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ آپ ﷺ کا یہ چہرہ اقدس کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا، پھر آپ ﷺ کا ارشاد جو سب سے پہلے آپ ﷺ نے فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ لوگو ! سلام کو ظاہر کرو۔ (یعنی السلام علیکم بآواز بلند کہو تاکہ جس کو سلام کیا جا رہا ہے وہ سن لے نیز یہ کہ ہر ایک سے سلام کرو چاہے وہ آشنا ہو یا بےگانہ) اور (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو، نیز رات میں اس وقت تہجد کی نماز پڑھو جب کہ لوگ سوتے ہو (اگر یہ کرو گے) تو جنت میں سلامتی کے ساتھ (یعنی بغیر عذاب کے) داخل ہو گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

1905

صحیح
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اعبدوا الرحمن وأطعموا الطعام وأفشوا السلام تدخلوا الجنة بسلام . رواه الترمذي وابن ماجه
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) روای ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ رب العزت کی بندگی کرو (غریبوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کو ظاہر کرو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

1906

ضعیف
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع ميتة السوء . رواه الترمذي
حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا صدقہ کرنا اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (ترمذی)

تشریح
اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں عافیت و سکون کے ساتھ رکھتا ہے اور اس پر بلائیں نازل نہیں کرتا۔ بری موت سے بچاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والا مرنے کے وقت بری حالت سے محفوظ رہتا ہے یعنی نہ تو اسے شیطان اپنے وسوسوں میں مبتلا کر پاتا ہے اور نہ وہ شخص کسی ایسی سخت بیماری و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ضبط کا دامن چھوڑ کر کفر و کفران کی دلدل میں پھنس جائے، حاصل یہ کہ اللہ کی خوشنودی و رضا کی خاطر اپنا مال و زر خرچ کرنے والا خاتمہ بالخیر کی ابدی سعادت سے نوازا جاتا ہے۔

1907

صحیح
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كل معروف صدقة وإن من المعروف أن تلقى أخاك بوجه طلق وأن تفرغ من دلوك في إناء أخيك . رواه أحمد والترمذي
حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے اور نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بھی ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے چہرہ کی بشاشت کے ساتھ ملاقات کرو اور اپنے کسی بھائی کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈال دو ۔ (احمد، ترمذی)

1908

صحیح
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تبسمك في وجه أخيك صدقة وأمرك بالمعروف صدقة ن ونهيك عن المنكر صدقة وإرشادك الرجل في أرض الضلال لك صدقة ونصرك الرجل الرديء البصر لك صدقة وإماطتك الحجر والشوك والعظم عن الطريق لك صدقة وإفراغك من دلوك في دلو أخيك لك صدقة . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
حضرت ابوذر غفاری (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا یعنی کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا صدقہ ہے نیک کام کے لئے حکم کرنا صدقہ ہے۔ بری بات سے روکنا صدقہ ہے۔ بےنشان زمین میں کسی کو راستہ بتانا صدقہ ہے (یعنی جہاں راستے کا کوئی نشان اور کوئی علامت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنا راستہ بھول جاتے ہیں) وہاں کسی راستہ بھولے ہوئے مسافر کو اس کا راستہ بتادینے سے صدقہ جیسا ثواب ملتا ہے کسی اندھے یا کمزور نظر شخص کی مدد کرنی، (بایں طور کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانا) صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی ہٹا دینا صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی بھر دینا صدقہ ہے۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوا کہ جب اپنے ڈول میں پانی بھر دینا صدقہ جیسے ثواب کا باعث ہے تو اس شکل میں جب کہ کسی کے پاس ڈول ہی موجود نہ ہو اسے اپنے ڈول سے پانی دینا اس سے کہیں زیادہ ثواب کا باعث ہوگا۔

1909

صحیح
وعن سعد بن عبادة قال : يا رسول الله إن أم سعد ماتت فأي الصدقة أفضل ؟ قال : الماء . فحفر بئرا وقال : هذه لأم سعد . رواه أبو داود والنسائي
حضرت سعد بن عبادہ (رض) راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ام سعد (یعنی میری ماں) کا انتقال ہوگیا ہے (ان کے ایصال ثواب کے لئے) کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی چناچہ حضرت سعد (رض) نے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر کنواں کھودا اور کہا کہ یہ ام سعد یعنی میری ماں کے لئے صدقہ ہے۔ (ابو داؤد، نسائی)

تشریح
یوں تو اللہ نے جو بھی چیز پیدا کی ہے وہ بندہ کے حق میں اللہ کی نعمت ہے لیکن انسانی زندگی میں پانی کو جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کی ان بڑی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جن کے بغیر انسانی زندگی کی بقاء ممکن نہیں پھر مخلوق اللہ کے لئے اس کی ضرورت اتنی ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ قدم قدم پر انسانی زندگی اس کے وجود اور اس کی فراہمی کی محتاج ہوتی ہے، چناچہ کیا دنیا اور کیا آخرت سب ہی امور کے لئے اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر ان شہروں اور علاقوں میں پانی کی اہمیت کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے جو گرم ہوتے ہیں جہاں پانی کی فراہمی آسانی سے نہیں ہوتی، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے پانی کو بہترین صدقہ ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پانی کے حصول کا ہر ذریعہ خواہ کنواں ہو یا نل والا تالاب بہترین صدقہ جاریہ ہے کہ جب تک وہ ذریعہ موجود رہتا ہے اس کو قائم کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے نوازا جاتا ہے۔

1910

ضعیف
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أيما مسلم كسا مسلما ثوبا على عري كساه الله من خضر الجنة وأيما مسلم أطعم مسلما على جوع أطعمه الله من ثمار الجنة . وأيما مسلم سقا مسلما على ظمأ سقاه الله من الرحيق المختوم . رواه أبو داود والترمذي
حضرت ابوسعید (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز لباسوں میں سے لباس پہنائے گا، جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کی پیاس بجھائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے مہر بند شراب سے سیراب کرے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی)

تشریح
مہر بند شراب، سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کی وہ شراب پلائے گا جو سیل و مہر کے ذریعے تغیر و تبدل سے محفوظ اور اس شخص کے لئے مخصوص ہے جس کے علاوہ اسے کوئی اور نہیں پی سکتا گویا اس سے شراب کی عمگی ونفاست کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح جو چیز نہایت اعلی ونفیس اور عمدہ ہوتی ہے اس کو مہر بند کردیا جاتا ہے تاکہ وہ زمانہ کی سرد گرم ہوا اور دوسروں کی دستبرد سے محفوظ رہے اسی طرح وہ شراب بھی نہایت اعلیٰ ونفیس اور عمدہ ہے کہ اس دنیا میں اس کے ذائقے اور اس کی نفاست کا صحیح ادراک بھی نہیں کیا جاسکتا پھر یہ کہ اس پر مہر بھی مشک کی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ یسقون من رحیق مختوم ختامہ مسک۔ ان کو شراب خالص سر بمہر پلائی جائے گی جس کی مہر مشک کی ہوگی۔ یعنی اس مشروب کو موم اور لاکھ وغیرہ کے ذریعے نہیں بلکہ مشک کے ذریعے مہر بند کیا گیا ہے۔

1911

ضعیف
وعن فاطمة بنت قبيس قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن في المال لحقا سوى الزكاة ثم تلا : ( ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ) الآية . رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي
حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مال و زر میں زکوٰۃ کے علاوہ اور حق بھی ہیں پھر آپ ﷺ نے یہ پوری آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنے منہ کو مشرق و مغرب کی طرف متوجہ کرو الخ۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ مال کی زکوٰۃ دینا تو فرض ہے ہی کہ وہ ضرور دینی چاہئے۔ مگر زکوٰۃ کے علاوہ کچھ اور نفل صدقات بھی مستحب ہیں کہ ان کا دیا جانا بھی بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے اور وہ صدقات یہ ہیں کہ سائل اور قرض مانگنے والے کو محروم و مایوس نہ کیا جائے گھر گرہستی کا سامان مثلا ہانڈی و دیگچی اور پیالہ وغیرہ یا اور ایسا وہ سامان جو اپنے قبضے و ملکیت میں ہو اگر کوئی عاریۃ مانگے تو اسے دینے میں دریغ نہ کیا جائے کسی کو پانی، نمک اور آگ لینے سے منع نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حق سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو مذکورہ آیت میں بیان کیا گیا ہے، یعنی اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافر کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا اور غلام کو آزاد کرنے کے لئے مال خرچ کرنا وغیرہ، مذکورہ بالا آیت پوری پوری یوں ہے۔ آیت (لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِ بَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰ ى ِكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِي ّنَ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّه ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَ تٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّا ى ِلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ) 2 ۔ البقرۃ 177) ۔ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کر ان کی طرف منہ کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور فرشتوں پر اور اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت بطور استنباط تلاوت فرمائی کہ اس میں حق تعالیٰ نے پہلے تو ان مومنین کی تعریف بیان فرمائی ہے جو اپنے رشتہ داروں، ت یتیموں اور مساکین وغیرہ پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس کے بعد نماز پڑھنے والوں اور زکوٰۃ دینے والوں کی تعریف بیان کی لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مال خرچ کرنا زکوٰۃ دینے کے علاوہ ہے جو صدقہ نفل کہلاتا ہے۔ گویا آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ مال و زر کے بارے میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق یعنی صدقات نافلہ ہیں وہ اس آیت سے ثابت ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے صدقات نافلہ کو ذکر کیا اس کے بعد صدقہ واجب یعنی زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا۔

1912

ضعیف
وعن بهيسة عن أبيها قالت : قال : يا رسول الله ما لشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : الماء . قال : يا نبي الله ما الشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : الملح . قال : يا نبي الله ما لاشيء الذي لا يحل منعه ؟ قال : أن تفعل الخير خير لك . رواه أبو داود
حضرت بہیسہ (رض) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے ( یعنی ان کے والد نے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا اور اس کے دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ پانی انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور کون سی چیز ہے جس کو دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نمک۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا حلال ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ بھلائی کرنا جو تمہارے لئے بہتر ہے۔ ( ابوداؤد )

تشریح
پانی کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہاری زمین میں کنواں و تالاب ہے یا تمہارے گھر میں نل وغیرہ ہے اس سے کوئی شخص پانی لیتا ہے تو اسے پانی لینے روکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم میں سے کوئی شخص پانی مانگتا ہے اور تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زائد پانی موجود ہے تو اسے دینے سے انکار نہ کرو، اسی طرح نمک دینے سے انکار نہ کرو، کیونکہ لوگوں کو نمک کی بہت زیادہ احتیاج و ضرورت رہتی ہے اور لوگ اسے لیتے دیتے ہی رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ نمک جیسی چیز سے انکار کرنا ویسے بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ انتہائی عام اور سستی چیز ہے جس کی کوئی وقعت و قدر نہیں ہوتی۔ حدیث کا آخری جملہ تمام بھلائیوں اور نیکیوں پر حاوی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے دیتے رہو اور جو نیکی و بھلائی کرسکو کرو، نیکی و بھلائی کے کاموں سے نہ تو اپنے آپ کو باز رکھنا درست ہے اور نہ دوسروں کو نیکی و بھلائی سے روکنا حلال ہے، گویا حدیث میں پہلے چند بھلائیوں کو بطور خاص ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمانا تعمیم بعد تخصیص ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ لایحل مفہوم کے اعتبار سے لاینبغی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس طرح حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان چیزوں سے منع کرنا اور ان کے دینے سے انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔

1913

صحیح
وعن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أحيى أرضا ميتة فله فيها أجر وما أكلت العافية منه فهو له صدقة . رواه النسائي والدارمي
حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص خشک زمین کو آباد کرے یعنی افتادہ و بنجر زمین کو قابل کاشت بنائے تو اس کے لئے اس کام میں ثواب ہے اور اگر اس کی کھیتی میں سے جانور یا آدمی کچھ کھا لیں تو اس کے لئے صدقہ ہے (بشرطیکہ وہ اس پر صابر و شاکر ہو) (دارمی)

1914

صحیح
وعن البراء قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من منح منحة لبن أو روق أو هدى زقاقا كان له مثل عتق رقبة . رواه الترمذي
حضرت براء (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص دودھ کا جانور عاریۃ دے یا چاندی (یعنی روپیہ وغیرہ) قرض دے یا کسی راستہ بھولے ہوئے اور اندھے کو کوچہ و راستہ میں راہ بتائے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کی مانند ثواب ہوگا۔ (ترمذی)

1915

صحیح
وعن أبي جري جابر بن سليم قال : أتيت المدينة فرأيت رجلا يصدر الناس عن رأيه لا يقول شيئا إلا صدروا عنه قلت من هذا قالوا : هذا رسول الله صلى الله عليه و سلم قلت : عليك السلام يا رسول الله مرتين قال : لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت قل السلام عليك قلت : أنت رسول الله ؟ قال : أنا رسول الله الذي إذا أصابك ضر فدعوته كشفه عنك وإن أصابك عام سنة فدعوته أنبتها لك وإذا كنت بأرض قفراء أو فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك . قلت : اعهد إلي . قال : لا تسبن أحدا قال فما سببت بعده حرا ولا عبدا ولا بعيرا ولا شاة . قال : ولا تحقرن شيئا من المعروف وأن تكلم أخاك وأنت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن أبيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه فإنما وبال ذلك عليه . رواه أبو داود وروى الترمذي منه حديث السلام . وفي رواية : فيكون لك أجر ذلك ووباله عليه
حضرت ابوجری (رض) کہ جن کا نام جابر بن سلیم ہے کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو میں ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ ان کی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں (یعنی ان کے کہنے پر لوگ عمل کرتے ہیں، چناچہ خود راوی اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ) وہ جو کچھ بھی فرماتے ہیں لوگ اس پر عمل کرتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں راوی کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں حاضر ہو کردو مرتبہ یہ کہا علیک السلام آپ ﷺ پر سلام ہو۔ اے رسول خدا ! رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر کہا کہ علیک السلام نہ کہو کیونکہ علیک السلام کہنا میت کے لئے دعا ہے البتہ السلام علیک کہو ! اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے رسول ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف و مصیبت پہنچے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہاری تکلیف و مصیبت کو دور کرے اگر تمہیں قحط سالی اپنی لپیٹ میں لے اور تم اسے پکارو تو زمین تمہارے لئے سبزہ (غلہ وغیرہ) اگادے اور اگر تم زمین کے کسی ایسے حصہ میں اپنی سواری گم کر بیٹھو کہ جہاں نہ پانی کا نام و نشان ہو نہ درخت کا، یا کہ کوئی ایسا جنگل جو آبادی سے دور ہو اور پھر تم اسے پکارو تو وہ تمہاری سواری تمہارے پاس واپس بھیج دے۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرما دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا کسی کو برا نہ کہو۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی کو برا نہیں کہا نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو (یعنی کسی انسان کو برا کہنا کیسا، حیوانات کو بھی برا نہ کہا جیسا کہ عام لوگوں کی عادت ہوتی ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو (یعنی اگر تم کسی کے ساتھ نیکی کرو یا کوئی دوسرا تمہارے ساتھ نیکی کرے تو اسے بہت جانو اور اس کا شکریہ ادا کرو اور خود تم سے جو بھی نیکی ہو سکے اس کے کرنے کو غنیمت جانو) اور جب تم اپنے کسی بھائی سے ملاقات کرو تو خندہ پیشانی اختیار کرو (یعنی جب تم کسی سے ملو، تو اس سے تواضع اور خوش کلامی سے پیش آؤ تاکہ تمہارے اس حسن خلق کی وجہ سے اس کا دل خوش ہو) کیونکہ یہ بھی ایک نیکی ہے اور تم اپنی ازار (یعنی پاجامہ لنگی وغیرہ) کو نصف پنڈلی تک اونچا رکھو، اگر اتنا اونچا رکھنا تم پسند نہ کرسکو تو ٹخنوں تک رکھو مگر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے سے بچو ! اس لئے کہ (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانا تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ نیز اگر کوئی شخص تمہیں گالی دے اور تمہارے کسی ایسے عیب پر تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم انتقاما اس کے کسی عیب پر کہ جسے تم جانتے ہو اسے عار نہ دلاؤ کیونکہ اس کا گناہ اسے ہی ملے گا۔ (ابو داؤد) ترمذی نے اس روایت کا صرف ابتدائی حصہ نقل کیا ہے جس میں سلام کا ذکر ہے (باقی روایت نقل نہیں کی ہے) اور (ترمذی کی) ایک دوسری روایت میں اس کا گناہ اسے ہی ملے گا کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ تمہارے لئے اس کا ثواب ہوگا اور اس کے لئے اس کا گناہ۔

تشریح
حضرت جابر (رض) نے دو مرتبہ سلام اس لئے کیا کہ یا تو آنحضرت ﷺ نے پہلا سلام سنا نہیں ہوگا یا پھر یہ کہ آپ ﷺ نے ان کو سلام کا طریقہ سکھانے کی غرض سے پہلے سلام کا جواب نہیں دیا ہوگا۔ ارشاد گرامی علیک السلام نہ کہو۔ نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔ نیز حدیث کے الفاظ، علیک السلام کہنا میت کے لئے دعا ہے، اس سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص میت کے پاس جائے علیک السلام کہے السلام علیک نہ کہے جیسا کہ کسی زندہ شخص کے لئے کہا جاتا ہے حالانکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ میت کے لئے بھی السلام علیک کہنا ہی مسنون ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ جب زیارت موتی کے لئے تشریف لے جاتے تو السلام علیکم فرماتے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے ارشاد، علیک السلام کہنا میت کے لئے دعا ہے، کے معنی یہ بیان کئے جائیں گے کہ ایام جاہلیت میں علیک السلام میت کے لے دعا تھی۔ چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عرب میں پہلے یہ معمول تھا کہ جب کوئی قبر پر جاتا تو وہاں سلام کے لئے یہی کہتا تھا کہ علیک السلام، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشاد کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ علیک السلام، کہنا اہل عرب کے معمول و عادت کے مطابق مردہ کے لئے دعا ہے نہ یہ کہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہ تھی کہ میت کو اس طرح سلام کیا جائے۔ حضرت جابر (رض) کا یہ کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے کسی کو برا نہیں کہا۔ سد باب اور احتیاط کے طور پر ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو برا کہنا کہ جس کا کفر کی حالت میں مرنا یقینی طور پر معلوم ہوجائے جائز ہے تاہم افضل اور بہتر یہی ہے کہ اپنی زبان کو اللہ رب العزت کے ذکر میں مشغول رکھا جاے کسی کو برا نہ کہا جائے اس لئے کہ ماسوی اللہ میں مشغول ہونا نقصان ہی کا باعث ہے جب کہ کسی کو برا نہ کہنے میں کوئی حرج و نقصان نہیں ہے بلکہ علماء تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ شیطان کو بھی لعنت نہ کرنے میں کوئی ضرر نہیں ہے۔ جس طرح پائجامہ اور لنگی وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ممنوع ہے اسی طرح کرتہ وغیرہ بھی ٹخنوں سے نیچے کرنا ممنوع ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ اگر کوئی شخص تمہیں گالی دیتا ہے یا تمہارے کسی عیب سے تمہیں عار دلا کر شرمندہ و ذلیل کرنا چاہتا ہے تو تمہارا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ خود ہی گناہ گار ہوگا لہٰذا تم بھی اس کی طرح اپنی زبان خراب کر کے اور اسے برا بھلا کہہ کر خواہ مخواہ کے لئے اپنے ذمہ کیوں وبال لیتے ہو۔ بدی رابدی سہل باشد جزاء اگر مردی احسن الی من اساء روایت کے آخر میں وفی رواۃ الخ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی نے بھی یہ پوری روایت نقل کی ہے چناچہ بعض حواشی میں لکھا ہوا ہے کہ ترمذی نے بھی پوری روایت نقل کی ہے اگرچہ اس کے الفاظ مختلف ہیں یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے وہ ابوداؤد کی نقل کردہ روایت کے الفاظ ہیں۔ جو اللہ کی راہ میں کردیا وہ باقی ہے اور جو موجود رہا وہ فانی ہے

1916

صحیح
وعن عائشة أنهم ذبحوا شاة فقال النبي صلى الله عليه و سلم : ما بقي منها ؟ قالت : ما بقي منها إلا كتفها قال : بقي كلها غير كتفها . رواه الترمذي وصححه
حضرت عائشہ (رض) روای ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ نے یا اہل بیت نے ایک بکری ذبح کی، جب اس کا گوشت تقسیم ہوچکا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس میں سے کیا باقی رہ گیا ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ بجز شانہ کے اور کچھ باقی نہیں رہا یعنی اس کا سب گوشت تقسیم کردیا ہے صرف شانہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ ﷺ بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے)

تشریح
بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تو گوشت کا وہی حصہ باقی ہے جو لوگوں کو تقسیم کردیا گیا بایں طور کہ آخرت میں اس کا ثواب محفوظ اور ثابت ہوگیا اس کے بر خلاف جو حصہ گھر میں موجود رہ گیا ہے وہ فانی ہے گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ) 16 ۔ النحل 46) ۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔

1917

ضعیف
وعن ابن عباس قال ك سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ما من مسلم كسا مسلما ثوبا إلا كان في حفظ من الله مادام عليه منه خرقة . رواه أحمد والترمذي
حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کپڑا یعنی پاجامہ کرتہ اور چادر وغیرہ پہناتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست حفاظت میں رہتا ہے۔ جب تک کہ اس مسلمان کے بدن پر اس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی ہوتا ہے۔ (احمد و ترمذی)

تشریح
یہ دنیا کا فائدہ ہے کہ اس کے دئیے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی جب تک اس مسلمان کے بدن پر رہتا ہے وہ اللہ رب العزت کی حفاظ وامان میں رہتا ہے مگر آخرت میں جو اس کو ثواب ملے گا وہ ان گنت ہے۔

1918

صحیح
وعن عبد الله بن مسعود يرفعه قال : ثلاثة يحبهم الله : رجل قام من الليل يتلوا كتاب الله ورجل يتصدق بصدقة بيمينه يخفيها أراه قال : من شماله ورجل كان في سرية فانهزم أصحابه فاستقبل العدو . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غير محفوظ أحد رواته أبو بكر بن عياش كثير الغلط
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ایک تو وہ شخص جو رات کے وقت کھڑا ہوتا ہے اور کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو نفل صدقہ اپنے داہنے ہاتھ سے دے اور اسے چھپائے راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا بائیں ہاتھ سے اور تیسرا وہ شخص جو میدان جنگ میں اس وقت دشمن کے سامنے ڈٹ گیا جب کہ اس کے ساتھیوں کو شکست ہوگئی۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت غیر محفوظ (ضعیف) ہے۔ اس کے ایک راوی ابوبکر بن عیاش ہیں جو بہت زیادہ غلطی کرتے ہیں۔

تشریح
بیمینہ، سے صدقہ دینے کے ادب کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ صدقہ کا مال اپنے داہنے ہاتھ سے دیا جائے یا یہ کہ پہلے اس شخص کو صدقہ و خیرات کا مال دے جو اپنے دائیں طرف ہو۔ بائیں ہاتھ سے چھپائے کا مطلب یہ ہے کہ جب دائیں ہاتھ سے صدقہ کا مال دے تو بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو یہ دراصل کمال پوشیدگی کے لئے مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے یعنی صدقہ کا مال انتہائی پوشیدگی کے ساتھ دیا جائے تاکہ صدقہ کا مال لینے والا عام نظروں میں اپنی کمتری محسوس نہ کرے، یا پھر ان الفاظ کے یہ معنی ہوں گے کہ صدقہ کا مال جب دائیں طرف والے کو دے تو اس کی خبر بائیں طرف والے کو بھی نہ ہونی چاہئے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کی خاطر اور ریاء و نمائش سے بچنے کے لئے اس طرح چھپا کردینا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔

1919

صحیح
وعن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ثلاثة يحبهم الله وثلاثة يبغضهم الله فأما الذين يحبهم الله فرجل أتى قوما فسألهم بالله ولم يسألهم بقرابة بينه وبينهم فمنعوه فتخلف رجل بأعيانهم فأعطاه سرا لا يعلم بعطيته إلا الله والذي أعطاه وقوم ساروا ليلتهم حتى إذا كان النوم أحب إليهم مما يعدل به فوضعوا رءوسهم فقام يتملقني ويتلو آياتي ورجل كان في سرية فلقي العدو فهزموا وأقبل بصدره حتى يقتل أو يفتح له والثلاثة الذين يبغضهم الله الشيخ الزاني والفقير المختال والغني الظلوم . رواه الترمذي والنسائي
حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے چناچہ وہ اشخاص کہ جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ان میں سے ایک تو وہ شخص ہے کہ جس نے ایسے شخص کو صدقہ دیا جو ایک جماعت کے پاس آیا اور اس سے اللہ کی قسم دے کر کچھ مانگا یعنی یوں کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اتنا مال یا اتنی چیز دو اس نے جماعت سے حق قرابت کی وجہ سے دیا جو اس کے اور جماعت کے درمیان تھا۔ مگر جماعت والوں نے اسے کچھ بھی نہیں دیا، چناچہ ایک شخص نے جماعت کو پس پشت ڈالا اور آگے بڑھ کر سائل کو پوشیدہ طور پردے دیا، سوائے اللہ کے اور اس شخص کے کہ جسے اس نے دیا اور کسی نے اس کے عطیہ کو نہیں جانا اور دوسرا وہ شخص ہے جو جماعت کے ساتھ تمام رات چلا یہاں تک کہ جب ان کے لئے نیند ان تمام چیزوں سے زیادہ جو نیند کے برابر ہیں پیاری ہوئی تو جماعت کے تمام فرد سو گئے مگر وہ شخص کھڑا ہوا (اللہ فرماتا ہے کہ) اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا اور میری آیتیں (یعنی قرآن کریم) پڑھنے لگا۔ اور تیسرا شخص وہ ہے جو لشکر میں شامل تھا جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس کے لشکر کو شکست ہوگئی مگر وہ شخص دشمن کے مقابلے پر سینہ سپر ہوگیا یہاں تک کہ شہید ہوگیا یا فتح یاب اور وہ تین شخص جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں ان میں سے ایک شخص تو وہ ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، دوسرا شخص تکبر کرنے والا فقیر ہے اور تیسرا شخص دولت مند ظلم کرنے والا ہے (یعنی وہ شخص دولت مند ہوتے ہوئے قرض دینے والے کو قرض کی ادائیگی نہ کرے یا دوسروں کے ساتھ اور کسی ظلم کا معاملہ کرے) (ترمذی)

تشریح
حدیث کی ابتدا جس اسلوب سے ہوئی اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے مگر بعد کے اسلوب یعنی حدیث کے الفاظ یتملقنی۔ اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا۔ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ارشاد نبوی نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی یعنی حدیث قدسی ہے اسلوب کے اس اختلاف کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ حدیث حقیقت میں تو ارشاد نبوی ﷺ ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اپنے نبی سے وہ کیفیت بیان کی جو اس کے اور اس کے بندے کے درمیان واقع ہوتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر اس اصل کیفیت کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا بعینہ قول نقل فرما دیا۔ الشیخ الزانی، جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، میں لفظ شیخ سے یا تو اس کے اصل معنی یعنی بوڑھا ہی مراد ہے یا پھر کہا جائے کہ یہاں شیخ سے بکر (کنوارے) کی ضد محصن (شادی شدہ) مراد ہے خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان، جیسا کہ اس آیت منسوخ میں ہے۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجمواہا البتۃ نکال من اللہ واللہ عزیز حکیم، شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت جب دونوں زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ضروری ہے اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا۔ تکبر کرنے والے فقیر کو بھی اللہ کے نزدیک مبغوض قرار دیا گیا ہے لیکن فقیر کا وہ تکبر مستثنی ہے جو کسی متکبر کے ساتھ ہو بلکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ قرار دیا گیا ہے یعنی اگر کوئی فقیر کسی متکبر کے ساتھ تکبر کرے تو وہ اللہ کے نزدیک مبغوض نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے صدقہ کا ثواب ملے گا، چناچہ حضرت بشیر بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا مالداروں کو ثواب الٰہی کے حصول کی خاطر فقیروں سے مہربانی کا معاملہ کرنا بہت ہی بہتر ہے اور فقیروں کو اللہ پر توکل اور اعتماد کے جذبے سے مالداروں سے تکبر کا معاملہ کرنا بہت بہتر ہے۔ جن بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا اگرچہ وہ سب ہی کے حق میں بری ہیں لیکن ان تینوں کے حق میں چونکہ بہت ہی زیادہ بری ہیں جس کا سبب ظاہر ہے اس لئے یہ اللہ کے دشمن قرار دئیے گئے ہیں۔

1920

صحیح
وعن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : لما خلق الله الأرض جعلت تميد فخلق الجبال فقال بها عليها فاستقرت فعجبت الملائكة من شدة الجبال فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الجبال قال نعم الحديد قالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الحديد قال نعم النار فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من النار قال نعم الماء قالوا يا رب فهل من خلقك شيء أشد من الماء قال نعم الريح فقالوا يا رب هل من خلقك شيء أشد من الريح قال نعم ابن آدم تصدق بصدقة بيمينه يخفيها من شماله . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب وذكر حديث معاذ : الصدقة تطفئ الخطيئة . في كتاب الإيمان
حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو وہ ہلنے لگی پھر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا فرما کر انہیں زمین پر کھڑا کیا۔ چناچہ زمین ٹھہر گئی فرشتوں کو پہاڑ کی سختی سے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں لوہا ہے (کہ وہ پتھر کو بھی توڑ ڈالتا ہے) انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار ! کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں آگ ہے (کہ وہ لوہے کو پگھلا دیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوق میں کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں پانی ہے ( کہ وہ آگ کو بھی بجھا دیتا ہے) پھر انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پانی سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں ہوا ہے (کہ وہ پانی کو بھی خشک کردیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز ہوا سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں اور وہ ابن آدم کا صدقہ دینا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح مال خرچ کرتا ہے کہ اسے بائیں ہاتھ سے بھی چھپاتا ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
ابن آدم کا صدقہ دینا اس فعل کو اس لئے سب سے زیادہ سخت فرمایا ہے کہ انتہائی پوشیدگی سے کسی کو صدقہ دینے میں نفس امارہ کی مخالفت، طبیعت و مزاج پر جبر اور شیطان ملعون کی مدافعت لازم آتی ہے جب کہ اس کے علاوہ مذکورہ بالا چیزوں یعنی پہاڑ، لوہا ور آگ وغیرہ میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ چھپا کر صدقہ دینے میں نفس کی مخالفت اور شیطان کی مدافعت بایں طور لازم آتی ہے کہ فطری طور پر نفس یہ چاہتا ہے کہ جب میں کسی کو مال دوں تو لوگ دیکھیں اور میری تعریف کریں تاکہ مجھے دوسرے لوگوں پر فخر و امتیاز حاصل ہو لہٰذا جب اس نے عام نظروں سے چھپا کر اپنا مال کسی کو دیا تو اس نے گویا نفس امارہ کی مخالفت کی اور شیطان کو اپنے سے دور کیا۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ زیادہ سخت اس لئے ہے کہ اس کی وجہ سے رضاء مولیٰ حاصل ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رضاء مولیٰ سب سے بڑی چیز ہے۔ وذکر حدیث معاذ الصدقۃ تطفیء الخطیئۃ فی کتاب الایمان۔ اور حضرت معاذ (رض) کی روایت تطفیء الخطیئۃ کتاب الایمان میں نقل کی جا چکی ہے۔

1921

صحیح
عن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من عبد مسلم ينفق من كل مال له زوجين في سبيل الله إلا استقبلته حجبة الجنة كلهم يدعوه إلى ما عنده . قلت : وكيف ذلك ؟ قال : إن كانت إبلا فبعيرين وإن كانت بقرة فبقرتين . رواه النسائي
حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو مسلمان بندہ اپنے ہر مال میں سے دو دو چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو بہشت کے تمام دربان اس کا استقبال کریں گے اور اسے اپنے پاس کی چیزوں کی طرف بلائیں گے۔ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ دو دو چیزیں خرچ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر اس کے پاس اونٹ ہو توں دو اونٹ دے اور اگر گائیں تو دو گائیں دے۔ (نسائی)

تشریح
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا مال اس جگہ خرچ کرے جہاں خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش و راضی ہوتا ہے جیسے حج، جہاد، طلب علم، غریبوں اور محتاجوں کی امداد و اعانت وغیرہ وغیرہ۔ اپنے پاس کی چیزوں سے مراد جنت کی اچھی اچھی چیزیں اور وہاں کی نعمتیں ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے دربان اسے جنت کے ہر دروازہ کی طرف بلائیں گے۔

1922

صحیح
وعن مرثد بن عبد الله قال : حدثني بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : إن ظل المؤمن يوم القيامة صدقته . رواه أحمد
حضرت مرثد بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعض صحابہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن مومن کا سایہ اس کا صدقہ ہوگا۔ (احمد)

تشریح
جس طرح سائبان دھوپ کی گرمی اور تپش سے بچاتا ہے اسی طرح قیامت کے دن صدقہ نجات اور آرام و راحت کا سبب ہوگا یا یہ کہ قیامت کے دن صدقہ کو یا اس کے ثواب کو سائبان کی شکل دے کر صدقہ دینے والے کے سر پر تان دیا جائے گا تاکہ وہ اس دن کی گرمی سے بچ جائے۔

1923

ضعیف
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته . قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك . رواه رزين
حضرت ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا۔ حضرت سفیان ثوری (رح) کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ (رزین) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں، ابن مسعود، ابوہریرہ، ابوسعید اور جابر (رض) سے نقل کیا ہے نیز انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

تشریح
بیہقی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ اس کے طرق ضعیف ہیں مگر ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ بعض لوگوں نے عاشورہ کے سرمہ لگانے کے بارے میں جو حدیث نقل کی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اسی طرح عاشورہ کے دن اور دس افعال کے سلسلے میں جو حدیث نقل کی جاتی ہے اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے البتہ عاشورہ کے صحیح احادیث کے ذریعے صرف روزہ رکھنا اور کھانے میں وسعت اختیار کرنا ثابت ہے۔

1924

ضعیف
وعن أبي أمامة قال : قال أبو ذر : يا نبي الله أرأيت الصدقة ماذا هي ؟ قال : أضعاف مضاعفة وعند الله المزيد . رواه أحمد
حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ صدقہ کا ثواب کتنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس کا ثواب چند در چند (یعنی کئی گنا) ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے۔ (احمد)

تشریح
احادیث سے چند در چند کی مقدار دس گنا سے سات سو گنا تک معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کی رحمت خاص شامل حال ہو تو ثواب کی مقدار سات سو گناہ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے جیسا کہ خود باری تعالیٰ فرماتا ہے۔ واللہ یضاعف لمن یشاء۔ جس کے لئے اللہ چاہتا ہے اس کا ثواب لاتعداد بڑھاتا ہے۔

پڑھنے کی ترتیبات

Urdu

System

عربی فونٹ منتخب کریں

Kfgq Hafs

ترجمہ فونٹ منتخب کریں

Noori_nastaleeq

22
17

عام ترتیبات

عربی دکھائیں

ترجمہ دکھائیں

حوالہ دکھائیں

حدیث دو حصوں میں دیکھیں


صدقہ جاریہ میں حصہ لیں

ہمیں ایک جدید، بغیر اشتہارات کے اسلامی ایپ فراہم کرنے میں مدد کریں۔ آپ کا عطیہ صدقہ جاریہ کے طور پر شمار ہوگا، ان شاء اللہ۔

عطیہ کریں۔